FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ہَن ٹِنگ ٹَن اور اقبال کا تصور تہذیب

               ڈاکٹر محمد آصف

 

’’تہذیبی تکثیریت‘‘ ، ’’تہذیبی آفاقیت‘‘ ، ’’تہذیبی تصادم‘‘ ، ’’تہذیبی ہم آہنگی‘‘ ، ’’تاریخ کا خاتمہ‘‘ ، ’’نیا عالمی نظام‘‘ عصر حاضر کے اہم ترین مسائل اور مباحث کی حیثیت رکھتے ہیں۔  مغرب کے جدید سیاسی افکار کا تجزیہ کیا جائے تو پوری مغربی سیاسی فکر ہمارے عہد کے دو مغربی سیاسی مفکرین کے افکار و تصورات کے گرد گردش کرتی نظر آتی ہے۔  یعنی فوکویاما(Fukuyama) اور ہَن ٹِنگ ٹَن (Huntington)۔  بالخصوص ہَن ٹِنگ ٹَن نے اپنے نظریے (Theory) تہذیبوں کے تصادم (The clash of civilizations) کی بدولت پوری دنیا کو سیاسی، معاشی اور تہذیبی حوالوں سے ایک نئے رخ پر ڈالنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔  سیموئیل پی ہَن ٹِنگ ٹَن (Sammuel P. Huntington) ہارورڈ یونیورسٹی میں البرٹ جے ویدرہیڈ تھرڈ یونیورسٹی پروفیسر (Albert J.Weatherhead III University Professor)، جان ایم اولن انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز ڈائریکٹر (Director of the John M. Olin Institute for strategic studies)، کارٹر انتظامیہ میں نیشنل سیکورٹی کونسل کا ڈائریکٹر(Director of security planning for national security council in carter administration، فارن پالیسی (Foreign Policy) کا بانی اور شریک مدیر اور امریکن پولٹیکل سائنس ایسوسی ایشن کا صدر (President of the American Poltical Science Association) کے مناصب پر فائز رہا ہے۔ [1]

ہَن ٹِنگ ٹَن کا مضمون ’’تہذیبوں کا تصادم؟‘‘ (The clash of civilizations?)، سب سے پہلے ۱۹۹۳ء میں موسم گرما کے جریدے Foreign Affairs میں شائع ہوا تھا جس پر بہت زیادہ متنازع مباحث وجود میں آئے۔  اسی موضوع کو زیادہ بھرپور، گہرائی اور مفصل دستاویزات سے آراستہ کر کے اس نے اپنی کتاب ’’تہذیبوں کا تصادم اور عالمی نظام کی تشکیلِ نو‘‘ (The Clash of Civilizations and the Remaking of World Order) میں ۱۹۹۷ء میں پیش کیا۔  اس کتاب میں موجود تصورات سے اختلاف یا اتفاق سے قطع نظر حقیقت یہی ہے کہ یہ کتاب گزشتہ ۱۵ برسوں میں شائع ہونے والی مشہور ترین اور متنازع کتابوں میں سے ایک ہے۔  چنانچہ یہاں اگر اس کتاب میں موجود تصورات کا مختصر تعارف (اور اس طرح ہَن ٹِنگ ٹَن کے نظریات سے سرسری آگاہی) حاصل کر لیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔

اس کتاب میں کیمونزم کی شکست و ریخت کے بعد پیدا ہونے والی نئی عالمی سیاسی صورتحال پر گہری نظر ڈالی گئی ہے۔ ہَن ٹِنگ ٹَن کے نزدیک عصرِ حاضر کی عالمی سیاست میں اقوام اور نظریات کی جگہ تہذیبوں نے لے لی ہے۔  مابعد سرد جنگ کی دنیا میں تاریخ میں پہلی عالمی سیاست کثیر قطبی اور کثیر تہذیبی ہو گئی ہے۔  اقوام کے درمیان اہم ترین امتیازات اب نظریاتی سیاسی یا معاشی نہیں بلکہ تہذیبی و ثقافتی ہیں اب اہمیت تہذیبوں کے تصادم کی ہے۔  دراصل سرد جنگ کے بعد فوکو یاما (Fukuyama) نے ’’تاریخ کے خاتمے‘‘ کے روپ میں مغربی تہذیب کی آفاقیت کو پیش کیا تھا۔  اس کے برخلاف ہَن ٹِنگ ٹَن (Huntington) نے تہذیبی تکثیریت اور تہذیبوں میں تصادم کا نظریہ پیش کیا۔  اس کے نزدیک سرد جنگ کے بعد تہذیبی شناخت دنیا میں انتشار اور تصادم کے تانے بانے بن رہی ہے۔  مغرب دوسری تہذیبوں بالخصوص اسلام اور چین سے زیادہ سے زیادہ متصادم ہو رہا ہے۔  اس کے نزدیک اسلام اور کنفیوشین تہذیبیں چونکہ مغرب سے مختلف روایات کی حامل ہیں۔  انسان دوستی اور آزاد خیالی، جمہوریت پسندی، انسانی حقوق کی برتری، کلیسا اور ریاست کی علیحدگی اسلامی اور چینی تہذیبوں میں نہیں پائی جاتیں اس لیے مغربی تہذیب کا تصادم چینی بالخصوص اسلامی تہذیب سے ہونا ناگزیر ہے۔  اس کے نزدیک چین علیحدگی پسندی، سکون اور ٹھہراؤ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جبکہ اسلام میں تشدد، بنیاد پرستی، دہشت گردی، تنگ نظری اور احیا کے شدت پسندانہ جذبات کارفرما ہیں، اس لیے چینی تہذیب سے بھی زیادہ اسلام مغرب کے لیے خطرہ ہے۔  اگرچہ اس نے انتہائی مدلل انداز میں تاریخی و سیاسی تناظر میں مغرب کے عروج کے ساتھ اس کے زوال پر تبصرہ کیا ہے۔  مشرق کے اثبات اور اسلامی احیا پر روشنی ڈالی ہے اور مغرب کی دوغلی، منافقانہ اور سامراجی نوعیت کی پالیسیوں اور تہذیبی غرور پر تنقید کی ہے، مغربی آفاقیت کو ملوکیت کا ایک روپ قرار دیا ہے۔  حتیٰ کہ تہذیبوں کے مشترک خواص کی بنا پر ایک بین التہذیبی ہم آہنگی اور امن و امان کی خواہش کا اظہار بھی کیا ہے۔  اس کے نزدیک امن قائم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ تمام تہذیبیں دوسری تہذیبوں کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے افہام و تفہیم اور تعاون کی راہ اختیار کریں لیکن اس سے زیادہ وہ تصادم کا نقشہ کھینچتا ہے اور اپنے کثیر تہذیبی نظریے کو تصادم کا نظریہ بنا دیتا ہے۔  اس طرح اس کی تہذیبی تکثیریت ہم آہنگی کے بجائے تصادم کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔  یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ مغرب کے زوال اور مشرق کی بیداری سے خوفزدہ ہے۔  اس کے نزدیک مغربی تہذیب اس وقت سب سے مختلف، منفرد اور طاقتور تہذیب ہے لیکن وہ خوفزدہ ہے کہ مغرب عروج پر ہونے کے باوجود زوال پذیر ہے کیونکہ اب طاقت ایشیا کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔  ان حالات میں مغرب کی بقا اس میں ہے کہ اہلِ مغرب اپنی تہذیبی شناخت کا اِدّعا کریں، وہ اپنی تہذیب کو آفاقی نہیں منفرد سمجھیں۔  غیر مغربی معاشروں بالخصوص (چین اور اسلام) کے خلاف متحد ہو جائیں۔  اپنے معاشی اور عسکری وسائل کا اظہار، دھمکیوں کا مہارت سے استعمال، چینی غلبے اور اسلامی احیا کا مقابلہ متحد ہو کر کریں۔  دوسری قوموں کے درمیان اختلافات کی پالیسی کو اختیار کریں۔

اگرچہ ہَن ٹِنگ ٹَن نے ’’آفاقی تہذیب‘‘ کے بجائے ’’تہذیبی تکثیریت‘‘ کا نظریہ پیش کیا ہے۔ امن و امان اور ہم آہنگی کی خواہش کا اظہار بھی کیا ہے لیکن اس کے بے شمار بیانات مغرب کی اسی سامراجی ذہنیت، تہذیبی تکبر اور تعصب کا اظہار کرتے ہیں جو ’’سفید آدمی کے بوجھ‘‘ کی اصطلاح اور ’’آفاقی تہذیب‘‘ کی اصطلاح سے مترشح ہوتی ہے۔  کثیر تہذیبی دنیا میں رواداری، اعتدال اور انسانی حقوق کی پاسداری اور بے تعصبی کی ضرورت ہوتی ہے جو کم از کم اسلام کے حوالے سے اس کے ہاں مفقود نظر آتی ہے۔  گویا یہ بھی ایک نیا ڈسکورس ہے جو طاقتور قوم کی طرف پسماندہ اقوام کی نفسیات کے عین مطابق استعمال ہوا ہے۔  ان کی نفسیات و خواہشات کے مطابق ان کے تہذیبی وجود کو تسلیم کر لیا گیا ہے لیکن عالمی سکون اور امن و امان کے لیے نہیں بلکہ مغرب کو متحد کرنے، مستحکم کرنے اور کئی کمزور تہذیبوں کے وجود پر مغرب کی تہذیبی برتری کو قائم رکھنے کے لیے کیونکہ اس کے نزدیک اس کثیر تہذیبی دنیا میں مغربی تہذیب ہی ارفع  و اعلیٰ ہے۔  اس نے اس کتاب کو مستقبل کی پالیسی کے لیے مفید قرار دیا ہے۔  چنانچہ سرد جنگ کے خاتمے اور پھر ۱۱/۹ کے بعد سے مغرب بالخصوص امریکہ کی جو پالیسی مسلمانوں کے بارے میں ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔ [2]

ابتدا میں ذکر کیا گیا ہے کہ موجودہ مغرب کی سیاسی فکر ہَن ٹِنگ ٹَن اور فوکویاما کے نظریات کے گرد گردش کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور ہَن ٹِنگ ٹَن نے فوکویاما کے تصور ’’تاریخ کا خاتمہ‘‘ کے بعد بلکہ اس کے ردِ عمل میں اپنے تصورات کو پیش کیا ہے لہٰذا ہَن ٹِنگ ٹَن کے اس تناظر یعنی فوکویاما کے تصورات سے واقفیت بھی ضروری ہے۔  سرد جنگ میں بالآخر لبرل جمہوریت فتح یاب ہو گئی۔  تخلیقی عمل اور سیاسی، معاشی، عسکری، تنظیمی سطح پر اس مقام پر پہنچ گئی جہاں مغرب نے کامیابی کے نشے میں سرشار ہو کر تاریخ کے خاتمے کے حوالے سے آفاقی تہذیب کا نیا فلسفہ پیش کر دیا۔  فرانسس فوکو یاما (Francis Fukuyama)نے ’’تاریخ کا خاتمہ‘‘ (End of History۔ ۱۹۹۲ئ)میں اس موقف کا اظہار کیا کہ انسان فطری طور پر آزادی، برابری اور خود توقیری کا خواہش مند ہے۔  دنیا میں جتنی جنگیں ہوئیں وہ اسی خواہش کا مظہر ہیں۔  انسان کی یہ خواہش ’’آزاد جمہوری نظام‘‘ اور ’’انفرادی خوشحالی‘‘ میں مضمر ہے۔  جیسے جیسے لبرل (آزاد) جمہوریت اور معیشت کا نظام قائم ہوتا جائے گا۔  قوموں کے درمیان جھگڑے ختم ہو جائیں گے۔  انسان انسان کی حیثیت سے پہچانا جائے گا اور یہ تاریخ کا اختتام ہو گا۔  انسان آزادی کا متمنی ہے۔  یہ اسے لبرل (آزاد) جمہوریت میں ملے گی۔  انسان معاشی ضرورت کے ہیجان میں پریشان ہوتا ہے، یہ پریشانی آزادانہ بین الاقوامی تجارت سے دور ہو جائے گی۔  لبرل جمہوریت کی فتح کے روپ میں انسان تاریخ کے ایسے ہی مقام پر پہنچ چکا ہے۔  بالفاظِ دیگر یہ کہ لبرل جمہوریت ہی انسان کا آفاقی مقدر ہے۔ ’’انسانیت کی تاریخ اپنی آخری حد تک پہنچ چکی ہے۔  انسان نے اپنے اس مقام کی تلاش میں کئی خونریز لڑائیاں لڑی ہیں مگر اب تاریخ کی آخری حد یہ ہے کہ وہ ایک آفاقی اور یک نوعیتی ریاست کے قیام میں باہمی مطابقت سے آفاقی موافقت میں ڈھل گیا ہے۔  اب اسے اپنے مقام کی پہچان کے لیے کسی تگ و دو کی ضرورت نہیں رہی۔ ‘‘ اب انسان مطمئن ہے وہ آزاد جمہوری سیاست اور آزاد منڈیوں میں آزادانہ تجارت کے اصولوں پر پابند رہ کر سیاسی آزادی اور خوشحالی کی نعمتوں سے مستفید ہو رہا ہے۔  لہٰذا اب اسے کسی تاریخ ساز جدوجہد کی ضرورت نہیں رہی۔  جس راہ پر اب ریاستیں چل پڑی ہیں وہ انسان کی ترقی کا آخری راستہ ہے جس میں ’’سیاست اور معیشت اپنے باہمی تعلق کی بنا پر‘‘ قومی زندگی کو استوار کر رہی ہیں [3]   ’’ہوسکتا ہے ہم تاریخ کا خاتمہ دیکھ رہے ہوں۔  یعنی بنی نوعِ انسان کے نظریاتی ارتقا کا آخری نقطہ اور مغربی لبرل جمہوریت کا انسانی حکومت کی حتمی شکل میں آفاقی حیثیت اختیار کر لینا۔ ‘‘ [4]

یہ مغرب کا آفاقی تہذیب کا تصور ہے۔  ہَن ٹِنگ ٹَن نے (بظاہر) اس کو رد کرتے ہوئے اس کے رد عمل میں اپنا تہذیبی تکثیریت اور تہذیبی تصادم کا نظریہ پیش کیا ہے۔  وہ لکھتا ہے:

سامراجیت آفاقیت کا لازمی و منطقی نتیجہ ہے۔  یہ عمل صرف مغربی طاقت کی توسیع، اطلاق اور اثرات کے نتیجے میں ہو گا‘‘ ۔ ’’آفاقی تہذیب کا تصور مغربی تہذیب کی مخصوص پیداوار ہے۔ انیسویں صدی میں ’’سفید فام آدمی کے بوجھ ‘‘ کے تصور نے غیر مغربی معاشروں پر مغرب کے سیاسی اور معاشی غلبے کا جواز فراہم کیا۔  بیسویں صدی کے اختتام پر آفاقی تہذیب کا تصور دوسرے سماجوں پر مغربی ثقافتی بالادستی اور ان سماجوں کے مغربی رواجوں اور اداروں کی نقالی کرنے کی ضرورت کا جواز فراہم کر رہا ہے۔  آفاقیت غیر مغربی ثقافتوں سے محاذ آرائی کے لیے مغرب کا نظریہ ہے۔ [5]

کیا واقعی ہَن ٹِنگ ٹَن آفاقی تہذیب کے تصور کو رد کرتا ہے یا ایک نئے ڈسکورس میں (تہذیبی تکثیریت کے روپ میں ) اسی تصور کو آگے بڑھاتا ہے۔  اس سوال کا جواب درج ذیل بحث میں موجود ہے۔

ہَن ٹِنگ ٹَن سمیت اکثر مؤرخین اور ماہرین موجود دنیا میں اور دنیا کی تاریخ میں تہذیبی تکثیریت کے قائل ہیں۔  مختلف مؤرخین نے تاریخ میں بڑی بڑی تہذیبوں کی نشاندہی کی ہے۔  اسپینگلر (Spengler)، ٹائن بی (Toynbee)، کوئیگلی (Quigley)، مک نیل(Mc Neill)، بیگ بے (Bagby)، براؤڈل (Braudal)، روسٹووانی(Rostovanyi)، میلکو(Melko)  وغیرہ کثیر تہذیبی تصور کے قائل ہیں۔  خود ہَن ٹِنگ ٹَن نے موجودہ دور میں آٹھ بڑی تہذیبوں کی نشاندہی کی ہے۔  ۱صینی/چینی/ کنفیوشسی۔  ۲جاپانی۔  ۳ہندو۔  ۴اسلامی۔  ۵مغربی۔  ۶آرتھو ڈوکس۔ ۷لاطینی امریکی۔  ۸۔ افریقی (ممکنہ)۔ [6]

گویا ہر دور میں بیک وقت مختلف تہذیبیں موجود رہی ہیں۔  آج جبکہ مغربی تہذیب عروج پر ہے تو اس کے ساتھ ساتھ اسلامی، چینی، جاپانی تہذیبیں بھی مسلسل اپنا اثبات کر رہی ہیں ماضی میں جبکہ اسلامی تہذیب عروج پر تھی تو اس کے ساتھ مغربی تہذیب بھی موجود تھی چینی بھی، جاپانی بھی۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب تاریخی اعتبار سے کثیر تہذیبی صورتحال رہی ہے اور آج بھی موجود ہے تو کیا کسی تہذیب کی آفاقیت ممکن ہے؟

بالعموم ’’آفاقی تہذیب‘‘ کی اصطلاح کا مطلب یہ ہے کہ تمام تر بنی نوع انسان تہذیبی طور پر ایک دوسرے کے قریب ہیں۔  پوری دنیا میں اقوام ایک جیسی اقدار، ایک جیسی رسومات و رواج، ایک جیسے خیالات و عقائد، ایک جیسے اداروں گویا ایک ہی تہذیب کو قبول کرتے ہیں۔

آفاقیت کے بارے میں ہَن ٹِنگ ٹَن کا وہ بیان جو اس سے قبل درج کیا گیا ہے اس سے آفاقیت کے پس منظر، نوعیت اور مقاصد پر بھی روشنی پڑتی ہے۔  اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ آفاقی تہذیب کا تصور مغربی تہذیب کا پیدا کردہ ہے۔  انیسویں صدی میں  یورپ کے نو آبادیاتی سامراج کے تصور ’’سفید آدمی کا بوجھ‘‘ نے استعماری فتوحات اور سیاسی و معاشی غلبے کی توسیع کا جواز فراہم کیا، بیسویں صدی میں امریکی سرمایہ داری نے لبرل ازم، جمہوریت اور ٹیکنالوجی کے نام پراس ’’مشن‘‘ کو آگے بڑھایا اور اب عہد جدید میں ایک عالمی نظام یا عالمی تہذیب کا تصور مغربی ثقافتی بالا دستی کا جواز فراہم کر رہا ہے۔  تہذیبی آفاقیت دوسری تہذیبوں، دوسرے معاشروں اور دوسرے ملکوں پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے مغرب کا نظریہ ہے۔  حقیقت میں اس کی جڑیں دو صدیوں پہلے یورپی سامراج کے تصور میں موجود ہیں۔  انیسویں صدی میں یورپی سامراج کے نوآبادیاتی نظام کے تصور اور اس کی فتوحات کا مقصد بھی یہی تھا۔  بیسویں صدی میں امریکی سرمایہ داری کا مطمحِ نظر بھی یہی تھا اور اب نیو ورلڈ آرڈر یا عالمی تہذیب کا نقطۂ نظر بھی یہی سامراجی تسلط ہے۔  جب مغرب عالمی تہذیب یا عالمی نظام کی بات کرتا ہے تو وہ اپنی تہذیب کی بات کرتا ہے، اپنی تہذیب کے رواج اور تسلط کی بات کرتا ہے جو جدید مغربی سامراج کی ایک بھیانک شکل ہے۔ [7]  انیسویں صدی میں جب کپلنگ(Kipling) نے ’’سفید آدمی کے بوجھ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی[8]  اس وقت بھی تیسری دنیا پر حکومت کے لیے مغربی سامراج کی راہوں کو ہموار کرنا مقصود تھا، آج جب فوکو یاما (Fukuyama) ’’تاریخ کے خاتمہ‘‘ کی بات کرتا ہے کہ نظریاتی کشمکش ہی انسانی تاریخ کے ارتقا کی حقیقی محرک ہے اور مغرب نے سویت یونین کو شکست دے کر مغربی لبرل جمہوریت کی فتح کو ثابت کر دیا ہے، گویا آج مغربی لبرل جمہوریت اپنی آفاقی شکل میں سامنے آ گئی ہے۔  دنیا کے سامنے اب ایک ہی راہِ نجات ہے۔  امریکی اسلوبِ زیست کا راستہ۔ [9] تو اس کا مقصد بھی مغربی سامراج کی راہوں کو ہموار کرنا ہے۔

گویا آفاقی تہذیب کا یہ تصور مغرب کا سامراجی تصور ہے اور اسی تہذیبی مشن کا حصہ ہے جو مغرب نے نو آبادیاتی نظام کو مستحکم کرنے کے لیے وضع کیا۔  آفاقی تہذیب کا یہ ملوکانہ تصور انسانی اور تہذیبی نفسیات کے خلاف ہے کیونکہ ہر تہذیب اپنا اثبات چاہتی ہے۔  عہد جدید میں فوکویاما نے تاریخ کی پختگی کے تصور کے تحت مغربی لبرل جمہوریت کی آفاقیت کا جو تصور پیش کیا ہے کہ اب مغرب کی آزاد جمہوریت اور آزاد تجارت ہی انسانی فلاح و نجات کا واحد راستہ ہے، اگر ہَن ٹِنگ ٹَن کے ڈسکورس کا تجزیہ کیا جائے تو اس کا تہذیبی تکثیریت کا نظریہ بھی بالآخر اسی مغربی آفاقی تہذیب کے تصور میں بدل جاتا ہے۔  اس کے نزدیک چینی، جاپانی، ہندی، افریقی، لاطینی، امریکی اور اسلامی سب تہذیبیں جس اکیلی توانا اور طاقتور تہذیب سے ٹکرا رہی ہیں وہ جدید مغربی تہذیب ہے۔  وہ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ فی الوقت مغرب (یعنی انسانیت) کو سب سے بڑا خطرہ بنیاد پرستی، تنگ نظری، تشدد، جہالت اور آمریت کی وجہ سے اسلامی تہذیب سے ہے۔  چنانچہ آج اگرچہ مغربی تہذیبوں کی بنیادوں میں زوال کے آثار دکھائی دے رہے ہیں تاہم مغربی تہذیب آج بھی دنیا کی تمام تہذیبوں میں اپنی روشن خیالی، سائنسی ترقی، جمہوری اقدار، انفرادیت پسندی، سائنسی ترقی اور سیکولر ازم کی وجہ سے سب سے منفرد اور طاقتور تہذیب ہے اور ایک مہذب اور ترقی یافتہ تہذیب ہونے کی وجہ سے یہ مغرب کی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف اسلامی تہذیب کو بلکہ تمام دنیا کو مہذب اور ترقی یافتہ بنائے[10] بالفاظ دیگر مغربی مفکرین و سیاسیین کے نزدیک مغرب ہی دنیا کا واحد نجات دہندہ ہے اور انسانیت کی شرفِ عظمت کا واحد معیار مغربی تہذیب، مغربی لبرل جمہوریت ہے جس کی قیادت کا الوہی و تہذیبی فریضہ (مشن) یورپ کے بعد اب امریکہ کو سونپا گیا ہے۔

بین الاقوامی معاملات پر نظر ڈالی جائے تو صاف محسوس ہو جاتا ہے کہ مغربی تہذیب آج امریکہ کی قیادت میں ایک زبردست تہذیبی تکبر’’ خبطِ  عظمت‘‘ اور آفاقیت کے جنون میں مبتلا ہے اور اس کے سامنے ہَن ٹِنگ ٹَن کا فکری زاویہ رہنما اصول کے طور پر موجود ہے جس میں تہذیبی تکثیریت کا نظریہ تہذیبوں کے تصادم اور بالآخر مغربی سامراجیت کے غلبے پر دلالت کرتا ہے اور اس کی بنیاد فوکو یاما کے آفاقی تصور نے مہیا کی ہے۔  گویا ہَن ٹِنگ ٹَن نے فوکویاما کی فکری بنیاد پر ہی اپنا تہذیبی تکثیریت اور تہذیبی تصادم کا نظریہ پیش کیا ہے۔  وہ اپنی بات تہذیبی آفاقیت کے رد عمل میں شروع کرتا ہے لیکن سامراجی عزائم کے تحت بین السطور گھوم پھر کر وہیں پہنچ جاتا ہے جہاں فوکویاما پہنچا تھا۔  اس طرح دونوں مفکرین کے نزدیک مغرب ہی دنیا کا واحد نجات دہندہ ہے۔

آفاقیت کا یہ مغربی سامراجی نظریہ باقاعدہ نظریے کے طور پر اب سامنے آیا ہے لیکن اس کی جڑیں مغربی تہذیبی مشن کی طویل تاریخ میں پیوست ہیں۔  (جیسا کہ گذشتہ صفحات میں ذکر ہوا) عالمگیریت پر مبنی اِس سامراجی آفاقی نظریہ کا سب سے زیادہ شدید حملہ جدید دنیائے اسلام پر ہوا ہے۔  مثلاً ڈینیل پائپس (Daniel Pipes)لکھتا ہے کہ ’’اسلام جدید بننے کے لیے کوئی متبادل طریقہ فراہم نہیں کرتا‘‘ [11]    ہَن ٹِنگ ٹَن کی کتاب ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ دراصل انہی نئی پرانی عصبیتوں کو ابھارنے کی ایک مذموم کوشش ہے جو جدید ترین پوشیدہ ڈسکورس میں کی گئی ہے مثلاً اسلام کو متشدد قرار دیتے ہوئے وہ لکھتا ہے:

اسلام کی سرحدیں خونیں ہیں ‘‘ ۔  ’’ مسلمانوں کا جھگڑا لوپن اور تشدد بیسویں صدی کے حقائق ہیں جن سے مسلمان انکار کرسکتے ہیں نہ غیر مسلم‘‘ ۔ ’’اسلام ابتدا ہی سے تلوار کا مذہب رہا ہے‘‘ ۔  ’’قرآن اور مسلم عقائد کے دوسرے بیانات میں تشدد کے امتناع کے بارے میں بہت کم احکامات ہیں اور عدم تشدد کا تصور مسلم عقائد اور عمل میں نہیں پایا جاتا۔ [12]

عالم انسانیت جس میں بیک وقت کئی تہذیبیں موجود ہوں اس کی تہذیبی، تاریخی، سیاسی، نفسیاتی، معاشی ضروریات آفاقی تہذیب کا وہ تصور پورا نہیں کرسکتا جو مغرب کی فاشسٹ اقتدار کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔  البتہ دنیائے انسانیت کو ایسی آفاقی اور عالمگیر تہذیب کی حاجت ضرور ہے جو تہذیبی تکثیریت کو برقرار رکھتے ہوئے تمام تہذیبوں کو ایک رشتہ اخوت میں منظم و متحد کر دے۔  کیا مغربی تہذیب یہ تمام تقاضے پورے کرتی ہے؟کیا مغربی تہذیب، لبرل جمہوریت یا مغرب کا عالمی نظام موجودہ دنیا کے مسائل کا واحد حل ہے؟ مغربی تہذیب کے عناصر ترکیبی، ’’تہذیبی مشن‘‘ اور ’’ملوکانہ نفسیات‘‘ کو مد نظر رکھا جائے تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ مغربی تہذیب، مغربی لبرل جمہوریت ہی دنیا کی نجات کا واحد راستہ ہے؟ اقبال کے نزدیک تو یہ ’’سرمایہ داروں کی جنگِ  زر گری‘‘ ہے۔  لبرل جمہوریت ’’نیلم پری‘‘ کے روپ میں ایک ’’دیو استبداد‘‘ ہے جس کا ’’چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر‘‘ ہے۔ اخلاقی اقدار کے فقدان کی وجہ سے مغربی سائنس کی ترقی اور لبرل جمہوریت اجتماعی فلاح  و بہبود کی بجائے ’’ملوکانہ اغراض‘‘ ، ’’حکمتِ  فرعونی‘‘ اور ’’حکمتِ  اربابِ کیں ‘‘ کا نمونہ بن کر رہ گئی ہے۔

حکمتِ اربابِ کیں مکر است و فن

 مکر و فن ؟ تخریبِ جاں تعمیر تن![13]

چنانچہ ’’American way of life‘‘ ، ’’A multipolar, multicivilizational world‘‘ ، ’’Universal civilization‘‘ ، ’’Justice‘‘ اور ’’Liberalism‘‘ کی جو تکرار بُش اور اوباما کے بیانات میں، فوکو یاما کی’’ تاریخ  کے خاتمے ‘‘ میں اور ہَن ٹِنگ ٹَن کے ’’تہذیبی تصادم‘‘ میں ملتی ہے۔  اور اسلامی ممالک کو مہذب، ترقی یافتہ اور جمہوری بنانے کا جو عزم مغربی بالخصوص امریکی سیاسی اور فکری قیادت کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے اس کو سمجھنے کے لیے مغرب کے اس سامراجی نو آبادیاتی ’’تہذیبی مشن‘‘ کو مد نظر رکھنا ضروری ہے جس کی بنیادوں پر مغربی تہذیب اور جمہوریت کی عمارت تعمیر ہوئی ہے اور آج جس کے پس منظر میں کپلنگ کا نظریہ ’’سفید آدمی کا بوجھ ‘‘ کار فرما ہے۔  اس ’’ملوکانہ نفسیات‘‘ اور ’’تہذیبی مشن‘‘ کے تحت یہ عزائم سراسر فریب کی حیثیت رکھتے ہیں۔  ظاہر ہے استعماری سیاست، ذاتی اقتصادی مفادات اور عالمگیریت کے روپ میں جدید ترین نو آبادیاتی نظام کے ذریعے عالمِ اسلام بلکہ دنیا کا ثقافتی و معاشی استحصال تہذیبوں کی ترقی کا ذریعہ تو نہیں بن سکتا، نئے عالمی نظام (New World Order)کے پردے میں تمام عالمِ انسانیت کے نظام کو اپنے قبضے میں لینا حقیقی لبرل جمہوریت کا مقصد تو نہیں ہوسکتا۔

اقبال نے بھی مختلف تہذیبوں، اسلام اور مغرب کے مطالعے اور ان میں افتراق و اتصال پر غیر معمولی گہرائی، توازن اور غیر جانب دارانہ رائے کا اظہار کیا ہے۔  ظاہر ہے تہذیبی تصادم اور تہذیبی یگانگت کی باقاعدہ تھیوری تو اقبال کے دور میں وجود میں نہیں آئی تھی تاہم انھوں نے ان مباحث پر اپنی شاعری اور نثری تحریروں میں پوری فکری بصیرت اور تاریخی تناظر میں تفصیل سے اظہارِ خیال کیا ہے۔  اس لیے باقاعدہ تھیوری پیش نہ کرنے کے باوجود ہم اقبال کے نظریات کا تجزیہ آج کے تناظر اور آج کے مفکرین کے ساتھ کرسکتے ہیں۔  یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اقبال نے اسلامی اور مغربی تہذیبوں کا تجزیہ سیاسی یا ہنگامی بنیادوں پر یا کسی سامراجی اقتدار کی سیاست سے وابستہ ہو کر نہیں کیا بلکہ غیرجانبداری کے ساتھ انسانی اور اصولی و فکری بنیادوں پر کیا ہے(درج ذیل مباحث میں اس کا تجزیہ ملاحظہ کیجیے)۔

آج جبکہ عالمی اقتصادی اور سیاسی بحرانوں نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے دنیا کے انسانیت نواز مفکرین اور سیاسی مبصرین ایسے سیاسی و معاشی عالمی نظام پر زور دے رہے ہیں جس کی بنیاد احترامِ آدمیت پر ہو۔  جس میں مختلف تہذیبیں اور ان سے وابستہ اقوام مل جل کر رہیں۔  جہاں تصادم کی بجائے اشتراکِ عمل کی فضا قائم ہو۔  آج نہ صرف اسلام اور مغرب میں موجود تناؤ کی کیفیت کا حل بلکہ تمام انسانیت کی بقا کا حل اتحادِ انسانیت میں مضمر ہے۔ یہ وہی خیالات ہیں جو نصف صدی پیشتر اقبال نے پیش کر رکھے ہیں۔

آدمیّت احترامِ آدمی

 باخبر شو از مقامِ آدمی[14]

یہ احترامِ آدمیت اور وحدتِ انسانی وہ ہے جسے مغرب کی سامراجی سیاست اور نو آبادیاتی آفاقیت و عالمگیریت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔  یہ انسانی اتحاد و آفاقیت تہذیبی تصادم، انسانی وحدتوں کی تخریب و تباہی اور اسلامی و مغربی تہذیبی بحران پر دلالت نہیں کرتی بلکہ صحیح معنوں میں انسانیت اور احترامِ آدمیت کی بنیادوں پر ایک مشترکہ بین الاقوامی برادری کی تشکیل کرتی ہے۔  آج نہ صرف اسلام اور مغرب کے درمیان مکالمے اور یگانگت و اشتراک کے لیے، بلکہ تمام اقوامِ عالم کے لیے اس انسانی نقطۂ نظر کی ضرورت ہے نہ کہ مغرب کے مادی اور سرمایہ دارانہ نقطۂ نظر کی۔  اس سلسلے میں ’’اقبال کا سالِ نو کا پیغام‘‘ (یکم جنوری ۱۹۳۸ء) ان کی تہذیبی فکر کا نچوڑ ہے۔  اسے اگر آج کے عالمی واقعات، اسلام اور مغرب کے حالات و حادثات اور بین الاقوامی تناظر میں رکھ کر دیکھا جائے تو  یوں محسوس ہوتا ہے کہ اقبال موجودہ حالات کو سامنے رکھ کر اپنی بات کہہ رہے ہیں۔  اس کا ایک ایک لفظ صداقت اور انسانیت پر مبنی ہے۔ اس تقریر میں مغرب کے سامراجی عالمی نظام کے مقابلے میں ایک انسانیت نواز نئے عالمی نظام کے اشارے پوشیدہ ہیں۔  اس تقریرسے واضح ہو جاتا ہے کہ اقبال مشرق و مغرب اور اسلامی و مغربی تہذیبوں کے درمیان ایک مکالمہ اور توازن کی فضا قائم کرنا چاہتے ہیں۔  ان کا تصادم سے دور کا بھی تعلق نہیں۔  ان کے افکار میں خفیف ترین سطح پر بھی کوئی ایسا اشارہ نہیں ملتا جسے اسلام اور عیسائیت یا اسلامی اور مغربی تہذیب کی جنگ یا تصادم کا نام دیا جا سکے۔  یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں اسلامی اور مغربی تہذیبوں کے تقابلی مطالعے کا ہر زاویہ بین التہذیبی ہم آہنگی، اتحاد، اشتراک، ایک دوسرے سے استفادے اور مکالمے کی طرف رُخ کرتا ہے۔ وہ ایک ایسی عالمی تہذیب کی بات کرتے ہیں جس میں تہذیبوں کی جنگ کی بجائے تہذیبوں کے اشتراک و اتحاد کا روشن اور وسیع المشرب تصور اُبھرتا ہے اور اسی تصور کے پس منظر میں اقبال کے افکار کو اور اقبال کے افکار کے حوالے سے اسلام کے افکار کو سمجھا جا سکتا ہے۔ اسی تصور کے پس منظر میں اقبال کے معاشرتی و تہذیبی افکار کی اور اقبال کے حوالے سے اسلام کے تہذیبی افکار کی معنویت اُبھرتی ہے۔  یہاں اس پیغام کا یہ اقتباس نقل کیا جاتا ہے:

تمام دنیا کے ارباب فکر دم بخود سوچ رہے ہیں کہ تہذیب و تمدن کے اس عروج اور انسانی ترقی کے اس کمال کا انجام یہی ہونا تھا کہ انسان ایک دوسرے کے جان و مال کے دشمن بن کر کرۂ ارض پر زندگی کا قیام ناممکن بنا دیں۔  دراصل انسان کی بقا کا راز انسانیت کے احترام میں ہے اور جب تک تمام دنیا کی عالمی قوتیں اپنی توجہ کو احترامِ انسانیت کے درس پر مرکوز نہ کر دیں یہ دنیا بدستور درندوں کی بستی بنی رہے گی…وحدت صرف ایک ہی معتبر ہے اور وہ بنی نوعِ انسان کی وحدت ہے جو رنگ ونسل و زبان سے بالاتر ہے۔  جب تک اس نام نہاد جمہوریت، اس ناپاک قوم پرستی، اس ذلیل ملوکیت کی لعنتوں کو مٹایا نہ جائے گا، جب تک انسان اپنے عمل کے اعتبار سے ’’الخلق عیال اللہ‘‘ کے اصول کا قائل نہ ہو جائے گا، جب تک جغرافیائی وطن پرستی اور رنگ ونسل کے اعتبارات کو مٹایا نہ جائے گا اس وقت تک انسان اس دنیا میں فلاح و سعادت کی زندگی بسر نہ کرسکیں گے۔  اور اخوت، حریت اور مساوات کے شاندار الفاظ شرمندۂ تعبیر نہ ہوں گے۔ [15]

اقبال کے نزدیک آدمیت یہی ہے کہ آدمی کا احترام کیا جائے۔  وہ اس تمام کرۂ ارض کو امن وسلامتی کا گہوارہ اور تمام انسانوں کے لیے ایک کشادہ اور خوبصورت گھر کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ مشرق و مغرب اور اسلامی و مغربی تہذیب دونوں میں ایک توازن کے قائل ہیں نہ کہ تصادم کے۔  انہوں نے اسلام کے آفاقی اصولوں اخوت، مساوات اور حفظ نوع انسانی کے حوالے سے کوشش کی ہے کہ ایک طرف تو یہ تہذیبیں اپنی اپنی انفرادیت برقرار رکھیں دوسری طرف ہر قسم کی غلط فہمیوں اور تنگ نظری و تعصب سے نکل کر امن و محبت، باہمی رواداری، انسانی حقوق کی بالادستی، بین المذاہب ہم آہنگی، تہذیبی سنگم اور بقائے باہمی کی طرف لوٹ آئیں اور اس کا حل یہی ہے کہ انسان انسان کے احترام کو اپنا شعار بنا  لے۔ چنانچہ یکم جنوری ۱۹۳۸ء کی مندرجہ بالا تقریر میں جہاں اقبال نے یورپی اقوام کی وحشت و بربریت کا پردہ چاک کیا ہے وہاں نسلِ انسانی کی نجات کے لیے اخوت و حریت پر مبنی انسانی نظام کی طرف بھی اشارے کیے ہیں۔ [16]

جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا کہ اقبال نے اسلامی اور مغربی تہذیبوں کا تجزیہ سیاسی یا ہنگامی بنیادوں پر یا کسی سامراجی اقتدار کی سیاست سے وابستہ ہو کر نہیں کیا بلکہ غیر جانبدارانہ انداز میں اصولی و فکری بنیادوں پر کیا ہے۔  ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے مسلمان ہونے کے ناتے مغرب کی ہر قدر کو قابل نفرت ٹھہرایا ہو بلکہ انہوں نے اسلام کی موجودہ تہذیب اور مغرب کی جدید تہذیب دونوں کے معائب اور محاسن کو واضح کیا ہے۔  چنانچہ ان کے ہاں ایسے اشعار بھی ملتے ہیں :

بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے مے خانے

یہاں ساقی نہیں پیدا وہاں بے ذوق ہے صبا[17]

اقبال نے دراصل دونوں کی خوبیوں اور خامیوں کو سامنے رکھ کر ایک دوسرے کو آئینہ دکھایا ہے۔  ان کا مطمح نظر یہ ہے کہ اہل مغرب اور اہل اسلام دونوں ایک دوسرے کی خوبیوں اور خامیوں پر نظر رکھ کر ایک دوسرے سے بات چیت کے ذریعے، ایک دوسرے سے مکالمے کے ذریعے استفادہ کریں تاکہ انسانی تہذیب کے یہ دونوں حصے انسانی زندگی کی فلاح و بہبود کے لیے ایک ہی وحدت کے طور پر کام کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال تمام کرۂ ارض کو امن وسلامتی کا گہوارہ دیکھنا چاہتے ہیں۔  فساد چاہے مغرب میں ہو یا مشرق میں، مسلمانوں کی وجہ سے ہو یا غیر مسلموں کی وجہ سے، وہ اس کے سخت مخالف ہیں۔  یہی وجہ ہے کہ اقبال نے جہاں مغرب کی استعماری اغراض، سائنس اور حکمت کے پنجۂ خونیں پر زبردست تنقید کی ہے وہاں پسماندہ اقوام کی جہالت، کم علمی اور بے عملی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔  انھوں نے جہا ں مغرب کو آدم شناسی اور حقوقِ انسانی کی پاس داری کی طرف توجہ دلائی ہے وہاں پسماندہ اقوام کو بھی خود داری و بیداری کا درس دیا ہے۔  جہاں انھوں نے کمزور اقوام کو مغرب کی سائنسی ترقی سے استفادے کی تلقین کی ہے وہاں مغرب کے لیے  بھی مشرق کی الہامی بنیادوں سے استفادے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔  حقیقت یہ ہے کہ آج ایک دوسرے سے استفادے اور افہام و تفہیم کا یہی لچک دار رویہ اتحادِ انسانیت کی فضا پیدا کرسکتا ہے اور ایک ایسے مشترکہ اور منصفانہ عالمی نظام کی تخلیق کرسکتا ہے جس کی بنیاد اخوت ومساوات اور وحدت انسانی پر ہو اور جس میں اقوام اپنے مسائل کو مکالمے کے ذریعے حل کرسکیں۔  اقبال کا یہی وہ عالمی نظام ہے جس میں کرۂ ارض کے تمام انسان ایک وحدت میں ڈھل کر اجتماعی فلاح  و بہبود کے لیے کوشش کرسکتے ہیں اور ایسا عالمِ نو وجود میں لا سکتے ہیں جہاں کسی بھی فساد کا حل مل جل کر نکالا جا سکے۔ بقول اقبال:

مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر

فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر[18]

اقبال جس تہذیبی تکثیریت کے قائل ہیں اس میں مختلف تہذیبیں تصادم اور مناقشت کا شکار نہیں ہوتیں بلکہ ایک دوسرے سے استفادے کے ذریعے ایک ایسی آفاقی تہذیب کو جنم دیتی ہیں جس کی بنیاد اخوت اور انسانی وحدت پر ہے۔ اقبال کو معلوم ہے تہذیبی اکثریت قوموں کی فطری اور نفسیاتی ضرورت بھی ہے اور کائناتی ارتقا کا وسیلہ بھی۔  لیکن ایسی تہذیبی تکثیریت ہی انسانی وحدت کو جنم دے سکتی ہیں جس میں نفرت اور رقابت کی بجائے اشتراکِ عمل اور مکالمے کا پہلو پایا جائے۔  ہَن ٹِنگ ٹَن (مغرب) تہذیبی تکثیریت کی جو صورت پیش کرتا ہے وہ بالآخر مغرب کی سامراجی آفاقیت میں ڈھل جاتی ہے اور اقبال کے نزدیک یہ سامراجی آفاقیت فتنہ و فساد، تنازع اور تصادم کو ہوا دیتی ہے۔

اقبال نے اپنے خطبات میں مغربی تہذیب کو اسلامی تہذیب کی ترقی یافتہ شکل قرار دیا ہے۔ [19] اس طرح دراصل مغربی تہذیب کو اسلامی تہذیب کی توسیع قرار دے کر وہ مغرب اور اسلام کے درمیان ایک پل یا رابطہ استوار کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ [20] دوسرے لفظوں میں اقبال اسلام اور مغرب کے مابین ایک رشتۂ مطابقت استوار کرنا چاہتے ہیں۔  ایک ایسا اشتراکِ عمل جس میں دونوں تہذیبوں کی فطری امتیازی خصوصیات بھی برقرار رہتی ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے قریب بھی آ جاتی ہیں اور اس طرح دونوں کے مابین ایک اصولی اور پُر امن مکالمے کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔  اِس دو طرفہ عمل کے ثبوت کے لیے محض پیامِ مشرق کا سرورق (للّٰہ المشرق والمغرب) اور دیباچہ ہی کافی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال اسلام اور مغرب میں تنازع کے نہیں بلکہ ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ ، ’’جیو اور جینے دو‘‘  کے اصول کے تحت ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو پرامن لین دین کے قائل ہیں۔  ان کے نزدیک اہل اسلام اور اہل مغرب دونوں کے مستقبل کا انحصار افہام و تفہیم پر ہے کہ دونوں تہذیبیں ایک دوسرے کو کچھ سکھاتے ہوئے آگے بڑھیں۔  یہی تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ کا مقصود ہے۔  ہَن ٹِنگ ٹَن نے لیسٹرپیئرسن (Lester Pearson)کے حوالے سے چند سطور نقل کی ہیں جن کا ترجمہ یہاں پیش ہے۔  ان کے حوالے سے اقبال کے پیغام کی اہمیت ہمارے زمانے میں اور بھی نکھر کر سامنے آتی ہے:

۱۹۵۰ء کی دہائی میں لیسٹر پیئر سن نے خبردار کیا کہ انسان ایک ایسے زمانے میں داخل ہو رہا ہے جہاں مختلف تہذیبوں کو ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو پرامن لین دین کے ساتھ ایک دوسرے سے سیکھتے ہوئے، ایک دوسرے کی تاریخ اور آدرشوں اور فن و ثقافت کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کی زندگیوں کو زرخیز بناتے ہوئے زندگی بسر کرنا سیکھنا ہو گا۔  اِس پر ہجوم چھوٹی سی دنیا میں دوسرا راستہ کشیدگی، تصادم اور آفات کا ہے۔  امن اور تہذیب دونوں کے مستقبل کا انحصار دنیا کی بڑی تہذیبوں کے سیاسی و روحانی اور علمی رہنماؤں کے درمیان افہام و تفہیم اور تعاون پر ہے۔ [21]

کیا یہ وہی باتیں نہیں ہیں جو اقبال نے ۱۹۵۰ء سے پہلے کہی تھیں، یعنی تہذیبی تکثیریت اور تعاون و اتحاد کا نقطۂ نظر۔

ہَن ٹِنگ ٹَن نے تو اسلام کو تشدد، تنگ نظری، بنیاد پرستی، قدامت پسندی اور تلوار کا مذہب قرار دیا ہے لیکن اقبال کے نزدیک حقیقی تکثیریت و آفاقیت، مکالمے اور پُر امن لین دین کے لیے آج اسلام ہی اہم ترین کردار ادا کرسکتا ہے اس لیے کہ اسلام میں سب انسان برابر ہیں۔  اسلام انسانی مساوات، اخوت اور حریت کی بنیادوں پر قائم ہے۔  اسلام ہی وہ دین ہے جو ’’نہ قومی ہے نہ نسلی نہ انفرادی نہ پرائیویٹ بلکہ خالصتاً انسانی ہے‘‘ اور جس کا ’’مقصد باوجود تمام فطری امتیازات کے عالمِ بشریت کو متحد و منظم کرنا ہے۔ ‘‘ [22]

بالفاظِ دیگر یوں کہیے کہ بنی نوع انسان کے اقوام کو باوجود شعوب  وقبائل اور الوان والسنہ کے اختلافات کو تسلیم کرنے کے ان کو ان تمام آلودگیوں سے منزہ کیا جائے جو زمان، مکان، وطن، قوم، نسل، نسب، ملک وغیرہ کے ناموں سے موسوم کی جاتی ہیں۔  اور اس طرح سے اس پیکر خاکی کو وہ ملکوتی تخیل عطا کیا جائے جو اپنے وقت کے ہر لحظہ میں ابدیت سے ہمکنار ہو۔ [23]

اور اسی لیے اقبال نے نکلسن کے نام لکھا ہے:

مقصود اسلام کی وکالت نہیں ہے بلکہ میری قوتِ  طلب و جستجو تو صرف اس چیز پر مرکوز رہی ہے کہ ایک جدید معاشری نظام تلاش کیا جائے، اور عقلاً یہ ناممکن معلوم ہوتا ہے کہ اِس کو شش میں ایک ایسے معاشری نظام سے قطع نظر کر لیا جائے جس کا مقصدِ وحید ذات پات، رتبہ و درجہ، رنگ ونسل کے تمام امتیازات مٹا دینا ہے۔  اسلام دنیوی معاملات میں نہایت ژرف نگاہ بھی ہے اور پھر انسان میں بے نفسی اور دنیوی لذائذ و نعم کے ایثار کا جذبہ بھی پیدا کرتا ہے اور حسنِ معاملت کا تقاضا یہی ہے کہ اپنے ہمسایوں کے بارے میں اسی قسم کا طریقہ اختیار کیا جائے۔  یورپ اِس گنج گراں مایہ سے محروم ہے اور یہ متاع اسے ہمارے ہی فیضِ صحبت سے حاصل ہوسکتی ہے۔ [24]

اگر عالمِ بشریت کا مقصد اقوامِ انسانی کا امن، سلامتی اور ان کی موجودہ اجتماعی ہیئتوں کو بدل کر ایک واحد اجتماعی نظام قرار دیا جائے تو سوائے نظامِ اسلام کے کوئی اور اجتماعی نظام ذہن میں نہیں آ سکتا۔  اس کی رُو سے اسلام محض انسان کی اخلاقی اصلاح ہی کا داعی نہیں۔  بلکہ عالمِ بشریت کی اجتماعی زندگی میں ایک تدریجی مگر اساسی انقلاب بھی چاہتا ہے جو اس کے قومی اورنسلی نقطۂ نگاہ کو یکسر بدل کر اس میں خالص انسانی ضمیر کی تخلیق کرے۔ [25]

اسلامی تعلیمات کی روح کسی خاص گروہ سے مختص نہیں ہے۔  اسلام تو کائناتِ  انسانیت کے اتحادِ عمومی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کے تمام جزوی اختلافات سے قطع نظر کر لیتا ہے اور کہتا ہے:’’تَعَالَوُا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوأٓئٍ بَیُنَنَا وَ بَیُنَکُمُ…

…در اصل خدا کی ارضی بادشاہت صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام انسان اِس میں داخل ہو سکتے ہیں بشرطیکہ وہ نسل اور قومیت کے بتوں کی پرستش ترک کر دیں اور ایک دوسرے کی شخصیت کو تسلیم کر لیں۔ [26]

 اس طرح اسلام تہذیبوں کی اکثریت کو قبول کرتا ہے اور اکثریت کے باوجود انھیں انسانی بنیادوں پر اس طرح متحد کرتا ہے کہ ایک صحیح آفاقی انسانی عالمی نظام وجود میں آ جاتا ہے۔  یہی اقبال کی ’’روحانی جمہوریت‘‘ ہے۔ [27]

اقبال اسلامی اصولوں کی روشنی میں تہذیبی تکثیریت اور اس تکثیریت میں اتحاد و اتفاق کے ذریعے تہذیبی آفاقیت کے قائل ہیں، اسی بنیاد پر وہ اسلام اور مغرب کے درمیان مکالمہ چاہتے ہیں۔  وہ چاہتے ہیں کہ اسلام اور مغرب بلاشبہ اپنے فطری امتیازات یا (خودی) کو قائم رکھیں لیکن غیر ضروری امتیازات اور اختلافات بات چیت کے ذریعے دور کر کے پرامن بقائے باہمی اور احترامِ آدمیت کے اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے مل جل کر زندگی گزاریں۔  اسی میں ان کی بقا اور ترقی ہے۔  اپنے اپنے امتیازات اور انفرادیت قائم رکھتے ہوئے ایک آفاقی تہذیب کی تخلیق عہدِ  جدید کے تقاضوں کے عین مطابق بھی ہے، اسلامی  و مغربی تہذیبوں کی لازمی ضرورت بھی اور اقبال کے تصورِ خودی کے عین مطابق بھی۔

آفاقیت کا یہ تصور مغربی آفاقیت کے تصور سے بہت مختلف ہے جو تمام تہذیبوں کو اپنے رنگ میں رنگنا چاہتی ہے اورجس کا نتیجہ آج بالخصوص اسلام سے تناؤ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔

گذشتہ صفحات میں پیش کردہ ہَن ٹِنگ ٹَن، فوکویاما، پائپس وغیرہ (غرض مغرب) کے خیالات کو مد نظر رکھا جائے تو مغربی سیاست اور مغربی تہذیب کسی دوسری تہذیب کو ـ(یا اسلامی تہذیب کو) اپنا تشخص قائم رکھتے ہوئے آزادانہ طور پر زندہ رہنے کی اجازت نہیں دیتی۔  بلکہ مکمل طور پر مغربی ماڈل اپنانے پر زور دیتی ہے جو اس کی ملوکانہ اغراض کی دلیل ہے لیکن اسلام نہ صرف مغربی تہذیب کو بلکہ دوسری تمام تہذیبوں کے تشخص کو تسلیم کرتا ہے۔  خدا کی ارضی بادشاہت ایک طرف تو تمام قوموں کی تہذیبی انفرادیت کو برقرار رکھتی ہے بلکہ حریت ومساوات کے تحت تمام قوموں میں اتحادِ انسانیت، باہمی رواداری، بین المذاہب ہم آہنگی، امن و محبت، انسانی حقوق کی بالادستی اور تہذیبی سنگم کی کیفیت پیدا کر دیتی ہے۔  یوں ہر تہذیب، ہر مذہب اپنے اپنے عقائد پر قائم رہتے ہوئے بھی اخلاقی اصولوں کی وجہ سے اسلام کی ارضی بادشاہت کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے۔  پھر اس اتحاد یا آفاقیت کا مقصد کسی علاقے، کسی قوم، کسی تہذیب کو تسخیر کرنا یا مطیع بنانا نہیں یعنی اسلام کو مغربی ملوکیت کی طرح سامراجی مقاصد سے کوئی غرض نہیں ہے بلکہ وہ تو تمام انسانوں کو، تمام تہذیبوں کو برابری کی بنیاد پر انسانی حقوق اور مواخات کے رشتے میں پروتا ہے۔  اس طرح اسلام ایک کثیر الجہتی عالمی نظام یا عالمگیر نظام قائم کرتا ہے۔  یہ آفاقی یا عالمی نظام مغرب کے یک سمتی (یک قطبی) نظام کی طرح ظالمانہ نہیں ہے بلکہ وسیع النظر ہے۔  اس میں سب کو برابر کے مواقع حاصل ہیں۔ اسلام کی اساسی دعوت یہ ہے کہ دنیا کی تمام قومیں اور سارے انسان رنگ ونسل، ملک و ملت کے امتیازات ختم کر کے بھائی بھائی بن کر ’’جیو اور جینے دو‘‘ کے اصول پر کاربند ہو جائیں۔  اسلام کا تصور مذہبی گروہ بندی کا نہیں ہے بلکہ یہ تمام بنی نوع انسانی کی آزادی اور برابری کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔  یہ عالمگیر اور آفاقی دین ہے۔

اس کی بنیاد انسانی مساوات، ذات پات اور رنگ ونسل کی نفی، بھائی چارے کا فروغ، تمام قوموں کے درمیان عدل و انصاف کے قیام پر ہے اور اس کا بنیادی مقصد ایک ایسے عالمگیر انسانی معاشرے کی تشکیل ہے جس میں تمام دنیا کی قومیں اتحاد و یکجہتی کے ساتھ رہتے ہوئے پرامن طور پر زندگی بسر کریں۔  اور ہر قوم دوسری قوم کے مذہبی اور تہذیبی امور میں رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان میں کسی قسم کی دخل اندازی نہ کرے بلکہ ہر ایک پرامن طور پر اپنے مذہب کا پرچار کرے تاکہ جسے جو مذہب پسند آئے وہ اسے اختیار کرسکے۔ [28]

یوں اسلام کا آفاقی تہذیب کا تصور بھی تہذیبی تکثیریت پر مبنی ہے جو مغرب کی طرح تصادم یا آفاقی سامراجیت و استعماریت کی طرف نہیں لے جاتا بلکہ انفرادیت و امتیاز قائم رکھتے ہوئے بھی اقوام کے درمیان ہم آہنگی پیدا کر کے ایک عالمگیر معاشرے کی تشکیل کرتا ہے۔  یہی وجہ ہے کہ اقبال اسلام کو ایک مذہب کی بجائے ایک قوت یا روحانی نظام کا لقب دیتے ہیں اور اس کی ازلی اور ابدی بنیادوں پر وہ انسانیت کو متحد کرنا چاہتے ہیں۔ [29]

اس سلسلے میں ایک اور پہلو کا تجزیہ بھی ضروری ہے۔  مغربی تہذیب کے سلسلے میں تین رویے اختیار کیے جا سکتے ہیں۔

۱…ایک تو مغربی تہذیب کے مکمل استرداد کا رویہ۔  یہ رویہ منفی ہے اور قدامت پرستی و تنگ نظری پر مبنی ہے۔  اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال نے مغربی تہذیب کو کلیتہً رد کرنے کی بجائے اس سے نہایت احتیاط کے ساتھ استفادہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔  اسلام کی آفاقیت کے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے یہ تہذیبی امتزاج اور بھی ضروری ہے۔

۲…دوسرا رویہ مغربی تہذیب کی اندھی نقالی کا ہے یعنی مغربی ماڈل کو بجنسہٖ اختیار کرنا۔  مغربی کلچر کو اپنی پوری زندگی پر حاوی کرنا۔  اقبال نے تجدد کے انتہا پسند علمبرداروں پر قدامت پرستوں کی طرح کڑی تنقید کی ہے۔  ان کے نزدیک یہ تہذیبی خودی کی نفی ہے۔

اس رویے نے اقبال کے نزدیک نہ صرف مسلمانوں کی معنوی روح کو کچل دیا ہے بلکہ مغربی تہذیب کی برتری کا یقین پیدا کر کے اس کی ملوکانہ اغراض اور سامراجی تہذیبی مشن کو بھی آگے بڑھانے میں مدد دی ہے۔  پس مغربی تہذیب کا یہ رد عمل بھی استرداد کی طرح ناکام ہے۔

۳…ان دونوں رویوں کے درمیان ایک تیسرا رویہ ابھرتا ہے جسے اصلاح پسندی یا آفاقیت کا رویہ کہا جا سکتا ہے۔  یعنی اپنی تہذیب کے بنیادی مزاج اور بنیادی اقدار کو برقرار رکھتے ہوئے مغربی تہذیب کے صحت مند اور زندہ (سیاسی، تکنیکی، سائنسی، معاشی) عناصر کو قبول کرنا۔  چنانچہ سیّد جمال الدین افغانی، مفتی محمد عبدہ‘، سرسیّد، شبلی، سیّد امیر علی، نامق کمال، مفتی عالم جان اور اقبال جیسے روشن خیال مفکرین نے بڑی جرأت کے ساتھ اس رویے کو قبول کرتے ہیں [30] اور اسی رویے کے تحت مغرب کے ان عناصر کو اپنی تہذیب میں جذب کر کے تہذیبی ہم آہنگی، پُر امن بقائے باہمی اور مکالمے کا ثبوت دیتے ہیں۔  ان کے نزدیک مغرب کی برابری بلکہ مقابلہ اسی طرح کیا جا سکتا ہے۔

اِن اصلاح پسند مفکرین کے ہاں جدیدیت اور مغربیت کا واضح فرق ملتا ہے۔  مغربیت یہ ہے کہ مغربی تہذیب اور مغربی تہذیب کی اقدار کو جوں کا توں قبول کر لیا جائے یعنی اندھی تقلید۔ اور جدیدیت یہ ہے کہ اپنی بنیادی اقدار بھی قائم رہیں اور مغربی تہذیب کے زندہ اجزاء بھی جذب کر لیے جائیں۔ [31] یہ نظریۂ عاریت (Borrowing Theory) ہے۔ جس میں تہذیبیں دوسری تہذیبوں سے چیزیں مستعار لیتی ہیں اور ان کو ڈھال کر، بدل کر، جذب کر کے اپنی تہذیب کی اساسی اقدار کو مستحکم کرتی ہیں اور دوسری تہذیبوں کی بقا کی ضمانت دیتی ہیں۔ [32]

یہ اصلاح پسند مفکرین جدیدیت اور مغربیت میں فرق کی بنیاد پر اسی نظریۂ عاریت کے قائل ہیں چنانچہ جمال الدین افغانی ہوں، سرسیّد ہوں یا اقبال ان کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اسی ’’ثقافتی مستعاریت‘‘ کو مد نظر رکھتے ہیں۔

تہذیبی تکثیریت کا یہ وہ تصور ہے جس میں اپنی تہذیبی خودی بھی برقرار رکھی جاتی ہے اور دوسری تہذیب کی خودی یا پاسداری بھی کی جاتی ہے۔  دوسری تہذیب کے بعض اجزاء کو قبول بھی کیا جا سکتا ہے اور بعض اجزاء کو رد بھی کیا جا سکتا ہے لیکن اِس رد میں اختلاف اصولی ہوتا ہے نہ کہ ذاتی اور متعصبانہ۔  اس لیے کسی تہذیب کے استحصال کی نوبت نہیں آتی بلکہ دوسری تہذیبوں کے ساتھ مسلسل ایک ڈائیلاگ کی کیفیت برقرار رہتی ہے اور بنیاد ی فکری امور میں اختلافات کے باوجود ایک ہم آہنگی کی فضا قائم رہتی ہے۔  اس طرح تہذیبی تکثیریت کا یہ نظریہ آفاقی تہذیب کے ایسے نظریے میں ڈھل جاتا ہے جس میں دیگر تہذیبیں بھی اپنا وجود رکھتی ہیں اور اپنا وجود رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ انسانی بنیادوں پر ہم آہنگ ہو جاتی ہیں۔  تہذیبی کشمکش کے اِس دور میں اسلام اور مغرب کو اِسی ’’ثقافتی مستعاریت‘‘ کی ضرورت ہے۔

غرض اقبال کے افکار کا مطالعہ کیا جائے تو ایسی تہذیبی تکثیریت ایسے عالمی نظام اور ایسی آفاقی تہذیب کی نشاندہی کی جا سکتی ہے جو ہَن ٹِنگ ٹَن کے مغربی نظام کے برعکس تمام انسانیت کو امن و سلامتی، فلاح و بہبود اور ترقی و خوشحالی کی طرف لے جا سکتا ہے۔  یہ نظام، یہ سوسائٹی اور یہ تہذیب اسلام ہے۔  اتحادِ انسانیت اور جمہوری مساوات پر مبنی عالمی نظام اور آفاقی تہذیب کے لیے اقبال کی نظریں اسلام کی آفاقی اقدار کی جانب اٹھتی ہیں۔  ان کے نزدیک اسلام ہی وہ دین ہے جو جزوی اختلافات سے قطع نظر کر لیتا ہے، جو فطری بشری امتیازات کو قائم رکھتے ہوئے عالم بشریت کو مشترک انسانی قدروں کی بنیاد پر متحد و منظم رکھتا ہے اور اس تہذیبی تکثیریت کا نتیجہ ہَن ٹِنگ ٹَن کے تصور تکثیریت کی طرح تہذیبی تصادم اور مغرب کی استعماری آفاقیت کی صورت میں نہیں نکلتا بلکہ اس کی بنیاد پر تو خدا کی اس ارضی بادشاہت میں تمام تہذیبیں اور تمام انسان ایک دوسرے کے تشخص کو تسلیم کرتے ہوئے داخل ہوسکتے ہیں اور مل جل کر امن وسکون اور تہذیبی ہم آہنگی کے ساتھ زندگی بسر کرسکتے ہیں۔  اس لیے کہ اسلام مغرب کے سامراجی آفاقی تصور کے برعکس تمام تہذیبوں، اقوام اور مذاہب کے تحفظ کا ضامن ہے اور مغرب کی منافقانہ و ملوکانہ پالیسیوں کی بجائے حقیقی عدل اور مساوات پر یقین رکھتا ہے۔  یہی اقبال کا ’’عالمِ قرآنی‘‘ ہے جو احترامِ آدمیت سے عبارت ہے، جو ’’بے امتیاز خون و رنگ‘‘ ہے لیکن یہ عالم ابھی تک وجود میں نہیں آ سکا اور ہم ابھی تک ایک ’’فرسودہ عالم‘‘ میں مقیم ہیں۔ [33] یہ عالم وجود میں آ سکتا ہے اور آج جبکہ دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے یہ کام اقبال کے افکار کی روشنی میں بہت اچھے طریقے سے سرانجام دیا جا سکتا ہے۔

اس بحث سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ ہَن ٹِنگ ٹَن بھی تہذیبی تکثیریت کا قائل ہے اور اقبال بھی لیکن ہَن ٹِنگ ٹَن کی تہذیبی تکثیریت سامراجی اقتدار کی سیاست سے وابستہ ہو کر تہذیبی تصادم کو جنم دیتی ہے اور سامراجی آفاقیت میں ڈھل جاتی ہے جبکہ اقبال کی تہذیبی تکثیریت انسانیت سے وابستہ ہو کر تہذیبی ہم آہنگی کو جنم دیتی ہے اور بین الاقوامی انسانی آفاقیت کو وجود میں لاتی ہے۔

٭٭

 

حواشی و حوالہ جات

[1] Flap, The Clash of Civilizations and the Remaking of World Order by S.P. Huntington, Touch Stone, New York, 1997

[2] ان بیانات کی تصدیق اور ہَن ٹِنگ ٹَن کے خیالات کی تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے:

Huntington, The Clash of Civilizations, especially pp.19 to 21, 28, 29, 102 to 124, 183, 209 to 218, 254 to 258, 308 to 312, 318 to 321.

[3] Francis Fukuyama, The End of History and the Last Man, (Book), The Hearst Corporation, New York, 1992, pp.288, 125.

[4] Francis Fukuyama, The End of History? (Article), The National Interest 16, (Bimonthly Journal), Washington D.C., Summer 1989, pp.4, 18.

[5] Huntington, The Clash of Civilizations, pp.310, 66.

[6] تفصیلات جاننے کے لیے ملاحظہ کیجیے:

            Huntington, The Clash of Civilizations, pp.44 to 48

[7] ملاحظہ کیجیے مضمون ’’تہذیبوں کا تقابلی مطالعہ:فکرِ اقبال کی روشنی میں ‘‘ ، از

٭ڈاکٹر عبدالمغنی، سہ ماہی مجلہ اقبال، جلد ۴۹، شمارہ۱، ۲، جنوری، اپریل ۲۰۰۲ء، ص۱۳، ۳۲۔

[8] کپلنگ کی نظم’’White Man’s Burden‘‘ (سفید آدمی کا بوجھ)، کے لیے دیکھیے:

            Rudyard Kipling, The Works of Rudyard Kipling ,Edited and published by  WordsWorth poetry library, Hertfordshire, 1994 (Reprinted), pp.323, 324.

[9] Francis Fukuyama, The End of History?, (Article), p.4,18;

Francis Fukuyama, The End of History and the Last Man, (Book), pp.283, 215

[10] Huntington, The Clash of Civilizations, See Part iv, pp.20,21,109 to 124, 311, 31.

[11] Denial Pipes, In the path of God, Basik Books, New York, 1983, pp.197, 198

[12] Huntington, The Clash of Civilizations, pp.258, 263

[13] اقبال، کلیاتِ اقبال فارسی، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور، ص۱۵/۸۱۱۔

[14] ایضاً، ص۲۰۵/۷۹۳۔

[15] اقبال، حرفِ اقبال، مرتبہ، لطیف احمد شروانی، ایم ثناء اللہ خاں، انشا پریس، لاہور، ۱۹۵۵ء، ص۲۲۴، ۲۲۵۔

[16] ایضاً۔

[17] اقبال، کلیاتِ اقبال اردو، اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۲۰۰۷ء، ص۳۶/۳۶۰۔

[18] ایضاً، ص۱۲۱/۶۲۱۔

[19] اقبال، تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، ترجمہ، سیّد نذیر نیازی، بزمِ اقبال، لاہور، ۱۹۹۴ء، ص۱۱۔

[20] ڈاکٹر جاوید اقبال، ’’اقبا ل اور تہذیبوں کے مابین مکالمے کی اہمیت‘‘ ، مشمولہ، اقبال مشرق ومغرب کی نظر میں، مرتبہ، سوندھی ٹرانسلیشن سوسائٹی، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور، ص۱۰۹، ۱۱۰۔

[21] Huntington, Clash of Civilizations, pp.321

            Lester Pearson, Democracy in world Politics, Princeton University Press, Princeton, 1955, p.83.84

[22] اقبال، مقالاتِ اقبال(جغرافیائی حدود اورمسلمان)، مرتبہ: عبد الواحد  معینی، آئینہ ادب، لاہور، ۱۹۸۸ء، ص ۲۶۶۔

[23] ایضاً، ص۲۷۶

[24] اقبال۔  اقبال نامہ، مرتبہ شیخ عطاء اللہ، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۲۰۰۵ء، ص۳۴۹، ۳۵۰۔

[25] اقبال، مقالاتِ اقبال(’’جغرافیائی حدود اورمسلمان‘‘ )، مرتبہ، عبد الواحد  معینی، ص۲۶۵، ۲۶۶۔

[26] اقبال، اقبال نامہ، مرتبہ، شیخ عطاء اللہ، ص۳۵۷، ۳۴۷۔

[27] اقبال، تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ(خطبہ ششم)، ترجمہ، سیّد نذیر نیازی، ص۲۷۵تا ۲۷۷۔

[28] مولانا محمد شہاب الدین ندوی، ’’عصرحاضر اور اسلام کی عالمگیر تعلیمات‘‘ ، مشمولہ ’’مجلہ اقبال (سہ ماہی)، بزمِ اقبال، لاہور، ۲۰۰۰، ص۳۷۔

[29] ڈاکٹر قاضی عبدالحمید، ’’اقبال کی شخصیت اور اس کا پیغام‘‘ ، مشمولہ اقبال کا تنقیدی مطالعہ، عشرت پبلشنگ ہاؤس، لاہور، ص۲۴۰۔

[30] ان مباحث کے لیے دیکھیے:

i)          ڈاکٹر جاوید اقبا ل، زندہ رود، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ۱۹۸۷ء، ص۱۵۹، ۱۶۰، ۱۹۶

ii)         ڈاکٹر جاوید اقبال، مضمون ’’اقبال اور تہذیبوں کے مابین مکالمے کی اہمیت‘‘ ، مشمولہ، اقبال مشرق و مغرب کی نظرمیں، مرتبہ، سوندھی ٹرانسلیشن سوسائٹی، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور، ۲۰۰۲ء، ص۱۰۹۔

iii)        اقبال، حرفِ اقبال، مرتبہ: لطیف احمد شیروانی، ص۱۴۸، ۱۴۹، ۱۵۱۔

iv)        John,L. Esposito, Islamic Threat: Myth or Reality, Oxford University Press ,New  York, 1992, p.55;

v)         Pipes, In the Path of God, p.114120.

vi)        L.S. Stoddard, The New World of Islam, Oxford University Press, New York, 1922, p.54.

[31] ڈاکٹر جاوید اقبال، مضمون ’’اقبال اور تہذیبوں کے مابین مکالمے کی اہمیت‘‘ ، مشمولہ، اقبال مشرق و مغرب کی نظر میں، ص۱۰۹۔

            آل احمد سرور، مقالہ ’’اقبال اور نئی مشرقیت‘‘ ، مشمولہ، دانشورِ اقبال الوقار  پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۳ء، ص۵۱، ۵۲۔

[32] i)Spenglar,”Decline of the West”,(Vol.II)A.A.Knopf,New York,1928, p.50.

ii)         Bozeman, "Civilization under Stress”, Virginia Quarterly Review51, (Winter 1975), pp.5.

iii)        Huntington, The Clash of Civilizations, pp.76.

[33] ’’عالمِ قرآنی‘‘ کے لیے ملاحظہ کیجیے:

            کلیاتِ اقبال فارسی، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ۱۹۷۵ء، ص۶۷تا۷۵/۶۵۵تا۶۶۳۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.allamaiqbal.com/publications/journals/iqbaliyat/jan12/6.htm

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید