FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

کلیاتِ میر

 

 

                میر تقی میرؔ

 

 

 

 دیوان دوم

 

                ردیف الف

 

(۶۶۴)

ہر ذی حیات کا ہے سبب جو حیات کا

نکلے ہے جی ہی اس کے لیے کائنات کا

بکھری ہے زلف اس رخ عالم فروز پر

ورنہ بناؤ ہووے نہ دن اور رات کا

۴۶۶۵

در پردہ وہ ہی معنی مقوم نہ ہوں اگر

صورت نہ پکڑے کام فلک کے ثبات کا

ہیں مستحیل خاک سے اجزائے نو خطاں

کیا سہل ہے زمیں سے نکلنا نبات کا

مستہلک اس کے عشق کے جانیں ہیں قدر مرگ

عیسیٰ و خضر کو ہے مزہ کب وفات کا

ق

اشجار ہوویں خامہ و آب سیہ بحار

لکھنا نہ تو بھی ہوسکے اس کی صفات کا

اس کے فروغ حسن سے جھمکے ہے سب میں نور

شمع حرم ہو یا کہ دیا سومنات کا

۴۶۷۰

بالذات ہے جہاں میں وہ موجود ہر جگہ

ہے دید چشم دل کے کھلے عین ذات کا

ہر صفحے میں ہے محو کلام اپنا دس جگہ

مصحف کو کھول دیکھ ٹک انداز بات کا

ہم مذنبوں میں صرف کرم سے ہے گفتگو

مذکور ذکر یاں نہیں صوم و صلوٰت کا

کیا میرؔ تجھ کو نامہ سیاہی کا فکر ہے

ختم رسل سا شخص ہے ضامن نجات کا

 

(۶۶۵)

جلوہ نہیں ہے نظم میں حسن قبول کا

دیواں میں شعر گر نہیں نعت رسولؐ کا

۴۶۷۵

حق کی طلب ہے کچھ تو محمدؐ پرست ہو

ایسا وسیلہ ہے بھی خدا کے حصول کا

مطلوب ہے زمان و مکان و جہان سے

محبوب ہے ملک کا فلک کا عقول کا

احمدؐ کو ہم نے جان رکھا ہے وہی احد

مذہب کچھ اور ہو گا کسی بوالفضول کا

جن مردماں کو آنکھیں دیاں ہیں خدا نے وے

سرمہ کریں ہیں رہ کی تری خاک دھول کا

مقصود ہے علیؓ کا ولی کا سبھی کا تو

ہے قصد سب کو تیری رضا کے حصول کا

۴۶۸۰

ق

تھی گفتگوئے باغ فدک جڑ فساد کی

جانے ہے جس کو علم ہے دیں کے اصول کا

دعویٰ جو حق شناسی کا رکھیے سو اس قدر

پھر جان بوجھ کریے تلف حق بتولؓ کا

پروائے حشر کیا ہے تجھے میرؔ شاد رہ

ہے عذر خواہ جرم جو وہ تجھ ملول کا

 

(۶۶۶)

 

جو معتقد نہیں ہے علیؓ کے کمال کا

ہر بال اس کے تن پہ ہے موجب وبال کا

عزت علیؓ کی قدر علیؓ کی بہت ہے دور

مورد ہے ذوالجلال کے عز و جلال کا

۴۶۸۵

پایا علیؓ کو جا کے محمدؐ نے اس جگہ

جس جا نہ تھا لگاؤ گمان و خیال کا

رکھنا قدم پہ اس کے قدم کب ملک سے ہو

مخلوق آدمی نہ ہوا ایسی چال کا

شخصیت ایسی کس کی تھی ختم رسل کے بعد

تھا مشورت شریک حق لایزال کا

توڑا بتوں کو دوش نبیؐ پر قدم کو رکھ

چھوڑا نہ نام کعبہ میں کفر و ضلال کا

راہ خدا میں ان نے دیا اپنے بھی تئیں

یہ جود منھ تو دیکھو کسو آشمال کا

۴۶۹۰

نسبت نہ بندگی کی ہوئی جس کی واں درست

رونا مجھے ہے حشر میں اس کی ہی چال کا

فکر نجات میرؔ کو کیا مدح خواں ہے وہ

اولاد کا علیؓ کی محمدؐ کی آل کا

 

(۶۶۷)

لذت سے نہیں خالی جانوں کا کھپا جانا

کب خضر و مسیحا نے مرنے کا مزہ جانا

ہم جاہ و حشم یاں کا کیا کہیے کہ کیا جانا

خاتم کو سلیماں کی انگشتر پا جانا

یہ بھی ہے ادا کوئی خورشید نمط پیارے

منھ صبح دکھا جانا پھر شام چھپا جانا

۴۶۹۵

کب بندگی میری سی بندہ کرے گا کوئی

جانے ہے خدا اس کو میں تجھ کو خدا جانا

تھا ناز بہت ہم کو دانست پر اپنی بھی

آخر وہ برا نکلا ہم جس کو بھلا جانا

گردن کشی کیا حاصل مانند بگولے کے

اس دشت میں سر گاڑے جوں سیل چلا جا نا

اس گریۂ خونیں کا ہو ضبط تو بہتر ہے

اچھا نہیں چہرے پر لوہو کا بہا جانا

یہ نقش دلوں پر سے جانے کا نہیں اس کو

عاشق کے حقوق آ کر ناحق بھی مٹا جانا

۴۷۰۰

ڈھب دیکھنے کا ایدھر ایسا ہی تمھارا تھا

جاتے تو ہو پر ہم سے ٹک آنکھ ملا جانا

اس شمع کی مجلس میں جانا ہمیں پھر واں سے

اک زخم زباں تازہ ہر روز اٹھا جانا

اے شور قیامت ہم سوتے ہی نہ رہ جاویں

اس راہ سے نکلے تو ہم کو بھی جگا جانا

کیا پانی کے مول آ کر مالک نے گہر بیچا

ہے سخت گراں سستا یوسفؑ کا بکا جانا

ہے میری تری نسبت روح اور جسد کی سی

کب آپ سے میں تجھ کو  اے جان جدا جانا

۴۷۰۵

جاتی ہے گذر جی پر اس وقت قیامت سی

یاد آوے ہے جب تیرا یک بارگی آ جانا

برسوں سے مرے اس کے رہتی ہے یہی صحبت

تیغ اس کو اٹھانا تو سر مجھ کو جھکا جانا

کب میرؔ بسر آئے تم ویسے فریبی سے

دل کو تو لگا بیٹھے لیکن نہ لگا جانا

 

(۶۶۸)

 

پائے خطاب کیا کیا دیکھے عتاب کیا کیا

دل کو لگا کے ہم نے کھینچے عذاب کیا کیا

کاٹے ہیں خاک اڑا کر جوں گردباد برسوں

گلیوں میں ہم ہوئے ہیں اس بن خراب کیا کیا

۴۷۱۰

کچھ گل سے ہیں شگفتہ کچھ سرو سے ہیں قد کش

اس کے خیال میں ہم دیکھے ہیں خواب کیا کیا

انواع جرم میرے پھر بے شمار و بے حد

روز حساب لیں گے مجھ سے حساب کیا کیا

اک آگ لگ رہی ہے سینوں میں کچھ نہ پوچھو

جل جل کے ہم ہوئے ہیں اس بن کباب کیا کیا

افراط شوق میں تو رویت رہی نہ مطلق

کہتے ہیں میرے منھ پر اب شیخ و شاب کیا کیا

پھر پھر گیا ہے آ کر منھ تک جگر ہمارے

گذرے ہیں جان و دل پر یاں اضطراب کیا کیا

۴۷۱۵

آشفتہ اس کے گیسو جب سے ہوئے ہیں منھ پر

تب سے ہمارے دل کو ہے پیچ و تاب کیا کیا

کچھ سوجھتا نہیں ہے مستی میں میرؔ جی کو

کرتے ہیں پوچ گوئی پی کر شراب کیا کیا

 

(۶۶۹)

 

دامن وسیع تھا تو کاہے کو چشم تر سا

رحمت خدا کی تجھ کو  اے ابر زور برسا

شاید کباب کر کر کھایا کبوتر ان نے

نامہ اڑا پھرے ہے اس کی گلی میں پر سا

وحشی مزاج ازبس مانوس بادیہ ہیں

ان کے جنوں میں جنگل اپنا ہوا ہے گھر سا

۴۷۲۰

جس ہاتھ میں رہا کی اس کی کمر ہمیشہ

اس ہاتھ مارنے کا سر پر بندھا ہے کر سا

سب پیچ کی یہ باتیں ہیں شاعروں کی ورنہ

باریک اور نازک مو کب ہے اس کمر سا

طرز نگاہ اس کی دل لے گئی سبھوں کے

کیا مومن و برہمن کیا گبر اور ترسا

تم واقف طریق بے طاقتی نہیں ہو

یاں راہ دو قدم ہے اب دور کا سفر سا

کچھ بھی معاش ہے یہ کی ان نے ایک چشمک

جب مدتوں ہمارا جی دیکھنے کو ترسا

۴۷۲۵

ٹک ترک عشق کریے لاغر بہت ہوئے ہم

آدھا نہیں رہا ہے اب جسم رنج فرسا

واعظ کو یہ جلن ہے شاید کہ فربہی سے

رہتا ہے حوض ہی میں اکثر پڑا مگر سا

انداز سے ہے پیدا سب کچھ خبر ہے اس کو

گو میرؔ بے سر و پا ظاہر ہے بے خبر سا

 

(۶۷۰)

 

تیغ ستم سے اس کی مرا سر جدا ہوا

شکر خدا کہ حق محبت ادا ہوا

قاصد کو دے کے خط نہیں کچھ بھیجنا ضرور

جاتا ہے اب تو جی ہی ہمارا چلا ہوا

۴۷۳۰

وہ تو نہیں کہ اشک تھمے ہی نہ آنکھ سے

نکلے ہے کوئی لخت دل اب سو جلا ہوا

حیران رنگ باغ جہاں تھا بہت رکا

تصویر کی کلی کی طرح دل نہ وا ہوا

عالم کی بے فضائی سے تنگ آ گئے تھے ہم

جاگہ سے دل گیا جو ہمارا بجا ہوا

درپے ہمارے جی کے ہوا غیر کے لیے

انجام کار مدعی کا مدعا ہوا

اس کے گئے پہ دل کی خرابی نہ پوچھیے

جیسے کسو کا کوئی نگر ہو لٹا ہوا

۴۷۳۵

بدتر ہے زیست مرگ سے ہجران یار میں

بیمار دل بھلا نہ ہوا تو بھلا ہوا

کہتا تھا میرؔ حال تو جب تک تو تھا بھلا

کچھ ضبط کرتے کرتے ترا حال کیا ہوا

 

(۶۷۱)

 

رفتار و طور و طرز و روش کا یہ ڈھب ہے کیا

پہلے سلوک ایسے ہی تیرے تھے اب ہے کیا

ہم دل زدہ نہ رکھتے تھے تم سے یہ چشم داشت

کرتے ہو قہر لطف کی جاگہ غضب ہے کیا

عزت بھی بعد ذلت بسیار چھیڑ ہے

مجلس میں جب خفیف کیا پھر ادب ہے کیا

۴۷۴۰

آئے ہم آپ میں تو نہ پہچانے پھر گئے

اس راہ صعب عشق میں یارو تعب ہے کیا

حیراں ہیں اس دہن کے عزیزان خوردہ بیں

یہ بھی مقام ہائے تامل طلب ہے کیا

آنکھیں جو ہوویں تیری تو تو عین کر رکھے

عالم تمام گر وہ نہیں تو یہ سب ہے کیا

اس آفتاب بن نہیں کچھ سوجھتا ہمیں

گر یہ ہی اپنے دن ہیں تو تاریک شب ہے کیا

تم نے ہمیشہ جور و ستم بے سبب کیے

اپنا ہی ظرف تھا جو نہ پوچھا سبب ہے کیا

۴۷۴۵

کیونکر تمھاری بات کرے کوئی اعتبار

ظاہر میں کیا کہو ہو سخن زیر لب ہے کیا

اس مہ بغیر میرؔ کا مرنا عجب ہوا

ہر چند مرگ عاشق مسکیں عجب ہے کیا

 

(۶۷۲)

 

جھمکے دکھا کے طور کو جن نے جلا دیا

آئی قیامت ان نے جو پردہ اٹھا دیا

اس فتنے کو جگا کے پشیماں ہوئی نسیم

کیا کیا عزیز لوگوں کو ان نے سلا دیا

اب بھی دماغ رفتہ ہمارا ہے عرش پر

گو آسماں نے خاک میں ہم کو ملا دیا

۴۷۵۰

جانی نہ قدر اس گہر شب چراغ کی

دل ریزۂ خزف کی طرح میں اٹھا دیا

تقصیر جان دینے میں ہم نے کبھو نہ کی

جب تیغ وہ بلند ہوئی سر جھکا دیا

گرمی چراغ کی سی نہیں وہ مزاج میں

اب دل فسردگی سے ہوں جیسے بجھا دیا

وہ آگ ہو رہا ہے خدا جانے غیر نے

میری طرف سے اس کے تئیں کیا لگا دیا

اتنا کہا تھا فرش تری رہ کے ہم ہوں کاش

سو تو نے مار مار کے آ کر بچھا دیا

۴۷۵۵

اب گھٹتے گھٹتے جان میں طاقت نہیں رہی

ٹک لگ چلی صبا کہ دیا سا بڑھا دیا

تنگی لگا ہے کرنے دم اپنا بھی ہر گھڑی

کڑھنے نے دل کے جی کو ہمارے کھپا دیا

کی چشم تو نے باز کہ کھولا درستم

کس مدعی خلق نے تجھ کو جگا دیا

کیا کیا زیان میرؔ نے کھینچے ہیں عشق میں

دل ہاتھ سے دیا ہے جدا سر جدا دیا

 

(۶۷۳)

 

بہتوں کو آگے تھا یہی آزار عشق کا

جیتا رہا ہے کوئی بھی بیمار عشق کا

۴۷۶۰

بے پردگی بھی چاہ کا ہوتا ہے لازمہ

کھلتا ہی ہے ندان یہ اسرار عشق کا

زندانی سینکڑوں مرے آگے رہا ہوئے

چھوٹا نہ میں ہی تھا جو گنہگار عشق کا

خواہان مرگ میں ہی ہوا ہوں مگر نیا

جی بیچے ہی پھرے ہے خریدار عشق کا

منصور نے جو سر کو کٹایا تو کیا ہوا

ہر سر کہیں ہوا ہے سزاوار عشق کا

جاتا وہی سنا ہمہ حسرت جہان سے

ہوتا ہے جس کسو سے بہت پیار عشق کا

۴۷۶۵

پھر بعد میرے آج تلک سر نہیں بکا

اک عمر سے کساد ہے بازار عشق کا

لگ جاوے دل کہیں تو اسے جی میں اپنے رکھ

رکھتا نہیں شگون کچھ اظہار عشق کا

چھوٹا جو مر کے قید عبارات میں پھنسا

القصہ کیا رہا ہو گرفتار عشق کا

ق

مشکل ہے عمر کاٹنی تلوار کے تلے

سر میں خیال گو کہ رکھیں یار عشق کا

واں رستموں کے دعوے کو دیکھا ہے ہوتے قطع

پورا جہاں لگا ہے کوئی وار عشق کا

۴۷۷۰

کھوئے رہا نہ جان کو نا آزمودہ کار

ہوتا نہ میرؔ کاش طلبگار عشق کا

 

(۶۷۴)

ستم سے گو یہ ترے کشتۂ وفا نہ رہا

رہے جہان میں تو دیر میں رہا نہ رہا

کب اس کا نام لیے غش نہ آ گیا مجھ کو

دل ستم زدہ کس وقت اس میں جا نہ رہا

ملانا آنکھ کا ہر دم فریب تھا دیکھا

پھر ایک دم میں وہ بے دید آشنا نہ رہا

موئے تو ہم پہ دل پُر کو خوب خالی کر

ہزار شکر کسو سے ہمیں گلہ نہ رہا

۴۷۷۵

ادھر کھلی مری چھاتی ادھر نمک چھڑکا

جراحت اس کو دکھانے کا اب مزہ نہ رہا

ہوا ہوں تنگ بہت کوئی دن میں سن لیجو

کہ جی سے ہاتھ اٹھا کر وہ اٹھ گیا نہ رہا

ق

ستم کا اس کے بہت میں نزار ہوں ممنون

جگر تمام ہوا خون و دل بجا نہ رہا

اگرچہ رہ گئے تھے استخوان و پوست ولے

لگائی ایسی کہ تسمہ بھی پھر لگا نہ رہا

حمیت اس کے تئیں کہتے ہیں جو میرؔ میں تھی

گیا جہاں سے پہ تیری گلی میں آ نہ رہا

۴۷۸۰

 

(۶۷۵)

کرتے ہی نہیں ترک بتاں طور جفا کا

شاید ہمیں دکھلاویں گے دیدار خدا کا

ہے ابر کی چادر شفقی جوش سے گل کے

میخانے کے ہاں دیکھیے یہ رنگ ہوا کا

بہتیری گرو جنس کلالوں کے پڑی ہے

کیا ذکر ہے واعظ کے مصلیٰ و ردا کا

مر جائے گا باتوں میں کوئی غمزدہ یوں ہی

ہر لحظہ نہ ہو ممتحن ارباب وفا کا

تدبیر تھی تسکیں کے لیے لوگوں کی ورنہ

معلوم تھا مدت سے ہمیں نفع دوا کا

۴۷۸۵

ہاتھ آئینہ رویوں سے اٹھا بیٹھیں نہ کیونکر

بالعکس اثر پاتے تھے ہم اپنی دعا کا

آنکھ اس کی نہیں آئینے کے سامنے ہوتی

حیرت زدہ ہوں یار کی میں شرم و حیا کا

برسوں سے تو یوں ہے کہ گھٹا جب امنڈ آئی

تب دیدۂ تر سے بھی ہوا ایک جھڑاکا

آنکھ اس سے نہیں اٹھنے کی صاحب نظروں کی

جس خاک پہ ہو گا اثر اس کی کف پا کا

تلوار کے سائے ہی میں کاٹے ہے تو  اے میرؔ

کس دل زدہ کو ہوئے ہے یہ ذوق فنا کا

۴۷۹۰

 

(۶۷۶)

 

رہتا ہے ہڈیوں سے مری جو ہما لگا

کچھ درد عاشقی کا اسے بھی مزہ لگا

غافل نہ سوز عشق سے رہ پھر کباب ہے

گر لائحہ اس آگ کا ٹک دل کو جا لگا

دیکھا ہمیں جہاں وہ تہاں آگ ہو گیا

بھڑکا رکھا ہے لوگوں نے اس کو لگا لگا

مہلت تنک بھی ہو تو سخن کچھ اثر کرے

میں اٹھ گیا کہ غیر ترے کانوں آ لگا

اب آب چشم ہی ہے ہمارا محیط خلق

دریا کو ہم نے کب کا کنارے رکھا لگا

۴۷۹۵

ہر چند اس کی تیغ ستم تھی بلند لیک

وہ طور بد ہمیں تو قیامت بھلا لگا

مجلس میں اس کی بار نہ مجھ کو ملی کبھو

دروازے ہی سے گرچہ بہت میں رہا لگا

بوسہ لبوں کا مانگتے ہی منھ بگڑ گیا

کیا اتنی میری بات کا تم کو برا لگا

عالم کی سیر میرؔ کی صحبت میں ہو گئی

طالع سے میرے ہاتھ یہ بے دست و پا لگا

 

(۶۷۷)

 

خط سے وہ زور صفائے حسن اب کم ہو گیا

چاہ یوسفؑ تھا ذقن سو چاہ رستم ہو گیا

۴۸۰۰

سینہ کوبی سنگ سے دل خون ہونے میں رہی

حق بجانب تھا ہمارے سخت ماتم ہو گیا

ایک سا عالم نہیں رہتا ہے اس عالم کے بیچ

اب جہاں کوئی نہیں یاں ایک عالم ہو گیا

آنکھ کے لڑتے تری آشوب سا برپا ہوا

زلف کے درہم ہوئے اک جمع برہم ہو گیا

اس لب جاں بخش کی حسرت نے مارا جان سے

آب حیواں یمن طالع سے مرے سم ہو گیا

وقت تب تک تھا تو سجدہ مسجدوں میں کفر تھا

فائدہ اب جب کہ قد محراب سا خم ہو گیا

۴۸۰۵

عشق ان شہری غزالوں کا جنوں کو اب کھنچا

وحشت دل بڑھ گئی آرام جاں رم ہو گیا

جی کھنچے جاتے ہیں فرط شوق سے آنکھوں کی اور

جن نے دیکھا ایک دم اس کو سو بے دم ہو گیا

ہم نے جو کچھ اس سے دیکھا سو خلاف چشم داشت

اپنا عزرائیل وہ جان مجسم ہو گیا

کیا کہوں کیا طرحیں بدلیں چاہ نے آخر کو میرؔ

تھا گرہ جو درد چھاتی میں سو اب غم ہو گیا

 

(۶۷۸)

 

کیفی ہو کیوں تو ناز سے پھر گرم رہ ہوا

برسوں سے صوفیوں کا مصلیٰ تو تہ ہوا

۴۸۱۰

معلوم تیرے چہرۂ پرنور کا سا لطف

بالفرض آسماں پہ گیا پھول  مہ ہوا

پوچھ اس سے درد ہجر کو جس کا بہ نازکی

جاگہ سے اپنے عضو کوئی بے جگہ ہوا

ہم پلہ اپنا کون ہے اس معرکے کے بیچ

کس کے ترازو یار کا تیر  نگہ ہوا

ایسا فقیر ہونا بھلا کیا ضرور تھا

دونوں جہاں میں میرؔ عبث رو سیہ ہوا

 

(۶۷۹)

 

مذکور میری سوختگی کا جو چل پڑا

مجلس میں سن سپند یکایک اچھل پڑا

۴۸۱۵

پہنچے ہے کوئی اس تن نازک کے لطف کو

گل گو چمن میں جامے سے اپنے نکل پڑا

میں جو کہا اک آگ سی سلگے ہے دل کے بیچ

کہنے لگا کہ یوں ہی کوئی دن تو جل پڑا

بل کیوں نہ کھائیے کہ لگا رہنے اب تو واں

بالوں میں اور پیچ میں پگڑی کے بل پڑا

تھے اختلال اگرچہ مزاجوں میں کب سے لیک

ہلنے میں اس پلک کے نہایت خلل پڑا

رہتا نہیں ہے آنکھ سے آنسو ترے لیے

دیکھی جو اچھی شے تو یہ لڑکا مچل پڑا

۴۸۲۰

سر اس کے پاؤں سے نہیں اٹھتے ستم ہے میرؔ

گر خوش غلاف نیمچہ اس کا اگل پڑا

 

(۶۸۰)

 

دل فرط اضطراب سے سیماب سا ہوا

چہرہ تمام زرد زر ناب سا ہوا

شاید جگر گداختہ یک لخت ہو گیا

کچھ آب دیدہ رات سے خوناب سا ہوا

وے دن گئے کہ اشک سے چھڑکاؤ سا کیا

اب رونے لگ گئے ہیں تو تالاب سا ہوا

اک دن کیا تھا یار نے قد ناز سے بلند

خجلت سے سرو جوئے چمن آب سا ہوا

۴۸۲۵

کیا اور کوئی روئے کہ اب جوش اشک سے

حلقہ ہماری چشم کا گرداب سا ہوا

قصہ تو مختصر تھا ولے طول کو کھنچا

ایجاز دل کے شوق سے اطناب سا ہوا

عمامہ ہے موذن مسجد کہ بارخر

قد تو ترا خمیدہ ہو محراب سا ہوا

بات اب تو سن کہ جائے سخن حسن میں ہوئی

خط پشت لب کا سبزۂ سیراب سا ہوا

چل باغ میں بھی سوتے سے اٹھ کر کبھو کہ گل

تک تک کے راہ دیدۂ بے خواب سا ہوا

۴۸۳۰

ـسمجھے تھے ہم تو میرؔ کو عاشق اسی گھڑی

جب سن کے تیرا نام وہ بیتاب سا ہوا

 

(۶۸۱)

 

دیکھ آرسی کو یار ہوا محو ناز کا

خانہ خراب ہو جیو آئینہ ساز کا

ہوتا ہے کون دست بسر واں غرور سے

گالی ہے اب جواب سلام نیاز کا

ہم تو سمند ناز کے پامال ہو چکے

اس کو وہی ہے شوق ابھی ترک تاز کا

ہے کیمیا گران محبت میں قدر خاک

پر وقر کچھ نہیں ہے دل بے گداز کا

۴۸۳۵

اس لطف سے نہ غنچۂ نرگس کھلا کبھو

کھلنا تو دیکھ اس مژۂ نیم باز کا

کوتاہ تھا فسانہ جو مر جاتے ہم شتاب

جی پر وبال سب ہے یہ عمر دراز کا

مارا نہ اپنے ہاتھ سے مجھ کو ہزار حیف

کشتہ ہوں یار میں تو ترے امتیاز کا

ہلتی ہے یوں پلک کہ گڑی دل میں جائے ہے

انداز دیدنی ہے مرے دل نواز کا

پھر میرؔ آج مسجد جامع کے تھے امام

داغ شراب دھوتے تھے کل جانماز کا            ۴۸۴۰

 

(۶۸۲)

 

غم ابھی کیا محشر مشہور کا

شور سا ہے تو ولیکن دور کا

حق تو سب کچھ ہی ہے تو ناحق نہ بول

بات کہتے سر کٹا منصور کا

بیچ سے کب کا گیا اب ذکر کیا

اس دل مرحوم کا مغفور کا

طرفہ آتش خیز سنگستاں ہے دل

مقتبس یاں سے ہے شعلہ طور کا

ق

مر گئے پر خاک ہے سب کبر و ناز

مت جھکو سر گو کسو مغرور کا

۴۸۴۵

ٹھیکری کو قدر ہے اس کو نہیں

ٹوٹے جب کاسہ سر فغفور کا

ق

ہو کھڑا وہ تو پری سی ہے کھڑی

منھ کھلے تو جیسے چہرہ حور کا

دیکھ اسے کیونکر ملک بھیچک نہ ہوں

آنکھ کے آگے یہ بکّا نور کا

چشم بہنے سے کبھو رہتی نہیں

کچھ علاج  اے میرؔ اس ناسور کا

 

(۶۸۳)

 

نظر میں طور رکھ اس کم نما کا

بھروسا کیا ہے عمر بے وفا کا

۴۸۵۰

گلوں کے پیرہن ہیں چاک سارے

کھلا تھا کیا کہیں بند اس قبا کا

پرستش اب اسی بت کی ہے ہر سو

رہا ہو گا کوئی بندہ خدا کا

بلا ہیں قادر انداز اس کی آنکھیں

کیا یکہ جنازہ جس کو تاکا

بجا ہے عمر سے اب ایک حسرت

گیا وہ شور سر کا زور پا کا

ق

مداوا خاطروں سے تھا وگرنہ

بدایت مرتبہ تھا انتہا کا

۴۸۵۵

لگا تھا روگ جب سے یہ تبھی سے

اثر معلوم تھا ہم کو دوا کا

مروت چشم رکھنا سادگی ہے

نہیں شیوہ یہ اپنے آشنا کا

کہیں اس زلف سے کیا لگ چلی ہے

پڑے ہے پاؤں بے ڈھب کچھ صبا کا

نہ جا تو دور صوفی خانقہ سے

ہمیں تو پاس ہے ابر و ہوا کا

ق

نہ جانوں میرؔ کیوں ایسا ہے چپکا

نمونہ ہے یہ آشوب و بلا کا

۴۸۶۰

کرو دن ہی سے رخصت ورنہ شب کو

نہ سونے دے گا شور اس بے نوا کا

 

(۶۸۴)

وہ ترک مست کسو کی خبر نہیں رکھتا

کہ میں شکار زبوں ہوں جگر نہیں رکھتا

بلا سے آنکھ جو پڑتی ہے اس کی دس جاگہ

ہمارا حال تو مد نظر نہیں رکھتا

رہے نہ کیونکے یہ دل باختہ سدا تنہا

کہ کوئی آوے کہاں میں تو گھر نہیں رکھتا

جنھوں کے دم میں ہے تاثیر اور وے ہیں لوگ

ہمارا نالۂ جانکاہ اثر نہیں رکھتا

۴۸۶۵

کہیں ہیں اب کے بہت رنگ اڑ چلا گل کا

ہزار حیف کہ میں بال و پر نہیں رکھتا

تو کوئی زور ہی نسخہ ہے  اے مفرح دل

کہ طبع عشق میں ہرگز ضرر نہیں رکھتا

خدا کی اور سے ہے سب یہ اعتبار ارنہ

جو خوب دیکھو تو میں کچھ ہنر نہیں رکھتا

غلط ہے دعوی عشق اس فضول کا بے ریب

جو کوئی خشک لب اور چشم تر نہیں رکھتا

جدا جدا پھرے ہے میرؔ سب سے کس خاطر

خیال ملنے کا اس کے اگر نہیں رکھتا            ۴۸۷۰

(۶۸۵)

گیا میں جان سے وہ بھی جو ٹک آتا تو کیا ہوتا

قدم دو ساتھ میری نعش کے جاتا تو کیا ہوتا

پھرا تھا دور اس سے مدتوں میں کوہ و صحرا میں

بلا کر پاس اپنے مجھ کو بٹھلاتا تو کیا ہوتا

ہوئے آخر کو سارے کام ضائع نا شکیبی سے

کوئی دن اور تاب ہجر دل لاتا تو کیا ہوتا

دم بسمل ہمارے زیر لب کچھ کچھ کہا سب نے

جو وہ بے رحم بھی کچھ منھ سے فرماتا تو کیا ہوتا

کہے سے غیر کے وہ توڑ بیٹھا ووہیں یاروں سے

کیے جاتا اگر ٹک چاہ کا ناتا تو کیا ہوتا

۴۸۷۵

کبھو سرگرم بازی ہمدموں سے یاں بھی آ جاتا

ہمیں یک چند اگر وہ اور بہلاتا تو کیا ہوتا

گئے لے میرؔ کو کل قتل کرنے اس کے در پر سے

جو وہ بھی گھر سے باہر اپنے ٹک آتا تو کیا ہوتا

 

(۶۸۶)

 

میں غش کیا جو خط لے ادھر نامہ بر چلا

یعنی کہ فرط شوق سے جی بھی ادھر چلا

سدھ لے گئی تری بھی کوئی زلف مشک بو

گیسوئے پیچدار جو منھ پر بکھر چلا

لڑکا ہی تھا نہ قاتل نا کردہ خوں ہنوز

کپڑے گلے کے سارے مرے خوں میں بھر چلا

۴۸۸۰

اے مایۂ حیات گیا جس کنے سے تو

آفت رسیدہ پھر وہ کوئی دم میں مر چلا

تیاری آج رات کہیں رہنے کی سی ہے

کس خانماں خراب کے  اے مہ تو گھر چلا

دیکھو گے کوئی گوشہ نشیں ہو چکا غریب

تیرِ مژہ اس ابرو کماں کا اگر چلا

بے مے رہا بہار میں ساری ہزار حیف

لطف ہوا سے شیخ بہت بے خبر چلا

ہم سے تکلف اس کا چلا جائے ہے وہی

کل راہ میں ملا تھا سو منھ ڈھانپ کر چلا

۴۸۸۵

یہ چھیڑ دیکھ ہنس کے رخ زرد پر مرے

کہتا ہے میرؔ رنگ تو اب کچھ نکھر چلا

 

(۶۸۷)

وہ شوخ ہم کو پاؤں تلے ہے ملا کیا

اس دل نے کس بلا میں ہمیں مبتلا کیا

چھاتی کبھو نہ ٹھنڈی کی لگ کر گلے سے آہ

دل اس سے دور سینے میں اکثر جلا کیا

کس وقت شرح حال سے فرصت ہمیں ہوئی

کس دن نیا نہ قاصد ادھر سے چلا کیا

ہم تو گمان دوستی رکھتے تھے پر یہ دل

دشمن عجب طرح کا بغل میں پلا کیا

۴۸۹۰

کیا لطف ہے جیے جو برے حال کوئی میرؔ

جینے سے تو نے ہاتھ اٹھایا بھلا کیا

 

(۶۸۸)

 

اس موج خیز دہر میں تو ہے حباب سا

آنکھیں کھلیں تری تو یہ عالم ہے خواب سا

برقع اٹھا کے دیکھے ہے منھ سے کبھو ادھر

بارے ہوا ہے ان دنوں رفع حجاب سا

وہ دل کہ تیرے ہوتے رہے تھا بھرا بھرا

اب اس کو دیکھیے تو ہے اک گھر خراب سا

دس روز آگے دیکھا تھا جیسا سو اب نہیں

دل رہ گیا ہے سینے میں جل کر کباب سا

۴۸۹۵

اس عمر میں یہ ہوش کہ کہنے کو نرم گرم

بگڑا رہے ہے ساختہ مست شراب سا

ہے یہ فریب شوق کہ جاتے ہیں خط چلے

واں سے وگرنہ کب کا ہوا ہے جواب سا

کیا سطر موج اشک روانی کے ساتھ ہے

مشتاق گریہ ابر ہے چشم پر آب سا

دوزخ ہوا ہے ہجر میں اس کے جہاں ہمیں

سوز دروں سے جان پہ ہے اک عذاب سا

مدت ہوئی کہ دل سے قرار و سکوں گئے

رہتا ہے اب تو آٹھ پہر اضطراب سا

۴۹۰۰

مواج آب سا ہے ولیکن اڑے ہے خاک

ہے میرؔ بحر بے تہ ہستی سراب سا

 

(۶۸۹)

 

کب لطف زبانی کچھ اس غنچہ دہن کا تھا

برسوں ملے پر ہم سے صرفہ ہی سخن کا تھا

اسباب مہیا تھے سب مرنے ہی کے لیکن

اب تک نہ موئے ہم جو اندیشہ کفن کا تھا

بلبل کو موا پایا کل پھولوں کی دوکاں پر

اس مرغ کے بھی جی میں کیا شوق چمن کا تھا

بے ڈول قدم تیرا پڑتا تھا لڑکپن میں

رونا ہمیں اول ہی اس تیرے چلن کا تھا

۴۹۰۵

مرغان قفس سارے تسبیح میں تھے گل کی

ہر چند کہ ہر اک کا ڈھلکا ہوا منکا تھا

سب سطح ہے پانی کا آئینے کا سا تختہ

دریا میں کہیں شاید عکس اس کے بدن کا تھا

خوگر نہیں ہم یوں ہی کچھ ریختہ کہنے سے

معشوق جو اپنا تھا باشندہ دکن کا تھا

بھوؤں تئیں تم جس دن سج نکلے تھے اک پیچہ

اس دن ہی تمھیں دیکھے ماتھا مرا ٹھنکا تھا

رہ میرؔ غریبانہ جاتا تھا چلا روتا

ہر گام گلہ لب پر یاران وطن کا تھا

۴۹۱۰

 

(۶۹۰)

 

یہ روش ہے دلبروں کی نہ کسو سے ساز کرنا

کوئی خاک سے ہو یکساں وہی ان کو ناز کرنا

کوئی عاشقوں بتاں کی کرے نقل کیا معیشت

انھیں ناز کرتے رہنا انھیں جی نیاز کرنا

رہیں بند میری آنکھیں شب و روز ضعف ہی میں

نہ ہوا مجھے میسر کبھو چشم باز کرنا

یہ بھی طرفہ ماجرا ہے کہ اسی کو چاہتا ہوں

مجھے چاہیے ہے جس سے بہت احتراز کرنا

نہیں کچھ رہا تو لڑکا تجھے پر ضرور ہے اب

ہوس اور عاشقی میں ٹک اک امتیاز کرنا

۴۹۱۵

کوئی عاشقوں کی پھپٹ کنھوں نے اٹھائی بھی ہے

انھیں بات ہو جو تھوڑی اسے بھی دراز کرنا

یہی میرؔ کھینچے قشقہ در دیر پر تھے ساجد

نہیں اعتماد قابل انھوں کا نماز کرنا

 

(۶۹۱)

 

ایک آن  اس زمانے میں یہ دل نہ وا ہوا

کیا جانیے کہ میرؔ زمانے کو کیا ہوا

دکھلاتے کیا ہو دست حنائی کا مجھ کو رنگ

ہاتھوں سے میں تمھارے بہت ہوں جلا ہوا

سوزش وہی تھی چھاتی میں مرنے تلک مرے

اچھا ہوا نہ داغ جگر کا لگا ہوا

۴۹۲۰

سر ہی چڑھا رہے ہے ہر اک بادہ خوار کے

ہے شیخ شہر یا کوئی ہے جن پڑھا ہوا

ظاہر کو گو درست رکھا مر کے میں ولے

دل کا لگاؤ کوئی رہا ہے چھپا ہوا

از خویش رفتہ میں ہی نہیں اس کی راہ میں

آتا نہیں ہے پھر کے ادھر کا گیا ہوا

یوں پھر اٹھا نہ جائے گا  اے ابر دشت سے

گر کوئی رونے بیٹھ گیا دل بھرا ہوا

لے کر جواب خط کا نہ قاصد پھرا کبھو

کیا جانے سرنوشت میں کیا ہے لکھا ہوا

۴۹۲۵

گو پیس مارے مہندی کے رنگوں فلک ولے

چھوٹے نہ اس سے اس کا لگا یا بندھا ہوا

اٹھتے تعب فراق کے جی سے کہاں تلک

دل جو بجا رہا نہ ہمارا بجا ہوا

دامن سے منھ چھپائے جنوں کب رہا چھپا

سو جا سے سامنے ہے گریباں پھٹا ہوا

دیکھا نہ ایک گل کو بھی چشمک زنی میں ہائے

جب کچھ رہا نہ باغ میں تب میں رہا ہوا

کیا جانیے ملاپ کسے کہتے ہیں یہ لوگ

برسوں ہوئے کہ ہم سے تو وہ ہے لڑا ہوا

۴۹۳۰

بحر بلا سے کوئی نکلتا مرا جہاز

بارے خدائے عزَّوجل ناخدا ہوا

اس بحر میں اک اور غزل تو بھی میرؔ کہہ

دریا تھا تو تو تیری روانی کو کیا ہوا

 

(۶۹۲)

 

اس کام جان و دل سے جو کوئی جدا ہوا

دیکھا پھر اس کو خاک میں ہم نے ملا ہوا

کر ترک گرچہ بیٹھے ہیں پر ہے وہی تلاش

رہتا نہیں ہے ہاتھ ہمارا اٹھا ہوا

کھینچا بغل میں میں جو اسے مست پا کے رات

کہنے لگا کہ آپ کو بھی اب نشہ ہوا

۴۹۳۵

نے صبر ہے نہ ہوش ہے نے عقل ہے نہ دین

آتا ہے اس کے پاس سے عاشق لٹا ہوا

اٹھتا ہے میرے دل سے کبھو جوش سا تو پھر

جاتا ہے دونوں آنکھوں سے دریا بہا ہوا

جوں صید نیم کشتہ تڑپتا ہے ایک سا

کیا جانیے کہ دل کو مرے کیا بلا ہوا

خط آئے پر جو گرم وہ پرکار مل چلا

میں سادگی سے جانا کہ اب آشنا ہوا

ہم تو لگے کنارے ہوئے غیر ہم کنار

ایکوں کی عید ایکوں کے گھر میں دہا ہوا

۴۹۴۰

جوں برق مجھ کو ہنستے نہ دیکھا کسو نے آہ

پایا تو ابر سا کہیں روتا کھڑا ہوا

جس شعر پر سماع تھا کل خانقاہ میں

وہ آج میں سنا تو ہے میرا کہا ہوا

پایا مجھے رقیب نے آ اس کی زیر تیغ

دل خواہ بارے مدعی کا مدعا ہوا

بیمار مرگ سا تو نہیں روز اب بتر

دیکھا تھا ہم نے میرؔ کو کچھ تو بھلا ہوا

 

(۶۹۳)

 

کل دل آزردہ گلستاں سے گذر ہم نے کیا

گل لگے کہنے کہو منھ نہ ادھر ہم نے کیا

۴۹۴۵

کر گئی خواب سے بیدار تمھیں صبح کی باؤ

بے دماغ اتنے جو ہو ہم پہ مگر ہم نے کیا

سیدھے تلوار کے منھ پر تری ہم آئے چلے

کیا کریں اس دل خستہ کو سپر ہم نے کیا

نیمچہ ہاتھ میں مستی سے لہو سی آنکھیں

سج تری دیکھ کے  اے شوخ حذر ہم نے کیا

پاؤں کے نیچے کی مٹی بھی نہ ہو گی ہم سی

کیا کہیں عمر کو اس طرح بسر ہم نے کیا

کھا گیا ناخن سر تیز جگر دل دونوں

رات کی سینہ خراشی میں ہنر ہم نے کیا

۴۹۵۰

کام ان ہونٹوں سے وہ لے جو کوئی ہم سا ہو

دیکھتے دیکھتے ہی آنکھوں میں گھر ہم نے کیا

جیسے حسرت لیے جاتا ہے جہاں سے کوئی

آہ یوں کوچۂ دلبر سے سفر ہم نے کیا

بارے کل ٹھہر گئے ظالم خونخوار سے ہم

منصفی کیجے تو کچھ کم نہ جگر ہم نے کیا

اس رخ و زلف کی تسبیح ہے یاں اکثر میرؔ

ورد اپنا یہی اب شام و سحر ہم نے کیا

 

(۶۹۴)

اس قدر آنکھیں چھپاتا ہے تو  اے مغرور کیا

ٹک نظر ایدھر نہیں کہہ اس سے ہے منظور کیا

۴۹۵۵

وصل و ہجراں سے نہیں ہے عشق میں کچھ گفتگو

لاگ دل کی چاہیے ہے یاں قریب و دور کیا

ہو خرابی اور آبادی کی عاقل کو تمیز

ہم دوانے ہیں ہمیں ویران کیا معمور کیا

اٹھ نہیں سکتا ترے در سے شکایت کیا مری

حال میں اپنے ہوں عاجز میں مجھے مقدور کیا

سب ہیں یکساں جب فنا یک بارگی طاری ہوئی

ٹھیکرا اس مرتبے میں کیا سر فغفور کیا

لطف کے حرف و سخن پہلے جو تھے بہر فریب

مدتیں جاتی ہیں ان باتوں کا اب مذکور کیا

۴۹۶۰

دیکھ بہتی آنکھ میری ہنس کے بولا کل وہ شوخ

بہ نہیں اب تک ہوا منھ کا ترے ناسور کیا

میں تو دیکھوں ہوں تمھارے منھ کو تم نے دل لیا

تم مجھے رہتے ہو اکثر مجلسوں میں گھور کیا

ابر سا روتا جو میں نکلا تو بولا طنز سے

آرسی جا دیکھ گھر برسے ہے منھ پر نور کیا

سنگ بالیں میرؔ کا جو باٹ کا روڑا ہوا

سخت کر جی کو گیا اس جا سے وہ رنجور کیا

 

(۶۹۵)

جوں ابرقبلہ دل ہے نہایت ہی بھر رہا

رونا مرا سنو گے کہ طوفان کر رہا

۴۹۶۵

شب میکدے سے وارد مسجد ہوا تھا میں

پر شکر ہے کہ صبح تئیں بے خبر رہا

مل جس سے ایک بار نہ پھر تو ہوا دوچار

رک رک کے وہ ستم زدہ ناچار مر رہا

تسکین دل ہو تب کہ کبھو آ گیا بھی ہو

برسوں سے اس کا آنا یہی صبح پر رہا

اس زلف  و رخ کو بھولے مجھے مدتیں ہوئیں

لیکن مرا نہ گریۂ شام و سحر رہا

رہتے تو تھے مکاں پہ ولے آپ میں نہ تھے

اس بن ہمیں ہمیشہ وطن میں سفر رہا

۴۹۷۰

اب چھیڑ یہ رکھی ہے کہ پوچھے ہے بار بار

کچھ وجہ بھی کہ آپ کا منھ ہے اتر رہا

اک دم میں یہ عجب کہ مرے سر پہ پھر گیا

جو آب تیغ برسوں تری تا کمر رہا

کاہے کو میں نے میرؔ کو چھیڑا کہ ان نے آج

یہ درد دل کہا کہ مجھے درد سر رہا

 

(۶۹۶)

 

دل دفعتہً جنوں کا مہیا سا ہو گیا

دیکھی کہاں وہ زلف کہ سودا سا ہو گیا

ٹک جوش سا اٹھا تھا مرے دل سے رات کو

دیکھا تو ایک پل ہی میں دریا سا ہو گیا

۴۹۷۵

بے رونقی باغ ہے جنگل سے بھی پرے

گل سوکھ تیرے ہجر میں کانٹا سا ہو گیا

جلوہ ترا تھا جب تئیں باغ و بہار تھا

اب دل کو دیکھتے ہیں تو صحرا سا ہو گیا

کل تک تو ہم وے ہنستے چلے آئے تھے یوں ہی

مرنا بھی میرؔ جی کا تماشا سا ہو گیا

 

(۶۹۷)

دل کی واشد کے لیے کل باغ میں میں ٹک گیا

سن گلہ بلبل سے گل کا اور بھی جی رک گیا

عشق کی سوزش نے دل میں کچھ نہ چھوڑا کیا کہیں

لگ اٹھی یہ آگ ناگاہی کہ گھر سب پھک گیا

۴۹۸۰

ہم نہ کہتے تھے کہ غافل خاک ہو پیش از فنا

دیکھ اب پیری میں قد تیرا کدھر کو جھک گیا

خدمت معقول ہی سب مغبچے کرتے رہے

شیخ آیا میکدے کی اور جب تب ٹھک گیا

میرؔ اس قاضی کے لونڈے کے لیے آخر موا

سب کو قضیہ اس کے جینے کا تھا بارے چک گیا

 

(۶۹۸)

 

پھرتا ہے زندگی کے لیے آہ خوار کیا

اس وہم کی نمود کا ہے اعتبار کیا

کیا جانیں ہم اسیر قفس زاد  اے نسیم

گل کیسے باغ کہتے ہیں کس کو بہار کیا

۴۹۸۵

آنکھیں برنگ نقش قدم ہو گئیں سفید

پھر اور کوئی اس کا کرے انتظار کیا

سیکھی ہے طرح سینہ فگاری کی سب مری

لائے تھے ساتھ چاک دل ایسا انار کیا

سرکش کسو سے ایسی کدورت رکھے وہ شوخ

ہم اس کی خاک راہ ہیں ہم سے غبار کیا

نے وہ نگہ چبھی ہے نہ وے پلکیں گڑ گئیں

کیا جانیے کہ دل کو ہے یہ خار خار کیا

لیتا ہے ابر اب تئیں اس ناحیے سے آب

روئے ہیں ہم بھی برسوں تئیں زار زار کیا

۴۹۹۰

عاشق کے دل سے رکھ نہ تسلی کی چشم داشت

ہے برق پارہ یہ اسے آوے قرار کیا

صحبت رہی بگڑتی ہی اس کینہ ور سے آہ

ہم جانتے نہیں ہیں کہ ہوتا ہے پیار کیا

مارا ہو ایک دو کو تو ہو مدعی کوئی

کشتوں کا اس کے روز جزا میں شمار کیا

مدت سے جرگہ جرگہ سرتیر ہیں غزال

کم ہو گیا ہے یاروں کا ذوق شکار کیا

پاتے ہیں اپنے حال میں مجبور سب کو ہم

کہنے کو اختیار ہے پر اختیار کیا

۴۹۹۵

آخر زمانہ سازی سے کھویا نہ وقر میرؔ

یہ اختیار تم نے کیا روزگار کیا

 

(۶۹۹)

 

غنچہ ہی وہ دہان ہے گویا

ہونٹ پر رنگ پان ہے گویا

میرے مردے سے بھی وہ چونکے ہے

اب تلک مجھ میں جان ہے گویا

چاہیے جیتے گذرے اس کا نام

منھ میں جب تک زبان ہے گویا

سربسر کیں ہے لیک وہ پرکار

دیکھو تو مہربان ہے گویا

۵۰۰۰

حیرت روئے گل سے مرغ چمن

چپ ہے یوں بے زبان ہے گویا

مسجد ایسی بھری بھری کب ہے

میکدہ اک جہان ہے گویا

جائے ہے شور سے فلک کی طرف

نالۂ صبح بان ہے گویا

بسکہ ہیں اس غزل میں شعر بلند

یہ زمین آسمان ہے گویا

وہی شور مزاج شیب میں ہے

میرؔ اب  تک جوان ہے گویا

۵۰۰۵

 

(۷۰۰)

 

ان سختیوں میں کس کا میلان خواب پر تھا

بالیں کی جائے ہر شب یاں سنگ زیر سر تھا

ان ابرو و مژہ سے کب میرے جی میں ڈر تھا

تیغ و سناں کے منھ پر اکثر مرا جگر تھا

ان خوبصورتوں کا کچھ لطف کم ہے مجھ پر

یک عمر ورنہ اس جا پریوں ہی کا گذر تھا

تیشے سے کوہکن کے کیا طرفہ کام نکلا

اپنے تو ناخنوں میں اس طور کا ہنر تھا

عصمت کو اپنی واں تو روتے ملک پھریں ہیں

لغزش ہوئی جو مجھ سے کیا عیب میں بشر تھا

۵۰۱۰

کل ہم وہ دونوں یکجا ناگاہ ہو گئے تھے

وہ جیسے برق خاطف میں جیسے ابر تر تھا

ہوش اڑ گئے سبھوں کے شور سحر سے اس کے

مرغ چمن اگرچہ یک مشت بال و پر تھا

پھر آج یہ کہانی کل شب پہ رہ گئی ہے

سوتا نہ رہتا ٹک تو قصہ ہی مختصر تھا

رشک اس شہید کا ہے خضر و مسیح کو بھی

جو کشتہ اس کی جانب دو گام پیشتر تھا

ہشیاری اس کی دیکھو کیفی ہو مجھ کو مارا

تا سن کے سب کہیں یہ وہ مست و بے خبر تھا

۵۰۱۵

صد رنگ ہے خرابی کچھ تو بھی رہ گیا ہے

کیا نقل کریے یارو دل کوئی گھر سا گھر تھا

تھا وہ بھی اک زمانہ جب نالے آتشیں تھے

چاروں طرف سے جنگل جلتا دہر دہر تھا

جب نالہ کش ہوا وہ تب مجلسیں رلائیں

تھا میرؔ دل شکستہ یا کوئی نوحہ گر تھا

 

(۷۰۱)

 

تیغ لے کر کیوں تو عاشق پر گیا

زیر لب جب کچھ کہا وہ مر گیا

تڑپے زیر تیغ ہم بے ڈول آہ

دامن پاک اس کا خوں میں بھر گیا

۵۰۲۰

خاک ہے پکڑے اگر سونا بھی پھر

ہاتھ سے جس کے وہ سیمیں بر گیا

کیا بندھا ہے اس کے کوچے میں طلسم

پھر نہ آیا جو کوئی اودھر گیا

خانداں اس بن ہوئے کیا کیا خراب

آج تک وہ شوخ کس کے گھر گیا

ابرو و مژگاں ہی میں کاٹی ہے عمر

کیا سنان و تیغ سے میں ڈر گیا

کہتے ہیں ضائع کیا اپنے تئیں

میرؔ تو دانا تھا یہ کیا کر گیا

۵۰۲۵

 

(۷۰۲)

 

جی رک گئے  اے ہمدم دل خون ہو بھر آیا

اب ضبط کریں کب تک منھ تک تو جگر آیا

تھی چشم دم آخر وہ دیکھنے آوے گا

سو آنکھوں میں جی آیا پر وہ نہ نظر آیا

بے سدھ پڑے ہیں سارے سجادوں پہ اسلامی

دارو پیے وہ کافر کاہے کو ادھر آیا

ہر خستہ ترا خواہاں یک زخم دگر کا تھا

کی مشق ستم تو نے پر خون نہ کر آیا

گل برگ ہی کچھ تنہا پانی نہیں خجلت سے

جنبش سے ترے لب کی یاقوت بھی تر آیا

۵۰۳۰

بالفعل تو ہے قاصد محو اس خط و گیسو کا

ٹک چیتے تو ہم پوچھیں کیا لے کے خبر آیا

تابوت پہ بھی میرے پتھر پڑے لے جاتے

اس نخل میں ماتم کے کیا خوب ثمر آیا

ہے حق بہ طرف اس کے یوں جس کے گیا ہو تو

سج ایسی تری دیکھی ہم کو بھی خطر آیا

کیا کہیے کہ پتھر سے سر مارتے ہم گذرے

یوں اپنا زمانہ تو بن یار بسر آیا

صنعت گریاں ہم نے کیں سینکڑوں یاں لیکن

جس سے کبھو وہ ملتا ایسا نہ ہنر آیا

۵۰۳۵

در ہی کے تئیں تکتے پتھرا گئیں آنکھیں تو

وہ ظالم سنگیں دل کب میرؔ کے گھر آیا

 

(۷۰۳)

 

یار ہے میرؔ کا مگر گل سا

کہ سحر نالہ کش ہے بلبل سا

یاں کوئی اپنی جان دو دشوار

واں وہی ہے سو ہے تساہل سا

دود دل کو ہمارے ٹک دیکھو

یہ بھی پر پیچ اب ہے کاکل سا

شوق واں اس کے لمبے بالوں کا

یاں چلا جائے ہے تسلسل سا

۵۰۴۰

کب تھی جرأت رقیب کی اتنی

تم نے بھی کچھ کیا تغافل سا

اک نگہ ایک چشمک ایک سخن

اس میں بھی تم کو ہے تامل سا

بارے مستوں نے ہوشیاری کی

دے کے کچھ محتسب کا منھ جھلسا

شرم آتی ہے پہنچتے اودھر

خط ہوا شوق سے ترسل سا

ٹوٹی زنجیر پائے میرؔ مگر

رات سنتے رہے ہیں ہم غل سا

۵۰۴۵

(۷۰۴)

چمن میں جا کے جو میں گرم وصف یار ہوا

گل اشتیاق سے میرے گلے کا ہار ہوا

تمھارے ترکش مژگاں کی کیا کروں تعریف

جو تیر اس سے چلا سو جگر کے پار ہوا

ہماری خاک پہ اک بیکسی برستی ہے

ادھر سے ابر جب آیا تب اشکبار ہوا

کریں نہ کیونکے یہ ترکاں بلند پروازی

انھوں کا طائر سدرہ نشیں شکار ہوا

کبھو بھی اس کو تہ دل سے ملتے پایا پھر

فریب تھا وہ کوئی دن جو ہم سے یار ہوا

۵۰۵۰

بہت دنوں سے درونے میں اضطراب سا تھا

جگر تمام ہوا خون تب قرار ہوا

شکیب میرؔ جو کرتا تو وقر رہ جاتا

ادھر کو جا کے عبث یہ حبیب خوار ہوا

 

(۷۰۵)

ایک دل کو ہزار داغ لگا

اندرونے میں جیسے باغ لگا

اس سے یوں گل نے رنگ پکڑا ہے

شمع سے جیسے لیں چراغ لگا

خوبی یک پیچہ بند خوباں کی

خوب باندھوں گا گر دماغ لگا

۵۰۵۵

پاؤں دامن میں کھینچ لیں گے ہم

ہاتھ گر گوشۂ فراغ لگا

میرؔ اس بے نشاں کو پایا جان

کچھ ہمارا اگر سراغ لگا

 

(۷۰۶)

تیغ کی اپنی صفت لکھتے جو کل وہ آ گیا

ہنس کے اس پرچے کو میرے ہی گلے بندھوا گیا

دست و پا گم کرنے سے میرے کھلے اسرار عشق

دیکھ کر کھویا گیا سا مجھ کو ہر یک پا گیا

داغ محجوبی ہوں اس کا میں کہ میرے روبرو

عکس اپنا آرسی میں دیکھ کر شرما گیا

۵۰۶۰

ہم بشر عاجز ثبات پا ہمارا کس قدر

دیکھ کر اس کو ملک سے بھی نہ یاں ٹھہرا گیا

یار کے بالوں کا بندھنا قہر ہے پگڑی کے ساتھ

ایک عالم دوستاں اس پیچ میں مارا گیا

ہم نہ جانا اختلاط اس طفل بازی کوش کا

گرم بازی آ گیا تو ہم کو بھی بہلا گیا

کیا کروں ناچار ہوں مرنے کو اب تیار میں

دل کی روز و شب کی بیتابی سے جی گھبرا گیا

جی کوئی لگتا ہے اس کے اٹھ گئے پر باغ میں

گل نے بہتیرا کہا ہم سے نہ ٹک ٹھہرا گیا

۵۰۶۵

ہو گئے تحلیل سب اعضا مرے پا کر گداز

رفتہ رفتہ ہجر کا اندوہ مجھ کو کھا گیا

یوں تو کہتا تھا کوئی ویسے کو باندھے ہے گلے

پر وہ پھندنا سا جو آیا میرؔ بھی پھندلا گیا

 

(۷۰۷)

 

دل عشق میں خوں دیکھا آنکھوں کو گیا دیکھا

پیغمبر کنعاں نے دیکھا نہ کہ کیا دیکھا

مجروح ہے سب سینہ تس پر ہے نمک پاشی

آنکھوں کے لڑانے کا ہم خوب مزہ دیکھا

یک بار بھی آنکھ اپنی اس پر نہ پڑی مرتے

سو مرتبہ بالیں سے ہم سر کو اٹھا دیکھا

۵۰۷۰

کاہش کا مری اب یہ کیا تجھ کو تعجب ہے

بیماری دل والا کوئی بھی بھلا دیکھا

آنکھیں گئیں پھر تجھ بن کیا کیا نہ عزیزوں کی

پر تو نے مروت سے ٹک ان کو نہ جا دیکھا

جی دیتے ہیں مرنے پر سب شہر محبت میں

کچھ ساری خدائی سے یہ طور نیا دیکھا

کہہ دل کو گنوایا ہے یا رنج اٹھایا ہے

اے میرؔ تجھے ہم نے کچھ آج خفا دیکھا

 

(۷۰۸)

 

ناگہ جو وہ صنم ستم ایجاد آ گیا

دیکھے سے طور اس کے خدا یاد آ گیا

۵۰۷۵

پھوڑا تھا سر تو ہم نے بھی پر اس کو کیا کریں

جو چشم روزگار میں فرہاد آ گیا

اپنا بھی قصد تھا سردیوار باغ کا

توڑا ہی تھا قفس کو پہ صیاد آ گیا

جور و ستم اٹھانے ہی اس سے بنیں گے شیخ

مسجد میں گر وہ عاشق بیداد آ گیا

دیکھیں گے آدمی کی روش میرؔ ہم تری

گر سامنے سے ٹک وہ پری زاد آ گیا

 

(۷۰۹)

 

گرم مجھ سوختہ کے پاس سے جانا کیا تھا

آگ لینے مگر آئے تھے یہ آنا کیا تھا

۵۰۸۰

برسوں یک بوسۂ لب مانگتے جاتے ہیں ہمیں

رات آتے ہی کہا تم نے جو مانا کیا تھا

دیکھنے آئے دم نزع لیے منھ پہ نقاب

آخری وقت مرے منھ کا چھپانا کیا تھا

جب نہ تب مرنے کو تیار رہے عشق میں ہم

جی کے تیں اپنے کبھو ہم نے نہ جانا کیا تھا

مدعی ہوتے ہیں اک آن میں اب تو دلدار

مہر جب رسم تھی یارب وہ زمانہ کیا تھا

عزت و عشق کہاں جمع ہوئے  اے ہمدم

ننگ خواری تھا اگر دل کا لگانا کیا تھا

۵۰۸۵

گر خط سبز سے اس کے نہ تمھیں تھی کچھ لاگ

پھر بھلا میرؔ جی یہ زہر کا کھانا کیا تھا

 

(۷۱۰)

 

وارد گلشن غزل خواں وہ جو دلبر یاں ہوا

دامن گل گریۂ خونیں سے سب افشاں ہوا

طائران باغ کو تھا بیت بحثی کا دماغ

پر ہر اک درد سخن سے میرؔ کے نالاں ہوا

دل کی آبادی کو پہنچا اپنے گویا چشم زخم

دیکھتے ہی دیکھتے یہ شہر سب ویراں ہوا

سبز بختی پر ہے اس کی طائر سدرہ کو رشک

جو شکار اس تیغ کے سائے تلے بے جاں ہوا

۵۰۹۰

خاک پر بھی دوڑتی ہے چشم مہر و ماہ چرخ

کس دنی الطبع کے گھر جا کے میں مہماں ہوا

تھا جگر میں جب تلک قطرہ ہی تھا خوں کا سرشک

اب جو آنکھوں سے تجاوز کر چلا طوفاں ہوا

اس کے میرے بیچ میں آئینہ آیا تھا ولے

صورت احوال ساری دیکھ کر حیراں ہوا

دل نے خوں ہو عشق خوباں میں بھی کیا بدلے ہیں رنگ

چہروں کو غازہ ہوا ہونٹوں کا رنگ پاں ہوا

تم جو کل اس راہ نکلے برق سے ہنستے گئے

ابر کو دیکھو کہ جب آیا ادھر گریاں ہوا

۵۰۹۵

جی سے جانا بن گیا اس بن ہمیں پل مارتے

کام تو مشکل نظر آتا تھا پر آساں ہوا

جب سے ناموس جنوں گردن بندھا ہے تب سے میرؔ

جیب جاں وابستۂ زنجیر تا داماں ہوا

 

(۷۱۱)

 

آیا ہے ابر جب کا قبلے سے تیرا تیرا

مستی کے ذوق میں ہیں آنکھیں بہت ہی خیرا

خجلت سے ان لبوں کے پانی ہو بہ چلے ہیں

قند و نبات کا بھی نکلا ہے خوب شیرا

مجنوں نے حوصلے سے دیوانگی نہیں کی

جاگہ سے اپنی جانا اپنا نہیں وتیرا

۵۱۰۰

اس راہزن سے مل کر دل کیونکے کھو نہ بیٹھیں

انداز و ناز اچکّے غمزہ اٹھائی گیرا

کیا کم ہے ہولناکی صحرائے عاشقی کی

شیروں کو اس جگہ پر ہوتا ہے قشعریرا

آئینے کو بھی دیکھو پر ٹک ادھر بھی دیکھو

حیران چشم عاشق دمکے ہے جیسے ہیرا

نیت پہ سب بنا ہے یاں مسجد اک بڑی تھی

پیر مغاں موا سو اس کا بنا حظیرا

ہمراہ خوں تلک ہو ٹک پاؤں کے چھوئے سے

ایسا گناہ مجھ سے وہ کیا ہوا کبیرا

۵۱۰۵

غیرت سے میرؔ صاحب سب جذب ہو گئے تھے

نکلا نہ بوند لوہو سینہ جو ان کا چیرا

 

(۷۱۲)

 

یاں اپنی آنکھیں پھر گئیں پر وہ نہ آ پھرا

دیکھا نہ بدگمان ہمارا بھلا پھرا

آیا نہ پھر وہ آئینہ رو ٹک نظر مجھے

میں منھ پر اپنے خاک ملے جا بہ جا پھرا

کیا اور جی رندھے کسو کا تیرے ہجر میں

سو بار اپنے منھ سے جگر تو گیا پھرا

اللہ رے دلکشی کہیں دیکھا جو گرم ناز

جوں سایہ اس کے ساتھ ملک پھر لگا پھرا

۵۱۱۰

سن لیجو ایک بار مسافر ہی ہو گیا

بیمار عشق گور سے گو بارہا پھرا

کہہ وہ شکستہ پا ہمہ حسرت نہ کیونکے جائے

جو ایک دن نہ تیری گلی میں چلا پھرا

طالع پھرے سپہر پھرا قلب پھر گئے

چندے وہ رشک ماہ جو ہم سے جدا پھرا

پر بے نمک ہے ملنے کی اس وقت میں تلاش

بارے وہ ربط و دوستی سب کا مزہ پھرا

آنسو گرا نہ راز محبت کا پاس کر

میں جیسے ابر برسوں تئیں دل بھرا پھرا

۵۱۱۵

بے صرفہ رونے لگ گئے ہم بھی اگر کبھو

تو دیکھیو کہ بادیہ سارا بہا پھرا

بندہ ہے پھر کہاں کا جو صاحب ہو بے دماغ

اس سے خدائی پھرتی ہے جس سے خدا پھرا

خانہ خراب میرؔ بھی کتنا غیور تھا

مرتے موا پر اس کے کبھو گھر نہ جا پھرا

 

(۷۱۳)

 

پھریے کب تک شہر میں اب سوئے صحرا رو کیا

کام اپنا اس جنوں میں ہم نے بھی یک سو کیا

عشق نے کیا کیا تصرف یاں کیے ہیں آج کل

چشم کو پانی کیا سب دل کو سب لوہو کیا

۵۱۲۰

نکہت خوش اس کے پنڈے کی سی آتی ہے مجھے

اس سبب گل کو چمن کے دیر میں نے بو کیا

کام میں قدرت کے کچھ بولا نہیں جاتا ہے ہائے

خوبرو اس کو کیا لیکن بہت بد خو کیا

جانا اس آرام گہ سے ہے بعینہ بس یہی

جیسے سوتے سوتے ایدھر سے ادھر پہلو کیا

عزلتی اسلام کے کیا کیا پھرے ہیں جیب چاک

تو نے مائل کیوں ادھر کو گوشۂ ابرو کیا

وہ اتوکش کا مجھی پر کیا ہے سرگرم جفا

مارے تلواروں کے ان نے بہتوں کو اتو کیا

۵۱۲۵

ہاتھ پر رکھ ہاتھ اب وہ دو قدم چلتا نہیں

جن نے بالش خواب کا برسوں مرا بازو کیا

پھول نرگس کا لیے بھیچک کھڑا تھا راہ میں

کس کی چشم پرفسوں نے میرؔ کو جادو کیا

 

(۷۱۴)

عاشق ترے لاکھوں ہوئے مجھ سا نہ پھر پیدا ہوا

تجھ پر کوئی  اے کام جاں دیکھا نہ یوں مرتا ہوا

مدت ہوئی الفت گئی برسوں ہوئے طاقت گئی

دل مضطرب ایسا نہ تھا کیا جانیے اب کیا ہوا

کل صبح سیر باغ میں دل اور میرا رک گیا

بلبل نہ بولا منھ سے کچھ گل ٹک نہ مجھ سے وا ہوا

۵۱۳۰

وے دن گئے جو یاں کبھو اٹھتا تھا دل سے جوش سا

اب لگ گئے رونے جہاں پل مارتے دریا ہوا

کتنوں کے دل بے جاں ہوئے کتنے نہ جانا کیا ہوئے

چلنے میں اس کے دو قدم ہنگامہ اک برپا ہوا

مستی میں لغزش ہو گئی معذور رکھا چاہیے

اے اہل مسجد اس طرف آیا ہوں میں بہکا ہوا

جوں حسن ہے اک فتنہ گر توں عشق بھی ہے پردہ در

وہ شہرۂ عالم ہوا میں خلق میں رسوا ہوا

فرہاد و مجنوں ووں گئے ہم اور وامق یوں چلے

اس عارضے سے چاہ کے وہ کون سا اچھا ہوا

۵۱۳۵

یا حرف خط ہے درمیاں یا گیسوؤں کا ہے بیاں

کیا میرؔ صاحب کے تئیں پھر ان دنوں سودا ہوا

 

(۷۱۵)

تمام روز جو کل میں پیے شراب پھرا

بسان جام لیے دیدۂ پر آب پھرا

اثر بن آہ کے وہ منھ ادھر نہ ہوتا تھا

ہوا پھری ہے مگر کچھ کہ آفتاب پھرا

نہ لکھے خط کی نمط ہو گئیں سفید آنکھیں

تجھے بھی عشق ہے قاصد بھلا شتاب پھرا

وہ رشک گنج ہی نایاب تھا بہت ورنہ

خرابہ کون سا جس میں نہ میں خراب پھرا

۵۱۴۰

کسو سے حرف محبت کا فائدہ نہ ہوا

بغل میں میں تو لیے یاں بہت کتاب پھرا

لکھا تو دیکھ کہ قاصد پھرا جو مدت میں

جواب خط کا مرے صاف بے جواب پھرا

کہیں ٹھہرنے کی جا یاں نہ دیکھی میں نے میرؔ

چمن میں عالم امکاں کے جیسے آب پھرا

 

(۷۱۶)

لے رنگ بے ثباتی یہ گلستاں بنایا

بلبل نے کیا سمجھ کر یاں آشیاں بنایا

اڑتی ہے خاک یارب شام و سحر جہاں میں

کس کے غبار دل سے یہ خاکداں بنایا

۵۱۴۵

اک رنگ پر نہ رہنا یاں کا عجب نہیں ہے

کیا کیا نہ رنگ لائے تب یہ جہاں بنایا

آئینے میں کہاں ہے ایسی صفا کہے تو

جبہوں سے راستوں کے وہ آستاں بنایا

سرگشتہ ایسی کس کی ہاتھ آ گئی تھی مٹی

جو چرخ زن قضا نے یہ آسماں بنایا

نقش قدم سے اس کے گلشن کی طرح ڈالی

گرد رہ اس کی لے کر سرو رواں بنایا

ہونے پہ جمع اپنے پھولا بہت تھا لیکن

کیا غنچہ تنگ آیا جب وہ دہاں بنایا

۵۱۵۰

اس صحن پر یہ وسعت اللہ رے تیری صنعت

معمار نے قضا کے دل کیا مکاں بنایا

ق

دل ٹک ادھر نہ آیا ایدھر سے کچھ نہ پایا

کہنے کو ترک لے کر اک سوانگ یاں بنایا

دریوزہ کرتے گذری گلیوں میں عمر اپنی

درویش کب ہوئے ہم تکیہ کہاں بنایا

وہ تو مٹا گیا تھا تربت بھی میرؔ جی کی

دو چار اینٹیں رکھ کر پھر میں نشاں بنایا

 

 

 

(۷۱۷)

 

اس کام جان و دل نے عالم کا جان مارا

زلفوں کی درہمی سے برہم جہان مارا

۵۱۵۵

بلبل کا آتشیں دم دل کو لگا ہمارے

ایسا کنھوں نے جیسے چھاتی میں بان مارا

خوں کچھ نہ تھا ہمارا مرکوز خاطر اس کو

للہ اک ہمیں بھی یوں درمیان مارا

سرچشمہ حسن کا وہ آیا نظر نہ مجھ کو

اس راہزن نے غافل کیا کاروان مارا

صبر و حواس و دانش سب عشق کے زبوں ہیں

میں کاوش مژہ سے عالم کو چھان مارا

کیا خون کا مزہ ہے  اے عشق تجھ کو ظالم

ایک ایک دم میں تو نے سو سو جوان مارا

۵۱۶۰

ہم عاجزوں پر آ کر یوں کوہ غم گرا ہے

جیسے زمیں کے اوپر اک آسمان مارا

کب جی بچے ہے یارو خوش رو و مو بتاں سے

گر صبح بچ گیا تو پھر شام آن مارا

کہتے نہ تھے کہ صاحب اتنا کڑھا نہ کریے

اس غم نے میرؔ تم کو جی سے ندان مارا

 

(۷۱۸)

 

یہ میرؔ ستم کشتہ کسو وقت جواں تھا

انداز سخن کا سبب شور و فغاں تھا

جادو کی پڑی پرچۂ ابیات تھا اس کا

منھ تکیے غزل پڑھتے عجب سحر بیاں تھا

۵۱۶۵

جس راہ سے وہ دل زدہ دلی میں نکلتا

ساتھ اس کے قیامت کا سا ہنگامہ رواں تھا

افسردہ نہ تھا ایسا کہ جوں آب زدہ خاک

آندھی تھی بلا تھا کوئی آشوب جہاں تھا

کس مرتبہ تھی حسرت دیدار مرے ساتھ

جو پھول مری خاک سے نکلا نگراں تھا

مجنوں کو عبث دعوی وحشت ہے مجھی سے

جس دن کہ جنوں مجھ کو ہوا تھا وہ کہاں تھا

غافل تھے ہم احوال دل خستہ سے اپنے

وہ گنج اسی کنج خرابی میں نہاں تھا

۵۱۷۰

کس زور سے فرہاد نے خارا شکنی کی

ہر چند کہ وہ بے کس و بے تاب و تواں تھا

گو میرؔ جہاں میں کنھوں نے تجھ کو نہ جانا

موجود نہ تھا تو تو کہاں نام و نشاں تھا

 

(۷۱۹)

 

عشق کو بیچ میں یارب تو نہ لایا ہوتا

یا تن آدمی میں دل نہ بنایا ہوتا

دل نہ تھا ایسی جگہ جس کی نہ سدھ لیجے کبھو

اجڑی اس بستی کو پھر تو نے بسایا ہوتا

عزت اسلام کی کچھ رکھ لی خدا نے ورنہ

زلف نے تیری تو زنار بندھایا ہوتا

۵۱۷۵

گھر کے آگے سے ترے نعش گئی عاشق کی

اپنے دروازے تلک تو بھی تو آیا ہوتا

جو ہے سو بے خود رفتار ہے تیرا  اے شوخ

اس روش سے نہ قدم تو نے اٹھایا ہوتا

اب تو صد چند ستم کرنے لگے تم  اے کاش

عشق اپنا نہ تمھیں میں نے جتایا ہوتا

دل سے خوش طرح مکاں پھر بھی کہیں بنتے ہیں

اس عمارت کو ٹک اک دیکھ کے ڈھایا ہوتا

دل پہ رکھتا ہوں کبھو سر سے کبھو ماروں ہوں

ہاتھ پاؤں کو نہ میں تیرے لگایا ہوتا

۵۱۸۰

کم کم اٹھتا وہ نقاب آہ کہ طاقت رہتی

کاش یک بار ہمیں منھ نہ دکھایا ہوتا

میرؔ اظہار محبت میں گیا جی نہ ترا

ہائے نادان بہت تو نے چھپایا ہوتا

 

(۷۲۰)

 

مکث طالع دیکھ وہ ایدھر کو چل کر رہ گیا

رات جو تھی چاند سا گھر سے نکل کر رہ گیا

خواب میں کل پاؤں اپنے دوست کے ملتا تھا میں

آنکھ دشمن کھل گئی سو ہاتھ مل کر رہ گیا

ہم تو تھے سرگرم پابوسی خدا نے خیر کی

نیمچہ کل خوش غلاف اس کا اگل کر رہ گیا

۵۱۸۵

ہم بھی دنیا کی طلب میں سر کے بل ہوتے کھڑے

بارے اپنا پاؤں اس رہ میں بچل کر رہ گیا

کیا کہوں بیتابی شب سے کہ ناچار اس بغیر

دل مرے سینے میں دو دو ہاتھ اچھل کر رہ گیا

کیا ہمیں کو یار کے تیغے نے کھا کر دم لیا

ایسے بہتیروں کو یہ اژدر نگل کر رہ گیا

دو قدم ساتھ اس جفا جو کے چلا جاتا ہے جی

بوالہوس عیار تھا دیکھا نہ ٹل کر رہ گیا

آنکھ کچھ اپنی ہی اس کے سامنے ہوتی نہیں

جن نے وہ خونخوار سج دیکھی دہل کر رہ گیا

۵۱۹۰

ایک ڈھیری راکھ کی تھی صبح جائے میرؔ پر

برسوں سے جلتا تھا شاید رات جل کر رہ گیا

 

(۷۲۱)

 

طریق خوب ہے آپس میں آشنائی کا

نہ پیش آوے اگر مرحلہ جدائی کا

ہوا ہے کنج قفس ہی کی بے پری میں خوب

کہ پر کے سال تلک لطف تھا رہائی کا

یہیں ہیں دیر و حرم اب تو یہ حقیقت ہے

دماغ کس کو ہے ہر در کی جبہ سائی کا

نہ پوچھ مہندی لگانے کی خوبیاں اپنی

جگر ہے خستہ ترے پنجۂ حنائی کا

۵۱۹۵

نہیں جہان میں کس طرف گفتگو دل سے

یہ ایک قطرۂ خوں ہے طرف خدائی کا

کسو پہاڑ میں جوں کوہکن سر اب ماریں

خیال ہم کو بھی ہے بخت آزمائی کا

بجا رہا نہ دل شیخ شور محشر سے

جگر بھی چاہے ہے کچھ تھامنا اوائی کا

رکھا ہے باز ہمیں در بدر کے پھرنے سے

سروں پہ اپنے ہے احساں شکستہ پائی کا

ملا کہیں تو دکھا دیں گے عشق کا جنگل

بہت ہی خضر کو غرہ ہے رہنمائی کا

۵۲۰۰

نہ انس مجھ سے ہوا اس کو میں ہزار کہا

جگر میں داغ ہے اس گل کی بیوفائی کا

جہاں سے میرؔ ہی کے ساتھ جانا تھا لیکن

کوئی شریک نہیں ہے کسو کی آئی کا

 

(۷۲۲)

 

یہ رفتگی بھی ہوتی ہے جی ہی چلا گیا

کل حال میرؔ دیکھ کے غش مجھ کو آ گیا

کیا کہیے ایک عمر میں وے لب ہلے تھے کچھ

سو بات پان کھاتے ہوئے وہ چبا گیا

ثابت ہے اس کے پہلو سے پہنچے ہے ہم کو رنج

دیکھا نہ درد دل کے کہے سر جھکا گیا

۵۲۰۵

نالاں ہے عندلیب گل آشفتہ رفتہ سرو

ٹک بیٹھ کر چمن میں وہ فتنہ اٹھا گیا

پڑھتا تھا میں تو سجہ لیے ہاتھ میں درود

صلواتیں مجھ کو آ کے وہ ناحق سنا گیا

رکھنا نشان قبر کا میری نہ خوش کیا

آیا سو اور خاک میں مجھ کو ملا گیا

منصف ہو تو ہی شیخ کہ اس مست ناز بن

ہم آپ سے بھلا گئے تجھ سے رہا گیا

ہرگز بجھی نہ سر سے لگی آہ عشق میں

مانند شمع داغ ہی سب ہم کو کھا گیا

۵۲۱۰

کیوں میں کہا کہ ہنس کے نمک زخم پر چھڑک

بے لطف اس کے ہونے میں سارا مزہ گیا

آنسو تو ڈر سے پی گئے لیکن وہ قطرہ آب

اک آگ تن بدن میں ہمارے لگا گیا

وقت اخیر کیا یہ ادا تھی کہ غش سے میں

جب آنکھ کھولی بالوں میں منھ کو چھپا گیا

کیا پوچھتے ہو داغ کیا مرگ میرؔ نے

مر کر وہ سینہ سوختہ چھاتی جلا گیا

 

(۷۲۳)

 

سوز دروں سے آخر بھسمنت دل کو پایا

اس آگ نے بھڑک کر دربست گھر جلایا

۵۲۱۵

جی دے کے لیتے ایسے معشوق بے بدل کو

یوسفؑ عزیز دلہا سستا بہت بکایا

زلف سیاہ اس کی جاتی نہیں نظر سے

اس چشم رو سیہ نے روز سیہ دکھایا

نام اس کا سن کے آنسو گر ہی پڑے پلک سے

دل کا لگاؤ یارو چھپتا نہیں چھپایا

تھا لطف زیست جن سے وے اب نہیں میسر

مدت ہوئی کہ ہم نے جینے سے ہاتھ اٹھایا

مہندی لگی تھی تیرے پاؤں میں کیا پیارے

ہنگام خون عاشق سر پر جو تو نہ آیا

۵۲۲۰

یہ پیروی کسو سے کاہے کو ہوسکے ہے

رکھتا ہے داغ ہم کو قامت کا اس کی سایا

دیکھی نہ پیش جاتے ہرگز خرد وری میں

دانستہ باؤلا ہم اپنے تئیں بنایا

رہتی تھی بے دماغی اک شور ما و من میں

آنکھوں کے مند گئے پر آرام سا تو پایا

گل پھول سے بھی تو جو لیتا ہے منھ کو پھیرے

مکھڑے سے کس کے تو نے  اے میرؔ دل لگایا

 

(۷۲۴)

نکتہ مشتاق و یار ہے اپنا

شاعری تو شعار ہے اپنا

۵۲۲۵

بے خودی لے گئی کہاں ہم کو

دیر سے انتظار ہے اپنا

روتے پھرتے ہیں ساری ساری رات

اب یہی روزگار ہے اپنا

دے کے دل ہم جو ہو گئے مجبور

اس میں کیا اختیار ہے اپنا

کچھ نہیں ہم مثال عنقا لیک

شہر شہر اشتہار ہے اپنا

جس کو تم آسمان کہتے ہو

سو دلوں کا غبار ہے اپنا

۵۲۳۰

صرفہ آزار میرؔ میں نہ کرو

خستہ اپنا ہے زار ہے اپنا

 

(۷۲۵)

روکش ہوا جو شب وہ بالائے بام نکلا

ماہ تمام یارو کیا ناتمام نکلا

ہو گوشہ گیر شہرت مد نظر اگر ہے

عنقا کی طرح اپنا عزلت سے نام نکلا

تھا جن کو عاشقی میں دعوائے پختہ مغزی

سودا انھوں کا آخر دیکھا تو خام نکلا

نومید قیس پایا ناکام کوہکن کو

اس عشق فتنہ گر سے وہ کس کا کام نکلا

۵۲۳۵

کیونکر نہ مر رہے جو بیتاب میرؔ سا ہو

ایک آدھ دن تو گھر سے دل تھام تھام نکلا

 

(۷۲۶)

کیا کہیں کچھ کہا نہیں جاتا

اب تو چپ بھی رہا نہیں جاتا

غم میں جاتی ہے عمر دہ روزہ

اپنے ہاں سے دہا نہیں جاتا

طاقت دل تلک تعب کھینچے

اب ستم ٹک سہا نہیں جاتا

اس در تر کا حیرتی ہے بحر

تب تو اس سے بہا نہیں جاتا

۵۲۴۰

کب تری رہ میں میرؔ گرد آلود

لوہو میں آ نہا نہیں جاتا

 

(۷۲۷)

 

کجی اس کی جو میں جتانے لگا

مجھے سیدھیاں وہ سنانے لگا

تحمل نہ تھا جس کو ٹک سو وہ میں

ستم کیسے کیسے اٹھانے لگا

رندھے عشق میں کوئی یوں کب تلک

جگر آہ منھ تک تو آنے لگا

پریشاں ہیں اس وقت میں نیک و بد

موا جو کوئی وہ ٹھکانے لگا

۵۲۴۵

کروں یاد اسے ہوں جو میں آپ میں

سو یاں جی ہی اب بھول جانے لگا

پس از عمر اودھر گئی تھی نگاہ

سو آنکھیں وہ مجھ کو دکھانے لگا

نہیں رہتے عاقل علاقے بغیر

کہیں میرؔ دل کو دوانے لگا

 

(۷۲۸)

 

اللہ رے غرور و ناز تیرا

مطلق نہیں ہم سے ساز تیرا

ہم سے کہ تجھی کو جانتے ہیں

جاتا نہیں احتراز تیرا

۵۲۵۰

مل جن سے شراب تو پیے ہے

کہہ دیتے ہیں وہ ہی راز تیرا

کچھ عشق و ہوس میں فرق بھی کر

کیدھر ہے وہ امتیاز تیرا

کہتے نہ تھے  میرؔ مت کڑھا کر

دل ہو نہ گیا گداز تیرا

 

(۷۲۹)

 

آنسو مری آنکھوں میں ہر دم جو نہ آ جاتا

تو کام مرا اچھا پردے میں چلا جاتا

اصلح ہے حجاب اس کا ہم شوق کے ماروں سے

بے پردہ جو وہ ہوتا تو کس سے رہا جاتا

۵۲۵۵

طفلی کی ادا تیری جاتی نہیں یہ جی سے

ہم دیکھتے تجھ کو تو تو منھ کو چھپا جاتا

صد شکر کہ داغ دل افسردہ ہوا ورنہ

یہ شعلہ بھڑکتا تو گھر بار جلا جاتا

کہتے تو ہو یوں کہتے یوں کہتے جو وہ آتا

یہ کہنے کی باتیں ہیں کچھ بھی نہ کہا جاتا

ان آنکھوں سے ہم چشمی بر جا ہے جو میں جل کر

بادام کو کل یارو مجلس ہی میں کھا جاتا

صحبت سگ و آہو کی یک عمر رہی باہم

وہ بھاگتا مجھ سے تو میں اس سے لگا جاتا

۵۲۶۰

گر عشق نہیں ہے تو یہ کیا ہے بھلا مجھ کو

جی خودبخود  اے ہمدم کاہے کو کھپا جاتا

جوں ابر نہ تھم سکتا آنکھوں کا مری جھمکا

جوں برق اگر وہ بھی جھمکی سی دکھا جاتا

تکلیف  نہ کی ہم نے اس وحشی کو مرنے کی

تھا میرؔ تو ایسا بھی دل جی سے اٹھا جاتا

 

(۷۳۰)

 

بالقوہ ٹک دکھایئے چشم پر آب کا

دامن پکڑ کے رویئے یک دم سحاب کا

جو کچھ نظر پڑے ہے حقیقت میں کچھ نہیں

عالم میں خوب دیکھو تو عالم ہے خواب کا

۵۲۶۵

دریا دلی جنھیں ہے نہیں ہوتے کاسہ لیس

دیکھا ہے واژگوں ہی پیالہ حباب کا

شاید کہ قلب یار بھی ٹک اس طرف پھرے

میں منتظر زمانے کے ہوں انقلاب کا

بارے نقاب دن کو جو رکھتا ہے منھ پہ تو

پردہ سا رہ گیا ہے کچھ اک آفتاب کا

تلوار بن نکلتے نہیں گھر سے ایک دم

خوں کر رہو گے تم کسو خانہ خراب کا

یہ ہوش دیکھ آگے مرے ساتھ غیر کے

رکھتا ہے پاؤں مست ہو جیسے شراب کا

۵۲۷۰

مجنوں میں اور مجھ میں کرے کیوں نہ فرق عشق

چھپتا نہیں مزہ تو جلے سے کباب کا

رو فرصت جوانی پہ جوں ابر بے خبر

انداز برق کا سا ہے عہد شباب کا

واں سے تو نامہ بر کو ہے کب کا جواب صاف

میں سادگی سے لاگو ہوں خط کے جواب کا

ٹپکا کرے ہے زہر ہی صرف اس نگاہ سے

وہ چشم گھر ہے غصہ و ناز و عتاب کا

لائق تھا ریجھنے ہی کے مصراع قد یار

میں معتقد ہوں میرؔ ترے انتخاب کا           ۵۲۷۵

(۷۳۱)

 

خندۂ دنداں نما کرتا جو وہ کافر گیا

گوہر تر جوں سرشک آنکھوں سے سب کی گر گیا

کیا گذر کوئے محبت میں ہنسی ہے کھیل ہے

پاؤں رکھا جس نے ٹک اودھر پھر اس کا سر گیا

کیا کوئی زیر فلک اونچا کرے فرق غرور

ایک پتھر حادثے کا  آ لگا سر چر گیا

نیزہ بازان مژہ میں دل کی حالت کیا کہوں

ایک ناکسبی سپاہی دکھنیوں میں گھر گیا

بعد مدت اس طرف لایا تھا اس کو جذب عشق

بخت کی برگشتگی سے آتے آتے پھر گیا

۵۲۸۰

تیز دست اتنا نہیں وہ ظلم میں اب فرق ہے

یعنی لوہا تھا کڑا تیغ ستم کا کر گیا

سخت ہم کو میرؔ کے مر جانے کا افسوس ہے

تم نے دل پتھر کیا وہ جان سے آخر گیا

 

(۷۳۲)

 

اس بد زباں نے صرف سخن آہ کب کیا

چپکے ہی چپکے ان نے ہمیں جاں بلب کیا

طاقت سے میرے دل کی خبر تجھ کو کیا نہ تھی

ظالم نگاہ خشم ادھر کی غضب کیا

یکساں کیا نہیں ہے ہمیں خاک رہ سے آج

ایسا ہی کچھ سلوک کیا ان نے جب کیا

۵۲۸۵

عمامہ لے کے شیخ کہیں میکدے سے جا

بس مغبچوں نے حد سے زیادہ ادب کیا

اس رخ سے دل اٹھایا تو زلفوں میں جا پھنسا

القصہ اپنے روز کو ہم نے بھی شب کیا

ظاہر ہوا نہ مجھ پہ کچھ اس ظلم کا سبب

کیا جانوں خون ان نے مرا کس سبب کیا

کچھ آگے آئے ہوتے جو منظور لطف تھا

ہم جی سے اپنے جا چکے تم قصد تب کیا

بچھڑے تمھارے اپنا عجب حال ہو گیا

جس کی نگاہ پڑ گئی ان نے عجب کیا

۵۲۹۰

برسوں سے اپنے دل کی ہے دل میں کہ یار نے

اک دن جدا نہ غیر سے ہم کو طلب کیا

کی زندگی سو وہ کی موئے اب سو اس طرح

جو کام میرؔ جی نے کیا سو کڈھب کیا

 

(۷۳۳)

 

اب چھاتی کے جلنے نے کچھ طور بدل ڈالا

سب درد ہو شدت کا اس دل ہی کو دل ڈالا

ہم عاجزوں کا کھونا مشکل نہیں ہے ایسا

کچھ چونٹیوں کو لے کر پاؤں تلے مل ڈالا

اٹھکھیلی کی بھی اس کی دل تاب نہیں لاتا

کیا پگڑی کے پیچوں میں لے بالوں کو بل ڈالا

۵۲۹۵

تشویش سے اب خالی کس دن ہے مزاج اپنا

اس دل کی خلش نے بھی کیا آہ خلل ڈالا

مجھ مست کو کیا نسبت  اے میرؔ مسائل سے

منھ شیخ کا مسجد میں میں رک کے مسل ڈالا

 

(۷۳۴)

طوفان میرے رونے سے آخر کو ہو رہا

یوناں کی طرح بستی یہ سب میں ڈبو رہا

بہتوں نے چاہا کہیے پہ کوئی نہ کہہ سکا

احوال عاشقی کا مری گومگو رہا

آخر موا ہی واں سے نکلتا سنا اسے

کوچے میں اس کے جا کے ستم دید جو رہا

۵۳۰۰

آنسو تھما نہ جب سے گیا وہ نگاہ سے

پایان کار آنکھوں کو اپنی میں رو رہا

کیا بے شریک زندگی کی شیخ شہر نے

نبّاش بھی وہی تھا وہی مردہ شو رہا

یاروں نے جل کے مردے سے میرے کیا خطاب

روتے تھے ہم تو دل ہی کو تو جی بھی کھو رہا

جب رات سر پٹکنے نے تاثیر کچھ نہ کی

ناچار میرؔ منڈکری سی مار سو رہا

 

(۷۳۵)

لعل پر کب دل مرا مائل ہوا

اس لب خاموش کا قائل ہوا

۵۳۰۵

لڑ گئیں آنکھیں اٹھائی دل نے چوٹ

یہ تماشائی عبث گھائل ہوا

نا شکیبی سے گئی ناموس فقر

عاقبت بوسے کا میں سائل ہوا

ایک تھے ہم وے نہ ہوتے ہست اگر

اپنا ہونا بیچ میں حائل ہوا

میرؔ ہم کس ذیل میں دیکھ اس کی آنکھ

ہوش اہل قدس کا زائل ہوا

 

(۷۳۶)

کوئی فقیر یہ  اے کاشکے دعا کرتا

کہ مجھ کو اس کی گلی کا خدا گدا کرتا

۵۳۱۰

کبھو جو آن کے ہم سے بھی تو ملا کرتا

تو تیرے جی میں مخالف نہ اتنی جا کرتا

چمن میں پھول گل اب کے ہزار رنگ کھلے

دماغ کاش کہ اپنا بھی ٹک وفا کرتا

فقیر بستی میں تھا تو ترا زیاں کیا تھا

کبھو جو آن نکلتا کوئی صدا کرتا

علاج عشق نے ایسا کیا نہ تھا اس کا

جو کوئی اور بھی مجنوں کی کچھ دوا کرتا

قدم کے چھونے سے استادگی مجھی سے ہوئی

کبھو وہ یوں تو مرے ہاتھ بھی لگا کرتا

۵۳۱۵

بدی نتیجہ ہے نیکی کا اس زمانے میں

بھلا کسو سے جو کرتا تو تو برا کرتا

تلاطم آنکھ کے صد رنگ رہتے تھے تجھ بن

کبھو کبھو جو یہ دریائے خوں چڑھا کرتا

کہاں سے نکلی یہ آتش نہ مانتا تھا میں

شروع ربط میں اس کے جو دل جلا کرتا

گلی سے یار کی ہم لے گئے سر پر شور

وگرنہ شام سے ہنگامہ ہی رہا کرتا

خراب مجھ کو کیا دل کی لاگ نے ورنہ

فقیر تکیے سے کاہے کو یوں اٹھا کرتا

۵۳۲۰

گئے پہ تیرے نہ تھا ہم نفس کوئی  اے گل

کبھو نسیم سے میں درد دل کہا کرتا

کہیں کی خاک کوئی منھ پہ کب تلک ملتا

خراب و خوار کہاں تک بھلا پھرا کرتا

موئی ہی رہتی تھی عزت مری محبت میں

ہلاک آپ کو کرتا نہ میں تو کیا کرتا

ترے مزاج میں تاب تعب تھی میرؔ کہاں

کسو سے عشق نہ کرتا تو تو بھلا کرتا

 

(۷۳۷)

 

بندھا رات آنسو کا کچھ تار سا

ہوا ابر رحمت گنہگار سا

۵۳۲۵

کوئی سادہ ہی اس کو سادہ کہے

لگے ہے ہمیں تو وہ عیار سا

محبت ہے یا کوئی جی کا ہے روگ

سدا میں تو رہتا ہوں بیمار سا

گل و سرو اچھے سبھی ہیں ولے

نہ نکلا چمن میں کوئی یار سا

جو ایسا ہی تم ہم کو سمجھو ہو سہل

ہمیں بھی یہ جینا ہے دشوار سا

فلک نے بہت کھینچے آزار لیک

نہ پہنچا بہم اس دل آزار سا

۵۳۳۰

مگر آنکھ تیری بھی چپکی کہیں

ٹپکتا ہے چتون سے کچھ پیار سا

چمن ہووے جو انجمن تجھ سے واں

لگے آنکھ میں سب کی گل خار سا

کھڑے منتظر ضعف جو آ گیا

گرا اس کے در پر میں دیوار سا

دکھاؤں متاع وفا کب اسے

لگا واں تو رہتا ہے بازار سا

عجب کیا جو اس زلف کا سایہ دار

پھرے راتوں کو بھی پری دار سا

۵۳۳۵

نہیں میرؔ مستانہ صحبت کا باب

مصاحب کرو کوئی ہشیار سا

 

(۷۳۸)

 

حیراں ہے لحظہ لحظہ طرز عجب عجب کا

جو رفتۂ محبت واقف ہے اس کے ڈھب کا

کہتے ہیں کوئی صورت بن معنی یاں نہیں ہے

یہ وجہ ہے کہ عارف منھ دیکھتا ہے سب کا

نسبت درست جس کی اس رو و مو سے پائی

ہے درہم اور برہم حال اس کے روز و شب کا

افسوس ہے نہیں تو انصاف دوست ورنہ

شایان لطف دشمن شائستہ میں غضب کا

۵۳۴۰

سودائی ایک عالم اس کا بنا پھرے ہے

ہر چند عزلتی ہے وہ خال کنج لب کا

منھ اس کے منھ کے اوپر شام و سحر رکھوں ہوں

اب ہاتھ سے دیا ہے سررشتہ میں ادب کا

کیا آج کل سے اس کی یہ بے توجہی ہے

منھ ان نے اس طرف سے پھیرا ہے میرؔ کب کا

 

(۷۳۹)

 

سینکڑوں بیکسوں کا جان گیا

پر یہ تیرا نہ امتحان گیا

وائے احوال اس جفا کش کا

عاشق اپنا جسے وہ جان گیا

۵۳۴۵

داغ حرماں ہے خاک میں بھی ساتھ

جی گیا پر نہ یہ نشان گیا

کل نہ آنے میں ایک یاں تیرے

آج سو سو طرف گمان گیا

حرف نشنو کوئی اسے بھی ملا

تب تو میں نے کہا سو مان گیا

دل سے مت جا کہ پھر وہ پچھتایا

ہاتھ سے جس کے یہ مکان گیا

ق

پھرتے پھرتے تلاش میں اس کی

ایک میرا ہی یوں نہ جان گیا

۵۳۵۰

اب جو عیسیٰ ؑ فلک پہ ہے وہ بھی

شوق میں برسوں خاک چھان گیا

کون جی سے نہ جائے گا  اے میرؔ

حیف یہ ہے کہ تو جوان گیا

 

(۷۴۰)

 

ہنگام شرح غم جگر خامہ شق ہوا

سوز دروں سے نامہ کباب ورق ہوا

بندہ خدا ہے پھر تو اگر گذرے آپ سے

مرتا ہے جو کوئی اسے کہتے ہیں حق ہوا

دل میں رہا نہ کچھ تو کیا ہم نے ضبط شوق

یہ شہر جب تمام لٹا تب نسق ہوا

۵۳۵۵

وہ رنگ وہ روش وہ طرح سب گئی بباد

آتے ہی تیرے باغ میں منھ گل کا فق ہوا

برسوں تری گلی میں چمن ساز جو رہا

سو دیدہ اب گداختہ ہو کر شفق ہوا

لے کر زمیں سے تابہ فلک رک گیا ہے آہ

کس درد مند عشق کو یارب قلق ہوا

اس نو ورق میں میرؔ جو تھا شرح و بسط سے

بیٹھا جو دب کے میں تو ترا اک سبق ہوا

 

(۷۴۱)

 

کل میں کہا وہ طور کا شعلہ کہاں گرا

دل نے جگر کی اور اشارت کی یاں گرا

منظر خراب ہونے کو ہے چشم تر کا حیف

پھر دید کی جگہ نہیں جو یہ مکاں گرا

۵۳۶۰

روح القدس کو سہل کیا یار نے شکار

اک تیر میں وہ مرغ بلند آشیاں گرا

پہنچایا مجھ کو عجز نے مقصود دل کے تیں

یعنی کہ اس کے در ہی پہ میں ناتواں گرا

شور اک مری نہاد سے تجھ بن اٹھا تھا رات

جس سے کیا خیال کہ یہ آسماں گرا

کیا کم تھا شعلہ شوق کا شعلے سے طور کے

پتھر بھی واں کے جل گئے جا کر جہاں گرا

۵۳۶۵

ڈوبا خیال چاہ زنخداں میں اس کے میرؔ

دانستہ کیوں کنوئیں میں بھلا یہ جواں گرا

 

(۷۴۲)

 

آتے ہی آتے تیرے یہ ناکام ہو چکا

واں کام ہی رہا تجھے یاں کام ہو چکا

یا خط چلے ہی آتے تھے یا حرف ہی نہیں

شاید کہ سادگی کا وہ ہنگام ہو چکا

موسم گیا وہ ترک محبت کا ناصحا

میں اب تو خاص و عام میں بدنام ہو چکا

ناآشنائے حرف تھا وہ شوخ جب تبھی

ہم سے تو ترک نامہ و پیغام ہو چکا

۵۳۷۰

تڑپے ہے جب کہ سینے میں اچھلے ہے دو دو ہاتھ

گر دل یہی ہے میرؔ تو آرام ہو چکا

 

(۷۴۳)

 

سنبل تمھارے گیسوؤں کے غم میں لٹ گیا

ابرو کی تیغ دیکھ مہ عید کٹ گیا

عالم میں جاں کے مجھ کو تنزہ تھا اب تو میں

آلودگی جسم سے ماٹی میں اٹ گیا

ظلم و جفا و جور پر اصرار اس قدر

ہٹ دیکھ دیکھ تیری دل اپنا بھی ہٹ گیا

اب وہ سماں نہیں ہے کہ وہ کام جان خلق

مغموم ہم کو دیکھ کے دوڑا لپٹ گیا

۵۳۷۵

دشوار سیتے ہیں گے جو بے ڈھب پھٹے ہے جیب

بے طوریوں سے اس کی دل اپنا تو پھٹ گیا

دامان و جیب دونوں ہوئے ٹکڑے ایک جا

اب کے یہ کام ہاتھ سے میرے سمٹ گیا

خاطر اگر ہو جمع پریشانی بھی نبھے

سو دل تو دو طرف تری زلفوں سے بٹ گیا

ٹک رات اس کے منھ سے ہوا تھا مقابلہ

پھر ماہ چار دہ کو جو دیکھا تو گھٹ گیا

کیا پوچھو ہو نصیب ہمارے الٹ گئے

چل کر ادھر کو یار پھر اودھر الٹ گیا

۵۳۸۰

بلبل کی اور گل کی جو صحبت کی سیر میرؔ

دل اپنا دلبروں کی طرف سے اچٹ گیا

 

(۷۴۴)

 

سینے میں شوق میرؔ کے سب درد ہو گیا

دل پر رکھا تھا ہاتھ سو منھ زرد ہو گیا

نکلا تھا آج صبح بہت گرم ہو ولے

خورشید اس کو دیکھتے ہی سرد ہو گیا

بے پردہ اس کی شوخی قیامت ہے دیکھیو

یاں خاک سی اڑا دی فلک گرد ہو گیا

کشتی ہر اک فقیر کی بھردی شراب سے

اس دور میں کلال عجب مرد ہو گیا

۵۳۸۵

دفتر لکھے ہیں میرؔ نے دل کے الم کے یہ

یاں اپنے طور و طرز میں وہ فرد ہو گیا

 

(۷۴۵)

کیا تو نمود کس کی کیسا کمال تیرا

اے نقش وہم آیا کیدھر خیال تیرا

کیا ہے جو ہو زنخ زن مہ پاس کا ستارہ

ہے داغ جان عالم ٹھوڑی کا خال تیرا

اے گل مغل بچہ وہ مرزا ہے اس کے آگے

کچھ بھی بھلا لگے ہے منھ لال لال تیرا

تجھ روئے خوئے فشاں سے انجم ہی کیا خجل ہیں

ہے آفتاب کو بھی  اے ماہ سال تیرا

۵۳۹۰

اب صبح پاس گل کے ہو کر نہیں نکلتی

دیکھا نسیم نے بھی شاید جمال تیرا

پہلا قدم ہے انساں پامال مرگ ہونا

کیا جانے رفتہ رفتہ کیا ہو مآل تیرا

ہو گی جو چل سرمو پنہاں نہیں رہے گی

اک دن زبان ہو گا ایک ایک بال تیرا

تفصیل حال میری تھی باعث کدورت

سو جی کو خوش نہ آیا ہرگز ملال تیرا

کچھ زرد زرد چہرہ کچھ لاغری بدن میں

کیا عشق میں ہوا ہے  اے میرؔ حال تیرا

۵۳۹۵

 

(۷۴۶)

فرو آتا نہیں سر ناز سے اب کے امیروں کا

اگرچہ آسماں تک شور جاوے ہم فقیروں کا

تبسم سحر ہے جب پان سے لب سرخ ہوں اس کے

دلوں میں کام کر جاتا ہے یاں جادو کے تیروں کا

سرکنا اس کے درباں پاس سے ہے شب کو بھی مشکل

سر زنجیر زیر سر رکھے ہے ہم اسیروں کا

گئے بہتوں کے سر لڑکوں نے جو یہ باندھنوں باندھے

شہید اک میں نہیں ان باندھنوں کے سرخ چیروں کا

قفس کے چاک سے دیکھوں ہوں میں تو تنگ آتا ہوں

چمن میں غنچہ ہو آنا گلوں پر ہم صفیروں کا

۵۴۰۰

ہمارے دیکھتے زیر نگیں تھا ملک سب جن کے

کوئی اب نام بھی لیتا نہیں ان ملک گیروں کا

دل پر کو تو ان پلکوں ہی نے سب چھان مارا تھا

کیا میرؔ ان نے خالی یوں ہی ترکش اپنے تیروں کا

 

(۷۴۷)

 

ہوئیں رسوائیاں جس کے لیے چھوٹا دیار اپنا

ہوا وہ بے مروت بے وفا ہرگز نہ یار اپنا

خدا جانے ہمیں اس بے خودی نے کس طرف پھینکا

کہ مدت ہو گئی ہم کھینچتے ہیں انتظار اپنا

ذلیل اس کی گلی میں ہوں تو ہوں آزردگی کیسی

کہ رنجش اس جگہ ہووے جہاں ہو اعتبار اپنا

۵۴۰۵

اگرچہ خاک اڑائی دیدۂ تر نے بیاباں کی

ولے نکلا نہ خاطر خواہ رونے سے غبار اپنا

کہا بد وضع لوگوں نے جو دیکھا رات کو ملتے

ہوا صحبت میں ان لڑکوں کی ضائع روزگار اپنا

کریں جو ترک عزلت واسطے مشہور ہونے کے

مگر شہروں میں کم ہے جیسے عنقا اشتہار اپنا

دل بے تاب و بے طاقت سے کچھ چلتا نہیں ورنہ

کھڑا بھی واں نہ جا کر ہوں اگر ہو اختیار اپنا

عجب ہم بے بصیرت ہیں کہاں کھولا ہے بار آ کر

جہاں سے لوگ سب رخت سفر کرتے ہیں بار اپنا

۵۴۱۰

نہ ہو یوں میکدہ مسجد سا پر واں ہوش جاتے ہیں

ہوا ہے دونوں جاگہ ایک دو باری گذار اپنا

سراپا آرزو ہم لوگ ہیں کاہے کو رندوں میں

رہے ہیں اب تلک جیتے ولے دل مار مار اپنا

گیا وہ بوجھ سب ہلکے ہوئے ہم میرؔ آخر کو

مناسب تھا نہ جانا اس گلی میں بار بار اپنا

 

(۷۴۸)

 

ربط دل زلف سے اس کی جو نہ چسپاں ہوتا

اس قدر حال ہمارا نہ پریشاں ہوتا

ہاتھ دامن میں ترے مارتے جھنجھلا کے نہ ہم

اپنے جامے میں اگر آج گریباں ہوتا

۵۴۱۵

میری زنجیر کی جھنکار نہ کوئی سنتا

شور مجنوں نہ اگر سلسلہ جنباں ہوتا

ہر سحر آئینہ رہتا ہے ترا منھ تکتا

دل کی تقلید نہ کرتا تو نہ حیراں ہوتا

وصل کے دن سے بدل کیونکے شب ہجراں ہو

شاید اس طور میں ایام کا نقصاں ہوتا

طور اپنے پہ جو ہم روتے تو پھر عالم میں

دیکھتے تم کہ وہی نوح کا طوفاں ہوتا

دل میں کیا کیا تھا ہمارے جو نہ ہو جاتی یاس

یہ نگر کاہے کو اس طرح سے ویراں ہوتا

۵۴۲۰

خاک پا ہو کے ترے قد کا چمن میں رہتا

سرو اتنا نہ اکڑتا اگر انساں ہوتا

میرؔ بھی دیر کے لوگوں ہی کی سی کہنے لگا

کچھ خدا لگتی بھی کہتا جو مسلماں ہوتا

 

(۷۴۹)

 

جس پہ اس موج سی شمشیر کا اک وار کیا

کام اس شوق کے ڈوبے ہوئے کا پار کیا

آ گیا عشق میں جو پیش نشیب اور فراز

ہوکے میں خاک برابر اسے ہموار کیا

کیا کروں جنس وفا پھیرے لیے جاتا ہوں

بخت بد نے نہ اسے دل کا خریدار کیا

۵۴۲۵

اتفاق ایسے پڑے ہم تو منافق ٹھہرے

چرخ ناساز نے غیروں سے اسے یار کیا

ایسے آزار اٹھانے کا ہمیں کب تھا دماغ

کوفت نے دل کی تو جینے سے بھی بیزار کیا

جی ہی جاتے سنے ہیں عشق کے مشہور ہوئے

کیا کیا ہم نے کہ اس راز کو اظہار کیا

دیکھے اس ماہ کو جو کتنے مہینے گذرے

بڑھ گئی کاہش دل ایسی کہ بیمار کیا

نالۂ بلبل بے دل ہے پریشان بہت

موسم گل نے مگر رخت سفر بار کیا

۵۴۳۰

میرؔ  اے کاش زباں بند رکھا کرتے ہم

صبح کے بولنے نے ہم کو گرفتار کیا

 

(۷۵۰)

 

شب رفتہ میں اس کے در پر گیا

سگ یار آدم گری کر گیا

شکستہ دل عشق کی جان کیا

نظر پھیری تو نے تو وہ مر گیا

ہوئے یار کیا کیا خراب اس بغیر

وہ کس خانہ آباد کے گھر گیا

کشندہ تھا لڑکا ہی نا کردہ خوں

مجھے دیکھ کر محتضر ڈر گیا

۵۴۳۵

بہت رفتہ رہتے ہو تم اس کے اب

مزاج آپ کا میرؔ کیدھر گیا

 

(۷۵۱)

 

بے طاقتی میں تو تو  اے میرؔ مر رہے گا

ایسی طپش سے دل کی کوئی جگر رہے گا

کیا ہے جو راہ دل کی طے کرتے مر گئے ہم

جوں نقش پا ہمارا تا دیر اثر رہے گا

مت کر لڑکپن اتنا خونریزی میں ہماری

اس طور لوہو میں تو دامن کو بھر رہے گا

آگاہ پائے ہم نے کھوئے گئے سے یعنی

پہنچی خبر ادھر کی دل بے خبر رہے گا

۵۴۴۰

فردا کا سوچ تجھ کو کیا آج ہی پڑا ہے

کل کی سمجھیو کل ہی کل تو اگر رہے گا

لوگوں کا پاس ہم کو مارے رکھے ہے ورنہ

ماتم میں دل کے شیون دو دوپہر رہے گا

پایان کار دیکھیں کیا ہووے دل کی صورت

ایسا ہی جو وہ چہرہ پیش نظر رہے گا

اب رفتگی رویہ اپنا کیا ہے میں نے

میرا یہ ڈھب دلوں میں کچھ راہ کر رہے گا

ہم کوئی بیت جا کر اس ہی کے منھ سنیں گے

وحشت زدہ کسو دن گر میرؔ گھر رہے گا

۵۴۴۵

 

(۷۵۲)

 

پند گو مشفق عبث میرا نصیحت گر ہوا

سختیاں جو میں بہت کھینچیں سو دل پتھر ہوا

گاڑ کر مٹی میں روئے عجز کیا ہم ہی موئے

خون اس کے رہگذر کی خاک پر اکثر ہوا

اب اٹھا جاتا نہیں مجھ پاس پھر ٹک بیٹھ کر

گرد اس کے جو پھرا سر کو مرے چکر ہوا

کب کھبا جاتا تھا یوں آنکھوں میں جیسا صبح تھا

پھول خوش رنگ اور اس کے فرش پر بچھ کر ہوا

کیا سنی تم نے نہیں بدحالی فرہاد و قیس

کون سا بیمار دل کا آج تک بہتر ہوا

۵۴۵۰

کون کرتا ہے طرف مجھ عاشق بیتاب کی

صورت خوش جن نے دیکھی اس کی سو اودھر ہوا

جل گیا یاقوت اس کے لعل لب جب ہل گئے

گوہر خوش آب انداز سخن سے تر ہوا

کیا کہوں اب کے جنوں میں گھر کا بھی رہنا گیا

کام جو مجھ سے ہوا سو عقل سے باہر ہوا

شب نہ کرتا شور اس کوچے میں گر میں جانتا

اس کی بے خوابی سے ہنگامہ مرے سر پر ہوا

ہووے یارب ان سیہ رو آنکھوں کا خانہ خراب

یک نظر کرتے ہی میرے دل میں اس کا گھر ہوا

۵۴۵۵

استخواں سب پوست سے سینے کے آتے ہیں نظر

عشق میں ان نو خطوں کے میرؔ میں مسطر ہوا

 

(۷۵۳)

 

ٹپکتی پلکوں سے رومال جس گھڑی سرکا

طرف ہوا نہ کبھو ابر دیدۂ تر کا

کبھو تو دیر میں ہوں میں کبھو ہوں کعبے میں

کہاں کہاں لیے پھرتا ہے شوق اس در کا

غم فراق سے پھر سوکھ کر ہوا کانٹا

بچھا جو پھول اٹھا کوئی اس کے بستر کا

اسیر جرگے میں ہو جاؤں میں تو ہو جاؤں

وگرنہ قصد ہو کس کو شکار لاغر کا

۵۴۶۰

ہمیں کہ جلنے سے خوگر ہیں آگ میں ہے عیش

محیط میں تو تلف ہوتا ہے سمندر کا

قریب خط کا نکلنا ہوا سو خط موقوف

غبار دور ہو کس طور میرے دلبر کا

بتا کے کعبے کا رستہ اسے بھلاؤں راہ

نشاں جو پوچھے کوئی مجھ سے یار کے گھر کا

کسو سے مل چلے ٹک وہ تو ہے بہت ورنہ

سلوک کاہے کو شیوہ ہے اس ستمگر کا

شکستہ بالی و لب بستگی پر اب کی نہ جا

چمن میں شور مرا اب تلک بھی ہے پر کا

۵۴۶۵

تلاش دل نہیں کام آتی اس زنخ میں گئے

کہ چاہ میں تو ہے مرنا برا شناور کا

پھرے ہے خاک ملے منھ پہ یا نمد پہنے

یہ آئینہ ہے نظر کردہ کس قلندر کا

نہ ترک عشق جو کرتا تو میرؔ کیا کرتا

جفا کشی نہیں ہے کام ناز پرور کا

 

(۷۵۴)

حلقہ ہوئی وہ زلف کماں کو چھپا رکھا

طاق بلند پر اسے سب نے اٹھا رکھا

اس مہ سے دل کی لاگ وہی متصل رہی

گو چرخ نے بہ صورت ظاہر جدا رکھا

۵۴۷۰

گڑوا دیا ہو مار کر اک دو کو تو کہوں

کب ان نے خون کر نہ کسو کا دبا رکھا

ٹک میں لگا تھا اس نمکی شوخ کے گلے

چھاتی کے میرے زخموں نے برسوں مزہ رکھا

کاہے کو آئے چوٹ کوئی دل پہ شیخ کے

اس بوالہوس نے اپنے تئیں تو بچا رکھا

ہم سر ہی جاتے عشق میں اکثر سنا کیے

اس راہ خوفناک میں کیوں تم نے پا رکھا

آزار دل نہیں ہے کسو دین میں درست

کیا جانوں ان بتوں نے ستم کیوں روا رکھا

۵۴۷۵

کیا میں ہی محو چشمک انجم ہوں خلق کو

اس مہ نے ایک جھمکی دکھا کر لگا رکھا

کیا زہر چشم یار کو کوئی بیاں کرے

جس کی طرف نگاہ کی اس کو سلا رکھا

ہر چند شعر میرؔ کا دل معتقد نہ تھا

پر اس غزل کو ہم نے بھی سن کر لکھا رکھا

 

(۷۵۵)

 

میں جوانی میں مے پرست رہا

گردن شیشہ ہی میں دست رہا

در میخانہ میں مرے سر پر

ظل ممدود دار بست رہا

۵۴۸۰

سر پہ پتھر جنوں میں کب نہ پڑے

یہ سبو ثابت شکست رہا

ہاتھ کھینچا سو پیر ہو کر جب

تب گنہ کرنے کا نہ دست رہا

آنسو پی پی گیا جو برسوں میں

دل درونے میں آب خست رہا

جب کہو تب بلند کہیے اسے

قد خوباں کا سرو پست رہا

میرؔ کے ہوش کے ہیں ہم عاشق

فصل گل جب تلک تھی مست رہا

۵۴۸۵

 

(۷۵۶)

چمن بھی ترا عاشق زار تھا

گل سرخ اک زرد رخسار تھا

گئی نیند شیون سے بلبل کی رات

کہیں دل ہمارا گرفتار تھا

قد یار کے آگے سرو چمن

کھڑا دور جیسے گنہگار تھا

یہی جنس دل کی گراں قدر تھی

ولے جب تلک تو خریدار تھا

بہت روئے ہم شبنم و گل کو دیکھ

کہ چسپاں ہمیں بھی کہیں پیار تھا

۵۴۹۰

مجھے  اے دل چاک کیا شانہ سا

کسو زلف سے کچھ سروکار تھا

گیا میرؔ یاں سے کرو گے جو یاد

کہو گے کہ مسکیں عجب یار تھا

 

(۷۵۷)

 

دل گیا مفت اور دکھ پایا

ہوکے عاشق بہت میں پچھتایا

مر گئے پر بھی سنگ سار کیا

نخل ماتم مرا یہ پھل لایا

صحن میں میرے  اے گل مہتاب

کیوں شگوفہ تو کھلنے کا لایا

۵۴۹۵

یہ شب ہجر ہے کھڑی نہ رہے

ہو سفیدی کا جس جگہ سایا

جب سے بے خود ہوا ہوں اس کو دیکھ

آپ میں میرؔ پھر نہیں آیا

 

(۷۵۸)

 

چاک کر سینہ دل میں پھینک دیا

کھینچے ایذا ہمیشہ کس کی بلا

تم کو جیتا رکھے خدا  اے بتاں

مر گئے ہم تو کرتے کرتے وفا

اٹھ گیا میرؔ وہ جو بالیں سے

پھر مری جان مجھ میں کچھ نہ رہا

۵۵۰۰

 

(۷۵۹)

 

اندوہ و غم کے جوش سے دل رک کے خوں ہوا

اب کے مجھے بہار سے آگے جنوں ہوا

اچھا نہیں ہے رفتن رنگیں بھی اس قدر

سنیو کہ اس کی چال پر اک آدھ خوں ہوا

جی میں تھا خوب جا کے خرابے میں رویئے

سیلاب آیا آ کے چلا کیا شگوں ہوا

نخچیر گاہ عشق میں افراط صید سے

روح الامیں کا نام شکار زبوں ہوا

ہوں داغ نازکی کہ کیا تھا خیال بوس

گلبرگ سا وہ ہونٹ جو تھا نیلگوں ہوا

۵۵۰۵

میں دور ہوں اگرچہ برابر ہوں خاک سے

اس رہ میں نقش پا ہی مرا رہ نموں ہوا

میرؔ ان نے سرگذشت سنی ساری رات کو

افسانہ عاشقی کا ہماری فسوں ہوا

 

(۷۶۰)

 

منھ پر اس آفتاب کے ہے یہ نقاب کیا

پردہ رہا ہے کون سا ہم سے حجاب کیا

اے ابر تر یہ گریہ ہمارا ہے دیدنی

برسے ہے آج صبح سے چشم پر آب کیا

دم گنتے گنتے اپنی کوئی جان کیوں نہ دو

وہ پاس آن بیٹھے کسو کے حساب کیا

۵۵۱۰

سو بار اس کے کوچے تلک جاتے ہیں چلے

دل ہے اگر بجا تو یہ ہے اضطراب کیا

بس اب نہ منھ کھلاؤ ہمارا ڈھکے رہو

محشر کو ہم سوال کریں تو جواب کیا

دوزخ سو عاشقوں کو تو دوزخ نہیں رہا

اب واں گئے پہ ٹھہرے ہے دیکھیں عذاب کیا

ہم جل کے ایک راکھ کی ڈھیری بھی ہو گئے

ہے اب تکلف آگے جلے گا کباب کیا

ہستی ہے اپنے طور پہ جوں بحر جوش میں

گرداب کیسا موج کہاں ہے حباب کیا

۵۵۱۵

دیکھا پلک اٹھا کے تو پایا نہ کچھ اثر

اے عمر برق جلوہ گئی تو شتاب کیا

ہر چند میرؔ بستی کے لوگوں سے ہے نفور

پر ہائے آدمی ہے وہ خانہ خراب کیا

 

(۷۶۱)

 

اے نکیلے یہ تھی کہاں کی ادا

کھب گئی جی میں تیری بانکی ادا

جادو کرتے ہیں اک نگاہ کے بیچ

ہائے رے چشم دلبراں کی ادا

بات کہنے میں گالیاں دے ہے

سنتے ہو میرے بد زباں کی ادا

۵۵۲۰

دل چلے جائے ہیں خرام کے ساتھ

دیکھی چلنے میں ان بتاں کی ادا

خاک میں مل کے میرؔ ہم سمجھے

بے ادائی تھی آسماں کی ادا

 

(۷۶۲)

 

رہا میں تو عزت کا اعزاز کرتا

چلا عشق خواری کو ممتاز کرتا

نہ ہوتا میں حسرت میں محتاج گریہ

جو کچھ آنسوؤں کو پس انداز کرتا

نہ ٹھہرا مرے پاس دل ورنہ اب تک

اسے ایسا ہی میں تو جانباز کرتا

۵۵۲۵

جو جانوں کہ درپے ہے ایسا وہ دشمن

تو کاہے کو الفت سے میں ساز کرتا

تو تمکین سے کچھ نہ بولا وگرنہ

مسیحا صنم ترک اعجاز کرتا

گلو گیر ہی ہو گئی یاوہ گوئی

رہا میں خموشی کو آواز کرتا

زیارت گہ کبک تو ہو بلا سے

ٹک آ میرؔ کی خاک پر ناز کرتا

 

(۷۶۳)

 

عید آئندہ تک رہے گا گلا

ہو گئی عید تو گلے نہ ملا

۵۵۳۰

ڈوبے لوہو میں دیکھتے سرخار

حیف کوئی بھی آبلہ نہ چھلا

ابر جاتا رہا رہیں بوندیں

اب تو ساقی مجھے شراب پلا

میرؔ افسردہ دل چمن میں پھرا

غنچۂ دل کہیں نہ اس کا کھلا

 

(۷۶۴)

یہ چوٹ کھائی ایسی دل پر کہ جی گنوایا

یعنی جدائی کا ہم صدمہ بڑا اٹھایا

مدت میں وہ ہوا شب ہم بستر آ کے میرا

خوابیدہ طالعوں نے اک خواب سا دکھایا

۵۵۳۵

الجھاؤ پڑ گیا سو سلجھی نہ اپنی اس کی

جھگڑے رہے بہت سے گذرے بہت قضایا

آئینہ رو ہمارا آیا نہ نزع میں بھی

وقت اخیر ان نے کیا خوب منھ چھپایا

اس بے مروتی کو کیا کہتے ہیں بتاؤ

ہم مارے بھی گئے پر وہ نعش پر نہ آیا

وہ روئے خوب اب کے ہرگز گیا نہ دل سے

جب گل کھلا چمن میں تب داغ ہم نے کھایا

خلطہ ہمارا اس کا حیرت ہی کی جگہ ہے

ڈھونڈا جہاں ہم اس کو واں آپ کو ہی پایا

۵۵۴۰

طرز نگہ سے اس کی بے ہوش کیا ہوں میں ہی

ان مست انکھڑیوں نے بہتیروں کو سلایا

آنکھیں کھلیں تو دیکھا جو کچھ نہ دیکھنا تھا

خواب عدم سے ہم کو کاہے کے تیں جگایا

باقی نہیں رہا کچھ گھٹتے ہی گھٹتے ہم میں

بیماری دلی نے چنگا بہت بنایا

تو نے کہ پاؤں دل سے باہر نہیں رکھا ہے

عیار پن یہ کن نے تیرے تئیں سکھایا

کس دن ملائمت کی اس بت نے میرؔ ہم سے

سختی کھنچے نہ کیونکر پتھر سے دل لگایا            ۵۵۴۵

(۷۶۵)

سمندر کا میں کیوں احساں سہوں گا

نہیں کیا سیل اشک اس پر بہوں گا

نہ تو آوے نہ جاوے بے قراری

یوں ہی اک دن سنا میں مر رہوں گا

ترے غم کے ہیں خواہاں سب نہ کھا غم

کمی کیا ہو گی جو اک میں نہ ہوں گا

نہ وہ آوے نہ جاوے بے قراری

کسو دن میرؔ یوں ہی مر رہوں گا

اگر جیتا رہا میں میرؔ  اے یار

تو شب کو مو بمو قصہ کہوں گا

۵۵۵۰

 

(۷۶۶)

 

رکھتا تھا ہاتھ میں سررشتہ بہت سینے کا

رہ گیا دیکھ رفو چاک مرے سینے کا

اے طپش لوہو پیے میرا جو تو جھوٹ کہے

کس سے یہ قاعدہ سیکھا ہے لہو پینے کا

اس میں حیران ہوں کس کس کا گلہ تجھ سے کروں

بدگمانی کا تغافل کا ترے کینے کا

میرؔ کی نبض پہ رکھ ہاتھ لگا کہنے طبیب

آج کی رات یہ بیمار نہیں جینے کا

 

(۷۶۷)

 

عشق سے دل پہ تازہ داغ جلا

اس سیہ خانے میں چراغ جلا

۵۵۵۵

میرؔ کی گرمی تم سے اچرج ہے

کس سے ملتا ہے یہ دماغ جلا

 

                ردیف ب

 

(۷۶۸)

 

اندوہ سے ہوئی نہ رہائی تمام شب

مجھ دل زدہ کو نیند نہ آئی تمام شب

جب میں شروع قصہ کیا آنکھیں کھول دیں

یعنی تھی مجھ کو چشم نمائی تمام شب

چشمک چلی گئی تھی ستاروں کی صبح تک

کی آسماں نے دیدہ درائی تمام شب

بخت سیہ نے دیر میں کل یاوری سی کی

تھی دشمنوں سے اس کو لڑائی تمام شب

۵۵۶۰

بیٹھے ہی گذری وعدے کی شب وہ نہ آ پھرا

ایذا عجب طرح کی اٹھائی تمام شب

سناہٹے سے دل سے گذر جائیں سو کہاں

بلبل نے گو کی نالہ سرائی تمام شب

تارے سے میری پلکوں پہ قطرے سرشک کے

دیتے رہے ہیں میرؔ دکھائی تمام شب

 

(۷۶۹)

 

داغ ہوں جلتا ہے دل بے طور اب

دیکھیے کیا گل کھلے ہے اور اب

زخم دل غائر ہو پہنچا تا جگر

تم لگے کرنے ہماری غور اب

۵۵۶۵

شعر پڑھتے پھرتے ہیں سب میرؔ کے

اس قلمرو میں ہے ان کا دور اب

 

(۷۷۰)

 

وہ جو کشش تھی اس کی طرف سے کہاں ہے اب

تیر و کماں ہے ہاتھ میں سینہ نشاں ہے اب

اتنا بھی منھ چھپانا خط آئے پہ وجہ کیا

لڑکا نہیں ہے نام خدا تو جواں ہے اب

پھول اس چمن کے دیکھتے کیا کیا جھڑے ہیں ہائے

سیل بہار آنکھوں سے میری رواں ہے اب

جن و ملک زمین و فلک سب نکل گئے

بار گران عشق و دل ناتواں ہے اب

۵۵۷۰

نکلی تھی اس کی تیغ ہوئے خوش نصیب لوگ

گردن جھکائی میں تو سنا یہ اماں ہے اب

زردی رنگ ہے غم پوشیدہ پر دلیل

دل میں جو کچھ ہے منھ سے ہمارے عیاں ہے اب

پیش از دم سحر مرا رونا لہو کا دیکھ

پھولے ہے جیسے سانجھ وہی یاں سماں ہے اب

نالاں ہوئی کہ یاد ہمیں سب کو دے گئی

گلشن میں عندلیب ہماری زباں ہے اب

برسوں ہوئے گئے اسے پر بھولتا نہیں

یادش بخیر میرؔ رہے خوش جہاں ہے اب               ۵۵۷۵

(۷۷۱)

 

شبنم سے کچھ نہیں ہے گل و یاسمن میں آب

دیکھ اس کو بھر بھر آوے ہے سب کے دہن میں آب

لو سدھ شتاب فاختۂ گریہ ناک کی

آیا نہیں ہے دیر سے جوئے چمن میں آب

سوزش بہت ہو دل میں تو آنسو کو پی نہ جا

کرتا ہے کام آگ کا ایسی جلن میں آب

تھا گوش زد کہ گوروں میں لگ لگ اٹھے ہے آگ

یاں دل بھرے ہوئے کے سبب ہے کفن میں آب

جی ڈوب جائے دیکھیں جہاں بھر نظر ادھر

تم کہتے ہو نہیں مرے چاہ ذقن میں آب

۵۵۸۰

لب تشنگان عشق کے ہیں کام کے وہ لعل

کیا آپ کو جو ہووے عقیق یمن میں آب

تب قیس جنگلوں کے تئیں آگ دے گیا

ہم بھر چلے ہیں رونے سے اب سارے بن میں آب

سن سوز دل کو میرے بہت روئی رات شمع

بیرون بزم لائے ہیں بھر بھر لگن میں آب

دیکھو تو کس روانی سے کہتے ہیں شعر میرؔ

در سے ہزار چند ہے ان کے سخن میں آب

 

(۷۷۲)

 

جیسا مزاج آگے تھا میرا سو کب ہے اب

ہر روز دل کو سوز ہے ہر شب تعب ہے اب

۵۵۸۵

سدھ کچھ سنبھالتے ہی وہ مغرور ہو گیا

ہر آن بے دماغی و ہر دم غضب ہے اب

دوری سے اس کی آہ عجب حال میں ہیں لوگ

کچھ بھی جو پاس وہ نہ کرے تو عجب ہے اب

طاقت کہ جس سے تاب جفا تھی سو ہو چکی

تھوڑی سی کوفت میں بھی بہت سا تعب ہے اب

دریا چلا ہے آج تو بوس و کنار کا

گر جی چلاوے کوئی دوانہ تو ڈھب ہے اب

جاں بخشیاں جو پیشتر از خط کیا کیے

ان ہی لبوں سے خلق خدا جاں بلب ہے اب

۵۵۹۰

رنجش کی وجہ آگے تو ہوتی بھی تھی کوئی

روپوش ہم سے یار جو ہے بے سبب ہے اب

نے چاہ وہ اسے ہے نہ مجھ کو ہے وہ دماغ

جانا مرا ادھر کو بشرط طلب ہے اب

جاتا ہوں دن کو ملنے تو کہتا ہے دن ہے میرؔ

جو شب کو جایئے تو کہے ہے کہ شب ہے اب

 

(۷۷۳)

 

عشاق کے تئیں ہے عجز و نیاز واجب

ہے فرض عین رونا دل کا گداز واجب

یوں سرفرو نہ لاوے ناداں کوئی وگرنہ

رہنا سجود میں ہے جیسے نماز واجب

۵۵۹۵

ناسازی طبیعت ایسی پھر اس کے اوپر

ہے ہر کسو سے مجھ کو ناچار ساز واجب

لڑکا نہیں رہا تو جو کم تمیز ہووے

عشق و ہوس میں اب ہے کچھ امتیاز واجب

صرفہ نہیں ہے مطلق جان عزیز کا بھی

اے میرؔ تجھ سے ظالم ہے احتراز واجب

 

(۷۷۴)

تابوت پر بھی میرے نہ آیا وہ بے نقاب

میں اٹھ گیا ولے نہ اٹھا بیچ سے حجاب

اس آفتاب حسن کے جلوے کی کس کو تاب

آنکھیں ادھر کیے سے بھر آتا ہے ووہیں آب

۵۶۰۰

اس عمر برق جلوہ کی فرصت بہت ہے کم

جو کام پیش آوے تجھے اس میں ہو شتاب

غفلت سے ہے غرور تجھے ورنہ ہے بھی کچھ

یاں وہ سماں ہے جیسے کہ دیکھے ہے کوئی خواب

اس موج خیز دہر نے کس کے اٹھائے ناز

کج بھی ہوا نہ خوب کلہ گوشۂ حباب

یہ بستیاں اجڑ کے کہیں بستیاں بھی ہیں

دل ہو گیا خراب جہاں پھر رہا خراب

بیتابیاں بھری ہیں مگر کوٹ کوٹ کر

خرقے میں جیسے برق ہمارے ہے اضطراب

۵۶۰۵

ٹک دل کے نسخے ہی کو کیا کر مطالعہ

اس درس گہ میں حرف ہمارا ہے اک کتاب

مجنوں نے ریگ بادیہ سے دل کے غم گنے

ہم کیا کریں کہ غم ہیں ہمارے تو بے حساب

کاش اس کے روبرو نہ کریں مجھ کو حشر میں

کتنے مرے سوال ہیں جن کا نہیں جواب

شاید کہ ہم کو بوسہ بہ پیغام دست دے

پھرتا ہے بیچ میں تو بہت ساغر شراب

ہے ان بھوؤں میں خال کا نقطہ دلیل فہم

کی ہے سمجھ کے بیت کسو نے یہ انتخاب

۵۶۱۰

گذرے ہے میرؔ لوٹتے دن رات آگ میں

ہے سوز دل سے زندگی اپنی ہمیں عذاب

 

(۷۷۵)

جو کہو تم سو ہے بجا صاحب

ہم برے ہی سہی بھلا صاحب

سادہ ذہنی میں نکتہ چیں تھے تم

اب تو ہیں حرف آشنا صاحب

نہ دیا رحم ٹک بتوں کے تئیں

کیا کیا ہائے یہ خدا صاحب

بندگی ایک اپنی کیا کم ہے

اور کچھ تم سے کہیے کیا صاحب

۵۶۱۵

مہر افزا ہے منھ تمھارا ہی

کچھ غضب تو نہیں ہوا صاحب

خط کے پھٹنے کا تم سے کیا شکوہ

اپنے طالع کا یہ لکھا صاحب

پھر گئیں آنکھیں تم نہ آن پھرے

دیکھا تم کو بھی واہ وا صاحب

شوق رخ یاد لب غم دیدار

جی میں کیا کیا مرے رہا صاحب

بھول جانا نہیں غلام کا خوب

یاد خاطر رہے مرا صاحب

۵۶۲۰

کن نے سن شعر میرؔ یہ نہ کہا

کہیو پھر ہائے کیا کہا صاحب

 

(۷۷۶)

عجب صحبت ہے کیونکر صبح اپنی شام کریے اب

جہاں ٹک آن بیٹھے ہم کہا آرام کریے اب

ہزاروں خواہش مردہ نے سر دل سے نکالا ہے

قیامت جی پہ ہے دیدار کو ٹک عام کریے اب

بلا آشوب تھا گو جان پر آغاز الفت میں

ہوا سو تو ہوا اندیشۂ انجام کریے اب

بہت کی یا صنم گوئی ہوئے مشہور کافر ہم

وظیفہ کوئی دن اپنا خدا کا نام کریے اب

۵۶۲۵

زباں خامہ کے ہلتے ہی ہزاروں اشک گرتے ہیں

حقیقت اپنے دل کی آہ کیا ارقام کریے اب

کہاں تک کام ناکام اس جفا جو کے لیے مریے

اگر تلوار ہاتھ آوے تو اپنا کام کریے اب

فسانہ شاخ در شاخ اس نہال حسن کے غم کا

کہاں  اے میرؔ بے برگ و نوا اتمام کریے اب

 

(۷۷۷)

 

برقع میں کیا چھپیں وے ہوویں جنھوں کی یہ تاب

رخسار تیرے پیارے ہیں آفتاب مہتاب

اٹکل ہمیں کو ان نے آخر ہدف بنایا

ہرچند ہم بلا کش تھے ایک تیر پرتاب

۵۶۳۰

کچھ قدر میں نہ جانی غفلت سے رفتگاں کی

آنکھیں سی کھل گئیں اب جب صحبتیں ہوئیں خواب

ان بن ہی کے سبب ہیں اس لالچی سے سارے

یاں ہے فقیری محض واں چاہیے ہے اسباب

اس بحر حسن کے تیں دیکھا ہے آپ میں کیا

جاتا ہے صدقے اپنے جو لحظہ لحظہ گرداب

اچرج ہے یہ کہ مطلق کوئی نہیں ہے خواہاں

جنس وفا اگرچہ ہے گی بہت ہی کمیاب

تھی چشم یہ رکے گا پلکوں سے گریہ لیکن

ہوتی ہے بند کوئی تنکوں سے راہ سیلاب

۵۶۳۵

ق

تو بھی تو مختلط ہو سبزے میں ہم سے ساقی

لے کر بغل میں ظالم مینائے بادۂ ناب

نکلی ہیں اب کے کلیاں اس رنگ سے چمن میں

سر جوڑ جوڑ جیسے مل بیٹھتے ہیں احباب

کیا لعل لب کسو کے  اے میرؔ چت چڑھے ہیں

چہرے پہ تیرے ہر دم بہتا رہے ہے خوناب

 

                ردیف ت

 

(۷۷۸)

 

دیر کچھ کھنچتی تو کہتے بھی ملاقات کی بات

ملنا اپنا جو ہوا اس سے سو وہ بات کی بات

گفتگو شاہد و مے سے ہے نہ غیبت نہ گلہ

خانقہ کی سی نہیں بات خرابات کی بات

۵۶۴۰

سن کے آواز سگ یار ہوئے ہم خاموش

بولتے واں ہیں جہاں ہووے مساوات کی بات

منھ ادھر اور سخن زیر لبی غیر کے ساتھ

اس فریبندہ کی ناگفتنی ہے گھات کی بات

اس لیے شیخ ہے چپکا کہ پڑے شہر میں شور

ہم سمجھتے ہیں یہ شیادی و طامات کی بات

یہ کس آشفتہ کی جمعیت دل تھی منظور

بال بکھرے ترے منھ پر کہیں ہیں رات کی بات

گفتگو وصفوں سے اس ماہ کے کریے  اے میرؔ

کاہش افزا ہے کروں اس کی اگر ذات کی بات

۵۶۴۵

(۷۷۹)

 

ہم تم سے چشم رکھتے تھے دلداریاں بہت

سو التفات کم ہے دل آزاریاں بہت

دیکھیں تو کیا دکھائے یہ افراط اشتیاق

لگتی ہیں تیری آنکھیں ہمیں پیاریاں بہت

جب تک ملی جلی سی جفائیں تھیں اٹھ سکیں

کرنے لگے ہو اب تو ستمگاریاں بہت

آزار میں تو عشق کے جاتا ہے بھول جی

یوں تو ہوئیں تھیں یاد میں بیماریاں بہت

شکوہ خراب ہونے کا کیا چاہنے میں میرؔ

ایسی تو  اے عزیز ہیں یاں خواریاں بہت

۵۶۵۰

 

(۷۸۰)

 

یاد ایامے کہ ہنگامہ رہا کرتا تھا رات

شور و شر سے میرے اک فتنہ رہا کرتا تھا رات

 

(۷۸۱)

 

کام کیا تھا جیب و دامن سے مجھے پیش از جنوں

سینہ چاکی اپنی میں بیٹھا کیا کرتا تھا رات

جن دنوں کھینچا تھا سر اس بادشاہ حسن نے

ہر گلی میں اک فقیر اس کو دعا کرتا تھا رات

اب جہاں کچھ بات چھیڑی سوچ لایا پیش ازیں

میں کہا کرتا غم دل وہ سنا کرتا تھا رات

ہجر میں کیا کیا سمیں دیکھے ہیں ان آنکھوں سے میں

زرد رخ پر لالہ گوں آنسو بہا کرتا تھا رات

۵۶۵۵

کیا کہوں پھر کیسے کیسے دن دکھاتا سالہا

وہ سخن نشنو جو ٹک میرا کہا کرتا تھا رات

دیکھنے والے ترے دیکھے میں سب  اے رشک شمع

جوں چراغ وقف دل سب کا جلا کرتا تھا رات

بعد میرے اس غزل پر بھی بہت روویں گے لوگ

میں بھی ہر ہر بیت پر اس کی بکا کرتا تھا رات

دیکھ خالی جا کہیں گے برسوں اہل روزگار

میرؔ اکثر دل کا قصہ یاں کہا کرتا تھا رات

 

(۷۸۲)

 

کیا پوچھتے ہو آہ مرے جنگجو کی بات

گویا وفا ہے عہد میں اس کے کبھو کی بات

۵۶۶۰

اس باغ میں نہ آئی نظر خرمی مری

گر سبز بھی ہوا ہوں تو جیسے کسو کی بات

آئینہ پانی پانی رہا اس کے سامنے

کہیے جہاں کہوں یہ تو ہے روبرو کی بات

سر گل نے پھر جھکا کے اٹھایا نہ شرم سے

گلزار میں چلی تھی کہیں اس کے رو کی بات

حرمت میں مے کی کہنے سے واعظ کے ہے فتور

کیا اعتبار رکھتی ہے اس پوچ گو کی بات

ہم سوختوں میں آتش سرکش کا ذکر کیا

چل بھی پڑی ہے بات تو اس تند خو کی بات

۵۶۶۵

کیا کوئی زلف یار سے حرف و سخن کرے

رکھتی ہے میرؔ طول بہت اس کے مو کی بات

 

(۷۸۳)

 

سنتا نہیں اگرچہ ہمارا نگار بات

پر منھ پہ آ ہی جاتی ہے بے اختیار بات

بلبل کے بولنے سے ہے کیوں بے دماغ گل

آپس میں یوں تو ہوتی ہے یارو ہزار بات

منھ تک رہو جو ہو وہ فریبندہ حرف زن

اس تھوڑے سن و سال میں یہ پیچدار بات

بوسہ دے چپکے لب کا کہ تب کچھ مزہ نہیں

پاوے گی سارے شہر میں جب اشتہار بات

۵۶۷۰

ہے کس کی صوت انکر اصوات واعظا

کب آدمی کی جنس کرے ہے پکار بات

آہو کو اس کی چشم سخن گو سے مت ملا

شہری سے کرسکے ہے کہیں بھی گنوار بات

یوں بار گل سے اب کے جھکے ہیں نہال باغ

جھک جھک کے جیسے کرتے ہیں دوچار یار بات

آزردہ دل کو حرف پہ لانے کا لطف کیا

کرتی ہے خونچکاں مرے لب سے گذار بات

مرجاں کوئی کہے ہے کوئی ان لبوں کو لعل

کچھ رفتہ رفتہ پا ہی رہے گی قرار بات

۵۶۷۵

یوں چپکے چپکے میرؔ تلف ہو گا کب تلک

کچھ ہووے بھڑ کر اس سے بھی کر ایک بار بات

 

(۷۸۴)

ہوتی ہے گرچہ کہنے سے یارو پرائی بات

پر ہم سے تو تھمے نہ کبھو منھ پر آئی بات

جانے نہ تجھ کو جو یہ تصنع تو اس سے کر

تس پر بھی تو چھپی نہیں رہتی بنائی بات

لگ کر تدرو رہ گئے دیوار باغ سے

رفتار کی جو تیری صبا نے چلائی بات

کہتے تھے اس سے ملیے تو کیا کیا نہ کہیے لیک

وہ آ گیا تو سامنے اس کے نہ آئی بات

۵۶۸۰

اب تو ہوئے ہیں ہم بھی ترے ڈھب سے آشنا

واں تو نے کچھ کہا کہ ادھر ہم نے پائی بات

بلبل کے بولنے میں سب انداز ہیں مرے

پوشیدہ کب رہے ہے کسو کی اڑائی بات

بھڑکا تھا رات دیکھ کے وہ شعلہ خو مجھے

کچھ رو سیہ رقیب نے شاید لگائی بات

عالم سیاہ خانہ ہے کس کا کہ روز و شب

یہ شور ہے کہ دیتی نہیں کچھ سنائی بات

اک دن کہا تھا یہ کہ خموشی میں ہے وقار

سو مجھ سے ہی سخن نہیں میں جو بتائی بات

۵۶۸۵

اب مجھ ضعیف و زار کو مت کچھ کہا کرو

جاتی نہیں ہے مجھ سے کسو کی اٹھائی بات

خط لکھتے لکھتے میرؔ نے دفتر کیے رواں

افراط اشتیاق نے آخر بڑھائی بات

 

(۷۸۵)

ہے زباں زد جو سکندر ہو چکا لشکر سمیت

سر بھی اس کا کھپ گیا آخر کو یاں افسر سمیت

چشمے آب شور کے نکلا کریں گے واں جہاں

رکھیں گے مجھ تلخ کام غم کو چشم تر سمیت

ہم اٹھے روتے تو لی گردوں نے پھر راہ گریز

بیٹھ جاوے گا یہ ماتم خانہ بام و در سمیت

۵۶۹۰

مستی میں شرم گنہ سے میں جو رویا ڈاڑھ مار

گر پڑا بے خود ہو واعظ جمعہ کو منبر سمیت

بعث اپنا خاک سے ہو گا گر اس شورش کے ساتھ

عرش کو سر پر اٹھا لیویں گے ہم محشر سمیت

کب تلک یوں لوہو پیتے ہاتھ اٹھا کر جان سے

وہ کمر کولی میں بھر لی ہم نے کل خنجر سمیت

گنج قاروں کا سا یاں کس کے کنے تھا سو تو میرؔ

خاک میں ملتا ہے اب تک اپنے مال و زر سمیت

 

(۷۸۶)

دیکھیے کب ہو وصال اب تو لگے ہے ڈر بہت

کوفت گذرے ہے فراق یار میں جی پر بہت

۵۶۹۵

دل کی ویسی ہے خرابی کثرت اندوہ سے

جیسے رہ پڑتا ہے دشمن کا کہیں لشکر بہت

ہم نشیں جا بیٹھ محنت کش کوئی دل چاہیے

عشق تیرا کام ہے تو ہے بغل پرور بہت

بس نہیں مجھ ناتواں کا ہائے جو کچھ کرسکوں

مدعی پُرچَک سے اس کی پڑ گیا ہے ور بہت

سخت کر جی کیونکے یک باری کریں ہم ترک شہر

ان گلی کوچوں میں ہم نے کھائے ہیں پتھر بہت

دیکھ روئے زرد پر بھی میرے آنسو کی ڈھلک

اے کہ تو نے دیکھی ہے غلطانی گوہر بہت

ہم نفس کیا مجھ کو تو رویا کرے ہے روز و شب

رہ گئے ہیں مجھ سے کوئے یار میں مر کر بہت

۵۷۰۰

کم مجھی سے بولنا کم آنکھ مجھ پر کھولنا

اب عنایت یار کی رہتی ہے کچھ ایدھر بہت

کیا سبب ہے اب مکاں پر جو کوئی پاتا نہیں

میرؔ صاحب آگے تو رہتے تھے اپنے گھر بہت

 

(۷۸۷)

 

ملامت گر نہ مجھ کو کر ملامت

جلے کو اور تو اتنا جلا مت

گلے مل عید قرباں کو سبھوں کے

ہمارا آہ تم کاٹو گلا مت

۵۷۰۵

تری ناآشنائی کے ہیں بندے

نہ وہ اب ربط نے صاحب سلامت

بہت رونے نے رسوا کر دکھایا

نہ چاہت کی چھپی ہم سے علامت

کبھو تلوار وہ کھینچے ہے  اے میرؔ

لڑی قسمت تو سر کو ٹک ہَلا مت

 

                ردیف چ

 

(۷۸۸)

 

آگ سا تو جو ہوا  اے گل تر آن کے بیچ

صبح کی باؤ نے کیا پھونک دیا کان کے بیچ

ہم نہ کہتے تھے کہیں زلف کہیں رخ نہ دکھا

اک خلاف آیا نہ ہندو و مسلمان کے بیچ

۵۷۱۰

باوجود ملکیت نہ ملک میں پایا

وہ تقدس کہ جو ہے حضرت انسان کے بیچ

پاسباں سے ترے کیا دور جو ہو ساز رقیب

ہے نہ اک طرح کی نسبت سگ و دربان کے بیچ

جیسی عزت مری دیواں میں امیروں کے ہوئی

ویسی ہی ان کی بھی ہو گی مرے دیوان کے بیچ

ساتھ ہے اس سر عریاں کے یہ وحشت کرنا

پگڑی الجھی ہے مری اب تو بیابان کے بیچ

وے پھری پلکیں اگر کھب گئیں جی میں تو وہیں

رخنے پڑ جائیں گے واعظ ترے ایمان کے بیچ

۵۷۱۵

کیا کہوں خوبی خط دیکھ ہوئی بند آواز

سرمہ گویا کہ دیا ان نے مجھے پان کے بیچ

گھر میں آئینے کے کب تک تمھیں نازاں دیکھوں

کبھو تو آؤ مرے دیدۂ حیران کے بیچ

میرزائی کا کب  اے میرؔ چلا عشق میں کام

کچھ تعب کھینچنے کو تاب تو ہو جان کے بیچ

 

(۷۸۹)

 

عشق میں  اے طبیب ہاں ٹک سوچ

پائے جاں درمیاں ہے یاں ٹک سوچ

بے تامل ادائے کیں مت کر

قتل میں میرے مہرباں ٹک سوچ

۵۷۲۰

سرسری مت جہاں سے جا غافل

پاؤں تیرا پڑے جہاں ٹک سوچ

پھیل اتنا پڑا ہے کیوں یاں تو

یار اگلے گئے کہاں ٹک سوچ

ہونٹ  اپنا ہلا نہ سمجھے بن

یعنی جب کھولے تو زباں ٹک سوچ

گل و رنگ و بہار پردے ہیں

ہر عیاں میں ہے وہ نہاں ٹک سوچ

فائدہ سر جھکے کا شیب میں میرؔ

پیری سے آگے  اے جواں ٹک سوچ

۵۷۲۵

 

(۷۹۰)

 

دل کھو گیا ہوں میں یہیں دیوانہ پن کے بیچ

تم بھی تو دیکھو زلف شکن در شکن کے بیچ

کیا جانے دل میں چاؤ تھے کیا کیا دم وصال

مہجور اس کا تھا ہمہ حسرت کفن کے بیچ

کنعاں سے جا کے مصر میں یوسفؑ ہوا عزیز

عزت کسو کی ہوتی نہیں ہے وطن کے بیچ

سن  اے جنوں کہ مجھ میں نہیں کچھ سوائے دم

تار ایک رہ گیا ہے یہی پیرہن کے بیچ

سرسبز ہند ہی میں نہیں کچھ یہ ریختہ

ہے دھوم میرے شعر کی سارے دکھن کے بیچ

۵۷۳۰

ستھرائی اور نازکی گلبرگ کی درست

پر ویسی بو کہاں کہ جو ہے اس بدن کے بیچ

ق

بلبل خموش و لالہ و گل دونوں سرخ و زرد

شمشاد محو بے کلی اک نسترن کے بیچ

کل ہم بھی سیر باغ میں تھے ساتھ یار کے

دیکھا تو اور رنگ ہے سارے چمن کے بیچ

ق

یا ساتھ غیر کے ہے تمھیں ویسی بات چیت

سو سو طرح کے لطف ہیں اک اک سخن کے بیچ

یا پاس میرے لگتی ہے چپ ایسی آن کر

گویا زباں نہیں ہے تمھاری دہن کے بیچ

۵۷۳۵

فرہاد و قیس و میرؔ یہ آوارگان عشق

یوں ہی گئے ہیں سب کی رہی من کی من کے بیچ

 

(۷۹۱)

 

جھوٹ ہر چند نہیں یار کی گفتار کے بیچ

دیر لیکن ہے قیامت ابھی دیدار کے بیچ

کس کی خوبی کے طلبگار ہیں عزت طلباں

خرقے بکنے کو چلے آتے ہیں بازار کے بیچ

خضر و عیسیٰ کے تئیں نام کو جیتا سن لو

جان ہے ورنہ کب اس کے کسو بیمار کے بیچ

اگلے کیا پیچ تمھارے نہ تھے بس عاشق کو

بال جو اور گھر سنے لگے دستار کے بیچ

۵۷۴۰

عشق ہے جس کو ترا اس سے تو رکھ دل کو جمع

زندگی کی نہیں امید اس آزار کے بیچ

ہم بھی اب ترک وفا ہی کریں گے کیا کریے

جنس یہ کھپتی نہیں آپ کی سرکار کے بیچ

دیدنی دشت جنوں ہے کہ پھپھولے پا کے

میں نے موتی سے پرو رکھے ہیں ہر خار کے بیچ

پردہ اٹھتا ہے تو پھر جان پر آ بنتی ہے

خوبی عاشق کی نہیں عشق کے اظہار کے بیچ

اس زمیں میں غزل اک اور بھی موزوں کر میرؔ

پاتے ہیں زور ہی لذت تری گفتار کے بیچ                    ۵۷۴۵

(۷۹۲)

 

آتی ہے خون کی بو دوستی یار کے بیچ

جی لیے ان نے ہزاروں کے یوں ہی پیار کے بیچ

حیف وہ کشتہ کہ سو رنج سے آوے تجھ تک

اور رہ جائے تری ایک ہی تلوار کے بیچ

گرچہ چھپتی نہیں ہے چاہ پہ رہ منکر پاک

جی ہی دینا پڑے ہے عشق کے اقرار کے بیچ

نالہ شب آوے قفس سے تو گل اب اس پہ نہ جا

یہی ہنکار سی ہے مرغ گرفتار کے بیچ

انس کرتا تو ہے وہ مجھ کو خرد باختہ جان

جیت میں اپنی نکالی ہے اسی ہار کے بیچ

۵۷۵۰

چال کیا کبک کی اک بات چلی آتی ہے

لطف نکلے ہیں ہزاروں تری رفتار کے بیچ

تو جو جاتا ہے چمن میں تو تماشے کے لیے

موسم رفتہ بھی پھر آوے ہے گلزار کے بیچ

داغ چیچک نہ اس افراط سے تھے مکھڑے پر

کن نے گاڑی ہیں نگاہیں ترے رخسار کے بیچ

گھٹّے شمشیر زنی سے کف نازک میں ہیں

یہ جگر داری تھی کس خوں کے سزاوار کے بیچ

توبہ صد بار کہ مستی میں پرو ڈالے ہیں

دانے تسبیح کے میں رشتۂ زنار کے بیچ

۵۷۵۵

حلقۂ گیسوئے خوباں پہ نہ کر چشم سیاہ

میرؔ امرت نہیں ہوتا دہن مار کے بیچ

 

                ردیف ح

 

(۷۹۳)

 

آنے کی اپنے کیا کہیں اس گلستاں کی طرح

ہر گام پر تلف ہوئے آب رواں کی طرح

کیا میں ہی چھیڑ چھیڑ کے کھاتا ہوں گالیاں

اچھی لگے ہے سب کو مرے بد زباں کی طرح

آگے تو بے طرح نہ کبھو کہتے تھے ہمیں

اب تازہ یہ نکالی ہے تم نے کہاں کی طرح

یہ شور دل خراش کب اٹھتا تھا باغ میں

سیکھے ہے عندلیب بھی ہم سے فغاں کی طرح

۵۷۶۰

کرتے تو ہو ستم پہ نہیں رہنے کے حواس

کچھ اور ہو گئی جو کسو خستہ جاں کی طرح

نقشہ الٰہی دل کا مرے کون لے گیا

کہتے ہیں ساری عرش میں ہے اس مکاں کی طرح

مرغ چمن نے زور رلایا سبھوں کے تیں

میری غزل پڑھی تھی شب اک روضہ خواں کی طرح

لگ کر گلے سے اس کے بہت میں بکا کیا

ملتی تھی سرو باغ میں کچھ اس جواں کی طرح

جو کچھ نہیں تو بجلی سے ہی پھول پڑ گیا

ڈالی چمن میں ہم نے اگر آشیاں کی طرح

۵۷۶۵

یہ باتیں رنگ رنگ ہماری ہیں ورنہ میرؔ

آ جاتی ہے کلی میں کبھو اس دہاں کی طرح

 

(۷۹۴)

دور گردوں سے ہوئی کچھ اور میخانے کی طرح

بھر نہ آویں کیونکے آنکھیں میری پیمانے کی طرح

آ نکلتا ہے کبھو ہنستا تو ہے باغ و بہار

اس کی آمد میں ہے ساری فصل گل آنے کی طرح

چشمک انجم میں اتنی دلکشی آگے نہ تھی

سیکھ لی تاروں نے اس کی آنکھ جھمکانے کی طرح

ہم گرفتاروں سے وحشت ہی کرے ہے وہ غزال

کوئی تو بتلاؤ اس کے دام میں لانے کی طرح

۵۷۷۰

ایک دن دیکھا جو ان نے بید کو تو کہہ اٹھا

اس شجر میں کتنی ہے اس میرے دیوانے کی طرح

آج کچھ شہر وفا کی کیا خرابی ہے نئی

عشق نے مدت سے یاں ڈالی ہے ویرانے کی طرح

پیچ سا کچھ ہے کہ زلف و خط سے ایسا ہے بناؤ

ہے دل صد چاک میں بھی ورنہ سب شانے کی طرح

کس طرح جی سے گذر جاتے ہیں آنکھیں موند کر

دیدنی ہے درد مندوں کے بھی مر جانے کی طرح

ہے اگر ذوق وصال اس کا تو جی کھو بیٹھیے

ڈھونڈ کر اک کاڑھیئے اب اس کے بھی پانے کی طرح

۵۷۷۵

یوں بھی سر چڑھتا ہے  اے ناصح کوئی مجھ سے کہ ہائے

ایسے دیوانے کو سمجھاتے ہیں سمجھانے کی طرح

جان کا صرفہ نہیں ہے کچھ تجھے کڑھنے میں میرؔ

غم کوئی کھاتا ہے میری جان غم کھانے کی طرح

 

 

                ردیف خ

 

(۷۹۵)

اگرچہ لعل بدخشاں میں رنگ ڈھنگ ہے شوخ

پہ تیرے دونوں لبوں کا بھی کیا ہی رنگ ہے شوخ

کبھو تو نیو چلا کر ستم کھنچیں کب تک

کماں کے طور سے تو سخت خانہ جنگ ہے شوخ

سکھائیں کن نے تجھے آہ ایسی اچپلیاں

کہ برق پر تری شوخی سے کام تنگ ہے شوخ

۵۷۸۰

بغیر بادہ تو یوں گرم آ کے کب ملتا

نشہ ہے زور تجھے اس کی یہ ترنگ ہے شوخ

جگر میں کس کے ترے ہاتھ سے نہیں سوراخ

ملک تلک تو ترا زخمی خدنگ ہے شوخ

صنم فراق میں میں تیرے کچھ تو کر رہتا

پہ کیا کروں کہ مرا ہاتھ زیرسنگ ہے شوخ

خیال چاہ کے سررشتے کا تجھے کب ہے

ترے تو ہاتھ میں شام و سحر پتنگ ہے شوخ

ابھی تو آنے میں عرصہ ہے کچھ قیامت کے

قد بلند کو کھینچ اپنے کیا درنگ ہے شوخ

۵۷۸۵

برآر میرؔ سے کس طرح تیری صحبت ہو

تجھے تو نام سے اس خستہ جاں کے ننگ ہے شوخ

 

 

                ردیف د

 

(۷۹۶)

رہیے بغیر تیرے  اے رشک ماہ تا چند

آنکھوں میں یوں ہماری عالم سیاہ تا چند

اب دیکھنے میں پیارے ٹک تو بڑھا عنایت

کوتاہ تر پلک سے ایدھر نگاہ تا چند

خط سے جو ہے گرفتہ وہ مہ نہیں نکلتا

مانند چشم اختر ہم دیکھیں راہ تا چند

عمر عزیز ساری منت ہی کرتے گذری

بے جرم آہ رہیے یوں عذر خواہ تا چند

۵۷۹۰

یاں ناز و سرکشی سے کیا دیکھتا نہیں ہے

کج اس چمن میں ٹھہری گل کی کلاہ تا چند

جب مہ ادھر سے نکلا جانا وہ گھر سے نکلا

رکھتا ہے داغ دیکھیں یہ اشتباہ تا چند

ایذا بھی کھنچ چکے گر جو ہفتے عشرے کی ہو

اس طرح مرتے رہیے  اے میرؔ آہ تا چند

 

(۷۹۷)

 

تجھ بن  اے نوبہار کے مانند

چاک ہے دل انار کے مانند

پہنچی شاید جگر تک آتش عشق

اشک ہیں سب شرار کے مانند

۵۷۹۵

کو دماغ اس کی رہ سے اٹھنے کا

بیٹھے اب ہم غبار کے مانند

کوئی نکلے کلی تو لالے کی

اس دل داغدار کے مانند

سرو کو دیکھ غش کیا ہم نے

تھا چمن میں وہ یار کے مانند

ہار کر شب گلے پڑے اس کے

ہم بھی پھولوں کے ہار کے مانند

برق تڑپی بہت ولے نہ ہوئی

اس دل بے قرار کے مانند

۵۸۰۰

ق

ان نے کھینچی تھی صید گہ میں تیغ

برق ابر بہار کے مانند

اس کے گھوڑے کے آگے سے نہ ٹلے

ہم بھی دبلے شکار کے مانند

ق

زخم کھا بیٹھیو جگر پر مت

تو بھی مجھ دل فگار کے مانند

اس کی سرتیز ہر پلک ہے میرؔ

خنجر آبدار کے مانند

 

(۷۹۸)

 

آواز ہماری سے نہ رک ہم ہیں دعا یاد

آوے گی بہت ہم بھی فقیروں کی صدا یاد

۵۸۰۵

ہر آن وہ انداز ہے جس میں کہ کھپے جی

اس مخترع جور کو کیا کیا ہے ادا یاد

کیا صحبتیں اگلی گئیں خاطر سے ہماری

اپنی بھی وفا یاد ہے اس کی بھی جفا یاد

کیفیتیں عطار کے لونڈے میں بہت تھیں

اس نسخے کی کوئی نہ رہی حیف دوا یاد

کیا جائے کہی بوس لب یار کی لذت

جب تک جئیں گے ہم کو رہے گا وہ مزہ یاد

جی بھول گیا دیکھ کے چہرہ وہ کتابی

ہم عصر کے علامہ تھے پر کچھ نہ رہا یاد

۵۸۱۰

سب غلطی رہی بازی طفلانہ کی یک سو

وہ یاد فراموش تھے ہم کو نہ کیا یاد

کعبے تو گئے بھول کے ہم دیر کا رستہ

آتا تھا ولے راہ میں ہر گام خدا یاد

اک لطف کے شرمندہ نہیں میرؔ ہم اس سے

گو یاں سے گئے ان نے بہت ہم کو کیا یاد

 

(۷۹۹)

 

اسیر کر کے نہ لی تو نے تو خبر صیاد

اڑا کیے مرے پرکالۂ جگر صیاد

پھریں گے لوٹتے صحن چمن میں باؤ کے ساتھ

موئے گئے بھی مرے مشت بال و پر صیاد

۵۸۱۵

رہے گی ایسی ہی گر بے کلی ہمیں اس سال

تو دیکھیو کہ رہے ہم قفس میں مر صیاد

چمن کی باؤ کے آتے خبر نہ اتنی رہی

کہ میں کدھر ہوں کدھر ہے قفس کدھر صیاد

شکستہ بالی کو چاہے تو ہم سے ضامن لے

شکار موسم گل میں ہمیں نہ کر صیاد

ہوا نہ وا در گلزار اپنے ڈھب سے کبھو

کھلا سو منھ پہ ہمارے قفس کا در صیاد

سنا ہے بھڑکی ہے اب کی بہت ہی آتش گل

چمن میں اپنے بھی ہیں خار و خس کے گھر صیاد

۵۸۲۰

لگی بہت رہیں چاک قفس سے آنکھیں لیک

پڑا نہ اب کے کوئی پھول گل نظر صیاد

اسیر میرؔ نہ ہوتے اگر زباں رہتی

ہوئی ہماری یہ خوش خوانی سحر صیاد

 

(۸۰۰)

 

لڑ کے پھر آئے ڈر گئے شاید

بگڑے تھے کچھ سنور گئے شاید

سب پریشاں دلی میں شب گذری

بال اس کے بکھر گئے شاید

کچھ خبر ہوتی تو نہ ہوتی خبر

صوفیاں بے خبر گئے شاید

۵۸۲۵

ہیں مکان و سرا و جا خالی

یار سب کوچ کر گئے شاید

آنکھ آئینہ رو چھپاتے ہیں

دل کو لے کر مکر گئے شاید

لوہو آنکھوں میں اب نہیں آتا

زخم اب دل کے بھر گئے شاید

اب کہیں جنگلوں میں ملتے نہیں

حضرت خضر مر گئے شاید

بے کلی بھی قفس میں ہے دشوار

کام سے بال و پر گئے شاید

۵۸۳۰

شور بازار سے نہیں اٹھتا

رات کو میرؔ گھر گئے شاید

 

(۸۰۱)

 

بنی تھی کچھ اک اس سے مدت کے بعد

سو پھر بگڑی پہلی ہی صحبت کے بعد

جدائی کے حالات میں کیا کہوں

قیامت تھی ایک ایک ساعت کے بعد

موا کوہکن بے ستوں کھود کر

یہ راحت ہوئی ایسی محنت کے بعد

لگا آگ پانی کو دوڑے ہے تو

یہ گرمی تری اس شرارت کے بعد

۵۸۳۵

کہے کو ہمارے کب ان نے سنا

کوئی بات مانی سو منت کے بعد

سخن کی نہ تکلیف ہم سے کرو

لہو ٹپکے ہے اب شکایت کے بعد

نظر میرؔ نے کیسی حسرت سے کی

بہت روئے ہم اس کی رخصت کے بعد

 

                ردیف ر

 

(۸۰۲)

 

رفتار میں یہ شوخی رحم  اے جواں زمیں پر

لاتا ہے تازہ آفت تو ہر زماں زمیں پر

آنکھیں لگی رہیں گی برسوں وہیں سبھوں کی

ہو گا قدم کا تیرے جس جا نشاں زمیں پر

۵۸۴۰

میں مشت خاک یارب بارگران غم تھا

کیا کہیے آ پڑا ہے اک آسماں زمیں پر

آنکھیں ہی بچھ رہی ہیں لوگوں کی تیری رہ میں

ٹک دیکھ کر قدم رکھ  اے کام جاں زمیں پر

خاک سیہ سے یکساں ہر ایک ہے کہے تو

مارا اٹھا فلک نے سارا جہاں زمیں پر

چشمے کہیں ہیں جوشاں جوئیں کہیں ہیں جاری

جوں ابر ہم نہ روئے اس بن کہاں زمیں پر

آتا نہ تھا فرو سرجن کا کل آسماں سے

ہیں ٹھوکروں میں ان کے آج استخواں زمیں پر

۵۸۴۵

جو کوئی یاں سے گذرا کیا آپ سے نہ گذرا

پانی رہا کب اتنا ہو کر رواں زمیں پر

پھر بھی اٹھا لی سر پر تم نے زمیں سب آ کر

کیا کیا ہوا تھا تم سے کچھ آگے یاں زمیں پر

کچھ بھی مناسبت ہے یاں عجز واں تکبر

وے آسمان پر ہیں میں ناتواں زمیں پر

پست و بلند یاں کا ہے اور ہی طرف سے

اپنی نظر نہیں ہے کچھ آسماں زمیں پر

قصر جناں تو ہم نے دیکھا نہیں جو کہیے

شاید نہ ہووے دل سا کوئی مکاں زمیں پر

۵۸۵۰

یاں خاک سے انھوں کی لوگوں نے گھر بنائے

آثار ہیں جنھوں کے اب تک عیاں زمیں پر

کیا سر جھکا رہے ہو میرؔ اس غزل کو سن کر

بارے نظر کرو ٹک  اے مہرباں زمیں پر

 

(۸۰۳)

 

کیا کیا نہ ہم نے کھینچے آزار تیری خاطر

اب ہو گئے ہیں آخر بیمار تیری خاطر

غیروں کی بے دماغی بیتابی چھاتی داغی

یہ سب ستم اٹھائے  اے یار تیری خاطر

کیا جانیے کہ ہے تو کیا جنس بیش قیمت

جاتے ہیں پگڑی جامے بازار تیری خاطر

۵۸۵۵

اک بار تو نے آ کر خاطر نہ رکھی میری

میں جی سے اپنے گذرا سو بار تیری خاطر

میں کیا کہ آہ کافر دیں کے اکابروں نے

قشقے لگائے پہنے زنار تیری خاطر

گو دل دھسک ہی جاوے آنکھیں ابل ہی آویں

سب اونچ نیچ کی ہے ہموار تیری خاطر

ایک آن تیرے ابرو ایدھر جھکے نہ پائے

سو سو میں میں نے کھینچی تلوار تیری خاطر

کیا چیز ہے تو پیارے مفلس ہیں داغ تیرے

پیسے لیے پھرے ہیں زردار تیری خاطر

۵۸۶۰

تجھ سے دوچار ہونا پھر آہ بن نہ آیا

دی جان میرؔ جی نے ناچار تیری خاطر

 

(۸۰۴)

اے صبا گر شہر کے لوگوں میں ہو تیرا گذار

کہیو ہم صحرا نوردوں کا تمامی حال زار

خاک دہلی سے جدا ہم کو کیا یک بارگی

آسماں کو تھی کدورت سو نکالا یوں غبار

منصب بلبل غزل خوانی تھا سو تو ہے اسیر

شاعری زاغ و زغن کا کیوں نہ ہووے اب شعار

طائر خوش زمزمہ کنج قفس میں ہے خموش

چہچہے چہیاں کریں ہیں صحن گلشن میں ہزار

۵۸۶۵

برگ گل سے بھی کیا نہ ایک نے ٹک ہم کو یاد

نامہ و پیغام و پرسش بے مراتب درکنار

بے خلش کیونکر نہ ہو گرم سخن گلزار میں

میں قفس میں ہوں کہ میرا تھا دلوں میں خار خار

بلبل خوش لہجہ کے جائے پہ گو غوغائیاں

طرح غوغا کی چمن میں ڈالیں پر کیا اعتبار

طائران خوش لب و لہجہ نہیں رہتے چھپے

شور سے ان کے بھرے ہیں قریہ و شہر و دیار

شہر کے کیا ایک دو کوچوں میں تھی شہرت رہی

شہروں شہروں ملکوں ملکوں ہے انھوں کا اشتہار

۵۸۷۰

کیا کہوں سوئے چمن ہوتا جو میں سرگرم گشت

پھول گل جب کھلنے لگتے جوش زن ہوتی بہار

شور سن سن کر غزل خوانی کا میری ہم صفیر

غنچہ ہو آتے جو ہوتا آب و رنگ شاخسار

خوش نوائی کا جنھیں دعویٰ تھا رہ جاتے خموش

جن کو میں کرتا مخاطب ان کو ہوتا افتخار

بعضوں کو رشک قبول خاطر و لطف سخن

بعضوں کا سینہ فگار و بعضوں کا دل داغدار

ایکوں کے ہونٹوں کے اوپر آفریں استاد تھا

ایک کہتے تھے رسوخ دل ہے اپنا استوار

۵۸۷۵

ربط کا دعویٰ تھا جن کو کہتے تھے مخلص ہیں ہم

جانتے ہیں ذات سامی ہی کو ہم سب خاکسار

نقل کرتے کیا یہ صحبت منعقد جب ہوتی بزم

بیٹھ کر کہتے تھے منھ پر میرے بعضے بعضے یار

بندگی ہے خدمت عالی میں ہم کو دیر سے

کر رکھی ہے جان اپنی ہم نے حضرت پر نثار

سو نہ خط ان کا نہ کوئی پرچہ پہنچا مجھ تلک

واہ وا ہے رابطہ رحمت ہے یہ اخلاص و پیار

رفتہ رفتہ ہو گئیں آنکھیں مری دونوں سفید

بسکہ نامے کا کیا یاروں کے میں نے انتظار

۵۸۸۰

لکھتے گر دو حرف لطف آمیز بعد از چند روز

تو بھی ہوتا اس دل بے تاب و طاقت کو قرار

سو تو یک ننوشتہ کاغذ بھی نہ آیا میرے پاس

ان ہم آوازوں سے جن کا میں کیا ربط آشکار

خط کتابت سے یہ کہتے تھے نہ بھولیں گے تجھے

آویں گے گھر بار کی تیرے خبر کو بار بار

جب گیا میں یاد سے تب کس کا گھر کاہے کا پاس

آفریں صد آفریں  اے مردمان روزگار

اب بیاباں در بیاباں ہے مرا شور و فغاں

گو چمن میں خوش کی تم نے میری جائے نالہ وار

۵۸۸۵

ہے مثل مشہور یہ عمر سفر کوتاہ ہے

طالع برگشتہ بھی کرتے ہیں اب امداد کار

اک پر افشانی میں بھی ہے یہ وطن گلزار سا

سامعوں کی چھاتیاں نالوں سے ہوویں گی فگار

منھ پہ آویں گے سخن آلودۂ خون جگر

کیونکہ یاران زماں سے چاک ہے دل جوں انار

لب سے لے کر تا سخن ہیں خونچکاں شکوے بھرے

لیک ہے اظہار ہر ناکس سے اپنا ننگ و عار

چپ بھلی گو تلخ کامی کھینچنی اس میں پڑے

بیت بحثی طبع نازک پر ہے اپنی ناگوار

۵۸۹۰

آج سے کچھ بے حسابی جور کن مردم نہیں

ان سے اہل دل سدا کھینچے ہیں رنج بے شمار

بس قلم رکھ ہاتھ سے جانے بھی دے یہ حرف میرؔ

کاہ کے چاہے نہیں کہسار ہوتے بے وقار

کام کے جو لوگ صاحب فن ہیں سو محسود ہیں

بے تہی کرتے رہیں گے حاسدان نابکار

 

(۸۰۵)

آغشتہ خون دل سے سخن تھے زبان پر

رکھے نہ تم نے کان ٹک اس داستان پر

کچھ ہو رہے گا عشق و ہوس میں بھی امتیاز

آیا ہے اب مزاج ترا امتحان پر

۵۸۹۵

یہ دلبری کے فن و فریب اتنی عمر میں

جھنجھلاہٹ اب تو آوے ہے اس کے سیان پر

محتاج کر خدا نہ نکالے کہ جوں ہلال

تشہیر کون شہر میں ہو پارہ نان پر

دیکھا نہ ہم نے چھوٹ میں یاقوت کی کبھو

تھا جو سماں لبوں کے ترے رنگ پان پر

کیا رہروان راہ محبت ہیں طرفہ لوگ

اغماض کرتے جاتے ہیں جی کے زیان پر

پہنچا نہ اس کی داد کو مجلس میں کوئی رات

مارا بہت پتنگ نے سر شمع دان پر

۵۹۰۰

یہ چشم شوق طرفہ جگہ ہے دکھاؤ کی

ٹھہرو بقدر یک مژہ تم اس مکان پر

بزاز کے کو دیکھ کے خرقے بہت پھٹے

بیٹھا وہ اس قماش سے آ کر دکان پر

موزوں کرو کچھ اور بھی شاید کہ میرؔ جی

رہ جائے کوئی بات کسو کی زبان پر

 

(۸۰۶)

کیا کیا نہ لوگ کھیلتے جاتے ہیں جان پر

اطفال شہر لائے ہیں آفت جہان پر

کچھ ان دنوں اشارۂ ابرو ہیں تیز تیز

کیا تم نے پھر رکھی ہے یہ تلوار سان پر

۵۹۰۵

تھوڑے میں دور کھینچے ہے کیا آدم آپ کو

اس مشت خاک کا ہے دماغ آسمان پر

کس پر تھے بے دماغ کہ ابرو بہت ہے خم

کچھ زور سا پڑا ہے کہیں اس کمان پر

کس رنگ راہ پائے نگاریں سے تو چلا

ہونے لگے ہیں خون قدم کے نشان پر

چرچا سا کر دیا ہے مرے شور عشق نے

مذکور اب بھی ہے یہ ہر اک کی زبان پر

پی پی کے اپنا لوہو رہیں گو کہ ہم ضعیف

جوں رینگتی نہیں ہے انھوں کے تو کان پر

۵۹۱۰

یہ وہم ہے کہ اور کا ہے میرے تیں خیال

تو مار ڈالیو نہ مجھے اس گمان پر

کیفیتیں ہزار ہیں اس کام جاں کے بیچ

دیتے ہیں لوگ جان تو ایک ایک آن پر

دامن میں آج میرؔ کے داغ شراب ہے

تھا اعتماد ہم کو بہت اس جوان پر

 

(۸۰۷)

مت آنکھ ہمیں دیکھ کے یوں مار دیا کر

غمزے ہیں بلا ان کو نہ سنکار دیا کر

آئینے کی مشہور پریشاں نظری ہے

تو سادہ ہے ایسوں کو نہ دیدار دیا کر

۵۹۱۵

سو بار کہا غیر سے صحبت نہیں اچھی

اس جیف کو مجلس میں نہ تو بار دیا کر

کیوں آنکھوں میں سرمے کا تو دنبالہ رکھے ہے

مت ہاتھ میں ان مستوں کے تلوار دیا کر

کچھ خوب نہیں اتنا ستانا بھی کسو کا

ہے میرؔ فقیر اس کو نہ آزار دیا کر

 

(۸۰۸)

 

طاقت نہیں ہے جان میں کڑھنا تعب ہے اور

بے لطفیاں کرو ہو یہ تس پر غضب ہے اور

ہر چند چپ ہوں لیک مرا حال ہے عجب

احوال پرسی تو نہ کرے تو عجب ہے اور

۵۹۲۰

آنکھ اس کی اس طرح سے نہیں پڑتی ٹک ادھر

اب خوب دیکھتے ہیں تو چتون کا ڈھب ہے اور

کیا کہیے حال دل کا جدائی کی رات میں

گذرے ہے کب کہانی کہے سے یہ شب ہے اور

دل لے چکے دکھا کے رخ خوب کو تبھی

اب منھ چھپا جو بیٹھے یہ حسن طلب ہے اور

اس دل لگے کے روگ کو نسبت مرض سے کیا

اپنا یہ جلتے رہنا ہے کچھ اور تب ہے اور

طور اگلے تیرے ملتے نہیں اس طرح سے ٹک

وہ اور کچھ تھا ہم سے تو پیارے یہ اب ہے اور

۵۹۲۵

کیا بات تیری  اے ہمہ عیاری و فریب

آنکھیں کہیں ہیں اور سخن زیر لب ہے اور

اسباب مرگ کے تو مہیا ہیں سارے میرؔ

شاید کہ زندگانی کا اپنی سبب ہے اور

 

(۸۰۹)

 

آ ہم نشیں کسو کے مت عشق کی ہوس کر

جاتی ہیں یوں ہی ناداں جانیں ترس ترس کر

فرصت سے اس چمن کی کل روکے میں جو پوچھا

چشمک کی ایک گل نے میری طرف کو ہنس کر

ہم موسے ناتواں تھے سو ہو چکے ہیں کب کے

نکلے ہو تم پیارے کس پر کمر کو کس کر

۵۹۳۰

جی رک گیا کہیں تو پھر ہوئے گا اندھیرا

مت چھیڑ ابر مجھ کو یوں ہی برس برس کر

کیا ایک تنگ میں ہوں اس زلف پر شکن سے

اس دام میں موئے ہیں بہتیرے صید پھنس کر

اک جمع کے سر اوپر روز سیاہ لایا

پگڑی میں بال اپنے نکلا جو وہ گھڑس کر

اس قافلے میں کوئی دل آشنا نہیں ہے

ٹکڑے گلے کے اپنے ناحق نہ  اے جرس کر

صیاد اگر اجازت گلگشت کی نہیں ٹک

دیوار باغ کو تو بارے درقفس کر

۵۹۳۵

بے بس ہے میرؔ تجھ بن رہتا نہیں دل اس کا

ٹک تو بھی  اے ستم جو جور و ستم کو بس کر

 

(۸۱۰)

 

آئی ہے اس کے کوچے سے ہو کر صبا کچھ اور

کیا سر میں خاک ڈالتی ہے اب ہوا کچھ اور

تدبیر دوستوں کی مجھے نفع کیا کرے

بیماری اور کچھ ہے کریں ہیں دوا کچھ اور

مستان عشق و اہل خرابات میں ہے فرق

مے خوارگی کچھ اور ہے یہ نشہ تھا کچھ اور

کیا نسبت اس کی قامت دلکش سے سرو کو

انداز اس کا اور کچھ اس کی ادا کچھ اور

۵۹۴۰

مانجا جو آرسی نے بہت آپ کو تو کیا

رخسار کے ہے سطح کی اس کے صفا کچھ اور

اس کی زیادہ گوئی سے دل داغ ہو گیا

شکوہ کیا جب اس سے تب ان نے کہا کچھ اور

اس طور سے تمھارے تو مرتے نہیں ہیں ہم

اب واسطے ہمارے نکالو جفا کچھ اور

صورت پرست ہوتے نہیں معنی آشنا

ہے عشق سے بتوں کے مرا مدعا کچھ اور

مرنے پہ جان دیتے ہیں وارفتگان عشق

ہے میرؔ راہ و رسم دیار وفا کچھ اور

۵۹۴۵

(۸۱۱)

 

چمکی ہے جب سے برق سحر گلستاں کی اور

جی لگ رہا ہے خار و خس آشیاں کی اور

وہ کیا یہ دل لگے ہے فنا میں کہ رفتگاں

منھ کر کے بھی نہ سوئے کبھو پھر جہاں کی اور

رنگ سخن تو دیکھ کہ حیرت سے باغ میں

رہ جاتے ہیں گے دیکھ کے گل اس دہاں کی اور

آنکھیں سی کھل ہی جائیں گی جو مر گیا کوئی

دیکھا نہ کر غضب سے کسو خستہ جاں کی اور

کیا بے خبر ہے رفتن رنگین عمر سے

جوئے چمن میں دیکھ ٹک آب رواں کی اور

۵۹۵۰

یاں تاب سعی کس کو مگر جذب عشق کا

لاوے اسی کو کھینچ کسو ناتواں کی اور

یارب ہے کیا مزہ سخن تلخ یار میں

رہتے ہیں کان سب کے اسی بد زباں کی اور

یا دل وہ دیدنی تھی جگہ یا کہ تجھ بغیر

اب دیکھتا نہیں ہے کوئی اس مکاں کی اور

آیا کسے تکدر خاطر ہے زیر خاک

جاتا ہے اکثر اب تو غبار آسماں کی اور

کیا حال ہو گیا ہے ترے غم میں میرؔ کا

دیکھا گیا نہ ہم سے تو ٹک اس جواں کی اور

۵۹۵۵

 

(۸۱۲)

 

نئے طور سیکھے نکالے ڈھب اور

مگر اور تھے تب ہوئے ہو اب اور

ادا کچھ ہے انداز کچھ ناز کچھ

تہ دل ہے کچھ اور زیر لب اور

لب سرخ کو ٹک دکھاتے نہیں

طرح پان کھانے کی تھی کچھ جب اور

نہ گرمی نہ جوشش نہ اب وہ تپاک

تکلف نہیں اس میں تھے تم تب اور

زمانہ مرا کیونکے یکساں رہے

اٹھاویں گے تیرے ستم یہ کب اور

۵۹۶۰

جدا اتفاقاً رہا ایک میرؔ

وگرنہ ملے یوں تو اس سے سب اور

 

(۸۱۳)

 

آخر دکھائی عشق نے چھاتی فگار کر

تصدیع کھینچی ہم نے یہ کام اختیار کر

اس باعث حیات سے کیا کیا ہیں خواہشیں

پر دم بخود ہی رہتے ہیں ہم جی کو مار کر

ٹک سامنے ہوا کہ نہ ایماں نہ دین و دل

کافر کو بھی نہ اس سے الٰہی دوچار کر

جا شوق پر نہ جا تن زار و نزار پر

اے ترک صید پیشہ ہمیں بھی شکار کر

۵۹۶۵

وہ سخت باز داؤ میں آتا نہیں ہے ہائے

کس طور جی کو ہم نہ لگا بیٹھیں ہار کر

ہم آپ سے گئے تو گئے پر بسان نقش

بیٹھا تو روز حشر تئیں انتظار کر

کن آنکھوں دیکھیں رنگ خزاں کے کہ باغ سے

گل سب چلے ہیں رخت سفر اپنا بار کر

جل تھل بھریں نہ جب تئیں دم تب تئیں نہ لیں

ہم اور ابر آج اٹھے ہیں قرار کر

اک صبح میری چھاتی کے داغوں کو دیکھ تو

یہ پھول گل بھی زور رہے ہیں بہار کر

۵۹۷۰

مرتے ہیں میرؔ سب پہ نہ اس بیکسی کے ساتھ

ماتم میں تیرے کوئی نہ رویا پکار کر

 

(۸۱۴)

جنوں میں اب کے کام آئی نہ کچھ تدبیر بھی آخر

گئی کل ٹوٹ میرے پاؤں کی زنجیر بھی آخر

اگر ساکت ہیں ہم حیرت سے پر ہیں دیکھنے قابل

کہ اک عالم رکھے ہے عالم تصویر بھی آخر

یکایک یوں نہیں ہوتے ہیں پیارے جان کے لاگو

کبھو آدم ہی سے ہو جاتی ہے تقصیر بھی آخر

کلیجہ چھن گیا پر جان سختی کش بدن میں ہے

ہوئے اس شوخ کے ترکش کے سارے تیر بھی آخر

۵۹۷۵

نہ دیکھی ایک وا شد اپنے دل کی اس گلستاں میں

کھلے پائے ہزاروں غنچۂ دلگیر بھی آخر

سروکار آہ کب تک خامہ و کاغذ سے یوں رکھیے

رکھے ہے انتہا احوال کی تحریر بھی آخر

پھرے ہے باؤلا سا پیچھے ان شہری غزالوں کے

بیاباں مرگ ہو گا اس چلن سے میرؔ بھی آخر

 

(۸۱۵)

رہ جاؤں چپ نہ کیونکے برا جی میں مان کر

آؤ بھلا کبھو تو سو جاؤ زبان کر

کہتے ہیں چلتے وقت ملاقات ہے ضرور

جاتے ہیں ہم بھی جان سے ٹک دیکھو آن کر

۵۹۸۰

کیا لطف تھا کہ میکدے کی پشت بام پر

سوتے تھے مست چادر مہتاب تان کر

آیا نہ چل کے یاں تئیں وہ باعث حیات

مارا ہے ان نے جان سے ہم کو تو جان کر

ایسے ہی تیز دست ہو خونریزی میں تو پھر

رکھو گے تیغ جور کی یک چند میان کر

یہ بے مروتی کہ نگہ کا مضائقہ

اتنا تو میری جان نہ مجھ سے سیان کر

رنگین گور کرنی شہیدوں کی رسم ہے

تو بھی ہماری خاک پہ خوں کے نشان کر

۵۹۸۵

رکھنا تھا وقت قتل مرا امتیاز ہائے

سو خاک میں ملایا مجھے سب میں سان کر

تم تیغ جور کھینچ کے کیا سوچ میں گئے

مرنا ہی اپنا جی میں ہم آئے ہیں ٹھان کر

وے دن گئے کہ طاقت دل کا تھا اعتماد

اب یوں کھڑے کھڑے نہ مرا امتحان کر

اس گوہر مراد کو پایا نہ ہم نے میرؔ

پایان کار مر گئے یوں خاک چھان کر

 

(۸۱۶)

مجھ کو قفس میں سنبل و  ریحاں کی کیا خبر

کہہ  اے نسیم صبح گلستاں کی کیا خبر

۵۹۹۰

رہتا ہے ایک نشہ انھیں جن کو ہے شناخت

ہے زاہدوں کو مستی و عرفاں کی کیا خبر

ٹک پوچھتے جو آن نکلتا کوئی ادھر

اب بعد مرگ قیس بیاباں کی کیا خبر

برباد جائے یاں کوئی دولت تو کیا عجب

آئی ہے تم کو ملک سلیماں کی کیا خبر

آیا ہے ایک شہر غریباں سے تازہ تو

میرؔ اس جوان حال پریشاں کی کیا خبر

 

(۸۱۷)

اب تنگ ہوں بہت میں مت اور دشمنی کر

لاگو ہو میرے جی کا اتنی ہی دوستی کر

۵۹۹۵

جب تک شگاف تھے کچھ اتنا نہ جی رکے تھا

پچھتائے ہم نہایت سینے کے چاک سی کر

قصہ نہیں سنا کیا یوسفؑ ہی کا جو تو نے

اب بھائیوں سے چندے تو گرگ آشتی کر

ناسازی و خشونت جنگل ہی چاہتی ہے

شہروں میں ہم نہ دیکھا بالیدہ ہوتے کیکر

کچھ آج اشک خونیں میں نے نہیں چھپائے

رہ رہ گیا ہوں برسوں لوہو کو اپنے پی کر

کس مردنی کو اس بن بھاتی ہے زندگانی

بس جی چکا بہت میں اب کیا کروں گا جی کر

۶۰۰۰

حرف غلط کو سن کر درپے نہ خوں کے ہونا

جو کچھ کیا ہے میں نے پہلے اسے سہی کر

دن رات کڑھتے کڑھتے میں بھی بہت رکا ہوں

جو تجھ سے ہوسکے سو اب تو بھی مت کمی کر

رہتی ہے سو نکوئی رہتا نہیں ہے کوئی

تو بھی جو یاں رہے تو زنہار مت بدی کر

تھی جب تلک جوانی رنج و تعب اٹھائے

اب کیا ہے میرؔ جی میں ترک ستمگری کر

 

                ردیف ز

 

(۸۱۸)

 

اس شوخ سے سنا نہیں نام صبا ہنوز

غنچہ ہے وہ لگی نہیں اس کو ہوا ہنوز

۶۰۰۵

عاشق کے اس کو گریۂ خونیں کا درد کیا

آنسو نہیں ہے آنکھ سے جس کی گرا ہنوز

کیا جانے وہ کہ گذرے ہے یاروں کے جی پہ کیا

مطلق کسو سے اس کا نہیں دل لگا ہنوز

برسوں میں نامہ بر سے مرا نام جو سنا

کہنے لگا کہ زندہ ہے وہ ننگ کیا ہنوز

گھگھیاتے رات کے تئیں باچھیں تو پھٹ گئیں

ناواقف قبول ہے لیکن دعا ہنوز

کیا کیا کرے ہے حجتیں قاصد سے لیتے خط

حالانکہ وہ ہوا نہیں حرف آشنا ہنوز

۶۰۱۰

سو بار ایک دم میں گیا ڈوب ڈوب جی

پر بحر غم کی پائی نہ کچھ انتہا ہنوز

خط سے ہے بے وفائی حسن اس کی آئینہ

ہم سادگی سے رکھتے ہیں چشم وفا ہنوز

سو عقدے فرط شوق سے پیش آئے دل کو یاں

واں بند اس قبا کے نہیں ہوتے وا ہنوز

یاں میرؔ ہم تو پہنچ گئے مرگ کے قریب

واں دلبروں کو ہے وہی قصد جفا ہنوز

 

(۸۱۹)

 

ہے میرے لوہو رونے کا آثار سا ہنوز

کوچہ کوئی کوئی ہے چمن زار سا ہنوز

۶۰۱۵

کب تک کھنچے گی صبح قیامت کی شام کو

عرصے میں میں کھڑا ہوں گنہگار سا ہنوز

مدت ہوئی کہ خون جگر میں نہیں ولے

جاتا ہے آنسوؤں کا چلا تار سا ہنوز

سایہ سا آ گیا تھا نظر اس کا ایک دن

مبہوت میں پھروں ہوں پری دار سا ہنوز

برسوں سے گل چمن میں نکلتے ہیں رنگ رنگ

نکلا نہیں ہے ایک رخ یار سا ہنوز

دیکھا تھا خانہ باغ میں پھرتے اسے کہیں

گل حیرتی ہے صورت دیوار سا ہنوز

۶۰۲۰

مدت سے ترک عشق کیا میرؔ نے ولے

زار و زبون و زرد ہے بیمار سا ہنوز

 

(۸۲۰)

 

کب تک بھلا بتاؤ گے یوں صبح و شام روز

آؤ کہیں کہ رہتے ہیں رفتہ تمام روز

وہ سرکشی سے گو متوجہ نہ ہو ادھر

ہم عاجزانہ کرتے ہیں اس کو سلام روز

گہ رنج کھینچنے کو کہے گہ ہلاک کو

پہنچے ہے ہم کو اس سے نیا اک پیام روز

منظور بندگی نہیں میری تو کیا کروں

حاضر ہے اپنی اور سے یوں تو غلام روز

۶۰۲۵

برسوں ہوئے کہ رات کو ٹک بیٹھتے نہیں

رہتے ہیں تم کو میرؔ جی کیا ایسے کام روز

 

                ردیف س

 

(۸۲۱)

 

گئے جس دم سے ہم اس تند خو پاس

رہے خنجر ستم ہی کے گلو پاس

قیامت ہے نہ  اے سرمایۂ جاں

نہ ہووے وقت مرنے کے بھی تو پاس

رلایا ہم نے پہروں رات اس کو

کہا یہ قصۂ غم جس کسو پاس

کہیں اک دور کی سی کچھ تھی نسبت

رکھا تھا آئینے کو اس کے رو پاس

۶۰۳۰

دل  اے چشم مروت کیوں نہ خوں ہو

تجھے ہم جب نہ تب دیکھیں عدو پاس

یہی گالی یہی جھڑکی یہی چھیڑ

نہ کچھ میرا کیا تو نے کبھو پاس

چل اب  اے میرؔ بس اس سرو قد بن

بہت رویا چمن کی آب جو پاس

 

(۸۲۲)

 

جب بٹھاویں مجھے جلاد جفا کار کے پاس

تو بھی ٹک آن کھڑا ہو جو گنہگار کے پاس

درد مندوں سے تمھیں دور پھرا کرتے ہو کچھ

پوچھنے ورنہ سبھی آتے ہیں بیمار کے پاس

۶۰۳۵

چشم مست اپنی سے صحبت نہ رکھا کر اتندی

بیٹھیے بھی تو بھلا مردم ہشیار کے پاس

خندہ و چشمک و حرف و سخن زیرلبی

کہیے جو ایک دو افسون ہوں دلدار کے پاس

داغ ہونا نظر آتا ہے دلوں کا آخر

یہ جو اک خال پڑا ہے ترے رخسار کے پاس

خط نمودار ہوئے اور بھی دل ٹوٹ گئے

یہ بلا نکلی نئی زلف شکن دار کے پاس

در گلزار پہ جانے کے نصیب اپنے کہاں

یوں ہی مریے گا قفس کی کبھو دیوار کے پاس

۶۰۴۰

کیا رکھا کرتے ہو آئینے سے صحبت ہر دم

ٹک کبھو بیٹھو کسی طالب دیدار کے پاس

دل کو یوں لیتے ہو کھٹکا نہیں ہونے پاتا

تربیت پائی ہے تم نے کسو عیار کے پاس

مورچہ جیسے لگے تنگ شکر کو آ کر

خط نمودار ہے یوں لعل شکر بار کے پاس

جس طرح کفر بندھا ہے گلے اسلام کہاں

یوں تو تسبیح بھی ہم رکھتے ہیں زنار کے پاس

ہم نہ کہتے تھے نہ مل مغبچوں سے  اے زاہد

ابھی تسبیح دھری تھی تری دستار کے پاس

۶۰۴۵

نارسائی بھی نوشتے کی مرے دور کھنچی

اتنی مدت میں نہ پہنچا کوئی خط یار کے پاس

اختلاط ایک تمھیں میرؔ ہی غم کش سے نہیں

جب نہ تب یوں تو نظر آتے ہو دوچار کے پاس

 

(۸۲۳)

 

عزت نہیں ہے دل کی کچھ اس دلربا کے پاس

رہتی ہے آرسی ہی دھری خود نما کے پاس

پہروں شبوں کو غم میں ترے جاگتے رہے

ہو آہنیں جگر سو کرے بے وفا کے پاس

راہ و روش رکھیں ہیں جدا دردمند عشق

زنہار یہ کھڑے نہیں ہوتے دوا کے پاس

۶۰۵۰

کیا جانے قدر غنچۂ دل باغباں پسر

ہوتی گلابی ایسی کسو میرزا کے پاس

جو دیر سے حرم کو گئے سو وہیں موئے

آتا نہیں ہے جا کے کوئی پھر خدا کے پاس

کیا جانیے کہ کہتے ہیں کس کو یگانگی

بیگانے ہی سے ہم رہے اس آشنا کے پاس

میرؔ اس دل گرفتہ کی یاں تو ملی نہ داد

عقدہ یہ لے کے جاؤں گا مشکل کشا کے پاس

 

(۸۲۴)

رہتے تھے ہم وے آٹھ پہر یا تو پاس پاس

یا اب پھٹک نہیں ہے کہیں ان کے آس پاس

۶۰۵۵

تا لوگ بدگماں نہ ہوں آئے نہ اس کی اور

ہم تو کیا ہے عشق میں دور از قیاس پاس

گر ہی پڑے جو دیکھے ہے تنکا بھی گر کہیں

مایہ نہیں ہے کچھ فلک بے سپاس پاس

شیخ ان لبوں کے بوسے کو اس ریش سے نہ جھک

رکھتا ہے کون آتش سو زندہ گھاس پاس

تم نے تو قدر کی ہے متاع وفا کی خوب

بیچیں گے اب یہ جنس کسو دل شناس پاس

آلودہ کر نہ مستی سے جامے کو جسم کے

ہشیار رہ یہ عاریتی ہے لباس پاس

۶۰۶۰

وحشی ہے میرؔ ربط ہے اس سے خلاف عقل

بیٹھے سو جا کے کیا کوئی ایسے اداس پاس

 

 

                ردیف ش

 

(۸۲۵)

گل کو ہوتا صبا قرار  اے کاش

رہتی ایک آدھ دن بہار  اے کاش

یہ جو دو آنکھیں مند گئیں میری

اس پہ وا ہوتیں ایک بار  اے کاش

کن نے اپنی مصیبتیں نہ گنیں

رکھتے میرے بھی غم شمار  اے کاش

جان آخر تو جانے والی تھی

اس پہ کی ہوتی میں نثار  اے کاش

۶۰۶۵

اس میں راہ سخن نکلتی تھی

شعر ہوتا ترا شعار  اے کاش

خاک بھی وہ تو دیوے گا برباد

نہ بناویں مرا مزار  اے کاش

شش جہت اب تو تنگ ہے ہم پر

اس سے ہوتے نہ ہم دوچار  اے کاش

مرتے بھی تو ترے ہی کوچے میں

ملتی یاں جائے گور دار  اے کاش

ان لبوں کے گلے سے دل ہے بھرا

چل پڑے بات پیش یار  اے کاش

۶۰۷۰

بے اجل میرؔ اب پڑا مرنا

عشق کرتے نہ اختیار  اے کاش

 

(۸۲۶)

کیا کہیے کیا رکھیں ہیں ہم تجھ سے یار خواہش

یک جان و صد تمنا یک دل ہزار خواہش

لے ہاتھ میں قفس ٹک صیاد چل چمن تک

مدت سے ہے ہمیں بھی سیر بہار خواہش

نے کچھ گنہ ہے دل کا نے جرم چشم اس میں

رکھتی ہے ہم کو اتنا بے اختیار خواہش

حالانکہ عمر ساری مایوس گذری تس پر

کیا کیا رکھیں ہیں اس کے امیدوار خواہش

۶۰۷۵

غیرت سے دوستی کی کس کس سے ہو جے دشمن

رکھتا ہے یاری ہی کی سارا دیار خواہش

ہم مہرورز کیونکر خالی ہوں آرزو سے

شیوہ یہی تمنا فن و شعار خواہش

اٹھتی ہے موج ہر یک آغوش ہی کی صورت

دریا کو ہے یہ کس کا بوس و کنار خواہش

صد رنگ جلوہ گر ہے ہر جادہ غیرت گل

عاشق کی ایک پاوے کیونکر قرار خواہش

یک بار بر نہ آئی اس سے امید دل کی

اظہار کرتے کب تک یوں بار بار خواہش

۶۰۸۰

کرتے ہیں سب تمنا پر میرؔ جی نہ اتنی

رکھے گی مار تم کو پایان کار خواہش

 

(۸۲۷)

مطلق نہیں ہے ایدھر اس دلربا کی خواہش

کیا جانیے کہ کیا ہے یارو خدا کی خواہش

دیکھیں تو تیغ اس کی اب کس کے سر چڑھے ہے

رکھتے ہیں یار جی میں اس کی جفا کی خواہش

لعل خموش اپنے دیکھو ہو آرسی میں

پھر پوچھتے ہو ہنس کر مجھ بے نوا کی خواہش

اقلیم حسن سے ہم دل پھیر لے چلے ہیں

کیا کریے یاں نہیں ہے جنس وفا کی خواہش

۶۰۸۵

خون جگر ہی کھانا آغاز عشق میں ہے

رہتی ہے اس مرض میں پھر کب غذا کی خواہش

وہ شوخ دشمن جاں  اے دل تو اس کا خواہاں

کرتا ہے کوئی ظالم ایسی بلا کی خواہش

میرے بھی حق میں کر ٹک ہاتھوں کو میرؔ اونچا

رکھتا ہے اہل دل سے ہر اک دعا کی خواہش

 

(۸۲۸)

 

ہم پر روا جو رکھتے ہو جور و جفا ہمیش

خوبی رہا کرے ہے مری جان کیا ہمیش

کس اعتبار دل کے تئیں گل کہیں ہیں لوگ

مجھ پاس تو مندی ہی کلی سا رہا ہمیش

۶۰۹۰

کچھ عہد میں ہمارے محبت ہوئی ہے ننگ

آپس میں ورنہ رسم تھی مہر و وفا ہمیش

فرصت مرض سے دل کے ہمیں کب ہوئی تنک

تھوڑی بہت چلی ہی گئی ہے دوا ہمیش

اب عید بھی بغیر ملے اس کے ہے دہا

رہتا تھا جو ہمارے گلے ہی لگا ہمیش

ہم تو جو رفتنی ہیں ملے ہی رہیں تو خوب

رہتا نہیں ہے کوئی بغیر از خدا ہمیش

واقف نہیں ہوں میرؔ سے تو پر تمام شب

کرتا ہے شور آن کے اک بے نوا ہمیش

۶۰۹۵

 

ردیف ط

 

(۸۲۹)

 

عشق کی رہ نہ چل خبر ہے شرط

اول گام ترک سر ہے شرط

دعوی عشق یوں نہیں صادق

زردی رنگ و چشم تر ہے شرط

خامی جاتی ہے کوئی گھر بیٹھے

پختہ کاری کے تیں سفر ہے شرط

قصد حج ہے تو شیخ کو لے چل

کعبے جانے کو یہ بھی خر ہے شرط

قلب یعنی کہ دل عجب زر ہے

اس کی نقادی کو نظر ہے شرط

۶۱۰۰

حق کے دینے کو چاہیے ہے کیا

یاں نہ اسباب نے ہنر ہے شرط

دل کا دینا ہے سہل کیا  اے میرؔ

عاشقی کرنے کو جگر ہے شرط

 

(۸۳۰)

 

کرتے نہیں ہیں اس سے نیا کچھ ہم اختلاط

ہوتا تھا اگلے لوگوں میں بھی باہم اختلاط

ٹک گرم میں ملوں تو مجھی سے ملے خنک

اوروں سے تو وہی ہے اسے ہر دم اختلاط

ایسا نہ ہو کہ شیخ دغا دیوے ہم نشیں

ابلیس سے کرے ہے کوئی آدم اختلاط

۶۱۰۵

بیگانگی مجھی سے چلی جاتی ہے خصوص

رکھتا ہے یوں تو یار سے اک عالم اختلاط

کس طور اتفاق پڑی صحبت اس سے دیر

ہے میرؔ بے دماغ و قیامت کم اختلاط

 

                ردیف ع

 

(۸۳۱)

 

تیرے ہوتے شام کو گر بزم میں آ جائے شمع

ہو خجل ایسی کہ منھ اپنا نہ پھر دکھلائے شمع

کیا جلے جاتے ہیں تجھ سے سب دیے سے دیکھتے

گر یہی یاں کا ہے ڈھب تو حیف مجلس وائے شمع

کس کے تیں ہوتا ہے قطع زندگانی کا یہ شوق

سر کٹانے کو گلے میں جمع ہیں رگ ہائے شمع

۶۱۱۰

کچھ نہیں مجھ میں درونے کی جلن سے اس طرح

کھا چلا ہے جیسے اک ہی داغ سر تا پائے شمع

داغ ہو کر جان دی ان نے تمھارے واسطے

مشت خاک میرؔ پر سو تم نہ لے کر آئے شمع

 

(۸۳۲)

 

اس کے ہوتے بزم میں فانوس میں آتی ہے شمع

یعنی اس آتش کے پرکالے سے شرماتی ہے شمع

ہر زماں جاتی ہے گھٹتی سامنے تیرے کھڑی

جوش غم سے آپ ہی اپنے تئیں کھاتی ہے شمع

بیٹھے اس مہ کے کسو کو دیکھتا ہے کب کوئی

رنگ رو کو بزم میں ہر چند جھمکاتی ہے شمع

۶۱۱۵

باد سے جنبش میں کچھ رہتی نہیں ہے متصل

اس بھبھوکے سے جو گھٹتی ہے سو جھنجھلاتی ہے شمع

چھوڑتی ہے لطف کیا افسردگی خاطر کی میرؔ

آگے اس کے چہرۂ روشن کے بجھ جاتی ہے شمع

 

(۸۳۳)

 

عشق میں کچھ نہیں دوا سے نفع

کڑھیے کب تک نہ ہو بلا سے نفع

کب تلک ان بتوں سے چشم رہے

ہو رہے گا بس اب خدا سے نفع

میں تو غیر از ضرر نہ دیکھا کچھ

ڈھونڈو تم یار و آشنا سے نفع

۶۱۲۰

مغتنم جان گر کسو کے تئیں

پہنچے ہے تیرے دست و پا سے نفع

اب فقیروں سے کہہ حقیقت دل

میرؔ شاید کہ ہو دعا سے نفع

 

                ردیف غ

 

(۸۳۴)

اب اس کے غم سے جو کوئی چاہے سو کھائے داغ

باقی نہیں ہے چھاتی میں اپنی تو جائے داغ

چشم و دل و دماغ و جگر سب کو رو رہے

اس عشق خانہ سوز نے کیا کیا دکھائے داغ

جی جل گیا تقرب اغیار دیکھ کر

ہم اس گلی میں جب گئے تب واں سے لائے داغ

۶۱۲۵

کیا لالہ ایک داغ پہ پھولے ہے باغ میں

بہتیرے ایسے چھاتی پہ ہم نے جلائے داغ

کیا شیخ کے ورع میں تردد ہے ہم نے آپ

سو بار اس کے کرتے سے مے کے دھلائے داغ

آخر کو روئے کار سے پردہ اٹھے گا کیا

مقدور تک تو چھاتی کے ہم نے چھپائے داغ

دل کی گرہ میں غنچۂ لالہ کے رنگ میرؔ

سوز دروں سے کچھ نہیں ہے اب سوائے داغ

 

 

                ردیف ف

 

(۸۳۵)

میلان دل ہے زلف سیہ فام کی طرف

جاتا ہے صید آپ سے اس دام کی طرف

۶۱۳۰

دل اپنا عدل داور محشر سے جمع ہے

کرتا ہے کون عاشق بدنام کی طرف

اس پہلوئے فگار کو بستر سے کام کیا

مدت ہوئی کہ چھوٹی ہے آرام کی طرف

یک شب نظر پڑا تھا کہیں تو سو اب مدام

رہتی ہے چشم ماہ ترے بام کی طرف

آنکھیں جنھوں کی زلف و رخ یار سے لگیں

وے دیکھتے نہیں سحر و شام کی طرف

جوں چشم یار بزم میں اگلا پڑے ہے آج

ٹک دیکھ شیخ مے کے بھرے جام کی طرف

۶۱۳۵

خارا شگاف و سینہ خراش ایک سے نہیں

لیکن نظر نہیں ہے تجھے کام کی طرف

دل پک رہے ہیں جن کے انھیں سے ہمیں ہے شوق

میلان طبع کب ہے کسو خام کی طرف

دیکھی ہے جب سے اس بت کافر کی شکل میرؔ

جاتا نہیں ہے جی تنک اسلام کی طرف

 

 

                ردیف ق

 

(۸۳۶)

اے رشک برق تجھ سے مشکل ہے کار عاشق

اک جھمکے میں کہاں پھر صبر و قرار عاشق

خاک سیہ سے یکساں تیرے لیے ہوا ہوں

تو بھی تو ایک شب ہو شمع مزار عاشق

۶۱۴۰

اے بحر حسن ہووے یہ آگ سرد ٹک تب

جوں موج ہو لبالب تجھ سے کنار عاشق

دلخواہ کوئی دلبر ملتا تو دل کو دیتے

گر چاہنے میں ہوتا کچھ اختیار عاشق

پلکوں کی اس کی کاوش ہر دم جب ایسی ہووے

مشکل کہ جی سے جاوے پھر خار خار عاشق

کیا جانے محو جو ہو اپنے ہی رو و مو کا

گذرے ہے کس طرح سے لیل و نہار عاشق

خواری کا موجب اپنی ہے اضطراب ہر دم

دل سمجھے تو رہے بھی کچھ اعتبار عاشق

۶۱۴۵

آنکھوں تلے سے سرکے وہ چشم مست ٹک تو

جاتا دکھائی دیوے رنج و خمار عاشق

کیا بوجھ بھاری سے میں ناکام کاٹتا ہوں

دنیا سے ہے نرالا کچھ کاروبار عاشق

اس پردے میں غم دل کہتا ہے میرؔ اپنا

کیا شعر و شاعری ہے یارو شعار عاشق

 

(۸۳۷)

کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق

جان کا روگ ہے بلا ہے عشق

عشق ہی عشق ہے جہاں دیکھو

سارے عالم میں بھر رہا ہے عشق

۶۱۵۰

عشق ہے طرز و طور عشق کے تیں

کہیں بندہ کہیں خدا ہے عشق

عشق معشوق عشق عاشق ہے

یعنی اپنا ہی مبتلا ہے عشق

گر پرستش خدا کی ثابت کی

کسو صورت میں ہو بھلا ہے عشق

دلکش ایسا کہاں ہے دشمن جاں

مدعی ہے پہ مدعا ہے عشق

ہے ہمارے بھی طور کا عاشق

جس کسی کو کہیں ہوا ہے عشق

۶۱۵۵

کوئی خواہاں نہیں محبت کا

توکہے جنس ناروا ہے عشق

میرؔجی زرد ہوتے جاتے ہو

کیا کہیں تم نے بھی کیا ہے عشق

 

                ردیف ک

 

(۸۳۸)

 

دیکھی تھی تیرے کان کے موتی کی اک جھلک

جاتی نہیں ہے اشک کی رخسار کے ڈھلک

یارب اک اشتیاق نکلتا ہے چال سے

ملتے پھریں ہیں خاک میں کس کے لیے فلک

طاقت ہو جس کے دل میں وہ دو چار دن رہے

ہم ناتوان عشق تمھارے کہاں تلک

۶۱۶۰

برسوں ہوئے کہ جان سے جاتی نہیں خلش

ٹک ہل گئی تھی آگے مرے وہ پھری پلک

آئی نہ ہاتھ میرؔ کی میت پہ کل نماز

تابوت پر تھی اس کے نپٹ کثرت ملک

 

(۸۳۹)

 

عزت اپنی اب نہیں ہے یار کو منظور ٹک

پاس جاتا ہوں تو کہتا ہے کہ بیٹھو دور ٹک

حال میرا شہر میں کہتے رہیں گے لوگ دیر

اس فسانے کے تئیں ہونے تو دو مشہور ٹک

پشت پا مارے ہیں شاہی پر گدائے کوئے عشق

دیکھو تم یاں کا خدا کے واسطے دستور ٹک

۶۱۶۵

چاہنے کا مجھ سے بے قدرت کا کیا ہے اعتبار

عشق کرنے کو کسو کے چاہیے مقدور ٹک

حق تو سب کچھ تھا ہی ناحق جان دی کس واسطے

حوصلے سے بات کرتا کاشکے منصور ٹک

منکرحسن بتاں کیونکر نہ ہووے شیخ شہر

حق ہے اس کی اور وہ آنکھوں سے ہے معذور ٹک

پھر کہیں کیا دل لگایا میرؔ جو ہے زرد رو

منھ پر آیا تھا ترے دو چار دن سے نور ٹک

 

(۸۴۰)

 

حالانکہ کام پہنچ گیا کب کا جاں تلک

آتی نہیں ہے تو بھی شکایت زباں تلک

۶۱۷۰

اس رشک مہ کے دل میں نہ مطلق کیا اثر

ہرچند پہنچی میری دعا آسماں تلک

جو آرزو کی اس سے سو دل میں ہی خوں ہوئی

نومید یوں بسر کرے کوئی کہاں تلک

کھینچا کیے وہ دور بہت آپ کو سدا

ہمسائے ہم موا کیے آئے نہ یاں تلک

بلبل قفس میں اس لب و لہجہ پہ یہ فغاں

آواز ایک ہو رہی ہے گلستاں تلک

پچھتائے اٹھ کے گھر سے کہ جوں نو دمیدہ پر

جانا بنا نہ آپ کو پھر آشیاں تلک

۶۱۷۵

ہم صحبتی یار کو ہے اعتبار شرط

اپنی پہنچ تو میرؔ نہیں پاسباں تلک

 

(۸۴۱)

 

ہم بیکسوں کا کون ہے ہجراں میں غم شریک

تنہائی ایک ہے سو ہے اس کے ستم شریک

دم رک کے ووہیں کہیو اگر مر نہ جائے وہ

ہو میرے حال کا جو کوئی ایک دم شریک

خوں ہوتے ہوتے ہو چکے آخر کہاں تلک

اب دل جگر کہیں نہیں ہیں تیرے ہم شریک

دل تنگ ہو جیے تو نہ ملیے کسو کے ساتھ

ہوتے ہیں ایسے وقت میں یہ لوگ کم شریک

۶۱۸۰

شاید کہ سرنوشت میں مرنا ہے گھٹ کے میرؔ

کاغذ نہ محرم غم دل نے قلم شریک

 

(۸۴۲)

 

چلے ہے باغ کی صبا کیا خاک

دل جلا کوئی ہو گیا کیا خاک

ہے غبار اس کے خط سے دل میں بہت

باہم اب ہوئے گی صفا کیا خاک

ہم گرے اس کے در ہی پر مر کر

اور کوئی کرے وفا کیا خاک

خاک ہی میں ملائے رکھتے ہو

ہو کوئی تم سے آشنا کیا خاک

۶۱۸۵

سب موئے ابتدائے عشق ہی میں

ہووے معلوم انتہا کیا خاک

خاک پر ہے سدا جبین نیاز

اور کوئی ہو جبہہ سا کیا خاک

تربت میرؔ پر چلے تم دیر

اتنی مدت میں واں رہا کیا خاک

 

(۸۴۳)

 

آج کل سے کچھ نہ طوفاں زا ہے چشم گریہ ناک

موجزن برسوں سے ہے دریا ہے چشم گریہ ناک

یوں نہ روؤ تو نہ روؤ ورنہ رود و چاہ سے

ہر قدم اس دشت میں پیدا ہے چشم گریہ ناک

۶۱۹۰

دل سے آگے ٹک قدم رکھو تو پھر بھی دلبرو

سیر قابل دیدنی اک جا ہے چشم گریہ ناک

بے گداز دل نہیں امکان رونا اس قدر

تہ کو پہنچو خوب تو پردہ ہے چشم گریہ ناک

سوجھتا اپنا کرے کچھ ابر تو ہے مصلحت

جوش غم سے جیسے نابینا ہے چشم گریہ ناک

سبز ہے رو نے سے میرے گوشہ گوشہ دشت کا

باعث آبادی صحرا ہے چشم گریہ ناک

وے حنائی پامری آنکھوں ہی میں پھرتے ہیں میرؔ

یعنی ہر دم اس کے زیر پا ہے چشم گریہ ناک

۶۱۹۵

( ۸۴۴)

 

سو خونچکاں گلے ہیں لب سے مری زباں تک

جی رندھ گیا ہے ظالم اب رحم کر کہاں تک

ملنے میں میرے گاہے ٹک تن دیا نہ ان نے

حاضر رہا ہوں میں تو اپنی طرف سے جاں تک

ہر چند میں نے سر پر اس رہ کی خاک ڈالی

لیکن نہ پہنچیں آنکھیں اس پاؤں کے نشاں تک

ان ہڈیوں کا جلنا کوئی ہما سے پوچھو

لاتا نہیں ہے منھ وہ اب میرے استخواں تک

اس کی گلی کے سگ سے کی ہے موافقت میں

اس راہ سے بھی پہنچیں شاید کہ پاسباں تک

ابر بہار نے شب دل کو بہت جلایا

تھا برق کا چمکنا خاشاک آشیاں تک

۶۲۰۰

اس مہ کے گوش تک تو ہرگز نہیں پہنچتی

گو آہ بے سرایت جاتی ہے آسماں تک

قید قفس میں مرنا کب شوق کا ہے مانع

پہنچیں گے مشت پر بھی اڑ کر یہ گلستاں تک

ہونا جہاں کا اپنی آنکھوں میں ہے نہ ہونا

آتا نظر نہیں کچھ جاوے نظر جہاں تک

جاتی ہیں خط کے پیچھے جوں مہر آنکھیں میری

اب کار شوق میرا پہنچا ہے میرؔ یاں تک

۶۲۰۵

(۸۴۵)

لیا چیرہ دستی سے گر میرؔ سر تک

نہ پہنچا کبھو ہاتھ اس کی کمر تک

مجھے نیند کیسی کہ مانند انجم

کھلی رہتی ہیں میری آنکھیں سحر تک

اٹھا پاس بے اختیاری سے سب کا

بکا بیٹھے کرتے ہیں دو دو پہر تک

دماغ اور دل ہیں سراسیمہ دونوں

سرزخم شاید کہ پہنچا جگر تک

بلا شور و ہنگامہ ہے دل زدوں کا

قیامت کیے جائے ہے اس کے گھر تک

۶۲۱۰

نہ دے ماریں چوکھٹ سے سر کو تو کہیو

رسائی ہوا چاہیے اس کے در تک

محبت میں جی سے گئے میرؔ آخر

خبر گفتنی ہے یہ ہر بے خبر تک

 

 

                ردیف گ

 

(۸۴۶)

غافل ہیں ایسے سوتے ہیں گویا جہاں کے لوگ

حالانکہ رفتنی ہیں سب اس کارواں کے لوگ

مجنوں و کوہکن نہ تلف عشق میں ہوئے

مرنے پہ جی ہی دیتے ہیں اس خانداں کے لوگ

کیونکر کہیں کہ شہر وفا میں جنوں نہیں

اس خصم جاں کے سارے دوانے ہیں یاں کے لوگ

۶۲۱۵

رونق تھی دل میں جب تئیں بستے تھے دلبراں

اب کیا رہا ہے اٹھ گئے سب اس مکاں کے لوگ

تو ہم میں اور آپ میں مت دے کسو کو دخل

ہوتے ہیں فتنہ ساز یہی درمیاں کے لوگ

مرتے ہیں اس کے واسطے یوں تو بہت ولے

کم آشنا ہیں طور سے اس کام جاں کے لوگ

پتی کو اس چمن کی نہیں دیکھتے ہیں گرم

جو محرم روش ہیں کچھ اس بدگماں کے لوگ

بت چیز کیا کہ جس کو خدا مانتے ہیں سب

خوش اعتقاد کتنے ہیں ہندوستاں کے لوگ

۶۲۲۰

فردوس کو بھی آنکھ اٹھا دیکھتے نہیں

کس درجہ سیرچشم ہیں کوئے بتاں کے لوگ

کیا سہل جی سے ہاتھ اٹھا بیٹھتے ہیں ہائے

یہ عشق پیشگاں ہیں الٰہی کہاں کے لوگ

منھ تکتے ہی رہے ہیں سدا مجلسوں کے بیچ

گویا کہ میرؔ محو ہیں میری زباں کے لوگ

 

(۸۴۷)

کیا عشق خانہ سوز کے دل میں چھپی ہے آگ

اک سارے تن بدن میں مرے پھک رہی ہے آگ

گلشن بھرا ہے لالہ و گل سے اگرچہ سب

پر اس بغیر اپنے تو بھائیں لگی ہے آگ

۶۲۲۵

پاؤں میں پڑ گئے ہیں پھپھولے مرے تمام

ہر گام راہ عشق میں گویا دبی ہے آگ

جل جل کے سب عمارت دل خاک ہو گئی

کیسے نگر کو آہ محبت نے دی ہے آگ

اب گرم و سرد دہر سے یکساں نہیں ہے حال

پانی ہے دل ہمارا کبھی تو کبھی ہے آگ

کیونکر نہ طبع آتشیں اس کی ہمیں جلائے

ہم مشت خس کا حکم رکھیں وہ پری ہے آگ

کب لگ سکے ہے عشق جہاں سوز کو ہوس

ماہی کی زیست آب سمندر کا جی ہے آگ

۶۲۳۰

روز ازل سے آتے ہیں ہوتے جگر کباب

کیا آج کل سے عشق کی یارو جلی ہے آگ

انگارے سے نہ گرتے تھے آگے جگر کے لخت

جب تب ہماری گود میں اب تو بھری ہے آگ

یارب ہمیشہ جلتی ہی رہتی ہیں چھاتیاں

یہ کیسی عاشقوں کے دلوں میں رکھی ہے آگ

افسردگی سوختہ جاناں ہے قہر میرؔ

دامن کو  ٹک ہلا کہ دلوں کی بجھی ہے آگ

 

(۸۴۸)

 

ہے آگ کا سا نالۂ کاہش فزا کا رنگ

کچھ اور صبح دم سے ہوا ہے ہوا کا رنگ

۶۲۳۵

دیکھے ادھر تو مجھ سے نہ یوں آنکھ وہ چھپائے

ظاہر ہے میرے منھ سے مرے مدعا کا رنگ

کس بے گنہ کے خوں میں ترا پڑ گیا ہے پاؤں

ہوتا نہیں ہے سرخ تو ایسا حنا کا رنگ

بے گہ شکستہ رنگی خورشید کیا عجب

ہوتا ہے زرد بیشتر اہل فنا کا رنگ

گل پیرہن نہ چاک کریں کیونکے رشک سے

کس مرتبے میں شوخ ہے اس کی قبا کا رنگ

رہتا تھا ابتدائے محبت میں منھ سفید

اب زرد سب ہوا ہوں یہ ہے انتہا کا رنگ

۶۲۴۰

داروئے لعل گوں نہ پیو میرزا ہو تم

گرمی پہ ہے دلیل بہت اس دوا کا رنگ

خوبی ہے اس کی حیّزِ تحریر سے بروں

کیا اس کا طور حسن لکھوں کیا ادا کا رنگ

پوچھیں ہیں وجہ گریۂ خونیں جو مجھ سے لوگ

کیا دیکھتے نہیں ہیں سب اس بے وفا کا رنگ

مقدور تک نہ گذرے مرے خوں سے یار میرؔ

غیروں سے کیا گلہ ہے یہ ہے آشنا کا رنگ

 

(۸۴۹)

 

رہ مرگ سے کیوں ڈراتے ہیں لوگ

بہت اس طرف کو تو جاتے ہیں لوگ

۶۲۴۵

مظاہر سب اس کے ہیں ظاہر ہے وہ

تکلف ہے یاں جو چھپاتے ہیں لوگ

عجب کی جگہ ہے کہ اس کی جگہ

ہمارے تئیں ہی بتاتے ہیں لوگ

رہے ہم تو کھوئے گئے سے سدا

کبھو آپ میں ہم کو پاتے ہیں لوگ

اس ابرو کماں پر جو قرباں ہیں ہم

ہمیں کو نشانہ بناتے ہیں لوگ

نہ سویا کوئی شور شب سے مرے

قیامت اذیت اٹھاتے ہیں لوگ

۶۲۵۰

ان آنکھوں کے بیمار ہیں میرؔ ہم

بجا دیکھنے ہم کو آتے ہیں لوگ

 

                ردیف ل

 

(۸۵۰)

 

مار بھی آسان ہے دشنام سہل

یار اگر ہے اہل تو ہے کام سہل

جوں نگیں میں کی جگر کاوی بہت

کیا نکلتا ہے کسو کا نام سہل

جان دی یاروں نے تب آنکھیں لگیں

کن نے پایا آہ یاں آرام سہل

مدعی ہو چشم شوخ یار کا

کیا نگاہوں میں ہوا بادام سہل

۶۲۵۵

تم نے دیکھا ہو گا پکپن میرؔ کا

ہم کو تو آیا نظر وہ خام سہل

 

(۸۵۱)

 

پوشیدہ کیا رہے ہے قدرت نمائی دل

دیکھی نہ بے ستوں میں زور آزمائی دل

ہے تیرہ یہ بیاباں گرد و غبار سے سب

دے راہ کب دکھائی بے رہنمائی دل

اندوہ و غم سے اکثر رہتا ہوں میں مکدر

کیا خاک میں ملی ہے میری صفائی دل

پیش آوے کوئی صورت منھ موڑتے نہیں وے

آئینہ ساں جنھیں ہے کچھ آشنائی دل

۶۲۶۰

مر تو نہیں گیا میں پر جی ہی جانتا ہے

گذرے ہے شاق مجھ پر جیسی جدائی دل

اس دامگہ میں اس کے سارے فریب ہی ہیں

آتی نہیں نظر کچھ مجھ کو رہائی دل

گر رنگ ہے چلا ہے ور بو ہے تو ہوا ہے

کہہ میرؔ اس چمن میں کس سے لگایئے دل

 

(۸۵۲)

 

مدت تو وا ہوا ہی نہ یہ غنچہ وار دل

اب جو کھلا سو جیسے گل بے بہار دل

ہے غم میں یاد کس کو فراموش کار دل

اب آ بنی ہے جی پہ رہا درکنار دل

۶۲۶۵

دشوار ہے ثبات بہت ہجر یار میں

یاں چاہیے ہے دل سو کہاں میرے یار دل

وہ کون سی امید بر آئی ہے عشق میں

رہتا ہے کس امید پہ امیدوار دل

ظالم بہت ضرور ہے ان بیکسوں کا پاس

ناچار اپنے رہتے ہیں جو مار مار دل

تم پر تو صاف میری کدورت کھلی ہے آج

مدت سے ہے ملال کے زیر غبار دل

مائل ادھر کے ہونے میں مجبور ہیں سبھی

کھنچتا ہے اس کی اور کو بے اختیار دل

۶۲۷۰

حد ہے گی دلبری کی بھی  اے غیرت چمن

ہو آدمی صنوبر اگر لاوے بار دل

داخل یہ اضطراب تنک آبیوں میں ہے

رکھتی نہیں ہے برق ہی کچھ بے قرار دل

کیا ہیں گرسنہ چشم دل اب کے یہ دلبراں

تسکین ان کی ہو نہ جو لیویں ہزار دل

جوں سیب ہیں ذقن کے چمن زار حسن میں

یوں باغ حسن میں بھی ہیں رنگیں انار دل

ہم سے جو عشق کشتہ جئیں تو عجب ہے میرؔ

چھاتی ہے داغ ٹکڑے جگر کے فگار دل

۶۲۷۵

(۸۵۳)

 

بہت مدت گئی ہے اب ٹک آ مل

کہاں تک خاک میں میں تو گیا مل

ٹک اس بے رنگ کے نیرنگ تو دیکھ

ہوا ہر رنگ میں جوں آب شامل

نہیں بھاتا ترا مجلس کا ملنا

ملے تو ہم سے تو سب سے جدا مل

غنیمت جان فرصت آج کے دن

سحر کیا جانے کیا ہو شب ہے حامل

اگرچہ ہم نہیں ملنے کے لائق

کسو تو طرح ہم سے بھی بھلا مل

۶۲۸۰

لیا زاہد نے جام بادہ کف پر

بحمد اللہ کھلا عقد  انامل

وہی پہنچے تو پہنچے آپ ہم تک

نہ یاں طالع رسا نے جذب کامل

ہوا دل عشق کی سختی سے ویراں

ملائم چاہیے تھا یاں کا عامل

پس از مدت سفر سے آئے ہیں میرؔ

گئیں وہ اگلی باتیں تو ہی جا مل

 

 

                ردیف م

 

(۸۵۴)

کچھ نہ پوچھو بہک رہے ہیں ہم

عشق کی مے سے چھک رہے ہیں ہم

۶۲۸۵

سوکھ غم سے ہوئے ہیں کانٹا سے

پر دلوں میں کھٹک رہے ہیں ہم

وقفۂ مرگ اب ضروری ہے

عمر طے کرتے تھک رہے ہیں ہم

کیونکے گرد علاقہ بیٹھ سکے

دامن دل جھٹک رہے ہیں ہم

کون پہنچے ہے بات کی تہ کو

ایک مدت سے بک رہے ہیں ہم

ان نے دینے کہا تھا بوسۂ لب

اس سخن پر اٹک رہے ہیں ہم

۶۲۹۰

نقش پا سی رہی ہیں کھل آنکھیں

کس کی یوں راہ تک رہے ہیں ہم

دست دے گی کب اس کی پابوسی

دیر سے سر پٹک رہے ہیں ہم

بے ڈھب اس پاس ایک شب تھے گئے

سو کئی دن سرک رہے ہیں ہم

خام دستی نے ہائے داغ کیا

پوچھتے کیا ہو پک رہے ہیں ہم

میرؔ شاید لیں اس کی زلف سے کام

برسوں سے تو لٹک رہے ہیں ہم

۶۲۹۵

(۸۵۵)

 

ہے تہ دل بتوں کا کیا معلوم

نکلے پردے سے کیا خدا معلوم

یہی جانا کہ کچھ نہ جانا ہائے

سو بھی اک عمر میں ہوا معلوم

علم سب کو ہے یہ کہ سب تو ہے

پھر ہے اللہ کیسا نامعلوم

گرچہ تو ہی ہے سب جگہ لیکن

ہم کو تیری نہیں ہے جا معلوم

عشق جانا تھا مار رکھے گا

ابتدا میں تھی انتہا معلوم

۶۳۰۰

ان سیہ چشم دلبروں سے ہمیں

تھی وفا چشم سو وفا معلوم

طرز کینے کی کوئی چھپتی ہے

مدعی کا ہے مدعا معلوم

عشق ہے  اے طبیب جی کا روگ

لطف کر ہے جو کچھ دوا معلوم

دل بجا ہو تو میرؔ کچھ کھاوے

کڑھنے پچنے میں اشتہا معلوم

 

(۸۵۶)

مجھے تو درد سے اک انس ہے وفا کی قسم

یہی سبب ہے جو کھائی ہے میں دوا کی قسم

۶۳۰۵

کل ان نے تیغ رکھی درمیاں کہ قطع ہے اب

قسم جو بیچ میں آئی سو اس ادا کی قسم

حنا لگی ترے ہاتھوں سے میں گیا پیسا

جگر تمام ہے خوں مجھ کو تیرے پا کی قسم

فقیر ہونے نے سب اعتبار کھویا ہے

قسم جو کھاؤں تو کہتے ہیں کیا گدا کی قسم

قدم تلے ہی رہا اس کے یہ سر پر شور

جو کھایئے تو مرے طالع رسا کی قسم

سروں پہ ہاتھ کبھو تیغ پر کبھو اس کا

کچھ ایک قسم نہیں میرے آشنا کی قسم

۶۳۱۰

جدال دیر کے رہبان سے کہاں تک میرؔ

اٹھو حرم کو چلو اب تمھیں خدا کی قسم

 

(۸۵۷)

اب سوکھی ہی جاتی ہے سب کشت ہوس ظالم

اے ابر تر آ کر ٹک ایدھر بھی برس ظالم

صیاد بہار اب کے سب لوٹوں گا کیا میں ہی

ٹک باغ تلک لے چل میرا بھی قفس ظالم

کس طور کوئی تجھ سے مقصود کرے حاصل

نے رحم ترے جی میں نے دل میں ترس ظالم

کیوں سر چڑھے ہے ناحق ہم بخت سیاہوں کے

مت پیچ میں پگڑی کے بالوں کو گھڑس ظالم

۶۳۱۵

جوں ابر میں روتا تھا جوں برق تو ہنستا تھا

صحبت نہ رہی یوں ہی ایک آدھ برس ظالم

کیا کھولے ہوئے محمل یاں گرم حکایت ہے

چل راہ میں کچھ کہتا مانند جرس ظالم

مطلق نہیں گنجائش اب حوصلے میں اپنے

آزار کوئی کھینچے یوں کب تئیں بس ظالم

سررشتۂ ہستی کو ہم دے چکے ہاتھوں سے

کچھ ٹوٹے ہی جاتے ہیں اب تار نفس ظالم

تا چند رہے گا تو یوں داغ غم اس مہ کا

چھاتی تو گئی تیری  اے میرؔ بھلس ظالم

۶۳۲۰

 

(۸۵۸)

 

محرم سے کسو روبرو ہوں کاشکے اب ہم

بے وجہ غضب رہنے کا پوچھیں جو سبب ہم

تدبیریں کریں اپنے تن زار و زبوں کی

افراط سے اندوہ کی ہوں آپ میں جب ہم

تو لاگو نہ ہو جی کا تو ناچار ہیں ورنہ

اس جنس گراں مایہ سے گذرے نہیں کب ہم

یک سلسلہ ہے قیس کا فرہاد کا اپنا

جوں حلقۂ زنجیر گرفتار ہیں سب ہم

کس دن نہ ملا غیر سے تو گرم علی الرغم

رہتے ہیں یوں ہی لوٹتے انگاروں پہ شب ہم

۶۳۲۵

مجمع میں قیامت کے اک آشوب سا ہو گا

آ نکلے اگر عرصے میں یوں نالہ بلب ہم

کیا معرفت اس سے ہوئی یاروں کو نہ سمجھے

اب تک تو نہیں پاتے ہیں کچھ یار کے ڈھب ہم

گہ نوچ لیا منھ کو گہے کوٹ لی چھاتی

دل تنگی ہجراں سے ہیں مغلوب غضب ہم

آغاز محبت میں تمامی ہوئی اپنی

اے وائے ہوئے خاک بسر راہ طلب ہم

تربت سے ہماری نہ اٹھی گرد بھی  اے میرؔ

جی سے گئے لیکن نہ کیا ترک ادب ہم

۶۳۳۰

 

(۸۵۹)

 

مشتاق ان لبوں کے ہیں سب مرد و زن تمام

دفتر لکھے گئے نہ ہوا پر سخن تمام

اب چھیڑیے جہاں وہیں گویا ہے درد سب

پھوڑا سا ہو گیا ہے ترے غم میں تن تمام

آیا تھا گرم صید وہ جیدھر سے دشت میں

دیکھا ادھر ہی گرتے ہیں اب تک ہرن تمام

آوارہ گردباد سے تھے ہم پہ شہر میں

کیا خاک میں ملا ہے یہ دیوانہ پن تمام

کیا لطف تن چھپا ہے مرے تنگ پوش کا

اگلا پڑے ہے جامے سے اس کا بدن تمام

۶۳۳۵

اس کار دست بستہ پہ ریجھا نہ مدعی

کیونکر نہ کام اپنا کرے کوہکن تمام

اک گل زمیں نہ وقفے کے قابل نظر پڑی

دیکھا برنگ آب رواں یہ چمن تمام

نکلے ہیں گل کے رنگ گلستاں میں خاک سے

یہ وے ہیں اس کے عشق کے خونیں کفن تمام

تہ صاحبوں کی آئی نکل میکدے گئے

گروی تھے اہل صومعہ کے پیرہن تمام

میں خاک میں ملا نہ کروں کس طرح سفر

مجھ سے غبار رکھتے ہیں اہل وطن تمام

۶۳۴۰

کچھ ہند ہی میں میرؔ نہیں لوگ جیب چاک

ہے میرے ریختوں کا دوانہ دکن تمام

 

(۸۶۰)

 

بخت سیہ کی نقل کریں کس سے چال ہم

مہندی لگی قدم سے ہوئے پائمال ہم

کیونکر نہ اس چمن میں ہوں اتنے نڈھال ہم

یاں پھول سونگھ سونگھ رہے ماہ و سال ہم

یا ہر گلی میں سینکڑوں جس جا ملیح تھے

یا زلف و خط کو دیکھتے ہیں خال خال ہم

گذرے ہے جی میں گہ وہ دہن گاہ وہ کمر

کیا جانیں لوگ رکھتے ہیں کیا کیا خیال ہم

۶۳۴۵

جاتیں نہیں اٹھائی یہ اب سرگرانیاں

مقدور تک تو اپنے گئے ٹال ٹال ہم

لوہو کہاں ہے گریۂ خونیں سے تن کے بیچ

کرتے ہیں منھ کو اپنے طمانچوں سے لال ہم

وہ تو ہی ہے کہ مرتے ہیں سب تیرے طور پر

حور و پری کو جان کے کب ہیں دوال ہم

گذرے ہے بسکہ اس کی جدائی دلوں پہ شاق

منھ نوچ نوچ لے ہیں علی الاتصال ہم

منظور سجدہ ہے ہمیں اس آفتاب کا

ظاہر میں یوں کریں ہیں نماز زوال ہم

۶۳۵۰

ظاہر ہوئے تمھیں بھی ہمارے دم اور ہوش

آئے نہ پھر تمھارے گئے ٹک بحال ہم

مطلق جہاں میں رہنے کو جی چاہتا نہیں

اب تم بغیر اپنے ہوئے ہیں وبال ہم

نقصان ہو گا اس میں نہ ظاہر کہاں تلک

ہوویں گے جس زمانے کے صاحب کمال ہم

تھا کب گماں ملے گا وہ دامن سوار میرؔ

کل راہ جاتے مفت ہوئے پائمال ہم

 

(۸۶۱)

 

کون کہتا ہے منھ کو کھولو تم

کاشکے پردے ہی میں بولو تم

۶۳۵۵

حکم آب رواں رکھے ہے حسن

بہتے دریا میں ہاتھ دھولو تم

کیا سراہیں ہم اپنی جنس کو لیک

دل عجب ہے متاع جو لو تم

جانا آیا ہے اب جہاں سے ہمیں

تھوڑی تو دور ساتھ ہو لو تم

جب میسر ہو بوسہ اس لب کا

چپکے ہی ہو رہو نہ بولو تم

پنجہ مرجاں کا پھر دھرا ہی رہے

ہاتھ خوں میں مرے ڈبولو تم

۶۳۶۰

دست دے ہے کسے پلک سی میل

دل جہاں پاؤ اب پرو لو تم

آتے ہیں متصل چلے آنسو

آہ کب تک یہ موتی رولو تم

رات گذری ہے سب تڑپتے میرؔ

آنکھ لگ جائے ٹک تو سولو تم

 

(۸۶۲)

 

موئے جاتے تھے فرط الفت سے ہم

جیے ہیں خدا ہی کی قدرت سے ہم

ترش رو بہت ہے وہ زرگر پسر

پڑے ہیں کھٹائی میں مدت سے ہم

۶۳۶۵

نہیں دیکھتے صبح اب آرسی

خفا رہتے ہیں اپنی صورت سے ہم

جو دیکھو وہ قامت تو معلوم ہو

کہ روکش ہوئے ہیں قیامت سے ہم

نہ ٹک لا سکا تاب جلوے کی دل

گلہ رکھتے ہیں صبر و طاقت سے ہم

نہ مانی کوئی ان نے پھر روٹھ کر

مناتے رہے رات منت سے ہم

خدا سے بھی شب کو دعا مانگتے

نہ اس کا لیا نام غیرت سے ہم

۶۳۷۰

رکھا جس کو آنکھوں میں اک عمر اب

اسے دیکھ رہتے ہیں حسرت سے ہم

بھری آنکھیں لوہو سے رہنے لگیں

یہ رنگ اپنا دیکھا مروت سے ہم

نہ مل میرؔ اب کے امیروں سے تو

ہوئے ہیں فقیر ان کی دولت سے ہم

 

(۸۶۳)

 

کب تک رہیں گے پہلو لگائے زمیں سے ہم

یہ درد اب کہیں گے کسو شانہ بیں سے ہم

تلواریں کتنی کھائی ہیں سجدے میں اس طرح

فریادی ہوں گے مل کے لہو کو جبیں سے ہم

۶۳۷۵

فتراک تک یہ سر جو نہ پہنچا تو یا نصیب

مدت لگے رہے ترے دامان زیں سے ہم

ہوتا ہے شوق وصل کا انکار سے زیاد

کب تجھ سے دل اٹھاتے ہیں تیری نہیں سے ہم

چھاجے جو پیش دستی کرے نور ماہ پر

دیکھی عجب سفیدی تری آستیں سے ہم

یہ شوق صید ہونے کا دیکھو کہ آپ کو

دکھلایا صید گہ میں یسار و یمیں سے ہم

تکلیف درد دل کی نہ کر تنگ ہوں گے لوگ

یہ بات روز کہتے رہے ہم نشیں سے ہم

۶۳۸۰

اڑتی ہے خاک شہر کی گلیوں میں اب جہاں

سونا لیا ہے گودوں میں بھر کر وہیں سے ہم

آوارہ گردی اپنی کھنچی میرؔ طول کو

اب چاہیں گے دعا کسو عزلت نشیں سے ہم

 

 

                ردیف ن

 

(۸۶۴)

مدعی مجھ کو کھڑے صاف برا کہتے ہیں

چپکے تم سنتے ہو بیٹھے اسے کیا کہتے ہیں

دیکھے خوباں کے بجا دل نہیں رہتا ہرگز

لوگ جو کچھ انھیں کہتے ہیں بجا کہتے ہیں

عشق کے شہر کی بھی رسم کے ہیں کشتے ہم

درد جانکاہ جو ہو اس کو دوا کہتے ہیں

۶۳۸۵

جی اگر زلفوں کے سودے میں ترے دوں تو نہ بول

پہلی قیمت کے تئیں مشک بہا کہتے ہیں

حسن تو ہے ہی کرو لطف زباں بھی پیدا

میرؔ کو دیکھو کہ سب لوگ بھلا کہتے ہیں

 

(۸۶۵)

کیا کیا جہاں اثر تھا سو اب واں عیاں نہیں

جن کے نشاں تھے فیلوں پر ان کا نشاں نہیں

دفتر بنے کہانی بنی مثنوی ہوئی

کیا شرح سوز عشق کروں میں زباں نہیں

اپنا ہی ہاتھ سر پہ رہا اپنے یاں سدا

مشفق کوئی نہیں ہے کوئی مہرباں نہیں

۶۳۹۰

ہنگامہ و فساد کی باعث ہے وہ کمر

پھر آپ خوب دیکھیے تو درمیاں نہیں

جی ہی نکل گیا جو گیا یار پاس سے

جسم ضعیف و زار میں اب میرے جاں نہیں

ہے عشق ہی سے چار طرف بحث و گفتگو

شور اس بلائے جاں کا جہاں میں کہاں نہیں

اس عہد کو نہ جانیے اگلا سا عہد میرؔ

وہ دور اب نہیں وہ زمیں آسماں نہیں

 

(۸۶۶)

 

نہ نکلا دوسرا ویسا جہاں میں

وہی اک جنس ہے اس کارواں میں

۶۳۹۵

کیا منھ بند سب کا بات کہتے

بلا کچھ سحر ہے اس کی زباں میں

اگر وہ بت نہ جانے تو نہ جانے

ہمیں سب جانے ہیں ہندوستاں میں

نیا آناً فناً اس کو دیکھا

جدا تھی شان اس کی ہر زماں میں

کھنچی رہتی ہے اس ابروئے خم سے

کوئی کیا شاخ نکلی ہے کماں میں

جبیں پر چین رہتی ہے ہمیشہ

بلا کینہ ہے اپنے مہرباں میں

۶۴۰۰

نیا ہے کیا شگوفہ یہ کہ اکثر

رہا ہے پھول پڑتا گلستاں میں

کوئی بجلی کا ٹکڑا اب تلک بھی

پڑا ہو گا ہمارے آشیاں میں

پھرے ہے چھانتا ہی خاک  اے میرؔ

ہوس کیا ہے مزاج آسماں میں

 

(۸۶۷)

نہیں تبخال لعل دلربا میں

گہر پہنچا بہم آب بقا میں

غریبانہ کوئی شب روز کر یاں

ہمیشہ کون رہتا ہے سرا میں

۶۴۰۵

اٹھاتے ہاتھ کیوں نومید ہو کر

اگر پاتے اثر کچھ ہم دعا میں

کہے ہے ہر کوئی اللہ میرا

عجب نسبت ہے بندے میں خدا میں

کفن میں ہی نہ پہنا وہ بدن دیکھ

کھنچے لوہو میں بہتیروں کے جامیں

ادھر جانے کو آندھی تو ہے لیکن

سبک پائی سی ہے باد صبا میں

بلا تہ دار بحر عشق نکلا

نہ ہم نے انتہا لی ابتدا میں

۶۴۱۰

ملے برسوں وہی بیگانہ ہے وہ

ہنر ہے یہ ہمارے آشنا میں

اگرچہ خشک ہیں جیسے پر کاہ

اڑے ہیں میرؔ جی لیکن ہوا میں

 

(۸۶۸)

 

مر مر گئے نظر کر اس کے برہنہ تن میں

کپڑے اتارے ان نے سر کھینچے ہم کفن میں

گل پھول سے کب اس بن لگتی ہیں اپنی آنکھیں

لائی بہار ہم کو زور آوری چمن میں

اب لعل نو خط اس کے کم بخشتے ہیں فرحت

قوت کہاں رہے ہے یاقوتی کہن میں

۶۴۱۵

یوسف عزیز دلہا جا مصر میں ہوا تھا

پاکیزہ گوہروں کی عزت نہیں وطن میں

دیر و حرم سے تو تو ٹک گرم ناز نکلا

ہنگامہ ہو رہا ہے اب شیخ و برہمن میں

آ جاتے شہر میں تو جیسے کہ آندھی آئی

کیا وحشتیں کیا ہیں ہم نے دوان پن میں

ہیں گھاؤ دل پر اپنے تیغ زباں سے سب کی

تب درد ہے ہمارے  اے میرؔ ہر سخن میں

 

(۸۶۹)

 

کن نے لپٹے بال دکھلائے ترے مانی کے تیں

ان نے جو اس طول سے کھینچا پریشانی کے تیں

۶۴۲۰

کشتۂ انداز کس کا تھا نہ جانا وہ جواں

لے رہے تھے کچھ ملک اک نعش قربانی کے تیں

چشم کم سے اشک خونیں کو نہ دیکھو زینہار

ڈھونڈتے ہیں مردم اس یاقوت سیلانی کے تیں

طائران خوش معاش اس باغ کے ہم تھے کبھو

اب ترستے ہیں قفس میں اک پر افشانی کے تیں

ہے جہان تنگ سے جانا بعینہ اس طرح

قتل کرنے لے چلیں ہیں جیسے زندانی کے تیں

یہ کہاں بنت العنب سے اٹھتی ہیں کیفیتیں

ہونٹوں سے کیا اس کے نسبت ایسی مستانی کے تیں

۶۴۲۵

دل جو پانی ہو تو آئینہ ہے روئے یار کا

خانہ آبادی سمجھ اس خانہ ویرانی کے تیں

فہم میں میرے نہ آیا پردہ در ہے طفل اشک

روؤں کیا  اے ہم نشیں میں اپنی نادانی کے تیں

کچھ نظر میں نے نہ کی جی کے زیاں پر اپنے ہائے

دوست میں رکھے گیا اس دشمن جانی کے تیں

جب جلے چھاتی بہت تب اشک افشاں ہو نہ میرؔ

کیا جو چھڑکا اس دہکتی آگ پر پانی کے تیں

 

(۸۷۰)

 

جانا ادھر سے میرؔ ہے ویسا ادھر کے تیں

بیماریوں میں جیسے بدلتے ہیں گھر کے تیں

۶۴۳۰

کب ناخنوں سے چہرہ نچے اس صفا سے ہوں

رجھواڑ تم نہیں ہو جو دیکھو ہنر کے تیں

خستے کو اس نگہ کے طبیبوں سے کام کیا

ہمدم مجھے دکھا کسو صاحب نظر کے تیں

فردوس ہو نصیب پدر آدمی تھا خوب

دل کو دیا نہ ان نے کسو خوش پسر کے تیں

ٹک دل کی بے قراری میں جاتے ہیں جی جلے

ہر دم طپش سراہیے میرے جگر کے تیں

تم دل سے جو گئے سو خرابی بہت رہی

پھر بھی بساؤ آ کے اس اجڑے نگر کے تیں

۶۴۳۵

اللہ رے نازکی نہیں آتی خیال میں

کس کس طرح سے باندھتے ہیں اس کمر کے تیں

حالت یہ ہے کہ بے خبری دم بہ دم ہے یاں

وے اب تلک بھی آتے نہیں ٹک خبر کے تیں

مدت ہوئی کہ اپنی خبر کچھ ہمیں نہیں

کیا جانیے کہ میرؔ گئے ہم کدھر کے تیں

 

(۸۷۱)

 

کیا کہوں اول بخود تو دیر میں آتا ہوں میں

پھر جو یاد آتا ہے وہ چپکا سا رہ جاتا ہوں میں

داغ ہوں کیونکر نہ میں درویش یارو جب نہ تب

بوریا پوشوں ہی میں وہ شعلہ خو پاتا ہوں میں

۶۴۴۰

ہجر میں اس طفل بازی کوش کے رہتا ہوں جب

جا کے لڑکوں میں ٹک اپنے دل کو بہلاتا ہوں میں

ہوں گرسنہ چشم میں دیدار خوباں کا بہت

دیکھنے پر ان کے تلواریں کھڑا کھاتا ہوں میں

آب سب ہوتا ہوں پا کر آپ کو جیسے حباب

یعنی اس ننگ عدم ہستی سے شرماتا ہوں میں

ایک جاگہ کب ٹھہرنے دے ہے مجھ کو روزگار

کیوں تم اکتاتے ہو اتنا آج کل جاتا ہوں میں

ہے کمال عشق پر بے طاقتی دل کی دلیل

جلوۂ دیدار کی اب تاب کب لاتا ہوں میں

۶۴۴۵

آسماں معلوم ہوتا ہے ورے کچھ آ گیا

دور اس سے آہ کیسا کیسا گھبراتا ہوں میں

بس چلے تو راہ اودھر کی نہ جاؤں لیک میرؔ

دل مرا رہتا نہیں ہر چند سمجھاتا ہوں میں

 

(۸۷۲)

 

مدت ہوئی کہ بیچ میں پیغام بھی نہیں

نامے کا اس کی مہر سے اب نام بھی نہیں

ایام ہجر کریے بسر کس امید پر

ملنا انھوں کا صبح نہیں شام بھی نہیں

پروا اسے ہو کاہے کو ناکام گر مروں

اس کام جاں کو مجھ سے تو کچھ کام بھی نہیں

۶۴۵۰

روویں اس اضطراب دلی کو کہاں تلک

دن رات ہم کو ایک دم آرام بھی نہیں

کیا جانوں دل کو کھینچے ہیں کیوں شعر میرؔ کے

کچھ طرز ایسی بھی نہیں ایہام بھی نہیں

 

(۸۷۳)

 

دم بہ دم اس ڈھب سے رونا دیر کر آیا ہمیں

کیا لہو اپنا پیا تب یہ ہنر آیا ہمیں

گرچہ عالم جلوہ گاہ یار یوں بھی تھا ولے

آنکھیں جوں موندیں عجب عالم نظر آیا ہمیں

ہم تبھی سمجھے تھے اب اس سادگی پر حرف ہے

خط نکلنے سے جو نامہ بیشتر آیا ہمیں

۶۴۵۵

پاس آتا یک طرف مطلق نہیں اب اس کے پاس

کچھ گئے گذرے سے سمجھا وہ پسر آیا ہمیں

تجھ تک اس بے طاقتی میں کیا پہنچنا سہل تھا

غش ترے کوچے میں ہر ہر گام پر آیا ہمیں

صبح نکلا تھا پسر تلوار جوں خورشید لے

دیکھ کر خونخوار سج اس کی خطر آیا ہمیں

کر چلا بے خود غم زلف دراز دلبراں

دور کا  اے میرؔ درپیش اب سفر آیا ہمیں

 

(۸۷۴)

اشک کے جوش سے ہوں شام و سحر پانی میں

جیسے ماہی ہے مجھے سیر و سفر پانی میں

۶۴۶۰

شب نہاتا تھا جو وہ رشک قمر پانی میں

گتھی مہتاب سے اٹھتی تھی لہر پانی میں

ساتھ اس حسن کے دیتا تھا دکھائی وہ بدن

جیسے جھمکے ہے پڑا گوہر تر پانی میں

رونے سے بھی نہ ہوا سبز درخت خواہش

گرچہ مرجاں کی طرح تھا یہ شجر پانی میں

موج گریہ کی وہ شمشیر ہے جس کے ڈر سے

جوں کشف خصم چھپا زیر سپر پانی میں

بیٹھنے سے کسو دل صاف کے سر مت تو چڑھے

خوب سا کر لے تامل تو اتر پانی میں

۶۴۶۵

آتش عشق نے راون کو جلا کر مارا

گرچہ لنکا سا تھا اس دیو کا گھر پانی میں

جوشش اشک میں شب دل بھی گیا سینے سے

کچھ نہ معلوم ہوا ہائے اثر پانی میں

بردباری ہی میں کچھ قدر ہے گو جی ہو فنا

عود پھر لکڑی ہے ڈوبے نہ اگر پانی میں

چشم تر ہی میں رہے کاش وہ روئے خوش رنگ

پھول رہتا ہے بہت تازہ و تر پانی میں

روؤں تو آتش دل شمع نمط بجھتی نہیں

مجھ کو لے جا کے ڈبو دیویں مگر پانی میں

۶۴۷۰

گریۂ زار میں بیتابی دل طرفہ نہیں

سینکڑوں کرتے ہیں پیراک ہنر پانی میں

برگ گل جوں گذر آب سے آتے ہیں چلے

رونے سے ووہیں مرے لخت جگر پانی میں

محو کر آپ کو یوں ہستی میں اس کی جیسے

بوند پانی کی نہیں آتی نظر پانی میں

وہ گہر آنکھ سے جاوے تو تھمے آنسو میرؔ

اتنا رویا ہوں کہ ہوں تا بہ کمر پانی میں

 

(۸۷۵)

جوشش اشک سے ہوں آٹھ پہر پانی میں

گرچہ ہوتے ہیں بہت خوف و خطر پانی میں

۶۴۷۵

ضبط گریہ نے جلایا ہے درونہ سارا

دل اچنبھا ہے کہ ہے سوختہ تر پانی میں

آب شمشیر قیامت ہے برندہ اس کی

یہ گوارائی نہیں پاتے ہیں ہر پانی میں

طبع دریا جو ہو آشفتہ تو پھر طوفاں ہے

آہ بالوں کو پراگندہ نہ کر پانی میں

غرق آب اشک سے ہوں لیک اڑا جاتا ہوں

جوں سمک گو کہ مرے ڈوبے ہیں پر پانی میں

مردم دیدۂ تر مردم آبی ہیں مگر

رہتے ہیں روز و شب و شام و سحر پانی میں

۶۴۸۰

ہیئت آنکھوں کی نہیں وہ رہی روتے روتے

اب تو گرداب سے آتے ہیں نظر پانی میں

گریۂ شب سے بہت آنکھ ڈرے ہے میری

پاؤں رکھتے ہی نہیں بار دگر پانی میں

فرط گریہ سے ہوا میرؔ تباہ اپنا جہاز

تختہ پارے گئے کیا جانوں کدھر پانی میں

 

(۸۷۶)

رکھا کر اشک افشاں چشم فرصت غیر فرصت میں

کہ مل جاتا ہے ان جوؤں کا پانی بحر رحمت میں

سنبھالے سدھ کہاں سر ہی فرو لاتا نہیں ہرگز

وگرنہ مان جاتا تھا کہاں تھوڑی سی منت میں

۶۴۸۵

گئے دن متصل جانے کے اس کی اور اٹھ اٹھ کر

تفاوت ہو گیا اب تو بہت پاؤں کی طاقت میں

تحمل ہوسکا جب تک بدن میں تاب و طاقت تھی

قیامت اب گذر جاتی ہے جی پر ایک ساعت میں

عجب کیا ہے جو یاران چمن کو ہم نہ پہچانیں

رہائی اتفاق اپنی پڑی ہے ایک مدت میں

سلاتا تیغ خوں میں گر نہ میرے تو قیامت تھی

اٹھا تھا روز محشر کا سا فتنہ رات صحبت میں

کوئی عمامہ لے بھاگا کنھوں نے پیرہن پھاڑا

بہت گستاخیاں یاروں نے کیں واعظ کی خدمت میں

۶۴۹۰

ملا تیوری چڑھائے تو لگا ابرو بھی خم کرنے

موثر کچھ ہوا سر مارنا محراب طاعت میں

قدم پر رکھ قدم اس کے بہت مشکل ہے مر جانا

سرآمد ہو گیا ہے میرؔ فن مہر و الفت میں

 

(۸۷۷)

 

کس کنے جاؤں الٰہی کیا دوا پیدا کروں

دل تو کچھ دھنسکا ہی جاتا ہے کروں سو کیا کروں

لوہو روتا ہوں میں ہر اک حرف خط پر ہمدماں

اور اب رنگین جیسا تم کہو انشا کروں

چال اپنی چھوڑتا ہرگز نہیں وہ خوش خرام

شور سے کب تک قیامت ایک میں برپا کروں

۶۴۹۵

مصلحت ہے میری خاموشی ہی میں  اے ہم نفس

لوہو ٹپکے بات سے جو ہونٹ اپنے وا کروں

دل پریشانی مجھے دے ہے بکھیرے گل کے رنگ

آپ کو جوں غنچہ کیونکر آہ میں یکجا کروں

ایک چشمک ہی چلی جاتی ہے گل کی میری اور

یعنی بازار جنوں میں جاؤں کچھ سودا کروں

خوار تو آخر کیا ہے گلیوں میں تو نے مجھے

تو سہی  اے عشق جو تجھ کو بھی میں رسوا کروں

خاک اڑاتا اشک افشاں آن نکلوں میں تو پھر

دشت کو دریا کروں بستی کے تیں صحرا کروں

۶۵۰۰

کعبے جانے سے نہیں کچھ شیخ مجھ کو اتنا شوق

چال وہ بتلا کہ میں دل میں کسو کے جا کروں

اب کے ہمت صرف کر جو اس سے جی اچٹے مرا

پھر دعا  اے میرؔ مت کریو اگر ایسا کروں

 

(۸۷۸)

 

کیا کوفتیں اٹھائیں ہجراں کے درد وغم میں

تڑپا ہزار نوبت دل ایک ایک دم میں

گو قیس منھ کو نوچے فرہاد سر کو چیرے

یہ کیا عجب ہے ایسے ہوتے ہیں لوگ ہم میں

اہل نظر کسو کو ہوتی ہے محرمیت

آنکھوں کے اندھے ہم تو مدت رہے حرم میں

۶۵۰۵

کلفت میں گذری ساری مدت تو زندگی کی

آسودگی کا منھ اب دیکھیں گے ہم عدم میں

کرتے ہیں میرؔ مل کر واعظ سے حبس دم کا

کیا یہ بھی آ گئے ہیں اس پوچ گو کے دم میں

 

(۸۷۹)

 

عشق میں جی کو صبر و تاب کہاں

اس سے آنکھیں لگیں تو خواب کہاں

بے کلی دل ہی کی تماشا ہے

برق میں ایسے اضطراب کہاں

خط کے آئے پہ کچھ کہے تو کہے

ابھی مکتوب کا جواب کہاں

۶۵۱۰

ہستی اپنی ہے بیچ میں پردہ

ہم نہ ہوویں تو پھر حجاب کہاں

گریۂ شب سے سرخ ہیں آنکھیں

مجھ بلانوش کو شراب کہاں

عشق ہے عاشقوں کے جلنے کو

یہ جہنم میں ہے عذاب کہاں

داغ رہنا دل و جگر کا دیکھ

جلتے ہیں اس طرح کباب کہاں

محو ہیں اس کتابی چہرے کے

عاشقوں کو سرکتاب کہاں

۶۵۱۵

عشق کا گھر ہے میرؔ سے آباد

ایسے پھر خانماں خراب کہاں

 

(۸۸۰)

 

یارو مجھے معاف رکھو میں نشے میں ہوں

اب دو تو جام خالی ہی دو میں نشے میں ہوں

ایک ایک قرط دور میں یوں ہی مجھے بھی دو

جام شراب پر نہ کرو میں نشے میں ہوں

مستی سے درہمی ہے مری گفتگو کے بیچ

جو چاہو تم بھی مجھ کو کہو میں نشے میں ہوں

یا ہاتھوں ہاتھ لو مجھے مانند جام مے

یا تھوڑی دور ساتھ چلو میں نشے میں ہوں

۶۵۲۰

معذور ہوں جو پاؤں مرا بے طرح پڑے

تم سرگراں تو مجھ سے نہ ہو میں نشے میں ہوں

بھاگی نماز جمعہ تو جاتی نہیں ہے کچھ

چلتا ہوں میں بھی ٹک تو رہو میں نشے میں ہوں

نازک مزاج آپ قیامت ہیں میرؔ جی

جوں شیشہ میرے منھ نہ لگو میں نشے میں ہوں

 

(۸۸۱)

 

کاشکے دل دو تو ہوتے عشق میں

ایک رہتا ایک کھوتے عشق میں

پاس ظاہر ٹک نہ کرتے شب تو ہم

بھر رہے تھے خوب روتے عشق میں

۶۵۲۵

خواب میں دیکھا اسی کو ایک رات

برسوں کاٹے ہم نے سوتے عشق میں

کاش پی جایا ہی کرتے اشک کو

داغ دل پر کے تو دھوتے عشق میں

دیکھے ہیں کیا کیا ڈھلکتے اشک میرؔ

بیٹھے موتی سے پروتے عشق میں

 

(۸۸۲)

 

کرتے ہیں جو کہ جی میں ٹھانے ہیں

خوبرو کس کی بات مانے ہیں

میں تو خوباں کو جانتا ہی ہوں

پر مجھے یہ بھی خوب جانے ہیں

۶۵۳۰

جا ہمیں اس گلی میں گر رہنا

ضعف و بے طاقتی بہانے ہیں

پوچھ اہل طرب سے شوق اپنا

وے ہی جانیں جو خاک چھانے ہیں

اب تو افسردگی ہی ہے ہر آن

وے نہ ہم ہیں نہ وے زمانے ہیں

قیس و فرہاد کے وہ عشق کے شور

اب مرے عہد میں فسانے ہیں

دل پریشاں ہوں میں تو خوش وے لوگ

عشق میں جن کے جی ٹھکانے ہیں

۶۵۳۵

مشک و سنبل کہاں وہ زلف کہاں

شاعروں کے یہ شاخسانے ہیں

عشق کرتے ہیں اس پری رو سے

میرؔ صاحب بھی کیا دوانے ہیں

 

(۸۸۳)

 

آپ اس جنس کے ہیں ہم بھی خریداروں میں

پگڑی جامے بکے جس کے لیے بازاروں میں

باغ فردوس کا ہے رشک وہ کوچہ لیکن

آدمی ایک نہیں اس کے ہواداروں میں

ایک کے بھی وہ برے حال میں آیا نہ کبھو

لوگ اچھے تھے بہت یار کے بیماروں میں

۶۵۴۰

دوستی کس سے ہوئی آنکھ کہاں جا کے لڑی

دشمنی آئی جسے دیکھتے ہی یاروں میں

ہائے رے ہاتھ جہاں چوٹ پڑی دو ہی کیا

الغرض ایک ہے وہ شوخ ستمگاروں میں

کشمکش جس کے لیے یہ ہے شمار دم یہ

ان نے ہم کو نہ گنا اپنے گرفتاروں میں

کیسی کیسی ہے عناصر میں بھی صورت بازی

شعبدے لاکھوں طرح کے ہیں انھیں چاروں میں

مشفقو ہاتھ مرے باندھو کہ اب کے ہر دم

جا الجھتے ہیں گریبان کے دو تاروں میں

۶۵۴۵

حسب قسمت سبھوں نے کھائے تری تیغ کے زخم

ناکس اک نکلے ہمیں خوں کے سزاواروں میں

اضطراب و قلق و ضعف ہیں گر میرؔ یہی

زندگی ہو چکی تو اپنی ان آزاروں میں

 

(۸۸۴)

امید دل دہی تھی جن سے وے آزار کرتے ہیں

بہت پرہیز کر ہم سے ہمیں بیمار کرتے ہیں

کوئی ہم سا بھی اپنی جان کا دشمن کہیں ہو گا

بھری مجلس میں بیٹھے عشق کے اقرار کرتے ہیں

نشاں دے ہیں جہاں اس کا وہ ہرجائی نہیں ملتا

محلے کے ہمیں اب لوگ یوں ہی خوار کرتے ہیں

۶۵۵۰

حجاب ناکسی سے مر گئے روپوش کب تک ہوں

جنھوں سے عار تھی ہم کو سو ہم سے عار کرتے ہیں

چھپا لیتا ہے مجھ سے چاند سا منھ وہ خدا جانے

سخن ساز اس کنے جاجا کے کیا اظہار کرتے ہیں

الف کی رمز اگر سمجھا اٹھا دل بحث علمی سے

اسی اک حرف کو برسوں سے ہم تکرار کرتے ہیں

بہت ہے تیز آب جدول شمشیر خوباں کا

اسے پھر پار کر دیں ہیں یہ جس پر وار کرتے ہیں

انوکھا تو کہ یاں فکر اقامت تجھ کو ہے ورنہ

سب اس دلکش جگہ سے رخت اپنا بار کرتے ہیں

۶۵۵۵

بلا آفت ہے کچھ دل پر کہ ایسا رنگ ہے ان کا

کسو بے مہر کے تیں میرؔ شاید پیار کرتے ہیں

 

(۸۸۵)

کرتا نہیں قصور ہمارے ہلاک میں

یارب یہ آسمان بھی مل جائے خاک میں

گرمی نہیں ہے ہم سے وہ  اے رشک آفتاب

اب آ گیا ہے فرق بہت اس تپاک میں

اس ڈھنگ سے ہلا کہ بجا دل نہیں رہے

اس گوش کے گہر سے دم آئے ہیں ناک میں

اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے

دامن کے چاک اور گریباں کے چاک میں

۶۵۶۰

کہیے لطافت اس تن نازک کی میرؔ کیا

شاید یہ لطف ہو گا کسو جان پاک میں

 

(۸۸۶)

محمل نشیں ہیں کتنے خدام یار میں یاں

لیلیٰ کا ایک ناقہ سو کس قطار میں یاں

سن شور کل قفس میں دل داغ سب ہوا ہے

کیا پھول گل کھلے ہیں اب کے بہار میں یاں

کب روشنی ہو میرے رونے میں ابر تجھ سے

دریا بھرے ہیں ایک اک دامن کے تار میں یاں

تم تو گئے دکھا کر ٹک برق کے سے جھمکے

آیا بہت تفاوت صبر و قرار میں یاں

۶۵۶۵

ہم مر گئے ولیکن سوز دروں وہی ہے

ایک آگ لگ اٹھی ہے کنج مزار میں یاں

ہجراں کی ہر گھڑی ہے سو سو برس تعب سے

روز شمار یارو ہے کس شمار میں یاں

جن راتوں میرؔ ہم کو رونے کا مشغلہ تھا

رہتا تھا بحر اعظم سو تو کنار میں یاں

 

(۸۸۷)

آج ہمارے گھر آیا تو کیا ہے یاں جو نثار کریں

الا کھینچ بغل میں تجھ کو دیر تلک ہم پیار کریں

خاک ہوئے برباد ہوئے پامال ہوئے سب محو ہوئے

اور شدائد عشق کی رہ کے کیسے ہم ہموار کریں

۶۵۷۰

زردی رخ رونا ہر دم کا شاہد دو جب ایسے ہوں

چاہت کا انصاف کرو تم کیونکر ہم انکار کریں

باغ میں اب آ جاتے ہیں تو صرفہ اپنا چپ میں ہے

خوبی بیاں کر تیری ہم کیا گل کو گلے کا ہار کریں

شیوہ اپنا بے پروائی نومیدی سے ٹھہرا ہے

کچھ بھی وہ مغرور دبے تو منت ہم سو بار کریں

ہم تو فقیر ہیں خاک برابر آ بیٹھے تو لطف کیا

ننگ جہاں لگتا ہو ان کو واں وے ایسی عار کریں

پتا پتا گلشن کا تو حال ہمارا جانے ہے

اور کہے تو جس سے  اے گل بے برگی اظہار کریں

۶۵۷۵

کیا ان خوش ظاہر لوگوں سے ہم یہ توقع رکھتے تھے

غیر کو لے کر پاس یہ بیٹھیں ہم کو گلیوں میں خوار کریں

میرؔ جی ہیں گے ایک جو آئے کیا ہم ان سے درد کہیں

کچھ بھی جو سن پاویں تو یہ مجلس میں بستار کریں

 

(۸۸۸)

 

گر کوئی اعمیٰ کہے کچھ پر کہاں وہ تو کہاں

لے گئے پیش فلک اس مہ کا ایسا رو کہاں

گل کو کیا نسبت ہے تجھ سے میں نہ مانوں زینہار

رنگ اگر بالفرض تیرا سا ہوا یہ بو کہاں

عشق لاتا ہے بروے کار مجنوں سا کبھو

بید بہتیرے کھڑے ہیں وے پریشاں مو کہاں

۶۵۸۰

دیکھیاں کجیاں کمانوں کی بھی خم محراب کے

پر دلوں کو کھینچتے ہیں جیسے وے ابرو کہاں

سنبل آپھی آپ پیچ و تاب یوں کھایا کرے

یار کی سی زلف کے وے حلقہ حلقہ مو کہاں

آگے یہ آنکھیں گلے کی ہار ہی رہتی تھیں روز

اب جگر میں خوں نہیں وے سہرے سے آنسو کہاں

میرؔ سچ کہتا تھا جنت ہو نصیب اس کے تئیں

حور کا چہرہ کہاں اس کا رخ نیکو کہاں

 

(۸۸۹)

 

بیگانہ وضع برسوں اس شہر میں رہا ہوں

بھاگوں ہوں دور سب سے میں کس کا آشنا ہوں

۶۵۸۵

پوچھا کیے ہیں مجھ سے گل برگ لب کو تیرے

بلبل کے ہاتھ جب میں گلزار میں لگا ہوں

اب کار شوق دیکھوں پہنچے مرا کہاں تک

قاصد کے پیچھے میں بھی بے طاقت اٹھ چلا ہوں

تجھ سے متاع خوش کا کیونکر نہ ہوں معرف

یوسفؑ کے ہاتھ پیارے کچھ میں نہیں بکا ہوں

گل پھول کوئی کب تک جھڑ جھڑ کے گرتے دیکھے

اس باغ میں بہت اب جوں غنچہ میں رکا ہوں

کیا کیا کیا تامل اس فکر میں گیا گھل

سمجھا نہ آپ کو میں کیا جانیے کہ کیا ہوں

۶۵۹۰

ہوتا ہے گرم کیا تو  اے آفتاب خوبی

ایک آدھ دم میں میں تو شبنم نمط ہوا ہوں

پیری سے جھکتے جھکتے پہنچا ہوں خاک تک میں

وہ سرکشی کہاں ہے اب تو بہت دبا ہوں

مجھ کو بلا ہے وحشت  اے میرؔ دور اس سے

جاگہ سے جب اٹھا ہوں آشوب سا اٹھا ہوں

 

(۸۹۰)

 

کوچے میں تیرے میرؔ کا مطلق اثر نہیں

کیا جانیے کدھر کو گیا کچھ خبر نہیں

ہے عاشقی کے بیچ ستم دیکھنا ہی لطف

مر جانا آنکھیں موند کے یہ کچھ ہنر نہیں

۶۵۹۵

کب شب ہوئی زمانے میں جو پھر ہوا نہ روز

کیا  اے شب فراق تجھی کو سحر نہیں

ہر چند ہم کو مستوں سے صحبت رہی ہے لیک

دامن ہمارا ابر کے مانند تر نہیں

گلگشت اپنے طور پہ ہے سو تو خوب یاں

شائستۂ پریدن گلزار پر نہیں

کیا ہو جے حرف زن گذر دوستی سے آہ

خط لے گیا کہ راہ میں پھر نامہ بر نہیں

آنکھیں تمام خلق کی رہتی ہیں اس کی اور

مطلق کسو کو حال پہ میرے نظر نہیں

۶۶۰۰

کہتے ہیں سب کہ خون ہی ہوتا ہے اشک چشم

راتوں کو گر بکا ہے یہی تو جگر نہیں

جا کر شراب خانے میں رہتا نہیں تو پھر

یہ کیا کہ میرؔ جمعے ہی کی رات گھر نہیں

 

(۸۹۱)

 

گو جان کر تجھے سب تعبیر کر رہے ہیں

ہم لوگ تیرے اوپر سو جی سے مر رہے ہیں

کھنچتا چلا ہے اب تو تصدیق کو تصور

ہر لحظہ اس کے جلوے پیش نظر رہے ہیں

نکلے ہوس جو اب بھی ہو وار ہی قفس سے

شائستۂ پریدن دوچار پر رہے ہیں

۶۶۰۵

کل دیکھتے ہمارے بستے تھے گھر برابر

اب یہ کہیں کہیں جو دیوار و در رہے ہیں

کیا آج ڈبڈبائی دیکھو ہو تم یہ آنکھیں

جوں چشمہ یوں ہی برسوں ہم چشم تر رہے ہیں

نے غم ہے ہم کو یاں کا نے فکر کچھ ہے واں کا

صدقے جنوں کے کیا ہم بے درد سر رہے ہیں

پاس ایک دن بھی اپنا ان نے نہیں کیا ہے

ہم دور اس سے بے دم دو دو پہر رہے ہیں

کیا یہ سرائے فانی ہے جائے باش اپنی

ہم یاں مسافرانہ آ کر اتر رہے ہیں

۶۶۱۰

ایسا نہ ہو کہ چھیڑے یک بار پھوٹ بہیے

ہم پکے پھوڑے کے اب مانند بھر رہے ہیں

اس میکدے میں جس جا ہشیار چاہیے تھے

رحمت ہے ہم کو ہم بھی کیا بے خبر رہے ہیں

گو راہ عشق میں ہو شمشیر کے دم اوپر

وسواس کیا ہے ہم تو جی سے گذر رہے ہیں

چل ہم نشیں بنے تو ایک آدھ بیت سنیے

کہتے ہیں بعد مدت میرؔ اپنے گھر رہے ہیں

 

(۸۹۲)

 

یوں قیدیوں سے کب تئیں ہم تنگ تر رہیں

جی چاہتا ہے جا کے کسو اور مر رہیں

۶۶۱۵

اے کاش ہم کو سکر کی حالت رہے مدام

تا حال کی خرابی سے ہم بے خبر رہیں

رہتے ہیں یوں حواس پریشاں کہ جوں کہیں

دو تین آ کے لوٹے مسافر اتر رہیں

وعدہ تو تب ہو صبح کا جب ہم بھی جاں بلب

جیسے چراغ آخر شب تا سحر رہیں

آوارگی کی سب ہیں یہ خانہ خرابیاں

لوگ آویں دیکھنے کو بہت ہم جو گھر رہیں

ہم نے بھی نذر کی ہے کہ پھریے چمن کے گرد

یارب قفس کے چھوٹنے تک بال و پر رہیں

۶۶۲۰

ان دلبروں کی آنکھ نہیں جائے اعتماد

جب تک رہیں یہ چاہیے پیش نظر رہیں

فردا کی فکر آج نہیں مقتضائے عقل

کل کی بھی دیکھ لیویں گے کل ہم اگر رہیں

تیغ و تبر رکھا نہ کرو پاس میرؔ کے

ایسا نہ ہو کہ آپ کو ضائع وے کر رہیں

 

(۸۹۳)

 

دل کو لکھوں ہوں آہ وہ کیا مدعا لکھوں

دیوانے کو جو خط لکھوں بتلاؤ کیا لکھوں

کیا کیا لقب ہیں شوق کے عالم میں یار کے

کعبہ لکھوں کہ قبلہ اسے یا خدا لکھوں

۶۶۲۵

حیراں ہو میرے حال میں کہنے لگا طبیب

اس دردمند عشق کی میں کیا دوا لکھوں

وحشت زدوں کو نامہ لکھوں ہوں نہ کس طرح

مجنوں کو اس کے حاشیے پر میں دعا لکھوں

کچھ روبرو ہوئے پہ جو سلجھے تو سلجھے میرؔ

جی کے الجھنے کا اسے کیا ماجرا لکھوں

 

(۸۹۴)

جب سے ہے اس کی ابروئے خمدار درمیاں

رہتی ہے میرے خلق کے تلوار درمیاں

برپا ہوا ہجوم سے اک حشر تازہ واں

آیا جہاں کہیں قدم یار درمیاں

۶۶۳۰

اس کام جاں میں ہم میں ہوا ہے حجاب چشم

یوں رہیے آہ کب تئیں دیوار درمیاں

سو بار اس سے فتنے جہاں میں اٹھے ولے

دیکھی نہ ہم نے وہ کمر اک بار درمیاں

کیا کہیے آہ جی کو قیامت ہے انتظار

آتا نہ کاش وعدۂ دیدار درمیاں

رکھ دی ہے کتنے روزوں سے تلوار یار نے

کوئی نہیں ہے خوں کا سزاوار درمیاں

ثابت ہے ساری خلق کے اوپر کہ تو ہے ایک

حاجت نہیں جو آوے یہ تکرار درمیاں

۶۶۳۵

آیا کیے دماغ کے اعضا میں یہ فتور

ٹھہرے قشون کیا نہیں سردار درمیاں

بازار میں دکھائی ہے کب ان نے جنس حسن

جو بک نہیں گئے ہیں خریدار درمیاں

دیکھیں چمن جو سینۂ پر داغ سے بڑھیں

بیداد ہے یہ قطعۂ گلزار درمیاں

کھنچنے نہ پائی اس کی تو تلوار بھیڑ میں

مارا گیا عبث یہ گنہگار درمیاں

اب کے جنوں کے بیچ گریباں کا ذکر کیا

کہیے بھی جو رہا ہو کوئی تار درمیاں

۶۶۴۰

کتنے دنوں سے میرؔ کا نالہ نہیں سنا

شاید نہیں ہے اب وہ گرفتار درمیاں

 

(۸۹۵)

اتفاق ایسا ہے کڑھتے ہی سدا رہتے ہیں

ایک عالم میں ہیں ہم وے پہ جدا رہتے ہیں

برسے تلوار کہ حائل ہو کوئی سیل بلا

پیش کچھ آؤ ہم اس کوچے میں جا رہتے ہیں

کام آتا ہے میسر کسے ان ہونٹوں سے

بابت بوسہ ہیں پر سب کو چما رہتے ہیں

دشت میں گرد رہ اس کی اٹھے ہے جیدھر سے

وحش و طیر آنکھیں ادھر ہی کو لگا رہتے ہیں

۶۶۴۵

کیا تری گرمی بازار کہیں خوبی کی

سینکڑوں آن کے یوسف سے بکا رہتے ہیں

بسترا خاک رہ اس کی تو ہے اپنا لیکن

گریۂ خونیں سے لوہو میں نہا رہتے ہیں

کیوں اڑاتے ہو بلایا ہمیں کب کب ہم آپ

جیسے گردان کبوتر یہیں آ رہتے ہیں

حق تلف کن ہیں بتاں یاد دلاؤں کب تک

ہر سحر صحبت دوشیں کو بھلا رہتے ہیں

یاد میں اس کے قد و قامت دلکش کی میرؔ

اپنے سر ایک قیامت نئی لا رہتے ہیں             ۶۶۵۰

(۸۹۶)

باغ گو سبز ہوا اب سر گلزار کہاں

دل کہاں وقت کہاں عمر کہاں یار کہاں

تم تو اب آنے کو پھر کہہ چلے ہو کل لیکن

بے کل ایسا ہی رہا شب تو یہ بیمار کہاں

دل کی خواہش ہو کسو کو تو کمی دل کی نہیں

اب یہی جنس بہت ہے پہ خریدار کہاں

خاک یاں چھانتے ہی کیوں نہ پھرو دل کے لیے

ایسا پہنچے ہے بہم پھر کوئی غم خوار کہاں

دم زدن مصلحت وقت نہیں  اے ہمدم

جی میں کیا کیا ہے مرے پر لب اظہار کہاں

۶۶۵۵

شیخ کے آنے ہی کی دیر ہے میخانے میں پھر

سبحہ سجادہ کہاں جبہ و دستار کہاں

ہم سے ناکس تو بہت پھرتے ہیں جی دیتے ولے

زخم تیغ اس کے اٹھانے کا سزاوار کہاں

تو نے بھی گرد رخ سرخ نکالا خط سبز

باغ شاداب جہاں میں گل بے خار کہاں

خبط نے عقل کے سر رشتے کیے گم سارے

اب جو ڈھونڈو تو گریباں میں کوئی تار کہاں

گو کہ گردن تئیں یاں کوئی لہو میں بیٹھے

ہاتھ اٹھاتا ہے جفا سے وہ ستم گار کہاں

۶۶۶۰

ڈوبا لوہو میں پڑا تھا ہمگی پیکر میرؔ

یہ نہ جانا کہ لگی ظلم کی تلوار کہاں

 

(۸۹۷)

اے مجھ سے تجھ کو سو ملے تجھ سا نہ پایا ایک میں

سو سو کہیں تو نے مجھے منھ پر نہ لایا ایک میں

عالم کی میں نے سیر کی مجھ کو جو خوش آیا سو تو

سب سے رہا محظوظ تو تجھ کو نہ بھایا ایک میں

یہ جوش غم ہوتے بھی ہیں یوں ابرتر روتے بھی ہیں

چشم جہاں آشوب سے دریا بہایا ایک میں

تھا سب کو دعویٰ عشق کا لیکن نہ ٹھہرا کوئی بھی

دانستہ اپنی جان سے دل کو اٹھایا ایک میں

۶۶۶۵

ہیں طالب صورت سبھی مجھ پر ستم کیوں اس قدر

کیا مجرم عشق بتاں یاں ہوں خدایا ایک میں

بجلی سے یوں چمکے بہت پر بات کہتے ہو چکے

جوں ابر ساری خلق پر ہوں اب تو چھایا ایک میں

سو رنگ وہ ظاہر ہوا کوئی نہ جاگہ سے گیا

دل کو جو میرے چوٹ تھی طاقت نہ لایا ایک میں

اس گلستاں سے منفعت یوں تو ہزاروں کو ہوئی

دیکھا نہ سرو و گل کا یاں ٹک سر پہ سایہ ایک میں

رسم کہن ہے دوستی ہوتی بھی ہے الفت بہم

میں کشتنی ٹھہرا جو ہوں کیا دل لگایا ایک میں

۶۶۷۰

جن جن نے دیکھا تھا اسے بے خود ہوا چیتا بھی پھر

پر میرؔ جیتے جی بخود ہرگز نہ آیا ایک میں

 

(۸۹۸)

 

اگرچہ اب کے ہم  اے ابر خشک مژگاں ہیں

پہ جوش دل میں کبھو آ گیا تو طوفاں ہیں

صنم پرستی میں  اے راہباں نہ کی تقصیر

تم اہل صومعہ سے  پوچھو وے مسلماں ہیں

کریں انھوں پہ بھلا کس طرح نظر گستاخ

بتان شہر ہمارے تو دین و ایماں ہیں

چمن میں جا کے بھرو تم گلوں سے جیب و کنار

ہم اپنے دل ہی کے ٹکڑوں سے گل بداماں ہیں

۶۶۷۵

رہے ہیں دیکھ جو تصویر سے ترے منھ کو

ہماری آنکھ سے ظاہر ہے یہ کہ حیراں ہیں

رہا ہے کون سا پردہ ترے ستم کا شوخ

کہ زخم سینہ ہمارے سبھی نمایاں ہیں

شبیہ شکل سا ہے حال ضبط عشق کے بیچ

کہ رنگ روپ ہے سب کچھ ولیک بے جاں ہیں

بنے تو عزت عشاق میں نہ کر تقصیر

کہ ایسے لوگ پیارے عزیز مہماں ہیں

جو ابر دشت میں برسے تو ہم اڑاویں خاک

وہ میرؔ آب ہے ہم یاں کے میر ساماں ہیں

۶۶۸۰

 

(۸۹۹)

 

جور کیا کیا جفائیں کیا کیا ہیں

عاشقی میں بلائیں کیا کیا ہیں

خوب رو ہی فقط نہیں وہ شوخ

حسن کیا کیا ادائیں کیا کیا ہیں

فکر تعمیر دل کسو کو نہیں

ایسی ویسی بنائیں کیا کیا ہیں

گہ نسیم و صبا ہے گاہ سموم

اس چمن میں ہوائیں کیا کیا ہیں

شور ہے ترک شیخ کا لیکن

چپکے چپکے دعائیں کیا کیا ہیں

۶۶۸۵

منظر دیدہ قصر دل  اے میرؔ

شہر تن میں بھی جائیں کیا کیا ہیں

 

(۹۰۰)

 

فراق آنکھ لگنے کی جا ہی نہیں

پلک سے پلک آشنا ہی نہیں

گلہ عشق کا بدو خلقت سے ہے

غم دل کو کچھ انتہا ہی نہیں

محبت جہاں کی تہاں ہو چکی

کچھ اس روگ کی بھی دوا ہی نہیں

دکھایا کیے یار اس رخ کا سطح

کہیں آرسی کو حیا ہی نہیں

وہ کیا کچھ نہیں حسن کے شہر میں

نہیں ہے تو رسم وفا ہی نہیں

۶۶۹۰

چمن محو اس روئے خوش کا ہے سب

گل تر کی اب وہ ہوا ہی نہیں

نہیں دیر اگر میرؔ کعبہ تو ہے

ہمارے کوئی کیا خدا ہی نہیں

 

(۹۰۱)

 

دل لے کے کیسے کیسے جھگڑے مجادلے ہیں

بد وضع یاں کے لڑکے کیا خوش معاملے ہیں

گھبرانے لگتیاں ہیں رک رک کے تن میں جانیں

کرتے ہیں جو وفائیں ان ہی کے حوصلے ہیں

۶۶۹۵

کیا قدر تھی سخن کی جب یاں بھی صحبتیں تھیں

ہر بات جائزہ ہے ہر بیت پر صلے ہیں

جب کچھ تھی جہت مجھ سے تب کس سے ملتے تھے تم

اطراف کے یہ بے تہ اب تم سے آملے ہیں

تھا واجب الترحم مظلوم عشق تھا میں

اس کشتۂ ستم کو تم سے بہت گلے ہیں

سوز دروں سے کیونکر میں آگ میں نہ لوٹوں

جوں شیشۂ حبابی سب دل پر آبلے ہیں

میں جی سنبھالتا ہوں وہ ہنس کے ٹالتا ہے

یاں مشکلیں ہیں ایسی واں یہ مساہلے ہیں

۶۷۰۰

اندیشہ زاد رہ کا رکھیے تو ہے مناسب

چلنے کو یاں سے اکثر تیار قافلے ہیں

پانچوں حواس گم ہیں ہر اک کے اس سمیں میں

کیا میرؔ جی ہی تنہا ان روزوں دہ دلے ہیں

 

(۹۰۲)

 

محبت نے کھویا کھپایا ہمیں

بہت ان نے ڈھونڈا نہ پایا ہمیں

پھرا کرتے ہیں دھوپ میں جلتے ہم

ہوا ہے کہے تو کہ سایہ ہمیں

گہے تر رہیں گاہ خوں بستہ تھیں

ان آنکھوں نے کیا کیا دکھایا ہمیں

۶۷۰۵

بٹھا اس کی خاطر میں نقش وفا

نہیں تو اٹھا لے خدایا ہمیں

ملے ڈالے ہے دل کوئی عشق میں

یہ کیا روگ یارب لگایا ہمیں

ہوئی اس گلی میں تو مٹی عزیز

ولے خواریوں سے اٹھایا ہمیں

جوانی دوانی سنا کیا نہیں

حسینوں کا ملنا ہی بھایا ہمیں

نہ سمجھی گئی دشمنی عشق کی

بہت دوستوں نے جتایا ہمیں

۶۷۱۰

کوئی دم کل آئے تھے مجلس میں میرؔ

بہت اس غزل پر رلایا ہمیں

 

(۹۰۳)

 

جنوں نے تماشا بنایا ہمیں

رہا دیکھ اپنا پرایا ہمیں

سدا ہم تو کھوئے گئے سے رہے

کبھو آپ میں تم نے پایا ہمیں

یہی تا دم مرگ بیتاب تھے

نہ اس بن تنک صبر آیا ہمیں

شب آنکھوں سے دریا سا بہتا رہا

انھیں نے کنارے لگایا ہمیں

۶۷۱۵

ہمارا نہیں تم کو کچھ پاس رنج

یہ کیا تم نے سمجھا ہے آیا ہمیں

لگی سر سے جوں شمع پا تک گئی

سب اس داغ نے آہ کھایا ہمیں

جلیں پیش و پس جیسے شمع و پتنگ

جلا وہ بھی جن نے جلایا ہمیں

ازل میں ملا کیا نہ عالم کے تیں

قضا نے یہی دل دلایا ہمیں

رہا تو تو اکثر الم ناک میرؔ

ترا طور کچھ خوش نہ آیا ہمیں

۶۷۲۰

 

(۹۰۴)

کیا عبث مجنوں پئے محمل ہے میاں

یہ دوانہ باؤلا عاقل ہے میاں

قند کا کون اس قدر مائل ہے میاں

جو ہے ان ہونٹوں ہی کا قائل ہے میاں

ہم نے یہ مانا کہ واعظ ہے ملک

آدمی ہونا بہت مشکل ہے میاں

چشم تر کی خیر جاری ہے سدا

سیل اس دروازے کا سائل ہے میاں

مرنے کے پیچھے تو راحت سچ ہے لیک

بیچ میں یہ واقعہ حائل ہے میاں

۶۷۲۵

دل کی پامالی ستم ہے قہر ہے

کوئی یوں دلتا ہے آخر دل ہے میاں

آج کیا فردائے محشر کا ہراس

صبح دیکھیں کیا ہو شب حامل ہے میاں

دل تڑپتا ہی نہیں کیا جانیے

کس شکار انداز کا بسمل ہے  میاں

چاہیے پیش از نماز آنکھیں کھلیں

حیف اس کا وقت جو غافل ہے میاں

رنگ بے رنگی جدا تو ہے ولے

آب سا ہر رنگ میں شامل ہے میاں

۶۷۳۰

سامنے سے ٹک ٹلے تو دق نہ ہو

آسماں چھاتی پر اپنی سل ہے میاں

دل لگی اتنی جہاں میں کس لیے

رہگذر ہے یہ تو کیا منزل ہے میاں

بے تہی دری اے ہستی کی نہ پوچھ

یاں سے واں تک سو جگہ ساحل ہے میاں

چشم حق بیں سے کرو ٹک تم نظر

دیکھتے جو کچھ ہو سب باطل ہے میاں

دردمندی ہی تو ہے جو کچھ کہ ہے

حق میں عاشق کے دوا قاتل ہے میاں

۶۷۳۵

برسوں ہم روتے پھرے ہیں ابر سے

زانو زانو اس گلی میں گل ہے میاں

کہنہ سالی میں ہے جیسے خورد سال

کیا فلک پیری میں بھی جاہل ہے میاں

کیا دل مجروح و محزوں کا گلہ

ایک غمگیں دوسرے گھائل ہے میاں

دیکھ کر سبزہ ہی خرم دل کو رکھ

مزرع دنیا کا یہ حاصل ہے میاں

مستعدوں پر سخن ہے آج کل

شعر اپنا فن سو کس قابل ہے میاں

۶۷۴۰

کی زیارت میرؔ کی ہم نے بھی کل

لا ابالی سا ہے پر کامل ہے میاں

 

(۹۰۵)

لذت سے درد کی جو کوئی آشنا نہیں

سو لطف کیوں نہ جمع ہوں اس میں مزہ نہیں

ہر آن کیا عوض ہے دعا کا بدی ولے

تم کیا کرو بھلے کا زمانہ رہا نہیں

روئے سخن جو ہے تو مرا چشم دل کی اور

تم سے خدانخواستہ مجھ کو گلہ نہیں

تلوار ہی کھنچا کی ترے ہوتے بزم میں

بیٹھا ہے کب تو آ کے کہ فتنہ اٹھا نہیں

۶۷۴۵

مل دیکھے ایسے دلبر ہرجائی سے کوئی

بے جا نہیں ہے دل جو ہمارا بجا نہیں

ہو تم جو میرے حیرتی فرط شوق وصل

کیا جانو دل کسو سے تمھارا لگا نہیں

آئینے پر سے ٹک نہیں اٹھتی تری نظر

اس شوق کش کے منھ سے تجھے کچھ حیا نہیں

رنگ اور بو تو دلکش و دلچسپ ہیں کمال

لیکن ہزار حیف کہ گل میں وفا نہیں

تیرستم کا تیرے ہدف کب تلک رہوں

آخر جگر ہے لوہے کا کوئی توا نہیں

۶۷۵۰

ان نے تو آنکھیں موند لیاں ہیں ادھر سے واں

ایک آدھ دن میں دیکھیے یاں کیا ہے کیا نہیں

اٹھتے ہو میرؔ دیر سے تو کعبے چل رہو

مغموم کاہے کو ہو تمھارے خدا نہیں

 

 

 

(۹۰۶)

کیا کہیں آتش ہجراں سے گلے جاتے ہیں

چھاتیاں سلگیں ہیں ایسی کہ جلے جاتے ہیں

گوہر گوش کسو کا نہیں جی سے جاتا

آنسو موتی سے مرے منھ پہ ڈھلے جاتے ہیں

یہی مسدود ہے کچھ راہ وفا ورنہ بہم

سب کہیں نامہ و پیغام چلے جاتے ہیں

۶۷۵۵

بار حرمان و گل و داغ نہیں اپنے ساتھ

شجر باغ وفا پھولے پھلے جاتے ہیں

حیرت عشق میں تصویر سے رفتہ ہی رہے

ایسے جاتے ہیں جو ہم بھی تو بھلے جاتے ہیں

ہجر کی کوفت جو کھینچے ہیں انھیں سے پوچھو

دل دیے جاتے ہیں جی اپنے ملے جاتے ہیں

یاد قد میں ترے آنکھوں سے بہیں ہیں جوئیں

گر کسو باغ میں ہم سرو تلے جاتے ہیں

دیکھیں پیش آوے ہے کیا عشق میں اب تو جوں سیل

ہم بھی اس راہ میں سر گاڑے چلے جاتے ہیں

۶۷۶۰

پُر غباری جہاں سے نہیں سدھ میرؔ ہمیں

گرد اتنی ہے کہ مٹی میں رلے جاتے ہیں

 

(۹۰۷)

کیا کہیں پایا نہیں جاتا ہے کچھ تم کیا ہو میاں

کھو گئے دنیا سے تم ہو اور اب دنیا ہو میاں

مت حنائی پاؤں سے چل کر کہیں جایا کرو

دلی ہے آخر نہ ہنگامہ کہیں برپا ہو میاں

دل جہاں کھویا گیا کھویا گیا پھر دیکھیے

کون مرتا ہے جیے ہے کون نا پیدا ہو میاں

دل کو لے کر صاف یوں آنکھیں ملاتا ہے کوئی

تب تلک ہی لطف ہے جب تک کہ کچھ پردہ ہو میاں

۶۷۶۵

ایک جنبش میں ترے ابرو کی ٹل جاتی ہے بھیڑ

درمیاں آوے اگر تلوار تو پرچھا ہو میاں

برسوں تک چھایا رہا ہے چشم تر پر ابر سا

پاٹ دامن کا نچوڑوں کوئی تو دریا ہو میاں

شہر میں تو موسم گل میں نہیں لگتا ہے جی

یا گریباں کوہ کا یا دامن صحرا ہو میاں

مدعی عشق تو ہیں عزلتی شہر لیک

جب گلی کوچوں میں کوئی اس طرح رسوا ہو میاں

گفتگو اتنی پریشاں حال کی یہ درہمی

میرؔ کچھ دل تنگ ہے ایسا نہ ہو سودا ہو میاں

۶۷۷۰

 

(۹۰۸)

 

معلوم نہیں کیا ہے لب سرخ بتاں میں

اس آتش خاموش کا ہے شور جہاں میں

یوسفؑ کے تئیں دیکھ نہ کیوں بند ہوں بازار

یہ جنس نکلتی نہیں ہر اک کی دکاں میں

یک پرچۂ اشعار سے منھ باندھے سبھوں کے

جادو تھا مرے خامے کی گویا کہ زباں میں

یہ دل جو شکستہ ہے سو بے لطف نہیں ہے

ٹھہرو کوئی دم آن کے اس ٹوٹے مکاں میں

میں لگ کے گلے خوب ہی رویا لب جو پر

ملتی تھی طرح اس کی بہت سرو رواں میں

۶۷۷۵

کیا قہر ہوا دل جو دیا لڑکوں کو میں نے

چرچا ہے یہی شہر کے اب پیر و جواں میں

وے یاسمن تازہ شگفتہ میں کہاں میرؔ

پائے گئے لطف اس کے جو پاؤں کے نشاں میں

 

                ردیف و

 

(۹۰۹)

 

اتنا کہا نہ ہم سے تم نے کبھو کہ آؤ

کاہے کو یوں کھڑے ہو وحشی سے بیٹھ جاؤ

یہ چاند کے سے ٹکڑے چھپتے نہیں چھپائے

ہر چند اپنے منھ کو برقع میں تم چھپاؤ

دوچار تیر یارو اس سے بھلی ہے دوری

تم کھینچ کھینچ مجھ کو اس پلے پر نہ لاؤ

۶۷۸۰

ہو شرم آنکھ میں تو بھاری جہاز سے ہے

مت کر کے شوخ چشمی آشوب سا اٹھاؤ

اب آتے ہو تو آؤ ہر لحظہ جی گھٹے ہے

پھر لطف کیا جو آ کر آدھا بھی تم نہ پاؤ

تھی سحر یا نگہ تھی ہم آپ کو تھے بھولے

اس جادوگر کو یارو پھر بھی تنک دکھاؤ

بارے گئے سو گذرے جی بھر بھر آتے ہیں کیا

آئندہ میرؔ صاحب دل مت کہیں لگاؤ

 

(۹۱۰)

 

نہ مائل آرسی کا رہ سراپا درد ہو گا تو

نہ ہو گلچین باغ حسن ظالم زرد ہو گا تو

۶۷۸۵

یہ پیشہ عشق کا ہے خاک چھنوائے گا صحرا کی

ہزار  اے بے وفا جوں گل چمن پرورد ہو گا تو

غبار اٹھنے لگے گا تیری اس نازک طبیعت سے

بسان گردباد آخر بیاباں گرد ہو گا تو

علاقہ دل کا لکھوائے گا دفتر ہاتھ سے تیرے

تجرد کے جریدوں میں قلم سا فرد ہو گا تو

نہ یک دم صبح تک بھی آنکھ لگنے دے گا دل جلنا

یہی پھر میرؔ سا سرگرم آہ سرد ہو گا تو

 

(۹۱۱)

 

سب حال سے بے خبر ہیں یاں تو

برہم زدہ شہر ہے جہاں تو

۶۷۹۰

اس تن پہ نثار کرتے لیکن

اپنی بھی نظر میں ٹھہرے جاں تو

برباد نہ دے کہیں سراسر

رہتی نہیں شمع ساں زباں تو

کیا اس کے گئے ہے ذکر دل کا

ویران پڑا ہے یہ مکاں تو

کیا کیا نہ عزیز خوار ہوں گے

ہونے دو اسے ابھی جواں تو

غنچہ لگے منھ تمھارے لیکن

صحبت کا اسے بھی ہو دہاں تو

۶۷۹۵

کیا اس سے رکھیں امید بہبود

پھرتا ہے خراب آسماں تو

یہ طالع نارسا بھی جاگیں

سو جائے ٹک اس کا پاسباں تو

مت تربت میرؔ کو مٹاؤ

رہنے دو غریب کا نشاں تو

 

(۹۱۲)

 

ملتفت ہوتا نہیں ہے گاہ تو

کس قدر مغرور ہے اللہ تو

مجھ سے کتنے جان سے جاتے رہے

کس کی میت کے گیا ہمراہ تو

۶۸۰۰

بے خودی رہتی ہے اب اکثر مجھے

حال سے میرے نہیں آگاہ تو

اس کے دل میں کام کرنا کام ہے

یوں فلک پر کیوں نہ جا  اے آہ تو

فرش ہیں آنکھیں ہی تیری راہ میں

آہ ٹک تو دیکھ کر چل راہ تو

جی تلک تو منھ نہ موڑیں تجھ سے ہم

کر جفا و جور خاطر خواہ تو

کاہش دل بھی دو چنداں کیوں نہ ہو

آنکھ میں آوے نہ دو دو ماہ تو

۶۸۰۵

دل دہی کیا کی ہے یوں ہی چاہیے

اے زہے تو آفریں تو واہ تو

میرؔ تو تو عاشقی میں کھپ گیا

مت کسی کو چند روز اب چاہ تو

 

(۹۱۳)

 

اب اسیری سے بچیں تو دیکھیں گے گلشن کبھو

تھا ہمارا بھی چمن میں  اے صبا مسکن کبھو

ہم بھی ایک امید پر اس صید گہ میں ہیں پڑے

کہتے ہیں آتا ہے ایدھر وہ شکار افگن کبھو

بند پایا جیب میں یا سر سے مارا تنگ ہو

دست کوتہ میں نہ آیا اپنے وہ دامن کبھو

۶۸۱۰

یار کی برگشتہ مژگاں سے نہ دل کو جمع رکھ

بد بلا ہے پھر کھڑی ہووے جو یہ پلٹن کبھو

جان کوئی کیوں نہ دو اس بے مروت کے لیے

آشنا ہوتا نہیں وہ دوستی دشمن کبھو

ہوں تو نالاں زیر دیوار چمن پر ضعف سے

گوش زد گل کے نہیں ہوتا مرا شیون کبھو

دل مگر ان جامہ زیبوں کو دیا ہے میرؔ نے

اس طرح پھرتے نہ تھے وے چاک پیراہن کبھو

 

(۹۱۴)

گل برگ سے ہیں نازک خوبی پا تو دیکھو

کیا ہے جھمک کفک کی رنگ حنا تو دیکھو

۶۸۱۵

ہر بات پر خشونت طرزجفا تو دیکھو

ہر لمحہ بے ادائی اس کی ادا تو دیکھو

سائے میں ہر پلک کے خوابیدہ ہے قیامت

اس فتنۂ زماں کو کوئی جگا تو دیکھو

بلبل بھی گل گئے پر مر کر چمن سے نکلی

اس مرغ شوق کش کی ٹک تم وفا تو دیکھو

طنزیں عبث کرو ہو غش رہنے پر ہمارے

دو چار دن کسو سے دل کو لگا تو دیکھو

ہونا پڑے ہے دشمن ہر گام اپنی جاں کا

کوچے میں دوستی کے ہر کوئی آ تو دیکھو

۶۸۲۰

پیری میں مول لے ہے منعم حویلیوں کو

ڈھہتا پھرے ہے آپھی اس پر بنا تو دیکھو

ڈوبی ہے کشتی میری بحر عمیق غم میں

بیگانے سے کھڑے ہو تم آشنا تو دیکھو

آئے جو ہم تو ان نے آنکھوں میں ہم کو رکھا

اہل ہوس سے کوئی اودھر کو جا تو دیکھو

ہے اس چمن میں وہ گل صد رنگ محو جلوہ

دیکھو جہاں وہی ہے کچھ اس سوا تو دیکھو

اشعار میرؔ پر ہے اب ہائے وائے ہر سو

کچھ سحر تو نہیں ہے لیکن ہوا تو دیکھو

۶۸۲۵

(۹۱۵)

بدزباں ہو جیسے خوش اسلوب ہو

کیا کہیں جو کچھ کہ ہو تم خوب ہو

بے نقابی اس کی ہے ہم پر ستم

لایئے منھ پر تو وہ محجوب ہو

ایسا شہر حسن ہی ہے تازہ رسم

دوستی باہم جہاں معیوب ہو

مطلب عمدہ ہے دل لے تو رکھو

گاہ باشد تم کو بھی مطلوب ہو

چاہیے ہے اور کچھ عاشق کو کیا

جان کا خواہاں اگر محبوب ہو

۶۸۳۰

لوہو پینا جان کھانا دیکھیے

کیا مزاج عشق میں مرغوب ہو

جو کہو ہو سو مخالف عقل کے

میرؔ صاحب تم مگر مجذوب ہو

 

(۹۱۶)

منعقد کاش مجلس مل ہو

درمیاں تو ہو سامنے گل ہو

گرمیاں متصل رہیں باہم

نے تساہل ہو نے تغافل ہو

اب دھواں یوں جگر سے اٹھتا ہے

جیسے پر پیچ کوئی کاکل ہو

۶۸۳۵

نہ تو طالع نہ جذب پھر دل کو

کس بھروسے پہ ٹک تحمل ہو

لگ نہ چل  اے نسیم باغ کہ میں

رہ گیا ہوں چراغ سا گل ہو

ادھ جلا لالہ ساں رہا تو کیا

داغ بھی ہو تو کوئی بالکل ہو

طول رکھتا ہے درد دل میرا

لکھنے بیٹھوں تو خط ترسل ہو

ہو جو مجھ بادہ کش کے عرس میں تو

جبکہ قلقل سے شیشے کی قل ہو

۶۸۴۰

دیر رہنے کی جا نہیں یہ چمن

بوئے گل ہو صفیر بلبل ہو

مجھ دوانے کی مت ہلا زنجیر

کہیں ایسا نہ ہو کہ پھر غل ہو

منکشف ہو رہا ہے حال میرؔ

کاش ٹک یار کو تامل ہو

 

(۹۱۷)

نہ میرے باعث شور و فغاں ہو

ابھی کیا جانیے یاں کیا سماں ہو

یہی مشہور عالم ہیں دو عالم

خدا جانے ملاپ اس سے کہاں ہو

۶۸۴۵

جہاں سجدے میں ہم نے غش کیا تھا

وہیں شاید کہ اس کا آستاں ہو

نہ ہووے وصف ان بالوں کا مجھ سے

اگر ہر مو مرے تن پر زباں ہو

جگر تو چھن گیا تیروں کے مارے

تمھاری کس طرح خاطر نشاں ہو

نہ دل سے جا خدا کی تجھ کو سوگند

خدائی میں اگر ایسا مکاں ہو

تم  اے نازک تناں ہو وہ کہ سب کے

تمنائے دل و آرام جاں ہو

۶۸۵۰

ہلے ٹک لب کہ اس نے مار ڈالا

کہے کچھ کوئی گر جی کی اماں ہو

ق

سنا ہے چاہ کا دعویٰ تمھارا

کہو جو کچھ کہ چاہو مہرباں ہو

کنارہ یوں کیا جاتا نہیں پھر

اگر پائے محبت درمیاں ہو

ہوئے ہم پیر سو ساکت ہیں اب میرؔ

تمھاری بات کیا ہے تم جواں ہو

 

(۹۱۸)

 

برسوں میں کبھو ایدھر تم ناز سے آتے ہو

پھر برسوں تئیں پیارے جی سے نہیں جاتے ہو

۶۸۵۵

آتے ہو کبھو یاں تو ہم لطف نہیں پاتے

سو آفتیں لاتے ہو سو فتنے اٹھاتے ہو

رہتے ہو تم آنکھوں میں پھرتے ہو تمھیں دل میں

مدت سے اگرچہ یاں آتے ہو نہ جاتے ہو

ایسی ہی زباں ہے تو کیا عہدہ برآ ہوں گے

ہم ایک نہیں کہتے تم لاکھ سناتے ہو

خوش کرنے سے ٹک ایسے ناخوش ہی رکھا کریے

ہنستے ہو گھڑی بھر تو پہروں ہی رلاتے ہو

اک خلق تلاشی ہے تم ہاتھ نہیں لگتے

لڑکے تو ہو پر سب کو ٹالے ہی بتاتے ہو

۶۸۶۰

مدت سے تمھارا کب ایدھر کو تہ دل ہے

کاہے کو تصنع سے یہ باتیں بناتے ہو

کچھ عزت کفر آخر  اے دیر کے باشندو

مجھ سہل سے کو کیوں تم زنار بندھاتے ہو

آوارہ اسے پھرتے پھر برسوں گذرتے ہیں

تم جس کسو کو اپنے ٹک پاس بٹھاتے ہو

دل کھول کے مل چلیے جو میرؔ سے ملنا ہے

آنکھیں بھی دکھاتے ہو پھر منھ بھی چھپاتے ہو

 

(۹۱۹)

 

ہر صبح شام تو پئے ایذائے میرؔ ہو

ایسا نہ ہو کہ کام ہی اس کا اخیر ہو

۶۸۶۵

ہو کوئی بادشاہ کوئی یاں وزیر ہو

اپنی بلا سے بیٹھ رہے جب فقیر ہو

جنت کی منت ان کے دماغوں سے کب اٹھے

خاک رہ اس کی جن کے کفن کا عبیر ہو

کیا یوں ہی آب و تاب سے ہو بیٹھیں کار عشق

سوکھے جگر کا خوں تو رواں جوئے شیر ہو

چھاتی قفس میں داغ سے ہو کیوں نہ رشک باغ

جوش بہار تھا کہ ہم آئے اسیر ہو

یاں برگ گل اڑاتے ہیں پرکالۂ جگر

جا عندلیب تو نہ مری ہم صفیر ہو

۶۸۷۰

اس کے خیال خط میں کسے یاں دماغ حرف

کرتی ہے بے مزہ جو قلم کی صریر ہو

زنہار اپنی آنکھ میں آتا نہیں وہ صید

پھوٹا دوسار جس کے جگر میں نہ تیر ہو

ہوتے ہیں میکدے کے جواں شیخ جی برے

پھر درگذر یہ کرتے نہیں گو کہ پیر ہو

کس طرح آہ خاک مذلت سے میں اٹھوں

افتادہ تر جو مجھ سے مرا دستگیر ہو

حد سے زیادہ جور و ستم خوشنما نہیں

ایسا سلوک کر کہ تدارک پذیر ہو

۶۸۷۵

دم بھر نہ ٹھہرے دل میں نہ آنکھوں میں ایک پل

اتنے سے قد پہ تم بھی قیامت شریر ہو

ایسا ہی اس کے گھر کو بھی آباد دیکھیو

جس خانماں خراب کا یہ دل مشیر ہو

تسکین دل کے واسطے ہر کم بغل کے پاس

انصاف کریے کب تئیں مخلص حقیر ہو

یک وقت خاص حق میں مرے کچھ دعا کرو

تم بھی تو میرؔ صاحب و قبلہ فقیر ہو

 

(۹۲۰)

 

ٹک لطف سے ملا کر گو پھر کبھو کبھو ہو

سو تب تلک کہ مجھ کو ہجراں سے تیرے خو ہو

۶۸۸۰

کیا کیا جوان ہم نے دنیا سے جاتے دیکھے

اے عشق بے محابا دنیا ہو اور تو ہو

ایسے کہو گے کچھ تو ہم چپکے ہو رہیں گے

ہر بات پر کہاں تک آپس میں گفتگو ہو

کیا ہے جواب ظالم پرسش کے روز کہیو

جو روسیاہ یہ بھی واں آ کے روبرو ہو

ق

پر خوں ہمارے دل سے کتنی ہے تو مشابہ

شاید کلی تجھے بھی اس گل کی آرزو ہو

خط اس کے پشت لب کا ساکت کرے گا تجھ کو

کہیو اگر تفاوت اس میں بقدر مو ہو

۶۸۸۵

کھولے تھے بال کن نے ہنگام صبح اپنے

آئی ہے  اے صبا تو ایسی جو مشک بو ہو

درویشی سے بھی اپنی نکلے ہے میرزائی

نقش حصیر تن پر ایسے ہیں جوں اتو ہو

مت التیام چاہے پھر دل شکستگاں سے

ممکن نہیں کہ شیشہ ٹوٹا ہوا رفو ہو

کہتے ہو کانپتا ہوں جوں بید عاشقی سے

تم بھی تو میرؔ صاحب کتنے خلاف گو ہو

 

(۹۲۱)

 

رکھیے گردن کو تری تیغ ستم پر ہو سو ہو

جی میں ہم نے یہ کیا ہے اب مقرر ہو سو ہو

۶۸۹۰

قطرہ قطرہ اشک باری تو کجا پیش سحاب

ایک دن تو ٹوٹ پڑ  اے دیدۂ تر ہو سو ہو

بند میں ناز و نعم ہی کے رہے کیونکر فقیر

یہ فضولی ہے فقیری میں میسر ہو سو ہو

آ کے کوچے سے ترے جاتا ہوں کب جوں ابر شب

تیر باراں ہو کہ برسے تیغ یک سر ہو سو ہو

صاحبی کیسی جو تم کو بھی کوئی تم سا ملا

پھر تو خواری بے وقاری بندہ پرور ہو سو ہو

کب تلک فریاد کرتے یوں پھریں اب قصد ہے

داد لیجے اپنی اس ظالم سے اڑ کر ہو سو ہو

۶۸۹۵

بال تیرے سر کے آگے تو جیوں کے ہیں وبال

سر منڈا کر ہم بھی ہوتے ہیں قلندر ہو سو ہو

سختیاں دیکھیں تو ہم سے چند کھنچواتا ہے عشق

دل کو ہم نے بھی کیا ہے اب تو پتھر ہو سو ہو

کہتے ہیں ٹھہرا ہے تیرا اور غیروں کا بگاڑ

ہیں شریک  اے میرؔ ہم بھی تیرے بہتر ہو سو ہو

 

(۹۲۲)

 

ظالم ہو میری جان پہ ناآشنا نہ ہو

بے رحمی اتنی عیب نہیں بے وفا نہ ہو

کرتی ہے عشق بازی کو بے مائگی وبال

کیا کھیلے وہ جوا جسے کچھ آسرا نہ ہو

۶۹۰۰

ہجر بتاں میں طبع پراگندہ ہی رہی

کافر بھی اپنے یار سے یارب جدا نہ ہو

آزار کھینچنے کے مزے عاشقوں سے پوچھ

کیا جانے وہ کہ جس کا کہیں دل لگا نہ ہو

کھینچا ہے آدمی نے بہت دور آپ کو

اس پردے میں خیال تو کر ٹک خدا نہ ہو

رک جائے دم گر آہ نہ کریے جہاں کے بیچ

اس تنگنائے میں کریں کیا جو ہوا نہ ہو

طرزسخن تو دیکھ ٹک اس بدمعاش کی

دل داغ کس طرح سے ہمارا بھلا نہ ہو

۶۹۰۵

شکوہ سیاہ چشمی کا سن ہم سے یہ کہا

سرمہ نہیں لگانے کا میں تم خفا نہ ہو

جی میں تو ہے کہ دیکھیے آوارہ میرؔ کو

لیکن خدا ہی جانے وہ گھر میں ہو یا نہ ہو

 

(۹۲۳)

 

خدا کرے کہ بتوں سے نہ آشنائی ہو

کہ پھر موئے ہی بنے ہے اگر جدائی ہو

بدن نما ہے ہر آئینہ لوح تربت کا

نظر جسے ہو اسے خاک خود نمائی ہو

بدی نوشتے کی تحریر کیا کروں اپنے

کہ نامہ پہنچے تو پھر کاغذ ہوائی ہو

۶۹۱۰

فرو نہ آوے سر اس کا طواف کعبہ سے

نصیب جس کے ترے در کی جبہ سائی ہو

ہماری چاہ نہ یوسفؑ ہی پر ہے کچھ موقوف

نہیں ہے وہ تو کوئی اور اس کا بھائی ہو

گلی میں اس کی رہا جا کے جو کوئی سو رہا

وہی تو جاوے ہے واں جس کسو کی آئی ہو

لب سوال نہ اک بوسے کے لیے کھولوں

ہزار مہر و محبت میں بے نوائی ہو

زمانہ یار نہیں اپنے بخت سے اتنا

کہ مدعی سے اسے ایک دن لڑائی ہو

۶۹۱۵

جفا و جور و ستم اس کے آپ ہی سہیے

جو اپنے حوصلہ میں کچھ بھی اب سمائی ہو

ہزار موسم گل تو گئے اسیری میں

دکھائی دے ہے موئے ہی پہ اب رہائی ہو

چمکتے دانتوں سے اس کے ہوئی ہے روکش میرؔ

عجب نہیں ہے کہ بجلی کی جگ ہنسائی ہو

 

(۹۲۴)

تا چند انتظار قیامت شتاب ہو

وہ چاند سا جو نکلے تو رفع حجاب ہو

احوال کی خرابی مری پہنچی اس سرے

اس پر بھی وہ کہے ہے ابھی ٹک خراب ہو

۶۹۲۰

یاں آنکھیں مندتے دیر نہیں لگتی میری جاں

میں کان کھولے رکھتا ہوں تیرے شتاب ہو

پھولوں کے عکس سے نہیں جوئے چمن میں رنگ

گل بہ چلے ہیں شرم سے اس منھ کی آب ہو

یاں جرم گنتے انگلیوں کے خط بھی مٹ گئے

واں کس طرح سے دیکھیں ہمارا حساب ہو

غفلت ہے اپنی عمر سے تم کو ہزار حیف

یہ کاروان جانے پہ تم مست خواب ہو

شان تغافل اس کی لکھی ہم سے کب گئی

جب نامہ بر ہلاک ہو تب کچھ جواب ہو

۶۹۲۵

لطف شراب ابر سے ہے سو نصیب دیکھ

جب لیویں جام ہاتھ میں تب آفتاب ہو

ہستی پر ایک دم کی تمھیں جوش اس قدر

اس بحر موج خیز میں تم تو حباب ہو

جی چاہتا ہے عیش کریں ایک رات ہم

تو ہووے چاندنی ہو گلابی شراب ہو

پر پیچ و تاب دود دل اپنا ہے جیسے زلف

جب اس طرح سے جل کے درونہ کباب ہو

آگے زبان یار کے خط کھینچے سب نے میرؔ

پہلی جو بات اس کی کہیں تو کتاب ہو                ۶۹۳۰

 

(۹۲۵)

سب سرگذشت سن چکے اب چپکے ہو رہو

آخر ہوئی کہانی مری تم بھی سو رہو

جوش محیط عشق میں کیا جی سے گفتگو

اس گوہر گرامی سے اب ہاتھ دھو رہو

فندق تو ہے پہ یہ بھی تماشے کا رنگ ہے

ٹک انگلیوں کو خون میں میرے ڈبو رہو

اتنا سیاہ خانۂ عاشق سے ننگ کیا

کتنے دنوں میں آئے ہو یاں رات تو رہو

ٹھہراؤ تم کو شوخی سے جوں برق ٹک نہیں

ٹھہرے تو ٹھہرے دل بھی مرا نچلے جو رہو

۶۹۳۵

ہم خواب تجھ سے ہوکے رہا جاوے کس طرح

ملتے ہوئے سمجھ کے کہا کر رہو رہو

خطرہ بہت ہے میرؔ رہ صعب عشق میں

ایسا نہ ہو کہیں کہ دل و دیں کو کھو رہو

 

(۹۲۶)

لائق نہیں تمھیں کہ ہمیں ناسزا کہو

پر ہے یہی ہمارے کیے کی سزا کہو

چپکے رہے بھی چین نہیں تب کہے ہے یوں

لب بستہ بیٹھے رہتے جو ہو مدعا کہو

پیغام بر تو یارو تمھیں میں کروں ولے

کیا جانوں جا کے حق میں مرے اس سے کیا کہو

۶۹۴۰

اب نیک و بد پہ عشق میں مجھ کو نظر نہیں

اس میں مجھے برا کہو کوئی بھلا کہو

سر خاک آستاں پہ تمھاری رہا مدام

اس پر بھی یا نصیب جو تم بے وفا کہو

برسوں تلک تو گھر میں بلا گالیاں دیاں

اب در پہ سن کے کہنے لگے ہیں دعا کہو

صحبت ہماری اس کی جو ہے گفتنی نہیں

کیا کہیے گر کہے کوئی یہ ماجرا کہو

یارو خصوصیت تو رہے اپنی اس کے ساتھ

میرا کہو جو حال تو اس سے جدا کہو

۶۹۴۵

آشفتہ مو حواس پریشاں خراب حال

دیکھو مجھے تو خبطی دوانہ سڑا کہو

کب شرح شوق ہوسکے پر تو بھی میرؔ جی

خط تم نے جو لکھا اسے کیا کیا لکھا کہو

 

(۹۲۷)

مت سگ یار سے دعوائے مساوات کرو

اس کنے بیٹھنے پاؤ تو مباہات کرو

صحبت آخر ہے ہماری نہ کرو پھر افسوس

متصل ہوسکے تو ہم سے ملاقات کرو

دیدنی ہے یہ ہوا شیخ جی سے کوئی کہے

کہ چلو میکدے ٹک تم تو کرامات کرو

۶۹۵۰

تم تو تصویر ہوئے دیکھ کے کچھ آئینہ

اتنی چپ بھی نہیں ہے خوب کوئی بات کرو

بس بہت وقت کیا شعر کے فن میں ضائع

میرؔ اب پیر ہوئے ترک خیالات کرو

 

(۹۲۸)

 

جوں غنچہ میرؔ اتنے نہ بیٹھے رہا کرو

گل پھول دیکھنے کو بھی ٹک اٹھ چلا کرو

جوں نے نہ زار نالی سے ہم ایک دم رہیں

تم بند بند کیوں نہ ہمارا جدا کرو

سوتے کے سوتے یوں ہی نہ رہ جائیں ہم کبھو

آنکھیں ادھر سے موند نہ اپنی لیا کرو

۶۹۵۵

سودے میں اس کے بک گئے ایسے کئی ہزار

یوسفؑ کا شور دور ہی سے تم سنا کرو

ہوتے ہو بے دماغ تو دیکھو ہو ٹک ادھر

غصے ہی ہم پہ کاش کے اکثر رہا کرو

یہ اضطراب دیکھ کہ اب دشمنوں سے بھی

کہتا ہوں اس کے ملنے کی کچھ تم دعا کرو

دم رکتے ہیں سیاہی مژگاں ہی دیکھ کر

سرمہ لگا کے اور ہمیں مت خفا کرو

پورا کریں ہیں وعدے کو اپنے ہم آج کل

وعدے کے تیں وصال کے تم بھی وفا کرو

۶۹۶۰

دشمن ہیں اپنے جی کے تمھارے لیے ہوئے

تم بھی حقوق دوستی کے کچھ ادا کرو

اپنا چلے تو آپھی ستم سب اٹھائیے

تم کون چاہتا ہے کسو پر جفا کرو

ہر چند ساتھ جان کے ہے عشق میرؔ لیک

اس درد لاعلاج کی کچھ تو دوا کرو

 

(۹۲۹)

 

لا میری اور یارب آج ایک خوش کمر کو

قدرت سے اس کے دل کی کل پھیر دے ادھر کو

بے طاقتی میں شب کی پوچھو نہ ضبط میرا

ہاتھوں میں دل کو رکھا دانتوں تلے جگر کو

۶۹۶۵

پھولا پھلا نہ اب تک ہرگز درخت خواہش

برسوں ہوئے کہ دوں ہوں خون دل اس شجر کو

ہے روزگار میرا ایسا سیہ کہ یارو

مشکل ہے فرق کرنا ٹک شام سے سحر کو

ہرچند ہے سخن کو تشبیہ در سے لیکن

باتیں مری سنو تو تم پھینک دو گہر کو

نزدیک ہے کہ جاویں ہم آپ سے اب آؤ

ملتے ہیں دوستوں سے جاتے ہوئے سفر کو

کب میرؔ ابر ویسا برساوے کر اندھیری

جیسا کہ روتے ہم نے دیکھا ہے چشم تر کو                     ۶۹۷۰

(۹۳۰)

 

مطرب نے پڑھی تھی غزل اک میرؔ کی شب کو

مجلس میں بہت وجد کی حالت رہی سب کو

پھرتے ہیں چنانچہ لیے خدام سلاتے

درویشوں کے پیراہن صد چاک قصب کو

کیا وجہ کہیں خوں شدن دل کی پیارے

دیکھو تو ہو آئینے میں تم جنبش لب کو

برسوں تئیں جب ہم نے تردد کیے ہیں تب

پہنچایا ہے آدم تئیں واعظ کے نسب کو

ہے رحم کو بھی راہ دل یار میں بارے

جاگہ نہیں یاں ورنہ کہیں اس کے غضب کو

۶۹۷۵

کیا ہم سے گنہگار ہیں یہ سب جو موئے ہیں

کچھ پوچھو نہ اس شوخ کی رنجش کے سبب کو

دل دینے سے اس طرح کے جی کاش کے دیتے

یوں کھینچے کوئی کب تئیں اس رنج و تعب کو

حیرت ہے کہ ہے مدعی معرفت اک خلق

کچھ ہم نے تو پایا نہیں اب تک ترے ڈھب کو

ہو گا کسو دیوار کے سائے میں پڑا میرؔ

کیا ربط محبت سے اس آرام طلب کو

 

(۹۳۱)

 

ملا یا رب کہیں اس صید افگن سربسر کیں کو

کہ افشاں کیجے خون اپنے سے اس کے دامن زیں کو

۶۹۸۰

گئے وے سابقے سارے خصوصیت رہے پیارے

کبھو در تک تو آ بارے ہمارے دل کی تسکیں کو

پیے جاتے نہیں بس اب لہو کے گھونٹ یہ مجھ سے

بہت پی پی گیا ڈر سے ترے میں اشک خونیں کو

نہ لکھیں یار کو محضر ہمارے خون ناحق کا

دکھا دیویں گے ہم محشر میں اس کے دست رنگیں کو

بجز حیرت نہ بن آوے گی کوئی شکل پھر اس سے

دکھایا ہم نے گر چہرہ ترا صورت گر چیں کو

ابھر کر سنگ کے تختے سے پھر دیکھا کیا اودھر

محبت ہو گئی تھی کوہکن سے نقش شیریں کو

۶۹۸۵

ہم اس کے چاند سے منھ کے ہیں عاشق مہ سے کیا ہم کو

سر اپنا کبک ہی مارا کرے اس خشت سیمیں کو

ہوئے کیا کیا مقدس لوگ آوارہ ترے غم میں

سبک پا کر دکھایا شوخ تو نے اہل تمکیں کو

بہت مدت ہوئی صحرا سے مجنوں کی خبر آئے

نہیں معلوم پیش آیا ہے کیا اس یار دیریں کو

لیے تسبیح ہاتھوں میں جو تو باتیں بناتا ہے

نہیں دیکھا ہے واعظ تو نے اس غارت گر دیں کو

گیا کوچے سے تیرے اٹھ کے میرؔ آشفتہ سر شاید

پڑا دیکھا تھا میں نے رہ میں اس کے سنگ بالیں کو

۶۹۹۰

 

(۹۳۲)

 

کیا چہرے خدا نے دیے ان خوش پسروں کو

دینا تھا تنک رحم بھی بیداد گروں کو

آنکھوں سے ہوئی خانہ خرابی دل  اے کاش

کر لیتے تبھی بند ہم ان دونوں دروں کو

پرواز گلستاں کے تو شائستہ نہ نکلے

پروانہ نمط آگ ہم اب دیں گے پروں کو

سب طائر قدسی ہیں یہ جو زیر فلک ہیں

موندا ہے کہاں عشق نے ان جانوروں کو

زنہار ترے دل کی توجہ نہ ہو ایدھر

آگے ترے ہم کاڑھ رکھیں گر جگروں کو

۶۹۹۵

پیراہن صد چاک سلاتے ہیں مرا لوگ

تہ سے نہیں مطلق خبر ان بے خبروں کو

جوں اشک جہاں جاتے رہیں گے تو گئے پھر

دیکھا کرو ٹک آن کے ہم دیدہ تروں کو

اس باغ کے ہر گل سے چپک جاتی ہیں آنکھیں

مشکل بنی ہے آن کے صاحب نظروں کو

آداب جنوں چاہیے ہم سے کوئی سیکھے

دیکھا ہے بہت یاروں نے آشفتہ سروں کو

اندیشہ کی جاگہ ہے بہت میرؔ جی مرنا

درپیش عجب راہ ہے ہم نوسفروں کو

۷۰۰۰

 

(۹۳۳)

 

عنایت ازلی سے جو دل ملا مجھ کو

محل شکر ہے آتا نہیں گلہ مجھ کو

تنک شراب ضعیف الدماغ ہوں ساقی

دم سحر مئے پر زور مت پلا مجھ کو

پڑا رہے کوئی مردہ سا کب تلک خاموش

ہلا کہیں لب جاں بخش کو جلا مجھ کو

جنوں میں سخت ہے اس زلف سے علاقۂ دل

خوش آ گیا ہے نہایت یہ سلسلہ مجھ کو

فلک کی چرخ زنی برسوں ہو تو مجھ سا ہو

سمجھ سمجھ کے تنک خاک میں ملا مجھ کو

۷۰۰۵

رہا تھا خوں تئیں ہمرہ سو آپھی خون ہے حیف

رفیق تجھ سا ملے گا کہاں دلا مجھ کو

درستی جیب کی اتنی نہیں ہے  اے ناصح

بنے تو سینۂ صد چاک دے سلا مجھ کو

ہوا ہوں خاک پہ دل کی وہی ہے نا صافی

ابھی اس آئینے کی کرنی ہے جلا مجھ کو

مگر کہ مردن دشوار میرؔ سہل ہے شوخ

ہلاک کرتا ہے تیرا مساہلہ مجھ کو

 

(۹۳۴)

ہوتی کچھ عشق کی غیرت بھی اگر بلبل کو

صبح کی باؤ سے لگ لگنے نہ دیتی گل کو

۷۰۱۰

میں نے سر اپنا دھنا تھا تبھی اس شوخ نے جب

پگڑی کے پیچ سے باندھا تھا اٹھا کاکل کو

مستی ان آنکھوں سے نکلے ہے اگر دیکھو خوب

خلق بدنام عبث کرتی ہے جام مل کو

جیسے ہوتی ہے کتاب ایک ورق بن ناقص

نسبت تام اسی طور ہے جز سے کل کو

ایک لحظے ہی میں بل سارے نکل جاتے میرؔ

پیچ اس زلف کے دینے تھے دکھا سنبل کو

 

(۹۳۵)

یوں کب ہوا ہے پیارے پاس اپنے تم بلا لو

دو باتیں گر لکھوں میں دل کو ٹک اک لگا لو

۷۰۱۵

اب جو نصیب میں ہے سو دیکھ لوں گا میں بھی

تم دست لطف اپنا سر سے مرے اٹھا لو

جنبش بھی اس کے آگے ہونٹوں کو ہو تو کہیو

یوں اپنے طور پر تم باتیں بہت بنا لو

دو نعروں ہی میں شب کے ہو گا مکان ہو کا

سن رکھو کان رکھ کر یہ بات بستی والو

نام خدا ستم میں تم نامور تو ہو ہی

پر ایک دو کو یوں ہی للہ مار ڈالو

زلف اور خال و خط کا سودا نہیں ہے اچھا

یارو بنے تو سر سے جلد اس بلا کو ٹالو

۷۰۲۰

یاران رفتہ ایسے کیا دور تر گئے ہیں

ٹک کر کے تیز گامی اس قافلے کو جا لو

بازاری سارے وے ہی کہتے ہیں راز بیٹھے

جن کو ہمیں کہا ہے تم منھ سے مت نکالو

یوں رفتہ اور بے خود کب تک رہا کرو گے

تم اب بھی میرؔ صاحب اپنے تئیں سنبھالو

 

                ردیف ہ

 

(۹۳۶)

یاد جب آتی ہے وہ زلف سیاہ

سانپ سا چھاتی پہ پھر جاتا ہے آہ

کھل گیا منھ اب تو اس محجوب کا

کچھ سخن کی بھی نکل آوے گی راہ

۷۰۲۵

شرم کرنی تھی مرا سر کاٹ کر

سو تو ان نے اور ٹیڑھی کی کلاہ

یار کا وہ ناز اپنا یہ نیاز

دیکھیے ہوتا ہے کیونکر یوں نباہ

دین میں اس کافر بے رحم کے

اجر اک رکھتا ہے خون بے گناہ

پتھروں سے سینہ کوبی میں نے کی

دل کے ماتم میں مری چھاتی سراہ

مول لے چک مجھ کو آنکھیں  موند کر

دیکھ تو قیمت ہے میری اک نگاہ

۷۰۳۰

لذت دنیا سے کیا بہرہ ہمیں

پاس ہے رنڈی ولے ہے ضعف باہ

روٹھ کر کیا آپ سے ملنے میں لطف

ہووے وہ بھی تو کبھو ٹک عذر خواہ

ضبط بہتیرا ہی کرتے ہیں ولے

آہ اک منھ سے نکل جاتی ہے گاہ

اس کے رو کے رفتہ ہی آئے ہیں یاں

آج سے تو کچھ نہیں یہ جی کی چاہ

دیکھ رہتے دھوکے اس رخسار کے

دایہ منھ دھوتے جو کہتی ماہ ماہ

۷۰۳۵

شیخ تو نے خوب سمجھا میرؔ کو

واہ وا  اے بے حقیقت واہ واہ

 

(۹۳۷)

ظالم یہ کیا نکالی رفتار رفتہ رفتہ

اس چال پر چلے گی تلوار رفتہ رفتہ

ہر آن ہم کو تجھ بن ایک اک برس ہوئی ہے

کیا آ گیا زمانہ  اے یار رفتہ رفتہ

کیا کہیے کیونکے جانیں بے پردہ جاتیاں ہیں

اس معنی کا بھی ہو گا اظہار رفتہ رفتہ

یہ ہی سلوک اس کے اکثر چلے گئے تو

بیٹھیں گے اپنے گھر ہم ناچار رفتہ رفتہ

۷۰۴۰

پامال ہوں کہ اس میں ہوں خاک سے برابر

اب ہو گیا ہے سب کچھ ہموار رفتہ رفتہ

چاہت میں دخل مت دے زنہار آرزو کو

کر دے ہے دل کی خواہش بیمار رفتہ رفتہ

خاطر نہ جمع رکھو ان پلکوں کی خلش سے

سر دل سے کاڑھتے ہیں یاں خار رفتہ رفتہ

تھے ایک ہم وے دونوں سو اتحاد کیسا

ہر بات پر اب آئی تکرار رفتہ رفتہ

گر بت کدے میں جانا ایسا ہے میرؔ جی کا

تو تار سبحہ ہو گا زنار رفتہ رفتہ

۷۰۴۵

(۹۳۸)

 

پیدا نہیں جہاں میں قید جہاں سے رستہ

مانند برق ہیں یاں وے لوگ جستہ جستہ

ظالم بھلی نہیں ہے برہم زنی مژگاں

مر جائے گا کسو دن یوں کوئی سینہ خستہ

پائے حنائی اس کے ہاتھوں ہی پر رکھے ہیں

پر اس کو خوش نہ آیا یہ کار دست بستہ

شہر چمن سے کچھ کم دشت جنوں نہیں ہے

یاں گل ہیں رستہ رستہ واں باغ دستہ دستہ

معمار کا وہ لڑکا پتھر ہے اس کی خاطر

کیوں خاک میں ملا تو  اے میرؔ دل شکستہ

۷۰۵۰

(۹۳۹)

 

ٹک پاس آ کے کیسے صرفے سے ہیں کشیدہ

گویا کہ ہیں یہ لڑکے پیر زمانہ دیدہ

اب خاک تو ہماری سب سبز ہو چلی ہے

کب منھ ادھر کرے گا وہ آہوئے رمیدہ

یوسف سے کوئی کیونکر اس ماہ کو ملاوے

ہے فرق رات دن کا از دیدہ تا شنیدہ

بندے کے درد دل کو کوئی نہیں پہنچتا

ہر ایک بے حقیقت یاں ہے خدا رسیدہ

کیا وسوسہ ہے مجھ کو عزت سے جینے کا یاں

نکلا نہ میرے دل سے یہ خار ناخلیدہ

۷۰۵۵

ہم کاڑھ کر جگر بھی آگے تمھارے رکھا

پھر یا نصیب اس پر تم جو ہوئے کبیدہ

سائے سے اپنے وحشت ہم کو رہی ہمیشہ

جوں آفتاب ہم بھی کیسے رہے جریدہ

منصور کی نظر تھی جو دار کی طرف سو

پھل وہ درخت لایا آخر سر بریدہ

ذوق سخن ہوا ہے اب تو بہت ہمیں بھی

لکھ لیں گے میرؔ جی کے کچھ شعر چیدہ چیدہ

 

(۹۴۰)

 

پھرتی ہیں اس کی آنکھیں آنکھوں تلے ہمیشہ

رہتا ہے آب دیدہ یاں تا گلے ہمیشہ

۷۰۶۰

تصدیع ایک دو دن ہووے تو کوئی کھینچے

تڑپے جگر ہمیشہ چھاتی جلے ہمیشہ

اک اس مغل بچے کو وعدہ وفا نہ کرنا

کچھ جا کہیں تو کرنا آرے بلے ہمیشہ

کب تک وفا کرے گا یوں حوصلہ ہمارا

دل پیسے درد اکثر غم جی ملے ہمیشہ

اس جسم خاکی سے ہم مٹی میں اٹ رہے ہیں

یوں خاک میں کہاں تک کوئی رلے ہمیشہ

آئندہ و روندہ باد سحر کبوتر

قاصد نیا ادھر کو کب تک چلے ہمیشہ

۷۰۶۵

مسجد میں چل کے ملیے جمعے کے دن بنے تو

ہوتے ہیں میرؔ صاحب واں دن ڈھلے ہمیشہ

 

(۹۴۱)

 

لطف کیا ہر کسو کی چاہ کے ساتھ

چاہ وہ ہے جو ہو نباہ کے ساتھ

وقت کڑھنے کے ہاتھ دل پر رکھ

جان جاتی رہے نہ آہ کے ساتھ

عشق میں ترک سر کیے ہی بنے

مشورت تو بھی کر کلاہ کے ساتھ

ہو اگر چند آسماں پہ ولے

نسبت اس مہ کو کیا ہے ماہ کے ساتھ

۷۰۷۰

سفری وہ جو مہ ہوا تا دیر

چشم اپنی تھی گرد راہ کے ساتھ

جاذبہ تو ان آنکھوں کا دیکھا

جی کھنچے جاتے ہیں نگاہ کے ساتھ

میرؔ سے تم برے ہی رہتے ہو

کیا شرارت ہے خیرخواہ کے ساتھ

 

(۹۴۲)

 

ہم سے کیوں الجھا کرے ہے آ سمجھ  اے ناسمجھ

کج طبیعت جو مخالف ہیں انھوں سے جا سمجھ

یار کی ان بھولی باتوں پر نہ جا  اے ہم نشیں

ایک فتنہ ہے وہ اس کو آہ مت لڑکا سمجھ

۷۰۷۵

خوبرو عشاق سے بد پیش آتے ہی سنے

گرچہ خوش ظاہر ہیں یہ پر  ان کو مت اچھا سمجھ

باغباں بے رحم گل بے دید موسم بے وفا

آشیاں اس باغ میں بلبل نے باندھا کیا سمجھ

میں جو نرمی کی تو دونا سر چڑھا وہ بدمعاش

کھانے ہی کو دوڑتا ہے اب مجھے حلوا سمجھ

دور سے دیکھی جو بدحالی وہیں سے ٹل گیا

دو قدم آگے نہ آیا مجھ کو وہ مرتا سمجھ

میرؔ کی عیاریاں معلوم لڑکوں کو نہیں

کرتے ہیں کیا کیا ادائیں اس کو سادہ سا سمجھ

۷۰۸۰

 

(۹۴۳)

 

کھینچتا ہے دلوں کو صحرا کچھ

ہے مزاجوں میں اپنے سودا کچھ

دل نہیں جمع چشم تر سے اب

پھیلتا سا چلا یہ دریا کچھ

شہر میں حشر کیوں نہ برپا ہو

شور ہے میرے سر میں کیسا کچھ

ویسے ظاہر کا لطف ہے چھپنا

کم تماشا نہیں یہ پردہ کچھ

خلق کی کیا سمجھ میں وہ آیا

آپ سے تو گیا نہ سمجھا کچھ

۷۰۸۵

یاس سے مجھ کو بھی ہو استغنا

گو نہ ہو اس کو میری پروا کچھ

کچھ نہ دیکھا تھا ہم نے پر تو بھی

آنکھ میں آئی ہی نہ دنیا کچھ

اب تو بگڑے ہی جاتے ہیں خوباں

رنگ صحبت نہیں ہے اچھا کچھ

کچھ کہو دور ہے بہت وہ شوخ

اپنے نزدیک تو نہ ٹھہرا کچھ

وصل اس کا خدا نصیب کرے

میرؔ دل چاہتا ہے کیا کیا کچھ

۷۰۹۰

 

(۹۴۴)

 

بود نقش و نگار سا ہے کچھ

صورت اک اعتبار سا ہے کچھ

یہ جو مہلت جسے کہیں ہیں عمر

دیکھو تو انتظار سا ہے کچھ

منھ نہ ہم جبریوں کا کھلواؤ

کہنے کو اختیار سا ہے کچھ

منتظر اس کی گرد راہ کے تھے

آنکھوں میں سو غبار سا ہے کچھ

ضعف پیری میں زندگانی بھی

دوش پر اپنے بار سا ہے کچھ

۷۰۹۵

کیا ہے دیکھو ہو جو ادھر ہر دم

اور چتون میں پیار سا ہے کچھ

اس کی برہم زنی مژگاں سے

دل میں اب خار خار سا ہے کچھ

جیسے عنقا کہاں ہیں ہم  اے میرؔ

شہروں میں اشتہار سا ہے کچھ

 

(۹۴۵)

آوے کہنے میں رہا ہو غم سے گر احوال کچھ

جاں بہ لب رہتے ہیں پر کہتے نہیں ہیں حال کچھ

بے زری سے داغ ہیں لیکن لبوں پر مہر ہے

کہیے حاجت اپنی لوگوں سے جو وے ہوں مال کچھ

۷۱۰۰

کام کو مشکل دل پر آرزو نے کر دیا

یاس کلی ہو چکے تو پھر نہیں اشکال کچھ

دل ترا آیا کسو کے پیچ میں جو سدھ گئی

متصل بکھرے رہا کرتے ہیں منھ پر بال کچھ

ماہ سے ماہی تلک اس داغ میں ہیں مبتلا

کیا بلائے جان ہے میرا تمھارا حال کچھ

ایک دن کنج قفس میں ہم کہیں رہ جائیں گے

بے کلی گل بن بہت رہتی ہے اب کے سال کچھ

کیا اس آتش باز کے لونڈے کا اتنا شوق میرؔ

بہ چلی ہے دیکھ کر اس کو تمھاری رال کچھ

۷۱۰۵

(۹۴۶)

اب تو صبا چمن سے آتی نہیں ادھر کچھ

ہم تک نہیں پہنچتی گل کی خبر عطر کچھ

ذوق خبر میں ہم تو بے ہوش ہو گئے تھے

کیا جانے کب وہ آیا ہم کو نہیں خبر کچھ

یہ طشت و تیغ ہے اب یہ میں ہوں اور یہ تو

ہے ساتھ میرے ظالم دعویٰ تجھے اگر کچھ

وے دن گئے کہ بے غم کوئی گھڑی کٹے تھی

تھمتے نہیں ہیں آنسو اب تو پہر پہر کچھ

ان اجڑی بستیوں میں دیوار و در ہیں کیا کیا

آثار جن کے ہیں یہ ان کا نہیں اثر کچھ

۷۱۱۰

واعظ نہ ہو معارض نیک و بد جہاں سے

جو ہوسکے تو غافل اپنا ہی فکر کر کچھ

آنکھوں میں میری عالم سارا سیاہ ہے اب

مجھ کو بغیر اس کے آتا نہیں نظر کچھ

ہم نے تو ناخنوں سے منھ سارا نوچ ڈالا

اب کوہکن دکھاوے رکھتا ہے گر ہنر کچھ

تلوار کے تلے ہی کاٹی ہے عمر ساری

ابروئے خم سے اس کے ہم کو نہیں ہے ڈر کچھ

گہ شیفتہ ہیں مو کے گہ باؤلے ہیں رو کے

احوال میرؔ جی کا ہے شام کچھ سحر کچھ              ۷۱۱۵

 

 

                ردیف ی

 

(۹۴۷)

ہم سے دیکھا کہ محبت نے ادا کیا کیا کی

ایک دل قطرۂ خوں تس پہ جفا کیا کیا کی

کس کو لاگی کہ نہ لوہو میں ڈبایا اس کو

اس کی شمشیر کی جدول بھی بہا کیا کیا کی

جان کے ساتھ ہی آخر مرض عشق گیا

جی بھلا ٹک نہ ہوا ہم نے دوا کیا کیا کی

ان نے چھوڑی نہ طرف جور و جفا کی ہرگز

ہم نے یوں اپنی طرف سے تو وفا کیا کیا کی

سجدہ اک صبح ترے در کا کروں اس خاطر

میں نے محراب میں راتوں کو دعا کیا کیا کی

۷۱۲۰

آگ سی پھنکتی ہی دن رات رہا کی تن میں

جان غمناک ترے غم میں جلا کیا کیا کی

میرؔ نے ہونٹوں سے اس کے نہ اٹھایا جی کو

خلق اس کے تئیں یہ سن کے کہا کیا کیا کی

 

(۹۴۸)

 

کچھ کرو فکر مجھ دوانے کی

دھوم ہے پھر بہار آنے کی

دل کا اس کنج لب سے دے ہیں نشاں

بات لگتی تو ہے ٹھکانے کی

وہ جو پھرتا ہے مجھ سے دور ہی دور

ہے یہ تقریب جی کے جانے کی

۷۱۲۵

تیز یوں ہی نہ تھی شب آتش شوق

تھی خبر گرم اس کے آنے کی

خضر اس خط سبز پر تو موا

دھن ہے اب اپنے زہر کھانے کی

دل صد چاک باب زلف ہے لیک

باؤ سی بندھ رہی ہے شانے کی

ق

کسو کم ظرف نے لگائی آہ

تجھ سے میخانے کے جلانے کی

ورنہ  اے شیخ شہر واجب تھی

جام داری شراب خانے کی

۷۱۳۰

جو ہے سو پائمال غم ہے میرؔ

چال بے ڈول ہے زمانے کی

 

(۹۴۹)

 

میر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی

اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی

خاطر بادیہ سے دیر میں جاوے گی کہیں

خاک مانند بگولے کے اڑانی اس کی

ایک ہے عہد میں اپنے وہ پراگندہ مزاج

اپنی آنکھوں میں نہ آیا کوئی ثانی اس کی

مینھ تو بوچھار کا دیکھا ہے برستے تم نے

اسی انداز سے تھی اشک فشانی اس کی

۷۱۳۵

بات کی طرز کو دیکھو تو کوئی جادو تھا

پر ملی خاک میں کیا سحر بیانی اس کی

کر کے تعویذ رکھیں اس کو بہت بھاتی ہے

وہ نظر پاؤں پہ وہ بات دوانی اس کی

اس کا وہ عجز تمھارا یہ غرور خوبی

منتیں ان نے بہت کیں پہ نہ مانی اس کی

کچھ لکھا ہے تجھے ہر برگ پہ  اے رشک بہار

رقعہ واریں ہیں یہ اوراق خزانی اس کی

سرگذشت اپنی کس اندوہ سے شب کہتا تھا

سو گئے تم نہ سنی آہ کہانی اس کی

۷۱۴۰

مرثیے دل کے کئی کہہ کے دیے لوگوں کو

شہر دلی میں ہے سب پاس نشانی اس کی

میان سے نکلی ہی پڑتی تھی تمھاری تلوار

کیا عوض چاہ کا تھا خصمی جانی اس کی

آبلے کی سی طرح ٹھیس لگی پھوٹ بہے

دردمندی میں گئی ساری جوانی اس کی

اب گئے اس کے جز افسوس نہیں کچھ حاصل

حیف صد حیف کہ کچھ قدر نہ جانی اس کی

 

(۹۵۰)

 

کی سیر ہم نے سینۂ یکسر فگار کی

اس تختے نے بھی اب کے قیامت بہار کی

۷۱۴۵

دریائے حسن یار تلاطم کرے کہیں

خواہش ہے اپنے جی میں بھی بوس و کنار کی

اپنا بھی جی اسیر تھا آواز عندلیب

دل میں چبھا کی رات کو جوں نوک خار کی

آنکھیں غبار لائیں مری انتظار میں

دیکھوں تو گرد کب اٹھے اس رہ گذار کی

مقدور تک تو ضبط کروں ہوں پہ کیا کروں

منھ سے نکل ہی جاتی ہے اک بات پیار کی

اب گرد سر پھروں ترے ہوں میں فقیر محض

رکھتا تھا ایک جان سو تجھ پر نثار کی

۷۱۵۰

کیا صید کی تڑپ کو اٹھائے دماغ یار

نازک بہت ہے طبع مرے دل شکار کی

رکھتا نہیں طریق وفا میں کبھو قدم

ہم کچھ نہ سمجھے راہ و روش اپنے یار کی

کیا جانوں چشم تر سے ادھر دل پہ کیا ہوا

کس کو خبر ہے میرؔ سمندر کے پار کی

 

(۹۵۱)

 

ٹپہ بازی سے چرخ گرداں کی

سر ہمارے ہیں گوئے میداں کی

جی گیا اس کے تیر کے ہمراہ

تھی تواضع ضرور مہماں کی

۷۱۵۵

ہیں لیے آبروئے خنجر و تیغ

ترچھی پلکیں تری بھویں بانکی

پھوڑ ڈالیں گے سر ہی اس در پر

منت اٹھتی نہیں ہے درباں کی

سر دامن سے گفتگو کریے

بات بگڑی لب گریباں کی

اس بت شوخ کی ہے طینت میں

دشمنی میرے دین و ایماں کی

آدمی سے ملک کو کیا نسبت

شان ارفع ہے میرؔ انساں کی                ۷۱۶۰

(۹۵۲)

 

رکھا گنہ وفا کا تقصیر کیا نکالی

مارا خراب کر کر تعزیر کیا نکالی

رہتی ہے چت چڑھی ہی دن رات تیری صورت

صفحے پہ دل کے میں نے تصویر کیا نکالی

چپ بھی مری جتائی اس سے مخالفوں نے

بات اور جب بنائی تقریر کیا نکالی

بس تھی ہمیں تو تیری ابرو کی ایک جنبش

خوں ریزی کو ہماری شمشیر کیا نکالی

کی اس طبیب جاں نے تجویز مرگ عاشق

آزار کے مناسب تدبیر کیا نکالی

۷۱۶۵

دل بند ہے ہمارا موج ہوائے گل سے

اب کے جنوں میں ہم نے زنجیر کیا نکالی

نامے پہ لوہو رو رو خط کھینچ ڈالے سارے

یہ میرؔ بیٹھے بیٹھے تحریر کیا نکالی

 

(۹۵۳)

 

جی رشک سے گئے جو ادھر کو صبا چلی

کیا کہیے آج صبح عجب کچھ ہوا چلی

کیا رنگ و بو و بادسحر سب ہیں گرم راہ

کیا ہے جو اس چمن میں ہے ایسی چلا چلی

تو دو قدم جو راہ چلا گرم  اے نگار

مہندی کفک کی آگ دلوں میں لگا چلی

۷۱۷۰

فتنہ ہے اس سے شہر میں برپا ہزار جا

تلوار اس کی چال پہ کیا ایک جا چلی

یہ جور و جورکش تھے کہاں آگے عشق میں

تجھ سے جفا و میرؔ سے رسم وفا چلی

 

(۹۵۴)

آج کچھ بے حجاب ہے وہ بھی

کیا ہی مست شراب ہے وہ بھی

میں ہی جلتا نہیں جدا دل سے

دور مجھ سے کباب ہے وہ بھی

سائل بوسہ سب گئے محروم

ایک حاضر جواب ہے وہ بھی

۷۱۷۵

وہم جس کو محیط سمجھا ہے

دیکھیے تو سراب ہے وہ بھی

کم نہیں کچھ صبا سے اشک گرم

قاصد پرشتاب ہے وہ بھی

حسن سے دود دل نہیں خالی

زلف پرپیچ و تاب ہے وہ بھی

خانہ آباد کعبے میں تھا میرؔ

کیا خدائی خراب ہے وہ بھی

 

(۹۵۵)

 

دزدیدہ نگہ کرنا پھر آنکھ ملانا بھی

اس لوٹتے دامن کو پاس آ کے اٹھانا بھی

۷۱۸۰

پامالی عاشق کو منظور رکھے جانا

پھر چال کڈھب چلنا ٹھوکر نہ لگانا بھی

برقع کو اٹھا دینا پر آدھے ہی چہرے سے

کیا منھ کو چھپانا بھی کچھ جھمکی دکھانا بھی

دیکھ آنکھیں مری نیچی اک مارنا پتھر بھی

ظاہر میں ستانا بھی پردے میں جتانا بھی

صحبت ہے یہ ویسی ہی  اے جان کی آسائش

ساتھ آن کے سونا بھی پھر منھ کو چھپانا بھی

 

(۹۵۶)

یار بن تلخ زندگانی تھی

دوستی مدعی جانی تھی

۷۱۸۵

سر سے اس کی ہوا گئی نہ کبھو

عمر برباد یوں ہی جانی تھی

لطف پر اس کے ہم نشیں مت جا

کبھو ہم پر بھی مہربانی تھی

ہاتھ آتا جو تو تو کیا ہوتا

برسوں تک ہم نے خاک چھانی تھی

شیب میں فائدہ تامل کا

سوچنا تب تھا جب جوانی تھی

میرے قصے سے سب کی گئیں نیندیں

کچھ عجب طور کی کہانی تھی

۷۱۹۰

عاشقی جی ہی لے گئی آخر

یہ بلا کوئی ناگہانی تھی

اس رخ آتشیں کی شرم سے رات

شمع مجلس میں پانی پانی تھی

پھر سخن نشنوی ہے ویسی ہی

رات ایک آدھ بات مانی تھی

کوئے قاتل سے بچ کے نکلا خضر

اسی میں اس کی زندگانی تھی

فقر پر بھی تھا میرؔ کے اک رنگ

کفنی پہنی سو زعفرانی تھی

۷۱۹۵

(۹۵۷)

وہ رابطہ نہیں وہ محبت نہیں رہی

اس بے وفا کو ہم سے کچھ الفت نہیں رہی

دیکھا تو مثل اشک نظر سے گرا دیا

اب میری اس کی آنکھ میں عزت نہیں رہی

رندھنے سے جی کے کس کو رہا ہے دماغ حرف

دم لینے کی بھی ہم کو تو فرصت نہیں رہی

تھی تاب جی میں جب تئیں رنج و تعب کھنچے

وہ جسم اب نہیں ہے وہ قدرت نہیں رہی

منعم امل کا طول یہ کس جینے کے لیے

جتنی گئی اب اتنی تو مدت نہیں رہی

۷۲۰۰

دیوانگی سے اپنی ہے اب ساری بات خبط

افراط اشتیاق سے وہ مت نہیں رہی

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ

افسوس تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی

 

(۹۵۸)

 

عشق میں ذلت ہوئی خفت ہوئی تہمت ہوئی

آخر آخر جان دی یاروں نے یہ صحبت ہوئی

عکس اس بے دید کا تو متصل پڑتا تھا صبح

دن چڑھے کیا جانوں آئینے کی کیا صورت ہوئی

لوح سینہ پر مری سو نیزۂ خطی لگے

خستگی اس دل شکستہ کی اسی بابت ہوئی

۷۲۰۵

کھولتے ہی آنکھیں پھر یاں موندنی ہم کو پڑیں

دید کیا کوئی کرے وہ کس قدر مہلت ہوئی

پاؤں میرا کلبۂ احزاں میں اب رہتا نہیں

رفتہ رفتہ اس طرف جانے کی مجھ کو لت ہوئی

مر گیا آوارہ ہو کر میں تو جیسے گردباد

پر جسے یہ واقعہ پہنچا اسے وحشت ہوئی

شاد و خوش طالع کوئی ہو گا کسو کو چاہ کر

میں تو کلفت میں رہا جب سے مجھے الفت ہوئی

دل کا جانا آج کل تازہ ہوا ہو تو کہوں

گذرے اس بھی سانحے کو ہم نشیں مدت ہوئی

۷۲۱۰

شوق دل ہم ناتوانوں کا لکھا جاتا ہے کب

اب تلک آپھی پہنچنے کی اگر طاقت ہوئی

کیا کف دست ایک میداں تھا بیاباں عشق کا

جان سے جب اس میں گذرے تب ہمیں راحت ہوئی

یوں تو ہم عاجزترین خلق عالم ہیں ولے

دیکھیو قدرت خدا کی گر ہمیں قدرت ہوئی

گوش زد چٹ پٹ ہی مرنا عشق میں اپنے ہوا

کس کو اس بیماری جانکاہ سے فرصت ہوئی

بے زباں جو کہتے ہیں مجھ کو سو چپ رہ جائیں گے

معرکے میں حشر کے گر بات کی رخصت ہوئی

۷۲۱۵

ہم نہ کہتے تھے کہ نقش اس کا نہیں نقاش سہل

چاند سارا لگ گیا تب نیم رخ صورت ہوئی

اس غزل پر شام سے تو صوفیوں کو وجد تھا

پھر نہیں معلوم کچھ مجلس کی کیا حالت ہوئی

کم کسو کو میرؔ کی میت کی ہاتھ آئی نماز

نعش پر اس بے سر و پا کی بلا کثرت ہوئی

 

(۹۵۹)

 

قوت کو پیرانہ سر دلی میں حیرانی ہوئی

اب کے جو آئے سفر سے خوب مہمانی ہوئی

باؤلے سے جب تلک بکتے تھے سب کرتے تھے پیار

عقل کی باتیں کیاں کیا ہم سے نادانی ہوئی

۷۲۲۰

لوہو پانی ایک دونوں نے کیا میرا ندان

یعنی دل لوہو ہوا سب چشم سب پانی ہوئی

کیا چھپا کچھ رہ گیا ہے مدعائے خط شوق

رقعہ وار اب اشک خونیں سے تو افشانی ہوئی

آنکھ اٹھا کر ٹک جو دیکھا گھر کے گھر بٹھلا دیے

اک نگہ میں سینکڑوں کی خانہ ویرانی ہوئی

مرتبہ واجب کا سمجھے آدمی ممکن نہیں

فہم سودائی ہوا یاں عقل دیوانی ہوئی

چاہ کر اس بے وفا کو آخر اپنی جان دی

دوستی اس کی ہماری دشمن جانی ہوئی

۷۲۲۵

بلبل اس خوبی سے گل ہے سِیَّما سیمائے یار

تو عبث  اے بے حقیقت غنچہ پیشانی ہوئی

شیخ مت یاد بتاں کو رات کا سا ذکر جان

یا صنم گوئی ہماری کیا خدا خوانی ہوئی

غنچۂ گل ہے گلابی پھول ہے جام شراب

توڑتے تو توڑی توبہ اب پشیمانی ہوئی

چشم ہوتے ہوتے تر کچھ سب بھری رہنے لگی

اب ہوئی خطرے کی جاگہ کشتی طوفانی ہوئی

دل تڑپتا تھا نہایت جان دے تسکین کی

بارے اپنی ایسی مشکل کی بھی آسانی ہوئی

۷۲۳۰

جب سے دیکھا اس کو ہم نے جی ڈھہا جاتا ہے میرؔ

اس خرابی کی یہ چشم روسیہ بانی ہوئی

 

(۹۶۰)

 

بتوں سے آنکھ کیوں میں نے لڑائی

طرف ہے مجھ سے اب ساری خدائی

نرا دھوکا ہی ہے دریائے ہستی

نہیں کچھ تہ سے تجھ کو آشنائی

بگڑتی ہی گئی صورت ہماری

گئے پر دل کے پھر کچھ بن نہ آئی

نہ نکلا ایک شب اس راہ وہ ماہ

بہت کی ہم نے طالع آزمائی

۷۲۳۵

کہا تھا میں نہ دیکھو غیر کی اور

سو تم نے آنکھ مجھ سے ہی چھپائی

نہ ملیے خاک میں کہہ کیونکے پیارے

گذرتی ہے کڑی تیری جدائی

جفا اس کی نہ پہنچی انتہا کو

دریغا عمر نے کی بے وفائی

گلے اس مہ نے لگ کر ایک دو رات

مہینوں تک مری چھاتی جلائی

نہ تھا جب درمیاں آئینہ تب تک

تھی یک صورت کہ ہو جاوے صفائی

۷۲۴۰

نظر اس کی پڑی چہرے پر اپنے

نمد پوشوں سے آنکھ اب کب ملائی

بڑھائی کس قدر بات اس کے قد کی

قیامت میرؔ صاحب ہیں چوائی

 

(۹۶۱)

 

مطرب سے غزل میرؔ کی کل میں نے پڑھائی

اللہ رے اثر سب کے تئیں رفتگی آئی

اس مطلع جاں سوز نے آ اس کے لبوں پر

کیا کہیے کہ کیا صوفیوں کی چھاتی جلائی

خاطر کے علاقے کے سبب جان کھپائی

اس دل کے دھڑکنے سے عجب کوفت اٹھائی

۷۲۴۵

گو اس رخ مہتابی سے واں چاندنی چھٹکی

یاں رنگ شکستہ سے بھی چھٹتی ہے ہوائی

ہر بحر میں اشعار کہے عمر کو کھویا

اس گوہر نایاب کی کچھ بات نہ پائی

بھیڑیں ٹلیں اس ابروئے خم دار کے ہلتے

لاکھوں میں اس اوباش نے تلوار چلائی

دل اور جگر جل کے مرے دونوں ہوئے خاک

کیا پوچھتے ہو عشق نے کیا آگ لگائی

قاصد کے تصنع نے کیا دل کے تئیں داغ

بیتاب مجھے دیکھ کے کچھ بات بنائی

۷۲۵۰

چپکی ہے مری آنکھ لب لعل بتاں سے

اس بات کے تیں جانتی ہے ساری خدائی

میں دیر پہنچ کر نہ کیا قصد حرم پھر

اپنی سی جرس نے کی بہت ہرزہ درائی

فریاد انھیں رنگوں ہے گلزار میں ہر صبح

بلبل نے مری طرز سخن صاف اڑائی

مجلس میں مرے ہوتے رہا کرتے ہو چپکے

یہ بات مری ضد سے تمھیں کن نے بتائی

گردش میں جو ہیں میرؔ مہ و مہر و ستارے

دن رات ہمیں رہتی ہے یہ چشم نمائی

۷۲۵۵

(۹۶۲)

 

تجھ کنے بیٹھے گھٹا جاتا ہے جی

کاہشیں کیا کیا اٹھا جاتا ہے جی

یوں تو مردے سے پڑے رہتے ہیں ہم

پر وہ آتا ہے تو آ جاتا ہے جی

ہائے اس کے شربتی لب سے جدا

کچھ بتاشا سا گھلا جاتا ہے جی

اب کے اس کی راہ میں جو ہو سو ہو

یا دب ہی آتا ہے یا جاتا ہے جی

کیا کہیں تم سے کہ اس شعلے بغیر

جی ہمارا کچھ جلا جاتا ہے جی

۷۲۶۰

عشق آدم میں نہیں کچھ چھوڑتا

ہولے ہولے کوئی کھا جاتا ہے جی

اٹھ چلے پر اس کے غش کرتے ہیں ہم

یعنی ساتھ اس کے چلا جاتا ہے جی

آ نہیں پھرتا وہ مرتے وقت بھی

حیف ہے اس میں رہا جاتا ہے جی

رکھتے تھے کیا کیا بنائیں پیشتر

سو تو اب آپھی ڈھہا جاتا ہے جی

آسماں شاید ورے کچھ آ گیا

رات سے کیا کیا رکا جاتا ہے جی

۷۲۶۵

کاشکے برقع رہے اس رخ پہ میرؔ

منھ کھلے اس کے چھپا جاتا ہے جی

 

(۹۶۳)

 

متاع دل اس عشق نے سب جلا دی

کوئی دن ہی میں خاک سی یاں اڑا دی

دلیل اس بیاباں میں دل ہی ہے اپنا

نہ خضر و بلد یاں نہ رہبر نہ ہادی

مزاجوں میں یاس آ گئی ہے ہمارے

نہ مرنے کا غم ہے نہ جینے کی شادی

نہ پوچھو کہ چھاتی کے جلنے نے آخر

عجب آگ دل میں جگر میں لگا دی

۷۲۷۰

وفا لوگ آپس میں کرتے تھے آگے

یہ رسم کہن آہ تم نے اٹھا دی

جدا ان غزالان شہری سے ہو کر

پھرے ہم بگولے سے وادی بہ وادی

صبا اس طرف کو چلی جل گئے ہم

ہوا یہ سبب اپنے مرنے کا بادی

وہ نسخہ جو دیکھا بڑھا روگ دل کا

طبیب محبت نے کیسی دوا دی

ملے قصر جنت میں پیر مغاں کو

ہمیں زیر دیوار میخانہ جا دی

۷۲۷۵

نہ ہو عشق کا شور تا میرؔ ہرگز

چلے بس تو شہروں میں کریے منادی

 

(۹۶۴)

صبح ہے کوئی آہ کر لیجے

آسماں کو سیاہ کر لیجے

چشم گل باغ میں مندی جا ہے

جو بنے اک نگاہ کر لیجے

ابر رحمت ہے جوش میں مے دے

یعنی ساقی گناہ کر لیجے

 

(۹۶۵)

یک مژہ  اے دم آخر مجھے فرصت دیجے

چشم بیمار کے دیکھ آنے کی رخصت دیجے

۷۲۸۰

نو گرفتار ہوں اس باغ کا رحم  اے صیاد

موسم گل رہے جب تک مجھے مہلت دیجے

خوار و خستہ کئی پامال تری راہ میں ہیں

کیجیے رنجہ قدم ان کو بھی عزت دیجے

اپنے ہی دل کا گنہ ہے جو جلاتا ہے مجھے

کس کو لے مریے میاں اور کسے تہمت دیجے

چھوٹے ہیں قید قفس سے تو چمن تک پہنچیں

اتنی  اے ضعف محبت ہمیں طاقت دیجے

مر گیا میرؔ نہ آیا ترے جی میں  اے شوخ

اپنے محنت زدہ کو بھی کبھی راحت دیجے

۷۲۸۵

(۹۶۶)

 

گر ناز سے وہ سر پر لے تیغ آ نہ پہنچے

منزل کو عاشق اپنے مقصد کی جا نہ پہنچے

جیتے رہیں گے کیونکر ہم  اے طبیب ناداں

بیمار ایسے تس پر مطلق دوا نہ پہنچے

لائق ترے نہیں ہے خصمی غیر لیکن

وہ باز کیونکے آوے جب تک سزا نہ پہنچے

ہر چند بہر خوباں سر مسجدوں میں مارے

پر ان کے دامنوں تک دست دعا نہ پہنچے

بن آہ دل کا رکنا بے جا نہیں ہمارا

کیا حال ہووے اس کا جس کو ہوا نہ پہنچے

۷۲۹۰

اپنے سخن کی اس سے کس طور راہ نکلے

خط اس طرف نہ جاوے قاصد گیا نہ پہنچے

وہ میرؔ شاہ خوبی پھر قدر دور اس کی

درویش بے نوا کی اس تک صدا نہ پہنچے

 

(۹۶۷)

اک شور ہو رہا ہے خوں ریزی میں ہمارے

حیرت سے ہم تو چپ ہیں کچھ تم بھی بولو پیارے

زخم اس کے ہاتھ کے جو سینے پہ ہیں نمایاں

چھاتی لگے رہیں گے زیر زمیں بھی سارے

ہیں بدمزاج خوباں پر کس قدر ہیں دلکش

پائے کہاں گلوں نے یہ مکھڑے پیارے پیارے

۷۲۹۵

بیٹھیں ہیں رونے کو تو دریا ہی رو اٹھیں ہیں

جوش و خروش یہ تھے تب ہم لگے کنارے

لاتے نہیں ہو مطلق سر تم فرو خدا سے

یہ ناز خوبرویاں بندے ہیں ہم تمھارے

کوئی تو ماہ پارہ اس بھی رواق میں ہے

چشمک زنی میں شب کو یوں ہی نہیں ہیں تارے

لگ کر گلے نہ سوئے اس منھ پہ منھ نہ رکھا

جی سے گئے ہم آخر ان حسرتوں کے مارے

بیتابی ہے دنوں کو بے خوابی ہے شبوں کو

آرام و صبر دونوں مدت ہوئی سدھارے

۷۳۰۰

آفاق میں جو ہوتے اہل کرم تو سنتے

ہم برسوں رعد آسا بیتاب ہو پکارے

جل بجھیے اب تو بہتر مانند برق خاطف

جوں ابر کس کے آگے دامن کوئی پسارے

ہم نے تو عاشقی میں کھویا ہے جان کو بھی

صدقے ہیں میرؔ جی کے وے ڈھونڈتے ہیں وارے

 

(۹۶۸)

 

میرؔ ایک دم نہ اس بن تو تو جیا پیارے

کیا کہہ کے تجھ کو روویں یہ کیا کیا پیارے

رنگین ہم تو تجھ کو ایسا نہ جانتے تھے

تو نے تو عاشقوں کا لوہو پیا پیارے

۷۳۰۵

دل کے تو زخم کا کچھ ہوتا نہیں تدارک

گو چاک سینہ تو نے میرا سیا پیارے

اس دام گاہ میں ہم جوں صید نیم بسمل

تڑپے بہت پہ تو نے کب دل لیا پیارے

ہو داغ میرؔ تجھ بن مر بھی گیا ولے تو

آیا نہ گور پر ٹک لے کر دیا پیارے

 

(۹۶۹)

 

سیر کی ہم نے ہر کہیں پیارے

پھر جو دیکھا تو کچھ نہیں پیارے

خشک سال وفا میں اک مدت

پلکیں لوہو میں تر رہیں پیارے

۷۳۱۰

یک نظر دیکھنے کی حسرت میں

آنکھیں تو پانی ہو بہیں پیارے

پہنچی ہے ضعف سے یہ اب حالت

جہاں پہنچا رہا وہیں پیارے

تجھ گلی میں رہے ہے میرؔ مگر

دیکھیں ہیں جب نہ تب نہیں پیارے

 

(۹۷۰)

 

اسیر زلف کرے قیدی کمند کرے

پسند اس کی ہے وہ جس طرح پسند کرے

ہمیشہ چشم ہے نمناک ہاتھ دل پر ہے

خدا کسو کو نہ ہم سا بھی دردمند کرے

۷۳۱۵

بڑوں بڑوں کو جھکاتے ہی سر بنے اس دم

پکڑ کے تیغ وہ اپنی اگر بلند کرے

بیان دل کے بھی جلنے کو کریے مجلس میں

اچھلنے کودنے کو ترک اگر سپند کرے

نہ مجھ کو راہ سے لے جائے مکر دنیا کا

ہزار رنگ یہ فرتوت گو چھچھند کرے

سوائے اس کے بڑی داڑھی میں ہے کیا  اے شیخ

کہ جو کوئی تجھے دیکھے سو ریش خند کرے

دکھاوے آنکھ کبھو زلف کھولے منھ پہ کبھو

کبھو خرام سے رستے کے رستے بند کرے

۷۳۲۰

اگرچہ سادہ ہے لیکن ربودن دل کو

ہزار پیچ کرے لاکھ لاکھ فند کرے

سخن یہی ہے جو کہتے ہیں شعر میرؔ ہے سحر

زبان خلق کو کس طور کوئی بند کرے

 

(۹۷۱)

 

آہ روکوں جانے والے کس طرح گھر کے ترے

گاڑ دیویں کاش مجھ کو بیچ میں در کے ترے

لالہ و گل کیوں نہ پھیکے اپنی آنکھوں میں لگیں

دیکھنے والے ہیں ہم تو رنگ احمر کے ترے

بے پرو بالی سے اب کے گو کہ بلبل تو ہے چپ

یاد ہیں سب کے تئیں وے چہچہے پر کے ترے

۷۳۲۵

آج کا آیا تجھے کیا پاوے ہم حیران ہیں

ڈھونڈنے والے جو ہیں  اے شوخ اکثر کے ترے

دیکھ اس کو حیف کھا کر سب مجھے کہنے لگے

وائے تو گر ہیں یہی اطوار دلبر کے ترے

تازہ تر ہوتے ہیں نو گل سے بھی  اے نازک نہال

صبح اٹھتے ہیں بچھے جو پھول بستر کے ترے

مشک عنبر طبلہ طبلہ کیوں نہ ہو کیا کام ہے

ہم دماغ آشفتہ ہیں زلف معنبر کے ترے

جی میں وہ طاقت کہاں جو ہجر میں سنبھلے رہیں

اب ٹھہرتے ہی نہیں ہیں پاؤں ٹک سر کے ترے

۷۳۳۰

داغ پیسے سے جو ہیں بلبل کے دل پر کس کے ہیں

یوں تو  اے گل ہیں ہزاروں آشنا زر کے ترے

کوئی آب زندگی پیتا ہے یہ زہراب چھوڑ

خضر کو ہنستے ہیں سب مجروح خنجر کے ترے

نوح کا طوفاں ہمارے کب نظر چڑھتا ہے میرؔ

جوش ہم دیکھے ہیں کیا کیا دیدۂ تر کے ترے

 

(۹۷۲)

 

مت سہل سمجھو ایسے ہیں ہم کیا ورے دھرے

ظاہر تو پاس بیٹھے ہیں پر ہیں بہت پرے

سختی بہت ہے پاس و مراعات عشق میں

پتھر کے دل جگر ہوں تو کوئی وفا کرے

۷۳۳۵

خالی کروں ہوں رو رو کے راتوں کو دل کے تیں

انصاف کر کہ یوں کوئی دن کب تلک بھرے

رندھنے نے جی کے خاک میں ہم کو ملا دیا

گویا کہ آسمان بہت آ گیا ورے

داڑھی کو تیری دیکھ کے ہنستے ہیں لڑکے شیخ

اس ریش خند کو بھی سمجھ ٹک تو مسخرے

جل تھل فقط نہیں مرے رونے سے بھر گئے

جنگل پڑے تھے سوکھے سو وہ بھی ہوئے ہرے

جی کو بچا رکھیں گے تو جانیں گے عشق میں

ہر چند میرؔ صاحب قبلہ ہیں منگرے

۷۳۴۰

(۹۷۳)

 

بو کیے کمھلائے جاتے ہو نزاکت ہائے رے

ہاتھ لگتے میلے ہوتے ہو لطافت ہائے رے

یار بے پروا و مفتر اور میں بے اختیار

پیش کچھ جاتی نہیں منت سماجت ہائے رے

سختی کھینچی کوہکن نے قیس نے رنج و تعب

کیا گئی برباد ان یاروں کی محنت ہائے رے

شور اٹھتا ہے جو ہوتے جلوہ گر ہو ناز سے

کھینچنا قد کا بلا آفت قیامت ہائے رے

خانقہ والے ہی کچھ تنہا نہیں الفت میں خوار

کیسے کیسوں کی گئی ہے مفت عزت ہائے رے

۷۳۴۵

عشق میں افسوس سا افسوس اپنا کر چکے

زیر لب کہتے رہے ہم ایک مدت ہائے رے

ریجھنے ہی کے ہے قابل یار کی ترکیب میرؔ

واہ وا رے چشم و ابرو قد و قامت ہائے رے

 

(۹۷۴)

وہی شورش موئے پر بھی ہے اب تک ساتھ یاں میرے

ہما کے آشیانے میں جلیں ہیں استخواں میرے

عزیزاں غم میں اپنے یوسفؑ گم گشتہ کے ہر دم

چلے جاتے ہیں آنسو کارواں در کارواں میرے

تمھاری دشمنی ہم دوستوں سے لا نہایت ہے

وگرنہ انتہا کینے کو بھی ہے مہرباں میرے

۷۳۵۰

لب و لہجہ غزل خوانی کا کس کو آج کل ایسا

گھڑی بھر کو ہوئے مرغ چمن ہم داستاں میرے

نظر مت بے پری پر کر کہ آں سوئے جہاں پھر ہوں

ہوئے پرواز کے قابل یہ ٹوٹے پر جہاں میرے

کہاں تک سر کو دیواروں سے یوں مارا کرے کوئی

رکھوں اس در پہ پیشانی نصیب ایسے کہاں میرے

مجھے پامال کر یکساں کیا ہے خاک سے تو بھی

وہی رہتا ہے صبح و شام درپے آسماں میرے

خزاں کی باؤ سے حضرت میں گلشن کے تطاول تھا

تبرک ہو گئے یک دست خار آشیاں میرے

۷۳۵۵

کہا میں شوق میں طفلان تہ بازار کے کیا کیا

سخن مشتاق ہیں اب شہر کے پیر و جواں میرے

زمیں سر پر اٹھا لی کبک نے رفتار رنگیں سے

خراماں ناز سے ہو تو بھی  اے سرو رواں میرے

سخن کیا میرؔ کریے حسرت و اندوہ و حرماں سے

بیاں حاجت نہیں حالات ہیں سارے عیاں میرے

 

(۹۷۵)

بہار آئی ہے غنچے گل کے نکلے ہیں گلابی سے

نہال سبز جھومے ہیں گلستاں میں شرابی سے

گروں ہوں ہر قدم پر میں ڈھہا جاتا ہے جی ہر دم

پہنچتا ہوں کبھو در پر ترے سو اس خرابی سے

۷۳۶۰

نہ ٹھہری ایک چشمک بھی بسان برق آنکھوں میں

کلیجہ جل گیا  اے عمر تیری تو شتابی سے

نکل آتے ہو گھر سے چاند سے یہ کیا طرح پکڑی

قیامت ہو رہے گی ایک دن اس بے حجابی سے

یہ جھگڑا تنگ آ کر میں رکھا روزشمار اوپر

کروں کیا تم تو لڑنے لگتے ہو حرف حسابی سے

بہت رویا نوشتے پر میں اپنے دیکھ قاصد کو

کہ سر ڈالے غریب آتا تھا خط کی بے جوابی سے

مبادا کارواں جاتا رہے تو صبح سوتا ہو

بہت ڈرتا ہوں میں  اے میرؔ تیری دیر خوابی سے

۷۳۶۵

(۹۷۶)

کعبے میں جاں بہ لب تھے ہم دوری بتاں سے

آئے ہیں پھر کے یارو اب کے خدا کے ہاں سے

تصویر کے سے طائر خاموش رہتے ہیں ہم

جی کچھ اچٹ گیا ہے اب نالہ و فغاں سے

جب کوندتی ہے بجلی تب جانب گلستاں

رکھتی ہے چھیڑ میرے خاشاک آشیاں سے

کیا خوبی اس کے منھ کی  اے غنچہ نقل کریے

تو تو نہ بول ظالم بو آتی ہے دہاں سے

آنکھوں ہی میں رہے ہو دل سے نہیں گئے ہو

حیران ہوں یہ شوخی آئی تمھیں کہاں سے

۷۳۷۰

سبزان باغ سارے دیکھے ہوئے ہیں اپنے

دلچسپ کاہے کو ہیں اس بے وفا جواں سے

کی شست و شو بدن کی جس دن بہت سی ان نے

دھوئے تھے ہاتھ میں نے اس دن ہی اپنی جاں سے

خاموشی ہی میں ہم نے دیکھی ہے مصلحت اب

ہر یک سے حال دل کا مدت کہا زباں سے

اتنی بھی بد مزاجی ہر لحظہ میرؔ تم کو

الجھاؤ ہے زمیں سے جھگڑا ہے آسماں سے

 

(۹۷۷)

 

کرتا ہے کب سلوک وہ اہل نیاز سے

گفتار اس کی کبر سے رفتار ناز سے

۷۳۷۵

یوں کب ہمارے آنسو پچھیں ہیں کہ تو نے شوخ

دیکھا کبھو ادھر مژۂ نیم باز سے

خاموش رہ سکے نہ تو بڑھ کر بھی کچھ نہ کہہ

سر شمع کا کٹے ہے زبان دراز سے

اب جا کسو درخت کے سائے میں بیٹھیے

اس طور پھریے کب تئیں بے برگ و ساز سے

یہ کیا کہ دشمنوں میں مجھے ساننے لگے

کرتے کسو کو ذبح بھی تو امتیاز سے

مانند شمع ٹپکے ہی پڑتے ہیں اب تو اشک

کچھ جلتے جلتے ہو گئے ہیں ہم گداز سے

۷۳۸۰

شاید کہ آج رات کو تھے میکدے میں میرؔ

کھیلے تھا ایک مغبچہ مہر نماز سے

 

(۹۷۸)

 

تابوت مرا دیر اٹھا اس کی گلی سے

اثبات ہوا جرم محبت کا اسی سے

تم چھیڑتے ہو بزم میں مجھ کو تو ہنسی سے

پر مجھ پہ جو ہو جائے ہے پوچھو مرے جی سے

آتش بہ جگر اس در نایاب سے سب ہیں

دریا بھی نظر آئے اسی خشک لبی سے

گر ٹھہرے ملک آگے انھوں کے تو عجب ہے

پھرتے ہیں پڑے دلی کے لونڈے جو پری سے

۷۳۸۵

نکلا جو کوئی واں سے تو پھر مر ہی کے نکلا

اس کوچے سے جاتے ہوئے دیکھا کسے جی سے

ہمسائے مجھے رات کو رویا ہی کرے ہیں

سوتے نہیں بے چارے مری نالہ کشی سے

تم نے تو ادھر دیکھنے کی کھائی ہے سوگند

اب ہم بھی لڑا بیٹھتے ہیں آنکھ کسی سے

چھاتی کہیں پھٹ جائے کہ ٹک دل بھی ہوا کھائے

اب دم تو لگے رکنے ہماری خفگی سے

اس شوخ کا تمکین سے آنا ہے قیامت

اکتانے لگے ہم نفساں تم تو ابھی سے

۷۳۹۰

نالاں مجھے دیکھے ہیں بتاں تس پہ ہیں خاموش

فریاد ہے اس قوم کی فریاد رسی سے

تالو سے زباں رات کو مطلق نہیں لگتی

عالم ہے سیہ خانہ مری نوحہ گری سے

بے رحم وہ تجھ پاس لگا بیٹھنے جب دیر

ہم میرؔ سے دل اپنے اٹھائے تھے تبھی سے

 

(۹۷۹)

 

کیا خور ہو طرف یار کے روشن گہری سے

مانا ہے حضور اس کے چراغ سحری سے

سبزان چمن ہوویں برابر ترے کیوں کر

لگتا ہے ترے سائے کو بھی ننگ پری سے

۷۳۹۵

ہشیار کہ ہے راہ محبت کی خطرناک

مارے گئے ہیں لوگ بہت بے خبری سے

ایک آن میں رعنائیاں تیری تو ہیں سو سو

کب عہدہ برآ ئی ہوئی اس عشوہ گری سے

زنجیر تو پاؤں میں لگی رہنے ہمارے

کیا اور ہو رسوا کوئی آشفتہ سری سے

جب لب ترے یاد آتے ہیں آنکھوں سے ہماری

تب ٹکڑے نکلتے ہیں عقیق جگری سے

عشق آنکھوں کے نیچے کیے کیا میرؔ چھپے ہے

پیدا ہے محبت تری مژگاں کی تری سے

۷۴۰۰

 

(۹۸۰)

 

برسوں ہوئے گئے ہوئے اس مہ کو بام سے

کاہش مجھے جو ہے وہی ہوتی ہے شام سے

تڑپے اسیر ہوتے جو ہم یک اٹھا غبار

سوجھا نہ ہم کو دیر تلک چشم دام سے

دنبال ہر نگاہ ہے صد کاروان اشک

برسے ہے چشم ابر بڑی دھوم دھام سے

محو اس دہان تنگ کے ہیں کوئی کچھ کہو

رہتا ہے ہم کو عشق میں کام اپنے کام سے

یوسفؑ کے پیچھے خوار زلیخا عبث ہوئی

کب صاحبی رہی ہے مل ایسے غلام سے

۷۴۰۵

لڑکے ہزاروں جھولی میں پتھر لیے ہیں ساتھ

مجنوں پھرا ہے کاہے کو اس ازدحام سے

وہ ناز سے چلا کہیں تو حشر ہو چکے

پھر بحث آ پڑے گی اسی کے خرام سے

جھک جھک سلام کرنے سے سرکش ہوا وہ اور

ہو بیٹھے ناامید جواب سلام سے

وے دن گئے کہ رات کو یک جا معاش تھی

آتا ہے اب تو ننگ اسے میرے نام سے

سرگرم جلوہ بدر ہو ہر چند شب کو لیک

کب جی لگیں ہیں اپنے کسو ناتمام سے

۷۴۱۰

دل اور عرش دونوں پہ گویا ہے ان کی سیر

کرتے ہیں باتیں میرؔ جی کس کس مقام سے

 

(۹۸۱)

 

وہ کہاں دھوم جو دیکھی گئی چشم تر سے

ابر کیا کیا اٹھے ہنگامے سے کیا کیا برسے

ہو برافروختہ وہ بت جو مئے احمر سے

آگ نکلے ہے تماشے کے تئیں پتھر سے

ڈھب کچھ اچھا نہیں برہم زدن مژگاں کا

کاٹ ڈالے گا گلا اپنا کوئی خنجر سے

تھا نوشتے میں کہ یوں سوکھ کے مریے اس بن

استخواں تن پہ نمودار ہیں سب مسطر سے

۷۴۱۵

یوں تو دس گز کی زباں ہم بھی بتاں رکھتے ہیں

بات کو طول نہیں دیتے خدا کے ڈر سے

سیر کرنے جو چلے ہے کبھو وہ فتنہ خرام

شہر میں شور قیامت اٹھے ہے ہر گھر سے

عشق کے کوچے میں پھر پاؤں نہیں رکھنے کے ہم

اب کے ٹل جاتی ہے کلول یہ اگر سر پر سے

مہر کی اس سے توقع غلطی اپنی تھی

کہیں دلداری ہوئی بھی ہے کسو دلبر سے

کوچۂ یار ہے کیا طرفہ بلا خیز مقام

آتے ہیں فتنہ و آشوب چلے اودھر سے

۷۴۲۰

ساتھ سونا جو گیا اس کا بہت دل تڑپا

برسوں پھر میرؔ یہ پہلو نہ لگے بستر سے

 

(۹۸۲)

 

مرا دل پیر و مرشد ہے مجھے ہے اعتقاد اس سے

فراموش آپ کو کرنا محبت میں ہے یاد اس سے

بلا انداز ہے اس کا قیامت ناز ہے اس کا

اٹھے فتنے ہزار  اس سے ہوئے لاکھوں فساد اس سے

نزاکت جیسی ہے ویسا ہی دل بھی سخت ہے اس کا

اگرچہ شیشۂ جاں ہے پہ بہتر ہے جماد اس سے

کسے ہیں بند ان نے کیسے کس درویش سے ملیے

جو ایسے سخت عقدوں کی طلب کریے کشاد اس سے

۷۴۲۵

بھلا یوں گھٹ کے مریے کب تلک دل خوں ہوا سارا

جو کوئی دادگر ہووے تو کریے جا کے داد اس سے

لگے ہی ایک دو رہتے ہیں مہلت بات کی کیسی

ہوا ہے دشمنوں کو کچھ قیامت اتحاد اس سے

پہنچ کر تہ کو ہم تو محض محرومی ہی پاتے ہیں

مراد دل کو پہنچا ہو گا کوئی نامراد اس سے

لیے ہی میان سے رہتا ہے کوئی یہ نہیں کہتا

نکالا ہے کہاں کا تو نے  اے ظالم عناد اس سے

ادھر توبہ کرے ہے میرؔ ادھر لگتا ہے مے پینے

کہاں تک اب تو اپنا اٹھ گیا ہے اعتماد اس سے

۷۴۳۰

 

(۹۸۳)

 

برا کیا مانیے اب چھیڑ سے یا اس کی گالی سے

یہی ہے طور اس کا ساتھ اپنے خورد سالی سے

کلی بیرنگ مرجھائی نظر آتی ہے ظاہر ہے

ہماری بے کلی گل ہائے تصویر نہالی سے

بھری آنکھیں کسو کی پونچھتے جو آستیں رکھتے

ہوئی شرمندگی کیا کیا ہمیں اس دست خالی سے

جو مر رہیے بھی تنگ آ کر تو پروا کچھ نہ ہو اس کو

پڑا ہے کام مجھ ناکام کو کس لا ابالی سے

جہاں رونے لگے ٹک بے دماغی وہ لگا کرنے

قیامت ضد ہے اس کو عاشقی کی زار نالی سے

۷۴۳۵

دماغ حرف لعل ناب و برگ گل سے ہے تم کو

ہمیں جب گفتگو ہے تب کسو کے لب کی لالی سے

ریاضات محبت نے رکھا ہے ہم میں کیا باقی

نمود  اک کرتے ہیں ہم یوں ہی اب شکل مثالی سے

ہم اس راہ حوادث میں بسان سبزہ واقع ہیں

کہ فرصت سر اٹھانے کی نہیں ٹک پائمالی سے

سرہانے رکھ کے پتھر خاک پر ہم بے نوا سوئے

پڑے سر ماریں طالع مند اپنا سنگ قالی سے

کبھو میں عین رونے میں جگر سے آہ کرتا ہوں

کہ دل اٹھ جائیں یاروں کے ہوائے برشگالی سے

۷۴۴۰

یہی غم اس دہن کا ہے کہ فکر اس کی کمر کی ہے

کہے سو کیا کوئی ہیں میرؔ صاحب کچھ خیالی سے

 

(۹۸۴)

کھینچے جہاں تو تیغ جلادت کے واسطے

واں میں بھی ہوں مدام شہادت کے واسطے

سجدہ کوئی کرے تو در یار پر کرے

ہے جائے پاک شرط عبادت کے واسطے

آئے نہ تم تو درپس دیوار مجھ تلک

کھینچے ہیں لوگ رنج عیادت کے واسطے

خوش طالعی صبح جو اس منھ پہ ہے سفید

پھرتا ہے مہ بھی اس ہی سعادت کے واسطے

۷۴۴۵

ہے میرؔ پیر لیک سوئے میکدہ مدام

جاتا ہے مغبچوں کی ارادت کے واسطے

 

(۹۸۵)

دیوانگی میں گاہ ہنسے گاہ رو چکے

وحشت بہت تھی طاقت دل ہائے کھو چکے

افراط اشتیاق میں سمجھے نہ اپنا حال

دیکھے ہیں سوچ کر کے تو اب ہم بھی ہو چکے

کہتا ہے میرؔ سانجھ ہی سے آج درد دل

ایسی کہانی گرچہ نندھی ہے تو سو چکے

 

(۹۸۶)

بے خودی جو یہ ہے تو ہم آپ میں اب آ چکے

کیا تمھیں یاں سے چلے جاتے ہو ہم بھی جا چکے

۷۴۵۰

تم یہی کہتے رہے یہ اور گل تازہ کھلا

زخم بھی ہم نے اٹھائے داغ بھی ہم کھا چکے

ایک بوسہ دے نہ منھ برسوں لگایا واہ واہ

اب تو ٹک بولو جزا ہم اس عمل کی پا چکے

یاں تلک آنے میں جتنا مکث کرتے ہو کرو

اب تو جانا جان سے ناچار ہم ٹھہرا چکے

اب چمن میں جا نکلتے ہیں تو جی لگتا نہیں

پھول گل سے میرؔ اس بن دل بہت بہلا چکے

 

(۹۸۷)

خوبی کی اپنی جنت کیسی ہی ڈینگیں ہانکے

اس کی گلی کا ساکن ہرگز ادھر نہ جھانکے

۷۴۵۵

ایک ایک بات اوپر ہیں پیچ و تاب سو سو

رہتے نہیں ہیں سیدھے یہ لونڈے ٹیڑھے بانکے

سر کو اس آستاں پر رکھے رہیں تو بہتر

اٹھیے جو اس کے در سے تو ہو جیے کہاں کے

گردش سے روسیہ کی کیا کیا بلائیں آئیں

جانے ہی کے ہیں لچھن سارے اس آسماں کے

مشتاق ہم جو ایسے سو ہم ہی سے ہے پردہ

جب اس طرف سے نکلے تب منھ کو اپنے ڈھانکے

ہے پر غبار عالم جانا ہی یاں سے اچھا

اس خاکداں میں رہ کر کیا کوئی خاک پھانکے

۷۴۶۰

کل باغ میں گئے تھے روئے چمن چمن ہم

کچھ سرو میں جو پائے انداز اس جواں کے

جاناں کی رہ سے آنکھیں جس تس کی لگ رہی ہیں

رفتہ ہیں لوگ سارے ان پاؤں کے نشاں کے

خمیازہ کش رہے ہے  اے میرؔ شوق سے تو

سینے کے زخم کے کہہ کیونکر رہیں گے ٹانکے

 

(۹۸۸)

 

دل خوں ہوا ہمارا ٹکڑے ہوئے جگر کے

دیکھا نہ تم نے ایدھر صرفے سے اک نظر کے

چشمے کہیں ہیں جوشاں جوئیں کہیں ہیں جاری

آثار اب تلک ہیں یاروں کی چشم تر کے

۷۴۶۵

رہنے کی اپنے جا تو نے دیر ہے نہ کعبہ

اٹھیے جو اس کے در سے تو ہو جیے کدھر کے

اس شعر و شاعری پر اچھی بندھی نہ ہم سے

محو خیال شاعر یوں ہی ہیں اس کمر کے

دنیا میں ہے بسیرا یارو سرائے کا سا

یہ رہروان ہستی عازم ہیں سب سفر کے

وے یہ ہی چھاتیاں ہیں زخموں سے جو بھری ہیں

کیا ہے جو بوالہوس نے دوچار کھائے چرکے

تہ بے خودی کی اپنی کیا کچھ ورے دھری ہے

ہم بے خبر ہوئے ہیں پہنچے کسو خبر کے

۷۴۷۰

اس آستاں کی دوری اس دل کی ناصبوری

کیا کہیے آہ غم سے گھر کے ہوئے نہ در کے

خاک ایسی عاشقی میں ٹھکرائے بھی گئے کل

پاؤں کنے سے اس کے پر میرؔ جی نہ سرکے

 

(۹۸۹)

 

کتنے روزوں سے نہ سونے کے ہیں نے کھانے کے

دل جو یہ ہے تو ہم آرام نہیں پانے کے

ہائے کس خوبی سے آوارہ رہا ہے مجنوں

ہم بھی دیوانے ہیں اس طور کے دیوانے کے

عزم ہے جزم کہ اب کے حرکت شہر سے کر

ہو جے دل کھول کے ساکن کسو ویرانے کے

۷۴۷۵

آہ کیا سہل گذر جاتے ہیں جی سے عاشق

ڈھب کوئی سیکھ لے ان لوگوں سے مر جانے کے

جمع کرتے ہو جو گیسوئے پریشاں کو مگر

ہو تردد میں کوئی تازہ بلا لانے کے

کاہے کو آنکھ چھپاتے ہو یہی ہے گر چال

ایک دو دن میں نہیں ہم بھی نظر آنے کے

ہاتھ چڑھ جائیو  اے شیخ کسو کے نہ کبھو

لونڈے سب تیرے خریدار ہیں میخانے کے

خاک سے چرخ تلک اب تو رکا جاتا ہے

ڈول اچھے نہیں کچھ جان کے گھبرانے کے

۷۴۸۰

لے بھی  اے غیرت خورشید کہیں منھ پہ نقاب

مقتضی دن نہیں اب منھ کے یہ دکھلانے کے

لالہ و گل ہی کے مصروف رہو ہو شب و روز

تم مگر میرؔ جی سید ہو گلستانے کے

 

(۹۹۰)

 

اس باغ بے ثبات میں کیا دل صبا لگے

کیا کیا نہال دیکھتے یاں پاؤں آ لگے

حرص و ہوس سے باز رہے دل تو خوب ہے

ہے قہر اس کلی کے تئیں گر ہوا لگے

تلخ اب تو اپنے جی کو بھی لگتی ہے اس نمط

جیسے کسو کے زخم پہ تیر اک دو آ لگے

۷۴۸۵

کس کو خبر ہے کشتی تباہوں کے حال کی

تختہ مگر کنارے کوئی بہ کے جا لگے

ایسے لگے پھرے ہیں بہت سائے کی روش

جانے دے ایسی حور پری سے بلا لگے

وہ بھی چمن فروز تو بلبل ہے سامنے

گل ایسے منھ کے آگے بھلا کیا بھلا لگے

پس جائیں یار آنکھ تری سرمگیں پڑے

دل خوں ہو تیرے پاؤں میں بھر کر حنا لگے

بن ہڈیوں ہماری ہما کچھ نہ کھائے گا

ٹک چاشنی عشق کا اس کو مزہ لگے

۷۴۹۰

خط مت رکھو کہ اس میں بہت ہیں قباحتیں

رکھیے تمھارے منھ پہ تو تم کو برا لگے

مقصود کے خیال میں بہتوں نے چھانی خاک

عالم تمام وہم ہے یاں ہاتھ کیا لگے

سب چاہتے ہیں دیر رہے میرؔ دل زدہ

یارب کسو تو دوست کی اس کو دعا لگے

 

(۹۹۱)

 

غیر کو دیکھے ہے گرمی سے نہ کچھ لاگ لگے

اس لیے دیکھ رہا ہے کہ مجھے آگ لگے

آنکھ ہر ایک کی دوڑے ہے کفک پر تیرے

پاؤں سے لگ کے ترے مہندی کو کچھ بھاگ لگے

۷۴۹۵

ہو نہ دیوانہ جو اس گوہر خوش آب کا تو

لب دریا کے تئیں کیوں رہیں یوں جھاگ لگے

اب تو ان گیسوؤں کی یاد میں میں محو ہوا

گو قیامت کو مرے منھ سے ہوں دو ناگ لگے

لڑکے دلی کے ترے ہاتھ میں کب آئے میرؔ

پیچھے ایک ایک کے سو سو پھریں ہیں ڈاگ لگے

 

(۹۹۲)

 

کب تلک احوال یہ جب کوئی تیرا نام لے

عاشق بے حال دونوں ہاتھ سے دل تھام لے

ناتوانی سے اگر مجھ میں نہیں ہے جی تو کیا

عشق جو چاہے تو مردے سے بھی اپنا کام لے

۷۵۰۰

پہلوئے عاشق نہ بستر سے لگے تو ہے بجا

دل سی آفت ہو بغل میں جس کے کیا آرام لے

اب دل نالاں پھر اس زلف سیہ میں جاچکا

آج یہ بیمار دیکھیں کس طرح سے شام لے

شاخ گل تیری طرف جھکتی جو ہے  اے مست ناز

چاہتی ہے تو بھی میرے ہاتھ سے اک جام لے

دل کی آسائش نہیں امکان زلف یار میں

یہ شکار مضطرب ہے دم نہ زیر دام لے

عزت  اے پیر مغاں کچھ حاجیوں کی ہے ضرور

آئے ہیں تیرے کنے ہم جامۂ احرام لے

۷۵۰۵

کیا بلا مفتی کا لونڈا سر چڑھا ہے ان دنوں

آوے ہے گویا کہ مجھ پر قاضی کا اعلام لے

ہم نشیں کہہ مت بتوں کی میرؔ کو تسبیح ہے

کام کیا اس ذکر سے ان کو خدا کا نام لے

 

(۹۹۳)

 

سختیاں کھینچیں سو کھینچیں پھر بھی جو اٹھ کر چلے

چلتے اس کوچے سے ہم پر سینکڑوں پتھر چلے

مارگیری سے زمانے کی نہ دل کو جمع رکھ

چال دھیمی اس کی ایسی ہے کہ جوں اجگر چلے

کیونکے ان کا کوئی وارفتہ بھلا ٹھہرا رہے

جنبش ان پلکوں کو ہوتی ہے کہ جوں خنجر چلے

۷۵۱۰

اب جو وہ سرمایۂ جاں یاں تلک آیا تو کیا

راہ تکتے تکتے اس کی ہم تو آخر مر چلے

میں نہ کہتا تھا دم بسمل مرے مت آئیو

لوٹتے دامن کی اپنے زہ لہو میں بھر چلے

چھوڑ جانا جاں بہ لب ہم کو کہاں کا ہے سلوک

گھر کے گھر یاں بیٹھے جاتے ہیں تم اٹھ کر گھر چلے

صاف سارا شہر اس انبوہ خط میں لٹ گیا

کچھ نہیں رہتا ہے واں جس راہ ہو لشکر چلے

پاؤں میں مارا ہے تیشہ میں نے راہ عشق میں

ہو سو ہو اب گو کہ آرا بھی مرے سر پر چلے

۷۵۱۵

لائے تھے جا کر ابھی تو اس گلی میں سے پکار

چپکے چپکے میرؔ جی تم اٹھ کے پھر کیدھر چلے

 

(۹۹۴)

یا پہلے وے نگاہیں جن سے کہ چاہ نکلے

یا اب کی وے ادائیں جو دل سے آہ نکلے

کیونکر نہ چپکے چپکے یوں جان سے گذریے

کہیے بتھا جو اس سے باتوں کی راہ نکلے

زردی رنگ و رونا دونوں دلیل کشتن

خوش طالعی سے میری کیا کیا گواہ نکلے

اے کام جاں ہے تو بھی کیا ریجھ کا پچاؤ

مر جایئے تو منھ سے تیرے نہ واہ نکلے

۷۵۲۰

خوبی و دلکشی میں صد چند ہے تو اس سے

تیرے مقابلے کو کس منھ سے ماہ نکلے

یاں مہر تھی وفا تھی واں جور تھے ستم تھے

پھر نکلے بھی تو میرے یہ ہی گناہ نکلے

غیروں سے تو کہے ہے اچھی بری سب اپنی

اے یار کب کے تیرے یہ خیر خواہ نکلے

رکھتے تو ہو مکدر پر اس گھڑی سے ڈریو

جب خاک منھ پہ مل کر یہ روسیاہ نکلے

اک خلق میرؔ کے اب ہوتی ہے آستاں پر

درویش نکلے ہے یوں جوں بادشاہ نکلے             ۷۵۲۵

 

(۹۹۵)

جیسے اندوہ محرم عشق کب تک دل ملے

عید سی ہو جائے اپنے ہاں لگے جو تو گلے

دین و مذہب عاشقوں کا قابل پرسش نہیں

یہ ادھر سجدہ کریں ابرو جدھر اس کی ہلے

یہ نہیں میں جانتا نسبت ہے کیا آپس میں لیک

آنکھیں ہو جاتی ہیں ٹھنڈی اس کے تلووں سے ملے

ہائے کس حسرت سے شبنم نے سحر رو کر کہا

خوش رہو  اے ساکنان باغ اب تو ہم چلے

مردمان شہر خوبی پر کریں کیا دل کو عرض

ایسی جنس ناروا کو مفت کوئی واں نہ لے

۷۵۳۰

کل جو ہم کو یاد آیا باغ میں قد یار کا

خوب روئے ہر نہال سبز کے سائے تلے

جمع کر خاطر مرے جینے سے مجھ کو خوب ہے

جی بچا تب جانیے جب سر سے یہ کلول ٹلے

ق

گرچہ سب ہیں گے مہیائے طریق نیستی

طے بہت دشوار کی یہ رہگذر ہم نے ولے

ہر قدم پر جی سے جانا ہر دم اوپر بے دمی

لمحہ لمحہ آگے تھے کیا کیا قیامت مرحلے

جلنے کو جلتے ہیں سب کے اندرونے لیک میرؔ

جب کسو کی اس وتیرے سے کہیں چھاتی جلے

۷۵۳۵

 

(۹۹۶)

بے مہر و وفا ہے وہ کیا رسم وفا جانے

الفت سے محبت سے مل بیٹھنا کیا جانے

دل دھڑکے ہے جاتے کچھ بت خانے سے کعبے کو

اس راہ میں پیش آوے کیا ہم کو خدا جانے

ہے محو رخ اپنا تو آئینے میں ہر ساعت

صورت ہے جو کچھ دل کی سو تیری بلا جانے

کچھ اس کی بندھی مٹھی اس باغ میں گذرے ہے

جو زخم جگر اپنے جوں غنچہ چھپا جانے

کیا سینے کے جلنے کو ہنس ہنس کے اڑاتا ہوں

جب آگ کوئی گھر کو اس طور لگا جانے

۷۵۴۰

میں مٹی بھی لے جاؤں دروازے کی اس کے تو

اس درد محبت کی جو کوئی دوا جانے

اپنے تئیں بھی کھانا خالی نہیں لذت سے

کیا جانے ہوس پیشہ چکھے تو مزہ جانے

یوں شہر میں بہتیرے آزار دہندے ہیں

تب جانیے جب کوئی اس ڈھب سے ستا جانے

کیا جانوں رکھو روزے یا دارو پیو شب کو

کردار وہی اچھا تو جس کو بھلا جانے

آگاہ نہیں انساں  اے میرؔ نوشتے سے

کیا چاہیے ہے پھر جو طالع کا لکھا جانے

۷۵۴۵

(۹۹۷)

الٰہی کہاں منھ چھپایا ہے تو نے

ہمیں کھو دیا ہے تری جستجو نے

جو خواہش نہ ہوتی تو کاہش نہ ہوتی

ہمیں جی سے مارا تری آرزو نے

نہ بھائیں تجھے میری باتیں وگرنہ

رکھی دھوم شہروں میں اس گفتگو نے

رقیبوں سے سر جوڑ بیٹھو ہو کیونکر

ہمیں تو نہیں دیتے ٹک پاؤں چھونے

پھر اس سال سے پھول سونگھا نہ میں نے

دوانہ کیا تھا مجھے تیری بو نے

۷۵۵۰

مداوا نہ کرنا تھا مشفق ہمارا

جراحت جگر کے لگے دکھنے دونے

کڑھایا کسو کو کھپایا کسو کو

برائی ہی کی سب سے اس خوبرو نے

وہ کسریٰ کہ ہے شور جس کا جہاں میں

پڑے ہیں گے اس کے محل آج سونے

تری چال ٹیڑھی تری بات روکھی

تجھے میرؔ سمجھا ہے یاں کم کسو نے

 

(۹۹۸)

 

ویسا ہے یہ جو یوسف شب تیرے ہوتے آوے

جیسے چراغ کوئی مہتاب میں جلاوے

۷۵۵۵

کیا رفتگی سے میری تم گفتگو کرو ہو

کھویا گیا نہیں میں ایسا جو کوئی پاوے

چھاتی کے داغ یکسر آنکھوں سے کھل رہے ہیں

دیکھیں ابھی محبت کیا کیا ہمیں دکھاوے

ہیں پاؤں اس کے نازک گل برگ سے بجا ہے

عاشق جو رہگذر میں آنکھوں کے تیں بچھاوے

یوں خاک منھ پہ مل کر کب تک پھرا کروں میں

یارب زمیں پھٹے تو یہ روسیہ سماوے

اے کاش قصہ میرا ہر فرد کو سنا دیں

تا دل کسو سے اپنا کوئی نہ یاں لگاوے

۷۵۶۰

ترک بتاں کا مجھ سے لیتے ہیں قول یوں ہی

کیا ان سے ہاتھ اٹھاؤں گو اس میں جان جاوے

عاشق کو مر گئے ہی بنتی ہے عاشقی میں

کیا جان جس کی خاطر شرمندگی اٹھاوے

جی میں بگڑ رہا ہے تب میرؔ چپ ہے بیٹھا

چھیڑو ابھی تو کیا کیا باتیں بنا کے لاوے

 

(۹۹۹)

 

یا بادۂ گلگوں کی خاطر سے ہوس جاوے

یا ابر کوئی آوے اور آ کے برس جاوے

شورش کدۂ عالم کہنے ہی کی جاگہ تھی

دل کیا کرے جو ایسے ہنگامے میں پھنس جاوے

۷۵۶۵

دل ہے تو عبث نالاں یاران گذشتہ بن

ممکن نہیں اب ان تک آواز جرس جاوے

اس زلف سے لگ چلنا اک سانپ کھلانا ہے

یہ مارسیہ یارو ناگاہ نہ ڈس جاوے

میخانے میں آوے تو معلوم ہو کیفیت

یوں آگے ہو مسجد کے ہر روز عسس جاوے

چولی جہاں سے مسکی پھر آنکھیں وہیں چپکیں

جب پیرہن گل بھی اس خوبی سے چس جاوے

ہے میرؔ عجب کوئی درویش برشتہ دل

بات اس کی سنو تم تو چھاتی بھی بھلس جاوے

۷۵۷۰

 

(۱۰۰۰)

 

درونے کو کوئی آہوں سے یوں کب تک ہوا دیوے

مبادا عشق کی گرمی جگر میرا جلا دیوے

کہاں تک یوں پڑے بستر پہ رہیے دور جاناں سے

کوئی کاش اس گلی میں ہم کو اک تکیہ بنا دیوے

ہوئے برسوں کہ وہ ظالم رہے ہے مجھ پہ کچھ ٹیڑھا

کوئی اس تیغ برکف کو گلے میرے ملا دیوے

وفا کی مزد میں ہم پر جفا و جور کیا کہیے

کسو سے دل لگے اس کا تو وہ اس کی جزا دیوے

کہیں کچھ تو برا مانو بھلا انصاف تو کریے

بدی کو بھی نہایت ہے تمھیں نیکی خدا دیوے

۷۵۷۵

صنوبر آدمی ہو تو سراپا بار دل لاوے

کہاں سے کوئی تازہ دل اسے ہر روز لا دیوے

بہت گمراہ ہے وہ شوخ لگتا ہے کہے کس کے

کوئی کیا راہ کی بات اس جفاجو کو بتا دیوے

جگر سب جل گیا لیکن زباں ہلتی نہیں اپنی

مباد اس آتشیں خو کو مخالف کچھ لگا دیوے

کوئی بھی میرؔ سے دل ریش سے یوں دور پھرتا ہے

ٹک اس درویش سے مل چل کہ تجھ کو کچھ دعا دیوے

 

(۱۰۰۱)

 

اس شوخ ستمگر کو کیا کوئی بھلا چاہے

جو چاہنے والے کا ہر طور برا چاہے

۷۵۸۰

کعبے گئے کیا کوئی مقصد کو پہنچتا ہے

کیا سعی سے ہوتا ہے جب تک نہ خدا چاہے

سو رنگ کی جب خوبی پاتے ہو اسی گل میں

پھر اس سے کوئی اس بن کچھ چاہے تو کیا چاہے

ہم عجز سے پہنچے ہیں مقصود کی منزل کو

گہ خاک میں مل جاوے جو اس سے ملا چاہے

ہوسکتی ہیں سد رہ پلکیں کہیں رونے کی

تنکوں سے رکے ہے کب دریا جو بہا چاہے

جب تو نے زباں چھوڑی تب کاہے کا صرفہ ہے

بے صرفہ کہے کیوں نہ جو کچھ کہ کہا چاہے

۷۵۸۵

دل جاوے ہے جوں رو کے شبنم نے کہا گل سے

اب ہم تو چلے یاں سے رہ تو جو رہا چاہے

خط رسم زمانہ تھی ہم نے بھی لکھا اس کو

تہ دل کی لکھے کیونکر عاشق جو لکھا چاہے

رنگ گل و بوئے گل ہوتے ہیں ہوا دونوں

کیا قافلہ جاتا ہے جو تو بھی چلا چاہے

ہم میرؔ ترا مرنا کیا چاہتے تھے لیکن

رہتا ہے ہوئے بن کب جو کچھ کہ ہوا چاہے

 

(۱۰۰۲)

 

دوری میں اس کی گور کنارے ہم آ رہے

جی رات دن جنھوں کے کھپیں ان میں کیا رہے

۷۵۹۰

اس آفتاب حسن کے ہم داغ شرم ہیں

ایسے ظہور پر بھی وہ منھ کو چھپا رہے

اب جس کے حسن خلق پہ بھولے پھریں ہیں لوگ

اس بے وفا سے ہم بھی بہت آشنا رہے

مجروح ہم ہوئے تو نمک پاشیاں رہیں

ایسی معاش ہووے جہاں کیا مزہ رہے

مرغان باغ سے نہ ہوئی میری دم کشی

نالے کو سن کے وقت سحر دم ہی کھا رہے

چھاتی رکی رہے ہے جو کرتے نہیں ہیں آہ

یاں لطف تب تلک ہی ہے جب تک ہوا رہے

۷۵۹۵

کشتے ہیں ہم تو ذوق شہیدان عشق کے

تیغ ستم کو دیر گلے سے لگا رہے

گاہے کراہتا ہے گہے چپ ہے گاہ سست

ممکن نہیں مریض محبت بھلا رہے

آتے کبھو جو واں سے تو یاں رہتے تھے اداس

آخر کو میرؔ اس کی گلی ہی میں جا رہے

 

(۱۰۰۳)

یک عمر دیدہ ہائے ستم دیدہ تر رہے

آخر کو پھوٹ پھوٹ بہے قہر کر رہے

ہم نے بھی نذر کی ہے پھریں گے چمن کے گرد

آنے تئیں بہار کے گر بال و پر رہے

۷۶۰۰

کیا کہیے تیرے واسطے  اے مایۂ حیات

کیا کیا عزیز اپنے تئیں مار مر رہے

مرتے بھی اپنے ہائے وہ حاضر نہ ہوسکا

ہم اشتیاق کش تو بہت محتضر رہے

مرغان باغ رہتے ہیں اب گھیرے یوں مجھے

ماتم زدوں کے حلقے میں جوں نوحہ گر رہے

آغوش اس سے خالی رہی شب تو تا سحر

جیب و کنار گریۂ خونیں سے بھر رہے

نقش قدم کے طور ترے ہم ہیں پائمال

غالب ہے یہ کہ دیر ہمارا اثر رہے

۷۶۰۵

اب صبر و ہوش و عقل کی میرے یہ ہے معاش

جوں قافلہ لٹا کہیں آ کر اتر رہے

لاکھوں ہمارے دیکھتے گھر بار سے گئے

کس خانماں خراب کے وے جا کے گھر رہے

آتا کبھو تو ناز سے دکھلائی دے بھی جا

دروازے ہی کی اور کہاں تک نظر رہے

رکھنا تمھارے پاؤں کا کھوتا ہے سر سے ہوش

یہ چال ہے تو اپنی کسے پھر خبر رہے

کیا بد بلا ہے لاگ بھی دل کی کہ میرؔ جی

دامن سوار لڑکوں کے ہو کر نفر رہے

۷۶۱۰

 

(۱۰۰۴)

یاں ہم برائے بیت جو بے خانماں رہے

سو یوں رہے کہ جیسے کوئی میہماں رہے

تھا ملک جن کے زیر نگیں صاف مٹ گئے

تم اس خیال میں ہو کہ نام و نشاں رہے

آنسو چلے ہی آنے لگے منھ پہ متصل

کیا کیجے اب کہ راز محبت نہاں رہے

ہم جب نظر پڑیں تو وہ ابرو کو خم کرے

تیغ اپنے اس کے کب تئیں یوں درمیاں رہے

کوئی بھی اپنے سر کو کٹاتا ہے یوں ولے

جوں شمع کیا کروں جو نہ میری زباں رہے

۷۶۱۵

یہ دونوں چشمے خون سے بھر دوں تو خوب ہے

سیلاب میری آنکھوں سے کب تک رواں رہے

دیکھیں تو مصر حسن میں کیا خواریاں کھنچیں

اب تک تو ہم عزیز رہے ہیں جہاں رہے

مقصود گم کیا ہے تب ایسا ہے اضطراب

چکر میں ورنہ کاہے کو یوں آسماں رہے

کیا اپنی ان کی تم سے بیاں کیجیے معاش

کیں مدتوں رکھا جو تنک مہرباں رہے

گہ شام اس کے مو سے ہے گہ رو سے اس کے صبح

تم چاہو ہو کہ ایک سا ہی یاں سماں رہے

۷۶۲۰

کیا نذر تیغ عشق سرِتیر میں کیا

اس معرکے میں کھیت بہت خستہ جاں رہے

اس تنگنائے دہر میں تنگی نفس نے کی

جوں صبح ایک دم ہی رہے ہم جو یاں رہے

اک قافلے سے گرد ہماری نہ ٹک اٹھی

حیرت ہے میرؔ اپنے تئیں ہم کہاں رہے

 

(۱۰۰۵)

ایک سمیں تم ہم فقرا سے اکثر صحبت رکھتے تھے

اور نہ تھی توفیق تمھیں تو بوسے کی ہمت رکھتے تھے

آگے خط سے دماغ تمھارا عرش پہ تھا ہو وے ہی تم

پاؤں زمیں پر رکھتے تھے تو خدا پر منت رکھتے تھے

۷۶۲۵

اب تو ہم ہو چکتے ہیں ٹک تیرے ابرو خم ہوتے

کیا کیا رنج اٹھاتے تھے جب جی میں طاقت رکھتے تھے

چاہ کے سارے دیوانے پر آپ سے اکثر بیگانے

عاشق اس کے سیر کیے ہم سب سے جدی مت رکھتے تھے

ہم تو سزائے تیغ ہی تھے پر ظلم بے حد کیا معنی

اور بھی تجھ سے آگے ظالم اچھی صورت رکھتے تھے

آج غزال اک رہبر ہو کر لایا تربت مجنوں پر

قصد زیارت رکھتے تھے ہم جب سے وحشت رکھتے تھے

کس دن ہم نے سر نہ چڑھا کر ساغر مے کو نوش کیا

دور میں اپنے دختر رز کی ہم اک حرمت رکھتے تھے

۷۶۳۰

کوہکن و مجنون و وامق کس کس کے لیں نام غرض

جی ہی سے جاتے آگے سنے وے لوگ جو الفت رکھتے تھے

چشم جہاں تک جاتی تھی گل دیکھتے تھے ہم سرخ و زرد

پھول چمن کے کس کے منھ سے ایسی خجلت رکھتے تھے

کام کرے کیا سعی و کوشش مطلب یاں ناپیدا تھا

دست و پا بہتیرے مارے جب تک قدرت رکھتے تھے

چتون کے کب ڈھب تھے ایسے چشمک کے تھے کب یہ ڈول

ہائے رے وے دن جن روزوں تم کچھ بھی مروت رکھتے تھے

لعل سے جب دل تھے یہ ہمارے مرجاں سے تھے اشک چشم

کیا کیا کچھ پاس اپنے ہم بھی عشق کی دولت رکھتے تھے

۷۶۳۵

کل کہتے ہیں اس بستی میں میرؔ جی مشتاقانہ موئے

تجھ سے کیا ہی جان کے دشمن وے بھی محبت رکھتے تھے

 

(۱۰۰۶)

مجنوں و کوہکن کو آزار ایسے ہی تھے

یہ جان سے گئے سب بیمار ایسے ہی تھے

شمس و قمر کے دیکھے جی اس میں جا رہے ہے

اس دل فروز کے بھی رخسار ایسے ہی تھے

دامن کے پاٹ سارے تختے ہوئے چمن کے

بس  اے سرشک خونیں درکار ایسے ہی تھے

لوہو نہ کیوں رلائے ان کا گداز ہونا

یہ دل جگر ہمارے غم خوار ایسے ہی تھے

۷۶۴۰

ہر دم جراحت آسا کب رہتے تھے ٹپکتے

یہ دیدۂ نمیں کیا خوں بار ایسے ہی تھے

آزار دہ دلوں کا جیسا کہ تو ہے ظالم

اگلے زمانے میں بھی کیا یار ایسے ہی تھے

ہو جائے کیوں نہ دوزخ باغ زمانہ ہم پر

ہم بے حقیقتوں کے کردار ایسے ہی تھے

دیوار سے پٹک سر میں جو موا تو بولا

کچھ اس ستم زدہ کے آثار ایسے ہی تھے

اک حرف کا بھی ان کو دفتر ہے کر دکھانا

کیا کہیے میرؔ جی کے بستار ایسے ہی تھے

۷۶۴۵

(۱۰۰۷)

اب ہم فقیر جی سے دل کو اٹھا کے بیٹھے

اس خصم جاں کے در پر تکیہ بنا کے بیٹھے

مرتے ہوئے بھی ہم کو صورت نہ آ دکھائی

وقت اخیر اچھا منھ کو چھپا کے بیٹھے

عزلت نشیں ہوئے جب دل داغ ہو گیا تب

یعنی کہ عاشقی میں ہم گھر جلا کے بیٹھے

جو کفر جانتے تھے عشق بتاں کو وہ ہی

مسجد کے آگے آخر قشقہ لگا کے بیٹھے

شور متاع خوبی اس شوخ کا بلا تھا

بازاری سب دکانیں اپنی بڑھا کے بیٹھے

۷۶۵۰

کیا اپنی اور اس کی اب نقل کریے صحبت

مجلس سے اٹھ گیا وہ ٹک ہم جو آ کے بیٹھے

کیا جانے تیغ اس کی کب ہو بلند عاشق

یوں چاہیے کہ سر کو ہر دم جھکا کے بیٹھے

ق

پھولوں کی سیج پر سے جو بے دماغ اٹھے

مسند پہ ناز کی جو تیوری چڑھا کے بیٹھے

کیا غم اسے زمیں پر بے برگ و ساز کوئی

خار و خسک ہی کیوں نہ برسوں بچھا کے بیٹھے

وادی قیس سے پھر آئے نہ میرؔ صاحب

مرشد کے ڈھیر پر وے شاید کہ جا کے بیٹھے

۷۶۵۵

(۱۰۰۸)

 

ہے جنبش لب مشکل جب آن کے وہ بیٹھے

جو چاہیں سو یوں کہہ لیں لوگ اپنی جگہ بیٹھے

جی ڈوب گئے اپنے اندوہ کے دریا میں

وے جوش کہاں اب ہم مدت ہوئی وہ بیٹھے

کیا رنگ میں شوخی ہے اس کے تن نازک کی

پیراہن اگر پہنے تو اس پہ بھی تہ بیٹھے

سر گل نے اٹھایا تھا اس باغ میں سو دیکھا

کیا ناز سے یاں کوئی کج کر کے کلہ بیٹھے

مرتے ہوئے پر چاہت ظاہر نہ کی اگلوں نے

بے حوصلہ تھے ہم جو اس راز کو کہہ بیٹھے

۷۶۶۰

کیا جانے کہ ایدھر کا کب قصد کرے گا وہ

پامال ہوئے ہم تو اس سے سررہ بیٹھے

جو ہاتھ چڑھا اس کے دل خوں ہی کیا اس کا

اس پنجۂ رنگیں کی  اے میرؔ نہ گہ بیٹھے

 

(۱۰۰۹)

 

اب سمجھ آئی مرتبہ سمجھے

گم کیا خود کے تیں خدا سمجھے

اس قدر جی میں ہے دغا اس کے

کہ دعا کریے تو دغا سمجھے

کچھ سمجھتے نہیں ہمارا حال

تم سے بھی  اے بتاں خدا سمجھے

۷۶۶۵

غلط اپنا کہ اس جفا جو کو

سادگی سے ہم آشنا سمجھے

نکتہ داں بھی خدا نے تم کو کیا

پر ہمارا نہ مدعا سمجھے

لکھے دفتر کتابیں کیں تصنیف

پر نہ طالع کا ہم لکھا سمجھے

میرؔ صاحب کا ہر سخن ہے رمز

بے حقیقت ہے شیخ کیا سمجھے

 

(۱۰۱۰)

 

اب اپنے قد راست کو خم دیکھتے ہیں ہائے

ہستی کے تئیں ہوتے عدم دیکھتے ہیں ہائے

۷۶۷۰

سنتے تھے کہ جاتی ہے ترے دیکھنے سے جاں

اب جان چلی جاتی ہے ہم دیکھتے ہیں ہائے

کیا روتے ہیں یاران گذشتہ کے لیے ہم

جب راہ میں کچھ نقش قدم دیکھتے ہیں ہائے

کچھ عشق کی آتش کی لپٹ پہنچی ہمیں زور

سب تن بدن اپنے کو بھسم دیکھتے ہیں ہائے

دل چاک ہے جاں داغ جگر خوں ہے ہمارا

ان آنکھوں سے انواع ستم دیکھتے ہیں ہائے

مایوس نہ کس طور جہاں سے رہیں ہم میرؔ

اب تاب بہت جان میں کم دیکھتے ہیں ہائے

۷۶۷۵

(۱۰۱۱)

 

جاگنا تھا ہم کو سو بیدار ہوتے رہ گئے

کارواں جاتا رہا ہم ہائے سوتے رہ گئے

بوئے گل پیش از سحر گلزار سے رخصت ہوئی

ہم ستم کش روبرو اس کے تو سوتے رہ گئے

جی دیے بن وہ در مقصود کب پایا گیا

بے جگر تھے میرؔ صاحب جان کھوتے رہ گئے

 

(۱۰۱۲)

 

گل گئے بوٹے گئے گلشن ہوئے برہم گئے

کیسے کیسے ہائے اپنے دیکھتے موسم گئے

ہنستے رہتے تھے جو اس گلزار میں شام و سحر

دیدۂ تر ساتھ لے وے لوگ جوں شبنم گئے

۷۶۸۰

گر ہوا اس باغ کی ہے یہ تو  اے بلبل نہ پھول

کوئی دن میں دیکھیو واں وے گئے یاں ہم گئے

کیا کم اس خورشید رو کی جستجو یاروں نے کی

لوہو روتے جوں شفق پورب گئے پچھم گئے

جی گیا یاں بے دماغی سے انھوں کی اور واں

نے جبیں سے چیں گئی نے ابروؤں سے خم گئے

شاید اب ٹکڑوں نے دل کے قصد آنکھوں کا کیا

کچھ سبب تو ہے جو آنسو آتے آتے تھم گئے

گرچہ ہستی سے عدم تک اک مسافت تھی بعید

پر اٹھے جو ہم یہاں سے واں تلک اک دم گئے

۷۶۸۵

کیا معاش اس غم کدے میں ہم نے دس دن کی بہم

اٹھ کے جس کے ہاں گئے دل کا لیے ماتم گئے

سبزہ و گل خوش نشینی اس چمن کی جن کو تھی

سو بھی تو دیکھا گریباں چاک و مژگاں نم گئے

مردم دنیا بھی ہوتے ہیں سمجھ کس مرتبہ

آن بیٹھے ناؤں کو تو یاں نگیں سے جم گئے

ربط صاحب خانہ سے مطلق بہم پہنچا نہ میرؔ

مدتوں سے ہم حرم میں تھے پہ نامحرم گئے

 

(۱۰۱۳)

ہم نہ کہتے تھے رہے گا ہم میں کیا یاں سے گئے

سو ہی بات آئی اٹھے اس پاس سے جاں سے گئے

۷۶۹۰

کیا بخود رہنا ہمارا کچھ رکھے ہے اعتبار

آپ میں آئے کبھو اب ہم تو مہماں سے گئے

جب تلک رہنا بنا دل تنگ غنچے سے رہے

دیکھیے کیا گل کھلے گا اب گلستاں سے گئے

کیا غزالوں ہی کو ہم بن وحشت بسیار ہے

کوہ بھی نالاں رہے جب ہم بیاباں سے گئے

لائی آفت خانقاہ و مسجد اوپر وہ نگاہ

صوفیاں دیں سے گئے سب شیخ ایماں سے گئے

دور کر خط کو کیا چہرہ کتابی ان نے صاف

اب قیامت ہے کہ سارے حرف قرآں سے گئے

۷۶۹۵

جی تو اس کی زلف میں دل کا کل پیچاں میں میرؔ

جا بھی نکلے اس کنے تو ہم پریشاں سے گئے

 

(۱۰۱۴)

دل شتاب اس بزم عشرت سے اٹھایا چاہیے

ایک دن تہ کر بساط ناز جایا چاہیے

یہ قیامت اور جی پر کل گئی پائیز میں

دل خس و خاشاک گلشن سے لگایا چاہیے

خانہ ساز دیں جو ہے واعظ سو یہ خانہ خراب

اینٹ کی خاطر جسے مسجد کو ڈھایا چاہیے

کام کیا بال ہما سے چتر شہ سے کیا غرض

سر پر اک دیوار ہی کا اس کی سایہ چاہیے

۷۷۰۰

اتقا پر خانقہ والے بہت مغرور ہیں

مست ناز ایدھر اسے یک بار لایا چاہیے

کیاریوں ہی میں پڑے رہیے گا سائے کی روش

اپنے ہوتے اب کے موسم گل کا آیا چاہیے

یہ ستم تازہ کہ اپنی ناکسی پر کر نظر

جن سے بگڑا چاہیے ان سے بنایا چاہیے

جی نہیں رہتا ہے ٹک ناچار ہم کو اس کی اور

گرتے پڑتے ضعف میں بھی روز جایا چاہیے

گاہ برقع پوش ہو گہ مو پراگندہ کرو

تم کو ہم سے منھ بہر صورت چھپایا چاہیے

۷۷۰۵

وہ بھی تو ٹک دست و تیغ اپنے کی جانے قدر میرؔ

زخم سارے ایک دن اس کو دکھایا چاہیے

 

(۱۰۱۵)

انکھڑیوں کو اس کی خاطر خواہ کیونکر دیکھیے

سو طرف جب دیکھ لیجے تب ٹک اودھر دیکھیے

گرچہ زردی رنگ کی بھی ہجر ہی سے ہے ولے

منھ مرا دیکھو ہو کیا یہ کوفت جی پر دیکھیے

اب کے گل ہم بے پروں کی اور چشمک زن ہے زور

اور دل اپنا بھی جلتا ہے بہت پر دیکھیے

آتے ہو جب جان یاں آنکھوں میں آ رہتی ہے آہ

دیکھیے ہم کو تو یوں بیمار و مضطر دیکھیے

۷۷۱۰

اشک پر سرخی ابھی سے ہے تو آگے ہم نشیں

رنگ لاوے کیسے کیسے دیدۂ تر دیکھیے

دیر و کعبہ سے بھی ٹک جھپکی نہ چشم شوخ یار

شوق کی افراط سے تا چند گھر گھر دیکھیے

مر رہے یوں صید گہ کی کنج میں تو حسن کیا

عشق جب ہے تب گلے کو زیر خنجر دیکھیے

برسوں گذرے خاک ملتے منھ پر آئینے کے طور

کیا غضب ہے آنکھ اٹھا کر ٹک تو ایدھر دیکھیے

دیدنی ہے وجد کرنا میرؔ کا بازار میں

یہ تماشا بھی کسو دن تو مقرر دیکھیے

۷۷۱۵

(۱۰۱۶)

گرداب وار یار ترے صدقے جایئے

دریا کا پھیر پایئے تیرا نہ پایئے

سر مار مار بیٹھے تلف ہو جے کب تلک

ٹک اٹھ کے اب نصیبوں کو بھی آزمائیے

سو شکل سے ہم آئے گئے تیری بزم میں

طنزاً کہا نہ تو نے کبھو یوں کہ آیئے

آئے ہیں تنگ جان سے قید حیات میں

اس بند سے ہمارے تئیں اب چھڑائیے

کہنے لگا کہ ٹیڑھے بہت ہو رہے ہو تم

دو چار سیدھی سیدھی تمھیں بھی سنایئے

۷۷۲۰

ہے عزم جزم ترک و تجرد کا گر بنے

کیا اس جہان سفلہ سے دل کو لگایئے

تاثیر ہے دعا کو فقیروں کی میرؔجی

ٹک آپ بھی ہمارے لیے ہاتھ اٹھایئے

 

(۱۰۱۷)

ٹک ٹھہرنے دے تجھے شوخی تو کچھ ٹھہرایئے

پیکر نازک کو تیرے کیونکے بر میں لایئے

ساکن دیر و حرم دونوں تلاشی ہیں ترے

تو خدا جانے کہاں ہے کیونکے تجھ کو پایئے

دور ہی سے ہوش کھو دیتی ہے اس کی بوئے خوش

آپ میں رہیے تو اس کے پاس بھی ٹک جایئے

۷۷۲۵

ان دنوں رنگ اور کچھ ہے اس دل پرخون کا

حق میں میرے آپ ہی کچھ سوچ کر فرمایئے

جی ہی کھپ جاتا ہے طنز آمیز ایسے لطف سے

ہنس کے جب کہتا ہے سب میں آیئے جی آئیے

دل کے ویراں کرنے میں بیداد کی ہے تو نے ہائے

خوش عمارت ایسے گھر کو اس طرح سے ڈھایئے

رات دن رخسار اس کے چت چڑھے رہتے ہیں میرؔ

آفتاب و ماہ سے دل کب تلک بہلایئے

 

(۱۰۱۸)

 

پر نہیں جو اڑ کے اس در جایئے

زندگانی حیف ہے مر جایئے

۷۷۳۰

کچھ نہیں تو شعر ہی کی فکر کر

آئے ہیں جو یاں تو کچھ کر جایئے

قصد ہے کعبے کا لیکن سوچ ہے

کیا ہے منھ جو اس کے در پر جایئے

خانماں آباد جو ہے سو خراب

کس کے اٹھ کر شہر میں گھر جایئے

بیم مردن اس قدر یہ کیا ہے میرؔ

عشق کریے اور پھر ڈر جایئے

 

(۱۰۱۹)

 

ان دلبروں کو دیکھ لیا بے وفا ہیں یے

بے دید و بے مروت و ناآشنا ہیں یے

۷۷۳۵

حالانکہ خصم جان ہیں پر دیکھیے جو خوب

ہیں آرزو دلوں کی بھی یہ مدعا ہیں یے

اب حوصلہ کرے ہے ہمارا بھی تنگیاں

جانے بھی دو بتوں کے تئیں کیا خدا ہیں یے

گل پھول اس چمن کے چلو صبح دیکھ لیں

شبنم کے رنگ پھر کوئی دم میں ہوا ہیں یے

کس دل میں خوبرویوں کی خالی نہیں جگہ

مغرور اپنی خوبی کے اوپر بجا ہیں یے

ہرچند ان سے برسوں چھپا ہم ملا کیے

ظاہر ولے نہ ہم پہ ہوا یہ کہ کیا ہیں یے

۷۷۴۰

کیا جانو میرؔ صاحب و قبلہ کے ڈھب کو تم

خوبی مسلم ان کی ولے بدبلا ہیں یے

 

(۱۰۲۰)

 

شوق ہم کو کھپائے جاتا ہے

جان کو کوئی کھائے جاتا ہے

ہر کوئی اس مقام میں دس روز

اپنی نوبت بجائے جاتا ہے

کھل گئی بات تھی سو ایک اک پر

تو وہی منھ چھپائے جاتا ہے

یاں پلیتھن نکل گیا واں غیر

اپنی ٹکّی لگائے جاتا ہے

۷۷۴۵

رویئے کیا دل و جگر کے تئیں

جی بھی یاں پر تو ہائے جاتا ہے

کیا کیا ہے فلک کا میں کہ مجھے

خاک ہی میں ملائے جاتا ہے

تہ جنھیں کچھ ہے ان کے تیں ہر گام

عرق شرم آئے جاتا ہے

جائے عبرت ہے خاکدان جہاں

تو کہاں منھ اٹھائے جاتا ہے

دیکھ سیلاب اس بیاباں کا

کیسا سر کو جھکائے جاتا ہے

۷۷۵۰

وہ تو بگڑے ہے میرؔ سے ہر دم

اپنی سی یہ بنائے جاتا ہے

 

(۱۰۲۱)

 

کبھو میرؔ اس طرف آ کر جو چھاتی کوٹ جاتا ہے

خدا شاہد ہے اپنا تو کلیجا ٹوٹ جاتا ہے

خرابی دل کی کیا انبوہ درد و غم سے پوچھو ہو

وہی حالت ہے جیسے شہر لشکر لوٹ جاتا ہے

شکست اس رنگ آئی بے خودی عشق میں دل پر

نشے میں مست سے جیسے کہ شیشہ پھوٹ جاتا ہے

نہ یوں ہووے کہ اٹھ جاؤں کہ ہے افسوس کی جاگہ

جب ایسا طائر خوش لہجہ پھنس کر چھوٹ جاتا ہے

۷۷۵۵

نہیں کچھ عقل میں آتا کہ دیوانہ سا میرؔ ایدھر

کبھو آتا جو ہے کیدھر کو مارے زوٹ جاتا ہے

 

(۱۰۲۲)

 

چمن کو یاد کر مرغ قفس فریاد کرتا ہے

کوئی ایسا ستم دنیا میں  اے صیاد کرتا ہے

ہوا خانہ خراب آنکھوں کا اشکوں سے تو برجا ہے

رہ سیلاب میں کوئی بھی گھر بنیاد کرتا ہے

ملایا خاک کر دامن سے اشکوں میں ڈبایا پھر

مرے ہاتھوں کی تردستی گریباں یاد کرتا ہے

ابھر  اے نقش شیریں بے ستوں اوپر تماشا کر

کہ کارستانیاں تیرے لیے فرہاد کرتا ہے

۷۷۶۰

(۱۰۲۳)

جب نسیم سحر ادھر جا ہے

ایک سنّاہٹا گذر جا ہے

کیا اس آئینہ رو سے کہیے ہائے

وہ زباں کر کے پھر مکر جا ہے

جب سے سمجھا کہ ہم چلاؤ ہیں

حال پرسی ٹک آ کے کر جا ہے

وہ کھلے بال سووے ہے شاید

رات کو جی مرا بکھر جا ہے

دور اگرچہ گیا ہوں میں جی سے

کب وطن میرے یہ خبر جا ہے

۷۷۶۵

وہ اگر چت چڑھا رہا ایسا

آج کل جی سے مہ اتر جا ہے

جی نہیں میرؔ میں نہ بولو تند

بات کہتے ابھی وہ مر جا ہے

 

(۱۰۲۴)

کچھ بات ہے کہ گل ترے رنگیں دہاں سا ہے

یا رنگ لالہ شوخ ترے رنگ پاں سا ہے

آیا ہے زیر زلف جو رخسار کا وہ سطح

یاں سانجھ کے تئیں بھی سحر کا سماں سا ہے

ہے جی کی لاگ اور کچھ  اے فاختہ ولے

دیکھے نہ کوئی سرو چمن اس جواں سا ہے

۷۷۷۰

کیا جانیے کہ چھاتی جلے ہے کہ داغ دل

اک آگ سی لگی ہے کہیں کچھ دھواں سا ہے

اس کی گلی کی اور تو ہم تیر سے گئے

گو قامت خمیدہ ہمارا کماں سا ہے

جو ہے سو اپنی فکر خروبار میں ہے یاں

سارا جہان راہ میں اک کارواں سا ہے

کعبے کی یہ بزرگی شرف سب بجا ہے لیک

دلکش جو پوچھیے تو کب اس آستاں سا ہے

عاشق کی گور پر بھی کبھو تو چلا کرو

کیا خاک واں رہا ہے یہی کچھ نشاں سا ہے

۷۷۷۵

زور طبیعت اس کا سنیں اشتیاق تھا

آیا نظر جو میرؔ تو کچھ ناتواں سا ہے

 

(۱۰۲۵)

طپش سے رات کی جوں توں کے جی سنبھالا ہے

نہیں ہے دل کوئی دشمن بغل میں پالا ہے

حنا سے یار کا پنجہ نہیں ہے گل کے رنگ

ہمارے ان نے کلیجوں میں ہاتھ ڈالا ہے

گیا ہے پیش لے اعجاز عشق سے فرہاد

وگرنہ خس نے کہیں بھی پہاڑ ٹالا ہے

سنا ہے گریۂ خونیں پہ یہ نہیں دیکھا

لہو کا ہر گھڑی آنکھوں کے آگے نالا ہے

۷۷۸۰

رہے خیال نہ کیوں ایسے ماہ طلعت کا

اندھیرے گھر کا ہمارے وہی اجالا ہے

دلوں کو کہتے ہیں ہوتی ہے راہ آپس میں

طریق عشق بھی عالم سے کچھ نرالا ہے

ہزار بار گھڑی بھر میں میرؔ مرتے ہیں

انھوں نے زندگی کا ڈھب نیا نکالا ہے

 

(۱۰۲۶)

چھاتی جلا کرے ہے سوز دروں بلا ہے

اک آگ سی رہے ہے کیا جانیے کہ کیا ہے

میں اور تو ہیں دونوں مجبورطور اپنے

پیشہ ترا جفا ہے شیوہ مرا وفا ہے

۷۷۸۵

روئے سخن ہے کیدھر اہل جہاں کا یارب

سب متفق ہیں اس پر ہر ایک کا خدا ہے

کچھ بے سبب نہیں ہے خاطر مری پریشاں

دل کا الم جدا ہے غم جان کا جدا ہے

حسن ان بھی معنیوں کا تھا آپھی صورتوں میں

اس مرتبے سے آگے کوئی چلے تو کیا ہے

شادی سے غم جہاں میں دہ چند ہم نے پایا

ہے عید ایک دن تو دس روز یاں دہا ہے

ہے خصم جان عاشق وہ محو ناز لیکن

ہر لمحہ بے ادائی یہ بھی تو اک ادا ہے

۷۷۹۰

ہو جائے یاس جس میں سو عاشقی ہے ورنہ

ہر رنج کو شفا ہے ہر درد کو دوا ہے

نایاب اس گہر کی کیا ہے تلاش آساں

جی ڈوبتا ہے اس کا جو تہ سے آشنا ہے

ق

مشفق ملاذ و قبلہ کعبہ خدا پیمبر

جس خط میں شوق سے میں کیا کیا اسے لکھا ہے

تاثیر عشق دیکھو وہ نامہ واں پہنچ کر

جوں کاغذ ہوائی ہر سو اڑا پھرا ہے

ہے گرچہ طفل مکتب وہ شوخ ابھی تو لیکن

جس سے ملا ہے اس کا استاد ہو ملا ہے

۷۷۹۵

پھرتے ہو میرؔ صاحب سب سے جدے جدے تم

شاید کہیں تمھارا دل ان دنوں لگا ہے

 

(۱۰۲۷)

دل بیتاب آفت ہے بلا ہے

جگر سب کھا گیا اب کیا رہا ہے

ہمارا تو ہے اصل مدعا تو

خدا جانے ترا کیا مدعا ہے

محبت کشتہ ہیں ہم یاں کسو پاس

ہمارے درد کی بھی کچھ دوا ہے

حرم سے دیر اٹھ جانا نہیں عیب

اگر یاں ہے خدا واں بھی خدا ہے

۷۸۰۰

نہیں ملتا سخن اپنا کسو سے

ہماری گفتگو کا ڈھب جدا ہے

کوئی ہے دل کھنچے جاتے ہیں اودھر

فضولی ہے تجسس یہ کہ کیا ہے

مروں میں اس میں یا رہ جاؤں جیتا

یہی شیوہ مرا مہر و وفا ہے

صبا اودھر گل اودھر سرو اودھر

اسی کی باغ میں اب تو ہوا ہے

تماشا کردنی ہے داغ سینہ

یہ پھول اس تختے میں تازہ کھلا ہے

۷۸۰۵

ہزاروں ان نے ایسی کیں ادائیں

قیامت جیسے اک اس کی ادا ہے

جگہ افسوس کی ہے بعد چندے

ابھی تو دل ہمارا بھی بجا ہے

جو چپکے ہوں کہے چپکے ہو کیوں تم

ق

کہو جو کچھ تمھارا مدعا ہے

سخن کریے تو ہووے حرف زن یوں

بس اب منھ موند لے میں نے سنا ہے

ق

کب اس بیگانہ خو کو سمجھے عالم

اگرچہ یار عالم آشنا ہے

۷۸۱۰

نہ عالم میں ہے نے عالم سے باہر

پہ سب عالم سے عالم ہی جدا ہے

لگا میں گرد سر پھرنے تو بولا

تمھارا میرؔ صاحب سرپھرا ہے

 

(۱۰۲۸)

 

شور میرے جنوں کا جس جا ہے

دخل عقل اس مقام میں کیا ہے

دل میں پھرتے ہیں خال و خط و زلف

مجھ کو یک سر ہزار سودا ہے

شور بازار میں ہے یوسفؑ کا

وہ بھی آ نکلے تو تماشا ہے

۷۸۱۵

برچھیوں میں کہیں نہ بٹ جاوے

دل صفوف مژہ میں تنہا ہے

نظر آئے تھے وے حنائی پا

آج تک فتنہ ایک برپا ہے

دل کھنچے جاتے ہیں اسی کی اور

سارے عالم کی وہ تمنا ہے

برسوں رکھا ہے دیدۂ تر پر

پاٹ دامن کا اپنے دریا ہے

ٹک گریباں میں سر کو ڈال کے دیکھ

دل بھی دامن وسیع صحرا ہے

۷۸۲۰

دلکشی اس کے قد کی سی معلوم

سرو بھی اک جوان رعنا ہے

دست و پا گم کیے ہیں تو نے میرؔ

پیری بے طاقتی سے پیدا ہے

 

(۱۰۲۹)

 

کئی برسوں جگر کا ہی لہو اپنا پیا ہے

تب دل کے تئیں خوگر اندوہ کیا ہے

ڈر کیوں نہ محلے میں رہے رونے سے میرے

سیلاب نے اس کوچے میں گھر مول لیا ہے

افسوس ہے نشمردہ قدم تم جو رکھو یاں

اس راہ میں سر یاروں نے ہر گام دیا ہے

۷۸۲۵

کاہش ہے عبث تم کو مرے جینے کی خاطر

بیمار بھلا ایسا کوئی آگے جیا ہے

پلکوں سے رفو ان نے کیا چاک دل میرؔ

کس زخم کو کس نازکی کے ساتھ سیا ہے

 

(۱۰۳۰)

کس غم میں مجھ کو یارب یہ مبتلا کیا ہے

دل ساری رات جیسے کوئی ملا کیا ہے

ان چار دن سے ہوں میں افسردہ کچھ وگرنہ

پھوڑا سا دل بغل میں برسوں جلا کیا ہے

اس گل کی اور اپنا تب منھ کیا ہے میں نے

جب آشنا لبوں سے صلِّ علیٰ کیا ہے

۷۸۳۰

دل داغ کب نہ دیکھا جی بار کب نہ پایا

کیا کیا نہال خواہش پھولا پھلا کیا ہے

تڑپا ہے ایسا ایسا جو غش رہا ہے مجھ کو

دل اک بغل میں جی کا دشمن پلا کیا ہے

کیا خاک میں ہمیں کو ان نے نیا ملایا

ٹیڑھی ہی چال گردوں اکثر چلا کیا ہے

چلتا نہیں ہے دل پر کچھ اس کے بس وگرنہ

عرش آہ عاجزاں سے اکثر ہلا کیا ہے

ہم گو نہ ہوں جہاں میں آخر جہاں تو ہو گا

تو نے بدی تو کی ہے ظالم بھلا کیا ہے

۷۸۳۵

ہے منھ پہ میرؔ کے کیا گرد ملال تازہ

یہ خاک میں ہمیشہ یوں ہی رلا کیا ہے

 

(۱۰۳۱)

باریک وہ کمر ہے ایسی کہ بال کیا ہے

دل ہاتھ جو نہ آوے اس کا خیال کیا ہے

جو بے کلی ہے ایسی چاہت گلوں کی اتنی

کیا جانے ہم صفیرو تو اب کے سال کیا ہے

پہنچا بہم علاقہ  اے عزلتی کسو سے

کرنا معاش اکیلے اتنا کمال کیا ہے

آغاز تو یہ ہے کچھ روتے ہیں خون ہر دم

کیا جانے عاشقی کا یارو مآل کیا ہے

۷۸۴۰

پامال راہ اس کے کیا کیا عزیز دیکھے

آئی نہ جب سمجھ میں گردوں کی چال کیا ہے

وہ سیم تن ہو ننگا تو لطف تن پر اس کے

سوجی گئے تھے صدقے اک جان و مال کیا ہے

سرگرم جلوہ اس کو دیکھے کوئی سو جانے

طرز خرام کیا ہے حسن و جمال کیا ہے

ق

میں بے نوا اڑا تھا بوسے کو ان لبوں کے

ہر دم صدا یہی تھی دے گذرو ٹال کیا ہے

پر چپ ہی لگ گئی جب ان نے کہا کہ کوئی

پوچھو تو شاہ جی سے ان کا سوال کیا ہے

۷۸۴۵

گہ آپ میں نہیں ہو گہ منتظر کہیں ہو

کچھ میرؔجی تمھارا ان روزوں حال کیا ہے

 

(۱۰۳۲)

دل مرا مضطرب نہایت ہے

رنج و حرماں کی یہ بدایت ہے

منھ ادھر کر کبھو نہ وہ سویا

کیا دعا شب کی بے سرایت ہے

اب وہ مہ اور ایک مہ سے ملا

چند در چند یہ حکایت ہے

ہر طرف بحث تجھ سے ہے  اے عشق

شکر تیرا تری شکایت ہے

۷۸۵۰

ایسے رنج و عنا میں اودھر سے

پرسش حال بھی عنایت ہے

دہر کا ہو گلہ کہ شکوۂ چرخ

اس ستمگر ہی سے کنایت ہے

مت مراعات غیر رکھ منظور

میرے حق میں یہی رعایت ہے

عاشق اب بڑھ گئے ہمیں چھانٹو

اس میں سرکار کی کفایت ہے

کب ملے میرؔ ملک داروں سے

وہ گدائے شہ ولایت ہے

۷۸۵۵

(۱۰۳۳)

گرمی سے میری ابر کا ہنگامہ سرد ہے

آنکھیں اگر یہی ہیں تو دریا بھی گرد ہے

مجنوں کو مجھ سے کیا ہے جنوں میں مناسبت

میں شہر بند ہوں وہ بیاباں نورد ہے

کیا جانیے کہ عشق میں خوں ہو گیا کہ داغ

چھاتی میں اب تو دل کی جگہ ایک درد ہے

واصل بحق ہوئے نہ جو ہم جان سے گئے

غیرت ہو کچھ مزاج میں جس کے وہ مرد ہے

ممکن نہیں کہ وصف علیؓ کوئی کر سکے

تفرید کے جریدے میں وہ پہلی فرد ہے

۷۸۶۰

ٹھہرے نہ چرخ نیلی پہ انجم کی چشم شوخ

اس قصر میں لگا جو ہے کیا لاجورد ہے

کس سے جدا ہوئے ہیں کہ ایسے ہیں دردمند

منھ میرؔ جی کا آج نہایت ہی زرد ہے

 

(۱۰۳۴)

جانے میں قتل گہ سے ترا اختیار ہے

پر جانیں جو گئی ہیں سو رہ پر غبار ہے

ہم آپ سے گئے سو الٰہی کہاں گئے

مدت ہوئی کہ اپنا ہمیں انتظار ہے

بس وعدۂ وصال سے کم دے مجھے فریب

آگے ہی مجھ کو تیرا بہت اعتبار ہے

۷۸۶۵

سرتابی اس سے طائر قدسی نہ کر سکے

اس ترک صید بند کا وہ تو شکار ہے

مائل نہیں ہے سرو ہی تنہا تری طرف

گل کو بھی تیرے دیکھنے کا خار خار ہے

پیوند میں زمیں کا ہوا اس گلی میں لیک

یوں بھی کہا نہ ان نے یہ کس کا مزار ہے

کل سرو ناز باغ میں آیا نظر مجھے

میں نے فریب شوق سے جانا کہ یار ہے

اب دیکھ کر قرار کیا کر وصال کا

دل کو بغیر تیرے تنک بھی قرار ہے

۷۸۷۰

مت فکر خانہ سازی میں منعم ہلاک ہو

بنیاد زندگانی کی ناپائدار ہے

کب تک ستم کبھو تو دلاسا بھی دیجیے

بالفرض میرؔ ایسا ہی تقصیروار ہے

 

(۱۰۳۵)

جنوں کا عبث میرے مذکور ہے

جوانی دوانی ہے مشہور ہے

کہو چشم خوں بار کو چشم تم

خدا جانے کب کا یہ ناسور ہے

فلک پر جو مہ ہے تو روشن ہے یہ

کہ منھ سے ترے نسبت دور ہے

۷۸۷۵

گدا شاہ دونوں ہیں دل باختہ

عجب عشق بازی کا دستور ہے

قیامت ہے ہو گا جو رفع حجاب

نہ بے مصلحت یار مستور ہے

ہم اب ناتوانوں کو مرنا ہے صرف

نہیں وہ کہ جینا بھی منظور ہے

ستم میں ہماری قسم ہے تمھیں

کرو صرف جتنا کہ مقدور ہے

نیاز اپنا جس مرتبے میں ہے یاں

اسی مرتبے میں وہ مغرور ہے

۷۸۸۰

ہوا حال بندے کا گو کچھ خراب

خدائی ابھی اس کی معمور ہے

گیا شاید اس شمع رو کا خیال

کہ اب میرؔ کے منھ پہ کچھ نور ہے

 

(۱۰۳۶)

زلف ہی درہم نہیں ابرو بھی پرخم اور ہے

یاں تلف ہوتا ہے عالم واں سو عالم اور ہے

پیٹ لینا سر لیے دل کے شروع عشق تھا

سینہ کوبی متصل ہے اب یہ ماتم اور ہے

جوں کف دریا کو دریا سے ہے نسبت دور کی

ابر بھی ووں اور کچھ ہے دیدۂ نم اور ہے

۷۸۸۵

رہتے رہتے منتظر آنکھوں میں جی آیا ندان

دم غنیمت جان اب مہلت کوئی دم اور ہے

جی تو جانے کا ہمیں اندوہ ہی ہے لیک میرؔ

حشر کو اٹھنا پڑے گا پھر یہ اک غم اور ہے

 

(۱۰۳۷)

رشتہ کیا ٹھہرے گا یہ جیسے کہ مو نازک ہے

چاک دل پلکوں سے مت سی کہ رفو نازک ہے

شاخ گل کاہے کو اس لطف سے لچکے ہے کہیں

لاگ والا کوئی دیکھے تجھے تو نازک ہے

چشم انصاف سے برقع کو اٹھا دیکھو اسے

گل کے منھ سے تو کئی پردہ وہ رو نازک ہے

۷۸۹۰

لطف کیا دیوے تمھیں نقش حصیر درویش

بوریا پوشوں سے پوچھو یہ اتو نازک ہے

بیڑے کھاتا ہے تو آتا ہے نظر پان کا رنگ

کس قدر ہائے رے وہ جلد گلو نازک ہے

گل سمجھ کر نہ کہیں بے کلی کرنے لگیو

بلبل اس لالۂ خوش رنگ کی خو نازک ہے

رکھے تا چند خیال اس سرپرشور کا میرؔ

دل تو کانپا ہی کرے ہے کہ سبو نازک ہے

 

(۱۰۳۸)

مستی میں جا و بے جا مد نظر کہاں ہے

بے خود ہیں اس کی آنکھیں ان کو خبر کہاں ہے

۷۸۹۵

شب چند روز سے میں دیکھا نہیں وہ چہرہ

کچھ سوچ کر منجم بارے قمر کہاں ہے

سیمیں تنوں کا ملنا چاہے ہے کچھ تمول

شاہدپرستیوں کا ہم پاس زر کہاں ہے

جوں آرسی کرے ہے منھ دیکھنے کی باتیں

دل کی توجہ اس کی ہمدم ادھر کہاں ہے

پانی ہو بہ گئے سب اجزا بدن کے لیکن

یوں بھی کہا نہ ان نے وہ چشم تر کہاں ہے

خضر و مسیح سب کو جیتے ہی موت آئی

اور اس مرض کا کوئی اب چارہ گر کہاں ہے

۷۹۰۰

لے اس سرے سے یارو اجڑی ہے اس سرے تک

اقلیم عاشقی میں آباد گھر کہاں ہے

اٹھنے کی اک ہوس ہے ہم کو قفس سے ورنہ

شائستۂ پریدن بازو میں پر کہاں ہے

پیرانہ سر چلے ہیں اٹھ کر گلی سے اس کی

کیا پیش آوے دیکھیں وقت سفر کہاں ہے

جاتا نہیں اگر وہ مسجد سے میکدے کو

پھر میرؔ جمعہ کی شب دو دو پہر کہاں ہے

 

(۱۰۳۹)

کیا کہیے کلی سا وہ دہن ہے

اس میں بھی جو سوچیے سخن ہے

۷۹۰۵

اس گل کو لگے ہے شاخ گل کب

یہ شاخچہ بندی چمن ہے

وابستگی مجھ سے شیشہ جاں کی

اس سنگ سے ہے کہ دل شکن ہے

کیا سہل گذرتی ہے جنوں سے

تحفہ ہم لوگوں کا چلن ہے

لطف اس کے بدن کا کچھ نہ پوچھو

کیا جانیے جان ہے کہ تن ہے

وے بند قبا کھلے تھے شاید

صد چاک گلوں کا پیرہن ہے

۷۹۱۰

گہ دیر میں ہیں گہے حرم میں

اپنا تو یہی دوانہ پن ہے

ہم کشتۂ عشق ہیں ہمارا

میدان کی خاک ہی کفن ہے

کر میرؔ کے حال پر ترحم

وہ شہر غریب و بے وطن ہے

 

(۱۰۴۰)

 

ہم مست ہو بھی دیکھا آخر مزہ نہیں ہے

ہشیاری کے برابر کوئی نشہ نہیں ہے

شوق وصال ہی میں جی کھپ گیا ہمارا

باآنکہ ایک دم وہ ہم سے جدا نہیں ہے

۷۹۱۵

ہر صبح اٹھ کے تجھ سے مانگوں ہوں میں تجھی کو

تیرے سوائے میرا کچھ مدعا نہیں ہے

زیر فلک رکا ہے اب جی بہت ہمارا

اس بے فضا قفس میں مطلق ہوا نہیں ہے

آنکھیں ہماری دیکھیں لوگوں نے اشک افشاں

اب چاہ کا کسو کی پردہ رہا نہیں ہے

منھ جن نے میرا دیکھا ایک آہ دل سے کھینچی

اس درد عاشقی کی آیا دوا نہیں ہے

تھیں پیش از آشنائی کیا آشنا نگاہیں

اب آشنا ہوئے پر آنکھ آشنا نہیں ہے

۷۹۲۰

کریے جو ابتدا تو تا حشر حال کہیے

عاشق کی گفتگو کو کچھ انتہا نہیں ہے

پردہ ہی ہم نے دیکھا چہرے پہ گاہ و بے گہ

اتنا بھی منھ چھپانا کچھ خوش نما نہیں ہے

میں روؤں تم ہنسو ہو کیا جانو میرؔ صاحب

دل آپ کا کسو سے شاید لگا نہیں ہے

 

(۱۰۴۱)

 

کیا تن نازک ہے جاں کو بھی حسد جس تن پہ ہے

کیا بدن کا رنگ ہے تہ جس کی پیراہن پہ ہے

گرد جب اٹھتی ہے اک حسرت سے رہ جاتے ہیں دیکھ

وحشیان دشت کی آنکھ اس شکار افگن پہ ہے

۷۹۲۵

کثرت پیکاں سے تیرے ہو گئی ہیئت ہی اور

اب شرف دل کو ہمارے پارۂ آہن پہ ہے

کون یوں  اے ترک رعنا زینت فتراک تھا

خوں سے گل کاری عجب اک زین کے دامن پہ ہے

سر اٹھانے کی نہیں ہے ہم کو فرصت عشق میں

ہر دم اک تیغ جفائے تازہ یاں گردن پہ ہے

نوحہ گر کر مجھ کو دکھلایا غم دل نے ندان

شیون اب موقوف یاروں کا مرے شیون پہ ہے

ہو چکا رہنا مرا بستی میں آخر کب تلک

نالۂ شب سے قیامت روز مرد و زن پہ ہے

۷۹۳۰

خرمن گل سے لگیں ہیں دور سے کوڑوں کے ڈھیر

لوہو رونے سے ہمارے رنگ اک گلخن پہ ہے

وے پھری پلکیں الٹ دیتی ہیں صف اک آن میں

اب لڑائی ہند میں سب اس سیہ پلٹن پہ ہے

تو تو کہتا ہے کہ میں نے اس طرف دیکھا نہیں

خون ناحق میرؔ کا یہ کس کی پھر چتون پہ ہے

 

(۱۰۴۲)

 

یہ رات ہجر کی یاں تک تو دکھ دکھاتی ہے

کہ شکل صبح مری سب کو بھول جاتی ہے

طپش کے دم ہی تئیں مجھ سے ہے یہ خوں گرمی

وگرنہ تیغ تری کب گلے لگاتی ہے

۷۹۳۵

ہنسے ہے چاک قفس کھلکھلا کے مجھ اوپر

چمن کی یاد میں جب بے کلی رلاتی ہے

ہوا ہے میرؔ سے روشن کہ کل جبھی ہے شمع

زباں ہلانے میں پروانے کو جلاتی ہے

 

(۱۰۴۳)

نہ گلشن میں چمن پر ان نے بلبل تجھ کو جا دی ہے

سپاس ایزد کے کر جن نے کہ یہ ڈالی نوادی ہے

نہیں ٹک بیٹھنے دیتے تم اپنی بزم میں ہم کو

مروت رسم تھی مدت کی سو تم نے اٹھا دی ہے

رہائی چنگل باز فلک سے مجھ کو مشکل تھی

مری یہ بند چڑیا کی سی مولا نے چھڑا دی ہے

۷۹۴۰

گلی میں اپنی قدغن کر رکھو آنے نہ پاؤں میں

کہیں کیا اور بھی دل کے لگانے کی منادی ہے

طپش سے رنگ اڑا جاوے قلق سے جان گھبراوے

دیا ہے دل الٰہی ہم کو یا کوئی بلا دی ہے

در گلزار پیش از صبح وا  اے باغباں مت کر

اڑا لیتی ہے مٹی بھی صبا اک چور بادی ہے

کوئی صورت نہیں اس گھر سے اب تیرے نکلنے کی

قیامت کی ہے جن نے آرسی تجھ کو دکھا دی ہے

مجھے منظور کیا ہے زلف و خال و خط خوباں سے

خدا نے دیکھنے کی لت سی آنکھوں کو لگا دی ہے

۷۹۴۵

کجی ذہن اس وادی میں گمراہی کی ہے باعث

سلیم الطبع کو تو پاؤں کا ہر نقش ہادی ہے

لگا رہتا ہے سینے ہی سے بیٹھا ہوں کہ سوتا ہوں

غرض چھاتی مری داغ جدائی نے جلا دی ہے

نہ چھوٹا دل میں کچھ اس کے گئے پر غارت غم سے

ہزار  افسوس کیا بستی محبت نے لٹا دی ہے

نہ کٹتی ٹک نہ ہوتی گر فقیری ساتھ الفت کے

ہمیں جب ان نے گالی دی ہے تب ہم نے دعا دی ہے

ہوئی ہے دل کی محویت سے یکساں یاں غم و فرحت

نہ ماتم مرنے کا ہے میرؔ نے جینے کی شادی ہے

۷۹۵۰

(۱۰۴۴)

 

کیا حال بیاں کریے عجب طرح پڑی ہے

وہ طبع تو نازک ہے کہانی یہ بڑی ہے

کیا فکر کروں میں کہ ٹلے آگے سے گردوں

یہ گاڑی مری راہ میں بے ڈول اڑی ہے

ہے چشمک انجم طرف اس مہ کے اشارہ

دیکھو تو مری آنکھ کہاں جا کے لڑی ہے

کیا اپنی شرر ریزی کہیں پلکوں کی صف کی

ہم جانتے ہیں ہم پہ جو یہ باڑھ جھڑی ہے

وے دن گئے جو پہروں لگی رہتی تھیں آنکھیں

اب یاں ہمیں مہلت کوئی پل کوئی گھڑی ہے

۷۹۵۵

ایسا نہ ہوا ہو گا کوئی واقعہ آگے

اک خواہش دل ساتھ مرے جیتی گڑی ہے

کیا نقش میں مجنوں ہی کے تھی رفتگی عشق

لیلیٰ کی بھی تصویر تو حیران کھڑی ہے

جاتے ہیں چلے متصل آنسو جو ہمارے

ہر تار نگہ آنکھوں میں موتی کی لڑی ہے

کھنچتا ہی نہیں ہم سے قد خم شدہ ہرگز

یہ سست کماں ہاتھ پر اب کتنی کڑی ہے

گل کھائے ہیں افراط سے میں عشق میں اس کے

اب ہاتھ مرا دیکھو تو پھولوں کی چھڑی ہے

۷۹۶۰

وہ زلف نہیں منعکس دیدۂ تر میرؔ

اس بحر میں تہ داری سے زنجیر پڑی ہے

 

(۱۰۴۵)

کس فتنہ قد کی ایسی دھوم آنے کی پڑی ہے

ہر شاخ گل چمن میں بھیچک ہوئی کھڑی ہے

واشد ہوئی نہ بلبل اپنی بہار میں بھی

کیا جانیے کہ جی میں یہ کیسی گل جھڑی ہے

نادیدنی دکھاوے کیونکر نہ عشق ہم کو

کس فتنۂ زماں سے آنکھ اپنی جا لڑی ہے

وے دن گئے کہ پہروں کرتے نہ ذکر اس کا

اب نام یار اپنے لب پر گھڑی گھڑی ہے

۷۹۶۵

آتش سی پھک رہی ہے سارے بدن میں میرے

دل میں عجب طرح کی چنگاری آ پڑی ہے

کیا کچھ ہمیں کو اس کی تلوار کھا گئی ہے

ایسی ہی اک جڑی ہے اس نے جہاں جڑی ہے

کیا میرؔ سر جھکاویں ہر کم بغل کے آگے

نام خدا انھوں کی عزت بہت بڑی ہے

 

(۱۰۴۶)

آنکھیں نہیں یاں کھلتیں ایدھر کو نظر بھی ہے

سدھ اپنی نہیں ہم کو کچھ تم کو خبر بھی ہے

گو شکل ہوائی کی سر چرخ تئیں کھینچا

اے آہ شرر افشاں کچھ تجھ میں اثر بھی ہے

۷۹۷۰

اس منزل دلکش کو منزل نہ سمجھیے گا

خاطر میں رہے یاں سے درپیش سفر بھی ہے

مجھ حال شکستہ کی تا چند یہ بے وقری

کچھ کسر میں اب میری  اے شوخ کسر بھی ہے

یہ کیا ہے کہ منھ نوچے نے چاک کرے سینہ

کر عرض جو کچھ تجھ میں  اے میرؔ ہنر بھی ہے

 

(۱۰۴۷)

کوفت سے جان لب پہ آئی ہے

ہم نے کیا چوٹ دل پہ کھائی ہے

لکھتے رقعہ لکھے گئے دفتر

شوق نے بات کیا بڑھائی ہے

۷۹۷۵

آرزو اس بلند و بالا کی

کیا بلا میرے سر پہ لائی ہے

دیدنی ہے شکستگی دل کی

کیا عمارت غموں نے ڈھائی ہے

ہے تصنع کہ لعل ہیں وے لب

یعنی اک بات سی بنائی ہے

دل سے نزدیک اور اتنا دور

کس سے اس کو کچھ آشنائی ہے

بے ستوں کیا ہے کوہکن کیسا

عشق کی زور آزمائی ہے

۷۹۸۰

جس مرض میں کہ جان جاتی ہے

دلبروں ہی کی وہ جدائی ہے

یاں ہوئے خاک سے برابر ہم

واں وہی ناز و خود نمائی ہے

ایسا موتیٰ ہے زندۂ جاوید

رفتۂ یار تھا جب آئی ہے

مرگ مجنوں سے عقل گم ہے میرؔ

کیا دوانے نے موت پائی ہے

 

(۱۰۴۸)

 

اس شوخ سے ہمیں بھی اب یاری ہو گئی ہے

شرم انکھڑیوں میں جس کی عیاری ہو گئی ہے

۷۹۸۵

روتا پھرا ہوں برسوں لوہو چمن چمن میں

کوچے میں اس کے یکسر گل کاری ہو گئی ہے

یک جا اٹک کے رہنا ہے ناتمامی ورنہ

سب میں وہی حقیقت یاں ساری ہو گئی ہے

جب خاک کے برابر ہم کو کیا فلک نے

طبع خشن میں تب کچھ ہمواری ہو گئی ہے

مطلق اثر نہ دیکھا مدت کی آہ و زاری

اب نالہ و فغاں سے بیزاری ہو گئی ہے

اس سے دوچار ہونا آتا نہیں میسر

مرنے میں اس سے ہم کو ناچاری ہو گئی ہے

۷۹۹۰

ہر بار ذکر محشر کیا یار کے در اوپر

ایسی تو یاں قیامت سو باری ہو گئی ہے

انداز شوخی اس کے آتے نہیں سمجھ میں

کچھ اپنی بھی طبیعت یاں عاری ہو گئی ہے

شاہی سے کم نہیں ہے درویشی اپنے ہاں تو

اب عیب کچھ جہاں میں ناداری ہو گئی ہے

ہم کو تو درد دل ہے تم زرد کیوں ہو ایسے

کیا میرؔ جی تمھیں کچھ بیماری ہو گئی ہے

 

(۱۰۴۹)

 

کہاں یاد قیس اب جو دنیا کرے ہے

کبھو قدر داں عشق پیدا کرے ہے

۷۹۹۵

یہ طفلان بازار جی کے ہیں گاہک

وہی جانتا ہے جو سودا کرے ہے

چھپائیں ہوں آنکھیں ہی ان نے تو کہیے

وہ ہر بات کا ہم سے پردہ کرے ہے

جو رونا ہے راتوں کو اپنا یہی تو

کنارہ کوئی دن میں دریا کرے ہے

ٹھسک اس کے چلنے کی دیکھو تو جانو

قیامت ہی ہر گام برپا کرے ہے

مریں شوق پرواز گلشن میں کیوں نہ

اسیروں کی یاں کون پروا کرے ہے

۸۰۰۰

بنی صورتیں کیسی کیسی بگاڑیں

سمجھتے نہیں ہم فلک کیا کرے ہے

خط افشاں کیا خون دل سے تو بولا

بہت اب تو رنگین انشا کرے ہے

ہلاک آپ کو میرؔ مت کر دوانے

کوئی ذی شعور آہ ایسا کرے ہے

 

(۱۰۵۰)

 

کیا پوچھتے ہو عاشق راتوں کو کیا کرے ہے

گاہے بکا کرے ہے گاہے دعا کرے ہے

دانستہ اپنے جی پر کیوں تو جفا کرے ہے

اتنا بھی میرے پیارے کوئی کڑھا کرے ہے

۸۰۰۵

فتنہ سپہر کیا کیا برپا کیا کرے ہے

سو خواب میں کبھو تو مجھ سے ملا کرے ہے

کس ایسے سادہ رو کا حیران حسن ہے یہ

مرآت گاہ بیگہ بھیچک رہا کرے ہے

ہم طور عشق سے تو واقف نہیں ہیں لیکن

سینے میں جیسے کوئی دل کو ملا کرے ہے

کیا کہیے داغ دل ہے ٹکڑے جگر ہے سارا

جانے وہی جو کوئی ظالم وفا کرے ہے

اس بت کی کیا شکایت راہ و روش کی کریے

پردے میں بدسلوکی ہم سے خدا کرے ہے

۸۰۱۰

گرم آ کر ایک دن وہ سینے سے لگ گیا تھا

تب سے ہماری چھاتی ہر شب جلا کرے ہے

کیا چال یہ نکالی ہو کر جوان تم نے

اب جب چلو ہو دل کو ٹھوکر لگا کرے ہے

دشمن ہو یار جیسا درپے ہے خوں کے میرے

ہے دوستی جہاں واں یوں ہی ہوا کرے ہے

سمجھا ہے یہ کہ مجھ کو خواہش ہے زندگی کی

کس ناز سے معالج میری دوا کرے ہے

حالت میں غش کی کس کو خط لکھنے کی ہے فرصت

اب جب نہ تب ادھر کو جی ہی چلا کرے ہے

۸۰۱۵

سرکا ہے جب وہ برقع تب آپ سے گئے ہیں

منھ کھولنے سے اس کے اب جی چھپا کرے ہے

بیٹھے ہے یار آ کر جس جا پہ ایک ساعت

ہنگامۂ قیامت واں سے اٹھا کرے ہے

سوراخ سینہ میرے رکھ ہاتھ بند مت کر

ان روزنوں سے دل ٹک کسب ہوا کرے ہے

کیا جانے کیا تمنا رکھتے ہیں یار سے ہم

اندوہ ایک جی کو اکثر رہا کرے ہے

گل ہی کی اور ہم بھی آنکھیں لگا رکھیں گے

ایک آدھ دن جو موسم اب کے وفا کرے ہے

۸۰۲۰

ق

گہ سرگذشت ان نے فرہاد کی نکالی

مجنوں کا گاہے قصہ بیٹھا کہا کرے ہے

ایک آفت زماں ہے یہ میرؔ عشق پیشہ

پردے میں سارے مطلب اپنے ادا کرے ہے

 

(۱۰۵۱)

 

ربط دل کو اس بت بے مہر کینہ ور سے ہے

کیا کہوں میں آہ مجھ کو کام کس پتھر سے ہے

کس کو کہتے ہیں نہیں میں جانتا اسلام و کفر

دیر ہو یا کعبہ مطلب مجھ کو تیرے در سے ہے

کیوں نہ  اے سید پسر دل کھینچے یہ موئے دراز

اصل زلفوں کی تری گیسوئے پیغمبرؐ سے ہے

۸۰۲۵

کاغذ ابری پہ درد دل اسے لکھ بھیجیے

وہ بھی تو جانے کہ یاں آشوب چشم تر سے ہے

کیا کہیں دل کچھ کھنچے جاتے ہیں اودھر ہر گھڑی

کام ہم بے طاقتوں کو عشق زورآور سے ہے

رحم بھی دینا تھا تھوڑا ہائے اس خوبی کے ساتھ

تجھ سے کیا کل گفتگو یہ داورمحشر سے ہے

کیا کروں گا اب کے میں بے پر ہوس گلزار کی

لطف گل گشت  اے نسیم صبح بال و پر سے ہے

مرنے کے اسباب پڑتے ہیں بہت عالم میں لیک

رشک اس پر ہے کہ جس کی موت اس خنجر سے ہے

۸۰۳۰

ناز و خشم و بے دماغی اس طرف سے سب ہیں یہ

کچھ کسو بھی طور کی رنجش بھلا ایدھر سے ہے

دیکھ گل کو ٹک کہ ہر یک سر چڑھا لیتا ہے یاں

اس سے پیدا ہے کہ عزت اس چمن میں زر سے ہے

کانپتا ہوں میں تو تیرے ابروؤں کے خم ہوئے

قشعریرہ کیا مجھے تلوار کے کچھ ڈر سے ہے

اشک پے درپے چلے آتے تھے چشم زار سے

ہر نگہ کا تار مانا رشتۂ گوہر سے ہے

بادیے ہی میں پڑا پاتے ہیں جب تب تجھ کو میرؔ

کیا خفا  اے خانماں آباد کچھ تو گھر سے ہے

۸۰۳۵

(۱۰۵۲)

 

کار دل اس مہ تمام سے ہے

کاہش اک روز مجھ کو شام سے ہے

تم نہیں فتنہ ساز سچ صاحب

شہر پرشور اس غلام سے ہے

بوسہ لے کر سرک گیا کل میں

کچھ کہو کام اپنے کام سے ہے

کوئی تجھ سا بھی کاش تجھ کو ملے

مدعا ہم کو انتقام سے ہے

کب وہ مغرور ہم سے مل بیٹھا

ننگ جس کو ہمارے نام سے ہے

۸۰۴۰

خوش سرانجام وے ہی ہیں جن کو

اقتدا اولیں امام سے ہے

شعر میرے ہیں سب خواص پسند

پر مجھے گفتگو عوام سے ہے

شیطنت سے نہیں ہے خالی شیخ

اس کی پیدائش احتلام سے ہے

سر جھکاؤں تو اور ٹیڑھے ہو

کیا تمھیں چڑ مرے سلام سے ہے

سہل ہے میرؔ کا سمجھنا کیا

ہر سخن اس کا اک مقام سے ہے

۸۰۴۵

(۱۰۵۳)

جل گیا دل مگر ایسے جوں بلا نکلے ہے

جیسے لوں چلتی مرے منھ سے ہوا نکلے ہے

لخت دل قطرۂ خوں ٹکڑے جگر ہو ہو کر

کیا کہوں میں کہ مری آنکھوں سے کیا نکلے ہے

میں جو ہر سو لگوں ہوں دیکھنے ہو کر مضطر

آنسو ہر میری نگہ ساتھ گتھا نکلے ہے

پارسائی دھری رہ جائے گی مسجد میں شیخ

جو وہ اس راہ کبھو مستی میں آ نکلے ہے

گو کہ پردہ کرے جوں ماہ شب ابر وہ شوخ

کب چھپا رہتا ہے ہرچند چھپا نکلے ہے

۸۰۵۰

بھیڑیں ٹل جاتی ہیں آگے سے اس ابرو کے ہلے

سینکڑوں میں سے وہ تلوار چلا نکلے ہے

بنتی ہے سامنے اس کے کیے سجدہ ہی ولے

جی سمجھتا ہے جو اس بت میں ادا نکلے ہے

بد کہیں نالہ کشاں ہم ہیں کہ ہم سے ہر روز

شور و ہنگامے کا اک طور نیا نکلے ہے

اجر سے خالی نہیں عشق میں مارے جانا

دے ہے جو سر کوئی کچھ یاں سے بھی پا نکلے ہے

لگ چلی ہے مگر اس گیسوئے عنبر بو سے

ناز کرتی ہوئی اس راہ صبا نکلے ہے

۸۰۵۵

کیا ہے اقبال کہ اس دشمن جاں کے آتے

منھ سے ہر ایک کے سو بار دعا نکلے ہے

سوز سینے کا بھی دلچسپ بلا ہے اپنا

داغ جو نکلے ہے چھاتی سے لگا نکلے ہے

سارے دیکھے ہوئے ہیں دلی کے عطار و طبیب

دل کی بیماری کی کس پاس دوا نکلے ہے

کیا فریبندہ ہے رفتار ہے کینے کی جدا

اور گفتار سے کچھ پیار جدا نکلے ہے

ویسا بے جا نہیں دل میرؔ کا جو رہ نہ سکے

چلتا پھرتا کبھو اس پاس بھی جا نکلے ہے

۸۰۶۰

(۱۰۵۴)

عبرت سے دیکھ جس جا یاں کوئی گھر بنے ہے

پردے میں چشم ڈھکنے دیوار و در بنے ہے

ہیں دل گداز جن کے کچھ چیز مال وے ہیں

ہوتے ہیں ملتفت تو پھر خاک زر بنے ہے

شب جوش غم سے جس دم لگتا ہے دل تڑپنے

ہر زخم سینہ اس دم یک چشم تر بنے ہے

یاں ہر گھڑی ہماری صورت بگڑتی ہے گی

چہرہ ہی واں انھوں کا دو دو پہر بنے ہے

ٹک رک کے صاف طینت نکلے ہے اور کچھ ہو

پانی گرہ جو ہووے تو پھر گہر بنے ہے

۸۰۶۵

ہے شعبدے کے فن میں کیا دست مے کشوں کو

زاہد انھوں میں جا کر آدم سے خر بنے ہے

نکلے ہے صبح بھی یاں صندل ملے جبیں کو

عالم میں کام کس کا بے درد سر بنے ہے

سارے دکھوں کی  اے دل ہو جائے گی تلافی

صحبت ہماری اس کی ٹک بھی اگر بنے ہے

ہر اک سے ڈھب جدا ہے سارے زمانے کا بھی

بنتی ہے جس کسو کی یک طور پر بنے ہے

برسوں لگی رہے ہیں جب مہر و مہ کی آنکھیں

تب کوئی ہم سا صاحب صاحب نظر بنے ہے

۸۰۷۰

یاران دیر و کعبہ دونوں بلا رہے ہیں

اب دیکھیں میرؔ اپنا جانا کدھر بنے ہے

٭٭٭

تشکر: تصنیف حیدر جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید