FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

ہنسے تو پھنسے

 

(شعری مجموعہ)

 

احمد علوی

ماخذ: کتاب ایپ

 

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

انتساب

 

 

مجاہدِ اُردو

افتخار امام صدیقی

(مدیر ’’شاعر‘‘) کے نام

 

 

 

 

 

اپنا قلم اپنی بات

 

 

 

’’طمانچے‘‘ اور ’’پین ڈرائیو‘‘ کی بے پناہ مقبولیت کے ’’ہنسے تو پھنسے‘‘ میری تیسری کوشش ہے۔ طنزو ظرافت کا فن بہت مشکل فن ہے اور ایسے سماج میں جہاں ہنسنا بے ادبی کے زمرے میں شامل ہو تو اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔

ڈاکٹر سمویل جانسن کا یہ کہنا کم از کم اردو والوں پر صادق نہیں آتا کہ جو شخص روپے کے لالچ کے علاوہ کسی اور جذبے کے تحت کتاب لکھتا ہے اس سے بڑا بے وقوف روئے زمین پر نہیں ہو سکتا، یہاں تو اپنی جیب سے روپے لگا کر مجموعے شائع کرا کے تقسیم کرنے کا رواج ہے۔ حالانکہ مفت کی کتاب کو پڑھنے کا رواج نہیں ہے اگر صاحب کتاب کتاب پر کچھ نذرانہ بھی رکھ کر کتاب نذر کرے تو شاعری پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ جب اردو کا شاعر کتاب پر کتابت پر کاغذ پر طباعت پر کثیر رقم خرچ کرتا ہے یا سرکاری رقم خرچ کرواتا ہے تو اسے اس کتاب کو پڑھوانے کے لئے بھی کچھ بجٹ رکھنا چاہئیے۔ جیسے اردو کے سرکاری ادارے ایکسپرٹ کی رائے لینے کے لئے کتابیں پڑھنے کی اجرت دیتے ہیں۔ اس نکتے پر سرکاری اداروں کو بھی غور کرنا چاہیئے کیونکہ اگر کتاب بنا پڑھے ہی ردّی والے کو فروخت کر دی جائے تو یہ واقعی اردو کے شعری ادب کے ساتھ زیادتی ہے۔ جن کتابوں کا قاری موجود ہے خریدار موجود ہے جس شاعری کو لوگ سننا اور پڑھنا چاہتے ہیں اسے ہم بازاری ادب کہتے ہیں اور اردو کے ایکسپرٹ غیر معیاری کلام کے تمغے سے نوازتے ہیں یا اسے دوسرے یا تیسرے درجے کا ادب کہا جاتا ہے۔ جسے اردو میں کسی کی سرپرستی حاصل نہیں ہے۔ اور جسے معیاری ادب کہا جاتا ہے اس ادب کو کوئی پولس کے ٹارچر سے بھی نہیں پڑھنا چاہتا۔

ایک مفروضہ یہ بھی ہے کہ انسان کو بقول علامہ اقبال ع

لازم ہے دل کے پاس رہے پاسبان عقل

لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

اس شعر کو جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں اس کا خطاب سیدھا سیدھا ذہین حضرات سے ہے وہ شاید یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انسان کو ہر وقت ذہانت نہیں بگھارنی چاہیئے۔ کبھی کبھی کسی کی احمقانہ حرکتوں پر یا احمد علوی کی احمقانہ مزاحیہ شاعری پر ذہانت کو ایک طرف رکھ کر احمقوں کی طرح کھل کر ہنسنا چاہئیے۔ کیونکہ ہنسانے کا فن بھی احمقوں کے پاس ہے اور ہنسنے کی حس پر بھی احمقوں کا قبضہ ہے، اور دانشورانہ ذہانت ہنسی کی دشمن ہے۔ اور یہ کہ زیادہ ذہین شخص چوپائے کے اعلیٰ درجات حاصل کر لیتا ہے جس پر قدرت نے ہنسی کی نعمت حرام فرما دی ہے۔ میں یہاں ’’صفر‘‘ سے ایک شعر کوٹ کرنا چاہوں گا

ہم میں کہاں سے آئے محبت، وفا، خلوص

میں بھی بہت ذہین ہوں وہ بھی ذہین ہے

ذہین شخص کو ہنسی کی بات پر غصہ آتا ہے اور عام انسان کو احمقانہ حرکتوں پر ہنسی آتی ہے یہی باریک سا فرق ہے ذہانت اور حماقت میں اور اسی طرف علامہ اقبال نے اپنے شعر میں لطیف اشارہ کیا ہے، اردو میں ڈائریکٹ اپروچ کی شاعری کو اعلیٰ تسلیم نہیں کیا جاتا اردو میں غالب شاید اسی لئے بڑا شاعر ہے کیونکہ اس کی شاعری پر معانی کی ہزاروں پرتیں چڑھی ہوئی ہیں دیوانِ غالب ایک ہے مگر اس کی شرح بے شمار پھر بھی ابھی ایسا دعویٰ کسی نے نہیں کیا کہ غالب کی مکمل بازیافت کسی نے کر لی ہے۔ ہنوز یہ سفر جاری و ساری ہے، غالب کے معاصرین نے بھی غالب کی مشکل پسندی پر خوب طنز کئے حکیم آغا جان عیش کا یہ شعر ملاحظہ ہو۔

اگر اپنا کہا تم آپ ہی سمجھے تو کیا سمجھے

مزا کہنے کا جب ہے اک کہے اور دوسرا سمجھے

کلامِ میر سمجھے، اور کلامِ میرزا سمجھے

مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھے یا خدا سمجھے

اور غالب کی یہی مشکل پسندی ان کے لئے، عظمتوں کا وسیلہ بن گئی اردو کے تمام ناقدین نے غالب کے اشعار میں وہ معنی بھی تلاش کر لئے جو خود غالب نے بھی نہیں سوچے ہوں گے۔ آج ہمارے ذہین ناقدوں کی وجہ سے غالب کے مہمل اشعار بھی اردو ادب کا قیمتی سرمایا ہیں۔

در اصل یہ انسانی فطرت کا ایک حصہ ہے کہ جو بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی اسے وہ عظیم سمجھنے لگتا ہے۔ جو چیز مشکلوں سے حاصل کر پاتا ہے اسے قیمتی تصّور کرتا ہے، اور جو اشیاء اسے آسانی سے دستیاب ہو جاتی ہیں ان کی قدر نہیں کرتا۔ یعنی اپنی بیوی کے اگر دو آنکھ ہوں تو اسے کانی سمجھتا ہے اور پڑوسن اگر کانی بھی ہو تو پڑوسن میں اس کو چار آنکھیں نظر آتی ہیں۔ یہی معاملہ ادب کے ساتھ بھی ہے جو شعر قاری یا نقاد کو آسانی سے سمجھ آ جائے اس شعر کی قدر و قیمت گھٹ جاتی ہے۔ فکاہیہ ادب میں اگر ڈائریکٹ اپروچ نہیں ہے تو آپ کسی کو ہنسنے کے لئے مجبور نہیں کر سکتے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہو گا کہ مشاعرے کے سامع مشاعرے میں تو خاموش بیٹھے رہیں لیکن دوسرے یا تیسرے دن جب ان کو شعر سمجھ آئیں تب بے وقوفوں کی طرح قہقہے لگائیں۔ یا کتاب پڑھتے وقت تو اشعار پڑھ لیا جائے مگر ہنسنے کے لئے قاری کو اس شعر کی شرح تلاش کرنی پڑے جب وہ شرح پڑھنے کے بعد ہنسی کا مرحلہ طے کرے۔ اردو کی بہت ساری فکاہیہ شاعری ایسی ہے کہ اگر مجموعے پر طنزیہ مزاحیہ شاعری نہ لکھا ہو تو قاری آنسوؤں سے ہی غسل فرما لے۔ ویسے اردو کا عظیم مزاحیہ ادب اردو کی تنقیدی کتابوں میں محفوظ ہے مگر ان کتب کو اس لئے مزاحیہ کتب نہیں مانا جاتا کیونکہ ان پر ظریفانہ شاعری کا ٹیگ نہیں لگا ہوتا۔ ان تنقیدی کتب کو پڑھتے وقت میں نے کئی بار اپنی برجستہ ہنسی پر مشکل سے قابو پایا ہے کہ کوئی مجھے ہنستے دیکھ کر جا ہل نہ سمجھ بیٹھے۔

اردو میں عجیب تماشے دیکھنے کو ملتے ہیں اردو کے سمیناروں میں بڑے طویل مقالے انگریزی میں پڑھے جاتے ہیں اور اپنی انگریزیت کے رعاب جھاڑے جاتے ہیں مجھے شمس الرحمنٰ فاروقی کو دو سمینار وں میں سننے کا موقع ملا اور دونوں سمینار میں موصوف نے انگریزی کے علاوہ ایک لفظ اردو کا بولا ہو تو کافر۔ اردو کے سامع کو انگریزی میں آپ کیا سمجھانا چاہتے ہیں اگر آپ اتنے بڑے انگریزی داں ہیں تو انگریزوں سے انگریزی بولیے مگر ان کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ لندن میں جا کر شستہ اردو بولتے ہیں۔ کیونکہ وہاں ان کی اردو سمجھنے والا کوئی نہیں ہوتا، یہاں نکتہ یہ بر آمد ہوتا ہے کہ آپ اس طرح لندن میں بھی عظیم ہو گئے اور ہندوستان میں تو عظیم آپ پہلے سے ہیں ہی انگریزی بول کر۔ محترم اس نکتے سے واقف ہیں کہ جو بات سمجھ میں نہیں آئے وہ عظیم ہوتی ہے۔ جب کہ ان کے حریف گوپی چند نارنگ کو میں نے کبھی انگریزی بولتے نہیں دیکھا تو کیا میں یہ سمجھ لوں کے انہیں انگریزی نہیں آتی، اور وہ عظیم نہیں ہیں۔

ظریفانہ ادب کی سب سے بڑی خامی یہی ہے کہ یہ ادب سامع تک یا اپنے قاری تک ڈائریکٹ پہونچ رکھتا ہے اسے کسی ناقد یا کسی شارح کی ضرورت نہیں ہے۔ مزاح نگار کے پاس چھپانے کو کچھ نہیں ہوتا جو کہنا چاہتا ہے بے کم و کاست کہہ دیتا ہے۔ اگر بات تھوڑی سلیقے کی ہو جائے تو لطف آ جاتا ہے ورنہ پھبتی تو پھبتی ہے ہی۔

میں نے معاشرے کے تمام شعبہ جات پر ان سے جڑے اشخاص پر طنز کئے ہیں کچھ لوگوں کی دل آزاری بھی یقیناً ہوئی ہو گی میں ان سب سے معذرت خواہ ہوں جن اشخاص کی شان میں جو بھی گستاخیاں ہوئیں ہیں جان کر یا انجانے میں وہ صرف ہنسنے ہنسانے تک محدود ہیں ہنسی کی بات کو ہنسی میں اڑانا ہی عقل مندی کی دلیل ہے اس پر ردعمل ظاہر کرنا صحیح نہیں۔

کہتے ہیں جو چیز جتنی کم ہو وہ اتنی ہی قیمتی ہوتی ہے مگر مزاح کے ساتھ ایسا نہیں ہے یہ کم ہے اور بے قیمت ہے۔ دہلی میں غزل، نظم نعت منقبت کے بڑے بڑے عظیم کاریگر فن کار استاد موجود ہیں مگر مزاحیہ شاعر بقول فاروق ارگلی کے ڈیڑھ یا پونے تین سے زیادہ نہیں، یہ معاملہ صرف دہلی تک محدود نہیں اردو کے پورے منظر نامے پر کوئی قابلِ ذکر مزاحیہ شاعر موجود نہیں ہے اگر ہیں بھی تو وہ پردہ خفا میں ہیں۔

اگر طنز و مزاح کا سامع یا قاری سے رشتہ مضبوط نہ ہوتا تو ناقدانِ فن نے تو ظریفانہ ادب کا جنازہ کب کا نکال دیا ہوتا۔ دنیا کی تمام زبانوں میں مقبول ادب کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اردو ایک ایسی زبان ہے جس میں مقبول یا عوامی ادب کی نا قدری ہے۔ نظیر اکبر آبادی کی مثال ہمارے سامنے ہے، جنہیں ناقدانِ فن نے کبھی شاعر نہیں مانا جب کہ نظیر اکبر آبادی نے عوام کے دلوں پر راج کیا ہے۔ آج بھی اردو کے قاری کو نظیر کی نظمیں حفظ ہیں۔ ابنِ صفی کو کیا کسی ناقد کی ضرورت تھی یا آج ہے اس کا ناقد اس کا قاری تھا آج ناقدین اگا تھا کرسٹی اور کانن ڈائل کے ہم پلہ ابنِ صفی کو بتاتے پھریں مگر ان کی زندگی میں ان کے کام پر کیا کسی ناقد نے لکھنے کی کوشش کی ہمارے ناقدین نے ہمیشہ ایسی تخلیقات کو بازاری ادب کہہ کر ردّی کی ٹوکری میں پھینکنے کا کام کیا یہ اردو کی بد قسمتی ہے ابنِ صفی کی نہیں آج ہزاروں لوگ ایسے ہیں جو صرف اردو اس لئے سیکھنا چاہتے ہیں کہ اردو میں ابنِ صفی کے ناول ہیں۔ دلاور فگار، اسرار جامعی، پاپولر میرٹھی، ماچس لکھنوی، یوسف پاپا، اقبال فردوسی، اور ایسے کتنے نام ہیں جن پر کسی نقاد کی نظر کرم نہیں ہوئی۔ کالم نویس شاعر ادیب انسان کے بھیس میں جن محترم فاروق ارگلی نے طنزو مزاح کے معروف و غیر معروف شاعروں ادیبوں کو کہاں کہاں سے کھوج نکالا میرے خیال میں یہ کام انٹر نیٹ کی کھوجی سائٹ گوگل بھی نہیں کر سکتی تھی۔ اگر یقین نہ ہو تو گوگل پر سرچ کر کے دیکھ لو اگر اتنے مزاح نگار آپ کو مل جائیں جتنے فاروق ارگلی نے تلاش کر کے ان کے کچے چٹھے اپنے کالم دیوارِ قہقہہ میں چھاپ دیئے بجا طور پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔

میں نہ عظیم شاعر بننا چاہتا ہوں نہ عظیم ادیب صرف اپنے قاری کے لبوں پر تھوڑی سی ہنسی یا تبسم کی ایک لکیر کھینچ سکوں یہی میری شاعری کا مقصد ہے۔ میری کتابیں میرے قاری خرید کر پڑھتے ہیں مجھے کتابیں تقسیم نہیں کرنی پڑتیں میرے لئے یہ اعزاز بہت ہے۔ میں نام نہاد بقراطیوں کے لئے شاعری نہیں کرتا جہاں تک میرے شاعر دوستو کا معاملہ ہے تو مجھے تمام دوستوں سے بے انتہا محبتیں ملی ہیں۔ جہاں تک عظیم ہونے کا تعلق ہے تو ظفر اقبال کا یہ قول شاید تمام عظیم شاعروں کو راہ دکھا سکے کہ ہندوستان میں شاعری کے نام پر کلام موزوں کیا جا رہا ہے بشیر بدر نے زندگی میں صرف ایک شعر کہا ہے اس ایک شعر پر بھی تنازع ہے کہ اس میں ایک مصرعہ خالص بشیر بدر کا ہے اور دوسرا مصرعہ کسی گمنام شاعر کا کل اس ایک مصرعے پر بھی کوئی دعویدار نکل آئے تو بچارے بشیر بدر اس نصف شعر سے بھی محروم ہو جائیں گے، شہریار مرحوم اس ایک مصرعے یا ایک شعر سے بھی محروم ہیں کیونکہ مرحوم ہو چکے ہیں اگر ان کے لئے ظفر اقبال ہی ایک شعر کہہ دیں تو ان کا گیان پیٹھ با معنی ہو جائے۔ جب ایسے ایسے جغادری پہلوانوں کو اردو والے ماننے کو تیار نہیں ہیں تو میاں علوی آپ کس کھیت کی مولی ہیں۔ حالانکہ ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ ظفر اقبال نے اب تک کتنے نا موزوں شعر کہے ہیں ہندوستان میں موزوں شعر کہنے کا رواج ہے مگر پاکستان میں ناموزوں شعر کہے جا رہے ہیں پہلے موصوف شب خون کے لئے شاعری کرتے تھے جب سے شب خون بند ہوا ہے اب کس کے لئے شاعری کر رہے ہیں، یہ بھی طے ہونا باقی ہے کہ شب خون ان کی شاعری کی وجہ سے بند ہوا یا شب خون کے بند ہونے کی کوئی اور وجوہات تھیں یا اب شمس الرحمان فاروقی صاحب شب خون کو انگریزی میں نکالیں گے اور ظفر اقبال انگریزی میں غزلیں لکھیں گے۔ شاید یہ دونوں کارنامے ان لوگوں کو انگریزی میں تو نہیں اردو میں زندہ رکھیں۔ آج سے میں بھی انگریزی میں شاعری کرنے کی کوشش کرتا ہوں کیونکہ انگریزی میں شعر کہنا آسان ہے اس میں عروض بحر قافیہ ردیف کی پابندی نہیں کرنا پڑتی بقول ساغر خیامی ایک مصرعہ آپ گنآ اور دوسرا مصرعہ گنڈیری رکھ سکتے ہیں انگریزی قاری اسے ایک بار نہیں تین بار قبول کرتا ہے بالکل اپنی منکوحہ بیوی کی طرح۔ آپ کے تاثرات کا خیر مقدم ہے اپنی بے لاگ بیباک رائے سے ضرور نوازیں۔ احقر

10؍مارچ 2013ء احمد علوی

10/7 Bhargava Lane Bulevard Road

Tis Hazari Delhi 110054

ahmedalvi8@gmail.com

ahmedalvi786@gmail.com

 

 

 

 

جنگ

 

نہ مذہب لڑائے نہ مسلک ہمیں

ہے تعلیم ان کی مساوات کی

نہ مذہب کی ہے اور نہ مسلک کی جنگ

ہر اک جنگ ہے بس مفادات کی

٭٭٭

 

 

 

ایکسپرٹ

 

نہیں ہے اعلیٰ مقام میرا

نہیں معیاری کلام میرا

میں جانتا ہوں حقیر ہوں میں

امیر تو ہے فقیر ہوں میں

تو اہلِ دانش ہے میں ہوں جاہل

ادھورا میں اور تو ہے کامل

عروض سے بھی نہیں ہوں واقف

مگر تخئیل کا میں ہوں عارف

سخن شناسی نہ مجھ کو آئی

نہ داد اہلِ ہنر سے پائی

کتاب پہلی نہیں ہے میری

چھپی نہیں ہے کتاب تیری

میں کیا ہوں میرا پتہ ہے سب کو

ترے ادب میں شبہ ہے سب کو

ہیں میرے اشعار احمقانہ

نہیں ہے مقصد تجھے سنانا

تجھے بتاؤں معیار تیرا

کہاں سے جڑتا ہے تار تیرا

بدن میں دل نہ دماغ تیرے

جلیں کہاں سے چراغ تیرے

ہے نکتہ چینیوں کے ماہروں میں

کمی نکالے ہے شاعروں میں

سڑا ہوا کوئی آم دیکھا

جو تیرا اپنا کلام دیکھا

گدھوں میں عالی مقام تو ہے

کہ جاہلوں کا امام تو ہے

نہ تو سکندر نہ تو ہلاکو

صحیح کہا ہے قلم کا ڈاکو

نہ انتہا ہے نہ ابتدا ہے

گدھوں کی ٹولی کا بادشا ہے

ترا جو فن ہے وہ ایک پھن ہے

چھری نہیں ہے مشین گن ہے

یہاں تک آیا ہے کر کے مالش

تو آج بنتا ہے اہلِ دانش

تمام تنخواہ بچا رہا ہے

نہ کھا رہا نہ کھلا رہا ہے

ہے مسکراہٹ کا جانی دشمن

مزاح کی توڑتا ہے گردن

کوئی لطیفہ پچا نہ پایا

نہ خواب میں بھی تو مسکرایا

کئے کبھی بھی نہ کام سچے

تجھی سے ڈرتے ہیں تیرے بچے

غموں کی چہرے پہ سرسراہٹ

لبوں پہ دیکھی نہ مسکراہٹ

می میکری کے جو ہیں خلیفہ

سنا نہ پائے تجھے لطیفہ

کڑک بہت ہی سبھاؤ رکھا

ہمیشہ مونچھوں پہ تاؤ رکھا

نہ ذوق کی عظمتوں کا قائل

نہ میر کی رفعتوں کا قائل

یہ چیل کیا ہے یہ ماس کیا ہے

کہا کہ غالب کے پاس کیا ہے

کلام غالب میں کچھ نہیں ہے

مقام غالب میں کچھ نہیں ہے

فراق و جوش و مجاز کچھ بھی

نہیں ہیں فیض و فراز کچھ بھی

پتہ نہیں ہے مفاعلن کا

پتہ ہے فلمی فلاپ دھن کا

ہے جاہلوں پہ کہاں کی ڈگری

ہے دو ٹکے کی میاں کی ڈگری

نہیں ہے اردو کی تجھ کو نالج

گیا کہاں ہیں کبھی تو کالج

ہر اک پرچے میں نقل شامل

گریجویٹ ہے ادیب کامل

الف سے لکھتا رہا ہے عبدل

صحیح کبھی بھی لکھا نہ بالکل

ہمیشہ پُٹ کو پڑھایا پٹ ہے

کہ بُٹ ہی تو نے پڑھایا بٹ ہے

یہ روز پیتا ہے جام فٹ ہیں

جگاڑ اس کے تمام فٹ ہیں

مشاعروں میں بھی گا رہا ہے

مقالے پڑھ کر کما رہا ہے

نہیں ہے تحفوں میں کوئی جوکھم

قبول کرتی ہیں کیونکہ بیگم

مسوّدے پاس کر رہے ہیں

تجوری دولت سے بھر رہے ہیں

٭٭٭

 

آج کی لڑکیاں

 

لڑکیاں ہیں کمپیوٹر وائرس

زندگی کے واسطے ہیں ڈینجرس

کرتی ہیں اسکین لڑکوں کے دماغ

ہوش مندی کے بجھاتی ہیں چراغ

بات حق کہتا ہوں کر دیجے معاف

پہلے بھاری جیب کو کرتی ہیں صاف

پرابلم کرتی ہیں ڈاؤن لوڈ پھر

بینک کا معلوم کر کے کوڈ پھر

لڑکیاں لڑکوں کا مائنڈ سیٹ کر

بینک ایکاؤنٹ بھی کر لیں ٹرانسفر

لنچ کرتی ہیں ڈنر یہ مستقل

بھرتے ہی رہتے ہیں پزآ ہٹ کے بل

کر کے پھر لڑکوں کی اسمائیل ڈیلیٹ

ایپلی کیشن یہ کرتی ہیں ریپیٹ

ہینگ کر کے ہول لائف آپ کی

کچھ تو بن جاتی ہیں وائف آپ کی

٭٭٭

 

 

جو کر نہ سکے جیتے جی زندے کو خرد برد

وہ کر رہے ہیں قبر کے مردے کو خرد برد

میک اپ چڑھا کے چہرے پہ کہتی ہے دوستو

کر دے کوئی تو حسن کے ملبے کو خرد برد

عالی جناب، محترم اولاد آپ کی

کرنے کو بے قرار ہے بیمے کو خرد برد

اب تو یہی دعا ہے نمازوں میں صبح و شام

کر دے میرے اللہ اس بڈھے کو خرد برد

آزادیِ نسواں کے یہ جھوٹے حمایتی

کر دیں گے تیری آنکھ کے پردے کو خرد برد

سو فی صدی یہ دختر انگور کا ہے کام

جس نے کیا ہے آپ کے گردے کو خرد برد

عورت کی کوکھ میں نہیں محفوظ لڑکیاں

کرتی نہیں یہ عورتیں لڑکے کو خرد برد

٭٭٭

 

 

 

 

استفسار

 

میں نے جب گھونگھٹ اٹھایا اس کا آدھی رات کو

سب سے پہلے اس نے پوچھا مجھ سے پہلی رات کو

آپ کی میرے سوا بھی بیویاں ہیں تین اور

یہ سنا ہے تین محترمائیں بھی ہیں زیرِ غور

اس طرح سے شادی کر کے کیا پھنسانا تھا مجھے

تین کے بارے میں کم سے کم بتانا تھا مجھے

ان سوالوں کا دیا دلہن کو یہ میں نے جواب

اے شریکِ زندگانی آفتاب و ماہتاب

میری جاں میں نے بتایا تو تھا تم کو کتنی بار

ایک شہزادی کی صورت میں کروں گا تم سے پیار

ہو بہو رکھوں گا تم کو جان رانی کی طرح

تم نئی ہو تم کو چاہوں گا پرانی کی طرح

٭٭٭

 

 

 

 

سہرا

 

ایسا لگتا ہے ضعیفی میں ترے سر سہرا

باندھ کے بیٹھا ہے جیسے کوئی بندر سہرا

چاند سے رخ کو نظر بد سے بچانے کے لیے

اب کے ہم لائے ہیں مرچوں کا بنا کر سہرا

باپ کی پینٹ مسرت سے پھٹی جاتی ہے

جب سے دیکھا ہے بندھا بیٹے کے سر پر سہر

ایک بتیسی چلا لو تو ہے سب کچھ اصلی

ہم نے باندھا ہے بہت ٹھوک بجا کر سہرا

وقت ہنسنے کا ہے مرجھائی ہوئی ہیں کلیاں

جیسا بننا ہے مرا ویسا ہی بنجر سہر

ہم سخن فہم ہیں علوی کے طرف دار نہیں

دیکھیں اس سہرے سے کہہ دے کوئی بد تر سہرا

٭٭٭

 

 

 

 

مشاعرہ

 

 

کچھ ہیں سیاسیات سے کچھ ہیں ادب کے لوگ

ہیں محوِ گفتگو یہاں سارے غضب کے لوگ

ہو جس سے فنِ شعر و سخن کا مظاہرہ

زیرِ بحث ہے ایک ادب کا مشاعرہ

فہرست شاعروں کی بڑی شاندار ہو

شاعر مشاعرے میں ہر اک با وقار ہو

جن کے گلے میں تان ہوں پر بے لگام ہوں

شاعر مشاعرے کے سبھی خوش کلام ہوں

ایسا گلا کہ بھاگ لے گھبرا کے تان سین

جس کی ہر ایک تان پہ پبلک کہے اگین

دو چار شاعرات جو بے حد حسین ہوں

شاعر بھلے سے ہوں نہ ہوں پر نازنین ہوں

وہ شاعرات جن کا ترنم بلا کا ہو

سامع کو جن پہ دھوکا کسی اپسرا کا ہو

خرچہ سبھی اٹھائیں گے وہ شاعرات کا

ہے ذوق شوق جن کو قلم اور دوات کا

سامع کو تھوڑی طنز و ظرافت بھی چاہیئے

حکمت کے ساتھ ساتھ حماقت بھی چاہیئے

شاعر وہ چاہے ہو نہ ہو جوکر ضرور ہو

اپنی گلی کا چاہے وہ عبدلغفور ہو

سنجیدہ شاعروں میں بھی شاعر کوئی نہ ہو

لفظ و بیاں زبان کا ماہر کوئی نہ ہو

بک کر مغلظات یہاں بنتا ہو مغل

کہتا ہو گالیوں کو ہی جو حاصلِ غزل

گجرات کی یا بابری مسجد کی بات ہو

کچھ والدہ مرحوم کی والد کی بات ہو

جنگ و جدل کی اور فسادات کی غزل

کر دی ہو دفن جس نے روایات کی غزل

سامع کی پہلے جیسی سماعت نہیں رہی

شعر و سخن میں کو ئی بلاغت نہیں رہی

جیسے کہ ابرِ باراں میں بجلی کڑک اٹھیں

ایسا تحت کہ قبر میں مردے پھڑک اٹھیں

زلف و لب و رخسار کی باتیں قدیم ہیں

جو فن پہ چل رہے ہیں وہ شاعر یتیم ہیں

اسٹیج پر نہ آج سخنور کی دھوم ہے

راحت کا ڈھول ہے یا منّور کی دھوم ہے

الطاف خوش نوا کا ترنم بلا کا ہے

لگتا ہے یہ سبھی کو بھتیجہ لتا کا ہے

اسٹیج پر بیکل ہیں ابھی تک ڈٹے ہوئے

پڑھتے ہیں شعر آج بھی اپنے رٹے ہوئے

اب تو بشیر بدر کا سورج غروب ہے

ان کے مشاعروں کا مگر دور خوب ہے

کچھ مدرسوں پہ قبضہ ہے جیسے نواز کا

کچھ پہ اثر ہے دوستو طاہر فراز کا

حالانکہ ہوا کرتی ہے یہ شاعری بے دُم

کچھ مدرسوں میں چلتا ہے ماجد کا ترنم

شہباز فاعلات کے ہیں دائرے میں بند

موزوں جو گالیاں بھی ہوں کرتے ہیں یہ پسند

ایم آر ’’قاسمی‘‘ ہیں پہ لکھتے علیگ ہیں

ان کے تمام شاعرِ اعظم کلیگ ہیں

جوکر سے کچھ زیادہ ہی لگتا ہے پاپولر

شہرت ہے اس کی تین قطعے ڈھائی نظم پر

سامع کا بھی مزاج ہے ہر روز بدلتا

منظر کی بھی آواز کا جادو نہیں چلتا

باسی کڑھی ہیں دوستو گلزار دہلوی

ہندی کے اس زمانے میں پڑھتے ہیں فارسی

تانیں بچی ہوئی ہیں ابھی تک نواز میں

اشعار اپنے پڑھتے ہیں پانچوں نماز میں

مداح ہیں ہزاروں ابھی تک وسیم کے

اشعار جیسے جھونکے ہوں بادِ نسیم کے

یہ شاعروں کی دوستو فہرست بن گئی

حالانکہ زیرِ غور ہیں شاعر ابھی کئی

کچھ صدرِ محترم کی نوازش سے آئیں گے

کچھ ایم پی صاحب کی سفارش سے آئیں گے

ٹوپی بغیر، پگڑی و صافے بغیر بھی

بے قائدہ پڑھیں گے لفافے بغیر بھی

٭٭٭

 

 

 

 

آج کا ادبی منظر نامہ

 

 

اردو ادب کا آج کل منظر عجیب ہے

بزمِ سخن عجیب سخن ور عجیب ہے

اب خدمتِ ادب بھی تو اک کاروبار ہے

معیارِ ادب آج کل جشنِ بہار ہے

پھیلی ہوئی ادب میں وبا شاعروں کی ہے

تعداد بے شمار متشاعروں کی ہے

گھی دودھ ہی نہیں ہے ادب ہے ملاوٹی

مضمون کیا، خیال کیا سب ہے ملاوٹی

شاعر بنا ہوا کوئی دولت کے زور پہ

اعزاز پا رہا ہے سیاست کے زور پہ

کوئی فنِ عروض کی زلفوں میں ہے اسیر

سودائی کوئی لگتا ہے داغی کوئی نظیر

الفاظ کی روانی پہ مغرور ہے کوئی

اپنی زبان دانی پہ مغرور ہے کوئی

ہر طرح کے جگاڑ کے حربوں کا بادشا

شاعر ہر ایک ہے یہاں چربوں کا بادشا

اشعار ان کے پاؤ گے دیوانِ داغ میں

کس کس کا تیل جلتا ہے ان کے چراغ میں

الہام بھی ہوتا نہیں آمد نہیں ہوتی

تخلیق کوئی ان سے بر آمد نہیں ہوتی

موزوں کلام ان کا ہے معراجِ شاعری

فعلن مفاعلن ہی بنا تاجِ شاعری

کوئی دکھا رہا ہے پروفیسری کا دم

مصرعوں میں کوئی ڈھونڈھ رہا ہے کسی کے ذم

غزلوں کا صحافت سے علاقہ نہیں کوئی

اخبار سے شاعر کبھی نکلا نہیں کوئی

لگتی ہے غزل آج کی خبروں کا تراشہ

ہر شعر جیسے جیب تراشوں کا تراشہ

دیوان آٹھ چھپ گئے اک شعر کیا ہوا ؟

ہر شعر میں خیال ہے پہلے کہا ہوا

لگتا ہے کہ سو مرتبہ کھایا ہوا لقمہ

ہر شعر ہے جیسے کہ چبایا ہوا لقمہ

الفاظ کیا اندازِ تکلم نیا نہیں

اشعار تو اشعار ترنم نیا نہیں

کوئی جگر بنا ہے تو کوئی خمار ہے

نقآل عصرِ نو میں ہر اک با وقار ہے

کوئی ہے آج کا کوئی کل کا امام ہے

کوئی یہاں جدید غزل کا امام ہے

ہے مال دستیاب غزل کا رباعی کا

دھندہ بنا لیا ہے ادب کو کمائی کا

شاعر ہیں بیٹھنے کا نہیں ہے شعور تک

ہے دسترس میں جن کی میاں کوہِ طور تک

دیوان دستیاب یہاں دس ہزار میں

بن صاحبِ کتاب یہاں دس ہزار میں

استادِ فن کا آج یہی کاروبار ہے

غزلیں خرید لے جو گلا شاندار ہے

یہ طوق لئے گھومتے ہیں آج کل شاعر

لوکل نہیں ہیں بنتے ہیں جو نیشنل شاعر

مقبول سامعین میں جب تالیاں ہوئیں

رائج مشاعروں میں بھی قوالیاں ہوئیں

پیمینٹ بڑا ہے تو بہر حال بڑا ہے

اس دور میں شاعر نہیں قوّال بڑا ہے

شاعر نہیں سامع بھی لطیفہ ہیں آج کل

جاہل سمجھ رہے ہو خلیفہ ہیں آج کل

مقصد جو شاعری تھی وہ تفریح بن گئی

یوں عہدِ نو میں عزّتِ شعر و سخن گئی

٭٭٭

 

 

 

 

دلّی کے شاعر

 

(دلاور فگار کی نظم شاعرا عظم کا چربہ )

دلّی میں یہ بتائیے شاعر ہے کون کون

شعر و سخن کے علم میں ماہر ہے کون کون

کس کے قلم میں جان ہے، بے جان کون ہے

آندھی ہے کون شہر میں طوفان کون ہے

میں نے کہا ہیں دلّی میں شاعر بڑے بڑے

کہہ دیں غزل جو طرح کی پل میں کھڑے کھڑے

گمنام بھی ہیں ان میں کئی نامور بھی ہیں

کچھ ہیں وظیفہ خوار تو کچھ در بدر بھی ہیں

کچھ نام تو بتائیں جو اعلیٰ صفات ہوں

کلّی میں جن کی آٹھ سے دس کلیات ہوں

کچھ نام میں بتاتا ہوں تم کو معہ صفات

شعر و ادب سے کام ہے دو پہر ہو کہ رات

بولے وقار مانوی استاد ہیں بڑے

اس دور میں بھی یہ تو روایت پہ ہیں اڑے

یہ جو بزرگوار ہیں فاروق ارگلی

ان سے بچا ہے کون ادب کا مہا بلی

میں نے کہا شکیل صحافی ہیں نامور

برسوں لکھے سہارا میں قطعات معتبر

یہ آدمی قلم کے نہیں کیمرے کے ہیں

عاشق کسی کے اور یہ مائل کسی پہ ہیں

شہباز بھی ضیائی بھی یہ ہیں ندیم بھی

دیوان دستیاب جدید و قدیم بھی

میں نے کہا کہ شمس بھی استاد ہے بڑا

دلّی میں ایسا کون ہے جس سے نہیں لڑا

میکش کا بھی سنا ہے کہ عمدہ کلام ہے

اپنی قصیدہ خوانی ہی دن رات کام ہے

میں نے کہا کہ یہ جو ہیں اسرار جامعی

بولے مزاح و طنز کا فن کار واقعی

میں نے کہا شکیل جمالی پہ تبصرہ

شاعر بڑا کہوں اسے ناظم کہوں بڑا

شاعر مشاعروں کا ہے اقبال اشہر بھی

سامع کا ہے خیال ادب پر ہے نظر بھی

کہتے ہیں شعر سوچ کے جاوید مشیری

اک صبح رؤفی ہیں یہ اک شام مُنیری

شاہد بھی مشیری ہیں پہ لکھتے ہیں یہ انور

غزلیں ہیں پر وقار ترنم بھی معتبر

شہپر کا بھی ادب میں میاں کچھ مقام ہے

یہ چودھری ہے شاعری مرزوں کا کام ہے

میں نے کہا کہ یہ جو اک نعمان شوق ہے

اس میں بھی شعر کہنے کا تخلیقی ذوق ہے

ایم آر قاسمی سے بھی کچھ واسطہ پڑا

شاعر کے ساتھ ساتھ ہے یہ دوست بھی بڑا

ماجد جو دیو بندی ہے دلّی کا ہے مکیں

بولے کہ شاعروں میں یہ معشوق ہے حسیں

اردو کے شعر پڑھتا ہے عربی میں بار بار

گلزار ہے یہ برہمن اردو ہے کاروبار

کتنی ہی شاعرات نے ان کا پڑھا کلام

دلّی کے یہ استاد ہیں نصرت ہے ان کا نام

اقبال جو ہے دلّی میں شاعر مزاح کا

شاعر نہیں یہ لگتا ہے قاضی نکاح کا

دن رات کرتے رہتے ہیں چپ چاپ شاعری

بارہ دری میں رہتے ہیں پرویز جامعی

سنجیدہ شاعری کے میاں یہ بھی ہیں امام

باریش مسلمان قمر سنبھلی ہے نام

میں نے کہا کہ یہ جو ہیں فریاد اور آذر

یہ تو ہیں حوض رانی میں اردو کے ماسٹر

دلّی کی شاعرات میں جس کا مقام ہے

وہ اور نہیں کوئی انا خوش کلام ہے

ہیں ریڈیو اناؤنسر عرفان اعظمی

کس کے لنگوٹ میداں میں اترے نہیں کبھی

طالب سکندرآبادی پہ بھی تبصرہ کوئی

کرنے دو اس کو شاعری بولو نہیں ابھی

ملتے کہاں ہیں شہر میں انسان چودھری

ہیں عالمی سہارا میں فرمان چودھری

خالد بھی ہے شرر بھی ہے اور اعظمی بھی ہے

شاعر بھی کامریڈ بھی اور آدمی بھی ہے

شاعر کوئی بھی دلّی میں اب دہلوی نہیں

امپورٹ سب ہیں کوئی بھی پیدائشی نہیں

اپنے سوائے دلّی میں شاعر بچا ہے کون

غالب کے بعد دلّی پہ نازل ہوا ہے کون

اس کو کہیں تعلّی یا خود ستائی آپ

طنز و مزاح میں، ہم ہیں سبھی کے باپ

٭٭٭

 

 

 

 

بر زمین مرزا غالب

(طرحی غزل)

 

ہم نے ظاہر و باطن جس کا ایک سا پایا

اس بشر کو دنیا میں مستند گدھا پایا

کہتے ہیں بڑھاپے کی پر اثر دوا پایا

پائے خور بوڑھوں کو کون ہے ہلا پایا

گیان پیٹھ لے آیا بن گیا پدم بھوشن

دوستو سیاست میں جس کا جم گیا پایا

پائے کھا کے ہوتی ہے پائے کی غزل یارو

پائے کا بنا شاعر جس نے کھا لیا پایا

یار کی طبیعت نے پائے سی چپک پائی

لب لبوں سے جب چپکے کون پھر چھڑا پایا

چار ٹن کی بیگم جب چار پائی پر بیٹھی

چارپائی کا ہر اک چرمرا گیا پایا

صبح کو اگر کھائیں، رات کو یہ فرمائیں

شوربے میں پائے کے خلد کا مزا پایا

دل کا درد گھٹنوں میں جب کبھی اتر آئے

یہ حکیم کہتا ہے صبح و شام کھا پایا

٭٭٭

 

 

 

طرحی ہزل

 

جو تم سے نہ ہو پایا وہ ہم کرتے رہیں گے

نو خیز حسیناؤں پہ دم کرتے رہیں گے

وہ آ کے محلّے میں پہن لیتے ہیں برقعہ

اپنوں پہ اسی طرح ستم کرتے رہیں گے

ہم بھی تو مچھروں کے لیئے فکر مند ہیں

کپڑوں کو حسیناؤں کے کم کرتے رہیں گے

چہرے پہ تھوپ تھوپ کے امپورٹڈ خضاب

سیلے ہوئے پٹاخوں کو بم کرتے رہیں گے

کھا کھا کے سیمیناروں میں بریانی قورمہ

’’ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے‘‘

٭٭٭

 

 

 

نذرِ انور باری

 

وہ ہم مزاج میرا وہ ہم سر نہیں رہا

غزلیں اداس ہیں کہ سخنور نہیں رہا

ہوتے تھے جمع جا کے جہاں پر ادب کے لوگ

دلّی میں ایسا اب کوئی محور نہیں رہا

پابند تھا سدا سے جو صوم و صلوٰت کا

شاعر کے بھیس میں وہ قلندر نہیں رہا

پڑھیے کلام اس کا اور آنسو بہائیے

الفاظ کے صنم تو ہیں آزر نہیں رہا

کیوں کر میں جاؤں کوچۂ رحمان کی طرف

جب میرا ہم نوا میرا دلبر نہیں رہا

ہر زندگی کا موت ہے انجام آخرش

آتا نہیں یقین کہ انور نہیں رہا

 

انور باری کی بے وقت وفات پر لکھی گئی ۳۰جون ۱۹۱۱

٭٭٭

 

 

 

 

بریکنگ نیوز

 

یہ ہے اس ملک میں ٹی وی کی بریکنگ نیوز

لائیو دکھلاتے ہیں ہم ساس بہو کا جھگڑا

باقی چینل تو پھسڈّی ہیں ہمارے آگے

ایک چینل ہے یہی ملک میں سب سے تگڑا

ایک ہفتے سے گٹر بند ہے ایم ایل اے کا

ایک ہفتے سے نہیں اٹھآ سڑک سے کوڑا

سب سے پہلے اسی چینل نے دکھائی یہ خبر

اور چینل بھی دکھائیں گے بنا کے کوڑا

ایک ماروتی نے اک ٹمپو کو ٹکّر ماری

لال بتّی پہ ہوئی ہونڈا سٹی اک پنکچر

ایک بندر کی بندریا سے ہوئی لو میرج

گال پہ کاٹ گیا ایک حسیں کے مچھر

ایک پتنی نے کیا اپنے پتی کو گھائل

تار سے بجلی کے ٹکرا گئی اک اڑتی برڈ

ایک خاتون کے پھر پاؤں ہوئے ہیں بھاری

شیو کرتے ہوئے اک شخص ہوا ہے انجرڈ

آج دھونی بھی صبح دیر سے سو کر اٹھے

کار لائے ہیں نئی آج سچن تندولکر

آج دیکھیں گے وہ ٹی وی پہ پرانے میچز

گھر سے نکلیں گے نہیں آج رہے ہیں گے گھر پر

آج عامر نے نئی فلم کی شوٹنگ کی ہے

آج سلمان نے انکم کا اپنی ٹیکس بھرا

آج گلزار نے ٹی وی پہ سچی بات کہی

آج فلموں میں ہوا کرتا ہے بس سیکس بھرا

جینس پہ اکشے نے پہنا ہے لکھنوی کرتا

لوگ کہتے ہیں کہ سلمان سے اچھا پہنا

آج بچن کو بڑے زور کی ہچکی آئی

آج شاہ رخ نے ہرے رنگ کا کچھا پہنا

آج تربوز کے اندر سے ملے خربوزے

آج یہ سبز مٹر پاک سے مہنگی آئی

آلو و بھنڈی نے توڑا ہے ٹماٹر کا غرور

آج ادرک بھی تو ادراک سے مہنگی آئی

یہ ہے اس ملک میں ٹی وی کی بریکنگ نیوز

٭٭٭

 

 

 

ہزل

 

تو بھی بیلن سے پٹا کچھ کم ہے

اس لیئے پھولا پھلا کچھ کم ہے

کھا کے دس مرغ مسلّم بولے

پیٹ میں اب بھی گیا کچھ کم ہے

اس کو دلہن ملی دو سو کے جی

اب بھی شادی میں ملا کچھ کم ہے

شہر میں مچھروں کی عید ہے آج

جسم پر اس کے قبا کچھ کم ہے

تھوپ کر چار کلو میک اپ وہ

پھر بھی کہتی ہے ذرا کچھ کم ہے

بیویاں چار ہیں پھر بھی ہے گماں

مہرباں ہم پہ خدا کچھ کم ہے

کھوٹا سکہ ہے چلن میں کب سے

دوستو پھر بھی گھسا کچھ کم ہے

٭٭٭

 

 

 

ترنگا

 

(بچوں کی نظم)

 

بنا چاند، سورج ستارا ترنگا

گگن سے بھی اونچا ہمارا ترنگا

سفید و ہرا اور کیسریا مل کے

یہ ہے تین رنگوں کا دھارا ترنگا

صفایا کیا ملک کے دشمنوں کا

کبھی دشمنوں سے نہ ہارا ترنگا

اسی نے ہے بخشی ہمیں سر بلندی

ہے جینے کا اپنے سہارا ترنگا

مری جان میں جان باقی ہے جب تک

جھکاؤ گے کیسے ہمارا ترنگا

جسے اپنے خوں سے شہیدوں نے سینچا

ہمیں جان سے بھی ہے پیارا ترنگا

یہی شان ہے اپنے ہندوستاں کی

ہمارا ترنگا تمہارا ترنگا

٭٭٭

 

ہزل

 

لیڈر کو جو رشوت کی کمائی نہیں ہوتی

چپل بھی یہ پاؤں میں ہوائی نہیں ہوتی

اس شخص کو سب کہتے ہیں قربانی کا بکرا

جس شخص میں چھوٹی سی برائی نہیں ہوتی

پائے کی وہی کرتا ہے اے دوست شاعری

شاعر وہ جس کی جیب میں پائی نہیں ہوتی

کرتی ہے پولس اس سے پہاڑوں کو برآمد

جس چور نے رائی بھی چرائی نہیں ہوتی

اس دن نہیں ملتی مرے لہجے میں ظرافت

جس دن مری بیگم سے لڑائی نہیں ہوتی

بے وزن ہوا کرتی ہے بچے کی زندگی

جس بچے کی کمچی سے پٹائی نہیں ہوتی

تینوں طلاق لے کے یہ بیگم فرار تھیں

اک اور کہانی جو بنائی نہیں ہوتی

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہزل

 

سرچ گوگل پہ کیا عید کا چاند

پھر بھی ہم کو نہ ملا عید کا چاند

تو جو کوٹھے پہ نظر آ جائے

میں نے تو دیکھ لیا عید کا چاند

ہو گئی عید شہر میں سب کی

ایک لمحے کو دکھا عید کا چاند

پہلے ہم آسماں کو تکتے تھے

اب کے ٹی وی پہ ملا عید کا چاند

تیسواں روزہ ہے بھاری مجھ پر

آج دکھلا دے خدا عید کا چاند

ایک ملّا نے کیسے ڈھونڈھ لیا

ہم نے ڈھونڈا نہ ملا عید کا چاند

٭٭٭

 

 

 

 

اردو کے ادارے

 

 

چمچوں کے خیر خواہ ہیں اردو کے ادارے

اس واسطے تباہ ہیں اردو کے ادارے

جس پر ہو مہربان یہ کر دے اسے امیر

دولت میں بادشاہ ہیں اردو کے ادارے

داماد، سالے، سالیاں، بھائی، بھتیجے سب

کہتے ہیں وا واہ ہیں اردو کے ادارے

در اصل چار لوگوں کی چوپال ہے فقط

کہنے کو بے پناہ ہیں اردو کے ادارے

جتنے ابو جہل ہیں اراکین ہیں ان کے

نادانوں کے گناہ ہیں اردو کے ادارے

اب تو یہ صرف لاش شماری میں ہیں مصروف

ہاری ہوئی سپاہ ہیں اردو کے ادارے

فن کار کو کبھی بھی یہ کرتے نہیں سلام

چمچوں پہ فرشِ راہ ہیں اردو کے ادارے

اقبال کی خودی کا اثر جن پہ ہو گیا

ان سے تو دور آہ ہیں اردو کے ادارے

بریانی کھائی ہم نے نمک خوار ہم بھی ہیں

علوی ہماری چاہ ہیں اردو کے ادارے

٭٭٭

 

 

پیش گوئی

(۱۹۴۷ء میں ہندوستان کی آزادی کا بل برطانیہ کی پارلیمینٹ میں پیش ہوا تھا جسے اس وقت کے وزیر اعظم کلیمینٹ ایٹلی نے رکھا تھا۔ اس بل پر بحث کرتے ہوئے برطانیہ کے وزیر اعظم رہے ونسٹن چرچل نے یک تقریر کی تھی۔ اس نظم کا ماخذ وہی تقریر ہے۔)

 

جو اپنے لیڈران میں اعلیٰ صفات ہیں

سمجھیں نہ آپ یہ کہ سبھی واہیات ہیں

ہے ان خصوصیات کی تاریخی اہمیت

سب پر عیاں ہے ہند کے لوگوں کی ذہنیت

چرچل کا قول جیسے کہ پتھر پہ ہے لکیر

اس پیش گوئی سے بھی تو جاگا نہیں ضمیر

جب ہند کی آزادی کا بل پیش ہوا تھا

کیا رہبرانِ ہند کو چرچل نے کہا تھا

سنسد کے ممبران سے چرچل نے یہ کہا

ہندوستاں چلانے کا کس میں ہے حوصلہ

یہ اقتدار ڈاکوؤں چوروں کو جائے گا

کچھ رہزنوں کو اور لٹیروں کو جائے گا

جس کو بھی اقتدار کی بخشو گے ملائی

بنیا بھی وہ بن جائے گا، اس وقت قصائی

کیسا لباس کھال کھنچے گی عوام کی

جمہوریت بھی ہو گی، تو ہو گی وہ نام کی

لیڈر کے پاس ہوں گے خزانے ہی ملک میں

خوش حال ہوں گے چند گھرانے ہی ملک میں

بے وزن ہیں لیڈر وہاں تنکے سے زیادہ

جن کو یہ اقتدار ہے دینے کا ارادہ

جینا محال ہو گا وہاں پر عوام کا

لیڈر نہ مل سکے گا تمہیں کوئی کام کا

آپس میں اقتدار کی وہ ہو گی لڑائی

آزاد لوگ دیں گے غلامی کی دہائی

تعبیروں پہ خوابوں پہ کہانی پہ ہو گا ٹیکس

صہبا کی بات چھوڑیئے پانی پہ ہو گا ٹیکس

بچوں کے بسکٹوں پہ لگادیں گے ٹیکس یہ

انسان کی سانسوں پہ لگا دیں گے ٹیکس یہ

لوٹیں گے دونوں ہاتھ سے مفلس عوام کو

ناقص ملیں گے راہبر ناقص عوام کو

محنت کشوں کے گھر میں اندھیرا ہی رہے گا

قسمت میں ہر غریب کی فاقہ ہی رہے گا

اولاد لیڈران کی لندن میں پڑھے گی

امریکہ میں جاپان میں جرمن میں پڑھے گی

مفلس کے لیے ملک میں اسکول نہ ہوں گے

ہوں گے بھی میسر تو وہ معقول نہ ہوں گے

یہ ہندو مسلماں کو لڑائیں گے ملک میں

اور اپنی کرسیوں کو بچائیں گے ملک میں

لوٹیں گے مزا ملک میں بس چند مفت خور

چرچل نے کہا کیجئے باتوں پہ میری غور

بے رنگ اس تصویر میں رنگ ہم نے بھر دیا

چرچل کے ہر اک لفظ کو سچ ہم نے کر دیا

٭٭٭

 

اردو کے محافظ

 

اردو کے مراکز پہ ہے جن لوگوں کا قبضہ

سارے وظیفہ خوار سیاسی ادیب ہیں

بیٹھے ہیں سانپ بن کے جو سرکاری فنڈ پر

گنتی کے ان میں صرف بیاسی ادیب ہیں

وزراء کی جو بھرتے ہیں چلم وہ خوشا مدی

عزت مآب بنتے ہیں بنتے ہیں محترم

فن کی جو کیا کرتے ہیں خاموش پرستش

ان کو نہ مانتے ہیں نہ پہچانتے ہیں ہم

انگلش میں ہوا کرتی ہے اردو کی حمایت

اردو کے ادیبوں کو بھی اردو نہیں آتی

انگریزی میں کہتے ہیں کہ اردو گریٹ ہے

لہجے میں روز مرہّ کی خوشبو نہیں آتی

انگریز تو چلے گئے انگریزی چھوڑ کر

شاعر بھی شیروانی سے آزاد ہو گئے

ٹی شرٹ اور جینس میں پڑھنے لگے

٭٭٭

 

 

 

غزل

 

 

استاد کے دو شعر جنہیں یاد ہو گئے

اردو کے اداروں میں سیاست کا زہر ہے

ان میں کہیں بھی خدمتِّ علم و ادب نہیں

ذاتی مفاد کے لیے کوشاں ہے ہر کوئی

کافی حرام خور ہیں حالانکہ سب نہیں

اردو کے لیکچرر کو بھی اردو نہیں آتی

بچوں کو بھی پڑھاتا ہے وہ کانوینٹ میں

ہیں شاندار واقعی گر جاؤں کے اسکول

اردو پڑھائی جاتی ہے بوسیدہ ٹینٹ میں

چکبست کیا، فراق کیا، گلزار کیا نسیم

کلمے کے بنا صاحبِ ایمان ہو گئے

اپنے وطن میں دیکھ سیاست کے معجزے

ہندو بھی پڑھ کے اردو مسلمان ہو گئے

اردو کے ہر ادارے پہ قابض ہیں بو جہل

سارے بندھے ہوئے ہیں سیاست کی ڈور سے

نا اہل لوٹتے ہیں خزانہ عوام کا

ہم پر کھلیں حقیقتیں دیکھا جو غور سے

٭٭٭

 

 

 

 

مشاعرہ جشنِ جمہوریت

 

جمہوریت کا ملک میں جنجال وہی ہے

کچھ بھی تو نہیں بدلا نیا سال وہی ہے

بس دو ہزار تیرہ کا یہ ٹیگ ہے نیا

پیکنگ نئی ہے ہو بہو پر مال وہی ہے

جو خادمِ اردو ہے، ہے مفلس و بد حال

جو دشمن اردو ہے مالا مال وہی ہے

بدلا ہے کلنڈر یہ مقدر نہیں بدلا

بیوی وہی سالے وہی سسرال وہی ہے

اردو کی ترقی کا ہے ذمہ مرے سر پر

گینڈے کی جو ہوتی ہے مری کھال وہی ہے

ناغہ متین کا نہیں چالیس سال سے

اپنا تو جیسا حال تھا تا حال وہی ہے

اردو اکادمی کی ہے بس پاپولر سے ڈیل

پڑھتا ہے بیس سال سے اس سال وہی ہے

جشنِ جمہوریت کا وہی ہے مشاعرہ

شاعر وہی فہرست میں قوال وہی ہے

ہم بدلے نہ بدلیں گے کبھی اپنی روش کو

کشمیر وہی ملک میں بنگال وہی ہے

خود داروں کو بے آبرو ہونا ہی پڑے گا

ڈھرّا وہی رفتار وہی چال وہی ہے

مشاعرے کا شاعر

کیا سڑک کا کوئی پھینکا آم ہے کنوینری

جانتا ہوں زہر کا اک جام ہے کنوینری

آپ کے گھر میں تو صبح شام ہے کنوینری

آپ کا تو خاندانی کام ہے کنوینری

شاعری کا گُر پرکھنے کی مہارت آپ میں

ہر گلے کا سُر پرکھنے کی مہارت آپ میں

آپ اردو کے محافظ آپ اردو کے امام

آپ نے اکثر کیا بزم سخن کا اہتمام

میں نے بھی پیدا کیا ہے شاعری میں اپنا نام

سارے قوّالوں نے گایا ہے مرا مہمل کلام

دسترس تانوں پہ فنِ کاملہ رکھتا ہوں میں

سات سُر والا بہت شیریں گلا رکھتا ہوں میں

آپکے قدموں میں ہی رہتا ہوں میں سر بہ سجود

کیونکہ کنوینر نہیں تو شاعری ہے بے وجود

آپ کی ناراضگی شاعر کی عظمت میں جمود

صرف کنوینر کے دم سے شہرتیں نامو نمود

آپ تو اردو ادب میں مثلِ کوہِ نور ہیں

آپ کی دو لات مجھ کو بہ خوشی منظور ہیں

آپ رکھ سکتے ہیں ہر فہرست میں خادم کا نام

آپ کا احسان مانے گا ہمیشہ یہ غلام

آپ عالی مرتبت ہیں آپ ہیں عالی مقام

آپ کے گھر پر رہا ہے فیض و ساحر کا قیام

مستند اردو ادب میں آپ کی کنوینری

ہے کلکٹر آپ کا اور آپ کا ہے منتری

شعر میں رکھتا نہیں ہوں میں ردیف و قافیہ

میں سعودی بھی گیا ہوں میں کناڈا بھی گیا

اس گلے کی ہی بدولت آبِ زم زم بھی پیا

عالمی شاعر ہوں اب پہلے تھا میں آل انڈیا

دو ٹکے ملتے نہیں اس فکر و فن کا کیا کروں

سب ترنم پر فدا ہیں اس چلن کا کیا کروں

پڑھتے میرے شعر ہی سارے سیاست دان ہیں

میرے گرویدہ ملائم اور اعظم خان ہیں

میری ہی بخشش ہیں جو لالو کے منھ میں پان ہیں

یہ مری غزلیں نہیں تفریح کے سامان ہیں

من موہن پرنب مکھر جی تک رسائی ہے مری

زندگی بھر کی ادب میں یہ کمائی ہے مری

روز لگتی ہے ہر اک لیڈر کے گھر میں حاضری

افسروں کے گھر میں جا کے میں نے کی ہے چاکری

میں نے بنوایا فلاں ابنِ فلاں کو منتری

فیض سے میرے ہوئی اردو زباں کی بہتری

جو بھی اردو کی ترقی آج ہے وہ مجھ سے ہے

جو بچی اردو غزل کی لاج ہے وہ مجھ سے ہے

اک قصیدہ ہے بدل کر نام کو پڑھتا ہوں میں

یوں ترقی کی ہزاروں سیڑھیاں چڑھتا ہوں میں

جھوٹے قصے عظمتوں کے آپ ہی گڑھتا ہوں میں

اس لئے ہر روز آگے کی طرف بڑھتا ہوں میں

ہوں جگر کے خانوادے سے غزل کی آبرو

ہاتھ مجھ پر کانگریس کا میں کمل کی آبرو

ہر طرح سے اپنے سامع کو رجھا لیتا ہوں میں

گیت گا لیتا ہوں قوّالی بھی گا لیتا ہوں میں

گر لفافہ بھی ملے تو اس میں کیا لیتا ہوں میں

ایک چائے ایک بیڑی کا صلہ لیتا ہوں میں

آپ خامی ڈھونڈھتے ہیں شعر کے ارکان میں

دھوم میری شاعری کی روس اور جاپان میں

میری مہمل شاعری پر کس لئے ہو طعنہ زن

کیا کروں جب ہو گیا ہے یہ زمانے کا چلن

بن گئی ہے ایک تفریح گاہ اب بزمِ سخن

میرے شعروں میں نہیں ملتا اگر یہ فکر و فن

عہدِ نو میں فیل ہوتے غالب و اقبال بھی

ہوٹ ہو گر شاعری کرنے لگے قوآل بھی

دیکھتا ہوں ویڈیو پر رات دن امراؤ جان

تاکہ جو نکلے گلے سے معتبر نکلے وہ تان

برف سے پرہیز مجھ کو صرف کھا لیتا ہوں پان

میں گلے پر اس لئے پورا دیا کرتا ہوں دھیان

کار مل جاتی ہے شہروں میں گدھا ملتا نہیں

شعر دیوانوں سے لے لو پر گلا ملتا نہیں

ریڈیو پر نشر ہوتی ہیں مری غزلیں تمام

ٹیلی ویژن پر دکھایا جاتا ہوں با اہتمام

ہاں نہیں چھپتا رسالوں میں کبھی میرا کلام

اس لئے ایڈیٹروں کو میں نہیں کرتا سلام

علم و حکمت کی وبا سے دور ہی رہتا ہوں میں

صاحبِ فہم و ذکا سے دور ہی رہتا ہوں میں

استعارہ آج کل مقبول جھنڈو بام کا

نام اب کس کو سمجھ آئے یہاں گلفام کا

ذائقہ شاعر تحت کا جیسے کھٹے آم کا

ہے ادبی شاعری جیسے مرض سرسام کا

کر دیا غالب کو گا گا کر ثریّا نے عظیم

ورنہ غالب بھی ہماری طرح ہی ہوتا یتیم

میری ساری شاعری کنوینروں کی دین ہے

جاہلوں کی ایک ٹولی ہے جو میری فین ہے

مجھ کو جو سمجھا حقیقت میں وہ نورِ عین ہے

جانتا ہوں میری غزلوں سے بھی غائب غین ہے

عیب شعروں کے ترنم میں چھپا لیتا ہوں میں

گر الف گر جائے تو اس کو اٹھا لیتا ہوں میں

کان پور کے واسطے بغداد بقراطی ادب

صرف ہے اسکالروں کو یاد بقراطی ادب

کل بھی تھا اور آج بھی برباد بقراطی ادب

صرف ہے منت کشِ نقّاد بقراطی ادب

بے ثمر اشجار ہو کر بھی ثمر رکھتے ہیں ہم

پر نہیں ہیں طاقتِ پرواز پر رکھتے ہیں ہم

میں ہوں سرتاجِ ترنم شاعرِ اسلام ہوں

کونسی ہے بزم ایسی جس میں میں ناکام ہوں

کاٹ ایسی شاعری میں ہے کہ خوں آشام ہوں

اپنی عالم گیر شہرت کے لئے بدنام ہوں

فیس کی کیا بات زادِ راہ بھی لاکھوں میں ہے

آہ بھی لاکھوں میں میری واہ بھی لاکھوں میں ہے

کون کہتا ہے کہ خامی ہے مرے ارکان میں

شعر ملتے ہیں مرے اقبال کے دیوان میں

فارسی کی جو غزل میں نے پڑھی ایران میں

اس غزل کی داد پائی جا کے انگلستان میں

گھومتا رہتا ہوں چکّر آج کل پاؤں میں ہے

فارسی ہندی کہ انگریزی غزل پاؤں میں ہے

آپ کو کچھ ہو نہ ہو پر مجھ کو ہو گا فائدہ

شہر کے سامع چکھیں گے شاعری کا ذائقہ

اس کو پڑھوا دیں کہیں بھی قائدہ بے قائدہ

ساتھ رکھتا ہوں ہمیشہ خوبصورت شاعرہ

خود کو کہتا ہوں میں ذرّہ آفتابِ فن ہوں میں

شاعرِا عظم بہت دن سے جناب من ہوں میں

شہرتیں قدموں میں ہوں گی مفلسی مٹ جائے گی

روز ہو گا مرغ یہ فاقہ کشی مٹ جائے گی

چائے خانوں کی میاں آوارگی مٹ جائے گی

ہو گی اک پہچان یہ بے چہرگی مٹ جائے گی

مصنوعی ہی چاہے بنوا لیں متشاعر کی دُم

آپ بھی استاد لگوا لیں متشاعر کی دُم

٭٭٭

 

 

بند

 

 

ڈاکٹر نے نبض دیکھی بولا جا کر چیک کر

یہ بہت موذی مرض ہے اس کو اکثر چیک کر

ایک بھی ناغہ نہ کر بیٹا برابر چیک کر

فکر کر صحت کی اپنے روز شوگر چیک کر

ڈاکٹر کی ہر ہدایت پر عمل کرتا ہوں میں

کھا کے چینی چیک شوگر آج کل کرتا ہوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

نظم

 

 

یہ کہتا ہے ٹی وی پہ آ کے جمورا

مری بات بھیجے میں رکھ لے غفورا

جو بھولے سے بھی اب پڑوسن کو گھورا

تو قانون کر دے گا ہڈّی کا چورا

 

دکھاؤ گے جوہر جو مردانگی کا

تو بجھ جائے گا یہ دیا زندگی کا

 

رات کو بادام اور اخروٹ کھا

کر سیاست ملک میں اور نوٹ کھا

چوٹ دے سب کو مگر نہ چوٹ کھا

تو غریبوں کے برابر ووٹ کھا

 

روز کھا بادام اور پستے کی کھیر

لوٹ لے اس ملک کو بن کر وزیر

 

واعظ کا احترام نہ زاہد تھے محترم

ہم سے حسد جو کرتے تھے حاسد تھے محترم

پہلے مری نگاہ میں والد تھے محترم

جب شاعری کرنے لگے ناقد تھے محترم

 

ہم تو کبھی عروض کے ماہر نہ بن سکے

موزوں کلام کہہ کے بھی شاعر نہ بن سکے

 

انکار ہو گا اور کبھی اقرار نیٹ پر

ہو گا سبھی حسینوں کا دیدار نیٹ پر

ہم بھی کریں گے عشق کا اظہار نیٹ پر

ہو گا جواں بڑھاپے کا یہ پیار نیٹ پر

 

اپنوں کو کھلے گا نہ رقیبوں کو کھلے گا

اک ساتھ عشق سات حسینوں سے چلے گا

 

جبور غریبوں کے نوالے ہیں مرے نام

چوری کے ڈکیتی کے حوالے ہیں مرے نام

ٹوٹے ہوئے سب شہر کے تالے ہیں مرے نام

مانا کہ یہاں سارے گھٹالے ہیں مرے نام

 

تم کر نہیں پاؤ گے مرا بال بھی بانکا

لیڈر ہوں میں اے دوستو پیدائشی گنجا

 

اس ملک کے ہر کونے میں آباد ہیں لیڈر

کہتے ہیں گرہ کٹ کے بھی استاد ہیں لیڈر

خاطر سے یہ لگتا ہے کہ داماد ہیں لیڈر

پبلک یہاں غلام ہے آزاد ہیں لیڈر

 

اس ملک میں یہی ہیں سند یافتہ دلال

ان کے حرام کام بھی ہوتے ہیں سب حلال

 

صرف اک کھیل ہے جادو میں نہیں ہے کچھ بھی

ایک احساس ہے خوشبو میں نہیں ہے کچھ بھی

جیسے انسان کے قابو میں نہیں ہے کچھ بھی

شاعری کے سوا اردو میں نہیں ہے کچھ بھی

 

اس زباں سے کوئی راکٹ نہ کوئی بم نکلا

کوری لفّاظی میں معشوق مجسم نکلا

٭٭٭

 

 

صحت مند بیوی

 

کولہے پہاڑ پیٹ سا مٹکا نہیں دیکھا

کم تر لگا ہاتھی بھی مشابہ نہیں دیکھا

یوں تو تمہارے شہر میں کیا کیا نہیں دیکھا

سچ کہتا ہوں بیوی سا مٹاپا نہیں دیکھا

ارض و سما کہاں تری وسعت کو پا سکے

شوہر کا دل ہے جس میں کہ بیوی سما سکے

٭٭٭

 

 

 

گلزار

 

ترے اشعار سے ظاہر جو وجدانِ محمد ہے

ترے اشعار سچے دل میں ایمانِ محمد ہے

مری صورت اگر تجھ کو بھی عرفانِ محمد ہے

اگر گلزار دل تیرا گلستانِ محمد ہے

قباحت کیا ہے پھر تو کلمۂ حق کیوں نہیں پڑھتا

بتوں کو چھوڑ کر کعبے میں سجدہ کیوں نہیں کرتا

٭٭٭

 

لاجواب

 

اک پری وش سے کہا میں نے اے میری جانِ جاں

میری خواہش ہے مجھے اپنا بنا لیجے میاں

چاہتا ہوں آپ بن جائیں مرے بچوں کی ماں

سن کے میری عرض کو اس شوخ نے کھولی زباں

کیسے ہیں کتنے ہیں بچے پہلے دکھلاؤ مجھے

جن کی ماں بننا ہے مجھ کو ان سے ملواؤ مجھے

٭٭٭

 

 

گمنام

 

 

مسجد کے لئے چیک دیا ایک لاکھ کا

اسمِ گرامی چیک پر لیکن نہیں لکھا

میں نے کہا کہ دستخط اس پر کریں ذرا

اُس منکسر مزاج نے شرما کے یوں کہا

کرتا ہوں کارِ خیر میں بڑھ کے وجود سے

نفرت مگر مجھے ہے اس نام و نمود سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

جُراب

 

تم نے نئی جُراب کو برباد کر دیا

اورینج جوس چھان کر میری جراب میں

برجستہ مجھ سے میرے ملازم نے یہ کہا

اتنا بھی بے وقوف نہیں ہوں جناب میں

ہفتوں کے بعد پائے مبارک سے جو اتری

چھانا ہے جوس آپ کی ایسی جُراب میں

٭٭٭

 

 

 

 

جاوید اختر

(پارلیمینٹ میں اردو کی مخالفت کرنے پر)

 

شبانہ کے شوہر یہ دامادِ کیفی

سنیں گے اگر ان کی روداد کیفی

عدم میں نہ ہوں گے کبھی شاد کیفی

کہیں گے ادب کی ہیں یہ گاد کیفی

سیاست سے خائف ہوئے جاوید اختر

جو اردو مخالف ہوئے جاوید اختر

٭٭٭

 

 

 

 

رسولِؐ خدا

 

بن مانگے ہر مراد کی تکمیل ہو گئی

اٹھنے دیے نہ آپ نے دستِ دعا مرے

کیا معجزے بیان ہوں اعلیٰ صفات کے

سر تا پا معجزہ ہیں رسولِؐ خدا مرے

٭٭٭

 

 

 

حسینؑ

 

چھپے ہیں لشکروں والے یہ کون سے بل میں

دکھائی کیوں نہیں دیتے یہ آنکھ کے تل میں

یذید کا نہیں نام و نشان بھی باقی

حسینؑ آج بھی زندہ ہر ایک کے دل میں

٭٭٭

 

 

 

خرافات

 

نام میں فرق ہے دال اور قاف کا

نہ نکتہ نہ فن ہے نہ کچھ بات ہے

شاعری احمقانہ سی احمد کی ہے

جیسے اک خر کی ساری خرافات ہے

٭٭٭

 

 

 

رائیگاں

 

بے عیب ایک بھی نہ تھا سارے تھے عیب دار

کانوں کی کن کٹوں کی جو قربانیاں ہوئیں

حاصل ہوئی کسی کو نہ شرفِ قبولیت

قربانی لیڈران کی سب رائے گاں ہوئیں

٭٭٭

 

 

 

وزارتیں

 

تقسیم داغیوں میں ہوئی ہیں وزارتیں

جمہوریت میں دوستو کیا کیا حلال ہے

کس کو یہاں تمیز حرام و حلال کی

کانا یہاں حلال ہے نکٹہ حلال ہے

٭٭٭

 

 

 

صابق

 

اک بار جو لگ جائے تو یہ لت نہیں چھٹتی

اس قوم میں کہتے ہیں مہاجر نہیں ہوتے

صابق کی دُم لگا کے نہیں گھومتے ادیب

صابق وزیر ہوتے ہیں شاعر نہیں ہوتے

٭٭٭

 

 

 

 

خالی ہاتھ

 

میاں یہ میں نہیں کہتا یہ اہلِ ہوش کہتے ہیں

جہاں سے بھی گذر اس کا ہوا محلات خالی تھے

غلط کہتے ہو ہوٹل سے چرا کر لے گیا چمچ

سکندر جب گیا دنیا سے دونوں ہاتھ خالی تھے

٭٭٭

 

 

 

امتحاں

 

بیلن کو دیکھتے ہی غائب ہوئے ہم ایسے

پایا نہ کئی ہفتے نام و نشاں ہمار

بیگم سے پٹنے والے اے آسماں نہیں ہم

سو بار لے چکا ہے تو امتحاں ہمارا

٭٭٭

 

 

 

میاں

 

بڑھاپے میں ہوا جو بدگماں تیرا ہے یا میرا

اگر مجھ پر فدا ہے یہ زیاں تیرا ہے یا میرا

تنک کر میری بیوی سے یہ فرمایا پڑوسن نے

مجھے فکر میاں کیوں ہو میاں تیرا ہے یا میرا

٭٭٭

 

 

 

حرام

 

اسلام میں وہ جانور سارے حرام ہیں

کھانے کی چیز جو نہ کھلانے کی چیز ہیں

خوش ذائقہ مری ہوئی مچھلی حلال ہے

بکرا، ہرن حلال ہیں کیونکہ لذیذ ہیں

٭٭٭

 

 

 

حلال

 

تیتر، بٹیر، گائے اور خرگوش بے ضر ر

معصوم ہے مرغا بھی بچارا حلال ہے

دیکھا نہ آنکھ اٹھاکے کبھی شیر کی طرف

بسم اللہ پڑھ کے کھا گئے بکرا حلال ہے

٭٭٭

 

 

 

عقد

 

مہر کا احتیاطاً کیش ان کے ساتھ رہتا ہے

ادھاری میں نہ ہو ممکن تو شاید نقد ہو جائے

ہمیشہ ایک سہرا اور قاضی ساتھ رکھتے ہیں

نجانے کس گلی میں شیخ جی کا عقد ہو جائے

٭٭٭

 

 

 

 

احتیاط

 

ہاتھ کو رکھا تھا دستانے میں قید

احتیاط اتنی تھی پھر بھی کھو گئیں

ایک لیڈر سے ملایا تھا یہ ہاتھ

ہاتھ سے دو انگلیاں کم ہو گئیں

٭٭٭

 

 

 

فرق

 

انگریزی میں آٹھ کا ہندسہ محبوبہ

چھتّیس چوبیس چھتّیس محبوبہ کا ناپ

بیگم لیکن اردو کی دو چشمی ھ

ستّر ستّر ستّر یعنی ٹاپ و ٹاپ

٭٭٭

 

 

 

منصفی

 

جو بیویوں کے سہتے رہے ظلم عمر بھر

ملکِ عدم میں ان کا بڑا احترام ہے

حوریں کئی کئی انہیں کر دی گئیں الاٹ

ان شوہروں پہ نارِ جہنم حرام ہے

٭٭٭

 

 

 

 

نقّاد

 

لنگڑی انگریزی میں اردو کی جگالی کرتے

خود کو ہم مرتبہِ عظمتِ حالی کرتے

نقد و تنقید ہے محدود فقط غالب تک

زندگی گذری ہے غالب کی دلالی کرتے

٭٭٭

 

 

 

مشورہ

 

ہو گیا ہے عشق اب معیوب مرنا چاہیئے

کر دیا حوروں نے بھی معتوب مرنا چاہیئے

اب کوئی کالی کلوٹی بھی نہیں کرتی سلام

آپ کو مرنا نہیں اب ڈوب مرنا چاہیئے

٭٭٭

 

 

 

درخواست

 

ہو جائے نہ بیوی مری، بیوہ مرے آگے

اٹھآ کئی بڈھوں کا جنازہ مرے آگے

گو آنکھ میں جنبش نہیں چشمے میں تو دم ہے

رہنے دو رقیّہ و ثریآ مرے آگے

٭٭٭

 

 

 

مس انڈیا

 

خیر سے میڈم ہیں دو بچوں کی ماں

فرق کچھ آیا نہ خدو خال میں

پھر بھی یہ مس انڈیا ہیں آج بھی

شادیاں دو کر چکیں دو سال میں

٭٭٭

 

 

 

محترم

 

دو دوکانیں تو نذرِ لپسٹک ہوئیں

لکھ پتی میں کبھی تھا پتی آج ہوں

محترم ہوں میں سسرال میں آج بھی

پاؤں چپّل سے خالی ہیں سرتاج ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

ٹی آر پی

 

چاہیئے ان کو فقط ٹی آر پی

کوئی ہو میڈم کہ مس اس ملک میں

لائیو دکھلائیں گے منظر ریپ کے

ٹی وی چینل ایک دن اس ملک میں

٭٭٭

 

 

 

رتبہ

 

کاروں کا قافلہ یہ وی آئی پی کا رتبہ

اس ملک میں یہی ہے بس شیخ کی کمائی

مسجد میں کر رہا ہے جو مولوی امامت

ٹوپی ہے کانگریسی تو داڑھی ہے سپائی

٭٭٭

 

 

 

اہلِ زباں

 

اس قدر ٹھوکیں گی تم کو بیگمات

تم ادب کے آسماں ہو جاؤ گے

پورا جبڑا جب باہر آ جائے گا

خود بخود اہلِ زباں ہو جاؤ گے

٭٭٭

 

 

 

تضمین

 

مساوی ہے چاروں پہ نظرِ عنایت

کئی مرحلے قابلِ غور بھی ہیں

ابھی ایک بیوی سے ہے ایک بچہ

’’مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں‘‘

٭٭٭

 

 

 

آٹھویں شادی

 

بتّیس میں اک دانت نہیں منھ میں آپ کے

آنکھوں میں بھی کرن نہ ملے ایک نور کی

اسّی کی عمر کرنے چلے آٹھواں نکاح

اب بھی میاں لنگور کو خواہش ہے حور کی

٭٭٭

 

 

 

اسرار جامعی

(اردو اکادمی کا سالانہ ایوارڈ ملنے پر)

 

بھاری بھرکم ہو گیا ہلکا ادب

کار آمد ہو گئے بے کار بھی

کارنامہ اختر الواسع کا ہے

صاحبِ اعزاز ہیں اسرار بھی

٭٭٭

 

پتلے پتلے

 

ایک گرتی ہوئی دیوار نظر آتے ہیں

ان کے آثار بے آثار نظر آتے ہیں

جب سے کھانے لگے بیوی کے ہاتھ کا کھانا

پتلے پتلے مرے سرکار نظر آتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

بخشش

 

ایک سجدہ نہ پر اثر نکلا

شیخ کی ہے خدا سے کیا رنجش

ہم گناہوں سے تھے ڈرے سہمے

ہو گئی ہے وضو میں ہی بخشش

٭٭٭

 

 

 

 

حکمِ تایا

 

اس لیے پھینک دیا میں نے دوپٹہ سر سے

بے حیائی پہ مری طنز نہ اب تائی کر

حکم یہ دے کے گئے ہیں مجھے تایا ابآ

’’پردہ چہرے سے اٹھا انجمن آرائی کر‘‘

٭٭٭

 

 

 

بیلینس

 

کیا چالیسواں دونوں کا کیسی شان سے میں نے

ابھی دو بیویوں کو میں نے پہنچا یا ہے جنّت میں

نہیں بالکل نہیں مایوس میں رحمت سے مولا کی

ابھی دو بیویاں بیلینس ہیں میری شریعت میں

٭٭٭

 

 

 

نصیحت

 

پردہ بہت ضروری شریعت میں ہے سنو

دو لفظ میرے آج یہ کانوں میں ڈال لو

دیکھیں اگر بزرگ، تو لو ان کی دعا تم

گر نوجوان دیکھیں تو گھونگھٹ نکال لو

٭٭٭

 

 

 

محرومی

 

منحرف اپنی روایت سے مسلمان ہے آج

ایک بیوی پہ یہاں سینکڑوں صلواتیں ہیں

چار جائز ہیں مگر ایک تلک ہوں محدود

’’کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں‘‘

٭٭٭

 

 

 

حقیقت

 

معلوم یہ ہوتا ہے سیاست میں کبھی بھی

قدرت کا یہ قانون بدل ہی نہیں سکتا

ہور ہبرانِ ملک میں ایثار کا جذبہ

’’سورج کبھی مغرب سے نکل ہی نہیں سکتا‘‘

٭٭٭

 

 

 

مشورہ

 

بیوی کی قبر کو نہ بھگو آنسوؤں سے یار

سالی بھی نوجوان ہے کچھ اعتبار رکھ

ساس اور سسر کے ہاتھ میں لا کر کمائی دے

’’پیوستہ رہ شجر سے امیّدِ بہار رکھ‘‘

٭٭٭

 

 

 

اسپون

 

جس طرف دیکھو ترقی کا ہے دور

آج کل کی لڑکیاں خاتون ہیں

وہ جو چمچے تھے تمہارے عہد میں

وہ ہمارے عہد میں اسپون ہیں

٭٭٭

 

 

 

اعظم خاں

(امریکہ میں توہین ہونے پر)

 

جسے کہتے ہیں امریکہ، مسلمانوں کا دشمن ہے

کبھی دشمن کے گھر میں قورمہ کھایا نہیں کرتے

ذرا سی بات ہے علوی یہ اعظم خاں کو بتلا دو

’جہاں عزت نہیں ہوتی وہاں جایا نہیں کرتے‘

٭٭٭

 

الّو کا پٹھا

 

ایک دن شاگرد یہ کہنے لگا استاد سے

آپ اہلِ علم ہیں بتلا ئیے اتنا مجھے

جب سے یہ شہرت ہوئی ہے آپ کا پٹھآ ہوں میں

کہتا ہے الّو کا پٹھآ آپ کا حلقہ مجھے

٭٭٭

 

 

 

اہلِ دانش

 

لبوں پہ قفل کیوں رہتا ہے اہلِ دانش کے

کبھی کواڑ لبوں کے کھلا نہیں کرتے

کبھی یہ کرتے نہیں ہیں صفائی دانتوں کی

اسی لیے تو یہ کھل کر ہنسا نہیں کرتے

٭٭٭

 

 

 

کاندھوں پر

 

دیر تک یہ سجتا ہے عاقلوں کے کاندھوں پر

زیب سر نہیں دیتا سر پھروں کے کاندھوں پر

اپنے دم پہ ہی علوی زندگی گذرتی ہے

اٹھتے ہیں جنازے ہی دوسروں کے کاندھوں پر

٭٭٭

 

 

 

چھکہّ

 

اک سال بھی نہ بیتا تھا منکوحہ نے میری

اک سیدھے سادھے شخص کو ابآ بنا دیا

تعداد اس طرح بڑھی بچوں کی سالوں سال

دگی کو چوآ چوے ّ کو چھکہ بنا دیا

٭٭٭

 

 

 

بلائے آسمانی

 

کوئی دن گر زندگانی اور ہے

ایک بیوی کی کہانی اور ہے

ریشمہ رضیہ ثریا  جا چکیں

اک بلائے آسمانی اور ہے

٭٭٭

 

 

توہین

 

(نئے پرانے چراغ کے مشاعرے میں ترنم پر پابندی کے پس منظر میں)

 

میں یہ کہتا ہوں گلے بازوں کی یہ توہین ہے

شعر ہیں سب کچھ ادب میں ٹیٹوا کچھ بھی نہیں

کیا پڑھیں گے آکے مائیک پر وہ تحتا للفظ میں

جن کی جیبوں میں ترنم کے سوا کچھ بھی نہیں

٭٭٭

 

 

صدقہ

 

بلائیں ساری ٹل جاتی ہیں اک صدقے سے کہتے ہیں

مگر صدقہ تو یہ شاعر بھی سالوں سال دیتا ہے

کسی صورت نہیں ٹلتی مری بیوی مرے سر سے

غلط کہتے ہو صدقہ ہر بلا کو ٹال دیتا ہے

٭٭٭

 

 

 

دعا

 

دے اسے توفیق اچھی بات کی

میں نہیں کہتا کہ اچھی شکل دے

علم مجھ کو دے نہ دے پر اے خدا

میری بیگم کو ذرا سی عقل دے

٭٭٭

 

 

 

فراخدلی

 

دعوت مجھے ولیمے کی تو نے کھلا تو دی

آخر مرے نصیب پہ جھاڑو لگا تو دی

بچے جو تیرے کہتے ہیں ماموں تو غم نہیں

’’تو نے کسی کے ساتھ محبت نبھا تو دی‘‘

٭٭٭

 

 

 

نذرِ ساحر

 

جو ساتھ لائی ہے اپنے جہیز میں بچے

سنا کے لوریاں ان کو سلا رہا ہوں میں

تمام لوگ سمجھتے ہیں اپنی دلہن کا

سہاگ رات ہے گھونگھٹ اٹھا رہا ہوں میں

٭٭٭

 

 

 

نذرِ غالب

 

آسماں کے سبھی اسٹار ہیں فیور میں مرے

میرے ہاتھوں میں لکیروں کا یہ جال اچھا ہے

قاضی اس سال پڑھائے گا مرا مفت نکاح

’’اک برہمن نے کہا کہ یہ سال اچھا ہے‘‘

٭٭٭

 

 

 

صفات

 

گال پچکے ہوئے ٹماٹر ہیں

ناک بھی ان کی ناشپاتی ہے

پیٹ تربوز جیسا غبآ رہ

ہر صفت اس میں بیگماتی ہے

٭٭٭

 

 

 

کلیّات

(کچھ زندہ شاعروں کی کلیّات شائع ہونے پر)

 

قبر بھی تیّار کر لیتے اگر

فاتحہ پڑھ لیتیں ساری بیگمات

ہو گئے تخلیق کے سوتے بریک

زندگی میں چھاپ ڈالی کلیّات

٭٭٭

 

چیز

 

 

ہر لفظ سے جھلکتی تھی بقراطیت جناب

سنجیدہ اس قدر تھا مقالہ عزیز کا

پڑھتے ہوئے ہونٹوں پہ نہ آ جائے تبسم

جملوں میں ایک لفظ بھی رکھا نہ چیز کا

٭٭٭

 

 

 

خود کشی

 

اک شادی شدہ شخص سے ہم نے کیا سوال

اچھا سا خود کشی کا طریقہ بتائیے

ہر روز خود کشی کا مزا پائیں گے جناب

اک خوبرو حسینہ سے شادی رچائیے

٭٭٭

 

 

 

تعریف

 

اک بحرِ بے کراں میں جیسے کوئی جزیرہ

فربہ بدن کو اس کے کوئی ہلا نہ پایا

کہتے ہیں کھاتے کھاتے بیگم اٹھیں جہاں سے

تعریف اس خدا کی جس نے انہیں اٹھایا

٭٭٭

 

 

 

دُم

 

جھوٹی تعریفوں کے علوی پل بنانا سیکھ لو

پھینک دو نشتر کو اب مکھن لگانا سیکھ لو

تم نے پانا ہے اگرطنز و ظرافت میں مقام

تم بھی نقآدوں کے آگے دُم ہلانا سیکھ لو

٭٭٭

 

 

 

نا سمجھی

 

اردو اشعار کی گہرائی کا قائل ہی نہیں

سارے کالج میں ہیں جاہل کوئی قابل ہی نہیں

لڑکیاں شرٹ پہ آتی ہیں یہ مصرع لکھ کر

’’ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں‘‘

٭٭٭

 

 

 

شوہر کی فطرت

 

شوہر کی یہ فطرت یارو بہت پرانی لگتی ہے

اپنی دو آنکھوں والی بھی ان کو کانی لگتی ہے

موبائل سے چھپ چھپ کر اس کی تصویریں لیتے ہیں

اگر پڑوسن کانی بھی ہو روپ کی رانی لگتی ہے

٭٭٭

 

 

 

نذرِ انشاء اللہ خاں انشا

 

کھینی تری چھالی تری چونا ترا کتھّا ترا

سگریٹ تری بوتل تری ادھا ترا پوّا ترا

اپنا یہاں پر کون ہے سارے ہیں تیرے آشنا

تایا ترا بھیّا ترا چاچا ترا ابّا ترا

٭٭٭

 

 

 

لمبی ناک

 

جڑی نہ قتلِ اسامہ سے بھی جو لمبی ناک

وہ کیسے خوشبو و بدبو میں امتیاز کرے

بنایا آپ کو پاگل ہوائی طاقت نے

’’جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے‘‘

٭٭٭

 

 

 

اقبالِ جرم

 

حالانکہ شادیوں کے میں قابل نہیں رہا

کیوں زہر شادیوں کا پیئے جا رہا ہوں میں

لگتا ہے اچھا لوگوں کا نوشہ پکارنا

ہر سال اک نکاح کیئے جا رہا ہوں میں

٭٭٭

 

 

 

دربانی

 

ظلِ سبحانی نہیں ہو سکتی

آگ تو پانی نہیں ہو سکتی

چاپلوسی مزاج ہی میں نہیں

ہم سے دربانی نہیں ہو سکتی

٭٭٭

 

 

 

آسرا

 

جس کو پالا تھا بڑھاپے کا بنے گا آسرا

وہ سہارا بھی جوانی کا سہارا ہو گیا

یوں جنازہ اٹھ گیا ماں باپ کی امیّد کا

ایک ہی بیٹا تھا جو بیوی کو پیارا ہو گیا

٭٭٭

 

 

 

نذرِ فلسطین

 

نہ فرعون ہو گا نہ شداد ہو گا

فلسطین اک روز آزاد ہو گا

اماں نہ ملے گی کہیں قاتلوں کو

چڑھا خود ہی سولی پہ جلآد ہو گا

اگے گا جب انصاف کا کوئی سورج

تبھی موم صہیونی فولاد ہو گا

حمایت میں اٹھا ہر اک سر کٹے گا

یہ انجام ہے ظلم کا یاد ہو گا

٭٭٭

 

 

 

دھمکی

 

اب مرتبہ عورت کا ہے مردوں کے برابر

چلنے کی نہیں دھاندلی اب تیری یہاں اور

لے آیا بڑی دھوم سے تو دوسری بیوی

لے آئے جو بیوی بھی تری ایک میاں اور

٭٭٭

 

 

 

مایوسی

 

ملنے کی حسیناؤں سے خواہش نہیں ہوتی

برسات کے موسم میں بھی بارش نہیں ہوتی

کھجلی کو کھجانے کا کبھی دل نہیں ہوتا

اب سوکھے ہوئے زخم میں خارش نہیں ہوتی

٭٭٭

 

 

 

شوہر

 

دونوں کانوں کو پکڑ بنتا ہے مرغا شوہر

پھر بھی بیوی نے کہا یہ نہیں اچھا شوہر

صرف بے عیب میاں چاہیے ہر بیوی کو

کیا فقط ہوتا ہے قربانی کا بکرا شوہر

٭٭٭

 

 

 

شاخ

 

طلا ہے فیل تو ناکام کشتہ و معجون

مرا نکاح بڑھاپے میں ہی پڑھانا تھا

یہ کہہ کے کر دیا انکار میں نے شادی سے

’’وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا‘‘

٭٭٭

 

 

 

مسئلہ

 

پنج وقتہ اک نمازی نے یہ پوچھا مسئلہ

ریل میں کعبے کے رخ کی کس طرح پہچان ہو

ہے حفاظت فرض ہر مسلم پہ جان و مال کی

کیجئے رخ اس طرف کو جس طرف سامان ہو

٭٭٭

 

 

 

تحریف

 

کیا تعلق ہے ہمارا یہ کہانی پھر سہی

پھر میں کہتا ہوں دوبارا یہ کہانی پھر سہی

جیب کٹنے کا سبب پوچھو نہ سب کے سامنے

نام آئے گا تمہارا یہ کہانی پھر سہی

٭٭٭

 

 

 

تین پہلو

 

دوست

 

ایسا سر سبز شجر جو تم کو

کوئی موسم بھی ہو پھل دیتا ہے

دوست ہوتا ہے دھنک کی صورت

زندگانی کو بدل دیتا ہے

 

معشوق

 

یہ ہے کیف و سرور سے بھر پور

ذائقے سے بھرا پیالا ہے

جس کو معشوق آپ کہتے ہیں

ایم ڈی ایچ کا مسالا ہے

 

بیوی

 

کونے کونے سے ڈھونڈ کر مارے

ہر خوشی جس کے دم سے گھائل ہے

جس کو کہتے ہیں دوستو بیوی

مچھروں والی ایک کوائل ہے

٭٭٭

 

 

 

ہم زلف

 

واسطے زلفوں کے رہتے تھے ہمیشہ فکر مند

پھر اچانک یہ ہوا زلفوں پہ اترانے لگے

دو سگی بہنوں سے دو گنجوں کی شادی ہو گئی

اور یہ بے زلف بھی ہم زلف کہلانے لگے

٭٭٭

 

 

 

استاد

 

تین سو شاگرد جس کے لا پتہ ہیں دوستو

شاعری جس کی پرانے شاعروں کی گاد ہے

آج تک جس کی نہیں ہے فاعلن فعلن درست

داغ کی دلّی میں اک خود ساختہ استاد ہے

٭٭٭

 

 

 

دہاڑی شوہر

 

ہرفکر ہر مزاج کے ہر عمر کے جناب

جیسے بھی تم کو چاہئیں کر لیجے انتخاب

بہتر ہے گھر کے واسطے نوکر ہو مستقل

شوہر تو آج کل ہیں دہاڑی پہ دستیاب

٭٭٭

 

 

 

سازش

 

سازش ضرور کاتبِ فر فر رقم کی ہے

گھٹیا بنا کے رکھ دیا کیسے گریٹ کو

نکتہ بس اک لگایا، بیو رو کریٹ میں

بیورو کرپٹ کر دیا بیورو کریٹ کو

٭٭٭

 

 

 

تاج محل

 

ضائع نہ کیا ایک بھی پل شاہ جہاں نے

ظاہر یوں کیا ردِّ عمل شاہ جہاں نے

لگتا ہے کہ ممتاز کے مرنے کی خوشی میں

بنوا دیا اک تاج محل شاہ جہاں نے

٭٭٭

 

 

 

طفلانہ ادب

 

اب طنز کی معراج ہے لڈّن کا ولیمہ

عبداللہ کا نیکر ہی ظریفانہ ادب ہے

با ذوق اب ناقد ہیں نہ شاعر نہ منتظم

اس واسطے عظیم یہ طفلانہ ادب ہے

٭٭٭

 

 

 

منافقت

 

درس دینا تھا جہاں سے سادگی کا قوم کو

دیکھنے لائق تھی یارو شان اس اسٹیج کی

مولوی صاحب نے کی تقریر ٹی وی کے خلاف

بیس ٹی وی کیمروں نے آپ کی کوریج کی

٭٭٭

 

 

 

المیہ

 

مسجد میں عمر بھر نہ کبھی واپسی ہوئی

یعنی پھٹی کو سینے میں ہی عمر کٹ گئی

پتلون تنگ اتنی تھی ماموں کی دوستو

سجدہ ادا ہوا نہیں پتلون پھٹ گئی

٭٭٭

 

 

 

ٹانگ

 

رہو گے دونوں طرف تو پٹو گے دونوں طرف

ہر اک کا ڈھول بجانے سے فائدہ کیا ہے

کبھی تمہاری کبھی اس کی ٹانگ ٹوٹے گی

پھٹے میں ٹانگ اڑانے سے فائدہ کیا ہے

٭٭٭

 

 

 

سیاست

 

برسوں سے سیاست ہے، یہ اہلِ سیاست کی

پبلک کو سلیقے سے ٹرخا بھی نہیں سکتے

وعدے تو الیکشن میں کرتے ہو مشینوں کے

اور جیت کے ووٹر کو چرخا بھی نہیں دیتے

٭٭٭

 

 

 

دہشت گرد

 

جارج، اوبامہ، نہ میکائیل دہشت گرد ہے

ماردو اس کو کہ اسماعیل دہشت گرد ہے

یہ تو بس سوتے ہوئے بچوں پہ برساتا ہے بم

کون کہتا ہے کہ اسرائیل دہشت گرد ہے

٭٭٭

 

 

 

من موہن

 

ہو گیا ہے بریک فاسٹ بریک

ایسی حالت ہر اک کچن کی ہے

بولنے کو نہیں ہے کچھ باقی

بولتی بند من موہن کی

٭٭٭

 

 

 

نارنگ

 

سارے قانون قاعدے سارے

اہلِ اردو سے فائدے سارے

علمیت کے مظاہرے سارے

اس جہاں کے مشاعرے سارے

عظمتوں کے یہ سلسلے سارے

سارے اعزاز مرتبے سارے

بے چمک سنگ کے لیے ہیں سب

جو ہیں نارنگ کے لیے ہیں سب

٭٭٭

 

 

 

اخباری قطعات

 

(یہ قطعات روزنامہ ’’ہمارا سماج‘‘ میں ۲۱ ؍اپریل ۲۰۱۰ ء سے جون ۲۰۱۰ ء کے درمیان شائع ہوئے اس کے بعد اخبار ان کی تیزی اور ترشی نہیں جھیل پایا )

 

 

 

مستقل دہشت گرد

 

اغوا ڈی ایم کا کریں یا مار دیں سی ایم کو

کچھ بھی کر دیں نکسلی پھر بھی یہ اننو سینٹ ہیں

اور مسلم نوجواں ہیں سب سے آساں ٹارگٹ

کیونکہ یہ معصوم دہشت گرد پرمانینٹ ہیں

٭٭٭

 

 

 

تلاشِ صدر

 

اپنا بائیو ڈاٹا بھیجو سونیا گاندھی کو تم

احمد علوی آج کل تم بھی تو ہو خانہ خراب

ایک ایسے شخص کی شدّت سے جاری ہے تلاش

قبلہ و کعبہ لکھیں جس کو کہیں عزت مآب

٭٭٭

 

 

 

مہنگائی

 

مر جائیں اگر بھوک سے لاکھوں عوام بھی

ڈولر سے خزانے کا شکم بھرتے رہیں گے

اب دودھ بھی بکوائیں گے ہم سو روپے کے جی

مہنگائی کی تاریخ رقم کرتے رہیں گے

٭٭٭

 

 

 

گراوٹ

 

ایک روپیہ بھی گرا پایا نہیں

ڈھونڈھنے بازار جب شاعر گیا

یہ خبر تھی گرم ہر اخبار میں

مارکٹ میں آج روپیہ گر گیا

٭٭٭

 

 

 

ترمیم

 

چھوڑ دے عادت پرانی تو یہ بندر بانٹ کی

اب اجالوں کو برابر ملک میں تقسیم کر

ملک میں تو چاہتا ہے گر دوبارہ اقتدار

تو ریزرویشن کے اس قانون میں ترمیم کر

٭٭٭

 

 

 

قانون

 

مسجدوں پر حق مسلمانوں کا ہے

ایک بھی جائز کوئی قبضہ نہیں

مسجدوں پر ہند کے قانون سے

حق ہی آثارِ قدیمہ کا نہیں

٭٭٭

 

 

پیڈ مشاعرہ

(دہلی میں اک مشاعرے میں کلام پڑھنے والے شاعر سے تین سو روپے وصولے گئے اسی پس منظر میں یہ قطعہ)

 

ہم کو بڑی خراب سنک شاعری کی ہے

باہر نہ ہو تو رکھتے ہیں گھر پر مشاعرہ

’’پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں‘‘

پڑھتے ہیں تین سو روپے دے کر مشاعرہ

٭٭٭

 

 

 

موقع

 

بے داغ وہ ہی دوستو لیڈر ہیں ملک میں

وہ جن کو حکمرانی کا موقع نہیں ملا

ایماندار ہونے کا دعویٰ انہیں کو ہے

وہ جن کو بے ایمانی کا موقی نہیں ملا

٭٭٭

 

 

 

سائیکل

 

ڈال دی کوڑے میں دادا کی نشانی سائیکل

زندگی میں ہو گئی تھی بے معانی سائیکل

کار تو بے کارہے علوی بنا پٹرول کے

ہو گئی ہے کار آمد ہر پرانی سائیکل

٭٭٭

 

 

 

سماجوادی حکومت

 

کون حق میں ہے مسلمانوں کے ہندستان میں

کیا سیاست کیا صحافت ہے عدالت بھی خلاف

کیا بتائیں آپ کو بد قسمتی اس قوم کی

جس کو خود اس نے چنا ہے وہ حکومت بھی خلاف

٭٭٭

 

 

 

بھارت بند

 

جنگلی گینڈے کی صورت کھال موٹی ہو گئی

ان کو سرد و گرم کا اب کوئی ڈر ہو گا نہیں

چیخئے چلائیے اور خوب ماتم کیجئے

گوں گی بہری ہے حکومت کچھ اثر ہو گا نہیں

٭٭٭

 

 

 

المیہ

 

اس کے شوہر کو لے گیا یمراج

اس کو ساوتری چھڑا لائی

موت بھی بیویوں کے پنجے سے

شوہروں کو کہاں بچا پائی

٭٭٭

 

 

فاروق ارگلی سے

(’دیوار قہقہہ‘ میں یکم فروری کو احمد علوی کی گردن ناپ دی گئی)

 

علوی بھی ایک نام ہے طنز و مزاح کا

دیوارِ قہقہہ میں اسے بھی تو چھاپ دو

تم ناپتے ہو سارے ادیبوں کی گردنیں

اک روز بھائی اپنے گلے کو بھی ناپ دو

٭٭٭

 

 

 

عدل

 

بتائیں آپ ہی ہم عدل اس کو کیسے کہیں

جو عدل ہندو مسلماں میں امتیاز کرے

کسی کو مرتبے بخشے کسی کو سولی دے

جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے

٭٭٭

 

 

 

جمہوریت

 

دوستو جمہوریت نے باندھ رکھا ہے ہمیں

سچ بیاں کر دوں اگر ہو خیر میری جان کی

مل گیا فرقہ پرستوں کو اگر یہ اقتدار

سنترے کی طرح قاشیں ہوں گی ہندوستان کی

٭٭٭

 

 

 

آئی ایس آئی ایجنٹ

 

اک نمازی کو پکڑ لائے لگا کر ہتھکڑی

پست قد خاکی کا دیکھو کتنا اونچا قد ہوا

ایک پل میں بن گیا جاسوس پاکستان کا

ایک چولہا آئی ایس آئی کا بر آمد ہوا

٭٭٭

 

 

 

سیاسی ذہنیت

 

اپنے ہندوستان میں تو عاشقِ اردو ہیں سب

شہد جیسی یہ زباں اک پوٹلی خوشبو کی ہے

کار فرما ہے یہاں پر بھی سیاسی ذہنیت

آج بے گور و کفن یہ لاش جو اردو کی ہے

٭٭٭

 

 

 

۲ مئی۱۹۱۲تقسیمِ انعامات

(انعامات کی تقسیم جمعرات کے دن  ہونے پر)

 

ماشاء اللہ بجٹ بھی ہے اب دو گنا

اہلِ اردو میں سرکاری خیرات کو

سال میں کیا فقط اک جمعرات ہے

بانٹتے کیوں نہیں ہر جمعرات کو

٭٭٭

 

رشدی پر تحقیق کی اجازت پر

 

سی سی ایس یونیورسٹی کو سمجھنا ہو گا

یہ مسلمانوں کے زخموں پہ نمک پاشی ہے

ایک شیطان کی شیطانی کی تحقیق نہیں

اک سڑی لاش پہ گل بوٹوں کی نقّاشی ہے

٭٭٭

 

 

 

ایئر انڈیا دیوالیہ

 

اک مرتبہ چناؤ کیا جیتا جناب نے

جو کچھ بھی اس جہاں میں تھا وہ پا لیا تمام

سارے وزیر اب ہیں پتی سے ارب پتی

ان کی وزارتیں ہوئیں دیوالیہ تمام

٭٭٭

 

 

 

ستیہ مے وجیتے

 

بیٹیاں بڑھ جائیں گی اور بیٹے کم ہو جائیں گے

سیکھ ہند ستان کو دے دی ہے عامر خان نے

آئیں گی حصے میں اک شوہر کے دودو بیویاں

صور ایسا پھونکا ہے ٹی وی سے عامر خان نے

٭٭٭

 

 

ایس آئی ٹی کی رپورٹ

(ایس آئی ٹی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ مودی نے فساد میں مسلمانوں کو بچایا)

 

سچ کہا ایس آئی ٹی نے دوستو

آپ پر الزام جھوٹے دھر گئے

مارتے مودی تو مرتے ایک لاکھ

یہ بچانے میں ہزاروں مر گئے

٭٭٭

 

 

 

سبرامنیم سوامی

 

اک جانچ سی بی آئی سے کروانی چاہیے

ٹوپی بغیر کیسے بنا ٹوپ منتری

آروپ تھوپنے میں یہ ماہر ہے اس قدر

سوامی کو ہونا چاہیئے آروپ منتری

٭٭٭

 

 

 

یدیورپا پر سی بی آئی چھاپے

 

سی بی آئی کر رہی ہے کیوں یدیو رپا کو تنگ

یہ سراسر ظلم ہے ایمانداروں کے خلاف

سورگ میں ہی بھاجپا کا واس ہونا چاہیئے

بے ایمانوں میں یہی اک پارٹی ہے پاک صاف

٭٭٭

 

 

 

بابا

 

کرپا آشیرواد کو بیچو سالوں سال

کرنا دھرنا کچھ نہیں صرف بجاؤ گال

کاغذ پین کو چھوڑ کر تم بھی بن جاؤ بابا

باباؤں کی جیب میں ہے اربوں کا مال

٭٭٭

 

 

 

مہدی حسن کی وفات پر

 

غزلیں اداس ہو گئیں فیض و فراز کی

نوحے تمام غزلوں کے اشعار بن گئے

سر چڑھ کے اب نہ بولے گا آواز کا طلسم

ملکِ عدم کی راہ پہ مہدی حسن گئے

٭٭٭

 

 

 

سپریم کورٹ کی پھٹکار

 

جتنے لیڈر ہیں ملک میں اپنے

بے ایمانوں کے گاڈ لگتے ہیں

کیوں یہ سپریم کورٹ کہتا ہے

ماہرانِ فراڈ لگتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

لات

 

دانتوں کو توڑنے کے لیئے لات چاہیئے

اس عاشقی میں کچھ تو خرافات چاہیئے

اللہ کیسے میری عیادت کو آئے وہ

’’تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات چاہیئے‘‘

٭٭٭

 

 

 

 ٹوپی

 

ٹوپی سے مسلمان کی کیوں ڈرتا ہے مودی

کافر کوئی یوں صاحبِ ایماں نہیں بنتا

پڑھ لینے سے کلمے کے تو بنتا ہے مسلماں

ٹوپی کے پہننے سے مسلماں نہیں بنتا

٭٭٭

 

 

 

ٹیٹوا

 

حسن چلتا ہے یا الطاف ضیا چلتا ہے

اور راحت کا گلا پھاڑ گلا چلتا ہے

واسطے شعر کے کاغذ قلم ہے بے معنیٰ

ٹیٹوا چاہے پھٹا ہی ہو پھٹا چلتا ہے

٭٭٭

 

 

 

انٹر نیٹ

 

روز معشوقاؤں کی ہے کھوج انٹر نیٹ پر

آج کل ہے عاشقوں کی موج انٹر نیٹ پر

اب کوئی پہرا نہیں محبوب کے دیدار پر

آج بے بس ہے پولس اور فوج انٹر نیٹ پر

٭٭٭

 

 

دھوم

 

مٹھّی میں آسمان ہیں، قدموں میں ہیں نجوم

ان سے صلاح کرتے ہیں علمائے ملکِ روم

بے علم ہو گئے ہیں یہاں ماہرِ علوم

اردو میں آج کل ہے متشاعروں کی دھوم

٭٭٭

 

 

 

کلیّاتِ ساغر خیّامی

 

یہ جو ساغر کا چھپا ہے کلیّات

یہ ظریفانہ ادب کی شان ہے

یہ تبسم کا ہے بحرِ بے کراں

قہقہوں کا خوشنما طوفان ہے

٭٭٭

 

 

 

نذرِ فرید پربتی

 

گھر سے بیوی ہوئی کم بسم اللہ

اب ہے کس بات کا غم بسم اللہ

خوبصورت ہے پڑوسن اپنی

عشق فرمائیں گے ہم بسم اللہ

٭٭٭

 

 

 

نذرِ جوش ملیح آبادی

 

شوہر تیری زندگی پہ دل ہلتا ہے

تو تو چوبیسوں گھنٹے پلتا ہے

بولا شوہر کہ اس زمانے میں

یہ بھی اعزاز کسے ملتا ہے

٭٭٭

 

 

 

کرم بیوی کا

 

رات دن بھرتے ہیں دم بیوی کا

ہم پہ رہتا ہے کرم بیوی کا

بن گئے باغِ ارم کے مالک

کلمہ پڑھتے ہوئے ہم بیوی کا

٭٭٭

 

 

 

دم

 

لڑکیوں پر وہ مجھے دم نہیں کرنے دیتی

دردِ دل کو بھی ذرا کم نہیں کرنے دیتی

لڑکیاں کتنی ہی تیآر ہیں مر مٹنے کو

مجھ کو کچھ بھی مری بیگم نہیں کرنے دیتی

٭٭٭

 

 

 

ان سنی

 

ہم سے سوبار ظہورا نے کہا

عشق کر لیجئے نورا نے کہا

گھر میں بیٹھی ہے غفوری کب سے

اس کو لے جاؤ غفوراً نے کہا

٭٭٭

 

 

نذرِ پاپولر

(پاپولر اپنے بچپن کے دوست عرفان اعظمی کی دختر کی شادی میں نہیں آئے پھر احمد علوی کی بیٹی کی شادی میں شریک نہیں ہوئے اس پر یہ چٹکی)

 

شادیوں میں جائیں کیسے محترم

شاعرِ دوراں ہیں یہ اہلِ قلم

صرف جاتے ہیں اسی تقریب میں

جس میں ملتی ہے لفافے میں رقم

٭٭٭

زمانے بھر سے میٹھا بولتا ہے

 

زمانے بھر سے میٹھا بولتا ہے

ضرورت جتنی اتنا بولتا ہے

مجھے وہ کچھ بنانا چاہتا ہے

ہمیشہ مجھ سے کڑوا بولتا ہے

٭٭٭

 

 

کچھ شعاعیں اب زمیں میں روپ دے

 

کچھ شعاعیں اب زمیں میں روپ دے

اس طرح مایوسیوں کو ہوپ دے

خوبیاں با قائدہ کر اپنے نام

خامیاں شیطان کے سر تھوپ دے

٭٭٭

 

 

چار چھے اسٹیل کے اسپون پر

 

کر رہا ہے کیوں بھروسہ نون پر

رکھ دے چھپر سارا افلاطون پر

ہے سیا ست آج کل ٹھہری ہوئی

چار چھے اسٹیل کے اسپون پر

٭٭٭

 

 

 

عاشق

 

اب کہاں ہیں وہ کام کے عاشق

رہ گئے اب تو نام کے عاشق

پونچھ پکڑے ہوئے ہیں سب ان کی

اب نہ عیسیٰ نہ رام کے عاشق

٭٭٭

 

 

 

آہٹ

 

دھوپ نکلے تو چمک جائیں ہم

اوس کی طرح ٹپک جائیں ہم

جب بھی محسوس ہو اس کی آہٹ

جام کی طرح چھلک جائیں ہم

٭٭٭

 

 

 

مہلت

 

اس ضعیفی میں ذرا سی مجھے قوت دے دے

اب ولیمے کی میرے آخری دعوت دے دے

اور پڑھوالوں ذرا قاضی سے میں ایک نکاح

ملک الموت مجھے اتنی سی مہلت دے دے

٭٭٭

 

 

 

امریکہ

 

وہ نہ جھکتا ہے نہ خم ہوتا ہے

اس کی ہر بات میں دم ہوتا ہے

سارے دیتے ہیں سلامی اس کو

گھر میں جس شخص کے بم ہوتا ہے

٭٭٭

 

 

 

موبائل

 

سوجھتا کچھ بھی نہیں مجھ کو سوا موبائل

کان سے صبح لگا پھر نہ ہٹا موبائل

اس سے بڑھ کر تو کوئی ہمدم و ہمراز نہیں

قبر میں بھی مری رکھ دینا مرا موبائل

٭٭٭

 

 

 

لات

 

ناشتے میں ہے میسّر جسے لاتِ بیگم

ایسے شوہر سے بیاں کیا ہو صفاتِ بیگم

شعر کی طرح جو تخلیق کرے بچوں کی

کون اشعار میں ڈھالے گا نکاتِ بیگم

٭٭٭

 

 

 

رشتہ

 

خوبصورت ہے چراغوں سے ہوا کا رشتہ

صبح پھولوں سے جو ہوتا ہے صبا کا رشتہ

میرا رشتہ بھی یہی ہے مری محبوبہ سے

جیسے بیمار سے ہوتا ہے دوا کا رشتہ

٭٭٭

 

 

 

عورت کی آرزو

 

مرد کی ہاتھ میں کماں دے دے

کوئی بوڑھا کہ پھر جواں دے دے

ساری دولت جو کر دے میرے نام

ایک ایسا مجھے میاں دے دے

٭٭٭

 

 

 

آسمانی بلا

 

کوئی دن گر زندگانی اور ہے

ایک بیوی کی کہانی اور ہے

چار پہنچا دی ہیں قبرستان میں

اک بلائے آسمانی اور ہے

٭٭٭

 

 

 

ہم نے یہ مانا کہ سنّت ہے نکاح

 

ہم نے یہ مانا کہ سنّت ہے نکاح

یہ حقیقت ہے کہ زحمت ہے نکاح

ہو گیا جن کا جہنم میں ہیں وہ

جو نہیں کر پائے جنّت ہے نکاح

آگ خوشیوں میں یہ لگاتی ہے

ایک لمحے کو بس ہنساتی ہے

اس لیے سب نکاح کرتے ہیں

ساتھ بیوی جہیز لاتی ہے

٭٭٭

 

 

اس طرح برسے ہیں ابآ ہم پر

 

اس طرح برسے ہیں ابآ ہم پر

جیسے ڈالے کوئی ملبہ ہم پر

دو پڑوسی کی ہیں دو اپنی ہیں

چار بیوی کا ہے غلبہ ہم پر

٭٭٭

 

 

 

غضب

 

غصہ شوہر پہ جب یہ کرتی ہے

بند بیچارے کے لب کرتی ہے

بولتی رہتی ہے سنتی ہی نہیں

میری بیوی بھی غضب کرتی ہے

٭٭٭

 

 

 

متشاعر

 

نا مناسب ہو مناسب تم ہو

شاعری جسم ہے قالب تم ہو

تم سے زندہ ہے زبانِ اردو

داغ ہو، میر ہو، غالب تم ہو

٭٭٭

فرمانبردار

 

ان کو دی روٹی نوالہ ہم کو

تو نے ہر بات پہ ٹالا ہم کو

فرمانبردار ہیں پھر بھی تیرے

تو نے ہر غم سے نکالا ہم کو

٭٭٭

 

 

 

مزا

 

خشکیوں میں نہ تراوٹ میں مزا

لاگ میں ہے نہ لگاوٹ میں مزا

وہ حقیقت میں نہیں ملتا کبھی

جو سجاوٹ میں بناوٹ میں مزا

٭٭٭

 

 

 

وضاحت

 

کر لیا نام دہر میں ہم نے

غوطے کھائے نہ بحر میں ہم نے

بحر کیا ہے نہیں پتا ہم کو

شاعری کی ہے لہر میں ہم نے

٭٭٭

 

 

 

نیم شاعر

 

عیب جن کے جہاں پہ ظاہر ہیں

نکتہ چینی میں خوب ماہر ہیں

نیم ملآ ہیں یا ہیں نیم حکیم

نیم ناقد ہیں نیم شاعر ہیں

٭٭٭

 

 

 

گذارش

 

جو گذرتی ہے رقم کر دینا

اس طرح درد کو کم کر دینا

اپنی پلکوں سے گرا کر آنسو

سخت پتھر کو بھی نم کر دینا

٭٭٭

 

 

 

خدا

 

سچ حقیقت میں کھرا ہوتا ہے

جھوٹ اک پل میں ہوا ہوتا ہے

زاہدوں صرف تہارا ہی نہیں

کافروں کا بھی خدا ہوتا ہے

٭٭٭

 

 

 

حرا

 

رنگ برگِ حنا سے ملتا ہے

جیسے سایا گھٹا سے ملتا ہے

جس سے یہ کائنات ہے روشن

نور غارِ حرا سے ملتا ہے

٭٭٭

 

 

 

دو جہانوں کو سچ سمجھتے ہو

 

دو جہانوں کو سچ سمجھتے ہو

داستانوں کو سچ سمجھتے ہو

جھوٹ ہے سب فریب ہے یارو

آسمانوں کو سچ سمجھتے ہو

٭٭٭

 

 

 

جلوۂ آفتاب لگتے ہو

 

جلوۂ آفتاب لگتے ہو

تم تو مثلِ گلاب لگتے ہو

جب کھلا یہ کتاب سا چہرا

سب کو اہلِ کتاب لگتے ہو

٭٭٭

 

 

لے کے گھر سے چراغ نکلے ہیں

 

یہ لگا ہے سراغ نکلے ہیں

چند اہلِ دماغ نکلے ہیں

جنگ جن کی ہے آفتابوں سے

لے کے گھر سے چراغ نکلے ہیں

٭٭٭

 

 

قطعات

 

دینِ احمد کے نگہبان بنو

مومنوں صاحبِ قرآن بنو

دو جہانوں کے خلیفہ تم ہو

ایک دن سچے مسلمان بنو

٭٭٭

 

 

 

 

میرے ہونٹوں پہ دعا ہے سب کچھ

ایک ہی سمت مرا ہے سب کچھ

ایک ہی در پہ جھکایا سر کو

ایک ہی در سے ملا ہے سب کچھ

٭٭٭

 

 

 

 

دو قدم بڑھ کے قدم سے ملتے

منزلیں ملتیں جو ہم سے ملتے

مسئلے آپ کے کچھ حل ہوتے

آپ گر اہلِ قلم سے ملتے

٭٭٭

 

 

 

سبزہ زاروں کی طرف کو دیکھیں

کیوں بہاروں کی طرف کو دیکھیں

دسترس میں ہیں چراغوں کی لویں

کیوں ستاروں کی طرف کو دیکھیں

٭٭٭

 

 

 

مے ہے اصلی گلاس ہے نقلی

کاغذی گل میں باس ہے نقلی

اس نے بھیجا ہے بے لباس ہمیں

جسم اصلی لباس ہے نقلی

٭٭٭

 

 

 

شاعری کرتے کراتے بیتی

زندگی ہنستے ہنساتے بیتی

عمر بھر جو نہ کبھی کام آئے

ایسے رشتوں کو نبھاتے بیتی

٭٭٭

 

 

 

صبح کی شام کی باتیں کر لیں

درم و دام کی باتیں کر لیں

اس کے چہرے کو غزل میں ڈھالیں

آج کچھ کام کی باتیں کر لیں

٭٭٭

 

 

 

نرم بستر میں جوانی مہکے

صندلی جسم کا پانی مہکے

وقت اشعار کی آمد کا یہی

شب کو جب رات کی رانی مہکے

٭٭٭

 

 

 

حسنِ اخلاق کا معیار فقط

جس کا سرمایا تھا کردار فقط

زندگی علم و عمل سے خالی

اب مسلماں پہ ہے گفتار فقط

٭٭٭

 

 

 

ہے نظارہ یہی درباروں کا

حشر ہوتا ہے یہ خوداروں کا

سر سلامت ہیں سبھی شانوں پر

ہے ذخیرہ یہاں دستاروں کا

٭٭٭

 

 

 

کیسی بنیاد تو نے ڈالی ہے

در ہے دیوار میں نہ جالی ہے

حبس کمرے کا کم نہیں ہوتا

رات کی طرح صبح کالی ہے

٭٭٭

 

 

 

یہ زمیں کیا ہے آسماں سارے

اس کے قدموں میں ہیں جہاں سارے

جس کو تو نے قبولیت بخشی

ہو گئے پاس امتحاں سارے

٭٭٭

 

 

 

یہ کسی بدلاؤ کی تمہید ہے

یا ترے انصاف کی تائید ہے

ایک ملزم ہو رہا ہے سنگسار

آج شاید پتھروں کی عید ہے

٭٭٭

 

 

 

دہر میں جتنے با کمال ہوئے

چند لمحوں میں پائمال ہوئے

بچ گئے ہم کہ عیب دار تھے ہم

جتنے بے عیب تھے حلال ہوئے

٭٭٭

 

 

 

جرم کا اعتراف کرنا تھا

سچ کا آئینہ صاف کرنا تھا

تیرا انجام فکس تھا علوی

جھوٹ کا انکشاف کرنا تھا

٭٭٭

 

 

 

ضرورت بے ضرورت دے رہا ہے

مجھے کتنی محبت دے رہا ہے

ادا ہو شکر کیسے رب کا علوی

غلاموں کو حکومت دے رہا ہے

٭٭٭

 

 

 

آگ ہوتا ہے دھواں ہوتا ہے

یہ ضعیفی میں جواں ہوتا ہے

جس کو کہتا ہے زمانہ شوہر

دوسرا اللہ میاں ہوتا ہے

٭٭٭

 

 

 

خوب آپس میں لڑے ہیں دونوں

بات پہ اپنی اڑے ہیں دونوں

توڑ ڈالی ہیں جہالت کی حدیں

خالی بے کار گھڑے ہیں دونوں

٭٭٭

 

 

 

زخم ہر روز نیا سہتا ہے

وہ بلاؤں میں پھنسا رہتا ہے

گھر ہے اس کا نہ گھاٹ ہے اس کا

ہجو بیگم کی جو بھی کہتا ہے

٭٭٭

 

 

 

دم کو ہمدم کے حوالے کر دو

زندگی غم کے حوالے کر دو

تم کو خواہش ہے اگر خوشیوں کی

خود کو بیگم کے حوالے کر دو

٭٭٭

 

 

 

دل میں کس درجہ ہے وقعت مت پوچھ

کتنی تجھ سے ہے محبت مت پوچھ

مفت کا مال ہے دل تیرے لیے

دل کی بازار میں قیمت مت پوچھ

٭٭٭

 

 

 

گر تم پہ محبت ہے تو نفرت کیا ہے

غم پاس جہاں کا ہے تو غربت کیا ہے

تقدیر ہے لکھی ہوئی پیشانی پر

سورج ہے ترے ساتھ تو ظلمت کیا ہے

٭٭٭

 

 

 

کس کا آدھار کھرا سونا ہے

فن نہ فن کار کھرا سونا ہے

زندگانی کی کسوٹی پہ کسو

صرف کردار کھرا سونا ہے

٭٭٭

 

 

 

سیف پر آب تو رکھ لینے دو

شب میں مہتاب تو رکھ لینے دو

کچھ بہانا تو ملے نیندوں کو

آنکھ میں خواب تو رکھ لینے دو

٭٭٭

 

 

 

شاعری میں اتر گیا ہوں بہت

کچھ حدیں پار کر گیا ہوں بہت

مشکلیں میرا کیا بگاڑیں گی

مشکلوں سے گذر گیا ہوں بہت

٭٭٭

 

 

 

چاک ہم نے کیا جو سینہ ہے

بغض نفرت ہے اور کینہ ہے

ایک کس کا ہے ظاہر و باطن

ایک کس کا یہاں قرینہ ہے

٭٭٭

 

 

 

کسی کے رنگ میں مشکل ہے ڈھلنا

نہیں ممکن مزاج اپنا بدلنا

تم اپنے پھول اپنے پاس رکھو

ہمیں آتا ہے انگاروں پہ چلنا

٭٭٭

 

 

 

پاک سے اتنا نہیں خطرہ مجھے

ساس کی بیٹی سے ہے جتنا مجھے

دے رہی ہے لڑکیوں پر لڑکیاں

چاہیئے لڑکوں پہ بس لڑکا مجھے

٭٭٭

 

 

 

ایسے امیّد کا شپ ڈوبا بھی

دیکھ کے بھاگی ہے محبوبہ بھی

بھائی اچھّے کا ہو گیا ناکام

تیسری شادی کا منصوبہ بھی

٭٭٭

 

 

 

نثر موسیقی میں ڈھل سکتی ہے کیا

ریل سڑکوں پہ بھی چل سکتی ہے کیا

چاہے کر دیجئے ریزہ ریزہ

سنگ کی چیخ نکل سکتی ہے کیا

٭٭٭

 

 

 

چاہے ہندی سے عرب سے بولو

ریشمی لہجے میں سب سے بولو

آپ کو سب سے ملے گی عزت

جس سے بھی بولو ادب سے بولو

٭٭٭

 

 

 

کچھ نہ کر پائے نا قابل ہی رہے

خشک دریاؤں کا ساحل ہی رہے

محل تعمیر کیئے جہلا نے

ہم تو پڑھ لکھ کے بھی جاہل ہی رہے

٭٭٭

 

 

 

دوستو آج یا کل بنواتے

سنگِ مر مر کا بدل بنواتے

پیاری بیگم کا جنازہ اٹھتا

ہم بھی اک تاج محل بنواتے

٭٭٭

 

 

 

طے کوئی حد بھی تو کر سکتے تھے

کار آمد بھی تو کر سکتے تھے

دال کو درد سے حذف کر کے

درد کو رد بھی تو کر سکتے تھے

٭٭٭

 

 

 

جان کنگال ہو گئے ہیں ہم

حال بے حال ہوئے ہیں ہم

تیل ڈالا جو بال بڑھنے کا

فارغ البال ہو گئے ہیں ہم

٭٭٭

 

 

 

درد فن کار کا کم کرتے ہیں

محترم سب پہ کرم کرتے ہیں

پہلے کرتے تھے صرف ہاتھ قلم

اب تو یہ سر کو قلم کرتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

جی کا جنجال لگ رہی ہو تم

کچھ بہر حال لگ رہی ہو تم

تم سے خوشحالی آ نہیں سکتی

لوٹ کا مال لگ رہی ہو تم

٭٭٭

 

 

 

بے تکلف ہیں کہ شرمیلے ہیں

خشک آبی ہیں کہ پتھریلے ہیں

قسم سانپوں کی بے ضرر کتنی

دوست لیکن سبھی زہریلے ہیں

٭٭٭

 

 

 

مقتدی کی امام کی باتیں

نقش عالی مقام کی باتیں

ہم کو خانہ خراب ہونا تھا

کام آئی نہ کام کی باتیں

٭٭٭

 

 

 

لیکے بارود بدن نکلے ہیں

باندھ کے سر سے کفن نکلے ہیں

موت بھی خوفزدہ ہے ان سے

سرفرشانِ وطن نکلے ہیں

٭٭٭

 

 

 

ظلِّ سبحانی نہیں ہو سکتی

آگ تو پانی نہیں ہو سکتی

چاپلوسی مرا مزاج نہیں

مجھ سے دربانی نہیں ہو سکتی

٭٭٭

 

 

 

زندگی سے اصول جاتے ہیں

زندگی کو وہ بھول جاتے ہیں

کند کرتے نہیں سدا اپنی

لوگ پھانسی پہ جھول جاتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

ایک بیوی نے کہا آج نہ دے

دے غلامی مجھے تو راج نہ دے

جیسا اللہ دیا ہے مجھ کو

سر کو دشمن کے ایسا تاج نہ دے

٭٭٭

 

 

 

دیر سے نکلے حرم سے نکلیں

روز کے رنج و الم سے نکلیں

توڑ کر نفرتوں کے بت سارے

پیار کے بول قلم سے نکلیں

٭٭٭

 

 

 

میں نہ فردوس کا کونہ چاہوں

اور نہ پھولوں کا بچھونا چاہوں

جیسے چاہوں سنوار لوں اس کو

کچی مٹی کا کھلونا چاہوں

٭٭٭

 

 

 

جسم و جاں کو تونگری نہ ملی

اس کے در کی گداگری نہ ملی

آگ لینے تو کتنے لوگ گئے

سب کو لیکن پیعمبری نہ ملی

٭٭٭

 

 

 

انتہا ابتدا سے لے آئے

جو بھی چاہا خدا سے لے آئے

وہ رہے طور پہ بھی خالی ہاتھ

ہم نبوّت حرا سے لے آئے

٭٭٭

 

 

 

لب بھی اپنے سیئے فرشتوں نے

جبر دل پر کیئے فرشتوں نے

دیکھ عظمت گناہگاروں کی

ہم کو سجدے کیئے فرشتوں نے

٭٭٭

 

 

 

غم نہ آنکھوں میں کائنات کا تھا

دل کو صدمہ تو تیری بات کا تھا

دو قدم بھی نہ ساتھ چل پائے

عہد تو عمر بھر کے ساتھ کا تھا

٭٭٭

 

 

 

اہلِ دانش نظر میں رکھتے ہیں

کوئی سودا تو سر میں رکھتے ہیں

پتھروں کو خدا بنا دیں ہم

کچھ تو دستِ ہنر میں رکھتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

رات یہ میری بھی محرابی ہو

جانے کب ختم یہ کم خوابی ہو

ایسی لگتی ہے کہکشاں مجھ کو

جیسے چھوٹی ہوئی مہتابی ہو

٭٭٭

 

 

 

کیا چھپانا ہے ہر گناہ کا بوجھ

سر پہ آنا ہے ہر گناہ کا بوجھ

ساتھ دے گا نہ اپنا سایا بھی

خود اٹھانا ہے ہر گناہ کا بوجھ

٭٭٭

 

 

 

بھائی رمضانی کا مقصد کچھ تو ہے

اس نگہبانی کا مقصد کچھ تو ہے

کچھ بھی بے مقصد یہاں ہوتا نہیں

مفت بریانی کا مقصد کچھ تو ہے

٭٭٭

 

 

 

ذرّے ذرّے میں تو ہی ہے موجود

تیری قدرت اگر ہے لا محدود

کر دے میری ضرورتیں پوری

ہاتھ خالی نہ رکھ مرے معبود

٭٭٭

 

 

 

ملک نے پائی ہے جادو کی چھڑی

کانگرس لائی ہے جادو کی چھڑی

ہو گی برسات ہیرے موتی کی

ایف ڈی آئی ہے جادو کی چھڑی

٭٭٭

 

 

 

جس کے لہجے میں قند ہوتی ہے

اس کی قسمت بلند ہوتی ہے

گفتگو میں ہو جس کی کڑواہٹ

اس کی ہر راہ بند ہوتی ہے

٭٭٭

 

 

 

آسماں سے بلند جس کا قد

جس کے دل میں خلوص ہے بے حد

میں نے دیکھا ہے ایک زندہ دل

نام جس کا ہے ’’افتخار احمد‘‘

٭٭٭

 

 

 

اہلیت کا کہیں نہ مول ملا

شخصیت کا کہیں نہ مول ملا

جاہلوں نے کیے محل تعمیر

علمیت کا کہیں نہ مول ملا

٭٭٭

 

 

 

ساتھ والے کی جیب میں گذری

جتنی گذری نشیب میں گذری

جانے لکھا تھا کیا مقدر میں

زندگانی فریب میں گذری

٭٭٭

 

 

 

کیوں یہ شمشیر آپ لیتے ہیں

اپنے سر ہم یہ پاپ لیتے ہیں

موت ہر دکھ کا انت ہو شاید

خود ہی گردن کو ناپ لیتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

درد کو بے حساب کرنا ہے

خود کو خانہ خراب کرنا ہے

زندگی کامیاب ہو کہ نہ ہو

عشق کو کامیاب کرنا ہے

٭٭٭

 

 

 

ہم نہ بندوق نہ بم سے ہارے

عید سے ہارے نہ غم سے ہارے

پھر نہ اٹھیں یہ ہماری نظریں

بس ترے رحم و کرم سے ہارے

٭٭٭

 

 

 

خالقِ کون و مکاں تک پہونچے

کہکشاؤں کے جہاں تک پہونچے

آرزو والے وہیں کے ہیں وہیں

جستجو والے کہاں تک پہونچے

٭٭٭

 

 

 

نور کے تشت سے کچھ بھی نہ ملا

مذہبی گشت سے کچھ بھی نہ ملا

ایک چھالا نہیں ہے تلووں میں

ہم کو اس دشت سے کچھ بھی نہ ملا

٭٭٭

 

 

 

نذرِ گرد و غبار کرنا کیا

دل کو اب تار تار کرنا کیا

آتی جاتی ہیں سانس کی صورت

گردشوں کا شمار کرنا کیا

٭٭٭

 

 

 

کچھ نہیں ہے شب اندھیری موت ہے

وہ تری ہے یا کہ میری موت ہے

موت جو ہے وہ ہے پرمانینٹ نیند

نیند جو ہے ٹیمپریری موت ہے

٭٭٭

 

 

 

اس کے شوہر کو لے گیا یمراج

اس کو ساوتری چھڑا لائی

موت بھی بیویوں کے پنجے سے

شوہروں کو کہاں بچا پائی

٭٭٭

 

 

 

خان شرما کہ جون نکلے گا

صاف و شفاف کون نکلے گا

دم اٹھاؤ کسی بھی لیڈر کی

وہ حقیقت میں ڈون نکلے گا

٭٭٭

 

 

 

یہ امیری کا ہے نہ مفلس کا

اصل میں مسئلہ ہے یہ حس کا

ساری مس کال مارتی ہیں مجھے

فون آتا نہیں کسی مس کا

٭٭٭

 

 

 

تیر جو بھی کمان سے نکلے

میرا کہنا ہے دھیان سے نکلے

اس کی حرمت پہ جان دے دینا

لفظ جو بھی زبان سے نکلے

٭٭٭

 

 

 

زخم دل کے کبھی رفو نہ ہوئے

حسن والوں کی آرزو نہ ہوئے

عشق کی راہ میں ترے عاشق

سر کٹا کے بھی سرخ رو نہ ہوئے

٭٭٭

 

 

 

درد کا احترام باقی ہے

موت کا ایک جام باقی ہے

ختم یہ ساری کائنات ہوئی

بس خدا تیرا نام باقی ہے

٭٭٭

 

 

 

سب سے تھا دور پاس تھا اپنے

نور ہی نور پاس تھا اپنے

سجدہ کرتی تھی کائنات ہمیں

ایک دن طور پاس تھا اپنے

٭٭٭

 

 

 

جیسے جیسے ہماری عمر بڑھی

ذہن پر علمیت کی دھول چڑھی

پھر بھی پائی نہ دولتِ اخلاق

جا کے کعبے میں بھی نماز پڑھی

٭٭٭

 

 

 

غموں کی گرد کو تقسیم کر لیں

بدن کے درد کو تقسیم کر لیں

زیادہ مرد ہیں کم عورتیں ہیں

تو عورت مرد کو تقسیم کر لیں

٭٭٭

 

 

 

گناہگار

 

میری اوقات نہیں ہے کچھ بھی

کیوں سوال و جواب کرتا ہوں

رحمتیں بے حساب ہیں اس کی

میں خطا بے حساب کرتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

۲۰۱۳ کی سردی

 

جن کی تعبیر نہیں خواب کئی دیکھیں گے

ساتھ بیگم کے پڑوسن بھی نئی دیکھیں گے

کپکپاتے ہوئے کہتے ہیں یہ سارے بڈّھے

اس دسمبر میں بچیں گے تو مئی دیکھیں گے

٭٭٭

 

 

 

مشورہ

 

اگر سچے ہمدرد ہو عورتوں کے

برائی کے پودے کو جڑ سے مٹا دو

نہ جیلوں ڈالو نہ سولی چڑھاؤ

سبھی زانیوں کو زنانہ بنا دو

٭٭٭

 

 

 

پولس

 

اس اک بات پر تو سبھی متفق ہیں

گناہوں کو لیتی ہے یہ ڈھانپ اکثر

پولس کے عمل سے تو لگتا یہی ہے

بناتی ہے رسّی کا یہ سانپ اکثر

٭٭٭

 

 

 

دو ہزار تیرہ کی ٹھنڈ

 

ہے جمپر و شلوار نئی کوٹ بھی نیا

سر پر نئی یہ خرچ کی افتاد پڑ گئی

کپڑے تمام ناپ کے بے ناپ ہو گئے

اس جنوری کی ٹھنڈ میں بیگم سکڑ گئی

٭٭٭

 

 

 

سیل فون

 

کل رات ڈرتے ڈرتے یہ بیگم سے کہہ دیا

کچھ دیر سیل فون کا پیچھا بھی چھوڑ دے

شوہر سے بھی ضروری ہے مانا یہ سیل فون

لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

٭٭٭

 

 

ناقدانِ فن

 

ان کی جیبوں میں ہے جہانِ فن

کتنے بے جان ہیں یہ جانِ فن

ریختہ کے یہ فن فنانِ فن

ایسے ہوتے ہیں ناقدانِ فن

فارسی آئے نہ اردو ان کو

لنگڑی انگریزی پہ قابو ان کو

٭٭٭

 

 

چمچے

 

 

بھول کر دن رات ایسے چاٹیے

فائدہ جن سے ہو بیٹے چاٹیے

ہم نہیں کہتے نہ تلوے چاٹیے

بس یہی کہنا ہے چھپ کے چاٹیے

ہر طرف ہیں آپ کے چرچے میاں

آپ ہیں اسٹیل کے چمچے میاں

٭٭٭

 

 

 

استاد تلہری

 

محترم مطلع ابھی جو آپ نے لکھا ہے یہ

ایسا کیوں لگتا ہے مجھ کو میر کا چربہ ہے یہ

علم اتنا بھی نہیں تجھ کو اے شاگردِ رشید

یہ عمل چوری کا ہے چربہ نہیں سرقہ ہے یہ

٭٭٭

 

 

 

ثواب

 

بات تو غم کی تھی لیکن غمزدہ کوئی نہ تھا

راہ میں اللہ کی قربان شوہر ہو گیا

ایک کے بدلے میں شوہر دس وہاں مل جائیں گے

ہو گئی بیوہ بھی خوش روشن مقدر ہو گیا

٭٭٭

 

 

 

مفت

 

اب ترے واسطے بچا کیا ہے

اس بڑھاپے میں سوچتا کیا ہے

لولی لنگڑی ہو یا کہ اندھی ہو

’’مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے‘‘

٭٭٭

 

 

 

متلی

 

ایک شاعر کے چڑھ گیا ہتھے

وہ بجاتا رہا اپنی ڈفلی

اتنے مطلع سنائے ظالم نے

مجھ کو ہونے لگی یارو متلی

٭٭٭

 

 

 

جوتے

 

ہزار سال سے تاریخ ہے یہ جوتوں کی

کہ مسجدوں سے ہی اکثر چرائے جاتے ہیں

یہ مسئلہ کوئی اردو کا مسئلہ تو نہیں

مشاعروں میں تو یہ بے شمار آتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

مسلمانی

 

لیڈر ہیں اپنے ملک میں جرآح کمال کے

کتنا ہے ان میں جذبہ ایمانی دیکھیے

چکبست اور فراق کا رکھآ نہیں خیال

اردو کی خوب کی ہے مسلمانی دیکھیے

٭٭٭

 

 

 

استاد

 

کچھ تخئیل ہی نیا ہے اور نہ اندازِ بیاں

تم پکڑ سکتے نہیں چربوں کا میں استاد ہوں

میرے ہر اک شعر میں ہے میرؔ اور غالبؔ کا رنگ

در حقیقت میں پرانے شاعروں کی گاد ہوں

٭٭٭

 

 

 

مولوی

 

رہ گئی ہے کس کو فکرِ عاقبت

اب تو سب دنیا کا دم بھرنے لگے

ورد علوی آیتا لکرسی کا چھوڑ

کرسی کرسی مولوی کرنے لگے

٭٭٭

 

 

 

استاد

 

خود کو کہتے ہیں شجر، پودا ہیں مرجھایا ہوا

خود ضرورت ہے انہیں بھی کھاد آب و باد کی

تین سو شاگرد کی فہرست جن کے پاس ہے

ہے ضرورت کم سے کم ان کو بھی سو استاد کی

٭٭٭

 

 

نشتر

 

(نشتر کے مشاعرے میں ستّر سے زیادہ شاعر صرف کھانا کھانے کے لیے مشاعرہ پڑھنے پہونچ گئے اسی پس منظر میں یہ قطعہ)

 

کر تو رہے ہو دھوم سے نشتر مشاعرہ

رکھآ ہے کچھ لفافے میں شاعر کے نام پر

فرمایا کیوں لفافوں کی زحمت اٹھاؤں میں

ہیں دستیاب شاعر اعظم طعام پر

٭٭٭

 

ملّا کا دین

 

بے سند تقریر ان کی، وعظ ان کا بے اثر

دورِ حاضر میں ہے رائج مولوی ملّا کا دین

اس لیے بے دین لگتا آج کل ہر با شعور

کیونکہ ملتا ہی نہیں ان کو رسول اللہ کا دین

٭٭٭

 

 

 

اولاد

 

میرا کہنا صرف یہ ہے نیک و بد پیدا نہ کر

روک دے یہ سلسلہ فوراً چغد پیدا نہ کر

اس زمیں پر اس زمیں کی وسعتیں محدود ہیں

ایک دو کر لے مگر تو دس عدد پیدا نہ کر

٭٭٭

 

 

 

سخت قانون

 

پھانسی کا چھیڑ خانی پہ قانون کیا بنا

مجنوں ہمارے شہر میں کوئی بچا نہیں

بے کار ہوا قیمتی میک اپ یہ جینس ٹاپ

اب چھیڑنا تو دور کوئی دیکھتا نہیں

٭٭٭

 

 

 

برقع

 

داڑھی والے مونچھ والے روز و شب برقع میں ہیں

نوجواں کمزور بوڑھے گھر میں سب برقع میں ہیں

اس قدر چھایا ہوا ہے سخت قانونوں کا خوف

عورتیں عریاں سڑک پر مرد اب برقع میں ہیں

٭٭٭

 

 

خطرہ

 

بیویوں نے شوہروں کو کر دیا ہے گھر میں قید

مرد جتنے ملک میں ہیں اک ارب خطرے میں ہیں

بیویاں خود جا رہی ہیں آج کل بازار میں

عورتیں پہلے تھیں لیکن مرد اب خطرے میں ہیں

٭٭٭

 

 

 

چالان

 

اردو ادب پہ آپ یہ احسان کیجئے

شعلوں کی نذر جتنے ہیں دیوان کیجئے

استاد کی غزل جو پڑھے اپنے نام سے

اس شاعرِ بد بخت کا چالان کیجئے

٭٭٭

 

 

 

دانت

 

لوگ دانشور سمجھ لیتے ہیں بھولے سے مجھے

منھ بنایا ہے خدا نے پان کھانے کے لیے

تیرے ابآ کی جو گھڑکی سے جھڑے تھے چار دانت

دانت ہیں درکار مجھ کو مسکرانے کے لیے

٭٭٭

 

 

 

تخلیقِ آدم

 

کھلانا ہم کو آتا ہے، نہ کھانا ہم کو آتا ہے

نہ مسجد سے نئے جوتے چرانا ہم کو آتا ہے

سبھی کو علم ہے اس فیلڈ کے ہم مردِ میداں ہیں

قسم اللہ کی بچے بنا نا ہم کو آتا ہے

٭٭٭

 

 

 

بیت الخلاء

 

زہر میں ڈوبی ہوئی آب و ہوا کا کیا کروں

جو لبوں تک ہی نہ آئے اس غذا کا کیا کروں

اس لیے گھر میں بنایا ہی نہیں بیت الخلاء

پیٹ میں جب کچھ نہیں بیت الخلا کا کیا کروں

٭٭٭

 

 

 

تضمین

 

کام مجھ کو کچھ نہیں ہیں کھانا کھانے کے سوا

رات دن بیتا لخلاء میں بیٹھا رہتا ہوں میاں

رفع حاجت کے لئے پیدا کیا انسان کو

’ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرّو بیاں ‘

٭٭٭

 

 

 

خواہش

 

نقد مل جائے رقم بیمے کی

بیوی بچوں کی عید ہو جائے

سب کی خواہش ہے کہ چھت سے گر کر

گھر کا بڈھآ شہید ہو جائے

٭٭٭

 

 

 

قبرستان میں غزل

 

پڑھ رہا ہوں میر کی غزلیں میں اپنے نام سے

پھر بھی وا واہ کی صدا آتی نہیں ہے کان میں

دور تک پھیلا ہوا ہے ایک سنآٹہ یہاں

میں غزل فرما رہا ہوں جیسے قبرستان میں

٭٭٭

 

 

شیروانی

 

مرے انگریز جن کو پہنتے تھے زندگانی میں

کباڑی بیچتے ہیں سوٹ ایسے راجدھانی میں

اگر مغرب میں یارو شیروانی کا چلن ہوتا

کئی شاعر نظر آتے یہاں بھی شیروانی میں

٭٭٭

 

 

 

فرق

 

کھو گئی شرم و حیا سر پہ دو پٹہ کیا ہوا

اپنے زنخے پن پہ اترائے بہت زیتون بھی

فرقِ مرد و زن مٹایا جینس نے اور ٹاپ نے

مرد ہی لگتی ہے ہم کو آج کل خاتون بھی

٭٭٭

 

 

 

قطعات و رباعیات

 

ایک سے ایک بڑا دانشور

سب کا بنتا ہے خدا دانشور

میں نے کیا بھینس چرا لی اس کی

مجھ سے رہتا ہے خفا دانشور

٭٭٭

 

 

 

جنّت میں سارے مرد کنوارے ہیں دوستو

یہ بات حقیقت ہے نہیں ہے کوئی مزاح

جنّت میں کوئی مولوی پہنچا نہ آج تک

اب آپ ہی بتائیے کس سے پڑھیں نکاح

٭٭٭

 

 

 

ان کی نظروں میں ہم ہیں نکتہ داں

فنِّ شعر و سخن کے بم ہم ہیں

پوچھتے ہم کو نہیں اہلِ ہنر

سارے جہلا میں محترم ہم ہیں

٭٭٭

 

 

 

قابلِ داد نہیں شعر مرے

یہ بھی مانا حقیر کچھ بھی نہیں

یہ غزل میر کی ہے لفظ بہ لفظ

تیری نظروں میں میر کچھ بھی نہیں

٭٭٭

 

 

 

وہ گوری ہے یا پھر ہے کالی کلوٹی

خدا جانے کس کی ہے تقدیر پھوٹی

وہ کیسے کھلائے ولیمے کی دعوت

ہوئے چھ مہینے لپسٹک نہ چھوٹی

٭٭٭

 

 

 

کیسی دوا تجویز ہوئی تیر بہدف

جنّت کی راہ کو گئے ابآ نصیب سے

بیٹھے بٹھائے مل گئی اربوں کی جائیداد

پہنچا بڑا یہ فائدہ ہم کو طبیب سے

٭٭٭

 

 

 

کوئی خیال ہو نہ ہو موزوں کلام ہو

پروا نہیں کسی کو یہاں عین غین کی

بیمار یہ عروض کے مانیں گے نہ شاعر

گر جائے گی جو عین کبھی نورِ عین کی

٭٭٭

 

 

 

جیسے بغیر تالے کے صندوق کچھ نہیں

گولی بغیر آپ کی بندوق کچھ نہیں

تحقیق سے یہ کہتا ہے ہر ایک محقق

دْم کے بغیر اشرفا لمخلوق کچھ نہیں

٭٭٭

 

 

 

ایسا لگتا ہے کہ ادب میں بھی

لیڈروں کی رہی سیاسی چال

چن لیا جیسے ہم نے غالب کو

پاک نے کر لیا اغوا اقبال

٭٭٭

 

 

 

ہر قول تو ان کا بھی مدلّل نہیں ہوتا

اس قول میں لگتا ہے صداقت کے ہیں آثار

ارشاد یہ فرمایا ہے کچھ علمائے دیں نے

چولی میں تری قربِ قیامت کے ہیں آثار

٭٭٭

 

 

 

سند شاعری کی نہ استاد کی

عمل اور نہ ردِّ عمل ڈھونڈھتے ہیں

نہ مضمون و معنی کی ان کو طلب ہے

غزل میں یہ بحرِ رمل ڈھونڈ ھتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

ابھی صرف دیکھا ہے نزہت کو تم نے

ابھی محترم بیویاں اور بھی ہیں

قرینہ، زرینہ، ثمینہ، شمیمہ

’’مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں‘‘

٭٭٭

ماخذ: کتاب ایپ

Product of: Ideal Ideaz

www.idealideaz.com

www.kitaabapp.com

ای پب سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی باز تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل