FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

سہ ماہی

                   ادب سلسلہ

 

اردو زبان و ادب کا عالمی سلسلہ

 

جلد :۱                        شمارہ: ۱

اکتوبر تا دسمبر ۲۰۱۵

 

حصہ سوم

                   مدیر

                   محمد سلیم (علیگ)

مدیر اعزازی

                   تبسم فاطمہ

      E-mail: adabsilsila@gmail.com

 

 

 

بات کہی نہیں گئی —  سیمیں کرن

 

 

ثنا بخاری نے اپنی سوجی اور روئی ہوئی آنکھوں کی پکار کو گہرے آئی شیڈ کی ان کہی سے ڈھانپا، دل اس بے ایمانی پہ کر لایا تو اس نے دل کی بات بہت سختی سے ان سنی کر دی، مجبوری تھی، آج بہت اہم پروگرام تھا، لائیو شو تھا، ڈاکٹر سعادت حسن اک ملک گیر شہرت کی حامل این جی او کے ڈائریکٹر تھے، بہت سے انٹرویوز اور پروگراموں میں مدعو کیے جا چکے تھے اور ثنا بخاری کی آرزو تھی کہ یہ پروگرام و انٹرویو عام روٹین سے ہٹ کر ہو کہ ان کے لیے بھی یادگار بن جائے سوالات بھی اس نے عام ڈگر سے ہٹ کر تیار کیے تھے، اور سچ تو یہ تھا کہ اسا ین جی او کا منشور اس کے دل کو چھو گیا تھا، اس کی متجسس روح پہ سوالوں کے سرے خود بخود اگے تھے … اس نے آئینے میں اپنی تیاری کو اک بار پھر ناقدانہ نظر سے دیکھا، اپنے دکھوں، محرومیوں کو ان سنا کرتے کرتے تھک چکی تھی وہ، ماں نے اسے تنہا چھوڑ دیا تھا۔ مگر آج وہ تھکی ہوئی پژ مردہ اور پسماندہ نہیں دکھنا چاہتی تھی وہ اس پروگرام کو ہر لحاظ سے کامیاب دیکھنا چاہتی تھی۔ وہ سیٹ پر ڈاکٹر سعادت حسن کے سامنے بیٹھی تھی، تعارفی کلمات کے بعد پروگرام کا آغاز ہو چکا تھا، وہ انھیں دیکھ کر مسکرائی اور ہاتھ میں پکڑے کاغذ سے پڑھنا شروع کیا۔’’بات اصل میں یہ ہے کہ وہ ٹالسٹائی کا اسپ ابلق ہویا پھر کافکا کا گریگر سیمس منٹو کی ’’بیگو‘‘ ہو یا پھر قرۃالعین کی ’’یاسمین بلمونٹ‘‘ یا پھر میر و غالب، غم جاں و زمانہ ہائے روز گار کے بعد اک وجودی اک سلگتی آگ اک تشنہ آرزو اور اک ان کہی کا غم ہے، اک ایسی ان کہی جو باوجود کوشش کہی نہیں جا سکتی !اک ان سنی جو سننے سنائے جانے کی آرزو میں دب کر اک نا مٹنے والی خلش بن کر رہ گئی۔ اس کرے پر اس انسان کا سب سے بڑا اور عظیم دکھ ہی یہ ہے کہ جو اور جب وہ کہنا چاہتا ہے، کہہ نہیں پاتا، وجوہات ہزار ہار رہی ہوں۔ مگر ان کہی! اور جو سننے کی آرزو رکھتا ہے اسے قوت گویائی نہیں ملتی، وہ سب جو ان دیکھا، ان سنا، ان کہا رہ جاتا ہے، زندگی کے سب سے عظیم کرب کی اساس ٹھہرتا ہے … اور ’’آؤ بات کریں ‘‘ ’’اک ایسا اہم فورم ہے جو آپ کو آواز دیتا ہے کہ ان کہی کو کہہ دو اور ان سنی کو سن لو۔ ‘‘یہ منشور پڑھ کر ثنا بخاری نے ڈاکٹرسعادت حسن کی جانب دیکھا اور مسکرائی ’’ڈاکٹر صاحب یہ کسی ادبی تنظیم کا منشور معلوم پڑتا ہے اور یہ کسی این جی او کا مینی فیسٹو ہو تو آپ کو اک جھٹکا ضرور دیتا ہے، لگتا ہے ادب سے گہری دلچسپی ہے آپ کو ‘‘کیا ادب ہی تو اس تنظیم کے قیام کا باعث نہیں بنا؟‘‘ ڈاکٹر سعادت حسن یہ بات سن کر جیسے بہت محظوظ ہوئے، کہہ سکتی ہیں، ادب سے دلچسپی تو ہمیشہ سے تھی، ادب نے انسانی نفسیات کے ہزار ہا رنگ مجھ پہ آشکار کیے اور اس کے دکھوں کو سمجھنے کی مہمیز ملی یا پھر انسان کو سمجھنے کے لیے میں نے ادب کا سہارا لیا۔ سچ اور حقیقت تو یہ ہے کہ اس بات کا میں تعین نہیں کر پاتا کہ دونوں میں سے سبقت کس کو ہے ؟ لیکن یہ سچ ہے کہ ادب کے مطالعے نے ہی مجھے یہ تحریک دی کہ میں اس نتیجے پہ پہنچ سکوں کہ اک ان سنی اور ان کہی ہی اس کا سب سے بڑا دکھ ہے۔ کیا سارا ادب اس ان کہی اور ان سنی کا نتیجہ نہیں لگتا آپ کو؟ ثنا بخاری چوکنے والوں میں سے کہاں تھی، فوراً بات پکڑ کر بولی ’’یہ تو بہت بڑی بات کہہ دی آپ نے ڈاکٹر صاحب، آپ نے اک معصیت اورانسانی مصیبت و دکھ کو نعمت بنا دیا پھر تو، یعنی ان سنی ان کہی کا فروغ ہونا چاہئے آپ کے خیال میں ؟ ڈاکٹرسعادت مسکرائے اور بولے ’’جیسے آپ نے میرا منشور کو پڑھ کر مجھے بتایا کہ ادب سے گہری دلچسپی ہے آپ کو تو آپ کے سوال کو سن کر میں آپ سے پوچھتا بلکہ کہتا ہوں کہ آپ کو فلسفہ تصوف سے گہرا شغف لگتا ہے ؟ ثنا بخاری مسکراہٹ دبا کر بولی ’’ ڈاکٹر صاحب یہ میرے سوال کا جواب نہیں۔ ‘‘ دیکھئے۔

ڈاکٹر سعادت بولے ’’اپنے انگلش کا وہ ایڈیم تو سن ہی رکھا ہو گا کہ”Blessing is in disguise” تو فطرت جب ایک مصیبت تخلیق کرتی ہے تو اس کے پردے میں کوئی نعمت بھی چھپی ہوتی ہے، سیلاب آتے ہیں تو زر خیزیوں کو ادھر اُدھر بکھرا دیتے ہیں، کچھ کو ملیا میٹ اور کچھ کو زرخیز زمینیں دے دیتے ہیں، مردار کی بو پھیلتی ہے تو خاکروب پرندے چلے آتے ہیں، جن علاقوں میں انتہا کی سردی پڑتی ہے وہاں انتہائی گرم مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔ آپ فطرت کے جب اس نظام کو سمجھنے لگتے ہیں کہ کیسی خاموشی سے ہر معصیت و الم کے ساتھ انتظام، انصرام اور کوئی نعمت جڑی ہوتی ہے تو کیسے ممکن ہے کہ انسان کی مصیبتوں، ر نج اور آلام کا کوئی بند و بست نہ ہوتا؟‘‘

ثنا بخاری کا اگلا سوال مزید کڑا تھا۔ ’’تو کیا آپ کے خیال میں ان کہی اور ان سنی ایک قدرتی آفت ہے جس کا انتظام و انصرام بھی فطرت نے اپنے ذمے لے رکھا ہے ‘‘؟

ڈاکٹر سعادت سنبھل کر بیٹھ گئے۔

’’ثنا آپ ماشاء اللہ بہت ذہین ہیں، انسانی کجی، خامی اگر فطرت کی کارسازی ہے تو یقیناً انتظام بھی اسی کے ذمے ہے۔

کیا اس ان کہی اور ان سنی کے پیچھے آپ کو انسانی اختلافات کا ہا تھ نہیں لگتا ؟کیا انسانوں کے نظریات کے اختلافات ہی آڑ نہیں بن جاتے جب بات ان کہی رہ جاتی ہے ؟‘‘

ثنا نے سر اثبات میں ہلایا فقط!تو کیا فطرت کی کارگزاری نہیں یہ کہ مختلف النوع و ذہن کے انسان پیدا کیے ؟

ڈاکٹر سعادت نے سوال کیا۔

’’جی صحیح فرمایا آپ نے ‘‘ثنا بخاری نے تائید کی۔

اب کے سعادت بولے ’’ تو پھر مان لیجیے کہ انسانوں میں کچھ لوگوں کو زخم اور کچھ کو مرہم پیدا کیا گیا، کچھ کو یہ خیال ودیعت کیا گیا کہ وہ ان سنی اور ان کہی کو سن کر زخموں پہ مرہم رکھیں۔ ثنا یہ سن کر بولی ’’تو کیا ڈاکٹر صاحب آپ اس این جی او کو بنانے کا سارا کریڈٹ قدرت کو دینا چاہتے ہیں، گویا یہ ادارہ کوئی الہامی ادارہ ہے ؟ سوال کچھ زیادہ تلخ تھا جس کی کڑواہٹ نے منہ کا ذائقہ خراب کر دیا تھا۔ لیکن ڈاکٹر سعادت کو سنتے اور سہنے کا کمال ظرف فطرت نے بخشا تھا…

’’ہدایت الہامی ہی ہوتی ہے ثنا بی بی، جسے ہم توفیق کہتے ہیں یہ میرا ذاتی خیال اور اپروچ ہے جس سے آپ کو بہر حال اختلاف کا حق ہے کہ توفیق جس کو ہم کہتے ہیں یہ بھی اک خاص طرح کا بٹن ہے جو اک خاص ٹمپریچر کے بعد حرکت میں آ جاتا ہے، آپ جس طرز عمل پہ زندگی گزارتے ہیں، وہ اچھائی ہو یا برائی، فطرت کچھ دیر بعد آپ کو اسی طرز عمل میں سہولت دینے لگتی ہے۔ کائنات میں خیر اور شر کی قوتیں پھیلی ہوتی ہیں، ہم نے کس کو چارج کیا، یہی آزمائش ٹھہری اور یہی توفیق سے جڑی ہوئی! ثنا کے منہ سے بے ساختہ داد نکلی ’’واہ، ڈاکٹر صاحب آپ نے گویا میرا ارادہ بھانپ لیا تھا جو توفیق کو لا کر قضا و قدر کا مسئلہ بھی سمیٹ دیا کہ میں آپ کے مرہم اور زخم کی اصطلاح پہ مزید اب کوئی بات ہی نہیں کر سکتی!

اب ثنا بخاری کا رخ کیمرے کی جانب تھا اور وہ بولی ’’ناظرین آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے مہمان ’’آؤ بات کریں ‘‘ نامی این جی او کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سعادت حسن ہیں۔ ان کی سماجی خدمات کا اعتراف ملک بھر میں کیا جاتا ہے، امید ہے کہ آپ اس گفتگو میں نہ صرف دلچسپی لے رہے ہوں گے بلکہ آپ کے ذہنوں میں بھی بہت سے سوال ہوں گے اپنے اس محسن کے لیے، اگر آپ نے اس انٹر ویو کو اچھا فیڈ بیک دیا تو ہم ڈاکٹر صاحب کو اک بارپھر اپنے اسٹوڈیوز میں بلائیں گے اور پھر آپ براہ راست ان سے سوالات کر سکیں گے، جی تو ناظرین ہم ڈاکٹر صاحب سے یہ گفتگو جاری رکھیں گے، بلکہ آپ کو ان کی بیگم سے بھی ملوائیں گے تو لیتے ہیں اک چھوٹا سا بریک، کہیں مت جائیے، ہمارے ساتھ رہیے۔ ‘‘

ثنا کو ڈائریکٹر کی جانب سے ہدایات موصول ہوئیں کہ اب سوالوں کو تھوڑا شگفتہ رنگ دے، گفتگو ثقیل اور فلاسفیکل ہو گئی ہے۔ ان ہدایات میں تنبیہ کا رنگ بھی تھا جب ڈائریکٹر نے کہا کہ وہ اپنے سوالوں کی تسکین کے لیے خود ذاتی ملاقات رکھے !ثنا نے ڈاکٹر سعادت کی جانب رخ کیا، پروگرام لائیو تھا، اور بولی ’’بریک کے اس وقفے میں آخری سوال کا جواب دیجیے اس کے بعد ہم ناظرین کی دلچسپی کے سوالات پہ آ جائیں گے، مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان سنی اوران کہی کو آپ کسی بہت بڑے تناظر اور اسکوپ میں دیکھتے ہیں ؟ درست یا غلط۔ ؟

ڈاکٹر سعادت اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ دھیمے لہجے میں بولے ’’صحیح سمجھی ہیں ثنا آپ بالکل ایسا ہی سمجھتا ہوں، یہ پوری کائنات گویا کچھ کہہ رہی ہے جو حضرت انسان سنتا نہیں، ان سنی کر کے یونہی گزر جاتا ہے اور کچھ ہیں جو اس کہی، اس قول و قال کو سمجھنا چاہتے ہیں، قدرت کی سمفنی کو سننا اور سمجھنا چاہتے ہیں مگر قدرت بہت کچھ کہہ کر بھی بہت سی ان سنی رکھتی ہے ان کہی رہنے دیتی ہے، ان کہی کے عمل کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے۔ ‘‘

ثنا کے چہرے پہ یکدم تحریر، تحسین اور اثبات کے تاثرات ابھر آئے !بریک کے بعد لائیو پروگرام دوبارہ شروع ہو چکا تھا اور اب یہ ثنا کا امتحان تھا کہ اک اہم موضوع، اک اہم شخصیت کے ساتھ پروگرام کو وہ کیسے اتنا دلچسپ بناتی تھی کہ وہ لوگوں کے دلوں کو چھولے ! ’’جی تو ناظرین ابھی تک تو ڈاکٹر صاحب سے ان کی این جی او کے منشور کے نفسیاتی اور فلسفیانہ تناظر میں گفتگو ہو رہی تھی، اب ان سے پوچھوں گی کہ حقیقی زندگی میں وہ کون سے ایسے عوامل یا شخصیات تھیں جنہوں نے ان کو لوگوں کی زندگیوں کے ان کہے، ان سنے رازوں کو جاننے، ٹٹولنے اور پھر دور کرنے پہ مجبور کیا، جی ڈاکٹر صاحب بتائیے ؟‘‘

ڈاکٹر سعادت اس سوال کے لیے تیار تھے ’’ثنا اپنی زندگی میں ہمیشہ اپنے ارد گرد کے افراد کا مطالعہ میرا محبوب مشغلہ رہا ہے، سب سے پہلے یا یوں کہہ لیں کہ جو واقعہ اس تنظیم کی کارسازی کا موجب بنا، وہ ہمارے گھر میں کام کرنے والی ہماری بی اماں تھیں۔ خاموش، وفادار، اپنے کام سے کام رکھنے و الی خدمت گزار خاتون، صبح کو آتیں اور سہ پہر ڈھلے چلی جاتیں، در اصل آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ہمارے گھر کی مینجر، اسسٹنٹ یا میری والدہ کی سکریٹری تھیں، میری والدہ کی گو ناگوں ذمہ داریوں جن میں بزنس و دیگر امور شامل تھے، گھر کے ہر امر کی نگرانی بی اماں کے ہاتھ ہی میں تھی، دور پار سے رشتے دار بھی تھیں، ضرورت مند تھیں، بیوہ اور چھ بیٹیوں کی ماں، دو چھوٹے اور لاڈ میں بگڑے بیٹے، اس کنبے کو چلانے کا ذمہ دار قدرت نے ان کو چنا تھا، یکے بعد دیگرے انہوں نے اپنی بیٹیوں کی شادیاں کیں، بس جب شادی ہوتی تو وہ بتا دیتیں، ورنہ بہت غیرت مند خاتون تھیں بس چپ چاپ اک حزن و غم میں ڈوبی خاموشی سے اپنے کام نپٹاتی۔ نو جوانی کا زمانہ تھا، آتے جاتے ملاقات ہو جاتی یا سلام دعا، پھر پتہ چلا کہ وہ اپنی پانچ بیٹیوں کی یکے بعد دیگرے شادیاں کر چکی تھیں، اک بیٹا بھی بیاہ لیا، یہ وہ وقت تھا جب ایک طویل عرصے کے بعد میں نے بی اماں کو قدرے آسودگی سے سانس لیتے دیکھا، وہ کچھ خوشگوار موڈ میں رہنے لگیں گو کہ باتیں تو اب بھی بہت نہیں کرتی تھیں …‘‘

ڈاکٹر سعادت کچھ پل کو سانس لینے کو رکے پھر گویا ہوئے ’’یہ حضرت انسان بھی عجیب ہے، کبھی تو بن کہے ہی سب کچھ کہہ دیتا ہے اور کبھی سب کچھ کہہ سن کر بھی جانے کتنے ناسور خود میں چھپائے پھرتا ہے۔ ‘‘

ثنا نے تائید میں جواب دیا ’’جی آپ درست کہتے ہیں ان کہی اک ناسور ہی ہے اور آپ کی بات کے تناظر میں کہوں گی کہ ان کہی وہ بوجھ ہے جو رب سے بھی نہیں اٹھایا گیا اور اظہار قوت نے یہ کائنات تخلیق کروا دی کن کہہ کر!‘‘

ڈاکٹر سعادت نے بے ساختہ داد دی اور بولے ’’یہ بات تو بڑی گہری صوفیانہ حقیقت ہے ثنا‘‘

ثنا نے گفتگو کو پھر وہیں سے جوڑا ’’جی تو پھر آگے چلیے ‘‘

’’جی تو میں آپ کو بتا رہا تھا کہ اک طویل مدت کے بعد میں نے بی اماں کو خوش دیکھا، کچھ آسودہ، مگر یہ عرصہ کوئی بہت طویل نہیں تھا، دو سال بس دو سال بعد بی اماں بہت پریشان رہنے لگیں اور دیکھتے ہی دیکھتے جیسے پانی میں گری صابن کی ٹکی گھلنے لگتی ہے، اسی طرح ان کی صحت گری، اک توانا محنتی عورت کو یوں ضائع ہوتے دیکھنا بڑا تکلیف دہ امر تھا اور جبکہ میں عملی زندگی میں داخل ہو چکا تھا، اک دن مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں نے ان کو کریدا، میرے کریدنے کی دیر تھی، جیسے کوئی لاوا پھٹتا ہے وہ بہہ نکلیں۔ جو وہ بولیں، وہ تو اک لمبی المناک داستان تھی مگر قصہ مختصر یہ کہ ان کی پانچ بیاہی بیٹیوں میں سے صرف ایک کے گھر دو بچے زندہ پیدا ہوئے اور دو وفات پا گئے اور باقی چاروں ابھی تک بے اولاد تھیں، حال ہی میں جس بیٹی کی شادی کی، اس کی شادی کو بھی سال سے اوپر کچھ وقت ہو چلا تھا وہ بھی تا حال کوئی خوش کن خبر نہ دے سکی تھی جس پر اس کے سسرال والے الزام دھرتے تھے کہ تم ساری بہنوں پہ آسیب کا سایہ ہے اور وہ اس کو طلاق دلوا کر بیٹے کی اور شادی کریں گے اور یہ خبر پورے خاندان و علاقے میں ایسی پھیلی کہ اب آخری بیٹی کا رشتہ نہیں ہو رہا تھا اور بیٹا خاندان سے باہر پسند کی لڑکی لایا تو نو ماہ میں ہی باپ بن گیا، یہ غم بی اماں کو اندر ہی اندر چاٹ رہا تھا، وہ پھپک پھپک کر روتے ہوئے بولیں سعادت بیٹا، راتوں کو سو نہیں پاتی، ساری رات وظیفے کرتی ہوں، دم درود، مگر کہیں کوئی آس نہیں بندھی تم نے پوچھا تو یوں لگا کسی نے روشنی کر دی، تم سے کہہ کر جانے کیوں بوجھ ہلکا ہو گیا۔ ـ‘‘

بی اماں کے چہرے پہ جو ان کہی کا دباؤ جما تھا اور ساری شخصیت گھٹی ہوئی تھی، مجھے یوں لگا کہ پرندے کو گویا رہائی ملی، وہ زندگی میں پہلی بار اتنا بولی تھیں …توبس بی اماں ہی وہ کردار ہیں جنھوں نے میرے احساس کو مہمیز کیا کہ انسانی دکھوں کو سن کر پھر ان کے حل کے لیے کوشش کی جائے کیونکہ حل جواب ہے اس بات کا کہ سوال سن لیا گیا۔ ‘‘

شرکا ء نے خوب تالیاں بجائیں اور دیر تک ڈاکٹر سعادت کے لیے تالیاں بجتی رہیں۔

ثنا نے پوچھا ’’تو ڈاکٹر سعادت پھر آپ نے کیا کیا بی اماں کے لیے ؟

ڈاکٹر سعادت نے جواب دیا ’’اس سوال کو میں نے اپنے جیسے کچھ مخلص اور مخیردوستوں کے سامنے رکھا اور اپنا خیال بھی اور پھر وہ ’’آؤ بات کریں ‘‘ کا جنم ہوا اور ہمارا پہلا کیس بی اماں تھیں جن کی بیٹیوں کو ہم نے شہر کے معروف گائناکولوجسٹ کو دکھایا اور الحمد للہ اب چار میں سے تین صاحب اولاد ہیں ‘‘

تالیاں پھر بجنے لگیں۔ ثنا کے کان میں شاید ڈائریکٹر کی جانب سے کوئی ہدایات موصول ہوئی تھیں۔

ثنا نے فوراً سوال داغا ’’ڈاکٹر سعادت اپنے مزید تجربات ہم سے بانٹیے ‘‘ ڈاکٹر سعادت نے کچھ پل کو سر جھکایا پھر دوبارہ گو یا ہوئے۔

’’ثنا ’’آؤ بات کریں ‘‘ اک ایسا چینل تھا اور ہے کہ اس پہ لوگوں کی جانب سے جیسا رد عمل ملا، وہ میری توقع سے بڑھ کر تھا، یہ سینہ بہت سے لوگوں کے رازوں کا امین ہے ایسے ان کہے، ان سنے دکھوں کا تعفن لیے لوگ جانے کیسے جیتے پھرتے تھے، اک آستانہ انہیں ملا تو وہ اپنے اس بوجھ کو ڈھو کر خود سستا لیتے، ایسے لوگ بھی ملے جن کو حل کی طلب تھی نہ آرزو وہ بس یہ چاہتے تھے کہ ان کو سن لیا جائے وہ اسیر پرندے تھے جن کو پنجرے سے محبت ہو جائے، میں آپ کو کیا کیا بتاؤں ثنا؟! یہ گویا طلسم ہو شربا کا سفر تھا یا پھر داستان الف لیلیٰ جہاں روز اک نئی داستان اِک نئی کہانی منتظر ہوتی۔

ثنا یہ سن کر بولی ’’اس کا مطلب ہے کے آپ کی حیرت و تجسس کا دامن بہت وسیع تھا جو اس دستر خوان پر آپ ابھی تک سیر نہیں ہوئے، آپ کو یہ کیوں محسوس نہیں ہوا یا اکتاہٹ نہیں ہوئی، روز وہی چند ایک ہی طرح کی کہانیوں یا دکھوں کو سن کر کہ آخری بنی آدم کے وہی چند اک مسائل ہیں، بس کردار بدل جاتے ہیں ؟!

ڈاکٹر سعادت کی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی ’’ثنا سوال کا جواب تو آپ نے خود دے دیا، کردار کی انفرادیت کہانی، پرانی کہانی کو جدت دے دیتی ہے ‘‘

ڈاکٹر صاحب کے لیے اِک بار پھر بہت سی تالیاں بج اٹھیں۔ ثنا نے اِک بار پھر مضبوط سوال کی ڈوری پھینک کر پروگرام پر اپنی گرفت سخت کی۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر صاحب تو آپ ہمیں اپنے تجربے اور کسی حیران کن واقعے کی بابت بتا رہے تھے ؟‘‘

ڈاکٹر سعادت نے کچھ دیر کو سر جھکایا اور گویا ہوئے ’’پتہ نہیں آپ اسے حیران کن سمجھیں یا نہیں، حیرت بھی تو اپنے لبادے بدل لیتی ہے۔ ۔ ۔ مگر اتنے کرداروں کی اتنی کہانیوں میں بی اماں کے بعد اک جوڑے نے مجھے بہت حیران کیا۔ ‘‘

مجمع میں کچھ بھنبھناہٹوں کے بعد سناٹا سا چھا گیا اور ثنا بھی جیسے ہمہ تن گوش ہو گئی۔

ڈاکٹر سعادت بولے ’’بظاہر تو کچھ بھی نہیں تھا ان کی کہانی میں مگر میری حیرت مجھ سے سوال کرتی تھی، وہ ان لوگوں میں سے تھے جن کے پاس سب کچھ ہوتا ہے، مال دولت، اولاد آسائش، صحت، جوانی، نعمتوں کے انبار کے باوجود وہ دونوں اِک دوسرے سے انتہائی نا خوش تھے۔ حیرت ہوئی، کیوں ؟مگر کیوں …؟چھوٹے چھوٹے گلے جن کو کہی کے نمک مرہم سے بے ضرر کینچوے کی موت مارا جا سکتا تھا وہ اژدہے پھنیر ناگ بنے رشتے کو نگل رہے تھے …

کہی، ان کہی بن کر اک دوسرے کو سمجھنے میں مانع تھی۔ عورت مظلوم اور مرد جابر کے روپ میں اپنی حاکمیت کے گھمنڈ میں کچھ بھی سمجھنے کو تیار نہ تھا، بقول اس کے جب عورت کو عزت کی روٹی کپڑا اور مکان ملے تو اس کو مرد کے لیے بچھا بستر ہونا چاہیے، عورت کچھ دوچار لفظ پڑھ لکھ گئی تھی اور ذاتی تشخص اور عزت نفس کی طالب؟!کیا کیا جائے میاں بیوی کے مسئلے اتنے نازک کہ تیسرا فریق تو بگاڑ کا سبب بن جاتا ہے، بس شیشہ گری کا کام تھا، آخر بہت طریقے اور غیر محسوس طریقے سے شوہر کی تحلیل نفسی کی گئی اور اس کے رویوں کو بدلنے میں تھوڑی پیش رفت ہوئی، ہمارے ساتھ بات کرنے کے نتیجے میں وہ دونوں اپنی نا خوشی کو سمجھنے کے قابل ہو گئے، کچھ عرصہ دونوں نے مثبت کوشش کی، یوں سمجھیے کہ دلدل میں پھنسی گاڑی کو کچھ دور تک نکالا… مگر کچھ عرصے بعد وہ دونوں علیٰحدہ ہو گئے، یہ واقعہ مجھ پہ بہت گہرے اثرات چھوڑ گیا!‘‘

ڈاکٹر سعادت کچھ پل کو سانس لینے کو رکے ’’مجھے یوں لگا کہ میری ان کہی کو کہہ دینے کی جرات دلانے کا یہ نتیجہ نکالا کہ وہ علاحدگی پر منتج ہوا، یہ بات کہنے کی قوت کا اِک منفی سمت میں مجھے ادراک ہوا، یوں سمجھیے کہ قوت کے مثبت و منفی پہلو مجھ پہ آشکار ہو گئے۔ ۔ ‘‘

وہ لوگ مجھے اِک سبق بھی دے گئے اور وہ بھی اِک منفرد تجربہ تھا۔ ‘‘

ثنا کے چہرے سے تحیر آمیز تحسین پسینے کی طرح چھلکی پڑ رہی تھی، لگتا کہ سوالوں کے دام میں خود میزبان آ گیا کہ مہمان نے پوری سچائی سے ہر عیب و ہنر کھول دیا تھا…

اس دوران ہال میں شرکا نے اپنے کچھ درخواست نما خطوط ڈاکٹر سعادت کو دیے، کچھ سوالات پوچھے گئے اور اس کے بعد ثنا بخاری نے ڈاکٹر صاحب سے ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں سوالات کرنے شروع کر دیئے، ان کی نجی زندگی، حالات، والدین سے متعلق! ڈاکٹر سعادت نے اپنی بیوی سارہ سعادت سے لائیو رابطہ کیا اور بتایا کہ اپنی بیماری کی وجہ سے وہ ساتھ نہیں آ سکی ہیں۔

ثنا بخاری نے ان کی ازدواجی زندگی پر اس اصول کی بابت سوال کیا تو ڈاکٹر سعادت اک مان کے ساتھ مسکراتے ہوئے بولے ’’میں نے اور سارہ نے ہمیشہ اس بات کا اہتمام کیا ہے کہ ہم ہر چھوٹی بڑی بات ایک دوسرے سے بانٹیں، ہمارے درمیان کوئی راز نہ ہو اور ہم اس میں کامیاب رہے، ہم نے آئینہ صفت زندگی گزاری جس میں ایک دوسرے کے عکس جھلملاتے تھے۔

بس عرصہ پانچ سال سے سارہ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہیں مگر مجھے یقین ہے کہ مجھ سے محبت کرنے والے اور دعا دینے والے ہاتھ اسے اس مرض سے نکال لائیں گے۔ ‘‘

ثنا بخاری نے اختتامی کلمات کہتے ہوئے پروگرام کو وائنڈ اپ کیا۔ پروگرام کے فیڈ بیک اور ریٹنگ پہ ڈائریکٹر نے اسے مبارکباد دی کہ بہت کامیاب انٹرویو تھا حالانکہ اس سے پہلے وہ بہت سے پروگرامز میں آ چکے تھے۔ بلاشبہ اک بڑے چینل سے اتنا شاندار انٹرویو جس نے ’’آؤ بات کریں ‘‘ کے پیغام و منشور کو دور تک بکھیر دیا تھا۔ اور ثنا بخاری کے لیے بھی یہ جیسے اک نیا موڑ تھا، دل پہ ’’آو بات کریں ‘‘ کے پیغام منشور نے عجیب سی دستک دی تھی، اس نے تمام عمر ان کہی ان سنی کا موذی کینسر دل میں پالا تھا جو اس کے ارد گرد موجود ہر بچے کھچے رشتے کو بھی نگل گیا تھا۔ وہ اک دبنگ اور دھانسو قسم کی لڑکی دکھتی تھی جو اوپر بہت سے خول چڑھائے پھرتی تھی اور خود تک کوئی رسائی نہیں دیتی تھی۔ ماں نے اس کے بچپن میں ثنا کے باپ سے طلاق لے کر دوسری شادی کر لی، دوسرا شوہر بھی کم و بیش پہلے جیسا تھا تو دل کی ہر بغاوت کو ان سنی کر کے پھر صبر کر لیا، اتنا صبر کیا کہ ثنا نظر انداز ہونے لگی، وہ اک غصے اور بغاوت کی شکل اختیار کرتا گیا، ثنا ماں سے بہن بھائیوں سے اور سب سے دور ہوتی گئی۔ اک بڑے میڈیا گروپ سے وابستہ ہو گئی، خوب کماتی تھی، اڑاتی تھی مگر سب گرہیں دل میں ویسی ہی پڑی تھیں، زندگی میں دو تین لوگ آئے مگر سب اک بریک اپ پر منتج ہوئے کہ اس کی زندگی کا ہر سچ سننا کسی کے بس کا روگ نہیں تھا اور وہ کوئی ایسا رشتہ نہیں نبھانا چاہتی تھی جہاں وہ مصلحتوں کی چپ مہر لگا کر ماں جیسی زندگی گزارے، اور آج وہ سنتی تھی کہ اک ایسا شخص ہے جو ان کہی ان سنی کو اس دنیا، اس کرے کے انسان کا سب سے بڑا دکھ گردانتا ہے اور جو اپنے سے منسلک ہر شخص، ہر رشتے کو سننا چاہتا ہے … اور وہ سوچ رہی تھی کہ اس کی بیوی کتنی خوش نصیب عورت ہو گی وہ اس عورت کو دیکھنا اوراس سے ملنا چاہتی تھی، اس کے چہرے پہ پھیلے اس سکون اور شانتی کے بہتے دریا کو رواں دواں دیکھنا چاہتی تھی جو سب کہہ دینے پہ محسوس ہوتا ہے۔ ثنا بخاری کو اس کا تجسس اس کی بے چین روح ڈاکٹر سعادت حسن کے گھر تک لے گئی، یہ قطعی اک غیر رسمی اور اچانک ملاقات تھی جس سے ڈاکٹر سعادت بھی لا علم تھے کہ ثنا ڈاکٹر سے نہیں اس کی بیوی سے ملاقات کی متمنی تھی! ثنا بخاری دو ڈھائی بجے سنسان سی کڑکتی دوپہر میں سعادت لاؤنج جا پہنچی۔ ملازمہ نے کچھ پس و پیش اور ٹی وی کے رعب میں بیگم صاحبہ کے بیڈروم تک پہنچا دیا یہ بتاتے ہوئے کہ بیگم صاحبہ بیماری کے باعث کمرے میں ہیں۔

ثنا دروازے پہ ہلکی سی ناک دے کر اندر داخل ہو گئی اندر وہیل چیئر پہ اِک مدقوق سی عورت جو کیمو تھراپی کے اذیت ناک عمل سے گزر رہی تھی شاید، نہ عورت لگتی تھی نہ مرد، ہڈیوں کا ڈھانچہ، ہاتھ میں اِک ڈائری پکڑے زار و قطار اپنی کسی مد ہوشی میں روتی جاتی تھی…ثنا بخاری کے اندر کا مہم جو اینکر باہر آ گیا، وہ پل میں بدگمان ہوئی ہزاروں دھوکے بھرے اندیشے ڈاکٹر سعادت کی نیکی کو نگلنے لگے …

وہ گھٹنوں کے بل جھکی اور کمزور لمحے میں کاری ضرب لگائی ’’وہ درد جو اندر ہی اندر پال رہی ہیں، دنیا میں کسی اِک سے کہہ کر خود کو ہلکا کر لیں، کسی اجنبی سے جہاں کوئی خوف کوئی اندیشہ نہ ہو چلیے پہلی اعتماد کی اینٹ میں رکھتی ہوں، آپ کو اپنا ہر درد کہہ سناتی ہوں۔ ‘‘

مسز سعادت نے حیرت سے آنکھیں کھولیں، یہ کون تھا جو اس دلیری سے بنا اجازت ان کی تنہائی میں گھس آیا تھا اور اتنا اپنائیت بھرا اصرار!ذہن پہ زور دیا تو ثنا کو پہچان لیا ’’تم نے ہی سعادت کا انٹرویو کیا تھا نہ‘‘

اُس نے فقط سر ہلایا، سارہ سعادت نے اِک بھرپور جائزہ لیا ثنا کا، وہ دیکھنے میں ہی اِک بے چین پارا صفت اور متجس روح دکھتی تھی۔ اِک طاقتور شخصیت جو ان دیکھی ان سُنی ان کہی غلافوں میں چھپی کہانیوں، دِل کے قید خانے میں مقید کہانیوں کے تالے کھولنے کی صلاحیت رکھتی تھی، مگر جو کوئی اُس کی آنکھوں کو دیکھتا تو وہ سیاہ گہری گھور سیاہ آنکھیں کسی شب ہجرسی، ان گنت ان کہی کہانیاں چھپائے وحشت کے پردے لیے ہوتے تھیں۔ مسز سعادت دھیرے سے مسکرائیں ’’تو کیا آپ کو مجھ بیمار کا انٹرویو کرنا ہے، مگر میں تو اب اِک بوجھ ہوں سعادت پہ، اُن کے کاز میں کوئی مدد نہیں کر پاتی اُن کی‘‘

اِس دوران ثنا نے دیکھا کہ مسز سعادت نے غیر محسوس طریقے سے اُس ڈائری کو اپنے آنچل میں چھپا لیا مگر ثنا نے دیکھ لینے کے باوجود محسوس نہیں کروایا اب کے ثنا کچھ عجیب مضبوط لہجے میں بولی ’’نہیں، میں تو یہاں اِک ایسی خوش نصیب عورت سے ملنے آئی تھی جو پورے ابلاغ سے سنی جا چکی مگر ملاقات تنہائی میں بند خاتون سے ہوئی مسز سعادت ہنس پڑیں ’’ڈائری میں بند خاتون کسی افسانے یا ناول کا عنوان لگتا ہے، مگر میری زندگی اِک کھلی کتاب ہے۔

تم اِسے افسانہ نہ بناؤ، میں سعادت جیسے فرشتہ صفت اِنسان کے ساتھ بہت خوش ہوں، بس بیماری نے تھکا دیا ہے اور ڈائری لکھنا میری عادت ٹھہری اِس روز نامچے اور بیماری کا لکھنا آنسو بن جاتا ہے !سارہ سعادت نے بات لپیٹ کر پھر مقام صفر پر رکھ دی، مگر ثنا کا پروفیشنل تجربہ اور متجس آنکھ کسی ان کہی کو دیکھ تو چکی تھی مگر اَب سماعت بنانا چاہتی تھی!ثنا کو لگا کہ برف پگھلانا آسان کام نہ ہو گا، اُسے اپنے زخم بھی کھول کر دِکھانے پڑیں گے !اُس نے اِک بار پھر سارہ کو دیکھا، اور پھر اُسے یوں لگا کہ اُس کی روح کو بھی ویسا ہی گھن چاٹ چکا ہے، من بھیتر میں جھانکا تو وہاں سارا جیسی مدقوق عورت نظر آئی۔ وہ اِک بار پھر رقت سے بولی ’’ یہ اِک غیر رسمی ملاقات میں یہاں اینکر کے سازو سامان کے ساتھ نہیں آئی تھی، میں سعادت کی سارہ سے ملنے آئی تھی اِک با نصیب عورت جو بہت غور سے سنی گئی مگر آپکی شکستگی نے مجھے توڑ دیا۔ بہت سے لوگوں سے بہت کچھ کہا مگر بہت کچھ ایسا ہے جو شاید کسی اجنبی مکمل اجنبی سے ہی کہا جا سکتا ہے جو اِسے سُن کر ان کہی میں بدل کر وقت کے سمندر میں پھینک آئے، آئیں اِک دوسرے کو سنیں۔ ‘‘

سارہ سعادت اِک لمحے کو کانپ سی گئیں، مد ہوشی اور بے ہوشی کے درمیان وہ بڑبڑائیں ’’فرشتے بھی کہاں مکمل فرشتے ہوتے ہیں جو ہر بوجھ ڈھو سکیں ‘‘، اِتنا کہہ کر وہ مکمل بے ہوشی میں چلی گئیں ثنا کے ہاتھ پاؤں پھول گئے، وہ باہر کی جانب بھاگنے لگی تو دیکھا ڈھیلے ہوتے ہاتھوں سے ڈائری پھسل گئی تھی، اُس نے ڈائری اُٹھائی مگر یہ وقت ڈائری دیکھنے کا نہیں تھا، اس کے شور مچانے پہ ملازمہ دوڑی آئی۔ ثنا کے بتانے پہ وہ کچھ ڈھیلی پڑ گئی ’’بی بی آپ پریشان نہ ہوں بیگم صاحبہ پہ اکثر ایسے بے ہوشی کے دورے پڑ جاتے ہیں، شاید دوائیوں اور کمزوری کی وجہ سے ملازمہ نے ان کے ہاتھ پاؤں صحیح کر کے ایزی چیئر پہ اُن کو نیم دراز کر دیا اور گردن کے نیچے کشن رکھ دیا اور اِس کے بعد فارغ ہو کر ثنا کی طرف مُڑی ’’او بی بی جی آپ وہ ٹی وی والے ہو نہ جنہوں نے صاحب کا اِنٹرویو کیا تھا؟آپ ٹی وی پہ بہت سوہنی لگتی ہو اور آج بھی بہت پیاری لگ رہی ہو‘ ثنا دلچسپی سے اُسے دیکھا اور بولی ’’اچھا تم نے وہ اِنٹرویو دیکھا تھا؟‘‘وہ اثبات میں سر ہلایا کر بولی ’’ہاں جی بیگم صاحب کے ساتھ دیکھا تھا، بہت سی مشکل مشکل پڑھی لکھی باتیں تو نہیں سمجھ آئیں جی، پر بہت سی باتیں بہت اچھی لگیں اور پتہ بی بی میرے دِل نے کیا سوچا اُس وقت؟ثنا نے فقط اِستفسارانہ انداز میں سرہلایا، وہ بولی میرے دِل نے کہا کہ مجھے تو دِن رات میاں کی سُسرال کی سارےلوگوں کی اِتنی باتیں سننی پڑتی ہیں، کاش وہ دِن آئے جب کوئی مجھ سے کچھ نہ کہے، اور اِک وہ رَب ہے جو ساروں کی سُنتا ہے، سارے دُکھ، دعائیں، شکوے پھر بھی کوئی جواب نہیں دیتا۔ ‘‘

ان پڑھ سی ملازمہ کی اِتنی گہری بات اور گفتگو اور مکالمے کہ زندہ بدن سے گویا کسی اور بچے کا جنم ہُوا تھا!ثنا آہستہ سے بولی ’’ذرا سوچو تم کچھ لوگوں کو سُن کر دُکھی ہو جاتی ہو اور کہتی ہو کہ مر جاؤں تو سکون آ جائے کچھ نہ سننا پڑے اور وہ رَب ہے جو ہر کسی کی جائز نا جائز ازل سے سنتا ہی چَلا جا رہا ہے …اور پھر کسی ان کہے ان سنے سمندر میں چھانٹ چھانٹ پھینک دیتا ہے۔ ‘‘

ملازمہ ثنا کی اِس بڑبڑاہٹ سے تنگ آ کر بولی ’’بی بی میں آپ کے اور بیگم صاحبہ کے لیے جُوس لے کر آتی ہوں، تب تک بیگم صاحبہ کو ہوش بھی آ جائے گا‘‘

اَب کمرے میں ثنا اور بے ہوش سارہ سعادت اور اُس ڈائری کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ تجسس اخلاقی جرم میں ڈھل گیا، اُس نے ڈائری کھولی، سب سے پہلا انکشاف تو یہ تھا کہ کوئی بیس برس پُرانی ڈائری تھی، کچھ سوکھے پھول گر پڑے، اُن سوکھے پھولوں پہ تاریخ اور مقام لکھا تھا اور ساتھ "J”مٹا مٹا نظر آتا تھا، یعنی یہ سعادت نے نہیں کسی "J”نے دیے تھے۔

کچھ مبہم سی علامتوں میں جملے تھے جو کسی محبت کی کہانی کو ایسے دِکھاتے تھے جیسے کسی حسینہ کا نقاب ذرا سا سرکا ہو! اور پھر خود کو ڈھانپ لے اور پھر کچھ اور صفحے پلٹے تو سعادت سے شادی کا ذکر تھا، کچھ خوف اور آنسو لکھے نظر آئے مبہم سی عبارت میں جس کو ثنا ’’فرشتے بھی مکمل فرشتے کہاں ہوتے ہیں ‘‘جیسے بارود لگے جملے سے ڈی کوڈ کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اِس اثنا ء میں سارہ سعادت کو ہوش آنے لگا، ثنا جلدی سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگی، ثنا پر کچھ دیر نظر یں جمائے شاید وہ خود کو شعور سے منطبق کر رہی تھی اور پھر، مکمل طور پہ ہوش میں آنے کے بعد اُس کو اپنی ڈائری کا خیال تھما دی۔ سارہ نے ثنا کے چہرے پہ جانکاری کے کسی ان کہے لمحے کو کھوجنا چاہا مگر ثنا کو تاثرات کو ان کہا کرنا آتا تھا!ثنا بخاری اِک دم اُکتا گئی تھی، مزید ان کہے رازوں کو جاننے کی طلب و آرزو ہی نہ رہی۔ وہ یہاں کسی کھوج میں تھوڑا آئی تھی وہ تو یہاں اُس خوش قسمت عورت سے ملنے آئی تھی جو پورے ابلاٖغ سے سُنی جا چکی تھی مگر یہاں ڈائری میں مدفون بہت سی ان کہی قبریں اور اِن قبروں کو اُڑاتا بارود کہ فرشتے بھی بھلا مکمل فرشتے کب ہوتے ہیں کہ ہر بوجھ ڈھو سکیں، ہاتھ لگا تھا۔ وہ آہستہ سے آگے بڑھی، سارہ سعادت کے رُخسار کا بوسہ لیا اور کہا ’’آپ کی طبیعت خراب ہے میں پھر کسی روز آؤں گی۔ وہ اپنا بیگ سنبھالے جب سیڑھیاں اُتر ہی رہی تھی تو نہیں جانتی تھی کہ سارہ سعادت کے اِس راز سے ڈاکٹر سعادت کس حد تک واقف ہیں، ہو پائیں گے یا نہیں، وہ جاننے کی آرزو لیے کبھی پھر آ سکے گی اور جان بھی گئی تو کیا سعادت حسن کو بتا پائے گی یا نہیں ؟

ڈاکٹر سعادت اگر پہلے سے بہت کچھ جانتے ہیں کہ ان کی زندگی پہ کون سے ان دیکھے پردے گرے ہیں یا پھر سارہ سعادت کسی ان سنے ان جانے راز کو لے کر قبر میں اُتر جائے گی!اُسے لگا سینے پہ بہت بوجھ بڑھ گیا ہے۔ باہر آ کر اس نے لمبے سانس لیے مگر وہ اِس بات سے ایمان کی حد تک متفق ہو گئی تھی کہ اِس کُرے پہ انسان کا سب سے بڑا دُکھ یہی ہے کہ وہ ان سُنا رہ گیا!

٭٭٭

 

 

خانے اور خوف —  منزہ احتشام

 

 

زندگی کتنے خانوں میں بٹی ہوئی ہے اور ہر خانے میں ادھوری اور تشنہ ہے۔ کہیں مذہب کا خانہ ہے تو کہیں رسم کا، کہیں اقدار کا خانہ ہے تو کہیں اقتصاد کا،  کہیں ذات پات کا خانہ ہے تو کہیں فرقے کا‘ آخر ایک انسان خود کو کتنے خانوں میں تقسیم کرے اور کس کس خانے میں ایک مکمل فعال کردار ادا کرے۔ کچھ ایسے ہی خیالات کی دنیا بنی وہ کمرے میں داخل ہوئی۔ روشنی جلانے کے لیے ہاتھ ہلایا تو بجلی ہی نہیں تھی۔ بیزاری کچھ اور بڑھ گئی۔

تیسری دنیا کے ممالک اور اُن کے عوام کا المیہ یہی تو ہے۔ یہ زندگی یہ زندگی کے ہزار ہا خانے ‘ اور سارے خاندے ادھورے ،  سسکتی،  بلکتی،  سلگتی اور تڑپتی ہوئی مخلوق سے بھرے ہوئے خانے ،  جس طرح بھیڑ کے کان میں کیڑے پڑ گئے ہوں ،  اُن کلبلاتے کیڑوں کی مانند سسکتے ہوئے انسان اور اُن پر حکومت کرنے والے بھیڑیے ،  کیا زندگی ہے یہ،  یہ زندگی عذاب ہے : عذاب ہے ؟

کیا ہوا کیوں چلّا رہی ہو؟ ماں نے کمرے میں آ کر پوچھا

پھر بجلی نہیں ہے۔ اتنے زیادہ کام رُکے پڑے ہیں۔ یہ زندگی عذاب بن گئی ہے۔ نہ نیند آتی ہے اور نہ کوئی حرکت رہ گئی ہے ‘ وہ پھٹ پڑی تھی۔

تو میں کیا کروں بیٹا:۔ ماں نے بے بسی سے اس کی طرف دیکھا تو وہ یکدم خاموش ہو گئی۔ اب ابا کا لیکچر شروع ہو جائے گا وہ جانتی تھی۔

خاموشی سے اُس نے اپنا تھکا ہوا بدن بستر پر گرا دیا اور اپنے پسندیدہ کام میں مشغول ہو گئی۔

سوچنا اس کا پسندیدہ کام تھا۔

مارچ کا مہینہ تھا۔ شہد کی مکھی بھنبھناتی ہوئی اس کی پلکوں سے ٹکرائی اور شہد نما عجیب سی خوشبو چھوڑتی ہوئی گزر گئی۔ اللہ تعالیٰ نے کیسی کیسی مخلوق کو انسان کی خدمت کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ وہ اس شہد کی تخلیق اور تشکیل میں نہ جانے کتنا ہی لمبا سفر کرتی ہے۔ اور انسان کا ایک لقمہ بنتا ہے۔ مگر انسان کی ہوس ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ انسان نے تو اس پیاری اور ننھی سی مخلوق کو بھی مزدوری پر لگایا ہوا ہے۔ اس کے اختیارات پر مختار ہو گیا ہے اس کی سمتوں اور بلندیوں پر قابض ہو گیا ہے۔ اُس کو لکڑی کے ڈبوں اور ایک ہی سمت واپسی پر مجبور کر دیا ہے انسان نے ،  انسان کی ہوس کاری کی کوئی انتہا بھی ہے۔ مکھی بھنبھناتی ہوئی دور فضا میں جا چکی تھی۔ اُس کی نظروں نے دور تک اُس کا تعاقب کیا۔ یہ آزاد ہے ،  کیا یہ آزاد ہے ؟ کیا آزاد ہے ؟ فضا کے اندر رہ کر بھی اس کی آزادی سلب نہیں ہو چکی کیا؟ سوالات کی بازگشت اُس کے دماغ میں گونجتی رہی۔

یہ خانے بہت تکلیف دہ ہیں۔ زندگی کی کوئی ایک سمت نہیں ہو سکتی کیا؟ ہو سکتی ہے مگر ہم کرنا نہیں چاہتے ،  ہم ان خانوں کے بٹوارے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ہم اپنے وجود سالم دیکھنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے آخر کیسے کر سکتے ہیں۔ اور پھر بے بسی کا احساس اس پر ٹوٹ کر گرا! اشرف الخلق کا دعویٰ کرنے والا اپنی قدروں ،  سمتوں ،  رواجوں ،  نظریوں ،  معیشتوں اور مذہبوں کا کس قدر قیدی ہے ،  کتنا انہونا اور شدید قیدی ہے۔

…………

گوند سے لتھڑے ہوئے ہاتھوں میں لکڑی کے بلاک پکڑے وہ ایک بلاک کو دوسرے کے ساتھ جوڑنے ہی والی تھی کہ وہ وارد ہوا۔ اور حسب معمول اس کے چھوٹے سے کارخانے کے کاؤنٹر کے سامنے رکھی واحد ٹوٹی ہوئی کرسی پر بیٹھ گیا۔ خوبصورت سفید مردانہ ہاتھ کو کاؤنٹر پر بجا کر اس نے اس کو متوجہ کیا تو وہ چونکی اور بلاک کو اس کی مقر رہ جگہ پر فکس کر کے اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔

کیا حال ہے ؟

ٹھیک ہوں۔ ابھی تک تمہارا یہ ڈیزائن مکمل نہیں ہوا‘ اس نے گردن گھُما کر پیچھے گتے کی دیوار کے ساتھ رکھے کولاج کی طرف دیکھا۔ نہیں ابھی نہیں مکمل ہوا‘ ہر رات جب میں سوچتی ہوں تو اس کے اندر اور کچھ ایڈجسٹ کرنے کا مارجن بڑھ جاتا ہے اس نے نیم دلی سے جواب دیا اور ایک طرف دیوار کے ساتھ بیسن کی طرف بڑھ گئی۔

کیا پئیں گے ؟

جواباً وہ چُپ رہا۔ بس چُپ چاپ اسے دیکھے گیا۔

میں نے کہا کیا پئیں گے ؟ اس نے زور دے کر پوچھا

وہ اس دفعہ بھی کچھ نہیں بولا،  بس اضطراری انداز میں انگلیوں کو میز کی چکنی سطح پر بجاتا رہا۔ اور نظروں سے اس کے چہرے کو!

وہ اس کے قریب آ کر بیٹھ گئی۔

کبھی کبھی مجھے تمہاری بالکل بھی سمجھ نہیں آتی اجمیر!

سمجھ تو تب آئے ناں جب تم سمجھنا چاہو۔

سمجھنا تو چاہتی ہوں میں ،  مگر تم پکڑائی ہی نہیں دیتے۔

میں پکڑائی نہیں دیتا یا تم؟ لکڑی کے ٹکڑوں ،  چمڑے کے ٹکڑوں ،  کاغذوں ،  رنگوں ،  برشوں ،  چاقوؤں ،  آٹے کی لیئی،  گوند کی ڈبیوں کا ایک ملغوبہ بن چکی ہو،  تم وہ عورت ہو جس کے دماغ اور جسم کے درمیان کوئی ربط نہیں جس کا وجود،  جس کے دماغ سے الگ ہو چکا ہے ،  دماغ کی ضروریات تو پوری ہو رہی ہیں مگر جسم______ وہ رک گیا۔ اس کی نظریں اس کے بدن کے گرد آگ کے لاوے پھینک رہی تھیں۔ تجسیم کو یوں لگا،  گویا ابھی جل جائے گی اور اس خیال کے ساتھ ہی وہ کسمسائی اور سمٹ سی گئی۔ شکر ہے زندگی کے آثار تو ہیں۔ اجمیر کے لبوں پر اب مسکراہٹ تھی۔ دماغ سے منقطع شدہ بدن نے اتنا تو اشارہ کیا کہ وہ زندہ ہے اور اسے کسی دوسرے بدن کی ضرورت ہے۔ اب وہ اسے سنانے پر اُتر آیا تھا۔

بس کرو اجمیر! مجھے میرے دائروں کے اندر ہی رہنے دو! تم شاید اتنا بھی نہیں جانتے کہ جس کو تم مردہ اور دماغ سے منقطع شدہ کہتے ہو میرا یہ بدن زندہ ہے۔ افسوس کہ مرد کبھی عورت کے ضبط کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس کی آنکھیں بھیگنے لگی تھیں۔

اچھا اٹھو ترکھانی صاحبہ:۔ چلو چل کر کہیں سے چائے پیتے ہیں۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور وہ اس کے ساتھ باہر آ گئی۔

ایک پرانی وضع کے ڈھابے کے باہر بیٹھ کر اُس نے اُترتی ہوئی رات سے لطف اندوز ہونا چاہا۔ اجمیر اس وقت بھی بے قرار نظر آ رہا تھا۔

میرے ساتھ ایک مسئلہ ہے آجکل۔ وہ بولی۔

کیا؟

میں عجیب و غریب حبس کا شکار ہوں ،  قید کا احساس ہے ،  جیسے فرد کبھی بھی آزاد نہیں رہا۔ یہ کتنا قیدی ہے ،  پشت ہا پشت سے ،  یہ کتنا قیدی چلا آ رہا ہے۔ اجمیر خدا نے نُطفے کو اتنا تو اختیار دیا ہوتا کہ وہ اپنی مرضی سے پیدا ہو سکے۔ کرب کے آثار اس کے چہرے پر واضح تھے۔

یہ کیا کچھ سوچ لیتی ہو تم؟ اجمیر بھی اس وقت پریشان ہو گیا۔

کبھی کبھی مجھے بیٹھے بیٹھے اپنے اور تمہارے اس تعلق پر حیرت ہونے لگتی ہے۔

وہ کیوں ؟

مجھے لگتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے دائروں میں کہیں بھی فِٹ نہیں ہیں۔ اگر ہم فٹ نہیں ہیں تو ایک دوسرے سے کیوں منسلک ہیں ؟ اور اگر ہم منسلک ہیں تو ہمارا ایک دوسرے کو فائدہ کیا ہے ؟ وہ الجھی ہوئی تھی۔

کوئی بھی تعلق بیکار یا بے فائدہ نہیں ہوتا تجسیم۔ وہ بولا تو کافی دکھی لگ رہا تھا وہ سمجھ گئی تھی کیونکہ اجمیر جب بھی اس کا نام لے کر کوئی بات کرتا تھا تو ہمیشہ سنجیدہ ہوتا تھا۔

تم دوہرے معیار کے حامل شخص ہو اجمیر۔

وہ کیسے ؟

کبھی کبھی تم سچے لگتے ہو اور کبھی جھوٹے ،  مکار،  دھوکے باز اور فریبی اور پھر میں سوچتی ہوں کہ آخر میں تمہیں اتنا کیوں سوچتی ہوں۔ اگر تم مکار اور دھوکے باز ہو تو میں تمہیں چھوڑ کیوں نہیں دیتی،  مگر تم نے میرا بگاڑا بھی تو کچھ نہیں ،  تم خود میرے لیے اہم ہو چکے ہو۔

وہ خاموشی سے اسے دیکھے جا رہا تھا۔ اس وقت وہ بے حد الجھی ہوئی تھی اور اکثر ہی وہ الجھ جاتی تھی۔

چلو اٹھو میں تمہیں ڈراپ کر دوں۔ وہ چابیاں اٹھا کر کھڑا ہوا اور چائے پیئے بغیر ہی وہ اٹھ گئے۔ ہوٹل کا مالک ننھا حیرت سے اُن کو جاتے دیکھ رہا تھا۔

……………

برتن دھونے والی ماسی روز ہی کوئی نہ کوئی رونا لے کے آ جاتی ہے۔ اب تو اس کی باتوں پہ اعتبار نہیں رہا۔ یہ سارے غریبوں کی عادتیں پتہ نہیں ایک جیسی کیوں ہوتی ہیں۔ غریب بدصورت بھی ہوتے ہیں۔ شاید کوئی جینیاتی مسئلہ ہے کہ غربت انسان کو بد شکل اور بد ہیئت بنا دیتی ہے۔ یا پھر شکل و صورت کے ساتھ معیشت کا کوئی تعلق ہے۔ ہاں شکل و صورت کے ساتھ معیشت کا تعلق ہے تو واقعی۔ دنیا میں سب سے زیادہ مال دار طبقہ،  فلمی اداکاراؤں ،  طوائفوں کا ہے اور ان کے پاس پیسہ بھی زیادہ ہوتا ہے اور یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ اس طبقے کی عورتیں اور مرد جسم اور شکل و صورت کی کمائی کھا رہے ہیں۔

مصنوعی چیزوں ،  اور اجرتی جسموں کی بڑی زیادہ قیمت ہے دنیا میں۔

محنت کرنے والے جسموں کا معاوضہ سب سے کم ہے۔

دماغ کی محنت کی اجرت تو نہ ہونے کے برابر ہے۔

معاشرے کے نہ جانے کتنے بہاؤ ہیں۔

ایک طرف وہ بہاؤ ہے کہ دماغ سے کام لینے والے کی اجرت سب سے زیادہ ہے۔ نقشہ نویس سب سے زیادہ رقم لیتا ہے۔ اس کے بعد ٹھیکیدار ہے جس کا کام مزدوروں سے اجرت پر کام لینا ہے۔ وہ بس اشارے کرتا ہے اور جو سارا دن بازوؤں کی مچھلیاں اکڑا کے گارا ڈھوتا اور اینٹیں اٹھاتا ہے اس کا معاوضہ سب سے کم ہے۔ دوسرا بہاؤ یہ ہے کہ جو کہانی لکھتا ہے اس کا معاوضہ سب سے کم ہے ،  جو ہدایات دیتا ہے وہ تو محض اشارے کرتا ہے کام لیتا ہے ،  اور جو پرایا لباس پہن کر،  مصنوعی چہرے کے ساتھ،  کسی کے لکھے ہوئے مکالمے بول کر کسی کے اشاروں پر عمل کر کے مزدوری کر رہا ہے اس کا معاوضہ سب سے زیادہ ہے۔

نقشہ نویس                     ٹھیکیدار                 مزدور

کہانی کار                        ڈائریکٹر                فنکار

یہ کیسے بہاؤ ہیں جو ایک دوسرے کے الٹ بہہ رہے ہیں۔ بدصورتی اور بد ہیئتی کا تعلق ضرور معیشت کے ساتھ ہے ،  پیسے کے ساتھ ہے ،  محنت کے ساتھ نہیں ہے۔ اور ان غریبوں کی عادتیں بھی ایک جیسی ہوتی ہیں۔ جیسے بوڑھے اور چھیڑ اور کچی کالونیاں ،  دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں ایک جیسی ہی ہوں گی،  عورت دنیا میں کہیں بھی چلے جاؤ عورت ہی ہو گی اور مرد ،  مرد ہی ہو گا۔ پودے ،  پہاڑ،  دریا،  آسمان،  سڑکیں سارے ایک جیسے ہی ہیں تو پھر اختلاف کہاں ہے ؟ اختلاف شاید روّیوں کا ہے۔ روّیے بھی وہ جو اوپر سے اوڑھے جاتے ہیں۔ قائم کیے جاتے ہیں۔ استوار کیے جاتے ہیں۔ کیا سوچ رہی ہو؟ زارا نے اس کے اسٹوڈیو میں قدم رکھتے ہی پوچھا۔

آؤ زارا،  آؤ بیٹھو۔ اس نے سر کو میز سے اٹھا کر زارا کو بیٹھنے کی دعوت دی:۔ زارا کی نظروں نے دیوار کے ساتھ رکھے کولاج کا جائزہ لیا۔ یہ مکمل ہو چکا ہے۔

ہاں یار! دعا کرو اچھے داموں بک جائے۔

بِک جائے گا۔ آج کل لوگوں کو بڑا کریز ہے ان چیزوں کا۔ نہ جانے کیسی کیسی الم غلم چیزوں کے ساتھ گھروں کو بھر لیتے ہیں۔ وہ ہولے سے مسکرائی۔ اچھا تو تم میری تخلیق اور محنت کو الم غلم کہہ رہی ہو۔ اس نے لمبی سانس لے کر بڑے اطمینان اور لطف کے ساتھ زارا کو چھیڑا۔

ارے نہیں بھئی یہ مطلب نہیں تھا میرا۔ میرا مطلب یہ تھا کہ ہمارے ہاں جو کلچر ہے وہ بڑا عجیب و غریب ہے۔ غیر ضروری اشیاء کے ساتھ گھروں کو بھر لیا جاتا ہے۔ ساری ساری عمر اُن کو استعمال کرنے کی نوبت نہیں آتی۔ ایک طرف پیسہ فضول آرائش کی چیزوں پر ضائع ہو رہا ہے اور دوسری طرف وہ بھی لوگ ہیں جن کو چوبیس گھنٹوں میں ایک وقت کی سوکھی روٹی بھی میسر نہیں۔

سچ کہہ رہی ہو تم۔ یہ نظام نہیں بدل سکتا۔ یہ اتنی مضبوطی کے ساتھ قائم ہو چکا ہے کہ اس کے لیے قیامت کی ضرورت ہے۔ پیسے کا بہاؤ ایک خود کارانہ طریقے سے ایک طرف ہو چکا ہے اور یہی چیز مقدر کے نام سے یاد رکھی جاتی ہے اس کے لہجے میں دکھ اور کرب کی گہری کاٹ تھی۔

اچھا چھوڑو تم پھر جذباتی ہو رہی ہو۔ یہ بتاؤ کہ اجمیر کے ساتھ شادی کب کر رہی ہو؟ اتنی اچھی انڈراسٹینڈنگ ہے تم دونوں کی۔ کیوں نہیں کوئی فیصلہ کر لیتے اور ہاں اس سوال کا جواب دینے سے قبل چائے پلاؤ مجھے۔ وہ مسکراتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ دیوار کے ساتھ رکھی میز پر پڑی الیکٹرک چائے دانی میں پانی ڈالا اور بٹن دبا دیا:۔ بجلی نہیں ہے۔ ایک بے بس مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر پیدا ہو کر بجھ گئی۔

جہاں تک تمہارے اس سوال کا تعلق ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ میں اجمیر سے شادی نہیں کر سکتی۔ اور دوسری بات یہ کہ ہر تعلق کا ضروری مطلب شادی تو نہیں ہوتا۔

کیوں ،  مگر کیوں شادی نہیں کر سکتیں تم اس سے ؟ زارا کا دماغ اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھا۔

یار اس کے کچھ Complexes ہیں، جن کو میں سمجھتی ہوں، اور جانتی ہوں جہاں انسان ایک دوسرے کو مکمل طور پر سمجھ جاتا ہے وہاں گیم ختم ہو جاتا ہے اب ہم دونوں خواہ مخواہ ہی ایک دوسرے کے ساتھ نتھی ہیں۔ ایک خود کار جبلت کے تحت۔ ورنہ وہ جو ایک دوسرے کو جاننے ،  کھوجنے ،  معلوم کرنے کی کشش اور تجسس ہوتا ہے وہ کب کا ختم ہو چکا ہے۔ اس نے گہرا سانس لیا تو کیا اب تم دونوں ایک دوسرے سے لا تعلق ہو سکتے ہو؟

ہاں بڑے آرام سے۔ اس نے کندھے اُچکائے۔

نہیں۔ تم جھوٹ بول رہی ہو۔ زارا نے اس کو غور سے دیکھا۔ یہ گہرا سانس جو اطمینان کے اظہار کے طور پر تم نے خارج کیا ہے اس کے پیچھے آگ تھی۔ زارا اس کو کھوج رہی تھی۔

شاید:۔ کہہ کر اس نے دوسری طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ آنکھیں ڈبڈبا آئی تھیں۔

میں ایک غریب آرٹسٹ ہوں زارا۔

آرٹسٹ غریب نہیں ہوتا تجسیم! آرٹسٹ ہی تو امیر ہوتا ہے۔

امارت اور غربت کو اقتصاد کے پیمانے سے تولو میری بہن۔ تم بعض اوقات کتابوں کی باتیں کرنے لگتی ہو۔

اجمیر کو تم سے محبت ہے وہ تم میں پناہ لینے آتا ہے اسے قدر ہے تمہاری۔ زارا جذباتی ہو گئی۔

تم سے کس نے کہہ دیا کہ اس کو مجھ سے محبت ہے۔ وہ اس کی آنکھوں میں گھور کر بولی۔

میرا دل کہتا ہے۔

دل جھوٹ کہتا ہے زارا۔ اجمیر کی زندگی میں دوہرے معیارات ہیں۔ میں تجسیم ہوں۔ میں ان دیکھی چیزوں ،  خیالات اور تصورات کو جسم عطا کرتی ہوں۔ اجمیر کے حِسی تقاضوں کی تسکین میرے ہاں آ کر ہوتی ہے۔ اس کے نفسیاتی اور حِسی اظہاریے یہاں آ کر تشکیل پاتے ہیں۔ مگر اس کا دوسرا معیار مادی ہے۔ بیوی ایک مادی چیز ہے۔ اس کا خاندانی پس منظر سیاسی اور اقتصادی ہے۔ اس کے خاندان نے اس پر روپیہ لگایا ہے وہ خاندان کی انویسٹمنٹ ہے اور کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ اس کی انویسٹمنٹ ضائع چلی جائے۔ اسے مضبوط سیاسی پس منظر رکھنے والی یا کسی بڑے سرمایہ دار خاندان کی لڑکی چاہیے جو مادی بنیادوں پر اس کو سہارا دے سکے۔

میاں بیوی کے رشتے کو تم مادی سمجھتی ہو؟ زارا نے حیرت سے پوچھا۔

ہاں ! سمجھتی نہیں ہوں۔ یہ رشتہ ہے ہی مادی۔ اس نے بڑے اعتماد سے دعویٰ کیا۔ دیکھو زارا۔ میاں بیوی کا رشتہ مادی اور حیوانی رشتہ ہے۔ سماجی اور معاشی رشتہ ہے۔ عورت کو مرد کی ضرورت ہوتی ہے جسمانی اور معاشی سطح پر۔ ایک شوہر کی وفات کے بعد وہ کس بات کو یاد کر کے روتی ہے ؟ اس کی کمائی کو۔ اس کے کاموں کو اس کے مادی سہاروں کو۔ کما کے لاتا تھا۔ بچوں کو سنبھالتا تھا۔ یہ کام بھی وہ کرتا تھا وہ کام بھی وہ کرتا تھا۔ جب عورت کے کندھوں پر ہر ہر ذمہ داری پڑتی ہے تو اس کو وہ یاد آتا ہے۔ بہت زیادہ محبت کرنے والی بیوی کا شوہر بھی اس سے لاتعلق ہو جائے اس کو معاشی سہارا نہ دے تو اس کے لیے بے معنی ہو جاتا ہے اور وہ ہر جگہ اس کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے۔ جادو ٹونا،  تعویذ گنڈا،  جو کچھ بھی اس سے ہو سکے وہ کرتی ہے۔ اور دوسری طرف مرد کا بھی یہی حال ہے۔ بیوی اس کو ضرورت کے لیے یاد آتی ہے۔ یہ ہمارے معیا رات کے خانے ہیں جن میں ہم تقسیم ہو چکے ہیں۔ اپنے ہی لہجے کی بے بسی کو محسوس کر کے وہ چُپ ہو گئی۔

وہ تمہیں اب بھی عزیز ہے۔ زارا نے اور کُریدا

ہاں وہ مجھے بہت عزیز ہے۔ وہ بہت معصوم انسان ہے نفسیاتی سطح پر ،  جذباتی سطح پر اتنا شفاف ہے کہ فوراً دکھائی دے جاتا ہے۔ وہ چھپ نہیں سکتا۔ لیکن بعض اوقات جب وہ چھپنا چاہ رہا ہوتا ہے تو میں اس کو دیکھ کر بھی چھپنے دیتی ہوں۔ میں جان کر بھی انجان بن جاتی ہوں۔ میں اس کا بھرم رکھنے کے لیے ایسا کرتی ہوں۔ جب کوئی شخص اپنے منہ سے یہ کہتا ہے کہ وہ دھوکا دینے میں بڑا ماہر ہے تو اس وقت لاچارگی اور کرب کی انتہا سے گزر رہا ہوتا ہے۔ وہ خود کو Hurt کر رہا ہوتا ہے۔ چھوڑو یار کوئی اور بات کرو۔

خوف آدم کی سرشت میں بٹھائے گئے ہیں۔ اور یہ خوف در اصل دھوکا ہیں۔ میں جب تک دوسروں کے دکھائے ہوئے منظر دیکھتی رہی کائنات کا مفہوم میرے لیے کچھ اور رہا۔ دوسروں کے دماغ سے چیزوں کو سمجھنے کا عمل بھی بہت سادہ اور آسان تھا۔ لوگوں کی زبان سے لفظ اُچک کر بولنا بھی سہل لگتا تھا۔ میں معاشرے کی طرزِ فکر کا طفیلیہ تھی پھر ایک دن یوں ہوا کہ مجھے اپنی شناخت مل گئی اب مجھ پر آگہی کے عذاب اترنے لگے ،  میں بُت تھی۔ چابی والا کھلونا تھی،  گڑیا تھی۔ مگر مجھے وجود مل گیا میں بینا ہو گئی۔ میں خود بولنے لگی۔ خود سمجھنے لگی اور خود محسوس کرنے لگی جیسے ہی میں نے شعور اور وجدان کا لباس پہنا میں دنگ رہ گئی۔ مجھے جو سفید دکھایا گیا تھا وہ سیاہ تھا۔ جو حسین دکھایا گیا تھا وہ بدصورت تھا۔ جو پُر سکون دکھایا گیا تھا وہ متلاطم تھا۔ ان دھوکا دینے والے بازی گروں میں ماں کا پہلا نمبر ہے۔ جب میں اس کی گود میں تھی تو وہ مجھ سے جان چھڑانے کے لیے بلی جیسے کمزور اور معصوم جانور سے مجھے ڈراتی تھی۔ ’’وہ دیکھو بلی آ رہی ہے تمہیں کھا جائے گی‘‘ اور میں سہم کر خوفزدہ ہو جاتی تھی ماں کی گود سے موت کا خوف میری سر شت میں پڑا تھا۔ جب میرا وجدان میرے حواس اتنے مکمل نہیں تھے تب بھی اپنی بقا کا احساس میرے اندر تھا۔ ماں نے کتنے ہی خوف میرے اندر بھرے۔ آگ کے قریب نہ جاؤ۔ یہ جلا دے گی،  پانی کے پاس نہ جاؤ ڈوب جاؤ گی،  چھت کی دیوار پر مت لٹکو گر جاؤ گی۔ دھوپ میں نہ گھومو بیمار ہو جاؤ گی،  بارش میں مت بھیگو ٹھنڈ لگ جائے گی۔ ماں میرے گرد زندگی کا دائرہ بڑھانے کے چکر میں موت کے خوف کے پہرے بٹھاتی گئی۔ اور اس کا نقصان یہ ہوا کہ میری فطرت کی مہم جوئی مسخ ہو گئی۔ میری سر شت میں تجربے اور ایڈونچر کا جو تجسس تھا وہ مر گیا۔ میں بزدل ہو گئی۔ اور یہ خوف یہیں پر ختم نہ ہوئے بلکہ ان خوفوں کا دائرہ بڑھتا گیا۔ تصویریں نہ بنایا کرو ان میں جان ڈالنی پڑتی ہے۔

قیامت کا دن،  حشر کا دن،  روزِ جزا اور اللہ کا تصور درمیان میں آنا شروع ہو گیا۔ اللہ سے میرا پہلا تعارف یہ تھا۔

یہ نہ کرو۔ اللہ ناراض ہو جائے گا۔

وہ نہ کرو۔ اللہ مارے گا۔

اللہ بڑا سخت ہے دوزخ میں جلائے گا۔ اللہ اتنا سخت تھا۔ سارے بڑے بڑے بدکاروں ،  ظالموں ،  لٹیروں ،  سفاکوں کو کھلی چھٹی دے کر میرے اوپر ایک ننھی سی بچی کے اوپر سرخ سرخ نظریں گاڑ کے بیٹھا تھا۔

پھر یوں ہوا کہ ایک روز شدید سرخ آندھی آئی۔ کچے گھر کے کھلے صحن کی ساری دھول اڑ کر فضا میں سما گئی۔ میری خوفزدہ ماں سارے بچوں کو لے کر کمرے میں گھس گئی۔ کبھی میری ماں بھی لڑکی ہو گی۔ ہمیں تو ہمیشہ اسی طرح بوڑھی لگتی ہے۔ لگتا ہے ماں پیدا ہی اسی حالت میں ہوئی تھی۔ ماں نے سرگوشی میں بتایا کہ ایک لڑکی قتل ہو گئی ہے۔

امی قتل کیا ہوتا ہے ؟ میں نے پوچھا تھا۔ تو ماں نے وضاحت کی کہ کچھ لوگوں نے لڑکی کو پکڑ کر مالٹے کے بوٹے کے ساتھ کپڑے کا پھندا دے کر مار ڈالا ہے۔

امی اس لڑکی نے کیا کیا تھا؟

وہ گھر سے باہر نکلی تھی دوپہر کو۔ یہ کہہ کر ماں خاموش ہو گئی۔

امی دوپہر کو گھر سے باہر نکلنا اتنا بڑا گناہ ہے ؟ ماں چپ رہی، اس نے مالٹا توڑا ہو گا؟ بھائی نے قیاس ظاہر کیا۔ ماں پھر بھی چپ رہی۔ ماں کی چپ نے ایک اور خوف کو راہ دے دی۔ اب دوپہر کو گھر سے باہر نکل کر جولائی کی شفیق گرم دھوپ اور سحر انگیز لہروں کی جھِلمل جسے ہم سمجھتے تھے کہ گیدڑوں نے تنور گرم کر رکھا ہے۔ اس دھوپ میں کچے امرود توڑنے ،  بیر چننے اور خالی پڑی ہل چلی زمینوں کے اندر ’’ٹٹیری‘‘ کے انڈے تلاش کرنے کی عیاشی سے محروم ہو گئے۔ زندگی جو دور دور کھیتوں تک پھیلے درختوں ،  پودوں ،  جڑی بوٹیوں سے بھی آگے پھیلی ہوئی تھی وہ گھر کے پچھواڑے کی ٹھنڈی چھاؤں پر اسٹاپو کھیلنے تک محدود رہ گئی۔ اور پھر ہم یہ اسٹاپو کھیلتے کھیلتے اکتا گئے۔ کتنے ہی حسین،  خوبصورت تجسس تھے جن پر خوفوں کے ناگ غالب آتے گئے اور پھر ایک دن چلتے چلتے میں نے سارے خوفوں کو اس طرح اتار دیا جس طرح سانپ کینچلی سے نکل جاتا ہے اور زندگی کی بھیڑ میں کھو گئی۔

سارا الزام اللہ پر جا کر ٹکتا،  اللہ نے اس لڑکی کو گھر سے باہر نکلنے کی اتنی بڑی سزا دی تو اللہ اُن کو کیوں سزا نہیں دیتا جنہوں نے لڑکی کو مار ڈالا تھا اور خود بھاگ گئے۔ اللہ بڑا One sided ہے۔ اللہ کو الزام کیوں نہ دیتے۔ ہمارے اندر سارے خوف ہی تو اس کے نام پر بٹھائے گئے تھے۔ ہم تو کسی کو تنگ بھی نہیں کرتے ہیں۔ پھر بھی اللہ ہم سے ناراض ہوتا ہے۔ ماں نے سہم کر کہا تھا وہ دوپہر کو اکیلی باہر نکلی تھی۔ پھر ماں چپ کر گئی تھی۔ یعنی اس کا یہی قصور تھا۔ پھر پابندیاں لگنا شروع ہو گئیں۔ گھر سے باہر نہیں نکلنا،  کسی سے بات نہیں کرنی۔ کوئی بلائے تو بھاگ کھڑے ہونا ہے۔ کسی سے کوئی چیز لے کر نہیں کھانی۔

اسٹوڈیو کا دروازہ چر چرایا تو اس نے جلدی سے ڈائری کو بند کر کے دراز کے اندر رکھ دیا۔ اجمیر اپنے خوبصورت گھنے بالوں اور روشن چہرے کے ساتھ اس کے سامنے کھڑا تھا۔ وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ مگر بے تاثر رہی۔ کچھ دنوں سے وہ عجیب سی الجھن کا شکار تھی۔

تم پہلے جیسی نہیں رہی ہو کیا بات ہے ؟ اجمیر کی آواز سرگوشی جیسی تھی اس نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ اس وقت وہ پورے کا پورا ہی آنکھوں کے اندر سمٹ آیا تھا۔ اور وہ ہمیشہ ہی اجمیر کی ان نظروں کو برداشت نہیں کر پاتی تھی۔

میں خوفزدہ ہوں۔ اس نے نظریں جھکا لیں۔

کس بات سے خوفزدہ ہو۔ اجمیر پریشان ہو گیا تھا۔

ہمارے تعلق کی طبعی عمر پوری ہو چکی ہے اجمیر۔ اُس کے لہجے میں لرزش تھی مجھے لگتا ہے بہت جلد ہم ایک دوسرے سے لا تعلق ہو جائیں گے۔ ہر تعلق کی ایک نہ ایک میعاد ہوتی ہے اس کے بعد وہ تعلق اپنی شکل تبدیل کر لیتا ہے۔

کیا تم میرے بغیر رہ لو گی؟ اجمیر کی آواز بھرّا گئی۔

ہاں۔ اس نے بڑے رسان سے کہا

تعلق جب شکل بدلتے ہیں تو کیا وہ کوئی تکلیف نہیں دیتے ؟ کیا وہ اتنے ہی آسان ہوتے ہیں۔ جتنا آسان لباس کو بدلنا ہے ؟ وہ اس کے لہجے میں چھپے طنز کو پہچان گئی تھی۔ بڑے جذب کے ساتھ بولی۔

آسان نہیں ہوتے، بڑے مشکل ہوتے ہیں اور تعلق کو بھلا دینا بہت آسان ہے۔ جو کہتے ہیں ان کے لیے یہ مرحلہ اتنا ہی طویل اور مشکل ہوتا ہے۔ اور جو ابتدائی اسٹیج پر گھبرا جاتے ہیں وہ بڑی جلدی جانبر ہو جاتے ہیں۔ اور پھر اسے وہ دس سال کی بچی یاد آ گئی، جس نے پہلا تعلق ٹوٹنے کا کرب اٹھایا تھا۔ دیہاتی پرائمری اسکول کی جماعت پنجم کی طالبہ جو دل میں اپنے سے بڑی کچھ لڑکیوں کو دوست سمجھتی تھی اور ان کی ذات کی پناہ میں فخر محسوس کرتی تھی۔ پھر ایک دن اسکول کے دو گروپوں کے درمیان لڑائی ہو گئی۔ دونوں گروپ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے طرح طرح کی کھانے پینے کی چیزیں سلیٹوں کے اوپر رکھ کے ایک دوسرے کے سامنے آ گئے۔ کہ لڑائی کے دوران ایک گروپ کی سلیٹ سے ایک ٹافی نیچے گر گئی جو اس دس سال کی بچی نے اٹھا لی۔ اس گروپ کی لیڈر نے دوسرے گروپ کی لیڈر کو طعنہ دیا کہ وہ دیکھو تمہارے گروپ کی بھوکی لڑکی نے ہماری ٹافی اٹھا لی ہے۔ دوسری گروپ لیڈر کو ہتک محسوس ہوئی اس نے بڑی نفرت سے کہا:۔ یہ بھوکی ہمارے گروپ کی تو نہیں ہے۔ اور یہی وہ لمحہ تھا جب رشتہ ٹوٹا تھا جب پناہ ٹوٹ گئی تھی۔ وہ اکیلی رہ گئی تھی۔ بے سہارا ہو گئی تھی۔ اس کو یاد آیا۔ وہ دس سال کی ننھی سی بچی اپنا منہ اور ننھا سا پیٹ گرم دیوار کے ساتھ چپکائے زار و قطار رو رہی تھی۔ اس کا دل ٹوٹ چکا تھا اور پہلے رشتے کے ٹوٹنے پہ،  پہلی بار بے امان ہونے پہ،  ایک گرم دیوار نے اس کو سہارا دیا تھا۔ آج بھی اس کو اسکول کی دیوار کی شفیق حدت یاد تھی۔

اجمیر چپ چاپ واپس لوٹ گیا۔ دروازہ بند ہو گیا۔ اس نے ایک بار پھر دیوار کا سہارا لینے کی کوشش کی مگر دیوار ڈھے گئی اور وہ تاریک خلا کی نذر ہو گئی۔

کتنے ہی دنوں تک ماحول پر ایک خوفناک خاموشی طاری رہی۔ دنیا میں تصادم روز بروز بڑھتے جا رہے تھے۔ خود کُشیاں بھی بڑھتی جا رہی تھیں۔ آج پھر اخبار میں بھوک کی وجہ سے خود کشی کی خبر نے چونکا سا دیا۔ یوں لگا جیسے اس شخص نے خود کشی کر کے زیادتی کی ہے۔ سسٹم نے اس کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی۔ پھر اس نے خواہ مخواہ خود کشی کر لی ہے۔ آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک شخص بھوک کی وجہ سے خود کشی کرے۔ وہ بھوکا رہے ہی کیوں ؟ گھر سے باہر نکلو،  قدم قدم پر فروٹ کی ریڑھیاں لگی ہیں۔ چپے چپے پہ ہوٹل ہیں۔ ڈھابے ہیں۔ کھوکھے ہیں۔ تنور ہیں۔ ہر روز روڈ کے اوپر ایک چمکتا دمکتا شاندار ہوٹل ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے۔ آخر یہ ہوٹل راتوں رات کہاں سے آ جاتے ہیں۔ زمین سے اُگتے ہیں یا آسمان سے برستے ہیں سڑکوں ،  بازاروں ،  گلیوں ،  چوراہوں کے اندر مخلوق کا ازدحام ہے۔ گاڑی کے ساتھ گاڑی لگی ہے ،  آخر یہ لوگ کہاں جاتے ہیں ؟ یہ کیوں متحرک ہیں ؟ اگر یہ متحرک ہیں کہیں جاتے ہیں تو کسی کام سے جاتے ہوں گے۔ اور کام کوئی بھی ہو اس کا معاوضہ تو ہوتا ہے۔ اس حرکت سے تو یہی لگتا ہے۔ سارا معاشرہ متحرک ہے اور کچھ نہ کچھ کر رہا ہے پھر ایک شخص کی خود کشی کیوں ؟ وہ شخص کیوں اس بہتے ہوئے ریلے کا حصہ نہ بنا۔ وہ کیوں تنہا ہوا؟ اور اس نے کیوں خود کو مار ڈالا؟

یہ اجتماعی انسانی لا شعور کی کارستانی ہے ! نہیں ! نہیں ! انسانی لاشعور پر الزام لگا کر اس جرم سے نہیں جا بچا سکتا۔ وہ جُرم جو انسان کی خود کشی کا باعث ہے۔ وہ کیفیات جن کے ساتھ ’’بے ‘ ‘ کا لفظ لگتا ہے اُن کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بے معنویت،  بے مقصدیت،  بے اعتباریت کچھ انسانوں کی ترقی اور ہوس نے دوسرے انسانوں کی محرومیوں کو بڑھا دیا ہے۔ یہ اونچے ایوانوں والے کب چاہتے ہیں کہ نیچی جھونپڑی ختم ہو جائے۔ آخر اونچے ایوان کی شناخت نیچی جھونپڑی ہی تو ہے۔ ہم لفظوں کے تصور نہیں بدلیں گے۔ ہم نہیں چاہتے کہ غربت کا لفظ ختم ہو جائے۔ جب شہر میں سارے گھر ایک جتنے بلند اور ایک جتنے کھلے ہوں۔ تو کوٹھی،  بنگلہ،  مکان،  کٹیا کے تصور کہاں جائیں گے۔ لفظ ہی بے وقعت اور بے معنی ہو جائیں گے۔ جب ہر گھر کے کچن میں ایک جیسا کھانا پکنے لگے گا تو اختلاف،  تنوع کہاں جائے گا۔ ذائقہ دربدر ہو جائے گا۔ یکساں ہو جائے گا۔ جب سارے شہر کی عورتیں ایک جتنے مہنگے لباس،  زیورات پہننے لگیں گی تو خوبصورت اور بدصورت کے درمیان تمیز کہاں جائے گی۔ جب سارے طالب علم ایک جیسی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے لگیں گے تو افسروں کے ڈھیر لگ جائیں گے۔ مزدور کہاں جائے گا۔ مزدور کہاں سے آئے گا۔ انقلاب برابری کی سطح کا نام نہیں ہے ،  انقلاب نیچے کی زمین اوپر اور اوپر کی زمین نیچے کی طرف کر دینے کا نام ہے۔ لفظ ختم نہیں ہونے چاہئیں۔

مسافر بس کے درمیان حبس اور بدبو سے بھرے جسموں کے درمیان بے بسی کے ساتھ کھڑے کھڑے اس نے اجمیر کو یاد کیا۔ اس کے پاس سفر کے لیے سواری بھی نہیں۔ شدید خود ترسی کا احساس اس پر حملہ آور ہو گیا۔ اس گندے ،  کراہت آمیز اور کربناک ماحول میں وہ اجمیر کو نہیں سوچنا چاہتی تھی۔ اجمیر اُس کی تنہائی کی پر سکون،  پاک اور خوشبودار خلوتوں کا ساتھی تھا۔ اس کا تصور گدلا ہوتا تھا۔ مگر اگلے ہی لمحے اس نے خود کو بے حد بے بس محسوس کیا اگر وہ اجمیر کی یاد کا سہارا نہیں لے گی تو اس ناقابل برداشت ماحول کی گھٹن میں مر جائے گی۔ یہ درست ہے کہ وہ اس سے لاتعلق ہونا چاہتی ہے۔ مگر یہ بھی درست ہے کہ وہ اس سے لا تعلق نہیں رہ سکتی۔ نہ جانے کیسی کیسی ناقابل برداشت کیفیتوں میں وہ اس کا سہارا بن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ اور اس وقت بھی یہی ہوا تھا ،  اجمیر کا خوبصورت بدن اس کے گرد حصار بن کر کھڑا ہو گیا تھا۔ اس کے آفٹر شیو لوشن کی حیات بخش خوشبو اس نے ایک لمحے کے لیے محسوس کی اور گھنٹوں کا سفر منٹوں میں طے ہو گیا۔

روڈ پر اتر کر وہ پیدل کچے راستے پر ہولی۔ اسے یاد آیا ایک دفعہ ابا جی نے کہا تھا۔ اللہ تعالیٰ جن لوگوں سے راضی ہوتا ہے ان کو سواری دیتا ہے اور وہ پھٹ پڑی تھی۔

کیا اِن سارے بدمعاش حکمرانوں ،  زانی سیاست دانوں ،  چوروں ،  ٹھگوں ،  بدمعاشوں ،  راشیوں ،  ناحق کھانے والوں اور ، ’لمبی توند والے ‘‘ انسانوں کو لڑانے والے مولویوں سے اللہ راضی ہے کہ ہر ایک کو کئی کئی شاہانہ سواریاں دے رکھی ہیں۔ اور صرف مجھ سے ناراض ہے۔ میں زیادہ بڑی گناہ گار ہوں ناں۔ اور پھر اگلے ہی لمحے آنسو جیسے اس کی آنکھوں سے پھٹ پڑے۔ کہاں جائے کیا کرے ؟ یہ دنیا کتنے بڑے دھوکے اور پروپیگینڈے کا شکار ہے۔ اللہ کو کس کس طریقے سے اپنے حق میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور اللہ ہے کہ ہر طریقے سے استعمال ہوتا جا رہا ہے۔ آخر کیوں اپنی رسی نہیں کھینچ لیتا اور پھر اس نے خود ہی اپنی سوچ کو ملامت کی اور گھر کی دہلیز پر قدم رکھ دئیے :

اس کا بنایا ہوا شاہکار اچھے داموں بک گیا۔ اب وہ کسی نئے آئیڈیا کی تلاش کے لیے کچھ عرصہ آزاد تھی۔ ایک بہت بڑے صنعت کار کی ماں نے جو کہ ایک اور بہت بڑے صنعت کار بیوی بھی تھی وہ کولاج خریدا تھا۔ اسے زارا کی بات یاد آ گئی تھی اور خود کو مجرم تصور کرنے لگی۔ اس کا روزگار بھی تو ایک ایسی سرگرمی سے وابستہ ہے جو بقول زارا کے الم غلم اور فضول اشیاء کا ڈھیر ہے مگر معروضی انسانی مسائل کے ساتھ ساتھ فنونِ لطیفہ کی بھی تو کوئی اہمیت ہے۔ زندگی میں صرف مادی مسائل ہی تو اہم نہیں۔ انسان کی کچھ حسی،  نفسیاتی اور روحانی ضرورتیں بھی تو ہیں۔ اس نے خود کو بہلانا چاہا اور اپنے کمرے کے اندر جا کر ڈھیر ہو گئی۔

٭٭٭

 

 

 

 

صحرا میں نہیں رہنا —تبسم فاطمہ

 

 

وہ سامنے کھڑا ہے لیکن اسے نظریں ملاتے ہوئے بھی پریشانی ہو رہی ہے۔ کھلی کھڑکی سے دھوپ کی شعاعیں اندر تک آ رہی ہیں۔ وہ ایک ٹک باہر کے مناظر میں الجھا رہا۔ لیکن میں جانتی تھی، اس کی آنکھیں کچھ بھی نہیں دیکھ رہی ہوں گی۔ ممکن ہے، اس کے وجود میں ایک آندھی چل رہی ہو۔ مرد کے وجود میں اکثر مرد ہونے کی آندھی چلتی ہے۔ اور خاص کر ایسے موقعوں پر جب اسے احساس ہو کہ اس کی مردانگی کو کسی حد تک کچل دیا گیا ہو۔ اور یہ بھی احساس ہو کہ کچلنے کی کوشش اس ذات کے ذریعہ کی گئی ہو، جس سے کبھی اس قسم کی کوئی توقع اس نے نہیں رکھی ہو۔ وہ اب بھی کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔ جیسے کسی فیصلے پر پہنچنے کا خواہشمند ہو۔ اچانک وہ پلٹا اور میری طرف دیکھا۔

’تم نہیں جانتی، زندگی کتنی مشکل ہے۔ ‘

’میں اسے آسان بنانا بھی جانتی ہوں۔ ‘

’اوہ۔ ‘ اس نے زیر لب مسکرانے کی کوشش کی—’ نہیں تم نہیں جانتی۔ تم سب کچھ کھیل سمجھ رہی ہو۔ یہ زندگی اتنی آسان بھی نہیں ہے۔ راستے میں بہت کانٹے ہیں۔ ‘

’مجھے کانٹوں سے کھیلنا پسند ہے۔ میں دوبارہ مسکرائی۔ بچپن میں بھی یہی کرتی تھی۔ ‘

’تو تم نے فیصلہ کر لیا ہے۔ ‘ اس بار اس کی آواز کمزور تھی… آزاد ہونا ایک احساس ہے۔ فیصلہ نہیں۔ ‘

’اوہ…‘ وہ بہت آہستہ سے بولا۔ مگر اس بار وہ ٹھہرا نہیں۔ دیکھتے دیکھتے وہ کمرے سے باہر نکل گیا تھا۔

اب میں کمرے میں اکیلی تھی۔ اور یہ لمحہ ایسا تھا جب میں گنگنا سکتی تھی۔ رقص کر سکتی تھی۔ باہر دھوپ چھٹکی ہوئی تھی۔ کھڑکی سے کچھ فاصلے پر سرو قد درختوں کی قطار تھی۔ ان درختوں پر بہار آئی ہوئی تھی۔ اس سے قبل کبھی میں نے قدرت کے لازوال حسن کو اس طرح آنکھوں میں بسا کر نہیں دیکھا تھا، قدرت آزاد ہے۔ اور میں بھی۔ میں یہ سوچنے سے قاصر تھی کہ انسان اپنے لیے ایک گھٹن بھرا پنجرہ لے کر کیوں آتا ہے ؟ یہ کیسی آزادی ہے کہ ساری زندگی ایک چہار دیواری کے اندر ایک ایسے آدمی کے ساتھ بسرکی جائے جس سے نہ خیال ملتے ہوں، نہ معیار۔ اور وہ ہر وقت ساتھ میں پنجرہ لیے گھومتا رہتا ہو… زیادہ اڑان مت بھرو۔ پنجرے میں آ جاؤ۔ یہ ٹی وی دیکھنے کا وقت نہیں ہے۔ میرے دوست آنے والے ہیں۔ چلو پنجرہ سنبھالو۔ تم جاب کرو گی؟ نہیں تم پنجرے میں زیادہ اچھی معلوم ہوتی ہو۔

میں نے کئی بار پنجرہ توڑنا چاہا۔ لیکن پھر خود کو سمجھایا۔ ابھی کھیل دیکھتے ہیں۔ کبھی کبھی تماشہ بھی دیکھنا چاہئے۔ اور سب سے زیادہ مزہ تو اس بات میں ہے کہ خود کو خاموشی سے تماشہ بناؤ۔ پھر سامنے والا اپنی اصلیت، اپنی اوقات میں آ جاتا ہے۔ مجھے اس بات کا احساس ہے کہ پتھر سے زیادہ سخت الفاظ ہوتے ہیں۔ اور مرد، عورت کے لیے ساری زندگی پتھر اکٹھا کرتا رہتا ہے۔ اور پھر ایک ایک کر کے صحیح وقت کے انتظار میں یہ پتھر اس کی طرف اچھالتا جاتا ہے۔ مگر اس کی بد قسمتی تھی کہ میں ان عورتوں سے الگ تھی۔ وہ عورتیں جو باہر کی میز پر، یا فیس بک پر باتیں کرتے ہوئے عالمانہ انداز اختیار کر جاتی تھیں۔ مگر گھر کی سطح پر ان کے اندر ایک ڈرپوک عورت موجود ہوتی تھی۔ ایک ایسی عورت، جس کے سامنے مرد پنجرہ لیے کھڑا رہتا تھا۔ میں سوچتی تھی کیا یہ خودکشی نہیں ہے ؟ اپنے لیے ایک ایسے قید خانے کا انتخاب کرنا، جہاں مہذب دنیا سے کوئی روشنی نہیں آتی۔ مرد اکیلا اس روشنی کا حقدار ہوتا ہے۔ اور وہ بڑی محنت سے عورت کو اس قید خانے کا قیدی بنا لیتا ہے۔ اور سمجھدار تعلیم یافتہ عورتیں بھی ہنستے ہنستے اس خودکشی نما موت کو گلے سے لگا لیتی ہیں۔ فیس بک کی بڑی سی دنیا میں صالحہ ملی تھی۔ انقلابی نظمیں لکھنے والی۔ لیکن وہ اپنے پروفائل میں اپنی تصویر لگاتے ہوئے خوف محسوس کرتی تھی۔ میں نے پوچھا تو سہم گئی۔

’تصویر نہیں دے سکتی۔ ‘

’لیکن کیوں ؟‘

’میری شادی ہو رہی ہے۔ ‘

’مبارکباد، تم نے لڑکے کو دیکھا ہو گا؟‘

’نہیں۔ ‘

’کیوں۔ ‘

صالحہ نے بتایا… یہ زندگی اس کی ہے ہی نہیں۔ دوسروں کے اشاروں پر چلنا ہی ہماری تقدیر میں لکھا ہوتا ہے۔

’پھر جو تم لکھتی ہو اس سے فائدہ۔ ؟‘

’فائدہ ہے نا… کچھ دیر کے لیے اس عورت کو زندہ کر لینا، جس کے بارے میں جانتی ہوں کہ کچھ دنوں بعد ہی اس عورت کی ہر خواہش کا گلہ گھونٹ دیا جائے گی۔ وہ زندہ رہے گی مگر موت سے بدتر۔ ‘

پہلی بار صالحہ پر غصہ آیا تھا۔ یہ کیسی زندگی ہے۔ کیا میں ایسی زندگی کے بارے میں سوچ سکتی ہوں۔ کیا دنیا کے تمام مرد ایک جیسے ہوتے ہیں۔ فیس بک پر ہی پاکستان کی ملیحہ ٹکرائی تھی۔ کہانیاں لکھتی تھی۔ ایک شوہر تھا۔ دو پیارے بچے۔ مگر اپنی بغاوت کی آنچ میں اندر اندر ہی سلگتی یا مرتی تھی، نہ صالحہ کے پاس زندہ رہنے کا کوئی جواز تھا اور نہ ملیحہ کے پاس۔ جو بھی ملتا وہ ایک نقلی چہرے یا ماسک کے ساتھ۔ مجھے یہ ماسک قبول نہیں تھا۔ میں اس نقلی چہرے کے ساتھ ایک پوری زندگی نہیں گزار سکتی تھی۔ اور اس لیے میں آزادی کی بات کرتی تھی ملیحہ اور صالحہ کو حیرت ہوتی تھی۔ آزادی ہم عورتوں کے پاس ہے کہاں ؟

میں ان باتوں کو نہیں مانتی تھی۔ مجھے حبس بھرے ماحول یا گھٹن بھری زندگی کا غلام بننا منظور نہیں تھا۔ میں جھوٹی اور نقلی مسکراہٹ کے ساتھ زندگی گزارنے کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ اس لیے شادی کے بعد بھی میں نے اپنی آزادی میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔ اور میں جانتی تھی، میری آزادی کی روشنی کے درمیان وہ پہلے دن سے سلگتا رہا ہے۔ یہ شادی لو میرج نہیں تھی۔ اسے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ شادی سے پہلے تک کوئی ایسا لڑکا سامنے نہیں آیا جو میرے مزاج و معیار کے مطابق ہو۔ اس لیے جب شادی کی باتیں زیادہ طول کھینچنے لگیں تو میں نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔

’جہاں مرضی۔ کر دیجئے۔ وہ میرے ساتھ جی سکے گا تو یہ اس کی خوش نصیبی ہو گی۔ ‘

اماں میرے ان تیوروں سے واقف تھیں۔ وہ اکثر میری باتوں پر خاموش رہنا ہی پسند کرتی تھیں۔ ویسے بھی وہ خاموش طبیعت واقع ہوئی تھیں۔ میں ایک این جی او سے وابستہ تھی اور کاشف بینک میں اعلی عہدے پر تھے۔ کچھ ہی دن میں وہ میرے مزاج سے واقف ہو گئے۔ جبکہ شروعات میں انہوں نے دباؤ بنانے کی کوشش کی تھی لیکن جلد ہی کاشف کو اس بات کا احساس ہو گیا، یہ لڑکی ٹیڑھی کھیر ہے۔ اور بہتر یہ ہے کہ بھڑ کے چھٹے میں ہاتھ نہ ڈالا جائے۔

مجھے اس بات کا احساس تھا کہ بینک کے حساب کتاب میں الجھے اس شخص کے ساتھ میری شادی نہیں سمجھوتہ ہوا ہے۔ وہ بہار کے رہنے والے تھے۔ لیکن نوکری دلی کی تھی۔ ساؤتھ ایکس میں ایک چھوٹا سا فلیٹ تھا۔ مجھے اکثر اس بات کا احساس ہوتا تھا کہ دو غلط لوگوں کو ایک گھر میں اکٹھا کر دیا گیا ہے۔ اور ان دو لوگوں کے درمیان مزاج و معیار کی ایک دیوار حائل ہے، اس دیوار کو توڑا نہیں جا سکتا۔ میں مزاجاً صفائی پسند تھی اور اس کی طبیعت میں بکھراؤ۔ اسے کافی پسند تھی۔ مجھے چائے اچھی لگتی تھی۔ وہ پیور ویجیٹیرین تھا۔ مجھے نان ویج کے بغیر کھانا اچھا نہیں لگتا تھا۔ وہ دقیانوسی واقعہ ہوا تھا اور مجھے جبراً برداشت کر رہا تھا۔ میں آزاد تھی اور اپنی آزادی کے لیے کبھی ہار مونیم کبھی کتابوں کا سہارا لیتی۔ اس کے مزاج میں رومانیت یا موسیقی کو قطعی دخل نہیں تھا۔ میں اکثر سوچتی تھی۔ میں ساتھ کیوں ہوں۔ پھر خیال آتا کہ چلو… میں آزاد تو ہوں۔ میں نے دوسروں کی طرح مرد ذات کی بندشوں اور غلامی کی فضا میں سانس نہیں لے سکتی۔ اور یہ بات وہ بھی محسوس کر رہا تھا۔ بلکہ پہلے دن سے ہی محسوس کرنے لگا تھا— میں اچانک محسوس کرنے لگی تھی کہ اس میں تبدیلی آ رہی ہے۔ جیسے اس دن ہارمونیم کی آواز پر وہ سہما سا کمرے میں آیا اور اس نے بتایا۔

’تم واقعی اچھا بجا لیتی ہو۔ ‘

ایک دن اس نے میرے بنائے ہوئے نان ویج کی بھی تعریف کی۔ اور اس نے بتایا…

’کالج کے دنوں میں ایک بار اس نے قربانی ہوتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ اور اس کے بعد اس نے نان ویج سے توبہ کر لی۔ ‘

ایک بار تو حد ہو گئی۔ جب اس نے سرہانے سے میری کتاب اٹھا لی۔ کیا پڑھ رہی ہو… یہ قرۃ العین حیدر کا ناول چاندنی بیگم تھا۔ اس نے دو ایک صفحہ کی ورق گردانی کی۔ پھر آہستہ سے بولا۔

’میں نے نام سنا ہے۔ شاید انہیں گیان پیٹھ بھی ملا ہے۔ ‘

میں پوری طاقت سے مسکرائی تھی۔ پھر میں نے اس کی طرف دیکھا…

’کاشف۔ کیا تم بدل رہے ہو؟

’نہیں۔ ‘

’کیا تمہاری زندگی میں کوئی لڑکی آ گئی ہے …‘

’نہیں۔ ‘

’آ گئی ہے تو کوئی مصیبت نہیں ہے۔ انجوائے کرو۔ بلکہ میں تو کہتی ہوں …‘

میری آنکھیں اس کے چہرے پر جی ہوئی تھیں۔ وہ کھڑکی کی طرف دیکھ رہا ہے۔

’مان لو… کوئی آ جاتا ہے … تو؟‘

’تو کیا… تمہاری زندگی ہے۔ اپنی زندگی پر اتنا بوجھ کیوں رکھتے ہو؟‘

’تم ایکسیپٹ کر لو گی؟‘

’کسی کو یہ سوچ کر چاہو گے کہ میں ایکسیپٹ کروں گی یا نہیں ؟‘

وہ دوسری طرف دیکھ رہا تھا۔ پھر وہ آہستہ سے بولا… ’نہیں کوئی نہیں ہے …‘ مگر میں اسے منتشر دیکھ رہی تھی۔ جسے اس نے ہارمونیم تھام لیا… موسیقی کی بھدی تان گونجی تو اس نے ہارمونیم کنارے رکھ دیا… پھر تکیہ پر سر رکھ دیا۔

’کبھی کبھی کچھ زیادہ طلب ہوتی ہے …‘

’سیکس کی؟‘

’ہاں۔ ‘

مجھے اس پر رحم آ رہا تھا۔ ’یہ طلب تو فطری ہے۔ ‘

وہ چھت کی طرف دیکھ رہا تھا۔ طلب بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ مجھے ہر جگہ عورت نظر آتی ہے … جیسے یہ کتاب… چاندنی بیگم… اور وہ ہارمونیم۔ ایک لمحہ کے لیے لگا کہ وہ ہار مونیم نہیں عورت ہے … عورت کا بدن…‘

حقیقت یہ ہے کہ پہلی بار مجھے اس پر رحم آیا تھا۔ وہ مجھے کسی معصوم بلی کی طرح نظر آ رہا تھا۔ جو طلب نہیں، کسی شہنشاہ کے سامنے ایک معمولی سی فریاد لے کر کھڑا ہو… نظر جھکائے۔ مگر میرا دل کہہ رہا تھا کہ یہ دبو کس لڑکی کے پیار میں الجھ گیا ہے اور ممکن ہے اقرار کے لیے ایک شوہر ہونے کا احساس اس کے وجود پر حاوی ہو۔ یا ہو سکتا ہے، اس کے اندر ہمت کی کمی ہو۔ لیکن سچ یہ تھا کہ کاشف میں تبدیلی آ رہی تھی۔ اور یہ طلب اچانک اس رات ایک دھماکہ کر گئی تھی۔ جب ہلتے ہوئے بستر کے ساتھ میں نے اچانک لائٹ آن کر دیا تھا۔ میں نے اسے گھبراتے ہوئے دیکھا۔ وہ پائجامہ سمیٹ رہا تھا۔ میں زور سے چیخی۔

’تم بھیگے ہوئے ہو…‘

اس میں نظر ملانے کی ہمت نہیں تھی۔

’تم بھیگے ہوئے ہو… اورسچ یہ ہے کہ یہ میں نہیں تھی۔ ‘

’ہاں۔ ‘ وہ ابھی بھی چھت کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ایک ایسے چور کی طرح، جس کی چوری اچانک پکڑ لی گئی ہو…

’تو یہ ہے تمہاری طلب؟‘

’وہ خاموش تھا۔ ‘

’کیا تم جرم محسوس کر رہے ہو؟‘

’پتہ نہیں۔ ‘

’نہیں معلوم کرو۔ اگر جرم محسوس کر رہے ہو تو کیوں ؟ کوئی کام جرم کے ساتھ نہیں کرنا چاہئے۔ ‘

اس بار اس نے وحشت بھری نظروں کے ساتھ میری طرف دیکھا میری آنکھیں اس پر جمی ہوئی تھی۔ مردوں کے قانون میں یہ کیسے جائز ہے کہ کسی کے ساتھ بھی—؟ اس کے اجازت کے بغیر بھی—؟ مان لو۔ یہ وہی لڑکی ہے، جس سے تم ملتے ہو۔ اگر تم اس کو پروپوز کرتے تو کیا وہ تمہاری بات مان لیتی…؟‘

’نہیں۔ ‘ وہ آہستہ سے بولا… ’پتہ نہیں۔ ‘

’تم لوگ کتنی آسانی سے یہ جرم کر لیتے ہو۔ اور کرتے چلے جاتے ہو۔ یہ محض بھیگنا نہیں ہے۔ ایک ان دیکھے تصور کا بلاتکار ہے۔ ‘

میں دیر تک بولتی رہی۔ اس درمیان اتنا ہوا۔ وہ خاموشی سے اٹھا اور اٹھ کر باتھ روم کا دروازہ بند کر لیا۔ میں نے دروازہ بند ہونے کی آواز سنی۔ اس وقت دماغ میں آندھی چل رہی تھی۔ میں جانتی تھی کہ کسی بھی مرد کے لیے یہ ایک معمولی سی بات تھی۔ پان کھایا، پیک تھوک دیا۔ اس واقعہ میں کچھ بھی نیا نہیں تھا۔ لیکن اس کے باوجود یہ واقعہ مجھے ہضم نہیں ہو رہا تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ میں تیز رفتار دنیا کے جغرافیہ اور ترقی سے واقف نہیں تھی۔ یہاں کیا نہیں ہوتا۔ لیکن کاشف ایک ایسا مرد تھا، جس کے ساتھ میں ساؤتھ ایکس کے اس فلیٹ میں رہ رہی تھی۔ یہ لیو ان ریلیشن شپ نہیں تھا۔ باقاعدہ شادی ہوئی تھی۔ یہ شادی سمجھوتہ سہی، مگر اس رات، اس کے بھیگنے تک کے عمل میں ایک عورت اس کے ساتھ تھی۔ اور وہ ہر رنگ میں اس کے ساتھ تھی۔

ایک لمحہ کے لیے احساس ہوا، میں قطرہ نما کمرے میں ہوں۔ چاروں طرف قطرے ہی قطرے … پانی کی بوندیں … ان پانی کی بوندوں کے درمیان میں ہوں … قطروں سے ایک عجیب سی آواز پیدا ہو رہی ہے۔ ان آوازوں میں عجیب سی سسکیاں ہیں۔ اور یہ قطرے ٹھہرے ہوئے نہیں ہیں۔ یہ متواتر ہل رہے ہیں … ان قطروں نے چاروں طرف سے مجھے گھیر لیا ہے … میں تیز بدبو محسوس کر رہی ہوں …

میں کانوں پر ہاتھ رکھ کر تیز آواز میں چیختی ہوں …آنکھیں کھل گئی ہیں … سامنے والی دیوار میں کائی جم گئی ہے۔ کچھ دھبے سے ابھرے ہیں۔ اندر سے آواز آتی ہے … تم پاگل ہو گئی ہو۔ کیا انسانی نفسیات کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہے، جو کاشف نے کیا ہے — تم اس دنیا میں ہو، جہاں مرد عورتوں میں ناجائز رشتوں کی ایک لمبی تاریخ رہی ہے۔ اور آج کے گھٹن آلودہ معاشرے میں ایسے رشتہ مسلسل ایک نئی تاریخ بنا رہے ہیں۔ اور پھر زمانہ تو اس سے بھی برا ہے۔ مرد، مردوں سے، اور عورت، عورت سے قریب ہوتی جا رہی ہے۔ اور کاشف نے کیا ہی کیا ہے ؟

میں اتنی خوفزدہ کیوں ہوں … اتنی پاگل کیوں ہو گئی ہوں … میں تو آزادی کی بات کرتی تھی۔ کیا میں اس کی آزادی پر پہرہ بٹھا رہی ہوں۔ ؟

ایک لق و دق صحرا ہے میں بھاگ رہی ہوں … مجھے اس صحرا میں نہیں رہنا… نہیں جینا مجھے۔ پر شور ہوا کی موسیقی گونج رہی ہے۔ صحرا سائیں سائیں کر رہا ہے۔ میں حواس باختہ بھاگ رہی ہوں … مگر میں کس سے بھاگ رہی ہوں۔ خود سے —؟ انسانی نفسیات سے —؟ یا پھر اس الجھے الجھے رشتہ سے —؟ جس کی ایک کڑی میں ہوں۔

دھوپ چھجے تک آ گئی ہے … وہ دیوار کا سہارا لیے کھڑا ہے۔ میری آنکھیں خلا میں دیکھ رہی ہیں …

کیا یہ قدرتی ہے … نیچرل ہے …؟

ہاں …

کیا تم ایسا پہلے بھی کرتے رہے ہو…؟

ہاں …

کسی ایک کے ساتھ…؟ ہوا کے جھونکے اچانک سرد ہو گئے ہیں۔ میں دانتوں کو بجتے ہوئے محسوس کر رہی ہوں …

نہیں۔

یعنی بہت سی عورتیں …

ہاں۔ وہ اچانک میری طرح مڑا۔ اس کا چہرہ سرخ ہے۔ جبڑے بھنچ گئے ہیں۔ وہ زور سے چیخا… بند کرو بکواس… اسے جملے نہیں مل رہے ہیں … یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے … میں کوئی پہلا مرد نہیں ہوں …‘

’لیکن یہ مرد میرے ساتھ رہتا ہے۔ اور اپنی تھکن میں غیر عورتوں کو شامل کرتا رہتا ہے۔ کیا تم اس کے بعد بھی چاہتے ہو کہ میں تمہارے ساتھ رہوں …؟ کیا یہ سچ مچ قدرتی ہے …؟ یہ قدرتی ہونے کا فسانہ بنا لیا ہے تم لوگوں نے —؟ اپنی تسلی کر لی ہے۔

’تمہاری مرضی، تمہیں جو سوچنا ہے سوچو… ہم شاید ایک بیکار کی بات کو طول دے رہے ہیں۔ تم شاید میرے ساتھ رہنا نہیں چاہتی۔ ‘

چھجے سے دھوپ غائب ہے۔ اب خالی چھت رہ گئی ہے … دھوپ کی جگہ بادلوں نے لے لی ہے … اب بادل بھی نہیں ہیں … وہی بہت سے قطرے۔ قطرے در قطرے … میں ایک بار پھر ان قطروں کی گرفت میں ہوں۔ میرا جسم ہلکا لگ رہا ہے … سیڑھیوں سے نیچے اتری تو اچانک چونک گئی۔ کوئی ہارمونیم بجا رہا تھا۔ لیکن ہارمونیم سے بے سری موسیقی کی طرح خوبصورت نغمے گونجتے ہوئے محسوس ہوئے۔

میں کمرے میں آئی تو اچانک چونک گئی۔ وہ بستر پر تکیے کے سہارے لیٹا ہاتھوں میں ہارمونیم لیے تھا۔ چاندنی بیگم کی کتاب اس کے پاس پڑی تھی۔ اور وہ آنکھیں بند کیے ہارمونیم بجانے میں مصروف تھا…

٭٭٭

 

 

 

 

پنجرے میں قید نیند — نورین علی حق

 

کافی کوششوں کے باوجود مجھے نیند نہیں آئی۔

نصف شب گزر چکی ہے۔ گھر کے تمام افراد اپنے اپنے کمروں میں سو رہے ہیں۔ آباء و اجداد کی پیروی میں ہم آج بھی عشاء کے بعد عشائیہ کرتے ہیں اس کے بعد سب اپنے اپنے کمروں کے ہو جاتے ہیں۔

رات کی الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے، شاید میری نینداس کے اعداد و شمار پر مامور کر دی گئی ہے، بستر پر کروٹیں بدل بدل کر تھک چکا ہوں، چاہتا ہوں کہ اٹھ کر بجلی جلادوں۔ مگر ایسا کرنا اخلاقی تقاضے کے خلاف ہے۔ میرے بازو میں لیٹی ہوئی یہ عورت، جس کے منہ سے خراٹوں کی نکلتی ہوئی آوازیں، اس وقت مجھ پر خاصی ناگوار گزر رہی ہیں۔ وہ دن دن بھر میرے اور میرے بچوں کے کام کرتے ہوئے تھک جاتی ہے اور بستر پر آ کر نڈھال پڑ جاتی ہے۔ عرصے تک مجھے اس کی تھکن کا احساس ہی نہیں ہوا۔ بس اس کی ہڈیاں نچوڑنا اور پسلیاں توڑنا ہی میرا محبوب مشغلہ تھا۔ ان دنوں میرے رویوں میں تبدیلی آتی جا رہی ہے یا شاید میں اس سے اکتا چکا ہوں یا میری جسمانی و نفسانی خواہشات دم توڑ رہی ہیں۔

اس کے خراٹے مسلسل جاری ہیں۔ وہ نیند کی وادی میں سیر کر رہی ہے اور میں گم گشتۂ راہ اونٹ کی طرح سخت ترین اندھیری رات میں صحرا میں بھٹک رہا ہوں۔ کالی، سیاہ ترین رات میں عجیب و غریب خوف ناک اور دل کو دہلا دینے والی آوازیں میرے کانوں سے ٹکرا رہی ہیں۔ میں ان آوازوں سے پیچھا چھڑانا چاہتا ہوں۔ بھاگنا چاہتا ہوں، دور بہت دور بھاگ جانا چاہتا ہوں۔ میں نے جو آوازیں برسوں کے طویل عرصے میں وقفے وقفے سے سنی ہیں، وہ آپس میں خلط ملط ہو رہی ہیں۔ مخلوط آوازیں کسی سیال کی طرح میرے کانوں کے اندر پہنچ کر مجھے ناقابل برداشت حد تک تکلیف پہنچا رہی ہیں۔ میرا جسم پسینے سے شرابور ہو رہا ہے، میں نے خوف کے عالم میں اپنی آنکھیں کھول دی ہیں، اندھیرے کمرے میں ہر طرف سیاہ سایے منڈلا رہے ہیں، ناچ رہے ہیں۔ طرح طرح کی ڈراونی آوازیں نکال رہے ہیں۔ میں انہیں تاریکی میں بھی دیکھ رہا ہوں۔ وہ میری طرف لپک رہے ہیں۔ ان کے بڑھے ہوئے ناخن، منہ سے باہر کو لٹکتی زبانیں، چوکور، سہ کور اور نہ جانے کن کن انداز کے ان کے چہرے، مجھے ڈرا رہے ہیں۔ میں نے اپنی آنکھیں بھینچ لی ہیں۔ آنکھیں بند کر کے چادر میں منہ چھپا لینے کے بعد ان کی تعداد میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کی آوازیں زیادہ کرخت، زیادہ دردناک، کچھ زیادہ ہی ڈراؤنی ہوتی جا رہی ہیں۔ میں اپنے بستر پر کروٹیں بدل رہا ہوں۔ گویا شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپا کر آفت سے بچنا چاہتا ہوں۔ نیند کی دیوی مجھ سے ناراض ہے، میں اس کی منتیں اور سماجتیں کر رہا ہوں۔ دل کیا تھاہ گہرائیوں سے اسے پکار رہا ہوں۔ میرے پاس اس کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ وہ غائب ہے یا شاید ان سایوں نے اسے اغوا کر لیا ہے۔

میں ان آوازوں کو سن کر انہیں سمجھنا چاہتا ہوں۔ بند کمرے میں ان کے داخل ہونے کا راستہ دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں پریشان ہوں۔ آوازیں پوری طرح سمجھ میں نہیں آ رہی ہیں۔ بستر کے اندر پڑے پڑے حبس کا احساس ہو رہا ہے۔ زبان خشک ہو کرتا لو سے چپک گئی ہے۔ میں بولنا چاہتا ہوں، بول نہیں پا رہا ہوں۔ میری بیوی سورہی ہے۔ میں اسے جگانا چاہتا ہوں مگر وہ مجھے نظر نہیں آ رہی ہے۔ ہر طرف سایے ہی سایے منڈلا رہے ہیں۔ دیواروں پر، روشن دانوں پر، کمرے کی کھڑکیوں پر، چھت کی دیواروں سے بھی چپکے ہوئے ہیں، کبھی ہنس رہے ہیں، کبھی رو رہے ہیں۔ ان کی ہنسی اور رونے کے درمیان میری بیوی کے خراٹے سخت ترین اندھیری رات میں ہونے والی موسلادھار بارش کے درمیان گرجنے والی بجلی کا کام کر رہے ہیں۔

میں اپنے دونوں ہاتھوں کو ادھر ادھر مار رہا ہوں۔ دونوں پیروں کو پٹک رہا ہوں۔ کانوں کے پردوں کو پھاڑ دینے کی حد تک آوازیں بلند اور صاف ہو گئی ہیں البتہ ان آوازوں کے جنگل میں چند ہی آوازوں کو میں سمجھ پا رہا ہوں۔ انتقام۔ انتقام۔ انتقام۔

ہر طرف سایے ہی سایے ہیں، ہر سایے کو مجھ سے شکایت ہے۔ وہ مجھ سے انتقام لینا چاہتے ہیں۔ سایے میرے ذریعہ کی گئی نا انصافیوں کو چیخ چیخ کر بیان کر رہے ہیں۔ ڈراؤنی آوازوں کے ساتھ میری طرف لپک رہے ہیں۔

’’کیا ہوا؟‘‘

’’ہاتھ، پیر کیوں چلا رہے ہو؟‘‘

میری بیوی جاگ چکی ہے، حیرت زدہ مجھے دیکھ رہی ہے، اٹھ کر بیٹھتے ہی اس نے اپنے ہاتھوں کے کٹورے میں میرے چہرے کو ڈال لیا، کبھی بغور دیکھ رہی ہے۔ کبھی اپنے نرم ملائم ہاتھوں سے میرا پسینہ پوچھ رہی ہے۔ اس کی آنکھوں میں میرے لیے ترحم کا دریا موجزن ہے۔ اس کے آنسو باہر نکلنے سے پہلے ہی میں بول پڑا ہوں۔

’’کچھ نہیں ہوا۔ ‘‘

’’کیسے کچھ نہیں ہوا۔ خواب دیکھ رہے تھے ؟‘‘

’’ نہیں بابا۔ ‘‘ کچھ سوچتے ہوئے میں نے جواب۔

’’تو پھر نیند میں ڈر گئے ؟‘‘

میں خاموش ہوں۔ مجھ میں جواب دینے کی ہمت نہیں ہے۔ لیکن اس کا یہ رویہ مجھے اچھا لگ رہا ہے۔ اس کے جاگنے سے تھوڑی ڈھارس تو بندھی ہے، مگر اس کے پھر سے سوجانے کے بعد کے خطرات میرے ذہن پر منڈلا رہے ہیں، وہ میرے بدبو دار پسینے کو اپنے نرم و نازک ہاتھوں سے خشک کر رہی ہے۔ اضطراری کیفیت میں ہے۔ ہر طرف اپنے ہاتھ پھیرتی جا رہی ہے۔ اس کے ہاتھ میں اس کے ڈوپٹے کا پلو ہے، جس سے وہ اپنے سر، بال، کاندھوں اور ہاتھوں کو ڈھک کر اکثر اپنی عبادتوں میں مصروف رہتی ہے۔ اس کا ڈوپٹہ میرے بدبو دار پسینے سے اٹ گیا ہے۔ میرے بدبو دار جسم کے بدبو دار پسینے سے تر اپنے ڈوپٹے کے پلو کو وہ اپنے داہنے ہاتھ میں لیے رونی سی آواز میں کہہ رہی ہے۔

’’آخر کیا ہو گیا تمہیں۔ اتنے ڈرے ہوئے کیوں ہو؟‘‘

’’نہیں، نہیں۔ ۔ ‘‘

میری آواز مجھے بہت دور سے آتی محسوس ہو رہی ہے جنگل کے درختوں اور جھاڑیوں کے درمیان سے یا دور پانی کی لہروں میں ڈوبتی جا رہی ہے۔ بیوی کے جگنے کے بعد خوف ناک سایے میرے ارد گرد خاموش کھڑے ایک دوسرے کو کچھ اشارے کر رہے ہیں۔ میں دیکھ رہا ہوں، میری کیفیت دِگرگوں ہے۔ بیوی کی موجودگی کی وجہ سے مجھ میں تھوڑی ہمت تو ہے مگر وہ میری آنکھوں سے دور نہیں ہو رہے ہیں۔ بیوی بستر سے اٹھ چکی ہے۔ بجلی کے کھٹکوں کے بورڈ کی طرف بڑھ رہی ہے، شاید بجلی جلا کر مجھے دیکھنا چاہتی ہے۔ میری حالت کا اندازہ لگانا چاہتی ہے۔ میں نے اسے کچھ نہیں کہا وہ آگے بڑھ رہی ہے۔ میرے اندر ایک بار پھر سراسیمگی پھیلتی جا رہی ہے۔ خاموش سایے میرے قریب آتے جا رہے ہیں۔ کالے، سخت سیاہ سایے میرے جانے پہچانے چہروں میں تبدیل ہو رہے ہیں، ان کے چہروں کے تاثرات بھی بدل رہے ہیں۔ ایک منظر آتا ہے۔ پھر غائب ہو جاتا ہے۔ دوسرا منظر آتا ہے پھر وہ بھی غائب ہو جاتا ہے۔ کبھی انسان کبھی سایہ کبھی چہرہ کبھی سیاہی۔ میں سوچ رہا ہوں یہ کون سا منظر ہے، یہ کون سا عالم ہے، ماضی کے دریچے وا ہونا چاہتے ہیں اور میں ماضی کو بالکل نہیں دیکھنا چاہتا۔

بیوی نے زیرو پاو رکا بلب آن کر دیا ہے۔ بلب کی مدھم روشنی میں مجھے دیکھ رہی ہے اور میں اس کے ساتھ تمام سایوں کو بھی دیکھ رہا ہوں۔ دائیں بائیں، اوپر نیچے۔ آگے، پیچھے، ہر طرف سایے ہیں، وہ بلب آن ہوتے ہی اپنے وجود میں سمٹتے جا رہے ہیں، ان کے دیو ہیکل اجسام چھوٹے ہو رہے ہیں، چھوٹا ہوتے ہوتے نقطوں اور چھوٹے چھوٹے ذروں میں تبدیل ہو کر خلا میں گھوم رہے ہیں۔ میری بیوی مجھے غور سے دیکھ رہی ہے۔ ایک آندھی چلی ہے۔ گردو غبار سے میرا بستر اور خود میں اٹ گیا ہوں۔ دیو ہیکل اجسام سے چھوٹے چھوٹے ذرات میں تبدیل ہونے والے سایے ناک، کان اور آنکھوں کے ذریعہ میرے پھیپھڑوں اور نہ جانے کہاں کہاں تک پہنچ رہے ہیں۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھ زور سے اپنے چہرے پر رکھ لیے ہیں۔ ناک، منہ اور کانوں کے سوراخوں کو بند کر رہا ہوں اور سایے کسی نہ کسی سوراخ سے میرے اندر داخل ہو رہے ہیں۔ سایوں کا تانڈو کچھ کم ہو گیا ہے۔ پریشان سی بیوی میرے پاس آ کر بیٹھ گئی ہے۔

’’تمہارا چہرہ سرخ ہو رہا ہے، بہت زیادہ ڈر گئے ہو۔ کیا پتہ خواب میں کیا دیکھا۔ اب بتاؤ گے بھی نہیں۔ چلو کوئی نہیں۔ ‘‘

وہ مسکرانے کی کوشش کر رہی ہے، اس کا غم اس کی مسکراہٹ پر غالب ہے۔ میں بھی مسکرانے کی اداکاری کر رہا ہوں۔ اس نے میرے سر کو اپنے زانو پر رکھ لیا ہے۔ میرے چہرے پر اپنا دایاں ہاتھ پھیر رہی ہے۔ میں نے کوئی رد عمل نہیں کیا۔ بس خالی خالی نگاہوں سے کبھی اسے اور کبھی چھت کو گھورتا رہا، وہ میری ناک، تھوڑی، ہونٹوں، کانوں کی لوؤں اور میرے رخساروں سے کھیلتی رہی۔ میرے چہرے پر ذرا شادابی لوٹی تو اس نے میرے سر کو دبانا شروع کر دیا۔ آہستہ آہستہ میرے بالوں میں اپنی انگلیاں پھیرنے لگی۔ کافی دیر تک میرے سر کو دبانے کے بعد اس نے اپنے ایک پیر کو سیدھا کر لیا۔ پھر تھوڑی دیر تک مجھے دیکھتی رہی۔ شاید میری حالت کا اندازہ لگا رہی ہے۔ میرے اندر کی گھٹن اور چہرے سے خوف کے آثار کم ہونے لگے ہیں۔ میرا چہرہ پرسکون نظر آ رہا ہے۔ مجھے غنودگی آ رہی ہے۔ بہت سنبھل کراس نے میرے سر کو تکئے پر رکھ دیا۔ شاید اسے بھی نیند آ رہی ہے۔ اس کے باوجود میری دل بستگی کے لیے یہ سب کچھ کر رہی ہے۔ یا یوں کہیے کہ اپنے فرائض ادا کر رہی ہے، جس کی تعلیم اسے ماں کی گود سے ملنی شروع ہو گئی تھی۔ تکئے پر سرجاتے ہی میں چونک گیا ہوں۔ اس نے جلدی میں اپنے دونوں پیر سیدھے کیے۔ اس کے پیر میرے پیٹ اور رانوں سے مس کرتے ہوئے نیچے کی طرف بڑھ گئے۔ وہ اپنے پیروں کے ناخنوں سے میرے پیروں کو کھرچ رہی ہے۔ ہم دائیں کروٹ لیٹے ہوئے ہیں۔ درمیان میں فاصلہ نہیں ہے۔ اس کا بایاں ہاتھ میری پشت پر ہے۔ ذرا دیر اس نے اپنے ہاتھ سے میری پیٹھ سہلائی پھر اس کا ہاتھ میرے سر کے پچھلے حصہ سے جا لگا اور کہنی میری پیٹھ پر ٹکی رہی۔ میری سانسیں اس کی سانسوں سے ٹکرا رہی ہیں۔ اس نے میرے بائیں رخسار پر اپنا داہنا رخسار رکھ کر چادر تان لی۔ ہم دونوں چادر کے اندر ہیں۔

’’ اب کیسا لگ رہا ہے ؟ ٹھیک ہو؟”

’’ہوں۔ ۔ ۔ ٹھیک ہوں۔ ۔ ۔ ‘‘

’’پھر آواز اتنی غم زدہ کیوں ہے ؟ ‘‘

اس نے میرے رخسار سے اپنا چہرہ ہٹا لیا۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکرا رہی ہے۔ اپنی ناک میری ناک سے ٹکرا رہی ہے۔

’’آج کتنے اچھے لگ رہے ہو، ہمیشہ اسی طرح معصوم اور شریف بن کر رہا کرو۔ عرصے بعد رات کو بھی تم انسان ہو۔ ‘‘

اس کے گرم گرم بوسے، سے میرے دل کی دنیا بدل رہی ہے۔ کوئی اور رات ہوتی تو اس کے اظہار محبت کا جواب اس سے زیادہ ٹوٹ کر میں دیتا۔

’’تمہیں یاد ہے نینی تال کی وہ رات، تم نے مجھے کتنا پریشان کیا تھا، ساری رات جگانے کے باوجود صبح ہی صبح اٹھ کر تیار ہو گئے تھے ‘‘۔

میں نے اپنی آنکھیں کھول کر اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجالی اور آنکھوں سے اس کے سوال کا جواب دیا۔ وہ بھی مسکرارتی رہی، اس نے اپنے رخسار کو ایک بار پھر میرے رخسار پر رکھ دیا اور شرماتی ہوئی ناز و ادا کے ساتھ میرے کان میں کہا ’’ بہت اچھے ہو تم۔ ‘‘

جواباً مسکراتے ہوئے میں نے اس کے رخسار کا بوسہ لیا اور چہرے کو اپنی جگہ لے آیا۔ اپنا اوراس کا ماضی میری نگاہوں کے سامنے ہے۔ اس کے جذبات، محبت، جاں نثاری کی حد تک عشق کا غلبہ، گھریلو ذمہ داریوں کی خوش اسلوبی کے ساتھ ادائیگی، میری چھوٹی بڑی خواہشات اور ضروریات کا خیال رکھنا وہ اب تک اپنے ضروری کاموں سے زیادہ اہم سمجھتی ہے۔

وہ اپنی رومیں بولتی جا رہی ہے۔ نینی تال کے ہوٹل، ہوٹل کا کھانا، ناشتہ، وہاں کی جھیلیں، کھائیاں، جنگلات سب اس کے ذہن پر نقش ہیں۔

’’کتنا مزہ آیا تھا۔ وہاں بوٹ میں گھومنے میں، دور تک پانی ہی پانی، تا حد نظر پہاڑوں کا سلسلہ، جھیل کے کنارے کنارے اور پہاڑوں پر عجیب و غریب اور دلکش انداز میں بنے ہوئے گھر۔ دیکھنے میں ہی آنکھوں کو کتنا سکون ملتا ہے اوردوسری طرف گھنے جنگل۔ میرے روکنے کے باوجود تم بوٹ کو لوگوں کی نگاہوں سے دور لیے جا رہے تھے۔ اللہ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ تم……تم تو واقعی شروع کے بے غیرت ہو۔ میں نے جب ایسے ویسے کاموں سے روکا تو تم چڑھ گئے۔ لیکن برہمی کا اظہار نہیں کیا۔ ہنسنے اور کھیلنے کے انداز میں جھیل کا پانی ہاتھ میں لے کر مجھ پر ڈالتے رہے۔ تمہیں شرم بھی نہیں آ رہی تھی کہ میں بھیگ رہی ہوں۔ ‘‘

سفرنامہ سن کر میں ہاں ہوں کر رہا ہوں۔ غنودگی اس پر حاوی ہوتی جا رہی ہے اور وہ سفرنامہ سنائے جا رہی ہے۔ میری پیٹھ کھل گئی ہے۔ اس نے چادر درست کی اور پھر سے ہم دونوں چادر کے اندر ہیں۔ ہمارے چہرے کھلے ہوئے ہیں۔ زیرو پاور کا بلب کمرے میں ہلکی اور ملگجی روشنی کا احساس کرا رہا ہے۔

میں اس کے اور اپنے ماضی کے سحر سے باہر نہیں نکل سکاہوں۔ وہ جب سے مجھے ملی ہے، ایک پجارن کی طرح بے لوث مجھے پوجے جا رہی ہے۔ اسے مجھ پر ناقابل یقین حد تک یقین ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب تک وہ میرے ساتھ ہے۔ ورنہ میرا رویہ اس کے ساتھ ہمیشہ منافقانہ رہا۔ وہ ایک مشرقی عورت ہے۔ گھر سے باہر میں کیا کر رہا ہوں۔ اسے کبھی کوئی مطلب نہیں رہا اور میں ہمیشہ لا وارث جانوروں کی طرح کسی بھی کھیت میں منہ مارنے کی کوششیں کرتا رہا۔ مجھ سے عمر میں بڑی ہو یا چھوٹی، اسٹوڈینٹ ہو یا شاپ کیپر، پڑوسی ہو یا رشتے کی بھابھی یا راہ چلتی ہوئی کوئی ادھیڑ عمر عورت۔ کوئی میری آنکھوں سے بچ نہیں سکی۔ نظر نہ آنے والا انچ ٹیپ ہمیشہ میری آنکھوں کی پتلیوں میں تیار رہتا ہے اور طرفہ تماشا یہ کہ میرے پاس اچھی خاصی داڑھی بھی ہے، سراورداڑھی میں گنے چنے بال ہوں گے، جو کالے رہ گئے ہیں۔ میں خود کو مذہب کا ٹھیکیدار بھی بزعم خود مانتا ہوں۔ اپنے اعمال کو درست ثابت کرنے کے لیے قرآن و حدیث کے نصوص سے دلائل بھی اکٹھا کر لیتا ہوں۔ کبھی تعلیم و تعلم کے پیشے سے وابستہ نہیں رہا۔ آباء و اجداد کی کتابیں اور بیاضیں پڑھ کر ترغیب ملی اور مطالعے کے شوق نے پڑھنے لکھنے کی طرف مائل کر دیا۔

وہ نینی تال کی کہانی سناتے سناتے میرے نامکمل اور ادھورے جواب سے اکتا کر تھک کر سوچکی ہے۔ میں اس کے چہرے کو بغور دیکھ رہا ہوں۔ اس کی سانسیں ذرا تیز تیز چل رہی ہیں، خراٹے کی آواز ابھی نہیں آ رہی ہے۔ میں پھر سے خوف محسوس کر رہا ہوں۔ دل ہی دل میں دعا کر رہا ہوں کہ یہ خراٹے نہ بھرے۔ میں آنکھوں کی پتلیاں ادھر ادھر گھما رہا ہوں۔ میرے وجود کے اندر عجیب سی اینٹھن ہو رہی ہے۔ میرے پیٹ، سینہ اور آنتوں میں کچھ پھنساہوا ہے، شاید وہ سایے آہستہ آہستہ باہر آ رہے ہیں، جو تھوڑی دیر پہلے میرے اندر چلے گئے تھے۔ میری بیوی نے کروٹ بدل لی ہے اور بے خبر سورہی ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ اسے پھر سے جگادوں۔ مگر میری حالت ابتر ہے۔ میں جمائیاں لے رہا ہوں، سونا چاہتا ہوں مگر نیند نہیں آ رہی ہے۔ بار بار چھینک رہا ہوں۔ میری ناک میں کوئی چیز اٹکی ہوئی ہے۔ کانوں میں انگلیاں ڈال رہا ہوں، انہیں کھینچ رہا ہوں، سرپرہاتھ پھیر رہا ہوں۔ دل کی گہرائیوں سے نیند کو پکار رہا ہوں۔ بستر پر پڑے پڑے اکتاہٹ ہو رہی ہے اورسایوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ میں چت لیٹ کر چھت کو تاک رہا ہوں۔ میرے اوپرسیلنگ فین کے پاس ایک سایہ پنجرے میں میری نیند کو قید کیے ہوئے ہے۔ وہ میرے چہرے کے بالکل اوپر پنجرے کوزورزورسے ہلا رہا ہے، میں دیکھ رہا ہوں۔ میری نیند پنجرے میں قید ہے اور پنجرے کے اندر جھٹکے کھا رہی ہے، لہولہان ہو رہی ہے۔ میں اپنا داہنا ہاتھ اس کی طرف بار بار اٹھا رہا ہوں، میرے اٹھے ہوئے ہاتھ کو دیکھ کر سایہ قہقہہ لگا رہا ہے۔ مجھے چڑا رہا ہے۔ آواز یں بلند کر رہا ہے۔ لو…لے لو اپنی نیند اور زورزورسے پنجرے کو جھٹکے دے رہا ہے۔ اس کے ساتھی بھی تالیاں مار رہے ہیں اور ٹھٹھا کر رہے ہیں۔ رونگٹے کھڑے کر دینے والی مکروہ ترین آوازیں نکال رہے ہیں، بار بار اپنے چہروں کے تاثرات بدل رہے ہیں۔ میں ان کی یہ حرکت دیکھ کر غصے سے پاگل ہو رہا ہوں۔ سایے کو پکڑ کر زبردستی اپنی نیند کو چھین لینا چاہتا ہوں۔ لیکن میرے پاس خاموشی اورسراسیمگی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ بیوی کروٹیں بدلتے ہوئے مجھ سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ میں پھر سے پسینے پسینے ہو چکا ہوں۔ آدھے سر میں درد ہو رہا ہے۔ بار بار جمائی آ رہی ہے۔ آنکھوں میں چبھن ہو رہی ہے۔ بستر پر کروٹیں بدل بدل کر عاجز آ چکا ہوں اور کمرے میں سایوں کا تانڈو بڑھتا جا رہا ہے۔ میرے بدبودارپسینے سے میرابستربھیگ رہا ہے۔ میری بدبو خود میرے لیے پریشانی کاسبب بن رہی ہے۔

میں اکتا کر اپنے کمرے سے نکل گیا ہوں۔ صحن کی کھڑکی سے سڑک کو دیکھ رہا ہوں۔ سڑک پر ھو کا عالم ہے۔ آسمان پر چاند ستارے کہیں نظر نہیں آ رہے ہیں۔ اسٹریٹ لائٹ جلی ہوئی ہے، جس سے دھندلی اور پیلی روشنی نکل رہی ہے۔ فضا خاصی مغموم ہے۔ صحن میں بھی رکنے کا دل نہیں چاہ رہا ہے۔ یہاں بھی ہر طرف سایے ہیں۔ وہ سایہ اب بھی اپنے ہاتھ میں پنجرہ لیے میرے پیچھے پیچھے چل رہا ہے۔ میری طرف پنجرے کو بڑھا رہا ہے اور پھر اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔ میں پنجرے کی طرف لپک رہا ہوں اور سایہ مجھ سے دور بھاگ رہا ہے۔ میں اس کے پیچھے دوڑ رہا ہوں۔ وہ آگے پیچھے، دائیں بائیں، مجھے گھمائے جا رہا ہے اور میں اس کا تعاقب کر رہا ہوں۔ میں الٹے سیدھے جملے ادا کر رہوں، چیخ چیخ کرسایوں کو گالیاں دے رہا ہوں۔ نیند کو حاصل نہ کر پانے کے قلق اورشکست خوردگی کے احساس کے ساتھ میں اس ہال میں آ گیا ہوں، جہاں خصوصی تقریبات ہوتی ہیں اور مہمانوں کے لیے بھی وہی مخصوص ہے۔ ہال میں ایک روحانی محفل سجی ہوئی ہے۔ لوگوں کا ازدحام ہے، ہارمونیم اور دَف کی تھاپ کے ساتھ توری صورت کے بلہاری نجام، سب سکھین میں چنر موری میلی، دیکھ ہنسیں نر ناری، سب سکھین میں چنر موری میلی، میلی میلی کی آواز میرے کانوں سے ٹکرا رہی ہے۔ میں نے ہال کا دروازہ اندر سے بند کر لیا ہے۔ غورسے محفل میں شریک لوگوں کو دیکھ رہا ہوں۔ یہ میرے جانے پہچانے چہرے ہیں۔ ان پر وجد و حال طاری ہے۔ مسندنشیں کو دیکھ رہا ہوں۔ وہاں کوئی اور نہیں، کلف کیے ہوئے کرتے پاجامے، صدری اور ٹوپی میں ملبوس خود میں ہوں۔ محفل میں موجود میرے چہرے پر روحانیت ہے۔ ہال کے دروازے کے سمت مخالف میں قد آدم شیشہ ہے۔ اپنے روحانی چہرے کو دیکھنے کے بعد میری نظر شیشے پر چلی گئی ہے۔ شیشے میں نظر آنے والا میں، محفل میں موجودمسندنشیں سے بالکل مختلف ہے۔ شیشے میں، میں دیکھ رہا ہوں، میرے داہنے ہاتھ کی آستین، ہاتھ سے باہر ہے، بائیں ہاتھ کی آستین کہنی تک چڑھی ہوئی ہے۔ کرتے کے بٹن کھلے ہوئے ہیں، داڑھی اورسرکے بال ادھر ادھر بکھرے ہوئے ہیں، ایک پائنچہ میرے پیرسے باہر نکلا ہوا ہے۔ دوسراپنڈلی تک چڑھا ہوا ہے۔ میری حالت بد تر ہے۔ شیشے میں میراسراپا ایک پاگل کی طرح اور گندگی میں اٹا ہوا نظر آ رہا ہے۔ کسی نے میرا ایک بازو پکڑ کر اپنی طرف مخاطب کیا ہے۔ میں اس کی طرف مڑ گیا ہوں۔ میری نظروں کے سامنے وہ سایہ ہے، جس کے ہاتھ میں پنجرہ ہے، اس میں میری نیند قید ہے۔ وہ شیشے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہا ہے۔ تمہاری کون سے تصویر حقیقی ہے، شیشے والی یا محفل والی۔ یک بہ یک میری نگاہیں اپنے قدموں پر ٹک گئی ہیں۔ میں اپنے داہنے پیر کے ناخن سے زمین کھرچ رہا ہوں اور قدموں کو دیکھے جا رہا ہوں۔ اس نے پھر کہا ہے۔ ’’خاموش کیوں ہو، بتاؤ اپنی حقیقت۔ ‘‘ضبط کا باندھ ٹوٹ گیا ہے، زور زور سے بے خودی کے عالم میں چیخ رہا ہوں۔ میرے منہ سے کانپتی بلکتی ھاھاھاھا، ھوھوھو  کی آوازیں نکل رہی ہیں۔ چوں یک جرعہ رسید ازوے بہ حافظ۔ ہمہ عقل و خرد بیکار دیدم کی آواز فضا کو مرتعش کر رہی ہے۔ ایک مخصوص دھن میں سب سکھین میں چنر موری میلی، اب کی بہارے چنر موری رنگ دے کی تکرار میرے کانوں سے ٹکرا رہی ہے، میں ایک ہاتھ کی پشت کو دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی پر تیز تیز مار رہا ہوں اور بلند ہوتی آوازوں کو دہراتا جا رہا ہوں۔ کبھی ہاتھوں کو سر سے اوپر اٹھا رہا ہوں، کبھی چہرے پر مار رہا ہوں اور کبھی ایک کی ہتھیلی پر دوسری کی پشت مار رہا ہوں۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے بالوں کوزورزورسے کھینچتے ہوئے زمین پر گھٹنے ٹیک دیے ہیں، گریہ و زاری کر رہا ہوں۔ میرا جسم ہچکولے کھا رہا ہے۔ سب سکھین میں، سب سکھین میں، سب سکھین میں چنر موری میلی۔

٭٭٭

تشکر: تبسم فاطمہ، مدیر اعزازی، ادب سلسلہ،  جنہوں نے جریدے کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید