FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

انتخابِ کلامِ میر محمدی بیدارؔ

ماخذ: ریختہ ڈاٹ آرگ

جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

عاشق نہ اگر وفا کرے گا

پھر اور کہو تو کیا کرے گا

مت توڑیو دل صنم کسی کا

اللہ ترا بھلا کرے گا

ہے عالم خواب حال دنیا

دیکھے گا جو چشم وا کرے گا

جیتا نہ بیچے گا کوئی ظالم

ایسی ہی جو تو ادا کرے گا

کل کے تو کئی پڑے ہیں زخمی

کیا جانیے آج کیا کرے گا

آ جائے گا سامنے تو جس کے

دل کیا ہے کہ جی فدا کرے گا

کیا جانیے کیا کرے گا طوفاں

گر اشک یوں ہی بہا کرے گا

بیدارؔ یہ بیت درد رو رو

فرقت میں تری پڑھا کرے گا

"اپنی آنکھوں میں تجھ کو دیکھوں

ایسا بھی کبھو خدا کرے گا”

٭٭٭

گیا ہے جب سے دکھا جلوہ وہ پری رخسار

نہ خواب دیدۂ گریاں میں ہے نہ دل کو قرار

ہزار رنگ سے پھولے چمن میں گو گل زار

پر اس بغیر خوش آتی نہیں مجھے یہ بہار

برنگ لالۂ سر مے کشی نہیں تجھ بن

کہ خون دل سے میں ہر روز توڑتا ہوں

خمار

گلوں کے منہ پہ نہ یہ رنگ آب و تاب رہے

وہ رشک باغ کرے گر ادھر کو آ کے گزار

عجب نہیں کہ بہا دیوے خانۂ مردم

رہے گر اشک فشاں یوں ہی دیدۂ خوں بار

رہائی کیونکہ ہو یارب میں اس میں حیراں

ہوں

کہ ایک دل ہے مرا تس پہ درد و غم ہے ہزار

کہا میں اس بت ابرو کماں کی خدمت میں

خدنگ جبر نے تیرے کیا ہے مجھ کو نگار

نہ رحم تیرے دل سخت میں ہے غیر از ظلم

نہ میرے نالۂ جاں سوز میں اثر اے یار

نہ تاب ہجر کی رکھتا ہوں نے امید وصال

خدا ہی جانے کہ کیا ہوگا اس کا آخر کار

ہر ایک دن مجھے یوں سوجھتا ہے جی تن سے

نکل ہی جائے گا ہم راہ آہ آتش بار

نہ تو مزار پہ آوے گا تا دم محشر

رہے گی دیدۂ گریاں کو حسرت دیدار

عبث تو مجھ کو ڈراتا ہے اپنے مرنے سے

ہزار تجھ سے مرے مر گئے ہیں عاشق زار

یہ سن کے کہنے لگا وہ ستم گر بے رحم

مری بلا سے جو مر جائے گا تو اے بیدارؔ

٭٭٭

اس ستم گر سے جو ملا ہوگا

جان سے ہاتھ دھو چکا ہوگا

عشق میں تیرے ہم جو کچھ دیکھا

نہ کسی نے کبھی سنا ہوگا

آہ قاصد تو اب تلک نہ پھرا

دل دھڑکتا ہے کیا ہوا ہوگا

تو ہی آنکھوں میں تو ہی ہے دل میں

کون یاں اور تجھ سوا ہوگا

اے میاں گل تو کھل چکے پہ کبھو

غنچۂ دل مرا بھی وا ہوگا

دیکھ تو فال میں کہ وہ مجھ سے

نہ ملے گا ملے گا کیا ہوگا

ہے یقیں مجھ کو تجھ ستم گر سے

دل کسی کا اگر لگا ہوگا

نالہ و آہ کرتے ہی کرتے

ایک دن یوں ہی مر گیا ہوگا

کوئی ہوگا کہ دیکھ اسے بیدارؔ

دل و دیں لے کے تج رہا ہوگا

٭٭٭

بے مروت بے وفا نامہرباں نا آشنا

جس کے یہ اوصاف کوئی اس سے ہو کیا

آشنا

تنگ ہو سائے سے اپنے جس کو ہو نا

آشنا

وہ بت وحشی طبیعت کس کا ہوگا آشنا

واہ واہ اے دل بر کج فہم یوں ہی چاہئے

ہم سے ہو نا آشنا غیروں سے ہونا آشنا

بد مزاجی ناخوشی آزردگی کس واسطے

گر برے ہم ہیں تو ہو جئے اور سے جا آشنا

یہ ستم یہ درد یہ غم اور الم مجھ پر ہوا

کاش کہ تجھ سے میں اے ظالم نہ ہوتا آشنا

نے ترحم نے کرم نے مہر ہے اے بے وفا

کس توقع پر بھلا ہو کوئی تیرا آشنا

آشنا کہنے کو یوں تو آپ کے ہوویں گے سو

پر کوئی اے مہرباں ایسا نہ ہوگا آشنا

خیر خواہ و مخلص و فدوی جو کچھ کہئے سو ہوں

عیب کیا ہے گر رہے خدمت میں مجھ سا آشنا

آشنائی کی توقع کس سے ہو بیدارؔ پھر

ہو گیا بیگانہ جب ایسا ہی اپنا آشنا

٭٭٭

تنہا نہ دل ہی لشکر غم دیکھ ٹل گیا

اس معرکے میں پائے تحمل بھی چل گیا

ہیں گرم گفتگو گل و بلبل چمن کے بیچ

ہوگا خلل صبا جو کوئی پات مل گیا

اس شمع رو سے قصد نہ ملنے کا تھا ہمیں

پر دیکھتے ہی موم صفت دل پگھل گیا

منعم تو یاں خیال عمارت میں کھو نہ عمر

لے کون اپنے ساتھ یہ قصر و محل گیا

لاگی نہ غیر یاس حیات امید ہاتھ

دنیا سے جو گیا کف افسوس مل گیا

اس راہ رو نے دم میں کیا طے رہ عدم

ہستی کے سنگ سے جو شرر سا

اچھل گیا

دیکھا ہر ایک ذرے میں اس آفتاب کو

جس چشم سے کہ بے بصری کا خلل گیا

گزری شب شباب ہوا روز شیب اخیر

کچھ بھی خبر ہے قافلہ آگے نکل گیا

قابل مقام کے نہیں بیدارؔ یہ سرائے

منزل ہے دور خواب سے اٹھ دن تو ڈھل گیا

٭٭٭

جانوں میں نہ جبکہ نام اس کا

پوچھوں کیا کہہ مقام اس کا

ہے دل کوں تپش کچھ اور ہی آج

لاتا ہے کوئی پیام اس کا

نامہ کہ تو کیا جگہ کہ قاصد

لایا ہی نہ یاں سلام اس کا

مت لیجیو دل تو چاہ کا نام

قتل عاشق ہے کام اس کا

ہو جائے گا پائمال بیدارؔ

دیکھے گا اگر خرام اس کا

٭٭٭

جلوہ دکھا کے گزرا وہ نور دیدگاں کا

تاریک کر گیا گھر حسرت کشیدگاں کا

غم یار کا نہ بھولے سو باغ اگر دکھا دیں

کب دل چمن میں وا ہو ماتم رسیدگاں کا

رنگ حنا پہ تہمت اس لالہ رو نے باندھی

ہاتھوں میں مل کے آیا خوں دل طپیدگاں

کا

اہل قبور اوپر وہ شوخ کل جو گزرا

بیتاب ہو گیا دل خاک آرمیدگاں کا

یوں میرؔ سے سنا ہے وہ مست جام بیدارؔ

تہ کر گیا مصلٰی عزلت گزیدگاں کا

٭٭٭

جو کچھ کہ تھا وظائف و اوراد رہ گیا

تیرا ہی ایک نام فقط یاد رہ گیا

ظالم تری نگہ نے کئے گھر کے گھر خراب

ہوگا کوئی مکاں کہ وہ آباد رہ گیا

جاتے ہیں ہم صفیر چمن کو پر ایک میں

یاں کشتۂ تغافل صیاد رہ گیا

جوں ہی دو چار آ کے ہوا وہ نظر فریب

لے کر قلم کو ہاتھ میں بہزاد رہ گیا

اس سرو گل عذار کی طرز خرام دیکھ

خجلت سے گڑ زمین میں شمشاد رہ

گیا

کس کس کا دل نہ شاد کیا تو نے اے فلک

اک میں ہی غمزدہ ہوں کہ ناشاد رہ گیا

بیدارؔ راہ عشق کسی سے نہ طے ہوئی

صحرا میں قیس کوہ میں فرہاد رہ گیا

٭٭٭

جو وہ بہار عذار خوبی چمن میں آتا خرام کرتا

صنوبر و سرو ہر ایک آ کر ضرور اس کو سلام کرتا

فگار تیغ ستم کے اب تک کریں ہیں نالہ برنگ بلبل

قیامت اے گل عجب ہی ہوتی تو گر کسی سے کلام کرتا

جو پاتا لذت بسان ساقی مے محبت سے تیری زاہد

نکل حرم سے وہ بت کدے میں مقام اپنا مدام کرتا

جو اوپری رو تجھے دکھاتا جمال اپنا تو ووہیں ناصح!

ہمارے مانند چھوڑ گھر کو گلی میں اس کی قیام کرتا

خیال اس کے سے اتنی فرصت کہاں کہ فکر سخن کروں میں

وگرنہ بیدارؔ اس غزل کو قصیدہ میں لا کلام کرتا

٭٭٭

دل سے پوچھا تو کہاں ہے تو کہا تجھ کو کیا

کس کی زلفوں میں نہاں ہے تو کہا تجھ کو کیا

چشم گریاں سے شب وصل میں پوچھا میں نے

اب تو کیوں اشک فشاں ہے تو کہا تجھ کو کیا

جب کہا میں نے کہ نیں بولتے ہو گالی بن

جان یہ کون زباں ہے تو کہا تجھ کو کیا

کہنے لاگا دل گم گشتہ ترا ہے مجھ پاس

جب کہا میں نے کہاں ہے تو کہا تجھ کو کیا

جب کہا میں نے کہ اے جان تری صورت پر

شیفتہ پیر و جواں ہے تو کہا تجھ کو کیا

جب کہا میں نے کہ اے سرو ریاض خوبی

کس کا تو آفت جاں ہے تو کہا تجھ کو کیا

دل سے بیدارؔ نے پوچھا کہ ترے سینے پر

کس کے ناوک کا نشاں ہے تو کہا تجھ کو کیا

دیتا نہیں دل لے کے وہ مغرور کسی کا

سچ ہے کہ نہ ظالم سے چلے زور کسی کا

آرائش حسن آئینہ رخ کرتے ہو ہر دم

لینا ہے مگر دم تمہیں منظور کسی کا

بے وجہ نہیں تابش ارباب صفا کو

ہے جلوہ گر اس آئینہ میں نور کسی کا

آتا ہے نظر یاں جو ہر ایوان شکستہ

یک وقت میں تھا خانۂ معمور کسی کا

وہ شوخ پری رشک بکف تیغ سیہ مست

آتا ہے کئے شیشۂ دل چور کسی کا

روکوں میں اب اس کو سر راہے کبھی آ کے

اتنا تو میں رکھوں نہیں مقدور کسی کا

بیدارؔ مجھے یاد اسی کی ہے شب و روز

نے بات کسی کی ہے نے مذکور کسی کا

٭٭٭

غم جگر شکن و درد جاں ستاں دیکھا

تمہارے عشق میں کیا کیا نہ مہرباں دیکھا

ہر ایک مجلس خوباں میں دل ستاں دیکھا

نہ کوئی تجھ سا پر اے آفت جہاں دیکھا

میں وہ اسیر ہوں جن نے کہ داغ یاس سوا

نہ سیر لالہ ستاں کی نہ گلستاں دیکھا

جس آنکھ میں نہ سماتی تھی بوند آنسو کی

اب اس نے غم میں ترے سیل خوں رواں دیکھا

نہ کوہ کن نے وہ دیکھا کبھی نہ مجنوں نے

تمہارے عشق میں جو ہم نے اے بتاں دیکھا

ہزار گرچہ ہیں بیمار تیری آنکھوں کے

پر ان میں کوئی بھلا مجھ سا ناتواں دیکھا

میں وہ مریض ہوں پیارے کہ جن نے مدت سے

سوائے درد نہ آرام یک زماں دیکھا

کیا سوال میں بیدارؔ سے کہ اے مہجور

کبھی بھی تو نے بھلا وصل دل ستاں دیکھا

مفارقت ہی میں کیا عمر کھوئی میری طرح

کہ عشق میں دل غمگیں نہ شادماں دیکھا

یہ سن کے رونے لگا اور بعد رونے کے

کہا نہ پوچھو جو کچھ میں نے اے میاں دیکھا

فراق یار جفائے شمانت اعدا

غم دل و ستم پند ناصحاں دیکھا

نہ پائی ذرہ بھی اس اشک گرم کی تاثیر

نہ ایک دم اثر نالہ و فغاں دیکھا

جہاں میں وصل ہے سنتا ہوں مدتوں سے ولیک

سوائے نام نہ اس کا کہیں نشاں دیکھا

٭٭٭

قبول تھا کہ فلک مجھ پہ سو جفا کرتا

پر ایک یہ کہ نہ تجھ سے مجھے جدا کرتا

کروں ہوں شاد دل اپنا ترے تصور سے

اگر یہ شغل نہ ہوتا تو کیا کیا کرتا

سفید صفحۂ کاغذ کہیں نہ پھر رہتا

اگر میں جور و جفا کو تری لکھا کرتا

حنا کی طرح اگر دسترس مجھے ہوتی

تو کس خوشی سے ترے پاؤں میں لگا کرتا

غم فراق گر ایسا میں جانتا بیدارؔ

تو اپنے دل کو کسی سے نہ آشنا کرتا

٭٭٭

کل وہ جو پئے شکار نکلا

ہر دل ہو امیدوار نکلا

جینے کی نہیں امید ہم کو

تیر اس کا جگر کے پار نکلا

ہم خاک بھی ہو گئے پر اب تک

دل سے نہ ترے غبار نکلا

جوں بام پہ بے نقاب ہو کر

وہ ماہ رخ ایک بار نکلا

اس روز مقابل اس کے خورشید

نکلا بھی تو شرمسار نکلا

غم خوار ہو کون اب ہمارا

جب تو ہی نہ غم گسار نکلا

تھے جس کی تلاش میں ہم اب تک

پاس اپنے ہی وہ نگار نکلا

ہر چند میں کی سرشک باری

پر دل سے نہ یہ بخار نکلا

گزرا ہے خیال کس کا جی میں

ایسا جو تو بے قرار نکلا

بیدارؔ ہے خیر تو کہ شب کو

جوں شمع تو اشک بار نکلا

٭٭٭

کہاں ہم رہے پھر کہاں دل رہے گا

اسی طرح گر تو مقابل رہے گا

کھلی جب گرہ بند ہستی کی تجھ سے

تو عقدہ کوئی پھر نہ مشکل رہے گا

دل خلق میں تخم احساں کے بو لے

یہی کشت دنیا کا حاصل رہے گا

حجاب خودی اٹھ گیا جب کہ دل سے

تو پردہ کوئی پھر نہ حائل رہے گا

نہ پہنچے گا مقصد کو کم ہمتی سے

جو سالک طلب گار منزل رہے گا

نہ ہوگا تو آگاہ عرفان حق سے

گر اپنی حقیقت سے غافل رہے گا

خفا مت ہو بیدارؔ اندیشہ کیا ہے

ملا گر نہ وہ آج کل مل رہے گا

٭٭٭

گر اسی طرح سج بنائیے گا

محشر آباد کر دکھائیے گا

عمر وعدوں ہی میں گنوائیے گا

آئیے گا بھی یا نہ آئیے گا

مہرباں قدر جانیے میری

مجھ سا مخلص کہیں نہ پائیے گا

یہی قامت ہے گر یہی رفتار

حشر برپا ہی کر دکھائیے گا

یہی رونا اگر ہے اے انکھیوں

خانۂ مردماں ڈبائیے گا

ماہ رویاں کہاں تلک ہم کو

آتش ہجر میں جلائیے گا

ضبط گریہ نہ ہووے گا جوں شمع

سوز دل گر تمہیں سنائیے گا

حسن جاتا ہے خط کی آمد ہے

ہاں ہمیں کیوں نہ اب منائیے گا

مغتنم جانو ہم سے مخلص کو

ڈھونڈئیے گا تو پھر نہ پائیے گا

یہ نہ ہوگا کہ یاں سے اٹھ جاویں

ایسی سو باتیں گر سنائیے گا

ایک دو کیا ہزار سے بھی ہم

نہیں ڈرتے اگر بلائیے گا

آج جو ہو سو ہو یہی ہے عزم

تم کو ہر طرح لے کے جائیے گا

جس نے بیدارؔ دل لیا میرا

ایک دن تجھ کو بھی دکھائیے گا

٭٭٭

گر کہیں اس کو جلوہ گر دیکھا

نہ گیا ہم سے آنکھ بھر دیکھا

نالہ ہر چند ہم نے گر دیکھا

آہ اب تک نہ کچھ اثر دیکھا

آج کیا جی میں آ گیا تیرے

متبسم ہو جو ادھر دیکھا

آئینہ کو تو منہ دکھاتے ہو

کیا ہوا ہم نے بھی اگر دیکھا

دل ربا اور بھی ہیں پر ظالم

کوئی تجھ سا نہ مفت پر دیکھا

اور بھی سنگ دل ہوا وہ شوخ

تیرا اے آہ بس اثر دیکھا

منت و عاجزی و زاری و آہ

تیرے آگے ہزار کر دیکھا

تو بھی تو نے نہ اے مہ بے مہر

نظر رحم سے ادھر دیکھا

سچ ہے بیدارؔ وہ ہے آفت جان

ہم نے بھی قصہ مختصر دیکھا

٭٭٭

مست ہم کو شراب میں رہنا

کچھ ہو اس سیر آب میں رہنا

ابھی تو کچھ نیں کیا ہے غصے ہو

یونہی یونہی عتاب میں رہنا

اور سے بے حجابیاں کرنا

ایک ہم سے حجاب میں رہنا

تجھ بن اے شمع رو مجھے ہر شب

شعلہ سا اضطراب میں رہنا

یاد میں اس کی زلف کی اے دل

کب تئیں پیچ و تاب میں رہنا

کچھ تنبہ تجھے نہیں اب تک

نام بیدارؔ خواب میں رہنا

٭٭٭

مے کدے میں جو ترے حسن کا مذکور ہوا

سنگ غیرت سے مرا شیشۂ دل چور ہوا

ایک تو آگے ہی تھا حسن پر اپنے نازاں

آئینہ دیکھ کے وہ اور بھی مغرور ہوا

صبح ہوتے ہی ہوا مجھ سے جدا وہ مہ رو

روز گویا مرے حق میں شب دیجور ہوا

تیغ مت کھینچ کہ ایک جنبش ابرو بس ہے

گر مرا قتل ہی ظالم تجھے منظور ہوا

از پئے داغ دل بادہ پرستاں بیدارؔ

پنبۂ شیشۂ مے مرہم کافور ہوا

٭٭٭

مے و ساقی ہیں سب یکجا اَہاہاہا اَہاہاہا

عجب عالم ہے مستی کا اَہاہاہا اَہاہاہا

بہار آئی تڑانے پھر لگے زنجیر دیوانے

ہوا شور جنوں برپا اَہاہاہا اَہاہاہا

جن آنکھوں نے نہ دیکھا تھا کبھی یک اشک کا قطرہ

چلے ہیں اس سے اب دریا اَہاہاہا اَہاہاہا

مرے گھر اس ہوا میں ساقی‌ و مطرب اگر ہوتے

تو کیسے مے کشی کرتا اَہاہاہا اَہاہاہا

کیا بیدارؔ سے عاشق کو تو نے قتل اے ظالم

کوئی کرتا ہے کام ایسا اَہاہاہا اَہاہاہا

٭٭٭

ہم پہ سو ظلم و ستم کیجئے گا

ایک ملنے کو نہ کم کیجئے گا

بھاگتے خلق سے کچھ کام نہیں

قصد ہے آپ سے رم کیجئے گا

گر یہی زلف و یہی مکھڑا ہے

غارت دیر و حرم کیجئے گا

گر رہی یوں ہی گل فشانیِ اشک

جا بہ جا رشک ارم کیجئے گا

جی میں ہے آج بجائے مکتوب

یہی بیت اس کو رقم کیجئے گا

مہربانی سے پھر اے بندہ نواز

کہیے کس روز کرم کیجئے گا

نیند آوے گی نہ تنہا بیدارؔ

تا نہ خواب اس سے بہم کیجئے گا

٭٭٭

لے چکے دل تو جنگ کیا ہے اب

آ ملو پھر درنگ کیا ہے اب

پی گئے خم کے خم نہ کی مستی

یاں شراب فرنگ کیا ہے اب

اس نگہ کا ہے دل جراحت کش

زخم تیغ و خدنگ کیا ہے اب

ہوں میں دریائے عشق کا غواص

خوف کام نہنگ کیا ہے اب

دید و وا دید تو ہوے باہم

شرم اے شوخ و سنگ کیا ہے اب

دل سے وحشی کے تئیں شکار کیا

صید شیر و پلنگ کیا ہے اب

تھی جو رسوائی ہو چکی بیدارؔ

پاس ناموس و ننگ کیا ہے اب

٭٭٭

اے شمع دل افروز شب تار محبت

بخشے ہے یہی گرمی بازار محبت

کرتے ہیں عبث مجھ دل بیمار کا درماں

وابستہ مری جاں سے ہے آزار محبت

اے لالہ رخاں ان کے تئیں داغ نہ سمجھو

پھولا ہے مرے سینہ میں گل زار محبت

گر ہم سے چھپاتا ہے تو بیدارؔ ولیکن

انکار ہی تیرا ہے یہ اقرار محبت

رہتا ہے مری جان کہیں عشق بھی پنہاں

ظاہر ہیں تری شکل سے آثار محبت

بیدارؔ کروں کس سے میں اظہار محبت

بس دل ہے مرا محرم اسرار محبت

ہر بو الہوس اس جنس کا ہوتا ہے گا خواہاں

جاں باختہ خواں ہوویں خریدار محبت

اے شیخ قدم رکھیو نہ اس راہ میں زنہار

ہے سبحہ شکن رشتۂ زنار محبت

کرتے ہیں عبث مجھ دل بیمار کا درماں

وابستہ مری جاں سے ہیں آزار محبت

بچ جاؤں اس آزار سے بیدارؔ گر اب کی

ہوں گا نہ کبھی پھر میں گرفتار محبت

٭٭٭

دل سلامت اگر اپنا ہے تو دل دار بہت

ہے یہ وہ جنس کہ جس کے ہیں خریدار بہت

ایک میں ہی ترے کوچے میں نہیں ہوں بیتاب

سر پٹکتے ہیں خبر لے پس دیوار بہت

دیکھیے کس کے لگے ہاتھ ترا گوہر وصل

اس تمنا میں تو پھرتے ہیں طلب گار بہت

کہیں نرگس کو مگر تو نے دکھائیں آنکھیں

نہیں بچتے نظر آتے ہیں یہ بیمار بہت

کیا کروں کس سے کہوں حال کدھر کو جاؤں

تنگ آیا ہوں ترے ہاتھ سے دل دار بہت

اپنے عاشق سے کیا پوچھو تو کیسے یہ سلوک

اور بھی شہر میں ہیں تجھ سے طرحدار بہت

ترے آتے تو کوئی پھول نہ ہوگا سرسبز

کیا ہوا باغ میں گو پھولے تھے گل زار بہت

ایک دن تجھ کو دکھاؤں گا میں ان خوباں کو

دعویِ یوسفی کرتے تو ہیں اظہار بہت

جرم بوسہ پہ جو بیدارؔ کو مارا مارا

نہ کرو جانے دو اس بات پہ تکرار بہت

٭٭٭

کھو دیا نور بصیرت تو نے ما و من کے بیچ

جلوہ گر تھا ورنہ وہ خورشید تیرے من کے بیچ

پارۂ بےکار ہیں وحدت میں جب تک ہے دوئی

راہ یکتائی ہے رشتہ کے تئیں سوزن کے بیچ

صاف کر دل تاکہ ہو آئینۂ رخسار یار

مانع روشن دلی ہے زنگ اس آہن کے بیچ

ظاہر و پنہاں ہے ہر ذرہ میں وہ خورشید رو

آشکار و مختفی ہے جان جیسے تن کے بیچ

دور ہو گر شامہ سے تیرے غفلت کا زکام

تو اسی کی بو کو پاوے ہر گل و سوسن کے بیچ

کوچہ گردی تا کجا جوں کاہ باد جرس سے

گاڑ کر پا بیٹھ مثل کوہ تو مسکن کے بیچ

کیوں عبث بھٹکا پھرے ہے جوں زلیخا شہر شہر

جلوۂ یوسف ہے غافل تیرے پیراہن کے بیچ

کب دماغ اپنا کہ کیجے جا کے گلگشت چمن

اور ہی گل زار اپنے دل کے ہے گلشن کے بیچ

مت مجھے تکلیف سیر باغ دے بیدارؔ تو

گل سے رنگیں تر ہے یاں لخت جگر دامن کے بیچ

٭٭٭

نہ دیا اس کوں یا دیا قاصد

سچ بتا نامہ کیا کیا قاصد

نہ پھرا آہ کوئی لے کے جواب

جو گیا واں سو گم ہوا قاصد

آج آوے گا یا نہ آوے گا

میرے گھر میں وہ دل ربا قاصد

دل کو ہے سخت انتظار جواب

کہہ شتابی سے کیا کہا قاصد

کوچۂ یار میں مرے زنہار

جائیو مت برہنہ پا قاصد

خار مژگان کشتگان وفا

واں ہیں افتادہ جا بجا قاصد

۔۔ق۔۔

نامۂ شوق کو مرے لے کر

یار کے پاس جب گیا قاصد

مہر کو خط کی دیکھ کہنے لگا

کون بیدارؔ ہے بتا قاصد!

جس نے بھیجا ہے تیرے ہاتھ یہ خط

میں نہیں اس سے آشنا قاصد

٭٭٭

نہ غم دل نہ فکر جاں ہے یاد

ایک تیری ہی بر زباں ہے یاد

تھا جو کچھ وعدۂ وفا ہم سے

کچھ بھی وہ تم کو مہرباں ہے یاد

اگلے ملنے کی طرح بھول گئے

کیا بتاؤں تمہیں کہاں ہے یاد

ہوں میں پابند الفت صیاد

کب مجھے باغ و بوستاں ہے یاد

محو تیرے ہی رو و زلف کے ہیں

نہ ہمیں وہ نہ یہ جہاں ہے یاد

دیدہ و دل میں تو ہی بستا ہے

تجھ سوا کس کی اور یاں ہے یاد

اور کچھ آرزو نہیں بیدارؔ

ایک اس کی ہی جاوداں ہے یاد

٭٭٭

تجھ بن سرشک خوں کا ہے آنکھوں سے طغیاں اس قدر

برسا نہیں اب تک کہیں ابر بہاراں اس قدر

گلشن میں گر دیکھیں مجھے ہوئیں سنبل و نرگس خجل

دل ہے پریشاں اس قدر آنکھیں ہیں حیراں اس قدر

رکھتا ہے تو جس جا قدم ہوتا ہے لوہو کا نشاں

پامال کرتا ہے کوئی خون شہیداں اس قدر

ڈھونڈھے جو تو دامن تلک پاوے نہ ثابت تو اسے

میں چاک پھرتا ہوں کئے ناصح گریباں اس قدر

بیدارؔ کو دکھلا کے تو نے قتل اوروں کو کیا

کرتا ہے اے ظالم کوئی ظلم نمایاں اس قدر

٭٭٭

حیف ہے ایسی زندگانی پر

کہ فدا ہو نہ یار جانی پر

تیری گل کاری ابر ہو برباد

گر فدا ہو نہ یار جانی پر

حال سن سن کے ہنس دیا میرا

کچھ تو آیا ہے مہربانی پر

خون کشتوں کے ہو گیا دل کا

تیری دستار ارغوانی پر

رات بیدارؔ وہ مہ تاباں

سن کے رویا مری کہانی پر

٭٭٭

وجد اہل کمال ہے کچھ اور

شیخ صاحب کا حال ہے کچھ اور

ہوش جاتا ہے اہل ہوش کا سن

تیرے مستوں کا حال ہے کچھ اور

فخر انساں نہیں ملک ہونا

جی میں اپنے خیال ہے کچھ اور

جس کو کہتے ہیں وصل وصل نہیں

معنیِ اتصال ہے کچھ اور

غیر حرف نیاز سو بھی کبھو

کہہ سکوں ہوں مجال ہے کچھ اور

رخ خورشید پر کہاں وہ نور

میرے مہ کا جمال ہے کچھ اور

سرو! دعویِ ہم سری مت کر

وہ قد نونہال ہے کچھ اور

کبک تو خوش خرام ہے لیکن

یار کی میرے چال ہے کچھ اور

دیکھ چل تو بھی حالت بیدارؔ

آج اس کا تو حال ہے کچھ اور

٭٭٭

سبھوں سے یوں تو ہے دل آپ کا خوش

اگر پوچھو تو ہے ہم سے ہی ناخوش

خوشی تیری ہی ہے منظور ہم کو

بلا سے گر کوئی ناخوش ہو یا خوش

رواق چشم و قصر دل کیا سیر

نہ کی پر آپ نے یاں کوئی جا خوش

جفا کر یا وفا مختار ہے تو

مجھے یکساں ہے کیا ناخوش ہے کیا خوش

نہیں اس میں تو غیر از جور لیکن

مجھے کیا جانے کیا آئی ادا خوش

کیا ہے گرچہ ناخوش تو نے ہم کو

رکھے پر اے بتاں تم کو خدا خوش

خوشی ہے سب کو روز عید کی یاں

ہوئے ہیں مل کے باہم آشنا خوش

بھلا کچھ بھی مناسب ہے مری جاں

کہ ہو تو آج کے دن مجھے سے ناخوش

بتا ایسی کوئی تدبیر بیدارؔ

کہ جس سے ہووے میرا دل ربا خوش

٭٭٭

جاتا ہے مرے گھر سے دل دار خدا حافظ

ہے زندگی اب مشکل بے یار خدا حافظ

وہ مست شراب حسن غصے سے نہایت ہی

کھینچے ہوئے آتا ہے تلوار خدا حافظ

مجھ پاس طبیب آ کے کہنے لگا اے یار

بے طرح کا ہے اس کو آزار خدا حافظ

حاصل نہیں درماں کا وہ ہے یہ مرض جس سے

جاں بر نہ ہوا کوئی بیمار خدا حافظ

بے طرح کچھ ایدھر کو وہ مست شراب حسن

کھینچے ہوئے آتا ہے تلوار خدا حافظ

اے شیخ تو اس بت کے کوچے میں تو جاتا ہے

ہو جائے نہ یہ سبحہ زنار خدا حافظ

ڈرتا ہوں کہ دل ہر دم ملتا ہے نہ ہو جاوے

اس چشم ستم گر کا بیمار خدا حافظ

یوں مہر سے فرمایا اس ماہ نے وقت صبح

ہم جانے ہیں اب تیرا بیدارؔ خدا حافظ

٭٭٭

کیوں نہ لے گلشن سے باج اس ارغواں سیما کا رنگ

گل سے ہے خوش رنگ تر اس کے حنائی پا کا رنگ

جوں ہی منہ پر سے اٹھا دی باغ میں آ کر نقاب

اڑ گیا رنگ چمن دیکھ اس رخ زیبا کا رنگ

سر پہ دستار بسنتی بر میں جامہ قرمزی

کھب گیا دل میں ہمارے اس گل رعنا کا رنگ

آج ساقی دیکھ تو کیا ہے عجب رنگین ہوا

سرخ مے کالی گھٹا اور سبز ہے مینا کا رنگ

دے تو اس ابر سیہ میں جام جلدی سے مجھے

دل بھرا آتا ہے میرا دیکھ کر صہبا کا رنگ

جس طرف دیکھوں ہوں اب بیدارؔ تیرے اشک سے

ہو رہا ہے سرخ یکسر دامن صحرا کا رنگ

٭٭٭

آ تیری گلی میں مر گئے ہم

منظور جو تھا سو کر گئے ہم

تجھ بن گلشن میں گر گئے ہم

جوں شبنم چشم تر گئے ہم

پاتے نہیں آپ کو کہیں یاں

حیران ہیں کس کے گھر گئے ہم

اس آئینہ رو کے ہو مقابل

معلوم نہیں کدھر گئے ہم

گو بزم میں ہم سے وہ نہ بولا

باتیں آنکھوں میں کر گئے ہم

تجھ عشق میں دل تو کیا کہ ظالم

جی سے اپنے گزر گئے ہم

شب کو اس زلف کی گلی میں

لینے دل کی خبر گئے ہم

گنجائش مو بھی واں نہ پائی

دل پر دل تھا جدھر گئے ہم

جوں شمع اس انجمن سے بیدارؔ

لے داغ دل و جگر گئے ہم

٭٭٭

شبنم تو باغ میں ہے نہ یوں چشم تر کہ ہم

غنچہ بھی اس قدر ہے نہ خونی جگر کہ ہم

جوں آفتاب اس مہ بے مہر کے لیے

ایسے پھرے نہ کوئی پھرا در بدر کہ ہم

کہتا ہے نالہ آہ سے دیکھیں تو کون جلد

اس شوخ سنگ دل میں کرے تو ہے گھر کہ ہم

ہے ہر در سخن پہ سزا وار گوش یار

موتی صدف رکھے ہے پر ایسے گہر کہ ہم

منہ پر سے شب نقاب اٹھا یار نے کہا

روشن جمال دیکھ تو اب ہے قمر کہ ہم

زر کیا ہے مال تجھ پہ کریں نقد جاں نثار

اتنا تو اور کون ہے اے سیم بر کہ ہم

تا زیست ہم بتوں کے رہے ساتھ مثل زلف

یوں عمر کس نے کی ہے جہاں میں بسر کہ ہم

غصہ ہو کس پہ آئے ہو جو تیوری چڑھا

لائق عتاب کے نہیں کوئی مگر کہ ہم

بیدارؔ شرط ہے نہ پلک سے پلک لگے

دیکھیں تو رات جا کے ہے یا تو سحر کہ ہم

٭٭٭

محو رخ یار ہو گئے ہم

سو جی سے نثار ہو گئے ہم

فتراک سے باندھ خواہ مت باندھ

اب تیرے شکار ہو گئے ہم

دامن کو نہ پہنچے تیرے اب تک

ہر چند غبار ہو گئے ہم

آتا نہیں کوئی اب نظر میں

کس سے یہ دو چار ہو گئے ہم

تھا کون کہ دیکھتے ہی جس کے

یوں عاشق زار ہو گئے ہم

ہستی ہی حجاب تھی جو دیکھا

اس بحر سے پار ہو گئے ہم

بیدارؔ سرشک لالہ گوں سے

ہم چشم بہار ہو گئے ہم

٭٭٭

نے فقط تجھ حسن کی ہے ہند کی خوباں میں دھوم

ہے تیری زلف چلیپا کی فرنگستان میں دھوم

کیا کریں پابستۂ کوئے بتاں ہیں ورنہ ہم

کرتے جوں فرہاد و مجنوں دشت و کوہستاں میں دھوم

دیکھ تیرے منہ کو کچھ آئینہ ہی حیراں نہیں

تجھ رخ روشن کی ہے مہر و مہ و تاباں میں دھوم

اے بہار گلشن ناز و نزاکت ہر طرف

تیرے آنے سے ہوئی ہے اور بھی بستاں میں دھوم

شعر کہنا گرچہ چھوڑا تو نے اے بیدارؔ آج

کہہ غزل ایسی کہ ہو بزم سخن سنجان میں دھوم

٭٭٭

یہ بھی کوئی وضع آنے کی ہے جو آتے ہو تم

ایک دم آئے نہیں گزرا کہ پھر جاتے ہو تم

دور سے یوں تو کوئی جھمکی دکھا جاتے ہو تم

پر جو چاہوں یہ کہ پاس آؤ کہاں آتے ہو تم

کہیے مجھ سے تو بھلا اتنا کہ کچھ میں بھی سنوں

بندہ پرور کس کے ہاں تشریف فرماتے ہو تم

اس پری صورت بلا انگیز کو دیکھا نہیں

ناصحو معذور ہو گر مجھ کو سمجھاتے ہو تم

دیکھیے خرمن پہ یہ برق بلا کس کے پڑے

بے طرح کچھ تیوری بدلے چلے آتے ہو تم

جو کوئی بندہ ہو اپنا اس سے پھر کیا ہے حجاب

میں تو اس لائق نہیں جو مجھ سے شرماتے ہو تم

آج یہ گو اور یہ میداں انہیں کہہ دیجئے

دیکھ لوں جن کے بھروسے مجھ کو دھمکاتے ہو تم

پھر نہ آویں گے کبھی ایسی ہی گر آزردہ ہو

بس چلے ہم خوش رہو کاہے کو جھنجلاتے ہو تم

حالت بیدارؔ اب کیا کیجئے آپ آگے بیاں

وقت ہے اب بھی اگر تشریف فرماتے ہو تم

٭٭٭

انجمن ساز عیش تو ہے یہاں

اور پھر کس کی آرزو ہے یہاں

من و تو کی نہیں ہے گنجائش

حرف وحدت کی گفتگو ہے یہاں

کام کیا شمع کا ہے لے جاؤ

دل بر آفتاب رو ہے یہاں

دل میں اپنے نہیں کچھ اور تلاش

ایک تیری ہی جستجو ہے یہاں

دست بوسی کو تیری اے ساقی

منتظر ساغر اور سبو ہے یہاں

آ شتابی کہ ہے مکان لطیف

سیر گلزار و آب جو ہے یہاں

کیا ترے گھر میں رات تھا بیدارؔ

اس گل اندام کی سی بو ہے یہاں

٭٭٭

آہ اے یار کیا کروں تجھ بن

نالۂ زار کیا کروں تجھ بن

ایک دم بھی نہیں قرار مجھے

اے ستم گار کیا کروں تجھ بن

ہوں تری چشم مست کا مشتاق

جام سرشار کیا کروں تجھ بن

گو بہار آئی باغ میں لیکن

سیر گلزار کیا کروں تجھ بن

دل ہے بیتاب چشم ہے بے خواب

جان بیدارؔ کیا کروں تجھ بن

٭٭٭

بہار گلشن ایام ہوں میں

سحر نور و سواد شام ہوں میں

شتاب آ اے مہ عیسیٰ نفس تو

کہ خورشید کنار بام ہوں میں

اگر منظور ہے آنا تو جلد آ

کہ تجھ بن سخت بے آرام ہوں میں

بجائے مے تری دوری میں اے گل

برنگ لالہ خوں آشام ہوں میں

محب و مخلص و فدوی ہوں تیرا

سمجھ تو لائق دشنام ہوں میں

تجھے دیکھ آپ میں رہتا نہیں میں

غرض تجھ وصل سے ناکام ہوں میں

بہار آئی چمن میں گو مجھے کیا

گرفتار و اسیر دام ہوں میں

نشاں اپنا کہیں پایا نہیں یاں

فقط عنقا صفت یک نام ہوں میں

نہ پیغام و سلام و نے ملاقات

عبث تجھ عشق میں بد نام ہوں میں

نہ ہوں پروانۂ ہر شمع بیدارؔ

فدائے سرو گل اندام ہوں میں

٭٭٭

بھرے موتی ہیں گویا تجھ دہن میں

کہ در ریزی تو کرتا ہے سخن میں

بہار آرا وہی ہے ہر چمن میں

اسی کی بو ہے نسرین و سمن میں

نہ پھر ایدھر ادھر ناحق بھٹکتا

کہ ہے وہ جلوہ گر تیرے ہی من میں

جہاں وہ ہے نہیں واں کفر و اسلام

عبث جھگڑا ہے شیخ و برہمن میں

ہوئی جاتی ہے پانی شرم سے شمع

مگر وہ ماہ آیا انجمن میں

چھڑایا تھا نپٹ مشکل سے پھر آہ

دل اٹکا اس کی زلف پر شکن میں

جنوں نے دست کاری ایسی بھی کی

نہ تھا گویا گریباں پیرہن میں

مرا جاتا ہے جس غیرت میں دریا

گرا کس کا ہے دل چاہ ذقن میں

مگر پروانہ جل کر ہو گیا خاک

کہ رو رو شمع جلتی ہے لگن میں

جو سنتے تھے دم عیسیٰ کا اعجاز

سو دیکھا ہم نے وہ تیرے سخن میں

نہ دیکھا اس پری جلوہ کو بیدارؔ

رہا مشغول تو یاں ما و من میں

٭٭٭

پاوے کس طرح کوئی کس کو ہے مقدور ہمیں

لے گیا عشق ترا کھینچ بہت دور ہمیں

صبح کی رات تو رو رو کے اب آ اے بے مہر

روز روشن کو دکھا مت شب دیجور ہمیں

ربط کو چاہئے یک نوع کی جنسیت یاں

چشم بیمار اسے ہے دل رنجور ہمیں

بات گر کیجے تو ہے بندہ نوازی ورنہ

دیکھنا ہی ہے فقط آپ کا منظور ہمیں

الفت اس شوخ کی چھوٹے ہے کوئی جیتے جی

رکھو اس پند سے اے ناصحو معذور ہمیں

پی ہے مے رات کو یا جاگے ہو تم کچھ تو ہے

آنکھیں آتی ہیں نظر آج تو مخمور ہمیں

یاں سے بیدارؔ گیا وہ مہ تاباں شاید

نظر آتا ہے یہ گھر آج تو بے نور ہمیں

٭٭٭

پاوے کس طرح کوئی کس کو ہے مقدور ہمیں

لے گیا عشق ترا کھینچ بہت دور ہمیں

صبح کی رات تو رو رو کے اب آ اے بے مہر

روز روشن کو دکھا مت شب دیجور ہمیں

ربط کو چاہئے یک نوع کی جنسیت یاں

چشم بیمار اسے ہے دل رنجور ہمیں

بات گر کیجے تو ہے بندہ نوازی ورنہ

دیکھنا ہی ہے فقط آپ کا منظور ہمیں

الفت اس شوخ کی چھوتی ہے کوئی جیتے جی

رکھو اس پند سے اے ناصحو معذور ہمیں

پی ہے مے رات کو یا جاگے ہو تم کچھ تو ہے

آنکھیں آتی ہیں نظر آج تو مخمور ہمیں

یاں سے بیدارؔ گیا وہ مہ تاباں شاید

نظر آتا ہے یہ گھر آج تو بے نور ہمیں

٭٭٭

تیرے حیرت زدگاں اور کہاں جاتے ہیں

کہیے گر آپ سے جاتے ہیں تو ہاں جاتے ہیں

وے نہیں ہم کہ ترے جور سے اٹھ جاتے ہیں

جی ہے جب لگ نہیں اے جان جہاں جاتے ہیں

کون وہ قابل کشتن ہے بتاؤ ہم کو

آپ جو اس پہ لئے تیر و کماں جاتے ہیں

جیوں نگیں رو سیہی نام سے یاں حاصل ہے

نامور وے ہیں جو بے نام و نشاں جاتے ہیں

سنگ ہستی سے کہ تھا مانع راہ مقصود

جست کر مثل شرر گرم رواں جاتے ہیں

تجھ کو فہمید کہاں شیخ کہ سمجھے یہ رمز

واں نہیں بار ملک یار جہاں جاتے ہیں

مجھ کو اس طفل پری رو نے کیا دیوانہ

ہوش سے دیکھ جسے پیر و جواں جاتے ہیں

غیر جوہر نہیں اعراض سے ان کو کچھ کام

رنگ و بو پر نہیں صاحب نظراں جاتے ہیں

خواب بیدارؔ مسافر کے نہیں حق میں خوب

کچھ بھی ہے تجھ کو خبر ہم سفراں جاتے ہیں

٭٭٭

تیرے کوچہ سے نہ یہ شیفتگاں جاتے ہیں

جھوٹ کہتے ہیں کہ جاتے ہیں کہاں جاتے ہیں

آمد و رفت نہ پوچھ اپنی گلی کی ہم سے

آتے ہیں ہنستے ہوئے کرتے فغاں جاتے ہیں

کعبہ و دیر میں دیکھے ہیں اسی کا جلوہ

کفر و اسلام میں کب دیدہ وراں جاتے ہیں

نہیں مقدور کہ پہنچے کوئی اس تک پر ہم

جوں نگہ دیدۂ مردم سے نہاں جاتے ہیں

گر ہے دیدار طلب صاف کر اپنے دل کو

روبرو اس کے تو آئینہ دلاں جاتے ہیں

جذب تیرا ہی اگر کھینچے تو پہنچیں ورنہ

تجھ کو سنتے ہیں پرے واں سے جہاں جاتے ہیں

آہ کرتا ہے خراش ان کا دلوں میں نالہ

کون یہ قافلہ میں نالہ زناں جاتے ہیں

جی میں ہے کہئے غزل اور مقابل اس کے

گہر اس بحر میں مضموں کے رواں جاتے ہیں

تجھ کو بیدارؔ رکھا پیچھے گراں باری نے

راہ رو جو ہیں سبک سار دواں جاتے ہیں

٭٭٭

جانیں مشتاقوں کی لب پر آئیاں

بل بے ظالم تیری بے پروائیاں

صبح ہونے آئی رات آخر ہوئی

بس کہاں تک شوخیاں مچلائیاں

بس بھری ناگن ہے کیا ہی زلف یار

جس کو دیکھ افعی نے لہریں کھائیاں

جیب تو کیا ناصحا دامن کی بھی

دھجیاں کر عشق نے دکھلائیاں

سادہ روئی ہی غضب تھی تس اوپر

کرتے ہو ہر لحظہ حسن آرائیاں

اس سمن اندام گل رخسار کی

جاں فزا نکہت چرا کر لائیاں

سن کے یہ باد صبا نے باغ میں

گٹھریاں غنچوں کی پھر کھلوائیاں

لیٹا چھاتی پر مری لیتا تھا وہ

آہ کس کس آن سے انگڑائیاں

اس سمے کو دیکھ کر سو رشک سے

موج نے دریا پہ لہریں کھائیاں

دیکھتے ہی اس کو شیدا ہو گیا

کیا ہوئیں بیدارؔ وہ دانائیاں

٭٭٭

جانیں مشتاقوں کی لب پر آئیاں

بل بے ظالم تیری بے پروائیاں

جیب تو کیا ناصحا دامن کی بھی

دھجیاں کر عشق نے دکھلائیاں

اس سمن انداز گل رخسار کی

جاں فزا نکہت چرا کر لائیاں

سن کے یہ باد صبا نے باغ میں

گٹھریاں غنچوں کی سب کھلوایاں

دیکھتے ہی اس کو شیدا ہو گیا

کیا ہوئیں بیدارؔ وے دانائیاں

٭٭٭

خاک عاشق ہے جو ہووے ہے نثار دامن

اے مری جان تو مت جھاڑ غبار دامن

دوستو مجھ کو نہ دو سیر چمن کی تکلیف

اشک ہی بس ہے مرا باغ و بہار دامن

سرخ جامہ پہ نہیں تیرے کناری کی چمک

برق اس ابر میں ہوتی ہے نثار دامن

دیکھتا کیا ہے گریباں کہ جنون سے ناصح

یاں تو ثابت نہ رہا ایک بھی تار دامن

آستیں تک تو کہاں اس کے رسائی بیدارؔ

دسترس مجھ کو نہیں تا بہ کنار دامن

٭٭٭

خرقہ رہن شراب کرتا ہوں

دل زاہد کباب کرتا ہوں

نالۂ آتشیں سے یک دم میں

دل فولاد آب کرتا ہوں

آہ سوزاں و اشک گل گوں سے

کار برق و سحاب کرتا ہوں

داغ سوزان عشق سے دل کو

چشمۂ آفتاب کرتا ہوں

برق کو بھی سکوں ہوا آخر

میں ہنوز اضطراب کرتا ہوں

تاکہ بیدارؔ اس سے ہو آباد

خانۂ دل خراب کرتا ہوں

٭٭٭

فقط قضیہ یہی ہے فن طبعی اور الٰہی میں

جو علم معرفت چاہے تو رہ یاد الٰہی میں

سمجھتا ہے اسی کا جلوہ گہ غیب شہادت کو

نہیں کچھ فرق عارف کو سفیدی و سیاہی میں

نہیں آرام مجھ کو اضطراب دل سے سینہ میں

کہ دریا مضطرب ہوتا ہے بیتابیِ ماہی میں

نہ کر مستوں سے کاوش ہر گھڑی آمان کہتا ہوں

خلل آ جائے گا زاہد تری عصمت پناہی میں

جگا کر خواب آسائش سے بیدارؔ آہ ہستی میں

عدم آسود گاں کو لا کے ڈالا ہے تباہی میں

جو کیفیت ہے مستی سے تری آنکھوں کی لالی میں

نہیں وہ نشۂ رنگیں شراب پرتگالی میں

سرو برگ خوشی اے گل بدن تجھ بن کہاں مجھ کو

گلستان دل آیا فوج غم کی پائمالی میں

در دنداں ہوئے تھے موجزن کس بحر خوبی کے

کہ موتی شرم سے پانی ہوئے سلک لالی میں

جہاں وہ شکریں لب گفتگو میں آوے اے طوطی

سخن سرسبز تیرا کب ہو واں شیریں مقالی میں

عبث ہے آرزوئے خوش دلی بیدارؔ گردوں سے

مے راحت جو چاہے سو کہاں اس جام خالی میں

٭٭٭

ہم تری خاطر نازک سے خطر کرتے ہیں

ورنہ نالے تو یہ پتھر میں اثر کرتے ہیں

دل و دیں تھا سو لیا اور بھی کچھ مطلب ہے

بار بار آپ جو ایدھر کو نظر کرتے ہیں

فائدہ کیا ہے اگر شرق سے تا غرب پھرے

راہرو وے ہیں جو ہستی سے سفر کرتے ہیں

ہم تو ہر شکل میں یاں آئنہ خانے کی مثال

آپ ہی آتے ہیں نظر سیر جدھر کرتے ہیں

کیا ہو گر کوئی گھڑی یاں بھی کرم فرماؤ

آپ اس راہ سے آخر تو گزر کرتے ہیں

تیرے ایام فراق اے صنم مہر گسل

آہ مت پوچھ کہ کس طرح بسر کرتے ہیں

دن کو پھرتے ہیں تجھے ڈھونڈنے اور رات تمام

شمع کی طرح سے رو رو کے سحر کرتے ہیں

بس نہیں خوب کہ ایسے کو دل اپنا دیجے

آگے تو جان میاں ہم تو خبر کرتے ہیں

یہ وہی فتنۂ آشوب جہاں ہے بیدارؔ

دیکھ کر پیر و جواں جس کو حذر کرتے ہیں

٭٭٭

یا رب جو خار غم ہیں جلا دے انہوں کے تئیں

جو غنچۂ طرب ہیں کھلا دے انہوں کے تئیں

انکار حشر جن کو ہے اے سرو خوش خرام

یک بار اپنے قد کو دکھا دے انھوں کے تئیں

کہتے ہیں ابرو و مژہ خوں ریز ہیں تری

ظالم کبھی ہمیں بھی بتا دے انہوں کے تئیں

اس شمع رو کا مجھ سے جو کرتے ہیں سرد دل

اے آہ سوز ناک جلا دے انہوں کے تئیں

سوزاں ہے داغ ہجر مرے دل میں مثل شمع

اے یاد وصل یار بجھا دے انہوں کے تئیں

کرتے ہیں سرکشی جو کف پا سے آبلے

اے خار دشت عشق بٹھا دے انہوں کے تئیں

جو صاف و بے غبار ہیں بیدارؔ آشنا

جوں سرمہ اپنی چشم میں جا دے انہوں کے تئیں

٭٭٭

تو نے جو کچھ کہ کیا میرے دل زار کے ساتھ

آگ نے بھی نہ کیا وہ تو خس و خار کے ساتھ

آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا کبھی تو نے ظالم

سر پٹک مر گئے لاکھوں تری دیوار کے ساتھ

یہ کئی تار ہیں وہ رشتۂ جاں ہے یکسر

غلط اس زلف کی تشبیہ ہے زنار کے ساتھ

رات دن رہتی ہے جوں دیدۂ تصویر کھلی

آنکھ جب سے لگی اس آئنہ رخسار کے ساتھ

دیکھیو گر نہ پڑے دیجو اسے اے قاصد

دل بے تاب لپٹتا ہے میں طومار کے ساتھ

کیا عجب یہ ہے کہ وہ مجھ سے ملا رہتا ہے

گل کو پیوستگی لازم ہے کہ ہو خار کے ساتھ

ہے سزا وار اگر ایسے کو دیجے دل و دیں

ہم بھی دیکھا اسے کل دور سے بیدارؔ کے ساتھ

٭٭٭

جو ہوئی سو ہوئی جانے دو ملو بسم اللہ

جام مے ہاتھ سے لو میرے پیو بسم اللہ

منتظر آپ کے آنے کا کئی دن سے ہوں

کیا ہے تاخیر قدم رنجہ کرو بسم اللہ

لے چکے دل تو پھر اب کیا ہے سبب رنجش کا

جی بھی حاضر ہے جو لیتے ہو تو لو بسم اللہ

میں تو ہوں کشتۂ ابروئے بت مصحف رو

مو قلم سے مرے تربت پہ لکھو بسم اللہ

ذبح کرنا ہی مجھے تم کو ہے منظور اگر

میں بھی حاضر ہوں مری جان اٹھو بسم اللہ

ہوتے آزردہ ہو آنے سے ہمارے جو تم

خوش رہو مت ہو خفا ہم چلے لو بسم اللہ

عین راحت ہے مجھے بندہ نوازا اس میں

قدم آنکھوں پہ مری آ کے رکھو بسم اللہ

جن کی رہتے ہو شب و روز تم اب صحبت میں

جاؤ اے جان اب ان کے ہی رہو بسم اللہ

مست نکلا ہے مئے حسن میں بیدارؔ وہ شوخ

دیکھنا گر نہ پڑے کہتے چلو بسم اللہ

٭٭٭

عشق کا درد بے دوا ہے یہ

جانے تیری بلا کہ کیا ہے یہ

مار ڈالے گی ایک عالم کو

تیری اے شوخ گر ادا ہے یہ

ہر دم آتا ہے اور ہی سج سے

کیا ہی اللہ میرزا ہے یہ

چاہئے اس کا شربت دیدار

کہ تپ عشق کی دوا ہے یہ

اس ستم پیشہ مہر دشمن کی

میرے اوپر اگر جفا ہے یہ

اس میں اس کی تو کچھ نہیں تقصیر

چاہنے کی مرے سزا ہے یہ

دل بیدارؔ کو تو لوٹ لیا

زلف ہے یا کوئی بلا ہے یہ

٭٭٭

آنے دو اپنے پاس مجھ کو

کرنا ہے کچھ التماس مجھ کو

تیرے یہ جور کب سہوں میں

گر عشق کا ہو نہ پاس مجھ کو

دو طفل مزاج شیشہ دل میں

کس طرح نہ ہو ہراس مجھ کو

لگتا ہے نہ گھر میں دل نہ باہر

کس نے یہ کیا اداس مجھ کو

کیا حال کہوں کہ دیکھ اس کو

رہتے ہی نہیں حواس مجھ کو

اے نکہت گل پری ہی رہ تو

آنا ہے اسی کے پاس مجھ کو

منہ پھیرا بھی نہ اس طرف سے

ٹک ہونے دے روشناس مجھ کو

اٹھ جاؤں گا ایک دن خفا ہو

یہاں تک نہ کرو اداس مجھ کو

گر ہیں یہی جور اس کے بیدارؔ

بچنے کی نہیں ہے آس مجھ کو

٭٭٭

ایک دن مدتوں میں آئے ہو

آہ تس پر بھی منہ چھپائے ہو

آپ کو آپ میں نہیں پاتا

جی میں یاں تک مرے سمائے ہو

کیا کہوں تم کو اے دل و دیدہ

جو جو کچھ سر پہ میرے لائے ہو

دید بس کر لیا اس عالم کا

پھر چلو واں جہاں سے آئے ہو

کیونکہ تشبیہ اس سے دے بیدارؔ

مہ سے تم حسن میں سوائے ہو

٭٭٭

ایک دن وصل سے اپنے مجھے تم شاد کرو

پھر مری جان جو کچھ چاہو سو بیداد کرو

گر کسی غیر کو فرماؤ گے تب جانو گے

وے ہمیں ہیں کہ بجا لاویں جو ارشاد کرو

اب تو ویراں کئے جاتے ہو طرب خانۂ دل

آہ کیا جانے کب آ پھر اسے آباد کرو

یاد میں اس قد و رخسار کے اے غم زدگاں

جا کے ٹک باغ میں سیر گل و شمشاد کرو

لے کے دل چاہو کہ پھر دیوے وہ دلبر معلوم

کیسے ہی نالہ کرو کیسی ہی فریاد کرو

سرمۂ دیدۂ عشاق ہے یہ اے خوباں

اپنے کوچہ سے مری خاک نہ برباد کرو

دیکھ کر طائر دل آپ کو بھولا پرواز

خواہ پابند کرو خواہ اسے آزاد کرو

آپ کی چاہ سے چاہیں ہیں مجھے سب ورنہ

کون پھر یاد کرے تم نہ اگر یاد کرو

شمع افروختہ جب بزم میں دیکھو یارو

حال بیدارؔ جگر سوختہ واں یاد کرو

٭٭٭

تم کو کہتے ہیں کہ عاشق کی فغاں سنتے ہو

یہ تو کہنے ہی کی باتیں ہیں کہاں سنتے ہو

چاہ کا ذکر تمہاری میں کیا کس آگے

کون کہتا ہے "کہو” کس کی زباں سنتے ہو

کشش عشق ہی لائی ہے تمہیں یاں ورنہ

آپ سے تھا نہ مجھے یہ تو گماں سنتے ہو

ایک شب میرا بھی افسانۂ جاں سوز سنو

قصے اوروں کے تو اے جان جہاں سنتے ہو

وہ گل اندام جو آیا تو خجالت سے تمام

زرد ہو جاؤ گے اے لالہ رخاں سنتے ہو

ایک کے لاکھ سناؤں گا خبردار رہو

اس طرف آئی اگر طبع رواں سنتے ہیں

آج کیا ہے کہو کیوں ایسے خفا بیٹھے ہو

اپنی کہتے ہو نہ میری ہی میاں سنتے ہو

کون ہے کس سے کروں درد دل اپنا اظہار

چاہتا ہوں کہ سنو تم تو کہاں سنتے ہو

یہ وہی شوخ ہے آتا ہے جو بیدارؔ کے ساتھ

جس کو غارت گر دل آفت جاں سنتے ہو

٭٭٭

حصول فقر گر چاہے تو چھوڑ اسباب دنیا کو

لگا دے آگ یکسر بستر سنجاب و دیبا کو

رکھے ہیں حق پرستاں ترک جمعیت میں جمعیت

میسر ہووے یہ دولت کہاں ارباب دنیا کو

فریب رنگ و بوئے دہر مت کھا مرد عاقل ہو

سمجھ آتش کدہ اس گلشن شاداب دنیا کو

سیہ مست مے تحقیق ہو گر پاک طینت ہے

نجس مت جام کر تو بھر کے بس خوباب دنیا کو

یہ ہے بیدارؔ زہر آلودہ مار اس سے حذر کرنا

نہ لینا ہاتھ میں تو گیسوئے پر تاب دنیا کو

٭٭٭

دل کو میں آج ناصحاں اس کو دیا جو ہو سو ہو

راہ میں عشق کے قدم اب تو رکھا جو ہو سو ہو

عاشق جاں نثار کو خوف نہیں ہے مرگ کا

تیری طرف سے اے صنم جور و جفا جو ہو سو ہو

یا ترے پاؤں میں لگے یا ملے خاک میں تمام

دل کو میں خون کر چکا مثل حنا جو ہو سو ہو

خواہ کرے وفا و مہر خواہ کرے جفا و جور

دلبر شوخ و شنگ سے اب تو ملا جو ہو سو ہو

یا وہ اٹھا دے مہر سے یا کرے تیغ سے جدا

یار کے آج پاؤں پر سر کو دھرا جو ہو سو ہو

٭٭٭

کوئی کس طرح تم سے سر بر ہو

سخت بے رحم ہو ستم گر ہو

اٹھ گیا ہم سے گو مکدر ہو

خوش رہے وہ جہاں ہو جیدھر ہو

تیوری چڑھ رہی ہے یہ بھوں پر

کیا ہے کیوں کس لیے مکدر ہو

کیا شتابی ہی ایسے جائے گا

خشک تو ہو عرق ابھی تر ہو

جان کھائی ہے ناصحو نے مری

سامنے ان کے تو ٹک آ کر ہو

لیجے حاضر ہے چیز کیا ہے دل

غصہ اس واسطے جو مجھ پر ہو

یاد میں اس کی گھر سے نکلا ہوں

سخت بے اختیار و مضطر ہو

اس سے بیدارؔ بات تو معلوم

دیکھنا بھی کہیں میسر ہو

٭٭٭

نہیں آرام ایک جا دل کو

آہ کیا جانے کیا ہوا دل کو

اے بتاں محترم رکھو اس کو

کہتے ہیں خانۂ خدا دل کو

لے تو جاتے ہو مہرباں لیکن

کیجو مت آپ سے جدا دل کو

منہ نہ پھیرا کبھی جفا سے تری

آفریں دل کو مرحبا دل کو

یہ توقع نہ تھی ہمیں ہرگز

کہ دکھاؤ گے یہ جفا دل کو

ہیں یہی ڈھنگ آپ کے تو خیر

کیوں نہ پھر دیجئے گا آ دل کو

آخر اس طفل شوخ نے دیکھا

ٹکڑے جوں شیشہ کر دیا دل کو

آج لگتی ہے کچھ بغل خالی

کون سینے سے لے گیا دل کو

ہم تو کہتے ہیں تجھ کو اے بیدارؔ

کیجو مت اس سے آشنا دل کو

٭٭٭

یوں مجھ پہ جفا ہزار کیجو

پر غیر کو تو نہ پیار کیجو

کرتے ہو تم وفا کی باتیں

پر ہم سے ٹک آنکھیں چار کیجو

آجائیو یار گھر سے جلدی

مت کشتۂ انتظار کیجو

قصداً تو کہاں پہ بھولے ہی سے

ایدھر بھی کبھو گزار کیجو

کوئی بات ہے تجھ سے دل پھرے کا

اس کو تو مت اعتبار کیجو

بیدارؔ تو اس جہاں میں آ کر

جو چاہے سو میرے یار کیجو

پر جس سے گرے کسو کے دل سے

وہ کام نہ اختیار کیجو

٭٭٭

اب تک مرے احوال سے واں بے خبری ہے

اے نالۂ جاں سوز یہ کیا بے اثری ہے

یاں تک تو رسا قوت بے بال و پری ہے

پہوچوں ہوں وہاں تیری جہاں جلوہ گری ہے

فولاد دلاں چھیریو زنہار نہ مجھ کو

چھانی مری جوں سلگ شراروں سے بھری ہے

ہو جاوے ہے اس کی صف مژگاں سے مقابل

اس دل کو مرے دیکھیو کیا بے جگری ہے

کس باغ سے آتی ہے بتا مجھ کو کہ پھر آج

کچھ اور ہی بو تجھ میں نسیم سحری ہے

تیرا ہی طلب گار ہے دل دونوں جہاں میں

نے حور کا جویا ہے نے مشتاق پری ہے

ہے اور ہی کچھ آب و ہوا شہر عدم کی

ہر شخص جو بیدارؔ ادھر کو سفری ہے

٭٭٭

اٹھ کے لوگوں سے گزارے آئے

کچھ ہمیں کہنا ہے فارے آئے

گر اجازت ہو تو پروانہ کی طرح

صدقہ ہونے کو تمہارے آئے

مدتوں سے آرزو یہ دل میں ہے

ایک دن تو گھر ہمارے آئے

کچھ تو کی تاثیر نالہ نے مرے

اسے تم مدت میں بارے آئے

آپ کی کل یاد میں بیدارؔ کو

گنتے گزری رات تارے آئے

٭٭٭

آہ ملتے ہی پھر جدائی کی

واہ کیا خوب آشنائی کی

نہ گئی تیری سرکشی ظالم

ہم نے ہر چند جبہ سائی کی

دل نہیں اپنے اختیار میں آج

کیا مگر تو نے آشنائی کی

در پہ اے یار تیرے آ پہنچے

تپش دل نے رہنمائی کی

قابل سجدہ تو ہی ہے اے بت

سیر کی ہم نے سب خدائی کی

جو مقید ہیں تیری الفت کے

آرزو کب انہیں رہائی کی

جی میں بیدارؔ کھپ گئی میرے

خندق اس پنجۂ حنائی کی

٭٭٭

اوروں کی بات یاں بہت کم ہے

ذکر خیر آپ کا ہی ہر دم ہے

جان تک تو نہیں ہے تجھ سے دریغ

اے میں قربان کیوں تو برہم ہے

گاہ رونا ہے کاہ ہنسنا ہے

عاشقی کا بھی زور عالم ہے

خوش نہ پایا کسی کو یاں ہم نے

دیکھی دنیا سرائے ماتم ہے

آہ جس دن سے آنکھ تجھ سے لگی

دل پہ ہر روز اک نیا غم ہے

مگر آنسو کسو کے پونچھے ہیں

آستیں آج کیوں تری نم ہے

اس کے عارض پہ ہے عرق کی بوند

یا کہ بیدارؔ گل پہ شبنم ہے

٭٭٭

تجھ بن آرام جاں کہاں ہے مجھے

زندگانی وبال جاں ہے مجھے

گر یہی درد ہجر ہے تیرا

زیست کا اپنی کب گماں ہے مجھے

مثل طوطی ہزار معنی میں

سحر ساز سخن زباں ہے مجھے

ہے خیال اس کا مانع گفتار

ورنہ سو قوت بیاں ہے مجھے

خامشی بے سبب نہیں بیدارؔ

باعث زیستن دہاں ہے مجھے

٭٭٭

تیرے مژگاں ہی نہ پہلو مارتے ہیں تیرے

ہم سری رکھتے ہیں ابرو بھی دم شمشیر سے

دیکھ یہ کرتا ہے غم کی لذتیں ہم پر حرام

ہو سمجھ کر آشنا اے نالہ ٹک تاثیر سے

ہوں میں وہ دیوانۂ نازک مزاج گل رخاں

کیجئے زنجیر جس کو سایۂ زنجیر سے

سوز دل کیونکر کروں اس شوخ کے آگے بیاں

شمع کی مانند جلتی ہے زباں تقریر سے

گرچہ ہوں بیدارؔ غرق معصیت سر تا بہ پا

پر امید مغفرت ہے شبر و شبیر سے

٭٭٭

جب تک کہ دل نہ لاگا ان بے مروتوں سے

ایام اپنے گزرے کیا کیا فراغتوں سے

بالین پر بھی ظالم ٹک یک نظر نہ دیکھا

عاشق نے جان دی تو پر کیا ہی حسرتوں سے

مت پوچھ یہ کہ تجھ بن شب کس طرح سے گزری

کاٹی تو رات لیکن کن کن مصیبتوں سے

مضمون سوز دل کا کہتے ہی اڑنے لاگے

حرف و نقط شرر ساں یکساں کتابتوں سے

بیدارؔ سیر گلشن کیوں کر خوش آوے مجھ کو

جوں لالہ داغ ہے دل یاروں کی فرقتوں سے

٭٭٭

جس دن تم آ کے ہم سے ہم آغوش ہو گئے

شکوے جو دل میں تھے سو فراموش ہو گئے

ساقی نہیں ہے ساغر مے کی ہمیں طلب

آنکھیں ہی تیری دیکھ کے بے ہوش ہو گئے

سننے کو حسن یار کی خوبی برنگ گل

اعضا مرے بدن کے سبھی گوش ہو گئے

کرتے تھے اپنے حسن کی تعریف گل رخاں

اس لالہ رو کو دیکھ کے خاموش ہو گئے

اے جان دیکھتے ہی مجھے دور سے تم آج

یہ کون سی ادا تھی کہ روپوش ہو گئے

رہتے تھے بے حجاب مرے پاس جن دنوں

وے روز ہائے تم کو فراموش ہو گئے

دنیا و دین کی نہ رہی ہم کو کچھ خبر

ہوتے ہی اس کے سامنے بے ہوش ہو گئے

بیدارؔ بسکہ روئے ہم اس گل کی یاد میں

سر تا قدم سرشک سے گل پوش ہو گئے

٭٭٭

جس وقت تو بے نقاب آوے

ہوگا کوئی جس کو تاب آوے

کافی ہے نقاب زلف منہ پر

عاشق سے اگر حجاب آوے

کیونکر کہے کوئی حال تجھ سے

ہر بات میں جو عتاب آوے

قاصد سے کہا ہے وقت رخصت

جو وہ بت بے حجاب آوے

لے آئیو گر جواب دیوے

لازم ہے کہ تو شتاب آوے

اے جاں بہ لب رسیدہ اتنا

رہنا ہے کہ تا جواب آوے

بیدارؔ کو تجھ بن اے دل آرام

ہوتا ہی نہیں کہ خواب آوے

٭٭٭

جو تو ہو پاس تو دیکھوں بہار آنکھوں سے

وگرنہ کرتے ہیں گل کار خار آنکھوں سے

کہاں ہے تو کہ میں کھینچوں ہوں راہ میں تیری

بسان نقش قدم انتظار آنکھوں سے

زبس کہ آتش غم شعلہ زن ہے سینہ میں

گریں ہیں اشک کی جاگہ شرار آنکھوں سے

میں یاد کر در دندان یار روتا ہوں

ٹپکتے ہیں گہر آب دار آنکھوں سے

ٹک آ کے دیکھ تو اے سرو قد مرا احوال

رواں ہے غم میں ترے جوئبار آنکھوں سے

چڑھاؤں دستۂ نرگس مزار مجنوں پر

جو دیکھوں آج میں روئے نگار آنکھوں سے

چمن میں کل کوئی تجھ سا پری نظر نہ پڑا

اگرچہ دیکھے ہیں جا کر ہزار آنکھوں سے

ہوا ہے دیدۂ بیدارؔ گل فشاں جب سے

گرا ہے تب سے یہ ابر بہار آنکھوں سے

٭٭٭

چمن لالہ یہ الفت تری دکھلاتی ہے

سینکڑوں داغ ہیں اور ایک مری چھاتی ہے

گرچہ طوطی بھی ہے شیریں سخنی میں ممتاز

پر تری بات کی لذت کو کہاں پاتی ہے

بدلی آ جاتی ہے اس لطف سے خورشید پہ کم

زلف منہ پر ترے جس آن سے کھل جاتی ہے

گل ہی تنہا نہ خجل ہے رخ رنگیں سے ترے

نرگس آنکھوں کے ترے سامنے شرماتی ہے

میں کہاں اور ترا وصل یہ ہے بس اے گل

گاہ بے گاہ تری بو تو صبا لاتی ہے

رات تھوڑی سی ہے بس جانے دے مل ہنس کر بول

ناخوشی تا بہ کجا صبح ہوئی جاتی ہے

روشنی خانۂ عاشق کی ہے تجھ سے ورنہ

تو نہ ہو تو شب مہتاب کسے بھاتی ہے

سادگی دیکھ تو دل اس سے کرے ہے یاری

ناگنی دیکھ کے جس زلف کو بل کھاتی ہے

مہ رخاں کیا ہیں کہ ہو آ کے مقابل بیدارؔ

کانپتی سامنے جس شوخ کے برق آتی ہے

٭٭٭

حسن ہر نونہال رکھتا ہے

کوئی تجھ سا جمال رکھتا ہے

مجھ سے ہو تیرے جور کا شکوہ

یہ بھلا احتمال رکھتا ہے

تجھ سے کچھ اپنا عرض حال کرے

دل کب اتنی مجال رکھتا ہے

ماہ کیا ہے کہ جس سے دوں تشبیہ

حسن تو بے زوال رکھتا ہے

جیتے جی اس سے عاشق مہجور

کب امید وصال رکھتا ہے

تو کہاں اور اس کا وصل کہاں

یہ خیال محال رکھتا ہے

جی میں بیدارؔ تیرے ملنے کا

آہ کیا کیا خیال رکھتا ہے

٭٭٭

حسن‌ سرشار ترا داروۓ بے ہوشی ہے

ہوش میں کون ہے کس کو سر مے نوشی ہے

کچھ اگر بے ادبی ہووے تو معذور رکھو

صحبت‌ میکشی و عالم بے ہوشی ہے

جوں ہلال آپ سے یکسر میں ہوا ہوں خالی

تجھ سے اے مہر لقا شوق ہم آغوشی ہے

بانگ گل باعث گردن شکنی ہے گل کی

غنچہ سالم ہے کہ جب تک اسے خاموشی ہے

سر چڑھا جائے ہے اے زلف کسو کی تو مگر

اس پری رو سے تجھے آج جو سرگوشی ہے

آپ ہو جائے ہے اس تیغ نگہ کے آگے

گرچہ آئینہ کے جوہر سے ذرا پوشی ہے

عمر غفلت ہی میں بیدارؔ چلی جانی ہے

یاد ہے جس کی غرض اس سے فراموشی ہے

٭٭٭

دور سے بات خوش نہیں آتی

یوں ملاقات خوش نہیں آتی

تجھ بن اے ماہ رو کبھی مجھ کو

چاندنی رات خوش نہیں آتی

جائے بوسہ کے گالیاں دیجے

یہ عنایات خوش نہیں آتی

نہ مے و جام ہے نہ ساقی ہے

ایسی برسات خوش نہیں آتی

اس کے مذکور کے سوا بیدارؔ

اور کچھ بات خوش نہیں آتی

٭٭٭

دیکھ اس پری سے کیجئے کیا اب تو جا لگی

چھوٹی ہی کوئی بات ہے پھر یہ بلا لگی

اس لب پہ دیکھتے ہی سے وہ پان کی دھڑی

شام و شفق ان آنکھوں میں کب خوش نما لگی

یہ دسترس کسے کہ کرے اس کو دست بوس

سو منتوں سے پاؤں میں اس کے حنا لگی

میں کیا کیا کہ مجھ کو نکالے ہے وہ صنم

اے اہل بزم کوئی تو بولو خدا لگی

گولی تھی یا خدنگ تھی ظالم تری نگاہ

چھٹتے ہی دل کو توڑ کلیجہ میں آ لگی

کس طرح حال دل کہوں اس گل سے باغ میں

پھرتی ہے اس کے ساتھ تو ہر دم صبا لگی

اس درد دل کا پوچھئے کس سے علاج جا

اپنی سی کر چکے پہ نہ کوئی دوا لگی

آیا جو مہرباں ہو ستم گر تو اس طرف

کس وقت کی نہ جانئے تجھ کو دعا لگی

اتنا تو وہ نہیں ہے کہ بیدارؔ دیجے دل

کیا جانے پیاری اس کی تجھے کیا ادا لگی

٭٭٭

زاہد اس راہ نہ آ مست ہیں مے خوار کئی

ابھی یاں چھین لیے جبہ و دستار کئی

سنگ دل کوں نہ کسی کی ہوئی افسوس خبر

مر گئے سر کوں پٹک کر پس دیوار کئی

ناتواں مجھ سا بھلا کون ہے انصاف تو کر

چشم فتاں کے ترے گرچہ ہیں بیمار کئی

دل کی بیتابی سے اور چشم کی بے خوابی سے

نظر آنے لگے اب عشق کے آثار کئی

جوں ہی وہ ہوش ربا آ کے نمودار ہوا

نقش دیوار ہوئے طالب دیدار کئی

ابرو‌ و چشم و نگاہ و مژہ ہر اک خوں خوار

ایک دل ہے مرا تس پر ہیں دل آزار کئی

اے مسیحائے زماں دیکھ ٹک آ کر احوال

کہ تری چشم کے یاں مرتے ہیں بیمار کئی

کھینچ مت زور سے شانے کو تو اے مشاطہ

دل ہیں اس زلف کے بالوں میں گرفتار کئی

کف پا ہیں ترے صحرا کی نشانی بیدارؔ

مر گیا تو بھی پھپھولوں میں رہے خار کئی

٭٭٭

صفا الماس و گوہر سے فزوں ہے تیرے دنداں کی

کہاں تجھ لب کے آگے قدر و قیمت لعل و مرجاں کی

عجب کی ساحری اس من ہرن کے چشم فتاں نے

دیا کاجل سیاہی لے کے آنکھوں سے غزالاں کی

تجھے اے لالہ رو وہ حسن رنگیں ہے کہ گل رویاں

عبیری پیرہن کرتے ہیں تیری گرد داماں کی

عبث مل مل کے دھوتا ہے تو اپنے دست نازک کو

نہیں جانے کی سرخی ہاتھ سے خون شہیداں کی

بہار آئی چمن میں گل کھلے اے باغباں شاید

جنوں نے دھجیاں گر جو اڑائیں پھر گریباں کی

قد موزوں تو شمشاد و صنوبر رکھتے ہیں لیکن

کہاں پاویں لٹک کی چال اس سرو خراماں کی

نہ دیکھی آنکھ اٹھا بد حالی آشفتگاں ظالم

بناتا ہی رہا تو خوش خمی زلف پریشاں کی

برہنہ پا جنوں آوارہ کون اس دشت سے گزرا

کہ رنگیں خوں سے ہے یاں نوک ہر خار مغیلاں کی

رکھو مت چشم خواب اے دوستو بیدارؔ سے ہرگز

کوئی دیتی ہے سونے یاد اس روئے درخشاں کی

٭٭٭

قاصد اس کا پیام کچھ بھی ہے

کہہ دعا یا سلام کچھ بھی ہے

سخن مہر خواہ حرف عتاب

اس کے منہ کا کلام کچھ بھی ہے

صاف یا درد بادۂ گلگوں

ساقیِ لالہ فام کچھ بھی ہے

کیا غم ہجر کیا سرور وصال

گزراں ہے دوام کچھ بھی ہے

اس رخ و زلف سے کہ دوں تشبیہ

خوبیِ صبح و شام کچھ بھی ہے

یاد میں اپنے یار کے رہنا

بہتر اور اس سے کام کچھ بھی ہے

تو جو بیدارؔ یوں پھرے ہے خراب

پاس ناموس و نام کچھ بھی ہے

٭٭٭

کچھ نہ ایدھر ہے نے ادھر تو ہے

جس طرف کیجئے نظر تو ہے

اختلاف صور ہیں ظاہر میں

ورنہ معنیِ یک دگر تو ہے

ہے جو کچھ تو سو تو ہی جانے ہے

کوئی کیا جانے کس قدر تو ہے

کیا مہ و مہر کیا گل و لالہ

جب میں دیکھا تو جلوہ گر تو ہے

کس سے تشبیہ دیجئے تجھ کو

سارے خوباں سے خوب تر تو ہے

وہ تو بیدارؔ ہے عیاں لیکن

اس کے جلوہ سے بے خبر تو ہے

٭٭٭

کون یاں بازار خوبی میں ترا ہم سنگ ہے

حسن کے میزاں میں تیرے مہر و مہ پاسنگ ہے

میں وہ ہوں دیوانۂ سرخیل ارباب جنوں

ہاتھ میں پتھر لیے ہر طفل میرے سنگ ہے

جائے تکیہ عاشق بے خانماں کو وقت خواب

زیر سر کوچہ میں تیرے خشت ہے پاسنگ ہے

اس جواہر پوش کے دیکھے ہیں وہ یاقوت لب

جس کی رنگینی کے آگے لعل بھی اک سنگ ہے

سرمئی آنکھوں کا تیرے جو کوئی بیمار ہو

ایک میل اس کے تئیں رکھنا قدم فرسنگ ہے

جل گیا تنہا نہ کوہ طور ہی پروانہ وار

آگ تیرے عشق کی شمع دل ہر سنگ ہے

سخت جانی میری اور ظالم ترے سنگیں دلی

آہ مثل آسیا یہ سنگ اوپر سنگ ہے

باپ کا ہے فخر وہ بیٹا کہ رکھتا ہو کمال

دیکھ آئینے کو فرزند رشید سنگ ہے

سر مرا تیرے قدم کے ساتھ یوں ہے پیش رو

ٹھوکروں میں جس طرح سے رہگزر کا سنگ ہے

اعتقاد مومن و کافر ہے رہبر ورنہ پھر

کچھ نہیں دیر و حرم میں خاک ہے پاسنگ ہے

یہ صدا گھر گھر کرے ہے آسیا پھر پھر مدام

مشت گندم کے لیے چھانی کے اوپر سنگ ہے

شیخ کی مسجد سے اے بیدارؔ کیا ہے تجھ کو کام

سجدہ گہ اپنا صنم کے آستاں کا سنگ ہے

٭٭٭

گر ایک رات گزر یاں وہ رشک ماہ کرے

عجب نہیں کہ گدا پر کرم جو شاہ کرے

دکھاوے آئنہ کس منہ سے اس کو منہ اپنا

کہ آفتاب کو جوں شمع صبح گاہ کرے

مقابل آتے ہی یوں کھینچ لے ہے دل وہ شوخ

کہ جیسے کاہ ربا جذب برگ کاہ کرے

حواس و ہوش کو چھوڑ آپ دل گیا اس پاس

جب اہل فوج ہی مل جائیں کیا سپاہ کرے

ستم شعار وفا دشمن آشنا بیزار

کہو تو ایسے سے کیونکر کوئی نباہ کرے

کئی تڑپتے ہیں عاشق کئی سسکتے ہیں

اس آرزو میں کہ وہ سنگ دل نگاہ کرے

محبت ایسے کی بیدارؔ سخت مشکل ہے

جو اپنی جان سے گزرے وہ اس کی چاہ کرے

٭٭٭

گر بڑے مرد ہو تو غیر کو یاں جا دیجے

اس کو کہہ دیکھیے کچھ یا مجھے اٹھوا دیجے

کون ایسا ہے جو چھیڑے ہے تمہیں راہ کے بیچ

میں سمجھ لوں گا ٹک اس کو مجھے بتلا دیجے

دل و جان و خرد و دیں پہلے ہی دن دے بیٹھے

آج حیراں ہوں کہ آتا ہے اسے کیا دیجے

کیا ہوا حال بھلا دیکھ تو مجھ بے دل کا

نہ کبھی دلبری کیجے نہ دلاسہ دیجے

دعویِ رستمی کرتے تو ہیں پر اک دم میں

چھین لوں تیغ و سپر ان کی جو فرما دیجے

گم ہوا ہے ابھی یاں گوہر دل اے خوباں

ہاتھ لگ جاوے تمہارے تو مجھے پا دیجے

بے وفا دشمن مہر آفت جاں سنگیں دل

حیف بیدارؔ کہ ایسے کو دل اپنا دیجے

٭٭٭

لب رنگیں ہیں ترے رشک عقیق یمنی

زیب دیتی ہے تجھے نام خدا کم سخنی

ہار کل پہنے تھے پھولوں کے نشاں ہے اب تک

ختم ہے گل بدنوں میں تری نازک بدنی

شرم سے آب ہوئے نیشکر و قند و نبات

دیکھ کر اے شکریں لب تری شیریں دہنی

میوۂ باغ ارم اس کو نہ بھاوے ہرگز

توبر‌ بوسہ کیا جس نے وہ سیب ذقنی

جھوٹے وعدے ترے اے جان کروں سب باور

دل شکستہ نہ کرے گر تری پیماں شکنی

شمع‌ رویوں سے جسے شام و سحر صحبت ہو

ہے سزا وار اسے دعویِ خوش انجمنی

اس قدر مہکے ہے اس کاکل مشکیں کی شمیم

جستجو میں ہوئے بیدارؔ غزال‌ ختنی

٭٭٭

مت پوچھ تو جانے دے احوال کو فرقت کے

جس طور کٹے کاٹے ایام مصیبت کے

جی میں ہے دکھا دیجے یک روز ترے قد کو

جو شخص کہ منکر ہیں اے یار قیامت کے

کہتا ہوں غلط تجھ سے میں دل کو چھڑاؤں گا

چھٹتے ہیں کہیں پیارے باندھے ہوئے الفت کے

قصر و محل منعم تجھ کو ہی مبارک ہوں

بیٹھے ہیں ہم آسودہ گوشہ میں قناعت کے

بے دار چھپائے سے چھپتے ہیں کوئی تیرے

چہرہ سے نمایاں ہیں آثار محبت کے

٭٭٭

مقدور کیا مجھے کہ کہوں واں کہ یاں رہے

ہیں چشم و دل گھر اس کے جہاں چاہے واں رہے

مثل نگاہ گھر سے نہ باہر رکھا قدم

پھر آئے ہر طرف یہ جہاں کے تہاں رہے

نے بت کدہ سے کام نہ مطلب حرم سے تھا

محو خیال یار رہے ہم جہاں رہے

جس کے کہ ہو نقاب سے باہر شعاع حسن

وہ روئے آفتاب خجل کب نہاں رہے

آئے تو ہو پہ دل کو تسلی ہو تب مرے

اتنا کہو کہ آج نہ جاویں گے ہاں رہے

ہستی ہی میں ہے سیر عدم اس کو یاں جسے

فکر میان یار و خیال دہاں رہے

غیبت ہی میں ہے اس کی ہمارا ظہور یاں

وہ جلوہ گر جب آگے ہوا ہم کہاں رہے

بیدارؔ زلف کھینچے ادھر چشم یار ادھر

حیراں ہے دل کہاں نہ رہے کس کے ہاں رہے

٭٭٭

مکتب میں تجھے دیکھ کسے ہوش سبق ہے

ہر طفل کے یاں اشک سے آلودہ ورق ہے

ہوں منتظر اس مہر کے آنے ہی کا ورنہ

شبنم کی طرح آنکھوں میں دم کوئی رمق ہے

دیکھ اے چمن حسن تجھے باغ میں خنداں

شبنم نہیں یہ گل پہ خجالت سے عرق ہے

وہ چاند سا منہ سرخ دوپٹہ میں ہے رخشاں

یا مہر کہوں جلوہ نما زیر شفق ہے

نرگس کی زر و گل پہ بھی وا چشم طمع ہے

اس پر کہ زر و سیم کا اس پاس طبق ہے

دل اس بت بے مہر کو دے مفت ہی کھویا

کہتے ہیں جو کچھ یار مجھے واقعی حق ہے

جز تیرے نہیں غیر کو رہ دل کے نگر میں

جب سے کہ ترے عشق کا یاں نظم و نسق ہے

مذکور ہوا یاں مگر اس گل کے دہن کا

جو رشک سے ہر غنچہ کا دل باغ میں شق ہے

کر مصقلۂ ذکر سے دل صاف تو اپنا

بیدارؔ یہ آئینہ تجلی گہۂ حق ہے

٭٭٭

مے پئے مست ہے سرشار کہاں جاتا ہے

اس شب تار میں اے یار کہاں جاتا ہے

تیغ بر دوش سپر ہاتھ میں دامن گرداں

یہ بنا صورت خونخوار کہاں جاتا ہے

دل کو آرام نہیں ایک بھی دم یاں تجھ بن

تو مرے پاس سے دل دار کہاں جاتا ہے

ایک عالم ابھی حیرت زدہ کر آیا تو

پھر اب اے آئینہ رخسار کہاں جاتا ہے

جام و مینا و مے و ساقی و مطرب ہمراہ

اس سرانجام سے بیدارؔ کہاں جاتا ہے

٭٭٭

میر مجلس رنداں آج وہ شرابی ہے

خون دل جسے میرا بادۂ گلابی ہے

دل کو سخت بیتابی چشم کو بے خوابی ہے

ہجر میں ترے ظالم یہ یہ کچھ خرابی ہے

عیش چاہئے جو کچھ سو تو آج ہے موجود

جام و مے ہے ساقی ہے سیر ماہتابی ہے

صبح ہونے دے ٹک تو رات ہے ابھی باقی

تجھ کو گھر کے جانے کی ایسی کیا شتابی ہے

ہم ہیں اور تم ہو یاں غیر تو نہیں کوئی

آ گلے سے لگ جاؤ وقت بے حجابی ہے

تیرے اے پری پیکر سینے پر نہیں پستاں

طاق حسن پر گویا شیشۂ حبابی ہے

کیوں نہ بزم میں بیدارؔ ہووے قابل تحسیں

ہر یک اس غزل کے بیچ شعر انتخابی ہے

٭٭٭

نشہ میں جی چاہتا ہے بوسہ بازی کیجئے

اتنی رخصت دیجئے بندہ نوازی کیجئے

چاہئے جو کچھ سو ہو پہلے ہی سجدہ میں حصول

آپ کو گر کعبۂ دل کا نمازی کیجئے

جس نے اک جلوہ کو دیکھا جی دیا پروانہ وار

اس قدر اے شمع رویاں حسن سازی کیجئے

نردباں کہتے ہیں ہے بام حقیقت کا مجاز

چند روز اس واسطے عشق مجازی کیجئے

خواہش روشن دلی گر ہووے شب سے تا سحر

شمع ساں بیدارؔ رو رو جاں گدازی کیجئے

٭٭٭

ہم ہی تنہا نہ تری چشم کے بیمار ہوئے

اس مرض میں تو کئی ہم سے گرفتار ہوئے

سینۂ خستہ ہمارے سے ہے غربال کو رشک

ناوک غم جگر و دل سے زبس پار ہوئے

بکنے موتی لگے بازار میں کوڑی کوڑی

یاد میں تیری زبس چشم گہر بار ہوئے

روز اول کہ تم آ مصر محبت کے بیچ

یوسف عصر ہوئے رونق بازار ہوئے

نقد جان و دل و دیں دے کے لیا ہم نے تمہیں

سیکڑوں اہل ہوس گرچہ خریدار ہوئے

گھر میں لے آئے تمہیں چاہ سے کرنے شادی

کہ تم اس غم کدہ میں شمع شب تار ہوئے

رخ تاباں سے تمہارے کہ ہے خورشید مثال

در و دیوار سبھی مطلع انوار ہوئے

ڈھونڈھتے تم کو پڑے پھرتے تھے ہم شہر بہ شہر

خوار و رسوائے سر کوچہ و بازار ہوئے

للہ الحمد کہ مدت میں تم اے نور نگاہ

باعث روشنیِ دیدۂ خوں بار ہوئے

خانۂ چشم میں رکھتے تھے شب و روز کہ تم

قرۃالعین ہوئے راحت دیدار ہوئے

دیکھ کر مہر و وفا و کرم و لطف کو ہم

جانتے یوں تھے کہ تم یار وفادار ہوئے

جس میں تم ہوتے خوشی سو ہی تو ہم کرتے تھے

پر نہیں جانتے کس واسطے بیزار ہوئے

اب ہمیں چھوڑ کے یوں زار و نزار و غمگیں

تم کہیں اور ہی جا یاں سے نمودار ہوئے

یہ تو ہرگز ہی نہ تھی تم سے توقع ہم کو

کہ ستم گار دل آزار جفا کار ہوئے

نہ وہ اخلاص و محبت ہے نہ وہ مہر و وفا

شیوۂ جور و جفا و ستم اظہار ہوئے

یا وہ الطاف و کرم تھا کہ سدا رہتے تھے

اے گل اندام ہمارے گئے کے ہار ہوئے

اس میں حیراں ہیں کہ کیا ایسی ہوئی ہے تقصیر

قتل کرنے کے تئیں پھرتے ہو تیار ہوئے

تیغ خوں ریز بکف خنجر براں بہ میاں

ہر گھڑی سامنے آ جاتے ہو خونخوار ہوئے

پھر تو کیا ہے سنتے ہو اٹھو بسم اللہ

کھینچ کر تیغ کو آؤ جو ستم گار ہوئے

ورنہ دل کھول کے لگ جاؤ گلے سے پیارے

گو کہ ہم قتل ہی کرنے کے سزا وار ہوئے

اتنی ہی بات کے کہنے میں کہ اک بوسہ دو

آہ اے شوخ جو ایسے ہی گناہ گار ہوئے

توبہ کرتے ہیں قسم کھاتے ہیں سنتے ہو تم

پھر نہیں کہنے کے آگے کو خبردار ہوئے

پوچھتا کیا ہے تو بیدارؔ ہمارا احوال

دام خوباں میں پھر اب آئے گرفتار ہوئے

٭٭٭

ماخذ: ریختہ ڈاٹ آرگ

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل