فہرست مضامین
- انتخاب آتش
- خواجہ حیدر علی آتشؔ
- جمع و ترتیب: اعجاز عبید
- ہوائے دورِ مئے خوش گوار راہ میں ہے
- تا صبح نیند آئی نہ دم بھر تمام رات
- مرے دل کو شوقِ فغاں نہیں، مرے لب تک آتی دعا نہیں
- آئے بہار جائے خزاں ہو چمن درست
- طریقِ عشق میں مارا پڑا ، جو دل بھٹکا
- فریبِ حُسن سے گبرو مسلماں کا چلن بگڑا
- حشر کو بھی دیکھنے کا اُس کے ارماں رہ گیا
- ہے جب سے دستِ یار میں ساغر شراب کا
- سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
- یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا
- یہ آرزو تھی تجھے گُل کے رُو برُو کرتے
- محبت سے بنا لیتے ہیں اپنا دوست دشمن کو
- خوشا وہ دل کہ ہو جس دل میں آرزو تیری
- کوئی عشق میں مُجھ سے افزوں نہ نکلا
- دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے
- چمن میں شب کو جو وہ شوخ بے نقاب آیا
- بیمار عشق و رنج و محن سے نکل گیا
- ہوتا ہے سوز عشق سے جل جل کے دل تمام
- شب برات جو زلف سیاہ یار ہوئی
- گستاخ بہت شمع سے پروانہ ہوا ہے
- معشوق نہیں کوئی حسیں تم سے زیادہ
- تری زلفوں نے بل کھایا تو ہوتا
- چاندنی میں جب تجھے یاد اے مہِ تاباں کیا
- پیری نے قد راست کو اپنے نگوں کیا
- وحشتدل نے کیا ہے وہ بیاباں پیدا
- روزمولود سے، ساتھ اپنے ہوا، غم پیدا
- شب وصل تھی، چاندنی کا سماں تھا
- وحشت آگیں ہے فسانہ مری رسوائی کا
- ساقی ہوں تیس روز سے مشتاق دید کا
- آئینہ سینۂ صاحب نظراں ہے کہ جو تھا
- بلا اپنے لیے دانستہ ناداں مول لیتے ہیں
- کیا کہیے کہ ہے سوزشِ داغِ جگر ایسی
- شوقِ وصلت میں ہے شغلِ اشک افشانی مجھے
- آفتِ جاں ہے ترا اے سروِ گل اندام رقص
- آسیب پری جلوۂ جانانہ ہوا ہے
- زاہد فریفتہ ہیں مرے نونہال کے
- کام کرتی رہی وہ چشمِ فسوں ساز اپنا
- دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے
- طولِ شبِ فراق کا قصہ بیاں نہ ہو
- صاف آئینے سے رخسار ہے اس دلبر کا
- بھاگو نہ مجھ کو دیکھ کے بے اختیار دُور
- روز و شب ہنگامہ برپا ہے میانِ کوئے دوست
- کُوچۂ دلبر میں مَیں، بُلبُل چمن میں مست ہے
- جمع و ترتیب: اعجاز عبید
انتخاب آتش
(اضافہ شدہ)
خواجہ حیدر علی آتشؔ
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ہوائے دورِ مئے خوش گوار راہ میں ہے
خزاں چمن سے ہے جاتی بہار راہ میں ہے
گدا نواز کوئی شہسوار راہ میں ہے
بلند آج نہایت غبار راہ میں ہے
شباب تک نہیں پہونچا ہے عالمِ طفلی
ہنوز حسنِ جوانیِ یار راہ میں ہے
عدم کے کوچ کی لازم ہے فکر ہستی میں
نہ کوئی شہر نہ کوئی دیار راہ میں ہے
طریقِ عشق میں اے دل عصائے آہ ہے شرط
کہیں چڑھاؤ کسی جا اتار راہ میں ہے
طریقِ عشق کا سالک ہے واعظوں کی نہ سُن
ٹھگوں کے کہنے کا کیا اعتبار راہ میں ہے
جگہ ہے رحم کی یار ایک ٹھوکر اس کو بھی
شہیدِ ناز کا ترے مزار راہ میں ہے
سمندِ عمر کو اللہ رے شوقِ آسایش
عناں گسستۂ و بے اختیار راہ میں ہے
نہ بدرقہ ہے نہ کوئی رفیق ساتھ اپنے
فقط عنایتِ پروردگار راہ میں ہے
نہ جائیں آپ ابھی دوپہر ہے گرمی کی
بہت سی گرد بہت سا غبار راہ میں ہے
تلاشِ یار میں کیا ڈھونڈیے کسی کا ساتھ
ہمارا سایہ ہمیں ناگوار راہ میں ہے
جنوں میں خاک اڑاتا ہے ساتھ ساتھ اپنے
شریکِ حال ہمارا غبار راہ میں ہے
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے
کوئی تو دوش سے بارِ سفر اتارے گا
ہزار رہزنِ امیدوار راہ میں ہے
مقام تک بھی ہم اپنے پہنچ ہی جائیں گے
خدا تو دوست ہے دشمن ہزار راہ میں ہے
بہت سی ٹھوکریں کھلوائے گا یہ حسن اُن کا
بتوں کا عشق نہیں کوہسار راہ میں ہے
پتا یہ کوچۂ قاتل کا سن رکھ اے قاصد
بجائے سنگِ نشاں اِک مزار راہ میں ہے
پیادہ پا ہوں رواں سوئے کوچۂ قاتل
اجل مری مرے سر پر سوار راہ میں ہے
چلا ہے تیر و کماں لے کے صید گاہ وہ تُرک
خوشا نصیب وہ جو جو شکار راہ میں ہے
تھکیں جو پاؤں تو چل سر کے بل نہ ٹھہر آتش
گُلِ مراد ہے منزل میں خار راہ میں ہے
٭٭٭
تا صبح نیند آئی نہ دم بھر تمام رات
نو چکیّاں چلیں مرے سر پر تمام رات
اللہ رے صبح عید کی اُس حور کی خوشی
شانہ تھا اور زلفِ معنبر تمام رات
کھولے بغل کہیں لحدِ تیرہ روزگار
سویا نہیں کبھی میں لپٹ کر تمام رات
کنڈی چڑھا کے شام سے وہ شوخ سو رہا
پٹکا کیا میں سر کو پسِ در تمام رات
راحت کا ہوش ہے کسے آتش بغیر یار؟
بالیں ہیں خشت ، خاک ہے بستر تمام رات
٭٭٭
مرے دل کو شوقِ فغاں نہیں، مرے لب تک آتی دعا نہیں
وہ دہن ہوں جس میں زباں نہیں، وہ جرس ہوں جس میں صدا نہیں
نہ تجھے دماغِ نگاہ ہے، نہ کسی کو تابِ جمال ہے
انہیں کس طرح سے دکھاؤں میں، وہ جو کہتے ہیں کہ خدا نہیں
کسے نیند آتی ہے اے صنم، ترے طاقِ ابرو کی یاد میں
کبھی آشنائے تہِ بغل، سرِ مرغِ قبلہ نما نہیں
عجب اس کا کیا نہ سماؤں میں جو خیالِ دشمن و دوست میں
وہ مقام ہوں کہ گزر نہیں، وہ مکان ہوں کہ پتا نہیں
یہ خلاف ہو گیا آسماں، یہ ہوا زمانہ کی پھر گئی
کہیں گُل کھلے بھی تو بُو نہیں، کہیں حسن ہے تو وفا نہیں
مرضِ جدائیِِ یار نے، یہ بگاڑ دی ہے ہماری خُو
کہ موافق اپنے مزاج کے نظر آتی کوئی دوا نہیں
مجھے زعفران سے زرد تر غمِ ہجرِ یار نے کر دیا
نہیں ایسا کوئی زمانہ میں، مرے حال پر جو ہنسا نہیں
مرے آگے اس کو فروغ ہو ، یہ مجال کیا ہے رقیب کی
یہ ہجومِ جلوۂ یار ہے ، کہ چراغِ خانہ کو جا نہیں
چلیں گو کہ سینکڑوں آندھیاں ، جلیں گرچہ لاکھ گھر اے فلک
بھڑک اٹھے آتشِ طور پھر، کوئی اس طرح کی دوا نہیں
٭٭٭
آئے بہار جائے خزاں ہو چمن درست
بیمار سال بھر کے نظر آئیں تندرست
حالِ شکستہ کا جو کبھی کچھ بیان کیا
نکلا نہ ایک اپنی زباں سے سخن درست
رکھتے ہیں آپ پاؤں کہیں پڑتے ہیں کہیں
رفتار کا تمہاری نہیں ہے چلن درست
جو پہنے اُس کو جامۂ عریانی ٹھیک ہو
اندام پر ہر اک کے ہے یہ پیرہن درست
آرائشِ جمال کو مشاطہ چاہیئے
بے باغبان کے رہ نہیں سکتا چمن درست
آئینہ سے بنے گا رُخِ یار کا بناؤ
شانے سے ہو گی زلفِ شکن در شکن درست
کم، شاعری بھی نسخۂ اکسیر سے، نہیں،
مستغنی ہو گیا جسے آیا یہ فن درست
آتش! وہی بہار کا عالم ہے باغ میں
تا حال ہے دماغِ ہوائے چمن درست
٭٭٭
طریقِ عشق میں مارا پڑا ، جو دل بھٹکا
یہی وہ راہ ہے جس میں ہے جان کا کھٹکا
نہ بوریا بھی میسّر ہوا بچھانے کو
ہمیشہ خواب ہی دیکھا کیے چھپر کھٹ کا
شبِ فراق میں اُس غیرتِ مسیح بغیر
اُٹھا اُٹھا کے مجھے، دردِ دل نے دے پٹکا
پری سے چہرہ کو اپنے وہ نازنیں دکھلائے
حجاب دور ہو، ٹوٹے طلسم گھونگھٹ کا
شراب پینے کا کیا ذکر، یار بے تیرے
پیا جو پانی بھی ہم نے تو حلق میں اٹکا
چمن کی سیر میں سنبل سے پہلوانی کی
چڑھا کے پیچ پہ اُن گیسوؤں نے دے پٹکا
کبھی تو ہو گا ہمارے بھی یار پہلو میں
کبھی تو قصد کرے گا زمانہ کروٹ کا
بس اپنی مستی کو گردش ہے چشم ساقی کی
ہمارا پیٹ نہیںہے شراب کا مٹکا
نہ پھول، بیٹھ کے بالائے سرو، اے قمری
چڑھے جو بانس کے اوپر یہ کام ہے نٹ کا
عجب نہیں ہے جو سودا ہو شعر گوئی سے
خراب کرتا ہے آتش زبان کا چٹکا
٭٭٭
فریبِ حُسن سے گبرو مسلماں کا چلن بگڑا
خدا کی یاد بھولا شیخ، بُت سے برہمن بگڑا
امانت کی طرح رکھا زمیں نے روز محشر تک
نہ اک مُو کم ہوا اپنا ، نہ اک تارِ کفن بگڑا
لگے مُنہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجئے دہن بگڑا
بناوٹ کیفِ مے سے کھُل گئی اُس شوخ کی آتش
لگا کر مُنہ سے پیمانے کو، وہ پیمان شکن بگڑا
٭٭٭
حشر کو بھی دیکھنے کا اُس کے ارماں رہ گیا
دن ہوا پر آفتاب آنکھوں سے پنہاں رہ گیا
دوستی نبھتی نہیں ہرگز فرو مایہ کے ساتھ
روح جنت کو گئی جسمِ گِلی یاں رہ گیا
چال ہے مجھ ناتواں کی مرغِ بسمل کی تڑپ
ہر قدم پر ہے یقین ، یاں رہ گیا، واں رہ گیا
کر کے آرایش، جو دیکھی اُس صنم نے اپنی شکل
بند آنکھیں ہو گئیں، آئینہ حیراں رہ گیا
کھینچ کر تلوار قاتل نے کیا مجھ کو نہ قتل
شکر ہے گردن تک آتے آتے احساں رہ گیا
شامِ ہجراں صبح بھی کر کے نہ دیکھا روزِ وصل
سانپ کو کچلا پر آتش ، گنج پنہاں رہ گیا
٭٭٭
ہے جب سے دستِ یار میں ساغر شراب کا
کوڑی کا ہو گیا ہے کٹورا گلاب کا
صیاد نے تسلیِ بلبل کے واسطے
کنجِ قفس میں حوض بھرا ہے، گلاب کا
دریائے خوں کیا ہے تری تیغ نے رواں
حاصل ہوا ہے رتبہ سروں کو، حباب کا
جو سطر ہے، وہ گیسوئے حورِ بہشت ہے
خالِ پری ہے نقطہ، ہماری کتاب کا
نور آسماں ہیں صفحۂ اوّل کے نو لغت
کونین، اک دو ورقہ ہے اپنی کتاب کا
اے موجِ بے لحاظ، سمجھ کر مٹائیو
دریا بھی ہے اسیرِ طلسمِ حباب کا
اک ترک شہسوار کی دیوانی روح ہے
زنجیر میں ہمارے ہو لوہا رکاب کا
حسن و جمال سے ہے زمانے میں روشنی
شب ماہتاب کی ہے، تو روز آفتاب کا
اللہ رے ہمارا تکلّف، شبِ وصال
روغن کے بدلے عطر جلایا گلاب کا
مسجد سے مے کدے میں مجھے نشّہ لے گیا
موجِ شرابِ جادہ تھی، راہِ ثواب کا
انصاف سے وہ زمزمہ میرا اگر سنے
دم بند ہووے طوطیِ حاضر جواب کا
الفت جو زلف سے ہے دلِ داغ دار کو
طاؤس کو یہ عشق نہ ہو گا سحاب کا
معمور جو ہوا عرقِ رخ سے وہ ذقن
مضمون مل گیا مجھے چاہِ گلاب کا
پاتا ہوں ناف کا کمرِ یار میں مقام
چشمہ مگر عدم میں ہے گوہر کی آب کا
آتش شبِ فراق میں پوچھوں گا ماہ سے
یہ داغ ہے دیا ہوا کس آفتاب کا؟
٭٭٭
سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا
کیا کیا اُلجھتا ہے تری زلفوں کے تار سے
بخیہ طلب ہے سینۂ صد چاک شانہ کیا؟
زیرِ زمین سے آتا ہے جو گل سو زر بکف
قاروں نے راستے میں خزانہ لٹایا کیا؟
چاروں طرف سے صورتِ جاناں ہو جلوہ گر
دل صاف ہو ترا تو ہے آئینہ خانہ کیا
طبل و عَلم ہے پاس نہ اپنے ہے ملک و مال
ہم سے خلاف ہو کے کرے گا زمانہ کیا
صّیاد گُل عذار دکھاتا ہے سیرِ باغ
بلبل قفس میں یاد کرے آشیانہ کیا
یوں مدّعی حسد سے نہ دے داد تو نہ دے
آتِش غزل یہ تو نے کہی عاشقانہ کیا
٭٭٭
یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا
رات بھر طالعِ بیدار نے سونے نہ دیا
خاک پر سنگِ درِ یار نے سونے نہ دیا
دھوپ میں سایۂ دیوار نے سونے نہ دیا
شام سے وصل کی شب آنکھ نہ جھپکی تا صبح
شادیِ دولتِ دیدار نے سونے نہ دیا
ایک شب بلبلِ بے تاب کے جاگے نہ نصیب
پہلوئے گُل میں کبھی خار نے سونے نہ دیا
جب لگی آنکھ ، کراہا یہ کہ بد خواب کیا
نیند بھر کر دلِ بیمار نے سونے نہ دیا
دردِ سرِ شام سے اس زلف کے سودے میں رہا
صبح تک مجھ کو شبِ تار نے سونے نہ دیا
رات بھر کیں دلِ بے تاب نے باتیں مجھ سے
رنج و محنت کے گرفتار نے سونے نہ دیا
سیلِ گریہ سے مرے نیند اڑی مردم کی
فکرِ بام و در و دیوار نے سونے نہ دیا
باغِ عالم میں رہیں خواب کی مشتاق آنکھیں
گرمیِ آتشِ گلزار نے سونے نہ دیا
سچ ہے غم خواریِ بیمار عذابِ جاں ہے
تا دمِ مرگ دلِ زار نے سونے نہ دیا
تکیہ تک پہلو میں اس گُل نے نہ رکھا آتش
غیر کو ساتھ کبھی یار نے سونے نہ دیا
٭٭٭
یہ آرزو تھی تجھے گُل کے رُو برُو کرتے
ہم اور بلبلِ بے تاب گفتگو کرتے
پیام بر نہ میّسر ہوا تو خوب ہوا
زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے
مری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ
کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے
ہمیشہ رنگ زمانہ بدلتا رہتا ہے
سفید رنگ ہیں آخر سیاہ مُو کرتے
لٹاتے دولتِ دنیا کو میکدے میں ہم
طلائی ساغر مئے نقرئی سبُو کرتے
ہمیشہ میں نے گریباں کو چاک چاک کیا
تمام عمر رفو گر رہے رفو کرتے
جو دیکھتے تری زنجیر زلف کا عالم
اسیر ہونے کی آزاد آرزو کرتے
بیاضِ گردنِ جاناں کو صبح کہتے جو ہم
ستارۂ سحری تکمۂ گُلو کرتے
یہ کعبہ سے نہیں بے وجہ نسبتِ رخ ِیار
یہ بے سبب نہیں مردے کو قبلہ رُو کرتے
سکھاتے نالۂ شب گیر کو در اندازی
غمِ فراق کا اس چرخ کو عدو کرتے
وہ جانِ جاں نہیں آتا تو موت ہی آتی
دل و جگر کو کہاں تک بھلا لہو کرتے
نہ پوچھ عالمِ برگشتہ طالعی آتش
برستی آگ، جو باراں کی آرزو کرتے
٭٭٭
محبت سے بنا لیتے ہیں اپنا دوست دشمن کو
جھکاتی ہے ہماری عاجزی سرکش کی گردن کو
نقاب اس آفتاب حسن کا اندھیر رکھتا ہے
رخ روشن چھپا کر سب کیا ہے روز روشن کو
اڑاتے دولتِ دنیا کو ہیں ہم عشق بازی میں
طلائی رنگ پر صدقے کیا کرتے ہیں کندن کو
قبائے سرخ وہ اندامِ نازک دوست رکھتا ہے
ملانا خاک میں عاشق کا ہے شغل اُن کے دامن کو
تصور لالہ و گل کا رہا کرتا ہے آنکھوں میں
قفس میں بھی سلام شوق کر لیتے ہیں گلشن کو
سوار اس تیغ زن کو دیکھتا ہے جو وہ کہتا ہے
ہمارا خون حاضر ہے، اگر رنگواؤ توسن کو
کمی ہو گی نہ بعد مرگ بھی بے تابیِ دل میں
قیامت تک رہے گا زلزلہ سا میرے مدفن کو
تبسّم میں نظر آنا ترے دنداں کا آفت ہے
چمکنے سے لگاتی ہے یہ بجلی آگ خرمن کو
یہ قصر یار کو پیغام دینا اے صبا میرا
نگاہیں ڈھونڈتی ہیں تیری دیواروں کے روزن کو
٭٭٭
خوشا وہ دل کہ ہو جس دل میں آرزو تیری
خوشا دماغ جسے تازہ رکھّے بُو تیری
پھرے ہیں مشرق و مغرب سے تا جنوب و شمال
تلاش کی ہے صنم ہم نے چار سُو تیری
شبِ فراق میں اک دم نہیں قرار آیا
خدا گواہ ہے، شاہد ہے آرزو تیری
دماغ اپنا بھی اے گُلبدن معطّر ہے
صبا ہی کے نہیں حصّے میں آئی بُو تیری
مری طرف سے صبا کہیو میرے یوسف سے
نکل چلی ہے بہت پیرہن سے بو تیری
شبِ فراق میں، اے روزِ وصل، تا دمِ صبح
چراغ ہاتھ میں ہے اور جستجو تیری
جو ابر گریہ کناں ہے تو برق خندہ زناں
کسی میں خُو ہے ہماری، کسی میں خُو تیری
کسی طرف سے تو نکلے گا آخر اے شہِ حُسن
فقیر دیکھتے ہیں راہ کو بہ کو تیری
زمانے میں کوئی تجھ سا نہیں ہے سیف زباں
رہے گی معرکے میں آتش آبرو تیری
٭٭٭
کوئی عشق میں مُجھ سے افزوں نہ نکلا
کبھی سامنے ہو کے مجنوں نہ نکلا
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اِک قطرۂ خوں نہ نکلا
بجا کہتے آئے ہیں ہیچ اس کو شاعر
کمر کا کوئی ہم سے مضموں نہ نکلا
ہُوا کون سا روزِ روشن نہ کالا
کب افسانۂ زلفِ شب گوں نہ نکلا
پہنچتا اسے مصرعِ تازہ و تر
قدِ یار سا سروِ موزوں نہ نکلا
رہا سال ہا سال جنگل میں آتِش
مرے سامنے بیدِ مجنوں نہ نکلا
٭٭٭
دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے
کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے
زمینِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
تمھارے شہیدوں میں داخل ہوئے ہیں
گل و لالہ و ارغواں کیسے کیسے
بہار آئی ہے، نشّہ میں جھومتے ہیں
مریدانِ پیرِ مغاں کیسے کیسے
نہ مڑ کر بھی بے درد قاتل نے دیکھا
تڑپتے رہے نیم جاں کیسے کیسے
نہ گورِ سکندر، نہ ہے قبرِ دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
غم و غصہ و رنج و اندوہ و حرماں
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے
تری کلکِ قدرت کے قربان آنکھیں
دکھائے ہیں خوش رو جواں کیسے کیسے
کرے جس قدر شکرِ نعمت، وہ کم ہے
مزے لوٹتی ہے، زباں کیسے کیسے
٭٭٭
چمن میں شب کو جو وہ شوخ بے نقاب آیا
یقیں ہو گیا شبنم کو، آفتاب آیا
ان انکھڑیوں میں اگر نشۂ شراب آیا
سلام جھک کر کروں گا جو پھر حجاب آیا
اسیر ہونے کا اللہ رے شوق بلبل کو
جگایا نالوں سے صیاد کو جو خواب آیا
کسی کی محرم آب رواں کی یاد آئی
حباب کے جو برابر کوئی حباب آیا
شبِ فراق میں مجھ کو سلانے آیا تھا
جگایا میں نے جو افسانہ گو کو خواب آیا
٭٭٭
بیمار عشق و رنج و محن سے نکل گیا
بیچارہ منہ چھپا کے کفن سے نکل گیا
دیکھا جو مجھ غریب کو بولے عدم کے لوگ
مدت سے تھا یہ اپنے وطن سے نکل گیا
عالم جو تھا مطیع ہمارے کلام کا
کیا اسم اعظم اپنے دہن سے نکل گیا؟
زنجیر کا وہ غل نہیں زنداں میں اے جنوں
دیوانہ قید خانہ تن سے نکل گیا
رتبے کو ترے سن کر سبک ہو کے ہر غزال
دیوانہ ہو کے دشت ختن سے نکل گیا
پھر طفل حیلہ کو کا بہانہ نہ مانیو
آتش وہ اب کی بار تو فن سے نکل گیا
٭٭٭
ہوتا ہے سوز عشق سے جل جل کے دل تمام
کرتی ہے روح مرحلۂ آب و گل تمام
درد فراق یار سے کہنا ہے بندنہ
اعضا ہمارے ہو گئے ہیں مضمحل تمام
ہوتا ہے پردھ فاش کلام دروغ کا
وعدے کا دن سمجھ لے وہ پیماں گسل تمام
خلوت میں ہاتھ یار کے جانا نہ تھا تمہیں
ارباب انجمن ہوئے آتش ہجل تمام
٭٭٭
شب برات جو زلف سیاہ یار ہوئی
جبیں سے صبح مہ عید آشکار ہوئی
گزر ہو جو کبھی مرقد غربیاں پر
گھٹائیں پھوٹ بہیں، برق بے قرار ہوئی
پیادہ پا جو چمن میں بہار کو دیکھا
ہوا کے گھوڑے کے اوپر خزاں سوار ہوئی
زمیں کو زلزلہ آئے گا چرغ کو چکر
ہماری روح لحد میں جو بے قرار ہوئی
وفا سرشت ہوں، شیوہ ہے دوستی میرا
نہ کی وہ بات جو دشمن کو ناگوار ہوئی
سنا ہے قصۂ مجنوں و وامق و فرہاد
کسی کو عاشق آتش نہ سزا وار ہوئی
٭٭٭
غزل جو ہم سے وہ محبوب نکتہ دان سنتا
زمینِ شعر کا افسانہ آسماں سنتا
زبان کون سی مشغول ذکر خیر نہیں
کہاں کہاں نہیں میں تیری داستاں سنتا
خوشی کے مارے زمیں پر قدم نہیں پڑتے
جرس سے مژدہ منزل ہے کارواں سنتا
نہ پوچھ، کان میں کیا کیا کہا ہے ، کس کس نے
پھر ہوں تیری خبر میں کہاں کہاں سنتا
مجھے وہ روشنی خانہ یاد آتا ہے
کسی کے گھر میں ہوں دوست مہماں سنتا
نہال قد کے ہو سودے مین جب سے زرد آتش
تمہارا نام ہوں میں شاخ زعفران سنتا
٭٭٭
گستاخ بہت شمع سے پروانہ ہوا ہے
موت آئی ہے ، سر چڑھتا ہے ، دیوانہ ہوا ہے
اس عالم ایجاد میں گردش سے فلک کے
کیا کیا نہیں ہونے کا کیا کیا نہ ہوا ہے
نالوں سے مرے کون تھا تنگ مرے بعد
کس گھر میں نہیں سجدۂ شکرانہ ہوا ہے
یاد آتی ہے مجھ کو تن بے جاں کی خرابی
آباد مکاں کوئی جو ویرانہ ہوا ہے
٭٭٭
معشوق نہیں کوئی حسیں تم سے زیادہ
مشتاق ہیں کس ماہ کے انجم سے زیادہ
صوفی جو سنے نالہ موزوں کو ہمارے
حالت ہو مغنی کے ترنم سے زیادہ
آئینے میں دیکھا ہے کو منہ چاند سا اپنا
خود گم ہے وہ بت، عاشق خود گم سے زیادہ
بجلی کو جلا دیں گے وہ لب دانت دکھا کر
شغل آج کل ان کو ہے تبسم سے زیادہ
کہتا ہے وہ شوخ آئینے میں عکس سے آتش
تم ہم سے زیادہ ہو تو ہم تم سے زیادہ
٭٭٭
تری زلفوں نے بل کھایا تو ہوتا
ذرا سنبل کو لہرایا تو ہوتا
رخ بے داغ دکھلایا تو ہوتا
گل و لالہ کو شرمایا تو ہوتا
چلے گا کبک کیا رفتار تیری
یہ انداز قدم پایا تو ہوتا
نہ کیوں کر حشر ہوتا دیکھتے ہو
قیامت قد ترا لایا تو ہوتا
بجا لاتے اسے آنکھوں سے اے دوست
کبھی کچھ ہم سے فرمایا تو ہوتا
سمجھتا یا نہ اے آتش سمجھتا
دل مضطر کو سمجھایا تو ہوتا
٭٭٭
چاندنی میں جب تجھے یاد اے مہِ تاباں کیا
رات بھر اختر شماری نے مجھے حیراں کیا
قامتِ موزوں تصوّر میں قیامت ہو گیا
چشم کی گردش نے کارِ فتنۂ دوراں کیا
شام سے ڈھونڈا کیا زنجیر پھانسی کے لئے
صبح تک میں نے خیالِ گیسوئے پیچاں کیا
کس طرح سے میں دلِ وحشی کا کہنا مانوں
کوئی قائل نہیں دیوانے کی دانائی کا
یہی زنجیر کے نالے سے صدا آتی ہے
قید خانے میں برا حال ہے سودائی کا
بعد شاعر کے ہوا مشہور کلامِ شاعر
شہرہ البتہ کہ ہو مردے کی گویائی کا
٭٭٭
پیری نے قد راست کو اپنے نگوں کیا
خراب قصرتن کا ہمارے ستوں کیا
جامے سے جسم کے بھی میں دیوانہ تنگ ہوں
اب کی بہار میں اسے نذرجنوں کیا
فرہاد سر کو پھوڑ کے تیشے سے مر گیا
شیریں نے ناپسند مگر بے ستوں کیا
جوہر وہ کون سا ہے جو انسان میں نہیں
دے کر خدا نے عقل اسے، ذوفنوں کیا
آنکھوں سے جائے اشک ٹپکنے لگا لہو
آتش جگر کو دل کی مصیبت نے خوں کیا
٭٭٭
وحشتدل نے کیا ہے وہ بیاباں پیدا
سینکڑوں کوس نہیں صورتانساں پیدا
دل کے آئینے میں کر جوہرپنہاں پیدا
در و دیوار سے ہو صورتجاناں پیدا
باغ سنسان نہ کر، ان کو پکڑ کر صیاد
بعد مدت ہوئے ہیں مرغخوش الحاں پیدا
اب قدم سے ہے مرے خانہزنجیر آباد
مجھ کو وحدت نے کیا سلسلہ جنباں پیدا
روح کی طرح سے داخل ہو جو دیوانہ ہے
جسمخاک سمجھ اس کو جو ہو زنداں پیدا
بے حجابوں کا مگر شہر ہے اقلیمعدم
دیکھتا ہوں جسے، ہوتا ہے وہ عریاں پیدا
اک گل ایسا نہیں ہووے نہ خزاں جس کی بہار
کون سے وقت ہوا تھا یہ گلستاں پیدا
موجد اس کی ہے یہ روزی ہماری آتش
ہم نہ ہوتے تو نہ ہوتی شبہجراں پیدا
٭٭٭
روزمولود سے، ساتھ اپنے ہوا، غم پیدا
لالہ ساں داغ اٹھانے کو ہوئے ہم پیدا
شبہ ہوتا ہے صدف کا مجھے ہر غنچے پر
کہیں موتی نہ کریں قطرہشبنم پیدا
چپ رہو، دور کرو، منہ نہ میرا کھلواؤ
غافلو! زخمزباں کا نہیں مرہم پیدا
دوست ہی دشمنجاں ہو گیا اپنا آتش
نوش وارو نے کیا یا اثرسم پیدا
٭٭٭
شب وصل تھی، چاندنی کا سماں تھا
بغل میں صنم تھا، خدا مہربان تھا
مبارک شب قدر سے بھی وہ شب تھی
سمر تک مرد مشتری کا قرآن تھا
وہ شب تھی کہ تھی روشنی جس میں دن کی
زمین پر سے اک نور تا آسمان تھا
نکالے تھے دو چاند اس نے مقابل
وہ شب صبح جنت کا جس پہ گماں تھا
عروسی کی شب کی حلاوت تھی حاصل
فرحناک تھی روح، دل شادمان تھا
بیان خواب کی طرح جو کر رہا ہے
یہ قصہ ہے جب کا کہ آتش جواں تھا
٭٭٭
وحشت آگیں ہے فسانہ مری رسوائی کا
عاشقِ زار ہوں اک آہوئے صحرائی کا
پاؤں زنداں سے نہ نکلا ترے سودائی کا
داغ دل ہی میں رہا لالۂ صحرائی کا
دھیان رہتا ہے قدِ یار کی رعنائی کا
سامنا روز ہے یاں آفتِ بالائی کا
کوہِ غم مثلِ پرِ کاہ اٹھا لیتا ہوں
ناتوانی میں بھی عالم ہے توانائی کا
لحدِ تیرہ میں مجھ پر جو لگا ہونے عذاب
پھر گیا آنکھوں میں عالم شبِ تنہائی کا
کون سا دل ہے نہیں جس میں خدا کی منزل
شکوہ کس منہ سے کروں میں بتِ رعنائی کا
مردِ درویش ہوں تکیہ ہے توکل میرا
خرچ ہر روز ہے یاں آمدِ بالائی کا
بوسۂ چشمِ غزالاں مجھے یاد آتے ہیں
نہیں بھولا میں مزا میوۂ صحرائی کا
زندگانی نے مجھے مردہ بنا رکھا ہے
ملک الموت سے سائل ہوں مسیحائی کا
مصرعِ سرو میں لاکھوں ہی نکالوں شاخیں
باندھوں مضموں جو قدِ یار کی رعنائی کا
جب سے شیطان کا احوال سنا ہے میں نے
پائے بت پر بھی ارادہ ہے جبیں سائی کا
ہوئی حجت مجھے غنچے کے چٹکنے کی صدا
شک پڑا تھا دہنِ یار میں گویائی کا
وہ تماشا ہے ترا حُسنِ پر آشوب اے ترک
آنکھوں کی راہ سے دم نکلے تماشائی کا
کس طرح سے دلِ وحشی کا میں کہنا مانوں
کوئی قائل نہیں دیوانے کی دانائی کا
یہی زنجیر کے نالے سے صدا آتی ہے
قید خانے میں برا حال ہے سودائی کا
اک پری کو بھی نہ شیشے میں اتارا میں نے
یاد کیا آئے گا اس گنبدِ مینائی کا
بعد شاعر کے ہو مشہور کلامِ شاعر
شہرہ البتہ کہ ہو مردے کی گویائی کی
شہر میں قافیہ پیمائی بہت کی آتش
اب ارادہ ہے مرا بادیہ پیمائی کا
٭٭٭
ساقی ہوں تیس روز سے مشتاق دید کا
دکھلا دے جامِ مے میں مجھے چاند عید کا
موقع ہوا نہ اُس رخِ روشن کی دید کا
افسانہ ہی سنا کیے ہم صبحِ عید کا
افسانہ سنیے یار کا ذکر اُس کا کیجیے
مقصود ہے یہی مری گفت و شنید کا
شیدائے حسنِ یار کس اقلیم میں نہیں
محبوب ہے وہ ماہ قریب و بعید کا
حاضر ہے چاہے جو کوئی نعمت فقیر کی
شیریں کلام اپنا ہے توشہ فرید کا
مریخ کا ہے ظلم و ستم کس شمار میں
پیرِ فلک کو رتبہ ہے تیرے مرید کا
حجت دہانِ یار میں کیونکر نہ کیجیے
منظور ہے ثبوت ہمیں ناپدید کا
لیتا ہے بوسہ دے کے وہ سیمیں عذار دل
یہ حال عاشقوں کا ہے جو زر خرید کا
آرائش اُن کی قتل کرے ہم کو بے گناہ
درکار مہندی گندھنے کو ہو خوں شہید کا
بندِ قبائے یار کے عقدے ہوں لاکھ قفل
گستاخ ہاتھ کام کریں گے کلید کا
دل بیچتے ہیں عاشقِ بے تاب لیجیے
قیمت وہ ہے جو مول ہو مالِ مزید کا
اپنی طرف اُن ابروؤں کے رخ کو پھیریے
اللہ زور دے جو کماں کی کشید کا
سودائیوں کو حاکمِ ظالم سے ڈر نہیں
داغِ جنوں ہر ایک نگیں ہے حدید کا
اُس رخ پہ ابروؤں سے مسوں کو سمجھ نہ کم
ہر آیہ ہے فصیح کلامِ مجید کا
کنجِ قفس میں پہنچی صبا لے کے بوئے گل
خط آ گیا بہارِ چمن کی رسید کا
شادیِ بے محل سے بھی ہوتا ہے دل کو غم
اندوہ طفل جمعہ کو ہوتا ہے عید کا
قاتل رہا کرے گی شبِ جمعہ روشنی
کوچے میں تیرے ڈھیر ہو تیرے شہید کا
موسیٰ کی طرح ہم کو بھی دیدار کا ہے شوق
آنکھوں کو حوصلہ ہے تجلی کی دید کا
صورت کو تیری دیکھنے آتے ہیں قرعہ بیں
رخ پر یقین ہے اُنہیں شکلِ سعید کا
چسپاں بدن سے یار کے ہو کر قبائے ناز
حیران کار رکھتی ہے قطع و برید کا
بے جرم تیغِ عشق سے دل ہو گیا ہے قتل
سینہ مرا مقام ہے مردِ شہید کا
دیوانہ زلفِ یار کی زنجیر کا ہے دل
رہتا ہے صدمہ روح کو قیدِ شدید کا
خوں ریز جس قدر کہ ہو اُس سے عجب نہیں
آتش فراقِ یار پدر ہے یزید کا
٭٭٭
آئینہ سینۂ صاحب نظراں ہے کہ جو تھا
چہرۂ شاہدِ مقصود عیاں ہے کہ جو تھا
عشقِ گل میں وہی بلبل کا فغاں ہے کہ جو تھا
پرتَوِ مہ سے وہی حال کتاں ہے کہ جو تھا
عالمِ حسن خداداد بتاں ہے کہ جو تھا
ناز و انداز بلائے دل و جاں ہے کہ جو تھا
راہ میں تیری شب و روز بسر کرتا ہوں
وہی میل اور وہی سنگ نشاں ہے کہ جو تھا
روز کرتے ہیں شب ہجر کو بیداری میں
اپنی آنکھوں میں سبک خواب، گراں ہے کہ جو تھا
ایک عالم میں ہو ہر چند مسیحا مشہور
نامِ بیمار سے تم کو خفقاں ہے کہ جو تھا
دولتِ عشق کا گنجینہ وہی سینہ ہے
داغِ دل، زخمِ جگر مہر و نشاں ہے کہ جو تھا
ناز و انداز و ادا سے تمہیں شرم آنے لگی
عارضی حسن کا عالم وہ کہاں ہے، کہ جو تھا
جاں کی تسکیں کے حالتِ دل کہتے ہیں
بے یقینی کا تری ہم کو گماں ہے کہ جو تھا
اثرِ منزلِ مقصود نہیں دنیا میں
راہ میں قافلۂ ریگ رواں ہے کہ جو تھا
دہن اس روئے کتابی میں ہے، پر نا پیدا
اسمِ اعظم وہی قراں میں نہاں ہے کہ جو تھا
کعبۂ مدِّ نظر، قبلہ نما ہے تا حال
کوئے جاناں کی طرف دل نگراں ہے کہ جو تھا
کوہ و صحرا و گلستاں میں پھرا کرتا ہے
متلاشی وہ ترا آبِ رواں ہے کہ جو تھا
سوزشِ دل سے تسلسل ہے وہی آہوں کا
عود کے جلنے سے مجمر میں دھواں ہے کہ جو تھا
رات کٹ جاتی ہے باتیں وہی سنتے سنتے
شمعِ محفل صنمِ چرب زباں ہے کہ جو تھا
پائے خم مستوں کی ہو حق کا جو عالم ہے سو ہے
سرِ منبر وہی واعظ کا بیاں ہے، کہ جو تھا
کون سے دن نئی قبریں نہیں اس میں بنتیں
یہ خرابہ وہی عبرت کا مکاں ہے کہ جو تھا
بے خبر شوق سے میرے نہیں وہ نُورِ نِگاہ
قاصدِ اشک شب و روز رواں ہے کہ جو تھا
لیلتہ القدر کنایہ نہ شبِ وصل سے ہو؟
اِس کا افسانہ میانِ رَمَضاں ہے کہ جو تھا
دین و دنیا کا طلب گار ہنوز آتشؔ ہے
یہ گدا سائلِ نقدِ دو جہاں ہے کہ جو تھا
٭٭٭
کیجیے چورنگ عاشق کو نگاہِ ناز کا
دیکھ لینا شرط ہے شمشیرِ خانہ ساز کا
صوفیوں کو وجد میں لاتا ہے نغمہ ساز کا
شبہہ ہو جاتا ہے پردے سے تری آواز کا
یہ اشارہ ہم سے ہے اُن کی نگاہِ ناز کا
دیکھ لو تیرِ قضا ہوتا ہے اس انداز کا
گفتگو بڑھ جائے گی تقریر عیسیٰ نے جو کی
وہ لبِ جاں بخش بھی دم بھرتے ہیں اعجاز کا
پڑ گئے سوراخ دل میں گفتگوئے یار سے
بے کنایہ کے نہیں اک قول اُس طناز کا
زندہ اُن آنکھوں کے کشتے کو نہ وہ لب کر سکے
اس فسوں پر زور چل سکتا نہیں اعجاز کا
روح قالب سے جدا کرتا ہے قالب روح سے
ایک ادنیٰ سا کرشمہ ہے یہ تیرے ناز کا
سرمہ ہو جاتا ہے جل کر آتشِ سودا سے یار
دیکھنے والا تری چشمِ فسوں پرداز کا
بہرِ پامالیِ عاشق ہوتی ہے مشقِ خرام
شور ہے خلخالِ پائے یار کی آواز کا
منہ سے بے دل کے اشارے سے نکلتا کچھ نہیں
مثلِ نے محتاج ہے اپنا دہن دمساز کا
حیرت آنکھوں کو ہے نظارے میں اُس محبوب کے
یہ نہیں کھلتا کہ دل کشتہ ہے کس انداز کا
یہ اشارہ کر رہی ہے ابروئے خمدارِ یار
کام منہ چڑھنا ہے اس تلوار کے جانباز کا
اے زباں کیجو نہ شرحِ حالتِ دل کا خیال
منکشف ہونا نہیں بہتر ہے مخفی راز کا
غیبتِ عاشق کے سننے کا دماغ اُس کو نہیں
بند ہو جاتا ہے پیشِ یار دم غماز کا
کاٹ کر پر مطمئن صیادِ بے پروا نہ ہو
روح بلبل کی ارادہ رکھتی ہے پرواز کا
کھینچ دیتا ہے شبیہِ شعر کا خاکا خیال
فکرِ رنگیں کام اس پر کرتی ہے پرداز کا
بندشِ الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا
٭٭٭
بلا اپنے لیے دانستہ ناداں مول لیتے ہیں
عبث جی بیچ کر الفت کو انساں مول لیتے ہیں
نہ پوچھ احوال بے درد اپنے بیمارِ محبت کا
زمیں اُس کے لیے اب تو عزیزاں مول لیتے ہیں
میں اُس گلشن کا بلبل ہوں بہار آنے نہیں پاتی
کہ صیاد آن کر میرا گلستاں مول لیتے ہیں
مگر جانا نہیں شاید کہ یاں سے اہلِ عالم کو
یہ دو دن کے لیے کیا قصر و ایواں مول لیتے ہیں
کیا گو نقشِ پائے مور ہم کو خاکساری نے
جو اب بھی چاہیں تو تختِ سلیماں مول لیتے ہیں
عزیزِ خلق اتنا تو کیا ہے مجھ کو داغوں نے
کہ مردم جان کر سروِ چراغاں مول لیتے ہیں
ہمارا شعر ہر اک عالمِ تصویر رکھتا ہے
مرقع جان کر ذی فہم دیواں مول لیتے ہیں
ترے ابرو کے سودائی نہایت تنگ ہیں قاتل
گلے کے کاٹنے کو تیغِ عریاں مول لیتے ہیں
یہ آتش نالۂ عشاق معشوقوں کو بھایا ہے
کہ صیادوں سے مرغانِ خوش الحاں مول لیتے ہیں
٭٭٭
کیا کہیے کہ ہے سوزشِ داغِ جگر ایسی
سنتا نہیں وہ غیرتِ شمس و قمر ایسی
کوشش کا ارادہ ہے رہِ مہر و وفا میں
پھر کھل نہ سکے باندھیے کس کر کمر ایسی
پیری میں جلاتا ہے جو دل داغِ جوانی
پنبے سے بھی گرمی نہیں کرتا شرر ایسی
نازک ہے رگِ گل سے فزوں، بال سے باریک
دیکھی نہیں البتہ سنی ہے کمر ایسی
مشکل ہوئی ہے روح کو قالب سے جدائی
چھٹتی ہی نہیں لپٹی ہے گردِ سفر ایسی
کیونکر نہ مرا شعر ہو عالم کی زباں زد
مشہور بہت ہوتی ہے جھوٹی خبر ایسی
بیدار ہوں منہ دیکھ کے اُس مہر لقا کا
وہ شام کہاں ہے جو دکھائے سحر ایسی
ہووے نہ صفا میں ترے دانتوں کے مقابل
پیدا تو کرے قدر و شرافت گہر ایسی
کیا سینہ اُس ابرو سے بچا سکتا ہے دل کو
شمشیرِ قضا روکے نہیں ہے سپر ایسی
زلفوں کی طرح تا کمرِ یار پہونچتی
اے کاش رسا ہوتی یہ عقلِ بشر ایسی
محبوب نہیں باغِ جہاں میں کوئی تجھ سا
بو رکھتا ہے گل ایسی نہ لذت ثمر ایسی
تیرے لبِ لعلیں کا نہیں سہل پرکھنا
وہ جوہری ہے جس کو خدا دے نظر ایسی
دنیا کی نہ ہے فکر نہ عقبیٰ کا تردد
آتش کہو آئی ہے طبیعت کدھر ایسی
٭٭٭
شوقِ وصلت میں ہے شغلِ اشک افشانی مجھے
ہجر میں کرنا پڑا آخر لہو پانی مجھے
یاد میں آئینۂ رخ کے ہے حیرانی مجھے
زلف کے سودے میں رہتی ہے پریشانی مجھے
تنگ کرتا ہے گریباں کٹنے لگتا ہے گلا
موسمِ گل کی جو یاد آتی ہے عریانی مجھے
ہوں وہ دیوانہ کہ اپنا نام رٹنے کے لیے
اک پری نے دی ہے تسبیحِ سلیمانی مجھے
ایک حرف اُس کی عبارت کا پڑھا جاتا نہیں
لکھ دیا کس خط میں ہے یہ خطِ پیشانی مجھے
چشمہ ہائے چشم میں گریے سے ہے دریا کا جوش
غوطے کھلواتا ہے سیلِ اشک کا پانی مجھے
خواب سے بیدار وہ خورشید رو آ کر کرے
ایسی اے آنکھو دکھاؤ صبحِ نورانی مجھے
ذبح ہی کرتے گلے لگنے جو دیتی تھی نہ شرم
عیدِ قرباں تھی سمجھتے آپ قربانی مجھے
عشق میرا مہرباں ہے حُسن بندہ یار کا
آئینہ سا رخ ملا ہے اُن کو حیرانی مجھے
بوسہ لیتا ہوں دہانِ ناپدیدِ یار کے
آشکارا ہو گیا ہے کنجِ پنہانی مجھے
کون سے گلشن میں بلبل چہچہے کرتا نہیں
یار کے کوچے میں زیبا ہے غزل خوانی مجھے
ساقیانِ ماہ پیکر پر کیا کرتا ہوں حکم
میکدے میں عالمِ مستی ہے سلطانی مجھے
خشک رہتا ہے بہت شوقِ شہادت سے گلا
ہو سکے تو ہمدمو خنجر کا دو پانی مجھے
خاک میں ملوا رہا سودائے زلفِ یار ہے
مثلِ گردِ راہ رہتی ہے پریشانی مجھے
اے خیالِ یار کرتا ہوں ریاضت سے صفا
خانۂ دل میں ہے کرنی تیری مہمانی مجھے
حسن کے جلوے سے اُس رخ کا اشارہ ہے یہی
کافری زلفوں کو زیبا ہے مسلمانی مجھے
شہرِ خوباں میں نہیں آتش مروت کا رواج
تشنہ لب مر جاؤں تو ممکن نہ ہو پانی مجھے
٭٭٭
آفتِ جاں ہے ترا اے سروِ گل اندام رقص
ساتھ ہر ٹھوکر کے کرتا ہے ہمارا کام رقص
طبعِ عالی باز رکھتی ہے تماشے سے مجھے
بام پر گویا کہ میں ہوں اور زیرِ بام رقص
کس طرح کرتا ہے یہ ذلت گوارا آدمی
فی الحقیقت کچھ نہیں غیرِ خیالِ خام رقص
چہرۂ محبوب پر گیسو نہیں لہرا رہے
بت کے آگے کرتے ہیں کفارِ نافرجام رقص
اے دلِ پُر داغ بے تابی سے کچھ حاصل نہیں
ہو سکا طاؤس سے کب قابلِ انعام رقص
دم فنا ہوتا ہے دامن کی ہر اک ٹھوکر کے ساتھ
خرمنِ امید کو ہے برق کا پیغام رقص
حرصِ دنیا حُسن غارت گر کو رکھتی ہے خراب
بہرِ زر کرتے ہیں محبوبانِ سیم اندام رقص
سینہ کوبی کی صدا ہے یہ کہ گھنگرو کی صدا
بے قراری ہے تری یا اے دلِ ناکام رقص
ایک دن لایا تھا جامِ مے ترے ہونٹوں تلک
آج تک کرتا ہے یہ گردونِ مینا فام رقص
چشمِ راحت کارِ ذلت میں خیالِ خام ہے
عمر بھر رقاص کو رکھتا ہے بے آرام رقص
اپنی صورت سامنے اپنے تماشا گاہ ہے
کیا سمجھ کر یہ روا رکھتے ہیں خاص و عام رقص
مے کدے میں چل کے سیرِ عالمِ نیرنگ کر
قلقلِ مینا ہے نغمہ اور دورِ جام رقص
دل اسی پہلو میں آتش پیش ازیں بے تاب تھا
یہ وہی جا ہے جہاں ہوتا ہے صبح و شام رقص
٭٭٭
آسیب پری جلوۂ جانانہ ہوا ہے
جس کو نظر آیا ہے وہ دیوانہ ہوا ہے
اس عالمِ ایجاد میں گردش سے فلک کے
کیا کیا نہیں ہونے کا ہے، کیا کیا نہ ہوا ہے
ساقی نے چھکایا ہے پلا کر جو پیالہ
جمشید گدائے درِ مے خانہ ہوا ہے
خالِ رخِ روشن سے یہ روشن ہے الٰہی
قدرت سے تری آگ میں یہ دانہ ہوا ہے
تا صبح شبِ ہجر میں جھپکی نہیں آنکھیں
نیند اڑ گئی ہے دردِ سر افسانہ ہوا ہے
حیرت ہے رخِ روشنِ محبوب کا افشاں
کیا ذرّہ و خورشید میں یارانہ ہوا ہے
خوش رکھتا ہے زنداں میں بھی مجنوں کو تصوّر
لیلیٰ کا سیہ خیمہ، سیہ خانہ ہوا ہے
بلبل نے لحد پر ہیں مری پھول چڑھائے
موجودہ لیے شمع کو پروانہ ہوا ہے
نالوں سے مرے کون نہ تھا تنگ مرے بعد
کس گھر میں نہیں سجدۂ شکرانہ ہوا ہے
یاد آتی ہے مجھ کو تنِ بے جاں کی خرابی
آباد مکاں کوئی جو ویرانہ ہوا ہے
مطلب کی کہی ہے جو کبھی یار سے ہم نے
نامحرم و ناواقف و بیگانہ ہوا ہے
زنجیر کا خواہاں نہ ہو سرکار جنوں سے
بے قید ہوا ہے وہ جو دیوانہ ہوا ہے
اللہ رے مرے عہد میں یوسف کی گرانی
قیمت نہ ہوئی تھی سو وہ بیعانہ ہوا ہے
ہندو و مسلماں ہیں ترے سجدے کو آئے
مسدود درِ کعبہ و بُت خانہ ہوا ہے
منہ دھو کے وہ زلفوں کو بنا کر ہیں نکلتے
آئینے کو دیکھا ہے طلب شانہ ہوا ہے
اک طفل کو دکھلا کے کیا کشتہ فلک نے
کس پیر سے کیا کارِ جوانانہ ہوا ہے
سچ یہ ہے کہ آتش نہیں تجھ سا کوئی شاعر
شہروں میں ترے جھوٹ کا افسانہ ہوا ہے
٭٭٭
زاہد فریفتہ ہیں مرے نونہال کے
عاشق بزرگ لوگ ہیں اس خورد سال کے
ہر شب شبِ برات ہے، ہر روز عید ہے
سوتا ہوں ہاتھ گردنِ مینا میں ڈال کے
مضمونِ رفتگاں ہے طبیعت کو اپنی ننگ
گاہک نہ ہوویں ہم کبھی مردے کے مال کے
شان و شکوہ نے ہمیں برباد کر دیا
مثلِ حباب اُڑ گئے خیمہ نکال کے
رنجِ خمار اٹھانے کی طاقت نہیں مجھے
پیتا ہوں میں شراب میں بھی لُون ڈال کے
بے عشق لوگ کہتے ہیں ماہِ چہاردہ
سُن کر مُقر ہوئے ہیں تمھارے کمال کے
اُس تُرک کی نگہ جو کرے ناوک افگنی
تودے لگائے خاکِ شہیداں کلال کے
سرمہ نہیں ہوا ہے تجلی سے طور ہی
ہم بھی ہیں سوختہ تری برقِ جمال کے
شامِ شبِ فراق سے پہلے مُوے جو لوگ
آئی ہوئی بلا گئے سر پر سے ٹال کے
اُس شمع رو کا واہ رے جسمِ گداز و صاف
اللہ نے بنایا ہے سانچے میں ڈھال کے
افعی ہے زلف، خال ہے افعی کی مردمک
عقدے کھلے یہ فکر سے اُس زلف و خال کے
آنکھوں میں اپنی رکھتے ہیں اہلِ نظر انھیں
سرمہ ہوئے ہیں پستے ہوئی تیری چال کے
اخوانِ دہر سے عجب اس کا نہ جانیے
یوسف کی فکر میں جو پھریں گُرگ پال کے
معنی کے شوق میں جو ہوا دل کو میلِ فکر
تصویر شعر بن گئے پُتلے خیال کے
سودائی جان کر تری چشمِ سیاہ کا
ڈھیلے لگاتے ہیں مجھے دیدے غزال کے
شک ہوتا تیرے ہاتھ کا، ہوتے جو اے صنم
پنجے میں آفتاب کے ناخن ہلال کے
آئینے سے کلام کو کیونکر کیا ہے صاف
حیرانِ کار ہم بھی ہیں آتش کے حال کے
٭٭٭
کام کرتی رہی وہ چشمِ فسوں ساز اپنا
لبِ جاں بخش دکھایا کیے اعجاز اپنا
سرو گڑ جائیں گے گُل خاک میں مل جاویں گے
پاؤں رکھے تو چمن میں وہ سرافراز اپنا
خندہ زن ہیں، کبھی گریاں ہیں، کبھی نالاں ہیں
نازِ خوباں سے ہوا ہے عجب انداز اپنا
یہی اللہ سے خواہش ہے ہماری اے بُت
کورِ بد بیں ہو ترا، گُنگ ہو غمّاز اپنا
سوزشِ دل سے زباں کو نہ ہوئی آگاہی
اُف کیا منہ سے نہ ہم نے، نہ کھُلا راز اپنا
خوف ہوتا ہے جگر، زمزمہ سن کر بے یار
دل دُکھاتی ہے مغنّی تری آواز اپنا
نہ سنی یار نے اِک بات سخن سازوں کی
رہ گئے کھول کے منہ مفسدہ پرداز اپنا
پر کترنے سے تو صیّاد چھری ہی پھیرے
قصہ کوتاہ کرے حسرتِ پرواز اپنا
برہمن کھولے ہی گا بت کدہ کا دروازہ
بند رہنے کا نہیں کار خدا ساز اپنا
یاد آتی ہیں ادائیں جو تری اے محبوب
بھول جاتے ہیں حسینانِ جہاں ناز اپنا
مرغِ دل صید گہِ عشق چلا ہے دیکھیں
طعمہ کرتا ہے اسے کونسا شہباز اپنا
روٹھ کر ملنے جو جاتا ہوں تو کہتا ہے وہ شوخ
کل خفا تم تھے مزاج آج ہے ناساز اپنا
خبرِ اوّل و آخر نہیں مطلق آتش
نہ تو انجام ہے معلوم نہ آغاز اپنا
٭٭٭
دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے
کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے
زمینِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
تمھارے شہیدوں میں داخل ہوئے ہیں
گل و لالہ و ارغواں کیسے کیسے
بہار آئی ہے، نشّہ میں جھومتے ہیں
مریدانِ پیرِ مغاں کیسے کیسے
نہ مڑ کر بھی بے درد قاتل نے دیکھا
تڑپتے رہے نیم جاں کیسے کیسے
نہ گورِ سکندر، نہ ہے قبرِ دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
غم و غصہ و رنج و اندوہ و حرماں
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے
تری کلکِ قدرت کے قربان آنکھیں
دکھائے ہیں خوش رو جواں کیسے کیسے
کرے جس قدر شکرِ نعمت، وہ کم ہے
مزے لوٹتی ہے، زباں کیسے کیسے
٭٭٭
طولِ شبِ فراق کا قصہ بیاں نہ ہو
خط یار کو لکھوں تو سیاہی رواں نہ ہو
مارا ہے ضبط نے مجھے عشقِ حبیب میں
مردہ مرا جلائیں تو اُس میں دھواں نہ ہو
اے آسماں نمود نہیں ہم کو چاہیے
بعدِ فنا مزار کا اپنے نشاں نہ ہو
گلزار لطف و خلق شگفتہ رہے مدام
اس باغ کی بہار، الٰہی خزاں نہ ہو
دیر و حرم میں شیخ و برہمن رہیں خراب
ملتا ہے وہ کہاں، کہیں جس کا مکاں نہ ہو
سبزے پر اس ذقن کے نگہ جا کے رہ گئی
سچ کہتے ہیں کہ گھاس کے نیچے کنواں نہ ہو
نالوں کی بحث کا کسے آتش دماغ ہے
یا ہم نہ ہوویں یا جرسِ کارواں نہ ہو
٭٭٭
صاف آئینے سے رخسار ہے اس دلبر کا
یہ خدا کا بنایا ہے تو وہ اسکندر کا
عاشقوں سے طلب بوسہ کہاں جاتی ہے
مورے ہو نہ سکے ترک کبھی شکر کا
آفتِ جاں ہے فرو مایا کو طاقت ہونا
چوب کو تیر کی ملنا ہے قیامت پر کا
نالہ عاشق دل سوختہ ہے آفت جاں
بھڑ کے خوب آگ جہاں ڈھیر ہے خاکستر کا
آخر کار کیا ہے اسے مستی نے خراب
ہوسکا ضبط نہ آدم سے مے موثر کا
جانے دے آتش اگر اہلِ جہاں تجھ سے پھرے
مرد پیچھا نہ کریں بھاگے ہوئے لشکر کا
٭٭٭
بھاگو نہ مجھ کو دیکھ کے بے اختیار دُور
اے کودکاں ! ابھی تو ہے فصلِ بہار دُور
مانندِ مرغِ قبلہ نُما پیشِ چشم ہے
وہ کعبۂ مُراد ہو ہم سے ہزار دُور
عیسیٰ نے نسخے میں تِرے بیمار کے لکھا
دردِ فراق کو، کرے پروردگار دُور
اے خضرِ راہِ منزلِ مقصود، الغیاث
چھُوٹا ہے مجھ غریب کا، مجھ سے دیار دُور
گردن نہ خم ہو شمع صفت، گو جہانیاں
تن پرسے میرے سرکو کریں لاکھ بار دُور
مضمون باندھ لاتی ہے فکر اپنی، عرش سے
ڈھُونڈھا ہے جب، تو ہم کو مِلا ہے شِکار دُور
رُو پوش ہے جو ناز سے اُس کا گلہ نہیں
نزدیک دل سے ہے، رہے آنکھوں سے یار دُور
کیفِ شراب میں ہے مزا فکرِ شعر کا
رکھتا پیادے سے ہے ارادہ سوار دُور
بنتی ہے جان پر جو حرارت سے عشق کی
کرتا ہوں آہ کھینچ کے دل کا بُخار دُور
تسکین کے لئے گئے منزل میں گور کی
پہنچے تڑپ تڑپ کے تِرے بے قرار دُور
وصلِ حبیب حاصلِ عمرِ عزیز ہے
وہ گُل مِلے تو ہجر کا ہو خار خار دُور
فُرقت میں یار کے یہ سُخن تکیہ ہے مِرا
مخدُوم سے نہ اپنے ہو خدمات گزار دُور
پِیری میں ترکِ مے کا ارادہ نہ کیجیو
آتش صبوحی کرتی ہے شب کا خُمار دُور
٭٭٭
روز و شب ہنگامہ برپا ہے میانِ کوئے دوست
ہڈیوں پر میری لڑتے ہیں سگانِ کوئے دوست
حور کی تعریف گویا یار کی تعریف تھی
ذکر کو جنت کے میں سمجھا بیانِ کوئے دوست
تشنۂ خونِ جہاں ہے یہ تو وہ قتّالِ خلق
آفتِ جاں ہیں زمین و آسمانِ کوئے دوست
قاصدِ کشتہ نظر آتا ہے ہر مردہ مجھے
مجھ کو گورستاں کے اوپر ہے گمانِ کوئے دوست
ہمنشیں کہتے ہیں افسانے سے آ جاتی ہے نیند
ہجر کی شب میں سنوں گا داستانِ کوئے دوست
رشک اسے کہتے ہیں میں نے صاف اسے سمجھا رقیب
صورتِ دیوار اگر دیکھی میانِ کوئے دوست
نقشِ پائے غیر پاتا ہوں پسِ دیوار میں
آشنائے دزد نکلا پاسبانِ کوئے دوست
قاصدوں کے پاؤں توڑے بدگمانی نے مری
خط دیا لیکن نہ بتلایا نشانِ کوئے دوست
چاہِ رہ نقشِ قدم ہے، خارِ رہ قزاق ہے
ہو چکے دشمن ہمارے رہروانِ کوئے دوست
آتش اہلِ کربلا سے چل کے اب کہتا ہوں میں
اے خوشا طالع تمہارے ساکنانِ کوئے دوست
٭٭٭
کُوچۂ دلبر میں مَیں، بُلبُل چمن میں مست ہے
ہر کوئی یاں اپنے اپنے پیرہن میں مست ہے
نشّۂ دولت سے منعم پیرہن میں مست ہے
مردِ مفلس حالتِ رنج و محن میں مست ہے
دورِ گردوں ہے خداوندا کہ یہ دورِ شراب
دیکھتا ہوں جس کو میں اس انجمن میں مست ہے
آج تک دیکھا نہیں یاں آنکھوں نے روئے خمار
کون مجھ سا گنبدِ چرخِ کہن میں مست ہے
گردشِ چشمِ غزالاں، گردشِ ساغر ہے یاں
خوش رہیں اہلِ وطن، دیوانہ بن میں مست ہے
ہے جو حیرانِ صفائے رُخ حلب میں آئنہ
بوئے زلفِ یار سے آہو ختن میں مست ہے
غافل و ہشیار ہیں اُس چشمِ میگوں کے خراب
زندہ زیرِ پیرہن، مردہ کفن میں مست ہے
ایک ساغر دو جہاں کے غم کو کرتا ہے غلط
اے خوشا طالع جو شیخ و برہمن میں مست ہے
وحشتِ مجنوں و آتش میں ہے بس اتنا ہی فرق
کوئی بن میں مست ہے کوئی وطن میں مست ہے
٭٭٭
پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید