FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

اسلامی حجاب

محمد امین اکبر

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

مصنف کے حقوق

مصنف اپنے حقوق استعمال کرتے ہوئے تحریر لکھتا ہے کہ میری اس کتاب کی تحریر کو (بغیر تبدیل کیے , مصنف کا حوالہ دے کر) کوئی بھی استعمال کر سکتا ہے۔ تدوین یا کسی بھی قسم کی تشریح، وضاحت یا اضافہ شامل کرنے کی اجازت ہرگز نہیں۔

اشاعت کے حقوق بحق عوام الناس کیے جاتے ہیں۔

فقط

محمد امین اکبر

تعریف اور آیات

لباس عرف عام میں لباس یا پوشاک (clothing)، پہناوے کو کہا جاتا ہے مگر ہم لباس کسی بھی ایسی چیز کو کہہ سکتے ہیں جو انسانی جسم کے ڈھانپنے، زیب و زینت اور موسمی اثرات سے بچانے کے کام آئے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ اعراف آیت 26 میں لباس کی دو خصوصیات بتائی ہیں۔ پہلی خصوصیت تو یہ ہے کہ لباس جسم کے شرم والے حصوں کو چھپاتا ہے۔ دوسری یہ کہ لباس باعث زینت بھی ہوتا ہے۔ اس آیت میں لباس کی جو خصوصیات بتائی گئیں ہیں وہ صرف مردوں یا عورتوں کے لیے الگ الگ مخصوص نہیں، بلکہ یہ مجموعی معیار ہے جو لباس کے حوالے سے ہر زمانے کے لیے متعین کر دیا گیا ہے۔ لباس کی مختلف اقسام ہوتی ہیں جسے لوگ اپنے رسم و رواج اور علاقائی موسموں کے مطابق پہنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ہرقسم کے علاقے یا خطے کے حوالے سے لباس کا مخصوص معیار بیان کر دیا ہے۔ اس سے دوسرے ادیان کی طرح لباس مذہب کی علامت نہیں بلکہ صرف اور صرف استعمال کی چیز بن گیا ہے جو انسانوں (مردوں اور عورتوں) کی شرم کے حصوں کو ڈھانپے اور زینت کے کام آتا ہے۔ اب عورتیں اپنی لباس کی زینت اور دوسری زینت کس کس پر ظاہر کر سکتی ہیں اس کی تفصیل ہم اگلے صفحات میں دیکھیں گے۔ حجاب جس طرح لباس کی اقسام ہوتی ہیں اسی طرح زینت کی بھی اقسام ہوتی ہیں۔ بنیادی طور پر زینت دو طرح کی ہوتی ہیں۔ قدرتی زینت اور مصنوعی زینت۔ قدرتی زینت میں اچھے خدوخال، اچھے نین نقش، اچھے بال، جلد کا رنگ وغیرہ شامل ہیں۔ مصنوعی زینت وہ ہے جو قدرتی طور پر نہ ہو مگر اس کمی (انسانی معیار حسن کے لحاظ سے) کو پورا کرنے کے لیے مصنوعی ذرائع، جیسا کہ میک اپ وغیرہ، کو اختیار کیا جائے۔ زینت کیوں اختیار کی جاتی ہے؟ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت میں سجنے سنورنے اور اچھا نظر آنے کی فطری جبلت رکھ دی ہے، قدرتی طور پر حسین ہونے کے باوجود مزید اچھا لگنے کے لیے سنگھار کرنا اسی فطری جبلت کی وجہ سے ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے حسن میں مردوں کے لیے کشش رکھ دی ہے (سورۃ ال عمران آیت 14)۔ اسلام میں صفائی کی بہت اہمیت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ مسجد میں حاضری کے وقت زینت اختیار کر کے آنا چاہیے۔ یعنی مسجد میں پانچ ٹائم نماز کے دوران اچھا لباس پہنا ہوا ہو۔ جیسا کہ اس قرآنی آیت میں بیان کیا گیا ہے۔

یَا بَنِی آدَمَ خُذُوا زِینَتَکُمْ عِندَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَکُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّہُ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِینَ ﴿الأعراف: ۳۱﴾

’’اے بنی آدم، ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ رہو اور کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘ (۷: ۳۱)

بنی آدم میں چونکہ مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں اس لیے اگر عورتوں کی مسجد ہے تو انہیں بھی وہاں اچھا لباس زیب تن کر کے جانا چاہیے اور مردوں کو بھی۔ زینت یا آرائش کے حوالے سے اب اگر مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ دیکھا جائے تو مردوں کے لیے اپنی زینت چھپانے کے حوالے سے کوئی خاص حکم نہیں، مردوں کے لیے بنیادی حکم اپنی شرم گاہوں کی حفاظت ہی ہے، مگر عورتوں کے حوالے سے قرآن کریم کی آیات کے مطابق وہ اپنی آرائش مخصوص لوگوں کو ہی دکھا سکتی ہیں۔ پردے سے متعلق آیات عورتوں کے پردے کے حوالے سے قرآن کریم کی آیات اور میرے خیال میں اُن کی تشریح درج ذیل ہے۔

سورۃ اعراف آیت 26 یَا بَنِی آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُوَارِی سَوْآتِکُمْ وَرِیشًا ۖ وَلِبَاسُ التَّقْوَیٰ ذَٰلِکَ خَیْرٌ ۚ ذَٰلِکَ مِنْ آیَاتِ اللَّہِ لَعَلَّہُمْ یَذَّکَّرُونَ [۷: ۲۶]

’’اے اولاد آدم، ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہارے لیے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو، اور بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، شاید کہ لوگ اس سے سبق لیں‘‘

سب سے پہلا لباس جو حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہ السلام نے ستر ڈھانپنے کے لیے استعمال کیا وہ پتوں کی شکل میں تھا۔ اس کا پس منظر اسی درج بالا آیت کے سیاق و سباق میں ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہ السلام کے کپڑے اتروا دئیے تھے۔ انہی آیات میں اولاد آدم کو تنبیہ کی ہے کہ شیطان اب بھی اولادِ آدم کی گھات میں ہے، وہ طرح طرح کے بہانوں سے فیشن اور جدت کے نام پر انسانوں کے کپڑے اتروانے کی کوشش میں ہے اس لیے شیطان سے بچ کر رہا جائے، ایسا نہ ہو کہ جس طرح ماضی میں شیطان کی بات ماننے پر حضرت آدم علیہ السلام جنت سے نکلے تھے، اب اولاد آدم شیطان کی بات مان کرمستقبل (آخرت) میں جنت میں داخل ہی نہ ہو سکے۔ تفسیر ابن کثیر کے مطابق اللہ تعالیٰ نے لباس الگ نازل کیا اور ریش کو الگ نازل کیا، اس تفسیر کو پڑھ کر چند دوستوں کا یہ خیال ہے کہ ایسا لباس پہننا فرض ہے جس سے ستر چھپایا جائے، جبکہ ریش ایک الگ اعزازی چیز ہے جو انسان کو عطا کی گئی، لباس ضروریات زندگی ہے اور ریش زیادتی ہے۔ میرے خیال میں آیت کا اصل مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لباس نازل کیا، آگے اس لباس کی وضاحت کی کہ لباس میں دو خصوصیات ہونی ضروری ہیں، ستر چھپائے اور باعث زینت ہو۔ نہ کہ اس کا مطلب یہ کہ لباس الگ نازل ہوا اور ریش الگ۔ اس سے جو گیانہ اور راہبانہ تصور کی نفی ہوتی ہے جو صرف ستر چھپا کر جنگل میں رہتے ہیں اور باعث زینت لباس کے پہننے کو گناہ محسوس کرتے ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ احسان فرما رہا ہے اور بتا رہا ہے کہ لباس وہی ہے جس میں دو خصوصیات ہوں گی۔ اگر یہ خصوصیات نہیں تو وہ لباس نہیں۔ ایسا لباس جو ستر تو چھپائے مگر ایسامیلا کچیلا ہو کہ دیکھنے پر کراہت آئے تو وہ لباس اسلامی لباس نہیں ہو گا۔ ایسا لباس جس میں بے شک سونے اور ہیرے جڑے ہوں مگر ستر نہ چھپائے وہ بھی اسلامی لباس نہیں ہو گا۔ آیت میں جو آگے تقویٰ کے لباس کا ذکر ہے اس مراد کچھ مفسر نے ظاہری لباس کے مقابلے میں باطنی لباس سے لی ہے، مگر میرے خیال میں تقویٰ کے لباس سے مراد یہی ظاہری لباس ہے جو ستر کو چھپائے اور باعث زینت ہو۔ اگر لباس کو پہنتے ہوئے یہ خیال ہو کہ کہیں غلطی سے بھی اللہ تعالیٰ کے فرمان کی نافرمانی نہ ہو جائے تو یہی لباس تقویٰ کا ہو گا۔ درج ذیل آیات سے یہ بات مزید واضح ہو جائے گی کہ

ذَٰلِکَ وَمَن یُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّہِ فَإِنَّہَا مِن تَقْوَی الْقُلُوبِ ﴿الحج: ۳۲﴾

’’یہ ہے اصل معاملہ (اسے سمجھ لو)، اور جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کا احترام کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے‘‘ (۲۲: ۳۲)

لَن یَنَالَ اللَّہَ لُحُومُہَا وَلَا دِمَاؤُہَا وَلَٰکِن یَنَالُہُ التَّقْوَیٰ مِنکُمْ کَذَٰلِکَ سَخَّرَہَا لَکُمْ لِتُکَبِّرُوا اللَّہَ عَلَیٰ مَا ہَدَاکُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِینَ ﴿الحج: ۳۷﴾

’’نہ اُن کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اُسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے اُس نے ان کو تمہارے لیے اِس طرح مسخّر کیا ہے تاکہ اُس کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اُس کی تکبیر کرو اور اے نبیؐ، بشارت دے دے نیکو کار لوگوں کو‘‘ (۲۲: ۳۷)

ان آیات کے مطابق اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر عمل کرنا ہی تقویٰ ہے۔

سورۃ اعراف آیت 31 یَا بَنِی آدَمَ خُذُوا زِینَتَکُمْ عِندَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَکُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّہُ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِینَ [۷: ۳۱]

’’اے بنی آدم، ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ رہو اور کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘

اللہ تعالیٰ نہیں چاہتے کہ انسان ناشکری کرے۔ اللہ تعالیٰ انسان کو نوازے اور انسان کنجوسی کرے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم ہر عبادت میں وہ بہترین اور صاف ستھرالباس پہنو جو میں نے تمہیں عطا کیا ہے۔ کنجوسی نہ کیا کرو کہ اچھے کپڑوں کی بجائے میلے کچیلے کپڑے پہن کر عبادت گاہ میں آؤ۔ یہ جو حد سے بڑھنے کا ذکر ہے یہ کھانے پینے کے علاوہ زینت کے معاملے میں بھی ہے کہ حد سے بڑھتے ہوئے لاکھوں روپے صرف لباس پر ہی برباد کر دو۔ باعث زینت لباس سے مراد صاف ستھرا اچھا لباس ہے نہ کہ حد سے زیادہ قیمتی۔

سورۃ اعراف آیت 32 قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِینَةَ اللَّہِ الَّتِی أَخْرَجَ لِعِبَادِہِ وَالطَّیِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ۚ قُلْ ہِیَ لِلَّذِینَ آمَنُوا فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا خَالِصَةً یَوْمَ الْقِیَامَةِ ۗ کَذَٰلِکَ نُفَصِّلُ الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ [۷: ۳۲]

’’اے محمدؐ، ان سے کہو کس نے اللہ کی اُس زینت کو حرام کر دیا جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالا تھا اور کس نے خدا کی بخشی ہوئی پاک چیزیں ممنوع کر دیں؟ کہو، یہ ساری چیزیں دنیا کی زندگی میں بھی ایمان لانے والوں کے لیے ہیں، اور قیامت کے روز تو خالصتاً انہی کے لیے ہوں گی اِس طرح ہم اپنی باتیں صاف صاف بیان کرتے ہیں اُن لوگوں کے لیے جو علم رکھنے والے ہیں‘‘

یعنی لباس توا للہ تعالیٰ نے اتارا ہے، وہ لباس جو شرم کی جگہوں کو چھپاتا ہے اور باعث زینت ہے، اسے کس نے حرام کیا ہے؟ کوئی بھی کپڑا جس میں انسان اچھا لگے اس کپڑے کا لباس انسان کو حلال ہے، چاہے وہ کپڑا روئی سے بنا ہو یا ریشم سے۔ اسے حرام قرار دینے والوں سے اللہ تعالیٰ سوالیہ انداز میں پوچھ رہا ہے کہ بتاؤ تو سہی کون ہے وہ جس نے انہیں حرام کیا۔ جب میں نے (اللہ تعالیٰ نے) حلال کر دیا تو دوسرا حرام کرنے والا کون ہے؟ اللہ تعالیٰ تو خود حضرت محمدﷺ کی زبانی لوگوں سے پوچھ رہے ہیں کہ بتاؤ تو ذرا کون ہے جس نے فلاں لباس حرام کیا ہے؟ مگر اس آیت کے برخلاف الٹا بہت سے لوگ حضرت محمدﷺ کی طرف منسوب کر کے مختلف لباسوں کو مختلف قوموں سے منسوب کر کے حرام قرار دے رہے ہیں۔ اسی طرح ریشم کے لباس، غیر عرب قوموں کے لباس کے حرام ہونے کو بھی نبی کریمﷺ سے ہی منسوب کیا جاتا ہے۔ یہ آیت اسی بات کی نفی کر رہی ہے۔ اسلامی لباس کی صرف دو خصوصیات بتا دی ہیں یعنی شرم کے حصوں کو چھپانا اور باعث زینت۔ اس کے بر خلاف اگر کوئی شلوار قمیض یا پینٹ شرٹ کو حرام قرار دیتا ہے تو اس کا حرام قرار دینا اپنی خواہش کی وجہ سے ہے۔ عورتوں کا سنگھار کرنا کہیں حرام نہیں ہے، خوبصورت نظر آنے کے لیے خوبصورت لباس اور زیورات پہننا بھی کہیں حرام نہیں ہے، ہاں ان کی سب کچھ حدود ہیں جو آگے آئیں گی۔ فطری طور پر جو سجنے سنورنے کی خواہش ہے وہ بُری نہیں۔

سورۃ نور آیت 27 یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُیُوتًا غَیْرَ بُیُوتِکُمْ حَتَّیٰ تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَیٰ أَہْلِہَا ۚ ذَٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ [۲۴: ۲۷]

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو (اس وقت تک) جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج لو، یہ طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے توقع ہے کہ تم اس کا خیال رکھو گے‘‘  اس آیت میں دوسروں کے گھروں میں اجازت لیے بغیر داخل ہونے سے منع کر دیا ہے۔ اجازت لینی اس لیے ضروری ہے کہ اجازت کے دوران میں خواتین پردہ وغیرہ کر لیں۔

سورۃ نور آیت 28 فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فِیہَا أَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوہَا حَتَّیٰ یُؤْذَنَ لَکُمْ ۖ وَإِن قِیلَ لَکُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا ۖ ہُوَ أَزْکَیٰ لَکُمْ ۚ وَاللَّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِیمٌ [۲۴: ۲۸]

’’پھر اگر وہاں کسی کو نہ پاؤ تو داخل نہ ہو جب تک کہ تم کو اجازت نہ دے دی جائے، اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ تو واپس ہو جاؤ، یہ تمہارے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے‘‘

کسی کے گھر میں بغیر اجازت کے داخل ہونے کی بالکل اجازت نہیں۔ گھر کا کوئی بھی فرد جیسے خاتون خانہ، مردوں کی غیر موجودگی میں ڈرائنگ روم میں بیٹھنے کی اجازت نہ دے یا بیٹھنے کا نہ کہے تو واپس چلے جانا چاہیے۔ بعض دفعہ گھر کے افراد ہی اندر سے کہہ دیتے ہیں کہ آپ فلاں جگہ جا کر بیٹھو میں ابھی آیا تو اس صورت میں بھی، اس آیت کے مطابق، وہاں کھڑے ہونے کی ممانعت ہے۔

سورۃ نور آیت 29 لَّیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أَن تَدْخُلُوا بُیُوتًا غَیْرَ مَسْکُونَةٍ فِیہَا مَتَاعٌ لَّکُمْ ۚ وَاللَّہُ یَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَکْتُمُونَ [۲۴: ۲۹]

’’البتہ تمہارے لیے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ ایسے گھروں میں داخل ہو جاؤ جو کسی کے رہنے کی جگہ نہ ہوں اور جن میں تمہارے فائدے (یا کام) کی کوئی چیز ہو، تم جو کچھ ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ چھپاتے ہو سب کی اللہ کو خبر ہے‘‘

صرف گودام وغیرہ میں بغیر اجازت داخل ہو جا سکتا ہے، وہ بھی اس صورت میں کہ وہاں پر آپ کا سامان پڑا ہوا ہو اور کوئی رہتا نہ ہو۔

سورۃ نور آیت 30 قُل لِّلْمُؤْمِنِینَ یَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوجَہُمْ ۚ ذَٰلِکَ أَزْکَیٰ لَہُمْ ۗ إِنَّ اللَّہَ خَبِیرٌ بِمَا یَصْنَعُونَ [۲۴: ۳۰]

’’اے نبیؐ، مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ اُن کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اُس سے باخبر رہتا ہے‘‘

"Tell the believing men to lower their gaze (from looking at forbidden things), and protect their private parts (from illegal sexual acts, etc.). That is purer for them. Verily, Allah is All-Aware of what they do”.

اس آیت میں اللہ تعالیٰ مومن مردوں کو نبی کریمﷺ کے ذریعے ہدایات دے رہے ہیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ نظروں کی حفاظت کا حکم اس لیے ہے کہ کسی بھی برائی کا آغاز دیکھنے سے ہی ہوتا ہے۔ اگر کوئی نظر پر کنٹرول کرنے کے قابل ہو گیا تو سب برائیوں پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ نظر کی حفاظت کا حکم، شرمگاہوں کی حفاظت کے حکم سے پہلے آیا ہے، اس لیے کہ بد نظری سے پرہیز بہت سی اخلاقی برائیوں سے بچاؤ کا ذریعہ ہے۔ جسم کے بعض حصوں کی طرف جان بوجھ کر نظر کرنا ویسے ہی ناجائز ہوتا ہے لیکن اگر کسی کو دیکھنا پڑ ہی جائے تو نظر بد یا شہوت کے ساتھ نہ دیکھیں، جیسے ڈاکٹر کا مریض کو دیکھنا وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک آسانی یہ بھی ہے کہ اگر بغیر ارادہ نظر پڑھ جائے تو اس کا گناہ نہیں، اسے عرف عام میں کہا جاتا ہے کہ پہلی نظر معاف ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ پہلی نظر ہی جان بوجھ کر طویل کر لی جائے کہ یہ معاف ہے یعنی اگر بغیر ارادہ نظر پڑ ہی گئی ہے تو اپنے دل میں کوئی برا خیال نہ آنے دو۔ اس طریقہ سے مومن پاکباز رہتے ہیں۔ بہت سی صورتوں میں یہ جائز ہے کہ مرد عورت کو دیکھ لے، جیسے نکاح سے پہلے لڑکے کا لڑکی کو دیکھ لینا (اور بات چیت کر لینا) اسی طرح لڑکی کا لڑکے کو دیکھ لینا، عدالت میں گواہی یا تصدیق کے لیے جج کا یا کسی گواہ کا عورت کو دیکھنا، یا پھر ڈاکٹر کا مریضہ کو دیکھنا (علاج کی غرض سے) شرم گاہوں کی حفاظت والی بات دو طرف جاتی ہے۔ کسی سے غیر شرعی تعلقات نہ بناؤ، دوسرا اپنا پورا جسم ڈھانپ کر رکھو۔ ایسے لباس نہ پہنو جو شرم کی جگہوں کو ظاہر کرتے ہو۔ جیسے آجکل بازاروں میں اچھے خاصے انسان نیکر پہنے گھومتے ہیں۔ شرم گاہوں اور نظر کی حفاظت کے حکم میں تمام برائیوں سے بچنے کی ہدایت شامل ہو گئی یعنی افسانے، ڈرامے، فلمیں، تصویر سب کو دیکھتے ہوئے ان احکامات کا خیال رکھنا ہو گا۔ ہر بد نظر انسان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ بد نظری کرتے ہوئے اسے کوئی دیکھ نہ لے، اسی لیے اللہ تعالیٰ آیت کے آخر میں فرما رہا ہے کہ بدکاری، بد نظری، پاکباز اور تقویٰ، انسان کا ہر عمل اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے۔

سورۃ نور آیت 31 وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَہُنَّ وَلَا یُبْدِینَ زِینَتَہُنَّ إِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا ۖ وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلَیٰ جُیُوبِہِنَّ ۖ وَلَا یُبْدِینَ زِینَتَہُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِہِنَّ أَوْ آبَائِہِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِہِنَّ أَوْ أَبْنَائِہِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِہِنَّ أَوْ إِخْوَانِہِنَّ أَوْ بَنِی إِخْوَانِہِنَّ أَوْ بَنِی أَخَوَاتِہِنَّ أَوْ نِسَائِہِنَّ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُہُنَّ أَوِ التَّابِعِینَ غَیْرِ أُولِی الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِینَ لَمْ یَظْہَرُوا عَلَیٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ ۖ وَلَا یَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِہِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِینَ مِن زِینَتِہِنَّ ۚ وَتُوبُوا إِلَی اللَّہِ جَمِیعًا أَیُّہَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ [۲۴: ۳۱]

’’اور اے نبیؐ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اُس کے جو خود ظاہر ہو جائے، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر اِن لوگوں کے سامنے: شوہر، باپ، شوہروں کے باپ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے، بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے، اپنے میل جول کی عورتیں ،ا پنے مملوک، وہ زیردست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں، اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں وہا پنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے اے مومنو، تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے‘‘۔

آیت کے ترجمے کو الگ الگ کر کے اس کی تفصیل دیکھتے ہیں۔

’’اور اے نبیؐ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں‘‘ جیسے مومن مردوں کو حکم ہے کہ اپنی نظر بچا کر رکھیں ویسے ہی مومن عورتوں کے لیے حکم ہے کہ اپنی نظر بچا کر رکھیں۔ یعنی حرام منکرات کی طرف نظر پڑ جائے تو فوراً ہی ہٹا لیں۔ مردوں کی طرف خواہ مخواہ نظر نہ کریں۔ اس آیت سے بہت سی خواتین و حضرات یہ استدلال کرتے نظر آتے ہیں کہ جناب پہلے مردوں کو نظریں نیچے کرنے کا حکم ہے اس لیے زیادہ فرض مردوں کا ہے کہ اگر کوئی عورت پردہ نہیں کرتی تو مرد اس کی طرف نہ دیکھے، اس میں عورتوں کا کیا قصور؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر کوئی مرد اللہ کے حکم کی خلاف ورذی کرتے ہوئے اپنی نظریں نہیں بچاتا، نظروں کی حفاظت نہیں کرتا تو اس سے یہ کہیں فرض نہیں ہوتا کہ عورتوں پر سے پردہ کا حکم ساقط ہو گیا ہے۔ نظریں نیچے رکھنے کا حکم مردوں کو بھی ہے اور عورتوں کو بھی۔ قرآن میں جہاں جہاں مردوں اور عورتوں کا ذکر ہے وہاں پہلے مرد لکھا ہوا ہے اور بعد میں عورت، جیسے مومن، مومنہ، مسلمان مرد، مسلمان عورتوں، چور اور چورنی وغیرہ، اس پہلے اور بعد میں خطاب کرنے سے کرنے سے کسی پر بھی حکم میں نرمی نہیں۔ اگر مرد اللہ کا حکم نہیں مان رہا تو عورت مانے، مرد اپنے اعمال کا خود جواب دہ ہو گا اور عورت اپنے اعمال کی خود ذمے دار ہو گی۔ سورۃ 55 آیت 56 کے مطابق نیچے نگاہیں رکھنا جتنی حوروں کی نشانی ہے۔ ’’اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں‘‘  شرم گاہوں کی حفاظت ایک تو اس طرح کہ اپنے شریک حیات کے علاوہ کسی اور کے بارے میں سوچیں بھی نا۔ دوسرا اس طرح کہ اس قسم کے کپڑے نہ پہنیں جو ان کے اعضا کو چھپانے کی بجائے ظاہر کریں۔ ڈوپٹوں کو گریبان پر ڈالنے کا حکم اسی وجہ سے ہے یعنی شرم کی جگہوں کو چھپانے کے لیے ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جو ڈوپٹہ یا چادر سینے پر ڈالی جاتی ہے وہ لباس کا باقاعدہ حصہ ہوتی ہے کہ وہ شرم کے حصوں کو چھپاتی ہے، اسے اعزازی زینت کہہ کر لباس سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے پہلے ہم دیکھ چکے ہیں کہ لباس کی ایک خصوصیت شرم کی جگہوں کا چھپانا بھی ہے اور ڈوپٹہ یہ کام کرتا ہے۔ ’’اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں‘‘ زینت کا مطلب آراستہ کرنا، خوشنما بنا کر دکھانا، بناؤ سنگھار، آرائش و زیبائش کے ہیں۔ بناؤ سنگھار یا زینت کا نہ دکھانا عام لوگوں یا نا محرموں کے لیے ہے۔ جن لوگوں پر بناؤ سنگھار یا زینت ظاہر کی جا سکتی ہے ان کی تفصیل آگے سورۃ احزاب کی آیت میں آئے گی۔ کوئی قدرتی یا مصنوعی زینت جو کسی کو بھی عورت کی طرف رغبت اور التفات بڑھا دے وہ اگر چھپائی جا سکے تو چھپا کر رکھنی چاہیے۔ خواتین کی زینت میں لباس بھی شامل ہے اور زیورات بھی۔ اس کے علاوہ قدرتی طور پر جو زینت کسی بھی عورت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے اس میں اچھی رنگت، مناسب قد و قامت اور خد و خال وغیرہ بھی شامل ہیں۔ ان میں سے ہر چیز کو چھپانا ممکن نہیں۔، لمبا قد، گوری رنگت اور اچھی آواز چھپائی نہیں جا سکتی، لباس کا ظاہری حصہ، بعض زیورات جیسے ہاتھوں کی انگوٹھیاں وغیرہ بھی اُن چیزوں میں شامل ہیں جوبہت ہی زحمت کے ساتھ چھپائی جا سکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے صرف اُن زینتوں کو چھپانے کا حکم دیا ہے جس کو چھپانے کے لیے بہت زیادہ زحمت نہیں کرنی پڑتی۔ اوڑھنے والی چادر، جو باعث زینت بھی ہوتی ہے، کو مزید کسی دوسری چادر سے چھپانے کی ضرورت نہیں۔ قمیض کے نچلے حصے کی کشیدہ کاری وغیرہ بھی وہ زینت ہے جو مشکل سے چھپائی جائے۔ گھریلو خواتین کے لیے گھروں میں دودھ سبزی لیتے ہوئے ہاتھوں کی زینت (زیور، مہندی) کا چھپانا مشکل ہوتا ہے۔ مصنوعی آرائش کے زیورات، لپ اسٹک وغیرہ سب سنگھار میں شامل ہیں۔ یہ سب ہی نہیں دکھانا چاہیے۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ وہ چہرے جو قدرتی طور پر خوبصورت ہوں یا جن کو میک اپ سے خوبصورت بنایا گیا ہو ان کا پردہ کرنا ضروری ہے۔ جو چیز آسانی سے چھپائی جا سکے اور جو آسانی سے نہ چھپائی جا سکے اس کا فیصلہ وہ خواتین خود ہی کر سکتی ہیں جو ان آیات پر عمل کر رہی ہو۔ ’’بجز اُس کے جو خود ظاہر ہو جائے‘‘ گورا رنگ، لمبا قد، سمارٹ نس، اچھی آواز اور بعض مواقع پر چہرہ وغیرہ کا چھپانا بہت مشکل ہو جاتا ہے یہ رعایت اسی لیے دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ جو دوسری صورتیں ہو سکتی ہے وہ اس طرح کہ کسی اجنبی سے کچھ سامان لیتے یا دیتے ہوئے ہاتھ کے زیورات یا مہندی اجنبی کے سامنے آ جائے تو یہ خود بخود ظاہر ہونا ہو گا۔ راہ چلتے ہوئے آنکھوں کا میک اپ ظاہر ہو جانا، جوتے کے ڈیزائن، چادر وغیرہ کے ڈیزائن سب اسی میں شامل ہیں۔ ’’اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں‘‘ قرآن کریم میں دو طرح کی چادر کا ذکر ہے خمار (جو سر ڈھانپنے کے کام آتی ہے اور اس کا ذکر اسی آیت میں ہے) اور جلابیب (جو ڈوپٹے وغیرہ کے اوپر ڈالی جائے کہ تمام جسم چھپ جائے، سکارف اس کا متبادل ہے، اس کا ذکر سورۃ احزاب آیت 59 میں ہے)، یعنی گھریلو استعمال کے لیے خمار اور باہر کے لیے خمار کے ساتھ ساتھ جلابیب۔ یعنی سر ڈھانپنے والے آنچل یا ڈوپٹے کا مقصد یہ ہے کہ کسی کے سامنے جسم کی ساخت ظاہر نہ ہو۔ یا چلتے پھرتے یا بیٹھتے ہوئے جسم کا کوئی حصہ نمایاں نہ ہو جائے۔ اس طرح اوڑھنیاں، چادریں، پلو اور ڈوپٹہ خواتین کے لباس کا لازمی حصہ ہوں گی اور ضروری ہے کہ کسی غیر محرم کی موجودگی میں عورتیں اوڑھنی، چادر اور ڈوپٹوں سے اپنے سر اور کمر کے ساتھ اپنے گریبانوں کو بھی چھپائیں۔ اس ڈوپٹہ لینے کی پابندی سے صرف وہ بوڑھی عورتیں مستثنیٰ ہیں جو نکاح کی عمر سے گذر چکی ہے۔ اگرچہ ان کے لیے بھی بہتر یہی ہے کہ وہ بھی اس کا اہتمام رکھی (بمطابق سورۃ النور 60)۔ اب اگر یہ اوڑھنیاں آرائش کا بھی کام دے رہی ہے تو اس کا بنیادی کام جسم کو چھپانا پہلے ہو گا اور اس کا نظر آنا ’’جو خود ظاہر ہو جائے‘‘ کی تعریف میں آئے گا۔ یعنی اس زینت کے لباس پر جو شرم گاہ کو چھپا رہا ہے کسی کی نظر پڑ جائے تو کوئی بات نہیں۔ یہ جو سینوں پر ڈوپٹہ ڈالنے کی بات کی گئی ہے اُن محرمات کے لیے بھی ہے جن کا ذکر آگے آ رہا ہے۔ ’’وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر اِن لوگوں کے سامنے:‘‘ عورتیں بناؤ سنگھار کرنے کے بعد گھر میں جن لوگوں کو ظاہری بناؤ سنگھار میں دکھا سکتی ہیں اُن کی تفصیل اسی آیت کے اگلے حصے میں ہے۔ ’’شوہر، باپ، شوہروں کے باپ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے، بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے‘‘ محرمات یہ سب عزیز جو اس آیت میں آئے ہیں محرم کہلاتے ہیں۔ ان کی بھی دو اقسام ہیں۔

محرم ابدی: ابدی محرم ساری زندگی محرم ہی رہتے ہیں جیسے باپ، بیٹا، بھائی، چچا، تایا، ماموں اور خالو وغیرہ۔ یعنی جن سے ساری زندگی شادی نہ ہو سکے۔

محرم وصی: محرم وصی یا وصفی وہ محرم ہوتے ہیں جو مخصوص حالات میں محرم ہوتے ہیں مگر جیسے ہی وہ حالات ختم ہو جائیں گے وہ لوگ محرمات کی فہرست میں شامل نہیں رہیں گے اور اجنبی یا غیر محرم ہو جائیں گے۔ مثال کے طور پر شوہر طلاق کے بعد نا محرم، مملوک آزاد ہونے کے بعد، بچہ جوان ہونے کے بعد نا محرم ہو گا۔ ’’اپنے میل جول کی عورتیں‘‘ اس سے مراد وہ عورتیں ہیں جن سے اچھی طرح جان پہچان ہو، جیسے محلے والیاں۔ یعنی اجنبی عورتوں کو بھی زینت نہیں دکھانی۔ عورتوں میں جو قابل اعتبار ہوں اُن عورتوں کے سامنے ہی زینت دکھانی چاہیے، دوسری عورتیں جن کا معلوم ہی نہیں کون ہیں، کس قماش کی ہیں، یا ایسی تو نہیں جو باہر جا کر دوسروں کے سامنے تذکرہ کریں، یا باہر جا کر تذکرہ کر کے لگائی بجھائی کریں۔ اُن سے پردے میں، صرف چہرہ کھول کر، ملنا ہی بہتر ہے۔ ’’ا پنے مملوک‘‘ میرے خیال میں یہاں مراد لونڈیاں ہو گا۔ غلاموں میں ایسے غلام بھی ہوتے ہیں جن کے متعلق مثال دے کر ہی اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ نکاح کرنے کے لیے مشرک سے غلام بہتر ہے، تو جس سے نکاح ہو سکتا ہے وہ نامحرم ہی ہوا۔ آج کل کے دور میں اس سے مراد گھریلو ملازمائیں ہوں گی۔ تو ان گھریلو ملازموں سے بھی آرائش چھپانی چاہیے۔ ’’وہ زیردست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں‘‘ زیر کفالت یا غلام یا ملازم جو بوڑھے ہوں۔ اس میں ملازم زنخے وغیرہ بھی شامل ہیں۔ وہ اگر زینت دیکھ لیں تو کوئی بات نہیں۔ ’’اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں‘‘ چھوٹے بچے۔ ان تمام محرمات کے سامنے سوائے شوہر (جس سے کسی قسم کا پردہ نہیں) کے جو زینت ظاہر کی جا سکتی ہے وہ سب خمار یعنی ڈوپٹہ کے ساتھ ہیں۔ جلابیب (ڈوپٹے سے اوپر کی چادر) گھر سے باہر کے لیے ہے۔ ’’وہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے‘‘ یہ احتیاط تو گھر میں بھی کرنی چاہیے کہ جن لوگوں کا ذکر اوپر آ گیا ہے کہ ان کے سامنے بھی پاؤں بجا کر پازیب وغیرہ جھنکاتی نہ رہیں۔ لیکن بازار میں تو یہ حکم کا درجہ رکھتا ہے کہ وہاں بہتر تو یہی ہے کہ اس طرح کے زیورات پہن کر نہ جایا جائے اگر پہن ہی لیے ہیں تو کوشش کی جائے کہ احتیاط سے چلا جائے۔ اس آیت کا اصل مقصد تو یہ ہے کہ اس طرح کوشش کی جائے کہ کسی بھی وجہ سے پوشیدہ زینت سامنے نہ آ جائے یعنی اگر ایک آدمی ایک طرف منہ کر کے کھڑا ہے اور پیچھے سے پازیب کی آواز آ رہی ہو تو وہ بھی دیکھنا چاہے گا۔ اس لیے احتیاط کرتے ہوئے بازاروں میں چوڑیاں بھی نہ کھنکائی جائے۔ جب آواز سے کوئی متوجہ ہو سکتا ہے تو اسی طرح تیز خوشبو یا عطر یا پرفیوم سے بھی متوجہ ہو سکتا ہے۔ بازار میں اس سے بھی پرہیز کیا جائے، عطر اور پرفیوم کا حکم بھی زیور چھنکانے میں ہو گا یعنی جو کسی اور طرف منہ کر کے کھڑے ہوئے شخص کو متوجہ کر سکے۔ ’’اے مومنو، تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے‘‘ اگر ماضی میں ایسا نہیں کرتے رہے تو اب مستقبل کے لیے پکا ارادہ کرو کہ ان احکامات پر عمل کرو گے۔ اس پر عمل کرنے سے ذاتی طور پر بھی اور معاشرتی طور پر بھی فلاح پاؤ گے۔ معاشرے میں غیر اخلاقی جرائم نہیں ہوں گے۔ توبہ اس لیے بھی کہ اگر غلطی سے، انجانے میں، کچھ ہو گیا ہو تو اس گناہ سے معافی مانگتے رہا جائے۔

سورۃ نور آیت 60 وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ اللَّاتِی لَا یَرْجُونَ نِکَاحًا فَلَیْسَ عَلَیْہِنَّ جُنَاحٌ أَن یَضَعْنَ ثِیَابَہُنَّ غَیْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِینَةٍ ۖ وَأَن یَسْتَعْفِفْنَ خَیْرٌ لَّہُنَّ ۗ وَاللَّہُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ [۲۴: ۶۰]

’’اور جو عورتیں جوانی سے گزری بیٹھی ہوں، نکاح کی امیدوار نہ ہوں، وہ اگر اپنی چادریں اتار کر رکھ دیں تو اُن پر کوئی گناہ نہیں، بشرطیکہ زینت کی نمائش کرنے والی نہ ہوں تاہم وہ بھی حیا داری ہی برتیں تو اُن کے حق میں اچھا ہے، اور اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے‘‘

اس آیت کا آیت 31 سے تعلق ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ چادروں سے اپنے گریبان ڈھانپ لیں۔ یہاں ایسی بوڑھی عورتوں کو جو بہت بوڑھی ہو گئی ہو کو اس حکم سے مستثنیٰ قرار دیا گیا۔ یہاں بعض کے نزدیک بوڑھی سے مراد وہ عورت جو اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ ہو مگر میرے خیال میں اولاد تو اللہ تعالیٰ جسے دینا چاہے اسے بڑھاپے میں بھی دے دیتا ہے، جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت زکریا علیہ السلام کو بوڑھی بیویوں سے ہی اولاد دی۔ اس بات کا فیصلہ کا چادر اوڑھنے والی خاتون خود ہی کرے گی کہ اب اس میں مردوں وغیرہ کے لیے کوئی رغبت نہیں یا اس کی بے پردگی سے فتنہ کا احتمال تو نہیں۔ اگر خود فیصلہ نہیں کر سکتی تو دوسری خواتین کے مشورے کے مطابق چادر لینے یا نہ لینے کا فیصلہ کر لے۔ یہاں بھی اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ وہ عورتیں ایسی ہونی چاہیے جن کو زینت دکھانے کا شوق نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے یہ سہولت غالباً اس لیے دی ہے کہ بوڑھی عورتوں کو چادر وغیرہ سنبھالنے سے جو تکلیف ہوتی ہے وہ نہ ہو۔ اگر کوئی بوڑھی عورت اس آیت کی رو سے چادر تو اتار دے مگر زینت دکھانے کی نیت رکھے اسی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ وہ دیکھ رہا ہے۔ آیت میں یَضَعْنَ ثِیَابَہُنَّ آیا ہے، جس کا مطلب ’’اپنے کپڑے اتار دیں‘‘ بھی ہوتا ہے مگر یہاں اس کا یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا کیونکہ آیت کے اگلے حصے میں کہا جا رہا ہے کہ زینت دکھانے والی نہ ہو تو اس سے مراد پردے کے لیے استعمال ہونے والی چادر یا کپڑے ہو گا۔ آیت کے اس حصہ کی ایک تفسیر کچھ اس طرح بھی ہے کہ بڑی بوڑھی عورتیں جو اپنے بڑھاپے کی وجہ سے مرد سے ملاپ کی خواہش نہیں رکھتیں تو کپڑے نقاب وغیرہ اتار دینے میں ان پر گناہ نہیں بشرطیکہ زیب و زینت کو ظاہر نہ کریں اور اصل بات تو یہ ہے کہ اس سے بھی احتیاط رکھنا ان کے لیے بہتر ہے کہ کیونکہ عربی میں ایک مثال ہے۔ لکل ساققتہ قطتہ (ہر گری ہوئی چیز کو کوئی نہ کوئی اٹھانے والا ہوتا ہے)۔ ایسی عورتوں کو گو خود خواہش نہ ہو مگر ممکن ہے کوئی ایسا بھی ہو جو محض اپنی خواہش سے ان پر بری نظر ڈالے۔ آیت کے اس حصے سے ظاہر ہو رہا ہے کہ جوان عورتوں کو پردے وغیرہ کا کتنا خیال رکھنا چاہیے۔ بعض فقہاء کے نزدیک پر فتن دور اور معاشرے میں فتنہ کے ڈر سے چہرہ اور ہاتھ کی ہتھیلیاں جو ستر میں شامل نہیں وہ بھی پردے کے حکم میں داخل ہو جاتی ہیں۔

سورۃ نور آیت 61 لَّیْسَ عَلَی الْأَعْمَیٰ حَرَجٌ وَلَا عَلَی الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَی الْمَرِیضِ حَرَجٌ وَلَا عَلَیٰ أَنفُسِکُمْ أَن تَأْکُلُوا مِن بُیُوتِکُمْ أَوْ بُیُوتِ آبَائِکُمْ أَوْ بُیُوتِ أُمَّہَاتِکُمْ أَوْ بُیُوتِ إِخْوَانِکُمْ أَوْ بُیُوتِ أَخَوَاتِکُمْ أَوْ بُیُوتِ أَعْمَامِکُمْ أَوْ بُیُوتِ عَمَّاتِکُمْ أَوْ بُیُوتِ أَخْوَالِکُمْ أَوْ بُیُوتِ خَالَاتِکُمْ أَوْ مَا مَلَکْتُم مَّفَاتِحَہُ أَوْ صَدِیقِکُمْ ۚ لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أَن تَأْکُلُوا جَمِیعًا أَوْ أَشْتَاتًا ۚ فَإِذَا دَخَلْتُم بُیُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَیٰ أَنفُسِکُمْ تَحِیَّةً مِّنْ عِندِ اللَّہِ مُبَارَکَةً طَیِّبَةً ۚ کَذَٰلِکَ یُبَیِّنُ اللَّہُ لَکُمُ الْآیَاتِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ [۲۴: ۶۱]

’’کوئی حرج نہیں اگر کوئی اندھا، یا لنگڑا، یا مریض (کسی کے گھر سے کھا لے) اور نہ تمہارے اوپر اِس میں کوئی مضائقہ ہے کہ اپنے گھروں سے کھاؤ یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے، یا اپنی ماں نانی کے گھروں سے، یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے، یا اپنی بہنوں کے گھروں سے، یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے، یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے، یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے، یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے، یا اُن گھروں سے جن کی کنجیاں تمہاری سپردگی میں ہوں، یا اپنے دوستوں کے گھروں سے اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ تم لوگ مل کر کھاؤ یا الگ الگ البتہ جب گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے لوگوں کو سلام کیا کرو، دعائے خیر، اللہ کی طرف سے مقرر فر مائی ہوئی، بڑی بابرکت اور پاکیزہ اِس طرح اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے آیات بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو گے‘‘

اس آیت میں پہلے تو مخاطب معذور لوگ ہیں، اسلامی معاشرے میں پورا معاشرہ ہی اُن کی کفالت کا ذمہ دار ہوتا ہے، کسی کے گھر سے بھی کچھ لے کر کھا سکتے ہیں۔ اس کے بعد مخاطب آیت پڑھنے والے ہیں یعنی عام عوام۔ اس آیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین قریبی رشتے داروں کے ساتھ کھانا کھا سکتی ہیں، یعنی قریبی رشتے داروں جیسے دیور جیٹھ وغیرہ سے چہرے کا پردہ نہیں ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام میں ایک محترم عالم دین صاحب کسی پردے دار خاتون کو دیور سے پردے کا حکم سمجھاتے ہوئے ایک حدیث کے بارے میں بتا رہے تھے وہ کچھ یوں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: ’’تم عورتوں کے پاس جانے سے اجتناب کرو‘‘ تو ایک انصاری شخص نے عرض کیا: اے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ذرا خاوند کے قریبی مرد ( دیور) کے متعلق تو بتائیں؟ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’دیور تو موت ہے‘‘ صحیح بخاری حدیث نمبر (5232) صحیح مسلم حدیث نمبر (2172). الحمو: خاوند کے بھائی (یعنی دیور) اور دوسرے قریبی رشتہ دار مرد مثلاً چچا کے بیٹے وغیرہ کو کہا جاتا ہے . اس حدیث میں غالباً تنہائی میں بار بار اور بنا ضرورت کے ملنے سے منع کیا گیا ہے۔ قرآن کریم کی سورۃ النور کی آیت 61 کو دیکھیں جس کے مطابق مسلمانوں کو اپنے جن رشتے داروں کے گھروں میں کھانا کھانے کا حکم دیا گیا ہے ان میں بھائی بھی شامل ہے۔ اب بھائی کے گھر میں بھابھی ہوتی ہے اور بچے، اب مل کر کھاؤ یا الگ الگ کو دیکھا جائے تو پہلی صورت مل کر کھانے کی جو صورت بنتی ہے وہ یوں کہ دونوں بھائی، بھابھی اور سب بچے مل کر ایک ہی جگہ بیٹھ کر کھانا کھائیں، یہ صورت حال بھی بالکل جائز اور قابل قبول ہے۔ دوسری صورت میں مل کر اور الگ الگ کھانے کی ایک صورت یوں بنتی ہے کہ دونوں بھائی ایک جگہ مل کر کھائیں اور باقی گھر والے الگ، یہ صورت حال بھی جائز اور قابل قبول ہے، دوستوں کے گھروں میں کھانے کے لیے یہ صورت حال بہترین ہے۔ اب ایک صورت یہ بچتی ہے کہ دونوں بھائی ہی الگ الگ کونوں یا کمروں میں بیٹھ کر اکیلے اکیلے کھائیں یا دونوں مل کر ایک جگہ۔ مگر جناب اس طرح تو معاشرتی روابط مزید منقطع ہوں گے، کیونکہ جو شخص اپنے بھائی کے گھر کھانا کھانے جا رہا ہے وہ اس سے روابط بڑھانے کے لیے جا رہا ہے، ورنہ کھانا تو اس کے اپنے گھر میں بھی پکتا ہے۔ میرے خیال میں تو پہلی صورت اور دوسری صورت حال ہی درست ہیں۔ آیت کا مرکزی سبق تو یہ ہے کہ ان رشتے داروں میں سے جن کے گھروں میں بھی جاؤ وہاں سلام کر کے جاؤ۔ اس آیت میں کھانے کی حد تک بات ہو رہی ہے، زیب و زینت جن جن لوگوں کو دکھایا جا سکتا ہے اُن کی تفصیل پہلے ہی آ چکی ہے۔ اسی آیت سے یہ مطلب بھی نکلتا ہے کہ فرسٹ کزن وغیرہ کا چہرے کا پردہ بھی ضروری نہیں اور دیور وغیرہ سے چہرے کا پردہ کیے بغیر بھی ایک گھر یعنی مشترکہ خاندانی نظام میں رہنا قرآن نے منع نہیں کیا۔ اس آیت کے مطابق فرسٹ کزن محرمات میں شامل نہیں ہوتے، اس کے باوجود کھانے کے دوران ان سے چہرے کا پردہ نہ کیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔

سورۃ احزاب آیت 32 یَا نِسَاءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ ۚ إِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِی فِی قَلْبِہِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا [۳۳: ۳۲]

’’نبیؐ کی عورتوں (یعنی بیویاں، بیٹیاں اور گھر کی دیگر خواتین)، تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مُبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو‘‘

اس آیت کی مخاطب نِسَاءَ النَّبِیِّ ہیں جس میں بیویاں، بیٹیاں اور دیگر خواتین شامل ہیں۔ اس آیت کا پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ اُس دور یعنی دور نبویﷺ کے منافقین کی کوشش یہ تھی کسی نہ کسی طرح ازواج مطہرات اور دیگر اہل بیت خواتین رضی اللہ عنہا کے منہ سے کوئی ایسی بات نکلوائیں یا نکل جائے کہ جسے کسی دوسرے رنگ میں پیش کر کے وہ منافق فتنہ و فساد کھڑا کر سکیں۔ ازواج مطہرات اور دیگر اہل بیت خواتین رضی اللہ عنہا اپنی عادت کے مطابق ہر کسی کے سوالوں کا جواب آرام سے، عام اور نرم لہجے میں دیتی تھیں۔ اس سے منافق پر امید تھے کہ جلد ہی وہ کوئی نہ کوئی فتنہ کھڑا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ایسے حالات میں ازواج مطہرات اور دیگر اہل بیت خواتین رضی اللہ عنہا کے لیے یہ آیت نازل ہوئی جس میں ازواج مطہرات اور دیگر اہل بیت خواتین رضی اللہ عنہا کو کہا گیا کہ آپ عام عورتوں کی طرح نہیں ہو بلکہ آپ بہت خاص ہو، بلند مرتبہ ہو، فضیلت میں سب خواتین سے بڑھ کر ہو۔ یعنی تمام مسلمان خواتین کی رول ماڈل ہو۔ آپ کے حوالے سے کہی ہوئی یا پھیلائی ہوئی کسی بھی بُری بات کے برے اور دور رس نتائج ہوں گے، اگر آپ سے متعلق لوگوں کو یا خواتین کو اچھی باتیں معلوم ہوں گی تو وہ اُن کے لیے مشعل راہ ہو گی۔ اس وجہ سے اُن کو کہا گیا ہے کہ وہ اجنبی یا عام لوگوں سے نرم لہجے میں بات نہ کریں کہ کوئی منافق اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اس آیت کی مخاطب تو ازواج مطہرات اور دیگر اہل بیت خواتین ہیں کہ تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، مگر اس کا یہ مقصد نہیں کہ عام عورتوں کو اس کی اجازت ہے کہ وہ دوسروں سے نرم لہجے میں بات کریں۔ آیت کا مخاطب خاص ہے مگر حکم عام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سمجھانے کا انداز ایسا ہے جیسے کوئی شخص اپنے بیٹے کو سمجھائے کہ آوارہ لڑکوں کی طرح گالیاں مت دینا، حالانکہ اُس شخص کو سب بچوں کا گالیاں دینا ناپسند ہوتا ہے۔ جس کسی کے دل میں بھی مرض، روگ یا طمع ہوتا ہے کسی کے میٹھے لہجے کا غلط مطلب لے کر دوسرے لوگوں میں خاتون کی طرف سے بدگمانی پھیلا سکتا ہے یا اُن کے دل میں مزید کسی قسم کا طمع پیدا ہو سکتا ہے اور وہ خاتون کو متاثر کرنے کے لیے الٹی سیدھی حرکتیں کرے۔ مردوں کو چاہیے کہ آپس میں گفتگو کرتے ہوئے یا خواتین سے بات کرتے ہوئے اپنا لہجہ نرم رکھیں۔ مگر خواتین جب بھی بات کریں تو سیدھے سادھے، سپاٹ انداز میں ٹو دی پوائنٹ بات کریں بلا ضرورت بات کو نہ بڑھائیں۔ جب کوئی خاتون سیدھے سادھے انداز میں صاف اور سیدھی بات کرے گی تو لوگ دوبارہ بہانے بہانے سے بات کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ خواتین کو اجنبی لوگوں سے بات کرتے ہوئے یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے پوشیدہ زیور کی آواز بھی اجنبی کے سننے کے لیے منع کر دی ہے، اسی طرح اصل لہجہ یا بول چال کا انداز جو خاتون گھر میں محرمات سے گھل مل کر بات کرتی ہیں ویسے ہی اجنبیوں سے بات نہ کرو۔ اچھی آواز بھی زینت ہے مگر یہ مشکل سے چھپانے والی زینت میں آتی ہے۔

سورۃ احزاب آیت 33 وَقَرْنَ فِی بُیُوتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّةِ الْأُولَیٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِینَ الزَّکَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ ۚ إِنَّمَا یُرِیدُ اللَّہُ لِیُذْہِبَ عَنکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا [۳۳: ۳۳]

’’اپنے گھروں میں ٹِک کر رہو اور سابق دور جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ اہلِ بیتِ نبیؐ سے گندگی کو دور کرے اور تمہیں پوری طرح پاک کر دے‘‘

اس آیت میں اہل بیت کا لفظ ثابت کر رہا ہے کہ پچھلی آیت میں مخاطب صرف ازواج مطہرات ہی نہیں تمام خواتین ہیں جن کا تعلق نبی کریمﷺ سے ہے۔ ان تمام کو کہا جا رہا ہے کہ گھروں میں رہو۔ بلا ضرورت باہر نہ نکلو۔ نبی کریمﷺ کے مقام کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سب اہل بیت کو نیک رکھنے کا بندوبست کر رہے ہیں ’’اپنے گھروں میں ٹِک کر رہو اور سابق دور جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو‘‘ فضول باہر گھومنا پھرنا نہیں چاہیے۔ اس گھومنے پھرنے کا ایک مقصد تو یہی ہو سکتا تھا جو اس آیت میں بتا دیا گیا ہے کہ صرف اپنی زینت کو دکھانا۔ زینت دکھانے کے بہت سے اخلاقی نقصانات ہیں۔ اس لیے ان سے بچنے کا بہترین حل یہی ہے کہ خواہ مخواہ باہر نہ گھوما پھرا جائے۔ اس آیت کا یہ مقصد بالکل نہیں کہ نعوذ باللہ اہل بیت کی خواتین پہلے فضول باہر گھومتی تھیں۔ اس کا مقصد ایک نصیحت ہے جو اللہ اہل بیت کے توسط سے تمام مسلمان خواتین کو دے رہا ہے کہ اگر گندگی کو، برائی کو خود سے دور رکھنا ہے تو یہ کرو۔ یعنی فضول باہر نہ نکلو۔ اس آیت میں چونکہ عام مسلمان خواتین بھی مخاطب ہے مگر خصوصیت کے ساتھ اہل بیت مخاطب ہیں اس لیے ہو سکتا ہے کہ دور جاہلیت کی سج دھج دکھانے والی بات کی مخاطب وہ نو مسلم خواتین ہوں جو پہلے اپنی آرائش دکھاتی رہی ہوں۔  ’’نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور‘‘ یعنی اہل بیت خواتین اور تمام مسلمان عورتیں گھروں میں یا ایسی جگہوں پر جہاں مخلوط اختلاط نہ ہو وہاں عبادت کا بندوبست بھی رکھیں اور کوئی کام کاج کرنا چاہیں تو وہ بھی کریں۔ آیت میں زکواۃ دو آیا ہے جو اس سے پہلے بھی ہر جگہ نماز قائم کرو کے ساتھ لازمی قرآن میں مذکور ہے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ کوئی کام کاج ہو گا، آمدن ہو گی تو زکوٰۃ دی جا سکے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ حجاب کے احکامات کی پابندی کرتے ہوئے خواتین ملازمت اور کاروبار کر سکتی ہیں۔ بہ امر مجبوری مخلوط ماحول میں بھی کام کیا جا سکتا ہے چاہے چہرہ پر حجاب ہو یا نہ ہو، جیسے مجبوری کے عالم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بیوی اپنی بہنوں کے ساتھ بکریاں چراتی تھیں، مگر موقع ملتے ہیں انہوں نے ملازم کا بندوبست کر لیا۔ ’’اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرو‘‘ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت تو ساری امت پر فرض ہے۔ یہاں ازواج مطہرات بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں دنیا اور آخرت میں کامیابی ہے۔ اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی اطاعت یہی ہے کہ ان احکامات پر عمل کیا جائے۔

’’اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ اہلِ بیتِ نبیؐ سے گندگی کو دور کرے اور تمہیں پوری طرح پاک کر دے‘‘  پوری طرح پاک کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ پہلے کچھ ناپاکی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح ساری امت کے لیے گناہوں سے بچنے کی ترغیب دی ہے۔ اسی طرح الگ سے ازواج مطہرات کو بھی مخاطب کیا ہے۔ اُن کو خصوصی مخاطب کرنے کا مقصد اُن کی خصوصی رہنمائی ہے تاکہ وہ ساری امت کی خواتین کے لیے رول ماڈل بنیں۔

سورۃ احزاب آیت 53 یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُیُوتَ النَّبِیِّ إِلَّا أَن یُؤْذَنَ لَکُمْ إِلَیٰ طَعَامٍ غَیْرَ نَاظِرِینَ إِنَاہُ وَلَٰکِنْ إِذَا دُعِیتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِینَ لِحَدِیثٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِکُمْ کَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیِی مِنکُمْ ۖ وَاللَّہُ لَا یَسْتَحْیِی مِنَ الْحَقِّ ۚ وَإِذَا سَأَلْتُمُوہُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوہُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ۚ ذَٰلِکُمْ أَطْہَرُ لِقُلُوبِکُمْ وَقُلُوبِہِنَّ ۚ وَمَا کَانَ لَکُمْ أَن تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّہِ وَلَا أَن تَنکِحُوا أَزْوَاجَہُ مِن بَعْدِہِ أَبَدًا ۚ إِنَّ ذَٰلِکُمْ کَانَ عِندَ اللَّہِ عَظِیمًا [۳۳: ۵۳]

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نبیؐ کے گھروں میں بلا اجازت نہ چلے آیا کرو نہ کھانے کا وقت تاکتے رہو ہاں اگر تمہیں کھانے پر بلایا جائے تو ضرور آؤ مگر جب کھانا کھا لو تو منتشر ہو جاؤ، باتیں کرنے میں نہ لگے رہو تمہاری یہ حرکتیں نبیؐ کو تکلیف دیتی ہیں، مگر وہ شرم کی وجہ سے کچھ نہیں کہتے اور اللہ حق بات کہنے میں نہیں شرماتا نبیؐ کی بیویوں سے اگر تمہیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے تمہارے لیے یہ ہرگز جائز نہیں کہ اللہ کے رسولؐ کو تکلیف دو، اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بعد ان کی بیویوں سے نکاح کرو، یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے‘‘۔

اس آیت کو آیت حجاب بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں حجاب سے مراد ویوار کی طرح یعنی مکمل پردے کے ہیں۔ اس سے پہلے مسلمان مرد و خواتین کے بارے میں پردے کے کافی احکامات آ چکے ہیں۔ یہاں خصوصی طور پر حضورﷺ کے گھر کا ذکر ہے، چونکہ نبی کریمﷺ کا گھرانہ تمام مسلمانوں کے لیے رول ماڈل ہے اس لیے یہ آداب تمام مسلمانوں کے لیے موجودہ دور کے لیے بھی ہیں۔ آیت کے بنیادی مخاطب عام مسلمان ہی ہیں۔ اس آیت میں صحابہ کرام کو صاف صاف منع کر دیا گیا ہے کہ بغیر اجازت کے وہ امہات المومنین کے گھروں میں نہیں جا سکتے۔ بغیر اجازت کے صرف وہ محرمات جا سکتے ہیں جس کی تفصیل آگے آیات میں آئے گی۔ اس آیت کے نزول کے بعد نبی کریمﷺ کے گھروں کے دروازوں پر پردے لٹکا دئیے گئے، فوراً بعد ہی مدینے کے ہر گھر میں پردے لٹک گئے، وہ حکم جس میں عام لوگوں کو مخاطب کیا گیا تھا کہ امہات المومنین سے پردے کے پیچھے سے کوئی چیز مانگا کریں، اس پر تمام مسلمان عمل کرنے لگے، امہات المومنین سے ہی نہیں دوسرے مسلمان گھروں میں بھی یہی دستور اپنا لیا گیا۔ مزید ایک بات اور اس آیت میں قابل غور ہے کہ امہات المومنین کو عام لوگوں سے پردہ کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ عام لوگوں کو کہا جا رہا ہے کہ جو کچھ مانگنا ہو پردے کے پیچھے سے مانگیں۔ امہات المومنین جو درجہ میں سب مسلمانوں کی مائیں ہیں، قرآن کریم کے مطابق نبی کریمﷺ کے بعد کوئی اُن سے شادی بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اس کے باوجود اُن کو پردے کا حکم دینا پردے کی اہمیت کو واضح کرتا ہے، تو آج کے پر فتن دور میں گھر سے باہر پردے کی کس قدر پابندی کرنی چاہیے اُس کا اندازہ خود لگا لیں۔

سورۃ احزاب آیت 55 لَّا جُنَاحَ عَلَیْہِنَّ فِی آبَائِہِنَّ وَلَا أَبْنَائِہِنَّ وَلَا إِخْوَانِہِنَّ وَلَا أَبْنَاءِ إِخْوَانِہِنَّ وَلَا أَبْنَاءِ أَخَوَاتِہِنَّ وَلَا نِسَائِہِنَّ وَلَا مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُہُنَّ ۗ وَاتَّقِینَ اللَّہَ ۚ إِنَّ اللَّہَ کَانَ عَلَیٰ کُلِّ شَیْءٍ شَہِیدًا [۳۳: ۵۵]

’’ازواج نبیؐ کے لیے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ ان کے باپ، ان کے بیٹے، ان کے بھائی، ان کے بھتیجے، ان کے بھانجے، ان کے میل جول کی عورتیں اور ان کے مملوک گھروں میں آئیں (اے عورتو) تمہیں اللہ کی نافرمانی سے پرہیز کرنا چاہیے اللہ ہر چیز پر نگاہ رکھتا ہے‘‘۔

یہی احکامات عام عورتوں کے لیے بھی ہیں، یہ وہی رشتے ہیں جن پر زینت ظاہر کی جا سکتی ہے، یہ لوگ بغیر اجازت بھی گھروں میں آ جا سکتے ہیں۔ صرف گھروں میں آ جا سکتے ہیں، خواب گاہ میں اجازت لے کر جانا چاہیے، خاص کر اُن تین اوقات میں جن کا ذکر قرآن کی آیت ۲۴: ۵۸ میں بھی ہے کہ یہ تین اوقات پردے کے ہیں۔

سورۃ احزاب آیت 58 وَالَّذِینَ یُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَیْرِ مَا اکْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُہْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِینًا [۳۳: ۵۸]

’’اور جو لوگ مومن مردوں اور عورتوں کو بے قصور اذیت دیتے ہیں اُنہوں نے ایک بڑے بہتان اور صریح گناہ کا وبال اپنے سر لے لیا ہے‘‘

اس اذیت سے مراد ذہنی اذیت بھی ہو سکتی ہے اور جسمانی اذیت بھی۔ دین اسلام تو وہ دین ہے جس میں ناحق جانوروں کو تکلیف پہچانا حرام ہے، مومن مردوں اور مومن عورتوں کی اذیت کو کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے۔ زانی یا آوارہ مردوں کا شریف عورتوں کے پیچھے جانا، جھوٹے الزامات لگانا، جھوٹی افواہیں پھیلانا بھی مومن عورتوں کو تکلیف دیتا ہے۔

سورۃ احزاب آیت 59 یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُل لِّأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِینَ یُدْنِینَ عَلَیْہِنَّ مِن جَلَابِیبِہِنَّ ۚ ذَٰلِکَ أَدْنَیٰ أَن یُعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ ۗ وَکَانَ اللَّہُ غَفُورًا رَّحِیمًا [۳۳: ۵۹]

’’اے نبیؐ، اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے‘‘

جلابیب وہ چادر ہوتی ہے جو ڈوپٹے کے اوپر ڈالی جائے۔ ایسی چادر کو گھروں میں تو لینے کا حکم نہیں کیونکہ گھروں میں دوسرے گھر والوں کے سامنے جو چادر لینے کا حکم ہے اسے خمار کہتے ہیں جس سے سر ڈھانپے کے علاوہ سینہ وغیرہ ڈھانپنے کا کام لیا جاتا ہے خمار کا ذکر پیچھے سورۃ النور کی آیت 31 میں آ چکا ہے۔ ڈوپٹے کو بھی خمار کہا جا سکتا ہے۔ گھر سے باہر جہاں عام لوگوں کی نظر پڑنے کا اندیشہ ہو اسے ڈوپٹے کے اوپر لینا چاہیے۔ موجودہ دور میں برقعہ یا سکارف جلابیب کا نعم البدل ہے۔ نبی کریمﷺ کے زمانے میں یہود کی لونڈیوں بشمول خواتین کی اخلاقی حالت بہت پست تھی اور پردہ کا رواج اتنا زیادہ نہ تھا۔ کفار زیادہ تر لونڈیوں کو ستاتے تھے۔ مسلمان عورتوں کو ذہنی اذیت دینے کے لیے وہ مسلمانوں کی عورتوں پر آوازے کستے تھے۔ اس پر جب اُن کی باز پرس کی جاتی تو کہتے کہ میں تو اپنی لونڈی سمجھا تھا یا فلاں کی لونڈی یا پھر یہ کہ مجھے معلوم نہ تھا کہ یہ عورت جو جا رہی ہے مسلمان ہے اور اس (بُرے) قماش کی نہیں۔ اس آیت میں ایسی کسی بھی صورتحال پیدا ہونے کے مواقع ختم کر دئیے کہ مسلمان عورتیں یا شریف عورتیں ڈوپٹے کے اوپر چادر لیں تاکہ سب کہ پتہ چل جائے کہ مسلمان اور شریف عورت ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ قرآن کے مطابق پردہ کرنا یا سر پر چادر لینا شریف عورت ہونے کی نشانی ہے۔ اس آیت میں مسلمان خواتین کو کفار کی خواتین اور لونڈیوں سے الگ نظر آنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کی لونڈیاں بھی چونکہ اہل ایمان تھی اس لیے وہ بھی لازماً اس حکم کے نازل ہونے کے بعد چادریں لیتی ہوں گی، اس آیت میں فرق مسلمان اور کفار کی خواتین (بشمول لونڈیاں اور عام خواتین) کے درمیان بتایا گیا ہے۔

سورۃ احزاب آیت 60 لَّئِن لَّمْ یَنتَہِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِینَ فِی قُلُوبِہِم مَّرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِی الْمَدِینَةِ لَنُغْرِیَنَّکَ بِہِمْ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُونَکَ فِیہَا إِلَّا قَلِیلًا [۳۳: ۶۰]

’’اگر منافقین، اور وہ لوگ جن کے دلوں میں خرابی ہے، اور وہ جو مدینہ میں ہیجان انگیز افواہیں پھیلانے والے ہیں، اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم ان کے خلاف کاروائی کرنے کے لیے تمہیں اُٹھا کھڑا کریں گے، پھر وہ اس شہر میں مشکل ہی سے تمہارے ساتھ رہ سکیں گے‘‘

جیسا کہ پچھلی آیت میں مسلمان خواتین کو حکم دیا گیا کہ اپنی شناخت پردے کی صورت میں کفار کی خواتین اور بدقماش خواتین سے الگ کر لیں تو اس کے بعد کفار اور یہود کے لیے یہ بہانہ تو ختم ہو گیا کہ وہ مسلمان خواتین کو پہچان نہیں سکے تھے اس لیے آواز لگا دی۔ جن کفار کے دلوں میں اب بھی مرض تھا وہ مسلمان خواتین اور مسلمانوں کے خلاف افواہیں پھیلانے لگے۔ یہ افواہیں اس طرح کی ہوتی تھی کہ نبی کریمﷺ شہید ہو گئے، مسلمان جنگ ہار گئے یا فلاں مسلمان خاتون ایسی ویسی ہے۔ ان منافقین کا مقصد مسلمانوں کی ساکھ کو خراب کرنا تھا۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا، حتیٰ کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں بھی بُری افواہیں پھیلائی گئی۔ اب وارننگ انہی لوگوں کے لیے تھی۔ ان کے جرائم کی کم سے کم سزا جلاوطنی بتائی گئی ہے۔ یہ جلا وطنی اُن لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے کسی کے بارے میں بُری افواہیں پھیلائیں مگر ان کے نتیجے میں کوئی فتنہ نہ پھیل سکا، جیسے ہی انہوں نے بولا، فوراً پتہ چل گیا کہ یہ افواہ پھیلا رہا ہے تو ایسے شخص کی کم سے کم سزا جلاوطنی تجویز کی گئی۔

سورۃ احزاب آیت 61 مَّلْعُونِینَ ۖ أَیْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِیلًا [۳۳: ۶۱]

’’ان پر ہر طرف سے لعنت کی بوچھاڑ ہو گی، جہاں کہیں پائے جائیں گے پکڑے جائیں گے اور بُری طرح مارے جائیں گے‘‘

پچھلی آیت میں کم سے کم سزا تجویز کی تھی۔ اب یہاں اس کی زیادہ سے زیادہ سزا تجویز کی جا رہی ہے۔ یعنی اگر کسی کی افواہ یا باتوں کی وجہ سے کسی مسلمان کے گھر میں ناچاقی ہو جائے اور بعد میں پتہ چلے کہ یہ تو افواہ تھی تو افواہ پھیلانے والے کو زیادہ سے زیادہ سزا بھی دی جا سکتی ہے۔ ان کا بائیکاٹ یا جسمانی سزا یا موت جو کہ قاضی جرم کو دیکھتے ہوئے صادر کر سکتا ہے۔ ان آیات کا مقصد یہ ہے کہ عورتوں کے خلاف بدگمانی پھیلانا یا پھیلانے کی کوشش کرنا سنگین جرائم ہیں۔

سورۃ احزاب آیت 62 سُنَّةَ اللَّہِ فِی الَّذِینَ خَلَوْا مِن قَبْلُ ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّہِ تَبْدِیلًا [۳۳: ۶۲]

’’یہ اللہ کی سنت ہے جو ایسے لوگوں کے معاملے میں پہلے سے چلی آ رہی ہے، اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے‘‘۔

یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے جو ازل سے چلی آ رہی ہے۔ پرانی شریعتوں میں بھی ایسا ہی تھا۔ اگر یہ منافق یہودی اپنی کتاب پڑھیں تو اس میں بھی ایسی ہی سزائیں ہیں۔

بائبل میں بھی اس طرح کے احکام ہیں۔ جھوٹے الزام پر طلاق نہیں دی جا سکتی۔ بدنام کرنے والوں کی بھی سزا کا ذکر ہے۔ قرآن کی یہ آیت بتا رہی ہے کہ ایسی سزا نئی نہیں پرانی ہے۔ ان منافق یہودیوں کی کتابوں میں بھی درج ہے۔ یہودیوں میں تو اگر کوئی اپنی بیوی کے بارے میں بُری باتیں پھیلائے تو اس کی جسمانی سزا میں کوڑے، مالی سزا میں جرمانہ اور اس کے علاوہ تمام عمر طلاق پر پابندی کی سزا بھی تھی۔ جیسا کہ ان آیات میں درج ہے۔

’’اِستِشنا: باب22: 13۔ اگر کوئی مرد کسی عورت کو بیا ہے (نکاح کرے)اور اُسکے پاس جائے اور بعد اُسکے اُس سے نفرت کر کے۔ 14۔ شرمناک باتیں اُس کے حق میں کہے اور اُسے بدنام کرنے کے لیے یہ دعویٰ کرے کہ میں نے اِس عورت سے بیاہ کیا اور جب میں اُسکے پاس گیا تو میں نے کنوارے پن کے نشان اُس میں نہیں پائے۔ 15۔ تب اُس لڑکی کا باپ اور اُس کی ماں اُس لڑکی کے کنوارے پن کے نشانوں کو اُس شہر کے پھاٹک پر بزرگوں کے پاس لے جائیں۔ 16۔ اور اُس لڑکی کا باپ بزرگوں سے کہے کہ میں نے اپنی بیٹی اِس شخص کو بیاہ دی پر یہ اُس سے نفرت رکھتا ہے۔ 17۔ اور شرمناک باتیں اُس کے حق میں کہتا اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں نے تیری بیٹی میں کنوارے پن کے نشان نہیں پائے حالانکہ میری بیٹی کے کنوارے پن کے نشان یہ موجود ہیں۔ پھر وہ اُس چادر کو شہر کے بزرگوں کے آگے پھیلا دیں۔ 18۔ تب شہر کے بزرگ اُس شخص کو پکڑ کر اُسے کوڑے لگائیں۔ 19۔ اور اُس سے چاندی کی سو مثقال جرمانہ لے کر اُس لڑکی کے باپ کو دیں اس لیے کہ اُس نے ایک اسرائیلی کنواری کو بدنام کیا اور وہ اُس کی بیوی بنی رہے اور وہ زندگی بھر اُس کو طلاق نہ دینے پائے۔‘‘

اسلامی معاشرہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ یعنی مقتدر قوم بنا کر بھیجا ہے۔ زمین کا اقتدار انسان کے پاس ہی ہے۔ ان سب انسانوں میں مسلمان اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان رکھنے والے، اللہ تعالیٰ کے احکامات کو نافذ کرنے والے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے ایک معاشرے میں قوانین کے نفاذ کی ذمہ داری وہاں کی پولیس کا کام ہے اسی طرح اللہ کی زمین پر اللہ کے قوانین کا نفاذ، نظام عدل کا قیام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ ہر مسلمان کا مقصد یہ ہی ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے قوانین کے مطابق حکومت کو چلائے، اگر حکومت نہیں چلا سکتے تو کم از کم اپنی زندگی پر ان احکامات کو لاگو کرے۔ باطل حکومت اور باطل نظام کے سامنے سینہ سپر ہو کر یا کسی بھی طریقے سے اسلامی نظام کے قیام کی جد و جہد کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے احکامات کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف مسلمانوں کو کاروائی، جنگ، جہاد اور قتال، کی اجازت بھی دی ہوئی ہے۔ انسانوں میں مسلمانوں کا غلبہ صرف اُس وقت تک ہے جب تک وہ اللہ تعالیٰ کے قوانین کو خود پر اور معاشرے پر لاگو کریں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے تحت ہر قسم کی اخلاقی خوبیوں پر قائم رہیں۔ اس کے برعکس شروع سے ہی شیطانی قوتوں یعنی باطل نظام نے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے نظام کے خلاف اپنی کوششیں جاری رکھی ہیں۔ ماضی میں بھی اور موجودہ دور میں بھی اس طرح کی ہزاروں مثالیں مل جائیں گی جن سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ نظام باطل کو اصل تکلیف مسلمانوں یعنی اللہ تعالیٰ کے نظام کو قائم کرنے والوں سے ہے اور مسلمانوں کے نظام حق سے ہے۔ انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کر کے ستی کی رسم کو جرم قرار دے دیا اور ہندوؤں میں بچپن کی شادی پر پابندی لگا دی تو انہیں انسانیت اور ہندوستان کے محسن گردانا گیا۔ اگر معاشرے کی اصلاح کے لیے مسلمان کوئی بھی قدم اٹھائے تو کفار کے نزدیک انسانیت کے خلاف جرم ہو جاتا ہے۔ افغانستان میں اسلامی حکومت کا قیام جمہوریت کے خلاف سازش قرار دے کر اسلامی حکومت کے خلاف کاروائی ہوئی، مگر مصر میں جمہوریت کے ذریعے قائم کسی اسلامی کہلانے والی جماعت کی جمہوری طریقے سے قائم حکومت بھی نامنظور۔ مسلمان اگر کسی بگڑے ہوئے معاشرے میں انفرادی طور پر پردہ کریں تو دقیانوسی اور اجتماعی طور پر انسانوں کی فلاح کے لیے عوامی مقامات پر پردے کو لازم قرار دے دیں تو ظالم بن جاتے ہیں۔ مسلمانوں اور مومنوں کو کفار کی کسی بات سے رنجیدہ ہوئے بغیر صرف وہی کرنا چاہیے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔

عورت کے پردے کا مقصد کوئی بھی ایسی حرکت، جو معاشرے میں فساد پھیلائے یا معاشرے میں بے راہ روی کا باعث بنے، ایسی حرکات کرنے والا خواہ مرد ہو یا عورت، ایسی حرکات پراسلامی معاشرے میں پابندی ہے۔ کسی بھی عورت کا بازار میں چست یعنی جسم کے خدوخال کو نمایاں کرنے والا لباس، میک اپ زدہ چہرہ، کھلے بال، کھنکھناتے ہوئے زیورات کے ساتھ پھرنا معاشرے میں بے راہ روی پھیلانے کی کوشش ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے عام لوگوں کے سامنے پوشیدہ زیور کے ظاہر ہونے (بذریعہ آواز) کو ناپسند فرمایا ہے، اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ آواز سے کوئی بھی متوجہ ہو سکتا ہے۔ اسی طرح تیز خوشبو سے بھی کوئی بھی متوجہ ہو سکتا ہے۔ یعنی نا محرم لوگوں کے سامنے کسی بھی طرح کی ایسی حرکت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ مٹر کر دیکھنا چاہے۔ اسلامی معاشرے میں زینت دکھانے کا مطلب عام لوگوں کے سامنے نمائش نہیں۔ اسے صرف مخصوص محرموں کو ہی دکھایا جا سکتا ہے، اور باہر عام لوگوں کے پاس اسے چھپانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اب اسے بڑی چادر سے چھپایا جائے یا برقعہ یا سکارف سے۔ جو چیز چھپائی نہ جا سکے یعنی آواز، قد، رنگ وغیرہ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی پابندی نہیں۔ یہ ساری آزمائش اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو فطری طور پر مرد کے لئے باعث کشش اور باعث رغبت بنایا ہے، اسی لیے عورت کو کچھ زیب و زینت چھپانے کا زیادہ حکم دیا گیا ہے۔ یہ فطری رغبت اللہ تعالیٰ ہی نے مرد میں رکھی ہے، مقصود اس کا یہ ہے کہ کون اللہ کی بیان کی ہوئی حدود کو قائم رکھتا ہے اور کون حدود پار کرتا ہے۔

پردے کے احکامات اور معاشرہ حجاب یا پردے سے متعلق قرآن کریم کی آیات پر تو ہم نے بات کر لی، اب ہم دیکھیں گے کہ کس طرح سے ان احکامات اور قوانین کو معاشرے میں نافذ کیا جائے۔ اسلامی معاشرے میں قوانین کا نفاذ کسی بھی وقت، کسی بھی ملک میں، کسی بھی حالات میں جب ہم اسلامی قوانین کے نفاذ کی بات کریں گے تو ہمیں اس کے لیے نبی کریمﷺ کی زندگی کو مثال بنانا ہو گا۔ نبی کریمﷺ نبوت ملنے کے 13 سال بعد تک مکے میں رہے۔ وہاں انہوں نے لوگوں کو نصیحت کی۔ چاہے پردہ کا معاملہ ہو، دین کا یا دنیا کا، ہر کام میں نصیحت کی۔ بزور قوت تو وہاں وہ کسی بھی قسم کے معاملات میں سزاؤں کا نفاذ کر ہی نہیں سکتے تھے کہ کفار اکثریت میں تھے اور ایمان والے چند لوگ، مگر وہ چند ایمان والے ایسے تھے کہ جن کی فضیلت قرآن کریم میں بیان ہوئی ہے کہ جو لوگ فتح مکہ سے پہلے ایمان لائے وہ اس کے بعد ایمان لانے والوں سے افضل ہیں [۵۷: ۱۰]، ایسے ایمان والوں کو تو صرف اللہ کا حکم معلوم ہونے کی دیر تھی اور انہوں نے فوراً اپنی زندگی کو اِن احکامات کے مطابق ڈھال لیا۔ اُن لوگوں کے لیے ستر پوشی کا معاملہ ہو (سورۃ اعراف آیت 26) یا دوسرے دنیاوی معاملات، انہوں نے دل و جان سے اس پر عمل کیا۔ اس لیے جب بھی کہیں دنیا میں ایسے حالات ہو کہ مسلمان چند لوگ ہو اور کفار کی اکثریت یا اسلامی قوانین حکومتی طور پر نافذ نہ ہو سکیں تو وہاں تمام مسلمان قرآن کریم کے احکام کو ذاتی حیثیت میں خود پر لاگو کریں گے۔ دوسرے لوگوں، چاہے وہ اُن کا ملازم ہو یا ہمسایہ، وہ صرف نصیحت کر سکتے ہیں، زور زبردستی کسی معاملے میں نہیں۔ مکی سورتوں میں بھی نبی کریمﷺ کو صرف نصیحت کرنے کے متعلق کہا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان سورتوں میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اگر کفار یا کوئی دوسرا بات نہ مانے تو اس کو اللہ تعالیٰ سزا دے گا، وہ چاہے دنیا میں یا آخرت میں دے۔ اس کے بعد نبی کریمﷺ کی زندگی کا آخری دور یعنی مدنی دور، مدینہ میں نبی کریمﷺ نے سب سے پہلے تو حکومت کے استحکام کے لیے کوششیں کی۔ اس سلسلے میں غیر مسلموں تک سے معاہدے ہوئے۔ اس کے بعد جب طاقت حاصل ہو گئی تو برائی، جو حد سے بڑھ گئی تھی، کی بیج کنی کے لیے ہنگامی اقدامات کیے۔ ان اقدامات میں پردے کے احکام بھی شامل ہیں۔ سب سے پہلے تو اہل ایمان عورتوں کو حکم دیا گیا کہ وہ چہرے کا بھی پردہ کریں، یعنی سر پر بھی چادریں لٹکا لیں۔ یعنی فاسقوں پر حجت اتمام ہو جائے۔ اس کے بعد شر پسند عناصر کے لیے کڑی سزائیں تجویز کی گئیں۔ اس لیے تا قیامت جب مسلمانوں کو اپنی ایک ریاست ملے تو وہ وہاں پر حکومتی سطح پر اسلامی احکامات رائج کر سکتے ہیں۔ کسی غیر اسلامی معاشرے میں اسلامی حکومت قائم کرنے کے دوران پردے کے احکامات بھی بتدریج نافذ کیے جائیں گے۔ مرد وزن کے آزانہ اختلاط کی اجازت اسلامی معاشرے میں نہیں دی جا سکتی۔ اسلامی معاشرے میں گھر کے باہر معاشرے میں پردے کے احکامات پر مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم بھی عمل کریں گے۔ قوانین کی خلاف ورزی پر معاشرے کے حالات کے مطابق سزائیں نافذ کی جا سکتی ہیں اور نہ ماننے والوں کو بھی اسلامی حکومت جو چاہے سزا دے سکتی ہے۔ یہ سزا ایک تو اسلامی حکم نہ ماننے کی ہو گی اور دوسرا حکومت کی رٹ کو نہ ماننے کی۔ اگر بعد میں حکومت دیکھے کہ لوگ اتنے نیک ہو گئے ہیں تو پردہ کے یا کسی طرح کے بھی قوانین میں نرمی کر دے۔ لوگوں کے ایمان کی حالت کا اندازہ اخلاقی حالت اور جرائم کی تعداد سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ غیراسلامی معاشرے میں قوانین کا نفاذ اگر معاشرہ اسلامی نہ ہو جیسے کہ ہمارا ملک پاکستان، جو صرف اپنے سرکاری نام کی حد تک اسلامی ہے، میں پردے کے اسلامی احکامات پر انفرادی طور پر عمل کیا جائے گا۔ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کو نصیحت کر سکتا ہے مگر زبردستی نہیں کر سکتا۔ معاشرے کے بُرے عناصر سے بچنے کے لیے، جن کو نہ خدا کا خوف ہے اور نہ سزاؤں کا ڈر، خواتین کو لازماً پردہ کے احکامات پر انفرادی طور پر عمل کرنا چاہیے۔

معاشرے کی ترقی میں عورتوں کا کردار کسی بھی معاشرے کی ترقی میں عورتوں کا کردار بہت ہی اہم ہوتا ہے۔ بہترین مثالی معاشرہ وہ ہوتا ہے جس میں مرد کمائے اور عورت گھر کو سنبھالے اور بچوں کی تربیت کرے۔ مگر اس مثالی معاشرے میں بھی تمام کام مرد ہی سرانجام نہیں دے سکتے۔ بہت سے شعبہ ہائے زندگی ایسے ہیں جو عورتوں کے لیے ہی مناسب ہیں، خاص طور رپر پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں۔ موجودہ دور میں ہر شعبے کی ترقی میں عورتوں کا کردار مثالی ہے۔ اس وقت مجموعی طور پر عورتوں کی تعداد 50 فیصد سے زیادہ ہے، تعلیم سمیت ہر شعبے میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں یا کر سکتی ہیں۔ موجودہ حالات میں یہ ضروری ہے کہ تمام خواتین بھی اپنی تعلیم اور صلاحیت سے معاشرے کو فائدہ پہنچائیں۔ بہت سے شعبہ ہائے زندگی ایسے ہیں جو صرف عورتوں کے لیے مخصوص ہیں۔ اس کے علاوہ بوقت ضرورت خواتین ہر شعبے میں کام کر سکتی ہیں۔ ڈاکٹری کے شعبے میں عورتوں کی سخت ضرورت ہے۔ بہت سے لوگ عورتوں کی تعلیم کے مخالف ہیں مگرجب اپنی عورتوں کا علاج کرانا ہو تو کسی خاتون ڈاکٹر کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ اللہ کے بندو! اگر بچیوں کو تعلیم نہیں دلاؤ گے، اُن کی تعلیم کی مخالفت کرو گے، اُن کو ڈاکٹر نہیں بناؤ گے تو پھر پردہ دار عورتوں کا علاج کیسے کراؤ گے؟بریسٹ سرجری، گائناکالوجسٹ کے لیے عورتوں کا ڈاکٹر ہونا ضروری ہے۔ عورتوں کے کپڑوں کی سلائی، چوڑی مہندی، بیوٹیشن کے شعبے بھی عورتوں کے ہی ہیں۔ عورت مرد کی نسبت اچھی ٹیچر ہوتی ہیں۔ عورتوں کے کام کرنے کے حوالے سے، ملازمت کے حوالے سے قرآن کریم میں کہیں بھی ممانعت نہیں۔ قرآن کریم میں خاص طور پر نبی کریمﷺ کی ازواج مطہرات اور عام طور پر امت کی خواتین کے متعلق حکم نازل ہوا ہے کہ گھروں میں رہو اور زکواۃ دیتی رہو۔

وَقَرْنَ فِی بُیُوتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّةِ الْأُولَیٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِینَ الزَّکَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ ۚ إِنَّمَا یُرِیدُ اللَّہُ لِیُذْہِبَ عَنکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا [۳۳: ۳۳]

’’اپنے گھروں میں ٹِک کر رہو اور سابق دور جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ اہلِ بیتِ نبیؐ سے گندگی کو دور کرے اور تمہیں پوری طرح پاک کر دے‘‘

اس آیت میں اگرچہ زکواۃ دینے کا ذکر عمومی طور پر اسی طرح کیا گیا ہے جیسے کہ نماز ،کی ہر آیت میں نماز کے ساتھ آیا ہے، اس کے باوجود اس سے پتہ چلتا ہے کہ نماز کی طرح زکواۃ بھی ہر کسی پر فرض ہے۔ اب زکواۃ تو وہی دے گا جو کچھ کماتا ہو۔ چاہے کمائی کاروبار کی ہو یا زمینوں کی۔ کام کرنے کے ماحول کے حوالے سے دیکھا جائے تو اگر معاشرہ اسلامی ہو تو حکومت خود ہی ایسے اقدامات کرے گی جس سے خواتین کو کام کرنے کے لیے ایسا ماحول میسر آئے جہاں وہ آزادی اور حجاب کے ساتھ کام کر سکیں۔ عورتوں کو کام کرتے ہوئے پردے کا خیال رکھنا چاہے۔ کام کے دوران چہرے کے پردے کے حوالے سے مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ کچھ لوگوں کے خیال کے مطابق کام کے دوران چہرے کا پردہ ضروری نہیں جبکہ کچھ کے نزدیک پردہ ضروری ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب مصر سے مدین پہنچے تو ان کی ملاقات چند لڑکیوں سے ہوئی جو اپنے باپ کے بڑھاپے کی مجبوری کے سبب سے گلہ بانی کا کام خود کرتی تھیں۔ معاشرے کی خراب حالت کے باعث انہیں گلہ بانی میں دشواری کا سامنا تھا۔ موقع ملتے ہی انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ملازم رکھ لیا۔ اس سے پہلے جب ایک لڑکی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بلانے کے لیے گئی تو بہت شرماتی ہوئی گئیں۔ اُن کی یہ شرماہٹ اللہ تعالیٰ کو اتنی بھائی کہ اب قرآن کریم میں تا قیامت اس کا ذکر ہوتا رہے گا۔

فَجَاءَتْہُ إِحْدَاہُمَا تَمْشِی عَلَی اسْتِحْیَاءٍ قَالَتْ إِنَّ أَبِی یَدْعُوکَ لِیَجْزِیَکَ أَجْرَ مَا سَقَیْتَ لَنَا ۚ فَلَمَّا جَاءَہُ وَقَصَّ عَلَیْہِ الْقَصَصَ قَالَ لَا تَخَفْ ۖ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِینَ [۲۸: ۲۵]

’’(کچھ دیر نہ گزری تھی کہ) ان دونوں عورتوں میں سے ایک شرم و حیا سے چلتی ہوئی اس کے پاس آئی اور کہنے لگی ‘میرے والد آپ کو بُلا رہے ہیں تاکہ آپ نے ہمارے جانوروں کو پانی جو پلایا ہے اس کا اجر آپ کو دیں‘ موسیٰؑ جب اس کے پاس پہنچا اور اپنا سارا قصہ اسے سُنایا تو اس نے کہا ’کچھ خوف نہ کرو، اب تم ظالموں سے بچ نکلے ہو‘‘

 یعنی مجبوری میں مخلوط ماحول میں کام کرنا پڑ جائے تو ایسے کریں جیسے حضرت موسیٰ کی بیوی اور بیوی کی بہنیں شادی سے پہلے کرتی تھیں، اگرچہ وہ معاشرہ اچھا نہیں تھا، اچھے معاشرے میں عورتوں کو انصاف کے ساتھ برابری کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔

چند سوالات

معاشرتی قوانین کا نفاذ بذریعہ قوت؟

سوال: کیا اسلامی حکومت لباس کے حوالے سے طاقت یا جبر کا استعمال کر سکتی ہے کہ کسی مخصوص لباس کو پہننے سے روکنے کے لیے سزا دے؟

جواب: جی ہاں ایسا بالکل کیا جا سکتا ہے۔

سوال: جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے کسی کو زبردستی اسلام قبول کرنے کا نہیں کہا تو اسلامی حکومت کیسے کسی کو زبردستی ایک مخصوص لباس پہننے پر مجبور کر سکتی ہے؟ کوئی ایک آیت دکھائیں کہ کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کو لباس کے حوالے سے مجبور کر سکتا ہے؟

جواب: اسلامی حکومت کسی کو زبردستی ایک مخصوص لباس یا یونیفارم پہننے پر مجبور نہیں کر سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے لباس کے چند خواص بتا دئیے ہیں یعنی جو شرم کے حصوں کو چھپائے اور باعث زینت ہو۔ اس کے مطابق کوئی بھی لباس چاہے مشرقی ہو یا مغربی پہنا جا سکتا ہے۔ اسلامی حکومت کسی کو ایسا لباس پہننے سے روک سکتی ہے جو معاشرے میں بگاڑ کا موجب بن سکتا ہو۔ ایسا لباس جو شرم کے حصوں کو نہ چھپائے۔ اس حوالے سے قرآن کریم کی ایک آیت ہے کہ

وَاللَّاتِی یَأْتِینَ الْفَاحِشَةَ مِن نِّسَائِکُمْ فَاسْتَشْہِدُوا عَلَیْہِنَّ أَرْبَعَةً مِّنکُمْ ۖ فَإِن شَہِدُوا فَأَمْسِکُوہُنَّ فِی الْبُیُوتِ حَتَّیٰ یَتَوَفَّاہُنَّ الْمَوْتُ أَوْ یَجْعَلَ اللَّہُ لَہُنَّ سَبِیلًا [۴: ۱۵]

’’تمہاری عورتوں میں سے جو بے حیائی کا کام کریں ان پر اپنے میں سے چار گواہ طلب کرو، اگر وہ گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں قید رکھو، یہاں تک کہ موت ان کی عمریں پوری کر دے، یا اللہ تعالیٰ ان کے لئے کوئی اور راستہ نکالے‘‘  (ترجمہ: محمد جونا گڑھی)

فحشاء کی تعریف آیت میں لفظ الْفَاحِشَةَ آیا ہے۔ اس کی عام سی تعریف یوں کی جا سکتی ہے کہ فحشاء: ایسی تمام برائیاں ہیں جو کھلی ہوئی اور صریح ہوں۔ ان کا ارتکاب عوام میں ہو۔ جس کے لیے با آسانی گواہ میسر آ سکیں۔ اس کے اندر وہ تمام برائیاں آ گئیں، جو قوتِ شہویہ کی زیادتی سے پیدا ہوتی ہیں یا جن سے قوت شہویہ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ معاشرے میں بگاڑ کا خدشہ ہو۔ منکرات کی تعریف اس کے ساتھ ساتھ منکرات کی تعریف بھی دیکھ لیں۔ منکر ات: ہر وہ کام جو اسلامی تعلیمات کے منافی ہو، جس کا ضرر دوسروں یعنی معاشرے کو پہنچے (اس لحاظ سے فحشاء بھی منکرات میں شامل ہے) غیر مناسب لباس بھی فحشاء اور منکرات کے زمرے میں آتا ہے۔ جہاں تک سوال کا تعلق ہے کہ کسی کو ’’اسلامی حکومت‘‘ میں زبردستی غیر مناسب لباس پہنے سے روکا جا سکتا ہے یا نہیں تو اس کے لیے اسی آیت یعنی سورۃ النساء کی آیت 15 میں فحشاء کی سزا گھروں میں روک دینا قرار دی گئی ہے۔ یعنی فحشاء پھیلانے والی کے لیے اس کا گھر ہی سب جیل (Sub Jail) قرار دیا گیا ہے۔ اگر اس کی فحاشی کی نوعیت غیر مناسب لباس ہو گا تو اسلامی حکومت اسے بزور طاقت گھر تک محدود کر سکتی ہے۔ ایسی صورت میں یہ گھر تک محدود کرنا غیر مناسب لباس پہننے سے بذریعہ قوت روکنا ہی تو ہو گا، اس روکنے کا حکم اللہ تعالیٰ دے رہے ہیں، اسلامی حکومت تو بس فیصلے پر عمل درآمد کرانے کی پابند ہے۔

سوال: ہمارے مطابق قرآن پاک میں حجاب ایک تجویز ہے جو صرف بُرے لوگوں سے بچاؤ کے لیے ہیں۔ ہم کسی کو حجاب پہننے پر مجبور نہیں کر سکتے نہ ہی حجاب پر بین لگا سکتے ہیں۔

جواب: چلیں مان لیا کہ حجاب صرف بُرے لوگوں سے بچاؤ کے لیے صرف ایک تجویز ہے۔ اب اگر کوئی اس تجویز پر عمل نہ کرے اور برے لوگ تنگ کرے تو کیا اللہ تعالیٰ سے گلہ کیا جائے گا کہ کیسا اسلام ہے جس میں برے لوگ تنگ کرتے ہیں؟ ڈاکٹر علاج کے لیے تجاویز دیتا ہے کہ یہ پرہیز نہ کیا تو نقصان ہو گا۔ اب اگر بد پرہیزی کی تو ڈاکٹر کا کیا قصور؟ اللہ تعالیٰ کو تو خواتین کی عزت و ناموس کا اتنا خیال ہے کہ عورتوں کے بارے میں بُری افواہ پھیلانے والوں اور تنگ کرنے والوں کے لیے موت کی سزا تک بھی مقرر کر دی ہے، جیسا کہ درج ذیل آیات میں درج ہے۔

یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُل لِّأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِینَ یُدْنِینَ عَلَیْہِنَّ مِن جَلَابِیبِہِنَّ ۚ ذَٰلِکَ أَدْنَیٰ أَن یُعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ ۗ وَکَانَ اللَّہُ غَفُورًا رَّحِیمًا [۳۳: ۵۹]

’’اے نبیؐ، اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے‘‘

لَّئِن لَّمْ یَنتَہِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِینَ فِی قُلُوبِہِم مَّرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِی الْمَدِینَةِ لَنُغْرِیَنَّکَ بِہِمْ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُونَکَ فِیہَا إِلَّا قَلِیلًا [۳۳: ۶۰]

’’اگر منافقین، اور وہ لوگ جن کے دلوں میں خرابی ہے، اور وہ جو مدینہ میں ہیجان انگیز افواہیں پھیلانے والے ہیں، اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم ان کے خلاف کاروائی کرنے کے لیے تمہیں اُٹھا کھڑا کریں گے، پھر وہ اس شہر میں مشکل ہی سے تمہارے ساتھ رہ سکیں گے‘‘ 

مَّلْعُونِینَ ۖ أَیْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِیلًا [۳۳: ۶۱]

’’ان پر ہر طرف سے لعنت کی بوچھاڑ ہو گی، جہاں کہیں پائے جائیں گے پکڑے جائیں گے اور بُری طرح مارے جائیں گے‘‘

سخت فتنے کے دور میں اسلامی قوانین نافذ کرتے ہوئے جب تک پہلے اقدام (آیت 59) یعنی عورتوں کے چادرلینے پر عمل درآمد نہیں ہو گا کیسے دوسرے حصے پر عمل کیا جائے کہ صرف فتنہ پردازوں ہی سزا دی جائے؟ (آیت 61 اور 61)۔ اسلام پورے معاشرے کی تربیت کرتا ہے۔ وہ مردوں کو عورتوں سے پہلے نگاہیں نیچے رکھنے کی ہدایت کرتا ہے، جو مرد اس ہدایت پر عمل نہیں کرے گا وہ جلد ہی دوسرے اقدامات کے ذریعے، جیسے عورتوں کے چادر لینے کے بعد، سب کے سامنے آ جائے گا اور سخت سزا پائے گا۔

غیر اسلامی ملک میں پردے کے احکام

سوال: اگر کوئی ایسا ملک ہو جہاں اسلامی حکومت نہیں تو کیا وہاں کوئی کسی پر لباس کے حوالے سے زبردستی کر سکتا ہے؟

جواب: جی نہیں، ایسی صورت میں ایسا نہیں کیا جا سکتا۔ مسلمان صرف خود پر ہی انفرادی حیثیت میں کوئی چیز لاگو کر سکتے ہیں مگردوسرے کو صرف نصیحت کی جا سکتی ہے۔ جیسے نبی کریمﷺ نے مکی دور میں صرف نصیحت کی اور اس دور میں جو آیات وحی ہوئیں ان کا تعلق بھی انہی وعظ و نصیحت سے تھا۔ مدینہ میں جب نبی کریمﷺ کو حکومت ملی تو انہوں نے اجتماعی قوانین کا نفاذ فرمایا۔

قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِکُوا بِاللَّہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُوا عَلَی اللَّہِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴿الأعراف: ۳۳﴾

’’اے محمدؐ، اِن سے کہو کہ میرے رب نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ تو یہ ہیں: بے شرمی کے کام خواہ کھلے ہوں یا چھپے اور گناہ اور حق کے خلاف زیادتی اور یہ کہ اللہ کے ساتھ تم کسی کو شریک کرو جس کے لیے اُس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور یہ کہ اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہو جس کے متعلق تمہیں علم نہ ہو کہ وہ حقیقت میں اسی نے فرمائی ہے‘‘  (۷: ۳۳)

قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ أَلَّا تُشْرِکُوا بِہِ شَیْئًا وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَکُم مِّنْ إِمْلَاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَإِیَّاہُمْ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللَّہُ إِلَّا بِالْحَقِّ ذَٰلِکُمْ وَصَّاکُم بِہِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ ﴿الأنعام: ۱۵۱﴾

’’اے محمدؐ! ان سے کہو کہ آؤ میں تمہیں سناؤں تمہارے رب نے تم پر کیا پابندیاں عائد کی ہیں: یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو، اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی دیں گے اور بے شرمی کی باتوں کے قریب بھی نہ جاؤ خواہ وہ کھلی ہوں یا چھپی اور کسی جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھیرایا ہے ہلاک نہ کرو مگر حق کے ساتھ یہ باتیں ہیں جن کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے، شاید کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو‘‘ (۶: ۱۵۱)

یعنی فواحش کو حرام قرار دے دیا گیا ہے۔ اسلامی نظام میں حکومت اس سے روکے گی اور غیر اسلامی نظام میں مسلمان خود ہی خود کو روکے گا۔

اسلامی حکومت کے اختیارات

سوال: اسلامی حکومت کو لباس کے حوالے سے زبردستی کا اختیار کس نے دیا؟ جواب: اسلای حکومت کسی بھی غیر مناسب لباس کو بذریعہ طاقت روک کر سزا دے سکتی ہے جیسا کہ اوپر سوال کے جواب میں بھی بتایا گیا ہے۔ اب اسے یہ اختیار کس نے دیا اس کے لیے چند آیات دیکھیں۔

إِنَّ الَّذِینَ یُحِبُّونَ أَن تَشِیعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِینَ آمَنُوا لَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّہُ یَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴿النور: ۱۹﴾

’’جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں، اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے‘‘  (۲۴: ۱۹)

دنیا میں جو سزا دینی ہے وہ بھی قرآن کریم میں کوڑوں کی صورت میں موجود ہے۔ آخرت میں اس کی سزا اللہ تعالیٰ بھی دیں گے۔ دنیا میں وہ لوگ سزا نافذ کریں گے جن کو اللہ زمین کا اقتدار دے اور وہ زمین پر اللہ کے نام کی حکومت قائم کریں گے۔ جیسا کہ اس آیت میں بیان کیا گیا ہے۔

الَّذِینَ إِن مَّکَّنَّاہُمْ فِی الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّکَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنکَرِ وَلِلَّہِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ ﴿الحج: ۴۱﴾

’’یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے‘‘  (۲۲: ۴۱)

یہاں منکرات سے منع کرنا طاقت کے ذریعے ہو گا، نصیحت کے ذریعے نہیں۔ نصیحت کے ذریعے منکرات سے منع کرنا ہر مسلمان نبی غیر نبی کا فرض ہے، چاہے وہ محکوم ہی کیوں نہ ہو۔ نبی کریمﷺ کی مکی زندگی نصیحت کرتے ہی گذری ہے۔ کتنے لوگوں نے شرک سے توبہ کی؟ کتنے لوگوں نے کعبہ کا برہنہ طواف کرنا بند کر دیا؟ صرف ایمان لانے والے ہی منع ہوئے۔ جو پکے کافر تھے، وہ نہ ایمان لائے اور نہ اسلامی احکامات پر عمل کیا۔ فتح مکہ کے بعد بزور قوت کعبہ کو بتوں سے پاک کیا گیا۔ تمام مکے والے تو اس کے بعد ایمان لائے تھے۔ اگر وہ ایمان نہ بھی لاتے تو اللہ تعالیٰ کے گھر کو بتوں سے پاک تو کرنا ہی کرنا تھا۔

سوال: اسلامی حکومت کا کام نہیں کہ کسی کو زبردستی کوئی مخصوص لباس پہنائے، نماز کے لیے مجبور کرے، داڑھی رکھنے پر مجبور کرے۔ حکومت کا کام صرف نصیحت کرنا ہوتا ہے۔

جواب: جی بالکل اسلامی حکومت کا کام نہیں کہ کسی کو زبردستی عبادات کے لیے مجبور کرے، نہ ہی کسی کو ایک مخصوص یونیفارم پہننے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی حکومت میں دینی معاملات پر کسی کو مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ دین میں جبر نہیں۔ مگر دوسرے معاشرتی معاملات کہ جن کی خلاف ورزی چاہے مسلمان کرے یا غیر مسلم خلاف ورزی پر سزا پائے گا، جیسے چوری ڈاکہ وغیرہ۔ لباس کا تعلق بھی معاشرت سے ہے۔ اسلامی حکومت کسی کے گھروں میں گھس کر نہیں دیکھ سکتی کہ وہاں کس نے کیا پہنا ہوا ہے۔ باہر کے لیے لباس اللہ تعالیٰ نے بیان کر دیا ہے کہ شرم کے حصوں کو چھپائے اور باعث زینت ہو۔ نیز باہر کے لوگوں کے سامنے خواتین کو کس قسم کا لباس پہننا چاہیے اس کی تفصیل بھی اوپر آ چکی ہے۔ مردوں کے لیے بھی یہی شرط ہے کہ شرم کے حصوں کو چھپانے والا اور باعث زینت لباس زیب تن کرے۔

یَا بَنِی آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُوَارِی سَوْآتِکُمْ وَرِیشًا ۖ وَلِبَاسُ التَّقْوَیٰ ذَٰلِکَ خَیْرٌ ۚ ذَٰلِکَ مِنْ آیَاتِ اللَّہِ لَعَلَّہُمْ یَذَّکَّرُونَ [۷: ۲۶]

’’اے آدم (علیہ السلام) کی اولادہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا جو تمہاری شرم گاہوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے اور تقوے کا لباس، یہ اس سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ یہ لوگ یاد رکھیں‘‘ 

سر پر چادر لینا

: کیا سر پر چادر لینا حجاب کا حصہ ہے؟

جواب: اس کے جواب کے لیے یہ آیت دیکھیں

یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُل لِّأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِینَ یُدْنِینَ عَلَیْہِنَّ مِن جَلَابِیبِہِنَّ ۚ ذَٰلِکَ أَدْنَیٰ أَن یُعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ ۗ وَکَانَ اللَّہُ غَفُورًا رَّحِیمًا [۳۳: ۵۹]

’’اے نبیؐ، اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے‘‘

جیسا کہ پہلے بتایا  جا چکا ہے جلابیب وہ چادر ہوتی ہے جو ڈوپٹے کے اوپر ڈالی جائے۔ اوپر ڈالنے سے مراد سر پر ڈالنا ہی ہے۔ اس طرح کے اقدامات تعزیر کے طور پر اس وقت نافذ کیے جائیں گے جب اسلامی حکومت قائم ہو رہی ہو۔ حکم نہ ماننے کی صورت میں مشاورت کے ذریعے اس کی خلاف ورزی پر کوئی بھی سزا تجویز کی جا سکتی ہے۔ اگر اسلامی معاشرہ قائم کیے بہت عرصہ ہو چکا ہو اور خواتین کے حوالے سے کوئی جرائم بھی سامنے نہیں آتے ہوں تو حکومت چاہے تو سر پر چادر لینے کے حکم میں نرمی بھی کر سکتی ہے۔ غیر اسلامی ملک میں خواتین کو کوئی مسلمان چادر لینے پر مجبور نہیں کر سکتا، صرف نصیحت کر سکتا ہے۔

چہرہ کا نقاب

سوال: اسلام نے چہرے کے نقاب سے منع نہیں کیا مگر بعض لوگوں کو چہرے سے ہی شہوت محسوس ہوتی ہے۔ قصور مردوں کا ہے، عورتیں چہرہ کیوں ڈھانپیں؟

جواب: وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَہُنَّ وَلَا یُبْدِینَ زِینَتَہُنَّ إِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا ۖ وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلَیٰ جُیُوبِہِنَّ ۖ وَلَا یُبْدِینَ زِینَتَہُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِہِنَّ أَوْ آبَائِہِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِہِنَّ أَوْ أَبْنَائِہِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِہِنَّ أَوْ إِخْوَانِہِنَّ أَوْ بَنِی إِخْوَانِہِنَّ أَوْ بَنِی أَخَوَاتِہِنَّ أَوْ نِسَائِہِنَّ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُہُنَّ أَوِ التَّابِعِینَ غَیْرِ أُولِی الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِینَ لَمْ یَظْہَرُوا عَلَیٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ ۖ وَلَا یَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِہِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِینَ مِن زِینَتِہِنَّ ۚ وَتُوبُوا إِلَی اللَّہِ جَمِیعًا أَیُّہَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ [۲۴: ۳۱]

’’اور اے نبیؐ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اُس کے جو خود ظاہر ہو جائے، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر اِن لوگوں کے سامنے: شوہر، باپ، شوہروں کے باپ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے، بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے، اپنے میل جول کی عورتیں ،ا پنے مملوک، وہ زیردست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں، اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں وہا پنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے اے مومنو، تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے‘‘۔

اس آیت کے مطابق اگر چہرہ قدرتی طور پر خوبصورت ہو یا اسے مصنوعی طور پر خوبصورت بنایا گیا ہو تو اس کا چھپانا ضروری ہے، کیونکہ زیب و زینت اور سنگھار کو محرمات کے سامنے ظاہر کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی معاشرہ میں جیسے حالات ہوں گے ویسے ہی احکامات نافذ ہوں گے۔ اسلامی حکومت، جو کہ ظاہری بات ہے معاشرے کے حالات سے باخبر ہو گی، کو اگر لگے کا کہ چند ایک نہیں بلکہ بہت سے لوگ چہرے سے ہی شہوت محسوس کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ پہلے کافی خراب معاشرہ تھا، اسے سنوارنے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ان ہنگامی اقدامات میں چہرے کا پردہ یعنی جلابیب (اوپری چادروں) سے سر اور چہرے کو ڈھانپا جائے گا اور پھر خواتین کے خلاف جرائم پر انتہائی سزاؤں کا نفاذ ہو گا۔ اگر اسلامی حکومت کو محسوس ہو معاشرہ بہت حد تک نیک اور صالح ہے اور معاشرے میں اخلاقی جرائم نہیں تو وہ چہرے کے نقاب کے حوالے سے قوانین میں نرمی کر سکتی ہے۔ غیر اسلامی ملک میں کوئی کسی کو چہرے ڈھانپنے پر مجبور نہیں کر سکتا، صرف نصیحت کر سکتا ہے۔ کام کے دوران چہرے کا پردہ ہونے کے حوالے سے یہ آیت پیش کی جا سکتی ہے کہ

یَا نِسَاءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ ۚ إِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِی فِی قَلْبِہِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا [۳۳: ۳۲]

’’نبیؐ کی عورتوں (اہل بیت خواتین)، تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مُبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو‘‘

اس آیت میں مخاطب تو امہات المومنین ہیں مگر تعلیم سب کے لیے یہی ہے کہ اجنبی جن کا پتا نہ ہو کہ دل کا کیسا ہے اُن سے نرم لہجے میں بات نہ کرو، یعنی ٹو دی پوائنٹ بات سیدھے سادھے انداز میں جس سے اگلا کسی قسم کی غلط فہمی کا شکار نہ ہو جائے۔ یعنی ہر کسی کو بھائی کہہ کر مخاطب کرنا وغیرہ۔ اس آیت کے مطابق تو کسی کو بھی نہیں پتہ کہ دل کی خرابی میں مبتلا شخص کون ہے، بس حفاظتی اقدامات کے طور پر بتا دیا گیا ہے کہ نرم آواز سے کوئی بھی دل کی خرابی میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ دل کی خرابی میں مبتلا کوئی بھی شخص آواز (نرم آواز) تو وہ بعد میں سنے گا پہلے تو چہرے سے ہی مزید دل کی خرابی میں مبتلا ہو گا۔ اس لیے چہرہ بھی ڈھانپ لینا چاہیے۔ جو شخص آواز سے ہی دل کی خرابی میں مبتلا ہو جائے کیا وہ چہرہ دیکھ کر نہیں ہو سکتا۔ اگر مرد نگاہیں نیچے کرنے کے حکم پر عمل نہیں کر رہے تو عورتیں پردے کے احکامات پر عمل کریں، مردوں نے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے اور عورتوں نے اپنے اعمال کا۔

کام کے دوران چہرے کا پردہ نہ ہونے کے حوالے سے ایک دلیل اس آیت سے بھی دی جا سکتی ہے کہ

وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِی الْیَتَامَیٰ فَانکِحُوا مَا طَابَ لَکُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَیٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ ۚ ذَٰلِکَ أَدْنَیٰ أَلَّا تَعُولُوا [۴: ۳]

’’اور اگر تم یتیم لڑکیوں سے بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تمہیں پسند آئیں ان میں سے دو دو تین تین چار چار سے نکاح کر لو اگر تمہیں خطرہ ہو کہ انصاف نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی سے نکاح کرو جو لونڈی تمہارے ملک میں ہو وہی سہی یہ طریقہ بے انصافی سے بچنے کے لیے زیادہ قریب ہے‘‘  (ترجمہ: احمد علی)

اگر سب عورتوں نے چہرہ چھپایا ہو تو عورتوں میں سے اپنی پسند کی عورت سے شادی کیسے ہو، جب تک کہ عورتوں کو دیکھ نہ لیا جائے۔ عورت کو پسند کرنے میں چہرے کی پسندیدگی بھی شامل ہے۔ اس لیے اس حوالے سے حالات کو دیکھتے ہوئے اسلامی حکومت اور غیر اسلامی حکومت میں عوام خود ہی فیصلہ کر لیں گے کہ چہرے کا پردہ کرنا چاہیے یا نہیں۔

سکارف نہ پہننے کی سزا کیا ہو سکتی ہے؟

سوال: اسلامی حکومت میں اگر حکومت سکارف پہنے کا کہے اور نہ پہنا جائے تو اس کی سزا کیا ہو گی؟

جواب: کسی بھی حکومت کو ایسے فیصلے کرنے ہی نہیں چاہیے جن پر وہ عمل درا آمد نہ کرا سکے یا اپنی رٹ قائم نہ کر سکے۔ سکارف کے حوالے سے احکامات پر عمل درآمد کے حوالے سے حکومت مشاورت سے کوئی بھی سزا تجویز کر سکتی ہے۔ پہلی دفعہ زبانی تنبیہ اور سب سے آخری حد کے طور پر گھر کو ہی سب جیل یا پھر جیل۔

سوال: غیر مسلم حکومت اگر سکارف نہ پہننے دے تو کیا کریں؟

جواب: آپ ایک غیر اسلامی ملک میں رہتے ہوں اور وہاں آپ کو غیر شرعی احکامات پر عمل کرنے کا کہا جائے تو آپ کو دیکھنا ہو گا کہ اس غیر شرعی احکامات پر کہاں تک عمل کیا جا سکتا ہے۔ ایسے معاشرے میں رہنا اگر ضروری ہو تو سکارف نہ لینے کی پابندی برداشت کی جا سکتی ہے لیکن اگر اس سے بڑھ کر آپ کو ایسے احکامات پر عمل کرنے کے لیے کہا جاتا ہے جو فحشاء اور منکرات میں آتے ہیں تو اس پر آپ عمل نہیں کر سکتے۔

إِنَّ الَّذِینَ تَوَفَّاہُمُ الْمَلَائِکَةُ ظَالِمِی أَنفُسِہِمْ قَالُوا فِیمَ کُنتُمْ ۖ قَالُوا کُنَّا مُسْتَضْعَفِینَ فِی الْأَرْضِ ۚ قَالُوا أَلَمْ تَکُنْ أَرْضُ اللَّہِ وَاسِعَةً فَتُہَاجِرُوا فِیہَا ۚ فَأُولَٰئِکَ مَأْوَاہُمْ جَہَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِیرًا [۴: ۹۷]

’’جو لوگ اپنے نفس پر ظلم کر رہے تھے اُن کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ یہ تم کس حال میں مبتلا تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم زمین میں کمزور و مجبور تھے فرشتوں نے کہا، کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور بڑا ہی برا ٹھکانا ہے‘‘

سوال: کوئی ایسی مثال دیجیے جس میں تاریخ میں کسی نے کسی عورت کو سکارف نہ پہننے پر سزا دی ہو۔

جواب: مسئلہ تاریخ کے حوالے کا نہیں۔ اسلامی حکومت کے بنائے ہوئے قوانین اور اس کے نفاذ کا ہے۔ اگر حکومت یہ قانون بنا دیتی ہے تو سکارف نہ لینا جرم ہے تو اس کی سزا بھی وہی دے گی۔ معاشرے کے حالات کے مطابق اسلامی حکومت کسی بھی طرح کے قوانین بنا سکتی ہے اور وہی اسے نافذ کرے گی اور وہی ان پر عمل درآمد کرائے گی۔ جب اسلامی حکومت کہہ دے گی کہ آج سے خواتین سروں پر چادر لیں تو بس لیں۔ اس بارے میں قرآن کی آیت پہلے آ چکی ہے کہ اگر مرد عورتوں کے چادر لینے کے باوجود بھی اُن کو تنگ کریں تو انہیں جلاوطنی سے لے کر موت تک کی سزا دی جا سکتی ہے۔ اس کا دوسرا رخ یہ کہ ایسی عورت جو ان احکامات کے نافذ ہونے کے بعد بھی ان پر عمل نہ کرے تووہ بھی سزا کی حق دار ہو گی۔ جب مرد اسلامی حکومت کا فیصلہ نہ مانتے ہوئے سکارف پہننے والی عورتوں کو تنگ کرے تو اسے تو حکومت سزائے موت تک کی سزا دے، اور جو عورت اسلامی حکومت کا کہا نہ مانتے ہوئے سکارف نہ پہنے تو اسے سزا کیوں نہ دی جائے؟ اسلامی حکومت عورت کو سزا سکارف کے پہننے نہ پہننے پر نہیں بلکہ اصل سزا تو قانون کی خلاف ورزی کرنے پر دے گی۔ سزا کا فیصلہ خود حکومت کرے گی۔

سوال: چادر یا ڈوپٹہ نہ لینا کوئی تعزیری جرم نہیں کہ اس کے نہ لینے سے کسی کا نقصان ہو۔ ملاوٹ چوری جرائم ہیں اس لیے اس کی سزا ہیں۔ ڈوپٹہ نہ لینے کی سزا کیوں۔ اگر قرآن نے اسے تعزیری جرم نہیں کہا تو آپ کیوں کہہ رہے ہیں؟

جواب: کوئی چیز تعزیری جرم ہے یا نہیں اس کا فیصلہ حکومت مختلف حالات دیکھتے ہوئے کرتی ہے۔ ایک چیز جو آج ایک جرم ہے ہو سکتا ہے کل کو نہ ہو، جیسے جنگ کے زمانے میں راشن محدود تعداد میں مخصوص کارڈ پر فروخت کیا جاتا ہے۔ اس کی خلاف ورزی کرنے والے کو سزا دی جاتی ہے۔ جب جنگ ختم ہو جاتی ہے تو یہ عمل جو جنگ کے زمانے میں جرم تھا اب جرم نہیں رہا۔ یہی حال پردے کے حوالے سے قوانین کا ہو گا، جب حکومت دیکھے کہ حالات اتنے خراب ہیں عورتوں پر حملے زیادہ ہو رہے ہیں تو ایسے حالات میں عورتوں کو سروں پر ڈوپٹہ لینے کا حکم دیا جا سکتا ہے۔ جب حکومت دیکھے کہ معاشرہ اچھے اور نیک لوگوں کا ہے تو حکومت کو ایسی کسی پابندی لگانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ نیک عورتوں خود ہی پردے کے احکام پر عمل کریں گی، مرد خود نگاہ نیچی رکھیں گے۔ جرم ڈوپٹہ نہ لینا نہیں حکم کی خلاف ورزی ہو گا۔

سوال: اگر کسی عورت نے کپڑے تو پہنے ہوئے ہیں مگر ڈوپٹہ نہیں لیا ہوا، ایسی عورت کو دیکھ کر اگر کسی کی شہوت بڑھتی ہے تو اس میں قصور اس مرد کا ہے، اس کی سوچ کا ہے نہ کہ اس عورت کا۔ قرآن نے تو اسے کہا ہے کہ اپنی نگاہیں نیچے رکھو۔ اس نگاہوں کے نیچے رکھنے میں شہوانی خیالات کا دل میں نہ آنے دینا بھی ہے۔ خراب شخص تو سر تاپا کپڑے میں ملبوس عورت کو بھی بری نگاہ سے دیکھتا ہے۔ چادر کا لینا ایک نصیحت ہے جو عورتوں کو پاکستان جیسے ملک میں برے لوگوں سے بچنے کے لیے لینی چاہیے مگر یہ فرض نہیں ہے۔ یہ ایسا قدام ہے جو حالات پر منحصر ہے۔ اسلام کسی کو زبردستی چادر لینے پر مجبور نہیں کرتا۔

جواب: اللہ تعالیٰ نے مردوں کے دلوں میں عورتوں کے لیے کشش رکھی ہے۔ اسی طرح عورتوں کے دل میں سجنے سنورنے اور خوبصورت نظر آنے کی خواہش رکھی ہے۔ اس فطرت کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو حکم دیا کہ اپنی خواہشات کی تکمیل نا جائز ذرائع سے نہیں کرنی۔ آپ نے درست کہا کہ خراب شخص تو سرتا پا کپڑے میں ملبوس عورت کو بھی بری نظر سے ہی دیکھے گا، مگر ایسے خراب شخص کو سامنے بھی تو لانا ہے، تاکہ اسے سزا دے کر معاشرے کو اس سے پاک کریں۔ اسے سامنے لانے کا طریقہ قرآن کریم نے بتا دیا ہے کہ مومن عورتوں چادریں لے کر نکلا کریں، خراب شخص جلدی سے باز نہیں آئے گا، اس لیے جلد ہی پکڑا جائے گا۔ پکڑنے کے بعد اس کی سزا بھی تو دیکھیں کتنی سخت ہے، علاقہ بدر سے لے کر قتل تک۔ کسی بھی عام بندے کو پکڑ کر یہ سزا نہیں دی جا سکتی۔ مجرم کو ہی دی جائے گی نا۔ یہ Cause اور Effect والی ہے۔ اسلام پہلے کاز پر توجہ دیتا ہے، اسی لیے تو عورتوں کو پردے میں باہر نکلنے کا حکم دیا، تاکہ بے پردگی کے ایفکٹس ظاہر نہ ہوں۔ اگر اس کے باوجود ایفکٹس سامنے آئیں تو وہ معاشرے میں فساد ہو گا جس کی سزا بھی سخت رکھی گئی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قحط کے زمانے میں چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا منسوخ کر دی تھی، جب قحط ختم تو سزائیں بحال۔ مرد کا نگاہیں نیچی رکھنے کے احکامات پر عمل نہ کرنا اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ عورتیں بھی اپنے پردہ کے احکام پر عمل نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے تو دونوں کو حکم دیا ہے، دونوں سے الگ الگ حساب کتاب ہو گا۔ کیا اللہ تعالیٰ کے ہاں عورتوں کا یہ عذر قابل قبول ہو گا کہ مردوں کو پہلے حکم تھا، انہیں عمل کرنا چاہیے تھا؟ قرآن کریم میں جہاں جہاں مردوں اور عورتوں کو مخاطب کیا گیا ہے وہاں پہلے مردوں کا نام ہے اور پھر عورتوں کا، جیسے مومن، مومنہ، اچھائی کرنے والے مرد، اچھائی کرنے والی عورتیں وغیرہ۔ کہیں پر بھی کوئی حکم اس وجہ سے ساقط نہیں کہ پہلے ایک کرے گا تو دوسرا کرے گا۔ یہ سی ٹی بی ٹی کا معاہدہ تو ہے نہیں کہ پہلے بھارت دستخط کرے پھر پاکستان کرے گا۔

فحاشی؟

سوال: فحاشی کیا ہے؟ کیا زنا فحاشی ہے؟ کیا بغیر سکارف کے گھومنا فحاشی ہے؟

جواب: فحاشی کیا ہے سے متعلق عرض ہے کہ ایسی تمام برائیاں ہیں جو کھلی ہوئی اور صریح ہوں۔ ان کا ارتکاب عوام میں ہو۔ جس کے لیے با آسانی گواہ میسر آ سکیں۔ اس کے اندر وہ تمام برائیاں آ گئیں، جو قوتِ شہویہ کی زیادتی سے پیدا ہوتی ہیں یا جن سے قوت شہویہ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ معاشرے میں بگاڑ کا خدشہ ہو۔ اس کی شروعات ہر قسم کی غیر اخلاقی حرکتوں سے شروع ہو جاتی ہے۔ سر منہ ڈھانپ کر کسی کو غیر اخلاقی اشارے کرنا بھی فحاشی ہے۔ کھلی بدکاری بھی فحاشی ہے۔ فحاشی کے لیے یہ ضروری نہیں کہ کم کپڑے پہنے ہوں بلکہ سر تا پا جسم ڈھانپ کر غیر اخلاقی گفتگو و حرکات بھی فحاشی میں شامل ہوں گی۔ زنا باقاعدہ الگ اصطلاح ہے جو قرآن میں بیان ہوئی ہے۔ فواحش کی اگلی منزل زنا ہوتا ہے۔ زنا میں فحاشی بھی شامل ہوتی ہے۔ اس کی سزا فحاشی کی سزا سے بڑھ کر ہے۔ بغیر سکارف کے گھومنا فحاشی ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ معاشرے کے حالات دیکھ کر کیا جائے گا۔ اصل سوال یوں ہونا چاہیے کہ بغیر سکارف کے گھومنا جرم ہے یا نہیں؟ اگر حکومت اسلامی ہے تو اس کا فیصلہ حکومت کرے گی، اگر غیر اسلامی حکومت ہے تو معاشرے کے حالات دیکھتے ہوئے، لوگ خود بھی اندازہ کر سکتے ہیں کہ سکارف نہ لینے سے معاشرے میں فحاشی میں اضافہ ہوتا ہے یا نہیں، اگر ہوتا ہے تو اس حوالے سے سکارف نہ لینے والیوں کو صرف نصیحت کی جا سکتی ہے اور بس۔ فحاشی کی سزا؟ جن لوگوں کے پاس اقتدار ہو گا وہ جیسے چاہیں فحاشی سے منع کریں، چاہیں تو کوئی قانون بنا لیں۔ فرانس اور بہت سے مغربی ممالک نے پردے کے خلاف قانون بنا لیے ہیں، ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں، اللہ کے لوگوں کو جب اقتدار ملے گا تو اُن کی مرضی ہے کہ سکارف پہننا ضروری قرار دیں یا نہیں، جیسے معاشرے کے حالات ویسے ہی معاشرتی قوانین۔ اللہ سے محبت کرنے والے زنا کی جو سزا ہے وہ دیں گے اور فواحش سے روکنے کے لیے جو مناسب ہو اقدامات کریں گے۔ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ فواحش کا تعلق صرف سکارف پہننے یا نہ پہننے سے نہیں۔ فواحش کی حد میں تو سر تا پا پردے میں لپٹی ہوئی یا داڑھی رکھے ہوئے بندے بھی اپنے اعمال کی وجہ سے آ جائیں گے۔ اس کی سزا پر عمل درآمد کے لیے چار گواہ ضروری ہیں۔ فواحش کی سزا قرآن مجید میں اس طرح سے ہے۔

وَاللَّاتِی یَأْتِینَ الْفَاحِشَةَ مِن نِّسَائِکُمْ فَاسْتَشْہِدُوا عَلَیْہِنَّ أَرْبَعَةً مِّنکُمْ ۖ فَإِن شَہِدُوا فَأَمْسِکُوہُنَّ فِی الْبُیُوتِ حَتَّیٰ یَتَوَفَّاہُنَّ الْمَوْتُ أَوْ یَجْعَلَ اللَّہُ لَہُنَّ سَبِیلًا [۴: ۱۵]

’’تمہاری عورتوں میں سے جو بے حیائی کا کام کریں ان پر اپنے میں سے چار گواہ طلب کرو، اگر وہ گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں قید رکھو، یہاں تک کہ موت ان کی عمریں پوری کر دے، یا اللہ تعالیٰ ان کے لئے کوئی اور راستہ نکالے‘‘

یعنی غیر اخلاقی حرکتوں کی سزا ساری زندگی گھروں میں قید ہو سکتی ہے۔ یعنی کوئی چہرہ ہی نہ دیکھ سکے۔

سوال: کیا سکارف نہ پہننے والی عورتیں فحاشی کی مرتکب ہوتی ہیں؟قرآن میں سکارف کا ذکر کہاں کیا گیا ہے؟

جواب: سکارف نہ پہنے والی عورتیں قرآن کی درج ذیل آیت کے مطابق حکم خداوندی کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوتیں ہے۔

یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُل لِّأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِینَ یُدْنِینَ عَلَیْہِنَّ مِن جَلَابِیبِہِنَّ ۚ ذَٰلِکَ أَدْنَیٰ أَن یُعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ ۗ وَکَانَ اللَّہُ غَفُورًا رَّحِیمًا [۳۳: ۵۹]

’’اے نبیؐ، اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے‘‘

لَّئِن لَّمْ یَنتَہِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِینَ فِی قُلُوبِہِم مَّرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِی الْمَدِینَةِ لَنُغْرِیَنَّکَ بِہِمْ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُونَکَ فِیہَا إِلَّا قَلِیلًا [۳۳: ۶۰]

’’اگر منافقین، اور وہ لوگ جن کے دلوں میں خرابی ہے، اور وہ جو مدینہ میں ہیجان انگیز افواہیں پھیلانے والے ہیں، اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم ان کے خلاف کاروائی کرنے کے لیے تمہیں اُٹھا کھڑا کریں گے، پھر وہ اس شہر میں مشکل ہی سے تمہارے ساتھ رہ سکیں گے‘‘

مَّلْعُونِینَ ۖ أَیْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِیلًا [۳۳: ۶۱]

’’ان پر ہر طرف سے لعنت کی بوچھاڑ ہو گی، جہاں کہیں پائے جائیں گے پکڑے جائیں گے اور بُری طرح مارے جائیں گے۔‘‘ 

سورۃ احزاب آیت 59 میں ہی سکارف کا ذکر ہے۔

سوال: فحاشی (vulgarity)کا تعلق ظاہری لباس سے نہیں۔ اس کا تعلق دل سے ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو دیکھتا ہے نہ کہ ظاہری لباس کو۔ اگر فحاشی کا تعلق لباس سے ہے تو کیا برصغیر کی عورتیں جو صدیوں سے ساڑھی پہنتی ہیں جس میں پیٹ نظر آتا ہے، تو کیا وہ فحاشائیں ہیں؟

جواب: فحاشی یا vulgarity کا تعلق دل سے ہی نہیں بلکہ اس میں ظاہری لباس، غیر اخلاقی حرکات اور بھی بہت کچھ شامل ہیں۔ اگر اس کا تعلق صرف دل سے ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کے مرتکب کے لیے چار گواہوں کا ہونا شرط کیوں رکھتے۔ چار گواہوں کا ہونا یہ بیان کر رہا ہے کہ یہ ایسا فعل ہے جس کے لیے چار گواہ ملنا ممکن ہیں۔ اگر اس کا تعلق ’’صرف‘‘ دل سے ہے تو دل کے بھید اور غیب کا علم تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، پھر سزا کس بات کی؟ پھر تو فحاشی پر دنیاوی سزا کا تو تعلق ہی ختم ہو جاتا ہے۔۔ جہاں تک بات ہے ساڑھی کی تو اسلام نے کسی بھی لباس کا نام لے کر اسے جائز اور ناجائز نہیں کہا۔ اسلام نے لباس کی خصوصیات بتا دی ہے۔ ان کے مطابق جو بھی لباس ہو گا وہ جائز ہو گا چاہے اس کا جو بھی نام ہو، قسم ہو۔ چاہے شلوار قمیض ہو یا ساڑھی یا کسی اور تہذیب یا کلچر کا لباس ہو۔ وہ خصوصیات ہیں شرم کے حصوں کو چھپانے والا اور باعث زینت۔ جو ساڑھی آپ کے شرم کے حصوں کو چھپائے اور باعث زینت بھی ہو اس کے پہننے میں کوئی حرج نہیں۔ اب ساڑھی پہننے کے بعد اپنی زینت کس کس کے سامنے ظاہر کرنی ہے وہ بھی قرآن نے بیان کر دیا ہے۔ قرآن کریم کی شریعت برصغیر پاک و ہند کی عورتوں اور مردوں کے لباس کے مطابق نہیں ہو گی بلکہ برصغیر پاک و ہند کی عورتوں اور مردوں کو اپنا لباس قرآن کریم کی شریعت کے مطابق بنانا ہو گا۔

نامحرم لوگوں سے بات کرنا

سوال: کیا خواتین پبلک مقامات پر کسی سے بات کر سکتی ہیں؟

جواب: قرآن کریم کی آیت مبارکہ ہے کہ

یَا نِسَاءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ ۚ إِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِی فِی قَلْبِہِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا [۳۳: ۳۲]

’’نبیؐ کی عورتوں (یعنی بیویاں، بیٹیاں اور گھر کی دیگر خواتین)، تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مُبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو‘‘

اس آیت میں نبی کریمﷺ کے گھر کی خواتین کو بتایا جا رہا ہے کہ آپ لوگوں کا مقام عام مومن عورتوں کے مقابلے میں دوگنا ہے۔ لیڈر اور رہنما کا گھرانہ عام عوام کی نظروں میں ہوتا ہے، اس لیے اس بات کا حکم دیا جا رہا ہے کہ تمہاری حیثیت، دیگر کے مقابلے میں زیادہ احساس ذمہ داری کی متقاضی ہے۔ معاشرے کے عام فرد کی غلطی اس کی اپنی ذات تک ہی محدود رہتی ہے۔ مگر لیڈر اور رہنما کی غلطی کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتا پڑتا ہے۔ اس لیے نبیﷺ کے گھرانے کی خواتین کی ذمہ داری بھی دو گُنا ہے۔ اسی وجہ سے کسی غلطی کی صورت میں سزا بھی دو گُنا ہے، اور اچھائی کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام بھی دو گنا ہے۔ اس آیت سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ عام عورت تو کیا، نبیﷺ کی گھرانے کی عورت بھی، گھر سے باہر جا سکتی ہے، غیر محروموں سے بات کر سکتی ہے۔ آیت مبارکہ کا آخری جملہ  ’’وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا‘‘ [۳۳: ۳۲]۔ معروف اسے کہتے ہیں جو معاشرے میں اچھے معنوں میں تسلیم شدہ ہو۔ یہ حکم خواتین کو بدتمیزی یاسختی سے بات کرنے کی ترغیب نہیں دے رہا بلکہ معروف طریقے سے بات کرنے کا کہہ رہا ہے۔ یعنی فارمل انداز سے بات چیت۔ بات کرتے ہوئے سامنے والے کو بھائی جان وغیرہ کہہ کر مخاطب کرنا، ناز نخرے یا بے جا قہقہہ وغیرہ سے اجتناب کرتے ہوئے بس ٹو دی پوائنٹ بات کرنا۔

کیا حجاب صرف ایک تجویز ہے؟

سوال: قرآن میں حجاب صرف ایک نصیحت ہے جس سے برے لوگوں سے بچا جا سکے۔ اس کے نہ پہننے پر سزا نہیں دی جا سکتی۔ یہ صرف ایک نصیحت ہے اور بس۔ جامعہ الازہر نے فتویٰ دیا ہے کہ حجاب اسلامی لباس کا حصہ نہیں۔

جواب: جس وقت پردے سے متعلق اسلامی قانون کا نفاذ مدینہ میں ہوا اس سے پہلے مدینہ میں حجاب وغیرہ کا کوئی رواج نہ تھا۔ معاشرہ اسلامی نہ تھا، اسے اسلامی بنایا جا رہا تھا۔ ایسے حالات میں عورتوں کو مردوں سے بچانے کے لیے ایک ہنگامی فیصلہ کیا گیا۔ یہ فیصلہ کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی تھی۔ فیصلہ یہ ہوا کہ ایمان والی اور شریف عورتیں جب گھر سے باہر جایا کریں تو ایک بیرونی چادر جسے اس وقت جلابیب کہا جاتا تھا لیا کریں (سورۃ احزاب آیت 59)۔ اس کے بعد ایک اور حکم اگلی آیات میں دیا گیا ہے کہ اس کے باوجود جو لوگ عورتوں کو آوازیں لگا کر اذیت دیں انہیں علاقہ بدر سے لے کر سزائے موت دی جائے (سورۃ احزاب آیت 60، 61)۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے پہلے Pre Requisite بتا دی ہیں جو اُن سزاؤں پر عمل کے لیے ضروری ہیں۔ اب اگر عورتوں کو صرف نصیحت ہو اور وہ سکارف کے حکم پر عمل نہ کریں تو کیا شیطان صفت لوگوں کو سزا دینا انصاف ہو گا؟ اللہ تعالیٰ کی نصیحت اسلامی نظام میں حکم کے درجہ پر ہو گی۔ یہ انصاف نہیں کہ حکومت عورتوں کے پیچھے تو ہاتھ جوڑے اور منتیں کرتی پھرے کہ آپ سکارف لیا کریں اور شیطان صفت لوگوں کے پیچھے ڈنڈا لے کر پڑی رہے۔ ہنگامی حالات میں، پرُ فتن معاشرے میں جب مردوں کے لیے سزا مقرر کی جا سکتی ہے تو عورتوں کے لیے حکومت سے حکم عدولی کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ جہاں تک جامعہ الازہر کے فتوے کی بات ہے تو اس بارے میں یہ عرض ہے کہ بے شک وہ سکارف کو اسلامی لباس کا حصہ نہ سمجھے، اس پر میں کوئی تبصرہ نہیں کروں گا مگر میرے مطابق اسلامی حکومت معاشرے کے حالات کو دیکھتے ہوئے سکارف لینے کی پابندی لگا سکتی ہے، اور عوام کو اس کی پابندی کرنی ہو گی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت ہے کہ

یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا أَطِیعُوا اللَّہَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ وَأُولِی الْأَمْرِ مِنکُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِی شَیْءٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللَّہِ وَالرَّسُولِ إِن کُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِکَ خَیْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِیلًا [۴: ۵۹]

’’اے ایمان والو اللہ کی فرمانبرداری کرو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے حاکم ہوں پھر اگر آپس میں کوئی چیز میں جھگڑا کرو تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیرو اگر تم اللہ اور قیامت کے دن پر یقین رکھتے ہو یہی بات اچھی ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت بہتر ہے‘‘

تو اس آیت کے مطابق اگر حاکم ہنگامی حالات کے تحت یا فتنہ کو روکنے کے لیے سکارف یا پردے کی پابندی کو لازم قرار دیتا ہے تو اس کا ماننا فرض ہے۔

پردے کا حکم دائمی یا وقتی؟

سوال: پردے کا حکم ایک عارضی حکم تھا، مدینہ کے یہودی مسلمانوں کے خلاف سازش کرتے تھے، اُن سے بچنے کے لیے عارضی طور پر دیا گیا تھا۔ کیا بعد کے زمانوں کا اس حکم سے کوئی تعلق نہیں؟

جواب: میرے نزدیک یہ بہت بڑی غلطی فہمی ہے کہ پردے کا حکم ایک عارضی حکم تھا۔ قرآن کریم کے کچھ احکامات ایسے تھے جو مخصوص لوگوں کے لیے تھے، جیسے نبی کریمﷺ کی وفات کے بعد کوئی ازواج مطہرات سے شادی نہ کرے، اس حکم کا تعلق آخری ام المومنین کی وفات کے بعد ختم ہو گیا۔ اسی طرح قرآن کریم کے بعض احکامات ایسے ہیں جو وقت کے تقاضوں کے مطابق چلتے ہیں، جیسے جنگ کے لیے تیاری کرو گھوڑوں سے۔ یہاں گھوڑوں سے مراد اسلحہ اور ذرائع جنگ ہیں نہ کہ جنس گھوڑا۔ آج کے دور میں ہم ٹینک، گولہ بارود سے جنگی تیاری کر کے اس حکم کی پیروی کر رہے ہیں۔ قرآن کریم کی ہر آیت کے نزول کا کچھ نہ کچھ دنیاوی پس منظر ضرور ہے۔ ایسا صرف اس لیے ہے تاکہ لوگوں کو احکامات یاد ہو جائے، اُن کو پتہ چل جائے کہ اس کا نفاذ کس طرح ہو گا۔ جیسے ایک آیت ہے

قَدْ سَمِعَ اللَّہُ قَوْلَ الَّتِی تُجَادِلُکَ فِی زَوْجِہَا وَتَشْتَکِی إِلَی اللَّہِ وَاللَّہُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَکُمَا ۚ إِنَّ اللَّہَ سَمِیعٌ بَصِیرٌ [۵۸: ۱]

’’یقیناً اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی بات سنی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کر رہی تھی اور اللہ کے آگے شکایت کر رہی تھی، اللہ تعالیٰ تم دونوں کے سوال و جواب سن رہا تھا، بیشک اللہ تعالیٰ سننے دیکھنے والا ہے‘‘

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس حکم کا پس منظر یا شان نزول بیان کیا ہے جو اس سے اگلی آیت میں درج ہے۔ اس حکم کے بارے میں ہم یوں نہیں کہہ سکتے کہ اگر کوئی عورت اس طرح کی بات پر اعتراض کرے تو ہی نافذ ہو گا۔ یا وہ حکم وقتی حکم تھا کہ قرآن کے مطابق کوئی عورت نبی کریمﷺ کے پاس گئی، اعتراض کیا اور پھر نبی کریمﷺ نے حکم صادر فرمایا۔ اب نبی کریمﷺ تو ہیں نہیں لہٰذا یہ حکم کالعدم ہوا۔ ایسی بات بالکل نہیں۔ یہ حکم بھی تاقیامت لاگو رہے گا۔ اسی طرح پردے کے حوالے سے حکم ہے۔ اس کا پس منظر بے شک یہود کی سازشیں تھیں مگر اس کا اطلاق تا قیامت رہے گا۔ اگر موجودہ دور کے حالات دیکھے جائیں تو یہ بھی اسی طرح کے حالات ہیں جیسے نبی کریمﷺ کے دور میں اس حکم کے نزول کے وقت تھے، آج بھی یہودی میڈیا اور اس کے حامی میڈیا کی کوشش ہے کہ مسلمانوں میں فحاشی پھیلے تو اس پس منظر میں بھی پردے کے حکم کا اطلاق ضروری ہے۔

قرآن کریم کی ایک اور آیت مبارکہ دیکھیں

یَا نِسَاءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ ۚ إِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِی فِی قَلْبِہِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا [۳۳: ۳۲]

’’نبیؐ کی عورتوں (یعنی بیویاں، بیٹیاں اور گھر کی دیگر خواتین)، تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مُبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو‘‘

اگر وقتی حکم کا فتویٰ لگانا ہے تو اس آیت پر بھی لگا دیں جس کی مخاطب صرف نبی کریمﷺ سے متعلق عورتیں ہیں، اب وہ سب وفات پا چکی ہیں اس لیے شاید آپ آج یہ سوال کر دیں کہ آج کے دور میں خواتین نرم لہجے میں بھی بات کر سکتی ہیں۔ اس طرح تو قرآن کریم کی اکثر محکم آیات وقتی قرار پا جائیں گی۔ مولانا امین احسن اصلاحی پردے کی اس آیت کے حوالے سے اپنی تفسیر تدبر القرآن میں فرماتے ہیں کہ: ’’اس ٹکڑے ’’ذٰلِکَ أَدْنَیٰٓ أَن یُعْرَ‌فْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَۗ‘‘ سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یہ ایک وقتی تدبیر تھی جو اَشرار کے شر سے مسلمان خواتین کو محفوظ رکھنے کے لئے اختیار کی گئی اور اب اس کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اوّل تو احکام جتنے بھی نازل ہوئے ہیں، سب محرکات کے تحت ہی نازل ہوئے ہیں لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ محرکات نہ ہوں تو وہ احکام کالعدم ہو جائیں۔ دوسرے یہ کہ جن حالات میں یہ حکم دیا گیا تھا، کیا کوئی ذی ہوش یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس زمانے میں حالات کل کی نسبت ہزار درجہ زیادہ خراب ہیں، البتہ حیا اور عفت کے وہ تصورات معدوم ہو گئے جن کی تعلیم قرآن نے دی تھی۔‘‘

پینٹ شرٹ اور عیسائیت سے مشابہت

سوال: کیا پینٹ شرٹ پہننا جائز ہے؟ ایک حدیث ہے کہ جس نے کسی قوم سے مشابہت کی وہ اُن میں سے ہو گا۔ پینٹ شرٹ پہن کر کیا ہم عیسائیت سے مشابہت اختیار نہیں کر رہے؟

جواب: پینٹ شرٹ صرف ایک لباس ہے، استعمال کی چیز ہے اور بس۔ یہ بذات خود نہ ہندو ہے نہ مسلمان اور نہ عیسائی۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ اسلام نے اس لباس کے پہننے کی اجازت دی ہے جس میں دو خصوصیات ہوں، ایک یہ کہ وہ ستر کو چھپائے اور دوسرا وہ باعث زینت بھی ہو۔ اب اگر کوئی اتنی چست پینٹ اور شرٹ پہنے کہ شرم کے حصوں کو ظاہر کے تو اس کی اجازت اسلام میں نہیں، ہاں بیگی طرز کی کھلی ڈلی پینٹ پہنی جا سکتی ہیں۔ اب جہاں تک عیسائیت سے مشابہت کی بات ہے تو یہ مشابہت اعمال میں ہے نہ کہ لباس میں۔ اسلام صرف عرب کا دین نہیں، یہ ساری دنیا کے لیے آیا ہے۔ پوری دنیا میں طرح طرح کے خطے ہیں، ہر خطے کی لباس کے حوالے سے اپنی ضروریات ہیں۔ مثال کے طور پر شلوار قمیض ہندوستان کا لباس ہے، یہاں کا علاقائی لباس ہے، اس کا عرب سے کوئی تعلق نہیں۔ سیاچن میں فرائض سرانجام دینے والے فوجی ایک مخصوص طرز کا لباس پہنے ہیں جو مشابہت میں کسی طرح عرب سے نہیں ملتا۔ اگر لباس میں مشابہت کی وجہ سے کوئی مسلمان نہ ہو سکے تو اس سے بڑی بد بختی کی کیا بات ہو گی۔ اسلام اگر انٹارکٹکا کی مشرک قوم کے پاس پہنچے تو کیا لباس کے معاملے میں وہ صرف اس وجہ سے وہاں کا اپنا آبائی لباس پہننا چھوڑ دیں کہ مشرک قوم سے مشابہت ہو جائے گی۔ اس کو اسلام لانے کا کیا فائدہ ہو گا؟ وہ دوسرے دن ہی سردی سے مر جائے گا۔ سیاچن کے محاذ پر کیا کوئی فوجی جا سکے گا؟ اگر سعودی لباس پہن کر جائے گا تو سردی سے اس کی تو قلفی جم جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے تو ہمارے لیے لباس نازل کیا ہے جو ہمیں موسموں سے بچاتا ہے۔

وَاللَّہُ جَعَلَ لَکُم مِّن بُیُوتِکُمْ سَکَنًا وَجَعَلَ لَکُم مِّن جُلُودِ الْأَنْعَامِ بُیُوتًا تَسْتَخِفُّونَہَا یَوْمَ ظَعْنِکُمْ وَیَوْمَ إِقَامَتِکُمْ ۙ وَمِنْ أَصْوَافِہَا وَأَوْبَارِہَا وَأَشْعَارِہَا أَثَاثًا وَمَتَاعًا إِلَیٰ حِینٍ [۱۶: ۸۰]

’’اللہ نے تمہارے لیے تمہارے گھروں کو جائے سکون بنایا اس نے جانوروں کی کھالوں سے تمہارے لیے ایسے مکان پیدا کیے جنہیں تم سفر اور قیام، دونوں حالتوں میں ہلکا پاتے ہو اُس نے جانوروں کے صوف اور اون اور بالوں سے تمہارے لیے پہننے اور برتنے کی بہت سی چیزیں پیدا کر دیں جو زندگی کی مدت مقر رہ تک تمہارے کام آتی ہیں‘‘ 

وَاللَّہُ جَعَلَ لَکُم مِّمَّا خَلَقَ ظِلَالًا وَجَعَلَ لَکُم مِّنَ الْجِبَالِ أَکْنَانًا وَجَعَلَ لَکُمْ سَرَابِیلَ تَقِیکُمُ الْحَرَّ وَسَرَابِیلَ تَقِیکُم بَأْسَکُمْ ۚ کَذَٰلِکَ یُتِمُّ نِعْمَتَہُ عَلَیْکُمْ لَعَلَّکُمْ تُسْلِمُونَ [۱۶: ۸۱]

’’اس نے اپنی پیدا کی ہوئی بہت سی چیزوں سے تمہارے لیے سائے کا انتظام کیا، پہاڑوں میں تمہارے لیے پناہ گاہیں بنائیں، اور تمہیں ایسی پوشاکیں بخشیں جو تمہیں گرمی سے بچاتی ہیں اور کچھ دوسری پوشاکیں جو آپس کی جنگ میں تمہاری حفاظت کرتی ہیں اس طرح وہ تم پر اپنی نعمتوں کی تکمیل کرتا ہے شاید کہ تم فرماں بردار بنو‘‘

اسلام میں برتری تقویٰ کی بنیاد پر ہے، نہ کہ مخصوص قوم کے لباس کی۔ اور ہم ظاہری لباس سے برتری ظاہر کرنے لگے۔ شلوار قمیض ہندوستان کا علاقائی لباس ہے۔ پینٹ شرٹ یورپ کا لباس ہے۔ ٹائی چینوں کی ایجاد ہے کہ شرٹ کا سب سے اوپری بٹن کو بند کیے بغیر ٹائی کی مدد سے گریبان بند کرنا۔ ان لباسوں کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم لوگ ایک خاص پہچان بنانے کے چکر میں اسلام سے زیادہ کسی مخصوص فرقے کی یونیفارم بنانے کے چکر میں لگے ہوئے ہیں کہ فلاں رنگ کی پگڑی ہو اور اس طرح کا کرتا اور پاجامہ۔

ببلوگرافی

اس کتاب کی تیاری میں جو قرآن کریم کی آیات پیش کی گئی ہیں، اُن پر غور و فکر کرتے ہوئے درج ذیل تفاسیر بھی زیر مطالعہ رہیں۔

 تفسیر ماجدی: از، عبدالماجد دریا آبادی

 اشرف التفاسیر: از، اشرف علی تھانوی

 تدبر القرآن: از، امین احسن اصلاحی

 تفہیم القرآن: از، مولانا مودودی

 بیان للناس: از خواجہ احمد دین

 تفسیر ثنائی: از، مولانا ثنا اللہ امرتسری

 تفسیر مدارک: از عبداللہ بن احمد بن محمود

 جواہر القرآن: از، مولانا حسین علی

میں محمد حنیف بھائی کا مشکور ہوں جن کے ساتھ اس موضوع پر کافی مفید تبادلۂ خیال رہا۔ محمد شعیب بھائی کا بھی شکریہ جنہوں نے اس کتاب کی کمپوزنگ اور ڈیزائنگ میں کافی معاونت کی۔

٭٭٭

https://ur.wikibooks.org/wiki/%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85%DB%8C_%D8%AD%D8%AC%D8%A7%D8%A8

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل


ای پب فائل

کنڈل فائل