FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

اور دوسری کہانیاں

               اسد محمد خاں

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

نصیبوں والیاں

صحّت کے سلسلے میں بہت سوں کے اپنے اصول ہوتے ہیں۔۔  کچھ کے نہیں بھی ہوتے۔

            ممّند ریاض کا یہ تھا کہ سویرے جلدی اُٹھنے والا بندہ تھا۔ روز وہ میونسپل پارک میں شبنم سے بھیگی گھاس پہ ننگے پاؤں ٹہل ضرور لگاتا تھا۔ کہتا تھا اس سے آنکھوں کی "روشنیائی” بہتر ہوتی ہے۔ خبر نہیں اس بہتر روشنی کو وہ گاہکوں کو پہچاننے، اُن پہ کڑی نظر رکھنے کے لیے استعمال کرتا تھا یا اس کا مقصد اتنا سادہ اور روزمرہ جیسا نہیں، کوئی باقاعدہ گہرا وجودی مقصد تھا ممّند ریاض کا۔

            جو بھی ہو۔

            ممّند ریاض شبنم پہ ٹہل لگا کے اپنے ٹھکانے پہ پہنچنے کے لیے ددّی بائی کے چوبارے کی سایہ سایہ نکل رہا تھا کہ اس نے رونے کی آوازیں سنیں۔

            رات میں کسی وقت سوتے میں مَگھیانے والی ددّی بائی گزر گئی تھی۔

            ممّند ریاض نے بات سنی، سمجھی، پھر بعد میں موقعے موقعے سے کہنے کو ذہن میں ایک اچھا سا فقرہ بنا کے اسے اپنے اندر فائل کر لیا۔ وہ برادری والوں میں بیٹھے گا تو ددّی کو اچھے لفظوں سے یاد کرتے ہوے یہ ضرور کہے گا کہ دیکھو جی، اَرام سے گجر گئی ددّی جی۔ ناں نزعے کا آلم ہوا نہ جان کندنی ہوئی، اَرام سے سونتے سونتے گجر گئی۔ ہاہہ!۔۔  نیک روحوں نے ایسے ہی چلے جانا ہوتا ہے۔ مالک سبھوں کی شرم رکھے۔۔  آال لے!۔۔  اوول لے!۔۔  یہ آخری آواز ممّند ریاض کی ڈکاروں کی تھی۔

            پیٹ خالی ہو یا بھرا، وہ اونچی آواز میں بولتا ہو یا کچھ سوچ رہا ہو، ممّند ریاض ہر لمبے فقرے، ہر لمبی سوچ کے آخر میں آال لے! اوول لے! کر کے نقلی ڈکاریں ضرور لیتا تھا۔

            خیر۔ وہ رونے کی آوازیں سن کے ٹھٹھکا۔ ددّی بائی کا فلیٹ لڑکیوں کا گھر تھا۔ کوئی مرد ذات بڑا بوڑھا تھا نہیں۔ پڑوس کی نیلم بائی اور اس کے گماشتے، اسی ڈکاروں والے ممّند ریاض، نے فوراً آ کے چارج سنبھال لیا۔ دروغوں، پہلوانوں کو خبر کر دی گئی۔ کسی نے جا کے تھانے میں بھی بتا دیا۔ ضابطے کی پابندی نہیں تھی، ایسے ہی پڑوس پچھواڑے کی مروّت ہو گی کہ بھئی ہو سکتا ہے پیٹی اتار کے کروشیے کی ٹوپی سر پہ مَڑھ کے فاتحہ کے دو لفظ پڑھنے ہیڈ کانسٹبل میاں گل بھی پہنچ جائے۔ ددّی بائی کی اُس کی برسوں کی آشنائی تھی۔

            ان فلیٹوں چوباروں کا مالک حاجی قاسم نورو تھوڑی دور پہ اپنی دکان میں بیٹھا پرانے کپڑوں کی گانٹھوں کا حساب کر رہا تھا __ جو وہ ہر وقت کرتا رہتا تھا۔

            اس نے ایک دور دراز طمانیت کے احساس سے یہ خبر سنی اور اپنی چندیا کھجائی۔ "اب جب کہ ددّی بائی مر گئی ہے تو یہ فلیٹ اس کے چنگل سے سمجھو آجاد ہے۔ تو اب اس کا بھی کچھ کریں گے انشا الله۔”

            مگر وہ دین دار اور عملی آدمی بھی تھا۔ اس فلیٹ میں ایک میّت پڑی تھی اور فلیٹ خالی کرانے سے پہلے میّت کو اس کے سفر پر روانہ کرانا ضروری تھا۔ اس نے خبر دینے والے سے کہا، "دیکھو بھائی جان! اُدھر جو کوئی بھی ہووے اس کو میرا بولو کہ کاسم نورو سیٹھ میت گاڑی کا اَنے گسل والی کا سبی اِنتی جام کر دیں گا۔ ابی پھون کرتاؤں۔ تم لوگ کسی کو اُدھر میوے شا بھِجا کے بس گورکند کو بول دیو۔ کیا؟”

            گوجرے والی خدمتی میّت گاڑی کے اُٹنگے پیچامے اور گِجگِجائی ہوئی گھنی ڈاڑھی والے جوان والنٹیئر کو بتا دیا گیا کہ کس بلڈنگ سے کنجری کی میّت اُٹھانے کی ہے۔ اسی نے غُسّال بڑھیا کو رکشے میں بٹھا کے مکرانی پاڑے سے بلڈنگ تک لانا تھا۔ قاسم نورو نے رکشا کے پیسے دیے تھے۔ اور بھی پیسے دیتے ہوے والنٹئیر سے کہا تھا، "اَبا ثواب کا کام ہوئیں گا۔ یہ روکھڑا سمبال، گسل والی کو کپڑا کاپھور دے دلا کے برابر سیٹ کر دے۔ فلیٹ دکھا دے۔ کیا؟ پیچھے چھوٹا میّت گاڑی لے کے پونچ جانا۔ چھوڑ آنا ددّی بچاری کو۔”

            حاجی قاسم نورو نے چھوٹی میت گاڑی کا اس لیے کہا تھا کہ اسے معلوم تھا گنتی کے چھ آٹھ دروغے، پہلوان، کسبیوں کے بھائی بند ساتھ جائیں گے۔ باقی تو بلڈنگ میں عورتیں ہی عورتیں ہیں۔ انھیں قبرستان تو نہیں جانا ہو گا۔ چھوٹی گاڑی صحیح رہے گی۔ "اس کا پھیئر بھی کمتی لگیں گا۔ کیا؟”

            جب گاڑی بلڈنگ سے چلی تو کالے ڈوپٹے اوڑھے، گھر کے ملگجے کپڑوں میں ملبوس کوٹھے والیاں اور پچھواڑے کی کم حیثیت پاڑے والیاں رو رو کے بَین کرنے لگیں کہ ہائے ری ددّی بائی تو کیوں چلی گئی، اور کچھ دیر کو دن کے سوختے میں بھی بڑی سڑک اور ساتھ کی گلیاں اور گلیارے آدمیوں اور آوازوں سے ایسے بھر گئے جیسے چراغ جلے پہ بھر جاتے ہوں گے۔

            میت گاڑی بھی ٹھنساٹھنس بھر گئی تھی۔ کچھ لوگ کھڑے تھے اور دو چار لٹک بھی رہے تھے۔ اندر سیٹ پہ خیالی ڈکاریں لینے والے ممّند ریاض کے برابر بیٹھی ایک عورت یا لڑکی __ بےبی نگی نا __ روئے جاتی تھی۔ دوسری عورتوں کے برخلاف اس کا ڈوپٹہ زعفرانی رنگ کا تھا۔ تو کیا ہوا؟ آدمی کو واقعی دکھ ہو تو زعفرانی رنگ بھی ماتمی بن جاتا ہے۔ پر وہ جس کا نام بےبی نگی نا تھا، خبر نہیں کیوں رو رہی تھی؟ حالاں کہ کسی کی ایسی کوئی رشتے ناتےدار بھی نہیں تھی۔

            میت گاڑی کے گھنی ڈاڑھی والے والنٹیئر نے گاڑی میں بیٹھی اس اکیلی بائی جی کو دیکھا تو دل میں کہا، "لاحول ولا۔۔  ان لوگ کو یہ کھبر  نئیں کہ عورت کا کبرستان میں جانا مکروہ۔۔  یا کیا ہے۔ لاحول ولا۔۔  کوئی دین دھرم تو اِن کنجروں کا۔۔  خیر جی ہم کون۔۔  بھئی ہمیں کیا۔”

            ایک مُردہ اور ایک زندہ بائی جی کو لیے، بہت سے دلالوں، سازندوں، تماش بینوں اور ایک پولیس والے کے ساتھ، اس نے میوے شا کی سڑک پکڑ لی۔

٭٭

ددّی بائی مگھیانے والی کے بغیر فلیٹ ایسا ہو گیا جیسے کسی دیہاتی فلیگ اسٹیشن پر مسافروں کا چھپرا۔ لڑکیاں تین روز تک چھلکوں، ردّی کاغذوں، ٹوٹے ہوے کوزوں کی طرح رُلتی، ٹھوکروں میں لُڑھکتی چیزیں بنی رہیں۔ بہت لوگ آئے، بیٹھے، ددّی بائی کو یاد کیا اور افسوس کی شکل بنائے چلے گئے۔

            آنے والوں میں دندناتی ہوئی آنے والی ایک ہوا تھی۔ وہ اپنے ساتھ بےچینی اور خوف اور دھُول مٹّی لائی۔ اس دھول مٹی اور خوف نے چیزوں کو ڈھک لیا۔ لڑکیوں کو معلوم تھا کہ دھول مٹی سے ڈھک دیا جانا دفن ہونا ہے۔

            وہ کسی کے ساتھ دفن ہونا نہیں چاہتی تھیں۔

            ددّی کے گزر جانے کے چوتھے دن کام والا لڑکا فلیٹ میں آیا تو اس کا منھ سُوجا ہوا تھا۔ لڑکیوں میں ایک __ جمیلہ __ غسل خانے سے ہاتھ منھ دھو کر نکل رہی تھی۔ اُس نے لڑکے کو دیکھا، حیران ہو کے بولی، "ابے او! تیرے منھ کو کیا ہو گیا؟”

            لڑکے کا جی چاہا جمیلہ کی بات کا کوئی جواب نہ دے۔ مگر وہ رکی کھڑی تھی، اس نے منھ بنا کے اوں ہوں جیسا کچھ کہہ دیا۔

            وہ بولی، "کیا قُوں قُوں کرتا ہے مرغی کے؟ ابے بتاتا نہیں کیا ہوا؟”

            لڑکا جھنجھلا کے بولا، "شید کی مَخی نے کاٹ لیا نا۔”

            جمیلہ نے دانت نکال دیے۔ "اوئے سالے مِٹھڑے دلدار! شہد کی مکھی بھی کاٹتی ہے تیرے کو؟”

            ایک اور لڑکی نے اس نا وقت مسخرے پن پہ منھ بنایا۔ تیسری، جو باہر جانے کی تیاری کر رہی تھی، مسکرانے لگی۔ کوئی ایک، جو پردے کے پیچھے سب سن رہی تھی، کھی کھی کر کے ہنس دی۔

            فلیٹ چل پڑا۔

            جس کا جی چاہا کام کاج میں لڑکے کا ہاتھ بٹانے لگی۔

            لڑکے نے ددّی بائی کے طریق پر گھر چلانا شروع کر دیا۔ مگر گھر چلانے کے لیے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور پیسا سب ددّی بائی کے ہاتھ میں رہتا تھا۔ لڑکیوں کی رقمیں، گہنے پاتے بھی سب وہی سنبھال کے رکھتی تھی __ تجوری میں۔

            اور تجوری کا ایسا تھا کہ برادری کے کہے پہ کفن دفن سے پہلے ہی اس کی چابی مینا دروغے کے پاس امانت رکھا دی گئی تھی۔ مینا سمیت سب کا کہنا تھا کہ تار دے دیا ہے، ددّی کے بھائی بشیر کو آ لینے دو۔ تب ہی سب مل کے کوئی فیصلہ کریں گے اور تجوری کھولیں گے۔

            مگر اب یہ مسئلہ بھی تھا کہ جب تک تجوری نہیں کھلتی روز کے خرچ کے پیسے کہاں سے آئیں گے۔ تین دن تک تو کھانے کا انتظام آپی آپ ہوتا رہا۔ کبھی نیلم بائی نے، ناجو  نے اور سِیبے پہلوان نے، کبھی مینا دروغے نے یا کشمیری ہوٹل والے سیٹھ نے فلیٹ پر کھانا پہنچوا دیا۔ ٹھیک بھی تھا۔ موت میّت کے گھر میں چولھا کیسے جلتا؟

            گلابو زنانہ، جو کبھی مہینے پندرہ دن میں تالی پھٹکارتا آ جایا کرتا تھا، ایک دن تو وہ بھی مسافرخانے والے ہوٹل سے آلو پڑی بریانی کی چھوٹی دیگ اُٹھوا لایا۔ دو وقت وہ بریانی چل گئی۔ پر اب غمی کے کھانے آنا بند ہو گئے تھے۔ فلیٹ کو واپس اپنے روٹِین پہ آنا تھا۔

            ایک لڑکی بالو کے پاس سو سوا سو روپے پڑے تھے۔ پڑے کیا تھے، چھپا رکھے تھے اس نے۔ جب دوپہر کے کھانے کی بات چلی تو اس نے سو کا نوٹ ادھار کے نام سے لڑکے کو پکڑا دیا۔ وہ قیمہ، سبزی، تیل، پیاز سب لے آیا۔

            پیسے دیتے ہوے لڑکی بالو نے سوچا تھا کہ رانی، روزی، چمپا اور نگی نا کو بھی پیسے ڈھیلے کرنا چاہیے تھے۔ اور یہ جمیلہ اب تک بچی کیوں بنی ہوئی ہے؟ اس کے پاس خود اپنے پیسے بھی تو ہوں گے۔

            دن بھر میں کچھ نہیں کچھ نہیں تو بیس روپے کی تو صرف روٹیاں آئیں گی۔

            پھر اس نے رانی کے بارے میں سوچا جو کسی کو بتائے بغیر سویرے ہی نکل گئی تھی۔ بالو نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا نیچے سلیٹی رنگ کی اوپل رکارڈ میں بیٹھ رہی تھی رانی۔ ساتھ میں وہ تھا ڈکاروں والا بےغیرت ممّند ریاض، چکن کا گلابی کُرتا پہنے۔ شرم تو آتی نہیں ان بے پِیروں کو۔ ددّی جی کو گزرے ابھی چوتھا دن ہے کہ انھوں نے بُڑھیا کے کوٹھے پر ہاتھ ڈال دیا۔ تھُک ہے! ایک دو دن تو رک جاتے بے صبرے۔ پھر جیسی سب کی صلاح ہوتی۔ مگر ان بے غیرتوں کو کس بات کی شرم مروّت۔

            ایک بالو ہی کیا سب جھنجھلانے لگے تھے۔ چمپا نے ناشتے کے بعد تیار ہونا شروع کر دیا تھا۔ اس نے سب کے ساتھ مسکہ بن کھایا تھا، چاے پی تھی۔ کسی کو شک بھی نہیں تھا کہ اب یہ باہر جائے گی۔ کپڑے بدل کے اس نے جمیلہ سے آرینج کے کسی شیڈ کی لپ اسٹک مانگی، کیوں کہ یہ جوڑا اس کا آرینج کے شیڈ میں تھا۔ روزی بولی، "یہ تُو ددّی جی کو وِزٹ کرنے میوےشا جا رہی ہو گی جو آرینج لپ اسٹک مانگتی ہے کتیا؟” اس پر گالیاں بکتی چمپا پنجے کھول کے جھپٹ پڑی۔ بالو نے کولی ڈال کے بڑی مشکل سے اُسے الگ کیا۔ اونچی آواز میں گالیاں نکالتی چمپا فلیٹ کی سیڑھیاں اتر گئی۔

            لڑکے نے سوچا، "لو جی۔ فلیٹ اب صئی سے چل پڑا۔”

            باورچی خانے کی پیڑھی پر بیٹھ کے سبزی کاٹتے ہوے لڑکی بالو اُس کڑوے پن کا حساب کرنے لگی جو ددّی کی موت کے چوتھے دن دھیرے دھیرے فلیٹ میں ریلیز ہو رہا تھا۔

            دن ڈوبنے سے پہلے ایک بڑے بھاری ٹرانسپورٹر کا بیٹا ٹمّی، جو ہر دوسرے تیسرے دن آیا کرتا تھا، ددّی جی کی موت کے احترام میں وِسکی لگائے بغیر خاموشی سے فلیٹ میں آیا اور سر جھکا کے بیٹھ گیا۔ وہ ددّی جی کی یاد کو ایک طرح کا خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے ٹی شرٹ جینز کی بجائے آج کڑھے ہوے گلے کا کُرتا اور چوڑی دار پاجامہ پہن کے آیا تھا۔ کرتا سچی بوسکی کا اور پاجامہ پانچ پھلی مارکہ لٹّھے کا تھا۔ بھاری ٹرانسپورٹر کے بیٹے ٹمّی نے آج اپنی چابی والے سونے کی زنجیر بھی نہیں گھمائی تھی، جیسی کہ اُس کی عادت تھی، بلکہ وہ مصنوعی، احمقانہ اُداسی میں پہلے دس پانچ منٹ خاموش بیٹھا، پھر اپنے چھوٹے چھوٹے جاہلانہ فقروں میں دھیرے دھیرے سمجھانے لگا کہ زندگی کا یہی ہے۔ پھر اُس نے اِس بات پر زور دیا کہ لڑکی روزی کو اور سب کو اپنا دل بہلانے کی ضرورت ہے۔ آخر میں وہ روزی کو اس پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ وہ کھلی ہوا میں ذرا نکلے، ایسی بند گھٹی ہوئی جگہ میں مستقل بیٹھی رہی تو خدا نہ کرے بیمار پڑ جائے گی۔ روزی نے بالوں میں جھپاجھپ کنگھا پھرایا، پھر وہ گرے کلر کی ریشمی شال لپیٹ کے ہوا میں آہستہ سے بولی، "جمیلہ! میں ابھی آتی ہوں، پریشان نہ ہونا،” اور بھاری ٹرانسپورٹر کے بیٹے ٹمّی کے ساتھ فلیٹ کی سیڑھیاں اُتر گئی۔

            بالو نے اندر ہی اندر دانت پیستے ہوے ٹمّی کو کھُلی مردانہ گالیوں سے یاد کیا مگر پھر اس نے سوچا کہ وہ سب سے اس طرح کیوں بھِڑے جا رہی ہے۔ اس نے کون سا ددّی کی یاد کا اور غمی ماتمی کا یا فلیٹ کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ تایا بشیر آ جائے، ددّی نے اُس کا جتنا جو تجوری میں سنبھال کے رکھا ہے، لے گی اور نکل جائے گی۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ: مُلکِ خدا تنگ تو نہیں ہے۔

            بالو اُٹھی، لڑکے سے کہہ کے باہر چلی گئی کہ وہ ناجو کی بیٹھک سے ابھی ہو کے آتی ہے۔ لڑکے نے بالو کو جواب میں سر ہلا کے "ہاں” کہا اور لاؤنج میں بچھی چوکی کے پاس آ کھڑا ہوا۔ چوکی پر بےبی نگی نا جیسے سنّاٹے میں بیٹھی تھی۔ آنسوؤں نے بہہ بہہ کے اُس کے گالوں پہ لکیریں سی بنا دی تھیں۔

            ددّی جی کے گزرنے کے بعد وہ اب نگی نا بےبی کو روتے ہوے دیکھ رہا تھا۔ لڑکا خاموشی سے چوکی پر بیٹھ گیا۔ پھر اس نے اپنا کالا اور محنت کے کام سے کٹا پھٹا بدصورت ہاتھ نگی نا بےبی کے شانے پہ رکھ دیا۔

            "رونا نئیں چیّے!” اُس نے کہا اور خود بھی رونا شروع کر دیا۔

٭٭

اگلے دن ابھی سب سو ہی رہے تھے کہ دو ٹیکسیوں میں بشیر دروغا کا سامان، وہ خود، اُس کی شاگردیں اور نوکر پہنچ گئے۔

            لڑکیوں نے بشیر دروغے کو تایا کہنا سیکھا تھا۔ کیا کرتیں۔ ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنے، خوب گھُٹ کے ٹِنڈ کرائے ہوے سوا چھ فٹ کے اس چمکتے ہوے کالے آدمی کو، جو کسی کا چچا تایا کچھ بھی نہیں لگتا تھا، لڑکیاں اُس وقت بھی تایا کہتی ہوئی آگے بڑھ گئیں۔

            دروغا اونچی آواز میں بات کرنے کا عادی تھا، ٹیکسی والوں سے جھگڑتے اُسے مَخما دُولا کے تنور تک سنا جا سکتا تھا۔ جب تک ایک ایک صندوق اور ڈبّا، ایک ایک شاگرد اوپر نہ پہنچا دی گئی دروغا اپنا ریشمی تہبند کولھوں تک سمیٹے، نوکروں کو اور ساتھ آئی لڑکیوں کو اونچی آواز میں ہدایتیں اور دھمکیاں دیتا رہا کہ اوئے گرانا نئیں، توڑنا نئیں! میں مار کے سُٹ دیاں گا۔

            دروغے کے شور شرابے کے دوران سڑک کے بائیں رُخ کی پرانی بلڈنگ کے پہلے مالے پہ ایک کھڑکی کھُلی، کھڑکی سے مہندی لگا ایک سر برآمد ہوا۔ سر والے نے آواز لگائی، "ہاں دروغا! آ گیا بئی؟” بشیر دروغے نے اپنا شور شرابا روک کے مہندی سر والے کو دیکھا، ٹھٹّھا مار کے جواب دیا، "ہاں بئی مینا دروغا!۔۔  آ گئے۔” یہ کہتے ہوے اُس کے لہجے میں بڑی مسرت تھی۔

            مینا نے جواب میں کہا، "بسم الله او بسم الله!” اور سر اندر کر لیا۔

            بشیر نے رُخ بدل کے اسی پہلے والے زور شور سے نوکروں اور شاگردوں کو ڈانٹنا شروع کر دیا۔

            بعد میں فلیٹ میں ایک ہی قدم جو رکّھا تو بشیر پر جیسے غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ اس کا قد چھ فٹ کا رہ گیا اور آواز کو جیسے سیندور لگ گیا۔ فلیٹ کے دروازے پر اسے جمیلہ کھڑی مل گئی تو اس نے اُس کے سر پہ اپنا بھاری سیاہ پنجا رکھا اور کم زور آواز میں بین کرنا شروع کر دیا کہ "آپاں جی کیوں چلی گئی۔ اب اس مَصُوم کا کیا ہو گا؟”

            بالو دروازے کی اوٹ میں آ کھڑی ہوئی تھی۔ اس نے رانی کی طرف دیکھ کے آہستہ سے فقرہ لگایا، "ہو گا کیا! تایا بھینسا آ گیا ہے، پھر نتھ اُتروائی کرائے گا دھوم سے۔”

            دروغے سے رانی ملا کے رکھنا چاہتی تھی۔ اُس نے بالو کو گھور کے دیکھا اور ڈوپٹہ سر پہ لے کر غم میں ڈوبے ہوے دروغے کو آداب کیا، ہاتھ تھام کے اُسے چوکی تک پہنچایا۔

            دروغے نے شفقت ظاہر کرتے ہوے بالو کے سر پر بھی ہاتھ رکھا، بولا، "جیتی رہ بچّی جیتی رہ۔ او تم سب نِکّی نِکّی چڑیوں نے کیسے جھیلا ہو گا یہ غم کا پہاڑ؟۔۔  ہائے؟”

            سب چوکی کے سامنے آ گئی تھیں۔ لڑکی روزی کو آتے دیر ہو گئی۔ تائے نے دیکھا کہ ایک رہ گئی تھی وہ اب آ رہی ہے۔ اس نے کندھے پر پڑا تولیہ منھ پہ ڈال لیا۔ تولیے میں سے بولا، "روزیے! او پتّر! اوئے کیا کریں؟ کِدر جائیں؟ کیا کریں نی؟”

            بالو نے رانی کے کان میں کہا، "موج بہاراں!” اور بالکنی کی طرف نکل گئی۔

            بشیرے نے اب کام والے لڑکے کو دیکھا، "توں کون ہے بئی؟”

            رانی نے بتایا کہ یہ کام والا لڑکا رفیق ہے۔ ددّی جی اس سے بڑا لاڈ کرتی تھیں۔

            بھینسے نے لڑکے کو چمکارا، اپنے پاس بُلایا۔ وہ نئی جگہ پہنچ کر اپنے ہم نوا بنانے کی اہمیت سمجھتا تھا۔ کہنے لگا، "جو آپاں جی کا لاڈلا وہ اپنا لاڈلا۔ کیا نام بتایا تھا پتّر؟”

            "رفیق۔”

            "اچھا تو رفیک پتّر! بزار سے سودا سلف توں لاتا ہے؟”

            "ہاں صاب۔”

            "ہوُوں۔” دروغے نے پُر خیال انداز میں اپنے کُرتے کے نیچے پہنے شلوکے کی جیبیں ٹٹولنی شروع کیں۔ سو کا ایک نوٹ نکالا، لڑکے کی طرف بڑھاتے ہوے بولا، "لے پتّر! یہ سنبھال۔ یہ نوٹ ہے سَوں کا۔ گھر میں اس وکت بندے ہیں چھ تے چھ باراں اور ایک تُوں۔ بئی جا، تیراں بن لے کے آ۔ فٹافٹ۔۔  کاغذ کی تھیلی میں ملتے ہیں وہ موٹے والے بن۔ اور بئی ایک۔۔  ناں ڈیڑھ سیر لے کے آ دَئیں۔۔  جا ہاں، لے آ۔۔ ․․ پھر جھپٹ کے ناشتہ کر لیاں گے۔”

            لڑکا "اچھا صاب!” کہہ کے برتن لانے کچن کی طرف جاتا تھا کہ دروغا نے پوچھا، "او کیوں بئی کاکے! کنّی ایک دکاناں ہون گی اِدھر دُدھ دَئیں کی؟”

            لڑکا بولا، "پتا نہیں تین چار دیخی ہیں میں نے۔”

            اس جواب سے دروغے کی تشفی نہیں ہوئی تو وہ بڑبڑانے لگا کہ بھئی شہر کے دودھ دہی پہ اعتبار کوئی نہیں کیا جا سکتا۔۔  بھاویں شہر کوئی بھی ہو۔ پھر بولا کہ چل پتّر، میں دیکھوں کیسا دودھ دہی دیتے ہیں کیا کرتے ہیں ادھر کے دکان دار!

            لڑکا دہی کے لیے برتن اور بنوں کے لیے تھیلی لے کے چلا تو دروغا بھی جوتیاں پہن کے ساتھ ہو لیا۔

            باہر آیا تو وہ بڑی سڑک پر لڑکے کے پیچھے کچھ دور چلا۔ لڑکے نے اسے اشارے سے دودھ دہی کی دکانیں دکھا دیں۔ دروغے نے پسندیدگی میں سر ہلایا۔ پھر اچانک یاد آ گیا کہ اسے نہانے کا صابن لینا ہے۔ وہ بولا، "لے بئی پتّر دکانیں تو ٹھیک ہی ہیں۔ تو دئیں لے، بن لے۔ میں اُدھر سے صابن پکڑ لوں۔۔  چنگا؟”

            لڑکا دہی لینے چلا اور دروغا تیزی سے قدم بڑھا کے سڑک پار کر گیا۔ پہلے اس نے اِدھر اُدھر، پھر ددّی کی بالکنی پر نظر ڈالی۔ بالکنی خالی تھی۔ اس طرف لڑکا بھی کہیں نہیں تھا۔ دروغا تیزی سے اُس پرانی بلڈنگ میں داخل ہو گیا جس کے پہلے مالے کی کھڑکی سے مینے نے اپنا لال سر نکال کے اسے بسم الله کہی تھی۔ بشیر دروغا مینا کی بیٹھک پر زیادہ سے زیادہ پانچ منٹ رکا ہو گا۔ پرانی بلڈنگ سے نکلتے ہوے اس نے پھر دائیں بائیں دیکھا اور سڑک پر آ گیا۔ سڑک پار کرتے ہوے اس نے دودھ دہی کی دکانوں کی طرف تاکا۔ لڑکا اب بھی سامنے نہیں تھا۔ دروغا فلیٹ کی طرف چلنے لگا تو اسے لڑکا دکھائی دیا۔ وہ انتظار کرنے لگا۔ یہ صحیح ہے! دروغا بشیر نے اطمینان میں سر ہلایا۔ وہ دونوں ساتھ نکلے تھے، ساتھ لوٹ رہے ہیں۔

            ناشتے سے پہلے دروغے نے تولیہ اُٹھا غسل خانے کی راہ لی۔ اُسے یاد تھا کہ اس نے لڑکے سے صابن خریدنے کی بات کہی تھی تو اب اس نے اُسے اور سب کو سنا کے کہا کہ بھئی یہ بازار بھی خوب ہے۔ ادھر کام کی چیز بھاویں ناں نہ ہو، فیشن کی چیزاں بہت نظر آتی ہیں۔ "او پتّر بالو! جے کوئی لال صابن، کوئی سنلیٹ پڑا ہووے تو دے دئیں۔ شاباش!”

            نہانے کے بعد بشیر دروغا کالے بدن پر لمبا تولیہ لپیٹے غسل خانے سے نکلا اور اپنے کسی نوکر جیوے کو زور زور سے پکارتا ددّی کے کمرے میں گھس گیا۔ اندر پہنچ کے بھی وہ برابر آوازیں دیتا رہا، "او لا اوئے جیوے! میرے کپڑے لکال دے۔”

            جیوا تیز تیز چلتا ہوا آیا۔ کچھ دیر دروغے کے اندر پڑے ٹرنکوں، سوٹ کیسوں میں کھڑبڑ کرتا رہا، کمرے سے باہر آ گیا، کہ بشیر دروغا کی آواز سنائی دی۔ "بُوہا بند کر کے جائیں اوئے۔۔  میں کپڑے پانا آں!” جیوا دروازہ بند کر گیا۔

            ددّی کی لڑکیاں اور تایا بشیر کی شاگردیں پلاسٹک بچھا کے پلیٹوں میں چمچے بھر بھر کے دہی ڈالنے اور کاغذ کی تھیلیاں پھاڑ پھاڑ کے فروٹ بن نکالنے لگیں۔

            دروغا کسی بھی طرف سے موسیقی کا رسیا نہیں لگتا تھا مگر اس وقت وہ ددّی کے کمرے میں رکھا بڑا ریڈیو خوب زور شور سے بجا رہا تھا۔

            دیر ہو گئی، بشیر دروغا کپڑے بدل کے نہیں آیا تو لڑکے نے ددّی والے کمرے کا دروازہ بجایا۔ "استاد چاء بناؤں؟ کہ بعد میں چاء پیو گے؟”

            اندر سے دروغے کی جھنجھلائی ہوئی سی آواز آئی، "نئیں اوئے چا شا کوئی نئیں۔ بس دَئیں لکال لے۔۔  میں آیا۔”

            اور کوئی پانچ سات منٹ بعد کتھئی رنگ کے کڑھے ہوے کُرتے اور بوسکی کلر کے تہبند میں عطر میں بھَبھَکتا ہوا بشیر تایا کمرہ کھول کے، "آؤ بئی آ جاؤ بسم الله” کہتا ہوا نکلا اور پلاسٹک کے دسترخوان پر اس نے اپنی جگہ سنبھالی۔

            ناشتے پہ لڑکیاں بالکل خاموش رہیں۔ ہاں دروغا فروٹ بنوں کی تعریف کرتا اور میل محبت اور آپس کے بھائی چارے کے فضائل بیان کرتا رہا اور چَپ چَپ کر کے منھ چلاتا رہا۔ دہی کے بارے میں اس کی رائے محفوظ تھی۔ دکانیں تو بڑی شو شا والی تھیں پر کہنے لگا کہ ایسی دکانوں پر دہی کیسی ہونی چاہیے، یہ سمجھنے میں کچھ ٹائم تو لگے گا ہی۔

            ناشتے کے بعد دروغا خلال کرتا، ڈکار لیتا بالکنی تک ہی پہنچا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ چھوٹا موٹا ایک جلوس فلیٹ میں داخل ہونے کو زینے پر کھڑا تھا۔ مینا دروغا، ناجو بائی، نیلم لُدھیانے والی اور دوسری بائیاں، ممّند ریاض اور اس جیسی دو تین شکلیں، کشمیری ہوٹل والا اور فینسی حمام اینڈ ہیئر کٹنگ سَیلُون کا مالک نواز دین اندر آ گئے۔

            اتنے بہت سے لوگ، یہ سارے پڑوسی اور برادری کے سربرآوردہ افراد،  ددّی کی موت پر  اسکے غم زدہ بھائی بشیر کو پُرسا دینے آئے تھے۔

            دروغے نے لڑکیوں کو اشارہ کیا۔ مجرے کا کمرہ __ روزی روزگار کی جگہ __ ایسے سوگوار اجتماع کے لیے مناسب تو نہ تھی، مگر کیا ہو سکتا تھا۔ مُجرے والا ہال کھول دیا گیا۔ وہاں لڑکیوں نے ہال کے آئینوں پر میلی ملگجی چادریں، کمبل ٹانگ دیے تھے اور بروکیڈ کے غلاف کھینچ کے ننگے سوگوار تکیے بے ترتیبی سے اِدھر اُدھر ڈال دیے تھے۔ دروغا نے پسندیدگی میں سر ہلایا۔ اُجلی چاندنی پر سب آنے والے بیٹھ گئے۔ انھوں نے دونوں دروغوں، بشیر اور مہندی سر والے مینا کو اصرار کر کے صدر میں بڑے گاؤ تکیے کے ساتھ بٹھایا تھا۔ حالاں کہ بشیرا اور مینے دونوں انکسار سے کام لیتے ہوے ہاتھ جوڑتے اور اصرار کرنے والوں کے پیروں کی طرف ہاتھ بڑھا کر اپنی عاجزی ظاہر کرتے تھے۔ پھر بھی وہ اس ایک ہی تکیے سے ٹیک لگا کے ایک دوسرے سے بھِڑ کے بیٹھ گئے اور آپس میں اُس آخری ملاقات کو یاد کرنے لگے جب "آپاں، الله بخشے زندی تھی۔”

            مینا دروغا بولا، "یار بشیر بھائی! آپ دُبل گئے، اب ڈیڑھ برس پیچھے دیکھتا ہوں آپ کو تو بہت ہی کچھ فرَق لگتا ہے۔”

            بشیر بولا کہ "ٹیم سبھی کو خراب کرتا ہے دروغا۔ میں جو ابھی فٹ پئیری پہ کھڑا سامان سمیٹتا تھا اور آپ نے اپنی کھڑکی سے جھانک کے سلام دعا کی تھی تو سچی بات ہے فوری میں تو می نا بھائی! مَیں آپ کو پِچھان نئیں پایا۔”

            مینا کہنے لگا، "کیسے بھلا؟”

            بشیر مینے کی طرف گھوما، یعنی اپنی گینڈا گردن کے ساتھ جتنا بھی گھوم سکتا تھا، اور بولا، "بئی یہ لال سر تو کبھی نئیں دیکھا تھا آپ کا۔”

            مینا مروت میں ہاہا کر کے تھوڑا ہنسا۔ "کیا کریں بھائی بشیر! ہم تو اب بوڑھی گھوڑیوں میں گنے جانے لگے۔۔  تو بس، لگام کو تو پھر لال رنگنا ہی رنگنا تھا۔ ہاہاہا!”

            حمام والا نواز دین اپنی دکان پہ گاہک چھوڑ کے آیا تھا، اُس نے دروغوں کی وقت گزاری بات چیت بیچ سے اُچک لی۔ بولا، "بڑا افسوس ہوا جی ددّی بائی کے فوت ہونے کا سُن کے۔ الله مغفرت کرے۔ میں اُس روز دکان پہ نہیں آیا تھا ورنہ جاتا مٹّی دینے۔”

            نواز دین نے پہل کی تو سب آنے والوں نے فرداً فرداً بشیر دروغے کو ددّی کا پُرسا دیا۔ سڑک کی عورتوں نے جو سر ڈھکتے ہوے اپنے ڈوپٹوں کو کانوں کے پیچھے اتنا اُڑس کے آئی تھیں کہ پیشانیوں کا بھی کچھ حصہ ڈھک گیا تھا، ہلکی آواز میں تھوڑا رو کر دکھایا، پھر چپ ہو گئیں۔ پُرسا دیتے ہوے پڑوسی اور سب برادری والے بڑے فکرمند اور نیک دکھائی دینے لگے اور پرسا لیتے ہوے دروغا بشیر ایسا مظلوم اور ستایا ہوا بن گیا جیسے موت اسی کو ستانے کے لیے ایجاد کی گئی ہے۔ اس کا قد اَور بھی تین انچ گھٹ گیا اور آواز میں پھر سیندور بیٹھ گیا۔

            پُرسے کا سلسلہ ختم ہوا تو مینا دروغے نے کھنکھار کر گلا صاف کیا اور ددّی والی لڑکیوں کے عمومی جتّھے کی طرف دیکھ کر کہا، "بھئی برادری کے لوگوں اور پڑوسیوں پنچوں نے میرے پہ ذمّہ واری ڈالی تھی تجوری کی چابی کی، تو میں نے یہ بول دیا تھا کہ اصل تو دروغا بشیر نے ہی سب دیکھنا بھالنا ہے۔۔  تو جی میں نے اُدھر تار دلوایا دیا تھا بشیر بھائی کو اور وختی طور پر۔۔  سمجھو جب ہی تک اصل وارث نہیں آوے۔۔  یہ چابی اپنے پاس رکھ چھوڑی تھی۔ اگر نہیں رکھتا تو دس طرحے کے جھگڑے ٹنٹے ہوتے۔ اِدھر ددّی جی کے پاس امانتیں بھی رکھی ہیں۔۔  اَور بھی سب کچھ ہے۔ اس لیے بھیّا! چابی سمبال کے میں جو اِدھر سے گیا تھا تو فلیٹ کی طرف اب آیا ہوں۔ میں نے اپنے کو بولا تھا کہ مینے باشّا، بہتری تیری اسی میں ہے کہ ابھی جب تک ددّی کا اصل وارث نہیں آ جاوے تُو فلیٹ کی سیڑھی مت چڑھنا، کس لیے کہ تیرے پاس تجوری کی چابی ہے۔ کدھر سے کوئی الزام بہتان نہیں بن جاوے۔۔  تو اب سب برادری والوں، پڑوسیوں کی ساکشی میں۔۔  بھیا! یہ لو۔۔  میں نے ذمہ واری اپنی پوری کر دی۔۔  لو بھئی سمبالو  ددّی جی کی چابی۔”

            مینا نے بشیرے کی طرف چابی بڑھائی۔ اُس نے چابی کو ہاتھ نہ لگایا۔ وہ آنکھیں پَٹپَٹانے لگا، مانو اب رونے ہی والا ہے۔ مینا دروغے نے شانے پہ اس کے ہاتھ رکھ دیا۔ بولا "یہ سَمَج لے بشیر چودھری کہ دنیا کا دستور یہی ہے۔ اب یہ پگ تیرے سر پہ آئی ہے۔”

            فلیٹ والیوں کے ہجوم میں کھڑی جمیلہ نے سب کی طرف دیکھا، جھک کے روزی کے کان میں کہا، "ددّی جی پگ تو نہیں باندھتی تھی!”

            روزی نے اسے سرگوشی میں جھڑکا، "بکواس نہیں کر۔”

            اس وقت تک بشیر دروغا سب کے بےحد اصرار پر ددّی جی کی چابی سنبھال چکا تھا۔ تقریر کی باری اب اُس کی تھی۔ مگر وہ دیکھ رہا تھا کہ حمام کا پروپرائٹر نواز دین بےچین ہے، جانا چاہتا ہے۔ اس نے سوچا نواز دین کو فارغ کر دوں۔ بولا "بھائی نواز دین! آپ نے بڑی شفکت، بڑی بھائی بندی وَخائی جو آپ آ گئے۔”

            "بھائی بندی” کے لفظ پر نواز دین کا منھ بن گیا۔ وہ خدا سے چاہتا تھا کہ کسی اَور بازار میں ٹھیک سی جگہ مل جائے تو وہ اس کنجر پاڑے سے دکان سمیٹ کے بس چلا جائے۔ مگر خیر، کیوں کہ بھائی کہتے ہوے دروغے کی نیت نیک تھی اس لیے اس نے خود کو تسلّی دی اور نیم قد اُٹھ کے ہاتھ بڑھا دیے۔ "اب اجازت دو دروغا! دکان پر گاہک چھوڑ کے آیا ہوں۔”

            کشمیری ہوٹل والے نے بھی ہاتھ بڑھا دیے۔ "میں بھی چلوں گا دروغے جی!”

            "بسم الله۔۔  خیر ہووے۔” کشمیری ہوٹل والا اور نواز دین چلے گئے تو لڑکے نے ان کے پیچھے فلیٹ کا دروازہ بند کر دیا۔ اب صرف برادری کے عورت مرد رہ گئے تھے، سو بشیر نے آواز کو حلق میں ہی گھونٹ کے اس میں آنسوؤں کی ملاوٹ کی اور روتے ہوے سُروں میں کہا کہ ربّ جانتا ہے آپاں جی کی چابیاں سنبھالنے کا میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ "میں تو سمجھتا تھا کہ میری چابیاں۔۔  مطلب میری خبر سنیں گی آپاں جی کہ لئو بئی بشیر گجر گیا۔۔  خیر، تار بھیجا تھا بھائی مینا دروغے نے، میں چل پڑا۔ برادری کا حکم تھا، کیسے نئیں آتا۔ ربّ جانتا ہے مجھے نئیں پتا ادھر کرایہ بجلی پانی گیس۔۔  اس میں مجھے پورا بھی پڑے گا یا ان مَصُوموں کے ساتھ، جنھانوں ریل چڑھا کے لایا ہوں، بھُکّ مرنا پئے گا۔ تو جو برادری کا حکم۔ پر ایک بات ابھی صاف کر دوں مَیں۔ سارے ای  بھائی بند بیٹھے ہیں۔۔  بشیر بھوکوں مر جائے گا پر جو کچھ آپاں جی نے ادھر میل جول، گھر  گرھستی،پیسا کوڑی بنایا ہے اس میں ایک ٹیڈی پیسے کا حق نئیں مانگے گا بشیر۔ یہ پکّی بات ہے۔”

            جمیلہ نے کسی کو مخاطب کیے بغیر آہستہ سے خود سے کہا، "کیا بات ہے! یہ دروغا نہیں درویش ہے، او ہو ہو ہو۔”

            دروغے کی تقریر جاری تھی۔ وہ کہہ رہا تھا:

            "تھوڑا بہت جمع پونجی جو بھی ہے وہ ساتھ لے آیا ہوں۔ کس لیے کہ واپس نئیں جانا۔ اب تو اسی ٹھکانے پہ بچیوں کے لیے کام تلاش کرنا ہے۔ اور بچیاں ددّی جی کی یہ نئیں نہ سمجھیں کہ ہم ان کی روزی روٹی میں رب نہ کرے کوئی کھنڈت ڈالیں گے۔ ناں ناں بئی ناں۔ بشیر دروغے نے اپنی شَگِردوں کو سکھلایا ہے کہ پتّر دوجے لوک کے روٹی رِزَک پہ نجر  نئیں ڈالنی۔ سب کو اپنی پِشانی کا لکھا کمانے کھانے دو۔ جو جس کا اسی کو مبارک۔۔  جنا کچھ کام، جو کلا بشیر نے اپنی بچیوں کو سکھلائی ہے ان کے لیے وہ ہی بس ہے۔۔  مالک کے کرم سے۔”

            بشیر دروغے کی تقریر کا جو اثر برادری پہ پڑا ہو وہ برادری جانے، ددّی کی اکثر "بچّیوں” نے اطمینان کا سانس لیا کہ دیکھنے میں تایا بشیر بھلے ہی ایسا درشنی نہ ہو پر ورتاوے میں ٹھیک ٹھاک لگتا ہے۔ ایسی کھری باتیں وہی کرتا ہے جس کے دل میں کھوٹ نہ ہو، اندر جس کے کوئی گھات لگائے نہ بیٹھا ہو۔ ددّی جی نے ان کا جو کچھ جمع جڑا سنبھال رکھا تھا یہ بھلامانس نیک نیتی سے دے چھوڑے گا۔۔  مسئلہ ہی کوئی نہیں۔ کچھ لڑکیوں نے تو اسی وقت فیصلہ کر لیا کہ تائے بشیر کی شاگردوں کو یہاں پاؤں جمانے میں مدد دیں گی۔ یہ بھلا آدمی اپنا ٹھیا ٹھکانا چھوڑ کے اِدھر آیا ہے، صرف ہماری خاطر۔ ہم ایسے بھی گئے گزرے نہیں کہ اس کی شاگردوں کی تھوڑی بہت مدد بھی نہ کریں۔

            اپنی تقریر ادھوری چھوڑ کے بشیر دروغا اب آپاں جی کی اور اپنی محبتوں کا کوئی قصہ سنا رہا تھا کہ آپاں جی اینج خیال رکھتی تھیں، اینج کرتی تھیں، کہ اُس نے دیکھا لڑکیاں پہلو بدلنے لگی ہیں اور مہمانوں میں سے کوئی کوئی جماہیاں لیتا ہے۔ تو اس نے قصّے لپیٹ لیے اور بولا، "میں اپنے حواسوں میں نئیں آں۔۔  ابھی ایک عرض برادری سے کرنا ہے کہ بئی دس منٹی کو ہور رک جاوو۔ میں تجوری کھول کے جس کسی کا جو وی ہے برادری کے سامنے حوالے کر دینا چاہنا۔” اس نے لڑکیوں سے پوچھا، "ہَیں نی بچّیو! یہ چابی تجوری کی ہے؟۔۔  ہاں بھلا؟”

            دو تین زنانی آوازوں نے جواب دیا، "ہاں جی۔۔  تجوری کی ہے۔”

            "تو فیر آئیے۔۔  یہ کام بھی نمڑ جاوے۔۔  بی بی ناجو! نیلم بائی!۔۔  توں ممّند ریاض! مینا دروغے!۔۔  آؤ جی۔۔  چلو۔۔  آ بیٹی بالو، نگی نا، چمپا بیٹے۔۔  لِکل آؤ ادھر۔”

            بشیر دروغا اُٹھا تو مینے دروغا نے بھی تکیہ چھوڑ دیا۔ مجرے والے ہال سے پوری برادری پنچایت کرتی ددّی بائی کے کمرے میں آ گئی۔

            بشیر دروغا، عطر میں بسا، نہایا دھویا، کالا پہاڑ سا، تجوری کے قریب پہنچا۔ اس نے دیکھا کہ برادری کے اہم لوگ کمرے میں آ گئے ہیں تو اونچی آواز میں بسم الله کہہ کے اس نے چابی لگائی اور بڑی عقیدت سے، جیسے اپنی بخشش نجات کا کوئی فریضہ انجام دے رہا ہو، چابی گھمائی۔ پھر زور لگا کے تجوری کا ہینڈل گرایا اور لوہے کا بھاری پٹ کھول دیا۔

            جیسی سب تجوریاں ہوتی ہیں اندر سے یہ تجوری بھی ویسی ہی تھی، غیر اہم سی۔ کیوں کہ اصل میں تو تجوری کا ڈراما اس کے باہر ہوتا ہے۔ اندر تو کاغذات یا اُجلے میلے نوٹوں کی گڈیاں، کپڑے میں لپیٹے گئے زیورات، ان کے نئے پرانے ڈبّے یا ایک آدھ کوئی فضول چیز پڑی ہوتی ہے جس کی مارکیٹ ویلیو صفر ہو __ مثلاً کسی پیارے کے سر سے اتاری ہوئی بالوں کی لٹ، صندل کی ڈبیا میں رکھی کسی بہت عزیز، بہت پیاری جگہ کی مٹّی۔۔

            اس تجوری میں بھی ایسا ہی کچھ رکھا تھا۔ یہ ناٹک نو ٹنکی میں استعمال ہونے والا گتے اور پنّی اور گوٹے کے ٹکڑوں سے بنا ملکہ کا تاج تھا، جو عام بازار میں ایک آنے کا بھی نہ بِکتا۔

            بشیر دروغے نے تاج شاہی کو تجوری سے نکال ددّی کے بستر پہ رکھ دیا۔ تاج کے نیچے پوسٹر تھے، لال پیلے نیلے رنگوں میں چھپے ہوے۔ کسی پرانی گراموفون کمپنی کا نشان تھا جس پر کالے دھبّوں والا سفید ڈَبّ کھڑبّا کتّا بھونپو میں منھ دیے بیٹھا بڑے سکون سے کچھ سن رہا تھا۔

            تجوری کے اندر کے خانے سے ایک تھیلی نکلی جس میں سکّے بجتے تھے۔ کمرے کے لوگوں میں سنسنی دوڑ گئی، ہو نہ ہو اشرفیوں کی تھیلی ہے۔ تھیلی کو بستر پر الٹا گیا تو کھلا کہ جگہ جگہ کے تانبے اور چاندی کے سکے تھے، چاندی کے کم، تانبے کے زیادہ۔

            تھیلی کے ساتھ کاغذوں میں لپٹے کچھ نوٹ ملے۔ تائے نے کاغذ الگ کیا تو دس دس کے نوٹوں کی ایک گڈی تھی، ایک سو سو کے نوٹوں کی۔ بہت ہوے تو پندرہ نوٹ ہوں گے یا بیس۔ موٹے کپڑے کی ایک اور تھیلی بھی ملی جس میں چاندی کی پرانی جھانجریں، دیہاتی قسم کے بازو بند، پازیب اور بچھوے بھرے تھے __ چاندی کے۔

            اس کے سوا ددّی کی تجوری میں کچھ نہیں تھا۔

            بشیر دروغے نے تجوری کے سب خانے، پھاٹک، ڈھکّن، پٹ سب بھاٹم بھاٹ کھول دیے تھے۔ پھر اپنا اطمینان کرنے اور کمرے کے عورتوں مردوں کی تسلّی کے لیے اس نے اپنا کالا ہاتھ تجوری میں ہر طرف پھرایا۔ اندر جھانکتے ہوے اس نے اپنی موٹی سیاہ گردن اتنی جھکا دی کہ گردن کے پیچھے گوشت کے دو چھوٹے ٹائر سے بن گئے۔

            تجوری میں نظریں اور ہاتھ پھرانے سے فارغ ہو کے بشیر دروغے نے نوشیرواں عادل کے سے انصاف اور کلبی کی سی بے نیازی سے دنیا کا سامنا کیا۔ سب کو اپنا تاریک چہرہ دکھاتے ہوے بولا، "لئو بئی یہ پیسے، زیور ہے سب۔ جس جس کا جِنّا ہے بتا دو تے چُک لئو۔۔  ہاں۔۔  اُٹھا لو۔”

            دروغے کی بھدّی آواز کمرے میں موجود ہر مرد، ہر عورت نے سن لی، مگر اس آواز میں جو کچھ کہا گیا تھا لڑکیوں میں سے کسی کی سمجھ میں نہ آیا۔ نگی نا کے سوا وہ سبھی ذرا سا آگے جھک آئی تھیں تاکہ جو کچھ سننے، سمجھنے، دیکھنے سے رہ گیا ہے، وہ سن، سمجھ، دیکھ لیں۔ مگر دروغے بشیر نے پوری بات کہہ دی تھی۔ آگے سنّاٹا تھا۔

            آخر دانہ چگتی چڑیا کی طرح آگے کو جھکی ہوئی بالو نے ضرورت سے زیادہ بلند آواز میں دروغے کو مخاطب کیا، حالاں کہ وہ اس کے قریب ہی کھڑی تھی۔ کہنے لگی، "تایا بشیر! آپ کیا کہہ رہے ہیں؟۔۔  بات سمَج نئیں آئی۔”

            شاید بالو بھی دروغے کی لاڈلی جیسی ہو گی، اس نے بڑی شفقت سے کہا، "نِکی! میں یہ بولتا ہوں کہ بئی جس کا جنّا وی ہووے، چک لئو۔ ایک دوجے کو پتا تو ہے نا کہ کِنّا کس کا ہے۔ تو فیر لے لو۔ سمبالو اپنی اپنی چیزاں۔”

            روزی ہجوم میں رستہ بناتی ہوئی دروغے بشیر تک پہنچ گئی تھی۔ اس کی آواز انتہائی تشویش میں دھیمی ہو گئی۔ "کون سی چیزیں؟ دروغا! ادھر کیا ہے؟ ادھر تو کوئی رقم، کوئی زیور نہیں دروغے جی! سمجھ نہیں آئی۔”

            دروغے کو روزی کی بات سے بڑا اچنبھا ہوا۔ یہ روزی کاکی کو کیا ہو گیا ہے؟۔۔  کیا کہہ رئی ہے یہ میری بچی؟ اس نے بلند آواز میں کہا، "پتّر یہ رقم ہے، خبرے ڈیڑھ کہ دو ہزار سے زیادہ۔ پھر یہ بازو بند، پازیب، بچھوے، جھانجر۔۔  یہ سب ہے نا میری جان!”

            روزی کو صبر کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ چیخ کے بولی، "او یہ ہمارا نہیں ہے۔ اکیلے میرے ہی چار سیٹ ہیں۔۔  سونے کے۔۔  بھاری بھاری۔ اور دس باراں ہزار سے زیادہ کی رقم ہے میری۔ سب لکّھی ہے میرے پاس۔۔  کیا بات کرتے ہو دروغا!۔۔  سنا؟۔۔  یہ نہیں ہے ہمارا۔”

            بشیر دروغے نے رسان سے ہاتھ اٹھا کر سب کو جیسے تسلّی دی۔ مگر وہ بولا تو اس کے لہجے میں قیامت خیز سردی تھی۔ "اَرام سے اَرام سے، اَرام سے بیٹا! تُوں کہتی ہے تیرا نئیں ہے، تو جس کا بھی ہے لے لو بئی۔ اور توں شور نئیں کر۔ کھپّ نئیں پا۔ دوسروں کو بھی سمجنے دے۔ اپنی بات ضرور سمجا۔۔  مگر اَرام سے۔”

            روزی کے برابر رانی آ کھڑی ہوئی۔ دروغے کے چہرے کے آگے ہاتھ نچا کے اس نے چیختی آواز میں کہا، "او اَرام گیا تیل لینے، یہ ہُوا کیا ہے؟ ہمارا سامان کِدھر ہے اوئے؟۔۔  پیسے کہاں ہیں؟”

            "پَے سے؟۔۔  سَمان؟” دروغا چیخا۔ "اوئے پے سے کا۔۔  سَمان کا میرے سے کیوں پوچھتی ہے؟”

            خبر نہیں پانچ کہ چھ زنانی آوازوں نے قیامت کے تیہے میں سوال کیا، "تجھ سے نہیں تو کس سے پوچھیں؟”

            بھینسے نے بارہ دھونکنیوں کی پھُنکار میں کہا، "ددّی سے پوچھ، ددّی سے!”

            سب سناٹے میں رہ گئے۔ ممّند ریاض نے سوچا، "افسوس! بھین کے پیٹھ پِیشے ایہو جی بکواس؟”

            چیختی ہوئی غوغائیاں ایسے چپ ہو گئی تھیں جیسے انھوں نے شاخ پر سرکتا ہوا سانپ دیکھ لیا ہو۔

            ممّند ریاض نے چھوٹی سی نقلی ڈکار لی۔ "آللے!۔۔  لئوجی، تجوری خالی پئی ہے۔۔  تے ددّی وی ایدر کوئی نئیں۔ اوللے!۔۔  پر ددّی نے وی، الله یانتا ہے، ایہوئی ٹھےٹَر کرنا سی!” پھر اس نے کچھ کڑوے پن، کچھ ہم دردی میں سوچا، "ساری یِندَگی اِناں گشتیوں، نصیباں والیوں نے اپنی وہ کرا کرا کے پےہا کٹّھا کیتا سی۔ تے ہُن، لئوجی، تجوری خالی پئی ہے۔ بھاگاں والی، بِل کُل خالی۔۔  آال لے۔۔ ․․ اوول لے!”

            پے درپے جعلی ڈکاریں سن کے، اس ہاہاکار میں بھی، سب اسے گھور کے دیکھنے لگے۔

٭٭٭

 

جانی میاں

یہ کہانی تین آدمی سنا رہے ہیں۔ ایک تو میں ہوں راوی، الگ تھلگ رہ کے قصّہ سنانے والا۔ میں کہانی میں چلتا پھرتا نظر نہیں آؤں گا۔ دوسرا زَوّار ہے۔ یہ سلطان بھائی کی گول پیٹھے والی دکان، گوالیار سائیکل مارٹ پر نوکر ہے۔ اُن کا اسسٹنٹ سمجھ لو۔ تیسرا جانی میاں کا چمچا وحید ہے۔ یہ ان کا رکھوالا ہے۔ اسے جاننے کے لیے جانی میاں کو سمجھنا ضروری ہے۔ جانی میاں رام پور کے زمیں دار ہیں۔ چالیس کے قریب ان کی عمر ہو گی، مگر ہاتھ پیر بے چارے کے قابو میں نہیں اور دماغ ایسا ہے جیسے چھوٹے بچے کا۔ وحید چمچے کے ساتھ وہ کئی برس سے گول پیٹھے آ رہے ہیں کیوں کہ یہیں کہیں آگے پیلا ہاؤس کے پاس یا فارس روڈ کی کسی بلڈنگ میں ریٹا بائی کا کوٹھا ہے۔ جانی میاں اس ریٹا بائی پہ عاشق ہیں۔ سال میں تین چار بار اپنی امّاں جانی سے سینکڑوں بلکہ شاید ہزاروں روپے لے کر بمبئی آتے ہیں اور ریٹا پہ نچھاور کر کے اپنے رکھوالے کا ہاتھ پکڑ گاڑی چڑھ جاتے ہیں۔ دوبارہ آنے کے لیے رامپور چلے جاتے ہیں۔ سلطان بھائی سے کہیں ان لوگوں کی جان پہچان ہو گئی تھی۔ اس لیے بمبئی میں یہ دکان، گوالیار سائیکل مارٹ، جانی میاں اور وحید چمچے کا پہلا اڈّا بنتی ہے۔

راوی:

تو ایک روز گول پیٹھے کے مین بازار میں، گوالیار سائیکل مارٹ کے آگے پھر ٹیکسی رکی اور دونوں ایک ایک تھیلا اٹھائے اتر پڑے۔ وحید نے ٹیکسی والے کو پیسے تھمائے اور جانی میاں کا ہاتھ پکڑ دکان کی طرف چلا۔ دکان کو پہچان کے جانی میاں کِلکاریاں مارنے لگے۔

            نئے رم پر تانیں کستے ہوے ایک فضول سے لونڈے نے انھیں دیکھا اور ٹھٹّھا مار کے دوسرے فضول سے لونڈے سے کہا، "لے بے! پھر آ گئے دونوں۔”

            دوسرے نے کام سے سر اٹھا کے دیکھا اور پیٹ پکڑ کے ہنسنا شروع کر دیا۔ "ابے شوقت! ابے او شوقت! ابے آ کے دیکھ۔۔  یہ سلطان بھائی کے رنڈی باز پھر آ گئے۔”

            دکان منٹ بھر میں جیسے تلپٹ ہو گئی۔ اندر اسٹور سے اور برابر کی گلی سے تھڑے کے ساتھ قطار در قطار  سجی کرائے کی چمچماتی سائیکلوں کے درمیان سے اٹھ اٹھ کے، اپنے کام روک کے، طرح طرح کے مددگار لڑکے اور مستری اور پنکچر جوڑنے والے، مسکراتے، دانت دکھا دکھا کے ہنستے ہوے، ٹھٹّھے لگاتے ہوے آئے اور انھیں گھیر کے کھڑے ہو گئے۔

            ایک پرانا مستری بہت سے نئے ٹائروں کو دونوں بازوؤں میں پہنے برابر والی دکان سے نکلا۔ اس نے لڑکوں کو بھیڑ لگاتے دیکھ کے ڈانٹا، "چلو بے، کیا بھیڑ لگا رکھی ہے؟ کام کے ٹیم کائے کو اُدھم کر رہے ہو؟” پھر جب لڑکے منتشر ہوے تو پرانے مستری نے جانی میاں اور ان کے چمچے کو سائیکل مارٹ کے بیچوں بیچ اسٹولوں پر ٹکے، اپنے تھیلے گودوں میں رکھے چپ چاپ دیدے گھماتے دیکھا تو لڑکوں کے جوش و خروش کی اصل وجہ سمجھ کے اس کی جھونجھل ختم ہو گئی۔ وہ مسکرا دیا اور جانی میاں کی طرف دیکھ کے بولا، "اچھا! یہ آیا ہے۔ تو پھر آ گیا بے گھونچو؟۔۔  جبھی تو کہوں یہ لمڈے کائے کو بھیڑ لگائے کھڑے ہیں۔” پھر وہ خوش دلی سے ہنستا ہوا اسٹور میں چلا گیا۔

            لڑکوں میں سے وہ جس نے سب سے پہلے انھیں دیکھا تھا اور دوسروں کو ان کے آنے کی خبر دی تھی، اٹھا اور مسکراتا ہوا پاس آ کھڑا ہوا۔ وہ بھی اصل توجہ جانی میاں کو دے رہا تھا۔ اس نے ان کی گود میں رکھے بیگ کا تسمہ پکڑ کے کھینچا، "ہئے ہَئے! آشِق جانی! کیا کیا لے آئے اپنے ماشوق کے لیے، ہمیں تو دِخاؤ۔”

            جانی میاں نے بیگ اپنی طرف کھینچا اور چھوٹے بچے کی جھنجھلائی ہوئی چنچنی آواز میں کہا، "اَزے ے۔۔  نئیں کَزو و…” اُن کے چہرے پر ستائے جانے کی الجھن اور بےبسی تھی۔ وحید چمچے نے لڑکے کا ہاتھ تسمے سے ہٹا دیا اور کہا، "مت ستاؤ انھیں۔ میں سلطان بھائی سے شکایت کر دوں گا۔”

            دھمکی کارگر ہوئی، پھر بھی لڑکے نے لوفرپن سے کہا، "چل بے۔۔  سلطان بھائی سے شکیت کرے گا۔ سالے بونگے! کہہ کے تو دیکھ۔ بھول گیا پچھلی دفے کا؟”

            دوسرے لڑکے اور مستری پچھلی بار کا قصّہ یاد کر کے ہنسنے لگے۔

            زوّار جو ہمیشہ کا بھلامانس تھا اور ہنس نہیں رہا تھا، سب کو گھور کے دیکھنے لگا۔ وحید چمچے نے اسی سے پوچھا، "کاں گئے ہیں سلطان بھائی؟ کچھ پتا ہے؟”

            زوّار سنجیدگی سے بولا، "بلٹی چھڑانے گئے ہیں۔ دیر سے آئیں گے۔”

            "کتنی دیر سے؟”

            دوسرے سب کام میں مصروف ہو چکے تھے۔ زوّار مستری نے کنکھیوں سے قریب کے لڑکوں کو پڑتالا، انھیں متوجہ نہ پا کر دھیرے سے بولا، "دیر لگ جائے گی۔۔  کھانا کھا لیا تم لوگ نے؟”

            جانی میاں جو بڑی توجہ سے زوّار کی باتیں سن رہے تھے اور اس کی صورت تکے جا رہے تھے، کند ذہنی سے مسکرائے اور اونچی آواز میں خوش ہو کے بولے، "نہیں کھایا کھانا۔۔  بوہوت بھُونک لگ زَئی ہے۔”

            زوّار نے ہاتھ کا کام چھوڑ دیا۔ اٹھا اور اپنی پتلون کی ِسیٹ پہ دونوں ہاتھ صاف کیے۔ اسی طرح سنجیدگی سے بولا، "جوزف کے اسٹال پر چلو تم دونوں۔ میں اُدھر ہی آتا ہوں۔”

            جانی میاں نے حلق سے خوشی کی آواز نکالی اور بیگ فرش پر رکھ کے اٹھ کھڑے ہوے، ڈگمگاتے ہوے چلے دکان کے باہر۔ زوّار جو اب پھر اسی پتلون پر ہاتھوں کا گریز صاف کر رہا تھا، آہستہ سے کہنے لگا، "تھیلا چھوڑ کے مت جاؤ۔۔  واپس آؤ گے تو اس میں کچھ نہیں ملے گا۔”

            وحید چمچے نے جانی میاں کا بیگ بھی اٹھا لیا۔ دونوں سائیکل مارٹ سے نکل کر جوزف کے اسٹال کی طرف چل پڑے۔ جانی میاں وحید کی بانہہ پکڑے ناہموار قدموں سے جا رہے تھے، زوّار دھیرے دھیرے چلتا ہوا ان سے پہلے پہنچ گیا۔

            جوزف کا اسٹال سڑک کے کنارے ریل کی پرانی پٹریوں پر ٹکا ہوا لکڑی کی کیبن میں تھا۔ کیبن میں ایک آدمی کے کھڑے ہونے کی جگہ تھی اور وہ ایک آدمی اندر موجود تھا۔ اس نے سب سودا سلف تین رخوں پہ لگے تختوں پر سجا رکھا تھا۔ کیبن میں دو سمووار اور بسکٹوں، پیسٹریوں، کریم رولوں سے بھرا، شیشے لگا نعمت خانہ تھا۔ دس بارہ آدمی چینی کی موٹی اُتھلی پیالیوں میں خوب گہری چائے پی رہے تھے۔ جانی میاں کو دیکھ کے اندر کھڑا آدمی "ویل ویل” کہہ کے ہنسا۔ اس کے سامنے کے دونوں نکیلے دانتوں پر سونے کا خول چڑھا تھا۔ کسی بھی طرح سے توہین نہ کرتے ہوے وہ جانی میاں کو "ڈیم بلاڈی” کر کر کے خوش آمدید کہہ رہا تھا۔ وحید یا زوّار کو دیکھے بغیر وہ جانی میاں میں مصروف ہو گیا۔ "کم آن جونی! پرنس رَیمپوری! سالا اتنا دن کِدر ریا تم؟ آشکی کرنے اپنا گریٹا  گاربو کے پاس کائیکو نہیں آیا؟”

            جانی میاں پھول کی طرح کِھل اٹھے۔ "جوسف بھائی! بوہوت بھُونک لگ زئی ہے۔”

            جوزف ٹھٹّھا مار کے بولا، "آئی نو، آئی نو۔۔  او کے، سالا جونی پرنس! میں تیرے کو اَبی مَسکا پاؤں دیتا ہے۔ صبَر کرو۔”

            جانی میاں نے تالیاں بجاتے ہوے وحید اور زوّار کو باری باری مشورہ دیا، "صبَز کرو۔۔  صبَز کرو۔” پھر وہ ندیدے پن سے جوزف کے دوسرے گاہکوں کو بسکٹ پیسٹری کھاتے چاے پیتے دیکھنے لگے۔

            جوزف نے بَن برابر چھوٹی ڈبل روٹیوں پر اپنی چوڑی پترے جیسی چھُری سے نمکین پیلے مکھن کی ایک ٹکیہ لگائی۔ بمبئی کی زباں میں یہ مسکا پاؤں تھا جسے اس نے دو نصف دائروں میں کاٹ کے ایک ایک پیسٹری کے ساتھ تام چینی کی پلیٹوں میں رکھ کے ان دو کی طرف سرکا دیا اور مشینی انداز میں کہا، "دو فل مسکا پاؤں، دو پیسٹری، دو ڈبل چائے، پاؤلی کم دو روپیہ۔۔ ” یعنی ایک روپے بارہ آنے۔ وحید نے پیسے نکالنے کو جیب میں ہاتھ ڈالا تو زوّار بولا، "رک جاؤ، رہنے دو۔ پیسے میں دوں گا۔”

            جانی میاں نے اپنا مسکا پاؤں منھ کی طرف بڑھایا اور زوّار کی باتیں سن کے رک گئے۔ طوطے کی طرح اس کی بات دہرانے لگے، "زُک جاؤ، زَینے دو، پیسے میں دوں گا۔۔  زُک جاؤ، زَینے دو، پیسے۔۔  زُک جاؤ زَینے دو…” پھر جب وحید نے ان کا کندھا تھپک دیا تو مسکا پاؤں منھ میں ٹھونس کے انھوں نے بے ترتیبی سے منھ چلانا شروع کر دیا۔

            ناشتہ کر کے دونوں سائیکل مارٹ میں واپس آ گئے۔ زیادہ تر مستری اور لڑکے اِدھر اُدھر بیٹھے کھا پی رہے تھے۔ دونوں پھر درمیان میں پڑے اسٹولوں پر جا ٹکے اور گودوں میں بیگ رکھ کے ہونّقوں کی طرح ان مسکراتے ہوے لڑکوں مستریوں کو دیکھنے لگے۔ لڑکے خاموشی سے آپس میں اشارے کر رہے تھے اور بے آواز ہنس رہے تھے۔ کچھ ہی دیر بعد اُن کی خاموشی کی وجہ سمجھ میں آ گئی۔ سلطان بھائی آ گئے تھے۔ وہ اسٹور میں تھے۔ باہر آئے تو ان دونوں کو دکان میں دیکھ کے بولے، "ارے شہزادے! کب آئے؟”

            جانی میاں سلطان بھائی کو دیکھ، کِلکاری مار کے بولے، "ہووں اوں !۔۔  ابھی آئے۔۔  بوہوت بھُونک لگ زئی تھی۔ جوسف بھائی نے پیسٹی خِلائی چا پلائی۔”

            سلطان بھائی جانی میاں کی طرف لاڈ سے دیکھ رہے تھے۔ دھیرے سے بولے، "اچھا؟ وا وا!” وحید سے پوچھنے لگے، "سیدھے اسٹیشن سے آ رہے ہو؟”

            وحید چمچے نے کہا، "ہاں۔”

            "گھر کیوں نہیں چلے گئے؟ کھانا کھا کے شام تک وہیں لیٹتے بیٹھتے۔”

            جانی میاں بول پڑے، "گھر نہیں گئے۔ بوہوت بھُونک لگ زئی تھی۔ پیسٹی کھائی چا پی۔”

            سلطان بھائی پیار سے بولے، "ہاں؟ اور کچھ کھاؤ گے؟”

            "ہاں آں…” جانی نے حلق سے خوشی کی کوئی آواز نکالی جس سے سامنے کام کرتا بیٹھا ایک لڑکا جو دیر سے ہنسی روکنے کی کوشش کر رہا تھا "پھَپ پھُو!” کر کے ہنسی میں پھٹ پڑا۔

            سلطان بھائی کے چہرے کی نرمی پلک جھپکتے میں غائب ہو گئی۔ انھوں نے ہاتھ میں اٹھایا ہوا اسکرو ڈرائیور کھینچ کے لڑکے کو مارا تو ٹھک کی آواز کے ساتھ اس کا ہینڈل لڑکے کے گھٹنے پر لگا۔ لڑکا چیخا۔ سلطان بھائی نے اسے بہت بھاری گالی دی۔ لڑکا بسورتا، لنگڑاتا ہوا دکان سے باہر چلا گیا۔

            جانی میاں لڑکے کی چیخ اور گالی سن کے خود بسورنے لگے تھے۔ وحید نے تسلّی دیتے ہوے اُن کے شانے پہ ہاتھ رکھ دیا۔ جانی میاں ٹھیک ہو گئے۔

            سلطان بھائی چور سے بن گئے۔ اُن کا موڈ بگڑا ہوا دیکھ کے سب مستری مددگار اپنا اپنا کام سنبھال دکان سے نکل گئے۔ کچھ کرائے والی سائیکلوں کے پاس جا کھڑے ہوے اور بلا ضرورت کپڑا مارنے لگے۔ کچھ نے بیڑی سلگائی۔ لنچ کا وقت ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔

            سلطان بھائی نے جیب سے چابیوں کا گچھا نکالا، تجوری کھولی، پانچ پانچ روپے کے نوٹ نکال کے چمچے کی طرف بڑھا دیے۔ "لو وحید! جانی میاں کو گھر لے جاؤ۔ ٹیکسی پکڑ لینا۔ رستے میں کریم سورتی کے ہوٹل سے چکن رَوس لے لینا۔ بولنا سلاد بھی دے۔ دہی بھی لیتے جانا۔”

            وحید پیسے نہیں لے رہا تھا۔ بولا، "ہیں میرے پاس۔ جانی میاں کی والدہ نے بارہ سو روپے دیے ہیں اِس دفعے۔” بارہ سو اُس زمانے میں بہت بڑی رقم تھی۔

            سلطان بھائی نے وحید کا کندھا تھپکا۔ "وہ سنبھال کے رکھو۔ جاؤ۔۔  انھیں ہاتھ پکڑ کے سڑک پار کرانا۔”

            وحید نے کہا "اچھا” اور سلطان بھائی کے دیے ہوے پیسے جیب میں ڈال، جانی میاں کے پنجے میں پنجا پھنسا، دکان سے اتر گیا۔

٭٭

 

زوّار:

سلطان بھائی کو پورے علاقے میں ان کے نرم اور سخت مزاج کی وجہ سے اور کاروبار میں ایمان داری اور پیسے کی وجہ سے پسند کیا جاتا تھا۔ انھیں اس وجہ سے بھی پسند کیا جاتا تھا کہ وہ شراب، سگریٹ اور فارس روڈ کی عورتوں سے دور رہتے تھے۔ سلطان بھائی جمعرات کی جمعرات قوّالی سننے سوناپور کے قبرستان ضرور جاتے تھے اور وہ بھاری بھاری گالیاں دے کر مار دھاڑ کر کے اپنے سب مستریوں اور لڑکوں کو ٹائٹ رکھتے تھے۔ انھیں فارس روڈ اور اس سے نکلنے والی گلیوں کی طرف دیکھنے بھی نہیں دیتے تھے۔ کہتے تھے ان باتوں سے بیماریاں ہوں گی اور روزگار میں نحوست پھیلے گی۔ اور کہتے تھے، "روزی، بھیّا، سب سے بڑی چیز ہے۔” خلاف ورزی کرنے والے کو سلطان دو بار دھمکی دیتے تھے۔ تیسری بار کی رپورٹ پہ بید لے کے جم کے اس کی ٹھکائی کرتے اور حساب صاف کر کے سامان اس کا سڑک پہ پھنکوا دیتے، اور بس، ہاتھ جھاڑ لیتے۔

            مگر یہ جانی میاں تو رامپور سے آتے ہی تھے گانا وانا سننے کو۔ وہ اور ان کا چمچا ریٹا بائی کے کوٹھے پہ ایک دو روز پڑے رہتے، پھر جانے سے پہلے سلطان بھائی کسی جمعرات کو سوناپور میں ان کے ساتھ قوّالی سنتے اور بامبے وی ٹی کے اسٹیشن پر لے جا کے رامپور کا ٹکٹ دلا دیتے اور انھیں گاڑی چڑھا دیتے۔

            تین چار برس سے ایسا ہی چل رہا تھا۔

            اس دفعے جو جانی میاں آئے تو سلطان بھائی کی چالی کے نئے فلیٹوں میں پانی کا کوئی مسئلہ تھا، اس لیے انھوں نے مجھے بھیجا کہ جاؤ کچھ کرو۔ میں نے ان کے نوکر اور فلیٹوں کے چوکیدار کو بالٹیاں دے کر برابر والی بلڈنگ میں بھیجا، پانی منگایا، کس لیے کہ شام کو جانی میاں نہائیں گے دھوئیں گے، گانا سننے جائیں گے۔ کھانے کے بعد سلطان بھائی نے پھر مجھے بھیجا کہ ٹیکسی لا دوں۔ ٹیکسی آ گئی تو جانی میاں کو سوار کراتے ہوے وحید کو سمجھانے لگے کہ رات میں جب بھی میاں گھر آنے کو کہیں ٹیکسی کر لینا۔ پیدل مت لانا۔ تمھیں پتا ہے، فارس روڈ کے فلاں نکڑ پر رات بھر ٹیکسی ملتی ہے۔ ٹیکسی والے کو چار آنے زیادہ دینا، وہ آگے بڑھ کے بلڈنگ کے چوکیدار کو اٹھا دے گا۔ جب تک تم لوگ گاڑی میں ہی بیٹھنا۔ اترنا مت۔ اور بھی پتا نہیں کیا کیا۔۔  حالاں کہ سلطان بھائی جانتے تھے کہ جانی میاں صبح سے پہلے ریٹا کا ٹھکانا نہیں چھوڑیں گے۔

٭٭

راوی:

ریٹا بائی والی بلڈنگ کے سامنے دونوں ٹیکسی سے اتر گئے۔ وحید چمچے نے ٹیکسی کو فارغ کر دیا۔ ان گلیوں میں سلاخوں والے شوکیس یا "پنجرے” نہیں تھے جو اس پاڑے کی پہچان ہیں۔ فلیٹوں پر ٹکی ہوئی بیسوائیں یہاں ذرا رکھ رکھاؤ سے کاروبار کرتی تھیں۔ پنجروں میں کھڑی مرغیوں، بطخوں کی طرح وہ خود کٹکٹاتی چیختی نہیں تھیں۔ ان کی جگہ اونچی آواز میں یہاں ریڈیو سیلون بجایا جاتا تھا۔ چابی والے گراموفون باجوں پر سجّو بائی بڑودکر، کالو قوّال میرٹھ والے اور کملا  جھریا کے رکارڈ لگائے جاتے تھے۔ کہیں "روزنداری” سازندے اپنے سازوں کو ٹھونک بجا کے گاہکوں کو متوجہ کرتے اور اس طرح اپنی دہاڑی پکی کرتے تھے۔

            ریٹابائی والی بلڈنگ کے نیچے پہنچے تو وحید نے سنا پہلے مالے کے فلیٹ میں گت بج رہی تھی۔ وہاں مُجرا شروع تھا۔ شاید شوشو ناچ رہی تھی۔ ریٹا بھی ناچ کے شائقین کے لیے روزنداری پر شوشو ہی کو بلواتی تھی۔ ناچنے کے نام پر وہ جو کچھ کرتی تھی اُس سے گاہکوں کی تسلّی ہو جاتی ہو گی، جبھی تو وہ ڈیڑھ دو سال سے ایمرجنسی ڈانسر کے طور پر کوٹھوں پہ بلوائی جاتی اور سارے سال مصروف رہتی تھی۔ کوٹھوں پر شوشو ڈانسر کی طرح روزنداری میوزی شیئن بھی بلائے جاتے تھے جو اپنا "کام بجا کے”، پیسے لے کے چلے جاتے تھے۔ یہ بڑے فتنہ انگیز، فقرے باز قسم کے لوگ ہوتے تھے۔ خود کو یہ مراثی یا میراثی کہتے تھے۔ ساز بجانا چاہے جانتے نہ ہوں، پھُلکا اُڑانا خوب جانتے تھے۔ ریٹا بائی کا کوٹھا ان سازندوں کے لیے جیسے گھر آنگن تھا۔ کہیں کام نہ ملتا تو ویسے ہی آ کے ریٹا کی بیٹھک میں پڑے سازوں کی سروسِنگ کر کے چلے جاتے۔

            اگر ریٹا بائی یا کوئی مہمان آرٹسٹ گانے کا اشارہ دیتی تو یہ سازندے وائلن سارنگی کے تار ملا کے، طبلوں کے لنگر لنگوٹ کس کے، ہارمونیموں کی سانسیں سنوار کے اپنی اپنی جگہ سنبھال لیتے، ورنہ گاہکوں کے انتظار میں بیڑیاں پیتے، غیبت کرتے اور اُس وقت تک آپس میں چھیڑ چھاڑ کرتے رہتے کہ جب تک سیڑھیوں پہ تماش بینوں کے قدموں کی چاپ نہ سنائی دے۔ گاہک کے آتے ہی وہ سارنگیوں پر گز پھیرنے لگتے، طبلے کھڑکانا شروع کر دیتے اور دھونکنیاں دھونک دھونک کے ہارمونیموں کی چابیوں پر انگلیاں دوڑاتے جیسے بس ریٹا بائی کے اشارے کی دیر ہے۔

            ریٹا بائی کی طرح یہ سازندے بھی سیڑھیاں چڑھ کے آنے والے نئے ملاقاتیوں کو پہلے تین چار منٹ میں جان لیتے تھے کہ کیا ہیں۔ گانے کی سمجھ رکھنے والا تو خیر یہاں کیا آتا ہو گا۔ زیادہ تر تو فلمی گانوں کے رسیا آتے تھے۔ سازندے فوراً سمجھ لیتے تھے کہ فلمی گانے چلیں گے، غزل سنی جائے گی، راگ راگنیوں کی فرمائش ہو گی یا کچھ نہیں چلے گا کیوں کہ یہ گاہک ایک دم اوپر کے مالے کا ہے۔ کچھ دیر یہاں جھک مار کے اوپر والے مالے کی سیڑھیاں چڑھ جائے گا اور وہاں جھک مارے گا۔

            روزنداری سازندے بیٹھک میں ہوتے تو اپنی کوڈ زبان میں بات کرتے تھے۔ جیسے ہی کوئی نیا پنچھی بیٹھک میں داخل ہوتا یہ ایک دوسرے کو سگنل دے کے دھیمی آواز میں جیسے اس کا استقبال کرتے۔ اگر کوئی خوب پیے ہوے لڑکھڑاتا چلا آ رہا ہے تو ایک سازندہ دوسرے کو خبردار کرتا، "لے بے سنبھال! یہ تیرتا ہوا آ رہا ہے۔” دوسرا سر ہلاتے ہوے اتفاق کرتا کہ "ہاں بھئی اب تو وہی چلے گی کہ جالِم سراب ہے ابے جالم سراب ہے۔” غزلوں کی فرمائش کرنے والے ان کے کوڈ میں چپکو، جونک یا "صاحبےجَونک” کہلاتے تھے اور بہت پرانے گیتوں کے شائق "سروتا کہاں بھولیائے گروپ”۔ کبھی سازندوں کا اندازہ غلط بھی ہو جاتا تھا یعنی کوئی دیکھے سے غزل سننے والا لگتا مگر آتے ہی سروتا کہاں بھولیائے ٹائپ گانے کی فرمائش کر دیتا تو سازندے آپس میں بڑے خفیف ہوتے تھے۔ ان میں سے کوئی بھنّا کے سر کھجاتے ہوے پاس والے سے کہہ دیتا "دیکھا؟ سالے نے کیسا دایاں دِکھا کے بایاں مارا ہے۔” برابر والا آگہی میں سر ہلاتا، زمانے کا شکوہ کرتا کہ "ہاں بھائی! ایمان داری تو جیسے اُٹھتی جا رہی ہے۔۔  کوٹھوں سے۔”

            جانی میاں اور وحید ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ریٹابائی کی بیٹھک میں داخل ہوے تو بِلُوچَن طَبلیے نے طبلے پہ ہاتھ مار کے نعرہ سر کیا، "جانی! آؤ میرے جانی!” اور بیٹھک سے آوازوں کی ایسی بھنبھناہٹ اٹھی جیسے ایک فائر پہ بھرے کھلیان سے سَو چڑیاں بھرّا مار کے اُٹھتی ہیں۔ پھر اس آواز پہ طبلے کی چال غالب آ گئی۔ بلوچن نے اپنی جوڑی پہ "تَتَت تھا، تَتَت تھا، تَتَت تھا، تری گتَت تھا” نکال کے جانی میاں کا استقبال بجایا۔

            جانی میاں منھ کھول کے ہنسے اور خوشی سے اُمگ کے آواز دی، "ہے اے اے رِی تا!”

            ریٹابائی پھولوں کے گہنے پہنے تکیے سے ٹکی بیٹھی چھوٹی سی ایک ڈبیا کے شیشے میں اپنے دانتوں کی مسّی چیک کر رہی تھی اور اس کوشش میں اپنے خوب صورت دہانے کو توڑ موڑ رہی تھی۔ اس نے بلوچن کا نعرہ سن کے شیشہ سامنے سے ہٹا کے دیکھا کہ جانی میاں اپنے چمرودھے جوتوں سمیت فرشی نشست پر چڑھے چلے آتے ہیں تو فی الحال اس نے درگزر کیا اور لوفر مردوں کی طرح سینے پہ ہاتھ مار کے بولی، "ہائے جانی! تُو آ گیا میرے ماشوک؟” پھر وہ اپنے سرو قد سے اٹھی اور پازیب بجاتی جانی میاں کی طرف چلی۔ بلوچن نے بجایا: نادِر دِھن نا، نادِر دِھن نا، نادِر دِھن نا۔ ریٹا نے قدم بدلا۔ ترِی کٹ دِھن نا۔ بلوچن اس چال کی سنگت میں تھا، اس نے سچی تال دی۔ ریٹا نے اسے دیکھ کے ایک بار تعریف میں سر خم کیا۔ بلوچن داد وصول کرتے ہوے جوڑی پہ ایک دم جھک گیا۔ ریٹا بڑھ گئی۔ اس کا شاہانہ خرام پست درجے کے اس تمام چھچھورے بازاری گرد و پیش میں یوں لگتا تھا جیسے بلبلے اُٹھاتی کیچڑ پہ زرِ خالص کی چھُوٹ پڑتی ہو۔

            جانی میاں نے اپنی ریشمی کُرتے کی جیب میں ہاتھ ڈالا، اوبڑ کھابڑ پنجے میں دبوچے ہوے پانچ روپے والے چھ آٹھ نوٹ نکالے اور جب ریٹابائی تنُولکر کا شمشادقد میاں کے آگے سلام کو جھکا تو انھوں نے حلق سے بے انتہا مسرّت کی آوازیں نکالتے اور اپنے کرتے پہ تقریباً رال گراتے ہوے مٹّھی کو چار چھ بار ریٹا کے سر کے گرد گھمایا، پھر سارے نوٹ برابر میں بیٹھے جگن ہارمونیم والے کو پکڑا دیے۔

            ریٹا نے کنکھیوں سے دیکھا اور "حرّام کے!” کہتے ہوے جگن ہارمونیم والے کے پنجے میں آئے مڑے تڑے نوٹوں پہ جھپٹّا مارا، پھر ہنستے اور جانی میاں کو آداب کرتے ہوے وہ سب اس نے اپنے بلاؤز کے گریبان میں ٹھونس لیے۔ جگن کے سوا تمام سازندوں اور پڑوس کی آئی ہوئی نائکہ نے مسرّت کا نعرہ بلند کیا۔ "ہے اے شاباس!”

            بِلوچَن طبلیے نے سلامی بجائی۔ جانی میاں اس تال پر اپنے بےڈول سراپے کو گردش دیتے ہوے اٹھے ہی تھے کہ ریٹا نے شانوں پہ ہاتھ رکھ کے وزن ڈالتے ہوے انھیں بٹھا دیا۔ پھر اس نے برابر میں اُداس بیٹھے اپنے بوڑھے سارنگیے کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ "دَدّا فےجُو! ایک اکنّی دینا۔” فےجو نے اسی اداسی سے اپنی قمیص کی جیب میں ہاتھ ڈالا، ریزگاری نکالی، ایک اکنّی منتخب کی اور ریٹا کو پکڑا دی۔

            ریٹا جانی میاں پہ جھکی تو پھولوں میں گندھی اس کی چوٹی میاں کے چہرے سے آ لگی۔ انھوں نے بڑی پُر شور چھینک ماری اور نائکہ ہنس کے بولی، "ہے شاباس!”

            ریٹا نے ہنستے ہنستے مانگے کی وہ اکنی میاں کے سر کے گرد تین بار گھمائی اور جگن ہارمونیم والے کی گود میں ڈال دی۔ جگن نے بُرا سا منھ بنا کے چٹکی سے وہ اکنّی اٹھائی، جیسے سکّہ نہ ہو مردہ کیڑا ہو، اور "آآآااا” کے ساتھ لَے کاری کرتے اور پیٹی کے "اُوپرلے” نوٹ پہ انگلی ٹکا کے، گایکوں کی طرح ہاتھ چلاتے ہوے اسے کھڑکی سے باہر اُچھال دیا۔

            بوڑھی نائکہ نے ایک بار اَور "ہے شاباس!” کہا۔

            جانی میاں تالی بجانے لگے۔ اب سیڑھیوں پہ لوگوں کے چڑھنے کی آہٹ سنائی دی۔ سب سنجیدہ ہو گئے۔ ریٹا کے اشارے پر جگن ہارمونیم والا اٹھا۔ اس نے اپنا بھدّا ہاتھ بڑھا کے جانی میاں کو بانہہ سے پکڑ کے اٹھانا چاہا۔ میاں نے احتجاج کی تیز آواز نکالی "نااائیں! نہیں کزو!” جگن نے مضبوط گرفت میں ان کی بانہہ کو جھٹکا دیا۔ ریٹا نے سمجھانے کی آواز میں مگر غصّے سے آنکھیں دکھا کے کہا، "جاؤ۔ اُدھر جا کے بیٹھو۔ چلو۔”

            جانی میاں مان گئے۔ وحید چمچے نے جگن کے ہاتھ سے میاں کی بانہہ چھڑائی اور جہاں دیوار کے ساتھ بیٹھنے کو کہا گیا تھا میاں کو اُدھر لے چلا۔ وہ ابھی تک جوتے پہنے ہوے تھے۔ ریٹا نے کھردری، بے مروّت آواز میں وحید سے کہا، "جوتے اتار اس کے اور اسے سمجھا کے رکھ۔ بول کھاموش بیٹھنے کا ہے۔۔  میمان آ رئے ہیں۔”

            جانی میاں نے ہاں میں سر ہلایا اور دھیرے سے ریٹا کی بات دہرائی، "میمان آ رئے ہیں۔۔  میمان آ رئے ہیں۔”

            بیٹھک پہ تماش بین چڑھ آئے تھے۔ جگن نے ہارمونیم کھینچ کے گت بجانی شروع کر دی۔ بِلوچن طبلیا، جو کوئی طبلچی میراثی نہیں ذاتی کا دھوبی تھا اور اسی لیے بِلوچن (بلیچنگ پاؤڈر) کے نام سے مشہور تھا، ایک دم جوش و خروش سے سنگت کرنے لگا۔

            کام کا وقت شروع ہو گیا تھا۔

            ریٹا کا گانا شروع ہوا تو جانی میاں نے وہی سب کیا جو دوسرے تماش بین کر رہے تھے۔ وہ خوش ہو ہو کے تالی بجاتے، جب جی چاہتا جیب سے نوٹ نکال کے ریٹا بائی کو پیش کر دیتے۔ پھر وہ دیوار سے ٹیک لگا کے بیٹھے بیٹھے سو گئے تو کسی چھچھوری نوچی نے، جو انھیں پہلی بار دیکھ رہی تھی، کھونٹی پہ ٹنگی گوٹا لگی پشواز اُتار میاں پر ٹانگ دی۔ ان کا چھوٹا سا گھونگھٹ بھی نکال دیا۔ تماش بینوں میں سے ایک، جو نوچی کو برابر گھورے جا رہا تھا، زور سے قہقہہ مار کے ہنسا۔ وحید نے جانی میاں کے اوپر سے پشواز ہٹا لی۔ اُس وقت وہ نیند میں آسودہ بچے کی طرح مسکرائے تھے۔ یہ دیکھ کے باقی کے تین تماش بین بھی ہنس پڑے۔ ددّا فےجُو نے اداسی سے اور ریٹا نے خنجر آنکھوں سے بے ڈھب ٹھٹھول کرنے والی نوچی کو دیکھا۔ وہ سمجھ گئی کہ اس بےضابطگی پر بعد میں ریٹا اسے گالیاں سنائے گی۔ ہو سکتا ہے کہ دو ایک ہاتھ بھی جڑ دے۔

            بارہ بجے تک __ جو تماش بینی کا سرکاری وقت تھا __ یہ آون جاون لگی رہی۔ بارہ کے بعد علاقے کے تھانے والوں نے کچھ دیر اَور صرف ایمرجنسی کیسوں کو کچھ لے لِوا کے کوٹھوں کی سیڑھیاں چڑھنے دیں۔ پھر یہ سلسلہ بھی ختم ہوا۔ ایک ایک دو دو کر کے کوٹھوں کی روشنیاں بجھنے لگیں۔ سازوں کی آوازیں ختم ہوئیں۔ اوپرلے مالے تک انتہائی ہنگامی ضرورت میں جانے والے بھی اکادکا رہ گئے۔ پھر پولیسیوں نے خواہ مخواہ منڈلانے والوں کو گالیاں دینا، بید مارنا اور سیٹیاں بجا بجا کے علاقے سے نکالنا شروع کر دیا۔ ایک بجے تک سب جا چکے تھے۔

            ریٹا تنولکر نے سیڑھیوں پر جا کے قفل ڈال دیا۔ اس نے بیٹھک کے قالین پر لانڈری کی تازہ دھُلی چادر پھیلا دی۔ تب کہیں آبکاری محکمے کے انوسٹی گیٹنگ ایجنٹ کو، جس کا اصل نام آئی بی جھا تھا، اس نے اپنی سہ ماہی رپورٹ لکھانی شروع کی۔

            وہ جو جانی میاں بنا ہوا تھا، اپنا سوانگ بھُلا کے گاؤ تکیے پہ سر رکھے بے آرامی میں بھی بے خبر سو گیا۔

٭٭

جانی میاں کا چمچا وحید:

آپ کو ابھی ابھی معلوم ہوا ہو گا کہ میرا نام آئی بی جھا ہے اور میں سرکاری آدمی ہوں۔

            قصّہ یہ تھا کہ راجستھان اور سنٹرل انڈیا کی سرحدی بیلٹ پر بہت سی جگہ چوری چھپے افیم کی پیداوار شروع ہو گئی تھی۔ وہ سیدھی بمبئی لائی جاتی تھی، آگے پہنچانے کے لیے۔

            یوپی کے طے شدہ اوپیم کلٹی ویشن کے بہترین علاقوں سے بھی کسی قسم کی اینٹری، اندراج کے بِنا چوری کی افیم ادھر بامبے آنے لگی تب سنٹرل گورنمنٹ کو فکر ہوئی۔ آبکاری پولیس کی ناکامی کے بعد معاملہ اوپر تک پہنچ گیا تو سنٹر سے مجھے انوسٹی گیٹنگ ایجنٹ مقرر کیا گیا۔

            ریٹا  تنولکر کو چار برس پہلے اوپر والوں نے بھرتی کیا تھا۔ بڑی ایفی شینٹ اور دلیر عورت تھی۔ ویسے مجھے اس کی بیگ گراؤنڈ نہیں معلوم۔ مجھ سے تو بس یہ کہا گیا تھا کہ اس اس طرح کر کے میں گول پیٹھا بمبئی کے علاقے میں سلطان بھائی کی دکان کو اپنا لانچنگ پیڈ بناؤں اور ہر تین چار مہینے پیچھے ریٹا سے رپورٹ لے لے کے اڈوائس کرتا رہوں۔

            میں خود حیران ہوا تھا کہ جانی میاں کیریکٹر کا اور ایک پروفیشنل ایکٹر کو ہائر کرنے کا خیال سنٹرل گورنمنٹ کو آیا کیسے، مگر اُس وقت ایک گورا (آئر لینڈ والا) ہمارا باس تھا۔ سنا ہے آئرش لوگوں کو ڈراما اور ادکاری کا بڑا شوق ہوتا ہے۔

            خیر، اس نو ٹنکی ٹائپ کام سے آخر آخر میں نے سمجھوتا کر لیا۔ پھر سلطان بھائی نے (جسے خبر نہیں اس پلان کی کتنی جانکاری تھی، یا بالکل نہیں تھی) بہت کوآپریٹ کیا اور میرا کام چل پڑا۔

            اس دوران میں بہت سے لوگ پکڑے گئے۔ سمجھو تو ہم نے پورا نیٹ ورک افیون ٹریفک کا توڑ کے رکھ دیا۔

            بمبئی کی یہ میری آخری وِزٹ تھی۔ مجھے تین مہینے کی رپورٹ لینا تھی کہ کتنے "گدھے” پکڑے گئے (اپنے سامان میں یا بدن پر چھپا کے افیم لے جانے والے گدھے کہلاتے ہیں)۔ تو کتنے گدھے، ریٹا اور سلطان بھائی اسٹریجی سے اس مدّت میں اریسٹ ہوے یہ رپورٹ لے کے مجھے بامبے کو گڈ بائی کہنا تھا۔

            ایک رات اَور جانی میاں کو ریٹا بائی کے کوٹھے پہ گزارنی تھی۔ پھر اپنا تان طنبورہ لپیٹ کے ہمیں بمبئی چھوڑ دینی تھی۔ ان دوستوں، ریٹا، جوزف، سلطان بھائی اور زوّار سے یہ ہماری آخری ملاقات تھی۔

            گوالیار سائیکل مارٹ سے سلطان بھائی کے گھر پہنچے تھے تو ہم نے ٹیلی فون گھمانے شروع کیے تھے۔ ریٹا بائی کو فون کیا تھا۔ سب سے پہلے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ جانی میاں اور ان کا چمچا بمبئی آ گئے ہیں۔

            ریٹا سو رہی تھی۔ اس کی گجراتی نوکرانی سے میں نے کہہ دیا کہ "اے سنو! بائی سو کے اٹھے تو اسے جرور جرور بول دینا کی بھولا بھائی جوہری کا پھون آیا تھا۔ بائی جرور جرور میرے کو دکان پر پھون کر لیوے۔”

            نوجوانی میں اے آئی آر پہ یہ سب ڈرامے بہت کیے تھے میں نے، تو وہ چسکا تو تھا ہی۔ ریٹا کی نوکرانی کو بھولا بھائی جوہری کی طرف سے چھوٹے موٹے گفٹ، لونگ، چھلّا، لاکٹ ملتے رہتے تھے۔ وہ جوہری نام سن کے "ہا ہا بھائی!۔۔  ہے بھلا، ہے بھلا” کرتی رہی۔ ریٹا کے اٹھتے ہی پہلی خبر وہ یہی سنائے گی کہ بھولا بھائی کا پھون آیا تھا۔ یہ اس بات کا سگنل تھا کہ جانی میاں بمبئی آ گئے ہیں۔ آج رات میں کسی وقت ریٹا کی بیٹھک پہ پہنچ جائیں گے۔

            پرسنلی میں اس عورت سے بڑا اِمپریس ہوا ہوں۔ کبھی وقت ملا تو اسے، ریٹا بائی تنولکر کو، اس کی لائف کو انویسٹی گیٹ ضرور کروں گا۔

            کسی انوکھے سسٹم کے حساب سے ریٹا بائی ناکام ایکٹروں، جواریوں اور اسمگلروں کے گدھوں میں بہت پاپولر تھی۔ تماش بینوں کی یہ تین قسمیں سارے سال ریٹا کے فلیٹ کی سیڑھیاں چڑھتی اترتی رہتی تھیں۔ ناکام ایکٹروں والی بات سمجھ میں آتی تھی، کیوں کہ مشہور تھا کہ ریٹا خود اپنے وقت کی بڑی مشہور ناکام ایکٹریس تھی۔ فلموں میں چانس، شہرت اور بڑی بڑی رقموں کے خواب دیکھنے والے ایکٹروں کو کہیں سے پیسے ہاتھ آ جاتے تو وہ اس مشہور ناکام ایکٹریس ریٹا کے پاس ضرور آتے تھے۔ ایسے کیسوں کو یہ بہت مہارت سے ہینڈل کرتی تھی۔ ان سے کہتی تھی کہ خود اسے فلموں میں ناکام ہونا ہی تھا کیوں کہ اس میں وہ بات نہیں ہے جو کسی اٹھنے والی ایکٹریس یا ایکٹر میں ہونی چاہیے۔ ریٹا اس تماش بین ناکام ایکٹر میں وہ بات ڈھونڈ کے بتا دیتی کہ یہ دیکھو، تم کو تو جیتنا ہی جیتنا ہے، زیادہ دن مار نہیں کھا سکتے۔ پھر وہ ایکٹر ریٹا کی سیڑھیاں اتر کے نئے ولولے سے فلم اسٹوڈیو کے رستوں پر جوتیاں چٹخانے، خوار ہونے کو چل پڑتا اور بعد میں بھی بار بار آتا۔

            جواریوں کے ساتھ ریٹا اپنا گڈ لک والا کھیل کھیلتی تھی۔ کہتی تھی میں اس پاڑے کی سب سے لکی لڑکی ہوں۔ پرسوں تمبولے میں سوا سو روپے جیتے۔ دو مہینے پہلے میرے نام پانچ ہزار کی لاٹری کھلی تھی۔ اس سے میں نے اندھیری میں ایک پلاٹ خرید لیا ہے۔ اب سنڈے کو ریس کھیلوں گی۔ دیکھنا جیتوں گی ضرور۔

            اسمگلروں کے گدھوں کو ریٹا شک بھی نہیں ہونے دیتی تھی کہ وہ انھیں پہچان گئی ہے۔ انھیں وہ بمبئی کے بڑے شان دار دھندے بازوں، اسمگلروں کے کڑکی کے دنوں کا حال سناتی تھی۔ پھر ان کا مقابلہ اپنے اس فرضی ٹھیکےدار سے کرتی تھی جس نے اسے یہ فلیٹ خرید کے دیا تھا اور جو "حرّام کا جنا” ریٹا کی آمدنی کا اسّی پرسنٹ کھینچ کے لے جاتا ہے۔ "میں تو اِدھر کی اِدھر ہی ہوں۔ اُس نے دیکھو، ورلی میں پھر ایک بلڈنگ خرید لی ہے، میری کمائی سے۔” اسمگلر کے گدھے میں خود اُسی کے لیے رحم جگانے کے بعد ریٹا اسے اَور نہیں چھیڑتی تھی۔ وہ دوسرے تیسرے پھر آتا اور شراب کے نشے میں، یا ویسے ہی اپنے دل کی کڑواہٹ میں، بیچ کے بڑے آدمی کو، جس کا صرف نام گدھے نے سن رکھا ہوتا، خوب گالیاں دیتا۔ ریٹا بھی اپنے فرضی ٹھیکےدار کو گالیاں دیتی، کوستی اور اس طرح یہ بات پکّی ہو جاتی کہ یہ آدمی فلاں اسمگلر کا گدھا ہے۔ ذرا ٹائم دے کے پہلے بیچ کے بڑے آدمی کو، پھر گدھے کو پکّے ثبوت شہادتوں کے ساتھ اُٹھا لیا جاتا۔ اکثر تو گدھے کو شبہ بھی نہ ہوتا کہ جو دو چار سال کے لیے وہ اندر ہو گیا ہے تو یہ خود اس کی اپنی بک بک کی وجہ سے ہوا ہے۔

            اس طرح بیچ کے آدمیوں اور گدھوں کی سپلائی قریب قریب بند ہو گئی ہے۔

            اس کا کریڈٹ ریٹا_سائیکل مارٹ_جانی میاں پراجیکٹ کو جاتا تھا۔

            خیر۔ ہم نے پراجیکٹ وائنڈ اَپ کیا۔ وہ ایکٹر جو جانی میاں کا رول کرتا رہا تھا، بامبے چھوڑتے ہوے ایک دم سینٹی مینٹل ہو گیا۔ کہنے لگا، "میں سلطان بھائی سے ملے بنا بمبئی نہیں چھوڑوں گا۔ وہ گریٹ آدمی ہے۔ اس کو تھینکس ضرور بولنے کا ہے۔” پھر بولا کہ جوزف اور زوّار کو بھی ملوں گا۔ میں نے سمجھایا بھی کہ مسٹر! چَیپٹر کلوز کرو۔ رات گئی بات گئی۔ مگر وہ سر ہو گیا کہ نہیں جھا صاحب! پلیز! فر گاڈز سیک۔ تو ہم نے سلطان بھائی کے گھر سے اپنے بیگ اٹھائے اور نارمل کپڑوں میں ہم گوالیار سائیکل مارٹ پہنچ گئے۔ ایکٹر نے رامپوری زمینداروں کے کُرتے واسکٹ کی بجائے سفید شرٹ اور سَرج کی کالی پینٹ پہنی ہوئی تھی، ٹائی بھی کھینچ لی تھی اس نے۔ میں نے بھی وحید چمچے کا کرتا پیجامہ لپیٹ کے بیگ میں ڈال دیا تھا۔ میں بش کوٹ پینٹ میں تھا۔

            ہم ٹیکسی سے اترے تو جانی میاں کھیلنے والے ایکٹر کے ہاتھ میں دونوں بیگ تھے۔ اس نے جیب سے والٹ نکال کے ٹیکسی کا کرایہ دیا اور جمے ہوے قدموں سے سائیکل مارٹ کی سیڑھیاں چڑھ کے وہ میرے پیچھے آ کھڑا ہوا۔ تازہ شیو بنائے، کلون لگائے، وہ وہی نظر آ رہا تھا جو وہ تھا: پروفیشنل ایکٹر اور مزے کا آدمی۔

            سلطان بھائی، زوّار اور دو لڑکے اس وقت دکان میں موجود تھے۔ وہ سبھی ایکٹر کو آنکھیں پھاڑے دیکھ رہے تھے۔

            حیرت ان کی نیچرل تھی۔ وہ جانی میاں کے ہم شکل ایک دنیا دار کو دیکھ رہے تھے جو وکیل، ڈاکٹر، انجنیئر۔۔  کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ لڑکھڑاتا، رال گراتا، کم زور دماغ بچے کی طرح ایک ہی بات دہراتا وہ قابلِ رحم مڈل ایجڈ آدمی کہیں نہیں تھا جسے اتنے برس سے وہ جانتے تھے۔

            میں نے اور اُس نے __ جانی میاں نے __ ہاتھ بڑھا کے سلطان بھائی سے شیک ہینڈ کیا۔ ہم ہلکے سے ہنسے بھی۔

            سلطان بھائی کی سمجھ میں ابھی تک کچھ نہیں آیا تھا۔ وہ ہکلا رہے تھے، "آپ؟ تم لوگ؟۔۔  مطلب تم وحید ہو نا؟ اور یہ۔۔ "

            میں نے کہا "ہاں سلطان بھائی! میں وحید تھا۔۔  اب نہیں ہوں۔ آئی بی جھا میرا نام ہے۔ آئیے۔۔  اندر چلتے ہیں۔ یہاں لڑکے بھیڑ لگا رہے ہیں۔”

            "نہیں ٹھیک ہے،” سلطان بھائی الجھ کے بولے، "بات سمجھاؤ مجھے۔”

            میں سمجھ گیا۔ انھیں اوریجنل پلان کی جانکاری نہیں تھی۔

            اس لیے ڈی ٹیل میں جائے بنا میں نے انھیں بتایا کہ ہم ریٹا کے ساتھ کس مشن پہ تھے۔ "اور سلطان بھائی، آپ نے نہ جانتے ہوے بھی اپنے دل کی نیکی میں ساتھ دیا ہے ہمارا۔ گورنمنٹ کا ہاتھ بٹایا ہے۔ یہ ایک طرح سے بہت بڑی پبلک سروس ہے آپ کی۔ سلطان بھائی! یو آر گریٹ۔”

            وہ اسٹول پہ ٹک گئے۔ ایک ایک بار ہم دونوں کو دیکھا۔ مسکرائے۔ بولے، "تو تم گدھے پکڑنے آئے تھے؟

            میں نے ہاں میں سر ہلایا۔ وہ بولے، "بھیّا! سب سے پہلا گدھا تو تم نے یہی پکڑا، سلطان بھائی؟”

            وہ جو جانی میاں بنتا تھا، ہنسا۔ سلطان بھائی نے اس کی طرف دیکھا بھی نہیں۔ مجھے گھورتے رہے۔ میں نے سمجھانا شروع کیا کہ ریٹا کی جان کو خطرہ تھا اس لیے کہ وہ افیم والے لوگ بڑے پاورفل ہیں۔ وہ کوٹھوں پہ آتے جاتوں پر برابر نظر رکھے ہوے تھے۔ ہمارے باس کا اڈوائس یہ تھا کہ ایجنٹ کو ریٹا کے پاس بھیجو تو وہ چوری چھپے نہیں جائے۔ جلوس بنا کے گھسے، اُجاگر میں، کیوں کہ جلوس کا کوئی نوٹس نہیں لیتا۔ ہہہ ہاہا! جیسے ٹرائے شہر کے لوگ لکڑی کے جاسوسی گھوڑے کا جلوس باجے گاجے کے سنگ خود اپنے شہر میں لے گئے تھے۔۔  تو اس طرح۔۔ "

            جو جانی میاں بنتا تھا برابر سلطان بھائی کو تکے جا رہا تھا۔ خیر نہیں اس نے کیا دیکھا کہ جو لایا تھا جلدی سے وہ گفٹ پیک اس نے بڑھا دیا۔ بولا، "سلطان بھائی! سر! یہ ہاتھی دانت کا گھوڑا لایا ہوں۔۔  اُن دنوں کی یاد میں کی جب۔۔ "

            سلطان بھائی نے اس کے ہاتھ پہ ہاتھ مارا۔ پیکٹ گر گیا۔ وہ پھنسی ہوئی آواز میں بولے، "مادر کھودو! یہ گھوڑا اٹھاؤ اور دو منٹ میں گول پیٹھے سے نکل جاؤ۔ اور اگر دیری کی تو اُلٹ کے ہم یہ گھوڑا تمھاری پتلون میں ڈال دیں گے۔ چلوت۔۔  تمھاری!” اور یہ کہتے ہوے وہ اسٹور میں چلے گئے۔

            ہم نے زوّار کی طرف دیکھا۔ اس نے سامنے پڑا پائپ پانا اُٹھا لیا تھا۔

            ہم دونوں جلدی میں سائیکل مارٹ کی سیڑھیاں اتر گئے۔

            پتا نہیں کیسے لوگ ہیں بمبئی کے!

٭٭

زوّار:

وہ دونوں دکان سے اتر گئے، نہیں تو ضرور کوئی رپھڑا بن جاتا۔ الله جانتا ہے سلطان بھائی تو پھر ٹائم لیتے، میرا دل یہ کرتا تھا کہ ان حرامی سرکاری آدمیوں پر پانا لے کے پل پڑوں۔

            اُن سالوں کو کچھ پتا ہی نہیں۔۔  معلوم ہے سلطان بھائی اِشٹور میں گھسے تھے تو روتے ہوے گھسے تھے۔ آج تک، الله جانتا ہے، کسی نے انھیں ایسی پوجی شن میں نہیں دیکھا۔

            میرے کو پچھلا سب پتا ہے۔

            سلطان بھائی سے پانچ چھ برس چھوٹا ایک بھائی تھا، کم زور دماغ کا۔۔  جان محمد۔۔  سب جانو جانو کہتے تھے۔ یہی سلطان بھائی اس کو لیے لیے پھرتے تھے سب جگے۔ اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتے تھے۔ نو دس برس کا ہو کے وہ جان محمد مر گیا تو باپ کو، سوتیلی ماں کو چھوڑ چھاڑ یہ بمبئی آ گئے۔ پھر نہیں گئے۔ چوری چھپے یاد بھی کرتے تھے اُس جان محمد کو۔ جب سے یہ حرامی لوگ نے آنا جانا شروع کیا تھا، خوش رہنے لگے تھے سلطان بھائی۔

            انھیں سرکاری آدمیوں کو تو کچھ پتا ہی نہیں ہے سالوں کو۔

            اچھا ہے ٹائم سے نکل گئے، نہیں رپھڑا بن جاتا۔

٭٭٭

 

کھڑکی

میں نے پہلی بار اسے اپنے محلے کے ایک کلینک میں دیکھا تھا مجھے ڈاکٹر سے کسی قسم کا سرٹیفیکیٹ لینا تھا اور وہ انجکشن لگوانے آئی تھی۔ آئی کیا بلکہ لائی گئی تھی۔ ایک نوجوان جو شاید چچا یا ماموں ہوگا اسے گود میں اُٹھائے سمجھا رہا تھا کہ سوئی لگوانے میں زیادہ تکلیف تو نہیں ہوتی البتہ ٹافی کھانے کو ملتی ہے اور امی پر اور دوسرے لوگوں پر رعب الگ پڑتا ہے۔ بات یقیناً اس کی سمجھ میں آ رہی تھی۔ رعب شاید سمجھ میں نہ آ رہا ہوگا لیکن ٹافی کا سن کر ذرا حوصلہ مند دکھائی دی تھی پھر تھوڑی دیر بعد وہ فکر مند اور خوف زدہ ہو کر ادھر اُدھر دیکھنے لگتی تھی جدھر سے کمپاؤنڈر کو سوئی لے کر آنا تھا۔

 چچا ماموں کی نشست ایسی تھی کہ وہ میری طرف پیٹھ کئے بیٹھا تھا اس کے پہلو اور بانہوں سے جیسے کھڑکی سی بن گئی تھی اور اس کھڑکی میں سے اس کا پورا چہرہ، اس کا ایک ایک تاثر مجھے صاف نظر آ رہا تھا۔ کھڑکی سے دیکھتے ہوئے ایک بار میری نظریں اس سے ملیں۔ اس وقت چچا ماموں اُسے سمجھا رہا تھا کہ تیرا بھائی جان تو انجکشن لگواتے ہوئے روتا ہے۔ ڈرتا ہے نا! اس لئے روتا ہے۔ تو بالکل نہیں ڈرتی، بڑی بہادر ہے۔

 جس وقت چچے ماموں نے یہ بات کہی ٹھیک اس وقت منی بانہوں کی کھڑکی سے جھانک کر مجھے دیکھ رہی تھی۔ میں نے آہستہ سے سر ہلا دیا۔ اس بات سے اتفاق کیا۔ منی نے جب دیکھا کہ چچا ماموں کے علاوہ دوسرا کوئی اسے بہادر سمجھ رہا ہے تو وہ ہولے سے مسکرا دی۔ میں نے دیکھا کہ وہ اترا کر مسکرائی تھی۔ جیسے مجھے اپنی بہادری کے رعب میں لے رہی ہو۔ جتنی دیر میں کمپاؤنڈر آیا اتنی دیر میں منی اشاروں میں مجھے سمجھا چکی تھی کہ اصل میں وہ بڑی بہادر ہے۔ انجکشن ونجکشن سے بالکل نہیں ڈرتی۔

 میں نے بھی بانہوں کی کھڑکی سے رازدارانہ دیکھتے ہوئے سر ہلا ہلا کر اس بات سے اتفاق کیا اور بتا دیا کہ میں پوری طرح اس کی بہادری کے رعب میں آ گیا ہوں۔ منی نے اپنی نو دریافت دلیری کے غرور میں ذرا سر اٹھایا تھا کہ سامنے سوئی اُٹھائے کمپاؤنڈر آن کھڑا ہوا۔ بہادری اور خوف کی کسی درمیانی کیفیت میں اس نے ہلکی سی آواز نکالی اور گھبرا کر بانہوں کی کی کھڑکی کے پار شاید مدد کے کے لئے میری طرح دیکھا۔ اس وقت کمپاؤنڈر نے اس کے بازو پر اسپرٹ میں بھیگی روئی ملنا شروع کر دی تھی۔ منی متوقع تکلیف کے خیال سے منہ بسورنے لگی ٹھیک اس وقت جب کہ وہ آواز سے رو سکتی تھی میری نظریں اسکی نظریں پھر ملیں۔ میں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے دونوں ہاتھوں کی مٹّھیاں بنا کر ہمت والوں کی سی شکل بنائی اور مسکرا کر شاید آنکھوں کے کسی اشارے سے اسے یاد دلایا کہ وہ تو بڑی بہادر ہے۔

 بحران کے اس لمحے میں بھی منی نے میری بات سمجھ لی۔ اس نے منہ بسورنا بند کر دیا اور آواز نکالے بغیر انجکشن لگوا لیا۔ میں نے اپنی شہادت کی انگلی اور انگوٹھا ملا کر تعریف کا اشارہ دیا۔ اور منی اپنے اس چچا یا ماموں کی گود میں چڑھی ہوئی کلینک سے چلی گئی۔

کمپاؤنڈر اور منی کا چچا یا ماموں حیران تھے مگر مجھ کوئی حیرت نہیں ہوئی تھی منی واقعی بہادر تھی۔

 اس بات کو بہت دن ہو گئے۔  میں یہ واقعہ اور منی کا چہرہ کچھ کچھ بھول چلا تھا۔ باہر کڑواہٹ اور دکھ ہو تو میٹھے چہرے اور بھولی باتیں کب تک یاد رہ سکتی ہیں۔ میں خود ایک بحران سے گزر رہا تھا میرے والد دماغ کی رگ پھٹ جانے پر طویل بے ہوشی میں تھے۔ وہ ملک سے باہر تھے میں اپنے سفری کاغذات کی تیاری میں مصروف تھا۔ ساتھ ہی دن میں کئی کئی بار ان کے تیمار داروں سے ٹیلی فون پر رابطہ قائم کرنا چاہتا تھا تھا مگر مجھے ناکامی ہو رہی تھی۔ کاغذات بننے میں دیر تھی۔ نہ وہاں جا سکتا تھا نہ کسی سے بات کر سکتا تھا۔ عجیب بے بسی کا عالم تھا۔ تیسرے چوتھے دن عزیزوں کی طرف سے ایک تار آ جاتا تھا۔ حالت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی دعا کیجے۔ پھر آخری تار آیا کہ خدا مغفرت کرے وہ گزر گئے۔

 میں بچپن کے ایک دوست کے ہمراہ تار گھر پہنچا اور جیسے ہوش و حواس سے عاری کوئی شخص ہوتا ہے بالکل اسی طرح بلند آواز میں لوگوں کو اپنے ذاتی نقصان کے بارے میں بتانے لگا پھر وہیں بیٹھے بیٹھے میں نے اپنے چھوٹوں کے نام ایک تار لکھا جس میں انہیں تسلّی دینے کے بجائے یہ لکھا کہ سفر کا ارادہ میں نے ترک کر دیا ہے کیونکہ اب کوئی فائدہ نہیں۔ جس کے لئے سفر کرتا وہی نہ رہے۔

 میں یہ سب کچھ کر رہا تھا اور اس بات سے بے خبر تھا کہ تار گھر کی بنچ پر بیٹھے ہوئے ایک نوجوان کے شانے سے لگی کوئی بچی اچک اچک کر مجھے دیکھنے یا متوجہ کرنے کی کوشش کر  رہی ہے۔ لوگ سامنے سے ہٹے تو دیکھنے کے لئے ایک کھڑکی سی بن گئی۔ میں نے اس کھڑکی میں سے پہچان لیا۔ یہ منی تھی۔ منی مجھے دیکھ کر مسکرائی۔ اس کے چھوٹے سے ذہن نے اسے بتا دیا تھا کہ مجھے ضرور کوئی پریشانی ہے یا شاید میں ڈرا ہوا ہوں۔ اس لئے وہ مسکرائی اور اس نے ننھی ہتھیلیاں اپنی آنکھوں پر ملیں جیسے مجھے آنسو پونچھ لینے کی ترغیب دے رہی ہو پھر اس نے دونوں ہاتھوں کی مٹّھیاں بنا کر ہمت والوں کی سی شکل بنائی اور مسکرانے لگی۔ بالکل اسی طرح جیسے مہینوں پہلے میں اسے ہمت دلا کر مسکرایا تھا۔

میں نے دکھ بڑھانے والا وہ تار پھاڑ کر پھینک دیا اور نئے تار میں اپنے چھوٹوں کو لکھا کہ حوصلہ رکھو، میں آ رہا ہوں۔

٭٭٭

شہر کوفے کا ایک آدمی

ایک ایسے آدمی کا تصور کیجیئے جس نے کوفے سے امامؓ کو خط لکھا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ دارالحکومت میں تشریف لایئے حق کا ساتھ دینے والے آپ کے ساتھ ہیں۔  وہ آدمی اپنے وجود کی پوری سچائی کے ساتھ  اس بات پر ایمان بھی رکھتا ہو ، لیکن خط لکھنے کے بعد وہ گھر جا کر سو گیا۔

جب دس ہزار دنیا زادوں نے امامؓ کے مقابل صف بندی شروع کی تو یہ آدمی زیتون کے روغن میں روٹی چور چور کر کے کھا رہا تھا۔  پاس ہی دودھ بھرے پیالے میں حلب کے خرمے بھیگے پڑے تھے۔  شیشے کے ایک ظرف میں کوئی مشروب تھا۔

جب اسے خبر ملی کہ اشرار آمادہ فساد ہیں تو اس آدمی نے روغن سے ستے ہوئے دونوں ہاتھ طمانیت کے ساتھ چہرے پر ملے اور بولا امامؓ حق پر ہیں اور حق غالب آنے والا ہے۔  اس نے پھر ڈکار لی اور امامؓ کو یاد کیا۔ ان کی حمایت کے لئے اللہ سے نصرت طلب کی۔ اور دستر خوان کے برابر پڑے ہوئے تکئے پر ٹیک لگا سو گیا۔

جب خبر آئی  کہ بچوں پر پانی بند کر دیا گیا ہے تو روتے روتے اس نے ہاتھ کی ضرب سے عرق کا ظروف الٹا دیا اور کہنے لگا ” وائے افسوس ! سگ دنیا ابن زیاد نے ، اس کے کتوں نے  اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال دیا ہے “۔ اس بار وہ بہت دیر تک رویا اور کرب و انتشا میں جاگتا رہا۔  پو پھٹنے کے قریب اسے نیند آئی۔

جب اسے پتہ چلا کہ ایک پاکیزہ خصلت نوجوان بچوں اور بیماروں کے لئے پانی سے بھرا مشکیزہ لاتا تھا کہ بد خصالوں کے ہاتھوں شہید ہوا ، تو وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔  اب کے اس نے ایک پہر نالہ و شیون کیا اور سینہ کوبی کی۔  اس کی بھوک پیاس رخصت ہو گئی اور وہ سوچتا رہا کہ کچھ کرے کیونکہ ان صادقوں کے لئے اس کا دل خون کے آنسو روتا تھا۔

اس نے اور کچھ نہیں کیا بس گڑگڑا کر دعا کی ’’بار الہا ! تیرے محبوب ﷺ کی آل اپنے گھروں سے نکلی ہے۔  تو ہی ان کا حامی و ناصر ہے۔  وہ کیونکہ اس کاوش سے تھک گیا تھا۔  اس لئے روتے روتے اس نے کچھ دیر آرام کیا اور دیوار سے ٹکے ٹکے سو گیا۔

جب کسی نے پکار کر کہا کہ سگ دنیا شمر  ذوالجوشن نے بھیانک ارادے کے ساتھ اپنا گھوڑا امام کی طرف بڑھا دیا ہے تب ، اسی وقت وہ چیخ مار کر اٹھا۔  تھوڑی دیر بعد وہ کھڑا ہو گیا اور اس نے عجیب کام یہ کیا کہ اپنے چھپر کو سہارنے والی تھونی جھٹکے سے اکھاڑ لی۔  وہ اسے گرز کی مانند گردش دیتا ہوا نہر فرات کی طرف بڑھ گیا۔ اور حق تو یہ ہے کہ اس نے لمحے بھر کے لئے بھی یہ نہیں سوچا کہ اس چھپر کے نیچے اس کے بیوی بچے بیٹھے ہوئے ہیں۔

امام ؓ کے لئے اس کی محبت بلاشبہ حد درجہ تھی۔

وہ چھپر کی تھونی اٹھائے دوڑا چلا جا رہا تھا۔  شریروں ، بد خصالوں اور قاتلوں کے لئے اس کی زبان پر نا ملائم کلمات تھے اور کبھی کبھی وہ فحش کلامی بھی کرتا تھا کیونکہ سخت آزردہ تھا۔ لگتا تھا کہ وہ ان ہزاروں سگان دنیا کو اپنی مغلظات سے پارہ پارہ کر دے گا جو بچوں اور گواہی دینے والوں کو قتل کرنے آئے تھے۔ اس کی فحش کلامی جاری رہی پھر بند ہو گئی۔ اس لئے کہ آگے مقام ادب آ گیا تھا۔ وہ مطہر سماعتیں آگے تھیں جنہوں نے مقدس رسول ﷺ کو کلام فرماتے سنا تھا۔

اسی لمحے اس کی وابستگی اور اس کے باطن کی سچائی نے ظہور کیا اور اس اگلے لمحے میں جب شمر نجس کا وار امامؓ پر ہوتا اور انسانی تاریخ کا سب سے بھیانک جرم سرزد ہو جاتا ، اس اگلے لمحے وہ آدمی امام ؓ اور قاتل کے درمیان کھڑا ہو گیا۔ اس نے دل دہلا دینے والا نعرہ بلند کیا اور اپنی ٹیڑھی میڑھی لاٹھی سے شمر ذولجوشن پر ایسی ضرب لگائی کہ وہ نجس اپنے خود کی چوٹی سے لے کر اپنے مرکب کے زنگ آلود نعلوں تک ہل کر رہ گیا ، لیکن لکڑی ٹوٹ گئی۔

شمر نے تب اپنے گھوڑے کو آگے بڑھایا اور اسے  ، جو تاخیر سے نہتا ہی اپنے ذی حشم مہمان کی سپر بننے آیا تھا ، روندتا مسلتا ہوا اپنے آخری جرم کی طرف بڑھ گیا۔ وہ آدمی گر گیا اور دودھ ، پنیر ،شہد ، روغن زیتون اور تازہ خرموں پر پلا ہوا اس کا بدن امام پر نثار ہو گیا۔

اور پھر وہ آخری جرم سرزد ہوا جس نے ترائی پر چمکنے والے سورج کو سیاہ کر دیا اور رات آ گئی۔  رات کے کسی وقت بلند قامت حر بن ریاحی کے قبیلے والے آئے اور اپنے آدمی کا لاشہ اٹھا لے گئے۔

اس کے بعد زمرد ، یاقوت اور مشک و عنبر کے بہتر تابوت لے کر تاریخ   آئی اور اس نے بہتر آسمان شکوہ لاشے سنبھالے۔  اس میں ایک سر بریدہ لاشہ صبر  و رضا والے ، استقامت والے امام ؓ کا تھا جن کا قدم بلندی پر تھا ، اسی لئے انہیں بادلوں پر جگہ ملی۔

اس کے بعد سگان دنیا کے ورثا اپنے مسخ شدہ حرام کے مردے کھینچ کر   لے گئے اور میدان خالی ہو گیا۔ لیکن وہ آدمی جس کی کہانی میں سنا رہا ہوں ، وہیں پڑا رہا۔ شمر کے گھوڑے کی لید میں لت پت اس کا بھیجہ ، قیمہ اور سری پائے وہیں پڑے رہ گئے۔  صبح سویرے جب چیونٹیوں کی پہلی قطار نے انہیں دریافت کیا ، تو آہستہ آہستہ انہیں منہدم کرنا شروع کر دیا اور یہ انہدام دیر تک جاری رہا۔

آپ ایک ایسے شخص کا تصور کریں جس نے امامؓ کو خط لکھا اور خط لکھنے کے بعد گھر جا کر سو گیا ، لیکن آخری لمحے میں اپنے باطن کی سچائی اور وابستگی کا اظہار کرتا ہے اور عجب طریقے سے مقبول بارگاہ ہو جاتا ہے۔  ایک ایسے آدمی کا تصور کریں تو وہ جیم الف ہو گا(جیم الف۔  عربی۔  عام آدمی)۔ جس کی کہانی میں آپ کو سنا رہا ہوں لیکن یہ تھا ماضی کا جیم الف۔

آج کا جیم الف کو ایک چھوٹے سے کرائے کے گھر میں کچھ لکھ لکھا کر اپنے کنبے کو پال رہا ہے۔  وہ تو چھوٹی چھوٹی سبک باتوں سے گاتی گنگناتی ، دکھ سہتی غزلیں لکھتا ہے اور انہیں چھوٹی چھوٹی اشاعتوں والے رسالوں میں چھاپ دیتا ہے۔  وہ پکی روشنائی میں اپنا نام دیکھ کر خوش ہو جاتا ہے اور مشاعروں میں گانا بجا لیتا ہے۔ اس سے بڑے گناہ سرزد نہیں ہوئے ہیں اور نہ اس خیر کا کوئی بڑا کام کیا ہے۔ اس کا گذارا چھوٹی موٹی نیکیوں اور ہلکے پھلکے گناہوں پر ہے۔  میں نے سید الشہدا کے نام نامی کے ساتھ اس شخص کے تذکرے کی جسارت اس لئے کی ہے کہ میں اس کی سچائیاں اور وابستگیاں بتانا چاہتا ہوں۔

یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے ایک دفعہ اس آدمی کو ایک مشاعرے میں بلوایا گیا تو وہ میزبانوں سے یہ کہنے لگا کہ یہاں سے اللہ کا گھر بہت قریب ہے مجھے عمرہ کروا دو۔  تمہارا زیادہ خرچہ نہیں ہو گا۔  پھر وہ عمرہ کرنے گیا۔  طواف کرتے ہوئے وہ بے ڈھنگے پن سے دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔  آپ یہ سمجھیں ساری عمر میں اس یہی نیکی ہوئی تھی لیکن رونے کو آپ اس کی بے بسی بھی کہ سکتے ہیں۔

جب وہ واپس آیا تو اس نے مجھے بتایا کہ کہ میں نے حرم شریف میں دنیا کے پہلے مظلوم اور مستقیم آدمی سے لے کر فلسطینیوں اور کشمیریوں کے دعا کی۔  لیکن مجھے اپنی ذلالت اور بے بسی پر رونا بھی آیا کہ اگر میں کربلا کے سن ہجری میں ہوتا تو اپنے گھر میں پڑا کُڑھتا رہتا اور یقیناً مجھ میں اتنی استقامت بھی نہ ہوتی کہ جلانے کی لکڑی کھینچ کر ہی ظالموں کے سامنے جا کر کھڑا ہو جاتا۔

اس نے کہا دیکھ لو ، میں یاسر عرفات کے سن ہجری میں ہوں اور گالیاں بکنے اور دعائیں مانگنے کے سوا کچھ اور نہیں کر سکتا۔ میں کسی جارح ٹینک کے سامنے کھڑا ہونے کی ہمت نہیں کر سکتا۔  مجھے گڑگڑاتی ہوئی لوہے کی اس پٹی سے خوف آتا ہے جو لمحہ بھر میں قیمہ بنا دیتی ہے۔  لیکن میں ضمیر اس گڑگڑاتی آواز سے بھی قیمہ ہو جاتا ہوں جو ہم سے اکثر کو اندر سے سنائی دیتی ہے۔

اس نے آخری بات مجھ سے یہ بھی کہی ، بھائی میرے ! میں بھی ، تم بھی اور ہم سب اصل میں اپنی اپنی مصلحت اور منافقت کے کوفے میں آباد ہیں اور حق کے لئے جنگ کرنے والے کسی وجود سے آنکھیں نہیں ملا سکتے چاہے وہ استقامت کی سب سے بڑی علامت حسین ؓ  ہوں یا موجودہ تاریخ کے فلسطینی اور کشمیری۔

یہ سن کر میں اس کا شانہ قلم سے چھوتا ہوں۔  یہ بھی نائٹ بنانے کی ایک رسم ہے۔  پہلے اس موقع پر قلم کی جگہ تلوار استعمال ہوتی تھی۔  تو میں اسے مایوسی اور بے بسی کا نائٹ مقرر کرتا ہوں اور اسے کہتا ہوں ” پیارے جیم الف ! ہمیں پنیر ، روغن زیتون اور خرمے کھا گئے ہیں۔  اب تم بھی گھر جاؤ اور کھانا کھا کر آرام کرو۔

٭٭٭

 

وارث

قصبائی پولیس لائنز تھی، جس کے سامنے میدان میں   جیسے چھوٹا موٹا بازار لگ گیا تھا۔ سارہ بانوں   نے اپنے جانوروں   پر بندھے کجاوے،کاٹھیاں  ،رسے کھولنا اور انھیں   چارے پانی کے لیے آزاد کرنا شروع کر دیا تھا۔ ہم دو انسان، مویشیوں   کے اس دائرے کے بیچ زنجیریں   پہنے رسیوں   سے بندھے پڑے تھے۔ ان لوگوں   کی قید میں   آئے ہو ئے گیارہ گھنٹے ہو گئے تھے، مگر ان کم نصیبوں   نے دو تین بار پانی پلانے کے سوا ہمیں   کھانے کو کچھ نہیں   دیا تھا۔ ان سے اچھے تو بیگار میں   ساتھ آنے والے سار بان تھے،جو اپنے جانوروں   کو چارا تو دے رہے تھے۔

میرے قریب زنجیریں   بجیں ۔ میں   سر گھما کر دیکھا، میرا ساتھی،کھوسا،کھسکتے کھسکتے میرے برابر آ گیا تھا۔ اس نے سر گوشی میں   پوچھا،’’ ہا کامریڈ ! کیسا ہے ؟ ‘‘

’’ٹھیک ہوں ۔ کم زوری ہو گئی ہے۔ ‘‘

’’کم زوری بروبر ہوئیں   گا۔ کھانے کا کچھ بی نئیں   دیا حرام خور لوگوں   نے۔ ‘‘

’’پیاس بھی لگ رہی ہے۔ ‘‘

’’ابی دیکھو،ہم ان کا ایسی تیسی کرتا ؤں۔ یہ بے غیرت ایسا نئیں   سمجھیں   گا۔ ہم کو رولا ڈالنا پڑیں   گا۔ ‘‘ پھر اس نے پولیس لائنز کی طرف منہ کر کے آواز لگائی،’’سنو ڑے !او بدنصیب ! ہم لوگ کو بھوکا پیاسا کیوں   مارتے ہو۔ او جہنم کے کیڑے !اڑے ہم لوگ کو مردوں   کی طرح جان دینا آتا ہے،ایکی بار میں   گولی مار کے خلاص کرو نئیں۔ ابی جو مارنے کا پلان نئیں   ہے تو پانی دیو،کچھ کھانے کو دیو۔ کافر کی اولاد!‘‘ پھر میری طرف جھک کے وہ آہستہ سے کہنے لگا، ’’ہم ان لوگ کی دم پہ پاؤں   رکھ دیاؤں ۔ کافر بولو تو یہ لوگ ایک دم گرمی کھا جاتائے،کوئی اور بات بولو تو سنتائی نئیں   ہے سالا، کم ظرف!‘‘ اور وہ راز داری سے ہنسنے لگا۔

کھوسا کی اس حکمت علمی کا واقعی اثر ہوا۔ ایک گارڈ نے مٹی میں   ٹھوکر مار کے بہت سی ریت مٹی اس کے منہ پر پھینکی اور اسے گالی دی۔ ’’لے،مٹی کھا،بے دین سالے!سب کو کافر بولتائے۔ بے شرم کتا !‘‘

کھوسا نے منہ پر لگی مٹی کو جھاڑتے ہوئے مزے سے کہا،’’ہم کیا بولتاؤں   بچہ۔ دنیا جانتائے تم کافر سے بی بدتر ہے،سالا!قیدی کا راشن کھا جاتائے تم لوگ۔ بھوکا پیاسا مارتائے۔ ہم کافر کی قید میں   رہ کے آیاؤں۔ وہ لوگ بھی انسان ہے،تم نئیں   ہے۔۔۔۔ تم گھدا ہے سالا! ہاں   نا۔ بلکہ تم سُوَ ر،کتا ہے۔ ‘‘

گارڈ جو مٹی میں   ٹھوکر مار کر نکلا چلا گیا تھا، پلٹ پڑا،’’تیری تو۔۔۔ کہہ کے وہ جھپٹا۔

اس نے اپنی بندوق کاکندا حملے کے لیے سیدھا ہی کیا تھا کہ کھوسا نے بھیانک آواز میں   ڈکرانا شروع کر دیا۔ ’’صاب! زنجیر سے بندھے قیدی کو بٹ مارتائے۔ صاب! گارڈ پاگل ہو گیائے۔ صاب !بچاؤ ہم لوگ کو۔ ‘‘

گارڈ نے اور میں   نے اپنی طرف بڑھتے اس افسر کو نہیں   دیکھا تھا،کھوسا نے دیکھ لیا تھا۔ اسی لیے اس نے گارڈ کو راز داری سے گالی دینا اور پھر افسر کو سنا کے فریاد کرنا شروع کر دیا تھا۔ کھوسا کی فریاد اور شور شرابے کا خاطر خواہ اثر ہوا۔ افسر نے جیسے کاشن دیتے ہوئے اپنے گارڈ کو للکارا،’’کیا کرتا ہے؟ ہٹو پیچھے !بیک،بیک‘‘۔

گارڈ کی رائفل کا بٹ دھیرے دھیرے زمین پر ٹک گیا۔ اس نے اپنے افسر کی طرف دیکھا اور غصے سے پھنستی آواز میں   بولا،’’گالی نکالتا ہے صاب!کافر بولتا ہے۔ ‘‘

کھوسا نے فریاد اور دل لگی کے ملے جلے انداز میں   کہا،’’سر،کیا کرے ہم لوگ؟ہمارے کو بھوکا مار دیا۔ خود ہمارا سامنے بسکٹ دودھ کھاتائے۔ ہم لوگ کو چائے بھی نئیں   دیا یہ لوگ نے، دو دفعہ پانی پلایا ہے،بس۔ کافر نئیں   بولے تو کیا کرے صاب!‘‘

افسر نے ڈپٹ کر کہا،’’بکواس بند کرو!‘‘ پھر گارڈ سے بولا،’’میرے ساتھ آؤ۔ ‘‘ وہ دونوں   چلے گئے۔ مجھے دیکھتے ہوئے کھوسا آہستہ سے ہنسا،کہنے لگا،’’دیکھا کامریڈ ؟ابی کھانا آئیں   گا۔ اپنا کام صئی ہو گیائے۔ ‘‘

کوئی ڈیڑھ گھنٹے بعد جب ہم دونوں   مایوس ہو چکے تھے،تین گارڈ اسی میدان میں   ہمارے لیے کھانے پینے کی چیزیں   لے آئے۔ ابلے ہوئے چاول،چنے کی دال،کٹا ہوا کھیرا اور موٹے موٹے دو کباب تھے،دیکھنے میں   مچھلی کے لگتے تھے۔ کھوسا نے ہنستی ہوئی آنکھوں   سے ٹین کی پلیٹ میں   رکھے ان کبابوں   کو دیکھا اور ساتھ آنے والے گارڈ سے،جو بٹ مارنے لپکا تھا،پوچھا،’’یہ کیسا کباب ہے بئی ایسا موٹا موٹا؟‘‘۔

گارڈ ابھی تک جھلسا ہوا تھا،اس نے حرام جانور کا نام لیا کہ یہ اس کے کباب ہیں۔

کامریڈ کھوسا میری طرف دیکھ کے تعریفی انداز میں   بولا،’’ دیکھو بئی دوست ! ابی کیسا خیال رکھتا ہے یہ جوان ہم قیدی لوگ کا،اپنا پیٹ کاٹ کے،اپنی خاص ڈش میں   سے ہمارے کو کھلاتا ئے۔ شاباش ہے!سخی مردار!‘‘۔

ساتھ کے دونوں   گارڈ ہنسنے لگے۔ جھلسے ہوئے گارڈ نے کھوسا سے تو کچھ نہ کہا، اپنے ساتھیوں   سے بولا،’’ادھر کھڑے ہو کے دانت مت نکالو،سالا حرام خور!بہت کام پڑا ہے۔ چلو،نہیں   میں   رپورٹ کر دوں   گا۔ ‘‘۔

گارڈ چلے گئے تو ہم دونوں   نے کھانا شروع کیا۔ گرفتاری کے وقت ہونٹ پر زخم آنے کی وجہ سے اسے کھانے میں   دقت ہو رہی تھی مگر اس نے ہنستے ہنساتے کھانا پورا کیا۔

کھانا کھا کر جان آئی تو وہ جو پہلے وردی والوں   کے ساتھ مسخرا پن کر رہا تھا، اور کھل اٹھا۔ اس نے اونچی آواز میں   کھانے کی تعریف شروع کر دی کہ بھئی بہت اچھا مینو ہے اور سنو تم لوگ،اب خیال رکھنا،مجھے پلا مچھلی کی بریانی پسند ہے۔ رات میں   بریانی لانا اور ساتھ میں   ایک بوتل اچھی انگلش وائن ضرور لیتے آنا۔ سمجھے؟ مہمان داری کرتے ہو تو اچھی طرح کرو،سالو۔ وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد قہقہہ بھی لگا رہا تھا۔

آخر دو وردی پوشوں   کے ساتھ ان کا افسرہماری طرف آیا۔ افسر کے ہاتھ میں   چھڑ ی تھی۔ وردی والے اپنی رائفلیں   سیدھی کیے آئے تھے،جیسے بس گولی چلا ہی دیں   گے۔ افسر نے ہنستے،شور مچاتے کھوسا کے سر پر آہستہ سے اپنی چھڑی رکھ دی اور بھاری گونجتی آواز میں   پوچھا،’’تو نے نشہ کیا ہوا ہے جو اتنا شور کرتا ہے؟‘‘۔

کھوسا نے مسکر ا کرسر گھمایا،بولا،’’خدا کا شکر ہے،آپ افسرلوگ ہماری بات سننے کے واسطے آ گیا ہے صاب! ہم لوگ نہ قتل کا ملزم ہے،نئیں   ملک کے خلاپ غداری کیا ہے۔ ہم لوگ نے آپ سرکاری آدمین ہے،جیسا قاعدے قانون میں   گرپتاری کا اصول ہے،وہ کرو۔ ہم لوگ کو جانو ر کے طرحے ادھر کیوں   ڈال دیا ہے؟ کچھ خدا کا خوپ کرو سر۔ ‘‘

افسر نے دھیرے سے پوچھا،’’تو ہم کو قاعدہ قانون سکھاتا ہے۔ ایں ،حرام خور !‘‘

کھوسا بولا،’’ہم کیا سکھائیں   گا بئی قانون۔ ہہا !تم صاب لوگ ہے۔ قانون کا تم کو پہلے ہی پتا ہوئیں   گا۔۔۔۔ یا نئیں   بی ہووے۔ بس ایک بات یاد دلا تاؤں  ،ہم لوگ لا وارث نئیں   ہے صاب! ہاں ، یہ رستے کا آدمین، یہ اوٹھ والا ساربان، گوٹھ گاؤں   قصبے کا لوگ، شہری مہری۔۔۔ یہ سب کمزور بھلے ہی ہووے، پر ان کو خبر ہے کہ بئی،تم لوگ ہم دو کو پکڑ کے لے جا رئے ہو۔ ابھی بھوک پیاس میں ،بندوق کا بٹ مارنے سے،یا گولی چلانے سے ایک یا دونوں   قیدی کم ہو جاوے تو بات چھپ نئیں   سکیں   گا سر! شہر میں   دو چار اخبار والا،دس بیس کونسلر،اسمبلی کے ممبر لوگ ایک دوسرے کو پوچھتا ہوئیں   گا کہ بئی اپنا یار کھوسا کدر ہے؟ اس کا کامریڈ کدر ہے؟ اور وہ اس کا معشوق جرمن بی بی وہ کدر ہے؟ یہ لوگ آخر کدر چلا گیا بئی ؟‘‘

افسر اپنے پتلون کی سائڈ پر زور زور سے بید مارتا ہوا مزے لے کر کہنے لگا،’’اچھا تو یہ لائن ہے تیری؟ ‘‘

کھوسا نے جرمن جرنلسٹ گیزل کو اپنی محبوبہ بتایا تھا جب کہ وہ اسے صورت سے بھی نہیں   پہچانتا تھا۔ اس نے اپنے حوالے سے ذکر کرتے ہوئے ہم دو کو اپنے ساتھ نتھی کر کے،ایک طرح سے ہمیں   مضبوط اور محفوظ کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ بڑی دلیری سے سرکاری آدمی کو نتائج کی دھمکی دے رہا تھا۔ مگر، میں   نے سوچا،وہ سب تو ایسی دھمکیوں   کے عادی ہوں   گے۔ ہرسرکا ری اہل کار کو اپنی حدوں   کا اندازہ ہوتا ہے، اور نہیں   بھی ہو تو پروا نہیں  ،وہ سمجھتا ہے کہ لوگ جب پھنس جاتے ہیں   تو لمبی کہانیاں   سناتے ہیں   اور بلف چل کے کام نکالنا چاہتے ہیں۔

افسر ہنسنے لگا، بولا،’’ تو کوئی بڑا یا چھوٹا سیاسی لیڈر نہیں   ہے،نہ ہی این جی او والا ہے۔ تیسرے درجے کا سوشلسٹ بے دین ہے تو۔ اونٹ سے گر کے،یا سانپ کے کاٹے سے،یا فرار ہونے کی کوشش میں   جان سے چلا جائے گا تو کوئی اخبار دو لائن کی خبر بھی نہیں   لگائے گا۔ اور اطمینان رکھ! کسی جرمن اٹالین کے پیٹ میں   تکلیف نہیں   ہو گی وہ گئی اپنے گھر۔ ‘‘

کھوسا ہنسنے لگا،’’ایسا بی نئیں   ہے سر ! ابی آپ کو بتاوے؟ ہم لوگ کے قافلے کا آگے پیچھے دو موٹر سائیکل بروبر لگی ہوئی ہے۔ آپ کے جوانوں   نے تین بار وارننگ دیا ہے،ان لوگ پر ہوائی فیر بھی کیا ہے۔ ‘‘

افسر جانتا تھا یہ بلف نہیں   ہے۔

کھوسا بولا، ’’سمجھا صاب! ؟ موٹر سیکل والا آگے پیچھے ٹیلی پون کرتا ہوئیں   گا۔ وہ لوگ کے پاس لمبے لمبے لینس والا کیمرا ہوئیں   گا۔ وہ لوگ ہم دو بندو ں   کو اوٹھ پہ زنجیروں  ،رسیوں   سے بندھا ہوا دیکھ کے تصویر کھینچ کے لے گیا ہوئیں   گا۔ ‘‘

افسر نے ہونٹ بھینچتے ہوئے اپنے گارڈ ز کو اشارہ کیا،انھوں   نے بڑھ کر کھوسا کو بغلوں   میں   ہاتھ دے کے بیٹھے سے اٹھا دیا۔ افسر نے ہلکے ہاتھ سے اپنی چھڑی اس کی پیٹھ سے ٹکا دی اور کہا،’’چلو !‘‘

کھوسا جما کھڑا رہا بولا،’’یہ بھائی بی ساتھ چلیں   گا۔ ہمارا اپنا خون کے رشتے والا ہے، یہ بی کامریڈ ہے۔ اس کو بخار ہے سر!کوئی آس پرو، ماس پرو کی ٹکیا دے کے،چائے مائے پلا کے اس کو صئی کرنے کا ہے۔ کدری اور بیمار نئیں   ہو جاوے۔ یہ اپنا بھائی۔‘‘

کھوسا نے یہ بات افسر کی آنکھوں   میں   آنکھیں   ڈال کے اتنے طے شدہ انداز میں   کہی تھی کہ اس نے فوری فیصلہ کر لیا،گارڈ کو چھڑی سے اشارہ کیا کہ اٹھاؤ۔ گارڈ نے مجھے بھی سہارا دے کے اٹھایا اور لے چلا۔

ہمارا چھوٹا سا قافلہ پولیس لائنز میں   داخل ہو گیا۔

٭٭

 اور یہاں   اکبر علی کھوسا کی کہانی،جتنی کہ مجھے معلوم ہے،ختم ہوتی ہے۔

کس لیے کہ پولیس لائنز پہنچنے کے بعد مجھے،یا کسی کو،پھر اس کی کوئی خبر نہ مل سکی۔

تاہم،بے گنتی بلوچ، اور بے شمار وہ جو بلوچ نہیں   ہیں ، اسے لا وارث نہیں   مانتے۔

کھوسا نے سچ کہا تھا کہ یہ رستے کا آدمی،یہ اوٹھ والا ساربان،گوٹھ گاؤں   قصبے کا لوگ،شہری مہری۔ یہ سب کم زور سہی،پر یہی اس کے وارث ہیں۔

سبھی کو یہ معلوم ہے کہ ایک اکبر علی کھوسا ابھی ہو کے گیا ہے۔ ایک کو ابھی آنا ہے۔ اور وہ اپنے نسب سے اور گدّی اور طرّے کے پیچ سے نہیں ،کام سے،کٹے پھٹے اپنے ہاتھوں   سے، اور اپنے دل کی اور دماغ کی مضبوطی سے پہچانا جائے گا۔

اس کے وارث،اس کے آنے کی خبر دے چکے۔

٭٭٭

 

باسودے کی مریم

مریم کے خیال میں ساری دنیا میں بس تین ہی شہر تھے۔مکہ،مدینہ اور گنج باسودہ۔مگر یہ تین تو ہمارا آپ کا حساب ہے،مریم کے حساب سے مکہ،مدینہ ایک ہی شہر تھا۔”اپنے حجور کا شہر”۔مکے مدینے سریپ میں ان کے حجور تھے اور گنج باسودے میں اُن کا ممدو۔

ممدو اُن کا چھوٹا بیٹا تھا۔اس کے رخسار پر "اِتّا بڑا” ناسور تھا۔بعد میں ڈاکٹروں نے ناسور کاٹ پیٹ کر رخسار میں ایک کھڑکی بنادی تھی جس میں سے ممدو کی زبان پانی سے نکلی ہوئی مچھلی کی طرح تڑپتی رہتی تھی۔مجھے یاد ہے پہلی بار مریم نے اماں کو سرجری کا یہ لطیفہ سنایا تو میں کھی کھی کر کے ہنسنے لگا تھا۔اگر مریم اپنے کھردرے ہاتھوں سے کھینچ کھانچ کے مجھے اپنی گود میں نہ بھر لیتیں تو میری وہ پٹائی ہوتی کہ رہے نام اللہ کا۔”اے دلھین! بچہ ہے۔بچہ ہے ری دلھین! بچہ ہے۔”مگر اماں نے غُصّے میں دو چار ہاتھ جڑ ہی دیے جو مریم نے اپنے ہاتھوں پر روکے اور مجھے اُٹھا کر اپنی کوٹھری میں قلعہ بند ہو گئیں۔میں مریم کے اندھیرے قلعے میں بڑی دیر تک ٹھس ٹھس کر کے روتا رہا۔وہ اپنے اور میرے آنسو پونچھتی جاتی تھیں اور چیخ چیخ کر خفا ہو رہی تھیں۔”اے ری دلھین،یہ اللہ کی دین ہیں۔۔۔۔۔۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتّی ہیں۔انہیں مارے گی،کوٹے گی تو اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھش ہوں گے تجھ سے؟؟توبہ کر دلھین! توبہ کر۔”

پھر وہ طرح طرح سے کھڑکی اور مچھلی والا لطیفہ سنا سنا کر مجھے بہلانے لگیں۔”تو بیٹا ڈانگدروں نے کیا کیا کہ حرامیوں نے ممدو کے گال میں کھڈکی بنا دی اور کھڈکی میں سے تھرک،تھرک تھرک۔۔۔۔۔”مریم کا دل بہت بڑا تھا اور کیوں نہ ہوتا،اس میں ان کے حجور کا مکہ مدینہ آباد تھا اور سینکڑوں باسودے آباد تھے۔جن میں ہزاروں لاکھوں گل گتھنے ممدو اپنی گول مٹول مٹھیوں سے مریم کی دودھوں بھری ممتا پر دستک دیتے رہتے تھے۔”انّا بوا! دروازہ کھولو۔اللہ کی دین آئے ہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی آئے ہیں۔”

مریم نے میرے ابا کو دودھ پلایا،وہ میری کھلائی اور میری پناہ تھیں،وہ میرے بھانجے بھانجیوں کی انّا تھیں اور ابھی زندہ ہوتیں تو انھی بھانجے بھانجیوں کے بچے اپنے چارج میں لیے بیٹھی ہوتیں۔میری تین پشتوں پر مریم کا احسان ہے۔

میں نے ایک بار مریم کے قلعے میں گھس کر ان کی پٹلیا سے گُڑ کی بھیلی چرا لی۔مریم بچوں کو بگاڑنے والی مشہور تھیں۔مگر مجال ہے جو جرائم میں کسی کی حمایت کر جائیں۔انہوں نے فوری طور پر اماں سے میری رپورٹ کر دی اور اماں،خدا انہیں خوش رکھے،جاگیردار کی بیٹی،کھری پٹھانی اپنی اولاد سے کوئی گھٹیا فعل منسوب ہوتے دیکھ ہی نہیں سکتیں۔انہوں نے جلال میں آ کر اُلٹا مریم سے ان پولا کر دیا۔

ابا کو پتہ ہی نہ تھا کہ گھر میں سرد جنگ جاری ہے۔وہ اس طرح عشاء کی نماز کے بعد پندرہ بیس منٹ کے لیے مریم کے پاس بیٹھ کر ان کا حال احوال پوچھتے،مریم کے پاؤں دابنے کی کوشش کرتے اور ان کی پیار بھری جھڑکیوں کی دولت سمیٹ کر اپنے کمرے میں سونے چلے جاتے۔

تین چار دن میری یہ دو جنّتیں ایک دوسرے سے برگشتہ رہیں اور میں گنہگار عذاب جھیلتا رہا۔اماں نے مریم کے دیکھ بھال میں کوئی کوتاہی تو نہ کی مگر مریم کا سامنا ہو جاتا تو اماں کے نازک خدوخال آپی آپ سنگ و آہن بن جاتے۔مریم زیادہ طر اپنی کوٹھری میں محصور رہیں اور شاید روتی رہیں۔آخر چوتھے پانچویں دن میں پھوٹ بہا اور پٹائی کے خوف سے بے نیاز ہوکر اماں کی گود میں سر رکھ کر میں نے اقبال جرم کر لیا۔اماں کے پاؤں تلے زمین نکل گئی۔بس ایک غضب کی نگاہ کی،مجھے ایک طرف دھکیل کر اُٹھ کھڑی ہوئیں اور بجلی کی سی تیزی سے مریم کے قلعے میں داخل ہو گئیں۔”انّا بوا! تمہارا منجھلا تو چور نکلا۔بوا! ہمیں معاف کر دو۔”میں نے کواڑ کی آڑ سے دیکھا کہ مریم لرزتے ہاتھوں سے اماں کے دونوں ہاتھ تھامے انہیں چوم رہی ہیں۔کبھی ہنستی ہیں،کبھی روتی ہیں اور کبھی اماں کو چپت لگانے کا ڈراما کرتی ہیں۔”بس ری دلھین! بس کر،چپ ری دلھین! چپ کر۔دیکھ،میں مار بیٹھوں گی۔”

مریم سیدھی سادھی میواتن تھیں۔میری خالہ سے مرتے دم تک صرف اس لیے خفا رہیں کہ عقیقے پر ان کا نام فاطمہ رکھ دیا گیا تھا۔”ری دُلھین! بی بی پھاطمہ تو ایکئی تھیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم جی سرکار کی سہجادی تھیں،دنیا آکھرت کی باچھا تھیں۔ہم دوجخ کے کندے بھلا ان کی بروبری کریں گے۔توبہ توبہ استگپھار۔”

محرم میں نویں اور دسویں کی درمیانی شب خشوع و خضوع سے تعزیے،سواریاں اور اکھاڑے دیکھتیں،خوب خوب پاپڑ،پکوڑے کھاتیں کھلاتیں اور دسویں کو صبح سے "وجو بنا کے” بیٹھ جاتیں،ہم لڑکوں کو پکڑ پکڑ کر دن بھر شہادت نامہ سنتیں یا کلمہ طیبّہ کا ورد کرتیں،اور خدا مغفرت کرے،کلمہ شریف بھی جس طرح چاہتیں پڑھتیں: "لا الا ہا ال للا نبی جی رسول الا حجور جی رسول الا۔”

امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا نام لے لے کر بین کرتیں،رو رو کر آنکھ سجا لیتیں اور بین کرتے کرتے گالیوں پر اتر آتیں۔”رے حرامیوں نے میرے سہجادے کو مار دیا۔رے ناس مٹوں نے میرے باچھا کو مار دیا۔”

محرم میں وہ ہم لڑکوں کو حسن،حسین کے فقیر بناتی تھیں۔ہمارے کرتے ہرے رنگ دیتیں۔گردنوں میں کلاوے ڈال دیتیں اور چھوٹی چھوٹی بٹونیاں سی کر ان میں دو دو آنے کے پیسے ڈال،سیفٹی پنوں سے ہمارے گریبانوں میں ٹانک دیتی تھیں۔

حق مغفرت کرے،ہمارے دادا میں مرحوم تھوڑے سے وہابی تھے۔ابا بھی ان سے کچھ متاثر ہیں پر محرم کے دنوں میں مریم کے آگے کسی کی وہابیت نہیں چلتی۔دس روز کے لیے تو بس مریم ہی ڈکٹیٹر ہوتیں۔مگر یہ ڈکٹیٹری بھی جیو،اور جینے دو کے اصول پر چلاتی تھیں،ہمیں فقیر بنا کر چپکے سے سمجھا دیتی تھیں،”دیکھ رے بیٹا! بڑے میاں کے سامنے متی جانا۔”

اور بڑے میں جی بھی،خدا ان پر اپنی رحمتوں کا سایہ رکھے،کمال بزرگ تھے۔ظاہر تو یہ کرتے تھے جیسے مریم کی ان باتوں سے خوش نہیں ہیں۔پر ایک سال محرم کے دنوں میں مریم باسودے چلی گئیں،ہمارے گھر میں نہ شہادت نامہ پڑھا گیا نہ ہائے حسین ہوئی نہ ہم فقیر بنے۔عاشورے پر ہم لڑکے دن بھر ہاکی کھیلتے رہے۔عصر کی نماز پڑھ کر دادا میں گھر لوٹ رہے تھے۔ہمیں باڑے میں دھوم مچاتے دیکھا تو لاٹھی ٹیک کر کھڑے ہو گئے۔”ابے کرشٹانو! تم حسن حسین کے فقیر ہو؟بڑھیا نہیں ہے تو جانگیے پہن کر ادھم مچانے لگے۔یہ نہیں ہوتا کہ آدمیوں کی طرح بیٹھ کر یٰسین شریف پڑھو۔”

یٰسین شریف پڑھو حسن،حسین کے نام پر،یٰسین شریف پڑھو بڑے میاں جی کے نام پر،یٰسین شریف مریم کے نام پر اور ان کے ممدو کے نام پر کہ ان سب کے خوبصورت ناموں سے تمہاری یادوں میں چراغاں ہے۔

مگر میں ممدو کو نہیں جانتا۔مجھے صرف اس قدر علم ہے کہ ممدو باسودے میں رہتا تھا اور ڈانگدروں نے اس کے گال میں کھڈکی بنا دی تھی اور اس کھڑکی کے پٹ مریم کی جنت میں کھلتے تھے،اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ جب مریم بڑے سوز سے کھواجہ پیا جرا کھولو کِوڑیاں گاتی تھیں تو اماں کی کوئلوں جیسی آواز شامل ہو کر مجھ پر ہزار جنتوں کے دروازے کھول دیتی تھیں۔میں اماں کے زانو پر سر رکھ کر لیٹ جاتا اور خواجہ پیا کو سروں کے معصوم جھروکے سے درشن بانٹتے دیکھا کرتا۔سنا ہے میری اماں موج میں ہوتی ہیں تو اب بھی گاتی ہیں۔خدا انہیں ہنستا گاتا رکھے۔پر مریم کی آواز تھک کر سوچکی ہے یا شاید ایک لمبے سفر پر روانہ ہو چکی ہے اور مکے مدینے سریپ کی گلیوں میں پھول بکھراتی پھر رہی ہے یا باسودے کے قبرستان میں ممدو کو لوریاں سنا رہی ہے۔

سفر مریم کی سب سے بڑی آرزو تھی،وہ حج کرنا چاہتی تھیں۔ویسے تو مریم ہمارے گھر کی مالک ہی تھیں مگر پتا نہیں کب سے تنخواہ لے رہی تھیں۔ابا بتاتے ہیں کہ وہ جب اسکول میں ملازم ہوئے تو انہوں نے اپنی تنخواہ مریم کے قدموں میں لا کر رکھ دی۔مریم پھول کی طرح کھِل اُٹھیں۔اپنی گاڑھے کی چادر سے انہوں نے ایک چوّنی کھول کر ملازمہ کو دی کی جا بھاگ کر بجار سے زلے بیاں لیا۔مریم نے خود ان جلیبیوں پر کلمہ شریف پڑھا اور تنخواہ اور جلیبیاں اٹھا کر بڑے غرور کے ساتھ دادا میاں کے سامنے رکھ آئیں۔”بڑے میاں جی! مبارکی ہو۔دولھے میاں کی تنکھا ملی ہے۔”پھر اس تنخواہ میں سے وہ اپنی بھی تنخواہ لینے لگیں۔جو پتہ نہیں انہوں نے ایک روپیہ مقرر کی تھی کہ دو روپے۔

مریم کا خرچ کچھ بھی نہیں تھا۔باسودے میں ان کے مرحوم شوہر کی تھوڑی سی زمین تھی،جو ممدو کے گزارے کے لیے بہت تھی،اور بکریاں تھیں جن کی دیکھ بھال ممدو کرتا۔بڑا لڑکا شتاب خاں ریلوائی میں چوکیدار تھا اور مزے کرتا تھا۔برسوں کسی کو پتہ نہ چلا کہ مریم اپنی تنخواہوں کا کرتی کیا ہیں۔پھر ایک دن وہ ڈھیر سارے کل دار روپے،میلے کچیلے نوٹ اور ریزگاری اٹھائے ہوئے ابا کے پاس پہنچیں اور انکشاف کیا کہ وہ حج کرنے جا رہی ہیں۔کرائے کی یہ رقم ان کے برسوں کی کمائی تھی۔ یہ مکہ مدینہ فنڈ تھا جو مریم خبر نہیں کب سے جمع کر رہی تھیں۔ابا نے گن کر بتایا کہ نو سیکڑے،تین بیسی سات روپے کچھ آنے ہیں۔مریم کو اس سے غرض نہیں تھی کہ یہ کتنے ہیں،وہ تو سیدھی سی بات پوچھ رہی تھیں کہ ان سے مکے مدینے کا ٹکس مل جائے گا یا نہیں۔ابا نے بتایا کہ بیشک مل جائے گا۔

مریم نے تیاریاں شروع کر دیں۔وہ اٹھتے بیٹھتے،چلتے پھرتے گنگناتی رہتیں کہ کھواجہ پیا جرا کھولا کِوڑیاں۔ان پر مکے مدینے کی کھڑکیاں کھلی ہوئی تھی اور ان کھڑکیوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جی کے مقدس پیراہن کی خوشبو چلی آ رہی تھی۔کسی نے چھیڑنے کو کہہ دیا کہ تم کو ڈھنگ سے نماز پڑھنی تو آتی نہیں،قران شریف تو یاد نہیں ہے،پھر حج کیسے کرو گی؟

مریم بپھر گئیں۔”رے مسلمان کی بٹیا،مسلمان کی جورو ہوں۔نماج پڑھنا کاہے نئیں آتی۔رے کلمہ سریپ سن لے،چاروں کُل سن لے۔اور کیا چیے تیرے کو؟ہاں اور کیا چیے؟”پھر ان کے دل میں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم جی کے پیار کا چمن بھی کھلا ہوا تھا کہ یہی بہت تھا۔

مگر ایک دن شتاب خاں کا خط آیا کہ ممدو کی حالیت کھراب ہے،بکریاں بیچ بانچ کے علاج مالجہ کرایا،جمین گروی رکھ دی۔اب بالکل پیسے نئیں ہیں۔صورت دیکھنا چاہتی ہے تو خط کو تار سمجھنا۔مریم کی آنکھوں میں مکہ مدینہ دھندلا گیا۔انہوں نے نو سینکڑے،تین بیسی،سات روپے چادر میں باندھے اور روتی پیٹتی باسودے کی بس میں جا بیٹھیں۔ابا ساتھ جانا چاہتے تھے انہیں سختی سے منع کر دیا۔

ممدو تو ان کی ذمہ داری تھا،وہ کسی اور کو کیوں اس میں شریک کرتیں۔مریم کا یہ اصول بڑا سفاک تھا۔انہوں نے باسودے خیریت سے پہنچنے کا خط تو لکھوا دیا پر ممدو کے بارے میں ایک لفظ نہیں لکھوایا۔مہینے گزر گئے،کسی نے بتایا کہ وہ ممدو کو علاج کے لیے اندور لے گئی ہیں،پھر پتہ چلا کہ بمبئی میں صابو صادق کی سرائے میں نظر آئی تھیں،پھر پتہ چلا کہ ممدو مرگیا ہے۔پھر ایک لٹی لٹائی مریم گھر لوٹ آئیں۔

میں اسکول سے گھر پہنچا تو دیکھا کہ مریم صحن میں بیٹھی اپنے مرے ہوئے بیٹے کو کوس رہی ہیں،”رے حرامی تیرا ستیاناس جائے رے ممدو! تیری ٹھٹھری نکلے۔اورے بدجناور تیری کبر میں کیڑے پڑیں۔میرے سبرے پیسے کھرچ کرا دیے۔اے ری دلھین! میں مکے مدینے کیسے جاؤں گی۔بتا ری دلھین! اب کیسے جاؤں گی۔”

ابا نے کہا،”میں تمہیں حج کراؤں گا۔”

اماں نے کہا "انّا بوا ہم اپنے جہیز والے کڑے بیچ دیں گے،تمہیں حج کرائیں گے۔”

مگر مریم چپ نہ ہوئیں،دو دن تک روتی رہیں اور ممدو کو کوستی پیٹتی رہیں۔لوگوں نے سمجھایا کہ آخر دولھے میاں بھی تمہارا ہی بیٹا ہے،وہ اگر تمہیں حج کرواتا ہے تو ٹھیک ہے،مان کیوں نہیں جاتیں؟مگر مریم تو بس احسان کرنا جانتی تھیں،کسی بیٹے کا احسان بھی اپنے سر کیوں لیتیں۔انہوں نے تو اپنی کمائی کے پیسوں سے حج کرنے کی ٹھانی تھی۔

ممدو کے مرنے کے بعد مریم شاید ایک دفعہ اور باسودے گئیں اپنی زمین کا تیا پانچہ کرنے پھر اس کے بعد باسودے کا زوال شروع ہو گیا۔مریم کے چوڑے چکلے میواتی سینے میں بس ایک ہی شہر بسا رہ گیا۔ان کے حجور کا سہر۔وہ اٹھتے بیٹھتے "نبی جی،حجور جی” کرتی رہتیں۔کبھی یوں لگتا کہ انہیں قرار سا آ گیا ہے۔شاید اس لیے کہ ان کے بھولے بھالے منصوبہ کار ذہن نے ایک نیا مکہ مدینہ فنڈ کھول لیا تھا۔

ابا نے بڑے شوق سے لحاف سلوا کر دیا،مریم چپکے سے جا کر بیچ آئیں۔عید آئی،مریم کے بھی کپڑے بنے،خدا معلوم کب،کتنے پیسوں میں وہ کپڑے بیچ دیے۔ابا اماں سمیت،ہم سب کو جو ایک ایک آنہ عیدی دیتی تھیں،فوری طور پر بند کر دی۔پیسا پیسا کر کے پھر مکہ مدینہ فنڈ جمع ہو رہا تھا۔سب ملا کر پانچ سو ساٹھ روپے ہی جمع ہوئے تھے کہ مریم کا بلاوا آ گیا۔مجھے معلوم نہیں کہ کب اور کس طرح چل بسیں۔میں گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنی خالہ کہ گاؤں گیا ہوا تھا،واپس آیا تو اماں مجھے دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں،”منجھلے! تیری انْا بوا گزر گئیں۔لڑکے! تجھے بگاڑنے والی گزر گئیں۔”

ابا نے مجھے حکم دیا کہ میں مریم کی قبر پر ہو آؤں،میں نہیں گیا۔میں کیوں جاتا،ٹھنڈی مٹی کے ڈھیر کا نام تو مریم نہیں تھا۔میں نہیں گیا۔ابا ناراض بھی ہوئے مگر میں نہیں گیا۔

لوگوں نے بتایا کہ مریم نے مرتے وقت دو وصّیتیں کی تھیں۔ایک وصّیت تو یہ تھی کہ تجہیز و تکفین اُنھی کے پیسوں سے کی جائے اور باقی کے پیسے شتاب خان کو بھیج دیے جائیں۔دوسری وصّیت کا صرف امآں کو علم تھا۔اماں کے کان میں انہوں نے مرت وقت کچھ کہا تھا جو اماں کسی کو نہیں بتانا چاہتی تھیں۔

میں یہاں آ گیا۔پندرہ برس گزر گئے۔65ء میں ابا اور اماں نے فریضہ حج ادا کیا۔اماں حج کر کے لوٹیں تو بہت خوش تھیں۔کہنے لگیں،”منجھلے میاں! اللہ نے اپنے حبیب کے صدقے میں حج کرا دیا۔مدینے طیبہ کی زیارت کرا دی اور تمہاری انّا بوا کی دوسری وصّیت بھی پوری کرائی۔عذاب ثواب جائے بڑی بی کے سر۔ہم نے تو ہرے گنبد کی طرف منہ کر کے کئی دیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! باسودے والی مریم فوت ہو گئیں۔مرتے وخت کہہ رئی تھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جی سرکار! میں آتی ضرور مگر میرا ممدو بڑا حرامی نکلا۔میرے سب پیسے خرچ کرا دیے۔”

٭٭٭

ماخذ: مختلف ویب سائٹس سے

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید