FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

کچھ اہم زبانیں اور ان کا ادب

فہرست مضامین

نا معلوم

نوٹ: اس میں انگریزی اور اردو زبان و ادب الگ سے شائع کئے جا رہے ہیں۔

ماخذ:

۱۔اردو انسائکلو پیڈیا، کاؤنسل برائے فروغ اردو زبان، حکومتِ ہند

۲۔ویب پر ’اردو پیڈیا‘

http://urdupedia.in

 

فرانسیسی زبان و ادب

تعارف

 فرانسیسی زبان و ادب فرانسیسی کا تعلق زبانوں کے ہند آریائی خاندان سے ہے۔  یورپ کے جو علاقے اب فرانس کی حدو دمیں داخل ہیں وہ پہلے سلطنت روما میں شامل تھے۔  اور وہاں کی زبان لاطینی تھی۔  رومی حکمرانوں کی لاطینی ان علاقوں میں رفتہ رفتہ مسخ ہوتی گئی یہاں تک کہ اس کا حلیہ ہی بدل گیا اور ایک الگ زبان بن گئی جو فرانسیسی کہلائی۔  اپنی فطری خوبیوں اور اس کے علاوہ سیاسی حالات کی بنا پر فرانسیسی کو تدبر و  تفکر کی زبان کا ممتاز مقام مل گیا۔  اور تاریخ کے بعض ادوار میں یورپی سماج کے اونچے طبقوں کی تہذیبی زبان بھی یہی تھی۔

فرانسیسی زبان کی بنیاد اس بولی پر قائم ہوئی جو شمالی فرانس کے بعض علاقوں اور خصوصاً پیرس کے گرد و نواح میں بولی جاتی ہے۔  اپنے ارتقا کے سفر میں اس نے جنوبی فرانس کی بولیوں سے تیرہویں تا سولہویں صدی میں ، اطالوی زبان سے چودہویں تا سترہویں صدی میں ، ہسپانوی زبان سے سولہویں اور سترہویں صدی میں الفاظ مستعار لیے۔  اور اس کے علاوہ ولندیزی، عربی اور انگریزی سے بھی اپنے ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ کیا۔  جدید فرانسیسی زبان کے ذخیرے میں سب سے زیادہ اضافہ انگریزی الفاظ کی وجہ سے ہوا ہے اور انگریزی کا اثر اس درجہ حاوی نظر آتا ہے کہ اہل فرانس بطور استہزا اس اندیشے کا اظہار کرتے ہیں کہ کہیں ان کی زبان بگڑ کر فرانگ لے (Franglais) یعنی فرانسے (Francais)اورانگ لے (Anglais)سے مرکب دوغلی زبان بن کر نہ رہ جائے۔  فرانسیسی زبان نے دوسری قوموں کی زبانوں کے اثرات بڑی حد تک قبول کیے ہیں۔  لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ فرانسیسی کو زندہ رکھنے کے لیے وقتاً فوقتاً سرکاری اقدامات کی حمایت حاصل رہی۔  نتیجہ اس احتیاط کا یہ ہے کہ جدید فرانسیسی میں اور اس فرانسیسی میں جو آج سے چار پانچ سو سال پہلے بولی جاتی تھی بہ کم فرق پایا جاتا ہے۔  بیشتر دوسری زبانوں کے بارے میں یہ بات نہیں کہی جا سکتی۔

جغرافیائی تقسیم

فرانسیسی نہ صرف پانچ کروڑ اہل فرانس کی زبان ہے بلکہ یہ دنیا کے مختلف حصوں میں مزید پندرہ کروڑ افراد کی بھی یا تو مادری زبان یا سرکاری یا علمی زبان ہے۔  یورپ میں بلجیم کے ۳۵ لاکھ باشندے فرانسیسی بولتے ہیں۔  سوئزر لینڈ میں فرانسیسی بولنے والوں کی آبادی ۵۵ لاکھ یا اس سے زیادہ ہے اور اس لیے یہ ایک دو لسانی ملک بن گیا ہے۔  اس ملک میں سرکاری زبان کا درجہ دو زبانوں کو حاصل ہے۔  ان میں سے ایک فرانسیسی ہے اور دوسری انگریزی۔  افریقہ کی ساڑھے پانچ کروڑ آبادی کے لیے فرانسیسی سرکاری زبان ہے اور اس کے علاوہ نظم و نسق فرانسیسی نو آبادیوں یا زیر حمایت علاقوں سے ہے ، جیسے عرب مغرب، سابق فرانسیسی مغربی افریقہ، سابق فرانسیسی استوائی افریقہ، سابق فرانسیسی شمالی لینڈ اور جمہوریہ میلا گاشی (Masgache)جو پہلے مدغاسکر کہلاتا تھا۔  ان کے علاوہ وہ افراد بھی ہیں جو سابق بلجین کانگو سے تعلق رکھتے ہیں جس کا موجودہ نام جمہوریہ زیرے ہے۔  ہند چین میں جو پہلے ایک فرانسیسی نوآباد تھا فرانسیسی پہلے کی طرح اب بھی تہذیب وشائستگی کی زبان ہے اگرچہ سال بہ سال اس کے مقابلے میں انگریزی زبان اور ویٹ نام، کمبو ڈیہ اور لاؤس کی قومی زبانوں کا زور بڑھتا جا رہا ہے۔  مغربی ایشیا کے دو ملک لبنان اور شام، پہلے فرانس کے زیر حمایت تھے ، فرانسیسی ان کی پسندیدہ زبان ہے۔  اور یہی وجہ ہے کہ بیروف کی کم و بیش ۴۰ فی صد آبادی دو لسانی ہے۔  سمندر پار بحر اوقیانوس اور بحر الکامل کے فرانسیسی علاقوں اور مقبوضات میں بھی فرانسیسی سرکاری اور تہذیبی زبان کی حیثیت سے رائج ہے۔

آغاز

عام طور پر فرانسیسی زبان و ادب کی تاریخ میں معاہدات اسٹراسبورگ (Sermentde Strashourg)نقطۂ آغاز مانے جاتے ہیں۔  یہ وہ معاہدات ہیں جو ایک مشترکہ دشمن (ایک عجیب بات یہ ہے کہ جرمن ادب کا آغاز بھی انہی دستاویزات سے ہوا) کے خلاف مقامی سرداروں نے آپس میں کر لیے تھے۔  لیکن ادب میں شمار کیے جانے کے قابل فرانسیسی زبان کی تحریروں کا بارہویں صدی کے آغاز سے قبل پتہ نہیں چلتا۔  بارہویں اور چودھویں صدی شانسوی دی گیسٹ (Chansons de Geste)وہ رزمیہ نظمیں ہیں جن میں فلسطین میں شارلمان (Charlemagene) کے زیر قیادت جنگ جو عیسائیت کے صلیبی محاربات (۱۰۹۶) یاہسپانیہ کے مسلمانوں کے خلاف فوجی مہمات کے گیت گائے گئے ہیں۔  اس دور میں فرانس کے جنوبی علاقے لانگ دو (Langue Doe)میں نغز گو شعراTroubadoursنے اپنے کلام میں جانباز عاشق کی اپنی محبوبہ سے والہانہ محبت کی واردات بیان کی ہے۔  جس میں آئین و آداب عشق کا پورا لحاظ رکھا گیا ہے۔  ان گیتوں میں رقیب کی ریشہ دوانیوں ، عاشق کی محرومیوں اور عشق کے تقاضائے نبرد پیشگی کی تصویر کھینچی گئی ہے۔  کرے تیان دی تروا (Chretien de Tryes)نے راؤنڈ ٹیبل کے سورماؤں کے معرکوں کی داستان بیان کی ہے۔

 

چودھویں اور پندرہویں صدی

ان صدیوں کے دوران ادب کے خد و خال سابقہ ادوار کی روایات کے مطابق ہی تھے۔  البتہ ایک نیا عنصر ادب میں داخل ہوا۔  اور وہ تھا ڈرامہ نگاری کا آغاز۔  جہاں تک سنجیدہ ڈرامہ نویسی کا تعلق ہے اس کے موضوعات تو ولادت مسیح اور ان کے مصلوب ہونے کے واقعات تک محدود ہے۔  لیکن ساتھ ہی ساتھ ہر قسم کے تکلف و تصنع سے بری، بے باک مزاحیہ تمثیلیں پہلی بار منظر عام پر آنے لگیں۔  اس عہد میں سب سے زیادہ اہم شخصیت بلا شبہ فرانسواویون (Francois Villon)(۱۴۳۱۔  ۱۴۶۲ء) کی تھیں۔  ویون شاعر بھی تھا اور مہم جو سرفروش بھی جو کئی بار جیل کی ہوا کھا چکا تھا۔  جہاں تک شاعرانہ پرواز تخیل اور خلوص اظہار کا تعلق ہے وہ بجا طور پر فرانس کے نغز گو شعرا کا امام مانا جاتا ہے۔  اس کا شاہکار ۲۰۰۰ مصرعوں پر مشتمل ایک طویل ’’لی تست مان‘‘(Le Testament)ہے۔  اس میں سماج کے ٹھکرائے ہوئے ناکام عاشق کا کردار پیش کیا گیا ہے جو افلاس، فاقہ کشی، جسمانی اذیتوں اور امراض کا شکار رہا ہے لیکن زندگی سے مایوس نہیں ہوا۔  اس کے قلب میں زیست کی چنگاری ابھی کجلائی نہیں ہے اور وہ زندگی کی معمولی خوشیوں کو بھی گلے لگاتا اور ہر  لمحۂ مسرت کو کمال شوق سے نچوڑ لیتا ہے۔  ویون نے اپنی شاعری میں نغمگی ادبی زیبائشوں اشارے کنائے کی حدود سے آگے قدم بڑھا کر موت کی وحشت ناک اذیتوں کا بھیانک منظر پیش کیا ہے۔

سولہویں صدی

سولہویں صدی کے نصف اول میں فرانسو اول (Francois I)کے مصاحب کلے ماں مارو (Clement Marot)(۱۴۹۶ء۔  ۱۵۴۴ء) کی درباری اور مذہبی شاعری کا رنگ حاوی رہا۔  لیکن تبدیلی کے آثار بھی نمایاں ہو چکے تھے۔  خود مارو کے بارے میں شبہ ہونے لگا تھا کہ اسے مذہبی اصلاح کی تحریکوں سے ہمدردی ہے لیکن وجدان کا سرچشمہ یونان دوست رجحانات کا زبردست ترجمان تھا۔  اس کے وجدان کا سرچشمہ یونان و روما کا قدیم قبل مسیح دور تھا۔  وہ خود لذیت کا پیرو تھا اور اس نے اپنے ناول ’’گارگان تیوا اور پاتان گوپل (Gargatua and Pantagrue) میں دیو قامت انسانوں کی دو نسلوں کی جو تصویر پیش کی ہے وہ فطرت انسانی سے متعلق اس کے نئے فلسفے (جو جی میں آئے کر جاؤ) اور نظریۂ لذیت کے نظام اخلاق و کردار کی ایک انبساط انگیز ترجمانی ہے۔  ربیلے کی تصانیف خیال کی نیر نگی اور رندانہ شوخی کی بدولت نہایت دلچسپ ہیں۔  بقول والٹیروہ ایک بدمست فلسفی تھا۔  اس کے مطالعے کو صرف تفریح طبع تک محدود سمجھا جائے تو یہ بڑی ناانصافی ہو گی۔  ربیلے نشاۃ ثانیہ کی ایک نہایت زبردست اور نمایاں شخصیت کا حامل تھا جو سائنس طب اور مختلف زبانوں کے علم و کچقتاًعرفاں سے سرشار تھی۔  اس نے لاطینی زدہ مدعیان فضل و کمال کے پرخچے اڑا دئیے۔  اس کے تخلیق کردہ کردار بڑے جاندار ہیں جو ہر قسم کی مبالغہ آمیزی کا بوجھ بہ آسانی سہار سکتے ہیں۔  اور قاری کی رہنمائی ایک ایسی تخیلی دنیا کی سمت کرتے ہیں جہاں تک رسائی صرف اتفاق سے نہیں ہوتی بلکہ اس میں تھوڑی بہت پر خلوص کوشش کا بھی دخل ہوتا ہے۔

  مثل موں تاں (Michel Montaigen) (۱۵۳۳ء۔  ۱۵۹۲ء) ایک نہایت ممتاز مضمون نگار (Essayiste)تھا جس نے مسلک انسان دوستی سے تعلق رکھنے والے پیشرو دانشوروں کی گرم گفتاری میں اعتدال پیدا کرنے کو کوشش کی۔  اس کے مقالوں کی نمایاں خصوصیت معقولیت پسندی اور رواداری ہے۔  ربیلے لذت پرست تھا تو موں تاں بالکل اس کی ضد یعنی زاہد خشک تھا۔  تحریر میں جہاں صرف ایک توصیفی لفظ سے کام چل سکتا ہو ربیلے بیسوں الفاظ استعمال کرتا تھا۔  لیکن موں تاں الفاظ کا استعمال بڑی احتیاط سے اور ہاتھ روک کر کرتا تھا۔  اگرچہ موں تاں نے یورپ کے مختلف ملکوں کی سیاحت بھی کی لیکن اس کے ذہن کی تشکیل میں اس کے داخلی سفر اور قلبی وارداتوں کو بڑا دخل تھا۔  اس نے خود اپنے کردار کا مرقع پیش کیا ہے۔  اس خیال سے نہیں کہ وہ خود کو ایک انوکھی شخصیت سمجھتا تھا بلکہ اس لیے کہ ’’ہر فرد بجائے خود انسانیت کا ایک مکمل نمونہ ہے ‘‘ وہ بول چال کی زبان بے تکلف استعمال کرتا ہے۔  اس کا قلم لکھتا نہیں بولتا ہے۔  مثال کے طور پر یہ چند جملے پیش کیے جا سکتےہیں ’’ لاعلمی کے تکئے کے کیا کہنے ، بڑا ہی آرام دہ ہوتا ہے ‘‘ یا یہ جملہ ’’یہ ایسا ہی ہے جیسے گدھے کو دم آگے کی طرف رکھ کر جوتا جائے ‘‘۔

اس صدی کے وسط کے لگ بھگ فرانسیسی عشقیہ شاعری کا بھی احیا ہوا جس کے علمبردار پیروی ران سار (Pierre de Ronsard) (۱۵۲۴ء۔  ۱۵۸۵ء) اور جواکم دیو بیلے (Joachim Dubellay)(۱۵۲۲ء۔  ۱۵۶۰ء) تھے۔  ان کے علاوہ شعرا کا وہ گروہ بھی تھا۔  جو پلے ای یاد (Pleiade)یعنی سیارہ کہلاتا ہے۔  دیو بیلے (Dubellay)اس نئی ادبی تحریک کے نظریہ کا ماہر مانا جاتا ہے۔  رونسارڈ اس کا سب سے زیادہ باکمال نمائندہ ہے۔  اس نے سانیٹوں (Sonnets)کے ذریعہ اپنی محبوبہ کو امر بنا دیا۔  اس کی یہ نظمیں عشقیہ شاعری کی غیر فانی تخلیقات میں شمار کی جاتی ہیں۔  پلے ای یاد کے مسلک اور رونسارڈ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ ان کے زیر اثر فرانسیسی شاعری ارتقا کے سفر میں ہم عصر انسان دوستانہ علوم کی ہم قدم بن گئی اور اس کا رشتہ یونانی اور لاطینی نظم کی روایات سے زیادہ راست طور پر جڑ گیا۔  اس مسلک نے نظم میں خارجی تبدیلیاں بھی کیں۔  بعض پرانی صنفوں کو بالکل ترک کر دیا گیا اور سانیٹ کی سدا بہار بارہ رکنی بحر کو مقبولیت کے معراج کمال پر پہنچا دیا گیا۔  سترہویں صدی اس صدی کے ابتدائی دور میں اہل قلم نے ادب کی مختلف اصناف میں ہیئت اور اسلوب کے تعین کی کوشش کی۔  اور موضوع مواد اور خیال کے تعلق سے بھی اصول اور ضابطے بنائے۔  فرانسو دی مالہرب (Francois de Malherbe)(۱۵۵۵ء۔  ۱۶۲۸ء) کی اگرچہ بہ حیثیت شاعر کوئی خاص اہمیت نہیں لیکن وہ عقل کل بنا ہوا تھا اور اس کا بڑا اثر تھا۔  اس نے اظہار میں سادگی اور سلاست پر زور دیا۔  یہ اسی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ فرانسیسی شاعری کو ان گھٹیا نظم گویوں کے شکنجے یس جو پلے ای یاد (Pleiade) کے پیرو تھے نجات مل گئی۔  یہ اس درجہ اہم کارنامہ تھا کہ بوالو (Boileau)نیاسے فرانسیسی نظم کا بابا آدم قرار دیا۔

رینی دیکارت

 Desacarites۱۵۹۶ء۔  ۱۶۵۰ء) نے جو نہ صرف ایک فلسفی بلکہ ماہر ریاضیات و طبیعیات بھی تھا صاف اور واضح طرز فکر اور اظہار خیال کے اصولوں پر مبنی آفاقی اصول پیش کیے۔  وہ فرانس کی اسپرٹ کے ایک پہلو سے کارتیسی عقلیت کا ترجمان تھا۔  اس نے اپنے طرز فکر کی جس تحریر میں وضاحت کی وہ در اصل فلکیات سے متعلق ایک کتاب کا پیش لفظ تھا۔  اس پیش لفظ کے لیے اس نے لاطینی کے مقابلے میں فرانسیسی زبان کو ترجیح دی۔  دیکارت کی یہ تحریر فرانسیسی نثر کی تاریخ کا ایک سنگ میل بن گئی کیوں کہ اس میں ایک مجرد اور خیالی موضوع پر غیر معمولی سادہ اور سلیس انداز میں اظہار خیال کیا گیا تھا۔  دیکارت کا طرز فکر ازمنۂ وسطی کی منطق کے بالکل برعکس تھا۔  دیکارت کی نمایاں خصوصیات یہ تھیں کہ اس نے نہ تو کہیں مسلمات کا حوالہ دیا اور نہ کسی مذہبی اور برتر عقیدے کاسہارا لیا۔  وہ کہتا ہے کہ انسان کو چاہئے کہ جس بات کا اسے مکمل علم ہے اور جو پوری طرح اس کی سمجھ میں آتی ہے فکر کی بنیاد اسی پر رکھے۔  غیر ذات کا وجود حقیقی ہو یا نہ ہو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میں وجود رکھتا ہوں۔  جو وجود نہیں رکھتا وہ سوچ نہیں سکتا ’’میں سوچتا ہوں لہذا میں وجود رکھتا ہو‘‘ دیکارت کے نظام فکر کا بھی معقول اور قابل قبول نقطۂ آغاز بن گیا۔  اس کے مطابق تسلیم کر لیا گیا کہ ایک خالق ہے جس نے انسان کو عقل و شعور سے بہرہ ور کیا ہے مخلوق کو نہ تو کوئی فریب دے سکتا ہے اور نہ گمراہ کر سکتا ہے بشرطیکہ انسان اپنی فکر کو معقول تشکیک کی حدود میں رکھے۔  سترہویں صدی کا یہ مفکر اعظم اٹھارہویں صدی کی عقلیت کانقیب مانا جاتا ہے۔  اگرچہ غائر نظر سے دیکھا جائے تو یہ کہنا آسان نہیں کہ خود دیکارت عقلیت کے مسلک کاپیرو تھا یانہیں۔

 پی یر کار نیے (Pierre Corneille)(۱۶۰۶ء۔  ۱۶۸۴ء) اور ژاں را سین (Jean Racine)(۱۶۳۹ء۔  ۱۶۹۹ء)

  پی یر کار نیے (Pierre Corneille)(۱۶۰۶ء۔  ۱۶۸۴ء) اور ژاں را سین (Jean Racine)(۱۶۳۹ء۔  ۱۶۹۹ء)نے  فرانسیسی المیہ ڈرامے کے خدو خال کی ترتیب و تشکیل میں باضابطگی پیدا کر کے اسے ادب عالیہ کے بلند مرتبے پر پہنچا دیا کارنیلی فرانسیسی کلاسک تھیٹر کا بانی مانا جاتا ہے۔  اس نے ڈرامہ کے چیستانی عناصر کو ترک کر کے کردار نگاری پر زور دیا۔  اس کے پیرو اگرچہ گوشت پوست کے انسان ہی ہیں لیکن روحانی عظمت کے حصول کی دھن میں رہتے ہیں۔  اور ان میں ایک فوق الانسان جذبہ کار فرما نظر آتا ہے جس کی مدد سے وہ جبراً تقدیر کو اپنی راہ سے ہٹانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔  ان کے اولو العزمی کے ان کارناموں کو نظم کے قالب میں ڈھالا گیا ہے جس کے اشعار چراغِ ہدایت سمجھے جاتے ہیں۔  راسین کے مسلک میں نفس امارہ ایک سفلی طاقت ہے جو بالآخر اور بہر حال انسان کو پستی کے گڑھے میں ڈھکیل دیتی ہے راسین کی منزل مقصود کلاسیکل المیہ ہے۔  اس کے ڈرامے کا پلاٹ سادہ اور سیدھا ہوتا ہے اور کہانی نمایاں طور پر آگے بڑھتی جاتی ہے۔  پلاٹ کے چوکھٹے میں کردار انتہائی جوش و جذبہ سے اپنا رول ادا کرتے ہیں۔

بلیسز پاسکال

Blaise Pascal ۱۶۲۳ء۔  ۱۶۶۲ء) ریاضیات و طبیعیات کا ماہر فلسفی اور مذہبی مناظرہ کار تھا۔  اخلاقی اعتبار سے یہ صدی سب سے زیادہ متاثر اسی سے ہوئی ہے۔  لے پراوینشال (Les Provenciales)اس کے مناظراتی مکاتیب کا نام ہے جو جانسزم (Jansenism)کٹر عقائد کی تائید میں لکھے گئے ہیں۔  یہ وہ مکاتیب ہیں جن کی نگارش کو یسوعیوں اور ان کے علاوہ بعض کیتھلک پادریوں نے بھی بدعت قرار دیا۔  پاسکل اپنی تصنیف ’’استعذار عیسائیت‘‘ کی تکمیل نہ کر سکا۔  اس کے صرف چیدہ چیدہ حصے ہی لے پانسے (La Pensee)کے عنوان سے شائع ہوئے۔  ان کی اشاعت فرانسیسی نثر کے اسلوب اور ہیئت پر بہت اثر انداز ہوئی اور سلیس و شستہ انداز میں اظہار خیال کے لیے راہ ہموار ہو گئی۔  جہاں تک اخلاقی اثر کا تعلق ہے ان مکاتیب کی اشاعت نے اس صدی کی توجہ کو انسانی طرز استدلال کی کوتاہیوں اور گمراہیوں پر غور و خوض کی جانب موڑ دیا۔  یہی وہ اسباب تھے جن کی بنا پر کہا جاتا ہے کہ پاسکل نے فرانسیسی کلاسزم کے لیے راستہ صاف کیا۔  ایک لحاظ سے اسے بیسویں صدی کی تحریک وجودیت کا نقیب بھی کہا جا سکتا ہے۔  وہ تلاش حق کی راہ میں ایسی تعقل پسندی کو شبہ کی نظر سے دیکھتا تھا جسے مذہبی عقائد کی تائید حاصل نہ ہو کیونکہ ’’دل کی منطق کچھ اور ہے جس سے خرد آشنا نہیں ‘‘ وہ اپنی جستجو میں نری منطق کے نتائج سے رو گردانی کرتا ہے ، چاہے استدلال بدنیتی پر مبنی ہو یا خیر اندیشی پر۔  پاسکل اس دہشت انگیز راز سربستہ پر اپنی فکر کو مرکوز کرتا ہے جس سے حیات انسانی جڑی ہوئی ہے۔  پاسکل کا انسان ایک ایسا ملاح ہے جس کی کشتی سخت طوفانوں میں جھکولے کھا رہی ہے اور ملاح کشتی کو پار لگانے کے لیے سخت جدو جہد پر مجبور ہے چاہے اس میں کامیابی ہو یا نہ ہو۔  اس اعتبار سے وہ سارتر کے انسان کی خبر دیتا ہے جس نے خود کو ایک نظرئیے کا پابند کر لیا ہے جو ہر لمحہ جہد حیات پر مجبور ہے۔  اور جو اپنے ہر عمل کا خود اپنے آپ کو ذمہ دار قرار دیتا ہے۔  کلاسیکی نظریات کے مطابق ادب میں حصول کمال کے لیے اسلوب سے متعلق مقررہ قاعدوں کی پابندی، ربط عبارت، بندش کی ہم آہنگی اور اظہار خیال میں اعجاز و اختصار لازمی ہے۔   یہ خوبیاں ژاں دی لافونتئین (Jean de La Fonlaine)(۱۶۲۱ء۔  ۱۶۸۵ء) کی حکایات۔  نکولا بولو (Nicolas Boileau) (۱۶۳۶ء۔  ۱۷۱۱ء) کے کلام روش فوکولڈ (Roche Foucold)کی نگارشات، ڈیوک فرانسوا (۱۶۱۳ء۔  ۱۶۸۰ء) کے حکیمانہ اقوال، ژاں دی لا بروایر (Jean de la Bruy ere)(۱۶۴۵ء۔  ۱۶۹۶ء) کے مکاتیب ژاک باسیوے (Jacques Bossuet)کے تعزیتی خطبات فرانسو دی سالین (Francois de Salignne)کے سائنسی موضوعات پر مقالات رسین کے المیہ ڈراموں اور مشہور عالم ڈرامہ نویس مولیر (۱۶۲۲ء۔  ۱۶۷۳ء) کے مزاحیہ ڈراموں میں نظر آتی ہیں۔

مولیر کا اصل نام ژاں باپتست پاکلے (Jean Baptiste Poquesliu)تھا وہ صرف ڈرامہ نگار ہی نہیں تھا بلکہ ڈائرکٹر اور اداکار بھی تھا اس نے نہ صرف لوئی چہاردہم سے خراج تحسین حاصل کیا تھا بلکہ پیرس اور اضلاع فرانس کے عوام میں بھی بہت مقبول رہا۔  مولیر نے ڈرامہ نگاری کے بڑے کرتب اور کرشمے دکھائے۔  نہ صرف مضحکہ اور مزاحیہ تماشے لکھے بلکہ انتہائی اعلی اور شائستہ مذاق کے ڈرامے بھی پیش کیے۔  مولیر نے ناظرین کو ہنسانے اور ان کا دل موہ لینے کے تمام امکانات سے کام لیا۔  اس کی بیشتر شاہکار تمثیلیں وہ ہیں جن میں ممتاز شخصیتیں روحانی سطح پر کسی کوتاہی کا شکار ہو جاتی ہیں۔  اور اس کے یہ کردار اس نوع کے آفاقی نقش اول کی حیثیت رکھتے ہیں۔  مولیر کی رائے میں عقل سلیم اور دانش مندی کا تقاضہ یہ ہے کہ کسی معاملے میں بھی غلو سے کام نہ لیا جائے۔  یہاں تک کہ نکوکاری میں بھی غلو سے بچنا چاہئے۔  اچھا آدمی وہ ہے جو فطرت انسانی پر عقل سلیم کی جانب سے عاید کردہ حدود کو پیش نظر رکھتا ہے۔  مولیر کے کئی ڈرامے اہم اور قابل ذکر ہیں۔  ان میں سے ایک ڈرامہ ’’لی تارتیوف (Le Tartuffe)ہے یہ ایک مکار، منافق کی کہانی ہے جو زہد و تقویٰ کی آڑ لے کر ایک خوش اعتقاد خدا ترس خاندان کو تباہ و برباد کرنے کی چالیں چلتا ہے۔  دوسرا دل چسپ ڈرامہ ’’لی مساتھر وپ‘‘ (Le Misanthrope)ہے۔  اس میں ایک مردم بے زار کا کردار پیش کیا گیا ہے جو ہر معاملے میں صرف سچائی اور دیانت داری کو اہمیت دیتا اور اس پر مصر رہتا ہے۔  نتیجہ یہ ہے کہ ضرورت سے زیادہ شرافت اور نکو کاری ہی اس کی خرابی کاسبب بن جاتی ہے۔  مولیر کا ڈرامہ ’’ڈان جو آن‘‘ (Don Juan) اس کاسب سے زیادہ مشہور و مقبول ڈرامہ ’’لی بورزواجان تیم‘‘ (Le Bourgeois Gentilhomme)ہے جس میں ایک بیوپاری دولت مندوں کے شائستہ اور نستعلیق طبقے میں داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے۔  تو بڑی مضحکہ خیز صورت حال پیش آتی ہے۔  مولیر بلا شبہ جدید فرانسیسی مزاحیہ ڈرامہ کا بانی تھا۔  اس کی تخلیقات کی مقبولیت کو زوال نہیں۔  فرانس میں اس کی یاد کو برقرار رکھنے کے لیے ’’لاکامیڈی فرانیس تھیٹر‘‘ بھی قائم کیا گیا ہے۔

اٹھارہویں صدی

اس صدی کے دوران کارتیسی عقلیت پسندی کے زیر اثر تنقیدی اور سائنسی رجحان کو فروغ ہوا۔  چنانچہ یہی وجہ ہے کہ نثر میں اس کی تصانیف کا غلبہ رہا جن کا مقصد زیادہ تر یہ تھا کہ نفس مضمون کو جہاں تک ممکن ہو فطری انداز سے سیاسی اور معاشی حالات کی روشنی میں تجزیہ کر کے پیش کیا جائے تاکہ جو بات کہی جائے وہ قاری کے پہلے پڑ سکے۔  یہ رجحان اس درجہ حاوی تھا کہ اس صدی میں صرف ایک نغز گو شاعر آندرے شینیے (Andre Chenier)(۱۷۶۳ء۔  ۱۷۹۴ء) منظر عام پر آیا لیکن وہ بھی کوئی نمایاں مقام حاصل نہ کرسکا اور دور دہشت میں گلو ٹین یا سولی کی نذر ہو گیا۔  والٹیر مسلمہ طور پر اس صدی کا سب سے بڑا مصنف تھا۔  اس کا اصل نام فرانسو ماری آروے (Francois Marie Arouet) (۱۶۹۴ء۔  ۱۷۷۸ء) تھا۔  والٹیر نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شعر گوئی اور ڈرامہ نگاری سے کیا۔  ۱۷۳۴ء میں فلسفیانہ مکاتیب کی اشاعت کے بعد اسے شہر بدر کر دیا گیا۔  بعد میں ادیب کی حیثیت سے اس نے بڑی شہرت حاصل کی۔  اس کے چند سال بعد والٹیر نے اپنے پمفلیٹوں اور مکاتیب میں عدالتی ناانصافیوں کے شکار شدہ افراد کی باز آباد کاری کے لیے رائے عامہ کو ہموار کیا۔  شارل دی سکوندادیماتیسکیو (Charles ae secondat de Montestquieu) (۱۶۸۹ء۔  ۱۷۵۵ء) نے اپنی تحریروں کے ذریعہ مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے اختیارات کے علیحدہ علیحدہ تعین کی تحریک کو بڑی حد تک آگے بڑھایا۔  دور انقلاب کی اولین جمہوریہ کا آئین اسی کے افکار و خیالات پر مبنی تھا۔  دینی دیدرو DenisDiderot) ۱۷۱۳ء۔  ۱۷۸۴ء) فرانسیسی مسلک عقلیت پسندی کا سب سے زیادہ سر برآوردہ نمائندہ تھا۔  وہ انسائیکلوپیڈیا (Encyclopaedie) کا اہم ترین معمار تھا اور اس نے بے شمار مشکلات کے باوجود یہ کتاب ۱۷۳۱ء میں شائع کر دی۔  دیدرو کے ناول نہایت دل چسپ ہیں۔  اس کے زور قلم کی داد دینی پڑتی ہے۔  ذہنی بیداری کی اس صدی میں وہ تھیٹر سے متعلق نظریات کا ایک عظیم المرتبت ماہر مانا جاتا ہے۔

ژاں زاک روسو (Jean Jacques Rousseau) (۱۷۱۲ء۔۱۷۷۸ء) ایک گوشہ نشین آدمی تھا۔  اس نے کوئی باضابطہ تعلیم حاصل نہیں کی اور جو کچھ سیکھا بخت و اتفاق سے سیکھا۔  روسو کی ایک تحریر پر ’’دیژاں ‘‘ (DiJon)کی اکیڈمی نے انعام دیا تو وہ یکایک مشہور ہو گیا۔  اس میں نظم و ضبط کا خاص ملکہ تھا۔  اور جب وہ کوئی نظریہ پیش کرتا تو اسے منطق کی آخری حد تک پہنچادیتا تھا۔  روسو کا خیال تھا کہ انسان فطرتاً نیک سیرت پیدا ہوتا ہے لیکن سماج جس میں وہ رہتا بستا ہے اسے بگاڑ دیتا ہے۔  لہذا نجات اسی میں ہے کہ انسان اپنی ازلی نیکی کی جانب مراجعت کرے۔  وہ بستی کے شور و شغب سے دور تنہائی میں مظاہر فطرت کے درمیان تفکر کا عادی تھا اور اس میں اسے بڑا لطف آتا تھا۔  روسو نے سیاسیات اور تعلیم سے متعلق نئے نئے خیالات پیش کیے جو انقلاب فرانس کے لیے نصب العینی اساس کی تشکیل میں بڑی حد تک مفید ثابت ہوئے۔

انقلاب فرانس کی ناکامی کے بعد کے دور میں فرانسیسی ادب میں رومانیت کی تحریک کا آغاز بھی رسو کی افکار کی بدولت ہوا۔  پی یرکارل دی مارلو (PierreCarlet de Marivaux) (۱۶۸۸-۱۷۶۳ء) نے بلند پایہ، پُرلطف و پُر کار مزاحیہ تمثیلیں لکھیں۔  اس کے تمامے ڈرامے عشق و محبت کی نفسیات سے متعلق ہیں۔

پی یر اگستین باروں دی بوماثے (Pierre Augustin Caron de Beaumarchais)۔  (۱۷۳۲ء۔۱۷۹۹ء) نے جو ایک آزاد رَو، رند مشرب سرفروش تھا، دو چونکادینے والے ڈرامے باربئے دی سیویل (Babier de Seville)کے نام سے لکھے ہمعصر فرانسیسی سماجی پر یہ ایک تیز و تند اور بے باکانہ تنقید تھی۔  ڈراموں کی اشاعت اس زبردست جوش و خروش میں شدت پیدا کر گئی جو بالآخر دھماکہ بن کر ۱۷۸۹ء میں انقلاب فرانس کی شکل میں پھوٹ پڑا۔  اس نے انقلاب کے لیے بہت کچھ کیا تھا لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جب انقلاب کے لیے بہت کچھ کیا تھا لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جب انقلاب کا آتش فشاں پھٹ پڑا تو وہ اس کے بارے میں ایک نہایت معمولی جذباتی میلو ڈرامہ کے سوائے کچھ اور نہ لکھ سکا۔  اور زمانے نے بجا طور پر اس کی اس تصنیف کو طاقِ نسیاں کے حوالے کر دیا۔

رومانیت

انیسویں صدی نصف اوّل اٹھارہویں صدی کے اواخر میں جب انقلابِ فرانس کے مقصد کی پیش رفت کے تعلق سے مایوسی پھیل گئی تو ادب پر داخلیت کا رنگ چڑھنے لگا اور عقلیت پسندی سے بیزاری کا اظہار کیا جانے لگا۔  فرانسورینے وائکوم تے دی شاتوبریاں (Francoisrene Vicomte de Chateaubriand ۱۷۸۶ء۔۱۸۴۸ء) اور ’’مادام دی رسٹال‘‘ (۱۷۶۶ء۔۱۸۱۷ء) کی تصانیف سے فرانسیسی ادب میں رومانیت کے ایک پُر زور تحریک بن جانے کے امکانات کا پتہ چلتا ہے۔  رومانیت کی تحریک نے کلاسیکی اسلوب کے خلاف سخت ردّ عمل کی شکل اختیار کی۔  اس کے زیر اثر لکھنے والوں کا طائرِ فکر زماں و مکاں کی بندشوں سے آزاد ہو کر بلند پروازی کرنے لگا اور ان کی تخلیقات میں قومی المیے کی جانب اشارے بھی ملتے ہیں۔

الفانسے دی لامارتین۔  Alphonse de Lamaretine) ۱۷۹۰-۱۸۶۹ء)کو رومانیت کے اولین نغز گو ترجمان ہونے کا امتیاز حاصل ہے لیکن اس تحریک کو معراج کمال پر پہنچانے کا سہرا وکٹرہیوگو (۱۸۰۲ء۔ ۱۸۵۵ء) کے سر ہے۔  وکٹر ہیوگو ایک سربرآوردہ شاعرِ رزم و بزم ہونے کے علاوہ ناول نگار ڈرامہ نویس بھی تھا۔  اور اس صدی کے بیشتر حصے میں اس کا مقام سب سے زیادہ بلند و بالا نظر آتا ہے۔  اس نے کئی ضخیم ناول لکھے۔  لے میز رابل (Les Miserables)نامی ناول ژان وال ژان نامی ایکمجرم کی بپتا ہے جو قید سے رِہا ہونے کے بعد شریفانہ زندگی بسر کرنا چاہتا ہے لیکن پولیس کے روپ میں سماج سایہ کی طرح اس کا تعاقب کرتا ہے۔  لانو تردام دی پاری (La Notre Dame de Paris)کی کہانی یہ ہے کہ ایک کبڑا جو گونگا بہرا بھی ہے ایک جپسی حسینہ پر دل و جان سے فریفتہ ہو جاتا ہے۔  سوز عشق کی آگ کبڑے کے سینے میں دہکتی ہے کسی اور کو خبر نہیں ہونے پاتی۔  اپنی مشہور نظم لی لجندی دِی سکل (le Legend Dussiecle)میں اس نے پرواز تخیل کا غیر معمولی کرشمہ دکھایا ہے۔  اس نے ڈرامے بھی لکھے جن کے بارے میں بڑی بحثیں چھڑ گئی تھیں اور جو بہت کامیاب ثابت ہوئے۔  وکٹر ہیوگو نے ڈراموں پر جو پیش لفظ لکھے تھے وہ جدید تھیٹر کی تحریک کے منشور کی حیثیت رکھتے ہیں۔  اس نے ملک کی سیاسی صورتحال سے متعلق پمفلٹ بھی لکھے جو فکر انگیز بحث کا موضوع بن گئے تھے۔  یہ تحریریں زیادہ تر اس زمانے کی ہیں جب وہ شہر بدر کر دیا گیا تھا۔  ان میں اس نے نپولین اعظم کے بھتیجے نپولین ثالث سے نفرت و حقارت کا اظہار کیا تھا۔  وکٹر ہیوگو کی تصانیف نہ صرف فرانس میں مشہور و مقبول ہیں بلکہ اس جیسی عالمی شہرت کسی اور فرانسیسی مصنف کو نصیب نہ ہوسکی۔

رومانی تحریک سے تعلق رکھنے والے چند اور اہلِ قلم بھی ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔  ان میں الفرے دی وینی۔  (Alfred de Vigny)(۱۷۹۷ء۔۱۸۶۳ء) الفرے دی میوسے (Alfred de Musset)۔  (۱۸۱۰ء۔۱۸۵۷ء) نامی شاعر اور ڈرامہ نویس شامل ہیں۔

اس صدی کا نصفِ اول اس وجہ سے بھی شاندار ہے کہ اس میں دو عظیم ناول نگار ایسے پیدا ہوئے جنہیں کسی بھی ادبی مسلک سے وابستہ نہیں کیا جا سکتا۔  ان میں سے ایک آنرے دی۔  بالزاک (Homore de Baaalzac)۔  (۱۷۹۹ء۔۱۸۵۰ء) ہے جس نے انقلاب فرانس کے بعد کے زمانے کے پیرس کی مسخ شدہ سوسائٹی کی برائیوں کو بے نقاب کرنے کے لیے تقریباً ایک سو ناول لکھے اور دو ہزار کردار تخلیق کیے۔  اس نے ناولوں کا ایک سلسلہ ’’ کامیڈی ہیومین‘‘ (La Comedie Humain)۔  دانتے کی ’ڈیوائن کامیڈی‘‘ کی ریس میں شروع کیا۔  اور ان کی ذیلی تقسیم ’’ خانگی زندگی‘‘ دیہی زندگی ’’ پیرس کی زندگی‘‘ کے عنوانات کے تحت کی۔  اس کے ہر ایک ناول بجائے خود مکمل ہے۔  لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ایک ناول کے کردار دوسرے ناولوں کے صفحات میں بھی نظر آتے ہیں۔  مثال کے طور پر ایک جرائم پیشہ کردار جس کا نام واترین (Vautrin) ہے یا دیہی علاقے کا ایک وجیہہ مگر نودولیتے نوجوان جو بالزاک کے مختلف ناولوں میں ملتا ہے اور جو قلبِ ماہیت کر کے ایک بد دیانت سیاست داں بن جاتا ہے۔

 اس دور کا دوسرا ناول نویس آنری بیل (Henri Beyle)جس کا ادبی نام استیندال Stendhal) ۱۷۸۳ء۔۱۸۴۲ء) تھا بالزاک ہی کی طرح مشہور ہوا۔  وہ ایک بے مثال ناول نویس تھا جس نے نپولین کے دور کے ہنگاموں اور امکانات کو اپنا موضوع بنایا۔  اس کی غیر فانی شہر دو ناولوں پر مبنی ہے جن کے نام لی روژائے لی نوار (Le Rauge et Le Noir)اورل شیار تریز دی پم (La Chartrense De Parme)ہیں۔  اگر چہ اس نے ان کے علاوہ بھی کئی ناول لکھے ہیں۔  اول الذکر  جولین سارل کی کہانی ہے جو دیہی علاقے کے لکڑہاروں کے خاندان میں پیدا ہوا تھا۔  جولین اپنی صورت شکل کے زور سے اعلیٰ سوسائٹی میں اپنے لیے جگہ نکال لیتا ہے جس میں اس دیہی علاقے کی ایک با اثر خاتون اور پیرس کی ایک لڑکی کی وارفتگی سے مدد ملتی ہے۔  یہ ناول ایک حزنیہ ہے۔  سارل اپنی محبوبہ کو قتل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اقدام قتل کے الزام میں اسے سولی دی جاتی ہے۔  فیبرس دل دنگو (Fabrice Deldongo)اس کے دوسرے ناول کا ہیرو ہے۔  ناول ایک چھوٹے سے اطالوی قصبے کی زندگی عشق و محبت کی واردات اور سازشوں سے متعلق ہے۔

انیسویں صدی نصف آخر

اس صدی کے نصف آخر میں بعض نئی نئی ادبی تحریکیں ابھریں۔  اس کے بانی اپنے آپ کو رومانیت سے بے تعلق بتاتے تھے لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ رومانیت ہی کی پیداوار تھے۔  شاعر کی حد تک پارنی سیان (Parnassiens)قابل ذکر ہیں۔  اس گروہ کے ممتاز نمائندے تیوفل گاتئے۔  (Theophile Gautier) (۱۸۱۱ء۔۱۸۷۲ء) اور لیکونت دی الزلLeconte Delilsle) ۱۸۱۸ء۔۱۸۹۴ء) تھے جن کا نظریہ ادب برائے ادب تھا۔  شارلس بودے (۱۸۲۱ء۔۱۸۶۷ء) پول وے لین (Paul Verlaine) (۱۸۴۴ء۔۱۸۹۶ء) اور اس کے بد نصیب دوست آرٹھیو مبو (Arthur Rimbaud) (۱۸۵۴ء۔۱۸۹۱ء) کے اختراعی ذہن نے اشاریت کی تحریک شروع کی۔  اس نظریہ کا ممتاز ترین ماہر اور بہترین ترجمان بلاشبہ استیفان ملارمے (Stephane Mallarme) (۱۸۴۲ء۔۱۸۹۸ء) تھا۔

  بودلیر کی اس کی زندگی میں قدر نہیں ہوئی مگر آج اپنے کلام اور تنقیدی تحریروں کی بدولت اس کا شمار فرانس کے عظیم مصنفین میں کیا جاتا ہے۔  وہ کم گو تھا۔  اس کے کلام کا مختصر مجموعہ لے فلیر دی یومال (Les Fleurs Du Mal)جب شائع ہوا تو مخربِ اخلاق قرار دیا گیا اور اس کی اشاعت ممنوع کر دی گئی۔  لیکن یہ مجموعہ ممانعت کے باوجود مقبول ہو گیا اور آج بھی مقبول ہے۔  اس نے زیادہ نہیں لکھا لیکن ادبیات کے خد و خال پر اس کے اثرات نمایاں ہیں۔

جہاں تک ناول نویسی کا تعلق ہے اس دور میں حقیقت نگاری کا مسلک بہت مقبول ہوا۔  اس مسلک کے سربرآورڈہ نمائندے گستاؤ فلوبیر (۱۸۲۱ء۔۱۸۸۰ء) اور اس کا مقلّد، گے دی موپسان (۱۸۵۰ء۔۱۸۹۳ء) تھے۔  آخر الذکر کو مختصر افسانہ نویسی میں کمال حاصل تھا۔  فلوبیر کا شاہکار اس کا ناول ’’مادام بواری‘‘ ہے۔  ناشر نے اس ناول کے بہت سے حصے حذف کر دیئے تھے اس کے باوجود وہ مخرب اخلاق قرار دیا گیا لیکن مقدمے میں بالآخر مصنف کامیاب رہا۔  ناول کا قصہ یہ ہے کہ ایک کسان کی لڑکی جس کا نام ایما تھا بری صحبت میں پڑ کر یکے بعد دیگرے کئی نوجوانوں سے محبت کرتی ہے اور بالآخر جب سماج کی اخلاقی گرفت میں آ جاتی ہے تو زہر پی لیتی ہے۔

موپسان جس کے افسانے ہندوستان میں مقبول ہیں فرانسیسی ادب میں کوئی خاص مقام نہیں رکھتا۔  وہ فلوبیر کا مقلد تھا۔  ایمل زولا (Emile Zola)۔  (۱۸۴۰ء۔۱۹۰۲ء) نیچر لسٹ حقیقت پسندی کا رہنما تھا۔  زولا نے کئی ناول لکھے جن میں اس نے زیادہ تر پیرس کی زندگی کی خرابیوں ، کشمکش اور شور و شغب کی تصویرکھینچی ہے۔  وہ بڑا جرأت والا اور دُھن کا پکا تھا۔  نسلی امتیاز کے جذبے کے تحت ایک یہودی فوجی افسر پر یہ بے سروپا الزام عاید کیا گیا تھا کہ اس نے جرمنوں کو فوجی راز بتائے تھے۔  زولا نے اس افسر کو رہا کروا کے بحال کروانے میں نمایاں حصہ لیا۔

  ڈرامہ نگاری میں اس دور میں الگزنڈر ڈیوما جونیئر (۱۸۲۴ء۔۱۸۹۵ء) کا بیٹا تھا اسی ڈیوما کا جس نے مشہور مہماتی ناول لکھے تھے جن میں سب سے زیادہ مقبولیت غالباً ’’تین لفنگچی (Three Masqueteers)کو حاصل ہوئی ڈیوما جونیر نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز ناول نگاری سے کیا تھا اسے اپنے مشہورِ عام باپ کے مساوی شہرت ڈرامہ نگاری کی بدولت حاصل ہوئی۔  بیسویں صدی اس صدی کی ابتدا سے دوسری جنگ عظیم کے اختتام تک فرانسیسی ادب پر برگساں (۱۸۶۸ء۔۱۹۵۱ء) اور دوسرے عظیم مفکروں کے اثرات نمایاں نظر آتے ہیں۔  نظریہ معدومیت (Nihilism)جو دادایزم (Dadaism)کہلاتا ہے اس کا زور گو زیادہ عرصے تک قایم نہیں رہا لیکن اس کی وجہ سے شاعری کی بساط درہم برہم ہو گئی اور ادب کی ایک صنف کی حیثیت سے ناول کا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا تھا۔

پول کلوڈیل (Paul Claudel) (۱۸۶۸ء۔۱۹۵۵ء) نے جوہرِ رومانیت کے عرفان کے اظہار کی سعی کی تو شارل پیگی (Charles Peguy) (۱۸۷۳ء۔۱۹۱۸ء) نے اپنا زور سخن مذہب کی خدمت اور سماجی اصلاح کے لیے صرف کیا۔  گیوم آپولینیر (Guillaume Apollinaire)(۱۸۸۰ء۔۱۹۱۸ء) نے جو شاعر اور نقاد تھا ماورائیت (Surrealism)کی راہ دکھائی پی برلوتی (Pierrelote) (۱۸۵۰ء۔۱۹۲۳ء) نے مہماتی ناول موثر انداز میں لکھے۔  رومین رولاں (Romain Rolland) (۱۸۶۶ء۔۱۹۴۴ء) نے اپنی تصانیف خصوصاً اپنے شاندار ضخیم ناول ژال کرسٹوف۔  (Jean Christophe)کے ذریعہ انسان دوستی کے نصب العین کو ابھارا۔  اس نے جرمن موسیقار بیتھووین، اطالوی مصور، مائیکل انجیلو، روسی ناول نویس، ٹالسٹائے اور جدید ہندوستان کی تین عظیم شخصیتوں گاندھی جی، راما کرشنا پرما ہنس، اور سوامی ویویکا نند کی سوانح حیات بھی لکھی ہیں۔  ان تصانیف کا مقصد امن پسندی اور انسانی جذبۂ اخوت کا اعلیٰ ترین سطح پر پرچار تھا۔  وہ امن کا جانباز سپاہی تھا اور اس کے بے لوث جذبۂ بین الاقوامیت کے اہم تشکیلی عناصر میں ہندوستان کے فلسفے اور روس میں سوویت تجربے کو بڑا دخل حاصل تھا۔

  انا طول فرانس (۱۸۴۴ء۔۱۹۲۴ء) بھی ایک ممتاز مصنف تھا اس کا موثر ترین حربہ طنز و تعریض تھا۔  اس نے سوشلسٹ طرز فکر کو فرانس میں پھیلانے میں بڑا کام کیا۔  پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے درمیان کے زمانے میں فرانسیسی ادب میں تین نمایاں شخصیتیں تھیں۔  مارسل پروست۔  (Marceal Proust)۔  (۱۸۷۱ء۔۱۹۲۲ء) نے ناول کی تشکیل کا ایک نیا انداز اختیار کیا۔  اس کے ناول ’’یادِ ماضی‘‘ کے مشترک عنوان سے شائع ہوئے جن میں اس نے کئی موضوعات اور واقعات کے امتزاج سے نرالا لطف پیدا کیا ہے۔  مثلاً حدیثِ دیگراں کے روپ میں خود مصنف کی آپ بیتی ہے لیکن آسانی سے پتہ چل جاتا ہے کہ دراصل ذکر کس کا ہے۔  ایک لاڈلے بیٹے کا احوال جو ایک دولت مند گھرانے کا چشم و چراغ ہے۔  انیسویں صدی کے آخر دہے اور پہلی جنگ عظیم کے درمیان کے زمانے میں فرانس کے امرا اور ان کے مصاحبین اور حاشیہ برداروں کے طرزِ زندگی کا ذکر ہے۔  محبت اور جدائی کی صورتِ حال کا نفسیاتی جائزہ ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جسمانی دوری یا اظہار محبت کے جواب میں انکاری رد عمل یا یک گونہ بے وفائی طالب و مطلوب کے رشتۂ الفت کی برقراری اور استحکام کے لیے لازمی ہے۔  اس کے علاوہ ان ناولوں میں غیر ارادی طور پر ماضی کے بھولے بسرے واقعات اور گریزپا لمحات کی مکمل تصویریں بھی آگئی ہیں۔

مارسل پروست کی یہ لطافت آمیز طویل داستان جس کا ماحول خواب سا ہے فنِ ناول نگاری کا ایک غیر فانی کرشمہ ہے۔  آندرے ژید (Andre Gide) (۱۸۶۹ء۔۱۹۵۱ء) نے جدید دور پر یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی کہ انسان دوستی اور کلاسزم سے کیامراد ہے۔  ژید مضمون نگار (Essayiste)بھی تھا اور نقاد، ناول نگار اور ڈرامہ نویس بھی۔  وہ جدید ادب کی تحریک مطالعۂ نفس (Inter Prospection)خود اعترافی (Self Confession) اور اخلاقی و مذہبی اضطراب کا سب سے زیادہ ممتاز ترجمان تھا۔

پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے درمیان کے زمانے کی نسل کی جمالیاتی اور اخلاقی قدروں پر اس کے نظریات کا بڑا اثر تھا۔  پال والیری (Paul Valery) (۱۸۷۱ء۔۱۹۴۵ء) اس خیال کا حامی تھا کہ تخلیق شعر کے عمل پر روح سے متعلقہ قوانین کی حکمرانی ہے۔  ملک کی اخلاقی اور سماجی صورتحال سے متاثر ہو کر اس دور کے بعض مشہور و معروف اہل قلم نے ناول لکھے۔  جن میں ژیول رومین (Jules Romains)(۱۸۸۵ء) روژے مارتان دیو کار (۱۸۸۱ء۔۱۹۵۸ء) ژارژ دیو آمیل (۱۸۸۴ء۔۱۹۵۶ء) شامل ہیں۔  اس دور میں متعدد ناول لکھے گئے ژال گرودو (Jean Giraudoux) (۱۸۸۲ء۔ ۱۹۴۴ء) نے نفسیاتی ناول لکھے۔  ژولیان گرین (۱۹۰۰ء) فرانسو امور یاک (Francots Mauriac)(۱۸۸۵ء۔ ۱۹۷۰ء) ژارژ بیر نانو (Georges Bernans)(۱۸۸۸ء۔ ۱۹۴۸ء) کے ناول کچھ مذہبی رنگ لیے ہوئے ہیں۔  لوئی اراگان (Louis Aragon) (۱۸۹۷ء) نے علم بغاوت بلند کیا آندرے مالرو (Andre Malrauy (۱۹۰۱ء) آن ری دی مانتیر لا (Henri De Montheralant) (۱۸۹۶ء) اور انتوان دی سینت تیکسیوپری۔  (Antoine de Santexupery) (۱۹۰۰ء۔۱۹۴۴ء) نے اپنے ناولوں میں حرکت اور عمل کو اہمیت دی۔  شاعری پر ماورائیت کا (Surrealism)کا غلبہ ہو گیا

آندرے پرے تان اس تحریک کا سب سے زیادہ ممتاز نظریہ داں مانا جاتا ہے۔  لیکن جہاں تک عمل کا تعلق ہے روبیر دیس نوس (Robert Disnos) (۱۹۰۰ء۔۱۹۴۵ء) اور خصوصاً پول ایلوار (Paul Eluard) (۱۸۹۵ء۔۱۹۵۲ء) اس کے ممتاز ترین پیرو تھے۔  اور بعد میں ایلوار نے ماورائیت کے مسلک کو خیر باد کر دیا اور مقاومت کی تحریک کے زمانے میں کمیونسٹ پارٹی میں شریک ہو گیا۔  اس کے کلام میں عملی، سیاست اور نغزگوئی کا اثر آفریں امتزاج نظر آتا ہے۔  اسٹیج کے لیے گرو دو (Giraudouy)نے جوڈرامے لکھے ہیں ان میں حزن و مزاح کی دھوپ چھاؤں لطف دیتی ہے۔  مارسل پان یول (Marcel Pagnol) (۱۸۹۵ء) طنزیہ ڈرامہ نگار ہے۔  اور ژان انوی (۱۹۱۰ء) کے ڈراموں کا امتیاز فن کارانہ چابکدستی ہے۔  جرمنی کے قبضے اور اس قبضے کے خلاف جدوجہد کے دوران اراگان اور ایلوار نے ادب کی خفیہ (Clandestine)اصناف میں تخلیق کے جوہر دکھائے یہ دونوں اب کمیونسٹ پارٹی میں شریک ہیں اس دور میں گہرے فلسفیانہ رنگ کو بھی فروغ ہوا جس کا ممتاز ترجمان نظریہ وجودیت کا بانی۔  ژاں پول سارتر (۱۹۰۵ء) ہے۔  فرانس کی ادبی اور سیاسی زندگی پر آج سب سے زیادہ اور نمایاں اثر سارتر کے طرز فکر کا ہے۔  اس کا فلسفیانہ شاہکار ’’وجود و عدم‘‘ (Being & Nothingness)ہے۔  ’’کراہئیت‘‘ اور اشمے دل لبرتے اس کے اہم ناول ہیں۔  سارتر کے ڈرامے نہ صرف اس کے نظریات کے ترجمان ہیں بلکہ فنی اعتبار سے اعلیٰ پایہ کے ہیں اس لیے اسٹیج پر بہت کامیاب ثابت ہوتے ہیں۔  کامیو (Camus) نے جس کا انتقال خیز ناول لکھے ہیں۔  ان میں سے ایک لَ ترانژے (L’Etranger) ہے جس میں ایک نوجوان جھوٹ بولنے اور دھوکہ بازی سے انکار کر دیتا ہے۔  دوسرا ناول ’’لی پسث‘‘ (La Peste)ایک تمثیل (Allegory)ہے جس میں فرانس پر جرمنی کے قبضے کا حال الجیریا کے شہر اور ان میں طاعون کی فرضی وبا کے پردے میں پیش کیا گیا ہے۔  اب ہم اس دور تک پہنچ گئے ہیں جو ہم سے اس درجہ قریب ہے کہ اس کی صحت و سقم کے بارے میں کچھ کہنا آسان نہیں۔

ریماں کینو (Ranand Tuenbeau) (۱۹۰۳ء) کے فینٹیسی (Fantasy) اور ژاک ادی بیرتی (Jacques) (۱۸۹۹ء)کے برلسک (Burlesque) اپنی جگہ اہم ہیں۔  لیکن آئر ستانی سیمیویل بکٹ (Samuel Beckett) (۱۹۰۶ء) رومانی اجین ایولسکو (Eugene Ionesco)(۱۹۱۲ء)اور ایزک ایڈا ماو (Isac Adamou)کا تخلیق کردہ تھیٹر (Theater of the Absurd) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ نسلوں میں بھی صدیوں مقبول رہے گا۔  نتالک سروت (Nathalie Sarraute)آلین روب گرلیے (Alain Robbegrillet) (۱۹۲۲ء) اور مِشل بیوتیر (Michel Butor)کے ناول کائنات کے ایک معروضی تصور کی جستجو کے آئینہ دار ہیں۔  ایسی کائنات کا تصور جس کا عرفان غیبی تائید کے بغیر ممکن نہیں۔  ممکن ہے کہ یہ ناول صدیوں مقبول رہیں اور آنے والی نسلیں ان کو ہمارے موجودہ دور کے نہایت ممتاز اور معنی خیز کارناموں میں شمار کریں۔

  فرانسیسی زبان اس بیش بہا ادب سے بھی مالامال ہے جو سابق سلطنت فرانس میں شامل ملکوں کی دین ہے۔  مغربیت کے اہل قلم میں الجیریا کے خطیب یٰسین اور دیب قابل ذکر ہیں مراقش کے اَدریس شرایبی نے فرانس کے ان محنت کشوں کے مسائل موثر انداز میں پیش کیے ہیں جن کا وطن شمالی افریقہ ہے۔  سیاہ فام افریقہ نے کم از کم ایک ادیب اور شاعر ایسا پیدا کیا جو فرانسیسی ادب میں اپنا ایک مستقل مقام رکھتا ہے۔  وہ ہے لیوپولڈ سیدار سینگھور (Leopold Sedar Senghor)(۱۹۰۶ء) اس نے نیگرویت (Negri tude)کا ایک ایسا تصور پیش کیا ہے جس کا مقصد اس نسل میں اپنی تاریخ و تمدن کے تعلق سے جدبۂ اعتماد و افتخار کو ابھارنا ہے جسے نو آبادیاتی تسلط نے بری طرح کچل ڈالا ہے۔  یہ نہایت ضروری تھا اس لیے کہ جب تک خود اعتمادی اور خودشناسی کا جذبہ بے دار نہ ہو قوم آزاد ہو کر ترقی کے راستے پر آگے نہیں بڑھ سکتی۔

٭٭٭

 

جرمن زبان و ادب

جرمن زبان و ادب کسی زبان اور اس کے ادب کی داستان کو سماجی و تاریخی ارتقا کے وسیع تر چوکھٹے میں دیکھنا چاہیے ورنہ وہ چند ناموں ، چند عنوانوں اور ان کی تشریحوں کا ایک مجموعہ ہوکے رہ جائے گا۔  جرمن زبان کی سب سے پہلی تحریر آٹھویں صدی عیسوی میں ملتی ہے۔  گویا اس طرح اس کی تاریخ لکھتے ہوئے ہمیں پچھلے بارہ سو برس کا احاطہ کرنا پڑے گا۔  وسطی یورپ میں اس زبان و ادب کو اہم منصب حاصل رہا ہے۔  جو اس وجہ سے کسی قدر پیچیدہ نظر آتا ہے کہ جرمن زبان کی لسانی حدیں اور جرمن دیس کی سیاسی حدیں ایک نہیں رہی ہیں جیسا کہ انگریزی اور فرانسیسی کے معاملے میں ہوا۔  آج جرمن زبان جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک، فیڈرل فی پبلک آف جرمنی اور آسٹریا میں بولی جاتی ہے اور سوئیٹزرلینڈ کی تین سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے۔  اس کے علاوہ مشرقی یورپ (مثلاً پولینڈ اور رومانیہ ) کے بعد چھوٹے چھوٹے حصوں میں یہ عوام کی مادری زبان ہے اور الساز (فرانس) کے دولسانی صوبوں میں فرانسیسی کے ساتھ ساتھ برتی جاتی ہے۔  ان سارے دیسوں اور علاقوں نے کسی نہ کسی زمانے میں جرمن زبان کی آبیاری اور پرداخت میں حصہ لیا ہے۔  یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ قومیت کا تصور وسطی یورپ میں انیسویں صدی کے آخر آخر میں نمودار ہوا (جرمنی کے معاملے میں یہ ۱۸۷۱ء کی بات ہے ) اس سے پہلے ایک طرح کی سیاسی طوائف الملوکی پھیلی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔  چنانچہ جرمن بولنے والوں کی سرزمین ہمیں مختلف چھوٹی بڑی ریاستوں ، بادشاہتو(مثلاً پرشیا) سلطنتوں (جیسے اسٹروہینیگرین) میں بٹی ہوئی نظر آتی ہے ان ساری سیاسی اکائیوں نے جرمن زبان کی نشوونما میں اپنا حصہ ادا کیا ہے۔

 فرانس اور انگلستان کے برخلاف جرمن بولنے والے علاقوں میں پیرس اور لندن کی طرح کوئی ایسی راجدھانی نہیں رہی جہاں ایسے لسانی تہذیبی معیارات نمو پاسکیں۔  جو باقی سارے علاقے کے لیے نمونہ مانے جائیں۔  چنانچہ وی آنا، زیورچ، برلن، میونخ اور ہامبرگ ان بڑے شہروں میں سے چند ہیں جن کا اہم ادبی کردار رہا ہے۔  ان کے علاوہ بہت سے چھوٹے صوبائی مستقر ایسے ملتے ہیں جن کی ادبی حیثیت اہم ہے کیوں کہ ہر علاقہ ایک تہذیبی خود مختاری کا متمنی اور مدعی رہا ہے۔  یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ ۱۸۰۰ء کے لگ بھگ یورپ کا ادبی مستقر کوئی بڑا شہر نہیں بلکہ ’’وائی مار‘‘ کا چھوٹا سا شہر تھا جہاں گویٹے نے وہ تصنیفیں موزوں کیں جو جرمن ادب ہی کے نہیں بلکہ عالمی ادب کے شاہکاروں میں گنی جاتی ہیں۔  آج تک بھی صورتحال کچھ بدلی نہیں ہے اور جرمن دیس اور جرمنی لسانی علاقے کے سارے بڑے شہر اب بھی اہم ادبی اور تہذیبی مرکزوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔  لہٰذا اس مضمون میں جرمن سے مراد جرمن زبان ہے۔  کوئی خاص ملک یا علاقہ نہیں۔

آٹھویں صدی عیسوی میں جب شارلیمان کی سلطنت درہم برہم ہوئی تو اس کے مشرقی علاقوں میں مقامی جرمن بولیوں کے میل جول سے جرمن زبان کی تشکیل ہوئی جو لاطینی کے مقابلہ میں عوام کی زبان بن گئی۔  لاطینی کلیسا کی زبان یا علمی اور سائنسی زبان کی حیثیت سے باقی رہی۔  جرمن زبان کی یہ صورت گری کوئی آٹھ سوسال تک جاری رہی تب جا کر موجودہ جرمن کے خد و خال نمودار ہوئے۔  آج جرمن زبان بولنے والے صرف پچھلے چار سوسال کی تحریری زبان (لگ بھگ ۱۶۵۰ء) کے بعد کی زبان کو سمجھ سکتے ہیں۔  اس سے پہلے زمانے کی جرمن سمجھنے کے لیے ان کو خاص مطالعے اور کاوش کی ضرورت ہوتی ہے۔  کیوں کہ بعض ظاہری صوری مشابہتوں کے تلے گہرے لغوی اختلافات چھپے ہوئے ہیں۔

رایت کی بنیاد اور صوری و نحوی تجزیے کی بنا پر قدیم جرمن زبان کی حسب ذیل تقسیم مروج ہے :

(قدیم ہائی جرمن) ۷۵۰ء۔۱۰۵۰

(وسطی ہائی جرمن) ۱۰۵۰ء۔۱۳۵۰ء

(ابتدائی جدید جرمن) ۱۳۵۰ء۔۱۶۵۰ء

(جدید جرمن) ۱۶۵۰ء اور اس سے آگے۔

قدیم ہائی جرمن کا خاص ادبی شہ پارہ ’’ہلڈے برانڈ زلیڈ‘‘ (ہلڈے برانڈ کا گیت) مانا جاتا ہے۔  جس سے رزمیہ شاعری کی ایک مخصوص المانوی روایت کا آغاز ہوتا ہے۔  اس روایت کا سب سے اہم کارنامہ وسطی ہائی جرمن کی ’’نی بل اَن گِن لیڈ‘‘ ہے۔  یہ نظم جس کا مواد قبائلی مناقشے فراہم کرتے ہیں ، غالباً اپنی تحریری شکلوں میں بارہویں صدی کی پیداوار ہے۔  یہ نظم ادبی فیضان کا ایک مستقل مخزن بن گئی اور انیسویں صدی میں کئی تصانیف اس کی مرہون منت ہیں۔  ان میں اہم غالباً رچرڈ واگنر کی چار ناٹکی ’’دِیر رنگ دِے نی بل اَن گِن‘‘ اور فریڈرش ہبل کا سہ ناٹکی ڈرامہ سمجھے جا سکتے ہیں۔  بعد میں بدقسمتی سے یہی نظم ایک جنگ جو قوم پرستی کی بنیاد بن گئی اور بیسویں صدی کے فاشسٹوں نے اسے اپنے اغراض کے لیے خوب استعمال کیا۔  اس سورمائی رزمیہ روایت کے علاوہ اس درباری رزمیہ شاعری کا یہی ذکر ضروری ہے جو شاہ آرتھر اور اس کے راونڈٹیبل کے دلیروں کی داستان پر مشمل ہے۔  آرتھر کے اس کیلٹی افسانے کو سب سے پہلے ایک فرانسیسی مصنف کرے تیاں دَترایئے نے ادبی شکل دی تھی اور بارہویں صدی میں اس قصے نے یورپی شہر ت و مقبولیت حاصل کر لی تھی۔  اس کے جرمن ترجمانوں میں ہارنمان فان آیے (۱۱۶۰ء۔۱۲۲۱۰ء) دولفرام فان اے شِن باخ (۱۱۷۰ء تا لگ بھگ ۱۲۲۱ء) گاٹفریڈ فان اسٹراسبرگ (۱۲ویں صدی) اہم ہیں۔

لیکن ہمارے موجودہ نقطہ نظر سے اس زمانے کے ادب کا سب سے اہم حصہ وہ ہے جسے جرمن زبان میں ’’منے سانگ‘‘ کہا جاتا ہے۔  یہ ایک طرح کی رسواماتی تغزلی یا غنائی تصنیف تھی جس میں کسی اونچے طبقے کی عورت کی مدح اور ایک ایسے عشق کا اقرار ہوتا تھا جو خواہشِ وصل سے معرا ہو۔  سماجیات اور نفسیات کے ماہروں کے لیے اس صنف کو جذباتی تخلیص کی ایک مثال سمجھنا کچھ مشکل بات نہیں۔  ایک ایسے وقت جب سماج کے بہت سے تنومند افراد صلیبی جنگوں میں منہمک تھے یہ صنف درباری سوسائٹی کے لیے ایک طرح کی رسمیاتی تفریح کا سامان فراہم کرتی تھی۔  اس پر فرانس کی پروونسائی غنائیہ شاعری کی گہری چھاپ تھی۔

اس صنف کا سب سے اہم نمائندہ غالباً والٹڑ فان دیر گوگیلو ای ڈی (متوفی مابعد ۱۲۲۸ء) کو کہا جا سکتا ہے۔  اس شاعر کی نظموں میں غیر معمولی سیاسی آگاہی اور ایک تقریباً جدید معیار فکر کی آمیزش نظر آتی ہے۔  اس کے علاوہ اس کی شاعری میں پہلی دفعہ ہم کو روایاتی روش سے احتراز اور روایاتی تقاضوں اور شخصی تجربوں کے درمیان ایک توازن ملتا ہے۔  والٹر کے اکثر اشعار کو آج کل کے عہدے کے شاعر پیٹرریو مکارف نے بڑی نزاکت سے جدید جرمن میں ڈھالا ہے۔  ریومکارف کے خیال میں والٹر اسی وجہ سے آج کی دنیا کے لیے با معنی ہے کہ اس کا دور ایک ایسا دور تھا جب جاگیرداری نظام کو تاریخ کے دھارے میں اپنی ناؤ کے ڈگ مگ ہونے کا احسا س ہونے لگا تھا۔  دورِ وسطیٰ کی تہذیب کے بارے میں ہماری معلومات ان تاریخی سرگزشتوں اور قانون رسالوں پر مبنی ہیں جو ہم تک پہنچے ہیں۔  صوفیانہ نگار شات کی اہم روایت بھی، جس نے بڑے بے باک خیال پیکر تراشتے اسی دور میں شروع ہوئی۔

  ایک ہارٹ ہائنرِش سائزے اور یوہانس ٹائلر تیرہویں اور چودہویں صدی کے وہ شاعر ہیں جنہوں نے جرمن زبان میں تحریری علایم و اصطلاحات کی نشو و نما پر اثر ڈالا۔  صوفیانہ روایت کو سولہویں اور سترہویں صدی میں یوکوب بھیمے اور آنجیلس سَلے سیوز نے جاری کیا۔  ان لوگوں کی رمزیاتی یامجازیاتی (Allegorical) اور خیالی تحریروں کا انیسویں صدی کے رومانی لکھنے والوں کے ہاتھ احیا عمل میں آیا۔  چودہویں اور پندرہویں صدی کا مطالبہ یورپی نشاۃ ثانیہ اور مسلک انسانیت (Humanism)کی ان تحریکوں کے پس منظر میں دیکھنا چاہیے جو جرمنی میں بڑی حد تک مذہبی کش مکش اور رومن کلیسا اور سیکولر سیاست کی آویزش کے آوردہ معلوم ہوتے ہیں۔  اس زمانے میں شہروں کی اہمیت میں اضافہ ہوا اور بڑی جرمن یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں آیا (پراگ کی جامعہ سب سے زیادہ قدیم ۱۳۴۸ء) ہے۔  ) بلاشبہ اس عہد کا سب سے بڑا کام بائبل کا جرمن ترجمہ ہے جو مارٹن لوتھر نے اصلی یونانی اور عبرانی نسخوں سے کیا۔  جرمن زبان کے ارتقا پر اس ترجمے کا زبردست اثر پڑا۔  اسی سے گویا جرمن زبان کے جدید محاورے اور تحریروں میں بجائے لاطینی کے جرمن کے استعمال کی ابتدا ہوئی ہے اور یہ بھاشا معتبر سمجھنی جانے لگی۔

جرمن باشندوں کی تاریخ کو سمجھنے کے لیے پندرہویں صدی ایک کلیدی دور ہے۔  ۱۵۲۵ء جرمنی میں کسانوں کی بغاوت کا سال ہے۔  جس سے گویا طبقاتی کش مکش کی ابتدائی ہوتی ہے اور جس کے بڑے گہرے نتائج آگے چل کر مرتب ہوئے۔  اس بغاوت کو جرمنی میں سختیی سے کچل دیا گیا۔  بعض یورپی ممالک مثلاً فرانس میں اس بغاوت کے بعد سے تاریخ نے ایک ترقی پذیر موڑ اختیار کیا اور بات مطلق العنان بادشاہت تک پہنچی جو قومی اتحاد کا باعث بنی۔  لیکن جرمنی میں جاگیردار امیروں کی فتح نے ملک کو بے شمار چھوٹی چھوٹی خود مختار طاقتوں میں تقسیم کر دی جو قومی اتحاد اور یکساں قومی تہذیب کے راستے میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوئیں آخر بسمارک نے پرشیا کی غیر معمولی طاقت سے فائدہ اٹھا کر ۱۸۷۱ء میں جرمنی کو سیاسی طور پر متحد کیا۔  کسانوں کی بغاوت کا زمانہ ادبی حیثیت سے بڑا زر خیز دور ثابت ہوا اس عہد میں شورش انگیز تحریروں کی بیشمار مثالیں ملتی ہیں جن کا اب بھی خاطر خواہ تجزیہ ہونا باقی ہے۔  کسانوں کی جنگ کی ناکامی ترقی پسند جرمن مصنفوں کے لیے ایک اہم موضوع بن گئی جس کا بار بار استعمال ہوا۔  چنانچہ انیسویں صدی میں گویٹے اور لاسالے اور بیسویں صدی میں گرہارٹ ہارٹپمان، فریڈرش وولف اور یاک کارسنکے نے اس تحریک سے متاثر ہو کر ڈرامے لکھے ہیں۔  لوتھر کی پروٹسٹنٹ تحریک بہت جلد اس تضاد کا ایک حصہ بن گئی۔  جو ایک طرف پوپ اور رومن کلیسا کے مفادات اور دوسری طرف جرمن ریاستوں کے علاقائی سیکولر مفادات میں پایا جاتا تھا۔  اس تضاد نے اس یورپی دھماکے کو جنم دیا جسے تیس سالہ جنگ (۱۶۱۸ء۔۱۶۴۸ء) کا نام دیا گیا ہے۔  اس لڑائی نے سارے وسطیٰ یورپ کے میدان جنگ میں تبدیل کر دیا۔  اس طرح جرمن تہذیبی ارتقا کو ایک صدی پیچھے ڈھکیل دیا گیا۔

سولہویں صدی درمیانی طبقے کی مرفہ الحالی اور نتیجتاً شہری تہذیب کی ترقی کی صدی تھی۔  اس زمانے میں عوامی قسم کے ادب کو فروغ ہوا جس کا اہم ترین نمائندہ ہانس ساخص (۱۴۹۴ء۔۱۵۷۶) تھا جو اس زمانے کے سب سے زیادہ خوش حال شہر نیوریمبرگ کا باشندہ تھا۔  اس نے کثیر تعداد میں ڈرامے تصنیف کیے ، عام پسند مختصر کہانیوں کی بھی ایک کثیر تعداد ان دنوں تصنیف کی گئی۔  اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ چھاپے کی مشین ایجاد ہو چکی تھی اور اس نے ادب کے زبانی ورثے کو تحریری ورثے میں تبدیل کرنا شروع کر دیا تھا۔  صوفیانہ روایت کی طرح اس لوک تہذیبی کی روایت کا بھی اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں بڑا کامیاب احیا عمل میں آیا۔  لوک کہانیوں کی بنیاد پر کئی شاہکار لکھے گئے جن میں سب سے مشہور گویٹے کا منظوم ڈرامہ ’’ فاوسٹ‘‘ ہے جس کی بنیاد ایک عام پسند کہانی ’’ڈاکٹر فاوسٹ کی کہانی‘‘ تھی۔

سترہویں صدی پرچوں کہ جنگ و جدل کا رنگ چڑھا ہوا تھا اس لیے اس صدی کے لکھنے والوں میں راست یا بالواسطہ اسی رنگ کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔  گرم ملسہاوزن (۱۶۲۲ء۔۱۶۷۶ء) کے ناولوں نے ہسپانوی پکار سک ناول کو ایک جرمن صنف بلڈنگز رومان کی شکل دی۔  جو فرد اور سماج کی آویزش کا مرقع پیش کرتی تھی۔  گرم ملسہاوزن کے ناولوں میں واقعیت، ترک دیا اور وسیع المشربی کی آمیزش ملتی ہے اس عہد کا ادب ترک ماورائیت اور نفس پرستی کے درمیان ایک مسلسل اہتزاز کا منظر پیش کرتا ہے۔  ا س ادب کے ان دو پہلوؤں کے نمونے ہم کو کوئی ریسن کولمان (۱۶۵۱ء۔۱۶۸۹ء)کی مذہبی (کیلین یعنی اس عقیدے پر مبنی کہ حضرت عیسیٰ کا ایک ہزارسال تک دنیا میں جسمانی طور پر راج رہے گا) تصور پرست شاعری، آندرے آس گری فیوز (۱۶۱۶ء۔۱۶۶۴ء) کے حزنیہ اشعار اور ڈراموں ’ہاف مان فان ہاف مانزوالڈ آؤ (۱۶۱۶ء۔۱۶۷۹ء) کی عاشقانہ اور سورمائی شاعری وغیرہ میں نظر آتے ہیں۔  اس ادب کے ایک بڑے حصے کا انیسویں صدی کے رومانٹک مصنفوں نے احیا کیا۔

  جرمن زبان کو جو توانائی لوتھر کے ’’بائبل‘‘ کے ترجمے سے ملی اس میں اضافہ ان لسانی انجمنوں کی وجہ سے ہوا جو جرمن کو بیرونی اثرات (زیادہ تر فرانسیسی اطالوی اور ہسپانیوی اثرات) سے پاک کرنے اور اس کی تحریری اشکال کے معیار بنانے کے لیے قائم ہوئیں۔  اس کام کو بہت سی نظریاتی اور تنقیدی تحریروں سے سہارا ملا جن میں سب سے اہم مارٹن اوپیٹز کی شعریات (Poetics)ہے۔  اوپیٹز نے اس تصنیف میں قدیم روایتی ماخذوں خصوصاً ہاریس کی ان تصنیفات کی بنیا د پر ادبی اور تنقید اصولوں کی تشکیل کی ہے جو سترہویں صدی کے لیے ایک معیاری کی حیثیت رکھتی تھیں اور جن کا زبردست اثر تھا۔  اس کتاب سے شعری نظریے کی ایک پوری روایت ہی شروع ہوئی جس میں شاعر و نقاد ان اصولوں کی جستجو کرتے تھے جن کو پیش نظر رکھ کر اچھا اور قابل قبول شعر کہا جا سکتا تھا۔  اس روایت کے دوسرے اہم نمائندے یوہان کرسٹوف گاٹشڈ (۱۷۰۰ء۔۱۷۶۶ء) یوہان یاکوب برائی ٹنگر (۱۷۰۱۱ء۔۱۷۷۶ء) اور یوہان یاکوب بودمیر (۱۶۹۸ء۔۱۷۸۳ء) سمجھے جاتے ہیں۔  اس روایت کازورانیسویں صدی کے آخری برسوں تک باقی رہا۔

جرمن ادب کے مخصوص خد و خال اپنے یورپی سیاق میں اسی وقت ابھرتے ہیں جب ہم فریڈرش گاٹلیب کلاپٹاک (۱۷۲۴ء۔۱۸۰۳ء) یاگوٹھولڈایفریم لیسنگ (۱۷۲۹-۱۷۸۱ء) اور ہائن رش ہائن نے (۱۷۹۷ء۔۱۸۵۶ء) کی درمیانی صدی کے سارے ادب کو طرز واسلوب کی بنا پر مختلف حصوں میں بانٹنے کی بجائے ، جیساکہ عام قاعدہ ہے ایک تسلسل اور اکائی کی حیثیت سے جانچا۔  اس طرح دیکھیے تو یہ ادب جاگیردار طبقے کے علیٰ الرغم، درمیانی طبقے کے عروج و نجات اور بالآخر شکست کی داستان ہے۔  جہاں فرانس میں آزادی اور مساوات کے نظریوں نے ریاست کی ترکیب میں ٹھوس شکلیں اختیار کیں وہاں جرمنی میں یہ نظریے علاقائی انتشار و طوائف الملوکی سے ٹکرا کر ٹوٹ پھوٹ گئے۔  بور ژواطبقے کی اس ناکامی کی وجہ جرمنی کی صورت حال میں ، بقول مارکس، یہ مخصوص زمانی اچنبہ پایا جاتا ہے کہ جرمن باشندے فکری طور پر تو دوسرے یورپیوں کے ہم عصر ہیں لیکن تاریخی اعتبار سے ان کے ہم عصر نہیں۔  اسی وجہ سے جرمنی میں جو انقلاب برپا ہوئے وہ ذہن انقلاب تھے اور ان کی کارفرمائی فلسفے ، ادب اور تنقید کے میدانوں میں تھی لیکن ساتھ ہی ساتھ یہی حقیقت ان کو آفاقی طور پر معنی بھی بناتی ہے کیوں کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ خیالات مادی قوت بن سکتے ہیں تو پھر جرمن ادب کی یہ اہمیت ہے کہ اس نے موجودہ انسانی زندگی کے اہم مسائل کی صورت گری کی ہے ، وہ مسائل جو فردوسماج، تاریخٰ اور ترقی سے متعلق ہیں۔

کلاپسٹاک اور یسنگ اس ادب کے اولین نمائندے ہیں جن کی تصنیفوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی کاوش اور کوشش مطلق العنانی اور استبداد کی مردنی طاری کرنے والی بندشوں کے خلاف ہے۔  کلاپسٹاک نہ صرف اسحصال کا دشمن اور حریت کا حامی تھا بلکہ ان اولین پیشہ ور مصنفوں میں سے تھا جو جاگیر دارانہ سرپرستی پر تکیہ نہیں کرتے تھے۔  اس نے انشا کے پیشے کی تنظیم اور اس کے گروہی مفادات کے تحفظ کے مسائل پر اپنی بہت کچھ توجہ اور توانائی صرف کی۔  کلاپسٹاک ان جرمنوں میں سے تھا جنہوں نے پہلے پہل نہ صرف انقلاب فرانس کی مدح کی بلکہ اس کے بعد کے دہشت پسند دور کی مذمت بھی کی۔  اس انقلاب نے جرمن ذہن پر جو مخصوص اثر ڈالا س کے بنیادی خطوط ہم کو کلا پسٹک میں نظر آتے ہیں۔  غالباً ہولڈرلن (Holderlin ۱۷۷۰ء۔۱۸۴۳ء) اور اے آن یاول (Jean Paul)(۱۷۶۳ء۔ ۱۸۲۵ء) یہی دو ایسے لکھنے والے ہیں جنہوں نے اس ولولے کو آخر تک برقرار رکھا جو اپنے ابتدائی دنوں میں انقلابِ فرانس نے پیدا کیا تھا۔

 ہوڈرلن کی خیال پرست شاعری اور اے آنپاول کے بے حد جدید ناول ایسی چیزیں ہیں جن کی قدر حال ہی میں پہنچانی گئی ہے۔  غالباً یہ جرمنی کے مخصوص حالات کا نتیجہ تھا کہ جرمنوں نے انسانی مسائل کا حال انسانی کردار کی تربیت کو قرار دیا۔  یہ ایک مثالی قسم کا تصور ہے جس میں یہ بات یاد نہیں رکھی گئی تھی کہ اخلاقی اور ذہنی تبدیلیوں کے لیے سماجی ڈھانچے کو بدلنا ضروری ہے۔  درمیانی طبقے کے دانشوروں نے اپنے ترقی پسند تصورات کی تشہیر کے لئے تھیٹر کا انتخاب کیا۔  جیسا کہ شلّر نے بعد میں کہا یہ بات ایک اصول کے طور پر تسلیم کی گئی کہ نسلِ انسانی کی تعلیم کے عظیم الشان پروگرام میں تھیٹر کو ایک تربیتِ اخلاق کے ادارے کی حیثیت سے استعمال کیا جائے۔  یسنگ نے اس نئے بورژوا شعور کی صورت گری کرتے ہوئے بہت سے ڈرامے لکھے اس کے علاوہ اس نے ہامبرگ کے تھیٹر کی نئی تنظیم کی اور تنقیدِ جمالیات اور فن ڈرامہ نویسی پر بہت سی اہم تحریریں تصنیف کیں۔

اسی کے ساتھ ساتھ یہی وہ دور ہے جب جرمن زبان تحریری اور نظریاتی مقاصد کے لئے مستقلاً استعمال ہونے لگی اور اس کا بین الاقوامی موقف مستحکم ہو گیا۔  فلسفی لائب نیز (Leibniz)نے اپنی تحریروں میں فرانسیسی اور لاطینی استعمال کی تھی لیکن اب یہ بدیسی زبانیں متروک ہو گئیں۔  کانٹ (Kant)(۱۷۲۴ء۔۱۸۰۴ء) فشٹے Fichte (۱۷۶۲ء۔۱۸۱۴ء) شلنگ (Shelling)(۱۷۷۵ء۔۱۸۲۴ء) اور ہیگل (Hegel ۱۷۷۰ء۔ ۱۸۳۱ء) جیسے فلسفیوں کے نام اسی دور سے متعلق ہیں۔  ان لوگوں نے ان بہت سے مسائل کی دریافت اور عکاسی کی جن کو اپنی اصلی اہمیت اور روپ میں مارکس اور اینگلز تے بعد میں پیش کیا۔ صرف فریڈرش نطشے (Friedrich Nietzsche۱۸۴۴ء۔۱۹۰۰ء) اور سگنمڈ فرائیڈ (Signmund Freud ۱۸۵۶ء۔۱۹۳۹ء) کے نام ایسے ہیں جن کا علامی فکر پردہ اثر پڑا جس کا مقابلہ مارکس کے اثر سے کیا جا سکتا ہے۔  اسی زمانے میں لگ بھگ تنقید، لسانیات اور تاریخ کے میدانوں میں زبردست کام شروع ہوا۔  جس کی ابتدائی جھلکیاں یوہان گائفریڈ ہرڈر (Johann Gottfried Herder)(۱۷۴۴ء۔۱۸۰۲ء) کی تصنیفات میں نظر آتی ہیں۔  ہر ڈر پہلا نہیں تو شیکسپیئرکے ان پہلے اہم مداحوں میں سے ایک ضرور ہے۔  جنہوں نے ایک طرح کی شیکسپیئر پرستی کی روایت کو جنم دیا جس کے نتیجے میں لوڈوِگ ٹی ایک (Ludwig Tieck)اور اگست ولہلم شلیگل (August Wilhelm Schlegel)جیسے رومنٹک شاعروں کے عظیم شیکسپیئری ترجمے نمودار ہوئے۔  ان ترجموں نے شیکسپیئر کو جرمن ادبی روایت کا جزو بنانے میں مدد کی اور غالباً تاریخ میں اور کوئی مثال ایسی موجود نہیں ہے کہ کسی غیر زبان کے شاعر کوکسی ادب نے اس طرح اپنایا ہو۔

بلاشبہ اس دور کی دو سب سے اہم شخصیتیں فریڈرش شلر (Friedrich Scheller)(۱۷۵۹ء۔۱۸۰۵ء) اور یوبان وولف گانگ گویٹے (Johann Wolfgang Von Goethe)کی ہیں۔  ان کی اہمیت نہ صرف ان کی تحریروں کے اعلیٰ جو ہر بلکہ ان کی آئندہ مسلم الثبوت استادی میں مضمر ہے۔  ان دونوں کا یہ زبردست مقام اور اثڑ ایک مدت کے ان کے مشترکہ ادیبی لائحہ عمل اور تعاون کا بھی نتیجہ ہے۔  شلر کی تحریریں اپنی گہری سیاسی نوعیت کی وجہ سے اہم ہیں۔  اس کے اہم ڈراموں کے موضوعات آزادی، ریاست اور تکمیل انفرادیت ہیں۔  اس نے جمالیات پر اہم نظریاتی کتابیں بھی لکھیں جیسا کہ اوپر کہا جا چکا ہے ، اس کے عظیم تعلیم نسل انسانی کے پروگرام کا ایک حصہ بن گئیں ان تحریروں کا مقصد انسانی ذہن کی پختگی کی طرف رہنمائی کرنا تھا جو ایک آزاد زندگی کے لئے ضروری ہے۔  گویٹے کی طویل زندگی اس سارے دور کا کم و بیش احاطہ کرتی ہے جسے اکثر اوقات گویٹے کا دور کہا جاتا ہے۔  گویٹے نے تغزلی شاعری، ناول نویسی ڈرامہ و تنقید نگاری کے شاہکار تصنیف کیے۔  علاوہ ازیں وہ ایک مصور اور سائنس داں اور دنیا کی تاریخ کا غالباً آخری ہمہ گیر جینیس تھا۔  عالمی ادب کی اصطلاح میں (اور خود اسی نے یہ اصطلاح اختراع کی تھی) اس کی سب سے  اہم تصنیف ’’فاوسٹ‘‘ کا منظوم ڈرامہ ہے جسے مکمل کرنے میں اس نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ صرف کیا۔  ’’فاوسٹ‘‘ کا پہلا حصہ ۱۸۰۸ء اور اس کا دوسرا حصہ ۱۸۳۲ء میں شائع ہوا۔  بایں ہمہ گویٹے کی ادبی اہمیت خود اس کی زندگی میں اس کے ابتدائی ناول ’’نوجوان ورتھر کے کے مصائب‘‘ (۱۷۷۴ء) پر مبنی تھی۔  اس کہانی نے ، جو جاگیر دارانہ مطلق العنانی اور بورژوا عروج کی کش مکش کے دور میں ایک ناکام عشق کی داستان ہے یورپ کے تخیل کو مسخر کر لیا دور ثا n out of His Hoاور اسے تاریخ ادب جدید کی پہلی سب سے زیادہ بکنے والی کتاب سمجھنا چاہیے۔  گویٹے کا ایک اور ناول جس کے دو حصے ’’ولہلم مائٹرس لیریارے ‘‘ (Wilhelm Meisters Lehrjahre)اور ’’ولہلم مائسٹرس وانڈریارے (Wilhelm Meisters Wanderjahre)کہلاتے ہیں۔  اس جرمن نوع کی پیداوار ہے۔  جسے ’’بلڈنگر رومان‘‘ (Bildungsroman)کہتے ہیں۔  اور جو فرد کی تعلیم و تشکیل سے متعلق ہے اور جس کا موضوع سماج کی آویزش اور اشتراک و اجتماعیت کا ارتقا ہے۔

کلاپسٹاک کے برخلاف گویٹے اور شلر دونوں ہی بڑی حد تک جاگیردارانہ سرپرستی کے مرہون منت تھے لیکن درمیانی طبقے کی ترقی اور کتابیں پڑھنے والوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ ہم دیکھتے ہیں کہ لکھنے والے بھی زیادہ سے زیادہ تعداد میں آزاد و خود مکتفی ہوتے گئے ہیں۔  یہ بات ہمیں رومانی ادیبوں کے کارنامے کا تنقیدی جائزہ لیتے وقت جو انیسویں صدی کے پہلے ربع میں یورپ کی ادبی بساط پر چھائے ہوئے تھے یاد رکھنی چاہیے۔  یہ نکتہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ جرمن میں رومانیت ایک گہری ذہنی تحریک کی شکل رکھتی تھی جس کا محض بے محابا جذباتیت سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔

  اس تحریک کے بڑے بڑے لکھنے والوں نووالس (Novalis)لڈ وِگ ٹی ایک (Ludwig Tieck)ولہلم داکن ردڈر (Wilhelm Wackenroder)فریڈڑش شلیگل (Frie drich schlegel)اور اس کا بھائی اگست ولہلم شلیگل آئی۔  ٹی۔  اے ہاف مان، آشم فان ارنیم (Axhim Von Arnim)، کلیمنز برنتانو (Clemens Brentano)جوزف فان آئی شِن ارف(Josef Von Eichendorff)اور غالباً ہائن رش فان کلائسٹ (Heinrich Von Kleist)نے درمیانی طبقے میں اک فکری عینیت کے پنپنے میں مدد دی۔  جس کی ایک خصوصیت اس تضاد کا احساس تھا جو اس طبقے کی اقتصادی ترقی اور اس کی سیاسی بے بسی کے درمیان پایا جاتا تھا۔  غالباً یہی احساس ہے جس نے اس طنز کو جنم دیا جو رومانی انشا پردازوں میں اس قدر ممتاز و منفرد نظر آتا ہے۔  ہمارے نقطہ نظر سے یہ طنز واقعاتِ حیات پر ایک ذریعہ تنقید کی حیثیت رکھتا ہے۔  ایک گہرا تاریخی شعور ان لکھنے والوں کی تحریروں میں نمایاں ہے (یہ شور بھی رومانی دور کی پیداوار ہے اور اوپر ہم یہ بتا چکے ہیں کہ کسی طرح رومان پسندوں نے دور وسطیٰ اور سترہویں صدی کے ادیبوں کو پھر سے زندہ کیا تھا) لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ لوگ اس بات سے بھی واقف ہیں کہ تاریخ کی پچھلی صدیوں کو کسی مصنوعی طریقے سے زندہ نہیں کیا جا سکتا ایک بنیادی خیال جو ان کی تصنیفوں کے رگ و ریشے میں دوڑا ہوا نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان نے جنت کھو دی ہے اور وہاں دوبارہ پہنچنے کے لئے اسے تاریخ کے ارتقائی عمل سے گزرنا ضروری ہے۔  یہ اور اس طرح کے دوسرے موضوعات مثلاً بچپن کے پرسکون دو رمیں پناہ لینے کی نسلی آرزو اور انسان و فطرت کا باہمی ربط جسے تاریخ نے شکست و ریخت کر دی اہے ، ایسے موضوع ہیں جنہیں خیال پرستی کی انتہائی پرواز سمجھنا چاہیے۔

جرمن زبان کو اس زمانے میں زبردست بڑھا وا ملا۔  آرنم اور برنتانو نے بھولی بسری پرانی شاعری کے نمونے اور لوک گیت اپنی ’’ڈِس کنابن ونڈر ہارن‘‘ (۱۸۰۶ء۔۱۸۹۸ء) میں جمع کیے اور گرم بھائیوں باکوب اور ولہلم نے جو لسانیات کے ماہر تھے اپنے مشہور پریوں کے قصے شائع کئے (۱۸۱۲ء۔۱۸۲۲ء) میں اس طرح ادب کی زبانی اور تحریری روایتوں کی ایک تازہ آمیزش ہمیں اس دور میں دکھائی دیتی ہے۔  گرم بھائیوں نے اس لسانی ترقی کو اپنی نحوی نگارشات کے ذریعہ مزید تقویت پہنچائی اور ایک اہم لغت کی تیاری کی بنیادیں استوار کیں۔  مشرقی ادیبات کے مطالعے کی روایت بھی انہی دنوں شروع ہوئی۔  سرمایہ داری اور نو آبادی تسلط کے فروغ نے ایشیائی ادب سے ربط ضبط میں اضافہ کیا۔  کالیداس کی ’’شکنتلا‘‘ اور حافظ کے دیوان سے گویٹے کی پرتحسین دلچسپی کو سبھی جانتے ہیں۔  بہت سے رومانی مصنفوں کے لیے مشرق اور خصوصاً ہندوستان ایک افسانوی پیکر کا روپ رکھتا تھا۔  مشرق سے یہ دلچسپی آج تک بھی باقی ہے۔  اور ایک قدامت پسند یادِ ماضی اور خواہش قرار کی پناہ گاہ ہے۔  اس کا پرتو بیسویں صدی میں ہرمان ہسے (Hermann Hesse) (۱۸۶۲ء۔۱۸۷۷ء) کی تحریروں میں نظر آتا ہے۔  جیسا کہ اکثر کہا جاتا ہے ، اگر یہ مان لیا جائے کہ رومانی انقلاب کا علاقہ ماورائے تاریخ سے ہے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ہائن رش ہائی نے (Heinrich Heine)(۱۷۸۷ء۔۱۸۵۶ء) کا کارنامہ اس تصور کی ٹھوس نفی کی حیثیت رکھتا ہے۔  ہائی نے کی تحریروں میں تاریخ کا رومانی شعور تو اجاگر ہے لیکن ساتھ ساتھ اس کا سیاسی شعور دوسروں کے مقابلے میں بہت زیادہ گہرا ہے۔  اس کی شاعری جس میں ہجو اور بذلہ سنجی کا عنصر نمایاں ہے ، ایک تلخ لہجے میں رومانیت کے اختتام اور سیاسی و ذہنی عقیدہ پرستی کے آغاز کا اعلان ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس دور کے دانشور اپنے عصری مسائل کے ساتھ دست و گریباں ہیں۔

ہائی نے جو پیرس میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھا۔  اور جہاں اس کی ملاقات مارکس سے ہوئی تھی ان پہلے ادیبوں میں سے ایک ہے جنہوں نے اشتراکیت کی ضرورت کا ادراک کیا۔  اس معاملے میں جیارگ بشنر (George Buchner)اس کا ہمنوا ہے۔  بشنر بھی اپنی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے جلاوطنی پر مجبور ہوا اور قبل از وقت موت کا شکار بنا۔  انقلاب فرانس پر ایک اہم ڈراما ’’ڈانٹونس ٹاڈ‘‘ (Dantons Tod)ڈانٹون کی موت سے (۱۹۳۴ء۔۱۹۳۵ء) ایک سیاسی تھیٹر کی بنا پڑتی ہے۔  صنعتی ترقی کے مسائل اور جاگیردارانہ ریاستوں کی طرف سے جمہوری طریقوں کی مخالفت نے سماجی مسئلے کو ادبی میدان میں دھکیل دیا۔  رومانیت کے بعد کے لکھنے والوں مثلاً پلاٹن کرسچین ڈی ایٹرش (Christiam Dietrich)گرابے (Grabbe)اور نکولاولینا و (Nikolau Lenau)میں ہمیں اس صورتحال کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔

  اس کو آگے بڑھانے والے مصنف اس تحریک سے وابستہ ہیں۔  جسے نوجوان جرمنی کی تحریک کہا جاتا ہے ان میں جارج ہیرویگ (Georg Herwegu(۱۸۱۷ء۔۱۸۷۵ء) یا فردی نانڈ فرائی لی گراتھ (Ferdinand Freiligrath)۱۸۱۰ء۔۱۸۷۶ء) شامل ہیں۔  ہائی نے کی موت (۱۸۵۶ء) کے بعد کا جرمن ادب خاص طور پر جرمنی کی چھوٹی ریاستوں میں ایک شورہ پشت کردار کا حامل تھا۔  لیکن ۱۸۴۸ء کے جرمن بورژو ا جمہوری انقلاب کی ناکامی کے بعد جن مصنفوں کو عروج ہوا ان کے ہاں ہمیں کھلے سیاسی مسائل سے دلچسپی کی بڑی کمی نظر آتی ہے۔  اس انقلاب کی پشت پر جو قوتیں تھیں وہ بہر حال کسی وقت بھی زیادہ توانا نہیں تھی خصوصاً آسٹریا جیسے بڑے علاقوں میں جہاں فرانز گرل پارزر (Franz Grillparzer)(۱۷۹۱ء۔  ۱۸۷۲) کی تصنیفوں میں ہمیں کلاسیکی ڈرامے کا عروج نظر آتا ہے اور دوسری طرف یوہان نپومک نسٹرائے (Johan NEpomuk Nestroy)(۱۸۰۲۔  ۱۸۶۲ء) کے ناٹکوں میں پر مزاح عوامی کامیڈی کا فروغ دکھائی دیتا ہے۔  سویزرلینڈ اور آسٹریا ایسے علاقے ہیں جہاں ناولوں اور کہانیوں میں ایک شاعرانہ واقعیت پسندی کا رجحان ملتا ہے اس طرز کے اہم نمائندے اڈالبرٹ اسٹیف ٹر (Adalbert Stifter)(۱۸۰۵ء۔  ۱۸۶۸ء) گاڈفریڈ کلر (Gottfried Killer)(۱۸۱۹ء۔  ۱۸۹۰ء) کا نراڈ فرڈی نانڈ میئر (Conrad Ferdinand Meyer)(۱۸۲۵ء۔  ۱۸۹۸ء) تھیوڈوراسٹارم (Theodor Fontane)(۱۸۹۸ء۔  ۱۹۱۹ء) کے ناولوں میں پہنچ کر اس تحریک کو یورپی گیرائی حاصل ہوتی ہے۔  اور وہ اس قابل تبتی ہے کہ فرانسیسی اور انگریزی واقعیت پسندوں سے آنکھ ملا سکے۔

فونتا نے کے پرشیائی سوسائٹی کے بعض مرقعے ان مسائل کا عکس دکھاتے ہیں جو ایک ابھرتے ہوئے درمیانی طبقے اور ایک قدیم و قلعہ بند امرا کے طبقے کی باہمی آویزش کا نتیجہ ہیں۔  لیکن ان واقعیت پسند لکھنے والوں نے فکر کے بڑے بڑے میدانوں جن کو نظر انداز کر دیا تھا۔  آخر جب فطرت پسندتحریک (Naturalistic Movement)کو فروغ ہوا تب جا کر ادیبوں نے صنعتی تمدن کے پیدا کردہ مسائل اور مفلسی کی طرف توجہ کی۔  چنانچہ گرہارٹ ہارپٹمان (۱۸۶۲۔  ۱۹۴۶ء) کا ڈراما ’’ڈی بیبر‘‘ یعنی ’’جولاہے ‘‘ سالیشیا کے جولاہوں کے مصائب کی تصویر پیش کرتا ہے۔  ہاوپٹمان نے بعد میں تسلیم و رضا اور کنارہ کشی کا جو رویہ اختیار کیا اس سے پتہ چلتا ہے کہ بیسویں صدی کی ابتدا میں جرمن دانشور کن مسائل سے دو چار تھے۔  ان کا مسئلہ یہ تھا کہ سرمایہ داری اور اشتراکیت کے باہمی تصادم میں وہ کس فریق کا ساتھ دیں۔

پہلی جنگ عظیم سے قبل کا زمانہ متضاد طرز عمل کا زمانہ ہے۔  ایک طرف سٹیفان جیارگ (۱۸۶۸ء۔  ۱۹۳۳ء) اور اس کے حلقے کی خواص پسند کنالیت اور (۱۸۷۵ء۔  ۱۹۲۶ء) یا ہیو گوفان ہافما نستھال (۱۸۷۴ء۔  ۱۹۲۹ء) کی شاعری تھی اور دوسری طرف تھامس مان اور اس کے ہمسر بھائی ہائن رش مان (۱۸۷۱ء۔  ۱۹۵۰ء) کے ناول اکپرشنٹ گروپ کی پرزور تجرباتی شاعری اور رابرٹ مسل (۱۸۸۰ء۔  ۱۹۴۲ء) یا فرانز کا فکا (۱۸۸۳ء۔  ۱۹۲۴ء) کے ناول تھے جن سے بورژرا تہذیب کی بنیادی انسان دوستی اور مثبت روش اور اس کی سیاسی بے اعتنائی اور تذبذب یعنی اس تحریک کی طاقت اور کمزوری دونوں ظاہر ہوتے ہیں۔

دونوں عالم گیر جنگوں کا درمیانی زمانہ جسے وائی مار’’ دور کہا جاتا ہے ان رجحانوں کے کھلے ٹکراؤ کا زمانہ ہے۔  یہاں سے ادب میں ایک بڑھتی ہوئی واضح تفریق کا آغاز ہوتا ہے جس میں ایک طرف سامراجیت اور نو آبادیت ہے اور دوسری طرف وہ طاقتور مزدور تحریکیں جو روس کے اکتوبر والے انقلاب کے بعد بہت قوی ہو چلی ہیں۔  مستند لکھنے والے اب بھی درمیانی طبقے سے ابھرتے ہیں لیکن انہیں روم بروز اس دور تضاد میں اپنے مقام کے تعین کا مسئلہ در پیش ہے۔

اس سیاق میں برٹالٹ بریخت (۱۸۹۸ء۔  ۱۹۵۶ء) کی تصنیفات غیر معمولی اہمیت اختیار کر لیتی ہیں بریخت کے ڈراموں ، اشعار اور تنقیدوں میں ذہنی اور سیاسی وابستگی نمایاں ہے۔  جرمنی میں جمہوریت کی شکست اور فاشسٹی عناصر کے عروج نے تقریباً سارے اہم لکھنے والوں کو جلا وطنی سے دوچار کر دیا۔  اکسپرشنسٹ اور انسان دوست مفکر جو ہانس بیشر نے سوویت روس کا رخ کیا۔  نطیم آسٹرین ناول نگار ہر مان بروش (۱۸۸۶ء۔  ۱۹۵۱ء) تھامس مان اور بہت سے دوسرے لکھنے والوں نے ممالک متحدہ امریکہ میں پناہ لی مارکسی ناول نگار آنا سیگھرس (پیدائش ۱۹۰۰ء) نے میکسیکو کی راہ لی اور غالباً اکسپر شنسٹ مصنف گاٹفریڈین (۱۸۸۶ء۔  ۱۹۵۶ء) کے سوا جرمنی میں کوئی قابل ذکر دانشور اس دور میں باقی نہیں رہا۔  گاٹفریڈین نے کچھ دن فاشسٹوں کا ساتھ دینے کی کوشش کی اور پھر ایک ایسی ذہنی گوشہ نشینی اختیار کر لی جسے ہجرت کی ایک شکل کہنا چاہئے۔  اس زمانے کے بہت سے فاشزم کے مخالفوں نے جو ترک وطن نہیں کر سکتے تھے یا نہیں کرنا چاہتے تھے۔  اسی ذہنی ہجرت کا وطیرہ احتیار کیا۔  جلا وطنی جرمنی کی ادبی تاریخ میں کوئی نئی چیز نہیں تھی جب سے ہائی نے اور مارکس نے جلا وطنی کو کسی جرمن ریاست میں بود و باش اختیار کرنے پر ترجیح دی تھی۔  اس وقت سے ہجرت جرمن دانشوروں کی سوانح حیات کی ایک امتیازی صفت بن چکی تھی۔  بعض لکھنے والوں پر اس جلا وطنی نے مثبت اثر ڈالا۔  چنانچہ تھامس مان جس نے پہلی جنگ عظیم سے پہلے قوم پر ستانہ رویہ اختیار کیا تھا بہت جلد مخالف فاشسٹی نقطہ نظر سے وابستہ ہو گیا۔

۱۹۳۳ء کے بعد کا سارا اہم جرمن ادب جلا وطنی کی پیداوار ہے اور ان مسائل کو منعکس کرتا ہے جو فاشزم نے پیدا کر دیے تھے۔  اس کی مثالیں ہم کو بریخت کے ناٹکوں اور نظموں اور تھامس مان کے ناول ’’ڈاکٹر فاوسٹس (جس سے فاوسٹ کے اہم موضوع کی تجدید ہوتی ہے ) میں ملتی ہیں۔  جس طرح انیسویں صدی کی اہمیت علاوہ اور باتوں کے بہت کچھ اس صدی کی عینیت پرست تحریروں اور مارکسس اور اینگلز کی تصنیفوں پر مبنی ہے اسی طرح وائی مار دور کی اہمیت اس بات پر بھی قائم ہے کہ اس عہد میں فلسفیانہ مباحث میں اہم اضافے ہوئے جارج لوکاکنس، والٹرینجا امن اور رارنسٹ بلوخ جیسے فلسفیوں نے ادبی بحثوں میں حصہ لے کر ان کے وسیع تر سماجی مفہوم کی طرف رہ نمائی کی۔  دوسری جنگ عظیم کے بعد کا جرمن ادب ایک نیا منظر پیش کرتا ہے۔  جس میں ایک طرف مغرب کی فیڈرل ری پبلک آف جرمنی اور اس کا سرمایہ دارانہ نظام ہے اور دوسری طرف مشرق کی جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک اور اس کا اشتراکی نظام ان کے علاوہ بحال شدہ غیر جابندار آسٹریا اور سوئزر لینڈ، جرمنی کی ذہنی حیات کے احیا میں دونوں جرمنیوں کے شریک ہیں جنگ کے دوران کی ذہنی علیحدگی کے سبب لڑائی کے بعد کی نسل کے لیے ایک طرف اپنے ہم عصر یورپیوں کو جا لینا ضروری تھا۔  اور دوسری طرف اپنی اس فراموش شدہ روایت سے رشتے جوڑنا تھا۔  جسے جلا وطن جرمن دانشوروں نے پردیس میں زندہ رکھا تھا۔  اس بازیافت کی پیش رفت میں جن لوگوں نے حصہ لیا ان میں مسلک انسانیت کے نمائندے (تھامس اور رہائن رش مان، ایلیاس کینتی، بروش) مارکسی مصنفین (بریخت، اناسیگرس، جو ہانس بیشر اور فلسفی مثلاً ارنسٹ بلوخ، والٹربنجامن، جیارگ لوکاکس) اور وائی مار عہد کے تجربہ پسند لکھنے والے شامل ہیں۔  جنگ کے بعد کی ابتدائی تحریریں جنگ کی ہولناکیوں کے تلخ مرقعوں پر مشتمل ہیں۔  جیسے وولغگانگ بوشرت کی تحریریں آہستہ

آہستہ ان کی جگہ فاشسٹی ماضی کو مغربی سیاست کے سیاق میں دیکھنے اور سمجھنے کی پرعزم کوششوں نے لے لی۔  اس کی وجہ سے مصنفوں کی ایک سیاسی تقریق عمل میں آئی جس نے گیونتر گراس اور ہائن رش بول جیسے آزاد خیالوں (Liberats)کو ہانس میگنس انزنس برگر، پیٹریو مکارف مارٹن والزر، اور پیٹروائس جیسے بائیں بازو کے میلانات رکھنے والوں سے علیحدہ کر دیا۔  مزدور طبقے کی توانا زندگی نے (میکس فان دیرگیوں ، وائی مار روایت کے ایک اہم حصے کو زندہ رکھا۔

٭٭٭

روسی زبان و ادب

روسی زبان و ادب روسی زبان روسی زبان بھی روسی نسل کی طرح کئی یورپی اور ایشیائی نسلوں کا مرکب ہے۔  اور سلاف خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔  پچھلے دو ہزار برسوں کے دوران بحیرۂ بالٹک کے شمالی ساحل والے ’’فن‘‘ پھر وسطی روس کے ’’جرمن‘‘ اور بعد میں منگولیا سے لے کر اسٹیپی تک کے ’’منگول تاتار‘‘ قبیلوں کا خون سلافوں میں سرایت کر گیا ہے جو خاص روس میں آباد ہیں اور روسی زبان کی عہد بہ عہد تبدیلیوں اور ترقیوں کے جائز وارث ہیں۔  اگر تحقیق اس نتیجے پر پہنچ گئی کہ ’’فن‘‘ باشندے حتمی طور پر چین اور منگولیا کی طرف سے چلے تھے تو روسی زبان کا ایشیا سے دوہرا رشتہ ثابت ہو جائے گا۔  زبانوں کے ہند یورپی خاندان کی تین بڑی شاخیں سلاف سے تعلق رکھتی ہیں۔  مغربی سلافی، جنوبی سلافی اور مشرقی سلافی، ان ہی مشرقی سلافی زبانوں میں یوکرینی بیلو (سفید) روسی اور روسی زبانیں شامل ہیں۔  شمال میں بالٹک سے لے کر جنوب میں اوڈیسہ کی بندرگاہ تک اور مغرب میں پولینڈ کی سرحدوں سے لے کر جاپان کی طرف جزائر کیورائل اور سخالین تک گیارہ کروڑ سے زیادہ روسی آبادی اس زبان کو اپنی مادری زبان شمار کرتی ہے یوکرینی اور بیلو روسی ٹھیک اسی طرح سمجھ لیتے ہیں جیسے پنجاب ہماچل اور راجستھان کے شہری لوگ اردو کو۔

سوویت یونین کے وہ باشندے جن کی مادری زبان روسی نہیں اسے اپنی تعلیمی اور ملکی کڑی (لنگوافرانکا) کی حیثیت دیتے ہیں۔  مشرقی روپ کے کئی ملکوں میں اسے کم و بیش وہی سرکاری درجہ میسر آ گیا ہے۔  جو کامن ویلتھ کے ملکوں میں انگریزی کو۔  یو این او (اقوام متحدہ کی انجمن) میں اسے دنیا کی پانچ بڑی زبانوں میں گنا جاتا ہے۔  رسائل اور کتابوں کی تعداد اشاعت کے لحاظ سے دنیا میں روسی زبان کا نمبر دوسرا ہے۔  ہندوستان کی تمام یونیورسٹیوں نے اس کی تعلیم اپنے نصاب میں شامل کر لی ہے۔  سوویت یونین سے باہر روسی زبان کی تعلیم و اشاعت امریکا (U.S.A) میں سب سے زیادہ ہے۔

روسی زبان کے ارتقا میں شروع سے ہمواری نہیں رہی سیاسی تاریخ کے بے ہنگم جھٹکوں کا مادی قوتوں اور وسیلوں کی بد نظمی کا بھی اس زبان کی جڑ بنیاد اور اٹھان پر گہرا اثر پڑا ہے۔  مسیحی سن کے شروع ۹۰۰ برس میں قدیم روسی زبان کی شکل صورت کیا تھی اور کیوں کر اس کی تین بڑی شاخیں ہو گئیں۔  علمائے لسانیات میں اس پر اختلاف ہے۔  تاہم یہ حقیقت ہے کہ زبان کی صرف و نحو ہجے اور تلفظ کے اعتبار سے یوگو سلاویہ اور بلغاریہ سے لے کر یورال تک کی مشرقی سلافی زبانوں میں موجود یگانگی اور یک رنگی قدیمی رشتے کا پتہ دیتی ہے۔  زبان کی ساخت اور داستانوں ، سفرناموں اور وقائع (Annals & Letopisi) کی پرداخت سے یہ ضرور ثابت ہو چکا ہے کہ قدیم روسی ریاست ماسکوراج قایم ہونے سے بہت پہلے جب روس کا سیاسی اور تہذیبی پائے تخت شہر کیف تھا۔  نویں کے آخر اور دسویں صدی عیسوی میں قدیم روسی زبان پر مقامی لہجوں لفظوں اور بولیوں کا اثر بڑھتا گیا۔  مقامی بولیوں نے خاص وہیں کے معاشی اور تہذیبی رشتوں کے سائے میں جیسے چلنا سکھا دیا زبان ویسے چلی اور یوں ایک طرف تو وہ رنگا رنگی کی بدولت مالامال اور تازہ دم ہوتی گئی دوسری طرف سے مرکزی حالت نے اس کی شاخیں الگ الگ کر دیں۔

 بولی کی سطح سے اٹھ کر اور پھیل کر روسی زبان کو تحریری حروف (تہجی) کب ملے؟  غالباً دسویں صدی کے آغاز میں کیف میں جہاں کیف راج اور یونانیوں کے درمیان عہد نامہ لکھا گیا (۹۱۱۔  ۹۴۵ء) اینٹوں ، پتھروں ، پتروں اور برتنوں پر کیف اور اس کے بعد شہر نو ودگرد میں جو عہد نامے یا تاریخیں درج ہوئی ہیں (اور حال میں ہی ملی ہیں ) یہ بتانے کو کافی ہیں کہ دسویں صدی کے دوران کارندوں کاری گروں اور امرا میں لکھنے پڑھنے کا رواج ہو چلا تھا۔  کیف شہر یورپ اور ایشیائی خطوں کے درمیان ایک تجارتی شاہراہ پر واقع ہونے کی بدولت تہذیبی اور سیاسی مرکز بن کر اٹھا تو یونان کے علم، روم کے مذہب، باز نطینی مرکز، مسیحیت سے گہرے رشتے استوار ہونے کے ساتھ ترکوں ، عربوں اور ایرانیوں کے مذہب اور تہذیب سے بھی سابقہ پڑا۔  ان کے پختہ اور منجھے ہوئے زبان و بیان اور اثر قبول کرنا لازم تھا۔  روسی زبان کے ارتقا کی یہ بھی ایک اہم کڑی ہے۔

دسویں صدی ختم ہوتے ہوتے شاہ روس ولادیر نے قسطنطنیہ کے ’’سچے مذہب مسیح‘‘ کو خود بھی اختیار کیا اور اس کی عام تبلیغ بھی شروع کر دی۔  تبلیغ کے جوش میں یونانی حروف اور مذہبی کتب کو روسی تحریر کے لیے نمونہ قرار د یا گیا۔  پادری مبلغ تعلیم یافتہ تھے انہوں نے روسی زبان کو آغوش تربیت میں لیا تو قدیم رنگ کو جدید لہجہ ملا۔  عبادتوں ، مذہبی داستانوں ، ادب آداب کے بیانوں میں انجیل کے الفاظ و استعارات دخیل ہوتے گئے یہاں تک کہ لکھت کی زبان بولی سے دور اور زیادہ شائستہ بنتی گئی۔  گیارہویں صدی کے وسط تک روسی زبان بولنے والی آبادی قدیم بے میل سچے مسیحی مذہب میں داخل اور انجیل قصص الانبیا کی زبان سے (براہ راست ترجموں کے ذریعے ) مانوس بلکہ مالا مال ہو چلی تھی۔  آج تک روسی زبان پر اس کے باقیات کا اثر ملتا ہے حروف تہجی اور تراکیب کے تشکیلی زمانے میں (۱۱۰۶ء سے ۱۱۰۸ء) کے درمیان سولہ مہینے پر ائرڈینل (Daniel) نے صلیبی فاتحان یورپ کے ساتھ فلسطین میں گزارے اور ’’مقامات مقدسہ کا سفر نامہ‘‘ لکھا۔  یہ سفرنامہ روسی زبان کی اولین تحریر میں شمار ہوتا ہے۔

شاہ کیف ولادیمر مونوماخ نے جو تمام روس کا بادشاہ مانا گیا اولاد کو  نصیحت اور اخلاق کی تلقین کے لیے نیم مذہبی نیم ادبی دستاویز لکھی۔  یہ بھی ایک نمونہ ہے اس ابتدائی دور کی تحریری روسی زبان کا مگر وہ مکمل اور معتبر تصنیف جس سے گویا روسی ادب کی تاریخ شروع ہوتی ہے۔  ’’ایگور کے حملے کا بیان‘‘ (Chubo Onochy Vrapebe) ہے یہ رزمیہ داستان جو شیخ سعدی کی گلستاں سے نصف صدی پہلے (بارہویں صدی کے آخر میں) تصنیف ہوئی، روسی شہزادے کی فوجی شکست کے اس نثر و نظم ملے پر جوش بیان میں روسی زبان کی والین فتوحات کا اشارہ ملتا ہے ۔  ادبی شان دکھانے کے باوجود مصنف (جو اپنے ہم عصر ہندوستانی بھاٹ چندر بردائی کی طرح) شاعرانہ مبالغے اور نثر کے تسلسل دونوں سے بیک وقت کام لیتا ہے۔  مذہبی احتیاط سے بے پروا ہو کر عوامی رسموں ، عقیدوں ، دیوی دیوتاؤں ، راہبوں ، واہموں اور موسم کی دل فریبیوں میں گم ہو جاتا ہے۔  یوں ہمیں روسی زبان کی ابتدائی ترقی کے تینوں رنگ یکجا مل جاتے ہیں۔  روز مرہ کے واقعات اور معاملات کی زبان ادبی چاشنی والی جس میں شاعر یا مصنف اپنے تخیل سے کام لے اور مذہبی خیالات اور اخلاقی تعلیمات کی جچی تلی زبان جو قدیم سلاف زبان پر روسی بولی کے غلبے کی نشاندہی کرتی ہے۔

 مذہبی مبلغوں اور درس گاہوں نے عوام کو وہم پرستی جنگ و جدل اور بد اخلاقی سے نکالنے کے لیے ان کی عام زبان کو وسیلہ بنایا تھا۔  اصلاحی کوششیں اور میدانوں میں کامیاب ہوتیں یا ناکام مگر ایک بکھری ہوئی بولی ضرورتاً  ’’ریختہ‘‘ ہوتے ہوتے اتنی ادبی توانائی اختیار کر گئی کہ نظم کے ساتھ ساتھ نثر کا بار اٹھا کر قدم بڑھا سکے۔  سورماؤں اور رجواڑوں کے باہمی اختلاف نے کیف کی مرکزیت توڑ دی طوائف الملوکی میں نووودگر ابھرا، ریاستیں ابھریں ، ایشیائی خانہ بدوش پولو فتسی بت پرست جنگ آزما قبیلوں کی یلغار بڑھ گئی یہاں تک کہ ۱۲۲۳ء میں ہولناک منگول حملہ اور وں نے دریائے کالکا کے کنارے روسیوں کو تباہ کن شکست دے کر مرکزی ریاست، ترقی یافتہ مذہبی سماج اور ترقی پذیر زبان کی ساری امنگوں پر پانی پھیر دیا۔  اور آج اس ہمت شکن دور سے پہلے کی صرف دو تین تحریری شہادتیں باقی رہ گئی ہیں۔  منگول تاتار شہسواروں نے وسط ایشیا سے گھن گھور آندھی کی طرح اٹھ کر ملتان سے صرف بغداد تک ہی بربادی نہیں پھیلائی، نو

ےہ لے ( کا اشارہ ملتا ہے ) خیز روسی ریاست اور زبان و ادب کو بھی مسل ڈالا۔  ہر محاذ پر پسپائی اور بالآخر تاتاری زریں خیل (Golden Hordes) کی غلامی قبول کیے ابھی سو سال نہ گزرے تھے کہ روسیوں میں سر اٹھانے اور اپنا سیاسی فوجی اور تہذیبی بچاؤ کرنے کا جذبہ شدت سے ابھرا اس جذبے کو صحیح رخ دینے والی شخصیتیں بھی ابھر آئیں۔  نوووگرد کے پرنس (راجہ) الیگزینڈر نے شمال میں دریائے نیوا کے کنارے سویڈن کے زبردست لشکر کو شکست دے کر شمالی حملوں کا سلسلہ بند کرد یا اور نووگرد کو ہوشیار سیاست کی بدولت تاتاری یلغار سے صاف بچا لیا۔  کیف کی جگہ ماسکو، نوووگرد، تولا اور ریازان کے گڑھ بننے لگے۔  ماسکو ریاست کا بنیاد پتھر پرنس دنیل نے تیرہویں صدی کے آخر میں رکھا اور ۱۳۶۷ء میں ماسکو قلعے (کریمیلن) کی سنگین فصیل بن کر تیار ہو گئی۔  اسقف اعظم نے ماسکوکو ’’سچے سلاف کلیسا‘‘ کا مرکز مقرر کر کے یہیں ہیڈ کوارٹر بنا لیا۔  ۱۳۸۰ء میں تاتاری سپہ سالار مامائی کے زبردست لشکر نے کولی کووا کے میدان جنگ میں روسیوں کے ہاتھ پہلی شکست کھائی۔  روسی سپہ سالار دیمتری (جودانسکوئے (Danckou/کے لقب سے مشہور ہے اس میدان کا فاتح سورما تھا اور اس کی داستان عوامی گیتوں اور داستانوں کا رنگ لیے ہوئے گاؤں گاؤں پھیل گئی۔  یہاں تک کہ ’’ایگور کے حملے ‘‘ والی داستان کی طرح اس کی بھی نثر و نظم میں ملی جلی داستان تصنیف ہوئی۔

زدون شچینا جو ریازان کے پادری سفوینا نے ایک نسل بعد تاریخی واقعے پر لکھی تھی۔  لیکن روسی زبان و ادب میں اسے فتح کی یادگار کی حیثیت ملی۔  اور جب نیاروس تاتاریوں کی پورے ڈھائی سو برس کے غلامی کا جوا اتار کر اٹھا تو اس نے اپنی ادبی زبان کی نئی اٹھان کے لیے نمونے یہیں سے لیے۔  البتہ اب اس زبان میں تاتاری دربار اور میدان کارزار کے الفاظ اصطلاحات اور بعض جملے بھی شامل ہو گئے تھے جن میں سے کئی سو اب تک زندہ ہیں۔  ماسکو کے اختیار، اعتبار اور مدار بڑھنے میں اس کی جغرافیائی مرکزیت کو ہی نہیں لسانی مرکزیت کو بھی دخل تھا۔  کئی بولیاں ولادیمر، رستوف، سوزدل اور تویر علاقوں کا مقامی رنگ لیے ہوئے ماسکو تک پہنچتی اور ایک دوسرے میں ضم ہو جاتی ہیں۔  ریاست کا دائرہ عمل جتنا بڑھتا گیا ماسکو اس ابھرتی اور نکھرتی ہوئی زبان کی ٹکسال بنتا گیا۔  شکست خوردہ فاتح سورماؤں کے گن گان کی رزمیہ منظوم داستانیں لکھیں تو کم گئیں ، اکتارے یا پرانی وضع کی، سارنگی پر گاؤ ں گاؤں سنائی گئیں بہت۔  ہندوستانی بھاٹوں اور قصہ خوانوں یا داستان گویوں کے یہ روسی ہمزاد کیف کے دو ولادیمروں کو ایک بنا کر رستم کی زور اور ی کے اڑتے ہوئے واقعات کو ایلیا مورمز سے جوڑ کر یونانی دیو مالا کے قصوں کو اپنے ممدوح سے نسبت دے کر کچھ حکایات کچھ تخیل اور زبان دانی کی گوٹ لگا کر ’’مقدس روس‘‘کے کافر تاتاری دشمنوں کے حلاف جذبات جگاتے اور گیتوں کی دھن پر زبان و ادب کی سوکھی کھیتی کو پانی دیتے پھرتے ہوں گے کہ آخر ان کی داستانوں کا نام ہی ’’بیلینی‘‘ پڑ گیا یعنی بیتی باتیں جو تیوہاروں یا شادی بیاہ کی تقریبوں میں نوٹنکی (یا برہ کتھا) کے طور پر سنائی جاتی تھیں۔  ان کے علاوہ منظوم میلادِ مسیح کی محفلیں جمتی تھیں۔  روحانی کلام بھی ’’بیلینی‘‘ کی طرح اکثر زبانی اور کسی قدر تحریری پڑھ کر سنایا جاتا تھا۔

 مذہب نے جس زبان کو پال پوس کر کسی قابل کیا تھا اب وہ شوخ ہو گئی تھی اور مذہبی اخلاقی قصوں گیتوں اور نصیحتوں کے درمیان روسی عادتوں کی چھوٹ، ساقی نہ، تیوہار نامہ اور شادی نامہ بھی چپکا دیتی تھی۔  کہیں کہیں اس میں مفلسی اور تباہ حال روس کا شکوہ اور جاگیرداروں اور کارندوں پر چوٹ بھی کی جانے لگی۔  رزمیہ، بزمیہ اور اخلاقی روحانی۔  تینوں قسم کی ’’بیلینی‘‘ کم و بیش تین صدی تک سینہ بہ سینہ چلتی اور گھٹتی بڑھتی رہیں کہا جا سکتا ہے کہ پندرہویں صدی کے خاتمے تک روسیزبان کے ارتقائی درجوں کا نشان کہیں ملتا ہے تو ان شاعرانہ داستانوں اور اخلاقی قصوں میں جن کے موضوع رزمیہ، بزمیہ (تفریح، تیوہار) اور مذہبی یا روحانی رہے اور جو سینہ بہ سینہ تھوڑی بہت مقامی یا لسانی بیانی تبدیلیوں کے ساتھ نسل در نسل منتقل ہوتے گئے۔  دیوی دیوتاؤں تاتاریوں اور سوئیڈن والوں سے جنگ کے مبالغہ آمیز رجزیہ بیان کے علاوہ ان میں تثلیث (ماں ، بیٹا، روح القدس) کی دیسی تعلیم بھی پائی جاتی ہے، جیسی گیتوں میں رچ کر زبان زد ہوسکے۔

 سترہویں صدی کے وسط سے جب چھاپے کی مشین غیرملکی زبانوں خصوصاً لاطینی و یونانی زبانوں سے تراجم لغات اور سوانح و واقعات کی ترتیب کا کام سرکاری اور کلیسائی مخلوط سرپرستی میں آ کر پھیلنے لگا تو روسی زبان اور روسی ادب کی تاریخ کا تسلسل قائم ہو جاتا ہے۔  اس سے پیشتر کی نثر و نظم ملی داستانوں اور مذہبی تحریروں کو یکجا کر کے یہ نتیجے نکالنا غلط نہیں کہ (ا) روسی زبان کے ارتقا میں مذہبی لٹریچر کا اور اس کے عالموں کا بڑا ہاتھ رہا۔  چودہویں صدی تک کے ۷۰۸ عنوانات میں صرف ۲۰ قطعی غیر مذہبی ہیں۔  (ب) روسیوں کے طبعی اور سیاسی حالات نے ان میں مظلومیت، محرومی، جبر اور فطرت پرستی کا جو مزاج پیدا کر رکھا تھا زبان و ادب کو (بلکہ آرٹ کو بھی) فطرت یا ارضی حقیقت پسندی کے نزدیک رکھا۔  (ج) زبان و ادب اور دینیات کے کئی عالم آزاد خیالی کے کارن ’’بدعتی‘‘ ہونے کے الزام میں سزا یاب ہوئے مثلاً یونان سے یہ عالم کتب دینی میکم یا پادر اواکوم نے جنہوں نے روسی زبان کی پہلی آپ بیتی لکھی پہلے کئی برس سزا کاٹی اور پھر ۱۶۸۲ء میں انہیں زندہ جلادیا گیا۔  (د) سترہویں صدی کے وسط سے (جب سرفڈم یا نیم غلام کسان رکھنے کا قانونی حق جاگیرداروں کو ملا) پیٹر اعظم تک روسی زبان میں نثر کا رواج برائے نام تھا۔  چند نثری قصے ’’پودستی‘‘ اور ’’رسکازی‘‘ جن پر اور سورما کے خیالی بیان میں بھی عوامی گیتوں اور تک بندیوں کا اثر لیے ہوئے ہیں نثر کے منطقی ربط اور تسلسل کی ادھوری کامیابی کا پتہ دیتے ہیں۔

یونانی شاعروں اور نثر کے ترجموں نے ہمسایہ ممالک خصوصاً سوئیڈن، پولینڈ کے ادب اور تہذیبی اثرات نے روسی دانش مندوں میں گیت اور دھن کی شاعری سے آزاد ہو کر نثر لکھنے کی امنگ پیدا کر دی تھی۔  کلیسائی سلافیائی گرامر اور سلافیائی یوکرینی لغت کی اشاعت کے علاوہ (۱۶۷۲ء میں قایم ہونے والے ) پہلے روسی تھیٹر کا قیام بھی مدد گار ثابت ہوا۔  تھیٹر اگرچہ شاہی خاندان کے لیے تیار ہوا تھا ڈرامے بھی جرمن زبان میں اور جرمن ایکٹر نے پیش کیے مگر فی الجملہ روسی نثر کے لیے نشانِ راہ ثابت ہوئے۔  پیلوتراول (یا پیٹر اعظم) نے یورپ کے تاریخی سفر سے (جہاں اس نے جہاز رانی اور جہاز مازی کی تربیت حاصل کی) واپسی پر جمود کی شکار روسی زندگی کو نیا چولا بدلوایا۔  حوصلہ مند اور بے دریغ بادشاہ نے نہ صرف کلیسا پر سے پیٹر یارک (اسقفِ اعظم) کا اقتدار ہٹا کر قدیم امرا کی داڑھیاں اور چوغے اتروا کر بلکہ یورپ کے شمالی سمندر کی طرف روس کا پھاٹک کھول کر (۱۷۰۳ء میں سینٹ پیٹرزبرگ کی بنیاد رکھی گئی اور دس سال مسلسل روم اور وینس کے طرز پر اٹھایا ہوا یہ شہر روس کا پائے تخت قرار دیا گیا) معاشرتی اصلاحات کے ذریعہ موڈرن روس اور اس کے جدید زبان و ادب کے لیے ٹھوس سماجی بنیاد مہیا کر دی۔  ’’پولش یورپی لہر سے ہو کر یوکرینی زبان میں دخیل بین الاقوامی اصطلاحات و تراکیب نے روسی ادب، زبان کی لغت کا سرمایہ بڑھا دیا۔  روس کی علمی اصطلاحات میں لاطینی زبان کا تعلیمی تہذیبی رول بڑھتا گیا۔  اور یوں روس کی سائنسی تکنیکی اصطلاحوں کا مغربی یورپ کی انٹر نیشنل علمی اصطلاحوں اور زبان سے قریبی رشتہ بنے کی زمین ہموار ہو گئی۔

  پیٹر اعظم کے دورِ آخر (۱۷۰۳-۱۷۲۵ء) میں جرمن سوئیڈن اور فرانسیسی اہلِ علم و فن خصوصاً ڈاکٹروں ، بیوپاریوں ، مستریوں ، کارخانہ داروں اور فنکاروں کی قدردانی اور ہمت افزائی کی بدولت یہ تعلق اور بڑھا روسی رہن سہن پر اور زبان و ادب پر اس کا اثر بڑھا اور نئے روس میں وہ تعلیم یافتہ طبقہ بڑھتا چلا گیا۔  جس کی پشت ایشیا سے لگی ہوئی اور منہ یورپ کی طرف تھا۔  پچھلے ڈھائی سو سال روسی زبان کی تاریخ اسی اجمال کی تفصیل ہے۔

 اٹھارہویں صدی روسی زبان میں نظم و نثر کے نئے اٹھان کا قدیم و جدید الفاظ و انداز بیان کے درمیان آویزش اور آمیزش کا زبان میں فصاحت کے نئے معیار قایم کرنے کا زمانہ ہے اور اسی دور میں یہ تحریک بھی چلی کہ زبان کو عوامی اور اشرافی کے مابین ایک معتدل قومی رن دیا جائے۔  ثقیل بے لطف لغات اور بازاری الفاظ و تراکیب خارج کر کے اس میں غیر ملکی خصوصاً ایسے فرانسیسی الفاظ واستعارے استعمال کیے جائیں جو روسی لب و لہجہ سے قربت یا ہم آہنگی رکھتے ہوں۔  اردو میں سراج الدین علی خان آرزو کے ہم عصر اے پی سومارکوف نے اپنے ہم خیالوں کے ساتھ یہ تحریک چلائی۔  یہ زبان کو صاف کرنے کی تحریک تھی۔  اے۔  دَ۔  کان تمسر کی لِسانی تحریک اس سے مختلف سمت میں اور فرانسیسی علم و ادب کے ماہرو۔  ل۔  تردیا کوف کی تحریک علمی ضابطہ بندی کی جانب تھی مگر وہ ادبی شخصیت جس نے نظم و نثر، رجزیہ اور منطقی، علمی اور افسانوی تمام شعبوں کا احاطہ کر لیا جس کی واحد شخصیت پوری ایک اکادمی تھی آزاد خیال سائنسی اور فنکارانہ کمالات کا سنگم وہ میخائیل مونوسف ہے۔  اس نے فرنچ اور جرمن الفاظ اپنانے کے اصول بھی مرتب کیے ، سائنسی ترقی کی راہ میں ان کی اہمیت بھی جتائی اور خود اپنے سائنسی اور ادبی کارناموں کے ذریعے ان کے علمی نمونے بھی پیش کر دیئے۔

  اٹھارہویں صدی کے نصف آخر اور انیسویں صدی کے اول کے دانشور اہل قلم میں چند نام ایسے ہیں جو بیک وقت کئی زبانوں ادبوں اور علوم سے گہری واقفیت رکھتے تھے اور انہوں نے روسی زبان و ادب کو علمی، تکنیکی اور تخلیقی تینوں سمتوں میں عوامی اشرافی اور قومی یا معتدل تینوں رنگوں میں اور نثر عاری، نچر مرصّع اور بیانیہ، فصاحت آمیز نثر، تینوں طرزوں میں تیزی سے آگے بڑھایا اور یورپ کی ترقی یافتہ زبانوں کے پہلو میں پہنچا دیا۔  یہ نام ہیں۔  اے این رادیش چیف، د۔  ای۔  فون ویزن، ن۔  ای۔  نووی کوف، گ۔  ز۔  درژاویں ، ای۔  اے۔  کری لوف۔  ان روشن ستاروں کو علم و فن کی قدر داں ملکہ کیتھرائن کا زمانہ ملا، خوش حالی کی فضا اور شاہی سرپرستی کی چھاؤں میسر آئی ملکہ اور صاحب اقتدار طبقے نے قومیت کی ترقی کے جوش میں آزاد خیالی اور ہنر مندی، فلسفیانہ نکتہ طرازی اور بے ضرر طنز گوئی کو تو بڑھاوا دیا آزاد خیالوں کی سرگرمی اور اہلِ قلم کی بے باکی کو ’’حد سے گزرنے ‘‘ نہیں دیا۔  طنز نگار صحافی اور ادبی نووی کوف قید ہوا۔  ڈرامے کا بانی فون ویزن اپنے اثر و رسوخ کی بدولت بچ گیا۔  درژاویں قصائد لکھنے کے صلے میں ملک الشعرا قرار دیا گیا۔  لومونوسف نے تمام ترکوششیں ماسکو یونیورسٹی قیام کرنے پر لگا دیں۔  نووی کوف نے روسی زبان کے اہل قلم کا جو پہلا روسی تذکر رہ لکھا ہے اس میں ۳۱۷ نام ہیں ان میں تاریخ ادب نے جنہیں آج تک نوازا وہ سب کے سب اپنے عہد کے بہترین ترجمان تھے ، تاہم روشن خیال دربار ان سے ہمیشہ بد گمان رہا۔

  شیکسپیئر کے ڈرامے بڑے اہتمام سے ترجمہ کئے گئے۔  لومونوسف اور تردیا کوفسکی کو ملک کی اکادمی علوم کا پہلا روسی ممبر چنا گیا جہاں جرمن راج کرتے تھے۔  سومارکوف نے پہلا روسی تھیٹر پائے تخت میں قائم کیا۔  ملکہ نے بڑے شوق سے دار الترجمہ کھلوایا۔  غیر ملکی ماہرین بلوائے جو غیر زبانوں سے اپنی نگرانی میں علمی ادبی فنی کتابوں کے ترجمے کرائیں۔  اہلِ دربار کی تفریح کے لئے مزاحیہ رسالہ نکلوایا۔  شعرا کو انعام و اکرام سے نوازا۔  ان سرگرمیوں کی بدولت شہری تہذیبی مرکزوں میں ادبی رسائل و کتب خرید کر پڑھنے والے ہزاروں خاندان سامنے آئے اور قصباتی جاگیروں میں خادموں اور مصاحبوں ، ہنر مندوں اور غیر ملکی اتالیقوں کے دم سے جا بجا تھیڑی شوق کو فروغ ہوا۔  اوپیرا ٹریجڈی اسٹیج کرنے کا رواج گویا پائے تخت کے ذوق کی تائید یا تقلید محسوب ہونے لگا اور قصباتی امراء نے اسے اپنا لیا۔  روس میں کلاسیکی اسیٹج کی ترقی لگن اور عام مقبولیت کا یہ بھی ایک سبب ہے۔  اس میں جاگیرداری نظام بالواسطہ شریک تھا۔  قصبات اور شہروں میں بکھری ہوئی صلاحیتوں نے تمثیل کے اسٹیج اور کتب بینی کے بڑھتے ہوئے شوق کے ذریعہ ایک نیا ماحول پیدا کر دیا۔  اسی ماحول میں ادیب اور ادب کو سماجی اعتراف میسر آیا جس کے نتیجہ میں اہل قلم نے خود کو اس کام کے لیے وقف کر دیا۔

تاتاری نسل اور روسی تربیت میں پلنے والا شاعر میرؔ کا ہم عصر انہیں کی طرح نازک مزاج صاحب طراز اور اپنے وقت کا ناخدائے سخن در ژادیں نے انیسویں صدی میں داخل ہوتے ہوتے روسی زبان و ادب کو وہ مقام عطا کر دیا کہ یورپ کی تمام بڑی بڑی زبانوں میں روسی کتابوں کے ترجمے شائع ہونے لگے۔  لومونوسف کی نثر و نظم، رادیش چیف کا سفرنامہ ’’پیترسیورگ تاماسکو‘‘ درژادیں کی نیم فلسفیانہ نظمیں ’’فے لیت سا‘‘ اور ’’خدا‘‘ فون ویزن کے سماجی طنزیہ ڈرامے صرف روسی زبان و ادب کے تین اہم طرزوں کے ارتقا کا نمونہ ہی نہیں ہیں بلکہ اس دور کے سماجی مسائل احتجاج اور مباحثوں کی بھی ترجمانی کرتے ہیں۔  مگر وہ شخص جس نے اس دور کی تمام ترامنگوں ، ترقیوں ، مباحث اور لسانی ادبی ارتقا کو اپنی تحریروں میں سمیٹ لیا روس کا پہلا معتبر مورخ کرافرین ہے جس نے شیکسپیئر کے لفظ بہ لفظ ترجمے سے ادبی زندگی شروع کی۔  ماہنامہ ’’ماسکو‘‘ نکالا (۱۷۹۱ء) ا ور موت سے چند گھنٹے پہلے تک ( ۱۸۲۶ء) ’’تاریخِ ریاست روس‘‘ کی بارہ جلدیں مکمل کر دیں ۱۸ ۱۸ء میں اس کی آٹھ جلدیں چھپ کر روسی زبان و ادب اور سماجی مسائل کا اہم مبحث بن چکی تھیں۔

 کرافین نے اپنے ماہنامے ، مضامین، ناولٹ ’’غریب لیزا‘‘ اور پھر تاریخ کی اولین جلدوں میں اس نکتے پر زور دیا کہ روسی زبان کو ایسی قومی شائستہ زبان بنایا جائے جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کی سمجھ میں آئے اور اس طرح کتابی اور روزمرہ کی زبان کا فاصلہ ختم ہو جائے ’’جیسے بولتے ہیں ویسے لکھیں ، جیسے لکھتے ہیں ویسے بولیں ‘‘۔  مگر خود کرافرین نے جرمن پروفیسر سے تعلیم لی تھی۔  مغربی یورپ کا طالب علمانہ سفر کیا تھا، فرنچ پر عبور پایا تھا، اپنی تاریخ اور تصانیف میں جو غیر معمولی موڈرن زبان اختیار کی اس نے قدیم ثقیل الفاظ ترک کر دیئے فصاحت کو غیرملکی سانچوں میں ڈھالا تو انیسویں صدی شروع ہوتے ہوتے روسی تہذیبی دنیا دو حلقوں میں بٹ گئی۔

  سلافی چلن کے حامی جدید حیثیت والے ترقی پسند۔  دربار داراشراف بیشتر اول حلقے میں شامل ہو گئے۔  درژاویں بھی ان کے حامی تھے۔  زوکوفکی دوسرے کے۔  انیسویں صدی کے اول چالیس سال روسی زبان و ادب کے نہایت اہم اور فیصلہ کن سال ہیں۔  ان میں اگرچہ اخبارات و رسائل اشاعت گھروں۔  ادبی حلقوں ، بحثوں پھبتیوں کی دھوم رہی تاہم نثر پر نثر حاوی ہو گئی۔  اس دور میں روسی شاعری نے یورپ کو جالیا ور اپنے استاد فرانسیسی اور انگریز رومانی شاعروں سے آگے نہیں نکلی تو پیچھے بھی نہیں رہی۔  اور پھر یہ ہماہمی سو سال نصیب نہ ہوئی۔

۱۸۰۳- ۱۸۴۴ء کا یہ مختصر زمانہ دو بادشاہوں ، دو سازشوں دو بغاوتوں اور دو نسلوں کے ساتھ مستقبل کے روس کی نشاندہی کرنے والا زمانہ ہے۔  شاعر زوکوفکی نے انگریزی، فارسی، جرمن اور فرنچ شعرا کے بے مثال ترجموں سے نسلِ حاضر کے سامنے نئی کائنات کھول کر رکھ دی۔  اس عاشق مزاج شاہی اتالیق اور خوش کلام شاعر نے منظوم ترجموں کو روسی ادبیات کی ایک مستقل صنف کا مرتبہ دلوایا تب سے یہ رواج اب تک چلا آ رہا ہے۔  زوکوفکی نے گرے سودی، گوئٹے اور بائرن کے منظوم ترجموں کو اصل کی پوری کیفیت بخش کر اپنے جوہر کا اضافہ کر دیا۔  تبھی سے روس کا ہر ایک پختہ کار شاعر اس خوش گوار رسم کی پابندی میں طبع آزمائی ضرور کرتا ہے۔  ’’سلاف دوست‘‘ اور ’’یورپ دوست‘‘ حلقے رفتہ رفتہ وسیع اور احاطہ دار ہوتے گئے۔  لیکن جدید سماجی سیاسی تصورات نے دانشوروں اور فوجیوں کے خفیہ حلقوں کی نئی نسل کو بلند بانگ بنا دیا۔  جس طرح سائنسی تکنیکی عبارتوں پر جرمن جدید کا اثر ہو رہا تھا شاعرانہ ادبی روسی زبان پر نوک پلک والی منجھی ہوئی فرنچ کا اثر پڑا اور آرٹ کی زبان پر اطالوی سروسامان کا اخباری کاروباری عدالتی زبان کے فروغ میں انگریزی شریک ہونے لگی۔

  نسلِ حاضر کی آگاہی میں سارا یورپ آن ملا۔  جن دنوں زوکوفکی جدید روسی شاعری کے علم بردار کی حیثیت سے سامنے آ رہا تھا تبھی دانائے روس ایوان کری لوف کھردری دیہاتی زبان پر ہلکی سی ادبی پالش کر کے قصے کہانیاں لکھ رہا تھا۔  گاؤں گاؤں پھر کر ارضی حقیقت اور جدید حسیّت کو یکجا کر کے اس نے ٹھیٹھ روسی کو ادب عالیہ کی صف میں پہنچا دیا۔  دربار نشین دیمترئیف بھی جس نے کری لوف کا حوصلہ بڑھایا حکایتیں لکھتا تھا مگر سعدی کی سی اخلاقی ادبی جرأت کرنے کو کری لوف نے پر پھیلائے اس کی کوششیں آج تک روسی ادب کے لئے قابل تقلید پرواز کی مثال ہیں۔  اس دور میں ڈیلونگ (Delving) اور بے لینسکی جیسے ناقدیزی کوف، چیوچیف، باتیوشکوف، براتینسکی، ویاریمسکی، ونے ویتی نف، کولتسوف الکسئے ٹالسٹائے ، لیر منتوف جیسے بے قرار پیش قدم، ندرت پسند حقیقی شعرا، گری بائیدف اور ارتیروف جیسے شاعر ڈرامہ نویس کری لوف جیسے شاعر مزاج حکایت نویس اور چادائیف جیسا فلسفیانہ بصیرت رکھنے والا مضمون نگار منظر پر دمک رہے ہیں۔  ان میں سے ہر ایک اپنے فن خاص میں یکتا ہے۔  ہر ایک نے ٹریڈیشن کا درجہ پا لیا ہے۔

 لیکن وہ شخص جو اپنے شعر، نثر، ناول ، افسانے ، منظوم، ڈرامے ، حکایات، تنقید تاریخ، انشایئے ، چٹکلے اور سیاسی یا ذاتی ہجو نگاری سے تمام ہم عصروں میں ممتاز اور تمام رنگوں پر حاوی اور اپنے عہد کا سب سے شوخ رنگ اور گہرا ترجمان ہے وہ الیگزینڈر سرگے یچ پشکن جس کا نام دراصل روس کے قومی ادب میں وہی مقام رکھتا ہے جو فردوسی اور حافظ ایران میں اس کا اہم عصر گوئٹے جرمنی میں اور غالب اردو میں۔  پشکن کے ہاتھ روسی شاعری نے گویا انیسویں صدی کے تمام مراحل طے کر لیے۔  پشکن اور اس کے ہم عصروں نے روسی زبان ’ادب کے تیز رفتار ارتقا میں ادب کے سماجی شعور اور شہری فریضے کو اتنا اہم مقام دیا کہ شاعری کی قوت نثری کی جانب بہہ نکلی۔  خود پشکن نے زندگی کے آخر دور میں نثر ہی زیادہ لکھی اور اس کے روحانی شاگردوں (مثلاً گوگول) نے نثر کے ارتقا اور نکھار پر اپنی تمام صلاحیت صرف کر دی۔

طنز، تنقید، افسانہ، ناول ، ڈرامہ اور سیاسی فلسفیانہ مضامین کا گویا ایک سیلاب انیسویں صدی کے وسط میں روس کے وسیع میدانوں پر اتر پڑا۔  نثری تحریروں کے اس سیلاب کا ایک بڑا سبب ’’سلاف دوست‘‘ اور ’’یورپ دوست‘‘ دانشوروں کے مباحث اور مقالات تو تھے ہی ’’منکروں ‘‘ (Nihilist) کی وہ سیاسی تحریک بھی تھی جو تمام قدیم قدروں سے عملی نجات پانے کے لئے دہشت پسندی، بغاوت اور قتل پر اتر آئی تھی۔  اس تحریک نے جس کی رہنمائی باکوتن جیسی شہرۂ آفاق ہستی کے ہاتھ میں تھی جدید ادبی قدروں کے تعین کی راہ ہموار کی۔  وہ خود یا اس کے ہمنوا تو بڑا ادب نہ دے سکے لیکن ہرتسن جیسے انقلابی بیلنسکی جیسے ناقد لافروف چرنے شیفنکی اور یساروف جیسے مفکر اہلِ قلم روسی ادب کو بخشے۔

پچاس برس کے دوران شاعری کا علم بلند رکھنے میں افاناسی فیت، تیوچیف اور نکراسوف کا ہاتھ ہے ادب میں افادیت اور سماجی مقصد پر اس قدر زور دیا جانے لگا تھا کہ الکسئے ٹالسٹائے نے فن برائے فن، شعر برائے تاثّر موسیقی و سخنوری برائے لطافتِ اظہار کا نعرہ بھی لگایا اور اپنی شعری تخلیق سے اس کا ثبوت بھی مہیا کیا۔  نکراسوف بالکل دوسری سمت میں سرگرم تھا۔  اس نے قصباتی زندگی، کاشت کار طبقے کی مظلومیت روس کی دکھی روح کو اعلیٰ درجے کے شاعرانہ اسلوب سے بے نیاز ہو کر گیتوں کہانیوں ، قصوں کا شاعرانہ رنگ دے دیا۔  پشکن کی ٹریڈیشن کو نئی زندگی عطا کر کے خود نکراسوف نے اپنے لیے حیات جاوداں خرید لی۔  وہ آج بھی اس دور کا نمائندہ اور عوامی شاعر شمار ہوتا ہے۔

 نکولائی گوگول ( ۱۸۰۹- ۱۸۵۲ء) جس نے طنزیہ افسانوں اور ناولوں کے ذریعہ عالمی شہرت پائی۔  معاصر روسی سماج کا سب سے بڑا نقاد ہے۔  اسی کے دور میں دستوئئیفسکی جیسے عالمی شہرت و عظمت کے ناول نگار نے روسی زبان و ادب میں پہلا نادر تجربہ (بچارے لوگ) پیش کیا۔  انیسویں صدی کے آٹھویں عشرت تک دونوں محاذوں یا حلقوں نے اپنے بہترین اہل قلم آگے بڑھا دیئے۔  ’’ روسی قسم کے نقاد گری گورووچ (دیمتری) پی سسکی، گنچاروف، تورگنیف اور سالتی کوف ہیں اور اس کے وکیل اکسا کوف دستوتیفکی، لسکوف اور ٹالسٹائے دونوں طرز کے ناول نویس حقیقت نگار اور نکتہ چیں تھے لیکن ’’یورپ دوست‘‘ اپنی قوم اور اس کے طرز معاشرت و خیالات کی خامیاں اور برائیاں دکھا کر رہ جاتے ہیں ’’سلاف دوست‘‘ اپنے مشاہدے سے نتیجے نکالتے ہیں اپنی قوم کی تمام خامیوں کو تسلیم کر کے ان کی توجیہہ کرتے ہیں اور ان کی کوشش یہ ہے کہ ایک فلسفۂ حیات تعمیر کریں ایک قومی نصب العین قائم کریں جو روسی فطرت سے مناسبت رکھتا ہو۔  وہ ہمیں یقین دلاتے ہیں کہ روسی قوم اپنی زندگی کی تشکیل اور اعلیٰ اصولوں کی پیروی کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔

 تورگنیف، گوگول، گنچاروف اور ومتوتیفسکی نے ڈرامے کو اپنا ادبی ہتھیار نہیں بنایا تھا لیکن ان کے ہم عصر الیگزینڈر استروفسکی (۱۸۲۳- ۱۸۸۶ء) نے ڈرامے پر خاص توجہ کی، ۴۴ ڈرامے لکھے اور ایکٹروں ، ڈائرکٹروں کی نئی نسل پر اتنا گہرا اثر ڈالا کہ روس میں کلاسیکی اصولوں سے ہٹ کر نئے قسم کے تھیٹر کی داغ بیل پڑ گئی۔  ماسکوآرٹ تھیٹر پی سمیسکی، پوتے خن، تورگنیف اور گوگول نے اولین کامیاب طرز جدید کے ڈرامے اسی جدید اسٹیج پر پیش کیے۔

انیسویں صدی کے اکثر روسی افسانہ و ناول نگاروں کو اسٹیج کے ذریعہ زبان زد اور موثر بنانے کی سرگرمی اس تھیٹر نے نہ صرف جاری رکھی بلکہ اور وں کے لئے مثال قائم کر دی۔  روسی ادب میں حقیقت نگاری کی جڑیں زندہ رکھنے والی زبردست تصانیف میں دستوتیفسکی، تورگنیف، سچدرین (طنز نگار) اور لیوٹالسٹائے کا نام انیسویں صدی کا نمائندہ ہے۔  لیوٹالسٹائے نے تین جلدوں میں اپنی سوانح حیات ( ۱۸۵۲- ۱۸۵۷ء) لکھکر ادب کی اس صنف کی آب یاری کی۔  سوانح میں حقیقت و افسانہ کی آمیزش نثر کے علاوہ نظم پر اثر انداز ہوئی۔  صدی ختم ہوتے ہوتے روسی ادب، تورگنیف، ٹالسٹائے ، استروفسکی، لیکوف، دستوتیفسکی اور کرولینکو کے جدا جدا فلسفہ حیات اور طرز انشا سے مالا مال اور رنگا رنگ ہو چکا تھا۔  حقیقت نگاری پر زور دے چکا تھا ،عالمی ادب میں با عزت مقام پاچکا تھا، تب آنتوں چے خف کے مضامین اور افسانے اور شاعری میں سمبولزم (علامت نگاری) کی تحریک نمودار ہوئی۔

صحافت سے ابتدا کر کے چھوٹے بڑے افسانوں اور بالآخر ڈراموں اور جدید تر ڈرامے کی بنیاد رکھنے والا آنتون چے خف سماجی مسائل کو اپنے فن کا موضوع بنانے سے منکر اور انسانی فطرت کا گہرا نبّاض تھا۔  صفِ اول کے روسی افسانہ نگاروں اور ناول نویسوں کے درمیان ابھرنے والے چے خف نے کسی ایک معمولی سی صورتحال، کسی غیر معمولی واقعے ، معمولی سے آدمی اور کسی ایک موڈ کی سوانح عمری لکھ کر اپنی راہ الگ نکالی۔  بیسویں صدی کے آغاز میں وہ اور ٹالسٹائے روسی زبان و ادب کے ارتقا میں سب سے بلند رتبہ اور قبول عام حاصل کر چکے تھے۔  ٹالسٹائے اپنے فلسفہ ’’اہنسا‘‘اور پُر امن عدم تعاون کو ادبی نقش دینے کی بدولت (اس فلسفے اور طرز حیات نے گاندھی جی کو راہ دکھائی) چے خف اپنے مشاہدہ فرد اور خلوت میں انجمن تلاش کر لینے کے سبب، دستوئیفسکی مشاہدۂ نفس اور سماجی حقیقت کے شعور میں پلاٹ کی پیچدار بناوٹ اور بیان کی تہ دار سادگی میں ان دونوں کا پیش رَو بلکہ رہنما ثابت ہوا۔  کہا جا سکتا ہے کہ روسی زبان و ادب نے انیسویں صدی کے آخر میں اپنے ما قبل انقلاب عروج کا دور گزارا۔

اس دورِ عروج میں روسی اہلِ قلم میں یہ توقع سرایت کر چکی تھی کہ فرنچ اور  انگریزی ادب و تہذیب اپنے آخر معیاروں کو پہنچ کے ہیں نئے معیار تلاش اور پیش کرنا اب روسیوں کو مقدّر ہو گا۔  اس کے آثار شعر و نثر میں ظاہر ہو رہے تھے کہ ۱۹۰۵ء کا انقلاب ۱۸۲۵ء کی دسمبر بغاوت کی طرح ناکام ہو گیا اور کئی اہلِ قلم کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔  سمبولزم کی تحریک نے فرانسیسی فنکاروں اور شاعروں کے اثر سے روسی شاعری کو (اور اصناف کے مقابلے میں ) زیادہ اپنی گرفت میں لیا۔  شاعر بریوسف، وسلویوف، ایوانوف، مرزکوفسکی، زنائیداہی یس، بالمونت اینسکی اور الیگزینڈر بلوک کے ناموں اور کارناموں نے روسی شاعر کو پھر ایک بار اپنے یورپی ہم زبانوں کا ہم قد کر دیا۔  اس تحریک کو جو مذہب، تصوّف، علامت، استعارہ اور خوش گوار با معنی آوازوں کو اپنا کر اٹھی تھی بریوسف اور بالمونت نے علی الاعلان نئی اور تازہ دم تحریک کہہ کر پیش کیا مگر اس کا سب سے بڑا اور خاموش اثر انداز ترجمان الیگزینڈر بلوک ہے جس نے اپنے ہم عصر شاعر آندرے بیلی کی طرح انقلاب ۱۹۱۷ء میں مسیح موعود کی واپسی دیکھی اور جب وہ ہاتھ نہ آئی تو اداس اور مطعون ہو گیا۔

  علامت نگاروں کی اس کہکشاں سے منہ پھیرنے کی وجہ کچھ انقلابی حالات تھے اور کچھ بلوک کی اداس پر وقار، فکر مند شاعرانہ فضا اور ادبی، فنی، تحریک۔  ایک مضمون بعنوان ’’وضاحت بیانی کی شانِ حسن‘‘ چھپا اور ’’شاعر برادری‘‘ قائم ہوئی۔  یہ لوگ اپنے سے پہلے تمام استعاراتی رمزیہ مبہم فکری طرزوں کے خلاف لفظوں کو ان کے دو ٹوک اور بے باک معانی دینے کے قائل اور موسیقی کے سوتیلے رشتے سے انکاری تھے ۸۰، ۱۰ برس ان کا اثڑ رہا تاہم ’’پوئٹ گلڈ‘‘ میں شریک ہونے والے درجنوں شاعروں سے صرف تین نام اور ان کے جداگانہ طرز کا نمونہ ہائے کلام اب تک اس تحریک کی اہمیت جتاتے ہیں اور وہ ہیں : نکولائی گومیلیوف اس کی پہلی بیوی آننا احمتووا اور اوسپ منڈل اسٹام اس عبوری دورکے نثر نگاروں میں تین عبوری مگر اثر انگیز فکر خیزا دیبوں کا نام لیے بغیر روسی ادب کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔  الیگزانڈر کو پرن، آندرتیف اور ایوان بوکین جو مختلف ادبی تحریکوں اور سماجی موجوں کے درمیان جھکولے کھاتے ہوئے وزنی ادبی کارنامے اچھالتے رہے۔  ۱۹۱۱- ۱۹۱۲ء نوجوان شعرا اوراہلِ قلم نے ایک سانس میں تمام گذشتہ ’’ہیرا پھیری‘‘ اور ’’خوش ذوقی‘‘ کو قلم زد کرنے کا اعلان کیا۔

چار اہلِ قلم، و خلیب نیکوف، مایا کوفسکی ایل کروچونیخ اور دوید بورلیوک نے اپنے دستخطوں سے مینی فیسٹو نکالا عنوان تھا ’’طمانچہ بر رخسارِ ذوق سخن‘‘ انہوں نے شاعر کا للکارا کہ بادلوں سے اتر کر زمین پر قدم رکھے ، دھندلکے سے بچ کر کھُردری صنعتی و سیاسی حقیقتوں کی آنکھ میں آنکھ ڈالے ، پرانی تشبیہات و استعارات سے دامن بچا کر، موسیقی کے اثرات سے پاک رہ کر، نئے درست اور جاندار الفاظ کی پوشیدہ موسیقی کو ابھارے لفظوں کے لغوی معنی سے قطع نظر کر کے اور کسی لفظ سے شرمائے نہیں۔  یہ ادبی تحریک مستقبل پسندی (Futurism) کہلائی۔  اس ہجوم میں جسے زمانے کی ساز گاری نصیب ہوئی۔  سب سے قد اور شخصیت شاعر مایا کوفسکی کی ہے۔  خودرو اور مقبول عام قصباتی شاعر سرگئے نی بیسے نِن بھی اس تحریک سے متاثر ہوا لیکن وہ اپنی نرم گفتار غنائی شاعری سے آزاد نہ ہوسکا۔  مایا کوفیسکی نے اپنی وہ روش ترک کر دی۔  روسی ادب کو متاثر کیا اس نے ہر طرح کے الفاظ اور رجزیہ انداز کو قبول عام بخشا اور بالآخر اس تحریک کا رنگ اڑنے سے پہلے دونوں نے خودکشی کر لی۔  ۱۹ ۱۸- ۱۹۲۰ء کازمانہ خانہ جنگی میں گزار ہنگامی ادب کے شور میں درمیان بیدنی جیسے نیم ادبی شرا اور بگدانوف جیسے ایجی ٹیٹر قلم کا رمنظر پر چھا  گئے۔  پرولتاری تہذیب (پرولت کلت) کا غلغلہ بلند رہا جس کی دین یہ ہے کہ جن لوگوں نے کبھی قلم نہیں پکڑا تھا وہ بھی انقلابی اور تعمیری جوش میں روسی زبان و ادب میں اپنے اچھوتے مشاہدات اور اپنی دیسی بیان لے کر آ گئے۔

 یہ سلسلہ دوسری جنگ کے خاتمے تک چلا اور اس کی تنظیمی شکل کل روسی انجمن مصنفین (R.A.P.P) کہلائی۔  عین اسی زمانے میں شاعری کے تقاضوں کی آڑمیں ایک ادبی رجحان پل رہا تھا۔  تصور و تمثیل نگاری کا Imaginismکے نام سے جس کے اکثر حامی آگے چل کر یا خاموش ہو گئے یا نکالے گئے۔  ورنہ سرکاری اجازت نامے لے کر ہجرت کر گئے۔  لیسے نن کو اسی تحریک سے منسوب کیا جاتا ہے۔  شاعر پاسترناک بھی اسی تحریک سے متاثر رہا ہے۔  بلکہ اس کا صحیح نمائندہ ہے۔

خانہ جنگی کا دور ختم ہوتے ہوتے تعمیر پسند مصنفین کا آہنگ نثر و نظم میں ابھرتا ہے ، اور تیسرے عشرے میں وہ تعمیرت (Constructionism) کے نام سے حاوی رہتا ہے۔  اس نے شاعری کو ایلیا سلوینسکی اور باگر اتیسکی اور کسی حد تک زابو لیتسکی دیے۔  مگر ادبی پسند اختیار کرنے اور ادب کا ذوق رکھنے والوں کی روز افزوں اور بے اندازہ تعدا دمیں ایزاکبیبل اور میکسم گور کی سب سے نمایاں ہیں۔  ا ول نے حقیقت کے ہیجان انگیز روپ کو اپنی سادہ بیانیہ نثر اور بیانیہ نثر اور غنائی نظموں میں اسیر کیا اور آخر الذکر نے بیان کی تمام قوتوں کو انقلاب اور اشتراکیت کے تعمیری پروگرام کے سپرد کر دیا۔  دونوں عوامی نکتہ چینی کا شکار ہوئے بیبل خفیہ پولیس کی حوالات میں مرگیا گو ر کی نے لینن کے مشورے سے انجمن سازی کے مضامین لکھے اور بالآخر اشتراکی حقیقت پسندی کا نعرہ بلند کیا ( ۱۹۳۲- ۱۹۳۴ء) ۔  فرمانوف اور ع پلنیاک نے خانہ جنگی کے کرداروں کی زندگی معرکے سفرنامے رزم نامے اور ربوتاژ لکھ کر اس نعرے کی عملی تفسیر پیش کی۔  ۱۹۳۴ء سے ۱۹۵۴ء تک کے بین ان روسی زبان و ادب میں ایک جانب خلفشار اور زبان بندی کے دوسرے جانب نئے تجربات اور بیباک فنی امنگوں کے سال ہیں۔  ادب نے اگرچہ نئی سمت قدم نہیں بڑھایا تاہم زبان دوہری مشق کی بدولت عوامی اور زیادہ علمی بن گئی۔  ایک تو پرانے الفاظ کی سکہ بندی اور صیقل سے ، دوسرے غیر ملکی اصطلاحوں کی یلغار اور بیانیہ گنجائشوں کے اختیار کرنے سے۔  اس زمانے کا ادب اور ادیب حقیقت پسندی کے مختلف ہلکے ہلکے گہرے غنائی اور جارحانہ رنگوں کے ساتھ الگ سے تفصیل طلب ہے اور اس نے خود کو بیشتر نثری کارناموں میں ظاہر کیا ہے۔

سرافیمی (Serapion) بھائیوں یعنی اہلِ قلم کی وہ ٹولی جو سرکاری لائن کی پابندی قبول نہیں کرتی تھی۔  زمیائن وایوانوف ’م‘ زوشجینکو اور سلانمیسکی کے سرکش قلم کے دم سے اپنا اثر ظاہر کرتی رہی پھر بھی اشتراکی حقیقت پسندوں یا انقلابی حقیقت نگاروں کا اثر مذاق عام پر طاری ہو گیا۔  ناول نگار فدئیف پلیناک، پوالیوشا اور لیونڈ لیونف زندگی اور فن کے نشیب و فراز کے باوجود اس دور کے ’’مستند ادبی رجحان‘‘ کی ترجمانی کرتے رہے۔  یہاں تک کہ کئی لاکھ چھپنے والے ناول ’’مادایا گواردیا‘‘ (قافلہ شہیدوں کا) کے مصنف فدئیف نے ۱۹۵۶ء میں خود کشی کر لی۔  گورکی کے انتقال ( ۱۹۳۶ء) کے بعد معتوب یا مشکوک ادیبوں کا کوئی وکیل صفائی نہ رہا جو ادب و سیاست کے حلقوں پر اثر انداز ہوسکے۔  اور احتساب بڑھ گیا۔  اس احتسابی شدت سے الگ تھلگ روسی زبان میں ’’شبہ سے بالاتر‘‘ غیر ملکی کلاسیکوں کا ترجمہ ہوتا رہا اور بعض اہم شخصیتوں نے ادب کی لو اونچی رکھی۔  ان میں میخائیل شولوخف، الکسئے ٹالسٹائے ، پاوستوفسکی، پاستر ناک، ایلیا اہرن بورگ، پرشی وین اور شاعروں میں زبولوتسکی، تو دوفسکی، انتا کولسکی، سلوخن، اپنے سائے میں شاعرانہ صداقت کے ان جواہر پاروں کو بچائے رہے جن سے ۱۹۵۴ء کے بعد روسی زبان و ادب کو روشنی اور قدروقیمت ملتی تھی۔  روسی ادب کے ہاتھ سے کسی وقت بھی کلاسیکی وضع کی جری حقیقت پسندی کا دامن نہیں چھوٹا۔  یہاں تک کہ مارچ ۱۹۵۳ء کو اسٹالین کے انتقال کے بعد روسی ادب کی نئی آوازوں نے باہر کی دنیا کو یہ تاثر دینا شروع کیا گویا روس کے نوجوان دانشور اور اہل قلم اس نظام سے بے زار ہیں۔  حالانکہ دراصل وہ دل کا غبار نکالنے میں مصروف تھے۔

بیسویں پارٹی کانگریس (مارچ ۱۹۵۶ء) کے ساتھ ہی نہ صرف جدید ( ۱۹۲۴ء کے بعد ولادت کے ) شعرا نے کھلے مجمعوں میں اپنا طنزیہ فریادی یا غنائی کلام سنانا شروع کیا بلکہ جن شعرا کو سرکاری طور پر رد کیا جا چکا تھا ان کا کلام بھی منظر عام پر لایا جانے لگا۔  مثلاً آننا احمتووا، زوشجنکو، پاسترناک یونین مارینا سوئتا ئیو اور گیور کی ایوانوف۔  وامی شہ ملی تو شاعری کی آواز نثر سے اونچی ہو گئی۔  دو دینت سیف (V.Dudintsev) کا ناول صرف روٹی سے نہیں ‘‘۔  ایلیا اہرن بورگ کا ناول ’’پگھلاؤ‘‘ (The Thaw) لٹسو گرانین پنفیورف کے ناول اور بالآخر ’’ڈاکٹڑ زواگو‘‘ نے ادبی دنیا میں ہلچل مچادی۔  سرکاری ادبی پالیسی کی تائید یا تعبیر میں لکھنے والے نکولائی خنوف کیجے توف، سفرانوف وغیرہ شاعر صحافی اور ڈرامہ نگار اپنی عام مقبولیت کھونے لگے۔  روسی شاعر نے ایک نئی کروٹ لی اور انیسویں صدی کے کلاسیکی شعرا اور جدید شاعرانہ کارناموں سے رنگ و آہنگ لے کر تقریباً بے لاگ و بے باک شاعری کو یہاں تک قبول عام بخشا کہ مشرق سے زیادہ مغرب میں اس کا چرچا ہوا۔

  آندرے وزنے سینسکی، ایوتوشینکو، رابرٹ رزوسیت وینسکی، یلا احمد اللینا، وناکوروف کا تازہ کلام روس کے نوجوانوں میں بھی اسی قدر مقبول ہے جتنا ملک کی مغربی سرحدوں کے پار۔  ان کے ہاں جدید مغربی طرز سخن کی جھلک ایشیائی شاعری کی دیواروں سے دور اور فن کی جدید ترین لہروں پر رقص کرتی نظر آتی ہے۔  جدید تر روسی ادب تقلید سے آزاد ہونے کی کوشش کر رہا ہے یہ بات وزنے سینسکی اور رژویست وینسکی کے کلام میں زیادہ نمایاں ہے نثر نے سائنسی رنگ پکڑا ہے۔  سامترے ، نتسن اور ابرام توز وغیرہ کے ناول معتوب ہونے کے باوجود روس کے تازہ ترین ادب میں اہم مقام رکھتے ہیں۔

٭٭٭

 

ومانیتوئے۔  ااسے بگارڈ اطالوی زبان و ادب

اطالوی زبان و ادب اطالیہ کی سرکاری تعلیمی ادبی اور قومی زبان اطالوی ہے۔  لیکن زندگی کے معمول، کاروبار اور روز مرہ کی بول چال میں یہ زبان بہت کم برتی جاتی ہے۔  اس غرض کے لیے اطالوی اپنے ملک کی متعدد مقامی بولیوں یا قومی زبان کی مقامی شکلوں کا استعمال کرتے ہیں۔  بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو قومی زبان بول ہی نہیں سکتے اور صرف مقامی بولی ہی جانتے ہیں۔  اپنی مختلف شکلوں کے ساتھ اطالوی کم و بیش پانچ کروڑ انسانوں کی زبان ہے اور اطالیہ کے علاوہ سوئٹزرلینڈ ضلع ٹی۔  چی۔  نو (Ticino)اور جزیرہ کارسیکا میں بولی جاتی ہے۔  ممالک متحدہ امریکہ اور ارجنٹینا (Argentina)میں آ بسنے والے اطالوی مہاجرین ایک عرصے تک اطالوی زبان بولتے رہے لیکن اب انہوں نے انگریزی اور ہسپانوی زبانیں اپنا لی ہیں۔  اور اطالوی ترک کر دی ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد جب اطالیہ نے اپنی افریقی نو آبادیاں کھو دیں تو وہاں بھی اطالوی زبان کا چلن آہستہ آہستہ تقریباً ختم ہو گیا۔  اطالیہ کی مقامی بولیوں کا اپنا اپنا ادب اور بعض صورتوں میں بہت اچھا ادب موجود ہے۔  فرانسیسی ہسپانوی پروونسال (Provencale)رومانیائی (Roumanian)پرتگیزی اور کتلانی (Catalon)کے ساتھ اطالوی ان زبانوں میں سے ہے جو لاطینی سے براہ راست نکلی ہیں اور رومانی (Romance)نو لاطینی (Neo-Latin)زبانیں کہلاتی ہیں۔  فلارنس کی بولی فیورنیتنی (Fiorentine)چند آمیزشوں اور اضافوں کے ساتھ آہستہ آہستہ اطالیہ کی قومی زبان کی حیثیت سے نمودار ہوئی۔  اطالوی دیس کی متعدد بولیاں (Dialects)بول چال کی لاطینی کے بطن سے اسی طرح وجود میں آئیں جیسے ہندوستان میں سنسکرت سے مختلف پراکرتیں

 رومہ کی شہنشاہی میں (جو اطالیہ پر محیط تھی) لاطینی کی دو شکلیں رائج تھیں۔  ایک عامی (Plebius)جو بعد میں عامیانہ یابازاری لاطینی (Vulgaris)کہلانے لگی اور دوسری شستہ یا ادبی لاطینی، عامیانہ لاطینی اطالیہ کے مختلف علاقوں میں بول چال اور تحریر دونوں میں مستعمل تھی۔  گو اس کی تحریری دستاویزات کاسراغ دسویں صدی عیسوی سے پیشتر مشکل ہی سے ملتا ہے۔  زمانے کے ساتھ ساتھ عامیانہ لاطینی میں مقامی تبدیلیاں پیدا ہوئیں اور اس کی کئی علاقائی شکلیں اطالوی بولیوں کے روپ میں نمودار ہوئیں۔  ان میں فیورنتینی یاتسکانوی (Tascano-Tuscan)جو لاطینی سے زیادہ قریب تھی آہستہ آہستہ دوسری بولیوں پر غالب آتی گئی۔  دانتے نے جب چودہویں صدی میں اپنی کتاب ’’کچھ عوامی زبان کے بارے میں (De Vusgris Eloquentia)‘‘ لاطینی میں تصنیف کی تو یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ ملک کی ادبی زبان ایسی ہونی چاہئے جو اطالیہ کی ساری بولیوں سے مرکب ہو۔  لیکن جب اس نے اپنی لا فانی شاعری کے لئے اپنے وطن فلارنس کی بولی کو منتخب کیا تو گویا آئندہ ملک کی ادبی زبان بننا اس بولی کا مقدر ہو گیا۔  ۱۹۳۹ء میں اطالوی اکاڈمی نے جو لغت تیار کی اس میں یہ نظریہ اختیار کیا گیا کہ اطالوی کا تنا تو فلارنس ہے لیکن اسے ملک کی ساری بولیوں سے رس حاصل ہوتا رہا ہے۔  اس لغت میں رومہ کے تلفظ اور محاورے کو (جو ۱۸۷۱ء سے اطالیہ کا پایۂ تخت ہے ) کافی اہمیت دی گئی ہے۔  گویا اطالوی زبان کے محور کے دو نقاط فلارنس اور رومہ ہیں چنانچہ بعض لوگ ’’رومی ذہن میں تسکانوی زبان میں بات کرتے ہیں اور لسانی نصب العین سمجھتے ہیں۔

اگر ان تھوڑے سے عربی، یونانی، فرانسیسی، ہسپانوی اور اطالوی مشتقات سے قطع نظر کیا جائے جو اطالوی میں پائے جاتے ہیں تو ہم دیکھیں گے کہ یہ زبان در اصل لاطینی ہی ہے۔  اس کے حروف تہجی لاطینی ہیں۔  اس کا ذخیرہ الفاظ صرف و نحو اور عروض سب زیادہ تر لاطینی ہی سے لئے گئے ہیں وحشی جرمن قبائل کے متعدد حملوں اور ملک کے مختلف علاقوں میں گاہ بہ گاہ فرانسیسی، ہسپانوی اور عربی تسلط کے باوجود اس زبان پر بیرونی اثرات کم مرتب ہوئے اور اس کی اصلیت اور لاطینیت ہمیشہ برقرار رہی۔  بہت کم لفظ اس کی لغت میں بدیسی ہیں (یہ جاننا دلچسپی کا باعث ہو گا کہ جن لفظوں میں اے ال (Al)یعنی ’’ال‘‘ کاسابقہ پایا جاتا ہے وہ عربی الاصل ہیں۔  اس لحاظ سے عموماً اور صوتی اعتبار سے خصوصاً اطالوی ایک بااصول اور قاعدہ پرست زبان ہے۔  اس میں ہر آواز کے لیے ایک ہی حرف استعمال ہوتا ہے جس کی وجہ سے اگر کوئی نَو آموز حروف کی آوازوں سے واقف ہو جائے تو اس کابولنا اور لکھنا آسان ہو جاتا ہے۔  البتہ صوتی تاکید (Accent)کا صحیح استعمال ایسا سہل نہیں ہے۔

٭٭٭

چینی زبان و ادب

چینی زبان

چین میں کئی نسلیں یا قومیں آباد ہیں۔  اکثریت جس نسل کی ہے اس کا نایم ہان ہے۔  چین کی ۹۳ فی صد آبادی اسی نسل کی ہے۔  اور چینی زبان سے مراد اسی اکثریت کی زبان ہے۔  چین میں آباد دوسری قوموں مثلاً منگول، منچو، تبتی، یوئیگر (Uigurs)وغیرہ کی اپنی الگ الگ زبانیں ہیں۔  بول چال کی چینی زبان نہ صرف ہر صوبے کی بلکہ ہر ضلع کی ایک دوسرے سے مختلف ہے۔  مشہور چینی ماہر لسانیات و ماہر صرف ونحو پروفیسر وانگ لی کا بیان ہے کہ یوں تو چین کے لوگ مختلف بولیاں بولتے ہیں لیکن ان بولیوں کی پانچ بڑی قسمیں نمایاں نظر آتی ہیں۔  جو یہ ہیں۔

(۱) کوان ہوا (Kaun-Hua)

(۲)ودیو (Wu-yo)

(۳) من یو (Min-Yo)

(۴) آویو (Ao-Yu) اور

 (۵) کے چی ہوا (Ke-Chia-Hua)یا ہاکا۔

  کوان ہوا جو مغربی زبانوں میں مینڈرین کہلاتی ہے۔  چین کے سرکاری افسروں کی زبان ہے۔  جو رفتہ رفتہ اس ملک کے شمالی صوبوں میں بسنے والے ہان عوام میں رائج ہو گئی۔  اس کے علاوہ یہ زبان دیائے یانگسی کے جنوب میں واقع چند صوبوں میں بھی بولی جاتی ہے۔  کوان ہوا یا مینڈرین کی ترکیب نحوی بنیادی طور پر شمالی چین کی بولی پر مبنی ہے اور اس کا تلفظ پیکنگ کی بول چال کے مطابق ہوتا ہے۔  ۱۹۱۱ء میں منچو شاہی خاندان کے زوال کے بعد جمہوریہ چین کی حکومت نے ایک اعلان کے ذریعہ کوان ہوا کو ’’کویو‘‘ (Kuo-Yu)یا قومی زبان قرار دیا۔  ۴؍ مئی ۱۹۱۹ء کی تحریک کے دوران کویو نے ہان آبادی کی مختلف بولیوں کے الفاظ، اصوات اور فقرے اپنے اندر جذب کر لیے۔  چین کی موجودہ حکومت نے اسے ’’پلوتھنگ ہوا‘‘ (Plu-ATung-Hua)یا ملک کی عام زبان قرار دیا ہے۔  اور اس زبان کوملک کی غیر کویوگو آبادی میں مقبول بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔  چینی جب کوئی لفظ ادا کرتا ہے تو اس کی آواز یا تو پنچم سر میں ہو گی یا مدیر سر میں۔  یا پھر آواز پہلے دھیمی ہو گی اور اس کے بعد اونچی ہو جائے گی۔  کسی لفظ کے تلفظ کی ادا ئیگی میں آواز کے اس اتار چڑھاؤ سے لفظ کا مفہوم بدل جاتا ہے۔  بنا بریں کہا جا سکتا ہے کہ بول چال کی چینی زبان ایک ہم صوت (HomoPhonic) زبان ہے مطلب یہ کہ لفظ کی صوتی شکل تو ایک ہی رہتی ہے لیکن لہجے اور آواز کے زیر و بم سے معنی بدل جاتے ہیں۔

  بول چال کی چینی زبان میں چار سر رائج ہیں۔  جدید چینی ایک ایک رکنی زبان ہے یعنی پورا لفظ ایک بار میں ادا ہوتا ہے۔  اس کے ٹکڑے نہیں ہوتے۔  چینی زبان اولاً اٹھارہویں صدی قبل مسیح میں ضبط تحریر میں لائی گئی تھی اور آج بھی اس کا رسم الخط تصویری ہے۔  کانگ سی نامی منچو شہنشاہ کے عہد میں ۱۷۱۶ء میں ایک لغت مرتب کی گئی تھی جو ۴۷۰۳۵ تصویری اور تصوراتی علامات پر مشتمل ہے لیکن آج اس قسم کی جو علامتیں اور حروف تہجی عام طور پر مستعمل ہیں ان کی جملہ تعداد تخمیناً ۸۰۰۰ ہے۔

چینی رسم الخط

چینی رسم الخط کی پیچیدگیوں کو دور کرنے کی غرض سے عوامی چین کی کانگریس نے ۱۹۵۸ء میں ’’چینی زبان کے صوتیاتی ہجے ‘‘ کا منصوبہ نافذ کیا۔  صوتیاتی املا کے اس منصوبے کے مطابق چینی زبان میں اب جملہ ۲۷ رومن حروف تہجی، ۶ حروف علت اور ۲۱ حروف صحیح رائج ہیں۔  حکومت چین نے رومن رسم الخط کے رواج کے ساتھ ہی ساتھ روایتی پیچیدہ تحریری علامتوں کی اصلاح کا کام بھی شروع کیا اور اس وقت تک ۲۲۳۸ علامتوں پر اصلاح کا عمل ہو چکا ہے۔

  چینی ادب  کی تاریخ

قدیم ترین دور کے جو آثار کانسے کے برتن وغیرہ کی شکل میں دستیاب ہوئے ہیں ان سے حاصل شدہ معلومات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ چینی ادب کا آغاز گیارہویں صدی قبل مسیح سے پہلے ہوا۔  بہت ممکن ہے کہ اس دور میں تحریری چینی زبان ابھی من و عن وہی ہو کیوں کہ اس کی شکل نہایت سادہ تھی اور تحریر میں لگ بھگ صرف ایک سو علامتیں مستعمل تھیں۔  اولین دور کے ادب میں عوام کے سادہ طرز زندگی اور مظاہر فطرت سے متعلق ان کے جذبات میں خوف یا حیرت کا عکس نظر آتا ہے۔

چینی ادب کے ارتقا کا دوسرا دور گیارہویں صدی قبل مسیح سے شروع ہو کر تیسری صدی قبل مسیح تک جاری رہا۔  تین قدیم تصانیف ایسی ملی ہیں جن میں اس دور کی چند ادبی تخلیقات محفوظ ہیں۔  ان تصانیف کے نام ہیں شیہ چنگ (Shih ching)یا مجموعہ نظم شوچنگ (Shu-Ching)یا تاریخ چین اور ای چنگ (Yi Ching)یا تغیرات نامہ ان قدیم ادب پاروں کی تالیف و ترتیب کا کام کنفیوشس (۵۵۱۔  ۴۷۹ق م) نے کیا تھا۔  متذکر رہ بالا مجموعہ نظم چونکہ اپنی نوعیت کی قدیم ترین تالیف ہے اس لیے اس کا شمار چین کے سب سے زیادہ بیش بہا ورثے میں کیا جاتا ہے۔  اس کتاب میں ۳۰۶ نظمیں شامل ہیں جن کا انتخاب ۳۰۰۰ سے زیادہ نظموں کے اپنے ذاتی ذخیرے سے خود کنفیوشس نے کیا تھا۔  اسلوب اور طرز ادا کو پیش نظر رکھ کر ان نظموں کو تین علاحدہ علاحدہ اقسام میں بانٹا گیا ہے۔  پہلی قسم کی نظمیں فنگ یوک گیت کہلائیں۔  دوسری قسم گیتوں پر مشتمل ہے اور تیسرے قسم میں قصائد درج ہیں۔  دوسری قسم کے دو ذیلی حصے ہیں۔  ایک سیاؤیا یا مختصر غنائی گیت دوسرا تایایا عظیم غنائی گیت۔  جنگ و جدال کے زمانے (۴۱۴۔  ۲۲۱ق م) کی ممتاز ترین تصنیف چوزو (Chu-Tzu)یا چو کی شاہی سلطنت سے متعلق مجموعہ نظم ہے۔  چوخانوادے کا ایک رئیس جس کا نام چویوان (Chu-Yuan)تھا اس دور کا عظیم ترین شاعر مانا جاتا ہے۔  اس کا شاہکار ’’لی ساؤنامی‘‘ ستر مصرعوں سے زیادہ کی نظم ہے جس میں شاعر نے اہل ملک کی حالت زار سے متعلق اپنے تعلق خاطر کا اظہار کیا ہے اور بادشاہ کی بیہودگیوں اور بدنفس وزیروں کی سازشوں کو بھی طشت از بام کیا ہے۔  چویوان نے ایک اور نظم بھی لکھی تھی جس کا عنوان تی ان ون (Tien Wen)یا قدرت سے خطاب ہے۔  اس نظم سے اس قدیم ترین عہد کی بعض روایات کا پتہ چلتا ہے۔  اس زمان کے دوسرے مشہور شعرا تنگ لیہ (Tangleh)چنگ چائی اور سنگ یو (Sung-yu) تھے۔

اس دور میں چین میں کئی نثر نگار بھی پیدا ہوئے جن کی تحریریں زیادہ تر تاریخی دستاویزات کی حیثیت رکھتی ہیں یا پھر ایسی تصانیف ہیں جن میں فلسفیانہ خیالات کا اظہار کیا گیا ہے۔  چین کا چن شاہی خاندان (Chin)۲۲۱ ق۔  م سے صرف بارہ سال تک برسر اقتدار رہا۔  اس عہد کا سب سے بڑا اہل قلم لی زو (Li szu) تھا۔  ادب کی بعض اصناف کا رواج پہلی بار ہان خانوادے (۲۲۰۔  ۲۰۶ق۔  م) کے عہد میں ہوا۔  زے۔  ماشیان (Sze-ma Chiens)’’شی چی‘‘ یاتاریخی دستاویز اور پان کو کی ہان شو تاریخ ہان خاندان جیسی ادبی اہمیت کی حامل تالیفات کے علاوہ دو مشہور اصناف جو فو (Fu)اور یوے فو (Yueb-Fu)کہلاتی ہیں۔  اختراع کی گئیں۔

  وی (Wei)اور چن شاہی خاندانوں (۴۱۹۔  ۲۲۰ء) کے دور میں چینی ادب میں بہ اعتبار موضوع و ہیئت کئی تبدیلیاں عمل میں آئیں۔  اعلی ادبی قدر و قیمت کے حامل افسانوی ادب کی تخلیق کی رفتار نسبتاً زیادہ تیز ہو گئی۔  بدھ متی صحائف اور مذہبی ادب کے چینی میں ترجمے ہوئے جن کے اثرات چینی ادبیات کے ارتقا پر نمایاں ہونے لگے۔  جنوب اور شمال کے شاہی خاندانوں (۴۲۰ء تا زوال خاندان سوتی ۶۱۸ء) کے عہد میں جنوبی چین میں جو گیت لکھے گئے وہ زیادہ تر جذبات عشق و محبت سے متعلق ہیں۔  اس کے برخلاف شمالی چین کے شعرا نے جنگ اور اس کی دہشت انگیزی کو اپنا موضوع بنایا۔

  تانگ (Tang)نامی شاہی خاندان کا عہد حکومت (۶۱۸ء۔  ۹۰۷ء) عام طور پر چینی شاعری کا عہد زریں سمجھا جاتا ہے۔  اس دور کے سربرآوردہ شعرا میں لی پو (Lipo)(۷۰۶ء۔  ۷۶۲ء) تو فو (TuFu)(۷۱۲ء۔  ۷۷۰ء) وانگ وی (Wang wei)(۷۰۷ء۔  ۷۶۱ء) پو چوای (Po-Chu-Yi)(۷۷۲ء۔  ۸۴۶ء) اور منگ ہاؤ۔  ران (Meng Hao-Ran)(۶۸۹ء۔  ۷۴۰ء) شامل ہیں۔  ان میں لی پو سب سے زیادہ ممتاز اور جامع کمالات سمجھا جاتا ہے۔  اس نے مختلف موضوعات پر اظہار خیال کیا ہے اور اس کا اسلوب موضوع سے ہم آہنگ موثر اور دلکش ہوتا ہے۔  اس کی بیشتر نظمیں نشاطیہ اور رومانی ہیں۔  تو فو فطرت انسانی اور سماج کے مسائل سے متعلق گہری بصیرت رکھتا تھا اس کی شعری تخلیقات اس کے تمام ہم عصروں کی تصانیف کی بہ نسبت زیادہ فکر انگیز ہیں۔  اس نے نہ صرف سماجی خرابیوں کی مذمت کی ہے بلکہ بہتر اور خوش حال زندگی سے متعلق اہل ملک کے تقاضوں اور تمناؤں کی ترجمانی کا اہم فرض بھی ادا کیا ہے۔

  آٹھویں صدی عیسوی کے وسط سے چینی ادب میں نئی نئی اصناف کا اضافہ ہونے لگا۔  زے (Tze)نامی صنف کی نظموں کے مصرعے چھوٹے بڑے ہو سکتے ہیں۔  چوان چی (Chuan-chi)ایک خاص قسم کا مختصر افسانہ ہے۔  یہ اور اسی قسم کی نئی اصناف ادب ۹۰۰ء۔  ۱۳۰۰ء کے دور میں مقبول ہوئیں۔  چنگ پین تنگ شوشیا شاؤ (Ching-Pen-Tung Chu Hsiashou)یا راجدھانی کی مشہور و مقبول کہانیاں اور دو، تائی۔  شیہ پنگ ہوا (Wu-Tai-Shih-Ping-Hua)یا پانچ شاہی خاندانوں کی مقبول عام تاریخ اسی زمانے کی پیداوار ہیں۔  گیارہویں صدی کے تین ممتاز ادیب او یانگ سیو، (Ou-yang Hsiu)سیو تنگ (Su Tung Po)پو تھے۔  چین کا ڈرامائی ادب منگول یا یوان خاندان (۱۲۸۰ء۔  ۱۳۶۸ء) کے دور میں معراج کمال کو پہنچ گیا۔  رقص و موسیقی سے آراستہ ڈراموں میں مکمل کہانیاں پیش کی جاتی تھیں۔  اور ہیئت اور اسلوب کے اعتبار سے یہ ڈرامے موزوں اور موثر ہوتے تھے جو سامان تفریح کا بھی کام دیتے تھے۔  اس دور کے ڈرامے چینی ادب کے شہ پاروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔  کوان ہان چنگ (Kuan-Han-Ching)اور وانگ شیہ فو، (Wang Shih-fu)چین کے بے مثال ڈرامہ نگارمانے جاتے ہیں۔  منگ شاہی خاندان کے دور حکومت (۱۳۶۸ء۔  ۱۶۴۴ء) کے اوائل میں افسانوی ادب کی بنیادیں۔  سنگ اور یوان خانوادوں کے دور کی داستانوں کے متن پر رکھی گئی تھیں۔  اس زمانے کی اہم ترین تصانیف چن پن می (Chin Pin Mei)یا سنہری کنول، سوای ہو چو ان (Shu-Hu-Chuan)یا کنار دریا، سان کو ین ای (San-Kuo-Yen)یا تین شاہی خاندانوں کے رومان۔  زی یو چی (Hsi You Chi)یا پچھم کی یاترا، مصنفہ ووچنگ این (Wu-Chang-en)میں مشہور چینی سیاح ہیون سانگ (Hsuan Tsang)کے سفر ہندوستان کا حال درج ہے۔  اس داستان میں بندر کا جو کردار پیش کیا گیا ہے۔  وہ رامائن کے ہنو مان سے ملتا جلتا ہے۔

  چنگ یا منچو خانوادوں (۱۶۴۴ء۔  ۱۹۱۱ء) کے دور حکومت میں جو اعلی ترین افسانوی ادب پیدا ہوا اس میں چنگ شینگ تی این (Chang Shang Tien)(قصر شباب ابدی) مصنفہ ہنگ شینگ (Hung Sheng)تاوہواشان (Tao Hua Shan)یاپیچ بلاسم فیان (Peach Blossom Fan)مصنفہ کنگ شنگ رین (King Shang ren)لیاؤ چاؤ چی ای (Lio Chai Chih Yi)یا قصص حیرت افزا۔  لیاؤ چائی مصنفہ پوسنگ لنگ (PuSung-Ling)اور رولن وائی شیہ (Rulin Wai Shih)دانش ور مصنفہ ووچنگ زو (Wu Ching Tzo)شامل ہیں۔

  ایک اور مشہور ناول ہنگ لومنگ (Hung Lou Ming)یا خواب قصر سرخ مصنفہ زاؤ شوئے چن  (Tsao Hsuch-Chin) تھا جس کے بارے ۱۹۵۵۔  ۱۹۵۷ء میں بڑی بحثیں چھڑ گئی تھیں۔  اس ناول میں نظام جاگیرداری کی شکست و ریخت کے زمانے میں ایک دولت مند اور امیرانہ ٹھاٹھ کے زمیں دار کے خاندان کا حال بیان کیا گیا ہے۔  مغربی ملکوں کے ادب سے چین کا ادب ۱۸۴۰ء کی جنگ افیون کے بعد متاثر ہوا۔  اس جنگ اور ۴ مئی ۱۹۱۹ء کی تحریک کے درمیانی دور کے مشہور و معروف شعرا میں کنگ زے چن (Kung Tze Chen)وی یوان (Wei Yuan)چنگ وی پنگ (Chang Wei-Pung)اور ہوانگ ہیان شامل ہیں۔  لن زے زو (Lin Tse Hsu)نے نظم و نثر دونوں میں شہرت پائی۔  دوسرے ممتاز نثر نگار کا نگ یووی (Kang You-Wei)، چانگ پنگ لن (Chang pung lin)، تان زے تنگ(Ten Sze-tung)اور لیانگ چی چاؤ (Liang Chi-Chao) تھے۔  لی پاؤ چیا، وویاؤ یاؤ (Wu Yao-Yao)اور لیواؤ(Liuo)اس دور کے مشہور ناول نویس مانے جاتے ہیں۔

چینی ادب کا جدید دور ۴مئی ۱۹۱۹ء کی تحریک سے شروع ہوا۔  اس زمانے میں ادب کی زبان عوامی بول چال کی زبان سے قریب تر آگئی۔  لوسن (Lu Hsun)چن تو زیو (Chen Tu-Hsiu)اورہوشی نیادبی تحریکات کی پیش رفت میں نمایاں حصہ لیا۔  ادب جدید کی تخلیق کے لیے تین ادبی ادارے قایم کئے گئے۔  ان اداروں کے نام یہ ہیں۔  ادارۂ تحقیق ادب، ادارۂ تخلیق ادب اور ادارۂ ماہ نو۔  ان کے اراکین میں یہ بحثیں ہوتی تھیں کہ آیا ادب برائے ادب ہونا چاہئے یا یہ کہ اسے انقلاب کے اغراض کی تکمیل کا ذریعہ بنانا چاہئے۔  لوسن (چوشو رین کا فرضی نام) جدید چینی ادب کا بانی سمجھا جاتا ہے۔  اس نے حقیقت پسندی سے کام لے کر اپنی تصانیف میں ہم عصر چینی سماج کے خد و خال پیش کیے اور پرانے اور بیمار سماج کی خرابیوں کاپول کھولا، کنفیوشس کے مقرر کردہ طریقوں اور رسوم کی وجہ سے پیدا شدہ سماجی ناانصافیوں پر روشنی ڈالی اور سماج کے پچھڑے ہوئے اور لوٹ کے شکار طبقات کی زندگی، ان کے جذبات اور خیالات کی موثر انداز میں ترجمانی کی لوسن کے مشہور افسانے ’’پاگل کی ڈائری‘‘، ’’آہ کیو کی سچی کہانی‘‘، ’’کنگ ای چی‘‘ (King Yi Chi) ’’طب، طلاق وغیرہ ہیں۔  لوسن نے مختصر افسانوں کے علاوہ سینکڑوں مضامین بھی لکھے جن میں خالص ادبی دلچسپی کے مقالے بھی شامل ہیں۔  اس دور کے ممتاز ناول نویسوں میں شین ین پنگ، (Shen-Yen-Ping)پوتا فو، چیانگ کوانگ زے یا چن، لاؤ شز، ٹنگ لنگ پو، شیوچی مو، تسنگ کے چیا، شی اے پنگ شن، وین ای تو، آئی چھنگ قابل ذکر ہیں۔

نیا ڈرامائی ادب بھی پیدا ہوا جو مغرب سے بڑی حد تک متاثر معلوم ہوتا ہے۔  چین کے مشہور ڈرامہ نگار تھیں ہان، ہنگ شین، تساویو شیاین اور چھین پائی چن ہیں۔  آرٹ اور ادب سے متعلق ایک اجتماع میں جو ۱۹۴۲ء میں بہ مقام ینان ہوا تھا۔  چیرمین ماوزے تنگ نے آرٹ اور لٹریچر کی بابت مارکسی نقطۂ نظر کی تفصیل کے ساتھ وضاحت کی۔  انہوں نے کہا آرٹ اور ادب کو محنت کشوں ، کسانوں اور سپاہیوں کا خدمت گزار ہونا چاہئے۔  نئے چین میں آرٹ اور ادب کی تخلیق ۱۹۴۹ء کے بعد سے انہی اصولوں کی پابند ہے۔

 عوامی چین کے قابل ذکر افسانہ نویس ناول نگار اور شعرا لیوپای ای، چولی پو، اویانگ شان، کانگ چو، زاومنگ چاو شولی، لی چی، اور یوان چانگ چنگ کے علاوہ چند اور اہل قلم ہیں۔  کلچرل انقلاب کے دور میں ادبی تخلیق زیادہ تر غنائیہ یا اوپیرا تک محدود رہی۔  ہاوران چین کا سب سے زیادہ سر بر آوردہ افسانہ نگار اور ناول نویس ہے۔  اس کے دو مشہور ناول ’’روشن آسمان‘‘ اور ’’راہ روشن‘‘ ہیں۔  اس کے علاوہ وہ کوئی ۱۵۰ مختصر افسانوں کا مصنف ہے۔  اس کی مشہور کہانیاں ’’بہار کے گیت‘‘ ’’دو بالئی پانی‘‘، ’’نخلستان ‘‘ وغیرہ ہیں۔  کلچرل انقلاب سے قبل اور اس کے بعد کے دور میں جو ادب پیدا ہوا اس کا موضوع زیادہ تر دیہی علاقوں کی ترقی، عوام کی جدوجہد، قومی تعمیر نو میں عوام کا حصہ اور پرانے اور از کا ر رفتہ خیالات اور طور طریق کو ترک کرنے سے متعلق ہے۔

٭٭٭

 

سنسکرت زبان و ادب

سنسکرت اگر چہ ۱۹۵۱ء میں ہندوستان کی مردم شماری میں ۵۵۵ اشخاص نے اپنی مادری زبان سنسکرت درج کروائی تھی۔  لیکن یہ تعداد ۱۹۶۱ء کی مردم شماری کے وقت ۲۴۵۵ ہو گئی۔  سنسکرت ہندوستان کی قدیم زبان ہے جس میں ہندوؤں کا بہت سا مذہبی اور فلسفیانہ ادب تصنیف کیا گیا ہے۔  آج بھی یہ مستند زبان ہے اور ہر سال اس زبان میں مختلف رسالے اور کتابیں شائع ہوتی ہیں۔  گزشتہ ۲۲ سال میں دس سے زیادہ فاضل عالموں کو ساہتیہ اکیڈمی نے ان کے قابل قدر ادبی تصنیف کی بنا پر خاص عزت عطا کی ہے۔  ان علما میں ایسے بزرگوں کے نام داخل ہیں ، جیسے پی وی کانے ، گردھر شرما چترویدی، گوپی ناتھ کوی راج، وی راگھون، ستیہ ورک شاستری ایم ایس آنے وغیرہ‘‘۔  حکومتِ ہند نے وزاتِ تعلیمات کے تحت سنسکرت کے ایک مرکزی بورڈ کی تشکیل کی ہے جس سے تصنیف و تالیف کی اشاعت اور روایتی علوم کے مدارس کو امداد دی جاتی ہے۔  سنسکرت کی جامعات و اراناسی اور دربھنگہ میں ہیں ، اور پونا و شانتی نکیتن میں اعلیٰ تعلیم کے مخصوص مرکز قائم ہیں۔  یہ سب کچھ اس لیے کیا گیا ہے کہ جواہر لال نہرو نے بالکل صحیح کہا تھا ’’اگر مجھ سے دریافت کیا جائے کہ ہندوستان کی سب سے بڑی دولت کیا ہے اور ہندوستان کی وراثت میں ہمیں کیا ملا ہے تو میں یقین کے ساتھ کہوں گا کہ یہ وراثت سنسکرت زبان اور سنسکرت کا ادب ہے اور تمام دولت اس کے اندر ہے۔  ‘‘ ذیل کے صفحات میں اس وسیع سمندر کا مختصر جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے جس کو نہ مکمل کہا جا سکتا ہے نہ جامع، نہ محتوی۔

تاریخ

 قدیم تصنیفوں اور ان کے مصنفوں کے معین زمانہ کے متعلق علما کی ایک رائے نہیں ہے۔  قدیم علم و فضل اور شاعری کا ایک بہت بڑا حصہ زبانی روایات پر چلتا رہا۔  اگر چہ سنسکرت کی رزمیہ نظموں اور صرف و نحو کے ماہرین کی تصانیف بلکہ بودھوں کے کتابوں میں بھی حوالے پائے جاتے ہیں۔  لیکن سب قدیم کتبہ جو کرنل پیپ کو پیراوا میں ملا ہے وہ برہمن رسم الخط میں ہے اور پہلی صدی ق۔  م میں پایا گیا ہے۔  پہلا دیوناگری کتبہ توآتی ہوں کا ہے۔  چند علما سمجھتے ہیں کہ پہلا سنسکرت کتبہ شاہ نہپان (۱۱۹ء) کے غار نمبر ۱۰ میں ہے۔  اور دوسرے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ردر دمن کا جونا گڑھ والا کتبہ سب سے زیادہ قدیم ہے۔  تما م شہادتوں کو پیش نظر رکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دیوناگری رسم الخط میں لکھی ہوئی سنسکرت کا زمانہ ۱۸۰۰ء سال سے زیادہ قدیم نہیں ہے۔  عام طور پر سنسکرت زبان دو منزلوں میں بیان کی جاتی ہے۔  ویدک اور غیر ویدک (یہ بھی مستند ہے ) ابتدائی سنسکرت بعد کی سنسکرت سے اپنے طریقہ تلفّظ صرف و نحو کی خصوصیات کے لحاظ سے مختلف ہے ، حتیٰ کہ اسم کی گردان بھی مختلف ہے اور سابقہ اور لاحقہ کی نوعیت بھی مختلف ہے۔  ابتدائی سنسکرت کی صرف و نحو سادہ اور لچک دار ہے۔  بعد کی سنسکرت ثقیل ہو کر مرکب الفاظ سے بھر گئی ہے۔  یہاں تک کہ نظم کی شکلیں بھی مختلف ہو کر مرکب الفاظ سے بھر گئی ہے۔  یہاں تک کہ نظم کی شکلیں بھی مختلف ہیں۔  ویدوں میں شاعری کی شکلیں صرف سات ہیں (گایتری، اُش نِک، انش ٹبھ، بری ہتی، پنکتی، ترش ٹبھ، جگتی) بعد کی سنسکرت نے شعر کے اصلی نمونوں کے علم عروض کے لحاظ سے ارتقا پایا ہے ، جس کی اساس الفاظ اور ان کے حرف علّت ہیں۔  علما اس امر کے متعلق متفق نہیں ہیں کہ سنسکرت گفتگو کی زبان ہے یا نہیں اور کس زمانہ میں یہ ادبی زبان ہو گئی یا صرف مذہبی رسوم کی ادائیگی کی زبان بن پائی۔  والمیکی رامائن کے سندر کانڈ میں یہ ذکر آیا ہے کہ برہمن یا ’’دو جاتی‘‘ لوگ سنسکرت بولتے تھے۔  یاسک اور صرف و نحو کے ماہر پانِنی نے غیر مذہبی رسوم کی سنسکرت کو ’’بھاشا‘‘ کہا ہے ( جوبولی جاتی ہے ) کاتیاین نے مشرقی اور شمالی گفتگو کے طریقوں کی خصوصیات کو بیان کیا ہے۔  ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مہابھارت کی تصنیف کے زمانہ میں بلکہ پانِنی کے زمانہ تک ہندو سماج ایک بالکل کھلا ہوا سماج تھا اور برہمن اور غیر برہمن ایک مشترک زبان استعمال کرتے تھے ورنہ ترسیل اور میل جول ناممکن ہو جاتا۔  لیکن منو کی ایسی قانون سازی کے بعد کہ شودروں اور عورتوں کو سنسکرت نہیں سیکھنا چاہئے۔  سماج نے آہستہ آہستہ ایک دوسری خصوصیت اختیار کر لیا ور ہرش وردھن (نویں صدی) کے زمانہ تک جب کہ سنسکرت بہت پیچیدہ اور مزین ہو گئی تھی اور دوسری ملکی زبانیں ترقی پارہی تھیں تو سنسکربتدریج ’’چند منتخب‘‘ افراد کی زبان ہو کر رہ گئی اور ابھی تک یہ اسی طرح ہے۔  یہ کہنا مشکل ہے کہ اس ملک میں (۷۰) فیصد ناخواندہ لوگوں کے ساتھ انگریزی جاننے والے زیادہ ہیں سنسکرت جاننے والے۔  دراصل سنسکرت جاننے والے لوگ بہت کم ہیں۔

وید

سب سے زیادہ قدیم اور ابتدائی ادب وید ہے۔  وید ’’وِد‘‘ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ’’علم‘‘ ان میں منتر ہیں جن کو پڑھ کر مذہبی رسوم میں دیوتاؤں کوبلایا جاتا ہے جن کی کتابوں میں ایسی قربانیوں یا (یٰگیّوں کے قواعد و ضوابط بیان کیے گئے ہیں ) ان کو ’’برہمن‘‘ کہتے ہیں۔  ان کے مزید تین حصے ہیں۔  برہمن ارنیک اور اپنشد، آرنیکو میں ان گوشہ نشین اشخاص کے روزانہ فرائض کا ذکر ہے جو جنگلوں میں خاموشی اور خلوت پسندی کے طلبگار ہوتے ہیں۔  اپنشد تو بلندتر نظری اور فلسفیانہ منتروں اور مابعد الطبیعیاتی مکالموں سے بھرے ہوئے ہیں۔  ان سب میں خدا (برہمہ) کے لیے انسان کی تلاش کی تشریح اور رہبری کی گئی ہے۔  اس کے علاوہ ’’کلپ سوتر‘‘ میں جویگیہ اور مذہبی رسوم میں کرنے اور نہ کرنے کے احکام کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔  اس کی بھی چار قسمیں ہیں (شراوت، گیری ہیہ، دھرم، شلب)۔

وید چار ہیں۔  رِگ، یجر، سام، اَتھر، رچایا منظم منتر سے رِگ حاصل کیا گیا ہے۔  اور یجن یا آگ کے ساتھ قربانی سے یجر حاصل ہوا ہے۔  سام کا مطلب ہے موسیقی ان کے علاوہ چوتھے کو اتھر وید کہتے ہیں۔  اتھرون آگ کے پروہت کا خطاب ہے۔  اس وید میں کالے جادو کے منتر ہیں اور دنیاوی فوائد کے عقیدے بیان کیے گئے ہیں۔  ویدوں کی مزید متعدد شاخیں ہیں۔  سب سے قدیم موجودہ رِگ وید کے متن میں ۱۰منڈل یا باب ہیں اور ۱۰۱۷ ’’باب‘‘ ’’شوکت‘‘ یا نظمیں ہیں۔  دوسرے سے ساتویں منڈل تک کا حصہ سب سے قدیم ہے۔  ہر ایک باب ایک خاص رشی سے متعلق کیا گیا ہے۔  پہلا اور دسواں منڈل بعد کے معلوم ہوتے ہیں۔  آریہ سماج کے عقیدہ کے مطابق وید ہی آخری سند ہے اور یہی ہندوؤں کی الٰہی کتاب ہے۔  مذہبی قدروں قیمت کے علاوہ ویدوں میں بے حد نفیس شاعری ہے جو مختلف دیوتاؤں مثلاً روشنی کے دیوتا، آگ کے دیوتا اور بارش کے دیوتا وغیرہ کی شان میں کی گئی ہے ، اسی طرح منڈل ۱۰-۱۰ میں یم اور یمی کے درمیان ۱۰-۹۵ پر پرو روا اور اروشی کے درمیان اور ۱۰-۱۴۵ میں تقریر کی دیوی کی پکار بہت مشہور اور بے حد دلچسپ اور عجیب و غریب مکالمے ہیں۔  تخلیق کا سوکت (ناسدیہ سوکت) ۱۰-۱۲۱بہت مستند ہے۔  پُرش سوکت ۱۰-۱۰ میں یہ حوالہ دیا جاتا ہے کہ چار ذات بھی اس ذات الٰہی کے چار اجزا ہیں۔

 اُپنشد

کتب خانہ اڑیا رمدراس سے اپنشدوں کی اشاعت ہوتی ہے جن میں ۱۹۸ اپنشد ہیں۔  ان میں سے ایک تو’’اللہ اپنشد‘‘بھی ہے۔  ظاہر ہے کہ یہ کتاب بعد کے زمانہ کی ہے۔  ایک گجراتی مجموعہ میں ایسے ۲۲۳ اپنشد ہیں۔  لیکن دس اپنشد سب سے قدیم اور مستند مانے جاتے ہیں اور شنکر آچاریہ نے ان کی تفسیر لکھی ہے۔  ان کے نام ہیں۔  ایش، کین، کٹھ، پرشن، منڈر، مانڈوکیہ، تیتریہ، ایتریہ، چھاندوگیہ، برہدارنی، ان میں زیادہ تر فلسفیانہ مباحث ہیں۔  اخلاقی ضرب الامثال ہیں کچھ تمثیلات اور مجازیہ قصے وغیرہ ہیں۔  بعض جگہ اساسی سوالات دریافت کیے گئے ہیں اور اپنے نقطۂ نظر کی چھوٹی سے چھوٹی بات کی بھی وضاحت کرتے ہیں۔  مثال کے طور پر ایک گرو اپنے چیلے کو ایک پھل چن کر لانے کو کہتا ہے ، اس کو پھوڑنے کے لیے کہتا ہے اور دوبارہ توڑ نے کے لیے کہتا ہے ، اس میں بیج کے سوائے اور کچھ نہیں رہتا۔  گرو اس بیج کو بھی توڑ پھوڑ ڈالنے کے لیے کہتا ہے۔  اس کے بعد اس میں کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔  اس لیے یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ برہمہ سب میں پھیلا ہوا ہر جگہ موجود ہے اور ہر ایک شے سے ماورا ہے ، جیسے کہ بیج ہی ہر ایک پہلو سے درخت کا سب کچھ ہے۔  یہاں صرف مذہبی رسوم ہی نہیں بلکہ زیادہ تر مجرّد فکر موجود ہے۔ ‘ سب س   ان کتابوں کو مختلف رشیوں سے متعلق کیا جاتا ہے۔  ان میں سے بعض خواتین بھی ہیں ، مثلاً گارگی، کاتیاینی اور میترینی وغیرہ ان میں خاص حیثیت رکھتی ہیں۔  ان میں چند گہری اور خالص صداقتوں کا اظہار بہت ہی راست اور سادہ زبان میں ہوا ہے۔  چنانچہ اس اُپنشد کے فقرے ہیں ’’صداقت کا چہرہ ایک سنہری نقاب سے چھپا ہوا ہے۔  براہِ کرم اس کوہٹا دیجیے اور مجھے صداقت کا درشن کرا دیجئے۔  ‘‘ ’’ جو لوگ صرف مادّی دولت کی جستجو کرتے ہیں وہ اندھی گلی میں جاتے ہیں اور جو اپنے کو بالکل سُپرد کر دیتے ہیں وہ اس سے بھی زیادہ اندھی گلی میں جاتے ہیں۔  ‘‘ حکومت ہند کا ا صول عمل ’’ستیہ میو جئے تے ‘‘ (صداقت کی فتح ہوتی ہے ) یہ بھی اپنشد سے لیا گیا ہے۔  مہاتما  گاندھی کی روزانہ پرارتھنا میں ایش اُپنشد داخل ہے۔  ٹیگور نے اپنے شانتی نکیتن کے اصول عمل کے لیے اپنشد سے ایک فقرہ لیا ہے ’’جہاں کہ کائنات ایک آشیانہ کے مانند ہے ‘‘ عام انسانوں کو پڑھنے کے لیے سب سے بہترین کتاب آلڈس ہکس لے کا ’’دائمی فلسفہ‘‘ اور کرسٹوفر ایشروڈ کا ترجمہ اپنشد ہے۔  ہندوستانی مصنفوں میں سی راج گوپال آچاری اور ونوبابھاوے کی شایع کی ہوئی ایش اپنشد کی تفسیر اور رادھا کرشن کی خاص دس اپنشد انگریزی زبان میں قابل قدر کتابیں ہیں۔  ڈاکٹر رانا ڈے کی تصنیف تمام ہندی نظاماتِ فلسفہ کو اپنشد کے اصل ماخذ سے ڈھونڈ نکالتی ہے۔

پُران۔۔ رامائن اور مہا بھارت

سنسکرت ادب میں اپنشد سے ہٹ کر دوسری اہم منزلیں والمیکی کی ’’رامائن‘‘ اور ویاس کی ’’مہا بھارت‘‘ ہیں۔  ان دونوں میں سے کونسی کتاب ایک دوسرے سے پہلے لکھی گئی ہے اس کے متعلق سے کونسی کتاب ایک دوسرے سے پہلے لکھی گئی ہے اس کے متعلق علما متفق نہیں ہیں۔  صدیوں تک ان دونوں کتابوں نے سینکڑوں شاعروں اور ڈرامہ نگاروں کو بے حد نفیس مواد فراہم کیا ہے۔  بھبھوتی کا صرف ایک المیہ ناٹک ’’اُتررام چرتر‘‘ اپنی بنیاد رام کے ضمنی قصہ پر رکھتا ہے۔  ’’مہا بھارت‘‘ سے ’’شکنتلا‘‘ کے قصہ در قصہ کو استعمال کر کے کالیداس نے اپنے زندۂ جاوید ناٹک کی تصنیف کی ہے۔  اور بھی ایسی کئی ایک مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔  وید ک زمانہ کی ازلی حور اُروشی کے قصے سے کالیداس کو (وِکرم اُروشی کے ناٹک) شاعرانہ وجدان حاصل ہوا۔  ٹیگور نے بھی اس نام پر اپنی ایک نظم کی بنیاد رکھی تھی۔  سری ارویندر نے انگریزی میں ، دنکر نے اپنی رزمیہ نظم ہندی میں اور وی ایس کھانڈے کر کا مرہٹی ناول، ’’یکیاتی‘‘ بھی پرانوں کے بزرگارِ دین کی سوانح پر اپنی بنیاد رکھتے ہیں۔  کل اٹھارہ پران اس وقت دستیاب ہیں۔  ۶۰۰ء کے بعد کے قبیلوں کا ذکر پرانوں میں نہیں پایا جاتا۔  آخر بادشاہ جس کا ذکر آیا ہے وہ ہرش ہے۔  اس طرح ان سب پرانوں کی تصنیف کے زمانہ کا کچھ نہ کچھ اندازہ ہو جاتا ہے۔  لوک مانیہ تلک کا خیال ہے کہ وہ دوسری صدی عیسوی کے قبل لکھے گئے ہیں۔  پرگیتر سمجھتے ہیں کہ ان کا تعلق پہلی صدی عیسوی سے ہے۔  ڈاکٹر ہزرا نے ذیل کی تاریخیں مقرر کی ہیں۔

وشنو پران (۴۰۰ء)

وایو پران (۵۰۰ء)

بھاگوت پران (۶۰۰ء۔۷۰۰ء)

کورم پران (۷۰۰ء)

اگنی پران (۸۰۰ء)

ڈاکٹر ایس کے ڈے اور بی وی کانے اگنی پران کے منظوم حصوں کے تصنیف کو (۹۰۰) صدی عیسوی کا بتاتے ہیں۔  ان کتابوں سے کائنات کی ابتدا اور دیوتاؤں ان کی ترتیب و تنظیم کا حال معلوم ہوتا ہے۔  یہ سب اوتاروں کی کتھاؤں سے بھرپور ہیں۔

ہندوستانی رزمیہ

ہندوستانی رزمیہ نظم کا تصور ارسطاطالیسی تصور سے مختلف ہے۔  سنسکرت کے مطالعہ شاعری کے مطابق رزمیہ نظم میں چند خصوصیات کا ہونا ضروری ہے۔  مثلاً

(۱) آغاز میں شاعری کی دیوی سے طالب فیضان ہونا

(۲) اس کو کئی ایک باب میں تقسیم کرنا چاہئے۔  جنہیں ’’سرگ‘‘ کہا جاتا ہے۔

(۳) ایسے باب ۴ سے ۳۰ تک ہوسکتے ہیں۔

(۴) ہر ایک باب میں ۳۰ سے ۲۰۰ تک شلوک (اشعار) ہونے ضروری ہیں۔

(۵) اس میں طلوع آفتاب، غروب آفتاب، ندی نالے ، محبت سے پیار کرنے کی باتیں ، مسرت سے سیر کرنے کے افکار اور چھ موسموں کا حال اور ایسی ہی باتیں ہونی چاہئیں۔

(۶) قصہ میں پانچ سندھیوں کے فطری طور  پر کھلنے کا ذکر ہونا چاہیے

(۷) اس میں تمام خاص ’رسوں ‘‘ کو موجود ہونا چاہیے

(۸) اس میں شعر کے مختلف وزن یا بحر کی ضرورت ہوتی ہے۔

  اشوگھوش کی لکھی ہوئی سب سے قدیم رزمیہ نظمیں ’’بُدہ چرت‘‘ اور ’’سندر آنند‘‘ میں بدھ چرت کا ترجمہ ایڈون ارنولڈ نے کیا ہے اور اس کا نام ’’نورایشیا‘‘ رکھا ہے۔  دوسری اہم اور مستند رزمیہ نظمیں ان شاعروں کی ہیں جن کے نام ذیل میں درج کیے گئے ہیں۔  کالیداس، میگھ دوت، رگھونش، کمار سمبھو، رتو سمہار۔  بھاروی: کبرات اجنیۂ بھٹی: راون ودھ کمار داس: جانکی ہرن ماگھ: ششو پال ودہ سری ہرش: نئے شدہ یوں تو اور بھی دوسری چھوٹی رزمیہ نظمیں ہیں۔  لیکن کالی داس ان سب میں اپنی شاعرانہ بصیرت، فن، موزوں تمثیلات، تخیل انسانی فطرت کی عکاسی اور قوت بیان کے باعث سب سے اعلیٰ درجہ کا ہے۔  افسوس ہے کہ اس کی زندگی کے حالات بہت کم معلوم ہیں۔  علما نے اس کو پہلی صدی سے (سرولیم جونس، ڈاکٹر پیٹرسن، ایس۔  رائے بال سبرامنیم، ڈاکٹر بی ایس اپادھیائے ) لے کر چوتھی صدی بلکہ پانچویں صدی یعنی گپتا کے عہد تک رکھا ہے۔  (ڈاکٹر وی وی مراشی، ڈاکٹر سوریہ کانت وغیرہ۔  ) انگریزی میں کالی داس پردو تصنیفیں مصنفہ ڈاکٹر وی وی مراشی اور ڈاکٹر بھگوت شرن اپادھیائے علم و فضل کے بہت اچھے نمونے ہیں۔

  تنتر اور بودھو کی سنسکرت تصانیف

  ہم جب رزمیہ نظموں ، پرانوں اور تاریخ کی بحث کرتے ہیں تو سنسکرت کے علما ان تینوں کو کاویہ، اتہاس، پر ان ایک سانس میں بیان کرتے ہیں۔  ہمیں سنسکرت تصانیف کی ایک بہت اہم شاخ کو بھولنا نہ چاہیے۔  جس سے آستک خیال کے لوگ احتراز کرتے ہیں۔  لیکن مغربی علما نے ا س کی طرف توجہ دی ہے۔  اس لیے کہ اس میں فن لطیفہ کی جدید نفسیات کی بصیر اور مذہب اور جنسیت کے متعلق فرائڈ کے بعد کے تصورات موجود ہیں۔  اس کو تنتر کہتے ہیں۔  جس کے معنی ایسے لفظ سے نکالے گئے ہیں جس کے معنی طریقِ عمل اور اصول ہیں۔  گیان (علم) یوگ، کِریا یا مشق یا اصولِ فن اور ’’چریا‘‘ یا روز مرّہ کی مصروفیت یہ سب اس کی قسمیں ہیں ، جہاں تک کہ تانترک علم کے تصوف کے پہلو کا تعلق ہے۔  اس کے مطابق شنکر کے ادویت یا وحدت الوجود سے ہوتی ہے۔  اس تصوف کے علاوہ ایک تقدیس اس سے متعلق کی جاتی ہے اور مذکر و مونث کے اتحاد کے اصول کی اچھی بنیاد کا اشارہ ملتا ہے۔  یوگ تو زیادہ تر یکسوئی قلب کو کہتے ہیں۔  یہ لفظ ’’یج‘‘ مادہ سے مشتق ہے۔  یعنی جذب ہو جانا۔  اس زبردست قوت کو حاصل کرنا گویا جادو گری کی حد تک شجاعت غیر معمولی حس ادراک اور آٹھ سدّھیاں یا نشان امتیاز حاصل کرنا ہے۔  اس لیے تنتر کو ’’مایا یوگ ‘‘ بھی کہتے ہیں۔  ’’کریا‘‘ یا عمل میں مندروں کی تعمیر کے طریقے ، مجسموں کو تراشنے کا کام اور دوسری مذہبی رسوم کی ادائیگی اور عبادت داخل ہیں ، اور آخر میں تہواروں کے دستور اور بعض سماجی بلکہ غیر سماجی سلوک پر عقلیت کا رنگ چڑھا کر حق بجانب ثابت کیا جاتا ہے۔  بعض علما خیال کرتے ہیں کہ تانترک تحریک برہمنوں کے خلاف ایک کارروائی ہے۔  دوسرے لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہ ابتدائی قبیلوں کی عبادت اور بودھو کے وجریان کا اتحاد ہے تانترک عملیات نہ صرف بنگال، آسام اور متھلا میں مقبول ہوئیں بلکہ ہندوستان سے آگے نیپال اور تبت میں بھی پہنچ گئیں۔  ان مقامات میں بھی تنتر کا بہت عمل ہوتا ہے۔  سنسکرت میں لکھی ہوئی چند کتابیں بہت قدیم ہیں۔  سب سے قدیم قلمی مسودے ساتویں سے آٹھویں صدی کے معلوم ہوتے ہیں۔  تنتر کا ذکر کہیں بھی مہابھارت میں یا کسی ابتدائی چینی مسافروں کے بیان میں نہیں پایا جاتا۔  آٹھویں صدی میں بودھوں کے تنتر کا ترجمہ چینی زبان میں کیا گیا۔  اور نویں صدی میں تبتی زبان میں درگا ماتا کی پوجا کا ذکر ویدوں میں ہے۔  لیکن بعد میں اس میں غیر آریائی اور عوام کے مذہبی پوجا پاٹھ کی بہت آمیزش ہو گئی ہے۔  آگم ادب عام طور سے کشمیر سے نکلا ہے اور تانترک ادب بنگال سے۔  چند کتابیں جنوب میں بلکہ دور کے سیام میں بھی تصنیف کی گئی ہیں۔  آگم تنتر تو فلسفیانہ ہیں ان کو ’’پرتیا بھگیا درشن‘‘ کہا جاتا ہے۔  اس کی بنیاد ثنویاتی شیو فلسفہ پر ہے جس میں شیو اور شکتی کو مساوی اہمیت اور مقام حاصل ہے سومانند ناتھ (۸۵۰-۹۰۰ء) اور اس کے شاگرد اُت پل (۹۰۰-۹۵۰ء) اور ابھنو گپت (۹۹۳-۱۰۱۵ء) کی لکھی ہوئی تنترلوک بہت ہی مشہور تصنیف ہے۔  پانچویں صدی کی ’’اہیر بدھنیہ سمہتا‘‘ جو کشمیر میں تصنیف کی گئی تھی اور شنکر آچاریہ کا ’’مہانروان اور کلب آرنو‘‘۔  بھاسکر کی ’’کلی ولاس‘‘ اور کرشنن ڈنڈ کا ’’تنترسار‘‘ کافی بڑی کتابیں ہیں۔  بودھی سنسکرت مصنفوں میں ایک تومہابانی ہیں۔  اشوگھوش (۱۰۰ء) بہت مشہور اور عقلیت پسند مصنف ہے جس نے ’’وجر سیوہی‘‘ لکھی ہے۔  ’’للت وستر‘‘ بودھوں کے پران کی ایک قسم ہے۔  اس کا ترجمہ تبتی زبان میں پانچویں صدی اور ۳۰۰ء میں چینی زبان میں کیا گیا تھا۔  اس سے ایک اشارہ لے کر اشوگھوش نے ’’بدھ چرت‘‘ لکھی۔  بعض علماء خیال کرتے ہیں کالی داس پر اشوگھوش کا اثر تھا لیکن بہت سی چیزیں شک کرنے کے لیے بھی موجود ہیں۔  آریہ شور نے سنسکرت میں ’’جاتک مالا‘‘ لکھی۔  مہایانیوں کی دوسری بہت سی بودھی کتابیں سنسکرت میں دستیاب ہیں جیسے ’’سددھرم پنڈریک‘‘۔

  ڈرامہ

سنسکرت ڈراما بہت ہی قدرو قیمت کا ادبی توشہ ہے۔  بھر کا ناٹیہ شاستر (فن ڈرامہ) تیسری صدی کا ہے۔  یہ بڑی محنت سے تیار کیا ہوا رسالہ ہے جس میں اسٹیج اداکار، اداکاری کا ہنر، تقریر اور اس کا زور، شاعرانہ اسالیب، موسیقی کے طریق اور ناچ کے موزوں مصنوعی انداز (مُدرا) کو بخوبی بیان کیا گیا ہے۔  سنسکرت کتابوں کے مطابق ڈراما کی دس قسمیں ہوتی ہیں۔  اور ذیلی ڈراما ۱۸ قسم کے ہوتے ہیں۔  کالی داس کا ’’شکنتلا‘‘ ایک ناٹک ہے۔  بھبھوتی کا ’’مالتی مادھو‘‘ ایک پرکرن یعنی قصہ ہے۔  مند روکرم وامن کا ’’مالتی ولاس‘‘ ایک ہرہسن یعنی مزاحیہ ڈراما ہے۔

اس وقت تقریباً سنسکرت کے ۶۵۰ قدیم ڈرامے دستیاب ہیں۔  سب سے قدیم ڈراما نویس بھاس ہے جس کا پتہ ٹی گنپتی نے ۱۶۱۲ء میں ٹراون کور کے نزدیک لگایا تھا۔  بھاس کا عہد ۱۵۰ء سے ۲۵۰ء تک ہے۔  بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ وہ پانچویں صدی کا ہو گا۔  گنپتی اس کو تیسری صدی ق۔  م میں شمار کرتا ہے۔  ا س کے ڈراموں کی بنیاد رامائن اور مہابھارت پر ہے۔  اس کے علاوہ دو ناٹک اُدین کے قصہ پر مبنی ہیں اور دو اُس کے تخیل پر۔  پُر مغز مکالموں ، اظہار کے درو بست۔  اور نفسیاتی بصیرت اور حقیقی سیرت نگاری کے لحاظ سے بھاس جدید ڈراما کے بہت قریب ہے۔  بھاس ناٹک سے متعلق تمثیلی ستم ٖظریفی کا استعمال بڑی ہوشیاری سے کرتا ہے۔  اس کے بعد کالی داس آتے ہیں جس کے تین ڈراموں نے ساری دنیا میں شہرت حاصل کی ہے۔  گیسٹے نے اپنے ’’فاوسٹ‘‘ کی تمہید کی بنیاد شکنتلا پر رکھی ہے۔  اور شِلر اس پر فریفتہ تھا۔  کالی داس بحیثیت شاعر بعض اوقات ڈرامہ نویس کی حیثیت سے کہیں بڑھ چڑھ کر نظر آتا ہے ، لیکن رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنے مضمون میں شکنتلا اور میرانا کو ہیروئن کی حیثیت سے مقابلہ کرتے ہوئے شیکسپیر سے بھی اعلیٰ درجہ کا تسلیم کیا ہے۔  جناب حکمت نے شکنتلا کا ترجمہ فارسی میں کیا ہے اور ساغر نظامی نے اردو میں۔  دوسرے ڈرامے اور ڈرامہ نویس جن کا ہمیں بخوبی علم ہے حسب ذیل ہیں۔  (پانچویں صدی عیسوی) ’’شوورک مریچھ کٹک ’’(مٹی کی چھوٹی گاڑی) بہترین حقیقی ڈراما ہے جس کا ترجمہ اردو زبان میں حبیب تنویز نے کیا ہے۔  ) ۷۰۰ عیسوی، بھبھوتی، اتررام چرتر ۶۰۶ -۶۴۸ عیسوی۔  سری ہرش، ناگ نند چھٹی صدی عیسوی۔  وشاکھادت۔  مدرا راکشس ۱۰۰۰ عیسوی۔  دنگ ناگ۔  کندمالا۔  اج جی وِلس اور پی لال کے چھ سنسکرت ڈراموں کے انگریزی ترجمے اصل ڈرامہ سے بہت قریب ہیں۔  گیارہویں صدی کے آخرمیں کرشنا مسرا نے ایک تمثیلی اخلاقی ڈرامہ ’’پربودہ چند رادے ‘‘ لکھا ہے جو دوسرے ڈراموں سے بالکل مختلف ہے۔  جہاں ذہنی کیفیتوں کا اداکاروں سے طور پر اشاری طرز میں پیش کیا گیا ہے۔  اور ان کے نام ہیں کام، کرودھ، لوبھ، موہ بخلاف وویک، سنتوس، شانتی، کرونا وغیرہ۔

بان و ادب

شاعری

 تغزل کے رنگ کی شاعری اور نظم میں لکھی ہوئی تاریخ کالی داس کا ’’میگھ دوت‘‘ (سفیر ابر) شاعرانہ تخیل کا اعلیٰ ترین شہکار ہے۔  جس کا ترجمہ چینی زبان میں پانچویں صدی میں ہوا تھا اور جس کے ایک سو سے زیادہ ترجمے دنیا کی تمام زبانوں میں موجود ہیں۔  بھرتری ہری کی تین شتک (۱۰۰) شلوک یا اشعار ہیں جن کے نام شرنگار شتک، نیتی شتک اور وَیراگیہ شتک ہیں۔  یہ دنیاوی لذات کی ناپائیداری کی بہت دلچسپ تشریحیں ہیں۔  اس کا انتقال ۶۵۱ء میں ہوا تھا۔  اسی طرز کی ایک ابتدائی تصنیف ’’تھی روکر ل‘‘ ہے جس کی تین جلدیں ، محبت، سیاست اور عبادت سے متعلق ہیں۔  اے شولیٹ زر، اس کو جنوبی ہند کی بہت اہم تصنیف خیال کرتا ہے بلکہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ پانچواں وید ہے

 ۸۰۰ء کے قبل امرو نے ’’امرو شتک‘‘ کے نام سے ایک سوشلوک لکھے۔  یہ عاشقانہ انداز کی نظم ہے جو زیادہ تر حواسِ خمسہ سے متعلق ہے۔  معلوم ہوتا ہے کہ اس پر واتسیائن منصف ’’کام سوتر‘‘ یعنی فن محبت (۴۰۰ صدی عیسوی) کا کافی اثر تھا۔  غزلیہ شاعروں میں بہترین ایک توجے دیو تھا (۱۱۶۸ء) جس کی لازوال تصنیف ’’گیت گووند‘‘ ہے رادھا اور کرشن کی پاک محبت کی یہ نظم نہ صرف موسیقار اور مصور کی منظور نظر ہے بلکہ شاعرانہ مضمون نگاری کا ایک جوہر ہے اور ہمیشہ کے لییے تازہ اور درخشاں ہے۔  اور شاہجہاں کے دربار کا ایک شاعر پنڈت راج جگناتھ ہے۔  جس کو مغل شہنشاہ نے پنڈت راج کا خطاب عطا کیا تھا۔  اس نے ’’بھامنی ولاس اور گنگا لہری‘‘ تصنیف کیں۔  اس کو ایک مسلمان خاتون سے پیار ہو گیا تھا اور کہاوت ہے کہ اس نے گنگاجی کی شان میں ایک ایک شلوک کہتے ہوئے اسی ندی میں خودکشی کر لی۔

آٹھویں صدی عیسوی میں کشمیر کے دامودر گپتا نے کٹنیوں کے مسائل پر ایک کتاب ’’کٹنی متم‘‘ لکھی کئی ایک غزلیہ نظیں مذہبی اغراض کے لیے لکھی گئی ہیں۔  ’’ستوتررتناکر‘‘ (منتروں کا سمندر) میں ایسی ہی نظمیں ہیں۔

 بان بھٹ کی تصنیف ’’ہرش چرت‘‘ میں شاہ رہرش (۶۰۶-۶۴۸ء) کی زندگی کے واقعات بیان کیے گئے ہیں۔  یہ ایک تاریخی رزمیہ نظم ہے۔  وا ک پتی راجا کی تصنیف ’’گوڈوہو‘‘ کا حوالہ پراکرت میں آیا ہے۔  کشمیر کے دو شاعر نظمیہ تاریخ لکھنے میں بہت کامیاب ہوئے ہیں ، بلہن نے ۱۰۸۵ء ’’وکرمانکا دیو چرت‘‘ اور کلہن نے (۱۱۵۸-۱۱۵۹ء) ’’راج ترنگینی‘‘ (بادشاہوں کی ندی) تصنیف کی۔  جس میں کشمیری بادشاہوں کے سلسلہ شاہی کا ذکر ہے۔  اس کا ترجمہ انگریزی میں بڑی قابلیت سے مرحوم آر ایس پنڈت نے کیا ہے۔  نثر میں لکھی ہوئی کتابیں اور افسانے نثر کا استعمال ’’اتھر وید‘‘ کے زمانہ سے ہے۔  ’’یاسک‘‘ کا زبانوں کے تقابلی مطالعہ پر لکھا ہوا رسالہ ’’نروکت‘‘ (۷۰۰۔  ق۔  م) بھی نثر میں ہے۔

فکشن

 سنسکرت نثر میں لکھنے والے بڑے بڑے منصف اور ان کی تصنیفیں حسب ذیل ہیں۔  مصنف کتابوں کا نام نوعیت انداز سوبندھو واسودت نثر، نظم (ساتویں صدی عیسوی) بان بھٹ کادمبری ناول (ساتویں صدی عیسوی) ہرش چرت سوانح عمری ڈنڈن کاویہ آدرش مطالعہ شاعری پر رسالہ (۸۰۰ عیسویں کے قبل) دس کمار چرت کہانیوں کا سلسلہ نثر کے مشہور مصنفوں میں دھن پال مصنف ’’تلک منجری‘‘ (۱۰۰۰عیسوی) اور ودیا سنگھ مصنف ’’گدیہ چنتا منی‘‘ شامل ہیں۔  امبکا دت ویاس (۱۸۵۸-۱۹۰۰ء) نے ’’شیو وجے ‘‘ تصنیف کی، جو شیواجی کی زندگی کا ناول ہے۔  ہری کیش بھٹا چاریہ (۱۸۵۰ء۔۱۹۱۳ء) نے سنسکرت مضامین لکھنا شروع کیا تھا۔  پنڈت کشما راؤ (۱۸۹۰ء۔۱۹۵۴ء) کی ’’کتھا مکتا ولی‘‘ بھی کافی مشہور ہے۔  یہ بھی چھوٹی چھوٹی کہانیوں کے مقابلہ میں نظم کی کتابیں زیادہ ہیں۔  قصہ کہانیوں کی نوعیت کی بہت سی کتابیں ہیں۔  ’’پنچ تنتر‘‘ سب سے قدیم ہے۔  اس کا پہلا ترجمہ پہلوی زبان میں چھٹی صدی عیسوی میں کیا گیا تھا۔  اس کی سُریانی اور عربی شکلیں ’’کالی لاگ‘‘ اور ’’دم ناگ‘‘ (۵۷۰ عیسوی) اور ’’کلیلہ ودمنہ‘‘ (۷۵۰) عیسوی ابھی تک دستیاب ہیں۔  ’’پنچ تنتر‘‘ کی تصنیف تقریباً (۳۰۰ عیسوی) میں ہوئی تھی۔  اس میں کئی ایک فرضی قصے اور جانوروں کی کہانیاں ہیں۔  ہر ایک کہانی کے آخر میں اس کا اخلاقی نتیجہ نظم میں دیا گیا ہے۔  ’’ہت اپدش‘‘ (لغوی معنی ’’بھلائی کے لیے نصیحت‘‘) میں ۴۳ کہانیاں ہیں۔  جن میں سے (۳۵) ’’پنچ تنتر‘‘ کی ہیں۔  ان ہی کہانیوں کے نمونوں پر بودھو کے ’’جاتک‘‘ اور جینیوں کے ’’اُپ متی بھاؤ پر پنچ کتھا‘‘۔  (۸۰۶عیسوی) تیار ہوئے ہیں۔  گنادھیہ کا ’’کتھاسرت ساگر‘‘ (کہانیوں کا سمندر) شیو داس کی ’’بیتال پچیسی‘‘ اور اسی طرح ’’سنگھاسن بتیسی‘‘ عوام کی کہانیاں ہیں۔  چودہویں صدی میں ودّیاپتی ایک میتھلی شاعر نے ’’پُرش پریکشا‘‘ تصنیف کی۔  یہ بھی ایک کہانیوں کا مجموعہ ہے۔

چمپو

سنسکرت ادب میں ایک اور دلچسپ صنف ہے۔  جس میں ملی جلی نثر، نظم اور ڈرامائی کی آمیزش ہوتی ہے۔  ایسی تصنیفوں کو ’’چمپو‘‘ کہتے ہیں۔  یہ دسویں صدی سے دسیتاب ہوتی ہیں تی وی کرم بھٹ (۹۱۵ عیسوی) کی لکھی ہوئی ’’نل چمپو‘‘ سب سے قدیم ہے۔  جینی شاعروں میں سے دیو سوری نے یشس تلک پر لکھا اور ہریش چندر نے جیون دھارا پر لکھا۔  دھارا کے مشہور بادشاہ بھوج (۱۰۱۸-۱۰۶۳ء عیسوی) نے سولہویں صدی میں ایک چمپو لکھی تھی تری مالمبہ کی تصنیف ’’ورد امبکا پری نئے ‘‘ ہے ان چمپوؤں کے مضامین زیادہ تر بڑے سورماؤں اور بادشاہوں کے کارنامے اور رزمیہ نظموں کی فرضی کہانیاں ہوتی ہیں۔  ان میں سے بعض ایسے ہیں جن میں اپنے پسند کے دیوتا کے سامنے نام لے کر دعائیں پڑھی جاتی ہیں۔  اٹھارویں صدی میں کرشنا کوی نے مختلف بحر وغیرہ کو مثالوں کے ذریعہ واضح کرنے کے لیے ایک چمپو لکھا ہے جس کا نام ’’مندر مرنڈ چمپو‘‘ ہے۔

فنِ شاعری

سنسکرت میں تقریباً تمام اغراض کے لیے نظم کا استعمال ہوتا ہے۔  یہ بظاہر  ناقابلِ یقین بات ہے کہ خشک سائنس کی کتابیں بھی مثلاً صرف و نحو، منطق، علم ہیئت اور علم طِب بھی نظم میں لکھی گئی ہیں۔  سنسکرت نظم کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ہزارہا پُر معنی مقولے مختصر اور سادہ گیت اور جامع کلمات کے بہت اچھے نمونے ہیں۔  ان کو ’’سبھاشِت‘‘ کہتے ہیں۔  جو نامعلوم شاعروں کی تصنیفیں ہیں تاہم ہر دل عزیزی کی بنا پر عام طور پر ان کا حوالہ دیا جاتا ہے۔

فن شعر و سخن پر مقالے اور جمالیات کی کتابیں ڈراما نویسی کے اصول پر بھٹ کا مقابلہ ’’ناٹیہ شاستر‘‘ سنسکرت میں سب سے قدیم جمالیات کی تصنیف ہے۔  پروفیسر میک ڈونل اس کو چھٹی صدی عیسوی کا سمجھتا ہے اور ایس کے ڈے پانچویں صدی کا اس کی مختلف تفسیریں ہیں۔  اس کے بعد بھاما آتا ہے جس نے ’’کاویہ النکار‘‘ لکھا ہے۔  اُو بھٹ نے آٹھویں صدی میں اس کی تفسیر کی ہے۔  نویں صدی میں آنند وردھن نے ’’دھونیہ لوک‘‘ لکھی۔  اگر بھاما غیر مستقیم اظہار  وکروتی پر زیادہ زور دیتا ہے تو اُدبھٹ پوشیدہ معنی با عمل توجیہہ (دھونی) کی زیادہ اہمیت سمجھتا ہے۔  ابھنوا گپتا (۱۰۰۰ عیسوی) نے ’’دھونیہ لوک‘‘ کی تفسیر لکھی۔  اس کا تعلق شیو فرقے سے تھا۔  اس نے نظم کی تعبیر میں فلسفیانہ معنی کا رواج دیا ہے۔

  بھٹالولٹ (۷۰۰-۸۰۰ عیسوی) شنکوک (۸۴۰ عیسوی) بھٹانایک (۹۰۰ عیسوی) اور ابھنوا گپتا۔  ان سب نے شعریات کا رُخ ’’رس‘‘ کے نظریہ کی طرف پھیر دیا۔  اگر چہ کنتلا (۱۰۰۰عیسوی) نے اپنی تصنیف ’’وکروکتی جیوت‘‘ میں دھونی کی تردید کی ہے۔  لیکن مہم بھٹا نے اپنی کتاب ’’دیکتی وویک‘‘ (۱۰۵۰ء) میں اس نظریہ کو ثابت کیا ہے اور ردرت (۸۰۰-۸۵۰عیسوی) نے ایک نیا مذہب قائم کیا جس میں استعارہ وغیرہ کو اہمیت دی گئی ہے۔  اس طرح راج شیکھر (۹۰۰عیسوی) نے اپنی تصنیف ’’کاویہ میمانسا‘‘ میں فنِ شاعری کے لیے لازمی مادّی، خارجی، معروضی شرائط کے مقولے ترتیب دیئے ہیں۔

دسویں صدی میں دھنن جیے نے ’’ناٹیہ شاستر‘‘ پر ایک تفسیر لکھی جس کا نام ’’دش رویک‘‘ ہے۔  دھار کے بادشاہ بھوج نے ایک تصنیف کی جس میں فن شاعری کے اچھّے اور بُرے اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔  اس کتاب کا نام ’’سرسوتی کنٹھا بھرن‘‘ ہے۔  کشیم یندر (گیارہویں صدی عیسوی) نے کشمیری شاعری کی تنقید کی ایک اور بہت اہم صورت ’’حسن اسلوب‘‘ کو رواج دیا۔  اس کی کتاب کا نام ہے ’’آوچتیہ وچار چرچا‘‘ وہ اسلوبِ بیان اور انشا پردازی کے طرز سے بھی بحث کرتا ہے۔  ممٹ نے گیارہویں صدی میں ’’ کاویہ پرکاش‘‘ تصنیف کی جس کی اب تک (۷۰) تفسیریں کی گئی ہیں اور حاشیے لکھے گئے ہیں۔  کشمیری راجا نک رویک (بارہویں صدی عیسوی) نے ’’النکار سروسو‘‘ تصنیف کی جس میں اس نے دوبارہ کنایہ و استعارہ کی اہمیت کو رائج کیا۔  اسی صدی میں جینی علما مثلا ًواگ بھٹ اور ہیم چندر نے فن شاعری پر کتابیں لکھیں۔  چودہویں صدی میں جینی شارح واگ بھٹ ولدنیمی کمار نے ضابطۂ شاعری پر ایک کتاب لکھی جس کا نام ’’کاویہ انوشاسن‘‘ ہے۔

چودہویں صدی میں وشوناتھ نے ’’ساہتیہ درپن‘‘ لکھی جس کو ایک معیاری کتاب ہونے کی حیثیت سے وہی مقبولیت حاصل ہوئی جو ممٹ کی تصنیف کو حاصل تھی۔  ۱۴۲۰ء میں آندھرا کے ایک ریڈی شہزادہ ویما بھوپال نے ’’ساہتیہ چنتا منی‘‘ لکھی۔  ۱۶۰۰ء میں تامل ناڈ کے اپّیاد کشت نے اپنی کتاب ’’ورتی وارتک‘‘ میں لفظ کی قوت پر خوب خیال آرائی کی ہے۔  سترہویں صدی میں تلنگانہ کے پنڈت جگناتھ نے ’’رس‘‘ کی اہمیت پر ’’رس گنگا دھر ‘‘لکھی۔  یہ ایک معیاری تصنیف ہے۔

  اٹھارہویں صدی میں وشویشور نے ’’النکار کو ستو بھا‘‘ لکھی۔  اس کے بعد سنسکرت میں جمالیات کے علما کا سلسلہ تقریباً ختم ہو جاتا ہے۔  عہدِ جدید میں متعدد علما نے ان نظریوں کے متعلق تفصیل سے لکھا ہے جو جدید فن شاعری میں ممدو معاون ہیں۔

 کرشن چیتنیہ نے اپنی انگریزی تصنیف ’’سنسکرت فن شاعری‘‘ میں ان پہلوؤں پر بحث کی ہے۔  ڈاکٹر جی ٹی دیش پانڈے نے ’’بھارتیہ ساہتیہ شاستر‘‘ تصنیف کر کے مراہٹی ساہتیہ اکاڈمی سے انعام حاصل کیا تھا۔  اس میں ان تمام جمالیاتی نظریوں پر چھ ہندی نظاماتِ فلسفہ کے اثر سے بحث کی گئی ہے۔  خلاصہ یہ ہے کہ سنسکرت فن شاعری کے پانچ مذاہب ہیں۔

(۱) ’’ رس‘‘ پیش کرنے والا نند کشور بھرت

 (۲) ’’ النکار‘‘ ’’ بھاما، اُوبھٹ، ردرت

 (۳) ’’رتی‘‘ ’’ ڈنڈن، وامن

(۴) ’’وکروکتی‘‘ ’’ کنٹک

 (۵) ’’دھونی‘‘ ’’ آنند وردھن ‘‘

یہاں ان تمام نظریوں کے موافق اور مخالف دلیلوں کی تفصیل میں جانے کی گنجائش نہیں ہے۔  سنسکرت میں ایسے سینکڑوں موضوع مطالعہ دستیاب ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کی تائید اور تردید میں دلیلیں پیش کرتے ہیں۔  ان میں سے زیادہ تر مصنفین نے مناسب مثالوں کو پیش کرنے کے لیے معیاری تصانیف کا استعمال کیا ہے اور چند صرف اپنی ہی تصنیفوں سے کام لیتے ہیں۔  ایک بات تو یقینی ہے کہ ساتویں یا نویں صدی کے بھی قبل سے سنسکرت میں علما نے شاعرانہ تخلیق، شاعرانہ بنیادی خصوصی یا خیال وغیرہ کے مختلف ادبی مسائل کی چھان بین شروع کر دی تھی۔  ان کے بعض نظریئے اب بھی ایسے ہی صحیح سمجھے جاتے ہیں جس طرح کہ اس زمانہ میں تھے۔  البتہ بعض مباحث جدید نفسیاتی تحقیقات کے باعث اب فضول نظر آتے ہیں۔  ان کو صرف مقولوں میں ڈھالنے کا طریقہ تبدیل ہوا ہو گا لیکن ان کی باطنی کیفیت بغیر کسی تبدیلی کے جیسی تھی ویسی باقی ہے۔

 تصنیفات فلسفہ و دیگر علوم و فنون

 یہاں سنسکرت میں تصانیف فلسفہ کے متعلق تو کوئی مکمل علم پیش نہیں کیا جا سکتا لیکن عام طور پر ان کو دو گروہوں میں رکھا جا سکتا ہے۔  آستک اور ناستک۔  پہلی قسم میں چھ نظاماتِ فلسفہ ہیں۔

 (۱) گوتم کے نیائے سوتر (تیسری صدی ق۔  م سے قبل) ایک جدید مذہب منطق یا نیائے بھی موجود ہے جس کو بارہویں صدی میں گنگیش اپادھیائے نے اپنی تصنیف ’’تتو چنتا منی‘‘ میں بڑی خوبی سے بیان کیا ہے۔

(۲) ’’ویشیشک‘‘ مصنفہ کناد (تیسری صدی ق۔  م کے دور کے بعد) کچھ تصانیف ایسی بھی ہیں جو دونوں کو ایک ساتھ پیش کرتی ہیں۔

 (۳) ’’سانکھیہ‘‘ جس کو کپل نے معلوم کیا۔  اس کے بعد ایشور کرشن نے تیسری صدی میں ’’سانکھیہ کاریکا‘‘ لکھی۔

(۴) ’’یوگ‘‘ جس کو پتنجلی نے دوسری صدی ق۔  م میں لکھا تھا۔  اس مضمون پر بعد میں واچسپتی اور ویگان بھکشوتک بہت سی تصنیفیں لکھی گئی ہیں۔

(۵) ۶۰۰ عیسوی میں جیمنی نے ’’میمامسا‘‘ لکھی۔  جوکرم ’’میما مسا‘‘ اور ’’پورومیمامسا‘‘ کہلاتی ہے۔  بعد میں کماریلا اور پربھاکر اس نظام کے دو زبردست شارح ہوئے ہیں۔

(۶)’’ ویدانت‘‘ کو لکھنے والے اور ائن ہیں اور گوڈپار بھی ہیں۔  نویں صدی میں شنکراچاریہ نے اس پر بہترین تفسیر کی ہے۔  ویدانت کے کئی ایک ذیلی مکتب ہیں۔  ان کے شارحوں میں بھاسکر، رامانُج، نِمبارک، مادھوا، دلبراچاریہ، سری کانت اور روپ گوسوامی شامل ہیں۔  ناستک مکتبوں میں چار واک ہے اس کی تصنیف ’’لوکایت‘‘ اب دستیاب نہیں ہو سکتی۔  بودھوں میں ہنیان اور مہایان ہیں۔  مہایانیوں کے بھی کئی ایک مکتب ہیں۔  مثلاً مادھیہ میک (ناگارجن) یوگا چار (اسنگ) وگیان واد (دنگ ناک) ہنیان کے دو مکتب ہیں وائے بھاشک (واسومترا) ساوترا نتک (کمارل بدھ) ناستکوں کے چارواک، بدھ اور جین یہ تین خاص مذہب ہیں۔  ان تمام مذاہب کی سنسکرت میں کئی ایک کتابیں ہیں۔  کم از کم ۵۰۰ اہم تصانیت ہیں۔  جن میں ان تمام نظامات اور ان کی شاخوں کے فلسفہ پر زبردست مباحث پیش کئے گئے ہیں۔  فلسفہ کے بعد سنسکرت میں محتلف علوم و فنون پر ماہرین کی بہت دلچسپ تصانیف ہیں۔  جیسے ریاضی (لیلا وتی) کیمیا اور دواسازی (ناگارجن، چرک، سبش رت) فلکیات(آریہ بھٹ، وراہ می ہیرا علم اصلاح نسلیات (واتسائن کا کام سوتر) صرف ونحو (پتنجلی، پاننی، بھرتری ہری) تالیف لغت (کاتیاین امر سنگھ) معاشیات اور سیاسیات (کوتلیہ) فن تیر اندازی (شارنگ دت) گھوڑوں اور ہاتھیوں کی شناخت کا علم (پال کپیہ، شالی ہوترا)علم تعمیر و فن عمارت اور سنگ تراشی (بھوج، منڈن اور شلپ شاستر اور من سار کے مانند تصانیف) فن جواہرات (برہت سمہتا، بدھ بھٹ کی رتن پریکشا ) یہاں تک کہ طباخی اور چوری کے فن پر بھی کتابیں ہیں۔  اس لئے کہ ان کا شمار (۶۴) کلاؤں میں ہوتا ہے۔  ڈاکٹر پر بھا کر مچوے کی ایک تصنیف ’’ہندومت‘‘ ہے۔  اس طرح انگریزی زبان میں تمام علوم و فنون میں تفصیلات بیان کرنے والی کتابیں موجود ہیں۔  سنسکرت میں فنون لطیفہ پر بہترین کتابیں ہیں۔  مثلاً شارنگ دھر کی تصنیف ’’سنگیت رتناگر‘‘ (موسیقی کے مضمون پر) نندی کشور کی ’’ابھی نئے درپن‘‘ (ناچ سیکھنے پر) وشنو دھر موتار کی کتابیں سنگ تراشی اور مصوری وغیرہ پر ہیں۔  ہندو قانون پر بھی کتابیں ہیں۔  مثلاً پی۔  وی کانے کی تصنیف ’’دھرم شاستر‘‘ جو انگریزی زبان میں بڑی محنت سے چار جلدوں میں لکھی گئی ہے اور تفصیلی معلومات بہم پہنچاتی ہے۔  منو کا قانون ’’منو سمرتی‘‘ غالباً پہلی صدی عیسوی میں لکھا گیا تھا۔  یا جنیا ولکیہ اور نارد کی سمرتیاں اور مذہبی رسوم کی ادائیگی کے متعلق مختلف تصنیفیں ہندو مذہب اور سماجی رسوم کی بنیاد ہیں۔  اس طرح سنسکرت زبان میں انسانی زندگی کے چاروں پہلوؤں پر کتابیں موجود ہیں۔  مثلاً ’’دھرم‘‘ (قانون)۔  ’’ارتھ‘‘ (معاشی مسائل اور دولت ) ’’کام‘‘ (محبت اور ازدواجی زندگی)۔  اور ’’موکش ‘‘(نجات)

سنسکرت ہرش وردھن کی سلطنت تک تو تخلیقی زبان کے طور پر رائج تھی۔  بعد میں یہ ایک ضابطہ کی زبان بن کر رہ گئی۔  یعنی چالو زبان نہیں رہی۔  اگرچہ گزشتہ ایک ہزار سال سے ہر ایک میدان علم میں مصنفین گزرے ہیں۔  لیکن گپتا کے عہد تک اس کے جو غیر معمولی اور مشہور کارنامے تھے وہ پھر کبھی حاصل نہ ہو سکے۔

جدید سنسکرت تصنیفیں

 ڈاکٹر ایس۔  بی ورائیکر نے بیسویں صدی میں چھ سو صفحات کا ایک مقالہ ’’ہندوستان میں سنسکرت تصانیف‘‘ کے عنوان سے ناگ پور سے شائع کرایا ہے۔  ڈاکٹروی۔  راگھون نے جدید سنسکرت تصنیف کے عنوان سے دو بہت علمی اور مفصل مضامین ساہتیہ اکاڈمی کی دو اشاعتوں میں شائع کرائے ہیں۔  جن کا نام ’’ہم عصر ہندوستانی ادب‘‘ اور ’’آزادی کے بعد کا ہندوستانی ادب‘‘ رکھا ہے۔  یہ سب کچھ لکھنے اور کہنے کے باوجود ہمارے جدید اور موجودہ ہندوستانی مصنفین ماضی کے ان زبردست اساتذہ کے قریب نہیں آ سکتے۔  کئی لوگوں نے نظمیں لکھی ہیں۔  کشماراؤ نے ’’ستیہ گرہ گیتا‘‘ لکھی اور سی۔  ڈی دیش مکھ نے ’’گاندھی سوکتی مکتاولی‘‘ لکھی اور بہت سے نقاد اور نکتہ رس لوگوں نے ان کی کافی تعریف کی ہے۔  لیکن تمام جدید سنسکرت تصنیفیں کم و بیش دماغی ورزشیں ہیں۔  وہ ان بے ساختہ غزلیہ شاعری کے مصنفین کالی داس یا جئے دیو کی طرح نزدیک بھی نہیں آ سکتے۔  جدید سنسکرت تصانیف بہت سی قسم کی ہیں۔  دیسی اور بدیسی زبانوں سے جو ترجمے کیے گئے ہیں ان کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔  چنانچہ اس وقت سنسکرت میں شیکسپئر ’’ٹمپیسٹ‘‘ اور ’’ہیملٹ‘‘ کے گولڈ سمتھ کی نظموں کے اور جیؤبی شاکی ’’سیب گاڑی‘‘ کے ترجمے دستیاب ہوتے ہیں۔  ٹاسٹائے کی چھوٹی چھوٹی کہانیاں اور رومین رولاں اور چرچل کے عنوانات سے سنسکرت میں مضامین شائع کیے گئے ہیں۔  دوسری ہندوستانی زبانوں سے بھی سنسکرت میں مضامین شائع کیے لئے ہیں۔  چنانچہ تامل کو رل کا ترجمہ، کمب راماین کا ترجمہ، سبرامنیم بھارتی کی نظموں کا ترجمہ اور راجہ جی کی کہانیوں کا ترجمہ بھی سنسکرت میں موجود ہے۔  کنڑی وچن اور پٹ ٹپ پاکی نظمیں۔  ٹیلو گوشتک اور پوتن ناکی ’’بھاگوت‘‘ اور تینالی رام کی مزاحیہ کہانیاں ، مرہٹی سنت تکارام اور رام داس کی نظمیں اور گیت۔  مامارواے کرکاناٹک ’’بھومی کنیا سیتا‘‘ ہندی سنت اور پرساد کی ’’کاماینی‘‘ آسامی زبان میں رگھوناتھ چودھری کی نظم ’’کیتکی‘‘۔  بنگالی زبان میں نظم لکھا ہواناٹک ’’ناٹرپوجا‘‘ مصنفہ ٹیگور اور اس کی چند منتخب نظمیں۔  غالبؔ کی اردو غزلیں پی۔  سین پشپ نے سنسکرت میں ترجمہ کی ہیں۔  ۱۹۶۷ء میں ’’سنسکرت سوریہ ادے ‘‘ میں ایل۔  ایس۔  تیلنگ کے لکھے ہوئے ’’الف لیلا‘‘ کے کچھ حصے شائع ہوئے ہیں۔  اب بھی کئی ایک پنڈت سنسکرت میں علم و فضل اور اہم تحقیق کی تحریر میں مصروف ہیں۔  لیکن ان کی نوعیت تفسیروں یا حاشیوں جیسی ہے۔

٭٭٭

 

عربی زبان و ادب

عربی زبان  و ادب عرب قوم سامی اقوام کی ایک شاخ ہے۔  ان قوموں میں بابلی، سریانی فینیقی، آرمینی، حبشی، سبئی اور عربوں کو شامل کیا جاتا ہے۔  مؤرخین نے عرب اقوام کو مندرجہ ذیل تین قسموں میں تقسیم کیا ہے۔

 (۱) عرب بائدہ: یہ وہ عربی اقوام ہیں جن کے حالات کا نہ تو تاریخ سے پتہ چلتا ہے اور نہ ہی آثار قدیمہ سے البتہ ان کی زبان کا نمونہ ان کتبوں اور تحریروں میں ہے جو حال کی کھدائیوں میں ملے ہیں۔

(۲) عرب عاربہ یا قحطانی عرب: یہ یمن کے وہ باشندے ہیں جو نسلاً یعرب بن قحطان کی اولاد میں سے ہیں۔  عربی زبان کے اصلی بانی یمن کے یہی باشندے تھے۔

(۳) عرب مستعربہ یا عدنانی عرب: یہ حجاج کے وہ عرب ہیں جو عدنان کی نسل سے تھے یہ لوگ انیسویں صدی قبل مسیح حجاز میں آ کر ٹھہرے اور یہی بس گئے۔

             مذکورہ بالا تمام اقوام عربی زبان بولتی تھیں۔  عربی زبان کی ابتدا اور اس کی نشوونما ماہرین لسانیات کا اتفاق ہے کہ سامی اقوام اپنی بستیوں میں جو زبانیں بولتی تھیں ان ہی ایک شاخ عربی زبان بھی ہے۔  اور اس طرح عربی زبان کو آریائی یا حامی زبان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔  عربی زبان دنیا کی ان وسیع ترین سلیس اور خوبصورت زبانوں میں سے ہے جن کی مثال مشکل سے ملے گی۔  یہ زبان دائیں سے بائیں طرف کو لکھی جاتی ہے۔  اس میں ۲۸ حروف تہجی ہیں۔  اس زبان میں بعض حروف جیسے (ض) ایسے ہیں جو دوسری زبانوں میں نہیں ملتے اور نہ دوسری قومیں ان کا صحیح تلفظ کرسکتی ہیں اسی لیے عرب فخریہ کہتے ہیں کہ ’’نحن الناطقون بالضاد‘‘ یعنی دنیا میں صرف ہم ہی ضاد کا صحیح تلفظ کرسکتے ہیں۔  اس زبان میں الفاظ کی آخر آواز کو مخصوص نشانوں (اِعراب) کے ذریعہ ادا کیا جاتا ہے۔  حروف کے ذریعہ لکھ کر نہیں ، جیسا کہ آریائی زبانوں میں ہوتا ہے۔  اسی زبان میں مسلمانوں کی مقدس مذہبی کتاب قرآن شریف نازل ہوئی ہے اور اسی زبان میں اسلام کے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی باتیں کہی ہیں اور مذہبی تعلیم دی ہے۔  ۱۹۶۰ء کی مردم شماری کے مطابق اس زبان کو جزیرہ نمائے عرب کے علاوہ ہلال حصیب شمالی افریقہ اور دوسرے ملکوں کے ایک کروڑ سے زائد اشخاص بولتے ہیں۔  اور چوں کہ اس زبان میں قرآن اور حدیث کے علاوہ تمام اسلام علوم و فنون بھی لکھے گئے ہیں اس لیے ساری دنیا کے مسلمان اسے اپنی مقدس مذہبی زبان مانتے ہیں۔  انجمن اقوام متحدہ نے دوسری چار زبانوں کے ساتھ اسے بھی اپنی کارروائیوں کے لئے تسلیم کر کے اس کی بین الاقوامی حیثیت کو سندِ اعتبار عطا کی ہے۔

 عربی زبان کے مختلف لہجے عربی زبان اپنی اصلی شکل میں کس طرح وجود میں آئی اس کا یقینی پتہ لگانا بہت مشکل کام ہے کیوں کہ جس وقت اس کی واضح شکل ہمارے سامنے آئی ہے وہ اسلامی زمانہ تھا اور اس وقت عربی زبان اپنے عروج کو پہنچی ہوئی تھی۔  مگر اب مختلف عرب ممالک میں کھدائیاں کرنے کے بعد جو آثار قدیمہ ملے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ عربی زبان تین مختلف لہجوں میں بولی جاتی تھی۔  لیکن زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ جو ں جوں عرب قبائل میں تجارت، میلوں ٹھیلوں ، حج کعبہ اور دوسرے ذرائع سے آپس میں میل جول بڑھا تو لہجوں کا یہ اختلاف رفتہ رفتہ مٹ گیا اور ایک نئی اور خوبصورت زبان نکل آئی جو ’’لہجہ قریش‘‘ میں تھی۔  اور جب اس لہجہ میں قرآن شریف بھی نازل ہو گیا تو اس زبان کو عمر جاوداں مل گئی۔  اور یہی وہ زبان ہے جو آج بھی علمی، ادبی، سیاسی، تاریخی، فنی، تکنیکی اور دیگر ضرورتوں میں عرب ملکوں میں استعمال ہوتی ہے۔

 عربی رسم خط جس طرح عربی زبان کی ابتدا اور ع اس کی نشوونما کے متعلق اب تک کوئی قطعی بات نہیں کہی جا سکتی تھی اسی طرح عربی زبان کے رسم خط کے بارے میں بھی علما اور ماہرین لسانیات کی معلومات محدود تھیں۔  تقریباً نوے سال ہوئے مستشرقین (اسلامی علوم و فنون اور عربی کے ماہر یورپین علما) نے مختلف عرب ممالک میں کھدائیاں کر کے جو تحریریں اور کتبے نکالے ہیں ان کی بنیاد پر ان علما کا خیال ہے کہ آج سے ہزاروں سال پہلے حجری عہد کے دوسرے دور میں بحر روم کے ساحلوں پر بسنے والی قوموں میں جب تہذیب و تمدن کو نشوونما ہوا تو انہوں نے اس وقت تک رائج نقوش کی زبان کو پہلی مرتبہ رسم خط میں تبدیل کیا۔  بعد میں جب ان کے یہاں تہذیب و تمدن نے مزید ترقی کی، صنعت و حرفت بڑھی اور تجارت میں مزید توسیع ہوئی تو ۳۶۰۰ ق م بلکہ غالباً اس سے بہت پہلے ایلام سومیریا اور مصر میں ایک ایسا رسمِ خط ایجاد ہوا جس میں دل کی بات تصویروں کے ذریعہ اد ا کی جاتی تھی اس رسم خط کا نام ’ہیرو غلیقی‘ یا قدیم مصری طرز تحریر تھا۔  اس رسمِ خط کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں پورے جملے کی ترجمانی ایک تصویر کرتی تھی۔  فینیقی قوم نے جو ان دنوں کنعان میں بحر روم کے ساحل پر آباد اور تجارت پیشہ تھی مصر میں ایجاد شدہ حروف تہجی کو ٹائر (Tyre)سِڈون (Sidon) ببلوس(Byblos)کے علاقوں کے علاوہ بحر روم کے ساحل پر آباد تمام شہروں میں پہنچایا اور انہیں شہروں میں قدیم سامی قوم آرامی بھی رہتی تھی جس نے اس رسم خط کو ان کے ذریعہ سیکھا۔  فینیقوں کے رواج دیے ہوئے اس رسم خط سے جس کا سلسلہ ہیرو غلیقی سے جا ملتا ہے ، بعد میں دو رسم خط نکلے ایک جنوبی عرب یعنی یمن میں جس کا نام ’’خط مسند‘‘ تھا یہ خط قبل مسیح پورے جزیرہ نمائے عرب میں استعمال ہوتا تھا۔  دوسرا خط ’’آرامی یا نبطی خط‘‘ تھا اس کا رواج شمالی عرب میں عیسائیوں اور یہودیوں کے واسطے سے ہوا جوا س وقت بنی ارم کی زبان میں لکھتے تھے۔  بعد میں خط مسند کی کئی اور شاخیں ہو گئیں۔  چنانچہ جزیرہ نمائے عرب کے شمالی حصہ میں رسم خط صفوی، ثمودی اور لحیانی کا رواج رہا اور جنوبی حصہ میں حیری کا۔  عربوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنا حجازی رسم خط حیرہ اور انبار کے لوگوں سے لیا اور انہوں نے نبطیوں اور کندیوں سے اور ان لوگوں نے خط مسند سے اس طرح عربی خط کا سلسلہ مسندیعنی یعنی میں رائج شدہ خط سے جا ملتا ہے۔  عرب مؤرخین کا بیان ہے کہ قبیلہ طے کے تین افراد نے عربی رسم خط ایجاد کیا تھا جن کے نام مرار بن مرۃ، اسلم بن سدرۃ اور عامر بن جدرۃ ہیں۔  انہوں نے سریانی زبان کے قاعدوں کے مطابق عربی زبان کے رسم خط کو ڈھالا ور انبار کے بعض لوگوں نے اس کی تعلیم دی انباریوں نے اس خط کو حیرہ کے لوگوں کو سکھایا اور بشر بن عبدالملک نے جو دوت الجندل کے والی اکیدر بن عبدالملک بن عبدالجن الکندی کا بھائی اور مذہباً عیسائی تھا حیرہ میں اپنے قیام کے زمانے میں اس رسم خط کو سیکھا اور مکہ میں جب ایک مرتبہ ٹھہرا تو اس نے سفیان بن امیہ اور ابوقیس بن عبدمناف کو لکھنے کا طریقہ بتایا اور اس طرح مکہ میں لکھنے کا رواج ہوا۔  لیکن مکہ اور مدینہ دونوں شہروں میں اسلام سے پہلے لکھنا جاننے والے بہت کم تھے مکہ کی بہ نسبت مدینہ کے یہودی زیادہ تعداد میں لکھنا جانتے تھے۔  غزوہ بدر میں مکے کے جو لوگ قید ہوئے ان میں سے پڑھے لکھے قیدیوں کا فدیہ رسول اللہ صلعم نے یہ مقرر کیا کہ وہ مدینہ کے مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھادیں۔  اس طرح مدینہ کے اندر لکھنے پڑھنے کا رواج پڑا بعد میں جب تعلیم کا رواج بڑھا تو نئی نسل پوری تعلیم یافتہ ہو گئی۔  ذیل میں عربی رسم خط کا شجرہ نسب دیا جاتا ہے۔  عربی ادب کی تاریخ کو عام طور سے پانچ ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

۱-جاہلی زمانہ: یہ زمانہ پانچویں صدی سے شروع ہو کر اسلام کے ظاہر ہونے پر ۶۲۲/۶۲۳ء میں ختم ہوتا ہے۔

 ۲-اسلامی زمانہ: اسلام کے ظاہر ہونے سے شروع ہوتا ہے اور بنی امیہ کی حکومت کے خاتمہ پر ۱۷۹۸ء میں ختم ہوتا ہے۔

۳- عباسی زمانہ : عباسی سلطنت کے قیام سے شروع ہو کر زوال بغداد سنہ ۱۲۵۸ء میں ختم ہوتا ہے۔

 ۴- انحطاط کا زمانہ: بغداد کی تباہی (۱۲۵۸ء) سے شروع ہو کر نیپولین کے حملہ مصر پر ۱۷۹۸ء میں ختم ہوتا ہے۔

  ۵- موجودہ زمانہ: نیپولین کے مصر پر حملہ اور محمد علی پاشا کی حکومت سے شروع ہوتا ہے اور اب تک جاری ہے (۱۷۹۸ء۔  تا حال) اس زمانہ کے دو دور ہیں۔  ایک نشاۃ ثانیہ کا پہلا دور اور دوسرا ’’نشاۃ ثانیہ کا دوسرا دور‘‘ جو چل رہا ہے۔

فینیقی

(۱)مسند (۲) آرامی یا نبطی

(۱) لحیانی (۲)نمودی (۳)صفوی (۴)حیری

کندی اور نبطی حیری اور انباری حجازی کوفی جاہلی زمانہ ۴۵۰ء۔۶۲۲ء

دنیا کی دوسری زبانوں کی طرح عربی زبان میں بھی ادب کی دونوں قسمیں نظم و نثر پائی جاتی ہیں۔  لکھنے پڑھنے کا رواج نہ ہونے کی وجہ سے زمانۂ جاہلیت میں عرب ادبا اور شعرا بعض خاص میلوں میں سال میں ایک دفعہ جمع ہو کر خرید و فروخت کے علاوہ شعر و شاعری اور خطابت میں مقابلہ اور اپنے آبا و اجداد کے کارناموں کو گنا کر ایک دوسرے پر فخر کرتے تھے۔  ان میلوں میں قابل ذکر عکآظ مجنتہ اور ذوالمجاز ہیں۔  ان میلوں کی وجہ سے شعر و ادب کا پورے جزیرہ میں سال بھر تک چرچا رہتا تھا۔  زمانہ جاہلیت کی نثر عربوں میں لکھنے پڑھنے کا رواج نہ ہونے کی وجہ سے اسلام سے پہلے کا اکثر ادبی سرمایہ ضائع ہو گیا پھر بھی جو کچھ ہم تک پہنچا ہے اس کی بنیاد پر نثر جاہلی کو تین قسموں میں بانٹا جاتا ہے۔  (۱) تقریر (۲) کہاوتیں (۳) نصیحتیں اور حکیمانہ جملے۔

تقریر 

تقریر نثر کی وہ قسم ہے جس میں عربوں نے اپنی زبان کے جوہر دکھائے ہیں۔  یہ تقریریں عام طور پر کسی اونچی جگہ سے یا اونٹنی کی پیٹھ پر بیٹھے ہوئے کی جاتی تھیں۔  مقصد ہوتا تھا جنگوں میں جوش دلانا، اپنے قبیلہ اور اپنے آبا و اجداد کے کارنامے گنانا۔  اپنی اور قبیلہ کی مدافعت کرنا، صلح و صفائی کرانا، بادشاہوں اور امرا کی تعریف کرنا اور اعلیٰ اخلاق کی تلقین کرنا۔  زمانۂ جاہلیت میں بہت سے ممتاز مقررین گزرے ہیں ان میں دو قابل ذکر ہیں قیس بن ساعدہ الایادی یہ نجران کا پادری تھا اور ملکۂ خطابت کے علاوہ شعر و شاعری اور حکمت و فلسفہ میں بھی بہت مشہور تھا۔  اسے عکاظ کے میلہ میں اکثر جج مقرر کیا جاتا تھا۔  عمرو بن معدی کرب الزبیدی ۶۴۳ء قیس بن ساعدہ کے بعد فن خطاب میں سارے عرب میں مشہور تھا۔  اس کی تقریر کا موضوع عام طور پر بہادر اور ’’مرواۃ‘‘ یعنی شرافتِ نفس اور اعلیٰ اخلاق کی تلقین ہوتا تھا۔

کہاوتیں

 عربی میں کہاوتیں دو طرح کی ہوتی ہیں ایک ’’حقیقی‘‘ جنہیں انسانوں نے کہا ہے اور دوسری ’’فرضی‘‘  جو جانوروں کے منہ سے ادا کرائی گئی ہیں۔

زمانۂ جاہلیت میں چھوٹے چھوٹے لیکن حکمت و فلسفہ اور عقل مندی کی باتوں سے بھرے ہوئے جملوں کا جو کوئی شخص اپنے کسی عزیز دوست یا جاننے والے سے کسی نقصان سے بچانے یا کوئی فائدہ پہنچانے کی غرض سے کہتا تھا، بہت رواج تھا۔  اس زمانہ میں زہیر بن جناب الکبی اور ذوالا صبع العدوانی نے اس صنف میں بڑا امتیاز حاصل کیا۔

  قصے کہانیاں

 نثر کے ان اصناف کے علاوہ زمانۂ جاہلی میں قصے کہانیوں کا بھی بہت رواج تھا۔  یہ کہانیاں دو قسم کی ہوتی تھیں ایک ’’لوک کتھا‘‘ تھی جس کا موضوع جنگ اور بہادروں کی شجاعت اور جنگی کارناموں کا ذکر تھا۔  جیسے عنترہ یا الزیر سالم بن ہلال وغیرہ کے قصے دوسری قسم ان کہانیوں کی ہے جسے عربوں نے دوسری قوموں سے لے کر عربی رنگ میں ڈھال کر بیان کیا ہے جیسے شریک نامی ایک شخص کا قصہ کہ دراصل یہ کہانی ایک یونانی کہانی ہے جسے عربوں نے اپنے رنگ میں اس طرح پیش کیا ہے کہ بالکل عربی کہانی لگتی ہے۔

جاہلی زمانہ کی شعر و شاعری (نظم)

عربوں کو من حیث القوم شاعری کا ذوق فطری طور ملا ہے۔  یہ قوم بدوی زندگی گزارتی تھی۔  ان کی نسل ہر طرح کی آزادی کے ساتھ آغوشِ فطرت میں پروان چڑھتی تھی۔  حد نگاہ تک پھیلا ہوا صحرا تیز اور جھلسا دینے والا سورج سخت اور تند صحرائی آندھیاں ، چمکتا دمکتا چاند، ہنستے مسکراتے ستارے ، نشیلی صبحیں اور پر کیف شامیں ان کا سرمایہ فکر و نظر تھیں چنانچہ عرب شاعر اپنے فطری ماحول میں ڈوب کر اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار شہر میں کرتا تھا۔  یہی وجہ ہے کہ زمانۂ جاہلی کا جو شعری سرمایہ ہم تک پہنچا ہے وہ بہت مؤثر اور وقیع ہے اور زبان و بیان کا بہترین نمونہ ہے۔  اور اسی کے ساتھ بدوی زندگی کا مرقع تھا۔  چوں کہ جاہلی زمانہ میں شاعر اپنے قبیلہ کی مدح اس کے کارنامے گنا کر فخر کرنے کے علاوہ اس کی طرف سے دوسرے قبیلوں کے شاعروں کا جواب دیتا تھا اپنے قبیلہ کی عزت اور ناموس کی حفاظت کرتا تھا۔  اس لیے عربوں کے یہاں شاعروں کی بڑی قدر تھی۔  چنانچہ جب کسی قبیلہ میں کوئی لڑکا شاعر بن کر چمکتا تو لوگ اس قبیلہ کو مبارکباد دیتے تھے ، خوشی کے شادیانے بجائے جاتے تھے۔  اور وہ قبیلہ دوسروں کے مقابلہ میں اپنا سر اونچا کر کے چلتا تھا۔  زمانہ جاہلی میں ایک سو بیس سے زائد شعرا نے نام پیدا کیا لیکن ان میں سے اکثر کا کلام ضائع ہو گیا۔  عام جاہلی شعرا کے کلام میں اس زمانہ کے اعتبار سے اعلیٰ بدوی اخلاق کی تعلیم عمدہ اور پاکیزہ مضامین و معانی اور بلند پایہ اغراض و مقاصد ملتے ہیں۔

  اگر چہ عام طور سے عرب شعرا انعام و اکرام کے لالچ سے بادشاہوں ، امرا اور رئیسوں کی شان میں مدحیہ قصیدے نہیں کہتے تھے۔  پھر بھی دو ایک شاعر ایسے بھی گزرے ہیں جیسے النابغہ الذبیانی اور حسّان بن ثابت جنہوں نے بادشاہوں کی شان میں مدحیہ قصائد کہے ہیں۔  جاہلی شعرا اپنے کلام میں بھاری بھرکم اور پرشکوہ الفاظ استعمال کرتے تھے ان کے یہاں خیالات میں گہرائی یا افکار میں ندرت اور بلندی نہیں ملتی۔  سیدھے سادے خیال کو حسین مگر پر شکوہ الفاظ کا جامہ پہنا کر کلام کے اثر کو دوبالا کر دیتے تھے مبالغہ، استعارہ، باریک تشبیہات یا فلسفیانہ مضامین ان کے کلام میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔  البتہ وصف اور منظر کشی، جیسے اونٹ گھوڑے اور بھیانک رات کے وصف میں انہوں نے اپنا پورا زورِ بیان صَرف کر دیا ہے۔

 عام طور سے جاہلی شعرا نے حسبِ ذیل اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔  (۱) فخر و حماسہ (۲) وصف (۳) مدح (۴) ہجو (۵) مرثیہ (۶) غزل (۷) معذرت اور حکمِ وامثال۔  مُعلقّات۔  یوں تو جاہلی زمانہ میں بہت سے نامور شعرا پیدا ہوئے جن کا کلام عربی شاعری میں زبان و بیان اور اغراض و مقاصد کے اعتبار سے نمایاں حیثیت رکھتا ہے مگر ان میں ایک خاص طبقہ سب سے زیادہ ممتاز رہا ہے جن کو ’’اصحاب معلّقات‘‘ کہتے ہیں۔  یعنی وہ شاعر جن کے قصیدے خانۂ کعبہ میں لٹکائے گئے۔  زمانۂ جاہلیت میں دستور تھا کہ عکّاظ کے میلے میں عرب کے تمام شعرا جمع ہوتے تھے (النابغہ الذبیانی) مشہور جاہلی شاعر کی صدارت میں محفل مشاعرہ گرم ہوتی تھی جس میں تمام شعرا اپنا کلام سناتے تھے۔  آخر میں میر مشاعرہ فیصلہ سناتا تھا کہ اس سال کس شاعر کا قصیدہ سب سے زیادہ اچھا رہا۔  چنانچہ اس شاعر کے قصیدے کو سونے کے پانی سے لکھ کر خانۂ کعبہ میں لٹکا دیا جاتا تھا۔  ایسے قصیدہ کو ’’مُعلّقہ‘‘ یعنی خانۂ کعبہ میں لٹکایا ہوا قصیدہ کہتے تھے۔  چنانچہ ان بے شمار شاعروں میں جو زمانہ جاہلی میں نامور سمجھے جاتے تھے آٹھ شعرا کا کلام عکاظ کے میلے میں اول آنے پر خانہ کعبہ میں لٹکایا گیا۔  اور یہی معلقات جاہلی شاعری کی جان اور اس کا صحیح اور اصل نمونہ ہیں۔  ان کی تفصیل حسب ذیل ہے۔  ۱-امراؤ القیس م ۵۳۹ء ۲- النابغہ الذبیانی م ۶۰۴ء ۳-زہیر بن ابی سلمیٰ۔  سنہ ۹ ھ مطابق ۶۳۱ء ۴-عنترہ بن شداد العبسی م ۶۱۵ء ۵-الاء عشیٰ قیس م ۶۲۹ء ۶- طرفۂ بن العبدم ۵۵۲ء ۷- عمرو بن کلثوم ۵۷۱ء ۸- لبید بن ربیعہ م ۴۱ھ مطابق ۶۸۰ء

مذکورہ بالا شعرا میں اسے امراؤ القیس دورِ جاہلیت کی شاعری کا نمائندہ شاعر مانا جاتا ہے۔  اس کو ’’بگڑا نواب‘‘ (الملک الفلیل) کہتے ہیں کیوں کہ یہ شراب و کباب اور حسن و شباب کا رسیا تھا۔  امراؤ القیس نے سب سے پہلے عربی شاعری میں محبوبہ کے دیار پر کھڑے ہو کر رونے کی رسم نکالی۔  اس نے اپنے معلقہ میں گھوڑے اور محبوبہ کا سراپا کھینچنے تاریک اور وحشتناک رات اور اس کی درازی اور پانی برس کر کھل جانے کی منظر کشی میں بڑی فنی مہارت اور قدرتِ زبان قوتِ تخیل اور ندرت بیان دکھائی ہے۔  اسی لیے عربی ادب میں اس کا معلقہ اول نمبر پر رکھا جاتا ہے

اصحاب معلقات میں دوسرا شاعر جسے امتیازی حاصل حیثیت حاصل ہے وہ النابغہ الزبیانی ہے اس کے کلام میں جذبات انسانی کی بڑی صحیح اور سچی تصویر ہوتی ہے اور خاص طور سے صدق و صفا کے نغمے  اس نے بڑے مؤثر انداز میں گائے ہیں۔  اس کی امتیازی خصوصیت معذرت خواہی ہے۔

  اصحاب معلقات میں تیسرے نمبر پر زہیر بن ابی سلمیٰ کا نام ہے یہ بڑا پاکباز انسان دوست، صلح پسند اور صلح جو شاعر تھا۔  اس کے گھر کے تمام افراد شاعر تھے۔  جاہلی معاشرہ میں یہ پہلا شخص ہے جس نے صلح و آشتی، میل جول اور محبت و خلوص کے لافانی نغمے گائے ہیں اور جنگ و جدال کے برے نتیجوں کو دکھ اکر ان سے بچنے کی تلقین کی ہے۔  وہ ایک قصیدہ کہنے کے بعد سال بھر تک اس کی نوک پلک درست کرتا تھا۔  ا ور ہر طرح سے جب مطمئن ہو جاتا تھا۔  تب ہی اسے سناتا تھا۔  اس نے اپنے معلقہ میں عرب کے ان دو امرا کی دل کھول کر تعریف کی ہے۔  جنہوں نے جنگ داحس وعنبرا کے مقتولین کا خوں بہا اپنی جیب سے دے کر اس منحوس لڑائی کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے ختم کرایا۔

 معلّقات کو چوتھا مشہور شاعر عمر و بن کلثوم ہے۔  اسے فخر و مباہات میں امتیازی شان حاصل تھی۔  عزت نفس، خودی و خود داری میں اس کا جواب نہیں اس نے اپنے علاقہ کے بادشاہ عمرو بن ہند کو صرف اس وجہ سے بھری محفل میں قتل کر دیا کہ عمرو کی ماں نے شاعر کی ماں سے ایک دعوت میں پلیٹ اٹھا کر دینے کو کہا تھا۔  اس واقعہ کے بعد اس نے اپنا معلقہ کہاجس میں اپنی اور اپنے قبیلہ اور خاندان کی ایسی تعریف و توصیف کی ہے جس کا جواب پوری عربی شاعری میں نہیں ملتا۔

  عنترہ بن شداد العبسی جو لونڈی زادہ تھا، فن سپہ گری میں ممتاز اور معرکہ کار زار کا ہیرو تھا۔  حرب داخس و غبرا میں اس نے وہ دادِ شجاعت دی تھی جس کی مثال نہیں ملتیں۔  اس کی شاعری جنگ کے میدان کا نقشہ کھینچنے بہادری اور بے جگری سے لڑنے پر اکسانے اور ’’جان جائے پر آن نہ جائے ‘‘ کی زندہ مثال ہے۔

  ان خاص شعرا کے علاوہ جاہلی زمانے میں چند ممتاز شعرا اور بھی ہوئے ہیں۔  جن میں سے بعض نامور شعرا کے نام یہ ہیں۔  مہلہل بن ربیعہ (م ۵۰۰ء) کہتے ہیں کہ یہ عربوں کا پہلا شاعر تھا شراب و کباب اور رندی وہوسناکی کا رسیا تھا۔  شراب و شباب کی تعریف اور معرکہ کارزار کی منظر کشی اس کا خاص موضوع تھی۔  عمرو بن مالک الازدی جس کا لقب شنفری تھا۔  یہ طبقہ ’’صحالیک الشعرا‘‘ یعنی خانماں برباد منچلے نوجوان شعرا کا ہیرو تھا۔  جو گھر بار چھوڑ جنگلوں اور صحراؤں میں رہتے تھے۔  شنفری کا کلام بڑا مؤثر، الفاظ بڑے پر شکوہ ثقیل اور بھاری بھرکم ہیں اس کا قصیدہ لامیۃ العرب عرب بدوی نوجوان کی زندگی اس کی تکالیف اور گھر بار دوست و احباب سے دوری اور مہجوری کی دل خراش داستان ہے اور صحرا کی زندگی کی صحیح تصویر۔

 ان کے علاوہ اس عہد کے شعرا میں المتلمس (م ۵۵۰ء) المسول بن عادیہ (م ۵۶۰ء) اوس بن حجر (م۶۱۱ء) امیہ بن ابی ا لصلت (م ۶۲۴ء) حاتم طائی (م ۶۹۰ء) خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔

 اسلامی زمانہ  (۶۲۲ء سے ۷۵۰ء مطابق ۱ھ سے ۱۳۲ھ ’’رسول اللہ صلعم خلفائے راشدین اور بنو اُمیہ کا زمانہ )

 رسول اللہ صلعم اور خلفائے راشدین کا زمانہ زمانہ جاہلیت کے آخری دور میں اور اسلام کے آنے سے تھوڑے پہلے تک عرب قوم بدستور اپنی فطری بدوی زندگی گزارتی تھی۔  چنانچہ ان کے معاشرہ میں نہ علوم و فنون کا رواج تھا اور نہ کوئی بندھا ٹکا ملکی اور سماجی قانون تھا۔  قبیلہ کے دستور اور رواج قانون تھے اور شیخِ قبیلہ حاکمِ مطلق۔  نہ صنعت تھی نہ حرفت نہ تجارت تھی اور نہ زراعت انتقام اور بدمعاملگی اور لاقانونیت نے ایک طرف نراج کا سا عالم طاری کر رکھا تھا تو دوسری طرف علمی و ادبی افلاس کا دور دورہ تھا۔  اس حالت میں اسلام کا ظہور ہوا اور اس نے تھوڑے ہی عرصہ میں عربوں کی ایسی کایا پلٹ کر دی کہ وہ ایک عظیم الشان سلطنت کے مالک بن گئے اور تیر اسلامی تعلیمات پر عمل کر کے انہوں نے ایک ایسا صالح اور پاک سماج تعمیر کیا جس میں روحانی غذا کے ساتھ مادی وسائل کی بھی حریت ناک فراوانی ہوئی اور علم و فضل نے بے مثال پیش رفت کی۔  سیاسی اور سماجی اعتبار سے اسلام نے ساری قوم کو ایک جھنڈے ، ایک رہبر، ایک نظامِ حکومت، ایک زبان اور ایک ایسی بامعنی زندگی کے قابل میں ڈھال دیاجس کی بنیاد قرآن اور سنت رسول پر تھی۔  قرآن کریم قرآن مجید میں ۱۱۴ سورتیں ہیں۔  ان میں سے ۹۱ مکہ میں نازل ہوئیں اور ۲۳ مدینہ میں۔  مکی سورتوں میں اسلام کی دعوت دی گئی ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ خدا بلا شرکت غیر ے ایک ہے ، وہ قادرِ مطلق ہے ، زمینوں اور آسمانوں میں اسی کا حکم کی کارفرمائی ہے۔  اسی لیے صرف وہی عبارت اور بندگی کے لائق ہے وہی پیدا کرتا اور وہی مارتا ہے۔  ہر آدمی کو مر کر دوبارہ زندہ ہو کراس کے سامنے جانا ہے اور دنیا میں جو کچھ کیا ہے۔  اس کا حساب و کتاب دینا ہے اور اس کے مطابق اچھے کام کا انعام اور برے کام کی سزا پانی ہے۔  مدینہ میں جو سورتیں نازل ہوئیں ان میں اسلام کے ارکان دینی مثلاً نماز روزہ حج زکوٰۃ اور ان کے ادا کرنے کے طریقوں کا بیان ہے۔  اور چوں کہ یہاں سے ایک نئے معاشرہ اور نئی مملکت کی ابتدا ہو رہی تھی اس لیے معاشرہ کی تعلیمات اور ملکی و سیاسی قواعد و ضوابط کے اصول اور بنیادی باتیں بھی یہیں نازل ہونا شروع ہوئیں۔  قرآن کریم کا ایک ایسا دل نشین، معجز نما مؤثر انداز بیان ہے جس کی مثال وہ خود آپ ہے۔  عرب شعرا و ادبا میں سے کوئی بھی باوجود کوشش کے اس جیسی ایک آیت بھی نہ لکھ سکا۔  قرآن کریم اپنی فنی امتیاز خصوصیات کی بنا پر عربی زبان و ادب کی کسوٹی بن گیا اور آج تک اس کا یہ امتیاز باقی ہے اور ہمیشہ باقی رہے گا۔  قرآن کریم کی بدولت عربی زبان میں بہت سے نئے معانی نئی تعبیریں اور نئے الفاظ کے ساتھ بہت سے نئے علوم و فنون پیدا ہوئے اور بعض پرانے الفاظ کے معانی نئے سرے سے متعین ہوئے۔  اس کے لکھے جانے کی وجہ سے فن کتاب کو بڑا فروغ ہوا اور اس نے تاریخ کے بہت سے بھولے بسرے ابواب سے دنیا کو روشناس کرایا۔  قرآن کی بدولت تمام ممالک اسلامیہ میں عربی زبان مسلمانوں کی واحد مذہبی زبان کی حیثیت سے مانی جاتی ہے۔  قرآن مجید کو زبانی یاد کرنے کا رواج شروع سے چلا آ رہا ہے اور آج بھی دنیا میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو پورا قرآن زبانی یاد ہے اور ہر سال رمضان کے مہینہ میں پورا قرآن تراویح میں سنایا جاتا ہے۔

حدیث

رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کو حدیث کہتے ہیں۔  قرآن کے بعد عربی زبان میں فصاحت و بلاغت اور زبان دانی میں آپ امام تھے آپ کی حدیثیں اور تقریریں عربی ادب کے شہ پارے سمجھی جاتی ہیں۔  آپ کی حدیثوں اور تقریروں نے بھی عربی زبان و ادب کو نئے الفاظ نئی تعبیریں اور اچھوتا انداز بیان دے کر مالا مال کیا۔

رسول صلعم اور خلفائے راشدین کے عہد میں چوں کہ مسلمان ایک طرف نیا دین سیکھنے اور اس کے دشمنوں سے جنگوں میں مشغول رہے۔  ا س لیے نثر میں کوئی قابل ذکر کام نہیں ہوا۔  البتہ خطابت کو رسول اللہ صلعم کے خطبات کی وجہ سے جو آپ خاص طور پر جمعہ اور عیدین کے موقعوں پر دیتے تھے۔  بڑی ترقی ہوئی۔  چنانچہ آپ اپنے زمانہ کے سب سے زیادہ قادر الکلام اور معجز بیان مقرر تھے۔  آپ کے بعد آپ کے جانشین خلفائے راشدین میں بھی ملکہ خطابت پوری طرح موجود تھا۔  حضرت علی کو اس صنف میں امتیاز حاصل تھا۔  قرآن کی تلاوت اور رسول اللہ صلعم کے فیض صحبت نے آپ کی زبان و بیان کو نکھار دیا تھا۔  چنانچہ آپ بہت قادر الکلام فصیح و بلیغ ادیب و مقرر بن کر چمکے۔  آپ نے اپنے عہدِ خلافت میں جو تقریریں کی تھیں وہ خطابت کا اعلیٰ نمونہ ہونے کے ساتھ ساتھ ادب و فن کا بھی بہترین نمونہ ہیں جواب تک داخل درس ہیں۔  رسول اللہ صلعم اور خلفائے راشدین کے زمانے میں شعر و شاعری رسول صلعم ایک خاص دعوت لے کر تشریف لائے تھے۔  اس دعوت کے اصول اور احکامات عرب جاہلی معاشرے کے معتقدات، رسم و رواج اور عادات کے بڑی حد تک مخالف تھے شعر و شاعری جو عربوں کی گھٹی میں داخل تھی جس نہج پر زمانۂ جاہلی میں چل رہی تھی نئی دعوت اور اس نئے معاشرہ کے متقضیات کے منافی تھی اسی لیے رسل اللہ صلعم نے شعرو شاعری کی ہمت افزائی نہیں کی۔  دوسری طرف نئے مسلمانوں کو دین سیکھنے اور اس کو پھیلانے سے ہی فرصت نہ تھی کہ وہ دوسری طرف دل و دماغ لگاتے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس زمانہ میں سرزمین عرب سے نئے شعراء نہ ابھرسکے۔  زمانہ جاہلی کے شعرا میں سے جن لوگوں نے اسلام قبول کیا ان میں سے بعض نے شعر کہنا بالکل چھوڑ دیا تھا جیسے لبید بن ربیعہ اور مشہور جاہلی مرثیہ گو شاعر خنسا۔  البتہ جن شعرا نے مشق سخن جاری رکھی انہوں نے پرانی ریت کو چھوڑ کر اسلامی تعلیمات اور ارشادات نبوی کے دائرہ میں رہ کر رسول اللہ صلعم کی مدافعت یا آپ کی مدح اور کُفّارِ مکہ کی ہجو اور اسلام کی برتری ثابت کرنے کے لئے شعر کہے۔  شعرا کے اس طبقہ کو زمانہ جاہلی میں ابھرا اور بعد میں مسلمان ہوا ’’مخضر مین ‘‘ یعنی دو زمانے پائے ہوئے (جاہلیت اور اسلام) شعرا کہتے ہیں۔  ان میں سب سے زیادہ مشہور حضرت حسان بن ثابت ہیں جو رسول اللہ صلعم کے خاص شاعر تھے اور آپ کی طرف سے مکہ والوں کو جواب دیتے تھے۔  اور دوسرے کعب بن زہیر ہیں۔  مخضرین میں ایک اور شاعر الحطیۃٔ بھی ہے جس نے جاہلی رنگ میں ہجو گوئی میں کمال پیدا کیا تھا۔  اور جس نے شرفا کے علاوہ اپنے ماں باپ اور حد تو یہ ہے کہ خود اپنی ہجو لکھی ہے۔  خلفائے راشدین کے زمانے میں بھی شعر و شاعری کی یہی کیفیت رہی۔  البتہ حضرت عثمان کے قتل کے بعد دینی اور سیاسی فرقوں کے پیدا ہونے اور ان کی آپس کی کشمکش سے فنِ خطابت کے علاوہ شعر و شاعری کو بھی ترقی ہوئی جس کے اثرات کھل کر عہد بنی امیہ میں سامنے آئے اور نظم میں نت نئی تعبیریں آئیں اور نئی راہیں کھلیں۔

 عہد بنوامیہ

 نثر خطابت

مملکت اسلامی کے عام حالات اور عہد بنو امیہ میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کی وجہ سے فن تقریری کی بڑی گرم بازاری ہوئی کیوں کہ بنوامیہ کو اپنی حکومت کو جمانے کے لیے قلم کے زور کے علاوہ زبان کے زور کی بھی ضرورت تھی۔  چنانچہ بنوامیہ کو چند ایسے اولوالعزم اور خدا داد صلاحیتوں کے مالک نوجوان مل گئے جنہوں نے انتظام و انصرام میں کمال مہارت اور چابک دستی دکھانے کے ساتھ خطابت میں بھی ایسے کمال فن کا مظاہرہ کیا کہ آج بھی ان کی تقریریں ادبی جواہر پاروں کی شکل میں داخل درس ہیں۔  بنوامیہ کے اس قسم کے مقررین میں حجاج بن یوسف الثقفی اور زیاد بن ابیہ بہت مشہور ہیں۔  یہ واقعہ ہے کہ ان دونوں کی تلوار اور زبان نے بنوامیہ کے پاؤں عراق میں جمادیئے۔  بنوامیہ کے مخالفین میں فطری بن الفجا، عبداللہ بن الزبیر اور عمران بن حطان مشہور ہیں۔

نثر فنی

ظہور اسلام کے وقت قبائل مصر میں چند ہی افراد لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔  ان میں سے جو لوگ ایمان لے آئے تھے ان سے آنحضرت قرآن لکھوانے کا کام لیتے تھے چنانچہ ان کا نام ’’کاتبین وحی‘‘ یا ’’وحی لکھنے والے ‘‘ پڑ گیا تھا۔  آپ کو جب بادشاہوں اور امرا کو دعوت اسلام کی غرض سے خطوط لکھنے کی ضرورت پڑی تو آپ نے انہی لوگوں سے کام لیا۔  بعد میں صلح نامے اور معاہدے بھی آپ نے انہیں لوگوں سے لکھوائے۔  خلفائے راشدین کے زمان میں حضرت عمر نے معاہدوں ، صلح ناموں اور خطوط کے علاوہ ایک نیا تحریری کام فوج کے رجسٹر بنانے کا کرایا۔  اموی زمانہ میں حضرت معاویہ نے اس کام کو اور آگے بڑھایا اور چند نئے شعبے کھولے جن میں ’’محکمہ خراج‘‘ خاص طور سے قابل ذکر ہے۔  دوسرا بڑا کام یہ کیا کہ سرکاری خطوط اور فرامین لکھنے کے لیے ایک الگ محکمہ ’’دیوان الرسائل‘‘ کے نام سے کھولا جس کا نگراں عبید اللہ بن اوس الفانی تھا۔  ان محکموں کے نگراں شروع میں رومی اور فارسی مبان میں اپنے دفتری کا م کرتے تھے لیکن بعد میں ولید بن عبد الملک (۸۶۔  ۹۶ھ) کے زمانے میں سارے محکموں کی زبان عربی ہو گئی اور ایک نئی قسم کا طرز تحریر وجود میں آیا جس کا نام ’’خطوط اور یاد داشت نویسی‘‘ پڑا اور یہیں سے عربی میں نثر کا وجود ہوا۔  اس وقت تک عام طور سے خلفائے اور امرا اپنے خطوط املا کرتے تھے لیکن جب اس قسم کے کاموں کا دائرہ بڑھا اور اس میں شام، عراق اور مصر کے عربوں اور ایرانی، رومی اور مصری قبطیوں کی اولاد آگے بڑھی جس نے عربی زبان پر پورا عبور حاصل کر لیا تھا تو انہوں نے نہ صرف خود اس قسم کے خطوط اور فرامین لکھنے شروع کیے بلکہ دوسری زبانوں کے محاسن اور فنی خوبیوں کو لے کر خود انہوں نے بھی اس میں جدت اور تنوع پیدا کیا۔  اس فن میں ہشام بن عبد الملک (۱۰۵۔  ۱۲۵ھ) کے آزاد کردہ غلام ابو العلا سالم نے بڑا کام کیا اس سے اس کے شاگرد عبد الحمید بن یحیی نے یہ فن سیکھا اور اسے اتنی ترقی دی کہ اب ’’فن کتابۃ الرسائل یعنی’’ فن خطوط یویسی‘‘ایک مستقل فن بن گیا۔  اور اسی وجہ سے عبدالحمید عربی ادب میں ’’الکاتب‘‘ کے لقب سے مشہور ہوا۔  عبد الحمید الکاتب نے جس کام کی ابتدا اس زمانے میں کی تھی آگے اس نے ترقی کی انتہائی منزلیں عبد الحمید الکاتب کے زمانے میں طے کیں اور اس کے بعد ترقی معکوس کی شکل اختیار کر لی۔  اور آخر کار محض پر شکوہ الفاظ گنجلک پیرایہ بیان کا گورکھ دھندا بن کر رہ گیا چنانچہ عربی میں ایک مقولہ رائج ہو گیا کہ ’’بدأت الکتابۃ بعیدالحمید وانتہت بعبد الحمید‘‘ یعنی دفتری خطوط نویسی کی ابتدا عبد الحمید سے ہوئی اور انتہا عبد الحمید پر۔  ‘‘ عہد اموی میں دیگر علوم و فنون کی تدوین عرب زمانہ جاہلی سے اپنی ادبی و علمی تخلیقات کو لکھ کر رکھنے کے عادی نہ تھے بلکہ سب کچھ اپنے سینوں میں محفوظ رکھتے اور حسب ضرورت زبانی بیان کرتے۔  عہد عثمان میں پہلی دفعہ قرآن لکھ کر ممالک اسلامیہ میں تقسیم کیا گیا۔  رسول اللہ ﷺ کی حدیثوں کو بھی سینوں میں ہی محفوظ رکھا گیا تھا۔  مگر اموی عہد میں سیاسی اغراض کے لیے بعض لوگوں نے حدیثیں گڑھنی شروع کیں تو حضرت عمر بن عبد العزیز کے حکم سے صحیح حدیثوں کو یکجا کتابی شکل میں جمع کیا گیا۔  یہ ایک مختصر سی کتاب تھی جو عہد عباسی میں جب حدیث کی بڑی کتابیں لکھی گئیں تو ان میں ہل مل گئی۔  باقی علوم مثلاً تفسیر، حدیث وغیرہ کو علما بدستور زبانی یاد رکھتے تھے۔  اس عہد میں البتہ دو بہت اہم کام انجام پائے : ایک تو قرآن پر اعراب لگانے کا کام تاکہ غیر عرب قرآن کو صحیح پڑھ سکیں اس کام کو حجاج بن یوسف ثقفی نے کرایا۔  دوسرا کام نحو میں ایک رسالے کے لکھنے کا ہے جسے ابو اسود الدولی نے انجام دیا۔  یونانی کتابوں کے ترجمے عہد اموی میں خراج کا حساب کتاب مغربی صوبوں میں رومی زبان میں اور مشرقی صوبوں کا فارسی زبان میں رکھا جاتا تھا اس کام میں عجمیوں کی اجارہ داری کو دیکھ کر حجاج بن یوسف نے ایک نو مسلم ایرانی نو جوان صالح بن عبد الرحمن کے ذریعہ دفتر خراج کو فارسی سے عربی میں منتقل کرایا۔  شام میں خراج کا حساب رومی زبان میں ہوتا تھا جس کا سربراہ سرجون بن منصور النصرانی تھا۔  عبد الملک بن مروان نے ابو ثابت سلمان بن سعد الخشی سے کہہ کر رومی زبان سے عربی میں خراج کے رجسٹر کو منتقل کرایا۔  یونانی اور دیگر زبانوں سے عربی میں ترجمہ کا کام پہلی مرتبہ عبد الملک بن مروان کے عہد میں (۶۵۔  ۸۶ھ) امیر معاویہ کے پوتے خالد بن یزید کے ایما سے ہوا۔  اس نے فن کیمیا سازی کی وہ کتابیں جو یونانی اور قبطی زبانوں میں تھیں عربی میں ترجمہ کرائیں۔  علم طب میں سب سے پہلی کتاب جو عربی میں ترجمہ ہوئی۔  وہ ’’کناش اہرون ابن اعین الطبیب‘‘ ہے جسے سرجویہ یہودی نے حضرت عمر بن عبد العزیز کے حکم سے عربی میں منتقل کیا۔  حضرت معاویہ کے متعلق روایتوں میں آتا ہے کہ انہوں نے صنعاء سے ایک شخص عبید بن شریہ کو بلا کر اس سے ’’کتاب الملوک والاخبار الماضیہ‘‘ عربی میں لکھوائی تھی۔  یہ صحیح ہے کہ عہد اموی میں تصنیف و تالیف کا کام باقاعدہ اور فنی طریقے سے نہ ہو سکا۔  لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس عہد میں علوم و فنون کے مدوّن اور ترجمہ کرنے کے جس کام کی شروعات ہوئی اس کی بنیاد پر عہد عباسی میں علم وفن تالیف و تصنیف اور ترجمہ کا وہ قصر زریں تعمیر ہوا جس سے بعد میں سارے عالم نے کسب فیض کیا۔

  نظم سلطنت کی توسیع کے ساتھ اسباب تعیش کی فراوانی نازو نعم کی زندگی، فکر فردا سے بے پرواہی اور سماج میں احساس برتری کے زیر اثر لطیف احساسات کو جلا، ذوق حسن و جمال کو نکھار اور جذبات و خیالات کو رنگینی و رعنائی ملی۔  چنانچہ عربی زبان میں پہلی مرتبہ حقیقی غزل کا ظہور ہوا۔  اس صنف کا باقی فریش کا ایک بانکا اور طرح دار نوجوان ’’عمر بن ابی ربیعہ‘‘ تھا جس نے بقول فرزق شاعری کی ابتدا تو ہذیان گوئی سے کی تھا لیکن اس صنف میں اس نے زبان و بیان، وصف و منظر کشی، مکالمہ و معاملہ بندی اور حدیث دیدہ و دل بیان کرنے کا ایسا اچھوتا، دل نشین اور سحر طراز انداز ایجاد کیا کہ اس طرز کی غزلوں کو شریف گھرانے کے لڑکے ، لڑکیاں چھپ کر پڑھتے اور منچلے نو جوان گلی کوچوں میں اور گانے بجانے والے بزم ہائے طرب میں گاتے بجاتے اور ایک عالم کو سرمست و گے خود بناتے تھے۔  مکہ سے نکل کر مدینہ میں بھی اس غزل کی صدائے باز گشت وہاں کے شعرا کی زبانوں سے سنائی دی جن کا سردارمحمد بن الاخوصاالانصاری تھا۔  غزل کا بقول ڈاکٹر طٰہ حسین مرحوم ’’یہ حقیقی رنگ‘‘ اس قدر جما اور اس کی تانیں اتنی بلند ہوئیں کہ عباسی دور تک جاتے جاتے ’’غزل اباحی‘‘ ہی نہیں بلکہ ’’غزل عریاں ‘‘ بن گیا جس نے موالی شعرا کے ہاتھوں فروغ پایا۔  بادیہ میں رہنے والے غریب بدوی عربوں کا معاملہ مکہ اور مدینہ کے امیر عربوں سے ذرا مختلف تھا۔  یہاں کے باشندے اپنی بدوی خصوصیات پر نازاں اور اپنے رسم و رواج کوسینوں سے لگائے ہوئے تھے۔  ان کو اس عہد سے پہلے بھی کوئی سیاسی اہمیت نہیں حاصل تھی اور اب بھی نہیں ہوئی۔  بڑے بوڑھوں کو اس سے سکون مل جاتا تھا کہ انہوں نے جہاد فی سبیل اللہ کا حق ادا کر دیا اور ان کی تلواروں کی بدولت آج قیصر و کسریٰ کے ایوانوں پر اسلامی جھنڈا لہرا رہا ہے۔  مگر نئی نسل کو جو اپنے شعور کے ساتھ اعلی اخلاقی اقدار کی بھی حامل تھی بڑی مایوسی ہوئی۔  اس نے دیکھا کہ امویوں نے دار الخلافہ کو مدینہ سے شام منتقل کر کے اور سیاسی پارٹیوں نے اپنی تگ و دو کا مرکز عراق کو بنا کر ان کے علاقے کی اہمیت یکسر گھٹا دی۔  چنانچہ مایوسی اور حالات کے تقاضوں نے ان میں ایک خاص قسم کا زاہدانہ انداز فکر پیدا کر دیا۔  دوسری طرف ان کی عزت نفس بدوی نخوت اور عربی مروت نے ان کے اندر ایسی ذہنی کیفیت پیدا کر دی کہ نہ وہ اپنی بات برملا کہہ سکتے تھے اور نہ کسی کے آگے دستِ سوال دراز کر سکتے تھے۔  نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے دل کی بات دل ہی میں رہی اور وہ اپنی سوزش پنہاں سے آپ ہی جلتے رہے۔  احساس مایوسی اور سوز دروں کا زخم جب ان کے دل کے تاروں کو چھیڑتا تھا تو اس کی جھنکار غزل کے ان اشعار میں سنائی دیتی تھی جن میں پاک اور لاہوتی قسم کی محبت کے نغمے گائے گئے تھے ، جنہیں عاشق، محبوب کو اپنے من مندر کا دیوتا بنا کر پوجتا ہے ، چھوتا نہیں ، ہجر و فراق میں صحراؤں اور بیابانوں میں مارا مارا پھرتا ہے مگر محبوب مل جائے تو اس سے ملتا نہیں اس لیے کہ ان لوگوں کا خیال تھا کہ ’’عالم سوزو ساز میں وصل سے بڑھ کے ہے فراق‘‘ غزل کی اس قسم کو ’’الغزل العذری‘‘ (قبیلہ عذرہ کی طرف نسبت ہے جو اخلاق کریمانہ اور عفت و پاک دامنی میں مشہور قبیلہ تھا) یا پاک غزل کہتے ہیں۔

اس صنف غزل میں طبع آزمائی کرنے والے وہ شعرا میں جن کے عشق و محبت کے افسانے آج بھی زبان زد خاص و عام ہیں۔  ان میں سے خاص طور پر قابل ذکر لیلی کا عاشق مجنوں ، بشینہ کا عاشق جمیل اور عزہ کا عاشق کثیر ہیں۔  اس وضع غزل گوئی کو مدینہ اور اس کے گرد و نواح میں رہنے والے بدویوں کی نسبت سے مدنی غزل کہا جاتا ہے۔  بادیہ کے ان نوجوانوں میں ایک گروہ اور بھی تھا جو صاحب سیف ہونے کے ساتھ صاحب قلم بھی تھا۔  یہ لوگ امویوں کے خلاف معرکۂ کارزار میں تلوار کے جوہر دکھانے کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف شعلہ بار اشعار بھی کہتے تھے۔  ان میں قابل ذکر الکمیت بن زید (م ۱۲۰ھ مطابق ۷۳۸ء) ہے جس نے بنو ہاشم کی مدح میں ایسے شاندار قصیدے کہے ہیں جو اپنی خوبیوں کی وجہ سے ’’ہاشمیات‘‘ کے نام سے عربی ادب میں مشہور ہیں۔  اور جنہیں سن کر فرزق جیسے شاعر نے کہا تھا کہ ’’خدا کی قسم تم گزشتہ اور موجودہ تمام شعرا میں سب سے بڑے شاعر ہو‘‘ اس کے علاوہ اس گروہ میں الطرماح بن حکیم (م ۱۰۰ھ مطابق ۷۱۹ء) اور عمر ان بن حطان (م ۸۹ھ مطابق ۷۱۴ء) بھی نامور شعرا گزرے ہیں۔  حضرت معاویہ کے انتقال کے بعد یزید مروان اور عبد الملک بن مروان کے زمانے میں ہر قسم کے قبایلی دینی اور سیاسی ہنگامے اٹھ کھڑے ہوئے لیکن بنو امیہ نے بھی جم کر اس صورت حال کا مقابلہ کیا۔  اور مال و زر کے علاوہ شعرا، ادبا اور خطبا کو اپنی ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔  اس صورت حال سے زبان و ادب کو بڑا فائدہ پہنچا اور پہلی مرتبہ عربی زبان میں ایک طرف سیاسی شاعر کا وجود اور عروج ہوا۔  اور دوسری طرف میدان خطابت میں بھی ایسے قادر الکلام فصیح و بلیغ اور شعلہ بار مقرر پیداہوئے جن کی مثال عربی ادب میں نہیں ملتی۔  سیاسی شاعری میں جن شعرا نے کمال حاصل کیا ان میں ممتاز مسکین الدارمی، اخطل، جریر، فرزق، ابو العباس الاعمی اعمثی ربعیہ اور عدی بن الرقاع ہیں۔  ان شعرا کو قرآن و حدیث کا معجز نما اسلوب بیان ورثہ میں ملا تھا۔  خدا داد صلاحیت اور فہم و ذکا قدرت سے اور ان سب کو بروئے کار لانے کا داعیہ سیاسی حالات اور مادی منفعت سے چنانچہ انہوں نے بنو امیہ کی مدافعت میں اپنا زور طبع اور فطری صلاحیتیں لگادیں جس کی وجہ سے عربی ادب میں نئے نئے مضامین، اچھوتے خیالات اور منجھا ہوا ایک خاص اسلوب بیان پیدا ہوا جو بے حد پسندیدہ اور مقبول تھا۔  پھر ان شعرا کی آپس کی ادبی جھڑپوں سے بھی شاعری میں نت نئی راہیں کھلیں جریر، فرزق اور اخطل کی شاعرانہ چشمکیں اس کی زندہ مثال ہیں۔  ان شعرا میں اکثر نے دوسرے اصناف مثلاً غزل، مدح، ہجو اور مرثیہ وغیرہ میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔

عباسی زمانہ

 ۱۔  ترقی و عروج کا زمانہ : ۷۵۰ء سے ۹۴۷ء مطابق ۱۳۲ھ سے ۳۳۲ھ تک۔

۲۔  طوائف الملوکی کا زمانہ : ۹۴۶ء سے ۱۲۵۸ء مطابق ۳۳۲ھ سے ۶۵۶ ھ تک (زوال بغداد)۔

علم سیاسی و ملکی حالت بنی امیہ کی حکومت لگ بھگ ایک صدی تک رہی۔  اس زمانہ میں پورے معاشرے اور حکومت میں صرف عربوں کی عملداری تھی۔  اس اثنا میں دنیا کی مہذب ترین قومیں اپنے علم و ادب اور فن و فلسفہ کے ساتھ اس نئے اسلامی سماج میں شامل ہونے لگیں۔  اس کے نتیجہ میں بنو عباس نے ان عجمیوں کی مدد سے جن میں اکثر ایرانی تھے وہ حکومت قائم کی جس کے علمی و ادبی، تہذیبی و تمدنی اور فنی و صنعتی کارنامے تاریخ اسلام میں سنہری حرفوں سے لکھے گئے خلفائے بنی عباس نے عجمیوں کے ساتھ اپنائیت اور برابری کا سلوک روا رکھا۔  ا س رویہ کو اس دور کی ہمہ جہت ترقی میں بڑا دخل ہے۔  چنانچہ اس زمانے میں قصر سلطانی کے ادنی سقہ سے لے کر فوج کے سپہ سالار اور سلطنت کے وزرا کی بڑی تعداد عجمی اور بالخصوص ایرانی تھی۔  اور یہیں سے عربوں کا سیاسی اثرورسوخ ختم ہونا شروع ہوا اور ان کی بڑائی اور فضیلت کی ہوا اکھڑنے لگی۔  اب مجبوراً عربوں کو عجمیوں کے ساتھ گھلنا ملنا پڑا۔  اور اس میل جول سے ایک نیا اور اچھوتا معاشرہ وجود میں آیا جس کی بنیاد تو تھی اسلامی عقائد و عبادات پر مگر جن کی سیاست و معیشت میں ایرانی اثر اور علمی و فکری کاموں میں یونانی رنگ پوری طرح نمایاں تھا۔  علم و فن کی ترقی کے ساتھ ساتھ ان کے مراکز بھی بڑھے۔  چنانچہ اس عہد میں سب سے بڑا مرکز بغداد تھا۔  یہیں مامون نے مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرنے کے لیے مشہور اکادمی ’’بیت الحکمت‘‘ قائم کی تھی۔  اور یہیں ایک حد تک علوم و فنون پروان چڑھے۔  دوسرا مرکز کوفہ تھا جہاں دین اور زبان سے متعلق علوم کو فروغ ہوا یہیں کی خاک سے لغت ابن الغربی، فرا اور ثعلب اٹھے اور یہیں امام ابو حنیفہ نے مسلک حنفی کی ابتدا کی۔  تیسرا مرکز بصرہ تھا جس نے عربی نحو و لغت کے اکابر علما جیسے الخلیل سیبویہ اور ابن درید پیدا کیے۔  مجاز میں مدینہ حدیث و فقہ کا مرکز رہا جہاں کی خاک سے مشہور محدث اور فقیہ حضرت مالک بن انس اٹھے جنہوں نے فقہ میں مسلک مالکی کی بنیاد رکھی۔  مصر میں فسطاط (قاہرہ) دینی علوم اور زبان کا مرکز بنا۔  جہاں قرطبہ امویوں کا مرکز تھا مختلف مدارس اور مکاتب کھلے یہاں کی خاک سے مشہور ادیب اور نحوی ابن عبد الرب العقد الضرید کے مصنف اٹھے عروج و ترقی کا یہ دور۔  ۱۳۲ھ ۷۵۱ء سے لے کر ۳۳۲ھ ۹۴۰ء تک چلا۔  اس کے بعد یعنی ۳۳۲ھ سے ۶۵۶ھ مطابق ۹۴۶ء سے ۱۲۵۸ء کا زمانہ ہے جس میں ترکوں کا عمل دخل رہا اور ان کی سرکشی کے نتیجہ میں یہ عظیم الشان عباسی سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی اور اقالیم اور صوبوں کے والیوں اور گورنروں نے اپنے قبیلوں کی خود مختار سلطنتیں قائم کر لیں۔  اگرچہ مرکز خلافت اب بھی بغداد رہا لیکن حکومت اور علم و ادب کے مراکز شام و عراق سے منتقل ہو کر بخارا، جرجان، غزنہ، حلب، قاہرہ اور قرطبہ پہنچ گئے۔  اور علم و ادب تاریخ فلسفہ اور دیگر علوم میں عرب وعجم کی مشترکہ کوششوں سے جو ترقیاں ہوئی تھیں۔  اس زمانہ طوائف الملوکی میں ماند پڑنے لگیں اور مشرق میں انحطاط و تنزلی کا دور شروع ہوا۔  جس کی انتہا ہلاکو کے ہاتھوں زوال بغداد پر ہوئی۔  البتہ مصر و شام میں فاطمیوں اور ایوبیوں کے سایۂ عاطفت میں اندلس میں امویوں کی سرپرستی میں علم و ادب کے سرچشمے جاری رہے۔

عہد عباسی کا پہلا دور نثر

اس عہد میں اصناف نثر میں ایک نئی صنف نکلی جس کو ’’مقامہ‘‘ کہا جاتا ہے۔  مقامہ ایک خیالی قصہ ہوتا ہے جو ایک راوی بیان کرتا ہے اور ایک مرکزی کردار کے ارد گرد گھومتا ہے جو مختلف بھیس بدل کر مختلف مزاحیہ مضحکہ خیز اور کبھی سنجیدہ رول ادا کر کے لوگوں کو لوٹتا کھسوٹتا ہے۔  مقامہ کی عبارت مقفی مسجع اور اس میں بھاری بھرکم، شاذا ور متروک الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔  اسی لیے یہ رنگ بہت دنوں تک نہ چلا البتہ اس نئے ڈرامہ کے لیے راہ ہموار ہوئی مقامات کو لکھنے والوں میں بدیع الزمان الہمدانی اور حریری نے نام پیدا کیا بیسویں صدی میں ابراہیم مویلحی نے ’’حدیث عیسی بن ہشام‘‘ لکھی جو مقامہ اور ڈرامہ کی بیچ کی چیز تھی۔

علوم دینیہ میں اس زمانہ میں بہت کام ہوا۔  سب سے پہلے تفسیر و حدیث کی جمع و تدوین ہوئی تفسیر میں سفیان بن عین وکیع بن الجراح، شعبہ بن الحجاج، اسحاق بن راہویہ، مقاتل بن سلیمان اور النصر ا نے چھوٹی بڑی کتابیں لکھیں۔  اس طبقہ کے بعد فن تفسیر میں مکمل اور جامع کتاب جریر الطبری نے لکھی ان کے بعد ابراہیم الثعلبی النیشاپوری نے ، پھر محمد الواحدی نے کتابیں مرتب کیں۔  اس زمانے میں اس علم کو باقاعدہ فن کی حیثیت دی گئی۔  تفسیر کے بعد تدوین حدیث کا کام ہوا۔  حدیث میں سب سے پہلی کتاب مؤطا امام مالک ہے اس کے بعد امام بخاری نے ’’صحیح بخاری‘‘ پھر ان کے شاگرد مسلم النیشاپوری نے ’’صحیح مسلم‘‘ پھر عیسی الترمذی پھر ابو داؤد سجستانی ان کے بعد احمد بن شعیب النسائی اور محمد بن ماجہ نے اپنی اپنی کتابیں ترتیب دیں۔  ان ہی چھ کتابوں کو ’’صحاح ستہ‘‘ یعنی حدیث کی چھ صحیح کتابیں کہتے ہیں۔  اسی زمانہ میں فقہ کی بھی تکمیل ہوئی اور اس میں چار مسلک پیدا ہوئے (۱) مسلک حنفی۔  اس کے بانی امام ابو حنیفہ تھے (۲) مسلک مالکی۔  اس کے بانی حضرت امام مالک بن انس تھے (۳) مسلک شافعی۔  اس کے بانی محمدادریس بن شافع تھے (۴) مسلک حنبلی۔  اس کی بنا احمدبن محمد بن جنبل نے ڈالی تھی۔  علوم کلام میں بھی اس زمانہ میں خاصا کام ہوا۔  آخری ابو الحسن الشعری نے کلام کے تمام مکاتب فکر کو ملا کر بیچ کا راستہ جسے اہل سنت والجماعت کا مسلک کہتے ہیں۔  ادبی تصنیف و تالیف میں اسی زمانے میں ابن المقفع اور الجاحظ نے کمال فن کا مظاہرہ کیا۔  ابن المقفع کی مشہور کتاب ’’کلیلہ و دمنہ‘‘ ہے جو سنسکرت کی کتاب پنچ تنتر کا عربی میں ترجمہ ہے۔  جاحظ نے مختلف علوم و فنون میں معیاری کتابیں لکھیں جن میں قابل ذکر البیان والتبیین، کتاب الحیوان اور کتاب الخلاء ہیں۔  احمد بن طیفور نے نظم و نثر پر مشتمل ایک ضخیم کتاب ۱۴ املاؤں میں لکھی۔  اس کے بعد محمد المبرد، ابو حنیفہ الدینوری، ابو بکر محمد الصولی ابن قتیبہ ابن عبد رب ابو علی الفالی اور آخر میں ابو الفرح الاصفہانی نے اپنی مشہور کتاب ’’الاغانی‘‘ مرتب کی۔

  زبان سے متعلق علوم میں نحو میں سیویہ نے سب سے پہلی کتاب ’’کتاب النحو‘‘ لکھی اور اس علم کو علیحدہ فن کی حیثیت دی۔  اس کے بعد نحو میں اختلافات بڑھے اور کوفہ مکتب فکر اور بصرہ مکتب فکر پیدا ہو گئے جو بعد میں مل کر ’’مکتب فکر بغداد‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔  بصرہ کے علمائے نحو میں ابو عمر بن العلاء خلیل بن احمد، سیبویہ، اخفش مشہور ہیں اور کوفہ کے مکتب فکر میں معاذ اسرار (اس نے علم صرف ایجاد کیا) الرواسی اور الکسائی والنصراء قابل ذکر ہیں۔

 علم عروض کو خلیل ابن احمد نے ایجاد کیا۔  اور ۱۵ بحریں نکالیں بعد میں الاخفش نے ’’متدارک‘‘ بحر ایجاد کی فن لغت میں الخلیل بن احمد نے اپنی مشہور کتاب ’’کتاب العین‘‘ ترتیب دی۔  اس کے بعد ابو بکر بن درید نے ’’الجمرہ‘‘ الازہری نے ’’کتاب التہذیب‘‘ پھر حماد الجوہری نے ’’کتاب الصحاح‘‘ ابن سیدہ الاندلسی نے ’’کتاب المحکم‘‘ ابن فارسی نے ’’کتاب الجمل‘‘ اور صاحب بن عباد نے ’’کتاب المحیط‘‘ لکھی۔  علم معانی و بیان میں خلیل کے شاگرد عبیدہ نے ’’مجاز القرآن‘‘ علم بیان جاحظ نے ’’اعجاز القرآن‘‘ علم معانی میں اور ابن المعتز اور قدامہ بن جعفر نے علم بدیع میں کتابیں لکھیں۔  آخر میں امام عبد القاہر البحرجانی نے علم معانی میں ’’دلائل الاعجاز‘‘ اور علم بیان میں ’’اسرار البلاغہ‘‘ لکھ کر ان علوم کو مکمل کر دیا۔  اس سلسلہ کی مبسوط کتاب السکا کی ’’مفتاح العلوم‘‘ ہے جو مسک خنام ہے۔

 فن سیرت و غزوات میں سب سے پہلے محمد بن اسحق نے کتاب لکھی فتوحات اسلامیہ پر واقدی مدائنی اور لوط بن یحیی نے کام کیا۔  فن انساب پر الکلبی، ایام عرب پر ابو عبیدہ اور الاصمعی نے بادشاہوں کی تاریخ پر سب سے پہلے ابن قتیبہ نے پھر الہثیم بن عدی ابن واضح الیعقوبی نے کتابیں لکھیں۔  آخر میں محمد بن جریر الطبری نے سن ہجری کے مطابق سن وار اپنی کتاب مرتب کی۔  اور ابن الاثیر انے ’’تاریخ الکامل‘‘ لکھ کر اس فن کو مکمل کر دیا۔  علم جغرافیہ میں محمد بن الغزاری نے کتاب السند ہند کو ہندی سے عربی میں منتقل کیا۔  پھر بطلیموس کی کتاب ’’المحبسطی‘‘  کو حجاج بن مطر نے عربی کا جامہ پہنایا۔  پھر احمد بن خود انوبہ نے کتاب المالک والممالک لکھی۔  اس فن میں بعد میں علماء نے بڑی پیش رفت دکھائی چنانچہ عدہ عباسی کے دوسرے دور میں بڑے نامور جغرافیہ داں ہوئے جیسے ابن المائک جس نے ’’صفۃ جزیرۃ العرب‘‘ لکھی اور یعقوبی جس نے ’’کتاب البلدان‘‘ تصنیف کی۔

غیر ملکی زبانوں سے عربی میں ترجمہ کا باقاعدہ کام منصور کے زمانہ میں شروع ہوا۔  ہارون الرشید نے ترجمہ کی طرف توجہ دی اور اس کے بعد مامون نے اپنی قائم کردہ اکادمی ’’بیت الحکمت‘‘ کے ذریعہ ترجمہ کا بہت کام کرایا۔  چنانچہ یونانی سریانی ایرانی اور ہندوستانی زبانوں سے فلسفہ طبیعات اور ریاضیات کی کتابوں کے ترجمے کیے گئے۔  ان ترجموں کے زیر اثر مسلمانوں میں بھی باکمال اور قابل ذکر فلاسفہ پیدا ہوئے جنہوں نے عہد عباسی کے دوسرے دور میں اپنی فلسفیانہ تصنیفات اور آرا سے عربی کو مالامال کر دیا۔  اس زمانے کے قابل ذکر فلاسفر ہیں ابو نصر فارابی، یعقوب الکندی، ابو جعفر الخوارزمی، ابو بکر رازی، موسی بن شاکر ہیں جنہوں نے فلسفہ، منطق، سیاسیات، ادب، حساب جیومیٹری اور طب وغیرہ میں اہم کتابیں لکھیں۔  عباسی زمانے کے دوسرے دور میں نثر عہد عباسی کے دور اول میں علم و فن شعر وادب تاریخ و سیرت ترجمہ و نقل کا کام عروج کو پہنچ چکا تھا۔

دوسرے دور میں علما، ادبا، فقہا اور محدثین نے اس سلسلہ کی کمیوں کو پورا کیا۔  چنانچہ ادب و زبان میں ابن الحمید، الصاحب بن عباد ابو بکر الخوارزمی، الصابی، القاضی، الفاضل، ابن شہید، ابو المطرف بن عمیرہ، ابن زیدون اور لسان الدین الخطیب نے اپنی تخلیقات سے عربی ادب کے دامن کو بھر دیا۔  علم فقہ مین ابو الحسن الماوردی نے اپنی کتاب ’’الاحکام السلطانیہ‘‘ برہان الدین الغرفانی ’’الہدایہ‘‘ اور محمد الغزالی نے اپنی مشہور کتاب ’’احیاء علوم الدین‘‘ تصنیف کی فن تفسیر میں الثعلبی نے ’’الکشف و البیان میں تفسیر القرآن‘‘ محمود الزمخشری نے انکشاف’’ اور فخرالدین الرازی نے ’’مفاتیح الغیب‘‘ لکھی فن حدیث میں الحاکم نیشاپوری، سلیم الرازی اور الحافظ بیہقی نے نام پیدا کیا۔  فن تاریخ میں اس عہد کی ممتاز کتابیں یہ ہیں :۔  ابو نصر العتبی کی کتاب ’’الیمینی‘‘ الفتح بن خاقاں کی کتاب ’’قلائد العقیال‘‘ المسعودی کی ’’مروج الذہب‘‘ ابن مسکویہ کی ’’تجارب الامم‘‘ ابن الندیم کی ’’الفہرست ‘‘ اور ابن الاثیر کی کتاب ’’الکامل‘‘ فن جغرافیہ میں اس زمانے میں الاسطخری نے ’’کتاب الاقانیم‘‘ ابن حوقل نے ’’المالک والممالک‘‘ الادریسی نے ’’نزہت المشتاق فی اختراق الآفاق‘‘ لکھی یاقوت الحموی نے ’’معجم البلدان‘‘ جغرافیہ میں ’’ ارشاد الادیب‘‘ اور ادب میں ’’کتاب المہدا والمال‘‘ تاریخ میں لکھی علوم، فلسفہ، منطق، طب، ریاضی، الہیات وغیرہ میں جو ترقی ہوئی اس کا تفصیلی تذکر رہ اسلامی فلسفہ و کلام کے تحت یا اسلامی تصوف کے ضمن میں درج ہے۔  جہاں مشرق و مغرب کے مشہور فلسفی اور مفکروں جیسے کندی، فارابی، ابن سینا، امام غزالی یا ابن رشد اور ابن طفیل کی تصانیف پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

 

عباسی زمانہ میں شعر و شاعری (دور اول)

 اموی زمانہ تک شعر و شاعری کے مرکز حجاز، نجد، عراق اور آس پاس کے علاقے تھے۔  مگر عراق میں بنو عباس کی اور اندلس میں امویوں کی حکومت قائم ہونے کے بعد بغداد اور قرطبہ میں بزم سخن گرم ہونے لگی۔  ان دونوں مرکزوں کو بسے سو سال بھی نہ ہوئے تھے کہ ہر طرف سے شعرا کھنچ کر یہاں پہنچنے لگے اور انہوں نے شاعری میں نئی راہیں اور نئی اصناف بھی ایجاد کیں مگر پیرا یہ بیان اور انداز جاہلی رہا۔  عباسی دور کے وسط تک یہ رنگ اتنا بدلا کہ اب بجائے دیار محبوب اور اس کے کھنڈرات سے اظہار تشبیب کرنے کے محلات اور کوٹھیوں ، عیش و عشرت کے سازو سامان، مے نوشی، مطرب کی دلنوازی اور ممدوح کے دربار میں بذریعہ کشتی جانے کے ذکر ہونے لگے۔  اور ایک زمانہ ایسا آیا کہ شاعری کی پرانی ریت کا مذاق اڑایا جانے لگا۔  درباری شعرا نے مدحیہ قصائد میں چاپلوسی اور مبالغہ آرائی کو اپنا شعار بنا لیا۔  کہیں کہیں اخلاقی پستی کا یہ عالم ہوا کہ بعض اوقات شاعری، شہدا پن  ابتذال اور جنسی و اخلاقی جرائم کی حکایت عریاں بن گئی اور حالت یہاں تک گری کہ تغزل بالمذکر کی نئی اور مذموم صنف ایجاد کی گئی۔  اور بیشتر نئی باتیں کرنے والے وہ موالی اور نوجوان شعرا تھے جو اکثر عجمی اور خاص طور سے ایرانی النسل تھے جن کا نام شعرا المجون الخلاصہ یعنی ’’اوباش اور اباحی شعرا‘‘ پڑ گیا تھا۔

  اباحی شعرا کے طبقہ میں بہت سے شعرا گزرے ہیں لیکن ان میں کلام کی جملہ خصوصیات کے اعتبار سے مشہور اور ان کا نمائندہ اور امام بشارین برد (۹۰۵۔  ۱۶۷ھ۔  ۷۱۴۔  ۷۸۴ء)تھا۔  اور اس کا ساتھی ابو نواس (۱۴۵۔  ۱۹۸ھ۔  ۷۶۲۔  ۸۱۳ء) ان دونوں کے ہمنواؤں میں ’’صریع الغوانی‘‘ یعنی کشتہ ناز نیناں مسلم بن الولید (م ۲۰۸ھ) اور ابن الضحاک خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔  اباحی شعرا کے ساتھ ساتھ روایت پسند شعرا کا بھی ایک طبقہ اسی زمانے میں داد سخن دے رہا تھا۔  جن میں سے اکثر عربی النسل تھے لیکن اس نے اپنی بزم بغداد کی فضا سے دور شام میں سجا رکھی تھی۔  اس طبقے میں ایسے قادر الکلام منجھے ہوئے اور یکتائے روزگار شاعر تھے جن کا لوہا ہر ایک مانتا تھا۔  انہوں نے ان شعرا کے مقابلہ میں پرانے جاہلی رنگ اور آہنگ کو بنیاد بنا کر شعر و شاعری کا وہ معجز نما ڈھنگ نکالا جس میں تمام مروجہ انداز ہائے نگارش کے ساتھ زہد و تقویٰ، پاکیزہ خیالات، اخلاق اقدار، مروت، اور شرافت کے ابدی نغمے گائے گئے۔  ان شعرا کا یہ اثر ہوا کہ اباحی شعرا کے خاتمہ کے ساتھ اباحی انداز کا رواج بھی ختم ہو گیا۔  ان شعرا میں ابو تمام (۱۹۵۔  ۲۳۱ھ) البحری (۲۰۶۔  ۲۸۴ھ) ابن الرومی (۲۲۱۔  ۲۸۳ھ)ابن المقز (۲۴۵۔  ۲۹۶ھ) اور ابوالطیب المتنبی (۳۰۳۔  ۳۵۴ھ) خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔

عہد عباسی کے دوسرے دور میں شعرو شاعری اس دور میں ایران اور خراسان کے علاقوں میں جہاں عربوں اور عربی زبان کا اثر کم ہوتا جا رہا تھا۔  فارسی ادب نے زور پکڑا اور اس کے ساتھ دیا اور شعرا کی زبان میں عجمیت کا اثر بڑھنے لگا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عربی شاعری کی سابقہ روایات اور انداز بیان کے گرنے کے ساتھ اس کی قدر و منزلت بھی گر گئی۔  البتہ عراق میں ممالک عربیہ کی قربت کی وجہ سے عربی شعر و شاعری کا بازار گرم رہا۔  تاتاریوں کے ہاتھوں جب بغداد کی تباہی ہوئی تو یہاں کے شعرا اور ادبا نے مصر و شام میں پناہ لی اور وہاں علم و ادب کی محفل سجائی جس کے نتیجہ میں بہت سے نامور شعرا ابھرے جنہوں نے تمام قدیم اصناف سخن میں زبان کے جوہر دکھائے اور بعض نے مضامین باندھے جیسے فاطمی تہذیب و معاشرت کی تعریف علوی عقائد و نظریات کی تحسین و توصیف۔  شام میں اس عہد کے شعرا میں المتنبی (۳۰۳۔  ۳۵۴ھ۔  ۹۱۸۔  ۹۶۸ء) ابو الفراس الحمدانی (۳۲۰۔  ۳۵۷ھ۔  ۹۳۴۔  ۹۷۰ء) ابو العلا المعری (۳۶۳۔  ۴۴۹ھ۔  ۹۷۶۔  ۱۰۶۰ء) اور مصر میں ابن الفارض (۵۷۶۔  ۶۶۳ھ۔  ۱۱۸۰۔  ۱۲۶۵ء) اور بہاؤ الدین زہیر (۵۸۱۔  ۶۵۶ھ۔  ۱۱۸۵۔  ۱۲۵۸ء) خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔

 اسی زمانہ میں عربی میں صوفیانہ شاعری کی داغ بیل پڑی۔  اندلس میں جہاں امویوں کی حکومت تھی ادباء اور شعراء جب آ کر جمع ہوئے تو یہاں شعر و ادب نے بڑی ترقی کی۔  جب اس سلطنت کا شیرازہ بکھرا اور طوائف الملوکی کا دور دورہ ہوا تب بھی حکمراں طبقہ نے ادبا و شعرا کی توقیر و عزت میں کوئی کمی نہ کی۔  جس کی وجہ سے شعر و ادب کی محفلیں جوں کی توں سجی رہیں۔  یہاں کے شعرا نے فنی اعتبار سے شعرائے مشرق کی ہی پیروی کرتے رہے۔  البتہ مناظر قدرت کی تصویر کشی میں ان سے بھی بڑھ گئے۔  اس کے علاوہ بزم یاراں و مجالس شراب و کباب کے وصف میں انہوں نے نیا انداز اور نیا اسلوب بیان ایجاد کیا۔  اندلس کے شعرا میں خاص طور سے قابل ذکر ابن ہانی، ابن خفاجہ ہیں۔  ان کے علاوہ ابن سعید ابن الخطیب اور مشہور رحل نگار ابن فرمان نے بڑا نام پیدا کیا۔  مشرق کے علاقہ عراق، فارس اور خراسان میں جن شعرا نے شہرت حاصل کی ان میں الشریف الراضی مہیار الدیلمی اور اطغرائی کے علاوہ ابن نبات السعدی اسری الرفاء اور سبط التعاویذی ہیں۔  تنزل کا زمامہ ۱۲۵۸۔  ۱۷۹۷ء (۶۵۶ھ۔  ۱۲۲۰ھ) ہلاکو کے حملہ بغداد اور اس کی تباہی کے بعد ایک جمود و تعطل کا سا عالم طاری ہو گیا۔  چنانچہ اس عہد میں ادبی علمی اور تاریخی تخلیقات کم ہوئی البتہ اسلاف کے علمی سرمایہ میں ان کے ادبی و فنی دیگر کارناموں کو چند علما نے بڑی بڑی ضخیم کتابوں میں جمع کیا۔  یہ علما وہ تھے جنہوں نے تباہیِ بغداد کے بعد مصر و شام کے علاقوں میں پناہ لی تھی۔  اور یہیں انہوں نے اپنی بزم علم و فن سجائی۔  اسی لیے اس عہد کو ’’عہد موسوعات‘‘ یعنی انسائیکلوپیڈیا کا زمانہ کہتے ہیں۔  اس میں مندرجہ ذیل علماء نے نمایاں خدمات انجام دیں۔  شہاب الدین النویری نے ’’نہایت الادب فی فنون الادب‘‘ سولہ ضخیم جلدوں میں لکھی جو زبان و ادب کی انسائکلوپیڈیا تھی ابن فضل اللہ العمری نے ’’مسالک الالبہار فی ممالک الامصار‘‘ جغرافیہ اور تاریخ پر ترتیب دی جس کی بیس سے زیادہ جلدیں تھیں۔  ابن منطور نے ’’لسان العرب‘‘ کے نام سے لغت کی تمام کتابوں کو یکجا جمع کر دیا اور القلقشندی نے ’’صبح الاعشی‘‘ ترتیب دے کر فن کتابت اور تاریخ کو یکجا کر دیا۔

  ترکی زمانہ میں جو دور انحطاط ہے مختلف سرگرمیوں اور جنگوں کی وجہ سے علم و ادب کے میدان میں کوئی اہم تخلیقی کام نہ ہو سکا۔  تصنیف و تالیف اور سرکاری کاغذات کے لکھنے میں اس زمانے میں القاضی الفاضل کی پیروی کی گئی۔  مختلف ممالک اسلامیہ میں جن علماء نے اس زمانے میں مختلف علمی و ادبی کام کیے ان میں قابل ذکر لسان الدین الخطیب، ابن البصری، ابن فلکان، ابو الفداء المقریزی، الدجی، ابن بطوطہ ابن خلدون اور المقری ہیں۔  ہندوستان کے ایک نامور عالم محمد بن محمد المرتضی بلگرامی نے جو ’’الزبیدی‘‘ کے نام سے مشہور ہیں ۔ فیروزآبادی کی مشہور لغت ’’القاموس المحیط‘‘ کی عربی میں شرح ’’تاج العروس‘‘ کے نام سے دس جلدوں میں لکھی۔  دور انحطاط میں شعر و شاعری اسی زمانہ میں مشرق علاقوں اور مصر و شام میں بادشاہ اور ارباب حکومت عام طور سے غیر عرب تھے اس لیے عربی شعر و شاعری کی طرف نہ ان کا رجحان تھا اور نہ وہ شعرا کی قدر و منزلت کرتے تھے۔  اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وسط ایشیا میں عربی شعر و شاعری کا رواج تقریباً ختم ہو گیا۔  البتہ عراق اور قرب و جوار میں اس کی کچھ رمق باقی رہی۔  شام، مصر، اندلس اور مغرب اقصی میں بہر حال عربی شعر و شاعری کی حالت اچھی رہی مگر یہاں کے شعرا نے پرانی ریت اور پرانے مضامین کو چھوڑ کر خلفا اور امرا کی مدح کے بعد جن امور پر طبع آزمائی کی وہ ایک حد تک نئے تھے جیسے نعت رسول، تصوف اور صوفیا کی تعریف اور زہد و تقویٰ کے مضامین، غزل میں تغزل بالمذکر کی ریت کو ان شعرا نے دوبارہ زندہ کیا۔  یہ شعرا بعض اوقات توریہ اور خباس کو استعمال کر کے شعر کو پہیلی بنا دیتے تھے۔  ابتذال، معاملہ بندی اور فحش گوئی کا رواج بڑھ گیا، علمی زبان کی شاعری کے اصناف مثلاً موشحات، صوالیا، زجل اور قومہ کا اضافہ ہوا۔  ان اصناف سخن میں طبع آزمائی کرنے والے شعرا میں سے قابل ذکر ہیں۔  ۱۔  شرف الدین الانصاری (م۶۶۲ھ) ۲۔  جمال الدین ابن نبات المصری (م ۷۵۸ھ) ۳۔  شہاب الدین التلعفری (م ۷۶۵ھ) ۴۔  الشاب الظریف (م ۶۸۷ھ) ۵۔  الامام ابومیری (م ۶۹۵ھ) ۶۔  ابن الوردی (م ۷۴۹ھ) ۷۔  ابو بکر بن مجہ (م ۸۳۷ھ) ۸۔  سفی الدین الحلی (م ۷۵۰ھ) ۹۔  فخر الدین بن مکالس (م ۸۶۴ھ) ۱۰۔  ابن معتوق الموسوی (م ۱۰۲۵ھ)

نشاۃ ثانیہ کا پہلا دور (۱۸۰۵ء۔  ۱۹۱۹ء)

مصر پر نیپولین کے حملہ کا اثر نیپولین نے مصر کو ۱۷۹۸ء میں فتح کیا تو پہلی بار مشرق کو مغرب اور اس کی تہذیب و تمدن سے براہ راست سابقہ پڑا نیپولین اپنے ساتھ علما انجینئروں ، کاریگرو ں اور صنعت و حرفت کے ماہرین کی ایک ٹیم لے کر آیا تھا۔  جن کی مدد سے اس نے مصر میں مکاتب اور مدارس کھولے اور کارخانے قائم کیے اور مشرق میں پہلی بار ایک یرلس کھولا اور پہلی بار یہاں سے ایک اخبار نکالا۔  اس کا سب سے اہم علمی و ادبی کام ’’المجمع العلمی المصری‘‘ (مصری علمی اکادمی) کا قیام ہے اس اکادمی کے ۴۸ ممبر تھے جو مختلف علوم و فنون کے ماہر تھے۔  یہ ماہرین اپنے علمی اور تحقیقی کارناموں کو ہر تیسرے مہینے ایک کتابچہ کی شکل میں شائع کرتے تھے انہوں نے پہلی بار یہاں ایک اسٹیج بھی بنایا جس پر فرانسیسی مبان کے ڈرامے اسٹیج کیے جاتے تھے۔  یہ سب کام مصر اور مشرق کے لوگوں کے لیے بالکل نئے تھے۔  فرانسیسیوں نے اپنی تین سالہ مدت حکومت میں جو کارنامے انجام دیے بعد میں محمد علی پاشا کے زمانے میں وہی ملک و قوم کی ہمہ جہت ترقی کی بنیاد بنے۔  محمد علی پاشا محمد علی پاشا نے زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد ایک قومی کالج قائم کیا۔  اس کے بعد بہت سے مدرسے اور اعلی تعلیمی ادارے کھولے۔  ذہین اور محنتی طلبہ اور حکومت کے کارندوں کو فرانس بھیج کر تربیت دلائی اور چھاپے خانے اور نشر و اشاعت کے مرکز قائم کیے۔  لولاق کے پہلے پریس میں سب سے پہلے اب المقفع کی ’’کلیلہ و دمنہ‘‘ چھپی اس کے بعد بغدادی کی ’’خزانۃ الادب الکبری‘‘ ابن خلدون کا مقدمہ، حریری کے مقامات، رازی کی تفسیر اصفہانی کی الاغانی اور لغت میں ’’القاموس‘‘ شائع ہوئی۔  ۱۸۸۲ء میں مصر میں سب سے پہلا اخبار ’’الوقائع المصریہ‘‘ کے نام سے ترکی زبان میں چھپا۔  شام میں سب سے پہلا اخبار ۱۸۵۸ء میں ’’حدیقۃ الاخبار‘‘کے نام سے نکلا۔  اور قسطنطنیہ میں پہلا عربی اخبار ۱۸۶۰ء میں ’’الجوائب‘‘ کے نام سے نکلا۔  محمد علی پاشا نے عربی کو مصر کی سرکاری زبان بنا دیا تھا۔  محمد علی کے پوتے اسمعیل پاشا نے اپنے دادا کے نقش قدم پر چل کر ہر قسم کے علمی، ادبی اور فنی کاموں کی ہمت افزائی کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے زمانے میں مصری علماء و فضلاء اب ترجمہ کرنے کی منزل سے نکل کر خود مختلف موضوعات پر عربی زبان میں معیاری فنی کتابیں لکھنے لگے۔

علم و فن کی جو شمع یہاں روشن ہوئی اس کی شعاعیں شام اور لبنان میں بھی پہنچیں۔  یہاں بھی بہت سے مدرسے اور تعلیمی ادارے کھلے۔  پریس قائم ہوئے۔  اخبارات نکلے اور ارباب حکومت کی سرپرستی میں یہاں کے علما نے بھی علم و ادب کی ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔  اور یہیں سے عربی ادب نے حصہ لیا اور جن کی کوششوں سے اگلی منزل کی راہ ہموار ہوئی۔

مصر میں شعرا ۱۔  السید اسماعیل الخشاب (م ۱۸۱۵ء) (۲) الشیخ حسن العطار (م ۱۸۳۴ء) (۳) ابراہیم بک مرزوق (م ۱۸۶۶ء) (۴) الشیخ علی ابو النصر (م۱۸۸۰ء) (۵) عبد اللہ پاشا فکری (م ۱۸۸۹ء) (۶) محمد شہاب الدین (م۱۸۵۷ء) (۷) عبد القادر الجزائری(م۱۸۸۸ء) (۸) الشیخ علی اللیثی (م۱۸۹۶ء) (۹) محمود سامی البارودی (م۱۹۰۲ء) (۱۰) اسماعیل صبری پاشا (م۱۹۲۳ء)۔  ادبا اور مصنفین ۱۔  رفاعہ بک رافع (م۱۸۷۳ء) ۲۔  الشیخ حسین المرصفی (م ۱۸۸۹ء) ۳۔  علی مبارک پاشا (م۱۸۹۳ء) ۴۔  امین فکری پاشا (م۱۸۹۹ء) ۵۔  محمود پاشا الفلکی (م۱۹۰۳ء) ۶۔  الشیخ محمد عبدہ (م ۱۹۰۵ء) ۷۔  ابراہیم بک المویلحی (م ۱۹۰۶ء) ۸۔  قاسم بک امین (م۱۹۰۸ء) ۹۔  جرجی زیدان (م۱۹۱۴ء) ۱۰۔  احمد فتحی زغلول (م ۱۹۱۴ء) ۱۱۔  حمرہ فتح الہ (م۱۹۱۸ء)۔  ۱۲ ملک حفنی ناصف (م ۱۹۱۸ء)۔

مقررین اخبار نویس (۱) سلیم تقلا اور بشارہ تقلا ایڈیٹر الابرام (۲) الشیخ علی یوسف ایڈیٹر الموید (۳) فارس نمرود اور یعقوب صروف ایڈیٹر المقطم (۴) جمال الدین افغانی ایڈیٹر اللواء

 لبنان کے شعرا میں اس زمانے میں نقولا الترک (م۱۸۲۸ء) بطرس کرامۃ (م ۱۸۵۱ء) اور ناصف الیازجی (م۱۸۷۱ء) اور ادبا و مصنفین میں یہ لوگ مشہور ہوئے۔  ۱۔  مارون النقاش (ڈرامہ کے موجد اور فن کار) (۱۸۵۵ء) بطرس البستانی (م ۱۸۸۳ء) اور فارعہ الشدباق (م ۱۸۸۷ء) کے علاوہ ابراہیم الیازجی (م۱۹۰۶ء) اور المطران الدبس (م۱۹۰۷ء) شہرت حاصل کی۔  شام کی ممتاز ہستیوں میں حسین جنبہ، محمد عابدین، ادبی اسحاق اور میخائیل مشاقہ اور ابراہیم الحورانی کے نام ہیں۔

عراق میں ابو الثناء الشہاب الالوسی، محمود شکری الالوسی، السید حیدر المحلی، ابراہیم طباطبائی اور جعفر الحلی نے نام پیدا کیا۔  نثر اس زمانے کے شروع تک نثر نگار القاضی الفاضل کے طریقہ پر مسجع و مقفی عبارتیں لکھتے رہے تھے مگر جب اس زمانے میں پریسوں کی کثرت، اخبارات و رسال کے اجراء اور علمی و ادبی کتابوں کے شائع ہونے کا رواج عام ہو ا تو ادبا اور فن کاروں کا انداز تحریر بھی بدلنا شروع ہوا۔  اور عام طور سے ادبا نے جاحظ کا طرز تحریر اختیار کیا۔  مغربی ادب کے اثر سے بیان میں سادگی اور پرکاری آئی اور الفاظ کے مقابلہ میں معانی و مطالب پر زیادہ زور دیا جانے لگا۔  فن خطابت جو اس سے پہلے ماند پڑنے لگا تھا ملکی و ملی ضروریات کی وجہ سے پھر چمک اٹھا اور اس کے ممتاز فن کار پیدا ہوئے جیسے عبد اللہ ندیم، جمال الدین افغانی شیخ محمد عبدہ، مصطفے کامل اور بطرس البستانی، ان تمام خوش آئند تبدیلیوں کی وجہ سے نثر کی جملہ اقسام میں بڑی ترقی ہوئی اور یہ سلسلہ برابر جاری رہا یہاں تک کہ نشاۃ ثانیہ کے دوسرے دور یعنی ۱۹۱۹ء کے بعد عربی نثر دنیا کی ممتاز اور ترقی یافتہ زبانوں کی ہم پلہ ہو گئی۔

شعر و شاعری

اس زمانے کے نصف اول تک شعر و شاعری زمانۂ انحطاط و تنزّل کی ڈگر پر چلتی رہی مگر اس زمانہ میں جو ں جوں علمی و ادبی ترقیاں ہوتی گئیں شعر و شاعری کا اندازہ بھی بدلتا گیا۔  چنانچہ مغربی ادب و تہذیب کے میل جول سے نئے خیالات اور نیا اسلوب بیان ابھرنے لگا۔  اندازِ نگارش اور الفاظ کے انتخاب میں ان شعراء نے جاہلی شعرا کی پیروی کی معانی و مطالب میں حکمت و فلسفہ کی آمیزش سے کلام کو خوبصورت بنانے کی ادا مولدین سے لی۔  حقیقت پسندی، رفعتِ خیال اور نزاکت بیانی مغربی ادب سے اس گروہ میں جو ممتاز شعرا گزرے ہیں ان کے نام ہیں۔  الشیخ علی ابوالنصر، عبداللہ پاشا فکری، ناصف الیازجی، سامی البارودی وغیرہ۔

  دوسرے علوم و فنون دیگر علوم و فنون میں اس زمانے میں جو کام ہوا اور جن ادبا و فضلا نے نام پیدا کیا وہ ہیں : رفاعہ رافع کے ترجمے ، مطران دبس کی تاریخ کتابیں۔  جرجی زیدان کی تاریخِ ادب اور تہذیب و تمدن اور فلسفہ لغب۔  شہاب الدین الالوسی کے سفرنامے زبانِ لغت میں شیخ حمرہ فتح اللہ، حفنی ناصف بک، فارس الشدیاق، الشیخ محمد عبدہ وغیرہ نے جو کام کیے وہ کاروانِ علم و ادب کے لیے شمع راہ ثابت ہوئے۔

  ’’مہجری ادب ‘‘

’’مہجری ادب‘‘ سے مراد عربی نظم و نثر کی وہ قسم ہے جو دیارِ عرب سے دور پردیس میں امریکہ کے مختلف شہروں میں پروان چڑھی۔  انیسویں صدی کے وسط میں لبنان اور شام کے بعض عرب عیسائی خاندانوں نے ہجرت کر کے امریکہ کے بعض شہروں جیسے بوسٹن وغیرہ میں سکونت اختیار کر لی اور جب جم گئے تو وہاں علمی و ادبی سرگرمیاں شروع کیں۔  ان سرگرمیوں کی ابتدا ۱۹۱۳ء سے ہوتی ہے جو پہلی جنگ عظیم کے بعد عروج کو پہنچ گئیں۔  ان سرگرمیوں کے روح رواں جبران خلیل جبران اور ان کے ہم نوا میخائل لقیمہ اور ایلیا ابوماضی تھے۔  یہاں شعر و شاعری کی محفلیں بھی گم ہوئیں اور ادب و فن کی مجالس بھی۔  مغربی ادب کے اثر اور امریکی زندگی کی چھاپ کے نتیجہ میں یہاں نظم و نثر میں نئے اور اچھوتے تجربے کئے گئے۔  ان لوگوں نے یہاں ادبی انجمنیں جیسے ’’الرابطۃ العلمیہ‘‘ اور ’’الوصبہ الاندلسیہ‘‘ قائم کیں۔  یہاں سے پہلا اخبار ’’کوکب امریکہ‘‘ کے نام سے ۱۸۸۸ء میں نکلا مہجری شعرا میں قابلِ ذکر جبران خلیل جبران امین الریحانی، نسیب عریضہ، ایلیا ابوماضی، قرحاتا ور القروی ہیں۔  نثر میں جبران خلیل کے علاوہ میخائیل نعیمہ شکر اللہ البحر، یوسف الضریب، بنیہ فارس رشید الحوری وغیرہ نے یہاں نام پیدا کیا۔

 

 نشاۃ ثانیہ کا دوسرا دور (۱۹۲۰ء سے لے کر آج تک)

بیسویں صدی کے شروع میں عرب دنیا ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا تھی۔  ایک طرف ترک پوری عثمانی سلطنت کو ترکی کے رنگ میں رنگنے میں لگے ہوئے تھے اور دوسری طرف عرب ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کی دھن میں تھے کہ پہلی جنگ عظیم چھڑ گئی۔  جس میں ترکی نے جرمنوں کا ساتھ دیا اور عربوں نے حلیفوں کا۔  اس امید میں کہ مغربی طاقتیں انہیں آزادی دلا کر ان کی خود مختار ریاستیں قائم کر دیں مگر جنگ کے خاتمہ پر ہوا یہ کہ مغربی طاقتوں نے عرب ریاستوں کو آپس میں بانٹ لیا اور فلسطین کو یہودیوں کے حوالے کر دیا۔  عالمِ عرب تڑپ اٹھا اور انقلاب و شورش کی ایک شدید لہر اٹھ کھڑی ہوئی۔  اس وقت شدید ضرورت اس کی تھی کہ سارے عربوں کو متحد اور متفق کر کے ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دیا جائے۔  چنانچہ اس مقصد کے حصول کے لیے ادبا شعرا اور اخبار نویسوں نے اپنی ساری قوتیں اور ساری فکری ذہنی اور تخلیقی طاقتیں صرف کر دیں اسی لیے اس زمانے کے ادب کو ’’ادب الشورہ و التجمع‘‘ یعنی انقلابی اور اتحادی ادب کہتے ہیں۔  اس معرکہ میں جن ادبا و شعرا نے قلم کے جوہر دکھائے ان میں قابل ذکر عراق کے الرہاوی، الرصافی اور الکاظمی مصر کے بارودی، حافظ ابراہیم شقی، محرم، نسیم اور ادیب اسحٰق، حلب کو الکواکبی، تیونس کے الثعالبی اور محمد بیرم الخامس، الجزائر کے عبدالحمید بن بادیس، لبنان کے بستانی۔  شام کے عبدالقادر مغربی اور ابراہیم یازجی، فرابلس کے نوفل اور مراکش کے سلاوی ہیں۔  ابھی یہ کوششیں جاری تھیں کہ دوسری جنگ عظیم چھڑ گئی اس میں عربوں نے پھر اتحادیوں کا ساتھ دیا۔  اور آخر اتحادی اس جنگ سے کامیاب ہو کر نکلے جنگ کے خاتمہ کے بعد جب اقوام متحدہ نے آزادی اقوام کا اعلان کیا تو عربوں نے اطمینان کا سانس لیا اور ۱۹۵۰ء سے جبکہ ممالک عریبہ رفتہ رفتہ آزاد و خود مختار ہونے لگے اور قلم و زبان پر عاید پابندیاں ہٹنے لگیں تو عربی ادب میں بھی ایک انقلاب آفریں دور شرع ہوا۔  اس دور میں ادب کی مُروّج اصناف میں عظیم الشان ترقی کے علاوہ چند ایسی اصناف داخل ہوئیں جن سے عربی ادب اب تک نا آشنا تھا۔  مصر اپنی دیرینہ روایات اور فطری توانائیوں کے سہارے حسبِ سابق اس زمانہ میں بھی مرکز علم و فن رہا۔  اور اس سرزمین سے ایسے فن کار اور ادیب اٹھے جنہوں نے عربی ادب کو گلہائے رنگا رنگ سے سجا کر ایک گلدستہ بنا دیا۔

قاہرہ کے بعد شام و لبنان کا نمبر آتا ہے۔  شام علمی تحقیق و تدقیق کے لئے ہمیشہ سے مشہور رہا ہے اس نے اپنے اس امتیاز کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اسے بہت ترقی دی۔  لبنان مین بیروت کو اس سلسلہ میں بڑی اہمیت حاصل ہوئی۔  یہاں نوجوان ادیبوں نے ہلکے پھلکے ادب کو بڑا فروغ دیا۔  مختصر افسانہ نویسی، آزاد نظم اور ادبِ لطیف یہاں کا خاص رنگ بن گیا۔  عراق نے مختلف خونی ڈرامے دیکھنے کے بعد اب علم و ادب کی محفل پھر سے سجانی شروع کی ہے۔  مغرب کے ملکوں میں بھی ادبی و علی سرگرمیاں پوری توانائیوں کے ساتھ جاری ہیں۔  نثر خطابت: اس زمانہ میں خطابت کو بڑی ترقی ہوئی۔  ابتدا میں السید عبداللہ ندیم الشیخ محمدعبدہ۔  مصطفیٰ کامل نے سیاسی اور دینی خطابت میں۔  احمد فتحی زغلول، عبدالخالق ثروت پاشا نے قانونی اور عدالتی تقریروں میں اور سعد زغلول نے سیاسی اور عام ملکی مسائل میں خطابت کے جوہر دکھائے۔  پانچویں دہے میں اربابِ حکومت اور مملکتوں کے صدور میں بھی بعض اچھے مقرر پیدا ہوئے۔  ان سب میں جمال عبدالناصر مرحوم کو امتیاز حاصل ہے۔

 تصنیف و تالیف

 اس زمانے میں ادبا نے تقریباً نثر کی ہر صنف میں داد تحقیق دی اور معیاری کتابیں لکھیں۔  فنون میں سیاسیات، معاشیات، تاریخ، جغرافیہ اور سائنس کے اکثر موضوعات پر ماہرین نے کتابیں شائع کی ہیں۔  نیز تاریخ ادب عربی قبل اسلام اور بعد اسلام پر بہت کام ہوا۔  جُرجی زیدان نے جس کام کی ابتدا کی تھی عصر حاضر کے ادبا نے اسے کمال تک پہنچایا۔  اس فن میں محمود مصطفیٰ، احمد حسن الزیات، حناالفاخوری، احمد الاسکندری، ڈاکٹر طٰہٰ حسین، ڈاکٹر شقی ضیف، ڈاکٹر سہیر القلماوی اور بنت الشاطی نے جو کام کیے ہیں ان سے عربی ادب کے تمام گوشے روشن ہو گئے ہیں۔  اسلام سے پہلے عربوں اور عربی زبان کی تاریخ پر ڈاکٹر جواد علی عراقی نے تاریخ العرب قبل الاسلام، کی متعدد جلدیں لکھ کر اس موضوع میں بیش بہا اضافہ کیا ہے۔  عربوں کی تہذیبی و تمدّنی تاریخ پر احمد امین مصطفیٰ صادق الرافعی اور ڈاکٹر طٰہٰ حسین نے معیاری کتابیں لکھ کر اس کو مکمل کر دیا۔

  علوم دینیہ

اس زمانہ میں دینی علوم مثلاً ترجمہ و تفسیر قرآن، احادیث کی تشریح و توضیع، فقہی مسائل میں حالات و اقتضائے زمانہ کے پیش نظر دینی نقطہ نظر کی توضیح و تفسیر کی گئی۔  ا ن مسائل اور معاملات میں سید قطب شہید الشیخ ابوزہرہ نے بہت نمایاں کام کیے ہیں۔

 افسانہ ناول اور ڈرامہ

 عربی ادب میں افسانہ فن کی حیثیت سے پہلی جنگ عظیم کے بعد وجود میں آیا۔  اس صنف میں مصطفی لُطفی متفلوطی اور جبران خلیل جبراننے کچھ طبع زاد اور کچھ ترجمہ شدہ کہانیوں کے ذریعہ پہل کی۔  لطفی کی مثال کہانیاں  ’’العبرات‘‘ اور ’’النظرات‘‘ ہیں اور جبران کی ’’الارواح المتمروہ‘‘ اور ’’الاجنحہ المتکّسرہ‘‘ میں ملتی ہیں۔  دوسری جنگ عظیم کے بعد افسانہ نگاری میں بڑی ترقی ہوئی اور اس کے تین مکتبِ فکر وجود میں آئے۔  ایک رومان پسند مکتبہ فکر جس کے رہبر اور امام لطفی اور جبران تھے۔  دوسرا حقیقت پسند مکتب فکر، جس میں آزمودہ کار، منجھے ہوئے اور نامور ادبا تھے جیسے افسانہ کے بابا آدم محمود تیمور اور ان کے بعد یحییٰ حفی، ڈاکٹر طٰہٰ حسین، ابراہیم المارتی، عباس محمود العقار، میخائیل نعمیہ، توفیق عواد، سید تقی الدین، خوادالشائب وغیرہ۔  تیسرا مکتب فکر ان نوجوان ادیبوں کا ہے جن کی نگارشات میں زمانۂ حال کے فنی میلانات اور ترقی پسند خیالات کا عکس نظر آتا ہے ان کے خاص موضوع سماجی پسماندگی اور مزدور طبقہ کے مسائل اور مشکلات کی تصویر کشی ہے۔  ان میں قابل ذکر یوسف ادریس، محمود بدوی یوسف السبائی، اور احسان عبدالقدوس وغیرہ ہیں۔

 اس عہد میں افسانہ نگاری کو ترقی دینے میں اخبارات و رسائل کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔  انہوں نے نہ صرف مغربی افسانوں اور ڈراموں کے ترجمے کرا کے چھاپے بلکہ مختصر ترین افسانے لکھنے کی ریت بھی نکالی۔  جنہیں آپ ٹرام میں بیٹھے بیٹھے پڑھ لیں یا چند سطروں میں ایک قصہ۔  ناول اس عہد کی ایک دین ناول بھی ہے اس صنف میں ڈاکٹر طٰہٰ حسین، نجیب محفوظ، احسان عبدالقدوس اور یوسف السباعی نے کمال فن کا مظاہرہ کیا ہے۔  نجیب محفوظ نے اپنی چار ناولوں (زقاق المدق، السکریۃ، قصڑ الشود اور بدایہ بلانہایہ) کے ذریعہ مصر کی گزشتہ سے لے کر آج تک کی تہذیبی، معاشرتی، اور عام ملکی و سیاسی حالت کا بہترین نقشہ کھینچا ہے۔  احسان عبدالقدوس اور یوسف السباعی کے ناولوں اور کہانیوں میں ادب مکشوب یا اباخی رنگ جھلکتا ہے۔

  ڈرامہ

 اسٹیج ڈرامہ کی ابتدا سب سے پہلے بیروت میں مارون النقاش نے کی۔  انہوں نے سب سے پہلا ڈرامہ ’’البخیل‘‘ ۱۸۴۸ء میں اسٹیج کیا۔  ۱۸۵۵ء میں مارون کے انتقال کے بعد اسٹیج ڈرامہ مصر میں آیا۔  ۱۸۷۸ء میں قاہرہ میں ’’دارالاوپرا‘‘ بنا تو اسٹیج ڈرامہ کو بہت ترقی ہوئی۔  اور زمانے کے نشیب و فراز سے گزرتا ہوا کبھی رکتا کبھی آگے بڑھتا ہوا عربی ڈرامہ آج ترقی کی اس منزل پر پہنچ گیا ہے جہاں فنی اعتبار سے پختگی آ چکی ہے۔  اس زمانہ میں ڈرامہ نویسی میں کئی ادیب ابھرے ، لیکن اس کو کمال بخشا توفیق الحکیم نے جو عربی میں ڈرامہ کے باوا آدم ہیں۔  توفیق نے نہ صرف یونانی کلاسیکی ڈراموں مثلاً ’’ایڈیپس دی کنگ‘‘ یا ’’پگمیلین‘‘ کو عربی کا جامہ پہنایا بلکہ بعض ان قصوں کو بھی جن کا ذکر قرآن میں آیا ہے جیسے ’’اصحابِ کہف‘‘ ڈرامہ کے قالب میں بکمال مہارت ڈھال دیا۔  اسی طرح بعض فرعونی کلاسیکی کہانیوں کو بھی ڈرامہ کا روپ دے کر اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔  اس قسم کے ڈراموں کے علاوہ توفیق نے مختلف موضوعات پر فصیح عربی اور عامی زبان میں بیسوں ڈرامے لکھے جن میں بعض مزاحیہ بھی ہیں۔  توفیق کے ڈرامے قاہرہ کے اسٹیجوں پراور گاؤں میں بھی اسٹیج ہوتے ہیں۔  عربی میں منظوم ڈرامہ کا ظہور بھی اسی زمانے کی دین ہے۔  اس کی ابتدا شقی نے کی بعض کلاسیکل کہانیوں کو نظم کر کے۔

صحافت

 اس زمانے میں صحافت کی بڑی گرم بازاری ہوئی عرب صحافیوں نے ملکی یونیورسٹی میں جرنلزم کی تعلیم حاصل کر نے کے علاوہ مغربی ممالک کی درسگاہوں سے بھی فیض اٹھایا۔  صحافت میں ایک جدّت ’’طنزیہ و مزاحیہ‘‘ پرچوں کا اجرا ہے جس میں اوّلیت مصر کے مشہور پرچہ ’’روز الیوسف‘‘ کو حاصل ہے۔  دوسری جدّت اخباری تصویر کشی اور کارٹون کا رواج ہے۔  آج اخبارات اور رسائل تقریباً تمام ممالک عربیہ سے نکل رہے ہیں۔  علم و فن کی ہمہ جہت ترقی اور یورپی زبانوں میں وضع شدہ سائنسی اور ٹیکنیکل اصطلاحات کو عربی میں منتقل کر نے کے لیے ادارے مجالس اور انجمنیں عرب دنیا کے مختلف حصوں میں قائم ہیں۔  جنہیں ان ملکوں کی اور عرب لیگ کی سرپرستی حاصل ہے ان میں المجمع العلمی اللغوی، مجلس التقریب فی الوطن العربی خاص طور سے قابلِ ذکر ہیں۔

نشاۃ ثانیہ کے دوسرے دور میں شعر و شاعری

 پہلی جنگ عظیم سے لے کر دوسری جنگِ عظیم تک شعر و شاعری بھی نثری ادب کی طرح ’’ادبِ انقلاب و اتحاد‘‘ بن کر رہ گئی تھی، مگر محمود سامی البارودی نے جو صُور پھونکا اور اس کی صدائے بازگشت لبنان کے پہاڑوں سے ابراہیم الیازجی کی آواز میں گونجی تو ارضِ فراعنہ نے حافظ و شوقی کی صورت میں اس آواز پر لبیک کہا۔  جنہوں نے شعر و شاعری کی خوابیدہ دنیا میں ایک ہلچل سی مچا دی۔  چنانچہ اس زمانے میں نئی نسل نے پھر سے اپنے آبا و اجداد کے کلام سے کسبِ فیض کرنا شروع کر دیا۔  گزشتہ عہود کی فنی خصوصیات کے تانے سے نئے ماحول نئے حالات اور افکار و خیالات کے بانے کو ملا کر میدان شعر و شاعری میں زبان و بیان میں قادر الکلامی کی شان دکھائی قد ما کا وقار اور گمبھیر پن ان کی اثر انگیزی اور گہرائی کے ساتھ انہوں نے عصر حاضر کی روانیٔ ادا اور خیالات کی رفعت اور تنّوع اور موضوعات و مسائل کی ہمہ گیری اور وضاحت کو جوڑ دیا ہے۔  اس طرح سے ان شعراء نے شراب کہن کو ساغرِ نو میں ڈال کر عربی شاعری کو اچھوتی اور انمول تخلیقات سے مالامال کر دیا۔  موجودہ دور کے شعراء میں قابلِ ذکر عمر ابوریشہ، الاخطل الصغیر طٰہ مندور، علی محمود، ایلیا ابوماضی فرحات اور القروی وغیرہ ہیں۔  اس زمانے میں شاعری کی بعض نئی اصناف کا بھی تجربہ کیا گیا چنانچہ پہلی بار عربی میں آزاد نظم کا تجربہ غالباً لبنان میں ہوا اس کے بعد مصر میں بھی اس کے تجربے ہوئے لبنانی مکتبِ فکر میں فدوی طوفان میں ، موسی الصایغ ار ان کے ہمنواؤں نے اس صنف میں طبع آزمائی کی۔  مصری مکتبِ فکر میں اس کے عَلَم بردار نزار قبانی اور عزیز اباظہ ہیں۔  چوں کہ آزاد نظم عربی ذوق پر گراں اور مزاج کے خلاف ہے اس لیے اس صنف کو فروغ نہ حاصل ہوسکا۔  البتہ مہجری ادب میں یورپی اور امریکی ادب کے اثر سے اس صنف میں جبران امین الریحانی اور نسیب عریضہ نے کمال فن کا مظاہر کیا۔

  ہندوستان

ہندوستان میں عربی زبان کی درس وتدریس کا سلسلہ مسلمانوں کی آمد کے وقت سے جاری ہے۔  اور یہاں کے علما نے بھی اس میں نمایاں خدمات انجام دیں ہیں۔  قاضی محمد اعلیٰ تھانوی (بارہویں صدی ہجری) نے علوم و فنون کی اصطلاحات میں کتاب ’’کثاف اصطلاحات الفنون‘‘ اور علامہ سید مرتضیٰ بلگرامی معروف بزبیدی (م ۱۲۰۵ھ) نے مجد الدین فیروز آبادی کی لغت ’’القاموس المحیط‘‘ کی عرب شرح ’’تاج العروس‘‘ کے نام سے دس جلدوں میں لکھی۔  مولانا سید عبدالجلیل بلگرامی اور میر غلام علی آزاد بلگرامی نے بلاغ و بدائع اور فن عروض میں اضافے کیے اور عربی شاعری میں ہندوستانی موزونیتِ طبع کے جوہر دکھائے جسٹس کرامت حسین اور مولانا سلیمان اشرف بہاری نے فقہ اللسان اور المبین کے ذریعہ عربی زبان کے فلسفہ لغت اور نحو پر معرکہ آراء کام کیا۔  عربی درس گاہوں میں دارالعلوم ندوۃ العلما لکھنؤ کے حلقہ سے عربی زبان و ادب کے گوہر نایاب پیدا ہوئے۔  اس کے سابق ناظم مولانا عبدالحسنی مرحوم مے الثقافتہ الہندیہ کے علاوہ ہندوستانی علما و فضلا کے تذکر رہ میں ایک مبسط کتاب عربی میں ’’نزہۃ الخواطر‘‘ کے نام سے لکھی، جس کی آٹھ جلدیں اب تک شائع ہو چکی ہیں۔  ندوہ کے فارغین میں کئی ادیب محقق اور شاعر پیدا ہوئے جن میں مولانا مسعود عالم ندوی، مولانا محمد ناظم ندوی اور شاعر عبدالرحمن کا شغری ندوی سرفہرست ہیں۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی اپنی علمی، ادبی اور دینی عربی کتابوں کی وجہ سے عالم اسلام اور عرب میں جانی پہچانی شخصیت بن چکے ہیں۔  مولانا کو عربی خطابت میں حیرت ناک ملکۂ ہے۔  عربی صحافت میں بھی ندوہ نے پہل کی تھی اور اس وقت بھی یہاں سے عربی کا ایک ماہوار رسالہ ’’البعث الاسلامی‘‘ کے نام سے اور ایک پندرہ روزہ ’’الرائد ‘‘ کے نام سے نکل رہا ہے۔  دارالعلوم دیوبند سے بھی عربی کا ایک رسالہ ’’الداعی‘‘ کے نام سے نکلتا ہے۔

عہد قدیم کا ادب (مغرب و مشرق وسطیٰ میں ) عہدِ قدیم کے ادب کا ایک بہت بڑا حصہ یا تو تباہ ہو چکا ہے یا طریقۂ تحریر کے وجود میں آنے سے پہلے ہی فراموش ہو گیا تھا۔  آثارِ قدیمہ اور فنِ کتبہ خوانی کے ماہروں کی کاوش سے جو معلومات اس بارے میں فراہم ہوئی ہیں وہ بہت تشنہ اور ناکافی ہیں۔  مغرب اور مشرقِ قریب یا مغربی ایشیا کی قدیم تہذیبیں اسیریا، بابل، مصر، یونان اور رومہ کی تہذیبوں اور فلسطین کی اسرائیلی تہذیب پر مشتمل تھیں۔  ان میں سے ہر ایک کا دوسری کسی ایک یا ایک سے زیادہ تہذیبوں سے ربط ضبط تھا۔  ان میں سب سے زیادہ پرانی تہذیبیں اسیریا ااور بابل کی تھیں جن کے متعلق بہت سی ٹوٹی پھوٹی مٹی کی تختیاں دستیاب ہوئی ہیں۔  ان کے علاوہ قدیم مصر کے سڑے گلے پے پی رس (Papyrus)پارچے ملے ہیں جو ہماری دنیا کے لیے کچھ زیادہ بامعنی نہیں ہیں۔  بابل نے البتہ دنیا کا پہلا ضابطۂ قوانین چھوڑا اور اولین اساطیری نمونے (Acrhelypalmyh)پر مبنی دو ایسی نظمیں تخلیق کیں جن کی گونج دو دراز علاقوں میں بھی سنائی دی۔  مصر کے باطنی اور مابعد الطبیعی تصورات اور ایک عالم ماورا کے عرفان نے یونان و رومہ کے ذہن کو متاثر کیا۔  مغربی دنیا کی ذہنی اور تہذیبی روایت یونان و رومہ کے افکار اور عبرانی تہذیب کی گہری روحانیت سے مستعار ہے۔  عبرانی اثرات کے ماخذ توریت (Old Testament)اور انجیل ہیں جو مغرب میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتابیں رہی ہیں۔  مغربی انسان کا تخیل اس کے اخلاقی اقدار اور ادبی اصناف یونان و رومہ کے رہین منت ہیں۔  یونانی اور لاطینی مصنفوں نے جو اخلاقی اور بشری نصب العین (Human Ideal)پیدا کیا وہ عہدِ قدیم کے ختم ہوتے ہوتے یہود و نصرانی روحانی نصب العین میں جذب ہو کر دور وسطیٰ کے ادب کا پیش رو ثابت ہوا۔  اسیر یا اور بابل کا ادب قدیم اسیریا اور بابل کی زبان اکے ڈین (Akkadian)وہ پہلی سامی زبان ہے جس کے کچھ آثار ہم تک پہنچے ہیں اور اس لحاظ سے تقابلی لسانیات میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔  اس کا نظامِ تحریر سُمیری (Sumerian)سے ماخوذ ہے۔  جو دنیا کی قدیم ترین تحریری زبان مانی جاتی ہے۔  دجلہ و فرات کے کناروں پر جو اسیر یائی و بابلی تہذیب پائی جاتی تھی اس میں بحیثیت بول چال کی زبان کے اکے ڈین سے سمیری کی جگہ لے لی تھی۔  یہ قبل مسیح کے الفِ ثالث کی بات ہے۔  ویسے تحریری زبان کی شکل میں سمیری پہلی صدی عیسوی تک اکے ڈین کے شانہ بہ شانہ باقی رہی۔  اس تہذیب کے بہت سے آثار ادبی سے زیادہ لسانی اور تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔  عام لفظوں اور خداؤں کے ناموں کی فہرستیں ملتی ہیں جو الفاظ اور تصورات کے باضابطہ مجموعوں کی شکل رکھتی ہیں اور جن کا مقصد انسائیکلو پیڈیائی معلوم ہوتا ہے۔  بعض ایسی فہرستیں ہیں جن میں سمیری تلفظ کے ساتھ الفاظ اروع ان کے اکے ڈین مترادفات دو مختلف کالموں میں دیے گئے ہیں۔  یہ لغات کا کام دیتی ہوں گی۔  ان کے علاوہ بہت سے کتبے ملے ہیں جن کی اہمیت تاریخی ہے۔  اسیریائی اور بابلی تحریریں مٹی کی تختیوں پر ملی ہیں جن میں سے بعض ۲۵۰۰ ق م کی ہیں۔  ان تختیوں پر اساطیری عبارتیں ابتدائی حکمرانوں کے کارناموں کے بارے میں رزمیے ، دعائیں اور کہاوتیں لکھی ہوئی ہیں۔  ادبی حیثیت سے سب سے زیادہ اہم اینو ماایلیش (Enuma elish)یعنی تخلیق کا رزمیہ اور گل گامیش کا رزمیہ (Epic of Gilgamesh)نامی دو نظمیں ہیں۔  پہلی نظم میں شہر بابل کے خدا مارڈوک (Marduk)کی کہانی ہے جس نے تیامت (Tiamat)نامی ایک مہیب عجیب الخلق مونث مخلوق کو تہِ تیغ کر کے اس کے جسم سے دنیا کو جنم دیا اور اس کے کارنامے کے صلے میں دوسرے خداؤں نے اسے کائناتی بالادستی عطا کر دی۔  دوسری نظم جو اکے ڈین زبان کا سب سے اہم ادبی کارنامہ ہے ایک سمیری ہیرو گل گامیش اور ع اس کے ساتھی ان کی ڈو (Enkidu)کی داستان ہے۔  اس کا پورا متن نینو ا میں شاہ اسیریا آشور بنی پال (AShurbanipal)(۶۶۸-۶۲۷ق م)کے کتب خانے سے دستیاب ہونے والی تختیوں پر موجود ہے۔  یہ نظم بابل کی تخلیق ہے اور اس میں بہت سی سمیری کہانیوں کو یکجا کر کے ایک نیا خیال داخل کیا گیا ہے یعنی گل گامیش کی اپنے ساتھی ان کی ڈوک کی موت کے بعد لافانیت کی تلاش۔  ایک اور دلچسپ چیز اس میں طوفانِ نوح کی ایک بابلی روایت ہے جس کا قصہ اس سیلاب سے بچنے والا ایک شخص اتنا پِش تِن (Ulnapishin) گِل گامیش کو سناتا ہے۔  یہ داستان ایشیائے کوچک میں اکے ڈین کے علاوہ اور زبانوں میں بھی موجود تھی اور امکان ہے کہ یونانی آڈیسی (Odyssey)پر اس کا اثر پڑا ہو۔  قدیم مصری ادب جو مصری ادب ہم تک پہنچا ہے وہ زیادہ تر پے پی رس (Papyrus)پر لکھی پروہتی (Pieratic)تحریروں پر یا پھر مکتبوں میں استعمال ہونے والی تختیوں ، ٹھیکروں اور چو نے کے پتھروں کے ٹکڑوں پر نوشتہ درسی نسخوں پر مشتمل ہے۔  کوئی ستر (۷۰)تصنیفوں کا پتہ چلا ہے لیکن یہ زیادہ تر ادھوری ہیں اور مصر کے ادبی کارنامے کا ایک بہت نامکمل نمونہ۔  نوع کے اعتبار سے یہ تحریریں تاریخ اساطیری پر مبنی مقبول عام داستانوں یا مثنویوں سیکولر (Secular)یا غیر مذہبی نظموں ، خط نویسی کے نمونوں اور اخلاقی اصولوں یا پند و مواعظِ کے مجموعوں پر مشتمل ہیں۔  مقبولِ عام کہانیوں میں یہ قابلِ ذکر ہیں ’’شاخوں غو اور جادوگر‘‘ ’’تباہ شدہ جہاز کا ملاح‘‘ (جس میں ایک ویران جزیرے پر افتادہ ملاح کی کہانی ہے جسے ایک عفریت نما سانپ پناہ دیتا ہے ) ’’دوبھائیوں کی کہانی‘‘ یہ آخری کہانی پاتال کی دیو مالائی دیوتا آسی رس (Osiris)کے قصے پر مبنی اور خیر و شر کی کش مکش کے موضوع سے متعلق ہے۔  دوسری عام کہانیاں ایسی ہیں جو فوق الفطرت عناصر سے عاری ہیں مثلاً ’’چرب زبان دہقان کی کہانی‘‘ جس میں ایک کسان اپنی فصیح البیانی کے زور پر انصاف پانے میں کامیاب ہوتا ہے۔  ناصحانہ اور پند آموز ادب بعض عقل مندوں کے اقوال کی شکل میں ہے۔  جس میں کوئی مردِ سال خوردہ اپنے بیٹے کو یا کوئی بادشاہ اپنے جانشین کو نصیحتیں کرتا ہے۔  یہ عبرانی خرد مندانہ ادب (Wisdom Literature)سے مماثل ہے۔  ان کے مماثل لیکن قنوطی رنگ لیے ہوئے وہ نغمے ہیں جنہیں ’’بربط نوازن کے گیت‘‘ (Song of the Harpers)کا نام دیا گیا ہے اور جو مقبروں کی دیواروں پر کندہ ملتے ہیں۔  معبدوں کی دیواروں پر بھی کچھ طویل عباداتی تحریریں ملی ہیں۔  ایتھنز میں ’’مردوں کی کتاب‘‘ (Book of the Dead)شامل ہے جو جادوئی اور اساطیری قصوں کا مجموعہ ہے اور دیوتاؤں کے ذکر سے پُر ہے۔  یونانی اور لاطینی مصنف مصر کی قدامت اور رنگا رنگی سے بہت متاثر تھے اور ان کی تحریروں میں بہت سی مصری حکایتوں کا سراغ ملتا ہے۔  قدیم عبرانی ادب عبرانی ادب کی روایت بارہویں صدی ق م سے قائم ہے۔  ۱۲۰۰ ق م سے ۲۰۰ء تک عبرانی فلسطین میں بول چال کی زبان رہی پہلے توراتی عبرانی (Biblical Hebrew)کی صورت میں اور پھر مِشنائی عبرانی (Mishnaic Hebrew)کی شکل میں۔  (یہودی فقہی اصولوں اور موسوی قوانین (Mosaic Law)کے مجموعے کو مِشنا کہا جاتا تھا) مِشنائی عبرانی ایک بعد کی بولی ہے جس کا توراتی عبرانی سے راست تعلق نہیں۔  دوسری صدی ق م میں جب فریسیوں (Pharisces)نے اس بولی کو اپنی تعلیم و تعلّم کا ذریعہ بنایا تو اسے ادبی درجہ حاصل ہو گیا۔  عبرانی زبان نے ہمیشہ بدلتے ہوئے ادبی ذوق کے تقاضوں کا ساتھ دیا۔  چناں چہ مختلف زبانوں میں وہ کبھی باریک مذہبی فکر کبھی صحت علمی (Scientific Precision)اور کبھی تصوف کی سرمستی کا گہوارہ بنتی رہی۔  توراۃ کے وسیع حلقہ اثر کے سبب عبرانی نے براہِ راست یا ترجموں کی وساطت سے مغربی ادب پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید