FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

چُنیدہ

 

حصّہ ششم

 

                مظفرؔ حنفی

 

 

 

 

مجھ کو سیلاب درمیاں سے ہٹائے

ورنہ قبضہ مرے مکاں سے ہٹائے

 

اُس طرف وہ ہے اِس طرف میں ہوں

غم ہی دیوار جسم و جاں سے ہٹائے

 

بادباں کو ہَوا پھلاتی ہے

اور مستول بادباں سے ہٹائے

 

لاکھ پردوں میں ہے وہ پُراسرار

کوئی پردے کہاں کہاں سے ہٹائے

 

زرد سورج لگا ہے کوشش میں

نیلگوں زنگ آسماں سے ہٹائے

 

جس کو مِل جائے آستاں تیرا

کیوں جبیں تیرے آستاں سے ہٹائے

 

عشق نے گرد کر دیے صحرا

بیستوں دستِ ناتواں سے ہٹائے

٭٭٭

 

 

 

 

وہ چاہتا ہے کہ تازہ خبر میں آ جائے

تو شہریار کی اونچی نظر میں آ جائے

 

مرے پڑوس کی سب کھڑکیاں چنی جائیں

ذراسی دھُوپ اگر میرے گھر میں آ جائے

 

ستارے ہوتے ہیں تقدیر پر اثر انداز

کہیں ستارہ نہ میرے اثر میں آ جائے

 

اسی توقّع پہ کرتے رہے شجر کاری

کسی کو یاد ہماری سفر میں آ جائے

 

ارادہ رکھتا ہوں سات آسمان دیکھنے کا

سکت ذراسی مرے بال و پَر میں آ جائے

 

اگر قبول کروں میں کسی کا نذرانہ

تو آبلہ مرے دستِ ہُنر میں آ جائے

 

مری حیات کا سرمایہ ہے غزل گوئی

یہی سلیقہ مجھے عمر بھر میں آ جائے

٭٭٭

 

 

 

 

ہنر مندوں کے ہاتھوں کو دُعا دو چاند اُگ آیا

سنبھالو یہ اُجالا کج نہادو چاند اُگ آیا

 

ستارے گڑھنے والے اپنی آنکھیں لے کے آ جائیں

اُٹھاؤ جام و مِینا شاہزادو چاند اُگ آیا

 

سناہے پارساؤں نے مرادیں مانگ رکھی ہیں

بلا نوشوں کو بھی مژدہ سنادو چاند اُگ آیا

 

بچھانا چاہتے ہیں جال کچھ تاریک سیّارے

ہر اِک دربار میں پرچے لگا دو چاند اُگ آیا

 

نگینے کی طرح ہر سنگریزہ جگمگاتا ہے

چلو وحشت کریں گے گردبادو چاند اُگ آیا

 

اندھیری رات کے دامن پہ سجدے خُوب کرتے ہو

تو پیشانی پہ اے خوش اِعتقادو چاند اُگ آیا

٭٭٭

 

 

غزل کہنے میں اپنے خون کو پانی بھی کرتے ہو

وہاں دربار میں شہ کی ثنا خوانی بھی کرتے ہو

 

ہمیں اس سے زیادہ اور کچھ تم سے نہیں کہنا

خدا کو مانتے ہو اور من مانی بھی کرتے ہو

 

تمھاری چال میں پوشیدہ ہوتی ہیں کئی چا لیں

کہ ہمرازی کرتے ہو نگہبانی بھی کرتے ہو

 

فرشتوں سے یہی اِک وصف انساں میں زیادہ ہے

خرد مند و کبھی بھُولے سے نادانی بھی کرتے ہو

 

تمھارے دم سے رونق ہے مرے دل کے خرابے میں

اسی حربے سے آبادی میں ویرانی بھی کرتے ہو

 

تمھاری یہ ادا ایسی ہے جیسے دھُوپ میں بارش

ہمیں پہچان بھی لیتے ہو انجانی بھی کرتے ہو

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہماری سادگی میں کوئی پرکاری نہیں ہو گی

میاں ہم سے اندھیرے کی طرف داری نہیں ہو گی

 

محبت کے لیے نرمی نہیں ہو گی ترے دل میں

تو ریگستان میں یہ نہر بھی جاری نہیں ہو گی

 

ہمیں بھی تیرنا آتا ہے لیکن سوچنا ہو گا

نہیں ڈُوبے تو دریا کی دلآزاری نہیں ہو گی

 

ترے بیمار کے سینے میں گنجائش ہی کتنی ہے

اِسے دل کے علاوہ کوئی بیماری نہیں ہو گی

 

ہمارے پاؤں میں چھالے بہت ہیں اس لیے ہم پر

گل افشانی نہیں ہو گی گہر باری نہیں ہو گی

 

ہمیشہ سے وہی کہتے ہیں جو محسوس کرتے ہیں

مظفرؔ شاعری میں ہم سے عیّاری نہیں ہو گی

٭٭٭

 

 

 

 

 

خود کو اپنی ہی نظر میں نہیں آنے دیتا

میں کوئی آئِنہ گھر میں نہیں آنے دیتا

 

میرا قاتل بھی عجب ہے کہ پرستاروں کو

قتل کرتا ہے خبر میں نہیں آنے دیتا

 

عقل کہتی ہے کہ دُنیا سے بنائے رکھیے

دل زمانے کے اثر میں نہیں آنے دیتا

 

بے پر و بالی پہ جو طنز کیا کرتا ہے

وہی طاقت مرے پَر میں نہیں آنے دیتا

 

ایک پُل ہے جو کھلا رہتا ہے سب لوگوں پر

اور کچھ زادِ سفر میں نہیں آنے دیتا

 

آج کل کاٹ دِیے جاتے ہیں پھل دار درخت

کوئی پھل اپنے شجر میں نہیں آنے دیتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

بلک رہے ہیں چمن کے اُصول چاروں طرف

دُعا کو ہاتھ اٹھائے ہیں پھول چاروں طرف

 

وہاں بھی ریت میں خطرہ تھا ڈُوب جانے کا

یہاں بھی ناؤ اُڑاتی ہے دھول چاروں طرف

 

دُعائیں سنتا ہے کوئی ضرور کانٹوں کی

نہیں تو کیسے اُگ آئے ببول چاروں طرف

 

ہم احتجاج نہ کرنے پہ خود سے نادم ہیں

تم اِختلاف کو دیتے ہو طول چاروں طرف

 

تمھارے عہد میں کوئی نہیں ہُوا برباد

تو کیوں یہ آہ و بُکا ہے فضول چاروں طرف

 

َجلائے جاتے ہیں گھر رام نام ست کہہ کر

بِزَن بنامِ خدا و رسول چاروں طرف

 

مظفرؔ اس سے تو اپنی خزاں ہی بہتر تھی

بہار میں ہیں پرندے ملول چاروں طرف

٭٭٭

 

 

 

 

 

گزر چکی ہے شبِ غم سمیٹ لو چادر

یہ ہے خزانۂ شبنم سمیٹ لو چادر

 

یہاں تو چھاؤں بھی یکساں نہیں مسافروں کو

کہیں زیادہ کہیں کم، سمیٹ لو چادر

 

اِدھر نگاہ و دِل و ذہن سب تمنّائی

اُدھر تقاضۂ پیہم سمیٹ لو چادر

 

غنیم رحم کے سکّے اُچھالنے سے رہے

اِسے بنائیں گے پرچم سمیٹ لو چادر

 

یہ نیکیاں تو نمائش ہیں باندھ لو گٹھری

بنامِ لغزشِ آدم سمیٹ لو چادر

 

سِتم رسیدوں کی عقدہ کشائی ہوتی ہے

لپیٹ لو صفِ ماتم، سمیٹ لو چادر

٭٭٭

 

 

 

 

 

پھر خزاں کے اثر میں چلا آئے گا

جو پرندہ شجر میں چلا آئے گا

 

اے دلِ مضطرب دن گزرنے تو دے

وہ مری چشمِ تر میں چلا آئے گا

 

دیکھو پانی مسلسل اُلچتے رہو

ورنہ سیلاب گھر میں چلا آئے گا

 

ہاتھ لکھتا ہوں اِک دن ترا ہاتھ بھی

میرے دستِ ہنر میں چلا آئے گا

 

شر کے بارے میں اکثر نہ سوچا کرو

ورنہ ملغوبہ سر میں چلا آئے گا

 

راہ تکتے رہے تو جھلس جاؤ گے

کون اس دوپہر میں چلا آئے گا

٭٭٭

 

 

 

 

 

رات کے ساتھ مِل کر کماتا ہے وہ

آج کل چاند تارے بناتا ہے وہ

 

مُسکراتے ہوئے زخم کھاتے رہو

وار کرتے ہوئے مسکراتا ہے وہ

 

میری خوش فہمیاں اُس کی بے رحمیاں

پاس آتا ہے وہ دَور جاتا ہے وہ

 

اِس طرح اور بڑھ جائے گی تشنگی

پیاس اپنی لہو سے بجھاتا ہے وہ

 

ہاتھ میں ہے بڑا کام تعمیر کا

اب کہاں بستیوں کو جلاتا ہے وہ

 

تلخیاں تو مظفرؔ کی میراث ہیں

شعر میں آنسوؤں کو چھپاتا ہے وہ

٭٭٭

 

 

 

 

 

وفا کی راہ میں مرنا تو ہم بھی جانتے ہیں

ہمارے مسئلے کیا محترم بھی جانتے ہیں

 

عدالتیں اگر اُن کو معاف بھی کر دیں

تو اُن کے نام ہم اہلِ قلم بھی جانتے ہیں

 

ہمیں خوشی سے کوئی دُشمنی نہیں لیکن

غریب لوگ ہیں توقیرِ غم بھی جانتے ہیں

 

خدا کے ساتھ محبت ہے آدمی سے ہمیں

پتہ ہے اہلِ حرم کو، صنم بھی جانتے ہیں

 

ہمارے دَور کے عاشق جنوں پسند نہیں

یہ بے غرض بھی ہیں اور بیش و کم بھی جانتے ہیں

 

وہ دست گیری نہ فرمائیں گے تو سُن رکھّیں

کہ ڈگمگانا ہمارے قدم بھی جانتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

دستہ بگل بجاتا ہوا شان سے گیا

لگتا ہے پھر گلی میں کوئی جان سے گیا

 

سیلاب کس کے حکم سے آیا خبر نہیں

لشکر جہاں پناہ کے فرمان سے گیا

 

بستی میں اِحتجاج کے پرچم نہیں رہے

ایک اور گرد باد بیابان سے گیا

 

تنکے اِدھر پڑے ہیں تو کچھ مشتِ پر اُدھر

وہ چھوڑ کر چمن کو عجب آن سے گیا

 

جانا پڑا سبھی کو سیاست کے حکم پر

اور جو نہیں گیا وہ قلمدان سے گیا

 

نقّاد کے حضور مظفرؔ کی سرکشی

تنقید کی نگاہ میں پہچان سے گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

تیر سب دل میں ہیں سینے پر نہیں

ہم بھی اب آمادہ جینے پر نہیں

 

سب کے سب اِک دوسرے سے بدگماں

شہر کی حالت قرینے پر نہیں

 

پار ہو جانے کے ہیں آثار کچھ

ناخدا اپنے سفینے پر نہیں

 

جن سے ہم رندوں کا جینا ہے عذاب

کوئی بندش ان کے پینے پر نہیں

 

بے ثباتی کے مظاہر عام ہیں

منحصر اِک آبگینے پر نہیں

 

ہو گئے اس کے تبسّم سے نہال

آپ کی نظریں پسینے پر نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

کھپ گئے ریت میں دھارے آ کر

دل میں ارمان تمھارے آ کر

 

وہ نہ آئیں گے تو سوجائیں گے

میری آنکھوں میں ستارے آ کر

 

کوئی کرنوں کے سپیرے سے کہو

کھولے کہرے کے پٹارے آ کر

 

بیچ کھاتے ہیں زمینیں میری

آسمانوں کے دُلارے آ کر

 

بادباں لُنج تھا منجدھاروں میں

پھُول جاتا ہے کنارے آ کر

 

کب سے ہے شعر صدف میں غرقاب

وہ مظفرؔ کو اُبھارے آ کر

٭٭٭

 

 

 

 

ہم بھی غزلیں پیش کریں گے اُس دنیا دیوانی کو

جس نے پہلے دل نوچا ہے پھر چُوما پیشانی کو

 

انسانوں کی سخت کمی ہے جسموں کے ہر جنگل میں

کوئی میری آنکھ سے دیکھے شہروں کی ویرانی کو

 

ڈُوب رہے ہیں کچھ شہزادے ، اُن کو پار لگانا ہے

اپنے پاس ہی رکھیے صاحب اِک دن کی سلطانی کو

 

ہم تقدیر بدل سکتے تھے دل میں اِتنی گرمی تھی

لیکن اپنی قسمت جانا اُن کی ہر من مانی کو

 

پانی نے کل جس خِطّے میں اپنا سب کچھ چھین لیا

اب اس میں ہی ترس رہے ہیں ہم پینے کے پانی کو

 

بچپن میں اِک روز مظفرؔ شعروں سے کھلواڑ کیا

بھوگ رہے ہیں پچپن برسوں سے اپنی نادانی کو

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہرن سے بانکپن جاتا کہاں ہے

مگر بچ کر ہرن جاتا کہاں ہے

 

کہیں سایہ نہیں اُس راستے میں

اُدھر اے گلبدن جاتا کہاں ہے

 

بہاروں کو گزر جانے دے ناداں

ابھی سُوئے چمن جاتا کہاں ہے

 

وہ ہم سے لاکھ رکھّے بدگمانی

ہمارا حسنِ ظن جاتا کہاں ہے

 

مظفرؔ رات میں آندھی کی زد پر

لیے شمعِ سخن جاتا کہاں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

نظر نیچے نہیں کر پائیں گے اُونچائی کے ڈر سے

بلندی پر نہیں جاتے ہم اپنے بھائی کے ڈر سے

 

ہم اہلِ دل ہمیشہ رنج اُٹھاتے ہیں زمانے میں

کبھی نامُوس کی خاطر کبھی رسوائی کے ڈر سے

 

اُدھر بیمار کو خطرہ ، دوا آئے تو جاں بر ہو

یہاں ساری دُکانیں بند ہیں چھنتائی کے ڈر سے

 

مرا گھر بزدلوں کے شہر میں ہے دیکھیے کیا ہو

سبھی خنجر بکف ہیں معرکہ آرائی کے ڈر سے

 

بتائیں کیا تمھیں چہکار اور مہکار کے معنی

کہ تم نے کھڑکیاں کھولی نہیں پروائی کے ڈر سے

 

میں اپنی ذات کو اِک عکس میں تحلیل کرتا ہوں

بسر کرتا ہوں آئینے میں دن تنہائی کے ڈر سے

 

بِنا رکھتا ہے وہ اشعار کی مضمونِ تازہ پر

مظفرؔ کانپتا ہے قافیہ پیمائی کے ڈر سے

٭٭٭

 

 

 

 

گل چھوڑیئے خار تک نہ پہنچا

پرچہ ہی بہار تک نہ پہنچا

 

میں کیا ہوں کہ نالۂ جرس بھی

اس بانکے سوار تک نہ پہنچا

 

ہالہ بھی بنا تو چاند کے گرد

ظلمت کے حصار تک نہ پہنچا

 

وہ گھر سے نکل پڑے تھے لیکن

صحرا میں غبار تک نہ پہنچا

 

چھتری سے ڈرا ہوا کبوتر

بچھڑی ہوئی ڈار تک نہ پہنچا

 

اے پیکِ صبا ہمارا خط بھی

خوشبو کے دیار تک نہ پہنچا

 

ہم قتل ہوئے تو اے مظفرؔ

اِک نامہ نگار تک نہ پہنچا

٭٭٭

 

 

 

 

کیا روتے بیٹھے ہو دل کو ، چھوڑو بھی

اب چونسٹھ کے پیٹے میں ہو چھوڑو بھی

 

سب اپنے کہتے ہیں گردن خم کر لو

دُنیا کو خوش ہو لینے دو ، چھوڑو بھی

 

سچ کہنا اچھا ہے لیکن موقع سے

اپنے چاروں جانب دیکھو ، چھوڑو بھی

 

دُنیا ٹیڑھی ہے تو ٹیڑھی رہنے دو

سر ٹھنڈے پانی سے دھولو چھوڑو بھی

 

پیچھے رہ جاؤ گے ساتھ اصولوں کے

آنے والے دن کی سوچو ، چھوڑو بھی

 

اِس درجہ لَو اُونچی رکھنا ٹھیک نہیں

تیز ہوا کا رخ پہچانو ، چھوڑو بھی

 

کچھ دن اور مظفرؔ یونہی جی لیں گے

اُن کو اپنے حال پہ لوگو ، چھوڑو بھی

٭٭٭

 

 

 

 

کچھ مزا سننے سنانے میں نہیں

یار کا ذکر فسانے میں نہیں

 

تم جو یکتا ہو تو مجھ جیسا بھی

دوسرا کوئی زمانے میں نہیں

 

وہ تو سرتا بہ قدم شعلہ ہے

اس کا ہاتھ آگ لگانے میں نہیں

 

سر اُٹھانے میں جھجک ہے مجھ کو

تم کو تلوار اُٹھانے میں نہیں

 

کیا کوئی عکس نظر آئے گا

وہ اگر آئِنہ خانے میں نہیں

 

چن دیے جائیں گے دیواروں میں

وہ جو دیوار گرانے میں نہیں

 

ہے تو ابہام میں پہلو داری

شعریت سچ کو چھپانے میں نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

تعریف تو خُوب ہو رہی ہے

بس یہ ہے کہ اُوب ہو رہی ہے

 

مغرب سے ہٹائیے نگاہیں

دنیا ہی غروب ہو رہی ہے

 

کل جس میں ہمک رہی تھیں کلیاں

اُس تختے میں دوب ہو رہی ہے

 

دیکھو کوئی سر نہیں اُٹھانا

تسخیرِ قلوب ہو رہی ہے

 

وہ جب سے دَکن میں جابسے ہیں

ہر سمت جنوب ہو رہی ہے

 

تقطیعِ غزل کرو مظفرؔ

سرتاپا عیوب ہو رہی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

رنگ کیوں پھیکا رہا دیکھا جائے

ہاتھ کا دُزدِ حِنا دیکھا جائے

 

دھُوپ کو ہے یہ ندامت کیسی

کیوں سسکتی ہے گھٹا دیکھا جائے

 

طے کیا بجھتی ہوئی شمعوں نے

آج بھی زورِ ہوا دیکھا جائے

 

وہ جو دریا تھا ، سمندر میں غریب

کس لیے ڈُوب گیا، دیکھا جائے

 

صحنِ گلشن میں ، اجازت ہو تو

اے صبا کام ترا دیکھا جائے

 

ابھی کل رات ہوئی تھی بارش

شہر کیوں جلنے لگا دیکھا جائے

 

داغ چہروں پہ اُبھر آتے ہیں

آئِنہ کوئی نیا دیکھا جائے

٭٭٭

 

 

 

 

وہی زخم زخم پہ کندہ ہے دلِ داغدار اسی کا ہے

وہ ہزار دشمنِ جاں سہی مجھے اعتبار اسی کا ہے

 

کہیں توڑ دے نہ تجھے اَنا کہ طلسمِ ذات ہے آئنہ

ترے دل پہ تیری نگاہ پر ابھی اختیار اسی کا ہے

 

وہ نظر نہ آئے تو یُوں کریں کہ ہم ایک دوسرے سے ملیں

مجھے انتظار اسی کا ہے تجھے انتظار اسی کا ہے

 

وہ اسیرِ شہرِ دمشق تھا اُسے اپنے آپ سے عشق تھا

اب اُسے خدا کی تلاش ہے تو ہر اِک دیار اسی کا ہے

 

وہ رَچا ہوا ہے وجود میں وہ چہار سمت نمود میں

وہی دھُند میں ہے چھپا ہوا، چمن اشتہار اسی کا ہے

 

وہ رواں دواں مرے خون میں وہی آگ میرے بطون میں

میری لغزشیں ہی ثبوت ہیں یہ گناہگار اسی کا ہے

 

ہُوا سربلند جو نیزے پر تو جہاں میں پھیل گئی خبر

کہ جو کام آ گیا جنگ میں ، علَم آشکار اسی کا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

یوں مانتا ہے کون کسے کب کہ ہے کوئی

لہجے سے میرے جان گئے سب کہ ہے کوئی

 

تو ہے تو کیوں گلے سے لگاتا نہیں مجھے

ورنہ لہو میں کون ہے یارب کہ ہے کوئی

 

آئینے میں مقیم کوئی دوسرا بھی ہے

اپنے سِوا کوئی نہ مِلا ، جب کہ ہے کوئی

 

دہشت میں چاند اور مرے پاس آ گیا

سیٹی اُدھر بجاتی پھری شب کہ ہے کوئی

 

میں اہلِ اقتدار سے جھک کر نہیں ملا

تسلیم اُن سبھی نے کیا تب کہ ہے کوئی

 

تنگ آ کے خود ہی اپنی مظفرؔ نے کی نفی

محسوس کر رہے ہیں سبھی اب کہ ہے کوئی

٭٭٭

 

 

 

 

چیختا تھا میں کہ میرے بھائی تو نے کیا کیا

باز گشت اپنی پلٹ کر آئی تو نے کیا کیا

 

ہم نہ کہتے تھے کہ وحشت میں توازُن چاہیے

نافہ اپنا آہوئے صحرائی تو نے کیا کیا

 

پھر درو دیوار میرے کر دیے دیوار و دَر

یہ مری بپھری ہوئی تنہائی تو نے کیا کیا

 

کھیت کی مٹّی تو سوندھی ہو گئی، تسلیم شد

جا کے ریگستان میں پُروائی تو نے کیا کیا

 

سر اُٹھا کر کس لیے رقصندہ ہے اے گردباد

ماسِوائے بادیہ پیمائی تو نے کیا کیا

 

یہ بھی کوئی کارنامہ ہے کہ بستی چھوڑ دی

ایسا ویرانے میں اے سودائی تو نے کیا کیا

٭٭٭

 

 

 

 

یہ میرا مہرباں پردے سے نکلا

کہ اِک لشکارا آئینے سے نکلا

 

اُٹھا ر کھے تھے سب نے ہاتھ اُوپر

خزانہ پاؤں کے نیچے سے نکلا

 

جو رہتا تھا ہمیشہ بدَرقے میں

مِرا قاتل اُسی جرگے سے نکلا

 

بہت مغرور ہو نافہ بنا کر

مگر کیا مُشک بھی نافے سے نکلا

 

پھر اِک چھ ماہ کا بے حال بچہ

شہادت کے لیے خیمے سے نکلا

 

کوئی غنچہ کہیں مَسلا گیا ہے

مظفرؔ خون پھر کانٹے سے نکلا

٭٭٭

 

 

 

 

 

کسی کا بین کرتا ہاتھ جب منجدھار سے نکلا

نہ یہ اِس پار سے نکلا نہ وہ اُس پار سے نکلا

 

ہزاروں العطش کہتے ہوئے دوڑے چلے آئے

جہاں بالِشت بھر سایہ مری دیوار سے نکلا

 

فضیلت کی یہ دستاریں ہمیشہ تنگ کرتی ہیں

ہمیشہ دوسرے کا سرتری دستار سے نکلا

 

سمجھتے تھے کہ اطمینان ہے عزلت نشینی میں

زمانہ ہاتھ میں خنجر لیے اخبار سے نکلا

 

مِلی شوریدگی سر کے لیے ، آشفتگی دل کو

بڑا سَودا تمھارے کوچہ و بازار سے نکلا

 

مظفرؔ ظلمتوں سے جب محاذ آرائی ہونی تھی

تو اِک لشکر اُجالے کا مرے اشعار سے نکلا

٭٭٭

 

 

 

 

اُدھر سے مرحبا کہنا نہ آفریں کہنا

یہاں غزل کے سوا اور کچھ نہیں کہنا

 

سمجھ رہے ہیں ، بلاغت سے جن کا رابطہ ہے

ہمارا زہرِ ہلاہل کو انگبیں کہنا

 

ہمارے عہد میں جنت پہ طنز کرنا ہو

تو کاشمیر کو فردوس بر زمیں کہنا

 

ہمارے پاؤں تلے سے کھسک رہی ہے زمیں

ہمیں زمین کو چرخِ بریں نہیں کہنا

 

ہزار ہاتھ بڑھیں جس طرف ، وہ دامن ہے

کسی کے خُون میں تر ہو تو آستیں کہنا

٭٭٭

 

 

 

 

 

میاں کی مدح خوانی ہو رہی ہے

غزل اتنی پرانی ہو رہی ہے

 

اگر اس انجمن پر بار ہیں ہم

یہاں بھی سرگرانی ہو رہی ہے

 

کوئی سِکّہ عمل کا بھی نکالا

ہر اِک نیکی زبانی ہو رہی ہے

 

شہادت کے لیے بے تاب تھے تم

تو اب کیوں آنا کانی ہو رہی ہے

 

کچھ اتنی جھولیاں پھیلی ہوئی ہیں

کہ غیرت پانی پانی ہو رہی ہے

 

ہمارے دَور میں آ کر مظفرؔ

غزل ہندوستانی ہو رہی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

غنچوں سے ، کہکشاں سے ، صدف سے پکارنا

اس کا مجھے چہار طرف سے پکارنا

 

اچھا تو آپ دیکھنا چاہیں گے اصلیت

قاتل کو جاں نثاروں کی صف سے پکارنا

 

گھر جل رہا ہے اور بجھاتا نہیں کوئی

سیلاب کو ہماری طرف سے پکارنا

 

پھر ملکۂ بہار کا مجھ گردباد کو

لہرا کے شاخِ جام بہ کف سے پکارنا

 

ہمّت بڑھا رہا ہے مظفرؔ وہ معجزہ

سچائی کا وہ مشتِ خزف سے پکارنا

٭٭٭

 

 

 

 

اسے شمار کیا جائے سر بلندوں میں

تو ہم شریکِ نہیں ہیں نیازِ مندوں میں

 

قلندروں سے اُلجھتی ہے کیوں دُنی دُنیا

ابھی وہ زور کہاں ہے تری کمندوں میں

 

ہماری آنکھیں سلامت رہیں بہت ہے یہی

کہ ریوڑی تو ہمیشہ بنٹی ہے اندھوں میں

 

شکار گاہ میں کوئی جگہ نہیں باقی

یہاں سبھی ہیں گرفتار اپنے پھندوں میں

 

ہمارے شعروں میں اِمکان ڈالنے والا

نکل ہی آئے گا کوئی خدا کے بندوں میں

 

بدلتی رہتی ہے تیور غزل مظفرؔ کی

میاں کو دھرنہ لیا جائے شرپسندوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

عہدِ حاضر میں ہوئے اہلِ نظر بیکارسب

داغِ دل میرے ، ترا سودائے سر بیکارسب

 

پڑ گئی گلشن میں آ کر ساری اُمّیدوں پہ اوس

شاخِ بے غنچہ ، نہالِ بے ثمر ، بیکارسب

 

یہ جہانِ رنگ و بو بے نور ہے میرے بغیر

اور تیرے بن مرے شام و سحر بیکارسب

 

ہاتھ پھیلے ہیں سبھی اِنعام لینے کے لیے

خواہشوں نے کر دِیے دستِ ہُنر بیکارسب

 

تیرے باطن میں بھی احساسِ تحفّظ ہے تو خیر

ورنہ اُونچے قلعہ کے دیوار و دَر بیکارسب

 

حادثہ ہے سامنے بیساختہ آنا ترا

ایک آندھی تھی کہ میرے مشتِ پر بیکارسب

٭٭٭

 

 

 

 

نیزۂ سفّاک میرے واسطے

ہے مرا ادراک میرے واسطے

 

پھول عبرت ناک میرے واسطے

سب کے دامن چاک میرے واسطے

 

ایک مٹھی خاک میرے واسطے

اور قصّہ پاک میرے واسطے

 

کھنچ لی میں نے زمینوں کی طناب

تن گئے افلاک میرے واسطے

 

سارے اعزازات سے افضل ترین

لہجۂ بے باک میرے واسطے

 

اے مظفرؔ سربسر بجلی ہے وہ

لمس اس کا شاک میرے واسطے

٭٭٭

 

 

 

 

آنسو بغیر حد سے زیادہ نہ غم کرو

دل راکھ ہو نہ جائے ذرا آنچ کم کرو

 

مجبوریوں میں اور قناعت میں فرق ہے

آنکھیں عطا ہوئی ہیں بصیرت بہم کرو

 

ہم نے تمھارے عہد کو تابندہ کر دیا

اس کی سزا میں ہاتھ ہمارے قلم کرو

 

بیجوں کے ساتھ ساتھ پسینہ بھی چاہیے

انکھوے ضرور پھوٹیں گے مِٹّی تو نم کرو

 

غیروں کی داستاں میں اثر کیسے لاؤ گے

کچھ اپنے تجربوں کی حکایت رقم کرو

 

بے کیف ہو رہی ہے مظفرؔ یہ انجمن

تم ہی غزل سُنا کے اِسے تازہ دم کرو

٭٭٭

 

 

 

 

ہمارے سرپہ ہر الزام آیا

لبوں پر کیوں کسی کا نام آیا

 

ّجہنم سے سوا تھی آگ دل کی

غزل کہنا ہمارے کام آیا

 

خدا جانے کہ یہ آزار کیا ہے

تڑپنے میں بہت آرام آیا

 

کہیں بھی جائیں اُن کے راستے میں

وہی اِک شہرِ خوں آشام آیا

 

حفاظت کیجیے اپنے لہو کی

اگر کُوفے سے پھر پیغام آیا

 

ابھی آیا نہیں تھا ہاتھ میں جام

مظفرؔ سامنے انجام آیا

٭٭٭

 

 

 

 

جنُوں کا سیکھ تو لیتے سلیقہ

نہ ہوتی زندگانی بے سلیقہ

 

سلیقہ ہو تو کچھ مشکل نہیں ہے

مگر آتا ہے مشکل سے سلیقہ

 

کھڑے رہتے ہیں آئینے کے آگے

میاں کے پڑ گیا پیچھے سلیقہ

 

وہاں بازار میں کوئی نہیں ہے

کہاں جاتا ہے بن ٹھن کے سلیقہ

 

شجاعت پینترے بازی سے اچھی

ادائیں بعد میں ، پہلے سلیقہ

 

مظفرؔ دیکھنا کل شہر بھر میں

چلے گا لے سلیقہ دے سلیقہ

٭٭٭

 

 

 

 

یہ بازُو توڑ کر آزاد کرنا

اُسے اب آ گیا بیداد کرنا

 

ہمیں بھی یاد کرنا یار جانی

اگر تازہ ستم ایجاد کرنا

 

کوئی سیکھے ہمارے مہرباں سے

بنانے کے لیے برباد کرنا

 

ہماری تو عبادت میں ہے داخل

غزل کہنا کسی کو یاد کرنا

 

اِسی اُمّید پر بیٹھے ہیں چپکے

کبھی ہم سے بھی کچھ ارشاد کرنا

 

ابھی دنیا پہ= حکمرانی

کبھی فرصت میں ہم کو یاد کرنا

 

مظفرؔ وہ بخوبی جانتا ہے

کسے خسرو کسے فرہاد کرنا

٭٭٭

 

 

 

 

لگتا ہے اُتر آئے ہیں گرداب کے اندر

دیکھیں گے کئی خواب اِسی خواب کے اندر

 

صاحب کی نظر میری ہتھیلی پہ نہیں ہے

دھبّے تو نظر آ گئے مہتاب کے اندر

 

شاید مرے خیموں کو عدو لوٹ رہے ہیں

کھنچتی ہیں طنابیں مرے اعصاب کے اندر

 

کچھ یاد نہیں آتا مگر گاہے بہ گاہے

جگنو سا چمک جاتا ہے محراب کے اندر

 

احساس میں شدّت ہے ابھی شعر نہ کہیے

الفاظ پگھل جائیں گے تیزاب کے اندر

 

یہ شوخ نگاروں کا زمانہ ہے مظفرؔ

اور آپ غزل کہتے ہیں آداب کے اندر

٭٭٭

 

 

 

 

مدّاحِ جہاں پناہ بھی وہ

وابستۂ خانقاہ بھی وہ

 

ہم جس پہ فدا ہیں جان و دل سے

کرتا نہیں اِک نگاہ بھی وہ

 

بستی وہ جلا رہا ہے دل کی

اس بستی کا بادشاہ بھی وہ

 

شیطان سے رونقیں جہاں کی

ہے راندۂ بارگاہ بھی وہ

 

غافل نہیں ایک پل کو مجھ سے

رکھتا نہیں رسم و راہ بھی وہ

 

انجام نظر میں ہے مظفرؔ

منصف بھی ہے وہ گواہ بھی وہ

٭٭٭

 

 

 

 

جذبات مرے لفظوں میں اکثر نہیں آتے

سچ کہتے ہیں کُوزے میں سمندر نہیں آتے

 

اُن کے لیے شکرے پہ چلایا تھا کبھی تیر

اُس دن سے کبوتر مری چھت پر نہیں آتے

 

پانی بھی وہاں کم ہے ہَوا بھی ہے وہاں کم

کیوں شہر سے مزدور پلٹ کر نہیں آتے

 

پہرے میں نگہ بانوں کے محفوظ ہے بیری

بیروں کو یہ گھن کھاتا ہے ، پتھر نہیں آتے

 

خوش ہوں کہ مرا حال کسی پر نہیں ظاہر

اچھا ہے کہ احباب مرے گھر نہیں آتے

 

ہم برہنہ پا چلتے ہیں کانٹوں پہ ہمیشہ

دربار میں دستار جما کر نہیں آتے

 

خود کرتے ہیں تخلیق سے معیار مقرر

تنقید کے جھانسے میں مظفرؔ نہیں آتے

٭٭٭

 

 

 

 

پتہ نہیں مرے گھر بار وہ بناتا ہے

کہ اِختلاف کی دیوار وہ بناتا ہے

 

کبھی نگاہوں سے کرتا ہے گدگدی دل میں

اُسی نگاہ سے بیمار وہ بناتا ہے

 

حسین آپ میں لیکن ہم اُس کو پُوجتے ہیں

کہ ہر پَری کو طرح دار وہ بناتا ہے

 

نکالنے نہیں دیتا ہمیں وہ کونپل بھی

درخت اتنے ثمر بار وہ بناتا ہے

 

بگاڑ دیتا ہے کیوں امن و آشتی گھر کی

اُسی سے پوچھیے ، سرکار وہ بناتا ہے

 

کہیں جگہ نہ ملی اُس کو سر چھپانے کی

اگرچہ گنبد و مِینار وہ بناتا ہے

 

مظفرؔ اُس پہ ترس کھا کے ہم سفر جو کیا

تو خود کو قافلہ سالار وہ بناتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

بازار تو دیکھ آئے چھتوں پر نہیں گھومے

تم اپنے سفر ناموں سے باہر نہیں گھومے

 

وہ میری طرف دیکھے تو ہرگز نہیں ممکن

آندھی سی مرے سینے کے بھیتر نہیں گھومے

 

طُوفان اَناڑی ہیں ابھی میری طرح وہ

ٹوٹے ہوئے تختوں پہ سمندر نہیں گھومے

 

سیلاب نے سر آنکھوں پہ رکھّی یہ منادی

بستی میں کوئی سرکو اُٹھا کر نہیں گھومے

 

یہ بُلبُلے صابُن کے مظفرؔ نہ بناؤ

وہ شعر سناؤ کہ مرا سر نہیں گھومے

٭٭٭

 

 

 

 

مت پوچھیے کیا کرتے ، ارے شعر سناتے

آپ آتے تو ہم موتی بھرے شعر سناتے

 

دُنیا نے دِیا کیا ہے ، یہاں عمر بتا دی

سچ بولتے ، سونے سے کھرے شعر سناتے

 

موقع ہی نہیں دیتے ہمیں اہلِ سیاست

اَوروں سے بہت ہٹ کے پرے ، شعر سناتے

 

آواز اُٹھانے پہ اُڑا دیتے تھے گردن

ایسے میں بھی شاعر نہ ڈرے شعر سناتے

 

ماحول نہ راس آئے تو کس طرح مظفرؔ

رنگین غزل کہتے ، ہرے شعر سناتے

٭٭٭

 

 

 

 

ترے سلوک سے ہو کر خفا چلی بھی گئی

شبِ فراق تو اے دل ربا چلی بھی گئی

 

کسی شگوفے کو موقعِ مِلا نہ کھلنے کا

چراغ سارے بجھا کر ہَوا چلی بھی گئی

 

خبر ملی ہمیں پتّوں کی تالیوں سے کہ ہاں

بہار آئی تھی ، مجرا کیا ، چلی بھی گئی

 

تمھاری آنکھیں کبھی وقت پر نہیں کھلتیں

سحر دریچے میں دے کر صدا چلی بھی گئی

 

بُرا لگا کہ مرا دل تھا غم سے ہم آغوش

خوشی بغیر بتائے پتا چلی بھی گئی

 

بھنور میں ہوتے تو ہم شکریہ ادا کرتے

کنارے ڈال کے موجِ بلا چلی بھی گئی

٭٭٭

 

 

 

 

اپنی بے نُوری پہ خشک آنکھوں سے روتا ہے چاند

صبح کے وقت کبھی آپ نے دیکھا ہے چاند

 

اب جہاں لوگ اندھیرے کی لگاتے ہیں قلم

اُسی مِٹّی سے کبھی ہم نے اُگایا ہے چاند

 

غالباً آج مرے گھر میں ستارے برسیں

دل پہ قابو بھی نہیں ، کوٹھے پہ تنہا ہے چاند

 

تیری تصویر بنانے کو یہ ناکافی ہے

اِتنا روشن بھی نہیں اور ادھُورا ہے چاند

 

تو مظفرؔ کے خیالات میں تابندہ ہے

تیرے دامن یہ مرے ہاتھ کا دھبّا ہے چاند

٭٭٭

 

 

 

 

جنگ بھی جیت گیا اور نہ کھایا کوئی زخم

آپ نے اس کے بدن پر کبھی دیکھا کوئی زخم

 

تیرے زخمی تو ہَرے رہتے ہیں سر سے پاتک

اِتنے مرہم تھے کہیں ایک تو بھرتا کوئی زخم

 

پھول جیسا مرے پہلو میں کھلا رہتا ہے

دل کہ اِک زخم ہے ایسا تو نہ ہو گا کوئی زخم

 

میں اندھیرا ہی اندھیرا ہوں منوّر کر دے

دیر سے دَر پہ صدا دیتا ہوں بابا کوئی زخم

 

کل تلک آپ ہی گنتے تھے طرح داروں میں

آج میں رحم کے لائق نہیں ، اچھا کوئی زخم

 

قدر دانوں کو مظفرؔ کی طرف سے تحفے

اس کے ہر شعر سے ہو جائے گا تازا کوئی زخم

٭٭٭

 

 

 

 

ایک منصُوبہ بنانا ہے برائے آسماں

اور کتنے آسماں ہیں ماورائے آسماں

 

چاند تاروں کا سفر دَر پیش تھا رکتا بھی کون

راستے میں تھی تو بوسیدہ سرائے آسماں

 

اب ہمیں پہچانتے ہیں لوگ اُن کے نام سے

جتنا جی چاہے ہمیں رسوا کرائے آسماں

 

اپنی دُنیا بھی کسی آتش کدے سے کم نہیں

پارساؤں کو جہنم سے ڈرائے آسماں

 

ہم کو اپنی ہی زمیں پر چین کی نیند آئے گی

آپ سر پر تان سکتے ہیں پرائے آسماں

 

پاؤں جمتے ہی نہیں کچھ اتنی خستہ ہے زمین

سر اُٹھاتے ہی مظفرؔ چرچرائے آسماں

٭٭٭

 

 

 

 

گدگداتا ہے کیوں ، یار ، گر جائے گی

دیکھ طوفان ! پتوار گر جائے گی

 

چشمِ تر ، چشمِ تر ، دل پہ اب رحم کر

اتنی بارش میں دیوار گر جائے گی

 

اس قدر خاکساری بھی اچھی نہیں

سر اُٹھا ورنہ دستار گر جائے گی

 

یہ لرزتا ہوا ہاتھ مت چھوڑیئے

ورنہ پھر نبضِ بیمار گر جائے گی

 

واقعی جو غریبوں کی ہمدرد ہو

چار دن میں وہ سرکار گر جائے گی

 

عام ہو جائے گی آگہی ایک دن

قدرِ تسبیح و زنّار گر جائے گی

٭٭٭

 

 

 

 

دونوں ہاتھوں سے ہم دل سنبھالے ہوئے

اور تلوار قاتل سنبھالے ہوئے

 

خاکِ پروانہ سے گرد سی انجمن

اِک دِیا رنگِ محفل سنبھالے ہوئے

 

جس طرف جائیے ہم سے پہلے وہاں

کوئی بیٹھا ہے منزل سنبھالے ہوئے

 

ہم چلے ورنہ طوفاں گزر جائے گا

بیٹھیے آپ ساحل سنبھالے ہوئے

 

تیر کیسے نکالے گا حلقُوم سے

تیرا پرچم ہے بسمل سنبھالے ہوئے

 

حوصلہ توڑنے پر تُلی آندھیاں

پَر مظفرؔ بہ مشکل سنبھالے ہوئے

٭٭٭

 

 

 

 

خوش نہیں ہے کوئی بس یہ ہے کہ پردا رہ گیا

وہ بھی آزُردہ ہے کٹ کر، میں بھی تنہا رہ گیا

 

تشنہ لب اپنے سرابوں کی طرف بڑھتے رہے

پتھروں کی اوٹ میں چشمہ اکیلا رہ گیا

 

اس اُفق سے اس اُفق تک دھُوپ میری مملکت

تیرے قبضے میں بس اِک سائے کا ٹکڑا رہ گیا

 

دونوں جانب سے چلے پتھر ، کئی پکڑے گئے

جس پہ ہنگامہ تھا وہ بچہ بلکتا رہ گیا

 

سب عناصر قتل کر کے بھاگنے والوں میں تھے

میری مٹھّی میں ہوا کا ایک جھونکا رہ گیا

 

چاندنی تقسیم کی جائے گی ، دو دن صبر کر

اور اگر اِن دو دِنوں میں چاند آدھا رہ گیا

 

اے مظفرؔ ، لے گئی دریا کو وحشت کھینچ کر

دونوں ہاتھوں سے زمیں پکڑے کنارا رہ گیا

٭٭٭

 

 

 

 

آراستہ تو کیجیے دربارِ آگہی

ہم اہلِ دل نہ ہوں گے گرفتارِ آگہی

 

یُونہی کھنچے کھنچے سے تھے گرداب و گردباد

مجھ کو سمجھ رہے تھے طرف دارِ آگہی

 

ہر فلسفہ غبار اُڑاتا ہے ذہن میں

ایسے میں کون ہو گا طلبگارِ آگہی

 

وحشت نے ہاتھ تھام لیا ٹھیک وقت پر

تلوے میں چبھ گیا تھا مرے خارِ آگہی

 

عظمت کی آرزو ہے نہ انعام کی طلب

خاموش ہوں کہ گرم ہے بازارِ آگہی

 

دُنیا کو جان کر بھی مظفرؔ کریں گے کیا

ہم یوں بھی کون سے ہیں سزا وارِ آگہی

کچھ تو رہے چرخِ بے ستوں کے لیے

٭٭٭

 

 

 

 

 

وہ مجھ میں رہتا ہے مجھ کو مگر نہ آئے نظر

اب اُس کی مرضی ہے آئے نظر نہ آئے نظر

 

ہَوا کے رقص کا انداز ہی کچھ ایسا تھا

کِسی کو دھُنکے ہوئے بال و پَر نہ آئے نظر

 

دُعا بھی مانگی پرندوں نے پھل کترتے ہوئے

کہ یہ درخت کبھی بے ثمر نہ آئے نظر

 

جو چاہتے تھے کسی پر نہ کوئی ظلم کرے

اُنھیں کو نیزوں پہ آویزاں سر نہ آئے نظر

 

وفورِ شوق میں سیلاب کو بلاتے تھے

پھر اس کے بعد وہ دیوار و دَر نہ آئے نظر

 

بِکے ہوئے ہیں مظفرؔ تمام دانشور

سخنوروں میں کوئی معتبر نہ آئے نظر

٭٭٭

 

 

 

 

آئنے میں عکس بھی اپنا نہیں لگتا مجھے

اب کوئی تیرے سوا اچھا نہیں لگتا مجھے

 

ایک دو بوندیں ندامت کے پسینے کی بہت

ڈُوبنے کے واسطے دریا نہیں لگتا مجھے

 

پھڑپھڑاتا ہے مرے سینے میں تیرے نام پر

یہ کبوتر اپنی چھتری کا نہیں لگتا مجھے

 

سادہ دل ہو جائے گا کیسے فرشتوں کی طرح

آدمی اِتنا گیا گزرا نہیں لگتا مجھے

 

اپنی مجبوری کا رونا سب ہی روئیں گے وہاں

مان جائے گا خدا ایسا نہیں لگتا مجھے

 

اے مظفرؔ جس کے بھولے پن پہ تم قربان ہو

اپنی جانب سے تو بے پروا نہیں لگتا مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

پاؤں جمتے نہیں گھومتے چاک پر

اور نظریں مری ہفت افلاک پر

 

اُس لہو رنگ تتلی کی آوارگی

آ گئے داغ پھولوں کی پوشاک پر

 

اب عقیدے میں پہلی سی گرمی کہاں

ہم تو شرمندہ ہیں ایسے اِدراک پر

 

خاکساری پہ مِٹّی کا یہ مرتبہ

آسمانوں نے سجدے کیے خاک پر

 

آخرش ہاتھ گردن تک آ ہی گیا

اور بیعت کرو دستِ سفّاک پر

 

مصلحت کوشیوں سے بھرے دَور میں

کیوں مظفرؔ گئے طرزِ بیباک پر

٭٭٭

 

 

 

 

دُعا بھی مانگی تو آنسو دُعا کے ساتھ نہیں

جڑی ہوئی ہے تمھاری اَنا کے ساتھ نہیں

 

اگرچہ ذرّہ ہوں ، اپنی بساط جانتا ہوں

معاف کیجیے میں بھی ہَوا کے ساتھ نہیں

 

تمام نور کا عالم ہے دشتِ ظلمت میں

چراغ ایک اہم اہلِ وفا کے ساتھ نہیں

 

وہ بیٹھا ہو گا کسی موڑ پر تکان سے چُور

کہ گرد باد مرے نقشِ پا کے ساتھ نہیں

 

اِسی لیے تو سمندر ہیں اُس کے قابو میں

سفر کیے ہیں مگر ناخدا کے ساتھ نہیں

 

چڑھائے پھول ہر اِک دیوتا کے چرنوں پر

اُسے لگاؤ کسی دیوتا کے ساتھ نہیں

 

الگ ہے نشہ نئے راستے نکالنے کا

ہماری جنگ کسی رہنما کے ساتھ نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

دوبارہ سر نہیں دلدل سے مَیں نکالنے کا

سہارا دو کہ یہی وقت ہے سنبھالنے کا

 

تری ہتھیلیاں قِصّہ سنارہی تھیں ابھی

حِنا کے ساتھ ہی تتلی کو پیس ڈالنے کا

 

ہماری ذات پہ گزری ہے جب بھی رات گراں

زیادہ کام کیا ہے سِتارے ڈھالنے کا

 

تمھیں بھی عار نہیں بستیاں جلانے میں

اُنھیں بھی شوق ہے نیزوں پہ سر اُچھالنے کا

 

وہی غلام ترے سینے پر ہے ، کل جس نے

کیا تھا وعدہ مروّت کبھی نہ پالنے کا

 

سکت نہیں ہے بدن میں پلک اُٹھانے کی

اِرادہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا

٭٭٭

 

 

 

 

کہا تھا سراباں میں پانی نہیں

مرے یار نے بات مانی نہیں

 

بزرگوں کو مرغوب ہیں بندشیں

بغاوت نہ کی تو جوانی نہیں

 

مرے سینے پر داغ ہی داغ ہیں

جبیں پر تو کوئی نشانی نہیں

 

ّمحبت کے قِصّے سنا کیجیے

مگر واعظوں کی زبانی نہیں

 

تو مجمع لگانے سے کیا فائدہ

ترے پاس اپنی کہانی نہیں

 

مظفرؔ گلے پڑ گئی شاعری

یہ پیشہ مرا خاندانی نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ظالم سے ٹکّر لینے میں آنا کانی مت کرنا

بیٹے ، گرمی کی شدّت میں پانی پانی مت کرنا

 

یُوں تو پھیلے ہی رہتے ہیں بیعت لینے والے ہاتھ

پھر بھی بیعت کر لینا تُو روگردانی مت کرنا

 

پیلے پتوں کو شاخوں نے یہ سمجھا کر چھوڑا ہے

آندھی کا فرمان آئے تو نافرمانی مت کرنا

 

تم اپنی بجلی کے ٹکڑے چن لو میرے سینے سے

میں آنکھوں سے کہہ دیتا ہوں رت بارانی مت کرنا

 

خود داری کا حد سے بڑھنا یا کم ہونا ٹھیک نہیں

یہ جذبہ نازُک ہوتا ہے کھینچا تانی مت کرنا

 

میں بھی تیر چلا سکتا ہوں تم پر اپنے شعروں کے

آئندہ میرے بارے میں گل افشانی مت کرنا

٭٭٭

 

 

 

 

 

سچ بتانا اے سبک رفتار کیا درکار ہے

توڑنے ہیں پھول یا تازہ ہَوا درکار ہے

 

گھر سے نکلا تھا نہ کوئی چیخ پر مقتول کی

اور بستی میں سبھی کو خوں بہا درکار ہے

 

دشتِ امکان میں تمنّا کے قدم کتنے ہوئے

اے خلا بازو تمھیں کتنی خلا درکار ہے

 

جس جگہ رَوشن کیا ہے آرزو نے اِک چراغ

آندھیوں کو بھی وہیں سے راستہ درکار ہے

 

اُس کو گمنامی کا دُکھ ہے اِس کو شہرت کا غرور

اُس کو چہرہ اور اِس کو آئنہ درکار ہے

 

ہاتھ کانٹوں نے اُٹھا رکھے ہیں پھولوں سے الگ

اے مظفرؔ اُن کو دامن آپ کا درکار ہے

٭٭٭

 

 

 

 

انعام دیا شاہ نے پھر کاٹ دیے ہاتھ

تخلیق مری تشنہ تھی اُگ آئے نئے ہاتھ

 

ہاتھ آتے ہیں کب سطح پہ بہتے ہوئے موتی

خالی ہی نکل آتے ہیں چپّو کے بڑے ہاتھ

 

دل ہی نہیں رَوشن تو تجھے کیا نظر آئے

یہ وادیِ ظلمت ہے مرے ہاتھ میں دے ہاتھ

 

تاویل ہے بے حوصلگی کی یہ قناعت

کیوں آدمی بیٹھا رہے ہاتھوں پہ دھرے ہاتھ

 

سنتے ہیں کہ نیکی ہی کماتا تھا ہمیشہ

اِک روز وہ بازار سے لوٹا تو نہ تھے ہاتھ

 

یہ رات بھی کٹ جائے گی آنکھوں میں مظفرؔ

کہہ لیجیے ایک آدھ غزل اور لگے ہاتھ

٭٭٭

 

 

 

 

تیز ہَوا سے لڑ جاتے ہیں

پیلے پتیّ جھڑ جاتے ہیں

 

زخموں کے اَسرار نہ پوچھو

ٹانکے روز اُدھڑ جاتے ہیں

 

جب کوئی تن کر ملتا ہے

ہم کچھ اور اَکڑ جاتے ہیں

 

دُنیا کا دستور یہی ہے

مِل کر لوگ بچھڑ جاتے ہیں

 

رات نہیں تھی کٹنے والی

لیکن جگنو اَڑ جاتے ہیں

 

ایسی بھی کیا دانش مندی

پردے دل پر پڑ جاتے ہیں

 

غزلیں میری اور مظفرؔ

جھنڈے اُن کے گڑ جاتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

سربلندی پہ ناز بھی نہ کرو

حد سے بڑھ کر نیاز بھی نہ کرو

 

تنگ دستی سے کھنچ لو دامن

اور دامن دراز بھی نہ کرو

 

دشمنی کو نہ دو زیادہ طول

غیر سے ساز باز بھی نہ کرو

 

ترکِ دنیا میں اِک مزا تو ہے

ترکِ دنیا پہ ناز بھی نہ کرو

 

ٹھیک ہے انتشار سے پرہیز

ارتکاز ارتکاز بھی نہ کرو

 

مرحلے اور سخت آئیں گے

دِل کو اتنا گداز بھی نہ کرو

٭٭٭

 

 

 

 

تتلی ہو کہ جگنو ہو ، سُبک آئے سُبک جائے

اے شدّت احساس ، مری سانس نہ رک جائے

 

کچھ یوں ہی چراغاں کا سماں تھا مرے گھر میں

کہتے ہوئے ڈرتا ہوں ، ترا گھر بھی نہ پھنک جائے

 

پھر اپنی تباہی کا سبب عرض کروں گا

گرتے ہوئے جھرنے سے بھی کہہ دیجیے رک جائے

 

اے موت ، بنانے دے ابھی چاند ستارے

جب گرد اُڑائی ہے تو یہ قرض بھی چُک جائے

 

اُگتی ہے نئی راہ مرے نقشِ قدم سے

آندھی ہے تو رک جائے ، بگولا ہے تو جھک جائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

آنکھوں کا جو مرگیا ہے پانی

چہرے سے اُتر گیا ہے پانی

 

اب آئے ہیں مہرباں ہمارے

جب سرسے گزر گیا ہے پانی

 

دُشوار ہوئی ہے تخم ریزی

کھیتوں میں تو بھر گیا ہے پانی

 

پینے کو ترس رہی ہے خلقت

بستی میں جدھر گیا ہے پانی

 

پانی سے نہیں تھی جن کی اُمّید

وہ کام بھی کر گیا ہے پانی

 

گھر اپنا کہاں گیا مظفرؔ

دیکھیں کہ ٹھہر گیا ہے پانی

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہمارے گھر پہ کبھی سائبان پڑتا نہیں

یہ وہ زمیں ہے جہاں آسمان پڑتا نہیں

 

پڑاؤ کرتے چلے راہ میں تو چلنا کیا

سفر ہی کیا ہے اگر ہفت خوان پڑتا نہیں

 

بجھانی ہو گی ہمیں خود ہی اپنے گھر کی آگ

کہیں سے آئے گی اِمداد جان پڑتا نہیں

 

مزے میں ہو جو تمھیں بے زمین رکھّا ہے

کہ فصل اُگاتے نہیں ہو ، لگان پڑتا نہیں

 

عطا خلوص نے کی ہے یقین کی دولت

گمان اُس کے مرے درمیان پڑتا نہیں

 

ہم اِحتجاج کسی رنگ میں نہیں کرتے

ہمارے خون سے کوئی نشان پڑتا نہیں

 

بہتّروں میں اُسے بھی تلاش کر لینا

مباحثے میں مِرا خاندان پڑتا نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

دریا اُتھلے پانی میں کیا کرتے ہیں

تنکے اِس طغیانی میں کیا کرتے ہیں

 

ّپتھر ہیں تو شیش محل پر جائیں نا!

گھاؤ مری پیشانی میں کیا کرتے ہیں

 

تنگی میں وہ سجدے کرتے رہتے تھے

دیکھیں تن آسانی میں کیا کرتے ہیں

 

رہنے دیں ویرانے کو ویرانہ ہی

دیوانے نادانی میں کیا کرتے ہیں

 

سب اچھے لگتے ہیں اپنی کرسی پر

چاند سِتارے پانی میں کیا کرتے ہیں

 

کھلتے ہیں وہ ، حیرانی میں دُنیا ہے

پھُول یہاں ویرانی میں کیا کرتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

کر گئے ہجرت پرندے پھر چلی ٹھنڈی ہوا

ہے شگوفوں کا دمِ آخر چلی ٹھنڈی ہوا

 

آستیں شبنم نے تر کی سبزۂ بیگانہ کی

غنچۂ نورستہ کی خاطر چلی ٹھنڈی ہوا

 

زرد رومال اپنا جھٹکا تھا خزاں نے اُس طرف

گلستاں سے کہہ کے ’جی حاضر‘ چلی ٹھنڈی ہوا

 

دیکھ لینا بیچ ہی میں دھجیاں اُڑ جائیں گی

اِس طرف مسجد اُدھر مندر ، چلی ٹھنڈی ہوا

 

جب خفا تھیں اُس کی یادیں حبس تھا دل میں بہت

پھر گھٹا گھر آئی بالآخر ، چلی ٹھنڈی ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

ہر طرف ریت نہ تھی راہ میں دریا تھے کئی

اس خرابے میں کبھی اپنے شناسا تھے کئی

 

اِس کو دیکھا تو طبیعت نہ بھری دیکھنے سے

جگمگاتا تھا وہی یوں تو ’ستارا‘ تھے کئی

 

آئنہ کہتا تھا دھُندلی ہے بصیرت میری

دِل میں جھانکا تو وہاں عکس ہویدا تھے کئی

 

گرد اُڑانے کا مزا آبلہ پا سے پوچھو

ورنہ بسنے کے لیے شہرِ تمنّا تھے کئی

 

لائقِ دید تھا منظر مری غرقابی کا

کوئی تنکا نہ بنا ، محوِ تماشا تھے کئی

 

وہ جو کھلتے ہی نہ تھے دُزدِ حنا کی مانند

شعر سنتے ہی مرے آگ بگولا تھے کئی

٭٭٭

 

 

 

 

جلوہ بھی اُس کا پردہ ہے ، محرومی ، محرومی

میں نے اُس کو کب دیکھا ہے ، محرومی ، محرومی

 

وہ خوشبو کا چنچل جھونکا میں سُوکھی ڈالی کا پھول

اس کا میرا کیا ناتا ہے ، محرومی ، محرومی

 

چاند نگر میں دھُول اُڑائی تارے تارے پھینکے جال

اب میری جھولی میں کیا ہے ، محرومی ، محرومی

 

فتح و ظفر کے نقاروں میں اپنا پرچم اُڑتا ہے

اندر کتنا سنّاٹا ہے ، محرومی ، محرومی

 

اِک مجمع ہے چاروں جانب ماتم کرنے والوں کا

جو بھی ہے وہ چیخ رہا ہے ، محرومی ، محرومی

 

پیچھے میرے نقشِ کفِ پا جھلمل جھلمل کرتے ہیں

لیکن آگے کوہِ ندا ہے ، محرومی ، محرومی

٭٭٭

 

 

 

 

دھُوپ نے کھیت کیا ہے مرے آنگن سے ادھر

کتنی مُرجھائی ہوئی آگ ہے دامن سے ادھر

 

مل گئی تھیں مرے بچپن سے بڑھاپے کی حدیں

اور کچھ لوگ نہ آ پائے لڑکپن سے ادھر

 

جیٹھ بیساکھ میں سیلاب ادھر آتے ہیں

ڈیرہ زردی نے جما رکھا ہے ساون سے ادھر

 

نخلِ اُمّید میں کونپل ہی نہیں آ پاتی

درد کی بادِ صبا سن سے ادھر سن سے ادھر

 

دل کی دھڑکن بھی اُسی شور میں دَب جاتی ہے

کون یہ چیختا ہے جلتے ہوئے بن سے ادھر

 

خار ہی بوتی رہی باغِ سخن میں تنقید

شعر کھلتے رہے تقطیع کی قدغن سے ادھر

٭٭٭

 

 

 

 

سر میں سما گئی تھی ہوا کج نہاد کے

ذرّوں نے بل نکال دیے گردباد کے

 

بے اِحتجاج ظلم کو سہنا روا نہیں

چپ رہ کے حوصلے نہ بڑھاؤ فساد کے

 

اُن کے سِوا کسی پہ بھروسہ نہ1

وہ پَر تراش دیں گے ترے اعتماد کے

 

ہم نے تعلّقات کی قلمیں لگائی تھیں

انکھوے یہ کیسے پھُوٹ رہے ہیں عناد کے

 

جتنے گھروندے تم نے بنائے تھے ریت پر

پنجے گڑے ہیں ان پہ کسی دیو زاد کے

٭٭٭

 

 

 

 

ہاں بادِ صبا سچ ہے پریشان رہے ہم

غنچوں کے بہرحال نگہ بان رہے ہم

 

شبنم نے کیا پاک تو کانٹوں نے سِیے چاک

ہر چند کہ مفلس کا گریبان رہے ہم

 

سرتابہ قدم زخم ہیں اب کیسے بتائیں

گلدان رہے ہم کہ نمکدان رہے ہم

 

واللہ کہ بچنے کے لیے سر نہ جھکایا

ناوک فگنی کے لیے آسان رہے ہم

 

بسمل تھے مگر رقص کیا ، رنگ اُڑائے

دنیا تری تفریح کا سامان رہے ہم

 

یہ کیا کہ جدھر دیکھیے خود ہی سے لڑے آنکھ

اس آئِنہ خانے میں تو حیران رہے ہم

 

تھے خاک بسر کرمکِ شب تاب مظفرؔ

ظلمت میں تری ذات کی پہچان رہے ہم

٭٭٭

 

 

 

 

وہ گلدستوں میں اشعار لگاتا ہے

اور یہاں لہجے پر دھار لگاتا ہے

 

غرقابوں نے دیکھا دریا کا اِنصاف

زندہ مردہ سب کو پار لگاتا ہے

 

کون زمانے کو سمجھائے چلنے دو

چلنے والے ہی کو آر لگاتا ہے

 

کہلاتے ہیں دُنیا بھر میں ظلِ اللہ

چھاتا اُن پر خدمت گار لگاتا ہے

 

خوشبو قید نہیں رہ سکتی گلشن میں

دیکھیں وہ کتنی دیوار لگاتا ہے

 

ماضی سے تا حال مظفرؔ ظالم ہے

تاج پہنتا ہے ، دربار لگاتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

تمھیں وہ تابِ تگ و تاز ہی نہیں دیتا

ہمیں اجازتِ پرواز ہی نہیں دیتا

 

خدا کے فضل سے تہذیب آ گئی ہے اُسے

کسی کو دعوتِ شیراز ہی نہیں دیتا

 

ترے سوا جو کوئی میرے دل کو چھیڑتا ہے

عجیب ساز ہے آواز ہی نہیں دیتا

 

مرا وجود ہے اظہار کے لیے بیتاب

زمانہ موقعۂ آغاز ہی نہیں دیتا

 

ستم ظریفی تو دیکھو کہ تخت و تاج کے ساتھ

وہ بعض لوگوں کو دمساز ہی نہیں دیتا

 

مظفرؔ اہلِ نظر بے خبر نہیں کہ خدا

سزا بھی دیتا ہے اعزاز ہی نہیں دیتا

٭٭٭

 

 

 

 

(عین رشید کی یاد میں )

 

اب اتنا بُردبار نہ بن میرے ساتھ آ

بدلیں گے مل کے چرخِ کہن میرے ساتھ آ

 

پیوندِ خاک ہونا ہے بارے ابھی نہیں

پھیلا ہوا ہے نیل گگن میرے ساتھ آ

 

پلکیں بچھی ہیں میری ہر اِک موجِ آب میں

اِس پالکی پہ چاند کرن میرے ساتھ آ

 

اے روحِ بے قرار ، ابھی جان مجھ میں ہے

زخموں سے چُور چُور بدن میرے ساتھ آ

 

ویسے بھی اپنے دستِ ہُنر کھا رہے ہیں زنگ

پھیکا پڑا ہے رنگِ چمن میرے ساتھ آ

 

سچ بولنے کا تجھ کو بڑا اشتیاق ہے

اچھا تو سر سے باندھ کفن میرے ساتھ آ

 

یاروں نے اِنقلاب تو نیلام کر دیے

اب چھوڑ کر یہ دارو رسن میرے ساتھ آ

٭٭٭

 

 

 

(عین رشید کی یاد میں )

 

مرے بھی شانے پہ ہے ایک سر زیادہ نہیں

مگر عزیز مجھے بال و پر زیادہ نہیں

 

ذراسی بات پہ واوَیلا اس قدر نہ کرو

جلے ہیں شہر میں دو چار گھر زیادہ نہیں

 

میں اپنی ذات کے اندر غریقِ رحمت ہوں

اگرچہ میرے جہازی سفر زیادہ نہیں

 

خفا ہیں دوست اُنھیں کس طرح منائیں ہم

ترے گہر بھی تو اے چشمِ تر زیادہ نہیں

 

ہر ایک سمت اُجالا دکھائی دیتا ہے

پلک پہ ہے تو لہو بوند بھر ، زیادہ نہیں

 

تری نظر میں سرافرازی جُرم ہے لیکن

ہمارے بچوں میں نیزوں کا ڈر زیادہ نہیں

 

جنھیں زمانے میں ہر شخص غیر لگتا ہے

اُنھیں کے پاس مظفرؔ نظر زیادہ نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

وہ ایک چہرہ گلاب میں ماہتاب میں بھی

اُسی کو دیکھا ہے جاگتے میں بھی خواب میں بھی

 

سوال کرتے ہوئے کہاں مسکرائے تھے ہم

گوارا کرنی پڑے گی تلخی جواب میں بھی

 

بِنا کسی احتجاج کے ظلم سہہ لیا ہے

لکھا گیا ہے یہ جرم تیرے حساب میں بھی

 

میاں تری تاک میں ہے یہ پُر فریب دنیا

اگرچہ پانی جھلک رہا ہے سراب میں بھی

 

ہر ایک طوفان کے مقابل اٹھائے ہے سر

کسی نے کیسی ہوا بھری ہے حباب میں بھی

 

طلسمِ حیرت سے کم نہیں وہ نظر مظفرؔ

خمار ہے اِلتفات میں بھی عتاب میں بھی

٭٭٭

 

 

 

 

خبر ملی ہے کہ دریا بھنور بناتا ہے

کہاں ہے پانی میں جو رہگزر بناتا ہے

 

سلگ رہے ہیں یہاں ریگِ انتظار میں لوگ

کہ گرد باد کسے ہم سفر بناتا ہے

 

چراغِ شام مٹاتا ہے جس اندھیرے کو

چراغ کو تو وہی معتبر بناتا ہے

 

ہَوا تھمی ہے نہ برسات کو ترس آیا

نہ جانے کب سے وہ کاغذ پہ گھر بناتا ہے

 

عجیب جذبہ ہے نفرت کہ آدمی اکثر

اُسی کو تیغ اُسی کو سپر بناتا ہے

 

َچھلک نہ جائے مظفرؔ یہ قیمتی آنسو

یہی شرارہ تو شعروں کو تر بناتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

سپاٹ راہوں سے اتنے بیزار ہو گئے ہم

کہ گمشدہ اور تیز رفتار ہو گئے ہم

 

مجادلہ گھوم گھوم کر خوب کر لیا ہے

اُتاریئے چاک سے کہ تیار ہو گئے ہم

 

گھما پھرا کر اُسی کی باتوں سے ہو گئے شعر

اُسے تصوّر میں لائے سرشار ہو گئے ہم

 

جیئے تو ایسے کہ موت شرمندہ ہو رہی ہے

نہ آیا کوئی ہُنر تو فنکار ہو گئے ہم

 

وہ ہم کہ کل کائنات کے راز جانتے ہیں

مگر خود اپنے لیے پُراسرار ہو گئے ہم

 

ڈُبونے والوں سے کوئی شِکوہ نہیں مظفرؔ

مزا تو یہ ہے کہ ڈوب کر پار ہو گئے ہم

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہاں عدُو کے سِوا کون پوچھتا ہے ہمیں

لہو لہان سہی کچھ نہیں ہُوا ہے ہمیں

 

ابھی تو سرہی اُبھارا تھا ہم نے دلدل سے

پتہ چلا کہ سمندر بلا رہا ہے ہمیں

 

خُوشا کہ غنچوں کو بادِ صبا بُلاتی ہے

بلا سے لُو کا تھپیڑ جلا چکا ہے ہمیں

 

تمھارے غم سے چراغاں کیا ہے سینے کو

کہ ہر طرف سے اندھیرا بہت مِلا ہے ہمیں

 

خفیف رہتے ہیں اکثر ضمیر کے آگے

یہ تو نے کیسے ترازُو پہ رکھ دیا ہے ہمیں

 

نپٹ گئے ہیں مظفرؔ پچاس ساٹھ برس

مذاقِ شعر و ادب ہے کہ گھن لگا ہے ہمیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

مزے سے گن ستارے چھت نہ ہو تو

سمندر کیا اگر وسعت نہ ہو تو

 

کہا ٹھنڈی ہَوا سے کیکٹس نے

اِدھر بھی آئیو زحمت نہ ہو تو

 

تمھیں بھی آ گیا خیرات کرنا

کوئی فتنہ سہی ، آفت نہ ہو تو

 

بہاروں میں نہیں اُٹھتے بگُولے

جنوں کیا کیجیے وحشت نہ ہو تو

 

کبھی سوچا کہ ہم کس حال میں ہیں

کوئی شعر آپ کی بابت نہ ہو تو

 

ہمارا آسماں بھی چھین لیتے

مگر وہ کیا کریں قُدرت نہ ہو تو

 

مظفرؔ دردِ سر ہے شاعری بھی

کسی ہمدرد کی حاجت نہ ہو تو

٭٭٭

 

 

 

 

شکست اُن کی ہوئی نہ ہو گی کہ مورچوں پر اَڑے ہوئے تھے

جوان لاشے بغیر دفنائے خندقوں میں پڑے ہوئے تھے

 

وہ ایک مظلوم شاہزادہ کہ تشنہ لب بھی تھا فاقہ کش بھی

َجڑا تھا سونے کا تاج سرپر ، بدن میں ہیرے گڑے ہوئے تھے

 

مقامِ عبرت ہے ، آپ کو بھی دکھائی پڑتے ہیں پستہ قامت

ہمارے شانے پہ بیٹھ کر ہی جنابِ عالی بڑے ہوئے تھے

 

سراب ہے ، آبجو ہے ، کیا ہے ، اُدھر یہ تکرار ہو رہی تھی

بغاوتوں کے علَم اُڑاتے ادھر بگولے کھڑے ہوئے تھے

 

طمانچے بجلی لگا رہی ہے گھٹائیں پیہم گھڑک رہی ہیں

یہی ہے وہ آسمان جس پر تمام تارے جڑے ہوئے تھے

 

چمن کا وہ ہَولناک منظر کہ باغبانوں میں چل رہی تھی

درختوں پر چڑھ گئی تھی دیمک ، طیور کے پر جھڑے ہوئے تھے

٭٭٭

 

 

 

 

چراغ اپنے ہَوا دینے سے پہلے

َجلانے تھے بجھا دینے سے پہلے

 

میاں کیا لازمی تھا خاک اُڑانا

کسی کو راستا دینے سے پہلے

 

نسیمِ صبح کو آیا پسینہ

خزاں کو بد دُعا دینے سے پہلے

 

مِلا سکتے ہو کیا ہم سے نگاہیں

بغاوت کی سزا دینے سے پہلے

 

مناسب ہے کہ پڑھ لی جائے تختی

کسی در پر صدا دینے سے پہلے

 

ہمارا ہارنا طے ہو چکا تھا

تمھارے ہاتھ اُٹھا دینے سے پہلے

 

سخی مشہور تھے ہم بھی مظفرؔ

مگر سب کچھ لٹا دینے سے پہلے

٭٭٭

 

 

 

 

بشر کے ہاتھ متاعِ عزیز آئی ہے

کئی ہزار برس میں تمیز آئی ہے

 

ہر ایک پھول ہے فانُوس کی حفاظت میں

بہار اب کے نہایت دبیز آئی ہے

 

نہیں ، گلاب پلٹ کر ابھی نہیں آیا

لہولہان کوئی اور چیز آئی ہے

 

کھڑے ہیں دھُوپ کے پرچم تلے در و دیوار

سمجھ رہے تھے محل میں کنیز آئی ہے

 

کسی کے آگے مظفرؔ نے سر جھکایا نہیں

نہ اُونچ نیچ کی اُس کی تمیز آئی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

جہاں زمیں ہے وہاں آسماں بھی پڑتا ہے

یہ پردہ تیرے مِرے درمیاں بھی پڑتا ہے

 

کوئی بتائے سفینے جلانے والوں کو

کہ اِک اَنا کا سمندر یہاں بھی پڑتا ہے

 

مزا تو آتا ہے مَرمَر کے زیست کرنے میں

کبھی کبھار یہ سودا گراں بھی پڑتا ہے

 

حسین چہروں پہ ہم سینک لیتے ہیں آنکھیں

بَلا سے کم نظری کا دھُواں بھی پڑتا ہے

 

اب اِتنا خوش بھی نہ ہو ڈھاکے چار دیواریں

بدن فصیل میں اِک شہرِ جاں بھی پڑتا ہے

 

ترے نثار ، کچھ اِتنا کیا ہے سرافراز

کہ سر سے نیچے ترا آستاں بھی پڑتا ہے

 

میں اپنی ذات کی پیچیدگی سے عاجز ہوں

اِسی میں ورطۂ کون و مکاں بھی پڑتا ہے

٭٭٭

تشکر: پرویز مظفر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید