FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

پارکنگ ایریا

 

(افسانوں کا مجموعہ)

 

حصہ دوم

 

                   غضنفر

 

 

 

 

 

 

ایک اور منتھن

 

آواز نے سب کو چونکا دیا۔ متحرک پاؤں ٹھٹھک گئے۔ مصروف ہاتھ رُک گئے۔ کان اعلان سننے کے لیے بے قرار ہو اٹھے۔

’’بھائیو اور بہنو!بزرگو اور بچو!آج رات کلا بھون میں دیش کی مشہور ناٹک منڈلی ’’سنسکرتی‘‘ اپنا ایک ناٹک ’’ساگر منتھن‘‘ پر ستوت کرے گی۔ اس کھیل میں منجھے ہوئے کلا کار اپنی بے مثال کلا کا کمال دکھائیں گے۔ آج کا یہ رومانچک کھیل آپ دیکھنا نہ بھولیں۔ خود آئیں اور اپنے ملنے والوں کو بھی ساتھ لائیں۔ ‘‘

ناٹک کا مژدہ سن کر لوگوں کے دلوں میں ترنگ بھر گئی۔ ٹھہرے ہوئے ہاتھ پاؤں دوبارہ حرکت میں آ گئے۔ بند پڑے کام تیزی سے نمٹنے لگے۔ آنکھیں روشنی کے جانے اور تاریکی کے آنے کی دعائیں مانگنے لگیں۔

دن ڈھلتے ہی کلا بھون کے پنڈال میں لوگوں کا ہجوم لگ گیا۔ نگاہیں پردے کے پیچھے کے منظر کو دیکھنے کے لیے بے تاب ہو گئیں۔ تجسّس انتہا کو پہنچنے لگا۔

پردہ اٹھ گیا۔

منظر اپنے ایک ایک خط و خال کے ساتھ آنکھوں میں بسنے لگا۔ اسٹیج کے درمیانی حصے میں بنا مصنوعی سمندر، سمندر کے وسط میں گھومتا ہوا اسٹیل کا ایک گول مٹول کھمبا، کھمبے سے لپٹی ہوئی پلاسٹک کی موٹی رسّی، رسّی کے دونوں سروں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر اپنی طرف کھینچتے ہوئے بہت سارے لوگ۔

ایک طرف کے لوگوں کا تین چوتھائی جسم کپڑوں سے خالی، سر پر روکھے پھیکے بے ہنگم بال، چہرے کا جھلسا ہوا رنگ، دھنسی ہوئی آنکھیں، پچکے ہوئے گال، ہونٹوں پر پپڑیاں، چھاتی کی جھانکتی ہوئی پسلیاں، ننگے پاؤں، پنڈلیوں اور ہاتھوں پر کن کھجوروں کی طرح ابھری ہوئی رگیں۔

دوسری جانب کے لوگوں کا بدن سرسے پاؤں تک گھٹا ہوا۔ سڈول ہاتھ پاؤں، بھرے ہوئے گال چمک دار چہرے، روشن آنکھیں۔

دونوں طرف کی نگاہیں سمندر پر مرکوزمسلسل گھومتے ہوئے کھمبے کے پاس سے نکلتا ہوا ایک خاص طرح کا شور، سطح سے اٹھتا ہوا جھاگ۔

اسٹیج کے ایک حصے میں کرسیوں پر عمدہ لباس زیب تن کیے ہوئے کچھ معمر اور سنجیدہ افراد ایک گوشے میں کچھ بڑے چھوٹے برتن، رسیوں کا گٹھّر وغیرہ۔

کرسیوں پر براجمان افراد میں سے ایک شخص کھڑا ہوا۔

’’دیویو تتھا سجّنو! ساگر منتھن شروع ہو چکا ہے۔ دھیان سے دیکھیے اور پرارتھنا کیجیے کہ سمندر کے گربھ سے وہ سب کچھ باہر نکل آئے جس کی ہمیں آوشیکتا ہے اور ہمار اُ دشیہ ایک ایک منشیہ تک پہنچ جائے جس کے لیے یہ رچنا رچی گئی ہے۔ دھنیہ واد۔ ‘‘

مجمعے کی آنکھیں اسٹیج پر مرکوز ہو گئیں۔ کچھ گوشوں میں سرگوشیاں شروع ہو گئیں۔

کرسی سے تھوڑی دیر بعد ایک دوسرا آدمی کھڑا ہوا۔

’’ہمارے پیارے تماش بین! آپ کی بد بداہٹیں اور آنکھوں کی پتلیوں کی گردشیں یہ بتا رہی ہیں کہ آپ کچھ حیران ہیں۔ آپ کی حیرانی کی وجہ شاید یہ ہے کہ آپ ساگر منتھن کے قصّے سے پر چت ہیں۔ آپ کے من میں یہ پرشن اٹھ رہے ہوں گے کہ آج کے منتھن میں دیوتا اور دانوں کی جگہ مانو، پر بت کے استھان پر اسٹیل کا کھمبا، اور ناگ و اسو کی کی جگہ پلاسٹک کی رسی کیوں ؟ آپ کے یہ پرشن سبھاوک ہیں لیکن آپ دھیرج رکھیے۔ ناٹک کا انت آتے آتے آپ کے ان تمام سوالوں کے جواب اوشیہ مل جائیں گے۔ ‘‘

سرگوشیاں رک گئیں۔ لوگوں کی نظریں سمندر کی سطح پر مرکوز ہو گئیں۔ البتہ کچھ نظریں اب بھی اسٹیج پر گردش کرتی رہیں۔

’’دیکھو!دیکھو! کچھ نکل آیا۔ ‘‘ اسٹیج پر بیٹھے کسی کے منہ سے یہ آواز نکلی۔ یک بارگی منتھن رک گیا۔ رسّی کھینچنے والوں کی نگاہیں سطحِ آبِ کا جائزہ لینے لگیں۔ ان کی آنکھوں میں چمک دوڑ گئی۔ پیشانی پر نور جھلملانے لگا۔

اسٹیج پر بیٹھے کچھ لوگ اپنی جگہ سے اُٹھ کر سمندر کے پاس پہنچے اور گربھ سے نکلے پدارتھ کو پانی سے نکال کر ایک بڑے برتن میں رکھ دیا۔

’’کیا نکلا صاحب؟‘‘ تین چوتھائی عریاں جسموں والے لوگوں کی جانب سے سوال کیا گیا۔ کرسی پر بیٹھے معمر اشخاص میں سے ایک فرد کھڑا ہوا۔

’’آپ کا سوال بالکل فطری ہے۔ آپ کی محنت سے جو رتن نکلا ہے اس کے بارے میں آپ کو جاننے کا پورا پو‘را ادھیکار ہے پرنتو بنا جانچے پرکھے یہ بتانا سمبھونہیں ہے کہ ابھی ابھی سمندر کے گربھ سے جو رتن نکلا ہے وہ کیا ہے ؟ اس کے لیے ابھی آپ کو تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا۔ ‘‘

منتھن پھر سے جاری ہو گیا۔ رکے ہوئے ہاتھ رسی کھینچنے میں مصروف ہو گئے۔ ہاتھوں کی رگیں پھولنے لگیں۔ جسم سے پسینہ بہنے لگا۔ آنکھیں کسی اور رتن کے انتظار میں سمندر کی سطح پر مرکوز ہو گئیں۔

تین چوتھائی ننگے بدن والے لوگوں کی صف کا ایک آدمی اچانک لڑکھڑا نے لگا۔

’’کیا کر رہے ہو، ٹھیک سے رسی کھینچو انیتھا سنتولن بگڑ جائے گا۔ ‘‘کرسی پر بیٹھے اشخاص میں سے ایک نے قدرے سخت لہجے میں ٹوکا۔

’’کم زوری سے چکّر آ گیا صاحب!اس لیے۔ ..‘‘ اس کی زبان بند ہو گئی۔ ضعف کے سبب وہ جملہ پورا نہ کر سکا۔

’’یہ کیوں نہیں کہتے کہ تم اب کام کے لائق نہیں رہے، نہیں کھینچا جا رہا ہے تو ادھر جا کر بیٹھ جاؤ۔ ‘‘

’’اچھا صاحب !‘‘یہ کہہ کر وہ صف سے نکل کر کنارے جا کر بیٹھ گیا اور اس کی جگہ اسی کے قبیلے کا ایک آدمی آ کر رسّی کھنچنے میں مصروف ہو گیا۔

’’پھر کچھ نکلا۔ ‘‘شور بلند ہوا۔

یک بارگی رسّی کھینچنے والوں کے ہاتھ رک گئے۔ نگاہیں سطحِ آب پر مرکوز ہو گئیں۔ حسبِ معمول کچھ لوگ کرسیوں سے اٹھ کر پانی کے پاس پہنچے اور تہہ سے سطح پر آئے پدارتھ کو نکال کر ایک برتن میں رکھ دیا۔

منتھن پھر سے جاری ہو گیا۔ رکے ہوئے ہاتھ پھر سے رسّی کھینچنے میں مصروف ہو گئے۔ ہاتھوں کی رگیں تننے لگیں۔ جسم سے پسینہ بہنے لگا۔ آنکھیں کسی اور رتن کا بے صبری سے انتظار کرنے لگیں۔

’’کیا نکلا ہو گا؟‘‘تماشائیوں کے ایک گوشے میں ایک نے دوسرے سے پوچھا۔

’’پہلی بار تو کوئی نیلے رنگ کا بدارتھ نظر آیا تھا۔ ‘‘

’’اور اس بار؟‘‘

’’اس بار ٹھیک سے دھیان نہ دے سکا۔ ‘‘

’’پہلا والا وِش تو نہیں تھا؟‘‘

’’ہو سکتا ہے۔ ‘‘

’’اور دوسرا والا امرت ہو؟‘‘

’’سمجھو ہے۔ ‘‘

’’یار انھیں بتانا چاہیے۔ ‘‘

’’بتائیں گے۔ ‘‘

’’کب؟‘‘

’’جب منتھن پورا ہو جائے گا۔ ‘‘

’’یار !انھیں بتاتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے ‘‘۔

’’پھر کھیل میں ہماری دل چسپی کیسے قائم رہے گی؟‘‘

’’ہاں، یہ بات بھی صحیح ہے ‘‘۔

کچھ دیر بعد رسی کھینچنے والے ہاتھ پھر رک گئے۔ نگاہیں سمندر سے نکلے پدارتھ پر مرکوز ہو گئیں۔ کچھ لوگ آگے بڑھے۔ سطح سے رتن کو نکال کر ایک تیسرے برتن میں رکھ دیا گیا۔

رسّی کھینچنے کا عمل جاری رہا مگر اس بار کافی دیر بعد بھی کچھ نہیں نکلا۔ رسّی کھینچنے والوں کی پریشانی بڑھ گئی۔ کم زور جسم لڑکھڑا کر زمین پر گرنے لگے۔

’’دیکھیے، ہمّت نہ ہاریے، اور زور لگائیے۔ رفتار بڑھائیے۔ ابھی سمندر کے گربھ میں بہت کچھ ہے۔ آشا ہے، وہ سب کچھ بھی باہر آ جائے گا جو ابھی تک تہ میں پڑا ہوا ہے۔ ‘‘کرسی پر بیٹھے ایک نے رسّی کھینچنے والوں کی ہمت بڑھائی۔

زور اور رفتار دونوں میں اضافہ ہو گیا مگر دھیرے دھیرے چہروں پر مایوسی چھانے لگی۔ آنکھوں سے نا امیدی جھانکنے لگی۔ رسی کھینچنے کا عمل سست پڑنے لگا۔ مایوسی اور نا امیدی کی پرت گہری ہوتی گئی۔ اور اچانک منتھن کا کام رک گیا۔

دونوں طرف کے لوگ ان برتنوں کے ارد گرد جا کر کھڑے ہو گئے جن میں ساگر سے نکلے ہوئے رتنوں کو رکھا گیا تھا۔

’’دیکھیے، شانتی سے اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ جائیے اور دھیرج بنائے رکھیے۔ بس تھوڑی ہی دیر میں ہم ان رتنوں کی پریکشا کرنے والے ہیں۔ ‘‘اسٹیج سے ایک آواز گونجی۔

آواز سنتے ہی اسٹیج اور پنڈال دونوں طرف کی بد بداہٹیں رک گئیں۔ لوگ اپنی اپنی جگہ پر لوٹنے لگے۔

ایک آدمی برتن کے قریب پہنچا اور اس میں سے رقیق مادہ نکال کر اس نے کچھ لوگوں کو پینے کے لیے دیا۔

رقیق مادہ پیتے ہی وہ لوگ چکر کھا کر دھڑام سے زمین پر گر پڑے۔ ان کے منہ سے نیلے رنگ کا جھاگ نکلنے لگا۔ کچھ دیر تک وہ مچھلی کی طرح تڑپتے رہے۔ پھر سب نے آہستہ آہستہ اپنا دم توڑ دیا۔

ماحول میں خوف و ہراس کی فضا چھا گئی۔

وہ آدمی دوسرے برتن کے پاس پہنچا اور اس میں سے رقیق مادہ نکال کر کچھ اور لوگوں کی طرف بڑھا۔ بڑی مشکل سے وہ لوگ اس رقیق شے کو اپنے لبوں سے لگا پائے۔       لبوں سے لگتے ہی ان کا حال بھی وہی ہوا جو پہلے برتن کے رقیق مادہ پینے والوں کا ہوا تھا۔

دہشت اور بڑھ گئی۔

ہمت کر کے اس آدمی نے تیسرے برتن سے رقیق شے نکال کر کانپتے ہوئے ہاتھوں سے کچھ لوگوں کی طرف بڑھایا مگر اسے لینے کے لیے کوئی بھی ہاتھ آگے نہ بڑھ سکا۔

’’سمبھو ہے یہ امرت ہو۔ دیکھیے، اس کا رنگ بھی پہلے والے رتنوں سے بھّن ہے۔ آپ ہاتھ نہیں بڑھائیں گے تو کیسے پتا چلے گا کہ یہ کیا ہے ؟ ویسے میں آپ کو وشواس دلاتا ہوں کہ یہ امرت ہے۔ آپ اسے پیجیے اور پی کر امر ہو جائیے ‘‘جب کوئی ہاتھ آگے نہیں بڑھا تو وہ بولا

’’ٹھیک ہے اسے میں ہی پی کر دیکھتا ہوں۔ ‘‘ڈرتے ڈرتے اس شخص نے پیالے کو اپنے لبوں سے لگا لیا مگر اس کا خیال غلط ثابت ہوا۔ اسے پیتے ہی اس کا بھی وہی حشر ہوا جو دوسروں کا ہوا تھا۔

یہ دیکھتے ہی چاروں طرف سنّاٹاچھا گیا۔ لوگ حیرت اور خوف سے ان برتنوں کو تکنے لگے جس میں موجود رقیق شے نے کتنوں کی جان لے لی تھی۔

’’اس بار امرت کیوں نہیں نکلا؟‘‘اسٹیج کے کسی آدمی کے منہ سے یہ جملہ سہما ہوا نکلا۔ ‘‘

مگر اس سوال کا جواب کسی کے بھی منہ سے باہر نہیں آیا۔ چاروں طرف خاموشی چھائی رہی۔

’’آج کا منتھن تو وچتر رہا۔ ‘‘ کافی دیر بعد اسٹیج کا ایک آدمی بولا۔

’’ہاں !پرینام پہلے جیسا نہیں نکلا۔ ‘‘دوسرے نے سُر میں سُر ملایا۔

’’آخر ایک ہی تتو کیوں نکلا؟وہ بھی وش!‘‘

’’میں بھی تو اس پرشن سے پریشان ہوں۔ ‘‘

’’اس کا رہسیہ کیا ہو سکتا ہے ؟‘‘

’’مجھے کیا پتا ؟‘‘

’’کس کو پتا ہو گا؟ کس سے پوچھا جائے ؟‘‘

’’سمبھو ہے گیا نیشور رشی کچھ پرکاش ڈال سکیں۔ ‘‘

’’تو ہمیں رشی جی کے پاس چلنا چاہیے۔ ‘‘

’’ساتھیوں !آپ سب یہیں رکیے، ہم لوگ گیانیشور رشی کے پاس اس رہسیہ کا پتا لگانے جا رہے ہیں۔ ‘‘

کرسی پر بیٹھے لوگوں میں سے کچھ لوگ اٹھ کر رشی گیا نیشور کے استھان کی طرف چل پڑے۔

پردہ گر گیا۔

 

دوسرا منظر

 

ایک ہرا بھرا باغ۔ باغ کے ایک کونے میں سجی سنوری کٹیا۔ کٹیا کے اندر مرگ چھالے پر آسن جمائے دھیان میں بیٹھے سنت گیانیشور۔ پردے کے ایک طرف سے کچھ تھکے ہارے حیران و پریشان لوگ آنے والے لوگ گیا نیشور کے آگے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو گئے۔

کافی دیر بعد رشی نے آنکھیں کھولیں۔

’’نمسکار منی ور!‘‘ رشی کی کٹیا نمسکار کی آواز سے گونج اٹھی۔

’’آپ لوگ کون ہیں اور کس لیے پدھارے ہیں ؟‘‘رشی نے گردن اٹھا کر ان کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

’’ہم اسی نگری کے باس ہیں منی ور! ایک سمسیا کا سمادھان چاہتے ہیں۔ ‘‘

’’سمسیا کیا ہے ؟‘‘

’’امرت۔ ‘‘

’’تنک کھول کر بتائیے۔ ‘‘

’’جی منی ور!بات یہ ہے مہاراج کہ ہم نے سمندر منتھن کیا، پرنتو اس بار اس میں سے کیول ایک پدارتھ، ایک تتو نکلا۔

’’کیول ایک تتو؟‘‘ رشی کی آنکھیں پھیل گئیں۔

’’ہاں منی ور!ماتر ایک تتو۔ ‘‘

’’وہ تتو امرت ہو گا؟‘‘

’’نہیں، وہ دِش ہے منی ور!‘‘

’’وش ہے ! ‘‘ رشی کی آنکھیں کچھ اور پھیل گئیں۔

’’امرت تو نکلا ہی نہیں، منی ور۔ ‘‘

’’پرنتو یہ کیسے پتا چلا کہ ساگر سے جو رتن نکلا ہے وہ امرت نہیں، وِش ہے ؟‘‘

’’پریکشا کے پشچات منی ور! اسے کچھ لوگوں کو پینے کے لیے دیا گیا پرنتو اسے ہونٹوں سے لگاتے ہی وہ لوگ زمین پر گر پڑے۔ پہلے ان کے منہ سے جھاگ نکلا۔ پھر پورا شریر نیلا پڑ گیا اور وہ۔ ..‘‘

’’اوہ!‘‘ گیا نیشور منی چنتت ہو اُٹھے۔

’’منی ور!اس بار منتھن سے امرت کیوں نہیں نکلا؟‘‘

رشی خاموش رہے اور ان کے ماتھے پر پہلے سے زیادہ لکیریں ابھر آئیں۔

یہ دیکھ کر کہ گیا نیشور منی آنکھیں موند کر دھیان میں لین ہو گئے ہیں، کسی نے پھر کوئی سوال نہیں کیا۔ کافی دیر بعد بھی جب رشی اپنے دھیان سے باہر نہیں آئے تو ان میں سے ایک نے پھر وہی سوال دہرایا۔

’’منی ور!اس بار منتھن سے امرت کیوں نہیں نکلا؟‘‘

دھیان سے باہر آتے ہوئے رشی نے نہایت گمبھیر لہجے میں جواب دیا، ’’امرت ہو تب تو نکلے۔ ‘‘

’’ہم سمجھے نہیں منی ور!‘‘

’’ساگر کے گربھ سے امرت پہلے ہی نکل چکا ہے۔ ‘‘

’’کیا؟‘‘ایک ساتھ سبھی چونکے۔ ‘‘

’’ ہاں اسے نکال کر کچھ لوگوں نے پہلے ہی پی لیا ہے۔ ‘‘

’’کچھ لوگوں نے پی لیا ہے !کس طرح منی ور؟‘‘

’’متھ کر۔ ‘‘

’’تو کیا ہم سے پہلے بھی ساگر متھ چکا ہے۔ ‘‘

’’ہاں۔ ‘‘

’’منی ور!وہ کون ہیں جنھوں نے ہم سے پہلے ساگر کو متھ لیا۔ منی ور کہیں آپ کا اشارہ دیوتاؤں کی اور تو نہیں ہے ؟‘‘

’’نہیں، دیوتاؤں نے تو بہت پہلے متھا تھا۔ یہ ان کے بعد کی بات ہے۔ ‘‘

’’منی ور یہ کب کی بات ہے اور منتھن کرنے والے کون ہیں ؟‘‘

’’یہ کچھ دنوں کی بات ہے اور متھنے والے بھی تمھارے ہی بیچ کے لوگ ہیں۔ ‘‘

’’ہمارے بیچ کے ؟‘‘

’’ہاں، وہ تمھارے ہی بیچ رہتے ہیں۔ ‘‘

’’ان کا کچھ اتاپتا منی ور؟‘‘

’’ہم اس سے ادھیک نہیں بتاسکتے کہ وہ کسی اور لوک کے باسی نہیں بلکہ تمھاری ہی دھرتی پر تمھارے ہی ساتھ رہتے ہیں۔ ‘‘

’’اب کیا ہو گا منی ور؟‘‘

’’اُپچار۔ ‘‘

’’کیسا اُپچار منی ور ؟‘‘

’’امرت کی پونہہ پر اپتی کا اُپچار۔ ‘‘

’’کیا ایسا؟ ہو سکتا ہے ؟‘‘

’’ہاں، ہو سکتا ہے۔ ‘‘

’’کیا یہ سمجھو ہے ؟‘‘

’’سمبھو ہے پر___‘‘

’’پر کیا منی ور؟‘‘

’’اُپچار سرل نہیں ہے۔ بہت ہی کٹھن اور کشٹ دائک ہے۔ ‘‘

’’امرت کے لیے ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ سب کچھ سہہ لیں گے۔ آپ بتائیے توسہی۔ ‘‘

’’جن لوگوں نے امرت پیا ہے، ان کے بھیتر سے اسے کھینچنا ہو گا۔ ‘‘

’’ان کے بھیتر سے ؟‘‘

’’ہاں ان کے بھیتر سے۔ ارتھات ان کے شریر سے۔ ‘‘

’’پرنتو یہ کیسے سمبھو ہے منی ور؟‘‘

’’سمبھو اس پر کار ہے کہ امرت ابھی بھلی بھانتی ان کے شریر میں گھلا ملا نہیں ہے۔ ارتھات وہ اسے پوری طرح پچا نہیں پائے ہیں۔ اُپچار سے اب بھی امرت ان کے شریر سے باہر نکل سکتا ہے۔ ‘‘

’’کیا اُپ چارکرنا ہو گا منی ور؟‘‘

’’یہ کار یہ میرا نہیں۔ اُپچار آپ کو سوچنا ہے۔ اسے آپ کو ڈھونڈنا ہے۔ ہمارا کا ریہ کیول مارگ درشن تھا، سو ہم نے کر دیا۔ ‘‘

’’منی ور!‘‘

’’بولیے۔ ‘‘

’’ اچھا یہ تو بتا دیجیے کہ اس وش کا کیا ہو گا؟‘‘

’’اسے تو کسی نہ کسی کو پینا ہی پڑے گا۔ اینتھایہ سمو چے سنسار کو وشیلا کر دے گا۔ اس سے سرشٹی ہی نشٹ ہو جائے گی۔ ‘‘

’’اس کے لیے کوئی اُپچار منی ور؟‘‘

’’اس کا اُپچاربھی آپ کو سوچنا ہو گا۔ ‘‘

’’دھنیہ واد منی ور!‘‘

’’کلیان ہو۔ ‘‘

وش کے برتن اٹھا کر وہ لوگ گیا نیشور منی کے کٹیا سے باہر نکل آئے۔

پردہ گر گیا۔

 

تیسرا منظر

 

]چندنی چنتنی پیشانی، دھیانی گیانی نین، جو گیائی بال اور سادھوئی لباس میں کچھ لوگ گمبھیر مدرا میں چھالے پر براجمان۔ [

ایک آدمی کھڑا ہوا۔

’’سبھاپتی مہودے تتھا اپستھت و چارک گنٹر!رشی گیا نیشور مہاراج نے جس اُپچار کی بات کی ہے اس سے سمبندھت کچھ مول پرشن میں سبھا کے پٹل پر رکھنے کی انومتی چاہتا ہوں۔ ‘‘

’’انومتی ہے۔ ‘‘ ایک ساتھ کئی آواز گونجیں۔

’’دھنیہ واد!ہمارا پہلا پرشن ہے، امرت پینے والے کون ہیں ؟ دوسرا مہتو پورن پرشن یہ ہے کہ امرت پینے والوں کے شریر سے امرت نکلنے کا اُپ چار کیا ہو گا؟اورتیسرا پرشن ہے، وش کو کیسے ٹھکا نے لگایا جائے ارتھات اسے کیسے اور کسے پلایا جائے تاکہ سنسار کو نشٹ ہونے سے بچایا جا سکے ؟‘‘

سنچالک کے سوال سن کر مرگ چھالے پر براجمان لوگوں میں سے ایک نے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ’’پہلے تو ہمیں یہ پتا لگانا ہو گا کہ امرت پینے والے کون ہیں ؟ یدی وہ ہمارے بیچ کے لوگ ہیں جیسا کہ گیا نیشور رشی نے سنکیت دیا، تو ان کی پہچان کیا ہے ؟یدی ان کی پہچان ہمیں مل جاتی ہے تو ان کے بھیتر سے امرت نکالنے کے اُپچار پر وچار کرنے میں آسانی ہو سکتی ہے۔ ‘‘

دوسرابولا، ’’میرے وچارسے تو پہلے ہمیں اُپچار پر دھیان دینا چاہیے ؟ اتنا پتا تو چل ہی چکا ہے کہ امرت پینے والے ہمارے ہی بیچ رہتے ہیں۔ اتہہ ان لوگوں کا پتا لگانا کوئی مشکل نہیں ہے پرنتو شریر سے امرت نکالنے کا اُپچار تلاش کرنا آسان نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں اس اور ترنت دھیان دینے کی آوشکیتا ہے۔ ‘‘

تیسرے آدمی نے دوسرے آدمی کے خیال کی تائید کرتے ہوئے کہا، ’’آپ کا سوچنا اُچت ہے۔ ہمیں اُپچار پر پہلے دھیان دینا چاہیے۔ میرے و چار سے تو اس کے لیے وہی اوپائے اپنا نا ہو گاجو مویشی کے ذریعے شیر کے شکار کے لیے اپنایا جاتا ہے۔ ارتھات ہمیں شڈینتر رچنا پڑے گا۔ ‘‘

’’ شڈینتر!‘‘ پہلا آدمی چونکا۔

’’ہاں شڈینتر !شیر کو پکڑنے کے لیے مچان بنانا ہوتا ہے۔ بچھڑا باندھنا پڑتا ہے اور نگاہ ٹکا کر بیٹھنا پڑتا ہے۔ ‘‘

’’تو آپ کا تات پر یہیہ ہے کہ امرت نکالنے کے لیے بھی ہمیں کوئی ایسا ہی شڈینتر رچنا پڑے گا۔ ‘‘اب تک خاموش رہنے والے چوتھے آدمی نے لب کھولے۔

’’جی۔ ‘‘

’’پرنتو اس کٹھن کاریہ میں کیول شڈینتر سے کام نہیں چلے گا۔ شڈینتر کے ساتھ ساتھ ہمیں مہابھارت کی بھانتی کوئی چکر ویو بھی رچنا ہو گا۔ ‘‘دوسرے نے اپنے خیال کا اظہار کیا۔

’’یہ سب تو ٹھیک ہے پرنتو، پہلے یہ تو پتا چلے کہ یہ شڈینتر رچنا کس کے لیے ہے ؟ چکرویو کس کے لیے بنا نا ہے ؟‘‘

پہلے آدمی نے اپنے خیال کو ایک بار پھر دہرا دیا۔

’’ہاں !پہلے تو یہ گیات ہونا چاہیے کہ شیر ہے کون؟میرے وچار سے تو اس کے لیے ہمیں گپت چر لگا دینے چاہییں۔ ‘‘ایک اور آدمی نے پہلے آدمی کے خیال کی تائید کرتے ہوئے اپنی رائے ظاہر کی۔

’’نہیں،یہ کام گپت چر کے بس کا نہیں ہے۔ ‘‘پہلے آدمی نے آخری آدمی کی تردید کی۔

’’تو؟‘‘آخری آدمی نے حیرت ظاہر کرتے ہوئے پوچھا۔

’’اس کے لیے چنتن منن کی آوشیکتا ہے۔ ‘‘

’’اس کا ریہ کی ذمے داری چنتکوں کو سنبھالنی چاہیے۔ اس کے لیے انھیں آگے آنا چاہیے۔ ‘‘

’’یہ بات ادھیک ترک سنگت لگ رہی ہے۔ ہمیں یہ کام اپنے چنتکوں کو سونپ دینا چاہیے۔ ان سے یہ بھی انورودھ کرنا چاہیے کہ وہ امرت نکالنے کے اُپچار پر بھی چنتن منن کریں اور وِش کو ٹھکانے لگانے کا اُپائے بھی سوچیں۔ ‘‘

کئی لوگوں نے اس خیال سے اتّفاق کیا۔

’’دھنیہ واد پر ستاؤ کے ساتھ آج کی سبھا کی سماپتی کی گھوشنا کی جاتی ہے۔ ‘‘

پردہ گر گیا۔

 

چوتھا منظر

 

(پُراسرار ماحول۔ گمبھیر مدرا میں بیٹھے چنتک گنٹر۔ پلکیں بند، آنکھیں کھلی ہوئیں۔ )

یکایک ایک چنتک کی پیشانی چمک اُٹھی۔ اس کے چہرے پر اطمینان کا چراغ روشن ہو گیا۔

کچھ دیر بعد ایک اور چنتک کی پلکیں کھل گئیں۔ اس کے دیدوں کے دیے بھی جھلملا اُٹھے۔

دونوں نے فرش پر پڑے کاغذوں کے ٹرے میں سے ایک ایک کاغذ اپنے ہاتھوں میں اٹھا لیے اور ان پر جلدی جلدی کچھ لکھنے لگے۔ لکھ لینے کے بعد دونوں نے اپنے اپنے کاغذ ایک دوسرے کی طرف بڑھا دیے۔ ۔

دونوں دیر تک تحریوں پر اپنی نظریں گڑائے رہے۔ پھر ان دونوں کاغذوں کو بار باری سے باقی تمام چنتکوں کی طرف بڑھا دیا گیا۔

کاغذ کی تحریروں کو پڑھتے ہی تمام چہروں پر اطمینان کی کرن جھلملا اٹھی۔

تحریریں پڑھ لینے کے بعد سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ آنکھوں آنکھوں میں بات ہوئی اور ان میں سے ایک شخص کھڑا ہوا گیا۔

’’سمسیا کی گمبھیر تا اور اس سے سمبندھت جٹلتا کو دیکھتے ہوئے کافی سوچ و چار اور چنتن منن کے بعد جس نش کرش پر پہنچا گیا، وہ یہ ہے کہ وِش کو ٹھکانے لگانے اور اس سرشٹی کو بچانے کا اوپائے یہ ہے کہ اسے (وش کو) ان لوگوں کو پلادیا جائے جن کے دماغ میں سوچنے کی شکتی نہیں ہے اور جن کے شریر بے کار اور سڑ گل گئے ہیں۔ چنتن ہین مستشک اور سڑے گلے بے کار شریر والے لوگوں کو جیوت رہنے سے اچھا ہے کہ وہ مر جائیں۔ اس سے وِش کی کھپت بھی ہو جائے گی اور اچھے دماغ اور مضبوط شریر کی رکشا بھی ہو سکے گی۔ ان کا مرنا اس لیے بھی آوشیک ہے کہ ان سے دھرتی پر سڑا ندھ پھیلنے کا خطرہ ہے۔ ‘‘

ہمارے گھورچنتن کے انوسارامرت ان لوگوں نے پیا ہے جو ہم میں رہ کر بھی ہم سے الگ ہیں۔ ان کی پرورتی دوب سے ملتی جلتی ہے اور جو اگنی کی بھانتی پھیلتے ہیں اور ہوا کے سمان بڑھتے ہیں اور جو سمندرکی بھانتی گہرے ہیں۔ شریر سے امرت نکالنے کے اُپ چار کے سمندھ میں جو وِدھیاں ہمارے چنتن منن نے ہمیں سجھائی ہیں، وہ یہ ہیں :

پہلی ودھی۔           چیراکرن

دوسری ودھی۔               لنکا دہن

تیسری ودھی۔         سمبندھ وِچھیدن

چوتھی ودھی۔         سپمتی سماپن

’’اور ایک انتم ودھی یہ بھی ہو سکتی ہے۔ ‘‘ ایک چنتک جو ابھی تک چنتن میں ڈوبا ہوا تھا، بول پڑا۔

’’کون سی وِدھی ؟‘‘ ایک ساتھ کئی آواز یں ابھریں۔

’’وشار وپن‘‘

’’وشاروپن!‘‘

’’ہاں، وشاروپن۔ وِش روپنے سے امرت کا پشپ باہر آ سکتا ہے۔ ‘‘

’’وہ بھلا کیسے ؟‘‘

’’جب اس ودھی کو پر یوگ میں لایا جائے گا تو سب کچھ اپنے آپ سمجھ میں آ جائے گا۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے۔ ہم اسے بھی ان وِدھیوں میں شامل کر لیتے ہیں۔ اب ہمارا اگلا چرن یہ ہو گا کہ ہم ان وِدھیوں کو ان کے پورن وِورن کے ساتھ ساتھ ہی امرت پینے والوں کی پہچان کی نشانیوں اور مستشک ہین ایوم گلے سڑے شریر والے لوگوں کے پتے اپنے کرم کانڈھ جتھے کے حوالے کر دیں تاکہ بنا دیر کیے عملی کاروائی شروع کی جا سکے۔ ‘‘

’’مجھے آشا ہی نہیں، پورن وشواس ہے کہ ہمارا پرشرم اوشیہ رنگ لائے گا اور ہم اپنے مشن میں جلد ہی سپھل ہو جائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی آج کی سبھا سماپت کی جاتی ہے۔ دھنیہ واد۔ ‘‘

پردہ گر گیا۔

تماشا ختم ہو گیا۔ ناٹک منڈلی اپنے سازو سامان سمیٹ کر کسی دوسرے شہر کی طرف روانہ ہو گئی۔ تماشائی کلا بھون سے نکل کر مختلف کیفیات و احساسات کے ساتھ اپنے ٹھکانوں کو لوٹنے لگے۔

کچھ لوگوں کی رفتار میں مستی اور چہرے پر سرشاری تھی۔ ان کی نظریں پتلیوں سے نکل کر دوب، اگنی، ہوا اور سمندر سے ملتی جلتی خصلتوں والے لوگوں کی تلاش میں نکل پڑی تھیں۔

کچھ لوگوں کی رفتار سست اور سنجیدہ تھی۔ ان کے چہروں پر فکر مندی اور اندیشوں کے تاثرات تن گئے تھے۔ ان کے ذہنوں میں ناٹک کے منظر، پیکر اور پہلو بار بار ابھر رہے تھے۔ ہر منظر کا پس منظر بھی ابھر رہا تھا اور اس کا پیش منظر بھی۔ ہر پیکر کا ہیولا دیو ہیکل کی صورت اختیار کرتا جا رہا تھا اور ہر پیکر اور پہلو سے پہیلیاں جھانک رہی تھیں اور ہرپہیلی اپنے حل کی طرف مبہم اشارے کر رہی تھی۔

ذہن منظر، پس منظر اور پیش منظر میں رشتہ تلاش کرنے اور پیکروں، پہلوؤں اور پہیلیوں کو جاننے بوجھنے میں منہمک ہو گیا تھا۔

بہت سی باتیں یاد آ رہی تھیں۔ انھیں یاد آ رہا تھا کہ ساگر منتھن کا قصہ وہ نہیں تھا جسے وہ کلا بھون میں دیکھ کر آ رہے تھے۔ وہ منتھن تو دیوتاؤں اور راکشسوں نے مل کر کیا تھا۔ وہ منتھن بھگوان بھولے ناتھ وِش ہرن، نیل کنٹھ، شیو شنکر کے کہنے پر سنسار کے کلیان کے لیے کیا گیا تھا۔ اس منتھن میں ساگر کے گربھ سے صرف وِش ہی نہیں نکلا تھا بلکہ بہت سارے قیمتی رتن بھی باہر آئے تھے۔ اُن میں امرت بھی تھا۔ امرت کے علاوہ ان میں دھنونتری وید تھا۔ لکشمی تھی، رمبھا تھی، منٹری اور شنکھ تھے۔ گجراج اور ششی تھے، اور یہ سارے کے سارے رتن منشیہ کے کلیان کے لیے تھے۔ البتہ وِش وناش کاری ضرور تھا مگر اسے بھگوان شنکر نے اپنے گلے میں اتار کر سنسار اور سرشٹی کو تباہ ہونے سے بچا لیا تھا لیکن آج کے اسٹیج پر دکھا یا گیا منتھن تو بالکل الگ تھا۔ اس منتھن میں تو صرف ایک رتن نکلا تھا۔ وہ بھی وِش، جسے ٹھکانے لگانے کا او پائے یہ دھونڈا گیا کہ اسے ایسے لوگوں کو پلا دیا جائے جن کے دماغ اور جسم دونوں کم زور ہیں۔

انھیں یاد آ رہا تھا کہ اس منتھن کے قصّے میں ایک راکشس کا سردھڑ سے اڑا دیا گیا تھا۔ اس لیے کہ اس نے چھل کپٹ سے امرت پی لیا تھا۔ بھگوان شیو نے اس کا سر اس لیے قلم کر دیا کہ راکشس بھی امر نہ ہو جائے۔ اس لیے کہ راکشس بدی کی علامت ہے۔ بدی اگر امر ہو گئی تو اس کے پر بھاؤ سے سنسار سنکٹ میں پڑ جائے گا۔ سرشٹی نشٹ ہو جائے گی۔ منشیہ اور دیوتا اپنا صبر و سکون کھودیں کے مگر اس منتھن میں تو انسانوں کے جسم سے امرت نکالنے کی بات کی گئی تھی۔ یہ کیسے چنتک تھے جنھوں نے انسانوں کو ٹھکانے لگانے، انھیں جلانے ان کے اندر زہر بونے اور ان کی سمپتی کو سماپت کرنے کا سجھاؤ دیا۔ ان چنتکوں میں تو رشی منی بھی تھے۔ رشی منی جومنشیہ کے کلیان اور سرشٹی کی رکشا کے لیے اپنے پران بھی تیاگ دیتے تھے۔

ان کی آنکھوں میں مہارشی دودھچی ابھر آئے۔ ددھچی جنھوں نے اسروں سے سرشٹی کی رکشا کے لیے اپنے پران تیاگ کر اپنی استھیوں کے شستر گانڈیو، اجگو اور سارنگ، شنکر، اندر اور وشنو کو سونپ دیے تھے جن کے وار سے بر تراسُر کا ودھ ہوا۔

’’یہ کیسا منتھن ہے ؟ اس کے بارے میں تو کبھی سنا بھی نہیں اور نہ ہی کہیں پڑھا۔ کہیں یہ کوئی گڑھا ہوا واقعہ تو نہیں ؟‘‘

ان میں سے ایک نے اپنے ساتھ چل رہے ساتھی سے پوچھا ؟

’’یہ تو وہی جانیں ‘‘۔

اگرایسا ہے تو اس کا مقصد کیا ہو سکتا ہے ؟‘‘ پہلے والے نے سوال کیا۔

’’یار !ان جملوں کا اشارہ کن کی طرف تھا؟‘‘

’’کن جملوں کا ؟‘‘

’’یہی کہ وہ کون ہیں جن کی پرورتی دوب سے ملتی جلتی ہے ؟‘‘

جو اگنی کی بھانتی پھیلتے ہیں۔

ہوا کے سمان بڑھتے ہیں۔

اور سمندرکی بھانتی گہرے ہیں۔

جن کے بھیتر سے امرت نکالنا ہے۔

اور جس کے لیے چنتکوں نے چیراکرن، لنکا دہن، سمبندھ وِچھیدن، سمپتی سماپن اور وشاروپن جیسی ودھیاں سجھائی ہیں ؟

ان کے بھیتر بھی منتھن ہونے لگا تھا اور آنکھوں کے سامنے بھگوان شنکر کا ترشول کسی اور کے ہاتھ میں لہرا رہا تھا کچھ لوگوں کی رفتار لڑکھڑا رہی تھی۔ ان کے چہروں کی سیاہی میں زردی بھی گھل گئی تھی۔

ان کے کانوں میں بار بار یہ آواز گونج رہی تھی۔

’’وِش ان لوگوں کو پلا دیا جائے جن کے دماغ میں سوچنے کی شکتی نہیں ہے اور جن کا شریر کم زور تتھا سڑ گل گئے ہیں۔ چنتن ہین مستشک اور سڑے گلے بے کار شریر والے لوگوں کو جیوت رہنے سے اچھا ہے کہ وہ مر جائیں۔ اس سے وِش کی کھپت بھی ہو جائے گی اور اچھے دماغ اور مضبوط شریر کی رکشا بھی ہو سکے گی۔ ان کا مرنا اس لیے بھی آوشیک ہے کہ ان سے دھرتی پر سڑا ندھ پھیلنے کا خطرہ ہے۔ ‘‘

اور آنکھوں میں منتھن کی رسّی کھینچنے والا ایک آدمی بار بار لڑکھڑا کر زمین پر گر رہا تھا

ہر قدم پر انھیں محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی پیالہ آہستہ آہستہ ان کی طرف بڑھا رہا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

ایک بڑا کھیل

 

ریموٹ کا بٹن دبتے ہی ٹی۔ وی کے اسکرین پر ایک عجیب و غریب تصویر ابھر آئی۔

دو چہروں کے چشم و لب و رخسار آپس میں اس طرح گڈ مڈ کر دیے گئے تھے کہ اس تصویر میں کئی چہروں کا گمان ہوتا تھا۔ وہ لب، چشم اور رخسار تھے تو جانے پہچانے فلمی ستاروں کے مگر ملائے اس طرح گئے تھے کہ صاف صاف کوئی ایک تصویر نہیں بن پا رہی تھی۔ اسے دیکھ کر پہچاننا دشوار تھا کہ اصل تصویر کس کی ہے ؟ کیوں کہ کسی طرف سے کوئی چہرہ دکھائی دیتا تھا تو کسی طرف سے کوئی۔ ایک جانب سے دیکھیے تو کوئی اور نظر آتا تھا اور دوسری جانب سے نگاہ ڈالیے تو کوئی اور۔

اس تصویر کے ساتھ ہی سماعت کے پردے سے ایک آواز بھی ٹکرانے لگی جو اسکرین پر ابھرنے والی عام آوازوں سے قدرے مختلف تھی:

’’پہچانیے اور پائیے پچاس ہزار کا نقد پُر سکار۔ جلدی اپنا موبائل اٹھائیے اور نمبر گھمائیے : 9990237388کیا پتا آپ ہی وہ مقدر کے سکندر ہوں جس کے اکاؤنٹ میں جانے کے لیے پچاس ہزار کے کڑکڑاتے ہوئے نوٹ کب سے پھڑ پھڑا رہے ہیں۔ دیر مت کیجیے۔ فوراً ڈائل کیجیے۔ نمبر آپ کے اسکرین پر موجود ہے۔ یاد رکھیے، وقت کم ہے اور امید وار بہت زیادہ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بازی کوئی اور مار لے جائے۔ ‘‘

یہ پرکشش اور دل فریب آواز تیکھے نین نقش والی ایک ایسی حسینہ کے مے ارغوانی سے لبریز لبِ لعلیں سے نکل رہی تھی جس کا نیم عریاں سراپابھی بول رہا تھا۔

میری نگاہیں جو آواز سنتے وقت مد ہوش کن سراپے پر مرکوز ہو گئی تھیں پچاس ہزار کے لالچ میں جیتے جاگتے جسم سے اتر کر اسکرین والی تصویر کے پاس سرک آئیں۔

کمنٹری کے جوشیلے اور لبھاونے بول اور پچاس ہزار کے لہراتے ہوئے نوٹ ذہن کو تازیانے لگانے لگے۔ اس تازیانے پر اشہب دماغ برق رفتاری سے دوڑنے لگا:

نگاہیں مختلف صورتوں کو گھورتی اور مختلف چہروں کے خط و خال کو نہارتی ہوئی ایک فلمی ستارے کے تاب دار چہرے پر جا رکیں۔ یہ ستارہ وہ تھا جو پردۂ سیمیں پر طرح طرح سے چمکا تھا۔ الگ الگ رنگوں میں دمکا تھا۔ کبھی مہم جوئی کے معرکے سرکیے تھے تو کبھی شجاعت و دلیری کے کارنامے سر انجام دیے تھے۔ کبھی ہیروئن کو ویلن کے چنگل سے چھڑا یا تھا تو کبھی کسی شریف انسان کو بدمعاشوں کے نرغے سے نکلا لا تھا۔ کبھی کسی ڈوبتے ہوئے بچّے کو دریا میں کود کر ڈوبنے سے بچایا تھا تو کبھی جلتے ہوئے گھر میں داخل ہو کر کسی بوڑھے کو آگ کی لپٹوں کے گھیرے سے باہر نکال لا یا تھا۔ کبھی اپنی جان جوکھم میں ڈال کر ایک ایسے گروہ کا پردہ فاش کیا تھا جو مختلف محکموں سے خفیہ کاغذات چرا کر غیر ملکیوں کے ہاتھوں بیچ رہا تھا۔ کبھی تنِ تنہا ڈاکوؤں سے مقابلہ کر کے گاؤں والوں کے جان و مال کو بچایا تھا۔ کبھی کسی محاذ پر غنڈوں کے تخریبی منصوبوں کے پرخچے اُڑاتے تھے تو کسی سرحد پر دشمنوں کے چھکّے چھڑاتے تھے۔

کچھ دیر تک اس ستارے کے پاس رکی رہنے کے بعد نگاہیں اڑ کر کسی اور مشہور ستارے کے پاس جا پہنچیں۔

وہ ستارہ ایسا تھا جس نے درجنوں فلموں میں لڑکیوں کی عزّتیں لوٹی تھیں۔ اپنے وطن کو دشمنوں کے ہاتھ بیچنے کی سازش کی تھی۔ سیکڑوں بے گنہ انسانوں کو بم سے اُڑا دیا تھا۔ کتنی ہی بستیوں کو آگ میں جھلس ڈلا تھا۔ بے شمار بچّوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر بھیک مانگنے کے لیے انھیں شہر کے نکڑوں پر بٹھا دیا تھا۔

اس تصویر میں یہ دونوں چہرے موجودتھے مگر اس تصویر کا اصل چہرہ کون تھا یہ پہچاننا مشکل تھا۔ اس لیے کہ ایک طرف سے دیکھنے پر وہ ہیرو کی تصویر لگنے لگتی تھی اور دوسری جانب سے نظر ڈالنے پر ویلن کی بن جاتی تھی۔

اس کی شناخت بھی مشکل تھی کہ اگر وہ کسی ہیرو کی تصویر تھی تو کس ہیرو کی اور اگر کسی ویلن کی تھی تو کس ویلن کی ؟اس لیے کہ چہرے کی آنکھیں، لب اور رخسار ہماری نظروں کو مختلف ایسی شکلوں تک لے جاتے تھے جو اس طرح کے کاموں میں مصروف رہا کرتے تھے۔

’’جلدی کیجیے، وقت بہت کم ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ سوچتے ہی رہ جائیں اور کوئی دوسرا۔ ۔ ۔ اور سنیے رقم پچاس ہزار سے بڑھ کر اب ساٹھ ہزار ہو چکی ہے ‘‘

کمنٹری جاری تھی۔ خوبصورت اناؤنسر نہایت جوش و خروش کے لہجے میں نئے نئے لفظوں اور فقروں کے اضافے کے ساتھ اپنی آواز کا جادو جگا رہی تھی۔ اس کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ اس کا سراپا ہمہ وقت حرکت میں رہتا تھا اور اس کے جسم کے بعض حصّے وفورِ جوش میں گیند کی طرح اچھل اچھل پڑتے تھے۔

میرا دماغ آدھی ادھوری آنکھوں، بگڑے ہوئے ہونٹوں اور کٹے پھٹے رخساروں کو جوڑنے اور ان کے جوڑ سے ایک سالم چہرہ بنانے میں مصروف تھا۔ ذہن مختلف زاویوں سے سوچ رہا تھا۔ نگاہیں تیزی سے اپنا زاویہ بدل رہی تھیں۔ نقش ابھر کر ڈوب جاتے تھے۔ تصویر بنتے بنتے بگڑ جاتی تھی۔ شناخت ہوتے ہوتے رہ جاتی تھی۔

انعام کی رقم بڑھتی جا رہی تھی۔ وقت گزرتا جا رہا تھا اور ادھر ذہن تھا کہ دھند میں الجھا ہوا تھا۔

اچانک میرے ذہن میں ایک شور سا اُٹھا اور آنکھوں کے سامنے ایک منظر ابھرنے لگا:

ایک طرف سے کمان کی شکل کا ایک رتھ ابھرا۔ رتھ کا اگلا حصّہ غائب تھا۔ جہاں سے اگلا حصّہ غائب تھا وہاں پر ایک اونچی سی کرسی پر شاہی لباس میں راجا نما کوئی شخص براجمان تھا۔ اس شخص کے چہرے پر آ ہنی خود تھا۔ داہنے ہاتھ کی مُٹھی میں کوئی سفید سی ڈبیا تھی جس پر بار بار اس کا انگوٹھا دباؤ ڈال رہا تھا۔ دوسرے ہاتھ میں باگ ڈور تھی۔ کمان نمارتھ سے تیر چھوٹ رہے تھے۔ تیروں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں۔ شعلے برس رہے تھے۔ رتھ تیزی سے آگ برسا تا ہوا اس طرف کو بڑھ گیا جدھر سورج آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔

کچھ دیر بعد ویسا ہی ایک رتھ سورج والی سمت سے نکلا اور اپنی مخالف دشا میں بڑھنے لگا۔ اس رتھ کا بھی اگلا حصّہ نہیں تھا۔ اس میں بھی سر پر آہنی خود والا ایک شخص بیٹھا تھا۔ بائیں ہاتھ میں اس کے بھی لگام تھی اور داہنے ہاتھ کی مٹھی میں ایک سفید ڈبیا دبی تھی جس پر انگوٹھا رہ رہ کر دباؤ ڈال رہا تھا۔ اس رتھ سے بھی تیر و تفنگ کی بارشیں ہو رہی تھیں اور ان سے بھی شعلے نکل رہے تھے۔ چنگاریاں چھوٹ رہی تھیں۔

یہ رتھ بھی ایک طرف سے آیا اور آگ برساتا ہوا دوسری طرف نکل گیا۔

رتھ تو غائب ہو گئے مگر ان کے تیروں کے شعلے باقی رہ گئے۔ شعلوں کے نیچے سرسبز زمین تھی جس کے سبزے تیزی سے راکھ ہوتے جا رہے تھے۔

کچھ دیر بعد دونوں رتھ دونوں سمتوں سے نکل کر پردے پر آ گئے اور آگے بڑھتے ہوئے اس طرح ایک دوسرے کے قریب ہو گئے کہ ان میں سے ایک دوسرے کی اوٹ میں چھپ گیا۔ کون سا رتھ چھپ گیا تھا اور کون سا دکھائی دے رہا تھا یہ بتانا مشکل ہے۔ دونوں رتھوں کے آہنی خود والے آدمی بھی ایک ہو گئے تھے۔ یعنی ان دونوں میں سے ایک ہی شخص دکھائی دے رہا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کی اوٹ میں اس طرح آ گئے تھے جیسے ایک دوسرے میں ضم ہو گئے ہوں۔ ٹھیک ویسے ہی جیسے جادوئی فلموں میں ایک شخص اپنا شریر تیاگ کر دوسرے میں سما جاتا ہے۔

یہ منظر دیکھتے ہی میری آنکھوں میں یکایک ایک کہانی کے اوراق کھل گئے :

ایک صفحے پر درندوں کے ہوس کی شکار قریب سترہ برس کی گورے رنگ والی ایک خوبصورت سی لڑکی جس کی آنکھیں بڑی بڑی، بال سیاہ، داہنے گال پر موٹا سا تل تھا مانند لاش بے حس و حرکت پڑی تھی۔

دوسرے صفحے پر بلوائیو کا جتھا تھا جن کے جورو ستم کی تاب نہ لا کر بے شمار لاشوں کے انبار میں اس لڑکی کی ماں بھی پڑی تھی جس کی ساری انتڑیاں باہر نکلی ہوئی تھیں۔

اور تیسرے صفحے پر رضا کاروں کا ایک دستہ تھا جس سے اس لڑکی کا باپ گڑ گڑا کر التجا کر رہا تھا کہ وہ لڑکی اس کی اکلوتی بیٹی ہے۔ وہ بہت خوبصورت ہے۔ اُس کی طرح نہیں ہے بلکہ اپنی ماں پر گئی ہے۔ اسے ڈھونڈ لاؤ خدا تمھارا بھلا کرے گا اور رضا کار نوجوان بڑے جذبے کے ساتھ بوڑھے باپ کو یقین دلا رہے تھے کہ اس کی بیٹی زندہ ہوئی تو چند ہی دنوں میں اس کے پاس ہو گی۔

اس صفحے پر یہ بھی درج تھا کہ ان رضا کار نوجوانوں نے ہر طرح سے لڑکی کی دلجوئی کی۔ اسے کھانا کھلایا، دودھ پلایا اور لاری میں بٹھایا اور یہ بھی لکھا تھا کہ ایک دن باپ نے کیمپ میں ان رضاکار نوجوانوں کو دیکھا۔ لاری میں بیٹھے تھے۔ وہ بھاگا بھاگا ان کے پاس گیا۔ لاری چلنے ہی والی تھی کہ اس نے پوچھا، بیٹا ! میری بیٹی کا پتا چلا؟ سب نے ایک زبان ہو کر کہا ’’چل جائے گا چل جائے گا‘‘ اور لاری چلا دی۔

کہانی کے کھلتے ہی تصویر میں گڈ مڈ ہوئے ہوئے چشم و لب و رخسار کھٹا کھٹ ایک دوسرے سے ملتے اور ہم آہنگ ہوتے چلے گئے اور آدھے ادھورے، ٹیڑھے میڑھے اور بے ترتیب خط و خال سے ایک واضح اور سالم چہرہ ابھر آیا۔

اس چہرے کو دیکھ کر میری آنکھیں چمک اٹھیں۔ میری انگلیوں نے فوراً انعام دلانے والے نمبروں کے بٹن دبا دیے۔

’’مبارک ہو آپ کا نمبر لگ گیا ہے۔ آپ کے لک نے ساتھ دیا اور آپ کیوں میں لگ گئے، کسی وقت بھی آپ سے جواب پوچھا جا سکتا ہے۔ موبائل رکھیے گا نہیں، آپ کی قسمت لب بام ہے، کبھی بھی آپ کا لک زور مارسکتا ہے۔ ‘‘

تصویر کی شناخت میں نے کر لی تھی اور مجھے یقین تھا کہ میرا قیاس غلط نہیں ہو گا اور ستّر ہزار کا انعام مجھے ہی ملے گا۔ اسی لیے میں بے چینی سے اُس کال کا انتظار کر رہا تھا جس میں مجھ سے پوچھا جانے والا تھا کہ میں اپنا جواب بتاؤں۔

میری دھڑکنیں بڑھتی جا رہی تھیں۔ دھڑکنوں کی بڑھتی ہوئی رفتار کی وجہ صرف انعام کا لالچ ہی نہیں تھا بلکہ میری وہ خوشی بھی تھی جو تصویر کی شناخت کر لینے پر میرے رگ و پے میں جاری و ساری ہو گئی تھی اور اس کی ایک وجہ میری وہ حیرت بھی تھی جو تصویر کی شناخت کے بعد میرے ذہن و نظر میں بھر گئی تھی۔

صدائے سحر ساز کے انتظار کی کیفیت شدّت اختیار کرتی جا رہی تھی۔ ہونے والی تاخیر میری تشویش بھی بڑھاتی جا رہی تھی۔ تشویس کے ساتھ یہ فکر بھی لاحق ہوتی جا رہی تھی کہ موبائل کا میٹر بڑھتا جا رہا تھا اور میرے پیسے کٹتے جا رہے تھے۔

جب کافی دیر ہو گئی اور یہ بات ذہن میں گھر کرنے لگی کہ کال کے انتظار میں میں اپنی کافی رقم گنوا چکا ہوں اور ممکن ہے اب بہت کم بچی رہ گئی ہو اور کہیں ایسا نہ ہو کہ بالکل ہی ختم ہو جائے تو یہ خیال بھی آیا کہ موبائل بند کر دوں مگر کسی دباؤ نے مجھے ایسا کرنے نہیں دیا۔ شاید صحیح شناخت کے زعم اور انعام کے طمع نے مرے موبائل کو کان سے ہٹنے نہیں دیا۔

میرا موبائل میرے کان سے اس طرح چپکا ہوا تھا جیسے کسی پارک کے کسی کو نے میں کوئی عاشق کسی عارضی معشوق کے جسم سے چپکا رہتا ہے۔ سماعت کو ایک ایسی صدا کا بے صبری سے انتظار تھا جس کی دھمک سے میرے دل و دماغ کے ساتھ ساتھ میرے گھر کے درو دیوار اور آس پاس میں بھی بلکہ دور دور تک بھی دھماکا ہو سکتا تھا۔

خوبصورت لبوں سے پرکشش کمنٹری جاری تھی۔ پردے پر بے ترتیب خد و خال والی بے شناخت تصویر توجہ کھینچنے میں جٹی ہوئی تھی۔ الھڑ بنی حسینہ کا بیدار سراپا جادو جگانے میں مشغول تھا۔ کمنٹری کے دل آویز اور ہیجان آمیز بول اپنے آہنگ بلند کرنے میں مصروف تھے۔

مگر اس وقت میرے لیے یہ سب کچھ بے معنی ہو گیا تھا۔ میرے لیے تو وہ تصویر گنجینۂ معانی بن گئی تھی جس کے ابھرتے ہی سمتیں بے معنی ہو گئی تھیں

آب سیلاب بن گیا تھا

پھول انگارے میں تبدیل ہو گیا تھا

باد سموم باد صر صر میں بدل گئی تھی

آسمان زمین پر آ گیا تھا

اب مجھے دیکھنے سننے اور کچھ پانے کے بجائے دکھانے کی جلدی تھی۔ جلدی تھی کہ میں نے اصل کی شناخت کر لی تھی۔ ایک نئی حقیقت دریافت کر لی تھی۔ میں چاہ رہا تھا کہ وہ تصویر میری پتلیوں سے نکل کر لوگوں کی آنکھوں میں پہنچ جائے اور دنیا جان جائے کہ اصل تصویر کیا ہے مگر میڈیا دیر کر رہا تھا۔ کب سے ایک ہی رکارڈ بجا رہا تھا۔

’’لگے رہیے۔ موبائل کو کان سے الگ مت کیجیے۔ کبھی بھی آپ کا نمبر آ سکتا ہے اور ستر ہزار کی رقم آپ کی جھولی میں جا سکتی ہے۔ ‘‘

میڈیا کا یہ کھیل شروع میں بہت اچھا لگا تھا۔ اس کھیل کا ایک ایک پہلو دامنِ دل کھینچتا تھا مگر

اب یہ کھیل اکتا ہٹ کے ساتھ ساتھ تکلیف دہ بھی ہوتا جا رہا تھا۔ آخر میرا نمبر کیوں نہیں آ رہا تھا۔ اس میں اتنی دیر کیوں ہو رہی تھی؟ میں حیران و پریشان تھا کہ میرے ذہن کے ایک گوشے میں ایک خیال کسی کوندے کی طرح لپک اُٹھا۔

کہیں ایسا تو نہیں کہ میڈیا اس کھیل کے ساتھ ساتھ کوئی اور کھیل بھی کھیل رہا ہو؟اس خیال کے آتے ہی ٹی وی کا اسکرین پھیل کر کافی بڑا ہو گیا اور اس پر ایک بڑے کھیل کی جھلکیاں جھلملانے لگیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

حکمت

 

جب وہ بالکل تنہا ہو گیا تو میں اس کے پاس پہنچا اور اس کے چہرے کی طرف غورسے دیکھتے ہوئے پوچھا،

’’اب کیسا محسوس کر رہے ہیں ؟‘‘

’’جیسے جہنم کے ایک طبق سے نکل کر دوسرے میں پہنچ گیا ہوں۔ ‘‘ اس نے جلے بھنے لہجے میں جواب دیا۔

’’ایسا کیوں ؟آپ تو با عزّت بری ہوئے ہیں ؟‘‘ میں نے سمجھا نے کا انداز اختیار کیا۔

’’جی ہاں، کہنے کو تو میں واقعی با عزّت بری ہو گیا مگر عزّت ایسی اتری کہ داغ نہیں گئے۔ لوگ اس طرح دیکھتے ہیں جیسے چہرے پر ٹھپّے لگا دیے گئے ہوں ‘‘ میری طرف دیکھ کر اس نے یہ جملہ ادا کیا۔

میں تلملا گیا حالاں کہ میں نے ہمدردانہ نظر ڈالی تھی۔

’’میں آپ سے کچھ جاننے آیا تھا، اگر موڈ اچھا نہ ہو تو پھر کبھی آ جاؤں گا۔ ‘‘ میں نے اپنے لہجے کو اور نرم کر لیا۔

’’پوچھیے، میں بالکل ٹھیک ہوں، ‘‘ اس کے سپاٹ لہجے میں بھی درد کی لہریں موجزن تھیں۔

’’میرے زیادہ تر سوالات آپ کی گرفتاری سے متعلق ہوں گے، آپ کو اعتراض تو نہیں ہو گا؟‘‘

’’میرے پاس اس ذلّت کے علاوہ اور ہے بھی کیا؟ آپ بلا تکلف پوچھیے۔ ‘‘

’’شکریہ ! آپ کو جب گرفتار کیا گیا تو آپ کو کیسا لگا؟ ‘‘ میں نے سوالوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔

’’مجھے محسوس ہوا جیسے میں غلط جگہ پیدا ہو گیا۔ ‘‘

’’ایسا کیوں محسوس ہوا؟‘‘

’’اس لیے کہ میں کہیں اور پیدا ہوا ہوتا تو میرے ساتھ وہ سلوک نہیں ہوتا جو ہوا۔ مجھے بار بار وہ معصوم اور بے قصور عورت یاد آتی رہی جسے ڈائن بتا کر گاؤں کے بھرے مجمعے میں ننگا نچایا گیا۔

’’ذرا تفصیل سے بتائیں گے ؟‘‘میں نے درخواست کی۔

ہمارے گاؤں میں ایک عورت تھی۔ نہایت بے باک، ملنسار، پر خلوص اور دردمند، ہر ایک کے دکھ سکھ میں فوراً پہنچ جاتی تھی مگر اس کے اس اعلا انسانی رویے کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا۔ لوگوں کو اس کا خلوص اس کی کوئی چال لگتی۔ شک کی بنیاد شاید یہ بھی تھی کہ اس کے آتے ہیاس کے ساس سسر اور پھر اس کے شوہر تینوں موت کے گھاٹ اتر گئے تھے حالاں کہ وہ تینوں کسی مہا ماری کے شکار ہوئے تھے۔ ایک بارکسی بیماری کی ہوا چلی۔ گاؤں کے کئی گھروں کے بچے اس وبا کی لپیٹ میں آ گئے۔ اسے پتا چلا تو وہ بھاگی بھاگی انھیں دیکھنے گئی۔ اتفاق سے بچّوں کی حالت اور بگڑ گئی اور ان میں سے ایک نے دم توڑ دیا۔ پھر کیا تھا الزام اس عورت کے سر منڈھ دیا گیا اور نا کردہ جرم کے پاداش میں اسے ننگا کر کے نچایا گیا۔ وہ بے چاری چیختی چلّاتی اور گڑ گڑاتی رہی۔ اپنی بے گناہی پر آنسو بہاتی رہی مگر کسی کو بھی اس پر رحم نہیں آیا۔ وہ لوگ بھی خاموش تماشائی بنے رہے جو یہ سمجھتے تھے کہ بچّے کی موت کا اصل سبب کیا تھا اور وہ عورت واقعی بے قصور تھی۔ صرف ننگا کرنے سے لوگوں کا جی نہیں بھر ا، جلتی لکڑی سے اسے داغا بھی گیا اور اس طرح داغا گیا کہ اس کے جسم کی چربی باہر نکل آئی۔ ۔ ۔ عورت کا قصّہ بیان کرتے کرتے اچانک اس کی زبان بند ہو گئی اور آنکھوں سے آنسوؤں کے قطرے ٹپک پڑے جیسے اس کی پتلیوں میں گرم سلائیاں پھیر دی گئی ہوں۔ ‘‘

’’معاف کیجیے گا میرا مقصد آپ کو رلانا نہیں تھا۔ ‘‘

’’آپ کا مقصد ہو یا نہ ہو، یہ تو میرا مقدر بن چکا ہے۔ ‘‘رخساروں پر کچھ اور قطرے بھی ڈھلک آئے۔

’’آپ کے ساتھ کیسا سلو کیا گیا؟‘‘

’’اس ڈائن، میرا مطلب ہے اس معصوم عورت سے بھی کہیں زیادہ بدتر۔ ایسا ہولناک کہ اس کے تصور سے بھی روح کانپ اٹھتی ہے۔ کوئی ایسی اذیت نہیں جو مجھے نہ دی گئی ہو۔ ان انگوں کو بھی، جن کی طرف دیکھنا بھی منع ہے، ننگا کر کے ان میں بجلی کا کرنٹ دوڑایا گیا اور یہ عمل کوئی ایک بار نہیں، بلکہ بار بار دہرایا گیا اور ایسے ایسے جھٹکے دیے گئے کہ جاں کنی کا عالم بھی شرما جائے۔ ‘‘ پلکوں پر رکی بوندیں بھی گالوں پر ڈھلک آئیں۔ میراجی چاہا کہ میں اپنا رو مال اس کی طرف بڑھا دوں مگر یہ سوچ کر کہ میرا یہ عمل اس کے زخموں پر کہیں نمک نہ چھڑک دے، میں نے اپنے کو روک لیا۔

’’آپ نے کیا کیا کھویا؟‘‘ میں جانتا تھا کہ میرے اس سوال پر اور زیادہ آنسو بہیں گے مگر میرے لیے یہ جاننا بھی ضروری تھا۔

اس سوال پر وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بولا:

’’یہ پوچھیے کہ کیا نہیں کھویا؟ صدمے سے ماں چل بسی۔ تذلیل آمیز آوازوں، تحقیری روّیوں اور قہر آلود نظروں کی تاب نہ لا کر باپ نے جیتے جی اپنے کمرے کو قبر بنا لیا۔ جنم جنم تک ساتھ نبھانے کا وعدہ کرنے والی محبوبہ کسی اور کی ہو گئی۔ دوست احباب بد گمانی کے شکار ہو گئے۔ پڑوسیوں نے آنکھیں پھیر لیں۔ عزیز و اقارب دوری بنانے لگے۔ زند گی جو رنگ و نور سے معمور اور خوش خیالی۔ ۔ ۔ ‘‘زبان بند ہو گئی اور آنکھیں سامنے کی دیوار پر پہنچ گئیں۔

دیوار پر عمدہ اور نفیس فریم میں ایک خوبرو نو جوان کی تصویر آویزاں تھی:

سلیقے سے سجے سیاہ بال، صاف ستھری چوڑی چکنی پیشانی، روشن آنکھیں، نظریں کسی نشانے پر جمی ہوئیں، پھولوں کی طرح مسکراتے ہوئے ہونٹ، بھرے بھرے گال، تنی ہوئی جلد، کریزڈ تھری پیس سوٹ، میچنگ ٹائی۔

’’یہ آپ کے بیٹے کی تصویر ہے ؟‘‘ میرا یہ سوال سن کر کچھ دیر تک وہ خاموش رہا، پھر بولا۔

’’جیل نہیں گیا ہوتا تو شاید میرا بیٹا بھی ایسا ہی اور اسی عمر کا ہوتا۔ ‘‘ تصویر سے نظریں ہٹا کر اسن نے اپنا رخ میری طرف کر لیا۔

’’تو کیا یہ آپ___؟‘‘

’’جی، ‘‘ جی کی آواز اس طرح نکلی جیسے کسی ادھ مرے جسم سے نکلی ہو

میری آنکھیں پھیل گئیں اور نگاہیں اس کے سراپے میں الجھ گئیں :

روکھے پھیکے بال، سیاہی میں سفیدی کی ملاوٹ، سلوٹوں سے بھری پیشانی، بجھی ہوئی آنکھیں، گڈھے پڑے گال، مرجھائے ہوئے ہونٹ، آنکھوں کے نیچے سیاہ ہالے، گالوں پر جا بجا دھبّے، بغیراستری کے کپڑے۔

’’اس قید و بند کی سختی سے میرا سراپا تو ڈیمیج ہوا ہی، میری وہ شے بھی شاید کچلی گئی جس سے مرد کی۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ہونٹ کپکپا کر بند ہو گئے۔ آنکھیں برس پڑیں۔

’’ایک گلاس پانی ملے گا؟‘‘ میں نے پانی سے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کی۔

’’ضرور‘‘ وہ اندر جا کر جگ اور گلاس اُٹھا لایا۔

’’قیدو بند کے دنوں میں جس بات نے آپ کو سب سے زیادہ پریشان کیا، وہ کیا تھی؟‘‘

پانی کا خالی گلاس میز پر رکھتے ہوئے میں نے انٹرویو کے سلسلے کو آگے بڑھایا۔

’’وہ ایک سوال تھا۔ ‘‘اپنے ہاتھ کا آدھا خالی اور آدھا بھرا گلاس اس نے بھی میز پر رکھ دیا۔

’’وہ سوال کیا تھا؟‘‘میرا تجسّس بڑھا گیا۔ ۔ ۔ ۔

’’وہ سوال تھا میں گرفتار کیوں ہوا؟سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے دن رات یہی سوچتا رہا کہ مجھے گرفتار کیوں کیا گیا؟گرفتاری کے جتنے اسباب ہو سکتے ہیں میں نے سب پر غور کیا۔ ایک ایک پہلو پر ٹھہر ٹھہر کر سوچا مگر کوئی بھی میرا عمل ایسا نظر نہیں آیا جو میری گرفتاری کا سبب بنتا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے کوئی بھی ایسا کام نہیں کیا تھا جس کے باعث میری طرف کوئی انگلی بھی اٹھا سکے۔ پہلی کلاس سے لے کر آخری کلاس تک میرا کریر اور کریکٹر بے داغ رہا۔ محلّے سے لے کر کالج تک کسی سے بھی میری کبھی لڑائی نہیں ہوئی۔ میں پڑھنے میں سنسیئر تھا اور ایسی کار کردگی کا مظاہرہ کرتا تھا کہ سالانہ فنکشن میں سب سے زیادہ انعامات میری ہی جھولی میں پڑتے تھے۔ اسی لیے اساتذہ بھی مجھے عزیز رکھتے تھے۔ میرا کوئی دشمن نہیں تھا، سبھی سے میرے مراسم اچھے تھے۔ جانے انجانے میں بھی کبھی کسی کو مجھ سے کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا۔

’’پھر آپ کو ایسے سنگین جرم میں کیوں پکڑ لیا گیا؟‘‘

’’یہی تو میری حیرانی ہے۔ ‘‘

’’آپ نے غور تو کیا ہو گا؟‘‘

’’جی ہاں، کیا۔ ‘‘

’’کسی نتیجے پر پہنچے ؟‘‘

’’کچھ عکس ابھرے تو مگر کوئی واضح تصویر نہ بن سکی۔ ‘‘

’’جیسے ؟‘‘

’’اپنی گرفتاری کے سوال پر غور کرتے وقت ان گرفتاریوں کی روداد میرے کانوں میں گونجتی رہی جن کے ملزم میری ہی طرح ثبوت نہ ہونے کی بنا پر بری کر دیے گئے۔ ہر ایک روداد میں یہ بات بھی سنائی پڑی کہ گرفتار ہونے والا کسی کالج یا انسٹی ٹیوٹ کا کوئی برائٹ اسٹوڈینٹ تھا۔ کوئی میڈیکل کے کسی شعبے میں تھا تو کوئی انجینئر نگ کی کسی برانچ میں۔ کوئی کسی کمپنی میں منیجر تھا تو کوئی کسی فیکٹری میں انجینئر، کوئی کسی رسرچ انسٹی ٹیوٹ میں اس کالر تھا تو کوئی کسی کمپنی یا آفس کا کوئی اچھی پوسٹ ہولڈر امپلائی، کوئی نیوز پیپر میں رپوٹر تو کوئی کسی ٹی۔ وی چینل کا کمپیئر ر، کوئی کمپیوٹر کا ماہر تھا تو کوئی کسی ٹیکنولوجی کا اکسپرٹ۔ سب کے سب جوان بھی تھے۔ کوئی بھی ان میں بوڑھا نہیں تھا۔

ایک عکس یہ بھی ابھرا کہ جس انداز سے میری گرفتاری ہوئی اور جتنی جلدی میرے خلاف ثبوت جٹا لیے گئے اور جس طرح ان ثبوتوں کی جانچ پڑتال کیے بغیر مجھے جیل میں ڈال دیا گیا اس سے اندیشہ ہوتا ہے کہ جیسے پہلے سے یہ منصوبہ تیار ہو کہ اگر میرے علاقے میں ایسا کچھ ہوتا ہے جس سے بدامنی پھیلتی ہے یا افراتفری پھیلنے کا خدشہ ہو تو مجھے گرفتار کر لیا جائے۔ میرے اس اندیشے کو تقویت اس نوعیت کی بعض دوسری گرفتاریوں سے بھی ملتی ہے۔

’’اگر آپ کے ان شبہات کو اہمیت دی جائے تب بھی سوال قائم رہتا ہے کہ کیوں ؟‘‘

’’شاید اس کیوں کا جواب میرا نام ہو؟‘‘

’’آپ کا نام کیوں ؟‘‘

’’اس لیے کہ میرا نام ایسا ہے کہ جس کے کانوں میں پڑتے ہی کچھ لوگوں کی آنکھوں میں خوفناک مناظر لہرا اٹھتے ہیں۔ ‘‘

’’میں سمجھا نہیں۔ ‘‘

’’سمجھا تو ٹھیک سے میں بھی نہیں مگر لگتا ہے کہ ایسا ہوتا ہو گا۔ ‘‘

’’ایسا کیوں لگتا ہے ؟‘‘

’’شاید اس لیے کہ میرا نام جس لسانی مآخذ سے آیا ہے اور اس مآخذ سے اتنے سارے قصّے جڑے ہیں اور ان قصّوں میں ایسے ایسے وقوعے گڑھے گئے ہیں اور پلاٹ میں ایسے ایسے مرقعے بنائے گئے ہیں کہ ان کے اثرات لگتا ہے انفرادی لاشعور کے ساتھ ساتھ اجتماعی لاشعور میں بھی مرتب ہو چکے ہیں۔ ‘‘

’’اگر اس کو بھی سچ مان لیا جائے تب بھی اس سے کہاں ثابت ہوتا ہے کہ جو کچھ ہوا اس کا قصور وار ایک مخصوص لسانی مآخذ سے تعلق رکھنے والا نام ہی ہے ؟‘‘

’’ثابت تو نہیں ہوتا مگر شک کی سوئی اُدھر جاتی ضرور ہے۔ ‘‘

’’صرف شک کی بنیاد پر اتنا بڑا فیصلہ ! میری عقل تو اسے ماننے کے لیے تیار نہیں۔ ‘‘

’’عقل تو شاید ان کی بھی تسلیم نہیں کرتی ہو گی جن کے ہاتھوں گرفتاریاں عمل میں لائی جاتی ہیں ‘‘

’’پھر یہ گرفتاری ہوئی کیوں ؟‘‘گھوم پھر کر ہم پھر اسی سوال پر آ گئے۔

’’یعنی آپ کو بھی لگتا ہے کہ میری گرفتاری بلاوجہ ہوئی ؟یا کم سے کم ان میں سے کوئی وجہ نہیں جس کی بنیاد پر میری گرفتاری کی منطق سمجھ میں آتی ؟ ‘‘اس نے میری طرف غور سے دیکھتے ہوئے سوال کیا

’’آف کورس۔ آپ کی رہائی اس بات کا ثبوت ہے کہ گرفتاری بلاوجہ ہوئی مگر بلاوجہ کی اس گرفتاری کی منطق میری سمجھ سے باہر ہے۔ ‘‘میں نے اپنی بات صاف صاف کہہ دی۔

’’میں نے بتایا نہ کہ اس کی وجہ شاید میرا نام ہے۔ ‘‘وہ اپنے شبہے پر زور دینے لگا۔

’’آپ اتنے وثوق کے ساتھ اپنے شک کی وکالت کیوں کر کر سکتے ہیں ؟‘‘

’’اس کی ایک منطق کی طرف تو میں پہلے بھی اشارہ کر چکا ہوں کہ میرا نام ایسا ہے کہ جس کے کانوں میں پڑتے ہی کچھ آنکھوں میں خوف ناک منظر لہرانے لگتے ہیں اور دوسری منطق یہ ہے کہ میرے نام سے کچھ لوگوں کی ناکامیاں چھپ جاتی ہیں اور مشاہدہ یہ بھی بتا تا ہے کہ کچھ لوگ آسانی سے اس کی بدولت سُرخ روئی بھی حاصل کر لیتے ہیں۔ ‘‘

’’چلیے مان لیا کہ سبب آپ کا نام ہے مگر آپ کے نام تک پہنچنے کے لیے بھی تو کوئی آدھار ہونا چاہیے۔ یا یوں ہی کوئی آنکھیں بند کر کے آپ تک پہنچ جائے گا۔ یہ کوئی آنکھ مچولی کا کھیل تھوڑے ہی ہے !‘‘

’’جس انداز سے میری گفتاری ہوئی اس سے تو یہی لگتا ہے کہ آنکھ مچولی والا ہی کھیل ہوا ہے۔ پکڑنے والا آنکھیں بند کر کے ہی مجھ تک پہنچا تھا۔ آنکھیں ہوتیں تو یقیناً اس کے ہاتھ مجھ تک نہیں پہنچتے۔ ‘‘

’’اگر ایسا ہوا بھی ہے تو اس کی بھی تو کوئی وجہ ہو گی ؟‘‘

’’جی ہاں، وجہ تو ہو گی۔ ‘‘

’’کیا وجہ ہو سکتی ہے ؟‘‘

’’جہاں تک میں نے سوچا ہے اس کی وجہ وہ رو بو سسٹم ہے جس کے ذریعے اس طرح کی گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں یا لائی جا رہی ہیں۔ ‘‘

’’ذرا کھل کر بتائیے نا۔ ‘ ‘ میں نے وضاحت چاہی۔

’’وہ عملہ جس کے ذمّے یہ کام سوپنا گیا ہے، مجھے لگتا ہے کہ وہ روبو سسٹم سے عمل کرتا ہے۔ اس کے پاس کوئی اپنی سمجھ نہیں ہے، وہ اپنی کسی بھی حِس کا استعمال نہیں کرتا، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اس کے پاس حواس ہیں ہی نہیں۔ جس طرح سے ربوٹComputerised Systemکے مطابق کام کرتا ہے، وہ بھی ویسا ہی ایکٹ کرتا ہے۔ اسے کیا کرنا ہے ؟ کس سمت میں جانا ہے ؟ کہاں تک جانا ہے ؟ کہاں سے کدھر مڑنا ہے ؟ کس کو دائرے میں لانا ہے ؟ کسے دائرے سے باہر رکھنا ہے ؟کس کو چھوڑنا ہے اور کسے دھر دبوچنا ہے ؟ یہ سب کچھ اس میں پہلے سے feedکر دیا گیا ہے، اسی لیے عملہ بدل جانے کے بعد بھی عمل ویسا ہی رہتا ہے۔ آپ غور کریں تو اندازہ ہو گا کہ ہر ایک رزیم (Regime)میں نتیجہ وہی نکلتا ہے۔ دھماکا کہیں بھی ہو؟ کیسا بھی ہو؟ پکڑ میں وہی آتے ہیں جنھیں آنا ہے۔ ثبوت نہ ہونے کے باوجود وہ پکڑ لیے جاتے ہیں اور پختہ ثبوت ہونے کے باوجود اصل مجرم پکڑ میں نہیں آتے۔ ربوٹ کی طرح اس پر بھی آنسو، آہ اور کراہ کا اثر نہیں ہوتا۔

’’چلیے یہ بھی مان لیا کہ یہ کام روبوٹ سسٹم کے ذریعے ہوتا ہے مگر پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر یہ سسٹم بنا کیوں ؟‘‘

’’شاید اس لیے بنا ہو کہ اس کے بنانے والے دور اندیش رہے ہوں۔ ان کی نظریں ماضی اور حال کے ساتھ ساتھ مستقبل پر بھی رہی ہوں۔ انھیں یہ علم ہو کہ آنے والا وقت اپنے ساتھ کیا کیا لا سکتا ہے ؟ اس کے آنے پر کیا کیا ہو سکتا ہے ؟ کس کس طرح کی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے ؟ وہ صورتِ حال کیا کیا رنگ دکھاسکتی ہے ؟ کون کدھر جا سکتا ہے ؟ کون کہاں آ سکتا ہے ؟کون آگے بڑھ سکتا ہے ؟ کون پیچھے چھوٹ سکتا ہے ؟ خود کو کیسے بچایا جا سکتا ہے ؟دوسروں کو کیسے پھنسایا جا سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ۔ ۔ ۔

’’آپ کو یہ نہیں لگتا کہ آپ کی باتیں کچھ زیادہ ہی فلسفیانہ ہو رہی ہیں۔ لگتا ہے مسلسل غور و فکر کی عادت نے آپ کو فلسفی بنا دیا ہے۔ ‘‘

’’ممکن ہے ایسا آپ کو لگتا ہو ورنہ سچ تو یہی ہے کہ میرے شبہات میرے برسوں کے مشاہدات و محسوسات پر مبنی ہیں۔ ‘‘

’’آپ کتنے سال تک رہے ؟‘‘

’’شاید بارہ یا تیرہ یا شاید۔ ۔ ۔ ۔ ۔

’’آپ کو جب گرفتار کیا گیا اس وقت آپ کی عمر کیا رہی ہو گی؟‘‘ میں نے calculationکو آسان بنانے کی کوشش کی۔

’’میں بیس سال کا تھا۔ ‘‘

’’کالج میں ہوں گے ؟‘‘

’’جی۔ ‘‘

’’سبجیکٹ کیا تھا؟‘‘

’’سائنس۔ ‘‘

’’کوئی خاص وجہ؟‘‘

’’سائنس میں میری دلچسپی بہت تھی۔ سائنس دانوں کے تجربوں نے مجھے بہت متاثر کیا تھا۔ کئی تجربے میں نے بھی کیے تھے۔ ان میں کچھ تو ایسے تھے جنھیں دیکھ کر میرے اساتذہ کہا کرتے تھے کہ آگے چل کر سائنس کے میدان میں میں نام پیدا کروں گا۔ اسی لیے بعض اساتذہ میری طرف خصوصی توجہ بھی فرماتے تھے۔ ‘‘

’’اب آپ کی عمر کیا ہے ؟‘‘

’’چوتیس سال۔ ‘‘

’’گویا چودہ سال تک آپ قید و بند میں رہے۔ یہ مدّت تو شری رام کے بن باس کی نکلی!‘‘

’’جی ہاں، اور کیا پتا میری گرفتاری کا مقصد بھی وہی نکلے۔

’’مطلب ؟‘‘میری آنکھیں پھیل گئیں۔ ‘‘

’’مطلب وہی جو رام کے بن باس کا مقصد تھا۔ ‘‘

دفعتاً میری آنکھوں میں راجا دسرتھ کے رتھ سے لے کر کیکئی کے بر، رام کے بن باس اور بھرت کی گدّی نشینی تک کے مناظر ابھر آئے۔ رفتہ رفتہ ان میں اس کے کچھ بیانات بھی پس منظر کے طور پر کھڑے ہوتے گئے۔

’’بے حد شکریہ کہ آپ نے میرے لیے وقت نکالا اور میرے سوالوں کا جی کھول کر جواب دیا۔ اب اجازت۔ ‘‘ ایک بار پھر اس کی طرف نظر ڈال کر میں اٹھنے لگا۔ اس بار کا میرا دیکھنا اسے ایسا محسوس نہیں ہوا جیسا کہ اسے پہلی بار محسوس ہوا تھا۔

’’آپ کا بھی شکریہ کہ آپ نے مجھے ہمدردی سے سنا۔ ‘‘ اس جملے کے ساتھ اس کے آنسو بھی باہر آ گئے۔ اس بار بلاکسی جھجھک کے میں نے اپنا رو مال اس کی جانب بڑھا دیا۔

’انٹرویو‘ میں نے اخبار کو اشاعت کے لیے بھیج دیا مگر جب وہ چھپ کر آیا تو یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہیں رہی کہ اس کے کچھ حصّے حذف کر دیے گئے تھے۔ مجھے محسوس ہوا کہ اس کا بیان کیا ہوا ربوسسٹم والا ’’شبہہ‘‘ شاید بے بنیاد نہیں تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

میسیج الرٹ ٹون

 

بلند بالا عمارت میں آج پھر سنجیدہ گفتگو ہو رہی تھی۔ مقصد یہ تھا کہ عمارت کچھ اور اونچی ہو جائے۔ اتنی اونچی کہ آس پاس کی کچھ بلند عمارتوں کے برابر پہنچ جائے اور کچھ سے اوپر نکل جائے۔

’’مسٹر پرکاش! آپ تو Creative Imaginativeہیں، آپ کچھ ایسا سوچیے کہ جس کے کرنے میں بزنس تو بڑھے ہی، مزہ بھی آئے۔ کام کے ساتھ ہمارا نام بھی چمکے۔ ‘‘

کمپنی کے ایم ڈی مسٹر جی پی اگروال نے پروڈکشن منیجر چندر پرکاش کو مخاطب کیا۔

’’ایم ڈی صاحب کا یہ سجھاؤ کافی اچھا ہے۔ ہمیں بھی کچھ نیا کرنا چاہیے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے بزنس کی دنیا میں ایک انقلاب لا دیا ہے۔ آئے دن کوئی نہ کوئی دھماکہ ہوتا رہتا ہے۔ ہمیں بھی اس میدان میں کوئی دھماکہ کرنا چاہیے۔ پرکاش جی! اس کام کے لیے آپ بہت ہی مناسب آدمی ہیں۔ آپ کا دماغ ایسے کاموں میں بہت چلتا ہے۔ آپ کو اس طرف گمبھیرتا سے سوچنا چاہیے۔ ‘‘

چندر پرکاش کے منہ کھولنے سے پہلے ہی کمپنی کے صلاح کار مسٹر ایم سی چوپڑا بول پڑے۔

’’آپ لوگ درست فرما رہے ہیں۔ میں ضرور سوچوں گا۔ ‘‘ چندر پرکاش کا فلسفیانہ چہرہ اور بھی سنجیدہ ہو گیا۔

منیجنگ بورڈ کی میٹنگ اس نتیجے پر برخاست ہوئی کہ مسٹر چندر پرکاش دو ہفتے کے اندر اندر بورڈ کے سامنے کوئی ٹھوس منصوبہ پیش کریں گے۔

بورڈ کے دباؤ اور کچھ نیا کرنے کے خیال نے چندر پرکاش کو مراقبے میں بٹھا نا شروع کر دیا۔

ان کے مراقبے میں آسمان کو چھونے والی عمارتیں، عمارتوں کے درمیان کی رسہ کشی، اوپر نیچے کی کشمکش، ان کے اندر ہونے والی سرگرمیاں، سرگرمیوں کے نتائج، ان کے اثرات، ان عمارتوں سے جڑے قریب اور دور کے گھر، گھروں کے در، گھروں میں بسنے والے مکینوں کے دل و دماغ، چشم و لب سبھی کھلنے لگے۔ باہر اندر دونوں سمتوں کا منظر سامنے آنے لگا۔

ایک دن چندر پرکاش مراقبے کے منظروں اور منظروں کے پیش منظروں میں کھوئے ہوئے تھے کہ ان کے موبائل پر میسیج الرٹ ٹون بجی۔ موبائل اٹھا کر اس کے اسکرین پر انھوں نے اپنی نظریں جما دیں۔

فری رنگ ٹون۔ ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔ میوزک اسٹیشن۔

گانے سنیے ساتھ میں رنگ ٹون بالکل فری @-Rs1/mاور Rs.19/- منتھ ونلی۔ سینڈر، بی پی۔ 1263003۔

چندر پرکاش کی نگاہیں اس میسیج پر دیر تک مرکوز رہیں۔ اس تحریر میں کوئی خاص بات نہیں تھی مگر اس کے اندر سے ایک ایسا پیغام ابھر رہا تھا جو چندر پرکاش کی فکر کی سمت متعین کرنے میں روشنی کا کام انجام دے رہا تھا۔ اس پیغام سے ایسی روشنی ابھری کہ دفعتاً چندر پرکاش کی آنکھوں میں کچھ چہرے ابھر آئے۔ ایسے چہرے جو اداسی، مایوسی، پژ مردگی، بے کیفی اور اضطراب سے معمور تھے۔ جن کی آنکھوں میں ویرانیوں کا سمندر موجزن تھا اور اس سمندر میں سینے کی گھٹن اور دل کی بے کلی ہلکورے مار رہی تھی۔

مایوس، پژمردہ اور مضطرب چہروں کے اس دلدوز اور تکلیف دہ منظر نے تخلیق کار چندر پرکاش کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ان کی تخلیقی قوتیں یکایک جوش میں آ گئیں۔ انھوں نے قلم اور کاغذ اٹھا لیا۔

کچھ جملوں کے بعد قلم رک گیا۔ انھوں نے ان جملوں کو پڑھا۔ پڑھ کر اس کاغذ کو گولا بنایا اور اس گولے کو زمین پر لڑھکا دیا۔

پھر ایک کاغذ اٹھایا۔ اس پر بھی کچھ لکھا۔ اسے بھی پڑھا۔ پھر اس کاغذ کو بھی گولا بنا کر نیچے پھینک دیا۔

اسی طرح باری باری سے وہ کاغذ اٹھاتے گئے۔ ہر ایک کاغذ پر کچھ نہ کچھ نہ کچھ لکھ کر اسے بھی گولا بنا کر زمین پر لڑھکاتے گئے۔

یہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا۔ کوئی آدھ گھنٹے بعد ایک کاغذ کی قسمت جاگی اور وہ گولا بننے اور نیچے لڑھکنے سے بچ گیا۔

ان کی نظریں اس کاغذ پر ابھری تحریر کو بار بار پڑھتی رہیں اور ان کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوتی رہی۔ آخری بار جب انھوں نے اس پر نظر ڈالی تو وہ تحریر بھی چمک اٹھی :

’’کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے چہرے سے اداسی مٹ جائے، مایوسی دور ہو جائے، پژمردگی کی جگہ شگفتگی آ جائے، آنکھوں میں نور بھر جائے، سینے کا اضطراب ٹھہر جائے۔ رگوں میں کیف و انبساط کی لہریں دوڑنے لگیں۔ آپ کی گھٹن کم ہو جائے۔ آپ کا بھاری پن غائب ہو جائے اور آپ پھول کی طرح ہلکے ہو جائیں تو ہم سے رابطہ قائم کیجیے۔ 09873899260۔ ‘‘

چندر پرکاش نے اپنا موبائل اٹھایا۔ اسے آن کیا۔ اسکرین روشن ہو گئی۔ اسکرین کے روشن ہوتے ہی ان کے داہنے ہاتھ کا انگوٹھا اسکرین کے نیچے بنے بٹنوں پر تیزی سے پھرنے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سادہ اسکرین تحریر سے بھر گئی۔

کچھ دیر بعد انگوٹھا پھر سے موبائل کے بٹنوں پر پہنچ گیا۔ اس بار اسکرین پر حروف کی جگہ کچھ نمبر ابھرے۔ نمبروں کے ابھرتے ہی انگوٹھے نے لپک کر ایک اور بٹن دبا دیا اور آن کی آن میں تحریر اسکرین سے نکل کر کہیں اور پہنچ گئی۔

اس عمل کے بعد چندر پرکاش کچھ بے چین سے نظر آنے لگے۔ ان کی نظریں اسکرین پر اس طرح جم گئیں جیسے وہاں پر عید کا چاند طلوع ہونے والا ہویا کوئی دھماکہ ہونے والا ہو۔

کچھ دیر بعد موبائل پر میسیج الرٹ ٹون بجی تو ان کی بے چینی اور بڑھ گئی۔ انگوٹھا فوراً اس بٹن پر پہنچ گیا جس کے دبتے ہی سادہ اسکرین تحریر سے بھر گئی۔

تحریر پڑھ کر چندر پرکاش کی گھبراہٹ دور ہو گئی اور ان کی آنکھیں ایک بار پھر چمک اٹھیں۔ یہ چمک پہلی چمک سے زیادہ روشن اور تابناک تھی۔

ان کی نگاہیں دیر تک اس تحریر پر جمی رہیں اور آنکھوں کی چمک گہری ہوتی گئی۔ آنکھوں کے ساتھ ساتھ ان کی پیشانی بھی چمکنے لگی۔

ایک لمحے کے لیے آنکھوں میں کسی سوچ کا پرچم لہرایا اور انگوٹھا موبائل کے بٹنوں پر پہنچ کر رقص کرنے لگا۔

انگوٹھے کا جب رقص تھما اور موبائل نے کچھ دم لیا تو موبائل پر ایک میسیج الرٹ ٹون بجی۔ تھوڑی دیر بعد دوسری ٹون بجی۔ پھر تیسری اور پھر بار بار بجنے لگی۔

میسیج الرٹ ٹونوں کا سلسلہ تھم گیا تو چندر پرکاش نے موبائل اٹھا کر باری باری سے ان تحریروں کو پڑھنا شروع کر دیا جوان کے انگوٹھے کے رقص کے جواب میں داد کے طور پر ابھری تھیں۔

ان تحریروں کے مطالعہ سے اندازہ ہوا کہ بہت سے لوگوں کو ان تدبیروں کا بے صبری سے انتظار ہے جو ان کے اضطراب اور گھٹن کو دور کر سکتی ہیں دل و دماغ سے بوجھ اتار کر انھیں ہلکا کر سکتی ہیں۔ انھیں شگفتہ بناسکتی ہیں۔

اب جو چیز چندر پرکاش کو پریشان کر رہی تھی وہ اس تدبیر کی تلاش تھی جو جادو کا سا کام کرے۔ جس کی چھو منتر سے بے چینیاں اڑن چھو ہو جائیں۔

چندر پرکاش موبائل سے ہٹ کر ایک بار پھر سے مراقبے میں پہنچ گئے۔ گرد و پیش کی دنیا ان کے دیدوں میں سمٹ آئی۔ نظریں ان لوگوں کے دلوں کو ٹٹولنے لگیں جو اداس چہرہ لیے دفتروں میں جانے کس سوچ میں ڈوبے رہتے ہیں۔ اپنے بھرے پرے گھروں میں بھی بے کیف اور مضطرب نظر آتے ہیں۔ اپنے بستر پر لیٹے ہوئے اپنی انگلیوں سے اپنی کنپٹی دبائے رہتے ہیں۔ بھیڑ میں رہ کر بھی تنہائی کی اذیتوں سے دور چار رہتے ہیں۔ شریکِ سفر کی موجود گی میں بھی زندگی کے سفر کی لذّتوں سے محروم رہتے ہیں۔

مراقبے میں انھیں یہ بھی نظر آیا کہ کہاں کس چیز کی کمی ہے ؟ کسے کس چیز کی ضرورت ہے ؟ کس درد کی کیا نوعیت ہے ؟ مراقبے نے اس تدبیر کی طرف اشارہ بھی کیا جو لوگوں کے دکھ درد کا درماں بن سکتی ہے۔ اشارہ ملتے ہی چندر پرکاش کی آنکھیں ایک بار پھر چمک اٹھیں۔ جیسے سر سراہٹ کے ساتھ جادو کا کوئی منتر ان کے سامنے ابھر آیا ہو۔

وہ فوراً اپنی میز پر پہنچے۔ کاغذ قلم اٹھا یا اور مراقبے میں ملا اشارہ تدبیر میں ڈھلنے لگا!

’’میں نے محسوس کیا ہے کہ آپ کے اندر کوئی ایسا خلا گھر کر گیا ہے جو آپ کو کھوکھلا کرتا جا رہا ہے۔ ضرورت ہے آپ کو ایک ایسے ساتھی کی جو آپ کے خلا کو بھر سکے، آپ کو کھوکھلا ہونے سے بچا سکے۔ مجھے آپ کا کرب بہت بے چین کرتا ہے۔ جی چاہتا ہے کہ میں آپ کا سارا کرب پی جاؤں۔ آپ کو اتنا پیار دوں کہ آپ سمیٹنا چاہیں تو حوصلے کا دامن بھی تنگ ہو جائے۔ ‘‘

’’میں نے آپ کو دیکھا تو نہیں ہے مگر آپ کی آواز کی شیرینی، لہجے کی نرمی، باتوں کی گہرائی اور اندازِ تخاطب کی اپنائیت بتاتی ہے کہ آپ بہت اچھے ہیں۔ آپ سے بات کر کے طبیعت ہلکی ہو جاتی ہے۔ رگوں میں خوشی کی ترنگیں بھر جاتی ہیں۔ اداسی چھٹ جاتی ہے، بے دلی دور ہو جاتی ہے اور جینے کی امنگ سی پیدا ہو جاتی ہے۔ ‘‘

’’آنکھیں بند کیں تو آپ کا چہرہ دیدوں مین آبسا۔ ایسا خوبصورت اور شگفتہ چہرہ بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ دیر تک میری نظریں آپ کو نہارتی رہیں۔ رنگوں سے محظوظ ہوتی رہیں۔ شادابیوں کو اپنے اندر اتارتی رہیں اور میرا دل آپ کو دعائیں دیتا رہا کہ آپ نے اپنے چہرے کو میری آنکھوں میں آنے کی اجازت دی اور یہ تمنا کرتا رہا کہ یہ چہرہ بار بار میری آنکھوں میں آتا رہے۔ اپنے جلوؤں سے میرے دل کے نہاں خانوں کو سجاتا رہے۔ ‘‘

چندر پرکاش نے اپنے مراقبے کے مشاہدات و عمل کی روشنی میں ایک لائحہ عمل تیار کیا اور تفصیل کے ساتھ بورڈ کے سامنے پیش کر دیا۔

بورڈ کو ان کا منصوبہ اور اس کا استفسار اتنا پسند آیا کہ اس نے اس پر فوراً عمل کرنے کی منظوری دے دی۔ جلد ہی اس پر عمل بھی شروع ہو گیا۔

ہدایت کے مطابق مختلف کمیٹیاں بنائی گئیں۔ معلومات کمیٹی کو مختلف شہروں کی ٹیلی فون ڈائریکٹری سونپی گئی اور یہ ہدایت دی گئی کہ وہ کچھ ایسے نمبروں کی فہرست تیار کرے جن کے مالکوں کے متعلق کچھ ضروری تفصیلات آسانی سے معلوم ہو سکیں۔ تفصیلات میں یہ جان کاری ضرور ہو کہ صاحب نمبر کی عمر اور حیثیت کیا ہے اور اس کی ازدواجی زندگی کیسی ہے ؟

حسبِ ہدایت ایک تخلیق کمیٹی بھی تشکیل دی گئی اور اس کے لیے بہت سارے تخلیق کاروں کا انتخاب کیا گیا۔ خصوصاً ایسے تخلیق کاروں کا جو تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ خط و کتابت کے فن میں بھی ماہر تھے اور جنھیں انشا پردازی میں ملکہ حاصل تھا اور جو اپنی تحریروں سے رلانے، گد گدانے اور ہنسانے کا ہنر جانتے تھے۔

اس تخلیق کمیٹی کو ہدایت دی گئی کہ وہ معلومات کمیٹی کی فراہم کردہ تفصیلات کی روشنی میں مختلف طرح کے لوگوں کی ضرورتوں کے پیش نظر کچھ ایسی عبارتیں تخلیق کرے جو جادو کا سا کام کریں۔ جو بالکل تیر بہدف ہوں، جن میں وہی اثر ہو جو نیند کی گولیوں میں ہوتا ہے۔ جو ویسا ہی کام کر سکیں جو بد ہضمی میںEnoدست میں نور فلو کس، بخار میں پیراسیٹامول اور درد میں کامپوز کام کرتا ہے اور جن میں وہ تاثیر بھی ہو جو ہومیو پیتھک کی گولیوں میں ہوا کرتی ہے جو آہستہ آہستہ گھلتی ہیں مگر بیماری کو ہمیشہ کے لیے گھلا دیتی ہیں۔ نمونے کے طور پر چندر پرکاش کی تخلیق کردہ کچھ تحریریں بھی اس کمیٹی کے سامنے رکھ دی گئیں۔

تخلیق کمیٹی نے معلومات کمیٹی کی فراہم کردہ سوانحی تفصیلات اور ان سے متعلق نمبروں کے پیش نظر کچھ تحریریں تخلیق کیں اور انھیں لوگوں کے حالات، ضروریات اور نفسیات کے مطابق متعدد نمبروں پر S.M.Sکر دیا گیا۔

ان تحریروں کے جواب میں توقع سے زیادہ تحریریں موصول ہوئیں۔ جوابی تحریروں کی روشنی میں ڈھیرساری تحریریں تخلیق کی گئیں اور ان کی ترسیل و ابلاغ کے لیے ایک ایسا پروگرام مرتب کیا گیا جس نے انسانی رشتوں کے درمیان ایک انقلاب برپا کر دیا۔ اس خبر رسانی کے لیے ایسی نیٹ ورکنگ کی گئی کہ اجنبیوں کے درمیان رابطے بننے لگے۔ دور دراز کے لوگ ایک دوسرے کے قریب آنے لگے۔ مرد عورتوں سے رشتے بنانے لگے، عورتیں غیر مردوں سے ناطہ جوڑنے لگیں۔ دلوں سے دل ملنے لگے، حجابات اٹھنے لگے، تکلفات گھٹنے لگے، تعلقات بڑھنے لگے، نئے رشتے تیزی سے مضبوط ہونے لگے۔

تخلیق کمیٹی نے اپنی تمام تر تخلیقی قوتوں کو اس کام پر لگا دیا۔ قوت احساس اپنی شدت دکھانے لگی۔ متخیلہ بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگی۔ احساس کی شدت اور تخئیل کی رنگ آمیزی دونوں نے مل کر تحریروں میں جادو پھونکنا شروع کر دیا اور جادو سر چڑھ کر بولنے لگا۔

اس نئے ترسیلی رشتے میں لوگ تیزی سے بندھنے لگے۔ کمپنی کی عمارت آسمان کو چھونے لگی۔

چندر پرکاش اپنی اس نئی مہم کی کامیابی پر بہت خوش تھے۔ اس سے ان کا تاجرانہ دماغ اور فنکارانہ دل دونوں مطمئن تھے۔ بزنس میں اضافے کے ساتھ ساتھ ان کی اس سکیم سے بے شمار لوگوں کے مضطرب دل و دماغ کو اطمینان و سکون بھی حاصل ہو رہا تھا۔

مگر ایک دن چندر پرکاش نے ایک موبائل سیٹ پر ایک ایسا ایس ایم ایس ریسیو کیا کہ اسے پڑھتے ہی وہ ایک دم سے گم سم ہو گئے جیسے انھیں لقوہ مار گیا ہو۔

وہ تحریرویسی ہی تھی جس کے نمونے خود چندر پرکاش اور ان کی تخلیق کمیٹی نے تیار کیے تھے اور جنھیں مختلف فون نمبروں پر بھیجا گیا تھا اور جس کے جواب میں ویسی ہی اور کچھ ان سے بھی زیادہ پر اثر تحریریں موصول ہوئی تھیں اور جنھوں نے دلوں میں ایک انقلاب بر پا کر دیا تھا۔

آج وہ انقلاب خود ان کے اندر در آیا تھا۔ یہ ایسا انقلاب تھا جس نے چندر پرکاش کو اوپر سے ساکت اور اندر سے کافی متغیر کر دیا تھا۔

اس تحریر نے ان کے وجود کو یک لخت بے معنی کر کے رکھ دیا تھا۔ اس نے اس رشتے کو جسے انھوں نے برسوں تک اپنے خون سے سینچا تھا، آج پانی کر دیا تھا۔ اس نے ان کے خلوص، محبت، وفا، ایثار سب کو بہا دیا تھا۔ ان دونوں کے درمیان اب کچھ بھی نہیں بچا تھا۔

در اصل جس موبائل پر انھوں نے ایس ایم ایس پڑھا تھا وہ ان کی بیوی کا سیٹ تھا جسے غلطی سے انھوں نے اپنا موبائل سیٹ سمجھ کر کھول لیا تھا۔ اس غلط فہمی کا سبب یہ تھا کہ انھوں نے بالکل اپنے ہی جیسا ایک سیٹ اپنی بیوی کو اپنی شادی کی اکیسویں سالگرہ پر تحفے میں پیش کیا تھا۔

اور بٹن کے دبتے ہی وہ تحریر ابھر آئی تھی جسے کسی نے ان کی بیوی کے کسی ایس ایم ایس کے جواب میں تحریر کی تھی۔

اندر کے طوفان نے حساس اور فنکار چندر پرکاش کے دل و دماغ میں ایسی ہلچل مچائی کہ ان کے جسم کا ریشہ ریشہ غیظ و غضب سے بپھر اٹھا۔ یہ ایسی ہلچل تھی کہ عزیز ترین شے بھی راہ میں آ جائے تو وہ بھی لہروں کے وار سے نہ بچ پائے مگر تاجر اور ٹیکنیکل چندر پرکاش نے فنکار چندر پرکاش کے غیظ و غضب کو سنبھالیا۔ انھیں روک کر ان کے ذہن کو منطقی داؤ پیچ میں الجھا لیا:

’’چندر پرکاش! مانا کہ تم نے اس رشتے کو محبت اور خلوص سے سینچا ہے۔ اس کی استواری و پائداری کے لیے قربانیاں دی ہیں، وفائیں کی ہیں، دکھ درد بانٹے ہیں، خوشیاں نچھاور کی ہیں، نازو نخرے اٹھائے ہیں، چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی خیال رکھا ہے۔ تمام ضرورتیں پوری کی ہیں۔ اپنے مردانہ وقار اور اہنکار کو بھی قابو میں رکھا ہے مگر ان سب کے باوجود اتنے سالوں کی رفاقت کو چھوڑ کر اگر کوئی کسی اور سے رشتہ جوڑتا ہے تو کوئی بات تو ضرور ہو گی۔ کچھ تو کمی اسے محسوس ہوتی ہو گی۔ کچھ تو وہ ایسا ضرور چاہ رہا ہو گا جسے تم نہیں دے پا رہے ہو گے یا اسے تم سے نہیں مل پا رہا ہو گا یا جس کا تمھارے پاس فقدان ہو گا۔ اس لیے طیش میں آنے اور جذباتیت کی رو میں آ کر اس کی ضرب سے بکھر جانے کے بجائے تم میری طرح سوچو۔ یعنی تخلیق کار کے بجائے ایک صنعت کار بلکہ ایک تاجر کی مانند سوچو۔ گرم ہونے کے بجائے نرم ہو کر یہ سوچو کہ اس سانحے کا سبب کیا ہو سکتا ہے اور اس نقصان کی بھرپائی کیسے کی جا سکتی ہے ؟ اس سے رشتوں کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ انسانوں کی نفسیات کو بھی سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔

میں آپ کی اس بات کو مانتا ہوں کہ یوں ہی کوئی کسی رشتے کو ختم نہیں کرتا۔ ضرور کوئی بڑی بات اس کے پیچھے ہو سکتی ہے۔ میرے ساتھ ساتھ جو کچھ ہوا ہے یقیناً اس کا کوئی سبب ہو گا مگر مجھے دکھ صرف اس بات کا نہیں ہے کہ میرا برسوں کا بسابسا یا گھر اجڑ گیا بلکہ غم اس بات کا بھی ہے کہ اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہناتے وقت ہم یہ نہ دیکھ سکے کہ اس سے ایک طرف جہاں گھٹن کم ہو سکتی ہے وہیں دوسری جانب اضطراب بڑھ بھی سکتا ہے۔ کہیں اس سے نیا رشتہ بن سکتا ہے تو کہیں پرانا رشتہ ٹوٹ بھی سکتا ہے۔

چندر پرکاش ! یہ سچ ہے کہ ہم نے دوسری طرف نہیں دیکھا لیکن میرے بھائی ! یہ بھی سچ ہے کہ اگر ہم دیکھتے تب بھی اس رشتے کو ٹوٹنے سے بچا نہیں پاتے۔ اس لیے کہ جہاں جہاں بھی نیا رشتہ بنا ہے، پرانا رشتہ نیا رشتہ بننے کے بعد نہیں ٹوٹا ہے بلکہ وہ پہلے ہی سے ٹوٹا ہوا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ دکھائی وہ بعد میں پڑا۔ یہ جو نیا رشتہ تیزی سے بن رہا ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ اس رشتے میں بندھنے والے صرف وہی لوگ نہیں ہیں جن پر تمھاری اور ہماری تخلیق کمیٹی کی تحریروں کا جادو آسانی سے چل گیا ہے اور جو پہلے سے کسی مضبوط گھیرے میں قید نہیں تھے بلکہ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو خاصے مذہبی ہیں۔ سنسکاروں میں پلے بڑھے ہیں۔ قاعدے قانون کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ جو معاشی اعتبار سے خوش حال اور سماجی اعتبار سے صاحبِ اختیار ہیں۔ جن کی بیویاں خوبصورت اور پرکشش ہیں اور جن کے شوہر تندرست اور اسمارٹ ہیں، جن کا جوڑا کسی بھی طرح بے جوڑ اور ان میل نظر نہیں آتا۔ جن کا تعلق اچھے گھروں اور گھرانوں سے ہے۔ یعنی بظاہر کوئی جواز اس نئے رشتے کا نظر نہیں آتا مگر یہ رشتہ بن رہا ہے اور اسے سنسکار اور مذہب تک نہیں روک پا رہے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہوا چندر پرکاش کہ کمی یا گھٹن اتنی زیادہ ہے یا تازگی کی ضرورت اس حد تک ہے کہ رشتہ بنانے والوں کو کسی کی پرواہ نہیں، کسی کا ڈر نہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسی کمی ہے کہ جس نے ذہن و دل میں اضطراب پیدا کر رکھا ہے۔ ایسا اضطراب جو تمام بندھنوں کو تو رہا ہے۔ برسوں کی شناسائی جس کی زد میں آ کر پاش پاش ہو رہی ہے۔ مدتوں کی پلی پلائی رفاقتیں دم توڑ رہی ہیں۔ چندر پرکاش ! اس کمی کے بارے میں بھی سوچو! سوچو کہ تم زیادہCreativeہو زیادہImaginative ہو! سوچو کہ اس سے ہمارے بزنس کے لیے ایک اور منصوبہ ہاتھ لگ سکتا ہے۔ ایک اور لائحہ عمل تیار ہو سکتا ہے۔

تاجر چندر پرکاش کا مشورہ اچھا تھا۔ منافع بخش بھی تھا۔ فنکار چندر پرکاش نے اس پر سوچا بھی۔ اس نے خود کو اندر باہر سے بار بار دیکھا۔ اپنے میں کمی تلاش کرنے کی پوری کوشش کی۔ خود کو دوسروں کی نظر سے بھی دیکھا۔ تنقیدی نقطۂ نظر بھی اپنا یا۔ پوری ایمانداری برتی مگر کہیں بھی کوئی ایسا دھاگا نہیں دکھائی دیا جو کمزور ہو، رگڑ کھا گیا ہو، گھس گیا ہو۔ غرض کہ وہ اپنے اندر کمی پانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ دفعتاً اس کے ذہن میں خیال کا ایک کوندا لپکا۔ لپک کر اس نے اپنی بیوی کا موبائل سیٹ پھر سے اٹھا لیا۔

بٹن کے دبتے ہی میسیج بکس کے ڈرافٹ والا خانہ سامنے آ گیا۔ اس کا اندیشہ سچ نکلا۔ اس میں ایس۔ ایم۔ ایس کا ڈرافٹ موجود تھا جس کے جواب میں وہ ایس ایم ایس آیا تھا جس نے اس کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا تھا۔

’’بیس سال سے میں ایک ریگستان میں رہ رہی ہوں۔ یہاں چاروں طرف ریت ہی ریت ہے۔ کہیں پر کنواں ہے بھی تو اس کا پانی اتنا نیچے ہے کہ وہاں تک پہنچنا مشکل ہے۔ ایسے میں آپ میری پیاس کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ آپ میرے لیے ایسے ہیں جیسے کسی پیاسے کے لیے دریا ہوتا ہے۔ میں اس ریگستان سے نکلنا چاہتی ہوں۔ اپنی تشنگی مٹانا چاہتی ہوں۔ سیراب ہونا چاہتی ہوں۔ جی چاہتا ہے دوڑ کر دریا کے پاس آ جاؤں

اسے پڑھ کر چندر پرکاش کو ایسا محسو ہوا جیسے وہ واقعی صحرا بن چکے ہیں۔ ان کا پورا وجود خشک ہو گیا تھا۔ دل و دماغ، جسم سب میں کانٹے اُگ آئے تھے۔

ایس ایم ایس باکس کو کھولتے وقت انھوں نے سوچا تھا کہ ڈرافٹ سے ان کے اندر کی کمی کا انھیں پتا چل جائے گا مگر جس کمی کا ذکر اس ڈرافٹ میں کیا گیا تھا اسے پڑھ کر ان کی آنکھیں حیران تھیں کہ لکھنے والے کے منہ سے وہ اکثر اس طرح کے جملے سن چکے تھے :

’’جانو! تو میرے لیے کسی سمندر سے کم نہیں، تو نے مجھے ایسا سیراب کیا ہے کہ اس بنجر زمین پر بھی پھول کھل اٹھے ہیں۔ ‘‘

سچیہ تھا جسے چندر پرکاش کے کانوں نے بار بار سنا تھا یا سچ وہ تھا جسے کچھ دیر پہلے آنکھوں نے موبائل کے اسکرین پر پڑھا تھا۔ ان کی حیرانی بڑھتی جا رہی تھی کہ اچانک ان کے موبائل پر میسیج الرٹ ٹون بج اٹھی۔ بے دلی سے انگوٹھا موبائل کی طرف بڑھا اور نہایت بے توجہی کے ساتھ بٹن دبا مگر تحریر نے چندر پرکاش کو چونکا دیا۔

’’سر! آپ مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔ آپ کا سوچتا ہوا چہرہ دل میں اتر جاتا ہے۔ آپ کے بولنے کا انداز اتنا دلکش ہے کہ جی چاہتا ہے ہر وقت آپ کو سنتی رہوں۔ میں نے اپنے اس احساس کو پہلے بھی کئی بار آپ تک پہچانا چاہا مگر ہمت نہ ہو سکی۔ آج آپ کی بنائی ہوئی اسکیم نے میری مشکل آسان کر دی۔ امید ہے کہ آپ برا نہیں مانیں گے۔ جواب دیں تو مجھے بہت اچھا لگے گا۔ ‘‘

چندر پرکاش طوفانی جھکڑوں اور گرم ریت کے جس ماحول میں گھر گئے تھے، یہ ایس ایم ایس اس وقت کسی باغ سے آیا ہوا ہو اکا ایک ٹھنڈا جھونکا محسوس ہوا مگر اس جھونکے کا لمس دل تک ابھی پوری طرح پہنچا بھی نہ تھا کہ دماغ نے انھیں ایک اور حیرانی میں ڈال دیا۔

یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ ضروری کسی نے مذاق کیا ہے ؟ دیپتی اور مجھ میں تو بہت بڑا فاصلہ ہے۔ اتنا بڑا کہ۔ ..۔ ..حیران ہونے کی بات نہیں ہے چندر پرکاش! یہ جو جھونکا ابھی ابھی تمھاری طرف آیا ہے، یہ بھی ایک سچ ہے۔ سچ کو عمر کے گھیرے میں گھیر کر مت دیکھو۔ سچ کا کوئی دائرہ نہیں ہوتا۔ سچ کہیں بھی، کبھی بھی جنم لے سکتا ہے۔ یہ فاصلہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔ اس سے بڑا فاصلہ بھی سچ کو کہیں آنے جانے سے نہیں روک سکتا۔ اگر یہ سچ نہیں ہوتا تو تمھیں ویسا محسوس نہیں ہوتا جیسے کہ ہوا، میرا ایک مشورہ مانو چندر پرکاش ! اپنے دماغ کو راستے سے ہٹا کر دل کے دروازے کو پوری طرح کھول دو۔ موبائل کے پردے پر ابھری اس تحریر کے حرف حرف کو اپنے اندر اتر جانے دو۔ پھر دیکھوں کہ تمھارے اندر کیا ہوتا ہے ؟ تمھارے دل کا اضطراب یوں ہی بر قرار رہتا ہے کہ کچھ کم ہوتا ہے۔

میرے بھائی! سچ کوئی ایک نہیں ہوتا۔ سچ وہ بھی ہے جو تمھاری بیوی کے میسیج بکس میں پڑا ہے اور وہ بھی جو تمھارے کانوں میں پڑتا رہا ہے اور یہ بھی جس نے تمھارے موبائل سے نکل کر ابھی ابھی تمھیں مس ہے۔ یہ سچ عجیب و غریب شے ہے۔ جو سچ نہیں لگتا وہ بھی سچ ہوتا ہے اور جو جھوٹ لگتا ہے، سچ وہ بھی ہوتا ہے۔

یہ سب تو ٹھیک ہے چندر پرکاش جی! مگر کیا واقعی میں اپنی بیوی کے لیے بیس سالوں تک صحرا بنا رہا ؟ کیا سچ مچ کوئی میری وجہ سے اتنے برسوں تک پیاسا رہا؟

تمھارے ان سوالوں کا جواب تمھاری بیوی کے ان جملوں میں پوشیدہ ہے جنھیں وہ اکثر تمھارے کانوں میں ڈالتی رہی ہے۔ ذرا جملوں کو ایک بار پھر سے اپنے ذہن کے پردے پر لاؤ اور بتاؤ کہ کیا تم اپنی بیوی کے لیے سچ مچ سمندر تھے ؟ کیا وہ بنجر زمین کی مانند ہے ؟ کیا تم نے اسے اس طرح سیراب کیا کہ بنجر زمین سے بھی پھول کھل اُٹھے ؟

یقیناً ان سوالوں کے جواب تم اثبات میں نہیں دے سکتے۔ چندر پرکاش ! جس طرح اس بیان میں تخلیقی اڑان دکھائی دے رہی ہے اسی طرح اس کے ریگستان والے بیان میں بھی تخئیلی پرواز شامل ہے۔ تخلیقی سحر کاری صرف تمھیں نہیں کر سکتے چندر پرکاش! یہ جادو دوسرے بھی دکھا سکتے ہیں۔ یہ سب اس تخلیقی قوت کا کرشمہ ہے میرے بھائی جس کا علم و ادراک مجھ سے کہیں زیادہ تم رکھتے ہو۔ مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ یہ سب محض تخئیلی بیانات ہیں۔ سچ سے ان کا کوئی واسطہ نہیں۔ سچ تو یہ ہے چند پرکاش کہ یہ سارا کچھ سچ ہے۔ جینا ہے تو اس سچ کو ماننا ہو گا اور اگر دوسروں کو بھی زندہ رکھنا ہے تو مجھ سے مل کر رہنا ہو گا اور میری یہ بات یاد رکھنی ہو گی کہ منافع اچھائی اور ٹیکاؤ پن میں کم تاز گی اور نئے پن میں زیادہ ہوتا ہے۔

تخلیق کار چند پرکاش کے ذہن کے موبائل پر میسیج الرٹ ٹون بج اٹھی، ان کے موبائل سیٹ پر ابھری آخری تحریرِ ان بکس سے نکل کر آؤٹ بکس میں پہنچ گئی۔ حرف خط و خال میں تبدیل ہونے لگے۔ آہستہ آہستہ تصویر بننے لگی۔ نگاہیں نئے رنگ و روغن کی طرف کھنچنے لگیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

ڈُگڈُگی

 

شہر کے نکڑ پر ڈُگڈُگی بج رہی تھی۔ لوگ ایک ایک کر کے ڈُگڈُگی بجانے والے کے ارد گرد جمع ہوتے جا رہے تھے۔

ڈُگڈُگی بجانے والا سرسے پیر تک ایک مخصوص قسم کے لباس میں ملبوس ایک لحیم شحیم آدمی تھا۔ اس کے سراورداڑھی کے بال تماشائیوں کے بال سے مختلف تھے۔ رنگ برنگ کے گول گول پتھروں سے بنی ایک لمبی مالا اس کے گلے میں لٹک رہی تھی۔ تقریباً سبھی اُنگلیوں میں رنگین پتھروں کے نگ کی انگوٹھیاں تھیں۔ ایک ہاتھ میں ایک پرکشش ڈُگڈُگی تھی جومسلسل رقص کر رہی تھی اور دوسرے ہاتھ میں چمچماتی ہوئی بانسری جس کے منھ والے سوراخ کے ذرا نیچے سرخ رنگ کے پھندنے لٹک رہے تھے۔

ڈُگڈُگی والے نے ایک جھٹکے کے ساتھ ڈُگڈُگی بند کر دی۔ ’’ہاں تو قدر دان!آپ نے سانپ اور نیولے کی لڑائی کے بارے میں بہت کچھ سناہو گا۔ آج ہم آپ کو آنکھوں سے دِکھائے گا کہ سانپ اور نیولے کی لڑائی کیسی ہوتی ہے ؟نیولا کس طرح سانپ کو ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے ؟—اور پھر اُن ٹکڑوں کو ایک جڑی کی مدد سے کس طرح جوڑ دیتا ہے ؟——قدردان یہ انوکھی لڑائی ہم آپ کو دِکھائے گا اور ضرور دِکھائے گا۔

لڑائی دِکھانے سے پہلے ہم ہندو بھائی سے پرارتھنا کرتا ہے کہ وہ ایک بار پریم سے بولیں ——شنکر بھگوان کی جے —— جے۔ اے، ے، ے، ے،ے ………… ’’جے ‘‘کی آواز آس پاس کے ماحول میں گونج گئی۔

’’اور اپنے مسلمان بھائی سے ہماری درخواست ہے کہ وہ ایک بار دل سے نعرہ لگائیں ——نعرۂ تکبیر——اللہ ہو اکبر…… …اللہ ہو اکبر کی صدائیں بلند ہو کر چاروں طرف پھیل گئیں۔

لوگوں کی بھیڑ دُگنی ہو گئی۔

ڈُگڈُگی والے نے بانسری کو منھ سے لگا لیا اور ڈُگڈُگی والے ہاتھ کو زور سے جھٹکا دے کر آہستہ آہستہ ہلانے لگا۔

ڈُگ، ڈُگ، ڈُگ، ڈُگ—ڈُگ—ڈُگ

اُس کے ساتھ بانسری بھی ڈُگڈُگی کی سنگت کرنے میں مصروف ہو گئی۔

ڈُگڈُگی والابانس کی کھپچیوں سے بنی ہوئی ایک پٹاری کا پھیرا لگانے لگاجس میں ٰسانپ بند تھا۔ چند پھیروں کے بعد بانسری کی آواز بند ہو گئی۔ ڈُگڈُگی بجتی رہی۔ پھر ڈُگڈُگی کھنک کھنک کر خاموش ہو گئی۔

’’دیکھیے قدردان !ہوشیار ہو جائیے۔ اَب ہم سانپ کو نکالے گا۔ ‘‘

ڈُگڈُگی والا پٹاری کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ لوگوں کے بے تاب نگاہیں پٹاری پر مرکوز ہو گئیں۔

چند لمحے بعد اس نے پٹاری کا ڈھکن ذراسا اُوپر اُٹھا دیا۔

مجمع سے کئی گردنیں آگے کو جھُک گئیں۔

’’ہاں، توقدر دان !یہ سانپ وہ نہیں جسے آپ دیکھتے رہتے ہیں۔ یہ سانپ سائیبریا کے جنگل میں رہتا ہے۔ یہ ایک وی چتر سانپ ہے۔ اس کے کئی منھ اور کئی سرہیں۔ اس کے ایک سر پر ایک خوبصورت ساتاج بھی ہے ——اچھّا تو لیجیے اب ہم ڈھکن کو اُٹھاتا ہے۔

اُس نے ڈھکن کو ذرا اور اُوپر اُٹھا کر اپنی آنکھیں پٹاری کے اندر ڈال دیں۔ لوگوں کی گردنیں آگے کو جھُک گئیں۔

’’کیا؟ ——ابھی نہیں ؟‘‘

’’قدردان ناگ راج کا کہنا ہے کہ وہ ابھی موڈ میں نہیں ہیں۔ ‘‘

اوراُس نے ڈھکن کو گرا دیا۔

’’بچّہ لوگ ذرا زور سے تالی بجاؤ تاکہ ناگ راج مست ہو کر موڈ میں آ جائیں۔ ‘‘

تالیوں کی گڑ گڑاہٹ سے آسمان دہلنے لگا۔

تالی بجانے والوں میں کچھ لوگوں کے علاوہ چھوٹے بڑے سبھی لوگوں کے ہاتھ رُکے تو ڈُگڈُگی والے نے سرہلاتے ہوئے کہا۔

’’نہیں، کچھ زیادہ مزا نہیں آیا۔ ذرا اور زور سے بجائیے۔ ‘‘

اِس بار پہلے سے زیادہ زور کی گڑ گڑاہٹ ہوئی

بھیڑ اور بڑھ گئی

بانسری بجاتا ہوا ڈُگڈُگی والا ایک تھیلے کے پاس جا کر رُک گیا۔ بانسری کو روک کر اُس نے ڈُگڈُگی والے ہاتھ کو تین بار مخصوص اندازسے جھٹکا دیا۔ اور تینوں بار ایک خاص طرح کی آواز نکال کر ڈُگڈُگی خاموش ہو گئی۔ اس نے ڈُگڈُگی زمین پر رکھ دی۔ اور تھیلے کا منھ سرکا کر اپنا ایک ہاتھ اس میں ڈال دیا۔

لوگوں کی نظریں تھیلے میں داخل ہونے کی کوشش میں مصروف ہو گئیں۔ چند لمحے بعد ڈُگڈُگی والے کا ہاتھ تھیلے سے جب باہر آیاتو مٹھی بند تھی۔ اُس نے مٹھی کو آسمان کی طرف لے جا کر کھول دیا۔ رنگین پتھروں کے کئی چوکور ٹکڑے اُچھل کر زمین پر آگرے۔

زمین سے ایک پتھر اُٹھا  کر ڈُگڈُگی والے نے ہتھیلی پر رکھ لیا۔

’’قدردان!آپ اِسے دیکھ رہے ہیں ؟——یہ آپ کو پتھر معلوم ہو رہا ہو گا۔

لیکن قدردان!یہ پتھر نہیں،یہ ایک بہومولیہ وستو ہے۔ ایک بیش بہا چیز ہے۔ اس میں اَن گنت گنڑ چھپے ہوئے ہیں۔ اس کے بہت سارے فائدے ہیں۔

آپ جاننا چاہیں گے یہ کیا چیز ہے اوراس میں کیا کیا گنڑ ہیں ؟تو قدر دان!ہم آپ کو بتائے گا اوراس کا فائدہ بھی دِکھائے گا لیکن ابھی نہیں پہلے ہم آپ کو سرپرتاج والے سانپ اور نیولے کی لڑائی دِکھائے گا۔ ‘‘

اس نے ڈُگڈُگی کوپھراسی مخصوص اندازسے جھٹکا دیا اورآہستہ آہستہ ہاتھ ہلاتا ہوا نیولے کی طرف بڑھ گیا۔

’’ہاں، تو بھائی نیولے راجہ!لڑائی شروع ہو جائے۔ ‘‘

ڈُگڈُگی والا نیولے سے مخاطب ہوا۔

کیا ——؟نہیں ؟لیجیے صاحب یہ ابھی منع کر رہے ہیں۔

’’کیوں ؟کیا دودھ پئیں گے ؟‘‘

’’قدردان !یہ پہلے دودھ پینا چاہتے ہیں۔ اچھی بات ہے۔ ہم آپ کو پہلے دودھ پلائے گا۔ ‘‘

اس نے تھیلے کے پاس رکھی ہوئی دودھ کی پیالی کو اُٹھا کر نیولے کے پاس رکھ دیا۔

’’قدردان! گھبرائیے نہیں، بس چند ہی منٹ بعد ہم آپ کو لڑائی دِکھائے گا۔ ‘‘

اُس نے بانسری منھ سے لگا لی۔

سپیرابین بجا———بین بجا————ناچوں گی………کی مدھر دھن بانسری سے نکلنے لگی۔

’’جی ہاں !اِس پتھر کے بارے میں بھی بتائے گا اور اِس کا فائدہ بھی دِکھائے گا۔ ‘‘

مجمع میں کھڑے ایک شخص کی طرف اُس نے اپنی توجہ مبذول کر دی۔

’’ہاں، ہاں، ابھی بتائے گا۔ ‘‘

اُس نے ایک پتھر خلا میں اچھال کر ہتھیلی پر روک لیا۔

’’قدردان!ہم نے بتایا تھا کہ یہ پتھّر نہیں ہے۔ ایک بہو مولیہ وستو ہے، ایک بیش بہا چیز ہے۔ اس میں اَن گنت گنڑ چھپے ہوئے ہیں ——لیجیے ہم آپ کو اِس کا گنڑ بتاتا ہے۔

گنڑ  نمبر ایک ——اگر کسی کو زہریلاسے زہریلا سانپ نے کاٹ لیا ہو ——یہ پتھّر تریاق کا کام کرے گا۔ جس جگہ سانپ نے کاٹاہواُس پتھر کو پانی میں ڈبو کر وہاں رکھ دیجیے۔ یہ چپک جائے گا۔ اوراس وقت تک چپکا رہے گا جب تک شریر میں زہر ہو گا۔ جب یہ پتھر اس جگہ کو چھوڑ دے تو سمجھنا شریر سے زہر نکل چکا ہے۔

گنڑ نمبر دو ——کسی آدمی کو بچھو نے ڈنک مار دیا  ہو اور وہ آدمی زمین پر دہا ڑیں مار مارکر لوٹ رہا ہو آپ اسے پتھر پر رگڑ کر چپکا دیں، سارازہرمنٹوں میں غائب اور لوٹ پوٹ آن کے آن میں ختم ——

گنڑ نمبر تین ——

مجمع سے ایکے دُکّے لوگ نکل کر جانے لگے ——

قدردان!جائیے نہیں ——ابھی کھیل دِکھائے گا——آپ کھیل دیکھ کر جائیے گا۔ آپ کو بہت مزا آئے گا۔ لیجیے ہم ابھی دِکھاتا ہے ——

ڈُگڈُگی بجاتا ہوا وہ نیولے کے پاس پہنچ گیا۔ اس نے نیولے کی رسی ڈھیلی کر دی۔ نیولا پٹاری کے قریب پہنچ کر چکر کاٹنے میں مصروف ہو گیا۔ ڈُگڈُگی والا پٹاری کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ ڈُگڈُگی جھٹکے کے ساتھ کھنکی اور خاموش ہو گئی۔

اُس نے پٹاری کا ڈھکن اُٹھا کر اس میں اپنا ہاتھ ڈال دیا۔ لوگوں کی گردنیں ایک بار پھر آگے کی طرف جھُک گئیں۔

کچھ توقف کے بعد ادھ کھلی پٹاری سے اس نے جب اپنا ہاتھ باہر نکالا تو اس میں کتھئی رنگ کے سانپ کی بل کھاتی ہوئی ایک دُم تھی۔

قدردان!یہ سانپ بہت خطرناک ہے۔ اس کے کاٹے ہوئے آدمی کو صرف ایک چیز بچاسکتی ہے۔ اور وہ ہے یہ فقیری دوا۔

اس نے پتھر کے چوکور ٹکڑوں کی طرف اشارہ کیا۔

جس بھائی کو شبہ ہو اور وہ آزمانا چاہتے ہوں وہ ہمارے پاس آ جائیں۔ ہم اس سانپ سے اُن کو کٹوائے گا اوراس فقیری دوا کی مدد سے زہر کو منٹوں میں زائل کر دے گا۔

ہے کوئی ہمت والا!ہے کوئی جواں مرد!ہے کوئی بہادر نوجوان تو نکل کر سامنے آئے اور اس فقیری دوا کو آزما کر دیکھے۔

کوئی نہیں ہے۔ خیر کوئی بات نہیں۔ ہم ابھی آپ کو اس کا ایک نمونہ دِکھاتا ہے۔

سانپ کے دم کو چھوڑ کر وہ تھیلے کے پاس آ گیا۔ اور تھیلے سے اس نے ایک سرخ رنگ کی ٹکیہ نکال لی۔

’’قدردان! اس ٹکیہ کو ہم اس گلاس میں ڈالتا ہے۔ اس نے پانی سے بھرے ہوئے گلاس میں ٹکیہ ڈال دی۔

’’قدردان!دیکھیے یہ پانی خون ہو گیا۔ اس کا رنگ خون کی طرح بالکل سرخ ہے۔ اب اس گلاس کو ہم اس پٹاری میں رکھے گا اور سانپ اس میں اپنا منھ ڈالے گا اور پھر آپ دیکھیں گے کہ اس کا رنگ کیسا ہو جاتا ہے ؟‘‘

اس نے گلاس کو پٹاری کے اندر رکھ دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب اس نے پٹاری سے گلاس کو باہر نکالا تو خون کا رنگ کالا ہو چکا تھا۔

’’قدردان! جس شخص کو یہ سانپ کاٹ لیتا ہے اسی طرح اس کا خون کالا ہو جاتا ہے۔ اب ہم آپ کو اس فقیری دوا کا کمال دِکھاتا ہے۔ ‘‘

اُس نے ایک پتھر کا ٹکڑا اُٹھا کرگلاس میں ڈال دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے گلاس کے پانی کا رنگ پھر خون میں تبدیل ہو گیا۔

’’قدردان!دیکھا آپ نے اس فقیری دوا کا کمال۔ یہ تواس کا صرف ایک کمال ہے۔ ایک گنڑ ہے۔ ایسے ایسے تو اس میں بیسیوں گنڑ چھپے ہوئے ہیں۔ اس کے چند اور فائدے ہم آپ کو بتاتا ہے ———

کسی کو مرگی کا دورہ پڑ گیا ہو۔ آپ اس ٹکیہ کو اس آدمی کی ناک کے پاس لے جائیں فوراً ہوش میں آ جائے گا اور اگر مرگی کا مریض اسے اپنے پاس رکھے تو اسے کبھی دورہ نہیں پڑے گا۔

اِسی طرح کسی کو پرانا سے پرانابواسیر ہو، اور لاعلاج بن چکا ہو۔ آپ اس دواسے صرف ایک ہفتہ سیکائی کریں مسّہ گل کر راکھ ہو جائے گا۔

قدردان! اس کے اور بہت سے فائدے ہیں جن کا ذکراس پمفلٹ میں تفصیل سے چھپا ہوا ہے۔ ‘‘

اُس نے پمفلٹ اُٹھا کر ایک ایک کے ہاتھ میں تھما دیا۔

’’قدردان! اتنے سارے گنڑ اس فقیری دوا میں موجود ہیں۔ آپ سوچتے ہوں گے کہ اس کی قیمت بہت زیادہ ہو گی، لیکن نہیں ———قیمت کچھ بھی نہیں ہے۔ بالکل مفت ہے۔ فقیر کی دی ہوئی چیز ہے۔ اس کا دام کچھ بھی نہیں ہے۔ ہاں فقیر کے نیاز کے لیے ایک معمولی سی رقم بطور چندہ ضروری لی جاتی ہے۔ اور وہ معمولی سی رقم ہے ———ایک روپیہ ———صرف ایک روپیہ— ——ایک روپیہ ———ایک روپیہ———ایک روپیہ———جس کسی بھائی کو ضرورت ہو آواز دے کر مانگ سکتے ہیں۔ ‘‘

’’ایک ٹکیہ مجھے، ایک ٹکیہ مجھے، دو مجھے، ایک… ……

’’ابھی دیا۔ ابھی دیتا ہے قدردان!ابھی آیاسرکار۔ آپ کو بھی دیا……‘‘

کچھ دیر بعد ڈگڈُگی والا روپے گننے میں مصروف تھا۔

تقریباً آدھے سے زیادہ لوگ جا چکے تھے۔ شاید وہ اس سے پہلے بھی ڈُگڈُگی کی آواز پر جمع ہو چکے تھے اور کچھ لوگ اس انتظار میں ابھی ٹھہرے ہوئے تھے کہ ڈُگڈُگی والا اپنا وعدہ پورا کرے گا یعنی تاج والے سانپ اور نیولے کی لڑائی ضرور دِکھائے گا۔ غالباً یہ لوگ ڈُگڈُگی کی آواز پر پہلی بار جمع ہوئے تھے۔ ————

٭٭٭

 

 

 

بھِڑ

 

’’کیا آپ لوگوں کو ایسا نہیں لگتا کہ ہمیں بھی اس آواز پر لبیک کہنا چاہیے۔ ‘‘

حیرت ہے کہ جو کل تک سریندر پرکاش کی کہانی ’’باز گوئی‘‘ کے اس نظریے پر سختی سے قائم تھا کہ جب کوئی شب روزی مل جاتی ہے تو فن کار کی بانسری بند ہو جاتی ہے بلکہ ہاتھ سے چھوٹ کر گر جاتی ہے اور ظلمت کے خلاف انقلابی دھن بجانے والا موسیقار شب روزی کے ہمراہ ہم بستری میں مصروف ہو جاتا ہے اور قرۃ العین حیدر کے ناول کا کردار ریحان دا بھی کامریڈ نہیں رہ پاتا بلکہ وہ بھی کار دار بن جاتا ہے۔

میں نے حیرت سے اس شخص کی طرف دیکھا تو بولا

’’ڈاکٹر صاحب ! میں مذاق نہیں کر رہا ہوں۔ اس معاملے میں میں کافی سیریس ہوں۔

ہماری یہ گفتگو اس نئی آواز کے متعلق تھی جو کچھ دنوں پہلے گونجی تھی اور نہایت سرعت کے ساتھ بلند سے بلند تر ہوتی گئی تھی اور جو اُن دلوں میں بھی پہنچ کر گھر بنانے لگی تھی جن سے آواز یں ٹکرا کر اپنا سر پھوڑ لیا کرتی تھیں۔

یہ آواز واقعی نئی آواز تھی۔ نہایت صاف، شفّاف، منزّہ، مدھُر، منفرد اور ممتاز۔ یہ آواز دل سے نکلی تھی اور برسوں کی تپسّیا اور سادھنا کے بعد اس جوش، جذبہ اور قوت سے نکالی گئی تھی کہ سنتے ہی سماعتیں چونک پڑی تھیں۔

یہ آواز ققنس کی اس آواز کی مانند تھی جس کے منقار سے نکلتے ہی پرند اس کی جانب دیوانہ وار پرواز بھر لگتے ہیں مگر اس سحر انگیز آواز کو نکالنے والا سحر ساز اس ققنس کی طرح نہ تھا جو اپنی آواز کی کشش پر پاس آئے پرندوں کو دبوچ کر اپنے منہ میں رکھ لیتا ہے۔

وہ لوگ جو آوازوں پر کبھی کان نہیں دھرتے تھے، وہ بھی اس آواز پہ ہمہ تن گوش ہو گئے تھے اور ان میں سے بیشتر کے پاؤں اس صدائے فسوں ساز کی جانب بڑھنے بھی لگے تھے۔ لوگ اس آواز کی سمت اس طرح بڑھ رہے تھے جیسے ڈگڈگی کی آواز پر گھروں سے بچے نکلتے ہیں جبکہ بیشتر لوگوں کے ذہنوں میں یہ تماشا موجود تھا کہ مداری ڈگڈگی کی آواز پر مجمع لگاتا ہے۔ سانپ اور نیولے کی عجیب و غریب لڑائی دکھانے کی دلچسپ تمہید باندھتا ہے، بار بار پٹاری کھولتا، بند کرتا ہے اور لڑائی دکھائے بغیر اپنا تیل بیچ کر چل دیتا ہے۔ شاید لوگوں کے پاؤں اس لیے بھی بڑھ رہے تھے کہ ان کی آنکھوں میں اس نئی آواز والے شخص کا حلیہ بھی داخل ہو چکا تھا:

اس کے ہاتھ میں کوئی ڈگڈگی نہیں تھی۔ اس کی انگلیاں رنگ برنگ کے نگوں والی انگوٹھیوں سے خالی تھیں۔ گلے میں رنگین اور چمک دار موتیوں کی کوئی مالا بھی نہیں تھی۔ اس کے بال بھی نارمل تھے۔ اس کے جسم پر کسی مخصوص قسم کا کوئی لبادہ بھی نہیں تھا۔ اس کا لباس بالکل سادہ تھا۔ سرسے پاتک سادہ، نہ کپڑے میں کوئی تاب نہ رنگ میں کوئی آب۔ کوئی گل بوٹا نہیں، کوئی پیوند کاری نہیں، کوئی تکمہ نہیں، کوئی پھند نا نہیں۔

دیکھتے ہی دیکھتے اس آواز کے ارد گرد ایک عالم اکھٹا ہو گیا۔ اس آواز سے انسانی سماعتیں تو متاثر ہوئیں ہی فطرت بھی متحرک ہو اٹھی:

پُر شور فضائیں مترنم ہو گئیں

حبس زدہ ماحول میں تازہ ہوائیں گھلنے لگیں۔

گم سم سے بیٹھی ہوائیں چلنے اور بولنے لگیں

پیڑوں کی ساکت شاخیں ہلنے لگیں

فالج زدہ پتّے جھومنے لگے

پرندوں کے خاموش لب کھلنے لگے

اس آواز اور اس آواز کی بدولت فطرت کے بدلے ہوئے تال سرنے بہت کم وقت میں وہ کر دکھایا جو مدّتوں میں بڑے بڑے ساز اور اونچی آواز والے مطرب بھی نہ کر سکے :

حالتِ حبس میں ہوامحسوس ہونے لگی

ذہن و دل کی گانٹھیں کھلنے لگیں

درد سر کنے لگا

کرب میں کمی آنے لگی

اضطراب ٹھہرنے لگا

یاس آس میں بدلنے لگی

سرابوں میں سیرابی سرسرانے لگی

پہلی بار مجھے بھی یہ خیال آیا تھا کہ اس آواز کی طرف بڑھنا چاہیے۔ اس سُر پہ کان دھرنا چاہیے۔ اس لیے کہ اس سر میں مجھے بھی وہ سُر محسوس ہوا تھا جو گھٹن کو دور کرنے اور سانسوں میں سنگیت گھولنے والا سُر تھا۔ جس میں زہراب کو آبِ زلال بنانے والا جوہر موجود تھا۔ وہ آواز واقعی صدائے نجات تھی اور عنقریب ہم سب اس کے قریب پہنچنے والے تھے کہ اچانک لوگوں کا اس آواز کی سمت آنے اور اس کے پاس موجود لوگوں کا اس سے ہٹنے اور دور جانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

سبب یہ نہیں تھا کہ کسی نے لوگوں کی سماعت میں یہ بات ڈال دی تھی کہ اس شخص کی آواز بھی آخرِ شب کے ہم سفر ریحان دا اور باز گوئی کے فن کار کی بانسری کی آواز جیسی ہی ثابت ہو گی۔ سبب پر میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ اس کی آواز میں کچھ تبدیلی سی پیدا ہو گئی تھی۔ اس میں اب وہ پہلے جیسا سُر نہیں تھا جو شروع شروع میں ابھرا تھا۔ سماعتوں کو ناگوار لگنے والے کچھ عنا صر بھی اس آواز میں داخل ہو گئے تھے۔

اس تبدیلی کے سبب کو جاننے کے لیے میرا تجسس بڑھتا گیا۔ چھان بین کرنے پر بس اتنا پتا چلا کہ کسی دن اس کے اُوپر بھڑ کا کوئی چھتّا گِرا تھا۔ اس چھتّے سے بھڑیں نکلی تھیں اور وہ بھڑیں اس کے گلے سے چمٹ گئی تھیں۔ شاید تب ہی سے اس کی آواز متاثر ہو گئی تھی۔

یوں اچانک اپنی آواز میں پیدا ہوئی خرابی سے وہ دکھی رہنے لگا۔ اپنی آواز سے زیادہ دکھ اسے اس بات کا تھا کہ لوگ اس سے دور جا رہے تھے۔ پوری طاقت سے ایک اور آواز اس کے اندرسے اُٹھ رہی تھی کہ وہ لوگوں کو روکے۔ انھیں بتائے کہ یہ عارضی خرابی ہے۔ زیادہ دنوں تک باقی نہیں رہے گی مگر یہ آواز باہر آتے آتے بے اثر ہو جاتی تھی۔ اس کی آنکھوں سے آنسوجاری ہو گئے تھے۔ یہ آنسو اپنے لیے کم اور دوسروں کے لیے زیادہ تھے۔ یہ آنسو ان کے لیے تھے جن کی خاطر اس نے رشیوں منیوں جیسی ریاضت کی تھی۔ جو مینکاؤں کے رقص سے بھی متاثر نہیں ہوا تھا۔ جو اپنی قوتِ مدافعت شیطانی شعبدوں اور زمانی کرشموں کے سحر سے بھی بچتا رہا تھا۔

اس کی آواز کی جانب جاتے ہوئے لوگ مجھے اچھے لگے تھے مگر وہاں سے واپس آتے ہوئے اچھے نہیں لگ رہے تھے۔ میرا جی چاہ رہا تھا کہ میں ان کے رستے میں کھڑا ہو جاؤں، انھیں روک لوں مگر میں کیسے روکتا ؟کیا کہتا؟میں تو خود بھی تذبذب کا شکار ہو گیا تھا۔

چھتّے کا گرنا، چھتّے سے بھڑوں کا نکلنا اور ان بھڑوں کا اس کے گلے سے چمٹنا کیا محض اتّفاقات تھے یا کچھ اور۔ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ اس اُلجھن کو لے کر میں خاصا پریشان رہنے لگا تھا کہ اچانک اُن پروفیسر صاحب کی یاد آئی گئی جنھوں نے ایک دن ہم سب کو بھی اس آواز پر لبیک کہنا کا مشورہ دیا تھا۔

جب میں نے بھڑوں والی بات ان سے بتائی تو بولے :

’یہ اتّفاق نہیں ہو سکتا۔ ‘

’تو کیا ہو سکتا ہے ؟‘ میں نے دوسرا سوال کر دیا

’سبب‘۔ نہایت سنجیدگی سے انھوں نے جواب دیا۔

’سبب؟ کیسا سبب میں کچھ سمجھا نہیں ؟‘

’سببیعنی کچھ آوازیں ہیں جو اس آواز کے راستے میں کھڑی ہو گئی ہیں۔ ‘

’ آوازیں ! کون سی آواز یں ؟‘

’وہ آوازیں جو آخرِ شب کے ہم سفر ریحان دا اور ’باز گوئی‘ کے فن کار جیسے لوگوں کے ہونٹوں سے نکلتی ہیں۔ ‘

’یہ آواز اُن آوازوں کے راستے کا سبب کیوں کر بن سکتی ہیں ؟‘

’یہ آواز اُن سے مختلف ہے اور اُن کو ڈر ہے کہ کہیں یہ اُن کے گلے کے لیے بھِڑ نہ بن جائے ‘

’اس لیے انھوں نے بھِڑ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘

’ہاں اسی لیے۔ ‘

میری آنکھوں کے آگے بھِڑ کا ایک چھتّا اُبھر آیا۔

٭٭٭

 

 

 

سائبر اسپیس

 

شتابدی اکسپریس، سوپرفاسٹ میل، پسنجرٹرین، بس، بد ہئیت، بے ہنگم، بدبو دار دھواں چھوڑتی اور پھٹپھٹ کرتی میٹاڈور، ہچکولے کھاتی رکشا اور تنگ و پر خار پیدل کا سفرطے کر کے وہ اس بستی میں داخل ہوا۔

دھند اور دھول سے اٹی بے جان اورسنسان بستی کو دیکھتے ہی جیتی جاگتی جگمگاتی شہری آبادی کا ایک پُر نور منظر اس کی آنکھوں میں جھلملا اُٹھا۔

کچھ دیر تک آنکھ مچولی کھیلتے کھیلتے دونوں منظروں میں سے روشن منظر کہیں چھپ گیا اور سیاہ منظر اپنی آنکھیں کھول کرسامنے کھڑا ہو گیا۔ اسے محسوس ہواجیسے وہ کسی جزیرے میں پہنچ گیا ہے۔ اس کے اردگرد بہت سارے لوگ جمع ہو چکے تھے۔ اوراسے وہ اس طرح دیکھ رہے تھے جیسے ان کی نگری میں کسی نئی دنیا کی کوئی مخلوق آ گئی ہو۔

وہ وہاں کی ایک ایک چیز کو حیرت واستعجاب سے دیکھتا اور پوچھ تا چھ کرتا ہوا اس بستی کے اُس آدمی کے پاس پہنچ گیاجس سے اس کے مشن میں رہنمائی ملنے والی تھی۔

’’تمہارا ہی نام چورسیا ہے ؟‘‘اس نے اس آدمی کو سرسے پاتک گھورتے ہوئے پوچھا۔

’’جی صاحب!‘‘

’’تم پڑھے لکھے ہو؟‘‘

’’تھوڑا تھوڑا۔ ‘‘

’’کہاں پڑھا؟‘‘

’’آپ ہی جیسا ایک صاحب گھرکے کام کاج کے لیے مجھے اپنے ساتھ لے گیا تھا، وہیں۔ ‘‘

’’کتنے دنوں تک رہے ؟‘‘

’’کافی دنوں تک ‘‘

’’چلے کیوں آئے ؟‘‘

’’صاحب کہیں دور چلا گیا اور گھر والوں کی یاد بھی آنے لگی۔ اس لیے۔ ‘‘

’’یہاں کیا کرتے ہو؟‘‘

’’کام۔ ‘‘

’’کیسا کام؟‘‘

’’محنت مزدوری کا کام۔ ‘‘

’’میں تمہارے پاس ایک ضروری کام سے آیا ہوں۔ ‘‘

’’مجھ سے کیا کام ہے صاحب؟‘‘چورسیا نے چونکتے ہوئے پوچھا۔

’’مجھے تمہاری مدد چاہیے۔ ‘‘

’’میری مدد!‘‘اس کی حیرت اور بڑھ گئی۔ ‘‘

’’ہاں تمہاری مدد۔ ‘‘

’’کیسی مدد صاحب؟‘‘

’’میں یہاں کے لوگوں کے جیون پر کچھ لکھنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

یہ سنتے ہی چورسیا کے ذہن میں کسی کتاب کا ایک صفحہ کھل گیا۔ ’’گائے ایک چوپا یا جانور ہے۔ اس کی دو آنکھیں ہوتی ہیں۔ دوکان اور دوسینگ ہوتے ہیں۔ ایک ناک اور ایک پونچھ ہوتی ہے۔ وہ اجلے، کالے بھورے اور چتکبرے رنگ کی ہوتی ہے۔ گائے دودھ دیتی ہے۔ اس کے دودھ سے دہی جمتا ہے۔ مکھن نکلتا ہے۔ گھی ملتا ہے۔ وہ سال میں ایک بار بچھڑا دیتی ہے۔ اس کا بچھڑا بڑا ہو کر بیل بنتا ہے۔ بیل بوجھ ڈھوتا ہے۔ گائے کی کھال سے جوتے اور بیگ بنتے ہیں۔ اس کی چربی اور ہڈی سے طرح طرح کی وستوئیں بنائی جاتی ہیں۔ ‘‘

’’صاحب !میں جانتا ہوں آپ کیا لکھیں گے ؟‘‘

’’کیا کہا؟تم جانتے ہو کہ میں کیا لکھوں گا؟‘‘وہ چونک کرچورسیا کی طرف دیکھنے لگا۔

’’جی صاحب۔ ‘‘

’’اچھّا تو بتاؤ کہ میں کیا لکھوں گا؟‘‘

’’آپ لکھیں گے کہ چندن باڑی کے لوگ ناٹے اور کالے ہوتے ہیں۔ ان کا شریر گندا ہوتا ہے۔ دانت پیلے ہوتے ہیں۔ آنکھوں میں کیچڑ بھرا رہتا ہے۔ ان کے گال پچکے ہوئے ہوتے ہیں اور چھاتی کی ہڈیاں باہر نکلی ہوتی ہیں۔ وہ باجرے کی روٹی، اول کا بھرتا، موٹے چاول کا بھات اورکھساری کی دال کھاتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ‘‘

’’میں لیکھ لکھنے نہیں آیا ہوں۔ ‘‘

’’تو کیا لکھنے آئے ہیں صاحب؟‘‘

’’رچنا۔ ‘‘

’’رچنا معنی؟‘‘

رچنا معنی کویتا اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

’’کویتا!سمجھا؟‘‘

سچی باتیں کہنا سیکھ

سب سے ہِل مِل رہنا سیکھ

سیدھی راہ پہ چلنا سیکھ

سب کا آدر کرنا سیکھ

طوفاں سے ٹکرا کر بھی

ہر پل آگے بڑھنا سیکھ

 

’’یہی نا صاحب۔ ‘‘

’’ایسی رچنا نہیں۔ ‘‘

’’توکیسی رچنا صاحب؟‘‘

’’ایسی رچنا جس میں یہاں کے لوگوں کا اصلی جیون سما جائے۔ یہاں کی آتما اس میں پوری طرح رچ بس جائے۔ ‘‘چورسیاکی آنکھوں میں ساراگاؤں سمٹ آیا۔ ایک ایک گھر، ایک ایک آنگن اُبھر گیا۔ ایک ایک چہرہ اپنے درد و کرب کے ساتھ اس کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔

چورسیا کی آنکھیں جوبرسوں سے سوکھی پڑی تھیں ایک دم گیلی ہو گئیں۔

’’یہاں کی آتما آپ کو دکھائی دے گی صاحب؟‘‘اس کی آواز بھی بھیگی ہوئی نکلی۔ ’’کیوں نہیں، تم مدد کرو گے تو ضرور دکھائی دے گی۔ ‘‘

’’ہم سے کیا مدد چاہیے صاحب؟‘‘

’’یہی کہ تم اپنے بھیتر کا حال بتاؤ۔ اپنے لوگوں سے بات کراؤ۔ اپنی عورتوں سے ملواؤ۔

’’عورتوں سے !‘‘چورسیا کی آواز کا بھیگا پن یکایک غاب ہو گیا۔ جیسے بھاپ بن کر اُڑ گیا ہو، وہ معنی خیز نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔

’’چورسیا، تم غلط سمجھے۔ در اصل میں یہاں کی عورتوں سے اس لیے ملنا چاہتا ہوں کہ ان کا حال میں ان کی زبان سے سن سکوں۔ یہ جان سکوں کہ وہ کس طرح رہتی ہیں ؟‘‘

’’معاف کرنا صاحب!میں نے سمجھا شاید۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پر صاحب!وہ اپنے بھیتر کا حال آپ کو کیسے بتائیں گی جو اپنے مردوں تک کو نہیں بتا پاتیں۔ ‘‘

’’کیوں نہیں بتا پاتیں ؟‘‘

’’یہ تو وہی جانیں صاحب‘‘

’’تم لوگ کبھی پوچھتے نہیں ؟‘‘

’’پوچھا تو تب جائے نا صاحب جب کوئی جاننا چاہے۔ ‘‘

توکیاسچ مچ تم لوگ جاننا نہیں چاہتے ؟‘‘اس کی حیرت بڑھ گئی۔

’’نہیں۔ ‘‘

’’کیوں ؟‘‘

’’ہمارا اپنا دُکھ کیا کم ہے کہ ہم ان کا دکھ جاننے کا پریاس کریں۔ ‘‘

’’سنا ہے تم لوگ اپنی عورتوں کو مارتے بھی ہو؟‘‘

آپ نے ٹھیک سنا ہے صاحب۔ ‘‘

’’کیوں مارتے ہو؟‘‘

’’سچی بات بولوں صاحب۔ ‘‘

’’ہاں، بولو۔ ‘‘

’’وہ کمزور ہیں اس لیے۔ ‘‘

’’مطلب؟‘‘

’’مطلب صاف ہے صاحب!مار تو کمزور ہی پر پڑتی ہے نا۔ چاہے بھگوان کی مار ہو چاہے شیطان کی۔ دُکھ اور مصیبت میں جب ہمارا کوئی بس نہیں چلتا تو ہم اپنا غصّہ اپنی عورت پر نکالتے ہیں۔ آپ ہی بتائیے صاحب ہم اپنے بھیتر کی بھڑاس کس پر نکالیں۔ ان پیڑوں پریا اس دھرتی پر؟‘‘

چورسیاکی بات سن کر اس کی نظریں دھرتی پر مرکوز ہو گئیں۔ اسے محسوس ہوا جیسے چورسیا نے کسی گہرے فلسفے کی طرف اشارہ کر دیا ہو۔ زمین سے انسان کے رشتے کی بہت ساری گتھیاں اُبھرتی چلی گئیں۔ اس کا ذہن دیر تک گتھیوں میں اُلجھا رہا۔ کافی دیر تک خاموش رہنے کے بعد اس نے چورسیا کو پھر مخاطب کیا۔

’’اچھّا یہ بتاؤ تم لوگ کس طرح زندگی گزارتے ہو؟‘‘

چورسیا اس سوال پر کچھ دیرسوچتا رہا۔ بیچ بیچ میں اِدھر اُدھر دیکھتا رہا۔ پھر ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔

’’اُس طرح۔ ‘‘

اس کی نظریں اشارے کی طرف مڑ گئیں۔

کچھ فاصلے پر کنکریلی زمین کے اوپر ایک مریل بچّہ جس کا پیٹ ڈھول کی طرح پھولا ہوا تھا۔ چھاتی کی ہڈیاں باہر نکلی ہوئی تھیں۔ بے سدھ پڑا تھا اوراس کے پاس ہی ایک خارش زدہ پلّا لیٹا تھا۔ دونوں کے اوپر مکھیاں بھن بھنا رہی تھیں۔

اس کی نگاہیں بچّے اور پلے کے پاس سے لوٹ کر دوبارہ چورسیا کے چہرے پر مرکوز ہو گئیں۔

چورسیا کی آنکھیں دیالو نگاہوں کی گرمی سے پگھل کر موم کی طرح ٹپکنے لگیں۔ ایک کی آنکھیں خاموشی سے اپنا درد بیان کرتی رہیں اور دوسری کی آنکھیں اسے دیر تک تکتی رہیں۔

’’تمہاری اِچھائیں کیا ہیں ؟‘‘اُس نے کافی دیر بعد چورسیا سے دوسراسوال کیا۔

’’وقت پر دو جون کی روٹی۔ صاف پانی۔ موسم سے بچانے والا کپڑا اور بچھاون والا بستر۔ ‘‘

’’بس۔ ‘‘

صاحب آپ نے ’’بس‘‘کیوں کہا؟

’’بس نہ کہوں تو اور کیا کہوں ؟‘‘تم نے جو گنوائی ہیں یہ  اِچھائیں تھوڑی ہی ہیں۔

’’یہ اچھائیں نہیں تو اور کیا ہیں ؟‘‘

’’یہ تو آوشیکتائیں ہیں۔ ‘‘

’’اور اِچھائیں کیا ہوتی ہیں صاحب؟‘‘

’’اِچھائیں آوشیکتاؤں سے اوپر ہوتی ہیں۔ میں سمجھتا تھا تمہاری اِچھائیں بھی ہماری طرح ہوں گی۔ یعنی تمہیں بھی گاڑی، بنگلہ، نوکر چاکر کرسی عیش و آرام وغیرہ کی اِچھّا ہو گی۔ ‘‘

’’صاحب آپ ہم پر کچھ لکھنے آئے ہیں نا؟‘‘

’’ہاں، کیوں ؟‘‘

’’آپ ہم پر نہیں لکھ سکتے ؟‘‘

’’کیوں نہیں لکھ سکتے ؟‘‘وہ چونک پڑا۔

’’اس لیے کہ ہم آپ کی سمجھ میں نہیں آ سکتے۔ ‘‘

’’کیوں بھائی! سمجھ میں کیوں نہیں آ سکتے۔ ‘‘

’’ہم آپ سے بالکل الگ ہیں صاحب۔ بالکل الگ۔ ‘‘

’’تو کیا ہوا؟‘‘

’’ہم کو قریب سے دیکھے بنا آپ ہمیں نہیں سمجھ سکتے۔ ‘‘

’’ہم تواسی لیے آئے ہیں کہ قریب سے دیکھیں۔ ‘‘

’’تو ہماری ایک رائے مانیے صاحب۔ ‘‘

’’بولو۔ ‘‘

’’کچھ دنوں تک آپ ہم میں رہے۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے کچھ روز ہم تمہارے ساتھ رہیں گے۔ ‘‘

’’صرف ساتھ رہنے سے کام نہیں چلے گا۔ ‘‘

’’تو؟‘‘

’’آپ کو ہمارا رہن سہن اپنانا ہو گا۔ ہمارا پہناوا پہننا ہو گا۔ ‘‘

’’تمہارا پہناوا پہنناہو گا؟‘‘اس کی نگاہیں چورسیاکی میلی کچیلی دھوتی پر مرکوز ہو گئیں۔ دھوتی کا میل اس کی پتلیوں میں چبھنے لگا۔

اِس رنگ کو اپنے ذہن سے جھٹک دو۔ اور جی کڑا کر کے یہاں رہنے اور اُن لوگوں میں بسنے کا من بناؤ‘‘اس کے اندر کی آواز نے اسے جوش دلایا۔

’’پہن لیں گے۔ ‘‘اُس نے مضبوط لہجے میں اسے جواب دیا۔

’’ہمارا کھانا کھانا ہو گا۔ ‘‘

’’تمہارا کھانا بھی کھائیں گے۔ ‘‘

’’ہماری طرح سوناہو گا۔ ‘‘

’’سوئیں گے۔ ‘‘

’’ہم جو کام کرتے ہیں، کرنا پڑے گا۔ ‘‘

’’کام بھی کرنا پڑے گا؟‘‘

’’اور کیا، کام بھی کرنا پڑے گا۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے، کام بھی کریں گے۔ ‘‘

’’تو آپ ہماری طرح بن جائیے۔ ‘‘

’’لو، بن جاتے ہیں۔ ‘‘

’’آپ اپنے یہ کپڑے اُتارئیے۔ ‘‘

’’اُتار دیں گے، پہلے تم اپنا کوئی کپڑا تو لا دو۔ ‘‘

’’سوکھیا!ارے اوسوکھیا!تنک گھرسے ایک دھوتی تو لانا۔ ‘‘

’’ابھی لایا کاکا۔ ‘‘ایک میلی کچیلی دھوتی آ گئی۔ ‘‘

’’لیجیے صاحب!اِسے پہن لیجیے۔ ‘‘

دھوتی ہاتھ میں لیتے ہی بدبو کا ایک بھبکا اس کے نتھنوں میں سما گیا۔ اس کا چہرہ یک بارگی بگڑ گیا۔

’’برج موہن!بدبو جھیلنے کی عادت ڈالو۔ ٹھیک کرو چہرے کو۔ ‘‘

اندرسے آواز اُٹھی اور اُس نے بدبو برداشت کرنے کی کوشش شروع کر دی۔

’’کپڑے کہاں بدلیں ؟‘‘

’’یہیں، اور کہاں۔ ‘‘

’’لیکن یہاں سب کے سامنے شرم نہیں آئے گی؟‘‘

’’صاحب اِسے بھی اُتارنا پڑے گا۔ ٹھیک ہے، فی الحال اُدھر آڑ میں جا کر بدل لیجیے۔ ‘‘

’’وہ دھوتی لے کر آڑ میں چلا گیا۔ کپڑے بدل کروہ چورسیا کے پاس آیاتواسے دیکھ کر بچّے کھِلکھِلا پڑے۔

’’میلی دھوتی اور اُجلے بنیائن میں وہ سرکس کا جوکر دکھائی دے رہا تھا۔ بچّوں کے ہنسنے پر اسے غصّہ تو بہت آیا مگر اس نے اپنے غصے پر قابو پا لیا۔ ‘‘

’’لو، تمہارے کپڑے توہم نے پہن لیے، بولو، اب اور کیا کرنا ہے ؟‘‘

’’اب چلیے کام پر چلتے ہیں۔ ‘‘

’’کہاں ؟‘‘

’’جنگل میں۔ ‘‘

’’کس لیے ؟‘‘

’’لکڑیاں توڑنے۔ ‘‘

’’لکڑیاں توڑنے ؟‘‘پہلے وہ چونکا، کچھ دیر تک خاموش رہا، پھر دھیرے سے بولا۔

’’اچھّا چلو۔ ‘‘

بے راستے کے راستے پر چلتا ہوا تقریباً تیس چالیس منٹ بعد وہ چورسیا کے ساتھ جنگل پہنچا۔ جنگل پہنچتے پہنچتے وہ پسینے میں شرابور ہو گیا۔ دھوتی سے اس نے اپنے منھ کاپسینہ پونچھا اور ایک جگہ بیٹھ کر جنگل میں اِدھر اُدھر نگاہ دوڑانے لگا۔

’’صاحب! میں تواس پیڑ پر چڑھ رہا ہوں۔ آپ بھی کسی پیڑ پر چڑھ جائیے۔ ‘‘

’’اچھّا۔ ‘‘اس نے اچھّا تو کہہ دیا مگر پیڑ پر چڑھنا اس کے لیے آسان نہیں تھا۔

پوری ہمّت جُٹا کروہ آگے بڑھا۔ ایک پیڑ پر چڑھنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکا۔ ایک اور پیڑ  پر ہمّت آزمائی مگر جلد ہی پھسل کر نیچے آ گرا۔

لگاتار وہ کئی پیڑوں کے پاس گیا، چڑھا، پھسلا، گرا۔ آخر کار تیمور لنگ کی چیونٹی کی طرح ایک پیڑ  پر چڑھنے میں کامیاب ہو ہی گیا۔

کافی احتیاط سے اس نے کچھ سوکھی لکڑیاں توڑیں اور اپنے کو گرنے سے بچاتا ہوا نیچے اُتار لیا۔

احتیاط کے باوجود اس کے ہاتھ پاؤں میں خراشیں آ گئی تھیں۔ ایک ہاتھ لہولہان ہو گیا تھا۔

’’صاحب!آپ تو گھائل ہو گئے ہیں۔ لائیے آپ کے گھاؤ پرمٹّی لگا دوں۔ ‘‘اپنا گٹھّر زمین پر رکھتے ہوئے چورسیا بولا۔

’’مٹّی!۔ کیا کوئی دوا نہیں مل سکتی؟‘‘خوف آنکھوں کے سامنے لہرانے لگا۔

’’صاحب!دوا آس پاس میں کہاں ملے گی۔ اس کے لیے بہت دور جانا پڑے گا۔ تب تک آپ کے شریر کا آدھا خون بہہ جائے گا۔ ڈرئیے نہیں، میں مٹّی کا لیپ لگا دیتا ہوں۔ اِسی سے ٹھیک ہو جائے گا۔ ہم تو یہی لگاتے ہیں۔ ‘‘

’’اچھّا۔ ‘‘مجبوراً اس نے حامی بھری۔

اس کے زخم پر مٹّی لگ گئی مگر وہ اندر ہی اندر ڈرتا رہا کہ کہیں ٹٹنس نہ ہو جائے۔ اِس موقعے کے اُسے جتنے منتر یاد تھے، سب پڑھ ڈالے اور دل ہی دل میں بھگوان سے پرارتھنا کرتا رہا کہ وہ اُسے ٹٹنس سے بچا لے۔

’’صاحب!آج بس اِتنا ہی۔ باقی کل۔ اب گھر چلتے ہیں۔ :‘‘

گھرکا نام سنتے ہی ایک کوٹھی اُس کی نگاہوں میں کھڑی ہو گئی، لان کے پھول اور دیواروں کے رنگ و روغن لہرانے لگے۔

چورسیا کے منع کرنے کے باوجود اپنی لکڑیوں کا گٹھر اس نے خوداُٹھایا اور راستے میں گرتاپڑتا جنگل سے بستی میں آ گیا۔

دونوں کے آگے دوپہرکاکھانارکھ دیا گیا۔

دھبے داراورجگہ جگہ سے بچکی ہوئی المونیم کی تھالی میں ایک عجیب طرح کا بھرتا اور موٹی، مٹ میلی ٹھیکرے جیسی سخت روٹی کو دیکھتے ہی اُس کی ناک بھؤں سکڑ گئی۔ مگر پیٹ کی آگ اس کے ہاتھ کو روک نہ سکی۔

پہلے ہی لقمے میں اُس کا منھ بگڑ گیا۔ حلق تک پہنچتے ہی اول نے گلا پکڑ لیا۔ پانی کی طلب محسوس ہوئی لیکن پانی نے گلا اور دبا دیا۔ اس نے صرف سوکھی روٹی سے پیٹ بھرا۔ روٹی سے اس کا تالو بھی چھل گیا۔

’’کیا روز یہی بھوجن ملے گا؟‘‘سختی سے روکنے کے باوجود یہ سوال اس کے لبوں سے باہر آ گیا۔

’’نہیں، دوسرے پرکار کا کھانا بھی ملے گا‘‘چورسیانے ہمدردانہ لہجے میں جواب دیا۔

کھانا کھا کروہ ایک ڈھیلی ڈھالی چارپائی پر لیٹ گیا۔ اول کی جلن تو کچھ کم ہو گئی تھی مگر تالو کی تکلیف اب بھی برقرار تھی۔

باجرے کی روٹی کسی دھار دار ناخن اور نکیلے دانتوں والے راکشس کی طرح اس کے سامنے منڈلانے لگی۔

روٹی میں چھپے نیش ونشترسے تنگ آ کراس کی نگاہیں اپنے گھرکی ڈائننگ ٹیبل پر پہنچ گئیں۔

پراٹھے، ٹوسٹ مکھن، میٹ مچھلی، دودھ دہی، پھل سبزی، جام جیلی اس کا استقبال کرنے لگے۔

ایک وقت کے کھانے میں گھر یاد آ گیا۔ اُنھیں دیکھو!یہ کھانا نہ جانے کب سے یہ چپ چاپ کھاتے چلے آ رہے ہیں۔ ان کے حلق اور تالوؤں کی تکلیف کا اندازہ لگاؤ!کب سے وہ جل رہے ہیں ؟کب سے وہ چھل رہے ہیں ؟

اُس کے اندرون کی آواز نے اسے اپنے گھرکی ڈائننگ ٹیبل سے واپس کھینچ لیا۔ اور اس کا ذہن اپنے جسم سے نکل کربستی والوں کے حلق میں پہنچ گیا۔

رات کا کھانا آیاتوچورسیا بولا۔

’’صاحب!اس وقت اچھّا سالن پکا ہے۔ ‘‘

’’کیا پکا ہے ؟‘‘

’’مانس پکا ہے۔ ‘‘

’’مانس کہاں سے لائے ہو؟‘‘

’’ایک ڈانگر مرا تھا۔ اس کامانس لائے ہیں۔ ‘‘

’’مرے ہوئے ڈانگر کامانس؟‘‘

’’جی صاحب۔ ‘‘

’’کیا تم لوگ مردار بھی کھاتے ہو؟‘‘

’’ہاں صاحب!۔ اور آپ لوگ؟‘‘

’’نہیں، ہم نہیں کھاتے۔ ‘‘

’’کیوں صاحب؟‘‘

’’مردار کھانا منع ہے۔ ‘‘

’’ہمیں توکسی نے بتایا ہی نہیں صاحب۔ ٹھیک ہے، ہم آپ کے لیے رگڑا پسوا دیتے ہیں۔ ‘‘

’’رگڑا کیا؟‘‘

’’مرچ اور لہسن کی چٹنی۔ ‘‘

’’او۔ ٹھیک ہے چلے گا۔ ‘‘

اس کے لیے مانس کی جگہ رگڑا آ گیا۔ رگڑے کے ساتھ اس نے بڑی مشکل سے ایک روٹی کھائی اورڈھیرساراپانی پی کراس کوٹھری میں چلا گیا، جہاں اس کے سونے کا بندوبست کیا گیا تھا۔

کوٹھری میں گھستے ہی سیلن اور مٹّی کے تیل کی بدبو نے اسے بے چین کر دیا۔ بسترکے نام پر وہاں مونج کے بانوں والی ایک چارپائی پڑی تھی، وہ اسی ننگی چارپائی پر لیٹ گیا۔

کچھ دیر بعد مچھروں کی فوج نے اُس پر یلغار کر دیا۔ ایسالگتا تھاجیسے فوج برسوں کی بھوکی پیاسی ہو۔ زہر میں بجھے تیروتبراس کے جسم میں چبھ چبھ کر ٹوٹنے لگے۔ ایک طرف سے جنگ کی وہ ہولناکیاں جھیل ہی رہا تھا کہ دوسری طرف سے بھی حملہ شروع ہو گیا۔ اُس کی پیٹھ جلنے لگی۔ جیسے کسی نے اُس میں آگ کے گولے داغ دیے ہوں۔

ٹارچ جلا کر دیکھا تو بے شمار موٹے موٹے کھٹمل اس کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔ اُس نے بھی جوابی کار روائی شروع کر دی۔ اُس کے دونوں ہاتھ خون کے دھبّوں سے بھر گئے۔

کھٹمل کومسل کروہ پھرسے لیٹ گیا۔ مگر جلد ہی چارپائی کی خفیہ چھاونیوں سے فوج کی ٹکڑیاں نکل کر پھر سے میدان میں آ گئیں۔

مچھروں اور کھٹملوں کے ڈنک نے اُسے چارپائی سے زمین پر اُتار دیا۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے ؟کہاں جائے ؟کس طرح رات بتائے۔ وہ کوٹھری سے باہر آ کر ٹہلنے لگا۔

اچانک اُس کی آنکھوں میں اُس کا بیڈروم کھل گیا۔ ڈنلپ کے گدّے، پھول دار ریشمی چادر، نرم ملائم تکیے، پرفیوم کی خوشبو، اور خوبصورت شریک سفر کا لمس اس کی تکلیف میں اور اضافہ کرنے لگے۔

دفعتاً ایک گاؤن اُس کی آنکھوں میں لہرا گیا۔

کم سے کم گاؤن ہی پہن لیا جائے کچھ تو بچاؤ ہو سکے گا۔ یہ سوچ کروہ کوٹھری کی طرف لوٹنے لگا۔

کسی نے دیکھ لیا تو؟

اِس وقت کون دیکھے گا؟صبح لوگوں کے اُٹھنے سے پہلے ہی وہ اِسے سوٹ کیس میں رکھ دے گا۔

وہ سوٹ کیس کے پاس پہنچ کر اُسے کھولنے لگا کہ اُس کے اندر کی آواز پھر گونج پڑی۔

’’یہ کیا کر رہے ہو؟مانا کہ دوسرے نہیں دیکھ رہے ہیں مگر تم تو دیکھ رہے ہو؟کیا اِتنی جلد ہار گئے ؟تم تو یہاں کی زندگی جاننے چلے تھے۔ اُن کے دکھ درد کو قریب سے دیکھنے اور اُنہیں محسوس کرنے کے لیے رُکے تھے ؟چورسیا صحیح کہہ رہا تھا کہ تم اس کے جیون پر نہیں لکھ سکتے۔ تم کشٹ نہیں جھیل سکتے۔ جاؤ!چلے جاؤ!بھاگ جاؤ!‘‘

’’نہیں۔ ‘‘سنّاٹے میں نہیں کی آواز دور تک گونج پڑی۔ اس کا ہاتھ ٹھٹھک گیا۔ چابی تالے میں گھومنے کے بجائے باہر نکل آئی۔

وہ سیلن اور تیل کی بدبوسے بھری کوٹھری میں ننگی چارپائی پرپھرسے لیٹ گیا۔ رات بھر مچھر اور کھٹمل اس پر جارحانہ وار کرتے رہے اور وہ اپنے تخلیقی جوش و خروش کے بل بوتے پر ان کے ڈنک اورٹیس کو سہتا رہا۔

صبح جب چورسیا اس سے ملنے آیا تو وہ اسے حیرت سے دیکھتے ہوئے بولا۔

’’صاحب، آپ کے شریر پر تو مچھروں نے بُری طرح گودنا گود دیا ہے۔ ‘‘

چورسیا کے بتانے پر جب اس نے اپنے آپ کودیکھاتواُسے محسوس ہوا جیسے راتوں رات اس کے جسم پر چیچک نکل آئی ہو۔

’’صاحب آپ بے کار میں اپنا جیون خراب کر رہے ہیں۔ آپ واپس چلے جائیے ورنہ ہمارے ساتھ رہ کر آپ کا بھی ———‘‘

’’نہیں نہیں، میں واپس نہیں جاؤں گا۔ میں یہاں رُکوں گا۔ حالات کا مقابلہ کروں گا۔ اورجس مقصد کے لیے آیا ہوں، اُسے ضرور پورا کروں گا۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے۔ آپ کی مرضی، نہانا چاہیں تو وہاں جا کر نہا لیجیے۔ ‘‘چورسیانے ایک چھوٹے سے پوکھر کی طرف اشارہ کیا۔

اُس نے اُدھر دیکھاتواُس کی نظریں شرم سے جھُک گئیں۔ وہاں بہت سی عورتیں بھی ننگی نہا رہی تھیں۔

’’صاحب! آنکھ جھُکانے سے کام نہیں چلے گا۔ یہاں رہنا ہے تو وہیں نہانا پڑے گا۔ اُنھیں کے ساتھ جس طرح ودوسرے مرد نہا رہے ہیں۔ اور ہاں، اور بھی بہت کچھ دیکھنا پڑے گا۔ ‘‘

اُس نے آہستہ آہستہ نظریں اوپر اُٹھا کرپھرسے تالاب کی جانب مبذول کر دیں۔

اُس کے بدن میں جھرجھری سی دوڑ گئی۔

اُس کی طرف کچھ عورتوں نے بھی دیکھا مگر ان کے چہروں پراس قسم کا کوئی تاثر نہیں تھا۔

اُس کے پاؤں دھیرے دھیرے تالاب کی طرف بڑھنے لگے۔ قریب پہنچ کر دیکھا تو اس چھچھلے تالاب میں بہت سارے جانور بھی لوٹ لگا رہے تھے۔

پانی کے رنگ اور بدبو کے بھپکے نے اسے پیچھے ڈھکیل دیا مگر کچھ دیر بعد اس کے پاؤں پھر آگے بڑھ گئے اور بڑھتے چلے گئے۔

رفتہ رفتہ اس نے خودکواس ماحول میں ڈھال لیا۔ صرف گندے پانی ہی میں نہیں بلکہ اس نے اپنے آپ کو وہاں کی گھناؤنی زندگی کی گہرائی میں بھی اُتار لیا۔

کچھ ہی دنوں میں اس کے گورے رنگ پرسیاہی کی پرت چڑھ گئی۔ اس کے گال پچک گئے۔ آنکھیں اندرکودھنس گئیں۔ چہرہ دھوپ میں جل کر کالا پڑ گیا۔ ہاتھ پاؤں میں جگہ جگہ زخم کے نشان بن گئے۔

اس کا حلیہ اس حد تک بدل گیا کہ اسے خود کو پہچاننا مشکل ہو گیامگراسے خوشی تھی کہ وہ اپنے مشن میں کامیاب رہا۔ اس نے وہاں وہ سب کچھ دیکھ لیا جو دیکھنا چاہتا تھا۔

وہاں سے لوٹ کر وہ تخلیقی عمل میں مصروف ہو گیا اور ایک دن اس نے اپنے مشاہدات، تجربات اور محسوسات کو تخلیق کے قالب میں ڈھال کر اسے چھپنے کے لیے سب سے اہم رسالے کو بھیج دیا۔ اسے یقین تھا کہ اس کی یہ تخلیق شاہ کار ثابت ہو گی اور چاروں طرف دھوم مچا دے گی مگر اس کی وہ تخلیق شائع نہ ہو سکی۔ رسالے کے مدیر نے یہ لکھ کر لوٹا دی کہ:

’’اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ رچنا کافی محنت سے رچی گئی ہے۔ رچنا کار نے فنکاری بھی خوب دکھائی ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ رچنا ہماری میگزین کے معیار پر پوری نہیں اُتری۔ اس لیے کہ یہ آج کے زمانے کا ساتھ نہیں دیتی۔ یہ سائبراسپیس میں فٹ نہیں ہوتی۔ ‘‘

مدیر کا خط پڑھ کر اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔ اور اس کے ذہن میں چورسیا کا ایک جملہ گونجنے لگا۔ ’’یہاں کی آتما آپ کو دکھائی دے گی صاحب؟‘‘

٭٭٭

 

 

 

سانڈ

 

’’یہ کیسی بھگدڑ مچی ہے بھائی؟‘‘

سورج پور گاؤں کے ایک بوڑھے نے اپنے بر آمدے سے بھاگنے والوں کو مخاطب کیا — ایک نوجوان نے رُک کر ہانپتے ہوئے جواب دیا۔ ‘‘

’’چاچا !گاؤں میں آج سانڈ پھر گھس آیا ہے۔ ‘‘

’’سانڈ پھرگھس آیا ہے !‘‘بوڑھے کی سفیدلمبی داڑھی اوپرسے نیچے تک ہل اٹھی—

’’ہاں چاچا!پھرگھس آیا ہے اور آج تواس نے ایسی تباہی مچائی ہے کہ پوچھیے مت۔ نتھو کی بچھیا کو خراب کر دیا۔ چھیدی کے بچھڑے کو سینگ مار دیا۔ بھولو کے بیل کو ٹکریں مار مار کر لہولہان کر دیا۔ کالو کی گائے بھینس کے چارہ پانی کے برتن کو توڑ پھوڑ دیا۔ بدھو اور بھولا کی تیار سبزیوں کو نوچ کھسوٹ کر ملیامیٹ کر دیا۔ اب بھی بورایا ہوا اینڈتا پھر رہا ہے۔ نہ جانے اور کیا کیا کرے گا؟ کس کس پر قیامت ڈھائے گا؟‘‘

’’تم لوگ دھام پور والوں سے کہتے کیوں نہیں کہ وہ اپنے سانڈ کو روکیں۔ ادھر نہ آنے دیں۔ ‘‘

’’کہا تھا چاچا!گاؤں کے بہت سے لوگوں نے مل کر کہا تھا۔ ان سے بتایا تھا کہ ان کے گاؤں کا سانڈ ہمارا کتنا نقصان کر رہا ہے۔ مگر جانتے ہیں اُنھوں نے کیا جواب دیا۔ ‘‘

’’کیا جواب دیا؟‘‘

’’اُنھوں نے یہ جواب دیا کہ بھلاسانڈ کو بھی کہیں روک کر رکھا جا سکتا ہے۔ سانڈ تو دیوی دیوتا کاپرسادہوتا ہے۔ اسے بھگوان کے نام پر چھوڑ ا جاتا ہے اور بھگوان کے نام کا سانڈ بھگوان کی بنائی ہوئی اس دنیا میں کہیں بھی بنا روک ٹوک جا سکتا ہے۔ بھگوان ہی کی طرح اس کا بھی سب پہ حق ہے۔ سب میں اس کا حصہ ہے۔ وہ جو چاہے کھاسکتا ہے۔ اسے روک کر اپنے کو بھگوان کی نظروں میں دوشی اور نرک کا بھو گی بنانا ہے کیا——؟چاچا!میری سمجھ میں نہیں آیا کہ دھام پور کے لوگوں نے ایسا کیوں کہا؟ کیاسچ مچ سانڈ بھگوان کے نام پر چھوڑا جاتا ہے ؟‘‘‘

’’ہاں بیٹے !بات تو سچ ہے۔ لوگ اپنی کسی مراد کو پانے کے لیے بھگوان یا دیوی دیوتا سے منت مانتے ہیں کہ اگر ان کی مراد پوری ہو گئی تو وہ بھگوان یا دیوی دیوتا کے نام کا کوئی سانڈ چھوڑ دیں گے اور اپنی گائے کے بچھڑے کو یاکسی دوسری گائے کے بچھڑے کو خرید کر آزاد چھوڑ دیتے ہیں۔ چھوڑنے سے پہلے اس بچھڑے کو خوب مل مل کر نہلاتے ہیں۔ اس کے گلے میں پھولوں کا ہار ڈالتے ہیں۔ گاؤں والوں کو ایک جگہ جمع کر کے پوجا پاٹ کرتے ہیں اورسب کے سامنے بچھڑے کے جسم یا ماتھے پر بھگوان یا دیوی، دیوتا کا کوئی پکّا نشان بنا دیتے ہیں۔ اس کے بعد وہ بچھڑے کو کھونٹے سے کھول کر آزاد کر دیتے ہیں۔

چونکہ وہ بھگوان کے نام پر چھوڑا جاتا ہے۔ اس لیے اس کے کھانے پینے اور گھومنے پھرنے میں کوئی کسی طرح کی رکاوٹ نہیں ڈالتا اور وہ آزادی اور بے فکری سے خوب کھا پی کر بہت جلد بچھڑے سے سانڈ بن جاتا ہے۔ ‘‘

’’پھر تو دھام پور والوں نے ٹھیک ہی کہا تھا چاچا؟‘‘

’’ٹھیک تو کہا تھا، مگر یہ بھی تو ٹھیک ہے کہ کوئی اپنی بربادی کو چپ چاپ نہیں دیکھ سکتا۔ اپنے بچاؤ کے لیے اسے بھی تو کچھ کرنا ہی پڑتا ہے۔ ‘‘

’’تواب ہمیں کیا کرنا چاہیے چاچا؟‘‘

’’تم لوگ کانجی ہاؤس کے افسروں سے ملو۔ گاؤں کا حال بتاؤ۔ اور ان سے کہو کہ وہ دھام پور گاؤں کے سانڈ سے ہمارے گاؤں کو تباہ ہونے سے بچائیں۔ ان سے یہ بھی کہو کہ یہ سانڈ پاگل ہو گیا ہے۔ اس لیے اسے جلد سے جلد کانجی ہاؤس میں بند کر دیا جائے۔ ورنہ ہمارے گاؤں کے ساتھ ساتھ دوسرے گاؤں کو بھی روند ڈالے گا۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے چاچا!میں آج ہی گاؤں والوں کو تیار کرتا ہوں۔ ‘‘

سورج پور والے اپنی تباہی کی خبر اور سانڈ کی شکایت لے کر کانجی ہاؤس پہنچے۔

کانجی ہاؤس کے افسرِ اعلیٰ نے ان کا دکھڑا سن کر کہا۔

’’آپ لوگوں کی تکلیف سن کر ہمیں بہت دُکھ ہوا۔ مگر افسوس کہ اس سلسلے میں ہم آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔‘‘

’’کیوں صاحب؟‘‘گاؤں والے اس کی طرف دیکھنے لگے۔

’’اس لیے کہ اس کانجی ہاؤس میں لا وارث سانڈ کو بند کرنے کا چلن نہیں ہے۔ یہاں تو ایسے جانوروں کو بند کیا جاتا ہے جن کا کوئی نہ کوئی وارث ہوتا ہے۔ جو کچھ دنوں کے اندر اندر اپنے جانوروں کو جرمانہ بھر کر چھڑا کر لے جاتا ہے۔ اگر ہم ایسے جانوروں کو باندھ کر رکھنے لگے تو کچھ دنوں میں یہ ہاؤس ہی بند ہو جائے گا۔ ‘‘اس نے نہایت ہی نرم لہجے میں جواب دیا۔

افسر کا جواب سن کر گاؤں والے گڑ گڑا کر بولے ۔

’’صاحب !کچھ کیجیے۔ ‘‘ورنہ تو ہمارا ستیاناس ہو جائے گا۔ ہم کنگال ہو جائیں گے۔ ‘‘

افسر نے انہیں سمجھاتے ہوئے پھر کہا۔

’’ہم مجبور ہیں۔ ہم ایسے جانور کو کانجی ہاؤس میں بالکل نہیں رکھتے۔ آپ لوگوں کو میری بات پر شاید یقین نہیں آ رہا ہے۔ آئیے میرے ساتھ۔ ‘‘

افسر گاؤں والوں کو اپنے ساتھ لے کر کانجی ہاؤس میں داخل ہوا۔

گاؤں والوں کی نگاہیں وہاں پر بندھے ہوئے جانوروں کو گھورنے لگیں۔ انہیں کہیں بھی کوئی سانڈ نہیں ملا۔ وہاں تو ایسے جانور بندھے تھے جو بہت ہی کمزور اور دبلے پتلے تھے جن کے پیٹ اندرکودھنسے ہوئے تھے اور پسلیاں باہر کو نکلی ہوئی تھیں۔

کانجی ہاؤس کے اندر کا حال دیکھ کر گاؤں والے واپس لوٹ آئے اور اپنے کو قسمت کے حوالے کر کے بیٹھ گئے۔

ایک دن سانڈنے گاؤں میں پھر تباہی مچائی۔ اس کے بعد ایک باراورگھس آیا۔ پریشان ہو کر گاؤں والے ایک جگہ جمع ہوئے۔ بوڑھے نے گاؤں والوں کو اس بار یہ مشورہ دیا کہ وہ کانجی ہاؤس کے اوپر والے محکمے میں جا کر اپنی فریادسنائیں۔ گاؤں والے وہاں بھی پہنچے۔ وہاں کے افسروں نے گاؤں والوں کی درخواست پرسنجیدگی سے غور کیا اور کانجی ہاؤس کے افسران کو زور دے کر لکھا کہ وہ دھام پور والوں کو سانڈ کی تباہی سے بچائیں اور گاؤں والوں سے کہا کہ وہ کانجی ہاؤس کے افسران سے رجوع کریں۔ وہ ضرور اس سلسلے میں ضروری کار روائی کریں گے۔

گاؤں والے پھر کانجی ہاؤس پہنچے —افسران نے ان سے کہا۔

’’ٹھیک ہے۔ آپ لوگ سانڈ کو پکڑ کر لائیے۔ ہم اسے یہاں بند کر لیں گے۔ ‘‘

گاؤں والے کانجی ہاؤس کے افسرکی بات سن کر بہت خوش ہوئے اور گاؤں آ کر انہوں نے سانڈ کو پکڑنے کی تیاری شروع کر دی۔

گاؤں کے مضبوط اور پھرتیلے نوجوان ہر طرح سے تیار ہو کر سانڈ کا انتظار کرنے لگے۔ جلد ہی موقع ہاتھ آ گیا۔ سانڈ کے گاؤں میں گھستے ہی نوجوانوں کی ٹولی اپنے ہاتھوں میں لاٹھی اور رسّی لے کر اس کے پیچھے دوڑ پڑی۔

نوجوانوں نے سانڈ کو گھیرنے اور اسے گرا کر پکڑنے میں بڑی ہوشیاری دکھائی۔ اَن تھک محنت کی مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ سانڈ ان کے نرغے سے نکل بھاگا۔ اس کوشش میں بہت سے نوجوان زخمی بھی ہو گئے۔ مگر نوجوانوں نے بھی ہمت نہیں ہاری۔ وہ اس کا پیچھا کرتے رہے۔ وہ سانڈ سورج پور گاؤں سے نکل کر اپنے گاؤں یعنی دھام پور کی طرف بھاگا۔ نوجوان بھی اس کے پیچھے دوڑے۔

دھام پور والوں نے جب یہ دیکھا کہ کچھ لوگ ان کے سانڈ کو دوڑا رہے ہیں اور دوڑانے والوں کے ہاتھوں میں لاٹھیاں اور رسّیاں بھی ہیں تووہ اپنے سانڈ کو بچانے کے لیے اپنے گھروں سے لاٹھی، بھالے اور بندوقیں لیے باہر نکل آئے اور پیچھا کرنے والوں کو للکارتے ہوئے چلائے۔

’’خبردار!وہیں رک جاؤ!آگے مت بڑھو۔ اگر تم نے ہمارے سانڈ کو ہاتھ بھی لگایا توہم تمہارے ہاتھ توڑ ڈالیں گے۔ تمھیں گولیوں سے بھون دیں گے۔ یہیں زمین پر ڈھیر کر کے رکھ دیں گے۔ جانتے نہیں،یہ سانڈ ہمارے دیوتا پر چڑھایا  گیا پرساد ہے۔ ‘‘

سانڈ کا پیچھا کرنے والے سورج پور کے نوجوانوں نے جب دھام پور والوں کی دھمکی سنی اور ان کے ہاتھوں میں لہراتے ہوئے بھالوں، لاٹھیوں اور تنی ہوئی بندوقوں کو دیکھا تو ان کے پاؤں تھرا کر تھم گئے اور وہ آگے بڑھنے کے بجائے منھ لٹکائے ہوئے پیچھے پلٹ آئے۔

اس حادثے کے بعد دھام پور والے اور شیر ہو گئے۔ اور اب وہ اپنے سانڈ کو آئے دن جان بوجھ کر سورج پور گاؤں کی طرف ہانکنے لگے۔

سورج پور گاؤں کی تباہیاں جب حد سے زیادہ بڑھ گئیں تو ایک دن بوڑھے نے گاؤں کے چھوٹے بڑے سبھی کو بلا کر کہا۔

’’میرے گاؤں کے پیارے لوگو!ہم نے ہر طرح کی کوشش کر کے دیکھ لی مگر سانڈ سے اپنے گاؤں کو نہ بچاس کے اور یہ بھی اندازہ ہو گیا کہ اگر ہم سانڈ کو پکڑنے کے لیے زیادہ کچھ کریں گے تو اس کی مدد کے لیے دھام پور والے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ نتیجے میں بھاری خون خرابہ ہو گا اور تباہی مچے گی۔ اس لیے اب ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ ہم لوگ بھی اپنے دیوتا کے نام پر ایک بچھڑا چھوڑ دیں اور جلد سے جلد اسے سانڈ بنا دیں۔ ‘‘

’’اس سے کیا ہو گا چاچا؟‘‘——کئی نوجوان ایک ساتھ بول پڑے۔ ان کی حیران آنکھیں بوڑھے کے چہرے پر مرکوز ہو گئیں۔

’’اس سے یہ ہو گا کہ ہماراسانڈ بھی دھام پور والوں کا وہی حال کرنے لگے گاجو اپنے سانڈ سے وہ ہمارا کرواتے ہیں۔ اُدھر بھی جب تباہی مچے گی تب ان کی آنکھیں کھلیں گی اور وہ اپنے سانڈ کو روکنے پر مجبور ہوں گے۔ ‘‘

’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں چاچا۔ یہ راستہ ہی ان کے لیے ٹھیک ہے۔ ‘‘نوجوانوں کے چہرے انتقام کی آگ سے دہک اٹھے۔ مگر بعض بزرگوں کے چہروں پرسنجیدگی طاری ہو گئی۔

سورج پور والوں نے ایک بچھڑا خریدا اسے نہلایا دھلایا۔ گلے میں ہار پہنایا اور سب کے سامنے اس کی پیٹھ پر دیوتا کے نام کا ایک ٹھپّہ لگا کراسے آزاد چھوڑ دیا۔

کمزور بچھڑا کھونٹے سے الگ ہوتے ہی آزادی اور بے فکری سی کھانے پینے اور پروان چڑھنے لگا اورسارے گاؤں کا چارہ پانی کھا پی کر بہت جلد بچھڑے سے سانڈ بن گیا۔

سانڈ بن کر جب اس نے اینڈنا اورسینگ مارنا شروع کیاتوسورج پور والوں نے اس کا رخ دھام پور والوں کی طرف موڑ دیا۔ دھام پور گاؤں میں گھس کر اس نے گاؤں کو روندنا اورتہس نہس کرنا شروع کر دیا۔ وہاں بھی بیل لہو لہان ہونے لگے۔ ان کے چارہ، پانی کے برتن بھی ٹوٹنے پھوٹنے لگے۔ ان کے کھیت اور کھلیان بھی تباہ و برباد ہونے لگے۔

دونوں طرف سے سانڈ ایک دوسرے کی جانب ہانکے جانے لگے۔ کچھ دنوں بعد ایک روز ایک عجیب و غریب منظر رونما ہوا۔ دونوں سانڈوں کو لوگوں نے ایک ساتھ گھومتے ہوئے دیکھا۔ دونوں اینڈتے ہوئے پہلے سورج پور گاؤں میں گھسے اور دونوں نے مل کر گاؤں کو روند روند کر ملیا میٹ کیا۔ پھر وہاں سے ایک ساتھ نکلے اور دھام پور میں گھس کر توڑ پھوڑ مچانے لگے۔

یہ منظر دیکھ کر دونوں گاؤں والوں کی آنکھیں حیرت میں ڈوب گئیں۔

اس دن کے بعد دونوں سانڈوں کا ایک ساتھ گھومنا اور مل جل کر گاؤں کو روندنا معمول بن گیا۔ دونوں گاؤوں کے علاوہ آس پاس کے دوسرے گاؤں بھی ان سانڈوں کی چپیٹ میں آنے لگے۔

اپنی بربادی سے تنگ آ کر آس پاس کے سبھی گاؤں والے مل جل کرسانڈوں کو مارنے کا منصوبہ بنانے لگے مگرکسی طرح یہ خبر محکمۂ تحفظِ وحشیان تک پہنچ گئی اوراس نے ان سانڈوں کی پیٹھ پر اپنا ٹھپّہ لگا دیا جو اس بات کا اعلان تھا کہ یہ جانور محکمۂ تحفظِ وحشیان کی حفاظت میں ہیں۔ انہیں کوئی بھی مار پیٹ نہیں سکتا۔

لوگوں نے یہ دیکھ کر سانڈوں کو مارنے پیٹنے کے بجائے اپنا اپناسرپیٹ لیا۔

٭٭٭

 

 

 

ہاؤس ہوسٹس

 

ایر کنڈیشنڈ آفس میں ایزی چیئر پربھی مسٹرچوپڑادباؤ اور تناؤ لیے بیٹھے تھے۔ وہ ایک نئی قسم کے بواسیر میں مبتلا تھے۔ مسّے ان کے دماغ میں تھے۔ جس دن مسّے زیادہ پھول جاتے مسّوں میں ہل چل سی مچ جاتی اور دباؤ سے چہرے کا تناؤ بڑھ جاتا۔

آفیسر بیگ میز پر کب سے تیار پڑا تھا مگر وہ اسے اُٹھا نہیں پا رہے تھے، جیسے اس میں کسی نے آتش گیر مادہ رکھ دیا ہو۔ آتش گیر مادہ تواس میں نہیں تھا مگر گھر جا کر جب بھی وہ بیگ رات میں کھلتا تو دھماکا ضرور ہو جاتا۔ کاغذوں کے پھیلتے ہی گھر میں بھونچال آ جاتا۔ ماحول کی دھجّیاں بکھر جاتیں۔ در و دیوار میں دھواں بھر جاتا۔ یہ اور بات ہے کہ گھرکے بھونچال، ماحول کے بکھراؤ اور در و دیوار کے  دھوئیں کا سبب صرف یہ بیگ ہی نہیں تھا بلکہ گھر کے اردگرد آئے دن کھلنے والے وہ بکسیز بھی تھے جن سے نکلنے والا تیز رنگوں اور بوؤں کا بارودی غبار کھڑکیوں، دروازوں اور روشن دانوں سے گھس کر دل و دماغ پر چڑھتا اورسانسوں میں بستاجا رہا تھا۔ کچھ اور چیزیں بھی تھیں جو باہری دباؤ کے باعث اندرسے اٹھ رہی تھیں اور ان سب سے گھرکا توازن بگڑتا جا رہا تھا۔

گھرکے بگڑے ہوئے توازن سے نکلنے والی بے ہنگم، کرخت اور بے رس آوازیں حسبِ معمول مسزچوپڑا کے کانوں میں ادھم مچا رہی تھیں اور توازن کے اس بگاڑسے بننے والی بد رنگ بے کیف اور بد ہیئت صورتیں آنکھوں میں بچھوؤں کی طرح اپنا ڈنک چبھو رہی تھیں۔

مسٹرچوپڑاکے مشتعل مسّوں کا ایک علاج سنکائی ضرورتھاجس کا انہیں تجربہ بھی تھا۔ وہ کسی بار یا کیبرے میں چلے جاتے۔ شراب کا نشہ انہیں سن کر دیتا یا کیبرے ڈانسرکے عریاں بدن سے نکلنے والی گرمی دماغ کے مسّوں کو گرما کر نرم بنا دیتی۔ کولھوں کے جھٹکوں سے انہیں آرام مل جاتا مگر گھر پہنچتے ہی سوئے ہوئے مسّے اپنی آنکھیں کھول دیتے۔

جب بھی تناؤ بڑھتامسٹرچوپڑاکا ذہن ادھر ادھر بھٹکتا ہوا اپنی فیکٹری کے بنے کھلونوں پر آ کر رک جاتا۔ ان کے سامنے طرح طرح کے کھلونے گھومنے لگتے۔ ان میں کچھ ایسے بھی ہوتے جو روتے بچّوں کوہنسادیتے، ضدّی بچّوں کی ضد کو دبا دیتے، ان کا دھیان ایک طرف سے دوسری جانب موڑ دیتے، اپنے کرتب سے بچّوں کے پیٹ میں گدگدیاں بھر دیتے۔ پژمردہ چہروں پر شادابیاں سجادیتے۔ ویران آنکھوں میں چراغ جلا دیتے۔

آج بھی ان کا ذہن کھلونوں پر آ کر رک گیا تھا۔

کھلونوں کے سامنے بچّوں کی جگہ جوان اور بوڑھے کھڑے تھے، جن کی ویران آنکھیں، کھنچے ہوئے چہرے، خشک ہونٹ، پر شکن پیشانی، سخت سپاٹ پیٹ، سب کے سب کھلونوں کی سمت ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے تھے۔

’’سرابھی تک——‘‘مسٹر چوپڑا آواز پر چونک پڑے۔ سامنے ان کے مینجر ملہوترا کھڑے تھے۔

’’ہاں مگر آپ!مسٹر چوپڑا نے ملہوترا کی طرف تعجب سے دیکھتے ہوئے کہا۔

’’سر آپ کو ایک خوش خبری سنانی ہے۔ ‘‘

’’سنائیے۔ ‘‘

’’آپ کے خوابوں کی تعبیر مل گئی سر!‘‘

’’کون سے خواب؟کیسی تعبیر؟‘‘مسٹرچوپڑا کی آنکھیں پھیل گئیں۔

’’سرہم نے ہاؤس ہوسٹس تلاش کر لی ہے۔ ‘‘

ہاؤس ہوسٹس؟

’’یس سر!‘‘

مسٹر چوپڑا کے ذہن میں ہوائی جہاز اڑنے لگے۔ آس پاس خلائی دوشیزائیں سجی سنوری مہکتی اور مسکراتی ہوئی پھرنے لگیں۔ شگفتہ جسموں کی تازگی دل و دماغ کو تر و تازہ کرنے لگی۔

سفرکی گرد چھٹنے لگی۔ تناؤ ڈھیلا پڑنے لگا۔ کاروباری اُلجھنوں، گھریلو جھمیلوں، سودوزیاں کی جھنجھٹوں اور جھنجھلاہٹوں سے مکتی ملنے لگی۔ ماضی کی تلخیوں پر پردہ پڑ گیا۔ مستقبل کی چنتاؤں پر غلاف چڑھ گیا۔ حال ہوا کی طرح ہلکا ہو گیا۔

’’کیاسچ مچ ہاؤس ہوسٹس مل گئی؟‘‘

’’یس سر!‘‘

’’کیا یہ ہاؤس ہوسٹس بھی ویسی ہی ہو گی جیسی کہ جہازوں میں ہوتی ہیں جو پورے سفر میں ہر ایک مسافرکی شریک حیات بنی رہتی ہیں، جن سے بنا ضرورت بولنے کو جی چاہتا ہے۔ بنا بھوک پیاس کے بھی جن سے کھانے پینے کی چیزوں کی فرمائش کرنے کی خواہش ہوتی ہے۔ جنھیں ہر کوئی اپنی آنکھوں میں قید کر لینا چاہتا ہے۔ جن کی بدولت ہوائی جہاز کا سفر ہوا کی طرح سبک ہو جاتا ہے ؟

’’سران سے بھی بہتر ہے ہماری ہاؤس ہوسٹس۔ ‘‘

کیا؟ ’’آنکھوں کے ساتھ مسٹر چوپڑا کے ہونٹ بھی پھیل گئے۔

’’میں سچ کہہ رہا ہوں سر!آپ کے خوابوں کی تعبیر کی تلاش میں ہم کئی ہوائی میزبانوں کے گھر بھی گئے مگر گھروں کے اندر ان کے جسموں پر ہوائی جہاز والا رنگ و نور نظر نہ آیا۔ ان کا چہرہ پھیکا، باسی اوربوسیدہ لگا۔ ان سے بات کرتے وقت ان کے لہجوں میں جھنجھلاہٹ اور اکھڑ پن بھی محسوس ہوا۔ سر !ہم نے جوہاؤس ہوسٹس حاصل کی ہے اس کا رنگ و روپ ہمیشہ تر و تازہ رہے گا۔ اس کا لب و لہجہ بھی سداپرسکون  اور پر کیف  بنا رہے گا۔ ‘‘

’’مجھے یقین نہیں آ رہا ہے۔ ‘‘

’’یقین آ جائے گا!جب آپ اسے دیکھیں گے۔ ‘‘

’’میں جلد سے جلد دیکھنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

’’میں تواسی لیے حاضر ہوا ہوں سر۔ ‘‘

مسٹر چوپڑا اسپرنگ کی طرح اچھل کر اپنی کرسی سے اترے اور ملہوترا کے پیچھے پیچھے اپنی فیکٹری کے گیسٹ ہاؤس تک پہنچ گئے۔ ملہوترا نے آگے بڑھ کر کال بٹن کو دبا دیا۔ بٹن کے دبتے ہی دروازہ کھل گیا۔

ایک نہایت حسین و جمیل دوشیزہ نے جاں بخش مسکراہٹ سے استقبال کیا۔ مسٹر چوپڑا کی نگاہیں دوشیزہ کے مقناطیسی رنگ و روپ پرکسی کمزور لوہے کی طرح فوراً چپک گئیں۔ متناسب، سڈول، شگفتہ، شاداب اور پر آب جسم نے مسٹر چوپڑا کے پژمردہ اور ویران آنکھوں کے آگے رنگ و نور بکھیر دیے۔

چند لمحے بعد اس حسنِ مجسم کے لب لعلیں بھی کھل گئے۔

’’یہ کیا؟آپ نے پھر چہرے کو تَناؤ سے بھر لیا؟میں کہتی ہوں آخر اتنی سوچ فکر کیوں ؟ یہ بھاگ دوڑکس لیے ؟——زندگی مسکرانے کے لیے ملی ہے، اُداس ہونے کے لیے نہیں۔ میں اس چہرے پر پھول دیکھنا چاہتی ہوں، خار نہیں۔ آئیے گرم پانی تیار ہے، منہ ہاتھ دھو لیجیے، کچھ ریلیف مل جائے گا۔ ‘‘

مسٹر چوپڑا حیرت واستعجاب سے اس حسینہ کی طرف دیکھتے ہوئے باتھ روم کی جانب بڑھ گئے۔ اس کی آواز کا جادو اور لہجے کی اعتمادی قوت نے انہیں واش بیسن تک پہنچا دیا۔ باتھ روم سے باہر نکلے تووہ پھر ان کے پاس آ گئی۔

’’کیا لیں گے ؟چائے، کافی؟یا کوئی سافٹ ڈرنک؟ کہیئے تووہسکی کا ایک پیگ بنادوں ؟‘‘

مسٹر چوپڑا اس کی آنکھوں کے پر خلوص بھاؤ اور باتوں کے مترنم بہاؤ میں بہنے لگے۔ چہرے کا کھنچاؤ کم ہونے لگا۔ بوجھل من سبک ہونے لگا جیسے ان کے مسّوں کو ٹھنڈک پہنچ گئی ہو۔

’’سر!اب ذرا اس کا ایک دوسرا رول دیکھیے۔ ملہوترا نے ایک اسکول بوائے کو بلوایا جو اپنی پیٹھ پر کتابوں کا بستہ لادے ایک دوسرے کمرے میں تیار بیٹھا تھا۔ بچّہ اشارہ پا کر دروازے کی طرف بڑھا۔ پیچھے پیچھے دروازے تک ہاؤس ہوسٹس بھی پہنچ گئی۔

’’دیکھو بیٹے !ٹھیک سے اسکول جانا۔ راستے میں کہیں اِدھر اُدھر نہ رکنا۔ چھٹی ہونے پر سیدھے گھر پہنچنا۔ لنچ ٹائم میں لنچ ضرور کھا لینا۔ بھولنا نہیں۔ پیاس لگے تو پانی صرف اپنی بوتل کا پینا۔ اورسنو ایک قدم آگے بڑھ کر اس نے بچّے کی پیشانی پر ایک پیار بھرا بوسہ ثبت کر دیا۔

بچّہ لمسِ محبت سے سرشار ہو کر جھومتا ہوا آگے بڑھ گیا۔

ہاؤس ہوسٹس کے ہونٹوں سے چھلکتی ہوئی ممتا مسٹر چوپڑا کے من کے پیالے میں بھر گئی۔ ان کا سراپامعصوم بچّے کی طرح مسکرا اُٹھا۔

’’سرایک اور روپ ملاحظہ فرمائیے۔ ‘‘ملہوترا نے آگے بڑھ کر دروازہ بند کر دیا۔

تھوڑی دیر بعد کال بیل بجی اورہاؤس ہوسٹس دروازے پر پہنچ گئی۔ دروازہ کھلا۔ سامان سے لدی پھندی ایک عورت اندر داخل ہوئی۔

’’میم صاحب!شاپنگ کیسی رہی؟لگتا ہے آپ بہت تھک گئی ہیں۔ بیٹھیے پہلے میں آپ کے لیے گرما گرم کافی لاتی ہوں۔ پھر آپ کے جسم کا مساج کر دوں گی۔ آپ پھرسے فریش ہو جائیں گی۔ ‘‘

’’کیسی لگی سر؟‘‘

’’بہت اچھّی۔ بہت ہی پیاری۔ ایک دم فنٹاسٹک!‘‘

’’تھینک یوسر!‘‘

’’مگر ملہوترا!‘‘

’’سر؟‘‘

’’گھر کے اندر جا کر کہیں یہ بھی ایرہوسٹس کی طرح باسی اور پھیکی تو نہیں ہو جائے گی۔ ‘‘

’’بالکل نہیں سر!ذرا اسے غور سے تو دیکھیے۔ اس کی جلد میں جوکساؤ ہے وہ کبھی ڈھیلا نہیں پڑے گا۔ اوراس کا رنگ تو اتنا پختہ ہے کہ کسی بھی موسم کا واراسے پھیکا نہیں کر سکتا۔ اوراس کے لب و لہجے میں ایسی جاذبیت ہے کہ قیامت تک بھی ختم نہیں ہو گی۔ ‘‘

’’تو کیا یہ——؟‘‘حیرت سے مسٹر چوپڑا ملہوترا کی طرف دیکھنے لگے۔

’’یس سر!‘‘

’’ونڈر فل !میں تو سمجھ رہا تھا کہ——بھئی ملہوترا تم نے واقعی کمال کر دیا۔ آئی ایم پراؤڈ آف یو۔ ‘‘

’’سر!کمال تو اس کا ہے جو اس کے اندر ہے۔ جو اتناsensitiveہے کہ پیروں کی چاپ سے سمجھ جاتا ہے کہ آنے یا جانے والا مرد ہے یا عورت ہے۔ جوان ہے یا بوڑھا ہے۔ یا بچّہ ہے۔ جو یہ بھی محسوس کر لیتا ہے کہ کوئی آ رہا ہے یا جا رہا ہے۔ جسے وقت کا بھی احساس رہتا ہے اور جو جنس، عمر، وقت، حیثیت، موقع، ماحول، موسم سب کو نگاہ میں رکھتا ہے اور اسی کے مطابق اپنا رول پلے کرتا ہے۔ ‘‘

’’واہ ملہوترا واہ !آج پتہ چلا کہ تم ایک کامیاب بزنس مین اور اچھّے سائنس داں ہی نہیں بلکہ ایک عظیم تخلیق کار بھی ہو۔ سچ مچ تم نے میرے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈ نکالی ہے۔ اب جلد سے جلد یہ تخلیق میرے  گھر پہنچ جانی چاہیے۔

’’سر!لیکن ایک درخواست ہے ‘‘

’’بولو‘‘

’’سر ہم اس کی نمائش کرنا چاہتے ہیں اگر آپ اجازت دیں تو۔ ‘‘

’’ مسٹر چوپڑا سوچ میں پڑ گئے ‘‘کچھ دیر کے بعد بولے۔

’’ٹھیک ہے مگر نمائش میں دیر نہیں ہونی چاہیے۔ ‘‘

’’بالکل دیر نہیں ہو گی سر!‘‘

بہت جلد نمائش کی تیاریاں مکمل کر لی گئیں۔ ہاؤس ہوسٹس نمائش کے لیے شہر کے سب سے بڑی آرٹ گیلری میں رکھی گئی۔ دیکھنے والوں کا تانتا لگ گیا۔ ہاؤس ہوسٹس کے مختلف طرزوں اور روپ کا مظاہرہ دیکھ کر لوگ دنگ رہ گئے۔

نمائش کے بعد ملہوترا نے ایک موٹاسارجسٹر مسٹر چوپڑا کے سامنے رکھ دیا۔

یہ کیا ہے ؟

’’سر! اس میں لوگوں کے کمنٹسCommentsہیں۔ ‘‘

مسٹر چوپڑا نے رجسٹرکھول کر اِدھر اُدھر سے پڑھنا شروع کیا۔

’’آپ کی فیکٹری نے یہ ایک ایسا جاندار کھلونا بنایا ہے جو بے جان جسموں میں بھی جان ڈال دیتا ہے اور جو بچّہ، بوڑھا، جوان، مرد، عورت سب کے لیے کشش رکھتا ہے۔ (رپورٹر)

’’اس تخلیق کو دیکھ کر میری طرح بہت سے، ادیب تخلیق کرنا بھول جائیں گے۔ ‘‘  (ادیب)

’’آپ اسے بیچنا چاہیں تومیں اس کے منہ مانگے دام دے سکتا ہوں۔ ‘‘ (تاجر)

’’روبوٹ سائنس کی ایک بہت بڑی دین ہے مگر اس میں خوبصورتی پیدا نہیں کی جا سکی۔ آپ نے اس ماڈل کو حسن عطا کر کے سائنس کو بہت آگے بڑھا دیا ہے۔       (سائنس داں )

’’آپ اسے میرے گھر پہنچا دیجیے۔ بدلے میں جو چاہے کرا لیجیے ‘‘     (منسٹر)

’’مجھے یہ اتنی اچھّی لگی کہ میں اپنے ممی پاپا کو بھی بھول گئی۔ ‘‘   (طالبہ)

’’میں ایک کم تنخواہ والا ملازم ہوں۔ اسے خرید نہیں سکتا۔ اس لیے جی چاہتا ہے اسے چرا کر اپنے گھر لے جاؤں۔‘‘       (ٹیچر)

’’نوکری اگر نہیں، تو یہ ہاؤس ہوسٹس ہی مجھے دے دی جائے۔ ‘‘ (بے روزگار)

’’یہ تو اتنی قیمتی ہے کہ اگراس کی اسمگلنگ کی جائے تو ہیرا، سونا، چرس، حشیش، افیون، براؤن شوگر سب پر پانی پھرسکتا ہے۔   (اسمگلر)

’’اتنی پیاری چیز کو آپ نے یہاں بند کر رکھا ہے۔ اسے گھر لائیے نا۔ ‘‘ مسز اوشاملہوترا، وائف آف ایم۔ آر۔ ملہوترا،  مینجر ٹوائز کمپنی

٭٭٭

 

 

 

 

مِسنگ مَین

 

 

ہمارے اپنے مکان کی دیواروں پر میری پسندکارنگ ابھی چڑھنا شروع ہی ہوا تھا کہ اسے دیکھ کر میرے بچّوں کی ناک بھوں سکڑ گئی۔

بیٹا بولا، ’’پاپا!یہ کیسا رنگ کرا رہے ہیں ؟پلیزاسے روک دیجیے۔ ‘‘

’’ہاں، پاپا!یہ بالکل اچھّا نہیں لگ رہا ہے۔ موُ یا کوئی اور نیا کلر کرائیے۔ ‘‘

بیٹی بھی بول پڑی۔

’’کیوں ؟‘‘اس رنگ میں کیا خرابی ہے ؟‘‘میں نے پوچھا۔

پاپا،یہ بہت ڈل اور بھدّا لگ رہا ہے۔ اس سے تو مکان کی بیوٹی ہی خراب ہو جائے گی۔ ‘‘بیٹے نے خرابیاں گنوائیں۔

’’ہاں پاپا! سنی ٹھیک کہہ رہا ہے۔ یہ بہت ہی بے کار کلر ہے۔ ‘‘بیٹی نے تائید کی۔

’’نہیں، نہیں یہ رنگ اچھّا ہے۔ یہی ٹھیک رہے گا۔ ‘‘

’’کیا پاپا!آپ کا ٹیسٹ کیسا ہے ؟دیکھئے یہ بالکل نہیں جچ رہا ہے۔ پلیز اسے روک دیجیے۔ ‘‘بیٹا زور دینے لگا۔

’’فارگوڈسیک پاپا۔ اسے نہ کرائیے۔ ‘‘بیٹی بھی دباؤ ڈالنے لگی۔

’’نہیں،یہی ٹھیک رہے گا۔ مجھے اچھّا لگتا ہے۔ ‘‘میں اپنے فیصلے پر اڑنے لگا۔

’’پاپا آپ تو ضد کرنے لگے۔ ‘‘بیٹا بولا۔

’’yes، آپ ضد کر رہے ہیں پاپا!‘‘بہن نے بھائی کی ہاں میں ہاں ملائی۔

’’ہاں، میں ضد کر رہا ہوں، میں ضدّی ہوں اور اب وہی ہو گا جو میں چاہوں گا۔ ‘‘

میرا لہجہ سخت ہو گیا۔

بچّے مایوس ہو کر اندر چلے گئے۔

’’آپ ضد کر رہے ہیں۔ ‘‘

یہ جملہ زہر میں بجھے تیرکی طرح میرے احساس میں پیوست ہو گیا۔ مرا وجود جھنجھنا اُٹھا۔

یکایک بہت سارے مناظر میری آنکھوں کے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے۔ میں نے اپنی حیثیت کے مطابق مکان کا پلاٹ اقرار کالونی میں لینا چاہا مگر اسے سرسید نگرجیسے مہنگے علاقے میں خریدنا پڑا۔

میں نے سفیدرنگ کی ماروتی پسند کی مگر گھر میں سٹیل گرے کلرکی سنٹروآ گئی۔

میں بچّوں کویونیورسٹی کے اسکول میں داخل کرنا چاہتا تھا مگر وہ لیڈی فاطمہ میں داخل ہو گئے۔

ان سب میں ان کی مرضی موجود تھی۔ یہی نہیں بلکہ ٹی وی، فرج، صوفہ، پلنگ ایک ایک چیز میں ان کی مرضی شامل تھی اُن کی ضِد چھپی ہوئی تھی۔

پھر بھی کہتے ہے، میں ضد کرتا ہوں، کہاں ہے میری ضد؟کدھر ہے میری مرضی؟‘‘

میں اپنی ضد اور اپنی مرضی تلاش کرنے لگا۔

تھوڑی دیر بعد ان کی ماں گھرسے باہر نکلی اور میرے پاس آ کر آہستہ سے بولی۔

’’کیوں بچّوں کا موڈ خراب کر رہے ہیں ؟ان کی بات کیوں نہیں مان لیتے ؟آخر اس مکان میں رہنا تو انہیں کو ہے۔ ہم اب اور کتنے دنوں کے مہمان ہیں۔ پھر کیا ضرورت ہے کہ ہم اپنی پسند ان پر لادیں۔ دونوں نئے مکان کو لے کر کتنے پر جوش تھے، کتنے خوش تھے۔ مگر آپ کی ضد نے ان کے جوش و خروش، ان کی خوشی ومسرت سب پر پانی پھیر دیا۔ بے چارے اُداس و ملول بیٹھے ہیں۔ آپ نے یہ بھی سوچا کہ ان کی پڑھائی پراس کا کیا اثر پڑے گا؟یہ رنگ کا چکر ان کی پڑھائی میں ضرور بھنگ ڈال دے گا۔ خدا کے لیے مان جائیے۔ مہربانی کر کے کام کو رکوا دیجیے۔

بیوی نے ہمیشہ کی طرح والدین کا فرض اور بال ہٹ کا فلسفہ سمجھا کر اور ان کی پڑھائی کا واسطہ دے کر مجھے خاموش کر دیا۔

میں نے کبھی نہیں چاہا کہ میرے بچّے اُداس ہو جائیں۔ ان کے چہرے کا رنگ اُڑ جائے۔ اُن کی آنکھوں کی چمک ماند پڑ جائے۔ ان کے دلوں میںیاس بھر جائے۔

اُن کی اُداسی کا ذکرسنتے ہی اُن کے اُداس چہرے میری آنکھوں میں آبسے۔

’’ٹھیک ہے۔ تم لوگوں کی جو مرضی ہو، کرو، اب میں کچھ نہیں بولوں گا۔ ‘‘

ہمیشہ کی طرح یہ جملہ دہرا کر میں خاموش ہو گیا۔

بیوی خوش اور مطمئن ہو کر بچّوں کو خوشخبری سُنانے چلی گئی اور میں حسبِ عادت اپنے ماضی میں پہنچ گیا۔ مجھے اپنا بچپن یاد آنے لگا۔

’’ابّا!ابّا!۔ ‘‘

’’کیا ابّا ابّاکی رَٹ لگا رکھی ہے، کچھ بولتا کیوں نہیں ؟‘‘

’’ابّا میں گاؤں کے مدرسے میں نہیں پڑھوں گا۔ میں شہر کے مشن اسکول میں جاؤں گا۔ ‘‘

’’کیا کہا!تو تم مدرسے میں نہیں پڑھے گا۔ مشن اسکول میں جا کرکرسٹان بنے گا!‘‘ خبردار جو دوبارہ وہاں جانے کی بات کی تو———

یکایک میرے ہونٹ سل گئے۔ میرا منہ لٹک گیا۔ میری آنکھوں کی چمک بجھ گئی۔

’’ابّا!ابّا!۔ ‘‘

’’پھر ابّا!ابّا! تجھ سے کتنی بار کہا کہ تو توتلایا مت کر۔ سیدھی بات کیا کر۔ ‘‘

’’جی ابّا۔ ‘‘

’’بول کیا کہنا چاہتا ہے ؟‘‘

’’ابّا میں رنگین سائیکل لوں گا۔ نیلی ہینڈل اور لال فریم والی، جس کے پہیے پتلے پتلے ہوتے ہیں۔ ‘‘

’’نہیں ہرکلس ٹھیک رہے گی۔ وہ مضبوط ہوتی ہے۔ ‘‘

’’نہیں، میں تو وہی لوں گا۔ ‘‘

’’میں نے کہہ دیا نا کہ ہرکلس سائیکل آئے گی۔

’’نہیں، میں ہر کلس نہیں لوں گا۔ مجھے تو رنگین سائیکل چاہیے۔ ‘‘

چٹاخ۔

’’لے یہ رہی رنگین سائیکل۔ دوبارہ ضد کی تو یہ تیرے گال مار مار کر اور لال کر دوں گا۔ ‘‘

میں روتا ہوا وہاں سے اُٹھ کر اپنی کوٹھری میں چلا گیا اور دیر تک لکھوری اینٹوں والی کوٹھری میں سسکتا رہا۔

رہ رہ کر میرے دل میں یہ خیال آتا رہا کہ ابّا میرے پاس آئیں گے اور میرے آنسو پونچھیں گے۔ مجھے پچکاریں گے۔ مگر ابّا نہیں آئے۔ یہ خیال شایداس لیے آتا رہا کہ ایک بار جب میں بیمار پڑا تھا تو ابّا ساری رات میرے پاس بیٹھے رہے۔ میرے ماتھے پر پانی کی پٹی رکھتے رہے، مجھے تسلّی دیتے رہے۔

میں کچھ بڑا ہوا تب بھی میری بات نہیں سنی گئی۔ میں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پڑھنا چاہا مگر ابّا نے مجھے بہاریونیورسٹی میں داخل کر دیا۔

میں نے اپنی پسند کی ایک لڑکی سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا تو جواب میں ابّا کا چنگیزی لب و لہجے میں نادر نامہ آ دھمکا۔

ماضی کی یاد نے مجھے اور رنجیدہ کر دیا۔ میری اُداسی اور گہری ہو گئی، میری آنکھیں بھی نم ہو گئیں۔

’’آپ اتنے پریشان کیوں ہیں ؟بچّوں کی خواہش کو پورا کرنا تو ماں باپ کا فرض ہوتا ہے۔ ان کی ضد کے آگے تو والدین کو جھکنا ہی پڑتا ہے۔ آخر اولاد کی خوشی میں ہی تو ماں باپ کی خوشی ہے۔ اس میں بھلا پریشان اور اُداس ہونے کی کیا بات ہے ——‘‘

مجھے محسوس ہوا جیسے میری بیوی میرے سرہانے کھڑی مجھے سمجھا رہی ہو مگر وہ تو کچن کے کام میں مصروف تھی۔

میرے جی میں آیا کہ میں دیکھوں کی میری اُداسی کا کوئی اَثر میرے بچّوں پر ہے یا نہیں اور میں اپنے کمرے سے اُٹھ کر اُن کے کمرے میں چلا گیا۔

دونوں بچّے ٹیلی ویژن پر کوئی مزاحیہ سیریل دیکھنے میں محو تھے۔ میرے آنے کا انہوں نے نوٹس بھی نہیں لیا۔

میں اکثر اپنے بچّوں کو خوش کرنے میں اُداس ہوا۔ اُن کی ضد پوری کرنے میں میرا دل دُکھا۔ میری انا مجروح ہوئی۔ میرے اندر شدید خواہش جاگی کہ بچّوں کو میرے اندر کی کیفیت کا احساس ہو۔ وہ مجھ سے میری اُداسی کا سبب پوچھیں۔ افسوس کا اظہار کریں مگر وہ ہر بار اپنی ضد کی کامیابی کی خوشی میں مجھے بھول گئے۔

میں خاموشی سے اپنے کمرے میں واپس آ گیا۔ کچھ دیر تک میں چپ چاپ کمرے کی چھت کو گھورتا رہا، پھر کمرے سے نکل کر باہر چلا گیا۔

رنگائی کا رکا ہوا کام پھرسے شروع ہو چکا تھا۔ دیوار پر کوئی اور رنگ چڑھ رہا تھا اور وہ نیا رنگ پہلے والے رنگ کو مدھم کرتا جا رہا تھا۔ کچھ دیر تک میں ایک رنگ کو ہلکا اوردوسرے کو گاڑھا ہوتا ہوا دیکھتا رہا۔

پھرباہرسے اندر آ گیا۔ بچّے حسب معمول سیریل میں مصروف تھے۔ بیوی کچن میں مگن تھی۔ میں اپنے کمرے میں پہنچ کر بستر پر لیٹ گیا۔

دیوارسے دونوں رنگ اُتر کر میری آنکھوں میں داخل ہو گئے۔

دونوں رنگ جگنوؤں کی طرح آنکھ مچولی کھیلنے لگے۔ اچانک میرے دیدوں میں میرا مکان اُبھرنے لگا۔

پہلے نیو اُبھری۔

نیوسے میری ضرورتیں بھی اُبھریں جنھیں دفن کر کے نیو کھودی گئی تھی۔ نیو کے بعد دیواریں اُبھریں۔

دیواروں سے میری وہ خواہشیں بھی اُبھریں جنہیں دبا کر دیواریں اُٹھائی گئی تھیں۔

پھر چھت اُبھری۔

چھت سے وہ قرض بھی اُبھراجسے چھت تعمیر کرنے میں میں نے اپنے جسم و جان پر لاد لیا تھا۔

اور آخر میں وہ رنگ اُبھراجسے دیواروں کے لیے میں نے پسند کیا تھا اور اِسی کے ساتھ وہ رنگ بھی اُبھر آیا جسے بچّوں کی ضد نے اُبھارا تھا اور جودیوارسے اُتر کر میری آنکھوں میں داخل ہو کر اپنا رنگ دِکھا رہا تھا۔

نیو، دیواریں، چھت، تینوں کھسک کر کہیں اور چلی گئیں۔ آنکھوں میں صرف رنگ رہ گئے۔

رفتہ رفتہ ایک رنگ اُڑتا گیا پھیکا پڑتا گیا۔ اور دوسرا جمتا گیا اور گاڑھا ہوتا گیا۔

گاڑھے رنگ پر میری نگاہیں مرکوز ہو گئیں۔

یہ میرے بچّوں کا رنگ تھاجسے اُن کے بچپن کی ضد نے اُبھارا تھا، اس رنگ نے ایک بار پھرسے مجھے اپنے بچپن میں پہنچا دیا۔ میں اپنے اِردگِرداسے تلاش کرنے لگا مگر مجھ میں وہ کہیں نہیں ملا، مجھے تووہ رنگ میرے ابّاکے پاس نظر آیا۔

میں مایوس اور اُداس ہو کر اپنے بچپن سے باہر نکل آیا۔ پھر وہیں آ گیا جہاں میں خود ابّا بنا بیٹھا تھا مگر یہاں بھی ابّا والا رنگ مجھ میں نہیں تھا۔ وہ رنگ تو میرے بچّوں کے پاس تھا۔

میں نہ وہاں تھا اور نہ یہاں۔

میں اپنے لیے بے چین ہو گیا۔ مجھے محسوس ہونے لگا جیسے زمانہ مجھے چھوڑ کر گزر گیا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

سوانحی کوائف

 

نام           غضنفر علی

قلمی نام               غضنفر

جائے پیدائش چوراؤں، تھاوے، گوپال گنج، بہار

تعلیم         ایم۔ اے (اردو) پی۔ ایچ۔ ڈی

پیشہ          سرکاری ملازمت

عہدہ         ڈائریکٹر، اکادمی برائے فروغ استعدادِ اردو میڈیم اساتذہ

جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی

تصانیف:

۱۔      کوئلے سے ہیرا       (ڈراما)       1971

۲۔     مشرقی معیار نقد             (تنقید)       1978

۳۔     پانی           (ناول)       1989

۴۔     کینچلی         (ناول)       1993

۵۔     کہانی انکل             (ناول)       1997

۶۔     دویہ بانی             (ناول)       2000

۷۔    زبان و ادب کے تدریسی پہلو           (تنقید)       2001

۸۔     فسوں         (ناول)       2003

۹۔     وش منتھن             (ناول)       2004

۱۰۔    تدریسِ شعرو شاعری         (تنقید)       2005

۱۱۔    حیرت فروش           (افسانوی مجموعہ)     2005

۱۲۔    مم            (ناول)       2007

۱۳۔    لسانی کھیل           (درس و تدریس)     2007

۱۴۔    شوراب             (ناول)       2009

۱۵۔    سرخ رو             (خاکوں کا مجموعہ)    2010

۱۶۔    مانجھی        (ناول)       2012

۱۷۔   فکشن سے الگ        (تنقید)       2013

۱۸۔    روئے خوش رنگ            (خاکے )      2015

۱۹۔    آنکھ میں لکنت        شعری مجموعہ  2015

۲۰۔   سخن غنچہ             بچوں کی نظمیں 2015

 

کتابیں (ہندی میں ):

دویہ بانی      (ناول)              نیرا سدن، الہ آباد

کہانی انکل      (ناول)              وانی پرکاشن، نئی دہلی

 

زیر طبع تصانیف:

۱۔     شبلی نعمانی کے تنقیدی نظریات        (تحقیقی مقالہ)

۲۔     مثنوی کربِ جاں                    (مثنوی)

۳۔     جدید طریقۂ تدریس                 (درس و تدریس)

4۔    ناول پارے                  (ناولوں کا مجموعہ)

 

رابطہ :

ڈائریکٹر/پروفیسرغضنفرعلی، اکادمی برائے فروغِ استعدادِ اردو میڈیم اساتذہ،

نوم چومسکی کمپلیکس، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی۔ 25

بشریٰ، حمزہ کالونی، نزد اقرا کالونی، نیوسرسیدنگر، علی گڑھ

B-29 اسٹریٹ نمبر 7، شاہین باغ، ابوالفضل انکلو، فیز۔ II، نئی دہلی، 25

فون نمبر:

موبائل              :      09990237388

آفس         :      011-26922601

گھر، علی گڑھ   :      09411979684

09557417244

گھر، دہلی             :      011-29948560

٭٭٭

 

حصہ اول یہاں ہے

٭٭٭

تشکر: نسترن احسن فتیحی جنہوں نے فائل فراہم کی اور مصنف جنہوں نے لائبریری میں شامل کرنے کی اجازت دی

ان پیج سے تبدیلی تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید