FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

کچھ عالمی کہانیاں

               ترجمہ: نیئر عباس زیدی

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

گمشدہ جنگل

جو ھینری جینسن

کورا (Korra)ایک ایسے شخص کا نام ہے جو کاشت کاری کرتا تھا۔ محنت و مشقت کرنے کے بعد جب اس نے خاصی رقم اکٹھی کر لی تو وہ ایک غلام خریدنے کی غرض سے ایک چھوٹے سے شہر پہنچ گیا۔ دلال نے اُسے کئی غلام دکھائے لیکن کسی پر بھی وہ مطمئن نہیں   ہوا۔

ٍ دوپہر تھی اور تمام کے تمام غلام سوئے ہوئے تھے۔ دلال نے چڑ کر کہا، ’’میرا خیال ہے کہ آپ چاہتے ہیں   کہ میں   ان سب غلاموں   کو آپ کے سامنے لے آؤں  ‘‘۔

کورا نے بڑی سادگی سے جواب دیا، ’’میں   کسی اور جگہ بھی جا سکتا ہوں  ‘‘۔

’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے!’’دلال نے زنجیریں   کھینچیں   اور تمام غلام غنودگی کی حالت میں   ہی باہر آ گئے۔ کورا نے ان تمام کا بغور جائزہ لیا۔

دلال نے ایک غلام کو کورا کی طرف دھکیلتے ہوئے کہا، ’’اسے دیکھیں  ! یہ ایک صحت مند شخص ہے، آپ کا اس کے بارے میں   کیا خیال ہے؟ کیا یہ ایک مضبوط سینہ نہیں   رکھتا؟ اس کے سینے پر ہاتھ مار کر دیکھیں   اس کی کلائیاں   دیکھیں ، اس کی نسیں   ستار کی تاروں   کی طرح ہیں۔ (پھر غلام سے مخاطب ہو کر بولا)، اپنا منہ کھولو !‘‘

اس دلال نے اپنی ایک انگلی غلام کے منہ میں   دے کر اس کا منہ روشنی کی طرف کر دیا اور شیخی بگھارتے ہوئے کہا، ’’اب آپ کو اس کے چند دانت نظر آئے ہوں   گے۔ اس نے چاقو کا دستہ غلام کے دانتوں   پر پھیرتے ہوئے کہا، ’’دیکھیں  ! یہ دانت لوہے کی طرح ہیں   اور یہ دانت کیل چبا کر دو حصوں   میں   تقسیم کر سکتے ہیں  ‘‘۔

کورا نے تھوڑی دیر کے لئے سوچا۔ پھر اس نے اپنا ہاتھ اس غلام کی طرف بڑھایا اور اپنی انگلیوں   سے اس کے پٹھے دبائے تا کہ یہ دیکھ سکے کہ وہ کتنے مضبوط ہیں۔ بالآخر اس کا ارادہ بن گیا کہ وہ اسے خرید لے، اس نے غلام کی قیمت غصے بھرے انداز سے ادا کی، غلام کی زنجیریں   کھلوائیں   اور اپنے ساتھ لے گیا۔

تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ یہ غلام بیمار پڑ گیا اور رنجیدہ رہنے لگا۔ اب جبکہ وہ اس بازار میں   موجود نہیں   تھا جہاں   وہ بکنے کے لئے آیا تھا بلکہ مستقل بنیادوں   پر ایک جگہ قیام پذیر تھا، اس لئے اس نے ان جنگلوں   میں   جانے کی خواہش کا اظہار کرنا شروع کر دیا جہاں   سے وہ آیا تھا۔ یہ ایک بہترین نشانی تھی اور کورا اس علامت سے بھی بخوبی واقف تھا۔ ایک دن جب وہ غلام لیٹا ہوا مایوسی کی گفتگو کر رہا تھا تو کورا نے بڑے بھر پور انداز میں   اس سے کہا، ’’گھبراؤ نہیں  ! تم ان ہی جنگلوں   میں   واپس چلے جاؤ گے جہاں   سے تمہارا تعلق ہے، یہ میرا تم سے وعدہ ہے، میرے وعدے کا اعتبار کرو، ابھی تم کم عمر ہو، اگر تم دلجمعی اور محنت شاقہ سے کھیتوں   میں   کام کرو، تو میرا تم سے وعدہ ہے کہ ٹھیک پانچ سال بعد میں   تمہیں   آزاد کر دوں   گا، باوجود اس کے کہ میں   نے تمہیں   خریدنے کے لئے رقم ادا کی ہے۔

’’پانچ سال، کیا یہ ایک سودا ہے؟ ‘‘

 اور اس غلام نے کام کرنا شروع کر دیا۔ اس نے وہ تمام کام سنبھال لیا اور کسی جن کی طرح محنت کرنا شروع کر دی۔ کورا اپنے گھر کے سامنے بیٹھ کر اسے کام کرتا دیکھ کر لطف اندوز ہوتا اور اس کی سیاہ کھال کے نیچے پٹھوں   کو حرکت میں   دیکھنا اس کے لئے باعث افتخار ہوتا، کورا گھنٹوں   بیٹھا اسے دیکھتا رہتا کیونکہ وہ غلام مسلسل کئی گھنٹوں   تک محنت کرتا جب کہ کورا کے کرنے کے لئے کوئی کام نہیں   تھا، اس نے سوچنا شروع کر دیا کہ اس (غلام) کا جسم ایک خوبصورت اور آنکھوں   کو بھانے والی شئے ہے۔

وہ غلام پانچ سال تک ایک چیز گنتا رہا کہ سورج نے کتنے دورِ شمسی طے کر لئے ہیں۔ کیا ان کی تعداد اس کی پانچ انگلیوں   جتنی ہو گئی ہے۔ سورج کو دس مرتبہ (اپنی جگہ پر) لوٹ آنا پڑا۔ ہر شام وہ سورج کو غروب ہوتا دیکھتا اور (غروب ہونے کی ) اس تعداد کا شمار پتھروں   سے لکیریں   کھینچ کر کرتا۔ جب سورج اپنا دورِ شمسیِ مکمل کر کے پہلی مرتبہ لوٹا تو اس نے اپنے ہاتھ کے انگوٹھے پر اس کی گنتی کی تھی۔ اگلے دور شمسی کے اختتام پر اس نے اپنی انگشت شہادت کو آزاد تسلیم کیا۔ وہ اپنی ان دو انگلیوں   کو دیگر تین انگلیوں   پر فوقیت دیتا تھا کیونکہ اس کی باقی تین انگلیاں   ابھی اس کی غلامی کی علامت تھیں۔

لہٰذا دنوں   کی گنتی اور وقت گزرنے پر نشان لگانا ہی اس غلام کا مذہب، اس کے اندر کی دولت اور اس کا روحانی خزانہ تھا جسے کوئی بھی اس سے چھین نہیں   سکتا تھا اور نہ ہی اس سلسلے میں   بحث کر سکتا تھا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اعداد و شمار پھیلتے چلے گئے، وسیع تر ہوتے چلے گئے اور ان میں   گہرائی آنا شروع ہو گئی۔ لا محدود قسم کی ان سمجھی چیزوں   کے ساتھ وقت گزرتا چلا گیا جو اس کی پکڑ میں   نہیں   تھا: ہر روز سورج غروب ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی اُمید مضبوط تر ہوتی چلی جاتی اور اس کا اعتقاد بھی مزید تقدیس اختیار کرتا چلا جاتا۔ وقت،جو زمانۂ حال میں   گزر رہا تھا، لا متناہی نظر آنے لگا، کبھی وہ (وقت) زمانۂ ماضی کا حصہ تھا، اور اب اسے مستقبل بہت دور دکھائی دے رہا تھا۔

ایسی صورت حال میں   اس غلام کی روح اور اس کے جذبات گیرائی اور گہرائی اختیار کرنے لگے۔ جیسے اس کی آزادی کی خواہش وقت گزرنے سے تعلق رکھتی تھی،جو لا محدود تھا، اسی طرح اس کی دنیا بھی لا محدود ہونا شروع ہو گئی اور اس کے خیالات بھی حدود و قیود سے آزاد ہو گئے۔ ہر شام وہ غلام مغرب کی سمت میں   بڑے غور و فکر کرنے کے انداز سے دیکھتا اور سورج غروب ہونے کا ہر منظر اس کی روح میں   اترتا چلا جاتا۔

بالآخر پانچ سال کا عرصہ گزر گیا۔ الفاظ کی صورت میں   یہ کہنا انتہائی آسان ہے۔ اس غلام نے اپنے آقا کے پاس آ کر اپنی آزادی کا مطالبہ کیا اور اپنی آزادی کے بعد جنگل میں   واقع اپنے گھر جانے کی خواہش بھی کی۔

کورا نے بڑے سچے اور کھلے دل سے اس بات کا اعتراف کیا،’’تم ایک وفا دار غلام ہو، مجھے بتاؤ تمہارا گھر کہاں   ہے؟ کیا تمہارا گھر مغرب کی طرف ہے؟ میں   نے اکثر تمہیں   اس طرف دیکھتے پایا‘‘۔

’’جی! میرا گھر مغرب کی سمت میں   ہی ہے۔ ‘‘

کورا کہنے لگا،’’تو پھر یہ خاصے فاصلے پر ہو گا‘‘۔

’’جی خاصے فاصلے پر‘‘۔

’’ اور تمہارے پاس کوئی پیسہ نہیں، یا پیسے ہیں  ؟ ‘‘

غلام خاموش ہو گیا اور بڑی مایوسی سے کہا، ’’ہاں ، یہ بات درست ہے کہ میرے پاس کوئی پیسہ نہیں  ‘‘۔

’’دیکھو تم پیسے کے بغیر کہیں   بھی نہیں   جا سکتے۔ اگر تم میرے لئے مزید تین سال تک کام کرو- چلو دو سال تک-تو میں   تمہارے سفر کی خاطر اچھی خاصی رقم تمہیں   دے دوں   گا۔ ‘‘

اس غلام نے اپنا سر جھکایا اور دوبارہ اپنے کام کی طرف متوجہ ہو گیا۔ اس نے ان دنوں   میں   کام تو بہت اچھا کیا لیکن پہلے کی طرح، گزرنے والے ایام کا شمار نہیں   کیا۔ اس کے برعکس اس نے تصورات اور تخیلات کا سلسلہ بھی بند کر دیا۔ کورا نے اسے سوتے میں   بڑ بڑاتے بھی سُنا۔ کچھ ہی عرصے بعد وہ دوبارہ بیمار پڑ گیا۔

کورا اس کے قریب بیٹھ گیا اور بڑی دلچسپی کے ساتھ گفتگو کرنی شروع کر دی۔ اس کی تمام گفتگو دانائی سے بھرپور تھی کہ جیسے وہ حقیقی تجربات کا نچوڑ ہو، اس نے کہا، ’’دیکھو! میں   ایک بوڑھا شخص ہوں، اپنی جوانی میں، مَیں   بھی مغرب کی طرف جانے کی تمنا کرتا تھا، بڑے جنگل مجھے بھی لبھاتے تھے۔ لیکن میرے پاس بھی سفر کے پیسے نہیں   ہوتے تھے۔ میں   اب کبھی وہاں   نہیں   جاؤں   گا۔ کبھی بھی نہیں   تا وقتیکہ میں   وفات پا جاؤں   اور میری روح وہاں   پہنچ جائے۔ تم ابھی جوان ہو اور کام کاج کرنے کی بھر پور سکت رکھتے ہو، تم انتہائی محنت سے کام کر سکتے ہو لیکن تم اتنے طاقت ور اور محنتی نہیں   ہو جتنا میں   اپنی جوانی میں   ہوتا تھا۔ ان تمام چیزوں   پر غور کرو اور ایک بوڑھے شخص کی نصیحت پر غور کرو اور یہی سوچ کر دوبارہ صحت مند ہو جاؤ۔ ‘‘

آہستہ آہستہ وہ غلام رو بصحت ہو گیا اور جب اس نے دوبارہ کام کاج سنبھال لیا تو اس کا جوش و ولولہ پہلے جیسا نہیں   تھا۔ وہ اب نسبتاً سہل پسند ہو گیا تھا۔ اس کا مقصد اور اس کا ولولہ اب جاتا رہا تھا، اور اب وہ کام کے دوران سو جانا بھی پسند کرتا تھا۔ پھر ایک دن کورا نے اس کو مارا۔ یہ اس کے لئے بہتر ہوا وہ زار و قطار رویا۔ الغرض دو سال بھی بیت گئے۔

دو سال بعد کورا نے اس غلام کو واقعی آزاد کر دیا۔ وہ مغرب کی سمت چل پڑا، لیکن چند ماہ بعد واپس آ گیا اور اس کی حالت قابل رحم تھی۔ وہ اپنے جنگل تلاش کرنے میں   ناکام رہا تھا۔

کورا اس صورت حال پر بولا، ’’تم نے دیکھ لیا، کیا مَیں   نے تمہیں   اس بات سے آگاہ نہیں   کیا تھا؟ لیکن کوئی بھی شخص یہ نہیں   کہہ سکتا کہ میں   تمہارے ساتھ ٹھیک رویہ نہیں   رکھتا تھا۔ ایک مرتبہ پھر کوشش کرو اور اس بار مشرق کی طرف جاؤ، ہو سکتا ہے تمہارے جنگل اس سمت میں   ہوں  ‘‘۔

ایک مرتبہ پھر وہ غلام روانہ ہوا لیکن اس دفعہ اس کا منہ ابھرتے ہوئے سورج کی طرف تھا، کافی عرصہ تک جہاں   گردی کرنے کے بعد وہ اپنے جنگلوں   میں   پہنچ گیا۔ لیکن وہ ان جنگلوں   سے مانوس نہیں   ہوسکا۔ تھک ہار کر اور شکست خور دہ ہو کر اس نے اپنا چہرہ مغرب کی طرف کیا اور اپنے آقا کے پاس پہنچ گیا اور اسے بتایا کہ اگرچہ وہ ان تمام چھوٹے بڑے جنگلوں   تک تو پہنچ گیا تھا، لیکن وہ جنگل اس کے اپنے نہیں   تھے۔

کورا نے کھانستے ہوئے، ’’ہونہہ! ‘‘کیا۔

پھر بڑے پیار سے کہا،’’تو پھر تم میرے ساتھ رہو، جب تک میں   زندہ ہوں   اس زمین پر تم اپنے لئے گھر کی تمنا نہیں   کرو گے اور جب میں   اپنے والدین سے جا ملوں   گا تو تمہاری دیکھ بھال کی ذمہ داری میرے بیٹے پر ہو گی‘‘ لہٰذا اس غلام نے اس جگہ پر دوبارہ رہنا شروع کر دیا۔

کورا مزید بوڑھا ہو گیا لیکن اس کا غلام ابھی جوان تھا۔ کورا اپنے غلام کی غذا کا خاص خیال رکھتا تا کہ وہ طویل زندگی پائے، اُسے صاف ستھرا رکھتا کہ وہ صحت مند رہے اور مناسب وقفوں   سے اس کی پٹائی بھی کرتا تھا تاکہ اس میں   عاجزی و انکساری برقرار رہے۔ وہ اُسے آرام کرنے سے بھی نہیں   روکتا تھا، ہر اتوار اسے اس بات کی اجازت ہوتی تھی کہ وہ پہاڑی پر جا کر بیٹھ جائے اور مغرب کی طرف دیکھتا رہے۔ کورا کے کھیتوں   میں   اب اچھی فصل اگنے لگی تھی۔ اس نے جنگل خریدے، انہیں   صاف کروایا اور قابل کاشت بنایا تا کہ اس کا غلام اس میں   کام کر سکے، اس غلام نے بڑی رغبت اور محنت سے اس جگہ لگے ہوئے درخت کاٹے۔ کورا انتہائی امیر کبیر انسان بن گیا اور ایک دن ایسا ہوا کہ اس نے (اپنے غلام کے لئے) ایک کنیز بھی خرید لی۔

وقت گزرتا چلا گیا اور کورا کا گھر چھ غلام زادوں   سے بھر گیا۔ وہ سب کے سب بھی، اپنے باپ کی طرح مضبوط اور توانا تھے۔ اور انہوں   نے بھی انتہائی محنت اور جانفشانی سے کام کرنا شروع کر دیا۔ ان کا والد انہیں   بتاتا کہ وقت اسی صورت گزرتا ہے جب کوئی کام میں   مصروف رہے۔ اور جب (اسی انداز میں   ) وقت گزر کر ماضی کا حصہ بن جائے تب ہی ہم لا فانی قسم کے جنگلوں   کے اہل ہو سکتے ہیں۔ آرام والے دن وہ اپنے بیٹوں   کو پہاڑی پر لے جاتا۔ انہیں   غروب ہوتا سورج دکھاتا اور انہیں   تمنا کرنے، آرزو کرنے اور (کسی چیز کا) انتظار کرنے کا ڈھنگ سکھاتا۔

کورا اب خاصا بوڑھا اور لاغر ہو گیا تھا۔ بوڑھا تو وہ پہلے ہی تھا مگر اب وہ زندگی کے دن گن کر گزار رہا تھا۔ اس کا بیٹا مضبوط و توانا تو نہیں   بن سکا لیکن اسے اس بات سے رنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں   تھی کیونکہ اس کے گھر میں   موجود غلام زادوں   میں   سے ہر ایک اتنا مضبوط اور لحیم تھا کہ وہ صرف ایک مکے کی ضرب سے کسی بھی شخص کو گرا سکتا تھا۔ وہ انتہائی طاقت ور تھے،ان کے پٹھے لوہے کی مانند تھے اور ان سب کے دانت شیر کی طرح تھے۔ اور ان کے پاس ابھی وقت بھی بہت تھا۔ وہ غلام زادے اپنی کلہاڑیاں   چلاتے اور جنگلوں   کے درخت کاٹتے رہے۔

٭٭٭

 

جادو

ہرمن بیس

یہاں   پر فریڈرک (Frederick)نامی شخص کا ذکر کیا جا رہا ہے، اُس نے خود کو دانشورانہ مقاصد کے لئے وقف کر لیا تھا، وہ بے پناہ علم حاصل کر چکا تھا اور معلومات میں   یکتا حیثیت رکھتا تھا لیکن اس کے لئے تمام علوم ایک جیسی اہمیت کے حامل نہیں   تھے اور نہ ہر سوچ دوسری سوچ کی طرح بہتر تھی۔ وہ ایک خاص قسم کی سوچ کو پسند کرتا تھا اور دیگر سوچوں   کو ناگوار خاطر کرتا اور رد کر دیتا۔ وہ جس چیز کی توقیر کرتا اور پسند کرتا وہ تھی ’’منطق‘‘ اور جسے وہ ایک ’’سائنس‘‘ قرار دیتا تھا۔

وہ اکثر کہتا، ’’دو جمع دو چار ہوتے ہیں، اور یہی وہ حقیقت ہے جس پر کسی انسان کی سوچ کا محور ہونا چاہیے‘‘۔

یقینی طور پر وہ اس بات سے نا آشنا نہیں   تھا کہ سوچوں   کے دھارے اور علوم مختلف بھی ہو سکتے ہیں   مگر وہ ’’سائنس‘‘ نہیں   اور وہ ان کے بارے میں   کوئی اچھی رائے نہیں   رکھتا تھا۔ آزادانہ سوچوں   کا حامل ہونے کے باوجود وہ مذہب کے معاملے میں   عدم رواداری کا شکار نہیں   تھا۔ سائنسدانوں   کی دنیا میں   مذہب ایک ان کہے معاہدے کی حیثیت رکھتا تھا۔ کئی صدیوں   تک ان کی سائنس نے تقریباً ہر اس چیز کو اپنے سے پیوست کر لیا تھا جو اس دنیا میں   اپنا وجود رکھتی ہے اور وہ اس قابل تھی کہ اسے جانا جائے، اس میں   صرف ایک چیز کو استثنیٰ حاصل تھا اور وہ تھی انسانی روح۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ایک رواج بنتا چلا گیا کہ اس مسئلے کو مذہب کے لئے چھوڑ دیا جائے اور روح پر ہونے والے مفروضات کو سنجیدگی سے لئے بغیر ہی برداشت کیا جائے۔ لہٰذا فریڈرک بھی مذہب کے معاملے میں   رواداری سے کام لیتا۔ لیکن وہ جس چیز کو بھی توہم پرستی سمجھتا تھا وہ اس کے لئے نا پسندیدہ اور ناگوار ہوتی۔ نا آشنا، غیر تہذیب یافتہ اور ذہنی معذوری کے شکار افراد تو خود کو ان چیزوں   میں   پھنسائیں، شاید قدیم معاشروں   میں   ماورائی اور جادوئی سوچ کا تصور موجود ہو، لیکن سائنس اور منطق کے نمو پذیر ہونے کے بعد ان فرسودہ اور مشکوک خیالات کی گنجائش باقی نہیں   رہتی۔

وہ ان خیالات کا اظہار کرتا اور اسی طرح سوچتا، اور جب کبھی تو ہم پرستی سے متعلق کسی قسم کے خیالات اس کے سامنے آتے تو وہ ناراضی کا اظہار کرتا کہ جیسے کسی ناموافق چیز نے اسے چھو لیا ہو۔

تاہم یہ بات اسے اکثر تنگ کرتی رہتی چاہے ایسی کوئی چیز وہ از خود تلاش کرے یا سائنسی اصولوں   کے مباحثوں   کے دوران کوئی پڑھا لکھا شخص اسے بیان کرے اور جو بات اس کے لئے سب سے زیادہ اذیت ناک اور عدم برداشت کا باعث بنتی وہ ایک عجیب سا تصور تھا جس کا اظہار بعض اوقات عظیم ثقافتوں   سے تعلق رکھنے والے افراد بھی کرتے کہ ’’سائنسی سوچ‘‘ امکانی طور پر ایک شاندار، وقت کی حدود سے آزاد،دائمی، پہلے سے طے شدہ اور مستحکم تخیل کا نام نہیں   بلکہ کئی عارضی نقطہ ہائے نظر میں   سے ایک ہے جو تبدیلی اور زوال سے مبرا نہیں۔ یہ تخریبی، زہریلا،غیر متاثر کن خیال عام ہو چکا تھا حتیٰ کہ فریڈرک بھی اس سے انکار نہیں   کر سکتا تھا، یہ سوچ اس مایوسی کے نتیجے میں   رائج ہوئی جو دنیا میں   جنگوں، انقلابات اور بھوک و افلاس کی وجہ سے پیدا ہوئی اور ایک انتباہ کی طرح نوشتہ دیوار بن گئی۔

فریڈرک اس حقیقت سے جتنا زیادہ آشنا ہوتا چلا جاتا کہ یہ خیال اب رائج ہو چکا ہے اور اب وہ اسے تشویش میں   مبتلا کر سکتا ہے، وہ اتنا ہی زیادہ اس نظریے اور ان لوگوں   کے پیچھے پڑ جاتا جن کے بارے میں   اسے شبہ ہوتا کہ یہ لوگ خاموشی کے ساتھ اس نظریے پر یقین کئے ہوئے ہیں۔ اب تک اس نئے نظریے پر یقین رکھنے والوں   میں   حقیقی علم کے حامل چند افراد کا شمار ہوتا تھا، یہ ایک ایسا نظریہ دکھائی دیتا تھا جو پہلے سے طے شدہ ہو، کیا اسے زمین پر موجود تمام تر اقدار کو ختم کرنے اور انتشار پیدا کرنے کے لئے رائج ہو جانا چاہیے اور تقویت حاصل کر لینی چاہیے۔ جی ہاں  ! معاملات ابھی اس نہج پر نہیں   پہنچے، اور وہ ’’منتشر‘‘ افراد جنہوں   نے اس نظریے کو آزادانہ طور پر تسلیم کر لیا تھا ان کی تعداد زیادہ نہیں   تھی اور ان لوگوں   کو غیر معمولی اور انوکھا سمجھا جا سکتا تھا۔ لیکن زہر کے قطرے کی طرح، اس خیال کے ظہور کو پہلے ایک طرف سے اور پھر دوسری طرف سے سمجھے جانے کی ضرورت ہے۔ لوگوں   میں، اور بالخصوص نیم پڑھے لکھے لوگوں   میں، نئے نظریوں   کی آمد کا سلسلہ نہیں   پایا جا سکتا، مخفی نظریات، فرقے اور پیروکاری، (ان کی) دنیا ان چیزوں   سے بھری ہوتی تھی، کوئی بھی شخص ہر جگہ موجود توہمات، تصوف اور روحانیات سے متعلق حلقوں   اور دیگر پر اسرار قوتوں   کو محسوس کر سکتا تھا، جن سے مقابلہ اور مسابقت ضروری تھا، لیکن کسی سائنس کے تحت، کہ جیسے موجودہ آزادانہ حیثیت کی خاطر کمزوری کے نجی احساس سے کوئی چیز حاصل کی گئی ہو۔

ایک دن فریڈرک اپنے کسی دوست کے گھر گیا،جس کے ساتھ وہ اکثر مطالعہ کیا کرتا تھا، اس نے اپنے اس دوست کو کافی عرصے سے نہیں   دیکھا تھا۔ جب وہ اپنے دوست کے گھر کی سیڑھیوں   پر چڑھ رہا تھا تو اس نے یہ بات یاد کرنے کی کوشش کی کہ وہ اپنے اس دوست کے ساتھ آخری مرتبہ کب بیٹھا تھا، اپنی دیگر صلاحیتوں   پر فخر کرنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنی یاد داشت پر بھی نازاں   تھا، اس کے باوجود وہ یہ ملاقات یاد نہیں   کر سکا۔ اسی وجہ سے وہ غیر محسوسیت اور بیزاری کا شکار تھا اور اس کی طنز و مزاح کی صلاحیت بھی متاثر ہو رہی تھی اسی کیفیت میں   وہ اپنے دوست کے دروازے پر دستک دے رہا تھا اور خود کو اس کیفیت سے آزاد کرانے کا خواہشمند تھا۔

اس نے اپنے دوست کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر بھی اسے خوشگوار سا تاثر نہیں   دیا۔ اسے یہ محسوس ہوا کہ اس نے اپنے دوست کے چہرے پر پہلے ایسی مسکراہٹ کبھی نہیں   دیکھی اور اسے یہ دیکھ کر احساس ہوا کہ دوستی کے باوجود اس کی مسکراہٹ میں   ایک طنز یا مخالفت کا پہلو نمایاں   ہے اور اچانک اسے یہ بھی یاد آ گیا کہ وہ اپنی یاد داشت پر،اپنے دوست سے عمومی ملاقات کا وقت یاد کرنے کے لئے، زور دے رہا تھا جو کہ بے سود تھا۔ اسے یاد آ گیا کہ وہ آخری مرتبہ لڑے بغیر ہی علیحدہ ہو گئے، لیکن ان کے اندر عدم تسلی اور نا اتفاقی کے جذبات موجود تھے کیونکہ اسی ملاقات میں   ارون (Erwin)نے توہمات پر فریڈ رک کی طرف سے کئے جانے والے حملوں   میں   اس کی کوئی خاص حمایت نہیں   کی تھی۔

یہ بات حیران کن تھی۔ اس نے یہ بات یکسر فراموش کیسے کر دی تھی؟ اور اب وہ یہ بھی جانتا ہے کہ یہی وجہ تھی کہ اس نے اتنے عرصے تک اپنے دوست سے ملاقات نہیں   کی تھی، صرف یہی بے چینی، جسے وہ ہر وقت ب اور کرتا رہتا تھا، باوجود اس کے کہ اس نے اپنے دوست سے ملاقات میں   تاخیر کے اور بہت سے بہانے تلاش کئے ہوئے تھے۔

اب وہ ایک دوسرے کے مد مقابل تھے اور فریڈرک کو ایسا محسوس ہوا کہ اس دن کا معمولی سا تنازعہ، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ،وسعت اختیار کر گیا ہے۔ اس نے محسوس کیا کہ اس وقت اس کے اور ارون کے درمیان کوئی ایسی چیز غائب ہے جس کا پہلے وجود تھا۔ یقینی طور پر وہ باہمی سمجھ بوجھ کی فضا، استحکام کا ہالہ اور محبت کی موجودگی۔ بہر حال اس تمام تر صورت حال کے باوجود ایک خلا بھی موجود تھا۔ وہ ایک دوسرے سے پرتپاک انداز میں   ملے، موسم کے بارے میں   بات چیت کی، اپنی شناسائی سے متعلق گفتگو کی، صحت سے متعلق دریافت کیا اور خدا جانے کیوں۔ ہر لفظ کے ساتھ فریڈرک کو یہ احساس ہوا کہ وہ اپنے دوست کی بات نہیں   سمجھ رہا، شاید اس کا دوست حقیقی معنوں   میں   اسے نہیں   جانتا، اس کے الفاظ معیار تک نہیں   پہنچ پا رہے، انہیں   حقیقی بحث مباحثے کے لئے کوئی مشترک بنیاد نہیں   مل رہی۔ مزید یہ کہ، ابھی تک ارون کے چہرے پر ایک دوستانہ مسکراہٹ ہے، جسے دیکھ کر فریڈرک کے اندر نفرت کے سے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔

اس تھکا دینے والی بحث کے دوران فریڈرک نے سٹوڈیو کی طرف دیکھا جس کے متعلق وہ اچھی طرح جانتا تھا، اس نے دیوار پر، ڈھیلے سے انداز میں   لٹکا ہوا،ایک کاغذ دیکھا- اسے دیکھ کر وہ بہت حیران ہوا اور اس کے ذہن میں   پرانی یادیں   عود کر آئیں، اسے یاد آیا کہ زمانۂ طالب علمی میں   ارون کی یہ عادت تھی کہ جب کبھی وہ کسی مفکر کے قول یا کسی شاعر کے شعر کو اپنے ذہن میں   تازہ کرنا چاہتا تھا تو وہ دیوار پر لگے ہوئے کاغذ سے اُسے پڑھتا تھا۔

وہاں   ارون کے تحریر کردہ مقولے میں   سے اس نے پڑھا:’’کوئی بھی چیز کسی(چیز ) کے باہر نہیں ، اور کوئی بھی چیز کسی (چیز) کے اندر نہیں، کیونکہ جو کچھ بھی کسی (چیز) کے باہر ہے وہی (چیز) اس کے اندر ہے‘‘۔

اس کا رنگ فق ہو گیا اور وہ ایک لمحے کے لئے ساکن ہو گیا۔ ہاں   یہی ہے! یہی وہ چیز ہے جس کا اسے خطرہ تھا!۔ ایک خاص وقت میں   اسے چاہیے تھا کہ وہ اس کاغذ کو نظر انداز کر دیتا، اسے بڑی ہمت سے برداشت کر لیتا، ایک ایسی بے ضرر چیز کی طرح جوہر شخص کو قابل قبول ہوتی ہے، کوئی بھی معمولی چیز جو کسی انسان کو اپنی طرف متوجہ کر کے اسے وقتی طور پر مشغول کر لیتی ہے۔ لیکن اب تو صورت میں   واضح فرق موجود تھا۔ اسے محسوس ہوا کہ یہ الفاظ محض اس کی شاعرانہ حس کو بیدار اور محظوظ کرنے کے لئے نہیں ، یہ وہم نہیں   تھا کہ خاصے عرصے کے بعد ارون اپنی نوجوانی سے منسوب عادت پر واپس آ گیا تھا۔ جو کچھ یہاں   لکھا تھا وہ اس خاص لمحے میں   اس کے دوست کا اعلان نظر آ رہا تھا اور وہ تصوف سے متعلق ہی تھا! ارون بے وفا تھا! فریڈرک بڑی آہستگی سے اپنے دوست کا سامنا کرنے کے لئے مڑا، جس کی مسکراہٹ اب چمک دار محسوس ہو رہی تھی۔

فریڈرک بولا ’’میرے لئے اس مقولے کی وضاحت کرو‘‘۔

ارون نے بڑی خندہ پیشانی سے جواب دیتے ہوئے کہا، ’’کیا تم نے پہلے کبھی یہ مقولہ نہیں   پڑھا؟ ‘‘

فریڈرک نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’’یقیناً پڑھا ہے، یہ تصوف ہے، یہ عرفانیت سے متعلق ہے، یہ شاعرانہ بھی ہوسکتا ہے، لیکن۔ جو کچھ بھی ہے میرے لئے اس کی وضاحت کرو اور یہ بھی بتاؤ۔ کہ یہ مقولہ تمہاری دیوار پر آویزاں   کیوں   ہے۔ ‘‘

ارون نے بڑی شائستگی سے جواب دیا۔ ’’یہ مقولہ ’علمیات ‘ کا پہلا تعارف ہے جس سے میری بعد میں   وابستگی ہو گئی، اور جو میرے لئے بہت خوشیاں   لے آئی‘‘۔

فریڈرک نے اپنے موڈ اور مزاج پر قابو رکھتے ہوئے کہا، ’’(نئی) علمیات؟ کیا ایسی بھی کوئی چیز ہے؟ اسے کیا کہا جاتا ہے؟

ارون نے جواب دیا، ’’یہ صرف میرے لئے نئی ہے، ورنہ یہ بہت پرانی اور آزمودہ ہے، اسے ’جادو‘ کہتے ہیں  ‘‘۔

یہ لفظ کہہ تو دیا گیا، مگر اس لفظ میں   حیرت انگیز طور پر واضح اعتراف تھا، اس بات سے فریڈرک بھی حیران ہو گیا اور اسے ایسا محسوس ہوا کہ وہ اپنے ایک دیرینہ دشمن کے سامنے بیٹھا ہے جو اس کے دوست کی صورت میں   اس کے سامنے موجود ہے۔ اسے یہ ادراک نہ ہو سکا کہ وہ غصے کی حالت یا آنسو نکلنے کی حالت کے قریب ہے، وہ ایک ایسی کیفیت میں   مبتلا ہو گیا جو ناقابل تلافی نقصان ہو جانے کی صورت میں   ہوتی ہے۔ کافی دیر تک وہ خاموش بیٹھا رہا۔

پھر ایک بناوٹی سا لہجہ بنا کر اس نے کہا،۔ ’’تو گویا اب تم ایک جادوگر بننا چاہتے ہو؟ ‘‘

ارون نے بغیر ہچکچاہٹ کے جواب دیا، ’’جی ہاں   !‘‘

’’جادوگروں   جیسا تجربہ؟ ‘‘

’’یقیناً‘‘

کمرے میں   اتنی خاموشی تھی کہ ساتھ والے کمرے میں   لگی ہوئی کلاک کی آواز بھی سنائی دے رہی تھی۔

اس کے بعد فریڈرک نے کہا، ’’اس کا مطلب ہے کہ تم سنجیدہ سائنس سے تمام تر وابستگی توڑنے کے ساتھ ساتھ مجھ سے بھی اپنی وابستگی ترک کر رہے ہو‘‘۔

ارون نے جواب دیا، ’’ میرا خیال ہے ایسی بات نہیں، لیکن اگر ایسا ہے بھی، تو میں   اس کے سوا کیا کر سکتا ہوں  ‘‘؟

فریڈرک طیش میں   آ کر بولا، ’’اس کے علاوہ تم کیا کر سکتے ہو!، کیوں   نہ اس طفلانہ اور مطعون خیال سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جان چھڑا لی جائے اور جادو کے بارے میں   سوچنا چھوڑ دیا جائے۔ اگر تم میری کوئی لاج رکھنا چاہتے ہو تو یہی وہ کام ہے جو تم کر سکتے ہو۔

اگرچہ ارون اتنا خوش دکھائی نہیں   دے رہا تھا تا ہم وہ مسکرایا۔

ارون نے اتنی عمدگی اور شائستگی سے بات کی کہ اس کی زبان سے ادا کئے ہوئے خوبصورت الفاظ کے مقابلے میں   فریڈرک کی غصیلی آواز کمرے میں   گونجتی ہوئی محسوس ہوئی، ’’فریڈرک! تم نے یہ گفتگو ایسے کی جیسے یہ سب کچھ میں   نے اپنی مرضی سے کیا، کہ جیسے میرے پاس انتخاب کا کوئی حق تھا۔ معاملہ یوں   نہیں   ہے۔ میرے پاس دیگر کوئی صورت موجود نہیں   تھی۔ ایسا نہیں   ہے کہ میں   نے جادو کا انتخاب کیا: جادو نے میرا انتخاب کیا۔ ‘‘

فریڈرک نے لمبا سانس لیا، بیزاری سے کھڑا ہوا اور بغیر ہاتھ ملائے الوداع کہتا ہوا چل پڑا۔

ارون چلّایا،’’نہیں  ! ایسے نہیں، تم میرے پاس سے یوں   نہیں   جا سکتے۔ فرض کرو ہم دونوں   میں   سے کوئی ایک بستر مرگ پر پڑا ہے-معاملہ کچھ ایسا ہی ہے!- تو کیا ہمیں   الوداع کہہ دینا چاہیے‘‘۔

’’لیکن ارون، ہم دونوں   میں   سے کون قریب المرگ ہے؟

’’میرے دوست! آج شاید میں   قریب المرگ ہوں، جس کسی کو بھی از سر نو پیدا ہونے کی خواہش ہو اسے موت کے لئے تیار رہنا چاہیے‘‘۔

فریڈرک ایک مرتبہ پھر اس کاغذ کے قریب گیا اور اس مقولے کو پڑھا۔

بالآخر اس نے کہا،’’بہت خوب! تم ٹھیک کہتے ہو، غصے میں   آنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں   وہی کچھ کروں   گا جس کی تمہیں   تمنا ہو گی، میں   تصور کرتا ہوں   کہ ہم میں   سے کوئی ایک قریب المرگ ہے، پیشتر اس کے کہ میں   جاؤں   میں   تمہارے سامنے آخری گزارش کرنا چاہتا ہوں  ‘‘۔

ارون بولا، ’’چلو میں   اس بات پر خوش ہوں، مجھے بتاؤ میں   تمہارے واپس جانے پر کسی شفقت اور مہربانی کا مظاہرہ کر سکتا ہوں  ‘‘؟

مَیں   اپنے پہلے سوال کو دہراتا ہوں، اور یہ میری درخواست بھی ہے: ’’میرے لئے اس مقولے کی وضاحت کرو۔ اتنی وضاحت کرو جتنی تم کر سکتے ہو‘‘۔

ارون نے ایک لمحے کے لئے اس کی طرف دیکھا اور پھر بولا: ’’کوئی بھی چیز کسی چیز کے باہر نہیں   اور کوئی بھی چیز کسی (چیز) کے اندر نہیں۔ تم اس جملے کے مذہبی معانی جانتے ہو: اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے۔ اللہ روح میں   موجود ہے اور فطرت میں   بھی جلوہ گر ہے۔ ہر چیز خدائی ہے کیونکہ اللہ کُل ہے۔ ہم اسے وحدت الوجود کہتے ہیں۔ اس کے بعد مقولے کے فلسفیانہ معانی: ہم لوگ عادی ہیں   کہ ہم اپنی اپنی سوچ میں   ’’اندر‘‘ کو ’’باہر‘‘ سے دور لے جانے کے عادی ہیں   لیکن یہ ضروری نہیں۔ ہماری روح میں   یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ ان حدود سے پیچھے ہی رک جائے جو ہم نے اس کے لئے مختص کی ہے۔ تضاد کے اس جوڑے کے پرے جس پر ہماری دنیا مشتمل ہے، علم کے ایک نئے اور مختلف شعبے کا آغاز ہوتا ہے۔۔۔۔ لیکن، میرے محترم دوست! مجھے اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے۔ جب سے میری سوچ کا دھارا تبدیل ہوا ہے اس وقت سے میرے لئے الفاظ اور مقولوں   کے حوالے سے کوئی ابہام باقی نہیں   رہا: ہر لفظ کے دسیوں   اور سینکڑوں   معانی ہیں   اور تمہیں   جس چیز کا خدشہ ہے وہ اب شروع ہوتی ہے – جادو‘‘۔

فریڈرک نے اپنی تیوری چڑھائی، وہ مداخلت کرنے ہی والا تھا کہ ارون نے اس کی طرف دیکھا اور مزید وضاحت کے ساتھ اپنی گفتگو جاری رکھی، ’’چلو میں   تمہیں   ایک مثال دیتا ہوں   میری ایک چیز اپنے ساتھ لیتے جاؤ، یہ ایک چھوٹی سی چیز ہے۔ اسے مختلف اوقات میں   دیکھتے رہنا۔ کچھ ہی عرصے بعد ’’اندر ‘‘ اور ’’ باہر‘‘ کا اصول تم پر بہت سی چیزوں   کا انکشاف کر دے گا‘‘۔

اس نے کمرے کا جائزہ لیا، دیوار کے شیلف میں   سے مٹی کا بنا ہوا، چھوٹا سا ’’بت ‘‘اٹھایا اور فریڈرک کو دیتے ہوئے کہا، ’’اسے میرے ایک الوداعی تحفے کی حیثیت سے ساتھ لیتے جاؤ۔ جو چیز میں   تمہارے ہاتھوں   میں   رکھ رہا ہوں   جب تمہارے ’’باہر ‘‘ کا سلسلہ ختم کرتے ہوئے تمہارے اندر آ جائے تو تم میرے پاس آ جانا! لیکن اگر یہ تمہارے ’’باہر‘‘ ہی رہے، جیسے کہ یہ اب ہے، تو تمہارے اور میرے درمیان ہونے والی جدائی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہو گی ‘‘!

فریڈرک مزید کچھ کہنا چاہتا تھا، لیکن ارون نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں   لیا، اسے دبایا اور اسے ایک ایسے رویے کے ساتھ الوداع کیا، جس کے لئے مزید وضاحت کی ضرورت نہیں   تھی۔

فریڈرک وہاں   سے چلا گیا، سیڑھیوں   سے نیچے اُترا (اس نے ایک طویل عرصہ قبل ان سیڑھیوں   کا سفر کتنی شان سے طے کیا تھا۔ !)، شہر کی سڑکوں   سے ہوتا ہوا اس چھوٹے سے بت کو ہاتھ میں   لئے، اپنے گھر پہنچا، گھر پہنچتے وقت وہ خاصا مضطرب اور غمگین تھا۔ گھر کے سامنے کھڑے ہو کر اس نے اپنی اُس مٹھی کو بڑی سختی سے دبایا جس میں   وہ بت کو تھامے ہوئے تھا، اس کا دل چاہا کہ وہ اس مزاحیہ چیز کو پھینک دے مگر اس نے ایسا نہیں   کیا، اس نے اپنے ہونٹ بند کئے اور گھر کے اندر داخل ہو گیا۔ اسے اس قسم کے متذبذب خیالات کا کبھی سامنا نہیں   ہوا۔

اس نے اپنے دوست کے دیئے ہوئے تحفے کے لئے کوئی مناسب جگہ دیکھی اور اسے کتابوں   کے شیلف کے اُوپر رکھ دیا۔ کچھ عرصے کے لئے اسے وہیں   رہنے دیا۔

جیسے جیسے وقت گزرتا چلا گیا وہ گا ہے بگا ہے اسے دیکھتا رہا، اس پر اور اس کے اصل پر غور کرتا رہا اور وہ خاص معانی بھی تلاش کرتا رہا جس کے لئے یہ احمقانہ سی چیز اسے دی گئی تھی۔ یہ کسی بھی انسان، دیوتا یا بت کا چھوٹا سا خاکہ نما تھا۔ جس کے دو چہرے تھے اور یہ رومی دیوتا جانوس (Janus)کی طرح تھا جسے چکنی مٹی سے بنانے کے بعد جلا کر مختلف ٹکڑیوں   سے صیقل کیا گیا تھا۔ یہ بت معمولی نوعیت کا تھا اور کسی اہمیت کا حامل نہیں   تھا، یقینی طور پر یہ رومی یا یونانی تو نہیں   تھا بلکہ یہ افریقہ یا جنوبی ساحلی علاقوں   سے تعلق رکھنے والی غیر ترقی یافتہ اور ابتدائی نسل کے عہد سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کے دو چہرے تھے،جو ایک جیسے تھے اور ان پر ایک پھیکی بے حس اور مجہول قسم کی مسکراہٹ تھی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کوئی بد شکل بالشتیا احمقانہ ہنسی ہنس رہا ہے۔

فریڈرک اس چھوٹے سے بت سے مانوس نہ ہو سکا۔ یہ بت اس کے لئے ناگواری کا باعث ہی رہا۔ جب بھی اس کا آمنا سامنا اس بت سے ہوتا تو وہ پریشانی میں   مبتلا ہو جاتا۔ اگلے روز اس نے اس بت کو چولھے کے اُوپر رکھ دیا، اور چند دن بعد اسے الماری میں   منتقل کر دیا۔ وہ بت بار بار اس کے تخیل میں   آتا، جیسے وہ، اس پر توجہ مبذول کروانے کے لئے زور دے رہا ہو، وہ فریڈرک پر ہنس رہا تھا، سر گوشی کر رہا تھا اور توجہ چاہ رہا تھا۔ چند ہفتوں   بعد فریڈرک نے اسے ڈیوڑھی میں   آویزاں   اٹلی کی تصویر اور یادگاری شیلڈز کے درمیان رکھ دیا۔ ان تمام تر چیزوں   پر کوئی توجہ نہیں   دیتا تھا۔ اب کم از کم وہ اس بت کو گھر میں   داخل ہوتے وقت یا گھر سے نکلتے وقت ایک مرتبہ ضرور دیکھتا تھا۔ اس کے بعد وہ اس کے قریب سے عجلت میں   ہی گزر جاتا اور اس کا قریب سے مشاہدہ نہیں   کرتا تھا۔ لیکن ایسے کرنے پر بھی یہ بت اس کے لئے پریشانی کا باعث بنا رہا، باوجود اس کے کہ اس نے یہ بات خود سے تسلیم نہیں   کی۔

اس کو نئی جگہ رکھنے کے بعد یہ دو چہروں   والا (پُتلا نما) چھوٹا بت اس کی زندگی میں   شامل ہونا شروع ہو گیا۔

چند مہینوں   بعد فریڈرک کسی ٹرپ سے جب واپس آیا، اب وہ ایسے ٹرپ اکثر لگایا کرتا تھا کیونکہ اسے محسوس ہوتا تھا کہ کوئی اس سے یہ امور سر انجام دلوا رہا ہے، تو وہ ڈیوڑھی سے گزرا، اس کی ملازمہ نے اس کا استقبال کیا، اور پھر وہ ان خطوط کا مطالعہ کرنے لگا جو اس کے منتظر تھے۔ وہ مضطرب اور پریشان دکھائی دے رہا تھا، جیسے وہ کوئی اہم چیز بھول گیا ہو، مطالعے میں   اس کا دل نہ لگا، نہ ہی اسے اپنی کرسی آرام دہ محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے اپنے دماغ پر زور دینا شروع کر دیا۔ آخر اس سب کی وجہ کیا ہے؟ کیا اس نے کسی اہم چیز پر عدم توجہ کی؟ کوئی غیر معمولی چیز نوش کر لی ہے؟ اس صورت حال پر غور کرتے ہوئے اس پر یہ انکشاف ہوا کہ اس کی طبیعت میں   یہ تبدیلی عین اس وقت ہوئی جب وہ اپنے گھر کے اندر داخل ہوا۔ وہ ڈیوڑھی میں   واپس آیا اور، نہ چاہتے ہوئے، اس کی نگاہیں   بت تلاش کرنے لگیں۔

اس کی طبیعت میں   مزید اضطراب اس وقت پیدا ہوا جب اسے وہ بت نظر نہ آیا۔ وہ غائب ہو گیا تھا۔ گم ہو گیا تھا۔ کیا وہ اپنی چھوٹی سی ٹانگوں   پر چل کر کہیں   چلا گیا؟ اڑ گیا؟ جادو کے ذریعے؟

فریڈر ک نے خود پر قابو پایا، اپنے اضطراب اور اپنی پریشانی پر مسکرایا۔ پھر اس نے اپنے کمرے میں   اس بت کو تلاش کرنا شروع کر دیا۔ جب وہ تلاشی مکمل کر چکا اور اسے وہ بت نہ ملا تو اس نے اپنی ملازمہ کو بلایا۔ وہ آئی، حیرت میں   مبتلا دکھائی دی اور اس نے فوراً اعتراف کیا کہ کمرے کی صفائی کے دوران اس کے ہاتھ سے وہ بت نیچے گر گیا تھا۔

’’لیکن اب وہ کہاں   ہے‘‘؟

اب وہ اس جگہ موجود نہیں۔ کیونکہ وہ اس بت کو اکثر ہاتھوں   میں   اٹھا لیتی تھی، وہ انتہائی ٹھوس دکھائی دیتا تھا، لیکن آج وہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں   میں   تقسیم ہو گیا تھا اور اسے جوڑنا ناممکن دکھائی دیتا تھا۔ وہ اسے ایک کاشی گر کے پاس لے گئی، جس نے اس کا مذا ق اڑایا، اور اس بُت کو وہیں   پھینک دیا۔

فریڈرک نے اس ملازمہ کو برخاست کر دیا۔ پھر وہ مسکرادیا۔ یہ اس (فریڈرک ) کے ساتھ بالکل صحیح ہوا۔ خدا جانتا ہے کہ اس نے اس بت کو (اپنے اندر) محسوس نہیں   کیا تھا۔ کراہت اب دور ہو چکی تھی، اور اب وہ سکون میں   آ گیا تھا۔ اگر وہ اس چھوٹے سے بت کو گھر میں   لانے کے پہلے ہی دن توڑ دیتا، تو وہ اب تک کس سوچ میں   مبتلا رہتا، اس تمام عرصے میں   وہ بت اس پر کتنی عجیب و غریب، مکارانہ، شیطانی اور سست روی پر مبنی ہنسی ہنستا رہا تھا! اب جب کہ وہ کہیں   گم ہو گیا تھا تو وہ خود سے یہ اعتراف کر سکتا تھا کہ: وہ (فریڈرک) اس (بت) سے خوفزدہ تھا، وہ حقیقی معنوں   میں   اس مٹی کے دیوتا سے خوف کھایا کرتا تھا۔ کیا وہ بت ہر اس چیز کی نشانی یا علامت نہیں   تھا جو اس (فریڈرک) کے لئے ناقابل برداشت اور قابل نفرت تھی، ہر وہ چیز جس کی پہچان ایک مہلک، مخالف اور دباؤ کی حیثیت سے ہی ہوئی۔ تمام تر توہمات، اندھیروں، روح اور شعور کے مجموعی جبر کی صورت؟ کیا وہ بُت اس بھیانک قوت کی نمائندگی نہیں   کرتا جو کبھی کبھار زمین کی گہرائی میں   محسوس ہوتی ہے، جب زلزلہ کچھ فاصلے پر ہوتا ہے، جب ثقافت کی ناپیدگی، اور انتشار کے ظاہر ہونے کا عمل قریب ہو؟ کیا اس چھوٹے سے بت نے اسے اپنے بہترین دوست سے جدا نہیں   کر دیا تھا۔ نہ صرف وہ اس کے دوست کو اس سے چھین کر لے گیا تھا بلکہ اس کے دوست کو اس کا دشمن بھی بنا دیا تھا؟ چلو ! اب وہ چیز غائب ہو چکی ہے۔ ٹکڑے ٹکڑے ہو چکی ہے۔ یہ اچھا ہی ہوا۔ یہ اور بہتر ہوتا اگر وہ خود اسے توڑ دیتا۔

فریڈرک نے ایسا ہی سوچا۔۔۔۔۔ اور جب اس نے اپنے معمول کے کام دوبارہ شروع کئے۔ صورت حال اس کے بالکل برعکس ہو گئی۔ اور اس بت کا غائب ہونا اس (فریڈرک) کے لئے ملامت کا باعث ہو گیا کیونکہ وہ اس مضحکہ خیز چیز کا عادی ہو چکا تھا، اب اس چیز کی ڈیوڑھی میں   موجودگی شناسائی کا باعث محسوس ہونے لگی، اور اس کی غیر موجودگی اسے ستانے لگی تھی۔ جی ہاں  ! وہ جب بھی اس کمرے میں   جاتا اسے وہ بت یاد آتا، اسے محض وہ خالی جگہ نظر آتی جہاں   وہ چھوٹا سا بت کھڑا تھا اس جگہ کے خالی ہونے کا احساس بھی اسے کھائے جاتا اور وہاں   سے اجنبیت کا احساس بھی عیاں   ہوتا۔

فریڈرک کے لئے برے دن اور بد تر راتوں   کا آغاز ہو گیا تھا۔ وہ اس ڈیوڑھی میں   گم شدہ بت کا تصور کئے بغیر داخل نہیں   ہو سکتا تھا، وہ اسے ہر وقت یاد کرتا تھا اور یہ محسوس کرتا تھا کہ اس کے خیالات اسے تنگ کر رہے تھے۔ یہ بات اس کے لئے لازم و ملزوم ہو گئی۔ اور ایسا ہوا کہ وہ جب بھی اپنے کمرے میں   داخل ہوتا تو یہ دباؤ اس پر غالب آتا۔ ڈیوڑھی میں   رکھی ہوئی میز پر وہ خالی جگہ دیکھ کر، جہاں   وہ بت رکھا ہوا تھا، جو دباؤ اسے محسوس ہونا شروع ہوا تھا، اس نے ایک کھوکھلے پن اور اجنبیت کے احساس کی حیثیت اختیار کر لی تھی۔

بار بار اس بات کا خاکہ اس کے ذہن میں   آتا، شاید یہ بات ب اور کروانے کے لئے کہ اس بت کا گم ہو جانا اس کے لئے کتنے صدمے کا باعث ہے۔ وہ اس کا عکس کراہت و بربریت میں   دیکھتا تھا، یقینی طور پر وہ اس کے دو چہروں   پر ایک مکارانہ ہنسی دیکھ سکتا تھا جیسے وہ نفرت سے بھرا ہوا ہے اور اس کا منہ ترچھا محسوس ہو رہا ہے اور فریڈرک نے خود کو یہ ہنسی ہنسنے پر اس کو مجبور کیا ہو۔ اس سوال نے اسے پریشان کیا ہوا تھا کہ آیا اس (بت) کے دونوں   چہرے بالکل ایک جیسے ہیں۔ شاید ان میں   سے ایک دوسرے سے مختلف تھا کیونکہ ان کی چمک اور کاشی گری میں   تھوڑا سا فرق تھا؟ کوئی مزاحیہ قسم کی چیز؟ ابو الہول نما؟ اور اس کی چمک کا رنگ کیسا تھا! سبز، نیلا اور سلیٹی، کچھ سرخ بھی اس میں   شامل تھا۔ ایک ایسی چمک جس کی تلاش اسے دیگر چیزوں   میں   رہتی ہے، کھڑکیوں   کے شیشوں   میں  یا گیلی سڑک پر۔

وہ رات کو بھی اس چمک پر بہت غور کرتا اور لفظ ’’چمک‘‘ اس کے لئے خاصا غیر مانوس، اجنبی اور عجیب و غریب بن گیا تھا۔ اس نے اس لفظ کا تجزیہ کرنا شروع کر دیا اور ایک مرتبہ تو اس نے ان الفاظ کی ترتیب بھی الٹ کر دیکھی اور پھر وہ ایک اس لفظ کو نامانوس اور شیطانی تصور کرنے لگا۔ بالآخر اُسے ایک پرانی کتاب کا خیال آ گیا جسے اس نے کئی سال پہلے خرید کر پڑھا تھا جس کے مطالعے نے اسے پریشان تو کیا تھا مگر وہ اندرونی طور پر اس سے متاثر ہوا تھا اس کا عنوان شہزادی ازلکا (Princess Ezalka)تھا۔ یہ ایک مطعون ہونے کی سی کیفیت تھی، ہر چیز اس چھوٹے سے بت جیسی تھی۔ اس کی چمک، نیلا، سبز، رنگ، اس کی مسکراہٹ، ایک عجیب سی نفرت اس کو اندر سے زہر آلود کر رہی تھی اور جب اس کے سابقہ دوست ارون (Erwin)نے اس بت کو اس کے ہاتھ میں   تھماتے وقت ایک خاص قسم کی ہنسی ہنسی تھی۔ وہ ہنسی کتنی منفرد علامتی اور نفرت سے بھر پور تھی۔

فریڈرک نے اپنے خیالات کا- کامیابی نہ ہونے کے باوجود- کافی دنوں   تک مقابلہ کیا۔ ا سے واضح طور پر خطرہ منڈلاتا ہوا نظر آیا: وہ پاگل نہیں   ہونا چاہتا تھا! نہیں، اس صورت حال میں   مر جانا بہتر ہے- عقل ضروری ہے، زندگی نہیں  – اور اس پر یہ بات عیاں   ہوئی کہ شاید یہ جادو ہو، ہو سکتا ہے کہ اس کے دوست ارون (Erwin)نے اس چھوٹے سے بت کے ذریعے اس کو مسحور کیا ہے اور یہ کہ اس کو ایک ’’قربان ہونے والی چیز‘‘ کی طرح اس کے پاس جانا چاہیے، منطق اور سائنس کو دفاع کرنے والے کی حیثیت سے جو ان مہلک قوتوں   کے سامنے لوگوں   کا دفاع کرتا ہے۔ لیکن اگر معاملہ کچھ ایسے ہی ہے کہ جیسے وہ سمجھ پایا ہے، یعنی جادو جیسی بھی کسی چیز کا وجود ہے اور اس کا دوست اس کو جادوگری اور بد روحوں   سے متعلق قائل نہیں   کر سکتا ہے۔ تو پھر اس فریڈرک کے لئے مر جانا بہتر ہے !

ایک ڈاکٹر نے اس کو تواتر کے ساتھ پیدل چلنے اور غسل کرنے کا مشورہ دیا : اور کبھی کبھار وہ تفریح کرنے کی غرض سے مسافر خانے میں   بھی شام گزارتا۔ لیکن اس سے اسے کوئی خاص فرق نہیں   پڑتا تھا۔ اس نے ارون پر لعن طعن کرنے کے ساتھ ساتھ خود پر بھی لعنت کی۔

ایک رات، اپنے حالیہ دنوں   کی معمول کے مطابق، وہ اضطرابی کیفیت ہی میں   بستر پر دراز ہو گیا، نیند اس سے کوسوں   دور تھی۔ بے چینی اس پر حاوی رہی۔ وہ مراقبے میں   جانا چاہتا تھا، تنہائی کی تلاش میں   تھا، خود کلامی چاہتا تھا، خود سے کچھ جملے بولنا چاہتا تھا، اچھے جملے، جو اسے سکون دے سکیں، جو اس کا یقین بحال کر سکیں، جن میں   سادگی ہو اور وہ جملے سہل و آسان ہوں، ’’دو دونی چار‘‘۔ اس کے ذہن میں   کوئی بات نہیں   آئی، لیکن نسبتاً پر سکون ہونے کے بعد اس نے خود سے مخاطب ہو کر کچھ آوازیں   اور حروف ادا کئے۔ بتدریج اس کے ہونٹوں   پر کچھ لفظ تشکیل پا گئے، یہ عمل کئی بار ہوا لیکن اس کو معانی سمجھ نہیں   آئے، اس نے خود سے وہی چھوٹا سا جملہ بولا، جس نے اس کے اندر کوئی ’’صورت‘‘ اختیار کر لی تھی۔ وہ ایک مرتبہ پھر خود سے بڑبڑایا، جیسے وہ چیز اسے دم بخود کرنے والی ہو، جیسے وہ اس چھوٹے سے جملے کے ساتھ اپنا راستہ ٹٹولتا جا رہا ہے، کسی حفاظتی دیوار کے ساتھ ساتھ ایک ایسی نیند کے لئے جو اس کو ایسے تنگ راستے سے بچا رہی ہے جو گہرائی کے قریب سے ہو کر گزر رہا ہے۔

پھر اچانک جب وہ ذرا بلند آواز سے بولا تو وہ الفاظ اس کے شعور میں   داخل ہو گئے۔ وہ ان الفاظ سے شناسا تھا: وہ الفاظ یہ تھے، ’’جی ! اب تم میرے اندر ہو‘‘! پھر اس کا ادراک بھی بحال ہو گیا۔ وہ ان الفاظ کے معانی بھی جانتا تھا۔ وہ اس مٹی کے بنے ہوئے چھوٹے بت سے منسوب تھے اور اب رات کے اس پہر ارون (Erwin) کی وہ پیش گوئی درست ہو گئی جو اس نے ملاقات کے دن کی تھی، اور اس نے اسی دن جو چھوٹا سا بت اپنی انگلیوں   میں   تھاما ہوا تھا وہ اب اس کے ’’باہر‘‘ نہیں   تھا بلکہ وہ اس کے ’’اندر‘‘ چلا گیا تھا کیونکہ ’’جو چیز بھی کسی چیز کے باہر ہے وہی (چیز) اس کے اندر ہے‘‘۔

چھلانگ مارنے کی سی صورت حال کی تیاری کرتے ہوئے، اسے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ برف اور آگ سے بھر چکا ہے۔ دنیا اس کے گرد گھوم گئی، سیاروں   نے احمقانہ انداز سے اس کی طرف دیکھا۔ جلدی جلدی کپڑے پہنے، (کمرے کی)لائٹ آن کی اور وسط شب میں   اپنے گھر سے نکل کر ارون کے گھر کی طرف دوڑا۔ وہاں   پہنچ کر اس نے دیکھا کہ سٹوڈیو کی کھڑکی میں   ایک چکا چوند کر دینے والی روشنی جل رہی ہے۔ اس کے گھر جانے والا دروازہ کھلا ہے: گویا ہر چیز اس کی منتظر تھی۔ وہ تیزی سے سیڑھیاں   چڑھا۔ اور بلا جھجک ارون (Erwin)کے کمرۂ مطالعہ میں   چلا گیا، خود کو کانپتے ہاتھوں   سے اس کی میز پر سہارا دیا۔ ارون اپنے لیمپ کی دھیمی روشنی میں   بیٹھا تھا اور بڑی پر سکون ہنسی ہنس رہا تھا۔

ارون بڑی شان سے اٹھا اور کہا، ’’تم آ گئے، بہت اچھا کیا۔ ‘‘

فریڈرک نے آہستگی سے پوچھا، ’’کیا تم میرے منتظر تھے؟ ‘‘

تم جانتے ہو کہ میں   اُسی دن سے تمہارا منتظر تھا جس دن سے تم میرے پاس سے گئے ہو، اپنے ہاتھوں   میں   میرا دیا ہوا چھوٹا سا تحفہ تھامے، بتاؤ کیا ویسا نہیں   ہوا جیسے میں   نے کہا تھا؟

فریڈرک نے کہا، ’’ہاں   ایسا ہی ہوا، وہ چھوٹا سا بت اب میرے اندر ہے اور اب میں   اسے مزید برداشت نہیں   کر سکتا۔ ‘‘

ارون نے پوچھا، ’’کیا میں   تمہاری مدد کر سکتا ہوں  ‘‘؟

’’مجھے نہیں   معلوم۔ ایسا ہی کرو جیسا تم چاہتے ہو۔ مجھے اپنے جادو سے متعلق مزید بتاؤ، اور یہ بھی بتاؤ کہ وہ چھوٹا سا بت اب میرے اندر سے باہر کیسے نکل سکتا ہے‘‘۔

ارون نے اپنا ہاتھ فریڈرک کے کاندھے پر رکھا۔ اسے آرام کرسی کے قریب لے گیا اور اس پر بٹھا دیا۔ پھر وہ دوستانہ انداز میں   فریڈرک سے مخاطب ہوا:’’وہ چھوٹا سا بت تمہارے اندر سے باہر آ سکتا ہے۔ مجھ پر بھروسہ کرو۔ کیا تمہیں   خود پر بھروسہ ہے۔ تم نے اس (بت) پر بھرسہ اور یقین کرنا سیکھ لیا ہے۔ اب اس سے محبت کر ناسیکھ لو۔ اب یہ تمہارے اندر ہے، لیکن مر چکا ہے، اب بھی یہ تمہارے لئے ایک بھوت پریت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کو بیدار کرو، اس سے کلام کرو، اس سے سوال کرو! کیونکہ یہ تم خود ہو۔ اس سے مزید نفرت کا اظہار مت کرو، اس سے خوف مت کھاؤ، اس سے نفرت اور بیزاری مت اختیار کرو۔ تم نے اس بیچارے بت سے نفرت کیسے کی، جو کہ تم خود تھے! تم نے خود سے، اپنے آپ سے نفرت کیسی کی !‘‘

فریڈر ک نے سوال کیا، ’’کیا جادو کا راستہ یہی ہے؟‘‘ پھر وہ کرسی پر آرام سے بیٹھ گیا، جیسے وہ بوڑھا ہو گیا ہو، اور اس کی آواز ماند پڑ گئی۔

ارون نے جواب دیا، ’’ہاں   یہی راستہ ہے اور شاید اس سے پہلے تم نے انتہائی مشکل قدم اٹھایا تھا۔ تم تجربے کے ذریعے اس نتیجے پر پہنچے تھے۔ کسی (چیز کے) باہر کو، کسی(چیز کے) اندر میں   تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ تم کسی بھی دعوے کے جواب دعوے یا ضد دعوے سے پرے تھے۔ یہ تمہیں   جہنم دکھائی دیتا تھا، لہٰذا میرے دوست، سیکھ لو اور یاد رکھو کہ یہ جنت ہے! کیونکہ یہ جنت ہی ہے جو تمہاری منتظر ہے۔ یاد رکھو یہ ہی جادو ہے: کسی (چیز کے)باہر کو، کسی (چیز کے) اندر میں   تبدیل کرنا، لازمی یا جبر کی حیثیت سے نہیں، جیساکہ تم نے کیا، اس کی بجائے اس کام کو آزادانہ اور رضا کارانہ طور پر کئے جانے کی ضرورت ہے۔ ماضی کو بھی بلاؤ اور مستقبل کو بھی بلاؤ: دونوں   تمہارے اندر موجود ہیں۔ بجائے اس کے کہ تم اس ’’اندر‘‘ کے غلام بن جاؤ۔ اس کے مالک و آقا بننا سیکھ لو۔ یہی جادو ہے‘‘۔

٭٭٭

 

لو

ایوان یونین

انہوں   نے رات کا کھانا کھایا، روشنیوں   سے چکا چوند ڈائننگ روم سے باہر آ کر عرشے پر لگے کٹہرے پر آ کر کھڑے ہو گئے۔ خاتون نے اپنی آنکھیں   موند لیں، ہتھیلیاں   باہر کی طرف کر دیں، پھر اپنے ہاتھوں   کو اپنے گالوں   کے قریب لائی اور بڑے خوشگوار انداز میں   قہقہہ مار کر ہنسی۔ اس نوجوان خاتون کے بارے میں   کہی جانے والی ہر بات پیار بھری تھی۔ اس نے کہا: ’’میں   خاصی مخمور ہو چکی ہوں۔۔۔۔ یا میرے ذہن نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ تم کہاں   سے آن ٹپکے؟ تین گھنٹے قبل مجھے تمہارا وجود ذرا سا محسوس ہوا تھا۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں   کہ تم عرشے پر کہاں   سے آئے۔ کیا یہ سمارا تھا؟ میری جان اس سے کوئی فرق نہیں   پڑتا۔ حقیقتاً میر اسر گھوم رہا ہے، یا یہ سٹیمر (Steamer) مڑ رہا ہے؟ ‘‘

ان کے سامنے اندھیرا تھا۔ اور دور روشنیاں   نظر آ رہی تھیں۔ اسی اندھیرے سے ایک نرم و گداز ہوا کا جھونکا ان کے چہروں   کو چھو رہا تھا، وہ روشنیوں   کے قریب سے ہو کر گزر رہے تھے، ان کے سٹیمر نے بڑی تیزی سے موڑ مڑا اور وہ گھاٹ کی طرف رواں   دواں   تھا۔

لیفٹیننٹ نے خاتون کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے ہونٹوں   تک لے گیا۔ اس چھوٹے سے نازک ہاتھ سے سورج کی تپش سے جھلس جانے کی بو آ رہی تھی۔ ہاتھ چھو جانے کے عمل نے اس شخص کو اس سوچ میں   مبتلا کر دیا کہ خوشنما لینن کے لباس میں   پنہاں   اس کا جسم بھی سورج کی تپش میں   جھلس چکا ہو گا کیونکہ وہ (خاتون) ایک مہینے سے جنوبی سمندری ساحل کی گرم ریت پر سورج کی چمکدار شعاعوں   سے لطف اندوز ہونے کی لگن میں   گرفتار تھی (اس خاتون نے بتایا کہ وہ انا پو (Anapu)سے واپس آ رہی تھی۔ لیفٹیننٹ بڑے دھیمے انداز میں   بولا: ’’چلیں   یہاں   سے اترتے ہیں۔۔۔۔ ‘‘

’’کہاں  ‘‘، اس نے حیران ہو کر پوچھا‘‘۔

’’یہاں، اس گھاٹ پر‘‘۔

’’کیوں  ؟ ‘‘

وہ خاموش ہو گیا اور اس خاتون نے ایک مرتبہ پھر اپنا نازک ہاتھ اپنے رخسار سے لگایا۔

’’تم دیوانے ہو گئے ہو؟ ‘‘

لیفٹیننٹ نے اپنے الفاظ دہرائے، ’’نیچے اترتے ہیں، میں   آپ سے گزارش کرتا ہوں۔۔۔۔ ‘‘

خاتون نے اس کی طرف رخ کرتے ہوئے کہا،’’ٹھیک ہے جیسے آپ چاہیں  ‘‘۔

وہ چلتا ہوا سٹیمر (Steamer)نیم روشن گھاٹ سے جا لگا جسکی وجہ سے وہ دونوں   ایک دوسرے پر گرنے والے ہو گئے۔ موٹی دھاتی تار کا سرِا ان کے اُوپر سے ہوتا ہوا آیا اور سٹیمر رک گیا، پانی کی لہریں   سٹیمر سے ٹکرانے لگیں، اترنے والوں   کے لئے بڑا تختہ لگ گیا۔ لیفٹیننٹ اپنا سامان لینے کے لئے دوڑا۔

فی الوقت تو وہ اس گھاٹ کے سایہ دار شیڈ کے نیچے سے گزر رہے تھے، لیکن جیسے ہی وہ دروازوں   سے باہر آئے انہوں   نے خود کو ٹخنوں   تک گہری ریت میں   پایا، وہ انتہائی خاموشی سے، گرد آلود (گھوڑا) گاڑی میں   بیٹھ گئے پھر وہ ایک بڑی اور ہموار سڑک پر آ گئے جس کے دونوں   طرف کھمبے لگے ہوئے تھے اور یہ منظر دور تک دیکھا جا سکتا تھا۔ اس سڑک کے ختم ہونے کے بعد دوسری سڑک شروع ہو گئی، ایک چوک آ گیا جس میں   انتظامی امور کی کچھ عمارتیں   تھیں، ایک گھنٹہ گھر اور کچھ دفاتر، اس ماحول میں   گرمیوں   کی رات کے گزرنے کی خوشبو محسوس کی جا سکتی تھی۔۔۔ گاڑی ایک دروازے کے آگے آ کر رک گئی اور اس دروازے سے عمارت کے اندر لکڑی کی سیڑھیاں   دیکھی جا سکتی تھیں۔ گلابی رنگ کی شرٹ اور فراک کوٹ (frock coat)میں   ملبوس ایک عمر رسیدہ ملازم آگے بڑھا، کچھ دیر توقف کے بعد اس نے ان دونوں   کا سامان اٹھایا اور تھکے ماندہ قدموں   کے ساتھ ان کے آگے آگے چل دیا۔ وہ دونوں   ایک انتہائی بڑے کمرے میں   داخل ہو گئے جو سامان سے بھرا ہوا تھا اور دن بھر سورج کی تپش کی وجہ سے ابھی تک گرم تھا، اس کمرے کی کھڑکیوں   میں   سفید رنگ کے پردے لٹک رہے تھے، کمرے میں   موجود آئینے کے کونوں   میں   موم رکھنے کے سٹینڈ رکھے تھے جن میں   دو غیراستعمال شدہ موم بتیاں   موجود تھیں۔ جیسے ہی وہ دونوں   کمرے میں   داخل ہوئے، اس ملازم نے کمرے کا دروازہ بند کر دیا، انتہائی تیزی کے ساتھ وہ لیفٹیننٹ خاتون کی طرف لپکا اور وہ دونوں   ایک طویل بوسے کے ایسے مرحلے میں   داخل ہو گئے کہ انہیں   یہ لمحہ ایک زمانے تک یاد رہا ہو گا: ان دونوں   میں   سے کسی ایک کو اپنی زندگی میں   کبھی ایسا تجربہ نہیں   ہوا۔

اگلی صبح دس بجے،وہ صبح جو روشن تھی، چمکدار تھی اور گرجا گھرکی گھنٹیوں   کی سریلی آوازوں   سے مزین تھی، ہوٹل کے سامنے بازار میں   موجود لوگوں   کے شور سے بھر پور تھی، گھاس پوس، کولتاری معدنیات اور دیگر ایسی تمام چیزوں   کی مہک سے مالا مال تھی،جو روس کی ہر قصباتی شہر سے آ رہی ہوتی ہے، وہ بے نام خاتون، جو بے نام ہی کہلانا پسند کرتی تھی اور مزاحیہ انداز میں   خود کو خوبصورت اجنبی کا نام دیتی تھی، لیفٹیننٹ کو چھوڑ کر اپنے باقی سفر پر روانہ ہو گئی، وہ دونوں   کم وقت کے لئے سوئے تھے، لیکن صبح کے وقت جب وہ اپنے بستر کے قریب سے نمودار ہوئی اور صرف چند لمحوں   میں   ہی تیار ہو گئی تو وہ سترہ سال کی لڑکی طرح ترو تازہ نظر آ رہی تھی۔ کیا وہ شرما رہی تھی؟ بہت کم۔ وہ پہلے کی طرح ہی سادہ اور خوش دکھائی دے رہی تھی اور۔۔ دانا بھی۔

جب لیفٹیننٹ نے تجویز پیش کی کہ انہیں   اپنا سفر اکٹھے ہی جاری رکھنا چاہیے تو اس کے جواب میں   وہ خاتون بولی ’’نہیں   میری جان!آپ کو اگلے سٹیمر کے پہنچنے تک یہاں   قیام کرنا چاہیے، اگر ہم اپنا سفر اکٹھے ہی جاری رکھیں   گے تو ہر چیز تباہ ہو جائے گی۔ میں   نہیں   چاہتی کہ ایسا ہو۔ برائے مہربانی میری بات کا یقین کریں، میں   اس طرح کی خاتون نہیں   جیسا آپ میرے بارے میں   سوچتے رہے ہیں۔ اس جگہ پر جو کچھ بھی ہوا وہ نہ تو پہلے کبھی ہوا اور نہ ہی آئندہ کبھی ہو گا۔ ایسا ہے کہ میں   ’’گرہن‘‘ کی حالت میں   تھی۔۔۔ یا اس کو یوں   کہا جا سکتا ہے کہ ہم دونوں   کو ’’لُو ‘‘لگ گئی تھی اور ہم ایک خاص کیفیت میں   تھے‘‘۔

لیفٹیننٹ اس سے تقریباً متفق ہو گیا، نہایت خوشگوار اور جوشیلے انداز میں   اس خاتون کو گاڑی میں   بٹھا کر گھاٹ تک پہنچانے گیا جہاں   گلابی رنگ کی سٹیمر چلنے ہی والی تھی، وہ اس خاتون کو سٹیمر میں   بٹھانے کے بعد، تمام مسافروں   کی موجودگی میں   اس کا بوسہ لے ہی رہا تھا کہ سٹیمر چل پڑی اور اس نے گھاٹ تختے پر مشکل سے چھلانگ ماری۔

خوشی کی اسی ترنگ میں   وہ ہوٹل واپس آ گیا۔ لیکن کچھ تو بدل چکا تھا۔ اس خاتون کے بغیر وہ کمرہ خاصا مختلف نظر آ رہا تھا۔ اور اس خاتون (کے تصور ) سے بھرا ہونے کے باوجود خالی تھا۔ یہ بات عجیب تھی کہ کمرہ اب تک اس خاتون کے انگریزی "Eau-de-cologne”عطر کی خوشبو سے مہک رہا تھا، اس کے چھوڑے ہوئے کپ میں   چائے اب بھی موجود تھی، لیکن وہ خود وہاں   موجود نہیں   تھی۔۔۔۔ ان تمام چیزوں   کی وجہ سے لیفٹیننٹ کا دل اس خاتون کی یادوں   میں   محو ہو گیا اس نے فوراً ہی سگریٹ سلگالی اور کمرے میں   ٹہلنا شروع کر دیا۔

وہ بلند آواز میں   تو قہقہہ لگا رہا تھا مگر اپنی آنکھوں   سے نکلنے والے آنسوؤں   سے بے خبر تھا اور اسی کیفیت میں   خود کلامی کرتے ہوئے بولا، ’’کیسی عجیب بات ہے، اس کا یہ کہنا برائے مہربانی میری بات پر یقین کریں، میں   اس طرح کی عورت نہیں   جیسے آپ میرے بارے میں   سوچ رہے ہیں۔۔۔۔ اور اب وہ جا چکی ہے۔۔۔ ایک فضول عورت !

سکرین ایک طرف کر دی گئی، ابھی بستر نہیں   بچھایا گیا تھا اور اس نے یہ محسوس کیا اب اس کے اندر یہ ہمت نہیں   تھی کہ وہ اپنے بستر کی طرف دیکھے۔ اس نے بستر کے گرد سکرین سیٹ کر دی، کھڑکی بند کر دی تا کہ اسے مارکیٹ سے آنے والا شور تانگے اور گاڑیوں   کے پیہوں   کی آوازیں   سنائی نہ دیں، سفید رنگ کے پردوں   کو بھی برابر کر دیا اور صوفے نما گدے دار تختے پر آ کر بیٹھ گیا۔۔۔۔ تو یہ اس ’’اتفاقیہ ملاقات‘‘ کا اختتام ہے، اب وہ چلی گئی ہے، اب وہ شیشے نما کمرے میں   یا سٹیمر کے عرشے پر بیٹھی ہو گی، سورج کی روشنی سے چمکدار دریا کو دیکھ رہی ہو گی، گزرنے والے دخانی جہازوں، دریا کے کناروں   پر موجود زرد ریت، دور پانی میں   موجود عکس، آسمان اور پانی کے لا متناہی پھیلاؤ پر غور کر رہی ہو گی۔۔۔۔ ایک ایسی چیز کو ہمیشہ کے لئے الوداع جسے دوام حاصل تھا۔۔۔ اب اس سے ملاقات کیسے ممکن ہے؟ پھر اس نے سرگوشی کی، ’’بحر حال میں   کسی نہ کسی وجہ سے اُس قصبے میں   نہیں   جا سکتا جہاں   اس کا خاوند رہائش پذیر ہے اور اس کے ساتھ اس کی تین سالہ بیٹی اور اس کے خاندان کے دیگر افراد بھی رہ رہے ہیں، وہ جگہ جہاں   وہ اپنی روز مرہ زندگی گزار رہی ہے۔ اور وہ چھوٹا سا قصبہ جو اچانک اُسے منفرد اور ’’شہر ممنوعہ‘‘ دکھائی دینے لگا تھا، اس کے خیالات میں   بسنا شروع ہو گیا تھا، کہ اب وہ خاتون وہاں   اپنی تنہا زندگی گزارنا شروع کر دے گی، اور شاید آنے والے وقت میں   اُسے ان دونوں   کی اچانک ملاقات بھی یاد آئے، اور اسے یہ خیال بھی ستائے جا رہا تھا کہ اب وہ اسے کبھی نہیں   دیکھ سکے گا۔ یہ سوچ اسے عجیب لگ رہی تھی، اس کے لئے غیر فطری اور نا قابل یقین تھی، اور آنے والے سالوں   میں   اتنی پریشانی کا باعث دکھائی دے رہی تھی کہ وہ خوف اور مایوسی کا شکار ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔

’’یہ کیسی مصیبت ہے‘‘، وہ بار بار اُٹھ کر کمرے میں   ٹہل رہا تھا، اس نے کوشش کی کہ کمرے میں   موجود بستر پر اس کی نظر نہ پڑے، ’’یہ میرے ساتھ کیا ہو گیا ہے؟ کس نے ایسا سوچا تھا کہ پہلی ملاقات۔۔۔ اور وہاں۔۔۔۔ اس کے متعلق اب وہاں   کیا ہے، اور وہاں   کیا ہوا؟ حقیقتاً، ایسا محسوس ہوا کہ ’’لُو‘‘ کا کوئی اثر تھا! لیکن اصل بات یہ ہے کہ اب میں   اس جگہ وقت کیسے گزاروں   جہاں   وہ مجھے تنہا چھوڑ گئی ؟ ‘‘

لیفٹیننٹ نے اس خاتون کو اُس کی تمام تر خوبیوں   کے ساتھ یاد کیا، سورج کی تپش سے اس کی جلد کے جھلس جانے کی خوشبو، اس کا لینن کا لباس، اس کا مضبوط جسم، اس کی خوش کن، رسیلی اور چہک سے بھر پور آواز۔۔۔۔ اس کی نسوانی محبت کے محظوظات اور لطیف احساسات اب بھی اس کی یادوں   میں   رس گھول رہے تھے باوجود اس کے کہ اس تمام صورت حال کی بڑی وجہ اس خاتون کا بدلا ہوا موڈ تھا۔۔ وہ عجیب و غریب، نا قابل بیان موڈ، جو اسی وقت اپنے جوبن پر تھا جب وہ دونوں   اکٹھے تھے، ایسا موڈ جس کا اس نے ایک دن پہلے تصور بھی نہیں   کیا تھا، ایسی سوچ، شناسائی اور خیال جس کا ذکر وہ کسی سے نہیں   کر سکتا، کسی ایک شخص سے بھی نہیں  ‘‘۔ اس کا تخیل مزید کام کرتا رہا۔ ’’ہاں  ! حقیقت یہ ہی ہے کہ تم کبھی بھی اس سلسلے میں   کسی سے بات نہیں   کر سکو گے! اب کیا کیا جائے، اس نہ ختم ہونے والے دن کو کیسے گزارا جائے، ان یادوں   اور اس خلش کے ساتھ اس ویران قصبے میں، جو اس دریا کے کنارے ہے جس کے شفاف پانی کے اوپر چلتے سٹیمر میں   بیٹھ کر وہ خاتون روانہ ہو گئی‘‘۔

لیفٹیننٹ کے لیے یہ ضروری ہو گیا کہ وہ خود کو بچائے، خود کو کسی کام میں   مشغول کرے، کسی اور چیز سے لطف اندوز ہو یا کہیں   اور چلا جائے۔ اس نے اپنی ٹوپی پہنی: تیزی سے چلنا شروع کر دیا، اس خالی برآمدے میں، پھر تیاری شروع کی، جوتے پہنے، سیڑھیوں   پر سے ہوتا ہوا داخلی دروازے کی طرف چل پڑا۔۔۔ تو ! اب اسے کہاں   جانا چاہیے۔ داخلی دروازے کے قریب (گھوڑا) گاڑی والا ایک نوجوان کھڑا تھا، وہ کوٹ میں   ملبوس تھا، چھوٹا سا سگار پی رہا تھا اور بظاہر کسی کا انتظار کر رہا تھا۔ لیفٹیننٹ نے اسے غور سے دیکھا اور حیرت میں   مبتلا ہو گیا: کسی بھی شخص کے لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ کسی گاڑی میں   انتہائی خاموشی سے بیٹھ کر سگریٹ پئے اور اتنی بے نیازی سے بیٹھا رہے؟ پھر اس نے مارکیٹ کی طرف منہ کر کے سوچنا شروع کر دیا،’’بظاہر اس پورے قصبے میں، مَیں   ہی واحد شخص ہوں   جو انتہائی مایوسی کا شکار ہے‘‘۔

مارکیٹ میں   کام اپنے جوبن پر تھا۔ اس نے کھاد سے لدی ہوئی گاڑیوں، کھیروں   سے بھرے ہوئے چھکڑوں، نئے گملوں، پنچروں   اور ان خواتین کے درمیان گھومنا شروع کر دیا جو اس کی توجہ (بیچنے کے لئے لائے گئے) مٹی کے برتنوں   کی طرف مبذول کرنے کی کوشش کر رہی تھیں   جو انہوں   نے اپنی انگلیوں   میں   لٹکائے ہوئے تھے اور وہ ان کی خوبیاں   بھی بیان کر رہی تھیں، جبکہ کسانوں   کی آوازیں   اس کے کانوں   سے ٹکرا رہی تھیں،’’ یہ بہترین کھیرے ہیں   جناب!‘‘۔ اسے یہ سب کچھ فضول دکھائی دیا اور وہ اس جگہ سے دوڑ پڑا۔ یہاں   سے وہ گرجا گھر جا پہنچا، وہاں   پر گفتگو جاری تھی جو انتہائی بلند، خوشی سے بھر پور اور مضبوط تھی، جیسے گفتگو کرنے والے اپنی ذمے داری کی تکمیل سے بخوبی واقف ہوں، پھر اس نے سڑکوں   پر چلنا شروع کر دیا اور سورج کی جھلسا دینے والی دھوپ میں   پہاڑی کے دامن میں   واقع ایک ویران باغ میں   جا کر ٹہلنا شروع ہو گیا، جہاں   سے دریا کا پھیلاؤ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ اس کی سفید وردی کے کاندھوں   والے پٹے اور قمیض کے بٹن اتنے گرم ہو گئے کہ انہیں   چھونا ناممکن ہو گیا، اس کی ٹوپی کے اندر والا بینڈ پسینے سے شرابور ہو گیا اور اس کا چہرہ سورج کی تپش میں   جھلس گیا۔

ہوٹل میں   واپس آنے کے بعد اسے اس بڑے، خالی اور ٹھنڈا محسوس ہونے والے کھانے کے کمرے میں   خاصا سکون محسوس ہوا، اس نے اپنی ٹوپی اتاری، کھلی کھڑکی کے قریب رکھی میز کے ساتھ بیٹھ گیا۔ اس کھڑکی میں   سے شدید گرمی کی لہر اندر آ رہی تھی۔ ایک ایسی لہر جو تمام تر چیزوں   پر حاوی تھی اور پھر اُس نے جڑی بوٹیوں   کے ٹھنڈے مشروب کا آرڈر دیا۔ ہر چیز بالکل درست تھی اور ہر چیز میں   بے انتہا خوشی اور بے حد لذت تھی، حتی کہ اس گرمی اور حبس میں   مارکیٹ سے آنی والی تمام تر خوشبوؤں   سمیت : اس نا شناسا قصبے اور اس پرانے ہوٹل میں   بھی خوشی اور توانائی نظر آ رہی تھی۔ اس نے وودکا (Vodka)کے کئی چھوٹے گلاس پئے، اس کے ساتھ کھیرے کی قاشیں   کھائیں   اور ایسے میں   اس نے محسوس کیا کہ بغیر کسی تذبذب اور تردد کے وہ آنے والے کل میں   مر جانا قبول کرے گا، اگر کسی معجزے کی وجہ سے وہ بچ گیا اور یہاں   واپس آ گیا اور اس خاتون کے ساتھ ایک دن گزارنے کا موقع ہاتھ آ گیا۔۔ اس خاتون کو بتانے کا موقع یا اسے یہ ثابت کرنے کا موقع، اپنی شاندار محبت کے قائل کرنے کا موقع۔۔۔۔۔ لیکن اس محبت سے متعلق اس خاتون کو ثبوت کیوں   پیش کیا جائے؟ اسے قائل کیونکر کیا جائے، وہ یہ بھی نہیں   بتا سکا کہ یہ سب کچھ کیوں   ہے، باوجود اس کے کہ یہ چیز زندگی سے بھی اہم نظر آ رہی تھی۔

اس نے سوچا،’’میرے اعصاب میرے ساتھ کھیل کھیل رہے ہیں  ‘‘، اور اس نے وودکا کا پانچواں   گلاس پی لیا۔

وہ شراب کا چھوٹا ظرف پورا ہی پی گیا، اس امید کے ساتھ کہ خمار اس کو تمام تر باتوں   کے بھلانے میں   مدد دے گا اور یہ ہیجانی کیفیت اختتام کی طرف چلی جائے گی۔ لیکن نہیں   یہ تو اور شدید ہو گئی۔

اس نے جڑی بوٹیوں   کے سوپ کو پرے کیا، بلیک کافی کا آرڈر دیا، سگریٹ پینی شروع کر دی اور بڑی غیر متوقع اور اچانک محبت کی کیفیت سے خود کو آزاد کروانے کی تدبیریں   سوچنے لگا۔ لیکن خود کو آزاد کروانا۔ جو کام وہ شدت سے چاہ رہا تھا۔ اسے ناممکن دکھائی دے رہا تھا اور پھر اچانک، انتہائی عجلت میں   وہ اُٹھا، اپنی ٹوپی اور چھڑی اٹھائی، ڈاک خانے سے متعلق معلومات حاصل کیں   اور ٹیلی گرام کرنے کی نیت سے ڈاک خانے کی سمت روانہ ہو یا، ٹیلی گرام کا عنوان پہلے سے اس کے ذہن میں   تھا۔ ’’آج سے لیکر مرتے دم تک میری زندگی تمہاری ہے، اور میں   ایسا ہی کروں   گا جیسے تم چاہو گی‘‘۔ اس مضبوط اور موٹی دیواروں   والی عمارت میں   پہنچ کر، جو ڈاک خانے میں   ٹیلی گراف کے دفتر کا کام کر رہی تھی، وہ خوف کے مارے رک گیا: وہ اس قصبے کو تو جانتا ہے جہاں   وہ رہائش پذیر ہے، اسے یہ بھی معلوم ہے کہ اس کا خاوند اور تین سالہ بیٹی بھی اس کے ساتھ رہتی ہے، لیکن نہ تو اسے اس خاتون کا نام اور نہ ہی خاندانی نام معلوم ہے۔ کئی مرتبہ شام کے وقت اس نے خاتون سے اس کا نام پوچھا او ر ہر مرتبہ وہ مسکرا کر کہتی:’’کیا یہ ضروری ہے کہ آپ کو یہ معلوم ہو کہ میں   کون ہوں  ؟ میرا نام ماریا گرین ہے، پرستان کی ملکہ۔۔۔۔ یا صرف ایک خوبصورت اور حسین اجنبی۔۔۔۔ کیا یہ آپ کے لئے کافی نہیں  ؟

ڈاک خانے کے قریب کونے میں   تصویروں   والا ایک شوکیس تھا۔ ان تصویروں   میں   سے ایک فوجی آفیسر کی تصویر تھی، جس کی وردی پر اعزازات تھے، ابھری ہوئی آنکھیں، تیوری ذرا چڑھی ہوئی، حیران کن حد تک شاندار نظر آنے والے گل مچھے، اور چوڑا سینہ، جس پر تمغے بھی سجے ہوئے تھے۔۔۔۔ یہ تمام صورت حال کتنی حیران کن اور مزاحیہ تھی، کتنی عمومی سی تھی، کیونکہ اس کا دل مغلوب ہو چکا تھا، اسے اب سمجھ آئی تھی۔ اس شدید محبت اور شدید نفرت کی اصل وجہ لُو لگنا ہی تھا۔ اس نے ایک شادی شدہ جوڑے کی تصویر دیکھی۔ ایک جوان شخص ایک لمبے کوٹ اور سفید ٹائی میں   ملبوس تھا، اس کے بال جدید ترین سٹائل میں   کٹے ہوئے تھے، باریک نقاب پہنے ہوئے دلہن، اس کے ہاتھ میں   ہاتھ ڈالے کھڑی تھی۔ لیکن پھر اس نے اپنی نگاہیں   ایک طالبہ کی تصویر پر مرکوز کر دیں   جو خاصی خوبصورت اور پر جوش دکھائی دے رہی تھی اور ترچھی نظروں   سے کیمرے کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ پھر تمام اجنبی چہروں   کو حقارت سے دیکھتا ہوا، جو اجنبی اس کی نگاہوں   میں   احساسات نہ رکھنے والے جاندار تھے، اپنی نگاہوں   کو سڑک کی طرف جما دیتا ہے۔

اس کے دل و دماغ میں   ایک ہی قسم کا پیچیدہ اور پریشان کن سوال بار بار آ رہا تھا، ’’میں   اب کہاں   جا سکتا ہوں  ؟ میں   کیا کر سکتا ہوں  ؟ ‘‘

سڑک سنسان تھی۔ مکانات ایک جیسے ہی تھے، سفید رنگ کے دو منزلہ اور متوسط طبقے کے افراد کی ملکیت، جن میں   باغیچے بھی تھے اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ ’’ویران‘‘ ہیں ، ان میں   جانے والے راستوں   پر مٹی کی سفید تہہ جمی ہوئی تھی، ہر چیز سخت گرمی کی وجہ سے سوکھ چکی تھی، جھلس چکی تھی اور سورج کی تپش کے سامنے بے بس نظر آتی تھی اور شاید اس وقت اسے یہ دھوپ بھی بے مقصد نظر آ رہی تھی۔ کچھ ہی فاصلے پر وہ سڑک ذرا بلند اور ابھرتی ہوئی دکھائی دے رہی تھی اور اس شفاف اور سلیٹی نما افق سے ملتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی، سوسن کا عکس بھی اس میں   دیکھا جا سکتا تھا۔ اس میں   جنوبی طرف کوئی اور چیز بھی تھی، جو سیبا ستوپول (Sebastopol)کرٹچ (Kertch)۔۔۔۔ اناپو (Anapu) نامی شہروں   کی یاد دلا رہی تھی۔ ان میں   سے سب سے آخری کی سوچ اور یاد نا قابل برداشت تھی اور پھر سر جھکائے ہوئے لیفٹیننٹ نے روشنی کی طرف اپنی نگاہیں   کر دیں، پھر ان نگاہوں   کو زمین پر جما دیا اور لڑکھڑاتے ہوئے اپنے قدموں   کے نشانات کو دوبارہ تلاش کرنا شروع کر دیا۔

وہ تھکاوٹ سے ہانپتا کانپتا ہوٹل میں   واپس آیا جیسے وہ ترکستان یا سہارا میں   سفر طے کر کے آ رہا ہو۔ اپنی قوت کو مجتمع کر کے وہ ایک بڑے اور ویران کمرے میں   داخل ہو گیا۔ ا س کمرے کو پہلے ہی صاف کر دیا گیا تھا اور اس میں   سے سامان نکالا گیا تھا، بستر کے قریب فرش پر، اس خاتون کا چھوڑا ہوا، بالوں   کا ایک پن پڑا تھا، اس نے اپنی جیکٹ اتاری،آئینے میں   اپنا چہرہ دیکھا، ایک فوجی آفیسر کا لُو سے جھلسا ہوا چہرہ، پسینے سے شرابور گرد آلود مونچھیں، نیلی مائل آنکھیں، جو جھلسے ہوئے چہرے پر پہلے سے کہیں   زیادہ سفید نظر آ رہی تھیں، اس کا حلیہ دیوانوں   والا لگ رہا تھا اور وہ اپنی باریک سفید قمیض میں   ملبوس کھڑا تھا، قمیض کا کالر بھی پسینے سے بھرا ہوا تھا اور اس کی اپنی حالت بھی قابل رحم تھی۔ وہ بستر پر دراز ہو گیا، مٹی میں   اٹے ہوئے بوٹ اٹار کر رکھ دیئے۔ کھڑکیاں   کھلی ہوئی تھیں، پردے گرے ہوئے تھے اور گا ہے بگاہے ہلکی ہوا انہیں   ملا رہی تھی اور اس گرم ترین کمرے میں   زندگی کی معمولی سی رمق کا باعث بن رہی تھی، گرم ترین چھتوں   سے آنے والی ایک روایتی بو اس ویران، خاموشی اور پرسکوت دریا کی خاص دنیا کا منظر پیش کر رہی تھی۔ وہ اپنے بازوؤں   کو سر کے نیچے رکھ کر لیٹ گیا اور اپنی نگاہوں   کو اوپر جما دیا۔ س کے ذہن میں   جنوبی سمت کا منظر آ گیا، سورج کی تپش، سمندر، اناپو (Anapu) اور یہ کوئی حیرت انگیز سلسلہ نظر آ رہا تھا۔ جیسے وہ قصبہ جس میں   وہ خاتون چلی گئی ہے، یقینی طور پر وہ وہی قصبہ تھا ہاں   وہ گئی ہے اور اس جیسا کوئی اور قصبہ نہیں۔ اس سوچ کے ساتھ اس کی آنکھ کھلی تو پردوں   میں   سے سیاہی مائل سورج دکھائی دیا۔ ہوا چلنی بند ہو چکی تھی، کمرہ خشک تھا جیسے ہوا سے چلنے والی بھٹی۔۔۔ اور پھر اس نے گزشتہ کل اور آج کی صبح کو یاد کیا اور اسے محسوس ہوا کہ جیسے یہ دس سال پہلے کا عرصہ ہو۔

پھر وہ ذرا عجلت میں   اٹھا، غسل کیا، پردے اٹھا دیئے، ہوٹل کے بیرے کو بلایا، چائے کی ایک کیتلی اور بل لانے کو کہا اور کافی دیر تک چائے میں   لیموں   ڈال کر پیتا رہا۔ پھر اس نے کرایے کی گاڑی کا کہا، اپنا سامان باہر نکالا اور گاڑی کی سرخ اور جلی ہوئی سیٹ پر بیٹھ گیا اور ملازم کو ٹپ کے طور پر پانچ روبلز  دیئے۔

گاڑی بان نے جیسے ہی (گھوڑا) گاڑی کی لگامیں   کھینچیں   تو بڑی خوشی سے کہا، ’’جناب! ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گزشتہ شب میں   ہی آپ کو یہاں   لایا تھا‘‘۔

جب وہ گھاٹ پر پہنچے تو گرمیوں   کی نیلگوں   رات پہلے ہی اندھیری ہو چکی تھی اور دریائے وولگا (Volga)پر کئی رنگوں   کے شعلے پھیل چکے تھے اور گھاٹ پر پہنچنے والے سٹیمر کے سٹول میں   کچھ شعلے پھنس چکے تھے۔

اس گاڑی بان نے بری انکساری سے کہا، ’’ میں   آپ کو بروقت یہاں   لے آیا ‘‘!

لیفٹیننٹ نے اسے بھی پانچ روبلز دیئے اور پھر ٹکٹ لیکر سٹیمر کی سمت میں   روانہ ہو گیا۔۔۔ گزشتہ کل کی طرح اس وقت بھی جہاز رسوں   کی دھیمی آواز سنائی دے رہی تھی، اور پاؤں   کے نیچے معمولی گھڑ گھڑاہٹ بھی محسوس ہو رہی تھی، اس کے بعد جستی تار کا سرا، اس منظر سے دور جاتے ہوئے سٹیمر کے پہیوں   سے ٹکرانے والے پانی کا شور۔۔ سٹیمر میں   بیٹھے ہوئے افراد کی کثیر تعداد، چکا چوند روشنیاں، سٹیمر کے کچن کی خوشبو، اسے استقبال کرتی نظر آئیں۔ اگلے ہی لمحے سٹیمر اپنی راہ پر تھا اور دریا میں   اس سمت ہی رواں   دواں   تھا جس میں   اس صبح اس خاتون کا سٹیمر روانہ ہوا تھا۔

اس سٹیمر کے آگے آگے گرمیوں   کے سورج اور اس کے غروب ہونے کا نظارہ تھا جو بڑے اُداس اور تخیلاتی انداز میں   سامنے دکھائی دے رہا تھا، اس کا عکس دریا میں   نظر آ رہا تھا اور سٹیمر چلنے کی وجہ سے پیدا ہونے والی لہریں، چلنے والی سٹیمر کے گرد پھیلے ہوئے اندھیرے میں   پھیلے ہوئے شعلے، وہ سٹیمر جو اب گھاٹ سے دور ہوتا چلا جا رہا تھا۔

لیفٹیننٹ سٹیمر کے عرشے پر، چھت کے نیچے بیٹھا تھا اور اپنی عمر میں   دس سال کے اضافے کا ادراک لئے محوِ سفر تھا۔

٭٭٭

 

دوزخ میں   جانے والی لفٹ

پارلیگر کوسٹ

سمتھ نامی ایک امیر کبیر تاجر نے لفٹ (Lift)کا دروازہ کھولا۔ اس کے ہاتھ میں   ہاتھ ڈالے ایک ایسی خاتون بھی ساتھ تھی جس کے جسم سے عطر اور پاؤڈر کی خوشبو آ رہی تھی، وہ (لفٹ کی) آرام دہ سیٹ پر بیٹھ گئے اور لفٹ نے نیچے کی طرف جانا شروع کر دیا، اس چھوٹی سی خاتون نے اپنا ادھ کھلا منہ سمتھ کی طرف کر دیا، اس منہ سے شراب کی بو آ رہی تھی، سمتھ نے ایک بوسہ لیا۔ انہوں   نے ٹیرس پر بیٹھ کر رات کا کھانا کھایا تھا اور اب وہ مزید لطف و سرور کی خاطر اکٹھے جا رہے تھے۔

خاتون نے سرگوشی کے سے انداز میں   کہا، ’’جاناں  ! ہم اوپر بیٹھ کر کتنے محظوظ ہو رہے تھے، آپ کے ساتھ بیٹھنا کتنا اچھا لگ رہا تھا کہ جیسے ہم ستاروں   کے درمیان بیٹھے ہوں، خاص طور پر جب آپ کو پتہ ہو کہ محبت کیا ہے، کیا آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں، کیا نہیں   کرتے؟ ‘‘

سمتھ نے اس خاتون کی بات کا جواب ایک طویل بوسے سے دیا، اور لفٹ نیچے جاتی رہی، پھر سمتھ بولا، ’’تم نے اچھا کیا کہ تم یہاں   آ گئیں   ورنہ میں   عجیب و غریب کیفیت میں   مبتلا تھا‘‘۔

’’جی!لیکن آپ جانتے ہیں   کہ اس (شخص) کے لئے یہ مرحلہ کتنا تکلیف دہ تھا۔ جس لمحے میں   نے تیار ہونا شروع کیا تو اُس نے مجھ سے پوچھا کہاں   جا رہی ہو۔ میں   نے جواب دیا، جہاں   میری مرضی ہو گی میں   وہاں   جاؤں   گی، میں   کوئی قیدی نہیں   ہوں۔ پھر وہ دانستہ میرے قریب آ کر کھڑا ہو گیا اور مجھے تیار ہوتا دیکھتا رہا۔ تم پر کون سا رنگ سب سے اچھا دکھائی دیتا ہے، میرے خیال میں   گلابی؟ ‘‘

پھر سمتھ نے کہا،’’تم جو رنگ بھی پہنو وہ تمہارا جزو بن جاتا ہے لیکن میں   نے تمہیں   کبھی اتنا خوبصورت نہیں   دیکھا جتنی تم آج نظر آ رہی ہو‘‘۔

خاتون نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ اپنے کوٹ کے بٹن کھولے، وہ دونوں   ایک طویل بوسے کے سحر میں   گرفتار ہو گئے، اور لفٹ نیچے جاتی رہی۔

’’پھر جب میں   گھر سے نکلا ہی چاہتی تھی تو اس (شخص) نے میرا ہاتھ تھام لیا اور اسے اتنی زور سے دبوچا کہ میں   ابھی تک اپنے ہاتھ میں   تکلیف محسوس کر رہی ہوں، لیکن منہ سے کچھ نہیں   بولا۔ وہ شخص اتنا وحشی ہے کہ آپ سوچ بھی نہیں   سکتے، میں   بولی خدا حافظ۔ لیکن وہ کچھ بھی نہیں   بولا۔ اس کا رویہ اتنا بھونڈا اور وحشت ناک ہے کہ میں   اسے سمجھنے سے قاصر ہوں  ‘‘۔

’’ہائے بے چاری‘‘، سمتھ نے کہا۔

’’کہ جیسے میں   تفریح کی غرض سے باہر نکل ہی نہیں   سکتی۔ پھر وہ انتہائی سنجیدہ ہو گیا، جس کا آپ تصور نہیں   کر سکتے۔ وہ شخص کسی بھی چیز کو فطری اور سادہ طریقے سے نہیں   لے سکتا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر وقت اور ہر آن زندگی اور موت کا مسئلہ ہے‘‘۔

’’اوہو! تم کیسی عجیب و غریب صورت حال سے گزر رہی ہو‘‘۔

’’جی! میں   ایک بھیانک قسم کی صورت حال سے گزر رہی ہوں، کوئی بھی شخص ایسے کرب کا شکار نہیں   ہو گا جیسی میں   ہوں۔ بالآخر میں   آپ سے ملی اور مجھے معلوم ہوا کہ محبت چیز کیا ہے!‘‘۔

سمتھ نے محبت بھرے انداز میں   کہا، ’’جی، جانوں  ‘‘! اور لفٹ نیچے جاتی رہی۔

سمتھ سے گلے لگنے کے بعد جب اس کا سانس تیز ہوا تو اس نے کہا، ’’اوپر آپ کے ساتھ بیٹھنا، ستاروں   کی طرف دیکھنا اور خیالات میں   کھو جانا۔ میں   اسے کبھی فراموش نہیں   کر سکوں   گی۔ آپ میرے بارے میں   چیزوں   کو محسوس کر سکتے ہیں، اس شخص میں   شاعری کے حوالے سے ذرا سی بھی رمق موجود نہیں  ‘‘۔

خاتون نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہا، ’’جی ! یہ یقیناً ’’ناقابل برداشت ہے ‘‘۔ پھر ایک دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ اپنا ہاتھ سمتھ کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی، ’’چلیں، اس سے متعلق مت سوچیں، ہم یہاں   لطف انداز ہونے آئے ہیں، آپ یقیناً مجھ سے محبت کرتے ہیں  ‘‘؟

سمتھ بولا، ’’کیا میں   کرتا ہوں  ؟‘‘۔ لفٹ نیچے جاتی رہی۔ اس خاتون کی طرف جھکتے ہوئے سمتھ نے بڑے پیار سے اسے تھپکا، خاتون کھل اٹھی۔

پھر سمتھ نے اس کے کان میں   سرگوشی کے سے انداز میں   کہا، ’’جاناں  ! آج رات ہم ایسا پیار کریں   گے جیسا پہلے کبھی نہ کیا ہو، ہم۔۔۔ م۔ ؟ ‘‘

سمتھ نے خاتون کو اپنی طرف کھینچتے ہوئے (بازوؤں   میں  ) دبایا اور اپنی آنکھیں   موند لیں ، لفٹ نیچے جاتی رہی، نیچے سے نیچے۔۔۔۔۔۔

پھر سمتھ اپنے پیروں   پر سیدھا کھڑا ہو گیا، اس کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔

وہ بولا،’’لیکن یہ لفٹ کے ساتھ کیا مسئلہ ہو گیا ہے، یہ رک کیوں   نہیں   رہی؟ ہمیں   یہاں   بیٹھ کر باتیں   کرتے ہوئے خاصی دیر ہو گئی ہے، کیا ایسا نہیں   ہے؟ ‘‘

’’جی جاناں  ! میرا خیال ہے ایسا ہی ہے، اور شاید وقت بڑی تیزی سے گزر رہا ہے‘‘۔

’’اُف اللہ! ہم یہاں   زمانوں   سے بیٹھے ہیں  ! تم کیا کہتی ہو؟ ‘‘

سمتھ گرل (grill) سے باہر جھانکتا ہے، کچھ نہیں   تھا، صرف اور صرف گھپ اندھیرا۔ لفٹ ایک مناسب رفتار کے ساتھ مسلسل نیچے جا رہی تھی، گہرائی سے گہرائی میں۔

اُف اوہ! تمہارا کیا خیال ہے؟ یہ ایک گہری کھائی میں   جاتی ہوئی محسوس نہیں   ہو رہی، اور نہیں   معلوم کہ ہم کتنی دیر سے نیچے جا رہے ہیں  ‘‘۔

ان دونوں   نے باہر گہرائی میں   جھانکنے کی کوشش کی۔ باہر صرف اندھیرا تھا اور وہ گہرائی میں   اترتے چلے جا رہے تھے۔

سمتھ نے کہا، ’’یہ دوزخ میں   جا رہی ہے‘‘۔

خاتون نے اس کے بازو سے چمٹتے ہوئے کہا، ’’جاناں  !میں   بہت پریشان ہو رہی ہوں، آپ کو ایمرجنسی بریک لگانا ہو گی‘‘۔

سمتھ نے پورا زور لگا کر بریک کھینچی مگر لفٹ لگاتار نیچے جاتی رہی۔

خاتون چلّائی، ’’یہ بہت خوفناک صورت حال ہے، ہمیں   کیا کرنا چاہیے‘‘؟

سمتھ نے کہا،’’شیطان ہمارے ساتھ کیا کرنا چاہتا ہے، یہ سرا سر حماقت ہے‘‘۔

خاتون اس قدر خوف میں   مبتلا ہوئی کہ اس نے رونا شروع کر دیا۔

’’جاناں  ! رونے کی ضرورت نہیں، ہمیں   عقل سے کام لینا ہے، یہاں   ہم کچھ بھی نہیں   کر سکتے۔ یہاں   بیٹھ جاؤ، بالکل یہاں، اب ہمیں   یہاں   خاموشی سے اکٹھے بیٹھنا ہے، دیکھتے ہیں   کیا ہوتا ہے، یہ کبھی تو رکے گی یا ہمارے سامنے کوئی شیطان یا کوئی بد روح آئے گی‘‘۔ وہ دونوں   بیٹھ گئے اور انتظار کرنا شروع کر دیا۔

خاتون بولی، ’’ہم لوگ لطف اندوزی کی غرض سے باہر نکلے تھے، ہم نے سوچا بھی نہیں   تھا کہ ایسا ہو جائے گا‘‘۔

سمتھ نے کہا، ’’ہاں  ! یہ کوئی بد روح یا شیطانی قوت ہی ہے‘‘۔

’’کیا آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں، نہیں   کرتے کیا؟ ‘‘

سمتھ نے اپنا ہاتھ خاتون کے گرد ڈالتے ہوئے کہا، ’’کیوں   نہیں   جاناں  !’’ اور لفٹ نیچے جاتی رہی۔ پھر اچانک لفٹ رک گئی۔ لفٹ کے ا رد گرد چکا چوند کر دینے والی روشنی تھی جو آنکھوں   کو ناگوار محسوس ہو رہی تھی۔ وہ لوگ دوزخ میں   تھے۔ ایک بد روح نے بڑے آرام سے گرل (grill)کھولی۔

وہ بد روح (شیطانی چیلہ) جھکی اور بڑی آہستگی سے بولی، ’’شام بخیر!‘‘ اس کا لباس ٹکڑوں   یا چیتھڑوں   پر مشتمل تھا جو ایک خاص انداز میں   پروئے گئے تھے۔

سمتھ اور وہ خاتون لفٹ سے باہر آئے اور اس اچانک صورت حال سے خوفزدہ ہو کر پوچھنے لگے،

’’خدا کا واسطہ ہمیں   بتائیں   کہ ہم کہاں   ہیں، بد روح نے انہیں   روشنی دکھائی اور ان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، ’’یہ جگہ اتنی بری بھی نہیں   جتنی آپ سوچ رہے ہیں، مجھے امید ہے یہاں   آپ کا وقت اچھا گزرے گا۔ آپ کو صرف ایک رات کے لئے یہاں   لایا گیا ہے، کیا ایسا نہیں  ؟ ‘‘

سمتھ نے بڑی بے تابی سے ہاں   میں   ہاں   ملائی اور کہا، ’’جی! صرف ایک رات کے لئے،ہمیں   اس سے زیادہ نہیں   ٹھہرنا‘‘۔

خاتون کانپتے ہوئے سمتھ کے بازو سے چمٹ گئی۔ زردی مائل سبز رنگ کی روشنی اتنی تباہ کن تھی کہ وہ بمشکل ہی دیکھ سکتے تھے اور ان کے خیال میں   انتہائی گرم محسوس ہونے والی بو تھی۔ جب وہ اس بو سے ذرا شناسا سے ہو گئے تو انہیں   معلوم ہوا کہ وہ ایک چوک میں   موجود ہیں   جس کے گرد مکانات ہیں   جن کے دروازوں   کے سامنے موجود راہداری خاصی چمکدار ہے، پردے لٹک رہے تھے اور پردوں   کی درزوں   میں   سے انہوں   نے دیکھا کہ اندر کوئی چیز جل رہی تھی۔

پھر بد روح بولی، ’’کیا آپ ہی وہ دونوں   ہیں   جو ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں  ؟ ‘‘

خاتون نے اپنی دلفریب نظروں   کی ایک جھلک دیتے ہوئے جواب دیا، ’’ہاں  ! دیوانوں   کی طرح‘‘۔

’’تو پھر اس طرف آ جائیں  ‘‘ بد روح بولی اور انہیں   اپنے پیچھے آنے کے لئے کہا۔ وہ سب ایک تاریک سڑک پر چل پڑے۔ ایک دروازے کی چکنی چپٹی راہداری کے قریب ایک پرانی لالٹین لٹک رہی تھی اور وہ جگہ خاصی گندی دکھائی دے رہی تھی۔

اس نے دروازہ کھولا اور کہا، ’’یہاں   آ جائیں  ‘‘، اور پھر وہاں   سے چلی گئی۔

وہ اندر داخل ہوئے، وہاں   ان کا ایک اور (شیطانی) بد روح نے استقبال کیا، جو انتہائی موٹی تھی، اس کی چھاتیاں   خاصی بڑی تھیں، اور اس کی مونچھوں   پر ارغوانی رنگ کا پاؤڈر لگا ہوا تھا۔ وہ خرخراہٹ کے ساتھ ہنسی، جو اپنی موتی جیسی چھوٹی آنکھوں   میں   نسبتاً بھلی معلوم ہو رہی تھی، اس نے اپنے ماتھے پر ابھرے ہوئے سینگ میں   بالوں   کی ایک لٹ پروئی ہوئی تھی اور اس میں   نیلے رنگ کے چھوٹے ریشمی ربن باندھے ہوئے تھے۔

پھر وہ بد روح بولی، ’’کیا یہ سمتھ اور ان کی ساتھی خاتون ہیں  ؟ تو پھر ان کا کمرہ نمبر آٹھ ہے،‘‘ اور انہیں   ایک بڑی سی چابی تھما دی۔

انہوں   نے تاریک اور چکنی سیڑھیوں   پر چڑھنا شروع کر دیا۔ سیڑھیوں   پر چکناہٹ چربی کی وجہ سے تھی۔ دو حصوں   میں   سیڑھیاں   چڑھنے کے بعد سمتھ نے آٹھ نمبر کمرہ تلاش کیا، دروازہ کھولا اور کمرے کے اندر داخل ہو گئے۔ یہ ایک نسبتاً بڑا مگر بوسیدہ اور گرد آلود کمرہ تھا۔ کمرے کے درمیان میں   ایک میز پڑی تھی جس پر ایک میلا میز پوش ڈھکا ہوا تھا، دیوار کے قریب ایک بیڈ لگا ہوا تھا جس پر چادریں   بچھی ہوئی تھیں۔ ان دونوں   کو یہ سب کچھ بھلا محسوس ہوا، انہوں   نے اپنے اپنے کوٹ اتار دیئے اور ایک طویل بوسہ لیا۔

کمرے کے دوسرے دروازے سے ایک شخص، بلا روک ٹوک،اندر داخل ہو گیا۔ اس نے ویٹروں   جیسا لباس پہن رکھا تھا مگر اس کی ڈنر جیکٹ کی تراش خراش نہایت شاندار تھی اور اس اندھیرے نما ماحول میں   کسی آسیب کی طرح چمک رہی تھی۔ وہ بہت خاموشی سے چل رہا تھا اس کے چلنے کی آواز نہیں   آ رہی تھی اور اس کی حرکات و سکنات بڑی میکانکی قسم کی اور مدہوش تھیں۔ اس کے چہرے کے خد و خال بڑے کرخت اور بے رونق تھے اور اس کی نگاہیں   بالکل سیدھ میں   دیکھ رہی تھیں   اور وہیں   مرکوز تھیں۔ اس کے چہرے کا رنگ زرد تھا اور اس کی کنپٹی میں   گولی لگنے کا زخم تھا۔ اس نے وہ کمرہ صاف کیا، ڈریسنگ ٹیبل کی جھاڑ پونچھ کی، ایک چھوٹا ظرف اور کوڑے دان بھی وہاں   لا کر رکھ دیا۔

ان دونوں   نے اس شخص کے کمرے میں   داخل ہونے پر زیادہ دھیان نہیں   دیا لیکن جیسے ہی وہ واپس جانے لگا تو سمتھ اس سے مخاطب ہوا، ’’ میرا خیال ہے ہمیں   کچھ شراب بھی چاہیے، ہمیں   میڈ یرا (Madeira)کی آدھی بوتل لا دیں، ‘‘وہ شخص تعظیم سے جھکا اور وہاں   سے چلا گیا، سمتھ نے اپنی قمیص اتارنی شروع کی، خاتون ذرا ہچکچاہٹ کا شکار ہی رہی۔ خاتون بولی، ’’وہ شخص پھر آ رہا ہے‘‘۔

’’ایسی جگہ پر تمہیں   بالکل بھی ہچکچانا نہیں   چاہیے۔ پھر وہ خاتون سمتھ سے چمٹ کر بیٹھ گئی اور سرگوشی کے سے انداز میں   کہا،’’ذرا سوچیں  !یہاں   ہم دونوں   اس رومانوی ماحول میں   بیٹھے محظوظ ہو رہے ہیں۔ یہ سماں   کتنا شاعرانہ ہے، میں   اسے کبھی فراموش نہیں   کر سکوں   گی‘‘۔

’’جی جاناں  ! ‘‘ اور وہ دونوں   بوسہ لینے لگے۔

وہ شخص بڑی خاموشی سے دوبارہ کمرے میں   داخل ہوا۔ اس نے کسی آہٹ کے بغیر، میکانکی انداز میں   قدم رکھے، گلاس ان کے سامنے سجائے اور شراب ڈالنے لگا۔ ٹیبل لیمپ کی روشنی اس کے چہرے پر پڑی۔ اس میں   کوئی خاص بات نہیں   تھی سوائے اس کے کہ اس کے چہرے کا رنگ زرد تھا اور اس کی کھوپڑی میں   گولی لگنے کا زخم تھا۔

خاتون کے منہ سے زور دار چیخ نکلی، ’’اوہ میرے خدا!یہ تو اروڈ (Arvid)ہے؟ کیا یہ تم ہی ہو؟یا اللہ! یہ تو مر چکا ہے! اس نے خود کو گولی ماری تھی۔ ‘‘

وہ شخص ساکن سامنے کھڑا رہا اور اسے کھڑا ہو کر گھورتا رہا، اس کے چہرے پر کسی قسم کے تاثرات نہیں   تھے، انتہائی سنجیدہ اور بے حس و حرکت۔

’’لیکن اروڈ (Arvid)یہ تم نے کیا کیا تھا، کیا کیا تم نے! تم نے ایسا کیسے کیا! میری جان! اگر مجھے ایسی کسی چیز کا شبہ ہو جاتا تو میں   گھر پر ہی رک جاتی۔ لیکن تم نے مجھے کچھ بھی نہیں   بتایا، تم نے مجھے اس سے متعلق کچھ نہیں   بتایا، ایک لفظ بھی نہیں  ! میں   کیسے جان سکتی تھی جب تم نے ہی کچھ نہیں   بتایا! اف میرے خدایا !‘‘

اس خاتون کا تمام جسم کانپ رہا تھا، وہ شخص اس کی طرف ایسے دیکھ رہا تھا جیسے کوئی اجنبی ہو، اس کی نگاہ بہت بے حس اور سرد تھی اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ ہر چیز میں   سے گزر کر پار جا رہی ہو۔ اب اس کا چہرہ چمکدار لگ رہا تھا اور کھوپڑی کے زخم سے خون نہیں   رِس رہا تھا، صرف ایک سوراخ دکھائی دے رہا تھا۔

خاتون زور سے چلائی، ’’یہ بہت بھیانک ہے، بہت بھیانک،میں   یہاں   نہیں   ٹھہر سکتی، فوراً یہاں   سے چلیں، میں   بالکل بھی نہیں   ٹھہر سکتی‘‘۔

اس نے اپنا لباس، ہیٹ اور کوٹ اٹھایا اور باہر کی طرف بھاگی، اس کے پیچھے پیچھے سمتھ بھی دوڑتا ہوا آیا۔ سیڑھیوں   سے اترتے ہوئے وہ پھسلے، خاتون وہیں   بیٹھ گئی، اس کے پچھلی طرف سگریٹ کی راکھ لگ گئی۔ سیڑھیوں   کے نیچے مونچھوں   والی بد روح (عورت) کھڑی ہوئی مسکرا رہی تھی اور اپنا سینگ ہلا رہی تھی۔

باہر سڑک پر آنے کے بعد ان کی گھبراہٹ ذرا کم ہو گئی۔ خاتون نے اپنے تمام کپڑے پہنے، خود کو ذرا درست کیا، ناک پر تھوڑا پاؤڈر لگایا، سمتھ نے اپنا ہاتھ اس کے گرد ڈال لیا اور ایک بوسے کے ذریعے ان آنسوؤں   کو تھامنے کی کوشش کی جو ابھی گرنے ہی والے تھے۔ وہ پیدل چلتے ہوئے چوک تک آ گئے۔

بڑی بد روح بھی وہاں   ٹہل رہی تھی، وہ ایک مرتبہ پھر اس کی طرف بڑھے۔ بد روح ان سے مخاطب ہوئی، ’’میرا خیال ہے آپ آرام سے رہے ہوں   گے ‘‘!

خاتون نے جواب دیا،’’نہیں  ! وہ ایک بھیانک صورت حال تھی‘‘۔

’’نہیں   ایسا نہ کہیں، آپ ایسا سوچیں   بھی نہیں۔ آپ یہاں   کافی عرصہ پہلے آئے ہوں   گے، اس وقت صورت حال مختلف تھی۔ اب دوزخ ویسی نہیں۔ ہم تمام لوگ (بد روحیں  ) مل کر اس دوزخ کو بیّن اور عیاں   بنانے کی کوشش کرتے ہیں   بجائے اس کے کہ ہم اسے لطف اندوزی کی ایک جگہ بنائیں  ‘‘۔

سمتھ نے کہا، ’’ہاں  ! میرے خیال میں   یہ پہلے سے ذرا مختلف اور بہتر ہے، یہ بات درست ہے‘‘۔ بد روح بولی، ’’ہم نے ہر چیز کو جدید تر بنا دیا ہے، اس کی ترتیبِ نوکر دی ہے، جیسا کہ اس جگہ کو ہونا چاہیے‘‘۔

’’جی ہاں  ! آپ لوگوں   کو بھی زمانے کے ساتھ چلنا چاہیے‘‘۔

’’جی ! آج کل صرف ’’روح‘‘ ہی کڑے مرحلے سے گزرتی ہے‘‘۔

خاتون بولی، ’’اس کے لئے خدا کا شکر‘‘۔

اس کے بعد وہ بد روح انہیں   لفٹ کی طرف لے گئی اور بڑی تعظیم سے جھکنے کے بعد کہا، شام بخیر! واپس جانا مبارک!‘‘۔ اس کے بعد گرل بند کی اور لفٹ اوپر کی طرف چل پڑی۔ وہ دونوں   لفٹ کی سیٹ پر بیٹھ گئے اور انہوں   نے کہا، ’’خدا کا شکر ہے کہ یہ صورت حال ختم ہوئی‘‘۔

خاتون نے چپکے سے اس کے کان میں   کہا، ’’ میں   آپ کے بغیر کبھی اس صورت حال سے نہیں   نکل سکتی تھی۔ سمتھ نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور ایک بوسہ لیا، اس کے بعد خاتون بولی، ’’اس شخص کا یہ حرکت کرنا !لیکن ہمیشہ اس کے اسی قسم کے انوکھے خیالات رہے ہیں   اس نے کبھی بھی چیزوں   کو فطری اور سادہ طریقے سے نہیں   لیا تھا، جیسے کہ وہ ہیں، اس نے انہیں   ایسے لیا جیسے ہمہ وقت یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہو‘‘۔

سمتھ نے کہا، ’’یہ سرا سر حماقت ہے‘‘۔

’’وہ اگر مجھے بتا دیتا! تو میں   وہاں   رک جاتی۔ ہم آج کی بجائے کسی اور شام واپس اُوپر آ سکتے تھے‘‘۔

سمتھ ہاں   میں   ہاں   ملاتا ہوا بولا، ’’جی! یقیناً ہم کسی اور شام بھی واپس آ سکتے تھے‘‘ َ خاتون نے بڑے پیار بھرے اور دھیمے انداز میں   کہا، ’’جاناں  ! اب اس صورت حال کے بارے میں   سوچنا چھوڑ دیں  ‘‘، پھر اس نے اپنی باہیں   سمتھ کے گلے میں   ڈال کر کہا،’’وہ معاملہ اب ختم ہو چکا ہے‘‘۔

’’ہاں   جاناں  !اب وہ معاملہ ختم ہے‘‘، سمتھ نے اسے اپنے بازوؤں   میں   تھام لیا اور لفٹ اوپر جاتی رہی۔

٭٭٭

 

ایک کہانی

رڈیارڈ کپلنگ

اس بات کو بہت بہتر طریقے سے سمجھ لینا چاہیے کہ روسی ایک ہنس مکھ شخص ہوتا ہے جب تک کہ وہ خود کو، مناسب طریقے سے، (اخلاقی) حدود کا پابند رکھے۔ ایک مشرقی کی حیثیت سے تو وہ زندہ دل ہے لیکن جب وہ اس بات پر زور دے کہ اُسے مغربی لوگوں   کے ہاتھوں   ایک مشرقی کی حیثیت سے برتا جائے، بجائے اس کے کہ مشرقی لوگوں   میں   اسے ایک مغربی کی حیثیت سے برتا جائے تو ایسی صورت میں   وہ نسلی طور پر بے قاعدہ اور انوکھی شخصیت بن جاتا ہے اور اسے قابو کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور کوئی بھی میزبان یہ نہیں   جان پاتا کہ اگلے ہی لمحے اس کی شخصیت کا کون سا روپ سامنے آئے۔ ڈرکووچ(Dirkovtch)ایک روسی تھا۔ روسیوں   میں   سے ایک روسی- جو زار (Czar) حکمرانوں   کی، کاسک(Cossack)رجمنٹ میں   ایک افسر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے کر اور ایک روسی اخبار میں   نامہ نگار کی حیثیت سے، ایک ایسے نام سے، کام کر کے، روزی کماتا تھا جو اکثر تبدیل ہوتا رہتا تھا۔ وہ خوبرو شخصیت کا حامل نوجوان مشرقی شخص تھا جو دنیا کے انجان اور نامعلوم مقامات کی سیر کرنے کا شوقین تھا، اس مقصد کے لیے اب وہ خاص طور پر ہندوستان پہنچا تھا، اور کوئی شخص بھی یہ نہیں   جان سکتا تھا، کہ وہ ہندوستان کس راستے سے پہنچا۔ آیا وہ بلخ، بدخشاں، چترال، بلوچستان کے راستے یہاں   پہنچایا نیپال کے راستے یا کسی اور راستے سے۔ ہندوستانی حکومت نے، بڑے خوشگوار موڈ میں، احکامات جاری کئے کہ اس کے ساتھ شاندار برتاؤ کیا جائے اور اسے ہر وہ چیز دیکھنے کا موقع فراہم کیا جائے جو دیکھنے کے قابل ہے۔ لہٰذا وہ گندی انگریزی اور بدتر فرانسیسی بولتا ہوا ایک شہر سے دوسرے شہر چلتا رہا، حتیٰ کہ وہ پش اور شہر میں   ملکۂ برطانیہ کے وائٹ ہوسارز[1] (White Hussars) سے آن ملا، پش اور شہر اس تنگ پہاڑی راستے کے دہانے پر واقع ہے جسے لوگ درۂ خیبر کے نام سے جانتے ہیں۔ وہ یقینی طور پر ایک آفیسر تھا اور اس نے روسیوں   کی طرز پر ہی سج دھج اختیار کی تھی۔ جس میں   چھوٹے چھوٹے تمغے بھی شامل تھے، وہ بہتر طریقے سے بات چیت بھی کر سکتا تھا اور (اگرچہ اسے اپنی ان خصوصیات سے کچھ لینا دینا نہیں   تھا) اسے ایک مایوس کن قسم کی ذمہ داری سونپی گئی تھی بلیک ٹائرون (Black Tyrone) نے انفرادی اور اجتماعی طور پر وہسکی اور شہد کے ساتھ، برانڈی سے، اور ہر طرح کے جذبات کے ملے جلے تاثر کے ساتھ یہ چیزیں   اس کے سامنے پیش کیں   اور اسے پینے پر بھی مجبور کیا اور جب یہ لوگ (بلیک ٹائرون)، جو نسلاً آئر ستانی ہیں، اس غیر ملکی کے ہوش اڑانے میں   ناکام رہے، تو وہ غیر ملکی یقینی طور پر ایک اعلیٰ اور غیر معمولی شخص ہی ہوسکتا ہے۔

وائٹ ہوسارز اپنی شراب کا برانڈ چننے میں   اتنے ہی ہوشیار اور مستعد تھے جتنے دشمن پر حملے کرنے کے لئے شخص اور ان لوگوں   کے پاس، شاندار قسم کی برانڈی سمیت، جو کچھ بھی تھا اسے انہوں   ڈرکووچ کے سامنے رکھ دیا، اور وہ، بلیک ٹائرون کی نسبت، ان کی ہمراہی میں   زیادہ لطف اندوز ہوا۔

لیکن وہ بذات خود اس سارے عرصے میں   کامل یورپی ہی رہا۔ وائٹ ہو سارز، اس کے لئے ”دیرینہ دوست”، شاندار فوجی ساتھی” اور ”نہ جدا ہونے والے بھائی” کی حیثیت میں   تھے۔ وہ اپنے سرسے اس وقت بوجھ اترا ہوا محسوس کرے گا جب ایک تابناک مستقبل کے لئے، وہ لمحہ آ جائے جب برطانیہ اور روس کے دل اور ان کی سرحدیں   مل جائیں   اور ”سیولائزیشن ایشیاء” (Civilization Asia) جیسے عظیم مشن کا آغاز ہو۔ یہ بات غیر تسلی بخش تھی کیونکہ ایشیا مغرب کے طور طریقوں   کے تحت تہذیب یافتہ نہیں   ہو گا، ایشیا بہت بڑا ہے اور بہت قدیم ہے جیسے آپ کبھی بھی کسی ایسی خاتون کی اصلاح نہیں   کر سکتے جس کے بہت سے چاہنے والے ہوں   اور ایشیا تو اپنی عشق بازی میں   تسکین ناپذیر رہا ہے۔ نہ تو وہاں   اتوار سکول کا سلسلہ چل سکتا ہے، نہ لوگوں   کو محفوظ اور پر سکون طریقے سے ووٹ ڈالنا سکھایا جا سکتا ہے۔

ڈرکووچ اس حقیقت سے اتنی اچھی طرح واقف تھا جتنا کوئی اور نہیں   تھا لیکن اس کے لئے یہ بات موزوں   ترین تھی کہ نمائندہ خصوصی کی حیثیت سے ہی گفتگو کرے اور خود کو ایک ملنسار اور خوش اخلاق شخص کی حیثیت سے پیش کرے۔ وہ ایک عاجز شخص کی طرح اپنا کام کرتا چلا گیا، اس نے کاسک ]۱[ (Cossacks) کے بارے میں   بہت ہی کم معلومات فراہم کیں۔ اس نے وسطی ایشیا میں   سطحی سا کام کیا اور ”اپنی مدد آپ ”کے تحت کی جانے والی ایسے لڑائی دیکھی جیسی اس کے ساتھیوں   میں   روا نہیں   تھی۔ وہ بڑے ہی محتاط طریقے سے، اپنی برتری سے روگردانی نہ کرنے کے مشن پر گامزن تھا، اور اس سلسلے میں   بھی محتاط تر تھا کہ وہ ملکہ عالیہ کے وائٹ ہوسارز کی وضع قطع، ڈرل، وردی اور ان کی ترتیب و تنظیم کی تعریف کرے اور حقیقی طور پر وہ ایک ایسی رجمنٹ تھی جس کی تعریف کی جائے۔

جب سر جون ڈرگن (Sir John Durgan) کی بیوہ لیڈی ڈرگن وائٹ ہوسارز کے سٹیشن آئی اور کچھ دیر بعد اس میس (mess)میں   موجود تمام لوگوں   سے اس کا تعارف کروایا گیا تو اس نے بڑی بے باکی سے اپنے جذبات و خیالات کا اظہار کیا کہ وہ تمام لوگ اتنے اچھے ہیں   کہ اگر اس کا بس چلے تو وہ ان تمام سے شادی کر لے، جن میں   کچھ ایسے کرنل اور میجر بھی شامل ہیں   جو پہلے سے شادی شدہ ہیں، اور وہ کسی ایک ہوسار پر اکتفا نہ کرے۔ بعد ازاں   اس خاتون نے رائفل رجمنٹ کے ایک جوان سے شادی کر لی اور فطرتاً تضاد سے بھر پور خاتون ثابت ہوئی، وائٹ ہو سارز نے چاہا کہ وہ شادی کی تقریب میں   پہنچ جائے، اپنے بازوؤں   پر پیٹیاں   باندھ کر احتجاج کریں، لیکن انہیں   ایسا کرنے سے منع کیا گیا، اور وہ جب اس شادی کی تقریب میں   قطار میں   کھڑے شریک تھے تو ان کے مزاجوں   میں   ناگواری کا عنصر شامل تھا۔ اس خاتون نے ان سب سے بے وفائی کی تھی۔ سینئیر کیپٹن بیسیٹ ہولمر (Besset Holmer)سے لے کر جونیئر سب الٹرن ملڈ ریڈ (Mildred) تک، جواس (خاتون کو) چار ہزار سالانہ اور ایک اعزاز تک، پیش کر سکتے تھے۔

جو لوگ وائٹ ہوسارز کو اہمیت نہ دیتے اور کسی خاطر میں   نہیں   لاتے تھے، وہ چند ہزار یہودی نژاد افراد تھے جو سرحد کے اس پار رہتے تھے اور جنہیں   ”پٹھان” کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔ انہوں   نے ایک مرتبہ سرکاری سطح پر رجمنٹ سے ملاقات کی، تقریباً پچیس منٹ تک انٹرویو کا سلسلہ چلا، جو بہت سی پیچیدگیوں   سے پُر تھا، اس کے بعد وہ (مزید) تعصب و عصبیت کا نمونہ بن گئے، اور یہ کہ وہ وائٹ ہوسارز کو شیطانی چیلہ یا ایسے افراد کی اولاد قرار دیتے تھے کہ ان سے اس مہذب معاشرے میں   ملنا ناممکن تھا۔ تا ہم وہ اس بات سے مبرّا وبالا نہیں   تھے کہ پیسے اکٹھے کرنے کے عمل سے روگرانی اختیار کریں۔ اس رجمنٹ (White Hussars)کے پاس ایسی کاربینز (Carbines) تھیں   جو ایک ہزار گز کے فاصلے سے دشمن کے کیمپ میں   گولی داخل کر سکتی تھیں، اور وہ بڑی رائفل کے مقابلے میں، اٹھانے میں   بھی ہلکی تھیں۔ لہٰذا اس سرحد پر بسنے والے افراد میں   یہ خاص کار بینز مقبول ہوئیں   اور ان کی طلب میں   اضافہ ہوا، ان کی فراہمی جان ہتھیلی پر رکھ کر ہی کی جاتی تھی اور ایک کاربین کی فراہمی کی قیمت اس کے وزن کے مساوی چاندی کے سکے حاصل کی جاتی۔ ساڑھے سات پونڈ وزن کے مساوی (سکے والے) روپے یا سولہ پاؤنڈ سٹرلنگ کے مساوی روپے۔ ان کار بینز کو رات کے وقت ایسے چور چوری کرتے جو سنتریوں   کے قریب سے سانپ کی طرح رینگ کر نکل جاتے تھے، یہ کاربینز اسلحہ ایسے خانوں   سے چوری ہو جاتیں   جنہیں   تالا لگایا جاتا، اور موسم گرما میں   جب بیرکوں   کے تمام دروازے اور کھڑکیاں   کھول دی جاتیں   تو یہ کاربینز، اپنی ہی نال سے نکلنے والے دھوئیں   کی طرح، غائب ہو جاتیں، سرحد پر بسنے والے افراد اپنی قبائلی یا خاندانی دشمنی اور ہنگامی صورت سے نمٹنے کے لیے اس کاربین کو حاصل کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔ شمالی ہند کی طویل اور سرد راتوں   میں   ان کی چوری میں   اور بھی شدت ہوتی۔ پہاڑی علاقے میں   اُن دنوں   قتل کی وارداتوں   میں   اضافہ ہو گیا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ ان (کار بینز) کی قیمت میں   بھی۔ اس رجمنٹ کے محافظوں   کو پہلے دُگنا اور پھر تین گنا کر دیا گیا۔ اس ٹروپ کا کوئی فرد اسلحہ کے گم ہو جانے کی کوئی خاص پروا نہیں   کرتا تھا۔ سگار اس کا ازالہ کر دیتی تھی۔ لیکن اسے اپنی نیند کے کم ہو جانے کا رنج ضرور ہوتا۔ اس رجمنٹ کو چوریوں   کا بڑا قلق تھا۔ ایک مرتبہ ایک چور پکڑا گیا، اس کے جسم پر رجمنٹ کے جوانوں   نے غصے کے عملی اظہار کے نشانات اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس واقعے نے اسلحے کی چوری کو وقتی طور پر روک دیا تھا، اور محافظین کی تعداد میں   کمی کر دی گئی تھی، رجمنٹ نے اپنی توجہ پولو پر مرکوز کر دی تھی، اس کے نتائج غیر متوقع تھے، اس نے پولو کے ایک نامور اور خوفناک ٹیم لشکر لائٹ ہارس (Lushkar Light Horse) کو ایک کے مقابلے میں   دو گول سے شکست دی، اگرچہ اس کھیل کے دوران ثانی الذکر ٹیم کو پوائنٹس کی برتری بھی رہی اور اس ٹیم کا ایک مقامی آفیسر، جو سبک سیر انداز میں   کھیل رہا تھا، کھیل کے میدان میں   بھڑک اٹھا۔

اس رجمنٹ نے جیت کی خوشی میں   کھانے کا اہتمام کیا، لشکر ٹیم وہاں   پر آئی، جبکہ ڈرکووچ بھی، کاسک افسر کی گاؤن نما وردی زیب تن کئے، وہاں   پہنچا، لشکر کے افسران اور جوانوں   سے اس کا تعارف کروایا گیا، اس تعارف نے اُس کی آنکھیں   کھول دیں۔ یہ لوگ ہو سارز کے مقابلے میں   ہلکے پھلکے تھے، عام سے گھوڑوں   پر سوار تھے اور پنجاب فرنیٹئر فورس کے دائیں   سمت میں   تعینات تھے۔ ان کی ملازمت کے کچھ بین اصول تھے جو ہمیشہ ان کے ذہنوں   پر نقش رہتے۔

وائٹ ہو سارز کا بڑا، بیم کی چھت والا، میس روم ایسا تھا کہ جسے یاد رکھا جائے۔ بڑی اور لمبی میز پر تمام پلیٹیں   نکال کر دکھ دی گئی تھیں۔ یہ وہی میزیں   تھیں   جن پر آج سے بہت عرصہ قبل ہونے والی ایک جھڑپ میں   ہلاک ہونے والے پانچ افسران کی لاشیں   رکھی گئی تھیں۔ داخلی دروازے کے سامنے روشنی ذرا کم تھی، موم بتی کے دھاتی سٹینڈ کے قریب موسم سرما کے گلاب رکھے گئے تھے، سانبر، نیل گائے، مارخور جیسے جانوروں   کے سر بھی کمرے میں   سجائے گئے تھے، اور انہی کے درمیان لڑائی میں   ہلاک ہونے والے افسران کی تصویریں   جو اپنے جونیئر افسران کو دیکھ رہی تھیں، اور اس میس کی شان، دو حنوط شدہ برفانی چیتے تھے اور اس کی قیمت بیسیٹ ہولمر (Besset Holmer) کی وہ چار ماہ کی چھٹیاں   تھیں   جو انہوں   نے برطانیہ میں   گزارنے کی بجائے تبت کے راستے میں   (شکار کرتے ہوئے) گزاریں، جس کے دوران، روزمرہ کی بنیاد پر، برفانی تودے گرنے، لینڈ سلائیڈ ہونے اور چٹانوں   کے گرنے کی وجہ سے ان کی زندگی کو خطرہ لاحق رہا۔

وہ تمام ملازمین بے داغ قسم کے سفید ملسن (muslin)زیب تن کئے ہوئے تھے، ان کی پگڑیوں   پر ان کی رجمنٹس کے نشانات تھے، وہ اپنے افسران کے پیچھے کھڑے انتظار کر رہے تھے جو وائٹ ہو سارز کی ہنری اور قرمزی وردیوں   میں   ملبوس تھے جبکہ لشکر لائٹ ہارس (Lashkar Light Horse)کریم اور چاندی کے رنگ کی وردیوں   میں ۔ ڈرکووچ (Dirkovitch)کی ہلکے سبز رنگ کی وردی ہی اس جگہ پر سب سے منفرد نظر آ رہی تھی لیکن اس کی بڑی سلیمانی آنکھ اسے دیگر لوگوں   سے ممتاز کر رہی تھی۔ وہ لشکر ٹیم کے کپتان کے ساتھ، بڑے پر جوش انداز میں، راہ و رسم بڑھانے میں   مصروف تھا، جو (کپتان ) اس بات پر حیران تھا کہ ڈرکووچ کے ساتھ کے کتنے ایسے کاسک (افسران) ہیں   جنہیں   اس کے ملک سے تعلق رکھنے والے ساتھی ایک حملہ آور کے طور پر شمار کر سکتے ہیں۔ لیکن کوئی بھی شخص ان چیزوں   کا برملا اظہار نہیں   کر سکتا۔

گفتگو زور پکڑتی رہی جبکہ رجمنٹ کا بینڈ بھی اپنی دھنیں   بجاتا رہا جو کہ ایک یاد گار قسم کی رسم ہے، تاوقتیکہ تمام لوگ ایک لمحے کے لئے چپ ہو گئے، پھر کھانے کی چٹیں  (slips)ہٹائیں   گئیں   اور کھانے کے آغاز کے لئے باقاعدہ تعظیمی الفاظ کہے گئے اور ایک افسر نے کہا، ”ملکۂ عالیہ کی سلامتی”! اور میز کے دوسرے سرے سے دوسرے آفیسر نے جواباً کہا، ”ملکۂ عالیہ کی عمر دراز!” پھر بینڈ کی تیز جھنکار سنائی دی تمام افسران کھڑے ہوئے اور ملکہ برطانیہ کے نام کا جام صحت نوش کیا، اور یہ لوگ، غلط طور پر، یہ بھی سمجھتے ہیں   کہ ان کی میس کابل ملکہ برطانیہ ہی ادا کرتی ہیں۔

میس میں، ضیافت کے، آداب کبھی بھی فرسودہ نہیں   ہوتے، اور کسی بھی سامع کو بولنے سے منع نہیں   کرتے چاہے وہ زمینی سفر کر کے آیا ہو یا بحری۔ ڈرکووچ ان الفاظ کے ساتھ کھڑا ہوا، ”معزز برادران”، لیکن وہ صورت حال کو سمجھ نہ پایا۔ صرف ایک افسر ہی بتا سکتا ہے کہ ”ٹوسٹ” (Toast)کے کیا معنی اور کیا مفہوم، اور ان میں   سے اکثر نے بجائے سمجھنے کے اس سے لطف اٹھایا۔ رسماً کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد ایک مقامی افسر داخل ہوا، جو لشکر ٹیم کے لئے کھیلا تھا۔ وہ تمام لوگوں   کے ساتھ میس میں   کھانا نہیں   کھا سکا تھا، لیکن جب لوگ کھانے کے بعد میٹھا کھانے لگے تو وہ وہاں   پہنچ گیا، اس کا قد چھ فٹ تھا، اس نے نیلے اور سلیٹی رنگ کی پگڑی اور پاؤں   میں   کالے رنگ کے لمبے بوٹ پہنے ہوئے تھے، جیسے ہی وہ وائٹ ہو سارز کے کرنل کو سلامی پیش کرنے کے لئے آگے بڑھا اور اپنی تلوار کے دستے کو سامنے کیا، کرنل خالی کرسی پر براجمان ہوا تو تمام لوگوں   نے یک زبان ہو کر نعرے کے انداز میں   کہا، ”رنگ ہو، ہیرا سنگھ!”(جس کا مطلب ہے”جاؤ اور جیتو”) ”جناب کیا میں   نے (کھیلتے ہوئے) آپ کے گھٹنے کو چھوا؟”

”رسائی دار صاحب کھیل کے آخری دس منٹوں   میں   کس قوت نے آپ کو اتنی تیزی سے کھیلنے کرنے کی صلاحیت بخشی؟”

”شاباش رسائی دار صاحب!”

پھر کرنل کی آواز آئی، ”رسائی دار ہیرا سنگھ کی سلامتی!”

جب یہ نعرہ بازی ختم ہو گئی تو ہیرا سنگھ جواب دینے کے لئے کھڑا ہوا کیونکہ وہ شاہی خاندان کا ایک کیڈٹ تھا، بادشاہ کے بیٹے کا بیٹا تھا اور اس بات سے بخوبی واقف تھا کہ ان مواقع کے لئے کون سی چیز مناسب ہے۔ لہٰذا وہ ایک گرج دار آواز میں   بولا، ”کرنل صاحب اور اس رجمنٹ کے افسران! آپ نے مجھے بہت عزت و تکریم دی۔ میں   اسے ہمیشہ یاد رکھوں   گا، ہم آپ لوگوں   کے ساتھ کھیلنے کے لئے بہت دور سے آئے۔ ہمیں   شکست ہوئی”۔ (اس میں   آپ کی کوئی غلطی نہیں، رسائی دار صاحب، آپ اپنے ہی گراؤنڈ پر ہم سے کھیلے آپ کے گھوڑے ریلوے سے پاس شدہ اور مہر شدہ تھے، آپ کو اس سلسلے میں   وضاحت کی ضرورت نہیں  !) ”اگر کوئی پروگرام بن گیا تو ہم دوبارہ آ جائیں   گے”۔ (بالکل، بالکل شاباش!) ”تو پھرہم دوبارہ کھیلیں   گے”۔ (”آپ سے ملاقات باعث مسرت تھی”)تاوقتیکہ ہم اپنے گھوڑوں   پر بیٹھ کر سر توڑ کوشش اور ہمت کریں   اور کھیل کا شاندار سلسلہ جاری رکھیں۔ ” اس نے اپنا ایک ہاتھ اپنی تلوار کے دستے پر رکھا اور اس کی نظر ڈرکووچ پر پڑی جو اپنی کرسی پر بڑے آرام سے بیٹھا ہوا تھا۔

”لیکن اگر خداوند کی منظوری سے مقابلہ کسی اور کھیل میں   ہوا جو پولو (polo)نہیں   ہے تو پھر، کرنل صاحب اور معزز افسران اس بات کو یقینی سمجھیں   کہ ہم اس کھیل میں   جان کی بازی لگا دیں   گے”، اس کی نظر ایک مرتبہ پھر ڈرکووچ پر پڑتی ہے، ”اگرچہ ان کے پاس ہمارے ایک گھوڑے کے مقابلے میں   پچاس گھوڑے ہیں  ”۔ ایک مرتبہ پھر ”رنگ ہو!” کی گرج دار آواز گونجی اور وہ اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔

ڈرکووچ، جس نے خود کو برانڈی- وہ خوفناک برانڈی جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ کی نذر کیا ہوا تھا، اس صورت حال کو سمجھ نہیں   سکا، اور نہ ہی اس نے اُس ترجمے پر غور کیا جو اسے فراہم کیا گیا تھا۔ یہ بات طے شدہ تھی کہ اس شام میں   سب سے اچھی تقریر ہیرا سنگھ کی تھی، اور یہ شور و شغب شاید صبح کا ذب تک جاری رہتا اگر باہر گولی نہ چلتی جس کی وجہ سے تمام لوگوں   کی توجہ، اپنی دائیں   جانب واقع، بارڈر کی طرف چلی گئی، جسے وہ اس وقت غیر محفوظ سمجھ رہے تھے۔ پھر ہر طرف ہنگامہ آرائی ہو گئی۔

ایڈ جوٹینٹ(Adjutant)اپنی کرسی پر بڑے آرام سے بیٹھا رہا اور بولا، ”ایک مرتبہ پھر کاربین کی چوری! یہ سب کچھ گارڈز کم کرنے کی وجہ سے ہوا، میرا خیال ہے کہ گارڈز نے اسے مار دیا ہے۔ ”

اس برآمدے کے فرش پر فوجوں   کے پیروں   کے نشانات تھے اور یوں   محسوس ہو رہا تھا کہ کسی چیز کو گھسیٹ کر یہاں   لایا گیا ہو۔

کرنل نے سارجنٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ”یہ لوگ اس چور کو صبح ہونے تک جیل میں   کیوں   نہیں   ڈال دیتے، دیکھو! کیا ان لوگوں   نے اسے ما ر دیا ہے؟”

ان کی میس (Mess)کا سارجنٹ فوراً دوڑا اور اندھیرے میں   غائب ہو گیا اور جب وہ واپس آیا تو اس کے ساتھ دو ٹروپر اور ایک نائک تھا، تمام لوگ پسینے میں   شرابور تھے۔

نائک بولا، ”ہم نے ایک شخص کو کار بین (کاربینز) چوری کرتے ہوئے پکڑا ہے، یہ شخص بیرک کی طرف رینگتا ہوا جا رہا تھا۔

چیتھڑوں   میں   ملبوس اس شخص کو تین افراد نے پکڑا ہوا تھا اور وہ کراہ رہا تھا۔ کسی افغان شخص کو اتنا پریشان حال نہیں   دیکھا گیا جتنا وہ نظر آ رہا تھا۔ اس کی پگڑی اُتری ہوئی تھی، پاؤں   میں   جوتے نہیں   تھے، مٹی میں   اٹا ہوا تھا، اور تشدد کی وجہ سے نیم مردہ حالت میں   تھا۔ ہیرا سنگھ اس شخص کے کراہنے کی آواز پر غور کرنے لگا۔ ڈرکووچ نے برانڈی کا ایک اور گلاس پی لیا۔ کرنل نے پوچھا، ”سنتری کیا کہتے ہیں  ؟”

نائک نے جواب دیا، ”سر! یہ انگریزی بول سکتا ہے”۔

”لہٰذا تم اسے میس میں   لے آئے بجائے اس کے کہ تم اسے سارجنٹ کے حوالے کرتے، اگر یہ شخص کثیر اللسان ہے تو تمہارا اس سے کوئی مقصد نہیں ۔ ”

اس کے کراہنے کی آواز ایک مرتبہ پھر آئی۔ ہم میں   سے ایک شخص اسے دیکھنے کے لئے کھڑا ہوا، اس شخص نے واپس چھلانگ لگا دی جیسے اسے گولی لگ گئی ہو۔

نائک نے کرنل سے کہا، ”سر! میرا خیال ہے کہ تمام لوگوں   کو یہاں   سے بھیج دینا ہی بہتر ہے، کیونکہ وہ ایک مراعت یافتہ (ماتحت) افسر تھا۔ اس نے اپنے ہتھیار لگائے اور خود کو کرسی پر گرا لیا۔ اس بات کی وضاحت پیش کی گئی کہ جس ماتحت افسر نے اسے پکڑا تھا اس کے چھوٹے ہونے ( اور وجود میں   چھوٹے ہونے) کا خیال اس کے ذہن میں   تھا کیونکہ وہ خود چھ فٹ چار انچ کا تھا۔ جب اس نائک نے دیکھا کہ اس گرفتار شدہ شخص کی نگرانی کے لئے ان کا افسر خود تیار ہو گیا ہے اور یہ کہ اس کرنل کی آنکھیں   سرخ ہونا شروع ہو گئی ہیں   اور اس نے بڑے اعتماد کے ساتھ تمام لوگوں   کو وہاں   سے ہٹا دیا تھا۔ میس تقریباً خالی ہو چکا تھا، کاربین چور نے اپنا سر میز پر رکھا ہوا تھا اور بری طرح، یا سیت کی کیفیت میں، بچوں   کی طرح رو رہا تھا۔

اتنے میں   ہیرا سنگھ نے چھلانگ لگائی اور کرنل صاحب سے مخاطب ہوا، ” کرنل صاحب! یہ شخص افغان نہیں   کیونکہ یہ ‘ای’ ‘ای’ ! کر کے رو رہا ہے، نہ ہی اس کا تعلق ہندوستان سے ہے کیونکہ وہ ‘او’، ‘او’ !کر کے روتے ہیں، یہ شخص انگریزوں   کی طرح رو رہا ہے جو ‘آؤ، آؤ’! کر کے روتے ہیں  ”۔

لشکر ٹیم کے کپتان نے کہا، ”تم نے یہ علم کہاں   سے حاصل کیا، ہیرا سنگھ!”؟

ہیرا سنگھ نے بڑی سادگی سے جواب دیا، ”اس کی آواز غور سے سنیں  ”، اور اس چور کی طرف اشارہ کیا جو ایسے رو رہا تھا کہ جیسے یہ رونے کا سلسلہ کبھی ختم نہیں   ہو گا۔

چھوٹے نائک نے کہا، ”میں   نے سُنا کہ وہ شخص (چور) کہہ رہا تھا” مائی گاڈ” (My God) کرنل نے اس خالی میس میں   چور کو غور سے دیکھا۔

کسی مرد کو اس طرح روتے دیکھنا ایک عجیب منظر تھا۔ ایک خاتون تو جیسے مرضی روئے، چاہے وہ تالو سے زور لگا کر چیخے یا، ہونٹوں   سے لیکن ایک مرد کو سینے (پردۂ شکم) کا زور لگا کر رونا چاہیے اور یہ بات فضا کو پارہ پارہ کر دیتی ہے۔

کرنل نے کھانستے ہوئے کہا، ”ہمیں   اسے ہسپتال داخل کرنا چاہیے کیونکہ اسے بُری طرح مارا گیا ہے”۔ ایڈجوٹینٹ اپنی کار بینز سے بڑی محبت رکھتا ہے۔ یہ اسلحہ اس شخص کے لئے اس کی اولاد کی طرح ہے، وہ شخص (حفاظت کی خاطر) سب سے آگے کھڑا ہوتا ہے۔ وہ بڑے باغیانہ انداز سے چیخا، ”مجھے ایک افغان شخص کا چوری کرنا تو سمجھ آ جاتا ہے مگر اس کا اِس طرح رونا سمجھ نہیں   آتا۔ یہ بڑی ابتر صورت حال ہے”۔

شاید اب ڈرکووچ پر برانڈی کا اثر ہوا ہے کیونکہ وہ اپنی کرسی پر دراز، چھت کی طرف دیکھے چلا جا رہا تھا۔ چھت پر ماسوائے ایک عکس کے اور کوئی چیز نہیں   تھی او ر وہ عکس ایک سیاہ کفن کا سا محسوس ہوتا تھا۔ میس کی خاص قسم کی تعمیر کی وجہ سے یہ عکس خاص طور پراس وقت نظر آتا تھا جب موم بتیاں   روشن ہوتی تھیں۔ یہ عکس وائٹ ہوسارز کے کھانے پینے کو کبھی بھی متاثر نہیں   کرتا تھا بلکہ وہ تو اس پر فخر محسوس کرتے تھے۔

کرنل بولا، ”اب یہ ساری رات اسی طرح روتا رہے گا یا ہم اسے لٹل ملڈرڈ(Little Mildred) ] ۱[کے مہمانوں   کے ساتھ بٹھا دیں   تا کہ یہ ذرا بہتر محسوس کرے؟”

کرسی پر بیٹھے ہوئے شخص نے سر اٹھایا اور میس کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ اس کے منہ سے نکلا، ”اُف خدایا!” اور میس میں   بیٹھا ہر شخص اپنے پیروں   پر کھڑا ہو گیا۔ اس کے بعد لشکر ٹیم کے کپتان نے ایسا کارنامہ انجام دیا کہ اس کے لئے وہ وکٹوریہ کراس (Victoria cross)کا حقدار ٹھہر سکتا تھا۔ بڑھتے ہوئے تجسس کے خلاف کی جانے والی جنگ میں   غیر معمولی بہادری۔ اس نے اپنی ٹیم کی نگاہیں   ایسے اٹھائیں   جیسے کسی غیر معمولی لمحے پر میزبان خاتون تمام مہمان خواتین کی توجہ مبذول کروائی ہے، اور کرنل کی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ”یہ آپ کی محبت نہیں   ہے سر!” اور اس کے بعد تمام لوگوں   کو برآمدے اور باغات کی طرف لے گیا۔ ان سب سے آخر میں   جانے والا ہیرا سنگھ تھا۔ جس نے اس وقت ڈرکووچ کو دیکھا۔ لیکن ڈر کووچ اپنی برانڈی کی دنیا میں   گم ہو چکا تھا۔ اس کے ہونٹ بغیر کچھ کہے ہل رہے تھے اور وہ چھت پر ابھرنے والے نقش کی طرف دیکھے چلا جا رہا تھا۔

ایڈ جواٹنٹ بیسیٹ ہولمر (Basset Holmer)نے کہا، ”ہر جگہ سفید ہی سفید نظر آ رہا ہے۔ ”

”یہ شخص کیا تباہ کن قسم کا بھگوڑا ہے، اور میں   حیران ہوں   کہ یہ کہاں   سے آیا ہے؟”

کرنل نے اس شخص کو ہاتھ سے پکڑا اور بڑے آرام سے بولا، ”تم کون ہو؟”

اس نے کوئی جواب نہیں   دیا، میس روم کو اچھی طرح دیکھا اور کرنل کے چہرے کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگا۔ لٹل ملڈرڈ جو مرد سے زیادہ عورت ہی دکھائی دیتا تھا اس نے بڑی گرجدار آواز میں   کرنل کا سوال دہرایا۔ وہ شخص پھر مسکرایا۔ میز کی دوسری جانب پڑی ہوئی کرسی پر سے ڈرکووچ، بڑی آہستگی سے، فرش پر پھسل گیا۔ اس دنیا میں   حضرت آدمؑ کی اولاد میں   سے کوئی شخص ایسا نہیں   جوہو سارز کی شیمپین میں   ہوسارز ہی کی برانڈی میں، پانچ اور آٹھ کی اوسط سے، گلاس مکس کر کے اتنی پی جائے کہ اسے اپنے گرنے اور نیچے پھسلنے کا ہوش نہ رہے۔ بینڈ نے وہی روایتی دُھن بجانی شروع کر دی جس پر وائٹ ہو سارز اپنی تشکیل کے دن سے ہی اپنی تمام تقریبات کا اختتام کرتے تھے۔ وہ کسی بھی صورت میں   اس دھن سے اجتناب نہیں   کر سکتے تھے، یہ ان کے سسٹم کا ایک حصہ تھا۔ اس شخص نے خود کو کرسی پر سیدھا کیا اور میز کو اپنی انگلیوں   سے بجانا شروع کر دیا۔

کرنل بولا، ”مجھے سمجھ نہیں   آ رہا کہ ہمیں   دیوانوں   کو کیوں   محظوظ کرنا ہے!”

”ایک گارڈ بلاؤ اور اسے حوالات میں   بند کر دو، ہم اس معاملے کو صبح دیکھ لیں   گے، اور ہاں، اسے شراب کا ایک گلاس دے دینا۔ ”

لٹل ملڈرڈ(Little Mildred)نے برانڈی کا ایک گلاس بھرا اور اسے دے دیا۔ اس نے وہ گلاس پیا اور پینے کے بعد اس (کے رونے) کی آواز اور بلند ہو گئی اور اس نے خود کو سیدھا بھی کر لیا، پھر اس نے اپنے لمبے ہاتھوں   کو سامنے پڑے ہوئے پلیٹ کے ٹکڑے کی طرف بڑھایا اور اسے بڑے پیار سے ہاتھ لگایا وہ پلیٹ سپرنگ کی شکل کا، سات ٹکڑوں   پر مشتمل، موم بتی سیٹنڈ تھا، ایک بیچ میں   اور تین تین دونوں   طرف۔ اس نے سپرنگ کو ہاتھ لگایا، اسے دبایا اور بڑے کمزور سے انداز میں   ہنس دیا پھر وہ اپنی کرسی سے کھڑا ہوا، دیوار پر لگی ہوئی تصویر کو غور سے دیکھنے لگا، پھر دوسری تصویر کو میس میں   موجود تمام لوگ اسے خاموشی سے دیکھ رہے ہیں۔ جب اس نے (میس کا) آتش دان دیکھا تو اس نے اپنا سر جھٹکا اور پریشان نظر آیا۔ پھر اس کی توجہ ایک تصویر کی طرف مبذول ہو گئی جس میں   ایک گھڑ سوار ہو سار نے وردی پہنی ہوئی تھی۔ اس کے بعد اس نے تصویر اور آتش دان کی طرف اشارہ کیا جبکہ اس کی آنکھوں   میں   مزید سوالات تھے۔

میڈرڈ نے کہا، ”یہ کیا ہے۔ اوہ یہ کیا ہے؟” اس کے بعد وہ اس (شخص) سے ایسے لہجے میں   مخاطب ہوا جیسے ماں   اپنے چھوٹے سے بچے سے ہوتی ہے، ”یہ گھوڑا ہے، جی! گھوڑا۔ ”

اس کے بعد بڑی آہستگی سے جواب آنا شروع ہوا، ایک بھاری بھر کم، بے سودھ سی آواز میں   ”جی، میں   نے دیکھا ہے، لیکن گھوڑا ہے کہاں  ؟”

آپ کو میس میں   موجود لوگوں   کے دلوں   کی دھڑکن تیز ہوتی محسوس ہو رہی ہو گی جب اس اجنبی شخص کو ادھر ادھر گھومنے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی، اور وہاں   گارڈ کو بلانے کی ضرورت قطعاً محسوس نہیں   کی گئی۔

وہ شخص ایک مرتبہ پھر بولا، ”ہمارا گھوڑا کہاں   ہے؟”

وائٹ ہو سارز کے پاس گھوڑا نہیں   تھا جبکہ اس کی تصویر میس کے باہر آویزاں   تھی، وہ ڈرم بینڈ میں   چلنے والا گھوڑا تھا جس نے ۳۷سال تک رجمنٹ کی خدمت کی تھی اور پھر عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے مر گیا۔ میس میں   موجود تمام لوگ اس کے ساتھ تھے اور ان میں   سے کئی اس تصویر کو اتارنے کے لئے آگے بڑھے۔ اس نے وہ تصویر لے کر آتش دان کے اوپر رکھ دی، اس کے کمزور ہاتھوں   سے وہ تصویر نیچے گر گئی اور وہ شخص لڑکھڑاتا ہوا میز کے قریب ملڈرڈ کی کرسی پر جا گرا۔ تمام لوگ چہ میگوئیاں   کرنے لگے، ”ڈرم بینڈ کے گھوڑے کی تصویر ۱۹۶۷ء کے بعد آتش دان کے اوپر نہیں   لٹکائی گئی”…… ”اسے کیسے معلوم ؟”، ”ملڈرڈ! اس سے دوبارہ بات کرنے کی کوشش کرو”، ”کرنل صاحب! اب آپ کیا کرنے والے ہیں  ؟”، ”ذرا ٹھہر جائیں   اور اس بیچارے کو حوصلے میں   آنے دیں  ”، ”بہر حال یہ ممکن نہیں   یہ شخص پاگل ہے”۔

لٹل ملڈرڈ کرنل کی طرف جا کر کھڑا ہو گیا اور اس کے کان میں   جا کر کوئی بات کی۔ پھر تمام لوگوں   سے مخاطب ہو کر بولا، ”تمام لوگوں   سے التماس ہے کہ تشریف رکھیں  !” تمام لوگ کرسیوں   پر براجمان ہو گئے۔ صرف ڈرکووچ کی سیٹ خالی تھی، جبکہ ملڈرڈ ہیرا سنگھ کی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ بڑی آنکھوں   والے میس سارجنٹ نے خاموشی سے تمام گلاس بھر دیئے۔ کرنل ایک مرتبہ پھر کھڑا ہوا مگر اس کا ہاتھ لگنے کی وجہ سے اس کے گلاس میں   موجود پرتگالی شراب میز پر گر گئی، پھر اس نے دیکھا کہ وہ شخص ملڈرڈ کی کرسی پر بیٹھ گیا، کرنل بولا، ”ملکۂ عالیہ کی سلامتی”۔ کچھ دیر کے لئے خاموشی ہوئی اور اس کے بعد وہ شخص کھڑا ہو گیا اور بغیر کسی جھجک کے بولا، ”ملکۂ عالیہ کا نام سلامت!” اور اس کے بعد اپنی انگلیوں   میں   تھامے ہوئے گلاس کو پی گیا۔

کافی عرصہ قبل جب ملکہ ہندوستان ایک جوان خاتون تھیں   اور اس دھرتی میں   ان کے لئے منفی جذبات نہیں   پائے جاتے تھے، اس دور میں   کچھ میسز میں   یہ رواج تھا کہ ٹوٹے ہو گلاس میں   ملکہ کے لئے جام صحت پیا جاتا تھا، جو میس کے ٹھیکہ داروں   کے لئے خوش کن چیز تھی۔ یہ رواج اب ختم ہو چکا ہے کیونکہ اب توڑنے کے لیے، سوائے حکومت کے عہد کے، کوئی چیز باقی نہیں   رہی اور وہ پہلے ہی ٹوٹ چکا ہے۔

کرنل کا منہ کھلا رہ گیا اور پھر بولا، ”اب یہ بہتر ہو گیا ہے، یہ سارجنٹ تو نہیں، یہ کس دنیا میں   ہے”؟

سارے میس یہ لفظ گونج گیا اور وہاں   اں   موجود کوئی شخص بھی ایسا نہیں   تھا جس کے لب پر سوال نہ ہو۔ یہ بات بھی حیران کن نظر نہ آئی کہ چیتھڑوں   میں   ملبوس وہ ”حملہ آور” صرف مسکرا سکتا تھا اور اپنا سر ہلا سکتا تھا۔

میز کے نیچے سے ہنستا، مسکراتا اہوا ڈرکووچ بر آمد ہوا جو وہاں   غنودگی میں   پڑا ہوا تھا۔ وہ اس شخص کی ایک جانب سے نکلا، ڈرکووچ کو دیکھ کر وہ شخص چیخا اور چلایا۔ یہ ایک خوفناک منظر تھا جو اس جام صحت کا نتیجہ دکھائی دیتا تھا، جس کی وجہ سے تمام کے تمام بکھرے ہوئے حوا س بحال ہو گئے۔

ڈرکووچ نے خود کو باہر نکالنے کے لئے کسی کی مدد نہیں   مانگی مگر لٹل ملڈرڈ فوراً اس کی مدد کے لئے وہاں   پہنچا۔ یہ بات بہتر دکھائی نہیں   دیتی تھی کہ ایک معزز شخص جو ملکۂ عالیہ کے جام صحت کا جواب دے وہ کاسک (Cossacks) کے چھوٹے افسران کے قدموں   میں   ہو۔

عجلت میں   کیے گئے اس عمل نے اس بیچارے شخص کی قمیض کو اس کی کمر تک پھاڑ ڈالا، اس کے جسم پر خشک سیاہ دھبے پڑے ہوئے تھے۔ دنیا میں   صرف ایک ہی ہتھیار ہے جو متوازی نشانات لگاتا ہے، نہ تو وہ بید ہے اور نہ ہی بلی۔ ڈرکووچ نے وہ نشانات دیکھے، اس کی آنکھیں   پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، اس کے چہرے کے تاثرات بھی تبدیل ہو گئے۔ اس نے کچھ الفاظ کہے جن کی آواز کچھ یوں   تھی ‘شتووی تا کیٹی’، اور اس شخص نے جواب میں   کہا ‘چیٹائر’۔ تمام لوگوں   نے یک زبان ہو کر یہ کہا، ”یہ کیا ہے”؟

ڈرکووچ نے جواب دیا، ”اس کا نمبر، اس کا نمبر چار ہے، کیا آپ کو معلوم ہے۔

کرنل نے جواب دیا، ”ملکۂ عالیہ کے افسر کو اس نمبر سے کیا غرض؟”، اور میز کے گرد ایک ناخوشگوار فضا پھیل گئی۔

اس مشرقی شخص نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ کہا، ” میں   کیسے بتاؤں  ؟”

”یہ ایک۔۔۔ یہ سب کچھ کیسے ہوا؟- بھاگ نکلو- یہاں   سے دوڑ جاؤ۔ ”

اس نے رات کی تاریکی کی طرف اشارہ کیا۔

لٹل ملڈر ڈ نے اس شخص کو کرسی پر بٹھایا اور کہا، ”اس سے بات کریں   یہ آپ کو جواب دے گا، اور اس سے بڑی شائستگی سے بات کریں۔ ” یہ بات بڑی نا مناسب سی ہے کہ ڈرکووچ برانڈی پیتا رہا اور تمام لوگوں   نے اس پر روسی زبان کی بوچھاڑ کر دی اور وہ بھی ایک ایسے شخص کے ساتھ جو بڑے نحیف انداز میں   اور خوف میں   مبتلا ہو کر جوابات دے رہا تھا۔ لیکن جب سے ڈرکووچ اس سے گفتگو کرنے لگا کسی دوسرے شخص نے ایک لفظ بھی نہیں   کہا۔ تمام لوگوں   کی سانسیں   بھاری، ہو گئی تھیں، وہ آگے جھک کر دیکھ رہے تھے اور ان کی گفتگو محدود ہو چکی تھی۔ آنے والے وقت میں   جب انہیں   کوئی خاص مصروفیت نہیں   ہو گی تو وائٹ ہو سارز سینٹ پینٹرز برگ جانا چاہیں   گے تا کہ وہاں   سے روسی زبان سیکھ سکیں۔

ڈرکووچ بولا، ”یہ کہہ رہا ہے کہ اسے نہیں   معلوم کہ کتنا عرصہ ہوا، لیکن خاصا عرصہ پہلے ایک جنگ میں، میرا خیال میں   کوئی حادثہ پیش آیا تھا، جب اس کے کہنے کے مطابق جنگ میں   وہ اس سرکردہ اور منفرد رجمنٹ کارکن تھا”۔

لٹل ملڈرڈ بولا، ”رولز، رولز، ہولمر جاؤ اور رجمنٹ کے رولز (Rules)لے کر آؤ، پھر ایڈ جوٹنٹ ننگے پاؤں   اڑدلی کے کمرے کی طرف دوڑا جہاں   رجمنٹ کے۔ رولز پڑے ہوئے تھے، وہ فوراً ہی واپس آ گیا اور ڈرکووچ کے تکمیلی الفاظ سننے لگا، ”لہٰذا میرے دوستو! مجھے معذرت کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ایک حادثہ پیش آیا جو قابل تلافی تھا مگر ایک ہی صورت میں، کہ وہ کرنل سے معذرت کر لیتا، جس کی اس نے بے عزتی کی تھی۔ ”

پھر چہ میگوئیوں   کا ایک اور سلسلہ چل نکلا جسے کرنل نے دبا نے کی کوشش۔ اس وقت میس اس موڈ میں   نہیں   تھی کہ وہ روسی کرنلوں   کی بے عزتی کا اندازہ لگا سکے۔

”اسے یاد نہیں   آ رہا لیکن میرے خیال میں   کوئی حادثہ پیش آیا تھا، لہٰذا قیدیوں   کے تبادلے میں   وہ شامل نہیں   تھا، لیکن اسے کسی اور جگہ بھیج دیا گیا تھا۔ آپ کیسے کہتے ہیں۔ کوئی ملک۔ لہٰذا وہ کہتا ہے کہ وہ یہاں   آ گیا۔ اسے نہیں   معلوم کہ وہ یہاں   کیسے پہنچا۔ ایہہ؟ یہ چیپانی (Chepany)میں   تھا”۔ اس شخص نے وہ لفظ پکڑ لیا، سر ہلایا اور کانپتے ہوئے بولا۔ ”زیگانسک اور ارتکوٹسک۔ مجھے نہیں   معلوم یہ وہاں   سے کیسے فرار ہوا۔ یہ کہہ رہا ہے کہ یہ کافی عرصے تک جنگلوں   میں   رہا، لیکن کتنے عرصے تک، اس کے بارے میں   یہ کچھ نہیں   بتا سکتا۔ اور بھی بہت سی چیزیں   ہیں۔ یہ ایک حادثہ تھا جو اس لئے پیش آیا کہ اس نے کرنل سے معذرت نہیں   کی تھی۔ آہ!”

بجائے اس کے کہ وہ ڈرکووچ کی طرف سے کئے جانے والے اظہار تاسف کی ہاں   میں   ہاں   ملاتے، یہ بات افسوس سے کہی جاتی ہے کہ وائٹ ہو سارز نے عیسائیت کے برخلاف احساسات اور جذبات کا اظہار کیا جسے ان کی مہمان نوازی کی روایات بھی نہیں   سراہتیں۔ ہو لمر نے اپنی رجمنٹ کے رولز میز پر پھیلا دیئے اور تمام لوگ ان کے گرد جمع ہو گئے۔

ہولمر نے کہا، ”دیکھو! چھپن(۵۶)، پچپن (۵۵)، چون(۵۴)، ہم یہاں   ہیں، لیفٹیننٹ آسٹن لیماسن لاپتہ ہیں، یہ سیبا سٹوپول (Sebastopol)، کیا غضبناک قسم کی شرم کا مقام تھا۔ کرنلوں   میں   سے کسی ایک کی بے عزتی کی تھی، اور خاموشی سے وہاں   سے چلا گیا۔ اس کی زندگی کے تیس سال ضائع ہو گئے”۔

میس کے لوگوں   نے ہم آہنگ ہو کر کہا، ”لیکن اس نے کبھی معذرت نہیں   کی، یعنی اس کا کہنا تھا کہ وہ اسے پہلے مطعون ہوتا دیکھنا چاہتا ہے”۔

کرنل نے کہا، ”بیچارہ! میرا خیال ہے کہ اس کو بعد میں   موقع ہی نہیں   ملا۔ یہ شخص یہاں   کیسے پہنچا؟”

کرسی پر بیٹھے اس شخص نے کوئی جواب نہیں   دیا۔

”کیا تم جانتے ہو کہ تم کون ہو؟”

وہ بڑی بے اعتنائی سے مسکرا دیا۔

”کیا تم جانتے ہو کہ تم لیماسن ہو۔ لیفٹیننٹ لیماسن جس کا تعلق وائٹ ہو سارز سے ہے؟”

ایک حیرت زدہ لہجے میں   فوراً ہی جواب آیا، ”ہاں  ! یقیناً میں   لیماسن ہوں  ”۔ اس کی آنکھوں   میں   اندھیرا چھا گیا اور وہ نیچے گر گیا اور گرتے ہوئے وہ ڈرکووچ کی حرکات و سکنات کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ سائیبریا سے آنے والا ایک جھونکا کچھ ابتدائی حقائق کو تو ذہن میں   ملا سکتا ہے لیکن وہ خیالات کے تسلسل کا باعث نہیں   ہو سکتا۔ وہ شخص بیان نہیں   کر سکتا تھا کہ کسی پالتو کبوتر کی طرح، اس نے اپنی پرانی میس کا راستہ کیسے تلاش کیا۔ اس سارے عرصے میں   اس نے کیا کچھ دیکھا اور برداشت کیا اسے کچھ بھی نہیں   معلوم۔ وہ بڑی آہستگی سے خوفزدہ سے انداز میں، ڈرکووچ کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا جیسے اس نے بڑے نرم ہاتھوں   سے موم بتی سٹینڈکے سپرنگ کو چھوا تھا، ڈرم بینڈ کے گھوڑے کی تصویر اٹھائی تھی اور ملکۂ عالیہ کے لئے جام صحت نوش کرتے وقت نعرے کا جواب دیا تھا۔ اس نے باقی جو کچھ کہا وہ روسی زبان میں   تھا جسے سمجھا نہیں   جا سکا۔ اس کا سر اس کے سینے کی طرف جھک گیا، وہ کھیسانی سی ہنسی ہنسا، اور دبکنے کے سے انداز میں   کچھ بولا۔

اداسی کے اس خاص لمحے میں، برانڈی میں   موجود ”جن” نے ڈرکووچ کو اکسایا کہ وہ تقریر کرے۔ وہ کھڑا ہوا، مؤدبانہ انداز میں   میز کا کونا پکڑا، اس کی آنکھیں   اوپل (عین الھر ) کی طرح چمک رہی تھیں، اور شروع ہوا:

”معزز سپاہی ساتھیو۔ حقیقی دوستو اور مہمان نوازو۔ یہ ایک حادثہ تھا جو قابل رحم تھا۔ انتہائی قابل رحم”۔ یہ کہہ کر اس نے میس کے تمام سامعین کی طرف دیکھا اور ذرا مسکرایا۔ ”لیکن آپ اس چھوٹی سی، معمولی چیز کے بارے میں   سوچیں   گے۔ بہت ہی چھوٹی، کیا ایسا نہیں  ؟ ایک زار(Czar)!، پوش(Posh)! میں   اپنی انگلیاں   بجاتا ہوں، اس کی خاطر اپنی انگلیاں   بجاتا ہوں۔ کیا میں   اس پر یقین رکھتا ہوں۔ ستر۔ کتنے۔ ملین، لاکھوں   لوگ ایسے ہوں   گے جنہوں   نے کچھ نہیں   کیا۔ ایک کام بھی نہیں ۔ پوش! نپولین اس کی ایک کڑی ہے”۔ اس نے میز پر اپنا ہاتھ مارا۔

”آپ تمام لوگوں   نے سنا، یہاں   بوڑھے لوگ بھی سُن رہے ہیں، ہم نے اس دنیا میں   کچھ نہیں   کیا۔ آج تک کچھ نہیں   کیا۔ ہمارا سارے کا سارا کام ابھی ہونا ہے، اسے ہونا چاہیے، عمر رسیدہ لوگو!۔ ذرا آگے سے ہٹیں  !” اس نے اپنا ہاتھ تیزی سے ہلایا اور اس شخص کی طرف اشارہ کیا۔ ”آپ اسے دیکھ رہے ہیں۔ اس کی حالت اچھی نہیں۔ یہ ایک چھوٹا سا، بہت ہی چھوٹا حادثہ ہے، جسے کوئی بھی یاد نہیں   رکھتا۔ اس وقت یہ شخص یہاں   پڑا ہے آپ بھی کبھی ایسے ہی پڑے ہوں   گے، اے میرے بہادر، ساتھی سپاہیو۔ آپ بھی ایسے ہی پڑے ہوں   گے۔ اور آپ واپس بھی نہیں   آئیں   گے۔ آپ سب لوگ بھی وہیں   چلے جائیں   گے جہاں   یہ چلا گیا ہے یا”۔ پھر اس نے چھت پر نظر آنے والے بڑے سایۂ کفن کی طرف اشارہ کیا اور کہا، ”ستر ملین۔ لوگ یہاں   سے چلے گئے، عمر رسیدہ لوگو”، اور پھر گر کر سو گیا۔

لٹل ملڈرڈ نے کہا، ”شاندار اور برمحل۔ خفا ہونے کا کیا فائدہ؟ چلیں   اس بیچارے کو سکون سے لٹا دیں  ”۔

یقینی طور پر یہ سارا معاملہ وائٹ ہو سارز کے محبت بھرے ہاتھوں   سے بڑی تیزی اور عجلت میں   ہو گیا۔ وہ لیفٹیننٹ محض اس لئے واپس آیا تھا کہ تین دن بعد ہی واپس چلا جائے لیکن (تدفین کے لئے بجائی جانے والی) رثائی دُھن اور فوج کی پریڈ کے ساتھ، مگر اس سٹیشن کے تمام عملے نے ایک بات حیران ہو کر سُنی کہ رجمنٹ کے ایک نئے کمیشن حاصل کرنے والے افسر نے استعفیٰ پیش کر دیا۔

 اور ہمیشہ خلیق رہنے والا، ماحول میں   گھل مل جانے والا و شائستہ مزاج اختیار کرنے والا ڈرکووچ بھی رات والی ٹرین سے چلا گیا۔ لٹل ملڈرڈ اور ایک شخص نے اسے الوداع کہا، وہ ساری میس کا مہمان تھا، حتیٰ کہ وہ کرنل سے بے حد متاثر ہوا، اس کے لئے میس کی خاطر مدارت کی روایات میں   بھی کوئی کسر نہیں   دکھائی گئی۔

لٹل ملڈرڈ نے کہا، ”خدا حافظ ڈر کووچ، سفر بخیر!”

اس روسی نے کہا، ”اؤ ریوئر”۔ (Au Revoir)۔

”بے شک! مگر ہم یہ سمجھے کہ آپ اپنے گھر جا رہے ہیں  ؟”

”جی ہاں  !، لیکن میں   واپس آؤں   گا، میرے عزیز دوستو، کیا یہ راستہ بند ہے؟”

اس نے اسی سمت میں   اشارہ کیا جہاں   قطبی ستارہ درۂ خیبر پر چمک رہا تھا۔

”قسم سے میں   بھول گیا تھا۔ یقیناً ایسا ہے۔ آپ سے ملاقات کر کے خوشی ہوئی۔ جب آپ چاہیں   یہاں   آئیں۔ آپ کو جس جس چیز کی ضرورت تھی وہ آپ نے لے لی ہیں  ؟ سگار، برف، بہتر؟ ٹھیک ہے۔ اؤ ریوئر، ڈرکووچ”۔

وہاں   کھڑے ہوئے دوسرے شخص نے ٹرین کی پچھلی لائنوں   کو چھوتا ہوتا دیکھ کر کہا، ”!۔ قطعی۔ طور پر!”

لٹل ملڈرڈ نے کوئی جواب نہیں   دیا، قطبی ستارے کو دیکھا اور شملہ شہر سے کہی جانے والی ایک ہجو سے ایک شعر کنگنا ہوا چلا گیا، یہ شعر وائٹ ہوسارز کو بہت محظوظ کرتا تھا۔

حوالہ جات

۱۔ برطانیہ کے مسلح سوار دستے

۲۔ روس کے علاقے قزاقستان سے تعلق رکھنے والا، مراعت یافتہ فوجی طبقہ

۳۔ رجمنٹ کا ایک چھوٹا (نان کمیشنڈ) آفیسر

٭٭٭

 

لومڑی

گراز یاڈیلیڈا

مئی کے مہینے کے لمبے اور گرم دن لوٹ آئے تھے اور انکل ٹامس ایک بار پھر گزرے ہوئے سال– دس سال پہلے__ کی طرح اپنے گھر کے سامنے کھلی فضا میں   بیٹھ گئے۔ ان کا گھر پہاڑ کے دامن کے مقابل سیاہ رنگ کے چھوٹے گھروں   کی قطار میں   آخری تھا۔ موسم بہار نے بلا جواز ہی اپنا شہوانی قسم کے پھیلاؤ کے ساتھ رنگ جما لیا تھا: وہ نحیف و ناتواں   بزرگ جو اپنے کالے رنگ کے کتے اور زرد نما پالتو بلی کے درمیان ساکن بیٹھا ہوا تھا، اپنے ارد گرد موجود چیزوں   کی طرح بے حس و حرکت دکھائی دے رہا تھا۔

رات کا وقت ایسا تھا جب گھاس کی بھینی بھینی خوشبو اسے ان کھیتوں   اور چراگاہوں   کی یاد دلاتی جہاں   اس نے اپنی زندگی کے بیشتر ایام گزارے تھے، اور جب چاند، اپنے بھر پور جوبن پر، سمندر کے اوپر، سورج کی سی شکل میں، ابھرتا تھا، جب ساحلی پہاڑ، سلیٹی آسمان کے نیچے سیاہ دکھائی دیتے تھے اور وہ بڑی وادی اور چھوٹی پہاڑیوں   کا ہالہ جو افق کے دائیں   جانب دکھائی دیتا، اس پر ایک چادر پڑی ہوئی دکھائی دیتی تھی، روشنی اور عکس سے مزین علاقے، اُس خاص وقت میں   وہ بوڑھا اور ناتواں   شخص بچپن سے تعلق رکھنے والی چھوٹی چھوٹی چیزوں   کے بارے میں   سوچا کرتا تھا مثلاً لسبے (Lusbe)سے متعلق، یہ وہ شیطانی چیلا ہے جو بد روحوں   کو چراگاہوں   میں، جنگلی سؤروں   کے روپ میں ، بھیجا کرتا ہے، اور اگر کبھی چاند کسی پہاڑ کے پیچھے چھپ جاتا تو وہ بڑی سنجیدگی کے ساتھ ان سات گایوں   سے متعلق سوچتا جنھیں   یہ زمین، رات کا کھانا کھاتے وقت، اپنی کسی مخفی جگہ پر، بڑی خاموشی کے ساتھ نگل لیتی ہے۔

وہ شاذ ہی کلام کرتا تھا، ایک دن اس کی پوتی زانا (Zana) جب اسے یہ بتانے آئی کہ رات ہو گئی اور بستر میں   جانے کا وقت ہو گیا ہے تو اس نے اپنے دادا کو سٹول پر بیٹھے ہوئے اتنا خاموش، ساکن اور بے حس و حرکت پایا کہ وہ سمجھی کہ اس کے دادا اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں۔ خوفزدہ ہو کر اس نے پڑوس سے اپنی آنٹی لینارڈا (Lenarda) کو بلایا، دونوں   خواتین بزرگ کو ہلانے جلانے میں   کامیاب ہو گئیں، اسے کمرے میں   پہنچایا جہاں   وہ آتش دان کے سامنے قالین پر دراز ہو گیا۔

زانا (Zana)نے اپنے دادا کو ہاتھ لگا کر کہا، ’’آنٹی ! ہمیں   ڈاکٹر کو بلانا ہو گا دادا ابو کسی لاش کی طرح ٹھنڈے ہو رہے ہیں  ‘‘۔

’’ہمارا ڈاکٹر یہاں   سے چلا گیا ہے۔ وہ دو مہینے کے لئے ملک (اٹلی) کے مرکزی حصے کی طرف گیا ہے تاکہ وہاں   کان کی بیماریوں   سے متعلق مزید تعلیم حاصل کر سکے کیونکہ اس کے خیال میں   اس کے گرد و نواح میں   سب لوگ بہرے ہو رہے ہیں   اور وہ جب ان سے کھیتوں   کا ٹھیکہ دینے کے لئے کہتا ہے تو۔۔۔۔۔ کہ جیسے اس نے یہ زمین لوگوں   کے پیسوں   سے نہ خریدی ہو، اللہ اسے عدل سے کام لینے کی توفیق عطا کرے! اور اب اس ڈاکٹر کی بجائے شہر کا ایک احمق اور چھچھورا ڈاکٹر موجود ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ شاہِ ہسپانیہ کا درباری طبیب ہے، کیا معلوم وہ یہاں   آئے یا نہ آئے؟ ‘‘

زانا نے کہا، ’’آنٹی اسے یہاں   آنا ہی ہو گا، وہ ایک مریض کو (گھر جا کر) دیکھنے کے بیس لیرے (Lire) وصول کرتا ہے‘‘۔

 اور وہ خاتون ڈاکٹر کو بلانے چلی گئی۔

ڈاکٹر کے گھر میں   کوئی متبادل ڈاکٹر موجود تھا اور اس پورے علاقے میں   وہ ہی واحد ڈاکٹر تھا۔ ڈاکٹر کا گھر باغیچے اور درختوں   سے گھرا ہوا تھا اور صحن میں   انگور اور تخم دان کی بیلیں   چڑھی ہوئی تھیں، یہ گھر اس متبادل ڈاکٹر کے لئے بھی ایک آرام دہ اور پر سکون جگہ تھی، جو ایک ایسے چھوٹے سے قصبے کا رہائشی تھا جہاں   بڑے شہروں   کی تمام تر اچھائیاں   اور برائیاں   موجود تھیں   اور ہر قسم کے لوگوں   کی بہتات تھی جیسے قاتل، پیشہ ور عورتیں   اور جواری وغیرہ۔

آنٹی لینارڈا جب ڈاکٹر کے گھر پہنچی تو اسے اپنے ڈائننگ روم میں   بیٹھا کتاب کے مطالعے میں   غرق پایا، آنٹی لینارڈا یقیناً اس نتیجے پر پہنچتی کہ یہ کوئی طب کی اہم کتاب ہے کیونکہ ڈاکٹر کی اس کتاب پر توجہ قابل دید تھی۔

پیشتر اس کے کہ وہ ڈاکٹر آنٹی لینارڈا کی موجودگی اپنے کمرے میں   محسوس کر سکے، ڈاکٹر کی آیا کو دو مرتبہ اسے آواز دے کر کہنا پڑا کہ یہ خاتون آپ سے ملنے آئی ہیں۔ ڈاکٹر نے کتاب فوراً بند کی اور آنٹی کے ساتھ چل پڑا۔ وہ ایک لفظ بھی نہ بولا اور اس ناہموار راستے پر اس خاتون کے ساتھ چلتا رہا۔

اس وادی کے وسط میں   پہنچ کر، خاتون کے گھر کی کھڑکی کے سامنے ڈاکٹر کی نظر پہاڑ کی چوٹیوں   پر پڑی۔ اس وادی میں   پھیلی ہوئی خالص خوشبو میں   گڈریوں   کے چھوٹے فارمز سے آنے وال بُو کی بھی آمیزش تھی، اس کیفیت میں   ایک اداسی اور ایک خوبصورتی بھی تھی، لیکن انکل ٹامس کے صحن میں   گھاس کی خوشبو غالب تھی، دیوار کے قریب چاندنی کے سے عکس میں   ڈاکٹر نے ایک حسین اور خوبصورت لڑکی کو کھڑے دیکھا وہ خوبرو لڑکی ڈاکٹر کو دیکھ کر فوراً کچن میں   چلی گئی موم بتی لیکر آئی اور اپنے دادا کے سامنے گھٹنوں   کے بل کھڑی ہو گئی جبکہ آنٹی لینارڈا ساتھ والے کمرے سے ڈاکٹر کے لئے ایک کرسی لانے کے لئے دوڑی۔

پھر اس نے سر اٹھا کر ڈاکٹر کی طرف دیکھا، ڈاکٹر نے ایسا لطف محسوس کیا جسے وہ ساری زندگی فراموش نہیں   کر سکا۔ اس نے خیال کیا کہ اس نے پہلے کبھی بھی کسی عورت کا چہرہ اتنا حسین و جمیل اور ترو تازہ نہیں   دیکھا۔ جتنا اس لڑکی کا ہے، ایک کشادہ پیشانی جس پر دلکش بھنویں   (جس میں   ایک، دوسری سے ذرا سی ابھری ہوئی تھی) سیاہ چمکدار بال، واضح اور باریک سی ٹھوڑی، گالوں   کی ہڈیاں   ستواں   جو اس کے گالوں   پر ہلکا سا عکس ڈال رہی تھیں ، سفید اور سیدھے دانت، جو اس کے تفخر بھرے چپرے پر معمولی سے ظالم ہونے کا تاثر دے رہے تھے، جبکہ اس کی گہری سیاہ آنکھوں   میں   اداسی بھری ہوئی تھی۔

زانا نے جب یہ محسوس کیا کہ اسے اتنے غور سے دیکھا جا رہا ہے تو اس نے اپنی نگاہیں   جھکا دیں   اور پھر نہیں   اٹھائیں   لیکن جب اس کے دادا نے ڈاکٹر کے سوالوں   کا کوئی جواب نہیں   دیا تو وہ دھیمے سے انداز میں   بولی: ’’یہ تقریباً بیس سال سے بہرے ہیں  ‘‘۔

’’اوہ! آپ نے پہلے نہیں   بتایا، چلیں   ان کے پاؤں   دھلانے کے لئے پانی کا بندوبست کریں، ان کے پاؤں   انتہائی ٹھنڈے ہو رہے ہیں  ‘‘۔

’’کیا پاؤں   کا دھلانا انہیں   ناگوار نہیں   گزرے گا؟‘‘ آنٹی لینارڈا نے زانا سے مشورہ لینے کے سے انداز میں   پوچھا، ’’ انہوں   نے اپنے بوٹ آٹھ مہینے سے نہیں   اتارے ‘‘!

’’تو کیا آپ انہیں   یہیں   چھوڑنا چاہتے ہیں  ؟ ‘‘

’’اس کے علاوہ ہم انہیں   کہاں   چھوڑیں  ؟ یہ ہمیشہ اسی جگہ سوتے ہیں  ‘‘۔

ڈاکٹر کھڑا ہوا، نسخہ لکھا، اسے زانا کے ہاتھ میں   تھمایا اور اپنے ارد گرد دیکھا۔

وہ جگہ کسی غار کی طرح سیاہ تھی، وہ کسی لکڑی کی سیڑھی کے ذریعے،پچھلی طرف سے راستہ نکال سکتا تھا، یہاں   پر موجود ہر چیز انتہا درجے کی غربت کی عکاسی کر رہی تھی۔ اس نے بڑے رحمدل انداز سے زانا کو دیکھا، وہ اتنی دبلی پتلی اور گوری لگ رہی تھی کہ اسے کسی غار کے دہانے میں   اگنے والا سوسن سفید یاد آ گیا۔

پھر ڈاکٹر نے جھجکتے ہوئے کہا، یہ بزرگ کم غذائی کا شکار ہیں، اور آپ کو بھی مناسب غذا نہیں   ملتی۔ آپ دونوں   کو وافر اور بہتر غذا کی ضرورت ہے۔ اگر آپ۔۔۔۔ ‘‘وہ فوراً ہی سمجھ گئی اور بولی، ’’جی ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں   ‘‘!

زانا کا لہجہ اتنا طنز بھرا تھا کہ ڈاکٹر وہاں   سے چلتا بنا۔

ڈاکٹر اس وادی کے کچے پکے اور اونچے نیچے راستے سے ہوتا ہوا واپس اپنے گھر واپس آ گیا۔ چاند نے اپنے ہالے کو منور کیا ہوا تھا، اور انگور کی بیل انگوروں   کے گچھوں   سے لدی ہوئی تھی اور اُن کی خوشبو مخمور کن تھی۔ اس کی بوڑھی آیا دروازے کے قریب ہی کھڑی تھی، زانا کا خوبصورت اور عجیب و غریب تاثرات سے بھرا چہرہ اس کے ذہن میں   سمایا ہوا تھا۔ اس نے اپنی آیا سے پوچھا، ’’کیا تم انکل ٹامس اچیٹو کو جانتی ہو؟ ‘‘

’’اچیٹو خاندان کو کون نہیں   جانتا، انہیں   میرے علاقے نورو (Nuoro)تک جانا جاتا ہے، کئی تعلیم یافتہ افراد زانا سے شادی کے خواہش مند ہیں  ‘‘۔

’’جی وہ بہت خوبصورت ہے، میں   نے اسے پہلے نہیں   دیکھا تھا‘‘۔

’’وہ باہر نہیں   نکلتی، پردیسی لوگ، نورو (Nuoro) تک سے یہاں   آتے ہیں   کہ اس کی ایک جھلک دیکھ سکیں   اور اس مقصد کی خاطر اس کے گھر کے قریب سے ہو کر گزرتے ہیں  ‘‘۔

’’کیا قصبے کے منادی کرنے والے نے اس کی خوبصورتی اور اس کے حسن کی منادی کی تھی؟ ‘‘

’’نہیں   میرے پیارے! ایسا نہیں   ہے، بات یہ ہے کہ وہ بوڑھا شخص اتنا امیر کبیر اور رئیس ہے کہ اسے خود اپنی جاگیر اور دولت کا اندازہ نہیں۔ جاگیر اتنی بڑی ہے کہ جتنا ہسپانیہ کا رقبہ۔ اور لوگوں   کا کہنا ہے کہ اس بوڑھے شخص کے پاس بیس ہزار سکوڈی (۱ )(Scudi)ہیں   جو کسی جگہ مدفون ہیں۔ صرف زانا کو اس جگہ کا علم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ڈون جو اشینو (Don Juacchinu) سے بھی شادی نہیں   کرنا چاہتی، کیونکہ اس کا شمار اشرافیہ میں   تو ہے لیکن وہ دولت مند نہیں  ‘‘۔

’’کیا میں   یہ جان سکتا ہوں   کہ اتنی دولت آئی کہاں   سے‘‘؟

اس دنیا کی چیزیں   کہاں   سے آتی ہیں  ؟ لوگوں   کا خیال ہے ( میں   اپنے حوالے سے کوئی بات نہیں   کر رہی) کہ پرانے اور اچھے دنوں   میں   جب رسالے کے سپاہی اتنے تیز نہیں   ہوتے تھے جتنے آج کل چھتر بند سوار تو اس وقت کوئی گڈریا اپنے گھر لوٹتے وقت پنیر کی بوری لے کر واپس آتا اور کوئی سونے کے سکے اور چاندی کی پلیٹ لے کر۔۔۔ ‘‘

اس بوڑھی آیا نے ان تمام چیزوں   کو مربوط کرنا شروع کر دیا، یوں   محسوس ہوتا تھا کہ وہ اپنی یاد داشت سے کہانیاں   جوڑتی چلی جا رہی ہے اور وہ شخص سنتا چلا جا رہا ہے اور انگور کی بیل کا عکس سونے کی ٹکڑیوں   کی صورت گھر میں   پھیل رہا تھا، تب ڈاکٹر زانا کی مسکراہٹ اور اس کے الفاظ، ’’ہم سب کچھ کر سکتے ہیں  ‘‘ کو سمجھ پایا۔

ان لوگوں   کے گھر جانے کی ایک دن بعد ڈاکٹر ایک مرتبہ پھر وہاں   گیا: وہ بوڑھا شخص قالین پر بیٹھا بڑے دھیمے اور پر سکون انداز میں   ڈبل روٹی کو ٹھنڈے پانی میں   بھگو کر کھا رہا تھا، اس کے ایک طرف کتا بیٹھا تھا اور دوسری طرف بلی۔ سورج کی شعاعیں   دروازے سے چھن کر اندر آ رہی تھیں   اور ماہ مئی کی خوشگوار ہوا نے بوڑھے شخص کے کمرے سے آنے والی چمڑے کی بو کو معتدل کر دیا تھا۔

’’ان کی طبیعت کیسی ہے؟ ‘‘

زانا نے اپنی آواز میں   طنز کی معمولی سی آمیزش کے ساتھ جواب دیا، ’’بہتر ہیں  ! آپ دیکھ سکتے ہیں  ‘‘۔

’’جی میں   دیکھ سکتا ہوں، انکل ٹامس! آپ کی عمر کتنی ہے؟ ‘‘

انکل ٹامس نے جواب میں   اپنے باقی ماندہ چند سیاہ دانت دکھاتے ہوئے کہا،’’جی میں   ایسا کر سکتا ہوں   !‘‘

زانا فوراً بولی،’’یہ سمجھئے کہ آپ چبانے سے متعلق کچھ کہہ رہے ہیں  ‘‘۔ پھر زانا نے اپنے دادا پر جھک کر اپنی انگلیاں   دکھاتے ہوئے اشارہ کیا، ’’اس طرح، کیا یہ درست نہیں  ‘‘؟

’’جی! ۹۰ سال، اللہ مجھے سلامت رکھے‘‘۔

’’بہت بہتر، میرا خیال ہے آپ سو سال تک زندہ رہیں   گے، یا شاید اس سے بھی زیادہ !

 اور زانا آپ! کیا آپ ان کے ساتھ اکیلی ہی رہتی ہیں  ؟ ‘‘

اس کے بعد زانا نے تفصیلاً بتایا کہ اس کے دیگر رشتہ دار، اس کی آنٹیاں، انکل، چچا زاد، بوڑھے اور بچے کس طرح فوت ہوئے، وہ موت کے بارے میں   اتنے سادہ اور سہل انداز میں   گفتگو کر رہی کہ جیسے یہ کوئی غیر اہم اور معمولی سا واقعہ ہو، پھر ڈاکٹر بوڑھے شخص کی طرف متوجہ ہوا اور چیخنے کے سے انداز میں   کہا، ’’آپ رہن سہن میں   تبدیلی لے کر آئیں  ! صفائی ستھرائی! بھنا ہوا گوشت ! معیاری شراب اور ذرا زانا کو بھی اپنی زندگی سے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کریں  ‘‘۔

جواب میں   بوڑھے شخص نے کہا: ’’وہ کب واپس آ رہا ہے؟ ‘‘

’’کون‘‘؟

زانا نے جواب میں   کہا، ’’اوہ ! بات دراصل یہ ہے کہ دادا ابو ان ڈاکٹر صاحب کا انتظار کر رہے ہیں   جو اس علاقے میں   مستقل تعینات ہیں ، کہ وہ واپس آئیں   اور ان کے کانوں   کا علاج کریں  ‘‘۔

’’شاندار! اس کا مطلب ہے کہ ہمارے ڈاکٹر صاحب کی شہرت ہو چکی ہےُ‘‘۔

وہ بوڑھا شخص چیزوں   کو اپنے ہی خاص انداز میں   سمجھے چلا جا رہا تھا۔ اس نے اپنی بوسیدہ اور پھٹی ہوئی جیکٹ کی آستین کو پکڑا، جو میل سے اٹی ہوئی تھی، اور بولا، ’’میلی! یہ ایک رواج بن چکا ہے۔ جو لوگ امیر کبیر ہوں   انہیں   اپنی دولت دکھانے کی ضرورت نہیں  ‘‘۔

حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر نے اپنے قصبے میں   جن لوگوں   کو صاف ستھرا دیکھا اور پایا وہ یقینی طور پر غریب لوگ ہی تھے، امیر کبیر لوگ اپنے کپڑوں   اور اپنی طنزیہ وضع قطع پر توجہ نہیں   دیتے، شاید وہ اسی طرح سہولت محسوس کرتے ہیں۔ اس نے ایک دن آنٹی لینارڈا کو دیکھا جو اس کے صحن میں، کسی ملازمہ جیسا لباس پہنے، اس کا انتظار کر رہی ہے، اگرچہ وہ بھی ایک امیر خاتون ہے جس نے ۴۳ سالہ ہونے کے باوجود ایک بیس سالہ خوبرو نوجوان سے شادی کی ہے۔

’’صبح بخیر ڈاکٹر! مجھے آپ سے ایک کام ہے۔ میرا خاوند جیکو (Jacu)فوج کی ملازمت کی وجہ سے دوسرے شہر میں   ہے، اب جبکہ بھیڑوں   کی اون اتارنے کا دن (تہوار) قریب ہے تو میں   چاہتی ہوں   کہ وہ چھٹی لے کر گاؤں   آ جائے، کیا آپ کی شاہی دربار میں   کوئی شناسائی نہیں  ‘‘؟

’’نہیں   محترمہ! اتفاق سے نہیں   ‘‘

’’میں   نے اپنے( مستقل طور پر تعینات )ڈاکٹر سے یہ بات کی تھی کہ آپ جب بھی روم جائیں   اس بات کا خیال رکھیں، انہوں   نے مجھ سے وعدہ کیا لیکن پھر وہ بھول جاتے ہیں۔ میرا خاوند جیکو ایک خوبرو نوجوان ہے (میں   اس لئے شیخی نہیں   بگھار رہی کہ میں   اس کی بیوی ہوں  ) اور شہد کی طرح میٹھا ہے۔۔۔۔ وہ اپنی شخصیت کی ذرا سی جھلک دکھا کر سب کچھ حاصل کر سکتا ہے۔۔۔۔۔ ‘‘

اس نے یہ خاص بات کرتے ہوئے اپنے تکلے کو حرکت دی۔ ڈاکٹر نے کچھ نہ کہا اور مسکراتا رہا۔

’’محترمہ! اس دنیا میں   اپنی پسند کی ہر چیز حاصل کرنے کے لئے صرف جھلک اور دبدبہ ہی کافی نہیں  ‘‘۔

پھر وہ ڈاکٹر اپنے گھر واپس چلا گیا اور اس کے ذہن میں   زانا اور ماضی کی بہت سی چیزیں   آنے لگیں۔ وہ سوچ رہا تھا کہ وہ کبھی اپنی جوانی میں   خوبرو اور وجیہہ ہوتا تھا لیکن اب اس کے پاس کچھ نہیں   نہ تو اس کے پاس محبت ہے، نہ دولت اور نہ ہی خوشی۔ یہ بات بھی درست ہے کہ اس نے ان چیزوں   کے لئے تگ و دو بھی نہیں   کی، شاید وہ اس چیز کے انتظار میں   رہا کہ وہ چیزیں   اچانک خود اپنی ’’پیش کش‘‘ کریں   گی، اور وہ مسلسل ان کی راہ تکتا ہی رہا اور وقت ضائع ہوتا رہا لیکن گزشتہ چند سالوں   کے دوران اسے باغیانہ خیالات کے دورے پڑتے رہے، اس نے اپنی جائیداد فروخت کر دی اور محبت، دولت اور خوشی کی تلاش میں   نکل پڑا۔ ایک دن اسے یہ احساس ہوا کہ ان چیزوں   کو خریدا نہیں   جا سکتا اور جب اس کی جیب خالی ہو گئی تو وہ واپس اپنے چند مریضوں   کے پاس گیا، ان کے ساتھ ہنسی مذاق کیا، بے مقصد قسم کی طویل چہل قدمی کی، اور پیلے رنگ کی جلد والے فرانسیسی ناول پڑھے۔

دوسری طرف آنٹی لینارڈا اس بات کی قائل تھی کہ خوبصورت نگاہیں   اور شخصیت کا رعب ہر چیز کے حصول کو ممکن بناتا ہے، اس کے خیال میں   اب بوڑھے شخص کی طبیعت تو درست ہو چکی ہے، ڈاکٹر ان کے گھر میں   بار بار جاتا ہے اور شاید وہ زانا میں   دلچسپی رکھتا ہے۔ اس نے زانا سے ایک مرتبہ پوچھا،’’کیا تم اس ڈاکٹر کو نہیں   بتا دیتیں۔ ہر شخص بھیڑوں   کی اون اتارنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے، لیکن مجھے اجرت پر یہ کام نہیں   کروانا۔ یہ ڈاکٹر آنکھیں   پھاڑ پھاڑ کر تمہاری طرف دیکھتا ہے، اگر تم اسے جیکو کی چھٹی کے لئے کہو تو یہ کبھی بھی تمہیں   انکار نہیں   کرے گا‘‘۔

زانا نے وعدہ نہیں   کیا، پھر کچھ دن گزرنے کے بعد جب گرم ہوا، صاف نیلا آسمان اور چمکتی دھوپ نا قابل بیان اداسی پھیلا دیتے ہیں، ڈاکٹر انکل ٹامس کے گھر گیا اور گھر کے سامنے ہی کرسی پر جا کر بیٹھ گیا تو زانا نے اس سے مذاق کیا اور کچھ بیماریوں   کی وجوہات کے بارے میں   پوچھا، (دوائیوں   میں   استعمال ہونے والے) زہر کیسے تیار کئے جاتے ہیں، اس نے بڑے سکون کے ساتھ اور بہت سی چیزوں   کے بارے میں   بھی باتیں   کیں   مگر اس نے وہ بات نہیں   کی جو اس کی ہمسائی چاہ رہی تھی۔

کبھی کبھار آنٹی لینارڈا بھی زانا اور ڈاکٹر کی گفتگو میں   شامل ہوتی۔ یہ بات ڈاکٹر کو پسند نہیں   آئی کیونکہ وہ زانا کے ساتھ تنہائی میں   گفتگو کرنا چاہتا تھا، اور اسے اس بات کا بھی یقین ہو جاتا تھا کہ انکل ٹامس اب سوچکے ہیں، اس کی وجہ یہ تھی کہ رات کی ہوا بہرے شخص کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے۔ آنٹی لینارڈا کو صرف بھیڑوں   کی اون اتارنے کی فکر تھی۔

وہ ڈاکٹر سے کہتی، ’’محترم ڈاکٹر صاحب! ذرا ان خوشیوں   کے تہواروں   کی طرف دیکھیں   جو آنے والے ہیں   سین میکلے (San Michele) اور سین کونستینٹیو San) (Constantinoکی ضیافت میں   آپ کو ضرور مدعو کروں   گی اگر جیکو آ جائے، اس کے بغیر میرے لئے یہ تہوار اور ضیافتیں   مرگ سے کم نہیں   ‘‘۔

’’محترمہ! کیا آپ حقیقت جاننا چاہتی ہیں  ؟ وہ لوگ جیکو کو صرف ایک ہی صورت میں   چھٹی دے سکتے ہیں، اگر آپ بیمار ہوں   تو، لیکن آپ تو اچھی صحت کی مالک، تندرست و توانا ہیں  ‘‘۔ پھر اس خاتون نے شکایات شروع کر دیں ، جب سے جیکو گیا ہے مجھے اپنے جسم میں   مختلف قسم کے درد محسوس ہوتے ہیں   اور اب جبکہ اون اتارنے کا وقت قریب ہے تو اس کی تکلیف شدید تر ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر کو مزید قائل کرنے کے لئے وہ بستر پر دراز ہو گئی۔ ڈاکٹر نے اس کا معائنہ کیا، سرٹیفکیٹ لکھ دیا اور کچھ دوائیں   بھی تجویز کر دیں۔ زانا اس خاتون کے قریب ہی کھڑی رہی، لالٹین کی سرخ روشنی میں   دوا نکالی اور دھیمے سے انداز میں   کہا: ’’یہ زہر نہیں، کیا ایسا ہی ہے‘‘؟

پھر وہ گھر کے صحن میں   چلی گئی جہاں   ڈاکٹر،پینٹ کی ہوئی کرسی پر بیٹھا تھا۔ وہ ابتدائی ماہ جون کی ایک شام تھی گرمی اور خوشبو سے معطر، محبت اور خوشگوار یادوں   سے بھر پور اور ان یادوں   کا تعلق ڈاکٹر کے ماضی سے تھا، جو تلخ بھی تھیں   اور شیریں   بھی، جس طرح اس نیم تاریکی میں   ڈوبی وادی میں   ایک تلخ و خوشگوار بو پھیلی ہوئی تھی جوجنس کنیر کی تھی۔ اس نے اپنی کرسی ذرا سی آگے کی اور زانا کے قریب ہو گیا، پھر ان کی معمول کی گفتگو شروع ہو گئی۔ معمول کے مطابق کوئی گڈریا انکل ٹامس کے گھر کے قریب سے گزرتا مگر وہ ان کے گھر میں   ڈاکٹر کو دیکھ کر حیرت میں   گرفتار نہ ہوتا۔ اب ہر کوئی جان گیا تھا کہ ڈاکٹر مسلسل زانا سے ملنے آتا ہے اور یہ کہ زانا اسے قبول کر لے گی ورنہ وہ اسے اپنے قریب نہ آنے دیتی۔ لیکن وہ دونوں   معمول کے مطابق بڑی معصومانہ گفتگو کرتے جس میں   فصلوں ، زہریلی جڑی بوٹیوں   اور ادویات کے موضوعات زیر بحث آتے۔

’’جنسِ کنیر؟ نہیں   یہ زہریلی نہیں، لیکن شوکران زہر ہے، کیا تمہیں   معلوم ہے یہ کیسی دکھائی دیتی ہے؟ ‘‘

’’جی، کون نہیں   جانتا‘‘۔

’’اسے زہرِ خند کی بھی کہتے ہیں   یہ لوگوں   کو ہنسا ہنسا کر مار دیتا ہے۔۔۔۔ جیسے تم ‘‘

’’چلیں   ڈاکٹر صاحب میری کلائی چھوڑ دیں۔ مجھے آنٹی لینارڈا کی طرح بخار نہیں   ہے‘‘۔

’’بخار مجھے ہے، زانا‘‘۔

’’پھر تھوڑی سی مقدار میں   کونین لے لیں، یا یہ بھی زہر ہے‘‘؟

’’آج تم زہر سے متعلق ہی گفتگو کیوں   کر رہی ہو؟ کیا تم کسی کے قتل کا ارادہ رکھتی ہو؟

اگر ایسا ہے تو تم مجھے بتاؤ، میں   تمہاری خاطر اسے مار دوں   گا۔۔۔ لیکن۔۔۔۔ ؟ ‘‘

’’لیکن؟ ‘‘

’’لیکن۔۔۔۔ ‘‘

وہ زانا کی کلائی دوبارہ تھام لیتا ہے، اور زانا بھی بخوشی ایسا کرنے دیتی ہے۔ چاروں   طرف اندھیرا چھا چکا تھا اور ادھر ادھر سے کوئی بھی انہیں   دیکھ نہیں   سکتا تھا۔

’’جی ! مجھے تھوڑے سے زہر کی ضرورت ہے، لومڑی کے لئے‘‘۔

’’ہیں  ! کیا وہ اتنا قریب آ جاتی ہے؟ ‘‘

’’جی آ جاتی ہے! چلیں   اب تو میرا ہاتھ چھوڑ دیں،‘‘ زانا ذرا با رعب انداز میں   ڈاکٹر سے مخاطب ہوتی ہے اور اپنا ہاتھ چھڑوا لیتی ہے، لیکن ڈاکٹر اس کا دوسرا ہاتھ، انتہائی مضبوطی سے،تھام لیتا ہے جیسے وہ کوئی چور ہو۔

’’زانا! مجھے ایک بوسہ لینے دو، صرف ایک‘‘۔

’’آپ یہاں   سے جا سکتے ہیں، اور جا کر جلتی ہوئی لکڑی کا بوسہ لے سکتے ہیں۔ لیکن۔۔ ٹھیک ہے، اگر آپ مجھے زہر فراہم کر دیں   تو۔۔ وہ لومڑی آتی ہے اور ہماری بھیڑوں   کے نو زائیدہ بچوں   کو لے جاتی ہے۔۔۔۔ ‘‘

جب ڈاکٹری سر ٹیفکیٹ کی ہمراہی میں   جیکو کی چھٹی کی درخواست ارسال کر دی گئی تو آنٹی لینارڈا اپنے کام سے کام رکھنے لگی۔ اور وہ اس بات کو جا ن گئی کہ ڈاکٹر اب اس لڑکی کا گرویدہ ہو چکا ہے جو دن میں   دو مرتبہ انکل ٹامس کے گھر آتا ہے اور وہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس قصبے میں   تعینات ڈاکٹر کی واپسی سے قبل ہی انکل ٹامس کے بہرے پن کا علاج کر دے گا۔ زانا بے کیف سی ہو گئی تھی، وہ اس ڈاکٹر کے سامنے کبھی کبھار آتی، اکثر اپنے کمرے میں   بند رہتی، جیسے مکڑی اپنے جالے میں   رہتی ہے۔

وہ صرف اتوار کو عبادت کی غرض سے باہر نکلتی، ڈاکٹر گرجا گھر کے قریب اس کا انتظار کرتا۔ ایک ایک کر کے خواتین گرجا گھر میں   داخل ہوتیں، انہوں   نے اتوار کی مناسبت سے ہی کپڑے زیب تن کئے ہوتے، کڑھے ہوئے ایپرن، اپنے ہاتھ باندھے ہوئے، یا اپنے ہاتھوں   میں   بچے تھامے ہوئے، سرخ رنگ کے چوغوں   میں   ملبوس جن پر نیلے رنگ کی صلیبیں   بنی ہوئی تھیں، عبادت کے لئے چلی آتیں، جب وہ ایک خاص مقام پر رکتیں   تو وہ اپنا رُخ نورو (Nuoro)کے اس پہاڑ کی طرف کرتیں، جس پہاڑ پر حضرت عیسٰی ؑ کا مجسمہ بنایا ہوا ہے، اور دعا مانگتیں۔ سورج کی شعاعیں   ان کے یونانی نژاد چہروں   سے منعکس ہوتیں۔ لیکن وہ ’’گنہگار‘‘ ڈاکٹر صرف زانا کی طرف ہی دیکھتا اور لوگوں   کا یہی خیال تھا کہ ٹامس اچیو کی بیٹی نے اس ڈاکٹر کو مردم گیاہ کی بوٹی پلا دی ہے۔

ایک دن خواتین کے، اسی نوعیت کے، جلوس میں   چند مرد بھی چلے آ رہے تھے، ان میں   سے ایک جیکو تھا جو آج کل چٹھیوں   پر آیا ہوا تھا۔ وہ واقعی خوبرو اور لا جواب تھا، لمبا وجیہہ، کلین شیو، سبز آنکھوں   والا، اور اس کی آنکھوں   میں   اتنی جاذبیت تھی کہ اس کے قریب سے گزرنے والی خواتین،نہ چاہتے ہوئے بھی،اس پر توجہ دینے پر مجبور ہو جاتیں   جبکہ وہ فتح کرنے کی صلاحیت پیدا کر دی تھی لیکن چیزوں   کی، نہ کہ عورتوں   کی۔ جیسے ہی وہ چھٹی پر آیا ڈاکٹر کا شکریہ ادا کرنے اس کے گھر گیا اور اس اون اتارنے والے تہوار پر ضیافت کی دعوت دی۔ ڈاکٹر نے اس سے خالص اطالوی زبان میں   گفتگو کی اور اس نے بھی بھر پور انداز میں   اس کا ساتھ دیا۔ پھر ڈاکٹر نے اس سے پوچھا: ’’کیا آپ خاصے لوگوں   کو مدعو کر رہے ہیں  ؟‘‘ اس نے جواب دیا، ’’جی یقیناً، کیونکہ یہ خاندان بہت بڑا ہے اور میرے جیسے شخص کے– اگرچہ دشمن بھی بہت ہیں  –دوست بہت بڑی تعداد میں   ہیں۔ اس کے علاوہ میں   بہت وسیع النظر ہوں   اسی لئے میں   نے لینارڈا کے پہلے خاوند کے رشتہ داروں   کو بھی مدعو کیا ہے، وہ مجھے قتل بھی کر سکتے ہیں، اگر لینارڈا کے تین خاوند بھی ہوتے تو میں   ان سب کے رشتہ داروں   کو مدعو کرتا‘‘۔

’’آپ بہترین قسم کے سماجی انسان ہیں۔ آپ کو کامیابی و کامرانی نصیب ہو، میں   سمجھا آپ اپنے ہمسایوں   کو بھی مدعو کریں   گے !‘‘

ایک سماجی اور کامیاب شخص ہونے کے ناطے جیکو نے ایسا رویہ اختیار کیا جیسے وہ زانا کے لئے ڈاکٹر کی دیوانگی کو جانتا ہی نہیں۔

’’جی یہ بات درست ہے کہ ایک پڑوسی کی حیثیت رشتہ دار سے زیادہ ہی ہے‘‘۔

بالآخر تہوار کا دن آ ہی گیا آنٹی لینارڈا، زانا اور دیگر خواتین اس چھکڑے میں   بیٹھ گئیں   جسے جیکو چلا رہا تھا۔

بھیڑوں   کا ریوڑ چراگاہ میں   تھا اور وہ مضبوط چھکڑا، جسے دو سیاہ بیل کھینچ رہے تھے اونچے نیچے راستے پر ہچکولے کھا رہا تھا، لیکن جو خواتین اس میں   بیٹھی تھیں   وہ بالکل بھی خوفزدہ نہیں   تھیں   اور زانا اپنے گھٹنوں   کو پکڑے بڑے اطمینان سے بیٹھی ہوئی تھی جیسے وہ اپنے کمرے کے آتش دان کے سامنے بیٹھی ہو۔ وہ اداس دکھائی دے رہی تھی لیکن اس کی آنکھوں   میں   ایک خفیہ قسم کی چمک موجود تھی جیسے جنگل کے وسط میں   کوئی چنگاری چمک رہی ہو۔

جیکو بڑے خوشگوار اور مزاحیہ انداز میں   بولا، ’’ہمسائی صاحبہ! معاف کرنا آپ کا چہرہ کسی مردہ شخص کی طرح لگ رہا ہے۔ وہ آ جائیں   گے، آ جائیں   گے، وہ عبادت کے اختتام پر پادری کے ساتھ آ جائیں   گے۔۔۔ ‘‘

پھر ایک اور خاتون نے مذاق کیا، ’’زانا خوش ہو جاؤ، میں   ایک سر پٹ دوڑتے گھوڑے کی آواز سن رہی ہوں   جو کسی شیطان کی طرح ادھر آ رہا ہے‘‘۔

’’یہ کرسی کیسی ہے! اور اس زنجیر (چین) کی کیا قیمت ہو گی؟ نو ریالی(۲ ) (Reali) ؟ اس پر زانا خفا ہو گئی،’’تم پر قہر ناز ل ہو! مجھے اکیلا چھوڑ دو، اگر آج میں   اس شخص کی طرف دیکھ بھی لوں   تو کوّے میری آنکھیں   نکال لیں۔۔۔ ‘‘

ڈاکٹر اور پادری دوپہر سے ذرا پہلے وہاں   پہنچ گئے، ان کا خیر مقدم کیا گیا۔ شاہ بلوط کے ایک درخت کے نیچے جیکو، اس کا ایک ملازم اور اس کے دوست بھیڑوں   کی اون اتارنا شروع ہو گئے، بھیڑوں   کو نیچے لٹا کر، انہیں   قابو کر کے، یہ کام ایک بڑے پتھر پر کیا جا رہا تھا جو ایک قربان گاہ دکھائی دے رہا تھا۔ جنگلی گھاس میں   کتے ایک دوسرے کا پیچھا کر رہے تھے، درختوں   پر پرندے چہچہا رہے تھے، ایک بوڑھا شخص جو کسی معتبر مذہبی شخصیت کی طرح دکھائی دے رہا تھا، اون اکٹھی کر کے بوری میں   بھرتا چلا جا رہا تھا، خوشگوار ہوا چل رہی تھی، درخت ہوا سے جھکے چلے جا رہے تھے اور وہ یہ دیکھنا چاہ رہے تھے کہ لوگوں   کا یہ گروہ بھیڑوں   کو اپنے ہاتھوں   میں   تھامے کیا کرنے چلا ہے، جب ایک بھیڑ کی اون اتار لی جاتی تو وہ آزاد ہو کر اون کے ڈھیر پر چھلانگ مارتا تا کہ زمین سے اپنی ٹانگیں   رگڑنے کے بعد کچھ سکون محسوس کر سکے۔

کچھ دیر تک ڈاکٹر اپنے ہاتھ پیچھے کی طرف باندھے یہ منظر دیکھتا رہا، پھر وہ اس کٹیا کی طرف چلا گیا جہاں   جیکو کے بوڑھے باپ کی نگرانی میں   خواتین کھانا تیار کر رہی تھیں، کیونکہ اس نے خود کو اس کام کو کروانے کے لئے مختص کر رکھا تھا۔ تھوڑے ہی فاصلے پر شاہ بلوط کے ایک اور درخت کے نیچے پادری گھاس پر دراز ہو کر کچھ مخصوص نوجوانوں   کو بوکاسیو کی کوئی داستان سنا رہا تھا۔ خواتین نے زانا کو ٹہوکا سا لگایا اور ڈاکٹر کی طرف اشارہ کیا، اور اچانک، موڈ کی تبدیلی کے ساتھ ہی، زانا نے ڈاکٹر سے مذاق کرنا شروع کر دیا، اور کہا کہ وہ کم از کم خود کو کچھ تو کار آمد بنائے اور چشمے سے پانی لے کر آئے۔ ڈاکٹر زانا کے ساتھ مزاحیہ انداز میں   گفتگو کرنے کے بعد بالٹی لے کر چشمے سے پانی بھرنے کی خاطر چل پڑا، اس کے بعد وہاں   کا ماحول عجیب و غریب ہو گیا اور لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئے۔

پادری کے گرد بیٹھا ہوا گروپ ڈاکٹر پر ہنسنا اور چلانا شروع کر دیتا ہے، اور جو بوڑھا شخص گوشت بھون رہا تھا وہ ڈاکٹر کا تمسخر اڑانے کے لئے اپنا انگوٹھا اپنی انگلیوں   میں   پکڑ لیتا ہے۔ جب زانا نے دیکھا کہ ڈاکٹر جیسے پڑھے لکھے اور سمجھ دار شخص کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو اس نے سب کو کوسنا شروع کر دیا اور اپنے سر کا رومال سنبھالے ڈاکٹر کی طرف بھاگی اور اسے آ لیا، اس کے ہاتھ سے بالٹی چھین لی۔ دور کھڑی خواتین غور سے دیکھ رہی تھیں   کہ زانا ڈاکٹر کے پیچھے پیچھے کیسے جا رہی ہے اور ڈاکٹر چشمے کی طرف جانے والے راستے پر تیز قدموں   سے کیسے چلتا چلا جا رہا ہے اور جیکو کے بوڑھے باپ نے آگ پر بری طرح تھوکنا شروع کر دیا، جیسے وہ اسے بجھانا چاہتا ہو۔

’’ٹامس اچیٹو کی پوتی، آپ نے اسے دیکھا؟ وہ اس شخص کے ساتھ تنہائی میں   جانا چاہتی ہے، اگر یہ میری بیٹی ہوتی تو میں   اس کی گردن پر اپنا پاؤں   رکھ دیتا۔ ‘‘

آنٹی لینارڈا بڑی آہستگی سے اپنے سسر سے مخاطب ہوئی، ’’ابا جان! اس کا جو جی چاہ رہا ہے اسے کرنے دیں، وہ جانتی ہے کہ محبت کیا ہے، اور یہ آپ کو کیسے دیوانہ بناتی ہے، جیسے کوئی جادو بھرا پانی پی کر ہوتا ہے‘‘۔

ڈاکٹر سورج کی چمک سے چکا چوند ہو رہا تھا اور زانا اس کے پیچھے پیچھے چشمے کی طرف جا رہی تھی، چشمے کے قرب جا کر ڈاکٹر نے ایک مرتبہ پھر زانا کو اپنی بانہوں   میں   لینے کی کوشش کی۔ زانا نے ڈاکٹر کو ایسی نظروں   سے دیکھنے کی کوشش کی جیسے ملکۂ شیبا کی نظریں، لیکن اس نے ڈاکٹر کو دھکیل دیا اور اسے دھمکی دی کہ وہ پانی بھری بالٹی اس کے سر پر انڈیل دے گی۔ ہمیشہ ہی کی طرح،پہلی ملاقات سے ہی اس کا یہ وتیرہ رہا، اپنے صحن کی دیوار کے سایے میں   : وہ اسے قریب بلاتی اور پھر دھکیل دیتی، نیم سنجیدہ، نیم عیار اور ہمیشہ اسے ایک ہی چیز کے لئے کہتی: تھوڑا سا زہر۔

’’ٹھیک ہے زانا! میں   تمہیں   خوش کر دوں   گا۔ آج رات میں   تمہارے گھر آؤں   گا اور میں   اپنے ساتھ ایک چھوٹی بوتل بھی لاؤں   گا جس کے اوپر ایک کھوپڑی بنی ہو گی، لیکن خیال کرنا تم جیل مت چلی جانا‘‘۔

’’میں   نے آپ کو بتایا نا کہ یہ لومڑی کے لئے ہے۔ اچھا اب مجھے چھوڑیں، ذرا سنیں  ! کوئی آ رہا ہے‘‘۔

دراصل چشمے کے قریب کی جھاڑی ایسے ہلی تھی جیسے کوئی جنگلی سوؤ آ رہا ہو، پھر وہاں   سے جیکو بر آمد ہوا۔ اس کے چہرے کی ہوائیاں   اڑی ہوئی تھیں، اگرچہ وہ ظاہر یہ کرنا چاہ رہا تھا کہ ان دونوں   کو یہاں   پا لینا ایک مذاق تھا۔

’’ارے آپ لوگ یہاں   تنہائی میں   کیا کر رہے ہیں، یہ کھانے کا وقت ہے نہ کہ (تنہائی میں  ) ملاقات کا۔۔۔ ‘‘

زانا نے بڑے طنزیہ انداز میں   اس سے کہا، ’’تم بھوکے نہیں   ہو، بلکہ تم پیاسے ہو‘‘، پھر پانی بھری بالٹی اس کی طرف کرتے ہوئے بولی، ’’لو خوبرو نوجوان: تھوڑا سا پانی پی لو۔۔۔۔۔ ‘‘

لیکن جیکو نے خود کو زمین پر گرا لیا اور ہانپتے کانپتے،چشمے سے ہی پانی پیا۔

ضیافت میں   کھانے کے دوران ڈاکٹر کھلکھلایا جبکہ پادری نے اس کی طرف روٹی کے ٹکڑے پھینکے اور اسے تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ ڈاکٹر ہنستا رہا مگر گا ہے بگا ہے اس کی توجہ کسی اور طرف بھی مبذول ہوتی رہی اور کوئی نیا خیال بھی اس کے ذہن میں   آتا رہا۔ کھانا کھانے کے بعد وہ اس کٹیا کے پیچھے چٹانوں   کے سایے میں   جا کر لیٹ گیا، وہاں   سے وہ لوگوں   کو تو دیکھ سکتا تھا مگر اسے نہیں   دیکھا جا سکتا تھا، اس نے پورے علاقے کا طائرانہ نظارہ کیا، خاص طور پر اس درخت کا جہاں   بھیڑوں   کی اون اتاری جا رہی تھی۔ پادری اور اس کے ساتھیوں   نے (روایتی) گیت گانا شروع کر دیے تھے اور خواتین قطار میں   بیٹھ کر، بڑی توجہ سے، گیت سن رہی تھیں۔

اس خاموشی، آوازوں   اور گیتوں   کے بیچ کبھی کبھار قہقہوں   کی بھی آوازیں   سنائی دیتیں   جیسے نیلے آسمان کی لا محدود وسعت میں   ہلکے ہلکے باریک سفید بادل، ڈاکٹر یہاں   لیٹا گھوڑے کی گھاس چرنے کی آواز اور کٹیا کے اندر بیٹھے کتے کی ہڈی چبانے کی آواز بھی سن رہا تھا، جس کٹیا میں   جیکو بار بار اون سے بھری بوری خالی کرنے آتا تھا۔

جب گیتوں   کے مقابلے نے زور پکڑا تو زانا اچانک اٹھی اور کٹیا کے اندر چلی گئی۔ ڈاکٹر نے سگار پیتے ہوئے اسے دیکھا اور پھر اس نیلے دھاگے کو دیکھنے لگا جو اس کی سگار کے اوپر لگا ہوا تھا، پھر ایک خاص قسم کی کھلکھلاہٹ کی وجہ سے اس کے اوپر والا ہونٹ سکڑا اور اس کے دانتوں   میں   کی گئی سونے کی فلنگ دکھائی دینے لگی۔

جیکو ایک مرتبہ پھر کٹیا میں   داخل ہوا اور اس کٹیا کی درزوں   میں   سے زانا کی کیٹلی اور نیم کراہتی آواز سنائی دی، ’’میں   قسم کھاتی ہوں۔۔۔۔ اگر میں   جھوٹ بولوں   تو مجھے چیلیں   کھائیں۔۔۔۔ اس ڈاکٹر نے میرے ہاتھ کو بھی نہیں   چھوا۔ اس کے سامنے مسکرانے کی کوئی اور وجہ ہے۔۔۔ اور اس میں   ہمارے ہی بھلے کی بات ہے۔۔۔ لیکن یہ امتحان بھی گزر جائے گا۔۔۔ ختم ہو جائے گا۔۔۔ ‘‘

جیکو، جو بظاہر وہاں   صرف اون کی بوری خالی کرنے کی غرض سے آیا تھا، بالکل خاموش رہا، زانا بڑی بے تابی سے گفتگو کر رہی، اور اس کی آواز نفرت سے بھری ہوئی تھی ’’میرا کیا بنے گا؟ کیا میں   ہمیشہ تمہاری بیوی سے جلتی رہوں   ؟ کوّے کی طرح کی بوڑھی، لومڑی!۔ لیکن اب اس کا خاتمہ ہونے والا ہے۔۔۔ بہت جلد۔۔۔ ‘‘

پھر جیکو ہنس دیا، اور ایک مرتبہ پھر قہقہے، گیت گانے اور گھوڑے کے گھاس چرنے کی آوازیں   آنے لگیں۔

ایسے میں   ڈاکٹر نے چاہا کہ وہ ذرا محظوظ ہو۔ اس نے چھلانگ لگائی اور چیخنا شروع کر دیا: دیکھو ! لومڑی! لومڑی !‘‘

دونوں   چاہنے والے، حیرت میں ، کٹیا سے باہر بھاگے، جبکہ اس گروپ نے گیت گانا بند کر دیا، خواتین نے ارد گرد دیکھنا شروع کر دیا اور کتوں   نے بھونکنا شروع کر دیا جیسے واقعی کوئی لومڑی وہاں   سے گزری ہو۔

حوالہ جات

۱۔ اٹلی میں   سابقہ عہد میں   چلنے والا چاندی کا سکہ جو تقریباً ۹۷ امریکی سینٹس کے برابر ہے۔

۲۔ ایک ریالی–سابق ہسپانوی چاندی کا سکہ-جو تیرہ امریکی سینٹس کے برابر ہے۔

٭٭٭

٭٭٭

ماخذ:

اخبار اردو

http://www.nla.gov.pk/uakhbareurdu/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبی