فہرست مضامین
- انسان قرآن کی نظر میں
- انسان قرآن کی نظر میں
- اسلامی تصور کائنات میں انسان
- انسانی اقدار
- منفی اقدار
- حسین یا بدصورت
- متعدد پہلوؤں کی حامل مخلوق
- انسان کی مختلف قوتیں
- خود شناسی
- انسانی صلاحیتوں کی تربیت
- جسم کی پرورش
- روح کی پرورش
- مستقبل کی تعمیر میں انسان کا کردار
- آزادی کی حدود اور انسان کا ارادہ
- انسان اور قضا و قدر
- انسان اور فرائض
- درست اعمال کی شرائط
- انسان کی شناخت
انسان قرآن کی نظر میں
ڈاکٹر مرتضیٰ مطہری
انسان قرآن کی نظر میں
فطرت کے مسئلے پر اسلامی نکتہ نگاہ سے تحقیق ایک الگ کتاب کی صورت میں ’’فطرت‘‘ کے نام سے چھپ چکی ہے۔ یہاں پر بس اتنا بیان کرنا ضروری ہے کہ اسلام کا تصور فطرت وہ نہیں جو ڈیکارٹ اور کانٹ وغیرہ کے نزدیک ہے کیوں کہ ان کے نزدیک انسان میں پیدائش کے وقت سے کچھ ادراکات رجحانات اور تماثلات بالفعل یا عملی طور پر موجود ہوتے ہیں اور فلاسفہ کی اصطلاح میں انسان بالفعل عقل اور ارادے کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح سے انسانی فطرت کے بارے میں ہم فطرت کے منکرین جیسے مارکسزم اور اگزیسٹینشلزم (فلسفہ وجودیت) کے نظریے کو بھی قبول نہیں کرتے جو یہ کہتے ہیں کہ انسان ہر چیز کو قبول کرنے کی صلاحیت لے کر پیدا ہوتا ہے اور اسے جو بھی کردار دیا جائے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا بالکل ایک سفید کاغذ کی طرح جس پر جو کچھ لکھا جائے مساوی ہے جب کہ ہمارے نزدیک انسان پیدائش کے وقت بالقوہ اور استعدادی صلاحیت کے تحت کچھ چیزوں کے لئے میلانات اور تحرکات لے کر پیدا ہوتا ہے اور ایک باطنی قوت خارجی عوامل کی مدد سے ان چیزوں کی طرف اس کی رہنمائی کرتی ہے۔ اگر اس کی بالقوہ صلاحیت تک متشکل ہو جائے تو وہ ایسی عملی شکل یا فعلیت تک پہنچ جاتا ہے جو اس کے لائق ہے اور انسانیت کہلاتی ہے اور اگر خارجی عوامل کے جبر سے اس پر مذکورہ فعلیت کے علاوہ کوئی اور فعلیت مسلط کر دی جائے تو وہ ایک مسخ شدہ ’’ہستی‘‘ میں بدل جاتا ہے اسی بناء پر انسان کے مسخ ہونے کا مسئلہ جس کی بات مارکسزم اور اگزیسٹینشلزم (فلسفہ وجودیت) کے پیروکار بھی کرتے ہیں صرف مکتب اسلام کے نظریے کے ذریعے ہی قابل حل ہے۔
اس مکتب کے نکتہ نگاہ سے پیدائش کے وقت انسان کی کمالات اور اقدار سے نسبت ناشپاتی کے ایک ننھے سے پودے اور ایک تناور درخت کی باہمی نسبت کی سی ہے کیوں کہ ایک باطنی قوت خارجی عوامل کی مدد سے اس ننھے پودے کو درخت میں تبدیل کر دیتی ہے۔ یہ نسبت لکڑی کے تختے اور کرسی کی سی نہیں جنہیں صرف بیرونی عوامل مختلف صورتوں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔
اسلامی تصور کائنات میں انسان
اسلامی تصور کائنات میں انسان کی ایک عجیب داستان سامنے آتی ہے اسلامی نکتہ نگاہ سے وہ صرف ایک راست قامت چلنے پھرنے اور بولنے والا انسان ہی نہیں قرآن حکیم کی نظر اس کی حقیقت اس سے کہیں زیادہ گہری اور پراسرار ہے کہ چند جملوں میں اس کی توصیف کی جا سکے۔ قرآن حکیم میں انسان کی توصیف بھی بیان کی گئی ہے اور مذمت بھی۔
قرآن کی عالی ترین تعریفیں بھی انسان کے بارے میں ہیں اور سخت ترین مذمت بھی۔ جہاں اسے زمین و آسمان اور فرشتوں سے برتر پیش کیا گیا ہے وہاں اسے جانوروں سے پست تر بھی دکھایا گیا ہے۔ قرآن کی نگاہ میں انسان میں یہ قوت ہے کہ وہ قوائے عالم کو مسخر کر سکتا ہے اور فرشتوں سے بھی کام لے سکتا ہے لیکن اس کے برعکس وہ اپنے برے اعمال کی پاداش میں اسفل السافلین میں بھی گر سکتا ہے ذیل میں انسان کی ان قابل تعریف صفات کا ذکر کیا جاتا ہے جو قرآن حکیم کی مختلف آیات میں انسانی اقدار کے طور پر ذکر ہوئی ہیں:
انسانی اقدار
انسان زمین پر خدا کا خلیفہ ہے۔ (یہاں قرآنی آیات کا مفہوم بیان کیا گیا ہے نہ کہ تفصیلی ترجمہ)
’’اور جب تیرے رب نے انسان کو پیدا کرنا چاہا تو فرشتوں کو آگاہ کیا فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین میں اس کو پیدا کرے گا جو فساد کرے گا اور خون بہائے گا؟ اللہ نے فرمایا: بے شک مجھے وہ معلوم ہے جو تم نہیں جانتے۔ ‘‘(سورہ بقرہ آیت ۳۰)
’’اور اسی خدا نے تم (انسانوں) کو زمین میں اپنا نائب بنایا ہے تاکہ تمہیں دیئے ہوئے سرمائے کے ذریعے تمہارا امتحان لیا جائے۔ ‘‘ (سورہ انعام آیت ۱۶۵)
۲۔ انسان کی علمی استعداد دوسری تمام مخلوقات کی ممکنہ استعداد سے زیادہ ہے۔
’’اور اللہ نے آدم کو سب چیزوں کے نام سکھا دیئے (اسے تمام حقائق سے آشنا فرمایا) پھر ’’ملکوتی مخلوق‘‘ فرشتوں سے کہا: مجھے ان کے نام بتاؤ کہ کیا ہیں؟ وہ بولے: ہم کو معلوم نہیں مگر جتنا کہ تو نے ہمیں خود سکھایا فرمایا: اے آدم تو ان کو ان چیزوں کے نام سکھا دے اور آگاہ کر پھر اس نے سب چیزوں کے نام سکھا دیئے اور آگاہ کر دیا تو اللہ نے فرشتوں سے فرمایا: کیا میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی چھپی ہوئی چیزوں کو خوب جانتا ہوں وہ بھی جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے اور وہ بھی جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور چھپاتے ہو۔ ‘‘(سورہ بقرہ آیت ۳۱ تا ۳۳)
۳۔ انسان کی فطرت خدا کی آشنائی ہے اور وہ اپنی فطرت کی گہرائی میں خدا کو پہچانتا ہے اور اس کے وجود سے آگاہ ہے تمام شکوک و شبہات اور افکار انسانی فطرت سے انحراف اور بیماریاں ہیں۔
’’ابھی آدم کے فرزند اپنے والدین کی پیٹھوں میں ہی تھے کہ خدا نے ان سے اپنے وجود کے بارے میں گواہی لی اور انہوں نے گواہی دی۔ ‘‘(سورہ اعراف آیت ۱۷۲)
’’تو اپنا چہرہ دین کی طرف رکھ وہی جو خدائی فطرت ہے اور اس نے سب لوگوں کو اسی پر پیدا کیا ہے۔ ‘‘(سورہ روم آیت ۴۳)
۴۔ انسانی فطرت میں ان مادی عناصر کے علاوہ جو جمادات نباتات اور حیوانات میں ہیں ایک آسمانی اور روحانی عنصر بھی موجود ہے گویا انسان جسم اور روح (عالم مادہ اور عالم معنی) کا مرکب ہے۔
’’اس نے جو چیز بنائی خوب بنائی انسان کی پیدائش گارے سے شروع کی پھر اس کی اولاد کو نچڑے ہوئے حقیر پانی سے قرار دیا پھر اس کو آرائش دی اور اس میں اپنی روح پھونکی۔ ‘‘(سورہ حم ۷۔ ۹)
۵۔ انسان کی پیدائش اتفاقی نہیں بلکہ ایک مقررہ طریقے پر ہوئی ہے اور وہ خدا کا برگزیدہ اور منتخب کیا ہوا ہے۔
’’خدا نے آدم کو منتخب کیا پھر اس کی جانب متوجہ ہوا اور اس کو ہدایت کی۔ ‘‘(سورہ طہٰ آیت ۱۲۲)
۶۔ انسان آزاد اور مستقل شخصیت کا مالک ہے۔ وہ خدا کا امانت دار اور اس کو دوسروں تک پہنچانے کا ذمہ دار ہے۔
اس سے یہ بھی چاہا گیا ہے کہ وہ اپنے کام اور کوششوں سے زمین کو آباد کرے اور سعادت و شقاوت کے راستوں میں سے ایک کو اپنی مرضی سے اختیار کرے۔
’’اور ہم نے آسمانوں زمین اور پہاڑوں کو اپنی امانت دکھائی اسے کسی نے قبول نہ کیا کہ اٹھائے اور ڈر گئے جب کہ انسان نے اس کو اٹھا لیا بے شک یہ بڑا ظالم اور نادان ہے۔ ‘‘(سورہ احزاب آیت ۷۲)
’’ہم نے انسان کو مرکب نطفے سے بنایا تاکہ اس کا امتحان لیں پھر ہم نے اس کو سننے والا اور دیکھنے والا کر دیا پھر ہم نے اس کو راستہ دکھایا اب یا وہ شکر کرنے والا ہے یا ناشکری کرنے والا یا وہ ہمارے دکھائے ہوئے سیدھے راستے پر چلے گا اور سعادت پائے گا یا کفران نعمت کرے گا اور منحرف ہو جائے گا۔ ‘‘(سورہ دہر آیت ۲۔ ۳)
۷۔ انسان ذاتی شرافت اور کرامت کا مالک ہے۔
خدا نے انسان کو دیگر بہت سی مخلوقات پر برتری بخشی ہے لیکن وہ اپنی حقیقت کو خود اسی وقت پہچان سکتا ہے جب کہ وہ اپنی ذاتی شرافت کو سمجھ لے اور اپنے آپ کو پستی ذلت اور شہوانی خواہشات اور غلامی سے بالاتر سمجھے۔
’’بے شک ہم نے اولاد آدم کو عزت دی اور ہم نے ان کو صحرا اور سمندر پر حاکم کر دیا اور ہم نے ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر برتری دی۔ ‘‘(سورہ بنی اسرائیل آیت ۷۰)
۸۔ انسان باطنی اخلاق کا حامل ہے اور وہ اپنی فطری قوت سے ہر نیک و بد کو پہچان لیتا ہے۔
’’اور قسم ہے نفس انسان کی اور اس کے اعتدال کی کہ اس کو (خدا نے) اچھی اور بری چیزوں کی پہچان دی۔ ‘‘(سورہ شمس آیات ۷۔ ۹)
۹۔ انسان کے لئے اطمینان قلب کے حصول کا واحد ذریعہ ’’یاد خدا‘‘ ہے اس کی خواہشات لامتناہی ہیں لیکن خواہشوں کے پورا ہو جانے کے بعد وہ ان چیزوں سے بے زار ہو جاتا ہے مگر یہ کہ وہ خدا کی لامتناہی ذات سے مل جائے۔
الا بذکر اللہ تطمئن القلوب
’’بے شک اللہ کی یاد ہی سے دل چین پاتے ہیں۔ ‘‘(سورہ رعد آیت ۲۸)
’’اے انسان تو اپنے رب تک پہنچنے میں بہت تکلیف اٹھاتا ہے اور آخر کار تمہیں اس سے ملنا ہے۔ ‘‘(سورہ انشقاق آیت ۶)
۱۰۔ زمین کی تمام نعمتیں انسان کے لئے پیدا کی گئی ہیں۔
’’وہی ہے جس نے سب جو کچھ زمین میں ہے تمہارے لئے پیدا کیا۔ ‘‘(سورہ بقرہ آیت ۲۹)
’’اور مسخر کر دیا تمہارے لئے اپنی طرف سے سب جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اس میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو فکر کرتے ہیں۔ ‘‘(سورہ جاثیہ آیت ۱۳)
خدا نے انسان کو صرف اس لئے پیدا کیا کہ وہ دنیا میں صرف اپنے خدا کی عبادت اور اس کے احکام کی پابندی کرے پس اس کی ذمہ داری امر خدا کی اطاعت ہے۔
’’اور ہم نے جن اور انسان کو نہیں پیدا کیا مگر اس لئے کہ وہ میری عبادت کریں۔ ‘‘(سورہ حشر آیت ۱۹)
۱۲۔ انسان خدا کی عبادت اور اس کی یاد کے بغیر اپنے آپ کو نہیں پا سکتا اگر وہ خدا کو بھول جائے تو اپنے آپ کو بھی بھول جاتا ہے اور نہیں جانتا کہ وہ کون ہے اور کس لئے ہے؟ اور یہ کہ وہ کیا کرے؟ اسے کیا کرنا چاہئے؟ اور کہاں جانا چاہئے؟
’’بے شک تم ان لوگوں میں سے ہو جو خدا کو بھول گئے۔ پھر خدا نے ان کے لئے ان کی جانی بھلا دیں۔ ‘‘(سورہ حشر آیت ۱۹)
۱۳۔ انسان جونہی اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے اور اس کی روح کے چہرے سے جسم کا پردہ جو کہ روح کے چہرے کا حجاب ہے اٹھ جاتا ہے تو اس وقت اس پر ایسے بہت سے حقائق ظاہر ہوتے ہیں جو دنیا میں اس سے پوشیدہ رہتے ہیں:
’’ہم نے تجھ پر سے پردہ ہٹا دیا تیری نظر آج تیز ہے۔ ‘‘ (سورہ ق آیت ۲۲)
۱۴۔ انسان دنیا میں ہمیشہ مادی مسائل کے حل کے لئے ہی کوششیں نہیں کرتا اور اس کو صرف مادی ضرورتیں ہی متحرک نہیں کرتیں بلکہ وہ بعض اوقات کسی بلند مقصد کے حصول کے لئے بھی اٹھتا ہے اور ممکن ہے کہ اس عمل سے اس کے ذہن میں سوائے رضائے خداوندی کے حصول کے اور کوئی مقصد نہ ہو۔
’’اے نفس مطمئنہ تو اپنے رب کی طرف لوٹ جا تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔ ‘‘(سورہ فجر آیات ۲۷۔ ۲۸)
’’اللہ نے ایمان والے مردوں اور عورتوں کو باغوں کا وعدہ دیا ہے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور نفیس مکانوں کا بھی۔ لیکن اللہ کی رضامندی ان سب سے بڑی ہے یہی بڑی کامیابی ہے۔ ‘‘(سورہ توبہ آیت ۷۳)
اوپر جو کچھ کہا گیا ہے اس کی بجائے یہ کہا جا سکتا ہے کہ قرآن کی نظر میں:
’’انسان خداوند تعالیٰ کی طرف سے منتخب شدہ ہستی ہے۔ وہ زمین پر اس کا خلیفہ اور جانشین ہے وہ روحانی اور مادی عناصر کا مرکب خدا آشنا فطرت کا مالک آزاد اور مختار پیغام خداوندی کا امین دنیا کا اور اپنا ذمہ دار فطرت زمین اور آسمان پر مسلط اور نیکی اور بدی کو سمجھنے والا ہے۔ اس کی زندگی کا آغاز کمزوری سے ہوتا ہے اور قوت اور کمال کی طرف بڑھتا ہے لیکن جب وہ حالت رشد و سن تمیز کو پہنچتا ہے تو اسے صرف اسی صورت میں سکون قلب ملتا ہے کہ وہ بارگاہ الٰہی میں حاضر ہو کر اس کی یاد میں مشغول ہو جائے اس کی علمی اور عملی استعداد لا محدود ہے۔ وہ ذاتی شرافت اور کرامت کا حامل ہے اس کی خواہشات پر کسی طرح کا مادی اور طبیعی رنگ نہیں چڑھتا اس کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ خدا کی دی ہوئی نعمتوں سے جائز فائدہ اٹھائے لیکن وہ اپنے خدا کے سامنے اپنے فرائض کی انجام دہی کا ذمہ دار بھی ہے۔ ‘‘
منفی اقدار
قرآن کریم میں اسی انسان کی شدید مذمت اور ملامت بھی کی گئی ہے:
۱۔ ’’وہ بہت ظالم اور بہت نادان ہے۔ ‘‘(سورہ احزاب آیت ۷۲)
۲۔ ’’وہ خدا کے بارے میں بہت ناشکرا ہے۔ ‘‘(سورہ حج آیت ۶۶)
۳۔ ’’جب انسان اپنے آپ کو بے نیاز دیکھتا ہے تو سرکشی کرتا ہے۔ ‘‘ (سورہ علق آیت ۶ ۷)
۴۔ ’’انسان بڑا جلد باز ہے۔ ‘‘(سورہ اسراء آیت ۱۱)
۵۔ ’’جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہم کو لیٹے بیٹھے اور کھڑے کھڑے پکارنے لگتا ہے پھر جب اس کی وہ تکلیف اس سے دور کر دیتے ہیں تو پھر وہ اپنی پہلی حالت میں آ جاتا ہے گویا جو تکلیف اس کو پہنچی تھی اس کو دور کرنے کے لئے اس نے کبھی ہم کو پکارا ہی نہ تھا۔ ‘‘(سورہ یونس آیت ۱۲)
۶۔ ’’اور انسان بڑا تنگ دل ہے۔ ‘‘(سورہ اسراء آیت ۱۰۰)
۷۔ ’’انسان سب چیزوں سے زیادہ جھگڑالو ہے۔ ‘‘(سورء کہف آیت ۵۴)
۸۔ ’’وہ کم ہمت پیدا کیا گیا ہے۔ ‘‘(سورہ معارج آیات ۱۹۔ ۲۱)
۹۔ ’’جب اس کو برائی پہنچے تو وہ مضطرب ہو جاتا ہے اور جب اس کو بھلائی پہنچے تو وہ بخل کرنے لگتا ہے۔ ‘‘(سورہ معارج آیات ۱۹۔ ۲۱)
حسین یا بدصورت
یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا انسان قرآن حکیم کی نظر میں بدصورت مخلوق بھی اور حسین مخلوق بھی ہے وہ بھی بہت حسین اور بہت بدصورت؟ کیا وہ دو طرح کی فطرتوں کا حامل ہے یعنی اس کی آدھی فطرت نور ہے اور آدھی ظلمت؟ اور ایسا کیوں ہے کہ قرآن حکیم اس کی بہت زیادہ تعریف بھی کرتا ہے اور بے انتہا مذمت بھی۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کی تعریف اور مذمت اس سبب سے نہیں کہ وہ دو فطرتوں کا حامل ہے گویا اس کی ایک فطرت قابل تعریف اور دوسری قابل مذمت۔ قرآن حکیم کا نقطہ نظر یہ ہے کہ انسان اپنی استعدادی قوت کی بناء پر تمام کمالات کا حامل ہے اور اس کا لازم ہے کہ وہ ان کمالات کو قوت سے فعل میں لائے اور یہ خود انسان ہی ہے جو اپنی ذات کا معمار ہے۔
انسان کے ان کمالات تک پہنچنے کی اصل شرط ’’ایمان‘‘ ہے۔ ’’ایمان‘‘ ہی سے اس میں تقویٰ نیک عمل اور راہ خدا میں کوشش کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے ’’ایمان‘‘ ہی کے ذریعے سے علم نفس امارہ کے ہاتھ میں ناجائز ہتھیار کی صورت سے نکل کر مفید ہتھیار کی صورت اختیار کرتا ہے۔
پس حقیقی انسان جو کہ ’’خلیفة اللہ‘‘ ہے مسجود ملائک ہے دنیا کی ہر چیز اسی کے لئے ہے اور وہ تمام انسانی کمالات کا حامل ہے وہ ’’انسان با ایمان‘‘ ہے نہ کہ ’’انسان بے ایمان‘‘ اور ناقص ہے۔ ایسا انسان حریص اور خونریز ہے وہ بخیل اور خسیس ہے وہ کافر ہے اور حیوان سے پست تر۔
قرآن حکیم میں ایسی بھی آیات ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ وہ کون سا انسان ہے جس کی تعریف کی گئی ہے؟ اور وہ کون سا انسان ہے جس کی مذمت کی گئی ہے؟ ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ انسان جو خدا پر ایمان نہیں رکھتا انسان حقیقی نہیں ہے اگر انسان اس حقیقت یگانہ سے تعلق قائم کر لے جس کی یاد سے دل آرام پاتا ہے تو وہ کمالات کا حامل ہے اور اگر وہ اس حقیقت یگانہ یعنی خدا سے جدا ہو جاتا ہے تو وہ ایک ایسے درخت کی مانند ہے جو اپنی جڑوں سے جدا ہو چکا ہے۔
اس موضوع پر ہم ذیل میں آیات بطور نمونہ پیش کرتے ہیں:
والعصر ان الانسان لفی خسر الا الذین آمنوا و عملو الصالحات وتواصوا بالحق وتواصوا باالصبر
’’قسم ہے زمانے کی! بے شک انسان خسارے میں ہے مگر جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے اور ایک دوسرے کو حق کی تاکید کرتے اور صبر و استقامت کی تاکید کرتے رہے۔ ‘‘(سورہ عصر ۱)
ولقد ذرانا لجھنم کثیرا من الجن والانس لھم قلوب لا یفقہون بہاولہم اعین لا یبصرون بھا ولھم آذان لا یسمعون بھا اولئک کالانعام بل ھم اضل
’’اور ہم نے بہت سے جن اور انسان دوزخ کے لئے پیدا کئے ان کا انجام جہنم ہے ان کے دل ہیں وہ ان سے سمجھتے نہیں اور آنکھیں ہیں وہ ان سے دیکھتے نہیں اور کان ہیں کہ وہ ان سے سنتے نہیں وہ ایسے ہیں جیسے چوپائے بلکہ وہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں۔ ‘‘ (سورہ اعراف آیت ۱۷۹)
متعدد پہلوؤں کی حامل مخلوق
اوپر کی گفتگو سے واضح ہوا کہ انسان باوجود ان صفات کے جو اس میں اور دوسری تمام ذی روح مخلوقات میں مشترک ہیں ان سے بہت فاصلے پر بھی ہے انسان ایک مادی اور معنوی وجود کا نام ہے۔ ان تمام مشترکات کے باوجود جو انسان اور دیگر جانداروں میں موجود ہیں کچھ گہرے اور بنیادی فرق بھی ان کے مابین ہیں- جن میں سے ہر ایک اس کے ایک الگ پہلو کو بیان کرتا ہے اور اس کے وجود کی تشکیل میں الگ حیثیت کا حامل ہے۔ یہ فرق تین پہلوؤں پر مبنی ہے:
۱۔ اپنا اور دنیا کا ادراک (خود شناسی اور جہان شناسی)
۲۔ وہ جذبات جو انسان کا احاطہ کئے ہوئے ہیں۔
۳۔ جذبات کے زیر اثر آنے کے بعد ان میں سے کسی کا انتخاب۔
دنیا شناسی کے پہلو سے حیوانی حواس ایسا ذریعہ ہیں جن کے ذریعے وہ دنیا کو پہچانتا ہے اس اعتبار سے انسان دوسرے حیوانات کے ساتھ شریک ہے بلکہ بعض حیوانات کے حواس اس مسئلے میں انسان کے حواس سے زیادہ قوی ہیں لیکن وہ شناخت جو حیوان اور انسان کو بذریعہ حواس حاصل ہوتی ہے۔ سطحی اور ظاہری ہے اور اس کی مدد سے اشیاء کی ذات اور ماہیت کی گہرائی اور ان کے باہمی منطقی روابط معلوم نہیں ہو سکتے۔
البتہ انسان میں دنیا اور اپنی شناخت و ادراک کے سلسلے میں ایک ایسی پوشیدہ قوت بھی موجود ہے جو دوسرے حیوانات میں موجود نہیں اور وہ قوت شناخت ہے۔ جس کے ذریعے سے وہ دنیا کے کلی قوانین کو کشف کرتا ہے اور عالم کے کلی قوانین کی شناخت اور فطرت کے کلی قوانین کے کشف کرنے کے بعد اسی بنیاد پر فطرت پر غالب آتا ہے۔
گذشتہ مباحث میں بھی ہم نے انسان کی اس قوت شناخت کا ذکر کیا اور کہا تھا کہ فکری شناخت کا ترکیبی نظام انسانی وجود کا پیچیدہ ترین نظام ہے اگر اس پر صحیح طرح سے غور و فکر کیا جائے تو انسان ہی کی شناخت کے سلسلے میں حیرت و تعجب کے دروازے کھلتے جاتے ہیں۔ انسان اس قسم کی قوت شناخت کے ذریعے سے ایسے بہت سے حقائق معلوم کر سکتا ہے جن کا علم حواس ظاہری کے ذریعے سے ممکن نہیں بلکہ ماورائے عالم کی شناخت خصوصاً خدا کی فلسفیانہ شناخت بھی انسان ہی سے مخصوص اس وقت شناخت کی مرہون منت ہے جب کہ جذبات کے لحاظ سے انسان بھی دوسری ذی روح موجودات کی مانند مادی اور فطری جذبات اور خواہشات سے متاثر ہوتا ہے جیسے غذا کی خواہش نیند جنسی تعلقات اور آرام و آسائش کی طلب وغیرہ۔ البتہ انسان کو اپنی طرف کھینچنے والے جذبات انہی پر منحصر نہیں بلکہ حجم اور وزن سے عاری ایسے غیر مادی یا معنوی جذبات بھی موجود ہیں جو انسان کو اپنی طرف کھینچتے ہیں معنوی جذبات کے وہ اصول جو آج تک شناخت کئے جا چکے ہیں اور جنہیں سب قبول کرتے ہیں۔ مندرجہ ذیل امور ہیں:
۱۔ علم و دانائی
انسان علم و دانائی کا طالب صرف اس لئے نہیں ہے کہ وہ اسے فطرت پر غلبہ دیتے ہیں اور اس کی مادی زندگی میں اس کو نفع پہنچاتے ہیں بلکہ اس کے اندر حقیقت اور تحقیق کی فطری جستجو موجود ہے علم بہتر زندگی بسر کرنے اور اپنے فرائض بہتر طریقے سے انجام دینے کا ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ ذاتاً بھی انسان کو مطلوب ہے چنانچہ اگر اسے یہ معلوم ہو کہ ستاروں کے ماوراء بھی کوئی راز ہے جسے جاننا اور نہ جاننا اس کی زندگی پر اثرانداز نہیں ہوتا پھر بھی وہ اس راز کے جاننے کو ترجیح دیتا ہے۔ وہ فطری طور پر جہالت سے فرار چاہتا ہے اور حصول علم کی جانب بھاگتا ہے لہٰذا علم اور دانائی کا جذبہ وجود انسانی کے معنوی جذبوں میں سے ہے۔
۲۔ اخلاقی نیکی
انسان بعض ایسے کام انجام دیتا ہے جن سے اس کا مقصد نہ تو حصول منفعت ہے اور نہ دفع ضرر بلکہ وہ ایسے کام محض ان احساسات کے زیر اثر انجام دیتا ہے جنہیں اخلاقی احساسات کہا جاتا ہے اس لئے وہ سمجھتا ہے کہ اس کا یہ فعل انسانیت کا تقاضا ہے۔ فرض کریں کہ ایک شخص سخت حالات میں ایک ایسے بیابان میں کھڑا ہے جہاں اس کے پاس غذا اور سامان سفر باقی نہیں رہا اور اسے ہر لمحے موت کا خطرہ در پیش ہے۔
اس اثناء میں اچانک وہاں ایک شخص پہنچتا ہے جو اس کی مدد کرتا ہے اور اس کو موت کے یقینی خطرے سے نجات دلاتا ہے پھر وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے ہیں اور ایک طویل عرصے تک ایک دوسرے سے نہیں ملتے چنانچہ کئی سال کے بعد جب وہ شخص جو مصیبت میں گرفتار تھا اپنے محسن کو ایک تکلیف میں مبتلا دیکھتا ہے اور اسے یاد آتا ہے کہ یہ وہی شخص ہے جس نے مجھے موت کے یقینی خطرے سے نجات دلائی تھی تو کیا اس موقع پر اس کا ضمیر اسے کچھ نہیں کہتا؟ کیا اس سے نہیں کہتا کہ نیکی کا بدلہ نیکی ہے؟ آیا یہ نہیں کہتا کہ محسن کا شکر واجب اور لازم ہے؟ جواب یقینا اثبات میں ہے لہٰذا اگر وہ شخص اپنے محسن کی مدد کرے تو دوسرے لوگ کیا کہیں گے؟ اسی طرح اگر وہ بے توجہی سے اپنے محسن کے پاس سے گذر جائے اور اس کی کوئی مدد نہ کرے تو دوسرے لوگ کیا کہیں گے؟
ظاہر ہے کہ پہلی صورت میں لوگ اس کی تعریف کریں گے اور دوسری صورت میں اس کی مذمت کریں گے۔ یہ جو انسانی ضمیر کہتا ہے کہ
ھل جزاء الاحسان الا الاحسان
’’نیک کا صلہ نیکی ہے۔ ‘‘(الرحمن ۴۰)
لہٰذا نیکی کا بدلہ نیکی سے دینے والے کی تعریف کرنی چاہئے اور اس کے خلاف عمل کرنے والے کی مذمت ہونی چاہئے تو اس کا منبع انسان کا ’’اخلاقی ضمیر‘‘ ہے اور ایسے ہی اعمال کو ’’اخلاقی نیکی‘‘ کہا جاتا ہے۔
انسان کے بہت سے کاموں کا معیار یہی ’’اخلاقی نیکی‘‘ ہے اور دوسرے لفظوں میں انسان بہت سے کام اخلاقی قدروں کی وجہ سے کرتا ہے نہ کہ کسی مادی فائدے کی خاطر اور یہ بھی انسان کا خاصہ ہے جس کا تعلق اس کے معنوی پہلو سے ہے اور یہ اس کے معنوی پہلوؤں میں سے ایک ہے جب کہ دیگر جانداروں میں اس طرح کا کوئی معیار موجود نہیں حیوان کے لئے ’’اخلاقی نیکی‘‘ اور ’’اخلاقی قدریں‘‘ کوئی مفہوم اور معنی نہیں رکھتیں۔
۳۔ حسن و جمال
انسان کے معنوی پہلوؤں میں سے ایک اور پہلو ’’حسن و جمال‘‘ سے اس کی محبت ہے انسان کی زندگی کا ایک اہم حصہ حسن و جمال سے تشکیل پاتا ہے وہ زندگی کے تمام شعبوں میں ’’حسن و جمال‘‘ کو اہمیت دیتا ہے چنانچہ جب وہ موسم سرما یا موسم گرما کا لباس پہنتا ہے تو اس کے رنگ کے حسن اور خوبی کو بھی اہمیت دیتا ہے جب رہنے کے لئے وہ اپنا مکان تعمیر کرتا ہے تو وہ اس کی خوبصورتی پر توجہ دیتا ہے یہاں تک کہ جب وہ دسترخوان بھی بچھاتا ہے تو کھانے کے برتنوں دسترخوان پر ان کے لگانے اور برتنوں میں کھانا ڈالنے میں بھی زیبائی کو مد نظر رکھتا ہے بلکہ وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کا نام اس کا چہرہ اور اس کا لباس بھی خوبصورت ہو اور اس کی لکھائی بھی خوبصورت ہو اس کا شہر اور اس کی سڑکیں اور اس کے سامنے کے مناظر بھی حسین ہوں گویا وہ یہ چاہتا ہے کہ اس کی زندگی کے ہر شعبے پر حسن اور خوبصورتی غالب ہو۔
البتہ حیوان کے لئے حسن و زیبائی کا کوئی مسئلہ نہیں اسے تو چراگاہ چاہئے چراگاہ خوبصورت ہو یا نہ ہو اس سے اس کا کوئی واسطہ نہیں اسی طرح اس کے نزدیک خوبصورت پالان خوبصورت طویلہ یا کسی منظر کی خوبصورتی کی کوئی اہمیت نہیں۔
۴۔ تقدیس اور عبادت
انسانی روح کی پائیدار اور قدیم ترین تجلیوں اور اصلی ترین پہلوؤں میں سے ایک دعا اور عبادت کا احساس ہے انسانی زندگی کے آثار کے مطالعہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جس دور میں اور جس مقام پر بھی بشر موجود تھا وہاں دعا اور عبادت کے آثار بھی موجود تھے البتہ اگر کہیں اختلاف ہے تو وہ صرف ’’طریق عبادت‘‘ اور ’’معبود‘‘ میں ہے۔ عبادت کی روش میں کہیں رقص و سرود اور ورد و اذکار کا ایک سلسلہ نظر آتا ہے تو کہیں خضوع اور خشوع کے بلند ترین مناظر اور حمد و ذکر کے رقت آمیز مظاہرے ’’معبود‘‘ کے لحاظ سے کہیں لکڑی اور پتھر کے بت نظر آتے ہیں تو کہیں زمان و مکان سے بالاتر ازلی و ابدی ذات خداوندی۔
پرستش کا تصور اللہ کے پیغمبر نہیں لائے بلکہ انہوں نے انسانوں کو صرف عبادت کی روش اور اس کے آداب سکھائے ہیں اور ان کو غیر خدا کی پرستش یعنی شرک سے منع کیا ہے۔
مسلم دینی نظریات اور بعض ماہرین علوم دینی(جیسے میکس مولر) کی آراء کے مطابق انسان ابتداء میں موحد تھا اور خدائے واحد کی پرستش کرتا تھا۔ بتوں چاند ستاروں یا انسانوں کی پرستش تو راہ راست سے انحراف کی وہ صورتیں ہیں جو بعد میں ظہور میں آئیں یعنی ایسا نہیں ہے کہ انسان نے عبادت کا آغاز بتوں یا انسانوں یا کسی دوسری مخلوق کی پرستش سے کیا ہو اور تدریجاً تمدن کے تکامل پانے کے ساتھ وہ خدائے واحد کی پرستش پر پہنچا ہو پرستش کا احساس جسے دینی احساس بھی کہا جاتا ہے۔ عام انسانوں میں خود بخود موجود ہوتا ہے۔
ہم پہلے ’’ایرک فرام‘‘ سے نقل کر چکے ہیں کہ
’’یہ ممکن ہے انسان دوسرے جانداروں یا درختوں یا سونے اور پتھر کے بتوں یا نا دیدہ خداؤں یا کسی روحانی انسان یا شیطانی پیشوا کی پرستش کرے یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اجداد قوم طبقہ جماعت دولت اور کامیابی کی پرستش کرے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنے اعتقادات کو دینی سمجھتا ہو یا اس کے برعکس سمجھتا ہو کہ وہ کوئی دین نہیں رکھتا۔ ‘‘
مسئلہ یہ نہیں ہے کہ وہ دین دار ہے یا بے دین؟ مسئلہ یہ ہے کہ وہ کس دین کا پابند ہے۔ (کتاب ’’جہانی از خود بیگانہ‘‘، ص ۱۰۰)
علامہ اقبال کے بقول ولیم جیمز کہتا ہے کہ
’’دراصل دعا کو تحریک ہوتی ہے تو اس لئے کہ نفس انسانی کے کئی مراتب ہیں اور ان کی تہوں میں ایک نفس اجتماعی پوشیدہ ہے جسے اپنا سچا ہمدم (رفیق اعلیٰ) کسی مثالی دنیا ہی میں مل سکتا ہے لہٰذا کتنے انسان ہیں جو ہمیشہ نہیں تو اکثر اس ہمدم صادق کی تمنا اپنے سینوں میں لئے پھرتے ہیں اور جس کی بدولت ایک حقیر سا انسان بھی جسے بظاہر لوگوں نے دھتکار رکھا ہو محسوس کرتا ہے کہ اس کی ذات بھی عزت و مقام رکھتی ہے۔ ‘‘(تشکیل جدید الہیات اسلامیہ ص ۱۰۵)
ولیم جیمز نوع انسانی کے تمام افراد میں اس احساس کی موجودگی کو یوں بیان کرتا ہے کہ
’’جہاں تک یہ احساس کہ ایک اعلیٰ و ارفع ہستی ہمارے اعمال و افعال کو دیکھ رہی ہے بعض لوگوں میں تو بے حد قوی ہو گا اور بعض میں خفیف گو بعض طبیعتوں کی ساخت ہی ایسی ہے کہ ان میں یہ احساس بہ نسبت دوسروں کے زیادہ شدت کے ساتھ جاگزیں ہو لہٰذا میں سمجھتا ہوں جتنا یہ احساس کسی دل میں قوی ہو گا اتنا ہی مذہب سے اسے زیادہ گہرا لگاؤ ہو گا لیکن پھر اس کے ساتھ مجھے یہ بھی یقین ہے کہ جو لوگ اس کا انکار کرتے ہیں وہ اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں کیوں کہ تھوڑا ہو یا بہت یہ احساس ان میں بھی موجود ہوتا ہے۔ ‘‘
(تشکیل جدیدالہیات اسلامیہ ص ۱۳۵)
جب ایک ادیب اپنے افسانوں میں پہلوانوں عالموں اور دینی بزرگوں کو افسانوی ہیرو کی شکل میں پیش کرتا ہے تو اس کی وجہ انسان کی پاکیزگی کا احساس ہی ہوتی ہے وہ یہ چاہتا ہے کہ کوئی ایسی پاکیزہ اور قابل تعریف ہستی ہو جس کی وہ عاشقانہ انداز میں حد سے زیادہ تعریف کرے۔
دور حاضر میں کسی جماعت یا قوم کے بزرگوں کی مبالغہ آمیز تعریف کسی خاص جماعت مقصد طریقہ پرچم یا سرزمین سے عقیدت کا دعویٰ اور ان کے لئے جان قربان کرنے کا جذبہ بھی اسی احساس کا نتیجہ ہے۔
دعا کا احساس اس کمال برتر کی طرف ایک فطری احساس ہے جس میں کوئی کمی یا نقص نہ ہو اور ایسے جمال کی طرف جس میں بدصورتی نہ ہو___
کسی بھی مخلوق کی پرستش خواہ کسی بھی صورت میں کیوں نہ ہو اصلی راستے سے مذکورہ احساس کے بھٹک جانے کی ایک صورت ہے۔
انسان عبادت کی حالت میں اپنی محدود قوت کے باوجود یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے مقام سے پرواز کر کے ایک ایسی حقیقی ہستی سے جا ملے جس میں کسی کمی نقص فنا اور محدودیت کی کوئی جھلک نہ ہو۔
دور حاضر کے دانشمند آئن سٹائن کے بقول:
’’ایسی صورت میں انسان بچپن سے ہی انسانی اغراض و مقاصد کی پستی کو سمجھ لیتا ہے اور اسے اس بزرگی اور عظمت کا احساس ہوتا ہے جو مناظر فطرت و افکار کے ماوراء موجود ہوتی ہے۔ ‘‘(دنیائی کہ من می بینم ۵۶)
علامہ اقبال فرماتے ہیں:
’’دعا ایک ایسا زندہ عمل ہے جس کے ذریعے ہماری چھوٹی شخصیت اپنی حیثیت کو زندگی کے ایک بڑے ’’کل‘‘ میں پا لیتی ہے۔ ‘‘
(تشکیل جدید الہیات اسلامیہ ص ۱۳۸)
پرستش اور عبادت انسان میں ایک قوت اور ایک خواہش کی نشاندہی کرتی ہے اور مادی امور کی حدود سے نکل جانے اور ایک بلند اور وسیع افق سے مل جانے کو ممکن بنا دیتی ہے ایسی خواہش اور ایسا عشق انسان کا خاصہ ہے یہی وجہ ہے کہ پرستش اور دعا روح کا ایک اور معنوی پہلو ہے۔
لیکن پر کشش چیزوں سے متاثر ہونے اور ان میں سے کسی ایک کا انتخاب ایسا موضوع ہے جس کے بارے میں بعد میں گفتگو کی جائے گی۔
انسان کی مختلف قوتیں
’’قوت‘‘ کسی تعریف کی محتاج نہیں ایسا عنصر جس سے کوئی اثر ظاہر ہو ’’قوت‘‘ کہلاتا ہے۔ دنیا کی ہر شے کسی ایک یا زیادہ خاصیتوں کی حامل ہوتی ہے اس لئے ہر شے میں چاہے جمادات ہوں یا نباتات حیوانات ہوں یا انسان ’’قوت‘‘ پائی جاتی ہے اور اگر ’’قوت‘‘ کے ساتھ ’’فہم و ادراک‘‘ اور خواہش بھی مل جائے تو وہ ’’قدرت‘‘ کہلاتی ہے۔
ایک اور فرق جو ’’انسان اور حیوانات‘‘ اور ’’نباتات و جمادات‘‘ کے درمیان پایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ’’انسان اور حیوانات‘‘، ’’نباتات و جمادات‘‘ کے برعکس اپنی قوت اپنے میلان اور شوق یا خوف اور اس کے نتیجے میں ابھرنے والی خواہش کی بناء پر عمل میں لاتے ہیں مثلاً مقناطیس لوہے کو خود بخود یا ایک فطری جبر کے تحت اپنی طرف کھینچتا ہے لیکن نہ وہ اپنے اس عمل سے آگاہ ہے اور نہ ہی کوئی میلان اور شوق یا ڈر یا خوف اس امر کا متقاضی ہے کہ وہ لوہے کو اپنی طرف کھینچے یہی صورت آگ کی ہے جو جلاتی ہے گھاس کی ہے جو زمین سے اگتی ہے اور درخت کی ہے جس سے شگوفے پھوٹتے ہیں اور پھل لگتے ہیں لیکن جب حیوان چلتا ہے تو اپنے عمل سے آگاہ ہوتا ہے اور اس کا ارادہ اس امر کا متقاضی ہوتا ہے کہ وہ چلے پھرے اور اگر اس کی خواہش نہ ہوتی تو وہ جبراً نہ چلتا اسی لئے کہا جاتا ہے کہ حیوان ایک با ارادہ متحرک شے ہے یا بہ الفاظ دیگر حیوان کی بعض قوتیں اس کے ارادہ کی تابع ہیں یعنی اگر حیوان چاہے تو اس قوت کو عمل میں لائے اور نہ چاہے تو عمل میں نہ لائے۔
خود انسان میں بھی اسی طرح سے بعض ایسی قوتیں موجود ہیں جو اس کے ارادے کی تابع ہیں البتہ اس فرق کے ساتھ کہ حیوان کی خواہش اس کے فطری میلان کا نتیجہ ہے اور اس میں اپنی خواہش کا مقابلہ کرنے کی قوت موجود نہیں ہے جونہی اس کا میلان کسی جانب ہوتا ہے تو وہ خود بخود ادھر چل پڑتا ہے نہ تو وہ اس میلان کے مقابلے کی قوت رکھتا ہے اور نہ وہ سوچ جس کے ذریعے جو وہ اپنے میلانات میں سے کسی ایک کو تدبر و تفکر کے بعد ترجیح دے سکے یا وہ عمل اختیار کر سکے جس کی جانب اس کا میلان ہے یا دور اندیشی جس کی متقاضی ہے۔
لیکن انسان ایسا نہیں ہے بلکہ وہ خود اس امر پر قادر ہے کہ اپنے میلانات کا مقابلہ کر سکے اور ان کے مطابق عمل نہ کرے اور یہ قوت اس کو ایک اور قوت سے حاصل ہوتی ہے جسے ارادہ کہتے ہیں۔ ارادہ ’’عقل‘‘ کے تابع ہے یعنی ’’عقل‘‘ کوئی کام مقرر کرتی ہے اور ’’ارادہ‘‘ اسے انجام دیتا ہے۔
مذکورہ مباحث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کے اندر دو پہلوؤں سے کچھ قوتیں پائی جاتی ہیں جو دیگر جانداروں میں موجود نہیں۔
ایک اس پہلو سے کہ انسان ایسے داخلی میلانات اور جذبات کا حامل ہے جو دوسرے جانداروں میں نہیں جن کی بدولت وہ اپنے کاموں کا دائرہ مادیات کی حدود سے بڑھا کر معنویات کے بلند افق تک پہنچا سکتا ہے لیکن دوسرے تمام جاندار مادیات کی حدود سے نہیں نکل سکتے۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ ’’عقل اور ارادہ‘‘ کی قوتوں کا مالک ہے جن کی بدولت نہ صرف یہ کہ وہ اپنے میلانات کا مقابلہ کر سکتا ہے بلکہ وہ اپنے آپ کو ان کے جبری اثرات سے بھی نکال سکتا ہے اور اپنے تمام میلانات پر حاکم بھی ہو سکتا ہے اور انہیں کو اپنی عقل کے تابع رکھ کر ان کی حدود بھی مقرر کر سکتا ہے اور اس طرح وہ گراں بہا آزادی یعنی ’’معنوی آزادی‘‘ حاصل کر سکتا ہے۔
یہ صرف انسان ہی کا خاصہ ہے کہ وہ ایسی بڑی قوت کا مالک ہے جو نہ صرف یہ کہ کسی بھی حیوان میں نہیں پائی جاتی بلکہ انسان کو فرائض کی صحیح انجام دہی کے قابل بھی بناتی ہے اور اس کو جائز میلانات کے انتخاب کا حق عطا کرتی ہے اور جس کے ذریعے سے وہ ایک حقیقی طور پر آزاد اور صاحب اختیار انسان بن جاتا ہے۔
میلانات اور جذبات انسان اور ایک بیرونی قوت کے درمیان ایک ایسی کشش اور پیوند کی مانند ہیں جو انسان کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور وہ جتنا ان میلانات کا تابع ہوتا جاتا ہے اپنے آپ کو کلی طور پر ان کے سپرد کرتا جاتا ہے چنانچہ اس پر سستی اور ذلت کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور وہ اپنی قسمت کو اس ’’بیرونی قوت‘‘ کے ہاتھ میں دے دیتا ہے جو اس کو ادھر سے ادھر کھینچتی پھرتی ہے لیکن اس کے برخلاف ’’عقل اور ارادہ‘‘ انسان کی ایسی داخلی قوتیں ہیں جو اس کی حقیقی شخصیت کی مظہر ہیں۔ انسان جب ’’عقل اور ارادہ‘‘ کی قوتوں پر تکیہ کرتا ہے تو نہ صرف یہ کہ ’’بیرونی قوت‘‘ کے اثرات سے محفوظ رہتا ہے بلکہ وہ اپنے آپ کو آزاد با اختیار اور مستحکم شخصیت بھی قرار دیتا ہے انسان عقل اور ارادے ہی کے ذریعے اپنی ذات کا مالک بن جاتا ہے۔
اسلامی تربیت کا اصل ہدف میلانات اور جذبات کے اثرات سے رہائی پانا اور خود اپنا حاکم بن کر اپنی ذات کا مالک بن جانا ہے اور ایسی تربیت کا مقصد ’’معنوی آزادی‘‘ ہے۔
خود شناسی
اسلام نے اس بات پر خصوصی توجہ دی ہے کہ انسان اپنے آپ کو پہچانے اور اس عالم وجود میں اپنے مرتبہ کو سمجھے جس کا مقصد یہ ہے کہ وہ خود شناسی کے ذریعے اپنے آپ کو اس بلند مقام پر پہنچائے جس کا وہ اہل ہے۔
قرآن حکیم انسان ساز کتاب ہے یہ کسی ایسے نظری فلسفہ پر مشتمل نہیں ہے جس کا تعلق محض بحث و نظر اور منظر سے ہو یہ جس منظر کو بھی پیش کرتی ہے وہ عمل کے لئے ہوتا ہے۔ قرآن حکیم کا منشاء یہ ہے کہ انسان ’’خود‘‘ کو کشف کرے البتہ اس کے اس ’’خود‘‘ کا کشف ’’شناختی کارڈ‘‘ کا ’’خود‘‘ نہیں ہے جس میں لکھا ہوتا ہے:
’’تیرا نام کیا ہے؟ تیرے باپ کا نام کیا ہے؟ تیرا سال پیدائش کیا ہے؟ تو کس ملک کی قومیت رکھتا ہے؟ تو کس علاقے کا باشندہ ہے؟ تو نے کس سے شادی کی ہے؟ اور تیرے کتنے بچے ہیں؟‘‘
قرآن حکیم کا ’’خود‘‘ وہ ہے جو ’’روح خدا‘‘ کہلاتا ہے جسے پہچاننے کے بعد انسان اپنے اندر شرافت بزرگی اور بلندی محسوس کرتا ہے اور اپنے آپ کو اخلاقی پستی میں گرانے سے بچاتا ہے اپنے تقدس کو سمجھتا ہے اور اخلاقی اور معاشرتی پاکیزگی اس کے لئے بلند ’’اقدار‘‘ بن جاتی ہیں۔
قرآن حکیم انسان کے ایک برگزیدہ شخصیت ہونے کے بارے میں گفتگو کرتا ہے وہ یہ کہتا ہے کہ تو ایک ایسے اتفاقی حادثے کا نتیجہ نہیں ہے جو کسی امر کے واقع ہونے (مثلاً ایٹموں کے اتفاقی طور پر جمع ہو جانے) سے وجود میں آیا ہو بلکہ تو ایک برگزیدہ اور منتخب ہستی ہے۔ اسی بناء پر تو خدائی پیغام کا حامل اور اس کو دوسروں تک پہنچانے کا ذمہ دار ہے۔
بے شک انسان زمین پر قوی ترین مخلوق ہے اگر زمین اور اس کے موجودات کو ایک خطہ فرض کیا جائے تو انسان اس خطے کا امیر شمار کیا جائے گا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آیا وہ منتخب امیر ہے یا اس نے اپنی طاقت کے ذریعے اس مقام پر قبضہ کیا ہے؟
مادی فلسفہ انسان کی قوت حاکمہ کو اس کی طاقت کا نتیجہ قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ انسان نے اتفاقی وجوہ کی بناء پر قوت حاصل کی ہے ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں انسان کے لئے خدائی پیغام کا حامل ہونے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کی ذمہ داری بے معنی ہو جاتی ہے اور یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیسا پیغام اور کیسی ذمہ داری؟ کس کی طرف سے اور کس مقصد کے لئے؟ لیکن قرآن حکیم کی نظر میں انسان زمین کا ایک ایسا منتخب امیر ہے جو اپنی قابلیت اور صلاحیت کی بناء پر ذات خداوندی کی جانب سے منتخب ہوا ہے نہ کہ اپنی ذات طاقت اور زور کی بنیاد پر اور یہ کہ قرآن کی نظر میں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک برگزیدہ ہستی ہے جس کے لئے قرآن نے ’’اصطفاً‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے اسی لئے وہ ’’پیغام‘‘ اور ’’ذمہ داری‘‘ کا حامل ہے ’’پیغام‘‘ خدا کی طرف سے اور ’’ذمہ داری‘‘ اس کی بارگاہ میں یہ عقیدہ کہ انسان دنیا میں ایک منتخب ہستی ہے اور اس کے اس انتخاب کا ایک مقصد ہے انسان میں ایک خاص نوعیت کے نفسیاتی اور تربیتی آثار پیدا کرتا ہے اور اس کے برعکس اس اعتقاد کی بناء پر کہ وہ بے مقصد اتفاقات کے ایک سلسلے کا نتیجہ ہے اس میں ایک دوسری نوعیت کے نفسیاتی اور تربیتی آثار پیدا ہوتے ہیں۔
خود شناسی کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اس دنیا میں اپنا صحیح مقام سمجھے اور یہ جانے کہ وہ محض خاک کا پتلا نہیں ہے روح خدائی کا نور اس کے اندر موجود ہے اور وہ یہ جانے کے علم و دانش کے ذریعے وہ فرشتوں پر برتری حاصل کر سکتا ہے اور یہ کہ وہ آزاد اور خود مختار ہے اور اپنی ذات دوسروں اور دنیا کو آزاد کرنے اور اس کو بہتر بنانے کا ذمہ دار ہے۔
’’اس نے تمہیں زمین سے بنایا اور تمہیں آباد کیا ہے۔ ‘‘
(سورہ دہر آیت ۶۱)
وہ یہ جان لے کہ وہ خدائی پیغام کا امین ہے اور یہ کہ اس نے برتری اتفاقی طور پر حاصل نہیں کی تاکہ استبداد کا مظاہرہ کرے اور ہر چیز کو صرف اپنی ذات کے لئے حاصل کرنے سے گریز کے علاوہ اپنے لئے کسی ذمہ داری اور فرض کا قائل نہ ہو۔
انسانی صلاحیتوں کی تربیت
اسلامی تعلیمات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کے مقدس مکتب میں دوسری تمام ذی روح ہستیوں کے مقابلے میں انسان کی متفاوت قوتوں کی طرف خاص توجہ دی گئی ہے خواہ وہ جسمانی ہوں یا روحانی مادی ہوں یا معنوی انفرادی ہوں یا اجتماعی نہ صرف یہ کہ ان میں سے کسی ایک پہلو کو مجہول نہیں رکھا گیا بلکہ ان میں سے ہر ایک پر خاص توجہ دی گئی ہے۔
اب ہم ذیل میں ان امور کی طرف اجمالی اشارہ کرتے ہیں:
جسم کی پرورش
اگرچہ اسلام ’’نفس پروری‘‘ اور ’’شہوت رانی‘‘ کے قصد سے جسم کی پرورش کی سخت مذمت کرتا ہے لیکن ’’تربیت بدن‘‘ کو جس کا مقصد بدن کی صحت اور سلامتی کی حفاظت ہو واجبات میں سے قرار دیتا ہے اور ہر اس عمل کو جو بدن کے لئے ضرر رساں ہو حرام گردانتا ہے اگر کبھی ایک واجب کو (جیسے روزہ) بدن کے لئے ضرر رساں سمجھا جائے تو اس بناء پر اسلام نہ صرف یہ کہ انسان کو اس امر واجب کی ادائیگی سے بری قرار دیتا ہے بلکہ وہ ایسے روزے کو حرام سمجھتا ہے جس کی وجہ سے انسان کی ہلاکت کا اندیشہ ہو اس لئے ہر وہ نشہ جو بدن کو نقصان پہنچائے اسلام کے نزدیک حرام ہے اسلام میں بدن کی صحت اور سلامتی کے لئے بہت سے آداب اور طریقے وضع کئے گئے ہیں۔
ممکن ہے بعض لوگ ’’تربیت بدن‘‘ جس کا تعلق بدن کی صحت اور سلامتی سے ہے اور ’’تن پروری‘‘، بہ معنی ’’نفس پروری‘‘ اور ’’شہوت رانی‘‘ میں جس کا تعلق اخلاق سے ہے فرق نہ سمجھیں اور یہ خیال کریں کہ اسلام جو ’’تن پروری‘‘ کے خلاف ہے بدن کی صحت اور سلامتی کے بھی خلاف ہے اس لئے بدن کی حفاظت کے سلسلے میں کسی قسم کی کوئی قید نہیں اور ہر ایسا کام جو سلامتی بدن کے لئے ضرر رساں ہو انجام دینا بھی اسلام کے نزدیک ایک اخلاقی مسئلہ ہے۔
یہ ایک بڑی خطرناک غلطی ہے بدن کی قوت سلامتی اور حفظان صحت کہاں؟ اور منفی معنی میں تن پروری کہاں؟
تن پروری اور شہوت پرستی جن کی اسلام نے مذمت کی ہے جس طرح روح کی پرورش کے خلاف ہے اور روح کی بیماری کا سبب بنتی ہے اسی طرح بدن کی پرورش اور حفظان صحت کے بھی خلاف ہے اور بدن کی بیماری کا سبب بھی بنتی ہے اس لئے کہ تن پروری اور شہوت پرستی میدان عمل میں ایسے افراط کا سبب بنتی ہیں جو بدن کے اعضاء میں بنیادی خلل کا باعث بن جاتا ہے۔
روح کی پرورش
اسلام کے نزدیک عقل و فکر اور حصول آزادی فکر کی تربیت ایک پسندیدہ امر ہے اور ایسے امور جو آزادی فکر کے خلاف ہوں جیسے آبا و اجداد بڑے بوڑھوں اور اکثریت کے طور طریقوں کی اندھی تقلید وغیرہ۔ اسلام ان کے خلاف جہاد کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔ ارادوں میں تقویت نفس پر غلبہ اور میلانات نفسانی سے مکمل معنوی آزادی اسلام کی بہت ساری عبادات اور تعلیمات کی اساس اور بنیاد ہے۔ اسی طرح علم تلاش حقیقت حسن و جمال اور پرستش کے احساسات میں سے ہر ایک کی پرورش پر اسلام کی خصوصی توجہ ہے۔
مستقبل کی تعمیر میں انسان کا کردار
دنیا کی جملہ موجودات ’’جاندار‘‘ اور ’’بے جان‘‘ میں منقسم ہوتی ہیں بے جان موجودات وہ ہیں جن کا اپنی تعمیر میں کوئی کردار نہیں وہ اپنی تعمیر یا تکمیل میں خود کوئی کردار ادا نہیں کر سکتیں جیسے آگ پانی خاک اور پتھر جو بے جان ہیں اور اپنی تعمیر و تکمیل میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے بلکہ یہ سب خارجی عوامل کے زیر اثر وجود پاتے ہیں اور انہی بیرونی اثرات کے نتیجے میں ایک طرح کا کمال حاصل کرتے ہیں ان میں کوئی ایسی حرکت یا کوشش نظر نہیں آتی جس کا تعلق ان کی ذاتی تعمیر اور تکمیل سے ہو۔
لیکن ’’جاندار‘‘ موجودات مثلاً نباتات حیوانات اور انسانوں میں حرکت اور کوشش کا ایک ایسا سلسلہ مشاہدے میں آتا ہے جس کا تعلق انہیں قدرتی آفات سے بچانے اپنے اندر دوسرے مواد کو جذب کرنے اور اپنی نسل آگے بڑھانے سے ہے۔
نباتات میں فطری قوتوں کا ایک ایسا سلسلہ موجود ہے جو ان کے مستقبل کی تعمیر میں موثر ہے اور وہ قوتیں ان کے لئے زمین اور ہوا سے مواد حاصل کرتی ہیں ان میں ایسی قوتیں بھی ہیں جو اس حاصل شدہ مواد کے ذریعے اندر سے ان کی رشد کا باعث بنتی ہیں اور ان میں ایسی قوتیں بھی ہیں جو نسل کو آگے بڑھانے کے عمل کو ممکن بناتی ہیں۔
حیوانات میں ان تمام فطری قوتوں کے علاوہ جو نباتات میں پائی جاتی ہیں شعوری قوتیں جیسے (حواس خمسہ) اور بعض میلانات بھی موجود ہیں جن کا ذکر پہلے آ چکا ہے اور حیوانات جہاں مذکورہ قوتوں کے ذریعے اپنے آپ کو قدرتی آفات سے بچاتے ہیں وہاں اپنی ذات کی تکمیل اور اپنی صنف کی بقاء کے وسائل بھی فراہم کرتے ہیں-
انسان میں وہ تمام فطری اور شعوری قوتیں موجود ہیں جو نباتات اور حیوانات میں موجود ہیں اور ان کے علاوہ میلانات کا ایک سلسلہ بھی موجود ہے جس کا ذکر پہلے آ چکا ہے ان کے علاوہ اس میں ’’عقل اور ارادہ‘‘ کی غیر معمولی قوتیں بھی موجود ہیں جن کے ذریعے اسے اپنے مستقبل کو خود انتخاب کرنے اور تعمیر کرنے میں مدد ملتی ہے۔
مذکورہ مباحث سے یہ واضح ہوا کہ
٭بعض موجودات اپنے مستقبل کی تعمیر میں کسی طرح کوئی کردار ادا نہیں کر سکتیں جیسے جمادات۔
٭بعض دوسری موجودات اپنے مستقبل کی تعمیر میں اپنا کردار ادا تو کرتی ہیں لیکن ان کا یہ کردار نہ علم و آگاہی کی بنیاد پر ہے اور نہ ہی آزادی کی اساس پر بلکہ فطرت ان کی داخلی قوتوں کو غیر شعوری طور پر بروئے کار لاتے ہوئے ان کی حفاظت ان کی بقاء اور ان کے مستقبل کی تعمیر کرتی ہے جیسے نباتات۔
٭بعض موجودات اپنے مستقبل کی تعمیر میں جو اہم کردار ادا کرتی ہیں وہ کردار آگاہی اور علم پرستی پر استوار ہونے کے باوجود آزادی کی بنیاد پر نہیں ہوتا یعنی وہ اپنی ذات اور اپنے ماحول سے ایک قسم کی آگاہی اور شعوری میلانات کی تاثیر سے مستقبل میں اپنی حفاظت کی کوششیں کرتی ہیں جیسے حیوانات۔
٭بعض انسان اپنے مستقبل کی تعمیر میں زیادہ متحرک زیادہ موثر اور زیادہ وسیع کردار ادا کرتے ہیں ان کا یہ کردار علم و شناخت اور آزادی کی بنیاد پر استوار ہوتا ہے یعنی انسان اپنی ذات اور اپنے ماحول سے بھی آگاہ ہوتا ہے اور اپنے ’’عقل و ارادہ‘‘ کی قوتوں کی مدد سے آزادانہ طور پر اپنی خواہش کے مطابق اپنے مستقبل کا انتخاب اور اس کی تعمیر کرتا ہے انسان کا دائرۂ کار حیوان کی نسبت بہت زیادہ وسیع ہوتا ہے جس کے حسب ذیل تین اسباب ہیں:
۱۔ وسعت دید اور آگاہی
انسان اپنے علم کی طاقت سے اپنی بینائی اور آگاہی کے دائرے کو مظاہر فطرت کی سطح سے بڑھا کر ان کی گہرائی تک پہنچنے کے بعد قوانین فطرت سے آگاہی حاصل کرتا ہے جس سے فطرت کو انسانی زندگی کے موافق بنانے میں اس کی استعداد بڑھتی ہے۔
۲۔ خواہشات کی وسعت
اس کا ذکر ’’انسان اور حیوان‘‘ کے باب میں کیا جا چکا ہے۔
۳۔ تعمیر نفس کی خصوصی صلاحیت
اپنی تعمیر کے سلسلے میں ایسی خصوصی صفات انسان میں پائی جاتی ہیں جو کسی اور جاندار میں نہیں پائی جاتیں اس لئے کوئی اور جاندار اس پہلو سے انسان کی مانند نہیں۔
اگرچہ بعض دوسری ذی روح ہستیوں کی تعمیر کسی حد تک کی جا سکتی ہے اور خاص تربیت سے ان میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے جیسا کہ نباتات اور حیوانات کی دنیا سے مشاہدہ کیا گیا ہے لیکن اول تو ان میں سے کوئی بھی خود اپنی تعمیر نہیں کر سکتی اور انسان ہی ان کی تعمیر کرتا ہے دوسرے یہ کہ انسان کی نسبت ان میں اثرپذیری بہت کم ہوتی ہے۔
انسان اپنے خصائل اور عادات کے اعتبار سے خاص استعداد کا حامل ہے یعنی آغاز پیدائش میں اس میں کوئی خصلت اور عادت موجود نہیں ہوتی اس کے برعکس ہر حیوان خاص خصائل اور عادت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے لیکن انسان آہستہ آہستہ خصائل اور عادات قبول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اسی لئے اس میں فطری جہتوں کے علاوہ ثانوی نوعیت کی صفات بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔ وہ تنہا ایسی ہستی ہے جس کے ہاتھ میں قانون قدرت نے اپنا نقشہ کھینچنے کا قلم خود تھما دیا ہے تاکہ جیسے وہ چاہے اپنی تصویر بنائے یعنی اس کے جسمانی اعضاء کے برعکس جو رحم مادر ہی میں مکمل ہو جاتے ہیں۔ انسان کے نفسیاتی اجزاء جو خصائل عادات اور اخلاقی صفات کہلاتے ہیں زیادہ وسیع پیمانے پر پیدائش کے بعد ہی ظہور میں آتے ہیں۔
جب کہ اگرچہ دیگر جاندار حتیٰ کہ حیوانات بھی پیدائش سے قبل ہی اپنے خصائل اور عادات کے اعتبار سے مکمل کر دیئے جاتے ہیں لیکن صرف انسان ہی ایک ایسی ہستی ہے جو مذکورہ صفات کے اعتبار سے اپنی تعمیر اپنی خواہشات کے مطابق کرتا ہے اور یہی سبب ہے کہ حیوانات کی ہر جنس کے جسمانی اعضاء جس طرح ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں اسی طرح ان کے نفسیاتی اجزاء اور خصائل بھی ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں جیسے بلیوں کتوں یا چیونٹیوں میں سے ہر ایک اپنی اپنی جنس کے مشترک خصائل رکھتی ہیں۔ اگر ان میں سے کسی جنس کے باہمی خصائل اور عادات میں کوئی فرق ہے بھی تو وہ بہت کم ہے۔ لیکن انسانوں کے خصائل اور عادات میں بے انتہا فرق ہے اور اسی وجہ سے انسان ایسی ہستی ہے جو خود اپنے آپ کو انتخاب کرتی ہے کہ اسے کیا ہونا چاہئے؟
اسلامی آثار میں آیا ہے کہ قیامت کے دن انسان اپنے اکتسابی روحانی خصائل کی بناء پر محشور ہوں گے نہ کہ اپنے ظاہری جسمانی اعضاء کے اعتبار سے یعنی انسان اکتسابی خصائل کے اعتبار سے جس قسم کے جاندار سے زیادہ مشابہت رکھتے ہوں گے اسی کی شکل اور اعضاء کے ساتھ محشور ہوں گے اور صرف وہ لوگ انسانی شکل و صورت میں محشور ہوں گے جن کے اکتسابی خصائل اور جن کی روحانی اور ثانوی صفات انسانی مرتبہ اور کمال سے ہم آہنگ ہوں گی یا بہ الفاظ دیگر جن کے اخلاق ’’انسانی اخلاق‘‘ ہوں گے۔
انسان اپنی علمی قوت سے فطرت پر غالب آتا ہے اور فطرت کو اپنی خواہش کے مطابق اپنی ضروریات سے ہم آہنگ کرتا ہے۔ وہ اپنی تعمیری قوت کے ذریعے اپنے آپ کو اپنی خواہش کے مطابق بناتا اور اس طرح اپنی قسمت اپنے ہاتھ میں لیتا ہے۔
تمام تربیتی ادارے اخلاقی مکاتب اور دینی اور مذہبی تعلیمات انسان کی رہنمائی کے لئے ہیں تاکہ اسے بتا سکیں کہ وہ اپنے مستقبل کو کیسے بنائے اور کیا بنائے؟ سیدھا راستہ تو وہ ہے جو انسان کو ایک باسعادت مستقبل تک پہنچائے جب کہ انحرافات اور گمراہی کا راستہ وہ ہے جو اس کو ایک تباہ کن اور شقاوت سے بھرپور مستقبل کی جانب لے جائے۔
خداوند تعالیٰ نے قرآن حکیم میں فرمایا ہے:
’’ہم نے انسان (اس آزاد اور خود ساز وجود) کو راستہ دکھایا ہے تاکہ وہ خود جو چاہے انتخاب کرے (وہ دو راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے گا) یا وہ راستہ جو ہم نے دکھایا ہے اور ہمارا شکر ادا کرے گا یا دوسرا راستہ جو کہ ناشکری کا راستہ ہے۔ ‘‘(سورہ دہر آیت ۳)
مذکورہ مباحث سے ہم نے جان لیا کہ ’’علم‘‘ اور ’’ایمان‘‘ میں سے ہر ایک انسان کے مستقبل کی تعمیر میں مختلف کردار ادا کرتا ہے۔ ’’علم‘‘ انسان کو تعمیر کا راستہ دکھاتا ہے وہ اس کو توانائی بخشتا ہے تاکہ وہ اپنے مستقبل کی تعمیر اپنی خواہش کے مطابق کرے لیکن ’’ایمان‘‘ انسان کو راستہ دکھاتا ہے کہ وہ اپنی اور اپنے مستقبل کی کس طرح تعمیر کرے کہ وہ اپنی ذات اور معاشرے کے لئے مفید ثابت ہو سکے۔ ’’ایمان‘‘ اس امر کی ممانعت کرتا ہے کہ انسان کے مستقبل کا محور صرف مادیات اور ذات پر مبنی ہو ’’ایمان‘‘ انسانی خواہشات کی سمت متعین کرتا ہے وہ انسان کو مادی امور پر انحصار کرنے سے بچاتا ہے اور معنوی امور کو اس کی خواہشات کا جزو قرار دیتا ہے۔
انسانی خواہشات میں علم کی حیثیت ایک ایسے اوزار کی سی ہے جو فطرت کو انسان کی خواہش کے مطابق بناتا ہے لیکن یہ کہ وہ فطرت کی تعمیر کس طرح کرے؟ آیا علم فطرت سے ایسی تخریبی چیزیں پیدا کرے جو ایک مخصوص طبقہ کی اجارہ داری میں معاون ہوں؟ اس کا ’’علم‘‘ کے اوزار سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ علم کا ہتھیار جن لوگوں کے ہاتھ میں ہے وہ کیسے انسان ہیں (وہ جیسے ہوں گے علم کا ویسا استعمال کریں گے)؟
لیکن ایمان ’’انسان پر حاکم قوت‘‘ کا سا عمل کرتا ہے اسے جادۂ حق اور اخلاق کی طرف لے جاتا ہے۔ ’’ایمان‘‘ انسان کی تعمیر کرتا ہے اور انسان علم کی قوت سے دنیا کی تعمیر کرتا ہے۔ اگر ’’علم اور ایمان‘‘ باہم مل جائیں تو انسان اور دنیا دونوں سدھر جاتے ہیں۔
آزادی کی حدود اور انسان کا ارادہ
ظاہر ہے کہ انسان اپنی تعمیر نفس اور اپنے فطری ماحول کو اپنی مطلوبہ صورت میں تبدیل کرنے اور اپنی خواہش کے مطابق اپنا مستقبل بنانے میں آزاد ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سی مجبوریوں سے دوچار ہوتا ہے اور اس کی آزادی بھی مشروط ہوتی ہے یعنی اس کی آزادی ایک دائرے میں محدود ہوتی ہے اس لئے انسان اس دائرے میں رہ کر اپنے مستقبل کا انتخاب کر سکتا ہے خواہ وہ سعادت مندی پر مبنی ہو یا شقاوت اور بدبختی پر۔
انسان ارادہ کے محدود ہونے کی وجوہات حسب ذیل ہیں:
۱۔ وراثت
انسان انسانی فطرت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے چونکہ اس کے والدین انسان ہوتے ہیں لہٰذا وہ بھی مجبوراً انسانی فطرت لے کر انسان کی صورت میں دنیا میں آتا ہے اور اس کو اپنے والدین کی طرف سے بھی کچھ خصوصیات جبراً ورثے میں ملتی ہیں جو ان میں پائی جاتی ہیں جیسے جلد اور آنکھ کا رنگ اور ایسی جسمانی خصوصیات جو چند پشتوں سے اس کو ورثے میں ملیں لیکن انسان ان خصوصیات میں سے کوئی بھی خود انتخاب نہیں کرتا بلکہ وراثت نے جبراً اسے دیا ہوتا ہے۔
۲۔ جغرافیائی اور قدرتی ماحول
انسان کے جسم اور روح پر اس کے جغرافیائی اور قدرتی ماحول کا بہرحال ایک اثر مرتب ہوتا ہے سرد گرم معتدل کوہستانی اور صحرائی خطے انسان کے مزاج اور اخلاق پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
۳۔ معاشرتی ماحول
انسان کی روحانی اور اخلاقی خصوصیات کے تکامل میں اس کے معاشرتی ماحول کا بھی ایک خاص کردار ہوتا ہے انسان کی زبان معاشرتی آداب دینی اور مذہبی آداب و رسوم وغیرہ وہ چیزیں ہیں جو اس کو اپنے معاشرتی ماحول سے ملتی ہیں۔
۴۔ تار اور عصری عوامل
انسان سماجی اعتبار سے صرف زمانہ حال سے اثر نہیں لیتا بلکہ زمانہ ماضی کے واقعات اور حادثات اس کی تعمیر میں موثر کردار ادا کرتے ہیں ہر چیز کے ماضی اور مستقبل میں ایک یقینی رابطہ ہوتا ہے ماضی اور مستقبل ان دو نقطوں کی مانند نہیں ہیں جو ایک دوسرے سے الگ ہوں بلکہ وہ وقت کے ایسے دو دھارے ہیں جو ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہمیشہ سے رواں دواں ہیں۔ گویا ماضی اس بیج کی مانند ہے جس سے مستقبل پیدا ہوتا ہے۔
۵۔ حدود و قیود کے خلاف انسان کی بغاوت
انسان اگرچہ وراثت قدرتی ماحول معاشرتی ماحول اور تاریخ سے پوری طرح منقطع نہیں ہو سکتا لیکن وہ بڑی حد تک ان سے بغاوت کر کے اپنے آپ کو ان کی قید سے آزاد کر سکتا ہے۔ وہ اپنے علم عقل ارادہ اور ایمان کی قوتوں سے ان حالات میں تبدیلی پیدا کر کے ان کو اپنی خواہشات کے مطابق بنا سکتا اور خود قسمت کا مالک بن سکتا ہے۔
انسان اور قضا و قدر
بالعموم یہ خیال کیا جاتا ہے کہ انسان کی آزادی میں حد بندی کا اصل سبب ’’قضا و قدر‘‘ ہے لیکن ہم نے اس کے برعکس اس معاملے میں قضا و قدر کا نام نہیں لیا کیوں؟ کیا اس لئے کہ ’’قضا و قدر‘‘ موجود نہیں؟ یا یہ کہ وہ انسانی آزادی کی حد بندی کا سبب نہیں؟
’’قضا و قدر‘‘ ایک قطعی اور مسلم امر ہے لیکن آزادی انسان کو محدود کرنے کا سبب نہیں ’’قضا‘‘ واقعات اور حادثات کے بارے میں خدا کے اٹل حکم کا نام ہے اور ’’قدر‘‘ ان کی مقدار کے اندازے کا نام۔
الٰہی علوم کے نقطہ نظر سے یہ امر مسلم ہے کہ قضائے الٰہی کسی بھی حادثے سے براہ راست یا بلاوسطہ کوئی تعلق نہیں رکھتی بلکہ وہ ہر حادثے کا وقوع اس کے اپنے اسباب اور علل کی بناء پر قرار دیتی ہے قضائے الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ عالم کا نظام ’’اسباب اور مسببات‘‘ کا نظام ہو انسان جتنی آزادی ’’عقل اور ارادہ‘‘ کی مدد سے حاصل کرتا ہے اور اس آزادی کی جو حد بندی اس پر وراثت ماحول اور تاریخ کی وجہ سے عائد ہوتی ہے وہ محض قضائے الٰہی اور دنیا کے اسباب و مسببات کے مذکورہ نظام کی وجہ سے ہے۔
اس لئے خود قضائے الٰہی آزادی انسان کی محدودیت کا سبب نہیں ہوتی بلکہ یہ وہی حدود و قیود ہیں جو انسان پر ورثے ماحول اور تاریخ کی جانب سے عائد ہوتی ہیں نہ کوئی اور اسی طرح وہ آزادی جو انسان کو نصیب ہوتی ہے وہ بھی قضائے الٰہی سے اسے ملتی ہے وہ یوں کہ قضائے الٰہی ہی کا تقاضا ہے کہ انسان عقل اور ارادے کا مالک ہو اور طبیعی اور اجتماعی حالات کے محدود دائرے میں رہتے ہوئے بھی وسیع پیمانے پر ان حالات کی قید سے آزادی حاصل کر لے اور اپنی قسمت اور مستقبل کی تعمیر کا کام اپنے ہاتھ میں لے۔ ‘‘
بقول حکیم الامت علامہ محمد اقبال:
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پا بہ گل بھی ہے
انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے
نہیں یہ شان خود داری چمن سے توڑ کر تجھ کو
کوئی دستار میں رکھ لے کوئی زیب گلو کر لے
انسان اور فرائض
انسان میں ان صلاحیتوں کے علاوہ جن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے قبولیت فرض کی صلاحیت بھی موجود ہے انسان ان قوانین کی حدود کے اندر رہ کر اپنی زندگی بسر کر سکتا ہے جو اس کے لئے وضع کئے گئے ہوں۔
انسان کے علاوہ کوئی دوسری مخلوق فطرت کے جبری قوانین کے علاوہ کسی دوسرے قانون کی پابند نہیں ہو سکتی مثلاً پتھروں لکڑیوں درختوں پھلوں بھیڑ بکریوں اور گائے بیل کے لئے کوئی قانون وضع کر کے ان تک نہیں پہنچایا جا سکتا اور نہ انہیں پابند کیا جا سکتا ہے کہ وہ ان کے لئے وضع شدہ ’’مصلحت‘‘ پر مبنی قوانین پر عمل کریں اگر ان کی مصلحت اور حفاظت کے لئے کوئی اقدام کیا بھی جائے تو ان پر جبری طور پر نافذ کیا جا سکے گا۔
لیکن یہ صرف انسان ہے جو اس عجیب امر کی صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ وضع کئے گئے قوانین کے مطابق عمل کرے چونکہ یہ قوانین ایک باصلاحیت ہستی ہی کی جانب سے وضع ہو کر انسان پر لاگو کئے جاتے ہیں اور یہ کہ ان کی پابندی تکلیف اور مشقت سے خالی نہیں ہوتی اس لئے اسے ’’فرض‘‘ کہا جاتا ہے۔ قانون ساز کے لئے انسان کو کسی خاص فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار بناتے وقت چند شرائط کا لحاظ کرنا ضروری ہوتا ہے بہ الفاظ دیگر انسان میں جب چند شرائط موجود ہوں تو تبھی وہ کسی فرض کی ادائیگی کی ذمہ داری قبول کر سکتا ہے کسی فرض کے عائد ہونے کی شرائط درج ذیل ہیں:
۱۔ بلوغت
انسان جب اپنی عمر کی ایک منزل پر پہنچتا ہے تو اس کے اعضاء احساسات اور اس کی سوچ میں چند ناگہانی تبدیلیاں نمودار ہو جاتی ہیں جو ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف جست لگانے سے مشابہت رکھتی ہیں اسی کو ’’بلوغت‘‘ کہتے ہیں۔
ہر شخص ایک بلوغت کو پہنچتا ہے بلوغت کے سلسلے میں عمر کی کوئی خاص منزل تمام افراد کے لئے مقرر نہیں کی جا سکی ممکن ہے بعض لوگ دوسروں کی نسبت جلدی بلوغت کو پہنچ جائیں اس لئے کہ انفرادی یا کسی خاص خطہ زمین یا ماحول کی خصوصیات انسان کے جلد یا بدیر طبیعی طور پر بالغ ہونے پر اثرانداز ہوتی ہیں۔
امر مسلم یہ ہے کہ مرد کے مقابلے میں عورت جلدی بالغ ہو جاتی ہے۔ قانونی نقطہ نظر سے لازم ہے کہ ایک مقررہ عمر لوگوں کی متوسط عمر ہوتی ہے یا ایسی عمر جو بلوغت کی کم سے کم عمر ہے۔ اسلامی فقہ کی شرائط سے قطع نظر شرائط رشد معین کی جائیں تاکہ سب لوگ ایک ضابطے کے پابند ہو جائیں۔
بنا برایں ممکن ہے بعض انسان طبیعی طور پر بالغ ہو چکے ہوں لیکن ابھی قانونی بلوغت کی عمر تک نہ پہنچے ہوں اسلام میں اکثر شیعہ علماء کے نقطہ نظر سے عمر کے لحاظ سے مرد کی قانونی بلوغت پندرہ قمری سال پورے ہونے اور سولہویں سال میں داخل ہونے پر مقرر کی گئی ہے اور عورت کی قانونی بلوغت نو قمری سال پورے ہونے اور دسویں سال میں داخل ہونے پر مقرر کی گئی ہے۔ قانونی بلوغت ادائیگی فرض کی ایک شرط ہے یعنی اگر کوئی شخص قانونی بلوغت کی عمر تک نہ پہنچا ہو تو وہ ادائیگی فرض کا ذمہ دار نہیں ہے مگر یہ کہ دلائل سے یہ ثابت ہو جائے کہ وہ قانونی بلوغت تک پہنچنے سے پہلے ہی طبیعی بلوغت کی عمر کو پہنچ گیا ہے۔
۲۔ عقل
ادائیگی فرض کی ایک اور شرط انسان کا عاقل ہونا ہے۔ ایک پاگل شخص جو عقل سے عاری ہے ادائیگی فرض کا پابند نہیں اور فرض اس سے ساقط ہے۔ ایک نابالغ لڑکا کسی طرح بھی ادائیگی فرض کا پابند نہیں اور بالغ ہونے کے بعد بھی وہ اس بات کا ذمہ دار نہیں ہے کہ جو فرض اس نے بلوغت سے قبل انجام دیا اس کی تلافی کرے۔ مثلاً ایک بالغ لڑکے کا یہ فرض نہیں کہ جو نمازیں اس نے بلوغت سے پہلے ادا نہیں کیں ان کی قضا کرے اس لئے کہ اس عمر میں وہ اس پر فرض نہیں تھیں بنا برایں اگر ایک پاگل شخص کچھ عرصے کے بعد عاقل ہو جائے تو وہ ان فرائض کی ادائیگی کا ذمہ دار نہیں جو اس نے پاگل پن کے عرصے میں ادا نہیں کئے تھے یعنی یہ کہ وہ اس عرصے کے روزے اور نمازیں قضا کرنے کا ذمہ دار نہیں۔
ہاں بعض فرائض ایسے ہیں جن کا تعلق بچے یا پاگل کی دولت اور مال سے ہوتا ہے اور بچہ یا پاگل اپنے بچپن یا پاگل پن کی حالت میں ان کی ادائیگی کا ذمہ دار نہیں ہے لیکن جب بچہ ’’بالغ‘‘ ہو جائے اور پاگل ’’عاقل‘‘ ہو جائے تو ان پر واجب ہے کہ وہ ان فرائض کو ادا کریں جیسے زکوٰة یا خمس جو اس بچے یا پاگل کے مال سے متعلق ہے اور اگر یہ فرائض ان کے شرعی ولی نے ادا نہ کئے ہوں تو ادائیگی کی منزل پر پہنچنے کے بعد وہ خود ادا کریں۔
۳۔ علم و آگاہی
ظاہر ہے کہ انسان صرف اسی وقت کسی فرض کو ادا کرنے پر قادر ہو سکتا ہے جب وہ اس سے آگاہ ہو یعنی وہ فرض اس تک پہنچا دیا گیا ہو فرض کریں کہ کوئی قانون ساز قانون وضع کر دے لیکن قانون اس شخص تک نہیں پہنچا جس نے اس پر عمل کرنا ہے تو وہ شخص اس قانون کی پابندی کا ذمہ دار نہیں بلکہ وہ اس قانون پر عمل کرنے پر قادر بھی نہیں اور اگر وہ شخص اس قانون کے خلاف عمل کرے تو قانون ساز اس کو سزا نہیں دے سکتا۔
علمائے علم اصول کا نظریہ ہے کہ اس شخص کو سزا دینا قبیح ہے جو فرض سے آگاہ نہیں ہے اور جس نے فرض معلوم کرنے میں کوتاہی بھی نہیں کی اور قانون کی اس شق کو ’’عقاب بلا بیان کی قباحت‘‘ کہتے ہیں۔
قرآن حکیم نے مکرر اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ ’’ہم کسی قوم کو کسی قانون کی خلاف ورزی کی سزا نہیں دیتے مگر یہ کہ ان لوگوں پر حجت پوری ہو گئی ہو‘‘ یعنی ہم کسی قوم کو ’’بلا بیان سزا نہیں دیتے۔
البتہ فرض کے لئے ’’علم و آگاہی‘‘ کی جو شرائط اوپر بیان کی گئی ہیں اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ انسان عملاً اپنے آپ کو بے خبری میں رکھے اور اس بے خبری کو اپنے لئے عذر بنائے اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ علم حاصل کرے اور اس علم کی بناء پر عمل کرے۔
حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن بعض گناہگاروں کو اللہ کی عدالت میں حاضر کیا جائے گا اور اپنی بعض ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے پر ان کا مواخذہ کیا جائے گا۔ گناہگار سے کہا جائے گا: ’’تو نے اپنا فرض کیوں پورا نہیں کیا؟‘‘ وہ جواب دے گا: ’’مجھے معلوم نہ تھا۔ ‘‘ پھر اس سے کہا جائے گا: ’’تم نے معلوم کیوں نہ کیا اور علم حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟‘‘
یہ جو ہم کہتے ہیں کہ فرض سے مطلع ہونا ادا کرنے کی شرط ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اگر فرض کا حکم کسی شخص تک نہ پہنچ سکے اور عدم حصول علم میں اس شخص کا کوئی قصور بھی نہ ہو تو وہ شخص قصوروار متصور نہ ہوگا یعنی اس نے علم حاصل کرنے کی ضروری کوشش تو کی لیکن باوجود اس کے وہ معلوم نہیں کر سکتا تو ایسا شخص خدا کے نزدیک معذور قرار پائے گا۔
۴۔ طاقت و توانائی
اصل میں وہی کام انسان کے لئے فرض قرار پاتا ہے جس کی انجام دہی کی اس میں طاقت ہو لیکن وہ کام جس کی انجام دہی پر انسان قادر نہ ہو فرض قرار نہیں پاتا اس میں شک نہیں کہ انسان کی توانائیاں محدود ہیں چونکہ قوت محدود ہے لہٰذا چاہئے کہ اس کے فرائض اس کی قوت کی حدود کے اندر ہوں مثلاً انسان میں حصول علم و دانش کی قوت ہے لیکن وقت اور معلومات کی مقدار کے لحاظ سے مقرر حدود کے اندر ہے۔ ایک انسان نابغہ روزگار ہی کیوں نہ ہو وہ ایک مدت میں تدریجی طور پر ہی علم و دانش کے مدارج طے کر سکتا ہے۔
اب اگر کسی شخص کو مجبور کیا جائے کہ وہ چند سالوں کا علم ایک رات میں حاصل کر لے تو اصطلاحی زبان میں اسے ’’تکلیف بمالایطاق‘‘ یعنی ’’اس کام کا حکم جو انسان کی طاقت سے باہر ہو‘‘ کہتے ہیں۔ اسی طرح کسی کو حکم دیا جائے کہ وہ دنیا کے تمام علوم حاصل کرے تو یہ بھی ایسا حکم ہے جو طاقت اور توانائی سے باہر ہے۔
قرآن حکیم میں آیا ہے:
لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا
’’اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں بناتا مگر اس پر جو اس کی طاقت میں ہو۔ ‘‘(سورہ بقرہ آیت ۲۸۶)
اگر کوئی شخص غرق ہو رہا ہو اور ہمارے اندر اس کو بچا لینے کی طاقت ہو تو ہم پر واجب ہے کہ ہم اس کو بچائیں لیکن اگر کوئی ہوائی جہاز گر رہا ہو اور ہم کسی طرح سے بھی اس کو گرنے سے روکنے پر قادر نہ ہوں تو ہماری ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے اور ایسی صورت میں خداوند تعالیٰ ہم سے مواخذہ نہیں کرتا۔
یہاں ایک نکتہ قابل ذکر ہے کہ وہ یہ کہ جیسا کہ ہم نے ’’علم و آگاہی‘‘ کے بارے میں کہا کہ فرض اور ذمہ داری کا ’’علم و آگاہی‘‘ سے مشروط ہونے سے یہ لازم قرار نہیں پاتا کہ ہم ’’علم و آگاہی‘‘ کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں اس طرح ادائیگی فرض کا ’’طاقت و توانائی‘‘ کے ساتھ مشروط ہونے سے یہ لازم نہیں قرار پاتا کہ ہم طاقت و توانائی کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں البتہ بعض مواقع میں طاقت کا ضیاع کرنا حرام ہے اور طاقت کا حصول واجب مثلاً ہمیں ایک زبردست طاقت ور دشمن کا سامنا ہے جو ہمارے حقوق یا ہمارے دین اسلام پر حملہ کرنا چاہتا ہے اور ہم موجودہ صورت حال میں مقابلہ نہیں کر سکتے اور اس سے ہر طرح کا مقابلہ بھی اپنی طاقت کا ضیاع ہے جب کہ ہمیں اس وقت یا مستقبل میں اس عمل سے کوئی مثبت نتیجہ بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔
ظاہر ہے ایسی صورت میں ہم دشمن کے مقابلے یا اس کو حملہ کرنے سے روکنے کے ذمہ دار نہیں ہیں لیکن ایک ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے کہ ہم ’’طاقت اور توانائی‘‘ حاصل کریں تاکہ ایسے حالات میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھے رہیں۔
قرآن کریم کا ارشاد ہے:
واعد و الھم استطعتم من قوة و من رباط الخیل ترھبون بعدو اللہ و عدوکم(سورہ انفال آیت ۶۰)
’’جہاں تک ممکن ہو اپنے گھوڑے اور طاقت تیار کرو تاکہ اس طرح تمہارے دشمن اور خدا کے دشمن تم سے ڈریں اور تم پر حملہ کرنے کا خیال اپنے ذہن سے نکال دیں۔ ‘‘
جیسا کہ ایک فرد یا جاہل معاشرہ جو حصول علم میں کوتاہی کرتا ہے خدا کی طرف سے قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے ’’علم و آگاہی‘‘ کیوں حاصل نہیں کی اور اس کی جہالت بطور عذر قبول نہیں کی جاتی اسی طرح ایک کمزور فرد یا معاشرہ بھی جس نے طاقت کے حصول میں کوتاہی کی ہو قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے کیوں طاقت اور قوت حاصل نہ کی اور اس کی کمزوری کو عذر کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔
۵۔ آزادی و اختیار
ادائیگی فرض کے لئے آزادی اور اختیار بھی ایک شرط ہے یعنی ایک شخص اس وقت ادائیگی فرض کا ذمہ دار ہوتا ہے جب کہ اس کے لئے جبر یا اضطرار کی صورت نہ ہو اگر وہ مجبور یا مضطر ہو تو فرض ساقط ہو جاتا ہے ’’جبر‘‘ کی مثال یہ ہے کہ ایک جابر شخص کسی کو دھمکی دے کہ وہ اپنا روزہ توڑ دے اور اگر وہ روزہ نہ توڑے تو وہ اس کو جان سے مار دے گا۔ ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں روزہ رکھنے کا فرض ساقط ہو جاتا ہے یا مثلاً اگر ایک شخص حج کی استطاعت رکھتا ہے اور وہ حج پر جانا چاہتا ہے اب ایک جابر شخص اس کو دھمکی دے کہ اگر وہ حج پر گیا تو اسے یا اس کے متعلقین کو نقصان پہنچائے گا۔
حضور نے فرمایا ہے:
رفع ما ستکرھوا علیہ(الجامع الصغیر ج ۲ ص ۱۶)
’’جہاں جبر درمیان میں آ جائے وہاں فرض ساقط ہو جاتا ہے۔ ‘‘
’’اضطرار‘‘ یہ ہے کہ ایک شخص کو کسی فرض کی ادائیگی کے سلسلے میں کسی دوسرے شخص سے دھمکی نہیں ملی بلکہ اس نے خود یہ راستہ انتخاب کیا ہے لیکن اس انتخاب کی وجہ سے وہ سخت ترین حالات ہیں جو اسے پیش آئے ہیں مثلاً اگر ایک شخص کسی بے آب و گیاہ بیابان میں بھوک سے بے حال ہو چکا ہے اور وہاں سوائے مردار کے کوئی اور چیز موجود نہیں جس سے وہ اپنی بھوک مٹا سکے تو ایسی ’’حالت اضطرار‘‘ میں مردار کھانے کی حرمت ساقط ہو جاتی ہے۔
’’جبر و اضطرار‘‘ کے درمیان فرق یہ ہے کہ ’’جبر‘‘ کی صورت میں انسان کو ایک جابر شخص کی طرف سے دھمکی ملتی ہے کہ خلاف شروع کام کرو اور اگر تم نہیں کرو گے تو تمہیں فلاں نقصان پہنچاؤں گا اور وہ مجبور شخص اس بناء پر کہ وہ اس مصیبت اور نقصان سے خود کو نہیں بچا سکتا بحالت مجبوری اپنے فرض کی ادائیگی کے خلاف عمل کرتا ہے لیکن ’’اضطرار‘‘ میں دھمکی کا کوئی دخل نہیں ہوتا بلکہ کسی شخص کو ایسے سنگین حالات درپیش ہوں جن کی وجہ سے اس کی حالت خراب ہو چکی ہو تو وہ اپنی اس حالت کو دور کرنے کے لئے مجبور ہے کہ اپنے فرض کے خلاف عمل کرے لہٰذا ’’جبر‘‘ اور ’’اضطرار‘‘ میں فرق کی حسب ذیل دو صورتیں ہیں:
۱۔ ’’جبر‘‘ میں برخلاف ’’اضطرار‘‘ دھمکی کا دخل ہے۔
۲۔ ’’جبر‘‘ میں انسان کسی آنے والی سخت مصیبت کو روکنے کے لئے چارہ جوئی کرتا ہے لیکن ’’اضطرار‘‘ میں وہ کسی آئی ہوئی مصیبت کو دور کرنے کے لئے ایسا کرتا ہے۔
لیکن ’’جبر‘‘ اور ’’اضطرار‘‘ کو کسی فرض کی عدم ادائیگی کی ضروری شرط قرار نہیں دیا جا سکتا یعنی یہ کوئی عمومی اور کلی قانون نہیں ہے بلکہ اولاً یہ اس نقصان کی مقدار سے متعلق ہے۔
ثانیاً اس فرض کی اہمیت سے مربوط ہے جسے انسان اضطرار اور جبر کی وجہ سے ترک کرنا چاہتا ہے۔
ظاہر ہے کہ ’’جبر‘‘ یا ’’اضطرار‘‘ کو بہانہ بنا کر کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جا سکتا جو دوسروں کے نقصان یا معاشرے کے ضرر یا خود دین اسلام کے نقصان کا سبب بن جائے بعض فرائض ایسے ہیں جن کی ادائیگی کے لئے ہر طرح کا نقصان برداشت کرنا چاہئے۔
درست اعمال کی شرائط
اب تک جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا تعلق ادائیگی فرض کی شرط سے تھا یعنی انسان ان شرائط کے تحت ہی کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے یعنی ادائیگی فرض کی شرائط سے وہ شرائط مراد ہیں جو اگر موجود نہ ہوں تو انسان پر فرض کی ادائیگی لازم نہیں آتی البتہ بعض شرائط ایسی بھی ہیں جو اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط کہلاتی ہیں۔
جیسا کہ معلوم ہے عبادات اور معاملات کے علاوہ بعض شرعی موضوعات ایسے بھی ہیں جو کچھ شرائط اور خصوصیات کے ساتھ صحیح طریقے سے انجام پا سکتے ہیں لہٰذا درستی اعمال کی شرائط سے مراد وہ شرائط ہیں جو اگر نہ ہوں تو انسان کے اعمال درست تسلیم نہیں کئے جاتے اور ایسے اعمال باطل فرض کئے جاتے ہیں۔ اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط بھی ادائیگی فرائض کی شرائط ہی کی مانند بہت زیادہ ہیں لیکن جس طرح ادائیگی فرض کی شرائط کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا اسی طرح سے اعمال کی درستی کی شرائط کی بھی دو قسمیں ہیں: خصوصی شرائط عمومی شرائط۔
ہر عمل کی خصوصی شرائط اسی عمل سے مخصوص ہیں اور اسی عمل کے سیکھنے کے دوران یہ شرائط بھی پہچانی جاتی ہیں البتہ عمومی شرائط میں چند چیزیں ہیں جن کی طرف بعد میں اشارہ کیا جائے گا۔
علمائے علم منطق کی اصطلاح میں ادائیگی فرض کی عمومی شرائط اور درستی اعمال کی عمومی شرائط کے مابین ’’عموم و خصوص من وجہ‘‘ کی نسبت ہے(پیسے اور سکے کے مابین عموم و خصوص من وجہ کی نسبت ہے بعض سکے پیسہ ہیں بعض سکے پیسہ نہیں اور اسی طرح سے بعض پیسے سکہ نہیں اور بعض پیسے سکہ ہیں) یعنی بعض شرائط ’’ادائیگی فرض بھی ہیں‘‘ اور ’’شرائط درستی اعمال بھی‘‘۔ بعض شرائط ’’شرائط ادائیگی فرض‘‘ تو ہیں لیکن ’’شرائط درستی اعمال‘‘ نہیں اور بعض شرائط ’’شرائط ادائیگی فرض‘‘ تو نہیں لیکن ’’شرائط درستی اعمال‘‘ ہیں اور ’’درستی اعمال کی شرائط‘‘ کی تین صورتیں ہیں:
بعض شرائط ’’درستی عبادات‘‘ اور ’’درستی معاملات‘‘ دونوں کی شرائط ہیں۔
بعض شرائط صرف ’’درستی عبادات‘‘ کی شرائط ہیں۔
بعض شرائط صرف ’’درستی معاملات‘‘ کی شرائط ہیں۔
وہ امر جو بیک وقت شرائط ادائیگی فرض اور شرط درستی اعمال ہے۔ ’’عقل‘‘ ہے اس لئے کہ عقل سے عاری انسان جس پر فرض عائد نہیں ہوتا اس کے اعمال ’’عبادات‘‘ سے متعلق ہوں یا معاملات سے درست متصور نہیں ہوں گے مثلاً اگر کوئی پاگل شخص چاہے کسی دوسرے کی نیابت میں حج بجا لائے یا کسی دوسرے کے لئے نماز ادا کرے یا روزہ رکھے یا نماز با جماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف مقتدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے تو اس کا یہ عمل صحیح نہ ہو گا۔
’’عقل‘‘ کی طرح ’’طاقت‘‘ بھی شرط ادائیگی فرض ہے اور شرط درستی اعمال بھی ’’عدم جبر‘‘ بھی اسی طرح سے ہے یعنی ایک مجبور شخص جس کی ذمہ داری خاص شرائط کے پورا نہ ہونے کی بناء پر ساقط ہو جاتی ہے۔ اگر وہ کوئی معاملہ ’’جبر‘‘ کے تحت انجام دے یا مثلاً ’’جبر‘‘ کی وجہ سے شادی کرے تو درست نہیں بلکہ باطل متصور ہو گا۔
وہ امر جو ’’شرط ادائیگی فرض‘‘ تو ہے لیکن ’’شرط درستی اعمال‘‘ نہیں ’’بلوغت‘‘ ہے نابالغ لڑکا کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار نہیں لیکن اگر وہ سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچ چکا ہو اور اس قابل ہو کہ ایک بالغ کی طرح کسی شرعی عمل کو درست انجام دے تو اس کا وہ عمل درست ہے اور اسی طرح سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچا ہوا نابالغ لڑکا بھی نماز با جماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف متقدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے سکتا ہے اور اسی طرح وہ عبادت میں دوسروں کی نیابت بھی کر سکتا ہے البتہ یہ امر مسلم ہے کہ بلوغت ’’درست عبادت‘‘ کی شرط نہیں ہے لیکن کیا ’’بلوغت‘‘، ’’درستی معاملات‘‘ کی بھی شرط ہے یا نہیں؟
بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ بلوغت درستی معاملات کی شرط ہے اور خوب و بد کی پہچان رکھنے والا ایک نابالغ بچہ نہ کسی کی نیابت میں اور نہ ہی اپنے لئے کوئی معاملہ کر سکتا ہے مثلاً خرید و فروخت کرے یا مکان کرایہ پر دے یا خطبہ نکاح پڑھے تو درست نہیں ہو گا اور بعض دوسرے علماء کا نظریہ یہ ہے کہ خوب و بد کی پہچان رکھنے والا نابالغ بچہ اپنے لئے کوئی معاملہ نہیں کر سکتا لیکن دوسروں کی نیابت اور وکالت کر سکتا ہے۔
اسی طرح وہ امور جو ’’شرط ادائیگی فرض‘‘ تو ہیں لیکن ’’شرط درستی اعمال‘‘ نہیں۔ ’’علم و آگاہی‘‘ اور ’’عدم اضطرار‘‘ ہیں۔ بنا برایں ایک عمل چاہے عبادت ہو یا معاملہ اگر دوسری شرائط کے اعتبار سے مکمل طور پر انجام پائے لیکن عمل کرنے والے کو علم نہ ہو اور اتفاقاً اس کے عمل میں تمام شرائط مکمل ہوں تو اس کا یہ علم درست ہو گا مثلاً ایک شخص ایک ایسے مکان کا مالک ہے جو اسے بہت پسند ہے اور وہ اسے فروخت نہیں کرنا چاہتا لیکن اچانک اسے کوئی حادثہ پیش آتا ہے اور اسے رقم کی سخت ضرورت ہوتی ہے اور وہ ’’اضطرار‘‘ کی حالت میں اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کر دیتا ہے تو اس کا یہ معاملہ درست متصور ہو گا۔
یا اگر کوئی شخص کسی طرح بھی شادی کرنے پر راضی نہیں ہے لیکن اس کو کوئی ایسی بیماری لاحق ہو جاتی ہے کہ طبیب اس کے لئے شادی ضروری قرار دیتا ہے اور ’’اضطرار‘‘ کی حالت میں اس کی شادی ہو جاتی ہے تو اس کی شادی درست متصور ہو گی۔
مذکورہ مباحث سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’درستی اعمال‘‘ کی شرائط کے لحاظ سے ’’جبری‘‘ اور ’’اضطراری‘‘ حالات میں ’’معاملات‘‘ کی انجام دہی میں فرق ہے۔ ’’جبری حالت‘‘ میں کیا ہوا معاملہ درست نہیں لیکن ’’اضطراری حالت‘‘ میں کیا ہوا معاملہ درست ہے۔
البتہ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ’’جبری حالت‘‘ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست نہیں اور ’’ایمرجنسی کی حالت‘‘ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست ہے؟ ممکن ہے یہ کہا جائے کہ ’’مجبور اور مضطرب‘‘ دونوں اس لحاظ سے کہ اس عمل کے انجام پر راضی نہیں ہیں باہم برابر ہیں جیسے اگر کوئی شخص کسی دھمکی کی بناء پر اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کرنے پر مجبور ہو جائے اور اس مصیبت کو دور کرنے کے لئے اپنا مکان بیچ دے تو وہ اس واقعہ پر دلی طور پر راضی نہ ہو گا اسی طرح اگر کوئی دوسرا شخص اپنی زندگی کو کسی مصیبت سے بچانے کے لئے (مثلاً اپنی بیماری کے اخراجات کی ضرورت پر) اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے تو وہ بھی ایسی صورت میں قلبی طور پر راضی نہ ہو گا یا اگر کسی شخص کا بیٹا بیمار ہے اور وہ اس کے علاج کے لئے اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرتا ہے لیکن وہ حقیقت میں اس عمل پر راضی نہیں ہے بلکہ وہ اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر بہت زیادہ غمزدہ اور رنجیدہ ہے۔
ایک مجبور انسان اپنے نقصان کو دور کرنے کے لئے مجبوراً کوئی کام کرتا ہے یا کوئی ’’مضطر‘‘ نقصان کو روکنے کے لئے کوئی کام کرتا ہے تو دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
اسی طرح ایک ظالم اور جابر شخص ’’جبری معاملات‘‘ میں براہ راست ملوث ہوتا ہے ’’اضطراری معاملات‘‘ میں کوئی دوسرا شخص ملوث نہیں ہوتا تو ان دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس کے علاوہ غالباً اضطرار کی اصل وجہ دوسروں کی استعماری اور استثماری طریقوں سے مداخلت ہوتی ہے۔ جواب یہ ہے کہ ’’مجبور اور مضطرب‘‘ کے معاملات میں شارع اسلام نے مجبور کے معاملات کو باطل قرار دیا ہے اور ’’مضطرب‘‘ کے معاملات کو درست دونوں کے احکام میں فرق کی وجہ کچھ اور ہے۔
اگرچہ ’’مجبور‘‘ کو بھی بحالت کسی عمل کی انجام دہی کی فوری ضرورت پیش آتی ہے اور ’’مضطرب‘‘ کو بھی لیکن ’’مجبور‘‘ کی فوری ضرورت کا تعلق ’’جابر‘‘ کے ’’جبر‘‘ کو دور کرنا ہوتا ہے اور مجبور کی ضرورت اس معاملے کے انجام سے پوری ہوتی ہے۔ یہاں قانون مجبور کی مدد کرتا ہے اور ’’جابر‘‘ کے ’’جبر‘‘ کے خلاف ’’مجبور‘‘ کے معاملے کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔
لیکن مضطر کی فوری ضرورت براہ راست اس رقم سے ہے جو وہ اضطراری معاملہ کی صورت میں حاصل کرنا چاہتا ہے اس صورت میں اگر قانون مضطر کی حمایت کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ معاملے کے صحیح اور قانونی ہونے کا اعلان کیا جائے کیوں کہ اگر اس معاملے کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو اس کا نتیجہ ’’مضطر‘‘ کے حق میں زیادہ نقصان کی صورت میں نکلے گا۔ مثلاً مندرجہ ذیل بالا مثال میں اگر ’’مضطر‘‘ کے مکان کی فروخت کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور معاملے کو باطل قرار دیا گیا تو نہ مکان کی خرید کو ملکیت کا حق حاصل ہو گا اور نہ مکان فروخت کرنے والے کو مطلوبہ رقم ملے گی۔ جس کے نتیجے میں ’’مضطر‘‘ اپنے بیٹے کا علاج نہیں کرا سکے گا۔
اسی وجہ سے علمائے فقہ کا نظریہ یہ ہے کہ ’’جبر معاملہ‘‘ کو غیر قانونی قرار دینا خدا کی طرف سے احسان ہے یعنی ’’مجبور‘‘ کے فائدے میں ہے لیکن اگر ’’اضطراری معاملہ‘‘ کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو ’’مضطر‘‘ کے حق میں یہ کام احسان ہے نہ اس کے لئے فائدہ مند۔
یہاں ایک اور سوال بھی پیش آتا ہے کیا یہ صحیح ہے کہ دوسرے لوگ ’’مضطر‘‘ کے ’’اضطرار‘‘ اور پریشانی سے فائدہ اٹھا کر اس کے مال کو مناسب قیمت سے کم قیمت پر خرید لیں اور اس مال کو جائز مال سمجھیں؟ ہرگز نہیں کیا یہ معاملہ جو غیر قانونی ہے صرف حرمت تکلیفی کا باعث ہے؟ اور اصل معاملہ جس طرح ’’مضطر‘‘ کے حق میں درست ہے اسی طرح فریق مقابل کے معاملے میں بھی درست ہے؟ یا یہ کہ اس میں کوئی مانع نہیں کہ ایک طرف سے معاملہ درست ہو اور دوسری طرف سے غلط؟ یا دونوں طرف سے معاملہ تو درست ہو لیکن کم قیمت پر مال لینے والے شخص پر لازم ہو جائے کہ وہ مال کی حقیقی قیمت ادا کرے بہرحال ان موضوعات پر بحث ابھی باقی ہے۔
وہ امر جو ادائیگی فرض کی شرط تو نہیں لیکن درستی اعمال کی شرط ہے رشد ہے اسلامی قانون میں ہر وہ شخص جو کسی معاشرتی کام کا بیڑا اٹھانا چاہتا ہے مثلاً وہ شادی کرنا چاہتا ہے یا کوئی اور معاملہ کرنا چاہتا ہے یعنی وہ اپنے مال میں سے خرچ کرنا چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ دیگر تمام حالت رشد پر بھی پہنچا ہوا ہو یعنی یہ کہ وہ اس کام کے کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہو جس کا بیڑا وہ اٹھانا چاہتا ہے۔
اس لئے اسلامی قانون میں صرف بالغ عاقل آگاہ طاقت ور توانا اور مختار ہونا ہی کافی نہیں جو انسان شادی کا ارادہ کر سکے یا اپنے مال میں تصرف کر سکے بلکہ اس کے لئے یہ بھی لازم ہے کہ وہ شادی کرنے کی معقول صلاحیت بھی رکھتا ہو یعنی لڑکا اور لڑکی کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ شادی کا مفہوم سمجھتے ہوں کہ کیا ہے؟ کس لئے ہے؟ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اور یہ کہ شادی ایک فرد کے مستقبل پر کیسے اثر انداز ہوتی ہے؟ اور انہیں یہ ادراک ہو کہ اس اہم معاملے میں آنکھ بند کر کے ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا۔
اسی طرح اگر ایک نابالغ لڑکے اور لڑکی کو ورثے میں یا کسی اور ذریعے سے مال و دولت ملی ہو تو اس کا صرف بالغ ہونا ہی کافی نہیں تاکہ اس کا مال اس کو دیا جائے بلکہ ضروری ہے کہ ان دونوں کو آزما لیں اگر بلوغت کے علاوہ وہ فہم و فراست کی حد پر بھی پہنچے ہوئے ہوں یعنی وہ اپنے مال کی حفاظت کرنے اور اس سے مستفید ہونے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں تو ان کا مال ان کو دے دیا جاتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو ان کا شرعی اور قانونی ولی حسب سابق ان کی سرپرستی کو جاری رکھتا ہے۔
وابتلوا الیتامی حتی اذا بلغوا النکاح فان آنستم منھم رشدا فاا دفعوا الیھم اموالھم(سورہ نساء آیت ۶)
’’تم یتیموں کو آزما لیا کرو یہاں تک کہ معلوم ہو جائے کہ وہ بالغ ہو چکے ہیں پھر اگر دیکھو کہ وہ رشد پا چکے ہیں تو ان کے اموال ان کے حوالے کر دو۔ ‘‘
۱۱۔ اس دنیا کے بعد ایک دوسری دنیا ہے جو ابدی اور جزا و سزا کی دنیا ہے۔
۱۲۔ انسان کی روح ایک جاودانی حقیقت ہے۔ انسان قیامت میں صرف ایک زندہ صورت میں ہی محشور نہیں کیا جائے گا بلکہ دنیاوی موت اور قیامت کے درمیان بھی ایک منزل کا فاصلہ ہے جس میں انسان ایک قسم کی زندگی سے جس کو برزخی زندگی کہا جاتا ہے اور جو دنیوی زندگی سے زیادہ قوی اور زیادہ کامل ہے بہرہ مند ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی تقریباً ۲۰ آیتیں انسان کی موت اور قیامت کے درمیان کی مدت اور جسم انسانی کے بوسیدہ ہو کر خاک ہو جانے کی حالت میں بھی انسان کی زندگی پر دلالت کرتی ہیں۔
۱۳۔ زندگی اور اس کے بنیادی اصول یعنی انسانیت اور اخلاق کے اصول ابدی اور ناقابل تغیر اصول ہیں اور جو قواعد متغیر اور نسبی ہیں وہ فروعی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ انسانیت کسی زمانے میں کوئی چیز ہو اور دوسرے زمانے میں کوئی دوسری چیز بن جائے جو پہلے کی نسبت بالکل مختلف ہو مثلاً کسی زمانے میں انسانیت ابوذر ہونے میں ہو اور کسی زمانے میں انسانیت معاویہ بن جانے میں ہو بلکہ جن اصولوں کی بناء پر ابوذر ابوذر ہیں اور معاویہ معاویہ موسیٰ موسیٰ ہیں اور فرعون فرعون ہے وہ ہمیشہ رہنے والے اور غیر متغیر اصول ہیں۔
۱۴۔ حقیقت بھی ابدی اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ایک علمی حقیقت اگر پورے طور پر حقیقت ہے تو وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور اگر وہ حقیقت بطور کلی خطا ہے تو ہمیشہ کے لئے خطا ہے اگر کسی کا ایک جزو حقیقت ہے اور دوسرا جزو خطا ہے تو جو جزو حقیقت ہے وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور جو جزو خطا ہے وہ ہمیشہ کے لئے خطا ہے اور ہو گا اور جو چیز متغیر و متبدل ہوتی ہے وہ واقعیت ہے اور وہ مادی واقعیت ہے لیکن حقیقت یعنی انسان کے فکری تصورات اور ذہنی افکار واقعیت سے منطبق ہونے اور منطبق نہ ہونے کے لحاظ سے ایک ثابت و قائم اور یکساں حالت رکھتے ہیں۔
۱۵۔ دنیا اور زمین و آسمان حق و عدالت کے ساتھ قائم ہیں۔
ما خلقنا المسوات والارض وما بینھما الا بالحق(سورہ احقاف آیت ۳)
’’ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان چیزوں کو جو ان دونوں کے درمیان ہیں نہیں پیدا کیا مگر حق کے ساتھ۔ ‘‘
۱۶۔ اس دنیا میں الٰہی منت باطل کے خلاف حق کی آخری فتح و کامیابی پر منحصر ہے حق اور اہل حق غالب اور ظفرمند ہیں۔
ولقد سبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین انھم لھم المنصورون وان جندنا لھم الغالبون (سورہ الصافات آیت ۱۷۳)
’’ہماری قضا اور ہمارا فیصلہ اس امر پر ہو چکا ہے کہ ہمارے پیغمبر بے شک منصور و ظفر مند ہیں اور بے شک ہماری فوج (لشکر حق) غالب و فاتح ہے۔ ‘‘
۱۷۔ تمام انسان خلقت کے اعتبار سے برابر پیدا کئے گئے ہیں۔ کوئی انسان پیدائش کے اعتبار سے دوسرے انسان پر فوقیت نہیں رکھتا۔ بزرگی اور فضیلت تین چیزوں کی وجہ سے ہوتی ہے:
قلم: ’’ھل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون(سورہ زمر آیت ۹)
راہ خدا میں جہاد: ’’فضل اللہ المجاہدین علی القاعدین اجرا عظیما(سورہ النساء آیت ۹۵)
تقویٰ و پاکیزگی: ’’ان اکر مکم عنداللہ اتقیکم(سورہ حجرات آیت ۱۳۰)
۱۸۔ اصل خلقت کے اعتبار سے انسان بہت سی فطری صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے ان میں دینی اور اخلاقی فطرت بھی ہے انسان کے ضمیر و وجدان کا اصلی سرمایہ اس کی خدا داد فطرت ہے نہ کہ طبقاتی محل و مقام یا اجتماعی زندگی یا طبیعت کے ساتھ زور آزمائی کیونکہ یہ سب انسان کے اکتسابی وجدان (ضمیر) میں موثر ہوتے ہیں انسان اپنی انسانی فطرت کے لحاظ سے منفرد ثقافت اور آئیڈیالوجی کا مالک بن سکتا ہے اس کے لئے یہ بھی ممکن ہے کہ قدرتی ماحول اجتماعی ماحول تاریخی اسباب و عوامل اور اپنے وراثتی عوامل کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہو اور اپنے کو ان سب کی قید سے آزاد کر لے۔
۱۹۔ چونکہ ہر فرد بشر فطری طور پر انسان پیدا ہوتا ہے ہر انسان میں (اگرچہ وہ بدترین انسان ہی کیوں نہ ہو) توبہ اور راہ راست کی طرف اس کی واپسی اور نصیحت قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ اسی لئے انبیائے الٰہی اس بات پر مامور ہیں کہ حتیٰ بدترین افراد اور اپنے دشمنوں میں سے سخت ترین دشمن کو بھی ابتدائی مرحلے میں وعظ و نصیحت کریں اور اس کی انسانی فطرت کو بیدار کریں پس اگر یہ چیز فائدہ مند نہ ہو تو پھر ان سے مقابلہ و جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔
حضرت موسیٰ کو فرعون کے پاس پہلی مرتبہ جاتے وقت یہ وصیت کی گئی کہ
فقل ھل لک الی ان تزکی و اھد یک الی ربک فتخشیٰ(سورہ النازعات آیت ۱۹)
’’کہہ دو کہ کیا تو اپنے کو نجاست کفر سے پاک کرنے پر آمادہ ہے؟ اور کیا میں تجھے تیرے پروردگار کی راہ بتا دوں تاکہ تو اس سے ڈرے؟‘‘
۲۰۔ انسان ایک حقیقی مرکب اور حقیقی اکائی ہونے کے باوجود قدرتی جمادی اور نباتاتی مرکبات کے برخلاف (کہ ترکیب کی حالت میں جس کے ترکیب دینے والے عناصر جو اپنی ہویت اور مستقل حیثیت کھو دیتے ہیں اور ان کا باہمی تضاد اور ٹکراؤ مکمل طور پر ملائمت اور ہم آہنگی میں تبدیل ہو جاتا ہے انسان کی خلقت میں جو متضاد عناصر استعمال ہوئے ہیں اپنی ہویت کو اور ذاتی حیثیت کو مکمل طور پر نہیں کھو دیتے اور ہمیشہ ایک اندرونی کشمکش انہیں ایک طرف سے دوسری طرف لے جاتی ہے یہ اندرونی تضاد وہی ہے جسے دین کی زبان میں عقل و جہل یا عقل و نفس یا روح و بدن کا تضاد کہا جاتا ہے۔
۲۱۔ چونکہ انسان مستقل روحانی جوہر کا مالک ہے اور اس کا ارادہ اس کی روحانی حقیقت کے سرچشمے سے پیدا ہوتا ہے لہٰذا مختار و آزاد ہے کوئی جبر یا کوئی ذاتی احتیاج اس کی آزادی اور اس کے اختیار کو اس سے چھین نہیں سکتی اس لئے وہ اپنا بھی جواب دہ ہے اور اپنے معاشرے کا بھی ذمہ دار اور جواب دہ ہے۔
۲۲۔ انسانی معاشرہ بھی فرد بشر ہی کی طرح ایک حقیقی مرکب ہے اور اپنے قوانین روایات اور نظام رکھتا ہے اور اپنی مجموعی حیثیت میں پوری تاریخ میں کبھی کسی خاص انسان کے ارادے کا تابع نہیں رہا ہے اور اپنے وجود میں (فکری نوعی سیاسی اور اقتصادی گروہوں پر مشتمل متضاد عناصر کے باوجود مکمل طور پر اپنی ہویت کو نہیں کھویا ہے۔ سیاسی اقتصادی فکری اور اعتقادی جنگ کی صورت میں مقابلہ آرائی اور بالآخر رشد و ہدایت پانے والے انسانی کمال پر پہنچنے والے انسانوں کی بلند و برتر خواہشات اور میلانات اور حیوان صفت انسانوں کی پست خواہشات کے درمیان جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک معاشرہ انسانیت کے بام و عروج تک نہیں پہنچ جاتا۔
۲۳۔ خداوند عالم کسی انسان یا کسی قوم کی سرنوشت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ آدمی یا وہ قوم خود اپنے حالات کو نہ بدلے۔
ان اللہ لا یغیر مابقوم حتی یغیروا ما با نفسھم(سورہ رعد آیت ۱۱)
۲۴۔ خداوند عالم جو انسان اور سارے جہان کا پیدا کرنے والا ہے غنی بالذات ہے تمام جہات سے بسیط ہے کامل مطلق ہے کسی چیز کا منتظر نہیں ہے اس میں حرکت و ارتقاء محال ہے اس کی صفات اس کی عین ذات ہیں ساری دنیا اسی کی بنائی ہوئی ہے۔ ساری سطح زمین اسی کے ارادے و مشیت کی مظہر ہے اس کے ارادے کا کوئی مقابل نہیں ہے۔ ہر ارادہ اور مشیت اس کے ارادے کے تابع ہے اس کے برابر نہیں ہے۔
۲۵۔ چونکہ دنیا کا صدور ایک مبداء سے ہوا ہے اور اسے ایک متناسب اور ہم آہنگ رفتار میں اسی کی طرف واپس جانا ہو گا اور چونکہ مدبر اور با شعور قوت کی تدبیر کے تحت اپنی حرکت اور رفتار کو جاری رکھے ہوئے ہے لہٰذا ایک قسم کی وحدت کی حامل ہے ایسی وحدت جو زندہ موجود کی عضوی وحدت سے مشابہ ہے۔
(ج) آئیڈیالوجی کے لحاظ سے اسلام کی خصوصیات
اسلام کی امتیازی خصوصیات کا بیان آئیڈیالوجی کے لحاظ سے خاص کر آئیڈیالوجی کی وسعت کے لحاظ سے خواہ کلی مشخصات کے اعتبار سے ہو یا آئیڈیالوجی کی ہر شاخ کی خصوصیات کے لحاظ سے بہت مشکل ہے پھر بھی ہم اس اصول کی بناء پر کہ اگر کسی چیز کو مکمل طور پر حاصل نہ کیا جا سکے تو جتنا حاصل کیا جا سکے اسی کو لے لینا چاہئے جو کچھ اس موقع پر فی الحال ہمارے لئے ممکن ہے اس کی ایک فہرست پر نظر ڈال رہے ہیں:
۱۔ ہمہ گیر حیثیت اور کمال و ارتقاء دوسرے ادیان کے مقابلے میں اسلام کے من جملہ امتیازات میں سے ہے اور زیادہ بہتر الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ دین خدا کی ابتدائی صورتوں کی نسبت اس کی مکمل اور جامع صورت کی خصوصیات میں سے اس کی ایک جامعیت اور ہمہ گیر حیثیت ہے۔ اسلام کے چار مآخذ یعنی قرآن سنت اجماع اور عقل اس امر کے لئے کافی ہیں کہ علمائے امت ہر موضوع کے بارے میں اسلامی نظریہ معلوم کر سکیں۔ علمائے اسلام کسی موضوع کو بلا حکم نہیں سمجھتے بلکہ ان کے نزدیک اسلام میں ہر چیز کے لئے ایک حکم موجود ہے۔
۲۔ اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت: اسلام کلیات کو اس طرح سے منظم کیا گیا ہے کہ ان میں اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی ہے۔ اجتہاد یعنی کلی و ثابت اصول کو جزوی اور بدلتے رہنے والے مسائل و امور پر منطبق کرنا اسلامی کلیات کو اس طرح منظم شکل دینے کے علاوہ کہ جس کی وجہ سے ان میں اجتہاد کو قبول کرنے کی خاصیت پیدا ہو گئی ہے اسلامی سرچشمہ اور ماخذوں کی فہرست میں عقل کی موجودگی نے حقیقی اجتہاد کے کام کو آسان کر دیا ہے۔
۳۔ سہولت اور آسانی: رسول اکرم کے الفاظ میں اسلام ’’شریعت سمحہ سہلہ‘‘(۱) ہے۔ ہاتھ پاؤں باندھ دینے والی مشقت میں ڈالنے والی بے حد پریشان کرنے والی تکالیف شرعیہ عائد نہیں کی گئی ہیں۔
ماجعل علیکم فی الدین من حرج (سورہ حج آیت ۸۷)
’’خدا نے تمہارے لئے دین میں تنگی اور دشواری قرار نہیں دی ہے اور اس بناء پر کہ ’’سمحہ‘‘ (درگذر کے ہمراہ ہے) جہاں بھی اس حکم شرع کا انجام دینا تنگی و دشواری اور شدید زحمت کا باعث ہو وہاں وہ ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے۔
۴۔ زندگی کی طرف میلان و رغبت: اسلام زندگی کی طرف مائل اور راغب کرنے والا دین ہے نہ کہ زندگی سے دور کرنے کا باعث اور اسی لئے اس نے رہبانیت یعنی ترک دنیا سے سختی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔ پیغمبر اسلام فرماتے ہیں:
لا رہبانیۃ فی الاسلام
’’اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔ ‘‘
پرانے معاشرے میں دو چیزوں میں سے ایک چیز ہمیشہ موجود رہی ہے یا صرف آخرت کی طرف رغبت اور دنیا سے فرار یا صرف دنیا کی طرف اور آخرت سے گریز (تمدن اور ترقی و توسیع) اسلام نے انسان میں زندگی کی طرف رغبت کے ساتھ ساتھ آخرت کا شوق بھی رکھا ہے۔ اسلام کی نظر میں آخرت کا راستہ زندگی اور اس کی ذمہ داریوں کے درمیان سے گزرتا ہے۔
۵۔ اجتماعی ہونا: اسلامی قوانین اور احکام اجتماعی ماہیت کے حامل ہیں یہاں تک کہ وہ احکام جو زیادہ سے زیادہ انفرادی ہیں جیسے نماز روزہ وغیرہ اس میں بھی ایک اجتماعی اور سماجی حسن پیدا کر دیا گیا ہے۔ اسلام کے بہت سے اجتماعی سیاسی اقتصادی اور عدالتی قوانین و احکام اسی خاصیت کے حامل ہیں جیسا کہ جہاد اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا تعلق اسلام اور اجتماعی ذمہ داری سے ہے۔
۶۔ انفرادی حقوق اور آزادی: اسلام جہاں ایک اجتماعی دین ہے اور پورے معاشرے پر اس کی نظر رہتی ہے اور فرد کو معاشرہ کا ذمہ دار سمجھتا ہے وہاں فرد کی آزادی اور اس کے حقوق سے چشم پوشی بھی نہیں کرتا اور فرد کو فرعی حیثیت نہیں دیتا بلکہ اسلام نے فرد کے لئے سیاسی اقتصادی قانونی اور اجتماعی حقوق رکھے ہیں۔
سیاسی لحاظ سے مشورے اور انتخاب کا حق فرد کو حاصل ہے اقتصادی لحاظ سے اپنے کام کے ماحاصل اور حق محنت پر مالکیت کا حق معاوضہ اور مبادلہ صدقہ وقف ہبہ اجارہ مزارعہ اور مضاربہ وغیرہ کا حق اپنی جائز ملکیت میں رکھتا ہے قانونی لحاظ سے اسے دعویٰ دائر کرنے اپنا حق ثابت کرنے اور گواہی دینے کے حقوق دیئے گئے ہیں اور اجتماعی لحاظ سے اسے کام اور جائے سکونت کے انتخاب کا حق تحصیل علم میں مضمون کے انتخاب وغیرہ کا حق اور گھریلو زندگی میں اپنی شریک حیات کے انتخاب کا حق حاصل ہے۔
۷۔ معاشرتی اور اجتماعی حق کی انفرادی حق پر فوقیت: جس جگہ اجتماعی اور انفرادی حق کے درمیان تزاحم اور تضاد پیدا ہوتا ہے وہاں اجتماعی اور معاشرے کا حق انفرادی حق پر مقدم ہوتا ہے اسی طرح عام حق خاص حق پر فوقیت رکھتا ہے۔ البتہ ان موارد کی تشخیص خود حاکم شرع کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔
۸۔ شوریٰ کا حصول: اجتماعی نظام میں اسلامی نقطہ نظر سے شوریٰ کی حقیقت اپنی جگہ پر مسلم ہے۔ جن مقامات پر اسلام کی طرف سے کوئی صریح حکم نہیں آیا ہے وہاں مسلمانوں کو چاہئے کہ اجتماعی غور و فکر اور باہمی مشورے سے عمل کریں۔
۹۔ مضر حکم کا نہ ہونا: اسلامی قوانین اور احکام جو مطلق اور عام ہیں اس حد تک ان پر عمل جائز ہے جہاں تک کسی ضرر و نقصان کا باعث نہ ہو قاعدہ ضرر ایک کلی قاعدہ ہے جو ہر اس قانون کے اجراء کے موقع پر ’’ویٹو‘‘ یعنی ’’تنسیخ‘‘ کا حق رکھتا ہے جب وہ ضرر و نقصان کا باعث ہو۔
۱۰۔ مفید نتیجے اور فائدے کی امتیازی حیثیت: اسلام کی نظر میں ہر کام خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی سب سے پہلے اس کے فائدے اور مفید نتیجے کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ جس کام سے کوئی فائدہ برآمد نہ ہو اسلام کی نظر میں اسے بے ہودہ فضول اور ممنوع سمجھا جاتا ہے۔ والذین ھم عن اللغو معرضون(سورہ مومنون آیت ۳)
۱۱۔ لین دین میں خیر و صلاح کا لحاظ: مال و دولت کی گردش اس کے نقل و انتقال کو ہر قسم کی بے ہودگی اور بدعنوانی سے پاک و صاف ہونا چاہئے۔ ہر نقل و انتقال کے مقابل میں کوئی مادی یا معنوی خیر و بھلائی ملحوظ خاطر ہونی چاہئے ورنہ مال کی یہ گردش باطل اور ممنوع ہو گی۔
ولاتا کلوا اموالکم بینکم بالباطل(سورہ بقرہ آیت ۱۸۸)
’’جوئے وغیرہ کے ذریعے مال کا نقل و انتقال باطل طریقے سے مال کمانے کا مصداق ہے اور حرام ہے۔ ‘‘
۱۲۔ سرمایہ جونہی گردش یا نقصان یا تباہی کی صورت سے خارج ہو کر ضمانت و غرض کی صورت اختیار کر لیتا ہے تو عقیم (فائدے سے خالی) اور بے سود ہو جاتا ہے اور اسلامی نقطہ نظر سے اس کا کوئی جائز فائدہ نہیں رہتا اور جو اضافی مقدار بھی اصل سرمائے پر لی جائے گی وہ سود اور حرام کے زمرے میں آئے گی۔
۱۳۔ ہر مالی تبادلہ اور سرمائے کی گردش طرفین کی پوری واقفیت و آگاہی ہی سے ہونی چاہئے اور ضروری سمجھا جائے گا۔
نھی النبی عن الغرر(صحیح مسلم ج ۳ ص ۱۱۵۳)
’’اپنے کو معرض ہلاکت میں ڈالنا خدعہ دھوکہ و فریب ہے۔ ‘‘
۱۴۔ خلاف عقل امور سے مقابلہ: اسلام عقل کو قابل احترام چیز اور خدا کا باطنی رسول سمجھتا ہے اصول دین عقلی و منطقی دلیل کے بغیر قابل قبول نہیں ہیں۔ فروع دین میں بھی عقل اجتہاد کے سرچشموں میں سے ایک ہے۔ اسلام عقل کو ایک قسم کی طہارت اور عقل کے زائل ہونے کو ایک طرح کا محدث ہونا سمجھتا ہے لہٰذا جنون یا مستی کا طاری ہونا بھی پیشاب کرنے یا سو جانے کی مانند وضو کو باطل کر دیتا ہے۔ اسلام ہر طرح کی مستی اور نشے کا مخالف ہے اور مطلقاً تمام نشہ آور چیزوں کے استعمال کو حرام قرار دیتا ہے کیوں کہ وہ ہر اس چیز کا مخالف ہے جو عقل کی مخالف ہو اور یہ مخالفت دین کا جزو لاینفک ہے۔ (جو چیز نہی نبوی کی عبارت میں ہے وہ ’’بیع غرری‘‘ ہے لیکن اجتہادی معیارات مطلقہ طور پر غرر و فریب کو ممنوع قرار دیتے ہیں۔ مولف)
۱۵۔ خلاف ارادہ امور سے مقابلہ: جس طرح عقل قابل احترام اور اسلامی تعلیمات میں بہت سے احکام عقل کی حفاظت و نگہبانی کے لئے ہیں اسی طرح ارادہ بھی جو عقل کی قوت مجریہ ہے قابل احترام ہے اس لحاظ سے ارادے (خیر) سے روکنے والی چیزیں جو زبان اسلام میں لہو و لعب کہلاتی ہیں بھی حرام و ممنوع ہیں۔
۱۶۔ کام اور مشغلہ: اسلام بیکاری اور کاہلی کا دشمن ہے اس لحاظ سے کہ انسان معاشرے سے استفادہ کرتا ہے کام فرد اور معاشرے دونوں کی اصلاح کا بہترین عامل اور سبب ہے اور بیکاری تباہی و فساد کا سب سے بڑا عامل ہے۔ اس لئے انسان کو مفید کام انجام دینے چاہیں۔ اسلام طفیلی ہونے اور معاشرے پر بوجھ بننے کی سخت مذمت کرتا ہے اور معاشرے پر بوجھ بننے والے پر لعنت کرتا ہے:
ملعون من القی کلہ علی الناس (وسائل ج ۱۲ ص ۱۸)
’’وہ شخص جو اپنا بوجھ لوگوں پر ڈالتا ہے۔ ‘‘
۱۷۔ پیشے اور فن و ہنر کا مقدس ہونا: پیشہ اور فن و ہنر جہاں ایک خدائی حکم ہے وہاں ایک مقدس اور پاکیزہ عمل اور اللہ کا محبوب و پسندیدہ امر بھی ہے اور جہاد کی مانند ہے۔
ان اللہ یحب المومن المحترف (وسائل ج ۱۲ ص ۱۳ ان الفاظ کے ساتھ: ان اللہ یحب المحترف الامین)
’’خداوند عالم اس مومن کو دوست رکھتا ہے جو صاحب فن و حرفت ہو۔ ‘‘
الکاد لعیالہ کالمجاہد فی سبیل اللہ(وسائل ج ۱۲ ص ۴۳ وہاں پر لعیالہ کی جگہ علی عیالہ آیا ہے)
’’جو شخص اپنے عیال کے لئے اپنے کو رنج و تکلیف میں ڈالتا ہے وہ اس شخص کی مانند ہے جو راہ خدا میں جہاد کرتا ہے۔
۱۸۔ استحصال کی ممانعت: اسلام استحصال و استثمار یعنی دوسروں کے کام سے بلاعوض یا غیر مناسب معاوضہ حاصل کرنے کو خواہ وہ کسی شکل اور کسی تدبیر سے ہونا جائز اور ممنوع قرار دیتا ہے۔ کسی کام کے ناجائز ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ یہ ثابت ہو جائے کہ وہ استحصالی ماہیت رکھتا ہے۔
۱۹۔ اسراف و فضول خرچی: لوگ اپنے اموال کے مالک ہیں اور ان پر اپنا پورا تسلط رکھتے ہیں(الناس مسلطون علی اموالھم) لیکن یہ تسلط اس معنی میں ہے کہ اسلام نے جو حدود معین کی ہیں وہ ان کے دائرے میں ہو نہ اس سے کم اور نہ اس سے زیادہ۔ مال کا ضائع کرنا ہر شکل میں اور ہر صورت سے خواہ وہ پھینک دینے کی صورت میں ہو یا تباہ کن تجملات اور زیب و زینت کی چیزوں پر تصرف کی شکل میں ہو اور جسے اسلام کی زبان میں ’’اسراف و تبذیر‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے ممنوع اور حرام ہے۔
۲۰۔ زندگی میں ترقی و توسیع: اہل و عیال کے آرام و آسائش کے لئے ضروریات زندگی کی چیزوں میں اضافہ کرنا اگر کسی کی حق تلفی یا اسراف اور فضول خرچی کی حد میں داخل نہ ہو جائے نہ صرف جائز بلکہ قابل تعریف فعل ہے اور اس کی ترغیب بھی دی گئی ہے۔
۲۱۔ رشوت: اسلام میں رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے دونوں کی سخت مذمت کی گئی ہے اور دونوں کو آتش جہنم کا مستحق قرار دیا گیا ہے اور جو پیسے اس طرح سے حاصل ہوتے ہیں وہ ناجائز اور حرام ہیں۔
۲۲۔ ذخیرہ اندوزی: اگر عام طور پر اشیائے ضرورت (خاص کر اشیائے خوردنی) کو ذخیرہ کر لیا جائے تاکہ ان کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے تو یہ عمل ان اشیاء کا مہنگا بیچنا حرام اور ممنوع ہے حاکم شرعی مالک کی خواہش اور مرضی کے خلاف ان جمع شدہ اشیاء کو بازار میں لائے گا اور انہیں عادلانہ نرخ پر فروخت کرائے گا۔
۲۳۔ آمدنی کا مصلحت کی بنیاد پر ہونا نہ کہ طلب و تقاضے کی بنیاد پر: عام طور پر چیزوں کی قدر و قیمت اور مالیت کا تعین صارفین کی طلب اور مانگ سے ہوتا ہے اور کسی کام کے جائز ہونے کے لئے اس کام کے عوام کی خواہشات کے مطابق ہونے کو کافی سمجھا جاتا ہے لیکن اسلام کسی چیز کی مالی قدر و قیمت کے تعین اور لوگوں کے کام کو جائز قرار دینے کے لئے لوگوں کی طلب اور مانگ کو کافی نہیں سمجھتا بلکہ کام کے معاشرے کی مصلحت کے مطابق ہونے کو عرف شریعت میں مالیت کے تعین اور کام کے جائز ہونے کے لئے لازمی شرط قرار دیتا ہے یعنی اسلام صرف لوگوں کی خواہشوں اور رغبتوں کو جائز آمدنی کا منبع نہیں سمجھتا بلکہ خواہشات اور رغبتوں کے علاوہ معاشرے کی مصلحت کے ساتھ آمدنی کو بھی شرط قرار دیتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اسلام لوگوں کی طلب کو رسد کے جواز کے لئے کافی نہیں جانتا اس لئے اسلام میں بعض کاموں اور کسب کے طریقوں کو ’’مکاسب محرمہ‘‘ کہا گیا ہے۔ مکاسب محرمہ (کمانے کے حرام طریقے) چند قسم کے ہیں:
(الف) چیزوں کا ایسا لین دین جو جہالت میں ڈالنے کا موجب ہو۔ ایسی چیزیں جو لوگوں کو عملاً جہالت اور فکری و اعتقادی روگردانی کی طرف راغب کرنے اور شُق دلانے کا سبب ہوتی ہیں حرام ہیں اگرچہ ان کی مانگ کافی مقدار میں ہو اس لحاظ سے بت فروشی صلیب کا بیچنا تدلیس ماشطہ (عورت کی آرائش کرنا اور اس آرائش کے ذریعے عورت کے عیوب کو چھپانا تاکہ اس کا رشتہ لینے کے لئے آنے والے فریب کھا جائیں) کسی ایسے شخص کی مدح کرنا جو اس مدح کا مستحق نہ ہو کہانت اور غیب گوئی یہ سب امور حرام ہیں اور ان طریقوں سے مال وصول کرنا بھی ممنوع اور حرام ہے۔
(ب) ان چیزوں کا باہمی تبادلہ جو گمراہ کرنے اور غفلت میں مبتلا کرنے کا باعث ہیں- گمراہ کن کتابوں اور فلموں کی خرید و فروخت اور ہر وہ کام جو کسی طرح سے بھی معاشرے کی گمراہی کا موجب ہو ناجائز اور حرام ہے۔
(ج) وہ کام جو دشمن کی تقویت کا موجب ہو کسی بھی ایسے طریقے سے روپیہ پیسہ کمانا حرام ہے جو دشمن کی بنیاد مضبوط کرنے کا باعث ہو خواہ وہ فوجی اعتبار سے ہو یا اقتصادی ثقافتی یا جاسوسی کے اعتبار سے اسلامی محاذ کو کمزور بناتا ہو چاہئے اسلحہ فروشی کی صورت میں ہو یا ایسی دوسری چیزوں کی فروخت کی شکل میں جن کی احتیاج ہو اور جو عملاً مذکورہ امور کا سبب ہوں اور نایاب قلی نسخوں کا بیچنا بھی انہی چیزوں میں شامل ہے۔
(د) ایسے امور کے ذریعے مال حاصل کرنا جو فرد یا معاشرے کے لئے تباہ کن اور نقصان پہنچانے والے ہوں مثلاً شراب فروشی آلات قمار کا بیچنا اسی طرح نجس العین چیزوں کا بیچنا اور ناقص اور ملاوٹ کی ہوئی چیزیں بھی اسی زمرے میں شامل ہیں (ان سب طریقوں سے) مال حاصل کرنا جوا کھیلنا امر حرام کی طرف دوسروں کو مائل کرنا اور لے جانا کسی مومن کی ہجو ظالموں کی مدد کرنا اور ان کی نوکری اور ملازمت وغیرہ (ممنوع اور حرام ہے) البتہ کسب حرام کی دوسری قسم بھی ہے جو کام کے خلاف مصلحت ہونے کی بناء پر نہیں بلکہ اس کے لین دین سے بالاتر ہونے کی وجہ سے حرام ہے بہت سے کام بزرگی و پاکیزگی کی ایسی حد میں ہیں کہ ان کے عوض قرار دینا ان کی حیثیت و عظمت و حرمت کے خلاف ہے جیسے فتویٰ دینے شرعی فیصلہ کرنے اصول و فروع دین کی تعلیم دینے وعظ و نصیحت کرنے اور اس جیسی دوسری چیزیں اور ممکن ہے طبابت بھی اسی میں شامل ہو۔
مذکورہ کام اور پیشے اپنے مقدس ہونے کی بناء پر لین دین اور مبادلہ سے بالاتر ہیں اور اس چیز سے کہیں بلند ہیں کہ آمدنی اور دولت کی جمع آوری کا ذریعہ بنیں یہ سب کام واجبات کا ایک سلسلہ ہیں جنہیں بلا عوض انجام پانا چاہئے البتہ مسلمانوں کا بیت المال ان مقدس کاموں کے انجام دینے والوں کی ضروریات زندگی کے اخراجات کا ذمہ دار ہو گا۔
۲۴۔ حقوق کا دفاع کرنا (خواہ انفرادی ہوں یا اجتماعی) اور زیادتی و زبردستی کرنے والے کے خلاف جہاد کرنا واجب اور مقدس کام ہے۔
لا یحب اللہ الجھر باالسوء من القول الا من ظلم(سورہ نساء آیت ۱۴۸)
’’خداوند عالم اعلانیہ طور پر بد گوئی کو پسند نہیں کرتا سوائے اس کے جس پر ظلم کیا گیا ہو۔ ‘‘
رسول اکرم کا ارشاد گرامی ہے:
افضل الجہاد کلمة عدل عند امام جائر(کافی ج ۵ ص ۶۰)
’’بہترین جہاد ظالم و جابر پیشوا کے سامنے عدل و انصاف کی بات کہنا ہے۔ ‘‘
حضرت علیؓ حضرت رسول خدا سے نقل فرماتے ہیں:
لن تقدس امة حتی یوخذ للضعیف حقہ من القوی غیر متعتع (نہج البلاغہ عہد نامہ مالک اشتر)
’’کوئی قوم و ملت بزرگی و پاکیزگی (تعریف و تمجید کی قابلیت) حاصل نہیں کرتی یہاں تک کہ اس مرحلے پر پہنچ جائے کہ کمزور اپنا حق بلا خوف اور بلا جھجک طاقتور سے لے لے۔ ‘‘
۲۵۔ اصلاح کی کوشش اور فساد و خرابی کے مقابلے میں مسلسل جدوجہد اسلام میں اچھائیوں کا حکم دینا اور اس طرف متوجہ رکھنا اور برائیوں سے روکنا وہ فریضہ ہے جو امام باقر ؓ کے مبارک الفاظ میں تمام اسلامی فرائض کا پایہ اور ستون ہے۔ یہ اصول مسلمان کو دائمی اور فکری انقلاب کے ذریعے اصلاح معاشرے کے لئے مسلسل کوشش اور تمام برائیوں اور تباہ کاریوں سے جنگ کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
کنتم خیر امة اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنھون عن المنکر(سورہ آل عمران آیت ۱۱۰)
’’تم بہترین گروہ ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کئے گئے ہو تم نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے منع کرتے ہو۔ ‘‘
جناب رسالت مآب فرماتے ہیں:
لتا مرون بالمعروف و تنھون عن المنکر او یسلطن اللہ (علیکم) شرار کم فید عو اخیار کم فلا یستجاب لھم(کافی ج ۵ ص ۵۶ کچھ کمی بیشی کے ساتھ)
’’تم لوگوں کو امر بالمعروف کرنا چاہئے برائیوں سے روکنا چاہئے ورنہ خداوند عالم تمہارے بروں کو تم پر مسلط کر دے گا پھر تمہارے نیک لوگ دعا کریں گے تو مستجاب نہیں ہو گی۔ ‘‘
۲۶۔ توحید: اسلام ہر چیز سے زیادہ دین توحید ہے توحید کے بارے میں کسی خدشے کو چاہے وہ توحید نظری میں ہو یا توحید عملی میں قبول نہیں کرتا اسلامی افکار رفتار اور کردار سب خدا سے شروع ہوتے ہیں اور خدا ہی پر ختم ہوتے ہیں اس لحاظ سے اسلام ہر قسم کی ثنویت تثلیت یا کسی بھی قسم کی زیادتی کو جو اس اصول کو مخدوش کرتی ہو سختی کے ساتھ مسترد کرتا ہے جیسے (معاذ اللہ) خدا اور شیطان کی ثنویت یا خدا اور انسان کی دوئیت یا خدا اور مخلوق خدا کی دوئیت۔
ہر کام کو اللہ کے نام سے خدائی فکر کے ساتھ اور اللہ سے تقرب و نزدیکی حاصل کرنے کے لئے شروع ہونا چاہئے اور انجام کو پہنچنا چاہئے اور جو کام اس کے علاوہ ہو گا وہ اسلامی کام نہیں ہے اسلام میں تمام راہیں توحید پر ختم ہوتی ہیں۔ اخلاق اسلامی کا سرچشمہ توحید ہے اور یہ توحید ہی پر ختم ہوتا ہے۔ اسلامی تربیت بھی اسی طرح ہے سیاست اسلامی اقتصاد اسلامی اور اجتماع اسلامی سب اسی طرح اسلام سے وابستہ ہیں۔ اسلام میں ہر کام خدا کے نام سے اور اسی کی استعانت سے شروع ہوتا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
’’اور خدا کے نام اور اس کی حمد پر ختم ہوتا ہے۔ ‘‘
الحمدللہ رب العالمین
’’اور خدا کے نام سے اور اسی پر اعتماد سے ہر کام جاری ہوتا ہے۔ ‘‘
توکلت علی اللہ وعلی اللہ فلیتو کل المومنون
(سورہ ہود آیت ۵۶ اور سورہ آل عمران آیت ۱۲۲)
’’ایک حقیقی مسلمان کی توحید ایک خیال اور خشک عقیدہ نہیں ہے جس طرح ذات خدا پنی مخلوقات سے جدا نہیں ہے بلکہ سب کے ساتھ ہے اور سب پر محیط ہے۔ ساری چیزیں اسی سے شروع ہوتی ہیں اور اسی پر ختم ہوتی ہیں۔ ‘‘
اسی طرح توحید کا تصور بھی ایک حقیقی موحد کے پورے وجود پر محیط ہوتا ہے اس کے تمام افکار و خیالات اس کی تمام قوتوں اور اس کے طور طریقوں پر سایہ فگن ہو جاتا ہے اور ان سب کی ایک خاص سمت کی طرف رہنمائی کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ ایک حقیقی مسلمان کے کام کی ابتداء انتہا اور وسط اللہ کی ذات ہوتی ہے اور وہ کسی چیز کو اللہ کا شریک قرار نہیں دیتا۔
۲۷۔ واسطوں کی نفی: اسلام اگرچہ نزول فیض میں واسطوں اور ذریعوں کو قبول کرتا ہے اور علت و معلول کے نظام کو خواہ وہ امور مادی ہوں اور خواہ امور معنوی میں حقیقی اور واقعی شمار کرتا ہے مگر پرستش اور عبادت کی منزل میں تمام وسائل اور ذرائع کو مسترد کر دیتا ہے جیسا کہ ہم سب اس چیز سے بخوبی آگاہ ہیں کہ تحریف شدہ مذاہب میں فرد (یعنی انسان انفرادی حیثیت سے) خدا سے براہ راست رابطہ اور تعلق کی قدر و قیمت اپنے ہاتھ سے کھو چکا ہے خدا اور بندے کے درمیان جدائی فرض کر لی گئی ہے صرف کاہن یا روحانی پیشوا براہ راست خدا کے ساتھ راز و نیاز کر سکتا ہے اور پس اسی کو حق ہے کہ دوسرے تمام لوگوں کے پیغامات کو خدا تک پہنچائے۔ اسلام میں یہ کام ایک طرح کا شرک گنا جاتا ہے قرآن کریم صراحت کے ساتھ کہتا ہے:
’’(اے حبیب) اگر میرے بندے میرے بارے میں تم سے سوال کریں تو کہہ دو! میں نزدیک ہوں میں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں۔ ‘‘
۲۸۔ اہل توحید کے ساتھ باہمی زندگی کا امکان: اسلام کی نظر میں تمام مسلمان اپنے ملک میں دوسرے ادیان کے ماننے والوں اور پیروکاروں کے ساتھ جو اصول توحید کو قبول کرتے ہیں جیسے یہودی عیسائی اور مجوسی اگرچہ فی الحال وہ توحید سے منحرف ہی ہوں پھر بھی چند مخصوص شرائط کے ساتھ ان کے ہمراہ زندگی گزار سکتے ہیں۔
لیکن اسلامی ملک کے اندر مشرک کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتے مسلمان اسلام کی اعلیٰ مصلحتوں کی بنیاد پر مشرکین کے ساتھ صلح و صفائی اور امن کے ساتھ زندگی گزارنے کے لئے معاہدہ کر سکتے ہیں یا کسی خاص مسئلے پر بھی معاہدہ کر سکتے ہیں۔
۲۹۔ مساوات: اسلامی آئیڈیالوجی کے اصول و ارکان مساوات اور غیر امتیازی سلوک ہے۔ اسلام کی نظر میں سب انسان اپنی ذات کے لحاظ سے برابر ہیں اور لوگ اس اعتبار سے دو یا کئی قسموں میں پیدا نہیں کئے گئے ہیں رنگ خون نسل و قومیت بلندی و برتری کے معیار نہیں ہیں۔ سید قریشی اور سیاہ حبشی دونوں برابر ہیں۔ اسلام میں آزادی جمہوریت اور عدل و انصاف انسانوں کی برابری اور مساوات کا نتیجہ اور ثمرہ ہے۔
اسلامی نظریے کے مطابق صرف چند محدود و معین حالات میں افراد کے بعض حقوق خود انہی افراد اور معاشرے کی چند مصلحتوں کے پیش نظر وقتی طور پر سلب ہوتے ہیں لیکن یہ چیز افراد کے جوہر ذات خون نسل اور مقام سے کوئی تعلق نہیں رکھتی غلاموں کی غلامی کا وقتی اور عارضی دور جو اسلام کی نظر میں ثقافتی تعلیمی اور تربیتی پہلو رکھتا تھا نہ کہ اقتصادی اور حصول نفع کا پہلو اور وہ دور اسلامی تربیت کے لئے ایک پرورش گاہ کی حیثیت رکھتا تھا۔
۳۰۔ اسلام میں حقوق شرعی ذمہ داریاں اور سزائیں دو جنسوں کے لحاظ سے ہیں یعنی جس طرح انسانیت میں مرد و زن مشترک ہیں اور نوعی مشترکات رکھتے ہیں لیکن ان کی جنسیت (یا صنفیت) ان کو خاص فرعی امتیاز عطا کر دیتی ہے اسی طرح حقوق شرعی ذمہ داریاں اور سزائیں بھی جہاں تک دو جنسوں کی مشترکات کے ساتھ مربوط ہیں مشترک اور مساوی ہیں مثلاً تحصیل علم کا حق عبادت و پرستش کا حق شریک حیات کے انتخاب کا حق ملکیت کا حق اپنی مملوکہ چیزوں میں تصرف کا حق وغیرہ اور جہاں تک یہ فرعی مختصات اور جنسیت سے مربوط ہیں تو وہاں بھی برابر اور مساوی حالت تو ہوتی ہے لیکن ایک دوسرے سے مشابہت اور یکسانیت کی صورت نہیں ہوتی اور دو جنسیت ہوتی ہے۔ (ملاحظہ فرمائیں مولف کی کتاب ’’اسلام میں خواتین کے حقوق‘‘)
انسان کی شناخت
انسان اپنی بھی شناخت رکھتا ہے اور دنیا کی بھی، اور یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور دنیا کو اس سے بھی زیادہ پہچانے، کیوں کہ اس کا تکامل، ترقی اور سعادت اپنی دو صورتوں کی مرہون ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان دونوں صورتوں میں کس کی اہمیت زیادہ ہے اور کس کی کم؟ لیکن اس سوال کا جواب اتنا آسان نہیں۔
بعض لوگ ’’خود شناسی‘‘ کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور بعض ’’دنیا شناسی‘‘ کو، مشرقی اور مغربی طرز فکر میں اختلافات کی ایک وجہ وہ دو طرح کے جوابات ہیں جو اس سوال کے دیئے جاتے ہیں، جیسا کہ علم اور ایمان میں فرق کی ایک وجہ بھی یہی ہے کہ علم دنیا شناسی کا ذریعہ ہے اور ایمان خود شناسی کا سرمایہ ہے۔
البتہ علم کی کوشش یہ ہوتی ہے جس طرح انسان کو دنیا شناسی تک پہنچاتا ہے اسی طرح اس کو ’’خود شناسی‘‘ میں بھی مدد دے اور علم النفس کی یہی ذمہ داری ہے لیکن علم جس طرح کی خود شناسی کا ذریعہ ہے، وہ خود شناسی بالکل مردہ اور بے جان ہے، اس سے نہ تو دلوں میں ولولہ پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی انسان کی خوابیدہ قوتیں بیدار ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس جس ’’خود شناسی‘‘ کے حصول کا ذریعہ دین اور مذہب ہے اور اس میں ایمان کی آمیزش ہوتی ہے وہ اپنی ایمانی قوت سے وجود انسان کو گرما دیتی ہے۔ یہ وہ خود شناسی ہے جو انسان کو اس کی حقیقی ذات سے آشنا کرتی، اس کو غفلت سے بیدار کرتی، اس کی روح کو گرماتی اور اس کو درد مند اور درد آشنا بناتی ہے اور یہ کام سائنس اور فلسفہ کے بس کی بات نہیں۔
بلکہ بعض اوقات سائنس اور فلسفہ انسان کو غفلت اور خود فراموشی کے سپرد کر دیتے ہیں اور اسی لئے اس دنیا میں جہاں بہت سے بے درد اور خود فراموش شکم پرست سائنس دان اور فلسفی ملتے ہیں تو وہاں بہت سے خود شناس ان پڑھ بھی نظر آتے ہیں۔
خود شناسی کی دعوت مذہبی تعلیم کا برنامہ کلام ہے۔ مذہب کہتا ہے خود کو پہچان لو تاکہ اپنے خدا کو پہچان سکو ’’اور اپنے خدا کو فراموش نہ کرو ورنہ خود کو بھی بھول جاؤ گے‘‘ قرآن حکیم میں آیا ہے:
ولا تکونوا کاالذین نسوا اللہ فانسیھم انفسھم اولئک ھم الفاسقون(سورۂ حشر، آیت ۱۹)
’’اور ان لوگوں کی مانند نہ ہونا جو خدا کو بھول گئے پھر خدا نے ان کے لئے ان کی جانیں بھلا دیں، یہ لوگ وہی فاسق لوگ ہیں جو اپنے آپ کو بھول چکے ہیں۔ ‘‘
حضرت رسول اکرم نے فرمایا:
من عرف نفسہ فقد عرف ربہ (بحارالانوار، ج ۹۱، ص ۹۹)
’’جو کوئی اپنے آپ کو پہچان لیتا ہے، وہ اپنے خدا کو پہچان لیتا ہے۔ ‘‘
حضرت علیؓ نے فرمایا:
معرفة النفس انفع المعارف (غدرالحکم طبع بیروت، ج ۲، ص ۲۸۸)
’’خود شناسی مفید ترین شناخت ہے۔ ‘‘
اور انہوں نے ہی فرمایا:
عجبت لمن ینشد ضالة کیف لا ینشد نفسہ(غدرالحکم، ج ۶، ص ۳۹)
’’تعجب ہے اس شخص پر جو اپنے پاس سے کوئی چیز گم کر دیتا ہے، تو تلاش کرتا ہے لیکن اپنے آپ کو گم کر دینے کے بعد تلاش نہیں کرتا۔ ‘‘
دانشوروں نے مغربی تہذیب کے جو بنیادی عیوب بیان کئے ہیں وہ یہ ہیں کہ یہ تہذیب دنیا شناسی اور خود فراموشی کی تہذیب ہے۔
انسان اس تہذیب کے ذریعے ’’دنیا شناس‘‘ تو ہو جاتا ہے، لیکن وہ جتنا زیادہ ’’دنیا شناس‘‘ ہوتا ہے، اتنا ہی زیادہ خود کو بھول بھی جاتا ہے، مغرب میں انسانیت کی پستی کا اصل راز یہی ہے۔
جب انسان قرآنی عبارت میں اپنے آپ کو ہار جاتا ہے (خسران نفس) تو دنیا کو پا لینا اس کے کس کام آ سکتا ہے۔ میرے خیال میں جس نے اس زاویے سے سب سے بہتر انداز میں مغرب پر تنقید کی ہے، ہندوستان کے آنجہانی لیڈر مہاتما گاندھی ہیں۔ گاندھی کہتے ہیں:
’’اہل مغرب وہ بڑے کام کرنے پر قادر ہیں، جو دوسری قوموں کے نزدیک خدا کی قدرت ہی میں ہیں۔ لیکن مغربی لوگ ایک چیز سے محروم ہیں اور وہ باطن شناسی ہے اور صرف یہی بات مغربی جدید تہذیب کی جھوٹی چکا چوند کے کھلے پن کے ثبوت کے لئے کافی ہے۔ ‘‘
مغربی تہذیب نے اگر اہل مغرب کو شراب خوری اور جنسی اختلاط میں مبتلا کیا ہے تو اس لئے کہ وہ بجائے اس کے کہ اپنے آپ کو تلاش کریں اپنی ذات سے غفلت اور اسے بھلا دینے کے درپے ہیں، اکثر ان کے بہت بڑے کام حتیٰ کہ ان کے نیک اعمال کا نتیجہ بھی خود فراموشی اور بے ہودگی ہے۔ ان کی تمام قوت عمل، ایجادات، اختراعات اور جنگی وسائل کے مہیا کرنے پر صرف ہوتی ہے، جس کی بنیاد اپنے آپ سے فرار ہے نہ اپنے آپ پر حکومت اور اپنے نفس پر تسلط۔
جب انسان اپنی روح کو گم کر دے تو دنیا کو فتح کر لینا اس کے کس کام آ سکتا ہے؟ گاندھی کہتے ہیں:
’’دنیا میں صرف ایک ہی حقیقت ہے اور وہ ہے ’’خود شناسی‘‘ جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے خدا اور دوسروں کو بھی پہچان لیا، جس نے اپنے آپ کو نہیں پہچانا، اس نے کسی چیز کو بھی نہیں پہچانا۔ دنیا میں صرف ایک طاقت ایک آزادی اور ایک عدالت موجود ہے اور وہ اپنے آپ پر حکومت کرنے کی قوت ہے، جس نے اپنے آپ پر غلبہ پایا، وہ دنیا پر بھی غالب آ گیا، دنیا میں صرف ایک ہی نیکی کا وجود ہے اور وہ یہ کہ انسان دوسروں سے اسی طرح محبت کرے، جس طرح اپنے آپ سے کرتا ہے، بالفاظ دیگر ہمیں چاہئے کہ دوسروں کو بھی اپنی طرح سمجھیں، باقی مسائل تصور، وہم اور عدم ہیں۔ ‘‘
(فارسی کتاب ’’این است مذہب من‘‘، مقدمہ)
بہرحال ہم خواہ خود شناسی کو زیادہ اہمیت دیں یا دنیا شناسی کو اور خواہ دونوں کو برابر کا درجہ دیا جائے، امر مسلم یہ ہے کہ شناخت کی وسعت عین انسانی زندگی کی وسعت ہی ہے۔ روح اور شناخت ایک دوسرے کے مساوی ہیں اور آگاہی و شناخت روح کے مساوی، جو انسان زیادہ شناخت رکھتا ہے، اس کی روح بھی زیادہ قوی ہے۔
مولانا رومی فرماتے ہیں:
جان نباشد جز ’’خبر‘‘ در آزمون
ہر کہ را افزوں ’’خبر‘‘ جانش فزون
جان ما از جان حیوان بیشتر
ازچہ؟ زان روکہ فزون دارد خبر
پس فزون از جان ما جان ملک
کو منزہ شد ز حس مشترک
و ز ملک جان خداوندان دل
باشد افزون تو تجبررا بھل
زان سبب آدم بود مسجود شان
جان او افزون تر است از بود شان
ورنہ بہتر را سجود دون تری
امر کردن ھیچ نبود در خوری
کی پسندد لطف و عدل کردگار
کہ گلی سجدہ کند درپیش خار
شد مطیعش جان جملہ چیزھا
جان چو افزوں شدگشتہ از انتہا
مرغ و ماہی و پری و آدمی
زانکہ او بیش است و ایشان در کمی
جان چہ باشد؟ با خبر از خیر و شر
شاد از احسان وگریان از ضرر
چون سر و ماہیت جان مخبر است
ہر کہ او آگاہ تر با جان تر است
اقتضای جان چو ای دل آگہی است
ہر کہ آگہ تر بود جانش قوی است
روح را تاثیر آگاہی بود
ہر کہ را این بیش اللہی بود
چون جہان جان سراسر آگہی است
ہر کہ بی جان است از دانش تہی است
٭آزمائش میں روح سوائے شناخت کے کوئی اور چیز نہیں، جس کی شناخت زیادہ ہے اس کی روح زیادہ قوی ہے۔
٭ہماری روح حیوان کی روح سے زیادہ قوی ہے کیوں؟ اس لئے کہ اس کی شناخت زیادہ ہے۔
٭ہماری روح سے فرشتے کی روح زیادہ قوی ہے کیوں کہ وہ انسان اور حیوان میں مشترک احساسات سے پاک ہے۔
٭ اور اہل دل کی روحیں فرشتوں کی روحوں سے بھی قوی ہیں، تو اس پر حیران مت ہو۔
٭آدم اس لئے ان کا مسجود ہوا کہ اس کی روح ان کے وجود سے زیادہ قوی ہے ورنہ بہتر کا کمتر کو سجدہ کرنے کا حکم دینا مناسب نہیں۔
٭اللہ کے عدل اور مہربانی کے نزدیک یہ صحیح نہیں کہ پھول کانٹے کے سامنے سجدہ کرے، جب روح زیادہ قوی ہو گئی تو وہ حد سے گذر گئی اور تمام دوسری ر وحیں اس کی مطیع ہو گئیں۔
٭ اس لئے کہ پرندے، مچھلیاں اور پریاں اس سے کمتر ہیں اور وہ ان سب سے بلند مرتبہ ہے، روح کیا ہے؟ وہ نیکی اور بدی سے باخبر ہے جو احسان سے خوش ہوتی اور نقصان سے روتی ہے۔
٭ چونکہ روح کا راز اور اس کی ماہیت کی خبر دی گئی ہے، اس لئے جو اس سے زیادہ آگاہ ہے اس کی روح زیادہ قوی ہے۔
٭اے دل، چونکہ روح کا تقاضا شناخت ہے، اس لئے جو انسان زیادہ شناخت رکھے گا اس کی روح زیادہ قوی ہے۔
٭روح کی تاثیر آگاہی سے ہے، اس لئے جس انسان کی آگاہی زیادہ ہے وہ خدائی ہے چونکہ روح کی دنیا مکمل آگاہی ہے اس لئے جو بے روح ہے علم و دانش سے عاری ہے۔
لہٰذا جو انسان جتنا اپنے آپ سے اور دنیا سے زیادہ آگاہ ہے، اس کی روح اتنی ہی زیادہ قوی ہے، فلاسفہ کی اصطلاح میں جاندار ہونا حقیقت مشککہ ہے یعنی اس کے درجات اور مراتب ہیں۔
جوں جوں انسان کی آگاہی کا درجہ بڑھتا جاتا ہے، اس کی حیات اور جانداری کا درجہ بھی بڑھتا جاتا ہے۔
ظاہر ہے کہ زیربحث ’’خود شناسی‘‘، ’’شناختی کارڈ‘‘ والی خود شناسی نہیں ہے، جس میں لکھا ہوتا ہے کہ میرا نام کیا ہے؟ میرے ماں باپ کا نام کیا ہے؟ میری جائے پیدائش کون سی ہے؟ اور میری سکونت کہاں ہے؟ اور اسی طرح سے زیر بحث ’’خود شناسی‘‘ حیاتیات کی شناخت بھی نہیں ہے جو حیوانات کی شناخت میں انسان کو ریچھ یا بندر سے بالاتر درجے کا ایک حیوان قرار دے۔
اس مقصد کی مزید وضاحت کے لئے ہم یہاں ’’حقیقی خود شناسی‘‘ کی اقسام مختصراً بیان کرتے ہیں، مجازی خود آگاہی سے قطع نظر خود شناسی کی چند اقسام ہیں:
۱۔ فطری خود شناسی
انسان ذاتاً خود شناس ہے، یعنی اس کی ذات کا جوہر ہی آگاہی ہے، لیکن ایسا نہیں ہے کہ پہلے انسان کا جوہر ذات وجود میں آئے اور اس کے بعد انسان اس سے آگاہ ہو، بلکہ اس کے جوہر ذات کی پیدائش ہی اس کی خود آگاہی کی پیدائش ہے اور اس مرحلے میں آگاہ ’’آگاہی‘‘ اور درجہ آگاہی میں آیا ہوا، تینوں ایک ہی چیز ہیں۔ جوہر ذات وہ حقیقت ہے جو عین خود آگاہی ہے۔
دوسری چیزوں سے کم و بیش آگاہی کے بعد والے مراحل میں اپنے بارے میں بھی اسے اسی طرح سے آگاہی حاصل ہوتی ہے یعنی اپنے بارے میں انسان ذہن میں ایک تصور قائم کر لیتا ہے اور اصطلاحی الفاظ میں علم حصولی کے ذریعے خود سے آگاہ ہوتا ہے، لیکن اس طرح کی آگاہی سے قبل بلکہ ہر طرح کی دوسری چیزوں کی شناخت سے قبل اپنے بارے میں وہ علم حضوری رکھتا ہے جیسا کہ پہلے بیان ہوا۔
ماہرین نفسیات عموماً خود شناسی کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں، ان کے پیش نظر دوسرا مرحلہ ہوتا ہے یعنی علم حصولی اور ذہنی کے ذریعے خود شناسی لیکن فلاسفہ کی نظر زیادہ تر علم حضوری کے مرحلے پر ہوتی ہے نہ علم ذہنی پر۔ شناخت کی یہ قسم وہی ہے جو فلسفہ میں تجرد نفس کی مضبوط ترین دلیل کے طور بیان کی جاتی ہے۔
اس قسم کی خود شناسی میں اس طرح کے شک و تردد کی گنجائش نہیں ہوتی کہ میں موجود ہوں یا نہیں؟ اور اگر موجود ہوں تو کون ہوں؟ شک و تردید کی گنجائش وہاں ہوتی ہے، جہاں شناخت علم حصولی کا نتیجہ ہو یعنی شناخت شدہ شے کا عینی وجود اور شناخت کا عینی وجود دو مختلف چیزیں ہوں۔
لیکن جہاں شناخت، شناخت کنندہ اور شناخت شدہ تینوں ایک ہی چیز ہوں تو یہ شناخت حضوری ہو گی جس میں شک و تردد کو فرض نہیں کیا جا سکتا یعنی شک کا واقع ہونا وہاں وہاں محال ہے۔
ڈیکارٹ کی بنیادی غلطی ہی یہی ہے کہ اس نے اس بات پر توجہ ہی نہیں کی کہ ’’میں ہوں‘‘ شک و تردد سے مبرا ہے جو ہم ’’شک‘‘ کو ’’میں سوچتا ہوں‘‘ سے دور کریں۔
فطری خود شناسی اگرچہ ایک واقعیت ہے لیکن اکتسابی اور حصولی نہیں ہے بلکہ وجود انسان کی ذات کا ایک پرتو اور عکس ہے۔ اسی لئے وہ خود شناسی جس کی دعوت دی گئی ہے، خود شناسی کا ایسا درجہ نہیں جو فطرت کی حرکت جوہری کے نتیجے میں تکوینی اور قہری طور پر وجود میں آتی ہے۔ جہاں پر قرآن حکیم نے رحم مادر میں بچے کی خلقت کے تین مراحل بیان کرتے ہوئے آخری مرحلے کے بارے میں فرمایا:
ثم انشاء ناہ خلقاً آخر(سورۂ مومنون، آیت ۱۴)
’’پھر ہم نے اسے ایک اور چیز سے اور ایک اور خلقت سے کر دیا۔ ‘‘
اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ مادہ انجانے طور پر خود شناس روحی جوہر میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
۲۔ فلسفی خود شناسی
فلسفی کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ ’’ذات خود شناس‘‘ کی حقیقت کو پہچانے کہ وہ کیا ہے؟ آیا وہ ’’جوہر‘‘ ہے یا ’’عرض‘‘؟ وہ مجرد ہے یا مادی؟ اس کا جسم سے کیا تعلق ہے؟ کیا وہ جسم سے پہلے موجود تھا، یا جسم کے ساتھ وجود میں آیا؟ یا خود جسم سے نکلا ہے؟ کیا وہ فنائے جسم کے بعد بھی باقی رہتا ہے یا نہیں؟ اور اس طرح کے اور سوالات۔
خود شناسی کی اس سطح پر جو سوال پیش آتا ہے وہ یہ ہے کہ خود اور ذات کی ماہیت اور حقیقت کیا ہے؟ وہ کیا ہے اور کس جنگ سے ہے؟ اگر فلسفی ’’خود شناسی‘‘ کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ذات کی ماہیت، جوہر اور جنس کو پہچانتا ہے۔
۳۔ دنیوی خود شناسی
یعنی انسان کے دنیا سے تعلق کی شناخت کہ میں کہاں سے آیا ہوں؟ کہاں ہوں؟ اور کہاں جا رہا ہوں؟ اس ’’خود شناسی‘‘ سے اس پر یہ انکشاف ہوتا ہے کہ وہ اس ’’کل‘‘ کا ایک ’’جزو‘‘ ہے جس کا نام ’’دنیا‘‘ ہے وہ جانتا ہے کہ وہ خود کسی مستقل حیثیت کا ملک نہیں بلکہ وہ کسی دوسری چیز سے ملحق ہے۔ وہ اپنی مرضی سے نہ خود وجود میں آیا ہے اور نہ ہی زندگی بسر کر رہا ہے البتہ وہ یہ چاہتا ہے کہ اپنے اس ’’جزو‘‘ کو اس ’’کل‘‘ میں معین کر دے۔
حضرت علیؓ کے اس پرمغز کلام سے اس قسم کی خود شناسی کی عکاسی ہوتی ہے:
رحم اللہ امرء علم من این؟ وفی این؟ والی این؟
’’خدا اس پر رحمت کرے جو یہ جان لے کہ وہ کہاں سے آیا ہے؟ وہ کہاں ہے؟ اور کہاں جا رہا ہے؟‘‘
اس طرح کی ’’خود شناسی‘‘ انسان میں ایک لطیف ترین اور با عظمت ترین درد پیدا کرتی ہے، جو اس کائنات کی دوسری ذی روح چیزوں میں نہیں پایا جاتا اور وہ درد ہے ’’حقیقت رکھنے‘‘ کا درد اور یہی وہ خود شناسی ہے جو ان کو حقیقت کا پیاسا اور یقین کا متلاشی بناتی ہے، شک و تردد کی آگ اس کی روح میں روشن کرتی ہے، اس کو ادھر سے ادھر کھینچتی ہے اور یہ وہی آگ ہے جو امام غزالی(سچی کہانیاں) جیسے انسان کی روح میں روشن ہوتی ہے، جس سے ان کی بھوک اور نیند اڑ جاتی ہے، ان کو نظامیہ کی مسند سے نیچے کھینچ لاتی اور بیابانوں میں آوارہ کرتی ہے اور سالہا سال تک عالم غربت اور بے وطنی میں تدبر اور تفکر میں مصروف رکھتی ہے۔
یہ وہی آگ ہے جو ’’عنوان بصری‘‘(سچی کہانیاں) جیسے انسانوں کو حقیقت کی تلاش میں شہر شہر اور کوچہ کوچہ گھومنے پر مجبور کر دیتی ہے اس طرح کی خود شناسی انسان میں تقدیر کا خیال پیدا کرتی ہے۔
۴۔ طبقاتی خود شناسی
یہ خود شناسی ’’اجتماعی خود شناسی‘‘ کی مختلف صورتوں میں سے ایک ہے۔ طبقاتی خود شناسی یعنی معاشرے کے مختلف طبقات سے اپنے تعلق کی شناخت جن کے ساتھ وہ زندگی بسر کرتا ہے، طبقاتی معاشروں میں ہر فرد کی ایک خاص ٹولی ہے اور ایک خاص طبقہ میں کامیاب یا ناکام زندگی بسر کرتا ہے، طبقاتی مقام اور طبقاتی ذمہ داریوں کی پہچان طبقاتی ’’خود شناسی‘‘ ہے۔
بعض نظریات کی رو سے انسان کا اس طبقے سے باہر کوئی ’’خود‘‘ موجود نہیں جس میں وہ ہے، ہر شخص کی ذات، اس کا ضمیر ہے اور اس کے احساسات، افکار، آلام اور میلانات کا مجموعہ ہیں اور یہ سب طبقاتی زندگی میں پیدا ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس گروہ کے نزدیک نوع انسان کی کوئی ذات نہیں ہوتی وہ ایک انتزاع شدہ انسان ہے نہ عینی انسان، کیوں کہ عینی انسان تو طبقے میں معین ہو جاتا ہے، انسان موجود نہیں ہوتا بلکہ یا اشراف ہوتے ہیں یا عوام، لہٰذا ایک غیر طبقاتی معاشرے میں اجتماعی خود شناسی، طبقاتی خود شناسی پر منحصر ہے۔
اس نظریے کے مطابق ’’طبقاتی خود شناسی‘‘، ’’نفع شناسی‘‘ کے مساوی ہے، کیوں کہ اس کی بنیاد یہ فلسفہ ہے کہ ’’فرد‘‘ پر اصل حاکم اور فرد کی شخصیت کی بنیاد ’’مادی منافع‘‘ ہے جس طرح سے معاشرے کی عمارت میں اس کی بنیاد اقتصاد ہے اور جو چیز ایک طبقے کے افراد کو مشترک ضمیر، مشترک ذوق اور مشترک فیصلہ دیتی ہے وہ مشترک مادی زندگی اور مشترک منافع ہیں، طبقاتی زندگی انسان کو طبقاتی نقطہ نظر عطا کرتی ہے اور طبقاتی نقطہ نظر اس چیز کا باعث ہوتا ہے کہ انسان دنیا اور معاشرے کو خاص زاویے اور خاص عینک سے دیکھے اور اسے طبقاتی نظر سے پیش کرے۔ اس کے اندر درد بھی طبقاتی ہوتا ہے اور اس کی کوششیں اور طرز تفکر بھی طبقاتی ہوتا ہے۔
مارکسزم اس طرح کی خود شناسی کا قائل ہے اس طرح کی خود شناسی کو مارکسزم کی خود شناسی کہا جا سکتا ہے۔
۵۔ قومی خود شناسی
قومی خود شناسی سے مراد اپنے بارے میں ایسی خود شناسی ہے جو انسان اور اس کی اپنی قوم کے دیگر افراد سے تعلق اور ربط کے سلسلے میں ہو، ایک طبقے کے افراد کے آداب، قوانین، تاریخ، تاریخی فتوحات اور شکستیں، زبان، ادبیات اور تہذیب مشترک ہو تو ان کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے نتیجے میں انسان میں ان لوگوں کے ساتھ ایک طرح کی یگانگت اور ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے، بلکہ جس طرح ایک فرد ایک شخصیت کا مالک ہوتا ہے۔ ایک قوم بھی ایک تہذیب کی حامل ہونے کی بناء پر ایک ملی شخصیت پیدا کر لیتی ہے۔ مشترک تہذیب سے افراد کے درمیان مشترک قومیت کی نسبت زیادہ شباہت اور وحدت پیدا ہوتی ہے، ایسی قومیت جس کی بنیاد تہذیب اور ثقافت پر ہو، افراد کو اجتماع اور وحدت میں بدل دیتی ہے اور اسی اجتماع اور وحدت کی خاطر قربانی دیتی ہے، اجتماع کی کامیابی سے اس میں فخر اور شکست سے شرمندگی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔
’’ملی خود شناسی‘‘ یعنی قومی ثقافت سے آگاہی، ملی شخصیت کی شناخت قومیت کے اجتماعی احساس کی شناخت ہے، بنیادی طور پر دنیا میں ’’ایک ثقافت‘‘ نہیں بلکہ ’’ثقافتیں‘‘ موجود ہیں اور ہر ثقافت کی ایک خاص ماہیت، خصوصیت اور پہچان ہوتی ہے لہٰذا صرف ایک ثقافت کا نعرہ کھوکھلا اور بے معنی ہے۔ نیشنلزم (قومیت) جس نے بالخصوص انیسویں صدی عیسوی میں بہت رواج پایا ہے اور اب بھی کم و بیش اس کی ترویج کا سلسلہ جاری ہے، اسی فلسفے پر مبنی ہے اس طرح کی ’’خود شناسی‘‘ میں ’’طبقاتی خود شناسی‘‘ کے برعکس، جس میں ہر قسم کے اندازے، جذبات، فیصلے اور طرف داریوں کا رجحان طبقاتی ہوتا ہے، قومی جذبہ کارفرما ہوتا ہے۔
’’ملی خود شناسی‘‘ اگرچہ ’’منافع خود شناسی‘‘ نہیں ہے تاہم یہ ’’خود خواہی‘‘ کے جذبے سے خالی نہیں ہوتی، اس میں ’’خود خواہی‘‘ کے تمام عیب جیسے تعصب، جانبداری کا احساس، اپنے عیوب نہ دیکھنا، اپنے آپ پر اترانا اور خود پسندی وغیرہ پائے جاتے ہیں، اس لئے یہ بھی ’’طبقاتی خود شناسی‘‘ کی مانند اخلاقی صفات سے عاری ہوتی ہے۔
۶۔ انسانی خود شناسی
یعنی دوسرے انسانوں کے لحاظ سے انسان کی اپنے بارے میں شناخت، اس خود شناسی کا انحصار اس فلسفے پر ہے کہ تمام انسان مجموعی طور پر ایک اکائی ہیں اور ایک مشترک انسانی ضمیر رکھتے ہیں، اس لئے انسان دوستی اور اس کی طرف میلان کا احساس ہر انسان میں پایا جاتا ہے۔
سعدی شیرازی کے بقول:
بنی آدم اعضای یک پیکر اند
کہ در آفرینش زیک گوہر اند
چو عضوی بدرد آورد روزگار
عضوھا را نماند قرار
تو کز محنت دیگران بی غمی
نشاید کہ نامت نھند آدمی
بنی آدم ایک ہی جسم کے اعضاء ہیں، اس لئے کہ وہ خلقت میں ایک ہی جوہر سے ہیں۔
جب زمانہ ایک حصے کو درد میں مبتلا کرتا ہے، تو دوسرے اعضاء بھی بے چین اور بے قرار ہو جاتے ہیں تو جو کہ دوسروں کی مصیبت سے بے غم ہے، تجھے انسان کہنا نامناسب ہے، وہ لوگ جو کانٹ کی مانند ’’دین انسانیت‘‘ کی تلاش میں تھے اور اب بھی ہیں، اسی طرز فکر کے حامل ہیں۔ ہیومانزم (Humanism) کا فلسفہ جو ہمارے زمانے میں بھی کم و بیش رائج ہے اور بہت سے روشن فکر اشخاص جس کے مدعی ہیں، یہی ہے۔ یہ فلسفہ انسان کو گروہوں، قومیتوں، تہذیبوں، مذہبوں، رنگوں اور نسلوں سے بالاتر ہو کر انسانوں کو ایک ’’اکائی‘‘ کی صورت میں دیکھتا ہے اور ان کے درمیان ہر قسم کی تفریق اور امتیازات کی نفی کرتا ہے، وہ منشور جو ’’حقوق انسانی‘‘ کے نام سے شائع ہوئے ہیں، اسی فلسفہ پر مبنی ہیں اور دنیا میں اسی طرح کی خود شناسی کی ترویج کرتے ہیں۔
اگر اس طرح کی ’’انسانی خود شناسی‘‘ ایک فرد میں پیدا ہو جائے تو اس کا درد انسانیت کا درد اور اس کی آرزوئیں انسانیت کی آرزوئیں بن جاتی ہیں۔ اس کا میلان انسانی میلانات کی صورت اختیار کرتا ہے۔ اس کی دوستی اور دشمنی بھی انسانی رنگ اختیار کرتی ہے۔ وہ انسان کے دوستوں یعنی علم، تہذیب، رفاہ، آزادی، انصاف اور محبت کا دوست اور اس کے دشمنوں یعنی جہالت، افلاس، ظلم، بیماری، گھٹن اور تفریق کا دشمن بن جاتا ہے اور اس طرح کی خود شناسی ’’ملی خود شناسی‘‘ اور ’’طبقاتی خود شناسی‘‘ کے برعکس اخلاقی صفات کی حامل ہوتی ہے۔
لیکن ایسی خود شناسی باوجودیکہ سب سے زیادہ منطقی اور شہرت یافتہ ہے۔ دوسری خود شناسیوں کی نسبت کم پائی جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟
اس کا راز انسان کے وجود اور اس کی اصلیت میں پوشیدہ ہے۔ انسان اپنے وجود اور اپنی اصلیت کے اعتبار سے تمام دوسری موجودات سے، جمادات ہوں، نباتات ہوں یا حیوانات، مختلف ہے۔ اس لئے انسان کے علاوہ ہر دوسرا وجود جو اس دنیا میں آتا ہے، وہی ہوتا ہے جس حالت میں وہ پیدا کیا گیا ہے یعنی اس کی اصلیت اور کیفیت وہی ہوتی ہے جو پیدائش کے وقت اس کو دی گئی ہے، لیکن اس حالت کے برعکس انسان کو پیدائش کے بعد ایک نیا مرحلہ پیش آتا ہے کہ وہ کیا ہے؟ اور اسے کیسے ہونا چاہئے؟ انسان ویسا نہیں رہتا جیسا پیدائش کے وقت ہوتا ہے بلکہ وہ جیسا چاہتا ہے بنتا ہے، یعنی وہ تمام وسائل، جن میں اس کا ارادہ اور انتخاب بھی شامل ہوتا ہے، اس کی پرورش اور تربیت کرتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر انسان کے علاوہ ہر چیز اپنی ماہیت کے لحاظ سے کہ وہ کیا ہے؟ اور کیفیت کے اعتبار سے کہ اسے کیسے ہونا چاہئے؟ حقیقی طور پر مکمل پیدا کی گئی ہے، لیکن اس لحاظ سے انسان ایک ممکنہ قوت اور استعداد کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے، یعنی انسانیت کا بیج اس کے اندر استعدادی قوت کے ساتھ موجود ہوتا ہے اور اگر اس بیج پر کوئی آفت نہ پڑے تو وہ آہستہ آہستہ وجود انسان کی زمین سے باہر نکل آتا ہے اور یہی وہ انسانی فطریات ہیں جو بعد میں اس کے فطری اور انسانی ضمیر کی تعمیر کرتی ہیں۔ انسان جمادات، نباتات اور حیوانات کے برعکس ایک ظاہری بدن اور شخصیت کا حامل ہوتا ہے، اس کا بدن یعنی جسمانی اعضاء کا مجموعہ جو مکمل طور پر دنیا میں آتا ہے اس لحاظ سے پیدائش کے وقت حیوانات کی مانند ہوتا ہے، لیکن روحانی پہلوؤں سے وہ ایک استعدادی قوت رکھتا ہے جو اس کی انسانی شخصیت کو بناتی ہے، انسانی اقدار اس کے وجود میں استعدادی قوت کے ساتھ موجود ہوتی ہیں جو پیدا ہونے اور بڑھنے پر آمادہ ہوتی ہیں۔
انسان روحانی اور باطنی اعتبار سے جسم سے ایک مرحلہ پیچھے ہوتا ہے اس کے جسمانی اعضاء پہلے مرحلے میں رحم مادر میں دست قدرت کے وسائل سے تکمیل پاتے ہیں لیکن اس کی روحانی اور باطنی حیثیت اور اس کی شخصیت کے حصے اس کی پیدائش کے بعد والے مرحلے میں مکمل ہوتے ہیں، اس لئے ہم کہتے ہیں کہ ہر شخص خود اپنی شخصیت کا معمار ہے۔ انسان کی تصویر بنانے والا قلم خود اس کے ہاتھ میں دیا گیا ہے اور (اپنی جسمانی ساخت کے برعکس) اپنی شخصیت کو بنانے والا نقاش وہ خود ہے۔
انسان کے علاوہ دوسرے تمام موجودات میں ان کی ذات اور ماہیت کے درمیان جدائی کا تصور ناممکن ہے مثلاً پتھر اور اس کی خصوصیات جیسے مختلف درخت اور اس کی خصوصیات، کتا اور اس کی خصوصیات، بلی اور اس کی خصوصیات کے مابین جدائی ناممکن ہے، اگر بلی، بلی ہے تو اپنی خصوصیات کی بنیاد پر ہے اگر اس کی خصوصیات اس سے چھین لی جائیں تو بلی، بلی نہیں رہتی۔
لیکن انسان ایک ایسا وجود ہے جس کی ذات اور اس کی ماہیت کے درمیان جدائی اور دوری ممکن ہے یعنی انسان اور انسانیت کے درمیان جدائی ممکن ہے۔ بہت سے انسان ایسے ہوتے ہیں جو ابھی انسانیت کے مرحلے پر نہیں ہوتے اور ابھی تک حیوانیت ہی کے مرحلے پر باقی ہوتے ہیں، جیسے ابتدائی انسان تھے یا جنگلی انسان ہوتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ بہت سے انسان ایسے بھی ہوتے ہیں جو مسخ ہو جاتے ہیں اور انسان کے دشمن بن جاتے ہیں جیسے وجود اور اس کی ماہیت میں جدائی پیدا ہو جائے۔ ظاہر ہے کہ ماہیت وجود کا لازمہ ہے اگر ایک وجود موجود ہو تو اس کی ماہیت بھی وجود کے ساتھ ساتھ موجود ہو گی۔ ہاں، استعدادی وجود کی ماہیت نہیں ہوتی۔
اگزیسٹینشالیزم (Existentialism) کے اصالت وجود کا نظریہ مدعی ہے کہ ’’انسان بغیر ماہیت کے ایک وجود ہے اور اپنے ہی انتخاب سے راستہ طے کرتا ہے اور ماہیت پیدا کر لیتا ہے۔ ‘‘
اس کی صحیح فلسفیانہ توجیہ یہی ہے۔ اسلامی فلاسفہ خصوصاً ملاصدرا کا انحصار اسی نظریے پر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ
’’انسان ایک نوع نہیں بلکہ انواع ہے، بلکہ ہر فرد ایک دن اس طرح ہوتا ہے جس طرح دوسرے دن نہیں ہوتا۔ ‘‘
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ علم حیاتیات (Biology) کا انسان انسانیت کا معیار نہیں ہے بلکہ وہ صرف انسان کا ڈھانچہ ہے اور فلاسفہ کی تفسیر کے مطابق ’’استعداد انسانیت‘‘ کا حامل ہے نہ کہ خود ’’انسانیت‘‘ کا اور یہ بھی واضح ہے کہ واقعیت روح کے بغیر ’’انسانیت‘‘ کا دعویٰ بے معنی ہے۔
مذکورہ مقدمہ کے جاننے کے بعد ہم ’’انسانی خود شناسی‘‘ کا مفہوم زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ ’’انسانی خود شناسی‘‘ کی بنیاد یہ ہے کہ تمام انسان مجموعی طور پر ایک حقیقی اکائی کے طور پر شمار کئے جاتے ہیں اور ایک مشترک انسانی ضمیر سے بہرہ مند ہیں، جو طبقاتی، مذہبی اور قومی ضمیر سے بالاتر ہے۔
البتہ یہ بیان توضیح طلب ہے کہ کون سے انسان مجموعی طور پر ایک ’’شخصیت‘‘ کے حامل ہیں اور واحد روح ان پر حاکم ہے؟ ’’انسانی خود شناسی‘‘ کون سے انسانوں کے درمیان بڑھتی ہے اور ان میں ہمدردی اور جسد واحد ہونے کا تصور پیدا کرتی ہے؟ آیا ’’انسانی خود شناسی‘‘ صرف انہی انسانوں کے درمیان بڑھتی ہے، جو انسانیت کے مرحلے پر پہنچ چکے ہیں اور جن میں انسانی اقدار اور انسان کی حقیقی ماہیت، حقیقت بن چکی ہوتی ہے؟ یا ان انسانوں کے درمیان جو انسانیت نہیں پا سکے لیکن استعداد رکھتے ہیں؟ یا ان انسانوں کے درمیان جو مسخ ہو کر بدترین جانور بن گئے ہیں؟ یا ان سب کے درمیان یہ خود شناسی پائی جاتی ہے؟ جہاں تک باہمی احساس درد کا تعلق ہے سب کو اس درد کا احساس ہونا چاہئے لیکن سوال یہ ہے کہ بظاہر تو تمام انسان ایک ہی جسم کے اعضاء ہیں اور ایک دوسرے کے درد سے بے چین ہو جاتے ہیں، لیکن یہ سب گروہ تو ایسے نہیں ہو سکتے، جنگلی اور ابتدائی انسان جو اپنے بچپن پر باقی رہے اور ان کی انسانی فطرت ابھی بیدار اور متحرک نہیں ہوئی، کب باہمی احساس درد کے حامل ہوتے ہیں؟ اور ایک مشترک روح ان پر کیسے حکومت کر سکتی ہے؟ البتہ جن انسانوں کی ہیئت ہی مسخ ہو چکی ہو، ان کا معاملہ تو بالکل واضح ہے پس صرف وہی انسان جو انسانیت کے درجے پر پہنچ چکے ہیں۔ جو انسانی ماہیت کے حامل ہیں اور جو انسانی فطرت کے لحاظ سے تکمیل پائے ہوئے ہیں، حقیقت میں ایک جسم کے اعضاء ہیں اور ایک واحد روح پر حکم فرما ہے اور بقول سعدی شیرازی۱۱۱#
چو عضوی بدرد آورد روزگار
دیگر عضوھارا نماند قرار
’’جب زمانہ ایک حصے کو درد میں مبتلا کرتا ہے تو دوسرے اعضاء بھی بے چین ہو جاتے ہیں۔ ‘‘
ایسے انسان جن میں تمام فطری اقدار پیدا ہو چکی ہیں ’’مومن انسان‘‘ ہیں کیوں کہ ایمان انسان کی فطریات اور حقیقی انسانی اقدار میں سرفہرست ہے، چنانچہ جو چیز انسانوں کو حقیقی طور پر سماجی وحدت کی صورت دیتی ہے، ان میں واحد روح پھونکتی ہے اور اس طرح کے اخلاقی اور انسانی معجزے کو ظہور میں لاتی ہے، وہ صرف ’’مشترک ایمان‘‘ ہے، نہ کہ مشترک جوہر، نسب اور وطنیت جیسا کہ سعدی شیرازی کے کلام میں آیا ہے۔
جو کچھ سعدی نے کہا ہے وہ ایک ’’آئیڈیل‘‘ ہے نہ کہ حقیقت بلکہ ’’آئیڈیل‘‘ بھی نہیں ہے۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ موسیٰؑ فرعون کے جسم کا حصہ ہوں، ابوذر معاویہ کے ہمدرد ہوں، علیٰ ھذا القیاس…؟
جو چیز حقیقت بھی ہے اور ’’آئیڈیل‘‘ بھی وہ ایسے انسانوں کی وحدت ہے، جو انسانیت کے درجے اور اقدار تک پہنچے ہوئے ہیں، یہ وہ حقیقی بیان ہے جو رسول اکرم نے فرمایا تھا اور شیخ سعدی نے اسے عمومیت دے کر اس کا حلیہ بگاڑ دیا، پیغمبر اسلام نے بجائے اس کے کہ کہا جائے بنی آدم ایک ہی جسم کے حصے ہیں، فرمایا:
مثل المومنین فی توا ددھم و تراحمھم کمثل الجسد اذا شتکی بعضی تداعی لہ سائر اعضاۂ بالحمی والسھر
’’مومنین ایک ہی جسم کے حصے ہیں، جب ایک حصے میں درد اٹھتا ہے تو دوسرے حصے بخار اور بے خوابی میں اس کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔ ‘‘
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسانیت کے درجے پر پہنچا ہوا انسان تمام انسانوں بلکہ تمام موجودات سے محبت کرتا ہے، حتیٰ کہ انسان انسانوں سے بھی، جن کی ہیئت مسخ ہو چکی ہے اور جنہوں نے اپنی اصل تبدیل کر لی ہے، اسی لئے خداوند تعالیٰ نے حضرت رسول اکرمؐ کو رحمتہ للعالمین قرار دیا ہے۔
ایسے انسان اپنے دشمنوں سے بھی محبت کرتے ہیں۔ حضرت علیؓ نے ابن ملجم کے بارے میں فرمایا تھا کہ
’’میں اس کی زندگی چاہتا ہوں اور وہ میرا قتل۔ ‘‘
لیکن معاملہ برابر کی محبت اور برابر کی درد مندی کا ہے اور برابری کی محبت صرف اور صرف معاشرے کے اہل ایمان افراد کے درمیان ہی وجود پا سکتی ہے۔
ظاہر ہے تمام انسانوں سے محبت یعنی ’’صلح کلی‘‘ کا تقاضا یہ نہیں کہ کوئی ذمہ داری قبول نہ کی جائے اور کسی گمراہی اور ظالم سے لاتعلق رہا جائے، بلکہ اس کے برعکس انسانوں سے حقیقی محبت کا تقاضا اس ضمن میں سخت ترین ذمہ داریاں قبول کرنا ہے۔
ہمارے زمانے میں مشہور انگریز فلسفی اور ریاضی دان برٹرینڈرسل اور فرانس کے ایگزیسٹینشل فلسفی ’’جان پال سارتر‘‘ انسانی مسلک کے دو مشہور انسان دوست چہرے ہیں، البتہ رسل کے فلسفہ اخلاق کی بنیاد اس کے نظریہ ’’انسان دوستی‘‘ کی دو طرح سے مخالف ہے، رسل کا فلسفہ اخلاق شخصی منافع کی سوچ پر مبنی ہے، یعنی اس کے اخلاق کی بنیاد اصول اخلاق کی روشنی میں زیادہ اور بہتر منافع کے تحفظ پر ہے اور وہ اخلاق کے کسی دوسرے فلسفہ کا قائل نہیں ہے، اس بناء پر رسل کی ’’انسان دوستی‘‘ ایک اہل قلم کے قول کے مطابق مغربی دنیا کے اس اضطراب کی مظہر ہے، جس کی بنیاد ختم ہو چکی ہے، یہ اہل قلم ’’آج کے مغربی نیھیلزم کے دو چہرے‘‘ کے عنوان سے لکھتا ہے:
’’وہ جوشیلا برژوازی جس نے قومیت کا پرچم لہرایا تھا، آج اس کے پاس سوچنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ یورپی جوان نسل ایک کھوکھلے نقطے پر کھڑی ہے۔ آج مغرب اور برآمدات کو جو اجتماعی شورش، ناامیدی، پریشانی، احساس حقارت اور افکار مذہب و اخلاق کے جذبات پر مشتمل ہیں اور جو اس نے دوسری قوموں اور تہذیبوں پر مسلط کیا تھا، واپس لے رہا ہے۔ منکر مذہب و اخلاق تو یہ سوچتا ہے کہ جب میرے لئے کچھ نہیں تو دوسرے کے لئے بھی کچھ نہ ہو اور اس طرح وہ خود اپنی ہی خرابی کی طرف رواں دواں ہے۔
لیکن ایک اور رد عمل ایک طرح کے روحانی انسان دوستی کے فلسفے کے ظہور میں آنے سے ہوا ہے، جو مختلف سطحوں پر مغربی روشن فکر افراد کو اپنی طرف متوجہ کئے ہوئے ہے۔ اس کے ایک طرف رسل کا سادہ عملی نظریہ ہے اور دوسری جانب سارتر کا پیچیدہ اور شدید نظریہ اور درمیان میں ٹیبو رمنڈر جیسے سیاست دان کا اور اقتصادیات کے حامی روشن فکر افراد اپنی اور دوسروں کی مشکلات کے حل کے لئے عملی طریقے سوچ رہے ہیں۔
لیکن سارتر اپنے عارفانہ اور آزادانہ مشرب اور ذمہ داری کے اس پیچیدہ اور شدت آمیز نظریے کے باوجود مغربی روح کا ایک اور مظہر ہے، جو احساس گناہ کی بناء پر تلافی مکافات کرنا چاہتا ہے۔ وہ رواقی فلاسفہ کی مانند انسانوں میں برادری، برابری، آزادی، خود مختاری، پرہیز گاری اور پارسائی سے دنیا میں حکومت کرنے کا معتقد ہے۔ موجودہ دور میں وہ ایسی روشن خیالی کا مظہر ہے جو یہ چاہتا ہے کہ ’’انسانیت کامل‘‘ کا حامی بن کر اپنے آپ کو مغرب کے اس اضطراب سے نکال لے، جس کی بنیاد کھوکھلی ہو چکی ہے۔ وہ نظریہ ’’انسان دوستی‘‘ کو مذہب کا بدل بنا کر پرانے خدا کے بدلے پوری انسانیت کے لئے نئے خدا سے اپنے اور پورے مغرب کے لئے معافی کا خواستگار ہے۔ ‘‘
سارتر کی واضح انسان دوستی کا نتیجہ یہی ہے کہ کبھی تو وہ اسرائیل کی مظلومیت پر مگرمچھ کے آنسو بہاتا ہے اور کبھی عربوں اور بالخصوص فلسطینی مہاجرین کے مظالم پر فریاد کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
دنیا نے مغرب کے تمام انسان دوستوں کو جنہوں نے ’’حقوق انسانی‘‘ کے منشور پر دستخط کئے ہیں۔ مسلسل دیکھا ہے اور دیکھ رہی ہے اور یہ امر کسی وضاحت کا محتاج نہیں۔
’’اجتماعی خود شناسی‘‘ ملی ہو یا طبقاتی یا انسانی ہمارے دور میں ’’روشن خیال خود شناسی‘‘ کہلاتی ہے۔ روشن خیال شخص وہ ہے جسے ان اقسام خود شناسی میں سے کوئی ایک حاصل ہو جس کے دل میں قوم یا طبقے یا انسان کے درد کا احساس ہو، جو انہیں اس درد سے رہائی دلانے میں کوشاں ہو، وہ چاہتا ہو کہ اپنی ’’خود شناسی‘‘ کو ان میں منتقل کر دے اور اجتماع کی قیود سے رہائی کے لئے ان کو کوشش اور حرکت کی ترغیب دلائے۔
۷۔ عارفانہ خود شناسی
عارفانہ خود شناسی ذات حق سے اپنے رابطے کے سلسلے میں خود شناسی ہے، عرفا کے نقطہ نظر سے یہ رابطہ ایسا نہیں ہے جو دو انسانوں کا آپس میں یا معاشرے کے کسی دوسرے افراد سے ہوتا ہے، بلکہ یہ رابطہ ’’شاخ کا جڑ‘‘ سے ’’مجاز کا حقیقت‘‘ سے اور عرفا کی اصطلاح میں مقید کا مطلق سے رابطہ ہے۔
ایک روشن فکر کے درد کے برعکس عارف کا درد انسان کی ’’خود شناسی‘‘ میں کسی بیرونی درد کا انعکاس نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ایسا باطنی درد ہے، جو فطری اور اجتماعی درد ہوتا ہے، لہٰذا وہ پہلے اس سے آگاہ ہوتا ہے پھر یہ آگاہی اس کو درد مند بناتی ہے۔
لیکن ایک عارف کا درد چونکہ ایک باطنی درد ہوتا ہے، خود درد ہی اس کے لئے آگاہی ہے بالکل بیماریوں کے درد ہی کی طرح، جو طبیعت کی طرف سے کسی حاجت اور ضرورت کا اعلان ہے۔
حسرت و زاری کہ درد بیماری است
وقت بیماری ھمہ بیداری است
ہر کہ او بیدار تر پر درد تر
ہر کہ او آگاہ تر رخ زرد تر
پس بدان این اصل را ای اصلجو
ہر کہ را درد است او بردہ است بو
’’بیماری میں جو حسرت اور گریہ زاری ہے، بیماری کے وقت سب کی بیداری کی علامت ہے۔
جو جتنا زیادہ بیدار ہے وہ اتنا ہی زیادہ دردمند ہے اور جو جتنا زیادہ خود شناس ہے اس کا چہرہ اتنا ہی زیادہ زرد ہے، پس اے حقیقت کے متلاشی! اس حقیقت کو جان لے کہ جو شخص درد میں مبتلا ہے اسی نے حقیقت کا پتہ لگا لیا ہے۔ ‘‘
عارف کا درد فلسفی کے درد جیسا بھی نہیں، دونوں ہی حقیقت کے درد مند ہیں لیکن فلسفی کا درد حقیقت کے جاننے اور شناخت کرنے کا درد ہے اور عارف کا درد پہنچنے، ایک ہو جانے اور محو ہو جانے کا درد۔ فلسفی کا درد اسے فطرت کے دیگر فرزندوں یعنی تمام جمادات، نباتات اور حیوانات سے ممتاز کر دیتا ہے۔ عالم طبیعت کے کسی وجود میں ماننے اور شناخت کرنے کا درد موجود نہیں، لیکن عارف کا درد عشق اور جذبے کا درد ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو نہ صرف حیوان میں نہیں بلکہ فرشتوں میں بھی موجود نہیں، جن کی ذات کا جوہر ہی خود شناسی اور جاننا ہے۔
فرشتہ عشق نداانست چیست قصہ مخوان
بخواہ جام و گلابی بہ خاک آدم ریز
’’فرشتے نے عشق کو نہ جانا کہ وہ کیا چیز ہے قصہ نہ سنا، جام طلب کر اور گلاب کا پانی آدم کی خاک پر ڈال دے۔ ‘‘
جلوہ ای کرد رخش دید ملک، عشق نداشت
خیمہ در مزرعہ آب و گل آدم زد
’’جب اس کے رخ کا ایک جلوہ نظر آیا تو فرشتے نے دیکھا کہ اس میں عشق نہیں تو اس نے آدم کی خاک پر اپنے خیمے گاڑ دیئے۔ ‘‘
فلسفی کا درد فطرت کی حاجتوں کے جاننے کا اعلان ہے جسے فطری طور پر انسان جاننا چاہتا ہے اور عارف کا درد فطرت عشق کی حاجتوں کا اعلان ہے جو پرواز کرنا چاہتا ہے اور جب تک پوری طرح سے حقیقت کا ادراک نہیں کرتا، سکون نہیں پاتا۔ عارف کامل خود شناسی کو ’’خداشناسی‘‘ میں منحصر سمجھتا ہے۔ عارف کی نظر میں جسے فلسفی انسان کا حقیقی ’’من‘‘ سمجھتا ہے، حقیقی ’’من‘‘ نہیں ہے بلکہ روح ہے۔ ’’جان‘‘ ہے، ایک تعین ہے، حقیقی ’’من‘‘ خدا ہے اور اس تعین کے ٹوٹنے کے بعد انسان اپنے حقیقی ’’من‘‘ کو پا لیتا ہے۔
محی الدین ابن عربی فصول الحکم، فص شعیبی میں فرماتے ہیں، حکماء اور متکلمین نے خود شناسی کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے۔ لیکن ان راہوں سے ’’معرفت النفس‘‘ حاصل نہیں ہو سکتی، جس کا خیال یہ ہو کہ ’’خود شناسی‘‘ کے بارے میں حکماء نے جو کچھ سمجھا ہے، وہ حقیقت ہے، تو اس نے پھولی ہوئی چیز کو موٹا سمجھ رکھا ہے۔
شیخ محمود شبستری سے عرفانی مسائل کے بارے میں پوچھے جانے والے سوالات ’’جن کے جواب میں کم نظیر عرفانی کلام، ’’گلشن راز‘‘ وجود میں آیا ہے۔ ‘‘ میں سے ایک ’’خود‘‘ ذات اور ’’من‘‘ کے بارے میں سوال تھا کہ یہ کیا ہے؟
دگر کردی سوال ازمن کہ ’’من‘‘ چیست
مرا از من خبر کن تاکہ ’’من‘‘ کیست
چو ہست مطلق آمد در اسارت
بہ لفظ ’’من‘‘ کنند از وی عبارت
حقیقت کز تعین شد معین
تو او را در عبارت گفتہ ای من
من و تو عارض ذات وجودیم
مشبکہای مشکوة وجودیم
ھمہ یک نور دان اشباح و ارواح
گہ از آئینہ پیدا گہ ز مصباح
’’تو نے پھر مجھ سے پوچھا کہ یہ ’’من‘‘ کیا ہے، ’’من‘‘ کے بارے میں پوچھنے سے پہلے مجھے میرے بارے میں خبر تو دو!
مطلق ہستی کو جب اسیر اور مقید کر دیا جاتا ہے تو اسے ’’من‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے، جب تعین اور حدود و قیود کی وجہ سے حقیقت کو متعین کیا جاتا ہے اسے سادہ عبارت میں ’’من‘‘ کہا جاتا ہے، میں اور تم دونوں ذات وجود کے عارض ہیں اور ہم وجود (روح) کے فانوس کے گرد لگی ہوئی جالیاں ہیں (جن سے روشنی چھن چھن کر باہر آتی ہے) ہیولا اور روح کو ایک نور ہی سمجھ لو، کیوں کہ نور کبھی تو آئینہ سے منعکس ہو کر تم تک پہنچ جاتا ہے اور کبھی فانوس سے سیدھا تم تک پہنچ جاتا ہے۔ ‘‘
پھر ’’روح‘‘ اور ’’من‘‘ کے بارے میں فلاسفہ کی خود شناسی پر اس طرح سے اعتراض کرتے ہیں۔
تو گوی لفظ ’’من‘‘ در ہر عبارت
بسوی روح می باشد اشارت
چو کردی پیشوائے خود خرد را
نمی دانی ز جزء خویش خودرا
برو ای خواجہ خود را نیک بشناس
کہ نبود فربہی مانند آماس(۱)
من و تو بر تر از جان و تن آمد
کہ این ہر دو ز اجزای من آمد
بہ لفظ من نہ انسان است مخصوص
کہ تا گوی بدان جان است مخصوص
یکی راہ برتر از کون و مکان شو
جہاں بگذار و خود در خود جہان شو
’’تم چاہے کسی بھی عبارت میں لفظ ’’من استعمال کرو اشارہ تمہاری روح ہی کی طرف ہے، جب تم عقل کو اپنا رہبر اور رہنما بناؤ گے، تو اپنے آپ کو اپنے اعضاء سے نہیں سمجھو گے۔ اے خواجہ جا اور اپنے آپ کو اچھی طرح پہچان لے کیوں کہ پھول جانا موٹاپا نہیں ہوتا، ’’من‘‘ اور ’’تو‘‘ جگہ اور بدن سے برتر ہیں کیوں کہ یہ دونوں مرے اجزاء اور حصے ہیں لفظ ’’من‘‘ کسی خاص انسان سے مخصوص نہیں جو تم اس سے کسی خصوصی روح کو مراد لو، ایک راستے پر چلو اور کون و مکان سے برتر ہو جاؤ، دنیا کو چھوڑ دو اور اپنے اندر ایک دنیا بن جاؤ۔ ‘‘
مولانا کہتے ہیں:
ای کہ در پیکار ’’خود‘‘ را باختہ
دیگران را تو ز خود نشاختہ
تو بہ ہر صورت کہ آئی بیستی
کہ منم این واللہ آن تو نیستی
یک زمان تنہا بمانی تو زخلق
در غم و اندیشہ مانی تا بحلق
این تو کی باشی؟ کہ تو آن اوحدی
کہ خوش و زیبا و سرمست خودی
مرغ خویشی، صید خویشی، دام خویش
صدر خویشی، فرش خویشی، بام خویش
گر تو آدم زادہ ای چون اونشین
جملہ ذرات را در خود ببین
’’اے وہ شخص جو جنگ میں اپنے آپ کو ہار چکا ہے اور اپنے اور دوسروں کے فرق کو نہ جان سکا، تم چاہے کسی بھی صورت میں آ جاؤ تم نہیں ہو، بلکہ اللہ کی قسم وہ میں ہوں، ایک وقت ایسا آئے گا جب تم مخلوقات سے الگ تھلگ اکیلے رہ جاؤ گے اور گردن تک غم و اندوہ میں مبتلا رہو گے۔ یہ تم کب ہو؟، تم تو وہ فرد ہو جو اپنا مرکز، اپنا فرش اور اپنا چھت ہے اور جو اپنے آپ میں سرمست، خوش اور مگن ہے، تم خود ہی پرندہ ہو، خود شکار ہو اور خود ہی جال بھی، بلندی بھی تم خود ہو، پستی بھی خود ہی اور چھت بھی تم ہی ہو، اگر تم آدم کی اولاد ہو تو اس کی طرح رہو اور تمام ذرات کا اپنے اندر مشاہدہ کرو۔ ‘‘
چنانچہ عارف کے نقطہ نظر سے یہ روح اور جان حقیقی نہیں ہے اور یہ روح اور جان کی شناخت بھی ’’خود شناسی‘‘ نہیں ہے، بلکہ روح خود اپنے آپ کا اور ’’من‘‘ کا مظہر ہے۔
’’من حقیقی‘‘ خدا ہے جب انسان فنا ہو جائے اور اس کا اپنا وجود ٹوٹ جائے اور اس کی جان اور روح کا کوئی نشان باقی نہ رہے تب دریا سے یہ جدا شدہ قطرہ دریا (یعنی گل) میں واپس چلا جاتا ہے اور اس میں گم ہو جاتا ہے۔ تبھی انسان اپنی ’’حقیقی خود شناسی‘‘ کو پا لیتا ہے، اسی وقت انسان اپنے آپ کو تمام اشیاء میں اور تمام اشیاء کو خود اپنے اندر دیکھتا ہے اور تبھی وہ اپنی حقیقی ذات سے باخبر ہو جاتا ہے۔
۸۔ پیغمبرانہ خود شناسی
یہ ’’خود شناسی‘‘ باقی تمام اقسام ’’خود شناسی‘‘ سے مختلف ہے۔ پیغمبر کی خود شناسی کا تعلق خدا سے بھی ہے اور مخلوق سے بھی وہ درد خدا بھی رکھتا ہے اور درد مخلوق بھی لیکن نہ ثنویت اور دوگانگی کی شکل میں نہ دو قطبوں کی صورت میں نہ ہی قبلوں کی شکل میں اور نہ یہ کہ اس کا آدھا دل خدا کی طرف ہوتا ہے اور آدھا مخلوق کی طرف یا اس کی ایک آنکھ خدا کی طرف ہوتی ہے اور دوسری مخلوق کی طرف یا اس کی محبت، مقاصد اور آرزوئیں خدا اور خلق کے درمیان منقسم ہوتی ہیں، ایسا ہرگز نہیں۔
قرآن حکیم میں آیا ہے:
ماجعل اللہ لرجل من قلبین فی جوفہ(سورۂ احزاب، آیت ۴)
’’اللہ نے کسی آدمی کے سینے میں دو دل پیدا نہیں کئے کہ وہ دو جگہ دل دے بیٹھے، ایک دل اور دو دلبر نہیں ہو سکتے۔ ‘‘
انبیاءؓ توحید کے ہیرو ہیں، ان کے افعال میں ذرہ برابر شرک کی آمیزش نہیں ہوتی، نہ انہیں مبداء میں شرک ہوتا ہے اور نہ مقصد، آرزو اور درد مندی میں، وہ دنیا کے ذرے ذرے سے عشق کرتے ہیں، اس لئے کہ وہ تمام ذرے اسی خدا سے ہیں اور انہی اسماء اور صفات کے مظاہر ہیں۔
بجہان خرم از آئم کہ جہان خرم از اوست
عاشقم برھمہ عالم کہ ھمہ عالم از اوست (کلیات سعدی طباعت)
’’میں دنیا سے اس لئے خوش ہوں کہ دنیا خدا سے خوش ہے، میں تمام عالم کا عاشق ہوں اس لئے کہ تمام عالم اسی خدا سے ہے۔ ‘‘
اولیائے خداؒکا دنیا سے عشق خدا سے ان کے عشق کا عکس ہے، لیکن یہ ایسا عشق نہیں، جو خدا سے ان کے عشق کے متوازی ہو، مخلوق سے ان کے درد کی بنیاد خدا سے ان کا درد ہی ہے، کوئی اور اصل اور منبع نہیں۔ ان کے مقاصد اور آرزوئیں وہ نرد بان ہیں جن کے ذریعے سے وہ خود کی جانب جاتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس کی جانب لے جاتے ہیں اور یہ درد ان کی روحانی تکمیل کے لئے تازیانہ کا کام دیتا ہے اور اس سفر میں ان کا محرک ہوتا ہے جسے ’’مخلوق سے خدا تک سفر‘‘ کہا جاتا ہے اس درد کی وجہ سے وہ لحظہ بھر آرام اور قرار نہیں پاتے تاکہ وہ حضرت علیؓ کے قول کے مطابق ’’جائے امن‘‘ میں پہنچ جائیں۔
اس سفر کا خاتمہ ان کے لئے ایک دوسرے سفر کا آغاز ہوتا ہے جو ’’خدا میں خدا کے ساتھ سفر‘‘ کہلاتا ہے۔
یہی وہ سفر ہے جس میں ان کا ظرف بھر جاتا ہے اور وہ ایک اور طرح کا تکامل حاصل کر لیتے ہیں، نبی اس مقام پر پہنچ کر بھی نہیں رکتا، جب اس کا ظرف حقیقت سے لبریز ہو جائے اور وہ پورے روحانی دائرۂ زندگی کو طے کر لے اور منزلوں کی راہ جان لے تو پھر وہ مبعوث ہو جاتا ہے اور یہاں سے اس کا تیسرا سفر ’’یعنی خدا سے مخلوق کی جانب سفر‘‘ شروع ہو جاتا ہے اور وہ واپس بھیج دیا جاتا ہے لیکن اس کی یہ واپسی ایسی نہیں کہ وہ دوبارہ نقطہ اول پر چلا جائے اور اس نے وہاں جو کچھ حاصل کیا تھا اس سے محروم ہو جائے بلکہ اس نے وہاں جو کچھ پایا تھا، اپنے ساتھ واپس لاتا ہے، خدا سے مخلوق کی جانب سفر خدا کے ساتھ ہے نہ اس سے دور ہو کر، نبی کے تکامل کا یہ تیسرا مرحلہ ہے۔
نبی کی بعثت اور اس کی واپسی جو دوسرے سفر کے خاتمے پر وقوع میں آتی ہے۔ ایک طرح سے الٰہی خود شناسی سے مخلوقاتی خود شناسی کا پیدا ہونا اور الٰہی درد مندی سے مخلوقاتی درد مندی کا ظہور پانا ہے۔
مخلوق کی جانب واپسی سے اس کا چوتھا سفر اور اس کی تکمیل کا چوتھا دور شروع ہوتا ہے یعنی ’’خالق‘‘ کے ساتھ مخلوق میں سفر‘‘ اس آخری سفر کا مقصد یہ ہے کہ مخلوق کو شریعت کے راستے سے خدا کے لامتناہی کمال کی جانب روانہ کیا جائے یعنی حق، عدل اور انسانی قدروں کے راستے سے انسان کی غیر معمولی مخفی قوتوں کو عمل میں لایا جائے، یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ ایک روشن خیال انسان کا انتہائی مقصد ہے وہ پیغمبر کے لئے سفر کی منزلوں میں ایک منزل ہے جہاں سے وہ مخلوق کو گذارتا ہے اور عارف جس چیز کا دعویٰ کرتا ہے وہ پیغمبر کے راستے میں موجود ہوتی ہے۔
علامہ محمد اقبالؒ’’پیغمبرانہ خود شناسی‘‘ اور ’’عارفانہ خود شناسی‘‘ کے درمیان فرق بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’حضرت محمد۱ کو آسمان پر معراج نصیب ہوئی اور وہ واپس آ گئے۔ ‘‘
لیکن شیخ طریقت حضرت عبدالقدوس گنگوہی نے فرمایا:
’’قسم ہے اللہ کی! اگر میں اس نقطے پر پہنچتا تو ہرگز واپس نہ آتا۔ ‘‘
علامہ محمد اقبالؒاس سلسلے میں کہتے ہیں:
’’تمام صوفیانہ ادبیات میں سے شاید ایسے چند الفاظ بھی نہیں ملتے جو ایک جملے میں پیغمبرانہ اور صوفیانہ دو قسم کی خود شناسی کے درمیان نفسیاتی فرق کو اس خوبی سے ظاہر کرتے ہیں، عارف یہ نہیں چاہتا کہ اس سکون اور اطمینان کے بعد جو اسے تجربہ وصال حق اور عارفانہ خود شناسی کے حصول سے ملتا ہے۔ اس دنیا کی زندگی میں واپس آئے اور جب وہ ضرورت کے تحت واپس آتا ہے تو اس کی واپسی تمام نوع انسانی کے لئے چنداں مفید نہیں ہوتی، لیکن پیغمبر کی واپسی خلاقی اور مفید ہوتی ہے، وہ واپس آتا ہے اور وقت کی روانی میں اس مقصد سے داخل ہوتا ہے کہ وہ تاریخ کے دھارے کو اپنے قابو میں لا کر اعلیٰ مقاصد کے لئے نئی دنیا پیدا کرے۔ ‘‘(احیائے فکر دینی در اسلام، ص ۱۴۳، ۱۴۴)
اس وقت ہمارا مقصد یہ نہیں کہ یہ معلوم کریں کہ یہ عارفانہ عبارت صحیح ہے یا نہیں؟ امر مسلم یہ ہے کہ شروع میں ہر نبی میں خدا کا درد ہوتا ہے جو درد اس کی روح پر غالب آتا ہے، وہ خدا جوئی کا درد ہے، وہ اس کی طرف عروج اور پرواز کرتا ہے اور اس سرچشمہ سے سیراب ہوتا ہے اس کے بعد اس میں مخلوق کا درد پیدا ہوتا ہے، ایک نبی کے مخلوقات کے لئے درد اور ایک روشن خیال انسان کے دل میں دوسرے انسانوں کے لئے پیدا ہونے والے درد میں فرق ہوتا ہے، اس لئے کہ ایک روشن خیال انسان کا درد انسانی احساس اور محض ایک تاثیر ہے اور چہ بسا نطشے جیسے لوگوں کی نظر میں انسان کی کمزوری کی علامت سمجھی جاتی ہے۔
لیکن ایک نبی کا درد دوسرے لوگوں کے درد سے بالکل مختلف ہوتا ہے اور ان میں سے کسی سے شباہت نہیں رکھتا، اسی طرح جیسے مخلوق کی نوعیت بھی مختلف ہوتی ہے، کسی نبی کی روح میں روشن ہونے والی آگ دوسروں کی آگ سے مختلف ہوتی ہے، یہ صحیح ہے کہ پیغمبر کی شخصیت دوسروں کی شخصیت سے زیادہ وسیع ہوتی ہے۔ اس کی روح دوسروں سے مل جاتی ہے اور سب پر محیط ہوتی ہے اور اس طرح تمام دنیا کے ساتھ ایک ہو جاتی ہے اور تمام عالم پر محیط ہو جاتی ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ وہ دوسروں کے غموں سے خود بھی غمگین ہو جاتا ہے۔
قرآن حکیم میں آیا ہے:
لقد جائکم رسول من انفسکم عزیز علیہ ماعنتم حریص علیکم(سورۂ توبہ، آیت ۱۲۸)
’’تمہارے درمیان میں تم ہی میں سے رسول آیا ہے، تمہارا دکھ اس پر شاق گذرتا ہے وہ تمہاری بھلائی کا خواہشمند ہے یہاں تک کہ لوگوں کے غم میں مرا جاتا ہے۔ ‘‘
اسی طرح ایک دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے:
’’پس (اے پیغمبر) گویا تو مارے غم کے اپنی جان کو ہلاک کرے گا، اگریہ لوگ ایمان نہ لائیں خدا کی بات پر اور یہ بھی صحیح ہے کہ وہ دوسروں کی بھوک، برہنگی، مظلومیت، محرومیت، بیماری اور افلاس پر غم کھاتا ہے، یہاں تک کہ وہ اس پریشانی کی وجہ سے اپنے بستر پر شکم سیر ہو کر سوتا بھی نہیں کہ مبادا مملکت کے بہت دور کے شہروں میں کوئی بھوکا ہو۔ ‘‘(سورۂ کہف، آیت ۶)
حضرت علیؓ نے فرمایا:
’’دور ہے مجھ سے کہ خواہش نفسانی مجھ پر غلبہ پائے، حرص میری پیش رو بنے اور منتخب غذا تلاش کرے۔ ایسا نہ ہو کہ حجاز یا یمامہ میں کوئی بھوکا ہو، جس نے کبھی سیر ہو کر کھانا نہ کھایا ہو، کیا میں شکم سیر رہ سکتا ہوں، جب کہ میرے اطراف میں بھوکے پیٹ اور جلے ہوئے جگر موجود ہوں۔ ‘‘
لیکن ان سب باتوں کو رحم، رقت قلب، دل سوزی، نازک دلی اور ہمدردی پر محمول نہیں کرنا چاہئے، بلکہ انسان ہونے کی حیثیت سے شروع میں یعنی دوسرے انسانوں کی مانند تمام خصوصیات کا حامل ہوتا ہے، لیکن اس کے بعد اس کا وجود آتش خداوندی سے روشن ہو جاتا ہے، اس کی تمام انسانی صفات ایک دوسرے کے رنگ میں رنگی جاتی ہیں، جسے ’’خدائی رنگ‘‘ کہا جاتا ہے۔
پیغمبر کے تربیت یافتہ انسانوں اور اس کے معاصر معاشروں کے روشن خیال لوگوں کے تربیت یافتہ انسانوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ ان دونوں کے مابین بنیادی ترین فرق یہ ہے کہ پیغمبر اپنی کوششوں سے انسان کی فطری طاقتوں کو بیدار کرتا ہے اور انسانوں کے وجود کے مخفی شعور اور عشق کو متحرک کرتا ہے، پیغمبر اپنے آپ کو ’’بیدار کرنے والا‘‘ کہتا ہے، وہ انسانوں میں پوری کائنات کے مقابلے میں ایک احساس پیدا کرتا ہے اور کائنات کے بارے میں وہ اپنی ’’خود شناسی‘‘ کو اپنی امت میں منتقل کرتا ہے، لیکن ایک روشن خیال انسان زیادہ سے زیادہ لوگوں کے اجتماعی شعور کو بیدار کرتا اور ان کو ان کی قومی یا طبقاتی مصلحتوں سے آگاہ کرتا ہے۔
٭٭٭
ماخذ:
ان پیج سے کنورژن: علی رضا
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید