FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

اصطلاحات المحدثین

 

 

                   سلطان محمد

 

 

 

 

 

 

پیش لفظ

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

احمدہ واصلی واسلم علی رسولہ سید الاولین والاخرین وعلیٰ اھل بیتہ واصحابہ اجمعین امام بعد!

علم حدیث کے تحقیقی مطالعہ کے لیے مصطلحات محدثین کا جاننا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ عربیت کے لیے صرف اور نحو ۔ لیکن اس فن میں کوئی ایسا رسالہ نظر سے نہیں گزرا جو اس قدر آسان اور جامع ہو کہ مبتدی طالب علموں کو آسانی سے سمجھ بھی آ سکے اور کفایت بھی کر سکے۔

اگرچہ بوقت درس حدیث اس کمی کا شدت سے احساس ہوتا تھا لیکن اس مشکل کے حل کی طرف کسی وقت بھی ذہن متوجہ نہ ہوا۔

آخر اثری ادارہ نشر و تالیف کے توجہ دلانے اور پھر مبرم تقاضوں نے ’’اصطلاحات المحدثین‘‘ کی تحریر پر مجبور کر دیا۔ اور یہ مختصر رسالہ لکھنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس رسالہ کو طالبین حدیث کے لیے مفید بنائے اور میرے لیے اور ان لوگوں کے لیے جو اس کی تحریر کا باعث بنے زاد آخرت بنائے۔ آمین

سلطان محمد کان اللہ لہ ۷/۵/۶۹

 

 

 

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

 

الحدیث و الخبر  و الاثر والسنہ

محدثین کی اصطلاح میں

 

 

الحدیث:        جو چیز آنحضرت ﷺ سے منقول ہو۔

الخبر:   جمہور محدثین کے نزدیک حدیث کا ہم معنی ہے۔ بعض کے نزدیک وہ حوادث تاریخی وغیرہ جو غیر نبی ﷺ سے منقول ہو۔ بعض کے نزدیک حدیث نبوی اور حوادث تاریخ وغیرہ دونوں پر بولا جاتا ہے۔

الاثر:   وہ چیز جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم و تابعین عظام رحمہم اللہ سے منقول ہو۔ حدیث کے معنی میں بھی مستعمل ہے۔

السنہ:   کبھی حدیث کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور کبھی طریقہ مسلوکہ فی الدین کے معنی میں۔

السند والاسناد والمتن

السند:  حدیث تک پہنچنے کا طریق۔

الاسناد: سند بیان بیان کرنا۔ کبھی سند کو بھی اسناد کہہ دیتے ہیں۔

المتن: کلام کا وہ حصہ جو اسناد کے ختم ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے۔

 

 

 

احادیث کی اقسام قلت و کثرت طرق کے اعتبار سے

 

المتواتر: جس حدیث کے بیان کرنے والی ایسی بڑی جماعت ہو جس کا جھوٹ پر اتفاق کر لینا یا اتفاقی طور پر مجتمع ہو جانا عادتاً محال ہو۔ اور یہی کثرت ابتدا سے انتہا تک جمیع طبقات میں موجود ہو یعنی کسی جگہ کمی واقع نہ ہو۔ اور اس خبر کا تعلق مشاہدہ یا سماع سے ہو اور یہ خبر مفید علم بھی ہو۔

المشہور: جس حدیث کی سندیں دو سے زائد ہوں لیکن تواتر کی شرطیں اس میں جمع نہ ہو سکیں۔

المستفیض:      فقہاء کی اصطلاح میں مشہور کو کہتے ہیں۔ بعض کے نزدیک وہ حدیث ہے جس کے رواۃ تمام طبقات میں دو دو ہو یا کسی ایک طبقہ میں دو رہ جائیں خواہ باقی طبقات میں دو سے زائد ہوں۔ یعنی کسی طبقہ میں دو سے کم نہ ہوں۔

الغریب:       جس حدیث کی سند کے کسی طبقہ میں صرف ایک راوی ہو۔ اس کی دو قسمیں ہیں:

غریب مطلق:   جس کی اصلی سند میں تفرد ہو۔ اسے فرد مطلق بھی کہتے ہیںَ

غریب نسبی:     جس کی اصلی سند میں تفرد نہ ہو لیکن کسی ایک راوی کی نسبت تفرد ہو۔

 

 

 

حدیث کی اقسام منسوب الیہ کے اعتبار سے

 

المرفوع:        جو حدیث رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب ہو۔ اس کی تین قسمیں ہیں۔

۱) قولی:        جو رسول اللہ ﷺ کا قول ہو۔

۲)فعلی:        جو رسول اللہ ﷺ کا فعل ہو۔

۳) تقریری:   وہ قول جو آپ کے سامنے کہا گیا یا وہ فعل جو آپ کی موجودگی میں کیا گیا ہو اور رسول اللہ ﷺ سے اس پر انکار منقول نہ ہو۔ پھر ان تینوں میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں۔ (۱) صریح (۲) حکمی۔

قولی صریح:     جس کے بیان کرنے میں یوں کہا جائے کہ آنحضرت ﷺ نے یوں فرمایا۔

قولی حکمی:      کسی صحابی کا ایسا قول جو استنباط اور قیاس کی بنا پر نہ کہا جا سکے اور اہل کتاب سے ماخوذ ہونے کا متحمل بھی نہ ہو جیسا کہ تقریرات شرعیہ۔

فعلی صریح:     جس میں آنحضرت ﷺ کا فعل نقل کیا گیا ہو۔

فعلی حکمی:       کسی صحابی کا ایسا عمل جو قیاس اور اجتہاد کی بنا پر نہ کیا جا سکتا ہو ۔

تقریری صریح: جس میں بیان کیا گیا ہو کہ یہ بات نبی اکرم ﷺ کی موجودگی میں کہی گئی یا یہ ان کی موجودگی میں کیا گیا اور آپ ﷺ سے اس پر انکار بھی منقول نہ ہو۔

تقریری حکمی:   کسی صحابی کا قول کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایسا کہا کرتے تھے یا ایسا کیا کرتے تھے۔ اور رسول اللہ ﷺ سے اس کے خلاف بھی منقول نہ ہو۔

الموقوف:       جو اثر کسی صحابی کی طرف منسوب ہو، صحابی وہ شخص ہے جس نے بحالت اسلام رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کی ہو اور اسلام پر وفات پائی ہو تمام صحابہ ائمہ سنت کے نزدیک صاحب عدالت ہیںَ

المقطوع:       جو اثر تابعی یا تبع تابعی کی طرف منسوب ہو۔ تابعی وہ شخص ہے جس نے بحالت اسلام کسی صحابی سے ملاقات کی ہو اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا متبع بالاحسان ہو اور اسلام پر ہی وفات پائے اور اسی طرح تبع تابعی وہ شخص ہے جس نے بحالت اسلام کسی تابعی سے ملاقات کی ہو اور انہی کے طریقہ مسلوکہ کا متبع ہو اور اسلام پر ہی وفات پائی ہو۔

المسند:  جس مرفوع حدیث کی سند ظاہراً متصل ہو۔ بعض محدثین مطلق مرفوع کو بھی کہتے ہیں اور بعض محدثین صرف متصل کو کہتے ہیں خواہ مرفوع ہو یا مقطوع اور موقوف۔

 

 

 

 

حدیث کی تقسیم مقبول اور غیر المقبول یا المردود کے اعتبار سے

 

المقبول:        جس حدیث پر ائمہ سنت کے نزدیک عمل واجب ہو۔

غیر المقبول یا المردود:     جس حدیث کے بیان کرنے والے کا صدق راجح نہ ہو۔

 

مقبول کی اقسام

المقبول کی چار قسمیں ہیں۔ الصحیح لذاتہ، والحسن لذاتہ، الصحیح لغیرہ، الحسن لغیرہ۔

الصحیح لذاتہ:     جس حدیث کے تمام رواۃ صاحب عدالت اور تام اضبط ہوں سند متصل ہو۔ معلوم اور شاذ بھی نہ ہو۔

 

الصحیح لذاتہ کی ضمنی ابحاث اور اس کی متفرق اصطلاحات

العدالتہ:        وہ ملکہ جو انسان کو تقوی( محارم سے اجتناب اور مروت رذائل سے اجتناب )کی ملازمت کا شوق دلائے۔

الضبط:          دوقسم پر ہے۔

ضبط الکتاب:    کتاب سے احادیث بیان کرے تو کتاب لکھنے اور شیخ کے اصل سے مقابلہ اور تصحیح کر لینے کے بعد اپنے پاس محفوظ رکھے اور ہر قسم کے تغیر سے بچائے۔

ضبط الصدر:     جو کچھ سنے اسے سینہ میں محفوظ رکھے اور ہر وقت اس کے استحصار پر قادر ہو۔

مراتب الصحیح:   کتب احادیث کے لحاظ سے صحیح کے سات مرتبے ہیں۔

۱) متفق علیہ:   وہ حدیث جسے امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ دونوں نے اپنی اپنی صحیح میں درج کیا ہو۔ دوسرے محدثین اس حدیث کی روایت میں ان کے شریک ہوں یا نہ۔

۲) افراد بخاری: وہ احادیث جنہیں امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہو اور امام مسلم رحمہ اللہ ان کی روایت میں امام بخاری رحمہ اللہ کے شریک نہ ہوں۔

۳) افراد مسلم:  وہ احادیث جنہیں امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہو اور امام بخاری رحمہ اللہ ان کی روایت میں امام مسلم رحمہ اللہ کی شریک نہ ہوں۔

۴)     وہ احادیث جو امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ کی متفقہ شروط صحت سے متصف ہوں۔

۵)     وہ احادیث جن میں امام بخاری رحمہ اللہ کی شروط صحت پائی جائیں۔

۶)     وہ احادیث جن میں امام مسلم رحمہ اللہ کی شروط صحت پائی جائیں۔

۷)     وہ احادیث جن میں دوسرے محدثین رحمہم اللہ کی شروط پائی جائیں۔

نوٹ: کسی امام کی شروط صحت سے مراد یہ ہے کہ اس حدیث کی سند کے رواۃ وہی ہوں جن سے اس امام نے اپنی کتاب میں بطور احتجاج روایات اخذ کی ہوں اور ساتھ ہی جس قدر دوسری شرطیں صحت حدیث کے لیے ملحوظ رکھی ہوں وہ بھی اس حدیث میں پائی جائیں۔

اصح الاسانید:    جس سند کو ایک محدث نے یا کئی محدثین نے تمام اسانید کی نسبت زیادہ صحیح کہا ہو ۔ جیسا کہ مالک عن ابن شہاب عن سالم عن ابن عمر ۔جمہور محدثین کے نزدیک کسی ایک سند کے متعلق علی الاطلاق ایسا حکم لگانا مناسب نہیں ہے ۔ البتہ جن اسانید کے متعلق ایسا کہا گیا ہے وہ مجموعی طور پر دوسری اسانید سے اصح سمجھی جائیں گی۔

المحتف بالقرائن: جس حدیث میں صحت سند کے ساتھ ساتھ مزید خارجی قرائن پائے جائیں جو اس حدیث کی صحت پر مزید اطمینان کا باعث ہوں جیسے حدیث مسلسل بالائمہ یا منقول باصح الاسانید جبکہ اسے تعدد طرق حاصل ہو۔

الحسن لذاتہ:    جس حدیث میں صحیح کی تمام شرائط موجود ہوں صرف اس کے راوی کا ضبط خفیف ہو۔

الصحیح لغیرہ:      وہ حسن لذاتہ حدیث جسے کثرت طرق حاصل ہو۔

الحسن لغیرہ:     جو حدیث صفات رد و قبول کے متعارض ہونے کے باعث واجب التوقف تھی لیکن خاص قسم کے خارجی قرینہ نے اس کی جانب قبول کو ترجیح دے دی۔

 

غیر مقبول یا مردود کی اقسام

حدیث کے غیر مقبول یا مردود ہونے کا سبب یا احادیث کا آپس میں (۱) تعارض ہو گا یا(۲) نقل کی خرابی۔

التعارض:       دو حدیثوں کا مفہوم کے اعتبار سے ایک دوسرے کے مناف ہونا اور ان کی آپس کی منافات کے رفع کے لیے کوئی وجہ نہ مل سکنا۔]

 

ایسی دو  حدیثوں کے متعلق محدثین کا طرزِ عمل  جو سرسری نظر میں متعارض معلوم ہوں

جمع بین الاحادیث:       ان دونوں حدیثوں سے ایسا مفہوم مراد لینا جس سے وہ ایک دوسرے کے مخالف نہ رہیں۔ اس صورت میں دونوں حدیثوں کو مختلف الحدیث کہتے ہیں۔

النسخ:   نص نبوی یا تصریح صحابی یا تاریخ کے ذریعے معلوم کرنا کہ ان میں سے کونسی حدیث پہلے کی ہے اور کونسی بعد کی متقدم کو منسوخ اور متاخر کو ناسخ کہتے ہیں۔

الترجیح: وجوہ ترجیحات کے ذریعے راجح اور مرجوح معلوم کرنا۔ ان تینوں صورتوں میں سے کوئی بھی ممکن نہ رہے تو پھر تعارض ہوگا اور اس کا حکم یہ ہے کہ جب تک حقیقت حال منکشف نہ ہو جائے عمل سے توقف کریں گے۔

المحکم:   جس حدیث کے معارض کوئی دوسری حدیث نہ ہو۔ یعنی تعارض کا مقابل نوع۔

نقل کی خرابی:   اگر عدم قبول کا سبب نقل کی خرابی ہو تو اسے الضعیف کہتے ہیں۔

الضعیف:       جس حدیث میں نہ تو صحیح کی شرائط جمع ہو سکیں اور نہ ہی حسن کے۔

حدیث اگر عدم اتصال سند کے باعث ضعیف ہے تو اس کی دو صورتیں ہیں (۱) ظاہری انقطاع (۲) مخفی انقطاع۔

 

ضعیف کی اقسام ظاہری انقطاع کی رو سے

المعلق: جس حدیث میں انقطاع شروع سند میں ہو۔ اور مولف کے تصرف کی بنا پر ہو خواہ جملہ رواۃ محذوف ہوں یا بعض۔

المرسل:        جس حدیث میں انقطاع سند کے آخر میں ہو۔

المعضل:        جس حدیث کی سند کے وسط میں دو یا دو سے زیادہ راوی ایک ہی جگہ سے محذوف ہوں۔

المنقطع: جس حدیث کی سند میں ایک راوی محذوف ہو یا ایک سے زیادہ راوی محذوف ہوں لیکن مختلف مقامات سے بعض اوقات مرسل اور معضل کو بھی منقطع کہہ دیا جاتا ہے اور کبھی منقطع کو مرسل کہہ دیتے ہیں۔

 

ضعیف کی اقسام مخفی انقطای کی رو سے

المدلس:       جس حدیث کا راوی مدلس ہو۔

التدلیس:       کسی راوی کا اپنے کسی ایسے معاصر سے روایت کرنا جس سے اس کا لقاء یا سماع معروف ہو لیکن روایت مذکورہ اس سے نہیں سن سکا اور روایت بھی ایسے لفظوں سے کرے جو موہم سماع ہوں جیسے عن وغیرہ۔ اور ایسے راوی کو مدلس کہتے ہیں تدلیس کی دو قسمیں ہیں۔

عام تدلیس:     راوی کا اپنے شیخ کے معاملہ میں یہ طریق اختیار کرنا ایسے راوی کا اپنے شیخ سے عنعنہ مقبول نہیں ہے۔

تدلیس التسویہ:  راوی کا صرف اپنے شیخ ہی کے بارہ میں تدلیس نہ کرنا بلکہ سند کے کسی بھی حصہ میں دو راویوں کے درمیان تدلیس کر دینا۔ ایسے راوی کی بیان کردہ سند کے کسی بھی حصہ کا عنعنہ مقبول نہیں ہے۔

المرسل الخفی:    جس حدیث کا راوی اپنے کسی ایسے معاصر سے روایت کرے جس سے اس کا لقاء یا عدم لقاء دونوں معلوم نہ ہوں۔

مذکورہ بالا اقسام اس وقت تک غیر مقبول میں شامل ہیں جب تک انقطاع یا شبہ انقطاع باقی ہے بصورت ثبوت اتصال مقبول ہوں گی۔

 

ضعیف کی اقسام نقصان عدالت کی رو سے

الموضوع:              جس حدیث کا راوی کذاب ہو کذاب اس راوی کو کہتے ہیں جس سے حدیث نبیو میں جھوٹ بولنا ثابت ہو چکا ہو۔

المتروک:      جس حدیث کا راوی مہتم بالکذب ہو متہم بالکذب اسے کہتے ہیں جس سے حدیث نبوی میں تو جھوٹ بولنا ثابت نہ ہو لیکن عام گفتگو میں جھوٹ بولنا ثابت ہو چکا ہو یا ایسی حدیث کو وہی اکیلا بیان کرے جو اصول دین کے خلاف ہو۔

 

ضعیف کی اقسام عدم ضبط یا اوہام یا مخالفت رواۃ کی رو سے

الشاذ:  جس حدیث کا راوی خود تو ثقہ ہو لیکن کسی روایت میں اپنے سے اوثق یا اکثر رواۃ کی اس طرح مخالفت کرتا ہے کہ ان میں سے ایک کا صدق دوسرے کے کذب کو مستلزم ہو۔ ایسے راوی کے مخالف کی روایت کو المحفوظ کہتے ہیں اور اس کی اس مخالفت کو مخالفۃ الثقات کہتے ہیں۔

المنکر:  جس حدیث کا رواہ ضعیف ہو اور ثقات کے خلاف روایت کرے ایسے راوی کے مقابل کی روایت کو المعروف کہتے ہیں ۔ کبھی فاحش الغلط اور کثیر الغفلت راوی کی روایت کو بھی منکر کہہ دیتے ہیں۔

المعلول:        جس حدیث کی سند ظاہراً صحیح اور متصل معلوم ہو لیکن اس میں کچھ مخفی امور اوہام و اغلاط رواۃ قسم کے آ جائیں جن کی بنا پر حدیث صحیح نہ رہے۔ ایسے امور محدثین میں سے ماہر فن ہی گفتگو کر سکتے ہیں جیسے امام بخاری، امام مسلم، امام ابو حاتم، امام ابو داؤد، امام احمد وغیرہم من المحدثین رحمہم اللہ ۔

علل خفیہ:       وہ امور جو حدیث کے ضعیف کا سبب بنیں۔

المدارج:       وہ لفظ جو ظاہراً حدیث مرفوع کا حصہ معلوم ہو اور در حقیقت کلام نبوت سے نہ ہو۔

المضطرب:      جس حدیث کے رواۃ اس کی اسناد یا سیق میں ایک دوسرے کی مخالفت کریں اور وہ طرق مختلفہ صحت میں بھی برابر ہوں اور ان کے درمیان جمع بھی ممکن نہ ہو۔ پہلی کو مضطرب السند اور دوسری کو مضطرب المتن کہتے ہیں ۔

المقلوب:       جس حدیث کی تمام سند کسی دوسری حدیث کی سند سے یا مکمل متن کسی دوسری حدیث کے متن سے یا کوئی ایک لفظ خواہ سند کا ہو یا متن کا کسی دوسرے لفظ سے بدل جائے۔

المصحف:       جس حدیث کا کوئی لفظ خواہ متن کا ہو یا سند کا کسی ایسے لفظ سے بدل جائے جو صورت خطی میں تو پہلے لفظ سے ملتا جلتا ہو لیکن تلفظ میں اس سے مختلف ہو جیسے شریح، سریج۔

المحرف:        جس حدیث کا کوئی لفظ کسی ایسے لفظ سے بدل جائے جس کی عام طور پر شکل و صورت پہلے لفظ سے ملتی جلتی ہو لیکن ایک یا دو حرفوں کا اختلاف ہو۔ جیسے خفص اور جعفر یا سعید اور شعبہ۔

 

 

 

اسباب الطعن

 

وہ اسباب جن کی بنا پر کسی راوی کی حدیث ضعیف بن جاتی ہے دس ہیں۔

۱۔ الکذب                       ۲۔ تہمۃ الکذب

۳۔ فحش الغلط                    ۴۔ شدہ الغفلۃ

۵۔ الفسق                               ۶۔ الوہم

۷۔ مخالفتہ الثقات                        ۸۔ الجہال

۹۔ البدعۃ                                ۱۰۔ سوء الحفظ

۱۔ الکذب:              اس کی تعریف موضوع کے ضمن میں گزر چکی ہے۔

۲۔ تہمۃ الکذب: اس کی تعریف متروک کے ضمن میں گزر چکی ہے ۔

۳۔ فحش الغلط:           راوی کی غلطیوں کا اصابت سے زیادہ ہونا۔

۴۔ شدۃ الغفلۃ:          روایت کے سننے اور سنانے میں غفلت سے کام لینا۔

۵۔الفسق:              فسق خواہ قولی ہو یا فعلی۔

۶۔ الوہم:               روایت بیان کرتے وقت اوہام میں مبتلا ہونا۔

۷۔ مخالفتۃ الثقات:       جب کسی حدیث کے بیان کرنے میں ثقات کا شریک ہو تو عام طور پر ان کا موافق نہ رہ سکے۔

۸۔ الجہالتہ:     کسی راوی کی ذات یا اس کے حالات متعلقہ جرح و تعدیل کا معلوم نہ ہونا۔ صاحب جہالتہ کی تین قسمیں ہیں۔

(الف) المبہم:          جس راوی کا نام و نسب ذکر نہ کیا گیا ہو جیسے اخبرنی الثقۃ۔

(ب) مجہول العین:     جس سے روایت لینے والا صرف ایک ہی شخص ہو۔

(ج) مجہول الحال:      جس سے روایت لینے والے تو کئی ہوں مگر اس کے بارہ میں جرح و تعدیل معلوم نہ ہو اسے مستور بھی کہتے ہیں۔

۹۔ البدعۃ:       راوی کا اس چیز کے خلاف اعتقاد رکھنا جو نبی اکرم ﷺ سے ثابت اور متواتر ہو اور یہ مخالفت بطریق عناد بھی نہ ہو مبتدع راوی کی روایت جمہور محدثین حسب ذیل شرائط کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔

(۱)    مذکورہ راوی میں اس بدعت کے علاوہ اور کوئی صفت موجب رد نہ ہو۔

(۲) بدعت کا داعی نہ ہو۔

(۳) جس روایت کے بیان کرنے میں وہ متفرد ہے اس کے بدعی عقیدہ کی موید نہ ہو۔

۱۰۔ سوء الحفظ:   راوی کی قوت حافظہ کا خراب ہو نا اس کی دو قسمیں ہیں۔

سوء الحفظ اصلی:  جو فطری ہو۔ ایسے راوی کی کوئی بھی روایت جس کے بیان کرنے میں وہ منفرد ہو مقبول نہیں۔

سوء الحفظ طاری: جو کسی حادثہ یا بوڑھاپے کے سبب سے عارض ہو۔ اسے اختلاط کہتے ہیں اور ایسے راوی کو مختلط ۔ ایسے راوی کی وہ روایت جو اختلاط کے بعد کی ہو غیر مقبول ہے یا جس روایت کے متعلق یہ معلوم نہ ہوسکے کہ اختلاط سے پہلے کی ہے یا بعد کی۔

 

 

الجرح والتعدیل

 

الجرح:         کسی راوی کی وہ کمزوریاں بیان کرنا جو اس کی روایت کے رد کا موجب ہو سکیں۔

جرح قبول کرنے کے لیے دو شرطیں ہیں۔

۱۔ جرح کرنے والا جرح کے اسباب کا عالم دیانت دار اور منصف ہو۔

۲۔ جرح مفسر ہو۔ یعنی جرح کا سبب واضح کیا گیا ہو، جیسے کاذب، سیئ الحفظ وغیرہ۔ جس جرح میں سبب نہ بیان کیا جائے اسے جرح مبہم کہتے ہیں اگر یہ دونوں شرطیں یا ان میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو جرح مردود ہے۔ مگر جس شخص کے بارہ میں کسی قسم کی تعدیل نہ مل سکے اس کے حق میں ایسی جرح کے اہمال سے اعمال بہتر ہے ورنہ ایسا راوی ویسے ہی جہالت کی وجہ سے مردود الروایۃ ہے۔

التعدیل:       کسی راوی کی وہ صفات بیان کرنا جن کی بناء پر اس کی روایت مقبول بن سکے اسے التوثیق بھی کہتے ہیں ۔ تعدیل کے قابل قبول ہونے کے لیے معدل کا اسباب جرح و تعدیل کا عالم دیانتدار اور منصف ہونا شرط ہے۔

جب جرح مقبول اور تعدیل مقبول متعارض ہو جائیں تو اکثر ائمہ کے نزدیک جرح مقدم ہے۔

مراتب الجرح:  شدت اور نرمی کے اعتبار سے جرح کے کئی مراتب ہیں سب سے سخت جرح وہ ہے جو اسم تفضیل کے صیغہ سے یا ایسے لفظ سے آئے جو اسم تفضیل کا معنی ادا کر سکے جیسے اکذب الناس الیہ المنتہی فی الوضع۔ ھو رکن الکذب وغیرہ۔ پھر وہ جرح جو مبالغہ کے صیغوں کے ساتھ ہو جیسے دجال، وضاع، کذاب وغیرہ اور سب سے کم درجہ کی جرح وہ ہے جو ایسے لفظوں سے ہو جن سے معمولی کمزوری کا اظہار ہو جیسے لین سیئ الحفیظ فیہ ادنی مقال، اور ان مراتب کے درمیان کئی مراتب ہیں جن کی تفصیل مطولات میں ہے۔

مراتب التعدیل:        تعدیل کا سب سے اعلیٰ مرتبہ وہ ہے جو اسم تفضیل اور مبالغہ کے صیغوں کے ساتھ ہو جیسے اوثق الناس اثبت الناس ۔ الیہ المنتہی فی التشبت وغیرہ۔ پھر وہ جس میں صفات قبول کو مکرر کیا گیا ہو جیسے ثقۃ ثقۃ ثبت ثبت ثقۃ حافظ ۔ وغیرہ اور سب سے کمزور تعدیل وہ ہے جو ادنیٰ مراتب جرح کے قریب ہو جیسے شیخ یروی حدیثہ یعتبربہ وغیرہ اور اس میں بھی کئی درمیانی مراتب ہیں۔

التابع والشاہد والاعتبار

التابع:  وہ راوی جو کسی ایسے راوی کے موافق روایت کرے جس کے متعلق تفرد کا گمان کیا گیا تھا بشرطیکہ ان دونوں کی روایت ایک ہی صحابی سے ہو اور اس موافقت کو متابعت کہتے ہیں متابعت کی دو قسمیں ہیں۔

متابعت تامہ:    موافقت کرنے والا دوسرے راوی کے شیخ ہی سے روایت کرے۔

متابعت قاصرہ:  موافقت کرنے والا دوسرے راوی کے شیخ سے نہیں بلکہ اوپر کے کسی راوی سے روایت کرے۔

الشاہد:  اگر کسی حدیث پر غرابت کا گمان کیا گیا ہو اور کسی دوسرے صحابی سے اس کے موافق روایت مل جائے تو اس دوسری روایت کو شاہد کہتے ہیں۔

بعض علماء متابعت کا اطلاق موافقت لفظی پر کرتے ہیں خواہ دوسرے صحابی سے ہی کیوں نہ ہو اور شاہد کا اطلاق موافقت معنوی پر کرتے ہیں خواہ ایک ہی صحابی سے کیوں نہ ہو۔

الاعتبار:                کسی حدیث کے لیے کتب حدیث سے متابع اور شاہد تلاش کرنا۔

 

العالی والنازل

اگر ایک حدیث کی دو سندوں میں سے ایک سند کے واسطے دوسری سند کی نسبت کم ہوں تو کم واسطوں والی سند کو العالی اور زیادہ واسطوں والی کو النازل کہتے ہیں۔

اگر یہ کمی بیشی آنحضرت ﷺ کی نسبت سے ہو تو اسے علو نزول مطلق کہتے ہیں اور اگر کسی صاحب تصنیف یا صاحب صفات علیہ امام کی نسبت سے ہو تو اسے علو نزول نسبی کہتے ہیں۔

 

علو کی ضمنی اصطلاحات

الموافقتہ:        کسی مصنف کی روایت کو اس کے شیخ سے مصنف کے واسطہ سے نہیں بلکہ دوسرے طریق سے لینا۔

البدل:         مصنف کی کسی روایت کو اس کے استاد کے شیخ سے لینا۔

المساواۃ:        کسی مصنف کی بیان کردہ روایت کو دوسری ایسی سند سے روایت کرنا جس کے واسطوں کی گنتی مصنف کی سند کے برابر ہو۔

المصافحتہ:       کسی مصنف کی بیان کردہ روایت کو دوسری سند سے بیان کرنا جس کے واسطوں کی گنتی مصنف کے شاگرد کے واسطوں کے برابر ہو۔

 

 

 

 

اقسام تحمل الحدیث

 

السماع من لفظ الشیخ: حدیث استاد کے منہ سے سننا۔

القراۃ علی الشیخ:  شاگرد کا استاد کے سامنے حدیث پڑھنا۔

الاجازۃ:        شیخ کا اپنے شاگرد کو اپنی کل یا بعض مرویات روایت کرنے کی اجازت دینا۔

المکاتبتہ:        شیخ کا اپنے تلمیذ کی طرف حدیث لکھ کر بھیجنا۔

المناولتہ:       شیخ کا اپنے شاگرد کو کتاب دینا۔

الوجاوۃ:                شیخ کے خط سے لکھی ہوئی حدیث دیکھنا۔

الاعلام:         محدث کا کسی کو بتانا کہ فلاں کتاب یا فلاں روایت میری مرویات سے ہے۔

الوصیتہ بالکتاب: محدث کا بوقت موت یا سفر اپنی کتابوں کے متعلق کسی شخص کے لیے وصیت کر جانا۔

آخری چاروں صورتوں میں روایت کے لیے اجازت شرط ہے۔

الاجازۃ العامتہ:  محدث کا مجازلہ کی تعیین کے بغیر حدیث کی اجازت دینا۔ مثلاً کہہ دے کہ میں نے ان تمام لوگوں کو روایت کی اجازت دی جو میری زندگی میں پیدا ہوئے یا میں نے فلاں ملک کے لوگوں کو روایت کی اجازت دی یا میں نے فلاں شہر کے لوگوں کو روایت کی اجازت دی یا میں نے ان تمام لوگوں کو اجازت دی جو فلاں شخص کی نسل سے پیدا ہوں گی وغیرہ۔

جمہور محدثین اس کو توسیع غیر مرضی سمجھتے ہیں۔

 

 

 

 

صیغ الاداء

 

حدیث روایت کرنے کے آٹھ مرتبے ہیں۔

۱۔ سمعت اور حدثنی              ۲) اخبرنی اور قرات علیہ          ۳) قری علیہ وانا اسمع

۴) انبائی               ۵) ناولنی                              ۶) سافہنی یعنی بالاجازۃ

۷) کتب الی بالاجازۃ             ۸) عن اور ایسے تمام صیغے جو سماع اور عدم سماع دونوں کے متحمل ہیں۔

 

اصطلاحات متفرقہ

من حدث ونسی:        محدث کسی وقت ایک حدیث بیان کرتا ہے پھر وہ روایت اور اس روایت کا بیان کرنا اس کے ذہن سے اتر جاتا ہے اس حد تک کہ جو لوگ اس سے سن چکے تھے کہ ان کے یاد دلانے پر بھی وہ روایت اسے یاد نہیں آتی ایسے محدث سے وہی روایت کرنے والے اگر ثقات ہیں تو وہ روایت مقبول ہے۔

المزید فی متصل الاسانید: وہ روایت جو کسی سند میں دو راویوں کے درمیان بڑھا دیا جائے حالانکہ سند اس کے بغیر ہی متصل ہو۔

روایت الاقرن: ایک راوی کا روایت کے متعلقہ امور ( سن ملاقات مشائخ وغیرہ) میں اپنے برابر کے راوی سے روایت لینا۔

المدبج:         مذکورہ بالا صورت میں دونوں راویوں کا ایک دوسرے سے روایت لینا۔

روایت الاکابر عن الاصاغر:       بڑے طبقہ کے راوی کا چھوٹے طبقہ کے راوی سے روایت لینا۔ روایت الاباء عن الابنا ، روایت الصحابہ عن التابعین، روایت الشیوخ عن التلامذہ اسی بات سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اور ان صورتوں کا عکس یعنی روایت الاساغر عن الاکابر اصل طریقہ مسلوکہ ہے۔

السابق والاحق:  وہ دو راوی جو ایک ہی شیخ سے روایت کریں لیکن ان دونوں کی موت کا درمیانی عرصہ خاصہ لمبا ہو بعض ایسے دو راویوں کی موت کا درمیانی وقفہ ایک سو پچاس سال تک پایا گیا ہے۔

المسلسل:        وہ حدیث ہے جس کی سند کے تمام راوی صیغہ ادا میں یا کسی دوسری ایسی کیفیت میں جو روایت سے تعلق رکھتی ہو متفق ہوں۔

المتفق والمفترق:         وہ ایک سے زائد راوی جن کے اپنے اسماء بھی متفق ہوں اور ان کے آباء یا آباء کے ساتھ اجداد کے اسماء بھی متفق ہوں۔

المؤتلف والمختلف:      وہ ایک سے زائد راوی جن کے اسماء صورت خطی میں تو ایک جیسے ہوں لیکن تلفظ میں مختلف ہوں۔

المتشابہ:        وہ ایک سے زائد راوی جن کے اسماء متفق ہوں لیکن ان کے آباء کے اسماء لکھنے میں متفق اور تلفظ میں مختلف ہوں یا ان کے آباء کے اسماء لکھنے میں متفق ہوں لیکن ان کے اپنے اسماء لکھنے میں متفق اور تلفظ میں مختلف ہوں یا ان کے اپنے اور ان کے آباء کے اسما متفق ہوں لیکن ان کی نسبتوں میں اتفاق خطی اور اختلاط لفظی ہو۔

الروایتہ بالمعنی:          کسی حدیث کے مسموعہ کلا یا جزا چھوڑ کر صرف اس کا معنی اپنے الفاظ میں بیان کر دینا۔

جمہور ائمہ کے نزدیک روایت بالمعنی اگرچہ اس شرط پر جائز ہے کہ راوی صاحب فہم اور نکتہ رس ہو اور الفاظ کی تبدیلی سے معانی پر واقع ہونے والے اثر کو سمجھتا ہو لیکن فضیلت روایت باللفظ میں ہے۔

اختصار الحدیث:          ایک طویل حدیث کا کچھ حصہ چھوڑ دینا۔

ائمہ حدیث کے نزدیک ایسا کرنا جائز ہے بشرطیکہ متروک حصہ چھوڑنے سے بقیہ حدیث کے مفہوم پر اثر نہ پڑے۔ اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو حدیث کا متروک حصہ بقیہ حدیث سے معنوی تعلق نہ رکھتا ہو۔ یا بقیہ حدیث متروکہ حصہ پر دلالت رکھتی ہو۔

 

آداب الشیخ والسامع

شیخ اور تلمیذ دونوں کے لیے تصحیح نیت اور اخلاص شرط ہے تعلیم اور تعلم کے سلسلہ میں اغراض دنیوی کو داخل نہ ہونے دیں اور اپنے آپ کو مکارم اخلاق سے مزین کریں شیخ کے لیے ضروری ہے کہ جب لوگ اس کے علم کے محتاج ہوں تو تعلیم میں بخل سے کام نہ لے اور مجلس تحدیث میں با وقار ہو کر بیٹھے اور اپنے کو حرکات خفیفہ سے محفوظ رکھے اور کسی شخص کو کسی غرض فاسد کی بنا پر اپنے سے استفادہ کرنے سے نہ روکے۔ اگر اس کے شہر میں اس سے بڑا عالم موجود ہو تو تلامذہ کو اس سے استفادہ کی تلقین کرے اور جب بڑھاپے کی بنا پر یا کسی دوسرے عارضہ کے سبب تحدیث میں اوہام اور اغلاط کا خطرہ محسوس کرے تو تحدیث سے رک جائے اور سامع کے لیے ضروری ہے کہ شیخ کا ادب و احترام کرتا رہے اور اسے استفادہ میں اس طرح تنگ نہ کرے کہ وہ افادہ سے اکتا جائے اور ساتھیوں سے اخلاص اور خیر خواہی کا برتاؤ کرے ۔ حیا یا تکبر کی وجہ سے استفادہ سے محروم نہ رہے اور ممکن حد تک اپنا وقت بحث و تکرار میں صرف کرے۔

 

 

 

 

سن التحمل والاداء

 

اس بارہ میں اصحاب الحدیث کے اقوال اگرچہ مختلف ہیں لیکن صحیح یہی ہے کہ تحمل کے لیے صرف تمیز شرط ہے خواہ کسی عمر میں بھی حاصل ہو جائے ۔ حتیٰ کہ ایک شخص اگر کفر کی حالت میں معلومات حاصل کرتا ہے اسلام لانے کے بعد اس کا ادا کرنا صحیح ہے بشرطیکہ عدالت  اور ضبط رکھتا ہو۔

اور ادا کے لیے استعداد اور اہلیت شرط ہے کسی عمر کی قید نہیں۔

 

 

 

کتب احادیث کی اقسام

 

الجامع:  جس کتاب میں اسلام سے متعلق ہر قسم کے مباحث موجود ہوں خواہ ان کا تعلق عقائد سے ہو یا احکام سے تاریخ سے ہو یا تفسیر سے، فتن سے ہو یا ملاحم سے۔ یا بحث الالفاظ سے یا ان کے علاوہ جو مباحث بھی احادیث میں ملتے ہیں جیسے امام بخاری کی صحیح اور امام ترمذی کی جامع۔

السنن: جس کتاب میں احادیث احکام جمع کی گئی ہوں۔

المسند:  جس کتاب میں ہر ایک صحابی کی روایات علیحدہ علیحدہ جمع کی گئی ہوں یا کسی ایک صحابی یا کسی ایک جلیل القدر امام کی مرویات یکجا جمع کی گئی ہوں، جیسے امام احمد کی مسند۔

الجزء:  جس کتاب میں کسی ایک مسئلہ یا ایک نوع کے مسائل پر احادیث جمع کی گئی ہوں جیسے امام بخاری کی جزء رفع الیدین۔

المستخرج:      جس کتاب میں کسی ایک کتاب کی احادیث دوسری اسانید سے روایت کی جائیں جیسے مستخرج الاسماعیلی علی صحیح الابخاری۔

المستدرک:     جس کتاب میں کسی مصنف کی ملحوظ شرائط کے مطابق ایسی صحیح احادیث جمع کی جائیں جو اس مصنف نے اپنی کتاب میں درج نہ کی ہوں ، جیسے مستدرک حاکم۔

کتاب العلل:    جس کتاب میں معلولہ احادیث بیان علل کے ساتھ نقل کی گئی ہوں جیسے امام احمد کی کتاب علل الحدیث ومعرفتہ الرجال۔

الاطراف:      جس کتاب میں احادیث کا ایک ایک ٹکڑا نقل کر کے ان کی اسانید جمع کی گئی ہوں۔ یا ان کے مخرجین کا ذکر کیا گیا ہو جیسے حافظ ابن عساکر کی الاشراف۔

التخریج:        جس کتاب میں کسی کتاب کی مرویات کی اسانید پر بحث کی گئی ہو۔

 

 

 

 

 

ضروری ہدایات

 

طالب حدیث کے لیے رواۃ حدیث سے متعلق حسب ذیل معلومات ضروری ہیں۔

رواۃ کے طبقات، تار یخ ہائے ولادت و وفات، اوطان و بلدان، اوقات طلب رحلات وغیرہ۔

ان معلومات کے بغیر اتصال و انقطاع اسانید میں بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہو سکتی ہیں اسی طرح رواۃ کے اسماء نسب القاب، کنی، و نسبتیں اور ان کے اسباب و حقائق کا علم بھی ضروری ہے کیونکہ ان چیزوں سے بے خبری کے باعث بہت ساری غلط فہمیاں پیدا ہو سکتی ہیں بعض اوقات ایک ہی شخص کے کئی القاب یا کنیت یا نسبتیں ہوتی ہیں جن سے لا علمی کی بنا پر وہم ہوتا ہے کہ یہ مختلف رواۃ ہیں یا کئی مختلف راویوں کا اسم یا لقب یا کنیت یا نسبت یا تمام چیزیں ایک ہی ہوتی ہیں۔ جس سے ان سب کے ایک ہونے کا گمان ہوتا ہے۔بعض اوقات راوی کی کنیت اس کے باپ کے اسم کے یا باپ کی کنیت راوی کے اپنے اسم کے موافق ہوتی ہے یا راوی کی کنیت اور اس کی بیوی کی کنیت ایک جیسی ہوتی ہے بعض اوقات راوی کو یہی معاملہ اپنے شیخ سے پیش آ جاتا ہے یا راوی اور اس کے باپ یا ساتھ ہی داد کا نام بھی ایک ہی ہوتا ہے یا راوی اور اس کے شیخ کا نام یا نام کے ساتھ نسبت بھی مشترک ہوتی ہے ان تمام صورتوں میں ناواقفیت کی بنا پر غلط فہمی کا امکان موجود ہے اس لیے ان تمام چیزوں کا جاننا ضروری ہے اسی طرح المتفق ، والمفترق، الموتلف والمختلف المتشابہ کا علم بھی اشد ضروری ہے۔

ولکن ھذا اخرما اردنا تحریرہ من اصطلاحات المحدثین والحمدللہ رب العالمین وصلی اللہ وسلم

علی المرسلین خصوصاً علی خیرھم وسید الاولین والآخرین محمد وعلیٰ آلہ واصحابہ اجمعین

٭٭٭

تشکر: مرثد ہاشمی، مکتبہ جبرئیل جن کے توسط سے فائل کی فراہمی ہوئی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید