FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

پیکر اور پرچھائیاں

 

 

                محمد اسد اللہ

(اصل کتاب سے ایک طویل مضمون ’ ودربھ میں اردو افسانہ کا آغاز و ارتقاء‘ ایک الگ ای بک کے طور پر شائع کیا گیا ہے)

 

 

 

انتساب

 

اساتذہ کرام

مرحوم ڈاکٹر سیّد عبدالرحیم صاحب

مرحوم ڈاکٹرسیّد نعیم الدین صاحب

مرحوم حسن بشیر صاحب

اور

محترم ڈاکٹر سیّد صفدر صاحب

کے نام

جن کی مشفقانہ رہنمائی اور علمی و ادبی کارنامے

میرے لئے آج بھی مشعلِ راہ ہیں۔

 

 

 

شناس نامہ

 

نام  :  محمد اسد اللہ

مقامِ پیدائش  :  وروڈ، ضلع امراوتی (مہاراشٹر)

تاریخِ پیدائش : ۱۶؍جون۱۹۵۸ء

تعلیم :  ایم اے(اردو، عربی، انگریزی)

بی ایڈ، پی ایچ ڈی،

ڈپلوما ان جرنلزم اینڈ ماس کمیونی کیشن

تحقیق کا موضوع :  اردو انشائیوں کا تاریخی و تنقیدی جائزہ

ذریعہ روزگار : تدریس

ملازمت :  مولانا ابوالکلام آزاد جونیئر کالج،

گاندھی باغ،  ناگپور؍ ۴۴۰۰۰۲

پتہ :  ۳۰؍گلستان کالونی، پانڈے امرائی لانس(ویسٹ )،

جعفر نگر،  ناگپور ؍۴۴۰۰۱۳

فون نمبر :  0712-2582063 ،   09579591149

ای میل : zarnigar2005@yahoo.com

بلاگ : http://bazmeurdu.blogspot.com

تصانیف:

مہاراشٹر اسٹیٹ اردو ساہتیہ اکاڈ یمی ممبئی، کے جزوی مالی تعاون سے شائع شدہ

۱۔   جمالِ ہم نشیں  (مراٹھی مزاحیہ ادب کے تراجم ) ۱۹۸۵ء

۲۔   بوڑھے کے رول میں  (انشائیے ) ۱۹۹۱ء

۳۔  دانت ہمارے ہونٹ تمہارے ( مراٹھی مزاحیہ کہانیوں کے تراجم)  ۱۹۹۶ء

۴۔   ہوائیاں  ( مزاحیہ مضامین،  ریڈیو نشریات) ۱۹۹۸ء

۵۔  صبحِ زرنگار  (مرتّبہ یک بابی ڈرامے ) ۲۰۰۱ء

۶۔  خواب نگر (بچوں کے لئے نظمیں ) ۲۰۰۸ء

 

فخر الدین علی احمد میموریل کمیٹی لکھنو، کے جزوی مالی تعاون سے شائع شدہ

۷۔   پر پرزے ( طنزیہ و مزاحیہ مضامین) ۱۹۹۲ء

 

قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان، نئی دہلی کے مالی تعاون سے شائع شدہ

۸۔  پیکر اور پرچھائیاں   (مضامین) ۲۰۱۲ء

 

۹۔   پرواز  ( مرتّبہ کوئز )       ۲۰۰۵ء

 

انعامات و اعزازات:

  • مہاراشٹر اسٹیٹ اردو ساہتیہ اکادیمی ممبئی کے انعامات
  • جمالِ ہم نشیں ۱۹۸۶ء
  • پر پرزے ۱۹۹۳ء
  • اردو مراٹھی خدمات کے لئے سیتو مادھو پگڑی ایوارڈ ۱۹۹۷ء
  • یک بابی ڈرامے ’’دولہا لے لو دولہا ‘‘(اوّل، بہترین اسکرپٹ) ۱۹۹۸ء
  • ’’اسٹاف روم‘‘( بہترین اسکرپٹ) ۱۹۹۹ء
  • ہوائیاں (مغربی بنگال اردو اکاڈیمی کا انعام) ۱۹۹۹ء
  • ناگپور یونی ورسٹی میں ایم اے( عربی ) کے امتحان میں امتیازی کا میابی پر

۱۔  ایچ ایم ملک گولڈ میڈل

۲۔  پرگیا گنپت را ؤ گولڈ میڈل

۳۔  یاسر عرفات گولڈ میڈل

  • ایم اے ( عربی ) کے امتحان میں مہاراشٹر میں امتیازی کا میابی پر

انجمن اسلام،  ممبئی کی جانب سے انعام۔                        ۱۹۹۵ء

  • بیسٹ ٹیچرس ایوارڈ آ ف یو نائٹیڈ اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن، ناگپور ۲۰۰۳ء
  • آل انڈیا افسانہ نویسی مقابلہ (بہترین کہانی عورت) تیسرا انعام ۲۰۰۵ء
  • مہاتما پھْلے بھارتیہ ٹیلینٹ ریسرچ اکاڈیمی ایوارڈ ۲۰۰۸ء
  • ودربھ مسلم گو رو پرسکار، ناگپور ۲۰۰۸ء
  • مہاتما جیوتی با پھلے فیلو شپ ایوارڈ ۲۰۰۸ء
  • ڈاکٹر چندر موہن تْلناتمک ساہتیہ راشٹریہ سنمان ۲۰۰۹ء
  • منی رتنم شکشک گو رو پرسکار ۲۰۱۱ء

 

سماجی سر گر میاں :

  • سیکریٹری ادبستان، ناگپور
  • صدر انجمن ترقّیِ اردو، شاخ، ناگپور
  • صدر العروج ایجوکیشنل فرنٹ،  ناگپور
  • سیکریٹری گلستان کا لونی ویلفیر ایسو سی ایشن، ناگپور
  • سابق سیکریٹری ینگ مسلم پروگریسیو ایسوسی ایشن، وروڈ
  • سابق خازن حسن بشیرپبلک لائبریری، وروڈ
  • رکن یشونت راو پرتِشٹھان، ناگپور
  • رکن مہاراشٹر راشٹر بھاشا سبھا، پونے، شاخ ناگپور
  • رکن مراٹھی بو لی ساہِتیہ سنگھ، ناگپور
  • رکن بھارتیہ دلِت ساہِتیہ اکادمی، ناگپور

 

مجلسِ ادارت میں رکنیت :

  • مدیر مُجلّہ تہذیب الکلام، ناگپور
  • رکن مجلسِ ادارت مشاہیرِ برار (جلد دوّم )
  • رکن مجلسِ ادارت کماربھارتی

(اردو کی درسی کتاب برائے جماعت دہم )

مہاراشٹر اسٹیٹ بورڈ آ ف سیکنڈری اینڈ ہائر سیکنڈری ایجوکیشن،  پونہ

 

 

 

 

اعتراف

 

کسی پیکر کی پر چھائیاں مختلف ہو سکتی ہیں۔  زاویۂ نظر کا اختلاف ادبی شخصیات اور فن پا رو ں کے متعلق نئے تناظر کو جنم دیتا ہے۔

اس کتاب میں شامل تحریریں مختلف ادبی مجالس، سیمیناراور رسائل کے تقاضوں کے تحت سپردِ قلم کی گئی ہیں۔ میرے مطالعہ کی میز پر گزشتہ تیس برسوں کے دوران جو کتابیں رہیں ان میں انشائیہ ا ور طنز و مزاح کو مرکزی حیثیت حاصل تھی،  یہی میری تخلیقی سر گرمیوں کی بنیاد بھی ہے۔ مراٹھی ادب اور ودربھ کے فنکاروں کے رشحاتِ قلم سے میں نے اپنے مضامین کو فکری اساس مہیا کی۔ یہ شناخت نامے ہیں جن کے ساتھ نقد و نظر کے دعوے نہیں ہیں۔ ’دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دکھلا دے ‘، اس دعا کے ساتھ نیت یہی تھی کہ ایوانِ ادب کے جو  نیم تاریک یا غیر روشن گوشے اربابِ شوق کی نظروں سے اوجھل ہیں یا عمداً نظر انداز کر دئے گئے ہیں ان کی نشاندہی کی جائے۔

مراٹھی ادب کے معیاری فن پاروں کو تراجم اور مضامین کی مدد سے، اردو دنیا میں متعارف کروانے کی میری خواہش ’’جمالِ ہم نشیں ‘‘ اور ’’دانت ہمارے ہونٹ تمہارے ‘‘ ان دو کتابوں کی صورت میں جلوہ گر ہوئی۔ ظرافت سے میری دلچسپی یہاں بھی کار فرما ہے۔  رسائل و جرائد میں متعدد افسانوں ڈراموں، اور منظومات کے تراجم بھی اسی دوران منظرِ عام پر آئے۔

یہ میرے لئے مقامِ مسرت ہے کہ ودربھ میں مزاح نگاری اور مراٹھی طنز و مزاح نگاری،  جیسے موضوعات کی اجنبی زمینوں میں پہلی مر تبہ تیشہ زنی کی سعادت مجھے حاصل ہوئی۔

’’ودربھ میں افسانے کا آغاز و ارتقاء‘‘ یہ مضمون اپنی ابتدائی شکل میں ممبئی یونی ورسٹی میں منعقدہ سیمینار میں پیش کیا جا چکا ہے۔  اس موضوع پر دستیاب کتابوں اور مضامین میں موجود معلومات کو  مزید اضافہ کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔  اس کے علاوہ اب تک منظرِ عام پر آئے ودربھ کے افسانہ نگاروں کی تخلیقات سے استفادہ کر کے اس شعبہ میں ا ن کی خدمات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ان میں سے بیشتر ادیبوں کی تحریروں کے نمونے اس مضمون میں شامل کئے گئے ہیں۔

ادب پاروں کو پرکھنے کی یہ میری اپنی کوشش ہے۔  قدر پیمائی ناقدینِ ادب اور قارئین کی ذمہ داری ہے۔ کوتاہیوں اور لغزشوں کے لئے پیشگی معذرت خو اہ ہوں۔

اس کتاب کی اشاعت کے لئے قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان، نئی دہلی نے مالی تعاون فراہم کیا۔  اس کے لئے میں تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔  محترم ڈاکٹر یحییٰ نشیط صاحب کا بصمیمِ قلب شکر یہ ادا کر تا ہوں کہ انھوں نے اس کتاب کے لئے مقدمہ تحریر کر کے مفصّل اظہارِ خیال فرمایا۔  کتاب کی ترتیب اور تدوین میں تعاون کے لئے میں اپنی شریکِ  حیات فرزانہ اسد کا بھی ممنون ہوں۔

اس کتاب کی ترتیب و اشاعت کے سلسلے میں میرے خصوصی شکریہ کے مستحق ہیں محترم ڈاکٹر شرف الدین ساحل،  محترم ڈاکٹر آغا غیاث الرحمن،  محترم ڈاکٹر رضی الدین معروفی اور جناب جاوید اختر صاحب۔

اس کتاب کی کمپیوٹر کمپوزنگ اور سرِ ورق کی تشکیل و تکمیل میرے بیٹے توصیف احمد اور عزیزم رفیع الدین ساحل کی مرہونِ منّت ہے، میں دونوں کا مشکور بھی ہوں اور دعا گو بھی۔

ناگپور

مورخہ:۳۰مارچ۲۰۱۲ء

محمداسداللہ

 

 

 

                ڈاکٹرسیدیحییٰ نشیط

کل گاؤں،  ایوت محل(مہاراشٹر)

 

 

پیش لفظ

 

بر صغیر کے چند اہم انشائیہ نگاروں میں شمار ہو نے والے محمّداسداللہ اپنے تنقیدی و تحقیقی مضامین کا مجموعہ شائع کر کے ناقدین و محققین کی صف میں بھی کھڑے ہو گئے ہیں۔  اردو کے علاوہ انھیں انگریزی اور صوبائی زبان مراٹھی پر بھی عبور حاصل ہے۔ انگریزی اخبارات میں جہاں وہ مضامین لکھتے ہیں وہاں مراٹھی کے طنز و مزاحیہ ادب کو بھی اردو میں سلیقے سے پیش کرتے ہیں۔ ’جمالِ ہم نشیں ‘ا ور’ دانت ہمارے ہونٹ تمہارے‘ ان کے مراٹھی مضامین کے اردو تراجم اس کا بین ثبوت ہے۔ انھوں نے بچّوں کے لئے نظمیں اور ڈرامے بھی لکھے ہیں۔ ان ڈراموں کو اسٹیج بھی کیا اور بیسٹ ڈرامے کے ایوارڈ سے وہ نوازے گئے ادبی خدمات کے علاوہ ان کی گونا گوں سماجی خدمات کو بھی سراہا گیا ہے۔ درس و تدریس کے پیشے سے جڑے ہوئے ہونے کی وجہ سے انھوں نے تعلیمی مسائل اور ان کے حل کے لئے نہ صرف مضامین لکھے بلکہ عملاً اس میں حصّہ بھی لیا۔ غرض یہ کہ ایک با صلاحیت،  مخلص اور ایماندار استاد کی ساری خوبیاں ان کے اندر جمع ہیں۔

’پیکر اور پرچھائیاں ‘اس کتاب کے مشمولات میں پانچ مضامین مزاحیہ ادب پر ہیں۔  ان مضامین کا دائرہ صوبائی علاقائی اور ناگپور شہر کے مزاحیہ ادب کا جائزہ لیتے ہوئے شاعر ناظم انصاری کی انفرادی مزاحیہ شاعری پر ختم ہو تا ہے۔ یہ مضامین سیمینار اور رسالوں کی ضرورت کے تحت لکھے گئے ہیں وہاں ان کی انفرادیت اپنی جگہ مسلم ہے لیکن اس کتاب میں یکجا ہو جانے کی وجہ سے ان میں تکرار پیدا ہو گئی ہے۔  مزاحیہ ادب پر مشتمل ان مضامین میں نثر و نظم دونوں اصناف کے مزاح کا جائزہ لیا گیا ہے۔  ودربھ میں نثر و نظم ہر دو اصناف کے مزاح نگاروں کی بڑی تعداد ہے، مصنف نے ان کے مزاح کا تجزیہ بھی کیا ہے اور اعلیٰ ظرافت کی کمی کی وجوہ تلاش کر نے کی کوشش کی ہے۔  اس ضمن کے ایک مضمون میں اسدا للہ نے مراٹھی طنز و مزاح کی روایت کا مفصّل جائزہ لیا ہے اور کولہٹکر سے لے کر عصر حاضر کے کم و بیش تمام معروف مراٹھی مزاح نگاروں کی تخلیقات کا بنظرِ غائر مطالعہ کر کے حتمی فیصلہ صادر کیا ہے۔ مراٹھی طنز و مزاح کا جائزہ لیتے ہوئے مصنف نے مراٹھی ناقدین کی آراء کو بھی پیشِ نظر رکھا ہے۔ اسدا للہ کا ایک اور مضمون سانے گروجی کی حیات و خدمات پر مراٹھی ادب ہی سے متعلق ہے۔  اس مضمون میں انھوں نے گروجی کی دو تصانیف ہی پر بحث کی ہے۔ ’شام کی ماں ‘ اور’ اسلامی سنسکرتی‘۔  آ خر الذکر کتاب مراٹھی میں لکھی ہوئی سوانح رسول ﷺ ہے۔ یہ کتاب غیر متعصبانہ ذہنیت کی عمدہ مثال ہے۔

’ودربھ میں افسانے کا ارتقاء‘ تحقیقی مقالہ ہے، اسد اللہ نے یہاں کے تمام افسانہ نگاروں کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ تلاشِ معاش میں دور دراز مقامات کے لئے مہاجرت اختیار کر نے والے افسانہ نگاروں کا ذکر بھی اس میں کیا گیا ہے۔ تھوڑی سعی اور کر لی جائے تو سمندر پار بسنے والے اردو کے ان افسانہ نگاروں کو بھی اس مقالے میں شامل کیا جا سکتا ہے جن کا تعلق سر زمینِ ودربھ سے رہا ہے۔

تحریکِ آزادی میں اردو شاعری کا حصّہ، معلوماتی مضمون ہے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی ضخیم کتاب اس موضوع پر آ چکی ہے اس عنوان سے چند جامعات میں تحقیقی مقالات بھی لکھے گئے ہیں۔ لیکن افسوس کہ تحریکِ آ زادی کی ابتدا کو۱۸۵۷ء ہی سے جو ڑا گیا،  در آں حالانکہ جنگِ پلاسی،  جنگِ بکسر اور معرکۂ سرنگا پٹم بھی خالصتاً آزادی کے لئے لڑی جانے والی جنگیں ہیں اور اردو شاعری کی قدیم شکل دکنی شاعری میں ان کے احوال بھی ملتے ہیں مگر ہمارے محققین نے دکنی شاعری کے چلمن میں جھانکنے سے اغماض بر تا ہے۔

’شاعری کی تدریس‘اسدا للہ کے اپنے تدریسی تجربات کا نچوڑ ہے۔ انھوں نے اردو شاعری کی تدریس کے مسائل کے تدارک کے لئے جو مشورے دئیے ہیں وہ رو بہ عمل لانے کے لائق ہیں۔ اشعار کی تشریح و تفہیم میں اساتذہ کی فہم کی نا رسائی ان کے نزدیک شعری درس کا اہم مسئلہ ہے۔ لائق اساتذہ کے تقرر سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔  اساتذہ اگر اپنی علمی لیاقت کو مطالعے کے ذریعے بڑھا تے رہیں تو شعر کی تدریس ان کے لئے آ سان ہوسکتی ہے۔

’اقبال کا داعیانہ اسلوب‘، مضمون کا یہ عنوان بڑا موثر اور جاذب نظر ہے اقبال کی داعیانہ یا مبلغانہ طرزِ شاعری کے بر عکس عنوان میں اقبال کی شاعری کے داعیانہ اسلوب کے ساتھ خود اقبال کی داعیانہ صفات بھی ابھر آتی ہیں۔ اقبال کی شعری انفرادیت اور اختصاص کا تجزیہ کرتے وقت فاضل مصنّف نے بڑے پتہ کی بات کہی ہے۔

’’اقبال بنیادی طور پر ایک مختلف،  اور منفرد سوچ کا شاعر ہے جس کا کائنات کے مظاہر کو دیکھنے کا انداز جدا ہے بلکہ شاعری کے ساتھ بھی اس کا معاملہ اوروں سے مختلف ہے۔ ‘‘

دراصل اقبال کی منفرد سوچ اور کائنات کے مشاہدے کے جداگانہ انداز کے اصل محرک ان کے دینی افکار اور ان کا عمیق مطا لعٔہ قرآن رہے ہیں۔ اس وجہ سے ان کی شاعری میں دعوت کا عنصر غالب دکھائی دیتا ہے۔  ادب برائے ادب کے ماننے والوں کو اسی لئے اقبال کی شاعری میں ایک آ نچ کی کسر محسوس ہو تی ہے، جبکہ اقبال کی شاعری ادب برائے زندگی کی اعلیٰ اقدار کی علم بردار ہے۔  محمد اسد اللہ نے کلیاتِ اقبال کی مختلف منظومات کے اشعار کے حوالے سے اقبال کی داعیانہ صفت کو ثابت کر نے کی کوشش کی ہے۔ اقبال کے کلام کے دعوتی پہلو کو اجاگر کر نے والا یہ مضمون بڑا اہم ہے۔

اپنے ایک مضمون میں اسد اللہ نے منشی پریم چند کی مشہور کہانی’ گلّی ڈنڈا ‘کا تجزیہ گو کہ تدریسی نقطۂ نظر سے کیا ہے لیکن اس میں جامعاتی سطح پر سکھائی جانے والی تنقید کے اصولوں کو بروئے کار لا یا گیا ہے اس لئے یہ مضمون جہاں ثانوی سطح کے طلبہ کے لئے مفید ہے وہاں جامعاتی سطح کے طلبہ بھی اس سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ پریم چند کی اس کہانی میں سماجی سطح سے لے کر چھوٹے نو عمر بچّوں تک کے ذہنوں میں رچائی بسائی گئی منافرت، اونچ نیچ،  امارت و افلاس کی تفریق کے زہر سے پیدا ہوئے پرا گندہ ذہنی کے لئے تریاق فراہم کیا گیا اور اس زہر سے پیدا شدہ بچّوں کی نفسیاتی الجھنوں کو دور کیا گیا ہے۔

منٹو کی کردار نگاری میں ڈاکٹر اسد اللہ نے منٹو کے افسانوں کے مرد و عورت دونوں کرداروں کا تجزیہ بڑے ماہرانہ انداز میں کیا ہے اور وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ، منٹو نے ان کر داروں کو اس انداز سے سنوارا ہے کہ وہ اپنی بشری کمزوریوں کے با وجود اپنی فطری سادگی اور انسانیت کے سبب ہمارے دل کو چھو لیتے ہیں اور بعض کر دار ہمیں اندر تک جھنجھوڑ دیتے ہیں۔

ہمارے افسانوی ادب میں منٹو کو نہایت نازک موضوع تسلیم کر لیا گیا ہے۔ جنسیت کے پرستار منٹو کے افسانوں میں اخلاقی قدروں کے نام پرایسے برانگیختہ ہو تے ہیں کہ اپنی سدھ بدھ کھو بیٹھتے ہیں، دوسری طرف صالح ادب کے علمبردار منٹو کی خیر کی تلاش و جستجو کو یکسرنظر انداز کر دیتے ہیں اور منٹو نے غلاظت کے جن ڈھیروں سے خیر و صدق کے موتی نکالے ہیں انھیں ڈھیروں کو دوبارہ کھودتے چلے جا تے ہیں۔  ان دونوں انتہاؤں کے درمیان رہ کر اسد اللہ نے منٹو کے فن کا تجزیہ کر کے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے:

’’اگر منٹو ان کرداروں کی شکل میں سماج میں پائے جا نے والے انسانوں کے چہرے اپنے افسانوں کے پر دے پر نمایاں کر نے پر اکتفا کرتا تو شاید ادب میں اسے وہ مقام حاصل نہ ہوتا، مگر اس نے ان کر داروں کے پسِ پردہ صالح انسانی صفات اور انسانی فطرت میں موجود خیر کے مادّے کی تلاش کی ہے۔ کیچڑ میں کنول کی تلاش اور گہرے پانیوں میں انسانی قدروں کے گوہرِ آبدار کی جستجو جو منٹو کی فطرت میں شامل تھی آ خر وہی اس کا ہنر ٹھہرا۔‘‘ منٹو کے فن پر یہ جامع مضمون ہے۔

پروفیسر س۔  یونس کی شاعری پر اسدکالکھا ہوا مضمون’ س۔  یونس انکشاف کے آئینے میں ‘، فن کے سہارے شخصیت کے انکشاف کی بہترین کو شش ہے۔ انکشاف ان کا مجموعۂ کلام ہے ان کی شاعری جدیدیت کے میزان پر تولی جا سکتی ہے۔ پروفیسر یونس اپنی ہی ذات میں گم نہ ہو کر اپنے فن کو مشتہر کرتے تو یقیناً کلام کی پختگی اور کہنہ مشقی کی بنیاد پر جدید شعرا میں اعلیٰ مقام حاصل کر لیتے انکشاف کا شاعر انگریزی کا پروفیسر تھا لیکن اردو سے والہانہ محبّت کرتا تھا۔ یہ شعری مجموعہ اردوسے محبّت کی دلیل ہے۔ نام و نمود کے بغیر یہ مخلصانہ عشقِ اردو ہر ایک کے بس کا روگ نہیں اور اخلاص کے بغیر یہ ممکن بھی نہیں۔  اسد اللہ نے یونس کی شاعری کے پسِ منظر میں انھیں آنکا ہے۔

ڈاکٹر اسد اللہ انشائیہ کے ساتھ طنز و ظرافت سے بھی والہانہ لگاؤ رکھتے ہیں۔ مراٹھی طنز و مزاحیہ ادب کے فن پاروں کو انھوں نے بڑی خوبصورتی سے اردو میں ڈھا لا ہے۔  علاقائی طنز و مزاح پر ان کی گہری نظر ہے۔  وسط ہند کے ایسے ہی ایک مزاحیہ شاعر ناظم انصاری کی مزاحیہ شاعری کا انھوں نے ایک مضمون میں تجزیہ کیا ہے۔  انھوں نے ناگپور اور کامٹی کے مزاحیہ ادب کو حیدر آباد اور لاہور کے مزاحیہ ادب کے ہم  پلّہ قرار دیا ہے۔ مزاح نگار شاعر و ادیب کا ایک وصف یہ ہو تا ہے کہ اس کے اکثر کلام کا مرکز و محور اس کی اپنی ذات ہو تی ہے۔  وہ اپنی ذات پر طنز کے نشتر خود چلاتا ہے لیکن سامع یا قاری کا دل فگار ہو تا ہے۔  ناظم انصاری میں یہ تمام خوبیاں بدرجۂ اتم موجود  ہیں۔  غزل میں بیان کردہ روایتی عشق کی کیفیات کو انھوں نے مزاح کی سمت موڑ دیا ہے۔  اسداللہ نے شاعر کی ان خوبیوں کا احاطہ بھی اس مضمون میں کیا ہے۔ مختصر مگر مکمل یہ مضمون اسد اللہ کی جامعیت کے ساتھ اختصار پسندی کا مظہر ہے۔

فن و شخصیت کے تمام گوشوں پر جامع انداز میں روشنی ڈالنے والے دو مضامین طرفہ قریشی اور خورشید آ را بیگم مصنّف کے شعری تنقیدی شعور کے غمّاز ہیں۔ کتاب کے تمام مشمولات کو پڑھنے کے بعد قاری کے لئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہو تا کہ فاضل مصنّف انشائیہ و مزاح کے علاوہ تنقید میں بھی دسترس رکھتا ہے اور معروضی نقطۂ نظر کو ترجیح دیتا ہے۔  ان کی نقد و تحقیق میں تاثراتی تنقید کے اشارے ملتے ہیں۔ ان کے تحقیقی مقالے ’اردو انشائیہ کا تحقیقی و تاریخی جائزہ ‘کے بعد یہ ان کی دوسری تنقیدی کتاب ہے۔

کبھی کبھی ان کے اندر کا خوابیدہ شاعر بھی انگڑائی لینے لگتا ہے۔ بچّوں کے لئے لکھی گئی ’خواب نگر‘ کی نظمیں بطور ثبوت پیش کی جا سکتی ہیں۔  اسد اللہ نہایت سنجیدہ، کم گو اور با اخلاق آدمی ہیں اس پر مستزاد ان کا دینی جذبہ، اس لئے چاہے انشائیہ ہو یا ظرافت و مزاح، وہ شائستگی کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ، یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں مزاح میں پھکّڑ پن نہیں پایا جا تا۔  ان کی ظرافت خندۂ زیر لبی تک ہی محدود ہے۔ قہقہہ اور خندۂ دنداں نما کے وہ متحمل نہیں۔

زیر نظر کتاب ’پیکر اور پرچھائیاں ‘ کے اکثر مضامین اگرچہ علاقائی ادب کا تعارف کراتے ہیں لیکن مصنّف کی تنقید کا دائرہ نہایت وسیع ہے۔ انشائیہ پر ان کی تنقید کا اعتراف پڑوسی ملک کے ناقدین نے بھی کیا ہے۔ اسد اللہ نے اب ان مضامین کو بعجلت شائع کر نا چاہئے جو ان کے قلم سے نکل کر اشاعت کا انتظار کر رہے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

تعریفِ  انشائیہ

 

صداقتوں کی طرح اصنافِ ادب بھی مختلف جہات کی مالک ہیں۔ وہ تمام عناصرجنہیں کسی ادبی صنف میں اساسی حیثیت حاصل ہو، کوئی ایک تعریف  (Definition)ان کی مکمل ترجمانی کرنے سے رہی۔ بعض تعریفیں جزوی صداقتوں کی حامل ہو اکرتی ہیں اور اس صنفِ ادب کی انفرادی خصوصیات، خدو خال کا احاطہ کر تے ہوئے اس صنف کے مزاج کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہو تی ہیں۔  مغرب میں انشائیوں کی ایک قابلِ لحاظ تعداد عالمی ادب پر اپنے اثرات مرتّب کر نے کے با وجودانگریزی میں انشائیہ کی کوئی حتمی تعریف مو جود نہیں ہے۔

انشائیہ بر صغیر میں اردو کے ادبی حلقوں میں بحث و تمحیص کا ایک اہم موضوع رہا ہے۔  اس صنف میں معیاری فن پا روں کے فقدان ہی کے سبب تخلیقی سطح پر زمین ہموار نہ ہو پائی اسی لئے اس کی جو تعریفیں موجود ہیں ان میں بھی انشائیہ کا کوئی واضح تصّور سامنے نہیں آ تا۔  انشائیہ کی جامع و مانع تعریف کی ضرورت ہمیشہ محسوس کی جا تی رہی ہے۔  اسی سعی و جستجو کے نتیجے میں کئی تعریفیں ادیبوں اور ناقدین نے پیش کی ہیں۔

ابتدا ہم مغربی ادباء و ناقدین کے اقوال سے کر تے ہیں کہ یہی خطّہ اس صنف کا اوّلین گہوارہ رہا ہے۔  انسا ئیکلو پیڈیا برٹینیکا میں ایسّے کی تعریف درج ذیل ہے:

"The English mind the true Essay is a composition of moderate length, usually in prose which deals in an easy, cursory way with the chosen subject and with the relation of that subject to the writer.” (۱)

جارج سینٹ بری کے نزدیک ایسّے کسی دلچسپ قسم کے آدمی کی گفتگو ہے جسے ہر قسم کی معلومات ہے اور انداز ایسا جو عام طور پر کھانے کے بعد پر لطف بات چیت کا ہوا کر تا ہے:

"After dinner monologue of an interesting and well informed man.” (۲)

ڈبلیو ایم ہڈسن انشائیہ کو ایک ایسی تحریر کے روپ میں دیکھتے ہیں جو مصنّف کے ذہن اور شخصیت کی عکاسی کر تی ہے:

’’سچّے انشائیہ کی بنیادی صفت یہ ہے کہ مصنّف کا ذہن اور کر دار اس کی تحریر کے مواد سے ظاہر ہو۔ ‘‘(۳)

ڈبلیو ای ولیم کے خیال میں :

’’انشائیہ عام طور پر ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہوتا ہے تاہم انشائیہ نگار نکتہ آفرینی کے لئے کسی چھوٹے سے واقعے کو بھی استعمال کر سکتا ہے اور اپنے زاویۂ خیال کی تمثیلی وضاحت کے لئے ناول سے ایک ورق لے کر اس سے کر دار بھی تخلیق کر سکتا ہے۔ لیکن واضح رہے کہ انشائیہ نگار کا بڑا مقصد کہانی کی پیش کش نہیں بلکہ انشائیہ نگار معاشرے کا فیلسوف، ناقد اور حاشیہ نگار ہے۔ ‘‘(۴)

ڈبلیو۔ ای۔ ولیم کے مطابق انشائیہ نگار کا بنیادی کام کہانی یا واقعہ کا بیان نہیں بلکہ نکتہ آفرینی ہے اور اس کے لئے وہ کوئی بھی وسیلہ اختیار کر سکتا ہے۔

فلسفیانہ توجیہ، معاشرتی مظاہر پر تنقید، حقائق کا انکشاف،  وغیرہ مختلف پہلو اس کی تخلیقی قوتوں سے نمایاں ہوتے ہیں بلکہ اس سے بھی ایک قدم آ گے بڑھ کر ان کی مدد سے وہ اظہار کی وسعتوں کو تلاش کر تا ہے۔ ایف۔ ایچ۔ پریچرڈ کا قول ہے:

’’دوسری اصناف کے مقابلے میں ایسّے متوازن فکر کا عمدہ حاصل ہے۔ اس میں ہلکی سی بے اطمینانی اور نا موجود کو مو جود سے دریافت کر نے کی آرزو ملتی ہے۔ ایسّے کی سعی پارہ پارہ اور مختصر ہے۔ لیکن یہ ہمیشہ خلوص سے معمور ہو تی ہے اور موضوع کو ذات کے حوالے سے پیش کر تی ہے۔ ‘‘(۵)

نا موجود کو مو جود سے دریافت کر نا تخلیق ہے۔ کسی بھی صنف کی ادبی حیثیت اس صفت کے بغیر مشکوک قرار دی جا سکتی ہے۔  انشائیہ کی کوئی تخصیص نہیں البتّہ متوازن فکر اور موضوع کو ذات کے حوالے سے پیش کر نے کا عمل انشائیہ کی انفرادی خصوصیت کے طور پر تسلیم کیا جا سکتا ہے۔  ہاؤسٹن پیٹر سن لکھتے ہیں :

’’ایسّے کا مطلب تحریر کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہو گا جس میں کسی بھی موضوع سے بحث کی گئی ہو مگر شخصی،  غیر رسمی اور غیر مصنوعی انداز میں۔ ایسّے مفکّرانہ ہو گا لیکن سنجیدہ نہیں۔ وہ فلسفے سے قریب تر ہو گا لیکن فلسفے کی طرح با قاعدہ نہیں۔ اس میں ایک قسم کی ڈھیلی ڈھالی وحدت ہو گی۔ اس میں اصل موضوع سے مسرّت بخش انحراف بھی ہو گا۔ وہ ہمیں مصنّف کی رائے سے اتفاق کی ترغیب دے سکتا ہے لیکن وہ ہمیں اتّفاقِ رائے پر مجبور نہ کرے گا۔ ’ایسّے اِسٹ‘چاہے اور جو کچھ بھی ہو، وہ ہمارا دوست اور لفظوں کا فنکار ہو گا۔ ‘‘(۶)

اس تعریف کی رو سے انشائیہ مسلّمات کا بیان نہیں بلکہ شخصی نکتۂ نظر کا اظہار ہے۔  اسی لئے گھسے پٹے انداز،  چبے چبائے الفاظ اور مخصوص فکری سانچوں سے گریز، موضوع سے منحرف ہو کر اس کے اچھوتے پہلو بے نقاب کرنا انشائیہ نگار کا طریقۂ کا ر ہے۔  انشائیے کے سلسلہ میں جانسن کی یہ تعریف سب سے زیادہ مشہور ہوئی:

‘An Essay is a loose sally of the mind, an irregular indigested piece, not regular and orderly composition.’ ۷))

’’انشائیہ ذہن کی آزاد ترنگ، بے ترتیب اور غیر ہضم شدہ ٹکڑا، بے قاعدہ اور غیر منظّم عمل ہے۔ ‘‘

جانسن منصوبہ بند فکر سے گریز اور سوچ کی آزاد رو ی کو انشائیہ کا شناختی نشان قرار دیتا ہے۔  اس پر یہ اعتراض کیا گیا کہ ذہن کی آزادانہ ترنگ تو کسی خبطی کی بڑ ہو گی۔  اس سلسلہ میں ایک اہم بات یہ ہے کہ پاگل کی سوچ مرکزیت سے بے نیاز ہو تی ہے جبکہ انشائیہ نگار مر کز سے وابستہ ہوا کر تا ہے۔ انشائیہ کو بے قاعدہ اور غیر منظّم عمل قرار دے کر نہ صرف انشائیہ کی ہیئت بلکہ انشائیہ اور عملی مضمون کے فرق کو بھی واضح کر دیا گیا ہے۔

اردو میں انشائیہ کو سب سے پہلے اختر اورینوی نے ایک صنف کی حیثیت سے متعارف کروانے کی کوشش کی۔ اکبر علی قاصد کی کتاب ’ترنگ‘ کے مقدمے میں انشائیے کے کوائف بیان کر تے ہوئے لکھتے ہیں :

’’ دراصل انشائیہ، فلسفیت اور رنگینی کا مجموعہ ہوتا ہے۔  ایسی فلسفیت جس میں دل جلا پن، خشونت، یا وحشت خیزسنجیدگی نہ ہو، یہاں فلسفہ ہوتا ہے۔  بغیر رندھے ہوئے چہرے کی رنگینی ہوتی ہے مگر ذمّہ داری کے ساتھ،  رِندی اور احتساب کا عجیب و غریب مجموعہ مضحکہ خیز نہیں ہوتا، بلکہ امتزاجِ کامل کے نتیجے میں ایک بڑی دلنواز شخصیت پید ا کر دیتا ہے۔ ایک ایسی صوفیت جس میں مزاح کا نمک ملا دیا جائے۔ ‘‘(۸)

مو لانا عبدالماجد دریا بادی کے نزدیک :

’’انشائیہ کی امتیازی خصوصیت حسنِ انشاء ہے۔ یہ اس کے نام ہی سے ظاہر ہے۔ انشائیہ وہ ہے جس میں مغز و مضمون کی اصل توجّہ حسنِ عبارت پر ہو۔ ‘‘(۹)

عبدالماجد دریا بادی نے انشائیہ کی اس تعریف میں مشرق میں مقبول عام اس رجحان کو بیان کیا ہے جو انشا پردازی کے ساتھ وابستہ رہا ہے۔ اردو اور فارسی میں ابتدا ہی سے عبارت آرائی اور حسنِ بیان انشا پردازی کا مطمحِ نظر رہا ہے۔  لیکن انشائیہ محض انشا پردازی نہیں ہے،  گواسے اس کے بنیادی اوصاف میں شمار کیا جائے گا۔ انشائیہ کی دیگر اساسی خوبیوں اور فنّی جہتوں کو نمایاں کر نے والوں کے پیشِ نظر مغربی ایسّے کی روایت رہی ہے۔ ان ہی ناقدین میں کلیم الدین احمد انشائیہ کے متعلق اظہارِ خیال کر تے ہوئے لکھتے ہیں :

’’ انشائیہ کوئی نئی صنف نہیں، یہ وہی صنف ہے جسے انگریزی میں ایسّےEssay کہتے ہیں۔ خط کی طرح انشائیہ بھی اپنی تلا ش اور اپنی دریافت ہے جس میں انشائیہ نگار اپنے کر دار کے سر چشموں کو پا لیتا ہے، جس میں اس کی شخصیت کے متضاد عناصر ابھر آ تے ہیں۔ یہ انمل،  بے جوڑ اور ہم آہنگی سے عاری نظر آ تی ہے۔ وہ اپنی کمزوریوں اور خامیوں کو ابھارتا ہے۔ وہ اس طرح ان سے نجات پالیتا ہے۔  اس کا اصل موضوع اس کی شخصیت اور اس کی آ زادی ہے۔ کیونکہ دانش مند وہی ہے جو اپنی شخصیت کو پالے اور اپنی فطری آزادی کو ہاتھ سے جانے نہ دے۔‘‘(۱۰)

مانتین نے اپنے انشائیوں کی کتاب کے پیش لفظ میں لکھا تھا کہ:’’اس کتاب کا موضوع میں خود ہوں۔ ‘‘مانتین کے اسی قول کی بازگشت کلیم الدین احمد کی تعریف میں بھی سنائی دیتی ہے جب وہ کہتے ہیں کہ انشائیہ نگار کا اصل موضوع اس کی ذات اور اس کی آ زادی ہے۔ گویا ان کے نزدیک اظہارِ ذات کو انشائیہ میں مرکزیت حاصل ہے اسی سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار ڈاکٹر آدم شیخ نے کیا ہے لکھتے ہیں :

’’انشائیے ایک ذہین، رنگین مزاج، ترقّی پسند اور روایت شکن فنکار کے جذبات اور احساسات کا پر تو ہی ہوتے ہیں۔ ایک انشائیہ میں لکھنے والے کے ان دبے ہوئے جذبات کا اظہار ہو تا ہے جن کی راہ میں اس کے عہد کی سماجی، مذہبی اور اخلاقی رکاوٹیں حائل ہو تی ہیں۔  انشائیہ مروجّہ اور فرسودہ روایتوں سے ما نوسیت اور مطابقت پیدا کرنے میں نا کام رہتا ہے۔  اس کے انفرادی نظریات اور ذہنی کشمکش اظہار کے ذرائع ڈھونڈتی ہے۔ ادیب اس اظہار کے لئے زبان اور تحریر کا سہارا لیتا ہے۔ لیکن اصنافِ ادب میں بھی جو تحریریں انشائیہ نگار کے لئے معنی خیز خیالات کی حامل ہو تی ہیں اپنے مواد، ہیئت اور اندازِ بیان کی وجہ سے دوسری تحریروں سے منفرد ہو تی ہے۔‘‘(۱۱)

مندرجہ بالا تعریفوں کی رو سے انشائیے کی حیثیت ذاتی قرار پا تی ہے۔ کلیم الدین احمد نے اسے کر دار کے پوشیدہ سرچشموں کی تلاش کے روپ میں پیش کر کے خود انکشافی کو اس کی ایک اہم خصوصیت قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر آ دم شیخ کے نزدیک انشائیہ ذات کے حوالے سے مروجّہ اقدار کے خلاف بغاوت، ذہنی کشمکش اور انفرادی نظریات کا فنّی اظہار ہے۔ نظیر صدیقی لکھتے ہیں :

’’انشائیہ ادب کی وہ صنف ہے جس میں حکمت  سے لے کر حماقت تک ساری منزلیں طے کی جا تی ہیں۔ یہ وہ صنفِ ادب ہے جس میں بے معنی باتوں میں معنی تلاش کئے جا تے ہیں اور با معنی باتوں کی  مہملیت اجاگر کی جا تی ہے۔ یعنی  Sense  میں Non Sense  او ر  Sense Non   میں Sense  ڈھونڈا جا تا ہے۔  یہ وہ صنف ہے جس میں لکھنے والا غیر سنجیدہ ہو نے کے با وجود سنجیدہ اورسنجیدہ ہو نے کے با وجود غیر سنجیدہ یعنی بالفاظِ غالبؔ لکھنے والے کی بے خودی میں ہشیاری اور ہشیاری میں بے خودی پائی جا تی ہے۔ یہ وہ صنفِ ادب ہے جس میں کہیں سچ میں جھوٹ کی آمیزش اور کہیں جھوٹ میں سچ کی۔ یہ وہ صنفِ ادب ہے جس میں نہ صرف اپنا نام اور دوسروں کی پگڑی اچھالی جا تی ہے بلکہ اپنی پگڑی اور دوسروں کا نام بھی۔ ‘‘(۱۲)

نظیر صدیقی انشائیہ کو متضاد عناصر کا مجموعہ ثابت کر نے کی دھن میں خود بھی تضاد بیانی کا شکار ہوئے ہیں۔  جب وہ لکھتے ہیں، یہ وہ صنفِ ادب ہے جس میں کہیں سچ میں جھوٹ کی آمیزش اور کہیں جھوٹ میں سچ کی۔ یہ وہ صنفِ ادب ہے جس میں نہ صرف اپنا نام اور دوسروں کی پگڑی اچھالی جا تی ہے بلکہ اپنی پگڑی اور دوسروں کا نام بھی، تو گویا مثال کے ذریعے طنز و مزاح کو انشائیہ کا ایک اہم وصف قرار دیتے ہیں۔ لیکن غیر سنجیدہ ہو نے کے باوجود سنجیدہ اورسنجیدہ ہو نے کے با وجود غیر سنجیدہ، ہونے والی بات مذکورہ بالا بیان کی نفی کرتی ہے۔ گویا انشائیہ کا مقصد طنز و مزاح کی تخلیق نہیں کیونکہ سنجیدگی تو مزاح کے لئے     سمِ قاتل ہے۔ اور ادب کی مملکت میں طنز کے داخلے کے لئے بھی کم از کم شگفتگی کا پا سپورٹ ضروری ہے۔ اسی لئے اس تعریف سے انشائیہ کا کوئی واضح تصور سامنے نہیں آتا۔

ڈاکٹر سلیم اختر کے قول کے مطابق انشائیہ کسی بیدار ذہن کی تخلیقی سرگرمی ہے۔

’’بیدار ذہن کے حامل تخلیقی شخصیت کی زندگی کے تنوع سے دلچسپی کے با مزا نثر میں مختصر اور لطیف اظہار کو انشائیہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ‘‘ (۱۳)

اس سلسلہ میں مزید اظہار خیال کر تے ہوئے لنکن کی جمہوریت کی مشہور تعریف کے طرز پر انھوں نے انشائیہ کو مہذّب ذہنوں کے لئے مخصوص کیا ہے۔

مشکورحسین یاد انشائیے کو ’امّْ  الاصناف‘ قرار دیتے ہوئے اسے ادب کا نقطۂ آغاز سمجھتے ہیں :

’’ انشائیہ ادب کا ایک فطری اظہار ہے اس لئے ہر ادیب اس کا موجد ہوتا ہے۔ دنیا کی ہر زبان میں جب اس کے ادب کا آغاز ہوا تو انشائیہ وجود میں آ یا۔ اس لئے کسی کا یہ دعویٰ کر نا کہ صرف وہی انشائیہ کا مو جد ہے کھلی حماقت کے سوا اور کچھ نہیں۔  انشائیہ کی تعریف لفظوں میں نہیں ہوا کر تی۔  انشائیہ کی تعریف یا تو انشائیہ پڑھنا ہے یا انشائیہ لکھنا۔ ‘‘(۱۴)

غلام جیلانی اصغر لکھتے ہیں :

’’ انشائیہ ایک ایسی نثری صنف ہے جو اتنی ہی بے ربط ہے جتنی کہ زندگی خود اور جس طرح زندگی کے آ خر میں حیاتیاتی وحدت وجود میں آتی ہے اسی طرح انشائیہ کے منتشر اجزاء میں دیکھتے ہی دیکھتے ایک وحدتِ تاثر پیدا ہو جاتی ہے۔ زندگی خود کئی اجزاء سے عبارت ہے۔  انشائیہ کی یہی خوبی یا خصوصیت ہے۔ یہ اجزاء فکری بھی ہو تے ہیں اور جذباتی بھی یعنی انشائیہ سوچنے پر بھی مجبور کر تا ہے اور محسوسات کے وسیع تر امکانات بھی چھوڑ جا تا ہے۔  آپ جب انشائیہ ختم کر لیتے ہیں تو آپ کی سوچ کو ایک نیا اور غیر رسمی سازاویہ مل جا تا ہے۔ ‘‘ (۱۵)

انشائیہ کے بے ربط ہو نے کا تصوّ رجانسن کی تعریف   "A loose sally of mind”  اور آ زاد تلازمۂ خیال کی یاد دلاتا ہے۔ لیکن اپنی اصل کی طرف لوٹنے کے عمل کے نتیجے میں جو حیاتیاتی وحدت وجود میں آ تی ہے وہ انشائیہ کو بکھراؤ سے بچا لیتی ہے۔   فکری و جذباتی عناصر امکانات کے وسیع و عریض دشت کو کھنگالنے کے بعد انشائیہ کو ایک نئی     آب و تاب سے روشناس کرواتے ہیں۔ گویا غلام جیلانی اصغر کے خیال میں فکر، جذبہ اور تخیل انشائیہ میں کلیدی رول اد ا کر تے ہیں۔

انشائیہ کے متعلق وزیر آغا کی یہ تعریف بڑے پیمانے پر موضوعِ بحث رہی ہے:

’’انشائیہ اس نثری صنف کا نام ہے جس میں انشائیہ نگار اسلوب کی تازہ کاری کا مظاہرہ کر تے ہوئے اشیاء و مظاہر کے مخفی مفاہیم کو کچھ اس طور پر گرفت میں لیتا ہے کہ انشائی شعور اپنے مدار سے ایک قدم باہر آ کر ایک نئے مدار کووجود میں لانے میں کامیاب ہو جا تا ہے۔ ‘‘(۱۶)

اس تعریف کی رو سے انشائیہ کے لئے درج ذیل خصوصیات لازمی ہیں :

۱۔  اسلوب کی تازہ کاری۔

۲۔  اشیا ء و مظاہر کے مخفی مفاہیم تک رسائی۔

۳۔  انسانی شعور کا اپنے مدار سے باہر نکل کر نئے مدار کو وجود میں لا نا۔

وزیر آغا بر صغیر میں انشائیے کی اس تحریک کے روحِ رواں ہیں جو اردو میں انشائیے کو ایک علاحدہ صنف کی حیثیت سے ان بنیادوں پر استوار کر نا چاہتے ہیں جنھیں مغرب میں قبولِ عام حاصل ہوا۔  وزیر آغا کے پیشِ نظر مغربی انشائیے کے و ہ نمونے رہے جنھیں  Light Essay  یا  Personal Essayکہا جا تا ہے۔ اس لحاظ سے مذکورہ تعریف بھی مکمّل نہیں کہی جا سکتی کہ اس میں اس پہلو کا احاطہ نہیں ہو سکا جسے Expression Self کہا جا تا ہے جو اس قبیل کے انشائیوں کا اہم جزو ہے۔

اس تعریف کا جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر صفدر لکھتے ہیں :

’’وزیر آغا نے انشائیے کی جو تعریف پیش کی ہے اور اس کی توضیح کرتے ہوئے جو تین صفات بیان کی ہیں وہ انشائیے سے مخصوص نہیں۔ کوئی ادب پارہ خواہ وہ کسی ہی صنفِ ادب کے زمرے میں آتا ہو، ان صفات کا حامل ہو تا ہے۔ قصیدے کو منہا کر دیجئے تو مجموعی حیثیت سے سارا ادب ہمیں زندگی اور اس کے مظاہر کے با رے میں زیادہ با خبر بناتا ہے۔ وارث علوی کہتے ہیں ’ بڑی شاعری ہمیں بڑے پیمانے پر ڈسٹرب کر تی ہے۔ تو انشائیہ ایسی صنف نہیں ہے جو قاری کو سلاتی نہیں بلکہ جگاتی ہے، لہٰذا زبان کا تخلیقی استعمال،  معنی کی نئی سطحوں کی دریافت اور شعور کی توسیع کے ذریعے انشائیہ کو شناخت نہیں کیا جا سکتا۔ ‘‘(۱۷)

گذشتہ صفحات میں انشائیوں کی تعریفوں کا ایک انتخاب پیش کیا گیا۔ منجملہ ان بے شمار تعریفوں کے جنھیں بخوفِ طوالت نقل نہیں کیا جا سکا،  بیشتر ایسی ہیں جنھیں تعریف کے زمرے میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ مذکورہ تعریفوں سے بھی ظاہر ہے کہ انشائیہ بیک وقت کسی ایک تعریف کی گرفت میں نہیں آسکا گو مختلف سمتوں سے پڑنے والی روشنی سے اس کی  ظاہری و باطنی خصوصیات اور خد و خال نمایاں ضرور ہوئے ہیں۔

ڈبلیو ای ولیم، ہاؤسٹن پٹر سن، ڈاکٹر جانسن،  اختر اورینوی، ڈاکٹر آدم شیخ،  ڈاکٹر نظیر صدیقی،  ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر سلیم اختر، مشکور حسین یاد اور غلام جیلانی اصغر کی تعریفوں میں انشائیہ کے بیشتر پہلوؤں کا احاطہ کر نے کی مستحسن کوشش نظر آ تی ہے۔

مغربی مفکرین میں اس کے متعلق جو اتفاقِ رائے موجود ہے اس کا ایک سبب یہ ہے کہ وہاں بھی اس صنف کے خد و خال پوری طرح متعین نہیں کئے جا سکے۔ دوّم صدیوں پر محیط اپنے ارتقائی سفر میں اسلوب کی تبدیلیوں اور نئے رنگ و آہنگ کو اختیار کر نے کے نتیجے میں نہ صرف انشائیہ کی سر حدیں وسیع ہوئیں بلکہ یہ صنف ایک لچک سے بھی روشناس ہوئی۔  انشائیہ کے سلسلے میں لطیف قسم کا اختلافِ رائے اس کی صنفی خصوصیات کی داستان ہی نہیں اس کے ارتقائی سفر کے مختلف مراحل کا بیان بھی ہے کہ بعض اوقات یہی چیز اس کی کسی ایک خوبی کی مختلف جہتوں کو روشن کر نے کا اہتمام کر گئی، مثلاً جارج سینٹ بری اس صنف کے شخصی اظہار کو    "After dinner monologue” کہتے ہیں۔ ہڈسن کے نزدیک یہ انشائیہ نگار کے ذہن اور شخصیت کی عکّاسی ہے۔ ڈبلیو ای ولیم کے خیال میں انشائیہ نگار کے زاویۂ نگاہ کی تمثیلی وضاحت اسے معاشرہ کو ایک فلسفی کی نظر سے دیکھنے کی ترغیب دیتی ہے اور انشائیہ نگار ایک ناقد اور حاشیہ نگار بن کر سامنے آ تا ہے۔ پریچرڈ کے نزدیک انشائیہ ذات کے حوالے سے کسی موضوع کو پیش کر نے کا ایک ذریعہ ہے۔ آ لڈس ہکسلے انشائیہ کو ذات سے لے کر کائنات تک مختلف دنیاؤں کا سفر قرار دیتا ہے۔

اردو میں انشائیہ کی بیشتر تعریفوں پر غور کیا جائے تو محسوس ہو تا ہے کہ ان میں مغربی ناقدین اور ادیبوں کے خیالات کی باز گشت مو جود ہے۔  ہمارے یہاں اس سلسلے میں موجود اختلاف کھل کر رو نما نہیں ہو پا یا اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ اختلاف جزئیات سے متعلق ہے۔ بیشتر کوائف کے متعلق باہمی اتفاقِ رائے مو جود ہے۔ انشائیہ کو ایک علاحدہ صنفِ ادب کی حیثیت سے قبول کر نے، اس کی صنفی خصوصیات، فارم اور حدودِ اربعہ کا مسئلہ سببِ اختلاف ہے۔ وزیر آغا، غلام جیلانی اصغر اور اختر اورینوی کی تعریفوں میں اسی نقطۂ نظر کی توثیق ہو تی ہے۔ اس کے بر عکس مشکور حسین یاد انشائیہ کو امّْ الاصناف قرار دیتے ہیں اور ڈاکٹر سلیم اختر اسے چند خانوں میں محدود کر نے کے بجائے تمام نثری اصناف میں جہاں جہاں اس کے نقوش دستیاب ہوں انھیں انشائی عناصر کے طور پر قبول کر نے کے حامی ہیں۔ مشکور حسین یاد،  ندرتِ خیال کو اہمیت دیتے ہیں،  نظیر صدیقی طنز و مزاح کے ساتھ سنجیدگی اور اسی قسم کے متضاد عناصر کے درمیان توازن قائم کر نے پر زور دیتے ہیں اور عبدالماجد دریا بادی حسنِ انشاء کو انشائیہ کا امتیازی نشان قرار دیتے ہیں۔

مجموعی طور پر انشائیہ کی تعریف کے سلسلے میں بھی غلام جیلانی اصغر کی یہ بات صادق آ تی ہے جو انھوں نے انشائیہ کے ضمن میں کہی تھی:

’’انشائیہ میں گریز کی کیفیت ہوتی ہے، آپ جب ایک سرے سے اسے پکڑ نا چاہتے ہیں تو دوسرا سرا آپ کی انگلیوں سے پھسل جا تا ہے۔ ‘‘(۱۸)

٭٭

نرکا

حوالہ جات

 

۱۔  Encyclopedia Britannica, Vol. 8, P. No. 713

۲۔   جارج سینٹس بری، بحوالہ انشائیہ اور اردو انشائیے، سید محمّد حسنین، ص:۳۲

۳۔  W. H. Hudson, An Introduction to the study of Literature, P. No. 332, London, 1558

۴۔  E. William, A Book of English Essays, P. No. 11, London, 1951

۵۔  F. H. Pritchered, Essays of today, P. No. 11, London, 1930

۶۔  Houston Peterson, Great Essays, P. No. 14, New York, 1954

۷۔  Dr. Johnson, Refer. W. H. Hudson, An Introduction to the study of literature, P. No. 331, London, 1558

۸۔   اختر اورینوی، بحوالہ گفتگو، اوراق، لاہور، انشائیہ نمبر، ۱۹۸۵ء، ، ص:۱۶

۹۔  عبدالماجد دریابادی، بحوالہ انشائیہ ایک ہمہ جہت صنفِ نثر، سلیم آغا قزلباش،  اورق انشائیہ نمبر، ۱۹۸۵ء، ص:۱۳۹

۱۰۔   کلیم الدین احمد، پیش لفظ، نشاطِ خاطر، از حسنین عظیم آ بادی،  پٹنہ، ۱۹۸۰ء،  ص:۷

۱۱۔   ڈاکٹر آ دم شیخ، انشائیہ، بمبئی، ۱۹۶۵ء،  ص:۲۷

۱۲۔  نظیر صدیقی، شہرت کی خاطر، ڈھاکہ، ۱۹۶۱ء،  ص:۱۰

۱۳۔   ڈاکٹر سلیم اختر،  انشائیہ کی بنیاد، لاہور، ۱۹۸۶ء، ص:۲۱۰

۱۴۔   مشکور حسین یاد ممکناتِ انشائیہ، لاہور، ص:۴۳

۱۵۔  غلام اصغر جیلانی،  انشائیہ کیا ہے؟ اوراق،  انشائیہ و افسانہ نمبر مارچ-اپیریل ۱۹۷۲ء،  ص:۲۳۰

۱۶۔  ڈاکٹر وزیرآغا، دوسرا کنارہ، سرگودھا، ۱۹۸۲ء، ص:۸

۱۷۔  ڈاکٹر سید صفدر،  دوسرا کنارہ ایک مطالعہ،  ماہنامہ آہنگ، گیا، بہار، مارچ ۱۹۸۳ء،  ص:۱۷

۱۸۔  غلام جیلانی اصغر،  انشائیہ کیا ہے؟ اوراق،  انشائیہ و افسانہ نمبر مارچ-اپریل ۱۹۷۲،  ص:۲۳۰

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اردو انشائیہ…آزادی کے بعد…

 

 

انشائیہ کو اردو کی سب سے زیادہ متنازعہ فیہ صنف کہا جا سکتا ہے۔  اس کے متعلق اختلافی مباحث کی گونج اب بھی با قی ہے۔  دیگر اصناف کے مقابلے میں انشائیہ کی صنفی حیثیت اور خد و خال کے سلسلے میں بہت زیادہ سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ مثلاً انشائیہ کیا ہے؟اردو انشائیہ کا بانی کو ن ہے ؟ کس قسم کی تخلیقات کو اس زمرہ میں شامل کیا جائے گا؟ وغیرہ۔ انشائیہ نگاری کی تحریک در اصل آ زاد یِ  وطن کے بعد ہی وجود میں آئی جس کے بعد اس کے تحت تخلیق کاروں کی ایک قابلِ لحاظ تعداد نے اس صنف کو مضبوط بنیادیں فراہم کر دیں۔  تاہم

آ ج بھی طنزیہ مضامین،  ہلکے پھلکے اخباری کالم،  شوخ انداز میں لکھے گئے تنقیدی مضامین،  فکاہئے اور سفر نامے وغیرہ کو بھی انشائیہ قرار دینے کی روایت زندہ ہے۔

انشائیہ کو ایک پیرایۂ اظہار بھی کہا گیا۔  مشکور حسین یاد نے اسے تمام اصنافِ ادب پر محیط خیال کر تے ہوئے امّْ الاصناف کے لقب سے سرفراز کر دیا۔  داستا ن، ناول، افسانہ،  خاکہ،  خودنوشت، سوانح وغیرہ انشائی کیفیت کی حامل تحریروں کو اب بھی رسائل میں انشائیہ کے تحت شائع کیا جا تا ہے۔

گزشتہ برسوں کے دوران، اس صنف سے متعلق مباحث کا انداز مناظروں کا سا رہا ہے اور نو بت اسے ایک درمیانی صنف کہنے تک پہنچ چکی ہے۔ نئے اور پرانے کئی ادیبوں کے سر انشائیہ کا بانی ہو نے کا سہرا بندھ چکا ہے۔  اس صورتِ حال سے قطع نظر اس بارے میں اتفاقِ رائے موجود ہے کہ یہ ایک صنفِ ادب ہے جو مغرب سے مستعار ہے البتّہ اس کی بیشتر صنفی خصوصیات سے متعلق خیالات مختلف ہیں۔

اسی لئے انشائی مجموعوں کے بیشتر مرتّبین نے قدم قدم پر ٹھوکر کھائی ہے۔ آزادی کے بعد شائع ہو نے والے انشائیوں کے کئی مجموعے اس کے ثبوت میں پیش کئے جا سکتے ہیں۔

انشائیہ بحیثیت ایک صنفِ ادب فکر و نظر، تخیل و تدبّر اور آ زادیِ اظہار کی جو لانیوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔  مشہور انگریزی انشائیہ نگارولیم ہیزلٹ انشائیہ کو تمام انسانی معاملات پر محیط خیال کرتے ہوئے فنکار کی ذاتی دلچسپیوں اور دریافت کا فنّی اظہار قرار دیتا ہے۔

’’ ایسّےEssay ذہنی استعداد اور تدبّر کو انسانی امور کی ہمہ اقسام پر آزمانے کا فن ہے۔ یہ امور باقاعدہ کسی سائنس، فن یا عقیدے کی زد میں نہیں آ تے لیکن ادیب کی توجّہ اپنی طرف منعطف کرا لیتے ہیں اور پھر دوسرے لو گوں کی دلچسپی اور ہمّت کا باعث بن جا تے ہیں۔ ‘‘(۱)

غلام جیلانی اصغر یہ تسلیم کر تے ہیں کہ’ انشائیہ کے اجزاء فکری بھی ہیں اور جذباتی بھی‘۔ یعنی انشائیہ سوچنے پر بھی مجبور کرتا ہے اور محسوسات کے وسیع تر امکانات بھی چھوڑ جا تا ہے۔  اسی طرح ڈاکٹر وزیر آغا کے نزدیک انشائیہ نگار، ’اشیاء یا مظاہر کے مخفی مفاہیم کو کچھ اس طور گرفت میں لیتا ہے کہ انسانی شعور اپنے مدار سے ایک قدم باہر آ کر ایک نئے مدار کو وجود میں لا نے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ ‘‘(۲)

انشائیہ کی ان تعریفوں سے ظاہر ہے کہ انشائیہ میں آزادانہ سوچ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔  ہمارے مسلم معاشرے میں ابتدا ہی سے مذہبی روایات سے زیادہ خود ساختہ پابندیوں کی گرفت اس قدر مضبوط رہی ہے کہ انفرادی سوچ اور اظہارِ خیال کو فروغ حاصل نہ ہو پا یا۔  اجتہاد کی اجازت اور گنجائش کے با وجود نہ صرف یہ شے عوام الناس کے لئے شجرِ ممنوعہ بنی رہی بلکہ اعلیٰ طبقے میں بھی اس کا خو ف قائم رہا۔  سماج کے بعض مذہبی طبقات نے اس صورتِ حال کا فائدہ اٹھا یا اور اس خوف کی دیواریں مضبوط کر نے کی کو شش کیں تاکہ بھیڑ چال کو رواج دے کر اپنے مخصوص مقاصد حاصل کئے جا سکیں۔ آزادیِ افکار کو ابلیس کی ایجاد سمجھنے کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ آزادیِ وطن سے پہلے ندرتِ خیال اور انکشافِ ذات کا علمبردار انشائیہ اردو ادب میں ناپید رہا۔ انشائی کیفیت ہماری تحریروں میں ـــ ’صاف چھپتے بھی نہیں،  سامنے آ تے بھی نہیں ‘کی حالت میں دکھائی دیتی ہے۔

انشائیہ نگار اپنی ذات کے حوالے سے اشیاء اور مظاہر کے پیچھے پوشیدہ حقائق کو دریافت کر کے ہمارے لئے حیرت اور مسرّت کا سامان مہیّا کر دیتا ہے۔  ہمارے ادب میں تصّوف اور مذہبی افکار و خیالات کے تناظر میں موجودات کو دیکھنا اور ان سے معنویت کے نئے پہلو نکالنا اسی طرح مذہبی روایات کے حوالے سے اشیاء اور واقعات میں چھپے جہانِ دیگر کی دریافت کو انشائیہ کا محل سمجھا گیا۔ البتّہ یہاں انکشافِ ذات کی گنجائش کم تھی۔ علم و دانش پر مبنی اقوال،  بصیرت افروز خیالات اور حکیمانہ توجیہات کو اسی بنیاد پر انشائیہ گردانا گیا کہ ان میں سے بیشتر کا سرچشمہ مذہبی افکار و عقائد رہے ہیں۔  تصوّف اور روحانیت سے متعلق مضامین اور غیر مرئی عناصر کا احاطہ کر نے والی قدیم تحریروں اور تمثیلوں میں ما فوق الفطرت کر دار بھی ملتے ہیں۔  تصوّف کے موضوعات جس اسلوب میں اظہار کی منزل تک پہنچے وہ انشائیہ کا انداز تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ’ سب رس ‘کے وہ حصّے جن میں حکمت و دانش کی باتیں تمثیلی پیرائے میں بیان کی گئی ہیں، انھیں جاوید وششٹ نے منتخب کر کے انشائیہ کے طور پر کتابی شکل میں پیش کیا ہے۔ جاوید وششٹ کے خیال میں ’سب رس ‘کا مصنّف ملّا وجہی اردو انشائیہ کا باوا آ دم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو ادب کے اس شاہکار میں انشائیہ کی بعض خو بیاں تو یقیناً مو جود ہیں مگر اس کے بعد بھی دو صدیوں تک اردو ادب میں اس طرزِ اظہار کے نشو و نما کے شواہد نہیں ملتے۔

ڈاکٹر ظہیر الدین مدنی نے انشائیہ نگاری میں سرسیّد کی اوّلیت کو تسلیم کیا ہے۔ ’تہذیب الاخلاق ‘‘کے پلیٹ فارم سے منظرِ عام پر آ نے والے سر سیّد کے مضامین ’ٹیٹلر ‘اور’اسپکٹیٹر ‘ کے اتّباع میں لکھے گئے۔  ان کی تحریروں پر انگریزی انشائیہ نگار ایڈیسنؔ اور سٹیل کی گہری چھاپ نمایا ں ہے۔  سر سیّد کے مضمون ’امّید کی خوشی ‘کو بعض ناقدین نے نمائندہ انشائیہ قرار دیا ہے۔ لیکن شبلی نعمانی نے اپنے مقالہ ’ سر سیّد مرحوم اور اردو لٹریچر‘(مطبوعہ مخزن، لاہور،  مارچ۱۹۵۰ء؁ ص: ۲۳) میں لکھا ہے : ’امّید کی خوشی ‘ایک انگریزی مضمون سے ماخوذ ہے۔

سر سیّد کے مضامین مسلمانوں میں تعلیمی شعور اور قومی بیداری پیدا کر نے کی غرض سے ایک آلۂ کا ر کے طور پر استعمال ہوئے۔ ان تحریروں کا اسلوب، منطقی استدلال اور فکری جہت تمام تر قومی مسائل اور ان کی سماجی بیداری کی تحریک سے متاثر نظر آ تے ہیں۔ سر سیّد کے مضامین میں خلوص اور قومی اصلاح کے جذبے نے پند و نصائح کا انداز اختیار کیا ہے۔ ایک مضمون میں لکھتے ہیں :

’’سمجھ جس طرح کہ انسان کے لئے ایک بہت بڑا کمال ہے اسی طرح مکر اس کے حق میں بڑا وبا ل ہے۔ نیک دل کی منتہائے خوبی سمجھ ہے اور بد دل کی منتہائے بدی مکر۔ یا یوں کہئے کہ وہ نیک دل کے لئے معراج ہے اور یہ بد دل کے لئے کمال، سمجھ نہایت عمدہ اور نیک مقصد پیدا کر تی ہے اور ان کے حاصل ہو نے کو نہایت عمدہ اور تعریف کے قابل ذریعے قائم کرتی ہے…افسوس کہ ہماری قوم میں سب کچھ ہے پر یہی نہیں ہے۔ ‘‘(مضامین سرسیّد)

عہدِ سرسیّد کے دیگر ادیبوں مثلاً الطاف حسین حالیؔ اور ڈپٹی نذیر احمد کی تحریروں میں بھی خطیبانہ انداز نمایاں ہے۔ حالیؔ  زبانِ گو یا میں رقمطراز ہیں :

’’الٰہی ! اگر ہم کو رخصتِ گفتار ہے تو زبانِ راست گفتار دے اور دل پر تجھ کو اختیارہے تو زبان پر ہم کو اختیار دے۔ جب تک دنیا میں رہیں سچّے کہلائیں اور جب تیرے دربار میں آئیں تو سچّے بن کر آئیں۔ (آمین)‘‘( ۳)

مولوی نذیر احمد نے اپنے مضمون ’وقت ‘میں بھی یہی لہجہ اختیار کیا ہے :

’’ اے لڑکو! یہ فراغت کا وقت جو تم کو میّسر ہے اسے بس غنیمت سمجھو۔ ‘‘

قومی مسائل کا ادراک اور مسلمانوں کی زبوں حالی اور تہذیبی قدروں کا زوال ان مسائل کا اظہار سرسیّد اور ان کے بعد آ نے والے انشا پردازوں مثلاً رشید احمد صدیقی کی تحریروں میں جس شدّت کے ساتھ ہوا ہے آ زادیِ ہند کے بعد منظرِ عام پر آنے والی تحریروں میں وہ گر می بر قرار نہ رہ پائی اس دور کے مسائل کی تیز آ نچ نے سوچ و فکر کی رنگت بدل دی۔ نیا ماحول،  مسائلِ حیات کی مسموم ہوائیں اور جھلسادینے والا یہ مو سم انشائیہ کی تھم تھم کر برسنے والی بارش کی طرح کی سوچ اور کونپلوں کی طرح ابھرنے والے خیالوں کے لئے یوں بھی سازگار نہ تھا۔

ناہمواریوں اور ناگوار رویّوں پر ٹوٹ پڑنے اور طنز و مزاح کی کاری ضربوں سے مدِّ مقابل کی قلعی کھول کر رکھ دینے کا چلن اس دور کی تحریروں میں مقبولیت کی ضمانت تھا۔

یوں بھی ان نئے انشائیوں میں جدیدیت اور ترقّی پسند تحریک کے زیرِ اثر مذہبی درد مندی اور داعیانہ روش ختم ہو چلی تھی۔ آزادی کے بعد لکھے گئے انشائیوں میں تلمیحات، اساطیر اور مذہبی حوالے مختلف سیاق و سباق کی وضاحت اور نئے مفاہیم کی تخلیق کے لئے آئے ہیں جبکہ سر سیّد اور ان کے ہم عصروں کے مضامین میں یہ چیزیں اصلاحِ احوال اور سماجی بیداری کے متعین مقصد کو پو را کر تی ہیں۔

مسلمانوں میں تعمیری روح پھونکنے کا عزم اور اصلاح کا جذبہ سر سیّد کے مضامین کا اصل محرّک تھا۔  لیکن یہی چیز انشائیہ جیسی صنفِ لطیف کے لئے سمِ قاتل تھی اور ان تحریرو ں کو عام قسم کے مضمون کی سطح سے بلند ہو کر تخلیقی جہت تک پہنچنے میں مانع تھی۔ تحریکیں مشن اور منصوبے مخصوص سمتوں میں اپنے متعین ہدف کی طرف گامزن ہوا کرتے ہیں اور انشائیہ کسی منصوبہ بند پروگرام کا متحمّل نہیں ہو سکتا۔  یہی وجہ ہے کہ ترقّی پسند تحریک سے وابستہ فن کاروں سے انشائیہ کے حقوق ادا نہ ہو پائے۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ’ سب رس ‘ کے نام نہاد انشائیے اور سر سیّد کے مضامین مسلمانوں کی روحانی، جذباتی اور سماجی فکروں کے آئینہ دار ہیں۔  ان تحریروں نے فکر و خیال کی نئی جہتوں کو رو شناس کرانے کا فریضہ انجام دیا۔ ان کے عہد میں یہی ندرتِ خیال نئی سوچ کی علمبردار بھی تھی۔ ان تخلیق کاروں نے جمود کو توڑ کر شعور کی سطح پر نئے دائرے تخلیق کئے اسی برتے پر سرسیّد کو انشائیہ نگا ر کہا جا تا ہے۔  البتّہ شخصی سطح پر ہو نے والا خود انکشافی کا عمل جو انشائیہ کی امتیازی خصوصیت ہے سر سیّد اور ان کے ہم عصر ادیبوں میں مفقود ہے۔

سر سیّد کے بعد محمّد حسین آ زاد کی تصنیف ’’نیرنگِ خیال ‘‘میں موجود تحریریں اپنے تمثیلی انداز سمیت انشائیہ کے بہترین نمونے ہیں۔ لیکن اب یہ بات ثابت ہو چکی ہے اور محمّد حسین آزاد نے اپنی تحریر میں خود بھی تسلیم کیا تھا کہ کئی مضامین انگریزی سے ماخوذ ہیں۔ خود لکھتے ہیں :

’’میں نے انگریز انشا پردازوں کے خیالات سے اکثر چراغ روشن کیا ہے۔ ‘‘

اس عہد میں عبدالحلیم شرر کی تخلیقات میں خصوصاً اسلامی موضوعات پر قابلِ قدر سرمایہ مو جود ہے، البتّہ انشائیوں میں ان کی مشرق پرستی اور جما لیاتی حس کائنات کے اسرار سے پر دے اٹھا کر قدرت کی نیرنگیوں کو بے نقاب کر تی ہے۔ اپنے مضمون اچھوتا پن میں لکھتے ہیں :

’’خلاصہ یہ کہ قدرت نے ان کی خوبیوں اور لذتوں پر جو مہر لگائی ہے۔ وہ ابھی تک نہیں ٹوٹی اور ان کا کو را پن یہ دلکش جملے کہہ کے ہمیں لالچ دلا رہا ہے کہ لا عین راء ت و لا اذن سمعت ’’رات دن ‘‘ تم دیکھتے ہو کہ آبدار موتی یا جلا دار آئینہ کسی کا ہاتھ چھوتے ہی دھندلا ہو جا تا ہے اور چھوئی موئی کی نازک پتیوں کو ہماری ہوا بھی لگتی ہے تو مرجھا جا تی ہے۔ ‘‘(۵)

خواجہ حسن نظامی کے مضامین میں معمولی واقعات اور حقیر چیزوں کے متعلق انکشافات میں معارف و حقائق بیان ہوئے ہیں۔  انھوں نے ’’دیا سلائی‘‘، ’’آنسو کی سر گزشت‘‘ اور ’’جھینگر کا جنازہ ‘‘ وغیرہ مضامین میں جس شگفتہ انداز میں تبصرے کئے ہیں وہ کسی واعظ کے بیان سے کم پر اثر اور بصیرت افروز نہیں۔ دیا سلائی کی زبانی یہ مکالمہ ملاحظہ فرمائیے :

’’حضرات!آپ ہزاروں لاکھوں سجدے کر تے ہیں مگر آپ کا سرکش وجود ویسا ہی باقی رہتا ہے مجھ کو دیکھئے ایک ہی سجدے میں مقبول  ہو جا تی ہوں اور تجلی اس چھوٹی سی شکل کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔ ‘‘(۶)

میر ناصر علی نے اپنے مضامین کو ’’خیالاتِ پریشاں ‘‘ کا عنوان دیا ہے۔  ان کی تحریروں میں بقول ڈاکٹر آ دم شیخ نہ سر سید احمد خاں اور حالی کی مقصدیت ملتی ہے نہ محمد حسین آزاد کی شدت پسند تخلیقیت۔  میر ناصر علی کے درج ذیل جملے دیکھئے:

’’ دنیا ایسا تماشا ہے کہ جس قدر دیکھئے اسی قدر جی لگتا ہے۔ اس سرائے فانی کے دو دروازے ہیں جو اندر آنے کا ہے اس پر لکھا ہے کبھی خوش نہ رہنا اور جو جانے کا ہے اس پر کندہ ہے غم نہ کر نا۔ ‘‘

مرزا فرحت اللہ بیگ کے مضمون ’’مردہ بدستِ زندہ‘‘ میں قبرستان میں جنازے کے ساتھ آئے ہوئے لو گوں کے رویوں کو دلچسپ انداز میں پیش کی گیا ہے:

’’غرض اسی طرح جوڑی بدلتے بدلتے مسجد تک پہنچ ہی گئے، یہاں ہمراہیوں کی پھر تقسیم ہوئی۔ ایک تو وہ جو ہمیشہ نماز پڑھتے ہیں اور اب پڑھیں گے اور دوسرے وہ جو نہا دھو کر کپڑے بدل کر خاص اسی جنازے کے لئے آئے ہیں۔  تیسرے وہ ہیں جو اپنی وضعداری پر قائم ہیں یعنی نماز نہ کبھی پڑھی ہے اور نہ اب پڑھیں گے۔ دور سے مسجد کو دیکھا اور انھوں نے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا۔ ‘‘(۷)

مولانا ابو الکلام آ زاد کے خطوط جو ’’غبارِ خاطر ‘‘ میں شامل ہیں، مسلمانوں کے مذہبی اور معاشرتی پہلوؤں کا بھی احاطہ کر تے ہیں البتہ ’’غبارِ خاطر‘‘ کے بعض حصّے خصوصاً حکایاتِ ’’زاغ، بلبل ‘‘ اور ’’چائے ‘‘ کے متعلق مولانا کے تاثرات انشائی ادب کے بہترین نمونے ہیں۔ بیسویں صدی کے بیشتر ادیبوں کی تحریروں میں انشائیہ کی خصوصیات نظر آ تی ہیں۔

ظہیر الدین مدنی نے ’’اردو ایسیز‘‘ میں اس عہد کے انشا پردازوں کے مضامین جمع کئے ہیں ان میں سرسید، محمد حسین آ زاد، شرر،  خواجہ حسن نظامی، مولانا ابوالکلام آ زاد، نیاز فتح پوری،  سجادحیدر یلدرم، سلطان حیدر جوش، مولانا خلیق دہلوی، رشید احمد صدیقی، پطرس بخاری،  مشتاق احمد یوسفی اور کنہیا لال کپور شامل ہیں۔ ان تحریروں کے لئے لفظ انشائیہ کے بجائے ’’ایسیز‘‘ استعمال کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر اختر اورینوی نے ۱۹۴۴ء؁ میں اکبر علی قاصد کے مجموعے ’’ ترنگ‘‘ کے مقدمے میں یہ لفظ استعمال کیا۔ اگست۱۹۵۵ء؁ میں وزیر آغا کا مضمون ’’ گر می کی آغوش میں ‘‘ ادبِ لطیف، لاہور میں شائع ہوا۔ اسے انشایئے لطیف کے تحت شائع کیا گیا۔ اس دوران انگریزی Light Essayکے لئے انشائیہ کی اصطلاح استعمال کر نے کے متعلق بحث کا سلسلہ چلتا رہا۔  ۱۹۶۱ء؁ میں وزیر آغا کا مجموعہ ’’خیال پارے‘‘ منظر عام پر آیاجس میں انگریزی انشائیہ کے خد و خال تخلیقی سطح پر نمایاں تھے۔ ان تحریروں میں انکشافِ ذات اور جدتِ خیال کو خصوصی اہمیت حاصل تھی۔ اس کے بعد پا کستان میں انشائیہ نگاری کی تحریک وجود میں آئی۔ جس کے تحت انشائیہ نگاروں کی ایک قابلِ لحاظ تعدادسامنے آئی۔  ان میں وزیر آغا کے علاوہ انور سدید، جمیل آ س عہد کے انشا پر ذر، مشتاق قمر، داود رہبر، غلام جیلانی اصغر، نظیر صدیقی،  احمد جمال پا شا، رام لعل نابھوی، سلیم آغا قزلباش، کامل قادری، اکبر حمیدی، حامد برگی، محمّد اسد اللہ، ارشد میر، بشیر سیفی، محمّد اسلام تبسم وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

انشائیہ نگاری کی اس تحریک کے تحت ہندوستان میں بہت کم ادیبوں نے اپنی تخلیقات کو ان خطوط پر پیش کرنے کی کوشش کی جو انگریزی انشائیہ کا طرۂ امتیاز تھا۔ ۱۹۹۱ء؁ میں ہندوستان میں راقم کے انشائیوں کا مجموعہ ’’بوڑھے کے رول میں ‘‘ شائع ہوا تو اس کے پیش لفظ میں ڈاکٹر وزیر آغا نے لکھا :

’’پاکستان میں انشائیہ نگاری ایک تحریک کی صورت اختیار کر چکی ہے جب کہ بھارت میں تا حال صرف تین انشائیہ نگاروں نے اس میدان میں قدم رکھا ہے۔ ان میں دو تو منجھے ہوئے ادیب یعنی احمد جمال پاشا اورام لعل نابھوی، لیکن تیسرا ایک نو جوان انشائیہ نگار محمد اسد اللہ ہے۔ ‘‘

ہندوستان میں انشائیے کی صنفی خصوصیات او ر اس کے خد و خال، نیز انشائیہ کی داخلی خوبیوں کا شعور پو ری طرح عام نہ ہو پا یا۔  اسی لئے یہ تحریک یہاں نشو و نما نہ پا سکی۔ ذیل میں ہم اس تحریک سے وابستہ چند انشائیہ نگاروں پر نظر ڈالتے چلیں۔

احمد جمال پا شا بنیادی طور پر مزاح نگار کے طور پر ادب میں اپنی شناخت بنا چکے ہیں۔  ان کے انشائیے ’’ہجرت‘‘،  ’’بے ترتیبی‘‘  اور ’’بلّیوں کے سلسلے میں ‘‘ماہنامہ اوراق لاہور میں شائع ہو کر مقبول ہوئے۔  اپنے انشائیہ ’’بے ترتیبی‘‘ میں ابر پاروں کو نفسِ  انسانی سے تشبیہ دیتے ہیں :

’’نفسِ انسانی کی طرح ان سیماب صفت ابر پاروں کو قرار نہیں … ان میں انسانی فطرت جھلکتی ہے۔  یہ بھی با ہر کے آ دمی کی طرح اندر سے کچھ با ہر سے کچھ، جیسے انسان کے دل میں کچھ ہو تا ہے دماغ میں کچھ…سارے مذاہب اور عبادات کا نزول اسی لئے ہوا ہے کہ یہ شانتی کے ساتھ بیٹھ کر گیان دھیان کر سکے۔ سادھنا پانے والے کے حضور میں سر بسجود ہو سکے۔ اگر یہ اس پر تیار بھی ہو جائے تو چوبیس گھنٹے میں فقط چند منٹ خدا سے لو لگا تا ہے لیکن اس میں بھی جہاں وہ جسمانی طور پر صرف اپنی نا رسا خواہشوں کی تکمیل کے لئے سر بسجود ہوتا ہے۔  وہاں اس کا نفس شیطان کے کندھوں پر سوار چاروں کھونٹ کی خبر لینے میں مصروف رہتا ہے۔  اس سلسلے میں نفسیات کے ایک پروفیسر نے جو نہ صرف عالمی شہرت کے حامل بلکہ اللہ والے بھی ہیں، ان سے کسی نے پو چھا: ’’کیا یہ ممکن نہیں کہ عبادت کے دوران خیال ادھر ادھر نہ بھٹکنے پائے‘‘۔  بولے: ’’ صاحب ! نفس تو کتے کی دم ہے کہیں کتے کی دم سیدھی بھی ہوئی ہے؟‘‘(۹)

آ زادی کے بعد انشائیے کو ہندوستان میں تخلیقی اور تنقیدی ہر دو سطحوں پر متعارف کرانے والوں میں نظیر صدیقی اپنے انشائیوں کی شگفتگی اور طنز کے سبب خاص طور پر مشہور ہیں۔  اپنے انشائیے ’’امتحان گاہ ‘‘ میں لکھتے ہیں :

’’اللہ والوں کے نزدیک تو یہ دنیا ہی امتحان گاہ ہے لیکن چونکہ میرا شمار اللہ والوں میں نہیں ہو تا اور نہ ہو سکتا ہے اس لئے امتحان گاہ سے میری مراد دنیا نہیں بلکہ وہ جگہ یا کمرہ ہے جہاں طلبہ امتحان دیتے ہیں اور اساتذہ امتحان لیتے ہیں۔ ‘‘

اسی مضمون میں آ گے امتحان میں ہو نے والی دھاندلیوں کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے:

’’ایک امتحان میں ایک صاحبِ ریش طالبِ علم کے متعلق مجھے کچھ ایسی ہی خوش گمانی ہو گئی تھی۔ چنانچہ تھوڑی دیر کے لئے میں ان کی طرف سے غافل ہو گیا۔ اس کے بعد جو اچانک نظر پڑی تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ ایک موٹی سی کتاب، کچھ دامن کے اندر، کچھ دامن کے باہر، زانو پر رکھ کر نقل کر نے میں مصروف ہیں۔ انھوں نے میرے دیکھنے کو دیکھ لیا اور کتاب کو دامن کے اندر سر کا لیا۔  اس کے بعد کسی قسم کی گھبراہٹ کا ا ظہار کئے بغیر یوں لکھنے میں مصروف ہو گئے جیسے ساری دنیا ٹھیک چل رہی ہو اور وہ خود بھی غلط راستے پر نہ تھے۔ میں نے انھیں دور سے ٹوکنا مناسب نہ سمجھا اس لئے آ ہستہ آ ہستہ ٹہلتے ہوئے ان کے قریب گیا اور کہا: ’’آپ جو کچھ کر رہے ہیں شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی‘‘ اس پر وہ کھلکھلا کر ہنس پڑے اور کتاب میرے حوالے کر دی۔ ‘‘(۱۰)

رام لعل نابھوی کے انشائیوں کے مجموعے ’آم کے آم‘ کی تحریروں میں مختلف موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ پوسٹ کارڈ کے متعلق لکھتے ہیں :

’’وہ وقت یاد کیجئے جب پوسٹ کارڈوں پر راجے مہاراجے، نواب،  بادشاہ بیگم، ملکہ اپنا نام، تصویر، اپنی ریاست کا نام چھپواتے تھے۔ نہ راجے رہے نہ مہاراجے نہ نواب نہ بادشاہ، نہ بیگم نہ ملکہ نہ ریاستیں لیکن اگر کوئی پوسٹ کارڈ ایسا کسی کے ہتھے چڑھ جائے تو وہ اسے نمائش میں دکھا تا ہے۔ ‘‘(۱۱)

محمّد اسد اللہ کے انشائیے نافرمانی کو انسان کی ایک پر اسرار طاقت اور کمزوری سے تعبیر کیا ہے:

’’نافرمانی ایک سکّہ ہے جس کا دوسرا پہلو یقیناً فرمانبرداری ہے۔  شیطان کے یہاں فرمانبرداری والا پہلو نفسیاتی خباثت میں ڈوبا ہوا تھا اس لئے خدا نے انسان کو نافرمانی کے آ لات سے لیس کیا،  فرشتے عبادت کے بل پر اپنا دفاع تو کر سکتے تھے البتہ یقین کی سطح پر خدا کی ذات کے اثبات کی ایک ارفع صورت یہ قرار پائی کہ خدا کے ما سوا کی نفی کی جائے۔ نافرمانی نفی کا بہترین آلہ تھا۔ چنانچہ اسی ایک تیر سے خدا کے ماسوا کی نفی کا عمل بھی وجود میں آ یا جس کے  بطن سے خدا کی  ذات کے اثبات کی صبح خود بخود نمودار ہو گئی جیسے تاریکی کی چادر پھاڑ کر صبح کا اجلا اجلا وجود ہر طرف بکھر جائے۔ ‘‘(۱۲)

ڈاکٹر آدم شیخ نے انشائیوں کے چند مجموعے مرتب کئے ہیں ’انشائیہ‘ (۱۹۶۵ء)، اردو انشائیہ  (۱۹۸۸ء؁)وغیرہ اردو انشائیہ میں شامل ڈاکٹر آ دم شیخ کے انشائیے خصوصاً ’’انٹلکچول‘‘ او ر ’’کتّا‘‘ میں نظیر صدیقی کی طرح طنزیہ انداز غالب ہے جو انشائیے کی لطافت پر بارِ گراں ہے۔ اس انشائیے میں مولویوں کو نشانۂ طنز بنایا گیا ہے:

’’ دنیا میں بڑے بڑے انٹلکچول بلا کے عاشق مزاج اور کمال کے نظر باز رہے ہیں۔ آ ج بھی دنیا میں ایسے چھپے ہوئے انٹلکچول ضرور ملیں گے جو اپنی منکوحہ بیوی کے علاوہ پانچ پچیس حسیناؤں سے ادبی اور غیر ادبی تعلقات ضرور رکھتے ہوں گے۔  اس منطق پر بعض علماء کو اعتراض ہے ہو تو ہو لیکن میری نظروں سے ایک بھی جید مولوی ایسا نہیں گزرا جو صرف ایک بیوی کا شوہر ہو البتہ ایک مولوی اور ایک انٹلکچول کے طریقہ میں فرق صرف اتنا ہے کہ جو کام ایک مولوی شریعت کے دائرے میں رہ کر کر تا ہے انٹلکچول وہی کام جامے سے باہر ہو کر کرتا ہے۔‘‘(۱۳)

مذکورہ بالا انشائیوں کی طرح ہندوستان میں لکھے گئے بیشتر مضامین جو انشایئے کے تحت پیش کئے گئے حقیقتاً طنزیہ مزاحیہ مضامین ہیں۔ انشائیہ کے تحت شائع ہو نے والی تحریروں میں عام طور پر انشائی خصوصیات کا فقدان نظر آ تا ہے، آ زادیِ ہند کے آس پاس انشائیہ نگاری کو ڈاکٹر سلیم اختر نے ایک گراف کے ذریعے پیش کیا ہے اس عہد کی صورتِ حال کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’ جب انشائیہ کے نقطہ نظرسے دیکھتے ہیں تو ۱۹۳۶ء؁ سے لے کر  ۱۹۴۷ء؁ تک یہ زوال آشنا نظر آ تا ہے۔ د سے س تک انشائیے میں جو ٹھہرا ؤ کا مقام آ یا ہے کسی بڑے قد آ ور انشائیہ نگار کی عدم موجودگی کے باعث س سے ک تک نیچے نظر آ تا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ اہم سبب برصغیر کی وہ عمو می ادبی فضا بنتی ہے جس کے ادبی مقاصد انشائیہ کے فنی مقاصد کے بر عکس تھے۔ اسی لئے ترقی پسندوں نے جہاں طنز کو بے حد ترقی دی اور کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، کنہیا لال کپور،  فکرتونسوی اور ان کے بعد ابراہیم جلیس کی صورت میں طنز نگار پید اکئے وہیں ایک بھی انشائیہ نگار نہیں ملتا۔ یہی نہیں بلکہ غیر ترقّی پسند ادیبوں جیسے پطرس،  رشید احمد صدیقی، عظیم بیگ چغتائی، شوکت تھانوی، چراغ حسن حسرت، عبدالعزیز فلک پیما، حاجی لق لق کے ہاں بھی مزاح اور طنز تو ہے مگر وہ تحریر نہیں جسے خالص انشائیہ قرار دیا جا سکے۔ ‘‘(۱۴)

٭٭

 

حوالہ جات

 

۱۔  ولیم ہز لٹ، بحوالہ ’’انشائیہ اردو ادب میں ‘‘ انور سدید۱۹۸۵ء؁، لاہور،  ص:۲۸

۲۔  غلام جیلانی اصغر،  انشائیہ کیا ہے، اوراق، لاہور، ۱۹۷۲ء؁، ص:۲۳۰

۳۔  الطاف حسین حالی،  زبانِ گویا،  اردو ایسیز،  مرتّبہ ڈاکٹر ظہیر الدین مدنی،  دہلی،  ۱۹۸۱ء؁،  ص:۶۵

۴۔  مولوی نذیر احمد دہلوی، وقت، اردو کا بہترین انشائی ادب مرتبہ ڈاکٹر وحید قریشی،  ص:۹۶

۵۔  عبدالحلیم شرر،  اچھوتا پن،  اردو انشائیہ، مرتبہ ڈاکٹر آ دم شیخ، ممبئی، ۱۹۸۸ء؁، ص:۸۰

۶۔   خواجہ حسن نظامی، دیا سلائی،  اردو ایسیز،  ص:۹۰

۷۔   مرزا فرحت اللہ بیگ، مردہ بدستِ زندہ،  اردو ایسیز، ص:۱۴۵

۸۔  ڈاکٹر وزیر آغا،  پیش لفظ،  بوڑھے کے رول میں،  مصنّفہ محمّداسد اللہ، ناگپور،   ۱۹۹۱ء؁،  ص:۵

۹۔  احمد جمال پا شا، بے ترتیبی، منتخب انشائیے، مرتبہ سلیم آغا قزلباش،  سرگودھا،  ۱۹۸۴ء؁، ص:۹۵

۱۰۔  نظیر صدیقی،  امتحان گاہ،  شہرت کی خاطر، کراچی، ۱۹۹۷ء؁

۱۱۔  رام لعل نابھوی،  پوسٹ کارڈ،  منتخب انشائیے،  ص:۹۹

۱۲۔  محمّد اسد اللہ، نا فرمانی،  مطبوعہ، بوڑھے کے رول میں، ص:۳۲

۱۳۔  ڈاکٹر آ دم شیخ، انٹیلکچول،  اردو انشائیے، ص:۲۳

۱۴۔  ڈاکٹر سلیم اختر،  انشائیے کی بنیاد، لاہور، ۱۹۸۶ء؁، ص:۳۲۶

٭٭٭

 

 

 

 

مہاراشٹر میں طنز و مزاح

 

ہندوستان میں آ زادی کے بعد دیگر زبانوں کی طرح اردو ادب کی مختلف اصناف بھی ایک نیا منظر نامہ پیش کرتی ہیں تقسیمِ ہند سے پیدا ہو نے والے بحران کی تلخیاں اور بدلتی ہوئی معاشرتی زندگی کی بشارتیں اس دور کے ادب میں نمایاں ہیں۔  آ زادی کے بعد اردو ظرافت نے اسی روایتی ورثہ کو آ گے بڑھا تے ہوئے عصری زندگی کا کچّا چٹّھا، چٹپٹے،  تیکھے مگر خوشگوار لب و لہجے میں پیش کیا۔ یہی ادبی شوخیاں اردو ظرافت کی پگڑی میں چند سنہرے پروں کا اضافہ کر گئیں۔

آ زادی کے بعد مہاراشٹر میں خواہ نثر ہو یا نظم طنز و مزاح کی بھر پو ر نمائندگی کر نے والے زندہ دل فنکاروں کی ایک ایسی کھیپ سامنے آئی جن کے قہقہوں اور طنزیہ مسکراہٹوں کو ادب کے ایوان میں پہچان پتر ملا، ان کے قلم سے علاقائی ظریفانہ ادب کا سر اونچا ہوا او ر مزاحیہ ادب کے بینک بیلنس میں اضافہ ہوا۔  اردو میں طنز و مزاح کی تخلیق کے لئے چند مراکز مشہور تھے۔  لاہور، لکھنو اور حیدر آباد بعد ازاں بغیراس قسم کا کوئی مرکز قائم کئے ہوئے کئی مزاح نگار ممبئی میں اکٹّھا ہو گئے تو ان قلمکاروں نے مرکزی حیثیت حاصل کر لی۔ ان میں سے بیشتر مہاجر ہی سہی مگر تا دمِ آ خر ان کی شہرت ممبئی ہی کے کھونٹے سے بندھی رہی۔  ان میں کرشن چندر،  راجندر سنگھ بیدی، راجہ مہدی علی خاں اور خواجہ عبدالغفور قابلِ ذکر ہیں۔ اس دیار کے چند مزاح نگاروں نے اردو ادب میں قابلِ افتخار مقام حاصل کیا ان میں یو سف ناظم،  پرویز ید اللہ مہدی،  سلمیٰ صدیقی،  فیاض احمد فیضی،  داؤد کاشمیری،  علّامہ بمباٹ( عبد الحمید بوبیرے) اور اسحاق ایّوبی اہم ہیں۔

مہاراشٹر میں آ زادی کے بعد ظرافت کی تخلیق کر نے والوں میں کرشن چندر سرِ فہرست ہیں۔  ان کا پہلا طنزیہ مجموعہ ’’ ہوائی قلعے‘‘ ظرافت اور انشائی کیفیت سے لبریز سماجی حقیقت نگاری کا ایک اچھوتا نمو نہ تھا۔ کرشن چندر کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ انھوں نے طنزیہ مضامین کے چھوٹے چھوٹے پیمانوں سے ساقی گری پر اکتفا نہ کر تے ہوئے ’’ایک گدھے کی سرگزشت‘‘،  ’’ایک گدھے کی واپسی ‘‘ اور’ ’ایک گدھا نیفا میں ‘‘ جیسی تصانیف کے ذریعے اردو ظرافت کو ایک بڑا کینواس مہیا کر دیا جس سے ان کے عہد کے بھارت کی وہ تصویر ابھری جس میں خواب و حقیقت،  شوخی و شرارت و سنجیدگی، قطعیت اور مبالغہ ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں۔ ان مزاحیہ نا ولوں کے علاوہ کرشن چندر نے مزاح کو دیگر اصناف میں بھی بحسن و خو بی پیش کیا ’’دروازے کھول دو ‘‘اور دیگر ڈراموں میں بھی مزاح کا بھر پور مظاہرہ ملتا ہے۔  ان کے مضامین،  افسانوں نا ولوں اور ڈراموں کی مقبولیت کا ایک ذریعہ مزاح بھی ہے۔ قارئین کبھی ان کے قلم کی کاٹ سے چونک اٹھتے ہیں اور کبھی ہنس پڑتے ہیں۔ ان کی کامیاب مزاحیہ مضامین میں ’’ جامن کا پیڑ‘‘،  ’’دلیپ کمار کا نائی‘‘،  ’’وٹامن‘‘،  ’’لوکی‘‘ اور ’’ادب برائے بطخ‘‘ خاص طور پر اہمیت کے حامل ہیں۔  مزاحیہ ’’لو کی‘‘ کا ایک اقتباس ملاحظہ فر مائیں :

’’عورت اور لو کی میں غضب کی مشابہت ہو تی ہے۔ عورت کی طرح لو کی کا سر بھی چھوٹا ہو تا ہے اور دھڑ موٹا ہو تا ہے…اچّھی لو کی اچھی عورت کی طرح نرم ہو تی ہے۔  حسین عورت اور حسین لو کی دونوں کو عمرِ طبعی تک نہیں پہنچنے دیا جا تا، پہلے ہی توڑ لیا جا تا ہے۔ ‘‘

راجندر سنگھ بیدی کے مضامین کا ایک مجموعہ ’’مہمان‘‘ شائع ہو ا تھاجس میں مضامین اور خاکے تھے۔  ہر چند ان تحریروں میں وہ شگفتگی عنقا ہے جو اس قبیل کے ادب کا خاصہ ہے اسی کے پیشِ نظر کے کے کھلّر نے لکھا ہے:

’’ ما یوسی اور محرومی کے دور نے بیدی کو مزاح کے قابل نہ چھوڑا۔ ‘‘(۲)

بیدی نے زندگی کو ایک طنز نگار کی حیثیت سے دیکھا اور قلمبند کیا۔  ان کی ظریفانہ نگارشات میں ’’الٰہ آ باد کے حجام‘‘ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔  یہ کرشن چندر کے ’’دلیپ کمار کا نائی‘‘ سے مختلف چیز ہے۔  لو ک پتی،  کو شک اور دیگر نائیو ں کے حوالے سے بیدی نے انسانی فطرت کی نا ہمواریوں کو بے نقاب کیا ہے۔  مہمان کے دیگر مضامین میں ابھر نے والا بیوی کا کر دار بھی اردو مزاح کی روایتی بیوی سے مختلف ہے۔

اس میں عورت کی نفسیاتی اور ازدواجی زندگی کی مضحکہ خیزیوں کو بیدی نے مشاہدہ اور تخیل آرائی کی مدد سے نشانۂ طنز بنایا ہے۔

اس عہد کے افسانہ نگاروں، عصمت چغتائی اور خواجہ احمد عبّاس کے افسانوں اور ناولوں میں طنز و مزاح کے عمدہ نمونے ملتے ہیں۔  عصمت چغتائی کا منفرد اسلوب اور زبان کا چٹخارہ ان کی تحریروں کی جان ہے، لہجے کی چہک مزاحیہ مضامین کا مزہ دیتی ہے۔  سلمیٰ صدیقی نے اپنی مزاحیہ تصنیف ’’سکندر نامہ ‘‘ میں قدیم روایتی کر داروں کی مدد سے ہلکا پھلکا مزاح پیش کیا جس میں کر دار نگاری اور اندازِ بیان دلچسپ بھی ہے اور پر اثر بھی۔

یو سف ناظم دورِ جدید کے اہم مزاح نگاروں میں ہیں جنھوں نے بحیثیت مزاح نگار اردو ظرافت کو ایک منفرد انداز اور مخصوص زاویۂ نگاہ عطا کیا جس کا حاصل طنز و مزاح کی چند قابلَ قدر تصانیف اور متعدد مضامین ہیں جو اردو ظرافت کے لئے سر مایۂ افتخار ہیں۔ یو سف ناظم نے ادب، سماجی زندگی اور سیاست پر جس انداز سے طنز کے وار کئے ہیں اس میں قوتِ مشاہدہ،  فنکاری اور ذہانت نمایاں ہے۔  جملوں میں قوسین کے استعمال سے جس ندرت و معنویت کو انھوں نے متعارف کر وایا وہ ان کے اسلوب کی ایک اہم خوبی ہے۔  ان کے طنز میں شوخی بھی ہے اور شرارت بھی،  تفکّر بھی ہے اور گہرائی بھی اسی لئے اس کی گہرائی تک اترنا ہر کس و ناکس کے بس میں نہیں۔  یوسف ناظم کی ظرافت کے ڈانڈے رشید احمد صدیقی کی ظرافت سے ملتے ہیں اس قبیلے کی معیاری ظرافت اپنی مکمّل تفہیم اور لطف اندوزی کے لئے سیاق و سباق،  حوالوں اور علمی و ادبی روایتوں سے واقفیت کا مطالبہ کر تی ہے نمونہ ملاحظہ فرمائیں :

’’ عید اگر اچانک آ جائے ( ایسا بھی ہو اکر تا ہے ) تو سارے شہر میں گھبرا ہٹ کی لہر دوڑ جا تی ہے۔  ( شہر میں کسی نہ کسی چیز کا دوڑ تے رہنا ضروری ہے ) اور ہر شخص دودھ کی تلاش میں گھر سے باہر نکل جا تا ہے۔  دودھ بیچنے والے پانی کی فکر میں نکل پڑتے ہیں۔ سنا ہے درزیوں کے ہاں بھی لائن لگ جا تی ہے اور جو کپڑا جس کے ہاتھ لگ جا تا ہے اسی کا ہو جا تا ہے۔ کیونکہ شاعر کہتا ہے جو بھی ہا تھ بڑھا کر اٹھا لے جام اسی کا ہے۔  عید کے دن اسی لئے اکثر لوگ ایسے کپڑوں میں نظر آ تے ہیں جو یا تو قافیہ کی طرح تنگ ہو تے ہیں یا سیاسی بیانوں کی طرح پھیلے ہوئے ہو تے ہیں۔ ‘‘(۳)

پرویز ید اللہ مہدی کی ظرافت،  زندہ دلی، خوش طبعی اور کھلنڈرے پن کی آئینہ دار ہے۔  کسی موضوع کے محض چند پہلوؤں پر فقرہ بازی اور نکتہ آفرینی پر اکتفا نہ کرتے ہوئے انہوں نے عصری زندگی کے شب و روز کا باریک بینی سے مشاہدہ کر کے طنز و مزاح کے تیر و نشتر چلا کر صورتِ حال کا مکمّل تجزیہ کر نے کی روایت قائم کی ہے۔

’’ ان چٹپٹے مسالہ جا تی کیلنڈروں کا ہر ورق قابلِ دید و قابلِ داد ہو تا ہے لیکن کوئی قتالۂ عالم نازنینہ اس قدر جاذبِ نظر ہوتی ہے کہ مہینہ ختم ہو نے پر بھی ورق الٹنے کو جی نہیں چاہتا۔  ظاہر ہے جن کیلنڈروں پر حسن کی ہریالی اس قدر وافر مقدار میں لہلہا رہی ہو ان پر دن، تاریخ،  مہینہ اور سن دیکھنے کا ہو ش کسے رہتا ہے۔  خدا جھوٹ نہ بلوائے ہمارے ایک شناسا کے بیڈ روم میں بیس سال پرانا کیلنڈر آ ج بھی پوری آ ب و تاب اور اہتمام سے لٹکا ہوا ہے۔  ‘‘(۴)

سلمیٰ صدیقی کی تصنیف ’’ سکندر نامہ‘‘ دلچسپ اندازِ بیان اور ہلکے پھلکے مزاح کے علاوہ موثر کردار نگاری کے لئے بھی یاد رکھی جائے گی۔  خواجہ عبدالغفور کی بنیادی دلچسپی لطائف سے رہی ہے۔  اس سلسلے کے چند مجموعوں کے علاوہ مختلف موضوعات کو لطائف کے حوالے سے پیش کرتے ہوئے انھوں نے نہ صرف لطیف پیرایہ اختیار کیا بلکہ نئے نکات بھی پیدا کئے۔  نئے مزاح نگاروں میں فیاض احمد فیضی نے معیاری مزاحیہ تخلیقات کے ذریعے اپنی پہچان بنائی ماڈرن زندگی اور رہن سہن کے بدلتے ہوئے رنگ و روپ کو ترچھی نظروں سے دیکھتے ہوئے بے اعتدالیوں اور مضحکہ خیزیوں کو گرفت میں لے کر مزاح پیدا کر نے کا ہنر انھیں آ تا ہے:

’’ہم سوچ رہے ہیں اگر کہیں مرزا غالبؔ کے پا س موبائیل ہو تا تو وہ خر قہ و سجّادہ رہن رکھنے کے بجائے موبائیل ہی رہن رکھ کر دعوتِ آب و ہوا کا اہتمام کر لیتے۔  اگر ان کا موبائیل رہن ہو نے سے بچ جا تاتو وہ کوتوالِ شہر کے ہاتھوں گرفتار بھی نہ ہو تے کیونکہ مو لانا حا لیؔ،  شیفتہؔ یا ان کی منظورِ نظر ڈومنی یا پھر خود مفتی صدر الدین آزردہؔ  اپنے موبائیل پر انھیں بتا دیتے کہ مرزا صاحب ہوشیار کو توال آ رہا ہے۔ ‘‘ (۵)

داؤد کاشمیری کی تحریروں میں سیاسی طنز کے عمدہ نمونے مو جود ہیں۔ ان کی کتاب’’ کہا سنا معاف‘‘ طنز و مزاح کے مضامین کا ایک ایسا مجموعہ ہے جس میں نہ صرف ہماری طبیعت کو گدگدانے کا بھر پور سامان موجود ہے بلکہ سماج کی بے اعتدالیوں کو کو نشانۂ طنز بنایا گیا ہے۔  ان کے متعلق خالد اشرف لکھتے ہیں :

’’ داؤد کاشمیری کے تمام موضوعات زندگی کے صراطِ مستقیم پر نشان میل کی صورت نظر آ تے ہیں۔ ‘‘

ان کی کتاب سے ایک اقتباس درج ذیل ہے:

’’ رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہو تا اور رشوت دینے کے بعد کوئی کام نہیں رکتا۔  دیوی دیوتاؤں کو رشوت دی جاتی ہے تو اسے چڑھاوا کہتے ہیں، پولس رشوت لیتی ہے تو اسے ہفتہ کہتے ہیں۔  ٹیچر رشوت لیتا ہے تو اسے ٹیوشن کہتے ہیں۔  سینیما کے ٹکٹ کے لئے رشوت دی جاتی ہے تو اسے بلیک کہتے ہیں چپراسی رشوت لیتا ہے تو اسے بخشش کہتے ہیں صاحب رشوت لیتا ہے تو اسے گفٹ کہتے ہیں۔ دولہا  رشوت لیتا ہے تو اسے جہیز کہتے ہیں۔ بیچ کا آدمی رشوت لیتا ہے تو اسے کمیشن کہتے ہیں،  پنڈت رشوت لیتا ہے تو اسے دکشنا کہتے ہیں۔

اس دور میں جب کہ ہر شے میں ملاوٹ پائی جا تی ہے۔  رشوت خالص رشوت ہو تی ہے۔  کام کے کرنے سے پہلے خود اعتمادی اور کام ہونے کے بعد سکون دیتی ہے۔  یہ دنیا میں خیر پھیلانے والا سب سے بڑا شر ہے۔  رشوت نے ہر طرح کے  امتیاز و تفریق کو مٹا دیا ہے امیر غریب کی مدد کر نا پسند نہیں کرتا۔  لیکن اسے رشوت دے سکتا ہے ہندو مسلمان مل جل کر نہیں رہ سکتے لیکن ایک دوسرے کو رشوت دے سکتے ہیں پہلے کسی کے رشوت لینے کی بات سن کر لوگ چونک اٹھتے تھے اب کسی کے رشوت نہ لینے کی بات پر چونک جا تے ہیں۔  آ دمی جتنا بڑا ہو تا ہے اتنی بڑی رشوت لیتا ہے۔  ‘‘(رشوت،  داؤد کاشمیری،  مطبوعہ :کہا سنا معاف،  دسمبر ۱۹۸۷ء؁)

مشتاق رضا کے مضامین کا ایک مجموعہ ’’بندوں کو گنا کر تے ہیں ‘‘ ۲۰۰۶ء؁ میں شائع ہو ا جس میں شامل مزاحیہ مضامین میں طنز و مزاح کی کیفیت کو اس طرح نمایاں کر دیا ہے کہ روزمرّہ کی بات بھی دلچسپ اور تنوع بھری معلوم ہو نے لگتی ہے۔ مشتاق رضا لفظوں سے کھیلنے کا ہنر بھی خوب جانتے ہیں۔  یوسف ناظم ان کے متعلق لکھتے ہیں :

’’مشتاق رضا اپنے ہر شناسا،  ملاقاتی اور ہمسائے کا گہری نظر سے اس طرح مطالعہ کر تے ہیں گو یا کسی درسی کتاب کو پڑھ رہے ہوں … مکالماتی مزاح مشتاق رضا کا مر غوب میدان ہے۔  ‘‘

ان کے مضمون کا ایک اقتباس درج ذیل ہے :

’’ مردم شماری کے لئے درکار لوازمات سے لدے پھندے جب ہم اپنے وارڈ میں پہنچے تو گلی کے آوارہ کتوں اور اسکول سے بھاگے ہوئے نیم برہنہ بچوں نے ہمارا پر شور استقبال کیا۔  ہمارے لئے یہ خلافِ توقع تھا۔  اس لئے پہلے ہڑ بڑائے پھر گڑ بڑائے اور پھر سنبھالا لیا۔ ایک طرح سے ہمارے حق میں یہ بہتر ہی ہوا ہماری آمد کی خبر محلے بھر کو ہو گئی۔ ‘‘ (بندوں کو گنا کرتے ہیں )

محمد رفیع انصاری کے بیشتر مضامین ماہنامہ شگوفہ میں شائع ہوئے۔ ان کے مزاحیہ مضامین میں زندہ دلی اور شوخی نمایاں ہے ان کے ہاں سدّو بھائی کا دلچسپ کر دار اپنی طبیعت کے عجیب و غریب کرشمے دکھا تا ہے۔

’’ہمارے ایک دوست تھے دوپہر میں باغ کی سیر کر تے ہوئے سڑکوں پر مٹر گشتی کرتے وقت اور تاریخی عمارات کا جائزہ لیتے ہوئے ایک ہی گیت گنگنایا کر تے تھے۔ مجھ کو اس رات کی تنہائی میں آواز نہ دو۔ ہم لوگ چونکہ ان کی اس عادت سے بخوبی واقف تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ کوئی انھیں بھری دوپہر میں آواز نہ دے گا۔  ‘‘(فلم سے علم تک، محمد رفیع انصاری بھیونڈی، شگوفہ مئی ۱۹۸۹ء؁)

اسی طرح انجم نجمی کے مضامین میں نئے نئے پہلو مزاحیہ رنگ میں بیان ہوئے ہیں۔ ممبئی کے علاوہ اورنگ آباد،  مالیگاؤں اور پو نہ کے چند مزاح نگاروں کی تحریریں مختلف رسائل اور اخباروں میں منظرِ عام پر آئیں جن میں روزمرّہ زندگی پر بے باک اور بے لاگ تبصرے شگفتہ انداز میں مو جو د ہیں۔  قاضی مشتاق احمد بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں۔ انھوں نے چند مزاحیہ ڈرامے بھی تحریر کئے جن میں سماجی مسائل کو دلچسپ انداز میں پیش کیا گیا۔

الیاس صدیقی کی تحریروں میں زبر دست حسِ مزاح کی کا ر فرمائی نظر آ تی ہے۔  انھوں نے اپنے خاکوں میں ادیبوں اور شاعروں کی شخصیات کی گرہیں بڑی چابک دستی سے کھولی ہیں۔ علیم جہانگیر کی تحریروں میں لطیفوں اور دلچسپ واقعات کا استعمال عام موضوعات کو قابلِ مطالعہ بنا دیتا ہے۔  ان کی نظر سماجی کمزوریوں پر پڑتی ہے اور اس سے وہ مزاحیہ پیکر تراش لیتے ہیں :

’’خط کی جنم تاریخ کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ خط ملنے کی تاریخ سے خط کی گردش بلکہ گردشِ مدام کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔  خط لکھتے وقت حالات،  خیالات اور ماحول کا یکجا ہو نا ضروری ہے، اکثر دیکھا گیا ہے کہ خط لکھتے سمئے خیالات ساتھ نہیں دیتے اور غیب سے مضامین آنے لگتے ہیں تو حالات ساتھ نہیں دیتے۔ حالات استوار ہو نے پر قلم کاغذ اور دوات کھوجنے میں ماحول کسی فلم کے اس انترے کی عکاسی کر نے لگتا ہے۔  کیا لکھوں،  کیسے لکھوں،  لکھنے کے قابل نہیں۔ ‘‘ (چٹھی لکھنا اور پوسٹ کرنا، علیم جہانگیر اورنگ آ باد،  ماہنامہ اسباق ناگپو ر، جنوری ۲۰۰۰ء؁،  ص:۶۰)

مختار یو سفی کے مضامین اور ڈراموں کا مرکز سماج میں بڑھتی ہوئی بے چینی ہے،  جسے وہ ظریفانہ رنگ میں رنگ دیتے ہیں۔

شہر اورنگ آ باد کے ادیب اور مزاح نگار مجید جمال ( مرحوم )کے مضامین میں ا نشائی رنگ جھلکتا ہے۔  ندرتِ خیال اور نکتہ آفرینی ان کی تحریروں میں نمایاں ہے۔

’’ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ ہمارے بھائی بند سائنس داں بھی کو شش کریں اور ہمارے چاروں طرف پھیلی ہوئی صداؤں اور آہوں کی توانائی جمع کریں تاکہ کسی کار آ مد مقصد کے لئے ان کو تبدیل کر کے ملک و قوم کی خدمت کی جائے۔  اس طرح ہمارا توانائی کا بحران کسی حد تک دور ہو سکتا ہے۔ ذرا تصور کیجئے ادھرکسی نے بولنا شروع کیا ادھر آپ کا پنکھا چلنے لگا، انگیٹھی سلگ گئی،  بلب روشن ہو گیا کون کیوں بولتا ہے اس سے زیادہ آپ کی توجہ اس بات پر ہو گی کہ وہ کتنا بولتا ہے۔  لیڈر،  مولوی، طالبِ علم،  عورت اور قوال کو ان کے شوق کا مناسب معاوضہ ملا کرے گا اور جو اردو شاعری میں کسی نے فرمایا تھا۔  ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق،  سچ تو ہے سود مند بھی ثابت ہو گا۔ ‘‘(قوتِ صدا، مجید جمال، اورنگ آ باد،  مطبوعہ ماہنامہ شاعر،  ممبئی، جلد:۵۷، شمارہ:۷، ص:۵۰، انشائیہ نمبر )

علاقۂ ودربھ میں ساتویں دہائی میں نو جوان قلمکاروں کی ایک کھیپ طنز و ظرافت کے تیر و نشتر لئے سامنے آئی اس علاقہ سے شائع ہو نے والے طنزیہ و مزاحیہ مضامین کے مجموعے’’ بلا عنوان‘‘ مصنفّہ شیخ رحمن اکولوی(مطبوعہ ۱۹۸۱ء؁) سے پہلے سیّد حبیب الرزّاق کے چند مضامین منظرِ عام پر آئے تھے جن میں ’’ سائیکل میں ریڈیو‘‘ اور ’’ ماڈل گرل‘‘ قابلِ ذکر ہے۔  ۱۹۶۰ء؁ کے بعد ودربھ سے مزاح نگاروں کا جو ریلا آیا ان میں ابھر نے والے ادیبوں کے بغل میں تا دم،  تحریر کئی کتابیں ہیں جو ظریفانہ ادب کی دنیا میں خراجِ تحسین حاصل کر چکی ہیں۔  اس صورتِ حال پر تبصرہ کر تے ہوئے یوسف ناظم رقمطراز ہیں :

’’ ودربھ میں ادھر مزاح کے میدان میں اتنے کھلاڑی پیدا کئے ہیں جتنے کہ کیرالہ اور کر ناٹک نے تیز دوڑنے والے پیدا کئے ہیں۔ ‘‘ (۶)

ودربھ کے ان مزاح نگاروں میں چند نام یہ ہیں،  شکیل اعجاز، شیخ رحمن اکولوی، سیّد صفدر،  بانو سرتاج،  محّمد اسد اللہ، بابو آ ر کے، رفیق شاکر، جاہل ناگپوری ( عبدالرحیم نشتر)،  انصاری اصغر جمیل،  ایس ایس علی، شکیل شاہجہاں، طارق کھو لا پوری،  ڈاکٹر اشفاق احمد، آ ر یو خان،  سعید احمد خان، سمیع بن سعد، رحمت اللہ مالوی، ایم آئی ساجد، نثار اختر انصاری، اظہر حیات،  شاہد رشید وغیرہ۔

شیخ رحمن اکولوی کے اوّلین مزاحیہ کے مجموعہ ’’ بلا عنوان‘‘ سے یہ ظاہر ہے کہ ان کے مزاح کا ہدف خود ان کی ذات ہے مگر اس کے نتیجے میں پیدا ہو نے والا مزاح سماج پر پلٹ کر وار کر تا ہے۔  شیخ صاحب کے اندر مو جود فطری مزاح نگار جو پو ری طرح آوٹ نہیں ہو ا تھا ان کی دیگر تصانیف مثلاً ’’الف سے قطب مینار‘‘ اور’’ نا ٹ آؤٹ ‘‘ کی اشاعت کے بعد کھل کر سامنے آ گیا مزاحیہ مضمون آم میں لکھتے ہیں :

’’بیرونی ممالک کے سربراہوں کو آم بھیجنے کی روایت زور پکڑ گئی تو تعجب نہیں کہ آئندہ آموں کے سڑ جانے کے ڈر سے آموں کی گٹھلیاں  Present کی جائیں تاکہ انھیں بو کر دو ملکوں کے بیچ خوشگوار تعلقات کی بنیاد ڈالی جا سکے۔ ‘‘(۷)

شکیل اعجاز بنیادی طور پر مصوّر ہیں ان کے مضامین اور رپورتاژ کے مجموعے ’’دراصل ‘‘ او ر ’’چھٹی حس‘‘ منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔  ان کی تحریروں میں مزاح کا اعلیٰ معیار،  قوّتِ مشاہدہ اورزبردست حسِ مزاح کی کار فرمائی نظر آ تی ہے۔  لیٹر پیڈ میں لکھتے ہیں :

’’تاریخ نویسوں نے قدیم شہنشاہوں کے بارے میں یہ افواہ پھیلا رکھی ہے کہ انھیں عمارتیں بنانے کا شوق تھا،  در اصل انھیں لیٹر پیڈ بنوانے کا شوق تھا۔ یقین نہ آئے تو لال قلعہ، تاج محل اور قطب مینار اور دوسری عمارتیں دیکھ آئیے۔ وہاں آپ کو جا بجا تحریریں دکھائی دیں گی۔ تاج محل کو آپ بھلے ہی مقبرہ کہیں ہم تو لیٹر پیڈ کہیں گے۔ ‘‘ (۸)

رفیق شاکر اپنی تصنیف ’’سیکنڈ ہینڈ ‘‘ اور ’’ بنئے کا دھنیا‘‘ کے ذریعے طنز و مزاح کا بھر پور خزانہ لئے ہوئے ادب کی دنیا میں داخل ہوئے۔  ان کی نگارشات میں زندہ دلی اور دلوں کو گد گدا دینے والی کیفیت بدرجۂ اتم مو جو د ہے۔  انھیں چٹکیاں بھر نا خوب آ تا ہے۔ بھگوڑے شوہر میں رقمطراز ہیں :

’’جب سے آپ گئے ہیں پاندان اجڑ چکا ہے۔  چائے کی کیتلی بیوہ ہو گئی ہے۔ آپ کے کتب خانے کی آ ہ و زاریاں پڑوسی بڑی آسانی سے سن سکتے ہیں۔ آپ کے نکھٹّو اور مفت خورے دوست آپ کے ہاتھوں کا شکار کھانے کو ترس گئے ہیں، بٹیر کا شکار۔ ‘‘(۹)

بانو سر تاج بحیثیت افسانہ نگار اردو ادب میں اپنی پہچان بنا چکی ہیں۔ ان کے متعدد مضامین مزاحیہ رنگ و آہنگ لئے ہوئے چند رسائل میں شائع ہوئے۔ ان کی ظریفانہ تحریروں میں افسانوی انداز غالب ہے۔ اردگرد بکھری زندگی کی ناہمواریوں کو وہ شگفتہ انداز میں بیان کرتی ہیں۔

ڈاکٹر جا ہل ناگپوری دراصل ناگپور کے مشہور شاعر عبدالرحیم نشتر ہیں۔  انھوں نے اپنے سحر طراز قلم سے ادب اور سیاست کا کچّا چٹّھا بے نقاب کیا ہے ’’اکادمی ایک آ دمی‘‘ میں ان کے قلم کی نشتریت قابلِ دید ہے۔

معروف ناقد اور جدید شاعر ڈاکٹر صفدر کے مزاحیہ مضامین میں انشائیہ کا اسلوب اور طنز کی کاٹ کے ساتھ منفرد نقطہ نظر نمایاں ہے۔  ’’پو سٹ مین‘‘،  ’’مچھر کی مدافعت میں ‘‘اور’’ کر سی نامہ‘‘ ان کے قابلِ ذکر مضامین ہیں۔

غلام صوفی حیدری کے مزاحیہ مضامین کا مجموعہ بکواس منظرِ عام پر آ یا جس میں زبان کا چٹخارہ اور روز مرہ زندگی کے واقعات کو مصنّف نے دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔ اس کتاب کے مضامین کی زبان اور مزاحیہ طرزِ تحریر کو کتاب میں شامل پیش لفظ میں عصمت چغتائی نے سراہا ہے۔ نمونۂ تحریر:

’’اکثر دیکھا گیا ہے او ر پرکھا بھی گیا ہے کہ شریر بچّے ذہین ہو تے ہیں۔ خاکسار عالی وقار پر یہ مثال سو فیصد صادق آ تی تھی۔ ہمیں سال کے سال پاس ہو نے کے سوا دوسرا کام ہی نہ تھا۔ ہمارے ٹیچر کو ہر سال یہ حسرت رہ جا تی کہ کاش یہ لڑکا  ہماری کلاس میں دو سال ہی رہتا کہ اس کی چھاؤں دوسرے بچّوں پر پڑتی۔ (بکواس، ص:۵۹،  اکو لہ، ۱۹۸۳ء؁)

ڈاکٹرمحمّداسد اللہ بنیادی طور پر انشائیہ نگار ہیں۔ مزاحیہ مضامین اور ریڈیو ٹاکس کے مجموعے: ’’ہوائیاں ‘‘ اور’’ پر پرزے‘‘ کے علاوہ مراٹھی مزاحیہ ادب کے تراجم پر مبنی کتابیں ’’جمالِ ہم نشیں ‘‘اور ’’دانت ہمارے ہونٹ تمہارے‘‘ بھی منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔  ’’بوڑھے کے رول میں ‘‘ ان کے انشائیوں کا مجموعہ ہے۔  مزاحیہ مضمون ’’پنگھٹ‘‘ کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں :

’’ اس دور میں چور کو سزاتک پہنچنے کے لئے پکڑے جانے سے پہلے چوری کا ثابت ہو نا اور چوری ثابت ہو نے کے بعد پکڑا جا نا ضروری ہے۔ ان مراحل کے بغیر قانون کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔ ہمارا قانون دن بہ دن شریف ہو تا جا رہا ہے صرف شریفوں سے واسطہ رکھتا ہے جرائم پیشہ عناصر اس کے لئے نا محرم کا درجہ اختیار کر تے جا رہے ہیں۔ ‘‘(۱۰)

بابو آ ر کے مزاح نگاروں کی محفل میں ذرا دیر میں آئے اور پہلی صف میں جگہ بنا لی۔ ان کی تصانیف’’ خطا معاف‘‘، ’’ ہو بہو‘‘ زبان و بیان کی لذّتوں کے علاوہ عصری زندگی کی زندہ تصویریں عمدہ ظرافت کے ساتھ پیش کر تی ہیں۔  ٹرین شکنتلا کے با رے میں لکھتے ہیں :

’’ شکنتلا کے سگنل کا رویّہ بھی عجیب ہے اسے اٹھائیں تو گرتا ہے اور گرائیں تو اٹھتا ہے۔ بارہا ایسا بھی ہوا ہے اسے گرانے کے لئے سگنل مین کو پول پر چڑھنا پڑتا جس سے سگنل کم اور سگنل مین زیادہ گرتا ہے۔  ‘‘

انصاری اصغر جمیل نے سیاسی شعبدہ بازیوں اور سماجی بد عنوانیوں جیسے موضوعات سے اپنے طنز و مزاح کا تا نا با نا بنا ہے۔ بیوی ان کا مر غوب موضوع ہے جو پا سبانِ دل بن کر اکثر ان کے مضامین میں ساتھ رہتا ہے،  مکان کی تلاش کے مراحل کا بیان اس طرح کیا ہے:

’’اس تلاشِ مکان نے ہمیں اس قدر اذیتیں دی ہیں کہ جی چاہتا ہے زندگی سے فرار حاصل کر لیں لیکن پھر سوچتے ہیں ہم نہ رہے تو ملک کا کیا ہو گا؟‘‘(۱۱)

ودربھ میں مزاح نگاری کے متعلق یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ چند دہائیوں کے دوران اسے ایک تحریک کی شکل حاصل ہوئی تھی اور ماہنامہ شگوفہ (حیدر آ باد )، ماہنامہ چورن ( مالیگاؤں ) ماہنامہ مزاح نامہ( ناگپور )،  روزنامہ اردو ٹائمز ممبئی کے علاوہ روزنامہ انقلاب ممبئی کے کالم خالی پیلی میں یہاں کے کئی ادیبوں نے مزاحیہ کالم لکھے۔  دیگر رسائل اور اخبارات میں بھی اس قبیل کی تحریریں شائع ہوئیں۔  ان تمام کا احاطہ یہاں دشوار ہے۔ مہاراشٹر میں اردو طنز نگاری کو خاص طور پر نثر کو آ زادی کے بعد جو فروغ حاصل ہوا وہ قابلِ تحسین ہے۔

 

مزاحیہ شاعری:

یوں تو طنز و تشنیع اور شوخی و شگفتگی اردو شاعری کی روایت رہی ہے،  تاہم جدید شعراء کے یہاں شوخی ہوا ہو گئی اور طنز کا رنگ گہرا ہو گیا۔  ابہام گزیدہ شاعری پر مزاحیہ شاعری کا گمان ہونے لگا۔ اس صورتِ حال سے قطع نظر مہاراشٹر میں طنز و مزاح کو شاعری کے فارم میں اپنانے والے کئی شاعر منظرِ عام پر آئے۔  مشاعروں اور اخبارات و رسائل کے ذریعے ظریفانہ شاعری عوامی مقبولیت سے ہمکنار ہوئی۔ اس کا ایک سبب تو یہ تھا کہ عوامی مسائل،  غربت، سماج اور سیاست میں پھیلی ہوئی بد عنوانیاں،  قدروں کا زوال اور انسانی مزاج کی کمزوریاں اردو شاعری میں نشانۂ طنز بنی رہیں۔ جو موضوعات ظریفانہ شاعری میں دہرائے جا تے رہے وہ عوام کے دل کی آ واز بن گئے۔

مہاراشٹر کے مزاحیہ شاعروں میں چند اہم نام درج ذیل ہیں :

راجہ مہدی علی خاں،  غوث محمد خواہ مخواہ،  عظمت بھلاواں،  علامہ قطب مینار، سعید رضا،  علامہ بقچو، علاؤالدین صابر،  عبداللہ ناصر، یوسف انصاری، علامہ ہر فن مولیٰ،  مائل لکھنوی، ظریف کو کنی،  انجم رومانی، سارس لکھن پوری، چھیلا بدنام پو ری،  شرف کمالی،  فیروز تاراپور، ذاکر قطب الدین ظفر وغیرہ۔

علاقۂ ودربھ میں جن شعراء نے طنز و مزاح کو ذریعۂ اظہار بنایا ان میں درج ذیل نام اہم ہیں :حافظ ولایت اللہ، سوامی کرشنانند سوختہ، مولانا ناطق گلاؤ ٹھوی، ناظم انصاری،  علامہ گنبد اکولوی،  فیاض افسوس،  مفلس قارونی( محبوب راہی)نواب سرخاب اکولوی،  فوجی جلگاؤنوی،  نایاب اکولوی،  غنی غازی،  منہ پھٹ ناگپوری ( جلیل ساز)،  جھاپڑ ناگپوری،  جملوا انصاری، فنّی ایوت محلی، لقب عمران، سرفراز کاتب، انوار احمد نشتر،  فصیح اللہ نقیب، بے ڈھب کامٹوی،  حسین خاں جھنجھٹ، پاگل انصاری وغیرہ ان میں سے چند شعراء کے کلام کے نمونے درج ذیل ہیں :

صرف اک چائے کی پیالی پہ نہ ٹالو مجھ کو

پک رہے ہیں ابھی پکوان نہیں جاؤں گا

خود ہی کہہ دو ’’اجی جائیے کھانا کھا کر‘‘

ورنہ میں خود ہی میری جان نہیں جاؤں گا

(مہمان…راجہ مہدی علی خاں )

ملوں گا خواب میں اس سے یہی طے کر کے سوتا ہوں

ملن کا وقت جو ملتا ہے وہ اس طرح کھوتا ہوں

میری معشوق امریکن ہے،  اردو سے ہے ناواقف

وہ جب انگلش میں ہنستی ہے،  تو میں اردو میں روتا ہوں

(غوث محمّد خواہ مخواہ)

 

میرے رخ پو پھولاں کی چلمن گرا کر

مجھے لوٹا سالوں نے مسّل بتا کر

پریشاں کیا میرا جوتا چرا کر

پپیتا لگا کر ہر اک نے گلایا

بھلاویں کی شادی میں بھوت مزہ آیا

(عظمت بھلاواں )

ہو کوئی فیلڈ کلر اپنا جمائے رکھئے

ٹانگ ٹوٹی ہی سہی پھر بھی اڑائے رکھئے

بیگم کی خواہشات ارے باپ کیا کروں

مانگے ہے کائنات ارے باپ کیا کروں

(ناظم انصاری)

کیوں نہ ہو لختِ جگر سرکے ہوئے

جب کہ ہیں مادر پدر سرکے ہوئے

یہ زمیں یہ رشکِ جنّت چھوڑ کر

جا رہے ہیں چاند پر سرکے ہوئے

( فیاض افسوس)

ہر کسی شاعر کا یہاں منفرد مقام ہے

زندہ طلسمات ہے کوئی،  کوئی جھنڈو بام ہے

(علامہ بے نام )

صرف ایک رستم کی کیا بات ہے

بارہ رستم کے بجا دیتی ہے موت

(مسعود جھاپڑ)

راتوں میں ڈر کے مارے گھر سے نہیں نکلتے

سڑکوں پہ دن اجالے ہم تیس مار خاں ہیں

(محبوب راہی )

کار والے بھلا یہ کیا جانیں

کتنی آنکھوں میں دھول جاتی ہے

اپنی جنتا ہی بھولی بھالی ہے

پونچھ لیتی ہے،  بھول جاتی ہے

( فوجی جلگانوی)

چھے مہینے میں لوگن کی گودی بھری

میری بار کیوں دیر اتنی کری

(جملوا انصاری)

فائر انجن کو خبر کیجئے فوراً

کپڑا بازار میں کچھ شعلہ بدن جاتے ہیں

(علامہ گنبد)

اس دورِ سیاست میں ہم نے تو یہی دیکھا

بگلوں کی ہوئی پیشی کوؤں کی عدالت میں

(منہ پھٹ ناگپوری)

ایک بے بی اور اس کے ساتھ منّے منّیاں

جیسے چوزوں کو چراتی پھر رہی ہے مرغیاں

مہاراشٹر میں طنزیہ و مزاحیہ شاعری کا سرسری جائز ہ بھی یہ اندازہ لگا نے کے لئے کا فی ہے کہ متنّوع موضوعات پر اظہارِ خیال کر تے ہوئے ان شعراء نے زندہ دلی، بذلہ سنجی اور قوتِ مشاہدہ کو بروئے کار لا کر عصری زندگی کے سلگتے ہوئے مسائل کو فنکارانہ انداز میں ظرافت کا جامہ پہنایا ہے۔

٭٭

 

حوالہ جات

 

۱۔   لوکی، کرشن چندر، مطبوعہ:پانچ مقبول مزاح نگار، ص:۲۸، دہلی، مرتبہ : نریش کمار شاد

۲۔  اردو کا آخری نقاد، کے کے کھلّر،  نئی دہلی،  ص:۹

۳۔   شیر خور مے کے دو ایڈیشن، یوسف ناظم، ماہنامہ دستک، ہوسٹن( امریکہ)

۴۔  کوزے میں سمندر، پرویز ید اللہ مہدی، آج کل دسمبر ۱۹۹۲ء؁، دہلی

۵۔   ہیلو مو بائیل، فیاض احمد فیضی، شگوفہ ماہنامہ،  حیدر آ باد

۶۔  خطا معاف، یو سف ناظم، مصنفّہ: بابو آ ر کے، اچلپور، ص:۹

۷۔  آم،  الف سے قطب مینار، شیخ رحمن اکولوی، اکولہ

۸۔  لیٹر پیڈ،  شکیل اعجاز، در اصل، اکولہ

۹۔   بھگوڑے شوہر سے،  رفیق شاکر، مطبوعہ سیکنڈ ہینڈ، کھام گاؤں

۱۰۔  پنگھٹ، محمّد اسد اللہ، پر پرزے،  وروڈ

۱۱۔   شکنتلا، با بو آر کے، خطا معاف، اچلپور

۱۲۔   میں کہاں کہاں سے گزر گیا،  انصاری اصغر جمیل، شگوفہ،  حیدر آ باد

٭٭٭

 

 

 

 

 ودربھ میں طنز و مزاح

 

انسان پر قدرت کی بے شمار نوازشات ہیں ہنسنے کی صلاحیت بھی ان  میں سے ایک ہے۔  بقول ایڈسن یہ شرف صرف انسانوں کو حاصل ہے نہ اس سے بر تر مخلوق یعنی فرشتے ہنستے ہیں نہ کمتر جیسے جانور، چرند، پرند وغیرہ۔  خدا نے انسان اور انسانی زندگی کو بنایا بھی ایسا ہی ہے کہ کوئی نہ ملے تو آں جناب اپنے آپ پر ہی ہنس سکیں۔  انسان کو حیوانِ  ظریف کہا جا تا ہے جس طرح آ دمی کا انسان بننا آ سان نہیں، مزاح نگاری بھی کھیل نہیں ہے، حالانکہ ظریفانہ ادب کو دوسرے درجے کا ادب شمار کیا جا تا ہے۔ عام طور پر کہا جا تا ہے کہ ملک کے کسی بھی حصّے میں پتّھر اٹھائیے تو اس کے پیچھے سے دو چار شاعر آ داب عرض کہتے ہوئے نکل آ تے ہیں۔ یہ بات مزاح نگاروں کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی۔

بنارسی ساریاں، علی گڑھ کے تالے اور ناگپوری سنگترے مشہور ہیں۔  اسی طرح حیدر آ باد اور لاہور کے مزاح نگار اور بہار کے افسانہ نگار بھی مشہور تھے۔ سبھی جانتے ہیں کہ اردو کے اولین اور اہم انشا پرداز یوپی کے شہروں مثلاً دہلی اور لکھنو سے اٹھے، یہ تہذیب کی شاہراہ پر طنز و مزاح کا پہلا پڑاؤ تھا۔  اس کے بعد پنجاب اور لاہور سے مزاح نگاروں کی ایک کھیپ سامنے آئی۔ پھر مزاح سپلائی کر نے کا ٹھیکا حیدر آ باد کو ملا۔ اس شہر نے نہ صرف ملک بھر میں بلکہ خلیج میں بھی ظرافت نگاروں کے ڈھیر لگا دئے۔

گزشتہ ربع صدی کے دوران مزاح نگاری کا ایک نیا نخلستان وجود میں آ یا۔ نام ہے اس کا ودربھ۔ یہ زندہ دلی اور ذہانت کا ملا جلا آہنگ لئے ہوئے ہے۔  اس میدانِ ظرافت میں درجن بھر سے زیادہ مزاحیہ ادب کی کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔  شاعری کے بعد ودربھ میں معیار اور مقدار کے لحاظ سے سب سے زیادہ جس صنف میں کام ہوا ہے وہ ظرافت ہے۔ ودربھ میں مزاح نگاری کی یہ لہر تقریباً ستّر کی دہائی میں چلی۔ اس سے قبل نثر نگاروں میں سیّد حبیب الرزّاق قابلِ ذکر ہیں جن کے دو مزاحیہ مضامین ’’سائیکل میں ریڈیو‘‘ اور ’’ماڈرن گرل‘‘ ناگپور ہی کے رسائل میں شائع ہوئے تھے۔

مزاح نگاری کا باقاعدہ آغاز نئی نسل کے با صلاحیت فنکاروں کی آ مد کے بعد ہی ہوا جن میں سے چند اردو ادب میں پہلے ہی اپنی پہچان بنا چکے تھے۔ ان اولین مزاح نگاروں میں سے بیشتر کا تعلق علاقہ برار سے رہا ہے۔  تاریخ شاہد ہے کہ لسانی، تہذیبی اور جغرافیائی اعتبار سے برار حیدر آ باد سے قریب رہا ہے۔ آ ج بھی برار میں بولی جا نے والی زبان اور سماجی زندگی پر حیدر آ باد کے لسانی اثرات نظر آ تے ہیں حیدر آ باد کے مزاح نگاروں نے دکنی کو تخلیقی بنیادیں فراہم کیں ان کی یہ کوششیں آل انڈیا مشاعروں میں خراجِ تحسین حاصل کر چکی ہیں اسی طرح ودربھ کے فنکاروں نے بھی مقامی اور براری زبان میں گل کھلانے کی کو شش کی، دکنی زبان کی شوخی کو کاغذی پیرہن بھی نصیب ہوا لیکن براری مزاحیہ شاعری مشاعروں کی واہ واہ کے دائرے سے باہر نہ آ سکی۔

سر فراز کاتب مرحوم نے اپنا مجموعہ ’گاورانی کلام‘ مرتب کر لیا تھا لیکن وہ نقشِ فریادی تا ہنوز زیورِ طبع سے آ راستہ نہیں ہو پایا۔  ان کا کلام بظاہر ایک ایسی بولی میں ہے جو اپنی      ضعیف العمری کے سبب اشاعت کی سر زمیں پر اپنے قدموں کی لڑکھڑاہٹ کے ساتھ چلنے سے بھی قاصر رہا اور اندھیرے مستقبل کے سبب آنکھوں کے آ گے کوئی منظر بھی نہیں ہے۔  اس وقت شاعر سر فراز کاتب نے گویا شرون کمار کا رول ادا کر نے کی کو شش کی اور اپنی اس زبان کو بوڑھے ماں باپ کی طرح اپنے کاندھے پر سوار کر کے لے کر چلے تو تھے مگر اجل کے تیر سے گھائل ہو کر اس سفر کا اختتام ثابت ہوئے۔  براری بولی میں ان کا مرتبہ مزاحیہ شاعری کا مجموعہ اب بھی اشاعت کا منتظر ہے۔ حالانکہ مشاعروں کے سامعین ان کے اکثر اشعار دہراتے ہوئے سنے جا تے ہیں۔

نیلے پیانٹ پہ پیلا کرتا،  اودی ٹوپی،  جوتے لال

کالے خاں پیغام کو جاریا،  لاتا آپھت

باپ کی قبر کاں پر ہے تو مالوم نئیں

غیبی شا کا عرس بھرا ریا،  کرتا واندہ

جھوڑپے کھانا میرا،  باوا کے،  بھایوں کے تیرے

اور ہلدی میں تیرا آنسو ملانا یاد ہے

اپنے پوٹٹے کو لائے میارٹ میں

کیسا گھپلا کیا ہو ماسٹر صاب

سال بھر تو پڑھائے تھے تم نے

پھر کیوں پھرنا پڑا ہو ماسٹر صاب

ایک نظم شادی کارڈ کے چند اشعار درج ذیل ہیں :

اپنی بائی کی جڑ گئی شادی

دن ہے اتوار کا مئی چوبیس

سن کونتا آتا کیا معلوم

اردو تاریخ تم نے لکھ لینا

نام نوشہ کا کالے خاں لکھنا

عرف ببو ذرا بڑا لکھنا

پوٹٹی دسویں میں خط نہیں پڑھتی

پوٹٹا میٹرک ہے کچھ نہیں آتا

اس سلسلے کے ایک اور اہم شاعر ہیں صوبیدار فوجی ان کی بعض ہزلیں براری الفاظ کا چٹخارہ لئے ہوئے ماہنامہ شگوفہ حیدر باد،  میں شائع ہوئی تھیں۔

وہ اپنی کھڑکی میں آ کے بھونڈے سُروں میں اک گیت گا رہی ہے

تو کھت کی گاڑی پہ بیٹھے ہم بھی گھمیلا پْھٹکا بجا رہے ہیں

ساقیا کس نے کہہ دیا تجھ سے کہ تیرے باعث کھلے ہیں میخانے

ساری رونق ہمارے دم سے ہے،  ورنہ اوندھے پڑے تھے پیمانے

ہر ایک ویکتی میں یہ ہمّت نہیں ہے

محبّت ہے،  کوئی گمّت نہیں ہے

عشق کی اپنے اْلنگ واڑی ہوئی

حسن کا اس کے بھی سروا ہو گیا

ہے لانا ضروری نئی سرمے دانی

بہت مر گیا ان کی آنکھوں کا پانی

یہی انداز رفیق شاکر کی اس غزل میں بھی نمایاں ہے:

چاندنی سے چٹک گئے پْھپّا

بس کے پیچھے لٹک گئے پْھپّا

پْھپّی بی اے بھی ہو گئیں لیکن

پانچویں میں لٹک گئے پْھپّا

فنّی ایوت محلی کے یہاں بھی اس قسم کے اشعار ملتے ہیں :

مکھّی بن کر پچھتاو گے

چیونٹی بن کر پیڑے کھالو

بات پتے کی کہہ دیتا ہوں

ایڑے بن کر پیڑے کھالو

اس قبیل کی شاعری کو ادب کا ہر قاری سمجھ نہیں سکتا کیونکہ اس میں علاقائی الفاظ کا استعمال تفہیم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ تعلیم اور بدلتی ہوئی سماجی صورتِ حال کے سبب بیشتر الفاظ ان علاقوں میں بھی نا مانوس ہوتے جا رہے ہیں۔

معروف شاعر محبوب راہی نے جہاں دیگر اصنافِ ادب میں اپنی صلاحیتو ں کا مظاہرہ کیا ہے، ان کے قلم سے ظریفانہ رنگ میں بھی خواہ نظم ہو یا نثر،  بے شمار چیزیں متنوع انداز میں منظرِ عام پر آئیں ہیں۔  انھوں نے مفلس قارونی کے نام سے مزاحیہ شاعری بھی شائع کی اور اپنے حقیقی نام محبوب راہی کے بینر تلے بھی طنز و مزاح پیش کیا۔  ان کی منظومات میں عصری زندگی کی جھلکیاں اور تلخیاں دونوں نمایاں ہیں۔

راتوں کو ڈر کے مارے گھر سے نہیں نکلتے

سڑکوں پہ دن اجالے ہم تیس مار خاں ہیں

پھرتے ہیں لے کے پھندے، کر تے ہیں کھوٹے دھندے

کھاتے ہیں تر نوالے ہم تیس مار خاں ہیں

دئے دن میں جلانا چاہتے ہیں

مجھے گھر سے بھگانا چاہتے ہیں

گدھے تو ہیں مزے میں،  کس لئے ہم

انھیں انساں بنانا چاہتے ہیں

محبوب راہی کے علاوہ اس دیار میں ظریفانہ شاعری کا ایک اہم نام فیاض افسوس ہے ان کا مجموعہ کلام ’کفِ افسوس‘ زیورِ طبع سے آ راستہ ہو چکا ہے۔

کیوں نہ ہوں لختِ جگر سر کے ہوئے

جب کہ ہیں مادر پدر سر کے ہوئے

جنگ رکتی ہی نہیں سسرال میں

کچھ ادھر ہیں کچھ ادھر سر کے ہوئے

یہ زمیں یہ رشکِ جنّت چھوڑ کر

جا رہے ہیں چاند پر سر کے ہوئے

سوچنا تھا کچھ تو اس دن کے لئے

تھا تکلّف کس لئے کن کے لئے

ان گِنت لیتے تھے کیوں گِن کے لئے

تو نے بلبل جب سے دو تنکے لئے

ٹوٹتی ہیں بجلیاں ان کے لئے

ودربھ کے کئی شاعروں نے اپنے آپ کو ظریفانہ شاعری تک محدود رکھا اور اپنی پہچان بنائی اس قسم کے چند شعرا کا کلام یہاں پیش کیا جا رہا ہے:

 

عبدالصمد جا وید :

کل پریشان تھے حالات بدلنے کے لئے

آج بدلے ہوئے حالات سے ڈر لگتا ہے

جانے کس وقت مریدوں کا صفایا کر دیں

پیر صاحب کی کرامات سے ڈر لگتا ہے

ودربھ کے مختلف شعراء گاہے بگاہے ظرافت کو شاعری کے سانچے میں ڈھالتے رہے۔  ظاہر ہے یہ ان کی پہچان نہیں البتّہ ان کے کلام کا ایک رخ یہ بھی ہے۔  ان میں سے چند شعراء کا کلام جو ہمیں دستیاب ہو سکا اس کے نمونے  یہاں پیش کئے جا رہے ہیں۔

 

فصیح اللہ نقیب :

لگا کر چلم کا جو دم دیکھتے ہیں

نظر جو نہ آئے وہ ہم دیکھتے ہیں

کہ سوکھے ہوئے کو بھی نم دیکھتے ہیں

جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں

خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں

 

رفیق شاکر :

محلّے بھر کے لوگوں کو جگاتے ہیں بڑے خالو

بڑی خالہ سے لڑنے پر جو آتے ہیں بڑے خالو

سلو بیٹنگ ہی چلتی ہے اگر ہو دال دستر پر

مٹن مل جائے تو سکسر لگاتے ہیں بڑے خالو

وہ ہنستے ہیں تو سولہ دانت کا چوکا چمکتا ہے

بِناکا گیت مالا بن کے آتے ہیں بڑے خالو

یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ودربھ کی آ ب و ہوا اشک آ ور نہیں بلکہ فضا کو زعفران زار بنانے کے لئے بڑی ساز گار ہے۔ ذرا نم ہو تو یہ مٹّی بڑی زر خیز ہے ساقی۔ اس کا ثبوت مراٹھی زبان میں مو جود مزاحیہ ادب ہے جو ڈرامے کے بعد اس زبان کا طر ہ امتیازسمجھا جا تا ہے۔  مراٹھی میں مقامی وراہڑی بھاشا کو نہ صرف نظم بلکہ نثر میں بھی کتابی شکل میں پیش کیا گیا اور کئی کتابیں اس بولی کے مزاحیہ ادب کی مو جود ہیں۔ اردو شعرا اور ادباء اس قسم کی کوششیں نہیں کر پائے۔ آئیے ہم ودربھ کے نثر نگاروں کی تخلیقی سر گرمیوں پر نظر ڈالیں۔

 

شیخ رحمن اکولوی :

انھیں ودربھ کے مزاح نگاروں میں خصوصاً نثر میں ان کی کتاب ’ بلا عنوان ‘کے حوالے سے،  پہلے صاحبِ کتاب ہو نے کا شرف حاصل ہے۔ ابتدا منی کہانیوں سے کی تھی عکس ریز(منی کہانیوں کا مجموعہ) کی اشاعت کے بعد سیدھے مزاح کے بڑے پر دے پر آ گئے۔ عصری زندگی کی نا ہمواریوں کو گہری نظر سے دیکھا اور پھر ان کے مضامین میں طنز کے بھر پور وار اور مزاح کی پھوار نے ایک خوشگوار فضا کا احساس دلایا۔ ان کے اندر کا مزاح نگار ’’الف سے قطب  مینار‘‘ اور’’ ناٹ آوٹ‘‘ کی اشاعت کے بعد کھل کر سامنے آ گیا۔

 

شکیل اعجاز:

شکیل اعجاز بنیادی طور پر مصّور ہیں ان کی مزاح نگاری بھی مصوری کا اعجاز ہے۔ ان کے مزاحیہ مضامین کا پہلا مجموعہ ’دراصل ‘شائع ہوا تو مزاح نگاری کے بھر پور امکانات سے لبریز تحریروں نے سبھی کو چونکا دیا نثر کا عمدہ نمونہ اور کرداروں کے مزاحیہ خد و خال کو فنکارانہ انداز میں جزو تحریر بنانے کا ہنر، زبردست قوتِ مشاہدہ اور مزاح نگاری کی جس روش کا انتخاب انھوں نے کیا ذرا الگ تھا، یہ انداز تھا نامور مزاح نگار مشتاق یوسفی کا جس کے قائل تو سب ہیں مگر اس کے اسلوبِ نگارش کا اتّباع ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ شکیل اعجاز نے اس مشکل زمین میں اپنی راہ نکالی اور اپنی انفرادیت کا لو ہا منوالیا۔ ان کی دوسری کتاب ’چھٹی حس‘ میں یہ انداز اور نکھر کر سامنے آ یا۔ اس میں خاکے، رپورتاژ، کہانیاں ہیں۔  حسِ  مزاح کا بھر پور استعمال ان کی تحریروں کو دلچسپ اور قابلِ مطالعہ بناتا ہے:

’’ہر شخص اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق کسی چیز کا استعمال کر تا ہے اس لئے ایک ہی چیز کے کئی استعمالات ہو تے ہیں۔  کتاب کو لے لیجئے۔  بظاہر یہ علم حاصل کر نے کا وسیلہ ہے ہزاروں میں تین چار ایسے بھی نکل آئیں گے جو واقعی اس سے علم حاصل کر تے ہوں گے لیکن عموماً یہ کثیر الاستعمال پائی جا تی ہے۔  امّی اسے ادھر ادھر پھینک کر غصّے کا اظہار کرتی ہیں بچّے ورق ورق الگ کر کے شرارتوں کی ابتدا کر تے ہیں۔  دکاندار اس میں شکر دال نمک وغیرہ باندھ کر پیسہ کماتے ہیں۔  اور تو اور بلّی اپنے بچّوں کو شکار کر نے اور جھپٹنے کی تربیت دینے کے لئے بھی اس کو تختہ مشق بناتی ہے۔ ‘‘( ریڈیو،  شکیل اعجاز،  مطبوعہ دو ماہی الفاظ، دسمبر ۱۹۸۴ء؁،  ص:۸۵)

 

رفیق شاکر:

مرزا رفیق شاکر کا تعلق کھام گاؤں سے ہے۔  ان کے شعری مجموعے بھی شائع ہو چکے ہیں۔  مزاحیہ مضامین کے دو مجموعے ’ سیکنڈہینڈ‘ اور ’بنئے کا دھنیا ‘ بحیثیت مزاح نگار ان کے ادبی شناخت نامے ہیں۔  ظریفانہ رنگ میں ان کا کلام ماہنامہ شگوفہ میں شائع ہو تا رہتا ہے۔  ان کے مضامین علمی و ادبی ذوق اور حس مزاح کے سبب عمدہ تخلیقی نثر کی مثالیں ہیں۔ افراد اور اشیاء سے ان کا رابطہ استوار ہو تے ہی فضا میں قہقہے بکھر نے لگتے ہیں :

’’دوسرے ہی ہفتے شبّیر خاں صاحب ہمارا فو ٹو لئے ہمارے گھر پہنچ گئے۔ ہم نے کہا کیوں بھائی !اسے تو آپ نے بچّوں کو ڈرانے کے لئے کھنچوایا تھا۔  ظالم نے جواب دیا، ہاں بات تو یہی تھی، لیکن اسے دیکھ کر بڑے بڑے بھی ڈر رہے ہیں۔  کچھ خواتین تو نیند میں سے چیختی چلاتی ہوئی گھبرا کر اٹھ جا تی ہیں۔ اور جدھر راستہ ملے ادھر بھاگنے لگتی ہیں۔ ہم انھیں پکڑنے لئے کب تک پو لس کی مدد لیتے رہیں پرسوں ہماری خالہ جان پر یہی کیفیت طاری ہوئی۔  ڈاکٹر سے علاج کر وایا پھر عامل صاحب کو بتایا کچھ فائدہ نہ ہوا آ خر ننھے پیر صاحب نے کہا۔  گھر میں کسی آ سیب کی تصویر ہے اسے ہٹا دو اسی لئے ہم یہ تصویر واپس کر نے آئے ہیں۔ ‘ ‘(مجھ زود پشیماں کا پشیماں ہو نا،  رفیق شاکر، مطبوعہ بنئے کا دھنیا، اکولہ، جون ۱۹۹۴ء؁، ص:۲۱ )

 

غلام صوفی حیدری:

غلام صوفی حیدری کے مزاحیہ مضامین کا مجموعہ بکواس منظرِ عام پر آ یا جس میں زبان کا چٹخارہ اور روز مرہ زندگی کے واقعات کو مصنّف نے دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔ اس کتاب کے مضامین کی زبان اور مزاحیہ طرزِ تحریر کو کتاب میں شامل پیش لفظ میں عصمت چغتائی نے سراہا ہے۔ نمونۂ تحریر:

’’اکثر دیکھا گیا ہے اور پرکھا بھی گیا ہے کہ شریر بچّے ذہین ہو تے ہیں۔  خاکسار عالی وقار پر یہ مثال سو فیصد صادق آ تی تھی۔ ہمیں سال کے سال پاس ہو نے کے سوا دوسرا کام ہی نہ تھا۔  ہمارے ٹیچر کو ہر سال یہ حسرت رہ جا تی کہ کاش یہ لڑکا ہماری کلاس میں دو سال ہی رہتا کہ اس کی چھاؤں دوسرے بچّوں پر پڑتی۔ ‘‘(بکواس، اکولہ،  ۱۹۸۳ء؁، ص:۵۹)

 

ڈاکٹر صفدر :

ایک صاحبِ نظر ناقد اور جدید شاعر کی حیثیت سے ڈاکٹر صفدر کی شخصیت اردو ادب میں محتاجِ تعارف نہیں ہے۔ ان کی ناقدانہ تحریروں میں بھی ظریفانہ اندازِ نگارش وارث علوی کی یاد دلاتا ہے۔ لیکن اس قبیل کے بیان کے لئے جو وسعت چاہئے یہاں دستیاب نہیں،  شایداسی اظہار کی تشنگی نے ان سے مزاحیہ مضامین لکھوائے۔  ان کی خالص مزاحیہ تحریروں میں ان کے اندر چھپے ظرافت نگار کی شوخ مزاجی، اور طنز کی سفاکی اور ایک انشائیہ نگار کی تخیل پروازی نمایاں ہے۔ ڈاکٹر صفدر نے اخباروں کے لئے کالم بھی لکھے جن میں ادب، سماج اور انسانی زندگی کے ایسے گوشوں کو نمایاں کیا گیا ہے جن کی عجیب و غریب کیفیت کو ہم بے چینی کے ساتھ محسوس تو کرتے ہیں لیکن مزاح نگار کے قلم سے وہ معرضِ اظہار میں آ تے ہیں تو ہم خندہ  زیر لب پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ان کے مضامین: پوسٹ مین، مچھروں کی مدافعت میں اور کرسی نامہ، ماہنامہ شگوفہ میں شائع ہوئے۔

 

ڈاکٹر جاہل ناگپوری:

مشہور جدید شاعر عبدالرحیم نشتر نے ڈاکٹر جاہل ناگپوری کے نام سے کئی ادبی کالم تحریر کئے۔  ابتدا میں انھوں نے بحیثیت صحافی ناگپور اور کامٹی سے اردو اخبارات شائع کئے۔ ان کے کالم اور اداریے ان کے مخصوص اسلوب کے سبب ان کی پہچان بنے۔  اپنے دو ٹوک انداز اور حقائق کو ظرافت اور طنز کے ساتھ طشت از بام کر نے کی جرأت کے ساتھ وہ ایک کامیاب مزاح نگار کے روپ میں سامنے آئے ہیں۔

 

بابو آر کے :

بابو آر کے مزاح نگاروں کی اس مجلس میں ذرا دیر میں آئے اور پہلی صف کا ثواب لوٹ کر لے گئے۔  ان کی دو کتابیں :’خطا معاف‘ اور’ ہو بہو‘ ۱۹۹۲ء؁  زبردست حسِ مزاح، زبان و بیان کی لذّت اور عصری زندگی کی تصویر کشی کے لئے یا د رکھی جائیں گی۔  برار اور خاص طور پر اچلپور کے اطراف کا ماحول،  رسم و رواج اور کلچر اپنی مقامی آوازوں سمیت اس براری بابو کی تحریروں میں منعکس ہوا ہے۔  دوسروں کی بہ نسبت ان کی جڑیں اپنی زمیں میں زیادہ گہری ہیں ان کی یہ علاقائیت جہاں ان کی طاقت ہے وہیں کمزوری بھی ہے کہ اس کے سبب ان تحریروں کی آفاقیت ختم ہو جا تی ہے۔

’’سب نے ایک زبان ہو کر تحکمانہ لہجے میں کہا بیٹھ جاؤ۔ ہم سعادت مندی سے بیٹھ گئے۔ اس وقت ہمیں محسوس ہوا جیسے ہم ہٹلر، چنگیز،  ہلاکو اور تیمور جیسے تاریخ کے تمام ظالموں کے نرغے میں آپھنسے ہیں۔  اسی بیچ انٹرویو لینے والے پینل میں سے ایک صاحب نے اپنی پوٹلی نما پگڑی کا پٹارہ میز پر رکھا۔ ان کی دیکھا دیکھی دوسرے صاحب نے اپنے ہاتھ کا موٹا سا چم چم کرتا ڈنڈا میز پر لٹا دیا تیسرے صاحب تمباکو کی ڈبّی جیب سے نکال کر ہتھیلی پر چونا تمباکو اور اپنی ہتھیلی کا میل، تینوں چیزیں رگڑ نے لگے۔  اس طرح سوائے ایک صاحب کے باقی سب اپنے اپنے کر تب دکھانے میں مشغول ہو گے۔

تھوڑے وقفے کے بعد موضوع سے میل کھاتا ایک اور سوال اچھالا گیا۔ بولے بندر ہمیشہ کیوں کھجاتے ہیں۔  اور پھر یہ صاحب بندر کی طرح کھجا کر اپنے سوال کی وضاحت بھی کر نے لگے۔ ہم اس سوال پر سٹپٹا گئے پھر بھی ہم نے کہا:’دیکھئے بندروں کے پاس کھانے اور کھجانے کو ہو تا ہے اس لئے وہ کھجاتے ہیں۔ ‘‘( ہمارا پہلا انٹرویو،  با بو آر کے،  ہو بہو،  ص:۲۴)

 

حیدر بیا بانی :

ادبِ اطفال کا ایک اہم نام حیدر بیا بانی ہے۔  اچلپور ان کا وطن،  اپنی دلچسپ نظموں اور خاص طور پر بچّوں کے لئے لکھی گئی تخلیقات کے لئے مشہور ہیں۔ نثر میں ان کی کتاب’ چشم دید‘اس حقیقت کی ضامن ہے کہ وہ نثر اور نظم ہر دو اصناف میں ظرافت کو عمدگی سے برتنے پر قادر ہیں۔  ان کی زبان رواں دواں اور اندازِ تحریر دلچسپ ہے۔ مذکورہ کتاب میں چند مضامین کے عنوانات درج ذیل ہیں :باکمال شوہر،  بد زبان بیویاں، نمک کی چمک، ٹر کی اہمیت، ہم صاحبِ کتاب ہوئے۔ نمونہ تحریر درج ذیل ہے:

’’زمانے کے ساتھ بیوی کے رہنے سہنے، پہننے اوڑھنے حتیٰ کہ سوچنے سمجھنے کے انداز میں بھی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔  پچھے دنوں اگر شوہر پردیس گیا ہو تا تو بیچا ری بیوی برہن بنی ہوئی دن رین برہ کی آ گ میں جلتی رہتی تھی لیکن آ ج کی بیوی ایسی کچھ نہیں ہے شوہر دور ے پر گئے ہیں بیوی سوچتی ہے،  ادھر بنارسی ساریاں سستی اور اچّھی ملتی ہیں دیکھیں انھیں لانا یا د رہتا بھی ہے یا نہیں یا پھر پہلی تاریخ ہے،  تنخواہ کا دن بیوی راہ میں آنکھیں بچھائے راہ نہارتے نہارتے گھبرا اٹھتی ہے۔  ہائے اللہ شام ہو گئی نہ جانے کب آئیں گے؟ کب بازار جائیں گے، کب سودا سلف آئے گا، کہیں پیسہ ادھر ادھر نہ کر دیں مہینہ بھر تنگی رہے گی۔  موجودہ دور ملاوٹ کا دور ہے بیوی بھی خالص نہیں ملتی۔  اب نہ شام کی جوگنین ہیں نہ پر دیسی کی برہنیں،  نہ ہجرت کا لطف ہے نہ وصل کی لذّتیں،  زمانے کے الٹ پھیر نے سب کچھ الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے۔  ‘‘(داستانِ بیوی، چشم دید، حیدر بیابانی،  امراؤتی،  ۱۹۹۰ء؁،  ص:۳۴)

 

انصاری اصغر جمیل :

انصاری اصغر جمیل ناگپور کے ایک اہم مزاح نگار ہیں مزاح نامہ نامی ایک رسالہ جاری کیا تھا۔  ان کے مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ’لگی‘ منظرِ عام پر آ چکا ہے۔  سماجی زندگی میں پھیلی ہوئی بدعنوانیاں،  سیاسی شعبدے بازیاں،  انجمنوں میں چلنے والی کاروائیاں ان کے طنز کا ہدف رہے ہیں۔  روایتی مزاح نگاروں کی طرح بیوی ان کا پسندیدہ موضوع ہے نگاہ موضوع پر ہو تب بھی ان کا نشانہ کہیں اور ہو تا ہے یہ نیک فال ہے بشرطیکہ وہ بیوی یعنی اس موضوع کو کبھی کبھی تنہا بھی چھوڑ دیں انھوں نے ناگپور کے چند ادیبوں اور شاعروں کو کامیابی کے ساتھ اپنے خاکوں کے شیشے میں اتارا ہے:

’’آہا کتنا پیارا لفظ ہے خادمِ قوم،  خادمِ قوم یعنی قوم کے خادم قوم کی خدمت کر نے والے کو خادمِ قوم کہا جا تا ہے۔  یوں تو قوم کی خدمت کئی طریقوں سے کی جا سکتی ہے۔ جیسے کہ تن من اور دھن سے لیکن عقل اگر کام کر جائے تو اس سے بھی قوم کی خدمت کی جا سکتی ہے جس میں نہ ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آئے۔ ‘‘ (ہم ہیں خادمِ قوم،  انصاری اصغر جمیل،  مطبوعہ شگوفہ حیدرآباد،  فروری ۱۹۸۳ء؁)

 

شکیل شاہجہاں :

شکیل شاہجہاں کا تعلق کامٹی سے ہے۔  ان کے یک بابی ڈراموں کا مجموعہ’ کبھی ایسا بھی ہو تا ہے‘ کافی مقبول ہوا۔ انھوں نے اپنے کئی مزاحیہ ڈرامے اسٹیج کیے اور انعامات سے بھی نوازے گئے۔  ان کی جو تحریریں ماہنامہ شگوفہ میں شائع ہوا کر تی تھیں ان میں مزا ح قدرے زیادہ تھا۔

 

خورشید نادر کامٹوی :

خورشید نادر کامٹوی کے مزاحیہ مضامین شگوفہ میں شائع ہو چکے ہیں ان کی فارسی آ میز زبان اور مزاح کا اعلیٰ معیار،  خوش ذوق قارئین کو متاثر کر تا ہے۔  نادر کامٹوی کے کئی مضامین طنز و مزاح اور صنف انشائیہ کے متعلق شائع ہوئے ہیں جن میں مختلف اصنافِ میں ظریفانہ ادب کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔

 

اظہر حیات:

ناگپور کے مزاح نگاروں میں اظہر حیات اپنے چند  مضامین کے ذریعے متعارف ہوئے۔  مختلف اخباروں میں شائع ہو نے والے ان کے کالموں میں بھی طنز کی نشتریت محسوس کی جا سکتی ہے۔

 

سمیع بن سعد :

سمیع بن سعد کے کئی مضامین ماہنامہ شگوفہ،  حیدر آ باد اور روزنامہ ’ اردو ٹائمز‘، ممبئی میں شائع ہو چکے ہیں۔ پروفیسر سمیع اللہ نے جن کا تعلق امراؤتی سے ہے،  مزاح نگاری کے لئے اس نام کا انتخاب کیا اور چند دلچسپ مضامین تحریر کر کے خاموشی اختیار کر لی۔ انداز شگفتہ اور تاریخی واقعات کو استعمال کر کے نئے مفاہیم پیدا کر نے کا سلیقہ ان کی تحریروں میں نظر آ تا ہے۔ ان کا ایک دلچسپ مضمون’ ’تزکِ چغدی‘‘ ہے:

’’لا پر اعتراض ہوا کائنات کی تخلیق ہوئی، زمیں کی ویرانی پر اعتراض ہوا باوا آ دم کی تخلیق ہوئی، فرشتوں کو آدم کو سجدے کا حکم دیا گیا جو اس لفظ سے واقف نہیں تھے بے چوں و چرا جھک گئے لیکن حضرتِ ابلیس جو واقف تھے، سجدے پر اعتراض کیا کہ یہ خاک کا میں آ گ کا،  بھلا میری اس کی برابری، سجدہ نہیں کیا۔ اسی اعتراض کی وجہ سے حضرت ابلیس اور آ دم کی اولاد میں وہ دشمنی ہوئی جو جہنّم کی آ بادی کا باعث بنی خدا نے حضرتِ آ دم کو شجرِ ممنوعہ کھانے سے منع کیا، بھلا ابلیس جو اس لفظ سے واقف تھا کہاں چوکتا اسے آدم کے خدا کا حکم ماننے پر اعتراض ہوا اور اس نے یہ لفظ بی بی حوّا کے کان میں پھونک دیا۔ ان دونوں نے اعتراض کو اپنا حق مانتے ہوئے شجرِ ممنوعہ نہ کھانے پر اعتراض کیا۔ اور شجرِ ممنوعہ کھایا پھر ان کا سفر کر ہ ارض کی آ بادی کا سبب بنا۔ اب آپ ہی بتائیے،  دنیا کی آ بادی کا باعث کون؟’ اعتراض ‘ اب آپ کو کوئی اعتراض ہے؟‘‘(اعتراض، سمیع بن سعد،  مطبوعہ  ماہنامہ شگوفہ،  حیدر آباد، فروری، ص:۸۳)

 

ایس ایس علی:

ایس ایس علی نے ابتدا میں انگریزی کالم لکھے اور ان کے اردو مضامین میں طنز کی تلخی نمایاں ہوئی۔  اپنے آس پاس پھیلی بد عنوانیوں اور شخصیات کی ناہمواریوں کو انھوں نے بیان کیا ہے۔  ایس ایس علی نے ظریفانہ انداز میں چند خاکے بھی قلمبند کئے ہیں۔ معروف مزاح نگار اور آرٹسٹ شکیل اعجاز کے خاکے میں لکھتے ہیں :

’’ ٹائم ٹیبل کی جو نقل ان کو دی جا تی ہے رکھ کر بھول جا تے ہیں۔ پھر سال بھر اندازے سے پیریڈ لیتے ہیں۔  ان کویہ معلوم تو نہیں رہتا کہ میرا آ ف پیریڈ کون سا ہے اور بتائے بھی کون؟ اس لئے ایک پیریڈ لینے کے بعد ساری کلاسوں میں جھانکتے ہیں جہاں کلاس خالی نظر آئی وہاں اپنا پیریڈ سمجھ کر پڑھانے لگتے ہیں۔ اس کلاس کا ٹیچر جب دور سے دیکھ لیتا ہے کہ شکیل صاحب میری کلاس میں چلے گئے تو وہ مسرور ہو کر کینٹین یا ٹیچرس روم کی آ رام کر سی کا رخ کرتا ہے۔ ‘‘( بابو بھولے بھولے، ایس ایس علی، مطبوعہ ماہنامہ شگوفہ، جولائی۱۹۹۴ء؁،  ص:۴۳)

 

سعید احمد خاں :

سعید احمد خاں کا تعلق اکولہ سے ہے۔  بید براری کے نام سے شگوفہ میں مزاحیہ مضامین لکھتے رہے۔  انھوں نے چند جا سوسی ناول بھی شائع کر وائے جو پسند کئے گئے۔ ان کے مضمون ’’موکھے میں سے‘‘ کا ایک اقتباس :

’’اس سال بھی رمضان شریف کچھ یوں ہی بے کیف گزر رہے تھے کہ ہمارا ایک بچپن کا دوست آ گیا۔ جس کے ساتھ ہم تھیٹر میں افطار کیا کر تے تھے۔ کہنے لگا منوج کمار کی کلرک لگی ہے، سکنڈ شو چلیں گے۔  ہم نے اطمینان کا سانس لیا کہ اس بھری دنیا میں کوئی تو ہمارا ہوا۔  میں نے کہا:’’ سکنڈ شو ہی کیوں،  میٹنی شو کیوں نہیں ؟ ‘‘

’’کچھ نمازیں قضا ہو جا تی ہیں یار۔ ‘‘ اس نے شرما کر بتایا۔ ‘‘

(موکھے میں سے، سعید خاں، مطبوعہ ماہنامہ شگوفہ، جو لائی۱۹۹۴ء؁)

 

رحمت اللہ مالوی:

رحمت اللہ مالوی بھی مزاح نگاروں کے اس قافلے میں شامل رہے ان کی کئی شگفتہ تحریریں منظرِ عام پر آئیں۔ ان کے ہاں حسِ مزاح زبردست تھی جو ان کے مضامین کی انفرادی خوبی تھی۔  مدت ہوئی ظرافت نگاری کاسلسلہ بند ہے۔ ان کے ایک مضمون کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں :

’’ریلوں اوربسوں کے قاعدے ہی کچھ ایسے ہیں کہ کبھی تو مسافر بے بس ہو جاتے ہیں اور کبھی محکمہ کی بے بسی عمر کے ہا تھوں قابلِ دید ہو تی ہے۔  بارہ برس سے پندرہ برس والی عمر کے بچّے اچانک چھوٹے ہو کر آ ٹھ یا دس کی حدود میں آکر آ دھی ٹکٹ کے مزے لوٹتے ہیں۔  اور پانچ یا چھے برس کی عمر اچھل کر ماں باپ کی گود میں براجمان ہو جا تی ہے۔  یہ کھیل اس وقت شروع ہو تا ہے جب رِنگ ماسٹر (T.C.) رنگ میں آ تا ہے۔ ‘‘(عمر… تماشا یا تماشائی،  رحمت اللہ مالوی،  ماہنامہ شگوفہ،  جو لائی،  ص:۹۳)

مزاح نگاروں کے اس کارواں میں یقیناً ایسے لوگ بھی تھے جن کی تحریروں کو پڑھ کر بے ساختہ ایک واہ زبان پر آ جا تی تھی،  افسوس اب ان میں سے اکثر کا ذکر آتا ہے اور اس خبر کے ساتھ کہ وہ تھک کر بیٹھ گئے، مزاح نگاری تو کب کی طاقِ نسیاں ہو چکی،  تو ہم ایک آ ہ کھینچ کر رہ جا تے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

مراٹھی ادب میں طنز و مزاح

 

مراٹھی کے ابتدائی ناٹکوں اور ڈراموں کا اسٹیج مراٹھی طنز و مزاح کے لئے باب الداخلہ ثابت ہوا۔  مراٹھی ادب میں ظرافت کی آ مد ودوشک (مسخرہ )کے روپ میں ہوئی جو ابتدائی مراٹھی ناٹکوں اور تماشوں کا لا زمی جزو تھا مضحکہ خیز لبا س اور حر کات و سکنات کے ذریعے تفریح فراہم کر کے تماش بینوں کو دلچسپی کی ڈور سے باندھے رکھنا اس کے فرائضِ منصبی میں شامل تھا۔ اس ضمن میں ڈاکٹر یو نس اگاسکر رقمطراز ہیں :

’’مراٹھی نثر میں مزاح نگاری کا آغاز بیسویں صدی میں تحریر کر دہ ان مختصر مزاحیہ ڈراموں سے ہوا جنہیں فارس کہا جاتا ہے۔  یہ فارس مختلف ناٹک کمپنیاں اپنے ناٹک شروع کر نے سے پہلے دکھا یا کرتی تھیں اور اس میں مضحک صورتِ حال اور عملی مزاح کے ساتھ طنز و مزاح سے بھرپور مکالموں کو خاص اہمیت تھی جو ان فارسوں میں اصلاحی رجحانات کے تحت لکھے گئے تھے۔ جن میں بوڑھے مرد سے جوان لڑکی کی شادی،  ان پڑھ مرد اور پڑھی لکھی بیوی اور جھوٹی شان کے پیچھے گھر لٹا دینے کی ذہنیت کا احاطہ کیا گیا تھا۔  ان فارسوں کے مکالمے ذومعنین لفظوں یا فقروں سے خالی نہیں ہو تے تھے۔ ‘‘(۱)

مراٹھی کے ابتدائی سنجیدہ مضامین اور اخباری کالموں میں ہلکے پھلکے مزاح کی چاشنی اور طنز کے چھینٹے بھی پائے جا تے ہیں۔

شری کرشن کولہٹکر (پ: ۱۸۷۱ء؁ -و: ۱۹۳۴ء؁) مراٹھی کے مزاح نگاروں میں وہ پہلا نام ہے جہاں سے باقاعدہ طور پر بھر پور طنز و مزاح کی تخلیق کا آغاز ہو تا ہے۔  کولہٹکر نے پہلی بار مراٹھی میں طنز و مزاح کی تخلیق کے لئے ضروری حربوں کا استعمال کر کے مزاح نگاری کی ایک مضبوط روایت کو جنم دیا۔  کولہٹکر کے مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ’’سدامیا چے پو ہے‘‘میں بنڈو نانا، پنڈو تا تیا اور سداما ( مصنّف ) جیسے بھر پور مزاحیہ کر دار ملتے ہیں جن کی حر کا ت و سکنات اس دور کی سماجی زندگی، مذہبی معاملات اور عصری رجحانات کی نمائندگی کر تی ہیں بقول: ا۔ ن۔  دیشپانڈے :

’’کولہٹکر نے مخصوص رویّوں کی نمائندگی کر نے والے افراد کی حرکات و سکنات کو طنز و مزاح کا ہدف بنا کر بے مثال مزاح پیدا کیا۔  ممکن ہے یہی بات ان کے بعد مراٹھی کے مزاحیہ اد ب میں واقعہ نگاری اور کردار نگاری کے فروغ کا سبب بنی ہو۔ ‘‘(۲)

کولہٹکر کی مزاح نگاری معاشرہ کی اصلاح کے کارِ خیر کی غرض سے وجود میں آئی تھی، لیکن نہ اس کام کے بوجھ تلے دب کر مزاح کا جنازہ نکلا نہ خشک قسم کی تقریریں وجود میں آئی بلکہ سماج میں پھیلا ہوا، بے تکا پن، جہالت رسم و رواج کی مضحکہ خیزیاں اور پھوہڑ پن کے خمیر سے کولہٹکر نے مزاح کی تخلیق کی تو تخیل کی کار فر مائی اور مبالغہ آ رائی نے ایک نیا اسلوب پیدا کیا۔  بچپن کی شادی، مذہبی معاملات، تہوار ادب و شاعری اور دیگر فنونِ لطیفہ وغیرہ کولہٹکر کے مضامین میں بہترین ظرافت کی مثالیں بن کر ابھرے۔  سماجی برائیوں اور شخصی عیبوں پر کی گئی ان کی تنقید بقول شخصے:

’’تلوار کے وار کی طرح جان لیوا نہیں بلکہ ریشمی کو ڑے کی خفیہ مار ہے۔ ‘‘(۳)

کولہٹکر کے مزاح پر انگریزی ادب سے استفادے کے نتیجے میں انگریزی طنز و مزاح کے اثرات بھی پڑے لیکن بنیادی طور پر ان کی ظرافت مراٹھی اور ہندوستانی تہذیب کی فضا میں سانس لیتی ہوئی محسوس ہو تی ہے:

’’دھیرے دھیرے ہمارے اندر بھی چوری کا رجحان پیدا ہو نے لگا۔  میری ابتدائی چوریاں بہت معمولی ہوا کر تی تھیں مثلاً کبھی کسی چور کو قریب سے گزرتا دیکھ کر اپنا بدن چرا لیا کبھی اپنے ہی روپیوں پیسوں پر ہا تھ صاف کر دیا۔ اس صندوق کی رقم اس صندوق میں رکھ دی،  کبھی اس الماری کا مال چرا کر اس تجوری میں چھپا دیا۔ اس دوران سہمی سہمی نظروں سے دیکھتا بھی جا تا تھا کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا ہے۔ بڑھتے بڑھتے یو ں ہوا کہ ایک دن بنڈو نانا کے گھر سے پھٹا ہوا جو تا چرا لیا۔  ان دنوں بنڈو نا نا کو بھی یہی گندی عادت لگ رہی تھی چنانچہ وہ جو تا جو میں اس کے گھر سے چرا لایا تھا در اصل میرا ہی تھا جسے بنڈو نانا اسی ترنگ میں چرا کر لے گیا تھا۔ ‘‘(۴)

کولہٹکر کے بعد ان کے شاگرد رام گنیش گڑ کری ( پ:۱۸۸۵ء؁ -و:۱۹۱۹ء؁) کو بحیثیت ڈراما نگار زیاد مقبولیت حاصل ہوئی انھوں نے’ بالک رام‘ کے قلمی نام سے مزاحیہ مضامین بھی لکھے جو پہلے’ رکام پناچی کا مگیری ‘اور پھر’سمپورن بالک رام ‘کے نام سے شائع ہوئے۔

بحیثیت شاعر انھوں نے گووندا گرج کا نام اختیار کیا ان کے شعری مجموعے’ واگ ویجنتی‘ میں چند مزاحیہ نظمیں اور گیت ہیں جو بہت مقبول ہوئے۔ مثلاً یہ نظمیں ’ چنتا تور جنتو‘، ’سانگ کسے بسلو‘ اور’کائے کراوے‘ وغیرہ۔ گڑکری کے متعلق پ۔  ک۔ اترے نے لکھا ہے:

’’مہاراشٹر میں عوام میں مزاح کو شہرت و مقبولیت سے ہمکنار کروانے میں سری کرشن کولہٹکر جو کامیابی حاصل نہ کر پائے وہ ان کے شاگرد گڑ کری نے حاصل کر کے ان کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ‘‘(۵)

بقول و۔ ل۔  کلکرنی:

’’گڑ کری کے ڈراموں کی بے پناہ مقبولیت کی ایک اہم وجہ ان ڈراموں میں پایا جانے والا زبردست مزاح ہے۔ تماش بین لفظی کرتب بازی، پھکّڑ پن اور ڈرامائیت کے سبب ان ڈراموں کو پسند کرتے ہیں اور ظرافت سے محظوظ ہو تے ہیں۔ ‘‘(۶)

بلا شبہ مراٹھی میں ظرافت کی تخلیق کا ایک اہم ذریعہ اس زبان میں لکھے گئے ڈرامے ہیں۔  ناولوں، ڈراموں اور مضامین کے علاوہ طنز و مزاح نے جس نئی سمت میں پیش قدمی کی اور پر پرزے نکالے وہ کہانی کا فارم ہے۔  کولہٹکر اور گڑکری کے عطا کر دہ مخصوص پیٹرن Pattern سے ہٹ کر چ۔  و۔  جوشی (پ:۱۸۹۲ء؁ -و:۱۹۶۶ء؁  ) نے مراٹھی ظرافت کو ایک نئے رنگ و آہنگ سے آشنا کیا اور مزاح نگاری کے نئے امکانات کو کھنگال کر ادب میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔  ان کے متعلق د۔  ن۔  بھوسلے نے لکھا ہے:

’’کولہٹکر اور ان کے شاگرد گڑ کری کی طرح جو شی نے مزاح سے سماج سدھار کا کام نہیں لیا، البتّہ وہ اپنے آپ کو اس سے پوری طرح بچا بھی نہ سکے، ان پر سماج سدھار کی دھن سوار تھی اسی لئے جن معاشرتی برائیوں پر ان ادیبوں کی نگاہیں مر کوز تھیں، جو شی نے ان سے ہٹ کر نئے نئے موضوعات پر طبع آزمائی کی، ان کی تحریروں میں تنوع اور آزادانہ رویّہ ملتا ہے۔ ‘‘(۷)

جو شی کی تخلیقات میں ایک غیر جانبدار آدمی کی نگاہ اپنے آ س پاس کی سر گرمیوں کا بڑی باریک بینی سے مشاہدہ کر تی ہے۔  ان کے ہاں مزاح اکثر صورتِ واقعہ سے پیدا ہو تا ہے۔  جو شی کی مختلف کہانیاں مزاح نگاری کی عمدہ مثالیں ہیں۔ ان کہانیوں کے علاوہ ان کے ناول، آ مچا پن گاؤں، میں چِمن راؤ اور گنڈا بھاؤ جیسے کر دار ملتے ہیں جن کی حر کات و سکنات ہمیں خندہ زنی پر مجبور کر دیتی ہے۔  کہانی’ پانی ‘ میں ترقّی پسندوں کی مخصوص ذہنیت کو دلچسپ انداز میں پیش کیا گیا ہے:

’’دھن جی طیش میں آ کر بولا:’’تم دولت کی تقسیم کرو مگر میں پانی کی تقسیم کیوں ہو نے دوں ؟تم سب یہاں چین سے بیٹھ کر مکھیاں مار رہے تھے تب میں اکیلا اتنی دھوپ میں جا کر پانی لایا، کیا مجھے اس کا بدلا نہیں ملنا چاہئے ؟ ‘‘

سکھاتمے بولا:’’سارے سرمایہ دار اسی طرح شور مچاتے ہیں۔ بہار سرکار نے تمام زمیں داروں کی زمینیں بغیر معاوضہ دئے لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی طرح ہم بھی بغیر کچھ دئے سارا پانی پی جائیں گے۔ ہم یہ ذخیرہ اندوزی ایک منٹ کے لئے بھی بر داشت نہیں کریں گے۔ ‘‘

ا س پر کنچن گوری کسی پہلوان کی طرح سکھاتمے پر چڑھ دوڑی:’’ہے تیرے اندر پانی تو ہمارے پانی کو ہاتھ لگا، اب کیوں ادھر چھپ رہا ہے۔ ‘‘(۸) ’’مراٹھی کا زیادہ تر ظریفانہ ادب کہانی ہی کے فارم میں تخلیق ہو ا ہے۔ ‘‘(۹)

آج بھی مراٹھی کے بیشتر رسائل کے دیوالی نمبروں میں طنز و مزاح کے مخصوص ذخیرے کے علاوہ مراٹھی کے خالص مزاحیہ رسائل، شیام سندر، موہِنی اور آواز کے سالناموں میں تمام تر مزاحیہ کہانیوں ہی شائع ہو تی ہیں۔  یہ ظریفانہ تحریریں بعد میں کتابی شکل میں بھی منظرِ عام پر آ تی ہیں اور ہا تھو ں ہاتھ لی جا تی ہیں۔

مراٹھی میں ڈراما طنز و مزاح کے لئے ایک زبردست میڈیم ثابت ہوا۔ اسی طرح کہانی کو مزاح کے فارم میں پیش کر نے کی کوششیں بھی لائقِ ستائش ہیں۔  اردو زبان میں چند اچھے مزاحیہ ڈرامے لکھے گئے لیکن اس صنف میں مو جود بیشتر تحریروں کا جھکاؤ مزاحیہ مضمون یا انشائیہ کی طرف زیادہ ہے۔ ہمارے ہاں ظریفانہ تحریروں میں اسٹوری میکنگ کاسلیقہ نظر نہیں آ تا۔  اس قبیل کی تحریریں واقعات کے جزیروں میں بٹ کر رہ جا تی ہیں پطرس کے مضامین (کہ وہ ہیں ہی بنیادی طور پر مضامین)میں کہانی نہیں بنتیں واقعات مضمون میں ابھرتے ڈوبتے ہیں مثال کے طور پرکل صبح جو میری آنکھ کھلی، مرید پور کا پیر وغیرہ۔ پطرس نے ظرافت کے لئے مضمون کا فارم اختیار کر کے مزاح نگاری کی ایک توانا روایت کو جنم دیا۔  اردو میں اسی سلسلے کو ان کے بعد آ نے والے مزاح نگاروں نے آ گے بڑھایا۔ مزاحیہ کہانی اردو میں اپنی تمام تر صنفی خصوصیات کے ساتھ بار آور نہ ہو سکی۔

مراٹھی زبان اس معاملے میں لائقِ ستائش ہے کہ اسے ابتدا میں ایسے مزاح نگارمیسّر آئے جنھوں نے خالص مزاحیہ کہانیاں لکھی۔ وہاں کہانی اپنی راہ چلتی ہے،  ادھر ادھر کی با توں میں مشغول نہیں ہو تی۔ کر دار، کلائمکس، مکالمے، منظر نگاری، ڈرامائیت، بیانیہ وغیرہ حربوں سے زندگی کا ایک شگفتہ منظر نامہ سامنے آ تا ہے۔ اس ضمن میں سدا کر ہالے لکھتے ہیں :

’’مراٹھی کی گرامین کتھا میں ہمیں دو رجحانات ملتے ہیں ایک تو مقامی دیہی زندگی کی عکاسی دوسرے شہری زندگی سے متاثر ہو کر بدلتی ہوئی قصباتی زندگی کے اندر نمایاں ہو نے والی تبدیلی۔  ان کہانیوں میں علاقائیت،  بدلتی ہوئی قدروں کا فرق اور غیر ہم آہنگی سے فطری مزاح کی تخلیق ہوئی ہے۔ ‘‘(۱۰)

چ- و-جو شی کے بعد مراٹھی کی مزاحیہ کہانی میں زندگی کے مختلف پہلو ؤں کو اجاگر کیا گیا۔  شہری زندگی، ادب، سیاست، دفاتر میں چلنے والی کا روائیاں، گھریلو اور ازدواجی زندگی کی جھلکیاں کھیت کھلیان اور بیرونی ممالک کی کہانیاں مثلاً رمیش منتری کے ہاں ’تھنڈی چے دِوس‘ میں انگلینڈ اور وہاں کی زندگی، دیگر کہانیوں میں یورپی زندگی کی عکاسی، شام راؤ اوک کی مزاحیہ کہانیوں میں مختلف ذاتوں اور مذاہب خاص طور پر پارسی اور عیسائی مذاہب سے متعلق معاشرت طنز و مزاح کے نشانے پر ہے۔

مراٹھی مزاحیہ کہانیوں میں ایک انفرادیت نمایاں ہے۔  جن ادیبوں نے اس طرف خصوصی توجّہ دی ان میں چ-و-جوشی،  پ-ک-اترے،  پ-ل-دیشپانڈے،  شام راؤ اوک،  د-م-میراسدار،  جیونت دلوی،  گنگا دھر گاڈگل،  و-ا-بوا،  وسنت سبنس،  اندریانی ساورکر،  و-و-بوکل،  وجیا راج ادھیکش، کیپٹن لیمئے، د-ب-موکاشی، آ-و-ورٹی،  بال گاڈگل اور سبھاش بھینڈے قابلِ ذکر ہیں۔

ابتدائی مراٹھی ڈراموں میں مزاح ایک جز وقتی چیز تھی۔  کو لہٹکر اور گڑ کری کی تحریروں میں باقاعدہ مزاحیہ کر داروں کی نمود ہوئی اور مکالموں میں ظرافت نے اپنی حدیں پھیلائیں۔  ان میں سے بیشتر ڈرامے سماج کے سنگین مسائل اورعصری موضوعات کا احاطہ کر تے ہیں۔  مراٹھی ڈرامے کو مکمّل مزاحیہ پیرائے میں پہلی مرتبہ پ-ک- اترے نے پیش کیا۔  اس سلسلے میں ان کا ڈراما’ساشٹانگ نمسکار‘ (۱۹۳۳ء؁) بہت مقبول ہوا۔

مراٹھی ظرافت نگاروں میں پ-ک-اترے (پرہلاد کیشو اترے) (پ:۱۸۹۸ء؁  – و: ۱۹۶۹ء؁) ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ کامیاب مزاح نگار، اعلیٰ پائے کے مقرر،  ڈراما نگار، بے باک صحافی اور مضمون نگار، مختلف حیثیتوں سے مشہو ر ہوئے۔  اترے کے ڈراموں پر فرانسیسی ڈراما نگار مولیئر کی گہری چھاپ ہے۔  اترے نے مولئر کے ڈرامے Lavare کو مراٹھی میں ’ کو ڑی چمبک ‘نام سے منتقل کیا جو ۱۹۵۵ء؁  میں شائع ہوا۔ اترے نے خود نوشت سوانح ڈرامے،  تنقید،  مضامین،  ناول،  مزاحیہ کہانی اور تراجم وغیرہ مختلف اصناف میں بھر پو ر لکھا۔ ان کی تحریروں اور تقریروں میں بھی۔  طنز و مزاح کا رنگ چھایا ہوا ہے۔  ان کے ہاں گہرا مشاہدہ اور ڈھکے چھپے عیوب کا پردہ فاش کر کے ان پر فلک شگاف قہقہے لگانے کی صلاحیت مو جود ہے۔  اترے کے طنز میں زہر خند اور سفّاکی ہے اترے نے می منتری جھالو، تو می نہویچ،  بوا تے تھے بایا وغیرہ ڈراموں میں بھیا نک جرائم اور انسانی زندگی سے کھیلنے والے افراد کے کر توتوں کا پردہ چاک کیا ہے۔  اترے کی مزاحیہ تحریروں میں انسانی ہمدردی اور صالح اقدار کی جستجو بھی نظر آ تی ہے۔  اس کی مثال ان کی مزاحیہ کہانی ’برانڈی چی باٹلی ‘ہے۔ اندومتی شیولے ان کی کہانیوں کے متعلق لکھتی ہیں :

’’اترے کے مزاح میں طنز کی کاٹ اور استہزا کا پہلو نمایاں ہے جھنجھلا دینے والی تلخی ہے۔  ان کی مزاحیہ کہا نیوں میں چ- و-جو شی کی کہانیوں کی طرح کہانی پن کا فقدان ہے۔  کہانی کے بغیر جو شی چل نہیں پا تے جب کہ اترے کی کہانی خیال آفرینی کے سہارے آزادانہ بھٹکتی پھر تی ہے۔ ‘‘(۱۱)

اترے کے متعلق و- پ- دانڈے کر رقمطراز ہیں :

’’عام آ دمیوں کے دیکھے بھا لے افراد کے بے تکے، بے ہنگم رویّوں اور دیوانگی کا استہزاء اترے کے مزاح کا موضوع ہے۔ ان کے مختلف مزاحیہ کر داروں اور مکالموں سے پتہ چلتا ہے ک ان کے اندر قوّتِ استہزاء کس قدر شدید ہے۔ ‘‘(۱۲)

اترے نے اپنے طویل مزاحیہ مضمون ’پونیری ٹانگے والا ‘ میں تانگے والوں کی نفسیات کا گہرائی سے مشاہدہ کر کے ان کی عادات و اطوار کو مزاحیہ انداز میں پیش کیا ہے:

’’ان دنوں پو نا کے تانگوں میں بھی مچھروں کی طرح اضافہ ہو رہا ہے۔  یہ عجوبۂ روزگار تانگہ کہیں زیرِ زمیں نہ چلا جائے، یہ خیال تانگے کے شوقین لو گوں کو رہ رہ کر ستاتا ہے۔  مگر یہ خوف بے جا ہے۔ تانگے والوں کو پیچھے چھوڑ نے والے موٹر ڈرائیوروں کی تعداد میں بھی برابر اضافہ ہو رہا ہے مگر جب تک پونہ بلدیہ کو یہاں کے راستوں پر تارکول ڈال کر ہماری روشن تہذیبی روایات کے منہ پر کالکھ ملنے کی توفیق نہیں ہو تی اور وہ جب تک پونا کے تاریخی گلی کو چوں کو نادر تاریخی مسودوں کی طرح محفوظ رکھنے کی کوشش میں مبتلا ہے، یہ تانگے والا پونہ کی روایتی پگڑی کی طرح تہذیبی یادگار کے طور پر زندہ رہے گا۔ ‘‘(۱۳)

ا ترے نے مزاحیہ شاعری بھی کی۔ ان کی نظموں کے مجمو عے  ’جھینڈو چی پھولے‘ کو مراٹھی کی ظریفانہ شاعری میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔

یہ تو ہوا مختصر تعارف ان ادیبوں کا جنھوں نے مراٹھی کے ظریفانہ ادب کے اوّلین نقوش ثبت کئے۔ ان کے ہم عصر اور اگلے اس توانا روایت کو تھا مے ہوئے چلتے چلتے اپنی انفرادی شناخت کے پر پرزے نکالتے رہے۔ مراٹھی کے تمام مزاح نگاروں کا تفصیلی مطالعہ ان محدود صفحات میں ممکن نہیں اس لئے ہم ان نئے مزاح نگاروں پر ایک نظر ڈالیں جنھیں ہم آزادیِ ہند کے آس پاس ابھرنے والی نسل میں شمار کر سکتے ہیں۔  ان لو گوں کے توسط سے ایک نئے عہد کے مسائل مزاح کا موضوع بنے اور ان مسائل کا شعور، نیا منظر نامہ،  نئی نظر اور انوکھی سوچ و فکر کے دھارے مراٹھی کے مزاحیہ ادب میں داخل ہوئے۔

مراٹھی کے نئے مزاح نگاروں میں پ- ل- دیشپانڈے ( ۹۱۹اء؁) سرِفہرست ہیں۔  ان کے مزاحیہ ڈراموں،  سفر ناموں اور خاکوں میں تخلیقی عنصر نمایاں ہو نے کے علاوہ نہایت مہذب قسم کا سوچ و فکر کو بر انگیختہ کر دینے والا مزاح پا یا جا تا ہے۔  انسانی حر کات و سکنات کا جس گہرائی اور باریک بینی سے دیشپا نڈے مطالعہ کرتے ہیں اسی مہا رت سے اسے آرٹ،  ادب، تہذیب،  موسیقی اور دیگر فنونِ لطیفہ کے لوازمات کے سہارے بڑے انوکھے انداز میں پیش کر تے ہیں :

’’آخرکار تہذیب کیا ہے؟یہی نا، باجرے کی روٹی۔  بیگن کا بھرتا۔  گنپتی بپّا موریہ کا آزادانہ نعرہ۔ کیلے کے پتّے پر پروسے گئے چاول اور اس پر پڑ نے والی دال۔ مندر میں پھوڑے گئے ناریل سے اڑنے والا پانی۔  غلطی سے کسی کو پاؤں لگنے پر ہماری طرف سے کی جانے والی معذرت۔ دادی کی سنائی ہوئی بھوتوں کی کوئی کہانی۔ کمہار کے چاک پر گھومتے ہوئے مٹّی کے گولے کو اس کے بھیگے ہوئے نازک ہاتھ لگنے سے مٹکی تیار ہو جائے اسی طرح نادیدہ مگر جذبات کے بھیگے ہاتھوں سے اس کا وجود تشکیل پا تا ہے۔ کسی کو دیسی مٹکے کی شکل ملتی ہے کسی کو بدیسی کپ ساسر کی۔ ‘‘ (پ- ل-دیشپانڈے،  سنسکرتی )

بٹاٹیا چی چال،  ایک چال میں رہنے والے افراد کی زندگیوں کے رنگا رنگ مرقعوں پر مبنی کتاب ہے۔  دیشپانڈے کے مزاحیہ خاکے بھی خاصے مقبول ہوئے۔ انھوں نے ایک یا دو افراد پر مبنی ڈرامے لکھ کر کامیاب تجربے کئے۔  وہ اسٹیج کے کامیاب اداکار تھے۔  ان کے اپْروائی اور پْرورنگ،  سفرناموں کی کتابوں کے بعد سفر ناموں کو مزاحیہ انداز میں لکھنے کا رواج عام ہو چکا ہے۔

رمیش منتری نے بسیار نویسی کے با وجود مزاح کا اعلیٰ معیار قائم کیا۔  مزاحیے، مزاحیہ کہانی، سفر نامے، ڈرامے اور ناول وغیرہ مختلف اصناف میں بھر پور مزاح تخلیق کیا۔  ان کی کتاب جنو بانڈے کا مرکزی کر دار جیمس بانڈ کا چربہ ہے اور پوری کتاب مزاح اور سراغ رسانی کا ملا جلا انداز لئے ہوئے ہے۔ منتری کے مزاحیوں میں چند موضوعات مخصوص ہیں مثلاً بیوی،  سرکاری دفاتر کا اندرونی کا روبار، صحافت اور جدید و قدیم شاعری کی ہجو او ر سیاست وغیرہ۔  ان کے متعلق شانتا ج۔  شیلکے لکھتی ہیں :

’’منتری کا مزاح دلچسپی، ظرافت اور قابلِ مطالعہ ہو نے کی ایک سطح ہمیشہ بر قرار رکھتا ہے ممکن ہے وہ اس سطح سے کچھ زیادہ اونچا نہ اٹھتا ہو لیکن اس سے نیچے بھی نہیں گر نے پاتا۔  مبالغہ اور رعایتِ لفظی کے ذریعے داد وصول کر نا مراٹھی مزاح کی امتیازی خصوصیت رہی ہے ان چیزوں کا کثرت سے استعمال نہ کر تے ہوئے بھی منتری مزاح کی تخلیق میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ‘‘(۱۴)

سہیادری کی چوری، ان کی شاہکار کہانی ہے جس میں سہیادری نامی پہاڑ کے چوری ہو جانے کی خبر پر برپا ہونے والے خیالی ہنگامے کو دلچسپ انداز میں منتری نے پیش کیا ہے:

’’ایک اخبار نے اپنے اداریے میں لکھا…شاید اس خیال سے کہ سہیادری پہاڑ میں خفیہ کاغذات نہیں ہیں جو چوری ہو سکیں،  اس طرف سے لا پرواہی برتی گئی ہے۔ ہم گذشتہ سال بھر سے چیخ رہے ہیں کہ ہنگامی حالات ہیں، کہاں کیا ہو جائے کچھ کہا نہیں جا سکتا،  سرکار ہوشیار رہے مگر ہماری سنتا کون ہے؟ اب سہیادری کی چوری کے بعد ہمارے اس اشارے کی اہمیت کھل کر سامنے آ گئی ہے۔  جہاں سرمایہ دار اور ذخیرہ اندوزی کر نے والے تاجر دن رات عوام کا استحصال کر رہے ہوں وہاں سہیادری اور وندھیادری جیسے پہاڑ چوری نہ ہوں گے تو اور کیا ہو گا؟ہم حکومت کو خبر دار کئے دیتے ہیں کہ وہ ملک کے ہر پہاڑ پر سخت پہرہ بٹھائے ورنہ ہم زبر دست اندولن کئے بغیر نہ رہیں گے۔ ‘‘(۱۵)

مدھوکر آ شٹی کر (پ:۱۹۲۸ء؁) بحیثیت ڈراما نگار زیادہ مشہور ہوئے ان کے ڈرامے کاوڑیانچی شالا، ناٹک بسلے،  ڈاکٹر سلامت تر روگ پناس خاصے مقبول ہوئے۔  مدھوکر آشٹی کر کے ہاں سماجی مسائل کا گہرا شعور اور ان کی پیشکش میں فنّی رکھ رکھاؤ نظر آ تا ہے۔  انھوں نے ڈراموں کے علاوہ مزاحیہ کہانیاں اور مضامین بھی قلمبند کئے۔  ان کے مشہور ڈرامے’ کاوڑیانچی شالا‘ میں ایک فرضی اسکول چلانے والے لوگوں کی بد عنوانیوں کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ انسپکشن کے لئے تیاری کر تے وقت یہ ظاہر ہو جا تا ہے کہ یہ لوگ کس طرح پو رے سماج کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں اور اساتذہ کا استحصال کر تے ہیں۔  اس ڈرامے کے چند مکالموں کا ترجمہ درج ذیل ہے:

’’چپراسی…اسکول کی بدنامی کر رہے ہیں کہ آپ ہیڈ ماسٹر…

کاوڑے…میں صرف ہیڈ ماسٹر ہی نہیں مالک ہوں اس اسکول کا۔

چپراسی… وہ تو ہے مگر منگڑے بائی کہہ رہی ہیں کہ کاوڑے دھاندلی کر تا ہے، روپئے ہڑپ کر تا ہے اور نقلی بل لگا تا ہے۔

کاوڑے…( چیخ کر ) مسٹر بگلے۔ اس منگڑے بائی کو اس مہینے کی تنخواہ مت دو۔

بگلے… اس مہینے کی کیا اسے پچھلے چھے مہینے کی بھی تنخواہ نہیں دی گئی اور اسی کو کیا پچھلے چھے مہینے سے کسی کو بھی تنخواہ نہیں ملی۔

کاوڑے… مسٹر بگلے ! آج انسپکشن ہے۔  کم از کم آج تو غلطی سے بھی ایسا مت کہو۔ اچّھا دیکھو سیلیری رجسٹر پر پچھلے چھے مہینے کے سب کے سگنیچر ہیں کہ نہیں ؟

سگنیچر تو سر اگلے چھے مہینے کے بھی لے لئے گئے تھے، نوکری دیتے وقت ہی شرط رکھی تھی آپ نے کہ نو مہینے کے لئے ٹیمپریری اپائینمنٹ ہو گا مگر بارہ مہینے کی تنخواہ پر آ ج ہی دستخط کر نا پڑے گا۔ ‘‘(۱۶)

مراٹھی مزاح نگاروں میں و-ا-بوا اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ ان کی تحریروں کا مرکزی نقطہ عورت ہے جس کے نتیجے میں ان کی کتابوں میں کئی کہانیوں اور مضامین مل جاتے ہیں جو اسی موضوع کا طواف کر تے ہیں۔ مثلاً اشے نو رے اشا بائیکا، میں شامل مزاحیہ مضامین۔  ان کے متعلق شانتا۔  ج۔  شیلکے لکھتی ہیں :

’’بوا کے مضامین میں مو جود ’’میں ‘‘ در اصل قارئین کے اندر پا یا جا نے والا کوئی عام آ دمی ہے جس سے وہ مسلسل گفتگو کر تے رہتے ہیں اس طبقے کی عکاسی و-ا-بوا کی مزاح نگاری کے لئے بنیادی ترغیب ثابت ہوئی ہے۔ اگر اس میں ہمدردی کا رنگ بھی شامل ہو تا تو ان کی ظرافت کا معیار اور بلند ہو تا۔ لیکن انھوں نے یہ کو شش نہیں کی جس کے نتیجے میں گپیں ہانکنا، لطیفے سنانا اور لفظی الٹ پھیر جیسی کاروائی میں پھنسے رہے۔  ان کا مشاہدہ گہرا اور حسِ مزاح زبردست ہے تہذیب و ادب سیاست کے بارے میں ان کے پا س معلومات کا خزانہ بھی موجو د ہے۔ ‘‘(۱۷)

مراٹھی مزاحیہ کہانیوں میں دیہات کی پیش کش کے سلسلے میں د- م-میراسدار کا نام خاص طور پر مشہور ہے۔ انھوں نے دیہاتی زندگی کا مشاہدہ کر کے کہانیوں کا جو تا نا با نا بنا ہے اس میں فنّی نکھار مو جو د ہے اس طبقے کی زندگی کے انوکھے اور مزاحیہ گو شوں تک میراسدار کی باریک بین نظر پہنچ جا تی ہے اور اسے فنّی چابکدستی سے وہ ظرافت کا لباس پہنا دیتے ہیں :

’’ایسے ہی ایک گاؤں میں ایک مشہور پٹیل کے گھوڑے پر سوار ہو کر تقریر کر نے کر نے کے لئے جانے کا مجھے موقع ملا۔ اب تک مزاح پر کئی لوگوں نے تقریریں کی ہو ں گی مگر گھوڑے پر بیٹھ کر مزاح پر تقریر کر نے والا شاید پہلا مقرر ہوں۔  دو برس پہلے میں ایک ایسے ہی گاؤں میں گیا اور راستے میں اسی جگہ اترنا پڑا جہاں سے گاؤں پانچ میل دور تھا۔ گاڑی آئے گی یہ سوچ کر میں نے کتاب نکالی اور پڑھنا شروع کر دیا سامنے ایک لڑکا ایک ٹٹو لئے بیٹھا تھا درمیان میں نظر اٹھا کر اسے دیکھتا جا تا اور پڑھتا رہا۔ گاڑی کا انتظار کر تا رہا۔ گھنٹہ، دو گھنٹے ہو گئے گاڑی کا نام و نشان نہ تھا۔ مجھے الجھن ہو نے لگی۔ وہ لڑکا میرے قریب آ یا اور کہنے لگا۔ تقریر کر نے والے تم ایچ ہے کیا۔  میں نے سر ہلا کر کہا ہاں۔ ارے میں ہیاں کب سے بیٹھا ہوں چلو…

اور گاڑی کہاں ہے۔ ؟ میں نے پو چھا۔

گاڑی کھیت میں پھنس گئی اس لئے پٹیل بولے یہ گھوڑ ا لے جا اور لے کر آ، یہ کیا ہے گھوڑا۔

یہ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس سواری پر جا نا ہو گا۔ ‘‘(میرا سفرِ تقریر،  د م-میراسدار، ترجمہ : محمّد اسد اللہ )

دیہات سے متعلق کہانیوں کو مراٹھی کے جن ادیبوں نے مزاحیہ رنگ میں پیش کیا ہے ان میں میراسدار کا نام سرِ فہرست ہے۔ ان کی کئی کہانیوں کا بیانیہ اور مکالمے بھی مقامی بولی میں ہیں جنھیں پڑھ کر دیہی زندگی کا پو را ماحول زندہ ہو اٹھتا ہے۔  ان کی بعض کہانیاں شہروں کے پس منظر میں بھی لکھی گئی ہیں ’ورنگولا ‘اور ’چِکا ٹیا‘ ان کی  مشہور کتا بیں ہیں میراسدار نے یک بابی ڈرامے بھی تحریر کئے ہیں۔

بال گاڈگل کی مزاحیہ کہانیوں میں مختلف سلسلے نظر آ تے ہیں۔ ان کی بعض تحریروں میں چ-و- جو شی کے مشہور کر دار چمن را ؤ اور گنڈا بھا ؤ کو بھی نئے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔  اس سلسلے کی ان کے مضامین دوسرا چمن بھا ؤ، چمن راؤ چا نوا اوتار کافی مقبول ہوئے۔  گاڈگل نے ان کرداروں کو نئے پس منظر میں رکھ کر مزاح پیدا کیا ہے۔ اسی طرح ان کی کہانیوں میں ایک خیالی حکومت کی بساط بچھا کر بادشاہ،  وزیر اور پیادوں کی محفل آ راستہ کر کے موجودہ جمہوری نظام پر مبالغہ آ رائی اور تمسخر کے ذریعے کامیاب مزاح پیدا کیا ہے۔

وسنت سبنس کے مزاحیہ ڈراموں اور متوسط طبقے کی زندگی کی چھوٹی چھوٹی حقیقتیں مزاحیہ پیرائے میں بیان ہوئی ہیں۔  جہاں مزاحیہ مضامین اور ڈراموں میں شہری زندگی ان کی نگاہ کا مرکز ہے وہیں ان کی کہانیاں جو ’’کھاندے پا لٹ‘‘ میں موجود ہیں،  دیہاتی زندگی کے اچھوتے گو شو ں کو ظریفانہ انداز میں بے نقاب کر تی ہیں۔  ان میں کوئی دیہاتی قصّہ گو کی شکل میں موجود ہے، سبنس کی زبان ان کے مزاح کو ایک نیا زاویہ عطا کر تی ہے۔

جیونت دلوی،  ڈراموں افسانوں اور ناولوں کے بل بو تے پر مراٹھی ادب میں ایک مقامِ افتخار حاصل کر چکے تھے، ’چکر‘ ان کا مشہور ناول ہے۔ مزاح نگار کی حیثیت سے انھیں جو شہرت ملی ان کے ادبی کالموں کا ثمرہ ہے جو انھوں نے ’ٹھن ٹھن پال ‘کے قلمی نام سے لکھے۔  ادبی حلقوں میں یہ تحریریں بہت مقبول ہوئیں جس طرح اردو میں خامہ بگوش نے ادبی موضوعات کو طنز و مزاح کے رنگ میں پیش کیا،  مراٹھی میں ادب کی دنیا میں مو جود ناہمواریوں کو پیش کر کے جیونت دلوی نے خندۂ زیر لب کا وسیلہ بنا دیا۔ اس سلسلے کی تحریریں ’گھٹکا گیلی پلے گیلی ‘کے تحت شائع ہوئی ہیں۔  دلوی کے مزاحیہ کہانیوں کے مجموعے اْپہاس کتھا کے متعلق شانتا۔ ج۔  شیلکے لکھتی ہیں :

’’انسانی حر کات کی بو العجبیاں دریافت کر نا دلوی کا خاص طریقۂ کا رہے اس کے اظہار میں وہ سنجیدہ ہوں تو المناک حقائق ان کی تخلیقات میں ابھر آ تے ہیں اور ان پر غیر سنجیدگی غالب ہو تو مزاح جنم لیتا ہے۔ کبھی کبھی ان کی تحریروں سے’ٹھن ٹھن پال ‘بھی جھانک لیتا ہے۔ ‘‘

’’چال میں برسوں سے رہنے والے مجھ جیسے شریف لو گ بد معاشوں میں شمار ہو نے لگے۔  بھلا اس بات پر کو ن یقین کرے گا۔  اب یہی دیکھئے، سر دیوں میں ہم لوگ کندرپ پاک کھا تے ہیں کہ یہ مقویِ بدن ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ اس چال میں چندرا بائی رہنے کے لئے آئی ہو اور ہم نے یہ قوّت بخش دوائی استعمال کرنی شروع کی…،  ہم پر دوسرا الزام یہ ہے کہ ہم گیلری سے اس عورت کو دیکھتے ہیں فرض کیجئے دیکھتے بھی ہیں (اور واقعی دیکھتے ہیں ) تب بھلا دیکھنے سے کیا ہو تا ہے۔ آ خر اس سے کسی کا کیا بگڑ تا ہے۔  مگر سمجھائے کون؟ پورا مہینہ یوں ہی گزر گیا مگر ہم کیرم نہیں کھیل پائے۔ کیوں ؟تو صاحب گیلری میں مت بیٹھو تم وہاں سے اس عورت کو دیکھو گے۔ اب اس کا کیا جواب دیں۔ آج موسلے جان ہتھیلی پر رکھ کر کیرم بورڈ اٹھا لایا۔  ہم بھی کھیلنے بیٹھ گئے۔ اس کے آ تے ہی گوکھلے نازل ہو گیا۔ ہمیں دیکھ کر جو شی ماسٹر بھی کھنچے چلے آئے۔ پڑوسیوں کی ایکتا اسی کو تو کہتے ہیں۔ ‘‘(۱۸)

دلوی کے مزاحیہ سفر نامے ’لوک آنی لو کک‘ کو مراٹھی کے مزاحیہ سفر ناموں میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ اس دلچسپ کتاب میں انھوں نے امریکی زندگی کو خالص مزاحیہ انداز میں پیش کیا ہے۔ بال سامنت کے مزاحیہ ادب میں سیاست پر توجّہ مر کوز کر نے کے نتیجے میں رمیش منتری کی طرح ادب اور سیاست کے دائرے میں رہ کر مزاح کی تخلیق کا رجحان نمایاں ہے۔  البتّہ سامنت کا جھکاؤ سیاست کی طرف زیادہ ہے اسی لئے سیاسی اتھل پتھل، دفاتر اور سیاسی گلیاروں میں اقتدار کے کرشمے اوراس سطح پر ہونے والے سوانگ کا بھانڈا پھوڑنا سامنت کا محبوب مشغلہ ہے۔  خواتین مزاح نگاروں میں اندریانی ساورکر،  وجیا راج ادھیکش،  قابلِ ذکر ہیں۔ ان کی تحریروں میں ازدواجی زندگی اور گھریلو معاملات کی کہانیاں دلچسپ انداز میں بیان کی گئی ہیں۔

مراٹھی میں آج بیشتر مزاح نگار ڈرامہ، ادبی کالم، مضمون، سفر نامہ، سوانح، کہانی، رپورتاژ اور شاعری کے فارم میں مزاح کی تخلیق کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں سنجیدہ ڈراموں اور ادب کی دیگر اصناف میں بھی ظرافت کی جھلکیاں عام ہیں۔ کمر شیل ڈراموں اور ٹی وی سیریل کی کامیابی تماش بینوں کی دلچسپی پر منحصر ہے،  مراٹھی ادب کا قاری اور تماش بین ذوقِ مزاح سے فطری طور پر آشنا ہے اور ظرافت کا دلدادہ ہے اسی لئے مراٹھی ادب میں مزاح کی چاشنی ہر سطح پر وافر مقدار میں مو جو دہے۔

 

حوالہ جات:

۱۔   پیش لفظ، دانت ہما رے ہونٹ تمہارے،  ڈاکٹر یو نس اگاسکر، ص: ۹

۲۔  آ دھونک مراٹھی وانگمیا چا اِتِہاس، ا-ن- دیشپانڈے

۳۔  تعارفی نوٹ، مراٹھی گدھیہ ویچے(حصّہ اوّل )

۴۔  چوروں کا اجلاس،  سری کرشن کولہٹکر…جمالِ ہم نشیں، مترجم محمداسداللہ،   ۱۹۸۵ء؁،  ص:

۵۔  تتریواترے بحوالہ:پ- کے-اترے، ساہتیہ آنی سمِکشا، ڈاکٹر ایس ایس بھوسلے

۶۔  متے آنی مت بھید، و- ل- کلکرنی

۷۔  مقدمہ، گاڑیو رتنے، د- ن- بھوسلے

۸۔  پانی(کہانی)،  چ-و-جوشی…جمالِ ہم نشیں،  مترجم محمداسداللہ،  ۱۹۸۵ء؁،  ص:

۹۔  آ دھونک مراٹھی وانگمیا چا اِ تِہاس، ا-ن- دیشپانڈے

۱۰۔   مدھیل کتھا سنگرہ،  سدا کر ہالے،  مطبوعہ للِت، مئی ۱۹۷۸ء؁

۱۱۔   مراٹھی کتھا اْگم آنی وکاس،  ۱۹۲۶ء؁، ۴۵یشونت کر لوسکر

۱۲۔   آ دھونک مراٹھی وانگمیا چا اِ تِہاس، ا-ن- دیشپانڈے

۱۳۔  تانگے والا،  پ- ک- اترے…جمالِ ہم نشیں، مترجم محمد اسداللہ،  ۱۹۸۵ء؁،  ص:۵۴

۱۴۔   ۱۹۷۰ء؁  سالاتِل للت گدھیہ شانتا، ج- شیلکے

۱۵۔  سہیادری کی چوری، رمیش منتری،  جمالِ ہم نشیں، مترجم محمد اسداللہ،  ۱۹۸۵ء؁،  ص:۶۶

۱۶۔  کووں کا اسکول،  مدھوکر آشٹی کر،  جمالِ ہم نشیں، مترجم محمداسداللہ،  ۱۹۸۵ء؁،  ص:۷۱

۱۷۔  ۱۹۷۰ء؁  سالاتِل للت گدھیہ شانتا، ج- شیلکے

۱۸۔   تیرا آنا نہ تھا ظالم، جیونت دلوی،  ترجمہ محمّد اسداللہ،  مطبوعہ شگوفہ مارچ ۱۹۹۷ء؁

٭٭٭

 

 

 

   مراٹھی اور اردو شاعری میں جدید رجحانات

 

بیسویں صدی میں سائنسی انکشافات کے زیرِ اثر فطرت کے رازوں کو طشت از بام کر نے کا عمل شباب پر تھا۔ یہ ایک موڑ تھا جہاں سے زندگی ایک نئے عہد میں داخل ہو رہی تھی۔ صنعتی انقلاب نے زرعی معاشرے کو نگلنا شروع کر دیا تھا۔ مادّیت پرستی کا فروغ فرائڈ اور کارل مارکس کے نظریات نیز وجودیت کی تحریک نے جس شعور کو عام کیا اس نے بنیادی حقیقتوں کے چہرے بدل کر رکھ دئے۔  ہتھیاروں کی دوڑ اور دوسری جنگِ عظیم کی تباہ کاریوں نے انسان کو اندر تک جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔  ان پے در پے حملوں اور پرانے ذہنی سہارے چھن جانے سے انسان اندر تک پا رہ پارہ ہو گیا:

وہ تجلّی کی شعاعیں تھیں کہ جلتے ہوئے تیر

آئینے ٹوٹ گئے آئینہ بردار گرے

ہر لمحہ بدلتی ہوئی زندگی کی پیچیدگیوں اور بھیانک حقائق کے اظہار کے تقاضوں کے تحت جدیدیت کی تحریک نمودار ہوئی۔ شعر و ادب میں ایک ایسا پیرایہ اظہار سامنے آ یا جس میں عصری زندگی کی دھڑکنیں سنی جا سکتی تھیں۔  ان دھڑکنوں کی گونج پیکروں اور علامتوں میں نمایاں تھی۔ اس زبان کی لفظیات نئی تھیں اور لہجہ بھی نامانوس۔ نئے عہد کے اس تعارف کا انداز بھی نرالا تھا۔

یہ انقلاب یو رپ میں رو نما ہوا۔ بیسویں صدی میں جب دنیا بھر کے ممالک ریڈیو،  ٹیلی فون اور ٹیلی وِژن کے ذریعے اس قدر قریب آ گئے کہ تمام عالم ایک گلوبل ولیج میں تبدیل ہو گیا۔ عصرِ حاضر کے اس عذاب سے مشرق کا محفوظ رہنا ناممکن تھا۔ ہندوستان کی بیشتر زبانوں کی طرح مراٹھی میں بھی جدیدیت در آ مد شدہ ہے۔

مراٹھی میں بال سیتا رام مرڈھیکر(پ:۱۹۰۹ء؁ -و:۱۹۵۶ء؁  ) اور اردو میں ن-م- راشد (پ: ۱۹۱۰ء؁ – و:۱۹۷۵ء؁)ا و ر میراجی (پ: ۱۹۱۲ء؁ -و: ۱۹۴۹ء؁  ) جدید شاعری کے پیش رو شمار کئے جا تے ہیں۔  ہر چند ان شعراء سے پہلے مراٹھی اور اردو ادب میں مغربی ادب کے نئے رجحانات ادباء و شعراء کو متاثر کر نے لگے تھے۔  ان نئی ہواؤں نے نہ صرف ہمارے ادب میں خوشگوار تبدیلیاں پیدا کیں بلکہ ان ہی کے توسط سے جدید شاعری کے لئے راستے ہموار ہوئے۔  ہم ان تبدیلیوں پر نظر ڈالتے چلیں۔

مراٹھی شاعری میں مرڈھیکر سے قبل نیا اندازِ فکر،  موضوعات اور ہیئت کی تبدیلی اور فرد کی ذات کا احساس ہمیں کیشو سوت (پ:۱۸۶۶ء؁ – و:۱۹۰۵ء؁  ) کی شاعری میں ملتا ہے۔ کیشو سوت سے پہلے مراٹھی شاعری میں بیانیہ انداز نمایاں تھا جو بھکتی گیتوں اور عشقیہ نظموں کا مخصوص پیرایہ اظہار تھا۔  کیشو سوت کو جو چیز اس سے قبل کے شعراء سے ممتاز کر تی ہے وہ اس کے عہد کے مسائل کا شعور اور خلفشار کے کچوکوں سے ابھر نے والا احساس تھا جس کے سبب اس کا عہد شاعر کی ذات کے حوالے سے شاعری میں منعکس ہوا۔  یہ عصری زندگی کی سچّائیوں کا شعور تھا جس نے کیشو سوت کے ہاں ہمدردی او دردمندی کی لہر جگائی جو اس کی مشہور نظم’  تْتاری ‘ میں بغاوت اور انقلاب کی صورت اختیار کر گئی۔  تْتاری اور اس قبیل کی نظموں میں فرسودگی اور قدامت پرستی پر بر ہمی کا تاثر نمایاں ہے۔  اردو میں ’مقدمہ شعرو شاعری ‘منظرِ عام پر آئی جس کے ذریعے الطاف حسین حالی (۱۸۳۷ء؁ – ۱۹۱۴ء؁  ) نے ادب میں پیرویِ مغرب کا علم بلند کیا۔  حالیؔ قومی زندگی میں تبدیلی کے عزم سے سر شار اٹھے تھے اس کا جو حصّہ اردو میں شعر و ادب کو ملا، مقدمہ شعر و شاعری اس کا  ثبوت ہے۔

بعض ناقدین کا خیال ہے کہ کیشو سوت اگر سماج کی اصلاح او ر مقصدیت کے عناصر اپنی شاعری کے کاندھے پر سوار نہ کر تے تو ان کی شاعری میں خود انکشافی اور            Self expression کا رجحان جو اس دور کی مراٹھی شاعری میں چونکا دینے والی چیز تھی، کچھ اور ابھر کر ایک ایسی توانا لہر کی صورت اختیار کر سکتا تھا جو جو کچھ عرصے بعد مراٹھی شاعری میں مرڈھیکر کے ہاں نمودار ہوئی یہاں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ شعور کی یہ چنگاری بعض اوقات انقلاب کا داعیہ بن جا تی ہے یا بر ہمی کی لہر بن کر ابھر تی ہے۔  اسی رجحان نے کیشو سوت کی شاعری کو نقصان پہنچایا،  اس چنگاری کو شعلہ بننے میں ابھی دیر تھی ابھی دوسری جنگِ عظیم باقی تھی جس کی تباہ کاریوں نے مرڈھیکر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔  اظہار کے ان ہی تقاضوں نے مر ڈھیکری انداز کو جنم دیا۔

کیشو سوت کی طرح حالیؔ پر بھی یہ الزام ہے کہ انھوں نے شاعروں کی پوری نسل کو قومی اصلاح کے کام پر لگا دیا۔  حالیؔ کے پاس شاعروں کی آئندہ نسل کی تربیت کا پورا پروگرام موجود تھا۔ کیشو سوت نے خاموشی سے انگریزی شاعری کو مراٹھی میں منتقل کیا۔ بلکہ اس نے ابتدا یہیں سے کی۔

حالیؔ نے مقدمہ شعر و شاعری کے ذریعے ایک بڑا کھیل کھیلاجس میں وہ مقصدیت افادیت اور سماجی ذمّہ داری جیسے پہلوؤں کی بازی ہا رے بھی لیکن یہ سچ ہے کہ انھوں نے اردو کی روایتی شاعر ی کے دھارے کو موڑ کر رکھ دیا۔

مراٹھی کے اسی دور کے شعرا میں مادھو پٹوردھن جیولین (پ:۱۸۹۴ء؁  – و: ۱۹۳۹ء؁  ) بھی ہیں جو روی کرن منڈل سے متعلق شعراء میں اہم ہیں۔  روی کرن منڈل شاعری کو خوبصورت لفظوں اور تشبیہات و استعارات کے زیورات سے منڈھ دینے میں زیادہ دلچسپی رکھتا تھا۔  ہم اسے دبستانِ لکھنو کا انداز کہہ سکتے ہیں۔ آتش کے اس شعر کو روی کرن منڈل کا مینی فیسٹو قرار دیا جا سکتا ہے۔

بندشِ الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں

شاعری بھی کام ہے آتشؔ مرصع ساز کا

مادھو جولین نے روایتی اردو شاعری کے اس مزاج کو خود سے ہم آہنگ پایا اور اردو شاعری کی ریشمی زبان، نزاکتوں اور تکلّفات کو پو رے خلوص کے ساتھ مراٹھی شاعری میں برتنے کی کوشش کی اس سلسلے میں مراٹھی کے ایک ناقد کا خیال ہے کہ:

’’ مادھو جولین کا شعور ابھنگوں اور سنسکرت شلوکوں کا پروردہ تھا، مراٹھی میں غزل کہنے کا تجربہ کرنے کی کو شش کے با وجود وہ اردو شاعری کے مخصوص مزاج اور زبان کے چونچلوں کو پو ری طرح ہضم کر کے مراٹھی شاعری میں منتقل کر نے میں کامیاب نہیں ہو پائے۔ اگر ان کی یہ کوشش کامیاب ہو جاتی تو مراٹھی شاعری کا ڈکشن کچھ اور ہو تا۔ ‘‘

اردو شاعری کو جو تغزّل وراثت میں ملا تھا وہ مراٹھی داں طبقے کو ہمیشہ ہی سے رجھا تا رہا ہے مراٹھی شاعری میں ہیئت کے تجربات میں نظمِ معریٰ،  ہائیکو اور سانیٹ کے بعد سب سے اہم تجربہ مراٹھی غزل کا ہے۔  سریش بھٹ نے غزل کے مزاج کا مطالعہ کر کے اسے مراٹھی میں بحسن و خوبی برتا ہے۔ اس کی غزلوں کے چند مجموعے شائع ہوئے جن میں ایلگار( بمعنی یلغار)بھی ہے۔  اس میں شامل شاعری اس بات کا ثبوت ہے کہ مراٹھی ادبی محفلوں کو مشاعروں کی طرح لو ٹ لینے والے اس شاعر کی نظر صرف مشاعروں کی داد و تحسین پر نہیں بلکہ اس روایت پر بھی تھی جس میں جدیدیت اور ترقّی پسند تحریک کے دھارے آ کر ملے ہیں۔ سریش بھٹ اردو کے نظامِ عروض اور غزل کی روایت کا مزاج داں بھی تھا،  اس نے غزل کے رجحانات سے استفادہ کر کے مراٹھی غزل کو مالا مال کر دیا۔

جدید شاعری کے متعلق ایک عام خیال یہ بھی ہے کہ یہ قدیم شعری روایات سے انحراف کا نتیجہ ہے۔ جب کہ اردو میں ن- م- راشد اور مراٹھی میں بال سیتا رام مرڈھیکر کی شاعری کا مطالعہ کریں تو یہ با ت واضح ہو جاتی ہے کہ مراٹھی اور اردو دو نوں زبانوں کے جدید شعراء قدیم روایات سے ہیئت،  عروض اور اساطیر کے ذریعے جڑے ہوئے ہیں۔ ن- م- راشد نے اساطیر اور فارسی لفظیات کو اپنی نظم میں برتا،  میراجی نے ہندوستانی دیو مالائی اساطیر کو اپنی شاعری میں جگہ دی۔  ادھر مراٹھی میں مرڈھیکر کے بعد دلپ چترے کے ہاں ہندو دیومالا کے علاوہ یو نانی دیو مالا کو شاعری میں بطور استعارہ استعمال کر نے کا رجحان عام ہے۔  مر ڈھیکر اپنی تمام تر ابہام زدگی اور قنوطیت کے با وجود عروض کی سطح پر ابھنگوں کی روایت سے اس بری طرح چمٹا ہوا ہے کہ نظمِ معریٰ کو دوستوں کی محفل میں ان اشعار میں طنز کا نشانہ بناتا ہے۔

ضد پر آؤں تو بچّم جی

آزاد نظم لکھ دوں میں بھی

لمبی چوڑی اچّھی سی

ساری کے پلّو جیسی

(۱)

مراٹھی کی جدید شاعری میں پہلی مرتبہ مرڈھیکر کے ہاں شعری اظہار کے قدیم سانچے اختیار کرنے کے با وجود زبان کی شکست و ریخت، نئی لفظیات کا استعمال، علامتوں اور استعاروں کا نیا نظام نظر آ تا ہے جو مراٹھی شاعری کے لئے انوکھی چیز تھی۔  ہنوز مراٹھی شاعری مرڈھیکر کے قد و قامت کا دوسراشاعر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ علامتی اور اور مبہم مرڈھیکری انداز مراٹھی جدید شاعری کا سنگِ بنیاد ہے۔

اب تک پھولوں میں خوشبو ہے

ابھی ہے لال چمکتی دھرتی

چڑھ کر پیڑوں کے ٹھنٹھوں پر

ابھی ہے بکری چارہ چرتی

اس جانب زلزلے کے جھٹکے

اس جانب جنگی نقّارے

چاروں اور ہے شور شرابہ

بجھی چتا پر نئے انگارے

پل بھر جینا پھر مر جانا

ختم کہانی پلکارے میں

سینہ چھید کے بڑھ جاتی ہے

راڈر کی رو اندھیارے میں

(۲)

اسی راستے پر مراٹھی کے جدید شاعروں کا ایک کارواں وارد ہو ا جس نے اپنی پہچان بنائی اور نئے عہد کی ناشنیدہ آوازوں کو اپنی شاعری میں فنکارانہ انداز میں پیش کیا۔ اس انداز کے مختلف دھارے مراٹھی شاعری میں دکھائی دیتے ہیں۔ مرڈھیکر کا ابہام گزیدہ لہجہ اپنے ارتقائی مراحل میں گریس کی شاعری میں اس قدر گنجلک شکل اختیار کر گیا کہ فرانسیسی اشاریت پسندوں کی یاد دلانے لگا۔  عروض اور اساطیر کی سطح پر سدا نند ریگے اور وندا کرندیکر نے اپنی شاعری میں بدلتی ہوئی قدروں اور عصری زندگی کی تلخیوں کو پر اثر انداز میں پیش کیا۔

متوازی خطوط سچ پوچھئے تو متوازی نہیں ہو تے/ یہ بتانے والے / نئے پیغمبر کے انتظار میں / میرا بڑھاپا رُکا ہوا ہے۔

(معجزہ،  ونداکر ندی کر )(۳)

 

جہاز نے بادبان لپیٹنے شروع کر دئے /تو ہوا کے جھونکے نے/اس کے کان میں کہا چپکے سے:/ ’’ تم جھرّیاں اوڑھے بیٹھی ہو /جس کے انتظار میں /وہ آ گیا ہے لوٹ کر… ‘‘(یولِسس کی بیوی، سدا نند ریگے) (۴)

 

گر دن دبوچنے والے ہر ایک ہاتھ کو سلام /سلام بھائیو اور بہنو! سب کو سلام /اپنے اس سارے جہاں سے اچّھے دیس کو سلام/اس دیس کی مقدّس تہذیبی اور تمدّنی روایات / تمام خوشنما کھوکھلے نعروں کو سلام/ ذات پات کی تفریق کے گھوروں کو سلام/ان گھوروں پر اقتدار کی فصلیں اگانے والوں کو سلام/اْ پنِشدوں اور ویدوں کو سلام /شکر کارخانے کے داداؤں کو سلام۔ (سب کو سلام، منگیش پاڈگاو کر) (۵)

 

وہاں ایک چہرہ اگے گا پتھّرجیسا بے حس…پھر دوسرا… تیسرا۔  چوتھا۔  پانچواں / ان کی پلکیں جھپک نہیں رہی ہیں /جامد آنکھوں سے وہ /تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں تمہیں خاموش کر نے کے لئے وہ آئے ہوئے ہیں /مگر تم تو خود ہی خاموش ہو کر رہ گئے ہو /اب تم کو بولنا ہے۔  بولو…!! (نٹ کے لئے ہدایات، وسنت آ باجی ڈہاکے) (۶)

 

فٹ پاتھ پر پڑے کسی پتھر کو /جب بھی کوئی پہلا شخص /سیندور لگا تا نظر آئے /جان پر کھیل کر /اسے روکو /کیونکہ اکثر پتھر خدا بن جا تا ہے۔  (ریتا پدکی،  مترجم وقار قادری )(۷)

اردو میں ترقّی پسند تحریک کو انقلابِ  روس اور اشتراکیت نے فکری بنیادیں فراہم کی تھیں۔  سامراج اور جاگیردارانہ نظام اس کا ایک اہم محاذ تھا۔ ہمارے ہاں اس احتجاج کی بنیاداس قدر مضبوط نہ تھی جتنا اسے با ہر سے تھوپا گیا تھا۔ مراٹھی میں بھی ترقّی پسند تحریک کے تحت شاعری وجود میں آئی۔ نا راین سروے اس سلسلے کا سب سے جاندار شاعر ہے:

سکّہ اور نغمہ ایک نہیں ہوتے؛ اتنا بھی سمجھ میں آ گیا ہوتا

تو بھی انسان اسکائی لیب کی طرح نہ گر پڑتا

ایٹم کے گیت جوڑتا بیٹھا ہوتا میری طرح

ہر ایک کو اس نے بانٹ دئے ہوتے زمین اور سمندر

(میں اسکائی لیب کی طرح گر پڑتا ہوں،  وسنت ساونت) (۸)

مراٹھی میں اس تحریک کے متوازی ایک تحریک ابھری جس کی جڑیں اپنی زمیں میں پیوست تھیں، وہ ہے دلِت تحریک، اس کے تحت جو شاعری سامنے آئی اس کی انقلابی شعلہ بیانی کی آنچ نے قندیلِ ادب کے شیشے کو سیاہی آ لودہ بھلے ہی کیا ہو مگر ادب کا اعلیٰ معیار قائم نہ ہو پایا۔  یہ تحریک سماجی تقسیم کے تحت صدیوں سے سماج کے کمزور طبقے پر کئے گئے مظالم کے ردِ عمل کے طور پر ابھری تھی۔  شاعروں میں بھی اس احتجاج کی جو صدا ابھری وہ فطری لب و لہجہ لئے ہوئے تھی اس کا احتجاج کھرا اور دو ٹوک تھا۔  یہ اور بات ہے کہ اسی احتجاج کے سبب اس پلیٹ فارم سے منظرِ عام پر آ نے والی تخلیقات کا ایک بڑا حصّہ غیر شاعرانہ سرگرمیوں کی نذر ہو گیا۔  مجموعی طور پر مراٹھی کی جدید شاعری عصری زندگی کے تلخ حقائق اور روایات اور زندگی کی بدلتی ہوئی قدروں کے تصادم کے نتیجے میں ابھر نے والے احساسات کا فنکارانہ اظہار ہے جس میں عصری حسیت اور نئے شعور کی کار فر مائی نظر آ تی ہے۔

 

حوالہ جات:

۱۔  اردو ترجمہ،  بدیع الزماں خاور

۲۔  اب بھی پھولوں میں خوشبو ہے، ترجمہ قاضی سلیم،  مطبوعہ سہ ماہی ترسیل،  ممبئی،   دسمبر ۱۹۹۶ء؁، ص:۱۱۵

۳۔   معجزہ،  ونداکرندی کر،  مطبوعہ مراٹھی رنگ،  بدیع الزماں خاور،  ۱۹۸۵ء؁، دہلی،  ص:۳۱

۴۔  یولِسس کی بیوی،  سدانندریگے،  مطبوعہ مراٹھی رنگ،  بدیع الزماں خاور،  ۱۹۸۵ء؁،  دہلی، ص:۵۹

۵۔  سب کو سلام، منگیش پاڈگاو کر،  مطبوعہ مراٹھی رنگ،  بدیع الزماں خاور،  ۱۹۸۵ء؁،  دہلی،  ص:۲۱

۶۔  نٹ کے لئے ہدایات، وسنت آ باجی ڈہاکے،  مطبوعہ مراٹھی رنگ، بدیع الزماں خاور، ۱۹۸۵ء؁، دہلی،  ص:۶۸

۷۔  پتھر کا بھگوان،  سریتا پدکی م، ترجم وقار قادری،  سہ ماہی ترسیل،  ممبئی،  جون ۱۹۹۷ء؁،  ص: ۱۲۵

۸۔  میں اسکائی لیب کی طرح گر پڑتا ہوں، وسنت ساونت،  ترجمہ بدیع الزماں خاور،  مراٹھی رنگ، ۱۹۸۵ء؁، ص:۵۰

٭٭٭

 

 

 

 

تحریکِ آزادی میں اُردو شاعری کا حصّہ

 

تحریکِ آزادی تقریباً ایک صدی پر محیط ایک طویل جدّو جہد کا سلسلہ تھا جس کے نتیجے میں ہمارے ملک کو آزادی کی نعمت نصیب ہوئی۔  ۱۸۵۷ء؁  میں انگریزوں کی غلامی سے چھٹکارا پانے کی ایک کو شش کی گئی۔ یہ ایک بغاوت تھی جو نوابوں اور حکومت انگلستان سے نا خوش عناصر کی ایما پر وجود میں آئی تھی۔

واقعہ یہ ہے کہ ۱۸۵۷ء؁  کا غدر تحریکِ آزادی کا دیباچہ تھا کہ اس کے بعد جلد ہی وہ واقعات پیش آئے جنھوں نے سوراج کے لئے سازگار ما حول پید ا کر نا شروع کر دیا۔  غدر کی ناکامی نے عوام کی سوچ کے دھارے بدل دئے۔ ہمارے قومی رہنماؤں نے غدر کے دوران ابھرنے والی آزادی کی تحریک کو جو خواص تک محدود تھی عوام الناس سے رو شناس کرا دیا۔  اس تحریک کا عوام کے اندر راسخ ہو نا تھا کہ آ زادی پورے ملک کی ضرورت بن گئی۔ اس لحاظ سے غدر نقشِ اوّل تھا اور اس کے بعد ملک بھر میں بر پا ہو نے والا جذباتی اور فکری انقلاب نقشِ ثانی،  جو اپنے نقشِ اوّل سے بہتر اور کارگر ثابت ہوا، چنانچہ ملک آ زاد ہو گیا۔

کوئی بھی تحریک خواہ وہ سیاسی، سماجی یا ادبی ہو اس کے پروان چڑھا نے میں جذبات اور شعور ہمیشہ ایندھن کا کام دیتے آئے ہیں۔ ان تحریکات کے قائدین عوام کو فکری سطح پر بیدار کر کے ان کی رہنمائی کرتے ہیں فکر و شعور کی ان ہی چنگاریوں کو جذباتی بر انگیختگی کے ذریعے شعلہ بنانے کا کام قوم کے فنکاروں او ر خصوصاً شاعروں نے کیا۔

تحریک آ زادی کے ضمن میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یہ ایک انقلاب ضرور تھا مگر خونین انقلاب نہ تھا۔  اس کی بنیاد اہنسا پر تھی عوامی بیداری کو اس میں مر کزی حیثیت حاصل تھی۔ اس بات سے ملک کی خاطر مر مٹنے والوں کی قربانیوں کا درجہ گھٹا نا مقصود نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آزادیِ وطن کے لئے خون بہانے والوں نے اپنی بساط کے مطابق سوئے لو گوں کے دل و دماغ کو جھنجھوڑ ا۔  خصوصاً ۱۹۱۹ء؁ میں جلیاں والا باغ کا سانحہ تحریکِ آ زادی میں عوامی بیداری کا سب سے بڑا محرّک قرار پایا۔ آج ان شہدائے آ زادی کے نام اور قربانیاں تاریخ کے صفحات پر جگمگا رہے ہیں، لیکن کیا آپ اس مجاہدآ زادی سے بھی واقف ہیں جس نے عوامی بیداری کا عمل بڑے پیمانے پر انجام دیا ؟ وہ مجاہدِ آ زادی ہے،  اردو شاعری۔ اسی کے پیشِ نظر مشہور شاعر عمیق حنفی نے لکھا تھا:

’’ اردو ہماری گنگا جمنی تہذیب کی زبان، اردو ہندو مسلم کلچر کا مشترکہ سرمایہ، اردو جس نے جدّ و جہدِ آزادی کو انقلاب زندہ باد کا نعرہ دیا اور سارے جہاں سے اچّھا ہندوستاں ہمارا جیسا ترانہ دیا، جس میں جوشؔ نے کمپنی سرکار کے فرزندوں کو بری طرح پھٹکارا…بے شک ہماری زبان کو وہ تامر پتر ملنا چاہئے تھا جو آ زادی کی سلور جوبلی پر مجاہدین کو دیا گیا۔  تحریکِ آزادی میں اردو شاعری کی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ نہ صرف اردو شاعروں نے اس تحریک کو اپنے خونِ جگر سے سینچا بلکہ وقت پڑا تو اپنی گردنیں بھی کٹائیں، مشقِ سخن کے ساتھ چکّی کی مشقّت بھی جھیلی اور اس کی خا طر جلا وطنی کا دکھ بھی بر داشت کیا۔ ‘‘

قلعۂ معلی کے گہوارے میں پروان چڑھتی ہوئی اس زبان کو نوازنے والے اعلیٰ درجہ کے شاعر اور آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کے لہو سے ہی تحریکِ آ زادی کی آ بیا ری کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ حتیٰ کہ اس کی خاک بھی اس ملک کی خاطر ملک بدر ہوئی:

کتنا ہے بد نصیب ظفرؔ دفن کے لئے

دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

آزادی کے متعلق اردو شعراء کا فکری و جذباتی بہاؤ خطِ مستقیم کا سفر نہیں ہے بلکہ یہ سفر نشیب و فراز کے علاوہ ارتقائی مراحل سے بھی دو چار ہوا۔  ابتدا میں ہمیں اردو شاعری میں آ زادی کا موضوع حکومتِ انگلستان کے تئیں نا خوشگواری،  بے چینی اور بہ الفاظِ دیگر مغلیہ حکومت کے خاتمے پر حزن و ملال کے اظہار کی صورت میں ملتا ہے۔  انگریزوں کے لئے مسلمانوں کے دل میں کیا جذبات تھے اس پر غور کرتے وقت صلیبی جنگوں کے پسِ منظر اور ترکی کی خلافت کے خاتمے میں انگریزوں کے کر دار کو پیشِ نظر رکھا جائے تو انگریزوں کا مسلمانوں کے ہاتھ سے حکومت چھین لینا ایک زبردست قومی سانحہ تھا جس کی تڑپ،  احساسِ محرومی اور سنگینی کو شاید ہی ہندوستان کی دوسری قومیں محسوس کر پائیں۔ اسی لئے مسلمانوں میں انگریزوں کے خلاف غم و غصّہ، نفرت اور انتقام کے ملے جلے جذبات نے تحریکِ آزادی کو ایک مختلف قسم کا جوش فراہم کیا۔

سلطنتِ مغلیہ کا چھن جانا ایک تہذیب کا زوال تھا۔  اس پر مرزا غالبؔ  کے اشعار میں بھی دکھ کا اظہار ملتا ہے :

ہوئی جن سے توقّع خستگی کی داد پانے کی

وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغِ ستم نکلے

وہ بادۂ شبانہ کی سر مستیاں کہاں

اٹھئے بس اب کہ لذّتِ خوابِ سحر گئی

مرزا  غالبؔ  نے غدر کی تباہ کاریاں ان الفاظ میں بیان کی ہیں :

گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے

زہرہ ہوتا ہے آب انساں کا

چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے

گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا

شہر دہلی کا ذرّہ ذرّۂ خاک

تشنۂ خوں ہے ہر مسلماں کا

غالبؔ کے بعد حالیؔ ، شبلی اور محمّد حسین آ زاد کے ہاں نیا شعور اور نئی سمت کی نشاندہی کی گئی۔  ان شعراء نے فر سودگیوں کے جا لے اتار کر حبّ الوطنی کے چراغ جلائے۔  اس دور میں تحریکِ آ زادی انگریزوں کے طوقِ غلامی اتار پھینکنے کے مرحلے تک نہیں پہنچی تھی۔  محمد حسین آزاد جن کے والد محمّد باقر کو غدر کے بعد پھانسی دے دی گئی تھی، غدر کی ناکامی کو نا اتفاقی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور اپنی نظم ’’حبِّ وطن ‘‘میں اتّحاد پیدا کرنے کی تلقین کر تے ہیں :

کچھ ہو گیا زمانے کا الٹا چلن یہاں

حبّ الوطن کے بدلے ہے بغض الوطن یہاں

بن تیرے ملک ہند کے گھر بے چراغ ہیں

جلتے عوض چراغوں کے سینے کے داغ ہیں

الطاف حسین حالیؔ  نے آ زادی کی قدر، انگلستان کی آ زادی اور ہندوستان کی غلامی نیز سیاست وغیرہ نظموں میں غلامانہ ذہنیت کو ہدفِ ملامت بنایا اسمٰعیل میرٹھی بہتر زمانے کی بشارت کے ساتھ آ زادی کی قدر و قیمت ان الفاظ میں سمجھاتے رہے:

ملے خشک روٹی جو آزاد رہ کر

ہے وہ خوف و ذلّت کے حلوے سے بہتر

اقبال کی شاعری میں فرنگی چالوں کا پر دہ فاش کر نے کو شش کے ساتھ ہی علیگڑھ کے طلبا کے نام خطاب میں یہ اشارہ بھی ملتا ہے۔ وہیں قومی اتّحاد پر بھی زور دیا گیا ہے:

نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو

تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں

اقبال نے نہ صرف وطن کی محبّت کے گیت گائے بلکہ اپنی تہذیبی جڑوں کی شناخت پر بھی زور دیا۔ اسی کے ساتھ عصرِ حاضر کی فتنہ سامانیوں سے بھی قوم کو خبر دار کیا۔ اقبال کی شاعری میں حریت کا تصّور اپنی فلسفیانہ بنیادوں پر استوار ہو کر واضح سمت کی نشاندہی کر نے لگا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب دوسری جنگِ عظیم تحریکِ خلافت اور قومی تحریکوں نے جرأتِ گفتار عطا کی،  اردو شاعری اشارے کنائے ایک طرف رکھ کر کھلے بندوں انقلاب کی زبان میں بات کرنے لگی۔

چکبستؔ وطن پر مر مٹنے کے جذبے سے سر شار نغموں کے ساتھ سوراج کا مطالبہ ان الفاظ میں دہرانے لگے :

طلب فضول ہے کانٹوں کی پھول کے بدلے

نہ لیں بہشت بھی ہم ہوم رول کے بدلے

بیسویں صدی کے اوائل سے حصولِ آ زادی تک اردو شاعری میں آزادی ایک اہم موضوعِ سخن رہا ہے۔

ضبط شدہ نظموں میں شامل تخلیقات اس حقیقت کی طرف اشارہ کر تی ہیں کہ اُس زمانے میں اردو کی بیشتر نظمیں آزادیِ وطن کی محبّت میں سر شار ہو کر لکھی گئی ہیں۔  ان تمام کا احاطہ یہاں ممکن نہیں۔

حسرت موہانی،  جگر مراد آ بادی، افسر میرٹھی، اختر شیرانی، احسان دانش، جمیل مظہری، معین احسن، علی جواد زیدی، اور شمیم کر ہانی وغیرہ نے بھی اس موضوع پر معیاری تخلیقات سپردِ قلم کیں۔

ان شعراء میں ظفر علی خاں شاعری کے علاوہ صحافت کے ذریعے بھی حکومتِ انگلستان سے برسرِپیکار رہے۔ جوش ملیح آ بادی نے اُن رجعت پرست اداروں کو خوب پھٹکارا جو تحریکِ آزادی کی جڑیں کھوکھلی کر رہے تھے۔ جوش کے لہجے کی گھن گرج ان اشعار میں ملاحظہ فرمائیے:

اٹھو وہ صبح کا غرفہ کھلا زنجیرِ شب ٹوٹی

وہ دیکھو پو پھٹی،  غنچے کھلے،  پہلی کرن پھوٹی

اٹھو،  چونکو،  بڑھو،  منہ ہاتھ دھو ڈالو

ہوائے انقلاب آنے کو ہے ہندوستاں والو

(آثارِ انقلاب)

اسی دوران ترقّی پسند تحریک اور اشتراکیت کے زیرِ اثر شعراء کا ایک طبقہ منظرِ عام پر آ یا جنھوں نے انگریزوں کی سامراجی طاقت کو ادب کے پلیٹ فارم سے للکارا ان شعرا ء میں مجازؔ، فیضؔ، مخدومؔ، جان نثار اختر، سلام مچھلی شہر ی،  ساغر نظامی اور ساحر لدھیانوی قابلِ ذکر ہیں۔  فیضؔ نے مجاز کے متعلق آہنگ کے دیباچہ میں لکھا ہے :

’’مجازؔ انقلاب کا ڈھنڈورچی نہیں انقلاب کا مطرب ہے۔ اس کے نغموں میں بر سات کے دن کی سی سکون بخش خنکی ہے اور بہار کی رات کی سی گرم جوشی و تاثیر آفرینی ہے۔ ‘‘

ہندوستان پر انگریزوں کی ڈھیلی ہو تی ہوئی گرفت اور ایک نئے عہد کے آغاز کی بشارت مجازؔ کی نظموں میں صاف طور پر سنائی دیتی ہے:

مسافر بھاگ وقتِ بے کسی ہے

ترے سر پر اجل منڈلا رہی ہے

نہ دے ظالم فریبِ چارہ سازی

یہ بستی تجھ سے اب تنگ آ چکی ہے

مرتّب اک نیا دستور ہو گا

بِنا اک دورِ نو کی پڑ رہی ہے

مجازؔ کے یہاں یہ انقلاب ایک آفاقی تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے:

آؤ مل کر انقلابِ تازہ اک پیدا کریں

دہر پر اس طرح چھا جائیں کہ سب دیکھا کریں

اس انقلاب کی آفاقیت،  ترقّی پسند تحریک سے وابستہ دیگر شعرا کے یہاں بھی نمایاں ہے۔  اس ضمن میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ترقّی پسند تحریک بنیادی طور پر دیسی تحریک نہ تھی،  اس کا سر چشمہ اشتراکیت اور انقلابِ روس اور ہدف سامراج تھا۔  برصغیر میں اس تحریک کو جڑ پکڑنے کے لئے بہر حال ایک محاذ کی ضرورت تھی جو اسے سامراجی طاقت،  حکومتِ انگلستان کے روپ میں دستیاب ہو گیا۔ ابتدا میں اس تحریک کی ساری توانائی اسی طاقت کے خلاف ابھر کر آئی اور ایک اعلیٰ مقصد کے حصول کی خاطر صرف ہوئی۔  ترقّی پسند تحریک کے تحت ابھرنے والے ہمارے شعراء کے ہاں آ زادی اور انقلاب ہمیشہ ہی اہم موضوعات رہے ہیں۔

غرض بیسویں صدی کے اوائل میں اردو ادب میں ابھر نے والی تحریکات نے آ زادی کو مختلف زاویوں سے روشن کیا، نہ صرف،  تحریکِ آ زادی کو نیا خون دیا بلکہ اس خون کو روانی بھی عطا کی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

ناگپور میں طنز و مزاح

 

وسط ہند کا  شہر ناگپور اردو کے مشہور ادبی دبستانوں سے قدرے فاصلے پر ہو نے کے با وجود،  معروف ادبی تحریکوں اور سر گرمیوں کی دھڑکنیں اس دیار کی تخلیقات کے رڈار پر برابر ابھرتی رہی ہیں۔ دیگر اصنافِ ادب کی طرح ظرافت کے شگوفے بھی اپنی بہارِ جانفزا دکھاتے رہے۔  ابتدا یہاں بھی شاعری ہی سے ہوئی۔ اس ضمن میں ڈاکٹر آغا غیاث الرحمن لکھتے ہیں :

’’ناگپور کامٹی اور اس کے اطراف کے علاقے میں یوپی خصوصاً مشترقی یوپی سے تلاشِ معاش میں آئے ہوئے مسلمانوں کی آ مد (۱۹۲۰ء؁ -۱۹۶۰ء؁)کے بعد یہاں ادبی عناصر کا سلسلہ شروع ہو تا ہے۔  طنز و مزاح کی روایت بہت بعد میں شروع ہوئی۔  دونوں علاقوں میں طنز و مزاح کے عناصر کی ابتدا میں تقریباً ایک صدی کا عرصہ حائل ہے۔  ‘‘

ڈاکٹر آغا  غیاث الرحمن کے بیان کے مطابق ادبی ظرافت کو مکمّل صنف کی حیثیت سے ابھرنے میں بہت وقت لگا۔ تاہم اس عہد کے شعراء کا کلام شوخی، شگفتگی اور ظرافت سے خالی نہیں ہے۔ یوں بھی ہماری روایتی شاعری میں واسوخت اور معاملہ بندی کے ذریعے طنزیہ پیرایہ اختیار کیا گیا۔

ناگپور کے شعراء میں ہمیں طنز و مزاح کے اولّین نمونے ناطق گلاوٹھوی اور حافظ محمّد ولایت اللہ حافظ کی شاعری میں نظر آتے ہیں۔  ناطق گلاؤٹھوی:

 

ترے کوچے میں آنے سے غرض مطلب نہیں کوئی

مصیبت مجھ کو دھکّے دے کے لائی ہے تو آیا ہوں

 

چلتا ہے بس تو دیکھ رہے ہیں چلا کے زور

مجبور کر دیا ہے انھیں اختیار نے

 

لے جا رہا ہے دوست مجھے آ رہا ہے دوست

کیا موت کو بھی آ ج ہی مرنا ضرور تھا

 

بس خدا یاد آ گیا ناطق

جب وہ کہہ کر چلا خدا حافظ

 

ناطق کے تنقیدی مضامین کے مجموعے ’کلیل میں غلیل‘ اور’ سبع سیّارہ‘میں بھی ظرافت کا چٹخارہ موصوف کی تحریر کا خاصّہ ہے۔

حافظ محمّد ولایت اللہ (۱۸۷۳ء؁ -۱۹۴۹ء؁) کی شاعری میں موضوعات اور اندازِ سخن پر اکبر الٰہ آبادی کے اثرات اس قدر غالب رہے کہ وہ اس علاقے میں اکبرِ ثانی کے نام سے مشہور ہوئے۔  ان کے ہاں مکمّل مزاحیہ اور طنزیہ نظمیں مو جود ہیں جن میں اس عہد کے قومی مسائل کو دلچسپ انداز میں پیش کیا گیا ہے:

 

اک دن وہ تھا کہ ہر جانب یہ ہوتی تھی پکار

بیبیاں پردے میں ہو جائیں کہ مرد آتے ہیں

 

پھر یہ دیکھا لوگ کہتے ہیں با آوازِ بلند

مرد کر لیں اس طرف منہ آ رہی ہیں بیبیاں

 

حصولِ علم کی ایسی کوئی بنا دے مشین

اکنّی ڈال دیں اور اک سند نکل آئے

 

موصوف کی شاعری میں قوم کی اصلاح کا جذبہ اور پند و نصائح کا انداز نمایاں رہا ہے۔

ناظم انصاری (۱۹۳۹ء؁ -۱۹۷۹ء؁) کو عہدِ جدید میں ناگپور کے مزاحیہ شاعروں کے درمیان ان کے اپنے منفرد اسلوب او ر دلکش اندازِ بیان نے ادبی حلقوں اور مشاعروں میں مقبولیت سے ہمکنار کیا۔ ان کے مجموعۂ کلام ’’گوبھی کے پھول‘‘(۱۹۸۰ء؁) میں طبیعت کو گدگدانے کا بھر پو ر سامان موجود ہے۔  عصرِ حاضر کی بے اعتدالیوں اور ناہمواریوں پر طنز کا انداز دیکھئے:

 

فیلڈ ہو کوئی کلر اپنا جمائے رکھئے

ٹانگ ٹوٹی ہی سہی پھر بھی اڑائے رکھئے

 

بیگم کی خواہشات ارے باپ کیا کروں

مانگے ہے کائنات ارے باپ کیا کروں

 

یہ جامہ زیبی تمہاری ارے معاذ اللہ

تمہارا جسم تو کلیر دکھائی دیتا ہے

 

ناظم انصاری کا مزاح شوخی اور زندہ دلی سے اپنے عہد کے مسائل اور موضوعات کو دلکش انداز میں پیش کر تا ہے۔ ان کے اشعار میں انگریزی الفاظ کا بر محل استعمال اور دلچسپ قوافی بھی مزاح کی تخلیق میں معاون ثابت ہوئے ہیں۔

پاگل انصاری (عبدالحفیظ)(۱۹۱۶ء؁)نے ابتدا روایتی شاعری سے کی پھر مزاحیہ انداز اختیار کیا۔  اپنے عہد کی غربت اور بے کسی پر بھر پور طنز ان کی شاعری میں موجود ہے:

 

آج ہوٹل میں تری یاد جو آئی مجھ کو

چائے میں بھیگا ہوا میں نے بٹر چھوڑ دیا

 

میں یہ سمجھا کہ انھیں مجھ سے محبّت ہو گی

وہ یہ سمجھے کہ میری جیب میں پیسہ ہو گا

 

جیب خالی جو نظر آئی تو ہنس کے بولے

تم ہی بولو نہ بھلا ایسے سے کیسا ہو گا

 

شہر ناگپور کے معروف شاعر جلیل ساز نے طنزیہ و مزاحیہ اندازِ سخن اپنایا تو اپنے اسلوب کے حسبِ حال منہ پھٹ ناگپوری کا نام اختیار کیا۔  سماج میں مو جود منافقت، سیاسی بازیگری اور بد عنوانیوں کو نشانۂ طنز بنا کر انہوں نے قدرے وسیع موضوعات کا احاطہ کیا:

 

مسجد کی حاضری میں یہی تو کمال ہے

منہ پھٹ کبھی نہ عید کا جوتا نیا لیا

 

یہ سوچا ہے بڑھاپے میں ترا دیدار کر لیں گے

اتر جائے گا جب پانی ندی کو پار کر لیں گے

 

تیرے شاگرد تجھ کو تیل گھی لا کر نہیں دیتے

تیرے اشعار میں منہ پھٹ روانی کیوں نہیں آتی

 

جھاپڑ مسعود کا ایک شعری مجموعہ ’’ فکری گلگلے ‘‘منظرِ عام پر آ چکا ہے جس میں زندگی کی ناہمواریوں کا تذکرہ دلچسپ انداز میں کیا گیا ہے اور گھریلو زندگی کے مسائل پر عمدہ طنز کے نمونے مو جود ہیں :

 

اک روز مولوی سے کہا اک گنوار نے

جنّت میں حقّہ پینے کا کیا انتظام ہے

 

مولانا بولے حقّہ تو مل جائے گا مگر

دوزخ سے آگ لانا تمہارا ہی کام ہے

 

باندھی تھی ہم نے کَس کے جو توبہ کی راہ میں

وہ کھل گئی گٹھان تجھے دیکھنے کے بعد

 

بے ڈھب کامٹوی کی شاعری میں سیاست اور سماجی مسائل مزاحیہ انداز میں بیان ہوئے ہیں :

 

انسان اپنے دیش کا آزاد ہے مگر

انسانیت کا راج ابھی تک نہ ہو سکا

 

میری کھٹیا بچھی تھی کھڑی ہو گئی

میں ہوں بیڈھب بڑے کام کا آدمی

 

ناگپور میں دیگر اصناف کی طرح طنز و مزاح کے معاملے میں بھی شاعری کا پلّہ بھاری رہا اور نثر میں بھر پور نمائندگی کر نے والے قلمکاروں کی کمی ہمیشہ محسوس کی جاتی رہی۔

انصاری اصغر جمیل کی ادارت میں ایک رسالہ شائع ہو ا جو ظرافت کے لئے مخصوص تھا، اس کے ذریعے کئی مقامی ادیبوں کو اس صنف میں طبع آزمائی کر نے کا موقع ملا۔ اس کے علاوہ دیگر اخبارات و رسائل میں ہلکی پھلکی فکاہیہ تحریریں شائع ہو تی رہیں۔

اس سلسلے میں ابھر نے والے ناموں میں انصاری اصغر جمیل قابلِ ذکر ہیں۔ ان کے ظریفانہ مضامین ماہنامہ شگوفہ حیدر آ باد میں بھی شائع ہوئے اور ان کا مجموعہ ’لگی‘ منظرِ عام پر آ یا۔ سماج میں پھیلی ہوئی بد عنوانیاں،  سیا سی شعبدے بازیاں اور انجمنوں اور اداروں کے ناگفتہ بہ حالات طنزیہ و مزاحیہ انداز میں ان مضامین میں بیان کئے گئے ہیں۔  روایتی مزاح نگاروں کی طرح ایک عدد بیوی بھی ان کا پسندیدہ موضوع ہے جو طنز کے نشتر جھیلتی رہتی ہے۔  انصاری اصغر جمیل نے مقامی قلمکاروں کے خاکے بھی لکھے ہیں ان کی نگاہ موضوع پر ہو تب بھی نشانہ کہیں اور ہو تا ہے۔ مزاحیہ مضمون ’ کوئی میرے دل سے پو چھے ‘ میں ان کی گل افشانیِ  گفتار دیکھئے:

’’ دروازہ کھلتا ہے تو کسی عزیز کو اہل و عیال کے ساتھ مہمان پاتا ہوں۔ خرّاٹے لیتی ہوئی بیوی کو نیند سے بیدار کر کے دو چار تلخ باتیں سن لیتا ہوں جو شاید ہمارا پیدائشی حق ہے۔  جلی بھنی، بیگم پہلے ہمیں اور ہمارے خاندان کے ہر فرد کو پھر مہمان اور اس کے خاندان کے ہر بشر کو صلواتوں سے نوازتی ہوئی اٹھتی ہے پھر پل بھر میں اپنے چہرے پر بناوٹی مسکراہٹ پیدا کر کے اپنے مہمانوں کا استقبال کر نے لگتی ہے۔ ‘‘(کوئی میرے دل سے پو چھے،  انصاری اصغر جمیل،  مطبوعہ شگوفہ، حیدر آ باد، جو لائی ۱۹۹۴ء؁  )

ناگپور میں ظریفانہ ادب کے ابتدائی نقوش میں سیّد حبیب الرزّاق قابلِ ذکر ہیں ان کی طنزیہ تحریریں ’ سائیکل میں ریڈیو ‘ اور ’ماڈرن گرل‘ ناگپور ہی کے رسائل میں شائع ہوئی تھیں۔  پروفیسر زہرہ جبیں کے ڈراموں کے مجموعے ’ صبح کے بھولے‘ اور’ مشعلِ راہ ‘ میں شگفتگی اور ہلکے پھلکے مزاح کے نمونے مو جود ہیں۔

مزاح کو بھر پور انداز میں برتنے والوں میں ڈاکٹر جاہل ناگپوری اہم ہیں۔ معروف جدید شاعر عبدالرحیم نشتر کا یہ روپ چونکانے والا تھا۔ ہر چند ان کے چند مضامین اور خاکے منظرِ عام پر آئے مگر یہ خبر دے گئے کہ ان کے اندر ایک زبردست طنز نگار چھپا ہوا ہے جو طنز کی نشتریت سے مدِّ  مقابل کو لہو لہان اور محفل کو قہقہہ زار بنا سکتا ہے۔ ’ایک آدمی اور اکادمی ‘ کے علاوہ ان کے بعض خاکے بھی مقبول ہوئے۔

محمّد اسد اللہ بنیادی طور پر انشائیہ نگار ہیں۔ مزاحیہ مضامین کے مجموعے ’ پر پرزے ‘ میں مزاحیہ خاکے بھی شامل ہیں۔  ریڈیو ٹاکس کے مجموعے ’ہوائیاں ‘کے متعلق ڈاکٹر سیّد عبدالرحیم رقمطراز ہیں :

’’ سامعین کی دلچسپی کی خاطر انھیں اپنے انشائیوں کو زیادہ پر لطف بنانا پڑا۔ انشائیہ میں مزاح جزو اعظم ہے اس جزو کو ڈاکٹر محمّد اسد اللہ نے کچھ زیادہ ہی مقدار میں اپنے مضامین میں شامل کیا ہے۔  ان مضامین کو پڑھ کر ایک انبساطی کیفیت ذہن میں پیدا ہو تی ہے۔  وہ کبھی زیر   لب تبسّم پر آ مادہ کر تے ہیں اور کہیں خنداں بہ لب ہو نے پر۔ ‘‘(ڈاکٹر سیّد عبدالرحیم، ہوائی پیش لفظ، ہوائیاں )

’’عام طور پر چھٹّیوں کا یہ حشر ہو تا ہے کہ آپ چھٹّی Enjoy کر نے کی تمنّا میں گھر پہنچتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ سلیپر کے ایک پٹّے نے تلے سے عہدِ وفا توڑ دیا ہے۔ شکر پتّی اور چینی رخصت پر ہیں۔ گھر میں آپ کا غم گسار ہے تو بس ایک نل جو آپ کی چھٹّی کو بر باد ہو تا ہو ا دیکھ کر آ نسو بہا رہا ہے۔ ‘‘ ( چھٹّی ہو تی ہے پر نہیں ہو تی،  پر پرزے )

ڈاکٹر اشفاق احمد افسانہ نگار اور بچّوں کے ادیب کی حیثیت سے ادبی حلقوں میں معروف ہیں ’ یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے‘ او ر’ صبح کا بھولا‘،  ’استاد و طالبِ علم کے لطائف‘ ان کی کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔  اپنے منی افسانوں میں طنز کی کاٹ سے قطع نظر انھوں نے خالص طنزیہ و مزاحیہ مضامین بھی تحریر کئے ہیں۔ ان میں محلّے کا نل اور مکاں سے لا مکاں تک،  ماہنامہ شگوفہ میں شائع ہوئے۔  اپنے موضوع کے مزاحیہ گو شوں کو انھوں نے فنکاری کے ساتھ واضح کیا ہے:

’’ ایک زمانہ تھا کہ انسان کے اعلیٰ اور تہذیب یافتہ ہو نے کی پہچان اس کی انسانیت تھی لیکن آ ج کے تہذیب یافتہ دور میں ایک شاندار کوٹھی اور کو ٹھی کے سامنے بندھا اعلیٰ نسل کا ولایتی کتّا ہی انسان کے تہذیب یافتہ ہو نے کی پہچان بن گیا ہے۔ ‘‘ (مکاں سے لا مکاں تک، مطبوعہ روزنامہ اردو ٹائمز )

ڈاکٹر رام پرکاش سکسینہ ۱۹۴۱ء؁  میں قصبہ ککرالہ،  ضلع بدایوں (یوپی) میں پیدا  ہوئے۔  ناگپور یونیورسٹی میں مختلف اعلیٰ عہدوں پر خدمات انجام دیں۔  ان کی تعلیم اردو زبان میں ہوئی تھی۔  ان کے مزاحیہ مضامین کامجموعہ ’’جمانے کا زمانہ‘‘ ۲۰۰۲ء؁  میں ناگپور سے شائع ہوا۔  اس میں ۲۶ مزاحیہ مضامین شامل ہیں جن میں دلچسپ واقعات، مکالمے اور روزمرہ زندگی کے تجربات پر اثر  انداز میں رقم کئے گئے ہیں۔  ڈاکٹر رام پرکاش سکسینہ کے یہاں حس مزاح کی زبردست کارفرمائی نظر آتی ہے۔  مضمون ’’کیلے کچن گارڈن کے‘‘ ایک دلچسپ مضمون ہے۔  وہ اس میں لکھتے ہیں :

’’دوستوں نے مشورہ دیا کہ کچن گارڈن لگائیے۔  پھل دار درخت لگائیے۔  سبزیاں اگائیے۔  آمدنی میں اضافہ۔  آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔  دوسالوں کی سخت محنت کشی کے بعد گارڈن تیار ہو گیا۔  پھلوں میں ابھی صرف کیلے اور انار آئے۔  سڑک سے جو بھی گزرتا وہ کیلے اور انار دیکھنے اس طرح رک جاتا اور دیکھتا جس طرح دل پھینک نوجوان شوخ اور حسین لڑکیوں کو تاکتے ہیں۔  مجھے بڑا فخر ہوتا کہ اب میں نہ صرف ایک گھر کا مالک ہوں بلکہ ایک باغ کا بھی مالک ہوں۔ ‘‘ (جمانے کا زمانہ، از ڈاکٹر رام پرکاش سکسینہ،  ص:۱۵-۱۶)

نثار اختر انصاری بنیادی طور پر صحافی ہیں۔ ان کے فکاہیہ کالم اور مزاحیہ مضامین اردو اخباروں اور رسائل میں گا ہے بگاہے شائع ہو تے رہتے ہیں۔

فرحانہ صدّیقی نے صحافت سے وابستگی کے زمانے میں ہفتہ وارسنگِ میل ناگپور میں اپنے مزاحیہ کالموں میں حالاتِ حاضرہ پر دلچسپ فقروں کے ذریعے مزاح پید ا کیا ان کے تبصرے بھی اسلوب کی چاشنی اور شوخیِ تحریر کے لئے یا د رکھے جائیں گے۔

ایڈوکیٹ فہیم الدین نے اپنی منی کہانیوں کے ذریعے سماجی اور سیاسی نا ہمواریوں اور مضحکہ خیزیوں پر زبردست طنز کیا ہے۔ ان کے مزاحیہ مضامین عصری زندگی کی تصاویر پر لطف انداز میں پیش کر تے ہیں۔  ڈاکٹر آغا غیاث الرحمن کا تحریر کردہ ڈاکٹر منشا ء الرحمن خان منشاء کا شخصی خاکہ’ برف کے لڈّو‘ ظرافت کا عمدہ نمونہ ہے۔

وکیل نجیب یوں تو بچّوں کے ادیب کی حیثیت سے معروف ہیں تاہم ان کی چند مزاحیہ تحریریں بھی شائع ہو چکی ہیں۔ ان کی کہانیوں میں دلچسپ واقعات بھی مزاحیہ انداز میں بیان کئے گئے ہیں۔ ڈاکٹر اظہر حیات کے مزاحیہ مضامین میں طنز کی نشتریت مو جود ہے۔

مجموعی طور پر ناگپور میں گذشتہ بر سوں کے دوران طنز و مزاح کو چند ادیبوں نے اپنایا ان میں سے بیشتر ایسے فنکار ہیں جن کی مخصوص اصناف میں پہچان بن چکی ہے اسی لئے ظرافت کی طرف ان کی توجّہ محض منہ کا مزا بدلنے کے لئے ہے۔  ان کی جو تخلیقات منظرِ عام پر آئیں ان سے ظاہر ہو تا ہے کہ وہ اس طرف بھر پور توجّہ دیتے تو ناگپور کے ادبی حلقے کو مزید مزاح نگار میسّر ہو سکتے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

شاعری کی تدریس اور ہمارے تعلیمی ادارے

 

ادب انسانی تہذیب کی ترقّی کی شاہ راہ پر ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ادب کی جملہ اصناف انسانی خیالات، احساسات اور جذبات کے اظہار کے لئے مختلف پیرائے مہیا کرتی ہیں۔  زبان کا مقصد ہی اپنے  مافی الضمیر کو مخاطب تک پہنچانا ہے اور ادبی پیرایۂ اظہار اس کے لئے مناسب ترین پیمانے اور طریقے اختیار کرتا ہے۔

شاعری نثری اصناف سے ان معنوں میں مختلف ہے کہ نثر میں کسی بات کو تفصیل اور وضاحت کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے اور شاعری متعدد خیالات اور احساسات کو مختصر اً جامع انداز میں پیش کرتی ہے۔ بلاغت شاعری کا طرۂ امتیاز ہے ایجاز و اختصار شاعری کی خصوصی ملکیت ہے۔ ان ہی خوبیوں کی بنا پر شاعری کے حسن و قبح کو پرکھا جاتا ہے۔  یہی وجہ ہے کہ شاعری میں اساتذہ فن اور قدیم شعراء حشو  زوائد کا خاص خیال رکھتے تھے۔ اس بات پر نظر رکھی جاتی تھی کہ کوئی لفظ بھی بلا وجہ یا بے معنی نہ آئے۔ علاوہ ازیں شاعری کی تخلیقی حیثیت اس لئے بھی تسلیم کی جاتی ہے کہ شاعر استعمال شدہ اور فرسودہ الفاظ کو نئے معنی سے آراستہ کرتا ہے۔  استعاراتی اور علاماتی طور پر الفاظ نئے مفاہیم کے ساتھ شاعری میں وارد ہوتے ہیں۔ کسی شاعر کا کمال یہی ہے کہ وہ مروّجہ الفاظ کو نئے مفاہیم کے ساتھ استعمال کرے۔ غالب،  اقبال اور فیض کے کلام میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ انھوں نے الفاظ کو اپنے معاصرین اور متقدمین شعراء سے ہٹ کر نئی معنوی جہت عطا کی۔

اقبالؔ اور فیضؔ نے بالترتیب اسلامی اور کمیونسٹ نقطۂ نظر سے نئے استعارے تخلیق کئے۔  اسی طرح ترقّی پسند تحریک اور جدیدیت نے بھی جہاں نئی لفظیات کو شعری عمل کا حصّہ بنایا،  وہیں ان الفاظ کو نئے سیاق و سباق سے بھی آراستہ کیا اور نئی علامتوں کے ذریعے نئے مفاہیم کو جنم دیا۔ شاعری میں الفاظ کے علاماتی اور استعاراتی استعمال سے قطع نظر سماجی اور سیاسی سیاق و سبا ق بھی معنی و مفہوم کو کہیں تو مخصوص و محدود معنی کی شناخت دیتے ہیں تو کہیں انہیں آفاقیت عطا کرتے ہیں۔  مثلاً مرزا غالبؔ کا مندرجہ ذیل شعر مغلیہ حکومت کے زوال اور خاتمہ پر ایک بلیغ تبصرہ سمجھا جاتا ہے:

وہ بادۂ شبانہ کی سرمستیاں کہاں

اٹھیے بس اب کہ لذتِ خوابِ سحر گئی

شاعر ی کی ان ہی خوبیوں کی بنا پر اس کی تفہیم کی ضرورت پیش آتی ہے۔

شاعری خواہ وہ کسی بھی زبان کی ہو فصاحت بلاغت اختصار اور علامتی اظہار کے سبب اپنے اندر اتنی گنجائش رکھتی ہے جہاں (خاص طور پر طلبا کو) اس کے اسرار و رموز تشریح و تجزیہ کے ذریعہ سمجھائے جائیں۔ شاعر اپنے کلام میں صنائع معنوی اور لفظی کے وسیلے سے ایسی خلائیں چھوڑ دیتا ہے جو قاری یا سامع کے لئے شاعری کو چیستاں یا ایک ایسی گتھی بنا دیتا ہے جسے سلجھانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔  اشعار کی تشریح کے ذریعے شاعر کا کلام پرت در پرت کھلتا جاتا ہے۔ جدید شاعری میں تجریدی اور علامتی اظہار کے علاوہ ابہام کا کثرت سے استعمال ہوا ہے۔ اسے سمجھانے کے لئے بہرِ حال کسی شارح کی ضرورت پیش آتی ہے۔  تعلیم گاہوں میں یہ کام مدرس کو انجام دینا ہوتا ہے۔ مدرس کا کام صرف یہ نہیں ہے وہ مشکل الفاظ کے معنی سے اپنے طلباکو واقف کروائے،  بلکہ شاعری سے لطف اندوزی کا شعور پیدا کر نا اور ادبی ذوق کی آبیاری کرنا بھی شاعری کے مدرس کے فرائضِ منصبی میں شامل ہے۔

شاعری کو کلامِ موزوں اور فصیح و بلیغ کلام کہا گیا ہے۔ شاعری میں جہاں ردیف و قوافی،  وزن آہنگ اور غنائیت کا اہتمام پایا جاتا ہے وہیں لازمی طور پر معنویت کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔ بقول غالبؔ:

’’ شاعری قافیہ پیمائی نہیں معنی آفرینی ہے۔ ‘‘

غالبؔ نے اپنی شاعری میں استعمال ہونے والے ہر لفظ کو معنی کا خزانہ کہا ہے:

گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھئے

جو لفظ کہ غالب میرے اشعار میں آوے

ظاہر ہے کہ شاعری کا صوتی حسن اور خوش آہنگی و موزونیت جہاں ہمارے لئے تسکینِ طبع کا ذریعہ ہے وہیں شعر کا معنوی حسن بھی لطف اندوزی کا ایک اہم وسیلہ ہے۔  شاعری کو سمجھے بغیر اس سے لطف اندوز ہونا ممکن نہیں ہے۔  اسی مقصد کے تحت قدیم شعراء مثلاً میرؔ،  غالبؔ اور اقبالؔ کے کلام کی شرحیں لکھی گئیں اور شارحین نے ان شعراء کے کلام کے اسرا ر و  رموز کو سمجھانے کی کوشش کی۔

تعلیمی اداروں میں شاعری نصاب کا اہم حصّہ ہوتی ہے۔ ابتداسے اعلیٰ تعلیم تک شاعری کی تدریس ادب کے مطالعہ کا ایک اہم جزو خیال کی جاتی ہے۔ مختلف سطحوں پر اس سے متعلق تدریسی مسائل کی نوعیت جداگانہ ہے۔ موثر تدریس کے لئے جس سطح پر شاعری سمجھائی جا رہی ہے استاد کو اس کی حدود اور تدریس کے تقاضوں کا علم ضروری ہے اسی لیے نصابی کتابوں کے دیباچہ ہی میں اس کی وضاحت کر دی جاتی ہے مگر عام مشاہدہ ہے کہ اکثر اساتذہ اسے پڑھنے اور دورانِ تدریس اسے برتنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔  اسی طرح نصاب کی تیّاری کے دوران طلبا کی ذہنی استعداد اور نفسیاتی ضروریات کا خیال رکھنا بھی نصابی کتابوں کے مرتّبین اوراساتذہ کے لئے لازمی ہے۔

وارداتِ قلبی کا اظہار اور حصولِ مسرّت کو شاعری کی تخلیق کے مقاصد میں بیان کیا جاتا ہے۔  شاعری کی طرح دیگر ادبی اصناف کی تدریس بھی کئی مقاصد کے تحت کی جاتی ہے۔ اس کا ایک اہم سبب یہ ہے کہ ادب ہماری تہذیبی اور سماجی زندگی کا جزوِ لاینفک ہے ادب کی تدریس کئی سماجی مقاصد پر مبنی ہے۔  ادب کی تعلیم کے ذریعے اقدار،  اخلاق،  انسانی ہمدردی،  درد مندی، اخوّت و بھائی چارگی،  حب الوطنی اور انسانیت جیسے اوصاف کو طلبامیں راسخ کیا جا سکتا ہے۔

شاعری جہاں زبان و انشا کے اصول و قواعد صنائع بدائع کے قوانین سے واقف کرواتی ہے وہیں ابتدائی جماعتوں میں طلبا کو غنائیت سے بھرپور نظموں کے ذریعے شاعری سے لطف اندوز ہونا بھی سکھاتی ہے۔  چونکہ یہ کم عمر طلبا کے فطری تقاضے کے عین مطابق ہے لہٰذا بچّے اس سر گرمی کو بخوشی قبول کر لیتے ہیں۔ اس مقام پر معنی اور مفہوم کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ پرائمری اسکولوں میں بعض ایسی نظمیں ہوا کرتی ہیں جن میں بے معنی الفاظ بھی ہوتے ہیں۔ البتّہ ثانوی اور اعلیٰ ثانوی سطح پر قدیم شعرا اور ہمعصر شاعروں کے کلام کے ذریعے صنائع بدائع کا تعارف، دیگر ادبی محاسن کی پہچان اور معنویت کی تفہیم کو خاص طور پر اہمیت دی جاتی ہے۔

شاعری کی تدریس کا ایک مقصد طلبا میں قومی، وطنی، مذہبی سماجی اور اخلاقی موضوعات پر نظموں کے ذریعے ذہنی اور جذباتی تربیت مقصود ہوتی ہے۔  اس کے لئے شاعری کا سمجھنا ضروری ہوتا ہے۔  ان مقاصد کے تحت تعلیمی نصاب میں شامل منظومات کی تفہیم، تدریس کے خصوصی وسائل کی مرہونِ منّت ہوا کرتی ہے۔ اساتذہ مختلف تعلیمی وسائل کا استعمال کر کے شاعری کے لیے طلبا کے ذہنوں کو استوار کر سکتے ہیں۔

عام طور پر ہماری تعلیم گاہوں میں مختلف سطحوں پر طلبا کی عمر ذہنی استعداد اور طبعی ضروریات کے پیشِ نظر تدریس کے مقاصد میں فرق پایا جاتا ہے۔ ان اغراض و مقاصد کو مذکورہ جماعتوں کی نصابی کتاب کے پیش لفظ میں واضح طور پر بیان کر دیا جاتا ہے تاکہ اساتذہ ان مقاصد کو پیشِ نظر رکھ کر اپنی تدریسی منصوبہ بندی کریں اور مختلف تعلیمی وسائل کو بروئے کار لائیں۔

ابتدائی جماعتوں سے ہائی اسکول تک جو طلبا شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں جونیئر کالج کے طلبا ان سے مختلف ہوتے ہیں۔ یہ وہ طلبا  ہیں جو پختگی  adolescence  کے دور سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ اس عمر میں طلبا شدید قسم کی عضویاتی اور نفسیا تی تبدیلیوں سے دوچار ہوا کرتے ہیں۔ ان میں کسی آئیڈیل یا مثالی شخصیت کی طرف شدید دلچسپی،  اپنے آپ پر خصوصی توجہ جسے نرگسیت بھی کہا جاتا ہے، کے علاوہ تخیّل آرائی کی خصوصیات پیدا ہو جاتی ہے۔ اس دور میں طلبا رومانی فضا،  قنوطیت اور خود مرکزیت کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے نازک دور میں ان کے مزاج اور نفسیات کی تسکین کا سامان بہم پہنچانے والی شاعری یا ادب ان کے ادبی ذوق اور دلچسپی کو ابھارنے میں کارگر اور مفید ثابت ہو سکتا ہے۔  طلبا کے ان فطری تقاضوں کے پسِ منظر میں ماہرینِ تعلیم بڑی احتیاط سے نصابِ تعلیم مرتّب کرتے ہیں۔

ہمارے تدریسی نظام میں تقریباً ہر سطح پر یہ مسئلہ موجود ہے کہ زبان و ادب پڑھانے والے اساتذہ دورانِ تدریس،  ان مقاصد کو کما حقّہ  بروئے کار نہیں لاتے۔ عملی تحقیق کے دوران یہ بات مشاہدہ میں آئی کہ بیشتر اساتذہ نے ان مقاصد کا مطالعہ کرنا ضروری نہیں سمجھا اور نہ اس کے مطابق اسباق کی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت بھی محسوس کی۔ یہ مسئلہ جونیئر کالج کی سطح پر شاعری کی تدریس میں ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہوا ہے۔

ان دنوں اردو میڈیم اسکولوں اور کالجوں کے متعلق عام طور پر رائے عامّہ کچھ اچّھی نہیں ہے،  اس کے کئی اسباب ہیں، انگریزی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کا فیشن عام ہو گیا ہے یا مغرب پرستی کا زور بڑھ گیا ہے۔  اس صورتِ حال سے رو گردانی کرنا گویا ریت میں سر گاڑنا ہے۔ اردو ذریعۂ تعلیم سے لوگوں کا اعتبار اٹھتا جا رہا ہے تو اس کی کئی معقول وجوہات بھی ہیں جن کی ذمّہ داری بہت حد تک اساتذہ اور ان تعلیمی اداروں کے منتظمین پر بھی عائد ہو تی ہے۔

ہرچند اردو اسکولوں کے امتحانی نتائج تسلّی بخش ہوا کرتے ہیں۔  اس کے باوجود لوگ بھاری  فیس ادا کر کے اپنے بچّوں کو انگریزی اسکولوں میں پڑھانا کیوں پسند کرتے ہیں ؟اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ اردو اسکولوں میں معیارِ تعلیم دن بہ دن گرتا جا رہا ہے۔ دیگر اسکولوں کے مقابلہ میں یہاں انتظامیہ، نظم و ضبط،  تدریس وغیرہ کے شعبوں میں بے شمار مسائل قدم قدم پر موجود ہیں اور انھیں حل کرنے کی نہ ہی کوشش نظر آتی ہے نہ ہی اکثر مقامات پر متعلقین کو ان کا احساس ہے۔ ہر سطح پر سہل پسندی، غیر ذمّہ داری اور مجرمانہ غفلت کے مناظر ان اداروں میں دکھائی دیتے ہیں۔  دیگر اداروں میں طلبا ء کو مثالی شہری بنانے، ان میں اخلاقی قدریں راسخ کر نے اور طلبا کی ہمہ جہتی ترقّی کے لئے محکمۂ تعلیمات کی مجوّزہ ہدایات کو رو بہ عمل لانے کئے اساتذہ جس طرح کو شاں نظر آتے ہیں۔ عام طور پر اردو اسکولوں کے اساتذہ ان تمام کاموں کو کارِ فضول سمجھتے ہیں یا ان سے بیزاری کا کھلے عام اظہار کر تے ہوئے نظر آ تے ہیں اور یہ مناظر اساتذہ کی سرکاری تربیت کے کسی بھی کیمپ میں بہ آ سانی دیکھے جا سکتے ہیں۔  ظاہر ہے استثنائی صورتِ حال ہر جگہ مو جود ہے۔

مذکورہ مسائل میں تدریسی سطح پر جو خامیاں موجود ہیں اس کا خمیازہ ان اداروں میں زیر تعلیم  طلبا کو بھگتنا پڑتا ہے۔  اسی لئے اردو میڈیم اسکولوں سے نکلنے والے طلبا عام طور پر مقابلہ جاتی امتحانات میں بہت کم شریک ہوتے ہیں،  سہل پسندی کا شکار ہو تے ہیں اور علمی استعداد میں کمی کے سبب ان میں خود اعتمادی کی کمی پائی جاتی ہے۔ ان حالات میں یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ اس قسم کے ادارے اپنا احتساب کریں اور ان رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کریں جن کے سبب اردو معیارِ تعلیم پر لوگ انگلیاں اٹھانے لگے ہیں۔  اردو زبان و ادب کی تدریس بیشتر اردو اسکولوں میں اس طرح کی جا رہی ہے کہ یہ اندیشہ ہونے لگا ہے کہ آئندہ نسلوں میں اردو زبان اپنی روایتی شان کے ساتھ باقی بھی رہے گی یا نہیں ؟

اردو شاعری کا معتد بہ حصّہ، تقریباً اردو کی ہر سطح پر پڑھائی جا نے والی درسی کتاب میں شامل ہوتا ہے، زبان و ادب سے طلبا کو روشناس کروانے میں یہ بہت حد تک مفید اور معاون ہے اگر اس اہم نصابی جزو کی تدریس سے غفلت برتی گئی یا ناقص تدریس ہوئی تو تعلیم کی منشا پوری نہیں ہو پائے گی۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں اس طرف توجّہ دی جائے۔

راقم الحروف نے ایک تعلیمی منصوبہ کے تحت اردو جونیئر کالجوں میں شاعری کی تدریس کے مسائل پر سوالنامہ اور انٹرویو ز کے ذریعے معلومات جمع کر کے اس کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی جس سے یہ نتیجہ بر آمد ہوا کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں جہاں انتظامیہ کے معاملات،  اسکول کے اندرونی کاروبار مثلاً نظم و ضبط، طلبا کی تعداد، اساتذہ کی باہمی غیر ہم آہنگی، وغیرہ متعدد مسائل ہیں وہیں تدریسی سطح پر بھی کئی رکاوٹیں ہیں۔ ان میں شاعری کی تدریس بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔

بیشتر اساتذہ نے ان مسائل کا اعتراف کیا ہے کہ کئی وجوہات کی بنا پر ان جماعتوں میں شاعری کی ترسیل و ابلاغ میں دقتیں پیش آتی ہیں یہاں چند سفارشات پیش کی جا رہی ہیں جو اس صورتِ حال کو تبدیل کرنے میں ممکن ہے مددگار ثابت ہوں۔

۱۔  تعلیم گاہوں میں اردو کی تدریس کے لئے قابل اساتذہ کا تقرر کیا جانا چاہئے،  خصوصاً ایسے اساتذہ جو ادب کا ذوق، معلومات اور اس کی ترویج و بقا ء کے لئے جدّوجہد کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں۔

۲۔  اساتذہ کی تربیت کے لئے گاہے بگاہے تربیتی کلاسس، سیمینار اور ورکشاپ منعقد کرنے چاہئیں۔  جن میں زبان و قواعد اور اظہار و بیان کے مسائل پر گفتگو کی جائے۔  اسی طرح طلبا میں ادبی ذوق پیدا کرنے سے متعلق رہنمائی کی جانی چاہیے،  اساتذہ کو ان مذکارات میں شامل کر نا چاہئے۔

۳۔  اساتذہ کو دستی کتاب برائے اساتذہ  Teachers Handbook مہیا کی جانی چاہیے۔ مہاراشٹر اسٹیٹ بورڈ آف سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری ایجوکیشن،  پونے نے اس سلسلہ میں ایک مفید دستاویز شائع کی ہے لیکن اس تدریسی سلسلہ سے وابستہ اکثر اساتذہ اس سے نا واقف ہیں۔

تعلیمی اداروں نے بھی اسے اساتذہ تک پہنچانے کا کوئی انتظام نہیں کیا اور یہ شکایت کرتے ہوئے سنے گئے کہ اسے کوئی پڑھتا نہیں ہے کتابیں گرد آلود پڑی ہیں۔ متعلقہ اراکین کو چاہیے کہ اس قسم کا لٹریچر کثیر تعداد میں اساتذہ کو مطالعہ کے لیے مہیا کریں تاکہ وہ اپنی تدریس کو موثّر بنا سکیں۔

۴۔  اساتذہ کو تدریس کے روایتی طریقوں پر اکتفا نہ کرتے ہوئے، تعلیمی وسائل کا استعمال کر کے طلبا میں دلچسپی پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔

۵۔  Audio Visual Aids  کے ذریعہ شعراء و ادباء اور مختلف علاقوں اور عمارات و مخطوطات وغیرہ سے متعلق معلومات طلبا تک بخوبی پہنچائی جا سکتی ہے۔

۶۔  اسکولوں اور کالجوں میں ادبی سرگرمیاں منعقد ہونی چاہیے، جن میں ادبی نشستیں،  بیت بازی کے مقابلے،  تقاریر،  ڈرامے اور مشاعرے بھی ہوں۔ ان پروگراموں کو باقاعدگی سے چلانے کے لئے طلبا کی ادبی انجمنیں قائم کی جا سکتی ہیں اس سے ایک فائدہ یہ ہو گا کہ جب طلبا ذاتی طور پر ان کاموں میں شریک ہوں گے تو ظاہر ہے ان میں خود اعتمادی اور زبان و ادب کے تئیں دلچسپی پیدا ہو گی۔

۷۔   اکثر تعلیمی اداروں میں کتب خانوں کا یا تو سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہوتا یا ان کی حیثیت محض دکھاوے کی ہوتی ہے انھیں شو روم بھی نہیں کہا جا سکتا کہ شو روم میں موجود اشیاء کے بھی کبھی بھاگ کھلتے ہیں، سستے داموں ہی سہی کبھی اٹھ جا تی ہیں،  کبھی نہ کبھی کسی کے تصّرف میں ضرور آ تی ہیں لیکن ہمارے تعلیمی اداروں میں کثیر تعداد میں ایسی لائبریریاں ہیں جنھیں طلباکسی سراب کی طرح محض دیکھنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ طلبا میں کتب بینی کا شوق پیدا کیا جائے اکثر انگریزی اسکولوں میں طلبا کے لئے کتب بینی اور ان پر تبصرہ کے پراجیکٹ پیش کرنے کو لازمی قرار دیا جاتا ہے چونکہ ان پر نمبرات دئے جا تے ہیں اس لئے طلبا کے لیے کتابوں کا مطالعہ لازمی ہو جاتا ہے اور اس طرح ان میں کتابوں کا شوق پیدا ہوتا ہے۔  مو جو دہ نصاب میں جونیئر کالج کے امتحانی پرچے (اردو) میں ایک سوال،  کسی کتاب پر تبصرے پر مبنی ہوا کر تا ہے۔ اکثر اس کا جواب طلبا کسی ڈائجسٹ سے نقل کر دیتے ہیں اور اساتذہ بھی قبول کر لیتے ہیں۔ اگر طلبا کو کتاب پڑھ کر اس پر تبصرہ نگاری کی مشق کر وائی جائے اور اساتذہ  مناسب رہنمائی کریں تو یہ بھی شوقِ مطالعہ کے بڑھانے میں مفید ثابت ہو۔

تجربہ شاہد ہے کہ طلبا اردو کی کتابیں پڑھنا چاہتے ہیں لیکن ان کے لئے دلچسپ اور ان کی عمر، ذوق اور ذہنی استعداد کے مطابق کتابیں،  نہ ان کے گھروں میں دستیاب ہیں نہ اسکول یا کالج میں اس سلسلہ میں کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے۔ اس کے بر عکس غیر اردو داں اداروں میں طلبا بڑے پیمانے پر اسکول لائبریریوں سے استفادہ کرتے ہوئے نظر آ تے ہیں اور اس کا فائدہ ان کی پبلک لائبریریوں کو بھی ہو تا ہے۔

۸۔   بعض اسکولوں او ر فلاحی اداروں کے ذریعے طلبا میں شعری ذوق پیدا کرنے کی غرض سے ایک طریقہ یہ اپنایا جاتا ہے کہ مختلف موضوعات پر یا کسی ایک موضوع پر مشہور شعرا کا کلام خاص طور پر نظمیں طلبا کو دی جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ وہ ان منظومات میں پیش کئے گئے خیالات کو تصویر کی شکل دیں۔  اس قسم کے پینٹنگ کے مقابلے طلبا میں نہ صرف مصوّری بلکہ شاعری کے شوق کو ابھارنے میں بھی مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔

۹۔   اسکول یا کالج میگزین یا طلبا کے ذریعے تیار کئے گئے وال میگزین ادبی ذوق کی ترویج و بقا میں بے حد معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔  اس کے ذریعے طلبا میں خود اعتمادی پیدا ہو گی اور جب وہ ذاتی طور پر ان سر گرمیوں میں مشغول ہو ں گے تو ان کی تعمیری صلاحیتیں بھی بروئے کار لائی جا سکیں گی لیکن اس کے لئے قابل اساتذہ کی رہنمائی اور اداروں کے منتظمین کی مناسب حوصلہ افزائی ضروری ہے۔

۱۰۔   تعلیمی اداروں میں ایسی ماہانہ ادبی نشستوں کا انعقاد ہو نا چاہئے جن میں طلبا اپنی تخلیقات پیش کر سکیں اور چند مستند شاعروں اور ادیبوں کے فن پارے بھی پیش کئے جائیں جو طلبا کو متنوع اسالیبِ بیان سکھانے کے کام آئیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 اقبال کا داعیانہ اسلوب

 

شاعرِ مشرق، حکیم الامّت اور علاّمہ جیسے خطابات سے نوازے جانے والے شاعر محمّد اقبال کی شاعری کا محور اسلام اور مسلمان ہیں۔  ربِ ذوالجلال سے مخلوقاتِ الہٰیہ تک مختلف و متنوع موضوعات کا احاطہ کر تی ہوئی اقبال کی فلسفیانہ سوچ اور تخیل کی جولانیاں در اصل اسلامی افکار کے خورشیدِ تاباں ہی کا پر تو ہیں۔

اقبال کی شاعرانہ فکر، تصوّرات،  لفظیات،  استعارے، شعری تراکیب اور نقطۂ نظر کے دیگر شعرا سے مختلف ہو نے کا سبب بھی یہ ہے کہ اقبال بنیادی طور پر ایک مختلف اور منفرد سوچ کا شاعر ہے۔  جس کا کائنات کے مظاہر کو دیکھنے کا انداز جدا ہے بلکہ شاعری کے ساتھ بھی اس کا معاملہ اوروں سے مختلف ہے۔  اسی رویّے نے اقبال کے اس انوکھے اسلوب کو جنم دیا ہے جس کی سب سے اہم خصوصیت اس کا داعیانہ انداز ہے۔ اقبال کی اسی ادّعائیت کو جہاں اسلام پسند طبیعتوں اور اور دینِ متین کے متوالوں نے لبیک کہا،  وہیں ادب نوازوں کا ایک طبقہ یہ بھی مانتا ہے کہ اقبال کے اس کو مشن نے اس کے فن کو نقصان پہنچایا ہے۔  کلامِ اقبال کی دلفریبی اور اثر پذیری نے بلاشبہ اسے ادب کے جریدۂ عالم پر دوام اور قبولِ عام سے ہمکنار کیا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اقبال کی شاہکار تخلیقات وہی ہیں جن میں کھلی ہوئی ادّعائیت کے بجائے رمز و ایما اور اشارے و استعارے ہیں جہاں اس نے فن کی بلندی کو چھو لیا ہے۔ اقبال کو یہ احساس تھا کہ وہ اپنی من موہ لینے والی شاعری میں ایک اپدیشک کا رول ادا کر رہا ہے:

اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے

گفتار کا غازی وہ تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا

اسی کے ساتھ اقبال نے اپنے اشعار میں اس حقیقت کا اظہار بھی کیا ہے کہ شاعری اس کے لئے ایک وسیلہ ہے منزل نہیں :

میری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ

کہ میں ہوں محرمِ رازِ درونِ مے خانہ

اوروں کا ہے پیام اور میرا پیام اور ہے

عشق کے درد مند کا طرزِ کلام اور ہے

اقبال کے ہاں سازِ سخن ایک بہا نا ہے اس اونٹنی کو راہِ راست پر لا نے کاجو اپنے راستے سے بھٹک گئی ہے۔ قوم کے لئے اونٹنی کا استعارہ بھی خوب ہے، یہ مفہوم ہے اقبال کے ایک فارسی شعر کا:

نغمہ کجا و من کجا سازِ سخن بہانہ ایست

سوئے قطار می کنم ناقۂ بے زمام را

اقبال کا مقصد ایک درد مند دل میں کروٹیں بدلتے ہوئے احساس کی ترسیل ہے۔  اس کی شاعری اسی سوزِ دروں کا اظہار ہے:

جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے

میرا عشق میری نظر بخش دے

میرے دیدۂ تر کی بے خوابیاں

میرے دل کی پوشیدہ بے تابیاں

مرے نالۂ نیم شب کا  نیاز

مری خلوت و انجمن کا گداز

یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر

اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر

مرے قافلے میں لٹا دے اسے

لٹا دے ٹھکانے لگا دے اسے

(ساقی نامہ )

اقبال کی شاعری ایک انقلاب کا داعیہ ہے۔  شاعری کے متعلق اقبال کا نظریہ بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سوئے ہوئے ذہنوں کو جھنجھوڑ ا جائے اور جو ادب اپنی تخلیقی قوّت سے انسانوں میں بیداری، حرکت و عمل اور کسی بڑی تبدیلی کا ذریعہ نہیں بنتا وہ اقبال کے نزدیک بے سود ہے۔

اے اہلِ نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکن

جو شے کی حقیقت کو نہ سمجھے وہ نظر کیا

مقصودِ ہنر سوزِ حیاتِ ابدی ہے

یہ ایک نفس یا دو نفس مثلِ شرر کیا

جس سے دلِ دریا متلاطم نہیں ہوتا

اے قطرۂ نیساں وہ صدف کیا وہ گہر کیا

شاعر کی نوا ہو کہ مغنّی کا نفس ہو

جس سے چمن افسردہ ہو وہ بادِ سحر کیا

بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں

جو ضربِ کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا

( قطعہ)

اقبال ایک نئی دنیا کا نقیب ہے وہ ماضی کا نوحہ خواں بھی ہے جس میں جذبۂ شوق کی سرد ہو تی ہوئی آ گ اور تابندہ اسلامی روایات کے زوال پر اظہارِ افسوس کرنے پر اس نے اکتفا نہیں کیا، بلکہ نئے امکانات کی بشارت سے اپنے کلام کو مزیّن کیا۔ حرکت و عمل،  خودی،  مردِ مومن اور شاہین کے تصّورات اسی سوئی ہوئی قوم کو جگانے کے لئے ہیں۔ اقبال عشق کی آگ بجھنے پر مسلمانوں کو راکھ کے ایک ڈھیرسے تعبیر کر تا ہے وہیں نئے جام گردش میں لا کر شرابِ کہن کے سرور کو محفل میں عام کر نا چاہتا ہے۔ اقبال نے جس نئی دنیا کا خواب دیکھا تھا وہ نہ صرف وہی خواب قوم کو دکھا نا چاہتا ہے بلکہ اس کی تعبیر ڈھونڈنے کے لئے قوم کو آ مادہ بھی کر تا ہے اس کے نزدیک ماضی کی نوحہ خوانی قوم کے مسائل کا حل نہیں ہے۔

شاخِ بریدہ سے سبق اندوز ہو کہ تو

نا آشنا ہے قاعدۂ روزگار سے

ملّت کے ساتھ رابطۂ استوار رکھ

پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ

(پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ)

آفتابِ تازہ پیدا بطنِ گیتی سے ہوا

آسماں ٹوٹے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک

کلامِ اقبال میں اسلامی تعلیمات کا بھرپور تعارف موجود ہے اقبال کا اردو زبان اورشعر و ادب پر ایک احسان یہ بھی ہے کہ اس نے نہ صرف پامال شعری تراکیب کو نئے معنی اور فرحت و تازگی سے آ راستہ کیا بلکہ قرآنی تلمیحات اور اور احادیث کے مضامین کو شعری قالب عطا کیا۔  اس کے شعری مجموعے بانگِ درا، ضربِ کلیم، بالِ جبریل او ر زبورِ عجم،  کے علاوہ اس کی بیشمار نظمیں اور اشعار اسلامی پسِ منظر کو پیش کر تے ہیں۔

بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق

عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی

آگ ہے اولادِ ابراہیم ہے نمرود ہے

کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے

اے وہ کہ تجھ سے دیدۂ انجم فروغ گیر

اے تیری ذات باعثِ تکوینِ روزگار

(صدیق)

چشمِ اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے

رفعتِ شانِ رفعنا لک ذکرک دیکھے

یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے

صنم کدہ ہے جہاں لا الٰہ الّا اللہ

اقبال نے توحید و رسالت پر جو نظمیں لکھیں ہیں یا غزلوں میں ان موضوعات کا احاطہ کیا ہے ان میں پر اثر انداز میں اسلام کے پیغام کی حکمت اور بصیرت افروز توضیح موجود ہے۔ اقبال کی غزلوں کے بعض اشعار انسان اور خدا کے تعلق کو والہانہ انداز میں بیان کر تے ہیں اس سلسلے میں اقبال کی نظم شکوہ جوابِ شکوہ قابلِ ذکر ہے۔ اقبال کی غزلوں کے چند اشعار درج ذیل ہیں :

تو نے یہ کیا غضب کیا! مجھ کو بھی فاش کر دیا

میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں

محمدؐ بھی ترا،  جبریل بھی،  قرآن بھی تیرا

مگر یہ حرف،  شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا

باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں

کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر

تو ہے محیطِ بے کراں میں ہوں ذرا سی آبجو

یا مجھے ہمکنار کر یا مجھے بے کنار کر

اسلام کے پیغام کو عام کر نے کی راہ میں جو جو رکاوٹیں موجود تھیں اور حق و باطل کی معرکہ آرائی میں جو مراحل درپیش تھے،  اقبال نے اپنے کلامِ میں ان کی نشاندہی کی ہے۔ اس میں قوم کا جمود اور بے حسی ہو یا مغرب کی سازشیں، اقبال نے ان تمام کا احاطہ کیا ہے۔  چراغِ مصطفوی سے شرارِ بو لہبی کی ستیزہ کاریاں ہوں یا اسلامی معاشرہ میں موجود غیر اسلامی روایات سے پیدا ہو نے والا جمود، اقبال نے ان سبھی پہلوؤں کو بے نقاب کر کے انھیں ختم کرنے کے لئے ایک ضربِ کلیمی کو لازمی قرار دیا ہے۔ یہ سب اقبال کے اسی داعیانہ مشن کا ایک حصّہ ہیں۔

مدیرِ مخزن سے کوئی اقبال جا کے میرا پیام کہہ دے

جو کام کچھ کر رہی ہیں قومیں انھیں مذاقِ سخن نہیں ہے

مسلماں ہیں توحید میں گرم جوش

مگر دل ابھی تک ہیں زْنّار پوش

(ساقی نامہ)

نظم’ پیامِ مشرق‘ میں اقبال رقمطراز ہیں :

وجود افراد کا مجازی ہے ہستیِ قوم ہے حقیقی

فدا ہو ملّت پہ،  یعنی آتش زنِ طلسمِ مجاز ہو جا

یہ ہند کے فرقہ ساز اقبالؔ آزری کر رہے ہیں گویا

بچا کے دامن بتوں سے اپنا غبارِ راہِ حجاز ہو جا

نظم ’عبد القادر کے نام‘ کے یہ اشعار ملاحظہ فر مائیں :

شمع کی طرح جئیں بزم گہِ عالم میں

خود جئیں دیدۂ اغیار کو بینا کر دیں

اس چمن کو سبق آئینِ نمو کا دے کر

قطرۂ شبنمِ بے مایہ کو دریا کر دیں

اقبال کے کلام میں قرآن کی تعلیمات اور اسلام کا پیغام مختلف انداز میں موجود ہے۔ کہیں وہ ملّتِ اسلامیہ کے اس طبقہ کو نشانۂ طنز بناتا ہے جو اسلامی روح سے عاری اوررسم و رواج ہی کو اصل دین سمجھے ہوئے ہے۔ اقبال کا آفاقی پیغام اس کے لئے بے معنی ہے۔

میری مینائے غزل میں تھی ذرا سی باقی

شیخ کہتا ہے کہ یہ بھی ہے حرام اے ساقی

یوں تو ملّا،  شیخ،  واعظ، ناصح، زاہد،  اقبال سے قبل بھی شعرا کے ہاں معتوب رہے ہیں کہ ان کے ذریعے ادب میں اس طبقہ پر تنقید کی گئی جو مذہب کو سطحی انداز میں برتتا ہے۔  اس کے ظاہری رسم و رواج ہی کو سب کچھ سمجھے ہوئے ہے اور مذہب کی اصل روح سے نا آشنا ہے اقبال نے اپنی شاعری میں جب اس طبقہ کو طنز کا نشانہ بنایا تو اقبال کے ہاں قوم و ملّت کے زیاں اور زوال آ مادگی پر حزن و ملال اور تاسف کا گہرا تاثر ابھر آیا۔

کوئی یہ پوچھے کہ واعظ کا کیا بگڑتا ہے

جو بے عمل پہ بھی رحمت وہ بے نیاز کرے

غرورِ زہد نے سکھلا دیا ہے واعظ کو

کہ بندگانِ خدا پر زباں دراز کرے

ظاہر داری اور مذہب کی اصل روح سے بیگانگی تو اقبال کو دیگر مذاہب میں بھی قبول نہیں ’نیا شوالہ ‘  اس نظم میں جہاں قومی یکجہتی کی بات کہی گئی ہے وہیں مذہب کے نام پر لو گوں میں فرقہ واریت کے بیج بونے والے عناصر کو بھی اقبال نے ہدفِ ملامت بنایا ہے۔

سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو برا نہ مانے

تیرے صنم کدوں کے بت ہو گئے پرانے

اپنوں سے بیر رکھنا تو نے بتوں سے سیکھا

جنگ و جدل سکھایا واعظ کو بھی خدا نے

پتّھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے

خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرّہ دیوتا ہے

آ غیریت کے پردے اک بار پھر اٹھا دیں

بچھڑوں کو پھر ملا دیں نقشِ دوئی مٹا دیں

شکتی بھی شانتی بھی بھکتوں کے گیت میں ہے

دھرتی کے واسیوں کی مکتی پریت میں ہے

(نیا شوالہ)

یہ اشعار اس طرف اشارہ کر تے ہیں کہ شاعر کی نظر میں دین کی بنیاد اور مذہب کی اصل منشاء ربطِ باہمی،  یگانگت اور اخوت ہے۔  مذہب آپس میں بیر رکھنا نہیں سکھاتا اور جو طاقتیں مذہب کے نام پر یہ کام کر رہی ہیں اقبال ان کے خلاف ہے۔

اقبال اجتماعیت اور قومیت کا علمبردار ہے، خواہ وہ مختلف قوموں کے باہمی روابط ہوں جو رواداری اور بھائی چارے پر منحصر ہیں یا مسلمانوں کے درمیان اجتماعیت کا معاملہ ہو اقبال نے کئی مقامات پر اسے موضوعِ سخن بنایا ہے۔

فرد قائم ربطِ ملّت سے ہے تنہا کچھ نہیں

موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں

اقبال نے تعمیرِ قوم کے جس مبارک کام کے لئے اپنی شاعری کو وسیلہ بنایا اس کے تمام امکانات کو استعمال کیا۔ اس نے بچّوں کی ذہن سازی کے لئے کئی نظمیں لکھیں جو ان کے اولین شعری مجموعہ’’ بانگِ درا‘‘ میں شامل ہیں۔ ان نظموں کا داعیانہ اسلوب دامن کشِ دل ہے۔ ایک بہترین زندگی کا تصوّر،  خدا پرستی،  انسانی محبّت،  رواداری،  اخلاقی بلندی حب الوطنی کا جذبہ اور قوم و ملّت کے لئے جان نثا ر کر نے کے عزائم کا درس ان منظومات میں موجود ہے۔

لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنّا میری

زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

دور دنیا کا میرے دم سے اندھیرا ہو جائے

ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے

ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا

درد مندوں سے ضعیفوں سے محبّت کرنا

مرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو

نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلانا مجھ کو

اقبال کے کلام کا بیشتر حصّہ اس کے سوزِ دروں اور درد مند دل کا فنکارانہ اظہار ہے اور اقبال کی دروں بینی نے جس جہانِ نو کا خواب سجایا تھا اس کا بھر پور داعیہ اس کے اسلوب سے آشکار ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

گلّی ڈنڈا…ایک تجزیہ

 

گلّی ڈنڈا ان چند اہم افسانوں میں شامل ہے جن کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ پریم چند کے خاص رنگ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ دیہی زندگی اور اس سے جڑے ہوئے افراد کی فطری سادگی، غریبی کے ہاتھوں ستائے ہوئے لوگوں ا ور نخوت و پندار سے سرشار آسودہ حال طبقہ کے درمیان پائی جانے والی نفسیاتی کشمکش اور تفاوت پریم چند کے مرغوب موضوعات ہیں۔  اس خاص شعبہ میں جس قدر مہارت کا ثبوت انھوں نے پیش کیا ہے شاید ہی کسی ادیب کو یہ اعزاز حاصل ہو ا ہو۔ گلّی ڈنڈا بھی اسی قسم کی ایک نمائندہ تحریر ہے۔

افسانہ کی ابتدا بڑی سہج اور فطری انداز لئے ہوئے ہے۔ ’میں ‘ کے حوالے سے بچپن کی یادوں کی گرہیں یکے بعد دیگرے کھلنے لگتی ہیں۔ آپ بیتی کا لب و لہجہ قاری کو اپنے اعتماد میں لے لیتا ہے اور بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک ناسٹیلجیائی کیفیت کی حامل تحریر ہے مگر بہت جلدافسانہ نگار انگریزی اور د یسی کھیلوں کا موازنہ کر کے ہمیں اس فضا سے کچھ دیر کے لئے باہر نکال کر اپنے مخصوص تصوّرات کی تبلیغ کا اہم فریضہ انجام دینے لگتا ہے۔

’’ولایتی کھیلوں میں سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ ان کے سامان بہت مہنگے ہوتے ہیں۔ جب تک کم از کم ایک سو خرچ نہ کیجئے کھلاڑیوں میں شمار ہی نہیں ہوسکتا۔ یہاں گلّی ڈنڈا ہے کہ ہینگ لگے نہ پھٹکری چوکھا رنگ دیتا ہے۔ لیکن ہم انگریزی کھیلوں پر ایسے دیوانے ہو رہے ہیں کہ اپنی سب چیزوں سے ہمیں نفرت سی ہو گئی ہے۔ ‘‘ (گلّی ڈنڈا)

افسانہ آگے بڑھتا ہے اور کھیل کا رنگ چڑھتے ہی ہم اس فضا میں سانس لینے لگتے ہیں جہاں ایک ایک سطر میں گاؤں کی سیدھی سادی زندگی اپنی مخصوص مہک بکھیرنے لگتی ہے۔  گلّی ڈنڈے کے حوالے سے مصنّف نے بچّوں کی دنیا میں پائی جانے والی معصومیت اور رنگا رنگی کو نمایاں کیا ہے:

’’ بچپن کی یادوں میں گلّی ڈنڈا ہی سب سے شیریں یاد ہے وہ علی الصبح گھر سے نکل جانا،  وہ درخت پر چڑھ کر ٹہنیاں کاٹنا، وہ جوش و خروش،  وہ لگن،  وہ کھلاڑیوں کے جمگھٹے، وہ پدنا پدانا، وہ لڑائی جھگڑے،  وہ بے تکلّف سادگی جس میں چھوت چھات اور غریب و امیر کی کوئی تمیز نہ تھی۔ جس میں امیرانہ چونچلوں کی، غرور اور خود نمائی کی گنجائش نہ تھی۔ ‘‘(گلّی ڈنڈا)

گلّی ڈنڈا میں مصنف کے علاوہ سب سے اہم کردار ہے ’’گیا‘‘۔ گیا ایک معمولی چمار کا بیٹا اور مصنّف تھانے دار کا بیٹا ہے۔  آگے چل کر ایک ضلع انجینئر بن جاتا ہے اس کی تعلیم شہر ہی میں ہوئی لیکن جب وہ ضلع انجینئر بن کر اسی گاؤں میں لوٹتا ہے جہاں اس نے بچپن میں گیا کے ساتھ بہت سا وقت گزارا تھا وہ ان تمام یادوں کے ساتھ گاؤں لوٹا ہے،  مگر وقت کے پُل تلے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔  گلّی ڈنڈا کھیل کے دوران کی گئی نا انصافیاں ابھی تک اس کی یادداشت کا حصّہ ہیں۔  وہ گیا کو ڈھونڈ نکالتا ہے اور دوبارہ وہی کھیل کھیلنے کی خواہش ظاہر کرتا ہے۔

یوں کہا جاتا ہے کہ بچپن معصوم اور ہر قسم کے امتیازات سے پاک ہوا کرتا ہے۔ اس طرف پریم چند نے بھی مذکورہ بالا اقتباس میں اشارہ کیا ہے،  لیکن اس کے باوجودبچّوں کے دل و دماغ میں موجود اس بھید بھاؤ کی جڑوں کو پریم چند نے بڑی خوبی کے ساتھ ظاہر کیا ہے:

’’جب گیا نے میرا امرود کھایا تو پھر اسے مجھ سے داؤ لینے کا کیا حق حاصل ہے…امرود دو پیسے کے پانچ والے تھے جو گیا کے باپ کو بھی نصیب نہ ہوں گے…میں تھانے دار کا لڑکا ایک نیچ ذات کے لونڈے کے ہاتھوں پٹ گیا یہ مجھے اس وقت بھی بے عزّتی کا باعث معلوم ہوا۔ ‘‘

ظاہر ہے یہ افسانہ اس دور کی تحریر ہے جب سماج میں معاشی برتری سے زیادہ ذات پات کا بھید بھاؤ ایک اہم مسئلہ تھا اس کی گونج ہمیں پریم چند کی دیگر تحریروں میں بھی سنائی دیتی ہے۔ گیا بھی اسی طبقہ سے تعلّق رکھتا ہے جو اسی احساسِ کمتری کا شکار ہے۔ اس کے بارے میں یہ بیان ملاحظہ فرمائیے :

’’مجھ سے دو تین سال بڑا ہو گا،  دبلا لمبا،  بندروں کی سی پھرتی،  بندروں کی سی لمبی لمبی انگلیاں، بندروں کی سی جھپٹ گلّی کیسی ہی ہو اس پر اس طرح لپکتا تھا جس طرح چھپکلی کیڑوں پر لپکتی ہے۔

معلوم نہیں اس کے ماں باپ کون تھے،  کہاں سے آئے تھے۔ کیا کھاتا تھا پر تھا ہمارے کلب کا چمپئن جس کی طرف وہ آ جائے اس کی جیت یقینی تھی۔ ‘‘(گلّی ڈنڈا)

پریم چند کا یہ مخصوص انداز ہے وہ اکثر انسانی فطرت میں موجود صفات کی نشاندہی کے لئے جانوروں کی مثالیں استعمال کرتے ہیں مثلاً مشہور افسانہ کفن میں مادھو اور گھیسو کو کنڈلی مار کر سوئے ہوئے دو اژدہوں اور شیرسے تشبیہ دی گئی ہے۔

’’ جیسے دو بڑے اژدہے کنڈلیاں مارے پڑے ہوں۔

ــدونوں اس وقت اس شان سے بیٹھے ہوئے پوریاں کھا رہے تھے جیسے جنگل میں کوئی شیر اپنا شکار اڑا رہا ہو۔ ‘‘ (کفن،  منشی پریم چند)

گیا کے کردار میں وجہ تشبیہ محض اس کی جسمانی قوّت اور چستی پھرتی کو ظاہر کرتی ہے۔ البتّہ یہ جاندار اپنے شکار کے لئے جو رویّہ اپناتے ہیں اس کے نمونے گیا کے کردار میں افسانہ کے آخری حصّہ میں دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن گیا کے کردار کی اصل خوبی یہ ہے کہ فرق مراتب کا لحاظ اور انسانیت کا پاس اس کی شخصیت کو بلندی عطا کرتا ہے۔  گیا کا کردار جہاں دیہی زندگی کی جفا کشی اور سادگی کا مظہر ہے وہیں ہٹ دھرمی اور اس کے اندر چھپی ہوئی انسانیت خلوص اور محبّت کی بھی نمائندگی کرتا ہے۔

’’بچپن میں وہ اپنا داؤ حاصل کرنے پر پوری طرح بضد تھا۔ /’’ہاں میرا داؤ دئے بغیر نہیں جا سکتے۔ ‘‘/’’میں تمہارا غلام ہوں ؟‘‘/ ’’ہاں تم میرے غلام ہو۔ ‘‘/’’میں گھر جاتا ہوں دیکھو تم میرا کیا کر لیتے ہو۔ ‘‘/’’گھر کیسے جاؤ گے کوئی دل لگی ہے داؤں دیا ہے داؤں لیں گے۔ ‘‘

لیکن مصنّف جب ایک بڑے عہدیدار کی حیثیت سے اس کے آگے آتا ہے تو وہ اس کی برتری کو احتراماً قبول کر لیتا ہے۔ اس کی ساری بدعنوانیوں کو اس طرح نظر انداز کر دیتا ہے جیسے وہ کوئی بچّہ ہو۔ گاؤں لوٹنے کے بعد دوبارہ اس کے ساتھ گلّی ڈنڈا کھیلنے کی خواہش کو وہ نہ صر ف پورا کرتا ہے بلکہ داؤ لینے کی باری آتی ہے تو وقت زیادہ ہونے کا بہانہ کر کے آگے بڑھ جاتا ہے کہ مصنف یہ سوچنے لگتا ہے شاید اس کی کھیلنے کی مشق چھوٹ گئی ہے۔  اس کے بعد اگلے دن ہونے والے میچ میں اس کا کھیل یہ ثابت کرتا ہے کہ اس میں وہی دم خم باقی ہے۔

’ ’پدانے والوں میں ایک نوجوان نے کچھ بے عنوانی کی اس کا دعویٰ تھا کہ میں نے گلّی دبوچ لی ہے۔  گیا کا کہنا تھا کہ گلّی زمین سے لگ کر اچھلی ہے،  اس پر دونوں میں تال ٹھونکنے کی نوبت آئی۔  نوجوان دب گیا۔  گیا کا تمتمایا ہوا چہرا دیکھ کر وہ ڈر گیا۔ ‘‘( گلّی ڈنڈا )

پریم چند نے اس افسانہ میں انسانی رشتوں کی بدلتی ہوئی نوعیت کو بہت ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔  اسی کے ساتھ ا علیٰ عہدہ اور مرتبہ حاصل ہونے کے ساتھ ہی بہت سی چیزوں کے چھِن جانے کی کسک بھی گلّی ڈنڈا میں پوری طرح نمایاں ہے:

’’ میں اب افسر ہوں۔ یہ افسری میرے اور اس کے درمیان اب دیوار بن گئی ہے۔  میں اب اس کا لحاظ پا سکتا ہوں ادب پا سکتا ہوں لیکن اس کا ہمجولی نہیں بن سکتا…یہ عہدہ پا کر اب میں اس کے رحم کے قابل ہوں۔  وہ اب مجھے اپنا جوڑ نہیں سمجھتا۔ وہ بڑا ہو گیا ہے میں چھوٹا ہو گیا ہوں۔ ‘‘

گلّی ڈنڈا پریم چند کے مشہور افسانوں میں شامل ہے۔  اس میں انسانی نفسیات کے نازک گوشوں کی عکاسی نہایت خوبصورت انداز میں کی گئی ہے۔ اس کا آپ بیتی کا انداز قاری کو ابتدا سے آخر تک اپنی گرفت میں لئے رکھتا ہے اور ایک متاثر کن کردار گیا کی واضح چھاپ ہمارے دل و دماغ پر چھوڑ جاتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

سعادت حسن منٹو کی کر دار نگاری

 

سعادت حسن منٹو اپنے شاہکار افسانوں کے سبب ایک عظیم فنکار مانے جاتے ہیں۔  ان کی اس عظمت کے اجزائے ترکیبی ہیں ان کا اسلوب، بے باک سماجی حقیقت نگاری،  کرداروں کا نفسیاتی تجزیہ کر نے کا ہنر،  فنِ افسانہ نگاری کے اسرار و رموز سے آگہی اور اسے تخلیقی سطح پر برتنے کا سلیقہ اورانسانی زندگی کے مسائل اور اس کی پیچیدگیوں کو اپنی تخلیقات میں فنکارانہ انداز میں پیش کر نے کی صلاحیت وغیرہ لیکن منٹو کی بے مثال کر دار نگاری بھی بحیثیت افسانہ نگار اس کی عظمت میں برابر کی شر یک ہے۔

منٹو نے اپنے افسانوں اور ڈراموں میں متعدد کر دار پیش کئے جنھوں نے اردو ادب میں اپنی پہچان بنائی۔ منٹو کے یہاں ہمیں کرداروں کا ایک نگا ر خانہ نظر آ تا ہے۔  ٹوبہ ٹیک سنگھ،  بابو گو پی ناتھ،  سلطانہ،  سوگندھی، موذیل، شاردا، سہائے،  منظور،  مس مالا،  ایشر سنگھ استاد منگو خاں،  دو دا پہلوان،  ممد بھائی وغیرہ ان میں سے چند نام ہیں۔ ان کر داروں میں بعض طوائفیں ہیں اور وہ لو گ بھی جن کا تعلّق قحبہ خانوں اور کوٹھوں سے رہا ہے۔ چند اس پیشے سے وابستہ ہیں اور بعض اس دنیائے حسن کے اسیر ہیں۔ ان کر داروں میں بیشتر نے اسے بدنام بھی کیا اس پر فحش نگار کا الزام لگایا گیا۔  ان کرداروں کے انتخاب نے جہاں منٹو کو رسوا کیا وہیں اس کی شہرت کا سبب بھی بنے۔ انھی لو گوں میں منٹو انسان تلاش کر تا رہا۔

منٹو نے اپنے آس پاس پیش آ نے والی ہر حر کت کو محسوس کیا۔  ان واقعات و سانحات میں جن چیزوں نے اسے اندر تک جھنجھوڑ کر رکھ دیا وہ اس کے فن کے دائرے میں شامل ہو گئیں۔  اس نے جس گہرائی سے لوگوں کا مشاہدہ کیا اسے اسی فنّی چابک دستی کے ساتھ اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔ منٹو نے  ان کر داروں کے وسیلے سے اپنے عہد کا بد نما چہرہ دکھایا اور زندگی کی ان حقیقتوں کو بے نقاب کیا جن کا نظارہ ہمارے لئے نا قابل بر داشت تھا۔ اس کا احساس منٹو کو بھی تھا اس کا اعتراف اس نے ان الفاظ میں کیا ہے:

’’زمانے کے جس دور سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں، اگر آپ اس سے نا واقف ہیں، تو میرے افسانے پڑھئے۔ اگر آپ ان افسانوں کو بر داشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ زمانہ ناقابلِ برداشت ہے۔  مجھ میں جو برائیاں ہیں،  وہ اس عہد کی برائیاں ہیں۔  میری تحریر میں کوئی نقص نہیں۔ جس نقص کو میرے نام سے منسوب کی جاتا ہے در اصل مو جودہ نظام کا نقص ہے۔ ‘‘ (ادبِ جدید دستاویز،  ص:۵۲)

مرد اور عورت دو نوں کے درجنوں نمونے اس کے کر داروں میں ہیں اور سارے کر دار بلیک اینڈ وہائٹ نہیں ہیں بلکہ اچّھے برے، کم اچّھے کم برے اور بہت برے لوگ بھی ہیں جو سماج کے نام پر ایک کلنک کی طرح ہیں۔  کسی مخصوص آیڈیا لوجی سے جڑے ہوئے نہ ہو نے کی وجہ سے منٹو نے کچھ خاص قسم کے چہرے یا چند مثالی کر دار پیش کر نے کی کو شش نہیں کی بلکہ جس طرح دنیا میں ہر قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں اسی طرح اس کے کر داروں میں زبر دست تنوّع مو جود ہے البتّہ منٹو کے کر داروں کی پیشکش میں ایک چیز جو قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتی ہے وہ ہے،  ان لو گوں میں سچّے انسان کی تلاش۔  یہ کر دار برے سے برے ماحول میں رہنے کے با وجود اپنی فطرت کا کچھ حصّہ،  خیر کا کوئی ذرّہ اپنی ذات کے جلو میں چھپائے رہتے ہیں۔ لوگ ان کے ظاہر سے ان کی شخصیت کا فیصلہ کر تے ہیں لیکن منٹو ان کی ذات کے نہاں خا نوں تک ہمیں لے جاتا ہے،  دکھاتا ہے کہ دیکھو انسان ایسے بھی ہو تے ہیں۔  منٹوکے بعض کر دار مثلاً موذیل،  بابو گو پی ناتھ وغیرہ اس بات کا ثبوت پیش کر تے ہیں کہ اس گھناؤ نے ماحول میں بھی انسانی قدریں نہ صرف باقی رہتی ہیں بلکہ ان کی معراج ہماری آنکھیں خیرہ کر دیتی ہے۔

منٹو نے اپنے کر داروں کی نفسیاتی الجھنوں اور اندرونی کشمکش کو زبان عطا کی۔  شاہ دولے کا چوہا کی سلیمہ اپنی اولاد کی جدائی کے کرب سے گزرتی ہے۔ اس افسانے کی مر کزی کر دار،  سلیمہ پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر شکیل الرحمن لکھتے ہیں :

’’اس افسانے میں سعادت حسن منٹو کی فنکاری عروج پر ہے۔  فنکاری کی عظمت یہ ہے کہ سلیمہ کی ذات اور حالا ت کی کشمکش میں شخصیت کو اس طرح ابھا را گیا ہے کہ بڑی شدّت سے محسوس ہو تا ہے کہ یہ عورت اپنی داخلی تکمیل سے محروم ہے۔  اس کی نفسیاتی الجھن اور پیچیدگی اس افسانے کی تخلیقی سطح کو بلند کر دیتی ہے…سلیمہ اپنے شوہر اور بچّوں کے ساتھ رہتے ہوئے بھی تنہا ہے۔  اسے ہر لمحہ محسوس ہوتا ہے جیسے پہلے بیٹے کو کھو دینے کی وجہ سے اس کی ذا ت کی تکمیل نہیں ہو سکی، بہت بڑی کمی ہے، ایک خلا سا ہے۔ ممتا ہر لمحہ جا گی ہوئی اور روحانی کر ب اور اضطراب میں اضافہ کر رہی ہے۔  سعادت حسن منٹو کا یہ کر دار باطن کی گہری المناکی سے ابھر تا ہے اور مسلسل داخلی خود کلامی میں گرفتار رہتا ہے، داخلی خود کلامی باطن کی ویرانی کو حد درجہ محسوس بنا تی ہے۔  کر دار کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنے نقصان کوکسی چیز سے پو را نہیں کرسکتا۔  سعادت حسن منٹو کی فنکاری کا عروج وہاں ہے جہاں سلیمہ کا مسلسل سوچتا ہوا ذہن لا شعور کے اندھیرے سے چھوٹے چھوٹے چوہوں کو نکالتا رہتا ہے۔ ‘‘( شاہ دولے کا چوہا۔ ایک تجزیہ،  ڈاکٹر شکیل الرحمن،  مطبوعہ :تکمیل بھیونڈی،  منٹو کی یاد میں خصوصی شمار،  ۲۰۱۰ء؁)

سوگندھی جو ایک طوائف کی زندگی گزارتے ہوئے انسانوں کی خود غرضی اور مکّاری کے تجربات سے گزر کر تمام انسانوں سے بے زار ہو جاتی ہے اور سب سے ناتہ توڑ بیٹھتی ہے۔  کمار پاشی اس سلسلے میں رقمطراز ہیں :

’’سوگندھی ایک طوائف ضرور ہے کہ اپنے جسم کا کا روبار کر تی ہے لیکن مکّار نہیں۔  اس کی روح میں ویسی ہی روشنی ہے جو کسی آدرش ہندوستانی عورت کی آ تما میں ہو تی ہے۔  در اصل سو گندھی ایک مجبور اور بے بس عورت ہے۔  ایک مظلوم عورت، جو سب کچھ بر داشت کر لیتی ہے۔  کبھی اس نے بھی چا ہا تھا کہ اس کے جسم کا ذرّہ ذرّہ ماں بن جائے… سوگندھی اپنی روح میں بسے اجالوں سے اچّھی طرح واقف ہے وہ جانتی ہے کہ اس کا جسم اور اس کی آ تما بالکل الگ شے ہے جسے وہ دام لئے بغیر کسی کو بھی دے سکتی ہے لیکن وہ جو کچھ ہے، جو کچھ اس کے اندر ہے اسے کو ن خرید سکتا ہے کہ وہ تو بیش قیمت ہے۔ ‘‘(سوگندھی: منٹو کی کہانی ہتک کا کر دار، کمار پاشی،  مطبوعہ تکمیل،  ص:۴۵۴)

منٹو کے افسانوں میں کئی طوائفوں کی زندگی کو پیش کیا گیا ہے لیکن یہ مختلف کر دار ہیں جن کی اپنی پہچان ہے۔  منٹو نے میرا نام رادھا، پڑھئے کلمہ، شاردا اور سر کنڈوں کے پیچھے کی مدد سے ہر طوائف کی انفرادی خصوصیت کو بیان کیا ہے۔

ان کر داروں کے حوالے سے ہمیں انسانی زندگی کا مسخ شدہ چہرہ نظر آ تا ہے لیکن منٹو اس پورے منظر نامے میں انسانی روح کے اندر مو جود انسانی جو ہر کی سلامتی کی خبر بھی ان ہی کرداروں کے افعال کی مدد سے دیتا ہے۔ منٹو کے اکثر کر دار سماج کے نا پسندیدہ افراد ہیں لیکن منٹو نے ان کے اندر مو جود نیکی اور خیر کے مادّے تک رسائی حاصل کر کے انھیں ادب کا موضوع بنایا ہے اس کے کر دار انتہائی ناموافق حالات میں بھی غیر معمولی جرات اور زندگی کا ثبوت پیش کر تے ہیں۔  منظور کا کردار زندگی اور موت کی کگار پر موجود ہو نے کے با وجود پورے ہسپتال میں زندگی کی روح پھونک دیتا ہے اور وہاں مو جود زندگی سے ما یوس لو گوں میں جینے کی امنگ پیدا کر کے اس دنیا سے اچانک غائب ہو جا تا ہے۔

کالی شلوار کی سلطانہ جو ایک طوائف ہے،  اس کا محرّم کے مو قع پر کالی شلوار پہننے کی خواہش کرنا اس کی گہری عقیدت کی دلیل ہے۔  رادھا بائی فلموں میں آ کر گلو کارہ بن جاتی ہے اور اپنا نام الماس رکھ لیتی ہے کیونکہ وہ رادھا جیسے پوتر نام کو اس ماحول میں نہیں لے جانا چاہتی۔  دودا پہلوان اپنی امرد پرستی کے باوجود لنگوٹ کا پکّا ہے اورجب اپنے محبوب کی مدد کی خاطر اسے طوائف الماس کے ہا تھوں اپنے آپ کو بیچ دینا پڑ تا ہے تو اس سانحہ پر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑتا ہے۔  منٹو کے میلو ڈرامے ’ اس منجھدار میں ‘ سعیدہ اور اصغری کے کر دار اپنے ضمیر کی آ واز پر مختلف انداز میں عمل کر تے ہوئے نظر آ تے ہیں۔  سعیدہ کا شوہر مجید شادی کے دوسرے ہی دن حادثے کا شکار ہو کر اپنے دو نوں پیروں سے محروم ہو جا تا ہے۔  اس کے بعد نئی دلہن سعیدہ کو اس کے فطری تقاضے جن راستوں پر لے جاتے ہیں ان پر اس گھر کی نوکرانی صغریٰ کا بار بار طنزیہ انداز میں حملہ کر نا، دیور امجد کا گھر چھوڑ کر راولپنڈی چلے جانے کے لئے آ مادہ ہو جانا اور سعیدہ کا ان حالات میں بے بس ہو جانا اور آخر میں مجید کا خودکشی کر لینا، خیر اور شر کی کشمکش میں انسانی ضمیر کی آ واز کو منٹو نے انسانوں کے اعمال پر گرفت کر تے ہوئے دکھایا ہے۔

اگر منٹو ان کر داروں کی شکل میں سماج میں پائے جا نے والے انسانو ں کے چہرے اپنے افسانوں  کے پردے پر نمایاں کرنے پر اکتفا کرتا توشاید اسے ادب میں وہ مقام حاصل نہ ہوتا جو ان کر داروں کے پسِ پر دہ صالح انسانی صفات اور انسانی فطرت میں مو جود خیر کے مادّہ کی تلاش کے جذبہ نے عطا کیا۔  کیچڑ میں کنول کی تلاش اور گہرے پا نیوں میں انسانی قدروں کے گو ہرِ آ بدار کی جستجو جو اس منٹو کی فطرت میں شامل تھی آ خر وہی اس کا ہنر ٹھہرا۔

منٹو کے افسانوں اور ڈراموں میں کرداروں کے مکالمے ان کی شخصیت کی مکمّل ترجمانی کرتے ہیں۔ ان مکالموں میں ادبی شان اور غیر رسمی انداز زیبِ داستان کے لئے نہیں ہے بلکہ ان افرادکی اندرونی دنیا میں پیش آ نے والی واردات اور احساسات کا فنکارانہ بیان ہے۔ منٹو نے ان کر داروں کو اس انداز سے سنوارا ہے کہ وہ اپنی بشری کمزوریوں کے با وجود اپنی فطری سادگی اور انسانیت کے سبب ہمارے دل کو چھو لیتے ہیں اور بعض کر دار ہمیں اندر تک جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

مراٹھی ادیب سانے گروجی

 

مراٹھی کے مشہور ادیب سانے گروجی ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ایک مجاہدِ آزادی،  سوشل ریفارمر،  شفیق استاد اور ایک بہترین انسان تھے ان کے حالاتِ زندگی پر نظر ڈالنے سے اس بات کی صداقت کا یقین ہو جاتا ہے کہ ایک بہترین ادیب بہترین انسان بھی ہوتا ہے، انسانی ہمدردی اور انسانی زندگی کو سنوارنے کا جذبہ ان کی تحریروں کی امتیازی خصوصیت ہے جو بحیثیت ادیب مقبولیت کا سبب بھی ہے۔ آج بھی ان کی کہانیاں،  مضامین اور ناول درسی کتابوں میں شامل ہیں اور طلباکی ذہنی و اخلاقی تربیت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔

سانے گروجی کا پو را نام پانڈورنگ سدا شیو سانے تھا۔ وہ پالگڑ ھ ضلع رتنا گیری (مہاراشٹر) میں ایک غریب،  مہذب برہمن گھرانے میں پیدا ہوئے۔ غربت کے با وجود انھوں نے مشکلات کا سامنا کر تے ہوئے بی اے کی ڈگری حاصل کی اور بعد میں فلسفے میں ایم اے کیا۔  ایک دیہات کے اسکول میں بحیثیت مدرّس خدمات انجام دینے کے علاوہ وہ طلباکے ایک ہوسٹل کے وارڈن بھی رہے ان کی بنیادی دلچسپی طلباکی کر دار سازی میں تھی اسی لئے انھوں نے بچّوں کے لئے اخلاقی قدروں پر مبنی کہانیاں لکھیں اور تدریس کے علاوہ اپنی تحریروں کے ذریعے طلبامیں تعمیری ذہنیت پیدا کر نے کی کوشش کی۔ انھوں نے ’ودھیارتھی‘ نامی ایک رسالہ بھی شائع کیا تھا۔ بچّوں کے لئے لکھی گئی ان کی کتاب’’ شیام چی آئی‘‘ (شیام کی ماں ) اور’’ دھڑ پڑ ناری مولے ‘‘( جدوجہد کر نے والے بچّے ) کو مراٹھی کے ادبِ اطفال میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔

سانے گروجی نے اپنا قلمی سفر شاعری سے شروع کیا، جب وہ اسکول میں تھے ان کی نظموں کا اہم موضوع ان کی والدہ تھی جن سے وہ والہانہ محبّت کیا کرتے تھے۔  اس کا ثبوت ان کی مشہور تصنیف شیام چی آئی( شیام کی ماں) ہے۔ سانے گروجی کی والدہ نہایت شفیق اور مہربان خاتون تھیں انھوں نے جو اخلاقی قدریں سانے گروجی کو دیں اس کے اثرات ان کی شخصیت پر تاحیات قائم رہے۔  وہ اپنی والدہ سے بہت متاثر تھے۔  شیام چی آئی کو سانے گروجی کا شاہکار تسلیم کیا جا تا ہے جس میں انھوں نے ایک مثالی ماں کاکر دار پیش کیا ہے جو بہترین انداز میں اپنے بچّے کی تربیت کر تی ہے اور ہر قدم پر اس کی رہنمائی کر تی ہے۔

’’شیام کی طبیعت کچھ خراب تھی۔ رام نے کہا : ’’شیام! آ ج تم کہانی نہیں سنا سکتے ہو تو کوئی بات نہیں جا ؤ آرام کرو۔‘‘

’’میرے بھائی ! ماں کی یاد تو سارے دکھوں کی دوا ہے۔ آ ج تو مجھے ماں کی ایک بڑی پیاری بات یاد آ گئی بیٹھو سب لوگ‘‘۔  یہ کہہ کر شیام نے اپنی کہانی بیان کر نا شروع کی۔ ‘‘( شیام کی ما ں،  ترجمہ، یونس اگاسکر، مطبوعہ آٹھویں جماعت کے لئے اردو کتاب’’بال بھارتی‘‘ پونہ)

اس ناول میں کوکن کے ایک غریب خاندان کی کہانی بیان کی گئی ہے جو قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ اس گھر میں شیام کی ماں اپنے بچّوں کو ایمانداری اور نیکی کی تعلیمات سے آراستہ کر تی ہے اور انھیں زندگی کی مشکلات کا سامنا کر نا سکھاتی ہے۔  اس کتاب پر مراٹھی میں فلم بنائی جا چکی ہے اور اس کتاب کا اردو میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے۔

سانے گروجی نے شیام کی ماں کا کر دار نہایت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔  شیام کی ماں میں جو خوبیاں اس ناول میں نظر آ تی ہیں وہ ہماری دیہی زندگی اور اس سے جڑے لو گوں کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔  دیہات میں پائی جا نے والی سادگی،  ہمدردی،  ایثار اور لو گوں کے دکھوں میں شریک ہو نے کا جذبہ شیام کی ماں کے کر دار کی امتیازی خوبیاں ہیں جنھیں سانے گروجی نے اپنے پر اثر انداز میں بیان کیا ہے:

’’شیو رام نے درختوں کو پانی دیا۔ جا نوروں کا دودھ دوہا مگر گائے کا دودھ ماں ہی نے دوہا۔  پھر شیورام گھر جا نے کے لئے تیار ہو گیا۔  شام کو ماں نے مجھے ہری چائے کی پتّی لانے کے لئے کہا تھا۔  ہمارے ہاں آ نگن میں تلسی کے آ س پاس ادرک اگائی گئی تھی۔ وہیں سے ماں نے ادرک نکالی اور شیو رام سے کہا: ’’ شیو رام! یہ ہری چائے اور ادرک کا ٹکڑا لے جا۔ گھر جا کر ادرک کا کاڑھا بنا،  اس میں دھنئے کے چار دانے اور پیپل کا پتّہ ڈال اور چائے بنا کر اپنی ماں کو گرم گرم پلا دے اس کے بعد اسے چادر اڑھا دینا۔ تھوڑی دیر بعد پسینہ آئے گا اور تپ اترجائے گی۔ ذرا ٹھہر مصری کی دو ڈلیاں بھی لیتا جا۔ ‘‘ یہ کہہ کر ماں گھر کے اندر گئی اور مصری لے کر با ہر آئی۔  شیو رام وہ ساری چیزیں لے کر چلا گیا۔ ‘‘(شیام کی ماں، ترجمہ یونس اگاسکر،  مطبوعہ آٹھویں جماعت کے لئے اردو کتاب ’’بال بھارتی‘ ‘پو نہ)

سانے گروجی نہ صرف زبر دست تخلیقی صلاحیتوں کے مالک تھے،  بلکہ سماج کے سچّے ہمدرد بھی تھے۔  انسانیت کی خدمت کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔  اس زمانے میں پنڈھر پور کے مندر میں ہریجنوں کا داخلہ ممنوع تھا۔ سانے گروجی نے اس سماجی نا انصافی کے خلاف احتجاج کیا اور مرن برت رکھا۔  ان کی یہ کو شش کامیاب ہوئی۔  اس وقت مہاتما گاندھی نے اپنی ایک تقریر کے دوران اس کا اعتراف کیا تھا کہ اس مندر میں ہریجنوں کا داخلہ ممنوع تھا،  سانے گروجی کی کو شش سے یہ پا بندی ہٹائی گئی ہے۔

سانے گروجی کے والد،  بھاؤ راؤ آزادی کی لڑائی میں شریک تھے۔ سانے گروجی نے بھی اپنی ملازمت چھوڑ کر تحریکِ آ زادی میں حصّہ لیا تھا۔  وہ مہاتما گاندھی اور ودھیا دھر گوکھلے کی شخصیت سے حد درجہ متاثر تھے ودھیا دھر گوکھلے کی سوانح عمری بھی سانے گروجی نے لکھی تھی۔  گاندھی جی کی تعلیمات کو سانے گروجی نے اپنی تحریروں کے ذریعے عوام تک پہنچانے کی کو شش کی۔

سانے گروجی کو ڈانڈی مارچ کے دوران گرفتار کر کے دھولیہ جیل میں قید کر دیا گیا تھا جہاں انھوں نے پندرہ مہینوں سے زیادہ وقت قید و بند میں گذارا۔  دھولیہ، ناسک اور تِروچی کی جیلوں میں قید و بند کے دوران انھوں نے تامل اور بنگالی زبانیں سیکھیں، ٹیگور اور ٹالسٹائی کی تحریروں کو مراٹھی میں ترجمہ کیا۔  سانے گروجی ایک بہترین مقرر بھی تھے۔  جیل میں وہ ہر صبح بھگوت گیتا پر پروچن بھی دیا کر تے تھے،  بعد میں اسی کو انھوں نے کتابی شکل دے کر’’گیتا پروچنے‘‘ کے نام سے شائع کیا۔

سانے گروجی بنیادی طور پر صلح کل نظریہ کے حامی تھے اورتمام مذاہب کا احترام کیا کر تے تھے۔ انھوں نے مذہبِ اسلام اور حضرت محمّد ﷺ کی حیاتِ طیّبہ کومراٹھی داں طبقہ سے روشناس کر وانے کی غرض سے ’اسلامی سنسکرتی ‘نامی کتاب لکھی جس میں نبیِ کریم ﷺکی بعثت سے قبل کے حالات بیان کر تے ہوئے اسلامی تعلیمات کو بیان کیا گیا ہے اس کتاب پرمراٹھی ادب کی ایک معروف شخصیت آچاریہ ونوبا بھاوے نے اظہارِ خیال کر تے ہوئے اس کے پیش لفظ میں لکھا تھا :

’’ سانے گروجی نے حضور ﷺکی یہ سوانح عمری اس خلوص اور عقیدت سے قلمبند کی ہے جس کی توقع کسی راسخ العقیدہ مسلمان ہی سے کی جا سکتی ہے‘‘۔

سانے گروجی کا یہ کارنامہ یقیناقابلِ تحسین ہے کہ جن موضوعات پر عوام میں اور خاص طور پر مراٹھی داں طبقہ میں اسلام کے متعلق غلط فہمیاں عام ہیں، انھوں نے ا ن شکوک و شبہات کو دور کر نے اور لوگوں کے ذہن کو صاف کر نے کی کوشش کی ہے۔  حضور ﷺ کی ازواجِ مطہرات کے متعلق لکھتے ہیں :

’’ حضرت محمّد ﷺ کے ان نکاحوں کامقصد مصلحتوں پر مبنی تھا۔  کہیں ہمدردی کی وجہ سے،  کہیں فرض کے سبب، کچھ ابتدائی دور کے ساتھیوں کے دل نہ دکھیں اس لئے تو کبھی مختلف ذاتوں اور قبیلوں کی برسوں سے چلی آ رہی لڑائیوں کو ختم کر نے کی غرض سے آپ ﷺنے نکاح کئے،  جس کی وجہ سے کئی قبیلوں میں اتحاد پیدا ہوا،  برسوں کی دشمنیاں محبّت میں بدل گئیں اور ایک متحد عرب ملک وجود میں آیا۔ ‘‘( مسلم سنسکرتی، ص:۱۵۶ )

یہ کتاب جسے مراٹھی زبان میں سیرت کی کتابوں میں خصوصی اہمیت حاصل ہے،  دو جلدوں میں شائع ہوئی تھی۔ سانے گروجی اس سلسلے کو آگے بھی جا ری رکھنا چاہتے تھے لیکن یہ ممکن نہ ہوا۔

سانے گروجی نے ۳۷ کتابیں مراٹھی ادب کو دیں جن میں شاعری، کہانیاں، نظمیں،  سوانح اور مضامین جیسی متنوع اصناف شامل ہیں۔  اس سے ان کی تخلیقی صلاحیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔  ان کی نگارشات میں اس دور کی دیہی زندگی اور علاقۂ کوکن کے قدرتی مناظر کا دلکش بیان اور جزئیات نگاری ان کی تحریروں کا ایک امتیازی وصف ہے۔ اخلاقی قدروں اور مذہبی تعلیمات کو متوازن اور تعمیری پیرائے میں انھوں نے عوام تک موثّر انداز میں پہنچانے کی کامیاب کو شش کی ہے۔  ان کی کہانیاں دلچسپ اور بچّوں کی نفسیاتی ضرورتوں کو پورا کر تی ہیں۔ ان کا اندازِ بیان سادہ اوردلکش ہے ان کے اسلوب کی اسی خوبی نے انھیں بچّوں کا مقبول ادیب بنایا۔

سانے گروجی ایک حساس طبیعت کے مالک تھے۔  گاندھی جی کی موت نے انھیں زبردست صدمہ پہنچایا۔  اس کے بعد وہ ٹوٹ سے گئے۔  ۱۱ جون ۱۹۵۰ء؁  کو مراٹھی کے اس مایہ ناز ادیب کا انتقال ہو گیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

س۔  یونس انکشاف کے آئینے میں

 

گذشتہ دنوں میرے ایک دوست جو کسی اسکول میں ٹیچر ہیں،  چند شعراء کے مجموعے ڈھونڈتے پھر رہے تھے تاکہ الوداعی جلسے میں طلباکو وہ ایسے اشعار دے سکیں جو اساتذہ پر چسپاں کئے جا سکیں۔ میرے پاس شاعری کی ایک نئی کتاب آئی تھی، میں نے انھیں تھما دی۔  چند دنوں بعد موصوف سے ملا قات ہوئی تو فرمانے لگے، شکریہ، اسی ایک کتاب میں اتنے اشعار نکل آئے کہ کسی اور شعری مجموعہ کو دیکھنے کی نو بت نہیں آئی۔ میں یہ سن کر حیران رہ گیا کہ کسی شعری مجموعہ کی اس سے زیادہ تحسین اور کیا ہو سکتی ہے اور کسی شاعر کے فکری تنوّع اور بو قلمونی کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو گا کہ اس میں اتنے اشعار مل جائیں جو سو پچاس لو گوں کی نذر کئے جا سکیں۔ یہ شعری مجموعہ’’ انکشاف‘‘ تھا، جس کے خالق پروفیسر س۔ یو نس ہیں جو اب اس دنیا میں نہیں رہے۔

س۔  یو نس کی شاعری کا یہی دم خم ہے کہ شاعر کی بے نیازی اور نام و نمود سے بے گانگی کے باوجود ان کی آ واز جب ابھرتی ہے تو ان کی شاعری کا جا دو سرچڑھ کو بولتا ہے۔ اردو کے ادبی حلقوں میں انھیں ایک معتبر مقام حاصل ہے۔

خواہا ں یہ کیسے لوگ ہیں نام و نمود کے

لالے پڑے ہوئے ہیں یہاں تو وجود کے

 

وقت وعدوں کا سخت دشمن ہے

آدمی بے وفا نہیں ہوتا

 

میں ہر نفس اسیرِ زماں و مکاں نہ تھا

محدود اس قدر کبھی میرا جہاں نہ تھا

 

غلطاں رہے سراب کی طغیانیوں میں لوگ

اک میں ہی اپنے آپ میں ڈوبا تو بچ گیا

اسی قبیل کے کئی اشعار ہیں جو انھیں اپنے ہم عصر جدید شاعروں میں نمایاں مقام عطا کر تے ہیں۔ فنکار کا وجود جدیدیت کی تحریک کامحور رہا ہے۔ اسی کے ساتھ اپنے عہد کا تبدیل شدہ چہرہ بھی اس کی شاعری کے آئینے میں منعکس ہوا ہے۔

چلن رہا نہیں جینے کا اب زمانے میں

لگے ہوئے ہیں سبھی زندگی بنانے میں

 

کوئی کسی کو نہیں مارتا سرِ مقتل

یہ کام ہو تا ہے دفتر میں کا رخانے میں

اشاعت سے دور رہنے کے سبب ممکن ہے۔  س۔ یو نس کو اردو کے جدید شعراء میں وہ مقام نہ مل پایا ہو جس کے وہ اپنے شعری تخلیقات کی بنا پر مستحق تھے، لیکن یہ سچ ہے کہ جدید شاعری جس انکشافِ ذات اور وجود کی پر اسرار وادیوں کی سیر کر تی رہی ہے ان میں سے اکثر مقامات س۔  یو نس کے شعری سفر میں دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے اوّلین شعری مجموعے ’’انکشاف‘‘ سے بھی یہ لطف اشارہ ہوتا ہے کہ شاعر نے اپنے انداز سے اس کائنات کو دیکھا ہے اور بر تا بھی ہے۔ وہ اپنے مخصوص نقطۂ نظر کو شاعری کے وسیلے سے تخلیقی انداز میں پیش کرنے پر پو ری طرح قادر ہیں۔

کچھ ایسی کا شفِ اسرار ہو گئیں آ نکھیں

جو میرے سامنے آ یا وہ بے لباس ہوا

 

اکیلے جھیلتا رہتا ہوں دکھ بصیرت کے

ہو جیسے کوئی پیمبر بغیر امّت کے

 

میں تو لمحات کا بکھرا ہو شیرازہ ہوں

سوزنِ عمر سے کیوں مجھ کو سیا جاتا ہے

ان کے شعری مجموعے انکشاف میں جدید یت کے مروجہ موضوعات ہیں لیکن تلاشِ ذات میں ہو نے والے انکشافات ہی س۔  یو نس کا اصل سر مایہ ہیں۔  موضوعات کے اعتبار سے ان کی شاعری ایک مثلّث بناتی ہے۔  ایک سرے پر شاعر ہے، دوسرے پر خالقِ کائنات اور تیسرے سرے پر سماج۔ ان تینوں نکات نے شاعر کی فکر کو مہمیز کیا ہے اور گہرائی بھی عطا کی ہے۔ زندگی کا بھر پور شعور اور اپنے عہد کی دھڑکنیں ان اشعار میں روں دواں ہیں شب و روز کا تماشا شاعر کی حیران نظرو ں سے بار بارخا  لقِ کائنات کی طرف لے جا تا ہے۔

انجامِ ’کن‘ طویل ہے کچھ اختصار کر

کر نا ہے جو بھی جلد اے پر وردگار کر

 

دنیا میں بھی ہے پر سشِ اعمال ہر طرف

بہتر ہے مجھ کو عرصۂ محشر میں ڈال دے

خالق اور مخلوق یہ دونوں سرے شاعر کی ذات کا حصّہ ہیں جہاں محسوسات کی زمیں پر یہ سارا ڈراما کھیلا جا رہا ہے۔ تلاشِ ذات کا یہی سفرہے جو ان دونوں نقاط سے مل کر نئے ابعاد کو جنم دیتا ہے۔ اس کے شواہد س۔  یونس کی شاعری میں قدم قدم پر ملتے ہیں۔

ہوں یرغمال خود اپنی اناکے ہا تھوں میں

چھڑا لے کوئی مجھے بھیج کر خراج مرا

 

وبالِ جاں سہی باہر کی زندگی یونس

ابھی مگر میرے اندر ہے صرف راج مرا

 

نہ میں زمیں سے الگ ہوں نہ آ سماں سے الگ

میرا جہان ہے پھر بھی تیرے جہاں سے الگ

س۔  یونس کی شاعری کے آئینہ خانے میں جہاں ان کی ذات کے حوالے مو جود ہیں وہیں باہر کے مناظر بھی ایک دلکش زاویے سے نمایاں ہیں۔ اس اظہار میں زندگی کا گہرا مشاہدہ،  سماج کا گہرا تجزیہ، درد مندی،  دل سوزی اور گاہے بگاہے طنز کے نشتر بھی بروئے کار لائے گئے ہیں۔

صر ف اس لئے کہ تجھ سے کچھ اونچا ہے میرا قد

تو اپنے دشمنوں میں نہ مجھ کو شمار کر

 

قتل کر نا ہو تو کب زہر دیا جاتا ہے

آج کل بس نظر انداز کیا جاتا ہے

 

چند دن خود کو برتنے کے ہیں ورنہ پھر تو

زندگی آپ ہی اوڑھے گی، بچھائے گی تجھے

س۔ یونس نے اپنے خیالات کو جس طرح نرم اور مہذّب انداز میں شعری پیکر عطا کئے ہیں،  وہ ان کے شاعرانہ اسلوب کا ایک اہم وصف ہے۔ ان کے شعری مجموعے انکشاف پر اظہارِ خیال کر تے ہوئے عنوان چشتی رقمطراز ہیں :

’’شاعر نے روایت سے روشنی، تجربے سے تازگی اور ہمعصر زندگی سے تاثر قبول کیا ہے۔ اس نے نئے انسان کی سائکی، نئی زندگی کے تاثر اور نئے دور کے مسائل کو غزل کی جمالیات کے احترام کے ساتھ اردو شاعری کی مہذّب زبان میں پیش کیا ہے۔ ‘‘( س۔  یونس کی شاعری، ڈاکٹر عنوان چشتی، انکشاف، ص:۲۰)

س۔ یو نس کے متعلق عبد الرحیم نشترلکھتے ہیں :

’’ان کے یہاں تجربے کی تازگی ہے جسے وہ بیان کی سادگی کے ساتھ ظاہر کر تے ہیں اور صحتِ زبان کو مجروح نہیں ہو نے دیتے۔ تمام فنّی لسانی اور عروضی اصولوں کا احترام بھی ان کے یہاں پایا جاتا ہے۔  اس کے با وجود ان کے یہاں شعر کہا نہیں جا تا،  ہو جا تا ہے۔ اور شعر کا از خود ہو جانا ہی شاعر کی ذات و کائنات کا انکشاف ہے۔ ‘‘(آج کی پرچھائیوں کا شاعر،  از عبد الرحیم نشتر،  ماہنامہ اسباق،  جون ۲۰۰۴ء؁،  ص:۶۶)

جدید شاعری ابہام اور مخصوص اندازِ فکر کے سبب مشاعروں میں داد پانے والی شاعری سے مختلف ہوا کرتی ہے۔ مشاعروں میں مفاہیم کی فوری ترسیل سامع کے ہو نٹوں پر واہ واہ اور بہت خوب جیسے الفاظ لے آ تی ہے۔ س۔  یونس کی شاعری کا یہ اعجاز ہے کہ اس میں تقریر کی وہ لذّت بھی مو جود ہے کہ سامع بے اختیار یہ کہہ اٹھے کہ یہ بھی میرے دل میں ہے اور اسی کے ساتھ شاعر کے اپنے منفرد احساسات کا فنکارانہ اظہار بھی ہے۔  س۔  یو نس کی غزلوں میں مطلع بھی اپنے اندر ایک جاذبیت لئے ہوئے ہیں۔

پاس آتے ہی خواب ہوتا ہے

وہ کہاں دستیاب ہوتا ہے

 

آدمی خود اپنی جانب مائلِ پر واز ہے

یہ نہ جا نے کس سفر کا نقطۂ آغاز ہے

 

چلن رہا نہیں ’جینے‘ کا اب زمانے میں

لگے ہوئے ہیں سبھی زندگی بنانے میں

س۔  یو نس کی شاعری فکری تنّوع کے ساتھ روایتی اور جدید شاعری کا سنگم ہے جس میں شاعر نے ان بے نام سے عوامی جذبات اور تجربات کو بھی مخصوص لب و لہجہ عطا کیا ہے،  جس کی تلاش زبانِ خلق کو بھی ہے اسی لئے ان کے بیشتر اشعار لوگوں کی زبان پر چڑھ جا تے ہیں اور دل میں اتر جا تے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

طرفہ قریشی

 

علاقۂودربھ میں جن شعرا نے مشاعروں کی شاعری کو اعتباربخشا اور اسی کے ساتھ رسائل و کتب کے ایوان میں اسے مقبولیت سے ہمکنار کیا ان میں طرفہ قریشی ایک اہم نام ہے۔  طرفہ قریشی کی شاعرانہ عظمت،  ان کی قادر الکلامی اور مختلف اصنافِ سخن پر طبع آزمائی تک محدود نہیں ہے انھوں نے تخلیقی صلاحیت رکھنے والے ایک طبقے کی اصلاح و تربیت کا فریضہ بھی جس خلوص اورتندہی سے انجام دیا اسے بھی ان کے ادبی کارناموں میں شمار کر نا چاہئے۔ طرفہ قریشی کے متعلق نیاز فتح پو ری رقم طراز ہیں :

’’جناب طرفہ قریشی وسط ہند کے ممتاز،  خوش گو،  خوش فکر شاعر ہیں۔  جو کچھ کہتے ہیں ’’کارآگہانہ‘‘ طریقے سے کہتے ہیں۔  ‘‘

وحشت کلکتوی نے انھیں ان الفاظ میں دادِ سخن دی ہے :

’’جناب طرفہ قریشی کے کلام کا مطلب واضح طور پر سمجھ میں آ تا ہے نہ فقط سمجھ میں آتا ہے بلکہ اس سے دل کو کیف و سرور کا احساس ہو تا ہے۔ ‘‘( نصف النہار، از طرفہ قریشی، ص:۱۵)

ماہنامہ’’سازِ سرمدی‘‘دہرہ دون کے حضرت طرفہ قریشی نمبر میں طرفہ قریشی کے ہندوستان بھر میں پھیلے ہوئے ۱۲۳ شاگردوں کے نام شائع ہوئے تھے۔ طرفہ صاحب نے نہ صرف اپنے تلامذہ کے کلام کو فنی اعتبار سے سنوارا بلکہ اسے زیورِ طبع سے آ راستہ کر نے میں بھی کوشاں رہے۔ طرفہ قریشی کی پہلی تصنیف ’’طورِ رخشاں ‘‘۱۹۴۶ء؁  میں شائع ہوئی جس میں سی پی اور برار کے شعراء کو متعارف کر وایا گیا تھا۔  ابھر تے ہوئے فنکاروں کی قدر دانی کا یہ فریضہ طرفہ صاحب نے ان رسائل کے ذریعے بھی انجام دیاجن کی ادارت سے وہ وابستہ رہے۔  خاص طور پر ’’الوارث‘‘ بمبئی،  ’’سازِ سرمدی ‘‘ اور ناگپور سے شائع ہو نے والا ان کا رسالہ ’’ فیروز‘‘ جو زیادہ عرصے تک جاری نہ رہ سکا۔

ہمارے معاشرے میں عام طور پر ہنرمندوں کی پذیرائی ان کے جیتے جی نہیں کی جا تی، ان کے جانے کے بعد آنسو بہائے جا تے ہیں۔  طرفہ قریشی اس معاملے میں خوش نصیب ثابت ہوئے کہ ان کی شہرت ان کی زندگی ہی میں علاقائی چار دیواری سے باہر نکل کر ہندوستان گیر پیمانے پر پھیل گئی تھی۔  ادب کی خدمت کا بیڑا اٹھانے والے ادیبوں کی جان کو جو مسائل لگے ہو تے ہیں ان کے ساتھ بھی تھے لیکن اردو زبان سے بے پناہ محبّت اور جذبۂ ایثار نے اس سنگِ گراں کو ہٹادیا۔  خود کہتے ہیں :

زیست اپنی بہتے پانی کی طرح جب ہو گئی

جتنے پتّھر راہ میں تھے راستا دینے لگے

طرفہ قریشی کا مجموعۂ کلام ’’پہلی کرن‘‘ ۱۹۵۲ء؁  میں منظرِ عام پر آ یا سنا ہے اس کی اشاعت کے لئے انھوں نے اپنا گھر فروخت کر دیا تھا۔  ان کے شعری مجموعہ ’’ نصف النہار‘‘ کا انتساب درج ذیل ہے:

’’ان غریب و مفلس شعراء و ادباء کے نام جو اپنے افکارِ لطیف کی طباعت و اشاعت کی حسرتیں لے کر دنیا سے پر دہ کر گئے ہیں۔ ‘‘

اردو زبان سے محبّت کے زبانی دعوے کو انھوں نے دلیل فراہم کر دی اور کرائے کے مکان میں رہنے لگے تھے، گو یا انھوں نے اپنے لئے وہی مقام چن لیا تھاجو اردو زبان کو حاصل ہے۔  ہندوستان میں لگتا ہے آ ج بھی اردو کرائے کے مکان ہی میں رہ رہی ہے اپنی آ نکھوں میں اپنے مکان کا خواب سجائے ہوئے۔ یہ اوربات کہ اکثر خادمانِ اردو جنھوں نے اس کے سر پر کرائے کی چھت مہیا کر رکھی ہے وہ اپنا کرایہ برابر وصول کر لیتے ہیں۔

سناہے رسالہ’’فیروز ‘‘کی اشاعت کا زمانہ ہو یا شاگردوں کے کلام کی اصلاح کی مصروفیات،  ان سر گر میوں نے ان کے چہرے کو ہمیشہ تر و تازہ رکھا۔  آئیے طرفہ قریشی کے حالاتِ زندگی پر ایک نظر ڈالتے چلیں۔

طرفہ قریشی بھنڈارہ میں پیدا ہوئے، تلاشِ روزگار انھیں ناگپور لے آئی اور پھر وہ یہیں کے ہو رہے۔ ان کے والد صاحب کے اچانک انتقال کے سبب ان کی تعلیم کا سلسلہ ختم ہو گیا۔  ان کے سات بھائی بہن تھے۔ ان کی والدہ نے بڑی مشقت سے ان سب کی پر ورش کی۔  طرفہ قریشی نے ناگپور کے مختلف مدارس میں تدریس کے فرائض انجام دئے۔ ۱۹۵۵ء؁  میں انجمن اردو پرائمری اسکول، گانجہ کھیت میں ان کا صدر مدرس کی حیثیت سے تقرر ہو گیا۔  اسی دوران انھوں نے جامعہ علی گڑھ سے ادیب، ادیب ماہر اور ادیب کامل کے امتحانات بھی پاس کئے۔

طرفہ قریشی ابتدا میں اپنے وطن بھنڈارہ میں منعقد ہو نے والے مشاعروں میں شریک ہوا کرتے تھے۔  لیکن ان کے اندر چھپا شاعری کا بھنڈار کھلا ناگپور میں آ کر۔ کامٹی کے مولانا حافظ انور صاحب سے مشورۂ سخن کیا۔ کامٹی کے ایک مشاعرہ میں سنایا گیا ان کا کلام ماہنامہ شاعر میں شائع ہوا اور اسی رسالہ کے کالم اصلاحِ سخن کے ذریعے طرفہ قریشی علامہ سیماب اکبر آ بادی کے تلامذہ میں شامل ہوئے۔  ۱۹۴۵ء؁ میں انھوں نے اپنے ایک سو دس شاگردوں کو استادی سے سر فراز فرمایا۔  طرفہ قریشی کے ابتدائی حالاتِ زندگی مصائب و آ لام سے پر رہے۔ آخر زمانے میں بھی مختلف امراض اور خانگی پریشانیوں نے انھیں چین نہ لینے دیا۔  ان کی غزلوں میں اسی غم کے سائے جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔  ان حالات نے انھیں شکوۂ غم ِ حیات پر مائل کر نے کے بجائے ایک مثبت رویہ عطا کیا۔

ذرا سے غم سے ملول ہونا نہیں ہے اہلِ وفا کا شیوہ

الم میں بھی مسکرانا سیکھو رہو گے شکوہ گزار کب تک

اسی غم کو زندگی کی ایک حقیقت تسلیم کر کے رازِ حیات تک رسائی حاصل کی ہے۔

غم سے بھی کس امید پر انساں کرے نباہ

یہ بھی خوشی کی طرح بے ثبات ہے

اپنے کلام میں جدّت و ندرت کی کار فرمائی کا احساس اور میرؔکے انداز کی آ رزو اس شعر میں ملاحظہ فر مائیں :

فکر میں طرفہ تمہاری جدّت و ندرت سہی

ہاں مگر انداز لاؤ گے کہاں تم میرؔ سا

مختلف شاعر وں کے ہاں ندرتِ خیال کی سطحیں مختلف ہو ا کر تی ہیں طرفہ قریشی کی شاعری میں روایتی موضوعات کو نئے انداز سے برتنے کی کوشش نظر آ تی ہے۔  اندازِ میرؔ کی تحسین اور آرزو کے باوجود طرفہ قریشی کا زندگی کو دیکھنے کا انداز الگ ہے۔ میرؔ کی دل گرفتگی اور افسردگی کے بجائے زندگی کے تئیں ان کا رویّہ امید افزا ہے۔ تاریک پہلوؤں کی منظر کشی کے بجائے ان کے پسِ پشت موجود امید کی کرن دیکھنے کا حوصلہ ان کے کلام میں جا بجا نظر آتا ہے۔

آندھیوں سے میں نے پائی قوتِ پروازِ شوق

لائے ہیں اڑ کر بگولے بال و پر میرے لئے

 

کہہ رہے ہیں بگولے اٹھ اٹھ کر

اوجِ ہستی اسی غبار میں ہے

 

شبنم کا دل کرید رہی ہے شعاعِ مہر

پھوٹیں گے برگِ گل سے اجالے بہار کے

 

آئیں کھیلیں میری موجوں سے سفینے غم کے

جس میں طوفاں نہیں آتا وہ سمندر ہوں میں

طرفہ قریشی کا اوّلین مجموعۂ کلام ’’پہلی کرن‘‘، اپنے نام ہی سے یہ ظاہر کر تا ہے کہ یہ ایک ایسے شخص کا کلام ہے جو زندگی کی مثبت قدروں پر یقین رکھتا ہے۔

چل رہی تھی نور کی موجوں پہ کشتیِ حیات

قلزمِ ہستی میں انوارِ خودی کا جوش تھا

طرفہ قریشی کی زندگی میں شائع ہو نے والا ان کا آ خری شعری مجموعہ ’’نصف النہار ‘‘بھی روشنی اور خیر کی اشاعت کا مظہر ہے۔

ان دونوں شعری مجموعوں کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جا تی ہے کہ جہاں ’’ پہلی کرن‘‘ میں مقصدیت اور داعیانہ اسلوب نمایاں ہے وہیں  ’’نصف النہار‘‘کی غزلوں میں روایتی موضوعات سے گریز کر تے ہوئے نئے مسائل اور زندگی کے بدلتے ہوئے منظر نامے کو تخلیق کار نے اپنی فکر کا محور بنایا ہے۔ ان دونوں کتابوں میں فکری اور فنی اعتبار سے ایک ارتقاء نظر آ تا ہے۔

پہلی کرن کے ابتدائی صفحات پر موجود نظموں میں آ زاد ہندوستان میں پائی جا نے والی بے چینی،  امیدوں اور آ درشوں کے ٹوٹنے کا کرب شعر کے قالب میں ڈھل گیا ہے۔ عالمِ نو،  آزادی ملنے کے بعد، جہاں میں ہوں اور نظامِ نو، میں مذہبی اداروں میں پائی جانے والی روحانی کیفیت سے بے گانگی کو بے نقاب کیا ہے۔

چاندی کے روپہلے سکّوں کو قرطاس میں ڈھالا جاتا ہے

پانی کے بجائے پیاسوں کو تیزاب پلایا جاتا ہے

مزدور کی آنکھوں کے حلقے بنتے ہیں امیروں کی عینک

احساس کے میلے پردوں پر یہ کھیل بھی کھیلا جاتا ہے

ان نظموں میں نہ صرف ٹوٹتی قدروں کا نو حہ ہے بلکہ نئے معاشرے کی تعمیر کا پیغام بھی ہے۔ اسی حوالے سے طرفہ قریشی ترقّی پسند تحریک کے حامی تھے لیکن یہ نرم گوشہ ایک بہتر سماج کی تشکیل کی حمایت میں تھا، اشتراکی نظریات کی مکمل وکالت نہ تھی۔ ان کی نظر ایک ایسے معاشرے پر تھی جس میں خالق و مخلوق دو نوں کے حقوق کی ادائیگی کا اہتمام ہو۔

ہو جس میں رضائے بندہ بھی،  مولیٰ کی مشیت بھی شامل

اک ایسا نظامِ نو بزمِ عالم میں مرتب کرنا ہے

مذ ہبی اقدار سے ان کی وابستگی کا تخلیقی ثبوت ان کا شعری مجموعہ ’’فانوسِ حرم‘‘۱۹۸۵ء؁  ہے جس میں ان کا نعتیہ کلام شامل ہے۔ ان نعتوں میں متوازن اور مبالغہ آ رائی سے پاک خیالات کا اظہار ملتا ہے۔ حضو ر ؑکی مدح میں ہمارے بعض شعراء نے حد سے بڑھی ہوئی جذباتیت کے تحت نہ صرف حضرت محمد ؑکی تعلیمات کو نظر انداز کر دیا بلکہ عقائد کے اعتبار سے توحید کے منافی خیالات کو اپنی نعتوں میں پیش کیا ہے۔ طرفہ قریشی نے حضوراکرم ؑکی توصیف میں آپؑ کے پیغامِ رسالت،  آپ کی فکراور مطمحِ نظر کو ملحوظ رکھ کر دینی بصیرت کا ثبوت دیا ہے۔

درِ رسولؑ پہ مرنے کی آرزو کیسی

حیات مانگ کے لائے ہیں ہم مدینے سے

 

اے شرک جا لطافتِ کثرت ادا سے کھیل

ہم کلمہ گو پیمبرِ وحدت نما کے ہیں

 

نہیں مرتے جو ان کے اُسوۂ حسنہ کے عامل ہیں

حیاتِ مصطفی میں زندگی کا ارتقا دیکھا

طرفہ قریشی بنیادی طور پر دبستان آ گرہ سے وابستہ رہے ہیں۔ ان کی قادر الکلامی، حسنِ تخیل، نازک خیالی اور زبان کے استعمال کا سلیقہ ان کے کلام میں شوکتِ الفاظ کی صورت ظاہر ہوا ہے اسی طرح عصری زندگی کے مسائل کی آنچ بھی ان کی غزلوں میں محسوس کی جا سکتی ہے۔  زندگی کو ادب کے آئینے میں پیش کر نے کی سعی ان کی شاعری کو قابلِ مطالعہ بناتی ہے۔

طرفہ ادب برائے ادب کا سبق نہ دو

اب تو ادب حیات کا آئینہ دار ہے

طرفہ قریشی شاعری کو زلفِ گیتی سنوارنے کا ایک وسیلہ خیال کرتے تھے۔ وہ ایک ہاتھ سے روایت کا دامن تھامے رہے اور دوسرا ہاتھ مسائلِ حیات کی گرہیں کھولنے میں مصروف رہا۔  طرفہ قریشی کے ہاں حسن و عشق اور روایتی شاعری کے موضوعات کی کثرت ہے تصوّف سے متعلق یہ اندازملاحظہ فر مائیں :

ہم کو بنا کے آئینہ اپنے جمال کا

کیا کیا نہ ناز اس نے سرِ انجمن کئے

اسی طرح یہ شعر سیاسی نظام پر طنز ہے:

تالے پڑے ہوئے ہیں لبوں پر،  زباں ہے بند

کیا اہتمام جبر ہے،  کیا اختیار ہے

طرفہ قریشی کی شاعری میں زندگی کی ناہمواریوں اور تضادات پر فنکارانہ انداز میں طنز کے نمونے مو جود ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

ناظم انصاری۔  وسط ہند کا ایک منفرد شاعر

 

عام آ دمی دنیا بھر کی الجھنوں،  فکروں اور پریشانیوں سے چند لمحے خو د فراموشی کے ڈھونڈتا رہتا ہے۔ ظالم سماج کے جبر اور زیادتی کو جھیلنے کے سوا وہ کچھ نہیں کر پاتا۔ مزاحیہ شاعر اسے اسی سماجی یا سیاسی نظام پر ہنسنے کے مواقع فراہم کر تا ہے، اس کی دل کی بھڑاس نکالنے کا وسیلہ عطا کر تا ہے یہی   catharsis  مزاحیہ شاعری کو عوام میں مقبولیت سے ہمکنار کر تی ہے،  جیسے سوکھی گھاس کو آ گ پکڑ لیتی ہے۔ ان دنوں ٹی وی پر ہنسانے والے سیریل اور پرو گرام اس کا ثبوت ہیں۔

شہر ناگپور کے شعراء میں طنز و مزاح کو جن شعرا نے وسیلۂ اظہار بنایا ان میں ناظم انصاری،  جملوا انصار ی اور جلیل ساز (منہ پھٹ ناگپوری )، جھاپڑ مسعودخاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔  ہندوستان بھر کے مشاعروں میں شرکت اور مزاحیہ ادب کے مقبول ترجمان ماہنامہ شگوفہ حیدر آ باد میں کلام کی اشاعت کے ذریعے اس علاقہ کے جن لو گوں نے نام کمایا ان میں ناظم انصاری کو سرِ فہرست رکھا جا سکتا ہے۔

شہر حیدر آ باداورلاہور کی زندہ دلی اردو ظرافت میں اپنے نقوش ثبت کر چکی ہے آ زادی کے بعد ودربھ میں بھی نثر اور نظم ہر دو اصناف میں کئی قلمکار ابھرے جنھوں نے اردو کے مزاحیہ ادب میں اپنی پہچان بنائی۔  ناظم انصاری مشاعروں کے وسیلے سے وسط ہند کے ایک مشہور شاعر کی حیثیت سے جانے گئے۔

ان کی شاعری میں ہلکی ہلکی رومانیت،  دلوں کو گد گدا نے والی کیفیت، پر لطف موضوعات،  حالاتِ حاضرہ کو رنگین عینک اور ترچھی نظروں سے دیکھ کر فقرہ کسنے کا نرا لا اندازہے، فقرہ کسنے کے لئے ہزل سے زیادہ مو زوں پیمانہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ اس کے علاوہ انگریزی الفاظ کا چٹخارہ، ان تمام لوا زمات نے ناظم انصاری کی ہزلوں کوقبولِ عام عطا کیا۔  ناظم انصاری ہندوستان بھر میں دور دراز کے مشاعروں میں بلائے جاتے تھے، ان کی شاعری اور مشاعروں کا یہ سفر تا دمِ آخر بر قرار رہا بلکہ بالآخر سفرِ آ خرت کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔  اگست ۱۹۸۵ء؁  میں دہلی کے کل ہند مشاعرہ میں شرکت کے بعد ناگپور واپسی کے سفر میں، ٹرین میں ہی جب وہ آ رام فر ما رہے تھے،  نہ جانے کب اپنی آ خری آ رام گاہ کی طرف چل بسے۔

ناظم انصاری ۲۱؍جنوری ۱۹۲۹ء؁  کو ناگپور میں پیدا ہوئے۔ ان کے جدِّ امجد شیخ دھنّی جن کا آبائی وطن بازارارسیا ( ضلع جون پور) تھا، ۱۸۸۰ء؁  میں کامٹی آ کر سکونت اختیار کی اور رخت سازی کو اپنا ذریعۂ معاش بنایا۔  ناظم انصاری کے چار بھائیوں میں مو من پو رہ ناگپور میں واقع حنیف بک ڈپو کے مالک محمّد حنیف مرحوم اور مشہور ہزل گو شاعر جمال الدین جملوا انصاری بھی ہیں۔

ناظم انصاری نے بچپن میں قرآن مجید ناظرہ ختم کیا،  ان کی تعلیم کا سلسلہ چو تھی جماعت سے آگے قائم نہ رہ سکا۔  ان کے بڑے بھائی محمّد حنیف نے انھیں اپنے کا رو بار میں شریک کر لیا۔  بعد میں ناظم انصاری نے اکولہ میں ایک بک ڈپو قائم کیا تھا لیکن والد صاحب کی علالت کی وجہ سے اسے بند کر دینا پڑا۔  ناگپور میں ایک ریڈیمیڈ کپڑوں کی دکان چلانے کی ناکام کوشش کی اور آ خر کار ایک پرنٹنگ پریس قائم کیا جو ان کا مستقل ذر یعۂ روزگاررہا۔

ناظم انصاری جہاں ایک اچّھے شاعرتھے وہیں، فٹ بال کے اچّھے کھلاڑی،  سر گرم سوشل ورکر،  خوش الحان موذّن، شرع کے پابند اور درد مند دل کے مالک، نیک انسان تھے۔  تصویر میں ان کے چہرے پرصلح کے انوار، آ نکھوں میں ذہانت کی چمک نمایاں ہے۔  ڈاکٹر شر ف الدین ساحل کے بیان کے مطابق:

’’حنیف بک ڈپو میں ہمیشہ رہنے کی وجہ سے ان کو ادبی کتابوں کے مطا لعے کا خوب مو قع ملا اور ان کی طبیعت شعر گوئی کی طرف مائل ہوئی۔  انھوں نے اپنی شاعری کی ابتدا شعر گوئی سے کی۔  آ گے چل کر غزل سے اپنا منہ پھیر کر طنز و ظرافت کا راستہ اختیار کیا۔  ان کے مجموعے ’گو بھی کے پھول ‘ کے مطالعے کے بعد اس حقیقت کو ماننا پڑتا ہے کہ اس کا نصف حصّہ عشقیہ خیالات سے پر ہے۔  ناظم انصاری کی ہز لوں میں کم عمری کے عشق کا مذاق اور معاملاتِ عشق میں پیش آ نے والی مضحکہ خیز صورتِ حال کی عکاسی نمایاں ہے۔  اس میں کہیں کہیں ہلکی سی غم کی جھلک بھی صاف نظر آتی ہے لیکن مجموعی طور پر لطف اندوزی کا پہلو نمایاں ہے۔ ‘‘

چند اشعار ملاحظہ فر مائیں :

دیوانہ اس نے کر دیا اک بار دیکھ کر

ہم کرسکے نہ کچھ بھی لگا تار دیکھ کر

 

عینک لگائے رہتا ہوں رنگین اس لئے

چندھیا نہ جائے آنکھ رخِ یار دیکھ کر

 

ابھی سے آپ کی نظریں جھکی جھکی کیوں ہیں

ابھی تو عمر ہے تیرِ نظر چلانے کی

 

اسی پر سے اندازہ تم سب لگاؤ ہماری محبّت ہے کتنی پرانی

اِدھر آنکھ پر ہو گیا ہے اضافہ ْادھر بال ٹیکنی کلر ہو گئے ہیں

 

دیوانے تیرے بھڑ گئے تبلیغ میں جا کر

اب آ کے لبِ بام کھڑا کس کے لئے ہے

ان اشعار میں شاعر نے ظرافت کا پہلو تھامے ہوئے روایتی عشق کو نئے انداز سے بر تا ہے:

حاصل جو ہوئی مجھ کو جاگیر تیرے غم کی

ٹاٹا نظر آتا ہوں برلا نظر آتا ہوں

 

دردِ دل کی چارہ جوئی کے لئے آتے نہ کیوں

تیری بزمِ ناز کو دا رالشفاء سمجھے تھے ہم

اسی عشق میں شاعر کا سب سے بڑا نشانہ محبوب کے والدِ محترم ہیں جنھیں جا بجا نشانۂطنز بنا یا گیا ہے۔  ان اشعار میں والد کے محبوب کا سراپا اور محبوب کی بے بسی فنکارانہ انداز میں نمایاں ہے۔

دیکھ کر تیرے پتا جی کا جلالی چہرہ

پہلوانوں کے کلیجے بھی دہل جاتے ہیں

 

واقف ہوں ترے باپ کی فطرت سے بخوبی

گلیوں میں تری پہرہ لگا کس کے لئے ہے

 

ہاتھ کی پاؤں کی سر کی یاد آ گئی

مجھ کو جب تیرے فادر کی یاد آ گئی

 

کرم فرما رہے ہیں آج کل پھر گرم جوشی سے

ترے ڈیڈی کا پھر کچھ آئیڈیا معلوم ہوتا ہے

 

میں تیرے ساتھ ترے باپ کو بھی خوش رکھوں

میری بساط سے باہر دکھائی دیتا ہے

ناظم انصاری کی مزاحیہ شاعری میں دو موضوعات اہم ہیں بلکہ یو ں کہا جا سکتا ہے کہ ان کی شاعری کا بڑا حصّہ ان ہی کا طواف کر تا ہے۔  یہ دو نوں موضوعات ایک ہی لکیر کے دو سرے ہیں اس سفر کا مطا لعہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔  محبوب سے بیگم بننے تک کے اس سفرمیں جہاں محبوب سے متعلق اشعار میں رومانی فضا کو مزاحیہ انداز میں بیان کیا گیا ہے وہیں بیگم کے حوالے سے ازدواجی زندگی کی تلخیاں اور حقائق طنز نگار کے نشانے پر ہیں۔

بیگم کی خواہشات ارے باپ کیا کروں

مانگے ہے کائنات ارے باپ کیا کروں

 

کشتی کے بادبان مجھے یاد آ گئے

بیگم تمہاری نو گزی شلوار دیکھ کر

 

ڈاڑھی کا ایک بال بھی باقی نہیں رہا

بیگم یہ کیا ملا دیا تم نے خضاب میں

 

اسے بھی بیچ کے کھالیں گے ایک دن بیگم

تمہارے میکے کا جو پاندان باقی ہے

گو بھی کے پھول کی ہز لوں میں عصری زندگی کی نا ہمواریاں اور انسانی فطرت کے کمزور پہلو بھی پر لطف اندا ز میں اس طرح بیان کئے گئے ہیں کہ ان نا انصا فیوں اور ظلم و زیادتیوں کی خلش صاف طور پر محسوس ہو تی ہے جو ہماری زندگی کا حصّہ بن چکے ہیں۔

دو چار خون کر بھی جو ڈالوں تو میرا کیا

چاچا میرے وکیل ہیں باوا مجسٹریٹ

 

یہ جامہ زیبی تمہاری ارے معاذ اللہ

تمہارا جسم تو کلیر دکھائی دیتا ہے

 

ننگِ تہذیب میں داخل تھا کبھی اے ناظم

آج فیشن میں گنا جاتا ہے عریاں ہونا

 

فیلڈ ہو کوئی کلر اپنا جمائے رکھئے

ٹانگ ٹوٹی ہی سہی پھر بھی اڑائے رکھئے

٭٭٭

 

 

 

 

خورشید آ را بیگم

 

وہ شخصیات یقیناً قابلِ احترام ہیں جنھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے زبان و ادب کی خدمت کی اور خدمتِ خلق کے بھر پو رمواقع بھی انھیں میسر آئے۔ خورشید آ را بیگم بھی ایک ایسی ہی نیک دل خاتون تھیں جنھوں نے اپنی خدا داد صلاحیتوں سے ادب اور سماج کو فیضیاب کیا۔  یہ کارنامہ انھوں نے اس وقت انجام دیا جب معاشرتی حد بندیوں میں ر ہ کر صنفِ نازک کی فلاح و بہبود کے لئے ان کا موں کا کرنا جوئے شیر لا نے کے برابر تھا۔

خورشید آ را بیگم،  مرحوم قاضی قیام الدین کی دختر اور نواب صدیق علی خان مر حوم کی بیگم تھیں۔ نواب صدیق علی خاں ممبر آ ف سینٹرل لجسلیٹیو اسیمبلی، آ نریری فرسٹ کلاس مجسٹریٹ ناگپور،  صدر انجمن حامیِ اسلام، ناگپور، صدرمسلم لیگ ناگپور، سالار آ ل انڈیا مسلم نیشنل گارڈس،  ممبر انڈیپنڈنس کمیٹی مسٹر جناح،  ممبرکونسل آل انڈیا مسلم لیگ، پولیٹیکل سیکریٹری وزیرِ اعظم اول پاکستان، سفیر پا کستان برائے مشرقی افریقہ، ایتھوپیا، عدن، سیلون، سوڈان رہے اور ’بے تیغ سپاہی ‘ کے مصنف تھے۔

خورشید آ را بیگم کو یہ امتیاز حاصل رہا کہ انھوں نے اردو اورفارسی میں یکساں مہارت اور برجستگی کے ساتھ مختلف موضوعات پر طبع آ زمائی کی اور اپنے زمانے کے بعض اہم مسائل کو شعر و سخن کے سانچے میں فنکاری کے ساتھ پیش کیا۔  اسی کے ساتھ طبقۂ نسواں کی تعلیمی ترقّی کی خاطر متعدد سماجی اداروں کے ساتھ انھوں نے جو خدمات انجام دیں وہ بھی قابلِ تحسین ہیں۔

خورشید آ را بیگم کی تعلیم و تربیت میں ان کے والد قاضی قیام الدین نے اہم کر دار ادا کیا۔  اس زمانے میں جب لڑ کیوں کا تعلیم حاصل کر نا معیوب سمجھا جا تا تھا، خورشید آ را بیگم کا پو را خاندان ان کی تعلیم کے خلاف تھا، ان کے والد نے اس کی مطلق پروا نہ کی۔ خورشید آ را بیگم نے آ نرز ان اردو،  فارسی اور انگریزی میں بی اے تک تعلیم حاصل کی۔ منشی فاضل اور ادیب فاضل کے امتحانات بھی پاس کئے۔  چار پانچ سال کی عمر ہی سے ان کے والد انھیں اردو پڑھانے لگے تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ فارسی اپنی مادری زبان کی طرح بولنے لگی تھیں۔  شعراء فارسی کے مطالعے نے انھیں شعر گوئی کی طرف مائل کیا۔ کسی پر مسرّت مو قع پر فارسی میں شعر کہا اور نظم مکمّل ہو گئی تواخبار مدینہ میں اشاعت کے لئے بھجوادیا۔ ان کے والد صاحب نے وہ نظم دیکھی تو بلا کر پوچھا:

’’کیا یہ نظم تمہاری ہے ؟‘‘/خورشید آرا بیگم لکھتی ہیں۔  میں نے سر جھکا کر کہا: ’’جی ہاں۔ ‘‘/’’کسی فارسی شاعر کے اشعار چرا کر اس کی ترتیب تو نہیں کی ؟‘‘/’’ بالکل نہیں۔ ‘‘

اس کے بعد انھوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور نظم کی تعریف کی اور فارسی میں شعر کہنے کے لئے حوصلہ افزائی کی۔  فارسی میں شعر گوئی کا سلسلہ چلتا رہا۔ ۱۹۳۶ء؁  میں ایک فارسی نظم رسالہ ’’عصمت‘‘ میں اشاعت کے لئے بھجوائی تو اس کے مدیر رازق الخیری نے انھیں یہ کہہ کر اردو شاعری کی طرف راغب کیا کہ:

’’اب عام طور پر لو گ فارسی نہیں جا نتے اور آپ کے قلم میں قدرتِ تحریر بدرجۂ اتم مو جود ہے۔ ‘‘

اس کے بعد خورشید آ را بیگم اردو میں شاعری کر نے لگیں۔ فارسی کلام بہت سا ضائع ہو گیا۔  ’آ خری کر نیں ‘ میں اردو کے علاوہ فارسی کلام بھی مو جود ہے۔ ہر دو زبانوں میں مو صوفہ نے متعدد اصناف میں طبع آ زمائی کی۔ ان کی نظم ’’لا الٰہ ا  لّا اللہ‘‘ میں مناظرِ فطرت کے حوالے سے ربِ کائنات کی حمد و ثنا بیان کی گئی ہے:

جمالِ شام و سحر،  لا الٰہ الا اللہ

جلالِ شمس و قمر،  لا الٰہ الا اللہ

 

دھنک کا رنگ،  گلوں کا تبسّمِ شاداب

یہ کوہ و باغ و شجر،  لا الٰہ الا اللہ

 

صبا کے جھونکے،  سمندر کی مضطرب موجیں

سدا ہیں وقفِ سفر،  لا الٰہ الا اللہ

فارسی کلام کا کچھ حصّہ آخری کر نیں میں موجود ہے۔  اس کی ابتدامیں یہ نعت شامل ہے۔

نقطۂ پر کارِ عالم نقش بندِ زندگی

وجۂ خلقِ دو جہاں محبوب ربِ اکبر است

 

عرش و فردوسِ بریں جو لان گاہِ برق تو

خاک پایت کحلِ چشمِ آ سمانِ خضر است

ایک اور فارسی نظم ’’نعت بہ رساں ‘‘ میں عشقِ رسول ؑکی اضطراری کیفیت کا شعری اظہار ملتا ہے:

صبا تیحیتے با مرسلاں برساں

سلام عجز بہ آں عرشِ آستاں برساں

 

نیازِ قلبِ وفا کیش خستۂ جاں برساں

سجودِ ناصیہِ عشق ارمغاں برساں

 

صدائے دردِ تمنائے بے زباں برساں

بگو کہ ہست شب و روز مضطرب خورشید

خورشید آ را بیگم نے اپنے عہد کے حالات سے متاثر ہو کر کئی نظمیں اور قطعات قلمبند کئے۔  فارسی زبان میں ان کا وہ قصیدہ جو انھوں نے شاہ ایران پہلوی کی پاکستان آ مد پر کہا تھا نہایت مقبول ہوا اور ایرانی ریڈیو سے نشر بھی ہوا۔

کیا عشق کے مزاج سے دل با خبر نہ تھے

آگاہ جورِ حسن سے اہلِ نظر نہ تھے

 

ہر موڑ پر کھڑے ہیں پریشاں و فکر مند

گم کردہ راہ ایسے کبھی راہبر نہ تھے

 

بہار آئی مگر خالی پڑے ہیں ایسے میخانے

کہاں رندان میکش چل دئے،  چلّائے پیمانے

ان کی شاعری متنوع مضامین شعری محاسن اور غنائی کیفیت ہے۔ بقول احسن امروہوی:

’’ان کا کلام ریاضتِ فنا اور لطافتِ سخن کا دلکش نمونہ ہے جس میں شاعرہ کا دینی جذبہ اور قومی شعورہر شعر میں نمایاں ہے۔ ‘‘

خورشید آ را بیگم نے مختصر نظموں میں اپنے عہد کے واقعات پر بھی اظہارِ خیال فر مایا ہے:

’’مریخ پر آ ثارِ حیات نہ پا نے کے بعد‘‘،  ’’مادرِ ملّت‘‘ اور ’’کروٹیں ‘‘ کے علاوہ ’’فکر و نظر‘‘،  ’’شرارے‘‘ او ر ’’شہنائی‘‘ جیسی نظموں میں لطیف احساسات کا اظہار ملتا ہے۔  ‘‘

خورشید آ را بیگم نے ۱۹۳۵ء؁  سے۱۹۴۷ء؁  تک سنٹرل ویمنس کالج، ناگپورمیں بحیثیت پروفیسر اردو اور فارسی کی تدریس کے فرائض انجام دئے۔  اسی کے ساتھ تخلیقی سر گرمیاں جا ری رہیں۔  قومی خدمت کا جذبہ بھی مو جود تھا۔ اس زمانے کی سماجی تحریکات نے اسے جلا بخشی۔  آل انڈیا ایجوکیشن کانفرس کی خواتین کی شاخ کی کا رکر دگی اور ملکا پور ( برار) میں منعقدہ برار زنانہ کانفرنس کا اجلاس ان کے لئے ایک زبردست محرک ثابت ہوا۔  موخّر الذکر اجلاس میں وہ خود تو شریک نہ ہو سکیں البتّہ اپنی بڑی ہمشیرہ بغدادی بیگم سے ایک فارسی نظم بھجوائی جسے حاضرین کے علاوہ صدر صاحبہ بیگم حبیب الرحمن شیر وانی نے خاص طور پر پسند فرمایا تھا۔  اسی زمانے میں خورشید آ را بیگم نے اپنے شہر میں بڑی تگ و دو کے بعد انجمن مسلم خواتین کی بنیاد ڈالی اور پھر اس کے تحت لڑکیوں کا اردو میڈیم کا ایک اسکول بھی قائم کیا۔  مسلم لڑکیوں کے لئے یہ اردو میڈیم کا پہلا اسکول تھا۔ اس انجمن نے خواتین میں بیداری کی لہر پیدا کی۔ ان کی سماجی خدمات کے سلسلے کا ایک اہم واقعہ ان کا قیامِ چاندور بسوہ، ضلع بلڈانہ بھی ہے۔

یہ واقعہ اس وقت پیش آ یا جب ایک فرقہ وارانہ فساد کے دوران اس گاؤں کے تمام بالغ مرد گرفتار کر لئے گئے۔ اس وقت خورشید آ را بیگم اپنے شوہر نواب صدیق علی خاں کے ہمراہ وہاں تشریف لائیں۔ گاؤں میں خوف کا عالم تھا۔  اسی لئے انھوں نے قریب کے ایک کھیت میں ایک بہت بڑا خیمہ نصب کیا جہاں گاؤں کی تمام عورتوں اور بچّوں کو جمع کیا گیا۔  خورشید آرا بیگم نے ان لو گوں کے کھانے پینے کا انتظام کیا، ان کی دل جوئی کی، ہمّت اور ڈھارس بندھائی اور کئی دنوں تک وہاں قیام فر مایا۔  ان ہی کی ایما پر وہاں ایک اردو لائبریری کا قیام عمل میں آ یا۔ انھوں نے اپنی جا نب سے اس لائبریری کو کئی کتابیں بطور عطیہ دیں آج بھی وہاں باقی ماندہ کتابوں ’’عطیہ من جانب خورشید آ را بیگم‘‘ تحریر مو جود ہے۔

۱۹۳۵ء؁ میں ناگپور میں زنانہ محفلِ میلاد کی صدارت کے لئے خورشید آ را بیگم کو امر اؤ تی سے بلوایا گیا تھا۔  اس جلسہ میں آپ نے خواتین کی ایک انجمن کا سنگِ بنیاد رکھا تھا۔ شادی کے بعد خورشید آ را بیگم مستقل طور پر ناگپور ہی میں مقیم رہیں۔ اسی ادارہ کے ذریعے ایک گرلز اسکول کھولا جس میں سر کاری نصاب کے علاوہ دینی تعلیم کا بھی انتظام تھا۔ ۱۹۴۷ء؁ کے بعد یہ ادارہ حکومت کی تحویل میں چلا گیا۔  سنٹرل کالج فار ویمنس ناگپور میں ۱۹۳۵ء؁  سے ۱۹۴۷ء؁  تک خورشید آ را بیگم نے فارسی اور اردو کی تدریس کے فرائض بخوبی انجام دئے۔  ابتدا میں انھوں نے بلا معاوضہ کام کیا اور آخر میں بر ائے نام تنخواہ لی۔ ۱۹۴۱ء؁ میں ان کے شوہر نواب صدیق علی خاں سفارت کے فرائض سے فارغ ہو کر مستقل طور پر پا کستان میں مقیم ہو گئے تو خورشید آ را بیگم نے اپنی بہن بیگم بلقیس درانی کی مدد سے خورشید گرلز کا لج کی بنیا درکھی جو بعد میں ڈگری کالج بن گیا۔ ۱۹۷۲ء؁ میں حکومت نے اسے اپنی تحویل میں لے لیا اور پھر یہ کالج پی اے سی ایچ سوسائیٹی کراچی سے ڈرگ کالونی میں منتقل کر دیا گیا۔

خورشید آ را بیگم نے پاکستان آ تے ہی ۱۹۴۷ء؁  میں مہاجرین کی دیکھ بھال اور کشمیری مجاہدین کے لئے سامان فراہم کر نے کا کام کیا۔ ۱۹۴۹ء؁  میں آ ل پاکستان ویمنس اسوسی ایشن ( اپوا) کا قیام عمل میں آ یا تو خورشید آ را بیگم اس کی رکن بنیں اورعہدیدار کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ ۱۹۵۸ء؁  میں نواب صاحب بحیثیت سفیر سوڈان پہنچے تو وہاں کی پابندیوں کے پیشِ نظر روایتی طریقے سے کام کرنا ان کے لئے دشوار ہو گیا، تاہم وہاں کی خواتین کے ذریعے دواخانوں میں مریضوں کی مزاج پر سی اور پھل وغیرہ بھجوانے کا کام کروایا۔  اس کارِ خیر میں دیگر سفیروں کی بیویوں نے ان کا ساتھ دیا۔

خورشید آ را بیگم مختلف اداروں کے ذریعے سیمینار منعقد کر وانے کے علاوہ خواتین کے لئے تعلیم اور فراہمیِ روزگار کے سلسلے میں بھی کوشاں رہیں۔  مو صوفہ نے ریڈیو پاکستان سے نشر ہو نے والے اردو پر وگراموں میں بھی شرکت فر مائی۔ ۱۹۵۶ء؁  میں نواب صاحب کو سیلون میں ہائی کمشنر مقرر کیا گیا تو خورشید آ را بیگم نے وہاں ’’ اپوا ‘‘ کی شاخ قائم کی اور اس کے تحت خواتین کے لئے اسکول قائم کیا جس میں سلائی اور کڑھائی کی تعلیم دی جاتی تھی۔

خورشید آ را بیگم قومی خدمت کے جذبے سے اس قدر معمور تھیں کہ وہ جہاں بھی گئیں خواتین کی فلاح و بہبود کے لئے ادارے قائم کئے یا وہاں موجود اداروں کے ساتھ وابستہ ہو کر قابلِ قدر خدمات انجام دیں۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید