FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

اٹھارہ سو ستاون۔ ایک مطالعہ

 

 

                خلیق احمد نظامی

 

ماخذ: ایک سیمنار کا سووینیر جو جنگِ آزادیِ ہند کی ڈیڑھ سو ویں سالگرہ پر باہتمام اقبال اکادمی، حیدر آباد میں ۲۰۰۷ء میں منعقد ہوا

 

 

 

 

 

 

۱۸۵۷ء ہندوستان کی سیاسی اور ثقافتی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے قدیم و جدید کے درمیان یہی وہ منزل ہے جہاں سے ماضی کے نقوش بھی پڑھے جا سکتے ہیں اور مستقبل کے امکانات کا جائز ہ بھی لیا جا سکتا ہے۔ مغلیہ سلطنت جس کے دامن میں ایک ایسی تہذیب نے پرورش پائی تھی جو رنگ و نسل اور مذہب و ملت کے سارے امتیازات سے بالاتر ہو کر ایک عرصہ تک ہندوستان کی سیاسی وحدت کی ضامن رہی تھی،یہاں پہنچ کر دم تو ڑ دیتی ہے۔ اور اس کے ساتھ تاریخ کا ایک دور ختم ہو جاتا ہے۔

پرا نا سماجی نظام اور پرانے نظریات وقت کے نئے تقاضوں کے سامنے سرنگوں ہو جاتے ہیں اور نئی سماجی قوتیں صرف فکر و نظر کے سانچے ہی توڑنے پر اکتفا نہیں کرتیں بلکہ زندگی کے سارے محور بدل دیتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ۱۸۵۷ء میں صرف ایک سیاسی نظام ہی کا جنازہ نہیں نکلتا بلکہ ہندی قرونِ وسطی کا سارا تہذیبی سرمایہ نیست و نابود ہو جاتا ہے۔ دہلی جو صدیوں تک علم و ہنر کا مرکز اور تہذیب و تمدن کا گہوارہ رہی تھی اس طرح تباہ و برباد ہو جاتی ہے کہ دیکھنے والے بے اختیار پکار اُٹھتے ہیں   ؂

مٹ گئے تیرے مٹانے کے نشاں بھی اب تو

اے فلک !اس سے زیادہ نہ مٹانا ہرگز

اس سیاسی اور تمدنی بربادی کی داستان مورخین نے مختلف نقط ہائے نظر سے ترتیب دی ہے، بعض نے اس کا مطالعہ محض سپاہیوں کے ہنگامہ کی حیثیت سے کیا ہے بعض نے پوری تحریک میں صرف چند رجعت پسند عناصر کی سرگرمی دیکھی ہے اور کچھ مصنفین نے اس کو ایک ڈوبتے ہوئے جاگیردارانہ نظام کے سنبھالنے کی کوشش سے تعبیر کیا ہے۔ یہ اور اس طرح کی تمام تعبیریں حقیقت کے صرف ایک پہلو کو سامنے لاتی ہیں اس لئے جزوی طور پر صحیح لیکن کلی طور پر غلط ہیں۔

دنیا کی کسی تحریک کا بھی بے تعصبی سے مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ اس میں حصہ لینے والے سب لوگوں کے مقاصد اور مطمح ہائے نظر ایک نہیں ہوتے۔ فرانس میں جب cahiers   کے ذریعہ فرانسیسی باشندوں کی شکایت اور مطالبات کا پتہ لگانے کی جستجو کی گئی تو معلوم ہوا کہ جہاں کچھ لوگ مطلق العنان شخصی حکومت سے نالاں تھے،وہاں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن کو صرف یہ شکایت تھی کہ ان کے محلہ میں روشنی کا کوئی معقول انتظام نہ تھا۔

تاریخ عالم شاہد ہے کہ کسی محکم سیاسی نظام کو توڑنے کے لئے جو تحریک بھی اٹھتی ہے اُسے اپنی منزل تک پہنچنے کے لئے کتنی ہی پُر پیچ وادیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ کبھی وقتی جذبات اور عارضی مصالح،بنیادی مقاصد اور حقیقی نصب العین کو شکست دیتے ہوئے نظر آئے ہیں،کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ تحریک ان ہاتھوں میں چلی جاتی ہے اپنے افکار کی پستی اور کردار کی درماندگی کی بنا پر قیادت کی اہلیت نہیں رکھتے لیکن بایں ہمہ تحریک کے مقصد د منہاج کا نقش معاصرین کے ذہنوں میں قائم ہو جاتا ہے وہی اس کی نوعیت کو متعین کرتا ہے اور اسی سے اس کی کامیابی یا ناکامی کا اندازہ لگا یا جاتا ہے۔ انقلاب فرانس کا مقصد شہنشاہیت کا استیصال اور ایک ایسے نظام کی تشکیل تھا جس کی عمارت حریت،اخوت اور مساوات کی محکم بنیادوں پر قائم ہو،لیکن کیا انقلاب فرانس کی تاریخ میں صرف یہی مرکزی نقطۂ نظر ہمیشہ اور ہر طبقہ کا رہا ہے ؟۔ ۔ ۔

مورخوں نے تسلیم کیا ہے کہ انقلاب کے دوران میں بار ہٍا ایسے عناصر برسراقتدار آئے جو تحریک کی قیادت کی اہلیت نہ رکھتے تھے لیکن اس کے باوجود تحریک کا دھارا scumred scumwhite کو اپنی سطح پر لئے اپنے مقصد کی جانب بڑھتا رہا۔

۱۸۵۷ء میں سپاہیوں کی بغاوت بھی ہوئی اور رجعت پسند عناصر نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے جد و جہد بھی کی لیکن مجموعی حیثیت سے تحریک کی نوعیت غیرملکی اقتدار کے خلاف قومی تحریک ہی کی رہی اور اس کا احساس انگلستان کے بعض معاصر صحافیوں اور مدبروں کو بھی تھا۔ لارڈ سالسبری نے ایوان عام میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ کیسے تسلیم کر لیا جائے کہ اتنی وسیع اور زبردست تحریک صرف کا رتوسوں کی وجہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ لندن کے ایک اخبار نے اسی زمانہ میں لکھا تھا :

‘‘اگر بے اطمینانی صرف سپاہیوں تک ہی محدود ہے اور عام لوگ ہمارے ساتھ ہیں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ حکومتِ ہند کیوں بار بار انگریز ی فوجیں طلب کرتی ہے اور تار پر تاریکیوں کھڑکا تی ہے ؟ اگر لوگ حکومت کے ساتھ ہیں جیسا کہ وزیر اور کمپنی کے ڈائرکٹر بیان کرتے ہیں تو انہیں وہیں سے اتنے آدمی مل سکتے ہیں کہ وہ اُن سے دس فوجیں کھڑی کر لیں۔

انگریز نے اپنا تسلط قائم کر لینے کے بعد جس بہیمت اور بربریت کے ساتھ ہندوستانیوں کو سزائیں دی تھیں اور ہزاروں بے گناہ انسانوں کو محض انتقامی جذبے کے ماتحت موت کے گھاٹ اتارا تھا اُس سے ملک میں خوف اور دہشت کی ایک عام کیفیت پیدا ہو گئی۔ ہندوستانیوں میں اتنی ہمت تک نہ تھی کہ تحریک کی نوعیت کے متعلق ایک حرف بھی نوک زباں پرلا سکیں۔ انگریز نے تحریک کو ‘‘غدر‘‘ کہا تو وہ خود بھی اسے ‘‘غدر‘‘ کہنے لگے۔

جوں جو ں دلوں سے خوف کے پردے ہٹے،تحریک کی صحیح نوعیت کا احساس بھی بیدار ہونے لگا اور اسی کے ساتھ ساتھ زاویۂ نگاہ میں تبدیلی بھی پیدا ہونے لگی ‘‘غدر‘‘ سے ‘‘رست خیز بیجا‘‘ ہوا،اور رستخیز بے جا‘‘ سے ‘‘ ہنگامہ ۱۸۵۷ء ‘‘ اور آزادی کے بعد‘‘ آزادی کی پہلی جنگ ‘‘ یا ‘‘قومی تحریک ‘‘۔ گو یہ سب الفاظ بدلتی ہوئی سیاسی فضا کی آئینہ دار ہیں،لیکن یہ شبہ ذہن میں پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ معاصرین ۵۷ء کے ہنگامہ کو ‘‘قومی تحریک ‘‘یا‘‘ آزادی کی جد و جہد‘‘ سے تعبیر نہیں کرتے تھے۔ صحیح ہے کہ قومیت کا موجودہ تصور اس دور میں نہ تھا،لیکن انگریزوں کے خلاف پورے ہندوستان کے ایک ہونے کا تصور ’غدر‘ سے بہت پہلے ہندوستانی ذہن میں کام کرنے لگا تھا۔ سید احمد شہیدؓ نے ہندو راؤ کو جو خط لکھا تھا اُس میں ‘‘بیگانوں ‘‘کے ہندوستان پر قابض ہو جانے کی شکایت تھی ! گویا وہ ایک ہی گھر کے آدمی کو مشترکہ دشمن کے خلاف اشتراکِ عمل کی دعوت دے رہے تھے۔ رسالۂ اسباب بغاوت ہند میں گو مصلحت وقت نے بعض مقامات پر سر سید کا قلم پکڑ لیا ہے لیکن پھر بھی اُنہوں نے تحریک کی نوعیت کو واضح کرنے میں سر مو کوتاہی نہیں کی۔ اُن کا ایک طرف یہ لکھنا کہ۔ ۔ ۔

بہت سی باتیں ایک مدتِ دراز سے لوگوں کے دل میں جمع ہوتی جاتی تھیں اور بہت بڑا میگزین جمع ہو گیا تھا صرف اس کے شتابے میں آگ لگانی باقی تھی۔

کہ سال گزشتہ میں فوج کی بغاوت نے اس میں آگ لگا دی ‘‘

اور دوسری طرف یہ کہنا کہ۔

‘‘سب لوگ تسلیم کرتے چلے آئے ہیں کہ واسطے اسلوبی اور خوبی اور پائداری گورنمنٹ کے مداخلت رعایا کی حکومت ملک میں واجبات میں سے ہے۔ ۔ ۔ اور یہ بات نہیں حاصل ہوتی جب تک کہ مداخلت رعایا کی حکومت ملک میں نہ ہو۔ ۔ ۔ پس یہی ایک بات ہی جو جڑ ہے تمام ہندوستان کے فساد کی اور جتنی باتیں اور جمع ہوتی گئیں وہ سب اُس کی شاخیں ہیں ‘‘

صاف ظاہر کرتا ہے کہ وہ تحریک کی عوامی حیثیت کے پورے طور پر معترف تھے۔ خود انگریزوں نے اس تحریک کو دبانے کے لیے جو طریقۂ کار اختیار کیا تھا اور جس طرح ہندوستانیوں کو سزائیں محض یہ حقیقت کہ ۱۸۵۷ء کے ہنگامہ دارو گیر سے گزرنے والوں کو ‘‘مجاہدین فی سبیل اللہ ‘‘ اور شہداء راہ خدا ‘‘کا درجہ دیا گیا تھا۔ ہندوستانیوں کی تحریک سے گہری وابستگی کو سمجھنے کے لیے بس کرتی ہے !

۱۸۵۷ء کی تحریک میں سکھوں اور پارسیوں کے علاوہ ہر مذہب و ملت کے لوگوں نے حصہ لیا تھا۔ تحریک کی ہمہ گیری کا عالم یہ تھا کہ تین ہفتوں کے اندر اندر سارے ملک میں ہنگامے شروع ہو گئے تھے۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہندوستان کے بعض علاقے تحریک سے علیحدہ رہے اور بعض نے انگریزوں کا ساتھ دیا لیکن اس سے تحریک کی نوعیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ کسی بھی قومی تحریک یا جنگ آزادی میں تمام علاقوں اور تمام طبقات نے شرکت نہیں کی ہے۔ انقلابِ فرانس کے وقت ملک میں ایک ایسا طبقہ موجود تھا جو شہنشاہیت کو قائم رکھنا چاہتا تھا اور اس کی موافقت میں کا م کر رہا تھا۔ اسی طرح امریکہ کی جنگ آزادی میں بہت سے لوگ تاج برطانیہ کے مدد گار رہے تھے۔

یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ۵۷ء کی تحریک عوامی ہوتے ہوئے بھی ناکام کیوں رہی اس سلسلہ میں تاریخ انقلاب کا ایک راز فراموش نہیں کرنا چاہے۔ انقلابی جذبات کے بیدار ہونے کے لئے جہاں یہ ضروری ہے کہ عوام کے دل میں کسی نظام کے خلاف شدید بے چینی ہو وہاں اس کامیابی کے لئے از بس لازمی ہے کہ مستقبل کی تعمیر کا ایک واضح خاکہ ذہن میں ہو۔ ۱۸۵۷ء میں انگریزوں کے خلاف شدید نفرت اور برطانوی طریق کا رسے سخت بیزاری ضرور نظر آتی ہے لیکن کسی ایک شخص کے ذہن میں بھی تشکیل جدید کا نقشہ نہیں ملتا !یہی نہیں بلکہ اُس وقت جتنی بھی طاقتیں میدان میں سرگرم عمل تھیں ان میں سے کوئی بھی ایک کُل ہند نظام کا بوجھ سنبھالنے کی صلاحیت نہ رکھتی تھی۔ یہ ایسی محرومی تھی جس نے ساری تحریک کی روح کو مضمحل کر دیا تھا۔ اور ہر فوجی مہم کسی مقصد تک رہبری کرنے کے بجائے وقتی ہنگامہ آرائی میں ختم ہو جاتی تھی۔ جمہوریت اور خود اختیاری کے افکار ابھی سیاسی شعور میں داخل نہیں ہوئے تھے اس لئے سیاسی زندگی کی تعمیر نو کا سوال بے معنی تھا۔ شخصی حکومت کا تصور اس طرح رگ و ریشہ میں پیوست ہو چکا تھا کہ ہر مقام پر لوگ۔ ۔ ۔ بہادر شاہ ‘‘ ایک ‘‘نانا صاحب ‘‘ ایک ‘‘ رانی لکشمی بائی ‘‘ ایک ‘‘ برجیس قدر‘‘ کی تلاش کرتے تھے۔ اور چاہتے کہ ان ہی کے سہارے کوئی ایسا نظام تشکیل پا جائے جو اُن کے مصائب کا علاج اور اُن کے درد کا مداوا بن سکے مغل بادشاہ ہندوستان کا تو سوال کیا،لال قلعہ کو بھی قابو میں رکھنے کی صلاحیت نہ رکھتا تھا ۔ مرہٹوں کی اجتماعی طاقت کا عرصہ ہوا خاتمہ ہو چکا تھا۔ روہیلوں کے چند سردار جواس وقت مختلف مقامات پر اپنی طاقت کا استحکام کر رہے تھے،مقامی طور پر مدافعت اور کار برآری کی صلاحیت تو رکھتے تھے،لیکن ایک وسیع علاقہ پر حکومت کرنے کے لئے جس دور اندیشی،تدبر اور انتظامی صلاحیت کی ضرورت تھی اس کا دور تک کہیں پتہ نہ تھا۔ پھر اس شخصی عقید ت کے نازک رشتوں کو بھی توڑنے کے لئے کتنے ہی عنا صر کا م کر رہے تھے۔ دہلی میں بخت خاں کو نہ صرف مغل شہزادوں کا تعاون حاصل نہ ہو سکا بلکہ اس کا اثر توڑنے کے لئے یہ پروپیگنڈ ا کیا گیا کہ شیر شاہ کی طرح اس کا اقتدار بھی مغلیہ خاندان کے لئے مہلک ثابت ہو گا لکھنؤ میں حضرت محل کے ذہن میں یہ بات بٹھائی گئی کہ اگر احمد اللہ شاہ کی مدد سے اقتدار قائم ہوا تو سنیوں کا غلبہ ہو جائے گا اسی طرح روہیلوں کے علاقوں میں ہندو زمینداروں کو روہیلہ سرداروں سے برگشتہ کیا گیا۔ لارنس نے سکھوں کو بہادر شاہ سے بد ظن کر کے دہلی کے ساتھ سکھوں کے اشتراک عمل کے امکانات کو ختم کر دیا۔ ان تمام کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود اگر ۱۸۵۷ء کا ہندوستان بہترین صلاحیتیوں کو یکجا کر دیتا تو یقیناً غلامی کی زنجیریں اتنی آسانی سے نہ پہنا ئی جا سکتیں تھیں۔

۱۸۵۷ء کی تحریک غیرملکی اقتدار کے خلاف جنگ کی ابتداء بھی تھی اور ایک منزل بھی۔ یہ سمجھ لینا صحیح نہ ہو گا کہ اس سے قبل انگریزوں کے خلاف نفرت کے جذبات کا اظہار نہیں ہوا تھا۔ ہندوستانیوں کا ذہن غیر ملکی تسلط کے خلاف پورے طور پر تیار ہو چکا تھا۔ یہ سیاسی شعور اور بیداری شاہ ولی اللہ دہلوی ؓ (م ۱۷۶۲ء   ۱۱۷۶ھ) اور ان کے گھرانے کی پیدا کی ہوئی تھی۔ شاہ صاحب ؓ نے اپنی تصانیف میں ملوکیت اور شہنشا ہیت کے خلاف جگہ جگہ آواز اٹھائی تھی اور سیاسی نظام کی اصلاح کے لیے صرف اعلیٰ طبقوں،امراء و حکام ہی کو متوجہ نہیں کیا تھا،بلکہ عوام کو بھی مخاطب کیا تھا،ان کی تحریک کا سب سے زیادہ ترقی پسند پہلو یہ تھا کہ وہ سیاسی نظام کا انحصار ’’عوام ‘‘ پر سمجھتے تھے اور ان میں یہ احساس پیدا کرنا چاہتے تھے کہ اگر وہ تیار ہو جائیں تو سارے مصائب کا علاج ممکن ہے ان کے جانشینوں نے ان کی تحریک کو آگے بڑھا یٍا اور ان کے پیدا کئے ہوئے سیاسی د ستور کی روشنی میں ملک کی رہبری کی۔ شاہ عبدالعزیز صاحبؒ (م۱۸۲۴ء) ۱۲۳۹ ھ) نے ایک فتوی میں کہا تھا۔

یہاں روسائے نصاریٰ کا حکم بلا دغدغہ اور بے دھڑک جاری ہے اور ان کا حکم جاری اور نافذ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ملک داری اور ہندو بست رعایا،خراج و باج،مال تجارت پر ٹیکس،ڈاکوؤں اور چوروں کو سزائیں،مقدمات کے تصفیے،جرائم کی سزائیں،وغیرہ (ان تمام معاملات میں) یہ لوگ بطور خود حاکم اور مختار مطلق ہیں۔ ہندوستانیوں کو اُن کے بارے میں کوئی دخل نہیں بیشک نماز جمعہ،عیدین،اذان،ذبیحہ گا ؤ جیسے اسلام کے چند احکام میں وہ رکاوٹ نہیں ڈالتے،لیکن جو چیز ان سب کی جڑاور بنیاد ہے وہ قطعاً ً بے حقیقت اور پامال ہے چنانچہ بے تکلف مسجدوں کو مسمار کر دیتے ہیں عوام کی شہری آزادی ختم ہو چکی ہے۔ انتہا یہ کہ وہ کوئی مسلمان یا غیر مسلم اُن کی اجازت کے بغیر اس شہر یٍا اس کے اطراف و جوانب میں نہیں آ سکتا۔ عام مسافروں یا تاجروں کو شہر میں آنے جانے کی اجازت دینا بھی ملکی مفاد یا عوام کی شہری آزادی کی بنا پر نہیں بلکہ خود اپنے نفع کی خاطر ہے۔ اس کے بالمقابل خاص خاص اور ممتاز اور نمایاں حضرات مثلاً شجاع الملک اور ولایتی بیگم ان کی اجازت کے بغیر اس ملک میں داخل نہیں ہو سکتے۔ دہلی سے کلکتہ تک انہی کی عملداری ہے۔ بیشک کچھ دائیں بائیں مثلاً حیدر آبا د لکھنو۔ رام پور میں چونکہ وہاں کے فرماں رواؤں نے اطاعت قبول کر لی ہے براہ راست) نصاریٰ کے احکام جاری نہیں ہوتے۔ شاہ عبدالغریز صاحب ؒ نے ہندوستان کو ‘‘دار الحرب ‘‘ قرار دے کر،غیرملکی اقتدار کے خلاف سب سے پہلا اور سب سے زیادہ موثر قدم اُٹھایا تھا۔ اس فتوے کی اہمیت کو وہ لوگ سمجھ سکتے ہیں جو دارالحرب ‘‘ کے صحیح مفہوم کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی سیاست پر خاندان ولی اللہی کے ا اثرات کا بھی صحیح علم رکھتے ہوں۔ سید احمد شہیدؒ مولانا اسمعیل شہیدؒ وغیرہ نے اپنے سیاسی فکر میں انگریزی اقتدار کو جو درجہ دیا تھا اُس کی بنیاد یہی فتویٰ تھا سید احمد شہیدؒ کی تحریک جس کو مصلحتاً ً بعض ممتاز اشخاص نے سکھوں کے خلاف تحریک کا رنگ دے دیا تھا، حقیقتاً انگریزوں ہی کے خلاف سب سے زیادہ منظم کوشش تھی۔ اُن کا مقصد اولیں یہی تھا کہ انگریزوں کو ہندوستان سے نکال دیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ایسے مقام پر طاقت کا استحکام ضروری تھا جہاں سے انگریزوں کے خلاف جنگ کی تنظیم کرنے میں مدد ملے۔ اگر سرحد اور پنجاب میں وہ اپنی طاقت کے استحکام میں کامیاب ہو جاتے تو ہندوستان میں برطانوی سامراج کے قدم اتنی آسانی سے نہیں جم سکتے تھے۔ ان کی تحریک کی نوعیت اور اُن کے مقاصد کا انداز ہ اس خط سے لگا یا جا سکتا ہے جو انہوں نے راجہ ہندو راؤ کو لکھا تھا:

‘‘جناب کو خوب معلوم ہے کہ پردیسی سمندر پار کے رہنے والے دنیا جہان کے تاجدار اور یہ سودا بیچنے والے سلطنت کے مالک بن گئے ہیں بڑے بڑے امیروں کی امارت اور بڑے بڑے اہل حکومت کی حکومت اور ان کی عزت و حرمت کو انہوں نے خاک میں ملا دیا ہے جو حکومت و سیاست کے مرد میدان تھے وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اس لئے مجبوراً چند غریب و بے سر و سامان کمر ہمت باندھ کر کھڑے ہو گئے اور محض اللہ کے دین کی خدمت کے لیے اپنے گھروں سے نکل آۓ۔ یہ اللہ کے بندی ہرگز دنیا دار اور جاہ طلب نہیں ہیں محض اللہ کے دین کی خدمت کے لئے اٹھے ہیں مال و دولت کی ان کو ذرہ برابر طمع نہیں۔ جس وقت ہندوستان ان غیر ملکیوں سے خالی ہو گا اور ہماری کوششیں بار آور ہو گئیں حکومت کے عہدے اور منصب ان لوگوں کو ملیں گے جن کو ان کی طلب ہو گی۔

سید صاحب کے عزیز ترین مرید اور دست راست مولانا شاہ محمد اسمعیل شہیدؒ نے اُن کی سیاسی فکر کو منصب اِمامت میں اور زیادہ واضح طور پر پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ ملوکیت سب سے بڑی لعنت ہے۔

سلاطین و ملوک کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

ان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا،عین انتظام ہے اور ان کو فنا کر دینا عینِ اسلام ہے ہر صاحبِ اقتدار کی اطاعت کرنا حکم شریعت نہیں ہے مسلمانو ں کی تنظیمی صلاحیت عسکری قابلیت معاملہ فہمی اور تدبر کا جو کچھ بچا کچا سرمایہ رہ گیا تھا اس کو سید احمد شہیدؒ نے بہترین طریقہ پر استعمال کیا۔ وقتی طور پر ان کو ناکامی ضرور ہوئی لیکن ان کی تحریک نے سر فروشی کا جو جذبہ پیدا کر دیا تھا وہ ایک عرصہ تک قلب و جگر میں شعلہ کی طرح بھڑکتا رہا۔

جلے جل کر بجھے بھی چشم صورت بیں میں پروانے

فروزاں کر گئے وہ نام لیکن شمع سوزاں کا

حقیقت یہ ہے کہ سید احمد شہیدؒ اور ان کے رفقاء کار کے خون سے آزادی کا پودا ہندوستان میں سینچا گیا۔ انگریزوں نے ان کی تحریک کی نوعیت کو خوب سمجھ لیا تھا اور وہ اس جذبہ سے بھی بے خبر نہ تھے جو جماعتِ مجاہدین کے قلب و جگر کو گرمائے ہوئے تھا۔ چنانچہ انہوں نے ایک طرف تو وہابی کا لقب دے کراس مکتبِ خیال کے لوگوں کو ختم کیا اور دوسری طرف کوشش کر کے اس تحریک کو اس طرح پیش کیا اور کرایا جس سے متاخرین کو ایسا محسوس ہونے لگا گویا اس کا رخ مح۔ ض سکھوں کی طرف تھا۔ حد یہ ہے کہ جماعت مجاہدین کے ایک رکن مولوی محمد جعفر تھا نیسری نے تواریخِ عجیبہ میں ان کے مکتوبات کو مسخ کیا اور نصاریٰ نکوہیدہ خصال ‘‘کی جگہ سکھاں نکوہیدہ خصال ‘‘کر دیا اور کفار فرنگ بر ہندوستان تسلط یافتہ ‘‘کو‘‘ کفار دراز مویاں کہ بر ملک پنجاب تسلط یافتہ میں تبدیل کر دیا۔ مولانا غلام رسول مہر نے جس کا وش سے ان تمام لفظی اور معنوی تحریفات کو بے نقاب کیا ہے اس کو اس دور کی سب سے زیادہ قابل قدر تحقیقات میں شمار کرنا چاہے ۔

سید احمد شہید ؒ نے بالا کوٹ سے کلکتہ تک اپنا نظام پھیلا دیا تھا۔ جو شخص ایک بار بھی ان کی تحریک میں شامل ہو گیا اس کا پورا خاندان عمر بھر جہاد کی تمنا کرتا رہا۔ ہزاروں انسانوں کے دل میں آزادی کی لگن پیدا ہو گئی۔

سید صاحبؒ کی تحریک نے مسلمانوں میں جو روح پھونک دی تھی اس کے مظاہرے ان کی شہادت کے بعد ایک عرصہ تک ہوتے رہے۔ جنگ بالاکوٹ کے چودہ پندرہ سال بعد سر سید احمد خان نے لکھا تھا۔ اس واقعہ (یعنی شہادت کے چودہ پندرہ بر س گزرے ہیں اور یہ طریقہ آخر الزماں میں بنیاد ڈالا ہوا آنحضرت ﷺ کا ہے اب تک اس سنت کی پیروی عبا د اللہ نے ہاتھ سے نہیں دی۔ اور ہر سال مجاہدین اوطان مختلفہ سے بہ نیت جہاد اسی نواح کی طرف راہی ہوا کرتے ہیں اور اس امر نیک کا ثواب آپ کی روح مطہر کو پہنچتا رہتا ہے۔

سید صاحب کی شہادت کے بعد لوگوں میں عام طور پر یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ : اللہ تعالیٰ نے ان کو موجودہ کمزور نسلوں سے اٹھا لیا ہے اور جب ہندوستان کے مسلمان یک جان ہو کر انگریز کافروں کے خلاف جہاد شروع کریں گے تو امام صاحب ظاہر ہو کر فتح کی طرف ہماری رہنمائی کریں گے۔ چنانچہ ۱۸۵۷ء کی تحریک میں عملا ً حصہ لینے والے بہت سے افراد سید احمد شہید کے افکار و نظریات سے متاثر معلوم ہوتے ہیں۔ ۳؂بخت خان کے متعلق ہمارا خیال ہے کہ وہ بھی جماعت مجاہدین ہی سے متعلق تھے۔ بہادر شاہ کے مقدمہ کے دوران میں ان کو وہابی العقیدہ بتایا گیا تھا۔ ۴؂ کوئی شخص بھی جس نے ہنٹر کی کتاب‘‘ ہمارے ہندوستانی مسلمان پڑھی ہے اس سے انکار نہیں کرے گا کہ وہابی کا لفظ اس زمانہ میں سید صاحب اور ان کے ہم خیال علماء کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اور بقول ہنٹر ‘‘ وہابی‘‘ اور غدار ہم معنی الفاظ تھے ۵؂ بخت خان نے علماء سے جس نوع کے تعلقات رکھے،ا س سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سید صاحب کی تحریک سے متاثر تھے جس وقت وہ تحریک میں حصہ لینے کے لیے دہلی پہنچے تھے سو علمٍا ان کے ہمراہ تھے۔ دوران ہنگامہ میں وہابی علماء کی ایک جماعت ٹونک سے ان کے پا س آئی تھی۔ اس کے علاوہ جے پور، بھوپال، ہانسی حصار اور آگرہ سے بھی کافی علماء کھچ کھچ کر ان کے گرد جمع ہو گئے تھے۔ ان علماء پر بخت خان کو اس قدر اعتماد تھا کہ تخلیہ کے ان مخصوص مشوروں میں جن میں سوائے ان کے اور بادشاہ کے کوئی تیسرا شخص نہ ہوتا تھا ان علماء کو شریک کر لیا جاتا تھا۔ مولوی ذکاء اللہ دہلوی کا بیان ہے کہ دہلی میں جہاد کے فتوے کو جو اہمیت اور چرچا حاصل ہوا وہ بخت خان کے دہلی آنے کے بعد ہوا۔

مولانا لیاقت علی الہ آبادی بھی اسی مکتبِ خیال کے مجاہد معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے شائع کئے ہوئے دو اشتہارات کا مضمون ملاحظہ فرمائیے ایک ایک حرف سید صاحب کے اندازِ فکر کی ترجمانی کرتا ہوا نظر آئے گا۔ ایک اشتہار میں تو ستائیس اشعار اس جہاد یہ نظم میں سے نقل کئیے گئے ہیں جو سید صاحب کے مجاہدین میدانِ جنگ میں پڑھا کرتے تھے۔ مولانا عنایت علی صادق پوری جن کی کوششوں سے مروان میں ر جمنٹ ۵۵ نے بغاوت کی تھی، سید صاحب کے خلیفہ اور جماعت مجاہدین کے سر گرم کارکن تھے۔

مولانا عبد الجلیل شہید علی گڈھیؒ جنہوں نے علی گڈھ میں فرنگی قوت سے دلیرانہ مقابلہ کیا۔ سید صاحب کے خلفاء میں سے تھے۔ ان چیدہ شخصیتوں کے علاوہ ۱۸۵۷ء کے ہنگامہ میں حصہ لینے والے اور بہت سے اشخاص سید صاحب کی جماعت یا ان کے مکتبِ خیال سے تعلق رکھتے تھے۔ اور غالباًی بنا پر بعض لوگوں نے ۱۸۵۷ء کے ہنگامہ کو مسلمانوں کی تحریک قرار دیا تھا۔ ہر چند کہ مجاہدین نے اس ہنگامہ میں بری سرگرمی دکھائی لیکن وہ اس کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں نہ لے سکے۔ اس کے د و سبب تھے، اول تو یہ کہ بالا کوٹ کی ناکامی نے کسی بڑے پیمانے پر تنظیم کا حوصلہ ختم کر دیا تھا۔ دوسرے یہ کہ تحریک مجاہدین کی مذہبی نوعیت کے باعث ہندوستان کے تمام طبقات اور مختلف مذاہب کے لوگ ان کی قیادت پر غالباً متفق نہیں ہو سکتے تھے۔ چنانچہ انفرادی طور پر مقامی حالات کے پیش نظر اس مکتبِ خیال کے لوگوں نے بہت نمایاں حصہ لیا اور غیر ملکی تسلط کے خلاف جدو جہد میں کسی سے پیچھے نہیں رہے، لیکن تحریک کی قیادت اپنے ہاتھوں میں نہ لے سکے۔

دنیا کے بیشتر انقلاب کسی اہم حادثہ یا سانحہ سے شروع نہیں ہوئے۔ عموماً یہ ہوا ہے کہ خاموش سطح کے نیچے آتشیں مادہ جمع ہوتا رہا ہے اور پھر کسی معمولی سے واقعہ نے جو بہ حالات دیگر سطح آب پر تموج بھی پیدا نہیں کر سکتا تھا،ساری فضا میں طوفان بر پا کر دیا ہے۔ فرانس اور امریکہ کے انقلابات کی ابتداء معمولی معمولی واقعات سے ہوئی۔ لیکن تھوڑی ہی مدت میں تمام بیتاب عناصر اوپر آ گئے اور ساری فضا پر چھا گئے۔ یہی صورت ۱۸۵۷ء میں پیش آئی۔ کارتوسوں کا تو صرف ایک بہانہ تھا جس نے سو سال کی بے چینی کو متحرک کر دیا، ورنہ انگریزوں کے خلاف ایک عرصہ سے جذبات میں شدید ہیجان برپا تھا۔

بعض مصنفین نے ۱۸۵۷ء کے ہنگامہ کو منظم سازش کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ کریک روفت ولسن (Crocroft Wilson) کا یہ خیال تھا کہ ہندوستان کی چھاؤنیوں اور فوجی مقامات پر بیک وقت بغاوت کی تیاری بہت پہلے سے تھی لیکن تاریخی شواہد اس خیال کی تائید نہیں کرتے۔ ہنگامہ بالکل اتفاقیہ شروع ہوا،اور چونکہ بے چینی کے جراثیم پہلے سے ہر جگہ موجود تھے اس لیے جہاں بھی اس ہنگامہ کی خبر پہنچی وہاں آگ لگتی چلی گئی۔

بعض مورخین نے چپاتیوں کی تقسیم کو غیر ضروری اہمیت دی ہے اور اس کو اسبابِ بغاوت میں شمار کیا ہے۔ تھورن ہل (Thornhill)کے اس بیان نے کہ ویلور کی بغاوت سے قبل بھی مدراس میں چپاتیاں تقسیم ہوئی تھیں ۱؂۔ اس نظریہ کو تقویت پہنچائی ہے۔ ملک بھر میں چپاتیوں کی تقسیم حیرت انگیز ضرور ہے،لیکن ۱۸۵۷ء کی تحریک کا اس سے کوئی خاص تعلق اب تک ثابت نہیں ہو سکا۔ حکیم احسن اللہ نے اپنے بیان میں بتایا تھا کہ چپاتیوں کی تقسیم پر قلعہ معلی میں بھی سب لوگ تعجب میں پڑ گئے تھے اور کوئی ان کا مقصد نہ سمجھ سکا تھا۱؂

پھر ایک خیال یہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ بہادر شاہ اور باغی سپاہیوں نے بیرونی طاقتوں سے ساز باز کر لیا تھا۔ یہ الزام بھی ثبوت کا محتاج رہا۔ ایسا ضرور ہوا کہ ایک اعلان جو شاہ ایران کی طرف منسوب تھا جامع مسجد پر چسپاں کیا گیا تھا۔ ا سکے علاوہ اور سب بیانات کی صحت مشتبہ ہے۔ مقدمہ میں کہا گیا تھا کہ بہادر شاہ نے اپنے سفیر ایران بھیجے تھے۔ لیکن یہ ثابت نہ ہو سکا۔ مکند لال نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ مرزا سلیمان شکوہ کے پوتے مرزا حیدر وغیرہ لکھنؤ آئے تھے اور انہوں نے بہادر شاہ اور شاہ ایران کے درمیان تعلقات قائم کرانے کے سلسلہ میں گفتگو کی بھی تھی۔ بعض مورخوں نے ایران میں برطانوی سفیر مرے ؔ (Murray) کا خط نقل کیا ہے جس میں اس ایک ایرانی عہدہ کا بیان نقل کیا ہے کہ شمالی ہندوستان کے والیان ریاست کو بغاوت پر آمادہ کرنے کے لیے ایران سے خطوط بھیجے گئے تھے۔ ان تمام بیانات کے باوجود ۱۸۵۷ء کے ہنگامہ میں کسی بیرونی طاقت کی نمایاں مداخلت کا ثبوت نہیں ملتا۔

۱۸۵۷ ء کی تحریک نہ کسی بیرونی طاقت کی مداخلت سے پیدا ہوئی نہ اس کے پیچھے کوئی منظم سازش تھی۔ یہ بالکل قدرتی اظہار تھا اس گہری نفرت اور بے چینی کا جو انگریزوں کے خلاف ایک عرصہ سے دلوں میں جمع ہو رہی تھی۔ سپاہیوں نے پیش قدمی اس لیے کی کہ وہ انگریزوں کے غیر منصفانہ برتاؤ سے عاجز ہو چکے تھے اور فوجی قانون کے ماتحت ہوتے ہوئے وہ زیادہ عرصہ تک ان نا انصافیوں کو برداشت بھی نہیں کر سکتے تھے۔ ۱۸۰۶ء سے جب سر جارج بارلو (Sir George Barlow) نے سپاہیوں کے تلک لگانے، داڑھی رکھنے اور صافہ باندھنے پر اعتراض کئے تھے،متواتر فوج کے ساتھ ایسا برتاؤ ہو رہا تھا جس سے ان کے جذبات میں اشتعال پیدا ہونا لازمی تھا۔ ہندوؤں میں بحری سفر کے خلاف مدتوں سے ایک نفرت چلی آتی تھی، انگریزوں نے نہ ان کے جذبات کو سمجھا نہ ان کا احترام کیا۔ ذات پات کے جذبات کو بھی اسی طرح نظر انداز کیا گیا۔ سردار بہادر ہدایت علی نے بتایا تھا کہ کابل میں ہندو سپاہی نہ اشنان کر سکتے تھے نہ انہیں ہندوؤں کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا بنتا تھا۔ علاوہ ازیں مختلف اوقات میں جو وعدے فوج سے کیے گئے تھے،ان کو نہ صرف یہ کہ پورا نہیں کیا گیا بلکہ ان کے خلاف عمل کیا گیا۔ اس سے سپاہیوں میں بددلی پھیل گئی ۲؂ پھر ہندوستانی اور انگریز سپاہیوں کی تنخواہوں اور معیار زندگی میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ اور اس فرق نے وہ احساس کمتری پیدا کر دیا تھا جو نہ صرف بے چینی بلکہ ارتکابِ جرم کا ہمیشہ سب سے بڑا محرک ہوتا ہے۔

ہندوستان میں انگریزوں کی فوج ۳۱۵۵۲۰۔ اشخاص پر مشتمل تھی۔ اس پر ۹۸۰۲۲۳۵ پونڈ خرچ آتا تھا۔ اس میں سے ۱۱۰ ۵۶۶۸ پونڈ یورپین فوج پر خرچ ہوتا تھا اور یہ ا س صورت میں جب کہ ان کی کل تعداد ۵۱۳۱۶ سے زیادہ نہ تھی ایک ہندوستانی پیادہ کو سات روپیہ ماہانہ اور سوار کو ستائیس روپیہ ماہانہ تنخواہ ملتی تھی۔ سوار کو اپنا گھوڑا رکھنا پڑتا تھا اس قلیل تنخواہ سے بھی کٹ کٹا کر بعض اوقات ایک سپاہی کو ڈیڑھ روپیہ ماہانہ اور بعض صورتوں میں صرف چند آنوں سے زیادہ نہ ملتے تھے ان حالات میں فوجیوں کی بددلی اور بے چینی کا اندازہ کچھ مشکل نہیں ہے۔

علاوہ ازیں انگریزوں نے عیسائیت کو پھیلانے کے لیے جو حربے اور طریقے اختیار کئے تھے ان سے ہندوستانیوں میں زبردست بدگمانی پھیل گئی تھی۔ بلکہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی بعض ایسی تجاویز جن کا مقصد مذہبی مداخلت سے زیادہ سماجی اصلاح تھا،وہ بھی ہدفِ ملامت بن گئیں۔ عیسائی مبلغ اسکولوں میں، بازاروں میں، شفا خانوں میں جیل خانوں میں غرض جس جگہ موقع ملتا،تبلیغ کرنے لگتے تھے۔ ان کے طریقہ کار سے معلوم ہوتا تھا کہ حکومت کی اعانت ان کو حاصل تھی۔ بعض اضلاع میں پادریوں کے ساتھ تھانے کے چپراسی جاتے تھے۔ اور یہ پادری غیر مذہب کے مقدس لوگوں کو اور مقدس مقاموں کو بہت برائی اور ہتک سے یاد کرتے تھے جس سے سننے والوں کو نہایت رنج اور دلی تکلیف پہنچتی تھی۔ گورنمنٹ اسکولوں میں انجیل کی لازمی تعلیم دی جاتی تھی۔ جیل خانوں میں قیدیوں کو عیسائیت کی طرف راغب کیا جاتا تھا۔ سر سید احمد خان نے لکھا ہے :

۱۸۵۷ ء کی قحط سالی میں جو یتیم لڑکے عیسائی کیے گئے وہ تمام اضلاع ممالک مغربی و شمالی میں ارادۂ گورنمنٹ کے ایک نمونہ گنے جاتے تھے کہ ہندوستان کو اس طرح پُر مفلس اور محتاج کر کر اپنے مذہب میں لے آئیں گے۔ میں سچ کہتا ہوں کہ جب سرکار آنربل ایسٹ انڈیا کمپنی کوئی ملک فتح کرتی تھی ہندوستان کی رعایا کو کمال رنج ہوتا تھا۔

بعض قوانین کا صاف مقصد یہ تھا کہ عیسائیت قبول کر لینے والوں کی مدد کی جائے۔ مثلاً ۱۸۵۰ء کے Ad XXI) کے مطابق مذہب تبدیل کر دینے کے بعد بھی ایک شخص موروثی جائداد میں حقدار رہتا تھا۔ ان حالات میں جب پادری ای ایڈمنڈ نے وہ خط جاری کیا جس میں کہا گیا تھا ک اب تمام ہندوستان میں ایک عملداری ہو گئی، تار برقی سے سب جگہ کی خبر ایک ہو گئی،ریلوے سڑک سے سب جگہ کی آمد و رفت ایک ہو گئی، مذہب بھی ایک چاہیے، اس لیے مناسب ہے کہ تم لوگ بھی عیسائی ایک مذہب ہو جاؤ‘‘ ہندوستانیوں میں ایک آگ سی لگ گئی۔

پھر انگریزوں نے بعض ریاستوں کے الحاق میں جس کھلی بے انصافی اور ظلم کو روا رکھا تھا اس سے اضطراب اور بے چینی کے شعلے ہر جگہ بھڑکنے لگے۔ صحیح ہے کہ بعض ریاستیں، انتظامی معاملات میں کوئی خاص صلاحیت نہیں رکھتی تھیں،اور ان کو ختم کر کے انگریزوں نے حقیقتاً ایک ایسے نظام پر ضرب کاری لگائی جس کی افادیت ختم ہو چکی تھی لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ محلات شاہی کے ساتھ ہزاروں خاندان پر ورش پاتے تھے، اور ہر ریاست کی اقتصادی زندگی میں نوابوں اور راجاؤں کو ایک خاص اہمیت حاصل ہو گئی تھی جب ا ن ریاستوں کا الحاق ہوا تو ہزاروں متعلقین بے سہار ا رہ گئے۔ اودھ کے الحاق کے بعد انگریزوں سے نفرت جس حد کو پہنچ گئی تھی اس کے متعلق ٹریو لیان کا بیان ہے کہ : سقوں نے انگریزوں کے لیے پانی بھرنا چھوڑ دیا،آیائیں اجازت لیے بغیر نوکری سے رخصت ہو گئیں،باورچی اور ہر کارے آقاؤں سے گستاخی اور بدتمیزی سے پیش آنے لگے۔

اقتصادی بدحالی اور ابتر ی نے انگریز کے خلاف شعلوں کی لپک کو بڑھا دیا۔ مصحفی (۱۲۴۰ھ۔ ۱۸۲۴ء) نے مدتوں پہلے کہا تھا؂

ہندوستاں کی دولت و حشمت جو کچھ کہ تھی

کافر فرنگیوں نے بتدریج کھینچ لی۔

سر سید نے بتایا ہے کہ لوگ اس قدر نادار و محتاج ہو چکے تھے کہ صرف آنہ ڈیڑھ آنے یومیہ پر فوج میں ملازمت کے لیے آمادہ ہو جاتے تھے۔ ایک طرف ریاستوں کے الحاق سے ہزار ہا ہندوستانی بے روزگار ہو گئے، اور بدحال کر دیا گیا۔ انگلستان کی تیار شدہ چیزوں کے لئیے ایک منڈی درکار تھی، اس کے لیے ہندوستان کی مقامی صنعتوں کو عمداً ختم کیا گیا۔ سر سید نے لکھا ہے۔ :

اہلِ حرفہ کا روزگار بسبب جاری اور رائج ہونے اشیائے تجارت ولایت کے بالکل جاتا رہا تھا۔ یہاں تک کہ ہندوستان میں کوئی سونے بنانے والے اور دیا سلائی بنانے والے کو بھی نہیں پوچھتا تھا۔ جو لاہوں کا تار تو بالکل ٹوٹ گیا تھا۔

۱۸۵۷ء کی تحریک مختلف منزلوں سے گزری،مختلف طبقات نے اس میں حصہ لیا اور مختلف عناصر مختلف اوقات میں بروئے کار آتے رہے۔ ان میں کچھ عناصر ترقی پسند تھے اور بعض قوتیں رجعت پسند،روساء میں رانی لکشمی بائی، نانا صاحب، ناہر سنگھ، حضرت محل، نواب علی بہادر، نواب تفضل حسین، خان بہادر خان، نواب محمود خان، وغیرہ وہ شخصیتیں تھیں جن کے عزم،مقصد کی سچائی اور مسلسل جدو جہد سے تحریک میں جان پیدا ہوئی،بلند حوصلگی اور انفرادی صلاحیتوں میں یہ لوگ بہت سے انگریزوں سے یقیناً بدرجہا بہتر تھے صحیح ہے کہ ان میں سے بعض کو انگریزوں سے ذاتی شکایتیں بھی تھیں اور جاگیردارانہ نظام کو قائم رکھنا چاہتے تھے،لیکن جہاں تک تحریک میں حصہ لینے اور سرگرمی دکھانے کا تعلق تھا ان کا خلوصِ نیت کسی سے کم نہ تھا۔ ملازمت پیشہ طبقہ میں تاتیا ٹوپی، عظیم اللہ خان، بخت خان، وزیر خان، وغیرہ آخری وقت تک انگریزوں سے لڑتے رہے۔ ان میں جوش عمل بھی تھا اور انتظامی صلاحیتیں بھی تھیں۔ حالات نے جہاں تک مساعدت کی انہوں نے پوری دلیری کے ساتھ غیر ملکی طاقتوں کا مقابلہ کیا۔ مسلمان علماء و مشائخ جن میں مولانا احمد شاہ حاجی امداد اللہؒ،مولانا فضل حق خیرآبادی، مولانا عبد القادر لدھیانوی ؒ وغیرہم شامل تھے،اپنے خلوص اور سرفروشانہ جذبات میں یقیناً بے مثال تھے۔ ان کی انگریز دشمنی میں ذاتی رنجشوں کا کوئی حصہ نہ تھا۔ ان میں حب الوطنی کا جذبہ، غیر ملکی اقتدار سے نفرت اور انگریز کی مشنری کوششوں کا شدید رد عمل کام کر رہا تھا۔ اگر تحریک کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ جہاں تک عوام میں بے چینی پیدا کرنے کا تعلق تھا اس کی زیادہ تر ذمہ داری ان ہی علماء پر تھی۔ مولوی احمد اللہ شاہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ: ان کی تقریروں میں ہزاروں آدمی ہندو اور مسلمان جمع ہو جاتے تھے۔ چنانچہ آگرہ کی تقریروں میں دس دس ہزار کا مجمع ہوتا تھا۔ ان کی ہر دل عزیز ی کی یہ حالت تھی کہ پولیس نے (ایک موقع پر مجسٹریٹ کے حکم پر) انہیں گرفتار کرنے سے انکار کر دیا۔

ان مختلف طبقات کی کوششوں اور حالات کا علیحدہ علیحدہ جائزہ لینا ضرور ی ہے تاکہ تحریک میں ان کی شرکت کی نوعیت واضح ہو جائے۔

سب سے پہلے بہادر شاہ شاہی خاندان اور قلعہ معلیٰ کے حالات پر نظر ڈالیے یوں تو مدت سے،سلطنت شاہ عالم،از دہلی تا پالم کا نقشہ تھا۔ اور بقول شاہ ولی اللہ دہلی کی حکومت ‘‘ لعب صبیان ‘‘ بن چکی تھی،لیکن ۱۸۰۳ء میں جب لارڈ لیک کی فوجیں دہلی میں داخل ہو گئیں تو مغل بادشاہ کی حیثیت کمپنی کے ایک ملازم سے زیادہ نہ رہی۔ انگریزوں نے بادشاہ کو ہٹانے میں عجلت سے کام نہیں لیا کیوں کہ اس کے نام کے سہارے اپنا اقتدار قائم کرنے میں مدد ملتی تھی۔ ۲؂ لیکن بہر نوع کوشش یہی رہی کہ بادشاہ کے اختیار ات کا دائرہ اتنا محدود کر دیا جائے کہ وہ لاشے محض ہو جائے۔ بہادر شاہ ۱۸۳۷ء میں تخت پر بیٹھا۔ ۱۸۵۷ء میں اس کی عمر ۸۲ سال سے متجاوز تھی۔ نا مساعد حالات،پیرانہ سالی اور ذاتی مشاغل کی نوعیت نے اس کو عضو معطل بنا دیا تھا۔ ممکن ہے کہ سر سید نے اس کی نٍا اہلیت ثابت کرنے میں مبالغہ سے کام لے کر یہ لکھ دیا ہو کہ:۔

دلی کے معزول بادشاہ کا یہ حال تھا کہ اس سے کہا جاتا کہ پرستان میں جنوں کا بادشاہ آپ کا تابعدار ہے تو وہ اس کو سچ سمجھتا اور ایک چھوڑ دس فرمان لکھ دیتا،دلی کا معزول بادشاہ کہا کرتا تھا کہ میں مکھی اور مچھر بن کر اڑ جاتا ہوں اور لوگوں کی اور ملکوں کی خبر لے آتا ہوں اور اس بات کو وہ اپنے خیال میں سچ سمجھتا تھا اور درباریوں سے تصدیق چاہتا تھا اور سب تصدیق کرتے تھے۔ ایسے مالیخولیا والے آدمی۔

لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بابر اور اکبر کے جانشین میں جس سیاسی بصیرت، معاملہ فہمی،تفرس اور تدبر کی ضرورت تھی، وہ اس میں نام کو نہ تھا،جہاں تک ذاتی کردار کا تعلق تھا وہ اپنے بعض پیشتروں سے بہتر تھا۔ لیکن ذاتی کردار کی یہ چند خوبیاں ایک سلطنت کا بوجھ نہیں سنبھال سکتی تھیں مذہبی معاملات میں بہادر شاہ کو خاصی دلچسپی تھی اور دوسرے مذاہب کے ساتھ رواداری سے پیش آتا تھا۔ حالانکہ سر سید نے لکھا ہے کہ ‘‘ دہلی میں ایک بڑا گروہ مولویوں اور ان کے تابعین کا ایسا تھا کہ وہ مذہب کی روسے معزول بادشاہ دلی کو بہت برا اور بدعتی سمجھتے تھے۔ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ دلی کی جن مسجدوں میں بادشاہ کا قبض و دخل اور اہتمام ہے ان مسجدوں میں نماز درست نہیں۔ چنانچہ وہ لوگ جامع مسجد میں بھی نماز نہیں پڑھتے تھے اور غدر سے بہت قبل کے چھپے ہوئے فتوے اس معاملہ میں موجود ہیں۔

ادبی اعتبار سے بہادر بادشاہ کا عہد خاص اہمیت رکھتا تھا۔ اس کی ادبی دلچسپیوں سے قلعہ معلیٰ شعر و سخن کا مرکز بن گیا تھا اس کے زمانہ میں دہلی بقول اپیر ہندوستان کا ویمر تھی اور غالب یہاں کا گوئٹے تھا۔

بہادر شاہ کی زندگی جن حالات سے گزرتی تھی اس کا کچھ اندازہ احسن الاخبار وغیرہ سے لگایا جا سکتا ہے۔ بادشاہ کو یک لاکھ روپیہ ماہانہ پنشن ملتی تھی لیکن اخراجات اس سے کہیں زیادہ تھے۔ چنانچہ ہر وقت مالی پریشانی رہتی تھیں اور ساہو کاروں اور امراء سے روپیہ قرض لینا پڑتا تھا۔ میر حامد علی خان،حافظ محمد داؤد خان، لالہ زور آور چند وغیرہ سے بہادر شاہ کے روپیہ قرض لینے کا ذکر متعدد جگہ آیا ہے۔

اور وصولی کے لیے ان لوگوں کے تقاضوں سے بادشاہ کی وقعت لوگوں کی نظر میں کم ہوتی تھی اور طرح طرح کے نامناسب حالات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ا یک مرتبہ نواب حامد علی خان نے عدالت دیوانی میں دعویٰ دائر کرنے کا ارادہ کیا تھا اور بہادر شاہ کو انہیں بلا کر رقم کی ادائیگی کی طرف سے اطمینان دلانا پڑا تھا۔ ان مالی پریشانیوں کے باعث اکثر قلعہ معلیٰ کی ملازمتیں فروخت کی جاتی تھیں۔ نواب حامد علی خان کو مختاری کا عہدہ اس شرط پر پیش کیا گیا تھا کہ وہ دس ہزار روپیہ نذرانہ کے طور پر پیش کریں۔

۲۶جون ۱۸۴۶ء کے احسن الاخبار کی اطلاع ہے :

سالگ رام۔ ۔ ۔ کی عرضی نظر فیض انور سے گزری۔ اس میں مذکور تھا کہ اگر مجھے آغا حیدر ناظر کی جگہ عہدہ نظارت پر مقر کر دیا جائے تو میں دس ہزار روپیہ نذرانہ پیش کروں گا۔ حکم ہوا کہ جب ہم آغا حیدر ناظر کا تمام روپیہ جو ہمارے ذمہ ہے اد ا کریں گے تو اس کے بعد دیکھا جائے گا۔

۳۱ جولائی کو آغا حیدر کے داماد حسین مرزا کی عرضی کے جواب میں حکم شاہی ہوتا ہے : تمہیں عہدۂ نظارت سے اس وقت سرفراز کیا جا سکتا ہے جب کہ سات ۷ ہزار روپیہ نذرانہ پیش کرو اور مرحوم آغا حیدر کے نذرانے کے دعوے سے دست برداری لکھ دو۔

جب قلعہ معلیٰ میں ‘‘ نذرانوں ‘‘ کے نام سے رشوتوں کا بازار گرم تھا تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جہاں جہاں بھی قلعہ کے اثرات پہنچے ہوں گے وہاں بدنظمی، ابتری اور افراتفری کا کیا عالم ہو گا۔

بہادر شاہ کی کثیر اولا د تھی، اس کی تربیت میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لی گئی تھی۔ شہزادے ایک دوسرے سے بر سر پیکار رہتے تھے ۱؂ سلاطین کی کثیر تعداد قلعہ میں بھوکی مرتی تھی ۳؂ ان کی زبوں حالی کی درد ناک داستانیں اخبارات میں کثرت سے درج ہیں۔ پروفیسر اسپیر نے اپنی کتاب Twilight of the Mughuls میں ان کے حالات بہ تفصیل بیان کیے ہیں جب یہ شہزادے تنخواہ میں اضافہ کا مطالبہ کرتے تھے تو کمپنی کا حکم ہوتا تھا کہ ‘‘ اگر سلاطین کا گزارہ مقررہ تنخواہ سے نہیں ہوتا تو اوقات بسری کے لیے انہیں کہیں ملازمت اختیار کر لینی چاہیے۔ ۵؂ مجبور ہو کر وہ قرض لیتے تھے اور بعد کو قرض خواہ عدالتی کارروائیاں کرتے تھے بیشتر شہزادے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر بادشاہ کے مفاد کو نظر انداز کر سکتے تھے۔ ان کو آسانی سے خرید اجا سکتا تھا۔ کون کہہ سکتا ہے کہ انگریزوں کی طاقت اس قدر جلد قائم ہو جاتی اگر شہزادے اس طرح سازشوں میں گرفتار نہ ہوتے ! جس خاندان میں مرزا الٰہی بخش جیسی ننگ ملک وننگ خاندان افراد موجود ہوں اس کے مستقبل سے کس کو امید ہو سکتی ہے۔ بخت خان کو انہی شہزادوں کی ریشہ دوانیوں اور مسلسل سازشوں کے باعث نہایت ہی صبر آزما اور حوصلہ شکن حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ عبد اللطیف کے روزنامچہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے انتہائی تحمل اور بردباری سے نامساعد حالات کا مقابلہ کیا۔ لیکن ایک موقع پر اس کا پیمانہ صبر چھلک گیا۔ بعض مصنفین نے لکھا ہے کہ آخر میں اس درجہ پریشان ہو گیا تھا کہ اس نے بادشاہ سے کہہ دیا تھا کہ اگر کوئی شہزادہ شہر کو لوٹے گا تو میں اس کی ٹانگ کٹوا دوں گا۔

۱۸۵۷ء کی تحریک میں بادشاہ اور مغلیہ خاندان کا حصہ کیا تھا؟ انہوں نے کہاں تک تحریک کو آگے بڑھانے میں مدد دی تھی؟ بہادر شاہ کے متعلق یہ تسلیم کرنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے کہ وہ ایک انقلابی تحریک کی رہنمائی کی قطعاً صلاحیت نہ رکھتا تھا۔ اس نے ۱۸۵۷ء کی تحریک میں جو کچھ بھی حصہ لیا تھا وہ حالات کی مجبوری کی بنا پر تھا۔ کسی شورش انگیز مقصد کی بنا پر نہیں تھا۔ اس کی ملکہ زینت محل کے متعلق انگریزوں سے ساز باز کا شبہ تھا۔ شہزادے الگ سازشوں کے جال پھیلا رہے تھے۔ اور ان کی سازشوں ہی کی بنا پر بعد کو بہادر شاہ کی گرفتاری ہوئی۔ مغل شہزادوں کے ساتھ جو بھی ہمدردی پیدا ہوتی ہے وہ ان ے حسرت ناک انجام اور ہڈ سن کے ظالمانہ برتاؤ کی وجہ سے ہے، ورنہ تحریک کے دوران میں ان کا طرز عمل کسی طرح بھی قابل ستائش نہیں تھا۔ مغل شہزادوں میں اگر کوئی شخص تحریک کی اصل روح سے متاثر نظر آتا ہے و ہ فیروز شاہ ہے جس کی سرگرمی جوشِ عمل اور استقامت نے تحریک کو وہ قوت بہم پہنچائی جس کے سہارے سخت سے سخت منزلیں طے کی جا سکتی تھیں۔

جہاں تک امراء کا تعلق ہے،ان میں بیشتر ایسے تھے جو ذاتی مفاد اور منفعت کی خاطر بڑے سے بڑے مفاد کو قربان کر سکتے تھے ان کو نہ ملک سے محبت تھی،نہ بہادر شاہ سے ذاتی اقتدار کو بڑھانے کی خاطر وہ دربار سے تعلق رکھتے تھے۔ سر سید نے صحیح لکھا ہے کہ لوگ‘‘ اس کے منہ پر اس کی خوشامد کرتے تھے اور پیٹھ پیچھے ہنستے تھے ۱؂، حکیم احسن اللہ خان،نواب احمد علی خان وغیرہ جو دربار کے عمائدین میں سے تھے عوام کی نظر میں اس بنا پر معتبر نہ رہے تھے کہ دشمنوں سے مل جانے کا ان پر شبہ تھا۔ جاسوسوں کے خطوط سے پتہ چلتا ہے کہ بعض امراء نہایت ہی شرم ناک سازشوں میں مبتلا تھے۔ دربار کی ساری خبریں انگریزوں کو انہیں کے ذریعہ پہنچتی تھیں۔ بعض امراء ایسے بھی تھے جن کے پاس دولت کی فراوانی تھی، لیکن جب تحریک کے دوران میں روپیہ کی ضرورت پڑی تو ایک امیر بھی ایسا نہ تھا جس نے روپیہ سے مدد کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہو۔ دہلی کی فتح کے بعد جب انگریزوں نے ان امراء کے گھروں کو کھدوایا تھا تو لاکھوں روپیے کے زیورات اور جواہر برآمد ہوئے تھے ۱؂ لیکن جب بھی بہادر شاہ یا بخت خان وغیرہ نے مصارف جنگ کے لیے ان سے روپیہ قرض طلب کیا تو انہوں نے نہ سرف اپنی بے زری کا اظہار کیا بلکہ لڑنے پر آمادہ ہو گئے۔ نواب فخر الدولہ امیں الدین خان بہادر نے جس طرح ناراضگی کا اظہار کیا تھا ا ُ س کی تفصیل عبد اللطیف نے دی ہے۔ اس وقت امراء میں گو اٹھارویں صدی کی سی گروہ بندی نہیں رہی تھی، لیکن ہر شخص حصولَِ مقصد کے لیے خود ایک پارٹی بنا ہوا تھا اور دوسروں کی تذلیل و تشہیر کوا پنا فرض سمجھتا تھا۔

اس وقت سب سے زیادہ صحت مند عنا صر جنہوں نے تحریک میں حصہ لیا وہ تھے جنہوں نے دہلی کی مسموم فضا میں پرورش نہیں پائی تھی۔ اور یہاں کے اثرات سے کسی حد تک محفوظ رہے تھے۔ بخت خان روہیلوں کی ضرب المثل تنظیمی صلاحیتوں کا مظہر تھا اس میں مقصد کا خلوص بھی تھا اور عسکری تنظیم کا جذبہ بھی۔ اس نے دہلی میں بدنظمی اور ابتری کو روکنے کی پوری کوشش کی۔ اگر مغل شہزادے اس کے ساتھ تعاون کر جاتے،یا آخر میں بہادر شاہ اس کے مشورہ پر عمل کر لیتا تو بہت سے واقعات کا رخ بدل جاتا۔

والیانِ ریاست میں رانی لکشمی بائی اور بیگم حضرت محل کی شخصیتیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ رانی لکشمی بائی نے مردانہ لباس پہن کر فوجوں ک قیادت کی۔ اس کی حیرت افروز شجاعت نے تحریک میں چار چاند لگا دیے او وہ آخری دم تک انگریزوں کا مقابلہ کرتی رہی۔ حضرت محل کے متعلق مولانا شرر کا بیان ہے کہ لوگ اس کی مستعدی اور نیک نفسی کی تعریف کرتے تھے۔ ا ودھ کی آزادی کے لیے اس نے اپنی جان کی بازی لگا دی تھی آخر وقت تک قیصر باغ میں بیٹھی تحریک کی تنظیم کرتی رہی۔ جب پانی سر سے اونچا ہو گیا تو قیصر باغ کو چھوڑ کر نیپال کا رخ کیا۔ ‘

روہیلہ ؔ سرداروں میں خان بہادر خان اور نواب محمود خان نے بھی بڑی جوانمردی سے تحریک میں حصہ لیا۔ ۱۸۵۷ء میں خان بہادر خان کی عمر ستر سال سے زیادہ تھی۔ انہوں نے بریلی کا نظم و نسق اپنے ہاتھ میں لیا اور انگریزوں کے خلاف اپنی طاقت کا استحکام کیا۔ محمود خان نے ضلع بجنور میں انگریزوں کا مقابلہ کیا،ا ور بجنور،دھام پور، نگینہ اور آدم ور پر قبضہ کر لیا۔ بہادر شاہ نے ان کو امیر الدولہ،ضیاء الملک مظفر جنگ کے خطابات دیے تھے۔ اور ان کی خدمات کو سراہا تھا،اول الذکر کو بریلی میں پھانسی دی گئی اور موخر الذکر کو حبس دوام بہ عبور دریائے شور کی سزا ملی،لیکن ابھی انڈیمان کو روانہ ہوئے تھے کہ قید حیات ہی سے رہا ہو گئے۔

دہلی کی ایجنٹی کے ماتحت سات ریاستیں تھیں۔ : جھجر،فرخ نگر، بلبھ گڑھ، بہادر گڑھ، دوجانہ، پاتودی اور لوہارو،ان ریاستوں نے اپنے حالات اور مصلحتوں کے ماتحت تحریک میں حصہ لیا اور دہلی کی حکومت سے تعلقات قائم کر لیے۔ نواب عبد الرحمن خان والی جھجر اور اس کے خسر عبد الصمد خان نے کافی سر گرمی دکھائی۔ عبد الصمد خان نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فیصلہ کیا تھا اور برابر انگریزوں سے لڑتا رہا۔ راجہ ناہر سنگھ والی بلبھ گڑھ نے بہادر شاہ کے ساتھ تعاون کیا تھا اور برابر دربار سے خط و کتابت رہتی تھی،۱۸۵۷ء کے ہنگامہ کے بعد انگریزوں نے جھجر، فرخ نگر، بلبھ گڑھ کی ریاستیں ضبط کر لیں اور ان کے والیوں کو پھانسی کی سزا دے دی۔ غالب ایک خط میں علاء الدین احمد خان علائی کو لکھتے ہیں۔

‘‘قصہ کوتاہ قلعہ اور جھجر اور بہادر گڑھ اور بلب گڑھ اور فرخ نگر کم و بیش تیس لاکھ روپیے کی ریاستیں مٹ گئیں۔ شہر کی عمارتیں خاک میں مل گئیں۔ ہنر مند آدمی یہاں کیوں پایا جائے۔

۱۸۵۷ ء کی تحریک کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ ہندو اور مسلمان دونوں نے دوش بدوش یہ جنگ لڑی تھی۔ اور ہندو مسلم سوال کسی نوعیت اور کسی شکل میں بھی لوگوں کے سامنے نہیں تھا۔ محض یہ واقعہ کہ تحریک کے آغاز میں ہی ہندو اور مسلمان سب کی نظریں بہادر شاہ کی طرف اٹھ گئیں تھیں۔ تحریک کی ہمہ گیر نوعیت کی طرف ا شارہ کرتا ہے۔ بہادر شاہ کی ذاتی نٍا اہلیت تسلیم لیکن اس کی حیثیت ایک علامت اور ایک نشانی کی تھی۔ وہ ڈوبتا ہوا سورج سہی لیکن وہ ایک ایسی صبح کی شام تھا جس میں ہندوستان نے اپنے سیاسی وقار اور تمدنی عظمت کے نادر جلوے دیکھے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ تمام وہ طاقتیں تک جو کچھ عرصہ سے سلطنت مغلیہ کے مد مقابل آ گئی تھیں۔ بہادر شاہ کے گرد جمع ہو گئیں۔ مرہٹے ایک مدت سے مغلوں سے بر سر پیکار تھے، لیکن ۱۸۵۷ء میں پیشوا نے بہادر شاہ کو تسلیم کرنے میں مطلقاً کوئی عذر نہیں کیا۔ نانا صاحب کے خاص مشیروں میں عظیم اللہ خان رہا۔ رانی جھانسی نے مسلمان تو پچی ملازم رکھے۔ احمد اللہ شاہ نے ہندو اور مسلمان دونوں کے مشترکہ اجتماعات میں تقریریں کیں۔ بہادر شاہ نے بعض نہایت اہم کام مثلاً ٹکسال کی نگرانی،پولیس کا کام ہندوؤں کے سپردکیا اور انہوں نے بادشاہ کے ساتھ پورا تعاون کیا۔

ہندوؤں اور مسلمانوں کے اس اتحاد عمل سے انگریزوں کو بڑی تشویش پید ا ہو گئی تھی انہیں اپنی ناکامی کے آثار اگر کسی چیز میں نظر آتے تھے تو وہ صرف ہندوستان کے مختلف طبقوں اور مذاہب کے لوگوں میں اشتراک عمل اور اتحاد میں،غیر متحد ہندوستان تو ریت کی دیوار کی طرح گرایا جا سکتا تھا،لیکن متحدہ ہندوستان انگریزوں کے لیے کوہ گراں کی مانند تھا۔ چنانچہ تحریک کے دوران میں پوری کوشش کی گئی کہ کسی طرح اس اتحاد کو ختم کیا جائے۔ تحریک کے بعد تو انگریز کی حکمتِ عملی کی ساری عمات اسی پر تعمیر ہوئی تھی کہ ‘‘لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ ہنگامہ کے دوران میں بقر عید آئی اور انگریزوں نے اس موقع کو ہندوؤں اور مسلمانوں کو لڑانے کے لیے استعمال کر نے کی کوشش کی۔ تعجب کی بات ہے کہ اس سازش کے جال اس طرح پھیلائے گئے کہ مولانا احمد سعید مجددیؒ جو بڑے نیک دل، عالی حوصلہ اور مرنجاں مرنج شیخ وقت تھے،اس سازش سے غیر محسوس طریقہ پر متاثر ہو گئے بہادر شاہ نے جب ان کو مفتی صدر الدین آزردہ کے ذریعہ صورت حال سے آگاہ کیا تو وہ فوراً اپنی ضمنی تحریک سے دست کش ہو گئے۔ بریلی میں خان بہادر خان اور وہاں کے ہندو زمینداروں میں نفاق ڈالنے کے لیے بھی یہی تدبیر اختیار کی گئی لیکن کامیاب نہ ہو سکی۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل خط مطالعہ کے قابل ہے :

‘‘ من جانب جارج کوپر صاحب سیکریٹری چیف کمشنر اودھ

بخدمت جی ایف ایڈمنسٹن صاحب سیکریٹری حکومت ہند لکھنؤ،یکم دسمبر ۱۸۵۷ء

جناب عالی:

یہ سلسلہ مکتوب چیف کمشنر گورنر جنرل بہادر مورخہ ۱۴ ستمبر جس میں انہوں نے پچاس ہزار روپیے کی رقم بریلی کی ہندو آبادی کو مسلمان باغیوں کے خلاف آمادۂ پیکار کرنے پر صرف کرنے کی اجازت دی ہے مجھے کپتان گوں کے خط مورخہ ۱۴ کا اقتباس پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جس سے حضور والا کی یہ علم ہو گا کہ یہ کوشش ناکام رہی اور اس کو ترک کر دیا گیا اور اس پر کوئی رقم صرف نہیں ہوئی۔

آ پ کا خادم

جارج کوپر

سیکریٹری چیف کمشنر۔ عالم باغ کیمپ یکم دسمبر ۱۸۵۷ء

پھر سکھوں کو بہادر شاہ سے بد ظن کر نے کے لیے لارنس نے پنجاب میں یہ شہرت دی کہ بہادر شاہ کی طرف سے اعلان کر ایا گیا ہے کہ جو شخص بھی ایک سکھ کا سر کاٹ کر لائے گا اس کو پانچ روپیہ انعام دیا جائے گا۔ عبد اللطیف نے بتایا ہے کہ سکھوں کا ایک وفد اس سلسلہ میں بہادر شاہ سے آ کر ملا اور اس بات کی شکایت کی۔ بہادر شاہ نے جواب دیا :

‘‘ازما جز مہربانی نیا یدو نظر عاطفت براہل ہرکیش باید‘‘

۱۸۵۷ء کے ہنگامہ کے بعد انگریزوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے تعلقات خراب کرانے کے لیے منظم کوششیں شروع کر دیں۔ اور سیاست،سماج، زبان اور ادب کا کوئی گوشہ ایسا نہ چھوڑا جہاں یہ زہر نہ پھیلا یا گیا ہو۔ سر ہنری ایل نے (جس کی تاریخ ہند کی آٹھ جلدیں گزشتہ پچھتر سال سے ہماری ساری چھوٹی بڑی تاریخوں کا ماحذر ہی ہیں۔) حکومت کو لکھا کہ اگر اس کی مرتب کی ہوئی تاریخ ہند شائع کر دی گئی تو ہندوستان میں ساری قومی تحریکیں خود بخود سرد پڑ جائیں گی۔ چنانچہ ہند و مسلم اختلافات کو تا حد طوفان پہنچانے کے لیے یہ کتاب شائع کر دی گئی۔

۱۸۵۷ء کی تحریک کی ناکامی کے مختلف اسباب کی بنا پر ہوئی جہاں تک انفرادی اور شخصی صلاحیتوں کا تعلق تھا،ہندوستان میں شجاعت و تہور کی کوئی کمی نہ تھی۔ رانی لکشمی بائی،بخت خان، حضر ت محل، تاتیا ٹوپی، خان بہادر خان،احمد اللہ شاہ، کنور سنگھ وغیرہ برطانوی نمائندوں کینگ، لارنس،روز، نکلسن، اور ٹرم وغیرہ۔ کسی حیثیت سے کم نہ تھے۔ لیکن ایک فرق بہت بڑا تھا۔ ہندوستان میں یہ صلاحیتیں منتشر اور متفرق طور پر کام کر رہی تھیں۔ ۱؂ اور انگریزوں میں وہ سب متحدہ مقصد کی چاکری میں لگا دی گئی تھیں ہندوستانی سپاہیوں میں مقصد کا اتحاد بالکل مفقود تھا۔ مختلف طبقات مختلف مقاصد کے لیے لڑ رہے تھے۔ بر خلاف اس کے ہر برطانوی سپاہی صرف،ملکہ معظمہ، کے لیے لڑ رہا تھا۔ ان کے مقاصد ایک تھے اور طریقۂ کار میں بھی زیادہ فرق نہ تھا۔

ہندوستان کی ایک بڑی بد نصیبی یہ تھی کہ پوری تحریک کو کسی ایک مرکزی تنظیم کے ماتحت نہ لایا جا سکا۔ مقامی اور انفرادی کوششوں نے ملک میں ابتری تو پیدا کر دی لیکن اس ابتری کو غیر ملکی اقتدار کے خلاف ایک منظم کوشش کے طور پر استعمال کرنا ممکن نہ ہوا۔ چار ماہ کی مدت میں دہلی میں کوئی ایسا نظام ترتیب نہ دیا جا سکا جو ایک کل ہند نظام کو اپنے اندر جذ ب کر لینے میں کامیاب ہو جاتا۔

اس بدنظمی کا ایک بڑا سبب یہ تھا کہ تقریباً ً دو صدیوں سے ملک میں انتشار و ابتری کا دور دورہ تھا۔ جاٹ گردی، مرہٹہ گردی، نادر گردی، اور نہ معلوم کن کن آفتوں نے سماجی زندگی کا توازن بگاڑ کر سیاسی نظام کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا تھا۔ انگریزوں کے مقابلہ کے لیے جس اعلیٰ ضبط و نظم کی ضرورت تھی اس کا دور دور تک پتہ نہ تھا۔ جماعت مجاہدین کے ایک رکن محمد اسمعیل خان کہا کرتے تھے کہ ‘‘ ہنگامہ میں حصہ لینے والوں کی حیثیت ایک غیر منظم بھیڑ کی سی تھی۔ کہیں کوئی افواہ اڑتی تو لوگ سراسیمہ وار بھاگنے لگتے۔ پھر سرداروں میں سخت رقابت تھی۔ ہر سردار کی کوشش یہ تھی کہ دوسرے کو گرا کر خود آگے بڑ ھ جائے خصوصاً یورپیوں کی بد لگامی حد سے بڑھی ہوئی تھی ابتدائی دور کی معمولی وقتی کامیابیوں نے ان میں سے اس درجہ غرور پیدا کر دیا تھا کہ کہتے تھے : جہ کے موڑ پر پنہی رکھ دیے وہی بادشاہ ہو جیے (یعنی جس کے سر پر جو تار رکھ دیں گے وہی بادشاہ ہو جائے گا۔

پھر اقتصادی اعتبار سے بھی یہ حقیقت فراموش نہیں کی جا سکتی کہ ہندوستانی سپاہی جو بہادر شاہ کے گرد جمع ہو گئے تھے، انہیں سخت ترین مالی دشواریاں پیش آ رہی تھیں۔ آئے دن فوج کی ضروری اخراجات کے لیے روپیہ قرض لینے کی ضرورت پڑتی تھی ایسی صورت میں کوئی فوج بھی بے فکری کے ساتھ کام نہیں کر سکتی تھی،منشی جیون لال نے اپنے روزنامچہ میں بہادر شاہ اور مولوی فضل حق کی گفتگو نقل کی ہے۔ بہادر شاہ نے جب مولوی صاحب کو حکم دیا کہ : اپنی افواج کو لڑانے کے لیے لے جاؤ اور انگریزوں کے خلاف لڑاؤ تو انہوں نے کہا: افسوس تو اسی بات کا ہے کہ سپاہی ان کا کہا نہیں مانتے جوا ن کی تنخواہ دینے کے ذمہ دار نہیں ہیں۔

علاوہ ازیں انگریزوں کے ہاتھ میں وہ علاقے تھے جو معاشی اعتبار سے سب سے زیادہ خوشحال تھے۔ اور جن کو ہندوستان کی اقتصادی شہ رگ کہا جا سکتا تھا۔ شمالی ہندوستان کے وہ علاقے جہاں انگریزوں کے خلاف جذبات سب سے زیادہ شدید تھے وہ تھے جہاں کے معاشی حالات ابتر ہو چکے تھے۔ مسلسل سیاسی بدنظمی،بیرونی حملوں اور اندرونی سازشوں نے ان علاقوں کو اتنا بے جان کر دیا تھا کہ وہ کسی جنگ کے مصارف کو برداشت ہی نہیں کر سکتے تھے۔

ناکامی کے اور بہت سے اسباب کی بھی نشان دہی کی جا سکتی ہے لیکن اس تمام تجزیہ کے باوجود اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اگر ۱۸۵۷ ء کا ہندوستان وقتی طور پر انگریزوں کے خلاف کامیاب بھی ہو جاتا تو اپنی آزادی کو برقرار نہیں رکھ سکتا تھا ۔ انقلاب اور سائنس کی نئی ایجادات نے انسانی زندگی کو بالکل بدل دیا تھا لیکن ہندوستانی ابھی تک قدیم طرز تمدن کا خستہ لبادہ اوڑھے بیٹھے تھے اور قدامت پسندی نے ان کے قدموں کو جکڑ لیا تھا ایسی صورت میں ۱۸۵۷ء کی تحریک کی کامیابی غلامی زنجیروں کو صرف ڈھیلا کر سکتی تھی توڑ نہیں سکتی تھی۔

فتح دہلی کے بعد انگریزوں نے سارے ملک کو انتقامی آگ کے شعلوں میں ڈال دیا۔ اور قتل و غارت گری کا وہ ہنگامہ برپا کیا جس کی مثال انیسویں صدی کی تاریخ میں تلاش سے بھی نہیں ملتی۔ ہزاروں معصوم اور بے گناہ انسان ۱؂ اس ظلم اور بربریت کا شکار ہو گئے۔

شمالی ہندوستان میں بے شمار گاؤں ایسے تھے جہاں درختوں سے لٹکی ہوئی نعشوں کے گرد کوے اور چیلیں منڈلاتی ہوئی نظر آت تھیں۔ بازاروں کا عالم یہ تھا کہ :

گھروں سے کھینچ کے کشتیوں پہ کشتی ڈالتے ہیں

نہ گور ہے نہ کفن ہے نہ رونے والے ہیں

یوں تو ہندو اور مسلمان کوئی بھی انگریز کی چیرہ دستی سے نہ بچ سکا،لیکن مسلمانوں پر خاص طور سے عتاب نازل ہوا۔ اس کا بڑا سبب یہ تھا کہ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ پورا ہنگامہ صرف مسلمانوں کا پید ا کیا ہوا تھا ۱؂۔ چنانچہ ہزاروں مسلمان معمولی معمولی شبہات پر تہ تیغ کر دیئے گئے۔ ہزاروں مسلمان گھرانے نانِ شبینہ کو محتاج ہو گئے اور سینکڑوں شریف خاندان بے کس اور مفلسی کے عالم میں دربدر مارے پھرنے لگے۔ سر سید جنہوں نے اس موج خون کو مسلمانوں کے سر سے گزرتا ہوا دیکھا تھا،لکھتے ہیں :

‘‘ میں اس وقت ہرگز نہیں سمجھا تھا کہ قوم پھر پنپے گی اور کچھ عزت پائے گی اور جو حال اس وقت قوم کا تھا وہ مجھ سے دیکھا نہیں جاتا تھا۔ چند روز میں اسی خیال اور اسی غم میں رہا۔ آپ یقین کیجئے کہ اس غم نے مجھے بڈھا کر دیا اور میرے بال سفید کر دیے ۲؂

سب سے زیادہ عبرت ناک دہلی کی تباہی تھی ۳؂ وہ صرف ایک ہنگامی تحریک کا ہی مرکز نہ تھی، بلکہ ایک تمدن کی آخری نشانی تھی وہاں کی ہر ایک چیز اپنی تاریخ رکھتی تھی۔ انگریزوں نے اس کی تباہی و بربادی میں کوئی کسر اٹھا کر نہ رکھی۔ چوک سعد اللہ خان، اردو با زار،خانم کا بازار، بلاقی بیگم کا کوچہ، خان دوراں کی حویلی، دریا گنج کی گھاٹی، گلیوں کا بازار، پنجابی کٹرا، دھوبی کٹرا، رام گنج، سعادت خان کا کٹر ا، رام جی داس گودام والے کے مکانات، کے علاوہ شاہی درس گاہ، دار البقاء، اکبر آبادی مسجد، اور نگ آبادی مسجد، چوبی، مسجد کو اس طرح مسمار کیا کہ نام و نشاں تک باقی نہ چھوڑا۔ غالب نے اسی زمانہ میں ایک خط میں لکھا تھا :

مسجد جامع سے راج گھاٹ دروازہ تک بے مبالغہ صحرا لق و دق ہے۔ اینٹوں کے جو ڈھیر پڑے ہیں وہ اگر اٹھ جائیں و ہو کا مکان ہو جائے۔

انگریزوں نے جس سفاکی اور بے دردی کے ساتھ خون بہایا تھا اس سے دلوں پر خوف وہ راس طاری ہو گیا ۱؂ اور کسی کو اس قیامتِ صغریٰ کی داستان مرتب کر نے کی جرأت نہ ہوئی۔ لیکن غم جب حد سے بڑھ جاتا ہے تو، سرائیں شیشہ فروبند، پر عمل نہیں ہو سکتا۔ کچھ لوگوں نے مذہبی عنوانات پر لکھ کر اپنے غم کو بھلانے کی کوشش کی، کچھ لوگوں نے گل و بلبل کی زبان سے آہ و زاری کی، کچھ لوگوں نے زیادہ جرأت سے کام لیا تو ڈائریاں اور روزنامچے مرتب کر دیے لیکن انگریز کے جبر و تشدد سے خوف کی جو اَنمٹ کیفیت پیدا ہو گئی تھی اس کے آثار یہاں بھی نمایاں رہے اور تحریک کے جرأت مندانہ تجزیہ کی ہمت تو کیا، اپنے جذبات کے اظہار تک کی جرأت نہ ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دور کی شاعری ہو یا مذہبی تصانیف،تاریخی کتابیں ہوں یا تذکرے، قنوطیت اور ذہنی مرعوبیت کی گہری گھٹائیں چھائی ہوئی نظر آتی ہیں۔ بخت خان کو جو اس تحریک کی سب سے زیادہ ممتاز شخصیتوں میں تھا،کسی تذکرہ نویس نے، بدبخت، کہا ہے کسی نے، کمبخت، اور کسی نے گھس کھدا، داستانِ غدر میں بخت خان کی یہ تصویر:

دیکھتا کیا ہوں کہ ایک پوربیا فربہ اندام،پستہ قد، ادھیڑ، سر پرا یک انگوچھا لپٹا ہوا، چند یا کھلی، عقب حمام کے چبوترہ کی طرف سے دربار میں آیا اور بادشاہ کو سلام کر کے پاس چلا آیا۔ میرے بہنوئی نے روکا بھی کہ ہیں ہیں کہاں چلے آتے ہو، مگر وہ کب سنتا تھا۔ پاس آ کر بادشاہ کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا۔ سنو بڑھو ہم نے تمہیں بادشاہ کیا۔ یہ بات سن کر مجھے تاب نہ رہی اور مارے غصہ کے کانپنے لگا۔ اور ہاتھ زور سے اس کے سینہ پر رکھ کر دھکا دیا اور کہا کہ او بے ادب،بے تمیز بادشاہوں کے دربار میں اس طرح گستاخی کرتے ہیں۔ وہ اس دھکا دینے سے دو تین قدم پیچھے ہٹ گیا اور گرتے گرتے سنبھلا اور اس نے تلوار کے قبضہ پر ہاتھ ڈالا، میں نے بھی تلوار کھینچ لی۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ وہ بدبخت جرنیل بخت خان یہی ہے۔

جس ذہنی مرعوبیت کی آئینہ دار ہے اس نے اس دور کے بیشتر تذکروں کی تاریخی اہمیت اور افادیت کو کم کر دیا ہے اور حقیقی جذبات،وقتی مصلحتوں کے بوجھ میں اس طرح دب گئے ہیں کہ ان میں ‘‘ کافور و کفن، کی بو تو سونگھی جا سکتی ہے لیکن دل کی بے چین دھڑکنیں نہیں سنی جا سکتیں۔

معاصر تذکروں اور سالوں میں سر سید کا رسالہ اسباب بغاوت ہند، غالب کا دس سبق، اور معین الدین اور منشی جیون لال کے روزنامچے اور ظہیر الدین کی کتاب داستان غدر خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

سر سیدؔ نے جس وقت اپنا رسالہ لکھا تھا اس وقت غدر کے اسباب کے تجزیہ کا تو ذکر کیا اس کے واقعات کے متعلق بھی کسی کو لکھنے کی ہمت نہ ہوتی تھی۔ سر سید نے وقت کی تمام مصلحتوں کو یہ جواب دے کر :

اس موضوع پر قلم اٹھا لیا۔ سر سید نے ہنگامہ کے زمانہ میں انگریزوں کی بہت ہمدردی کی تھی اس لیے ان پر باغی ہونے کا الزام لگانا تو آسان نہ تھا، لیکن پھر بھی انگلستان کے بعض حلقوں میں ان کی اس کوشش کو اچھا نہیں سمجھا گیا۔ انگریزوں پر اس وقت انتقام کا خون ایسا سو ار تھا کہ وہ کسی عنوان ایک ہندوستانی سے ہنگامہ کے اسباب و علل کے متعلق سننے پر آمادہ نہ تھے۔ سر سید نے نہایت صفائی لیکن انتہائی تدبر سے یہ رسالہ ترتیب دیا اور بعض نہایت ہی تلخ حقیقتوں کو اپنی انگریز دوستی کا سہار ا لے کر پیش کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی ہندوستانی نے اس گہرائی اور محنت سے تحریک کا جائزہ نہیں لیا۔ انہوں نے تصویر کے کتنے ہی رخ بے نقاب کیے ہیں اور بڑی جرأت کے ساتھ اسباب غدر کی طرف توجہ دلائی ہے۔

غالب کے دستنبو میں ذہنی مرعوبیت اور خوشامد کا پہلو غالب ہے۔ گہری نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ سکہ کے اشعار لکھنے اور دربار بہادر شاہی میں حاضری کا داغ دھونے کی خواہش اس کی محرک ہے۔ ان کے خطوط میں ہنگامے سے متعلق حقیقی جذبات ملتے ہیں اور بعض میں یقیناً سوز دل کی بو آتی ہے لیکن دستنبو میں وہ انگریز کی زبان سے بولے ہیں اور مصلحت کے قلم سے انہوں نے لکھا ہے۔

٭٭٭

ماخذ: ’جنگ آزادی‘ ساونیر

اقبال اکادمی اور ناشر کے شکریے اور اجازت سے

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید