FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

سہ ماہی

 

ادب سلسلہ

 

اردو زبان و ادب کا عالمی سلسلہ

کتابی سلسلہ (۲)

جلد :۱                              جولائی تا دسمبر۲۰۱۶                                     شمارہ: ۳

 

حصہ دوم

 

مدیر

محمد سلیم (علیگ)

مدیر اعزازی

تبسم فاطمہ

 

مجلس مشاورت: پروفیسر اصغر علی انصاری، سہیل انجم، ساحر داؤد نگری، محمد عمران، حشمت اللہ عادل، یوسف رانا، مظہر عالم،  ڈاکٹر تنویر فریدی، ڈاکٹر مشتاق خان، ڈاکٹر شمس العارفین، اخلاق احمد، نسیم اللہ خاں، زوبینہ سلیم

E-mail: adabsilsila@gmail.com Contact : 8588840266

 

 

 

 

 

حصہ افسانہ

پالتو

 

عبدالصمد

 

اس کے  اچانک اور قدرے  بے  ہنگم قہقہے  سے  سبھی چونک پڑے  اور اسے  خوف زدہ نظروں  سے  گھورنے  لگے۔ قہقہہ لگانے  والا شرمندہ سا ہو گیا اور معذرت خواہ لہجے  میں بولا۔

’’معاف کرنا۔۔۔  دراصل میرے  ذہن میں اچانک ایک بات آ گئی تھی۔۔۔ ‘‘

وہ رک گیا تو سبھی بے  ساختہ دریافت کر نے  لگے۔

’’کون سی بات۔۔۔ ؟ کون سی بات۔۔۔ ؟‘‘

وہ تھوڑا  جھجک کر بولا۔

’’آسیب کی۔۔۔ آسیب والی بات۔۔۔ ‘‘

’’آسیب۔۔۔ ؟؟؟

وہ سب گویا اچھل پڑے  اور اسے  یوں دیکھنے  لگے  جیسے  اسی میں کوئی آسیب سما گیا ہو۔ وہ مسکرا یا اور دھیرے  سے  بولا۔

’’امکان کی بات ہے۔ آخر ہم لوگ بار بار غور و خوض کے   لئے   بیٹھتے  ہیں اور کسی نتیجے  پر نہیں پہنچتے  تو اس امکان کو بھی نظر انداز نہیں  کیا جا سکتا نا۔۔۔  ‘‘

وہ سب ابھی تک اسے  ان نگاہوں  سے  دیکھ رہے  تھے  جنہوں  نے  اسے  ان کے  سامنے  اچانک ایک مشکوک چیز بنا دیا تھا۔

ان میں  سے  ایک نے  کچھ تیز لہجے  میں دریافت کیا۔

یعنی اب یہ صورت حال ہو گئی کہ ہم بھوت، پریت، آسیب وغیرہ پر یقین کر نے  لگیں۔۔۔ ‘‘

’’یقین کرنے  کو کون کہہ رہا ہے، مگر جب ہم اتنے  دنوں سے  چاروں  طرف نظر یں  دوڑا  دوڑا کے  تھک چکے  تو اس امکان پر بھی  غور کر لینے  میں  نقصان کیا ہے۔۔۔ ؟‘‘

تھوڑی دیر خاموشی طاری رہی، یوں سب کے  چہرے  کے  تاثرات بتا رہے  تھے  کہ اس کی بات انہیں  ہضم نہیں   ہو رہی۔ ان میں سے  ایک  نے  دریافت کیا۔

’’پھر تم اتنی زور سے  ہنسے  کیوں۔۔۔ ؟‘‘

’’جیسے  تم اسے  بے  وقوفی سمجھ رہے  ہو، ویسے  ہی میں  بھی سمجھتا ہوں۔ دراصل میں  اپنی ہی سوچ پر ہنسا تھا، مگر اب مجھے  محسوس ہو رہا ہے  کہ اس طرح سے  ایک دم آنکھیں  موند لینا بھی مناسب نہیں۔۔۔ ‘‘

’’لیکن اس کا مطلب یہ تھوڑی ہے  کہ ہم زمینی حقائق سے  اٹھ کر آسمان میں کچھ ڈھونڈ نے  لگیں۔۔۔  آسمان  میں  بھی نہیں، زمین آسمان کے  درمیان خلا میں۔۔۔ ‘‘

بولنے  والے  کے  الفاظ تو اتنے  سخت نہیں تھے  مگر انداز ایسا تھا کہ سب خاموشی سے  ایک دوسرے  کو تکنے  لگے۔

دراصل یہ گنتی کے  چند لوگ تھے، یوں  یہ لاتعداد نفوس کی نمائندگی کر تے  تھے۔ ادھر کافی عرصے  سے  ان کے  آس پاس جو کچھ ہو رہا تھا، اس پر ان کا فکر مند ہونا واجب تھا۔ مشکل یہ تھی کہ جو کچھ بھی ہو رہا تھا وہ پکڑ میں نہیں آتا تھا، ایسا لگتا تھا جیسے  ہونی انہونی کی کئی انجانی سبیلیں  کھل گئی ہیں اور لگاتار اپنے  کام میں مصروف ہیں۔ انہیں روکنے  کی جتنی تدبیریں   اختیار کی جاتیں یا سوچی جاتیں، وہ سب کی سب الٹی پڑ رہی تھیں، یعنی کوئی  تدبیر بھی ہونی انہونی کو روک نہیں پا رہی تھی۔ ایسے  میں اس طبقے  کا فکر مند ہونا لازم تھا، جو تدبیریں  اختیار کر نے  اور طرح طرح کی سوچ کو بے  لگام کر نے  پر مامور تھا۔ ایک عجیب بات یہ تھی کہ وہ جب بھی سر جوڑ کے  بیٹھتے، درمیان خاموشی کے  وقفے  بہت آتے  اور کبھی کبھی تو اتنے  طویل ہو جاتے  کہ محسوس ہوتا کہ وہ صرف یہاں  خاموش بیٹھنے  اور ایک دوسرے  کا منہ تکنے  کے  لئے  جمع ہوئے  ہیں۔ یوں بھی ان کی باتیں زیادہ تر ادھوری ہی ہوتیں اور کسی نتیجے  پر پہنچنے  کا تو معاملہ ہی نہیں بنتا تھا۔ پھر بھی وہ وقفے  وقفے  سے  بیٹھنے  کے  لئے  مجبور تھے  کہ نہ بیٹھتے  تو پتہ نہیں کون سی نئی ہونی انہونی کا انہیں  سامنا کرنا پڑے۔

طویل ہوتی ہوئی خاموشی کو ایک نے  توڑنے  کی کوشش کی۔

’’اصل مشکل یہ ہے  کہ جب ہم اپنی عقل اور سمجھ کے  مطابق کسی ایک راستے  کو اختیار کر لیتے  ہیں  تو فوراً ہی کوئی انجان ہاتھ ہمیں  کسی نا معلوم راستے  پر اچھال دیتا ہے، اور ہم اپنے  طور پر پھر صفر پر پہنچ جاتے  ہیں۔۔۔ ‘‘

’’کوئی نہ کوئی غلطی ضرور رہ جاتی ہو گی جو ہماری پکڑ میں  نہیں آتی۔ اس میں کس کو  ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔۔۔ ؟‘‘

باتوں کا سلسلہ پھر شروع ہوا۔

’’کمال ہے  کہ ہم لوگ اتنے  وسائل اور انتظام کے  رہتے  ہوئے  بھی اصل مجرم کو پکڑ نہیں پاتے  اور ہر بار ہمیں سب کے  سامنے  شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔۔۔ ‘‘

ایک تاسف بھرا خیال۔۔۔

ایک طنز یہ ہنسی۔۔۔

’’مجھے  توایسا لگتا ہے  کہ اصل مجرم خود ہمارے  اندر ہے  اور شاید ہم اس سے  واقف بھی ہیں، مگر ہمت نہیں ہوتی کہ اس پر ہاتھ ڈال سکیں۔۔۔ ‘‘

’’یہ توا صل بات کو الجھانے  والا خیال ہو گیا۔ ایک ایسا بے  معنی فلسفہ جس کا کبھی کوئی حل نکل ہی نہیں سکتا۔۔۔ ‘‘

قدرے  غصہ بھری آواز۔۔۔

’’ارے  بھائی، میرا مطلب یہ نہیں، دراصل ہم جانی پہچانی را ہوں  پر چلنے  کے  عادی ہو چکے  ہیں، نیا راستہ ہمیں نہیں سوجھتا، جبکہ ہمارے  مبینہ دشمن نئے  نئے  راستوں  سے  خوب واقف ہیں اور یہ بھی جانتے  ہیں  کہ ہم ان کے  راستوں کو اختیار نہیں کریں گے، اس لئے۔۔۔ ‘‘

وضاحت۔۔۔

’’اتنے  بے  شمار لوگوں  میں، جس کے  اُور چھور کا ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا، صحیح جگہ پر نشانہ لگانا  ناممکن ہی  دکھائی دیتا ہے۔۔۔ ‘‘

اعتراف۔۔۔

’’اتنی سائنسی ترقی، اتنی خلائی کامیابی، آسمانوں  کے  اوپر اور پاتال میں پوشیدہ علم سے  واقفیت کا ہم وعدہ کرتے  ہیں، نہیں جانتے  تو بس اپنی قسموں  کا۔۔۔ ‘‘

شکست کی آواز۔۔۔

’’ذرا صاف صاف بولو بھائی، اس وقت ہمارے  ذہنوں پر اتنے  غبار ہیں  کہ اشاروں  میں کچھ سمجھنا تقریباً ناممکن ہے۔۔۔ ‘‘

سرزنش۔۔۔

’’ہم نے  جانوروں، پرندوں، مچھلیوں  اور کیڑے  مکوڑوں  کی قسمیں تو دریافت کر لیں، ان پر طرح طرح کے  ریسرچ کر کے  مطمئن ہو گئے، مگر اپنی قسمیں  نہیں جان سکے، ہم میں  سے  کتنے  ایسے  قابل ہیں  جو انسانوں  کی قسمیں  جاننے  کا دعوی کر سکتے  ہیں۔۔۔ ؟

ایک تیکھا سوال۔۔۔

’’ اس سے  کیا ہو گا۔۔۔ ؟‘‘

تمسخربھرا سوال۔۔۔

’’ اس سے  ہو گا یہ کہ جو کچھ ہو رہا ہے، اس کا رشتہ ہم صحیح ستون سے  باندھ سکیں  گے  اور فضاؤں، ہواؤں  میں جو ہاتھ پیر مار رہے  ہیں، اس سے  بچ جائیں گے۔۔۔ ‘‘

اعتماد۔۔۔

قدرے  خاموشی۔۔۔ طویل خاموشی۔۔۔  پھر۔۔۔

’’مگر ہم جو اپنے  اختیار کردہ راستوں  پر اتنے  آگے  بڑھ چکے  اس کا کیا ہو گا۔۔۔ ؟‘‘

ایک سنجیدہ  سوال۔۔۔

’’اصل بات تو یہی ہے، ہم غلطی پر غلطی کرتے  جاتے  ہیں، ایک طرح سے  اس کا انبار لگا دیتے  ہیں، اس وقت تو ہم بڑے  شیر ہو جاتے  ہیں  مگر کوڑے  کے  اس انبار کو ہاتھ لگانے  سے  بھی ڈرتے  ہیں۔۔۔ ‘‘

تلخ حقیقت۔۔۔

’’لیکن بھیا، یہ بھی تو سوچو، ہمیں  جواب بھی تو دینا پڑتا ہے، فوراً جواب نہ دیں تو طرح طرح کے  الزامات کے  گھیرے  میں آ جاتے  ہیں، اس لئے  اس موقع پر سب سے  پہلے  تو اپنا ہی سر بچانا پڑتا ہے۔۔۔ ‘‘

لاچاری۔۔۔

’’اگر ہم انسانوں  کی قسمیں  جان لیتے  تو شاید ہمیں کچھ کامیابی مل سکتی تھی۔۔۔ ‘‘

حسرت۔۔۔

’’شاید افسوس کر نے  کا موقع بھی ہاتھ سے  نکل گیا۔ اس  کے  لئے  ہمیں نئے  سرے  سے   اپنی بنیادوں کو تلاش کرنا پڑے  گا، اور حالات ہیں کہ سر پر چڑھے  آتے  ہیں، ہمیں تو ہر حال  میں فوری حل ڈھونڈ نا پڑتا ہے، لہٰذا اب کف افسوس ملنے  سے  بہتر ہے  کہ ہم سوچ کی کچھ نئی وادیاں  تلاش کریں۔ ہم بیٹھتے  تو ہیں  مگر کسی  نتیجے  کے  ساتھ نہیں اٹھتے۔۔۔ ‘‘

اظہار حقیقت۔۔۔

’’کبھی کبھی تو مجھے  لگتا ہے  کہ شاید انسان یہ کام انجام ہی نہیں دیتے، ضرور کوئی ایسی قوت ہے  جو۔۔۔

نیا خیال۔۔۔

’’تم تو پھر آسیب والی بات پر لوٹ رہے  ہو، اس سے  اندازہ ہوتا ہے  کہ ہمارے  لا شعور نے  کہیں شکست کو تسلیم کر لیا ہے، صرف اس کا باقاعدہ اعلان باقی ہے۔۔۔ ‘‘

تلخ حقیقت۔۔۔

’’یہ کام دوسرے  جاندار بھی تو انجام دے  سکتے  ہیں۔

چونکانے  والا خیال۔۔۔

’’یعنی۔۔۔ یعنی۔۔۔  یعنی ہم کٹہرے  میں کھڑا کر نے  کے  لئے  انسانوں کے  علاوہ کسی اور جاندار کو تلاش کریں۔۔۔ ؟‘‘

حیرت۔۔۔ حیرت۔۔۔  حیرت۔۔۔

’’کیوں۔۔۔ ؟ اس میں اس قدر حیرت کی بات کیا ہے  ؟

آج تک انسانوں  نے  جو بھی تجربے  کئے  ہیں وہ جانوروں  ہی پر تو کئے  ہیں، جانور احتجاج  نہیں کر سکتے، چپ چاپ تجربے  سہ لیتے  ہیں  اور انسان۔۔۔ ‘‘

حقیقت بیانی۔۔۔

پھر خاموشی ان کے  درمیان چپکے  سے  آ کے  بیٹھ گئی۔ جس شخص نے  جانور کے  نام پر حیرانی کا اظہار کیا تھا، سب کی نگاہیں  بار بار اس پر پڑ رہی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے  اس نے  بند تالے  میں چابی ڈال دی ہو اور اب وہ اندر سے  کچھ خاص بر آمد ہو نے  کے  منتظر ہوں۔ مگر دیر تک کچھ بر آمد نہیں ہوا اور خاموشی بھی طویل ہو گئی تو اچانک جیسے  ان کے  اندر زندگی کی لہر سی دوڑ گئی۔ ایک قدرے  تیز اور خوشیوں سے  بھری آواز نے  سب کو جگا دیا۔

’’ارے  بھائی، تم نے  ایک بڑی روشنی دکھا دی جو ہماری آنکھوں  کے  سامنے  ہوتے  ہوئے  بھی ہم سے  اوجھل تھی۔ ہم اپنی سعی میں ناکام کیوں  ہو رہے  ہیں۔ اس پر تو بڑے  پیمانے  پر غور و خوض کرنا ہو گا۔ فی الحال تو ہمیں اپنی ناکامیوں  کو کس طرح کامیابی میں بدلنا ہے  اور جو حالات ہمارے  سامنے  ہیں، اس سے  تو یہی لگتا ہے  کہ یہ انسان کا کام ہی نہیں، انسانی دماغ ضرور اس کے  پیچھے  ہے  اور انہوں  نے  یقیناً جانوروں  کو استعمال کیا ہے۔ ‘‘

’’مگر یہ نہ بھولو کہ جانوروں  کی تعداد انگنت ہے۔ سب سے  پہلے  تو ہمیں یہ جانکاری  حاصل کرنی ہو گی کہ جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے  کس جانور کی وابستگی ممکن ہو سکتی ہے۔۔۔ ‘‘

ایک سنجیدہ سجھاؤ۔۔۔

’’ اس کام میں اتنی تاخیر ہو جائے  گی کہ ہم مشکلات کی دلدل میں پھنستے  جائیں گے۔ اس لئے  جو سامنے  کے  جانور ہیں، ان ہی پر نشانہ لگا کے  آگے  بڑھیں  تو بہتر ہے۔۔۔ ‘‘

قدرے  خاموشی، لیکن خاموشی برائے  خاموشی نہیں  بلکہ معنی سے  پُر۔۔۔

’’میرا خیال ہے  کہ کتے  اور بلی ایسے  جانور ہیں جو لا تعداد بھی ہیں، پالتو بھی اور ان پر کوئی  روک ٹوک بھی نہیں ہے۔ یہ اندر باہر کہیں بھی جا سکتے  ہیں۔ ‘‘

سامنے  کاراستہ۔۔۔

’’ارے  واہ۔۔۔  تم نے  تو اتنی آسانی سے  راز کھول دیا۔ یقیناً ان تمام ہونی انہونی میں   انہیں  جانوروں  کا استعمال کیا گیا ہے، تبھی تو کوئی واضح سراغ ہمیں ہاتھ نہیں لگتا۔۔۔ ‘‘

اعتراف۔۔۔

’’سب کچھ تو ہوا مگر ان جانوروں  سے  ڈیل کیسے  کرو گے  بھائیو۔۔۔ ؟

تشویش۔۔۔

’’ہم ان جانوروں  کو چن چن کے  پکڑیں گے، اگر انہوں  نے  مزاحمت کی اور ظاہر ہے  کہ کریں گے  ہی تو انہیں مار ڈالیں گے۔ یعنی اپنے  آپ ہی مسئلے  کا حل ہو جائے  گا۔۔۔  ہا۔۔۔ ہا۔۔۔ ہا۔۔۔ ‘‘

پُر جوش عزم۔۔۔

ان میں کچھ لوگ ایسے  بھی تھے  جو ان باتوں سے  پوری طرح متفق نہیں تھے، کچھ تو بالکل ہی متفق نہیں تھے  لیکن فضا میں  جوش و خروش کا غبار اس قدر بھر گیا تھا کہ اس میں کوئی الگ رائے  دینے  کا مطلب تھا اس کے  غبار میں  گم ہو جانا۔ اس لئے  یہ آسانی  سے  مان لیا گیا کہ سب لوگ ان باتوں  سے  متفق ہیں۔

یہ امر واقعہ تھا کہ وہ جس تشفی اور اطمینان  کے  ساتھ وہاں  سے  اٹھے  تھے  وہ دراصل ان کا اپنا تخلیق کردہ تھا، اور یہ اس وقت ثابت ہوا جب وہ اپنے  پروگرام  کے  مطابق عمل کے  میدان  میں داخل ہوئے۔ حالانکہ اس وقفے  میں پھر دو تین واقعات ایسے  ہو گئے  جو ان کی توقعات سے  میل نہیں  کھاتے  تھے، مگر انہوں  نے   واقعات کو اپنی تشفی، اطمینان اور عزم کے  راستے  میں  حائل ہونے  نہیں دیا کہ اب تو ان چیزوں سے  نمٹنے  کے  لئے  وہ نئے  سرے  سے  اپنی کمر کس ہی چکے  تھے۔ ایک بے  حد گھنے  درخت کی اس شاخ میں کسی نے  کچھ باندھ دیا تھا جو پتوں  سے  ڈھکا ہوا تھا اور جب وہ چیز اپنے  وقت پر پھٹی تو جہاں  جہاں درخت کی شاخیں  گریں، آگ لگا گئیں۔ پینے  کے  پانی کے  پائپ میں  پتہ نہیں کس حکمت سے  کرنٹ دوڑا دیا گیا تھا  کہ  جس نے  بھی پانی استعمال کرنا چاہا، کرنٹ کی چپیٹ میں آ گیا۔ زہر سے  بھرے  ہوئے  کچھ بیل ون بچوں  کے  کھیلنے  کے  میدان میں  یوں چھوڑے  گئے  کہ فضا میں بلند ہوتے  ہوئے  پھٹ گئے  اور ان کا زہر فضا میں بھر گیا۔ واضح رہے  کہ ان واقعات کا تعلق بے  زبان جانوروں   سے  ہرگز نہیں تھا، مگر انہیں  اکا دکا  اور چھٹ پٹ واقعات کہہ کے  اپنے  آپ کو بہلا لیا گیا کہ اس موضوع پر وہ ایک فیصلہ کر کے  اٹھے  تھے  اور نئے  سرے  سے  ان  پر غور کر نے  کی گنجائش معدوم تھی۔ گویا معاملہ اب کتے  اور بلیوں   پر آ کے  ٹھہر گیا تھا۔

گلی، کوچے  میں دوڑنے  والے  کتے  بلیوں  کو نہ صرف پکڑنا آسان تھا بلکہ انہیں  مار دینا اور بھی آسان، کہ ان کی طرف سے  کوئی احتجاج کرنے  و الا سرے  سے  موجود ہی نہیں تھا۔ آوارہ جانوروں  کو تحفظ فراہم کرنے  والے  کچھ ادارے  جو اخباروں  میں بہت دنوں سے  سرگرم تھے، وہ بھی کہیں دکھائی نہیں دئے۔ یوں  بھی ان کی نقل و حرکت زمین سے  زیادہ میڈیا میں دکھائی دیتی تھی، مگر اس وقت میڈیا بھی اسی غبار کی لپیٹ میں آ چکا تھا جب فیصلے  کی گھڑی کا جنم ہوا تھا۔ جو شخص بھی کسی ایک کو یا ان کے  جون کے  چند کو مار دیتا  وہ گویا سماج میں ہیرو قرار پاتا۔ خود اسے  بھی تشفی ہوتی کہ اس نے  اپنی قوم اور سماج کی ایک گونہ خدمت انجام دی۔ یہ بات پہلے  ہی واضح کر دی گئی تھی کہ سارے  ضروری کام سر کار پر نہیں  چھوڑے   جا سکتے۔ سرکار کے  پاس صرف یہی ایک کام نہیں رہ گیا، بے  شمار کام اس کے  ذمہ ہیں۔  بس فی الحال یہی کافی تھا کہ اس مہم کو پس پشت سرکار کی خوشنودی حاصل تھی، بلکہ جہاں  جہاں   سرکاری مدد کی ضرورت ہوتی، سر کار اسے  انجام دینے  سے  باز نہیں آتی تھی۔ اصل چیز یہ تھی کہ انہیں سرکار کی پوری پوری حمایت حاصل تھی۔ یہ کوئی ضروری نہیں  تھا کہ سرکار اپنی حمایت  کا باقاعدہ  اعلان ہی کرے۔ سرکار کسی کام میں رکاوٹ نہیں ڈالتی تو اس سے  بڑی حمایت اور کیا ہو سکتی ہے۔

مگر ان تمام مہم کا جائزہ لینے   کے  لئے  مشاورت بیٹھی  تو یہ جان کر سب حیران رہ گئے  کہ یہ جانور کسی نہ کسی کو نے  سے  نکل کر ان کا منہ چڑا ہی دیتے۔

’’اس کا مطلب  ہے  کہ آسیب والی بات کہیں  نہ کہیں  درست ہے ؟‘‘

تشویش۔۔۔

’’بھائی، بار بار ہم آسیب کی بات کر کے  گویا اپنی شکست کا اعتراف کرتے  ہیں۔۔۔ ‘‘

مسترد۔۔۔  یہ آواز اتنی مضبوط تھی کہ جو لوگ آسیب کے  مسئلے  پر کچھ بولنا چاہتے  تھے، وہ بھی چپکے  بیٹھے  رہے۔

’’اصل میں ان کے  چھپنے  اور بھاگنے  کی اتنی جگہیں  ہیں  کہ وہ سب ہماری دسترس میں  کبھی آ بھی نہیں سکتے۔ ہم سامنے  نظر آنے  والوں  ہی پر اپنا نشانہ سادھ سکتے  ہیں نا، جو ہماری نظروں  سے  اوجھل ہیں، ان کے  بارے  میں  ہم کیا کر سکتے  ہیں۔۔۔ ؟‘‘

حقیقت حال۔۔۔

’’مجھے  تو لگتا ہے  کہ زیادہ ہماری نظروں  سے  اوجھل ہی ہیں، اور بہت کم۔۔۔ ‘‘

ایک اندیشہ۔۔۔

’’اس کا مطلب ہے، ہم نے  صحیح راستے  کو پکڑا ہے۔ ان لوگوں  نے  بہت دور اندیشی سے  انہیں  اپنے  مقاصد کے  لئے  استعمال کیا ہے، وہ تو کہئے، ہم صحیح راستے  پر آ گئے  ور نہ عام ذہن تو اس طرف جا بھی نہیں  سکتا تھا۔ انہوں  نے  تو وہ راستہ اختیار کیا تھا کہ سانپ بھی مر جائے  اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔۔۔ ‘‘

امید کی زندہ کرن۔۔۔

’’بھائی، میں  کہتا ہوں، ہمیں  مایوس ہونے  کی ضرورت نہیں، ہم جس کام میں  لگے  ہیں  اس میں دل جمعی سے  لگے  رہیں۔ دنیا کی کوئی مخلوق بھی ایسی نہیں کہ کبھی ختم نہیں ہو سکے۔۔۔ ‘‘

عزم کا اعادہ۔۔۔

’’حشر ارت الارض۔۔۔ ؟‘‘

طنزیہ سوال۔۔۔

’’آپ کو شاید پتہ نہیں  ہے  کہ دنیا کے  بہت سے  علاقوں  میں انہیں  بھی ختم کر دیا گیا ہے، پھر ابھی اپنی مہم میں ہم اس قسم کی باتیں  کیوں ذہن میں لائیں  جو ہمارے  حوصلے  کو پست  کرنے  کا سبب بن جائیں۔۔۔ ‘‘

سرزنش۔۔۔

اس عجیب صورت حال سے  وہ سب خاصے  دل برداشتہ تھے۔ وہ جس مہم میں  لگے  تھے، اس میں انہیں وہ کامیابی حاصل نہیں ہو رہی تھی جس کے  وہ متوقع تھے۔ انہیں  جو بھی کامیابی  یا خوشی حاصل ہوتی، وہ سب کی سب وقتی ثابت ہوتی۔ وقتی طور پر تو وہ بہت خوش ہوتے، ان  کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ بھی نہیں  رہتا، انہیں  محسوس ہوتا جیسے  دنیا ان کے  قدموں  میں آ کر گری ہو۔ مگر یہ تمام خوشیاں  اور جوش و خروش کی ہوا اس وقت  نکل جاتی جب انہیں اطلاع ملتی کہ جانور تو ابھی تک پائے  جا رہے  ہیں۔ یعنی جانور بھی کمال کے  تھے، وہ تو صفحہ ہستی سے  مٹنے  کا نام ہی نہیں لیتے  تھے۔

یہ لوگ غور و خوض کے  لئے  بیٹھنے  ہی پر اکتفا نہیں  کرتے  تھے  بلکہ انہوں  نے  ہر چہار طرف اپنے  کان، دماغ اورسوچ کے  آلوں  کو پھیلا رکھا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ اتنی احتیاط اور اتنی کار روائی  کے  بعد بھی ہونی انہونی کا سلسلہ تو جاری  ہی تھا۔ جب اس میں وقفہ ہوتا تو  وہ سمجھتے   کہ شاید انہیں اپنی مہم میں کامیابی حاصل ہو گئی، کچھ دنوں  تک وہ اپنی کامیابی کا جشن بھی  مناتے،  مگر جیسے  ہی ان کی خوشی کا غبارہ زمین سے  اوپر اٹھتا، اچانک پھر غیر متوقع طور پر انجان  جگہ پر  بالکل دوسرے  انداز میں کوئی ایسا واقعہ سر اٹھاتا جو ان کے  غبارے  کی ہوا کو یوں  نکال  دیتا جیسے  کبھی اس میں  ہوا بھری ہی نہیں گئی ہو۔ ایک طرف پچکا ہوا غبارہ مرے  ہوئے، کچلے  ہوئے  سانپ کی مانند پھینکا ہوتا، دوسری طرف وہ سب کے  سب مردے  کی صورت میں زمین پر بے  وقعت پڑے  نظر آتے۔ کچھ دنوں  کے  بعد ایک انگڑائی کے  ساتھ وہ پھر اٹھ کھڑے  ہوتے۔ دراصل یہ ساری نا کامی، کامیابی، تدبیر، احتیاط، غور و خوض، بار بار اٹھنا بیٹھنا، نشست و برخاست  کے  لا متناہی سلسلے  ان کے  منصب میں شامل  تھے  اور یہ منصب  انہیں  گھر بیٹھے  نہیں  مل گیا تھا، اسے  انہوں  نے  بڑی تگ و دو کے  بعد حاصل کیا تھا۔ بڑی محنت کی تھی اس کے  حصول کے  لئے، بلکہ اس مقصد میں  اپنی جانوں  کی بازی بھی لگا دی تھی۔  اس لئے  صورت حال سے  بیزار ہوکے   بھاگنے  کا تو کوئی سوال ہی نہیں  تھا۔ ان پر جو بھی جھنجھلاہٹ، بیزاری، احساس شکست اور بد دلی پیدا ہوتی وہ سب وقتی ہوتی، کچھ ہی دنوں  کے  بعد قدرے   لوٹ پوٹ کے  بعد  وہ پھر اٹھ کھڑے  ہوتے۔

اس دفعہ جو وہ بیٹھے  تو ایک نئی خبر ان کی گفتگو کا موضوع بنی، جو یوں  تو تھی بہت پرانی، مگر ان کی مہم کے  تناسب میں نئی بن گئی تھی۔

’’ سڑکوں   اور گلیوں  کو صاف کر کے  ہم مطمئن ہو گئے  تھے، مگر جب اتفاق سے  راتوں  کو نکلے  اور فٹ پاتھ پر سونے  والوں  کی طرف  نگاہیں  کیں تو  ایک عجیب نظارہ دکھائی دیا۔۔۔ ‘‘

تجسس۔۔۔

’’یعنی۔۔۔  یعنی۔۔۔ یعنی۔۔۔ ؟‘‘

ایک ہی سوال جو شور بن گیا۔

’’تقریباً  ہر شخص کسی نہ کسی کتے  یا بلی کو دبوچ کر سویا تھا۔ وہ آپس میں  یوں گتھے  ہوئے  تھے  کہ انہیں  ایک دوسرے  سے  الگ کرنا بھی مشکل تھا۔ ‘‘

انکشاف۔۔۔

دبی دبی ہنسی۔۔۔

’’یہ کون سی نئی بات تھی۔ پالتو جانوروں  اور انسانوں کی دوستی تو بہت پرانی ہے۔ دراصل وہ ایک دوسرے  کے  غم خوار ہوتے  ہیں۔ انسان کو اپنی غم خواری کے  لئے  دوسرا انسان نہیں   ملتا اور جانور کو دوسرا جانور۔۔۔ ‘‘

قدرے  تلخ حقیقت بیانی۔۔۔

’’تو مسئلہ کیا ہے۔ ان کی گودوں  سے  ان جانوروں  کو کھینچو اور انہیں پار لگا دو۔۔۔ ‘‘

سیدھی سادی مگر تند رائے۔۔۔

قدرے  ہنسی۔۔۔

’’تم اسے  جتنا آسان سمجھ رہے  ہو، یہ اتنا ہی آسان ہے  کیا؟ ارے  بھائی وہ جان دے  دیں گے  مگر اپنے  پالتوؤں  کو اپنے  سے  الگ نہیں کریں گے۔۔۔ ‘‘

سچی بات۔۔۔

’’ تو دے  دیں  بات یہ ہے  کہ جب ہم قانون پر عمل کر نے  پر کمر بستہ ہوتے  ہیں تو پھر راستے  میں کوئی آئے۔۔۔ ‘‘

اپنی بات پر اٹل۔۔۔

’’فی الحال ہمیں کیا کرنا چاہئے۔۔۔ ؟‘‘

ایک وقفہ  کے  بعد نئے   راستے  کی جستجو۔۔۔

’’میں سمجھتا ہوں  کہ یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں، حکومت میں بہت طاقت ہوتی ہے۔ حکومت اگر لوگوں  کو خواہ مخواہ کی نفسیات  میں  الجھانے  کی کوشش نہ کرے  اور بیکار قسم کی حیل و حجت میں مبتلا نہ ہو پھر بھی اس کے  ارادے  اور عزم ہی میں  اس قدر قوت ہوتی ہے  کہ وہ صرف اپنے  Will Powerہی سے  سارے  مسائل کا چٹکیوں میں حل نکال سکتی ہے  اس لئے  مضبوط  ارادے  کے  ساتھ بیک وقت ان تمام لوگوں  پر ہّلا بول دیا جائے  اور انہیں سنبھلنے  کا رتی برابر موقع نہیں دیا جائے  تو کوئی وجہ نہیں  کہ ہم کامیاب نہ ہوں۔۔۔ ‘‘

راہ نمائی کی تیز روشنی۔۔۔

اس روشنی  نے  کچھ دیر کے  لئے  ہی سہی، سب کا چہرہ منور کر دیا اور ان کی شریانوں  میں  دوڑنے  والے  خون نے  انہیں حوصلہ دیا کہ ناکامی، وہ بھی حکومت کی، یہ تو سوچا بھی نہیں جا سکتا، مگر چند ہی لمحوں  کے  بعد یہ روشنی معدوم ہو نے  لگی۔

’’ان فٹ پاتھ والوں  سے  بھی بڑا مسئلہ ان کا ہے  جو اپنے  بنگلوں، کوٹھیوں، شاندار اپارٹمنٹ اور محلوں   میں رہتے  ہیں۔۔۔ ‘‘

ایک نیا نکتہ۔۔۔

’’وہ کون سے  مسئلے  ہیں۔۔۔ ؟‘‘

بیزاری اور حقارت کی مرکوز نگاہیں۔۔۔

’’ہیں  نا۔۔۔  ان کے  پالتو تو شہزادوں  کی زندگیاں  بسر کرتے  ہیں، وہ انہیں  کس طرح اپنے  آپ سے  الگ کریں گے۔ انہیں سمجھانا تو اور مشکل ہے۔۔۔ ‘‘

نئی حقیقت نگاری۔۔۔

پھر ایک خاموشی، جس کی طوالت بڑھتی گئی۔ لیکن وہ اس طوالت کو اپنے  گلے  کا طوق بنا کے  یہاں سے  اٹھنا نہیں چاہتے  تھے، سو خاموشی کا پر دہ چاک۔۔۔

’’حکومت  پر زور ڈالنا ہو گا کہ وہ دوسرے  طریقوں  میں الجھا کے  ہمارا وقت ضائع نہ کرے  اور سیدھے  سادے  قانون بنا دے  کہ  پالتوؤں  کو رکھنا جرم ہو گا اور جو اس میں  ملوث پایا جائے  گا اسے  قرار واقعی  سزا  ملے  گی۔۔۔ ‘‘

ایک پر عزم آواز۔۔۔

’’فی الحال تو مسئلے  کا یہی حل نظر آتا ہے۔ اس سے  ہمارے  ہاتھ بھی مضبوط ہوں گے  اور ہم گھما کے  ناک چھونے  کی بجائے  سیدھے  سیدھے  چھو سکیں  گے۔۔۔ ‘‘

اتفاق۔۔۔

’’مگر۔۔۔  مجھے  تو یہ بھی اتنا آسان نہیں دکھتا۔۔۔ ‘‘

سوچ کی کوئی حد نہیں۔۔۔

’’اب کیا۔۔۔ ؟‘‘

نگاہوں  کا تیر۔۔۔

’’آپ کیسے  پتہ لگائیں  گے  کہ کس کے  گھر میں کیا چھپا ہے۔ اس کے  لئے  ہر گھر کی تلاشی لینی پڑے  گی۔ اس کے  لئے  ہمیں لاکھوں  کروڑوں  کی تعداد میں  تلاشی کے  وارنٹ جاری کرنا پڑیں گے۔ یہ تو فرد واحد کی حکومت میں بھی ممکن نہیں۔ ہم اس وقت پوزیشن میں  بھی نہیں  کہ اپنے  آپ کو دوسری الجھنوں  میں ڈالیں، اس لئے۔۔۔ ‘‘

اندیشہ ہائے  دور دراز۔۔۔

’’مگر سوال یہ ہے  کہ ہم کیا کریں۔ ہم دو ہرا پیمانہ اختیار نہیں  کر سکتے  نا۔ آخر کہیں  نہ کہیں  ہمیں جواب دہ بھی تو ہونا پڑتا ہے۔۔۔ ‘‘

تلخ حقیقت۔۔۔

کچھ دیر کی خاموشی۔۔۔

’’ہم ایسا کریں  کہ منا دی کرا دیں کہ سارے  لوگ اپنے  پالتوؤں  کو ایک بڑے  گودام میں  جمع کرا دیں، اور پھر اس میں آگ لگا دیں۔ ‘‘

ایک نیا خیال۔۔۔

’’اور وہ پوچھیں  گے  نہیں  کہ ہم جمع کروا کے  کیا کریں گے، کیونکہ اگر آگ لگانے  کی بات  بتا دی جائے  گی تو ایک نئی آگ لگ جائے  گی اور جمع کر نے  کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہو گا۔۔۔ ‘‘

حقیقت بیانی۔۔۔

’’عوام کے  سامنے  بہت سی باتیں گومگو رکھی جاتی ہیں اپنے  سبھی رازوں کو ہم کھول بھی نہیں  سکتے، اس کے  لئے  باقاعدہ حلف اٹھایا جاتا ہے۔ قومی  مفاد میں  بہت سی باتیں  خفیہ رکھی جاتی ہیں۔ ہم کوئی بھی بہانہ بنا دیں گے، پہلے  ان سے  جمع تو کروا لیں۔۔۔ ‘‘

اس کے  بعدداستان کا ایک لق و دق صحرا تھا جس میں دور دور تک کہیں بھی ہری کونپل   دکھائی نہیں  دے  رہی تھی۔ ان لوگوں  کو سمجھانے  بجھانے  بلکہ پھسلانے  میں جواب دہ لوگوں  کو کیا کیا کرتب دکھانے  پڑے، کون کون سی قلابازیاں  کھانی پڑیں، رات کو دن اور دن کو رات ثابت کر نے  کے  لئے  کتنے  پاپڑ بیلنے  پڑے، اس کے  بیان کے  لئے  ایک دفتر چاہئے  تھا۔ جن کے  پالتو ان کی زندگیوں کا حصہ تھے، وہ آدھا  خود کھاتے  آدھا انہیں  کھلاتے، وہ جاڑوں  میں ان کے  جسموں  سے  گرمی حاصل کرتے  اور شیر و شکر ہو کر زندگی گزارتے۔ دراصل انہیں سیاہیوں  اور سفیدیوں میں زیادہ فرق کی جانکاری نہیں تھی، اپنی  لا علمی  کے  باعث وہ بہت سی ایسی باتوں  کو سچ سمجھ لینے  پر مجبور  تھے  جن کا ذکر انہوں نے  مذہبی کتابوں  میں بھی نہیں  پڑھا تھا۔ مگر ان لوگوں  کو جن کے  پالتو قیمتی زنجیروں  میں رکھے  جاتے، جن کے  سامنے  وہ غذائیں   پروسی جاتیں جوان کی دیکھ بھال کر نے  والوں  کو بھی نصیب نہیں تھیں، جن کے  مالکانہ حقوق ان کے  لئے  اسٹیٹس سمبل  تھے، جب پالتوؤں  کا کوئی میلہ لگتا یا قیمتی مقابلے  منعقد کئے  جاتے  تو یہ بڑے  فخر سے  ان میں  شامل ہوتے، انہیں تو قائل کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔ انہوں  نے  اپنی خطابت اور دلائل کے  سارے  جوہر ان پر لٹا دئے، لیکن  ان کے  ہونٹوں  کی جامد مسکراہٹ میں کوئی فرق نہیں آیا۔ وہ ان پر ایک حد تک ہی محنت کر سکتے  تھے۔ چرب زبانی  یا خوابوں  کے  سنہرے  جالوں سے   ان کو رام نہیں کیا جا سکتا تھا کہ ان حربوں  سے  وہ اچھی طرح واقف تھے۔ اصل میں بلاواسطہ  یا بالواسطہ  طور پر وہ بھی اسی  قبیلے  سے  تعلق رکھتے   تھے  جن سے  جواب  دہ لوگ۔ نتیجہ  یہ ہوا کہ  انہوں  نے  یہ تسلیم کر کے  اپنے  قدم آگے  بڑھائے   کہ انہوں  نے  انہیں بھی قائل کر دیا اور وہ بھی اپنے  پالتوؤں  کو جمع کرنے  پر راضی ہو گئے۔ کچھ لوگوں  کو ہوائی قلعے  کی تعمیر پر اعتراض بھی ہوا، مگر انہیں  یہ کہہ کر خاموش کر دیا گیا کہ دنیا کے  کچھ علوم میں  یوں ہی تسلیم کر کے  آگے  بڑھا جاتا ہے، اس وقت عملی طور پر یہی معاملہ درپیش ہے، اس لئے  بڑے  مقصد کے  حصول   کے  لئے  اپنے  دل کو مارنا ہی پڑے  گا۔

آگ لگی تو بہت دور تک پھیلی، پالتوؤں  کی ہڈیوں  کے  جلنے  کی بو فضا میں بہت دیر تک قائم رہی۔ آگ کی لپٹوں میں ایسی گونج تھی کہ ان کے  چیخنے، بلبلانے  اور رونے  کی آوازیں  دب گئیں۔ اس کامیابی  پر وہ لوگ بہت خوش تھے۔ انہوں  نے  جو سوچا اس پر عمل کیا۔  انہیں یقین تھا کہ انہوں  نے  ہونی انہونی کے  سلسلے  پر قابو پا لیا ہے  اور اب  وہ چین کی سانس لے  سکیں گے۔ رات بھر جشن برپا رہا، مگر صبح ان کی آنکھیں  حیرت سے  کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ ملبے  کے  چاروں  طرف پالتو ناچتے  پھر رہے  تھے  اور یہ عقدہ ان کی سمجھ سے  باہر تھا کہ وہ آئے  کہاں  سے۔

٭٭٭

 

 

 

خسارہ

 

سیمیں  کرن

 

سلمان داؤدی جب بمبئی سے  کراچی کے  ائیر پورٹ پہ اترا  تو دِل عجب متضاد سے  رنگوں  میں  بھیگا ہوا تھا۔ یہاں  اس کے  دنیا میں  موجود سب سے  قریبی خونی رشتے  موجودتھے، یہاں  اس کے  ماں  باپ کی ہڈیاں  بھی دفن تھیں  جن کو خاک ہوئے  اِک مدت بیت گئی۔ یہاں اس کا قیمتی بچپن بھی بلکتا تھا۔ اِس شہر کی فضاؤں  میں اس کے  لیے  اِک مانوسیت اور وارفتگی کی بے  ساختگی اور والہانہ پن تھا۔ اٗس نے  اِک گہرا سانس بھرا۔۔۔۔ بمبئی گئے  زمانے  بیت گئے  مگر کراچی جو کشش رکھتا تھا وہ بات بمبئی میں  نہ ملی۔

حالانکہ رشتے  ناطے  اور دوست احباب بھی تھے  اور سائرہ اسحاق بھی وہیں  ملی اسے۔ اٗسکی خوبصورت سیاہ آنکھوں، سیاہ بالوں  اورسفید چاندی جیسے  چہرے  والی سائرہ اسحاق اس کی شریک حیات۔۔۔ اور جیسے  مِلی اٗسی طرح کچھ سال اس کے  ساتھ گزار کر تھوڑی سی علالت کے  بعد اچانک چل بسی، وہ حیران ششدر کھڑا تھا کہ کیا ہوا ؟؟۔۔ سائرہ اسحاق اسے  چھوڑ کر چلی گئی۔ یہ چند خواب جیسے  برس جن کی رفاقتوں  کا کوئی ثمر بھی اٗس کے  آنگن میں  نہ کھِلا تھا اور زندگی اِک تندور جیسے  بیابان کی طرح اٗس پر تنی ہوئی تھی۔۔۔

عورت پھر اس کی زندگی میں  بیوی کی شکل میں  تو نہ آئی، ہاں  بستر میں  ضرور ضرورتاً داخل ہوئیں۔ اپنے  تئیں سائرہ اسحاق سے  وفاداری کے  اس مظاہرے  پہ وہ خوش اور مطمئن تھا، یہ اس کے  مزاج و عادات یا رویے  کی بے  ڈھبی تھی یا پھر حالات کے  دھارے  نے  اس کی ساخت ایسی کر دی تھی کہ نہ تو وہ اپنے  دائرے  میں  بہت جلد کسی کو داخل کر پاتا تھانہ ہو سکتا تھا۔ احساس کمتری تھے  شاید جو برتری میں  ڈھل گئے  تھے  یا پھر عدم تحفظ کا احساس، ہجرتوں  اور دربدری کے  دکھ، جن کے  پیچھے  آج کی نہیں  صدیوں  کی خونچکاں  حکایتیں  چھپی تھیں۔۔۔ وہ ہر سال بمبئی سے  جو دکھنے  میں  کراچی جیسا ہی تھا، مگر یہ کراچی کی کشش تھی یا یہاں  پر بسے  عزیز رشتے  داروں  کی، مگر ہر سال یوم کپور منانے  وہ آتا تھا۔ وہ یوم کپور سے  اِک ہفتہ پہلے  جمعہ کو پہنچتا تھا جب سبات تہوار شروع ہو جاتا، سبات  تہوار، یوم سبت جمعہ کی شام ڈھلنے  سے  شروع ہوتا  اور ہفتے  کو اگلی رات جب آسمان پہ تین ستارے  نظر آنے  لگتے، اِختتام پذیر ہو جاتا۔ سلمان داؤدی کے  ماموں  اور خالہ کے  گھرانے  کچھ قدامت پرست و قدامت پسند لوگ تھے  اور اِن مذہبی روایات کا عقیدت سے  اہتمام کرتے۔ یوم سبت کہ جس میں کام کاج سے  گریز کیا جاتا اور  Malacha کا پورا اہتمام ہوتا اور یوم کپور سے  پہلے  جو یوم ست ہوتا اس کی خاص طور پہ تیاری کی جاتی داؤدی خاندان میں !آگے  پیچھے  تو سبت والوں کی طرح بہت سی راہیں  نکال ہی لی جاتی تھیں !سلمان داؤدی جب ائرپورٹ سے  اترا تو ٹیکسی کا رخ اس نے  میوہ شاہ میں  موجود یہودی قبرستان کی طرف مڑوا دیا۔۔۔ وہ قبرستان جہاں  کراچی میں  شاید پہلا اور آخری شیلوم سینگاک، یہود کی عبادت گاہ، ان کے سجدوں  نمازوں  اور تالمود کی تلاوت کی گواہ، عمارت ہوا کرتی تھی۔۔ جہاں  اس کا ہمنام اس سینگاک کو بنوانے  والا سولومن ڈیوڈ اپنی شریک حیات کے  ہمراہ ابدی نیند سوتا تھا ا اور جہاں  سلمان داؤدی کے  ماں  باپ کی ہڈیاں  بھی دفن تھیں۔ کراچی کے ’’ مسلمان‘‘ ہوتے  ہی خاص طور پر ضیائی مارشل لا کی ظلمت کے  بعد ایسا ’’مسلم ‘‘ہوا کہ غیر مسلموں  کو قبر یں  بھی تنگ پڑنے  لگیں۔

سلمان داؤدی اور اس کے  رشتے  دار خوف کی حالت میں جیتے  اور مرتے  تھے  اور اپنی قبروں  کو بے  نام و نشان چھوڑ دیتے  تھے  شناخت کے  خوف سے !اور جب کسی فرد، قوم، طبقے  سے  اس کی شناخت چھن رہی ہو تو وہ لا شعوری بقا کے  جذبے  سے  اپنی چھوٹی سے  چھوٹی روایت کو سینے  سے  لگا لیتا ہے۔۔۔ یہی سلمان داؤدی کے  خاندان کے ساتھ ہوا تھا۔ جو لوگ یہاں  پاکستان میں  رہ گئے  تھے  وہ اپنی رسوم و روایات سے  سختی سے  چمٹے  ہوئے  تھے  اور آدھا خاندان مارشل لاء کے  دور میں  یہاں  سے  ہجرت کر کے  بمبئی جا بسا تھا اور کچھ لوگوں  نے  بظاہر پارسی مذہب میں پناہ لے  لی تھی!

سلمان داؤدی اِک مخلوط نسل، مخلوط خون جس کی ماں  یہودی تھی اور جس کا باپ صرف اس لئے  مسلمان تھا کہ وہ مسلمان گھر میں  پیدا ہوا تھا۔ وہ اس کی ایرانی النسل ماں  فرح داؤدی کا ایسا اسیر ہوا کہ پھر سب کچھ بھول گیا۔

انکی محبتوں  کے  درمیان کبھی مذہب حائل نہ ہوا تھا۔ اس کی ماں  بے  شک بہت مذہبی عورت تھی اور باپ بس عید کی نماز تک مسلمان تھا، اِسی لیے  ان کے گھر میں  محبت کے  مذہب کی پیروی کی جاتی تھی۔۔۔ اس کی ماں  کو شر پکاتی جس کے  حلال ہونے  پہ اس کے  باپ کو کوئی شک نہیں  تھا۔ وہ تینوں  وقت نماز یا سروس کا اہتمام کرتی، خاص طور پر صبح کی شاخاریت پہ تلمود کی تلاوت اور طویل عبادت، جس میں  توریت اور زبور کی تلاوت بھی شامل ہوتی تو اس کا باپ ہنستا اور کہتا ’’فرح تم ماں  کی یاد دِلاتی ہو وہ بھی فجر کے  وقت یہی کچھ کرتی تھی‘‘ اور اس کی حسین ماں  اپنا چھوٹا سا ناک سکیڑ کر کہتی ’’شاخاریت ہماری فجر ہی تو ہے ‘‘اور کبھی وہ غرور سے  محبت بھرے  ناز سے  کہتی۔

’’تم لوگوں  کی فجر ہماری شاخاریت ہے ‘‘تو اس کا باپ محمد اسماعیل اِس ذومعنی بیان پر ہنسے  چلا جاتا اور کہتا۔

’’مجھے  بخشو بھئی، میں  تو گناہ گار سا، لادین آدمی ہوں، میں  تو سب کو ہی سچا مانتا ہوں  اور شاید کِسی کو بھی پورا سچ نہیں  سمجھتا‘‘

محمد اسماعیل اور فرح داؤدی کا بیٹا سلمان داؤدی جس کا نام فرح نے  بڑی آس اور امید سے  اپنے  باپ کے  نام پہ رکھا تھا اور اسماعیل کو کہا تھا۔

’’اسماعیل تم جب اسے  سکول داخل کروانا تو اِس کے  نام کے  ساتھ سلمان دوؤدی بِن اسماعیل لگا دینا مگر مجھے  اس کا نام اپنے  مرحوم باپ کے  نام پہ رکھنے  کی اجازت دو۔ ‘‘

اور محبت کے  پیامبر اِسماعیل نے  اعلی ظرفی سے  اس کو  اجازت دے  دی تھی، پہ کہہ کر کہ فرح ہماری شاخ پہ کھِلا یہ پھول ہم دونوں  کا ہی ہے، تم جو جی چاہے  اِسے  کہہ کر پکارو۔

اور پھر جب فرح داؤدی مارشل لا کی بربریت کا شکار ہوئی، اسے  بھرے  بازار میں  کوئی ان دیکھی گولی چاٹ گئی تھی تو محمد اسماعیل اسی دِن اصل میں  تو مرگیا تھا لیکن دو سال، بمشکل دو سال وہ اپنی زندہ لاش کو گھسیٹتا پھرا اور اپنی زندگی میں  ہی وہ برملا کہتا تھا ’’مجھے  میری فرح کے  پہلو میں  دفنانا، ہماری دیوار سانجھی ہو، ارے  کیا قبریں  بھی مسلمان یہودی عیسائی ہوتی ہیں ؟تیرے  نام پہ یہ کیا دھندے  کھلے  ہوئے  ہیں مولا؟‘‘ تو دس بارہ سالہ سلمان داؤدی حیرت سے  دیکھتا اور سوچتا تھا کہ اس کے  باپ کو کیا ہو گیا ہے، وہ  بظاہر جوان دکھنے  والا مرد کیوں  اتنی خوفناک باتیں  کرتا ہے  مگر وہ اس وقت یہ نہیں جانتا تھا کہ اس کا باپ جینے  کی امید کھو چکا ہے  اور امید کے  بغیر دو سال بھی جی لینا بہت جی داری تھی۔۔ اِک دن چپکے  سے  وہ آنکھیں  موند گیا، اس کے  باپ کی تدفین یہودی رسم و رواج کے مطابق ہوئی اور یہودی قبرستان میں  اپنی فرح کے  پہلو میں  ہوئی، ہاں  سلمان داؤدی نے  اِک پھولوں  بھری مالا جب باپ کے  کفن پر ڈالی تو اعتراض کسِی نے  بھی نہ کیا کیونکہ وہ تو محمد اسماعیل تھا اور برصغیر کے  بسنے  والے  یہودی بھی اَب اپنے  مُردوں  کے  پاس دوسروں  کی دیکھا دیکھی پھول رکھنے  لگے  تھے۔۔۔ تو سلمان داؤدی کی محبتوں  اور اشکوں  کی حیرت سے  بھیگی پھولوں  کی مالا پہنے  محمد اسماعیل فرح داؤدی کے  پہلو میں  جا سویا۔۔۔

خونی اور ننھیالی رشتوں  کے  باوجود سلمان داؤدی کے  لیے  جیسے  جینے  کا جواز ختم ہو گیا تھا۔ وہ جیسے  اِک اندھی کھائی میں  جا گرا تھا، بس یونہی چپ چاپ بے  سمت جیئے  جا رہا تھا۔ اس کی آنکھ، اندر کی آنکھ اس دن کھلی جب اِک دِن ماموں  اور خالہ بیٹھ کر باتیں  کر رہے  تھے  کہ سلمان داؤدی سولہ برس کا ہونے  کو ہے، اَب دو سال بعد اس کا شناختی کارڈ بنے  گا، یہ وقت ہے  کہ اَب سلمان کو اعتماد میں  لیا جائے  اور  اس کے  مذہب کا فیصلہ ہونا  چاہیے، وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اس کے  ننھیالی خاندان نے  اس کے  والدین کی شادی کو کِس مشکل سے  ہضم کیا تھا، مسلمانوں  سے  اِک تعصب و نفرت صدیوں  سے  منتقل ہوتے  خون میں  ان کے  ساتھ گردش کرتا تھا اور یہ تو محمد اسماعیل خود تھا، اک بہت نرم طبع اور حلیم روح، مذہب  بے  زار شخص تھا، اِنتہائی بے  ضرر اور فرح داؤدی کے  اس کے  ساتھ بے  تحاشا خوش رہنے  کے  باعث اور پھر انھی کے  خاندان میں  رچ بس  جانے  کی وجہ سے  وہ اس کو  گوارا کرنے  لگے  تھے  لیکن اب جب کہ وہ نہیں  تھا تو وہ دِل ہی دِل میں سوچتے  تھے  کہ اِک یہودی ماں  اور مسلمان  باپ کا بیٹا خود کو کیا کہلانا پسند کرے گا۔۔۔ شناختی کارڈ کے  خانے  میں  اپنی کیا شناخت ظاہر کرے  گا، وہ دِل سے  چاہتے  تھے  کہ وہ یہودی کہلایا جائے  وہ انکا خون تھا مگر وہ یہ بھی جانتے  تھے  کہ اِک مسلم ملک میں، اِک پُر تشدد مسلم ملک میں  یہ نا ممکن تھا کہ وہ اپنے  اِس حق کو استعمال کر سکے۔

اُس دِن پہلی بار سلمان داؤدی نے  خود کو کھوجا، وہ اِک نام کی حد تک مسلمان باپ کا بیٹا جس کا ددھیال کے  نام پر دور پار کے  چند رشتے  دار تھے  جو لندن بستے  تھے  اور اس کے  باپ کو کبھی کبھار ملنے  آتے  تھے  تو یہی شکوہ کرتے  تھے  کہ وہ یہودیوں  میں  کیوں  بس گیا، اسے  اِک یہودن کو مسلمان کرنا چاہیے  تھا اور وہ ہنس کر ٹال دیتا، اسے  مسلمان باپ کی مذہب سے  وابستگی صرف عید کی نماز کے  علاوہ کبھی کہیں  نظر نہیں  آئی تھی، اس نے  لاشعوری طور پہ خود کو یہودی ہی سمجھا تھا، یوں  بھی وہ ماں  کے  قریب تھا کیونکہ اس کا باپ بھی ہر وقت اس کی ماں کے  عشق میں  کھویا رہتا، اس کی ماں  کی عبادات یوم سبت کا اہتمام، یوم کپور کا سالانہ روزہ اور خصوصی افطار اور اس تہوار کا خصوصی اہتمام، اس کو  اپنی جڑیں  یہیں  ملتی تھیں۔۔۔۔

اس کی ماں  اِک سچی دیندار عورت تھی اور اس کے  باپ کی محبت نے  اس میں  بہت سے  تعصبات ختم کر دیے  تھے  وہ اسے  پیار سے  بٹھا کر کہتی ’’سلو یہ مسلمان بھی اچھے  لوگ ہیں  ساتوں  قوانین نوح کو مانتے  ہیں، یہ ہدایت یافتہ ہیں اللہ کے  نزدیک‘‘

مگر سلمان داؤدی نے  ماں  کی موت کے  بعد اور پہلے  بھی ننھیال کے  ساتھ زیادہ وقت بتایا تھا اور پھر ماں  کی پر اِسرار موت اس کے  تعصب و نفرت کو ضرب ہی دیتی رہی۔۔۔

وہ مسلمانوں  کو گمراہ اجڈ اور دہشت گرد سمجھتا تھا جو اُس کو اور اس کی ماں  کو اتنی اِجازت بھی نہ دیتے  تھے  کہ وہ اپنا شیلوم تعمیر کر سکیں، اُن کا اپنا سینگاک! اُس کی ماں  یہ خواب اپنے  ساتھ لے کر مر گئی تھی اور اَب یہ خواب اُس کی آنکھوں  میں  جاگتا تھا۔۔۔

اور اُسی سلمان داؤدی کو یہ فیصلہ کرنا تھا کہ وہ مسلمان کہلائے  گا یا یہودی، وہ اپنے  اِس حق کے  لیے  لڑنا چاہتا تھا، اُس کی ماں  اُس کا باپ اِک خالہ دو ماموں  اور بہت سے  دوسرے  عزیز اگر یہودی قبرستان میں  خاک ہوتے  تھے  تو وہ کیوں  خود کو یہودی نہیں  کہہ سکتا تھا؟؟!!

مگر اُس کی نانی اور اکلوتی خالہ کو اُس کی جان بہت عزیز تھی، اُسے  خاندان کے  کچھ رشتہ داروں  کے ساتھ بمبئی بھیج دیا گیا۔۔۔  اُس وقت وہ سترہ برس کا تھا اور اِن چالیس پینتالیس برسوں  میں  جب وہ تقریباً ساٹھ کا ہونے  کو آیا  تھا، بوڑھا ہو گیا تھا لیکن اپنے  تشنہ خواب کے ساتھ جیتے  اُسے  لگتا کہ اُس کی نفرت بالکل جوان اور توانا ہے۔

وہ ہر سال یہودی مہینے  تشری کے  دسویں دِن منعقد ہونے  والے  یوم کپور کو منانے  ستمبر اکتوبر میں  پاکستان کراچی اپنے  ننھیال آتا تھا اور اِس عہد کو دہراتا تھا کہ وہ یہاں  اِک سینگاک تعمیر کر کے  اپنی ماں  کے  لیے  جنت میں  اِک گھر تعمیر کرے  گا۔

وہ اپنی ماں  کی طرح اِک مذہبی آدمی تھا یا شاید مسلمانوں  سے  نفرت نے  اُسے  شدید مذہبی بنا دیا تھا۔ وہ اِس کا تجزیہ نہیں  کر پاتا تھا۔۔۔

پاکستان کے  بعد انڈیا میں  بمبئی جیسے  بڑے  اور مختلف مذاہب اور تہذیبوں  کو رچتے  بستے  دیکھ کر فسادات کی اساس کے  پیچھے  سیاست کو جانچا، بزنس کے  سلسلے  میں  لندن پیرس جانے  کا اتفاق ہُوا، مشاہدہ و نظر و وسیع ہوا تو کبھی کبھار اِک موازنہ اور تقابل اپنے  اندر ہی کھل جاتا، وہ سوچنے  لگتا۔

’’ہم یہودی مسلمان مردوں  کی طرح تھوڑے  کٹے  ہوئے، یوم سبت منانے  والے، دِن کی تین شاخاریت شماع اور آمیدہ کی نمازیں  ادا کرنے  والے  جن کو اگر دس اِفراد کی جماعت میں  پڑھیں  تو زیادہ

افضل، حلال گوشت کھانے  والے  اور سؤر کو حرام جاننے  والے، یوم کپور، کفارے  اور مفاہمتی کا دِن، توبہ کا دِن، با جماعت خدا سے  معافی مانگنے  کا دِن، کا روزہ رکھنے  والے  ہم یہودی، اِن مسلمانوں  سے  جو جمعہ کی نماز اور جمعہ کے  روز ملاکاہ کرتے  ہیں، پانچ نمازیں  پڑھتے  ہیں ذبیحہ کھاتے  ہیں  روزے  رکھتے  ہیں  اور اپنی عید پہ  ﷲ کو راضی کرنے  کو قربانی کرتے  ہیں، ہم اِک دوسرے  سے  کتنے  قریب اور ملتے  جلتے  ہیں  پھر اِک دوسرے  سے  کیوں  اتنی نفرت کرتے  ہیں ؟!

مگر یہ سوچ بس کچھ پل کی لمحاتی ہوتی پھر اِس پر نفرت و کدورت پوری شدت سے  حاوی ہو جاتی!

وہ اِس نفرت کے  سفر کا تو شاید کبھی کبھار تجزیہ کرنے  بیٹھ جاتا تھا مگر وہ اِن اِشتراکات پہ کبھی غور نہیں  کرتا تھا کہ جب وہ یوم کپور کا روزہ افطار کرنے  اپنے  اہل و عیال کے ساتھ بیٹھتا تھا تو میز پر سموسہ کچوری نہ مسلمان تھی اور نہ یہودی، دلہن کا لال جوڑا بھی بے  مذہب تھا اور سفید کفن بھی۔۔۔۔

اُس کو پاکستان آئے  پانچ چھ روز ہو چکے  تھے  جب جاوید مسیح نے  ہچکچاتے  ہوئے  اُسے  روکا، اُن کے  گھر کے  تمام ملازمین عیسائی تھے، جاوید مسیح گھر کے  تمام امور کا انچارج بھی تھا اور ڈرائیور بھی!

سلمان نے  اُس سے  پوچھا اور ہمت بندھاتے  بولا

’’بولو جاوید کیا کہنا ہے ‘‘

وہ کچھ تذبذب میں  بولا

’’صاحب کچھ رقم ایڈوانس میں  چاہیے، آپ بیگم صاحبہ سے  سفارش کر دیں  یا پھر آپ گاڈ کے  نام پہ دے  دو صاحب!‘‘ سلمان کے  استفسار پہ اُس نے  بتایا کہ دس ہزار چاہیے، وہ حیرت سے  بولا ’’جاوید خیریت اتنی رقم کی اچانک کیوں  ضرورت پڑ گئی جبکہ کچھ روز ہی قبل تم نے  تنخواہ بھی لی ہے  اور گھر میں  بھی تم بتا رہے  تھے  سب خیریت ہے۔ ‘‘

جاوید پھر کچھ اٹکا پھر بولا ’’جی جی صاحب سب خیریت ہے  مگر پچھلے  سال بڑی بیٹی کی شادی کی تھی خیر سے  بہت اچھے  گھر گئی ہے، دوبئی میں  ہوتی ہے  اِس دفعہ کرسمس پہ اُس کی پہلی عید جائے  گی میری بیوی چاہتی ہے  کہ اُس کے اِک دو اچھے  سوٹ آرڈر پہ دے  دے  بننے  کو، صاحب غریب آدمی تو دو تین مہینے  پہلے  ہی سوچے  گا نہ خرچے  کے  بارے  میں، کچھ اِس مہینے  کر لیں  گے  کچھ اگلے  مہینے، پھر خیر سے  اُس کے ہاں  خوش خبری بھی ہے  تو کچھ بچے  کو بھی دینا دلانا صاحب، تو خرچہ بہت ہے   صاب۔

سلمان نے  خاموشی سے  اُس کی بات سُنی اور جواب دیا ’’اچھا کچھ کرتے  ہیں جاؤ میرے  لیے  ایک ڈرنک بنا کر لاؤ‘‘

جب وہ کمرے  سے  باہر نِکلا تو سلمان داؤدی نے  نفرت اور بے  زاری سے  اِک ہنکارا بھرا اور بڑبڑایا۔

’’ہونہہ بنی اسرائیل کی گمراہ بھیڑیں ‘‘

جاوید مسیح نے  جاتے  جاتے  یہ بڑبڑاہٹ سُن لی تھی۔۔۔ اِس بڑبڑاہٹ میں  جو نفرت اور حقارت تھی وہ اُس کے ہر احساس کو چھیلتی تھی۔ وہ اپنی ڈیوٹی جو کہ آج مصروفیت کے  باعث رات کی بھی تھی، اِتوار کی صبح گھر پہنچا تو تھکن اور بے  زاری سے  اُس کا برا حال تھا، اس کی بیوی شبہیہ مسیح کے  سامنے  کارنس پہ کینڈل جلائے  دعا پڑھ رہی تھی۔

’’اے  مقدس باپ ہمارے، تیرا نام پاک ہے  تو بادشاہ ہے، ہمیں  آج کی روٹی دے  دے، زمین آسمان پہ تیری مرضی ہے، ہمیں  برائی سے  بچا، تو جلال والا بادشاہ ہے ‘‘

بیوی کی دعا نے  اُس آگ کو اِک دم تازہ کر دیا وہ بھی برابر کھڑا ہو کر لاشعوری طور پہ  دُعا دہرانے  لگا ورنہ مذہب اُس کے لیے  کرسمس اور کبھی کبھار چرچ میں عشائے  ربانی کی دعا تک مختص تھا۔

وہ بیٹھا اِسی کھولن میں  تھا ’’یہ سلمان داؤدی یہ سالا۔۔ اُس نے  موٹی سی گالی بکی، یہ ہمیں  بنی اسرائیل کی گمراہ بھیڑیں  کہتا ہے  ہم مسیح کے  ماننے  والے  وہ خداوند جو سوُلی پر چڑھ کر ہمارا کفارہ دے  گیا اور یہ مسیح کے  قاتل۔۔ یہ سب کبھی نہیں  بخشے  جائیں  گے  یہ سب جہنمی ہیں۔۔۔

اور دور بیٹھی اُس کی بیوی سوچتی تھی کہ جاوید جانے  کیوں  پریشان ہے  شاید پیسے  نہیں  ملے، آج چرچ سے  سسٹرز اور پادری کو بُلایا ہے، کچھ پڑوس کی عورتیں  بھی آ جائیں  گی کھیر پکا کر اِجتماعی دُعا کرواؤں  گی اور وہ مقدس باپ ہم غریبوں  کی سنے  گا۔

جاوید کچھ دیر کو لیٹ گیا مگر جانے  کیوں  آج چین نہیں  مِل رہا تھا۔ وہ شراب کی بوتل کھول کر بیٹھ گیا دو تین پیگ پی لینے  کے  بعد وہ سُرور میں آ گیا۔ اِس ملک میں  یہ اقلیت سماجی طور پہ تو معدوم و مدغم ہو رہی تھی مگر یہاں  غریب جاوید کو بھی پرمٹ کی نعمت کی بدولت عمدہ شراب نصیب ہو جاتی تھی آج بھی میوہ منڈی کا سیٹھ محمد خالد آنے  والا تھا جو اُس سے  منہ مانگی قیمت پر بڑھیا شراب خرید لیتا تھا بلکہ کسی وقت ترنگ میں اور خوش ہو کر اُس کو اِتنے  پیسے  دے  دیتا تھا کہ وہ اپنے  لیے  بھی اچھی بوتل کھولنے  کی عیاشی کر لیتا تھا ورنہ رقم کمانے  کا یہ بھی اِک معقول ذریعہ تھا وہ اپنے  لیے  کوئی گھٹیا قسم یا سستی بیئر سے  بھی گزارا کر لیتا، غیر قانونی دیسی شراب بھی مِل جاتی مگر بڑھیا عمدہ کے  خریدار اُس کو مالا مال کر دیتے۔۔۔

سیٹھ خالد کی گاڑی جب اُس کے دروازے  پہ رُکی تو چرچ سے  آئے  لوگ اور پڑوس کی کالی اور گہرے  سانولے  رنگ کی عورتیں  سروں  پر شوخ رنگوں  کے  دوپٹے  اوڑھے  باہر نِکل رہی تھیں۔۔

وہ خالد سیٹھ کو دیکھ کر حیران ہُوا کیونکہ وہ خود بہت کم آتا تھا عموماً اُس کا ڈرائیور آ کر پیک کیا بیگ لے  جاتا تھا۔ وہ آگے  بڑھ کر سیٹھ کو سلام کرتے  ہوئے  بولا ’’سیٹھ آج خود؟

بیگ تیار ہے ‘‘

سیٹھ محمد خالد بولا ’’خیر تو ہے  جاوید، یہ گھر میں  رش کیسا ہے ‘‘ جاوید کچھ عاجزی سے  بولا

’’کچھ نہیں  سیٹھ میری بیوی نے  گھر میں  دُعا کروائی ہے  کھیر پکا کر‘‘

سیٹھ حیرت سے  منہ کھولے  اُسے  دیکھتا رہا پھر اپنے  تھل تھل کرتے  بے  ہنگم و جود سے  پاگلوں  کی طرح ہنسنے  لگا اِس ہنسی میں  طنز تمسخر اور حقارت تھی۔۔۔ ہنستے  ہنستے  اُس کی آنکھوں  میں  آنسو آ گئے  اور وہ پھر اُسی طرح ہنسنے  لگا۔

’’او تم، تم لوگ۔۔ دعا۔۔۔۔ اچھا شاوا بھئی شاوا‘‘

جاوید کو یہ ہنسی اُسی بڑبڑاہٹ کی طرح اِک طمانچہ لگی جو سیدھا اُس کی روح پہ جا لگا۔ سیٹھ اپنا سامان لے کر چلا گیا۔

وہ اندر واپس آ کر دوبارہ اُسی درجہ حرارت میں  کھولنے  لگا، اُس نے  بے  قراری میں  اِک پیگ اور تیار کیا۔

’’سالا یہ سیٹھ خنزیر کی اولاد، ہمیں  جانے  کیا سمجھتا ہے ؟یہ مسلم ہمیں  چوڑے  عیسائی کہہ کر بُلانے  والے  جوجو گاڈ معاف کرے، مسیح کو اس کا بیٹا نہیں  مانتے  اور شراب کو حرام سمجھ کر بھی سیٹھ پانی کی جگہ اِسے  پیتا ہے، جہنمی ہیں  یہ سارے، سیدھے  آگ میں  جائیں  گے۔۔۔ ‘‘

اور سیٹھ محمد خالد بوتلیں  لے کر سیدھا میوہ منڈی میں  اپنے  گودام اور ملحقہ ریسٹ روم پہنچا، بہت بڑے  گودام کے ساتھ پُر تعیش ریسٹ روم تھا جہاں  ہر طرح کا عیش میسر تھا، اِس گودام میں  گرتے  ریٹوں  میں  مال ذخیرہ کر لیا جاتا اور تیزی کے  دِنوں  میں  نکالا جاتا، مصنوعی تیزی پید ا کرنے  والے  لوگوں  میں  اِک نام سیٹھ خالد کا بھی تھا۔۔۔

سیٹھ خالد ریسٹ روم میں  بیٹھا پیگ کی چسکیاں  لے  رہا تھا، اُس کی نگاہوں  کے  سامنے  جاوید مسیح کے  گھر کا منظر گھوم گیا، پادری کے  ہمراہ ننز اور محلے  کی گہری رنگت والی شوخ چیزوں  والی عورتیں، وہ دوبارہ ہنستا چلا گیا۔ جانے  ہنستا تھا یا خود کو تسلی دیتا تھا؟!۱۱۱

’’یہ شودروں  کی نسل، یہ چوڑے  یہ عیسائی، ہماری برابری میں  گھر میں  دعا کروانے  لگے، یہ حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا کہنے  والے  مشرک کبھی نہیں  بخشے  جائیں  گے، میں  شراب پیتا ہوں  لاکھ گناہ گار سہی، مگر ہوں  تو کلمہ گو، اُمتی ہوں  ہر سال حج کر کے  آتا ہوں  اس کا اور میرا کیا مقابلہ ‘‘!

اور اِن نفوس کی اِن صداؤں  سے  اُوپر، زمیں  آسمان کو گھیرتی پھیلتے  سناٹوں  میں  اِک قُدسی آواز کہتی تھی ’’بے  شک اِنسان خسارے  میں  ہے ‘‘۔۔۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

دستخط

 

رابعہ الرَباّء

 

وہ نشے  میں  دھت مسلسل  رم پیے  جا رہا تھا۔ پار ٹی ختم ہو چکی تھی۔ سب رقص و سرور سے  مد ہوش جا چکے  تھے۔ ا یک وہ اور ا یک لڑکا جو اس کا سا تھ دے  رہا تھا۔۔۔ وہ خود تو ریڈ بئیر تک محدود تھا اور بہت کم لے  رہا تھا مگر اپنے  باس کا ساتھ زر خرید غلام کی طر ح سے  دے رہا تھا۔

بس ا یک بار۔۔۔

ایک با ر۔۔۔

وہ مجھے  مل جائے  تو۔۔۔

کسی بھی قیمت پر۔۔۔

ایک بار۔۔۔، بس ایک بار۔۔۔ کسی بھی قیمت پر۔۔۔

تو زندگی میں  لو ٹ۔۔۔ لوٹ آؤں  گا۔۔۔

کسی بھی قیمت پر۔۔۔

وہ نشے  کی حا لت میں  بس یہی الفاظ دہرائے  جا رہا تھا۔ اس لڑکے  کو سمجھ آ گیا کہ اس شریف باس کی اس کمزوری سے  بہتر اب کوئی اور  شے نہیں۔ وہ اسے  سنتا رہا۔۔۔ سمجھتا رہا۔۔۔ باس کو تسلی دیتا رہا۔

سر جی۔۔۔ ’’ چھوڑیے،  ایسی تو آتی جاتی رہتی ہیں۔۔۔‘‘

چھوڑئے  سر۔۔۔‘‘

’’حکم کر یں  تو دنیا کی سب سے  حسین ہاٹ گرل آپ کے  قدموں  میں  لے  آؤں، ایک دفعہ حکم تو کریں۔۔۔‘‘

اس کے  لہجے  میں  اتنا اعتبار تھا جیسے  وہ مس یونیورس کو بھی اپنے  باس کے  قدموں  کی  خاک بنا سکتا ہو۔

’’نہیں  کے  جے  نہیں  یار۔۔۔

بس، وہ۔۔ تجھے  پتا نہیں۔۔۔

وہ کیا چیز ہے۔۔۔

اپنا دل، پہلی بار دھڑکا ہے  کے  جے۔۔۔

وہ بھی عمر کے  اس حصے  میں۔۔۔ جب لو گوں  کو دل کے  دورے۔۔ دورے  پڑتے  ہیں۔۔۔

اپنا دل دھڑکا ہے۔۔۔

اس میں سورج جیسی گرمی ہے  اور چاند سی ٹھنڈک۔۔۔ کے  جے  وہ نا قا بل بیان سراپا ہے۔۔۔ نا قا بل بیان۔۔۔ اس میں  سے  جیسے  کوئی لہریں  اٹھتی ہیں  اور سامنے  والوں  کو۔۔۔ اپنی لپیٹ میں  لے۔۔۔ لے  لیتی ہیں۔ یہ وصف، تمہیں  پتا ہے، کن کو ودیعت ہوتا ہے۔۔۔۔ ؟چھوڑو۔۔۔ کے  جے۔۔۔ دل دھڑکا ہے۔۔۔ یار

وہ سمجھ گیا کہ باس سچ میں اب باس وہ نہیں رہا، کچھ ہوا ضرور ہے۔ کہیں  کوئی زلزلہ آیا ہے۔ کوئی بڑا جغرافیائی، سمندروں  کو ہلا دینے  والا طوفان آیا ہے  جو اپنے  اثرات بہت گہرے  چھوڑ گیا ہے۔ اس کے  اندر اک ہلچل سی ہوئی آخر ہے  کو ن؟ جس کو ہر قیمت پر پا نے  کے  لیے۔۔۔

باس کی یہ حالت تو میں  نے  تب بھی نہیں دیکھی تھی جب انہوں  نے  اپنی بیوی کو طلاق دی تھی۔ اور بچے  چھوڑے  تھے۔ اپنی ماں  کے  بعد اگر انہیں  محبت تھی تو وہ اپنے  بچوں  سے  تھی۔ مگر بچوں  کو محبت اپنی ماں  سے  تھی۔ لہذا وہ پیسوں  کی مشین بنا رہا۔ اسٹیٹس ( Status)کا بت، گریڈ ٹونٹی ون کا آفیسر۔ جس پہ معاشرہ رشک کرتا ہے۔

اسے  یہ سب سوچتے  سوچتے، پیتے  پیتے  پھر اپنا گریڈ یاد آنے  لگا۔ صر ف نائینٹین پلس۔۔۔ اس کی رکاوٹ بھی تو یہی باس تھا۔ یہی اس کا یار، شریف باس، ایک فائل کے  سائین ہی کی تو بات ہے۔۔۔

اس کا دھیان پھر اس لڑکی کی طر ف چلا گیا

کون ہو سکتی ہے  وہ پری وش؟

میں  بھی تو اس شہر کی ہر پارٹی میں  جاتا ہوں  تو پھر کیوں   نہیں  جانتا۔۔۔ ؟

میری نظروں  سے  کیوں  نہیں  گز ری؟

اس کے  باس نے  گلاس میز پر رکھنا چاہا تو اچانک وہ گر کر ٹوٹ گیا۔ اس نے  خاموشی سے  باس کی طرف گہری نظروں  سے دیکھا۔ اسے  ان پر رحم آنے  لگا۔

سر چلتے  ہیں ؟

چلو۔۔۔ لے  چلو جہاں  چاہو۔۔۔

اس نے  انہیں  سہارا دیا اور ہوٹل سے  باہر لے  گیا۔ ڈرائیور کو فون کیا وہ پارکنگ سے  گاڑی پاس لے  آیا۔ دونوں  پچھلی سیٹ پر بیٹھے۔ وہ باس کو اپنے  گیسٹ ہوم (Guest Home) میں  لے  گیا۔ اس نے  انہیں  کمرے  تک پہنچایا۔

وہ اسے  بھولنے  کے  لیے  ابھی اور پینا چاہ رہا تھا مگر حا لت اب ایک گھونٹ کی اجازت بھی نہیں دے رہی تھی۔

کے  جے  نے  ہمت کی اور پو چھ ہی لیا سر وہ ہے  کو ن؟

’’ہے  یا ر۔۔۔ ایک سنجیدہ لڑکی۔۔ گولڈ میڈل دینے  گیا تھا اس کو۔۔۔

سنجیدہ ہے، اپنے  آپ میں رہنے  والی۔ اپنے  گھر میں رہنے  والی، گھر کی اونچی چار دیواری کے  بیچ۔۔

ہے  یار۔۔۔ وہ ہے۔۔۔

مگر نہیں  ہے۔۔۔‘‘

سر وہ کر تی کیا ہے ؟کہاں  ملے  گی؟

ارے  یار نہیں  معلوم، کچھ نہیں  معلوم۔۔ نہیں۔۔۔

میری گاڑی میں  ایک رسالہ پڑا ہے

ایک رسالہ۔۔۔

وہ دیکھ۔۔۔ لو۔۔۔

ظالم اپنے  ملک کے  لیے  لکھتی بھی نہیں‘‘

’’سر اپنے  ملک میں  کوئی پڑھتا بھی تو نہیں‘‘ وہ دھیرے  سے  بڑبڑا یا

اس نے  باس کے  ڈرائیور کو فون کیا۔ وہ کچھ دیر میں  گھر پہنچ چکا تھا۔ کے  جے  نے  اپنے  ملا زم کو باس کی گاڑی سے رسالہ لا نے  کو کہا۔

اتنی دیر میں  وہ اپنے  وزٹنگ کارڈ کو غور سے دیکھتا رہا، کامران جواد۔۔ مگر باس ہمیشہ کے  جے  ہی کہتا تھا۔ وہ مسکرا یا۔۔۔ باس بستر پر دراز ہو چکا تھا۔

اس نے رسالہ غور سے دیکھا، اسے  کوئی لڑکی سمجھ نا آئی، وہاں  تو آدھے  آرٹیکل لڑکیوں  کے  تھے  اور سب ہی اسے  حسین لگ رہی تھیں  کیونکہ اس کا ذاتی خیال بھی یہی تھا کہ عورت بد صورت نہیں  ہو تی بس کچھ زیادہ حسین ہو تی ہیں  کچھ کم۔۔۔

یہاں  بھی اسے  یہی معمہ نظر آیا

اس نے  باس کی طرف دیکھا

’’سر کو نسا آرٹیکل؟

وہ جو مشرقی و مغربی تہذیب پر ہے

اس نے  پھر سے  رسالہ کھو لاتو وہی صفحہ اس کے  سامنے  تھا

’’اوہ‘‘

اوہ لڑکی تو سچ میں  حسین ہے  مگر گھر یلو نہیں  لگتی، باس کو چکمہ دے  گئی ہے۔۔ وہ یہ سوچ کر مسکرانے  لگا

جوان ہے  حسین ہے۔۔۔ ہاٹ مین چاہتی ہو گی

اسے  اپنی جوانی پہ مان ہو نے  لگا۔ اس نے  و ہاں سے  اس کا ای میل آئی ڈی اپنے  موبائیل میں  نو ٹ کر لیا۔ لڑکی کی تصویر میں  ایک غرور حسن بھی تھا۔ جو اسے  بھا گیا۔ وہ عورت کو تب تک عورت سمجھتا تھا جب تک کہ اس کے  غرور کو توڑ نہ دے۔ اس کے  بعد کوئی عورت اس کے  قا بل نہیں رہتی۔

’’یک نا شُد، دو شُد‘‘

وہ زیر لب مسکرا یا۔ باس نیم غنود گی کے  عالم میں  وقفے  وقفے  سے  و ہی جملے دہرا رہا تھا۔ اس نے  باس پہ ایک ہمدردانہ نظر ڈالی۔ اُٹھا اور ایک سائیڈ لیمپ جلا دیا۔ باقی کی تمام روشنیاں  گل کر دیں  اور آہستگی سے  کمرے  سے  باہر نکل آیا۔ با ہر کھڑے  ملا زم کو آنکھوں  کے  اشارے  سے  سمجھایا کہ صاحب کا خیال رکھنا اور رسالہ اٹھائے  باہر نکل گیا۔ اسے دیکھتے  ہی ڈرائیور نے  گاڑی سٹارٹ کی۔ وہ بے  نیازی سے، سوچوں  میں  گم پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔

’’گھر چلو‘‘

بس اس نے  انہی دو الفا ظ کا سہارا لیا۔ سارے رستے  اُسے  لڑکی کے  حسن کا غرور دکھائی دیتا ر ہا، جو اس کا اصل حسن تھا۔ حسن بھی کیا شے  ہے، غرور کے  بنا سجتی ہی نہیں، ٹوٹے  بنا بنتی بھی نہیں۔

عجب فلسفے  اس کے  اندر گردش کرتے رہے۔ کہ اسے  پتا ہی نہیں  چلا کب گھر آ گیا اور گھر کا دروازہ بھی کھل گیا، گاڑی گیراج میں  بھی پہنچ گئی

’’صاحب جی۔۔‘‘

ڈرائیور کی آواز نے  اسے  چونکایا ’’ہوں‘‘

’’اوہ‘‘۔۔۔ ’’اچھا‘‘ یار تم بھی کمال کے  انسان ہو، بس اسی لیے  مجھے  اچھے  لگتے  ہو‘‘

وہ اس کا دل رکھتے  ہوئے  گاڑی سے  اتر گیا۔ اور اندر گیا۔ اپنے  کمرے  کی طر ف بڑھا۔ نیم تاریکی تھی۔ گویا بیوی سو چکی تھی۔ آج تو اسے  کلب بھی جانا تھا۔ تھک گئی ہو گی۔ وہ یہ سوچتے  ہوئے  ڈرسنگ روم کی طر ف بڑھ گیا۔ کپڑے  اتارے  اور نہا نے  چلا گیا۔ اب نائیٹ سوٹ میں  وہ خود کو آزاد پنچھی محسوس کر رہا تھا۔ اپنے  قد کے  برا بر آئینے  کے  سا منے  کھڑے  اس نے  اپنے  بالوں  میں  ہا تھ پھیرنا چاہا۔ مگر وقت کا سفر کافی سفر ہو چکا تھا۔ اب ان ریشمی گھنے  با لوں  کی جگہ ریشم کے  چند تار رہ گئے  تھے۔ وہ مسکرایا، اپنا موبائیل اٹھا یا اور سٹڈی روم چلا گیا۔

لیپ ٹاپ آن کیا اس پری وش کو ایک روایتی تعریفی ای میل کیا۔ اسے  یقین تھا کہ اس کے  لفظوں  کا جادو چلے  گا کیونکہ وہ اس کی تحریر پڑھ کر سمجھ چکا تھا کہ وہ ملائم اور ریشمی زبان کی رسیا، کسی خیالی پرستان کی دیوی ہے۔

آج وہ بہت تھکن محسوس کر رہا تھا۔ مسلسل کوششیں نا کام ہو رہی تھیں۔ اس ناکامی نے  اسے  تھکن سے  چور کر دیا تھا۔ بس ایک دستخط کی دیر تھی۔ مگر بس یہی یار باس اس کو بے  ایمانی سمجھ رہا تھا۔

وہ کمرے  میں اور  لیٹتے  ہی سو گیا۔ بوجھ تو وہ شا ید پری وش کی ای میل میں  ا تار آیا تھا۔ محبت کے  لفظ، محبت کے  جذبے  بھی تو کبھی بانجھ بن جاتے  ہیں۔ انہیں  بھی کبھی کوئی کاندھا چاہئے  ہوتا ہے۔ کوئی خالی کاندھا۔۔۔

صبح دفتر کے  کام دھندوں۔ سہ  پہر کلب میں  میٹنگ تھی۔ ادھر چلا گیا۔ ابھی وہ کچھ لمحے  کسی سے  ملنا نہیں  چاہ را تھا۔ سر دی کی سنہری دھوپ میں  با ہر کسی درخت کے  نیچے  سجی میز کرسیوں  کی طر ف بڑھ گیا۔ اپنا ٹیب نکالا اور ای میل چیک کر نے  لگا۔ پری وش کا شکریہ کے  پھولوں  سے  بھرا ای میل آیا ہوا تھا۔ وہ سمجھ گیا با ت بن گئی۔ وہ مسکرایا۔ اور  اس کو جوا بی بہار ر نگ ای میل کر دیا۔ اس نے  اب اپنا موبائیل نمبر، اپنے  عہدے  کے  ساتھ ایک اضافی سرکا ری ذمے داری کا  اعزازیہ بھی رقم کر دیا۔ جس کے  مطابق وہ خواتین کے  حقوق کا پاسبان بھی مقرر تھا۔

با ت میل سے  فون تک آ گئی۔ وہ عورت کو عزت دینا جانتا تھا۔ اس کی عزت بھی کرتا تھا۔ اور یہ بھی جانتا تھا کہ عورت کو محبت کے  جال سے  پہلے  عزت کے  جال میں  پھانستے  ہیں۔ عورت جتنی مظلوم ہو گی اتنا جلد عز ت کے  سنہری جال میں  آ جائے  گی۔ وہ عز ت ہی کی تو پیاسی ہوتی ہے۔ اس سے  اس کا اعتبار بحال ہو جائے  تو محبت کا جال اس کے  بعد پھینکا جاتا ہے۔ اور پھر جال خود بخود کٹ پھٹ جاتا ہے۔

کے   جے  نے  اسے  اپنی با توں، اپنے  لفظوں، اپنے  لہجے  سے  ایسے  ایسے  شاہی لباس پہنائے  کہ وہ خود بخود محبت کی ڈ وری میں  بندھتی چلی گئی۔

زمینداروں  کے  مذہبی روایتی رواجوں  کی پا بند سلجھی، پڑھی لکھی حسینہ جو  محافظوں  بنا گھر سے  نکل بھی نہیں  سکتی تھی۔ اس سے  ملنے  ایک  بار ملنے  کا وعدہ کر بیٹھی۔ اور آخر ٹوٹی کا نچ کی را ہوں  پہ چل کر اسے  ملنے  آ گئی۔

اس نے اسے  ایک عالیشان ہو ٹل میں  بڑی شان سے  بلا یا تھا۔  دھیمی موسیقی، اور خوابی روشنیوں  میں  وہ اور ز یا دہ حسین لگ رہی تھی۔ اس کے  ہا تھ بت تراشنے  والوں  جیسے  تھے۔ چائے  پیتے  ہوئے  وہ اسے  محبت بھری نظروں  سے دیکھتا رہا۔ جو نظر یں  کہہ رہی تھیں  ’’آ ؤ تمہیں  باہوں  میں  بھر لوں۔‘‘

دوسری طرف دل کہہ رہا تھا ’’ کاش ابھی۔۔۔‘‘

وہ ان نگاہوں  کی گر می سے  ٹپ ٹپ ہو نے  لگی۔ وہ نگاہیں  جس میں  ہوس نہیں  تھی۔ تکر یم ذات تھی، مان تھا، تمنا تھی، بُلاوا تھا۔ اس سے  قبل اس نے  یہ سب کسی کی نادان آنکھوں  میں  نہیں دیکھا تھا۔ وہ جاتے  جاتے  دل کے  سا تھ جان بھی دے  گئی۔ وہ محبت سے  اگلی منزل پہ خود قدم رکھ چکی تھی۔

با ت ہو تیر ہی۔ وہ سمجھ گیا۔ وہ آسمانوں  پہ اڑنا چاہتی ہے۔ جینا چاہتی ہے، اپنے  حصے  کی زندگی آپ گزارنا چاہتی ہے۔ کے  جے  کا خیال بھی یہی تھا کہ یہ پری وش کا حق ہے۔ اسے  ملنا چاہیے۔ کے  جے  نے  اسے  زندگی اور زندگی کا ساتھ دینے  کا وعدہ کر لیا۔ اس نے  بھی کے  جے  کی آنکھوں  سے  ٹپکتے  جذبوں  کا اعتبار کر لیا۔ کے  جے  نے  اسے  دور۔۔۔ یہاں  سے  بہت دور لے  جا نے  کا وعدہ کیا۔ اور یقین دلایا کہ عمر بھر ساتھ دے  گا  اور کوئی اس تک نہیں  پہنچ سکے  گا۔ اس کے  پاس اتنی طاقت و قوت ہے  کہ وہ اس کے  خاندانی غر ور کی تلواریں  اس تک نہیں  پہنچنے  دے  گا۔

چند دن بعد وہ کے  جے  کے  کہنے  پر اسی ہوٹل آ گئی۔ یہیں سے  کے  جے  اسے  اپنی گاڑی میں  بیٹھا کر نجانے  کون سے  جہان کی اور چل پڑا۔ گھنٹوں  کے  سفر کے  بعد جب گاڑی رُکی تو یہ ویرانے  میں  بنا ایک طویل و  عریض بنگلا تھا۔ بڑے رقبوں، اونچی دیواروں  کی رہنے  والی وہ خود بھی تھی۔ یہ مادیت اسے  متاثر نا کر سکی۔ اس کا مان تو وہ ساتھ تھا، جو اس کے  ساتھ ہوتے  ہوئے  بھی، سا تھ نا تھا۔ اندر اچانک اک گھن سا تھا جو لگ گیا تھا۔ کے  جے  نے  تو شرعی ساتھ کا وعدہ کیا تھا۔۔۔ شرعی ساتھ کے  بنا اینٹوں  کی یہ قبر اس کے  لیے  تنگ ہو رہی تھی۔

اسے  اب بھی کے  جے  کی آنکھوں  اور لہجے  میں  ہوس نظر نہیں  آر ہی تھی۔ وہ اسے  ایک پر تکلف کمرے  میں  چھوڑ کر خود با ہر نکل گیا۔ وہ سہمی ہوئی تھی۔

رات کو جب وہ لوٹا تو اس کی نگاہوں  میں  وہی مان، وہی عزت، وہی آس، وہی تمنا ٹمٹما رہی تھی۔ وہ ان جگنوؤں  کے  سا منے  بے  بس ہو گئی۔ جوں  جوں  رات گہری ہو تی گئی، اس کی یہ بے  بسی بڑھتی گئی۔ اور آخر کار شب کاذب پری وش اور کے  جے  کے درمیان سب پر دے  اُٹھ گئے۔

زندگی وہ جینا چاہتی تھی۔ مگر جب ہوش میں  آئی تو اسے  لگا  زندگی کے  عوض وہ مر چکی تھی۔ کے  جے  کی آنکھوں  اور رویے  میں  اب بھی ہوس نہیں  تھی۔ اس کی نرم و ریشمی با توں  کے  ساتھ اس کے  لمس میں بھی لطافت کا احساس تھا۔ اک مان تھا جس کے  سامنے  وہ بے  بس تھی۔

یہ انسانوں  کی کیمسٹری بھی  کیا شے  ہے۔ کسی کے  سامنے  سیسے  کی دیوار ہے  تو کسی کے  سامنے  پانی کا بہاؤ۔۔

کئی دن یو نہی گزر گئے۔ کے  جے  صبح چلا جاتا اور رات کو آ تا۔ یو نہی ایک ماہ گزر گیا اور اسے  محسوس ہو ا کہ اس کے  جسم کے  اندر جیسے  اک اور جسم نے  جگہ بنا لی ہے۔ اس نے  ڈرتے  ڈرتے  کے  جے  کو بتا یا۔ وہ یہ سنتے  ہی خو شی سے  اسے  لپٹ گیا۔ لیکن اس کی قبر کی دیواریں  اس کے  ا پنے  ہی گرد اور تنگ ہور ہی تھیں۔ اب تو پسلیوں  کی ہڈ یاں  بھی آپس میں  کڑکڑانے  لگی تھیں۔ ’’یہ روح کس کے  نام سے  منسوب ہو گی‘‘ یہ سوال اس کو اندر ہی اندر گھول رہا تھا۔ بظاہر وہ زیادہ حسین ہو تی جار ہی تھی۔ مگر اندر۔۔۔ اس اعلی شان عمارت کے  اندر گھن کا کیڑا گھس گیا تھا۔

کے  جے  بہت خوش تھا۔ پری وش کو اس با ت پہ بھی حیرت تھی کہ کے  جے  کی محبت بڑھتی جا رہی تھی۔ کالے  شیشوں  کی گاڑی میں  لیڈی ڈاکٹر بھی آ نے  لگی۔ اس کا چیک اپ کرتی، مسکراتی، مبارک دیتی، چلی جاتی۔

وہ اڑنا چاہتی تھی۔ وہ اڑ تو رہی تھی۔ پرواز کہاں  کو تھی۔ یہ سمجھ نہیں  آ رہا تھا۔ کے  جے  اسے  سوال کرنے  کا موقع ہی نہیں دیتا تھا۔ ہمیشہ یہ کہہ کر ٹال دیتا۔ میں  خوش ہوں  ناں۔۔ تو تمہیں  بھی خوش ہو نا چاہئے۔ میں  تمہیں  چھوڑ کر تو نہیں  جا رہا  ناں۔۔۔ عمر بھر سا تھ کا وعدہ کیا ہے  تو نبھاؤں گا۔

ابھی تک اس نے  ایک وعدے  کے  سوا سب وعدے  نبھائے  بھی تھے۔ زبان کا پکا نکلا۔۔ اس لیے  پری وش بے  بس ہو کر خاموش ہو جاتی۔ یوں  بھی اب وہ بے  بس ہو چکی تھی۔ سب کشتیاں  جل چکی تھیں۔ مو ت آگے  تھی، تو پیچھے  بھی مو ت ہی تھی۔

نو ماہ یو نہی آنکھ مچو لی میں  ہی گزر گئے۔ ڈاکٹر گھر پہ ہی رہنے  لگی۔ اور ایک رات کے  جے  کی صورت کا ایک بچہ اسی پُر لطف کمرے  میں  لیڈی ڈ اکٹر کے  ہاتھوں  میں  رو رہا تھا۔

آج اس کو کے  جے  کی ضر ور ت تھی مگر آج کے  جے  کہاں  تھا؟ آج وہ کے  جے  کے  ساتھ اپنی خو شی با نٹنا چاہتی تھی لیکن آج کے  جے  آیا ہی نہیں۔ پری وش رات بھر اس کی منتظر رہی۔ مگر وہ نہیں  آیا، ایک دن۔۔۔ دو دن۔۔۔ تین دن۔۔۔ ڈاکٹر بھی پھر آنے  کا کہہ کر چلی گئی۔ رابطے  کی کوئی صورت نہیں  تھی، نا فون تھا۔ نا سیل تھا، نا انٹر نیٹ وہ کس جگہ تھی اسے  تو یہ بھی معلوم نہیں  تھا، اتنے  عرصہ میں  کے  جے  اتنے  دن اس سے  دور رہا بھی نہیں  تھا۔ اس کا دل گھبرانے  لگا۔

کے  جے  آج پھر اسی ہو ٹل میں  اپنے  باس کے  ساتھ تھا اور  باس آج بھی یہی کہہ رہا تھا

ایک بار۔۔۔ بس ایک با ر

کسی بھی قیمت پر۔۔۔

زندگی اس کے  قدموں  میں۔۔۔

قدموں  میں  نچھاور کر دوں  گا۔۔

اس نے

پہلی بار۔۔۔ یار پہلی بار۔۔۔

کسی نے  میری روح کو۔۔۔

روح کو چھو ا۔۔۔ ہے۔۔۔

سر اور  اگر آپ اس کی زندگی کے  پہلے  مرد نا ہوئے  تو؟ کے  جے  نے  سنجیدگی سے  پوچھا

’’تو ہمیں۔۔ اپنے  والی۔۔ کون سی۔۔۔ کون سی۔۔ پہلی جگہ ملی تھی۔۔ کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔ عورت جس نے  منسوب۔۔۔ منسوب ہو تی ہے۔۔۔ اس کی نا بھی ہو تو۔۔۔ اسی کی کہلاتی۔۔۔ کہلاتی ہے‘‘

سر میں  کو شش کر رہا ہو ں۔ اسے  آپ کے  قدموں  کی دھول بنا دوں۔۔ کر رہا ہوں  کوشش۔۔

گلاس آج بھی گر کر ٹو ٹ گیا تھا۔ آج بھی کے  جے  انہیں  اپنے  گھر لے  گیا تھا۔ آج بھی وہ نیم تاریک کمرے  میں  غنود گی کے  عالم میں  تھے۔ آج بھی کے  جے  ڈرائیور کے  سا تھ گھر چلا گیا تھا۔

صبح یار باس کے دفتر کے  با ہر کے  جے  کی گاڑی رکی۔ اس نے  اپنے  ڈرائیور کے  ہا تھ ایک فائل باس تک پہنچائی۔

یار باس نے  فائل کھولی۔ اس میں  ایک کاغذ پہ مختصر تحریر رقم تھی

’’میں  نے  اس لڑکی کو ایک گر وہ سے  بازیاب کروا لیا ہے۔ وہ میری تحویل میں  ہے۔ سرکاری طور پر یہ با ت ابھی خبر نہیں  بنی۔ میں  اس مجبور لڑکی کو سمجھا کر آپ تک پہنچا سکتا ہوں۔ وہ سچ میں  محبت کے  قابل ہے۔ اور اگر آپ مظلوم کو پناہ دے  بھی دیتے  ہیں  تو الزام آپ پہ نہیں  آئے  گا

بلکہ کریڈٹ ہو گا کیونکہ وہ کئی ماہ  سے  گھر سے  غائب تھی۔ مگر ایک فائل آپ کی میز پر بھی دستخط کی منتظر ہے۔‘‘

یار باس نے  پڑھا تو بے  چین ہو گیا۔ ساری عمر نہیں  کیا میں  نے  یہ سب۔ اب آخری سال میں۔۔ جاب کے  آخری سال میں۔۔۔ اس نے  اپنے  ویسٹ انڈین ڈرنک میں  پناہ تلاش کی۔ وہ سمجھ نہیں  پا رہا تھا کیا کرے۔۔ سا ری رات تاروں  میں  بیت گئی۔ اگلی صبح وہ دفتر جلدی چلا گیا

اس نے  فائل پر دستخط کر دئیے۔ فائل کو آ ج پیر لگ گئے  تھے۔

رات کو کے  جے  کا ڈرائیور یار باس کو اس بڑی سی قبر میں  لے  گیا۔ جہاں  اک محبت مسکرا رہی تھی۔ یار باس گاڑی سے  اتر نے  لگا تو ڈرائیور نے  ایک لفافہ ان کی طر ف بڑھا دیا

بڑے  صاحب یہ صاب جی نے  دیا تھا کہ آپ کو دے  دوں۔ یار باس نے  لفافہ پکڑ لیا اور باہر نکلا۔ ٹھنڈی ہوا محو رقص تھی۔ یار باس نے  لفافہ کھو لا۔ کاغذ پہ دو جملے  مسکرا رہے  تھے

’’سر عور ت کو ہمیشہ آنکھوں  کے  پانیوں  میں  سنبھالتے  ہیں۔ اسے  سنبھال کے رکھئیے  گا، بہت قیمتی ہے‘‘

٭٭٭

 

 

داغ

ناصر صدیقی

 

سردی کا چند ایک علاج ہوتا ہے۔

اور اگر سریش کے  گھر میں  دیکھا جائے  تو یہی چند ایک علاج برابر موجود تھا۔ بلکہ آج کچھ زیادہ ہی موجود تھا۔

’’ڈیڈی !سردی میں  بھی ماتھے  پر پسینہ ؟‘‘ سریش کی تیرہ سالہ بیٹی میگھا نے  نوٹس لیا جس کا کسّا ہوا سوئیٹر اس کی چھوٹی چھوٹی اور سخت سی چھاتیوں کے  خدوخال دکھانے  میں  کوئی کوتاہی نہیں  کر گیا تھا۔

’’ ہاں  بیٹی آج کچھ زیادہ ہی گوشت کھا لیا ‘‘

’’ ڈیڈی !کیا گوشت کھانے  سے  گرمی اٹھتی ہے ؟‘‘

’’ہاں  بیٹی‘‘

’’کیوں ___؟‘‘

’’پروٹین کی وجہ سے ‘‘

گھر کی پرانی، نہیں، بلکہ گھر کی ایک فرد بنی بیٹھی نوکرانی جو یہ گفتگو سن رہی تھیں، مسلسل ناک بھوں  چڑھاتی رہیں۔

پرانی چیزوں  میں  جہاں  یہ گھر، نوکرانی اور باپ بیٹی رہ گئے  ہیں  وہاں  یہ چیز بھی برقرار ہے  کہ بیٹی اکیلی سونے  سے  ڈرتی ہے  اور رات کو اپنے  ’’پاپا‘‘ کے  ساتھ سوتی ہے۔ اس کی اس ضد، عادت یا بے  جا ڈر سے  صرف نوکرانی کو اعتراض رہتا ہے  لیکن اپنی زباں  سے  اب تک وہ بھی کچھ کہہ نہیں  سکی ہے۔

’’لیکن آج میں  میگھا کو سمجھا دوں گی۔ ‘‘ واش بیسن کے  قریب کھڑی نوکرانی سوچنے  لگیں  جو عجیب نظروں  سے  سریش کو اپنے  ہاتھ دھوتے  ہوئے  دیکھ رہی تھیں۔

کلی کر کے  سریش نے  نوکرانی سے  تولیہ لیا اور ہاتھ صاف کئے۔ دوبارہ صاف کئے  کہ اس کے  خیال میں  ابھی تک اچھی طرح صاف نہیں  ہیں۔ پھر سر اٹھا کر نوکرانی کو دیکھا اور مسکراتے  ہوئے  انھیں  تولیہ واپس دیا۔ ’’جواباً ‘‘آج نوکرانی مسکرائیں  نہیں۔

’’آج کھانا بہت اچھا بن گیا ہے۔ ‘‘ سریش نے  نوکرانی کا موڈ بنانے  کی کوشش کی۔

’’اسی لئے  زیادہ کھا گئے۔ ‘‘ الٹا نوکرانی طنز کر گئیں۔ اس پر سریش جو نوکرانی کی بڑی عزت کرتا تھا صرف مسکرا کر خاموشی سے  اپنی خواب گاہ کی طرف چلنے  لگا۔

میگھا ابھی تک کھانے  پر ڈٹی ہوئی تھی لیکن آج نوکرانی اسے  چھوڑنے  والی نہیں  لگتی تھیں۔ کچھ دیر بعد میگھا کھانا ختم کر کے  واش بیسن کے  پاس آئی۔ ہاتھ دھو کر اور نوکرانی سے  تولیہ لے کر انھیں  صاف کر کے  وہ جانے  ہی والی تھی کہ نوکرانی کی بلمپت آوا ز نے  اسے  روک دیا:

’’میگھا بیٹی‘‘ اور پھر اپنی زمانہ چشیدہ آنکھوں  سے  میگھا کے  جسم کو ٹٹول کر بولیں۔ ’’تم بڑی ہو رہی ہو، اب اپنے  پتا کے  ساتھ سونے  کی ضد نہ کرو بیٹی۔ ‘‘

اس پر میگھا اک مرچ سی پھٹ گئی اور ایک بد تمیز زبان لئے  بولی ’’میں  نے  ڈیڈی تک کو قائل کیا ہے۔ تم تو__’’ اچانک رک گئی۔ اسے  پرانی نوکرانی میں ایک ممتا کی جھلک نظر آ گئی تھی۔ بنا کچھ اور کہے  وہ تیز تیز قدموں  سے  ڈیڈی کی طرف جانے  لگی جیسے  نوکرانی کی شکایت کرے  گی جو خاموش کھڑی میگھا کو جاتا دیکھ رہی تھیں  اور یہ بھی دیکھ رہی تھیں  کہ میگھا کے  کولہے  اب اور بھی زیادہ بھرے  بھرے  ہو چکے  ہیں  اور ٹانگیں  موٹی موٹی جن کی عریانی چھوٹے  فراک سے  چھپ ہی نہ سکے۔ سیدھا آ کر میگھا ایک روٹھے  روٹھے  انداز میں  بستر پہ لیٹ گئی۔

’’پہلے  تو آ کر مجھ سے  چمٹ جاتی تھی، خوب باتیں  کرتی تھی۔ آج تو روٹھی روٹھی سی لگ رہی ہے، کسی نے  ڈانٹا تو نہیں ؟نوکرانی نے __‘‘ باپ سوچنے  لگا جو اپنی سورگ واسی پتنی کی تصویر دیکھ رہا تھا جسے  اوپر ٹنگے  ہوئے  پانچ برس ہونے  کو آ رہے  تھے  اور جس کی یاد اسے  آج شدت سے  آنے  لگی تھی۔

’’کسی نے  ڈانٹا ہے  کیا؟‘‘ اپنی پتنی کو چھوڑ کر سریش ایک باپ بن گیا۔

’’ہاں  !نوکرانی نے ‘‘ میگھا نے  بیزاری سے  جواب دیا۔

’’کس بات پر؟‘‘

’’کہتی ہے  کہ اب تم بڑی ہو گئی ہو، اپنے  ڈیڈی کے  ساتھ مت سوؤ۔ ‘‘

’’پھر تم نے  کیا جواب دیا؟‘‘ جیسے  وہ دلچسپی لینے  لگا تھا۔

’’میں  نے  کہا تھا، سوؤں گی، ضرور سوؤں گی۔ ‘‘

اس پر سریش خاموش ہو گیا اور میگھا کو چھوڑ کر واپس اپنی پتنی کی یادوں  میں  کھو گیا۔ پھر اٹھ کر اس نے  ساری بتیاں  بجھا کر صرف نائٹ بلب روشن کیا اور سونے  کی کوشش کرنے  لگا۔۔۔

میری طرح آج پاپا کی طبیعت بھی ڈسٹرب لگتی ہے __ ؟بیٹی ابھی تک جاگ رہی تھی۔ اپنے  ’’پاپا‘‘ کا ’’درد‘‘ اور غم وہ بھی ختم نہیں  کر سکتی تھی۔

کچھ دیر اور گزری تو میگھا سپنے  سلونے  دیکھنے  سو گئی تھی اور سریش ابھی تک جاگ رہا تھا کہ آج گرم گوشت اس کے  گرم جسم کی پکار میں  شامل ہو کر اس کی پتنی کی جواں  یادوں  کو لانے  میں  لگا ہوا تھا۔ انسان آخر تھک ہی جاتا ہے۔۔۔ نیند سریش کو بھی دبوچ کر لے  گئی۔

رات کا نہ جانے  کونسا پہر ہوا ہو گا جب خواب گاہ میں  دو بے  خبر اور آپس میں  چمٹے  ہوئے  انسان شعور کے  اخلاقیات سے  آزاد ہو گئے  تو ایک بے  قصور اور نیند بھرا جسم سوئی ہوئی ’’میگھا‘‘ کے  گداز بدن سے  لمس کھا کر بھیگ گیا، شرمندہ ہو گیا۔ لیکن اتنا ہو کر بھی کوئی انھیں  بے  شرم کہہ نہیں  سکتا تھا، نوکرانی بھی نہیں۔

صبح ہوئی تو باپ سے  پہلے  بیٹی جاگ گئی جو اپنے  لباس پہ لگے  داغ دھبے  جیسی کسی چیز کو حیرانی سے  دیکھنے  ہی لگی تھی کہ باپ بھی جاگ اٹھا۔

’’ڈیڈی! یہ کیا ہیں ‘‘ معصومیت میں  ڈوبی ایک بیٹی نے  ایک باپ سے  پوچھا۔

’’جا کر دھو لو__! کیا نوکرانی جاگ گئی ہے ؟‘‘ اداس لہجہ میں  باپ نے  جواب دیا جس کے  چہرے  پہ ایک مجبوری کا رنگ چھا گیا تھا۔

یہ داغ دھبے  کیسے  پڑے ؟کے  حیران کن اور خاموش سوال کے  ساتھ میگھا سب کچھ دھونے  اٹیچڈ باتھ روم میں  چلی گئی تو سریش ایک اطمینان کی سانس لے  کر بستر سے  اٹھا اور کھڑکی کے  پاس کھڑے  ہو کر سگریٹ پینے  لگا۔ کچھ دیر گزری تو بے  تاب اور پریشان نظروں  سے  باتھ روم کی طرف دیکھنے  لگا کہ میگھا زیادہ دیر لگا رہی ہے، کہیں  نوکرانی نازل نہ ہو جائے  اور۔۔۔۔

دوسرا سگریٹ نکال کر وہ ابھی اسے  سلگانے  ہی لگا تھا کہ باتھ روم کا دروازہ کھل گیا___ میگھا تھکی تھکی سی لگ رہی تھی۔

’’داغ دھل گئے  ؟‘‘باپ نے  بے  تابی سے  پوچھا۔

’’ہاں !‘‘بیٹی نے  جواب دیا لیکن لہجہ سے  لگتا تھا کہ داغ دھل نہیں  گئے  بلکہ اور بھی زیادہ پھیل گئے  تھے۔

دوپہر کو جب سریش اپنے  آفس سے  ابھی لوٹا تھا، نوکرانی چل کراس کے  پاس آئیں اور ایک اپنائیت بھری آواز میں  بولیں  :

’’سریش بیٹے  !اب بہت ہو چکا۔ بیٹی بھی جوان ہو چکی ہے  کہ نئی ماں  کو قبول نہ کرے۔ اب تمہیں  دوسری شادی کرنا ہی ہو گا۔ تمہارا حال مجھ سے  دیکھا نہیں  جاتا‘‘ دراصل آج ہی وہ گھر کے  سارے  کپڑوں  کو دھو چکی تھیں اور بہت کچھ دیکھ بھی گئی  تھیں۔

سریش خاموش رہ کر کچھ سوچنے  لگا، پھر ایک ذمہ دار انداز میں  مسکرا کر بلکہ شرما کر بولا:

’’ آپ ٹھیک کہتی ہیں۔ اب مجھے  شادی کرنی چاہئیے۔ ‘‘یہ کہہ کر وہ میگھا کے  کمرے  کی طرف چلنے  لگا تو نوکرانی خوش ہو کر کھانا پروسنے  کچن کی طرف چلنے  لگیں۔۔۔

ادھر سریش میگھا کے  کمرے  کا دروازہ جیسا کھول گیا ویسا ہی بند بھی کر گیا لیکن وہ شرم سے  بچ نہیں سکا۔ جی ہاں ! میگھا اپنے  باپ کی آمد سے  بے  خبر ہو کر دروازے  کو لاک کئے  بغیر آج پہلی بار اپنی ماں  کے  کپڑے  استعمال کرنے  کے  لئے  بریزئیر بھی پہننے  لگی تھی۔

شام کو سریش کچھ سنبھل گیا تو ایک باپ بن کر بیٹی کے  پاس چلا آیا۔

’’میگھا بیٹی آج سے  تم میرے  پاس نہیں  سوؤ گی۔ ‘‘

’’لیکن کیوں ؟‘‘ میگھا حیران رہ گئی۔

’’تم بڑی ہو گئی اور __ ‘‘آگے  بول ہی نہ سکا۔

’’ بڑی ہو گئی ہوں  تو کیا ہوا؟‘‘ اب بھی ضدی تھی۔

’’افوہ! تم سمجھتی کیوں  نہیں، ‘‘سریش غصہ میں  آ گیا۔ ایک چیز نے  احساس دلایا تو مسکرا کر نرمی سے  بولا، ’’اب میرے  بستر پر تمہاری نئی ماں سوئے  گی اسی لئے، اب تم سمجھ گئی ہو نا؟‘‘

’’نہیں  نہیں !مجھے  نہیں  چاہئیے  نئی ماں۔ ‘‘ ایک بچی بن کر وہ پیر پٹخنے  لگی تو سریش پریشان ہو کر اسے  دیکھتا رہا کہ اسے  کیسے  کہہ دوں  کہ نئی ماں کی ضرورت ایک بیٹی کو ہو یا نہ ہو لیکن ایک جوان پتی کو پتنی کی ضرورت تو ضرور ہے، اسے  کون سمجھائے  اب؟—- نوکرانی؟ نہیں نوکرانی بھی اسے  نہیں  سمجھا سکتی۔

’’اچھا اچھا اب سارا آسمان سر پر نہ اٹھاؤ‘‘ یہ کہہ کر سریش باہر چلنے  لگا تو نوکرانی جو یہ سارا کچھ سن رہی تھیں، ’’رام رام‘‘ کہہ کر مندر جانے  لگیں  کہ ان کے  خیال میں  اب میگھا یا ’’سریش‘‘ کو بھگوان ہی سمجھا سکتا ہے۔

رات ڈنر ٹیبل پر سریش اور اسکی’’ پتنی‘‘ کھانا کھانے  بیٹھے  ہوئے  تھے۔ پتنی___؟ جی ہاں ! پتنی اس لئے  کہ میگھا اب تک اپنی ماں  کے  کپڑے  اتار نہیں  چکی تھی۔

’’سبزی؟ آج گوشت کا دن نہیں  تھا؟؟؟‘‘سریش نے  ڈرنے  کے  انداز میں  نوکرانی سے  پوچھا۔

اس پر اطمینان سے  نوکرانی نے  پہلے  تولیہ ٹانگ دیا پھر مسکرا کر بولیں :

’’میں  نے  خواب میں  دیکھا تھا کہ گوشت کی ہانڈی میں  تین مردہ چوہے  پڑے  ہیں۔ سبزی پکا لی۔ کم از کم تین دن تک یہ سلسلہ جاری رہے  گا۔ ‘‘

توہم پرستی__ سریش کو غصہ آنے  لگا لیکن کھانے  لگا سبزی ہی اور نوکرانی جو اپنے  تجربوں  اور پرکھوں  کی باتوں کا ثمر دیکھ کر خوش ہو رہی تھیں  یہ بات ہر گز نہیں  جانتی تھیں  کہ سبزی میں  لاکھ پروٹین نہ سہی لیکن ’’جسم‘‘ کو اپنی حد تک اتنا گرم تو پھر بھی ضرور کرتی ہے  کہ مرد کسی عورت کو سونگھ سکے  بلکہ چکھ بھی سکے  بلکہ۔۔۔

کھانا ختم کر کے  باپ بیٹی تو بیڈ روم میں  آ گئے  اور نوکرانی اپنے  کام میں  جٹی رہیں۔

’’کیا کر رہی ہو؟‘‘ باپ نے  بیٹی سے  پوچھا، جو کچھ کرنے  لگی تھی اس سے  پہلے  باپ کے  سامنے  کبھی نہیں  کر گئی تھی۔

’’اپنی امّی کی طرح اپنے  بال کھول رہی ہوں۔ ‘‘

’’کیوں ____؟؟؟‘‘سریش حیران ہوا۔

’’تاکہ تم نئی ممی نہ لاس کو ‘‘ایک معصومیت سے  بھرے  انداز سے  یہ کہہ کروہ کھلے  بالوں کے  ساتھ بستر پر لیٹ گئی۔

’’تمہاری ممی تو اور بھی بہت کچھ کرتی تھی۔ ‘‘ سریش نے  ایک کانپتی ہوئی آواز میں  کہا۔

’’مثلاً؟‘‘ میگھا نے  پوچھا جیسے  نئی ممی کا منہ نہ دیکھنے  کے  واسطے  ہر قربانی دینے  کے  لئے  تیار رہے  گی۔

لیکن سریش چپ رہا۔ باپ بھی چپ تھا۔

کچھ دیر گزری اور کپڑوں  کی ایک سرسراہٹ کی آواز پیدا ہونے  لگی تو سریش نے  کروٹ لی___ اب اس کے  سامنے  پتنی کی ایک مسکراتی تصویر تھی جس کا فریم بے  حد صاف اور چمکدار تھا۔

(۲۰۰۰ء ۳ اگست ۲۰۱۵)

٭٭٭

 

 

تاجو قصائی

راجہ یوسف

 

پچھلی ٹانگوں  کو باندھ کر رسی کی گانٹھ اگلی ٹانگ میں  پھنسا دی، اس کا دوسرا بل دوسری ٹانگ کے  گرد لپیٹ کر رسی پچھلی ٹانگوں  کی بیچ  سے  گذار کر جو  اسے  کس کے  کھینچی، تو ٹانگیں سکڑ گئیں۔۔ گرن نیچے  کی طرف جھکنے  لگی۔۔ رسی کو اور کھینچا تو گھٹنے  ٹیک دیئے۔۔۔  پھر ہلکے  سے  جھٹکے  کے  ساتھ بھینسا چت۔۔۔  تاجو نے  جلدی جلدی رسی کو ایک ہاتھ میں  لے کر دُم ٹانگوں  میں  پھنسا کے  اپنے  گھٹنے  بھینسے  کی پیٹھ پر دبا دیئے۔ جب تک جبار قصائی نے  گردن موڑ کر نرخرا کاٹ دیا۔۔۔  بررر رر کر کے  خون کا فوارہ نکلا۔ یہ وقت ہوتا ہے  جب گردن کٹے   بھینسے  میں  دس ہارس پاور سے  بھی زیادہ طاقت آ جاتی ہے۔ اور کھینچ کر بھاگنے  کی کوشش میں  پکڑنے  والے  کو گھسیٹ کر مار بھی سکتا ہے۔ تاجو ایک مشاق قصابن کی طرح رسی کھنچ کر زمین پر بیٹھ گئی اور اپنے  دونوں  پاؤں  بھینسے  کی پشت پر دبا دیئے۔ جبار قصائی نے  چھری نرخرے  کے  اندر ڈال دی، کوئی اور نس کٹ گئی۔ خون کا ایک ہلکا سا  بھپکا نکلا، بھینسے  نے  آخری  جھر جھری لی۔۔ اور تاجو نے  آہستہ آہستہ رسی ڈھیلی چھوڑ دی۔

تاجو جبار قصائی کی بیٹی تھی۔ ہرنی جیسی پھرتی اور ناک نقشے  کی تیکھی۔ باپ کے  کام میں  مجبوراً ہاتھ بٹاتی تھی۔ اصل میں  اس کام سے  ہی سے  متنفر تھی۔ نہ ہی قصائی کام پسند اور نہ ہی کسی قصائی سے  شادی کرنے  کی متمنی۔ وہ کسی خیالی شہزادے  کی چاہ میں  بھی آہیں  بھرنے  کی قائل نہیں  تھی بس ایک ایسا شوہر چاہتی تھی جو اسے  پیار کرے، اس کا خیال رکھے۔ چاہے  وہ مزدور یا ٹھیلہ والا ہی کیوں  نہ ہو۔ پر ایسا کیسے  ہو سکتا تھا۔ قصائی کی بیٹی قصائی کے  گھر نہ بیاہی جاتی، تو کیا راجہ کے  گھر کی رانی بنتی۔ تاجو کی شادی بھی آخر قصائی کے  گھر ہی ہو گئی۔ گھر بڑا تھا، پر گھر کے  مکیں  بڑی کس مپرسی کی زندگی کاٹ رہے  تھے۔ اس کا شوہر کریم قصائی دکھنے  میں  کمزور اور کام کاج میں  سست تھا۔ اب تاجو سمجھ گئی تھی کہ اسے  اس گھر میں بیاہ کر کیوں  لایا گیا تھا۔ تاجو کو کریم قصائی کی بیوی بنا کر اس کے  لئے  کماؤ نوکرانی لائی گئی تھی۔ اب یہاں  آ کر تاجو کو  بھینسے  گرانے  کے  ساتھ ساتھ ان کو حلال بھی کرنا پڑتا تھا۔

گاؤ کشی کا معاملہ طول پکڑتا جا رہا تھا۔ شہر کا شہر قصاب  برادری کا دشمن ہو گیا تھا۔ ان کے  خلاف زہر اگلا جا رہا تھا۔ شاطر ذہنوں  میں  ان پر حملہ کرنے  کی سوچ بھی پل رہی تھی۔ لیکن قصاب برادری کاجو ڈر اور خوف عام لوگوں  کے  دلوں  پر ویسے  بھی چھایا رہتا ہے۔ وہی خوف حملہ آوروں  کو بھی حملہ کرنے  سے  روک رہا تھا۔  پھر بھی اکا دُکا حملے  ہو رہے  تھے۔ پر وہ ان ہی لوگوں  پر ہوتے  تھے  جن کی دکانیں  اپنے  محلے  سے  دور دوسری جگہوں  پر تھیں۔ پہلے  پہل یہ حملے  قصابوں  کے  لئے  اتنے  تشویش ناک نہیں  تھے، لیکن ایک دن جب شہر کے  بھرے  بازار میں  کریم قصائی پر حملہ ہوا اور اسے  بڑی بے  دردی کے  ساتھ مار ڈالا گیا  تو پوری برادری میں  تشویش پھیل گئی۔ پوری برادری ہاتھوں  میں  چھریاں  لے کر سڑکوں  پر آ گئی۔ کریم قصائی کی لاش کندھوں  پر اٹھا کر شہر کی گلی کوچوں  میں  گھوماتے  رہے۔ لوگ ان کے  ہاتھوں  میں  چھریاں  اور آنکھوں   میں  اتر آئے  خون کو دیکھ کر بہت زیادہ ڈر گئے  تھے۔ بچے، عورتیں  خوف کے  ما رے  گھروں  میں  دبک کر بیٹھ گئیں  تھیں۔۔۔ حکومت حرکت میں  آ گئی۔ قصائی برادری پر جم کر لاٹھی چارج ہوا، ان پر ٹیر گیس کے  گولے  دھاگے  گئے۔۔۔ دھنگے  میں  دو پولیس والے  زخمی کیا ہو گئے، پوری کی پوری سرکار حرکت میں  آ گئی۔ پولیس نے  گولی چلائی۔ تین اور نو جواں  لڑکے  مارے  گئے۔ جب وہ خون میں  لت پت اپنے   بچوں  کی لاشیں   اٹھانے  لگے، تو پولیس کا بھر پور حملہ ہوا۔ کئی لوگ زخمی ہوئے۔  بہت سارے  گرفتار کر لئے  گئے۔  محلوں  اور علاقوں  میں  بنا ڈھیل دیئے  کرفیو لگا دیا گیا۔  ان کے  خلاف سخت قانون  جاری کئے  گئے۔ کوئی قصائی گائے، بیل، بھینس نہیں  مارے  گا۔ کسی سڑک کے  قریب گوشت کی دکان نہیں  ہونی چاہئے۔ وہ  اپنے  گھروں  میں  صرف چھوٹے  جانور یعنی بکرا یا بھیڑ ہی حلال کر سکتے  ہیں، اپنے  گھروں  میں  ایک چھری سے  زیادہ ’’ ہتھیار‘‘ نہیں  رکھ سکتے  ہیں۔

جبار قصائی اب بوڑھا ہو رہا تھا لیکن اسے  اپنی لاڈلی بیٹی کی فکر کھائے  جا رہی تھی۔ اس نے  اپنے  دونوں  بیٹوں  کو دوسری جگہ نئے  گھر بنا کر دیئے۔ پرانا گھر بیٹی کو دیا اور  گلی کی طرف ایک چھوٹی سی دکان بھی بنا کر دے  دی۔ اس کے  دونوں  بچوں  کو پاس والے  سکول میں  داخلہ کرا دیا۔ اور خود جب تک زندہ رہا۔ بیٹی کے  ساتھ ہی رہا۔۔۔

تاجو کا بیٹا احمد پڑھ لکھ کر اسکول ٹیچر ہو گیا تھا، اور بیٹی سلمیٰ کالج میں  پڑھ رہی تھی۔ تاجو کی گلی والی دکان اچھی خاصی چل رہی تھی۔ جس میں کھوپریل رسی سے  لٹکتے  کیلے۔ سیب اور سنتروں  کے  ڈبے۔ کئی قسم کی سبزیوں  کے  علاوہ ضروریات کی چھوٹی چھوٹی چیزیں  بھی رکھی رہتی تھیں۔ دکان میں  بچوں  کے  لئے  رکھی ٹافیاں  اور بسکٹ بھی خوب چلتے  تھے۔ آج کل شہر کے  حالات پھر بگڑے  ہوئے  تھے۔ کرفیو کی مدت اور پولیس کی گشت بڑھا دی گئی تھی۔ وردی پوش کبھی کبھار گلی کے  بھی چکر لگاتے  تھے  اور تاجو کی چھوٹی دکان سے  سگریٹ،  بسکٹ وغیرہ لے  جاتے  تھے۔ کبھی کبھار دو چار گالیاں  دے  کر اس کی دکان  بند کرا دیتے  تھے  اور کبھی اسے  خود بلا کر دکان کھلواتے  تھے  اور اپنے  مطلب کی چیزیں  لے  جاتے  تھے۔ سردیوں  کے  دن تھے۔ اور دو چار دنوں  سے  کچھ زیادہ ہی سردی پڑ رہی تھی۔ کل سے  احمد کی طبیعت خراب ہو گئی تھی۔ شام تک اس کا بخار بہت زیادہ بڑھ چکا تھا۔

’’ نہیں  ماں  باہر کرفیو لگا ہے۔ اور رات کا وقت ہے۔ ہم ہسپتال نہیں  جا سکتے  ہیں۔ ‘‘

’’ ارے  بیٹا تم چلو میرے  ساتھ۔ ابھی رات تھوڑی نا ہو گئی ہے۔ شام کا ہی تو وقت ہے۔ ‘‘

۔۔ ماں  کیسی باتیں  کر رہی ہو۔ قانون سب کے  لئے  ایک جیسا ہوتا ہے  ‘‘

احمد پتر یہ کون سا قانون ہے۔ جو بیمار آدمی کو ہسپتال جانے  سے  روک دے۔ ‘‘

لمبی بحث کے  بعد بیٹی سلمیٰ کو اپنا خیال رکھنے  کی تلقین کر کے  دونوں  ماں  بیٹے   ہسپتال جانے  کے  لئے  نکل گئے۔

ان کے  جانے  کے  بعد سلمیٰ کتاب کھول کر بیٹھی ہی تھی کہ دروازہ کھٹکھٹانے  کی آواز آئی۔۔ وہ یہی سمجھی شاید ماں  اور بھائی واپس آ گئے  ہیں یا کوئی پڑوسی کسی چیز کے  لئے  آیا ہے۔ اس نے  دروازہ کھولا تو باہر اندھیرے  میں  کوئی کھڑا تھا۔

’’ کون ہے۔ دکان بند ہے  ‘‘ سلمیٰ نے  جلدی سے  کہا

’’ کیوں  بند ہے ‘‘ اندھیرے  سے  آواز آئی

۔۔ ’’ کرفیو ہے۔ اور ممی بھی گھر میں  نہیں  ہے  ‘‘

’’کہاں  گئی ہے۔ بازار میں  بم پھینکنے  یا کہیں  آگ لگانے۔ ‘‘

’’ بھائی بیمار ہے، اس کو لے  کر ہسپتال گئی ہے  ‘‘ سلمیٰ نے  اس کی بات کو نظرانداز کر کے  کہا۔۔

’’ مطلب۔ گھر میں  تیرے  سوا کوئی اور نہیں  ہے  ‘‘

’’ جی۔۔۔  جی ہاں  ‘‘ سلما نے  ڈرتے  ڈرتے  جواب دیا۔  آدمی نے  کوئی چیز کندھے  سے  اتار کر دکان کے  تھڑے  کے  ساتھ رکھ دی اور چہرے  پر مفلر لپیٹ کر آگے  بڑھ گیا۔

’’ چل اندر ‘‘  آدمی نے  دروازے  کی طرف قدم بڑھاتے  ہوئے  کہا۔

۔ ’’ جی۔۔۔ وہ گھر میں۔۔۔ ‘‘ سلمیٰ نے  جلدی سے  دروازہ بند کرنے  کی کوشش کی۔ لیکن مفلر پوش نے  دروازے  میں  اپنا پیر اُڑس دیا۔

’’چل نا اندر‘‘ مفلر پوش نے  سلمیٰ کو اندر کی طرف دھکا دیا۔۔۔  خود بھی اندر گیا اور پیر کی ٹھوکر سے  اپنے  پیچھے  دروازہ بند کر دیا۔ سلمیٰ ڈری سہمی بھاگ کر کمرے  کی دوسری دیوار کے  ساتھ لگ کر کھڑی ہو گئی۔ وہ تھر تھر کانپ رہی تھی اور ساتھ میں  روئی بھی جا رہی تھی۔ مفلر پوش تیزی کے  ساتھ سلمیٰ کی طرف بڑھ گیا۔ سلمیٰ دوسرے  کونے  کی طرف بھاگی۔ مفلر پوش نے  جست لگائی اور سلمیٰ کو بازوؤں  کے  حلقے  میں  دبوچ لیا۔ وہ رو رہی تھی، چلا رہی تھی، پر مفلر پوش بہت جلدی میں لگ رہا تھا۔ سلمیٰ کے  چہرے  پر دو تھپڑ مار کر اس کے  بدن سے  کپڑے  کھرچنے  شروع کر دیئے۔  سلمیٰ نے  پھر بھاگنے  کی کوشش کی۔ مفلر پوش کو غصہ آ گیا۔ اس نے  سلمیٰ کو اٹھا کر زمین پر پٹک دیا اور خود  اس کے  اوپر آ گیا۔۔۔

دروازہ دڑھام کے  ساتھ کھل گیا۔ لیکن مفلر پوش کو اس کی کوئی پرواہ نہیں  تھی کہ کون آیا اور کون گیا۔ اس نے  مڑ کر دروازے  کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں  کیا۔۔۔ کھوپریل رسی کا پھندا اس کی ٹانگ میں  پھنسا۔ اور ایک لمحے  میں  رسی کی دوسری گانٹھ اس کی دوسری ٹانگ میں  پھنس گئی۔ اسے  کھنچ کر کمرے  کے  بیچ تک گھسیٹا گیا۔۔۔ جب کھپریل کی رسی کی چبھن اس نے   اپنی کلائیوں  میں  محسوس کی، تو اس کے  ہوش کچھ کچھ ٹھکانے  آنے  لگے۔ ابھی وہ حالات کو پوری طرح سمجھ بھی نہیں  پایا تھا کہ تاجو نے  ایک ہاتھ سے  اس کا مفلر اُتارا۔۔ گردن موڑ دی اور چھری نرخرے  پر رکھ دی۔۔۔۔

’’ نہیں  ماں  نہیں  ‘‘  اچانک کمرے  میں  احمد کی تیز آواز گونجی۔

٭٭٭

 

 

گاڑی جا چکی

فائق احمد

 

بنچ کے  اس کونے  سے  لے  کر دور سگنل کی سُرخ بتی تک خاموشی ہی خاموشی ہے۔ مَیں  دوپہر کے  وقت جب یہاں  آیا تھا تو کچھ مسافروں  کی پلیٹ فارم پر گہما گہمی تھی اور اسٹیشن ماسٹر نے  مجھے  بتایا تھا کہ جس گاڑی میں  تم ہو وہ اپنے  مقررہ وقت پر نہیں  پہنچ رہی۔ نجانے  گاڑیوں  کے  آنے  جانے  کے  مقررہ اوقات کب ٹھیک ہوں  گے۔ مَیں  شام ہونے  سے  پہلے  کا یہاں  پر ہوں۔

میرے  دیکھتے  ہی دیکھتے  اندھیرا پھیلتا گیا۔ ابھی تک سگنل ڈاؤن نہیں  ہوا۔ اسٹیشن کے  متعلقہ کوئی بھی شخص نظر نہیں  آیا ماسوائے  اُس آدمی کے   جس نے  میرے  پہنچنے  پر اسٹیشن کے  اوپر لگے  لیمپ کو جلایا جس کے  نیچے ’’1924 ‘‘کے  حروف پڑھے  جاتے  ہیں۔ عمارت کا سنِ پیدائش خاموشی سے  اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا ہے۔ وہ آدمی پھر سگنل کی طرف چلا گیا۔ جو ابھی تک پلٹا نہیں  اور مَیں  نہیں  جانتا کہ تمھاری گاڑی اب کس اسٹیشن پر پہنچی ہو گی اور کب تک یہاں  آئے  گی؟

تمھاری گاڑی پچھلی دفعہ بھی لیٹ تھی، لیکن اتنی تو نہ تھی۔ گھنٹا شاید اس سے  کچھ زیادہ لیکن جب وہ بل کھاتی اسٹیشن کی حدود میں  داخل ہو رہی تھی تو تم نے  کھڑکی سے  اپنے  جسم اور بازو کو باہر نکال کر ہلانا شروع کیا تو انتظار کی وہ کوفت تمھارے  ہونٹوں  کے  نیچے  تِل کے  اندر تحلیل ہو گئی۔ یقیناً آج کی کوفت بھی تمھاری پہلی مسکراہٹ اور تِل کے  اندر جذب ہو جائے  گی۔

جب آپ لو گ پہلی بار یہاں  سے  جا رہے  تھے۔ تمھارے  ابا کا دوسرے  شہر تبادلہ ہو گیا تھا ناں، اُس رات سب بہت دیر تک جاگتے  رہے۔ دادی اماں  بار بار چچا کا ما تھا چومتی رہیں۔ چچا نے  کہا تھا: ’’دو چار ماہ کی بات ہے  مَیں  دوبارہ اِدھر ہی تبادلہ کر والوں  گا‘‘۔ چچا کے  دو چار ماہ ہی نہ آئے  البتہ دادی اماں  کا پکا تبادلہ ہو گیا۔ مَیں  کبھی بھی تمھیں چھوڑنے  اسٹیشن تک نہیں  جا سکا۔ ہاں  یہ ضرور ہے  کہ آپ لو گ جب بھی آئے، لینے  تو میں  تمھیں  ضرور پہنچا ہوں۔

مجھے  تمھاری وہ بات بہت اچھی طرح یاد ہے۔ جب تم نے  ایک مرتبہ دادی اماں  سے  ’’وچھوڑا‘‘ لفظ کا مطلب پوچھا تو دادی اماں  کی آنکھیں  بھیگ گئی تھیں۔ اپنی عینک اُتار کے  پوری وضاحت سے  تمھیں اُس کے  معانی سمجھائے  اور تم نے  دادی اماں  سے  کہا :’’اب میں  سمجھی‘‘۔ تم نے  میری طرف دیکھا۔ مَیں  لالٹین کی چمنی صاف کر رہا تھا۔ تمھاری آنکھیں  بھی بھیگ گئی تھیں  اور میری آنکھ سے  بھی ایک آنسو چمنی پر گرا۔ تمام لو گ، تم لوگوں  کو چھوڑنے  اسٹیشن پر جاتے  ہیں  اور مَیں  تمھارے  ’’وچھوڑے ‘‘میں  اُلجھ کر رہ جاتا ہوں۔ کتنی بار چچا نے  اسٹیشن پر ساتھ چلنے  کو کہا اور مَیں  نے  ہر بار کتابوں  کو پکڑے  امتحانات کی تیاری کا بہانہ پیش کیا۔ تم بھی تو سب بچوں  کو ساتھ چلنے  کا کہا کرتی ہو مگر مجھے  کبھی بھی نہیں  کہا۔ شاید تم کہو تو مَیں اس بار آہی جاؤں۔ مَیں  جانتا ہوں  تم مجھے  کبھی نہ کہو گی۔ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے  کہ مَیں  تمھیں  کبھی بھی الوداعی مسکراہٹ نہ دے  پاؤں  گا۔ پچھلی دفعہ جب میں  تمھیں لینے  آیا تو چچا نے  کہا :’’ہاں  بھئی امتحانات کی تیاری میں  کوئی خلل تو نہیں  پڑا ؟‘‘مَیں  تو کھسیانا ہو کر رہ گیا۔ تمھاری امی وہ بات نہ بدلتی تو شاید مَیں  اُس شرمندگی کے  بوجھ تلے  دب جاتا۔

تمھاری جذباتی طبیعت تو شروع ہی سے  ہے  ناں۔ سب کے  دکھ اپنا دکھ سمجھنے  والی۔ نرم و گداز پرندوں  اور پودوں  سے  اُنس تو گویا تمھاری سرشت کا اولین عنصر ہے۔ گرمیوں  کی ایک رات جب ہمارے  آنگن میں  وہ جگنو آیا جس نے  بھُولی ہوئی چڑیا کو اندھیرے  میں  اُسے  گھر کا راستہ دکھایا تھا۔ ہمیں  اُسی شام آپا نے  ’’چڑیا اور جگنو‘‘ والا وہ سبق پڑھایا تھا۔ تم نے  اُسے  دیکھتے  ہی شور مچانا شروع کر دیا :’’وہ دیکھو، وہ دیکھو وہ جگنو۔ چڑیا کو راستہ بتانے  والا جگنو ‘‘۔ ہم دونوں  اس کے  پیچھے  بھاگ کھڑے  ہوئے  اور آخر کار ہم نے  اُسے  دبوچ لیا۔ مگر وہ بے  چارہ انسانی لمس کے  بعد بجھ گیا۔ اُس کا نرم و گداز جسم تیری ہتھیلی پر بے  سود پڑا رہا۔ تم نے  اُس رات اُس صدمے  کی وجہ سے  کھانا نہ کھایا اور تمھاری ہولے  ہولے  رونے  کی آوازیں  میرے  کانوں  کے  پردے  چیرتی رہیں۔

اور وہ سبق، مجھے  کلاس یاد نہیں  کہ کس جماعت کی کتاب میں  تھا۔ شاید تیسری یا چوتھی جماعت میں  سے۔ یہ بھی صحیح طرح یاد نہیں  کہ اُس کا نام کیا تھا ؟میرا خیال ہے  کہ اُس کا نام ’’خط ‘‘تھا۔ تمھیں تو اچھی طرح یاد ہو گا کیونکہ تمھارا حساب کتاب بہت اچھا رہا ہے۔ مَیں  تو ہمیشہ حساب میں  کچار ہا۔ وہی سبق جس میں  ایک بچہ اپنی ماں  سے  اپنے  باپ کا پتہ پوچھتا ہے  اور اُسے  ماں  بتاتی ہے  :’’تمھارے  ابا اللہ میاں  کے  پاس چلے  گئے  ہیں  ‘‘۔ پھر وہ اپنی باجی سے  اللہ میاں  کے  نام خط لکھواتا ہے۔ جس کے  لفافے  کے  باہر اللہ میاں  کے  گھر کا پتا۔ جب ڈاک خانے  کا عملہ اُسے  پڑھتا ہے  تو اشک بار ہو جاتا ہے۔ آپا نے  جب ہمیں  وہ پڑھایا تو تمھاری ہچکیاں  بندھ گئیں۔ تم پر کتنے  دن اُس کا اثر رہا تھا۔ تمھیں  بخار بھی ہو گیا تھا۔ اور ٹھیک ہونے  پر تم نے  مجھ سے  پوچھا :’’کتاب میں  ایسے  سبق کیوں  شامل کیے  جاتے  ہیں  ؟‘‘اور تمھارے  ’’کیوں  ‘‘کا جواب آج بھی میرے  پاس نہیں  ہے۔

تمہاری نازُک طبیعت کا وہ واقعہ بھی یاد ہے۔ جب ہمارے  محلے  کی مسجد میں  ایک بچے  کے  گُم ہونے  کا اعلان ہوا تھا۔ دادی اماں  ساگ کاٹ رہی تھیں  اور تم اپنا سبق یاد کر رہی تھی۔ اماں  نے  مجھے  کہا کہ: ’’جاؤ مولوی صاحب سے  بولنا بچے  کے  ملنے  کی خبر بھی دے ‘‘۔ مَیں  جانے  لگا تو تم بھی میرے  ساتھ گئیں  اور واپسی پر تم نے  کہا :’’مجھے  ڈر کھانے  لگا تھا کہ کہیں  تم بھی گُم نہ ہو جاؤ ؟اسی لیے  میں  ساتھ چلی آئی ‘‘۔ مَیں  جب بھی گھر سے  باہر دیر کر دیتا، تم دادی اماں  کے  پاس چلی جاتیں  اور چپکے  چپکے  میری تاخیر کا بتاتیں۔ اماں  تمھیں ساتھ لے  کر چوپال تک آتیں  اور مجھے  ساتھ لے  کر گھر جاتیں۔ اوپر سے  میری دیر پر سرزنش بھی ہو تی۔ پھر ایک دن تم نے  دادی اماں  سے  کہلوایا کہ ’’اتنی دیر باہر نہ رہا کرو کیونکہ جب تک تمھاری واپسی نہیں  ہوتی ہمارے  مَن عجیب سے  وسوسوں  میں  مُبتلا ہو نے  لگتے  ہیں  ‘‘۔ اور مَیں  نے  کہا :’’مَیں  کسی روز جہاز پر بیٹھ کر دور چلا جاؤں  گا ‘‘۔ یہ سنتے  ہی تمھاری آنکھیں  نم ہو گئیں۔ جب ہم سونے  کے  لیے  اپنے  اپنے  بستروں  پر جانے  لگے  تو تم نے  رسوئی کے  دروازے  پر روک کر کہا :’’تم کہیں  بھی نہیں  جا ؤ گے  ‘‘؟اور مَیں  نے  تمھارے  گال پر چٹکی بھر کے  کہا :’’اپنے  بستر پر تو جاؤں  گا ‘‘۔

ایک مرتبہ اسٹیشن کے  سامنے  پتلی تماشہ لگا تھا۔ ابا، ماں، چچا، چچی، اماں  اور ہم سب دیکھنے  گئے  تھے۔ ایک پتلی جو تمھاری گڑیا کی طرح تھی۔ وہ اُچھل کود کے  ساتھ ساتھ باتیں  بھی کر تی تھی۔ کتنا ہنس مُکھ وہ کھیل چل رہا تھا۔ اچانک اُس کا گڈا مر جاتا ہے۔ ہم سب دیکھنے  والوں  کے  چہرے  چند لمحے  پہلے  خوشی سے  تمتما رہے  تھے، سازندے  غم کا ساز بجاتے  ہیں  اور ہر آنکھ اشک بار ہو جاتی ہے۔ وہ پتلی پھر کوئی بات نہیں  کر تی بس سب کو بٹر بٹر تکتی رہتی ہے۔ صبح تم نے  اپنی گڑیا کی کنگھی کی، سرخی پاؤڈر لگایا۔ وہ بھی بٹر بٹر تک رہی تھی۔ تم نے  اماں  سے  کہا۔ :’’دیکھو! اس کا بھی گڈا مر گیا ہے۔ یہ بھی کوئی بات نہیں  کرتی، بس ہلکا ہلکا ہنس رہی ہے  اور مجھے  دیکھ رہی ہے  ‘‘۔ اُس کے  بعد تم نے  اُسے  ٹرنک میں  رکھ چھوڑا اور پھر کبھی بھی اُس کے  ساتھ نہ کھیلی۔

اسٹیشن ماسٹر کے  کمرے  سے  ٹیلی گرافی کی گھنٹیاں  بج رہی ہیں۔ اور مَیں  قطعی اُس پیغام رسانی آلے  کی زبان نہیں  سمجھتا۔ البتہ اُن کے  بجنے  سے  میرے  دل کی دھڑکن میں  خاصی تیزی واقع ہوئی ہے۔ دل کی گھنٹیاں  کہہ رہی ہیں  کہ تمھاری گاڑی کسی قریبی اسٹیشن پر پہنچ چکی ہے۔

مَیں  دیکھ رہا ہوں  کہ وہی شخص جس نے  لیمپ جلایا تھا۔ کانٹے  کی چابی اور لالٹین پکڑے  سگنل ڈاؤن کرنے  جا رہا ہے۔ خشخشی داڑھی والا اسٹیشن ماسٹر ٹکٹوں  کی کھڑکی کے  پاس لالٹین صاف کر رہا ہے۔

یقیناً تمھاری گاڑی منزل کے  کسی آخری اسٹیشن پر پہنچ چکی ہے  گاڑی کی تاخیر تمھارے  لیے  اکتاہٹ کا سبب بنی ہو گی مگر منزل قریب پا کے  تمھاری ساری اکتاہٹ اور تھکاوٹ زیاں  ہو نے  لگی ہو گی۔ پچھلی دفعہ جب چچا اور چچی پہنچنے  پر گلہ کر رہے  تھے  گاڑی کی تاخیر کا تو تم نے  بچوں  کے  بیچ بیٹھے  کہا :’’کہاں  کی دیر ‘‘؟مَیں  تو سفر میں  اسی سوچ میں  خوش رہتی ہوں  کہ اپنوں  کے  پاس جا رہی ہوں۔ گھر جا رہی ہوں۔ میرے  سفر کا وقت تو میری سوچیں  ہی کاٹتی رہتی ہیں  ‘‘۔ تب تم نے  کن انکھیوں  سے  مجھے  دیکھا۔

سگنل ڈاؤن ہو چکا ہے۔ اب وہاں  سبز بتی جل رہی ہے۔ خشخشی داڑھی والے  اسٹیشن ماسٹر نے  ایک مرتبہ پھر باہر آ کے  ایک کیل زور زور سے  لائن کے  ایک ٹکڑے  پر مارا ہے  اور اپنی پتلون کو ٹھیک کر تے  ہوئے  میری طرف دیکھا ہے۔ شاید وہ سوچ رہا ہے  کہ میں  مسافر ہوں جو اُس کے  پاس ٹکٹ لینے  نہیں  گیا۔ اسٹیشن پر میرے  سوا کوئی دوسرا نہیں۔ وہ دوبارہ ٹکٹوں  والی کھڑکی میں  جا کھڑا ہوا ہے۔

تم آؤ تو سہی۔ اس بار مَیں  نے  بہت سے  پروگرام ترتیب دے  رکھے  ہیں۔ کیونکہ میرے  سب امتحانات ختم ہو گئے  ہیں۔ پچھلی دفعہ تو وقت ہی کہاں  تھا۔ سوائے  اُس بارش والی رات کے۔ برآمدے  میں  رکھے  ہوئے  پنگھوڑے  کو جھولتے  ہی بیت گئی تھی۔ صبح ماں  نے  جب برآمدے  کی صفائی کی تو چلغوزوں  کے  چھلکے  دیکھ کے  بولی :’’یہ کون کھاتا رہا ‘‘؟اور چچی نے  تمھاری جرسی بُنتے  کہا: ’’اُن کے  علاوہ کون ہو سکتا ہے  ‘‘؟تم نے  اپنے  ناخنوں  سے  ایک چلغوزے  کا چھلکا اُتار کے  میری زبان پر رکھا تھا۔

اس بار ہم پہاڑوں  پر جائیں  گے۔ تمھیں  بڑا شوق ہے  ناں، برف سے  کھیلنے  کا۔ ایک مرتبہ گرمیوں  کے  موسم میں  تم نے  کرم بخش کے  برف کے  گولے  مجھ پر پھینکے  تھے  اور جب اُس نے  دادی اماں  سے  پانچ روپے  مانگے  تو اماں  نے  کہا :’’کتنے  کھا گئے ‘‘؟ اس سے  پہلے  کرم بخش بولتا تم نے  کہا :’’اماں  سب اس نے  کھائے  ‘‘۔ جب دوستوں  کے  ساتھ پہاڑوں  پر گیا تھا۔ سب نے  اپنی اپنی فرمائشیں  کی تھیں۔ کسی نے  بالیاں، چوڑیاں  اور خشک میووں  کا کہا۔ مَیں  چاہ رہا تھا کہ تم بھی کوئی فرمائش کرو جب تمھاری طرف سے  کوئی بھی فرمائش نہ ہوئی تو میں  نے  پوچھا: ’’تمھارے  لیے  کیا لاؤں  ‘‘؟

’’برف لانا‘‘۔

’’برف‘‘؟

’’ہاں ‘‘!تم نے  بیگ میں  میرے  گرم کپڑے  ٹھونستے  ہوئے  کہا۔ تمھاری جھکی جھکی نظریں  ہنس رہی تھیں  اور مَیں  برف کی گڑیا دیکھ رہا تھا۔ سفید برف کی سِل جو میری نظروں  کی تمازت سے  پگھلے  جا رہی تھی۔

دور انجن کی سیٹی بج رہی ہے۔ گھر میں  سب لوگ خوشی سے  ناچ رہے  ہوں  گے۔ آج ماں  نے  مجھے  سودا سلف کی چِٹدی تو میں  آدھی چیزیں  تمھاری پسند کی لے  آیا۔ مُنی نے  تمھاری پسند کی چیزیں  دیکھتے  ہی کہا :’’یہ بھی، وہ بھی باجی کو کھانے  میں  بہت پسند ہیں  ‘‘۔ اور ماں  نے  اُن کو سنوارتے  ہوئے  کہا :’’ہاں  بھئی، ہاں  ! لے  کر جو تمھارے  بھیّا آئے  ہیں  نا ‘‘۔ مَیں جب گھر سے  باہر نکل رہا تھا تو ماں  کی آواز میرے  کانوں  میں  رس گھولتی گئی۔ ابا سے  کہہ رہی تھیں  :’’چھوٹے  سے  اس مرتبہ دونوں  کی بات پکی کر لیں  ‘‘۔

’’بابا گاڑی جا چکی ‘‘۔ ایک نوجوان اسٹیشن ماسٹر کی پتلون اور شرٹ پہنے  مجھ سے  کہہ رہا ہے۔ ارے ! مَیں  اُس کو بابا نظر آر ہا ہوں۔ یہی مجھ سے  دو سال نہیں  تو تین سال چھوٹا ہو گا۔ وہ مجھ سے  پھر کہہ رہا ہے  اور مَیں  نے  اسٹیشن کو دیکھا جہاں  پر اُس کا سنِپیدائش جلی حروف میں  اپنی موجودگی کا احساس خاموشی سے  دلا رہا ہے  جس کے  اوپر بلب روشن ہے۔ وہ خشخشی داڑھی والا اسٹیشن ماسٹر کدھر گیا؟ مَیں  نے  ایک بھر پور نظر اُسے  دیکھنے  کے  بعد اُس سے  تمھاری گاڑی کا پوچھا تو وہ حیرت و استعجاب میں  مبتلا ہو کر بتا رہا ہے  کہ:’’ وہ گاڑی تو اُس کی پیدائش سے  پہلے  چلا کر تی تھی اور ایک مرتبہ اُسے  حادثہ پیش آ گیا جس کے  بعد حکومت نے  اُسے  بند کر دیا ‘‘۔ مَیں  دیکھ رہا ہوں  اُس آدمی کو جو کانٹے  کی چابی اور لالٹین لے  کر سگنل کی طرف گیا تھا۔ ایک چادر کی بکل مارے  کبڑا کبڑا میری طر ف واپس آ رہا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

ادھوری عورت

نسیم سکینہ صدف

 

میں  جانتی ہوں  کہ کچھ لوگوں  کو معاشرے  کی بدلتی ہوئی مجھ جیسے  اقدار کا شکار بننا ہی پڑتا ہے۔

زمانے  کی چکی کے  نئے  اور پرانے  پاٹوں  کے  درمیان مجھ سے  لوگ پسا کرتے  ہیں۔

سکول کے  سامنے  کھڑی ریہڑھی پر سرخ اور سبز پوشش والی زنگ آلود مشین پر کانسی کا چاند تارہ دن کے  وقت چمکا کرتا۔ گنے  کا پھوگ، چوسی ہوئی گنڈیریاں  اور مکھیوں  کی بھنبھناہٹ ہر وقت زندگی کا پتہ دیتے  رہتے۔ گھرر گھرر مشین چلتی رہتی، رس نکلتا رہتا۔ پھوگ کے  ڈھیر لگتے  رہتے  اور دلاور آہیں  بھرتا رہتا۔ دلاور اس مشین کا مالک تھا، وہ ایک مدت سے  آہیں  بھر رہا تھا۔

ٹھٹھرتی کپکپاتی، یخ بستہ آہیں  آج بھی اس نے  حریم کی طرف دیکھ کر اپنے  پیلے  دانتوں  کی نمائش کرتے  ہوئے  ایک سرد آہ بھری تھی۔ لگاتار چھ پیریڈ پڑھانے  کے  بعد حریم کا ذہن بھی چوسی ہوئی گنڈیری کی طرح بکھر جاتا۔ میٹرک کی فیشن ایبل لڑکیوں  کی بھنبھناہٹ دماغ میں  کچھ یوں  رچ بس جاتی کہ چھٹی کے  بعد وہ کچھ بے  چین سی ہو جاتی، اجاڑ ویران کھنڈر ایسی۔ آج تیسرا پیریڈ انگریزی کا تھا اور اسے  وڈز ورتھ کی اگلی نظم پڑھانا تھی۔

’’قوسِ قزح آج بھی ویسی ہی رنگین ہے  جیسے  پہلے  تھی۔ گلاب میں  اب بھی ویسی دلکشی ہے، نیلگوں  آسمان پر چاند آج بھی اسی طرح درخشاں  ہے، تاروں  بھری راتوں  میں  گہرے  پانیوں  کی سندرتا اب بھی باقی ہے، سورج اب بھی اسی آب و تاب سے  چمکتا ہے  لیکن مجھے  ان میں  کوئی کمی محسوس ہوتی ہے، کچھ یوں  لگتا ہے  جیسے  ان میں  گئے  سمے  کی دلفریبی نہیں  ہے۔ کون جانے  کیوں ؟‘‘

اور جب چنچل عینی نے  اس سے  پوچھا کہ میڈم! بھلا اب کیا ہو گیا ہے  کہ شاعر کو یہ سب باتیں  نہیں  بھاتیں ؟ تو وہ کچھ بھی نہیں  کہہ سکی۔ دل تو چاہتا تھا کہ کہہ دے  کہ ان باتوں  کو وہی جانتا ہے  جو ان را ہوں  سے  گزرا ہو اور ان را ہوں  کی ایک راہی میں  بھی ہوں۔ میں  بھی جب تمہاری طرح فیصل آبادی مٹی کی گڑیا تھی تو میرے  بدن سے  بھی اٹھتی ہوئی کورے  گھڑے  کی سی خوشبو مجھے  سوچنے  پر مجبور کر دیتی تھی کہ دنیا کتنی حسین ہے۔ پھول میرے  لئے  کھلتے، چاند میرے  لئے  چمکتا۔ وہ راتیں  کتنی حسین تھیں  جب آسمان ستاروں  سے  ڈھک جاتا، چاندنی راتوں  میں  مَیں  گھنٹوں  چاند کو تکتی رہتی حتیٰ کہ چاند کی ایک ایک کرن مجھ میں  جذب ہو جاتی اور جب میں  کمرے  میں  جاتی تو چاندنی دبے  پاؤں  ساتھ چلی آتی۔ روشن صبحیں، دلفریب شامیں  و مدھم چاندنی، پرانے  گیتوں  اور معصوم تمناؤں  کی دنیا، کتنے  اچھے  تھے  وہ دن۔ یہ وہ دن تھے  جب صبح کے  دھندلکوں  میں  مَیں  تازہ کھلے  ہوئے  پھول کی طرح مہکی مہکی اور نکھری ہوئی نظر آتی تھی۔

میٹرک کے  بعد جب اماں  نے  پڑھائی کا سلسلہ منقطع کرنے  کو کہا تو میں  دھک سے  رہ گئی۔ یہ کیسے  ہو سکتا ہے  مجھے  تو ابھی بہت سا پڑھنا ہے۔ اماں  نے  بہتیرا سمجھایا کہ عورت کا اصل مقام گھر کی چاردیواری ہے  اور اب مجھے  گھر کی ذمہ داری سنبھالنی چاہئے  اور نہ جانے  کیا کیا کچھ لیکن اس وقت دماغ تسلیم ہی نہیں  کرتا تھا کہ میں  بھی ایک عورت ہوں۔ سولہ سترہ سال کی لڑکی بھلا خود کو عورت کہلوانا پسند کرے  گی۔ تب میں  جوان تھی، کائنات جوان تھی، آنے  والے  لمحات کے  تصور سے  ہی میرے  گالوں  میں  مہتابیاں  سی چھوٹنے  لگتیں۔ پپوٹوں  کی لرزش اور لبوں  کی جنبش کچھ اور ہی کہتی تھیں۔ ان کا سلسلہ براہ راست دل کے  تاروں  کے  ساتھ تھا۔

میں  نے  اپنی زندگی کے  آئندہ چار پانچ سالوں  کے  اس پار نظر ڈالی۔ ایک بے  پروا مہکتی بہکتی دنیا دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ چھوٹی سی کچھ اجنبی، کچھ جانی پہچانی، میری اپنی کائنات، وہی زندگی جس کی تمنا ہر لڑکی کے  دل میں  ہوتی ہے۔ میں  بھی اس صنف سے  تعلق رکھنے  کے  ناطے  کچھ ایسی زندگی کی متمنی تھی لیکن ایک ایسی عورت کے  تصور سے  ہی جسے  روٹیاں  تھاپنے  اور صبح شام اپنے  ڈھیر سارے  بچوں  کو کوسنے  کے  علاوہ کوئی کام نہ ہو۔ میرا دم گھٹنے  لگا۔ جس عورت کا مقصدِ حیات ہی بچے  پیدا کرنا اور تین وقت پیٹ کا دوزخ بھرنے  کا بندوبست کرنا اور جھوٹے  برتن دھونا ہو، کیا جینا اس عورت کا جس کا مرنا جینا، اوڑھنا بچھونا ہی چولہا پھنکنی ہو۔

میں  گھریلو زندگی کی متمنی تو تھی لیکن ابھی نہیں  اور یوں  بھی اس کے  ساتھ میرے  دل میں  اور بھی بہت کچھ تھا۔ میں  محسوس کرتی تھی کہ عورت اور مرد ایک ہی گاڑی کے  دو پہئے  ہیں  اور زندگی کی گاڑی کو رواں  دواں  رکھنے  کے  لئے  عورت کو مرد کے  شانہ بشانہ چلنا چاہئے۔ بحیثیت ماں، عورت معاشرے  کا ستون ہوتی ہے  اور ایک پڑھی لکھی ماں  ہی ایک صحت مند معاشرے  کو جنم دے  سکتی ہے۔

مجھے  آج بھی وہ واقعہ اس طرح یاد ہے  جیسے  کل کی بات ہو۔ جھکی جھکی آنکھوں  اور موٹے  فریم کی عینک والے  اسلامیات کے  لیکچرر کا گھر بار تو تھا نہیں  اس لئے  جب وہ اپنی ہمسائی کے  ساتھ اماں  سے  بات کرنے  آیا تو اماں  کی بانچھیں  کھلی جا رہی تھیں  کہ نہ ساس نند کا ٹنٹا، نہ سسرال کی جھک جھک۔۔۔  لیکن میں  جھنجلا گئی۔ اماں  کو تو نہ جانے  کیا ہو گیا ہے، اسلامیات کا لیکچر ر۔ میں  کھلکھلا کر ہنس دی (اور مانو صراحی سے  پانی قل قل بہنے  لگا) اسلامیات کے  لیکچرر سے  شادی، آئے  ہائے  کیسی مضحکہ خیز بات تھی۔ برقع پہننے  کے  تصور سے  ہی میرا دم گھٹنے  لگا اور پھر وہ تو کہے  گا کہ گھر کی چاردیواری میں  ہی بی حجن بنی بیٹھی رہو کہ عورت کا اصل مقام یہی ہے۔ میری آنکھوں  کے  سامنے  دھانی و پیازی، نیلے  اور زعفرانی چنے  چنائے  دوپٹے  گھوم گئے۔ وہ بھلا کب اوڑھنے  دے  گا اور ہاں  وہ سلیو لیس شرٹ جسے  پہننے  کی مجھے  کبھی اجازت نہ ملے  گی۔ ہائے  تو کیا میں  اس کا ارمان اپنے  ساتھ ہی قبر میں  لے  جاؤں  گی۔ کلب، پارٹیاں، ایٹ ہوم، نہیں  نہیں  وہ میرے  خیالات کے  ساتھ بالکل بھی لگا نہیں  کھاتا اور پھر تو گویا موسلا دھار بارش ہونے  لگی۔ کبھی یہ کبھی وہ اور اماں  کو جب وہ پسند آ گیا تو میرے  خیالات کا محل دھڑام سے  زمین پر آ رہا۔ وہ چیختے  چلاتے  رنگ وہ امریکن طرز کی کوٹھی جس کے  لان میں  مَیں  ننگے  پاؤں  گھوما کرتی۔ نیلے  پھولوں  والے  سفید قالین والا بیڈ روم، ہیرے  کا بریسلٹ اور رباعیاتِ خیام کا سا ماحول، سب دھندلا گیا۔ کہنے  کو تو وہ بی اے  ایل ایل بی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ تھا لیکن آمدن نام کو نہ تھی۔ گرمیوں  کی تپتی دوپہروں  میں  کالا کوٹ پہنے  بائیک کے  کیریئر پر ایک خربوزہ اور ایک پاؤ برف رکھے  اس گھر کی طرف لوٹتا جہاں  آلو بینگن اور تندوری روٹیاں  اس کا انتظار کیا کرتے۔

میں  نے  اماں  سے  صاف صاف کہہ دیا کہ میں  اس کے  ساتھ خوش نہ رہ سکوں  گی اور ہاں  وہ بزنس مین، بزنس مین میرا آئیڈیل تو تھا۔ تابش علی کی طرح کھالوں  کا کاروبار تھوڑا ہی کرتا تھا۔ وہ ابا کے  ساتھ ڈرائنگ روم میں  بیٹھا باتیں  کر رہا تھا۔ سستے  درباری عطر کی خوشبو کے  ساتھ ساتھ کھالوں  کی لپٹ بھی آ جاتی اور جب تصور ہی تصور میں  مَیں  نے  کونوں  کھدروں  میں  بدبو دیتی کھالوں  کو دیکھا تو مارے  کراہت کے  میرا جی الٹ پلٹ ہو گیا۔ کہاں  جگ مگ، جگ مگ کرتے  ہیروں  کا کاروبار اور کہاں  بد رنگ اور بد بو دار کھالیں  کیسی غیر رومانی بات تھی۔

بہت سے  آئے  اور چلے  گئے۔

اب میں  تعلیم ختم کر چکی تھی اور مجھے  ملازمت بھی مل گئی تھی۔ میں  بے  حد خوش تھی کہ اب میں  بڑے  بڑے  کام کروں  گی، اپنا مستقبل خود بناؤں  گی، تقریریں  کروں  گی اور ملک کی عورتوں  کو معاشرے  میں  مناسب مقام دلا کر رہوں  گی۔ سیاست میں  حصہ لوں   گی، خود جیل جاؤں  گی، انگریزی میں  بحثیں  کروں  گی، کلاسیکی موسیقی سیکھوں  گی اور ان فرسودہ روایات اور اقدار کو بدل کر رکھ دوں  گی۔ جن کے  مطابق اعلیٰ تعلیم اور شخصی آزادی کے  باوجود عورت کا مقصد صرف بچے  پیدا کرنا ہے۔ عورت اور بھی سب کچھ کر سکتی ہے  اگر اسے  موقع دیا جائے۔ جس عورت کو تمام عمر انگلی سے  لگائے  پھرو اس میں  بھلا اعتماد کہاں  پیدا ہو گا؟

اور یہی سوچ کر میں  نے  عورتوں  کو موقع فراہم کرنے  کا بیڑہ اٹھا لیا۔ یوں  ہی رفتہ رفتہ میرے  پڑھانے  کا تجربہ بھی چار سال ہو گیا۔ میری طالبات مجھے  بہت پسند کرتی تھیں  کیونکہ میرا پڑھانے  کا انداز بہت اچھا تھا اور میں  بہت محنت سے  پڑھاتی تھی۔ میں  معاشرے  کی اصلاح کا سوچتی رہتی اور اماں  کی ملنے  والیاں  سرگوشیاں  کرتیں۔

’’اری چھوٹی بہن کو تو اچھا خاصا ڈاکٹر مل گیا اور بڑی بہن بیٹھی ہے، بیچاری‘‘۔ تب میری چھوٹی بہن کی شادی ایک جھڑوس سے  ڈاکٹر کے  ساتھ ہو چکی تھی۔ ’’بیچاری‘‘ تب یہ مہمل سا لفظ بہت اچھا لگا کرتا تھا کیونکہ تب میں  اسے  محض ان عورتوں  کے  محدود ذہن کی پیداوار سمجھتی تھی اور بیماری کی ان ہولناکیوں  سے  واقف نہیں  تھی جن کی پیشین گوئی تب ہی ان عورتوں  نے  کر دی تھی۔ چھوٹی کو تو میٹرک کے  بعد ہی اچھا لڑکا مل گیا اور بڑی بے  چاری نوکری کرنے  جا رہی ہے۔ ان باتوں  سے  تو یہی ہو گا نا۔ میری ثمینہ کیا کم روتی تھی کہ اماں  بیگم نے  مجھے  میٹرک بھی نہ کرنے  دیا۔ اب حریم رانی کے  لئے  تو کوئی مہاراجہ ہی اترے  گا، آسمان سے۔

تب یہ باتیں  بہت سویٹ لگتی تھیں  شاید اس لئے  کہ اس وقت مجھے  ان باتوں  کی ذرا بھر بھی پروا نہیں  تھی۔ اس وقت میں  ان سب بے  حد رجعت پسند اور دقیانوسی تنقیدوں  سے  بے  پروا اپنے  ترقی پسند خیالات کی بے  پناہ عظمت کو سینے  سے  لگائے  دبے  دبے  مسکرایا کرتی تھی۔

۔۔۔  اور پھر ایک دن صبح کی اوّلین ساعتوں  کے  دھندلکوں  میں  مَیں  نے  محسوس کیا کہ میری آنکھوں  کے  گرد حلقے  پڑے  ہوئے  ہیں  اور میں  بہت عمر رسیدہ نظر آ رہی ہوں۔ تب مجھے  بڑی عجیب سی کوفت ہوئی۔ کیا عورتیں  محض یہی ہوتی ہیں، محض یہی اور تب تک رشتوں  کی موسلا دھار بارش بوندا باندی میں  تبدیل ہو گئی۔ پھر مطلع بالکل صاف ہو گیا اور اب تو کوئی ابر کا آوارہ ٹکڑا بھی نہیں  جس کی چھاؤں  میں  ہاتھ سے  نکلتی ہوئی جوانی کی لمبی تپتی دوپہریں  گزار دوں۔ میں  تھک چکی ہوں، افوہ! بتیس سال اور سات ماہ۔

اور آج میں  تنہا ہوں  (یہ سبھی کم بخت ایک سے  ہوتے  ہیں ) حمزہ ایک اور ڈگری لینے  جرمنی چلا گیا ہے۔ فیصل ابھی تک نہیں  لوٹا۔ کہتا تھا یورپ سے  ہر روز ایک فون کیا کروں  گا اور گاہے  بگاہے  خط لکھا کروں  گا جس میں  وہاں  کے  چیدہ چیدہ مشہور لوگوں  کے  ثقیل اور ناقابل فہم مقالوں  کے  اقتباسات درج ہوں  گے  اور وہ دانیال، پر وہ تو مجھے  اچھا ہی نہیں  لگتا۔ جاتے  وقت کیسے  کہتا تھا۔ اچھا حریم باجی، خدا حافظ! ’’باجی!‘‘ اوں  ہوں، بدتمیز کو بات کرنے  کا سلیقہ نہیں۔

اُف، کیسا اندھیرا ہے ! میں  تھک چکی ہوں، میں  ویران اور تپتے  ہوئے  سٹیشن پر لگے  ہوئے  اس نل کی طرح ہوں  جس پر لکھا ہو پینے  کا ٹھنڈا پانی ’’لیکن پانی کے  چائے  بننے  میں  صرف پتی کی کسر باقی ہو‘‘۔ کہنے  کو تو میں  صنفِ نازک سے  متعلق ہوں  لیکن مجھ میں  وہ نزاکت ختم ہو چکی ہے  جس کی تعریف کرتے  کرتے  شاعر ساری عمر گزار دیتے  ہیں۔ میری آنکھوں  میں  کوٹ کوٹ کر بھرے  ستاروں  کی چمک ماند پڑ چکی ہے۔ پکی ہوئی خوبانی کا سا رنگ وقت کے  تھپیڑوں  سے  دھندلا گیا ہے۔ گالوں  کی آگ سے  شعلے  بلند ہو کر جانے  کب کے  سرد پڑ چکے  ہیں۔ راکھ کریدنے  سے  شاید ہی کوئی چنگاری ملے۔ میں  عورت ہوں، میں  بیٹی ہوں  لیکن بیٹی بھی ایسی جس کے  ضعیف باپ کی جھکی ہوئی کمر اس کا بوجھ اٹھانے  پر مجبور ہے  جس کی بوڑھی ماں  کی آنکھیں  اب بھی اسے  اپنے  گھر میں  ہنستا بستا دیکھنا چاہتی ہیں۔ میں  عورت ہوں  لیکن بیوی نہیں  جو کسی کی شریک غم بن سکے۔ میں  عورت ہوں  لیکن ماں  نہیں  جس کے  پاؤں  تلے  کسی کو جنت کی تلاش ہو۔ میں  ایک ایسی عورت ہوں  جو ملک و قوم کے  لئے  کام کرتی ہے۔ میں  قوم کی بیٹیوں  کو تعلیم کے  زیور سے  آراستہ کرتی ہوں، میں  نے  بڑی عمدہ تعلیم حاصل کی ہے۔ ایم اے، ایم ایڈ تک کر لیا لیکن یہاں  ان باتوں  کی کوئی پروا نہیں  کرتا، سب فروٹ کاک ٹیل اور کولڈ کافی کی قدر کرتے  ہیں۔

میں  ایسی ماڈرن اور فیشن ایبل جگہ میں  رہنے  لگی ہوں، میں  کیریئر و ومنز ایسوسی ایشن کی سرگرم رکن ہوں۔ میں  بڑی سنجیدگی سے  انٹلکچوئل باتیں  کرتی ہوں۔ میرے  پاس تعلیم ہے، ذہانت ہے، میرے  پاس شاعری ہے  جو کبھی مجھے  اپنی جان سے  بھی پیاری تھی لیکن اب یہ سب چیزیں  میرے  لئے  بے  کار ہیں، محض یوں  ہی۔

واقعہ صرف یہ ہے  کہ میں  بتیس سال سات ماہ کی ہوں۔۔۔  یہ مرد کمبخت شامی کباب اور فروٹ کاک ٹیل کی قدر کرتے  ہیں، اجڈ کہیں  کے  لیکن اس ناقدری عالم کو کیا کیجئے  ’’تو ہر شب گردن مینا۔۔۔ ‘‘ اوں  ہوں  شاعری کی یہاں  کوئی پروا نہیں  کرتا، کوئی بھی تو نہیں۔ سوچیں، بکھری بکھری سی عجیب و غریب غیر منطقی خیالات دربدر بھٹکنے  والے  آوارہ گرد جو ذہن کے  چور دروازے  پر ہولے  سے  دستک دے  کر بڑی دھیرج سے  سکونِ دل میں  ہلچل مچا کر چپکے  سے  غائب ہو جاتے  ہیں  اور یہ تنہائی اور بے  رحم سناٹا، وقت کتنا ظالم ہے۔ کاش! یہ زیادہ نہیں  تو پانچ سات سال ہی پیچھے  چلا جائے۔

میں  سخت تھک چکی ہوں۔ پرسوں  مناہل اور یاسر کے  ہاں  پارٹی ہے۔ ایسا پُر خلوص بلاوا ہے  کہ جائے  بنا بھی چارہ نہیں۔

’’حریم آپا! پرسوں  رات کا کھانا ہمارے  ساتھ کھایئے، ہمیں  بہت خوشی ہو گی۔ ضرور آیئے  گا، ہم آپ کا انتظار کریں  گے ‘‘۔

آداب تو یہی کہتے  ہیں  کہ جانا چاہئے  لیکن ’’ہم‘‘ آپ کے  منتظر ہیں، یہ اکٹھے  پن کا احساسِ رفاقت، دائمی رفاقت، یاسر نے  بھی شادی کر لی (یہ سب کمبخت یہی کرتے  ہیں ) سبھی کہیں  نہ کہیں  جا کر شادیاں  کر لیتے  ہیں  اور اتراتے  پھرتے  ہیں۔

’’اوں، ہوں  بتیس سال اور سات ماہ۔۔۔  اب تو اس دلفریب جگ مگ کرتی دنیا کے  رنگ بھی پھیکے  پڑ گئے  ہیں۔ میں  چاندنی راتوں  میں  کمرے  میں  بند بیٹھی رہتی ہوں  کہ کہیں  ٹھنڈ لگ گئی تو صبح پڑھانے  نہ جا سکوں  گی۔ غروبِ آفتاب سے  منہ موڑے  تاریخ کی کاپیاں  چیک کرتی رہتی ہوں۔ میں  مسئلہ فیثا غورث تو جانتی ہوں  لیکن یہ نہیں  جانتی کہ ہر ہفتے  جو کیک میں  بناتی ہوں  اس کی خوشبو کیوں  اڑ جاتی ہے ؟ اب سوچتی ہوں، آنکھوں  پر جدید شیشوں  کی عینک چڑھائے  موٹی موٹی کتابوں  میں  سر کھپانے  سے  تو کہیں  بہتر تھا کہ میں  بڑی خاموشی سے  ایک سجے  سجائے  گھر میں  اپنا بیشتر وقت کپڑوں  کے  ساتھ لپ سٹک میچ کرنے  میں  گزار دیتی اور بڑی شدت سے  اس شوہر کا انتظار کرتی جو اکثر دیر سے  گھر لوٹتا (کبھی دو بجے  اور کبھی چار بجے ) اب بھی میں  اپنے  تعلیم یافتہ اور روشن خیال ذہن سے  سوچتی ہوں  تو اس میں  مجھے  اپنا کوئی قصور نظر نہیں  آتا۔ کیونکہ میں  جانتی ہوں  کہ کچھ لوگوں  کو معاشرے  کی بدلتی ہوئی اقدار کا شکار بننا ہی پڑتا ہے۔ زمانے  کی چکی کے  نئے  اور پرانے  پاٹوں  کے  درمیان مجھ جیسے  لوگ پسا کرتے  ہیں۔

لیکن یہ سوچیں، یہ نظریات ایک خاص عمر میں  ہی بھلے  لگتے  ہیں۔ اب تو مجھے  اپنے  نظریات پر بجائے  فخر کے  شرمندگی ہوتی ہے  کیونکہ بتیس سال اور سات ماہ ایک اٹل حقیقت ہے۔ اب تو مجھے  نفرت ہے  ان بلند بانگ دعوؤں  سے، اب میرے  خیالات میں  ایک واضح فرق آتا جا رہا ہے، اب تو مجھے  اس دلاور مشین والے  کی بیوی خود سے  کہیں  زیادہ خوش قسمت نظر آتی ہے  (بلا سے  جو دلاور اس کی روز پٹائی کرتا ہے ) اگر وہ تنگ دست ہے  تو کیا ہوا۔ اگر میں  اتنا بے  دریغ روپیہ خرچ کرتی ہوں  تو، تو بھی کیا ہوا؟ میں  بچاؤں  بھی تو کس کے  لئے ؟ دلاور کی بیوی کا تو اپنا گھر ہے، اس کے  سامنے  اس کے  بچوں  کا مستقبل ہے  اور ایک تم ہو حریم بیگم! اب کہو کیسی رہی۔ یہ ملک و قوم کی خدمت اوں  ہوں !

٭٭٭

 

 

گوشہ۔ ۲

۱۹۸۰ کے  بعد کے  ناول

 

اے  غزال شب: زوال سے  جنم لینے  والا ادبی شَہ پارہ

(مستنصر حسین تارڑ کے  ناول پر ایک نظر)

اقبال خورشید

 

کیا آپ بوڑھے  خلیل کو جانتے  ہیں ؟

بوڑھا خلیل، جسے  چکروا کے  کھیتوں  سے  آتی گوکھرو کی جھاڑیاں  فصل تیار ہونے  کی نوید سناتیں، اور وہ مختار کے  گھر کی سمت چل پڑتا، تاکہ اس کے  دورافتادہ گاؤں  کی آبادی کپاس کی چُنائی کے  لیے  ایک کٹھن سفر کا آغاز کر سکے، تاکہ وہ اپنے  قرضے  چُکا سکیں، اور موسم سرما کا قہر سہنے  کا کچھ انتظام کر سکیں۔

بوڑھا خلیل، جو تُرک ادیب، یشار کمال کا ایک کردار ہے۔ The Wind from the Plain کا ایک حزنیہ کردار، جو اپنا کان زمین سے  لگا کر اُس کی تہ سے  آتی سرگوشیاں  سن لیتا ہے۔ وہ میدانی زمین کو ایک کمال کی شے  خیال کرتا تھا کہ اُس کے  وسیلے  آپ دنیا کے  دوسرے  کنارے  پر بانسری بجاتے  گڈریے  کی آواز اور ایک دن کی دُوری پر دوڑتے  گھوڑے  کے  ٹاپوں  کی آواز سن سکتے  ہیں۔

بوڑھا خلیل، ہمارا بدنصیب اور منہ پھٹ بڈھا، دیہی دنیا کا باسی تھا، پر میں  شہروں  میں  سانس لیتا ہوں، جہاں  ایک ہنگامہ بپا ہے۔ انتشار ہی انتشار ہے۔ اور اِسی انتشار میں  انقلاب کی بازگشت سنائی دیتی ہے، جو مجھے  بوڑھے  خلیل کے  مانند اپنا کان زمین سے  لگانے  پر مجبور کرتی ہے، تاکہ دھرتی میں  سرکتے  اِس معجزے  کی چاپ سن سکوں … پر مجھے  کچھ سنائی نہیں  دیتا۔ زمین چپ ہے۔

میں  سر اٹھاتا ہوں، تو انقلابی بازگشت پھر سماعتوں  سے  ٹکراتی ہے، جس کی تفہیم میں  ناکامی کے  بعد میرا ذہن خاموشی سے  ماضی میں  چلا جاتا ہے۔ اُن زمینوں  پر، جہاں  دس عشرے  قبل انقلاب کا جنم ہوا۔ اکتوبر انقلاب، جو فلسفے  کے  باطن سے  پُھوٹا، جس کے  لیے  قربانیاں  دی گئیں۔ جس کے  نتیجے  میں  مزدور جی اٹھے، اور سرخ نغمے  فضاؤں  میں  پھیلنے  لگے۔

نہیں، مجھے  گوکھرو کی جھاڑیاں  دکھائی نہیں  دیتیں۔ اور زمین بھی چپ ہے۔ اور مجھے  اس کی پروا نہیں  کہ اب میرا ذہن ایک ناول میں  اٹکا ہے۔ ناول، جو سو ویت یونین کے  انقلاب سے  متعلق نہیں، بلکہ اس کے  انہدام سے  متعلق ہے۔ نظریاتی ریاست کی شکست و ریخت سے  جنم لینے  والے  بگاڑ سے  متعلق۔ مگر یہ ان روسیوں  سے  متعلق نہیں، جو اس سماجی اور نظریاتی کرب سے  گزرے، بلکہ اُن تارکین وطن سے  متعلق ہے، جنھوں  نے  مساوات پر مبنی معاشرے  کا اُجلا سپنا دیکھا۔ اور یہ تارکین وطن سے  متعلق بھی نہیں، بلکہ ان پاکستانیوں  سے  متعلق ہے، سوشل ازم جن کا قبلہ ٹھہرا، جنھیں  نظریات میلوں  دُور لے  گئے، اپنی زمین چھوڑ کر نئی زمینوں  پر ذات کا بیج بویا۔ وہ مزدوروں  کے  راج میں  خوش تھے  کہ سرمایہ دارانہ نظام نے  کاری وار کیا۔ سو ویت یونین منہدم ہوا۔ اور اپنی جڑوں  سے  کٹ چکے  اُن انسانوں  کی زندگیاں  یک سر بدل گئی۔

تو میرا ذہن ایک ناول میں  اٹکا ہے، جو ان کمیونسٹ ممالک میں  مقیم پاکستانیوں  سے  متعلق ہے، جہاں  سوشل ازم ڈھہ چکا ہے۔ ناول… جو آپ کے  اور میرے  متعلق ہے۔ ناول… جو ’’اے  غزال شب‘‘ ہے۔ ناول… جسے  مستنصر حسین تارڑ نے  جنم دیا ہے۔

داستان گوئی تارڑ کی سرشت میں  ہے  کہ وہ پانچ دریاؤں  کی اُس دھرتی کا سپوت ہے، داستان گوئی کا فن جس کی رگوں  میں  خون بن کر دوڑتا ہے۔ وہ ایک حقیقی قصّہ گو کے  مانند ہمیں  اپنے  شبدوں  سے  باندھ لیتا ہے۔ ہم الاؤ کے  گرد بیٹھ جاتے  ہیں۔ اور بیتتے  لمحات سے  بے  پروا ہو جاتے  ہیں۔

اگر آپ میلان کنڈیرا کی اِس بات کے  قائل ہیں  کہ ’’ناول کا مقصد معروف حقیقت بیان کرنا نہیں، بلکہ یہ ہے  کہ وہ انسانی وجود کے  کسی نامعلوم پہلو کی نقاب کشائی کرے ‘‘ تو آپ کو ’’اے  غزال شب‘‘ پڑھنا چاہیے  کہ یہ تلپٹ ہوئی زندگیوں  کی اُن جہتوں  سے  آشنا کرے  گا، جن سے  آپ لاعلم ہیں۔ یہ اُس سانحے  کے  بعد کی کہانی بیان کرے  گا، جس کا کرب، کم از کم اردو میں، پوری طرح بیان نہیں  ہوا ہے  کہ یہ زخم ابھی تازہ ہے۔

اور اگر آپ جین اسٹن کے  اِس نظریے  کو دُرست خیال کرتے  ہیں  کہ ’’یہ فقط ناول ہے، جہاں  انسانی ذہن اپنی کُل صلاحیتیں  آشکار کرتا ہے، جہاں  ہر انسانی جذبہ بہترین زبان میں  اظہار پاتا ہے۔ ‘‘ تب تو آپ کو تارڑ کے  ناول پڑھنے  چاہییں  کہ وہ کُل صلاحیتیں  آشکار کرتے  ہوئے، زندگی کی گہرائی میں  اتر کر اَن سُنے، اَن دیکھے  پہلو آشکار کرتا ہے۔ ایسی زندگی ہمارے  سامنے  منظر کرتا ہے، جو اُس زندگی سے، جو ہم جی رہے  ہوتے  ہیں، مشابہ ہونے  کے  باوجود مختلف ہوتی ہے۔ نئی اور کراری۔

’’اے  غزال شب‘‘ بورے  والا کے  ظہیرالدین کی کہانی ہے، جو سرخ نظریات تج چکے  یخ بستہ ماس کو  میں  روئی کے  ریشوں  سے  بنی ایک مائی بوڑھی کا تعاقب کر رہا ہے۔ جو شمس الدین انقلابی کا بیٹا ہے، اور بدلتے  حالات سے  ہم آہنگ ہونے  میں  ناکامی کے  بعد مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اور حالات کا یہ بدلاؤ کیا ہے ؟

’’جب کبھی کوئی عظیم تہذیب زوال پذیر ہوتی ہے، ایک نظام سرنگوں  ہوتا ہے، ناکارہ اور بیکار ہو کر تاریخ کے  کوڑے  داں  میں  پھینک دیا جاتا ہے، تو اس تہذیب اور نظام کے  جتنے  بھی کُل پرزے  ہوتے  ہیں، ان کے  سوا جو گرگٹ کی مانند رنگ بدل لیتے  ہیں، وہ سب بھی ناکارہ اور بیکار ہو جاتے  ہیں  اور ان کی جگہ نئے  لوگ آ جاتے  ہیں۔ حکومت میں، ثقافت اور صحافت میں، یہاں  تک کہ ادب اور مصوری میں  بھی۔ جیسے  اسٹیٹ ٹیلی ویژن پر اپنے  فرائض سر انجام دینے  والے  جتنے  بھی پروڈیوسر یا ڈراما نویس تھے، وہ پارٹی کی ہدایات اور مارکس اور لینن کے  خیالات اور تحریروں  سے  آگہی کا نور حاصل کر کے  اس کی روشنی میں  مزدوروں  اور دہقانوں  کی حکم رانی کے  سرخ سویرے  اپنے  ڈراموں  میں  تشکیل دیتے  تھے، جس کے  ہر منظر میں  انقلابی گیت الاپتی، ہمہ وقت مسکراتی دہقانی عورتیں  اور درانتیاں  بلند کیے  ہوئے  مضبوط بدن مزدور ہوا کرتے  تھے  اور ان کے  پس منظر میں  ہمیشہ ایک سرخ سورج طلوع ہو رہا ہوتا تھا… یہ سب ہدایت شدہ تصورات ان کے  خون میں  یوں  گردش کرتے  تھے  کہ اگر وہ کرنا بھی چاہتے، تو ان سے  روگردانی نہیں  کر سکتے  تھے، اس لیے  وہ ناکارہ اور بیکار ہو گئے … ان کی جگہ جو نئے  لوگ سامنے  آ رہے  تھے، وہ نئے  نظام کی ترجمانی کرتے  تھے …‘‘ (اے  غزال شب: صفحہ 15)

اور یہ برلن میں  مقیم عارف کی کہانی ہے، جو لکھنؤ کے  زمانے  میں  اسٹیج پر کرشن کا کردار نبھایا کرتا تھا۔ عارف نقوی، جس کے  لیے  اب کراچی اور برلن دونوں  اجنبی ہیں۔ اور اس ناول میں  آپ کو بودا پسٹ سے  لاہور آئی ہوئی ایک روما جپسی مل  گئی؛ جینا اسلام۔ مصطفے ٰ اسلام شیخ کی بیٹی۔ جو آپ کو جپسی گیت سناتے  ہوئے  لاہور کی گلیوں  میں  گھمائے  گی۔ اور اس میں  ظہیرالدین کا دوست، ماس کو  کا ایک بڑا بزنس مین، وارث چوہدری بھی ہے۔ وہ اکلوتا شخص، جو ظہیر کو سمجھتا ہے، جس کے  سامنے  مائی بوڑھی کا تعاقب کرنے  والا اپنا کرب یوں  بیان کرتا ہے :

’’سرخ سویرے  کا خواب میری زندگی کو با مقصد کرتا تھا… اب میری حیات کا کوئی جواز باقی نہیں  رہا… ہاں  موت کے  بعد قل کی رسم ہوتی ہے، پھر چالیسویں  کی تقریب ہوتی ہے، اور مرنے  والے  کے  لیے  قرآن پاک پڑھ کر اس کی مغفرت کی دعا کر کے  ہم فارغ ہو جاتے  ہیں، لیکن وہاں  ایک شخص مرتا ہے … اور اگر پورا نظام مردہ ہو جائے، تو کتنے  روز یا کتنے  برس سوگ منایا جاتا ہے، یہ تو کوئی طے  شدہ روایت نہیں  ہے … وارث…میں  ہرگز ایک سیاہ لباس نہیں  ہوں، لیکن اتنی بڑی تبدیلی کا جو دھچکا ہے، میں  اُس سے  سنبھل نہیں  پا رہا۔ ‘‘ (اے  غزال شب: صفحہ 46)

اور وہاں  ماس کو  میں … ایمن آباد کے  ایک امام مسجد کا بیٹا قادر قریشی بھی ہے، جو ایک چالاک اور عیاش خصلت کے  ساتھ پیدا ہوا۔ وہ سو ویت یونین کے  زوال کے  بعد عرب ممالک، تھائی لینڈ، افریقہ کے  پس ماندہ خطوں  اور پاکستان کے  دور دراز علاقوں  میں  پھیلی روسی، ازبک، تاجک اور یوکرینی بدنوں  کی منڈی سے  رزق کماتا ہے۔ اور ناول کا ایک کردار سردار قالب بھی ہے، انقلابی شاعر سیماب کا بیٹا، جو اپنے  سسر، کے  جی بی کے  سابق ایجنٹ لیموسمرنوف کے  پیشاب خانوں  سے  حاصل ہونے  والی یومیہ آمدن وصول کرنے  پر متعین ہے۔

تو ’’اے  غزال شب‘‘ سو ویت یونین کے  زوال کے  بعد، پھیکے  پڑ چکے  سرخ رنگ کی کہانی ہے، جس میں  لینن کے  مجسمے  پگھلا کر صلیبیں  بنائی جا رہی ہیں۔ اور کرداروں  میں  اکتاہٹ بڑھ رہی ہے۔ اکتاہٹ، جو ان میں  واپس اپنے  وطن آنے  کی خواہش جگاتی ہے، وہاں  قیام کرنے  کی غرض سے  نہیں  کہ اب وہاں  اُن کا اپنا کوئی نہیں، فقط نامعلوم میں  جھانکنے  کے  لیے۔ اور جب وہ یہ فیصلہ کرتے  ہیں، تو شوکی جھوٹا سامنے  آتا ہے۔ ایک عجیب و غریب کردار، جس کا تخیل گم شدہ چیزوں  تک پہنچ جاتا ہے۔ اور قارئین ناول کے  چار کرداروں  کی کہانی، جو گم شدہ کرداروں  ہی کے  زمرے  میں  آتے  ہیں، اُس کی زبان سے  سنتے  ہیں۔

اور پھر ایک انوکھا موڑ آتا ہے، جب ناول نگار براہ راست آپ سے  کلام کرتا ہے۔ اور اس امر پر مایوسی کا اظہار کرتا ہے  کہ وہ چاروں  کرداروں  کی ملاقات کا کوئی امکان پیدا نہیں  کرپا رہا۔ اور مایوسی کے  ان لمحات میں  اُسے  شوکی جھوٹے  کی سرگوشی سنائی دیتی ہے، جو یہ بھاری ذمے  داری اپنے  کاندھوں  پر لے  لیتا ہے۔

کولاژ  تکنیک میں  لکھے  اس قابل مطالعہ ناول کا، جس میں  چھوٹے  چھوٹے  ٹکرے  ملتے  جاتے  ہیں، یہ سب سے  متاثر کن ٹکڑا ہے۔

تو یہ ’’اے  غزال شب‘‘ ہے۔ زوال کے  بعد کی کہانی۔ جس کا ایک کردار طالبان سے  ہم دردی کرتا نظر آئے  گا، تو دوسرا جپسیوں  سے  متعلق حالیہ تحقیق بیان کرے  گا۔ اور آخر میں  الحمرا کے  اسٹیج پر ایک نئے  کرشن کا ظہور ہو گا، جو کہے  گا:

’’اے  ارجن، موت نیزوں  اور بھالوں  کے  بدن میں  اترنے  سے  واقع نہیں  ہوتی، بلکہ پرماتما کو بھلا دینے  سے  ہی انسان مر جاتا ہے۔ ‘‘

اور… ’’اے  ارجن، ہم دریا کے  جھاگ کی مانند… بہاؤ کے  ساتھ بہتے  چلے  جا رہے  ہیں …‘‘ (اے  غزال شب، صفحہ 295)

’’اے  غزال شب‘‘ کے  مصنف کا کمال یہ ہے  کہ ہم اُس کے  وسیلے  زمان و مکاں  کے  کسی اور ٹکڑے  میں  سانس لیتی زندگیوں  سے  جڑ جاتے  ہیں۔ وہ ایک بڑے  ناول نگار کی طرح، جو کہ وہ ہے، فقط حقیقت کی عکاسی نہیں  کرتا، بلکہ اُن عناصر زندگی کو بھی گرفت میں  لاتا ہے، جس سے  حقیقت تخلیق ہوتی ہے۔ فقط جزئیات نگاری پر کمربستہ نہیں، بلکہ ہمیں  جزئیات میں  موجود ایک مشترکہ احساس تک رسائی فراہم کرتا ہے، جو شاید رائیگانی کا ملال ہے۔ شاید اِسی نوع کی قابلیت اور مہارت کی بنا پر ڈی ایچ لارنس نے  ناول نگار کو سائنس داں، فلسفی اور شاعر سے  برتر ٹھہرایا تھا۔

ناول کے  ایک دل کش ٹکڑا کے  ساتھ، جہاں  ایک کردار اپنے  گھر لوٹ رہا ہے، تحریر کا اختتام کرتا ہوں، جو بلاشبہ طلسماتی ہے، مگر یہ طلسم، جادوئی حقیقت نگاری کی وہ شکل نہیں، جو مارکیز کے  ہاں  ملتی ہے، بلکہ وہ ہے، جس کی جھلک ہم تارڑ کے  ابتدائی ناول ’’پکھیرو‘‘ میں  دیکھ چکے  ہیں۔

’’فلیٹ کے  اندر ایک بے  خبری خوابیدہ تھی کہ اس نے  اپنی آمد کی خبر نہ کی تھی… وہ اس خوابیدہ بے  خبری میں  دبے  پاؤں  چلتا بالکونی کی جانب بڑھا، تو یک دم راہ داری میں  بچھے  قالین میں  سرگوشیاں  ہونے  لگیں … راہ داری کے  عین درمیان میں  چھت سے  لٹکتا وہ مختصر حجم کا فانوس، جو اس نے  ایک چیک پناہ گزین سے  حاصل کیا تھا، اس کے  بلور کے  قتلے  ایک جگمگاتا جل ترنگ بجانے  لگے … یہاں  تک کہ بالکونی کے  راستے  ڈینیوب کی نیلاہٹ میں  رنگا نیل ہوا کا ایک جھونکا راہ داری میں  داخل ہوا، اور اس کے  قدموں  تلے  بچھ گیا، اُسے  محسوس ہوا کہ اس کے  جوتے  اس کی نمی سے  گیلے  ہونے  لگے  ہیں … سب کو خبر ہو گئی… قالین کی سرگوشیاں، گل دان کی پتیوں  پر اتری اوس کی بوندوں  کی گیلاہٹ، فانوس کے  بلور قتلوں  میں  سے  جنم لینے  والے  جل ترنگ کے  سُر اور ڈینیوب کے  نیلاہٹ میں  بھرے  نیلی ہوا کے  جھونکے  کے  لمس نے  جینا کو بھی خبر کر دی…‘‘

شاید آپ کو گوکھروں  کی جھاڑیاں  انقلاب کی فصل تیار ہونے  کی نوید نہ سنائیں، مگر ’’اے  غزال شب‘‘ کے  طفیل آپ کو فنِ ناول نگاری اپنی عروج پر ضرور نظر آئے  گا۔ اگرچہ یہ زوال کے  بعد کا ناول ہے، مگر یہ ناول کا عروج ہے۔   ٭٭٭

 

نالۂ شب گیر: فکشن کی نئی تعبیر

پروفیسر قمر جہاں

 

بڑا ناول ایک بڑے  کینوس کا متقاضی ہوتا ہے۔ مشرف عالم ذوقی اردو کے  ایک اہم فکشن نگار ہیں، خصوصاً ناول کے  باب میں  ان کے  کئی ناول اپنے  قاری کو چونکا رہے  ہیں۔ آتش رفتہ کا سراغ، لے  سانس بھی آہستہ، نالۂ شب گیر، وغیرہ کا شمار ایسے  ہی ناولوں  میں  ہوتا ہے  جو موضوع و مواد، اسلوب اور قصہ و کردار، تمام معاملات میں  گزشتہ ناولوں  سے  مختلف ہیں، خود ذوقی کے  گزشتہ ناول مسلمان، بیان وغیرہ کے  مقابلے  میں  یہ ناول کئی اعتبار سے  نئے  اور نرالے  ہیں  دراصل فکشن کا رشتہ معاشرے  سے  بڑا گہرا ہے، جیسا معاشرہ ہو گا، فکشن میں  بھی اس کے  اثرات نظر آئیں  گے۔

بیسویں  صدی کے  بعد اکیسویں  صدی واقعی کئی اعتبار سے  ہمیں  جھنجھوڑ رہی ہے، یہ اضطراب آسا اور سرعت رفتار صدی ہے، آج ہم ایک گلوبل سماج میں  داخل ہو گئے  ہیں، جہاں  قدریں  سیدھی لکیر نہیں  بلکہ ٹیڑھی لکیر بن چکی ہیں، علم نفسیات کے  ماہر جانتے  ہیں  کہ آج کا انسان خواہ مرد ہو یا عورت، سیدھی سادی نفسیات کے  حامل نہیں  رہے، وقت اور حالات نے  انہیں  پیچیدہ ہی نہیں، بیحد پیچیدہ بنا دیا ہے۔

؂بلاشبہ مشرف عالم ذوقی کا ناول ’نالۂ شب گیر‘(اشاعت ۲۰۱۵) ایک ایسا رزمیہ (بلکہ رزمیہ کہتے  ہوئے  مطمئن نہیں  ہوں، مناسب الفاظ مجھے  مل نہیں  رہے  ہیں، بیانیہ بھی فٹ نہیں  ہو رہا ہے ) بہر کیف، اس ناول میں  آپ صرف حال کو ہی نہیں، اپنے  ماضی اور مستقبل کی بھی تعبیر دیکھ رہے  ہیں، اسے  ہم آنے  والے  وقت کا اشاریہ کہیں  تو شاید بات بن سکتی ہے۔

زیر بحث ناول چار سو صفحات، ڈیمائی سائز، خوبصورت طباعت و اشاعت کا نمونہ ہے۔ ناول کا بنیادی یا مرکزی قصہ ایک ایسے  ازدواجی رشتہ پر مشتمل ہے  جہاں  نہ کوئی سماجی پابندی ہے، نہ گھریلو الجھن، نہ ساس، نہ سسر، نہ نند، نہ بھاوج، نہ زیادہ بچوں  کی دیکھ بھال کی ذمہ داری، آزادی و خوشحالی کی مکمل فضا ہے، قدر کرنے  والا خاندان ہے  مگر۔۔۔  مگر اس آزاد فضا میں  وہ کون سا کیڑا نظر آ جاتا ہے  جو ازدواجی رشتہ کو ہی مفلوج کر دیتا ہے ؟

سوال کے  جواب میں  جایا جائے  تو بغاوت کی وہ پہلی آواز جس کی شروعات بچپن کے  غلط گھریلو ماحول کے  زیر اثر ہوئی تھی اور کہانی کی ہیروئن ناہید ناز کے  ذہن و خیال مین جونا گڑھ کے  ہجڑے، اپنی قبیح صورت میں  ناچنے  لگتے  تھے۔ یہ یادیں  بڑھتے  ہوئے  شعور اور ارد گرد کے  سماجی ماحول کے  زیر اثر ایک مسلسل ذہنی کرب کی صورت اختیار کرتے  ہوئے، نفسیاتی مرض میں  تبدیل ہو جاتی ہیں۔ حالاں  کہ اس بابت خود مصنف کا خیال یہ ہے  کہ نہ وہ نفسیاتی مریضہ ہے، نہ پاگل، مگر وہ صدیوں  کے  کرب اور غلامی سے  آزاد ہونا چاہتی ہے۔۔۔                  (ص ۲۰  از  نالۂ شب گیر)

لیکن قاری کی نظر میں  ناہید ناز ہوں  یا صوفیہ مشتاق احمد، یہ دونوں  نسائی سیرتیں  غیر معمولی ذہنی دباؤ کی وجہ سے  دو مختلف و متضاد نفسیاتی مرض کی شکار معلوم ہوتی ہیں، ان کے  اعمال و حرکات عجیب و غریب نہیں  تو غیر معمولی ضرور ہیں، ناول میں  صوفیہ مشتاق کا تعارف پہلے  ہوتا ہے۔ یہ ڈری سہمی، خوف و ہراس کی شب گزیدہ لڑکی بقول مصنف۔۔۔   عظیم طاقتوں  میں  سے  ایک بننے  جا رہے  ملک ہندوستان میں، ایک مسلمان لڑکی اپنی شادی کے  لئے، ’شاہزادوں ‘ کا انتظار کرتے  کرتے  تھک گئی اور اچانک ایک دن اُس نے  ایک تنہا، اُداس کمرے  میں  (ص  ۳۱)

دوسری جانب اس کے  برعکس ناہید ناز کی نسائیت ہے  جو مغربی فیمنزم تحریک اور عصری حسیت سے  متاثر، وقت اور حالات سے  ٹکراتی ہوئی آپ اپنی دنیا تلاش کرنے  والی بولڈ عورت کی صورت نمایاں  ہوئی ہے  کہانی کے  تناظر میں  غور کیا جائے  تو دونوں  ہی دو انتہا پر ہیں، غالباً یہی وجہ ہے  کہ کمال یوسف جیسے  فرمانبردار اور محبت کرنے  والے  خاوند کو پا کر بھی دونوں  بہ حیثیت مجموعی ناکام رہیں  مگر ناہید ناز اسے  ناکامی کا نام نہیں  دیتی بلکہ ان کی آواز ہے

’’قید کو توڑ دے  اور آزاد ہو جا، میں  ایسا راز ہوں  جسے  پانے  میں  صدیاں  لگتی ہیں۔ ‘‘

یہ صحیح ہے  کہ خواتین ایک طویل عرصے  سے  مرد اساس معاشرے  میں  کراہ رہی تھیں  اور آزادی کی یہ نئی فضا جو فیمنزم تحریک (Feminist movement) کے  زیر اثر انہیں  ایک ایسے  مقام پر پہنچا چکی ہے  کہ بیشتر خواتین اندر اور باہر کی ٹوٹ سے  ایک نئی حسیت کی مالک بن گئی ہیں، مگر کیا ناہید ناز جیسی جوان عورت اپنی فطری خواہش کا بھی گلا گھونٹ چکی ہیں ؟ یہ سوال میرا نہیں، خود مصنف نے  اختتام میں  اٹھایا ہے  اور واقعی ناول کے  قصے  کے  منظر نامے  میں  یہ سوال بہت اہم ہے  کہ ’’کیا آپ کہہ سکتی ہیں  کہ آپ خوش ہیں ؟‘‘

جواب:۔ کیوں ؟ کمی کیا ہے۔ میرے  پاس۔۔۔ ؟‘‘

آگے  کا مکالمہ سنئے۔

’’فطرت؟ فطری اصول۔۔۔  جسم کی مانگ۔۔۔ ؟ میں  نے  (مصنف نے ) غور سے  ناہید کی طرف دیکھا۔ آپ انسان ہیں  تو۔۔۔ ؟‘‘

ناہید کا جواب واقعی تم بلاسٹ جیسا ماحول بناتا ہے، شدید جھنجھلاہٹ اور کڑکتی آواز کے  ساتھ اس کی زبانی ادا کردہ یہ جملہ کافی غور طلب ہے  جس میں  پوری کہانی کا نچوڑ ہے۔۔۔  ’’اب بھی کچھ باقی رہ گیا ہے۔۔۔ ؟‘‘ یہ جملہ جہاں  درد کی ایک وسیع کائنات خلق کر رہا ہے  وہاں  قاری کو ماضی کے  اس اوراق پریشاں  کی بھی یاد دلاتا ہے  جب خود اپنے  ہی بظاہر محفوظ گھر میں  عظیم (چچا زاد بھائی) والے  حادثہ کے  بعد اس معصوم ناہید نے  پہلی بار گھر اور تمام رشتہ دار کو خیر باد کرتے  ہوئے  اپنی مجبور و محکوم ماں  کے  سامنے  یہ مکالمہ ادا کیا تھا  ’اب بھی کچھ باقی رہ گیا ہے۔۔۔ ؟‘ ایک لمبے  عرصے  کے  بعد ناول کے  آخری حصہ میں  اسی جملہ کی تکرار، قاری کو یہ سوچنے  پر مجبور کر دیتی ہے  کہ واقعی دوش ناہید ناز میں  نہیں  ہے  بلکہ عورت پر کیے  گئے  ظلم و ستم کی ایک لمبی داستان نے  اسے  مسخ کر دیا ہے  یا اس انتہا پر پہنچا دیا ہے  کہ اب وہ عورت اور مرد کی تفریق سے  بلند ہو کر صرف ایک زندہ خود اختیار مخلوق بہ الفاظ دیگر مرد بن کر جینا چاہتی ہے، اس کے  علم نے  اسے  اس حقیقت سے  باخبر کر دیا ہے  کہ اس کی قوت کسی سے  کم نہیں، وہ ذہنی اعتبار سے  اس قدر بالیدہ اور با شعور ہو چکی ہے  کہ کوئی کام آج اس کے  لیے  ناممکن نہیں  نئے  سائیبر عہد میں  لغت سازی کرتے  ہوئے  جس طرح الفاظ کے  روایتی معنی و مفہوم میں  تغیر بپا ہوا ہے  اسی طرح مرد اور عورت کے  اوصاف، خصلتیں، فطری جبلتیں، خواہشات بھی تیزی سے  بدل رہے  ہیں۔

ناول میں  پیش کردہ دو اہم نسائی کردار صوفیہ مشتاق احمد اور ناہید ناز ایک دوسرے  کی ضد ہیں  صوفیہ کمزور عورت کی علامت ہے  اور ناہید ناز طاقت کا علامیہ۔۔۔  گھر یا یہ سماج ابھی بھی دو حصوں  میں  منقسم ہے۔ ناول کا ہی مکالمہ ہے۔

’’کمزور لوگ، کمزور لوگوں  کی پسند ہوتے  ہیں  اور آزاد لوگوں  کی اپنی دنیا ہوتی ہے۔۔۔ ‘‘

ناہید کے  چہرے  پر غرور آمیز چمک دوبارہ لوٹ آئی تھی۔۔۔

میں  نے  آہستہ سے  کہا’ یہ سماج ابھی بھی دو حصے  میں  تقسیم ہے۔ ایک طرف گھنی پرچھائیاں  ہیں  اور دوسری طرف طلوع آفتاب کا طلسم۔ ایک آبادی خوف کی ہے، جو ایک بڑی دنیا کو آزاد ہونے  سے  روک رہی ہے۔۔۔  ممکن ہے  یہ توازن کے  لیے  ہو۔۔۔ ‘‘          (نالۂ شب گیر  ۳۹۲تا ۳۹۳)

ناہید ناز اور صوفیہ مشتاق دونوں  کرداروں  کی عقبی زمین میں  یقینی طور سے  ان کے  بچپن کے  احوال و کوائف، حادثات و واقعات اور خاندانی ماحول دیکھے  جا سکتے  ہیں، فرد تو معاشرے  کا پابند ہے  خواہ عورت ہو یا مرد، اپنے  مخصوص معاشرے  میں  ہی وہ اپنی پہچان بناتا ہے، اس کے  کردار پر مثبت و منفی اثرات اسی مخصوص ماحول و معاشرے  کے  رہین منت ہیں۔

جدیدیت کے  دور میں  سیکس (Sex) کے  لیے  شاعری اور فکشن میں  ایک نئی اصطلاح !علامت سانپ کی مروج ہوئی تھی۔ سریندر پرکاش کا مشہور افسانہ ’دوسرے  آدمی کا ڈرائنگ روم‘ میں  سانپ، سیکس یا جنسی بھوک کے  معنی میں  بڑی ہنر مندی سے  استعمال میں  آیا ہے، ذوقی کے  ناول ’نالۂ شب گیر‘ میں  کیڑا، کینکڑا، ہاتھی کا سونڈ، غلیظ اور قبیح صورت، چوہا، علاء الدین کا جن اور کہیں  آسیبی داستانوں  کے  مشہور زمانہ کردار ’ڈراکیولا‘ کی صورت میں  اس فطری جبلت کو خوفناک شکل دی گئی ہے، دراصل زیر بحث ناول کی تخلیق کا زمانہ میٹرو پولٹین شہر دلی کے  مشہور و ہنگامہ خیز ماحول، جیوتی گینگ ریپ، کا ہے  اور مصنف کے  الفاظ ہیں۔

’’یقینی طور پر ایسے  معاملات پہلے  بھی سامنے  آئے  تھے۔ لیکن بے  رحمی اور درندگی کی نہ بھولنے  والی اس مثال نے  دلی کو احتجاج اور انقلاب کا شہر بنا دیا تھا‘‘(ص۷۵)

ظاہر سی بات ہے  اس منظر و پس منظر میں  قلمبند کی گئی کہانیوں  میں  یہ فطری جبلت یقیناً غیر انسانی اور سفاک نظر آنے  لگتی ہے۔

ذوقی کے  اس ناول پر مغربی فکشن کے  گہرے  اثرات بھی محسوس کیے  جا سکتے  ہیں  اور غالباً اسی لیے  ناول کی تکنیک اور زبان و بیان اردو فکشن کی مروجہ روایت سے  قدرے  انحراف کی ایک روشن لکیر بناتے  ہیں، کہیں  شروعات سے  پہلے  ولیم شکسپیئر کے  Poetic song میں  تو کہیں  سیمون دی بوار کی آپ بیتی کا واقعہ دہرایا جا رہا ہے، کہیں  رونا ٹیلر اور جنیفر جیسی نسائی کرداروں  کا تذکرہ ہے  تو کہیں  اس بدلتی ہوئی دنیا کے  ماڈرن ویب سائٹس کا ذکر، فیس بک، ٹوئیٹر، فلائی اوورس کے  جال کے  ساتھ تیزی سے  بدلتی کائنات کا جلوہ ناول میں  تمہید یا پیش خیمہ کے  طور پر دکھایا جا رہا ہے  جن کا اصل قصہ سے  تعلق ہے  بھی اور نہیں  بھی۔۔۔  ہے، اس نکتہ نگاہ سے  کہ جس نئے  اور اچھوتے  موضوع کو لے  کر کہانی آگے  بڑھنے  والی ہے  اس کے  لیے  ذہن کو پہلے  سے  جدید ماحول کے  مطابق بنایا جا سکے۔ ویسے  غور کیا جائے  تو اصل کہانی صفحہ ۳۱ کے  بعد آخری پیرا گراف سے  شروع ہوتی ہے، ہماری تو ناچیز رائے  یہ ہے  کہ کہانی کو مربوط اور متاثر کرنے  کے  لیے  ناول کا بنیادی سرا یہیں  سے  ہونا چاہئے۔ اور شروع میں  بیان کردہ باتیں  ناول کے  اختتام میں۔

’’آدھی رات گزر چکی تھی۔ کمرے  میں  زیرو پاور کا بلب جل رہا تھا۔ باہر خوفناک آندھیاں  چل رہی تھیں۔ پتّے  سرسرا رہے  تھے۔ باہر کوئی جنگل نہیں  تھا۔ پھر بھی چمگادڑوں، بھیڑیوں، الّو اور طرح طرح کی خوفناک آوازیں  رات کے  پُر اسرار سناٹے  کو اور بھی زیادہ خوفناک بنا رہی تھیں  اور یقیناً یہ دستک کی آواز تھی نہیں۔ کوئی تھا، جو دیواروں  پر رینگ رہا تھا کیا ویمپائر اُف، خوفناک آوازوں  کا ریلا جسم میں  دہشت کا طوفان برپا کرنے  کے  لئے  کافی تھا۔ سہمی ہوئی سی وہ اٹھی۔ کاٹو تو بدن میں  خون نہیں  وہ اٹھی، اور تھرتھراتی، کانپتی کھڑکی کی طرف بڑھی۔ لڑکھڑاتے  کانپتے  ہاتھوں  سے  کھلی کھڑکی کے  پٹ بند کرنے  چاہے  تو ایک دم سے  چونک پڑی کوئی تھا جو دیواروں  پر چھپکلی کی طرح رینگ رہا تھا۔ اُف۔ اُس نے  خوفزدہ ہو کر دیکھا یقیناً یہ ڈراکیولا تھا ہونٹ انسانی خون سے  تر دانت، لمبے، بڑے  اور سرخ وہ اپنے  ’تابوت‘ سے  باہر آیا تھا۔ صبح کی سپیدی تک اپنے  ہونے  کا جشن منانے  یا پھر انسانی خون کا ذائقہ تلاش کرنے۔۔۔  وہ یکبارگی پھر خوف سے  نہا گئی۔ کسی اسپائیڈر مین کی طرح ڈراکیولا اُس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ دیوار پر آرام سے  چھپکلی کی طرح پنجوں  پر اُس کی گرفت مضبوط تھی۔ وہ اُسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اُس کی گھگھی بندھ گئی۔ وہ چیخنا چاہتی تھی مگر۔۔۔  رینگتا ہوا، ڈراکیولا، ایکدم، دوسرے  ہی لمحے  اُس کے  کمرے  میں  تھا اُس کی آنکھوں  میں  وحشیانہ چمک تھی۔۔۔  اور اُس کے  نوکیلے  دانت اُس کی نازک ملائم گردن کی طرف بڑھ رہے  تھے۔۔۔  اُس کی آنکھوں  میں  نیم بے  ہوشی کی دھند چھا رہی تھی‘‘ (ص ۳۱ تا ۳۲از نالۂ شب گیر)

زیر بحث ناول میں  مشرف عالم ذوقی نے  فکشن کے  بیان میں  جو استعاراتی اسلوب اختیار کیا ہے  اس کے  لیے  وہ یقیناً مبارک باد کے  مستحق ہیں  چند مثالیں  ناول سے  حاضر خدمت کی جا رہی ہیں، غور کیجئے  اور لطف لیجئے۔

’’باہر آنے  تک یہ پوری کہانی کچھ ایسے  صاف ہو گئی تھی جیسے  کانن ڈائیل کے  مشہور کردار شرلاک ہومز نے  قاتل کے  راز کو دریافت کر لیا ہو۔۔۔  مائی گاڈ۔۔۔  بنگلہ کے  باہر آنے  تک میرا جسم لرز رہا تھا۔۔۔  مجھے  یاد آیا۔۔۔  جب ناہید ناز نینی تال والے  گھر میں  مجھے  اپنی آپ بیتی سنا رہی تھی۔۔۔  عظیم والے  حادثہ کے  بعد اس نے  گھر چھوڑتے  ہوئے  اپنی اماں  کے  سامنے  ٹھیک یہی مکالمہ ادا کیا تھا۔۔۔  اب بھی کچھ باقی رہ گیا ہے۔۔۔  میرا ذہنی افق اس وقت روشن تھا۔۔۔  تو اس ’باقی رہ گیا ہے۔ ‘ کو تکمیل تک پہنچانے  کے  لیے  اسے  ایک چوہے  کی ضرورت تھی۔ یعنی کمال یوسف کی۔۔۔  اور جب یہ کام مکمل ہو گیا تو بلّی پورے  طور پر آزاد تھی۔۔۔  اپنی شرطوں  پر اپنی آزاد دنیا میں۔۔۔ ‘‘     (ص ۳۹۴)

’’میں  بنگلہ سے  باہر آ گیا تھا۔ گاڑیوں  کی آمدورفت جاری تھی۔ ذہن میں  سناٹا پسرا ہوا تھا۔ اور اچانک میں  چونک گیا۔۔۔  مجھے  احساس ہوا۔۔۔  میرا جسم سکڑتا جا رہا ہے۔۔۔  سکڑتا جا رہا ہے۔۔۔  اور اس وقت فرانز کافکا کے  لازوال کردار کی طرح میں  ایک معمولی سے  کیکڑے۔۔۔  نہیں  چوہے  میں  تبدیل ہو گیا ہوں۔

گھر تک پہنچنے  کے  لیے  مجھے  اپنے  جسم کو گھسیٹنا پڑ رہا ہے۔ آس پاس سے  گزرتے  ہوئے  لوگ عجیب عجیب نگاہوں  سے  میری طرف دیکھ رہے  ہیں۔ میں  شرمندگی سے  بچنے  کے  لیے  مسکرانے  کی کوشش کرتا ہوں۔ ‘‘                                                                  (۳۹۴ تا ۳۹۵)

’’نیم شب کے  سناٹے  میں  گم ہو جانے  والی ناہید باغی تو ہو سکتی ہے  مگر فاتح نہیں۔۔۔ ‘‘                  (ص۳۶)

’’ میں  نے  دیکھا کمال یوسف بھی محتاط انداز میں  وحیدہ کی خیریت دریافت کر رہا تھا۔ اور ناہید کی عقابی آنکھیں  بغور دونوں  کا جائزہ لے  رہی تھیں۔ ‘‘

(ص ۲۵۰)

’’ہو سکتا ہے  سوشل نیٹ ورکنگ کی اس نئی اصطلاح مائی اسپیس میں  اس نے  اپنے  لیے  ایک ایسا خلا پڑھ لیا ہو، جس کے  بعد اس نے  زندگی کی کوئی ضرورت محسوس نہ کی ہو میرے  سامنے  مہذب دنیا میں  اس وقت ایسی کئی مثالیں  تھیں  اور ایسے  زیادہ تر لوگ نوجوان تھے، جنہوں نے  آسانی سے  اپنی زندگی محض اس لیے  ختم کر لی تھی کہ وہ جینے  کی کوئی ضرورت محسوس نہیں  کر رہے  تھے  ایک نسل خوف اور صدمے  میں  انجانی موت کی طرف بڑھتی ہوئی مجھے  اس از بیک شاعر کی یاد آ رہی تھی جس نے  کہا تھا  ہم مرنے  کے  لئے  پیدا ہوتے  ہیں۔۔۔ ‘‘           (ص ۳۲۱)

’’ایسے  بہت سے  قاری ہیں، جنہوں  نے  دوستو فسکی کے  ایڈیٹ کا مطالعہ کیا ہے  یا ایسے  ناظرین ہیں، جنہوں  نے  ہندوستانی شو مین  راج کپور کی فلم میرا نام جوکر  کا لطف اٹھایا ہے۔ میں  تسلیم کرتا ہوں  کہ جوکر بننا آسان نہیں  ہوتا اور جوکر محض ایک ہنسنے  ہنسانے  والا انسان نہیں  ہوتا بلکہ غور کریں  تو جوکر میں  انسانی نفسیات کی باریکی کو سمجھنے  کا تجسس ہوتا ہے۔ اسی لیے  اپنے  مشاہدے  کی بنا پر اس وقت بھی ہنساتا ہے، جب اُس کا دل رو رہا ہوتا ہے  حقیقت یہ ہے  کہ میں  اس وقت ایسا ہی ایک جوکر تھا اور میری کیفیت’ میرا نام جوکر‘ کی تھی، جو اس کہانی کی کڑیوں  کو جوڑتے  ہوئے  وادی تحیر میں  بھی اور کئی ایسے  مقام آئے، جہاں  آنکھیں  اشکبار بھی تھیں ‘‘                                                                            (ص۲۴۱)

ناول میں  بیان کردہ موضوعات کو سیدھے  سادے  انداز میں  پیش کرنے  میں  ابتذال اور عریانیت سے  بچنا ایک کار دشوار تھا۔ بات کہنے  کے  لیے  بعد جس سلیقہ کی ضرورت تھی، ذوقی نے  اس کا لحاظ رکھا ہے۔ ذوقی کے  اسلوب میں  فکشن کی لطافت بھی ہے  اور دانشوری کا کمال بھی۔ تخلیقیت اور ادبیت کے  ساتھ مشرقیت اور مغربیت کا خوبصورت امتزاج بھی قاری کو لطف دے  رہا ہے۔ میں  نے  پہلے  بھی ان کے  ناول پڑھے  ہیں  مگر اسلوب کا یہ جادو، جو قاری کو اپنی گرفت میں  اس طرح لے  لیتا ہے  کہ جب تک ناول ختم نہ ہو، نیند نہیں  آتی۔۔۔ ہمارے  خیال میں  کسی بھی ناول کی پہلی کامیاب پہچان یہی ہے  کہ ناول اپنے  آپ کو پڑھوا کر ہی چین لے۔ فکشن کی کامیابی کا راز ہی اس کے  مطالعاتی وصف میں  ہے۔ دوسرا وصف اسباب و علل کا وہ فطری نظام ہے  جو کہانی کو تخیلی کرشمہ سازی کا پروردہ نہیں  بلکہ حقیقت کا عکس ہی نہیں، عین حقیقت بنا کر پیش کرے۔ مشکل امر یہ ہے  کہ ایک بڑے  کینوس پر قصہ میں  اعتدال و توازن کے  ساتھ سب کچھ مقصد مدعا کے  مطابق بیان کر جانا بہت کٹھن مرحلہ ہے۔ یہ کام صبر آزما بھی ہے  اور فنکار کی فنکاری کی آزمائش بھی۔ اس کام کے  لیے  کہانی کی عام روش سے  گریز کرتے  ہوئے  مصنف خود ایک فعال کردار بن گئے  ہیں  اگرچہ یہ مصنف کی مجبوری ہے  اور وہ اسے  محسوس کر رہے  ہیں۔ اسی لیے  کئی مقامات پر انہوں  نے  مصنف کی اس بے  چارگی کا اظہار کیا ہے، وہ اسے  کبھی جوکر، یا دوستو وسکی کے  ایڈیٹ سے  تعبیر کرتے  ہیں  تو کبھی ایک ماہر نفسیات کی طرح ناول کے  ہیرو کمال یوسف کے  دوست و رہبر بن کر رونما ہوتے  ہیں۔ حقیقت یہ ہے  کہ مناسب دلیل و جواز کے  ساتھ مصنف نے  خود کو اس ناول کا ایک اہم کردار بنا لیا ہے۔

میں  کہانی کی تہہ کھولنا قاری کے  حصے  کی چیز سمجھتی ہوں، لہذا میں  خلاصہ بیان کرنے  سے  ہمیشہ گریز کرتی ہوں  اس سے  متن کا لطف کم ہو جاتا ہے۔ اشارے  اور کنایے  میں  ان پیچیدہ گرہوں  کی کشود ضروری ہے  جو تفہیم فن کے  لیے  راستہ ہموار کرے۔ صوفیہ مشتاق کے  بعد ناہید ناز اور پھر ناہید ناز کی بھرپور زندگی کے  بعد صوفیہ مشتاق کا داخلہ ناول کے  کینوس کو خاصا پھیلا دیتا ہے۔ نینی تال کی پہاڑی کی طرح قاری اوبڑ کھابڑ راستوں  سے  گزرتا ہوا منزلِ آخر تک پہنچتا ہے، جہاں  پہنچ کر اسے  یہ احساس ہوتا ہے  کہ واقعی آج دنیا بہت بدل چکی ہے۔ نئی عورت، خلائی اسپیس، میں  اپنے  لیے  جگہ بنا چکی ہے، اب اس کے  لیے  بچہ اور شوہر کی ضرورت دوئم درجہ پر ہے، بقول فیض۔

اور بھی غم ہیں  زمانے  میں  محبت کے  سوا

راحتیں  اور بھی ہیں  وصل کی راحت کے  سوا

فیمنزم پسند عورت فیض کے  اس شعر کی مکمل تشریح ہیں۔ ظاہر سی بات ہے  جب عورت، عورت نہیں  رہے  گی تو پھر گھر کا تصور بھی معدوم ہوتا جائے  گا۔ ناول کا ہیرو کمال یوسف گھر کی تلاش میں  بھٹک رہا ہے، کبھی ناہید ناز کا فرمانبردار عورت نما شوہر بنا، اس کے  ہر حکم پر سر جھکا لیا، تو کبھی صوفیہ مشتاق کو اپنانے  پر مجبور ہے، مگر سب لاحاصل۔

؂ سکوں  محال ہے  قدرت کے  کارخانے  میں

بذات خود وہ ایک نہایت شریف مرد ہے  لیکن انتقام کی بھٹی میں  جلتی ہوئی ناہید ناز اپنے  باغیانہ روش پر اس قدر نازاں  ہے  کہ وہ آہستہ آہستہ ہر فکر سے  بے  نیاز ہو جاتی ہے  اور صرف مرد سے  انتقام کو زندگی سمجھ لیتی ہے۔ کمال یہ ہے  کہ ذوقی نے  اس کردار کو نفرت کا سبب نہیں  بننے  دیا ہے  بلکہ وہ اس سیرت سے  ہمدردی اور بھر پور دلچسپی اجاگر کرتے  ہیں  کیوں  کہ وہ عام مرد نہیں  ہیں، وہ ایک حساس قلم کار ہیں  اور اپنے  کرداروں  کے  تحلیل نفسی کرتے  ہوئے  اس کے  ماضی و حال کے  تناظر میں اس کی اس انتہا پسندانہ روش کا جائزہ سنجیدگی سے  لیتے  ہیں  اور آخر میں  مرد کو سکڑتا اور سہما ہوا محسوس کرتے  ہیں۔ علامہ اقبال کے  الفاظ میں  عروج آدم خاکی سے  آدم سہمے  جاتے  ہیں، پیش نظر ناول میں  عروجِ نسواں  سے  مرد ذات کے  سہمنے  کی باری آ گئی ہے۔

ذوقی ناہید ناز کے  رویے  پر اعتراض نہیں  کرتے  ہیں  اور نہ کہیں  ناصح بننے  کی کوشش کی ہے۔ فنی نقطۂ نگاہ سے  ناول کی کامیابی کا یہ ایک اہم جواز ہے۔ مصنف کا خیال یہ ہے  کہ ہم جس معاشرے  میں  ہیں  وہاں  آج بھی عورت کی آزادی کا تصور نہیں  کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے  نالۂ شب گیر صدیوں  کی درد بھری موسیقی ہے، جو شب کے  بحرِ ظلمات کا سینہ چیر کر پیدا ہو رہی ہے۔ (ص۲۰)

ناول کا اختتام یقینی طور پر مرد سماج کی بے  چینی کا مکمل اشاریہ ہے۔ میں  کہنا چا ہوں گی کہ اگر یہ ناول کسی عورت نے  لکھا ہوتا تو آج ادبی منظرنامہ میں  ایک ہنگامہ کھڑا ہو جاتا۔ لہذا اس جرأت وصاف گوئی کے  لیے  ہم عورتوں  کی جانب سے  مصنف کو ہزاروں  سلام ساتھ ہی کچھ سوالات جو ناول کے  اختتام کے  بعد قاری کے  ذہن میں  منہ پھاڑے  کھڑے  ہیں  کہ کیا واقعی کیکڑے  اور چوہے  زمین پر رینگ رہے  ہیں۔ ؟ یا عنقریب رینگنے  والے  ہیں۔ ؟ کیا مرد اساس معاشرے  کا ایک بڑا حصہ آدھے  دھڑکا مرد بنتا جا رہا ہے۔ ؟‘‘

کیا مردِ کامل کی شاندار پہچان پرانی کہانیوں  یا خلاؤں  میں  گم ہوتی جا رہی ہے ؟ بہتر ہو گا کہ ان تمام سوالات پر سنجیدگی سے  غور کیا جائے  اور جواب بھی فکشن میں  ہی دیا جائے  تو کیا خوب۔ ؟

موضوع کے  انتخاب سے  لے  کر اس کی پیش کش، غرض ہر اعتبار سے  زیر نظر ناول ایک نئی نرالی دنیا آباد کر رہی ہے۔ کردار بہت زیادہ نہیں  ہیں  مگر جو ہیں  وہ قاری کے  دامنِ دل کو اپنی گرفت میں  لیے  ہوئے  ہیں۔ اہم کرداروں  میں  صوفیہ مشتاق، ناہید ناز دو نسائی کردار کے  علاوہ کمال یوسف کے  ساتھ خود مصنف بھی ایک اہم کردار بن گیا ہے، جس کے  بغیر کہانی آگے  بڑھ ہی نہیں  سکتی ہے، یہ ایک نیا تجربہ ہے۔ بیانیہ کے  لطف کو خوشگوار اور دانشمندانہ رنگ دینے  میں  اس جوکر کا نمایاں  رول ہے  عورت باغی کیوں  بن رہی ہے ؟ اس سوال کا جواب بڑی سنجیدگی اور سلیقے  کے  ساتھ فکشن کی زباں  میں  دیا گیا ہے۔ مختصر یہ کہ بحث مجموعی نالہ شب گیر دیر پا اثر کا حامل ہے۔ ناہید ناز ایک زندہ اور گونج پیدا کرنے  والی نسائی سیرت ہے۔ بلکہ شبہہ اس ناول کو ہم اردو ناول کا نیا  ڈسکورس اور انوکھا تجربہ کہیں  تو مبالغہ نہ ہو گا۔ اس انتظار میں  ہیں  ہم کہ

ہے  کہاں  تمنا کا دوسرا قدم یا رب

٭٭٭

تشکر: تبسم فاطمہ جنہوں نے جریدے کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید