عمر گذشتہ کی کتاب
اے دلِ آوارہ
شموئل احمد
[ 1 ]
مجھے سگریٹُ پینے والی عورتیں اچھی لگتی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔
لیکن میرے حلقہ احباب میں کوئی ایسی تخلیق کارہ نہیں ہے جسے سگریٹ نوشی کا شوق ہو۔ ساجدہ زیدی سگریٹ پیتی تھیں لیکن وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ مذہب سے میری دلچسپی کم ہے لیکن مذہبی صحیفے مجھے بھاتے ہیں۔ ان کی زبان مجھے کھینچتی ہے۔ زبور میں حضرت داؤد کی غزل الغزلات کی قرات مجھے نشے میں لا دیتی ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا بائبل کا ہندی ترجمہ کیسا ہے لیکن اردو ترجمہ غضب کا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نثری نظم کی بہترین مثال۔ گیتا کے اشلوک بھی مجھے رومانچت کرتے ہیں با لخصوص وہ عبارت جہاں کرشن کہتے ہیں کہ میں تجسٍّوی کا تیج ہوں، یشسّوی کا یش ہوں، درختوں میں پیپل ہوں تو مجھ پر سحر طاری ہوتا ہے۔ نثر کی ایسی مٹھاس اور ایسی روانی کہیں دیکھنے کو نہیں ملی۔ لیکن یہ بات مجھے گیتا پریس والے تراجم میں ہی ملی۔ میں نے گیتا کے اور تراجم کا بھی مطالعہ کیا ہے لیکن وہ اس طرح گرفت میں نہیں لیتے۔ مولانا مودودی نے جو قران پاک کا اردو ترجمہ کیا ہے وہ بھی سرور بخشتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں ایسے صحیفوں کا مطالعہ تخلیقیت کو جلا بخشتا ہے۔
بات شروع ہوئی تھی سگریٹ پینے والی عورتوں سے۔ ۔ ۔ ۔ تو ایسی عورتوں میں ایک طرح کا کھلا پن ہوتا ہے۔ آپ ان سے بہت نجی باتیں شیئر کر سکتے ہیں۔ کسی ریستوراں کے نیم اندھیرے گوشے میں مشروبات کی ہلکی ہلکی چسکیوں کے ساتھ ان سے گفتگو کا لطف کچھ اور ہی ہے۔ میرے افسانوں میں اگر صنف نازک کے لطیف احساسات کی درون بینی ہے تو اس کی وجہ میری ان سے والہانہ گفتگو ہے جہاں ان کے ذاتی تجربات سے رو بہ رو ہونے کا موقع ملتا ہے۔ آپ اسے میری آوارگی سے تعبیر کر سکتے ہیں لیکن یہ آوارگی میری طاقت بھی ہے اور میری تخلیقیت کا منبع بھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تھوڑی بہت آوارگی تو فن کار میں ہونی ہی چاہیئے۔ آپ ڈرائینگ روم میں بیٹھ کر مقالہ لکھ سکتے ہیں افسانہ یا ناول نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ افسانہ لکھنے کے لئے گھر سے باہر زمین پر چلنا پڑتا ہے۔ جس نے سڑکوں پر مٹر گشتی نہیں کی، اپنے شہر کو ہر رنگ میں نہیں دیکھا، نہ اس کا اجالا نہ اندھیرا نہ رات کا سنّاٹا نہ میلے ٹھیلے، نہ گلیاں نہ ریلیاں وہ کہانی کیا لکھے گا ؟ بہت محفوظ زندگی جینے والوں کی تخلیقیت آہستہ آہستہ مرنے لگتی ہے۔ کہانی لکھنے کے لئے کتابوں سے زیادہ آدمی کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔ ہر آدمی کا چہرہ ایک کاغذ ہوتا ہے جس پر اس کی زندگی کی کہانی لکھی ہوتی ہے۔ ادیب اپنی دور رس نگاہوں سے اسے پڑھتا ہے اور لفظوں کے دھاگے میں موتی پروتا ہے۔
کتابوں کے مطالعہ سے بہت سوچ کر لکھی جانے والی کہانی اودئے پرکاش لکھتے ہیں۔ ان کی خوبی ہے کہ تاریخ کے بطن سے کہانی نکالنے میں قدرت رکھتے ہیں جس میں عصری حسّیت موجود ہوتی ہے۔ اودھیش پریت کی کہانی ’ ہم زمین ‘ بھی سوچ کر لکھی گئی کہانی ہے۔ اصل میں وقت کبھی کبھی ایک خاص قسم کی کہانی کی مانگ کرتا ہے۔ ہم زمین فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر لکھی گئی خوب صورت کہانی ہے جس میں اسلوب کا تنوّع موجود ہے۔
میں کہانی سوچ کر نہیں لکھتا، مجھے کہانی سوجھتی نہیں ہے۔ مجھے کہانی مل جاتی ہے۔ کہانی قدم قدم پر بکھری پڑی ہے۔ بس دیکھنے والی نظر چاہیئے۔ ’ بگولے ‘ رانچی جانے والی بس پر ملی۔ تب میں طالب علم تھا اور رات کی بس سے رانچی جا رہا تھا۔ میری سیٹ کھڑکی کے قریب تھی۔ آگے کی سیٹ پر تین عورتیں آپس میں چہل کر رہی تھیں۔ ان میں سے ایک نے مڑ کر دیکھا بھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے اس کی نظر عام سی نہیں لگی۔ بس چلی تو کنڈکٹر نے روشنی گل کر دی۔ وہ عورت میری طرف پھر مڑی اور پوچھا وقت کتنا ہوا ہے ؟ وقت پوچھتے ہوئے میں نے اس کی آنکھوں میں چمک سی دیکھی۔ بس کچھ دور چلی تو وہ پھر مڑی اور پوچھا کہ ہسڈیہہ کب آئے گا۔ سوال بے تکا تھا لیکن آنکھوں کی چمک بے تکی نہیں تھی۔ یہ نزدیک آنے کا اشارہ تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور عورتیں اسی طرح اشارے کرتی ہیں۔ میں نے ہاتھ آگے بڑھایا اور اس کو چھونے کی کوشش کی۔ مجھے یقین تھا وہ برا نہیں مانے گی۔ میں نے اپنی انگلیوں کے پوروں پر اس کی کمر کا لمس بہت صاف محسوس کیا۔ ۔ ۔ ۔ اور اس نے جھک کر اپنی سہیلی سے کچھ کہا اور ہنسنے لگی۔ سہیلی نے مڑ کر میری طرف دیکھا اور مسکرائی۔ اس کیمسکراہٹ معنی خیز تھی۔ میں نے اپنا ہاتھ نہیں ہٹایا۔ مجھے اپنے دل کی دھڑکن تیز سی ہوتی محسوس ہوئی اچانک اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے پیٹ پر کھینچ لیا۔ ۔ ۔ ۔ میں سہر اٹھا۔ ۔ ۔ میری سانس جیسے رک گئی۔ ۔ ۔ ۔ ایک تھرل۔ ۔ ۔ ۔ ایک اجنبی عورت کا رسپانس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسی سہرن میں نے زندگی میں کبھی محسوس نہیں کی تھی۔ بس سڑک پر تیزی سے بھاگ رہی تھی۔ اندر سرمئی اندھیرا تھا اور باہر ہیڈ لائٹ کی روشنی میں پیڑ لب سڑک جھوم رہے تھے۔ ہوا میں پتّوں کی سرسراہٹ دل کی دھڑکنوں میں گھل رہی تھی۔ ۔ وہ میرا ہاتھ سہلانے لگی اور مجھے لگا میں سمندر کنارے کھڑا ہوں اور لہریں میرے پاؤں بھگو رہی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ میری انگلیوں کی پوروں پر چیونٹیاں سی رینگنے لگیں۔ ۔ ۔ ۔ میں ہوش کھونے لگا۔ ۔ ۔ !
اچانک بس رکی۔ ۔ ۔ ۔ کوئی اسٹاپ تھا۔ کنڈکٹر نے روشنی کی۔ میں نے ہاتھ کھینچ لیا۔ وہ ہنسی اور سہیلی سے کچھ بولی۔ میں چائے پینے نیچے اترا۔ چائے پی کر واپس آیا تو ایک شخص میری جگہ بیٹھ گیا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ اس کی طبیعت متلا رہی ہے۔ اس لئے وہ کچھ دیر کھڑکی کے پاس بیٹھنا چاہتا ہے۔ میں نے کوئی اعتراض نہیں کیا اور اس کی جگہ بیٹھ گیا۔ اصل میں وہ کیفیت ابھی بھی طاری تھی اور میں اس احساس کو کھونا نہیں چاہتا تھا۔ بس چلی تو پھر اندھیرا ہو گیا۔ سیٹ کی پیٹھ سے سے ٹیک کر میں اسی ترنگ میں ڈوب گیا کہ اس نے کس طرح میرا ہاتھ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اچانک وہ زور سے چلّائی۔ ’’ گاڑی روکو۔ ۔ ۔ ! ‘‘
کنڈکٹر نے روشنی کی۔ ۔ ۔ ۔ بس رک گئی۔ وہ اس شخص کی طرف مڑی اور برس پڑی۔ ’’ حرامی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے چھوتا ہے۔ ۔ ۔ سور کا جنا۔ ۔ ۔ !‘‘
کہانی یہاں تھی۔ اس کا ریکٹ کرنا۔ ۔ ۔ ۔ ’’ کیا میں اتنی بری ہوں کہ مجھے ہر کوئی ہاتھ لگا سکتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘ اسی جذبے کو لے کر میں نے کہانی ’’ بگولے ‘‘ لکھی۔ کہانی ہٹ ہوئی۔ اس کا بہت سی زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ بگولے میں لتیکارانی ایک کمسن لڑکے کو پھانستی ہے اور اسے گھر بلاتی ہے اور سوچتی ہے کہ اس معصوم کلی کو پیار کرنا سکھائے گی۔ لیکن لڑکا خود پہل کرتا ہے اور اس کو ہاتھ لگاتا ہے۔ وہ آگ بگولہ ہو جاتی ہے اور اس کو دھکّے مار کر باہر نکال دیتی ہے۔ پٹنہ کے ایک ہندی ادیب نے کہانی چوری کر لی۔ میں نے پریس کانفرنس کی اور چوری کی خبر ہر جگہ چھپی۔ راجندر یادو نے بھی ہنس کے اداریہ میں اس چوری کا ذکر کیا لیکن اودھیش پریت نے چور کا ساتھ دیا اور ہندی روز نامہ ھندوستان میں لکھا کہ کہانی ایسی نہیں ہے کہ چوری کی جائے۔ اصل میں اودھیش نے اس چور ادیب سے دوستی نبھائی۔
کہانی سنگھاردان مجھے راحت کیمپ میں ملی۔ بھاگلپور فساد میں طوائفوں کا بھی راحت کیمپ لگا تھا۔ وہاں ایک طوائف نے رو رو کر مجھے بتایا تھا کہ دنگائی اس کا موروثی سنگاردان لوٹ کر لے گئے۔ ۔ ۔ ۔ یہی تو ایک چیز آباء و اجداد کی نشانی تھی۔ ۔ ۔ ۔ کہانی یہاں پر تھی۔ ۔ ۔ ۔ موروثی سنگاردان کا لٹنا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنی وراثت سے محروم ہو جانا۔ ۔ ۔ ۔ پہلے جان و مال کے لٹنے کا خوف تھا۔ ۔ ۔ اب وراثت سے محروم ہونے کا خدشہ تھا۔ میں نے کہانی شروع کی تو بچپن کا ایک واقعہ میرے تخلیقی عمل میں شامل ہو گیا۔
میری عمر سولہ سترہ سال رہی ہو گی۔ اپنے بھائی سے ملنے بتیا گیا تھا۔ سردی کا موسم تھا۔ ٹرین رات تین بجے پہنچی۔ اسٹیشن سے باہر آیا تو دیکھا ایک جگہ خیمہ گڑا تھا۔ معلوم ہوا نوٹنکی چل رہی ہے۔ میں اندر بیٹھ گیا۔ ایک بالا ناچ رہی تھی۔ عمر دس بارہ سال ہو گی۔ وہ لہک لہک کر گا رہی تھی۔ اس کا جسم سانپ کی طرح بل کھا رہا تھا۔ اس نے بالوں میں گجرا لپیٹ رکھا تھا۔ ہاتھ مہندی سے سرخ تھے اور آنکھوں میں کاجل کی گہری لکیر کچھ اس طرح کھنچی ہوئی تھی کہ نیئن کٹاری ہو گئے تھے۔
سانپ کی طرح بل کھاتا ہو اس توبہ شکن کا جسم۔ ۔ ۔ ۔ گھنگھروؤں کی رن جھن۔ ۔ ۔ مہندی سے لہکتے ہوئے ہاتھ۔ ۔ ۔ ۔ اور تیکھی چتون۔ ۔ ۔ ۔ رات جیسے ٹھہرسی گئی تھی اور میں ہوش کھو بیٹھا تھا۔
اس کا رقص ختم ہوا تو ایک ادھڑ عمر کی عورت اسٹیج پر آئی اور عجب بھدّے طریقے سے کمر لچکانے لگی۔ اس کی آواز بھونڈی تھی اور کولہے بھاری تھے۔ اس نے بھی بالوں پر گجرا لپیٹ رکھا تھا۔ وہ اسٹیج پر زور سے پاوں پٹکتی اور کولہے مٹکا تی۔ میرے دل و دماغ میں دھواں سا اٹھنے لگا۔ ۔ ۔ ۔ جیسے کسی نے گلاب کی کلیوں پر باسی گوشت کا لوتھڑا رکھ دیا ہو۔ ۔ ۔ ۔ اور جب اس نے اپنی بھونڈی آواز میں گانا شروع کیا کہ بھرت پور لٹ گیو ہائے میری امّاں۔ ۔ ۔ ۔ تو میں نے الجھن سی محسوس کی اور وہاں سے اٹھ گیا۔ گھر آیا تو طبیعت مکدّر تھی۔ میں برسوں اس کیفیت سے آزاد نہیں ہو سکا۔ جب بھی اس بالا کو یاد کرتا وہ عورت گلاب میں آیوڈن کے قطرے ملانے لگتی۔ مجھے نجات اس وقت ملی جب کہانی سنگاردان لکھی۔ تخلیق عمل میں لا شعور کا ہاتھ ہوتا ہے۔ کہانی لکھتے ہوئے اچانک باسی گوشت کی تیز بو میرے نتھنوں میں سرسرائی۔ ۔ ۔ اس عورت کے مٹکتے ہوئے کولہے۔ ۔ ۔ ۔ گیت کے بول۔ ۔ ۔ ۔ بھرت پور لٹ گیو۔ ۔ ۔ ۔ کہانی میں خود بہ خود وہ عبارت در آئی۔ ۔ ’’ ہائے راجہ لوٹ لو بھرت پور۔ ۔ ۔ ۔ ‘ برج موہن کی بیوی کی جو تصویر کشی ہوئی ہے وہ اسی عورت کی تصویر ہے۔
ساہیتیہ اکاڈمی نے انڈین لٹریچر میں سنگاردان کا انگریزی ترجمہ شائع کیا ہے۔ ایشین اسٹدیز کے اینوئل میں عمر میمن نے بھی اس کا انگریزی ترجمہ شائع کیا ہے جو اسد محمّد نے کیا ہے۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے دیوندر چوبے نے اپنی کتاب ’’ سمکالین کہانی کا بھاشا شاستر ‘‘ میں سنگھاردان کی زبان کا تجزیہ پیش کیا ہے۔ کلکتّہ علی گڑھ ممبئی میں اس کا کئی بار منچن ہوا۔ دہلی اردو اکاڈمی نے بھی اسے اسٹیج کیا لیکن اکاڈمی کے ڈرامے میں کردار کے نام بدل دیئے گئے اور کہیں بھی اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا کہ ڈرامہ سنگھاردان شموئل احمد کی کہانی پر مبنی ہے۔ میں نے اکاڈمی کو خط لکھا کہ نسیم جان کا سنگھاردان تو برج موہن نے لوٹا شموئل احمد کا سنگھاردان کس نے لو ٹا ؟
کہانی ’ بہرام کا گھر ‘ بھی بھاگلپور فساد کی کہانی ہے۔ ہمارے محلّے میں ایک نوجوان تھا اسلم۔ وہ فساد میں شہید ہوا۔ وہ بہرام کے گھر جانا چاہتا تھا جہاں محفوظ رہتا۔ لیکن وہاں تک پہنچ نہیں سکا۔ فسادیوں نے اسے چوک پر ہی گھیر لیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کچھ دنوں بعد پتہ چلا کہ اس کی لاش کنویں میں پھیکی گئی ہے۔ کنویں سے جب لاش نکالی جا رہی تھی تو اسلم کی ماں چوک پر پہنچی اور بہرام کے گھر کا پتہ پوچھنے لگی۔ وہ جاننا چاہتی تھی کہ بہرام کا گھر چوک سے کتنی دور رہ گیا تھا کہ بچّہ وہاں پہنچ نہیں سکا۔ ۔ ۔ ۔ اس کی آنکھوں میں حسرت تھی اور کہانی یہیں پر تھی۔ ۔ ۔ تشدّد سے عدم تشدّد کی دوری کیا ہے ؟ اس کہانی کا پنجابی زبان میں ترجمہ ہوا۔ پنجابی میں میری دس نمائندہ کہانیوں کا انتخاب مرگ ترشنا کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔
مصری کی ڈلی ہنس میں چھپی تو ایک جن وادی لیکھک نے اسے کنڈم کیا۔ اصل میں انہیں وہی کہانی پسند ہے جو جن وادی پرچم کے نیچے کھڑی ہے۔ اس طرح کا تعصّب تخلیقیت کا قتل کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں تخلیقیت نام کو بھی نہیں ہے۔ ان کی بھاشا ٹھس ہے۔ یہ بہت سوچ کر لکھتے ہیں اور کہانی میں مسلے کا حل پہلے ہی ڈھونڈ لیتے ہیں۔ ان کی کہانیاں پڑھتے ہوئے لگتا ہے ایسے کمرے میں بند ہیں جہاں بوڑھے چادر اوڑھ کر مسلسل کھانس رہے ہیں۔ لیکن ایک خاتون نے بہت تعریف کی اور خط لکھا کہ مجھ سے ملنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے اپنا فون نمبر بھی لکھا تھا۔ میں بہت خوش ہوا کہ کسی پری وش سے ملاقات ہو گی۔ میں نے انہیں لورز پوائنٹ پر بلایا۔ اس شہر میں کوئی لورز پوائنٹ نہیں ہے۔ میں نے ڈھونڈا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ڈھونڈا کیا ایجاد کیا ہے۔ انہیں فریزر روڈ کے ریڈرز کارنر میں بلایا۔ اس جگہ ایک ریستوراں ہے جہاں اندھیرے کی جنّت آباد ہے۔ میں ان کے ساتھ یہاں کافی کی چسکیاں لیتے ہوئے کہانی پر بات کرنا چاہتا تھا۔
وہ آئی۔ ۔ ۔ ۔ اور مجھے کاٹھ مار گیا۔ ۔ ۔ ۔ ! وہ اسپ چہرہ تھی۔ ۔ ۔ ۔ اس کی شکل تکونی تھی۔ جبڑے چوڑے تھے اور ڈھلان لئے ہوئے ٹھڈّی پر تکون بنا رہے تھے۔ اس کے بال رنگے ہوئے تھے اور ہونٹ موٹے تھے جس پر لپ اسٹک کی تہہ بھدّی لگ رہی تھی۔ میں کسی کو بد صورت نہیں کہتا لیکن میرے ذوق جمال کو وہ گوارہ نہیں تھی۔ میں نے زیادہ دیر بات نہیں کی اور گھر چلا آیا۔ میری بیوی نے وہ خط پڑھ لیا تھا۔ اس کو فکر ہوئی کہ میں کس سے ملنے گیا تھا۔ میں نے اگر کسی سے محبّت کی ہے تو وہ میری بیوی ہے۔ میں اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا۔ میں نہیں چاہتا اس کے دل میں ذرا بھی شک پیدا ہو۔ اس خاتون کو گھر بلایا اور بیوی سے ملایا۔ اس کو دیکھ کر بیوی کو اطمینان ہوا۔ وہ میری جمالیاتی حس سے واقف ہے۔ سمجھ گئی میں اس کے پیچھے بھاگنے والا نہیں ہوں۔
ایک بار مجھے ساجدہ زیدی کو ڈھال بنانا پڑا۔ ان دنوں لکھنو کی ایک شاعرہ میری کہانیوں پر عاشق تھی۔ وہ تھی بھی بہت حسین۔ روز فون کرتی اور کہانیوں پر بات کرتی۔ ایک بار فون بیوی نے اٹھایا۔ پوچھا کون تھی ؟ میں نے بہانہ بنایا کہ بڑھیا ہے، اسکول میں پڑھاتی ہے اور کہانیاں پڑھنے کا شوق ہے۔ لیکن اس کو اطمینان نہیں ہوا۔ کہنے لگی بڑھیا کیسی ہے۔ ۔ ۔ ؟ آواز بہت کھنکتی ہوئی ہے۔ اب میں کیا کہتا ؟ اس کی آواز تو واقعی کھنک دار ہے۔ اسی دن ڈاک سے شاعر کا شمارہ ملا جس میں اس کی تصویر تھی۔ تصویر میں وہ اور بھی حسین لگ رہی تھی۔ میں نے جلدی سے رسالہ چھپایا کہ اگر بیوی کی نظر پڑ گئی تو غضب ہو جائے گا۔
کچھ دنوں بعد علی گڑھ گیا۔ بیوی ساتھ تھی وہاں بازار میں ساجدہ زیدی مل گئیں جو ان دنوں حیات تھیں۔ وہ بوڑھی تھیں۔ ان کے سارے بال سفید ہو گئے تھے۔ رنگت سانولی تھی۔ پاؤں میں بھی درد رہتا تھا۔ لا ٹھی ٹیک کر چل رہی تھیں۔ مجھے دیکھ کر خوش ہوئیں اور گھر بلایا۔ ان سے مل کر ہم آگے بڑھے تو بیوی نے پوچھا۔ ’’ کون تھیں۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘
میں نے جھٹ سے کہا۔ ’’ یہی نہ وہ شاعرہ ہے جو فون کرتی ہے۔ ‘‘
عورتوں سے دوستی کا مطلب ہمیشہ سیکس نہیں ہوتا ہے۔ جو ایسا سمجھتے ہیں وہ بیمار لوگ ہیں۔ کسی سے نئی دوستی ہوتی ہے تو میں حسین سے فون پر اس کی بات ضرور کراتا ہوں۔ وہ پوچھتا ہے کون تھی یار۔ ۔ ۔ تو میں ہنستا ہوں۔ صمد تو کہتے ہیں مجھے بھی ملاؤ لیکن میں نہیں ملاتا۔ صمد آدمی خوب صورت ہیں۔
رینو گپتا میری بہترین دوست ہے۔ لیکن ادب میں اس کی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ جیوتش پریمی ہے اور کنڈلی دکھانے میرے جیو تش کیندر میں آئی تھی۔ اس کے زائچے کے دوسرے خانے میں زہرہ کیتو کے نچھتّر میں بیٹھا تھا۔ میں نے پوچھا کیا وہ سگریٹ بھی پیتی ہے ؟ اس نے کہا وہ شراب بھی پیتی ہے۔ مجھے اچھا لگا۔ مجھے وہ لوگ پسند ہیں جو اپنی بدعتی قبول کرتے ہیں۔ ہم جلد ہی دوست بن گئے۔ میں نے اس سے بہت سی باتیں سیکھیں۔ میری کہانیوں پر اس کا بہت اثر ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ بیوی جو ہر وقت گھر کے کاموں میں لگی رہتی ہے بہت جلد کشش کھو بیٹھتی ہے۔ بیوی کو چاہیئے کہ ہمیشہ دائی بن کر نہیں رہے۔ اس کو کبھی عورت بن کر بھی رہنا چاہیئے۔ کہتی ہے کہ بہت حسین بیوی نہیں ہوتی۔ بہت حسین طوائف ہوتی ہے۔ اس کی نظر میں میاں بیوی کا رشتہ مالک اور غلام کا رشتہ ہے جس میں مالک کوئی نہیں ہے دونوں غلام ہیں۔ سیاسی سر گرمیوں پر بھی اس کی نظر گہری ہے۔ بابری مسجد ٹوٹنے کا اس کو بہت دکھ ہے۔ اس کا خیال ہے کہ خود اڈوانی اس غلطی پر پچھتا رہے ہیں۔ گجرات میں قتل عام کے وقت وہاں تھی۔ وہاں کا ایک ایک منظر اس کو یاد ہے۔ جواب میں میں نے کلیم عاجز کا ایک شعر سنایا۔
خنجر پہ کوئی داغ نہ دامن پہ کوئی چھینٹ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
افضل گرو اور بھگت سنگھ کو وہ ایک ہی خانے میں رکھتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ بھگت سنگھ انگریزوں کے لئے دہشت گرد تھے۔ افضل بھی دہشت گرد تھا۔ بھگت سنگھ نے اسمبلی پر حملہ کیا۔ افضل گرو نے پارلیمنٹ پر حملہ کیا۔ بھگت سنگھ کو پھانسی کی سزا ہوئی۔ افضل کو بھی پھانسی پڑی۔ ہندوستان آزاد ہوا تو بھگت سنگھ ہیرو ہو گئے۔ کشمیر الگ ہوا تو افضل بھی ہیرو ہو جائے گا۔ افضل گرو کشمیر کا بھگت سنگھ ہے۔
اندھیرے کی جنّت کے ایک گوشے میں بیٹھے ووڈکا کی چسکیوں کے ساتھ اس سے باتیں کرنے کا اپنا ایک لطف ہے۔
لیکن وہ دو پیگ سے زیادہ نہیں لیتی ہے۔ مجھے بھی دو پیگ کا مشورہ دیتی ہے۔ کہتی ہے شراب انجوائے کرنے کی چیز ہے۔ نشے میں بہکنا شراب کی توہین ہے۔ فریزر روڈ پر ریڈرز کارنر کے آگے ایک ریستوراں ہے۔ اندھیرے کی جنّت وہیں بستی ہے۔ ریستوراں کی خوبی ہے یہاں کا اندھیرا۔ ۔ ۔ ۔ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ پھر بھی سمجھنے میں دیر نہیں ہوتی کہ کس میز پر کون سا چہرہ موجود ہے۔ بوس و کنار کی آواز ہمیشہ کونے والی میز سے آتی ہے جس میں اکثر چوڑیوں کی کھنک بھی شامل ہوتی ہے۔ مدھم ہنسی کی آواز بھی دوسرے کنارے سے آتی ہے اور میز سے ٹکرانے اور گلاس کے ٹوٹنے کی آواز بھی۔ ۔ ۔ ۔ نو جوانوں کے زور زور سے بولنے کی آواز ہال کے بیچ والے حصّے سے آتی ہے۔ جام کی گردش کے ساتھ آوازوں کا شور آہستہ آہستہ بلند ہوتا ہے جس میں پاپ مو سیقی کا شور گھلا ہوتا ہے۔
میں جب پہلی بار وہاں گیا تو گھبرا گیا۔ میں کسی اندھے آدمی کی طرح کرسیاں ٹٹولتا ہوا آگے بڑھا تو بیرے نے میرا ہاتھ تھام لیا اور اکیلی کرسی والی خالی میز تک لے گیا۔ اصل میں جو اکیلے ہوتے ہیں انہیں اسی طرح کی میز دی جاتی ہے۔ ایسی میزیں ہال کی ایک طرف قطار میں بچھی ہوتی ہیں۔ ہال کا دوسرا حصّہ فیملی اور خواتین کے لئے مخصوص ہے لیکن اصل میز کونے والی ہے جو تنگ نہیں ہے۔ یہاں ٹانگیں میز سے ٹکراتی نہیں ہیں۔ دو آدمیوں کے بیٹھنے کے لئے گدّے دار صوفہ ہے۔ صوفے پر لیٹ کر بھی راحت اٹھائی جا سکتی ہے۔ اس میز کی الگ فیس ہے۔ یہاں بیٹھنے کا حساب دو سو روپے فی گھنٹہ ہے۔ میز کے اوپر ایک لیمپ آویزاں رہتا ہے جو ہمیشہ بجھا رہتا ہے۔ صرف بل ادا کرتے وقت مدھم سیروشنی ہوتی ہے۔ لیمپ کا زاویہ ایسا ہوتا ہے کہ روشنی چہرے پر نہیں پڑتی صرف پیسے گنتے ہوئے ہاتھ نظر آتے ہیں۔ راحت کے طلب گار اسیمیز کا رخ کرتے ہیں۔ اس شہر میں اور بھی فیملی ریستوراں ہیں جس میں چھوٹے چھوٹے کیبن بنے ہوتے ہیں۔ یہاں صرف دو آدمیوں بھر بیٹھنے کی جگہ ہوتی ہے۔ لکڑی کا ایک دبلا سا بنچ جس پر ریکسن مڑھا ہوتا ہے اور مائکا ٹاپ والی چھوٹی سی میز۔ ۔ ۔ ۔ جگہ اتنی تنگ ہوتی ہے کہ بیٹھنے میں ٹانگیں میز کی دیواروں سے ٹکراتی ہیں۔ کوئی گود میں بیٹھ جائے تو ہل ڈل نہیں سکتا۔ اس ریستوراں میں فیملی کا مطلب بچّہ نہیں ہے۔
اندھیرے کی جنّت میں اپنے خاص دوستوں کو ہی بلاتا ہوں۔ ایک بار ہندی کے ایک مقامی افسانہ نگار میرے ساتھ آئے۔ اس دن ایک جوڑا سامنے کی میز پر بیٹھا تھا۔ لڑکی ڈینم کی جینس اور سفید لیس لگی شرٹ میں تھی۔ اس نے کمر کے نچلے حصّے سے جینس پہن رکھی تھی۔ شرٹ کی نیک لائن ناف کے پاس ختم ہوتی تھی۔ اس کے ہونٹ کالے اور گال نیلے تھے۔ ناخن پر اسٹیکر لگے ہوئے تھے۔ لڑکا بار بار لڑکی کا بوسہ لے رہا تھا۔ یہ دیکھ کر میرے افسانہ نگار دوست غصّے سے کھول رہے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ جنّت میں غصّہ حرام ہے۔ وہ مجھ سے جنم کنڈلی بھی دکھاتے رہتے ہیں۔
میں کیا کروں میرے اندر دو شخصیتیں ہیں۔ ایک جیوتشی دوسرا کہانی کار۔ دونوں میں جنگ ہوتی رہتی ہے۔ کبھی کہانی کار حاوی ہو جاتا ہے، کبھی جیوتشی۔ ۔ ۔ ۔ کہانی کار حاوی ہوتا ہے تو کہانی لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ جیوتشی حاوی ہوتا ہے تو زائچے بنانے لگتا ہوں۔ میں جانتا ہوں دونوں کی جنگ میں مرے گا کوئی نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دونوں لہو لہان ہو کر بھی زندہ رہیں گے۔ مر رہا ہوں میں۔ میں نے سوچا ہے علم نجوم پر ایک مفصّل کتاب لکھوں گا۔ میں نے پر اثر مکتب فکر سے استفادہ کی کوشش کی ہے۔ کچھ نسخے مہابھارت میں بھی ڈھونڈنے کی سعی کی ہے۔ ایک جگہ ’’ ودر اوواچ ‘‘ میں آیا ہے ’’ آکاش میں کالے بادل منڈرا رہے ہیں۔ شنی روھنی نچھتّر کا ویدھ کر رہا ہے۔ مہا یدھ کو اب ٹالا نہیں جا سکتا۔ ‘‘ نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ جب جب روھنی میں ستارہ زحل داخل ہو گا ہندوستان کی سیاست میں اتھل پتھل ہو گا۔ میں نے اس کی کھوج کی ہے۔ اندرا گاندھی نے جب ایمرجنسی لگائی تھی تو زحل برج ثور کے روہنی نچھتّر میں تھا اور اندرا کا زوال ہوا تھا۔ میں نے عربوں کے فرمودات بھی سمجھنے کی کوشش کی ہے اور مغربی افکار کا بھی تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہے۔ علم نجوم کے بہت سے اسرار میرے سینے میں دفن ہیں۔ میں انہیں صفحہ قرطاس پر پھیلانے کا حوصلہ رکھتا ہوں۔ مہا بھارت میں ارجن نے کرشن کے لئے سروتو بھدرو چکر کھینچا تھا۔
کرشن میرے محبوب ہیں۔ میں ان پر ایک لمبی نظم لکھنا چاہتا ہوں۔ ۔ ۔ ایک مہا کاویّہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن یہ رادھا کی قربت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ پہلے مجھے رادھا کو روح میں اتارنا ہو گا۔ کرشن پُرش ہے اور رادھا پرکرتی۔ دونوں کے اتصال سے مایا کی تخلیق ہوئی۔ پران میں کہیں آیا ہے کہ رادھا کو کرشن اپنی بائیں پسلی سے پیدا کرتے ہیں اور راس رچاتے ہیں اور پھر رادھا کو خود میں ضم کر لیتے ہیں۔ اور میں نے سلمیٰ کو کرشن کے دائیں پہلو میں دیکھا۔ سلمیٰ عید میں سویئاں بناتی ہے اور کرشن کا انتظار کرتی ہے۔ سلمیٰ کو کرشن سے شکایت ہے کہ اٹھا لیا تم نے کنشٹھا پر نندن پربت اٹھا لیتے ترجنی پر مسجد کی مینار۔ ۔
مجھے اس کی فکر نہیں ہے کہ مہا کاوّیہ کب مکمّل ہو گا۔ فکر کرشن کو ہونی چاہیئے۔ نظم ان کی ہے۔ میں وسیلہ ہوں۔ وہ لکھائیں گے۔ ۔ ۔ ۔ میں لکھوں گا۔ وہ خود کہتے ہیں کہ تم مجھے جس طرح بھجتے ہو میں تمہیں اسی طرح بھجتا ہوں۔ میں کہنا چاہتا ہوں۔ اے کرشن ! میں تجھے حضرت داؤد کی غزل الغز لات کی طرح بھجتا ہوں۔
میں نے امریندر کمار کا مضمون پڑھا کہ امرتا پریتم ساحر لدھیانوی کے عشق میں مبتلا تھیں اور بغیر شادی کیئے امروز کے ساتھ رہتی تھیں۔ ان کے پسر عزیز نے ایک بار پوچھا کہ کیا میں ساحر لدھیانوی کا لڑکا ہوں ؟ میرے ساتھی مجھے چڑاتے ہیں کہ میری شکل ان سے ملتی ہے۔ امرتا نے جواب دیا ’’اگر تم ساحر انکل کے لڑکے ہوتے تو میں چھپاتی نہیں، بتا دیتی۔ جب تم پیٹ میں تھے تو ساحر انکل کی تصویر میری میز پر رہتی تھی۔ میں ان سے محبّت کرتی تھی۔ شاید اسی لئے ان کے چہرے کا عکس تمہارے چہرے پر آ گیا ہے۔ ‘‘
پربھا کھیتان بھی ڈاکٹر صراف سے محبّت کرتی تھیں اور ان کی رکھیل بن کر رہتی تھیں۔ پربھا کھیتان نے اپنی آتم کتھا میں اس کا اعتراف کیا ہے۔
کیا یہ عورتیں آوارہ تھیں ؟ آوارگی کی عمر نہیں ہوتی۔ آدمی عمر کے ہر حصّے میں کہیں نہ کہیں آوارہ ہے۔ آدمی ختم ہو جاتا ہے آوارگی بچی رہتی ہے۔ اس کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ آوارگی ابدی ہے۔
دیکھتا ہوں کہ دوستوں کے بالوں میں چاندی کے تار اگنے لگے ہیں۔ کچھ ایک پر مذہب کا رنگ بھی چڑھنے لگا ہے۔ مذہب بڑھاپے کا لباس ہے۔ کیا مجھے یہ لباس اوڑھ لینا چاہیئے۔ ۔ ۔ ۔ ؟ میں کہاں جاؤں۔ ۔ ۔ ۔ ؟ وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ کچھ دیر میں منظر نامہ بدل جائے گا۔ میں اپنے آپ سے پوچھتا ہوں۔
اور کچھ دیر میں لٹ جائے گا ہر بام پر چاند
اس گھڑی اے دل آوارہ کہاں جاؤ گے
٭٭٭
[2]
پرتبھا اطاعت گذار نہیں ہوتی۔ پرتبھا اپنی راہ الگ بناتی ہے۔ میرے پاس پرتبھا کے لیئے کوئی اردو لفظ نہیں ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں ’ ذہانت ‘۔ مجھ میں پر تبھا کی کمی رہی ہے۔ میں اپنی راہ الگ نہیں بنا سکا۔ میں گھر کا فر ماں بردار لڑکا تھا۔ شعر و ادب میں دلچسپی رہتے ہوئے بھی سائنس پڑھنے پر مجبور تھا۔
اصل میں انسانی رشتوں میں انا کی کیل جڑی ہوتی ہے۔ جب تک انا کی تسکین ہوتی ہے رشتے نبھتے ہیں۔ باپ کے اگر دو بیٹے ہیں ایک افسر اور دوسرا کلرک تو باپ سینہ پھلا کر کہتا ہے میرا بیٹا افسر ہے۔ کبھی نہیں کہتا میرا بیٹا کلرک ہے۔ کلرک کہنے سے انا مجروح ہوتی ہے۔ بیٹا اسی لئے پیدا ہوتا ہے کہ ساری زندگی باپ کی انا کی نسکین کرتا رہے۔
میرے والد مجھے انجینیئر دیکھنا چاہتے تھے۔ ان دنوں انجنیئر ہونا اسٹیٹس سمبل سمجھا جاتا تھا۔ میں نےانجینیئرنگ کی ڈگری لے لی لیکن انجینیئر نہیں بن سکا۔ اپنے محکمے میں میں ہمیشہ اجنبی کی طرح رہا۔ چیف انجینیئر کے عہدے پر پہنچ کر بھی میری غیر طمانیت دور نہیں ہو سکی۔
والد نیک دل انسان تھے۔ ۔ ۔ ۔ ایک ایمان دار مجسٹریٹ۔ وہ لمحہ موجود میں جیتے تھے۔ انہیں کل کی فکر کبھی نہیں ہوئی۔ زندگی میں کبھی جانا نہیں کہ بینک میں اکاونٹ کیسے کھولتے ہیں۔ ان کی تنخواہ سات تاریخ تک ختم ہو جاتی تھی۔ باقی دن پرزے سے کام چلتا تھا۔ مہینے کے آخیر میں پرزوں کا حساب ہوتا۔ لیکن کوئی کام کبھی رکا نہیں۔ میرے بھائیوں نے اسی عالم میں پڑھائی کی اور اچھا مقام حاصل کیا۔ والد درویش صفت آدمی تھے۔ مجھے لگتا ہے شیطان ان سے دور رہتا ہو گا۔ اس لئے گھر میں امن اور پیار و محبّت کی فضا ہمیشہ قائم رہی۔ والد کھانا کھا کر بستر پر دراز ہو جاتے اور مولانا روم اور حافظ کے اشعار گنگناتے اور میں ان کے پاوں دباتا۔ حافظؔ اور رومؔ کو میں نے والد کے ذریعہ ہی جانا۔ ان کے سرہانے غالبؔ کا دیوان بھی رہتا تھا۔ مجھے غالبؔ کے وہی اشعار یاد ہیں جو وہ پڑھا کرتے تھے۔
امّاں بہت ہنس مکھ تھیں۔ انہیں کبھی غصّہ کرتے نہیں دیکھا۔ گھر بھر ان پہ فدا تھا۔ والد جب ان کے لئے نئی ساری لاتے تو وہ شرماتیں اور خوش ہوتیں۔ ہم بھائی بہن دوڑ کر پہنچ جاتے اور اور ساری چھو کر دیکھتے۔ ہم ضد کرتے کہ امّاں ساری اسی وقت پہنو والد بات کو پکڑ لیتے اور زور دے کر کہتے کہ جب بچّے کہہ رہے ہیں تو پہن لو۔ ۔ ۔ ۔ تب مجھے لگتا کہ وہ خود بھی یہی چاہ رہے ہیں۔ امّاں خوش ہوتیں، ہمیں دور بھگاتیں اور ساری بکس میں رکھ دیتیں۔
مسلمانوں کے گھر میں اللہ کو بہت دخل ہے۔ کوئی کام بگڑ جاتا تو امّاں کہتیں صبر کرو اور کام بن جاتا تو شکرانے کی نماز ادا کی جاتی۔ گھر میں سبھی خوب صورت تھے۔ حسن سب سے کم میرے ہی حصّے میں آیا۔ مجھ میں اک ذرا جمالیاتی حس ہے تو اس کی وجہ میرے گھر کا حسین ماحول ہے اور کبھی گھر میں احتجاج درج نہیں کر سکا تو اس کی وجہ بھی یہی ماحول ہے۔ سبھی مجھے بے حد چاہتے تھے۔ میں کسی کو نہ نہیں کہہ سکا۔ میری زندگی کے سبھی بڑے فیصلے میرے بزرگوں نے لئے۔ صرف ایک فیصلہ میں نے اپنے لئے محفوظ رکھا۔ ۔ ۔ وہ ہے میری تحریر۔ میری پہلی دو کہانیاں پٹنہ کے روز نامہ صدائے عام میں شائع ہوئیں۔ تب میں ساتویں جماعت کا طالب علم تھا۔ میرے والد کہانی پڑھ کر بہت خوش ہوئے تھے۔ سب کو دکھاتے پھرتے تھے۔ میں جب انٹر میں پہنچا تو ایک اور کہانی لکھی ’چاند کا داغ ‘ جو ماہنامہ صنم پٹنہ میں شائع ہوئی۔ والد پڑھ کر تردد میں مبتلا ہوئے۔ دن بھر آنگن میں ٹہلتے رہے۔ ایک ہی بات کہتے تھے ’ اس نے اس طرح کیوں لکھا ؟ کہاں سے یہ بات دماغ میں آئی۔ ؟ ‘ کہانی میں ایسا کچھ نہیں تھا کہ والد کی نیند اڑ جاتی۔ پھر بھی ان کے اپنے ویلوز تھے جن کی میں نے نفی کی تھی۔ کہانی ایک عورت کی تھی جسے بچّہ نہیں ہو رہا تھا۔ ایک دن بچّہ پیدا ہوا تو دادی بہت خوش ہوئی۔ بیٹے کو پوتے کا منھ دکھا کر کہنے لگی کہ گھر میں چاند اتر آیا ہے۔ لیکن بیٹا اداس تھا۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ بنجر زمین پر اس کے پڑوسی شوکت میاں ہل چلا رہے ہیں۔ وہ ماں سے کہنا چاہتا تھا کہ گھر میں چاند نہیں چاند کا داغ اتر آیا ہے۔ اس وقت مجھے حیرت ہوئی تھی کہ میں نے ایسا کیا لکھ دیا تھا کہ اتنا ہنگامہ ہے۔ لیکن اب میں والد کی پریشانی کو سمجھ سکتا ہوں۔ بات اخلاقیات کی تھی۔ اس عمر میں اس طرح کے جملے کہ کوئی بنجر زمین پر ہل چلا رہا ہے مخرب اخلاق تھے۔ لارنس کے ناول لیڈی چٹرلیز لور پر پابندی اس لئے نہیں لگی کہ ناول فحش تھا۔ اعتراض اس بات پر تھا کہ ایک بورژوا خاتون کے تعلّقات ایک معمولی گیم کیپر سے دکھائے گئے تھے اور یہ بات اخلاقیات پر ضرب لگاتی تھی۔ فلابیر کے ناول میڈم بواری پر بھی پابندی لگائی گئی تھی۔ پورے ناول میں کہیں بوسے کا بھی منظر نہیں ہے۔ لیکن ایک اعلیٰ خاندان کے ڈاکٹر کی بیوی جس طرح نچلے طبقے کے لوگوں کے درمیاں گھومتی پھرتی تھی اور تعلّقات بناتی تھی تو یہ بات مخرب اخلاق سمجھی گئی تھی۔ گھر میں یہ کتابیں مجھ سے چھپا کر رکھی جاتی تھیں۔ منٹو کو باتھ روم میں پڑھنا پڑتا تھا۔ ہوسٹل کی زندگی شروع ہوئی تو آزادی ہاتھ لگی۔ میری دلچسپی نفسیات سے تھی۔ ۔ ۔ ۔ دماغی الجھن اور جنس کی نفسیات۔ طالب علمی کے زمانے میں ہی میں نے فرائڈ، ہیولاک ایلس، ائڈلر کرافٹ ایبنگ اور یونگ کو پڑھنے کی کوشش کی۔ یونگ مجھے سب سے الگ نظر آتے ہیں۔ ان کے آرکی ٹائپس اور متھ کے نظریے کو سمجھنا میرے لئے مشکل رہا ہے۔ ہندی اور اردو کہانیوں میں فرائڈ نظر آتے ہیں لیکن یونگ سے ملاقات کم ہوتی ہے۔ آدمی کے اسرار کو سمجھنے کے لئے یونگ کا مطالعہ ضروری ہے۔ میں سمجھتا ہوں آنے والا زمانہ یونگ کا ہے۔
کسی تخلیق سے گذرتے ہوئے اگر اپنا کوئی تجربہ یاد آ جائے اور وہی احساس ہو جو تخلیق کار کا ہے تو اسے کیا کہیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ؟
میں نے ادھر آلوک دھنوا کی ایک نظم پڑھی جس میں ماں کا ذکر ہے۔ نظم مخمل میں لپٹی انگلیوں سے آہستہ آہستہ چھوتی ہوئی گذرتی ہے۔ اسے پڑھ کر مجھے گھر یاد آ گیا۔ نظم بیتے دنوں میں جھانکتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی خوبی ہے اس کی سادگی سادگی اپنے آپ میں حسن رکھتی ہے۔ نظم کا ایک بند ہے۔
ماں جب بھی نئی ساری پہنتی۔
گنگناتی رہتی۔
ہم ماں کو تنگ کرتے
اسے دلہن کہتے
ماں تنگ نہیں ہوتی
بلکہ نیا گڑ دیتی
گڑ میں مونگ پھلی کے دانے ہوتے۔
ماں کا نئی ساری میں دلہن لگنا اس کا گڑ دینا اور تنگ نہیں ہونا۔ ۔ ۔ ۔ یہاں ایک خرگوشی لمس ہے۔ ۔ ۔ ۔ ماں کے تئیں عقیدت اور بے پناہ محبّت سے لبریز۔ ! مجھے یاد ہے امّاں کے لئے جب نئی ساری آتی تھی تو یہی احساس ہوتا تھا۔ ہم سا ری چھو کر دیکھتے امّاں اس میں کیسی لگیں گی۔ وہ میتھی کے لڈّو بناتی تھیں جس میں چاول اور گڑ ہوتے تھے۔ گھر میں پیٹھا بھی بنتا تھا جو بھانپ سے گلایا جاتا تھا۔ مجھے پیٹھا پسند نہیں تھا لیکن لڈّ و شوق سے کھاتا تھا۔ نتھنوں میں سرسراتی ہوئی میتھی کی خوشبو اور چاول کی کساوٹ اور گڑ کا ذائقہ آلوک کی اس نظم میں میتھی کی خوشبو ہے چاول کی کساوٹ ہے اور گڑ کا ذائقہ ہے۔
میری بیوی بھی میتھی کے لڈّو بناتی ہے لیکن اس میں کاجو ڈالتی ہے۔ میں اسے کلچرل گیپ کہتا ہوں۔ چالیس پچاس سالوں کی مسافت میں بہت کچھ بدلا ہے۔ صارفی کلچر کے اس دور میں میتھی کی جگہ کاجو نے لے لی ہے۔ یہ ایسا ہی جیسے پرانے گانوں کی جگہ پاپ مکس۔ بال ٹھاکرے بھی اس کے شوقین تھے۔ ایک طرف وہ فتح نصرت علی خان کو پتھر مارتے تھے اور دوسری طرف مائکل جیکسن کی آرتی اتارتے تھے۔ ٹھاکرے آدمی دلچسپ تھے۔ بابری مسجد مسمار ہوئی تو جہاں سب ذمّہ داری سے بچ رہے تھے وہاں ٹھاکرے خم ٹھوک کر سامنے آئے۔ ۔ ۔ ۔ میں نے توڑی مسجد۔ ۔ ۔ ۔ میرے آدمیوں نے توڑی۔ حکومت ہمیشہ ان کے آگے گھٹنے ٹیکتی رہی ہے۔ ٹھاکرے کو پتر موہ نے کمزور کر دیا۔ ٹھاکرے کے ساتھ لوگ نریندر مودی پروین تو گڑیہ اور اشوک سنگھل وغیرہ کا نام لیتے ہیں اور کانگریس کو بھول جاتے ہیں۔ کانگریس اتنی ہی کمیو نل ہے۔ سورن مندر کا سینہ کانگریس نے ہی گولیوں سے چھلنی کیا۔ سکھوں کا قتل عام کیا۔ بابری مسجد کے ٹوٹنے کی فضا تیّار کی۔ بھاگلپور میں تو سب سے شرمناک رول ادا کیا۔ وہاں فساد ہوا تو اس۔ پی۔ ذمّہ دار تھے۔ بہار کے ہوم سکریٹری نے ان کا تبادلہ کر دیا تھا۔ لیکن راجیو گاندھی حالات کا جائزہ لینے گئے تھے بی ایم پی کے جوانوں نے تبادلہ کے خلاف احتجاج کیا۔ احتجاج تھا قتل عام کے لئے کھلی چھوٹ ملے اور راجیو گاندھی نے اس پی کا تبادلہ ردّ کیا اور الیکشن مہم میں ایودھیا چلے گئے۔ دوسرے دن لوگائی گاؤں میں قتل عام شروع ہوا۔ لاشیں کنویں میں پھینکی گئیں۔ ۔ ۔ ۔ چیل کوّے منڈرانے لگے تو کنویں سے نکال کر کھیتوں میں دفن کر دی گئیں اور ان میں گوبھی کے پودھے لگا دیئے گئے۔ راجیو نے ایودھیا میں مجمع سے خطاب کیا کہ ہمارے ہاتھ مضبوط کیجیئے۔ ۔ ۔ ہم رام راجیہ لائیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ! یہ کیسا رام راجیہ ہے جہاں کٹے ہوئے سروں کے پھول کھلتے ہیں۔ میری کہانی ’ چھگمانس ‘اس المیہ کو بیان کرتی ہے۔
فرقہ وارانہ فساد ہندوستان کی سیاست کا ایک پہلو ہے۔ ساری سیاست اقلیت کے گرد گھومتی ہے۔ جمہوریت کا ایک پایہ اقلیت کی گردن پر ٹکا ہے۔ اقتدار حاصل کرنے کے لئے کبھی گردن کاٹی جاتی ہے کبھی بچائی جاتی ہے۔ کسی بھیسیاسی جماعت کو اگر یقین ہو جائے کہ بڑے پیمانے پر قتل عام سے اقتدار مل سکتا ہے تو خونی ناچ شروع ہو جائے گا۔ ہندوستان کی جمہوریت میں حسن کے بدلے داغ ملا ہے۔ جمہوریت کی پری بیٹھ گئی بالا خانے پر بازار میں اپنے لئے گنبد بنا لیا اور اٹھائی گیرے سے ہم بستر ہوتی ہے۔ اپنے ناول مہاماری میں اس کا رونا رو چکا ہوں۔
آلوک دھنوا نے بیتے دنوں کی نظم لکھی تو بیتے دنوں کا ایک واقعہ بھی سن لیجیئے۔ ان سے میری پہلی ملاقات پٹنہ مارکیٹ میں ہوئی تھی۔ آلوک کی عمر بیس بائس سال رہی ہو گی۔ میری کہانیاں ان دنوں منظر عام پر آنے لگی تھیں۔ ان سے کس نے ملایا یہ اب یاد نہیں ہے۔ لیکن معلوم ہوا کہ آلوک نکسل پنتھی ہیں اور بہت انقلابی قسم کی شاعری کرتے ہیں۔ اپنے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ان کو شہر کی دوریاں معلوم نہیں لیکن کرایہ یاد رہتا ہے۔ جب تیرہ روپے بارہ آنے جیب میں ہوتے ہیں تو الہ باد پہنچ جاتا ہوں اور بیس روپے دس آنے ہوتے ہیں تو دلّی۔ ۔ ۔ ۔ میں انہیں دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔ آنکھوں میں تیز چمک۔ ۔ ۔ ۔ ہلکی سی داڑھی جس میں بال کم تھے۔ باتیں مکتی بودھ کی شاعری پر ہو رہی تھی کہ ایک اردو کے شاعر وہاں پہنچ گئے۔ آتے ہی انہوں نے کہا۔
’’ کیایار آلوک دھنوا۔ تم ہندی والے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بس۔ ۔ ۔ ۔ منظر نامہ بدل گیا۔ ۔ ۔ ۔
آ لوک کی آنکھوں سے چنگاریاں سی پھوٹنے لگیں۔ ۔ ۔ ۔ وہ ایک پل خاموش رہے پھر بولے۔
’’ دیکھیئے۔ ۔ ۔ ۔ اس عورت کی متلّی چھاتیاں کیسی ہیں ؟ ‘‘
مجھے عجیب لگا۔ ۔ ۔ ۔ اور جب شاعر نے ٹوکا کہ کیا بکواس کر رہے ہو تو آنکھوں کی چنگاری ہونٹوں کی شعلہ بیانی میں بدل گئی۔
’’ میں بکواس کر رہا ہوں اور آپ کیا کر رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ؟ تم ہندی والے اور اردو والے۔ ۔ ۔ ۔ آپ بھا شا کی راج نیتی کرتے ہیں ؟ آپ کو شرم نہیں آتی۔ ۔ ۔ ؟ ہندی والے اور اردو والے۔ ۔ ۔ ۔ ؟ آپ ایک گھٹیا آ دمی ہیں اور آپ آ دمی اتنے گھٹیا ہیں تو شاعر کتنے گھٹیا ہوں گے۔ ۔ ۔ ۔ آپ سے میں گھٹیا باتیں نہ کروں۔ ۔ ۔ ۔ عورت کی متلّی چھاتیوں کی باتیں نہ کروں تو کیا کویتا پر باتیں کروں ۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘
آ لوک نے میرا ہاتھ پکڑا اور طیش میں بولے۔
’’ چلو یہاں سے چلتے ہیں۔
زبان کی سیاست تخلیق کار نہیں ناقد کرتے ہیں۔
ہر طرح کی ادبی سیاست کے لئے ناقد ذمّہ دار ہوتا ہے۔ اتّر پردیش میں جب اردو کو علاقائی زبان کا درجہ دیا جا رہا تھا تو نامور سنگھ نے سخت مخالفت کی تھی۔ تب جن وادی لیکھک سنگھ نے اردو کی حمایت کی تھی۔ اردو دلوں کو جوڑنے والی زبان ہے۔ یہ بائیں طرف کو چلتی ہے جہاں دل ہے۔ اسے دل کی تلاش ہے محبّت کی تلاش ہے۔ پھر بھی زخم کھاتی ہے اور مسکراتی ہے اور کہتی ہے۔
ان کا جو کام ہے وہ اہل سیاست جانیں
اپنا پیغام محبّت ہے جہاں تک پہنچے
آلوک دھنوا اپنی اردو دوستی کا ثبوت دیتے رہتے ہیں۔ ایک جلسے میں ان کے صبر کا پیمانہ چھلک گیا تھا۔ یہ بات خود آلوک نے مجھے بتائی تھی۔ جلسے میں اردو کے ایک سے ایک جیّد موجود تھے۔ بحث ہو رہی تھی کہ اردو کا رسم الخط بدل کر دیو ناگری یا رومن کر دیا جائے۔ آلوک نے بتایا کہ وہ ایک کونے میں بیٹھے تھے اور بیمار تھے۔ کچھ دیر سنتے رہے پھر بات برداشت سے باہر ہو گئی تو اٹھ کر بولے۔
’’ آپ سب ایک بھاشا کو ختم کر دینے کی سازش رچ رہے ہیں۔ کسی بھاشا کی لپی بدلنے کا مطلب اس سے اس کی آتما چھین لینی ہے۔ ۔ ۔ ۔ اسے ختم کر دینا ہے۔ آپ کی اس سازش کو میں اکیلا بیمار چادر اوڑھے اس کونے میں بیٹھا بہت دیر سے برداشت کر رہا ہوں۔ ‘‘
آلوک دھنوا کی یہی آگ شاعری کے سانچے میں ڈھلی ہے۔ آلوک نے ہندی شاعری کو نئی دھار دی ہے۔
مجھ میں یہ آگ نہیں ہے۔ دشینت کہتے ہیں کہ سینے میں آگ جلتی رہنی چاہیئے۔ لیکن یہ جلائی نہیں جا سکتی۔ یہ آگ پیدا ہوتی ہے۔ آدمی اسے لے کر پیدا ہوتا ہے۔ مجھ میں ایک طرح کا ٹھنڈا پن ہے۔ میں مقصد کے پیچھے بھاگ نہیں پاتا۔ ناکامی ملنے پر کونا پکڑ لیتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کوئی چیز آسانی سے مل جائے۔ اس بات کو لے کر والد مجھ سے بہت ناراض ہوئے۔ ان دنوں میں آئی۔ اس۔ سی۔ کا طالب علم تھا۔ فائنل امتحان چل رہا تھا۔ مجھے سائنس کے پرچے مشکل نہیں معلوم ہوئے لیکن پریکٹکل میں میری پالکی رکھاتی تھی۔ اتّفاق سے کیمسٹری پریکٹکل کے جو ایکسٹرنل آئے وہ والد کے دوست تھے اور ہمارے گھر پر قیام پذیر ہوئے۔ میں بہت خوش ہوا کہ اب پریکٹکل میں اچھا نمبر آئے گا۔ رات کے کھانے پر جب ہم ساتھ بیٹھے تو میں نے کہا کہ جو آئے ہیں وہ کل میرا امتحان لیں گے۔ والد نے بہت طیش میں کہا کہ جو میں بول گیا دوبارہ نہیں بولوں گا اور اپنا چہرہ بھی نہیں دکھاؤں گا اور کھانا چھوڑ کر اٹھ گئے۔ میرے بھائیوں نے مجھے بہت لتاڑا۔ میں نے کسی طرح امتحان دیا لیکن فزکس پریکٹکل تو مجھے اور بھی مشکل معلوم ہوتا تھا۔ اس کا امتحان باقی تھا۔
’’ یا اللہ مدد۔ ۔ ۔ ‘‘
مجھے اسم اعظم ملا۔
پہلے احساس نہیں تھا کہ ذات پات ہے کیا بلا۔ لارنس نے لکھا ہے کہ آدمی پیدا ہوتا ہے معصوم لیکن معاشرے کے تصادم سے اس میں ملاوٹ پیدا ہونے لگتی ہے۔ گیا کالج میں اپنے ہم جماعتوں سے جانا کہ ہندو ہونے کا مطلب ہے کسی جات کا ہونا۔ ذات پات کا یہ نظام سناتن ہے۔ اس سے چھٹکارہ نہیں پا سکتے۔ ہم پہلے ایک ذات ہوتے ہیں اس کے بعد ہندو مسلم اور پھر ہندوستانی ہو تے ہیں۔
گیا کالج میں میرا ایک بھومی ہار دوست تھا۔ راجپوت لڑکوں نے مل کر اس کو بہت پیٹا یہاں تک کہ وہ ادھ مرا ہو گیا۔ مجھے بہت دکھ ہوا۔ میں اپنے دوست کی کوئی مدد نہیں کر سکا۔ وہ محض اس بات پر پٹ گیا کہ ایک خاص ذات میں پیدا ہوا تھا۔ ذات آدمی کا مقدّر ہے جو اس کے جنم سے پہلے متعیّن ہے۔ یہاں انتخاب کی آزادی نہیں ہے۔ ہماری اولاد مجبور ہے ایک مخصوص ذات میں جنم لینے کے لئے اور ذات پات کی جنگ میں ملوث ہونے کے لئے۔ ایک شیطان ہی ایسا ہے جس کی کوئی ذات نہیں ہے۔ وہ ہر ذات میں ملے گا۔
شیطان کی پیدائش بھی دلچسپ ہے۔ خدا نے آدم کو مٹّی سے بنایا اور ابلیس کو آگ سے۔ ابلیس فرشتہ تھا اور رات دن حمد و ثنا میں ڈوبا رہتا تھا۔ خدا نے ابلیس کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرے کہ اشرف المخلوقات ہے۔ ابلیس نے حکم کی نافرمانی کی۔ اس نے کہا کہ وہ آگ سے بنا ہے اور آدم مٹّی سے۔ وہ کیوں سجدہ کرے کہ اشرف وہ ہے نہ کہ آدم۔ ۔ ۔ ۔ ؟ خدا کی نا فر مانی کر ابلیس ملعون ہوا اور شیطان بنا۔
یہ پہلی فرقہ پرستی تھی جو آسمان میں رچی گئی اور فرقہ پرستی کے بیج آدم سے نسل آدم میں منتقل ہوئے۔ عجیب بات ہے کہ ایک آدمی محض اس لئے قابل نفرت سمجھا جائے کہ وہ ایک مخصوص فرقے میں پیدا ہوا ہے۔ اس خیال کو لے کر میں نے افسانہ بدلتے رنگ لکھا۔
فزکس پریکٹکل کا جب امتحان سر پر آیا تو پٹنہ سے جو صاحب ایکسٹر نل بن کر تشریف لائے وہ بھو می ہار تھے۔ مجھے معلوم ہوا وہ بھومی ہار طالب علم کو فیل نہیں کرتے ہیں۔ مجھے کوٹ کی ایک دفتی کا ثقل نوعی نکالنا تھا۔ وہ میری ڈیسک پر آئے اور سوالوں کی بوچھار کر دی۔ میں تسلّی بخش جواب نہیں دے سکا۔ وہ بد گماں ہو کر جانے لگے تو جی میں کیا آیا کہ آگے بڑھ کر ان کا دامن پکڑا اور اپنی طرف کھینچا۔ وہ غصّے سے میری طرف پلٹے اور مجھے گھور کر دیکھا تو میں نے بہت عاجزی سے کہا۔
’’ سر۔ ۔ ۔ ۔ میں بھومی ہار ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ! ‘‘
وہ چونک پڑے۔ ایک لمحے کے لئے مجھے غور سے دیکھا اور کہنی ماری۔ ’’
’’جاؤ۔ ۔ ۔ ۔ اپنی سیٹ پر جاؤ۔ ۔ ۔ ! ‘‘
مجھے فزکس پریکٹکل میں پورے نمبر ملے۔
بھومی ہار اور راجپوت کی دوسری لڑائی میں نے ادھوارا میں دیکھی۔ میں وہاں اسٹنٹ انجینیر کے عہدے پر تھا۔ ادھورا کیمور رینج کا پہاڑی علاقہ ہے۔ یہ مشکل علاقہ تھا۔ محکمہ جس کو سزا دینا چاہتا اس کو ادھورا میں تعینات کرتا تھا۔ یہاں بیس فی صد اضافی تنخواہ ملتی تھی۔ جگہ گھومنے پھرنے کی تھی رہنے کی نہیں۔ یہاں آبادی نہیں کے برابر تھی۔ کسی چیز کی ضرورت پڑتی تو نیچے بھبھوا اترنا پڑتا تھا جو چالیس کیلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ یہ جگ جیون رام کا چناوی حلقہ تھا جہاں پانی فراہمی کی منصوبہ بندی ہونی تھی۔ میں نے علم نجوم کا باقاعدہ مطالعہ یہیں شروع کیا۔ بنارس نزدیک تھا۔ کتابیں آسانی سے دستیاب ہو جاتی تھیں۔
ادھورا پہاڑ پر میں نے چار سال گذارے۔ اس بیچ نجومی کے روپ میں میری شہرت ہونے لگی تھی۔ ایک دن ایک پنڈت جی مجھ سے ملنے آئے۔ انہوں نے پیلے رنگ کی چادر اوڑھ رکھی تھی جس میں جگہ جگہ سیتا رام سیتا رام چھپا ہوا تھا۔ چہرے پر رونق تھی اور آنکھوں میں چمک۔ پنڈت جی نے پوچھا کہ خاں صاحب آپ ہی ہیں ؟ میں نے جواب میں سر ہلایا تو مجھے ہاتھ جوڑ کر پرنام کیا اور بولے کہ وہ جیوتش کے کچھ اصولوں پر تبادلہ خیال چاہتے ہیں۔ میں خوش ہوا کہ پہاڑ پر ایک نجومی سے ملاقات ہوئی۔ انہیں بٹھایا اور اپنے ملازم رام پریت موچی سے شربت روح افزا لانے کے لئے کہا۔ پنڈت جی نے ایک گھونٹ بھرا اور منھ سا بنایا تو میں سمجھ گیا انہیں شربت کا ذائقہ پسند نہیں آیا۔ میں نے کہا۔
’’ یہ شربت روح افزا ہے۔ ‘‘
وہ چونک پڑے۔ ۔ ۔ ۔ ’’ آپ روح اپھجا پیتے ہیں ؟ ‘‘
’’ کیوں ؟ ‘‘
’’ یہ مسلمانی شربت ہے۔ ‘‘
میں مسکرایا۔ ’’مہاراج ! یہ اب مسلمانی کہاں رہی ؟ اس کا ہندو کرن ہو چکا ہے۔ اس کے سنسکار بدل گئے۔ ‘‘
انہوں نے دوسرا گھونٹ نہیں لیا۔ مجھے شرارت سوجھی۔ میں نے کہا۔
’’ جس نے شربت لا کر دیا وہ موچی ہے اور جس کے گھر بیٹھ کر پی رہے ہیں وہ ملیچھ ہے۔ ‘‘
پنڈت جی کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ میں نے انہیں سمجھایا کہ سوامی دیا نند سرسوتی سناتن نظام ذات پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ کرم کی بنیاد پر وہ سماج میں آدمی کی شناخت کرتے تھے۔ میں اپنے عمل سے براہمن ہوں۔ میری الماری میں رکھی ہوئی روح افزا کی بوتل سوم رس کا درجہ رکھتی ہے۔
وہ کچھ دیر چپ رہے پھر اٹھ کر چلے گئے۔ پنڈت جی نے مجھے میتھلی براہمن سمجھا تھا، ان کے یہاں بھی خان لقب ہوتا ہے۔ جیسے اوشا کرن خان۔ ۔ ۔ ۔ !
ادھورا کے اگری کلچرل افسر تھے نوین سنگھ۔ وہ راجپوت تھے۔ وہاں کا بی ڈی او بھومی ہار تھا۔ دونوں میں چھتیس کا آنکڑہ تھا۔ بیج کی تقسیم کو لے کر دونوں میں روز تو تو میں میں ہوتی تھی۔ بی ڈی او نے نوین سنگھ پر بد عنوانیوں کا الزام لگایا اور چارج شیٹ تیّار کی۔ اس دن مار پیٹ کی نوبت پہنچ گئی تھی۔ وہ نوین سنگھ کو معطّل کرنے کے لئے سارے ثبوت کے ساتھ خود بھبھوا کے اس ڈی او سے ملنا چاہتا تھا بی ڈی او کے پاس سرکاری جیپ تھی۔ نوین سنگھ کے پاس کوئی سواری نہیں تھی۔ صبح ایک بس ادھورا سے بھبھوا کے لئے روانہ ہوتی تھی جو دس بجے دن میں وہاں پہنچتی تھی۔ ادھورا کے جنگلوں میں بھالو گھومتے تھے جو راہ گیر کو نوچ لیتے۔ لوگ دن میں بھی جنگلوں سے اکیلے نہیں گذرتے تھے۔ رات میں ادھر جانے کا سوال ہی نہیں تھا۔ جھگڑا شام کو ہوا تھا۔ بی ڈی او نے تڑکے جیپ نکالی اور صبح سات بجے اس ڈی او کی رہائش پر پہنچ گیا۔ وہ اندر داخل ہوا تو کانپ گیا۔ سامنے نوین سنگھ بیٹھا ہوا تھا۔ نوین سنگھ رات میں ہی چل پڑا تھا۔ اس نے چادر اوڑھی لالٹین ہاتھ میں لی ایک آدمی کو ساتھ لیا اور چل پڑا۔ وہ رات بھر چلتا رہا۔ اس کو اپنا وجود بچانا تھا۔ وہ جلد از جلد وہاں پہنچنا چاہتا تھا تا کہ سب سے پہلے اپنی بات گوش گذار کر سکے۔ ۔ ۔ ۔ اس کے ساتھ چل رہی تھی اس کی قوت ارادی۔ ۔ ۔ ۔ اس کا مستحکم ارادہ۔ ۔ ۔ ۔ !
نوین سنگھ کو دیکھ کر بی ڈی او تھرّا گیا۔ نوین سنگھ کے چہرے پر کوئی تناؤ نہیں تھا۔ اس کے چہرے پر قوت ارادی کی دمک تھی۔ آنکھوں میں خود اعتمادی کی چمک تھی۔
فتوحہ کے رام جتن یادو میں مجھے ایک دن ادھورا کے نوین سنگھ نظر آ گئے۔ مجھ میں ایک بری عادت ہے۔ میں کسی سے ملتا ہوں تو اس میں اس کے ستارے ڈھونڈتا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ کس گرہ کا آدمی۔ ۔ ۔ ۔ ؟ پہلے میں اس کی ذات ڈھونڈتا تھا۔ کون سی ذات۔ ۔ ۔ ۔ ؟ جاتی سمی کرن کیا ہے ؟ لیکن رام جتن یادو کو دیکھا تو نہ میں نے ستارے ڈھونڈے نہ ذات۔ میں ان کی ٹانگوں میں الجھ کر رہ گیا۔ ان کی ایک ٹانگ فالج زدہ ہے۔ لیکن ان کو تیزی سے چلتے ہوئے دیکھا۔ مجھ سے ملنے میرے دفتر نجوم میں آئے تو چوتھے مالے کی سیڑھیاں دنا دن چڑھ گئے۔ رام جتن اردو بھی جانتے ہیں۔ میں ان کی نظمیں نیا ورق اور شاعر وغیرہ میں پڑھ چکا تھا۔ وہ اردو ہندی کہانیوں پر مجھ سے مذاکرہ کرنے آئے تھے۔ میں انہیں لے کر فریزر روڈ کے ایک اسٹال پر کافی پینے آیا۔ یہاں کھڑے ہو کر ہی کافی پی جاتی تھی۔ بیرے نے کافی لا کر دی تو میں نے سوچا کہ ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر یہ کافی کا پیالہ کیسے سنبھا لیں گے۔ میں نے چاہا بڑھ کر سہارا دوں۔ رام جتن کا چہرہ ایک پل کے لئے سخت ہو گیا۔ مجھے دیکھا آہستہ سے مسکرائے اور اشارے سے بولے ’’ نہیں ‘‘
اس نہیں میں ان کی شخصیت کا استحکام تھا، قوت ارادی کی تپش تھی، اس نہیں نے میرا قد چھوٹا کر دیا۔ اور میں نے دیکھا پولیو سے سوکھی ایک ٹانگ والے اس شخص کو تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے۔ ۔ ۔ ۔ ریل گاڑیوں کی بھیڑ میں اپنے لئے جگہ بناتے ہوئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جلسوں میں آتے جاتے۔ ۔ ۔ ۔ تن تنہا دور دراز علاقے کا سفر کرتے ہوئے، کہیں کوئی رکاوٹ نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ایک کمٹمنٹ ہے ادب کے تئیں، سماج کے تئیں۔ اپنے لوگوں کے تئیں۔ ۔ ۔ ۔ رام جتن سیدھا کھڑے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ہاتھ میں پیالی تھی، سینہ تنا ہوا تھا، چہرے پر دمک تھی اور آنکھیں کہہ رہی تھیں۔ ’’ رام جتن یادو کو کسی سہارے کی ضرورت نہیں ہے اس کو ایک ہی آدمی کے سہارے کی ضرورت ہے اور وہ ہے خود رام جتن یادو۔ ۔ ۔ ۔ !
لیکن میں کمزور ہوں۔ مجھے سہارا چاہیئے۔ ماچس کی ڈبیہ بھی نیچے گر جاتی ہے تو میں دیکھتا ہوں کوئی اٹھانے والا ہے یا نہیں ؟ کہیں جاتا ہوں تو بیٹھنے کی جگہ پہلے تلاشتا ہوں۔ موقع ملتا ہے تو لیٹ بھی جاتا ہوں اور سگریٹ کے کش لگاتا ہوں۔ مجھ میں تمام بری عادتیں ہیں۔
کسی کا قول ہے کہ عادتیں پرانے غلاموں کی طرح اپنا حصّہ مانگتی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ !
٭٭٭
[ 3 ]
بھرشٹا چار ترقّی پذیر ملکوں کا مقدّر ہے۔
مجھے بھرشٹا چار کی پہلی خوراک ادھورا میں ملی۔ میں وہاں اسٹنٹ انجینئر تھا اور پائئپ نٹ ورک کا کام دیکھتا تھا۔ میرا جونیر انجینئر تھا رمیش۔ وہ کوّے کی طرح کالا تھا۔ وہ مجھ سے اشاروں میں باتیں کرتا۔
’’ یہاں اسکوپ بہت ہے سر ! ‘‘
سہسرام کے اسٹنٹ انجینئر نے بہت پیسے کمائے۔ ‘‘
’’ رکھ رکھاؤ مد میں فنڈ بہت ہے سر۔ ‘‘
ادھورا تفریح کی جگہ تھی۔ ندیاں۔ ۔ ۔ پہاڑ۔ ۔ ۔ جھرنے۔ ۔ ۔ ! یہاں بجلی نہیں تھی۔ پینے کا صاف پانی نہیں تھا۔ دکانیں نہیں تھیں۔ آبادی برائے نام تھی۔ پانی کی فراہمی کا انتظام چھوٹے پیمانے پر تھا۔ کرمناسہ ندی کے پٹ پر والے کنارے سے پانی کھینچ کر سیٹلنگ ٹینک میں جمع کرتے تھے اور وہاں کشش ثقل کے ذریعہ پانی گاؤں میں پہنچایا جاتا تھا۔ اس نظام کی توسیع کرنی تھی۔
جونیئر انجینئر مجھے اشارے میں کچھ کچھ کہتا لیکن میں نے دوریاں بنائے رکھی تھیں۔ ایک بار میرے افسر سائٹ انسپکشن کے لئے آئے۔ اور محکمہ جنگلات کے گیسٹ ہاوس میں مقیم ہوئے۔ میں خوش ہوا کہ میرے افسر آئے ہیں۔ میں نے خاطر تواضع کی۔ عمدہ کھانا کھلایا اور سائٹ پر لے گیا۔ دو ہزار روپے خرچ ہوئے۔ ان کے جانے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ میں نے ساری تنخواہ ختم کر دی ہے۔
اب کیا ہو۔ ۔ ۔ ؟
’’ اڈجسٹ ہو جائے گا سر۔ ۔ ۔ ! ‘‘ رمیش مسکرایا۔
’’ اڈ جسٹ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘ میں نے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا۔
رمیش نے گرو منتر دیا۔ ’’ رکھ رکھا و ٔ مد میں خرچ دکھاتے ہیں اور دو ہزار کی رقم اڈ جسٹ کرتے ہیں۔ ‘‘
وہ کیش بک اور رسید بہی لے کر آیا اور میرے سامنے کیش بک بھرنے لگا۔ رسید بہی پر کچھ لکھتا پھر سر کا ایک بال نوچتا پھر انگوٹھے پر لپیٹ کر ٹھپّا لگاتا۔
میں نے پوچھا ’’ کیا ہے ؟ ‘‘
اس نے کہا ’’ اڈ جسٹمنٹ ! ‘‘
میں نے جھک کر دیکھا۔ رسید بہی پر اس نے لکھا تھا۔ ’’ پیڈ ٹو گولو مانجھی لیبر میٹ روپیز تھری ففٹی فور فار ڈویئنگ ارتھ ورک اینڈ ایکسپوزینگ پائپ جوائنٹس ریکینگ دیم آوٹ اینڈ سپلایئنگ جوٹس اینڈ ڈوینگ ریپیئر آف پائپ لائن اینڈ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
اس طرح دیکھتے دیکھتے اس نے کوئی پندرہ بیس واوچر تیّار کیئے۔ لیبر میٹ میں کبھی گولو مانجھی کی جگہ پھیکن راوت ہو جاتا کبھی تاج محمّد اور ادائگی کی رقم کبھی تین سو ہو جاتی کبھی چار سو اور پھر میری طرف اس نے فاتحانہ نظروں سے دیکھا۔
’’ ہو گئے سر دو ہزار روپے اڈ جسٹ۔ ‘‘
’’ میں اسے کیش بک پر اتار دیتا ہوں سر۔ آپ دستخط کر دیں۔ امپریسٹ منی سے دو ہزار روپے آپ کو مل جائیں گے۔ ‘‘
مجھے غصّہ آ گیا۔ میں نے تیکھے لہجے میں کہا۔ ’’ کیا حماقت ہے ؟ کھا کر گئے وہ اور اڈ جسٹ کر رہے ہیں ہم۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘
رمیش اچھل پڑا اور خوشی سے چیخ کر بو لا۔ ’’ یہی تو سر میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ کھا کر گئے وہ اور اڈجسٹ کر رہے ہیں ہم۔ ‘‘
وہ بہت جوش میں تھا۔ اس کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی تھی۔ اسی طرح خوشی سے چیختے ہوئے بولا۔
’’ سر۔ ۔ ۔ جب ہم دو ہزار ان کے لئے اڈجسٹ کر سکتے ہیں تو دو ہزار اپنے لئے بھی کریں گے ‘‘
اور پھر اس نے مجھ سے اجازت بھی نہیں لی۔ سر کے دو چار بال اور توڑے انگوٹھے پر لپیٹا اور دنا دن ٹھپّا لگانے لگا اور پلک جھپکتے ہی دس ہزار کا وا و چر چھاپ دیا۔ میں کیش بک پر دستخط کرنے میں ڈر رہا تھا لیکن اس نے مجھے سمجھایا کہ ہم جس نظام میں سانس لے رہے ہیں اس کے تقاضے کیا ہیں۔ اس نے کہا کہ بیس پرسنٹ ڈیویژن آفس میں خرچ ہوں گے۔ ۔ ۔ اکز کیٹو انجینئر پندرہ پرسنٹ لیں گے تین پر سنٹ اکاونٹنٹ لے گا اور دو پر سنٹ کیشیئر لے گا اور سارا اکاونٹ اڈ جسٹ ہو جائے گا۔ امپریسٹ کے دس ہزار روپے ہمارے ہوں گے۔
لیکن اکزکیٹو انجینئر کا پیٹ بڑا تھا۔ اس نے مزید مانگ کی اور اکاونٹس پاس نہیں کیا۔ مجھے بہت غصّہ آیا اور ہتک محسوس ہوئی۔ میں نے ٹھان لی کہ آئندہ کوئی اڈجسٹمنٹ نہیں کروں گا اور ان کم بختوں پر ایک نیا پیسہ خرچ نہیں کروں گا۔
افسران پھر آئے۔ اس بار ان کا دا ماد بھی ساتھ تھا۔ وہ بیئر پیتا تھا اور کاجو کھاتا تھا۔ اس نے آتے ہی بیئر کی فرمائش کی۔ میں نے رمیش سے کہا کہ وہ اپنی جانب سے چاہے تو بیئیر سے ضیافت کر سکتا ہے لیکن میں ایک پیسہ بھی اڈجسٹ نہیں کروں گا۔ میرے رویّے سے افسران بہت رنج ہوئے۔ ایکز کیٹو انجینیئر نے بہت نا گوار لہجے میں مجھے مخاطب کیا۔
’’ آپ ہوش میں تو ہیں ؟ آپ کا دماغ خراب تو نہیں ہو گیا ؟ ‘‘
میں نے اتنے ہی سکون سے جواب دیا ’’ میں ہوش میں ہوں اور میری جیب خالی ہے۔ ‘‘
اکز کیٹو نے خانساماں کو پیسے دیئے اور کھچڑی بنی۔
سپرٹینڈنگ انجینئر مجھے ایک طرف لے جا کر کہنے لگے۔ ’’ آپ کو اس طرح پیش نہیں آنا چاہیئے جناب ! ‘‘
میں نے اپنی بے بسی بتائی کہ پیسے جیب سے بار بار خرچ نہیں ہو سکتے۔ اکز کیٹو انجینیئر اڈ جسٹمنٹ کے لئے زیادہ پیسے مانگتے ہیں تو میں کیا کروں ؟
میں محکمے میں لڑاکو مشہور ہو گیا۔ ایک جنگ شروع ہو گئی۔ میں قانون کے مطابق کام کرنے لگا۔ میں جانتا تھا کہ اگر معمولی سی بھی غلطی کی تو افسران مجھے دبوچ لیں گے میں نے سب کا اڈ جسٹمنٹ بند کر رکھا تھا۔ میری جانب سے کسی کو ایک پیسے کی بھی آمدنی نہیں تھی۔ میری مورلٹی کو گوارہ نہیں تھا کہ بغیر کام کیئے خرچ دکھاؤں اور سب کو کمیشن دیتا پھروں۔ اس لئے میری نوکری کو ہر لمحہ خطرہ در پیش تھا۔
ادھورا واٹر سپلائی پر و جیکٹ کے پائپ بھبھوا اسٹور میں رکھے ہوئے تھے جو ادھورا سے چالیس کیلو میٹر کے فا صلے پر تھا۔ وہاں بارہ انچ قطر کے پائپ بھی پڑے ہوئے تھے جن کی فی الحال پروجیکٹ میں ضرورت نہیں تھی۔ مجھے فرمان ملا کہ ادھورا پروجیکٹ کے سارے پائپ بھبھوا سے ادھورا لے آؤں۔ ٹھیکہ دار سے سارے پائپ کی ڈھلائی کرا لی گئی۔ ان دنوں ڈھلائی کی عام در آٹھ آنے فی ٹن فی کیلو میٹر تھی لیکن میرے محکمہ میں دس گنا زیادہ یعنی پانچ روپے فی ٹن فی کیلو میٹر در منظور ہوئی تھی۔ ظاہر ہے کہ افسروں کی مٹّھیاں گرم کی گئی تھیں۔ اصل میں خریدو فروخت اور کمیشن کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ بو فورس کے توپ سے لے کر ساکچھرتا ابھیان اور آنگن باڑی کی سلیٹ تک کی خریداری میں کمیشن طے رہتا ہے جس میں سب کی حصے داری ہوتی ہے۔ محکمہ کوئی بھی ہو منسٹر سے لے کر چپراسی تک سبھی چاندی کی زنجیر سے بندھے ہوتے ہیں۔ یہ زنجیر بہت لطیف ہے۔ یہ نظر آ تی بھی ہے اور نہیں بھی۔ یہ کھنکتی ہے کھن۔ ۔ کھن۔ ۔ کھن۔ ۔ ۔ آزادی سے پہلے اس کی آواز دھیمی تھی اب بہت تیز ہے۔ ابا میر ملک بھی اسے کھنکھناتا ہے اور کرسی بچانے کے لئے راج دھانی میں گھوڑے خریدتا ہے۔ جگ جیون رام جب وزیر دفاع تھے تو جنگی جہاز جگوار خریدا تھا۔ جارج فرنا نڈز جب ریل منتری تھے تو انٹگریٹڈ کوچ فیکٹری کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ تب ہند کو آزاد ہوئے بیس پچیس سال ہی گذرے تھے لیکن عام آدمی کے خواب چوری ہونے لگے تھے اور امریتا پریتم نے کہا تھا۔
رات اونگھ رہی ہے
کسی نے انسان کی چھاتی میں سیندھ لگائی ہے
ہر چوری سے بھیانک
یہ سپنے کی چوری ہے
چوروں کے پیروں کے نشاں
ہر دیش کے
ہر شہر کی
ہر سڑک پر ہیں
پر کوئی آنکھ دیکھتی نہیں
نہ چونکتی ہے
صرف ایک کتّے کی طرح
زنجیر سے بندھی ہے۔
میں نے اپنے ناول مہاماری میں لکھا ہے کہ جب سپنے چوری ہوتے ہیں تو دل کے مقام میں ننھا سا سوراخ ہو جاتا ہے جو کبھی نہیں بھرتا۔ آزادی کے بعد ہمارے سپنے ایک ایک کر کے چوری ہوئے۔ سماج واد کا سپنا چوری ہوا۔ غریبی ہٹاؤ کا نعرہ کھوکھلا ثابت ہوا۔ فرقہ وارانہ غیر جانب داری کو آنچ آ گئی۔ سورن مندر کا سینہ گولیوں سے چھلنی ہوا۔ مسجد کی مینار گری۔ چرچ کی دیواریں خون سے رنگین ہوئیں۔ جمہوریت کی پری نے بازار میں بنا لیا گنبد اور اٹھائی گیرے سے ہم بستر ہوئی۔ راج تنتر غنڈہ تنتر میں بدل گیا۔ تاریخ کے سینے میں فاشسزم نے پنجے گاڑ دیئے۔
سرویشر دیال سکسینہ نے بہت پہلے ملک میں بڑھتے اندھیرے کو دیکھا تھا۔
میں اس دیش کا کیا کروں
جو دھیرے دھیرے لڑکھڑاتا ہوا
میرے پاس بیٹھ گیا ہے۔
اب منظر نامہ بدل گیا ہے۔ جرم سازی کو ہندوستان کی جمہوریت میں جگہ مل چکی ہے۔ مایا وتی کی حکومت کو جب بی جے پی نے 1990 میں خاک میں ملایا تھا تو واجپئی نے کہا تھا کہ کانگریس پیسے دے کر خریدتی ہے ہم نے عہدہ دے کر خریدا۔ ۔ بھارت کے سب سے گئے گذرے وزیر اعظم نر سمہا راؤ تھے۔ ممبئی میں فساد ہوا تھا تو مسلمانوں کے آنسو پونچھنے ممبئی گئے تھے۔ ٹھاکرے نے غرّا کر دیکھا تو دبے پاوں لوٹ آئے۔ ٹھاکرے نے جب چاہا فساد تھما۔ جب نرسمہا راو کی حکومت ختم ہونے کو تھی تو جناب نے جھر کھنڈ کے دو گھوڑے خریدے۔ ان میں سے ایک نے اپنے پی اے کا قتل کیا تھا۔ وہ جیل بھی گیا۔ جیل سے چھوٹ کر آیا اور پھر وزیر اعلیٰ بن گیا۔ کیا ایسی جمہوریت پر ہمیں ناز کرنا چاہیئے۔ ؟ کیا جے پی نے اسے بدلنے کی کوشش کی تھی ؟ ان کی کرانتی سمپورن کرانتی نہیں تھی۔ اسی کرانتی کے بطن سے تو یہ سب تولّد ہوئے جن کے ہاتھوں میں ابھی دیش کی باگ ڈور ہے اور گھوٹالے کا سلسلہ ہے۔
تو بات ہو رہی تھی کہ ادھورا کے سبھی پائپ میں بھبھوا سے ڈھو کر ادھورا لے آیا۔ اس کام کا بل نوّے ہزار کا بنا جو پروجیکٹ کا پہلا بل تھا جسے میں نے پاس کیا تھا۔ لیکن اس کام کا اقرار نامہ بیس ہزار کا تھا۔ خبر آگ کی طرح پھیل گئی کہ بیس ہزار کا اقرار نامہ اور نوّے ہزار کی ادائگی۔ صرف پائپ ڈھلائی کا خرچ نوّے ہزار۔ ۔ ۔ ؟ ایک چھوٹے سے گاؤں میں۔ ۔ ۔ ۔ ؟ سب کی ملی بھگت ہے۔ ۔ ۔ ۔ سب لوٹ رہے ہیں۔ وہاں کا ودھائک رنگ دار تھا۔ وہ میرے پاس تو نہیں آیا کہ میں تالاب کی چھوٹی سی مچھلی تھا۔ میرے پاس چھٹ بھیّئے آئے جسے رمیش نے بیئر پر ٹہلا دیا لیکن ودھائک نے ایکز کیٹو اور سئپرٹنٹڈ نگ انجینئر سے چندہ وصولا اور اسمبلی میں سوال بھی داغ دیا کہ جب اقرار نامہ بیس ہزار کا تھا تو نوّے ہزار کی رقم کیسے ادا کی گئی ؟ اضافی رقم کیوں نہیں متعلّقہ افسران سے وصولی جائے ؟
مجھے مورود الزام ٹھہرا یا گیا جب کہ قصور وار ایکز کیٹو تھے۔ کوئی بھی ایگری منٹ اکز کیٹو ہی کرتے ہیں۔ ان کو چاہیئے تھا کہ بیس ہزار کے بعد بل کی ادا ئگی پر روک لگا دیتے اور اور باقی رقم کے لئے الگ سے ایگری مینٹ کرتے۔ لیکن وہ اپنا کمیشن لے چکے تھے۔ انہوں نے جلدی سے بل پاس کر رقم ادا کر دی۔ سب سے کمزور میں نظر آیا۔ اس لئے مجھے قربانی کا بکرا بنایا۔ میری سروس بک پر لکھ دیا گیا کہ میں لا پرواہ ہوں اور قانون کو طاق پر رکھ کر کام کرتا ہوں۔ سپر ٹینڈینگ انجیئر نے مجھ سے کیفیت پوچھی کہ جب بارہ انچ پائپ کی ضرورت نہیں تھی تو میں ڈھلا کر ادھورا کیوں لے گیا ؟ اسی سے بل میں اضافہ ہو گیا جس کے لئے میں سو فی صدی ذمہ وار ہوں اور یہ رقم کیوں نہیں میری تنخواہ سے وصولی جائے۔ ؟
میں نے جواب میں لکھا کہ جب بارہ انچ قطر کے پائپ کی ادھورا میں ضرورت نہیں تھی تو خریدا گیا کیوں ؟ اس کا تعلّق چیف انجینئر سے ہے۔ برائے کرم ان سے پوچھا جائے۔ چوں کہ یہ پائپ ادھورا اکانٹس کے تھے اور دور دراز علاقے میں غیر محفوظ پڑے تھے تو قانون کے مطابق ان کی ڈھلائی کر لی گئی۔ آپ نے پائپ ڈھلائی کی در یں عام دروں سے دس گنا زیادہ منظور کی تھیں اس لئے بل میں اضافہ ہو گیا۔
سپر ٹینڈینگ انجیئر پر بجلی گر پڑی۔ وہ سکتے میں آ گئے۔
ساری زمین پر سب سے بھدّا منظر ہے روتا ہوا آدمی۔ ۔ ۔ ! سپرٹینڈینگ انجینئر میرے پاس روتے ہوئے آئے کہ میں اپنا جواب واپس لے لوں۔ مجھے ان پر رحم آیا۔ میں آدمی کو روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ اپنا لکھا ہوا واپس لینے کا کوئی سوال نہیں تھا لیکن ایک راستہ تھا۔ ادھورا میں بجلی کے کھمبوں کی ڈھلائی ہو رہی تھی۔ یہاں ڈھلائی کی در اور بھی زیادہ تھی۔ میں نے ان سے کہا کہ بجلی کے کھمبوں کی ڈھلائی در کے کاغذات میں آپ کو میسّر کرا دوں گا لیکن میری سروس بک پر آپ لوگوں نے جو جارحانہ تبصرہ کیا ہے پہلے اس میں ترمیم کریں اور میرے حق میں تبصرہ کریں۔ دونوں افسروں نے یہی کیا اور میں نے ضروری کاغذات مہیّا کرا دیئے۔
میرا اب ادھورا سے نکل جانا ضروری تھا۔ ماحول میرے خلاف تھا۔ مجھے چار سال ہو گئے تھے اور میں مقامی لوگوں کی نظروں میں چڑھنے لگا تھا۔ لیکن یہاں سے تبادلہ اتنا آسان نہیں تھا۔ ان دنوں اسٹنٹ انجینئر کے تبادلے کی فیس تیس ہزار تھی۔ اب شاید ڈیڑھ لاکھ ہے۔ میرے پاس پیسے نہیں تھے اور ادھورا کوئی آنا نہیں چاہتا تھا۔ لیکن میں نے ٹھان رکھی تھی کہ یہاں نہیں رہوں گا۔
جہاں چاہ ہوتی ہے وہاں راہ ہوتی ہے۔
کسی کو متاثر کرنے کے لئے آپ کو کچھ اس طرح نظر آنا چاہیئے جو آپ ہیں نہیں۔
میں نے لباس کا سہارا لیا۔ اچھا لباس شخصیت کو جاذب نظر بناتا ہے۔ آدمی خود کو دوسروں سے بہتر سمجھنے لگتا ہے اور اس میں خود اعتمادی بھی پیدا ہوتی ہے۔ مجھے یاد آتا ہے پریم چند کی کہانی استعفیٰ کا ایک جملہ۔ فتح چند جب صاحب کے روم میں داخل ہوتا ہے تو وہاں ایک قالین بچھی ہوتی ہے۔ پریم چند لکھتے ہیں کہ صاحب کے کمرے میں جو قالین بچھی تھی وہ فتح چند کی شادی میں بھی نہیں بچھی تھی۔ میں پریم چند کی تعریف کروں گا۔ زند گی کی لطیف باتوں پر ان کی گرفت مضبوط تھی۔ شادی میں واقعی ہر آدمی کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر مظاہرہ کرے۔
ان دنوں میری شادی ہوئی تھی۔ میرے پاس شادی کا ایک بہترین سوٹ تھا۔ میرے ایک بھائی یو۔ کے۔ میں رہتے ہیں وہ اپنے ساتھ ۵۵۵ سگیٹ کی کچھ ڈبیا ساتھ لائے تھے۔ میں ایک ڈبیہ لے کر چیف انجنیر کے دفتر چلا گیا۔ پھر تو دفتر میں ایک ہلچل سی ہوئی۔ سبھی نے چونک کر مجھے دیکھا کہ اتنا چمکتا ہوا آ دمی کون ہے ؟ میں نے ۵۵۵ کی ڈبیا نکالی۔ ایک سگریٹ ہونٹوں سے دباتے ہوئے اپنا تعارف پیش کیا تو کلرک اپنی کرسی سے اٹھ گیا۔
’’ اچھا۔ ۔ ۔ ۔ چھا۔ ۔ ۔ ۔ آپ ہی ہیں خان صاحب! آپ کا بہت نام سنا ہے۔
میں نے سگریٹ کا طویل کش لیا
’’دیکھیئے میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ میں اپنی گاڑی بک کرنے آیا ہوں۔ ایک سودا آپ سے بھی کرنا ہے۔‘‘
’’ کیسا سودا ؟ ‘‘ وہ حیران تھا۔
’’ یہاں بات نہیں ہو سکتی۔ آپ برائے مہربانی باہر تشریف لے چلیں۔ ‘‘
سیکشن کے لوگ مجھے حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ اس ٹیبل پر کون سی ہستی آ گئی ہے۔ ؟ میں اسے لے کر باہر آیا۔
میں نے اسے سگریٹ پیش کیا۔
’’ آپ ۵۵۵ پیتے ہیں ؟ بہت مہنگی ہو گی۔ ‘‘
’’ بنارس سے منگواتا ہوں۔ آپ اسے رکھ لیں۔ ‘‘ میں نے سگریٹ کی پیکیٹ اس کی طرف بڑھائی۔ اس نے پیکٹ جیب میں رکھ لیا۔
’’۔ سر۔ ۔ ۔ آپ آئے تھے کس لئے ؟ ‘‘
معلوم ہوا آپ لوگ میرا ٹرانسفر کر رہے ہیں۔ ‘‘ میں مسکرایا۔
’’ اب ٹرم پورا ہو گیا ہے تو۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’ ٹرم تو پچھلے سال ہی پورا ہو گیا تھا۔ ‘‘
’’ دیکھیئے میں چاہتا ہوں میرا نام پرو پوز نہ ہو۔ آپ چیف انجیئر تک میرا میسج پہنچا دیں۔ جو پیسے آپ لوگ لیتے ہیں دے دوں گا۔ ‘‘
’’ لیکن آپ ادھورا میں کیوں رہنا چاہتے ہیں۔ ؟ وہاں کوئی جانا نہیں چاہتا۔ وہاں فنڈ بھی نہیں ہے۔ ‘‘
’’ خوب فنڈ ہے جناب۔ ڈی ایم نے ضلع یوجنا سے فنڈ بھیجا ہے۔ پانچ سو ہینڈ پمپ کا نرمان۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’ اچھا۔ ۔ ۔ اچھا۔ ۔ ۔ ضلع یوجنا کے فنڈ کا علم تو محکمہ کو ہوتا نہیں ہے۔ ‘‘
’’ بہت کام ہے جناب وہاں ۔ کام کرنے والا آدمی چاہیئے۔ آپ کبھی وہاں آئیں۔ بہت پر تکلّف جگہ ہے۔ آپ کو عیش کراؤں گا۔ ‘‘
’’ ضرور۔ ۔ ۔ ضرور۔ ۔ ۔ لیکن آپ جلد ہی چیف انجینئر سے ملاقات کر لیجیئے۔ اگلے ہفتے میٹنگ ہے۔ کہیں دیر نہ ہو جائے ؛ ‘‘
’’ میں پیسے لے کر کل آؤں گا۔ ‘‘ میں نے اسے یقین دلایا اور گھر آ گیا۔ میں پھر وہاں نہیں گیا۔ میں جانتا تھا کہ میرا تیر نشانے پر بیٹھا ہے۔ اس کو یقین ہو گیا تھا کہ ادھورا میں پیسے کی بارش ہے اور میں وہاں سے تبادلہ نہیں چاہتا۔ اس نے چیف انجینئر سے یہ باتیں بتائی ہوں گی کہ میں پیسے لے کر آنے والا ہوں۔ مجھے نہیں پا کر اس کو غصّہ آئے گا اور میرا نام ٹرانسفر چین میں ڈال دے گا اور میرا تبادلہ ہو جائے گا۔ وہی ہوا۔ مجھےا دھورا سے مکتی ملی۔ میرا تبادلہ بھاگلپور ہو گیا۔ بھاگلپور میرا گھر ہے۔ یہاں میں نے زندگی کے بہترین دن گذارے۔
٭٭٭
[ 4 ]
بھاگلپور آ کر میں راحت محسوس کر رہا تھا۔ یہاں میرا گھر تھا اور ہر طرح کی سہو لتیں میسّر تھیں۔ نہ کرایہ کا مکان ڈھونڈنا تھا نہ چولہے چکّی کی فکر کرنی تھی۔ یہاں میں سو پرٹینڈینگ انجینئر کے پی۔ اے۔ کی پوسٹ پر تھا۔ فیلڈ کی ذمہ داری نہیں تھی۔ صرف فائل ورک تھا اور دفتر میرے گھر سے دو کیلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔
میرے آباء و اجداد خوبداد علی خان افغان سے ہجرت کر بھاگلپور کے بھیکن پور محلّے میں آ بسے تھے۔ ہمارا قبیلہ ترین قبیلہ ہے یہاں ترینوں کے مکان پہلو سے پہلو سجائے نظر آتے ہیں۔ سب کے آنگن میں ایک دروازہ ہے جو دوسرے کے آنگن میں کھلتا ہے۔ بڑی امّاں کے گھر سے آنگن ہی آنگن ہوتے ہوئے آپ قنبر علی کے آنگن میں اتر سکتے ہیں۔
مجھے ذات پات پر یقین نہیں ہے۔ میں نے اپنے نام میں خان کا لقب بھی نہیں لگایا ہے۔ لیکن میرے والد کو اپنے ترین ہونے کا بہت گمان تھا۔ وہ فخر سے کہا کرتے تھے کہ پاکستان کے ایوب خان بھی ترین تھے۔ والد کے پاس شجرہ بھی تھا جو خوبداد علی خان کے وقت سے چلا آ رہا تھا۔ والد سن ۶۴ ء میں بہار سول سروس سے سبکدوش ہوئے تھے اور بھاگلپور میں وکالت شروع کی تھی۔ تب ہمارا اپنا مکان نہیں تھا۔ ہم بڑی امّاں کے یہاں رہتے تھے۔ والد کے حصّے کی موروثی زمین اس گھر کے عقب میں تھی، کچھ کھیت تھے اور آم کا باغ تھا لیکن الگ سے کوئی مکان نہیں تھا۔ بہار سرکار کی تنخواہ پر گذارا کرنے والا ایک ایمان دار مجسٹریٹ اپنے سات بچّوں کی پر ورش کرتا کہ مکان بناتا۔
میری چار پھوپھیاں تھیں۔ ایک پاکستان میں رہتی تھیں، ایک گذر گئی تھیں۔ میں نے دو کو دیکھا جو بھاگلپور میں رہتی تھیں۔ ایک استانی پھوپھی ایک حاجی پھوپھی۔ استانی پھوپھی کو لڑکیاں تھیں کوئی لڑکا نہیں تھا۔ تب وہ رات دن دعا مانگنے لگیں کہ یا اللہ ایک بیٹا دے کچھ نہیں تو لنگڑا لولا ہی بیٹا دے۔ ان کو ایک لنگڑا بیٹا پیدا ہوا جو پھوپھی کے اسکول میں ہی ماسٹر ہوا۔
حاجی پھوپھی نے سات بچّے جنے جو اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ایک تو بھری جوانی میں اٹھ گیا۔ پھر بھی وہ زندہ تھیں اور قسمت کی کج ادائی کا کوئی ماتم نہیں کیا۔ وہ نماز پڑھتیں اور خدا کا شکر ادا کرتیں اور سب کو دعائیں دیتیں۔ پھوپھی کا دو منزلہ مکان تھا اور بہت بڑا آنگن۔ مکان مٹّی اور گارے کا بنا ہوا تھا۔ اس مکان کے بازو میں ایک پختہ مکان تھا جس میں جبریہ اسکول چلتا تھا۔ سامنے کچھ پڑتی زمین تھی جس میں قاسم چچا سبزیاں اگاتے تھے۔ پھوپھی کی کوئی اولاد نہیں بچی تھی تو قاسم چچا کے خاندان کو اپنے دامن میں جگہ دی تھی اور زمین کا ایک ٹکڑا بھی ان کے نام کر دیا تھا۔ ان کے اہل و عیال ہی پھوپھی کی دیکھ بھال کرتے تھے اور ہم لوگوں نے بھی قاسم چچا کو گھر کا فرد سمجھا۔ ان کے ایک لڑکے کو میں نے اپنے محکمہ میں نوکری بھی دلا دی تھی۔
پھوپھی کی زمین میرے والد کے حصّے میں آئی۔ ریٹائر منٹ کے بعد والد نے اسی زمین پر چار کمروں کا ایک ڈھانچہ کھڑا کیا جسے ہم بھائیوں نے مل کر مکمّل کیا۔
مٹّی والا مکان مجھے پر اسرار لگتا تھا۔ اوپر کی منزل پر دو کمرے تھے جن میں کوئی رہتا نہیں تھا۔ یہاں بلّیاں رہتی تھیں جو مجھے دیکھ کر بھاگتی نہیں تھیں۔ لکڑیوں کے کچھ پرانے سامان بھی تھے۔ میں نے ایک کمرے میں اپنے لئے جگہ بنائی۔ یہاں چٹائی بچھا کر لیٹ جاتا اور ناول پڑھتا۔ ایک بوڑھی سی بلّی میرے پاس سٹ کر لیٹ جاتی۔ مجھے اچھا لگتا۔ میں اسے آہستہ سے چھوتا تو وہ ہلکی سی میاوں کے ساتھ آنکھیں کھول کر مجھے دیکھتی اور سو جاتی۔ مجھے لگتا ہے عورت اور بلّی دونوں ہی ایک پیار بھرے لمس کے لئے ہمیشہ ہی ترستی ہیں۔ یہاں کی فضا مجھے پر اسرار لگتی تھی۔ مٹّی کی موٹی دیواریں اور مٹّی کا فرش۔ ۔ ۔ ۔ دو چھوٹے چھوٹے دریچے بھی تھے جن میں لکڑی کی سلاخیں پرانی ہو کر ڈھیلی پڑ گئی تھیں۔ ہوا چلتی تو بہت سی دھول اڑ کر میرے بالوں میں بھر جاتی۔ مجھے لگتا میں پرانے زمانے میں سانس لے رہا ہوں۔ اس کمرے میں میں نے ایک پر اسرار کہانی ’’ سبز رنگوں والا پیغمبر ‘‘ لکھی تھی جسے مظہر امام نے پٹنہ ریڈیو سے نشر کیا تھا۔ یہ میری پہلی کہانی تھی جو ریڈیو سے نشر ہوئی تھی۔
سگریٹ پینے کے لئے بھی یہ جگہ مناسب تھی۔ یہاں کوئی آتا جاتا نہیں تھا۔ نیچے کے کمرے میں امّاں آ جا تی تھیں۔ ایک بار میں سگریٹ پی رہا تھا تو وہ اندر آنا چاہ رہی تھیں۔ میں نے ٹوک دیا تھا کہ اس وقت کمرے میں نہیں آئیں۔
’’ کیوں۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘ وہ کچھ غصّے سے بولی تھیں۔
’’ میں ابھی سگریٹ پی رہا ہوں۔ میں آپ کے سامنے پی نہیں سکتا اور چھپ کر پیوں گا تو گناہ ہو گا۔ بہتر ہو گا آپ سامنے نہیں آئیں۔ امّاں تو ناراض ہوئیں لیکن والد خوش ہوئے کہ لڑکا ہیپو کریٹ نہیں ہے۔
امّاں کو ایک بار اور ناراض کیا تھا جب میں نے ماموں جان کو پہچاننے سے انکار کر دیا تھا۔ میرے دو ماموں تھے۔ چھوٹے ماموں کو تو دیکھا تھا اور ان سے گھلا ملا ہوا تھا لیکن بڑے ماموں کو کبھی دیکھا نہیں تھا۔ بزرگوں سے ان کے قصّے سنے تھے۔
ایک بیاہتا عورت اپنے تین بچّوں کو چھوڑ کر ان کے ساتھ پاکستان بھاگ گئی تھی۔ تب ان کی عمر بیس بائیس سال رہی ہو گی۔ وہ انٹر پاس کر چکے تھے۔ رشتے کی ایک چچی سے دل لگا بیٹھے۔ امّاں بتاتی ہیں کہ نجمہ کی ماں احمد کے دامن میں بارہ آنے پیسے باندھ کر بھاگی تھی۔ احمد سب سے چھوٹا بیٹا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محض چار سال کا۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ بارہ آنے باندھ کر بھاگنے کا مطلب کیا ہے۔ امّاں نے سمجھایا کہ بچّہ روئے گا نہیں۔ پیسے دیکھ کر خوش ہو جائے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ماں کو نہیں ڈھونڈے گا۔ مجھے لگا ہلکی سرد ہوا چل رہی ہے اور میں سرمئی دھوپ میں بیٹھا ہوں۔
سوچتا ہوں۔ وہ عورت جب میرے ماموں کی محبّت میں گرفتار ہوئی ہو گی تو کس قدر کشمکش میں پڑ گئی ہو گی۔ ۔ ۔ ۔ کتنے تناؤ میں۔ ۔ ۔ ۔ ؟ بھاگنے سے پہلے کتنی بار سوچا ہو گا ؟ بچّے کی محبّت بار بار اس کے پاوں میں بیڑیاں ڈالتی ہو گی۔ لیکن اس میں اپنی زندگی جینے کی تڑپ تھی۔ وہ ضرور بہت گھٹن میں جی رہی ہو گی۔ گھر کی سیاست۔ ۔ ۔ ۔ روز کی کھچ کھچ۔ ۔ ۔ ۔ ساس کے طعنے۔ ۔ ۔ ۔ شوہر کے ساتھ صرف جسم کا رشتہ ہو گا۔ وہ اپنا فرض نبھا رہی تھی اور گھٹ رہی تھی۔ ۔ ۔ ۔ لیکن محبّت زندگی سے بڑی ہوتی ہے۔ ساری بیڑیاں توڑ ڈالتی ہے۔ وہ اپنی زندگی جینا چاہتی تھی۔ محبّت کی خاطر اس نے سب کچھ تج دیا۔ لیکن بچّے کی محبّت نہیں تیاگ سکی۔ وہ دامن میں بارہ آنے پیسے باندھ گئی وہ اپنی ممتا باندھ گئی۔ ۔ ۔ ۔ بچّے اور اس کے درمیان یہ بارہ آنے ایک مضبوط کڑی کی طرح تھے۔
میں ماموں کی تعریف کروں گا کہ انہوں نے محبّت کی لاج رکھی۔ زندگی بھر ساتھ نبھایا۔ سوچتا ہوں کیا کیا پریشانیاں نہیں جھیلی ہوں گی انہوں نے۔ ۔ ۔ ۔ ؟بھاگ کر جب پاکستان گئے ہوں گے تو کوئی سہارا تو نہیں تھا۔ ؟ کس سے مدد لی ہو گی ؟ کہاں رکے ہوں گے ؟ نوکری کے لئے در در بھٹک رہے ہوں گے۔ ۔ ۔ ۔ بھوکے پیاسے۔ ۔ ۔ ۔ ان کے پاس کچھ بھی تو نہیں تھا۔ ۔ ۔ ۔ بس۔ آنکھوں میں ایک خواب تھا۔ ۔ ۔ ۔ ان کے ساتھ تھی ان کی محبّت۔
آ خر ان کو ریلوے میں ایک اچھی سی نوکری مل گئی۔
ماموں بھاگلپور بھی آئے۔ تب میں انجینیرنگ کا طالب علم تھا۔ گھر میں بہت شور ہوا کہ ماموں آئے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ماموں۔
امّاں نے کہا ’’ سلام کرو۔ تمہارے ماموں ہیں۔ ‘‘
میں مسکرایا۔ ’’ یہ آپ کے بھائی ہیں میرے ماموں نہیں۔ ‘‘
امّاں نے ناگوار نظروں سے مجھے دیکھا۔
کیسے ماموں۔ ۔ ۔ ؟ میں کبھی ان کی گود نہیں چڑھا۔ کبھی شرارت نہیں کی۔ ان کے ساتھ کبھی میلہ گھومنے نہیں گیا۔ ۔ ۔ ان کی ڈانٹ نہیں سنی۔ کبھی بزرگوں کی جھڑکیوں سے مجھے بچایا نہیں۔ ۔ ۔ ۔ کبھی میرے لئے کسی سے تکرار نہیں کی تو میرے ماموں کیسے۔ ۔ ۔ ۔ ؟
میرے ایک اور ماموں تھے۔ ۔ ۔ ۔ چھوٹے ماموں۔ ۔ ۔ ۔ اور میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کیا ہندوستانی سماج میں ایک شکونی موجود ہوتا ہے ؟
چھوٹے ماموں کپڑے کی تجارت کرتے تھے۔ تاتار پور میں ایک اچھی دکان تھی۔ لیکن ماموں خرّاچ تھے۔ ان میں پیشہ ور تاجر کے اوصاف نہیں تھے۔ پیسے اس طرح خرچ کرتے تھے کہ دکان بیٹھنے لگی۔ سولہ ہزار کا قرض ہو گیا۔ آج سے سا ٹھ سال قبل سولہ ہزار کی قیمت کیا رہی ہو گی۔ قرض کہلگاؤں کے زمین دار کا تھا۔ قرض کیسے اترے۔ ۔ ۔ ۔ ؟
ماموں نے میرے ایک بھا ئی کو اغوا کیا اور زبر دستی ان کا نکاح زمین دار کی لڑکی سے پڑھا دیا ان کی نظر پہلے بھائی جان یعنی سب سے بڑے بھائی پر تھی لیکن وہ بہت اکھڑ تھے۔ ان پر ہاتھ ڈالنا آسان نہیں تھا۔ یہ اللہ میاں کی گائے تھے۔ انہیں صرف پڑھنے سے مطلب تھا۔ انہیں لالچ میں ڈال دیا گیا کہ تمہیں لندن بھیج دیں گے، پھر بھی انہوں نے بچنے کی بہت کوشش کی۔ ٹرین میں چھپ کر بھاگے لیکن ماموں نے راستے میں گھیر لیا۔ دھمکی دی۔ نکاح کے لئے مجبور کر دیا۔
ماموں کا یہ ایسا جرم تھا جسے معاف نہیں کیا جا سکتا تھا۔ میں تو نہیں معاف کرتا لیکن یہ والد کا دل تھا کہ معاف کر دیا اور ماموں سے کوئی شکایت نہیں کی۔
اصل میں والد امّاں کا اترا ہوا چہرہ نہیں دیکھ سکتے تھے۔ اس واقعہ نے امّاں کا سر جھکا دیا تھا۔ جرم بھائی نے کیا تھا اور مجرم بہن بنی ہوئی تھی۔ ۔ ۔ ۔ میرے بھائی نے ایسا کیا۔ ۔ ۔ ۔ میرے بھائی نے۔ ۔ ۔ ۔ ! وہ چپ چپ رہنے لگی تھیں۔ ہر وقت چہکنے والی عورت اچانک گم صم ہو جائے تو کیسا لگے ؟ والد نے کہا ’’ کوئی بات نہیں ہے۔ اللہ کو یہی منظور تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لڑکی ضرور اچھی ہو گی۔ ‘‘ ان دنوں ہم مظّفر پور میں تھے۔ ماموں ہمارے یہاں آئے تو ان کو خوش آمدید ہی کہا گیا۔ وہ امّاں سے عمر میں چھوٹے تھے۔ میں نے بھائی بہن میں ایسیمحبّت کہیں نہیں دیکھی۔ امّاں انہیں نمّو کہتی تھیں۔
مظّفر پور سے والد کا تبادلہ جہان آباد ہوا تو نمّو وہاں بھی آئے۔ میں تب ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ ماموں کو اچانک سو روپے کی ضرورت پڑ گئی۔ کون دیتا ؟ کوئی نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ایک بہن تھی جسے نمّو کے لئے سب کچھ گوارہ تھا۔ نمّو اداس چہرہ لئے آئے تو بہن کا کلیجہ کٹنے لگا۔ کہاں سے لائے سو روپے۔ ۔ ۔ ۔ ؟ شوہر کی تنخواہ دو سو روپے تھی۔ پاس میں زیور بھی نہیں تھے کہ بیچ سکتی۔ زیور بیٹی کی شادی میں صرف ہو چکے تھے۔ وہ کسی سے کچھ کہہ بھی نہیں سکتی تھیں۔ میں دونوں کو سر جوڑے باتیں کرتے دیکھتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ بہت فکر مند۔ ۔ ۔ ۔ بہت اداس۔ ۔ ۔ ۔ ان کی نیند اڑ گئی تھی۔ لیکن ایک امید کی کرن جھلملاتی نظر آئی۔ ۔ ۔ ۔ مسز ہدا۔ ۔ ۔ ۔ !
ہدا صاحب پی ڈبلو ڈی میں انجینیئر تھے۔ ان کے گھر سے دوستانہ تھا۔ امّاں نے ان کے نام چٹّھی دی۔ بولیں ’’ کسی سے کچھ کہنا نہیں۔ ۔ ۔ ۔ چپکے سے جاؤ۔ ۔ ۔ ۔ ان سے سو روپے مانگ کر لے آؤ۔ ۔ ۔ ۔ اور بیٹا۔ ۔ ۔ ۔ پیسے رو مال میں باندھ لینا اور پینٹ کی جیب میں رکھ لینا۔
بیٹا مسز ہدا سے ملا۔ ان کو چٹّھی دی۔ مسز ہدا نے پچاس روپے دیئے۔ وہ پچاس روپے آج دس ہزار کے برابر ہوں گے۔ یہ امّاں کا ایک دم نجی قرض تھا جو چکا نہیں سکتی تھیں۔ یہ میرے سینے پر ایک بوجھ تھا جو میرے ماموں نے مجھ پر لادا تھا۔ اس کا کوئی راز دار نہیں تھا۔
کوئی بیس سال بعد ہدا صاحب سوپر ٹینڈینگ انجینئر بن کر بھاگلپور آئے۔ میں ان دنوں ادھورا میں اسٹنٹ انجنیئر تھا۔ میں چھٹّی میں بھاگلپور آیا تو مسز ہدا سے ملا۔ مجھے دیکھ کر وہ خوش ہوئیں۔ سب کی خیریت پوچھی۔ میں نے کہا۔
’’ آپ کو یاد ہے بیس سال پہلے جب آپ جہان آباد میں تھیں۔ ‘‘
’’ یاد ہے۔ وہاں تم لوگ بھی تھے۔ ‘‘
’’ یہ بھی یاد ہو گا امّاں کی ایک چٹّھی لے کر میں آپ کے پاس آیا تھا۔ ‘‘
’’ مجھے یاد نہیں ہے۔ اتنے برس پہلے کی بات۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘
’’ آج پھر امّاں نے چٹھی دی ہے۔ ‘‘ میں نے جیب سے لفافہ نکالا جس میں پچاس کا نوٹ تھا اور ان کے ہاتھ میں دیا۔ پھر ایک پل بھی وہاں نہیں رکا اور گھر چلا آیا۔
لکھنا منجھلے بھیّا شرجیل احمد خان نے بھی شروع کیا لیکن تاخیر سے۔ وہ بہت پڑھا کو ہیں۔ انہوں نے کیا نہیں پڑھا ہے۔ زو لوجی میں علی گڑھ سے ایم اس سی کیا لیکن ادب اور فلسفہ بھی مطالعہ میں رہا۔ ۔ ان کے آگے ہم سب اپنے کو بونا محسوس کرتے ہیں۔ ریٹائر منٹ کے بعد اردو میں لکھنا شروع کیا۔ ادب میں تراجم کے دروازے سے داخل ہوئے۔ ان کی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ڈھیر ساری انگریزی کہانیوں کا ترجمہ کیا۔ یونانی اساطیر پر بھی ان کا کام ہے۔ اساطیر کی ایک لغت بھی ترتیب دی ہے۔ اردو ادب میں ان کے بیش بہا اضافے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ۔
میرا ننیہال ہم بھائیوں کے لئے پیرس تھا۔ ہم وہاں رومانس کرنے جاتے تھے۔ میرے سنجھلے بھائی تمثیل احمد خان چھوٹے ماموں کی لڑکی پر عاشق تھے۔ وہ تھی بھی بہت خوب صورت اور زندگی سے بھر پور۔ وہ امرائیوں میں دوڑتی پھرتی اور ڈال پتّہ کھیلتی۔ یہ کھیل آم کی شاخوں پر ہی کھیلا جاتا ہے۔ وہ دوڑ کر پیڑ پر چڑھ جاتی اور شاخ پکڑ کر نیچے جھول جاتی۔ بات بات پر قہقہے لگاتی اور تالیاں بجاتی اور بھیّا دل تھام کر بیٹھے دیکھتے رہتے۔ ماموں کا بزنس پوری طرح فیل ہو گیا تو وہ سب کو لے کر پاکستان چلے گئے۔ بھیّا نے جب تعلیم مکمّل کر لی تو پاکستان گئے، اس سے بیاہ کیا اور وہاں بس گئے۔
تمثیل بھیّا افسانہ نگار تھے اور دیپ بھاگلپوری کے نام سے لکھتے تھے۔ ان کے افسانے جمالستان میں شائع ہوتے تھے۔ بعد میں تمثیل احمد کے نام سے لکھنے لگے۔ اسی نام سے وہ شاہراہ میں بھی چھپنے لگے۔ ان کی وجہ سے ہی گھر میں شاہراہ فن کار اور شاعر جیسے رسائل آتے تھے جنہیں میں شوق سے پڑھتا تھا۔ فن کار کا تو میں ایک ایک ورق چاٹ جاتا تھا۔ تب میں ساتویں جماعت کا طالب علم تھا۔ کرشن چندر اور غلام عبّاس وغیرہ کو میں نے اسی زمانے سے پڑھنا شروع کر دیا تھا۔ ان دنوں میں نے دو کہانیاں لکھیں۔ ۔ ۔ ۔ شب برات کا حلوہ ‘‘ اور ’’ چچا کا تار ‘‘۔ جو پٹنہ کے روز نامہ صدائے عام میں شائع ہوئی تھیں۔ مجھے یاد ہے چچا کے تار میں میرا ایک جملہ تھا ’’ وہ آنکھیں جن میں آنسو بھرے تھے چھلک پڑیں۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ بھیّا نے اس میں ترمیم کر دیا ’’ وہ آنکھیں جن میں پہلے سے آنسو بھرے تھے گنگا جمنا کی دھار بن کر پھوٹ پڑیں۔ ‘‘ والد نے اس کہانی کی بہت تعریف کی خاص کر اس جملے کی۔ لیکن میں بالکل خوش نہیں ہوا۔ اس میں بھیّا کا قلم لگ چکا تھا۔ میں نے سوچا اب کسی سے اصلاح نہیں لوں گا۔ اسی زمانے میں بوا کی شادی ہوئی تھی۔ میرے یہاں بڑی بہن کو بوا ہی کہتے تھے۔ والد نے کہا الوداع لکھ کر لاؤ۔ میں نے الوداع لکھ کر سنایا تو سب کی آنکھیں چھلک پڑیں۔ کچھ مہمان بھی آئے ہوئے تھے۔ والد نے ان کو بھی سنانے کے لئے کہا۔ گھر کے کسی بزرگ نے یہ سوچ کر میری تحریر میں کچھ ردّ و بدل کر دیا کہ اردو اچھی ہو جائے گی تو باہر والوں پر رعب پڑے گا۔ میں نے ترمیم شدہ تحریر سنائی تو کسی پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ والد نے کہا کیا واہی تباہی سنا رہے ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ سناو جو تم نے لکھا ہے۔ اس دن میں نے اس بات پر مہر لگا دی کہ زندگی میں کبھی کسی سے اصلاح نہیں لوں گا۔
تمثیل بھیّا مجھ سے نو دس سال بڑے تھے۔ رسالہ بیسویں صدی پڑھنے سے منع کرتے تھے۔ کہتے تھے بیسویں صدی پڑھو گے تو گھٹیا کہانی لکھو گے جس میں رومانس ٹھونس ٹھونس کر بھرے جاتے ہیں۔ ایک بار میں نے کہا تھا کہ کرشن چندر بھی بیسویں صدی میں لکھتا ہے تو بھیّا بہت ناراض ہوئے۔ میرے کان کھینچتے ہوے بولے کہ کرشن چندر کرشن چندر بن جانے کے بعد بیسویں صدی میں لکھتے تھے اور میاں تم کیا ہو ؟ پدّی کا شوربہ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ وہ جاسوسی دنیا بھی پڑھنے کے لئے کہتے تھے۔
میٹرک تک آتے آتے میں نے اردو کی بہت ساری اچھی کہانیاں پڑھ لی تھیں۔ میرا ذہن بنانے میں تمثیل بھیّا کا بہت ہاتھ ہے۔ کہتے تھے اردو سیکھنی ہے تو ملّا رموزی کی گلابی اردو پڑھو۔ وہ پاکستان گئے تو غم روز گار میں الجھ گئے۔ ان کا لکھنا بند ہو گیا۔ لیکن میں نے اردو با قاعدہ نہیں سیکھی۔ یہی وجہ ہے کہ مجھ سے املا کی غلطیاں ابھی بھی ہوتی ہیں۔ میں نے اردو خط پڑھ کر سیکھی۔ گھر میں کوئی خط پڑھ کر سناتا تھا تو مجھے مضمون یاد ہو جاتا تھا۔ پھر میں خط اٹھا کر دیکھتا کہ ’’ جناب ‘‘ اس طرح لکھا ہوا ہے ’ والد ‘ اس طرح لکھا ہوا ہے۔
اس لفظ کی ساخت میرے ذہن میں بیٹھ جاتی۔ ایک بار پرانا پوسٹ کارڈ پڑھ رہا تھا تو والد نے دیکھ لیا۔ ان کو بہت حیرت ہوئی کہ میں نے اردو کہاں سے سیکھی۔ ؟ انہوں نے دوسرا پوسٹ کارڈ پڑھنے کو دیا۔ وہ میرا سنا ہوا تھا۔ فر فر پڑھ کر سنا دیا۔ اب تو سب کو حیرت ہوئی کہ یہ معجزہ کیسا ہے۔ ؟ والد نے جب نئی چٹھی دی تو پورا نہیں پڑھ سکا۔ لیکن کچھ الفاظ پہچانتا تھا وہ میں نے پڑھ دیئے۔ والد سمجھ گئے کہ میں لفظوں کو ان کی ساخت سے پہچانتا ہوں۔ انہوں نے الگ الگ پرزوں پر کچھ الفاظ لکھے مثلاً چھپّر، ٹم ٹم، گھوڑا اور مجھے بتایا کہ یہ الفاظ کیا ہیں۔ پھر سب پرزوں کو مکس کر دیا اور کہا کھول کھول کر پڑھو۔ میں ایک ایک پرزہ اٹھا کر کھولتا اور اترا اترا کر پڑھتا ’’ یہ بیٹا چھپّر۔ یہ بیٹا ٹم ٹم۔ ۔ ۔ ۔ یہ بیٹا۔ ۔ ۔ ۔ سب بہت خوش ہوتے اور تالیاں بجا بجا کر ہنستے۔ امّاں گود میں اٹھا لیتیں۔ ۔ ۔ ۔ میرا ہیرا بیٹا۔ ۔ ۔ ۔ کسی کی نظر نہ لگے۔ ۔ ۔ ۔ اور جھٹ کالا ٹیکہ لگا دیتیں۔ تب میری عمر چار سال کی تھی۔ والد مجھے مدرسہ لے گئے۔ اردو کا قاعدہ تو مجھے سن کر ہی یاد تھا۔ مولوی نے قاعدہ کھولا ایک لفظ پر انگلی رکھی اور کہا پڑھو تو میں نے پڑھا ’’ گائے ‘‘۔ مولوی صاحب نے کہا ہجّے کرو۔ میں نے پھر پڑھا گائے۔ حرف کون سا ہے ؟ میں نے پھر کہا گائے تو مولوی صاحب نے میرے کان اینٹھے۔ ’’ احمق کہیں کا۔ ۔ ۔ ۔ حرف بھی نہیں پہچانتا ہے۔ ‘‘ میں روتا ہوا گھر آیا اور پھر مدرسہ نہیں گیا۔ میں کیا کہتا کہ کون سا حرف ہے میں نے ابجد تو پڑھا نہیں تھا۔ اردو میں نے گھر پر ہی کٹر مٹر سیکھی۔ یہی وجہ ہے کہ مجھ سے ابھی بھی املا کی غلطیاں ہوتی ہیں۔ میں فارسی بھی با قاعدہ نہیں پڑھ سکا۔ عربی قران کی حد تک پڑھنا جانتا ہوں۔ فارسی کے وہی اشعار یاد ہیں جو والد گنگناتے تھے۔ وہ بولتے ’’ در دشت جنون من۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ مجھ سے کہتے آگے بولو۔ میں کہتا ’’ جبریل زبوں صیدے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ اصل میں میری یاد داشت غضب کی تھی۔ ایک بار کچھ بھی پڑھتا مجھے کوما فل اسٹاپ تک یاد ہو جاتا۔ لیکن یہ بات صرف شعر و ادب تک ہی تھی۔ سائنس کے ساتھ بہت مغز ماری کرنی پڑتی۔ پھر بھی والد نے مجھے انجنیرنگ پڑھنے پر مجبور کیا جس کی پھانس ابھی بھی میرے دل میں ہے۔
تمثیل بھیّا پاکستان تو بس گئے لیکن ان کی سانسوں میں ہندوستان کی خوش بو رچی رہی۔ وہاں جا کر ہم لوگوں کو رات دن یاد کرتے۔ ہر ہفتے ان کی چٹّھی آتی تھی۔ اپنا رونا روتے اور ہماری خیریت پوچھتے۔ ایک بار پاکستانی پاسپورٹ سے بھاگلپور آئے تو حسرت سے درو دیوار کو تکتے اور کہتے تھے میں اپنے ہی گھر میں اجنبی ہوں۔ تھانے میں رپورٹ درج کرانی پڑی کہ بھاگلپور پہنچ گئے ہیں جس سے ان کو بہت تکلیف ہوئی۔ میرے والد کو اسی لئے پاکستان سے چڑ تھی۔ کہتے تھے پاکستان میرے بچّوں کو نگل گیا۔ بھائی جان بیماری کے عالم میں پاکستان چلے گئے تھے اور حادثے کا شکار ہو گئے تھے۔ تمثیل احمد خان کے بعد ایک بہن ہیں زکیہ خانم۔ سادہ لوح اور محبّتی۔ کبھی اونچی آواز میں بات کرتے نہیں دیکھا۔ ان کے بعد ایک بھائی تھے ڈاکٹر عقیل احمد خان اور ان کے بعد ترسیل احمد خان۔
ڈاکٹر عقیل اپنی طرح کے انوکھے آدمی تھے۔ مرض دور سے ہی سونگھ لیتے۔ ان کے ہاتھ میں شفا تھی۔ والد کی بہت تمنّا تھی کہ بھاگلپور میں اپنی کلینک کھولتے لیکن انہیں انگلینڈ جانے کا شوق تھا۔ یہ بر منگھم میں بس گئے اور وہیں اپنی سرجری کھولی۔
ترسیل مجھ سے دو سال بڑے ہیں۔ ترسیل نے ہمیشہ فیملی یو نیٹی پر زور دیا۔ میں نے جب انجنیرینگ میں داخلہ لیا تھا تو وہ گریجوئٹ ہو چکے تھے۔ انہوں نے ریلوے میں نوکری کر لی اور میری پڑھائی کا سارا خرچ سنبھا لا۔ میری کتابیں بہت سنبھال کر رکھتے ہیں۔
ننیہال میں مزہ آتا تھا۔ چھوٹے ماموں کے سات بچّے تھے۔ شرارت میں کوئی کسی سے کم نہیں تھا۔ خوب دھما چو کڑی مچتی۔ وہاں ہر طرح کی آزادی تھی۔ کچھ بھی کرو کوئی ٹوکنے والا نہیں تھا۔ ہم امرائیوں میں گھومتے اور پتّھر سے مار کر آم توڑتے۔ پیڑ پر چڑھ کر یا لگّی سے آم توڑنا بڑی بات نہیں سمجھی جاتی تھی۔ کمال تھا پتّھر سے نشانہ لگاؤ اور آم گرے تو دوڑ کر لپک لو۔ شمعون اس میں ماہر تھا۔ وہ مجھ سے چھ سال بڑا تھا لیکن میرا بہت دوست تھا۔ مجھے کچّے امرود اور آم توڑ کر دیتا تھا۔ ہم کچّے امرود کو کیری امرود کہتے تھے۔ مجھے نہیں معلوم ’’ کیری ‘‘ کس زبان کا لفظ ہے۔ وہاں ایک بارہ تیرہ سال کی نوکرانی تھی جسے وہ کیری امرود کہہ کر بلاتا تھا اور وہ مسکراتی تھی۔ میں شمعون سے پوچھتا کہ اس کو کیری امرود کیوں کہتے ہو تو ہنس کر کہتا تھا ’’ دیکھو۔ ۔ ۔ دو پٹّے کے پیچھے کیا ہے۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘
پاس ہی چھوٹے نانا کی حویلی تھی۔ یہ امّاں کے اپنے چچا تھے اور بہار سرکار میں سول اس ڈی او کے عہدے سے سبکدوش ہوئے تھے۔ انگریزوں نے انہیں خان بہادر کا لقب دیا تھا۔ حویلی کے احاطے میں آم کے آٹھ دس درخت تھے۔ ہم ان درختوں پر ڈال پتّہ کھیلتے تھے اور شمعون پیڑوں پر نشانہ لگاتا تھا۔ آم ٹوٹنے کی آواز ہوتی تو چھوٹے نانا باہر نکل کر دیکھتے۔ شمعون پیڑ کے پیچھے چھپ جاتا اور کھی کھی کی آواز کے ساتھ ہنستا اور منھ پر ہاتھ رکھ کر کہتا ’’ بڈھا سوتا نہیں ہے۔ ‘‘
چھوٹے نانا کی حویلی شان دار تھی۔ ایک بڑا سا ہال تھا جس میں خوب صورت جھاڑ فانوس لگے تھے۔ دیواریں جگہ جگہ ہرن کی سینگ بارہ سنگھے کا سر اور شیر کی کھال سے سجی تھیں۔ شیشے کے بڑے بڑے فریم میں تغرے بھی آویزاں تھے۔ میں نے سن رکھا تھا کہ نانا بہت شکاری تھے اور ان کا علاقے میں بہت دبدبہ تھا۔ میں ہال میں آتا تو مجھے لگتا کسی جنگل سے گذر رہا ہوں۔ مجھے یہاں کی فضا اجنبی لگتی تھی۔ نانا کے پاس ایک فورڈ موٹر تھی جو ہینڈل سے اسٹارٹ ہوتی تھی۔ میں اس موٹر پر کبھی نہیں چڑھا۔ اصل میں اس گھرانے سے ہم لوگوں کے بہت دیرینہ تعلّقات نہیں تھے۔
شمعون کی ماموں زاد بہن کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ شمعون نے مجھے بتایا کہ اس کا دلہا اسے روز کھاتا ہے۔ اس کی بات میری سمجھ میں نہیں آئی تو اس نے کہا ایک دن مجھے دکھائے گا۔ گرمی کی ایک دو پہر میں وہ مجھے حویلی میں لے گیا اور جس کمرے میں وہ رہتی تھی اس کی جھلملی سے جھانکنے لگا۔ پھر اس نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے قریب بلا یا اور سرگوشی کی ’’ دیکھو۔ ۔ ۔ ۔ کیا ہو رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘ میں نے جھلملی سے آنکھیں لگا دیں۔ دونوں ہی ننگے تھے اور ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے تھے۔ اچانک شمعون زور سے چلّایا۔ ’’ ابے سالے۔ ۔ ۔ ۔ کتنا کھائے گا۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘ اور میرا ہاتھ پکڑ کر بھاگا۔ ہم پیڑ کے پیچھے چھپ گئے۔
لیکن میری زیادہ دلچسپی بہرو نانی میں تھی۔ میری دو نانیاں تھیں۔ پہلی نانی کو ہمیشہ پلنگ پر لیٹے ہوئے ہی دیکھا۔ وہ بیمار رہتی تھیں۔ ان سے زیادہ بات نہیں ہوتی تھی۔ دوسری سے میرے نانا نے ان دنوں نکاح کیا تھا جب وہ بہار سرکار میں ایجو کیشن افسر تھے۔ وہ کہیں نرس تھیں اور سنتا ہوں بہت خوب صورت تھیں۔ نانا کبھی بیمار پڑے تھے تو انہوں نے جی جان سے خدمت کی تھی۔ ان کی تیمار داری نے نانا کے دل میں جگہ بنا لی تھی۔ نکاح سے پہلے نانا نے گھر سے اجازت لی تھی۔ بڑی نانی نے ان کی محبّت کو صدق دلی سے قبول کیا تھا۔ ۔ امّاں بتاتی ہیں کہ دونوں سگّی بہنوں کی طرح رہتی تھیں۔ ان میں ملّت اتنی تھی کہ مثال دی جاتی تھی۔ لیکن ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ میں نے جب ہوش سمبھالا تو کافی بوڑھی ہو چکی تھیں۔ سنائی بھی نہیں دیتا تھا۔ ہم کہانی سننے کے لئے انہیں حلقہ میں لئے رہتے تھے لیکن مشکل یہ تھی کہ کچھ سنتی ہی نہیں تھیں تو اپنا مدّعا کیسے کہتے۔ ا مّاں نے راستہ نکالا۔ ہمیں سمجھایا کہ بدھنا دکھاؤ اور آسمان کی طرف دیکھو اور پانی گراؤ۔ ہم یہی کرتے اور وہ سمجھ جاتیں تو ہماری خوشی کی انتہا نہیں ہوتی۔ ہمیں لگتا ہم نے ایک معرکہ سر کیا ہے۔ وہ گلفام کی کہانی سناتیں کہ کس طرح پری دیو کی قید میں ہوتی تھی اور شہزادہ گلفام دیو کا قتل کرتا اور پری سے شادی کرتا۔ وہ کہانی کہنے کے فن سے واقف تھیں۔ وہ آنکھوں کو چمکاتیں۔ ۔ ۔ ۔ کبھی آنکھیں چھوٹی ہو جاتیں کبھی بڑی ہو جاتیں، کبھی ہاتھ لہراتیں۔ جب دیو کا ذکر آتا تو بال چہرے پر بکھرا لیتیں اور بھاری آواز میں کہتیں۔ ۔ ۔ ۔ ’’ وہ آیا دیو۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ میں ڈر کر ان کے سینے سے چپک جاتا تھا۔ لیکن وہ ہمیشہ یہی کہانی سناتی تھیں۔ انہیں اور کہانیاں ضرور آتی ہوں گی لیکن ہم جس طرح سے انہیں سمجھاتے تھے تو ہو سکتا ہے وہ اس سے یہی کہانی مراد لیتی ہوں گی۔ لیکن یہ راز میری سمجھ میں نہیں آ یا کہ بدھنے کا کہانی سے کیا تعلّق ہے۔ مجھے دیو کا ذکر پسند نہیں تھا۔ میں ان سے پوچھنا چاہتا تھا کہ آپ کی کہانی میں دیو کیوں ہوتا ہے لیکن کیسے پو چھتا ؟ آخر ایک دن میں نے امّاں سے پو چھا تو وہ ہنسنے لگی تھیں اور بولی تھیں کہ جہاں پری ہو گی وہاں دیو بھی ہو گا اور ایک شہزادہ بھی جو پری کو دیو کی قید سے نجات دلائے گا۔
میں جب مہاماری میں ڈھانچو کی کردار نگاری کر رہا تھا تو مجھے یہ کہانی یاد آئی تھی اور میں نے ایک نظم لکھی تھی جو مہاماری میں شامل ہے۔ اس نظم کو پاکستان کی سیّدہ فضا گیلانی نے ڈیزائن کر فیس بک پر پوسٹ کیا ہے۔
ماں بچپن میں سناتی تھی کہانی
کہانی میں پری ہوتی
دیو ہوتے
اور ہوتے شہزادے
پری دیو کی قید میں ہوتی
اور میں پو چھتا
ماں کیوں ہوتا ہے تمہاری ہر کہانی میں ایک دیو
ماں ہنستی تھی اور کہتی تھی
جہاں پری ہو گی وہاں دیو ہو گا
اور ایک شہزادہ بھی
ماں شہزادے کو نجات دہندہ بتلاتی تھی
مجھے یاد ہے میں خوف سے آنکھیں بند کر لیتا
کہیں ایسا تو نہیں دیو ڈھونڈ لے گا شہزادے کو ؟
ماں سناتی ہے اب میرے بچّوں کو کہانی
کہانی میں پری ہوتی ہے
دیو ہوتے ہیں
نہیں ہوتے شہزادے
کہاں گئے شہزادے ؟
کسی بھی خاندان کی شان و شوکت بہت دنوں تک قائم نہیں رہتی۔ میں سمجھتا ہوں تیسری نسل سے زوال شروع ہو جاتا ہے۔ چھوٹے نانا کا خاندان آہستہ آہستہ بکھرنے لگا۔ ان کی اولاد کچھ تو پاکستان چلی گئی کچھ کینسر کے مرض میں مبتلا ہو گئی۔ اس گھر کے لوگ جو ہندوستان میں رہ گئے اقبال مند ثابت نہیں ہو سکے۔ میں نے اس حویلی کو آہستہ آہستہ کھنڈر میں تبدیل ہوتے دیکھا۔
چھوٹی نانی کی شان و شوکت کے قصّے امّاں سناتی تھیں۔ انہوں نے کبھی زمین پر قدم نہیں رکھے۔ جہاں بھی جاتیں پالکی میں جاتیں ا ور قالین پر چلتی تھیں۔ کہار چوبیس گھنٹے دروازے پر تعینات رہتے تھے۔ ا مّاں کہتی ہیں نانی نے کبھی ہل کر پانی نہیں پیا۔ یہ محاورہ ہے ’’ ہل کر پانی نہیں پینا ‘‘ جو اس وقت کی رئیس خواتین میں رائج تھا۔ یعنی باندیاں اتنی تھیں کہ کوئی کام خود سے کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ بڑی بات سمجھی جاتی تھی کہ گھر کی مالکن ہل کر پانی نہیں پیتی ہے۔ لیکن میں نے چھوٹی نانی کو جو ہل کر پانی نہیں پیتی تھیں اور پالکی میں چلتی تھیں کسی آسیب کی طرح اس کھنڈر ہوتی حویلی میں بھٹکتے ہوئے دیکھا۔
بات سن ساٹھ کے آس پاس کی ہے۔ ا مّاں نے مجھے کچھ پکے ہوئے آم دیئے کہ چھوٹی نانی کو دے آؤں۔ میں سائکل سے وہاں گیا تو جاتے جاتے شام ہو گئی۔ حویلی سنّاٹے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ درو دیوار پر دھول کی پرتیں مستقل وہم کی طرح جمی ہوئی تھیں اور شام کا اندھیرا پاوں پسار رہا تھا۔ برآمدے میں ہر طرف سوکھے پتّے بکھرے ہوئے تھے۔ سیڑھی کے پاس سائکل لگائی اور برآمدے میں آیا تو قدموں کے نیچے سوکھے پتّے چر مرائے۔ ۔ ۔ ۔ دروازہ بند تھا۔ کھٹکھٹایا لیکن دستک کی آواز سنّاٹے میں ڈوب گئی۔ کئی بار دستک دی۔ ۔ ۔ ۔ سنّا ٹا بڑھ گیا۔ کوفت ہو رہی تھی کہ اندر کوئی ہے تو سنتا کیوں نہیں ؟معلوم تھا وہ اکیلی رہتی ہیں اور اونچا سنتی ہیں مزید دستک فضول تھی۔ ایک ترکیب سوجھی۔ دروازے میں جو جھلملی تھی اس کے اندر ہاتھ ڈال کر ایک پتھر پھینکا۔ پتّھر اندر ہال میں کچھ دور تک گیا۔ میں سوچ رہا تھا کہ وہ پتّھر گرنے کی آواز تو نہیں سنیں گی لیکن نظر پڑے گی تو سمجھ جائیں گی کہ کوئی دروازے پر ہے۔ دوسرا پتّھر کچھ قوت سے پھینکا جو ہال سے ہوتا ہوا اندر کمرے تک چلا گیا۔ ۔ ترکیب کام کر گئی۔ نانی کی نظر پتّھر پر پڑ گئی۔ وہ لاٹھی ٹیکتی ہوئی ہاتھ میں لالٹین لئے ہال تک آئیں تو میں نے جھلملی کو زور سے ہلایا۔ وہ سمجھ گئیں۔ دروازہ کھولا اور ادھ میچی آنکھوں سے مجھے دیکھتے ہوئے پہچاننے کی کوشش کی۔ میں نے ہاتھ اٹھا کر سلام کیا اور کان کے پاس چلّا کر بولا۔ ’’ رضیہ کا بیٹا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں سر ہلا کر بو لیں ’’ ہاں۔ ۔ ۔ ۔ ہاں۔ ۔ ۔ ۔ پہچان رہی ہوں۔ ۔ ۔ ۔ اندر آؤ ! ‘‘
کمرے سے دروازے تک آنے میں ان کی سانسیں پھول رہی تھیں۔ میں نے اندازہ لگایا۔ عمر اسّی سے تجاوز کر رہی ہو گی۔ مجھے عجیب سا احساس ہو رہا تھا۔ ایک سنسان کھنڈر نما حویلی میں اکیلی بھٹکتی ہوئی ضعیفہ۔ ۔ ۔ ۔ ہاتھ میں لالٹین۔ ۔ ۔ لاٹھی ٹیکتی ہوئی۔ ۔ ۔ ۔ آم کی تھیلی ان کے ہاتھ میں تھمائی۔ ’’ امّاں نے آم بھیجے ہیں۔ ‘‘
انہوں نے تھیلی ایک طرف تخت پر رکھ دی اور مجھے بیٹھنے کو کہا اور لاٹھی ٹیکتی ہوئی ورنڈے کے کونے کی طرف چلی گئیں اور نگاہوں سے او جھل ہو گئیں۔ میں اکیلا کرسی پر بیٹھا چھت کو گھورنے لگا جس کا پلستر جگہ جگہ سے ادھڑ گیا تھا۔ وہ کچھ دیر تک نہیں آئیں اور کونے سے دھواں اٹھنے لگا تو میں نے ادھر جھانکا۔ چولہے پر چائے کی کیتلی چڑھی ہوئی تھی اور نانی سوکھے پتّوں میں پھونک مار رہی تھیں۔
’’ نانی آپ کیا کر رہی ہیں ؟ ‘‘ میں اٹھ کر ان کے پاس گیا۔
’’ بیٹا۔ ۔ ۔ تم چائے پی لو۔ ‘‘
’’ اس کی کیا ضرورت ہے نانی ؟ آپ کیوں تکلّف سے کام لے رہی ہیں ؟ ‘‘ میرا دل پسیج گیا۔
لیکن وہ چولہے میں پھونک مار تی رہیں۔
’’ میں چائے بنا دیتا ہوں۔ ‘‘ میں نے زبر دستی انہیں وہاں سے اٹھایا۔
’’ آپ اکیلی کیوں رہتی ہیں نانی۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘
’’ ایک کام والی آتی ہے۔ شام کو چلی جاتی ہے۔ ‘‘
میں چائے پی کر پیالی دھونے لگا تو انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔
’’ کام والی آتی ہے نہ۔ ۔ ۔ ! وہ صبح دھو دے گی۔ ‘‘
وہ مجھے چھوڑنے دروازے تک آئیں۔ انہیں دروازہ لگانا بھی تھا۔
ان کی ایک لڑکی میرے محلّے میں ایک رشتے دار سے بیاہی تھی۔ وہ ایک دم آخری دنوں میں ان کے پاس رہنے لگیں۔
٭٭٭
[ 5 ]
جب دو ملکوں میں جنگ ہوتی ہے تو جیت کسی کی نہیں ہوتی۔ دونوں ہی ہارے ہوئے ہوتے ہیں ڈھاکہ کا زوال ہوا تو ہندوستان کے سر کا درد اور بڑھ گیا۔ پہلے اس کا ایک دشمن تھا پاکستان۔ اب دو دشمن ہو گئے۔ بنگلہ دیش سے اس کے تعلّقات اس طرح خوشگوار نہیں ہو سکتے جس طرح نیپال سے ہیں۔ کیا پتہ پوربی اور پچھمی جرمنی کی طرح کبھی دونوں بنگال بھی ایک ہو جائیں۔
سقوط ڈھاکہ کے بعد زائرین بھاگ بھاگ کر ہندوستان آنے لگے۔ میں نہیں سمجھتا ہندوستان میں ایسی کوئی مسلم فیملی ہو گی جہاں اس کے رشتے دار پناہ لینے نہ آئے ہوں۔ میرے یہاں بھی رشتے داروں کا تانتا بندھ گیا۔ مکتی واہنی کے ہاتھوں لٹ لٹا کر آئے تھے۔ ان کے چہرے پر قسمت کی نا رسائی کا ماتم تھا اور آنکھیں آنسووں سے بھیگی تھیں۔ حالات نا گفتہ بہہ تھے۔ ہم لوگوں نے ان کی ہر طرح سے مدد کی۔ کچھ آہستہ آہستہ نیپال کے راستے کراچی چلے گئے کچھ یہیں بس گئے۔
لیکن ایک شخص ہنستے ہوئے آیا اور ہنستے ہوئے گیا۔ اس کے چہرے پر بیتے موسم کا کوئی دکھ نہیں تھا۔ وہ سب کے لئے تحفے تحائف بھی لایا تھا۔ ہمیں مسکرا کر دیکھتا اور سگریٹ کے لمبے لمبے کش لگاتا۔ اور ہمیں حیرت ہوتی کہ دھوپ ابھی بھی اس کے آنگن میں اٹھکھیلیاں کرتی ہے۔
یہ تھے منظر بھیّا۔ ۔ ۔ ۔ ہمارے نزدیکی رشتے دار۔ یہ ان لوگوں میں تھے جن کے ستارے کبھی ماند نہیں پڑتے۔ یہ میٹرک پاس کرتے ہی بہت پہلے کراچی چلے گئے تھے۔ وہاں حبیب بینک میں نوکری کی اور دیکھتے دیکھتے بینک میں چھا گئے اور کم وقتوں میں مینجر کے عہدے پر فائز ہو گئے۔ بہتوں کو انہوں نے نوکری دلائی۔ لڑکے ان کے بھروسے بھاگ بھاگ کر کراچی جاتے تھے اور بینک میں بھرتی ہوتے تھے۔ مشرقی پاکستان میں جب آندولن شروع ہوا تھا تو ان دنوں میمن سنگھ میں بینک کی نئی شاخ کھولنے آئے ہوئے تھے۔ ڈھاکہ سقوط کا ان پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ ہندوستان آتے ہی انہوں نے شعر و سخن کی محفلیں سجانی شروع کیں۔ ہر ہفتے مشاعرہ ہوتا اور لمبا دستر خوان بچھتا۔ ضیافت میں ان کا کوئی جواب نہیں تھا۔ سب کے لئے کھانا خود ہی بناتے۔ پلاو اور گوشت پکانے کی انہیں ایرانی ترکیب پتہ تھی۔
منظر علی خان شاعر بھی تھے اور انشائیہ بھی لکھتے تھے۔ پہلے منظر بھیکن پوری کے نام سے لکھتے تھے۔ پاکستان جانے کے بعد منظر علی خان کے نام سے لکھنے لگے۔ ان کی کئی کتابیں چھپ چکی ہیں۔ خطوط پر مبنی ایک مجموعہ بھی آیا ہے جسے قنبر علی نے ترتیب دیا ہے۔ سب کو یہی فکر تھی کہ یہ پیسے کہاں سے لاتے ہیں۔ باہر سے جو بھی آئے ہم سے کچھ نہ کچھ لیتے رہتے تھے۔ ایک یہی تھے جو سب کو کچھ نہ کچھ دیتے رہتے تھے۔
مجھے ۵۵۵ سگریٹ کی دو پیکٹ اور ایک چمکتی ہوئی ٹائی دی تھی۔ کسی نے کہا کہ سقوط ڈھاکہ کے وقت انہیں پاکستان کی کرنسی جلانے کا حکم ملا تھا۔ کچھ کرنسی جلائی ہو گی کچھ لے کر بارڈر کراس کر گئے ہوں گے اور سرحد پر بھی پیسے چھینٹتے آئے ہو نگے۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ بات صحیح ہے۔ وہ اتنے فعال تھے کہ کراچی جاتے ہوئے کٹھمنڈو رکے تو وہاں بھی کام کرنا شروع کیا۔ وہاں ٹریو لنگ ایجینٹ ہو گئے۔ سب کا فارم بھرتے اور ٹکٹ کا انتظام کرتے جس سے ان کا خرچ نکل آتا۔ کراچی جاتے ہی وہ حبیب بینک کے وائس پریسیڈنٹ کے عہدے پر فائز ہوئے ۔
میری فاطمہ بوا بھی بنگلہ دیش سے لٹ لٹا کر آئیں۔ یہ میری پھوپھی زاد بہن تھیں اور بہت عاقلہ تھیں۔ یہاں آ کر بھی پاکستان کے گن گان کرتیں کہ میرے پاکستان میں یوں ہے تو ووں ہے۔ ہمارے ہاتھ میں پانی کا گلاس ہوتا تو کہتیں آدھا گلاس خالی ہے اور اپنے گلاس کو کہتیں آدھا گلاس بھرا ہوا ہے۔ ہمیں بہت چڑ ہوتی تھی۔ وہ ہر بات پر اپنی سبقت ثابت کرنے کی کوشش کرتیں۔ ایک بار تو حد ہو گئی۔ کہنے لگیں جنّات ان سے پناہ مانگتے ہیں۔ کئی بار بڑے بڑے جن کو پکڑ کر بوتلوں میں قید کیا ہے۔ اب یہ بات تو کسی طرح ہضم نہیں ہو سکتی تھی۔ میں نے سوچا انہیں جنّات بن کر ڈراؤ کہ ان کی گھگی بند ہو جائے۔
اس کام کے لئے میں نے اپنے بھتیجوں کی ٹیم تیّار کی۔ گھر میں سولہ سترہ سال کے دو تین لڑکے تھے جنہیں ایسی شیطانی میں مزہ آتا تھا۔ پلان بنا کہ جیم کو جنّات بنایا جائے۔ جیم شرجیل احمد خان کا لڑکا تھا جو ان دنوں آئی۔ اس۔ سی کا طالب علم تھا۔ ہمارے گھر کے سامنے ایک خالی زمین پڑی تھی جس میں کچھ جنگل جھاڑ اگ آئے تھے۔ اس زمین پر ایک پرانا مزار بھی تھا۔ یہ آنے جانے کا راستہ بھی تھا۔
جیم کے چہرے پر روئی کی لمبی سی سفید داڑھی جما دی گئی اور اس نے سر سے پاوں تک سفید چادر اس طرح اوڑھ لی کہ صرف چہرہ کھلا رہا اور ساتھ ہی اس کی لمبی سی جھولتی ہوئی سفید داڑھی۔ جیم کو سمجھا دیا گیا کہ مزار کے پیچھے چھپ کر بیٹھے رہو اور جب فاطمہ پھوپھی ادھر سے گزریں تو لمبے لمبے ڈیگ بھرتے ہوئے ان کے سامنے کھڑے ہو جانا اور زوردار آواز میں کہنا ’’ السلام علیکم۔ ‘‘ شام ہوئی تو وہ مزار کے پیچھے بیٹھ گیا اور فاطمہ بوا کے گذرنے کا انتظار کرنے لگا۔ کچھ دیر بعد میری بڑی بہن ادھر سے گذریں۔ جیم نے سمجھا فاطمہ پھوپھی ہیں۔ تیز تیز قدموں سے ان کی طرف بڑھا۔ ان کی نظر جیم پر پڑی تو جلدی سے گھر میں گھس گئیں۔ جیم کو انہیں سلام کرنے کا موقع نہیں ملا۔ میری بہن اگر چہ ڈر گئی تھیں لیکن اپنا ڈر ظاہر نہیں کیا۔ بس اتنا سا ذکر کیا کہ کوئی سفید پوش مزار کے پاس تھا۔ ہم نے بھی اس بات کا زیادہ چرچہ نہیں کیا کہ ہمارے نشانے پر تو فاطمہ بوا تھیں۔ جیم روز ہی شام کو مزار کے پیچھے بیٹھتا۔ اور آخر ایک دن وہ ادھر سے گذریں۔ وہ لمبے لمبے ڈیگ بھرتا ہوا ان کی طرف بڑھا۔ فاطمہ بوا نے اسے مزار سے نکلتے ہوئے دیکھا تو تھر تھر کانپنے لگیں۔ اور اس سے پہلے کہ بھاگ کر گھر میں گھس جاتیں جیم راستہ روک کر سامنے کھڑا ہو گیا اور زور دار آواز میں بولا ’’ السلام علیکم محترمہ ‘‘
’’ا مّاں جی۔ ۔ ۔ ۔ ! ‘‘ فاطمہ بوا کے منھ سے زوردار چیخ نکلی۔ دوڑ کر گھر میں گھسیں لیکن ان کا ایک پاؤں چوکھٹ سے ٹکرایا۔ وہ اوندھے منھ گر پڑیں اور بیہوش ہو گئیں۔ گھر میں کہرام مچ گیا۔ جیم اپنے کمرے میں دبک گیا۔ سب نے فاطمہ بوا کو گھیر لیا۔ والد ڈاکٹر کو بلا کر لے آئے۔ ہوش آنے کے بعد بھی وہ ڈر سے کانپ رہی تھیں۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر میں بھی ڈر گیا۔ ان کا ہارٹ فیل بھی ہو سکتا تھا۔
لیکن ایک نئی مصیبت آ گئی۔ والد بھلا کیوں یقین کرتے کہ کوئی جن مزار سے نکلا۔ وہ سب سمجھ رہے تھے۔ وہ ایک ایک لڑکے سے پوچھ رہے تھے کہ سچ کیا ہے۔ مجھے فکر ہوئی کہ جیم سے پوچھا گیا تو بھنڈا پھوٹ جائے گا۔ وہ ایسا لڑکا تھا جو کبھی جھوٹ نہیں بولتا تھا۔ اس کو بھی یہی پریشانی تھی۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ اگر دادا ابّا پو چھیں گے تو جھوٹ کیسے بو لوں گا۔ میں نے جیم کو سمجھایا کہ جھوٹ بولنے کی ضرورت کیا ہے اور سچ بولنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ تم چپ رہنا۔ ۔ ۔ ۔ کچھ نہیں بولنا۔ جیم نے یہی کیا۔ والد پوچھتے رہے اور وہ خاموش رہا۔
جیم ہمارے خاندان کا سب سے اقبال مند لڑکا تھا۔ اس نے این۔ ڈی۔ اے۔ کا امتحان پاس کیا اور ایر فورس میں فائٹر پائلٹ بنا۔ ٹریننگ کے دوران اس کا پلین تین بار فلیم آوٹ ہوا تھا لیکن ہر بار وہ اجیکٹ کر گیا اور اس کو خراش تک نہ آئی۔ ایک بار تو خود پلین کو کنٹرول کرتا ہوا لینڈ کر گیا جس کے لئے انعام سے نوازا بھی گیا تھا۔ وہ جب آسام میں سکوائڈرن لیڈر تھا تو نئے پایئلٹ کو ڈاگ فائٹنگ کی ٹرینینگ دیتا تھا۔ ایک ٹرینی پائلٹ دیپک دیّہ کو ٹرین کرتے ہوئے اس کا پلین کہیں کریش کر گیا جس کا آج تک پتہ نہیں چلا۔ وہاں جنگل اتنا گھنا تھا کہ پلین کا ملبہ تک نہیں ملا۔ یہ ایک ایسا حادثہ ہے جس کی بھرپائی آج تک نہیں ہو سکی۔
فاطمہ بوا کو یقین نہیں ہوا کہ ہم نے انہیں جن بن کر ڈرایا تھا۔ بلکہ بات یہ مشہور ہو گئی کہ وہ تو فاطمہ تھیں کہ جن نے سلام کیا تھا ورنہ کوئی اور ہوتا تو سوار ہو گیا ہوتا۔
کچھ دنوں بعد شمعون بھی بھاگلپور آیا۔ لیکن وہ پاسپورٹ کے ساتھ کراچی سے آیا تھا۔ وہ اب خوب رو جوان تھا اور دلیپ کمار کے اسٹائل میں بال رکھتا تھا۔ یہاں آتے ہی وہ ہر لڑکی پر عاشق ہونے لگا اور امّاں سے کہتا ’’ پھوپھی جان۔ ۔ ۔ میری اس سے شادی کرا دیجیئے۔ ‘‘
میں نے ایسا ڈان جؤآن ٹائپ آدمی کہیں نہیں دیکھا۔ وہ مجھے اپنے فتوحات کے قصّے سناتا کہ کہاں کس لڑکی کے ساتھ ہم بستر ہوا۔ اس کی فہرست میں زیادہ تر شادی شدہ عورتیں تھیں۔ اس کی منطق تھی کہ شادی شدہ عورتوں سے رومانس میں ہر طرح کا تحفّظ ہے۔ اگر انہیں حمل بھی ٹھہر جائے تو کریڈٹ شوہروں کو جاتا ہے اور وہ چھوٹے موٹے اخراجات بھی پورے کرتی رہتی ہیں۔ وہ یہ بھی کہتا تھا کہ کچھ لڑکیاں ہوتی ہیں جن سے عشق کیا جا سکتا ہے شادی نہیں کی جا سکتی اور کچھ ایسی ہوتی ہیں کہ شادی کی جا سکتی ہے عشق نہیں کیا جا سکتا۔ مجھے ایسی لڑکی سے شادی کا مشورہ دیتا جو ہنس مکھ ہو اور ایک سے ایک کھانا بنانا جانتی ہو۔
شمعون کو اس کرمنل کی بیوی سے بھی عشق ہو گیا جو پچھواڑے میں رہتی تھی۔ یہ لوگ بھی میرے رشتے دار تھے۔ سلیم صاحب ریٹائرڈ اکاونٹینٹ تھے جن کا اکلوتا لڑکا رشید ایک نمبر کا جواری تھا اور تسکری کا دھندہ کرتا تھا۔ وہ پورنیہ سے تین بچّوں کی ماں کو اٹھا کر لے آیا۔ عورت کہتی تھی ہم نے نکاح کیا ہے لیکن بیگم سلیم اس کو بہو ماننے کے لئے تیّار نہیں تھیں۔ محلے والے بھلا کیوں قبول کرتے۔ سب اس کو رشید کی رکھیل کہتے تھے۔ اور رکھیل تھی کہ محلّے میں سینہ تان کر چلتی تھی کہ اس کے پاس نکاح نامہ تھا۔ رشید جب گھر پر رہتا تو امن و سکون رہتا تھا اور جب باہر ہوتا تو ساس بہو میں مہا بھارت چھڑی رہتی۔ دونوں ایک دوسرے پر چلّاتیں اور محلّے والے سنتے۔ ان کا آنگن میری چھت سے نظر آتا تھا۔ ایک بار زور کا شور ہوا تو میں شمعون کے ساتھ چھت پر آیا۔ دونوں ایک دوسرے سے گتھم گتھا تھیں اور سلیم صاحب چلّا رہے تھے ’’ بچاؤ۔ ۔ ۔ ۔ بچاؤ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘
شمعون چھت سے اترا اور ان کے آنگن میں پہنچ گیا۔ دونوں کو الگ کیا اور بیگم سلیم کو ڈانٹتے ہوے بولا۔
’’ آپ اسے کیوں پریشان کرتی ہیں ؟ جب آپ کا بیٹا گھر میں ہو تو جو جی میں آئے کیجیئے ‘‘
شمعون نے بیس روپے اس عورت کے ہاتھ میں دیئے اور بولا۔ ’’ اسے قرض سمجھ کر رکھ لو۔ اور بچّوں کو کچھ کھانے کے لئے دو۔ رشید آئے گا تو پیسے واپس کر دینا۔ ‘‘
شمعون وہاں سے آیا تو بہت خوش تھا۔ مجھ سے ہنستے ہوئے بولا۔ ’ر جسٹریشن ہو گیا۔ ‘‘
’’ کیسا رجسٹریشن ؟ ‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ رشید کی بیوی کو رجسٹر کر لیا۔ اب جلد ہی وصل کی گھڑی بھی آئے گی۔ ‘‘ اس نے یہ بات اتنے اعتماد سے کہی کہ مجھے حیرت ہوئی۔
اس نے رشید سے دوستی کر لی۔ اس کے گھر کے چکّر لگانے لگا۔ مجھے روز اپنے کام کا ’’ پرو گریس ‘‘ بتاتا کہ بات کہاں تک پہنچی ؟ ایک دن اس کے نام کا انکشاف کیا ’’ درّ شہوار ‘‘ اس نے فخریہ بتایا کہ اس کے سوا کوئی اور اس کا نام نہیں جانتا۔ لیکن رونا بھی روتا کہ کام کرنے کا موقع نہیں مل رہا ہے۔ وہ رشید کے باہر جانے کا انتظار کر رہا تھا کہ اس کے بعد تو اس کی انگلیاں گھی میں تھیں۔
آخر اس کی قسمت سے چھیکا ٹوٹا۔ رشید تسکری کے دھندے میں مدھو بنی چلا گیا۔ شمعون اس دن بہت جوش میں تھا۔ مجھے بتایا کہ جمعہ کی نماز کے وقت بلایا ہے۔
میں مسکرایا ’’ نماز کے وقت بلایا ہے ؟ کیا نماز پڑھو گے ؟ ‘‘
وہ زور سے ہنسا۔ ’’ اس وقت گھر کے مرد مسجد میں ہوتے ہیں اور بڑھیا تو منھ لپیٹے سوئی رہتی ہے۔ ‘‘
جمعہ کے دن ادھر اذان ہوئی اور وہ اس کے کمرے میں گھس گیا۔
وہاں سے آیا تو بہت خوش تھا۔
’’ کیا چیز ہے اللہ قسم۔ ۔ ۔ واہ۔ ۔ ۔ واہ۔ ۔ ۔ اس کو کہتے ہیں معشوق ! وہ اس لائق ہے کہ کوئی اس کے لئے تلوار اٹھا لے۔ ‘‘
’’ کیا ہوا ؟ ‘‘ اس کی خوشی سے مجھے عجیب طرح کی جلن ہو رہی تھی۔
’’ کیا بتاؤں کہ کیا ہوا ؟ سالی ہے چھنال۔ ۔ ۔ ۔ لیکن مزہ ا ٓ گیا۔ ‘‘
’’ چھنال بھی کہہ رہے ہو اور اس کے لئے تلوار بھی اٹھا رہے ہو۔ ‘‘ میں نے چڑ کر کہا۔
’’ مرد ایسی ہی عورتوں سے پھنستے ہیں ورنہ یہ بیویاں کیا خاک مزہ دیں گی۔ یہ بس کھانا بنانے کے لئے ہیں اور بچّے پالنے کے لئے۔ ۔ ۔ ۔ عیش کے لئے تو معشوق چاہیئے۔ ‘‘
اس نے بتایا کہ وہ جاتے ہی اس سے لپٹ گیا اور چھنال بھی چپکی رہی۔ پھر وہ ساری اور بلوز سے بے نیاز ہو گئی اور انڈے ابالنے لگی۔ شمعون کا کہنا ہے کہ جب نیم برہنہ فرش پر اکڑوں بیٹھی انڈے ابال رہی تھی تو اس کا حسن دیکھنے لائق تھا۔ اس کے کولہے کے کٹاؤ اور برا کے ہک دیکھ کر وہ مشتعل ہو گیا اور اس کے پاس ہی فرش پر بیٹھ گیا۔ وہ بھی اس کی گود میں بیٹھ گئی۔ گود میں ہی بیٹھے بیٹھے اس نے انڈے چھیلے اور اسے منھ کر کے کھلانے لگی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور پھر وہیں فرش پر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!
’’ ہائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مت پوچھو یار۔ ۔ ۔ ۔ کیا ادا تھی۔ ۔ ۔ ۔ ؟ میں تو مر گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ‘‘
میں غصّے سے کھول رہا تھا اور مجھے اپنی ذہنیت پر حیرت ہو رہی تھی۔ میں کیوں جلن میں پاگل ہو رہا تھا۔ ؟
وہ اس سے رات میں بھی ملنے لگا۔ رشید جب تک لوٹ کر نہیں آیا اس کے شب و روز چھنال کے ساتھ گذرتے۔ وہ کبھی انڈے لے جاتا، کبھی مٹن اور چکن اور رات کھانا بھی وہیں کھاتا اور مجھے اپنی عیّاشی کی روداد سناتا اور میں اندر ہی اندر کھو لتا رہتا۔ میں اس کا اکیلا راز دار تھا۔ میں نے سوچ لیا اس کو رسوا کروں گا۔
ایک دن اس نے مجھ سے سو روپے مانگے۔ میں نے پوچھا کیا کرو گے تو کہنے لگا اس نے نتھ کی فرمائش کی ہے۔
’’ نتھ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘ میں نے حیرت سے پو چھا۔
’’ سونے کی چھوٹی سی نتھ۔ ۔ ۔ ۔ اس ادا سے اس نے مانگی ہے کہ میں تو مر گیا۔ ‘‘
’’ تمہارا کیا ہے ؟ تم تو مرتے ہی رہتے ہو۔ ‘‘
وہ سرگوشیوں میں بولی تھی۔ ’’ دو دو آدمیوں کے رہتے ہوئے میری ناک میں نتھ نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں تو مر گیا۔ ۔ ۔ ۔ دو دو آدمی۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ایک آدمی وہ ہے دوسرا میں۔ وہ مجھ سے محبّت کرنے لگی ہے۔ ‘‘
وہ میری خوشامد کرنے لگا کہ کہیں سے بھی سو روپے کا انتظام کر دوں۔ میں کہاں سے لا تا ؟ اس وقت بے روز گار تھا اور نوکری کی تلاش میں تھا۔ اور میں چاہتا بھی نہیں تھا کہ روپے اسے کہیں سے دستیاب ہوں۔ وہ کچھ دن پیسے کے لئے پریشان رہا پھر اس نے اپنی گھڑی بیچ دی۔ اس کے پاس ایک اومیگا گھڑی تھی۔
گھڑی بیچ کر اس نے نتھ خریدی۔ مجھے دکھایا اور نتھ دینے مجھے ساتھ لے گیا سلیم صاحب مجھے دیکھ کر خوش ہوئے اور چائے بنانے کے لئے کہا۔ بچارے شریف آدمی۔ ۔ ۔ ۔ انہیں کیا پتہ کہ کس نے ان کے گھر میں سیندھ ماری ہے۔ اس دوران وہ ماچس مانگنے آئی تو شمعون نے اپنی ماچس اس کو دے دی۔ چائے پی کر ہم باہر آئے۔ میں نے پوچھا کہ نتھ کس وقت دو گے تو زور سے ہنسا۔
’’ نتھ تو دے چکا۔ ۔ ۔ ۔ جگر چاہئیے دوست۔ ۔ ۔ ۔ لومڑی کی طرح چالاک اور شیر کی طرح نڈر آدمی ہی پرائی عورت کو اپنی بانہوں میں بھر سکتا ہے۔ ‘‘
’’ نتھ کس وقت دی۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘ مجھے یقین نہیں ہو رہا تھا۔ وہ اٹھ کر اندر نہیں گیا تھا اور ہم ایک ہی جگہ بیٹھے رہ گئے تھے۔
اس نے بتایا کہ نتھ ماچس میں رکھ دی تھی اور اشارے سے بتا دیا تھا۔ تب ہی تو وہ ماچس مانگنے آئی تھی۔
لیکن نتھ اس کے لئے وبال جان بن گئی۔
رشید نے نتھ دیکھا تو پوچھا کہاں سے لائی ؟ اس نے کہا کہ روز کے خرچ سے پیسے بچائے اور اپنے شوق کی چیز خریدی۔ اس دن رشید نے کچھ نہیں کہا لیکن ایک دن اس کو پیسے کی ضرورت پڑی۔ جوا کھیلنے کے لئے پیسے نہیں تھے۔ وہ اکثر گھر کے سامان بیچا کرتا تھا۔ نظر نتھ پر پڑ چکی تھی۔ اس نے نتھ مانگی۔ وہ بھلا کیوں دیتی۔ رشید نے ایک جھپٹا مارا اور نتھ نوچ کر لے بھاگا۔ اس کی ناک زخمی ہو گئی۔ وہ چیخ چیخ کر روئی اور سیدھا تھانے میں سانحہ درج کرا دیا کہ اس کا شوہر تسکری کا دھندہ کرتا ہے۔ منع کرنے پر مارا پیٹا اور ناک سے نتھ نوچ کر بھاگ گیا۔ پولیس گھر پہنچ گئی۔ اس کے کمرے سے گانجے کی تھیلی بھی بر آ مد ہوئی۔ بس کیا تھا کیس بن گیا۔ پولیس سلیم صاحب کو بھی پکڑ کر لے گئی اور حاجت میں بند کر دیا۔ ان کو حاجت سے چھڑانے کے لئے بیگم سلیم کو اپنے زیور بیچنے پڑے۔
رشید بھی حاجت میں بند ہوا تو شمعون کی چاندی ہو گئی۔ اس کی راتیں پھر معشوق کے پہلو میں گذرنے لگیں۔ وہ اس کا اتنا دیوانہ ہو گیا تھا کہ اس کو بھگا کر پاکستان لے جانا چاہتا تھا۔ امرتسر سے وہ ٹیکسی سے باگھا بارڈر تک جاتا اور وہاں سے گرد ن یہ پاسپورٹ سے اس کو بارڈر کراس کرا دیتا۔ میں نے سوچا امّاں کو ساری بات بتا دوں۔ لیکن اس کی نوبت نہیں آئی۔ اچانک سارا منظر نامہ بدل گیا۔
ایک دن اس کے پاس سے آیا تو اس کا موڈ بہت خراب تھا۔
’’ سالی۔ ۔ ۔ کمینی۔ ۔ ۔ ۔ ! ‘‘
’’ کیا ہوا۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘ میں چونک پڑا۔
’’ پاگل ہو گئی ہے۔ ۔ ۔ گالیاں دینے لگی ہے۔ ‘‘
’’ محبوب کی تو گالی بھی مزہ دیتی ہے۔ ‘‘ میں مسکرایا۔
لیکن اس نے کچھ بتایا نہیں۔ دوسرے دن وہ غصّے سے آگ بگولا تھا۔
’’ حرامزادی۔ ۔ ۔ ۔ اب اس کے پاس نہیں جاؤں گا۔ ‘‘
میرے بہت پوچھنے پر جو بات اس نے بتائی تو میں خوب ہنسا۔
مدہوشی میں اس کا نام لے کر گالیاں دینے لگتی تھی۔ ’’ ارے حرامی۔ ۔ ۔ ۔ ارے سور کا جنا شمعون۔ ۔ ۔ ۔ تیری بہن کو کتّے سے یاری ہو گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تیری ماں دس سور کے پاس گئی تو تو پیدا ہوا۔ ۔ ۔ ۔ ارے کتّا۔ ۔ ۔ ۔ ارے سور کا جنا۔ ۔ ۔ ۔ !!‘‘
وہ پھر اس کے پاس نہیں گیا اور ویزا کی میعاد ختم ہونے سے پہلے پاکستان چلا گیا۔
اس دوران ایک اور واقعہ ہوا۔ ۔
میں نے محلّے کی جامع مسجد کے امام کو استانی کے ساتھ راس رچاتے ہوے دیکھا۔ استانی امام صاحب کی گود میں سمٹی ہوئی تھی اور وہ اس کا جسم سہلا رہے تھے۔ اسکول میرے گھر کے بغل میں تھا۔ اس کا احاطہ میری بالکنی سے نظر آتا تھا۔ امام کی راس لیلا دیکھ کر میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ میں نے امام صاحب کو بلایا اور اپنا ٹیپ رکارڈر آن کر دیا۔ میں ساری باتیں رکارڈ کر لینا چاہتا تھا تا کہ بعد میں وہ مکر نہ سکیں۔ واقعہ چند ساعت پہلے کا تھا اس لئے مجھے یقین تھا کہ امام اپنا گناہ قبول کر لے گا۔ میں نے گفتگو شروع کی۔
’’ امام صاحب ! میں نے ابھی جو کچھ بھی دیکھا نہیں چاہتا دوسرے بھی دیکھیں ‘‘ امام کا چہرہ پیلا پڑ گیا۔
’’ آپ نے کیا دیکھا ؟ ‘‘
’’ میں نے دیکھا اسلام خطرے میں ہے اور آپ پر شیطان سوار ہے۔ ‘‘
امام چپ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !
’’ بہتر ہے آپ امامت سے استعفیٰ دے دیں۔ ‘‘
’’ میں اسکول سے اپنا تبادلہ کرا لوں گا۔ ‘‘
’’ یہ حل نہیں ہے۔ آپ وہاں بھی اپنی بد فعلیاں جاری رکھیں گے۔ ایک امام ایسی حرکت کرے یہ بات نمازیوں کو برداشت نہیں ہو سکتی۔ ‘‘
امام اٹھ کر چلے گئے۔ لیکن ان کے رویّے میں کوی فرق نہیں آیا۔ ان کی راس لیلا جاری رہی۔ میں نے یہ بات محلّے کے ایک دبنگ لڑکے کو بتائی۔ اس نے امام کے پیچھے اپنا جاسوس لگا دیا۔ جاسوس نے امام کو استانی کے ساتھ بازار میں لسّی پیتے ہوئے دیکھا۔ بات محلّے میں پھیلنے لگی۔ کچھ دنوں بعد امام کو استانی کے ساتھ ایک ڈاکٹر کی کلینک میں دیکھا گیا۔ وہ استانی کا حمل گرانے گئے ہوئے تھے۔ جاسوس نے امام کے ہاتھ سے نسخہ جھپٹ لیا اور بھاگ کر دبنگ کو دے آیا۔ پانی گویا سر سے اونچا ہو گیا تھا۔ دبنگ نے پنچایت بلائی۔ پنچایت میں سارے ثبوت پیش کیئے گئے۔ وہ ٹیپ بھی سنایا گیا جو میں نے ریکارڈ کیا تھا۔ لیکن محلّے میں دو گروپ ہو گیا۔ کچھ لوگ امام کے سپورٹ میں کھڑے ہو گئے۔ پھر بھی امام کو مسجد چھوڑنی پڑی۔ میں نے امام کی کہانی لکھی ’’ اونٹ ‘‘ جس کا خمیر شمعون کی کار گذا ریوں سے تیّار کیا۔
میں سمجھتا ہوں ہر آدمی کے اندر ایک ڈان جوان ہوتا ہے جو حالات کے اعتبار سے اپنا رنگ دکھاتا ہے۔ میں ایک افسانہ نگار کی مثال دینا چا ہوں گا۔ اس سے میری ملاقات سہسرام میں ہوئی۔ میں پہلے اس خوش فہمی میں مبتلا تھا کہ میں نے جنس کی نفسیات کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور مرد و زن کے تعلّقات کو سمجھتا ہوں۔ لیکن اس شخص سے ملنے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ میں ا حمق ہوں میرے پاس کتابی گیان تھا اور اس کے پاس تجربہ تھا۔ پہلی ملاقات میں ہی اس نے مجھ سے کہا کہ عورت کو اگر اس بات کا یقین ہو کہ کسی کو معلوم نہیں ہو گا اور کوئی اس راز سے واقف نہیں ہو گا تو وہ اجنبی مرد سے منٹوں میں تعلّقات استوار کر لے گی۔ پھر اس نے اپنا بستر الٹا اور پلنگ کی پٹّی دکھائی۔
’’ یہ دیکھیئے۔ ۔ ۔ یہاں سے پٹّی کا رنگ اڑ گیا ہے۔ ‘‘
’’ کیوں۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ یہ ایک عورت کی کمر کے نشان ہیں۔ یہ نشان دو سالوں میں بنا ہے۔ پچھلے دو سالوں سے وہ اسی پوزیشن میں سو رہی ہے۔ ‘‘
’’ کون ہے وہ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ آپ کی شادی تو ابھی نہیں ہوئی ؟ ‘‘
وہ مسکرایا۔ ’’ جس سے شادی ہوتی ہے وہ بیوی ہوتی ہے اور جو محبوبہ ہوتی ہے وہ عورت ہوتی ہے۔ ‘‘
جواب میں میں بھی مسکرایا۔ اس نے بتایا کہ اس کا نام گڈّو ہے۔ پہلی بار جب وہ ہم بستر ہوئی تھی تو ہم ایک دوسرے کے لئے اجنبی تھے لیکن اس کو یقین تھا کہ یہ راز راز رہے گا۔ ‘‘
’’ لیکن اب تو سب جان گئے ہیں۔ ‘‘
’’سب جان گئے ہیں تو تعلّقات بھی پرانے ہو گئے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
اور تعلّقات پرانے ہوتے ہیں تو ڈر بھی جاتا رہتا ہے ‘‘
میں مسکرا کر رہ گیا۔
اور ایک دن تو حد ہو گئی۔
رمضان کا مہینہ تھا۔ میں اس کے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔ اچانک کسی خاتون کی آواز آئی۔ ’’ کیوں میاں ؟ سائکل نہیں چلا رہے ہو ‘‘ افسانہ نگار اپنی جگہ سے اچھل گیا۔
’’ یہ سگنل میرے لئے ہے۔ ‘‘
وہ دروازے پر کھڑا ہو گیا۔ میں نے ادھر جھانک کر دیکھا۔ ایک عورت بالکنی میں کھڑی تھی۔ افسانہ نگار نے بتایا کہ یہ لوگ کل ہی اس گھر میں شفٹ ہوئے ہیں۔ اور اس عورت سے میری آنکھیں چار ہو چکی ہیں۔
’’ آپ نے کیسے سمجھا کہ آپ کو سگنل دے رہی ہے ؟ ‘‘
’’ عرشی میرا بھتیجہ ہے چار سال کا۔ وہ اپنی سائکل اسی دروازے پر چلاتا ہے۔ ابھی نہ عرشی ہے نہ سائکل تو وہ آواز کسے دے رہی ہے۔
’’ سگنل کا مطلب کیا ہے ؟ ‘‘
’’ بات کرنے کے لئے کہہ رہی ہے اور بات کیا کرنی ہے، سیدھا اس کے کمرے میں گھس جانا ہے۔ ‘‘
اس نے مجھے کھڑکی سے ہٹ کر بیٹھنے کے لئے کہا۔ ’’ آپ تھوڑا ہٹ کر بیٹھیں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ آپ کو دیکھ لے۔ ‘‘
اس نے کھڑکی بند کر دی اور خود دروازے پر کھڑا ہو گیا۔ میں نے دیکھا اس نے عورت کو نیچے آنے کا اشارہ کیا۔ عورت نیچے اپنے دروازے پر آئی اور کواڑ کی اوٹ سے جھانکنے لگی۔ افسانہ نگار آہستہ سے بولا ’’ میں آؤں۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘
اور اس نے ادھر ادھر سڑک کی دونوں طرف دیکھا اور جب تک عورت کواڑ بند کرتی اندر گھس گیا۔
کچھ دیر بعد آیا تو اس کا چہرہ لال ہو رہا تھا۔ اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔
’’ کیا ہوا ؟ ‘‘
’’ کام ہو گیا۔ ۔ ۔ ! ‘‘
’’ کام ہو گیا۔ ۔ ۔ ؟ کیسا کام۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’ دیکھیئے۔ ۔ ۔ !‘‘ اس نے ثبوت پیش کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں سکتے میں تھا۔
وہ کہنے لگا کہ کام اسی طرح ہوتا ہے۔ ورنہ میں دیر کرتا یا کچھ دن انتظار کرتا تو ہچکچاہٹ پیدا ہوتی۔
’’ آپ کو شرم نہیں آتی۔ یہ رمضان کا مہینہ ہے اور وہ خود کتنی بے شرم ہے ؟ ‘‘
اس نے قہقہہ لگایا۔ ’’رمضان میں تو اور بھی آسان ہے۔ کسی کو شک نہیں ہو گا۔ ‘‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے افسانوں میں سیکس کہیں نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !
حسن کا پیمانہ جو بھی ہو ایک دم سیاہ چیز بھی حسین ہوتی ہے۔
اور سیاہ فام عورت۔ ۔ ۔ ۔ ؟
وہ ایک دم کالی تھی۔ ۔ ۔ ۔ بالکل سیاہ۔ ۔ ۔ ۔ اور اتنی ہی چمک دار۔ ۔ ۔ ۔ ! وہ آنچل سنبھال کر رکھتی تھی پھر بھی چھاتیوں کا غرور چھپتا نہیں تھا اور جوانی امنڈی چلی آتی تھی۔ ہونٹ جامنی تھے۔ ۔ ۔ ۔ موٹے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رس دار۔ ۔ ۔ ۔ وہ مسّی لگاتی تھی اور ہنستی تو اور کالی نظر آتی۔ ہونٹوں اور گالوں پر سیاہی پانی میں لہر کی طرح پھیل جاتی اور دانت جامنی ہونٹوں کے درمیان سیاہ نگینے کی طرح چمکتے اور میرا دل دھڑکنے لگتا۔ لیکن آنکھوں کا رنگ عجیب تھا۔ ۔ ۔ ۔ سرخ سرخ کسی کاربنکل کی طرح دہکتی ہوئی آنکھیں جو ہر وقت بھیگی رہتی تھیں۔ ۔ ۔ ۔ یسا لگتا تھا کوئی ناسور اس کی آنکھوں کے رستے رس رہا ہے۔
میں نے اتنی کالی اور اتنی عجیب آنکھوں والی عورت پہلے نہیں دیکھی تھی۔ وہ میرے ایک دور کے رشتے دار کی بیوی تھی اور سقوط ڈھاکہ کے بعد لٹ لٹا کر بنگلہ دیش سے آئی تھی
برّ صغیر کا بٹوارہ ایک المیہ ہے اور سقوط ڈھاکہ بھی ایک المیہ ہے جس کا ذکر ہمارے یہاں نہیں ہوتا۔ کچھ زخم ایسے ہوتے ہیں جو نہیں بھرتے۔ وقت کے ساتھ ناسور ہو جاتے ہیں اور روح میں رستے رہتے ہیں۔
سقوط ڈھاکہ پاکستان کے سینے کا ایسا زخم ہے جو کبھی نہیں بھرے گا۔ پاکستان کے مسلمانوں کو ایک کافر کے ذریعہ دیا گیا زخم جو ناسور ہو گیا ہے۔ لیکن ہند کے مسلمانوں پر اس کا دوسرا اثر پڑا ہے۔ پاکستان سے ان کا موہ بھنگ ہوا۔ ان کا بھرم ٹوٹا اور ستّر کی پیڑھی نے خود کو مکھ دھارے سے جوڑا۔ میں اعتراف کروں گا کہ ایک زمانے میں یہاں کچھ مسلمانوں کو پاکستان سے ہم دردی تھی۔ کرکٹ میچ میں بھی کچھ لوگ پاکستان کی طرف داری کرتے تھے لیکن اب ایسی بات نہیں ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد یہاں کے مسلمانوں کو پاکستان سے ایسی انسیت نہیں رہ گئی ہے۔
بنگلہ دیش کا پاکستان سے ٹوٹ کر الگ ہونا اس مفروضے کی تائید کرتا ہے کہ آدمی کو مذہب نہیں باندھتا۔ آدمی کو آدمی سے باندھتی ہے اس کی زبان اور اس کا کلچر۔ پاکستان کے ٹوٹنے سے ٹو نیشن تھیوری بھی فیل ہوئی اور غور طلب بات یہ ہے کہ جو مسلمان پاکستان کو اپنا ملک سمجھ کر وہاں ہجرت کر گئے انہیں پاکستان نے قبول نہیں کیا۔ انہیں پاکستانی نہیں مہاجر کہا گیا۔ ایّوب خان کے بیٹے گوہر ایّوب نے سن آف سوائل کا نعرہ دیا کہ فوج میں وہی بھرتی ہوں گے جو پاکستان کے اصل باشندے ہیں۔ کہاں گیا مذہبی جذبہ اور کہاں گیا عقیدہ کہ مسلم ایک قوم ہے ؟
جنّاح سیکولر تھے۔ کبھی پاکستان میں ہندو مسلم میں فرق نہیں سمجھا۔ اسمبلی کی ایک نشست میں انہوں نے ایک اچھوت جوگندر سنگھ منڈل کو صدر بنایا تھا۔ جگن ناتھ آزاد سے پاکستان کا قومی نغمہ لکھنے کی فرمائش کی تھی لیکن جنّاح کے بعد پاکستان کے رہنماؤں نے حفیظ جالندھری سے قومی نغمہ لکھوایا۔ پاکستان کو غیر سیکولر بنانے کی کوشش مسلم رہنماؤں کی ہے۔ مولانا مودودی نے جماعت اسلامی کی بنیاد ڈالی اور تب سے پاکستان میں نظام مصطفیٰ لانے کی کوشش جاری ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا ہمارے یہاں رام راجیہ کی استھاپنا کی بات ہوتی ہے۔
ایّوب خان مودودی سے متاثر نہیں تھے لیکن اہل شریعت کی طاقت کو محسوس کیا تھا۔ مہا جر اور اصل باشندے کی تفریق ایوب خان نے بھی کی لیکن یحییٰ خان نے تو حد کر دی۔ پوربی پاکستان کا کلچر الگ رہا ہے۔ پچھمی پاکستان کو پوربی پاکستان ایک آنکھ نہیں بھایا۔ ان کے مسائل ہمیشہ نظر انداز کیئے گئے۔ پوربی پاکستان میں بے اطمینانی بڑھتی گئی۔ یہاں تک کہ ایوب خان کو استعفیٰ دینا پڑا۔ وہ یحییٰ خان کو اقتدار سونپ کر کنارے ہو گئے۔ یحییٰ خان نے قیامت ڈھا دی۔ ڈھاکہ یونورسٹی کے دانشوروں کو گولیوں سے بھون دیا۔ فوجیوں نے کھلے عام بنگالی عورتوں کے ساتھ زنا با لجبر کیا۔ ہزاروں کی تعداد میں کنواری لڑکیاں حاملہ ہوئیں۔ پاکستان کی فوجی حکومت کا خود پاکستان کو دیا ہوا یہ ایسا داغ ہے جو کبھی نہیں مٹے گا۔ ظلم جب بہت بڑھ گئے تو بنگالیوں نے مکتی واہن قائم کیا اور پوربی پاکستان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ ایسے میں جو ہندوستان سے جنگ ہوئی تو پاکستانی فوج لڑنے کی ہمّت نہیں رکھتی تھی۔ وہ ریپ کر سکتی تھی لڑ نہیں سکتی تھی۔ وہ نہتّھے دانشوروں کو گولیوں سے بھون سکتی تھی لیکن سرحد پر فوج کا سامنا نہیں کر سکتی تھی۔ وہ پوری طرح بھرشٹ تھی۔ ۔ ۔ ۔ بز دل اور ناکارہ۔ ۔ ۔ ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان کی نوّے ہزار مسلّح فوج نے ھندوستان کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے۔
پاکستان کے سینے کا یہ ناسور مجھے کالی حسینہ کی آنکھوں میں رستا ہوا نظر آیا۔ وہ اس فوجی کی بیٹی تھی جو ہتھیار ڈالنے والوں میں شامل تھا اور اس وقت رام گڑھ کے فوجی کیمپ میں قید تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ بیٹی کی آنکھوں میں غصّہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ کافر کے آگے گھٹنے ٹیکتی مسلم فوج کی بے بسی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !
وہ تنک مزاج تھی۔ کسی سے سیدھے منھ بات نہیں کرتی تھی۔ یہاں تک کہ بچّوں سے بھی رکھائی سے پیش آتی تھی۔ مجھ سے کنارہ کرتی اور میں تھا کہ اس پر مرا جا رہا تھا۔ مجھے خود بھی حیرت تھی کہ آخر اس میں ایسا کیا ہے کہ دل کا چین چھن گیا ہے۔ اس کی سیاہ رنگت۔ ۔ ۔ ۔ سینے کی مخروطی اٹھانیں۔ ۔ ۔ ۔ سیاہ نگینے سے چمکتے مسّی لگے دانت۔ یا جامن جیسے رس دار دبیز ہونٹ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ میں نے اپنے آپ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ایک غلط قسم کی چاہت دل میں پال رہا ہوں۔ وہ شادی شدہ تھی اور میرے یہاں پناہ گزیں تھی۔ اس پر ڈورے ڈالنا اخلاقیات سے پرے تھا لیکن میں کیا کرتا ؟ اس چڑیل نے مجھ پر کچھ کر رکھا تھا اور میرا سکون چھن گیا گیا تھا۔
وہ مجھے گھاس نہیں ڈالتی تھی۔ میں اس سے باتیں کرنے کی کوشش کرتا لیکن وہ دور ہٹ جاتی اور میں دل مسوس کر رہ جاتا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ میرے حال دل سے واقف ہے۔ مجھے دیکھتے ہی لہرا کر چلتی۔ ۔ ۔ ۔ پاوں پر زور دے کر مٹک مٹک کر۔ ۔ ۔ ۔ اور پیچھے مڑ کر بھی دیکھتی اور مسکراتی بھی۔ ۔ ۔ ۔ میں ٹھنڈی آہیں بھر کر رہ جاتا۔
ایک دن میں نے اسے غسل کرتے ہوئے دیکھا۔ گھر میں کوئی نہیں تھا۔ وہ اندر غسل خانے میں تھی۔ میں نے کنڈی کے سوراخ سے اندر جھانکا۔ وہ ایک دم عریاں تھی اور اکڑوں بیٹھی غسل کر رہی تھی۔ لا الہ پڑھتے ہوئے اس نے مگ سے سر پر پانی اجھلا اور کھڑی ہو گئی اور میں سکتے میں آ گیا۔ اس کی پشت محراب کی طرح بل کھائی ہوئی تھی اور کولہے پیچھے کی طرف ابھرے ہوئے۔ ۔ ۔ ۔ میں نے صاف دیکھا پانی کا قطرہ پشت کی محراب پر رول گیا اور کولہے پر ٹھہر گیا۔ میں گھر سے بھاگ گیا اور بہت دیر بعد لوٹا۔ یہ منظر میرے دل و دماغ میں ثبت ہو گیا تھا۔ میں نے اپنی کہانی اونٹ میں سکینہ کے جسم کاجو بیان کیا ہے وہ اسی چڑیل کا جسم ہے۔
خدا شکّر خورے کو شکّر دیتا ہے۔ خدا نے شکّر کے کچھ دانے میری ہتھیلی پر رکھے۔ میں اپنی بڑی امّاں کا چہیتا تھا۔ وہ مجھ سے چھوٹے موٹے کام لیتی رہتی تھیں۔ مثلاً بکری کے لئے پتّے توڑ دو۔ ۔ ۔ ۔ مرغیوں کا ڈربہ کھول دو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چٹھیاں ڈال آو وغیرہ۔ ۔ ۔ ۔ ان کا یہ کام اب چڑیل کرتی تھی۔ لیکن بڑی امّاں آج کل فکر مند تھیں۔ انڈے نہیں اٹھ رہے تھے اور مرغیاں بھی کڑک نظر نہیں آ رہی تھیں۔ ایک دن ان کے پاس بیٹھا تھا۔ ایک مرغی کٹ کٹ کٹاس کرتی ہوئی ڈربے سے نکلی۔ وہ چڑیل کو ڈربہ جھانکنے کے لئے بو لیں۔ میں نے دیکھا اس نے انڈا ڈربے سے نکال کر آنچل میں چھپا لیا اور بڑی امّاں سے بولی کہ انڈا نہیں ہے اور کمرے میں چلی گئی۔ میں نے اس کی چوری صاف پکڑ لی تھی۔ میں اس کے پیچھے کمرے میں گیا اور اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
’’ چوری کرتی ہو۔ ‘‘
وہ گھبرا گئی۔
’’تمہیں شرم آنی چاہیئے۔ جہاں رہتی ہو وہاں چوری کرتی ہو۔ ‘‘
وہ پھر بھی چپ رہی۔ تب میں اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔
’’ مجھے اپنا دوست سمجھو۔ جس چیز کی ضرورت ہو مجھ سے کہو۔ میں لا کر دوں گا۔ ‘‘
اس نے اپنے کندھے سے میرا ہاتھ جھٹک دیا۔
’’ دوست۔ ۔ ؟ تم لوگ ہمارے دوست نہیں ہو سکتے۔ یہ دشمن ملک ہے۔ ‘‘ وہ مجھے نفرت سے گھورتی ہوئی بولی۔
میں دنگ رہ گیا۔ ۔ ۔ ۔
’’ تم ایک گندے آدمی ہو۔ تم مجھے بری نظر سے دیکھتے ہو۔ ‘‘
مجھے غصّہ آ گیا۔
’’ میں برا آدمی ہوں اور تم بڑی اچھی ہو۔ ۔ ۔ ۔ تم جو انڈے چراتی ہو۔ تمہیں شرم آنی چاہیئے۔ جس کا کھاتی ہو اسی کے ساتھ دغا کرتی ہو۔ ‘‘
اس کا چہرہ اور سیاہ ہو گیا۔
میں سب سے کہوں گا کہ تم چور ہو۔ تم نے انڈے چرائے۔ بڑی امّاں کے پیسے بھی غائب ہو رہے ہیں۔ وہ بھی تم چراتی ہو۔ ذرا سوچو سب کو معلوم ہو گا تو کیا حال ہو گا تمہارا۔ میرے والد پر کیا اثر پڑے گا اور تمہارا شوہر تو شرم سے گڑ جائے گا۔ تم کسی کو منھ دکھانے قابل نہیں رہو گی۔ ‘‘
وہ روہانسی ہو کر پلنگ پر بیٹھ گئی۔ میں اس کے پاس بیٹھ گیا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے بولا۔
’’ دیکھو۔ ۔ ۔ ۔ مجھے اپنا دوست سمجھو۔ میں ہر طرح سے تمہاری مدد کروں گا۔ ‘‘
وہ اپنا ہاتھ چھڑاتی ہوئی بولی۔ ’’ مجھے کسی کی مدد نہیں چاہیئے۔ میرا یہاں دم گھٹتا ہے۔ میں یہاں سے جانا چاہتی ہوں۔ ‘‘
’’ آخر تمہیں کیا تکلیف ہے ؟ ‘‘
’’ تکلیف۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘ اس نے مجھے گھور کر دیکھا۔ ’’ میرا باپ یہاں قید ہے اور میں تمہارے ٹکڑوں پر پل رہی ہوں۔ ‘‘
’’ اس طرح کیوں سوچتی ہو ؟ تم آ خر ہماری رشتے دار ہو۔ ‘‘
’’ معاف کرنا۔ ۔ ۔ ۔ میں تمہاری رشتے دار نہیں ہوں۔ تمہارا رشتے دار ہے میرا شوہر جو یہاں پیدا ہوا۔ وہ تم سے مل کر رہ سکتا ہے۔ میں کیوں رہوں ؟ میں یہاں کی نہیں ہوں۔ میں اسلام آ باد میں پیدا ہوئی۔ میں اصلی پاکستانی ہوں۔ میں کوئی مہاجر نہیں۔ ‘‘
’’ اصلی پاکستانی ہو اس لئے انڈے چراتی ہو۔ ؟ ‘‘ مجھے ہنسی آ گئی۔
اس نے میری طرف نفرت سے دیکھا۔ ’’ یہ مت سمجھو کہ پاکستان کمزور ہو گیا ہے۔ پاکستان بدلہ لے گا۔ ہم ہندوستان کو چور چور کر دیں گے۔ ‘‘
میں نے قہقہہ لگایا اور اس کی طرف ہوائی بوسہ اچھالا۔ وہ غصّے سے کانپنے لگی۔ اس کا چہرہ اور سیاہ ہو گیا۔ اور اس پل میں نے ایک عجیب سی کشش محسوس کی۔ اس کا سیاہ چہرہ جیسے ایک مقناطیس تھا۔ ۔ ۔ ۔ طیش میں پھڑ پھڑاتے اس کے جامنی ہونٹ۔ ۔ ۔ ۔ میں اس کی طرف کھنچ گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوراس کو اپنی بانہوں میں بھر لیا اور اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ ثبت کر دیئے۔ وہ کچھ دیر میری بازوؤں میں کسمساتی رہی پھر تڑپ کر مجھ سے الگ ہو گئی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس کا سارا بدن کانپ رہا تھا۔ وہ غصّے میں کچھ بول نہیں پا رہی تھی۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے کمرے سے نکل جانے کو کہا۔ لیکن میں جیسے ہی جانے کے لئے مڑا اس نے مجھ پر چاقو سے وار کیا۔ میں تلملا کر پیچھے مڑا۔ وہ چاقو لئے غصّے سے کانپ رہی تھی۔ میں جیسے سکتے میں تھا۔ میں نے اس کا تصّور بھی نہیں کیا تھا۔ مجھے اس سے بے پناہ نفرت کا احساس ہوا۔ میری پیٹھ چاقو کی نوک سے چھل گئی۔ میں نے تیکھے لہجے میں کہا۔
’’ اسی طرح پاکستان بدلہ لے گا۔ ۔ ۔ ۔ ؟ پیٹھ پر وار کر کے۔ ۔ ۔ ؟‘‘
میں اسے نفرت سے گھورتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔ اس دن کے بعد سے میں نے اس سے دوری بنائے رکھی۔ وہ کچھ دن ہمارے یہاں رہے پھر نیپال کے راستے کراچی چلے گئے۔
خنجر کا وہ نشان میری پیٹھ پر اب بھی موجود ہے۔ میں اب اس کے غصّے کو سمجھ سکتا ہوں۔ وہ مہاجر نہیں تھی۔ وہ اصلی پاکستانی تھی۔ اس کی فوج نے ہندوستان کے آگے گھٹنے ٹیکے تھے۔ یہ ایسی ذلّت ہے جو پاکستان قیامت تک اٹھائے گا اور بدلے کی آگ میں جلتا رہے گا۔ لیکن پاکستان سیدھا حملہ نہیں کر سکتا۔ اس لئے با لواسطہ زخم لگاتا رہے گا۔ پاکستان کی فوج چپکے چپکے دہشت گردوں کو ہندوستان بھیجتی رہے گی۔ یہ سلسہ ختم نہیں ہو گا۔ آنے والے دنوں میں پاکستان سے ایک جنگ یقینی ہے۔ لیکن دہشت گردی کی سازش میں مہاجر شامل نہیں ہیں۔ یہ فعل اورجنل پاکستانیوں کا ہے۔
پاکستان کے ادب پر اس شکست کا گہرا اثر پڑا ہے۔ انتظار حسین نے شہر افسوس اور دوسری کہانیاں لکھیں۔ تہذیب کے مسئلے نے سر اٹھایا کہ آخر پاکستان کی تہذیب کیا ہے۔ قدامت پسندوں نے یہ ماننے سے انکار کیا کہ اس کی جڑیں موہن جودڑو اور ہڑپّا میں پھیلی ہیں۔ اسلامی کلچر کو ہی پاکستان کا کلچر مانا گیا۔ قرّۃ العین حیدر تو بہت پہلے ہندوستان بھاگ آئیں لیکن فیض نے یہ کہہ کر دامن بچایا کہ تہذیب کی تلاش مذہب میں ہونی چاہیئے۔ حسن عسکری جیسے ترقّی پسندوں نے بھی اسلامی کلچر پر زور دیا۔ پاکستان کے ادبی رسائل کا پہلا ورق حمد و نعت کے لئے وقف ہے۔ پاکستان کے تانا شاہوں نے آرٹ ڈرامہ اور کلچر کو اچھی طرح پنپنے نہیں دیا اور ہر اس نظریے کو ردّ کرنے کی کوشش کی جس میں ہندوستانی تہذیب کی بو باس ہے۔ پھر بھی انتظار حسین اسد محمّد خان جمیلہ ہاشمی زاہدہ حنا گلزار جاوید اور دوسرے تخلیق کاروں کے یہاں ہندوستان سانس لیتا نظر آتا ہے۔
٭٭٭
[ 6 ]
میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ میرے اندر دو شخصیت ہے۔ ایک فکشن نگار دوسرا نجومی۔ میں نے ادھورا پہاڑ پر علم نجوم کا جو مطالعہ کیا تھا اسے عملی جامہ پہنانے کا وقت آ گیا تھا۔ میں نے بھاگلپور میں اپنے گھر پر ہی جیوتش کاریالیہ کا بورڈ لگا دیا اور آفس سے آنے کے بعد شام کو پیشہ ور نجومی کی حیثیت سے بیٹھنے لگا۔ میں نے بھٹّو کی پھانسی کی پیشن گوئی کی جو حرف بہ حرف صحیح نکلی اور میرا کار یا لیہ چل پڑا۔ پیشہ ور نجومی کی حیثیت سے میرے تجربات دلچسپ ہیں۔
ایک لڑکی ونیتا جھا کنڈلی دکھانے آئی۔ کنڈلی کے ساتویں خانے میں زہرہ عطارد اور راہو تھے جن پر قمر کی نظر تھی اور قمر پر زحل کی نظر تھی۔ وہ جاننا چاہتی تھی کہ اس کی شادی کسی غیر برا ہمن سے ممکن ہے یا نہیں۔ سالک کے سوال سے ہی نجومی کو نتائج اخذ کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ظاہر تھا کہ اس کا معاملہ کسی غیر ذات کے لڑکے سے چل رہا تھا اور وہ جاننا چاہتی تھی کہ رشتہ استوار ہونے کے ممکنات کیا ہیں۔ میں نے بر جستہ کہا کہ اس کی شادی کسی ملیچھ سے ممکن ہے۔ راہو ملیچھ ہے۔ ہندو کی کنڈلی میں راہو مسلمان کا رول ادا کرے گا اور مسلمان کی کنڈلی میں ہندو کی نمائندگی کرے گا۔
میرے نجومی دوست پرکاش سوریہ ونشی مجھ سے ملنے آئے۔ وہ ونیتا کو جانتے تھے۔ ان سے معلوم ہوا کہ ونیتا کی جان پہچان کسی مسلم لڑکے سے تھی جو پی۔ ڈبلو۔ ڈی۔ میں ٹھیکہ داری کرتا تھا لیکن معاملہ اتنی دور تک نہیں گیا تھا کہ وہ اس سے شادی کر لیتی۔ ایک دن وہ بینک میں پیسے جمع کرنے جا رہا تھا۔ اس نے اپنی زمین بیچی تھی اور اس وقت اس کے بیگ میں ایک لاکھ روپے تھے۔ راہ میں ونیتا سے ملاقات ہو گئی۔ اس نے ونیتا کے سامنے بیگ کھولا اور دوسرے پل بند کر دیا۔ ونیتا نے اس میں نوٹ ٹھونسے ہوئے دیکھے۔ دوسرے ہی دن اس نے شادی کی تجویز رکھی اور مسلمان ہو گئی۔ اس کی ساس نے اسے گوشت خور بنا دیا اس نے کباب لگانا بھی سیکھ لیا اور بازار سے گوشت بھی لانے لگی۔ وہ ایک سال تک گھٹتی رہی اور پھر مر گئی۔
ہندوستانی معاشرے میں اندھ وشواس اتنا گہرا ہے کہ اسے آسانی سے ختم نہیں کر سکتے۔ جیوتش ہندوستانی تہذیب کا حصّہ ہے۔
جیو تش کو وید کی آنکھ بتا یا گیا ہے۔ جنم سے لے کر مرن تک زند گی کی تمام سر گرمیاں گرہوں اور نچھتّر کی چال سے طے ہوتی ہیں۔ شادی تو بغیر مہورت کے طے ہو ہی نہیں سکتی۔ علم نجوم کے کچھ ویدک نظریات ایسے ہیں جسے سائنس نے محض صحیح ثابت کیا ہے۔ اس سے آگے کوئی نئی بات نہیں کر سکا۔ راہو اور کیتو کی تفصیلات بہت دلچسپ ہیں۔ سمندر منتھن کے واقعات پر غور کیجیئے۔ جب امرت باہر آیا تو ایک راکشس چپکے سے دیوتا کی صف میں شامل ہو گیا۔ چاند کی نظر پڑ گئی۔ اس نے وشنو سے چغلی کھائی کہ ہماری صف میں راکشس بھی چوری سے آ گیا ہے۔ بس وشنو نے چکر سے راکشس کے دو ٹکڑے کر دیئے۔ سر راہو ہوا اور دھڑ کیتو۔ تب سے راہو اور کیتو چاند کے دشمن ہوئے۔ چاند سے بدلہ لینے کے لئے الٹی سمت میں گھومتے رہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب راہو یا کیتو چاند کو لقمہ بناتا ہے تو گرہن لگتا ہے۔ اور سائنس اسے صحیح ثابت کرتا ہے۔
اصل میں راہو اور کیتو کوئی سیّارہ نہیں ہے۔ نظام شمسی میں یہ فرضی نقطہ ہے جسے چھایا گرہ کہتے ہیں۔ زمین سورج کے چاروں طرف گھومتی ہے اور چاند زمین کے گرد گھومتا ہے۔ ان کے مدار جہاں ایک دوسرے کو کاٹتے ہیں تو ایک نقطہ راہو ہے دوسرا کیتو۔ اسی لئے یہ ہمیشہ ایک دوسرے سے ایک سو اسّی ڈگری کے فاصلے پر رہتے ہیں۔ جب چاند اور زمین گردش کرتے ہوئے سورج کی ایک دم سیدھ میں ہوتے ہیں اور جس عشرے پر چاند ہوتا ہے ٹھیک اسی برج میں اتنے ہی عشرے پر راہو ہوتا ہے تو گرہن لگتا ہے یعنی دونوں کا ایک ہی برج میں ایک ہی عشرے پر ہونے کا مطلب دوسرے لفظوں میں لقمہ بنانا ہے۔
سائنس کی حد جہاں ختم ہوتی ہے علم نجوم کی حد وہاں سے شروع ہوتی ہے۔ نجومیوں نے ہزاروں سال قبل کہا کہ زحل یعنی شنی نظام شمسی میں سب سے دور واقع ہے اور بہت سست رفتار ہے۔ اس لئے اس کا نام شنی پڑا شنی جو شنئے شنئے یعنی دھیرے دھیرے چلتا ہے۔ سائنس نے اسے صحیح بتایا۔ سائنس نے اس کی پیمائش خارجی سطح پر کی یعنی اس کی جسامت کیا ہے۔ سائنس زحل کے جسم میں ہی الجھا رہا لیکن نجومی اس کی روح میں اترا۔ زحل کے رنگ و روپ اور مزاج کی بازیافت کی کہ زحل رنگت میں سیاہ ہے اور ہستی کا دکھ ہے اور موت کا استعارہ ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ہم کسی کی موت کا سوگ مناتے ہیں تو سیاہ رنگ کا استعمال کرتے ہیں۔ ماتمی لباس سیاہ ہوتا ہے۔ نجومیوں نے مہذّب انسان کو نہیں سکھایا کہ دکھ کا مظاہرہ سیاہ رنگ سے کرو۔ لیکن نسل انسانی نے جب موت کا سامنا کیا تو سیاہ رنگ سے مطابقت محسوس کی۔ ہر چیز اپنی جگہ ارتعاش کو جنم دیتی ہے۔ ڈارون کا اصول ارتقا صرف طبیعی نہیں ذہنی بھی ہے۔ ہزاروں سال سے زحل کی کرنیں انسانی ذہن کو متاثر کر رہی ہیں اور انسان کے ذہن نے موت کے تصوّر میں سیاہ رنگ سے ہم آہنگی محسوس کی اور سیاہ کو موت کی علامت سمجھنے پر مجبور ہوا۔ اسی طرح سفید رنگ امن و سلامتی کا ستارہ ہے۔ علم نجوم میں زہرہ کا رنگ سفید ہے اور اسے محبّت اور امن سے منسوب کیا گیا ہے۔ مہذّب انسان جب امن کی بات کرتا ہے تو سفید پرچم لہراتا ہے۔ نجومیوں نے نہیں کہا کہ تم امن کے لیئے سفید رنگ اپناو سالہا سال سے زہرہ کی کرنیں انسانی ذہن کو متاثر کر رہی ہیں اور وہ سفید رنگ کو امن کی علامت سمجھنے پر مجبور ہے۔ اب اگر زہرہ کو سبز رنگ سے منسوب کیا جاتا تو علم نجوم لغو اور مہمل علم ہوتا۔
میں نے پٹنہ میں بھی اپنا دفتر کھولا اور یہاں دلچسپ واقعات ہوئے۔
بنگلور سے ایک شخص مجھ سے ملنے آیا۔ میرے متعلّق اس نے دہلی میں کسی سے سن رکھا تھا۔ اس کا نام تھا کلیم ملّا۔ اس کی عجب کہانی تھی۔
وہ ممبئی میں اپنے ایک پارسی دوست کے یہاں رہتا تھا اور چھوٹی سی نوکری کرتا تھا۔ دوست کی بیوی اس پر عاشق ہو گئی۔ لیکن اس کو یہ گوارہ نہیں تھا کہ دوست کی بیوی سے تعلّقات استوار کرے۔ اس نے دامن بچانے کی کوشش کی تو اس عورت نے اس پر عملیات چلانا شروع کیا۔ اس نے دھمکی دی کہ اس پر شیطان چھوڑ دے گی کہ ساری زندگی پریشان رہے گا۔ اس درمیان اس کو دبئی میں نوکری ہو گئی تو اس نے ممبئی چھوڑ دیا۔ لیکن دبئی آ کر پریشان ہو گیا۔ اسے ہر وقت لگتا جیسے ایک سایہ سا اس کے ساتھ چل رہا ہے۔ کمرے میں درو دیوار پر بھی کالی چھایا سی رینگتی۔ وہ عورت اس کو محبّت بھرے خطوط بھی لکھتی تھی جس میں خون کے دھبّے ہوتے تھے۔
اس بار وہ چھٹّیوں میں بنگلور آیا تو اس کی ملاقات گیتا بھارگو سے ہوئی۔ اس نے گیتا سے کورٹ میرج کیا۔ لیکن اس کا سماج اس کو اسی وقت قبول کرتا جب وہ مسلمان ہو جاتی۔ گیتا نے جب بتایا کہ وہ مسلمان ہے اور اس کا نام عائشہ سلطان ہے تو اس کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔ گیتا سے معلوم ہوا کہ اس کی ماں بچپن میں فوت کر گئی تھی تو باپ نے اسے خالہ کو سونپ دیا۔ لیکن خالو بھی مر گیا تو خالہ نے کسی مسٹر بھارگو سے شادی کر لی۔ بھارگو صاحب نے اسے کورٹ سے گود لے لیا اور اس کا نام گیتا رکھ دیا۔ اس طرح وہ عائشہ سلطان سے گیتا بھارگو ہو گئی۔
گیتا نے یہ بھی بتایا کہ اس کا باپ محمّد سلطان ممبئی کے میرا روڈ میں ایک ریستوراں میں منیجر ہے۔ وہ اس بات کی تصدیق کے لئے گیتا کو لے کر میرا روڈ گیا۔ سلطان دونوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اس بات کی اس کو بے حد خوشی تھی کہ اس کی بیٹی کا ہاتھ کسی مسلمان نے تھاما ہے اور وہ ایک بار پھر سے مسلمان ہو گئی ہے۔ سلطان نے دونوں کا نکاح پڑھایا۔
اس نے عائشہ سلطان کے نام سے گیتا کا پاسپورٹ بنوایا اور یہ کہہ کر دبئی چلا گیا کہ وہاں سے اس کے ویزے کا انتظام کرے گا۔ سلطان سے اس نے کہا کہ جب تک عائشہ اس کے پاس بہ طور امانت رہے گی۔
ویزا مل جانے کے بعد بھی جب عائشہ دبئی نہیں پہنچی تو وہ ممبئی آیا۔ معلوم ہوا خالہ کے پاس کولکتہ چلی گئی ہے۔ وہ کولکتہ پہنچا تواس کے پاوں تلے سے زمین کھسک گئی۔ عائشہ گھر پر نہیں تھی۔ خالہ نے بتایا کہ اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ گھومنے گئی ہے اور دبئی نہیں جائے گی۔ کسی نے اس کو پانی تک کے لئے نہیں پوچھا۔ وہ چپ چاپ باہر دروازے پر بیٹھا اس کا انتظار کرتا رہا۔ عائشہ جب گھر لوٹی تو اس کو دیکھ کر خوش نہیں ہوئی اور اندر کمرے میں چلی گئی۔ خالہ نے اس کو عائشہ سے ملنے نہیں دیا۔ اس نے جب غصّے سے کہا کہ وہ طلّاق دے دے گا تو خالہ ہنسنے لگی۔ خالہ نے کہا کہ اسے دو بار طلّاق دینا ہو گا کہ اس نے دو بار شادی کی ہے اور وہ طلّاق نامے پر دستخط بھی نہیں کرے گی۔ اور اگر وہ چاہتا ہے کہ گیتا طلّاق نامے پر دستخط کرے تو اسے پانچ لاکھ کی رقم دینی ہو گی۔
گھبرا کر وہ میرے پاس آیا تھا کہ میں کوئی ایسا عمل کروں کہ عائشہ سے ہمیشہ کے لئے چھٹکارا مل جائے۔ میں نے کہا پہلے وہ شیطان جلاؤں گا جو دوست کی بیوی نے اس پر چھوڑ رکھا ہے۔ ۔ در اصل اس پر نفسیاتی اثر ڈالنا ضروری تھا ورنہ اس کا الیوژن دور نہیں ہوتا۔
میں نے نیلے رنگ کا آدھا میٹر کپڑہ منگوایا۔ اور اس پر لال روشنائی سے وہ آیت لکھی جو جن کو جلانے میں عمل میں آتی ہے۔ اور تب اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بھاری آواز میں بولا۔
’’ دیکھو۔ ۔ ۔ ۔ میں یہ کپڑا جلاؤں گا۔ ۔ ۔ ۔ جیسے جیسے کپڑا جلے گا شیطان جلے گا۔ ‘‘
میں نے کپڑے کو آگ دکھائی۔
وہ سہر اٹھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں اسے غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس پر کپکپی طاری ہو گئی۔
میں نے اسے بازوؤں میں کس لیا۔
’’ ڈرو نہیں۔ ۔ ۔ ۔ شیطان جل رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ تم محفوظ ہو۔ ۔ ۔ ۔ شیطان جل رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ! ‘‘
کپڑا پوری طرح جل گیا تو میں اس سے الگ ہوا اور ایک بار پھر اس کی آنکھوں میں گھورتا ہوا بولا۔
’’ شیطان جل گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ناو یو آر سیف۔ ۔ ۔ ۔ ! ‘‘
’’ مجھے کمزوری لگ رہی ہے۔ ‘‘ وہ اسی طرح کانپتے ہوئے بولا۔
’’ لیٹ جاؤ۔ ‘‘ میں نے اسے لٹا دیا۔
اس نے آنکھیں بند کر لیں۔
کچھ دیر وہ بستر پر آنکھیں بند کیئے پڑا رہا۔ اس کی کپکپی رکی تو اس نے آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا اور اٹھ کر بیٹھ گیا۔
’’ سر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آئی ایم فیلینگ بیٹر ناو۔ ‘‘
’’ گڈ۔ ۔ ۔ ۔ اب کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
پھر یہ کہتے ہوئے میں نے اس سے وداع لی کہ کل آؤں گا تو اس عورت سے چھٹکارہ دلاؤں گا۔ ۔ ۔ اب وہ آرام کرے۔
دوسرے دن ایک کورا کاغذ لے کر میں اس کے ہوٹل آیا اور اس سے مخاطب ہوا۔
’’ دیکھو۔ ۔ ۔ یہ کاغذ منتر سے چارج کیا ہوا ہے۔ اسے دیکھتے ہی وہ تمہارا پیچھا چھوڑ دے گی۔ ۔ ۔ ۔ لیکن اس کاغذ پر تمہیں اپنے ہاتھ سے وہ لکھنا ہے جو میں تمہیں بتاؤں گا۔ ‘‘
وہ حیرت سے کاغذ الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔
میں نے کہا۔ ’’ تم اپنے شہر کے اس۔ پی۔ کے نام عرضی لکھو گے۔ تم لکھو گے کہ تم نے گیتا بھارگو نامی لڑکی سے شادی کی لیکن وہ پاکستانی ایجنٹ ہے۔ اس کا دوسرا نام عائشہ سلطان ہے اور اس نے دو نام سے پاسپورٹ بنا رکھے ہیں۔ میری جان کو اس سے خطرہ ہے۔ برائے مہربانی میری حفاظت کی جائے۔ میں اسے طلّاق دینا چاہتا ہوں لیکن وہ طلّاق نامے پر دستخط نہیں کرتی ہے اور مجھے بلیک میل کرتی ہے۔ ‘‘
وہ خوش خوش چلا گیا۔ پندرہ دنوں بعد دبئی سے اس کا فون آیا کہ اس عورت سے ہمیشہ کے لئے چھٹکارہ مل گیا ہے۔ وہ کاغذ دیکھتے ہی ڈر گئی اور طلّاق نامے پر دستخط کر دیئے۔
ایک اور دلچسپ واقعہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !
ایک عورت کنڈلی دکھانے آئی۔ عورت خوب صورت تھی۔ بال بوائے کٹ تھے۔ ہونٹوں پر لپ اسٹک کی گہری تہیں۔ ۔ ۔ ۔ عمر چالیس پینتالیس کے قریب رہی ہو گی۔ اس نے اپنی کنڈلی میرے سامنے رکھ دی۔
’’ کیا مسئلہ ہے آپ کا ؟ ‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ یہ تو آپ بتائیں گے ‘‘ وہ مسکرائی۔
میں بھی مسکرایا اور ایک نظر کنڈلی پر ڈالی۔ وہ ورشچک لگن کی تھی۔ ساتویں خانے میں راہو زہرہ اور زحل کا اتصال تھا اور قمر زہرہ کے نچھتّر میں تھا۔
’’ آپ اپنے بارے میں سچ سننا چاہتی ہیں ؟ ‘‘ میں اس کی آنکھوں میں دیکھتےہوئے بولا ۔
’’ سچ ہی سننے تو آئی ہوں۔ ‘‘
’’ آپ کے تعلّقات ایک غیر مرد سے ہوں گے جو آپ کے تردّد کا سبب ہو گا۔ ‘‘
وہ ذرا بھی نہیں چونکی۔ بہت اطمینان بھرے لہجے میں اس نے پوچھا۔
’’ کیا آگے تعلّقات بنے رہیں گے ؟ ‘‘
’’ اس کے لئے نوانش چکر دیکھنا ہو گا اور ڈیکان کے آنکڑے کی ضرورت ہو گی جو اس کنڈلی میں نہیں ہے۔ ‘‘
اس نے ہزار کے نوٹ میرے سامنے رکھ دیئے۔
’’آپ تفصیل سے میرا زائچہ کھینچیں اور مجھے بتلائیں۔ میں کل آ ؤں گی۔ ‘‘
اس کے جانے کے فوراً بعد میرے ایک دوست آئے۔ ان کی دلچسپی بھی علم نجوم میں ہے۔ انہوں نے اس عورت کو میرے آفس سے نکلتے دیکھا تھا۔ پوچھا کس لئے آئی تھی تو میں نے جواب دیا کہ لوگ کس لئے آتے ہیں۔ تب میرے دوست نے اس عورت سے متعلّق دلچسپ باتیں بتائیں۔
’’ میں اسے جانتا ہوں۔ یہ بورنگ روڈ میں رہتی ہے۔ میں اس کے مکان میں کرایہ دار تھا۔ اس کا ایک عاشق تھا جو اس سے چھپ کر ملنے آتا تھا۔ وہ جب بھی آتا چہرہ اخبار سے ڈھک لیتا اور چپکے سے گھر میں گھس جاتا۔ ‘‘
’’ بس۔ ۔ ۔ ۔ بس۔ ۔ ۔ بس۔ ۔ ۔ میں سمجھ گیا۔ کہ اس محبّت کا انجام کیا ہے ؟ اب کنڈلی دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ عاشق ڈرپوک تھا۔ جو منھ چھپا کر محبوبہ سے ملنے جاتا ہو اور چور کی طرح گھر میں گھستا ہو وہ عشق میں کہاں تک ساتھ نبھائے گا۔
میرے دوست نے مزید بتایا کہ اس کا خاوند بینکر ہے۔ گل چھرّے اڑانے کے لئے اس نے شوہر کا تبادلہ کولکتہ کرا دیا اور سات سال کے بیٹے کو بورڈنگ میں بھیج دیا۔ ایک بار شوہر کولکتہ سے اچانک رات دس بجے گھر پہنچ گیا اس عورت نے عاشق کو بیک ڈور سے میرے دوست کے آنگن سے ہو کر باہر نکالا۔ ایک بار جب دونوں کمرے میں بند تھے تو بیٹے نے دروازہ کھٹکھٹایا کہ بھوک لگی ہے۔ عورت نے دروازہ کھولا اور بیٹے کو ایک زور کی لات ماری۔ بیٹا سیڑھیوں سے لڑھکتا ہوا نیچے گرا اور پیٹ پکڑ کر چیخنے لگا۔ ۔ ۔ رنڈی۔ ۔ ۔ ۔ کتیا۔ ۔ ۔ ۔ !
اس کا بیٹا اپنی ماں کو کتیا ہی کہا کرتا تھا۔
جب میرے دوست نے عاشق کا نام بتایا تو میں دنگ رہ گیا۔ ۔ ۔ ۔ وہ میرا قریبی رشتے دار تھا۔
دوسرے دن وہ آئی تو میں نے اس سے کہا۔ ’’ پریمی تو آپ کو چھوڑ چکا۔ اب آپ اس کو بھول جایئے۔ ‘‘
وہ رو پڑی۔ ’’ کیسے بھول جاؤں ؟ اس کے لئے میں نے ہسبنڈ کو نکالا بیٹے کو نکالا۔ ۔ ۔ اور اب چڑیل کی طرح اتنے بڑے گھر میں اکیلی رہتی ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ! ‘‘
’’ دیکھیئے میڈم۔ آدمی کی ترجیحات وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔ اس کا بھی گھر بار ہو گا۔ بچّے بڑے ہو گئے ہوں گے۔ بیٹی کی شادی کا مسئلہ ہو گا۔ اب آپ کے ساتھ وہ زندگی نہیں گذار سکتا۔ اگر بدنامی ہو گئی تو اس کے بچّوں کی کہیں شادی نہیں ہو گی۔ وہ کبھی سیٹل نہیں ہو سکیں گے۔ ان باتوں کو لے کر وہ اب آپ سے کبھی ملنا نہیں چاہے گا۔ ‘‘
’’ تو اب میں کہاں جاؤں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ کیا کروں۔ ۔ ۔ ۔ ؟ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
’’ آپ اپنے ہسبنڈ کے پاس واپس چلی جایئے۔ بیٹے کو بھی بلا لیجیئے اور ایک نئی زندگی شروع کیجیئے۔ زندگی اسی کا نام ہے۔ ‘‘
’’ میں اس کا قتل کیوں نہ کر دوں ؟ ‘‘ اچا نک اس کا لہجہ بدل گیا۔
میں مسکرایا۔ ’’ محبّت رسوا ہو گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ نے محبّت کی ہے تو اس کو رسوا نہیں کیجیئے۔ ‘‘
مجھے نہیں معلوم اس کا کیا حشر ہوا۔ میرے رشتے دار اب بیمار رہتے ہیں۔ ان کے سب بچّوں کی شادی ہو چکی ہے۔ سب اپنی جگہ بس چکے ہیں۔
میں جب جہان آباد میں تھا تو میری شہرت ایک تانترک کی تھی۔ ان دنوں میں ایکز کیوٹو انجنیئر کے عہدے پر فائز تھا۔ محکمہ جنگلات نے مخدوم پور میں ایک ریسٹ ہاوس کی تعمیر کی تھی۔ اس میں پانی کا نظم کلکٹر نے اپنے طور پر کیا تھا۔ ایک ٹیوب ویل لگا کر پمپ لگایا گیا اور ٹیوب ویل کو پائپ کے ذریعہ ریسٹ ہاوس سے جوڑا گیا۔ لیکن پانی پہنچ نہیں سکا۔ اس ریسٹ ہاوس کا افتتاح مکھ منتری کو کرنا تھا۔ کلکٹر نے مجھے فون کیا کہ میں ریسٹ ہاوس کا معائنہ کروں کہ پانی کیوں نہیں فراہم ہو سکا۔ میں صبح صبح کارندوں کے ساتھ سائٹ پر پہنچا۔ پائپ غلط ڈھنگ سے بچھایا گیا تھا۔ میں پائپ کھلوا کر صحیح طریقے سے نٹ ورک بچھانے لگا۔ اتنے میں مکھ منتری کا ہیلی کاپٹر آ گیا۔ ان دنوں جناب لالو پرساد بہار کے وزیر اعلیٰ ہوا کرتے تھے۔ لالو جی ہیلی کاپٹر سے اتر کر سیدھا ریسٹ ہاوس گئے اور باتھ روم میں گھس گئے۔ وہ باتھ روم میں بیٹھ تو گئے لیکن نل کھولتے ہیں تو ایک بوند پانی نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ! لالو جی اس حالت میں نہیں تھے کہ باتھ روم سے باہر نکل سکتے۔ وہیں سے چلّائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پانی لاؤ۔ ۔ ۔ ۔ پانی لاؤ۔ ۔ ۔ ۔ ! عملے نے دوڑ کر دو بالٹی پانی پہنچایا اور ادھر نیتا مجھ پر ٹوٹ پڑے۔
آپ ہی ہیں ایکز کیو ٹو انجنیئر۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘
’’ ان پر اف۔ آئی۔ آر۔ کرو۔ ۔ ۔ ۔ ‘
’’ مکھ منتری کو پانی نہیں ملا تو یہ جنتا کو کیا پانی دیں گے ؟ ‘‘
’’ یہ ہے کون۔ ۔ ۔ ۔ ؟ اس کے بال تو دیکھو۔ ‘‘
’’ تانترک ہے۔ ۔ ۔ اپنے کو جیوتشی کہتا ہے۔ ‘‘
’’ سب تنتر ان میں گھس جائے گا۔ ‘‘ ان کو ہتھکڑی لگاؤ۔ ‘‘
ہر طرف سے یلغار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نرغے میں کافروں کے اکیلا حسین تھا۔
مکھ منتری کا محافظ آیا۔ ’’ آپ کو سی ایم بلا رہے ہیں۔ ‘‘۔
’’ گیا کام سے۔ ۔ ۔ ۔ اب کون بچائے گا۔ ؟‘‘
’’ سی ایم کا پاوں پکڑ لیجیئے گا تو بچ جایئے گا۔ ‘‘ ایک چاپلوس نے دانت کھسوڑتے ہوئے کہا تو مجھے غصّہ آ گیا۔
’’ کیوں۔ ۔ ۔ ؟ میں کیوں پاوں پکڑوں۔ ۔ ۔ ۔ ؟ قصور میرا نہیں ہے۔ یہ کام کلکٹر نے اپنے طور پر کرایا ہے تو نقص پیدا ہو گیا۔
مجھے آج ٹھیک کرنے کے لئے کہا گیا تو میں آیا ہوں۔ ‘‘
’’ چلئے۔ ۔ ۔ چلئے۔ ۔ ۔ !‘‘ محافظ نے اشارہ کیا۔
میں نے اوپر والے کو یاد کیا۔ ۔ ۔ ۔ یا اللہ۔ ۔ ۔ ۔ تیرے حوالے۔ ۔ ۔ ۔ ! ‘‘
اور جیسے کسی نے سرگوشیوں میں کہا۔ ’’ ابھی مائی [ مسلم +یادو ] کا سمی کرن ہے۔ سی ایم کو بتاؤ کہ تم مسلمان ہو۔ ‘‘
مجھ میں طاقت آ گئی۔ میں بے خوف لالو جی کے کمرے میں دا خل ہوا۔ ان پر نظر پڑتے ہی خاص انداز میں آداب کہا کہ وہ مجھے میرے کلچر سے پہچانیں اور پھر ان کو اپنا نام بتایا۔ ’’ سر۔ ۔ ۔ مجھے شموئل احمد خان کہتے ہیں۔ پمپ میں تھوڑا سا فاولٹ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ابھی ٹھیک کرتا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دو منٹ میں پانی ملے گا۔ ‘‘
لالو جی سمجھ گئے میں کیا کہہ رہا ہوں۔ انہوں نے ایک ہاتھ کو موڑ کر چاپڑ سا بنایا اور ہاتھ کو اس طرح لہرایا جیسے گردن کاٹ لیں گے۔
’’ تم ہمیں کو پانی نہیں دو گے۔ ۔ ۔ ۔ ہمیں کو۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘ اور میں جیسے خوشی سے اچھل پڑا۔ یہ بات وزیر اعلیٰ کسی ایکز کیوٹو سے نہیں کہہ رہا تھا۔ یہ بات ایک سیاست داں اپنے ووٹر سے کہہ رہا تھا کہ تمہاری گردن تو رام رتھ کے نیچے کچلی جاتی۔ ہم نے تمہیں بچایا اور تم ہمیں کو ووٹ [ پانی ] نہیں دو گے۔ ۔ ۔ ؟‘‘
میرے منھ سے برجستہ نکلا۔ ’’ سر۔ ۔ ۔ پانی۔ ۔ ۔ ۔ ؟ پانی کیا چیز ہے۔ ۔ ۔ ؟ آپ خون مانگیئے۔ ۔ ۔ ہم آپ کو خون دیں گے۔ ‘‘
لالو جی چونک پڑے۔ پھر زور کا قہقہہ لگایا۔ ’’ یہ تو سیانا ہے مردے۔ ۔ ۔ ۔ !‘‘
لالو جی نے میری پیٹھ ٹھو نکی اور کہا۔
’’ آج دونوں بھائی یہاں رہیں گے تم جاؤ۔ ۔ ۔ کام کرو۔ ۔ ۔ ! ‘‘
میں چیتے کی چال چلتا ہوا لالو جی کے کمرے سے باہر نکلا۔ سبھی حیران تھے کہ میں نے ایسا کون سا منتر پڑھا کہ لالو جی نے قہقہہ لگایا اور پیٹھ ٹھو نکی۔ ’’ یہ سچ میں تانترک ہے۔ ‘‘ کسی نے کہا۔
جو مجھ پر ایف آئی۔ آر۔ کر رہے تھے میرے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو گئے۔ میں نے سینہ تان کر کہا۔
آپ سب لوگ یہاں سے دفع ہوں اور مجھے کام کرنے دیں اور سن لیجیئے تانترک سے کبھی الجھنے کی کوشش نہیں کیجیئے گا نہیں تو نقصان ہو گا۔ ‘‘
میں جہان آباد میں تانترک مشہور ہو گیا۔ اس دن سے کسی نیتا نے مجھے پریشان نہیں کیا بلکہ مجھ سے صلاح لینے کے لئے آنے لگے۔ کسی کا بیٹا بیمار۔ ۔ ۔ ۔ کسی کو اولاد نہیں۔ ۔ ۔ ۔ کسی کو جائداد کا جھگڑا۔ ۔ ۔ ۔ میں سب کو جنتر بنا کر دیتا اور پیسے لیتا۔
جب تک بیوقوف زندہ ہے عقلمند بھوک نہیں مر سکتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !
٭٭٭
[ 7 ]
چار سال بعد میرا تبادلہ بھاگلپور سے سیتا مڑھی ہو گیا۔ ادھورا میں مجھے بھرشٹا چار کی پہلی خوراک ملی تھی سیتا مڑھی میں ڈبل ڈوز ملا۔ یہاں ایک مرغی کئی بار حلال ہوتی تھی۔ اسٹور کی مرغیاں تو سونے کے انڈے دیتی تھیں۔ میں نے ۱۷ مارچ کو سب ڈویژن کا چارج سنبھالا تھا۔ میرے ایکز کیو ٹو انجنیئر کلام صاحب تھے۔ میں خوش ہوا کہ ایکز کیوٹو اپنی قوم ہے۔ ان سے ملنے گیا تو مجھے دیکھ کر مسکرائے۔
’’ آپ دیر سے آئے۔ ‘‘
’’دیر آید درست آید ‘‘ میں بھی مسکرایا۔
’ دیر آئد نمی آید بھی ہوتا ہے۔ ‘ ان کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔ میں چپ رہا۔
’ بسنت تو بیت رہا خان صاحب۔ ۔ ۔ ۔ صرف تیرہ دن رہ گئے چلئے۔ ۔ ۔ بھاگتے بھوت کی لنگوٹی ہی سہی۔ ‘
ان کی بات میری سمجھ میں نہیں آ رہی تھی اس لئے میرا خاموش رہنا بہتر تھا۔ وہ بھی کچھ دیر چپ رہے۔ پھر مجھے گھور کر دیکھا اور اسی طرح مسکراتے ہوئے بولے۔
’ آپ نے سمجھ لیا کیا کیا پینڈ نگ کام ہے ؟ ‘
’ جی۔ ۔ ۔ !‘ میں نے مختصر سا جواب دیا۔
’ کتنا پیسہ چاہیئے۔ ۔ ۔ ؟ ‘
دفتر کی کچھ کرسیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ کچھ اسٹیشنری کی بھی ضرورت تھی۔ میں نے پانچ ہزار کی رقم کے لئے عرضی دی۔
قوم ہنسنے لگی۔ میں نے سبکی سی محسوس کی۔ شاید میں زیادہ مانگ بیٹھا تھا۔ اگر کرسیاں ٹوٹی تھیں تو ایک آدھ ہزار میں بن جاتیں اور کاغذ وغیرہ کے لئے بھی ایک ہزار کافی تھا۔
کلام صاحب نے چشمہ اتارا۔ سگریٹ سلگائی۔ دو چار لمبے کش لئے۔ ایک بار مجھے گھور کر دیکھا اور بولے۔
’ میک اٹ ففٹی تھاؤزنڈ۔ ۔ ۔ ۔ ! ‘
’ جی۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ‘ مجھے عجیب لگا۔
’ آپ نے ابھی تک اپنے کام کا محاسبہ نہیں کیا ہے۔ آپ اپنے علاقے میں جا کر دیکھیئے کیا کیا کام ہو گیا ہے جس کی پے منٹ باقی ہے۔ اور کیا کیا کام ہو گا جس کا پے منٹ کرنا ہے۔ ‘
میں اٹھ کر جانے لگا تو روک کر کہنے لگے۔ ’ ابھی آپ پچاس ہزار لے جایئے۔ دو دن بعد پھر ملئے اور نئی عرضی دیجیئے۔ ‘
میں ایکز کیو ٹو کے چیمبر سے باہر نکلا۔ مجھے جونیئر انجنیئر نے سمجھایا کہ یہاں چاندی کی لہلہاتی فصلیں ہیں۔ ۔ ۔ کچھ تو کٹ گئیں پھر بھی جو باقی ہیں انہیں کاٹ لیجیئے۔ مارچ کے تیرہ دن باقی ہیں۔ ‘
شمالی بہار میں چاپا نل یعنی ہینڈ ٹیوب ویل ہی پانی پینے کا خاص ذریعہ ہے۔ گاؤں میں پائپ جلا پورتی یوجنا ہر جگہ بیمار تھی۔ بجلی نہیں رہنے سے پمپ نہیں چلتے تھے اور کہیں نلوں میں پانی دستیاب نہیں تھا۔ سارا زور چاپا نلوں پر ہی تھا۔ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں یہ نل لگائے جاتے اور ہر سال پرانے نلوں کی مرمّت ہوتی۔ ۔ محکمے کے انجینئر کو اختیار نہیں تھا کہ اپنی مرضی سے کہیں نل لگا سکیں۔ ایم۔ ال۔ اے۔ فیصلہ کرتے تھے کہ نل کہاں لگے گا۔ ایم۔ ال۔ اے۔ اسی گاؤں کا انتخاب کرتے تھے جہاں ان کو ووٹ ملتا تھا۔ ایسے سینکڑوں گاؤں تھے جہاں چاپا نل نہیں لگ سکے تھے اور پانی پینے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ ۔ انہیں دور دور سے پانی ڈھو کر لانا پڑتا تھا یا پھر گاؤں کے پوکھر اور تالاب پر منحصر کرتے تھے۔
میرے جونیئر انجنیئر نے مجھے ال بائی تھری کا مشورہ دیا۔ یعنی لوٹ میں تین آدمیوں کا برابر کا حصّہ۔ ۔ ۔ ۔ جونیئر انجنیئر۔ ۔ ۔ ۔ اسٹنٹ انجنیئر۔ ۔ ۔ ۔ ایکز کیوٹو انجنیئر۔ ۔ ۔ ۔ !
اصل میں ایسے چاپا نل جن کی جالی کچھ دنوں میں بند ہو جاتی تھی بے کار ہو جاتے تھے۔ انہیں اکھاڑ کر نئی جالی کے ساتھ دوسری جگہ نئے ڈھنگ سے گاڑنا پڑتا تھا شیو ہر پر کھنڈ کے جونیئر انجنیئر نے مجھے بند نلوں کی جو فہرست دکھائی اس میں سو نل ایسے تھے جو چالو تھے لیکن بند نلوں کی فہرست میں درج تھے۔ جونیئر انجنیئر چاہتے تھے ان کی مرمّت کا جعلی بل بنائے۔ ایک نل کی مرمّت میں پانچ ہزار کا خرچ تھا۔ سو کی مرمّت کا خرچ پانچ لاکھ۔ پانچ لاکھ کا ال بائی تھری۔ ۔ ۔ یعنی ایک آدمی کے حصّے میں کم سے کم ایک لاکھ اسّی ہزار ! اور ایسے ایسے آٹھ پر کھنڈ تھے گویا اٹھ سو چاپا نلوں کا فرضی بھگتان۔ ۔ ۔ ۔ مارچ لوٹ میں ایک آدمی کے حصّے میں بارہ لاکھ اسّی ہزار۔
میری روح کانپ گئی۔ مجھے لال گھر نظر آنے لگا۔ سیدھا جیل۔ ۔ ۔ ۔ ! میں نے تجویز ردّ کر دی۔ لیکن چاندی کی لہلہاتی ہوئی فصل تھی۔
ایکز کیو ٹو نے راستہ نکالا۔ طے ہوا کہ جونیئر انجنیئر بل سیدھا ایکز کیو ٹو کو دیں گے۔ میرا کوئی رول نہیں ہو گا۔ میں دستخط بھی نہیں کروں گا۔ یعنی ال بائی ٹو۔ ۔ ۔ ۔ !آ ڈٹ ابجیکشن ہو گا تو ایکز کیوٹو سمبھا لیں گے اور پیسہ منتری کو بھی دیا جائے گا۔
میں نے ’ مہا ماری ‘ میں لکھا ہے کہ سرکاری دفتروں کا نظام سماج وادی ہے۔ منتری سے لے کر چپراسی تک سبھی ایک ہی ڈور سے بندھے ہیں جس کی کھنک نقرئی ہے۔ یہ کھنک بالترتیب سب کے حصّے میں آتی ہے۔ اگر فرق پڑتا ہے تو بندھن ٹوٹنے لگتے ہیں۔ الزام تراشی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ تھانے میں رپورٹ درج کرانے کی نوبت آتی ہے۔
سو پر ٹینڈنگ انجنیئر تھے گوہا صاحب۔ انہیں جب نیپال کے بازار سے کچھ خریدنا ہوتا تو سیتا مڑھی آتے۔ وہ ساکچھات لکشمی تھے۔ وہ آتے تو فصلیں لہلہانے لگتیں۔ بر گنیہ نیپال کی سرحد پر تھا جو سیتا مڑھی سے پچیس کیلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ کسی جو نیئر انجنیئر کو ساتھ لیتے اور گوڑ یعنی نیپال کے بازار پہنچ جاتے۔ وہ کچھ بھی لیتے درجنوں میں لیتے۔ ایک درجن نیل کٹر۔ ۔ ۔ ۔ دو درجن بلینک کیسیٹ۔ ایک درجن ٹارچ چار ٹیبل لیمپ۔ ۔ ۔ ۔ دو درجن اسٹیل کی پلیٹ۔ ۔ ۔ ۔ کی رنگ۔ ۔ ۔ فوٹو فریم۔ ۔ ۔ ۔ کاس میٹکس کے لوازمات۔ ۔ ۔ ۔ دس ہزار تک کی خرید ہو جاتی تو جونیئر انجنیئر سے پو چھتے ’’ پیسہ گھٹ تو نہیں رہا۔ ۔ ۔ ۔ ؟میں دوں۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘
خریداری کے بعد واپس مظفّرپور جاتے تو دس لاکھ کا سپلائی آرڈر ضرور کرتے تھے۔ سبھی نہال ہو جاتے۔ سپلائی سونے کی مرغی ہے۔ اس میں سب کا کمیشن تھا ان کا آنا کسی کو گراں نہیں گذرتا تھا۔ وہ آتے تو بہار آ تی تھی۔
گوہا صاحب حساب کے بہت پکّے تھے۔ کوئی بیس روپیہ بھی کم دیتا تو ڈائری میں نوٹ کر لیتے اور اگلی ملاقات میں فائل پر آرڈر کرنے سے پہلے یاد دلاتے۔ ایک بار سیتا مڑھی کا اردلی کچھ ڈاک لے کر ان کے دفتر گیا۔ وہ پردے کے پیچھے سے جھانکنے لگا۔ کوئی ٹھیکہ دار اندر بیٹھا نوٹ گن رہا تھا۔ پھر اس نے گڈّی گوہا صاحب کو دی۔ گوہا صاحب نے فائل پر دستخط کیئے۔ ٹھیکہ دار باہر آیا تو دوسرا گیا۔ اس نے بھی نوٹوں کی گڈّی دی اور باہر آ گیا۔ ۔ ۔ ۔ پھر تیسرا گیا۔ ۔ ۔ ۔ پھر چوتھا۔ ۔ ۔ ۔ پانچواں۔ ۔ ۔ ۔ ! اردلی نے اتنے پیسے کبھی دیکھے نہیں تھے۔ وہ بے ہوش ہو گیا۔
گوہا صاحب کا بہار میں کوئی بینک اکا ونٹ نہیں تھا۔ میڈم گوہا نے کلکتہ میں بہت سے بے نامی اکاونٹ کھول رکھے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بملا چٹرجی۔ ۔ ۔ ۔ کملا مکھر جی ارپنا گھوش۔ ۔ ۔ ۔ پیسہ انہیں اکاو نٹ میں جمع ہوتے۔ پیسے بھیجنے کا طریقہ بھی انوکھا تھا۔ میڈم گوہا کبھی فرسٹ کلاس میں سفر نہیں کرتی تھیں۔ وہ جنرل بوگی میں سبزی کی بوریاں لے کر بیٹھتی تھیں جن میں نوٹ ٹھونسے ہوئے ہوتے تھے۔ اوپر سے آلو پرول رکھ کر بورا سیل کر دیا جاتا تھا۔ جو سامان وہ درجنوں کی تعداد میں لے جاتے تھے میڈم گوہا چینا مارکیٹ میں بیچ دیتی تھیں۔
ایک دن اچانک میڈم گوہا کو بخار چڑھا اور دوسرے دن جنّت سدھار گئیں۔ گوہا صاحب کو خبر ملی تو بے ہوش ہو گئے۔
سارا پیسہ تو بے نامی اکا ونٹ میں تھا جو گوہا صاحب حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ صدمے سے برین ہیمرج ہو گیا۔ جسم کے ایک طرف لقوہ مار گیا۔ وہ بچ تو گئے لیکن ٹھیک سے کھڑے نہیں ہو سکتے تھے۔ ایک آدمی کا سہارا لے کر لکڑی ٹیک کر چلتے۔
کلام صاحب کا تبادلہ ہو گیا تو رمیش یادو ان کی جگہ آئے۔ آپ بھی ماہر کھلاڑی تھے اور گوہا صاحب کے نقش قدم پر چلتے تھے۔ چاپا نلوں کی مرمّت کے لئے جس جو نیئر انجنیئر کو پیسے اڈوانس دیتے اسے پکڑ کر بازار سمیتی لے جاتے۔ ان کی خریداری تھی ایک من چاول ایک من پیاز چار پسیری آلو بیس کیلو چنا چوڑا تیل۔ ۔ ۔ ۔ ایک بار رمیش پر ساد ان کے پلّے پڑ گیا۔ رمیش کچھ زیادہ ہی اسمارٹ تھا۔ کچھ دیر ساتھ رہا پھر چپکے سے کھسک گیا اور ایک درخت پر چڑھ گیا۔ یادو جی نے باہر نکل کر اس کو بہت ڈھونڈا لیکن وہ پیڑ پر چھپ کر بیٹھا رہا۔ آخر پیسے انہیں ہی چکانے پڑے۔
یادو جی زیادہ دن نہیں ٹکے۔ ان کی جگہ کے سی جھا آ گئے۔ آتے ہی انہوں نے کرسی کو گنگا جل سے پاک کیا۔ کہتے تھے ایک تو میاں بیٹھ کر گیا پھر یادو۔ ۔ ۔ ۔ ایسے آسن پر براہمن کیسے بیٹھ سکتا ہے۔ ؟ ان کا اردلی شدر تھا۔ وہ اس کے ہاتھ سے بھلا پانی کیسے پی سکتے تھے۔ انہوں نے اردلی بدل دیا۔ اس کی جگہ ایک برا ہمن نل کوپ خلاصی کو رکھ لیا اور اس شدر کو میرے دفتر میں پوسٹ کر دیا۔
ایک بار ان کے ساتھ سائٹ انسپکشن میں جانا پڑا۔ مسہر ٹولی میں نئے چاپا نل لگائے گئے تھے۔ میں نے ٹھیکہ دار سے کہا کہ نلوں کو اچھی طرح چلا کر پانی صاف کر دیں۔ جھا جی مجھے الگ لے جا کر بولے ’’ ماریئے گولی خان صاحب۔ ۔ ۔ ۔ ارے کون پانی پیئے گا ؟ مسہر ہی نہ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ یہاں کوئی برا ہمن تھوڑے ہی رہتا ہے ‘‘۔
میں تو ملیچھ تھا۔ میرے لئے یہاں جگہ بنانا مشکل تھا۔ میں نے سوچا اس منو وادی کو منو واد سے ہی شکست دوں گا۔ میں نے جیوتش کا سہارا لیا اور اس کا موقع مجھے جلد ہی مل گیا۔ ایک دن ان کے یہاں گیا تو کوئی پنڈت جی کنڈلی دیکھ رہے تھے۔ جھا جی نے پوچھا کہ کچھ باتیں بتایئے تو پنڈت جی کہنے لگے کہ شنی جب گوچر میں مین راشی میں آئے گا تو سب کام پورا ہو گا۔ میں نے کنڈلی چکر پر نظر ڈالی اور پنڈت جی کو ٹوکا۔ ’’ بغیر اشٹک ورگ کی استھتی جانے آپ گوچر کا پھل کیسے کہہ سکتے ہیں۔ مین میں تو شنی نیچ ابھیلاشی ہو جائے گا جو نیچ سے بھی برا ہوتا ہے اور کنڈلی میں مین راشی بادھک راشی بنی ہوئی ہے تو شبھ کیسے ہو گا ؟ پنڈت جی لا جواب ہو گئے۔ جھا جی نے مجھے حیرت سے دیکھا ’’ آپ یہ سب کیسے جانتے ہیں ؟ ‘‘
’’ سر۔ ۔ ۔ میں دیا نند سرسوتی کا شاگرد ہوں۔ انہوں نے آدمی کو ذات کی بنیاد پر نہیں کرم کی بنیاد پر بانٹا ہے۔ میں کرم سے برا ہمن ہوں۔ میں نے پراشرمت کا مطالعہ کیا ہے۔ ‘‘
جھا جی کا تجسس بڑھا۔ ’’ آپ میری بیٹی کی کنڈلی دیکھ کر بتایئے کہ شادی کب ہو گی تو آپ کو جیوتشی مانوں ‘‘
میں نے کنڈلی دیکھی۔ چوتھے خانے میں گیارویں گھر کے مالک کے ساتھ مشتری اپنے ہی گھر میں تھا اور ساتویں خانے سے جوگ کر رہا تھا۔ میں نے کہا کہ شادی اپنے گاؤں میں ہی ہو گی۔ لڑکا زیادہ سے زیادہ سو کیلو میٹر کے فاصلے پر ہو گا۔
جھا جی اچھل پڑے۔ ’’ آپ صحیح کہہ رہے ہیں خان صا حب۔ ایک جگہ بات چل رہی ہے۔ لڑکا گاؤں کا ہی ہے۔ ‘‘
’’ بس تو سمجھیئے رشتہ طے ہے۔ ‘‘
’’ ایسا ہو گیا تو آپ کو انعام دوں گا۔ ‘‘
میں نے ہاتھ جوڑ کر کہا۔ بس آپ کی شفقت چاہیئے۔ آپ کے جیوتشی پنڈت جی ہیں۔ انہیں انعام دیجیئے اور مجھے بھی جیوتشی کی فہرست میں رکھیئے۔ ‘‘
شادی وہیں ہوئی۔ پھر بھی جھا جی مجھے جیو تشی ماننے کے لئے تیّار نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں مسلمان ہوں اس لئے شناخت نہیں ہو گی۔ اگر ہندو ہوتا تو مجھے مالا پہناتے۔ پھر بھی ان سے میرے تعلّقات خوشگوار رہے۔ لیکن ایک واقعہ ایسا ہو گیا کہ ان سے بے پناہ نفرت محسوس ہوئی۔
انہوں نے میرے سداما کی نفی کر دی۔
سہہ دیو منڈل میرے محلّے کا تھا۔ اس کا باپ کھیت میں مزدوری کرتا تھا۔ منڈل گریجوئٹ تھا۔ کہیں نوکری نہیں ملی تو میں اس کو ساتھ لے آیا اور کلام صاحب کو کہہ کر اس کو مسٹر رول پر چاپا نل خلاصی میں بحال کرا دیا۔ منڈل کو بیس روپے روز ملتے تھے۔ وہ میرے ساتھ رہتا تھا اس لئے اس کے پیسے بچ جاتے تھے۔ وہ ہر ماہ اپنے گھر چار سو روپے منی آرڈر کرتا تھا۔ وہ میرا کھانا بھی بناتا تھا۔ کبھی کبھی میں اس سے لکھنے پڑھنے کا کام بھی لیتا تھا۔ میں اس تاک میں تھا کہ اگر سپر وائزر کی جگہ خالی ہوئی تو پیروی کر اس کو بحال کرا دوں گا۔ اتّفاق سے میرے دفتر میں ورک سرکار کی جگہ خالی ہوئی۔ ان دنوں راجیو رنجن چیف انجنیئر تھے جن سے میرے دیرینہ تعلّقات تھے۔ میں ان سے ملا۔ انہوں نے منڈل کو ورک سرکار کے عہدے پر بحال کر دیا۔
منڈل کو جھا جی کے دفتر میں جوائن کرنا تھا اسکے بعد وہ اس کو میرے دفتر میں پوسٹ کر دیتے کیوں کہ جگہ میرے یہاں خائی ہوئی تھی لیکن وہ جب جوائن کرنے گیا تو جھا جی اس کا تقرری نامہ دیکھ کر جل بھن گئے۔ اور اس کی جوائننگ لینے سے انکار کیا کہنے لگے کہ منڈل تو میاں ہے۔ مسلمان کے ساتھ رہتا ہے تو ہندو کیسے ہو گیا۔ مجھے بہت غصّہ آیا۔
میں نے منڈل کو ان کے سامنے بلا کر کہا۔
’’ منڈل۔ ۔ ۔ اپنے کپڑے کھول کر دکھاو کہ تم کٹوا نہیں ہو۔ ۔ ۔ ۔ ! ‘‘
منڈل ابھی بھی سیتا مڑھی میں مسٹر رول پر چاپا نل خلا صی ہے۔
٭٭٭
[ 9 ]
اس بلا نوش سے میری ملاقات رانچی کے سادھنا لاج میں ہو ئی اور دھند کی اگر آنکھیں ہوتی ہیں تو اس کی آنکھوں جیسی ہوں گی۔ ۔ ۔ ۔ اور دھند کا اگر چہرہ ہوتا ہے تو اس کا چہرہ بھی۔ ۔ ۔ ۔ !
۔ کوئی پیاری سی چیز جیسے اس کے ہاتھ سے پھسل گئی تھی اور۔ زندگی کی دھند میں کہیں کھو گئی تھی۔ ۔ ۔ ۔ وہ سونی سونی سی آنکھیں لیئے۔ ۔ دور خلا میں کہیں تکتا رہتا تھا۔ وہ میرا روم میٹ تھا۔ ان دنوں میں رانچی میں تھا اور ہند پیڑی کے سادھنا لاج میں رہتا تھا۔ یہ مسلم لاج تھا۔ میرے روم میں دو بیڈ تھے۔
بلا نوش دن بھر باہر رہتا اور رات دس بجے ترنگ میں ڈوبا ہو لوٹتا۔ مجھے دیکھ کر آ ہستہ سے مسکراتا اور بستر پر گر کر خرّاٹے بھرنے لگتا۔ وہ کم بات کرتا تھا۔ لاج کے مکیں اس سے نفرت کرتے تھے کہ مسلمان ہو کر کھلے عام شراب پیتا ہے لیکن میرا جی کرتا کہ اس کے قریب جاؤں۔ میں اس سے میل جول بڑھانے لگا۔ میں جب بھی کمرے میں چائے بناتا اس کو ضرور پوچھتا۔ وہ پہلے تو انکار کرتا لیکن جب چائے بن جاتی تو پی لیتا تھا۔
رفتہ رفتہ وہ میرے قریب ہونے لگا تو میں نے پوچھا کہ وہ اتنی شراب کیوں پیتا ہے ؟ میرے سوال پر کچھ دیر خاموش رہا۔ پھر سگریٹ سلگائی اور لمبا سا کش لیتے ہوئے مجھ سے پوچھا۔
’’ تم نے کبھی محبّت کی ہے ؟ ‘‘
’’ محبّت ہر آدمی کی زندگی میں ایک بار دستک دیتی ہے۔ ‘‘ میں نے بھی فلسفی کی طرح جواب دیا۔
’’ لیکن بزدل کو محبّت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ‘‘ اس نے سگریٹ کا دوسرا کش لگایا۔
’’ محبّت اگر سچّی ہے تو حوصلہ بھی آ جاتا ہے۔ ‘‘
وہ جذباتی ہو گیا اور کانپتے لہجے میں بولا۔ ’’ محبّت ہمیشہ سچّی ہوتی ہے۔ آدمی جھوٹا ہوتا ہے۔ بزدل اور نا اہل کے دروازے سے محبّت ہمیشہ ذلیل ہو کر لوٹتی ہے۔ ‘‘
اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ ’’ مجھے شراب چاہیئے۔ ‘‘
اس نے بیگ سے وہسکی کی بوتل نکالی۔ ایک پیگ میرے لئے بھی بنایا اور اپنا گلاس ایک ہی سانس میں خالی کر دیا۔
’’ آپ کی زندگی میں کیا ہوا ؟ ‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ میری زند گی میں۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘ وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا۔ اس کی آنکھیں سپنیلی ہو گئیں۔ وہ دور خلا میں کچھ ڈھونڈنے لگا۔ اس نے دوسرا سگریٹ سلگایا، دو تین کش لگائے اور مجھ سے مخاطب ہوا۔
’’ مجھے ایک لڑکی سے پیار تھا۔ ‘‘
’’ پھر۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘ میری دلچسپی بڑھی۔
’’ میں اس کے لئے دروازے نہیں کھول سکا۔ ‘‘
میں چپ رہا۔ اس نے اپنے لئے دوسرا پیگ بنایا۔ لیکن اس بار ایک ہی سانس میں گلاس خالی نہیں کیا۔ ایک لمبا گھونٹ بھرتے ہوئے بولا۔
’’ میرے باپ نے اس سے شادی نہیں ہونے دی۔ ‘‘
کیوں۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘
اس نے دونوں ہاتھ جیب میں ڈالے اور نوٹوں کا بنڈل نکالا۔ اس کی مٹھیوں میں سوسو اور پچاس کے نوٹ پھنسے ہوئے تھے۔ میرے چہرے کے آگے نوٹ لہراتا ہوا بولا۔
’’ پیسوں کے لئے میری شادی ہونے نہیں دی۔ ۔ ۔ ۔ پیسوں کے لئے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ اور اس نے دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپا لیا اور سسک سسک کر رو پڑا۔ میں اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے آنسو تھمے تو ٹوٹے ہوئے لہجے میں بولا۔
’’ میں بزدل تھا۔ میں بغاوت نہیں کر سکا۔ وہ جہاں چاہتے تھے میں نے شادی کر لی اور جانتے ہو آگے کیا ہوا ؟ ‘‘
’’ کیا۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘
’’ میں نے اس کا گھونگھٹ الٹا تو وہ زور سے چلّائی ’’ ہاؤں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! ‘‘ اور میرا منھ نوچ لیا ‘‘
’’ ارے۔ ۔ ۔ ؟ کیوں۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘ میں چونک پڑا۔
’’ وہ پاگل تھی۔ ۔ ۔ ۔ پاگل۔ ۔ ۔ ۔ اس کو ہسٹریہ تھا۔ ‘‘ وہ پھر رونے لگا۔
’’ آپ کو پتہ نہیں تھا وہ پاگل ہے ؟ ‘‘
اس نے انکار میں سر ہلایا اور میز پر مکّا مارتے ہوئے زور سے بولا۔ ’’ لیکن میرے باپ کو پتہ تھا۔ اس نے پانچ لاکھ روپے اس شادی کے لئے تھے۔ ‘‘
میں سوچ رہا تھا کہ باپ کا رول اکثر ویلن کا ہوتا ہے۔ اس وقت پانچ لاکھ روپے کی قیمت کیا رہی ہو گی ؟
تیسرا پیگ ختم کرنے کے بعد وہ دکھ بھرے لہجے میں بولا۔
’’ تم نے میرے گھاؤ ہرے کر دیئے۔ میں پی کر سب کچھ بھول جاتا ہوں اور لوگ پوچھتے ہیں میں کیوں پیتا ہوں ؟ ‘‘
وہ واقعی پی کر سب کچھ بھول جاتا تھا۔ اسے کچھ یاد نہیں رہتا تھا۔ کئی بار وہ غلطیسے دوسرے کمرے میں چلا گیا تھا اور وہاں سے دھتکار کر نکالا گیا تھا۔
میں نے آگے کچھ نہیں پوچھا۔ اس نے خود بتایا کہ وہ اسی رات گھر سے نکل گیا، بیس سال ہو گئے۔ آج تک لوٹ کر نہیں گیا لیکن ان لوگوں کو برابر پیسے بھیجتا رہتا ہے۔
جب سپنے چوری ہوتے ہیں تو دل کے مقام میں ننھا سا سوراخ ہو جاتا ہے جو کبھی نہیں بھرتا۔ پانچ لاکھ کی رقم نے اس کے دل میں گہرا شگاف کیا تھا جسے وہ شراب سے بھرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
رمضان کا مہینہ آیا تو لڑکوں نے میٹنگ کی کہ میس میں کھانا نہیں بنے گا لیکن افطار کا نظم ہو گا۔ ایک لڑکے نے سحری کے وقت سب کو اٹھانے کی ذمہ داری لی۔ شرابی نے کہا کہ اسے بھی اٹھایا جائے کہ وہ بھی روزے رکھے گا۔ لڑکوں نے اسے نفرت سے دیکھا۔ ۔ ۔ ۔ ’’ سالا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پیکّڑ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘!
سحری کے وقت ایک لڑکا مجھے اٹھانے آ یا تو میں نے کہا۔ ’’ اسے بھی اٹھاؤ۔ ۔ ۔ وہ بھی روزہ رکھے گا۔ ‘‘
لڑکے نے سرگوشی میں کہا ’’ آپ پاگل ہیں ؟ اسے آپ اٹھانے کہہ رہے ہیں۔ ۔ ۔ ؟ اس شرابی کبابی کو۔ ۔ ۔ ؟ ایسے گناہ گار آدمی سے اللہ بچائے۔ ‘‘
اس گناہ گار کی نیند ٹوٹ گئی۔ وہ اٹھ گیا۔ اس نے بتّی جلائی۔ اچانک روشنی ہونے سے میں نے اپنی آنکھیں میچیں تو ’’ سوری ‘‘ کہتے ہوئے اس نے فوراً روشنی گل کر دی۔ پھر ٹارچ جلا کر وقت دیکھا اور آہستہ سے بڑ بڑایا ’’ ابھی وقت ہے۔ ‘‘ اور سرہانے سے شراب کی بوتل نکالی۔ بوتل خالی تھی۔ بس پیندی میں دو چار بوند شراب بچی ہوئی تھی۔ گناہ گار نے بسم اللہ کہا اور بوتل منھ سے لگا لی۔ گناہ گار نے دو بوند شراب سے سحری کی۔ دن بھر روزہ رکھا اور شام کو افطار بھی شراب سے کیا۔ معلوم ہوا وہ بیس سال سے اسی طرح روزے رکھ رہا ہے۔ لیکن لاج میں کہرام مچ گیا توبہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ توبہ۔ ۔ ۔ ۔ چھی۔ ۔ ۔ ۔ چھی۔ ۔ ۔ ۔ روزے میں شراب۔ ۔ ۔ ۔ ؟ شراب سے سحری۔ ۔ ۔ ۔ شراب سے افطار۔ ۔ ۔ ۔ لا حول ولا قوۃ۔ ۔ ۔ ۔ نکالو مردود کو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
لاج کا مالک صبح صبح آیا۔ گناہ گار چادر تان کر بے خبر سو رہا تھا۔ مالک نے زور سے چادر کھینچی اور ڈپٹ کر بولا۔
’’ اے صاحب۔ ۔ ۔ نکلئے یہاں سے۔ ۔ ۔ ۔ کمرہ خالی کیجیئے۔ ۔ ۔ ۔ ! ‘‘
وہ گھبراتے ہوئے اٹھا اور بہت آہستہ سے بولا۔ ’’ اچھی بات ہے۔ خالی کر دیتا ہوں ! ‘‘
وہ اپنا سامان باندھنے لگا۔ مجھے لاج کے مالک پر غصّہ آ رہا تھا۔ میں احتجاج کرنا چاہتا تھا لیکن اس نے مجھے روک دیا۔
’’ جانے دیجیئے۔ ۔ ۔ ۔ !‘‘
’’ کیوں جانے دوں۔ ۔ ۔ ؟ اس نے آپ کی بے عزّتی کی۔ ‘‘
وہ دھیرے سے مسکرایا۔ ’’ آپ نے دیکھا نہیں وہ کتنا خوش تھا ؟ ایک آدمی مجھے بے عزّت کر کے اگر خوش ہوتا ہے تو ہونے دیجیئے۔ کم سے کم کوئی تو مجھ سے خوش ہوا۔ میرا کیا ہے ؟ میں کہیں بھی جا کر رہ لوں گا۔ ‘‘ ‘
اس نے خاموشی سے سامان باندھا اور چلا گیا۔
لاج والے بہت خوش تھے۔ میں نے انہیں سمجھانا چاہا کہ شراب اس کے ہاتھوں میں اپنی اصلیت کھو چکی تھی۔ شراب شراب نہیں رہ گئی تھی بلکہ اس کے لئے زندگی کی بہترین چیز تھی۔ وہ زند گی کی بہترین چیز سے سحری کرتا تھا اور بہترین چیز سے افطار کرتا تھا۔ شراب پینے کی سزا اس کو مل سکتی تھی لیکن وہ روزے کے ثواب کا بھی اتنا ہی حق دار تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مجھے بھی لاج خالی کرنے کا فرمان ملا۔ ان دنوں ہند پیڑی میں صدّیق مجیبی رہتے تھے۔ میں نے انہیں بتایا کہ مجھے لاج سے نکالا جا رہا ہے تو وہ آگ بگولہ ہو گئے۔ لاج میں آ کر چیخنا شروع کیا۔
’’ کون ہے مائی کا لال جو شموئل کو نکالنا چاہتا ہے ؟ ایک ایک کو چیر کر رکھ دوں گا۔ ‘‘ لڑکے ڈر گئے۔ کوئی اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلا۔ مجیبی نے لاج کے مالک کو بھی دھمکی دی۔ ’’ حضرت ! اگر آپ نے میرے دوست کو لاج چھوڑنے پر مجبور کیا تو آگ لگا دوں گا۔ ‘‘
کسی کی ہمّت نہیں ہوئی کہ مجھے کچھ کہتا۔ ان کا یہ روپ میں نے پہلے نہیں دیکھا تھا اور پھر تو میں نے ان کے کئی روپ دیکھے۔
مجیبی ان دنوں تک بندی کرتے تھے۔ کہیں مشاعرے میں جاتے تو سبھی ان کا مذاق اڑاتے۔ خاص کر وہاب دانش اور پر کاش فکری تو ان کے پیچھے پڑے رہتے تھے۔ لیکن ان میں گاڑھی چھنتی بھی تھی۔ تینوں ہم پیالہ ہم نوالہ تھے۔ ان کی تکڑی مشہور تھی۔ تینوں بلا نوش۔ ۔ ۔ ۔ ان کی بلا نوشی نے انہیں ایک دوسرے سے باندھ رکھا تھا۔ میں اکثر ان کے ساتھ ہوتا تھا۔ شام والی محفلوں میں گرچہ میں ساتھ نہیں ہوتا تھا لیکن ان کے ساتھ سڑکوں پر مٹر گشتی کرتا۔ ۔ ۔ ریستوراں میں چائے پیتا اور قہقہے لگاتا۔ لوگوں کو حیرت تھی کہ مجھ جیسا شخص ان سڑک چھاپ لوگوں کے درمیان کیا کرتا ہے ؟ ان کی کوئی سماجی حیثیت نہیں تھی لیکن ادب میں ان کی شہرت تھی۔ وہاب دانش اور پر کاش فکری جدید شاعری میں اپنی شناخت بنا چکے تھے۔ میری بھی کہانیاں چھپنے لگی تھیں۔ ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا میری مجبوری تھی۔ اور کسی سے میری جان پہچان نہیں تھی۔ ایک اختر یوسف تھے جن سے میری دوستی تھی لیکن وہ الگ تھلگ رہتے تھے۔ تب میں ہندی میں نہیں لکھتا تھا اور اردو سماج ہی میری دنیا تھی۔
بلا نوش جب ترنگ میں ہوتے تو خوب ادھم مچاتے۔ وہاب دانش زور زور سے گاتا، فکری تالی بجا بجا کر ہنستے اور مجیبی کی چال بدل جاتی۔ ۔ وہ چیتے کی طرح چلتے اور راہ گیروں کو گھور کر دیکھتے۔ ۔ فکری جس زور سے ہنستے ہنسی کی آواز اتنی ہی مدھم ہوتی تھی۔ میں نے اپنے ناول گرداب میں درجات کی جس ہنسی کا ذکر کیا ہے وہ فکری کی ہنسی ہے۔ میں وہاب دانش سے دوری بنائے رکھتا تھا لیکن فکری مجھے معصوم لگتے۔ ان سے پہلی بار ان کے گھر پر ملا تھا۔ تب وہ بخار میں پھنک رہے تھے لیکن مجھ سے ملنے باہر آئے۔ ان کی آنکھوں میں پگھلتی موم سا دکھ تھا اور چہرے پر عجیب سی سادگی۔ ان کو دیکھ کر جی میں آیا پیٹھ پر ایک دھپ لگاؤں کہ یار۔ ۔ ۔ ۔ یہ بخار وخار کیا ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ؟ چل کسی ریستوراں میں چائے پیتے ہیں۔
رانچی میں جب فساد ہوا تھا تو کرشن چندر نے انہیں خط لکھا تھا وہ فساد کی تفصیل جاننا چاہتے تھے تا کہ ایک افسانہ لکھ سکیں۔ فکری نے جواب میں لکھا کہ ہمارا گھر جل رہا ہے اور آپ اپنی روٹی سینکنا چاہتے ہیں۔ فکری نے ایک شعر کہا تھا۔
خنجر بہ کف تھے لوگ کھڑے اس کے ارد گرد
نکلا نہ ایک شخص بھی اپنے مکان سے
ان دنوں مجیبی کی اردو غزل میں کوئی پہچان نہیں بنی تھی۔ لیکن مقامی مشاعروں میں حصّہ لیتے تھے۔ ایک بار بہت ہو ٹنگ ہوئی۔ اس نشست میں میں بھی موجود تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ لوگ آپ پر آواز کستے ہیں اور آپ خاموش رہتے ہیں۔ مجیبی مسکراتے ہوئے بولے۔
’’ ایک جنگجو پنجڑے میں بند ہے۔ کچھ لوگ آتے ہیں اور اسے لکڑی چبھوتے ہیں۔ جنگجو خاموش ہے۔ پھر ایک سپاہی ننگی تلوار لے کر آتا ہے اور تلوار کی نوک جنگجو کے سینے میں پیوست کرنا چاہتا ہے۔ جنگجو کی آنکھیں چمک اٹھتی ہیں کہ اس کی چیز آئی۔ ۔ ۔ شمشیر برہنہ جو اس کی پہچان ہے۔ وہ مسکراتا ہے اور تلوار دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیتا ہے۔ سپاہی تلوار اپنی طرف کھینچتا ہے اور جنگجو اپنی طرف۔ ۔ ۔ ۔ کھینچا تانی میں جنگجو کے ہاتھ زخمی ہو رہے ہیں۔ خون کی دھار بہہ رہی ہے اور جنگجو مسکرا رہا ہے۔ اس کی آنکھوں کی چمک گہری ہو رہی ہے۔ ۔ ۔ !‘‘
’’ تو شمو ئل۔ ۔ ۔ یہ چھٹ بھیئے سالے مجھے چھیڑتے ہیں تو ان کو کیا کہوں۔ ؟ میں جنگجو ہوں اور یہ نالی کے کیڑے۔ ۔ ۔ آئے کوئی باہو بلی تو شیر کید ہاڑ سنو۔ ۔ ۔ ۔ ٓ ‘‘
اور میں نے شیر کو دہاڑتے ہوئے دیکھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !
وہ ایک سرمئی شام تھی۔ ہم انڈیا ہوٹل میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ ایک باہو بلی آ کر پیچھے بیٹھ گیا۔ مجیبی بہت اچھے موڈ میں تھے اور اپنا ہی شعر گنگنا رہے تھے۔ باہو بلی نے پیچھے سے آواز کسی اور غضب ہو گیا۔ مجیبی اچانک پیچھے مڑے اور زور سے گرجے۔
’’ ارے مادر۔ ۔ ۔ ۔ تیری ہمّت کیسے ہوئی مجھ پر آواز کسنے کی ؟ ارے حرام زادہ تجھے معلوم ہے میں کون ہوں ؟ ابے سالے اتنا ماروں گا کہ تیری کھو پڑی تیرے انڈ کوش میں گھس جائے گی۔ ۔ ۔ ۔ ارے مادر۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
مجیبی آگ بگولہ تھے۔ سڑی سڑی گالیاں دے رہے تھے اور وہ سکتے میں تھا۔ اس کے منھ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا تو مجیبی نے اسے پھٹکارا۔ ’’ ارے سالا۔ ۔ ۔ ۔ کچھ تو بول۔ ۔ ۔ ۔ کچھ تو پروٹسٹ کر۔ ۔ ۔ ۔ کم سے کم میرا کالر ہی پکڑ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
لیکن وہ اسی طرح چپ رہا تو مجیبی نے زمین پر تھوکا۔ ’’ میں کس نا مرد سے الجھ پڑا۔ ۔ ۔ ۔ چھی !‘‘ اور میرا ہاتھ پکڑ کر ہوٹل سے باہر آ گئے۔
ایک بار وہ اردو کے کسی پروفیسر سے الجھ گئے۔ باتوں ہی باتوں مین مجیبی نے کہہ دیا کہ اردو میں ایم۔ اے۔ کریں گے اور ٹاپ کر کے دکھایئنگے۔ پروفیسر ہنسنے لگا۔ اس کی ہنسی مجیبی کے دل میں گڑ گئی۔ بس انہوں نے رانچی یونیور سٹی کا فارم بھرا۔ بہت ساری کتا بیں خریدیں اور کمرے میں بند ہو گئے۔ ان سے ملاقاتیں کم ہونے لگیں۔ وہ رات دن پڑھائی میں لگے رہتے۔ ملاقات ہوتی تو میں کہتا کہ ایسا بھی کیا جان دینا۔ وہ بس اتنا ہی کہتے کہ بات منھ سے نکل گئی کہ ٹاپ کرنا ہے تو کرنا ہے۔ مجیبی کے سات بچّے تھے۔ امتحان کا وقت قریب آیا تو بیوی پھر امید سے تھی۔ شاید قدرت بھی مجیبی کا امتحان لے رہی تھی۔ بیوی بیمار رہنے لگی اور جس دن امتحان شروع ہوا اسی دن۔ ۔ ۔ ۔
۔ اسی دن مر گئی۔ میّت گھر میں پڑی رہی اور مجیبی کمرے سے باہر نہیں نکلے۔ جنازے کو کندھا نہیں دیا اور امتحان دینے چلے گئے۔ وہاں سے لوٹے تو بیوی دفن ہو چکی تھی۔ قبر سے لپٹ کر رات بھر روتے رہے۔
امتحان کا نتیجہ نکلا تو مجیبی فرسٹ کلاس فرسٹ تھے۔ ان کا ایک شعر ہے
اپنا سر کاٹ کر نیزے پر اٹھائے رکھا
صرف یہ ضد کہ میرا سر ہے تو اونچا ہو گا
مجیبی رانچی یونورسٹی میں پروفیسر ہوئے۔ اردو غزل میں بہت تیزی سے اپنا مقام بنایا۔ بہار اردو اکاڈمی کے وائس چیر مین بھی رہے۔ ایک آدی باسی حسینہ کی زلفوں کے اسیر تھے۔ وہ بہت کالی تھی۔ میں ان سے کہتا تھا کہ اتنی کالی کہاں سے پکڑی تو مجیبی مسکراتے اور کہتے کہ عورت کا حسن چہرے پر نہیں دیکھو۔ رات کے اندھیرے میں سبھی چہرے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ عورت کا حسن کانوں کی آہستہ آہستہ ہلتی بالیوں میں ہوتا ہے جب وہ تمہارے لئے روٹیاں بیلتی ہے۔
مجیبی نے اپنی زندگی جی۔ جو اپنی زندگی جیتے ہیں سماج ان سے خار کھاتا ہے۔
ہر آدمی دو زندگی جیتا ہے۔ ایک وہ جو جینے پر مجبور ہے اور دوسری جو جی نہیں سکا تو اپنی دا خلیت میں جیتا ہے۔ داخلیت کی دنیا بہت وسیع ہے ادب اسی دنیا کی بازیافت ہے۔ اندر کے آدمی کو جاننا ہے تو افسانوی ادب سے ہو کر گذرنا پڑے گا۔
اپنی زندگی جینے کی چاہ رکھنے والی تسنیم سے میری ملاقات پٹنہ میں ہوئی۔ وہ ویلنٹا ئن ڈے تھا۔ صبح صبح ایک فون آیا۔
’’ ہیلو ! ‘‘
’’ہیلو !‘‘
ہیپّی ویلنٹائن ڈے ! ‘‘
ہیپّی ویلنٹائن ‘‘
’’مجھ سے دوستی کرو گے۔ ۔ ۔ ؟‘‘ مجھے لگا کوئی خواب میں پکار رہا ہے۔ آواز کہیں دور سے آتی معلوم پڑی۔ کھنکتی سی آواز۔ ۔ .۔ ۔ مجھے یقین تھا اس کی عمر بیس سے زیادہ نہیں ہو گی۔
’’ میری عمر زیادہ ہے۔ ‘‘
’’ دوستی کا تعلّق عمر سے نہیں ہوتا۔ دوستی کسی بھی عمر میں ہو سکتی ہے۔ ‘‘ ادھر سے آواز آ ئی۔ میں مسکرایا۔ گویا وہ گلو بل و لیج میں سانس لے رہی تھی۔ میں نے اسے لورز پوائنٹ پر بلایا لیکن اس دن نہیں۔ ۔ ۔ اس دن بجرنگ دل والے گھومتے تھے کہ انہیں سنسکر تی خطرے میں پڑتی نظر آتی تھی۔ اس نے شہر بہت دیکھا نہیں تھا۔ لورز پوائنٹ کا لوکیشن اس کی سمجھ میں نہیں آیا۔ اس نے مجھے موریہ لوک میں بلایا۔ میں نے پوچھا پہچانو گی کیسے تو ہنس کر بولی کہ میری آنکھوں سے مجھے پہچانے گی کہ ان میں ایک تجسس ہو گا۔ ۔ ۔ ۔ میں سبھی آنے جانے والی لڑکیوں کو پر شوق نظروں سے دیکھوں گا۔ میں نے کہا اس کی مسکراہٹ سے پہچانوں گا کہ مجھے دیکھتے ہی اس کے ہونٹوں پر وھوپ جیسی مسکراہٹ پھیل جائے گی۔ اس جیسی لڑکیاں کسی سے مل کر خوش ہوتی ہیں تو چپ نہیں رہتیں۔ ان کی مسکراہٹ اور دمکتا ہوا چہرہ ان کے دل کا حال بیان کرتا ہے۔ تب وہ زور سے ہنسی اور بولی کہ اسے خوشی ہے کہ دوست کے انتخاب میں اس نے کوئی غلطی نہیں کی۔
وہ موریہ لوک آئی۔ ۔ ۔ ۔ اور میں سکتے میں ا ٓ گیا۔ ۔ ۔ ۔ !
وہ بے حد حسین تھی میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔
مجھے ودّیا پتی کا شعر یاد آتا ہے جس کی تفسیر کچھ اس طرح ہے کہ
رادھے !
چاند کی چوری ہو گئی ہے۔
پولیس چاند کو ڈھونڈ رہی ہے
تم چہرہ ڈھک کر رکھنا۔ ۔ ۔ ۔ !
اس نے پوشاک بہت قیمتی پہن رکھی تھی۔ سرمئی رنگ کا شلوار سوٹ۔ آستین گردن اور دامن پر چاندی کے تاروں سے کیا ہوا بہت باریک کام۔ سر بھی سرمئی رنگ کے اسکارف سے ڈھکا ہوا تھا۔ ہونٹ ایکدم سرخ تھے اور گالوں پر سورج جیسے ڈوبتے ڈوبتے تھم گیا تھا۔ اس نے کوئی میک اپ نہیں کیا ہوا تھا۔ آنکھوں میں کہیں کاجل کی مدھم سی لکیر بھی نہیں تھی لیکن پلکوں کی گھنی چلمن لئے غضب کی سیاہ آنکھیں تھیں اور ان میں دھوپ کا اجالا بھی اتنا ہی تھا۔ اس کے حسن میں چاندنی کی ٹھنڈک کے ساتھ اگتے سورج کی کہیں ہلکی سی تپش بھی شامل تھی۔ اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا کہ کہاں چلنا ہے تو میرے دل کی دھڑکن بڑھ گئی۔ اس کی چال میں عجیب سی مدہوشی تھی۔ اک ذرا بھاری کولہے۔ ۔ ۔ ۔ کمر میں ہلکی سی لوچ۔ ۔ ۔ ۔ نتمبوں میں مدھم مدھم سی تھرکن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گل مہر کی ٹہنی ہوا میں جیسے دھیرے دھیرے ہل رہی ہو۔ میں خوف سے بھر گیا۔ اگر کسی باہو بلی کی نظر پڑ گئی تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟
اصل میں کچھ دن پہلے ایک جین لڑکی کا یہاں کے ایم ال اے اور اس کے گرگے نے مل کر گورنمنٹ گیسٹ ہاوس میں گینگ ریپ کیا تھا۔
مجھے خدا عورت کا طرف دار نظر نہیں آتا۔ اس نے عورت کو پیغمبر نہیں بنایا اور دروپدی کے لئے سورگ کے دروازے بند کر دیئے۔ دروپدی سماج میں عورت کے استحصال کی معراج ہے۔ موپاساں کی ایک کہانی یاد آتی ہے ’’ بال آف فیٹ ‘‘ کہانی میں جنگ کا زمانہ ہے۔ ایک طوائف بگھی میں بیٹھی کسی محفوظ جگہ کو جا رہی ہوتی ہے۔ ساتھ میں کچھ رئیس بھی ہیں۔ طوائف ناشتے کی باسکیٹ نکالتی ہے تو دوسرے بھی شئر کرتے ہیں۔ راستے میں دشمن کے سپاہی بگھی روک لیتے ہیں۔ کمانڈر اس شرط پر انہیں تحفّظ دیتا ہے کہ وہ طوائف کو اس کے پاس بھیجیں۔ طوائف میں خود داری ہے۔ وہ کسی بھی قیمت پر دیش کے دشمن کا پہلو گرمانا نہیں چاہتی لیکن بگھی میں تشریف فرما بورژوا اپنی جان بچانے کے لیئے اسے دشمن کا بستر گرم کرنے کے لئے مجبور کرتے ہیں اور جب وہ کمانڈر کے پاس سے لوٹ کر آتی ہے تو یہی لوگ اسے نفرت سے دیکھتے ہیں اور اس کی نفی کرتے ہیں۔ پہلے استعمال کیا پھر ردّ کیا۔
شاید خدا کو دروپدی کی یہ بات بری لگی کہ اس نے اپنے بال کھلے رکھے اور مردانہ سماج سے انتقام لیا۔ ایک عورت کا اتنا کٹھور قصد کہ مرد کے خلاف سینہ بہ سپر ہو۔ ۔ ۔ ؟ خدا نے اس کی سزا دی۔ یو دھشٹر کے کتّے کو سورگ جانے دیا اور دروپدی کے لئے دروازے بند کر دیئے۔ یو دھشٹر جب کہتے ہیں کہ دروپدی ارجن کے پاس زیادہ رہی تو اس میں محض ایک مرد کا حسد نہیں جھلکتا بلکہ اس سے زیادہ اپنے برتر ہونے کا احساس بھی چھپا ہوا ہے۔
خدا نے انسان کو بنایا تو اس کو سر کی بلندی عطا کی۔ دوسرے مخلوق کی ساخت اس طرح بنائی کہ اس کا سر دھرتی کی طرف جھکا دیایعنی پستی کی طرف اور آدمی کو پیروں پر کھڑا کیا تا کہ سر اٹھا کر فلک پر نظر جما سکے۔ لیکن عورت آدمی کی پسلی سے خلق ہوئی۔ ۔ ۔ ۔ جسم کے اس حصّے سے جو سر کے قریب نہیں ہے یعنی وہ حصّہ جو عظمت کا اشاریہ نہیں ہے۔ گویا مرد نے اپنی تخلیق میں ہی عورت پر برتری حا صل کی۔ عظمت کا یہ احساس مرد کی سائکی کا حصّہ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ارسطو کو عورت ارتقا کی نچلی سیڑھی پر نا مکمّل مرد کی طرح کھڑی نظر آتی ہے۔
نطشے نے لکھا ہے کہ مرد اور عورت کی یہ جنگ ابدی ہے اور امن اسی وقت ہے جب ایک کی برتری کو دوسرا قبول کر لے۔ عورت کی درگتی جو آدی گرنتھوں میں ہوئی اس کی مثال کہیں مشکل سے ملیگی۔ تلسی داس نے تو اسے گنوار اور پشو کے کھاتے ہی میں ڈال دیا۔ کتھا سرت ساگر کے تخلیق کار نے بھی طرح طرح سے رسوا کیا ہے۔ کتھا سرت ساگر میں ہی آیا ہے کہ عورت کو ناک نہیں ہوتی تو بشٹھا کھاتی۔ کتھا سرت ساگر کا مصنّف عورت کی بے وفائی کو جنسی شہوت سے جو ڑتا ہے۔ لکھتا ہے کہ نفسانی خواہشات کی تکمیل میں عورت نچلی سطح پر چلی جاتی ہے بلکہ تہہ خانے میں بھی بند ہو تو اپنا یار ڈھونڈ لیگی چاہے کوڑھی اور اپائج ہی کیوں نہ ہو۔ وشنو پران میں آیا ہے کہ عورت نیچ پرانی ہے اور ان سے زیادہ گناہوں میں ملوث دوسرا نہیں ہوتا۔ گناہوں میں ان کا پلڑا ہمیشہ بھاری ہوتا ہے۔
ہمارے سماج میں عورت کی حیثیت ابھی بھی تصرّف میں آنے والی جنس کی طرح ہے۔ صارفی کلچر نے عورت کو جلد کی حیثیت دی ہے۔ زور اس بات پر ہے کہ دکھنا کیسے ہے۔ ۔ ۔ ۔ ؟ تم وہی ہو جو دکھو گی۔ تم جو ہو وہ مت دکھو۔ اس میں کشش نہیں ہے۔ تمہاری ایڑیاں پھٹی ہوئی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ تمہاری جلد جھلسی ہوئی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کش کے لئے چمچماتی ہوئی جلد چاہیئے۔ ۔ ۔ ۔ صاف اور چمک دار۔ ۔ ۔ ۔ ! اس لئے ہماری کریم استعمال کرو۔ ۔ ۔ ۔ ! سدھیش پچوری کے لفظوں میں صارفی کلچر عورت کو عزّت نہیں دیتا اسے پرکشش بنا کر اس کی کھال بیچتا ہے ٹی وی سیریلوں اور اشتہارات میں کردار ہمیشہ بورژوا طبقے کے ہوتے ہیں۔ عالیشان مکان۔ ۔ ۔ ۔ خوب صورت عورتیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قیمتی لباس اور زیورسے آراستہ۔ ۔ ۔ ۔ ! یہاں عورت کو ہی عورت کے حق میں چڑیل دکھایا جاتا ہے جہاں سب کا مرد کسی نہ کسی سے پھنسا ہوتا ہے اور اپنے پھنسے ہونے کا جواز پیش کرتا ہے اور اسے دیکھتی ہیں نچلے متوسط طبقے کی عورتیں۔ ان کے رنگ و روپ پر موہت ہوتی ہیں اور ان کی طرح دکھنا چاہتی ہیں۔ اس آ کرشن کو سماج قبول کر چکا ہے۔
نطشے نے لکھا ہے کہ محبّت کو مرد زندگی میں جزوی چیز سمجھتا ہے لیکن عورت محبّت کو جسم اور روح کا مکمّل عطیہ سمجھتی ہے۔ بالمکی رامائن میں آیا ہے کہ سیتا کو رام پر فخر ہے۔ وہ راون کو یہ کہہ کر دھتکارتی ہے کہ اندر کی سچی کا اغوا کر بچنا ممکن ہے لیکن رام کی سیتا کا اغوا موت کو دعوت دینا ہے۔ سیتا سمجھتی رہی کہ جنگ اس کی خاطر ہوئی لیکن رام کہتے ہیں ’’ جنگ تمہارے لیے نہیں کیا، جس وجہ سے میں نے تمہیں نجات دلائی ہے وہ مقصد پورا ہو گیا۔ تم میں میری اب کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ جہاں جی چاہے چلی جاو ‘‘
المیہ یہ ہے کہ اگنی پرکچھا کے بعد بھی مردانہ سماج میں عورت کو خود کشی کرنی پڑتی ہے۔
اندر نے گوتم منی کا روپ دھارن کر اہلیہ کا ریپ کیا۔ اصلی منی جب کٹیا میں لوٹے تو اہلیہ سمجھ گئی کہ اندر نے چھل کیا۔ اس نے منی کو ساری باتیں سچ سچ بتا دیں۔ منی بھی تو مرد تھے کیسے برداشت کرتے۔ کرودھ میں آ گئے منتر پڑھا اور اہلیہ کو پتّھر بنا دیا۔ عمرانہ کو اس کے سسر نے ریپ کیا۔ مولانا نے فتویٰ پڑھا اور عمرانہ حرام ہو [ پتھر ] ہو گئی۔ اہلیہ سے عمرانہ تک کچھ نہیں بدلا۔ سماج وہی ہے مرد وہی ہے عورت کا درد وہی ہے۔ فرق اتنا ہے کہ سورگ کے دیوتا کی جگہ آج ستّا کے دیوتا نے لے لی ہے۔ سورگ کے دیوتا خود چل کر آتے تھے۔ ستّا کے دیوتا کو خود جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ وہ عورت کو اٹھوا لیتا ہے اور ستّا گھر میں گینگ ریپ کرتا ہے۔ ایک نام چین پولس افسر نے ایک آی۔ اے۔ اس۔ عورت کے کولہے سہلائے تو اسے دو لاکھ جرمانہ بھرنا پڑا۔ آئی اے اس خاتون کے کولہوں کی قیمت تو دو لاکھ ٹھہری، عام عورت کے اندام نہانی کی کیا قیمت ہے جسے قلعہ سمجھ کر نام چین چڑھائی کرتے ہیں ؟
اور اس جین لڑکی کے ساتھ کیا ہوا ؟ بہت جی جلتا ہے جناب یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے۔ ستّا کے سادھو نے اسے فریزر روڈ سے اٹھا لیا اور گورنمنٹ گیسٹ ہاوس میں اجتماعی ریپ کیا۔ یہاں البرٹو موراویہ کی ایک کہانی کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ کچھ کلین ایک لڑکی کو ہوٹل میں لاتے ہیں۔ اسے ننگا کرتے ہیں اور سب ایک ساتھ اس کو بھنبھوڑنا شروع کرتے ہیں۔ کوئی ٹانگوں سے لپٹ جاتا ہے کوئی پیٹ پر بیٹھ جاتا ہے کوئی چھاتیوں میں دانت گڑاتا ہے کوئی کولھے مسلتا ہے کوئی جانگھ سہلاتا ہے کوئی ہونٹوں کو کاٹتا ہے لڑکی چیخ رہی ہے اور بورژوا مزہ لے رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ واہ۔ ۔ ۔ ۔ واہ۔ ۔ ۔ ۔ کیا چھاتیاں ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ؟ کیا جانگھ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ؟ہائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا کو لہے ہیں۔ ۔ ۔ ؟ ہائے۔ ۔ ۔ ہائے۔ ۔ ۔ ۔ ہائے۔ ۔ ۔ ۔ اور لڑکی بیڈ پر ہی مر جاتی ہے۔
جین لڑکی بھی بیڈ پر ہی مر گئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !
لڑکی کو بچانے اس کا پریمی بھی آیا تھا۔ وہ ان کی پارٹی کا ہی آدمی تھا لیکن اس کا زندہ رہنا اب خطرے سے خالی نہیں تھا۔ پریمی کو بھی دھر دبوچا اور گلا دبا کر مار دیا ان دنوں خبر گشت کر رہی تھی کہ کسی پرائیوٹ چینل کا رپورٹر اپنی محبوبہ کے ساتھ گاڑی میں مردہ پایا گیا تھا۔ اس کی پینٹ کی زپ کھلی تھی اور اے سی چل رہا تھا۔ پولس کا بیان آیا کہ اے سی کھلا رہنے سے دم گھٹ کر موت ہوئی۔ گاڑی کی اے سی پائپ لیک کر رہی تھی جس سے کاربن مونو آکسائڈ گیس پھیل گئی اور شیشہ بند رہنے سے دم گھٹ گیا۔
ستّا کے سادھووں نے اس واقعہ کا فائدہ اٹھایا۔ دونوں لاشیں پریمی کی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر رکھ دی گئیں۔ پینٹ کی زپ کھول دی گئی۔ گاڑی پریمی کے گھر اس کے گیرج میں پارک کر دی گئی اور اے سی کو چا لو رکھا گیا۔ پولس کو اب سہولیت تھی۔ اس نے یہی بیان دیا کہ اے سی چالو رہنے سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بات یہاں ختم نہیں ہوتی ہے۔ پریمی کا باپ پردیس میں تھا۔ ستّا کے سادھو اپنے رضا کاروں کی بھیڑ لے کر آئے نعرے بازی کی، سب کو یقین دلایا کہ ہم اس کے بہی خواہ ہیں کہ یہ ہماری پارٹی کا آدمی تھا۔ اس کا باپ نہیں ہے تو کیا ہوا ؟ ہم اس کا داہ سنسکار کریں گے۔ اور اسی دن ارتھی اٹھا کر لے گئے اور بجلی مردہ گھر کے حوالے کر دیا۔
میں تسنیم کے ساتھ ڈر ڈر کر چل رہا تھا۔ آخر اس کو لے کر اندھیرے کی جنّت میں داخل ہوا۔ کونے والی میز مل گئی۔ ریستوراں کے نیم اندھیرے کونے میں بھی اس کا حسن درخشاں تھا۔ بیٹھتے ہی اس نے پہلا جملہ یہی کہا کہ وہ اس طرح کبھی اپنے پاپا کے ساتھ کسی ریستوراں میں نہیں آ ئی۔ اس کے لہجے میں حسرت تھی۔ اس نے بتایا کہ پاپا ڈاکٹر ہیں اور دبئی میں نوکری کرتے ہیں۔ امّی ان کے ساتھ رہتی ہیں۔ وہ اکیلی اپنے بھائی کے ساتھ رہتی ہے۔ رکھوالی کے لئے گھر میں کھوسٹ نانی ہے جو ہر بات پر ٹوکتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ یہ مت کرو۔ ۔ ۔ ۔ وہ مت کرو۔ ۔ ۔ ۔ سر پر دو پٹّہ کیوں نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ نماز کیوں نہیں پڑھتی۔ ۔ ۔ ۔ ؟
بھائی کو دوستوں سے فرصت نہیں تھی۔ اس کے لئے وقت گذارنا مشکل تھا۔ کہاں جائے ؟ کس سے باتیں کرے ؟ کوئی نہیں تھا جس سے اپنے احساسات شئیر کر سکتی۔ بولتے بولتے اس کا لہجہ رو ہانسی ہو گیا، کچھ دیر رکی۔ ۔ ۔ ۔ پھر کہنے لگی کہ پاپا بھی آتے ہیں تو وہ اکیلی رہتی ہے۔ کہیں گھمانے نہیں لے جاتے۔ امّی بھی نہیں پوچھتیں۔ دونوں ایک دوسرے میں مست رہتے ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ان لوگوں کے ساتھ کبھی باہر گئی، شاپنگ کی، کسی ریستوراں میں گئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !
میں نے محسوس کیا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو ہیں۔ پھر بہت حسرت سے بولی کہ اس کا بہت دل چاہتا ہے کہ پاپا سے اپنی پرابلم شیئر کرتی۔ اس نے سسکاری سی بھری اور اپنا سر میرے کندھے پر ٹکا دیا۔ میرا ہاتھ اس کے سر پر چلا گیا۔ ’’مجھسےشیئر کرو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں دوست ہوں تمہارا۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
بات بہت واضح تھی۔ وہ الکٹرا کامپلیکس میں مبتلا تھی۔ ۔ ۔ فادر کامپلیکس میں۔ ۔ ۔ ۔ اس لئے اس نے مجھ سے دوستی کی۔ ۔ ۔ وہ مجھ میں اپنے والد کی شناخت کر رہی تھی۔ والد سے جو شفقت نہیں ملی مجھ سے مل سکتی تھی۔
اور ہم دوست بن گئے۔ اس نے پہلے دن ہی مجھے ’ تم ‘ سے مخاطب کیا تھا۔ میں پھر اسے اندھیرے کی جنّت میں نہیں لے گیا۔ سڑکوں پر ساتھ گھومنا بھی مناسب نہیں تھا۔ میں اسے کبھی آکاش وانی کے گیٹ پر بلاتا کبھی خدا بخش لائبریری میں۔ میرا جیوتش کاریالیہ اسے پسند نہیں تھا۔ کہتی تھی ایک کمرے سے نکل کر دوسرے کمرے میں بند ہو جاتی ہوں۔ وہ کھلے میں گھومنا پسند کرتی تھی۔ وہ بہت بنداس قسم کی لڑکی تھی۔ اس نے ایک بار مجھ سے سگریٹ مانگ کر پیا۔ وہسکی کا مزہ بھی لینا چاہتی تھی۔ میں اس سے کہتا کسی اچھے لڑکے سے دوستی کر لو اور مناسب ہو تو شادی بھی کر لو لیکن اسے کوئی لڑکا پسند نہیں آتا تھا۔ کہتی تھی بہت چھچھورے قسم کے لڑکے ہیں۔ فوراً سیکس پر اتر آتے ہیں اور سیکس اسی کے ساتھ ہو سکتا ہے جس سے شادی ہو گی۔ وہ اکثر مجھ سے مذاق کرتی کہ میں بڈّھا کیوں ہو گیا ؟ تیس سال بعد کیوں نہیں پیدا ہوا اور پھر زور سے ہنستی اور میرے کندھے پر سر ٹکا دیتی۔
وہ جب بھی آتی میرے لئے چاکلیٹ کا پیکٹ لے کر آتی اور میں اس کو پر فیوم خرید کر دیتا۔ اس نے سمندر نہیں دیکھا تھا۔ اس کی بہت تمنّا تھی کہ سمندر کے کنارے گیلی ریت پر چلے۔ ۔ ۔ ۔ کنارے کنارے سیپیاں چنے۔ ۔ ۔ ۔ دور تک کھلی ہوا میں دوڑے۔ ۔ ۔ ۔ !
ایک دن بہت ضد کی کہ گنگا کنارے چلو۔ دن بھر گزاریں گے۔ ! میں اسے گھاٹ کنارے لے گیا۔ ساتھ میں رینو بھی تھی۔ اس نے دو گھروندے پاس پاس بنائے۔ میں نے پوچھا دوسرا گھروندا کس لئے ہے تو بولی۔
’’ یہ تمہارے لئے ہے۔ ۔ ۔ ۔ مائکہ قریب ہونا چاہیئے تا کہ کوئی پرابلم ہو تو مائکے کا رخ کیا جا سکے۔ ‘‘
وہاں سے ہم رینو کے گھر آئے۔ رینو نے پاپ سنگیت کا کیسٹ لگا دیا۔ تسنیم کے پاوں تھرکنے لگے۔ ۔ ۔ وہ دیر تک ڈانس کرتی رہی۔
میرا بھی ہاتھ پکڑ کر کھینچا کہ اس کا ساتھ دوں ۔ جب تھک گئی تو میرے کندھے پر سر رکھ کر رونے لگی؛
’’ اتنی آزادی اور اتنی خوشی مجھے پہلے کبھی نہیں ملی۔ ۔ ۔ ۔ کاش تم ہمیشہ میرےساتھ ہوتے۔ ۔ ۔ ! ‘‘
رینو اس سے مل کر اداس ہوئی۔ رینو کا تبصرہ تھا وہ اتنی حسین اور اتنی بنداس ہے کہ اس کا مستقبل خطرے میں ہے۔ وہ ایسے ماحول میں پیدا ہوئی ہے کہ اپنی زندگی جی نہیں سکے گی اور جب زندگی کے کمزور لمحوں سے گذ رے گی تو غلط فیصلہ کرے گی۔ اس کے نصیب کو اسی کمزور لمحوں کا انتظار رہے گا کہ قسمت کی ستم ظریفی ہر حسین چیز کو غلیل کے پیچھے سے دیکھتی ہے۔
رینو کہتی ہے کہ عورت جب تک جسمانی سطح پر جیتی ہے غیر محفوظ رہے گی۔ ناری مکتی آندولن کی ایک عورت نے اس سے کہا تھا کہ وہ برا نہیں پہنتی، اس سے انکش کا احساس ہوتا ہے۔ انکش کا یہ احساس جسم ہونے کا احساس ہے۔ وہ ایک جسم ہے تب ہی تو انکش ہے۔ عورت جذباتی تحفّظ کی زیادہ بھوکی ہوتی ہے۔ گھر مرد سے ہوتا ہے جسے عورت سنوارتی سجاتی ہے۔ اسے گھر کی ہر چھوٹی بڑی چیز سے پیار ہوتا ہے۔ اپنے گھر میں مرد کا داڑھی بنانا بھی اسے پسند ہے۔ اس کے ساتھ صوفے پر بیٹھ کر چائے پینا اسے اچھا لگتا ہے لیکن مرد کے لئے یہ باتیں اہمیت نہیں رکھتیں۔ مرد دیر سے گھر لوٹتا ہے تو وہ غصّہ کرتی ہے۔ اس لئے نہیں کہ وہ قابض رہنا چاہتی ہے۔ اس لئے کہ وہ اپنی تکمیل میں جیتی ہے۔ اسے مکمّل سپردگی چاہیئے۔ وہ مرد کی پیٹھ سے لگ کر سونا چاہتی ہے تا کہ ایک داخلی آہنگ کا احساس کرے۔ لیکن جب مرد اس کا ہاتھ جھٹکتا ہے تو اس کو ٹھیس سی لگتی ہے۔ اس کو لگتا ہے مرد خود غرض ہے۔ ۔ ۔ ۔ اس کا استعمال کرتا ہے ایک آبجکٹ کی طرح۔ ۔ ۔ عورت کو سیکس سے زیادہ ایک پیار بھرا لمس چاہیئے۔ احساسات کی سطح پر اگر ٹوٹتی ہے تو ٹھنڈے بستر میں بدل جاتی ہے۔
تسنیم نے ڈینٹل کالج میں داخلہ لیا اور اپنے ایک ہم جماعت سے شادی کی اور شمالی ھندوستان میں دور جا بسی۔ ایک دن اس کا فون آیا کہ اس کا شوہر اس کا روز ریپ کرتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ بہت خود غرض ہے۔ ۔ ۔ ۔ بہت شہوت پسند۔ جب چاہے بھنبھوڑنے لگتا ہے۔ نہیں چاہ کر بھی اس کو ہم بستر ہونا پڑتا ہے کہ وہ اس کا سر تاج ہے۔
تسنیم ایک ٹھنڈے بستر میں بدل چکی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !
٭٭٭