FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

اختیارات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم

اور

احادیث نبویہ

                   علامہ  ضیاء المصطفیٰ

 

اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ اَلَّذِیْ اَبْدَعَ الْاَفْلَاکَ وَالْاَرْضِیْنَ وَاَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہ لَاشَرِیْکَ لَہ وَھُوَ الْحَقُّ الْمُبِیْنُ الرَّزَّاقُ ذُوْ الْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ وَاَشْھَدُ اَنَّ سَیِّدَنَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدًا عَبْدُہ وَرَسُوْلُہ اَلَّذِیْ اَرْسَلَہ رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ۔ اَلَّذِیْ اَفَاضَ عَلَیْنَا اَنْوَارَ الْھِدَایَۃِ وَالْحَقَّ وَالْیَقِیْنَ وَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَعَلٰی اٰلِہ وَاَصْحَابِہ اَجْمَعِیْنَ وَعَلَیْنَا مَعَہُمْ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْن۔

اَمَّا بَعْدُ: فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔

اَغْنٰھُمُ اللہُ وَرَسُوْلُہ مِنْ فَضْلِہ [1]

صَدَقَ اللہُ الْعَظِیْم وَصَدَقَ رَسُوْلُہ النَّبِیُّ الْکَرِیْم عَلَیْہِ وَعَلٰی اٰلہ وَاَصْحَابِہ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَاَکْمَلُ التَّسْلِیْمْ۔

ایک بار نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ رسول اکرم، نورِ مجسم، ہادیِ سبل، رحمتِ کُل، سیّدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کی بارگاہِ رحمت پناہ میں درودِ پاک کا نذرانۂ محبت پیش کریں۔

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ وَسَلِّمْ صَلٰوۃً وَّسَلَامًا عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ۔

رفیقانِ گرامی اور عزیزانِ ملتِ اسلامیہ! آج مجھے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے اختیارات و تصرفات پر گفتگو کرنے کا موقع دیا گیا ہے۔

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے اختیارات و تصرفات، ایک ایسا موضوع ہے جس کے اوپر عہدِ رسالت سے لے کر عصرِ حاضر تک اُمت اسلامیہ کا اتفاق رہا ہے لیکن آج کچھ لوگوں نے اپنے ذہن و فکر سے جب یہ عقیدہ وضع کر لیا کہ ایک نبی عام انسان کے جیسا ہوتا ہے۔ تو اس نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں عام انسانوں جیسے اختیارات اور انھیں جیسی قوت و تصرفات کا اعلان کر دیا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن عظیم میں اور احادیث نبویہ میں اور اسلاف کے عقائد و فکر میں دلائل کا ایک سیل رواں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے خلیفۂ اعظم ہیں اور اس کے نائب مطلق ہیں اور یہ خلافت و نیابت اسی وقت اپنے حق کو پہنچ سکتی ہے جب کہ رب قدیر جل جلالہ کے صفات کا بھرپور جلوہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات سے نمایاں ہو تو یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ یہ عقیدہ صرف بریلی کی پیداوار ہے بلکہ میں تو یہ دیکھتا ہوں کہ اس عقیدے کی تعلیم ہمیں قرآن نے دی اور اس عقیدے کی تلقین رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم کو کی اور اس عقیدے پر قیام و استحکام کا جو ایک سلسلۂ لامتناہی ہمارے سامنے نظر آتا ہے وہ صحابۂ کرام اور ہمارے اسلاف سے اب تک چلا آ رہا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آج احادیث نبویہ کی روشنی میں اس سلسلے میں تھوڑی سی گفتگو کروں لیکن اس گفتگو سے پہلے میرا خیال یہ ہے کہ ذہنوں کو قریب کرنے کے لیے آپ کے تھوڑے سے حالات کا جائزہ لینے کے لیے ایک تمہید پیش کر دوں تو بات بہت جلد ذہن میں اُتر جائے گی پہلے ایک بار درود پاک پڑھیں تاکہ ہماری اور آپ کی گفتگو آگے بڑھ سکے۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ وَسَلِّمْ ۔۔۔

عزیزانِ ملت! ہم میں سے کون ایسا نہیں ہے کہ جس کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے جسمانی طور پر قوتیں اور توانائیاں عطا نہ کیں؟ اور ان قوتوں کا اظہار بظاہر خود ہماری ذات سے نہ ہوتا ہو؟ مثلاً اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمارے ہاتھوں میں ایک قوت رکھی ہے جس سے ہم کسی گرتے ہوئے کا سہارا بھی بن جاتے ہیں۔ اور اس قوت سے ہم کسی کا گلا بھی دبا دیتے ہیں۔ اس قوت سے ہم دستگیری بھی کرتے ہیں اور اس قوت سے ظلم کے پہاڑ بھی توڑتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہماری زبان میں ایک قوت رکھی ہے جس سے امر بالمعروف نہی عن المنکر کا کام لیتے ہیں اور اسی سے ہم لوگوں کو گالیاں بھی دے سکتے ہیں اور دعائیں بھی دے سکتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہمارے جسم کے باہر بھی کچھ طاقت رکھی ہے ان طاقتوں کا ایک بہت ہی عظیم سلسلہ رواں دواں ہے آپ اگر غور فرمائیں تو کیا ہمارے گرد دولتوں کا انبار نہیں ہوتا؟ اور وہ دولتیں ہماری قوت بنا کرتی ہیں۔ ہماری عزت اور شوکت بنا کرتی ہیں۔ مثلاً ہماری جیب میں اگر پیسے ہیں تو ایک غریب ایک مسکین اور ایک یتیم کی مدد بھی اس سے کر سکتے ہیں اور جیب میں پیسے ہیں تو ہم اس سے جُوا بھی کھیل سکتے ہیں۔ سینما بازی بھی کر سکتے ہیں سود کے کاروبار میں بھی اس کو لگا سکتے ہیں۔ جیب میں پیسے ہیں تو مظلوموں کی دستگیری بھی کر سکتے ہیں۔ تو یہ پیسے اور یہ دھن دولت بھی انسان کی ایک قوت ہیں یہ ساری قوتیں رکھتے ہوئے بھی آپ مجھے یہ بتائیں کہ کیا دین کے بارے میں کچھ اختیار رکھتے ہیں؟ آپ اپنی قوتوں سے دنیا کے معاملے میں بہت سارا کام انجام دے سکتے ہیں۔ اپنی قوتوں کی وجہ سے آپ لوگوں کی دستگیری بھی کر سکتے ہیں۔ کسی کے گھر میں آگ بھی لگا سکتے ہیں۔

کسی کے جلتے ہوئے خرمن کی آگ بجھا سکتے ہیں۔ مگر آپ مجھ کو یہ بتا سکتے ہیں کہ اپنی کسی قوت سے دین کے اندر بھی کوئی تصرف کر سکتے ہیں؟کسی حلال کو حرام قرار دے دیں۔ کسی مستحب کو فرض قرار دے دیں۔ کسی فرض کو جائز کے درجے میں رکھ دیں۔ یہ آپ کے اختیار سے باہر ہے۔ دنیا کا بڑا سے بڑا طاقتور انسان بھی دنیاوی معاملات میں کتنی ہی طاقت کیوں نہ رکھتا ہو۔ مگر دین کے معاملے میں بے بس اور مجبور نظر آتا ہے مگر ہم کو یہ کہہ لینے دیا جائے کہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے دنیاوی اختیارات کیا ہوں گے۔ وہ تو بعد میں دیکھوں گا دین میں وہ اختیارات ہیں کہ قرآن فرماتا ہے۔ ’’مَآاٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَانَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا‘‘[2]

رسول جو دے دیں وہ لے لو جس چیز سے روک دیں باز آ جاؤ، نبی کے وہ اختیارات ہیں کہ اللہ نے اس طرح سے نہ فرمایا کہ رسول کے روکنے اور رسول کے حکم دینے کا کوئی اعتبار نہیں ہے اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ جب میری طرف سے میرا حوالہ دے کر میرا حکم دیں تو مانا جائے گا بلکہ ڈائرکٹ اس طرح کی بات کی گئی کہ رسول جو دے دیں وہ لے لو اور جس سے روک دیں اس سے باز آ جاؤ۔ اس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اللہ نے اپنے رسول کو دین کے معاملے میں اپنا خلیفۂ مطلق بنایا اپنا نائب اعظم بنا دیا۔ اب رسول جس چیز کو چاہیں حلال کریں اور جس چیز کو چاہیں حرام کریں۔ یہی وجہ ہے کہ بخاری شریف و مسلم شریف اور حدیث کی دوسری کتابوں میں صراحت ملتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فتح مکہ کے موقع پر دین میں اختیارات کا اعلان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللہ نے مکے کو حرم بنایا ہے۔ ’’لَا یُعْضَدُ شَوْکُھَا وَ لَا یُنَفَّرُ صَیْدُھَا وَ لَا یَلْتَقِطُ لُقْطَتُھَا اِلَّا مَنْ عَرَّفَھَا وَ لَا یُخْتَلٰی خِلَالُھَا فَقَالَ الْعَبَّاسُ یَارَسُوْلَ اللہِ اِلَّا الْاِذْخِرْ فَاِنَّہ لِقَیْنِھِمْ وَلِبُیُوْتِھِمْ فَقَالَ اِلَّا الْاِذْخِرْ‘‘[3] اللہ نے مکہ کو حرم بنایا ہے کہ یہاں کا کوئی کانٹا بھی نہ توڑا جائے، یہاں کے درخت نہ کاٹے جائیں اور یہاں کی گھاس نہ اکھیڑی جائے۔ تو حضرت سیّدنا عباس بن عبد المطلب یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا کھڑے ہو گئے۔ عرض کرتے ہیں: ’’یَارَسُوْلَ اللہِ اِلَّا الْاِذْخِرْ فَاِنَّہ لِبُیُوْتِنَا وَلِقُبُوْرِنَا وَلِصَاغَتِنَا‘‘[4] یا رسول اللہ! اذخر گھاس کاٹنے کی اجازت دے دی جائے۔ اس لیے کہ وہ ہمارے گھروں کے چھپر بنانے کے کام آتی ہے، قبروں میں جب مردوں کو لٹایا جاتا ہے تو تختے پر اس کو لگایا جاتا ہے اور جب کوئی سونے کا کاروبار کرنے والا سُنار اپنا سونا پگھلاتا ہے تو اس میں استعمال کرتا ہے، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! اس کی اجازت دے دی جائے۔ میرے آقا نے فرمایا: ’’اِلَّا الْاِذْخِرْ اِلَّا الْاِذْخِرْ‘‘ ہاں اجازت ہے اذخر گھاس کی اذخر گھاس کاٹنے کی اجازت ہے۔

غور فرمائیے کہ ایک طرف تو میرے آقا نے یہ فرمایا تھا کہ کوئی کانٹا یہاں کا نہ توڑا جائے، کوئی درخت نہ کاٹا جائے، کوئی گھاس نہ اکھیڑی جائے، گویا ہر خودرو درخت، گھاس کٹیلا وغیرہ کاٹنا حرام فرما دیا مگر دوسری طرف جب حضرت عباس نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے اذخر گھاس کاٹنے کو حلال کرنے کی درخواست کی تو میرے آقا نے یہ نہ کہا یہاں پر میرا اختیار سلب ہو گیا، میرا کوئی اختیار کام نہیں کرتا، اللہ کا یہی حکم ہے، اسی نے مکے کو حرم بنایا ہے، وہ اگر جائز کرے گا تو جائز ہو گا۔ ورنہ نہیں بلکہ میرے آقا نے فرمایا، جاؤ اذخر گھاس کاٹنے کی اجازت ہے۔ اس سے یہ سمجھ میں آ گیا کہ میرے آقا رسول اکرم سیّد عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ نے حلال اور حرام کے بارے میں یہ اختیار دے دیا ہے کہ جس چیز کو چاہیں حلال کریں اور جس چیز کو چاہیں حرام فرما دیں۔ پڑھیے درود پاک اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ وَسَلِّمْ۔۔۔

پھر آپ آگے بڑھیں۔ ایک موقع پر میرے آقا رسولِ اکرم سیّد عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے حج کی فرضیت کا اعلان کیا۔ مشکوٰۃ شریف کتاب المناسک، مسلم شریف کتاب الحج اور نسائی شریف کی حدیث آپ ملاحظہ فرمائیں۔ میرے آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے اعلان فرمایا: ’’یَا اَیُّھَا النَّاسُ اِنَّ اللہَ قَدْ فَرَضَ عَلَیْکُمُ الْحَجَّ‘‘ اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے تمھارے اوپر حج فرض کر دیا ہے۔ جو حج کی استطاعت رکھتا ہے اس کے اوپر حج فرض ہے۔ یہ اعلان ہوا تو رسولِ اکرم سیّد عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک صحابی حضرت اقرع ابنِ حابس تمیمی رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے۔ عرض کرتے ہیں یا رسول اللہ! ’’اَفِیْ کُلِّ عَامٍ‘‘[5] یا رسول اللہ کیا حج ہر سال کرنا پڑے گا؟ جیسے ہر سال ہمیں زکوٰۃ دینی پڑتی ہے، ہر سال ہمیں قربانی کرنی ہوتی ہے، کیا یا رسول ا للہ اسی طرح سے حج بھی ہر سال کرنا پڑے گا؟ میرے آقا صلی اللہ علیہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں: ’’لَوْ قُلْتُ نَعَمْ لَوَجَبَتْ فِیْ کُلِّ سَنَۃٍ وَمَا اسْتَطَعْتُمْ‘‘[6] اگر میں کہہ دیتا کہ ہاں تو ہر سال کے لیے فرض ہو جاتا اور تم طاقت نہیں رکھ پاتے کہ ہر سال اس حج کو ادا کر سکو۔ اس سے سمجھ میں آتا ہے کہ میرے سرکار صلی اللہ علیہ و سلم ایک طرف تو یہ اعلان فرما رہے ہیں کہ اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے تمہارے اوپر حج کو فرض کیا ہے، اور دوسری طرف یہ بھی فرما رہے ہیں کہ تم نے ہر سال کے حج کی فرضیت کا سوال کیا ہے تو اگر میں ہاں کہہ دوں تو ہر سال فرض ہو جائے گا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگرچہ حج کو اللہ نے فرض کیا ہے مگر اس کی فرضیت کس انداز کی ہو گی، ہر سال کے لیے رہے گی یا زندگی میں ایک سال کے لیے رہے گی، یہ اختیار پیارے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کو عطا کر دیا ہے۔ اس لیے میرے آقا صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ اگر میں کہہ دیتا ہاں تو ہر سال فرض ہو جاتا یہ نہیں فرما رہے ہیں کہ اللہ نے جیسا فرض کیا ہے ویسا ہی فرض رہے گا اس نے ایک سال کا فرض کیا ہے یا ہر سال کا فرض کیا ہے اس لیے ویسا ہی رہے گا بلکہ اپنی بات کی طرف اشارہ کر کے یہ بتا رہے ہیں کہ اللہ نے دین کے اس مسئلے میں مجھ کو صاحبِ اختیار بنایا ہے۔ اس طرح آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اختیارات کو دیکھنا چاہیں تو ایک لمبی فہرست نظر آئے گی۔

میں یہاں اجمالاً چند باتوں کو ذکر کرنا چاہتا ہوں یہ دو حدیثیں میں نے آپ کے سامنے ذکر کیں انھیں ذکر کر کے یہ میں نے واضح کر دیا کہ ان حدیثوں میں میرے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے پوری امت کے لیے ایک آسانی اپنی طرف سے عطا فرمائی مگر میں آپ کو یہ بھی بتاؤں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کو اللہ نے اتنا ہی اختیار نہ دیا تھا کہ حکم میں جو چاہیں چھوٹ دیدیں یا اس میں فرضیت کا حکم لگا دیں تو یہ ساری امت کے لیے برابر ہوا کرے گا بلکہ میرے سرکار کو یہ بھی اختیار ہے کہ ایک امتی کے لیے ایک حکم اور دوسرے کے لیے الگ حکم بھی رکھیں اس شان کی خصوصیت میرے پیارے نبی کو حاصل ہے، اور ایسا اس لیے ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے میرے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کو دین میں مکمل باختیار بنا کر بھیجا تھا چنانچہ حضرت براء ابن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث بخاری، مسلم اور صحاح ستہ کی دیگر کتابوں میں پائیے گا فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے عیدالاضحیٰ کی نماز پڑھ کر خطبہ دیا، خطبے میں فرمایا جن لوگوں نے ہمارے طریقے پر نماز پڑھ کر نماز کے بعد قربانی کی تو اس کی قربانی ٹھیک ٹھیک ہو گئی ’’فَقَدْ تَمَّ نُسُکُہ وَاَصَابَ سُنَّۃَ الْمُسْلِمِیْنْ‘‘[7]اور فرمایا کہ جس شخص نے پہلے قربانی کر دی اور بعد میں نماز پڑھی ’’تِلْکَ شَاۃُ لَحْمٍ‘‘[8] وہ گوشت کھانے کی ایک بکری ہوئی قربانی نہ ہو سکی حضرت سیدنا ابو بردہ ابن نیار رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوراً کھڑے ہو گئے۔

عرض کرتے ہیں یا رسول اللہ میں تو یہ سمجھتا تھا کہ آج کھانے پینے کا دن ہے اللہ کی طرف سے ہم بندوں کی مہمان نوازی کا دن ہے اس لیے میں نے پہلے ہی اپنی قربانی کر دی اور میں نے اپنے بھوکے پڑوسیوں کو بھی گوشت کھلا دیا اور اپنے گھر میں بال بچوں کو بھی کھلا دیا اور خود بھی کھا کر کے نماز پڑھنے کے لیے آ رہا ہوں۔ میرے سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں ’’تِلْکَ شَاۃُ لَحْمٍ‘‘[9] اے ابوبردہ ابن نیار تمہاری قربانی نہ ہوئی وہ گوشت کھانے کی ایک بکری ہو گئی۔ وہ عرض کرتے ہیں یا رسول اللہ اب تو میرے پاس قربانی کے لائق کوئی جانور نہیں ایک بکری کا چھ مہینے کا بچہ ہے موٹا اور فربہ ہے مگر یا رسول اللہ صرف چھ مہینے کا بچہ ہے اب میں کیا کروں؟ رسولِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم فرماتے ہیں ’’فَضَحّ بِھَا وَلَا تُجْزِیْ جِذْعَۃٌ عَنْ اَحَدٍ بَعْدَکَ‘‘[10]جاؤ تم اس کی قربانی کر  دو تمھاری قربانی تو اس سے ہو جائے گی اور کوئی دوسرا شخص اس عمر کے جانور کی قربانی کرے تو نہ ہو گی سبحان اللہ۔۔۔۔۔۔

ذرا دیکھو تو سہی میرے آقا جب نوازنے پر آتے ہیں تو اپنے ایک صحابی کو جو سب سے اونچے درجے کے صحابی نہیں مگر جب ان کو نوازنے پر آ گئے تو یہ خصوصیت عطا کر دی کہ چھ مہینے کے بکری کے بچے کو آپ قربانی کرنا چاہو تو کر لو مگر دوسرا کوئی کرے گا تو قربانی نہ ہو گی اس سے یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ اللہ نے میرے آقا سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کو دین کے معاملے میں وہ اختیار عطا کیا ہے کہ اگر چاہیں تو ایک حکم اپنے ایک امتی کے لیے خاص کر دیں اور ساری امت کے لیے الگ طرح کا حکم رکھیں اسی لیے چھ مہینے کے بکری کے بچے کی اگر کوئی آدمی قربانی کرے تو اس کی قربانی نہ ہو گی امت کا کتنا ہی بڑا بزرگ کیوں نہ ہو مگر یہ خصوصیت میرے آقا نے ابو بردہ کو عطا فرما دی، ذرا سوچو دین کے معاملے میں جب ہمارے مصطفیٰ کا یہ اختیار ہے تو دنیا کے معاملے میں کتنا بڑا اختیار ہو گا اس لیے ہم کہتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے دین میں تصرف کرنے کے معاملے میں ساری دنیا کو مفلوج اور بے اختیار کر کے یہ بتا دیا ہے کہ میرے پیارے محبوب کے اختیارات کو سمجھنا ہو تو دین کے معاملے میں ذرا غوطہ زنی کر کے دیکھو میرے پیارے حبیب کے اختیارات کھل کر سامنے آئیں گے پھر تم کو یہ بھی سمجھ میں آ جائے گا کہ جس جگہ تمہارے اختیارات مفلوج اور بے بس نظر آتے ہیں جب وہاں ان کے اختیار کی یہ شان ہے تو جہاں تم باختیار نظر آتے ہو گے وہاں پر میرے محبوب کے اختیارات کی کیا شان ہو گی اس کا تم کیا اندازہ کر سکتے ہو؟ پڑھیے درود پاک اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ وَسَلِّمْ۔۔۔

رفیقانِ گرامی! اللہ کی تعلیم کے اسی اشارے کی وجہ سے صحابۂ کرام کی زندگی کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی ہر مشکل، ہر ضرورت اور ہر مصیبت کے موقع پر بلکہ بیماریوں میں دشمنوں کے مقابلے میں دنیا کی حاجتوں آخرت کی ضرورتوں میں غرض کہ ہر موقع پر رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کی بارگاہ میں اپنی فریادیں لے کر دوڑتے تھے اور ایک بار بھی میرے آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے صحابہ سے یہ نہیں کہا کہ اے لوگو! یہ کیا کر رہے ہو پہلے تم اپنی فریادیں لے کر بتوں کے پاس جاتے تھے اب بھی تم غیراللہ کے سامنے اپنا ہاتھ پھیلائے چلے آتے ہو میرے آقا نے کبھی بھی اپنے صحابہ کو اس طرح سے نہ کہا بلکہ میرے آقا ان کی ضرورتیں پوری کر کے ان کے اس عقیدے کو اور استحکام عطا کرتے تھے۔

نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا

ساتھ ہی منشی رحمت کا قلمدان گیا

اسی لیے میرے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے صحابۂ کرام میں یہ اعلان کر دیا تھا کہ ’’اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللہُ یُعْطِیْ‘‘[11]

میں اللہ کی نعمتوں کو بانٹا کرتا ہوں اور اللہ دیتا ہے۔ اس کا معنی یہ ہوا کہ دین تو اللہ کی عطا ہے مگر اللہ کی عطائیں بغیر میرے ہاتھ کے کسی کو نہیں مل سکتی ہیں۔ اسی لیے تو میرے آقا نے یہ فرمایا کہ میں ہی بانٹتا ہوں ’’اِنَّمَا اَنَا قَاسِم‘‘ میں ہی بانٹتا ہوں اور اسی سے ہم نے یہ سمجھا۔

آسماں خواں زمین خواں زمانہ مہماں

صاحب خانہ لقب کس کا ہے تیرا تیرا

اسی لیے صحابۂ کرام رسول اکرم سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کی بارگاہ میں اپنی ضرورتیں لے کر آ رہے ہیں۔ یہ لیجیے ’’بخاری شریف جلد اول کتاب العلم‘‘ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث ہے اور اسی میں دوسری جگہ باب المعجزات میں امام بخاری نے بھی اس حدیث کو تخریج کیا۔ جو اس طرح ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کی حدیثیں بہت زیادہ سنا کرتا تھا مگر اس کے باوجود میں حدیثوں کو بھول جایا کرتا تھا۔ ایک بار بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں آپ کی حدیثیں بہت سنا کرتا ہوں مگر سب بھول جایا کرتا ہوں۔ میرے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے یہ نہ فرمایا کہ تم خمیرہ گاؤ زبان استعمال کرو۔ اور خمیرہ آبریشم استعمال کرو یا کسی ڈاکٹر کی طرف رجوع کرو، کسی معالج کی طرف رجوع کرو بلکہ میرے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم یوں ارشاد فرماتے ہیں ’’اَبْسُطْ رِدَائَکَ‘‘[12] اے ابوہریرہ اپنی چادر پھیلاؤ، حضرت ابوہریرہ نے اپنی چادر پھیلا دی چادر پھیلانے کا رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے کیوں حکم دیا؟ اسی لیے تو حکم دیا کہ ابوہریرہ آج میں جو دوں گا وہ اتنا ہو گا کہ تمہاری مٹھیوں میں نہ سما سکے گا تمہارے دامن میں نہ آ سکے گا تمہاری جھولی میں نہ آ سکے گا۔ اس لیے اپنی پوری چادر پھیلا دو۔ حضرت ابوہریرہ نے چادر پھیلا دی۔ اور میرے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے اپنے دونوں خالی ہاتھوں کو ملا کر چادر میں انڈیل دیا اور فرمایا ’’ضُبَّہ اِلٰی صَدْرِکَ یَا اَبَا ھُرَیْرَۃَ‘‘[13] ابوہریرہ اپنی چادر سمیٹ کر اپنے سینے سے لگا لو۔ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں میں نے چادر کو اپنے سینے سے لگا لیا اور اس کے بعد میرے سینے کے اندر وہ انقلاب برپا ہوا ہے کہ ’’مَا نَسِیْتُ بَعْدُ شَیئًا سَمِعْتُہ عَنْ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ[14] اس روز سے لے کر آج تک رسول پاک سے سنی ہوئی کوئی حدیث بھی نہ بھولا۔ میں یہ ترجمہ نہیں کرتا ہوں کہ میں رسول اللہ کی ایک حدیث نہ بھولا یہ غلط ہے۔ اس لیے کہ حدیث میں یہ فرمایا گیا ’’مَانَسِیْتُ بَعْدَ شَیئًا‘‘ اس روز سے میں رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم سے سنی ہوئی چیز میں سے کچھ نہیں بھولا ایک زبر یا ایک زیر بھی نہیں بھولا۔

ایک لفظ نہیں بھولا، انداز بیان تک نہیں بھولا، نشیب و فراز تک نہیں بھولا، یہ شان ہے سرکار کی کہ میرے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم خزانۂ علم بھی دے رہے ہیں اور قوت حافظہ بھی عطا کر رہے ہیں عنایات و عطیات کا انداز بتا رہا ہے کہ میرے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کو اللہ نے کیسا باختیار بنا دیا ہے اور یہ بھی تو دیکھیں کہ عطا کا انداز کیا ہے؟ میرے آقا کے ہاتھوں میں کچھ نہیں ہے اور ابوہریرہ کی چادر میں بھی کچھ نظر نہیں آتا مگر عطائیں وہ ہیں کہ سبحان اللہ اب ابوہریرہ یہ نہیں کہتے یا رسول اللہ نہ آپ کے ہاتھ میں کچھ نظر آیا اور نہ میری چادر میں کچھ نظر آیا تو میں کس لیے اس کو سینے سے لگاؤں؟ کیوں نہیں کہتے یہ؟ اس وجہ سے کہ ابوہریرہ جان رہے ہیں کہ رسول اللہ کی عطاؤں کے لیے نظر آنا کوئی ضروری نہیں ہے۔ بلکہ رسول جہاں پر ظاہری چیزوں کو تقسیم فرماتے ہیں وہیں باطنی چیزوں کو بھی تقسیم فرماتے ہیں۔ آج لوگوں میں جھگڑا ہے کہ رسول غیب جانتے تھے کہ نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ جاننے کی بات بعد میں کر لینا یہاں یہ دیکھو کہ رسول غیب بانٹتے ہیں کہ نہیں اس طرح غیب تقسیم فرما رہے ہیں کہ ابوہریرہ بھی لے رہے ہیں اسی لیے ہم کہا کرتے ہیں۔

مالک کونین ہیں گو پاس کچھ رکھتے نہیں

دو جہاں کی نعمتیں ہیں ان کے خالی ہاتھ میں

میرے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کی یہ دست کرم والی عطائیں ہیں اور اس طرح کی دست کرم کی عطاؤں کا وہ سیل رواں آپ کو نظر آئے گا کہ ایمان میں تازگی اور عقیدے میں بالیدگی پیدا ہو جائے گی آئیے حدیثوں کا ذرا گہری نظر سے مطالعہ کیجیے تو سمجھ میں آ جائے گا اور عطاؤں کا انداز بھی الگ الگ نظر آئے گا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث مروی ہے جس کو ابوداؤد، ابن ماجہ اور ترمذی وغیرہ نے تخریج کیا ہے آپ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے مجھ کو یمن کا قاضی اور جسٹس بنا دیا اور فرمایا کہ علی تم یمن جاؤ اور وہاں پر لوگوں کے اختلافات اور مقدمات کے فیصلے کرو۔

حضرت علی کہتے ہیں یا رسول اللہ میں ایک نوجوان آدمی ہوں ’’وَاِنِّیْ لَا اَعْلَمُ کَثِیْرًا مِنَ الْقَضَاءِ‘‘[15] میں قضا و ججمنٹ کے نشیب و فراز کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا ہوں۔ یا رسول اللہ جب مجھے زیادہ معلوم نہیں ہے مہارت نہیں ہے تو مجھے یہ عہدہ کیوں عطا کیا جا رہا ہے؟ مطلب یہ ہے کہ یا رسول اللہ یہ عہدہ ایسا عہدہ ہے کہ جس کے لیے تجربہ کار آدمی کا انتخاب کیا جائے۔ میرے آقا نے یہاں پر یہ نہیں کہا کہ اے علی! تم یہ صلاحیت نہیں رکھتے ہو لہٰذا تم کو عہدہ نہ دے کر دوسرے کو دے دیتا ہوں بلکہ میرے آقا نے ان کے سینے پر ایک گھونسا لگایا۔ اور فرمایا ’’اَللّٰھُمَّ اِھْدِ قَلْبَہ‘‘[16] اے اللہ ان کی رہبری فرما حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں’’فَمَا شَکَکْتُ بَعْدُ فِیْ قَضَاءٍ بَیْنَ اِثْنَیْنِ[17] اس روز سے آج تک مجھ کو کبھی کسی معاملے میں کوئی شک نہ ہوا۔ اور مشکل سے مشکل مسئلہ درپیش ہوا مگر میں نے اس کو آسانی کے ساتھ حل کر دیا۔ بات کیا ہے کہ میرے آقا نے علی کے سینے پر جو گھونسا مارا تو سینے کے اندر علم کا سمندر موج مارنے لگا عطاؤں کا یہ انداز۔ اللہ اکبر! اس لیے ہم کہا کرتے ہیں:

کون دیتا ہے دینے کو منہ چاہیے

دینے والا ہے سچا ہمارا نبی

یہاں ہم آپ کو ایک نکتے کی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ ہم بھی اپنے طلبہ کو سبق یاد نہ ہونے کے موقع پر کبھی ایک آدھ تھپڑ اور ایک آدھ گھونسا لگا دیتے ہیں مگر اس کا نتیجہ یہ نظر آتا ہے کہ جو یاد ہو وہ بھی غائب ہو جایا کرتا ہے۔ مگر بارگاہ مصطفی کی شان عجیب و غریب نظر آ رہی ہے کہ علی کو جو بات معلوم معلوم نہ تھی میرے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے ایک گھونسے میں ان کو اسکا علم عطا کر دیا جو ان کو معلوم تھا وہ تازہ ہو گیا اور جو نہیں معلوم تھا وہ بھی معلوم ہو گیا جیسا کہ حضرت علی خود کہتے ہیں کہ ’’فَمَا شَکَکْتُ بَعْدَ فِیْ قَضَاءِ بَیْنَ اِثْنَیْنِ [18] کہ اس کے بعد سے لے کر آج تک مشکل سے مشکل مقدمے میں مجھ کو کوئی شبہ اور کوئی بھی وسوسہ نہ ہو سکا۔

نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے

مزا تو جب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی

حضرت علی رضی اللہ عنہ کو رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے اپنے دست کرم کے توسط سے علم قضاء کا وہ خزینۂ بے پایاں عطا فرمایا کہ حضرت علی کے بارے میں سارے صحابہ کو اپنی جگہ پر اعتماد تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے ان کو منصب قضاء میں ایک امتیازی شان عطا فرمائی ہے۔ چنانچہ سیدنا امیرالمومنین عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جب مشکل سے مشکل مقدمہ آ جاتا اور حضرت علی نہ ہوتے تو اس وقت وہ اللہ کی پناہ مانگتے ’’کَانَ عُمَرُ ابْنُ الْخَطَّابِ یَتَعَوَّذُ بِاللہِ مِنْ مُّغْضِلَۃٍ لَیْسَ فِیْھَا اَبُوْ حَسَنٍ‘‘[19] اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ حضرت امیرالمومنین عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو بھی یہ احساس تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے اپنے دستِ کرم کے توسط سے ان کو خزینۂ علم اور قضاء میں وہ مہارت عطا فرما دی ہے کہ حضرت علی سارے صحابہ میں امتیازی شان رکھتے ہیں۔ ذرا سوچیے۔۔۔ کہ امیرالمومنین عمر فاروق ہیں جن کا دبدبۂ علمی اور جن کی شوکت تدبیر کا آج تک سکہ چل رہا ہے اپنے تو اپنے جو غیر ہیں وہ بھی ان کی علمی وسعت، فکری قوت کے معترف ہیں اور حضرت امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول پاک سیّد عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کی اس عطائے مخصوص کا یہاں پر اعلان کر رہے ہیں۔ حضرت علی کے بارے میں منصب قضاء کی خصوصیت کا اعتراف کرتے ہیں۔ پڑھیے درود پاک اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ وَسَلِّمْ۔۔۔

علم کی عطائیں تو اس طرح میرے آقا کی بارگاہ سے بہت سارے صحابۂ کرام کو ملی ہیں۔ میں یہاں پر جستہ جستہ چند حدیثوں کے ذریعے سے آپ کو تھوڑے سے وقت میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم صحابہ میں ہر قسم کی عطاؤں کو تقسیم فرمایا کرتے تھے چنانچہ میں آپ کو ایک ایسا واقعہ بخاری شریف کتاب المغازی سے نقل کر کے بتا رہا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خندق کے موقع پر سارے صحابۂ کرام میں اعلان فرما دیا تھا کہ اے صحابہ! تم خندق کو تیار کرو مدینے کے گرد خندق تیار ہونے لگی سارے صحابہ اس میں لگ گئے اور حضرت سیدنا جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ خندق کے بیچ میں ایک لمبی چوڑی بڑی ہی سخت چٹان پڑ گئی صحابہ اس کو توڑتے توڑتے تھک گئے اور جب ہر طرح سے عاجز آ گئے تو بارگاہ رسالت میں آ کر عرض کرتے ہیں یا رسول اللہ! ایک ایسی زبردست چٹان بیچ خندق میں پڑ گئی ہے کہ اگر ہم اس کو نہ توڑیں تو پھر دشمن اسی چٹان کو پل بنا کر مدینے میں داخل ہو جائے گا اور اس کے توڑنے کا ہمیں کوئی راستہ نہیں نظر آتا۔ غور کیجیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم یہ نہیں فرماتے ہیں کہ میں تمہارے ہی جیسا بشر ہوں جب تم توڑنے سے عاجز آ گئے تو میں کیا توڑوں گا۔ بلکہ میرے آقا کھڑے ہو گئے اور کھڑے ہونے کے بعد فرماتے ہیں چلو دکھاؤ وہ چٹان کہاں ہے؟ میرے آقا خندق میں تشریف لائے اور وہ چٹان دیکھی حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول اکرم سیّد عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم چٹان کے قریب تشریف لائے تیشہ اپنے دست کرم میں لیا اور ایک مرتبہ مارا اس کے بعد حضرت جابر کے الفاظ میں سماعت کریں فرماتے ہیں ’’فَاَخَذَ الْمِعْوَلَ فَضَرَبَ فَعَادَ کَثِیْبًا اَھْیَلَ اَوْ اَھْیَمَ فَقُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللہِ ائْذَنْ لِی اِلَی الْبَیْتِ فَقُلْتُ لِامْرَاتِیْ رَایْتُ بِالنَّبِیّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم شَیْئًا مَا فِیْ ذٰلِکَ صَبْرٌ ‘‘[20] کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے چٹان کے اوپر ایک تیشہ مارا تو پوری چٹان بالو کی طرح اڑ گئی ریت بن گئی تو اس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بازوؤں میں وہ قوت تھی کہ جہاں پہ سارے صحابہ کی قوتیں جواب دے جائیں وہاں پر میرے آقا صلی اللہ علیہ و سلم اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ سامنے آ جاتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ ہماری قوت وہاں سے شروع ہوتی ہیں جہاں پر ساری قوتیں ختم ہو جایا کرتی ہیں۔ اس لیے میرے آقا صلی اللہ علیہ و سلم کے مارنے کا ایک اعجاز اس اعتبار سے بھی قابل غور ہے کہ ہم بھی جب کسی پتھر یا کسی اینٹ کو توڑا کرتے ہیں تو جس جگہ ہتھوڑا پڑتا ہے وہاں تو ریزے بن جایا کرتے ہیں۔ مگر اس کے ارد گرد ریزے اور چھوٹے چھوٹے ٹکڑے نظر نہیں آتے ہیں۔ لیکن میرے آقا کا تیشہ چٹان پر ایک جگہ پڑا ہے اور پوری چٹان ریت بن گئی ہے۔ اس بات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ میرے آقا کی ضرب جگہ کے اعتبار سے کام نہیں کرتی ہے بلکہ جہاں تک کہ نیت فرماتے ہیں وہاں تک کام کرتی ہے ان کے ارادوں کے اعتبار سے کام ہوتا ہے یہ قوت جس کو ملتی ہے وہ صاحب اختیار ہو جایا کرتا ہے اللہ کی طرف سے اس کی یہ شان ہوا کرتی ہے کہ سارا کام ارادے کے اعتبار سے ہوتا چلا جاتا ہے خیر آگے بڑھیے اور باتیں سنیے حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول اکرم سیّد عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے جب تیشہ بلند کیا تو جو چادر اوڑھے ہوئے تھے وہ چادر بھی ہاتھوں کے ساتھ اوپر اٹھ گئی۔ یعنی ہاتھ اٹھتے ہی چادر بھی اٹھ گئی جس سے شکم مبارک کھل گیا حضرت جابر دیکھتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بھوک کی وجہ سے شکم اطہر پر پتھر باندھ رکھا ہے اور حضرت جابر فرماتے ہیں کہ جب میں نے یہ منظر دیکھا ’’فَلَمْ اَصْبِرْ عَلٰی نَفْسِیْ‘‘[21] مجھے اپنے دل پر قابو نہ رہا یہ دو جہاں کے مالک ہمارے آقا و رسول ہمارے سردار اور وہ بھوکے رہیں اور ہم لوگ بھر پیٹ کھانا کھا کر آئیں کہتے ہیں کہ میں بے قرار ہو گیا اور گھر دوڑا گیا اور جا کر اپنی بیوی سے کہا ’’ھَلْ عِنْدَکِ مِنْ شَیْءٍ‘‘ گھر میں کھانے کی کوئی چیز ہے؟ ان کی بیوی نے کہا کہ کوئی چیز تو نہیں ہے ہاں گھر کے اندر صرف ایک سیر جو ہے اور بکری کا چھ مہینے کا بچہ ہے۔ اور اس کے علاوہ کوئی کھانا ایسا نہیں ہے کہ جس سے دعوت کا اہتمام کیا جا سکے انہوں نے کہا کہ ’’رَاَیْتُ بِالنَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ مَافِیْ ذَالِکَ صَبْرٌ‘‘[22] خدا کی قسم آج میں نے رسول پاک کی بھوک کا وہ عالم دیکھا ہے کہ مجھے اپنے دل کے اوپر قابو نہیں ہے۔ رسول اللہ نے بھوک کی وجہ سے اپنے شکم مبارک پہ پتھر باندھ رکھا ہے میں چاہتا ہوں کہ آج رسول پاک کی ضیافت کر دی جائے۔ آج رسول پاک کو گھر کھانے پر مدعو کیا جائے ان کی بیوی نے کہا کہ اب یہی تو کھانے کا کل سامان ہے جس سے اہتمام ہو سکتا ہے۔ حضرت جابر نے کہا میں بکری کے بچے کو ذبح کرتا ہوں اور تم چکی سے آٹا تیار کرو وہ آٹا تیار کرنے لگیں اور خود حضرت جابر نے بکری کے بچے کو ذبح کیا ذبح کر کے بوٹیاں تیار کیں پھر بیوی کے سامنے گوشت کی بوٹیاں لا کر رکھ دیں۔ اور کہا جلدی کھانا تیار کرو۔ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو میدان جنگ سے بلا کر لاتا ہوں۔

جب حضرت جابر ادھر جانے لگے تو ان کی بیوی نے کہا کہ ذرا ٹھہرو! وہاں پر مجمع لگا ہے سارے صحابۂ کرام کا مہاجرین و انصار کا تم زور سے دعوت دو گے تو بہت سارے لوگ آ جائیں گے اور رسول پاک بھی بہت سارے لوگوں کو لے لیں گے۔ اس لیے ذرا سنبھل کر دعوت دینا ’’فَقَالَتْ لَا تَفْضَحُوْانِیْ بِرَسُوْلِ اللہِ وَبِمَنْ مَّعَہ‘‘[23] میری فضیحت نہ ہو جائے میری رسوائی نہ ہو جائے کہ جب کھانے کا اہتمام نہ تھا تو دعوت کا اتنا بڑا انتظام کیوں کیا گیا اس لیے انہوں نے کہا ذرا سنبھل کر کے دعوت دینا ۔جابر گئے ایک طرف تو بیوی کا حکم تھا دوسری طرف واقعۃً کھانا بھی کم تھا اس لیے وہ چکے سے جا کر رسول پاک سیّد عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کرتے ہیں یا رسول اللہ! میں نے تھوڑا سا کھانے کا انتظام کیا ہے۔ آپ تشریف لائیں۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے سنا تو اعلان کر دیا ’’فَقَالَ یَا اَھْلَ الْخَنْدَاقِ اِنَّ جَابِرًا قَدْ صَنَعَ سُوْرًا فَحَیَّ ھَلًّابِکُمْ‘‘[24] اے خندق کے صحابہ چلو چلو جابر کے گھر دعوت ہے۔ سبحان اللہ اب جابر کا حال عجیب و غریب ہو گیا۔ سوچنے لگے کہ ایک طرف تو بیوی ناراض ہو گی اور دوسری طرف واقعی کھانا بھی کم ہے اب کیا ہو گا وہ اپنے اندر گھبراہٹ محسوس کرنے لگے اور گھبراہٹ میرے آقا کی نظر سے پوشیدہ نہ رہ سکی سبحان اللہ۔۔۔ وہ نبی جو فرماتے ہیں ’’اِنِّیْ اَرَاکُمْ وَرَاءَ ظَھْرِیْ کَمَا اَرَاکُمْ اَمَامِیْ‘‘[25] میں اپنی پیٹھ کے پیچھے بھی تم کو اسی طرح دیکھتا ہوں جیسے سامنے دیکھتا ہوں وہ پیارے نبی جو فرماتے ہیں ’’اَمَا لَا یَخْفٰی عَلَیَّ رُکُوْعُکُمْ وَخُشُوْعُکُمْ‘‘[26] سنو سنو! تمہارے رکوع کا حال میرے اوپر چھپا نہیں ہے اور رکوع تو رکوع ہے دل کا خشوع بھی چھپا نہیں ہے جو نبی دل کی گہرائیوں میں پوشیدہ راز کو دیکھ رہے ہیں۔ کیا وہ جابر کے دل کی گھبراہٹ کو محسوس نہیں کرتے ہوں گے یقیناً وہ دیکھ رہے ہیں۔ اس لیے میرے آقا صلی اللہ علیہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں۔۔۔ اے جابر! دوڑ کر گھر جاؤ جب تک میں تمہارے گھر نہ پہنچوں اس وقت تک چولہے پر روٹی نہ ڈالی جائے اور اس وقت تک گوشت کی ہانڈی چولہے سے نہ اتاری جائے۔ تو جب حضرت جابر دوڑے ہوئے گھر گئے رسول پاک سیّد عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا پیغام تو ابھی اپنی جیب میں رکھے ہوئے ہیں اور بیوی سے کہتے ہیں ارے بیوی غضب ہو گیا ’’لَقَدْ جَاءَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْمُھَاجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ‘‘[27] رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم سارے مہاجرین سارے انصار کو لے کر تشریف لا رہے ہیں اب کیا ہو گا ان کی بیوی گرج اٹھیں کہتی ہیں تم نے بآواز بلند دعوت دی تھی؟ تم نے زور سے دعوت دی تھی؟ کہنے لگے ہر گز نہیں میں نے تو بہت آہستہ سے دعوت دی تھی میں نے خفیہ طور پر دعوت دی تھی اور یہ کہہ دیا تھا یا رسول اللہ کھانا بھی تھوڑا سا ہے اور آپ چاہیں تو خود چلیں ’’وَمَعَکَ رَجُلٌ اَوْ رَجُلَانِ‘‘[28] اور آپ کے ساتھ ایک دو آدمی چل سکتے ہیں زیادہ طفیلیوں کی گنجائش نہیں ہے یہ بھی میں نے صراحت کر دی تھی تو ان کی بیوی کہتی ہیں جب یہ تم نے کہہ دیا تو پھر اتنے آدمی کیسے آرہے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میں کیا کروں جب میں نے رسول پاک سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ایک سے دو طفیلیوں تک کی گنجائش ہے تو رسول پاک نے اعلان کر دیا اے خندق کے صحابہ چلو چلو جابر کے گھر دعوت ہے۔ جابر کی بیوی کہتی ہیں کہ جب مالک دارین نے اعلان کیا ہے تب کیا گھبرانے کی بات ہے تم نے رسول اللہ کو دعوت دی ان کو تم کھلانا رسول اللہ نے اپنے صحابہ کو دعوت دی ہے وہ اپنے صحابہ کو کھلائیں گے تم اور ہم کیوں گھبرائیں رسول پاک سرور دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے اختیارات کے بارے میں ذرا ایک مدینے کی عورت کا عقیدہ دیکھو ایک صحابی کی عورت کا عقیدہ دیکھو کہ ان کی نظر میں رسول کس طرح صاحب اختیار ہیں اور ایک دہلی کے وہابی مرد کا عقیدہ ذرا سنو وہ کہتا ہے جس کا نام محمد یا علی ہے وہ کسی چیز کا مختار نہیں معاذ اللہ ذرا سوچو تو ایک صحابی کا وہ عقیدہ اور ایک وہابی کا یہ عقیدہ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ یہ برا وہ اچھا مگر یہ کہے بغیر میں نہ رہوں گا کہ اپنے اپنے مقدر اور نصیب کی بات ہے کہ کوئی صحابی کے عقیدے پر چلا تو کوئی وہابی کے طریقے پر چلا۔

بہرحال میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ذرا اختیارات تو دیکھو کہ ایک طرف قوت بازو وہ ہے کہ سارے صحابہ مل کر جہاں پر چٹان توڑ نہ سکے میرے آقا نے وہ چٹان توڑ دی ہے اور ایک طرف یہ ہے اختیار کہ تھوڑا سا کھانا ہے اور سیر بھر جو ہے نہ جانے اس میں کتنی بھوسی نکلی کتنا بھوسا نکلا اور اس سے روٹی بنی پھر اس کے بعد میرے آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے کتنے صحابہ کو دعوت بھی دے دی آؤ سب کھاؤ؟ حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم سارے صحابہ کو لے کر میرے گھر پہنچے اور بیٹھے نہیں بلکہ میرے آقا نے فرمایا جابر دکھاؤ کہاں پر آٹا گوندھا ہوا رکھا ہے۔ اور کہاں پر گوشت کی دیگچی ہے میں رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کو گھر میں لایا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے آٹے کے قریب آ کر اپنا لعاب دہن نکالا آٹے پر لگا دیا فرمایا اے جابر یہ آٹا پھر گوندھ دیا جائے۔ کیوں پھر سے گوندھا جائے؟ اس لیے کہ رسول پاک کے لعاب دہن کی برکت آٹے کے ذرے ذرے میں پہنچ جائے اور پھر میرے آقا نے فرمایا کہ کہاں ہے گوشت کی دیگچی؟ وہاں تشریف لائے لعاب دہن نکالا گوشت کی دیگچی میں ڈال دیا اور فرمایا جابر ان دونوں کو چھپا دو اور جب بھی ضرورت پڑے نکالا جائے لیکن جھانک کے اندر نہ دیکھا جائے کہ کتنا رہ گیا اور کتنا خرچ ہوا یہ کچھ بھی نہ دیکھا جائے ضرورت کے مطابق بغیر جھانکے ہوئے نکالا جائے حضرت جابر کہتے ہیں ایسا ہی کیا گیا اور رسول پاک نے یہ بھی فرما دیا جابر روٹی بنانے کے لیے محلے کی عورتوں کو بلا لو۔ اس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اگرچہ وہ آٹا تھوڑا ہی ہے مگر لعاب دہن کی برکت اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ وہ آٹا اگر صرف جابر رضی اللہ عنہ کی بیوی بغیر رسول پاک کے لعاب دہن کے ملے ہوئے پکانا چاہتیں تو چند منٹ میں پکا کے فرصت پا جاتیں مگر اب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کا لعاب دہن اس میں مل گیا ہے تو ضرورت کے مطابق اگرچہ میرے آقا نے یہ فرمایا کہ محلے کی عورتوں کو بلا لیا جائے مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر سارے مدینے کی عورتیں جٹ کر کے اس آٹے کو ختم کرنا چاہتیں تو لعاب دہن کی برکت کبھی بھی ختم نہیں ہو سکتی تھی اور صحابہ ہیں کہ قطار در قطار بیٹھے چلے جا رہے ہیں اور گرما گرم روٹی اور تازہ تازہ بوٹی چلی آ رہی ہے اور کھاتے چلے جا رہے ہیں سارے صحابہ و مہاجرین و انصار کھا کر فارغ ہو گئے جابر فرماتے ہیں ’’حَتّٰی شَبِعُوْا وَبَقِیَ بَقِیَّۃٌ‘‘۔۔۔یہاں تک کہ سارے کے سارے صحابہ فارغ ہو چکے ہیں اور اس کے بعد محلے بھر میں ہم نے کھانا تقسیم کیا دوسرا دن آیا ہم سب لوگوں نے کھانا کھایا محلے میں کھانا تقسیم کیا گیا تیسرا دن آیا گیا پھر بھ کھانا ہے کہ ختم نہیں ہو رہا ہے ہم لوگوں نے بھی کھایا اور محلے بھر میں تقسیم کیا۔ اب یہاں پر ذرا سوچنے کا مقام ہے وہ یہ ہے کہ جو آٹا ہمارے یہاں ایک دن سے دوسرے دن کی سرحد میں داخل ہو جاتا ہے تو وہ استعمال کے قابل نہیں رہتا آٹا اس وقت تک کھٹا ہو جاتا ہے اور اس میں خمیر اس طرح اٹھ جاتی ہے کہ اس کی بو اور اس کی لذت اس کو استعمال کے قابل نہیں رہنے دیتی اور اسی طرح جو کھانا باسی ہو جاتا ہے وہ کھانے کے قابل نہیں ہوتا مگر لعاب دہن کی برکت کیا پہنچ گئی ہے کہ جب کھاؤ تازہ بتازہ نو بہ نو اس کا ذائقہ ملتا ہے اس سے سمجھ میں آیا کہ میرے آقا کو اللہ نے وہ اختیار دیا ہے اور ان کے لعاب دہن میں وہ برکتیں ودیعت کر رکھی ہیں کہ اگر اس نیت سے میرے آقا کسی چیز میں شامل کر دیں تو جہاں اس کی تازگی باقی رہے وہیں اصل شئ بعینہ قائم رہے کیا اس سے میرے قادر اختیار نمایاں نہیں ہو رہے ہیں؟ یقیناً یہ بات کھل کر سامنے آ رہی ہے کہ میرے آقا صاحب اختیار بھی ہیں صاحب اقتدار بھی ہیں۔

پھر اس کے بعد حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں تین دن ہو گئے مگر ہم لوگوں کے کھانے کھلانے کا سلسلہ منقطع نہ ہوا تیسرے دن میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اب کتنا باقی رہ گیا ہے؟ ذرا دیکھ تو لیا جائے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بے چینی بڑھ گئی اور انھوں نے کھول کر کے گوشت کی دیگچی لبالب بھری ہوئی اور آٹے کا برتن کھول کر دیکھا تو جتنا تھا اتنا ہی اب تک موجود ہے کہتے ہیں حضرت جابر کہ رات آتے آتے سارا گوشت ختم ہو گیا اور سارا آٹا بھی ختم ہو گیا تو بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا کہ یا رسول اللہ تین دن سے ہم لوگ کھا رہے تھے اور کھلا رہے تھے ختم ہونے کا نام و نشان نہ تھا، مگر میں نے کل اس کو کھول کر دیکھ لیا تو رات آتے آتے سارا کھانا ختم ہو گیا۔

میرے آقا سرور کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں جابر! اگر تم نے اس کو کھول کر نہ دیکھا ہوتا ’’لَاَکَلْتُمْ مُدَی الدَّھْرِ‘‘ تو زندگی بھر تم اس کو کھاتے رہتے۔ سبحان اللہ! جابر نے رسول پاک کے پیٹ کے پتھر کو تو دیکھ کر یہ سوچا ہو گا کہ آج رسول پاک کی دعوت کر کے میں رسول اللہ کو آسودہ کروں گا۔ مگر رسول پاک نے جابر کو یہ سبق دے دیا۔ کہ اے جابر!

کون دیتا ہے دینے کو منھ چاہیے

دینے والا ہے سچا ہمارا نبی

تم سمجھ رہے تھے کہ ہم رسول پاک کو کھلا لیں گے مگر سنو تم نے ایک مرتبہ ہماری دعوت کی ہے اور ہم نے تمہارے لیے زندگی بھر کے کھانے کا انتظام فرما دیا ہے۔ اس سے میرے آقا سرور کائنات یہ اشارہ کر رہے ہیں کہ جابر تم ہمارے پیٹ کا پتھر دیکھ رہے تھے مگر بازوؤں کی قوت نہیں دیکھی کہ تم سارے آسودہ حال صحابہ نے جب چٹان کو توڑنا چاہا تو عاجز آ گئے پھر جب ہم نے اس کو ایک ہی ضرب میں چکنا چور کر دیا تب بھی تمہاری سمجھ میں نہ آیا کہ بھوکا نبی ہے مگر قوت کی یہ شان ہے اور جب آسودہ ہو گا تو کیا ہو گا مگر میں تمہیں حقیقت یہ بتانا چاہتا ہوں کہ رسول پاک چاہے آسودہ ہوں چاہے بھوکے ہوں طاقت کے اندر کمی نہیں آسکتی ہے۔ اس لیے کہ میرے آقا کی طاقت کا دارومدار کھانے پر نہیں ہے بلکہ کھانے کی عزت کا مدار میرے آقا کے تناول فرمانے پر ہے حضور اس لیے نہیں کھایا کرتے تھے کہ قوت فراہم ہو۔ اسی لیے میرے آقا ارشاد فرماتے ہیں صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم ’’اِنَّمَا یُطْعِمْنِیْ رَبِّیْ وَیَسْقِیْنِیْ‘‘[29] اے لوگو! تمہیں کھانے پینے سے قوت فراہم ہوتی ہے۔ مگر میرا پروردگار بغیر کھائے پیے مجھ کو وہ قوت عطا کر دیتا ہے۔ جو لوگوں کو کھانے پینے سے ملا کرتی ہے۔ میرے آقا نہ کھائیں تو میرے آقا کی قوت پر کوئی اثر نہیں پڑا کرتا ہے۔ پیٹ پر پتھر تو میرے آقا نے اپنے صبر و قناعت کو ظاہر کرنے کے لیے باندھا تھا۔ اسی لیے تو اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں۔

کل جہاں ملک اور جو کی روٹی غذا

اس شکم کی قناعت پہ لاکھوں سلام

تو میرے رسول رحمۃ العالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کائنات کو آسودہ فرما رہے ہیں آپ کو کوئی آسودہ نہیں کر رہا ہے بلکہ میرے آقا نے اگر کسی کے گھر دعوت کھائی تو اس کو عزت عطا فرمانے کے لیے کھانے کو عزت عطا فرمانے کے لیے اس کے گھر کو عزت بخشنے کے لیے اور محض اسی لیے میرے آقا رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم لوگوں کی دعوتوں کو قبول فرمایا کرتے تھے۔ اس لیے نہیں کہ لوگوں کی دعوتوں کے وہ محتاج تھے دوسری طرف میرے آقا نے اپنا لعاب دہن ان کے کھانے میں شامل کر کے اس بات کی طرف نشان دہی کر دی کہ اے جابر سنو سنو! وہ رسول کسی کے کھانے کا کیا محتاج ہو سکتا ہے جو رسول تھوڑے کھانے میں اتنی برکتیں انڈیل سکتا ہے کہ فوج در فوج لوگ کھا رہے ہیں مگر اس کے باوجود بھی وہ کم نہیں ہو رہا ہے اور اس کا ذائقہ بھی نہیں بدل رہا ہے وقت گزرتا جا رہا ہے۔ جابر! تم زندگی بھر اس کو کھاتے اگر تم نے اس کو کھول کے دیکھا نہ ہوتا اس سے میرے آقا یہ اشارہ کر رہے ہیں کہ جابر! تم اپنی زندگی کے کسی بھی حصے میں کھاتے ہمیشہ تازہ ہی پاتے کبھی محسوس بھی نہ ہوتا کہ گوشت باسی ہے یا روٹی باسی ہے۔ اور یہ میرے آقا اشارہ فرما رہے ہیں کہ جابر ہماری عطاؤں کی یہ شان ہے کہ جب ہم اپنے خزینۂ غیب سے تقسیم کرنے پر آتے ہیں تو لوگوں کو نظر نہیں آتا ہے اور ہم دیتے چلے جاتے ہیں اسی لیے ہم نے تم کو تنبیہ کر دی تھی کہ کھول کر نہ دیکھنا کیونکہ غیب اس لیے نہیں ہوتا کہ اس کا معائنہ کیا جائے اور تم اس کے معائنے میں لگ گئے اس لیے غیب تم سے اوجھل ہو گیا، غیب تم سے غائب ہو گیا۔۔۔بہرحال! میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے میرے آقا رسول اکرم سیّد عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کو وہ اختیارات عطا فرمائے ہیں کہ تھوڑے کو بھی بہت زیادہ کر دیا کرتے ہیں اسی لیے تو اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

ہاتھ جس سمت اٹھا غنی کر دیا

موجِ بحر سخاوت پہ لاکھوں سلام

آئیے اس موقع پر ایک اور حدیث آپ حضرات کو سناؤں۔ بخاری شریف[30] کتاب الرقاق، باب عیش النبی صلی اللہ علیہ و سلم و اصحابہ میں ہے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کئی روز ہو گئے مجھے کھانے کے لیے کوئی چیز نہ مل سکی۔ میرا حال خراب ہونے لگا، آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ اب میں یہ بھی تو نہیں کر سکتا تھا کہ کسی سے بھیک مانگوں، اس لیے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھیک مانگنے سے ہم لوگوں کو منع کر دیا تھا۔ آخرکار ایک حیلہ میری نظر میں آیا کہ چلو راستے کی نکڑ پر کھڑے ہو جائیں گے اور وہاں سے کوئی گزرتا ہوا جب میرے اُداس چہرے پر نظر ڈالے گا، میری مرجھائی شکل کو دیکھے گا تو مجھ سے حال پوچھے گا اور میں کہہ دوں گا کہ کئی روز سے کھانے کو نہیں ملا ہے، وہ خود میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے جائے گا اور کھانے کو دے گا، بھیک بھی مانگنی نہ پڑے گی اور اپنی ضرورت بھی پوری ہو جائے گی۔ کہتے ہیں کہ میں چلا اور راستے کے نکڑ پر کھڑا ہو گیا۔ سب سے پہلے جو صاحب میری نظر کے سامنے سے گزرے وہ حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ آگے بڑھ کر سلام کیا، السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔ انہوں نے نظر جھکائے جھکائے وعلیکم السلام کہا۔ میں نے آگے بڑھ کر پوچھا کہ حضور! یہ آیت کس طرح ہے؟ ابوہریرہ کہتے ہیں کہ وہ آیت مجھے یاد تھی مگر میرا مقصد یہ تھا کہ شاید جواب دیتے وقت میرے اداس چہرے پر نظر ڈالیں اور میری پریشانی کو محسوس کریں، اس طرح میرے کھانے کا انتظام بھی ہو جائے گا اور بھیک مانگنے سے بچ جاؤں گا مگر انہوں نے مراقبے کے انداز میں نظر جھکائے رکھی اور نگاہ نیچے کیے ہوئے آیت بتا کر آگے بڑھ گئے۔ مجھے دھچکا لگا، یا اللہ! میں جو مقصد لے کر یہاں راستہ پر حاضر ہوا تھا وہ مقصد بھی پورا نہیں ہوا۔ اتنے میں دیکھتا ہوں کہ حضرت عمر فاروق تشریف لا رہے ہیں میں نے آگے بڑھ کر کہا، السلام علیکم۔ انہوں نے بھی نظر جھکائے جھکائے وعلیکم السلام کہا۔ میں نے سوچا کہ ان سے بھی وہ آیت کیوں نہ پوچھ لوں تاکہ وہ میرا چہرا دیکھ لیں۔ جب ان سے وہ آیت پوچھی تو انہوں نے بھی نظر جھکائے جھکائے جواب دیا اور آگے بڑھ گئے۔ اب تو مجھے اور زیادہ دھچکا لگا کہ میرا مقصد یہاں بھی پورا نہیں ہوا۔ مگر اتنے میں دیکھتا کیا ہوں کہ رحمۃ للعالمین شفیع المذنبین انیس المشتاقین تشریف لا رہے ہیں۔ رسولِ اکرم سیّد عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھ کر میری بانچھیں کھل گئیں۔ میں نے عرض کی، السلام علیکم یا رسول اللہ۔ رسول پاک نظر اٹھا کر فرماتے ہیں، وعلیکم السلام اے ابوہریرہ! یہ تمہارا چہرا مرجھایا ہوا کیوں نظر آ رہا ہے؟ سبحان اللہ! جس ادا سے ابوہریرہ نے مدعا پیش کیا، اسی ادا سے ہاتھ پکڑا رسولِ پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے اور دولت کدے پر تشریف لائے۔ حضرت عائشہ اُمُّ المؤمنین کے گھر میں تشریف لے گئے، فرماتے ہیں کہ اے عائشہ! کھانے کا کوئی سامان ہے؟ حضرت عائشہ نے کہا، مہینے/ دو مہینے سے تو چولہا نہیں جلا ہے، کھانے کا سامان کیا ہو گا، یا رسول اللہ! ہاں ابھی ابھی ایک انصاری نے دودھ کا پیالہ بھیجا ہے۔ میرے آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، چلو وہی بہت ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس وہ دودھ کا پیالہ لے کر آئے اور اس کو لیے ہوئے جوں ہی اندرونِ خانہ سے باہر آئے، حضرت ابوہریرہ کی بانچھیں کھل گئیں۔ مگر میرے آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جتنے اصحابِ صفہ ہیں، بلوا لو، ان کی ضیافت ہو جائے۔ انہوں نے کہا کہ میری طبیعت پریشان ہو گئی کہ کیا ہو گا؟ نہ جانے کتنے لوگ وہاں موجود ہوں اور کیسے ہمارا کام ہو گا، کس طرح سے ہماری ضرورت پوری ہو گی؟ فرماتے ہیں، مگر میں کیا کرتا، رسولِ پاک نے حکم دیا تھا اس لیے سارے اصحابِ صفہ کو بلا کر لے آیا اور جب بلا کر لایا تو میں سوچ رہا تھا کہ کہیں پلانے کی ذمہ داری مجھے نہ دیدیں کیوں کہ حضور نے فرمایا ہے: ’’سَاقِی الْقَوْمِ اٰخِرُھُمْ شُرْبًا‘‘[31] یعنی جو ضیافت کا بوجھ اپنے کاندھے پر لے گا اس کا نمبر سب سے اخیر میں لگے گا۔ اس لیے میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی نگاہوں سے چھپتا تھا مگر رسول اللہ نے آواز دی۔ ابوہریرہ آگے آؤ۔ میں آگے آیا۔ رسول اللہ نے فرمایا، سب کو ایک لائن میں بٹھا دو، پھر تم پلانا شروع کرو۔ میں نے پلانا شروع کر دیا۔ پھر یکے بعد دیگرے ستّر صحابہ دودھ پی چکے اور پھر اس کے بعد جب میں دیکھتا ہوں کہ پیالہ ویسے ہی دودھ سے لبالب بھرا ہوا ہے، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف یہ پیالہ بڑھاؤں کہ خود پیوں؟ ایمان کہتا ہے کہ رسول پاک کو پیش کرو، بھوک کہتی ہے پہلے خود پیو۔ بھوک اور ایمان کی جنگ میں ایمان غالب آ گیا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو وہ پیالہ پیش کر دیا۔ رسول پاک نے مسکرا کر پیالہ میری طرف بڑھا دیا: ’’فقال اشرب فشربت‘‘[32] اے ابوہریرہ! تم پہلے پیو۔ میں نے پی لیا۔ پھر رسولِ پاک کی طرف بڑھایا۔ فرمایا، اور پیو ابوہریرہ! اس لیے کہ تم بہت دیر سے انتظار کر رہے ہو، کئی روز کے بھوکے ہو۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے کہنے پر پھر پینا شروع کیا۔ پھر بڑھایا، پھر حضور نے فرمایا، اور پیو۔ پھر میں نے پیا اور بڑھایا، پھر فرمایا، اور پیو۔ اب کہتے ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے پیالہ میرے ہاتھ سے نہیں لیا۔ میں نے کہا، یا رسول اللہ! اب تو اتنا پی لیا ہے کہ ایک قطرے کی گنجائش نہیں ہے۔ اب اس کے بعد رسولِ پاک نے بھی نوش فرمایا۔ اعلیٰ حضرت اس حدیث کا ترجمہ ایک شعر مین اس طرح کرتے ہیں:

کیوں جنابِ بوہریرہ، کیسا تھا وہ جامِ شیر

جس سے ستّر صاحبوں کا دودھ سے منہ پھر گیا

آج بات کھل کر سامنے آ گئی کہ صحیح حدیثوں میں رسولِ پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے اختیارات کا وہ امنڈتا ہوا سمندر ہے کہ جس کو کوئی سمیٹنا چاہے تو سمیٹنا دوبھر ہو جائے۔

بہ ہر حال، میرے آقا صلی اللہ علیہ و سلم کو ساری کائنات کا اختیارِ کُلّی دے کر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس لیے بھیجا تھا کہ اگر ہماری قدرت اور ہمارے اختیارات کو کوئی سمجھنا چاہتا ہے تو میرے محبوب کے اختیارات کو دیکھے، ان کے تصرفات کو دیکھے تو میری قدرت خود بہ خود سمجھ میں آ جائے گی۔

میرے کریم سے گر قطرہ کسی نے مانگا

دریا بہا دیے ہیں، دُر بے بہا دیے ہیں

واٰخر  دعوانا ان الحمد للہ ربّ العالمین۔

٭٭٭

 

(حواشی و حوالہ جات)

[1] پارہ:10، رکوع:16، سورۃ التوبۃ۔

[2] پارہ28: رکوع:4، سورۂ حشر۔

[3] بخاری، جلد اول، ص:16۔ مسلم، جلد اول، ص: 438۔439۔

[4] ابو داؤد، ص: 276، باب تحریم مکہ۔

[5] مشکوٰہ شریف، ص:221، فصلِ ثانی، کتاب المناسک و مسلم شریف، جلد اول، ص: 432۔

[6] مسلم شریف، جلد اول، ص:432، کتاب الحج۔

[7] بخاری جلد ثانی کتاب الاضاحی ص:832۔

[8] مسلم جلد ثانی ص:154، کتاب الاضاحی۔

[9] نسائی جلد ثانی ص:204۔

[10] نسائی ثانی ص:204 و مسلم شریف جلد ثانی ص:154۔

[11] بخاری جلد اول ص:16 و مسلم شریف و مشکوٰۃ شریف۔

[12] بخاری جلد اول کتاب المناقب باب سوال المشرکین الخ ص:514۔515۔ بخاری جلد اول کتاب العلم ص:22۔

[13] بخاری جلد اول کتاب المناقب ص:514۔515۔

[14] ایضاً۔

[15] ابن ماجہ ابواب الاحکام ص167۔ ابوداؤد و کتاب القضاء ص:504۔

[16] ابوداؤد کتاب القضاء ص:504۔

[17] ابن ماجہ ابواب الاحکام ص:167۔

[18] ابن ماجہ ابواب الاحکام ص:167۔

[19] تاریخ الخلفاء ص:171۔

[20] بخاری جلد ثانی کتاب المغازی باب غزوۃ الخندق ص:588۔

[21] ایضاً

[22] ایضاً

[23] بخاری جلد ثانی کتاب المغازی باب غزوۃ الخندق ص:589۔

[24] بخاری جلد ثانی ص:589۔

[25] بخاری جلد اول ص:102۔

[26] مسلم جلد اول ص:180۔

[27] بخاری جلد ثانی کتاب المغازی باب غزوۃ الخندق ص:589۔

[28] ایضاً۔

[29] بخاری جلد اول کتاب الصوم باب الوصال ص:263۔

مسلم جلد اول کتاب الصیام ص:352۔

ترمذی شریف جلد اول ص:163، باب النہی عن الوصاف۔

[30] بخاری، جلد ثانی، کتاب الرقاق، باب کیف کان عیش النبی صلی اللہ علیہ و سلم و اصحابہ، ص:955۔

[31] ترمذی، جلد ثانی، ص:11۔

[32] بخاری، جلد ثانی، کتاب الرقاق، ص:955۔

٭٭٭

(بشکریہ، ادارۂ معارفِ نعمانیہ، رضوی فاؤنڈیشن لاہور، پاکستان)

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید