FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

پربت کی بیٹی

 

 

                چراغ حسن حسرت

 

 

 

دیباچہ

 

 

آریوں کے اصل وطن کے بارے میں بڑا اختلاف ہے کوئی کچھ کہتا ہے کوئی کچھ۔ ایک گروہ کا خیال ہے کہ وہ شمالی یورپ سے اٹھ کر پورب اور پچھم کے ملکوں میں پھیل گئے تھے۔ دوسرا گروہ جو پہلے گروہ سے بڑا ہے کہتا ہے کہ ہزاروں برس ہوئے یہ لوگ وسط ایشیا کے میدانوں میں گایوں اور بھیڑ بکریوں کے گلے چراتے پھرتے تھے۔ پھر ایسا زمانہ آیا کہ چشمے اور تال سوکھ گئے۔ دور دور تک ہریاول کا نام و نشان نہ رہا۔ اور دھرتی مینہ کی ایک ایک بوند کو ترس گئی۔ یہ دیکھ کے ان لوگوں نے پانی و چارہ کی تلاش میں دکھن کا رخ کیا۔ کچھ دور تک تو وہ اکٹھے بڑھتے چلے گئے پھر ان میں پھوٹ پڑ گئی۔ بعض قبیلے پچھم کو بڑھ کر اس دیس میں جا پہنچے جو آریوں کے نام پر ایران کہلاتا ہے۔ کچھ ہندو کش کے پہاڑوں سے اترے اور دریائے سندھ کے آس پاس کے علاقے میں ڈیرے ڈال دیے۔

آریوں کے اصل وطن کے بارے میں چاہے کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں لیکن اتنا سب مانتے ہیں کہ وہ چوڑے ہاڑ۔ مضبوط ہاتھ پاؤں۔ لانبے قد اور گوری رنگت کے لوگ تھے۔ اور ایک ایسی زبان بولتے تھے کہ جس سے فارسی اور سنسکرت دونوں زبانیں نکلی ہیں۔ لڑائی کے ڈھنگ اور سپاہ گری کے کرتبوں میں بھی وہ ان لوگوں سے جو ان سے پہلے ہندوستان میں آباد تھے۔ بہت بڑھے ہوئے تھے۔ وہ گھوڑے پالتے تھے اور لڑائیوں میں ان سے کام لینا جانتے تھے۔ اور جب وہ رتھ دوڑاتے تیر برساتے بڑھتے تھے تو ان کے دشمنوں کے لیے میدان میں پاؤں جمانا مشکل ہو جاتا تھا۔ سندھ کے آس پاس کے علاقے کو فتح کر کے وہ یورپ کی طرف بڑھے اورجو قومیں ان سے پہلے یہاں آباد تھیں انہیں ریلتے دھکیلتے اس علاقے میں پہنچے جو پنجاب یعنی پانچ دریاؤں کی سرزمین کہلاتا ہے۔ یہاں اچھی طرح قدم جما کے وہ آگے بڑھے اور گنگا اور جمنا کی وادیوں میں پھیل گئے۔

یہ کہنا مشکل ہے کہ آریہ سند ھ کے آس پاس کے علاقے سے گنگا کی وادی تک کتنی مدت میں پہنچے اور راستے میں انہیں کیا کیا مشکلیں پیش آئیں۔ ہاں ویدوں اور دوسری پرانی کتابوں میں کہیں کہیں ایسے اشارے ملتے ہیں جن سے اس سفر کی کوئی منزل روشن ہو جاتی ہے۔ لیکن اس کا حال بالکل ویسا ہی ہے کہ اندھیری رات میں تاریک تارا ٹوٹا کوندا لپکا ار دھندلکے کی چادر میں لپٹی ہوئی پگڈنڈیوں کی مدھم مدھم لکیریں دم بھر کے لیے اجاگر ہو گئیں۔ پران پرانی کتابوں سے اس بات کی گواہی ضرور ملتی ہے کہ آریوں نے یہ سفر دس بیس برس میں نہیں بلکہ سینکڑوں برسوں میں پورا کیا ہے۔ ان میں سے کچھ پہلے آئے تھے اور کچھ بعد میں جو پہلے آئے تھے ان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ پورب اور دکھن کی طرف بڑھیں اور نئے آنے والوں کے لیے جگہ خالی کر دیں۔ یہ لین ڈوری صدیوں تک یوں ہی بندھی رہی۔ دراوڑوں نے جو آریوں سے پہلے اس دیس میں آباد تھے مدتوں لڑائیاں ہوتی رہیں۔ آخر آریوں نے انہیں بندھیا چل کے پار دھکیل دیا۔ لیکن پہلے تین ویدوں کے منتر دریائے سندھ کی وادی اور پنجاب کے میدانوں ہی میں لفظوں کے قالب میں ڈھلے اور دیو مالا نے یہیں جلا پائی۔ ویدوں کے ایک مشہور گیت میں انہیں ندیوں کی تعریف کی گئی ہے ۱؎ ان میں زیادہ تر وہی ہیں جو پنجاب کے میدانوں اور اتر اور پچھم کے پہاڑی علاقوں میں بہتے ہیں۔

۱؎ ٹیکس مولر کا خیال ہے کہ آریہ وادی سندھ سے وادی گنگا تک چھ سو برس میں پہنچے لیکن بندھیا چل کے دامن میں پہنچ کر ان کی پیش قدمی رک گئی اور کہیں سینکڑوں برس کے بعد ان کے چھوٹے چھوٹے گروہ دکھن میں داخل ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمالیہ سے بندھیا چل کا علاقہ پرانے زمانے میں آریہ ورت یعنی آریوں کا وطن کہلاتا ہے۔ برہما ورت پنجاب کے ایک حصے کا نام تھا۔ ٹیکس مولر کی رائے میں آریہ ۱۵۰۰ ق۔م میں آئے اور ۹۰۰ق۔م میں گنگا کی وادی میں پہنچے۔ وید کے منتر اسی زمانہ کی یادگار ہیں۔ تلک کے نزدیک وید کے منتروں کی تاریخ ۲۰۰۰ ق۔م اور ایک اور عالم جیکوبی کے نزدیک سارھے چار ہزار ق۔م ہے۔

آریہ جب پہلے پہل اتر کے پہاڑوں کو چیر کر دریائے سندھ کے آس پاس کے علاقے میں آباد ہوئے تو وہ نرے گلہ بان اور کسان تھے۔ انہیں اپنے کھیتوں بھیڑ بکریوں کے گلوں اور چراگاہوں کے سوا اور کسی چیز کی پرواہ نہیں تھی وہ بس اتنا جانتے تھے کہ بارش وقت پر ہو جایا کرے۔ فصل خوب ہو اور میدان جنگل اور پہاڑوں کی گھاٹیاں ہر یاول سے ڈھک جائیں گائیں خوب دودھ دیں اور وہ ان کے بال بچے ہر طرح کے دکھوں اور بیماریوں سے بچے رہیں۔ مینہ دھوپ سردی گرمی آگ اور پانی ان کے دوست بھی تھے اور دشمن بھی۔ مینہ وقت پر ہو جاتا تو وہ اپنے کھلیان اناج سے بھر لیتے تھے۔ گایوں اور بھیڑ بکریوں کے لیے چارہ کی کمی کی شکایت نہ رہتی تھی۔ لیکن موقع پر بارش نہ ہوتی توسورج کی تیز کرنیں کھیتوں کو جھلک ڈالتیں۔ درخت کھیت گھاس انسان اور مویشی پانی کو ترس جاتے یا پھر آندھیاں آتیں زور زور کے جھکڑ چلتے درخت اپنی جڑوں سے اکھڑ اکھڑ کر گر پڑتے۔ ہرے بھرے کھیت تباہ ہو جاتے۔ کبھی کبھی اس طرح موسلا دھار بارش ہوتی کہ جل تھل ایک ہو جاتے۔ دریا ندی نالے امڈ آتے اور ان کی لہریں مکانوں فصلوں ،  گایوں ،  بھیڑ بکریوں کو بہا کر لے جاتیں۔ یہ سیدھے سادے گوالے اور کسان ان آندھیوں اور جھکڑوں طوفانوں اور سیلابوں سے ڈرتے تھے اور انہیں اپنے حال پر مہربان کرنا اور اپنا دوست بنانا چاہتے تھے۔ پھر آگ ،  دھوپ ،  مینہ ،  نیلے آسمان اور ٹھنڈی ہوا۔ ندی اور پربت سے غیر قانونی دیوتاؤں کی شخصیتیں ابھریں۔ وہ ان کی تعریف میں گیت گانے اور ان کے سامنے چڑھاوے چڑھانے لگے اور ان کی پوجا کرنے لگے۔ شروع شروع میں ان کے بہت سے دیوتا تھے۔ کبھی ایک دیوتا انہیں سب سے بڑا معلوم ہوتا۔ کبھی وہ کسی دوسرے دیوتا کی پوجا میں ایسے مگن ہوتے کہ باقی سب کو بھول جاتے۔ پھر آہستہ آہستہ بڑے بڑے دیوتا صرف تین رہ گئے۔ ایک تواگنی یعنی آگ۔ دوسرا سوریہ یعنی سورج،  تیسرا وایو یعنی ہوا۔ لیکن اکثر ایسا ہوتا تھا کہ وہ وایو کو بھول کر اندر یعنی آسمان کے دیوتا کو تین بڑے دیوتاؤں میں شامل کر لیتے۔ آگے چل کر اندر سارے دیوتاؤں پر چھایا ہوا نظر آتا ہے۔

ویدوں میں رگ وید سب سے پرانا ہے۔ اس میں گیت ہی گیت ہیں جن میں ان سیدھے سادے کسانوں اور گلہ بانوں نے سیدھی سادی زبان میں اپنی آرزوئیں دیوتاؤں کے سامنے بیان کر دی ہیں لیکن رگ وید کے منتروں سے کہیں کہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ ان دیوتاؤں سے کسی اونچی ہستی کو بھی مانتے تھے۔ کم از کم انہیں یہ احساس ضرور تھا کہ اندر ،  وایو،  اگنی اور سوریہ ہی سب کچھ نہیں ان سے اونچی کوئی ہستی بھی موجود ہے۔

جوں جوں آریہ پچھم اور دکھن کی طرف بڑھتے گئے ان کے مذہب کی سادگی میں بھی فرق آتا گیا۔ یگیہ اور دوسری رسموں ریتوں پر زور دیا جانے لگا اور ویدوں کا وہ حصہ مرتب ہوا جو برہمن کہلاتا ہے۔ اور جس میں یگیہ اور ہون کے قاعدوں کا ذکر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں کائنات کے بھیدوں کی ٹوہ لگانے اور فطرت کے رازوں کی گرہیں کھولنے کا شوق پیدا ہوا اوراپ نشدھ وجود میں آئے۔ اگرچہ اپ نشدھوں کے مرتب ہونے سے پہلے ایک خالق کل ہستی کا تصور پیدا ہو چکا تھا۔ جو تمام دیوتاؤں پر چھائی ہوئی نظر آتی ہے اور اس تصویر کی ہلکی سی جھلک ہمیں رگ وید میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ تاہم اب یہ تصور زیادہ واضح اور نمایاں ہو گیا۔ بالآخر اپ نشدھوں نے اسے پرجا پتی یعنی برہما کے سانچے میں ڈھالا اور دیوتا ایشور یعنی خدائے یگانہ کی مختلف صفات کے مظہر سمجھے جانے لگے۔

بعد کے زمانے میں کئی تبدیلیاں ہوئیں۔ ویدوں کے عہد کے دیوتاؤں کو بھلا دیا گیا اور ان کی جگہ برہما وشنو اور شو نے لے لی۔ ترمورتی کا تصورپہلے بھی موجود تھا۔ اور زمین فضا اور آسمان نے تین دیوتاؤں کی صورت اختیار کر لی تھی۔ لیکن برہما شوا اور وشنو نے جنہیں اس تر مورتی یعنی تثلیث کی ایک بدلی ہوئی شکل کہنا چاہیے۔ دوسرے دیوتاؤں کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں چھوڑی تھی۔ البتہ اندر اب بھی دیوتاؤں کا راجہ سمجھا جاتا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اب وہ اپنی پہلی حیثیت کھو بیٹھا تھا۔ اس زمانے میں ایک اور اہم تبدیلی یہ ہوئی کہ منو کے دھرم شاستر نے آریوں کو چار گروہوں میں تقسیم کر دیا۔ شروع شروع میں ذات پات کے یہ بندھن ڈھیلے تھے آہستہ آہستہ وہ اتنے سخت ہو گئے کہ ان میں کوئی لچک باقی نہ رہی۔ ساتھ ہی اوتار کے عقیدہ نے جنم لیا اور وشنو دیو لوک کی نیلگوں فضا سے اتر کر انسانوں کی صف میں کھڑا نظر آنے لگا۔

ہندوستان کی دو مشہور رزمیہ نظمیں مہا بھارت اور رامائن اسی زمانے میں لکھی گئیں۔ ان کتابوں کو غور سے پڑھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں دیوتاؤں اور کھشتریوں اور برہمنوں میں کوئی ایسا فرق نہیں رہا تھا۔ کبھی کوئی تپسوی برہمن تپسیا کے بل سے تینوں لوکوں کو جیت لینا چاہتا ہے اور دیوتا اس کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں کبھی کوئی کھشتری راج کمار اتنا اونچا اڑتا ہے کہ دیوتاؤں سے جا ٹکراتا ہے۔ اور پھر کبھی دیوتا اپنے سنگھاسن سے اتر کر انسانوں سے آ ملتے ہیں ان کی طرح دکھ جھیلتے سختیاں اٹھاتے محبت کی پینگیں بڑھاتے جدائی اور انتظار کے مزے لوٹتے اور اپنے دلوں میں انسانوں کا سا سوز و ساز اور ترب و تاب پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں۔ مہا بھارت میں اس قسم کی سینکڑوں کہانیاں ہیں جن پر پرانوں نے تصنع اور تکلف کا رنگ چڑھایا ہے اور شاعروں نے انہیں اپنی شاعری کے سانچے میں ڈھال کے کچھ کا کچھ بنا دیا ہے۔

دیو مالا کی ان کہانیوں پر غور کیا جائے۔ تو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے بعض زمانہ قبل از تاریخ کے کسی حادثہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ بعض کی حیثیت نیم تاریخی واقعات کی ہے جن میں شاعروں نے اپنی طبیعت کے زور سے رنگ بھرا ہے لیکن بہت سی کہانیاں ایسی ہیں جن سے پرانے زمانے کے آریہ ہندوؤں کے رجحانات ان کی دبی ہوئی آرزوؤں اور ناتمام خواہشوں کا سراغ ملتا ہے اس کتاب میں تینوں قسم کی کہانیاں موجود ہیں اور میں نے ان کا بڑا خیال رکھا ہے کہ یہ کہانیاں مہا بھارت پرانوں اور ہندوؤں کی دوسری کتابوں میں جس طرح بیان کی گئی ہیں اس سے ذرہ بھر ادھر ا ادھر ہٹنے نہ پائیں پربت کی بیٹی کالی داس کی مشہور نظم کمار سنبھو کا چربا ہے۔ شکنتلا یوں تو مہابھارت میں بھی موجود ہے لیکن کالی داس نے اس اصل کہانی میں جگہ جگہ تصرفات کر کے اسے بہت حد تک بدل دیا ہے۔ میں نے کالی داس ہی کی پیروی کی ہے باقی کہانیاں مہا بھارت سے لی گئی ہیں۔

بعض لوگوں کو تعجب ہو گا کہ ایک مسلمان اخبار نویس نے ہندو دیو مالا کی کہانیاں لکھنے کی زحمت کیوں اٹھائی؟ لیکنا س میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ سب سے پہلے مسلمانوں ہی نے ہندوؤں کے قدیم علم و فن ان کی پرانی داستانوں ان کے فلسفہ ادب اور شاعری کی جانب توجہ کی۔ یہ سلسلہ ہارون الرشید ۱؎ کے زمانے میں شروع ہو اور ہندوستان کی تیموری حکومت کے زوال کے زمانے تک برابر جاری رہا۔ اور اسے بھی جانے دیجیے شاہنامہ اور سکندر نامہ جو فارسی شاعری کے بہت بڑے کارناموں میں سے ہیں ،  آخر آتش پرست ایرانیوں اور بت پرستوں یونانیوں کی پرانی داستانیں ہی تو ہیں اور ہندو دیو مالا کی ان کہانیوں سے چنداں مختلف معلوم نہیں ہوتیں۔

میں نے یہ کہانیاں لکھتے وقت عمداً ایسی زبان اختیار کی ہے جو موضوع سے بڑی مناسبت رکھتی ہے شاید کچھ لوگوں کو جو عربی فارسی کی بھاری بھرکم ترکیبوں کے بغیر دو قدم نہیں چل سکتے اسے اردو سمجھنے میں تامل ہو لیکن میں تو اسے اردو ہی سمجھتا ہوں۔

چراغ حسن حسرت

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱ ؎ ہارون الرشید کے دربار میں ایک مشہور برہمن سالی نام تھا جسے عرب مصنف صالح کہتے تے۔ ابن دھن ایک اور فاضل ہندو تھا جس نے سنسکرت کے کئی کتابیں عربی میں منتقل کیں۔ مسلمان اہل علم میں سب سے زیادہ اہمیت ابوریحان البرونی کو حاصل تھی۔ اس نے اٹھارہ پران زبانی یاد کیے اور کئی کتابیں لکھیں جن میں کتاب الہند بہت مشہو رہے۔ سلطان زین العابدین والیِ کشمیر کو بھی سنسکرت پر بڑا عبور حاصل تھا۔ اس کے عہد حکومت میں سنسکرت کی بہت سی کتابیں فارسی کے قالب میں ڈھالی گئیں بعد کے زمانے میں اکبر کی وجہ سے مسلمانوں میں سنسکرت کی کتابوں نے رواج پایا۔

 

 

 

 

پربت کی بیٹی

؂

ستی جس کا چہرہ چاند سا تھا۔ شوجی ۱؎ کی استری اور وکش ۲؎ جی کی بیٹی تھی۔ وہ اپنے پتی کے ساتھ کیلاش ۳؎ پربت پر رہتی تھی۔ جہاں سورج کی کرنیں دیودار کے پیڑوں تلے جھولا جھولتی ہیں اور سپید بادل ننھے بچوں کی طرح کھیلتے پھرتے ہیں۔ پر یہ دکھ اسے گھلائے ڈالتا تھا کہ اس کے پتالو کش جی رات دن شیو جی کی نندا کرتے رہتے تھے۔ کبھی انہیں بھکاری اور کنگال کہتے۔ کبھی بیٹی کو بھکارن کہ کر ؤ پجاری کا جی دکھاتے۔ ایک دن انہوں نے ستی کو ایسے ایسے طعنے دیے کہ اس جانہار نے آگ میں کود کر جان دے دی۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ شوجی ہندوؤں کے تین بڑے دیوتاؤں میں سے ایک ہیں۔ ویدوں میں ان کا نام رور ہے۔ اپنشدوں اور پرانوں میں انہیں شو شنکر مہیشورا ار مہادیو کہا گیا ہے۔ عام طور پر انہیں فنا اور ہلاکت کی قوت سمجھا جاتا ہے۔ پر ہندو فلسفیوں کے نزدیک شوجی کی ذات زندگی اور موت حیات اور فنا دونوں کا سرچشمہ ہے۔ پرانوں میں ان کی جو تصویر کھینچی گئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پانچ چہرے اور چار بازو اور تین آنکھیں ہیں اور تیسری آنکھ ماتھے کے درمیان ہے۔

۲؎ وکش جی جو برہما کے بیٹے ہیں دیوتاؤں میں بڑے اونچے سمجھے جاتے ہیں مہابھارت میں لکھا ہے کہ وہ برہما کے دہنے انگوٹھے سے پیدا ہوئے اور ان کی استری نے بائیں انگوٹھے سے جنم لیا۔ وکش جی کی تیرہ بیٹیاں کیشپ رشی کو بیاہی گئی تھیں۔ بہت سے دیوتا انسان اور حیوان انہیں سے پیدا ہوئے۔

۳؎ کیلاش جو شیو جی کا استھان ہے ہمالیہ کے اس حصے کا نام ہے جو مان سروور سے اتر کی طرف ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ستی اپنے جی سے گئی پر اس کی یاد شوجی کے جی سے نہ جا سکی۔ انہیں آٹھوں پہر اس کا دھیان لگا رہتا۔ اور جدھر نظر اٹھتی ستی کی سندر موت کے سوا اور کچھ دکھائی نہ دیتا۔

ہاتھ کی امٹ لکیروں میں جو کچھ لکھا ہے وہ ضرور ہو کے رہتا ہے۔ ستی کے نصیبے میں یہی لکھا تھا کہ وہ پربتوں کے راجہ ہماچل کے ہاں جنم لے کر پھر شوجی کی استری بنے اور کیلاش کی اندھیری گپھاؤں میں اجالا کر دے اور یہ بات پوری ہو کے رہی۔

اس جنم میں اس کا نام اما تھا۔ اور لوگ اسے پاربتی یعنی پربت کی بیٹی کہتے تھے۔ اس کی چمپئی بدن ہماچل کی برف سے ڈھکی ہوئی چوٹیوں خی طرح چمکتا تھا۔ جن پر پیلی پیلی دھوپ اپنا سنہری رنگ پھیر دیتی ہے۔ اس کی کمر انگور بیل کی طرح پتلی اور لچکیلی تھی اور آنکھیں مان ۱؎ سرورسی نیلی اور گہری جب وہ کیلاش کی برف بھری چوٹیوں پر نظر ڈالتی۔ تو اس کے ہونٹوں سے جو شہدانہ کی طرح لال تھے ایک سرد آہ نکل جاتی۔ اس وقت اس کی آنکھیں لمبی اور گھنی پلکوں کی چھاؤں میں اس طرح بے چین معلوم ہوتیں کہ جیسے مان سروور کا پانی گھنے پیڑوں کے سایے تلے تیز ہوا میں جھکولے کھا رہا ہو۔

وہ پربت کی بیٹی تھی اور پربت کی گود میں کھیل کے پلی تھی۔ پیڑوں سے ڈھکی ہوئی گھاٹی۔ پہاڑ کا ڈھلوان گہرا کھڈ اور اونچی کگراس اس کے لیے گھر آنگن تھے اور سارس اور تیتر بگلے اور مرغابیاں پتھریلی چٹانوں میں گھونسلا بنانے والے باز اور سہمی ہوئی آنکھوں والی ہرنیاں اس کے بچپن کے ساتھی۔ گرمیوں کی رت میں جب برف پگھلتی خوبانی کی کلیاں کھلتیں اور اجلی اجلی پن چادریں سپید سپید پتھروں پر سر پٹکنے لگتیں۔ تو وہ اونچے سروں میں شو جی کی مہما کے گیت گاتی اور لہراتی ہوئی ندیاں گنگناتے ہوئے چشمے سنگت کرتے۔ کبھی اسے کوئی ہرن کسی پیڑ تلے چوکڑیاں بھرتا نظر آ جاتا تو وہ اس کے پیچھے دوڑ پڑتی۔

۱؎ ہمالیہ کی ایک مشہور جھیل جس کا ذکر سنسکرت کی کتابوں میں بکثرت آیا ہے۔ اس جھل سے کوئی دریا نہیں نکلتا۔ ہاں دریائے ستلج کا منبع مانسوور کے قریب ہے۔

راستے میں اسے کوئی چشمہ مل جاتا تو وہ اس کو بھول کر اس میں اپنا روپ دیکھنے لگتی۔ پرھ وہ ایکا ایکی مسکرا اٹھتی اور اس کی مسکراہٹ پھولوں کی مسکراہٹ میں یوں گھل مل جاتی کہ دونوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا تھا۔

پھر جب تیز اور سرد ہوا سوکھے پتوں میں سے سرسرتی ہوئی گزرتی اور اس کا ایک جھونکا اما کے گالوں کو تھپتھپاتا اس کے بالوں کو کاندھوں پر بکھیر دیتا تو وہ جان لیتی کہ جاڑا آ گیا۔ پر وہ برف اور آندھی کہر اور دھند سے ڈرتی نہیں تھی۔ کیونکہ وہ پربت کی بیٹی تھی۔ اور پربت ۱؎ کی بیٹی کو کون ڈرا سکتا ہے۔ وہ چاہتی تو اپنی گرم گرم سانس سے برف کو پگھلا دیتی۔ بادلوں کو ہوا میں یوں اچھال دیتی کہ ان کا کوئی اتا پتہ نہ ملتا اور جاڑے کی تیز ہوا تو اسے اپنی سانس کی طرح جانی پہچانی معلوم ہوتی تھی کیونکہ وہ کیلاش کی چوٹیوں کو چھو کے آئی تھی۔

۱؎ پاربتی یا پربت کی بیٹی کوئی فانی انسان نہیں۔ بلکہ شوجی کی شکتی ہے۔ اس کے دو روپ ہیں اپنے پہلے روپ میں وہ گوری ستی،  اما،  پاربتی اور ہماوتی ہے۔ اور دوسرے روپ میں کالی درگا اور چنڈکا۔ پہلے روپ میں وہ حسن کی موت ہے۔ اور دوسرے میں تباہی کی دیوی۔ اسے مہا دیوی مہا مایا اور بھیروی اور بھوانی بھی کہتے ہیں۔

کھلی ہوا اور پیلی دھوپ میں نیلے آسمان کے سایے تلے اس کے جوبن کی جوت یونہی بڑھتی گئی۔ پر جوں جوں اس کا روپ نکھرتا جاتا تھا۔ اس کے دل میں چاہت کی آگ زیادہ تیز ہوتی جاتی تھی۔ اب اس میں اگلی سی اچپلاہٹ نام کو نہ رہی تھی۔ وہ کچھ کھوئی کھوئی اور اداس نظر آتی تھی۔ اور کبھی کبھی تو اسے ایسی چپ لگ جاتی کہ جنگل کے پکھیرو جنہوں نے اسے مسکراتے ہوئے قہقہے لگاتے اور سورج کی ہر کرن کی طرح سرد اور اندھیری گپھاؤں میں جگمگاتے ہوئے دیکھا تھا۔ حیران ہو ہو کر ایک دوسرے سے پوچھتے ’’پربت کی بیٹی کو کیا ہو گیا ہے ؟‘‘ اس کے جی کو شیو بھگوان نے کچھ ایسی کچھ چٹیک لگا دی تھی کہ وہ رات دن انہی کے نام کی سمرن کرتی رہتی۔ وہ لمبے لمبے برت رکھتی۔ بھوک پیاس کے دکھ سہتی،  بھگوان کے سامنے بیل کے پتوں ،  جنگلی بیروں اور آنسوؤں کی لڑیوں کے چڑھاوے چڑھاتی۔ پوشوجی کے من میں تو مستی بسی ہوئی تھی۔ انہوں نے اما کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ وہ کبھی کبھی اس کے پاؤں کی چاپ سے اتنا جان لیتے تھے کہ ہماچل کی بیٹی پوجا کرنے آئی ہے۔ پر انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ پربتوں کے راجہ کی بیٹی کیسی ہے ؟

یہ دیکھ کر دیوتا سناٹے میں آ گئے۔ ایک دوسرے سے کہنے لگے کوئی ایسی تدبیر ہونی چاہیے کہ مہا دیو ستی کو بھول کر اما کو چاہنے لگیں۔ کیونکہ برہما جی کہہ چکے ہیں کہ جب شوجی پاربتی سے بیاہ کریں گے ان کے ہاں ایک لڑکا ۱؎ پیدا ہو گا جو سنسار کو راکشسوں کے ۲؎ ظلم سے چھڑائے گا۔ اس لیے جب تک اما سے مہادیو کا بیاہ نہیں ہوتا۔ دھرتی پر یونہی پاپ کا اندھیرا چھایا رہے گا۔

آخر دیوتاؤں کے راجہ اندر ۳؎ نے لکشمی ۴؎ کے بیٹے مدن ۵؎ کو بلا بھیجا جو پریم کا دیوتا ہے۔ اور جس کے زہریلے بانوں سے انسان تو انسان دیوتا بھی نہیں بچ سکتے اور کہنے لگے کہ ہم سب یہ چاہتے ہیں کہ مہا دیو کسی ڈھب اما کو چاہنے لگیں اگر تم سے اتنا بھی نہ ہو سکے تو تمہارے بان جو پریم کے بس میں بجھے ہوئے ہیں اور کس کام آئیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ شو اور پاربتی کے لڑکے کا نام کارتکیہ ہے اسے سکندر اور کمار بھی کہتے ہیں۔ وہ دیوتاؤں کا سنیاسی (سپہ سالار) اور جنگ کا دیوتا ہے۔

۲؎ ایک مخلوق کا نام راون جو رام چندر جی کے ہاتھوں مارا گیا راکشسوں کا ہی سردار تھا۔ رامائن میں لکھا ہے کہ جب ہنومان جی لنکا گئے تو انہوں نے وہاں ہر قسم کے راکشس دیکھے۔ ان میں سے کچھ خوبصورت تھے کچھ بدصورت کچھ موٹے ،  کچھ دبلے پتلے ،  کچھ لمبے ،  کچھ بونے ،  بعض کے سر ہاتھیوں جیسے تھے۔ بعض کے سانپوں کے مانند۔ اس زمانے کے عالموں کا خیال ہے کہ راکشس وہ لوگ تھے جو آریاؤں کے آنے سے پہلے ہندوستان میں آباد تھے آریاؤں نے انہیں دکن کی طرف دھکیل کر ملک پر قبضہ کر لیا۔

۳؎ اند آکاش کا دیوتا اور دیوتاؤں کا راجہ ہے اور وہ مینہ برساتا ہے اور فصلیں اگاتا ہے بجلی کاکڑکا (رعد) اور دھنک (قوس قزح) اس کے ہتھیار ہیں سورگ کا راج بھی اسی کے قبضے میں ہے۔ ایراوت اس کے ہاتھی کا نام اور اندرانی اس کی بیو ہے۔ اندر آریوں کا پرانا دیوتا ہے ویدوں میں جگہ جگہ اس کا ذکر آیا ہے۔

۴؎ لکشمی دولت کی دیوی ہے اسے شری بھی کہتے ہیں۔ پرانوں میں لکھا ہے کہ جب دیوتاؤں نے سمندر کو بلو کے اس میں سے امرت نکالا تو لکشمی ہاتھ میں کنول کا پھول لیے سمندر کی جھاگ سے نمودار ہوئی ہری بنس میں سنسکرت کی مشہور نظم ہے کام دیو کو لکشمی کا بیٹا بھی کہا گیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شو کا نام سن کر مدن کا رنگ پیلا پڑ گیا۔ اور اس کی استری رتی ایسے کانپنے لگی جیسے مینہ کی بوچھاڑ میں چمپا کی پنکھڑی کانپ رہی ہو۔ مدن کو مہادیو پر تیر چلانے کا ہواؤ تو نہیں پڑتا تھا پر جب اندر نے کہا گھبراتے کیوں ہو رتوں کا راجہ بسنت ۱؎ جس کی سانس میں کلیوں کی باس ہے تمہارے ساتھ ہو گا۔ تو مدن کی ٹوٹی ہوئی ہمت بندھ گئی۔ اور وہ کمان کو کندھے پر ڈال۔ رتی کو ساتھ لے کیلاش کی طرف چلا۔ آگے آگے بسنت پھول بکھیرتا جا رہا تھا اور پیچھے پیچھے یہ دونوں جنے آ رہے تھے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ بسنت بہار کا دیوتا جو مدن کا دوست سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ اکثر خواہشیں اسی موسم میں بیدار ہوتی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اس سمے سارے جنگل اور بن سنسان تھے۔ پربت کچھ اس ڈول سناٹے کی طرح سوکھ رہی تھی کہ جییس ان کے دل میں کوئی بڑا بوج ہو۔ ہوا رکی ہوئی تھی۔ پن چادروں کا شور مدھم پڑ گیا تھا۔ پکھیرو گھونسلوں میں دبکے ہوئے تھے۔ چشمے اور تال آنکھوں میں آنسو ڈبڈبائے پہلو میں کسک دبائے سر نہوڑائے کھڑے تھے ہاں کبھی کبھی ہوا سسکیاں بھرنے لگتی۔

تو یہ خیال ہوتا کہ اب یہ آنسو پربت کے گالوں پر پھوٹ بہیں گے۔

پر جب پانچ تیروں والا دیوتا مدن ۱ ؎ اپنی استری رتی کو لے کے کیلاش کے بنوں میں پہنچا تو ایسا معلوم ہونے لگا کہ دو چنچل کرنیں پربت کی گود میں مچل رہی ہیں۔ جن کی جوت سے اندھیرے جنگلوں میں اجالا ہو گیا ہے۔ چٹانیں اس طرح دمک اٹھیں کہ جیسے ان کے سینوں میں آگ دہک رہی ہو۔ پچھوا لہکی چشموں کا پانی ہلکورے لینے لگا۔ ندیاں شور مچانے لگیں اور لال اور سپید پتھروں پر سر پٹکنے لگیں ہری ہری دوب کے فرش پر پھولوں اور کلیوں کے ڈھیر لگ گئے اور ہوا ان کی خوشبو سے مہک اٹھی۔ شفتالو کی ٹہنیاں خوبانی کے پیڑ میں پھیلیں۔ انار کی کلیاں انگور کے پتوں میں کھچڑی ہو گئیں چنبیلی کی ڈالیاں لچکے کے ساتھ اٹھیں اور آپس میں مل گئیں۔ عشق پیچہ بادام کی ٹہنیوں سے لپٹ گیا اور انگور نے اپنی نازک باہیں چنار کے گلے میں ڈال دیں۔ کنول کی سپید کلیاں ندی کے پانی میں اپنا روپ دیکھنے لگیں۔ بھونروں کے جھنڈ گونجنے لگے۔ پکھیرو سرک کے ایک دوسرے کے پاس آ گئے۔ اور ان کی کوک سے دلوں میں ہوک سی اٹھنے لگی۔

 

۔۔۔۔۔۔

۱؎ مدن کے پانچ تیز پانچ پھول ہیں وہ آم کی پتلی ٹہنیوں سے کمان بناتا ہے۔ مدھ مکھیاں کمان کی تانت کا کام دیتی ہیں یونانی دیو مالا میں ایروسی یعنی کیوپڈ محبت کا دیوتا ہے۔ یوں تو وہ بھی تیر کمان سے دلوں کا شکار کرتا پھرتا ہے۔ لیکن اس کی آنکھیں نہیں ہیں۔

۔۔۔۔۔۔

 

مدن نے دور سے دیکھا کہ درختوں کے جھرمٹ میں دیودار کا ایک پرانا پیڑ ہے جس کی ٹھنڈی چھاؤں سے دل میں ٹھنڈک پڑتی ہے۔ پیڑ تلے مرگ چھالا ہے اور مرگ چھالا سے کچھ دور ہٹ کے کیشپ ۱؎ کا بیٹا نندی سنتری کی طرح پہرہ دے رہا ہے۔

۔۔۔۔۔۔

۱؎ کیشپ رشی سات مشہور رشیوں میں سے ایک ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ برہما کے پوتے تھے۔ وایو پوران میں لکھا ہے کہ شوجی کا بیل نندی ان کا بیٹا ہے۔ لیکن صرف ایک نندی ہی پر موقوف نہیں۔ بہت سے دیوتا ان کی اولاد میں سے ہیں کیشپ رشی وکش جی کی تیرہ بیٹیوں سے بیا ہے گئے تھے۔ جن میں سے سب سے بڑی کا نام ادیتی تھا۔ ادیتی سے کئی دوسرے دیوتا پیدا ہوئے اور باقی سے دوسری مخلوق نے جنم لیا۔

۔۔۔۔۔۔

 

مدن نے کندھے سے کمان اتاری۔ پرندے چہکارے بھرنے لگے۔ کیلاش کی گپھاؤں میں جو تپسوی مدتوں سے بیٹھے تپسیا کر رہے تھے۔ ان کا بھی من ڈول گیا۔ ایکا ایکی نندی نے کہا چپ اور بن پر سناٹا چھا گیا۔ پرندوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ ہوا نے سانس روک لیا۔ مدھ مکھیاں گاتے گاتے ٹھٹھک گئیں پھر مدن کو دیودار کے پیڑ تلے شو کی جھلک نظر آتی۔ گورا رنگ اورس پر بھبوت کا بانہ جیسے راکھ میں آگ چمک رہی ہو۔ گلے میں کھوپڑیوں کی مالا بازوؤں پر لمبے لمبے ناگ لپٹے ہوئے۔ گورے ماتھے پر ہلکی ہلکی سی لکیر جیسے کسی پنچھی کے پنکھ چشمے کے تھمے ہوئے پانی سے چھو کر اس پر سلوٹ سی ڈال گئے ہوں۔

مدن سمجھ گیا۔ یہ مہادیو کی تیسری آنکھ ہے جس میں سارے سنسار کو بھسم کر ڈالنے کی شکتی ہ۔ یہ اگر کھل گئی تو کوئی اس سے نہ بچ سکے گا۔ یہ سوچ کے اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ وہ مڑا اور بسنت اور رتی کے پیچھے پیچھے آنے کا اشارہ کر کے جھاڑیوں میں دبک گیا۔

وہ پریم پتی جگت جیت مدن جس نے نہ جانے کتنے مردوں اور عورتوں کو پریم کے بندھنوں میں جکڑ دیا تھا۔ وہ کام کا دیوتا جو بھگوان کے من میں سب سے پہلے پیدا ہوا وہ دلوں کا شکاری جس کے بانوں نے ان گنت سینون کو چھید ڈالا تھا۔ آج سہما ہوا تھا اس کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں موتیوں کی طرح ڈھلک رہی تھیں اور سانس پچھوا کی طرح چل رہا تھا۔

بسنت نے کہا کوئی آ رہا ہے۔ رتی کہنے لگی سچ مچ کوئی آ رہا ہے۔ پر یہ کون ہے جو مہادیو کے استھان میں یوں بے دھڑک چلا آ رہا ہے۔ یہ کوئی دیوتا یا کوئی تپسوی جس نے تپسیا کے بل سے تینوں لوکوں ۱؎ کو اجیت کر لیا ہے۔ نہیں یہ تو ایک سندر استری ہے جس کے روپ میں سورج کی جوت اور جس کے جوبن میں کونپل کی پھبن ہے اور یہ کسی گندھرو ۲؎ کی کنیا ہے جو بادلوں پر پاؤں رکھتی دھنک کے چنچل رنگوں کو روندتی ابھی ابھی آکاش سے اتری ہے۔

 

۔۔۔۔۔۔

۱؎ تین دنیا میں دھرتی سورگ (بہشت) اور پاتل مگر ہندوؤں کی بعض کتابوں میں سات بعض میں آٹھ لوکوں کا ذکر آیا ہے۔

۲؎ گندھرو ایک آسمانی مخلوق کا نام ہے جو دیوتاؤں کو گا بجا کے رجھاتی ہے۔ اسی لیے موسیقی کو گندھرو  بدیا بھی کہتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔

 

یا سورگ کی اپسرا ہے ۱؎ جن کے گورے گورے پاؤں تلے پربت کا دل مارے خوشی کے دھڑک رہا ہے۔ نہیں یہ تو کسی گندھرو کی کنیا ہے نہ سورگ کی اپسرا۔ یہ پربتوں کے راجہ ہماچل کی بیٹی اما ہے جو شردھا کے بل اور بھگتی کی شکتی سے وہاں آ پہنچی ہے۔ جہاں دیوتا بھی پاؤں نہیں رکھ سکتے۔

 

۔۔۔۔۔۔

۱؎ گندھرو کی استری سورگ کی ایک حسین مخلوق حور

۔۔۔۔۔۔

 

اما مہادیو کے سامنے پہنچ کر ڈھنڈوٹ کو جھکی تو اس کے بالوں کی ایک لٹ کھل کے اس کے تمتماتے ہوئے گالوں پر آ رہی۔ مدن نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے کمان میں تیر جوڑا اور شو جی نے مسکرا کے آنکھیں کھول دیں۔

کتنے لال ہیں اس کنیا کے ہونٹ۔ لال اور رس بھرے۔ یہ خیال شو جی کے من میں لو کی طرح لپک اٹھا۔ انہوں نے پہلی بار پربت کی بیٹی کو آنکھ بھر کے دیکھا تھا۔

پھر وہ ننھی سی لو کانپی اور کانپ کر بجھ گئی۔ میرے جی میں یہ بات کہاں سے آئی۔ کیسے آئی۔ میرے من نے اسے جنم نہیں دیا۔ یہ تو کہیں باہر سے آئی ہے۔

چپکے چپکے دبے پاؤں چوروں کی طرح لال اور رس بھرے ہونٹ یہ بات میرے من میں کس نے ڈال دی کون ایسا ہے ؟

یہ سوچتے سوچتے ان کی بھویں تن گئیں اور پھر ایکا ایکی انہوں نے اپنی تیسری آنکھ کھول دی۔ وہی آنکھ جس میں تمام سنسارکو جلا ڈالنے کی طاقت ہے۔

لال لال شعلے نکیلی زبانیں نکالے ہوئے بڑھے اور دلوں کے شکاری کو جو جھاڑیوں کی اوٹ میں کمان کا چلہ لگائے گھات لگائے بیٹھا تھا۔ جلا کر راکھ کر ڈالا۔ رتی نے اپنی آنسو بھری آنکھیں اٹھائیں مرگ چھالا سونا پڑا تھا۔ شوجی کہیں نہیں تھے۔ ہاں اما پھولوں کی بھری ڈالی کی طرح سر نیہوڑائے کھڑی تھی۔ اس کا جوڑا اب پوری طرح کھل گیا تھا۔ اور لمبے لمبے بال اس کے پاؤں میں لوٹ رہے تھے۔

جب اما نے دیکھا کہ اس کا روپ اور جوبن شوجی کے من سے ستی کی یاد کو نہیں مٹاس کا۔ تو اسنے سارا گہنا اتار ڈالا۔ ست لڑے ہار کو یوں نوچ کے پھینک دیا کہ اس کی رگڑ سے چندن کا لیپ آپ ہی آپ اتر گیا۔ کان کے بندوں کو غصہ میں یوں نوچا کہ کان لہولہان ہو گئے۔ پھولوں کے جھومروں کو پاؤں تلے روند ڈالا اور ریشم کا سوہا جوڑا جس میں سونے کے تار گندھے ہوئے تھے اتار کے درختوں کی بھوری چھال سے اپنا بدن ڈھانک لیا۔ اور گھر بار چھوڑ کر ایک سنسان جنگل میں جو آبادی سے دور ایک راہ باٹ سے کٹا ہوا تھا کٹیا بنا کے رہنے لگی۔

پراس برن میں بھی اس کے روپ کی چمک دمک کم نہیں ہوئی تھی۔ اور بھوری چھال کے جوڑے میں اس کا نکھرا ہوا جوبن یوں جھلکتا دکھائی دیتا تھا جیسے پچھلے پہر کے دھندلکے میں پو پھٹ رہی ہو کیونکہ کنول کا پھول کائی میں گھرا ہوا بھی بھلا معلوم ہوتا ہے اور بھونرا اس کے ہونٹوں کا رس پینے کے لیے اس کے اردگرد منڈلاتا رہتا ہے۔

پچھلے پہر وہ ندی پر جا کر اشنان کرتی اور لوٹتے وقت پودوں کو پانی دینے کے لیے گھگری بھر لاتی۔ جب بھوک بہت ستاتی تو پھل پھلاری اور پیڑوں کی جڑیں کھا کے گزارہ کرتی اور رات کے سمے اپنی نازک بانہہ کو تکیہ بنا کے پتھریلی زمین پر پڑ رہتی۔ جنگل کے پنچھی پکھیرو اسے اچھی طرح جانتے تھے۔ اور ہرن ہرنیاں اس سے یوں ہل گئی تھیں جیسے وہ کوئی ہرنی ہے جو راستہ بھول کر اس طرف کو آنکلی ہے۔

آہستہ آہستہ اسے بھوک پیاس بھی بسر گئی۔ پہاڑ سی راتیں آنکھوں میں کٹنے لگیں اور نیند اس کی آنکھوں کو یوں چھوڑ چھاڑ کے چلی گئی کہ پھر اس کا کوئی اتا پتا نہ ملا۔ اب تو اس کا یہ حال ہوا کہ جو تھوڑا بہت وقت ان دھندوں میں خرچ ہو جاتا تھا وہ بھی تپسیا میں کٹنے لگا۔ اس کا جسم جو نئی کھلی ہوئی کلی کی طرح نرم اور تازہ تھا کملا گیا مال پھیرتے پھیرتے انگلیوں پر گٹھے پڑ گئے پر اس کے جب تپ میں کوئی فرق نہ آیا۔

اما کو یونہی تپسیا کرتے مدتیں بیت گئیں۔ ایک دن وہ کٹیا کے دروازے میں کھڑی تھی۔ ایک برہمن جو شاید راستہ بھول گیا تھا ادھر آ نکلا۔ کٹیا کے پاس سے گزرا۔ اور اما کو دیکھ کر رک گیا۔ اما نے برہمن دیوتا کے پاؤں دھلائے۔ ان کی پوجا کی اور پھل پھلاری ان کے سامنے رکھ کر چپ چاپ کھڑی ہو گئی۔ برہمن پہلے تو ٹکٹکی لگائے اس کے منہ کو تکتا رہا۔ پھر کہنے لگا۔ اے کنول کے سے نینوں والی ،  میں دیکھتا ہوں کہ ہرن تجھ سے بہت ہلے ہوئے ہیں۔ وہ کش ۱؎ گھاس کے تنکے تیرے ہاتھوں سے چھینے لیے جاتے ہیں۔ اور تو بھی ان ہرنوں اور ہرنیوں میں خوش معلوم ہوتی ہے۔ پرسندری ایک بات پوچھوں برا تو نہ مانے گی۔ تو اس سنسان بن میں کیوں اپنی جوانی گنوا رہی ہے۔ تجھے تو اس چاند ایسے چہرے سے کسی راجہ کے نواس کو اجالنا چاہیے تھا کیونکہ یہ چھال تیرے بڑھاپے کا سنگار ہے۔ ایسا تپسیا تو ہم ایسے بوڑھوں کا کام ہے جو زندگی سے نراش ہو چکے ہیں۔ میری سنے و اس جنگل کو چھوڑ کر اپنے گھر چلی جا۔

 

۔۔۔۔۔۔

۱؎ ایک قسم کی گھاس جو پوجا کے کام آتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔

 

یہاں تیری رسیلی جوانی کی بہار دیکھنے والا کون ہے ؟ اچھا میں سمجھ گیا۔ تیری ٹھنڈی سانس نے تیرے دل کا بھید کھول دیا ہے۔ تو نے کسی کی چاہت میں یہ دھج بنا رکھی ہے۔ پر دھرتی پر کون ایسا ہے جسے تو چاہے اور وہ تیرے قدموں میں نہ آ گرے۔ اس کے سینے میں دل کی جگہ پتھر کی سل ہو گی کہ وہ تیرے اداس چہرے بکھرے بکھرے بالوں اور آنسو بھری آنکھوں کو دیکھتا ہے اور اس کا جی نہیں پسیجتا۔ نہ تیرے ہاتھوں میں مہندی ہے نہ تیری آنکھوں میں کاجل تیرے کان بندوں سے خالی ہیں اور تیرے سینے کو جسے ہاروں سے ڈھکا ہونا چاہیے تھا۔ سورج کی تیز کرنیں جھلس رہی ہیں وہ کون ہے جو یہ سب کچھ دیکھتا ہے اور اسے تیری حالت پر ترس نہیں آتا۔

مجھے تو کوئی ایسا برہمن سمجھتی ہے جو صرف باتیں کرنا جانتا ہے۔ پر اے پتلی کمر والی کنیا۔ میں نے بھی تپسیا کی ہے مجھ میں بھی اتنی شکتی ہے کہ اگر چاہوں تو تیرے پیتم سے تجھ کو ملا دوں۔ اس لیے مجھ سے اپنا بھید مت چھپا اور صاف صاف بتا دے کہ کس کی چاہت تیرے جی کی گاہک ہوئی ہے ؟

اما بولی برہمن دیوتا میں شو بھگوان کے سوا اور کسی کو نہیں چاہتی۔

برہمن ٹھٹھا مار کے ہنسا۔ اس کی ہنسی میں بادل کی گڑ گڑاہٹ تھی اور اس کے اجلے اجلے دانت بجلی کی طرح چمک رہے تھے۔ شو میں شوکو جانتا ہوں۔ پر اس کے پاس کیا رکھا ہے۔ کہ تجھ ایسی دیوی اس کی چاہ میں اپنا جوبن گنوائے۔ شو تو بھکاری ۱؎ ہے اسے تو پہننے کو کپڑا بھی نہیں جڑتا اور میں نے تو یہ بھی سنا ہے کہ وہ گیت جوڑنے والے شاعروں کی طرح سپنے دیکھتا رہتا ہے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ شوجی کا لباس شیر یا ہاتھی کی کھال بتایا گیا ہے ان کے سر پربالوں کا جوڑا ہے۔ جو سنکھ کی طرح معلوم ہوتا ہے۔ گلے میں کھوپڑیوں کی مالا ہے اور بازوؤں سے سانپ لپٹے ہوئے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔

 

اما ٹھنڈی سانس بھر کے کہنے لگی کہ دیوتاؤں کے ڈھنگ نیارے ہیں اور ان کی باتوں کو ہم تم نہیں سمجھ سکتے تم شو کو بھکاری کہتے ہو پر دیوتاؤں کا راجہ اندر اسے ڈنڈوٹ کرتا ہے۔ اور برہما جس نے سارے سنسار کو پیدا کیا ہے اس کی مہما کے گیت گاتا ہے۔

برہمن بولا میری سنو تو۔

اما کی بھنویں تن گئیں اور وہ کڑک کے بولی۔ چپ میں اور کچھ سننا نہیں چاہتی۔

پر ایکا ایکی اسے ایسا محسوس ہوا کہ اس کے پاؤں من من بھرکے ہو گئے اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ اور یوں وہ رک گئی جیسے پتھریلی چٹان کا ایک ٹکڑا کسی چنچل ندی میں ٹوٹ کر آ پڑے اور اس کا راستہ روک لے۔ کیونکہ برہمن کی جگہ مہا دیو کھڑے مسکرا رہے تھے۔

اما اپنے روپ اور جوانی سے تو شو کے من کو لبھا سکی۔ پر اس کا تپ وشانا تھ ۱؎ کو اس کے دوارے لے آیا۔

 

۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ وشواناتھ جی شو جی کا نام ہے۔ جس کے معنی سب کا مالک ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔

 

پھر وہ پانچ پتھروں والا دیوتا بھی جی اٹھا۔ جو مردوں اور عورتوں کے پریم کو بندھنوں میں جکڑتا ہے۔ اور جس نے اپنے زہریلے بالوں سے ان گنت سینے چھید ڈالے ہیں۔

جب آموں پر مور آتا ہے اور ار بھنوروں کے جھنڈ گونجنے لگتے ہیں تو بدن بے کھٹکے دلوں کا شکار کرتا پھرتا ہے۔ پر جب سے اس نے شیو جی پر تیر چلانے کا ہواؤ کیا ہے وہ کسی کو نظر نہیں آتا۔

٭٭٭

 

 

 

 

ساوتری

 

مہاراجہ شو پتی ۱؎ کی ایک بیٹی ساوتری تیرتھ یاترا کو جا رہی تھی۔

 

۔۔۔۔۔۔

۱؎ اشوپتی لفظی ترجمہ گھوڑوں کا مالک۔ دیکھو سنسکرت کا اشو اور فارسی اسپ ایک ہی لفظ کی دو صورتیں ہیں۔

۔۔۔۔۔۔

 

بیچ میں سنہری رتھ تھی۔ جس پر لال پردے ٹنکے ہوئے تھے۔ دہنے ہاتھ سورما سپاہی گھوڑے مارے چلے آ رہے تھے۔ کبھی کبھی ہوا کے جھونکوں سے رتھ کا پردہ سرک جاتا تو راجکماری کی ایک جھلک نظر آ جاتی وہ سکھیوں میں اس طرح گھری بیٹھی تھی جیسے تاروں کے جھرمٹ میں چاند۔

رتھ میں ناگوری بیل جتے ہوئے تھے جن کے سینگوں پر سونے کی سنگوٹیاں چڑھی ہوئی تھیں۔ بھاری بھاری پہیوں کی گڑ گڑاہٹ میں راجکماری کی البیلی سکھیوں کی رسیلی ہنسی اور ان کی چوڑیوں کی کھنک دبی جاتی تھی۔

رتھ کے آگے آگے ڈھلیت اور بلم بردار تھے ان کے آگے کئی ہاتھی جن کی زری کی جھم جھماتی جھولیں پڑی تھیں پیچھے سامان کے چھکڑے جن پر کھانے پینے کی چیزیں خیمے ڈیرے تنبو شامیانے راوٹیاں لدی چلی آ رہی تھیں۔ یہ لوگ پچھلے پہر تاروں کی چھاؤں میں گھر سے چلے تھے۔ اور اب ایک جنگل میں سے گزر رہے تھے۔

سپید پگڈنڈی پر تازہ کلیوں اور پتوں کا فرش تھا۔ دونوں طرف رس اور مولسری کے جھنڈ چھائے ہوئے تھے۔ بیچ بیچ میں کہیں کہیں مالتی کی جھاڑیاں سر جھکائے کھڑی تھیں۔ چاند ابھی نہیں نکلا تھا۔ پر درختوں پر ایک اجلی اجلی سی دھند چھائی جا رہی تھی۔ اور سرس کی ان گنت کلیاں تاروں کی طرح چمک رہی تھیں کبھی کبھی کوئی پنچھی گھوڑوں کی ٹاپوں اور ہاتھوں کے قدموں کی دھمک سے گھبرا کے چیخ اٹھتا۔ ایک دفعہ جھاڑیاں ہلیں اور ایک ہرن اس طرح بھاگنے لگا جیسے شکاری کتے اس کا پیچھا کر رہے ہوں۔

راجکماری ساوتری نے کبھی محل سے باہر قدم نہیں رکھا تھا۔ یہ سنسان جنگل کلیوں سے لدے ہوئے پیڑ۔ ہریاول مڑتی تڑتی پگڈنڈی کلیوں اور پتوں کا فرش رات کے دھندلکے میں ایسے لگتے جیسے وہ سپنا دیکھ رہی ہے۔ پر یہ سپنا کتنا سہانا اور کتنا انوکھا تھا۔ بالکل ان جانا ان بوجھا دیوتاؤں کے کسی ایسے بھید کی طرح جس کی ٹوہ لگانا انسان کی طاقت سے باہر ہے۔ اور تاروں بھری رات تو اسے یوں معلوم ہوتی تھی جیسے مان گود پھیلائے کھڑی ہو۔ اس سمے ساوتری کا جی چاہتا تھا کہ وہ رات کی پھیلی ہوئی گود میں پھولوں اور پتوں کے فرش پر سو جائے اور دسدا ایسے ہی سہانے سپنے دیکھتی رہے۔

یہ لوگ صبح ہوتے ہوتے جنگل میں سے نکل گئے۔ پر وہ ابھی تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ دن چڑھ آیا۔ یہ دیکھ کے وہ ایک ندی کے کنارے درختوں کی چھاؤں میں اتر پڑے۔ اور آن کی آن میں تنبو تان کے ایک نگر سا بسا دیا۔ دن یہیں گزارا جب رات بھیگ چلی اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چلنے لگی تو پھر چل نکلے۔

ساوتری کو یوں ہی سفر میں کئی مہینے گزر گئے۔ اس نے بڑے بڑے تیرتھوں کی یاترا بھی کی جو رشی منی سادھو اور تپسوی آبادی سے من موڑ جنگلوں  میں بیٹھے جوگ سادھ رہے تھے۔ ان کے بھی درشن کیے کہیں وہ دو تین دن ٹھیری اور کہیں آٹھ دس دن ڈیرے ڈالے پڑی رہی۔

ایک دن راجکماری کی سواری کسی جنگل میں سے جا رہی تھی کہ اسے تنگ پگڈنڈی پر جو جھاڑیوں میں سے بل کھاتی ہوئی چلی گئی تھی ایک مرد نظر آیا جب سواری پاس پہنچی تو اس کے پاس سے وہ ہٹ کر ایک طرف ہو گیا۔ اب چلمن کی اوٹ سے اس کا چہرہ صاف نظر آ رہا تھا۔ وہ ایک بلونت نوجوان تھا۔ انیس بیس کی عمر ہو گی۔ بھیگتی مسیں اس کی رنگت تیز دھوپ اور ہوا میں سنولا گئی تھی۔ پر اس کے بازو سڈول تھے۔ بھراہواجسم پھرے ہوئے ڈنڑا۔ چوڑا سینہ۔ ہوا سے اس کے بال بکھر کر اس کے ماتھے پر یوں لہرا رہے تھے جیسے کہ اس کے چہرے کا ایک حصہ ڈھک گیا تھا۔ پر اس کے روپ اک سہانا پن چھپائے نہ چھپتا تھا۔ اس کے ایک ہاتھ میں کلہاڑا تھا دوسرے میں لکڑیوں کا گٹھا اور وہ پگڈنڈی کے کنارے پیڑوں کے جھرمٹ میں یوں چپ چاپ کھڑا تھا جیسے وہ بھی کوئی ہرا بھرا پیڑ ہے۔

اسے دیکھ کر ساوتری کا کلیجہ دھک سے رہ گیا۔ یہ چہرہ تو کچھ جانا پہچانا معلوم ہوتا ہے۔ میں نے اس سجیلے جوان کو پہلے کہیں دیکھا ہے پر کہاں یہ یاد نہیں پڑتا۔ یہ کون ہے جو میری آتما پر اس طرح چھایا جاتا ہے۔ جس طرح روپہلی چاندنی دھرتی پر چھا جاتی ہے۔ اس چہرے کو تو میں نے اپنے سپنوں کے نیلے نیلے دھندلکے میں سے یوں ابھرتے دیکھا ہے جیسے برکھا رت میں دھنک نکل آتی ہے۔ میں نے اس کے ہاتھوں کو چھوا ہے۔ اس کے دل کی دھڑکن سنی ہے۔ میرے لمبے لمبے بال اس کے بھورے کندھوں پر بار بار بکھرے ہیں بھگوان یہ تو وہی ہے۔ میرے پچھلے جنم کا ساتھی ۔ جب سے برہما ۱؎ نے سنسار کی رچنا رچی ہے۔

 

۔۔۔۔۔۔

۱؎ برہما جی کی زندگی کا ایک دن ۲ ارب ۱۶ کروڑ برس کا ہے۔ دنیا اتنی مدت تک جوں کی توں رہتی ہے پھر تباہ ہو جاتی ہے اور برہما جی نئے سرے سے اس کی رچنا رچتے یعنی اسے پیدا کرتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔

 

وہ یونہی میرے دل کے سنگھاسن پر بیٹھا راج کرتا رہا ہے۔ پر یہ بجوگ جیسے آ پڑا۔ ہم ایک دوسرے سے کیسے بچھڑے۔ میں اس سے اتنے دنوں کیسے الگ رہی۔ پھر یہ کتنے اچنبھے کی بات ہے کہ جب میں اسے قریب قریب بھول گئی تو وہ درختوں کی اوٹ سے اس طرح نکل کر میرے سامنے آ گیاجیسے کوئی بھولا بسرا خیال من کے کسی کونے سے اچانک نکل پڑے۔

 

                (۲)

 

گھر پہنچتے پہنچتے اس بات کا چرچا پھیل گیا کہ راجکماری ساوتری نے ایک لکڑ ہارے سے بیاہ کرنے کی ٹھانی ہے۔ لوگوں کو یہ سن کر اچنبھا تو ہوا۔ پر وہ یہ سوچ کر چپکے ہو رہے کہ راجکماری دھرک کی مورت ہے۔ اس نے جو کچھ کیا ہو گا سوچ سمجھ کے کیا ہو گا۔ ار تو اور جب مہاراجہ اشوپتی کو یہ خبر ملی تو انہوں نے بھی یہی کہا کہاس لکڑ ہارے میں کچھ ایسے ہی گن ہوں گے جو میری بیٹی نے اسے چنا ہے جب بیٹی باپ سے ملنے گئی تو مہاراجہ اشوپتی کے پاس نارد منی ۱؎ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ مہاراج نے پوچھا ساوتری!جس نوجوان کو تم نے اپنا بر چنا ہے وہ کون ہے ؟

 

۔۔۔۔۔۔

۱؎ نارد سات بڑے رشیوں میں سے ایک ہیں۔ رگ وید کا ایک حصہ ان سے منسوب کیا جا رہا ہے۔ رگ وید سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کنور شی کے خاندان میں سے وشنو پر انہیں کیشپ کا بیٹا اور کش کا نواسا بتلایا گیا ہے۔ بین انہیں کی ایجادہے اور وہ گندھروں کے سردار سمجھے جاتے ہیں پرانوں میں جگہ جگہ ان کا ذکر ہے۔ نارد دھرم شاستر انہیں کی یادگار ہے۔

۔۔۔۔۔۔

 

ساوتری لجا کر کہنے لگی ’’مہاراج اس کا نام ستیہ دان ہے اور وہ مہاراجہ دیومت سین کے بیٹے ہیں۔ بوڑھے مہاراج پر کچھ ایسی بپتا پری کہ اس کی آنکھیں جاتی رہیں دشمن اس تاک میں تھے۔ موقع پا کے راج پاٹ چھین لیا۔ اور وہ بیچارے اپنی اتری اور بیٹے کو لے کر بن کو سدھارے اور بھگوان کے دھیان میں دن گزرانے لگے۔

مہاراجہ اشوپتی کچھ کہنے کو تھے کہ نارد جی کو سوچ میں کھوئے ہوئے دیکھ کر رک گئے اور کہنے لگے کہ مہاراج آپ کیا سوچ رہے ہیں۔

نار و جی بولے ’’یہی کہ ستیہ دان سے ساوتری کا بیاہ نہیں ہونا چاہیے ‘‘۔

مہاراج اشوپتی نے کہا ’’ستیہ دان کے پاس دھن دولت تو نہیں تو کیا ہوا دولت ڈھلتی پھرتی چھاؤں ہے ‘‘۔

نارد  جی کہنے لگے کہ ’’مجھے دھن دولت کا خیال نہیں کیونکہ چھتریوں میں جو جوگن ہونے چاہئیں ستیہ دان میں سب موجود ہیں پرا س کے نصیبے میں یہی بدا ہے کہ آج سے پورے ایک برس کے بعد مت کی لو اس کی زندگی کے لہلہاتے پودے کو جھلس ڈالے اور ساوتری کا سہاگ لٹ جائے۔

ساوتری کے منہ پر ہوائیاں اڑنے لگیں اور مہاراجہ اشو پتی گھبرا کے بیٹی کا منہ تکنے لگے کچھ دیر تو یہ حال رہا جیسے چینی کی دو مورتیں آمنے سامنے بیٹھی ہوں۔ پھر ساوتری ٹھنڈی سانس لے کر بولی اب جو ہو سو ہو میں نے تو انہیں سے بیاہ کروں گی۔ انہیں آج تک میں نے پتی کے روپ میں دیکھا ہے۔ بھگوان نہ کریں کہ میں انہیں چھوڑ کر کسی دوسرے کا منہ دیکھوں۔

نارد جی بولے ساوتری ٹھیک کہتی ہے۔

مہاراجہ اشوپتی نے جب دیکھا کہ ساوتری کا ارادہ اٹل ہے تو شبھ گھڑی دیکھ کے اس کے ہاتھ پیلے کر دیے۔

پھر ایک دن ایسا آیا کہ ساوتری ماتا پتا کو چھوڑ کر ستیہ دان کے ساتھ تپ بن کر سدھاری۔ جب وہ بدا ہوئی تو سارا شہر اسے دیکھنے امڈ آیا۔ لوگ چہروں پر دکھ لیے سینوں میں چبھن دبائے سڑک کے کنارے پرے باندھے کھڑے تھے۔ پر نہ تو کسی کی آنکھ میں آنسو تھے اور نہ کسی کے ہونٹ پر فریاد۔ وہ سب کے سب یوں گم سم کھڑے تھے جیسے ان پر کسی نے جادو کر دیا ہوں انہیں یہ یاد ہی نہیں رہا تھا کہ وہ چاہیں تو رو سکتے ہیں۔ وہ یہ بات بھول گئے تھے کہ دیوتاؤں نے انسان کو آنسوؤں جیسی انمول چیز دے کر اس کے غموں کا بوجھ ہلکا کر دیا ہے کیونکہ یہ آنسو ہی ہیں جو دکھ کے پربت کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اپنی رو میں بہا لے جاتے ہیں

ساوتری کی ماں پردے کی اوٹ سے دیکھا اور کلیجہ مسوس کے رہ گئی اسے یاد آ گیا کہ اس کا پتی بھی اسے یونہی بیاہ لایا تھا۔ وہ بھی ماں باپ سے بدا ہوئی تھی۔ اونچی اٹاریاں اور مندروں کے سنہری کلس سہارنے جھٹپٹے میں چپ چاپ اور اداس کھڑے تھے۔ آسمان کی نیلاہٹ پر سپیدی سی چھائی ہوئی تھی۔ اور دلہن کی سسکیاں چوڈول کے لال لال پردوں میں دب کے رہ گئی تھیں۔ پر اس کا پتی تو مہاراج تھا وہ تو اسے باجے گاجے کے ساتھ بیاہ لایا تھا۔ اور اب اس کی لاڈلی بیٹی ساوتری ایک لکڑ ہارے کے ساتھ جا رہی تھی جو سال بھر کے بعد اسے رانڈ چھوڑ جائے گا۔

 

                (۳)

 

تپ بن میں پہنچ کر ساوتری نے ہیرے پنے کے گہنے پاتے اور ریشم کا سرخ جوڑا اتار کے جوگنوں کی سی دھج بن الی نہ اس کے ماتھے پر جھومر تھا اور نہ ہاتھوں میں کنگن نہ گلے میں بنسلی نہ کانوں میں کرن پھول اور تو اور اس کی مہندی رچی پتلی پتلی انگلیوں میں چھلا تک باقی نہ رہا تھا۔ صرف اس کی مانگ میں سیندور کی لال لال لکیر نظر آ رہی تھی۔ جن لوگوں نے اسے مہاراجہ اشوپتی کے محلوں میں دیکھا تھا وہ اگر اسے اس سمے دیکھ لیتے تو یہ نہ جان سکتے کہ وہ راجکماری ساوتری ہے یا کوئی بن دیوی کیونکہ وہ پیڑوں کی ملگجی چھال کے برن میں سچ مچ بن دیوی ہی معلوم ہوتی ہے۔ یہاں نہ محل نہ اٹاریاں تھیں نہ مرمر کی سولوں کا چکنا فرش نہ گدگدے ریشمی گدے نہ موتیوں کی جھالروں کے جھم جھماتے پردے پھر بھی اس انسان جنگل میں ہری دوب نیلے آسمان سنہرے پھولوں سے ڈھکی ہوئی گھاٹیوں اور پتھریلی چٹانوں میں کوئی ایسی موہنی تھی کہ ساوتری میکے کو بھول گئی۔

ستیہ وان بڑے تڑکے لکڑیاں کاتنے نکل جاتا۔ ساوتری تالاب سے پانی بھر کے لاتی ہر قد پر اس کی لچکیلی کمر گگری کے بوجھ سے دھری ہوئی جاتیل سانس پھول جاتی ماتھے پر پسینے کے قطرے یوں ڈھلکنے لگتے جییس گلاب کی پتیوں پر اوس کی بوندیں جھل مل جھل مل کر رہی ہوں۔ پانی لا کے وہ ساس سسر کے پاؤں دھوتی پھر پوجا کے کے کش گھاس اور رنگ برنگ کے پھول توڑ لاتی۔ اتنے مین ستیہ وان لکڑیاں لے کر آ جاتا اور اس کے ہنستے چہرے کو دیکھ کر ساوتری کی ساری تھکن دور ہو جاتی۔ پر ساوتری جانتی تھی کہ اس کے ہنستے چہرے کو جس نے سورج کی کرن کی طرح اس کے سونے اور اندھیرے جیون میں اجالا کر دیا تھا۔ کالی کالی بدلیاں چھپا لیں گی۔ اور اس کی زندگی پھر سونی ہو جائے گی۔ اسے اپنا سہاگ جاڑے کی رت کا ایک چھوٹا سا دن معلوم ہوتا تھا جس کی دوپہر گھڑی بھر میں ختم ہو جاتی ہے اور اب تو اسے ایسا لگتا تھا کہ دن ڈھلنے کو ہے۔ گھڑی دو گھڑی میں چمکیلا سورج مٹیالے رنگ کے پہاڑوں کی اوٹ میں جا چھپے گا۔ اور دھرتی پر کالی رات چھا جائے گی۔ کبھی کبھی راتوں کو اسے ایسا معلوم ہوتا کہ وہ پہاڑوں میں کوئی بہت بڑا پرندہ اپنے پر پھڑپھڑا رہا ہے اور وہ ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھتی اور سوچنے لگتی کہ میں نے سچ مچ کوئی آواز سنی ہے یا مجھے دھوکا ہوا ہے۔ پر یہ بھیانک پرچھائیاں کیسی ہیں جو میری آتما پر چھائی ہوئی ہیں۔ بھگوان کہیں یہ موت کا دیوتا تو نہیں جس کے بازو سارے سنسار پر پھیلے ہوئے ہیں جب ستیہ وان کی موت میں صرف چار دن باقی رہ گئے تو ساوتری نے تین دن کا برت رکھا۔ چوتھے دن جب وہ پچھلے پہر اٹھ کر پانی بھرنے چلی تو اسے تپ بن اداس اداس معلوم ہوتا تھا۔ آشا کا منہ کملایا ہوا تھا اور اس کی مسکراہٹ کچھ پھیکی پھیکی معلوم ہو رہی تھی اور تالاب کا تھما ہوا پانی تو یوں لگتا تھا جیسے تپ بن کی آنکھ میں ایک بڑا سا آنسو ہے۔

ستیہ وان لکڑیاں کاٹنے چلا تو ساوتری بھی سسر سے اجازت لے کر اس کے ساتھ گئی آج وہ ستیہ وان سے کییس الگ رہ سکتی تھی کیونکہ آج کا دن اس کے پتی کی زندگی کا آخری دن تھا۔

وہ دونوں ایک تنگ راستے پر بڑھے جا رہے تھے جو جنگلی پھولوں کی جھاڑیوں سے گھرا ہوا تھا کہیں کہیں اونچے اونچے درخت بھی نظر آ جاتے تھے ان درختوں کے تنوں پر کائی اگ آئی تھی۔ کچھ دور وہ یونہی چلتے رہے پھر یہ پگڈنڈی ایک پہاڑ کی طرف مڑ گئی جس کا نچلا حصہ ہار سنگھار کے پھولوں سے ڈھکا ہوا تھا اور اوپر کے حصے میں جنگل پھیلے ہوئے تھے۔ یہاں پہنچ کر ستیہ وان نے ساوتری کو ہریاول کے فرش پر بٹھا دیا۔ جس پر پھولوں کی پتیاں بکھری پڑی تھیں پھر نازک بیلوں کو ملا کے ایک چلمن سی بنا دی کہ سورج کی کرنیں اس کے چہرے پر نہ پڑیں اور کلہاڑا لے کر جنگل میں گھس گیا۔

آسمانوں پر ابابیلیں اڑ رہی تھیں ان سے اوپر سپید بادل تھے جنہیں ہوا اڑائے لے جا رہی تھی۔ نیچے زمین ہری ہری گھاس مہکتی ہوئی کلیاں درختوں کے جھنڈ اور ان میں دمکتے ہوئے ندی نالے جن میں زندگی دھڑکتی معلوم ہوتی تھی۔ پر موت کا دیوتا بھی یہیں کہیں گھات لگائے بیٹھا تھا۔ گھنے درختوں کی چھاؤں میں ندی کے اس پار بادلوں کی اوٹ میں ایکا ایکی ساوتری کو سامنے ستیہ وان کا تمتماتا ہوا چہرہ نظر آیا اور وہ چونک پڑی۔ کلہاڑا اس کے ہاتھوں سے چھوٹ کر گر پڑا تھا اور اس کے پاؤں لڑکھڑا رہے تھے۔ وہ کہنے لگا میرے سر می درد ہے جسم پھنک رہا ہے

وہ ساوتری کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا اورآنکھیں بند کر لیں اور آن کی آن میں اس کے چہرے پر موت کی زردی کھنڈ گئی

پھر ساوتری نے ایک سایہ سا دیکھا جو بڑھتے بڑھتے سارے جنگل پر چھا گیا۔ وہ دھرتی سے آکاش تک پھیلا ہوا تھا اور پہاڑوں کی اونچی چوٹیوں اور سپید بادلوں کو اس نے ڈھک لیا تھا پھر اس نے دیکھا کہ اس کی کالی پرچھائیں کے ہاتھ پاؤں ،  ناک ،  کان،  منہ اور آنکھیں بھی ہیں۔ پر اس کے نتھنے دو گپھائیں ہیں۔ ناک کان منہ اور آنکھیں بھی ہیں۔ درختوں کے تنے جیسے بازو ٹہنیوں کی سی انگلیاں اور پتھریلی چٹانوں ایسا چوڑا سینہ جس پر لہو جیسا لال لال بانا ایسے لگتا تھا جیسے آگ کی لپٹیں دھوئیں سے لپٹ گئی ہوں۔ ساوتری نے موت کے دیوتا یم ۱؎ کو اس بھیانک روپ میں پہچان لیا اور ڈنڈوت بھر کے چپکی کھڑی ہو گئی۔

۱؎ یم موت کا دیوتا سے دھرم راج بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ انصاف کا دیوتا بھی سمجھا جاتا ہے۔ وہ سورج کا بیٹا ہے اور اس کی ماں کا نام سنجنا ہے۔ وہ یم پوری کا راجہ ہے۔ جس کے راستے پر چار آنکھوں والے کتے پہرہ دیتے ہیں۔ انسان کی آتما زندگی کے بندھن سے آزاد ہو کر یم پوری ہی میں پہنچتی ہے۔ وہاں حساب کتاب ہوتا ہے۔ پھر کسی کو پتری لوک میں جگہ ملتی ہے۔ کوئی سورگ میں جاتا ہے اور کوئی نرک میں۔ یم کو سنسار کے دکھنی حصے کا نگہبان بھی مانا جاتا ہے۔ اس لیے سے دکھشن پتی کہتے ہیں۔

یم نے کہا ’’ساوتری میں تجھے نہیں تیرے پتی کو لینے آیا ہوں ‘‘۔

پھر اس نے جھک کر ستیہ وان کی آتما کو اپنے پھندے میں الجھا لیا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا اسے لے چلا۔ وہ گھنے جنگلوں اور بنوں میں سے گزرتا ہوا پرچھائیوں کی بستی کو جا رہا تھا۔ جسے یم پوری کہتے ہیں۔ پر اس کامن بے چین تھا اور وہ جی ہی جی میں کہہ رہا تھا کہ مجھے آج تک کسی انسان نے نہیں دیکھا۔ پھر ساوتری نے کیسے دیکھ لیا۔ اور وہ ڈری اور جھجکی بھی تو نہیں بلکہ ڈنڈوت کر کے یوں چپ چاپ کھڑی ہو گئی جیسے وہ میرا ہی راستہ تک رہی تھی۔

پھر وہ ایکا ایکی رک گیا۔ یہ پاؤں کی چاپ کیسی ہے یہ کون ہے جو میرے پیچھے پیچھے چلا آ رہا ہے ارے یہ ساوتری ہی تو ہے اس کے بال بکھرے ہوئے مٹھیاں بھنچی ہوئی۔ جنگلی پھول اور پتے آنچل سے لپٹے ہوئے پاؤں کانٹوں سے لہو لہان ہو گئے ہیں پھر بھی اس کے چہرے پر ڈر کا ہلکا سا سایہ بھی نظر نہیں آتا۔ اور یہ دو چمکیلے ستارے کیا ہیں یہ اس کی دو آنکھیں ہیں جو مجھ پر جمی ہوئی یں ان آنکھوں کو تو اس طرح امڈنا چاہیے تھا جییس برکھا رت میں ندیاں امڈ آتی ہیں پر وہ تپتے ہوئے میدانوں کی طرح خشک ہیں۔

وہ چلا کر کہنے لگا ’’لڑکی تو میرے پیچھے کیوں آ رہی ہے ؟شش وہ بولی ’’دھرم راج میں اور کہاں جاؤں سنسار میں میرا اور کون سا ٹھکانا ہے ‘‘۔

تو اپنے گھر کیوں نہیں چلی جاتی۔

میرا گھر؟ جہاں میرے سوامی ہیں وہی میرا گھر ہے آپ جہاں انہیں لے چلے ہیں وہیں مجھے بھی لے چلیے۔

’’تو وہاں کیسے جا سکتی ہے ؟‘‘

’’آپ مجھے نہیں لے جاتے تو انہیں بھی نہ لے جائیے ‘‘

’’یہ تو نہیں ہو سکتا۔ ہاں تو اور جو چاہے مانگ لے ‘‘

’’تو میرے سسر کی کھوئی ہوئی آنکھیں مل جائیں ‘‘۔

’’تو جیسا چاہتی ہے ویسا ہی ہو گا۔ پر اب تو لوٹ جا کیونکہ تو بہت تھک گئی ہے۔ یہ کہہ کر دیوتا پھر چل پڑا۔ وہ گھنے اور سرد جنگلوں گہرے کھڈوں اور ندیوں کی ترائیوں سے بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ جہاں بھیانک دلدلوں میں بڑے بڑے اجگر لوٹتے رہتے ہیں پر ساوتری کے پاؤں کی چاپ ابھی بھی اسے سنائی دے رہی تھی۔ دیوتا پھر رک گیا اور کہنے لگا لڑکی تو کیا چاہتی ہے۔

وہ بولی ’’دھرم راج مجھ پر دیا کیجیے کیونکہ دیا کرنا ہی سب سے بڑا دھرم ہے۔

تو ستیہ وان کی زندگی چھوڑ کر جو چاہے مانگ لے۔

تو پھر میرے سسر کو ان کا راج پاٹ لا دیجیے۔

جا تیرے من کی کامنا پوری ہو گی۔

یم پھر چل پڑا۔ اس کے دہنے بائیں بڑی بڑی چٹانیں تھیں جن پر کائی اگ آئی تھی اور بہت دور کہیں اندھیرے غاروں میں جھرنے پتھروں سے سر ٹکرا رہے تھے۔ پر ساوتری اب بھی اس کے پیچھے پیچھے چلی آ رہی تھی۔ دیوتا ٹھہر گیا اور کہنے لگا۔

تجھے جو کچھ مانگنا ہے ایک بار ہی مانگ لے اور میرا پیچھا چھوڑ دے کیونکہ یم پوری کا راستہ بڑا کٹھن ہے۔

ساوتری بولی دھرم مہاراج آپ سورج کے بیٹے ہیں جس نے چار کھونٹ اجالا کر رکھا ہے۔ پھر یہ کیا بات کہ آپ میری زندگی ان اندھیری گپھاؤں کی طرح سونی کر چلے ہیں۔ جن میں سورج کی ہلکی سی کرن بھی نہیں پہنچ سکتی۔

لڑکی میں کیا کروں کرموں کا لکھا کسی کے مٹائے سے کب مٹ سکتا ہے۔ پر میں تجھے بچن دیتا ہوں کہ تو اپنے دکھوں کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے جو جو چیزیں مانگے گی تجھے مل جائیں گی۔

مہاراج میں چاہتی ہوں کہ میرے ہاں سو بیٹے ہوں جنہیں دیکھ دیکھ کر میں اپنے دکھوں کو بھول جاؤں۔

تو نے جو مانگا ہے وہ تجھے مل جائے گا تیری کوکھ سے سو بیٹے جنم لیں گے جو بڑے بڑے سورماؤں کو نیچا دکھا کر اپنے بنس کا نام روشن کریں گے۔

پر ساوتری اس طرھ چپ چاپ کھڑی رہی جیسے اس نے دیوتا کی بات سنی ہی نہیں۔ تم نے کہا لڑکی تو نے جو چاہا تجھے مل گیا اب تو جاتی کیوں نہیں ؟

میرا سہاگ تو آپ لیے جا رہے ہیں پھر میری کوکھ سے سو بیٹے کیسے جنم لیں گے

موت کا دیوتا کچھ دیر چپکا کھڑا رہا پھر اس کا چہرہ آسمانی جوت سے جگمگا اٹھا اس نے پھندا کھول کر ستیہ وان کی آتما کو آزاد کر دیا اور کہنے لگا پتی برتا استری میں کتنی شکتی ہے وہ چاہے تو یم کے پیچھے پیچھے موت کی گھاٹیوں تک چلی آتی ہے اور اس سے اپنے پتی کی آ چھین لے۔ انسان دیوتاؤں سے مقابلہ نہیں کر سکتا پھر بھی کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک بلا کا اٹل ارادہ دیوتاؤں کو ہار ماننے پر مجبور کر دیتا ہے۔

ڈوبتے ہوئے سورج کی کرنوں سے ستیہ وان کے ماتھے کو چھوا اور وہ آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھا پھر وہ کہنے لگا۔ ساوتری میں نے ایک بھیانک سپنا دیکھا ہے۔ نہ جانے وہ سپنا تھا یا میں سچ مچ مر کے جی اٹھا ہوں۔

ساوتری نے اس کی بات کا کچھ جواب نہ دیا اور کہنے لگی۔ اب رات کا اندھیرا اترنے لگا ہے۔ پنچھی پیڑوں پر بسیر لے رہے ہیں آئیے ہم بھی گھر چلیں۔

وہ پیڑوں سے گھری ہوئی پگڈنڈی پر جا رہے تھے کہ اچانک بہت سے آدمیوں کے شورتھوں کے پہیوں کی گڑ گڑاہٹ ہاتھیوں کے قدموں کی دھمک اور گھوڑوں کے ہنہنانے کی آواز سے جنگل گونج اٹھا اور انہیں بہت سے لوگ اپنی طرف آتے دکھائی دیے۔ یہ لوگ راجہ دیو مت سین کو لینے آئے تھے۔

بوڑھا راجہ اپنے جھونپڑے کے دروازہ پر کھڑا تھا۔ ساوتری یہ دیکھ کے اس کا چہرہ دمک اٹھا۔ اس نے پہلی بار اپنی چہیتی بہو کو دیکھا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

نل دمینتی

 

                (۱)

 

دور بھ دیس کے راجہ بھیم کی بیٹی راجکماری دمینتی اپنی سکھیوں کے ساتھ پھلواڑی کی سیر کر رہی تھی کہ چنبیلی کے جھرمٹ میں کچھ ہنس دکھائی دیے جن کے سنہری پروں کی جھم جھماہٹ پر نظر نہیں ٹکتی تھی۔ ان ہنسوں کے رنگ و روپ میں کوئی ایسی موہتی تھی کہ راجکماری اور اس کی سکھیاں ان کے پیچھے دوڑ پڑیں۔ وہ پہلے تو چپ چاپ کھڑے رہے پھر ان میں کچھ کدم کے پیڑ تلے جا رہے۔ کچھ جھاڑیوں میں گھس گئے۔ انہوں نے پھر پیچھا کیا تو وہ سب کھنڈ گئے اور ایک ایک کنیا اک ایک ہنس کے پیچھے ہو لی۔ راجکماری نے جس ہنس کا پیچھا کیا وہ کچھ دیر تو اس کے پیلے پیلے پنکھ جھاڑیوں میں نظر آٹے رہے۔ پھر وہ ایکا ایکی نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ دمینتی اسے کیاری کیاری دیکھتی بھالتی چلی آ رہی تھی کہ اچانک اشوک کے پیر تلے اس کی جھلک سی نظر آئی۔ اب کے راجکماری کے پاس پہنچنے پر بھی وہ چپکا کھڑا رہا۔ اور جب دمینتی نے اسے پکڑنے کو ہاتھ بڑھایا تو وہ کہنے لگا۔ ودربھ دیش کی راجکماری مجھے نشدھ دیش کے راجہ نل نے بھیجا ہے۔ جو راجاؤں کا راجہ پرجا کا رکھوایا دیوتاؤں کا پیارا اور بھارت ورش کی آنکھ کا تارا ہے۔ وہ سنسار کے سب سورماؤں سے بڑا ہے اور روپ ہل اور گیان میں کوئی چھتری سے نہیں پہنچ سکتا۔ پر اے راجکماری جب سے راجہ نے تیرے روپ میں اور جوبن کی تعریف سنی ہے جی اس کے بس میں نہیں رہا۔ اور تیری چاہتا س کے روئیں روئیں میں سما گئی ہے۔

راجکماری نے نل کا نام پہلے بھی کئی بار سنا تھا۔ ابھی نل ہی کی پیاری سکھی تلوتما سورج کا بادلوں کی اوٹ سے نکلنا دیکھ کے کہہ رہی تھی کہ نل راجہ کا رتھ بھی سورج کے رتھ کی طرح سنہری ہے۔ اور ہاں اس نے اجلے اجلے بادلوں کو آکاش پر دوڑتے دیکھ کر یہ بھی کہا تھا کہ نل کے گھوڑے یونہی ہرے بھرے میدانوں میں طرارے بھرا کرتے ہیں۔ اس پر تو رمبھا بول اٹھی تھی کہ اری باولی کہاں راجہ نل کے گھوڑے اور کہاں یہ بادل یہ تو ہوا سے زیادہ تیز اور بجلی سے زیادہ چنچل ہیں۔

اچھا تو ودربھ دیس کی راجکماری کو پریم کا سندیسہ بھیجنے والا نل ہی ہے۔ جس کے گن گاتے گاتے رمبھا اور تلوتما آپس میں لڑ پڑی تھیں یہ نہ جانے کیا بات تھی کہ جب انہوں نے نل کی کہانی چھیڑی تو وہ کچھ لجا سی گئی۔ یوں کہنے کو تو اس نے اوپر کے دل سے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اری رمبھا تو پھر نل کی کتھا بکھا ننے بیٹھ گئی پر اس کا دل یہی چاہتا تھا کہ وہ دونوں نل ہی کی باتیں کیے جائیں۔

اس کی حالت اس مدھ مکھی کی سی تھی جو دن بھر کلیوں کے ہونٹوں کو چوستی پھرے اور اسے یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے بہت سا رس اکٹھا کر لیا ہے۔ پھر ایکا ایکی اس کی آتما امرت کی لہروں میں ڈوب جائے اور وہ جان لے کہ یہ تو وہی رس ہے جسے دن بھر کی محنت سے میں نے اکٹھا کر لیا تھا کیونکہ جب راج ہنس نے نل کا نام لیا تو دمینتی کو اپنے دل میں آنند کی ایک لہر سی اٹھتی معلوم ہوئی اور نل کے روپ ار بل کی جتنی کہانیاں اس نے سنی تھیں ایک ایک کر کے یاد آ گئیں پھر اس نے دو بازو دیکھے جو چٹانوں کی طرح مضبوط تھے اور نشدھ دیس کو ایک بہت بڑی فصیل کی طرح گھیرے ہوئے تھے اس سمے اسے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ ایک نازک اور لچکیلی بیل ہے جسے ہوا کے ہلکے سے جھونکے کی سہارنیں اور اب اسے ایک مضبوط پیڑ کا سہارا مل گیا ہے۔ جو اسے تیز ہوا اور مینہ کی بوچھاڑ سے بچا لے گا۔ پھر اچانک اس کے دل میں ایک ہلکی ہلکی ٹھیس اٹھنے لگی۔ ایک ایسی میٹھی میٹھی سی کسک جس میں دکھ اور آنند بس اور امرت دونوں ملے ہوئے تھے۔ اور اس نے ٹھنڈی سانس بھر کے ہنس سے کہا میں راجہ نل کے سندیسے کا جواب تو کیا دوں ہاں تم نے جو کچھ دیکھا ہے ان سے کہہ دیجیو۔

نل راج محل سے اٹھ کر پھلواڑی کی سیر کو چلا تھا۔ سامنے سے وہی ہنس آئے جنہیں اس نے پریم سندیسہ دے کر دمینتی کے پاس بھیجا تھا۔ راجہ انہیں دیکھ کر ٹھٹک گیا۔ اتنے میں وہ ہنس جسنے دمینتی سے باتیں کی تھیں اڑ کے نل کے پاس پہنچا۔ اورکہنے لگا نشدھ دیس کے راہ میں اتر کے برفانی پہاڑوں سے دکھن کے ان پتھریلے پہاڑوں تک گھوما ہوں جن کے سینے میں آگ بھری ہے۔ پر میں نے دمینتی جیسی سندر کنیا نہیں دیکھی۔ جب وہ مسکراتی ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گلاب کی پتی پر چنبیلی کی پنکھڑی رکھ دی گئی ہو یا مونگے پر موتی پڑا چمک رہا ہے۔ اس کی آنکھیں دیکھ کر مجھے وہ نیلے کنول یاد آ گئے جو مندرا چل کی جھیلوں کے کنارے ہوا میں ہلکورے لیتے رہتے ہیں اور جب اس نے مجھے پکڑنے کو ہاتھ بڑھایا تو میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ سرس کی کلیاں زیادہ نازک ہیں یا دمینتی کی گوری گوری بانہیں۔ پر اے راجہ چنتا نہ کر وہ بھی تجھے چاہتی ہے کیونکہ جب میں نے تیرا نام لیا تو وہ کچھ دیر چپ چاپ کھڑی رہ۔ پھر ٹھنڈی سانسیں بھرنے لگی مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مدن نے تیرے ہی دل پر بان نہیں مارا۔ بلکہ اس کے زہریلے تیروں نے دمینتی کے سینے کو بھی چھید ڈالا ہے۔

 

                (۲)

 

اور مدن کے بانوں نے سچ مچ دمینتی کے سینے کو بھی چیر ڈالا تھا کیونکہ اس دن کے بعد اسے کسی نے ہنستے نہ دیکھا۔ وہ پہروں چھپر کھٹ پر منہ ڈھانپے پڑی رہتی یا پھر اشوک کے اس پیڑ تلے جا بیٹھتی جہاں اس نے ہنس کی زبانی پر یم سندیسہ سنا تھا۔ رمبھا نے کئی بار مالتی کی جھاڑیوں میں چھپ کر اس کی سسکیاں سنی تھیں۔ اس کی پلکوں پر ایک ننھی سی بوند کو تھرتھراتے دیکھا تھا۔ اور اس نے یہ بھی دیکھا تھا کہ دمینتی کی آنکھیں ان چٹیل پہاڑوں کی چوٹیوں پر گڑی ہیں جہاں نشدھ دیش کا ڈانڈ ودربھ راج سے ملنا ہے ایکا ایکی اس نے اپنا منہ ڈھانپ لیا اوریوں آہیں بھرنے لگی جیسے اس کا کلیجہ پھٹ جائے گا۔

اس کی سکھیوں نے بہتیرا چاہا کہ وہ پہلے کی طرح ہنس بول کے جی بہلائے پر کہا کا سنسا بولنا کیونکہ جب وہ سکھیوں کے ساتھ پھلواڑی سیر کو جاتی تو ہنس نے جو باتیں کہی تھیں اس کے کانوں میں گونجنے لگتیں۔ جی بھرا آتا تھا۔ گلا رندھا جاتا تھا اورسانس پھانس کی طرح کھٹکتی معلوم ہوتی تھی اور اب تو کھانا پینا بھی چھوٹ گیا تھا۔ رمبھا اور تلوتما نے بہت ہاتھ پاؤں جوڑے تو ان کا جی رکھنے کو یونہی منہ جھٹال لیا۔ نہٰں تو وہ دن دن بھر بھوکی پیاسی پڑی رہتی۔ کچھ دنوں میں اس کا پھول سا چہرہ کملا گیا تھا۔ گالوں کی رنگت پیلی پڑ گئی تھی اورجسم سوکھ کے کانٹا ہو گیا تھا۔ سکھیوں کو اس کے روگ کا کارن وتو پہلے ہی معلوم ہو چکا تھا پر جب یہ حال دیکھا تو کسی طرح دمینتی کے باپ تک خبر پہنچائی اور باتوں باتوں میں یہ بھی بتا دیا کہ کسی جوگ بر سے راجکماری کا بیاہ کر دینا چاہیے۔

راجہ بھیم بڑے اونچے گھرانے کا چھتری اور راجوں کا راجہ تھا۔ اس نے بڑی دھوم دھوم سے بیٹی کے سوئمبر کی تیاری شروع کی۔ اور ہرکارے یہ خبر لے کر ہر طرف پھیل گئے۔

دمینتی کے سوئمبر کی خبر سن کے دیس دیس کے راجہ بڑے ٹھاٹ باٹ سے ودربھ دیس کو چلے۔ ان میں اتر کے دیسوں کے راجکمار بھی تھے۔ جہاں سورج کی کرنیں برف کہر اور پالے کے ڈر سے دھرتی کے سینے میں جا چھپتی ہیں اور پھر کیسرکے روپ میں اس کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں اورسندھو ۱؎ کے راجہ بھی جوسر پر کٹ دھرے۔ اسیل گھوڑوں پر سوار بڑے لاؤ لشکر کے ساتھ آئے تھے۔

۱؎ سیندھوا یا سندھو ان قبلیوں کا نام ہے جو پرانے زمانے میں دریائے سندھ کے کنارے بستے تھے۔ سندھو کے راجہ جے ورتھ کا ذکر مہابھارت میں بھی آیا ہے۔ اس راجہ سے دھرت راشٹر کی بیٹی بیاہی گئی تھی۔ وہ ہار بھارت میں کورو کی طرف سے لڑا۔ اور ارجن کے ہاتھوں مارا گیا۔

پھر کچھ چھتری کوشل ۱؎ پانجال ۲؎ اور کامروپ ۳؎ کچھ دکن کی ان نگریوں سے جن کے آنچل میں کرشنا اور گود اوری نے روپہلی گوٹ ٹانگ رکھی ہے اور اچنبھے کی بات تو یہ ہے کہ جب سمبر ۴؎ پربت پر یہ خبر پہنچی اور دیوتاؤں نے ناروجی کی زبانی دمینتی کے جوبن اور روپ کا حال سنا تو ان کا جی بھی للچایا اور اندر ورن ۵؎ اور اگنی ۶؎ اوریم ۷؎ رھتوں پر بیٹھ کر ودربھ دیس کی راجکماری کو جیتنے چلے۔

 

۔۔۔۔۔۔

۱؎ کوشل اس علاقے کو کہتے ہیں جو سرجوندی کے آس پاس پھیلا ہوا ہے۔ اجودھیا نگری اس کی راج دھانی تھی مگر اس کے علاوہ یہ نام بعض دوسرے علاقوں کے لیے بھی استعمال ہوا ہے مثلا وندھیاچ کے دکھن میں جو علاقہ ہے اسے بھی کوشل کہتے ہیں۔

۲؎ پانجال کے بارے میں اختلاف ہے بعض لوگوں کاخیال ہے کہ پانجال پنجاب کا پرانا نام ہے۔ بعض قنوج کو پانجال کہتے ہیں یورپ کے بعض عالموں کا خیال ہے کہ وہ سارا علاقہ جو دلی سے چنبل ندی تک پھیلا ہوا ہے پرانے زمانے میں پانجال کہلاتا تھا۔ درد پدی پانجال ہی کی راجکماری تھی۔ سا لیے اسے پانجالی بھی کہتے ہیں

۳؎ آسام کے مغربی علاقے کو اب بھی کامروپ ہی کہتے ہیں۔

۴؎ یونانی دیو مالا میں جو حیثیت اولمپس کی ہے وہی ہندو دیو مالا میں سمبر پربت کی ہے۔ سورگ جہاں اندراج کرتا ہے۔ اس پہاڑ پر ہے اور دیوتا بھی یہیں رہتے ہیں۔

۵؎ ورن پانی کا دیوتا ہے۔

۶؎ آگ کا دیوتا جو وشنو پوران کے مطابق برہما کا بیٹا ہے۔ سواہا اس کی بیوی کا نام ہے۔

۷؎؎ موت کا دیوتا ہے تفصیل کے لیے ساوتری کی کہانی دیکھو۔

۔۔۔۔۔۔۔

 

راجہ نل جو دمینتی کے سوئمبر کی خبر پا کے چلا۔ تو دن بھر میں میدانوں اور پہاڑوں کو لپیٹ سپیٹ ودربھ کے علاقے میں جا پہنچا۔ اس کا رتھ ایک گھنے جنگل میں گزر رہا تھا۔ جہاں سے بھیم کی راجدھانی تک گھڑی دو گھڑی کا سفرر تھا کہ اچانک… آکاش سے ایک جوت سی اتری اور چاروں دیوتا انسان کے روپ میں اس کے سامنے آ گئے۔ نل نے رکھ روک لیا اور ڈنڈوت کر کے چپ چاپ کھڑا ہو گیا۔ اتنے میں اندر بولا۔ نشدھ دیش کے راجہ تم سے ہو سکے تو ہمارا ایک کام کر دو۔

نل نے ہاتھ جوڑ کر کہا آپ کا حکم بجا لانا میرا دھرم ہے پر میں جاننا چاہتا ہوں کہ وہ کام کیا ہے ؟

اندر کہنے لگا ’’میں اندر ہوں ‘‘ یہ اگنی اور یہ ورن ہیں۔ اور جو وہ ذرا ہٹ کے کھڑے ہیں یم راج ہیں۔ ہم چروں دمینتی کے سوئمبر کی خبر سن کر دھرتی پر آئے ہیں اب تم جا کے راجکماری سے کہو کہ وہ ہم چاروں میں سے کیس کو اپنا پتی بنا لے۔

یہ سن کے نل کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ اور وہ کہنے لگا۔ مہاراج میں بھی آپ کی طرح دمینتی کو جیتنے کے لیے سوئمبر میں جا رہا ہوں۔ میں اس سے یہ بات کیسے کہہ سکتا ہوں۔

اندر نے جواب دیا ’’راجہ تم بچن ہار چکے ہو۔ اس لیے اب تو تمہیں جانا ہی ہو گا‘‘۔

نل بولا راج محل کے گرد سینکڑوں پہریدار کھڑے ہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں ان سب کی آنکھ بچا کے دمینتی کے پاس پہنچ جاؤں۔

اندر نے کہا اس کی فکر نہ کرو تم اس طرح چپ چاپ محل میں جا پہنچو گے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے پائے گی۔

اندر نے جو کچھ کہا تھا وہ ٹھیک نکلا۔ کیونکہ جب نل نے راجہ بھیم کے محل میں پاؤں رکھا تو کسی کو اس کے قدموں کی چاپ سنائی دی نہ اس کا سایہ نظر آیا۔ اور وہ پہریداروں کے بیچ میں سے نکل کے رنواس میں جا پہنچا۔

دمینتی بال بال موتی پروئے سولہ سنگھار کیے سکھیوں کے جھرمٹ میں بیٹی تھی اور گائنیں انگلیاں نچا نچا سولھے گا رہی تھیں کہ ایکا ایکی انہیں دروازے پر نل کا چہرہ نظر آیا۔ بس پھر کیا تھا ہر طرف افراتفری مچ گئی۔ ان میں سے کچھ تو لاج کے مارے منہ ڈھانک کر سرنیہوڑائے ایک طرف کھڑی ہو گئیں کچھ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے اس کے روپ کو تکنے لگیں کچھ چلا چلا کر کہنے لگیں کہ ار ییہ کون ہے جو یوں بے دھرک رنواس میں گھس آیا ہے۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر نل بھی کچھ گھبرا سا گیا۔ اتنے میں دمینتی آگے بڑھی اور کہنے لگی آپ کون ہیں کہ اتنے کڑے چوکی پہرے میں سے گزر کر نواس میں چلے آئے۔

راجکماری میں نشدھ دیس کا راجہ نل ہوں۔ اور اندر ورن اگنی اور یم نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ تم ان چاروں میں سے کسی کو اپنا پتی بنا لو۔

دمینتی ہنس کے بولی جب سے میں نے ہنس کے منہ سے آپ کے گن سنے ہیں میں تو آپ کو اپنا پتی مان چکی ہوں۔

راجکماری میں کہاں اور کہاں دیوتا۔ میں تو ان کے پاؤں کی دھول کی برابری بھی نہیں کر سکتا۔ دھرتی کے باسیوں میں کس کا جگرا ہے کہ جسے دیوتا چاہیں اسے اپنی پتنی بنانے کا خیال بھی جی میں لائے۔

میں دیوتاؤں کو نمسکار کر کے کہتی ہوں کہ میں آپ ہی کو اپنا پتی بنا لوں گی۔

پر مجھے تو دیوتاؤں نے تمہارے پاس بھیجا ہے۔

میں نے اس کا اپائے بھی سوچ لیا ہے۔ک میں ان کے سامنے آپ کے گلے میں جے مال ڈال دوں گی۔

دوسرے دن جب راجہ نل سونمبر سبھا میں آیا تو اس نے دیکھا کہ ایک بڑا منڈپ ہے جس میں جڑاؤ کواڑ لگے ہیں اور کھمبے سونے روپے سے منڈھے ہوئے ہیں۔ کھمبوں کے ساتھ ساتھ سنگھاسن بچھے ہیں اور ان پر دیس دیس کے راجہ رنگا رنگ لباس پہنے بیٹھے ہیں۔ نل بھی اپنے سنگھاسن پر جا کے بیٹھ گیا۔ اتنے میں دمینتی بھاری جوڑا پہن آئی اور کوندا سا لپکتا معلوم ہوا۔ وہ جے مال رتھ میں آگے بڑھی اور نل کے سامنے جا کر رک گئی۔ پر یہ دیکھ رک اس کا کلیجہ دھک سے رہ گیا کہ نل کے رنگ اور روپ کے پانچ مرد ایک ہی جگہ بیٹھے ہیں۔ وہ جان گئی کہ دیوتاؤں نے یہ سوانگ رچایا ہے۔ ان میں سے ایک تو نل ہے اور باقی چار دیوتا۔ پر کوئی یہ کیسے جانے کہ ان میں سے نل کون ہے ؟ تب وہ دیوتاؤں کو ڈنڈوت کر کے کہنے لگی اے دیوتاؤں میں نے جب سے ہنس کی زبانی نشدھ دیس کے راجا کا حال سنا ہے میں جی جان سے انہیں اپنا پتی مان چکی ہوں۔ اس لیے مجھے ایسی شکتی دیجیے کہ میں اپنے پتی کو پہچان لوں۔

یہ سن کر دیوتاؤں کے دل پسیج گئے اور دمینتی نے نل کو پہچان لیا۔ اس نے دیکھا کہ دیوتاؤں کی آنکھوں پر پلکیں نہیں ہیں۔ نہ ان کا سایہ ہے نہ ان کے چہرے پر پسینہ ہے۔ نہ ان کے پاؤں زمین کو چھوتے ہیں۔ پھر وہ ایسے پھولوں کے ہار پنے ہوئے ہیں جو کبھی نہیں کملاتے۔

پرنل کے جسم کی پرچھائیں صاف دکھائی دے رہی ہے۔ اس کی آنکھوں پر پلکیں بھی ہیں اور پھولوں کا ہار پسینے سے چپک گیا ہے۔ دمینتی رم سے سرجھکائے نل کی طرف بڑھی اور اس کے گل میں جے مال ڈال دی پھر کیا تھا جے کاروں کا شور مچا گیتوں کی تانوں سے منڈپ گونج اٹھا۔ اندر کے حکم سے سورگ کی اپسرائیں نل اور دمینتی پر پھول برسانے لگیں ورن اور اگنی نے کہا تم ہمیں جب بلاؤ گے ہم پل بھر میں تمہارے پاس آ پہنچیں گے۔ یم بولا کہ تم دھرم کے راستے سے کبھی نہیں ہٹو گے اور اچھے اچھے کھانے پکانے میں کوئی تمہاری برابری نہیں کر سکے گا۔ یہ کہہ کر دیوتا تو سمبر پربت کو سدھارے اور ادھر راجہ بھیم نے بڑے دھوم دھڑ کے سے نل کے ساتھ دمینتی کا بیاہ کر دیا۔

اندر اور اس کے ساتھی ودر بھ سے سمبر پربت کو چلے تو راستے میں انہیں وقت کے اتھاہ ساگر سے کل جگ کا بھیانک چہرہ ابھرتا نظر آیا جو اپنے ساتھی دواپر کے پیچھے پیچھے اینڈتا براتا چلا آ رہا تھا۔ اندر نے پوچھا کل جگ کہاں چلے۔

کل جگ بولا ہم دونوں دمینتی کے سوئمبر میں جا رہے ہیں۔ اندر نے ہنس کر کہا لیکن دمینتی کا سوئمبر تو ہو چکا۔ اب و نل سے اس کے بیاہ کی تیاریاں ہو رہی ہیں یہ جو تمہیں بہت دور سونے کی ایک ندی لہراتی نظر آتی ہے یہ ودربھ دیس کی راجدھانی ہے۔ جس کی دیواریں سونے روپے سے لپی ہوئی ہیں اور یہ جھلملاتی لال لکیریں ریشمی باوٹے ہیں جو ساری نگر میں پھیلتے چلے گئے ہیں۔

کل جگ سانپ کی طرح بل کھا کے بولا ’’بڑے اچنبھے کی بات ہے کہ جسے دیوتا چاہیں وہ ایک انسان کو اپنا پتی بنا لے دمینتی کو ضرور اس غلطی کی سزا ملنی چاہیے ‘‘۔

اندر نے کہا اس میں دمینتی کی کوئی غلطی نہیں اس نے ہماری مرضی سے نل کو بر چنا ہے۔

یہ کہہ کر اندر نے رتھ کو آگے بڑھایا تینوں دیوتا بھی اس کے پیچھے پیچھے چلے۔ پر کل جگ ۱؎ جہاں کھڑا تھا وہیں کھڑا رہا۔ اب اس کا چہرہ اور زیادہ گھناؤنا ہو گیا تھا۔ اس کے جسم کے داغ ابھر آئے تھے اوراس کی آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں۔ وہ تھوڑی دیر یونہی کھڑا سوچتارہا پھر دوا پر سے کہنے لگا۔ جب تک میں نل سے بدلہ نہ لے لوں مجھے کل نہیں پڑے گی۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ ہندوؤں نے زمانے کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ہر حصے کا نام یک یا جگ ہے اور ان کی ترتیب یہ ہے کہ کرت یک،  ترتیا یگ،  دوا پریگ اور کل یگ۔ ان میں سے کل یگ آخری دور ہے۔ اور اس دور میں دنیا سے سچائی اٹھ جاتی ہے اور ہر طرف پاپ کا اندھیرا چھا جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔

 

                (۳)

 

دمینتی سکھ پال سے اتری تو اس کے جوبن کی ٹھلک سے نشدھ کے راج محل کی دیواریں چمک اٹھیں۔ امیروں کی اٹاریوں سے غریبوں کے جھونپڑوں تک گوٹے سے منڈھے اور بندن واروں سے لدے پھندے نظر آتے تھے۔ گھر گھر طبلہ کھڑک رہا تھا۔ پکھاوج پر ٹکور پڑ رہی تھی اور مبارک باد کے ترانوں اور شادیانوں سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔

نل اور دمینتی کے پریم کو دیکھ کر لوگ چکوے چکوی کی چاہت کی کہانیاں بھول گئے۔ جس طرح بھونرا ہولے ہولے کلیوں کا رس چوستا رہتا ہے پر اسے سیری نہیں ہوتی اسی طرح پریم کے مدھ بندھن میں بھی ان دونوں کا جی نہیں بھرتا تھا۔ راجہ راج دربار میں ہو یا سیر و شکار میں۔ رانی سایے کی طرح اس کے ساتھ لگی رہتی اور پل بھر کے لیے بھی اسے آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتی تھی۔ اور تو اور لڑائی کے میدان میں بھی جہاں تلواریں برستیں اور تیر کی بوچھاڑ سے دھرتی کا سینہ چھلنی ہو جاتا تھا وہ راجہ کے قریب سفید گھوڑے پر سوار نظر آتی تھی۔ یونہی بارہ برس گزر گئے اور کل جگ نے جو منصوبہ باندھا تھا وہ پورا نہ ہوا۔

ایک دن نل پاؤں دھوئے بغیر پوجا کرنے جا بیٹھا۔ کل جگ ایسے ہی موقع کی تاک میں تھا۔ جھٹ اس کے جسم میں گھس کے اسے جوا کھیلنے پر اکسانے لگا۔ ساتھ ہی اس نے نل کے چھوٹے بھائی پشکر کو اس طرح بہکایا کہ اس کی بھی مت ماری گئی اور دونوں بھائی بھاری داؤں بھر کے جوا کھیلنے لگے۔

اس موقعہ پر جگ کا ساتھی دوا پر جوئے کے پانسوں میں جا گھسا اور بازی کا رنگ ایسا بدلا کہ جب پانسا پھینکتا الٹا پڑتا۔ پہلے پشکر نے ہاتھی گھوڑے جیتے۔ پھر گہنے پاتے کی نوبت آئی۔ یہ دیکھ کر دمینتی سمجھ گئی کہ اب راج پاٹ کی خیر نہیں میں تو جس طرح بن پڑی گزارا کر لوں گی۔ یہ ننھے بچوں کو کون سنبھالے گا۔ یہ سوچ کے اس نے لڑکے اور لڑکی کو اپنے باپ کے ہاں بھیج دیا۔

نل جب سارا روپیہ پیسہ گھوڑے ہاتھی اور گہنا پاتا ہار چکا تو راج پاٹ کو داؤں پر لگا دیا۔ اب کے پھر نل ہار گیا۔ یہ دیکھ کر پشکر کہنے لگا۔ آپ کے پاس جو کچھ تھا آپ وہ سب ہار چکے اب صرف دمینتی رہ گئی ہے اسے بھی داؤں پر لگا دیجیے۔ یہ سن کر نل کا چہرہ مارے غصے کے تمتما اٹھا۔ پر اس نے پشکر کو کوئی جواب نہ دیا وار سارے کپڑے اتار کر صرف ایک چادر اوڑھ راج محل سے نکل کھڑا ہوا دمینتی بھی چادر میں اپنا نازک بدن چھپائے اس کے پیچھے پیچھے چلی۔

ان کے نکلتے ہی پشکر نے شہر میں ڈھنڈورا پٹوا دیا کہ جو کوئی نل کو اپنے ہاں جگہ دے گا اسے کولھو میں پلوا دیا جائے گا اس لیے پرجا میں سے کسی کو اس سے بات کرنے کا ہواؤ نہیں پرتا تھا۔ یہ دونوں تین دن تو شہر کے باہر بھوکے پیاسے پڑے رہے جب کہ پشکر کے ڈر نے اپنوں کو بھی بیری بنا دیا تھا۔ تو جدھر منہ اٹھا چل کھڑے ہوئے۔ راستے میں ایک بن ملا جس میں پیڑوں کے جھنڈ چھائے ہوئے تھے۔ جھاڑیاں پھولوں سے لدی ہوئی تھیں۔ انہیں جھاڑیوں کے پاس ایک تالاب مل گیا۔ اس میں ہاتھ منہ دھویا۔ پھر درختوں کی جڑیں اور کچھ پھل پھلاری کھا کے پیٹ بھرا۔ اورایک پیڑ کی چھاؤں میں لیٹ گئے۔ اسی طرح یہاں کئی دن گزر گئے۔ ایک دن نل اور دمینتی تالاب کے پاس کھڑے تھے کہ انہیں کچھ پرندے نظر آئے نل نے سوچا میرے پاس کوئی ہتھیار ہوتا تو ان پرندوں کو شکار کرتا۔ پر یہاں ہتھیار کہاں۔ کچھ دیر کھڑا سوچتا رہا۔ پھر وہی چادر جسے اوڑھے ہوئے تھا اتار کے ان پر پھینک دی۔ پر وہ پرندے اس چادر کو لے کر اڑ گئے۔ اور ساتھ ہی یہ آواز آئی کہ اے مورکھ ہم وہی جوئے کے پانسے ہیں جنہوں نے تجھ سے راج پاٹ چھنوایا۔ اور اب پرندوں کا روپ بھر کے تیرے چادر لیے جا رہے ہیں۔ پھر وہ جب زور زور سے پر پھڑپھڑا رہے تھے تو نل کو ایسا معلوم ہوا جیسے کوئی ٹھٹھا مار کے ہنس رہا ہو۔

نل کچھ دیر تو چپ چاپ کھڑا رہا پھر کہنے لگا دمینتی تم کب تک میرے ساتھ جنگلوں اور بنوں کی خاک چھانتی پھروں گی۔ دیکھو اس  جنگل سے کئی راستے نکتے ہیں یہ پگڈنڈی تو اجین ۱؎ کو گئی ہے اور اس کے پاس جو پربت پھیلا ہوا ہے یہ بندھیا چل ہے۔ اس کے پاس یہ ایک اور راستہ ہے جو کوشل کو گیا ہے۔ اس سے ہٹ کے جو پگڈنڈی نظر آ رہی ہے وہ سیدھی دروبھ نگر کو چلی جاتی ہے۔ اس راستہ میں پانی جگہ جگہ ملتا ہے۔ پھر رشیوں کے بہت سے آشرم ہیں جہاں پھل پھلاری کی کمی نہیں۔ تم میری سنو تو ودربھ چل جاؤ۔

دمینتی کہنے لگی میں آپ کو چھوڑ کر کیونکر جا سکتی ہوں۔ ہاں اگر آپ مجھے میکے بھیجنا چاہتے ہیں تو میرے ساتھ چلیے۔ نل نے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں سے ڈھانپ لیا اور آہیں بھرتا ہوا بولا۔ میں پہلے راجہ تھا اب صرف ایک ہارا ہوا جواری ہوں تمہارے ماں باپ مجھے اس حالت میں دیکھ کر کیا کہیں گے ‘‘۔

 

۔۔۔۔۔

۱؎ جین کا شہر ہندوؤں کے سات پوتر شہروں میں سمجھا جاتا ہے۔ پرانے ہندو جغرافیہ دان اسی شہر سے عرض بلد اور طول بلد کا حساب لگاتے تھے۔ جین کا شہر تو بہت پرانا ہے۔ پر اس کو زیادہ شہرت کرما جیت کی وجہ سے ہوئی جس نے بکرمی سمیت چلایا کہتے ہیں اس کے زمانے میں اجین نے بڑی ترقی کی۔ راج دربار میں ہر فن مولا کے استاد موجود تھے جن میں نو آدمی جو نورتن کہلاتے تھے سب سے اونچے درجے پر تھے۔ ان میں سنسکرت کا سب سے بڑا شاعر کالی داس اور مشہور طبیب دھنوتری بھی شامل تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

                (۴)

 

جنگل اور پہاڑ کی چاندی کی روپہلی چادر میں لپٹے ہوئے چپ چاپ کھڑے تھے۔ اور نل اور دمینتی سوکھے پتوں کے فرش پر ایک ہی چادر اوڑھے سو رہے تھے۔

وہ ایک دوسرے کے اتنے قریب تھے کہ اتنے قریب کہ ایک سینے سے دو دل دھڑکتے معلوم ہوتے تھے۔ نکل کے چہرے پر دکھ تھا جیسے وہ اپنے سینے میں ایک کسک چھپائے ہوئے ہو۔ دمینتی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی اور اس کے کالے کالے بال نل کے چوڑے کندھوں پر بکھر گئے تھے۔

اچانک درختوں میں ایک پرندہ پھڑپھڑایا اور نل آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھا آج دن بھر وہ یہی سوچتا رہا تھا کہ دمینتی دروبھ نگر کیوں نہیں چلی جاتی۔ اور اب بھی یہی خیال اسے ستا رہا تھا۔ پھر ایکا ایکی اس کے جی میں ایک عجیب خیال آیا۔ میں اگر اسے یہاں چھوڑ کر چلا جاؤں تو وہ سیدھی اپنے میکے چلی جائے گی۔ یہ جو سامنے پگڈنڈی ہے اس سے دروبھ نگر کو راستہ نکلتا ہے۔ میں کئی بار اس راستے آیا گیا ہوں۔

وہ اٹھا اور آدھی چادر پھاڑ کر اپنے جسم پر لپیٹ لی پر اس کے ہاتھ ابھی تک کانپ رہے تھے۔

میرا دل بھی کتنا کٹھور ہے میں دمینتی کو ایسے سنسان جنگل میں چھوڑ کے جا رہا ہوں۔ اس دمینتی کو جو اگر چاہتی تو سورگ کی رانی بن سکتی تھی۔ اندر کے ساتھ اس کے سنگھاسن پر بیٹھ سکتی تھی۔ اس کی آواز بھرا گئی۔ آنسوؤں سے گلا رند ھ گیا۔ پھر ایکا ایکی اسے ایسا معلوم ہوا کہ کوئی اس کے کان میں کہہ رہا ہے تو اب سوچ کیا رہا ہے اسے چھوڑ کے چلا کیوں نہیں جاتا تو اب نشندھ کا راجہ نل تو نہیں جس کے لیے دمینتی نے دیوتاؤں کی بات نہیں مانی تھی تو تو ایک ہارا ہوا جواری ہے۔ وہ چند قدم چلا پھر رک کر کہنے لگا۔ میں دمینتی کو چھوڑ کر کیسے چلا جاؤں۔ اچانک ہوا سوکھے پتوں میں سے سرسراتی ہوئی گزری۔

نل کے کان اس آواز سے بھر گئے۔ تو تو ہارا ہوا جواری ہے ہارا ہوا جواری ہارا ہوا جواری۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا بڑھا پھر دوڑنے لگا مگر دل کی دھڑکن کے ساتھ یہ آواز اور زیادہ تیز ہوتی جاتی تھی۔

پگڈنڈی کے موڑ کے پاس پہنچ کر اس نے دمینتی پر نظر ڈالی وہ سوکھے پتوں پر یوں پڑی تھی جیسے پچھلے پہر کے دھندلکے میں صبح کا تارا کانپ رہا ہو۔

نہ جانے وہ کب تک یونہی چلتا رہا۔ پھر اچانک اس کے دل میں خیال آیا کہ دمینتی بہت دور رہ گئی ہے کیونکہ اب تڑکا ہو چکا ہے۔ اور وہ ایک گھنے جنگل میں سے گزر رہا تھا۔ پگڈنڈی کے دونوں طرف بڑے بڑے درخت تھے اور صبح کی روشنی ان پتوں میں سے چھن چھن کر زمین پر پڑ رہی تھی۔ پھر اسے اپنے سامنے آگ کے شعلے بھڑکتے نظر آئے اور ساتھ ہی مجھے بچاؤ کی آواز سنائی دی۔

وہ ان شعلوں کے پاس پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک جھاڑی کو آگ کی لپٹوں نے گھیر رکھا ہے اور اس میں ایک بہت بڑا ناگ تڑپ رہا ہے۔ نل نے ہاتھ بڑھایا تو وہ ناگ ایک ننھا سا کیڑا بن گیا۔ اور نل اسے آسانی سے اٹھا کے شعلوں سے باہر نکال لایا۔ پر جب اس نے ناگ کو زمین پر رکھنا چاہا تو اس نے نل کی انگلی میں کاٹ لیا۔ اس کے کاٹتے ہی نل کی رنگت کالی پڑ گئی اور اس کا قد بھی گھٹ کے بہت چھوٹا رہ گیا۔

ناگ بولا میں نے تجھے اس لیے کاٹا ہے کہ تیرے بیری تجھے پہچان نہ سکیں۔ اور وہ جو تیرے اندر بیٹھا تجھے برائی پر اکساتا رہتا ہے میرے بس سے بیکس ہو کر تجھے چھوڑ کر چلا جائے۔ اب تو یہاں سے اجودھیا کے راجہ رتوپرن سے گنت بدیا ۱؎ سیکھ تاکہ تو جوئے میں اپنے بھائی کو ہرا سکے۔ میں تجھے کپڑے بھی دیے دیتا ہوں۔ جب تو میرا دھیان کر کے انہیں پہن لے گا تو تجھے کھویا ہوا رنگ روپ مل جائے گا۔

یہ کہہ کے وہ ناگ تو پاتال کو چلا گیا۔ اور نل اجودھیا پہنچ کے راجہ رتوپرن کے رتھ بانوں میں نوکر ہو گیا۔ یہاں سب لوگ اسے باہک کے نام سے جانتے تھے اور کسی کو اس بات کا گمان بھی نہیں تھا کہ اس کالے کلوٹے بونے کے روپ میں نشدھ دیس کا راجہ نل چھپا ہوا ہے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ علم ریاضی

۔۔۔۔۔۔۔۔

 

                (۵)

 

ادھر دمینتی سو کے اٹھی تو نل کو نہ پا کے بہت بیکل ہوئی پہلے سوچا کہ شاید تالاب تک گئے ہوں پر جب چادر پر نظر پڑی تو ساری بات سمجھ میں آ گئی۔ پھر تو وہ اس طرح پھوٹ پھوٹ کے روئی کہ جنگلوں اور پہاڑوں میں کوک سی پڑ گئی۔ جب رونے سے جی ذرا ہلکا ہوا تو اٹھ کے ایک طرف کو چلی پر راستے میں بیہڑ کہیں پہاڑ کہیں ٹیلے ،  کہیں چڑھائی کہیں اترائی کہیں ندی نالے ،  کہیں دلدلیں۔ مدت تک یونہی جنگلوں میں بھٹکتی رہی اور کئی مہینوں کے بعد سختیاں جھیلتی کالے کوسوں کی منزلیں کاٹتی بھوک پیا سکے دکھ سہتی چیدی ۱؎ پہنچی وہاں کی رانی دمینتی کی ماں کی سگی بہن تھی۔ پہلے تو دیر تک دونوں پر ایک دوسرے کا بھید نہ کھلا۔ پر جب چیدی کی رانی کو معلوم ہوا کہ دمینتی کون ہے تو وہ بڑے پیار دلار سے اپنے پاس رکھا۔ اور پھر اس کے کہنے پر اسے دروبھ نگر بھجوا دیا۔ دمینتی کو وردبھ نگر جی جان سے پیارا تھا کیونکہ اس نے یہیں جنم لیا تھا۔ یہیں کھیل کود کے پلی تھی۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ چیدی پرانے زمانے کی ایک مشہور ریاست ہے۔ یہ ریاست اس علاقے میں پھیلی ہوئی تھی جو آگے چل کر چندیل اور بندھیل کھنڈ کے نام سے مشہو ر ہوا۔ ششوپال جوسری کرشن جی کے ہاتھ سے مارا گیا یہیں کا راجہ تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

 

پھر یہاں سے اس کے ماں باپ ساتھ کھیلی ہوئی سہیلیاں بہنیلیاں بھی موجود تھیں جو اس پر جان چھڑکتی تھیں۔ دونوں بچے بھی یہیں تھے۔ جنہیں دیکھ کے کلیجے میں ٹھنڈک سی پڑتی تھی۔ پر ساجن سے بچھڑنے کا دکھ ایسا تھا کہ آسانی سے مٹ جاتا۔ جب دیکھو بال بکھرائے ہیں آنکھوں میں آنسو ڈبڈبائے ہی اور پھر اکیلے مین منہ ڈھانپے پڑی رو رہی ہے۔

راجہ بھیم نے نل کا کھوج لگانے کے لیے بڑے جتن کیے۔ دیس دیس پرچے پیغام دوڑائے پورب سے پچھم اور اتر سے دکھن تک ہرکاروں کی ڈاک بٹھا دی کہ جہاں کہیں نل کا پتہ ملے فوراً ودربھ میں خبر پہنچ جائے۔ ادھر دمینتی نے یہ ترکیب کی کہ کچھ برہمنوں کو ہر طرف پھیلا دیا یہ لوگ شہر شہر اور گاؤں گاؤں پھرتے اور پکار پکار کر کہتے کہ وہ جواری کہاں ہے جو اپنی استری کو بن میں چھوڑ کے چلا گیا۔ وہ پجاری برہ میں بیکل اس کا راستہ تک رہی ہے۔ ان میں سے ایک برہمن رتوپرن کے دربار میں بھی پہنچا اور کتھا میں یہ فقرے بھی جوڑ دیے اور کسی کو تو خیال نہ آیا۔ پرراجہ کے رتھ بان باہک کے کان کھڑے ہو گئیل۔ جب کتھا ختم ہو چکی تو وہ برہمن کے پاس آیا۔ اور ادھر ادھر کی باتوں کے بعد آہ بھر کر بولا ا جس بچارے میں اتنی سکت نہیں رہی ہو کہ اپنی استری کا پیٹ پال سکے۔ وہ اسے چھوڑ کر نہ چلا جائے تو اور کیا کرے۔ پر اونچے گھرانے کی عورتیں بڑے بڑے دکھوں میں پڑ کے بھی اپنی عزت پر آنچ نہیں آنے دیتیں۔ ان کا پتی چاہے کتنا ہی برا کیوں نہ ہو اس کی طرف سے جی میلا نہیں کرتیں دمینتی کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ کلی کے روپ میں کھل گئی اور کہنے گی ہو نہ ہو میرے پتی نے رتھ بان کا سوانگ رچا رکھا ہے۔ برہمن نے بہتیرا کہا کہ مہارانی کہاں وہ کالا کلوٹا اور ٹھگنا رتھ بان اور کہاں راجہ نل مجھے تو وہ کچھ سنکی بھی معلوم ہوتا ہے۔ پر دمینتی کے جی میں یہ بات بیٹھ گئی تھی۔ کہ باہک کے روپ میں وہی ہارا ہوا جواری ہے برہمن سے کہنے لگی کہ اسی وقت سیدھے اجودھیا چلے جاؤ اور رتوپرن سے کہو کہ کل دمینتی کا سوئمبر ہے۔

راجہ رتوپرن نے یہ خبرپاتے ہی باہک کو بلا کے کہا اسی وقت رتھ میں گھوڑے جوتو اور جس طرح بن پڑے مجھے دن ڈھلے سے پہلے دروبھ نگر پہنچا دو۔ کیونکہ کل دمینتی کا سوئمبر ہے۔ یہ سن کر باہک کے دل پر چھریاں سی چل گئیں۔ پاؤں لڑکھڑانے لگے اور آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا جون توں کر کے جی کو سنبھالا اور گھوڑے جوت راجہ کو رتھ میں بٹھا کر ودربھ لے چلا۔

ایک جگہ راجہ کے کہنے پر باہک نے رتھ کو پل بھر کے لیے روکا۔ سامنے ایک ہرا بھرا پیڑ تھا۔ راجہ نے انگلیوں پر حساب لگا کر بتایا کہ اس پیڑ پر اتنے پھل ہیں اور جب باہک نے کہا مہاراج مجھے بھی یہ بدیا سکھا دیجیے۔ تورتو پرن نے اسے گنت بدیا کے موٹے موٹے گر بتا دیے۔ اس بدیا میں کچھ ایسا اثر تھا کہ کل جگ جو اس کے جسم میں چھپا بیٹھا تھا اسے چھوڑ کے چلا گیا۔

ابھی اونچے اونچے پیڑوں کی پھنگ اور مندروں کے کلس پر سورج کی پیلی پیلی کرنیں جھلک رہی تھیں کہ رتو پرن دروبھ نگر جا پہنچا۔ پر وہ یہ دیکھ کر سناٹے میں آ گیا کہ نہ سوئمبر کی دھوم دھام ہے نہ لوگوں کا بھیڑ بھاڑ نہ کہیں راجاؤں کے خیمے ڈیرے نظر آتے ہیں نہ باجے گانے کا شور سنائی دیتا ہے۔ راج محل کی اجلی اجلی دیواریں اداس اور چپ چاپ کھڑی ہیں فوراً سمجھ گیا کہ برہمن دیوتا جل دے گئے پر کسی سے کیا کہتا۔ راجہ بھیم کو بھی یہ کہہ کر ٹال دیا کہ یونہی سیر شکار کے لیے آ نکلا ہے دور سے شہر کی دیواریں دیکھ کر اس کے دل میں خیال آیا کہ چلو دروبھ نگر سے بھی ہوتے چلیں۔

دمینتی آپ تو باہک کے سامنے نہ آئی لیکن اس کی داسیاں جو ٹوہ میں لگی تھیں اسے پل پل کی خبریں پہنچاتی رہیں۔ دمینتی نے پہلے یہ سنا کہ رتوپرن کا رتھ بان لکڑیوں پر نظر ڈالتا ہے تو وہ سلگ اٹھتی ہیں برتن کو ہاتھ لگاتا ہے تو وہ پانی سے بھر جاتا ہے۔ پھر سنا ہے کہ اسے ہاتھ ہلانے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ کھانا آپ ہی آپ پک جاتا ہے۔ اب تو اسے یقین ہو گیا کہ نل ہی نے باہک کا روپ بھر رکھا ہے۔ پہلے تو جی میں آئی کہ باہک کو راج محل میں بلا بھیجے۔ پھر سوچا کہ بچوں کو اس کے پاس بھیج کر دیکھنا چاہیے۔ اگر وہ نل ہوا تو اپنے جگر کے ٹکڑوں کو دیکھ کر بے چین ہو جائے گا۔

نل کی نظر بچوں پر پڑی تو اس سے صبر نہ ہو سکا۔ دوڑ کے انہیں سینے سے لگا لیا۔ پھر جب خیال آیا کہ داسی جی میں کیا کہتی ہو گی تو کہنے لگا کہ میرے بھی دو بچے ہیں اتنے ہی بڑے رنگ و روپ میں بھی ان سے ملتے جلتے ہیں۔ انہیں دیکھ کے مجھے وہ یاد آ گئے

جب دمینتی باہک کو ہر طرح سے جانچ پرکھ کے دیکھ چکی تو باپ کی اجازت سے اسے اپنے محل میں بلوا بھیجا اور نل کی کہانی چھیڑ دی۔ دمینتی کی دھج دیکھ کر ہی نل کا جی بے چین ہو گیا تھا۔ پر جب اس نے ساجن کی بیوفائی کی کتھا بکھانی شروع کی تو نل نے ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔ دمینتی کی باتیں کیا تھیں تیز کٹار کے وار تھے جن سے دل ٹکڑے ٹکڑے ہوا جاتا تھا۔ جب یہ وار سہنے کی طاقت نہ رہی تو کہنے لگا تم سچ کہتی ہو پر میں کل جگ کے بس میں تھا۔ اس نے جو چاہا میں نے وہی کیا۔ یہ کہہ کے ناگ نے جو کپڑے دیے تھے وہ پہن لیے۔ انہیں پہنچتے ہی وہ اپنے اصلی روپ میں آ گیا۔ دمینتی اسے پہچان کے دوڑی۔ اور گلے لگ کے رونے لگی۔ کچھ دیر تک دونوں کا یہ حال رہا کہ آنسوؤں کا تار تھمنے میں نہیں آتا تھا۔ جب رو دھو چکے تو ایک دوسرے کو اپنی اپنی بے تابی کی کہانی سنانے لگے اور رات انہی باتوں میں کاٹ دی۔

نل نے رتوپرن سے گنت بدیا کے گر سیکھ لیے تھے۔ اب اس نے اجودھیا کے راجہ کو گھوڑوں کی بال بھونری کی پہچان بتائی۔ رتھ چلانے کا ڈھنگ بھی سکھایا اور اس کے بدلے اس سے جوئے کے جوڑ توڑ سیکھ لیے۔ پھر وہ دمینتی کو ساتھ لے کر بڑے ٹھاٹھ کے ساتھ نشدھ پہنچا۔ پشکر سے جوئے کی بازی میں سارا کھویا ہوا مال دھن اور راج پاٹ لے لیا۔ اور بڑے چین سے راج کرنے لگا۔ نل اور دمینتی نے نشدھ میں ایسا سکھ پایا کہ دکھوں اور مصیبتوں نے ان کے دلوں میں جو گھاؤ ڈال رکھے تھے وہ آپ ہی آپ بھر گئے۔ ہاں کبھی کبھی بھولی بسری باتیں اس طرح یاد آ جاتی تھیں جیسے ان دونوں نے اب اسے دور ایک بھیانک سپنا دیکھا ہو۔

٭٭٭

 

 

 

 

شکنتلا

 

                (۱)

 

مہرشی وشوا ۱ ؎ متر کی ذات کے چھتری اور کوشک بنس کے راجکمار تھے۔ پر ان کا جی راج کاج سے زیادہ گیان دھیان کی باتوں میں لگتا تھا۔ آخر ان بکھیڑوں سے ایسا جی اچاٹ ہوا کہ تیر تلوار چھوڑ مالا سنبھالی اور ایک سنسان بن میں پہنچ کر تپسیا کرنے لگے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ رگ وید میں وشوامتر کو راجہ کوشک کا بیٹا بتایا گیا ہے لیکن بعد کی کتابوں میں لکھا ہے کہ وہ پوروبنس کے کھشتری تھے۔ ان کا شمار بڑے بڑے رشیوں میں ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اور سب نے تو انہیں رشی مان لیا پر وششٹ رسی نے نہ مانا۔ ان کا جھگڑا مدتوں تک چلتا رہا اور دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے رہے لیکن آخر ان میں صلح ہو گئی۔ اور ششٹ جی نے وشوامتر کو رشی مان لیا۔ رامائن مہابھارت اور ہری ونش اور کئی پرانوں میں وشوامتر کا ذکر موجود ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

 

وشوامتر کی کڑی تپسیا کو دیکھ کر سورگ کا راجہ اندر بہت ڈرا کہ کہیں یہ تپسوی جپ تپ کے بل سے میرا راج نہ چھین لے۔ اور ان کا آسن ڈگمگانے کے لیے جتن کرنے لگا۔ جب کوئی اور تدبیر نہ چلی تو مینکا کو بلا بھیجا جو رمبھا ۱؎ کو چھوڑ کے سورگ کی سب اپسراؤں کی سردار سمجھی جاتی تھی اور کہنے لگا کہ دھرتی پر جا کے اپنے انوپ شنوپ سے وشوامتر کے من کو ایسا لبھاؤ کہ اسے تپسیا کی سدھ نہ رہے۔ یہ سن کے مینکا کا کلیجہ زور زور سے دھڑکنے لگا۔ پاؤں سن ہو گئے۔ گال پیلے پڑ گئے۔ اور وہ کانپتی ہوئی بولی کہ مہاراج وشوامتر مہا تپسوی ہیں۔ ان کی نظروں میں سورج کا تیج اور باتوں میں شعلوں کی لپک ہے۔ وہ چاہیں تو تینوں کو جلا کر بھسم کر ڈالیں۔ سمیر ۲؎ پربت کو گیند کی طرح اچھال دیں۔ موت کا دیوتا یم ان سے ڈرتا ہے۔ چاند اور سورج ان سے خوف کھاتے ہیں۔ مجھ ابلا میں اتنی سکت کہاں کہ ان کا آسن ڈگانے کا حوصلہ کروں دیکھیے وہ دونوں ہاتھ آکاش کی طرف اٹھائے آنکھیں بند کیے سمادھی لگائے بیٹھے ہیں۔ ان کے ہاتھوں پر مٹی جم گئی ہے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ رمبھا کا حال امرت کہانی میں پڑھیے کہتے ہیں کہ پہلے اندر نے وشوامتر پر ڈورے ڈالنے رمبھا کو بھیجا تھا۔ پر وہ اس کے فریب میں نہ آئے اور ان کے سراپ سے رمبھا ہزار برس تک پتھر کی عورت بنی۔ رمبھا اور مینکا کے علاوہ سورگ کی اپسراؤں میں تلوتما اور اروسی بھی بہت مشہور ہیں۔

۲؎ سمیر یا یمرو دیوتاؤں کا استھان ہے۔ اندر کا سورگ اسی پربت پر ہے۔ سمیر پربت کو ہندو دیو مالا میں وہی حیثیت حاصل ہے جو یونانی دیو مالا میں اولمپس پہاڑ کو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اور اس میں پودے اگ آئے ہیں اور ان کی جٹا میں چڑیوں نے گھونسلے بنا رکھے ہیں ایسے تپسوی کے من کو کون جیت سکتا ہے۔

اندر بولا استری کی آنکھوں میں ایساجادو ہے جس سے بڑے سے بڑا تپسوی بھی نہیں بچ سکتا۔ اور مینکا تو استری کے روپ میں آکاش کی جوت ہے۔ سنسار میں کون ایسا ہے جو تجھے ایک نظر دیکھ لے اور اپنا سب کچھ تجھے دینے کو تیار نہ ہو جائے۔ مینکا نے سمی ہوئی آنکھوں سے دھرتی پر ایک نظر ڈالی اور پھر کہنے لگی مہاراج میں ان سے ڈرتی ہوں۔ یہ زہر بھرا پیالہ میرے ہونٹوں سے ہٹا لیجیے۔ مجھے ان کے پاس نہ بھییجیے۔

اندر نے کہا میں تیرے ساتھ پریم پتی مدن اور اس کے دوست بسنت کو بھی بھیج رہا ہوں۔ وشوامتر تیری آنکھوں کے جادو سے بچ جائے تو بچ جائے۔ پر وہ مدن کے بانوں سے کیسے بچ سکتا ہے۔

بسنت رت کے دن تھے آموں پر مور آ چلا تھا۔ اس کے لو بھی بھونرے ڈالی ڈالی گونج رہے تھے۔ ہری ہری گھاس پر آم کی ادھ کھلی کلیوں کی سیج بچھی ہوئی تھی۔ اور ہوا ان کی باس سے مہکی ہوئی تی۔ سنہرے کنول ندی کے پاس میں اپنا روپ دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔ اور پھولوں بھری ڈالیاں ایسی معلوم ہوتی تھیں کہ جیسے کوئی نئی نویلی دلہن لال جوڑا پہنے سر نیہوڑائے کھڑی ہو۔ اتنے میں مینکا ہولے ہولے آکاش سے اتری۔ وہ دھنک کی چادر اوڑھے ہوئے تھی جس میں بجلی نے گوٹ لگا رکھی تھی۔ اور کوندے کی چھاگل پری تھی دھرتی کو چھو کے چھاگل گنگنا اٹھی اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا نے مینکا کے لمبے لمبے بالوں کو بکھیر دیا وشوامتر نے جھرجھری لے کر آنکھیں کھول دیں ساتھ ہی مدن نے بان مارا جو رشی کے دل میں ترازو ہو گیا۔

وشوامتر کچھ دن تو مینکا کی چاہت میں پڑ کے جپ تپ کو بھولے رہے۔ جپ پیت کی چڑھی ہوئی ندی اتر گئی تو بہت پچھتائے اور مینکا کو وہیں تپ بن میں چھوڑ کے کہیں چلے گئے۔ کچھ دن کے بعد اس کی کوکھ سے ایک لڑکی نے جنم لیا۔ ماں نے سینے پر صبر کی سل رکھ کے اپنے کلیجے کے ٹکڑے کو ایک پیڑ تلے چھوڑا اور آپ سورگ کو سدھاری۔ اس ننھی سی جان کو کچھ دن تو جنگل کے پنچھیوں نے پالا پھر کنور شی۱؎ ادھر سے گزرے تو اسے اٹھا کے اپنے آشرم میں لے آئے انہوں نے اس کا نام شکنتلا رکھا کیونکہ سنسکرت میں پنچھی کو شکنت کہتے ہیں۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ کنورشی بڑے اونچے پائے کے رشی ہیں چنانچہ ان کا شمار سات بڑے رشیوں میں کیا جاتا ہے۔ ان سات تشیوں کی فہرست میں کون کون رشی شامل ہیں ان کے بارے میں الگ الگ رائیں ہیں ایک رائے یہ ہے کہ گوتم بھاردواج،  وشوامتر،  جگد گنی،  وششٹ،  کشیپ اور تری سات بڑے رشی ہیں۔ اور بعض فہرستوں میں بھرگو ،  پلست،  کنور، ویاس،  منو اور و المیک کے نام بھی ملتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

 

                (۲)

 

پروبنس ۱؎ کے راجہ دشینت جنگل میں شکار کھیل رہے تھے کہ ایک ہرن نظر پڑا جو قدموں کی آہٹ پاتے ہی بھاگ نکلا۔ رتھ بان کنے گھوڑوں کو کوڑا کیا اور راجہ نے تیر کمان میں جوڑا۔ پر ہرن اس طرح اڑتا چلا جا رہا تھا کہ اس پر نظر نہیں ٹکتی تھی۔ پھر بھی ٹیلے اسے نظروں سے اوجھل کر دیتے تھے کبھی وہ پیڑوں اور اونچی نیچی جھاڑیوں کی آڑ میں ہو کے تیر کی زد سے بچ نکلتا تھا۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ پروبنس اصل میں چند ربنس کی ایک شاخ ہے۔ پرو اور یادو دو بھائی تھے جس سے پروبنس اور یادوبنس چلے۔ کورو اور پانڈو پروبنس میں سے تھے۔ اور کرشن چندر جی یا دوبینس میں سے۔ دشینت پانڈو سے کئی پیڑھیاں اوپر ہے اور اس کا شمار کورو پانڈو کے بڑوں میں ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اب دن ڈھلنے کو تھا۔ صرف کہیں کہیں اونچے اونچے ٹیلوں اور پہاڑیوں پر پیلی پیلی دھوپ دم توڑتی ہوئی نظر آتی تھی۔ کہ ایکا ایکی ہرن پل بھر کے لیے اٹکا۔ راجہ نے کمان کا چلہ چڑھایا ہی تھا کہ کچھ سادھو پیڑوں کی اوٹ سے نکل کر سامنے آ گئے اور چلا کر کہنے لگے مہاراج یہ کنو رشی کے آشرم کا ہرن ہے۔ یہ سن کے راجہ نے ہاتھ روک لیا اور رتھ سے اتر کے آشرم دیکھنے لگا۔

شفق کے ریشمی آنچل میں سورج کی کرنوں نے جھالر سی ٹانک دی تھی۔ گھاس پھونس کے جھونپڑوں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ کہ دشنیت کو پیڑوں کے جھرمٹ میں تین لڑکیاں نظر آئیں جو پودوں کو پانی دینے کے لیے گگریاں بھر کے لا رہی تھیں۔ دوہ تینوں رنگ روپ میں ایک جیسی تھیں تینوں نے پیڑوں کی چھال سے اپنے جسم کو چھپا رکھا تھا۔ پروہ جوان کے بیچ میں تھی۔ وہ چھال کے برن میں جگمگاتی ہوئی جوت معلوم ہوتی تھیں۔ یہ کنورشی کی بیٹی شکنتلا تھی۔

شکنتلا کی سکھیاں بڑی چنچل تھیں راجہ کچھ دیر پیڑوں کی آڑ میں کھڑا ان کے نوک جھونک سنتا رہا۔ پھر ایکا ایکی پیڑوں کی اوٹ سے نکل کر یوں ان کے سامنے آ کھڑا ہوا کہ تینوں رشی کماریاں گھبرا سی گئیں۔

راجہ کا جی تو شکنتلا کو دیکھتے ہی ہاتھ سے جاتا رہا۔ پر اب جو اس سے باتیں کیں تو روئیں روئیں یں اس کی چاہت سما گئی۔ کنورشی کہیں گئے ہوئے تھے پاپی راکشس آئے دن آشرم والوں کو تنگ کرتے رہتے تھ راجہ نے انہیں راکھشسوں سے بچانے کے لیے یہیں ڈیرے ڈال لیے۔

جوں جون دن گزرتے جاتے تھے چاہت کی آگ تیز ہوتی جاتی تھی۔ پھر بھی راجہ کو جی کی بات زبان پر لانے کا حوصلہ نہ پڑتا تھا کیونکہ وہ پروبنس کا چھتری اور کنورشی بڑے اونچے گھرانے کے برہمن چھتری اور برہمن کا سنجوگ کیسا پیپل کی ٹہنی میں آم کا پیوند کیونکر لگ سکتا ہے۔ بہت دیر تو جی ہی جی میں اپنے آپ کو کوستا رہا کہ یہاں کیوں آیا وارایسا روگ کیوں مول لیا۔ جس کی کوئی دوا ہی نہیں۔ پر جب اس نے شکنتلا کی جنم کہانی سنی اور یہ بھید کھلا کہ جسے وہ رشنی کماری سمجھتا رہا ہے وہ اصل میں راجکماری نے تو بیاہ کی بات چھیڑی۔

یوں تو شکنتلا کے جی کو دشینت بن چین نہیں آتا تھا۔ پر بیاہ کا نام سن کر گھبرائی۔ پھر جب راجہ نے سمجھایا کہ اس سے پہلے بھی رشیوں منیوں کی بیٹیوں نے اپنی مرضی سے بیاہ کیا ہے اور اس کے ماں باپ اس پر ناراض نہیں ہوئے تو وہ مان گئی۔ اور دشنیت نے گندھرب ۱؎ ریت سے چپ چپاتے اس کے ساتھ بیاہ کر لیا۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ گندھرب بیاہ میں میاں بیوی کی رضامندی کافی ہے۔ کسی گواہ کی ضرورت نہیں پڑتی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

 

راجہ کو نگر پہنچنے کی جلدی تھ۔ اس لیے وہ تو تپ بن میں کچھ دن رہ کے گھر سدھارا پر چلتے وقت اپنی انگوٹھی اتار کے شکنتلا کے ہاتھ میں پہنا گیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ گیا کہ میں کچھ دنوں میں تمہیں بلوا لوں گا۔

دشینت کو گئے تھوڑے دن ہوئے تھے کہ  ایک دن دروا سارشی ۱؎ پھرتے پھراتے کنورشی کے آشرم میں آ نکلے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ دروا سارشی اتری رشی کے بیٹے ہیں اور اپنے نک چڑھے پن کی وجہ سے مشہور ہیں۔ وشنو پران میں لکھا ہے کہ انہوں نے اندر کو سراپ دیا تھا جس کی وجہ سے اندر اور دوسرے تمام دیوتا کمزور ہو گئے تھے اور اسروں کا زور بڑھ گیا تھا۔ آخر وشنو جی نے سمندر کو متھ کے امرت نکالنے کی تدبیر نکالی اور اس طرح دیوتاؤں نے اسروں پر غلبہ پایا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

 

پر شکنتلا اپنے پیتم کی یاد میں اس طرح کھوئی ہوئی تھی کہ اس نے ان کی آواز نہ سنی۔ دروا سامزاج کے جھلے مشہور تھے۔ اتنی سی بات پر آگ بگولہ ہو کر کہنے لگے کہ اری باولی تو جس کی یاد میں ڈوبی ہوئی ہے وہ تجھے بھول جائے گا۔ اور جب تک انگوٹھی نہ دیکھے گا تجھے پہچان نہ سکے گا۔

شکنتلا کی سکھیوں نے دروا سا رشی کے سراپ کا حال اس پر ظاہر نہیں ہونے دیا تھا۔ وہ تو ہاتھ پر سر رکھے دشینت کے دھیان میں بے سدھی بیٹھی رہتی۔ اسے کیا خبر کی دروا ساجی کب آئے کب گئے اور ان کے اس آنے جانے میں اس کے سرپر مصیبت کا کتنا بڑا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔

 

                (۳)

 

بسنت رت بیت گئی گرمی آئی اور آسمان سے آگ برسنے لگی۔ تپ بن کے تال سوکھ گئے۔ پھر آکاش پر اودی اودی بدلیاں چھا گئیں جلے بھنے رکھ ہرے ہو گئے۔ بکل کی ہری ڈالیوں میں پھول آئے۔ آکاش پر دھنک نے جھولا ڈالا اور اپسرائیں ساون گانے لگیں۔ پر شکنتلا کو سسرال سے کوئی لینے نہ آیا۔

جوں جوں دن بیتے جاتے تھے۔ شکنتلا کے جی کی بے کلی بڑھتی جاتی تھی۔ کبھی سوچتی مہاراج کہیں ونواس کی رنگ رلیوں میں پڑ کے مجھے سچ مچ بھول نہ گئے ہوں۔ پھر خیال آیا کہ وہ ایسے تو نہ تھے کہ مجھے یوں بھول جاتے۔ چلتے وقت جب انہوں نے اپنی انگوٹھی مجھے دے کر کہا تھا کہ شکنتلا میں ہستنا پور ۱؎ جا رہا ہوں تو ان کا گلا رندھا ہوا تھا۔ اور ان کی پلکوں پر آنسو کی ایک بوند صبح کے تارے کی طرح کانپ رہی تھی۔ کوئی ایسی بات ہی ہوئی ہو گی۔ کہ وہ نہ آپ آ سکے نہ خط پتر ہی بھیج سکے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ ہستنا پور وہی شہر ہے جس کے لیے کورو پانڈو میں لڑائی ہوئی تھی۔ دلی سے ۵ میل شمال مشرق کی طرف اس شہر کے کھنڈر ملتے ہیں۔ ہستنا پور کا لفظی ترجمہ ہاتھیوں کا شہر ہے۔ کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں یہاں ہاتھیوں کی بہتات تھی ایک خیال یہ بھی ہے کہ ونبس کے ایک راجہ پرونبس کے ایک راجہ کا نام ہستن تھا۔ جس کے نام پر یہ شہر ہستنا پور کہلانے لگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

کچھ دنوں کے بعد آشرم میں چرچا پھیل گیا کہ شکنتلا کا پاؤں بھاری ہے۔ کنورشی انہیں دنوں سفر سے لوٹے تھے۔ انہیں جب معلوم ہوا کہ شکنتلا نے ہستنا پور کے راجہ دشینت کے ساتھ گندھرب کو بیاہ کر لیا ہے تو اسے بلا کے آشیر باد دی اور کہا بیٹی گلاب کا پھول پھلواڑی ہی میں بھلا معلوم ہوتا ہے۔ ہم بن باسیوں میں تیرا کام ہے ؟ تیرے نصیبے میں یہی لکھا تھا کہ سادھوؤں میں پلے اور راجہ کے پہلو میں بیٹھ کر راج کرے۔ تو شرمائی کیوں جا رہی ہے ؟

میں صبح سویرے ہی تجھے تیرے سسرال بھجوائے دیتا ہوں۔

شکنتلا کی جی آشرم سے جانے کو تو نہیں چاہتا تھا وہ جنگل میں پیدا ہوئی۔ کھلے میدانوں اور پھوس کے جھونپڑوں میں پلی اور بڑھی۔ سرس کے پیڑ سہانی ندی مالتی کی جھاڑیاں اور آشرم کے پالتو ہرن اس کے بچپن کے ساتھی تھے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ ان سے جدا ہو کر کیسے زندہ رہ سکے گی۔ اسے راجہ کے محل میں رہنا ہو گا جسے پتھروں کی چوڑی چکلی سلوں کی اونچی اونچی دیواریں گھیرے کھڑی ہیں۔ وہاں نہ ندیاں اور تال ہی نہ جنگل کے پنچھی پکھیرو نہ سدا بہار پھول اور بیلیں نہ البیلی سکھیاں جن کے ساتھ کھیل کود کے اس نے بچپن کا زمانہ گزارا تھا۔ وہاں تو ہر چیز بناوٹ کا جھول چڑھا تھا۔ ہنسنا بناوٹی رونا بناوٹی باتوں میں بناوٹ ہی بناوٹ وہ اپنے دل کا حال کس سے کہے گی ورکیسے کہے گی؟ پھر بھی دشینت کی چاہت اسے ہستنا پور کی طرف کھینچے لیے جا رہی تھی۔

پو پھٹتے ہی سکھیوں نے اسے بنا چنا کے دلہن بنا دیا۔ وہ ریشم کے سوہے جوڑے میں ایسی لگتی تھی جیسے آگ میں سونے کی ڈلی دمک رہی ہو۔ ماتھے پر بندی تھی آنکھوں میں کاجل اور مانگ میں سینور کی لال لکیر۔ بن باسیوں کے ہاں سونے روپے اور ہیرے پنے کے گہنے کہاں سے آتے۔ ہاں اس کے کانوں میں سرس کے جھومر ضرور تھے۔ جو ستاروں پر آنکھ مار رہے تھے۔ اور چندن کے لیپ سے اس کی انگیا مہکی جا رہی تھی۔

کنوجی اور شکنتلا کی سکھیاں اسے چھوڑنے تالاب تک آئیں۔ جہاں سے آشرم کی حد شروع ہوتی تھی۔ پھر اس نے کنو بابا کے پاؤں کو چھوا۔ سکھیوں کو گلے لگا کر رخصت کیا کنوجی نے اپنے دو چیلے اس کے ساتھ کر دیے تھے۔

راستے میں تپ بن کی جھاڑیاں بار بار اس کا پلو پکڑ لیتی تھیں۔ ایک بار اس نے پلٹ کر دیکھا تو مولسری کی ڈالیاں ہوا میں ہلتی ایسی معلوم ہوئیں جیسے کوئی ہاتھ ہلا ہلا کر اسے اپنی طرف بلا رہا ہو۔

 

                (۴)

 

راجہ دشینت محل میں بیٹھا تھا۔ انتے میں خبر ملی کہ دو بن باسی کنورشی کا سندھیا لے کے آئے ہیں۔ راجہ نے انہیں بلا بھیجا۔ شکنتلا کو دیکھ کر اسے اچنبھا ہوا کہ سادھوؤں کی منڈلی میں یہ کنیا کہاں سے آئی؟ جب سادھوؤں نے کہا کہ یہ کنو بابا کی منہ بولی بیٹی شکنتلا ہے جس سے آپ نے تپ بن میں بیاہ کیا تھا اور اب کنورشی نے اسے ہمارے ساتھ آپ کے پاس بھیجا ہے۔ کیونکہ بیاہی ہوئی بیٹی کا گھر میں بٹھائے رکھنا ٹھیک نہیں تو وہ سوچ میں پڑ گیا۔ درواسارشی کے سراپ کی وجہ سے اسے ہرن کے پیچھے گھوڑا ڈالنا آشرم میں آ جانا شکنتلا کاملنا اور پھر اس سے بیاہ کر لینا سرے سے یاد ہی نہیں رہا تھا۔

راجہ کے محل میں قدم رکھتے ہی شکنتلا کا ما تھا ٹھنکا تھا۔ پھر جب سادھوؤں کی بات سن کر راجہ کی بھنویں تن گئیں اور وہ گہری سوچ میں ڈوب گیا تو اس کا کلیجہ دھک سے رہ گیا۔ اتنے می اسے دشینت کی آواز سنائی دی کہ وہ کہہ رہا تھا کہ مجھے تو یاد نہیں پڑتا کہ میں نے اس دیوی سے کبھی بیاہ کیا ہو۔

اپنے پیارے کی زبان سے یہ الفاظ سن کر اسے ایسا معلوم ہوا کہ جیسے کسی نے اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈال دیا ہو۔ پھر بھی اس نے ہمت کر کے اپنے چہرے سے گھونگھٹ کو ہٹا دیا۔ کہ شاید اس کا دولہا ا س کی صورت دیکھ کر اسے پہچان لے۔ پر راجہ نے اسے بالکل نہ پہچانا۔ اس نے نشانی کی مندرجی دکھانی چاہی تو انگلی خالی پائی۔ چلا کے کہنے لگی ہائے میری انگوٹھی کہاں گر پڑی لیکن راجہ اسے بھی تریا چلتر سمجھا اور ایسے ایسے طعنے دیے کہ اس بے چاری کا سینہ چھلنی ہو گیا اس کی جلی کٹی سے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ اسے کوئی چھنال سمجھتا ہے۔ جس نے کام دیو کے بس میں ہو کے اپنی لاج کو بٹہ لگایا۔ اور اب زبردستی راجہ کے گھر پڑ جانا چاہتی ہے۔

راجہ کے طعنے مہنے سن کے شکنتلا غصے کے مارے کانپنے لگی۔ چہرہ تمتما اٹھا۔ آنکھوں میں خون اتر آیا وہ کہنے لگی مہاراج میں نے آپ کو پرو کے گھرانے کا کھشتری سمجھ کر سب کچھ اپنا آپ کے حوالے کر دیا تھا۔ مجھے کیا خبر تھی کہ آپ کے جی میں کھوٹ بھرا ہے۔ پر ذرا اپنے دل پر ہاتھ رک کے کہیے تو سہی کہ آپ جو کہہ رہے ہیں سب سچ ہے۔ کیا آپ نے کبھی مجھ سے پیت بیوپار نہیں کیا۔ کیا آپ نے تپ بن میں گندھرب ریت کا بیاہ نہیں رچایا۔ آپ سوچتے ہوں گے کہ میرے من کی بات کو کون جانتا ہے۔ آ کو معلوم نہیں ہے کہ من کے مندر میں ایک دیوتا کا استھان ہے۔ جس سے کوئی بات لکی چھپی نہیں رہتی۔ وہ کھوٹے کھرے کو اچھی طرح پہچانتا ہے اور پن پاپ کا حساب رکھتا ہے۔ آپ دنیا کو دھوکا دے لیں تو دے لیں پر اسے کیسے دھوکا دے سکتے ہیں۔

اس وقت شکنتلا کے ہونٹ کانپ رہے تھے نتھنے پھولے ہوئے تھے اور گال لال گلال ہو گئے تھے۔ راجہ اس کی باتیں سن کے چکرایا اور جی میں کہنے لگا کہ اس کنیا کا غصہ بناوٹی تو معلوم نہیں ہوتا۔ اس کی باتوں میں آگ بھری ہے جس کی آنچ سے دل پگھلا جاتا ہے۔ پھرا سکے روپ میں ایسا بانکپن ہے کہ جی چاہتا ہے کہ بس اسے دیکھتے ہی رہیے پر جس استری سے کبھی کی جان پہچان نہیں اسے اپنے گھر میں کیسے ڈال لوں اور گھر میں بھی ڈال لوں۔ تو دنیا کو کیا منہ دکھاؤں گا۔

کنو جی کے چیلوں نے بھی راجہ کو بہت سمجھایا اور دھرم اور ادھرم کا فرق بتا کے کہا کہ مہاراج اس نصیبوں جلی پر دیا کیجیے۔ اور اسے اپنے قدموں میں پڑا رہنے دیجیے۔ پر جب دیکھا کہ ان تلوں میں تیل نہیں تو وہ شکنتلا کو وہیں چھوڑ کر چل دیے وہ بے چاری روتی ہوئی ان کے پیچھے بھاگی پر یہ سادھو ایسے دل کے کٹھور نکلے کہ اسے اپنے ساتھ لے جانے سے انکار کر دیا۔

شکنتلا سمجھی تھی کہ سسرال میں جگہ نہ ملی تو میکے میں سرچھپانے کا ٹھکانا مل جائے گا۔ پر جب یہ آس بھی ٹوٹ گئی تو اس نے پھولوں کے جھومروں کو نوچ کے پھینک دیا۔ اور دو ہتڑ مار مار کے اپنے سینے کو لہولہان کر لیا۔ پنچھی پکھیرو آم کے گھنے پتوں میں دبک گئے تھے۔ دشینت کے محل کی لونڈیاں باندیاں گم سم کھڑی تھیں اور شکنتلا کے بین سن کے پتھروں کے دل پانی ہوئے جا رہے تھے۔ اتنے میں آکاش پر اجالا ہو گیا۔ اور ایک تارا ٹوٹتا ہوا نظر آیا۔ اس تارے نے دھرتی پر پہنچ کر عورت کا روپ دھار لیا۔ پرھا سعورت نے جو اس روپ میں بھی دمکتا ہوا تارا معلوم ہوتی تھی۔ شکنتلا کو گود میں اٹھا لیا اور اندرا ۱ ؎ لوک کی طرف اڑ گئی۔ اس وقت آکاش پر ہزاروں مہتابیاں چھوٹ رہی تھیں۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ اندر لوک یا سورگ دیوتاؤں کے راجہ اندر کا استھان ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اور پھولوں کی باس سے ہوا کا آنچل مہک رہا تھا۔

یہ مامتا کی ماری منیکا تھی جو بیٹی کو بے آسرا پا کے اسے اٹھا کے لے گئی تھی۔

 

                (۵)

 

دشینت نے شکنتلا کو جو انگوٹھی دی تھی۔ وہ تپ بن کے ہستنا پور آتے وقت اس کی انگلی سے نکل کر ایک ندی میں گر پڑی تھی۔ کچھ دنوں کے بعد ایک مچھیرے نے ندی میں جال ڈالا تو ایک مچھلی ہاتھ آئی۔ گھر جا کے اس کا پیٹ چاک کیا تو ایک مندری نکلی۔ جس کا نگینہ ستاروں پر آنکھ مار رہا تھا۔ پاسہ ایک سنار کا گھر تھا دوڑا دوڑا اس کے پاس پہنچا۔ سنار کو فوراً پہچان گیا کہ یہ تو راجہ کی انگوٹھی ہے۔ بس پھر کیا تھا۔ انگوٹھی سنار سے کوتوال اور کوتوال سے راجہ تک پہنچی اور مچھیرا جس کی جان مارے ڈر کے نکلی جا رہی تھی۔ راج دربار سے مالا مال ہو کر لوٹا۔

ورداسارشی کے سراپ نے دشینت کی یاد پر جو پردہ ڈال دیا تھا انگوٹھی پر نظر پڑتے ہی وہ اس طرح ہٹ گیا جیسیی تیز ہوا چاند کے اجلے مکھڑے سے بادلوں کے آنچل کو ہٹا دیتی ہے۔ اور راجہ کو ہرن کے پیچھے گھوڑا ڈالنا۔ کنورشی کے آشرم میں جانا شکنتلا سے پینگ بڑھانا غرض ساری بھولی بسری باتیں یاد آ گئیں۔ سوچا میں کتنا بڑا پاپی ہوں کہ ایک انیلی لڑکی کو سبز باغ دکھا کے پیت کے پھندے میں پھنسایا۔ اس سے بیاہ رچایا اور پھر جب وہ میرے دوارے آئی تو اسے اس طرح دھتکار دیا جیسے کوئی پہچان ہی نہیں سکتی تھی۔ انسان بڑا بھلکڑ سہی پر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جسے من مندر کی دیوی بنائے اسے یوں بھول جائے بھگوان یہ کیوں ہوا کیسے ہوا میری آنکھوں پر یہ پردہ کیسے پڑ گیا۔ میں نے گھر آئی ہوئی لچھمی ۱؎ کو کیوں ٹھکرا دیا۔ میری حالت تواس کنگال کی سی ہے جو سدا دولت کے سپنے دیکھتا رہے۔ پر جب اس کے گھر سے ہیرے پے کا مینہ برسنے لگے تو وہ فوراً انہیں سمیت کے اتھاہ سمندر میں ڈال دے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ لچھمی یا لکشمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ان خیالوں نے راجہ کو ایسا گھیرا کہ اور کسی بات کی سدھ نہ رہی۔ جب دیکھو کسی گہری سوچ میں کھویا ہوا ہے۔ یا پھر اودی اودی بدلیوں پر نگاہ اس طرح جمی ہوئی ہے کہ جیسے ان بدلیوں کے اس پار اس کی نظریں کھوئے ہوئے سکھ کو ڈھونڈ رہی ہیں۔ محل میں بیٹھے بیٹھے اکتا جاتا تو باغ میں چلا جاتا۔ اور اشوک کی چھاؤں میں بیٹھ کے بیتے ہوئے دنوں کو یاد کرتا۔ جب اشوک کی ٹھنڈی چھاؤں میں بھی دل کی آگ نہ بجھتی تو اٹھ کے دربار میں چلا جاتا۔ یہاں بھی جی نہ لگتا تو گھبرا کے پھر محل کا رخ کرتا۔ یہاں جڑاؤ مسندیں تھیں۔ جگمگاتے سنگھاسن صندل اور بلور کی چوکیاں سنہری پردے جن پر چتر کاروں نے رنگا رنگ چتر بنا رکھے تھے۔

راجہ تکیے پر سر رکھ کے لیٹ جاتا۔ باندیاں مورچھل جھلتیں سازندے ساز چھیڑتے پکھاوج پر تھاپ پڑتی۔ گائنیں دھیمے سروں میں گیت گاتیں جن میں کبھی چاند اور چکور کنول اور بھونرے کی پیت کی کہانی ہوتی۔ کبھی سرمشٹھا ۱؎ اور دیویانی کے سوتیاڈاہ کا ذکر کبھی اندر کے سورگ کی تعریف کبھی مدن کے شوجی پر تیر چلانے کا بیان۔ پریہ میٹھے اور سہانے گیت جلتی آگ پر تیل کا کام کرتے۔ ساز کے اتار چڑھاؤ سے اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی۔ اور پکھاوج کی آواز تو اسے یوں لگتی جیسے کوئی موگری اس کے سر کو کوٹ رہا ہے۔ وہ بے اختیار پکار اٹھتا بس کرو بس کرو ہاتھ روک لو گانا بند کر دو۔ اور ایکا ایکی ہر طرف سناٹا چھا جاتا۔ سازندے اور گائنیں سرجھکائے یوں پیچھے پاؤں ہٹتیں کہ ان کے قدموں کی چاپ بھی سنائی نہیں دیتی تھی۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ سرمشتھا اور دیویانی دونوں راجہ بیاتی کی رانیاں تھیں۔ سرمشتھا ایک ویت راجہ کی لڑکی تھی۔ اور دیویانی اس راجہ کے پروہت شکر کی بیٹی ایک دن دونوں میں جھگڑا ہو گیا اورسرمشتھا نے دیویانی کو ایک کنوئیں میں دھکیل دیا۔ ادھر سے راجہ بیاتی کا گزر ہوا۔ اس نے دیویانی کو نکالا اور پھر اس کے باپ کی اجازت لے کے اس سے بیاہ کر لیا۔ سرمشتھا کو اس کے قصور کی سزایہ ملی کہ وہ دیویانی کی لونڈی بن کے بیاتی کے ہاں گئی کچھ دنوں کے بعد بیاتی اور دیویانی میں بگاڑ ہو گیا۔ کیونکہ سر مشٹھا نے راجہ کے دل کو موہ لیا تھا اور دیویانی اپنے باپ کے ہاں چلی گئی تھی۔ سرمشٹھا کا بیٹا پروتھا جس سے پروبنس چلا اور دیویانی کا بیٹا یادو جس کی اولاد یادوبنسی کہلاتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

مورچھل جھلنے والی باندیاں بھی راجہ کا اشارہ پا کے اس کے پیچھے چل دیتیں۔ جب سب لوگ چلے جاتے تو وہ منہ ڈھانک کے رونا شروع کر دیتا۔

لوگ کہتے ہیں کہ رونے سے جی ہلکا ہو جاتا ہے۔ پر سچ پوچھو تو دل کی آگ کا کوئی ٹھیک نہیں کبھی آنسوؤں سے بجھ جاتی ہے۔ کبھی اور بھڑک جاتی ہے اور محبت کے آنسوؤں میں شرم اور پچھتاوے کے آنسو بھی آ ملیں تو جی کی بے کلی کا کیا ٹھکانا ہے ؟

 

                (۶)

 

آخر یوں ہی روتے روتے دکھ کی گھڑیاں بیت گئیں۔ دشینت کے دن پھرے اورسورگ کے راجہ اندر نے اپنے رتھ بان ہاتھی کو حکم دیا کہ راجہ دشینت کو رتھ میں بٹھا کے میرے پاس لے آؤ یوں تو کہنے کو کچھ راکھشسوں نے سر اٹھایا تھا اور ان سے لڑنے کے لیے اندر نے ہستنا پور کے راجہ کو بلایا تھا۔ پر یہ اصل میں دشینت سے شکنتلا کا سامنا کرا نے اور بچھڑے ہوؤں کو ملانے کا بہانہ تھا۔

اندر کا رتھ جسے کھینچنے والے گھوڑے بجلی سے زیادہ چنچل ہیں اچنبھے کی چیز ہے۔ اس میں ہچکولے لگتے ہیں نہ پہیوں کی گڑ گڑاہٹ اور ٹاپوں کی آواز سنائی دیتی ہے۔ ماتلی نے گھوڑوں کو ششکارا تو رتھ تیر کی طرح سنسناتا۔ ہوا کو چیرتا۔ آکاش کی طرف بڑھا۔ اس وقت دشینت کو ایسا معلوم ہوا کہ کسی نے دھرتی کو نیچے کی طرف دھکیل دیا ہے۔ ندیوں کا پاٹ گھٹ گیا ہے۔ مندروں کے کلس ننھے ننھے تارے معلوم ہو رہے ہیں پھر یہ ننھے تارے بھی چھپ گئے۔ ندیاں سپید لکیریں بنیں اور آہستہ آہستہ یہ لکیریں بھی نظروں سے اوجھل ہو گئیں اب دھرتی کا کہیں اتا پتا نہیں تھا۔ سپید سپید بادل جو دھنکی ہوئی روئی کی طرح معلوم ہوتے تھے بہت نیچے رہ گئے تھے۔ ان میں کہیں کہیں بجلی کی دھاریاں سنہری سانپ کی طرح لہراتی نظر آ جاتی تھیں۔ آگے بڑھے تو نہ بادل تھے نہ بجلی کی لکیریں ہاں چاروں طرف ایک نیلی نیلی دھند سی چھائی ہوئی تھی۔

اندرا لوک ۱؎ کے پاس پہنچے تو ہوا مہک اٹھی اور کان گیتوں سے بھر گئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان گنت ساز بج رہے ہوں اور ہر طرف گیت ہی گیت بکھرے ہوئے ہیں پر ان میں نارد جی کی بین کی آواز سب سے اونچی تھی۔ کیونکہ وہ سب گندھروں کے سردار ہیں۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ اندر کو ہمیشہ کھٹکا لگا رہتا تھا کہ کہیں کوئی سردار یا راکھشس اس کا راج نہ چھین لے۔ یا کوئی تپسوی تپسیا کے بل سے اندر لوک پر قبضہ نہ کر لے۔ راون کے بیٹے میگھ ناد نے شو جی کی پوجا کر کے ایسی طاقت پائی تھی کہ اندر سے جا بھڑا تھا۔ اور اسے گرفتار کر کے لنکا لے گیا تھا۔ آخر برہما جی نے جا کے اندر کو چھڑایا۔ میگھ ناد جو اندر جیت بھی کہلاتا ہے۔ لکشمن جی کے ہاتھ سے مارا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اور ان کے سامنے چھ راگ اور چھتیس راگنیاں ہاتھ باندھے کھڑی رہتی ہیں اب دشینت نے سر اٹھا کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہے کہ پکھراج کی زمین ہے جس میں موتی اور لعل کے پھول دمک رہے ہیں ہیرے پنے کے محل ہیں چاندی سونے کے پربت اور ٹیلے جھیلوں اور تالابوں کا پانی کیا ہے پگھلا ہوا نیلم ہے ؟ جس میں سنہری کنول ہلکورے لے رہے ہیں۔ پربتوں میں کہیں کنروں ۱؎ کے ڈیرے ہیں۔ کہیں مکیش پھر رہے ہیں۔ ایک طرف کلپ کے پیڑوں کا جھرمٹ ہے جن کے سایے تلے جو چاہو مل جاتا ہے۔ پاس ہی امرت کنڈ ہے جس کا پانی پی لو تو موت کا کھٹکا باقی نہیں رہتا۔ پھر اس نے اپسرائیں دیکھیں۔ جو سپنوں کی اس دنیا میں پرے باندھے اڑ رہی تھیں۔ ان کا لباس سورج کی سنہری کرنوں اور چاندنی کو گوندھ کے بنایا گیا تھا۔ مانگ میں شفق نے سیندور بھرا تھا اور ماتھے پر تاروں کے جھومر لٹک رہے تھے۔ ماتلی ساتھ ساتھ بتاتا جا رہا تھا وہ جو بیچ میں بازو پھیلائے اڑ رہی ہے اروسی ہے۔ اس کے دہنے ہاتھ مینکا ہے اور بائیں طرف نل کویرکی استری رمبھا اور وہ جو ان کے آگے آگے دھیمے سروں میں کچھ گا رہی ہے تلوتما ہے جس کے لیے سند ۲؎ اور اسند آپس میں لڑ مرے تھے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ کنر۔ گندھرو کی طرھ سورگ کی ایک مخلوق ہے۔ جس کا سر گھوڑے کا سا اور دھڑ انسانوں کا سا ہے۔

۲؎ سند اور اسند دو راکھشس تھے جب انہوں نے بہت فساد مچایا تو اندر نے تلوتما کو ان کے پاس بھیجا۔ اس نے ان کے من کو ایسا لبھایا کہ وہ دونوں تلوتما کو جیتنے کے لیے آپس میں لڑ مرے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

 

دشینت یہ تماشا دیکھتا اندر کے دربار میں پہنچا۔ وہاں اس کی بڑی آؤ بھگت ہوئی پھر وہ اندر کی فوج کو ساتھ لے کر راکھشسوں سے جا بھڑا۔ اور آن کی آن میں انہیں مولی گاجر کی طرح کاٹ کے رکھ دیا۔ اس پر دیوتا بہت خوش ہوئے اور سورگ کے راجہ نے اپنا ست لڑا تار کے اس کے گلے پر ڈال دیا۔

اندر کے دربار سے لوٹا تو راستے میں کشیپ رشی کا آشرم پڑتا تھا سوچا آؤ ان مہاتما کے بھی درشن کر لیں جنہوں نے دیوتاؤں کو جنم دیا ہے۔ یہاں ایک لڑکے کو دیکھا جس کا چہرہ سورج کی طرح روشن تھا۔ اسے دیکھ کے جی بے قابو ہو گیا۔ سینے میں چاہت کی لہر سی اٹھنے لگی۔ پوچھا یہ کس گھر کا اجالا ہے۔ جواب ملا پروبنس کا راج کما رہے۔ باپ کا نام پوچھا تو کہا دشینت۔ بس پھر کیا تھا۔ لپک کے اسے سینے سے چمٹا لیا شکنتلا بھی یہ خبر سن کے رہمی سمٹی رکتی جھجکتی آئی آنکھیں دو چار ہوئیں تو دونوں کا جی بھر آیا۔ دشینت کی آنکھوں میں پچھتاوے کے آنسو تھے۔ شکنتلا کا گلا رندھا ہوا تھا۔ پر اس کی نظریں ملامت کے اگنی بانوں سے خالی تھیں۔ دشینت نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا۔ مجھ سے بڑی بھول ہوئی کہ گھر آئی لچھمی کو ٹھکرا دیا۔ پر اب میری آنکھوں سے پردہ ہٹ گیا ہے۔ ادھر سے جواب ملا اس میں آپ کا کیا قصور ہے میں نے پچھلے جنم میں کوئی پاپ کیا تھا جس نے آپا دل مجھ سے پھیر دیا۔

دشینت اور شکنتلا کا ملاپ تو ہو گیا۔ پر دونوں کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ یہ بجوگ کیسے پڑا۔ آخر کیشپ رشی نے بتایا کہ درواساجی کے سراپ نے دشینت کے دل سے شکنتلا کی یاد مٹا دی تھی۔ تو یہ گتھی آپ سے آپ سلجھ گئی۔

دشینت شکنتلا اور بھرت تینوں نے کشیپ جی اور ان کی استری ادیتی کے چرن چھوئے۔ ان کی اشیر باد لے کے رتھ میں بیٹھے اور آن کی آن میں ہستنا پور آ پہنچے۔ شکنتلا نے جیسے دکھ اٹھائے ہیں ویسا ہی سکھ پایا تھا پٹ رانی بن کر راجہ کے پہلو میں بیٹھی۔ اور اس کے بیٹے بھرت نے اپنے نبس کا نام ایسا اچھالا کہ آج تک یہ دیس اس کے نام پر بھارت ورش کہلاتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

گنگا

 

                (۱)

 

سرجوندی کے کنارے سے اجودھیا کی پرانی بستی ہے جس کے نام و سورج بنسی راجاؤں کے بل اور تیج نے چار چاند لگا دیے ہیں کہتے ہیں کہ بہت پرانے زمانے میں یہاں راجہ سگر راج کیا کرتے تھے۔ کہنے کو تو وہ اجودھیا کے راجہ تھے پر ان کی بہادری کے جھنڈے چار کھونٹ گڑے ہوئے تھے۔ اور دیس دیس کے راجہ انہیں باج دیتے تھے۔

راجہ سگر کے بہت سے بیٹے تھے جنہیں اپنی بہادری کا بڑا گھمنڈ تھا۔ ان کے کہنے سے ایک دن راجہ کو خیال آیا کہ اشومیدھ یگیہ ۱؎ کر کے بھارت ورش ۲؎ کے سب بلوانوں کو نیچا دکھانا چاہیے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ گھوڑے کے قربانی جو راجے مہاراجے چھتر پتی بننا چاہتے تھے یہ رسم ادا کرتے تھے۔ لیکن بہت پرانے زمانے میں صرف اولاد حاصل کرنے کے لیے گھوڑے کی قربانی کی جاتی تھی۔ اس غرض کے لیے جو گھوڑا چنا جاتا تھا وہ خاص قسم کا ہوتا تھا یہ خیال عام تھا کہ جو راجہ ایسی سو قربانیاں کرے وہ آسانی سے اندر کا راج سنگھاسن چھین سکتا ہے ۔ کچھ راجاؤں نے اپنے میں مقابلہ کا بوتا نہ پا کے بے لڑے بھڑے ہار مان لی بعض نے لڑائی کا ڈول ڈالا اور گھوڑے کو گھیر گھار کے پکر کے لے گئے۔ پریہ راجکمار آسانی سے دبنے والے نہیں تھے۔ فوراً ڈنکے کی چوٹ پر لگا دشمن پر جا پڑے۔

۲؎ ہندوستان کا پرانا نام ہے۔ کہتے ہیں کہ مہاراجہ دشینت کے بیٹے بھرت کے نام پر اس ملک کا نام بھارت ورش پڑ گیا۔ کورو پانڈو راجہ بھرت کی نسل میں سے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اشارے کی دیر تھی اسی وقت ایک اصیل گھوڑا یگیہ کے لیے چن لیا گیا اور سپاہی تلواروں کو سان پر چڑھانے اور ایک لمبے سفر کی تیاریاں کرنے لگے۔

پھر ایک دن صبح سویرے اس گھوڑے کو اچھی طرح بنا سنوار کر چھوڑ دیا گیا۔ اس وقت اس کی سج دھج دیکھنے کے لائق تھی۔ جڑاؤ پاکھر سونے کی ہنسلی جس میں بڑے بڑے نگینے جگمگا رہے تھے۔ اپنے کو آزاد پا کے گھوڑوں نے چاروں پتلیاں جھاڑیں اور اس طرح جست بھری کہ بس بجلی سی کوند گئی۔ ادھر راجہ سگر کے بیٹے فوج کے لیے کھڑے تھے۔ انہوں نے گھوڑے کا پیچھا کیا غرض آگے آگے یہ گھوڑا ہر بھرے کھیتوں سنسان بنوں اونچے ٹیلوں اور ندی نالوں کو الانگتا پھلانگتا چلا جاتا تھا۔ اور پیچھے پیچھے راج کمار چلے آتے تھے۔

گھوڑے کو لڑ بھڑ کے چھڑایا اور نذریں لے کر فتح کے نشان لہراتے چل کھڑے ہوئے۔ یونہی یہ سورما جنگل اور بیابانوں کے لپٹتے سپٹتے میدان مارتے راج بخشتے باج لیتے سمندر کے کنارے جا پہنچے۔ اب دور دور کوئی ایسا راجہ مہاراجہ نہ تھا جو ہار مان کے باج دینے کا اقرار نہ کر چکا ہوں۔ اس یے یہی صلاح ٹھہری کہ گھر لوٹنے کی تیار کی جائے۔ سپاہیوں کو بھی گھر چھوڑے مدتیں ہو گئی تھیں۔ اجودھیا نگری کی یاد دلوں میں چٹکیاں لے رہی تھی۔ یہ خبر سن کے ان کے اداس چہرے دمک اٹھے۔

ایک دن راجکمار سمندر کے کنارے کھڑے ہنس بول کے جی بہلا رہے تھے کہ ایکا ایکی ایک شور سنائی دیا۔ ساتھ ہی کچھ سپاہی ہانپتے کانپتے سامنے آ گئے۔ اور کہنے لگے کہ گھوڑے کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ یہ سن کے راجکماروں کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ پہلے تو آس پاس کے علاقے میں آدمی دوڑائے جب گھوڑے کا کوئی کھوج نہ ملا تو آپ اسے ڈھونڈنے نکلے۔ ایسی ایسی جگہ پہنچے جہاں انسان تو انسان یکش اور گندھرو ۱؎ بھی پاؤں نہ رکھ سکتے۔ مگر کہیں اس کا پتہ نہ پایا۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ گندھرو سے ملتی جلتی ایک مخلوق جو دولت کے دیوتا کویر کے ماتحت سمجھی جاتی ہے۔ کالی داس نے اپنی مشہور نظم میگھ دوت (قاصد ابر) میں ایک یکش کی بپتا کا حال لکھا ہے۔ جو اپنی محبوبہ سے جدا ہو کر ایک پہاڑ پر آ پڑا ہے۔ اور بادل کے ہاتھ اسے سندیسہ بھیجتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

 

آخر دیس دیس کی خاک چھانتے ایک ہرے بھرے جنگل میں پہنچے۔ دیکھا کوسوں تک ہریاول کا فرش ہے اور اس میں لال اور پیلے پھول تاروں کی طرح دمک رہے ہیں۔ بیچ میں ایک تالاب ہے جس کا نرمل جل موتی کی آب کو شرماتا ہے۔

اردگرد پیڑوں کے جھنڈ چھائے ہوئے ہیں اور ان پر پنچھی پکھیرو کلول کر رہے ہیں۔ تالاب سے ذرا ہٹ کے ایک جنا دھاری سادھو بھبوت رمائے سمادھی لگائے بیٹھے ہیں۔ اور ان کے پاس وہ گھوڑا بندھا کھڑا ہے ایک راجکمار نے بڑ کے پوچھا بابا تم کون ہو اور یہ گھوڑا تمہارے ہاتھ کیسے آیا۔ پر سادھو مہاتما اسی طرح آنکھیں بند کر کے بیٹھے رہے۔ یہ دیکھ کے وہ بہت بگڑے اور جو کچھ منہ میں آیا کہہ ڈالا۔ شور سن کے سادھو نے آنکھیں کھولیں اور غصیلی نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ ان کے یوں دیکھتے ہی ایک شعلہ سا لپکا جو راجکماروں کو بھسم کر گیا۔ جنگل کے پکھیرو سہم کر ٹہنیوں میں دبک گئے۔ اور ڈوبتے سورج کی کرنیں یہ دیکھ کر پیلی پڑ گئیں کہ جہاں راج کمار کھڑے تھے وہاں راکھ کے ایک ڈھیر کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا۔

 

                (۲)

 

راجہ سگر بیٹوں کی راہ تک رہے تھے اور ان کے جل کر راکھ ہو جانے کی خبر ملی۔ ساتھ ہی ہی بھید بھی کھلا کہ وہ تپسوی سادھو جن کے غصے کی آگ نے راجکماروں کو جلا ڈالا تھا۔ اصل میں کپل روشی ۱ ؎ تھے یہ سن کر راجہ سگر ڈھاڑیں مار ما رکے رونے لگے اور روتے روتے بے سدھ ہو کر سنگھاسن پر گر پڑے۔ یہ خبر شہر میں پہنچی تو ہر طرف ایک کوک سی پڑ گئی اور کئی دن اجودھیا میں کہرام مچا رہا۔ راجہ کو پہلے ہی بڑھاپے نے نڈھال کر رکھا تھا۔ بیٹوں کی موت کے دکھ نے رہی سہی سکت باقی نہ چھوڑی۔ کئی دن بستر پر پڑے رہے جب جسم میں تھوڑی بہت جان آئی اور بات چیت کرنے کے لائق ہوئے تو اپنے پورے انشومان کو لے کر جو بوڑھے راجہ کا سہارا تھا۔ بلا بھیجا اور کہنے لگے کہ بیٹا جو ہوا سو ہوا پر مجھ اس بات کا بڑا دکھ ہے کہ اب یگیہ نہ ہو سکے گا۔ اور لیے تم جاؤ اور جس طرح بھی بن پڑے یگیہ کے گھوڑے کو لے آؤ۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ ایک مشہور رشی سانکھیہ شاستر انہیں کی یادگار ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

 

انشومان دل کے نرم اور طبیعت کے نیک تھے۔ اور ان کی باتوں میں کچھ ایسی مٹھاس تھی کہ لوگوں کے جی آپ ہی آپ ان کی طرف کھنچتے تھے۔ انہوں نے میٹھی میٹھی باتوں سے کپل رشی کے غصے کو دھیما کر کے پہلے گھوڑا مانگ لیا۔ پھر کہنے لگے مہاراج کوئی ایسا اپائے بتائیے کہ یہ راجکمار پھر جی اٹھیں۔

رشی بولے جب تمہارا پوتا بھاگیرتھ گنگا جی کو آکاش سے دھرتی پر لائے گا تو یہ سب راجکمار سورگ کو سدھاریں گے۔ یہ کہہ کر انہوں نے تو آنکھیں بند کر لیں اور انشو مان گھورے کو لے کر ہنسی خوشی گھر لوٹے۔

 

                (۳)

 

گنگا جس کے آس پاس کے علاقے کو پرانے زمانے میں آریہ ورت ۱؎ کہتے تھے بھارت ورش کے سب دریاؤں سے اتم سمجھی جاتی تھی۔ وہ پربتوں کے راجہ ہماچل کی بیٹی اور اما کی بہن ہے اور وشنو جی ۲؎ کے پاؤں سے بہہ نکی ہے پہلے وہ آکاش پر بہتی تھی اور راجہ سگر کے پڑپوتے بھاگیرتھ ۳؎ جی اپنی تپسیا کے بل اسے دھرتی پر لائے تھے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ پرانے زمانے میں گنگا بندھیا چل تک کے علاقے کو آریہ ورت کہتے تھے۔

۲؎ وتنو تین بڑ دیوتاؤں میں سے ایک ہیں اور سنسار کے پالنہار سمجھے جاتے ہیں۔ لکشمی ان کی پتنی کا نام ہے ہندو دیومالا میں کہیں تو انہیں اس طرح دکھایا گیا ہے کہ ہر طرف پانی پھیلا ہوا ہے۔ وشنو جی اس پر لیٹے ہوئے ہیں۔ اور ان کی نام سے کنول کا پھول پھوٹ نکلا ہے۔ کہیں وہ سفید کنول کی پنکھڑی پر بیٹھے ہیں۔ گنگا ان کے پاؤں سے بہہ نکلی ہے اور کہیں وہ ہزار پھنوں والے سانپ شیش ناگ کی پیٹھ پر لیٹے نظر آتے ہیں۔

۳؎ گنگاراجہ سگر کے پڑپوتے بھاگیرتھ کے نام پر بھاگیرتھی بھی کہلاتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

 

بھاگیرتھ کو راج سنگھاسن پر بیٹھے ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے تھے کہ اپنے بڑوں کا کپل رشی کے غصے کی آگ میں بھسم ہونا یاد آیا۔ اس خیال کے آتے ہی جی بیکل ہو گیا۔

اسی وقت راج پاٹ دیوان کو سونپا گیروے کپڑے پہن اجودھیا سے نکلے اور ہمالیہ پربت پر پہنچ کے تپسیا کرنے لگے۔

یہاں کبھی گہری گپھاؤں میں ہوا اس طرح شور مچاتی ہے کہ انسان تو انسان جنگل کے جانوروں کے جی دھل جاتے ہیں کبھی زور کے جھکڑ چلتے ہیں جھیلوں کا پانی اچھلنے لگتا ہے۔ درخت اکھڑ اکھڑ کے گر پڑتے ہیں کبھی بجلی چمکتی ہے بادل گرجتے۔ چٹانیں ٹوٹ ٹوٹ کر گرتیں برف کے طوفان آتے۔ جھیلوں کا پانی ختم ہو جاتا اور برفانی پربت کے چوڑے سینے اور اس کے بھورے بھورے بازوؤں کو اجلی اجلی چادر اوڑھا دیتے۔ پریہ طوفان اور جھکڑ بھاگیرتھ جی کے من کو ڈانوا ڈول نہ کر سکے۔ اور وہ جس طرح بیٹھے تھے اسی طرح بیٹھے رہے۔ انہیں یونہی تپسیا کرتے ہوئے مدتیں بیت گئیں برف کے سینکڑوں طوفان آئے جھیلوں کا پانی کئی بار جم کے پگھلا جنگل اور بن کئی بار سوکھے اور ہرے ہوئے پر ان کے جی کی کلی نہ کھلی۔

پچھلا پہر تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہ تھی بھاگیرتھ جی سمادھی لگائے بیٹھے تھے۔ اتنے میں آشا ۱؎ نے اپنی سرخ سرخ آنکھوں سے پورب کے پھاٹک کھول دیے سامنے کی جھیل میں خنول کے سپید پھول ہلکورے لینے لگے اور گنگا جی دیوی کا روپ دھار کر ان کے سامنے آ گئیں۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ آشا صبح کی دیوی جو آکاش کی بیٹی ہے اس کی جوانی کا سدا بہار پیڑ ہمیشہ لہلہاتا رہتا ہے۔ اور بڑھاپا اس پر اثر نہیں کر سکتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ہماچل کی بیٹی کی آنکھیں کنول کی سی تھیں راج ہنس کی گردن گھٹا سے بال جن میں موتی پروئے ہوئے تھے۔ اور مونگے کی سی پتلی پتلی اور لال لال انگلیاں جن سے پانی کی بوندیں گر رہی تھیں اس کا لباس سیپ کی طرح سپید تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دودھ ۱؎ کے سمندر کی ایک لہر نے اس کے سارے جسم کو ڈھانپ رکھا ہے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ دودھ کا سمندر یعنی کیشر ساگر ہنوؤں کی پرانی کتابوں میں لکھا ہے کہ کیشر ساگر میں پانی کی جگہ دودھ ہے۔ کہتے ہیں دیوتاؤں نے اسی سمندر کو بلو کے امرت نکالا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

 

گنگا کے ہونٹ یوں ہلے جیسے کنول کی نازک پتیاں صبح کی تیز ہوا اور سورج کی سنہری کرنوں کو چھو کے کانپنے لگتی ہیں اور ایک لہر سی گنگنا اٹھی۔

راجہ تک کیا چاہتے ہو۔

اے ہماچل کی بیٹی میں چاہتا ہوں کہ تو آکش سے اتر کر دھرتی پر بہنے لگے۔

مگر اے راجہ میرا بوجھ دھرتی کیسے سنبھال سکے گی؟

بھاگیرتھ کا سر جھک گیا ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا جواب دیں پہاڑی چشموں کے میٹھے گیت کی طرح پھر ایک آواز گونج اٹھی۔

ہاں  اگر میں شو جی کے سر پر گر کے ان کی جٹا سے بہہ نکلوں تو دھرتی تباہی سے بچ سکتی ہے۔ راجہ تم جاؤ اور شو جی کو راضی کرو۔

بھاگیرتھ جی نے تپ سے شو جی کو ایسا رجھایا کہ انہوں نے گنگا کو اپنے سر پر روکنا منظور کر لیا۔

پھر ایک دن یہ سورگ کی ندی شو جی کے سر پر گر کے ان کی جٹاؤں سے گزرتی ہوئی پربت کا سینہ توڑ کر بہہ نکلی۔ شو جی کے سر پر گرنے کی وجہ سے اس کی تیزی کم ہو گئی۔ پھر بھی اس کے زور کا یہ حال تھا کہ کہیں چٹانوں کو توڑ پھوڑ کے بہا دیا کہیں بڑے بڑے درختوں کو جڑ سے اکھاڑ کر ہوا میں اچھالا ار پھر اپنی لہروں میں لپٹتی لے چلی کہیں وہ چھوٹے بڑے ٹیلوں کو پھلانگتی میدانوں کو پہلو میں دباتی ہوئی اس طرح بڑھی کہ دور دور تک پانی کے سوا اور کچھ نظر نہ آتا۔

کہیں چادریں بنا بنا کے ایسے زور سے گزرتی کہ پربت اور بن شور سے گونج اٹھتے اور کہیں پہاڑوں سے ٹکراتی جھاگ اڑاتی تنگ دروں میں سمٹ کے یوں بہنے لگتی جیسے ایک سپید سا سانپ لہراتا چلا جاتا ہو۔

جب وہ یونہی چٹانوں سے ٹکراتی میدانوں کو دباتی جنگلوں اور کھیتوں کی گود کو موتیوں سے بھرتی راکھ کے اس ڈھیر تک پہنچی جو راجہ سگر کے بیٹوں کی نشانی تھا۔ تو وہ سب کے سب جی اٹھے اور گنگا کی مہما کرتے شوجی کی تعریف کے گیت گاتے اڑ کے سورگ میں جا پہنچے۔

٭٭٭

 

 

 

 

امرت کہانی

 

ایک بارسارے دیوتا مل کر وشنو جی کے پاس گئے اور کہنے لگے کوئی ایسا اپائے بتائیے کہ ہمارا بل اور شکتی کبھی نہ گھٹے اور ہمارے دشمن اسر ۱؎ کسی بات میں ہم سے آگے نہ بڑھیں۔ وشنو جی بولے کہ یہ تو جبھی ہو سکتا ہے کہ سمندر کو بلو کے امرت نکالا جائے اور سارے دیوتا اسے پی کے امر ہو جائیں۔ پر یہ بڑا کٹھن کام ہے تم سے ہو سکے تو پہلے مندرا ۲؎ اچل پہاڑ کو اکھاڑ لاؤ کیونکہ سمندر اس سے بلویا جا سکتا ہے‘‘۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ سر دیوتاؤں کو کہتے ہیں اور اسر دیوتاؤں کے دشمن کو۔ لیکن راکھشسوں اور اسروں میں بڑا فرق ہے اسر دیوتاؤں کی طرح کیشپ رشی کی اولاد ہیں۔ اور راکشس پلست رشی کی نسل میں سمجھے جاتے ہیں۔

۲؎ یہ ٹھیک ٹھیک تو معلوم نہیں ہو سکا کہ مندراچل کس پہاڑ کا نام ہے۔ ہاں بھاگل پور کے پاس اس نام کا ایک پہاڑ موجود ہے جسے ہندو بہت پوتر سمجھتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔

 

یہ سن کے دیوتا بہت خوش ہوئے اور مندراچل کو اکھاڑنے چلے مندراچل بہت اونچا پربت ہے۔ اس کی چوٹیوں پر اجلی اجلی بدلیاں سورگ کی اپسراؤں کی طرح نرمل جل کی گاگریں لیے کھڑی ہیں ان کی مانگ میں شفق نے سیندور بھرا ہے ماتھے پر بجلی کا جھومر ہے۔ اور گلے میں دھنک کاست لڑا ہار۔ جب وہ مسکرا پر اپنی گاگریں دھرتی پر الٹ دیتی ہیں تو جل تھل ایک ہو جاتے ہیں۔

دیوتاؤں نے بڑا زور مان پر مندراچل ان سے ہل بھی نہ سکا۔ یہ دیکھ کے وشنو جی نے کدرو کے بیٹے شیش ناگ کو بھیجا۔ اس نے اپنے بل بوتے پر پربت کو اکھیڑ لیا۔ اور سب دیوتا مل کے اسے سمندر کے کنارے لے آئے۔ پھر انہوں نے مندراچل کو  رئی بنایا اور شیش ناگ کے بھائی واس کی ناگ کو رسی کی طرح اس میں لپیٹا۔ وشنو جی نے کچھوے کا روپ بھر کے پربت کو اپنی پیٹھ پر اٹھا لیا اورسب سر اور اسر مل کے بلونے لگے۔

جب مندراچل سمندر میں گھومنے لگا تو دھرتی تھرا اٹھی۔ مندراچل پر جو بڑی بڑی چٹانیں تھیں وہ ٹوٹ ٹوٹ کے سمندر میں گرن لگیں۔ ان کی رگڑ سے آگ بھڑک اٹھی۔

۱؎ کدرووکش جی کی بیٹی تھیں جس کا بیاہ کیشپ رشی سے ہوا وہ ہزار سانپوں کی ماں ہے جس میں واس کی شیش اور تکشک سب سے زیادہ مشہو رہیں۔ ان میں شیش ناگ جس کے ہزار سر ہیں درھتی کا بوجھ سنبھالے ہوئے ہے اور واس کی ناگ پاتال میں راج کرتا ہے۔

جو دیکھتے ہی دیکھتے جنگلوں میں پھیل گئی اور آگ کے شعلے ہرے بھرے پہاڑ کی چوٹیوں پر یوں لپکنے لگے جیسے نیلے نیلے بادوں میں بجلی کوند رہی ہوں اتنے مٰ اندر دیوتا نے بدلیوں کو اشارہ کیا اور انہوں نے پانی برسا کے آگ کو بجھا دیا۔ پھر بھی چٹانیں ٹوٹ ٹوٹ کر برابر گر رہی تھیں۔ جنگلی پھولوں اور جڑی بوٹیوں کا رس بہہ بہہ کر سمندر میں ملتا جاتا تھا۔ا س رس کے ملنے سے سمندر کا پانی دودھ بنا اور دودھ کی لہروں سے چاند نکلا۔ جو اندھیری راتوں کو اجالتا اور سنسار پر امرت برساتا۔

تھوڑی دیر ہوئی کہ کنول کا ایک پھول پانی پر ہلکورے لیتا نظر آیا۔ اس سے ایک جوت سی ابھری کہ سب کی آنکھیں جھپک گئیں اب جو دیکھا تو کنول کی پنکھڑیوں پر ایک سندر دیوی بیٹھی ہے۔ وہ اپنی مسکراہٹ سے لہروں کو جگمگاتی اور سونا روپا بکھیرتی آگے بڑھی اور کنارے پہنچ کر دیویوں کے جھرمٹ میں جا کھڑی ہوئی۔ یہ دولت کی دیوی لکشمی تھی۔ اس کے آتے ہی جنگل اور پہاڑ دمک اٹھے اور دھرتی نے اپنے سارے خزانے اس کے قدموں میں لا ڈالے۔

اسرمارے تکان سے ہانپ رہے تھے۔ دیوتاؤں کے بھی ہاتھ سست پڑ گئے تھے پر لکشمی کو دیکھ کے ان کی ہمتیں بڑھ گئیں۔ اور ہو اس طرح سمندر کو بلونے لگے کہ سپید سپید لہریں آکاش تک جا پہنچیں۔ واس کی ناگ کے منہ سے آگ کی لپٹیں اور دھواں نکلا۔ یہ دھواں بادل بنا اور ہلکی ہلکی پھوار پڑنے لگی۔

اتنے میں ایک ناری جس کی اگنلیاں مونگے کی سی تھیں سمندروں کی لہروں سے ابھرتی ہوئی نظر آئی۔ اس کی آنکھیں دودھ بھرے پیالے کی طرح تھیں۔ گلاب کی پنکھڑیوں ایسے ہونٹ تمتماتے ہوئے گال۔ اس کا جسم بھی ایک گلابی ساری سے ڈھکا ہوا تھا۔ا س نے اپنی نشیلی انکھڑیوں کو کچھ اس طرح گھما کر دیوتاؤں پر نظر ڈالی کہ ان کے چہرے جگمگا اٹھے پھر وہ اٹھلاتی ہوئی بڑی اور ورن ۱؎ کے پاس جا کے کھڑی ہو گئی۔ یہ شراب کی دیوی ورنی تھی۔ پھر کام دھینو گائے نکلی جس نے سورگ میں دودھ کی ندیاں بہا رکھی تھیں۔ اس کے پیچھے اچیہ شردا گھوڑا نظر آیا جو بجلی سے زیادہ چنچل ہے۔ دیوتا اس گھوڑے کو دیکھ دیکھ کے خوش ہو رہے تھے۔ کہ ایک سپید ہاتھی دکھائی دیا۔ جس کے چار دانت تھے۔ پر وہ اپنے ڈیل ڈول سے ایک ڈال چاندی کا پربت معلوم ہوتا تھا یہ ایراوت ہاتھی تھا جس پر دیوتاؤں کو راجہ اندر سوار ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ ورن آریاؤں کا مشہور دیوتا ہے۔ جس کا ذکر ویدوں میں بھی موجود ہے وہ پانی کا دیوتا بھی سمجھا جاتا ہے اور شراب کی دیوی ورنی اس کی بیوی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

 

کچھ دیر ہوئی تھی کہ سمندر سے ایک پیڑ ابھرتا دکھائی دیا۔ جس کی ڈالیوں میں رنگا رنگ کے پھول کھلے تھے یہ کلپ برکش تھا۔ جس کی چھاؤں تلے دل کی مرادیں پوری ہوتی ہیں۔ اور جو چاہو مل جاتا ہے۔ پھر ہلکی ہلکی ہوا چلنے لگی۔ لہریں اس طرح اٹھیں جیسے شرط باندھ کے آکاش کو چھونے چلی ہوں سمندر پر ایک نیلی نیلی سی دھند چھا گئی اور بہت سی سندر اپسرائیں قطار باندھے بازو پھیلائے اڑتی نظر آئیں جن کی چھب کو دیکھ کر بڑے بڑے تپسویوں کا من ڈول گیا۔ سب سے پیچھے ایک سندر کنیا جس کا روپ چنبیلی کی پنکھڑی کی طرح بے داغ تھا اپسراؤں کے جھرمٹ میں نظر آئی۔ ساری اپسرائیں اس کے سامنے لونڈیاں معلوم ہوتی تھیں یہ رمبھا ۱؎ تھی جس کی یاد میں ان گنت گندھرو اور ریکش ٹھنڈی سانسیں بھرتے رہتے ہیں۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ رمبھا سورگ کی اپسرا اور کویر کے بیٹے نل کویر کی بیوی ہے اندر نے اسے وشوامتر رشی کا تپ توڑنے کے لیے بھیجا تھا۔ پروہ رشی کے من کو نہ لبھا سکی۔ اوران کے سراپ (بددعا) سے ہزار سال تک پتھر کی مورت بنی رہی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اس کے بعد سمندر سے اور بہت سے رتن نکلے جنہیں دیوتاؤں نے بانٹ لیا پھر ایکا ایکی دھواں سا اٹھا اور ہر طرف چھا گیا۔ اس کی بو سے اسر بے سدھ ہو کر گر پڑے اور دیوتاؤں کے بھی دم گھٹنے لگے۔ برہما جی بولے یہ بڑا خوفناک زہر ہے۔ اگر شو جی ہماری مدد کریں تو دھرتی بچ سکتی ہے۔ نہیں تو اس کا کوئی توڑ نہیں۔ یہ سن کے شو شمبھو آگے بڑے اور اس زہر کو پی گئے۔

پر اسے پیتے ہی ان کے گلے کی رنگت نیلی ۱؎ ہو گئی۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ شو جی کو اسی لیے نیل کنٹھ یعنی نیلے گلے والا بھی کہتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

 

سب سے اخیر میں دھنونتری جی ۱؎ ہاتھ میں امرت کا پیالہ لیے سمندر سے نکلے۔ انہیں دیکھ کیاسر ٹوٹ پڑے۔ اور امرت کا پیالہ چھین کے لے گئے دیوتاؤں نے بہتیرا چاہا کہ اسر بچ کر نہ نکلنے پائیں وہ اس طرح جی توڑ کے لڑے کہ دیوتاؤں کی فوج کو گھونگٹ کھا کے پیچھے ہٹنا پڑا۔ دیوتاؤں کا یہ حال دیکھ کے وشنو جی سے رہا نہ گیا۔ اور وہ استری کا روپ بھر کے اسروں سے امرت چھیننے چلے اس من موہنی سی چھب اور گات کو دیکھ کے اسروں کی سدھ بدھ جاتی رہی۔ اور وہ امرت پینا بھول گئے۔ اس موہنی نے ان کے دلوں کو ایسا لبھایا کہ وہ اپنا سب کچھ اسے دے ڈالنے کو تیار ہو گئے۔ یہاں تک کہ انہوں نے امرت بھی اسے دے ڈالا۔ پر جب اس نے مسکرا کے امرت کا پیالہ ہاتھ میں لیا تو ایک بجلی سی چمکتی ہوئی معلوم ہوئی۔ جس سے سب کی آنکھیں جھپک گئیں پھر جو دیکھا تو وہی ریتلا میدان ہے وہی اونچے اونچے ٹیلے اور جھاڑیاں ہیں پھر وہ سندر استری کہیں نہیں۔ یہ دیکھ کے کچھ اسر تو ہائے ہاء کرتے ہوئے دھرتی پر گر پڑے اور کچھ پتھروں پر سر پٹکنے لگے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ دھونتری دیوتاؤں کوبید (طبیب) اور آریہ ویدک یعنی ہندوستان کا طب قدیم کا بانی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

 

بہت دیر تک یہی حال رہا آخر ایک بڈھا اسر جسے دیوتاؤں سے لڑے بھڑتے مدتیں گزر گئیں تھیں کہنے لگا مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جسے تم سندر استری سمجھ رہے تھے وہ وشنو تھے جو موہنی کے روپ مین امرت چھل کے لیے گئے۔ یہ سن کے اسروں کو بہت غصہ آیا اور وہ ہتھیار سج کے دیوتاؤں سے لڑنے چلے۔

یہاں پہنچے تو سارے دیوتا امرت پی کے امر ہو چکے تھے۔ اب نہ تلواروں پر کاٹ کر سکتی تھی نہ آگ جلا سکتی تھی نہ زخمی ہونے کا کھٹکا تھا نہ جسم کی طاقت گھٹنے کا خوف تھا نہ موت کا ڈر،  پراسر بے لڑے بھڑے ہار ماننے والے نہیں تھے۔ انہوں نے آتے ہی پتھروں کا مینہ برسا دیا۔ بڑی بڑی چٹانیں یوں لڑھکائیں کہ دھرتی ڈولی۔ پہاڑ تھرائے سمندرکا پانی اچھلنے گلا۔ ادھرسے دیوتا بھی بڑھے۔ اگنی کے بانوں نے ہر طرف آگ بھڑکا دی۔ پون ۱؎ نے دشمنوں کو یوں للکارا کہ زور کی آندھی چلنے لگی۔ بڑے بڑے پیڑ جڑ سے اکھڑ کے گر پڑے۔ اور دھرتی دھول میں چھپ گئی اندر کا کوندا اس طرح لپکنے لگا کہ اسروں کے لیے سر چھپانا مشکل ہو گیا۔ وشنو بھی موہنی کا روپ تیاگ کر اپنے چکر ۲؎ سے دشمنوں کا سر کاٹنے لگے۔ بہت سے اسر اس لڑائی میں مارے گئے جو جیتے بچے ان میں کچھ سمندر میں گھس گئے اور کچھ پاتال میں جا چھپے۔ جب دیوتاؤں نے دیکھا کہ سارے اسر بھاگ کے کونے کھدروں میں جا چھپے ہیں تو وہ بھی وشنو جی کی مہما بکھانتے اپنے اپنے لوک کو سدھارے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔

۱؎ پون ہوا کا دیوتا جسے وایو بھی کہتے ہیں۔ اندر اور وایو دونوں ایک ہی رتھ میں سوار ہوتے ہیں جو سونے کی بنی ہوئی ہے۔ اس رتھ کو ایک ہزار گھوڑے کھینچتے ہیں۔ ہنومان جی پون ہی کے بیٹے تھے۔

۲؎ چکر وشنو جی کا خاص ہتھیار ہے۔ یہی ہتھیار وشنو کے اوتار کرشن جی کے پاس بھی تھا۔ اسے سدرش چکر اور ویر نابھ بھی کہتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.iqbalcyberlibrary.net/txt/100020.txt

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید