FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

محمد اسحاق {اشوک کمار} سے  ایک دل چسپ ملاقات

 

احمد اواہ     :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

محمد اسحاق   :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ

سوال  :    اسحاق بھائی آپ سے  تو پچھلے  سال ۷/دسمبر کی رات کے  بعد ملاقات ہی نہ ہو پائی، کل ابی نے  بتایا کہ آپ کا فون آیا تھا آپ دہلی آ رہے  ہیں تو خوشی ہوئی، رات ہی ابی نے  فرما دیا تھا کہ آئندہ ماہ کے  لئے  آپ سے  انٹرویو لوں۔

جواب  :    ہاں احمد بھائی !مولانا صاحب نے  مجھ سے  بھی آج صبح ہی بتایا کہ ارمغان میں اس مہینے  تمہارا انٹرویو چھپنا ہے، میں نے  کہا مجھے  شرم آتی ہے  مگر انھوں نے  حکم کیا کہ تمہارا حال سن کر لوگوں میں دعوت کا جذبہ پیدا ہو گا اور دعوت کا کام کرنے  والوں میں خوف کم ہو گا، تمہیں بھی ثواب ملے  گا، میں نے  کہا پھر تو اچھا ہے۔

سوال  :    اسحاق بھائی اپنا خاندانی تعارف کرایئے  ؟

جواب  :   احمد بھائی !میں یوپی کے  مشہور ضلع رام پور میں ٹانڈہ بادلی قصبہ کے  قریب ایک گاؤں کے  سینی خاندان میں، ۷/دسمبر ۱۹۶۷ء میں پیدا ہوا، گھر والوں نے  میرا نام اشوک کمار رکھا، پتاجی (والد صاحب )شری پورن سنگھ جی ایک کم پڑھے  لکھے  کسان تھے  میں نے  آٹھویں کلاس تک اپنے  گاؤں کے  جو نیر ہائی اسکول میں پڑھا، اسکول اور انٹر میں نے  رام پور میں کیا بعد میں لکھنو میں سول انجینئر نگ میں ڈپلومہ کیا، ایک پرائیویٹ کنسٹر کشن کمپنی میں نوکری لگ گئی تھی، بچپن میں غصہ بہت تھا کئی بار اسکول میں ٹیچر سے  بھی لڑائی ہوئی، کمپنی میں روز روز کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا تھا نوکری چھوڑ آیا، میرے  دو دوست پہلی کلاس سے  انٹر تک ساتھ پڑھے  تھے  ایک کا نام یوگیش کمار اور دوسرے  کا یوگیندر سنگھ تھا، دونوں ہماری برادری کے  تھے، ایک رشتے  میں بھائی ہوتے  تھے  تینوں ساتھ پڑھتے  اور ورزش بھی ساتھ کرتے  تھے، کچھ روز پہلوانی بھی کی، رام جنم بھومی بابری مسجد کا جھگڑا ہوا تو ہم تینوں نے  بجرنگ دل میں اپنا نام لکھوایا، ایڈوانی جی کی رتھ یا ترا میں ہم لوگ گوالیار جا کر شامل ہوئے  اور چار روز ساتھ چلے، ہمارے  گھر والے  سبھی اس فیصلہ سے  بہت خوش ہوئے  ایک روز  یوگیش کے  پتاجی نے  جو اسکول میں ٹیچر بھی تھے  ہم تینوں کو اپنے  گھر بلایا میرے  اور یوگیندر کے  پتاجی کو بھی بلایا اور بولے  کہ ہم، تم تینوں بھائیوں کو رام نام پر چھوڑتے  ہیں، اگر رام مندر کے  نام پر تمہاری بلی بھی چڑھ جائے  تو پیچھے  نہ ہٹنا، دنیا میں تم امر ہو جاؤ گے، انھوں نے  ہمارے  تینوں کے  سروں پر انگوچھا باندھا، ہم لوگوں کا بڑا حوصلہ بڑھا اور بھی جوش پیدا ہوا ۳۰/اکتوبر کو ہم لوگ کا رسیوا میں پہنچے  مگر ہم ابھی جگہ پر پہنچ نہیں پائے  تھے  کہ ملائم سرکار میں گولی چل گئی اور ہمیں پولیس نے  گرفتار کر لیا اور ٹرین میں سوار کر کے  رام پور لا کے  چھوڑا ہمارے  غصہ کی حد نہ رہی میں نے  راستہ میں کئی سپاہیوں کی پٹائی بھی کی مگر انھوں نے  ہمیں یہ کہہ کر ٹھنڈا کیا ملائم سرکارتو گرے  گی، ہماری سرکار آئے  گی تو اس وقت تم اپنے  ارمان پورے  کر لینا، نومبر  ۱۹۹۱ء میں ہم لوگ بابری مسجد شہید کر نے  کے  شوق میں ایودھیا پہنچ گئے  سردی کے  کپڑے  بھی پورے  ساتھ نہیں تھے  الگ الگ آشرموں میں رہتے  ہمیں وہاں رہ کر بڑی حیرت ہوئی کہ اکثر سادھوؤں نے  ہمیں بابری مسجد شہید کر نے  میں شامل ہونے  سے  منع کیا اور انھوں نے  ہمیں اس طرح ڈرایا جیسے  ہم کوئی پاپ کر رہے  ہوں، ایک سادھو نے  تو یہ کہا کہ میں سچ کہتا ہوں اگر رام چندر جی جیوت ( زندہ )  ہو تے  تو بھی ہر گز یہ پاپ یعنی بابری مسجد گرانے  کا کام نہ کر نے  دیتے  ہمیں ان سمجھانے  والوں پر بہت غصہ آتا، ۶ / دسمبر ۱۹۹۲ء کو بھیڑ مسجد کے  پاس جمع ہو گئی ہمارے  سنچالک  نے  ہمیں  بتا یا تھا کہ جیسے  ہم اشارہ کریں گے  دھاوا بول دینا، ابھی اوما بھارتی نے  نعرہ لگایا تھا کہ ہم پل پڑے، یو گیش تو بھیڑ میں گر گیا، لوگ اس پر چلتے  رہے  کسی نے  دیکھ کر اس کا ہاتھ پکڑا، وہ اٹھا، مہینوں بیمار رہا، اس کی پسلیاں ٹوٹ گئی تھیں، خوشی خوشی ہم ایک اینٹ لے  کر گھر آئے  راستے  میں لوگ ہمارا سواگت ( استقبال ) کر تے  تھے، گھر والوں نے  ہمارے  سواگت میں ایک پروگرام کیا اور ہم کو پھو لوں سے  تولا گیا، اتنے  سال تک لوگ ہمیں شاباشی دیتے  رہے۔

سوال  :   اپنے  قبول اسلام کے  بارے  میں کچھ بتائیے  ؟

جواب  :  بابری مسجد کو شہید کر کے  احمد بھیا یوں تو ہم نے  اپنے  ارمان پورے  کر لئے، مگر نہ جانے  صرف مجھ اکیلے  کو ہی نہیں ہم تینوں کا حال یہ تھا کہ ہم اپنے  دل میں انجانے  خطرے  سے  ڈرے  سے  رہتے  تھے  اور ہر ایک کو یہ لگتا تھا کہ شاید اب کوئی خطرہ آ جائے، کبھی کبھی تو ایسا لگتا تھا کہ آسمان سے  کوئی آگ کی چٹان ہمیں دبانے  والی ہے، بابری مسجد کی شہادت کی ہر برسی پر یعنی ۶/دسمبر   کو ہمارے  لئے  دن رات کاٹنا مشکل ہوتا تھا ایسا لگتا تھا کہ آج تو ضرور کوئی آفت آئے  گی پچھلے  سال ۶/دسمبر کو یہ خطرہ پچھلے  سالوں سے  زیادہ ہی تھا، ہم لوگ ڈر کی وجہ سے  ۶/دسمبر کو کبھی گھر سے  نہیں نکلتے  تھے  اور جب ۶/تاریخ گذر جاتی تو ہم لوگ بہت سکون محسوس کرتے، ۷/دسمبر  ۱۹۹۲ء کی صبح کو ہم تینوں گھر سے  نکلتے  مجھے  رامپور میں ایک ضروری کام تھا میرے  ساتھی بھی ساتھ ہو لئے، رام پوربس اڈہ پر ہمارا ایک کالج کا ساتھی رئیس احمد ملا، اس نے  ہمیں دیکھا تو قریب آیا مذاق کے  انداز میں بولا، اشوک اب تم لوگوں کی باری ہے  تیار ہو جاؤ میں نے  کہا کس چیز کی باری ہے، اس نے  کہا پہلے  پاگل بننے  کی اور پھر مسلمان ہونے  کی، میں نے  کہاں چونچ بند کر، اس نے  کہا اخبار پڑھا ہے  کہ نہیں، میں نے  کہا اخبار میں کیا ہے  ؟ اس نے  اپنے  بیگ سے  ایک اردو سہارا اخبار نکالا اور محمد عامر اور عمر کے  اسلام قبول کرنے  کی خبر پوری سنا دی، ہم لوگوں کو غصہ بھی آیا اور ڈر بھی لگا  میں نے  کہا اردو کا اخبار ہے  جھوٹی خبر ہو گیاس نے  ہندی کے  دو اخبار نکالے  اور مجھے  دکھائے، چھوٹی چھوٹی دونوں میں خبریں دکھائیں  میں نے  دوبارہ اردو کی خبر جو تفصیل سے  تھی پڑھنے  کو کہا میرے  دوسرے  دونوں ساتھیوں کو بھی غصہ آیا اور مشورہ کیا کہ پھلت جا کر معلوم کرنا چاہئے  کہ جھوٹی خبر کیوں چھپوائی ہے  اور خبر چھپوانے  والوں کو مزہ چکھانا چاہئے، بات کو صاف کرنا چاہئے  ورنہ کتنے  لوگوں کے  (دھرم بھرشٹ) دین خراب ہو جائیں گے، رام پور سے  ہم لوگ میرٹھ کی بس میں بیٹھے  اور پھر کھتولی پہنچے  اور ایک جگاڑ میں بیٹھ کر پھلت پہنچے  مولانا صاحب کا پتہ معلوم کر کے  آپ کے  گھر پہنچے، مولانا صاحب نماز کے  لئے  گئے  تھے  نماز پڑھ کر آئے  تو ایک صاحب نے  بتایا کہ یہ مولانا کلیم صاحب ہیں، ہم لوگ کچھ تو غصہ میں تھے  اور کچھ زیادہ سخت لہجہ میں میں نے  مولانا صاحب کو اخبار دکھا کر کہا، یہ خبر آپ نے  چھپوائی ہے، آپ نے  کس طرح یہ خبر چھپوائی ہے ؟ ہم تین بالکل جَٹ انداز میں بڑے  سخت لہجہ میں بات کر رہے  تھے  مگر مولانا صاحب نہ جانے  کس دنیا کے  آدمی تھے  بہت ہی پیار سے  بولے، میرے  بھائی، آپ اپنے  ایک خونی رشتہ کے  بھائی کے  یہاں آئے  ہیں، آپ ہمارے  ہم آپ کے، یہ تڑ بڑ تو شہر کے  لوگوں میں ہوتی ہے، آپ کہاں سے  تشریف لائے  ہیں، پہلے  یہ بتایئے ؟ ہم رام پور ٹانڈہ بادلی کے  پاس سے  آئے  ہیں، مولانا صاحب بولے  میرے  بھائیو! اتنی سردی میں آپ نے  اتنا لمبا سفر کیا، کتنے  تھک رہے  ہوں گے، یہ آپ کا گھر ہے  آپ کسی غیر کے  یہاں نہیں ہیں، آپ جو معلوم کریں گے  ہم بتائیں گے، پہلے  آپ بیٹھئے، چائے  پانی ناشتہ کیجئے، کھانا کھایئے، خبر ہم لوگوں نے  نہیں چھپوائی ہے  مگر ہے  خبر سچی، ہم لوگ کچھ ٹھنڈے  ہو گئے  تھے، پھر سے  گرمی سی آ گئی، میں نے  کہا آپ کیسے  کہہ رہے  ہیں سچے  لوگوں کا دھرم بھرشٹ کرنا چاہتے  ہیں، مولانا صاحب نے  پھر پیار سے  کہا چلو اگر آپ سچ مانو گے  تو مان لینا ورنہ ہمیں اس کی بھی کوئی ضد نہیں عامر اور عمر میں سے  محمد عمر اتفاق سے  ایک نو مسلموں کی جماعت لے  کر پھلت آئے  ہوئے  تھے  جس میں نومسلم تھے، امیر نہ ملنے  کی وجہ سے  مولانا صاحب نے  ان کو پھلت بلایا تھا، جن میں تین ہریانہ کے  تھے  اور دو گجرات کے  اور چار یوپی کے، دو ان میں مندر کے  سادھو بھی تھے، مولانا صاحب نے  ایک حافظ صاحب کو بلایا اور ان سے  کہا عمر میاں کو بلاؤ، تھوڑی دیر میں محمد عمر آ گئے، مولانا صاحب نے  ہم سے  کہا: دو جن کی خبر چھپی ہے  ان میں ایک محمد عمر یہ ہیں، آپ ان سے  مل لیں اور معلوم کریں خبر کیا ہے  اور کتنی سچی ہے ؟ عمر  بھائی کے  ساتھ ہم برابر والے  چھوٹے  کمرے  میں بیٹھ گئے  مولانا صاحب نے  ان کو آواز دی اور کچھ سمجھایا بعد میں بھائی عمر نے  مجھے  بتایا کہ مولانا صاحب نے  مجھے  بہت تاکید کی کہ یہ کتنا بھی غصہ ہوں تم صبر کر نا اور بہت پیار نرمی سے  مریض سمجھ کر بات کرنا اور دل دل میں اللہ سے  دعا کرنا، میں بھی گھر میں جا کر دو رکعت پڑھ کر اللہ سے  ہدایت کی دعا کرتا ہوں، تھوڑی دیر میں پر تکلف ناشتہ آ گیا، ہم سبھی کو سردی لگ رہی تھی عمر بھائی نے  ضد کر کے  دو پیالی چائے  پلائی اور خوب خاطر کی اور ہمیں سمجھاتے  رہے  اور بتایا کہ پانی پت سے  سونی پت تک ایڈوانی جی کی رتھ یا ترا میں ہم دونوں سب سے  پیش پیش تھے  ۳۰/ اکتوبر میں ہم دونوں کے  اوپر گنبد پر گولی لگی تھی، تھوڑی دیر میں کھانا بھی آ گیا اب ہم تینوں کو لگا کہ ہمیں جو خوف تھا وہ سچ تھا اور ۶/دسمبر کو ہماری یہ حالت کیوں ہوتی تھی، میں نے  عمر سے  کہا اب ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟ انھوں نے  مجھے  بتایا کہ دنیا کا عذاب تو کچھ نہیں، مرنے  کے  بعد بڑے  دن کے  عذاب سے  بچنے  کے  لئے  آپ کو میری رائے  ماننی چاہئے  اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جانا چاہئے، ہم تینوں باہر مشورہ کے  لئے  آنے  لگے  تو عمر بھائی نے  کہا میں ایک کام کے  لئے  باہر جاتا ہوں آپ اندر بیٹھے  رہیں، ہم تینوں نے  مشورہ کیا اور سب نے  طئے  کیا کہ ہم کو مسلمان ہو جانا چاہئے  پھر عمر بھائی کو آواز دی اور اپنا فیصلہ بتایا، عمر بھائی نے  کہا کہ وہ دو رکعت نماز پڑھ کر سچے  مالک سے  آپ کے  لئے  دعا کر نے  گئے  تھے  اور مولانا صاحب بھی آپ کے  لئے  دعا ہی کر نے  اندر گئے  ہیں، خوشی خوشی عمر نے  گھر میں مولانا صاحب کو آواز دی اور درخواست کی کہ ان تینوں بھائیوں کو کلمہ پڑھوا دیں مولانا صاحب نے  ہمیں کلمہ پڑھوایا، احمد بھائی وہ حال میں بتا نہیں سکتا کہ ہم تینوں پر کیا گذری، جیسے  جیسے  مولانا صاحب نے  ہمیں کلمہ پڑھوایا اور توبہ کر وائی ایسا لگ رہا تھا جیسے  کانٹوں کا ایک لباس جس سے  جسم بندھا تھا ہمارے  جسم سے  اتر گیا، اندر سے  خوف ایک دم کا فور ہو گیا، جیسے  ہم نہ جانے  کس خطرہ سے  نکل کر ایک محصور قلعہ میں آ گئے  ہوں، مولانا صاحب نے  میرا نام محمد اسحاق رکھا، یوگیش کا محمد یعقوب رکھا اور یوگیندر کا محمد یوسف اور حضرت یوسف، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب کا قصہ بھی سنایا اور ہمیں بتا یا کہ کل سے  فون آ رہے  تھے  کہ یہ خبر چھپ گئی ہے  خدا خیر کرے  کوئی فساد نہ ہو جائے، میں دوستوں سے  کہہ رہا تھا   آپ ڈرئیے  نہیں ہم نے  خبر نہیں چھپوائی، اللہ نے  چھپوائی ہے  انشاء اللہ اس میں ضرور خیر ہو گی، اللہ نے  اتنی بڑی خیر ظاہر کر دی، مولانا صاحب نے  کھڑے  ہو کر گلے  لگا یا مبارک باد دی اور تینوں کو  ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘ دی۔

سوال  :  اس کے  بعد کیا ہوا ؟

جواب  : صبح کو نو مسلموں کی جماعت کے  ساتھ ہم تینوں کو شامل کر دیا گیا ایک مفتی صاحب بلند شہر کے  سال لگا رہے  تھے، ان کو ہمارا امیر بنا یا گیا اور دو لوگوں کو سکھا نے  کے  لئے  شامل کیا گیا، ۱۵  / لوگوں کی جماعت ایک روز میرٹھ رہی، ہم تینوں نے  میرٹھ میں سرٹیفکٹ بنوائے  اور پھر جماعت کا  رخ آگر ہ کی طرف بنا آگر ہ اور متھرا ضلع میں ۴۰/ دن پورے  کئے  جماعت میں وقت ٹھیک لگا، نئے  نئے  لوگ تھے  ایک دو بار لڑائی بھی ہوئی ایک روز ہم تینوں نے  لڑ کر واپس آنے  کی سوچی رات کو پکا ارادہ کیا کہ صبح چلے  جائیں گے، رات میں یوسف نے  ایک خواب دیکھا، مولانا صاحب فرما رہے  ہیں آپ کو اللہ نے  کس طرح ہدایت دی پھر بھی آپ اللہ کے  راستہ سے  بھاگ رہے  ہیں، اس نے  بعد میں ہم دونوں کو بتایا، ہم لوگوں نے  طئے  کر لیا کہ جان بھی چلی جائے  گی تو چلہ پورا کر کے  ہی مولانا صاحب کو منھ دکھائیں گے  الحمدللہ ہمارا چلہ پورا ہو گیا۔

سوال  :   جماعت سے  واپس آنے  کے  بعد پھر کیا ہوا؟

جواب  : مولانا صاحب نے  مجھ سے  معلوم کیا کہ اب آپ کا ارادہ کیا ہے ؟ اور مشورہ دیا کہ گھر پر فوراً جانا ٹھیک نہیں ہے  مگر ہم نے  مولانا صاحب سے  کہا کہ ہم بچے  نہیں ہیں، مذہب ہمارا ذاتی معاملہ ہے  اور ہمارا حق ہے  کہ حق کو مانیں، ہم گھر جا کر گھر والوں پر کام کریں گے  اور ہمیں کسی طرح کا کوئی خطرہ نہیں ہے، مولانا صاحب کے  سمجھانے  کے  باوجود ہم لوگ اپنے  گاؤں پہنچے  پورے  علاقہ میں ماحول خراب تھا خبر مشہور تھی کہ مسلمانوں نے  ان کو قتل کر دیا ہے، ہم لوگوں نے  گھر والوں کو جا کر صاف صاف بتا دیا، پھر کیا تھا، پوری برادری میں ماتم مچ گیا بار بار پنچایت ہوئی دور دور کے  رشتہ دار آ گئے  ایک بار اخبار والے  بھی آ گئے  گاؤں والوں نے  ان کو پیسے  دے  دلا کر واپس کیا اور راضی کیا کہ خبر اخبار میں ہرگز نہ دی جائے  ورنہ اور بھی لوگوں کو خطرہ ہے، ہمارے  گھر والوں پر برادری والوں نے  دباؤ دیا کہ اپنے  لڑکوں کو کسی طرح باز رکھیں مگر اللہ کا شکر ہے  کہ اللہ نے  ہمیں مخالفت سے  اور پکا کر دیا ہمارے  ساتھ بہت سختیاں بھی ہونے  لگیں، ہمارے  بیوی بچوں کو گھر بھیج دیا گیا مجبوراً ہمیں گھر چھوڑنا پڑا، ہمیں پھلت جاتے  ہوئے  شرم آئی کہ مولانا صاحب کی بات نہیں مانی، ہم لوگ پہلے  دہلی گئے  اور پھر ایک صاحب ہمیں پٹنہ لے  گئے، پٹنہ میں ہم نے  بڑی مشکل اٹھائی، کچھ دن رکشہ بھی چلائی، ضرورت کے  لئے  مزدوری بھی کی، بعد میں مجھے  ایک صاحب اپنی کمپنی میں کلکتہ لے  گئے  اور پھر میرے  دونوں ساتھی بھی کلکتہ آ گئے  الحمد للہ ہماری مشکل کا زمانہ زیادہ طویل نہیں ہوا اور اب ہم سیٹ ہیں، اس دوران ہم تینوں کو باری باری حضورﷺ کی زیارت بھی ہوئی، جس سے  ہمیں بڑی تسلی ہوئی، مولانا صاحب کی یاد ہم لوگوں کو بہت آ رہی تھی مگر موقع نہیں مل سکا، اللہ کا کرم ہے  آج ملاقات ہو گئی، مولانا صاحب سے  ملنے  کے  بعد نو دس مہینے  کی تکلیفیں ساری جیسے  ہوئی ہی نہیں تھیں۔

سوال  :   اپنے  گھر والوں سے  کوئی رابطہ آپ نے  کیا کہ نہیں ؟

جواب  : ہم لوگوں نے  فون پر بات کی ہے، ماں اور بھائی بہنوں سے  بات ہو جاتی ہے  پتا جی سے  بات تو نہیں ہو پاتی، انشاء اللہ وقت کے  ساتھ ساتھ سب کچھ ٹھیک ہو جائے  گا البتہ میری بیوی اور دونوں بچے  ابھی میری سسرال میں ہیں، وہ بات نہیں کرتے  ہیں، میں نے  ایک دوست کو کسی طرح بھیجا تھا اس نے  ہماری سسرال کی ایک مسلمان عورت کو ان کے  گھر بھیجا تھا، میری بیوی نے  کہا جب کہیں جہاں کہیں جانے  کو تیار ہوں، میری بھابھیوں سے  بالکل نہیں بنتی اور میں خود ایک پتی کی رہ کر مرنا چاہتی ہوں، آ ج مولانا صاحب سے  مشورہ ہو گیا ہے  میں اب کسی طرح ان کو لے  کر ہی جاؤں گا۔

سوال  :    دعوت کے  سلسلہ میں آپ سے  ابی نے  کوئی بات نہیں کی، اس سلسلہ میں کچھ بتایئے ؟

جواب  :   مولانا صاحب نے  ہم سے  عہد لیا ہے  کہ بابری مسجد شہید کرنے  والوں کی فکر کرنی ہے  اور کار سیوکوں پر کام کرنا ہے  اور ان کے  لئے  اور گھر والوں کے  لئے  دعا کر نی ہے  مولانا صاحب سے  مشورہ ہوا ہے  میں بہت جلد کلکتہ سے  جماعت میں وقت لگاؤں گا اور اللہ کے  راستہ نکل کر اپنے  اللہ سے  منظور کروانے  کے  لئے  دعا کروں گا اور پھر آ کر گھر والوں اور کارسیوں پر کام کروں گا۔

سوال  :    ارمغان کے  قارئین کے  لئے  کچھ پیغام دیجئے ؟

جواب  :  اسلام ہر انسان کی ضرورت ہے  کسی آدمی کو اسلام دشمنی میں سخت دیکھ کر یہ نہ سوچنا چاہئے  کہ اس کے  مسلمان ہونے  کی امید نہیں، سارے  اسلام دشمن غلط فہمی یا نہ جاننے  کی وجہ سے  اسلام دشمن ہیں، ہمارے  حال سے  زیادہ اسی کا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے، اسلام قبول کرنے  سے  پہلے  ہم بجرنگ دلی تھے  اسلام اور مسلمان ہمارے  سب سے  بڑے  دشمن تھے  اور اب، ہم ہی ہیں، یہ تصور کہ خدا نخواستہ ہم ہندو مر جاتے  (دھڑ دھڑی دے  کر روتے  ہوئے  )تو ہماری ہلاکت کا کیا حال ہوتا اور کس طرح اللہ کی ناراضگی اور دوزخ کا ہمیشہ ہمیش کا عذاب برداشت کرتے۔

سوال  : شکریہ اسحاق بھائی !آپ تینوں کا شکریہ، آپ دونوں سے  بھی کسی وقت دوبارہ بات ہو گی، السلام علیکم و رحمۃ اللہ

جواب  :   وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

 

مستفاد از ماہ نا مہ ارمغان، ڈسمبر  ۲۰۰۷ء

٭٭٭

 

 

 

 

محمد سلمان {بنواری لال} سے  ایک ملاقات

 

احمد اواہ    :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ برکاتہٗ

محمد سلمان  :  وعلیکم السلام

سوال  :   اللہ کا شکر ہے  آپ بہت وقت پر آ گئے  ہم کل ہی مکہ معظمہ سے  واپس آئے  ہیں ابی مکہ معظمہ میں آپ کا ذکر کر رہے  تھے  اور کہہ رہے  تھے  کہ میں تھانہ جا کر آپ سے  ملوں اور ارمغان جو ہمارا میگزین ہے  اس کے  لئے  آپ سے  انٹرویو لوں۔

جواب  :  مجھے  قاری صاحب نے  فون پر بتایا تھا کہ مولانا صاحب جہاں حج کو جاتے  ہیں کعبہ کے  سفر پر گئے  ہیں اور ۱۷ / اگست کو آئیں گے  پھر میں نے  کل فون کیا تو معلوم ہوا کہ آپ لوگ آ گئے  ہیں  میرا دل بہت ملنے  کو چاہ رہا تھا کچھ چیزوں میں مشورہ بھی کر نا تھا اس لئے  میں رات ہی دہلی ڈیڑھ بجے  پہنچا، مالک کا شکر ہے  کہ ملاقات بھی ہو گئی اور بہت اطمینان بھی ہو گیا۔

سوال  :   آپ اپنا تعارف کرائیں یعنی پریوارک پر یچے  کرائیں ؟

جواب  :   میرا پہلا جنم تو مظفر نگر کے  ملہو پورہ محلہ کے  ایک دلت بلکہ چمار گھرانے  میں ۶ / اگست ۱۹۵۸ء کو ہوا، ایسا میرے  اسکول کے  سرٹیفکٹ میں چڑھا ہے  اصل جنم تتھی (تاریخ پیدائش ) تو کسی چمار کے  گھر وہ بھی پچاس سال پہلے  کیسے  پتہ ہو گی، میرے  پتا جی  (والد صاحب) بیچارے  مزدوری کر تے  تھے  بعد میں کمزور ہو گئے  تو سبزی بیچنے  لگے، ان کا اتر سنگھ جی نام تھا، انھوں نے  میرا نام بنواری لال رکھا، ہمارے  خاندان میں پڑھائی کا رواج نہیں تھا، بس ہمارے  ایک ماموں ایک بینک میں چپراسی تھے  اور آٹھویں کلاس پاس تھے، انھوں نے  مجھے  پڑھانے  کی کوشش کی اور اپنے  خاندان میں میں نے  بارہویں کلاس پاس کی پھر ٹائپنگ سیکھ لی اور پو لیس میں مجھے  کلرک کی نوکری مل گئی، بڑی وپریت استھتی (مخالف ماحول) میں میں نے  پڑھائی کی اسکول میں ہیڈماسٹر ایک پنڈت جی تھے  بس اتنا ذلیل کر تے  تھے  کہ کئی بارز ہر کھانے  کو جی کرتا تھا، کلاس میں سب سے  پیچھے  بٹھاتے  تھے  اور بری بری گالیاں دیتے  تھے، زندگی بھر اونچی ذات والوں سے  ہم ذلیل ہو تے  رہے  پولیس کی نوکری بھی بڑی بری ہے، ۲۵ / سال میں ایک سوسر سٹھ تھانوں میں میرا تبادلہ ہوا، آپ کے  یہاں رتن پوری تھانہ میں بھی رہا اور آپ کے  یہاں ہی مجھے  صدر محرر کی ترقی ہو گئی تھی، میرا دوسرا جنم ( پیدائش )  اب سے  دو مہینے  پہلے   ۱۸ / جولائی کو ہوا۔

سوال  :  اچھا اچھا، وہ تو ہمارے  پورے  گھر والوں کو معلوم ہے، مگر آپ پھر بھی اس جنم کے  بارے  میں ذرا اپنی زبانی بتائیے، یعنی اپنے  اسلام قبول کر نے  کے  بارے  میں بتائیے، اس لئے  آپ کو کہانی سنانی پڑے  گی ؟

جواب  : جیسا کہ آپ کو معلوم ہے  کہ بہار کے  ایک بڑے  ڈاکٹر کی لڑکی میرٹھ کا لج میں پڑھتی تھی اور اپنی بوا کے  گھر رہتی تھی، اس کے  نا جائز تعلقات ایک مسلمان لڑکے  سے  ہو گئے، لڑکے  کا نام بلال تھا، دونوں میں بات بڑھتی گئی دونوں نے  ٹھان لی کہ شادی کر لیں گے، ایک روز لڑکی اپنی بوا کا گھر چھوڑ کر لڑکے  کے  پاس آ گئی کہ مجھے  مسلمان کر کے  شادی کرو، لڑکا بہت سیدھا اور کمزور دل کا تھا اس نے  منع کیا کہ میرے  گھر والے  تو کسی طرح تجھے  گھر نہیں رکھ سکتے  اور میرے  حالات کہیں رکھنے  کے  نہیں ہیں، لیکن لڑکی نہ مانی اس نے  کہا کہ اگر تو نے  مجھ سے  شادی نہ کی تو میں زہر کھا لوں گی، لڑکا مجبور ہوا، کئی جگہ شادی اور نکاح کے  لئے  لے  گیا، کو ئی تیار نہ ہوا، کسی نے  اس کو پھلت جانے  کا مشورہ دیا وہ پھلت پہنچا مولانا کلیم صاحب نے  پورے  حالات سنے، لڑکی سے  خوب ٹھونک کر پوچھا، اس نے  کہا کہ میرے  گھر والے   تو تیار ہو جائیں گے  میرے  والد تو آدھے  مسلمان ہیں روزانہ قرآن شریف پڑھتے  ہیں، حضرت صاحب نے  کلمہ پڑھوا کر ان کا نکاح کر وا دیا اور قانونی کار وائی مکمل کر نے  کا مشورہ دیا، وہ لڑکا بہت سیدھا تھا، وہ بولا اب میرا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے  میرے  نانا کلکتہ میں رہتے  ہیں میں نے  سوچا تھا ہم وہاں چلے  جائیں گے  ان سے  فون پر بات کی تو انھوں نے  صاف منع کر دیا، میرے  گھر والے  ہر گز مجھے  گھر میں داخل نہیں ہو نے  دیں گے، مولا نا صاحب نے  کہا :تیرے  گھر والے  تجھے  نہیں رکھتے  تو ہم کیسے  رکھ سکتے  ہیں ؟ مگر بلک بلک کر رونے  لگا حضرت صاحب کو  ترس آ گیا، انھوں نے  ان دونوں کو دو چار روز تک پھلت رکھ کر دہلی بھیج دیا اور ایک کمرہ کرایہ پر دلوا دیا اور اپنی بہن سے  لڑکی کی پڑھائی یعنی اسلام کی پڑھائی طئے  کر دی، لڑکی کی کا نام ثنا رکھا مولانا صاحب کی بہن کے  یہاں لڑکی کو بہت کم وقت میں اسلام سمجھ میں آ گیا اور ایمان اب اس کے  لئے  بلال سے  زیادہ پیارا ہو گیا، لڑکی کی بوا نے  بلال اور اس کے  گھر والوں کے  خلاف اغوا کی تھا نہ میں شکایت لکھوائی، بہار کے  ایک سینئر آئی پی ایس افسر لڑکی کے  رشتہ دار تھے، انھوں نے  میرٹھ کے  ایس ایس پی پر زیادہ دباؤ دیا کہ وہ لڑکی کو بر آمد کریں، بلال کے  والد اور گھر والوں کو پولیس اٹھا کر لے  گئی، مولانا صاحب کے  بار بار دباؤ دینے  کے  باوجود بلال اپنی سستی اور کم ہمتی میں قانونی کاروائی نہیں کراسکا، لڑکی نے  تھانہ میں فون کیا کہ میں گریجویٹ ہوں اور میں نے   اپنی مرضی سے  شادی کی ہے، مگر پولیس پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا، بلال کے  بڑے  بھائی نے  کسی طرح مولانا صاحب کا نمبر لیا اور فون کیا کہ کسی طرح بلال کا پتہ بتا دیں، ہمیں صرف قانونی کاغذات لینے  ہیں تاکہ تھانہ میں دکھا کر اپنے  گھر والوں کو چھڑا لیں، مولانا اس وقت ممبئی میں تھے  انھوں نے  ان کو مشورہ دیا کہ دو روز بعد بلال دہلی کی کسی مسجد میں آئے  گا آپ وہاں مل لیں ہمارے  بہنوئی آپ سے  ان کی ملاقات کر دیں گے    دوپہر کی نماز میں بلال مسجد میں نہیں پہنچا اور بلال کے  بھائی معلوم کرتے  کرتے  مولانا صاحب کے  دہلی والے  گھر پہنچ گئے، وہاں گھر والوں نے  کہا کہ ہم کسی بلال کو نہیں جانتے  پھر اس نے  مولانا صاحب کو فون کیا مولانا صاحب نے  کسی طرح بلال کو تلاش کر کے  اس کو بھائی سے  ملنے  کو کہا، پولیس کا دباؤ پڑا تو بلال کے  اس بھائی کو بھی پکڑ لیا، ان سب پر دباؤ بھی دیا اور لالچ بھی کہ ہمیں صرف لڑکی چاہئے، اگر لڑکی کا پتہ تم لوگ بتا دو ہم سب لوگوں کو چھوڑ دیں گے، بلال کے  بھائی نے  اپنے  چھوٹنے  کے  لا لچ میں تھانہ انچارج سے  کہا کہ لڑکی دہلی میں مل سکتی ہے، وہ اس کو اور لڑکی کے  بھائی کو لے  کر رات کو دہلی پہنچے  اور ۱۷/جولائی کی رات کے  ساڑھے  تین بجے  بٹلہ ہاؤس میں حضرت صاحب کے  گھر چھاپہ مارا مولانا صاحب کسی انتقال میں جانے  کی تیاری کر رہے  تھے  پولیس نے  گھر کی تلاشی لی اور مولانا صاحب سے  بلال کا پتہ معلوم کیا، مولانا صاحب نے  بتایا کہ بلال ان کے  پاس نہیں ہے  بلکہ کل اس کا فون آیا تھا، رورہا تھا کہ آپ کا کمرہ تو خالی کر دیا اب میں کیا کروں ؟میں نے  سفر سے  فون پر اس کو پنجاب کے  ایک دوست کا نمبر دیا کہ کوشش کر لو، اگر وہ تمھیں کرایہ کا مکان اور کوئی نوکری دلوا دیں، پولیس مولانا صاحب کو جامعہ نگر چوکی لے  گئی اور پھر فوراً میرٹھ کے  اس تھانہ میں روانہ ہو گئی، موبائل بھی اپنے  قبضہ میں کر لیا، مولانا صاحب بتاتے  ہیں، زندگی میں پولیس سے  ایسا پہلا سابقہ تھا فوراً مجھے  خیال ہوا کہ دعوت ہر مشکل کا علاج ہے، مولانا دعوت کی بات شروع کی ایک گاڑی میں تھانہ انچارج موتلہ صاحب اور حضرت صاحب تھے، مولانا صاحب نے  تھانہ انچارج سے  معلوم کیا کہ آپ پولیس والے  ہی ہیں یا انسان بھی ہیں، وہ بولے  پہلے  ہم انسان ہیں بعد میں پولیس والے، مولانا ہم پہاڑ کے  رہنے  والے  ہیں  اتراکھنڈ کے  اور پہاڑی لوگ پہلے  انسان ہوتے  ہیں، مولانا صاحب نے  کہا آپ میری طرف دیکھئے، میرے  چہرے  سے  آپ کو کیا جرائم ٹپک رہے  ہیں، کیا میں کوئی لڑکی اغوا کر سکتا ہوں ؟ موتلہ صاحب نے  کہا :سر ہم نے  آپ کا کوئی انادر (بے  عزتی ) تو نہیں کی، آپ پولیس کی مدد کیجئے، ہمیں صرف لڑکی چاہئے، ہم پر بہت دباؤ ہے، مولانا صاحب نے  کہا کہ یہ کوئی آدر ہے  کہ آپ ایک شریف آدمی کو تین بجے  رات میں بغیرکسی جرم کے  تھانہ لے  جا رہے  ہیں مولانا نے  مراد نگر مسجد میں نماز پڑھنے  کی اجازت چاہی، تو موتلہ جی ہاتھ جوڑنے  لگے، سر میں مسجد میں نماز پڑھنے  نہیں دے  سکتا آپ کہیں راستہ میں نماز پڑھ لیں، گاڑی میں چٹائی ہے، مولانا صاحب نے  کہا نماز تو آپ کو بھی پڑھنی چاہئے، ایک دن مالک کے  سامنے  آپ کو بھی جانا ہے، وہاں آپ سے  اس کا سوال ہو گا کہ آپ نے  نماز کیوں نہیں پڑھی، مولانا نے  اس کو اسلام کے  بارے  میں بتانا شروع کیا، تھا نہ پہنچ گئے، تھانے  میں کرسی پر بٹھا کر اس نے  سپاہی کو چائے  اور  بسکٹ لانے  کو کہا، حضرت صاحب نے  منع کیا، کہا کہ ہم لوگ پولیس کی چائے  نہیں پیتے، مگر موتلہ جی نے  کہا کہ چائے  والے  سے  معلوم کر لیجئے  کہ ہم کس طرح پیسے  دیتے  ہیں، اگر آپ سنتوشٹ (مطمئن) ہوں تو چائے  لے  لیجئے، ورنہ چائے  کے  پیسے  اپنے  پاس سے  ادا کر دیجئے، چائے  تو پی لیجئے  موتلہ جی نہانے  اور ناشتہ کے  لئے  میرٹھ گھر چلے  گئے، تھوڑی دیر میں مولانا صاحب کے  بہنوئی اور ایک دو وکیل آ گئے، مولانا صاحب ان سے  بات کر رہے  تھے، مولانا صاحب نے  بتایا کہ تھانے  کا ایک سنتری آیا اور بولا : مولانا صاحب آپ اپنی کرسی لے  کر اندر الگ بیٹھئے، مولانا صاحب نے  سوچا، تھا نے  میں اپنی عزت بچانی چاہئے، بس وہ اندر آ گئے، اصل میں میرے  مالک کو مجھ مظلوم پر رحم آ گیا کہ کنویں کو پیاسے  کے  پاس گرفتار کر کے  بھیجا، میں اپنے  ماتحت سپاہی سے  بحث کر رہا تھا وہ اہلا وت چودھری تھا، میں نے  کہا کہ سارے  کام ہم کرتے  ہیں، بس تمہارے  پاس بدھی تو ہے  ورنہ سارے  کام ہم کرتے  ہیں، میں نے  کہا:  میاں صاحب ! مندر ہم بنائیں، مسجد ہم بنائیں، سب کام ہم کریں اور ہمیں گھسنے  بھی نہیں دیتے، مولانا صاحب نے  کہا مندر کی بات آپ سچ کہہ رہے  ہیں، مسجد کی یہ بات نہیں ہے، آپ کسی مسجد میں امام کے  پیچھے  چلے  جائیں، کوئی آپ کو روکے  گا نہیں، آپ ہندو پہچان کے  ساتھ دہلی کی جامع مسجد میں جایئے، آپ کو کوئی امام کے  پیچھے  نماز پڑھنے  سے  نہیں روکے  گا، میں نے  کہا مولانا صاحب اصل میں ہم چمار ہیں، بس بتا نہیں سکتا کیسے  دکھ بھرے  ہیں ہم نے، اسکول میں ماسٹر سب سے  پیچھے  بٹھاتا تھا، آواز بالکل ہلکی تھی، کچھ سوال کر لیتا تو بس گالیاں دیتا، کتنی بار دل میں آیا کہ مالک نے  ہمیں ہندو کیوں بنا دیا، کئی بار خیال آیا کہ بودھ یا مسلمان ہو جاؤں۔

مولانا صاحب نے  بتایا بودھ بننے  سے  تو امبیڈکر جی کا مسئلہ حل نہیں ہوا، انھوں خود لکھا ہے  کہ مسلمان ہونا ہی مسئلہ کا حل تھا میں نے  کہا کہ ہمیں تو کوئی مسلمان کرنے  والا ملتا نہیں، مولانا صاحب نے  کہا کہ میں آ گیا ہوں نہ آج، میں نے  کہا کہ مولانا صاحب آپ تو مذاق میں لے  رہے  ہیں، میرا دل تو کڑھ رہا ہے  میں بہت سیریس لی بات کر رہا ہوں، مولانا صاحب نے  کہا کہ میں آپ سے  کئی گنا زیادہ سیرس ( سنجیدہ ) ہوں اور بولے، پڑھ لو کلمہ ’’ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ پڑھو جلدی، بس ہو جاؤ گے  مسلمان، میں نے  کہا یہ تو مجھے  یاد ہے  مولانا صاحب نے  کہا کہ مجھے  سناؤ میں نے  سنایا مولانا صاحب بولے  اب اس کو مسلمان ہونے  کی نیت سے  سچے  دل سے  پڑھ لیجئے، یہ خیال کر کے  کہ قرآن جو مالک کی طرف سے  سنودھان (منشور )ہے، اس کی شپتھ  (حلف) لینے  کے  لئے  پڑھ رہا ہوں کہ اس منشور کو مانوں گا، مولانا کے  زور دینے  پر میں نے  پڑھا، مولانا نے  کہا بس مسلمان ہو گئے، میں نے  کہا اب مجھے  مسلمان ہو نے  کے  لئے  کیا کرنا ہے ؟مولانا صاحب نے  کہا کہ مسلمان ہونے  کے  لئے  کچھ نہیں کرنا ہے، بس اچھا مسلمان ہونے  کے  لئے  اسلام کو پڑھنا ہے، نماز سیکھنی ہے، صفائی کا اسلامی طریقہ سیکھنا ہے  میں نے  کہا مجھے  کہاں جانا پڑے  گا ؟مولانا صاحب نے  کہا کہ پھلت آ جانا، میں نے  کہا پھلت جو رتن پوری تھا نہ میں ہے  اور جہاں بڑا مدرسہ ہے  اور جہاں کے  مولانا مشہور ہیں، مولانا صاحب نے  کہا ہاں وہی، مولانا صاحب نے  کہا فون نمبر لکھ لیں اچھا ہے  میری موجودگی میں آئیں، احمد مولانا صاحب !میں بیان نہیں کر سکتاکہ مجھے  کلمہ پڑھ کر ایسا لگا جیسا میں نے  ایک تنگ اور گھٹن کی زندگی سے  ایک نئے  جگت (جہان)میں جنم لیا ہے۔

مولانا صاحب بتاتے  ہیں کہ انھوں نے  مجھے  جیسے  ہی کلمہ پڑھوایا، موتلہ صاحب کے  پاس ہوم سکریڑی اور لیڈروں اور افسروں کے  فون آئے، انہوں نے  تھانے  میں فون کیا، انسپکٹر سے  بات ہوئی، موتلہ صاحب نے  کہا کہ مولانا صاحب کو آدر سے  آفس میں بٹھاؤ اور ناشتہ وغیرہ کراؤ، میں آتا ہوں۔

موتلہ جی آ گئے  مولانا صاحب سے  معذرت کی کہ پولیس کو اصل حال معلوم نہیں تھا، آپ با عزت جاسکتے  ہیں، آپ سے  درخواست ہے  کہ آپ آگے  کوئی کاروائی نہ کریں، مجھے  بالکل ایسا لگا جیسے  میرے  مالک نے  مجھے  دنیا کی تنگی اور ظلم سے  نکالنے  کے  لئے  مولانا صاحب کو گرفتار کر کے  بھیجا مو لانا کہتے  بھی ہیں کہ آپ مجھے  ایسے  ہی بلوا لیتے، رات کو تین بجے  کلمہ پڑھوانے  کے  لئے  گرفتار کروایا میں کس منھ اپنے  پیارے  مالک کا شکر ادا کر سکتا ہوں۔

سوال  :    اس کے  بعد موتلہ جی کا کیا ہوا؟

جواب  : اخباروں میں مولانا صاحب کی گرفتاری کی خبر چھپ گئی فون پر فون احتجاج کے  آنے  شروع ہوئے، موتلہ اور انسپکٹر کا ٹرانسفر ہوا بلکہ ڈموشن ہوا، تقریباً سارا تھا نہ بدلا گیا، میرا بھی ٹرانسفر ہوا، موتلہ صاحب اپنا سامان لینے  آئے  تو میں ان سے  ملنے  گیا، بولے  دہلی سے  آتے  وقت مولانا صاحب نے  گاڑی کے  اندر کی لائٹ جلا کر جب کہا کہ میرا چہرہ دیکھئے  آپ، کیا اس سے  جرائم ٹپک رہے  ہیں ؟ میں بیان نہیں کر سکتا، جیسے  مجھ پر بجلی گر گئی ہو میرے  دل میں آیا کہ کسی مہان (بڑے ) آدمی پر تو نے  یہ ہاتھ ڈالا، بعد میں افسروں کے  دباؤ سے  بچنے  کے  لئے  مولانا صاحب کا نام تو ایف۔ آئی۔ آر میں لکھا کہ مولانا صاحب کے  علم میں تھا، مگر مجھے  اندر سے  ایسا لگتا ہے  بنواری لال، وہ لڑکی کیا مسلمان ہوئی ہم سبھی کو مسلمان ہونا پڑے  گا، میں ان کو مولانا صاحب کی کتاب آپ کی امانت بھی دی، ان کا فون آیا تھا اسلام کے  تعارف کے  لئے  اور کوئی کتاب بھیجنا،

سوال  :   پھر آپ نے  اسلام کو پڑھنے  اور سیکھنے  کے  لئے  کیا کیا ؟

جواب  :   سب سے  پہلے  تو میں نے  اپنے  اطمینان کے  لئے  ایک روز کی چھٹی لی اور دھوتی پہنی، تلک لگایا اور دہلی جامع مسجد پہنچا، گیارہ بجے  جامع مسجد پہنچا اور نماز کا وقت معلوم کیا تو لوگوں نے  بتایا کہ ڈھائی گھنٹہ بعد اکٹھی نماز ہو گی، اکیلے  تو جب چا ہو پڑھ سکتے  ہو، میں امام صاحب کی جگہ پیچھے  جا کر بیٹھ گیا، دو گھنٹہ بعد اذان ہوئی لوگوں نے  مجھ سے  بتایا کہ نماز ہونے  والی ہے، آپ یہاں سے  تھوڑی دیر کے  لئے  چلے  جائیں، میں نے  کہا میں چمار ہوں ہندو مذہب کا کوئی مجھے  مندر نہیں جانے  دیتا، آج مسجد دیکھنے  آیا ہوں، اذان دینے  والے  میاں جی کا ایک مصلیٰ بچھا تھا، انہوں نے  اسے  جھاڑا اور مجھے  کہا آپ اس پر بیٹھ جائیں، میں نے  امام کے  پیچھے  نماز پڑھی لوگ یہ معلوم کر کے  کہ میں چمار ہوں بہت خوش ہوئے  اور کئی لوگوں نے  مجھے  گلے  لگایا اسلام کی سچائی پر اب مجھے  پورا یقین آ گیا تھا، اب میں گھر گیا اپنے  بچوں اور گھر والوں کو بتایا سب لوگ بہت خوش ہوئے  اور میں نے  پھلت مولانا صاحب سے  وقت لے  کر ان چاروں بچوں اور بیوی کو کلمہ پڑھوایا۔

سوال  :  آپ کے  خاندان والوں نے  کچھ مخالفت نہیں کی ؟

جواب  :  ہمارے  خاندان والے  مظفر نگر میں رہتے  ہیں ہمارا ان سے  رابطہ زیادہ نہیں ہو پاتا، ہاں مجھے  یقین ہے  کہ سچائی معلوم ہو گی تو وہ مخالفت کر نے  کے  بجائے  اسلام کے  سائے  میں آ کر بے  حد خوشی محسوس کریں گے، میں خود ایسا محسوس کرتا ہوں جیسے  مجھے  پھانسی سے  رہائی ملی ہو۔

سوال  :    دین کو سیکھنے  کے  لئے  آپ نے  کیا کیا ؟

جواب  : میں نے  مولانا صاحب سے  بات کی ہے، انشا ء اللہ جلد چھٹی لے  کر چار مہینے  جماعت میں یا کسی مدرسہ میں لگا دوں گا میں نے  نام بدلنے  کی بھی درخواست لگا دی ہے، میں نے  کتابیں پڑھنی شروع کر دی ہیں، مولانا صاحب نے  مجھے  پچاس کتابوں کی فہرست بتائی ہے، جو ہندی میں مل سکتی ہیں، پچیس میں نے  خرید لی ہیں، ہر لائن پڑھ کر مجھے  اپنے  مالک کے  شکر میں بس سر رکھے  رہنے  کو جی چاہتا ہے۔

سوال  :   ارمغان پڑھنے  والوں کے  لئے  آپ کچھ پیغام دیں گے  ؟

جواب  : مولانا احمد صاحب، میں ابھی کم عمر بلکہ بچہ ہوں، دو مہینے  کی میری عمر ہے، دو مہینہ کا بچہ کچھ کہہ سکتا ہے، بس یہ بات میں سوچتا ہوں کہ سنسار میں لگ بھگ دو ارب کم سے  کم ڈیڑھ ارب تو دلت کالے  اور بیک ورڈ، پسماندہ دراوڑیوں کے  لوگ ہیں اسلام اور صرف اسلام ان کے  دکھ کا علاج ہے، ان کومظلومیت سے  صرف اسلام بچا سکتا ہے، اگر مسلمان ان کو اسلام کے  انصاف اور برابری کا صرف پریچے  (تعارف)اپنے  سوبھاؤ سے  کرا دیں تو سب اسلام لاسکتے  ہیں اور سار  ے  دبے  کچلے  سماج کے  لوگ، اونچ نیچ کے  ظلم سے  بچ کر میری طرح ایسا محسوس کریں گے  کہ ان کو پھانسی سے  رہائی ملی ہے، اس لئے  دو ارب انسانوں پر تو ضرور ترس کھائیں۔

سوال  :   آپ نے  اپنا اسلامی نام نہیں بتایا ؟

جواب  :   مولانا صاحب نے  میرا نام محمد سلمان رکھا ہے، مجھے  بہت پسند آیا۔

سوال  :   بہت بہت شکریہ سلمان بھائی، آپ کو مذاق مذاق میں ہدایت نصیب ہو گئی

جواب  :آپ کا بھی بہت بہت شکریہ، مولانا صاحب آپ کہہ رہے  ہیں کہ مذاق میں ہدایت ہوئی میرے  اللہ نے  مجھ پر کرم کر کے  ایک مہمان داعی کی عزت کو داؤں پر لگا کر میرے  لئے  گرفتار کر کے  بھیجا، مجھے  بہت خوشی ہوئی کہ دنیا کے  لوگ ہمیں نیچ سمجھیں تو کیا، میرا مالک تو مجھے  اتنا پیار کر تا ہے، خود مولانا صاحب کہہ رہے  تھے  کہ کلمہ پڑھنے  کے  بعد مجھے  موتلہ صاحب کے  اس طرح لانے  پر غصے  کے  بجائے  پیار آیا میرے  دل میں آیا، میں نے  اللہ سے  دعا بھی کی، میرے  اللہ ایک آدمی کے  ایمان لانے  کے  لئے  اگر مجھے  برسوں جیل میں رہنا پڑے  تو مجھے  عزیز ہے، ایک خاندان کے  اسلام لانے  کے  لئے  چند گھنٹے  بہت سستے  ہیں۔

سوال  :   ایک بات معلوم کر نا رہ گئی کہ آپ نے  اپنے  خاندان کے  بارے  میں کیا سوچا ؟ آپ کو ان میں تو کام کرنا چاہیئے  اب تو آپ بھی مسلمان ہیں آپ کی بھی ذمہ داری ہے  ؟

جواب  : بالکل سچ کہا، مولانا صاحب نے  ہر ملاقات میں مجھے  صرف اس پر زور دیا اور میں نے  آپ کی امانت اور امبیڈکر اور اسلام ایک ایک ہزار چھپوائی ہے، مجھے  ایسا لگتا ہے  کہ ہزاروں نہیں تو سینکڑوں ہمارے  سماج کے  لوگ اونچ نیچ کے  ظلم اور پھانسی سے  رہائی پا کر اسلام میں آئیں گے، آپ بھی دعا کریں ذرا مجھے  اسلام کو پڑھنا ہے، میں نے  قرآن بھی پڑھنا شروع کر دیا ہے۔

سوال  :   بہت مبارک ہو ماشاء اللہ۔

جواب  :  بس آپ دعا ضرور کیجئے۔

سوال  :   آپ کے  علم میں بعد میں اس ثنا اور بلال کے  مقدمہ اور بلال کے  والدین کی باقی تفصیلات ہیں ؟

جواب  :  جی ہاں وہ خود بڑی عجیب ہیں۔

سوال  :   ذرا بتایئے ؟

جواب  :  ایک ہفتہ تک بلال کے  والد، اس کے  بھائی، اس کے  بہنوئی اور جس گھر میں وہ میرٹھ میں کرائے  دار رہے، اس کے  مالک کو بلال کے  بہنوئی اور شاید بہن کو تھانے  میں حوالات میں بند رکھا، مالک مکان کو تو پہلے  سفارش پر چھوڑ دیا تھا، حضرت صاحب کا تھانے  میں لانا تھا کہ افسروں کے  فون آئے، تو گھبرا کر سب گھر والوں کو چھوڑ دیا، الہ آباد ہائی کورٹ سے  ایف آئی آر پر کاروائی پر اسٹے  بھی اسی دوران لے  لیا تھا، جولائی کو  ۲۳ / تاریخ کو لڑکی کے  بیان ہونے  تھے، لڑکی کے  والد پوری ٹیم کے  ساتھ الہ آباد آ پڑے  اور کوشش تھی کہ کورٹ پہنچنے  سے  پہلے  لڑکی کو پکڑ لیں گے، اتفاق کی بات لڑکی کی رات میں طبیعت خراب ہو گئی، وہ بالکل اس حال میں نہیں تھی کہ بیان دے  سکے، مگر مولانا صاحب کی بہن کے  یہاں اس کے  ساتھ ایسا سلوک کیا گیا تھا اور اسلام اس کے  دل میں گھر کر گیا تھا کہ وہ جان پر کھیل کر ہائی کورٹ پہنچی اور راستہ میں بیہوش ہو گئی، کورٹ میں جا کر بیان سے  پہلے  اس نے  اپنے  گھر والوں کی طرف دیکھا بھی نہیں کورٹ میں اس نے  ایسا بیان دیا کہ عدالت بھی حیرت میں رہ گئی، اس نے  کہا میں بالغ ہوں پڑھی لکھی ہوں، اسلام کو سمجھ کر مسلمان ہوئی ہوں اور میں نے  اپنی مرضی سے  اپنے  پسند کے  شوہر سے  نکاح کیا ہے، میرے  گھر والے  بے  کار میں سب لوگوں کو پریشان کر رہے  ہیں، لڑکی کے  والد نے  بہت چاہا کہ لڑکی کو تین روز کے  لئے  ہمیں دے  دیا جائے، مگر وہ تیار نہیں ہوئی اور اس نے  کہا کہ میرا ایمان وہاں جا کر خطرے  میں پڑ جائے  گا، بیان دینے  کے  بعد سنا ہے  اس نے  اپنے  والد سے  فون پر بات کی اور کہا کہ ڈیڈی آپ تو ہر وقت اسلام کی باتیں کرتے  تھے  اور روزانہ قرآن شریف پڑھتے  تھے  اب میں مسلمان ہو گئی تو اب آپ خود اس کے  خلاف ہو گئے  اور اس نے  اپنے  والد کو مسلمان ہونے  کو کہا اور مولانا صاحب سے  ملنے  کو کہا، سنا ہے  کہ وہ مولانا صاحب کے  مکہ معظّمہ سے  آنے  کا انتظار کر رہے  ہیں اور مولانا صاحب سے  ملنے  کے  لئے  بیتاب ہیں، مجھے  تو ایسا لگتا ہے  کہ اللہ کو ثناء کے  گھر والوں کو بھی ہدایت دینی ہے  ورنہ اس طرح کے  کیس میں لڑکی کا باپ کہاں ایسی بیتابی سے  ملنے  کا انتظار کرتا ہے، مولانا صاحب کہہ رہے  تھے  وہ بھی تو ہمارے  بھائی ہیں ہمیں جتنا موقع ملے  گا ہم ان کے  ساتھ بھی خیر خواہی کا معاملہ کریں گے۔

سوال  :  بلال کے  گھر والوں کا حال آپ کو معلوم ہے ؟

جواب  :  بلال کا بھائی گوہر جو رات میں پولیس کو دہلی مولانا صاحب کے  گھر لایا تھا اس کو اپنی غلطی پر بہت پشیمانی ہوئی اور سنا ہے  کہ مولانا صاحب سے  ملنے  دہلی گیا ہے  اور بہت شرمندگی کے  ساتھ معافی مانگی، لڑکی کے  جان پر کھیل کر اس طرح بیان دینے  سے  اس کے  گھر والے  بہت متاثر ہوئے  اور انہوں نے  باقاعدہ اس کی رخصتی کرائی اور سنا ہے  اپنی بیٹی سے  زیادہ اسے  چاہنے  لگے  ثناء نے  ان کے  گھر میں بہت دین کا ماحول بنا دیا ہے  گھر والے  نماز پڑھنے  لگے  ہیں اور کافی اچھے  مسلمان بنتے  جا رہے  ہیں۔

سوال  :   یہ تفصیلات آپ کو کس طرح معلوم ہوئی ؟

جواب  : اصل میں اپنے  اسلام کے  بعد مجھے  دلچسپی ہوئی میں نے  تلاش شروع کی کہ اس کیس میں کس کس کے  حصے  میں اسلام کی خیر آئی ہے، مولانا صاحب نے  مجھے  چاروں ملاقاتوں میں یہ بات سمجھانے  کی کو شش کی ہے  کہ سچا مسلمان وہ ہے  جہاں جائے  خیر خواہی کرے، ہمارے  نبیؐ کی شان یہ تھی کہ دوست تو دوست دشمنی کرنے  والوں کو بھی بھلائی اور اپنی خیر خواہی سے  محروم نہیں رکھتے  تھے، سچی خیر خواہی یہ ہے  کہ مسلمان جہاں جائے  اسلام پھیلائے  اور داعی کی پہچان کے  ساتھ رہے  اور داعی وہ ہے  جہاں جائے  اس کی دعوتی خیر پھیلے، مولانا صاحب کہتے  ہیں کہ ہم اسی رحمت بھرے  نبی کے  امتی ہیں، اگر ہم اندر سے  نہیں تو باہر سے  ہی داعی بننے  کی کوشش کریں، میں تو اس لئے  ہر جگہ دعوت دعوت کا شور مچاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس بھلائی کے  بہروپ اور ڈھونگ میں اپنے  نبیﷺ کی نقل کی وجہ سے، جان اور حقیقت بھی پیدا فرما دیتے  ہیں، مولانا صاحب کہہ رہے  تھے  کہ اب آپ اس کیس پر نظر رکھئے  اور دیکھئے  کہ چند گھنٹوں میں میرے  تھا نہ جانے  سے  اللہ تعالیٰ نے  انشاء اللہ کتنے  لوگوں کو کفر و شرک سے  نکالیں گے، اس لئے  میں چاروں طرف نظر رکھ رہا ہوں اور کھلی آنکھوں میں اسلام کا نور پھیلتا دیکھ رہا ہوں۔

سوال  :  شکریہ بہت بہت  !!

جواب  : آپ کا شکریہ !

 

مستفاد از ماہ نا مہ ارمغان، ستمبر ۲۰۰۷ء

٭٭٭

 

 

 

 

 

بھائی حسن ابدال {جئے  وردھن} سے  ایک ملاقات

 

 

احمد اوَاہ     :  اسلام علیکم و رحمۃ اﷲ و برکاتہٗ

حسن ابدال  :  وعلیکم السلام و رحمۃ اﷲ و برکاتہٗ

سوال  :   حسن بھائی ! آپ جماعت سے  کب لوٹے  اور آپ کا وقت کہاں لگا؟

جواب  :  احمد بھائی میں آج ہی جماعت میں سے  واپس آیا ہوں اور ہماری جماعت متھرا میں وقت لگا کر لوٹی ہے۔

سوال  :   جماعت میں کچھ پریشانی تو نہیں ہوئی؟آپ کے  ساتھ جماعت کہاں کی تھی؟

جواب  :  الحمد ﷲ جماعت میں وقت بہت اچھا لگا اور ساتھیوں نے  بہت ہی بہت ہماری خدمت کی اور ہماری جماعت متفرق تھی، کچھ لوگ سہارن پور کے  تھے  تین لوگ میوات کے  تھے، دو چار بجنور کے، اﷲ کا شکر ہے  اور امیر ہمارے  سہارنپور ضلع کے  ایک گاؤں کے  عالم تھے  اور بار بار وقت لگا چکے  تھے، الحمد ﷲ مجھے  پوری نماز دعائے  قنوت کے  ساتھ یاد ہو گئی۔

سوال  :   حسن بھائی ہمارے  یہاں پھلت سے   ایک اردو میگزین ہر مہینہ نکلتی ہے، اس میں ان لوگوں کے  انٹر ویو شائع کیے  جار ہے  ہیں جن کو اﷲ تعالیٰ آج کے  زمانے  میں اپنے  فضل سے  راہِ ہدایت عطا فرماتے  ہیں، ابی کا حکم ہے  کہ آپ سے  اس کے  لیے  کچھ باتیں کروں تاکہ دوسرے  لوگوں کے  لیے  رہنمائی ہو، خاص طور پر پرانے  خاندانی مسلمانوں کو عبرت ہو، ۔

جواب  :  ہاں مولوی احمد صاحب میں نے  متھرا میں بہت سے  لوگوں سے  ارمغان کا نام سنا، ہم لوگ ایک مسجد میں گئے  تو وہاں کے  امام صاحب نے  ممبئی کے  ندیم صاحب انٹر و یو پڑھ کر سنا یا تو مجھے  بہت اچھا لگا اور میرے  دل میں آیا تھا کہ میں مولانا صاحب سے  کہوں گا کہ میرا بھی انٹرویو چھپوا دیں، مجھے  اس کا اندازہ نہیں تھا کہ میرے  کہنے  سے  پہلے  ہی خود ہی حضرت کے  دل میں میرا اﷲ یہ بات ڈال دے  گا، اﷲ کی ذات کیسی کرم والی ہے  کہ مجھ دو مہینہ بیس دن کے  چھوٹے  سے  مسلمان کے  دل میں جو بھی بات آئی ہے  میرے  اﷲ اسے  پورا کر دیتے  ہیں، امیر صاحب نے  ایک روز تعلیم میں اﷲ کے  نبی موسیٰ ؑ کا قصہ سنایا تھا کہ وہ آگ لینے  کے  لئے  پہاڑ پر گئے  تھے  اور ان کو پیغمبر بنا دیا گیا، (روتے  ہوئے ) میرے   مالک نے  (میری جان اس کے  نام پر قربان کہ مجھ گند ے  کو، ، شرک اور بت پرستی کے  راستے  پر بلکہ منزل پر ہدایت دی اور میرے  ساتھ کیسا کرم ہے  کہ میرے  دل چاہ رہا تھا کہ میں ارمغان میں انٹر ویو کے  لئے  کہوں گا مگر اندر سے  شرم بھی آ رہی تھی کہ ایک دو مہینے  کے  مسلمان کا حال اس قابل کہاں کہ اس کو ارمغان میں چھپوایا جائے۔

سوال  :  ابی نے  رات میں مجھے  حکم کر دیا تھا حسن انٹر ویو ضرور لینا ہے، آپ اپنا خاندانی پریچے  (تعارف) کرائیے۔

جواب  :  میں غازی آباد ضلع کے  ایک گاؤں کے  بر ہمن گھرانے  میں ۹ستمبر ۱۹۷۵ء کو پیدا ہوا، پتاجی (والد صاحب) نے  میرا نام جے  وردھن رکھا، آٹھویں کلاس تک گاؤں میں ایک اسکول میں پڑھا، اس کے  بعد غازی آباد کے  ایک کالج سے  انٹر کیا، اس کے  بعد ایک دوسرے  کالج سے  بی کام کیا، بی کام کر نے  کے  بعد ایک سال IAS کمپٹیشن کی تیاری کی، پر یلمس پہلا امتحان دو بار پاس کیا، مگر میں امتحان میں پاس کے  قریب قریب رہ گیا جس سے  دل بہت ٹوٹ گیا، میرے  پتا جی (والد صاحب) ایک اسکول میں پرنسپل تھے، ان کی خواہش تھی کہ میں ایک بار اور کوشش کروں مگر دل دنیا سے  بالکل اچاٹ ہو گیا تھا، مجھے  دوسری بار بہت امید تھی کہ میں یہ امتحان ضرور پا س کر لوں گا، مگر بالکل قریب ہو کر محروم ہو جانے  سے  میرے  دل و دماغ کو بہت صد مہ ہوا اور میں گھر سے  بھاگ کر ہر ید وار چلا گیا کہ سنیاس لے  لوں گا، میں ہری دوار، رشی کیش، اتر کا شی بنارس بہت آشرموں میں چار سال بھٹکتا رہا، کہیں شانتی نہیں ملی، دو چار مہینے  کے  بعد ہر آشرم میں کوئی ایسی بات نظر آ جاتی جس سے  دل کھٹا ہو جاتا، ہر یدوار سے  ایک روز میں اپنے  دو ساتھیوں کے  ساتھ کلیر گیا، وہاں پہنچ کر مجھے  شانتی تو ملی، مگر وہاں کا حال بھی مجھے  بازاری آشرموں کی طرح لگا، وہاں سے  ہم پھول چڑھا کر واپس آئے  تو ایک مست نے  مجھے  پکڑ لیا اور بار بار مجھ سے  کہتا دس روپیئے  مجھے  دے  دے  اﷲ نے  تجھے  ابدال بنایا ہے، میں نے  کہا، میں تو سادھو ہوں، ہر یدوار سے  آیا ہوں، وہ مست پا گل مجھے  چھوڑ نے  کو تیار نہ ہوا، میں نے  لوگوں سے  پوچھا کہ یہ پاگل یہاں کہاں رہتا ہے، لوگوں نے  کہا کہ یہاں کا ملنگ ہے، یہ کسی سے  کچھ نہیں مانگتا، کوئی دے  دیتا ہے  تو کھانا کھاتا ہے، ورنہ جنگلوں میں چلا جاتا ہے  میں نے  جان چھڑانے  کے  لیے  اس کو دس روپیئے  دئیے، میں نے  لوگوں سے  معلوم کیا کہ یہ ابدال کیا کہہ رہا تھا، ایک صاحب وہاں تھے  انہوں نے  بتایا کہ ابدال بڑے  پہنچے  ہوئے  فقیر کو کہتے  ہیں، اس کو میں نے  دس روپیئے  کیا دیئے، مانگنے  والے  میرے  کپڑے  پھاڑنے  کو تیار ہو گئے، ہر ایک مجھ سے  ضد کر تا کہ ہمیں بھی کچھ دو، میرے  ماتھے  پر تلک لگا ہوا تھا، مگر اس کے  باوجود وہاں کے  مانگنے  والوں سے  جان بچانا مشکل ہو گئی، وہاں کے  ظاہری حال سے  میں بہت بد ظن ہوا، مگر وہاں اندر جا کر مجھے  کچھ عجیب سی شانتی و سکون ملا، خاص طور پر وہاں ایک مسجد ہے  اس میں اندر جا کر بیٹھا، تو میں دو گھنٹے  بیٹھا رہا، وہاں سے  آنے  کو دل نہیں چاہتا تھا، مسجد میں کچھ لو گ سورہے  تھے، کچھ لوگ نماز پڑھ رہے  تھے، وہاں سے  واپس ہریدوار آیا، یہاں چین نہ ملا پھر ایک بار گھر چلا گیا گھر والوں نے  مجھ پر زور دیا کہ میں آگے  پڑھائی کروں، سی، اے  کر لوں، یا کم از کم ایم بی کر لوں، میرا دل کچھ اس طرح کا کام کرنے  کو نہیں  چاہتا تھا تین مہینے  گھر رہنے  کے  بعد گھر سے  دباؤ بڑھا تو پھر میں گھر سے  ہر ید وار چلا آیا اور بس نہ جانے  کیسی بے  چینی میں در بدر مارا مار ا پھر تا رہا، یہ میری پہلے  جنم کی کہانی ہے۔

سوال  :   پہلے  جنم کا کیا مطلب؟

جواب  :  بس میں اپنی نئی زندگی کو ۲۹ /جولائی ۲۰۰۸ء سے  مانتا ہوں اور اس کو میں اپنا نیا جنم سمجھتا ہوں، اس لئے  کہ زندگی شرک میں گزرے  وہ زندگی کیا زندگی ہے۔

سوال  :   اپنے  اسلام قبول کرنے  کا حال بیان کرئیے۔

جواب  :  میں نے  ابھی بتایا کہ میرا حال تو یہ ہوا کہ میرے  اﷲ نے  شرک کے  راستہ پر اپنا دستِ رحمت میرے  اوپر رکھ کے  مجھے  ہدایت نصیب فر مائی، دربدر مارا مارا پھر تا، پھر بھی ایسا لگتا تھا کہ جیسے  مجھے  کسی چیز کی تلاش ہے، دھرم کی کوئی بات جس پر قربانی دے  کر مجھے  لگتا کے  میرا مالک راضی ہو جائے  گا، میں اس کو کرنے  کی کو شش کرتا، اس کے  لیے  میں نے  کاوڑ لے  جانے  کی نذر مانی، آپ جانتے  ہیں کہ مہاشیو راتری پر سخت گرمی اور برسات کے  زمانہ میں ہر کی پوڑی ہریدوار سے  گنگا جل کا وڑ میں لے  کر پیدل جہاں کی کاوڑ سے  پانی چڑھانے  کی نذر مانی جاتی ہے  وہال لے  کر جانا ہوتا ہے، سب سے  زیادہ پروا مہا دیو شیخ پورا کے  ایک مندر پر دسیوں لاکھ لوگ پانی چڑھانے  جاتے  ہیں، یہ سفر مولانا احمد صاحب بہت مشکل تپسیا (مجاہدہ ) ہے  میں بھی تین سال سے  کاوڑ لے  جاتا اور کسی طرح پانی چڑھا کر سخت بیمار ہو جاتا پچھلے  سال تو میں اتنا بیمار ہو گیا کہ سوچتا تھا کہ شاید اس بار بچ نہیں سکوں گا مگر میرے  مالک نے  زندگی دے  دی، پاؤں پر اتنا ورم آ جاتا ہے  کہ پاؤں کی کھال پھٹ کر خون رسنے  لگتا، چھالے  زخم بن جاتے  میں بار بار آسمان کی طرف منھ کر کے  مالک سے  شکایت کرتا اور فریاد بھی کرتا کہ مالک آپ نے  دھرم کتنا مشکل بنا دیا ہے، کبھی کہتا کیا میرے  جل چڑھائے  بغیر تو خوش نہیں ہو سکتا ؟اس سال میں کاوڑ لے  کر چلا تو عجیب شش و پنج میں تھا، کبھی دل میں آتا یہ سب ڈھونگ ہے  مگر اندر سے  کوئی کہتا ہے  کہ توتو سچاہے  تو تجھے  اس راستے  سے  ہی مالک تک پہونچنا نصیب ہو جائے  گا، مظفر نگر شہر میں نکلا تو ایک کاوڑ کیمپ میں آرام کیا، میں نے  سپنا (خواب ) دیکھا کہ میں ایک مسجد میں ہوں اور جماعت کھڑی ہے  ایک صاحب آئے  اور انہوں نے  مجھے  دروازے  کے  اندر جوتیوں میں کھڑا دیکھا تو بولے  بیٹا !نماز ہو رہی ہے  تم نماز کیوں نہیں پڑھتے  ؟میں نے  کہا کہ لوگ مجھے  پڑھنے  نہیں دیں گے  میں ہندو ہوں وہ بولے  آ میں تجھے  لے  چلوں میرا ہاتھ پکڑ ا اور جماعت میں کھڑا کر دیا، میں نے  دیکھا دیکھی نماز پڑھی، آنکھ کھلی تو احمد صاحب میں بیان نہیں کر سکتا کہ کتنا اچھا لگا، تھوڑی دیر آرام کر کے  ہم چل دیئے  میرے  ساتھ ہریدوار کے  تین ساتھی اور تھے، راستے  میں ایک مسجد سڑک پر تھی دو بجے  دوپہر کا وقت تھامیں نے  دیکھا لوگ مسجد میں نماز پڑھ رہے  ہیں بس میں بے  چین ہو گیا، میں نے  اپنے  ساتھیوں سے  کہا یہ مسجد بھی تو اسی مالک کا گھر ہے  جس کے  لئے  ہم جا رہے  ہیں میں تھوڑا ساچڑھا وا وہاں چڑھا آؤں تیل کے  لئے  مجھے  مسجد میں پیسے  دینے  ہیں، کاوڑ ساتھی کو دے کر میں مسجد گیا مگر ڈر بھی لگ رہا تھا کہ نامعلوم مسلمان کیا سمجھیں گے، مگر میں اندر سے  مجبور تھا، میرا دل چاہا کہ میں جماعت میں کھڑا ہو جاؤں گا مگر ہمت نہ ہوئی، ایک بڑے  میاں بولے، بھولے  بیٹا کیا دیکھ رہا ہے  تجھے  کیا چاہئے  ؟میں نے  کہا ابا جی !ایک بار نماز پڑھنا چاہتا ہوں، انہوں نے  میرا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ تو پھر سوچ کیا رہا ہے  اور یہ کہہ کر میرا ہاتھ پکڑ کر جماعت میں کھڑا کر دیا، میں نے  نماز پڑھی سر جب زمین پر رکھ کر سجدے  میں گیا تو مجھے  ایسا لگا جیسے  آج میں مالک کے  پاس آیا ہوں، نماز پڑھ کر واپس آیا، میں نے  ساتھیوں سے  اپنے  خواب کا ذکر کیا اور نماز میں جو مزہ آیا اس کا بھی، ساتھیوں میں د و نے  تو بہت برا بھلا کہا، میرا ایک ساتھی دنیش بولا تو مجھے  کیوں نہیں لے  گیا ؟مجھے  بھی دکھاتا کہ نماز میں کیسا مزہ آتا ہے  ہمارا سفر چلتا رہا ہم لوگ انتیس تاریخ کی دوپہر کو  نہر کی پٹری والی سڑک سے  بھولے  کی جھال پر پہنچے  تو ظہر کی اذان مسجد میں ہوئی میں موقع لگا کر کاوڑ ایک کیمپ میں رکھ کر دنیش کو لے  کر اندر گاؤں میں مسجد میں گیا، چار پانچ لوگوں کی جماعت ہو رہی تھی، میں جماعت میں شریک ہو گیا میں نے  دنیش سے  کہا کے  شیش (سر) جب زمین پر رکھے  گا تو دیکھنا ایسا لگے  گا جیسے  مالک کے  چرنوں (قدموں ) میں ما تھا رکھا ہے، پھر دیکھنا کیسا آنند آئے  گا، نماز پڑھ کر پھر ہم کیمپ آ گئے، دنیش نے  کہا کہ واقعی تم سچ کہتے  ہو، عصر کے  بعد ہم لوگ پورا مہا دیو پہنچے، ہم لوگ خوشی خوشی منزل تک پہنچنے  کی خوشی میں بیٹھے  ہوئے  تھے، رات بارہ بجے  کے  بعد جل  چڑھانا تھا بھیڑ بہت تھی دور ذرا بھیڑ سے  دور، ندی کے  کنارے  ایک پیڑ کے  نیچے  ہم سو گئے  آد ھے  گھنٹے  میں آنکھ کھلی تو کچھ نو جو ان پا س بیٹھے  ہوئے  تھے  ان کے  ہا تھ میں کچھ کتا بیں تھیں وہ ہما رے  پا س آئے  اور ہما را پر یچے  (تعارف) پو چھا، پھر بو لے  ہم سب ایک ماں با پ کی سنتان ہیں ہم آپ کے  حقیقی خونی رشتے  کے  بھا ئی ہیں، آپ لو گ ما لک کو راضی کر نے  کے  لئے  کیسی کٹھن تپسیا (مجاہدہ ) کر کے  یہاں پہنچے  ہیں، ہما رے  ایک دھرم گر و ہیں، انہوں نے  انسانوں سے  ہما را کیا رشتہ ہے  اور اس رشتہ کا سب سے  بڑا حق کیا ہے، یہ سمجھانے  اور اس حق کو کیسے  پہچانا جائے  اس کی ٹریننگ کے  لئے  ایک کیمپ بڑوت میں لگا یا تھا مسجد میں اس کے  آخری پروگرام میں ہم سبھی کو اپنی تقریر میں بہت پھٹکار سنائی کہ یہ ہمارے  خونی رشتہ کے  بھائی جو کاوڑ لاتے  ہیں کیسی مصیبت بھر کر سفر کرتے  ہیں اور ان کا، سچائی کا راستہ معلوم نہ ہونے  کی وجہ سے، ہر قدم نرک کی طرف شرک کی طرف جا رہا ہے، اور ہم اپنی کھال میں مست کھانے  اور کمانے  میں ہیں، یہ کیسا بڑا ظلم ہے  ہم سارے  غیر مسلموں کو اپنا دشمن اور مخالف سمجھتے  ہیں، یہ لاکھوں لوگ صرف مالک کو راضی کرنے  کے  لئے  اس قدر مشکل سفر کرتے  ہیں، میں نے  کئی کاوڑ کیمپوں میں دیکھا کہ پاؤں پر ورم چھالے  اور زخم ہو رہے  ہیں، لوگ ان کی مرہم پٹی کر رہے  ہیں، ہم کیسے  رحمت بھرے  نبی کو ماننے  والے  ہیں کہ ہم ان بھائیوں کو حق نہیں پہنچاتے، ذرا کوشش تو کرنی چاہئے  اپنا سمجھ کر ہمارے  ذمہ ان کو سچائی پہنچانا ہے، کم از کم ہمیں پہنچانا تو چاہئے، چھ سات روز کے  کیمپ میں ایک ساتھی بھی کاوڑ بھائیوں سے  نہیں ملا، کل میدان محشر میں یہ ہمارا گلا دبائیں گے  اور ہم چھڑا نہ سکیں گے  ان کی درد بھری باتوں سے  ہمارا دل بھر آیا اور ہم نے  ارادہ کیا کہ ہم کچھ بھائیوں تک بات ضرور پہنچائیں گے، آج ہم صبح سے  پچیس بھائیوں سے  ڈرتے  ڈرتے  ملے  ہیں آپ کو سوتے  دیکھا تو خیال ہوا کہ آپ الگ جگہ پر ہیں، آپ سے  اطمینان سے  بات ہو سکتی ہے، اگر آپ کو برا نہ لگے  تو ہم آپ کے  اور اپنے  مالک کے  بارے  میں کچھ باتیں کریں، میرے  ساتھی دنیش نے  کہا ضرور بتایئے، وہ ہمیں ایک مالک اور اس کی پوجا کے  بارے  میں بتانے  لگے  اور اس کے  علاوہ کسی کی پوجا کو پاپ بتا کر نرک کی آگ سے  ڈرانے  لگے  اور قرآن کی آیتیں پڑھ کر سنائیں، وہ جب عربی میں قرآن پڑھتے  تو ہم سبھی ساتھیوں کو بہت اچھا لگتا، آدھے  گھنٹے  تک باری باری وہ لوگ بات کرتے  رہے  اور جب ہم نے  ان کی سب باتوں سے  سہمتی (اتفاق) ظاہر کیا تو انہوں نے  ہمیں کلمہ پڑھنے  کو کہا ہم چاروں نے  کلمہ پڑھا، انہوں نے  ہمیں ایک ایک کتاب ’’آپ کی امانت، آپ کی سیوا میں ‘‘ دی اور بتایا کہ جن دھرم گرو نے  بڑوت میں کیمپ لگا کر ہمیں جھنجھوڑا تھا اور جن کی وجہ سے  ہم آپ کے  پاس آئے  ہیں یہ انہیں کی کتاب ہے، ہم آپ کو بھینٹ کر رہے  ہیں، اس کو غور سے  تین تین بار پڑھئے، تو آپ کو حق کیا ہے  اور اسلام لانا اور کلمہ پڑھنا کیوں ضروری ہے، معلوم ہو جائے  گا اور پھر اس کتاب میں جو کرنے  کو کہا ہے  ضرور کرئیے  میں یہ کتاب لے  کر فوراً پڑھنے  لگا میرے  دوسرے  ساتھی بھی پڑھنے  لگے، ہم لوگ اس پریم بھاو(محبت ) سے  لکھی اس کتاب میں بالکل گم سے  ہو گئے  یہ کتاب پڑھ کر مجھے  ایسا لگا، جیسے  یہ کتاب صرف میرے  لئے  لکھی گئی ہو اور میں جس سچائی کی تلاش میں در بدر مارا پھرتا رہا اور تپسیائیں کرتا رہا، وہ مجھے  مل گئی، دن چھپنے  کو تھا، وہ لوگ یہ کہہ کر جانے  لگے  اچھا ہم چلتے  ہیں میں نے  کہا آپ تو جاتے  ہم کیا کریں، انہوں نے  کہا کہ آپ جل چڑھایئے  پھر گھر جا کر سوچئے  اور فیصلہ کیجئے، میں نے  کہا کے  آپ کیسی بات کرتے  ہیں ؟اس کتاب میں شرک کو سب سے  بڑا پاپ کہا گیا ہے  اور یہاں جل چڑھانا سب سے  بڑا پاپ ہے، انہوں نے  کہا کہ یہ کاوڑ یہاں آپ چھوڑیں گے  تو کچھ اور نہ ہو جائے، میں نے  کہا ہو جائے  تو کیا ہے، اور میں نے  وہ کاوڑ ندی میں پھینک دی اور کہا کہ اب کسی نماز کا وقت ہے  کہ نہیں ؟انہوں نے  کہا کہ تھوڑی دیر بعد نماز کا وقت ہو جائے  گا، میں نے  کہا مجھے  نماز پڑھنے  لے  چلو، میرے  ساتھی دنیش نے  بھی کاوڑ ڈال دی، اور ہم ان دونوں کے  ساتھ ہو لئے  اور بڑوت پہنچے، میرے  دو ساتھی کاوڑ لے  کر پانی چڑھانے  کے  لئے  چلے  گئے، مگر بعد میں انہوں نے  بھی پانی چڑھانے  کا ارادہ ملتوی کر دیا۔

سوال  :  اس کے  بعد کیا ہوا ؟

جواب  : بڑوت پہنچ کر انہوں نے  میرے  اور آپ کے  والد مولانا کلیم صاحب سے  فون پر بات کی، انہوں نے  فون پر مجھے  بہت بہت مبارک باد دی اور کہا کہ آپ سچے  طالب تھے  اس لئے  مالک نے  آپ کو راہ دکھائی، میں نے  اسلام کو سمجھنے  خاص طور پر نماز سیکھنے  کا تقاضہ کیا، تو انہوں نے  مجھے  جماعت میں جانے  کا مشورہ دیا اور بتایا کہ پہلے  کچہری جا کر کسی وکیل سے  مل کر قانونی کاروائی کر کے  اور پھر دہلی آ جائیں میں آپ کو کسی اچھی جماعت میں بھیج دوں گا، اگلے  روز میں نے  سہارنپور جا کر اپنا بیان حلفی اور سرٹیفکیٹ وغیرہ بنوایا اور پھر اکتیس کی شام کو میں اور دنیش دہلی پہنچے  حضرت سے  ملاقات کی اور پوری داستان سنائی، انہوں نے  میرا نام حسن اور دنیش کا نام حسین رکھا میں نے  عرض کیا کہ ایک مست نے  مجھے  کلیر میں بتایا تھا کہ تجھے  ابدال بنایا، اس لئے  میرا نام ابدال رکھ دیں تا کہ میں نام کا ابدال بن جاؤں، کیا مشکل ہے  کہ میرا اللہ مجھے  پہنچا ہوا ابدال بنا دے، مولانا نے  کہا کہ اللہ کے  ایک بہت پیارے  بندے  اور بزرگ حسن ابدال ہوئے  ہیں میں آپ کا نام حسن ابدال رکھتا ہوں تاکہ آپ ابدال بھی اچھے  والے  بن جائے، جس اللہ نے  آپ کو پروامہا دیو میں شرک کی منزل پر ہدایت عطا فرمائی اور اپنی آغوش رحمت میں آپ کو اٹھا لیا اس اللہ کے  لئے  ابدال بنانا بہت آسان ہے، مولانا صاحب نے  کہا مجھے  امید ہے  آپ ابدال ضرور بنیں گے، انشاء اللہ اور بلکہ ابدال سے  بھی آگے  اللہ آپ کو کچھ بنائیں گے، میں نے  مولانا صاحب سے  جب اپنی چار سالہ تپسیا کی بات بتائی کہ میں نے  برت پر برت رکھا ہے، تین چلے  ایک ٹانگ پر کھڑا ہو کر یگیہ کیا ہے، چھ مہینے  بہت نہ کے  برابر سو یا ہوں، کتنے  آشر موں میں جیسے  کوئی بتاتا ر ہا محنت کرتا رہا ہوں مولانا صاحب رونے  لگے  اور بولے  اصل میں تمہاری ان تکلیفوں کے  ہم مجرم ہیں کہ ہم نے  آپ کو بتایا نہیں پھر بھی اللہ کا شکر ہے  کہ اللہ تو آپ کے  پالنہار ہیں خود ہی اللہ نے  آپ کے  لئے  راہ نکال دی، مولانا نے  مجھے  ایک مولانا صاحب کے  صاحب کے  ساتھ مرکز نظام الدین بھیج دیا پہلی اگست کو ہم جماعت میں متھرا چلے  گئے، جماعت تین چلے  کی تھی، آگرہ متھرا کے  چلّے  کے  بعد میرا دل نہیں بھرا، میرا قاعدہ مکمل ہو ا، اردو بھی میں نے  پڑھنا شروع کر دی تو امیر صاحب نے  ہمیں دوسرے  چلے  میں جانے  کا مشورہ دیا جماعت میں میرے  ساتھ عجیب عجیب حالات آئے، ایک دو دفعہ نہ جانے  ساتھیوں سے  کس طرح بچھڑ گیا، کچھ عجیب عجیب لوگوں سے  میری ملاقاتیں ہوئیں، انہوں نے  مجھے  کیسی کیسی عجیب چیزیں دکھائیں اور جب میں ذرا خیال کرتا کہ میری جماعت ! تو اچانک جیسے  زمیں میرے  پیروں کے  نیچے  بھاگ رہی ہو، جس طرح ریل میں یا گاڑی میں بیٹھ کر لگتی ہے  ایسا لگتا اور میں اپنی جماعت کے  ساتھ ہوتا ایسا میرے  ساتھ ۸، ۹ بار ہوا، مجھے  خواب دکھائی دیتا جیسے  میں پروں والا پرندہ ہوں، یہاں اڑا، وہاں اڑا، یہاں پہنچا، وہاں پہنچا سوتے  میں میں اڑنے  لگتا، ایک روز تعلیم میں فضائل اعمال میں ابدالوں کا ذکر آیا میں نے  امیر صاحب سے  معلوم کیا کہ ابدال کیا ہو تے  ہیں ؟انہوں نے  تفصیلات بتائیں کہ اللہ کے  خاص بندے  ہوتے  ہیں، جن کے  پیروں میں زمین سکڑ جاتی ہے، جس طرح فیلڈ افسروں کو گاڑی دی جاتی ہے  اسی طرح ابدالوں کو طرح طرح کے  کمالات اور کرامات دی جاتی ہیں، مجھے  دھن سی لگ گئی، میرے  اللہ مجھے  تو ابدال بنا دے، پوری جماعت یہ دعا کرتا رہا اس کے  بعد میرے  ساتھ جماعت سے  بچھڑ نے  وغیرہ کے  معاملے  ہوئے۔

سوال  : آپ نے  ابی سے  یہ حالات بتائے  ؟

جواب  : دو گھنٹے  تک حضرت نے  کارگزاری سنی، اصل میں حضرت نے  مجھے  سختی سے  منع کر دیا تھا کہ جماعت میں کسی کو مت بتانا کہ میں کاوڑ لے  جا رہا تھا اور وہیں مسلمان ہوا ہوں، بس میں نے  ایک روز امیر صاحب سے  آخر میں ذکر کیا، آج میں نے  مولا نا صاحب سے  کہا آپ دعا کیجئے  اللہ تعالیٰ مجھے  ابدال بنا دے، مولانا نے  کہا کہ دال بننے  سے  کیا ہو گا، گوشت بنیئے  ابدال تو تم ہو ہی انسان گوشت کا بنا ہے  اس کے  لئے  یہ ہی بہتر ہے، جب میں نے  ضد کی تو مولانا صاحب نے  کہا کہ بس اللہ ایمان پر خاتمہ فرماویں اور اپنے  نبی ﷺ کے  طریقے  پر چلا دیں اور سب سے  زیادہ یہ کہ انسان بنا دیں، ا س کی دعاء کرنا چاہئے  ابدال ہونا، کشف کرامت کی تمنا کرنا یہ بھی ایک طرح غیر ہی ہیں، جس طرح دیو دیوتا کی تمنا کرنا شرک ہے  اسی طرح یہ بھی ایک طرح خاص لوگوں کے  لئے  شرک کی طرح ہے، بس اللہ کو راضی کرنے  کی فکر کرنا چاہئے  اس کے  لئے  دعوت کے  کام کو مقصد بنایئے، جہاں تک ابدال اور غوث بننے  کی بات ہے  آدمی اپنے  اللہ کی رضا میں سچا ہو تو ابدال اور غوث تو یوں ہی اللہ بنا دیتے  ہیں آپ کے  حالات بتا رہے  ہیں کہ اللہ آپ کو ضرور ابدال ہی نہیں اس سے  آگے  بنائیں گے۔

سوال  :  اب آپ کا کیا ارادہ ہے  ؟

جواب  :  مجھے  حضرت نے  چند روز کے  لئے  ایک اللہ والے  کے  یہاں جا کر رہنے  کا مشورہ دیا ہے۔

سوال  :   آپ کے  دو ساتھی جو کاوڑ میں ساتھ تھے  ان کا کیا ہوا ؟

جواب  : وہ گھر آ کر ۱۵/ روز کے  بعد مولانا سے  آ کر ملے  تھے، بعد میں وہ بھی جماعت میں چلہ لگا کر آئے  اور گھر والوں پر کام کر رہے  ہیں۔

سوال  :  آپ کے  ساتھی دنیش کمار کا وقت کیسا گزرا ؟

جواب  : الحمدللہ اس کا وقت بھی بہت اچھا گزرا وہ بہت سیدھا سادھا اور بھلا آدمی ہے، اس کے  نیچر میں برائی پہلے  ہی سے  نہیں ہے  بس کلمہ پڑھ کر بہت اچھا مومن انسان وہ بن گیا، ہماری پوری جماعت میں سب سے  اچھا وقت دنیش کا لگا، سارے  ساتھی اس کی خدمت میں بہت خوش تھے۔

سوال  : آپ نے  ساتھیوں کی خدمت نہیں کی ؟

جواب  : میرے  ساتھ ایک دو عجیب باتیں ہو گئی تھیں، اس لئے  ساتھی مجھے  نہ جانے  کیا سمجھنے  لگے  اور سب میری خدمت کرتے  تھے  مجھے  نہ جانے  کیا کیا کہتے  تھے  دعا کو کہتے  تھے، مجھے  ڈر بھی لگتا تھا کہ میرے  اندر کی خرابی ان کو معلوم ہو جائے  گی تو سارا بھرم کھل جائے  گا، میں اللہ سے  دعا بھی کرتا تھا۔

سوال  :  ابی نے  آپ کو دعوت کا کام کرنے  کے  لئے  نہیں کہا؟

جواب  :  آج بیٹھ کر خاکہ بنایا ہے، حضرت نے  مجھے  کہا ہے  کہ پہلے  اپنے  کو بنانے  کی فکر کیجئے، یہ ہمارا دیش محبت والوں اور روحانیت والوں کا دیش ہے، اگر اندر کو صاف کر کے  اور بنا کے  روحانیت کی ترقی ہو جائے، تو ان میں خصوصاً مذہبی لوگوں میں کام زیادہ آسان ہو گا، اس لئے  مجھے  کچھ روز کے  لئے  ایک جگہ بھیج رہے  ہیں وہاں ذکر وغیرہ بتائے  ہیں دعا کیجئے  اللہ تعالیٰ میرے  اندر کا کھوٹ نکال دے  اور حضرت کا میرے  بارے  میں جو ارادہ ہے  وہ پورا ہو جائے۔

سوال  : انشاء اللہ، اللہ تعالیٰ ضرور پورا کریں گے، بہت بہت شکریہ، حسن بھائی کسی وقت حسین بھائی سے  بھی ملوایئے، تاکہ ان سے  بھی باتیں کی جا سکیں ؟

جواب  : جب آپ کہیں گے  میں ان کو انشاء اللہ بلا دوں گا،

سوال  : السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ، بہت بہت شکریہ

جواب  : احمد بھائی اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے  کہ اللہ نے  میرے  دل کی چاہت پوری کرا دی ارمغان میں میری کارگزاری آئے  گی اور آپ کا بھی شکریہ، دھنیہ واد۔

و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

مستفاد از ماہنامہ ارمغان، اکتوبر  ۲۰۰۸ ء

٭٭٭

 

 

 

 

 

ندیم احمد صاحب سے  ایک ملاقات

 

احمد اواہ    :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

ندیم احمد   :  وعلیکم السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال  :  ندیم صاحب، ابی سے  آپ کا ذکر سنتے  تھے  ملاقات کا اشتیاق تھا آج ابی نے  بتایا کہ آپ ایک سال کی جماعت میں جا رہے  ہیں اور مرکز نظام الدین سے  کسی نئی جماعت میں جانے  والے  ہیں جانے  سے  پہلے  آپ ملاقات کے  لئے  مسجد خلیل اللہ آ رہے  ہیں خوشی ہوئی کہ ملاقات ہو جائے  گی۔

جواب  : احمد بھائی میرے  تین چلے  باقی ہیں، الحمد للہ ایک چلہ پہلے  اور پھر چھ چلے  لگاتار لگ گئے  ہیں ابھی ہم لوگ گودھرا میں وقت لگا کر آئے  ہیں، مرکز آیا تھا تو مولانا صاحب (مولانا کلیم صدیقی ) کو فون کیا معلوم ہوا دہلی میں ہیں بحرین وغیرہ کا سفر ہے  بہت خوشی ہوئی جیسے  لاٹری نکل گئی ہو الحمدللہ اس دوران میری بار بار اللہ تعالیٰ ملاقات کراتے  رہے، کبھی کبھی جب میری ملاقات نہیں ہوتی ہے  تو خواب میں ملاقات ہو جاتی ہے، مولانا احمد صاحب اس سے  بھی بہت تسلی ہو جاتی ہے۔

سوال  :  ندیم بھائی آپ سے  ارمغان کے  لئے  کچھ بات کرنا چاہتا ہوں ؟

جواب  : جی احمد بھائی میں بھی اسی لئے  رکا ہوا ہوں، ابھی حضرت فرما کر گئے  ہیں کہ احمد آ رہے  ہیں آپ سے  انٹرویو لیں گے۔

سوال  : آپ اپنے  خاندان کا تعارف کرایئے ؟

جواب  :احمد بھائی میں جنوبی ہند کی مشہور ریاست کے  مرکز میں ایک مراٹھا خاندان میں پیدا ہوا، والد صاحب ایک بینک میں منیجر تھے، ابتدائی تعلیم ایک اچھے  اسکول میں ہوئی، بی کام کیا اور پھر ایم بی اے  اس کے  بعد میں انگلینڈ چلا گیا، ۴/جنوری  ۲۰۰۰ء کو میرے  والد صاحب کا اچانک ہارٹ اٹیک ہو کر انتقال ہو گیا اور مجھے  بیرون چھوڑ کر وطن لوٹنا پڑا، ہندوستان کے  ایک بڑے  مسلمان تاجر کے  ساتھ وابستہ ہو گیا، پہلے  منیجر کی حیثیت سے  ایک کمپنی میں رہا بعد میں کمپنی کا ڈائرکٹر بن گیا الحمد للہ یہاں میں نے  خوب کمایا، والد صاحب کا بھی اکیلا بیٹا ہوں انھوں نے  بھی بہت سرمایا چھوڑا، میرے  اللہ کا کرم ہے، فری میں مجھ گدھے  کو ملیدہ کھلا رہے  ہیں۔

سوال  :  اپنے  قبول اسلام کے  بارے  میں بتایئے  ؟

جواب  :  احمد بھائی، میرا اسلام میرے  اللہ کی شان ہدایت کی کرشمہ سازی ہے،

سوال  :  ابی بھی آپ کے  بارے  میں اسی طرح کہا کرتے  ہیں اس لئے  تو اور بھی آپ سے  ملنے  کا اشتیاق تھا ؟

جواب  :  میری کمپنی میں ایک خوبصورت لڑکی مسلم گھرانہ کی اکاونٹنٹ کی حیثیت سے  کام کرتی تھی میں نے  انگلینڈ سے  آ کر کمپنی میں کام شروع کیا تو پہلے  ہی روز وہ مجھے  بھا گئی، وہ شریف خاندان کی لڑکی تھی، روز بروز مجھے  اس سے  تعلق بڑھتا گیا، مذہب اور برادری کی دیوار توڑ کر میں ہر قیمت پر اس سے  شادی کرنا چاہتا تھا، مگر وہ کسی طرح مجھ سے  کام کے  علاوہ بات کرنا بھی پسند نہ کرتی تھی میں نے  بہت کوشش کی تہواروں پر بہانے  سے  اس کو تحفے  دیئے  اس کے  لئے  مجھے  اور بھی لوگوں کو تحفے  دینے  پڑے  اصل میں وہ اپنے  خاندان کے  ہی کسی لڑکے  کے  ساتھ شادی کی خواہش مند تھی، ہماری کمپنی کے  مالک جو ایک بڑے  سخی آدمی تھے، ان کا انتقال ہوا، وہ کافی عمر رسید ہ تھے  ان   کے  انتقال کے  بعد جو خیر کے  کام ان کے  تعاون سے  چل رہے  تھے  ایک وقت کے  لئے  بند ہو گئے  اس کے  لئے  کچھ لوگوں کی رائے  ہوئی کہ ان کے  بڑے  بیٹے  (جو ایک طرح سے  ذمہ دار تھے  ) سے  حضرت مولانا کلیم صاحب کی ملاقات ہو جائے  اور وہ انھیں ان کے  والد کے  واسطہ سے  کئے  جانے  والے  خیر کے  کاموں سے  واقف بھی کرائیں اور اس کام کے  لئے  وقت دینے  کے  لئے  ان کی ذہن سازی بھی کریں لوگوں کے  اصرار پر مولانا نے  سفر کا پروگرام بنایا، ملاقات کا وقت طئے  ہو گیا، والد صاحب کا دفتر الگ تھا اور صاحب زادے  کا دفتر دوسری جگہ تھا، مولانا صاحب والد صاحب کے  دفتر میں وقت مقررہ پر پہنچ گئے، آدھا گھنٹہ انتظار کے  بعد انھوں نے  دفتر سکریٹری کو فون کرنے  کو کہا، معلوم ہوا کہ وہ اپنے  دفتر میں انتظار کر رہے  ہیں، دفتر سکریٹری نے  اپنی گاڑی سے  دوسرے  دفتر پہنچایا وہ معذرت کے  لئے  اپنے  دفتر کے  باہر استقبال کے  لئے  نیچے  آئے  ملاقات آدھا گھنٹے  کی طئے  تھی مگر باتیں ہوتی رہیں تو ڈیڑھ گھنٹے  تک باتیں ہوئیں، واپسی میں وہ گاڑی تک چھوڑنے  کے  لئے  آنے  لگے  مولانا صاحب نے  بہت اصرار سے  لفٹ تک چھوڑ دینے  کو کہا اور فرمایا کہ مہمان کو گھر کے  دروازے  تک چھوڑنا سنت ہے، بس لفٹ کے  دروازے  تک چھوڑنے  سے  سنت بھی ادا ہو جائے  گی سیٹھ صاحب نے  مجھے  بلایا اور نیچے  گاڑی تک مولانا کو چھوڑ کر آنے  کے  لئے  کہا، میں مولانا صاحب کے  ساتھ لفٹ میں دفتر کی ساتویں منزل سے  سوار ہوا، پانچویں منزل پر جہاں ہمارا دفتر تھا وہاں جا کر لفٹ کھلی وہی لڑکی اس میں سوار ہوئی، مولانا صاحب نے  بہت اچھی خوشبو لگا رکھی تھی ناک کے  نکسوروں میں بار بار سانس لے  کر بے  اختیار زندگی میں پہلی بار اس نے  مجھ سے  اس انداز میں گفتگو کی ’’کیا خوشبو لگائی ہے، نظر نہ لگ جائے  ‘‘

میں نے  مولانا صاحب کو رخصت کیا دوسرے  دفتر سکریٹری کو فون کیا جن سے  مولانا صاحب کے  بہت تعلقات تھے، میں نے  کہا مولانا صاحب نے  بہت اچھی خوشبو لگا رکھی تھی وہ خوشبو مجھے  چاہئے، انھوں نے  مولانا صاحب سے  معلوم کیا کہ آپ نے  کون سی خوشبو لگا رکھی تھی مولانا نے  بتایا کہ مجھے  نام تو معلوم نہیں دوبئی سے  ایک دوست نے  ہدیہ میں دی تھی، انہوں نے  مولانا صاحب سے  کہا کہ وہ خوشبو ہمیں چاہئے، مولانا صاحب نے  کہا میری جیب میں شیشی ہے  وہ منگا لیں انہوں نے  ڈرائیور بھیج کر وہ عطر منگوایا، میں نے  وہ لگایا، اس لڑکی نے  ہر دفعہ اس خوشبو کی تعریف کی میں نے  وہ عطر کی شیشی اس کو دے دی، اس سے  کچھ بات بنتی دکھائی دی لڑکی کے  والد ارمغان پڑھتے  تھے  اس کی وجہ سے  دعوت کا ذہن تھا مجھے  کچھ معلومات ہوئیں تو میں نے  ان کے  والد صاحب سے  پیغام کہلوایا کہ آپ اپنی لڑکی سے  میری شادی کریں تو میں مسلمان ہو کر نکاح کے  لئے  تیار ہوں، انہوں نے  سنا تو بہت استقبال کیا اپنی لڑکی کو راضی کرنے  کی کوشش کی اور کسی طرح دباؤ دے  کر اس کو راضی کر لیا اور مجھ سے  کہا اسلام قبول کر کے  جماعت میں چالیس روز لگا دیں تو ہم رشتہ کے  لئے  تیار ہیں ان کے  ساتھ جا کر شہر کی جامع مسجد کے  امام صاحب کے  پاس جا کر میں نے  کلمہ پڑھا اور جماعت میں چلا گیا، بنگلور میں میرا وقت لگا آ کر شادی ہو گئی۔

سوال  : آپ کے  خاندان والوں نے  مخالفت نہیں کی ؟

جواب  :  کچھ لوگوں نے  اعتراض کیا، مگر خاندان میں ذرا آزادی رائے  کا مزاج ہے، سب پڑھے  لکھے  لوگ ہیں بہت زیادہ مخالفت نہیں ہوئی۔

سوال  : شادی کے  بعد ازدواجی زندگی کیسی گزر رہی ہے  ؟

جواب  :  مولانا احمد صاحب، کیسی ازدواجی زندگی ؟اس لڑکی کو مجھ سے  مناسبت نہ ہو پائی وہ بھی اپنی خاندان کے  ایک لڑکے  سے  شادی چاہتی تھی، اس نے  دل سے  شاید یہ شادی رضامندی کے  ساتھ نہیں کی تھی، بلکہ بعد میں معلوم ہوا کہ والد نے  ان سے  کہا تھا کہ اگر تم اس سے  شادی کے  لئے  تیار نہیں ہوتی تو گھر سے  چلا جاؤں گا، اس دباؤ میں اس نے  منظور کر لیا تھا، نتیجہ یہ نکلا کہ اختلافات بہت جلدی ہوئے  اور آٹھ ماہ میں، میں بھی عاجز آ گیا اور طلاق ہو گئی۔

سوال  : اس شادی کی ناکامی کے  بعد آپ کے  دل میں پھر اسلام سے  واپس جانے  کا خیال نہیں آیا ؟

جواب  :اصل میں میرے  کریم رب نے  میرے  لئے  ہدایت لکھ دی تھی اس لئے  مجھے  اس کا بالکل خیال نہیں آیا اور جماعت میں وقت لگنے  کے  بعد مجھے  اسلامی کتابوں کے  مطالعہ کا شوق بھی ہو گیا تھا میرے  اللہ نے  یہ کرم فرمایا کہ طلاق ہونے  اور اس مسئلہ کے  ختم ہو جانے  کے  تیسرے  روز مولانا کلیم صاحب ہمارے  شہر میں تشریف لائے  انہیں دفتر کے  ایک جاننے  والے  نے  میرے  بارے  میں بتایا مجھ سے  ملنے  آئے  دو گھنٹہ میں ان کے  ساتھ رہا وہ مجھے  ایک پروگرام میں لے  گئے، ایک جگہ دعوت میں اپنے  ساتھ شریک کیا، اس ملاقات میں انہوں نے  مجھے  یہ سمجھانے  کی کوشش کی، بلکہ یہ سمجھا دیا کہ اللہ تعالیٰ کا آپ پر خاص کرم ہے  کہ اس لڑکی کو سیٹرھی بنا کر آپ کو اپنا بنانے  کا نظم کیا، چند سال کی اس لڑکی کی محبت میں آپ نے  دیکھا ہو گا کہ محبت میں کتنا مزا ہے، اس دنیا کی ہر چیز فانی ہے، بے  وفا اور دھوکہ دینے  والی ہے، اکثر تو جیتے  جی دھوکہ دے  کر بے  وفائی کر دیتی ہے، زندگی میں وفا کریں تو آپ کی موت یا اس کی موت بے  وفائی کا ذریعہ بن جاتی ہے، جب بنی ہوئی ان فانی اور بے  وفا چیزوں اور حسینوں کی محبت میں اتنا مزا ہے  تو پھر اس حسن حقیقی اور اس فانی حسن کو پیدا کرنے  والے  کے  عشق اور محبت میں کتنا مزا ہو گا، مولانا صاحب نے  کچھ اللہ والوں اور مشہور بزرگوں کے  قصے  سنائے  ان کو دنیا کے  کسی انسان سے  عشق ہوا اور جب جنون حد کو پہنچ گیا تو اللہ نے  اپنے  سے  لگا لیا مولانا صاحب نے  مجھے  یقین دلایا کہ مجھے  امید ہے  کہ آپ بھی ان اولیاء اللہ کے  سلسلہ کی ایک کڑی بننے  والے  ہیں بس اب اس حسن حقیقی سے  دل لگایئے  اور پھر دیکھئے  زندگی کا مزہ دنیا کے  حسینوں کی محبت میں بے  چینی ہے  اور اس کی محبت میں چین ہی چین ہے  سکون ہی سکون ہے  مزا ہی مزا ہی ہے  میرے  ایک دوست نے  جو مولانا صاحب سے  بیعت تھے  مجھے  مشورہ دیا کہ میں مولانا صاحب سے   بیعت ہو جاؤں میں نے  بھی مناسب سمجھا، مولانا نے  پہلے  مجھے  دو بڑے  بزرگوں سے  تعلق قائم کرنے  کا مشورہ دیا مگر میں نے  جب اصر ار کیا کہ آپ کی خوشبو میرے  لئے  ہدایت کی خوشبو بنی ہے  تو پھر میں آپ کے  علاوہ کسی کا دامن نہیں پکڑ سکتا، مولانا صاحب نے  مجھے  توبہ کرائی اور اپنے  حضرت مولانا سید ابوالحسن ندوی نور اللہ مرقدہٗ کے  سلسلہ میں بیعت کیا۔

سوال  :  اس کے  بعد جماعت میں سال لگا نے  کا آپ نے  کس طرح پروگرام بنایا ؟

جواب  :  میرا دل دنیا کے  جھمیلوں سے  بہت گھبرا رہا تھا میں نے  حضرت سے  کہا کہ میں نے  اتنا کما لیا ہے  اور میرے  والد صاحب نے  اتنا چھوڑا ہے  کہ میرے  ساتھ ایک دو خاندان بھی پچاس سال مزے  سے  کھا سکتے  ہیں اب میرا دل چاہتا ہے  کہ بس میں کہیں اللہ کا ہو کر رہ جاؤں بس آپ مجھے  اپنے  ساتھ رکھ لیجئے، حضرت نے  فرمایا، اسلام کی تعلیم یہ ہے  کہ دنیا میں رہ کر اللہ کے  رہو دل میں دنیا نہ بسے  رہبانیت یعنی دنیا چھوڑ کر لگ جانے  کی اسلام تعلیم نہیں دیتا، البتہ آپ اسلام کو پڑھئے  اور سلوک طئے  کیجئے  قرآن مجید کو اس طرح پڑھئے  کہ نہ صرف آپ کی سمجھ میں آ جائے  بلکہ آپ خود چلتا پھرتا قرآن بنئے  جس طرح صحابہ کرام قرآن مجید پڑھتے  تھے  اور اپنی زندگی کو دعوت کے  لئے  وقف کر دیجئے  دعوت اللہ کے  نزدیک کائنات کی سب سے  محبوب چیز ہے  اور جو مجسم دعوت بن جاتا ہے  وہ بھی اللہ کا محبوب بن جاتا ہے، میں نے  کہا جب میں نے  آپ کا دامن پکڑا ہے  تو پھر آپ ہی میری زندگی کا نظام بھی بنوا دیجئے  مولانا صاحب نے  فرمایا ابھی دو روز یہاں ہوں، انشاء اللہ سوچ کر مشورہ سے  طئے  کریں گے  اگلے  روز حضرت کا فون میرے  پاس آیا مجھے  بلایا اور مجھ سے  بتایا کہ ایک بہت ہی سلجھے  ہوئے  عالم اور مفتی ایک سال کے  لئے  جماعت میں جا رہے  ہیں، میری خواہش ہے  کہ آپ ان کے  ساتھ سال لگا دیں، میں ان کو آپ کی تعلیم کا نصاب بنا کر دے  دوں گا وہ راضی ہیں کہ دوران جماعت میں پڑھا دوں گا میں نے  ارادہ کر لیا حضرت نے  مجھے  معمولات بھی بتائے  اور بتایا کہ جماعت سے  رابطہ بھی رکھیں ابتدا میں تسبیحات، پھر جہری ذکر اور اس کے  بعد ذکر قلبی بتایا، الحمد للہ اب میرا سلطان الاذکار چل رہا ہے، قرآن شریف مع ترجمہ کے  میں نے  اس طرح پڑھ لیا ہے  کہ الحمد للہ میں بلا تکلف پڑھا سکتا ہوں میں نے  الحزب الاعظم حفظ کر لی ہے  اللہ نے  میرے  وقت میں بہت برکت دی ہے۔

سوال  :  آپ کا وقت کہاں کہاں لگا ؟

جواب  :  شروع میں تین چلے  کرناٹک میں میسور اور بنگلور میں لگے  اس کے  بعد ایک چلہ اعظم گڑھ اجتماع کی محنت میں لگا دو چلے  آندھرا میں اور باقی مہاراشٹر میں لگے  اب ہمارا رخ بہار کی طرف بنائے  دو چلے  باقی ہیں،

سوال  :  اب آپ کا کیا پروگرام ہے  ؟ یعنی جماعت سے  آنے  کے  بعد،

جواب  :  اصل میں یوں تو آخر فیصلہ ہمارے  حضرت کا ہی ہو گا، میری نیت دعوت کے  لئے  وقف ہونے  کی ہے  آج حضرت نے  فرمایا کہ جلدی سے  دو چلے  پورے  ہو جائیں تو آپ کو ملک سے  باہر دعوت کے  لئے  بھیجنا طئے  کر دیا ہے  اللہ تعالیٰ بس اس گندے  کی زندگی کو کسی کام میں لگا دیں میں نے  جماعت میں بہت دعائیں بھی کی ہیں میرے  حضرت بھی ہر ملاقات میں یہی فرماتے  رہے  کہ کسی ملازم کی سرکار کے  ذریعہ پوسٹنگ ہو جائے  تو آلات و وسائل سرکار خود دیتی ہے، گاڑی دفتر، وردی قلم سب سرکار کی ذمہ داری ہوتی ہے  آپ ہیڈ آفس سے  اپروول (منظوری )کرالو اللہ کے  راستہ میں دعائیں قبول ہوتی ہیں اب لگتا ہے  کہ اللہ تعالیٰ میری ہر دعا قبول کرتے  ہیں، ہمارے  اکثر جماعت کے  ساتھیوں کو بھی ایسا گمان ہوتا ہے  کہ ندیم کی دعائیں قبول ہوتی ہیں کرناٹک اور مہاراشٹر میں علاقہ کے  لوگ میرے  پاس دعا کو آتے  تھے  اور کہتے  تھے  کہ آپ مستجاب الدعوات میں ہمارے  لئے  دعا کیجئے  میں دعا کرتا میرے  اللہ اپنے  ایمان والے  بندوں کے  گمان کی لاج رکھ لیجئے  الحمد للہ دعا قبول ہوتی تھی میرے  حضرت نے  جماعت میں پوری دنیا کی ہدایت کے  لئے  دعا کو بھی کہا تھا اس کے  لئے  بھی میں اللہ سے  دعا کرتا ہوں۔

سوال  :  ابی بتا رہے  تھے  کہ راہ سلوک میں آپ نے  بہت کم وقت میں بڑی ترقی کی ہے  ؟

جواب  :  اگر حضرت فرما رہے  تھے  تو میرے  لئے  بڑی خوشی کی بات ہے  یہ حقیر تو اپنے  حال پر جب غور کرتا ہے  تو کائنات کی بدتر مخلوق اپنے  کو مانتا ہے  اس احساس شرمندگی اور کمتری میں ایک چلہ تک میرا یہ حال ہو تا کہ میرا خودکشی کرنے  کو دل چاہتا تھا کہ ایسے  ناپاک سے  اللہ کی زمین کو پاک ہو جانا چاہئے، حضرت سے  بار بار فون پر عرض کرتا تھا، حضرت نے  فرمایا یہ مقام فنا ہے  مبارک ہو، حضرت کے  فرمانے  سے  تھوڑی سی تسلی ہو جاتی تھی الحمد للہ ذکر میری زندگی بن گیا ہے  اور اب الحمدللہ، اللہ کے  فضل سے  میرا قلب عجیب و غریب طرح جاری ہو گیا ہے، لطائف ستہ بھی میرے  حضرت کی برکت سے  جاری ہو گئے  ہیں، خواب بھی بڑے  اچھے  دکھائی دیتے  ہیں مگر یہ سب تو بقول حضرت بس کھلونے  ہیں جن سے  اس راہ کے  بچوں کو بہلایا جا تا ہے  اصل تو یہ ہے  کہ اللہ ایمان پر خاتمہ فرما دیں اور مغفرت فرما دیں اور زندگی کی دین کی کچھ خدمت سے  قیمت بن جائے

سوال  :  ندیم بھائی آپ سے  مل کر اس کا تصور نہیں کیا جا سکتا کہ آپ ایک دو سال کے  مسلمان ہیں، آپ کی بول چال، چال ڈھال، آپ کا حلیہ کسی ادارہ یا علمی گھرانے  کے  کوئی عالم کا لگتا ہے  حالانکہ آپ کسی دوسرے  ماحول میں پروان چڑھے  ہیں۔

جواب  :  احمد بھائی ! اللہ کے  خزانے  میں کسی چیز کی کمی نہیں، میرے  حضرت کہتے  ہیں کہ آپ ہندو گھرانے  میں پل کر بھی اسلامی فطرت پر تھے، اس لئے  آپ کو بہت جلدی اسلام ظاہر و باطن سے  بھا گیا، مجھے  بھی ایسا لگتا ہے  کہ میں اسی دنیا کے  لئے  پیدا کیا گیا تھا، بلکہ ہندوانہ طور طریق مجھے  بیگانہ سے  محسوس ہوتے  ہیں۔

سوال  : آپ کا دوسری شادی کے  بارے  میں کیا پروگرام ہے  ؟

جواب  : میرا دل اس جھمیلے  میں پڑنے  کو تیار نہیں اور چونکہ میں نے  اپنے  آپ کو کسی کے  حوالہ کر دیا ہے  اس لئے  مجھے  کچھ کہنے  کا حق بھی نہیں، جیسے  ڈور ہلے  گی، ویسے  ہی گڈا ناچے  گا،

سوال  : ماشا ء اللہ واقعی، ابی حضرت رائپوری کا ملفوظ سناتے  ہیں کہ ’’ارادت کا مزہ فٹ بال بن جانے  میں ہے  ‘‘کسی کا ہونے  کا فائدہ تو اسی طرح ہوتا ہے  آپ کو یہ جذبہ اور خود سپردگی مبارک ہو۔

جواب  :آپ دعا ء کیجئے  اللہ تعالیٰ فٹ بال بنا دیں اور اس سے  زیادہ موت تک بنائیں رکھیں، ۔

سوال  : قارئین ارمغان کے  لئے  آپ کوئی پیغام دیں گے  ؟

جواب  : ہمارے  حضرت فرماتے  ہیں یہ زمانہ ہے  جب اللہ کی طرف سے  ہدایت نازل ہو رہی ہے  ہم لوگ اس سنہرے  موقع سے  فائدہ اٹھائیں اور اپنے  حصے  میں جتنا ہو سکے  لوگوں کی ہدایت لکھوائیں مجھے  خود بھی ایسا ہی لگتا ہے، یہ اللہ کی طرف سے  ہدایت کا فیصلہ ہی تو ہے  کہ اللہ نے  ایک ناجائز تعلق کو میرے  لئے  ہدایت کا ذریعہ بنا دیا اگر ہم مسلمان ذراسی فکر کریں تو دنیا کا نقشہ اسلامی بن سکتا ہے۔

سوال  : آپ نے  جماعت میں وقت لگانے  کے  دوران کچھ غیر مسلم لوگوں پر بھی کام کیا ؟

جواب  :بہت زیادہ تو میں نے  کام نہیں کیا، کسی دکان پر سامان وغیرہ خریدنے  یا ذاتی ضرورت سے  جاتا تھا تو کسی نہ کسی سے  ضرور بات کرتا تھا، اعظم گڑھ کے  اجتماع میں حضرت مولانا سعد صاحب نے  اپنی تقریر میں فرمایا تھا کہ ’’ہم انفرادی طور پر تو سب کو دعوت دینے  کی بات کہہ رہے  ہیں اور دوران سفر جماعتیں ٹرین وغیرہ میں سب کو ذہن میں رکھ کر تعلیم کریں ‘‘الحمد للہ اس کے  بعد سے  میرے  لئے  جماعت کے  ساتھیوں کو ترغیب دینے  کا موقع ملا اور اب تک ۷۷/ غیر مسلم مشرف با اسلام ہو چکے  ہیں، وقت پورا ہونے  کے  بعد انشاء اللہ حضرت کے  مشورے  سے  کام کرنا ہے،

سوال  : بہت بہت شکریہ ندیم بھائی !اللہ آپ کے  وقت کو آپ کے  ارادوں کو ساری انسانیت کے  لئے  ہدایت کا ذریعہ بنائے، السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

جواب  : آمین، و علیکم السلام و رحمۃاللہ و برکاتہٗ

 

مستفاد از ماہنامہ ارمغان، اگست  ۲۰۰۸ ء

٭٭٭

 

 

 

 

 

جنا ب محمد نعیم صاحب {اتر پال سنگھ چوہان} سے  ایک ملاقات

 

احمد اوّاہ    :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

نعیم محمد    :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ احمد صاحب

سوال  :آپ خیریت سے  ہیں نعیم صاحب؟

جواب  :  الحمد للہ! میرے  اللہ کا شکر ہے  بالکل خیریت سے  ہوں۔

سوال  : ابی کا فون آپ کے  پاس آیا ہو گا، مجھے  آپ کے  پاس انھوں نے  بھیجا ہے ؟

جواب  : جی حضرت کا فون آیا تھا، میں آپ کا انتظار کر رہا تھا، حضرت نے  فرمایا کہ ارمغان میں انٹرویو چھپوانا چاہتے  ہیں، میں نے  کہا میرے  لئے  اس سے  خوشی کی کیا بات ہو گی کہ دین کے  کسی کام میں میرا حصہ ہو جائے، وہ بھی اپنے  حضرت کے  حکم کی تعمیل میں۔

سوال   :  تو بہتر ہے  نعیم بھائی، اپنا خاندانی تعارف کرائیے  ؟

جواب  : میں اب سے  ۵۰/ سال پہلے  بہرائچ کے  ایک راجپوت خاندان میں پیدا ہوا، میرے  والد سرکاری اسکول میں ہیڈ ماسٹر تھے، اسکول میں میں نے  بہرائچ سے  انٹر پاس کرنے  کے  بعد انجینئرنگ میں داخلہ لیا، دہلی میں جامعہ سے  سوِل میں بی ای کیا، اس کے  بعد ڈی ڈی اے  میں میری ملازمت لگ گئی مزاج گرم تھا، خاندانی مزاج زمین داری کا تھا، رشوت لینا دینا ہمارے  پتا جی(والد )نے  سب سے  بڑا پاپ پڑھایا تھا، افسروں اور نیتاؤں سے  جھگڑے  بنے، اس لئے  سسپنڈ (معطل)ہونا پڑا اور پھر ایک روز جھنجھلا کر ریزائن کر دیا، بعد میں ایک کنسٹرکشن کمپنی ایک صاحب کی پارٹنر شپ میں بنائی، پرائیویٹ ٹھیکے  لے  کر کام کئے، کام اچھا چلا، کام بڑھا تو ڈی ایل ایف کے  کام لینے  لگے، کئی بڑی کمپنیوں کے  کام کئے، کام ذرا اور بڑھا تو ہم نے  دہلی میں ایک شاپنگ مال کا ٹھیکہ لیا، اس میں اچھے  نفع کی امید تھی، لیکن ساتھی کی نیت میں فرق آ گیا مالکوں نے  بھی دھوکہ دیا اور اچانک پوری کمپنی خسارہ میں آ گئی، لوہے  اور سیمنٹ کے  بھاؤ بڑھنے  نے  اور جلتی پر آگ کا کام کیا، دہلی کے  نو پلاٹ، سات فلیٹ بیچ کر نقصان پورا نہ ہوا، پھر مقدمہ عدالت میں شروع ہوا، گاڑی بھی بیچنی پڑی، ۲۵۰۰۰ روپئے  کی ایک کھٹارہ  ماروتی خریدی، قرضداروں نے  جینا دوبھر کر دیا، بس اچانک میرے  مالک کو مجھ پر ترس آیا اور زندگی کے  آخری اندھیرے  سے  ایمان کا نور پھوٹا اور اس کالے  کلوٹے  بندے  کی زندگی میرے  مالک نے  روشن کر دی۔

سوال  : اپنے  اسلام قبول کرنے  کا حال بتائیے ؟

جواب  : ۱۳/ اکتوبر کی تاریخ میری زندگی کی تاریک ترین تاریخ تھی، مجھے  پولیس والے  قرض والوں کے  دباؤ میں اٹھا کر لے  گئے  اور میرے  ساتھ میرے  قرض والے  نے  ایسی بدتمیزی کی کہ میں بیان نہیں کر سکتامیں نے  اپنے  پندرہ سالہ بیٹے  کے  ساتھ بیوی اور دونوں بچیوں کو، عزت بچانے  کے  لئے  گھر بھیج دیا، ۱۴/ اکتوبر کی صبح میں کچھ مقدموں کے  لئے  جامعہ نگر میں غفار منزل ایک وکیل سے  مشورہ کیلئے  صبح صبح پہنچا، ساڑھے  نو بجے  مشورہ کے  بعد واپس ہو رہا تھا غفار منزل کے  باہر جامعہ کی باونڈری کے  پاس میں اکیلا گاڑی سے  جا رہا تھا تو آپ کے  والد پیدل سڑک کی طرف جا رہے  تھے، میں نے  ان کو دیکھا تو لگا کہ وہ کوئی دھارمک آدمی ہیں، مجھے  خیال ہوا کہ پیدل جا رہے  ہیں کیوں نہ میں ان کو گاڑی میں بٹھا لوں، شاید یہ مجھے  کوئی اپائے  (علاج) بتا دیں، میں نے  گاڑی روکی، میں نے  کہا آئیے، سڑک تک باہر میں آپ کو چھوڑ دوں ! حضرت نے  کہا :نہیں بہت بہت شکریہ، اصل میں، میں آج صبح مارننگ واک نہیں کر سکا تھا اس لئے  پیدل جا رہا ہوں، میں نے  کہا : ہمیں کچھ سیواکا موقع مل جائے  گا آئیے  پلیز بیٹھ جائیے، وہ میرے  ساتھ برابر کی سیٹ پر بیٹھ گئے، میں نے  ان سے  معلوم کیا:آپ کہاں جا رہے  ہیں ؟ انھوں نے  کہا مجھے  بٹلہ ہاوس خلیل اللہ مسجدکے  پاس جانا ہے۔جامعہ کے  باہر مین روڈ پر پہنچ کر انھوں نے  اترنا چاہا میرا دل چاہا کہ میں کچھ اور وقت ان کے  ساتھ گزار دوں، میں نے  کہا پانچ منٹ کی بات ہے  میں آپ کو بٹلہ ہاوس پہنچا دوں گا، وہ منع کرتے  رہے  مگر میں نے  گاڑی نہ روکی، انھوں نے  میرا نام معلوم کیا: میں نے  بتایا اتر پال سنگھ چوہان میرا نام ہے، میرا نام معلوم ہونے  پر انھوں نے  میرا بہت شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ آپ نے  میرے  ساتھ محض انسانی ہمدردی میں احسان کیا ہے، مجھے  بہت اچھا لگا، دل میں آتا ہے  اس جیون اور اس کے  بعد آنے  والے  جیون میں کام آنے  والا ایک تحفہ آپ کو دوں، وہ مالک سنسار کو چلانے  والا اور بنانے  والا ہے  اس کے  اچھے  اچھے  نام ہیں ان ناموں میں سے  دو نام ہیں یا ہادی اور یا رحیم، ہادی کے  معنی ہیں منزل تک پہنچانے  والا، رحیم کے  معنی ہیں سب سے  زیادہ دَیا اور رحم کرنے  والا، صبح اٹھ کر اشنان کرنے  یا منھ دھونے  کلی کرنے  کے  بعد یہ خیال کر کے  کہ میں اپنے  مالک کو یاد کر رہا ہوں سوبار  یا ہادی سوبار  یا رحیم پڑھ لیا کریں اور پھر کاروبار کی فیملی کی یا کسی طرح کی کوئی مشکل ہو اپنی مالک سے  سیدھے  کہیں (دعا کریں ) انشاء اللہ فوراً مشکل حل ہو گی، یہ مالک کی ہاٹ میل لائن، فون لائن میں نے  آپ کو بتا دی، میں نے  کہا میاں صاحب میں آج کل بہت پریشان ہوں شاید آپ میری مشکل سنیں تو آپ رو پڑیں، یہ کہہ کر میرے  آنسو نکل گئے، حضرت نے  کہا بس مجھ سے  کہہ کر اور سنا کر کیا کریں گے  ہم سب مشکلوں میں گھرے  ہیں، جو خود مشکل میں پھنسا ہو اس کو سنانے  سے  کیا فائدہ؟بس آپ یہ پڑھ کر اپنے  اس اکیلے  مالک کو سنائیں، جس کو سنا کر نہ کبھی ذلت ہو گی نہ شرمندگی اور جس کے  بس میں سب کچھ ہے، بس اس جاپ کا ایک پرہیز ہے  اس اکیلے  کے  علاوہ کسی اور کی پوجا، کسی اور کے  آگے  سر نہ جھکائیں، ہاتھ نہ جوڑیں، نہ کسی پیر کے، نہ دیوی کے  نہ دیوتا کے، اچھا ہے  کہ گھر میں اگر مورتیاں ہوں تو ان کو گھر سے  باہر پہنچا دیں، میں نے  ان کا شکریہ ادا کیا اور رخصت کے  لئے  ہاتھ جوڑے، وہ بولے :بس یہی تو بد پرہیزی ہے  اور پرہیز علاج کے  لئے  دوا اور غذا سے  زیادہ ضروری ہے، میں نے  سوری کہہ کر معذرت کی۔

اگلے  روز صبح کو میں نے  اشنان(غسل)کیا اور آنکھیں بند کر کے  سوبار یا ہادی اور سوبار یا رحیم پڑھا، مولانا احمد صاحب! میں بیان نہیں کر سکتا مجھے  کیسا محسوس ہوا، مجھے  ایسالگا جیسے  میرا مالک میرے  سامنے  ہے، میں نے  پوری دکھ بھری داستان اس کو سنائی اور دعا کی، مالک آپ کوکیاسنانا، آپ تو مجھ سے  زیادہ جانتے  ہیں اور آدھا گھنٹہ میں روتا رہا، مگر آدھا گھنٹے  کے  بعد اگرچہ میرے  سارے  حالات جوں کے  توں تھے  مگر میرے  دل اور دماغ سے  جیسے  بوجھ اتر گیا اور ایسالگا جیسے  میں نے  اپنا مقدمہ کسی دوسرے  کے  سپرد کر دیا ہو، قرض والے  اس دن بھی آئے  مگر انھوں نے  میرے  ساتھ شرافت سے  بات کی، میرا دل چاہا کہ شام کو بھی میں یہ پڑھوں مگر مجھے  حضرت نے  صرف ایک بار ہی بتایا تھا خیال ہوا مالک کا نام ہے  چاہے  جتنی بار لے، لیکن خیال ہوا کہ حکیم کے  بتائے  طریقہ پر دوا استعمال کرنی چاہئے، حضرت صاحب کا نہ میں نے  نام معلوم کیا نہ پتہ نہ فون نمبر، میں جامعہ نگر کی طرف گاڑی لے  کر چلا، شام کو تین بجے  سے  رات تک اوکھلا اور اس کے  آس پاس چکر لگاتا رہا، مگر حضرت صاحب نہ ملے، دن چھپنے  کے  بعد واپس آیا اور صبح کا انتظار کرتا رہا، صبح کو سویرے  نہا کر پھر یا ہادی یا رحیم پڑھا، بہت ہی اچھا لگا ایک ہفتہ تک روزانہ پڑھتا رہا، بے  اختیار دن بھر کبھی بھی یا ہادی یا رحیم زبان پر جاری ہو جا تا، تین دن کے  بعد گھر سے  ساری مورتیاں اٹھا کر مندر میں رکھ آیا، ۲۱/ اکتوبر کو شاپنگ مال کے  مالک سے  ایک مقدمے  کا فیصلہ تھا مقدمہ ہائی کورٹ میں تھا، فیصلہ ہمارے  حق میں ہو گیا اور عدالت نے  پچاسی لاکھ روپئے  ایک مہینے  کے  اندر ادا کرنے  کا حکم سنایا، میری خوشی کی کوئی حد نہ تھی، اس کے  بعد میں ۲۲/ اکتوبر کو گرین پارک میں ایک پارٹی سے  میٹنگ کے  لئے  پہنچا لوگ مسجد میں جا رہے  تھے، میں نے  سوچا کہ مسجد کے  مولانا صاحب سے  کچھ اور پڑھنے  کو معلوم کروں یا ہادی یا رحیم زیادہ پڑھنے  کی اجازت لوں، میں نے  ایک صاحب سے  معلوم کیا کہ مسجد کے  مولانا سے  میری ملاقات ہو سکتی ہے  انھوں نے  کہا آدھے  گھنٹہ کے  بعد نماز کے  بعد آپ مل لیجئے، میں انتظار کرتا رہا، لوگ نماز پڑھ کر چلے  گئے  تو ایک صاحب مجھے  مولانا صاحب کے  کمرے  میں لے  کر گئے، میں نے  بتایا کہ ایک میاں صاحب نے  مجھے  یا ہادی یا رحیم بتایا تھا، اس سے  مجھے  بہت فائدہ ہوا، اب میں کچھ زیادہ پڑھنا چاہتا ہوں کچھ ہو گا تو نہیں اگر میں سو سے  زیادہ بار پڑھ لوں، انھوں نے  کہا آپ پڑھ لیجئے  اور انھوں نے  مجھے  مشورہ دیا کہ آپ اوکھلا جا کر مولانا کلیم صاحب سے  مل لیں وہ آپ کو زیادہ اچھی طرح بتا سکتے  ہیں، میں نے  ان سے  معلوم کیا کہ ان کا پتہ کیا ہے، تو انھوں نے  بتایا کہ بٹلہ ہاوس کی جامع مسجد کے  امام صاحب سے  جا کر معلوم کریں، وہیں پر ان کا دفتر ہے۔

میں وہیں سے  بٹلہ ہاوس گیا، امام صاحب نے  بتایا کہ سامنے  حضرت کا دفتر دار ارقم ہے، وہاں پر کوئی ہو گا معلوم کر لیں، دار ارقم گیا تو وہاں ایک حافظ صاحب ملے  انھوں نے  کہا، آپ خلیل اللہ مسجد کے  پاس ان کا مکان ہے  وہاں معلوم کر لیں، شاید حضرت تو سفر پر گئے  ہیں، میں خلیل اللہ مسجد گیا کافی دیر کے  بعد حضرت کا فلیٹ معلوم ہوا، وہاں گھر سے  ایک بچے  نے  آ کر بتایا کہ حضرت مدراس کے  سفر پر گئے  ہیں، ایک ہفتے  کے  بعد آئیں گے، میں نے  گھر سے  فون نمبر لیا، مسجد کے  باہر گاڑی کھڑی کی، وہاں ایک ملا جی ٹھیلی پر کتابیں بیچ رہے  تھے، خیال ہوا یہ اسلامی کتابیں بیچ رہے  ہیں ان سے  کتابیں لے  لوں، میں نے  ملاجی سے  کہا، دعاؤں کی اچھی سی کتاب ہندی میں دے  دو، انھوں نے  دو چھوٹے  چھوٹے  سائز کی کتابیں ’’مسنون دعائیں‘ ‘  اور ’’اللہ کے  رسول کی دعائیں ‘‘ دکھائیں، میں نے  دونوں خرید لیں، پھر خیال ہوا کوئی اچھی سی اسلامی بک بھی لے  لوں، ان سے  معلوم کیا تو انھوں نے  ’’ اسلام کیا ہے ؟‘‘ اور ’’جنت کی کنجی‘‘ اور ’’دوزخ کا کھٹکا‘‘ ہندی میں دے دی، ان پانچ کتابوں کے  ساتھ ملاجی نے  ایک کتاب’’ آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘ دی کہ یہ کتاب ہم فری میں دیتے  ہیں، آپ اس کو پڑھ کر اور سمجھ کر دعا پڑھیں گے  تو زیادہ فائدہ ہو گا، میں نے  کتاب پر نام دیکھا تو میں نے  کہا:میں مولانا کلیم صاحب سے  ملنے  ہی یہاں آیا تھا، مگر وہ ملے  نہیں، انھوں نے  کہا ان کا ملنا بہت مشکل ہے  مگر آ پ ان سے  ضرور ملیں آپ کو بہت اچھا لگے  گا، کتابیں لے  کر میں گھر گیا، موبائیل پر مولانا صاحب سے  فون کرنے  کوشش کی، موبائیل نہ مل سکا، میں نے  رات کو آپ کی امانت سب سے  پہلے  پڑھی، کتاب ہاتھ میں لی، چھوٹی سی کتاب ہے  ایک ایک لفظ جب تک پڑھ نہ لیا دل نہ بھرا، ایک بار پڑھ کر دوبارہ پڑھی، مجھے  اس کتاب کو پڑھ کر ایسا لگا کہ جیسے  سخت پیاسے  کو سیر ہو کر پانی مل گیا ہو، اب مجھے  حضرت صاحب سے  ملنے  کا اور بھی شوق ہو گیا، فون پر خدا خدا کر کے  چوتھے  روز بات ہوئی آواز سن کر مجھے  ایسا لگا کہ یہ صاحب کہیں وہ ہی تو نہیں جو گاڑی میں بیٹھ کر یا ہادی یا رحیم بتا رہے  تھے، ان کی کتاب کے  پیچھے  یا ہادی یا رحیم لکھا تھا۔

چار روز کے  بعد حضرت صاحب واپس آئے، نومبر کی چار تاریخ کو وہ دن آیا، جب ساڑھے  دس بجے  خلیل اللہ مسجد میں حضرت صاحب سے  ملاقات ہوئی، یہ دیکھ کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ آپ کی امانت اور دار ارقم والے  مولانا کلیم و ہی میاں صاحب ہیں جن کو میں نے  غفار منزل کے  باہر اپنی گاڑی میں بٹھایا تھا اور انھوں نے  یا ہادی یا رحیم پڑھنے  بتایا تھا، میں نے  اپنے  حالات بتائے  اور ان کا بہت بہت شکریہ ادا کیا، مولانا صاحب نے  پوچھا: آپ کی امانت پڑھ کر آپ نے  کیا فیصلہ کیا؟میں نے  کہا اس کا ایک ایک حرف میری انتر آتما پر لکھا گیا ہے، حضرت نے  کہا پھر آپ نے  کلمہ پڑھا، میں نے  کہا کتاب میں، تو میں نے  پڑھ لیا ہے، اب آپ پڑھا دیں، مولانا صاحب نے  مجھے  کلمہ پڑھوایا میرا نام نعیم محمد رکھا اور مجھے  بتایا کہ زندگی کا ہر پل اس ہادی اور رحیم مالک کی مرضی سے  گزارنا ہے، جس کے  سامنے  آدمی کو اپنا رونا روکر ایسا لگتا ہے  کہ جیسے  اپنا بوجھ اتار دیا۔

سوال  : ماشاء اللہ، اللہ تعالی مبارک فرمائیں، اس کے  بعد دین سیکھنے  کا آپ نے  کچھ سوچا؟

جواب  : حضرت صاحب کے  مشورے  سے  میں نے  ایک مولانا صاحب کو ٹیوشن کے  لئے  طئے  کیا اور الحمد للہ نماز یاد کی اور اب قرآن شریف پڑھ رہا ہوں تیسرا پارہ میرا لگ گیا ہے،

سوال  : کیا یہ تمام باتیں اپنے  گھر والوں کو آپ نے  بتا دیں ؟

جواب  :  الحمد للہ اس کے  بعد تین مقدمے  میرے  حق میں ہو گئے  میں نے  دوبارہ گھر خریدا گھر والوں کو بلایا، میرے  ساتھ جوجھتے  ہوئے  میرے  نئے  حالات میرے  گھر والوں کے  لئے  بہت اچھے  لگے  اور بس دو تین دنوں میں میرے  تینوں بچے  اور میری بیوی مسلمان ہو گئی، مولانا صاحب نے  میری اہلیہ کا نام خدیجہ رکھا اور بیٹیوں کا نام آمنہ، فاطمہ اور بیٹے  کا نام محمد عمر رکھا ہے۔

سوال  : آپ نے  کبھی اسلام کا مطالعہ بھی کیا یا نہیں ؟

جواب  : میرا خاندانی پس منظر بہت مذہبی تھا، بابری مسجد کی شہادت کے  وقت اور بھی زیادہ اسلام مخالفت بڑھ گئی، ہمارے  خاندان کے  ایک پولیس ڈی آئی جی، مسلمان ہو کر حذیفہ بن گئے  تھے  اس کی وجہ سے  خاندان میں اسلام اور مسلمانوں سے  دوری بڑھ گئی تھی، میرا کاروبار بڑھا تو مذہبی اور قومی فریضہ سمجھ کر میں نے  بہت سا پیسہ بجرنگ دل کو دیا، جامعہ میں بھی کچھ اس طرح کے  مسلمان لوگوں سے  میرا واسطہ رہا جن کی وجہ سے  بظاہر بول چال پر تو اثر پڑامگراسلام اور مسلمانوں کی امیج کچھ اچھی نہ بنی، بلکہ ان لوگوں کی وجہ سے  میں مسلمانوں سے  کچھ دور ہی ہوا۔اب اسلام اور اسلام والوں کے  ساتھ میرا دوسرا ہی واسطہ تھا، میرے  دل و دماغ کے  پردے  کھلتے  چلے  گئے، اسلام مخالفت مجھے، اسلام کونہ سمجھنے  کے  علاوہ کچھ اور نہ لگی، اسلام میرے  اندر کی ضرورت اور میرے  اندر کی مایا تھی جو مجھے  مل گئی، مجھے  ایسے  لگا جیسے  میں اپنے  نیچر اور اپنے  گھر سے  کھویا ہوا تھا، مجھے  اپنا گھر مل گیا۔

سوال  : اب آئندہ خاندان والوں تک اسلام پہنچانے  کے  بارے  میں آپ نے  کیا سوچا؟

جواب  : الحمد للہ میں نے  تین بار تین روز جماعت میں لگائے  ہیں، میں نے  مولانا صاحب سے  کہا ہے  کہ میں نئے  سال  سے  ایک لاکھ روپئے  ماہانہ دین کو اللہ کے  بندوں تک پہنچانے  کے  لئے  خرچ کرنا چاہتا ہوں، حضرت نے  کہا کہ جان مال اپنا لگے، آپ اپنا مال خود خرچ کریں یہ زیادہ بہتر ہے  کہ آپ یہ مال کسی اور کو خرچ کرنے  کے  لئے  دیں، تو میں نے  حضرت کے  مشورہ سے  ایک ’آپ کی امانت سنٹر‘ کھولنے  کا پروگرام بنایا ہے، اس کے  لئے  ایک فلیٹ خرید لیا ہے، دعا کیجئے  کہ اللہ تعالی میرے  ارادہ کو پورے  کرا دے۔

سوال  : مسلمانوں اور ارمغان کے  لئے  آپ کوئی پیغام دیں گے ؟

جواب  : چند ماہ کا مسلمان اس لائق کہاں کہ کچھ پیغام دے، البتہ مجھے  ایسا لگتا ہے  کہ اسلام پوری دنیا کی پیاس ہے، وہ لوگ جن کے  پاس اسلام ہے  اگر وہ اس کو ان لوگوں تک پہنچائیں جو پیاسے  ہیں تو وہ ایسی ہی محبت سے  اسلام کو لیں گے، بلکہ پئیں گے  جیسے  پیاسا پانی پیتا ہے۔

مسلمانوں کا حال یہ ہے  کہ ہم ان کو ان کی پیاس بجھانے  کے  بجائے  مخالف سمجھتے  ہیں، یہ بات اسلام سے  میل نہیں کھاتی خدا کے  لئے  ہمیں پیاسوں پر ترس کھا کر ان کی پیاس بجھانی چاہئے، ان کی نا سمجھی پر برائی کا بدلہ برائی سے  نہیں دینا چاہئے۔

سوال  :   بہت بہت شکریہ، السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

جواب  : شکریہ تو آپ کا، آپ نے  آ کر مجھے  اس بھلے  کام میں شامل کر لیا

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

مستفاد از ماہ نامہ ارمغان، فروری  ۲۰۰۹ء

٭٭٭

 

 

 

 

جناب رضوان احمد {راجن} سے ایک ملاقات

 

احمد اواہ     :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

رضوان احمد  :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال  :  رضوان صاحب آپ خیریت سے  ہیں، سفر میں آپ کو کچھ پریشانی تو نہیں ہوئی

جواب  :  الحمد للہ بہت اچھا سفر رہا، پھلت آ کر تو مجھے  سفر کی تکان کا احساس بھی نہیں رہا، اللہ کا شکر ہے  اللہ تعالی نے  پھلت دکھا دیا، حضرت مولانا کلیم صاحب سے  ملاقات ہو گئی اور خوب اطمینان کی ملاقات ہو گئی اور میرے  دونوں نئے  بھائیوں کی بھی ملاقات ہو گئی، مولانا صاحب بھی خوب خوش ہوئے  بار بار گلے  لگایا اور خوشی سے  ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

سوال : اصل میں ابی نے  ہی مجھے  آپ کے  پاس گھر سے  بھیجا ہے  کہ رضوان صاحب کو تھوڑی دیر میں ہی گھر جانا ہے، میں آپ سے  انٹرویو لوں، ہمارے  یہاں پھلت سے  ایک اردو میگزین نکلتا ہے  جس کا مقصد مسلمانوں میں دعوتی شعور پیدا کرنا ہے  اس کے  لئے  آپ سے  کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔

جواب  :  ضرور کیجئے  ابھی مولانا صاحب مجھے  حکم کر گئے  ہیں کہ میں احمد میاں کو بھیج رہا ہوں آپ ذرا ان سے  بات کیجئے  تاکہ آپ پر اللہ کی رحمت و ہدایت کی کہانی لاکھوں لوگوں تک پہنچے  اور پھر دوسروں کی ہدایت کا ذریعہ بنے  اور ہمارے  اور آپ کے  حصہ میں ثواب آئے، آپ حکم کیجئے  کہ میں کیا بتاؤں۔

سوال  : آپ پہلے  اپنا خاندانی تعارف کرائیے۔

جواب  :  میں بنارس کے  ایک برہمن خاندان میں ۳/جنوری ۱۹۵۹ء میں پیدا ہوا، میرے  والد صاحب نے  میرا نام راجن رکھا، ابتدائی تعلیم محلہ کے  اسکول میں ہوئی اور بعد میں بی کام تک کئی کالجوں میں تعلیم حاصل کی، میرے  والد صاحب شری سرجن کمار جی بھی پرانے  زمانہ کے  گریجویٹ تھے  اور نائب تحصیل دار سے  ریٹائرڈ ہوئے، وہ بڑے  صاف گو آدمی ہیں، اس لئے  افسروں سے  نہیں بنی اس لئے  نوکری میں پریشانیاں اٹھاتے  رہے، میں نے  بی کام کے  بعد تجارت شروع کی شروع میں گارمنٹس کی بزنس کی، ایک کے  بعد ایک کئی کام بدلے، پھر ایک دوست کے  ساتھ گوا چلا گیا، وہاں پر کپڑے  کی تجارت الحمد للہ سٹ ہو گئی، میری شادی الہ آباد کے  اچھے  گھرانے  میں ہوئی، میرے  خسر مغل سرائے  میں جج ہیں، میری بیوی پوسٹ گریجویٹ ہے، ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں، بڑے  بیٹے  کو بھی ایک دوکان کرا دی ہے  اور ہمارا خاندان اب گوا میں سٹ ہو گیا ہے۔

سوال  :  اپنے  قبول اسلام کے  بارے  میں بتائیے۔

جواب  :  مولانا احمد صاحب میرا قبول اسلام اپنے  بہت گندے   بندے  پر رحیم و کریم اور ہادی خدا کی رحمت کی نشانی ہے، میرے  اللہ کے  قربان جاؤں کہ کیسے  برے  کے  لئے  ہدایت بھیج دی، میں حیرت میں ہوں بس اللہ تو اللہ ہی ہے، اس کی شان کو کون سمجھ سکتا ہے  سوال   : آپ کا واقعہ ابی نے  بھی گھر میں بتایا تھا اس لئے  مجھے  اور بھی دلچسپی ہو گئی ہے  کہ آپ کی زبانی سنوں ؟

جواب  : احمد! جنوری  ۲۰۰۰ء میں مجھے  تجارت میں کئی جگہ سے  لاکھوں روپئے  کا نقصان ہو گیا ایک دو میرے  کسٹمر دوکان بند کر کے  فرار ہو گئے  اور کئی طرح کے  حادثات ہو گئے، میں بہت پریشان ہوا میرے  دوستوں نے  مشورہ دیا کہ مجھے  ٹریڈنگ کرنی چاہئے، ایک خاکہ بنا کر دہلی اور لدھیانہ، مال کا سروے  کرنے  کے  لئے  سفر کا ارادہ کیا، ہم لوگ سناتن دھرم سے  تعلق رکھتے  تھے  گھر میں شیو جی اور ہنو مان کی مورتیاں رکھی تھیں، یوں تو پہلے  بھی ان کی پوجا کرتے  ہوئے  دل میں آتا تھا کہ یہ مورتیاں جو مردہ ہیں یہ پوجا کے  لائق نہیں، مگر تجارت کے  نقصان در نقصان نے  مجھے  اور بھی ان مورتیوں سے  دور کر دیا، اس سفرپرجانے  سے  پہلے  میرے  دل میں آیا کہ ان بھگوانوں کی وجہ سے  ہی ہمارے  گھر میں نحوست آ رہی ہے  جتنی ہم ان کی پوجا کرتے  ہیں نقصان زیادہ ہوتا ہے  میں نے  وہ دونوں مورتیاں اور گنیش کے  فوٹو ندی میں ڈال کر ان کی پوجا بند کر کے  خدا کو یاد کیا اور دعا کی: ہے  سرو یاپی، سرو شکتی مان مالک! بس میں اب سے  آپ کو پوجوں گا اور آپ میرے  اس سفر میں ایسا نفع مجھے  پہنچا دیں جوسنسار کاسب سے  بڑا نفع ہو اور اب مجھے  سدا کے  لئے  نقصان سے  بچا دیں، رات کا ریزرویشن تھا احمد بھائی میں بیان نہیں کر سکتا، ایسا کرنے  سے  مجھے  ایسا لگا کہ میں نے  کانٹوں کا تاج اتار دیا، میں نے  ٹرین سے  سفر کیا، دہلی پہنچا  دہلی میں مجھے  بہت اچھا رسپونس ملا، ٹریڈنگ کی کئی لائنیں سامنے  آئیں، مجھے  ڈیلکس ایکسپریس سے  لدھیانہ جانا تھا، دہلی سے  ٹرین میں سوار ہوا میں نے  محسوس کیا کہ جس سیٹ پر میرا ریزرویشن تھا اس میں خوشبو آ رہی ہے، خوشبو مجھے  ایسی اچھی لگ رہی تھی کہ میں بیان نہیں کر سکتا میرے  دل و دماغ میں وہ خوشبو بس سی گئی، اندر سے  میرا دل کہتا تھا کہ یہ خوشبو کسی خوشی کی خوشبو ہے  خیال تھا کہ کوئی بڑے  لوگ اس سیٹ پر سوار ہوئے  ہوں گے  ان کی خوشبو گاڑی میں بس گئی ہے، مجھے  معلوم نہیں تھا کہ اصل میں یہ ہدایت کی خوشبو ہے، پانی پت گاڑی پہونچی تو مجھے  سستی و تکان سی محسوس ہوئی، میں نے  ساتھ کی سواریوں سے  اجازت لے  کر درمیان کی سیٹ کھولی، سیٹ کی پاکٹ میں موبائل رکھنا چاہا تو دیکھا اس میں ایک کتاب رکھی ہے، کتاب نکالی، کتاب کا نام تھا ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘ یہ کتاب ہندی میں تھی اور ممبئی میں چھپی تھی، مجھے  کتاب کا نام بڑا اچھا لگا، لیٹے  لیٹے  کتاب کھولی دو شبد پڑھے  کتاب چھوڑنے  کو دل نہ چاہا اور سونا بھول کر پوری کتاب پڑھ گیا، میری نیند اڑ گئی، سستی و تکان جیسے  تھا ہی نہیں، میری زندگی جاگتی سی محسوس ہوئی، میں سیٹ بند کر کے  نیچے  اتر آیا کتاب ایک بار اور پڑھی، دو بار میں دل نہ بھرا تو تیسری بار پڑھی اصل میں لا الہ  تو میرے  اللہ نے  میرے  گھر پر تجارت کے  اندر نقصان ہونے  سے  پڑھوا دیا تھا، محمد رسول اللہ کی رہنمائی میں الا اللہ اس ہدایت کی خوشبو نے  پڑھا دیا، گویا میں اندر سے  مسلمان ہو گیا تھا۔

گاڑی راجپورہ سے  آگے  نکل گئی تھی اب مجھے  اس کتاب کے  لکھنے  والے  مولانا کلیم صدیقی سے  ملاقات کا شوق پیدا ہوا، میں نے  کتاب میں ان کا پتہ دیکھنا چاہا مگر ان کا نام اور پھلت صرف لکھا تھا اور ممبئی سے  ایک چھپوانے  والے  کا نام، میں لدھیانہ سے  واپس ہوا اور تجارتی لحاظ سے  سفر بہت کامیاب رہا، لدھیانہ میں  بھی میں نے  ایک مسجد کو دیکھ کر اس میں جانا چاہا مگر معلوم ہوا کہ یہ ۴۷ء سے  پہلے  یہ مسجد تھی اب یہ کسی پنجابی کا گھر ہے، مجھے  بے  چینی تھی کہ میں اندر سے  مسلمان ہو گیا ہوں، باہر سے  کس طرح سے  مسلمان بنوں، گوا پہنچ کر میں سیدھے  ایک مسجد گیا وہاں کے  مولانا صاحب سے  میری ملاقات ہوئی مولانا صاحب نے  مجھے  دوسرے  مفتی صاحب کے  پاس بھیجا وہ میرٹھ کے  رہنے  والے  تھے  انہوں نے  مجھے  کلمہ پڑھوایا وہ مولانا کلیم صاحب کو اچھی طرح جانتے  تھے، انہوں نے  مجھے  انکا پتہ لکھوایا اور مجھ سے  وعدہ کیا کہ فون نمبر لے کر مجھے  دے  دیں گے، انہوں نے  فون نمبر حاصل کیا مگر وہ نمبر سیکڑوں بار کی کوشش کے  باوجود نہیں لگ پایا، میں جب وقت ملتا ان کے  پاس دین سیکھنے  جاتا، میں نے  قاعدہ پڑھا اور پھر چھ مہینے  میں قرآن مجید بھی پڑھ لیا اور تھوڑی تھوڑی اردو بھی پڑھی اور دو تین بار دس دن کی جماعت میں بھی گیا۔

سوال  :  ممبئی بھی آپ آئے  تھے، آپ کو ابی کی ممبئی آمد کی خبر کیسے  پہونچی ؟

جواب  : مجھے  مفتی عادل صاحب میرٹھی نے  بتایا کہ ممبئی میں دعوت کا کیمپ لگ رہا ہے  اور مولانا محمد کلیم صاحب وہاں آ رہے  ہیں، میں نے  فوراً وہاں کا پروگرام بنایا، مرکز المعارف کا پتہ معلوم کرنے  میں مجھے  پورا دن لگ گیا اور رات میں وہاں پہنچا، وہاں پر کیمپ کا اختتامی اجلاس ہو رہا تھا، پروگرام کے  بعد مولانا صاحب سے  ملاقات ہوئی میں بیان نہیں کر سکتا کہ مولانا صاحب سے  مل کر میں کتنا خوش ہوا میں نے  مولانا صاحب سے  ایک بار ایمان کی تجدید کرانے  کی درخواست کی، مولانا صاحب نے  کہا ہم سبھی کو بار بار ایمان کی تجدید کرتے  رہنا چاہئے، کلمہ پڑھوایا اور بتایا کہ ممبئی کا سفر ہوا تھا ایک دوست نے  آپ کی امانت مجھے  دی تھی جو انہوں نے  چھپوائی تھی وہ انہوں نے  ہی شیر وانی جیب میں رکھ لی تھی اور رات کو ٹرین میں سونے  لگے، شیروانی لٹکائی تو اس میں سے  نکال کر سیٹ کی جیب میں رکھ دی تھی، صبح کو ساتھیوں کے  بیٹھنے  کی وجہ سے  سیٹ کھول دی اور وہ سیٹ کے  نیچے  دب گئی، مولانا صاحب نے  بتایا کہ میں جب اسٹیشن سے  اترا تو مجھے  یاد بھی آیا مگر اچانک میرے  دل میں آیا کہ کیا خیر کوئی مسافر پڑھ لے  اور اس کی ہدایت کا ذریعہ بن جائے  اس لئے  وہیں چھوڑ دی، میں نے  مولانا صاحب سے  کہا کہ مفتی صاحب نے  میرا نام رکھ دیا ہے  مگر میری خواہش ہے  کہ آپ میرا نام رکھیں، انہوں نے  میرا نام معلوم کیا میں نے  راجن بتایا تو مولانا صاحب نے  کہا رضوان احمد آپ کا نام رکھتے  ہیں، رضوان کے  معنی ہیں اللہ کی رضا اور رضوان جنت کے  داروغہ کا نام بھی ہے، مجھے  رضوان نام بہت اچھا لگا، اس کے  معنی کی وجہ بھی اور اس لئے  کہ مولانا صاحب نے  رکھا ہے۔

سوال  :  آپ کے  گھر والوں کا کیا ہوا ؟آپ نے  گھر پر بتا دیا ؟

جواب  :  سب سے  پہلے  میں نے  اپنی بیوی سے  سارا حال بتایا ایک بار اس کو آپ کی امانت پڑھ کر سنائی وہ بولی بھی کہ میں پڑھی لکھی ہوں میں خود پڑھ لوں گی، مگر میں نے  کہا ایک بار میری زبان سے  سن لو مجھے  تم سے  محبت ہے  اس محبت کا حق ادا کرنے  کے  لئے  یہ بتانا چاہتا ہوں، پھر میں نے  ان کو پڑھنے  کے  لئے  دی اس کے  بعد’’ مرنے  کے  بعد کیا ہو گا؟‘‘ اور ’’ اسلام کیا ہے  ؟‘‘ان کو پڑھوائی ایک رات کو میں نے  ان سے  اپنی مجبوری بتائی کہ اسلام میرے  روئیں روئیں میں بس گیا ہے  اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ اسلام سے  پھر جاؤں، اس لئے  میں کھل کر مسلمان بننا چاہتا ہوں، اب صرف اس حال میں تم میرے  ساتھ رہ سکتی ہو جب تم مسلمان ہو جاؤ اور اگر تم مسلمان نہیں ہوتی ہو تو میرے  لئے  اسلام کے  قانون سے  تم اجنبی عورت ہو جس کے  ساتھ رہنا تو درکنار تم سے  بات کرنا بھی میرے  لئے  پاپ(گناہ)ہے، اب کل تمہارے  لئے  سوچنے  کا آخری دن ہے، اگر تم مسلمان نہیں ہو پاتی ہو اور اتنی سچائی سمجھ جانے  کے  بعد اسے  قبول نہیں کرتی ہو، تو میں یہ تو نہیں کروں گا کہ تمہیں گھر سے  نکال دوں میں اتنا ضرور کروں گا کہ تمہارے  گھر کو چھوڑ دوں گا، پھر چاہے  کہیں رہوں، وہ یہ سن کر رونے  لگی اور بولی رشتے  داروں اور سماج سے  کیسے  لڑیں گے  ایسے  دھارمک (مذہبی) پریوار ہم دونوں کے  ہیں، میں نے  کہا کہ کل آخرت میں اللہ سے  لڑائی مول لینا زیادہ خطرناک ہے  یا پریوار سے  ؟ اگر اللہ کے  لئے  ہم اس کو مانیں گے  تو پریوار کو بھی ہمارے  ساتھ کر دے  گا، رات کے  ایک بجے  تک میں انہیں سمجھاتا رہا ایک بج کر بیس منٹ پر وہ تیار ہو گئیں اور انہوں نے  کلمہ پڑھا، اگلے  روز مفتی صاحب کے  یہاں جا کر ہم نے  دوبارہ نکاح کروایا، بیوی کے  مسلمان ہو جانے  کے  بعد بچوں پر کام آسان ہوا، میرا بیٹا تو مسلمانوں سے  ہی دوستی رکھتا ہے، وہ بہت آسانی سے  مسلمان ہو گیا، بڑی بیٹی نے  چند دن لگائے، میرے  اللہ کا کرم ہے، اب میرا خاندان تو پورا مسلمان ہے، میں نے  اپنے  بیٹے  کو جماعت میں ایک چلہ بھی لگوا دیا ہے۔

ممبئی میں ملاقات پر مولانا صاحب نے  پھلت آنے  کو کہا تھا، مجھے  پھلت دیکھنے  کا بہت شوق تھا، جس انسان کی خوشبو نے  میرے  دل و دماغ کو ہدایت سے  معطر کر دیا اس کا گھر میرے  لئے  دنیا میں جنت کی طرح تھا، اللہ کے  لئے  محبت  میں سفر کی برکت میرے  اللہ نے  سفر میں دکھا دی، میں نے ’’ آپ کی امانت‘‘ گوا میں ایک ہزار چھپوائی ہے، میرے  یہ دو ساتھی جو میرے  ساتھ آئے  ہیں ان میں سے  یہ ایک میرا دوست ہے  جو بنارس کا رہنے  والا ہے  اور میرے  گوا میں آنے  کی وجہ سے  وہ بھی گوا میں رہنے  لگا ہے  اور انہوں نے  وہیں پر بیکری کھول لی ہے، یہ گوئل خاندان سے  لالہ ہیں، ان سے  میں تقریباً آٹھ مہینے  سے  بات کر رہا تھا اور ان کو اسلام کی دعوت دے  رہا تھا، کسی طرح میں نے  ان کو پھلت کا سفر کرنے  کے  لئے  تیار کر لیا، ہم دونوں گوا ایکسپریس سے  سفر کر رہے  تھے، ہمارے  ساتھ میں یہ تیسرے  صاحب جو اعظم گڈھ کے  رہنے  والے  ہیں ساتھ میں سفر کر رہے  تھے، تعارف ہوا تو یوپی کے  تھے، اپنی طرف کی بات چیت ہونے  لگی، یہ گورنمنٹ انٹر کالج میں لکچرار ہیں، میں نے  ان کو آپ کی امانت کتاب پڑھنے  کیلئے  دی، یہ بہت متاثر ہوئے  رات بھر باتیں ہوتی رہیں، متھرا آ کر یہ کلمہ پڑھنے  کے  لئے  تیار ہو گئے، میں نے  ان کو کلمہ پڑھوایا تو میرے  دوست انل کمار بھی تیار ہو گئے  اور متھرا میں ہی انہوں نے  کلمہ پڑھا، گاڑی بیس منٹ متھرا میں رکی تھی، گاڑی چلی تو میں نے  ان دونوں سے  کہا کہ اللہ کا کیسا کرم ہے  کہ آپ دونوں متھرا میں شرک و کفر کو چھوڑ رہے  ہیں، یہاں کی چیز یہاں ہی چھوڑ دینا اچھا ہے۔

سوال  : کیا آپ نے  اور بھی دعوت کا کچھ کام گھر والوں پر اور جاننے  والوں پر کرنے  کی سوچی ہے  ؟

جواب  :  ممبئی میں مولانا صاحب سے  ملاقات سے  پہلے  تو گھر کے  تینوں بچوں اور دوست انل کمار کے  علاوہ کسی پر کام نہیں کیا مگر ممبئی میں مولانا صاحب نے  بہت فکر دلائی، اب ملاقات ہوئی راستہ بھر کی سفر کی روداد مولانا صاحب نے  سنی بہت خوش ہوئے، کئی بار کھڑے  ہو کر گلے  لگایا، خوشی سے  رونے  لگے، ہاں یہ بھی کہا  کہ آپ نے  اپنے  دوستوں سے  متھرا میں یہ صحیح نہیں کہا کہ شرک و کفر متھرا کی چیز ہے، متھرا بھی اللہ کی زمین ہی میں ہے، یہاں پر بسنے  والے  سب اللہ کے  بندے، ہمارے  رسولﷺ کے  امتی اور ہمارے  باپ حضرت آدم ْ کی اولاد، وہ ہمارے  خونی رشتہ کے  بھائی ہیں، ان کے  مایا بھی ایمان وتوحید ہے، شرک یہاں کی چیز نہیں، یہاں کے  لوگوں کی بیماری ہے، اب آپ مسلمان ہو گئے  تو آپ داعی ہیں اور داعی کی حیثیت طبیب اور ڈاکٹر کی ہے  وہ کسی جگہ بیماری چھوڑتا نہیں بلکہ ہر بیمار کی فکر کرتا ہے۔

سوال  : آپ کے  گھر والوں کو آپ کے  اسلام کا علم ہو گیا؟

جواب  :  ہم نے  خسر صاحب کو گوا بلایا تھا اور ہم دونوں نے  صاف ان کو بتا دیا اور ان کو دعوت بھی دی۔

سوال  :  وہ غصہ تو نہیں ہوئے۔

جواب  :  وہ بہت ٹھنڈے  مزاج کے  آدمی ہیں انہوں نے  کہا آج نیا دور ہے  دھرم اپنا ذاتی معاملہ ہے  اس کے  لئے  ہمیں زیادہ سخت نہیں ہونا چاہئے، البتہ یہ ضرور ہے  کہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہئے  اور جو فیصلہ کرو بس اس پر جمو، کبھی ادھر کبھی ادھر یا آدھا ادھر آدھا ادھر یہ ٹھیک نہیں، مجھے  امید ہے  کہ وہ ضرور اسلام لے  آئیں گے، انشاء اللہ، مولانا صاحب نے  ہم سے  کہا کہ تہجد میں ان کیلئے  اور سب خاندان والوں کے  لئے  دعا کرنی ہے، انشاء اللہ ہم دعا کریں گے۔ میرے  اللہ میرے  خاندان والوں کو ضرور ہدایت دیں گے۔

سوال  :   ان دونوں کے  نام بھی رکھ دئیے  یا نہیں۔

جواب  :  انل کمار کا نام تو مولانا صاحب نے  محمد عادل رکھا ہے  اور رمیش چندر جی کا رئیس احمد، ان کو دہلی میں اترنا تھا مگر ان کی خواہش ہوئی کہ ہم بھی پھلت چلیں گے  تینوں نے  مرتے  دم تک اللہ کے  لئے  ساتھ ساتھ دعوت کا کام کرنے  کا مولانا صاحب کے  سامنے  عہد کیا ہے، اللہ تعالی اس پر ہمیں قائم رکھے۔

سوال  : کوئی پیغام ارمغان کے  قارئین کیلئے  آپ دیں گے  ؟

جواب  : اس وقت پوری دنیا بقول ہمارے  کلیم مولانا صدیقی صاحب کے، اسلام کی پیاس میں اس طرح  لائن میں لگی ہے، جیسے  گاؤں اور قصبوں میں لوگ راشن کی دکان پر مٹی کے  تیل کے  لئے  لگے  رہتے  ہیں، کہ یہ لیٹر دو لیٹر تیل ان کی جھونپڑیوں اور کچے  مکانوں میں روشنی کر دے  گا، اسی طرح دل و دماغ کی اندھیری کوٹھریوں کو مسلمان داعیوں کے  رحم وترس کی ضرورت ہے، ہمیں انسانیت پر ترس کھا کر ان کی اندر کی اندھیاری کو ایمان واسلام کی شمع جلا کر روشن کرنے  کو اپنا مقصد سمجھنا چاہئے۔

سوال  :  بہت شکریہ رضوان بھائی۔

جواب  :  آپ کا شکریہ مولانا احمد صاحب آپ نے  مجھے  ایک اچھے  کام میں شریک کیا اور اس قابل سمجھا، السلام علیکم و رحمۃ اللہ

سوال  :   وعلیکم السلام، استودع اللہ دینکم وامانتکم وخواتیم اعمالکم  یہ ہمارے  نبیﷺ نے  ہمیں رخصت ہوتے  وقت دعا بتائی ہے، اس کا ترجمہ یہ ہے  :میں تمھارے  دین، امانت اور خاتمۂ اعمال کو اللہ کے  سپرد کرتا ہوں اور رخصت ہوتا ہوں۔

جواب  : کیسی پیاری دعا ہے، ہمارے  لئے  واقعی ایسی ہی دعا کی ضرورت ہے۔

مستفاد از ماہنامہ ارمغان، فروری  ۲۰۰۸ء

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک عاشق رسول جناب محمد احمد {رام کرشن شرما} سے  ایک ملاقات

 

 

احمد اواہ    :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

محمد احمد     :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال  : بھائی محمد احمد صاحب، بہت خوشی ہوئی آپ آ گئے، ابی آپ کا ذکر کر رہے  تھے  اور مجھ سے  چھ مہینے  پہلے  آپ کا انٹرویو لینے  کے  لئے  فرما رہے  تھے  اور یہ بھی فرمایا تھا کہ ان کا انٹرویو ربیع الاول میں شائع کرواؤں حسن اتفاق ہے  کہ آپ ایسے  وقت میں ہمارے  یہاں تشریف لائے  کہ ربیع الاول کے  شمارہ کی تیاری چل رہی ہے۔

جواب  : کل میں جماعت میں وقت لگا کر نظام الدین واپس آیا، حضرت کو فون کیا تو خوشی ہوئی کہ دہلی تشریف رکھتے  ہیں، بٹلہ ہاوس میں پروگرام بھی تھا، الحمد للہ اس میں شرکت ہو گئی اور ملاقات بھی ہو گئی، حضرت تو ابھی لوگوں سے  ملاقات کر رہے  ہیں مجھے  حکم دیا کہ میں آپ کے  پاس پہنچوں اور ارمغان کیلئے  انٹرویو دوں، فرمائیے  اب میرے  لئے  کیا حکم ہے۔

سوال  : آپ اپنا خاندانی تعارف کرائیے ؟

جواب  :  میں ۲۱/ جنوری ۱۹۶۵ء میں ہریدوار میں ایک پنڈت خاندان میں پیدا ہوا میرے  والد ایک بڑے  مہنت تھے  ان کا نام کیشورام شرما جی تھا، میرا نام انھوں نے  رام کرشن شرما رکھا، میرے  خاندان میں ایک بڑے  ہندو مذہب کے  بڑے  گیانی (بڑے  عالم)پنڈت شری رام شرما جی ہوئے  ہیں، وہ گایتری سماج کے  ایک طرح فاونڈر (بانی)تھے، شانتی کنج ہریدوار میں ان کا آشرم تھا، ہندو مذہب سے  ذرا واقفیت رکھنے  والا ان کا نام ضرور جانتا ہو گا، ہمارے  دور کے  رشتہ سے  دادا ہو تے  تھے، حضرت نے  مجھے  بتایا کہ انھوں نے  مولانا شمس نوید عثمانی کے  ہاتھ پر کلمہ پڑھ لیا تھا، مجھے  سوفیصد یقین ہے  کہ وہ ضرور مسلمان ہو گئے  ہوں گے، وہ بہت حق پرست آدمی تھے  ہمیں تو یہ معلوم ہے  کہ انھوں نے  مرنے  سے  پہلے  سمادھی لے  لی تھی، ان کے  مرنے  پر لوگوں نے  بتایا کہ ان کا پوراجسم نیلا ہو گیا تھا، مولانا صاحب نے  بتایا کہ ان کے  شاگردوں نے  ان کو زہر دے  دیا تھا۔

ہمارا خاندان آریہ سماجی رہا ہے  شروع کی تعلیم میری ایک سرسوتی اسکول میں ہوئی، بعد میں ہریدوار گروکل میں میں نے  داخلہ لیا ہندی سنسکرت بہت اچھی طرح سیکھی، ویدوں کو پڑھا بعد میں دوسال کے  لئے  اعلی تعلیم کے  لئے  گروکل میں رہا میں نے  پورے  گروکل کو ٹاپ کیا اس کے  بعد دہلی کے  قریب بوپورہ گروکل میں سنسکرت کا استاذہو گیا میرے  مضامین شانتی کنج کی میگزینوں اور دیش کی دوسری مذہبی میگزینوں میں شائع ہوئے۔

سوال  : اپنے  قبول اسلام کے  بارے  میں ذرا بتائیے ؟

جواب  : میں دہلی گروکل میں پڑھا رہا تھا وہاں پر دو مسلمان شدھی  ہو کر آئے  ان میں سے  ایک سہارنپور ضلع کا بدنصیب اور بد بخت جوان تھاجس نے  اپنا نام محمد طئیب کی جگہ شیو پرشاد رکھا تھا، وہ دارالعلوم دیوبند سے  دوسال قرات کا کورس کر کے  اپنے  کو پہلے  محمد طیب قاسمی لکھا کر تا تھا اور دوسرا بہار کا ایک مزدور، جاہل، ادھیڑ عمر کا آدمی جو جاوید اختر سے  دیانند بنا تھا، ایک نوجوان مولانا جن کا نام شمس الدین ندوی تھا، لکھنو سے  پڑھے  ہوئے  تھے  ان کو کسی نے  ان دونوں کے  مرتد ہونے  کے  بارے  میں بتایا وہ سونی پت حضرت مولانا کلیم صاحب کے  پاس گئے، مولانا صاحب نے  گروکل جا کر ان کو سمجھانے  کے  لئے  کہا اور بڑی فکر مندی کا اظہار کیا دوتین دفعہ وہ ہمارے  یہاں آئے، میں نے  ان کو بار بار آتے  دیکھا، تو شیو پرشاد سے  وجہ معلوم کی، اس نے  مجھ سے  کہا یہ مجھے  واپس مسلمان بننے  کے  لئے  کہہ رہے  ہیں، آپ ان سے  بات کر لیں اور اسلام میں توکچھ ہے  نہیں، میں نے  ان کو بلا یا ہے  آپ ان سے  بات کریں تو اچھا ہے، یہ بھی ہندو ہو سکتے  ہیں، اگر یہ ہندو ہو گئے  تو بہت کام کے  ہندو ثابت ہوں گے۔

احمد بھائی جب بھی میں اس کمینے  بدبخت شیوپرشادسے  بات کرتا تو وہ ہمارے  پیارے  نبی، کروڑوں درود وسلام ہوں آپ پر اور اللہ کی رحمتیں، بہت ہی برے  الزامات لگاتا تھا خاص کر ان کے  پریوارک جیون (معاشرتی زندگی)کے  بارے  میں بڑی گھناونی باتیں کرتا تھا، اصل بات یہ ہے  احمد بھائی، یہ باتیں مجھے  اس وقت بھی بری لگتی تھیں، ایک ہفتہ کے  بعد شمس الدین صاحب آئے  معلوم ہو ا کہ وہ تو مولوی ہیں، ان سے  میں نے  بات کی تو انھوں نے  حضرت مولانا کلیم صاحب سے  ملنے  کا مشورہ دیا اور بڑی نرمی سے  کہا کہ وہ ہمارے  بڑے  ہیں اور بڑے  حق پرست آدمی ہیں آپ ان کو اگر سمجھا سکیں تو ہم آپ کے  ساتھ ہیں، اس طرح انھوں نے  کوشش کر کے  میری ملاقات ان سے  امرتسرہائی وے  پر رسوئی گاؤں کی مسجد میں طئے  کرائی، میں اپنے  ایک دو ساتھیوں کو لے  کر وہاں پہنچا مولانا صاحب بہت اخلاق سے  ملے  اور جب میں نے  ان کو ویدک دھرم میں آ نے  کی دعوت دی اور ان سے  کہا ویدک دھرم سب سے  بڑا مذہب ہے  اور ہمارے  پوروجوں یعنی بڑوں کا مذہب ہے، اگر ہمارے  لئے  مالک کو اسلام پسند ہوتا تو ہمیں بھارت میں پیدا نہ کرتے، یہاں کے  حالات کے  لحاظ سے  ویدک مذہب ہی مناسب ہے  اور پھر میں نے  شیو پرشاد سے  پیارے  نبی کی شان میں جو باتیں سنی تھیں ان میں سے  کچھ دوہرائیں، مولانا صاحب نے  گاڑی میں سے  اپنا بیگ منگوایا اور چھوٹی سی کتاب ہندی میں ’’ اسلام کے  پیغمبر حضرت محمد‘‘(ﷺ ) پروفیسر کے  ایس راما راؤکی نکال کر مجھے  دی اور مجھے  بتایا کہ یہ ایک ہندو بھائی کی لکھی ہوئی کتاب ہے  میری درخواست ہے  کہ آپ اس کو پڑھیں، بس اتنی سی بات ہے  کہ آپ اسلام اور مسلمانوں کے  پیغمبر سمجھ کر اس کو نہ پڑھیں، حضرت محمدﷺ کے  فرمان حدیث اور قرآن میں ایک لفظ بھی ایسا نہیں ملتا جس سے  یہ معلوم ہو تا ہو کہ حضرت محمدﷺ مسلمانوں کے  پیغمبر ہیں بلکہ وہ پوری انسانیت کے  لئے  اللہ کے  انتم سندیشٹا(آخری رسول)ہیں۔

آپ جب اس کتاب کو دو تین بار پڑھ لیں پھر آپ کے  پاس میں خود ملنے  گروکل آشرم میں آؤںگا، مولانا صاحب کو ایک سفر کی جلدی تھی آدھا گھنٹہ کی ملاقات کے  بعد میں چلاآیا، میں نے  آ کر اس کتاب کو پڑھا ایک دفعہ کتاب کو پڑھ کر مجھے  ایسا لگا کہ حضرت محمدﷺ پوری انسانیت کے  نہیں بلکہ صرف میرے  رسول ہیں، مگر گروکل کا ماحول اور میرا خاندان اور اس کی ہندو مذہب کے  لئے  عقیدت مجھے  جھنجھوڑنے  لگی، میں نے  اس کتاب کو چھت پر پھینک دیا اور پھر حضرت محمدﷺ پر جو مخالفت میں لکھی گھی کتابیں ہیں ان کو پڑھنے  کا خیال ہوا، تاکہ جو محبت اس کتاب کی وجہ سے  ہمارے  نبیﷺ سے  مجھے  ہو گئی تھی ا س کا جادو کچھ ختم ہو، میں نے  شیو پرشاد سے  مشورہ کیا، اس نے  کہا کہ غیر مسلموں کی کتابوں کی ضرورت نہیں بلکہ خود بعض نام نہاد مسلمانوں نے  ان کے  خلاف کتابیں لکھی ہیں اور تسلیمہ نسرین اور سلمان رشدی کی کتابوں کا ذکر کیا، میں نے  ان سے  کتابیں لانے  کے  لئے  کہا، وہ دہلی گیا نہ جانے  کسی جاننے  والے  سے  ان دونوں کی چار کتابیں لا کر دیں، میں نے  ان چاروں کتابوں کو پڑھا، مگر راما کرشنا راؤکی چھوٹی سی کتاب جو سچائی سے  بھری تھی، اس نے  جو اثر مجھ پر چھوڑا تھا ان چار نفرت اور جھوٹ سے  بھری ہوئی کتابوں نے  اس کا اثر کچھ کم نہیں کیا، بلکہ پیارے  نبی کے  کر دار کی سچائی مجھے  اور دکھا ئی دینے  لگی اور میرے  دل میں یہ خیال آیا کہ تسلیمہ نسرین اور سلمان رشدی خدا کی طرف سے  دھتکارے  ہوئے  لوگ ہیں، جن پر بدبختی کی مار پڑی ہے  کہ انھوں نے  اپنے  قلم کو ایسے  عظیم محسن کے  خلاف استعمال کیا ہے، ایک رات میں سویا تو میں نے  اپنے  دادا جن کو ہم ہندوستان کی زبان میں دیوتا سے  کم نہیں سمجھتے، پنڈت سری رام شرما جی کو خواب میں دیکھا بولے  پیارے  بیٹے  تو کہاں بھٹک گیا ہے، حضرت محمدﷺ ہمارے  وہ نراشنش ہی تو ہیں جن کو کلکی  اوتار بھی کہا گیا ہے،  ان کو ماننے  اور ان کی مانے  بنا مکتی (نجات)ہو ہی نہیں سکتی، میری مکتی بھی ان کاکلمہ پڑھ کر ہی ہوئی ہے، دھوکہ چھوڑ دے، مولانا کلیم کے  پاس جا اور حضرت محمدﷺ کا کلمہ پڑھ لے  اور جلدی کر، دیر مت کر۔

میری آنکھ کھلی تو میرے  دل کا حال عجیب تھا، پیارے  نبیﷺ کی محبت میں میں مجنوں ہوا جاتا تھا، اپنی تسکین کے  لئے  اس کتاب کو دوبارہ پڑھنے  کے  لئے  صبح چا ربجے  میں چھت پر چڑھا، رات میں ہلکی بارش ہو گئی تھی، وہ کتاب بالکل بھیگ گئی تھی، میں نے  اس کو اٹھا یا، آنکھوں سے  لگایا، چوما، نیچے  اترا، کچھ کاغذ جلائے  کتاب کو سکھایا اور پڑھنا شروع کیا، مجھے  بہت رونا آیا، کچھ دیر رک کر روتا رہا، روتے  روتے  سو گیا تو میں نے  خواب میں حضرت مولانا کلیم صاحب کودیکھا، کہہ رہے  ہیں پنڈت رام کرشن جی چلئے  آپ کو آپ کے  رسولﷺ سے  ملوادوں، میں نے  کہا، میں اسی لئے  آپ کے  پاس آیا ہوں، وہ مجھے  لے  کر ایک مسجد میں گئے، وہاں تکیہ لگائے  ہمارے  پیارے  نبیﷺ تشریف فرما تھے، اتنا خوبصورت چہرہ احمد بھائی میں بیان نہیں کر سکتا، کیسا حلیہ تھا، میں جا کر قدموں سے  چمٹ گیا، آپ نے  مجھے  بیٹھے  بیٹھے  گلے  لگایا اور کچھ پیار بھرے  الفاظ فرمائے، جو مجھے  یاد نہیں رہے، میری آنکھ کھل گئی، صبح ہوئی تو میں نے  پھلت جا نے  کی سوچی، مجھے  پتہ معلوم نہیں تھا، پہلے  میں سونی پت عید گاہ گیا، وہاں ایک ماسٹر صاحب نے  مجھے  پھلت کا پتہ بتایا، شام تک پھلت پہنچا مولانا صاحب موجود نہیں وہاں مجھے  ایک صاحب ماسٹر اسلام نامی نے، جو خود گڑھ مکتیشور کے  اودھت آشرم چلانے  والے  مہاراج کے  بیٹے  تھے، ان کے  والدکا بھی مسلمان ہو کر گڑھ مکتیشور چھوڑ کر پھلت میں انتقال ہوا تھا، ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘ کتاب دی، جو میں نے  کئی بار پڑھی، تیسرے  روز ۲۰۰۴ء کی بیس اپریل تھی، مولانا صاحب دوپہر کے  بعد آ گئے  آپ کی امانت نے  مجھے  مسلمان تو کر ہی دیا تھا، مولانا صاحب نے  مجھے  کلمہ پڑھوایا، میں نے  مولانا صاحب سے  کہا، کیا کوئی مسلمان پیارے  نبی کے  نام پر بھی اپنا نام رکھ سکتا ہے، مولانا صاحب نے  کہا ضرور! آپ کا نام میں  محمد احمد ہی رکھتا ہوں۔

سوال  :   اس کے  بعد کیا ہوا  ؟

جواب  : مولانا صاحب نے  مجھے  قبول اسلام کی قانونی کاروائی پوری کرنے  کا مشورہ دیا، اس کے  بعد مجھے  ۴۰/روز کی جماعت میں مرکز سے  بھیج دیا، میرا چلہ بھوپال میں لگا الحمد للہ نماز وغیرہ میں نے  یاد کر لی، ایک چلہ میں دس بار مجھے  پیارے  نبیﷺ کی زیارت ہو ئی،

سوال  : گروکل آشرم والوں نے  آپ کو تلاش نہیں کیا ؟

جواب  :  انھوں نے  مجھے  تلاش کیا ہو گا، مگر مولانا صاحب نے   جماعت سے  آنے  کے  بعدگروکل جا کر کام کرنے  کا مشورہ دیا میں نے  شیو پرشاد کو واپس اسلام کی طرف لانے  کی کوشش کی، مگر سچی بات یہ ہے  احمد بھائی، پوری دنیا میں (دھڑدھڑی لیتے  ہوئے  )  اس کمینہ جیسا بدبخت آدمی کو ئی نہیں ملا، اس کا نام مجھے  تڑپائے  رہتا ہے، میرا حال اب یہ ہے  کہ جس کو میرے  نبیﷺ سے  محبت نہ ہو میں اس کو خود اللہ کا دشمن سمجھتا ہوں، ہمارے  نبی کی شان میں گستاخی کرنے  والے  پر تو میں اللہ کا قہر سمجھتا ہوں اور جس طرح عذاب کی جگہ سے  ہمارے  نبی ﷺ نے  تیزی سے  گزرنے  حکم دیا ہے، اسی طرح سے  ایسے  آدمی کے  پاس جانا بھی خطرہ کی بات سمجھتا ہوں۔

سوال  : آپ نے  اس پر کام نہیں کیا؟

جواب  :  اصل میں میں نے  اس کی تہ میں جانے  کی کوشش کی کہ اللہ کا عذاب اس پر کیوں آیا، تو پتہ چلا کہ اصل میں اس نے  اپنی ماں کو بہت ستایا تھا، ایک بار اس نے  اپنی ماں کو ایک لات بھی ماری تھی، اس کی سزا میں اللہ نے  دنیا میں اس کو بدبخت بنایا اور پیارے  نبی کی اہانت کی سزا میں میں نے  اس کو دیکھا کہ کتے  کی موت مرا، گروکل آشرم والوں نے  اس کا کریا کرم کرنے  سے  منع کر دیا، اس کو پولیس والے  پاؤں میں رسی ڈال کر گھسیٹ کر لے  گئے  اور ایک گندے  نالے  میں ڈال کر کوڑے  میں دبا دیا، مجھے  اس سے  تسلی ہوئی کچھ غم نہیں ہوا، میرے  دل میں پیارے  نبی کی شان میں بے  ادبی کرنے  والے  کے  لئے  کوئی ترس کی جگہ بھی نہیں ہے، میں اپنے  اندر سے  مجبور ہوں۔

سوال  :  گروکل آشرم کے  لوگوں نے  آپ کو اس حلیہ میں دیکھ کر مخالفت نہیں کی؟

جواب  : میں نے  جماعت میں سے  آ کر حضرت مولانا کے  ہاتھوں پر بیعت کی اور حضرت مولانا صاحب کے  مشورہ سے  اسوہ رسول اکرمﷺ اور شمائل ترمذی خریدی، الحمد للہ اپنی بساط بھر سنتوں پر عمل شروع کیا، عمامہ، بال ہر چیز میں نبیﷺ کی پیروی کی کوشش کی، اس حلیہ میں جہاں تک گیا میری عزت ہوئی، آج تک چار سال ہونے  والے  ہیں، کسی نے  مجھے  اس حلیہ میں بے  ادبی کی نگاہ سے  نہیں دیکھا۔

سوال  : آپ پچھلے  سال عمرہ کے  لئے  گئے  تھے، وہاں کا سفر کیسا رہا؟

جواب  : مجھے  ہمارے  نبیﷺ کی یاد بہت بہت ستاتی تھی، مدینہ کی یاد بہت آتی تھی، الحمد للہ میں نے  اردو پڑھی، کچھ عربی بھی پڑھی، قرآن مجید کے  ترجمہ کی کلاسیں بھی میں نے  ناگپور جا کر کیں، اب میں سیرت پاک کی کتابیں پڑھتا ہوں، الحمد للہ سو سے  زیادہ کتابیں سیرت پاک کی پڑھ چکا ہوں، جیسے  جیسے  مدینہ کی باتیں میں پڑھتا، مدینہ کی یاد مجھے  بہت آتی، ایک روز میں نے  رات کو تہجد میں بہت دعا کی، میرے  اللہ کے  قربان جاؤں میرے  اللہ نے  سن لی، اللہ نے  اپنے  فضل سے  مجھے  بغیر پاسپورٹ اور بغیر ویزا بلکہ بغیر جہاز کے  میرے  حضرت کی برکت سے  مجھے  مدینہ پہنچایا اور مکہ معظمہ میں عمرہ بھی کیا۔

سوال  : وہ کس طرح، ایساکس طرح ممکن ہے ؟

جواب  :  جہاز، پاسپورٹ بھی اسباب ہیں جو اللہ پیدا فرماتے  ہیں، اللہ تعالی ایک سبب کے  پابند تو ہیں نہیں، وہ بغیر اسباب کے  کرنے  پر قادر ہیں، جہاز اور گاڑیوں کے  علاوہ بھی اللہ نے  بہت سی چلنے  والی چیزیں پیدا کی ہیں، کیا وہ کسی دوسرے  سبب کو ذریعہ نہیں بنا سکتا؟

سوال  : وہ کیا سبب تھا ہمیں بھی تو بتائیں ؟

جواب  :  احمد بھائی ابھی اس کا وقت نہیں آیا۔

سوال  : اچھا وہاں کی کچھ باتیں تو بتائیں ؟

جواب  :  وہاں میں ایک مہینہ رہا، میں نے  دو عمرے  مدینہ منورہ سے  کئے  اور سات مکہ معظمہ سے، مدینہ منورہ میں میں نے  بہت ہی اللہ کی رحمتوں کا ظہور دیکھا، میرے  اللہ نے  مجھ گندے  پر نبیﷺ کی محبت کی برکتیں ظاہر کیں۔

سوال  : ان میں سے  کچھ سنائیے ؟

جواب  :  وہ کسی دوسری مجلس میں انشاء اللہ عرض کروں گا۔

سوال  :  آج کل آپ کہاں رہ رہے  ہیں ؟

جواب  : میں آج کل بنارس میں رہ رہا ہوں، وہاں سے  دعوت کے  لئے  ہریدوار، رشی کیش، اجین، پشکر، الہ آباد، ایودھیا وغیرہ تیرتھوں میں جاتا ہوں۔

سوال   : وہاں پر کچھ نتائج بھی آئے  ہیں ؟ کیا کچھ لوگوں کو ہدایت بھی ہوئی ہے ؟

جواب  :  الحمد للہ بہت اچھے  نتائج برآمد ہو رہے  ہیں، انشاء اللہ جب وہ سامنے  آئیں گے  تو ہر مسلمان فخر کرے  گا، میرے  اللہ کا کرم ہے  کہ مجھ گندے  کو کہاں سے  نکال کر کہاں لائے  ہیں۔

سوال  :   آپ نے  شادی کر لی ہے   ؟

جواب  :  اصل میں اسلام قبول کرنے  سے  پہلے  میرا شادی کا خیال نہیں تھا اور اسلام کے  بعد مجھے  خاندانی ذمہ داریوں کا بوجھ مشکل لگتا تھا، مگر دو مہینے  پہلے  مولانا صاحب سے  ملنے  آیا تھاتو انھوں نے  مجھ سے  شادی کرنے  کے  لئے  کہا اور حدیث پاک سنائی، حدیث پاک سن کر میں بہت تڑپ گیا، میں نے  حضرت سے  کہا کہ اب میں حاضر ہوں چاہے  میری آج اور ابھی شادی کر دیں، اب مولانا صاحب جلد انشاء اللہ اس سلسلہ میں کچھ کرنے  والے  ہیں، دعا کیجئے  کہ کوئی نیک ساتھی مل جائے  اور میں اپنی اس زندگی کو بھی سنت کے  مطابق گزار سکوں۔

سوال  : آج کل سب سے  زیادہ وقت آپ کہاں لگا رہے  ہیں ؟

جواب  :  اصل میں مجھے  یہ خیال ہوا کہ اللہ کے  نبی ﷺ کی سب سے  بڑی سنت دعوت ہے، اس کے  لئے  آپ قرآن مجید پڑھ کر سناتے  تھے  اور آپ حافظ قرآن تھے  تو مجھے  خیال ہوا کہ ہمارے  نبی ﷺ کی اس سنت سے  میں محروم کیوں رہوں ؟ جب کہ میرے  اللہ نے  مجھے  اتنا اچھا ذہن دیا ہے، اس لئے  میں نے  حفظ شروع کیا، اللہ کا شکر ہے  کہ تین مہینے  میں سولہ پارے  حفظ کر لئے  ہیں، اب مجھے  بس قرآن مجید حفظ کر نے  کی دھن ہے  اس لئے  سب سے  زیادہ وقت میں قرآن مجید حفظ کرنے  میں لگارہا ہوں۔

سوال   بہت بہت شکریہ ! آپ کی گاڑی کا وقت ہو رہا ہے، کاشی سے  آپ جانے  والے  ہیں،

جواب   :  جی ہاں ! انشاء اللہ پھر کسی دوسری ملاقات پر بات ہو گی۔

مستفاد از ماہنامہ ارمغان، مارچ  ۲۰۰۸ء

٭٭٭

 

 

 

 

 

حکیم عبدالرحمن {امت کمار} سے  ایک ملاقات

 

احمد اواہ    :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

عبد الرحمن  :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال  : عبد الرحمن بھائی، ارمغان میں انٹرویو کا سلسلہ کافی عرصہ سے  جاری ہے  جس کے  ذریعہ لوگوں تک اپنے  نو مسلم بھائیوں کے  اسلام قبول کرنے  کا قصہ اور ان کے  اسلام قبول کرنے  کے  ذریعہ کو پیش کیا جاتا ہے، جس کا مقصد یہ ہے  کہ مسلمان بھائیوں میں ان کی روداد کو سن کر اسلامی زندگی اپنانے  کا جذبہ پیدا ہو جائے  اور ان کے  اندر بھی غیرمسلموں کو دعوت دینے  کی فکر اور قوت پیدا ہو جائے، اسی سلسلہ میں ابھی ابی کا فون آیا تھا کہ تمھارے  انٹرویو کی وجہ سے  ابھی تک ارمغان چھپنے  کے  لئے  نہیں گیا ہے، میں نے  عبد الرحمن کو پھلت میں ہی روک رکھا ہے، تم جلدی سے  جا کر ان سے  انٹرویو لے  لو اور مولانا وصی صاحب کو دے  آؤ۔

جواب  :  جی احمد بھائی! مجھے  معلوم ہے  اور میں ان انٹرویوز کو پڑھتا بھی ہوں اور مجھے  بھی ابی نے  انٹرویو دینے  کے  لئے  افتخار بھائی سے  کہلوایا تھا، میں بھی آپ کا ہی انتظار کر رہا تھا اس کے  بعد مجھے  بھی اجمیر جانا ہے۔

سوال  : آپ اپنا تعارف کرائیں ؟

جواب  :  میرا اسکول کا نام امت کمار تھا اور گھر میں مجھے  سب لوگ جگنو کے  نام سے  یاد کرتے  تھے، کھتولی کے  پاس ایک جگہ بھینسی ہے  وہاں کا رہنے  والا ہوں، میرے  والد صاحب کا نام ڈاکٹر موہن کمار صاحب ہے  اور ہم چار بہن بھائی ہیں، جن میں تین بھائی ہیں اور ایک بہن ہے۔

سوال  : آپ کی تعلیم کیا ہے ؟

جواب  :  میں نے  ہائی اسکول کیا ہے۔

سوال  : اپنے  قبول اسلام کے  بارے  میں بتائیں ؟

جواب  : احمد بھائی میں بچپن میں بہت شیطانی کیا کرتا تھا اور اسکول کا کام بھی وقت پر نہیں کرتا تھا اس لئے  مجھے  اپنا ہوم ورک پورا کرنے  کے  لئے  اپنے  دوستوں سے  کاپی لینی پڑتی تھی، ایک مرتبہ کا واقعہ ہے  کہ میں نے  اسکول کا کام پورا نہیں کیاجس کی وجہ سے  میں اپنے  ایک اسکول کے  ساتھی، شاید ان کا نام مستقیم ہے، کے  پاس گیا، وہ گھر پر نہیں تھے، ان کے  گھر والوں نے  بتایا کہ وہ مسجد میں ہیں، میں ان کے  پاس مسجد میں پہنچا تو انھوں نے  مجھے  کہا کہ تم مسجد میں کیسے  آ گئے  تم ناپاک ہو، باہر نکلو، میں کہنے  لگا کہ تم سے  اچھے  اور صاف کپڑے  پہن رکھے  ہیں تو ناپاک کیسے، وہ کہنے  لگے  نہیں تم ناپاک ہو، باہر نکل جاؤ، مجھے  ان پر بہت غصہ آیا وہ قرآن شریف پڑھ رہے  تھے، میں نے  کہا تجھ سے  اسکول کی چھوٹی چھوٹی کتابیں تو پڑھی نہیں جاتیں اتنی موٹی کتاب لے  کر بیٹھا ہے، وہ کہنے  لگے  یہ اللہ کا کلام ہے  اور اس کے  بارے  میں مجھے  سمجھا نے  لگے، مجھے  ان پر غصہ تو بہت تھا لیکن کاپی لینی تھی، اس لئے  کچھ نہ کہا اور کاپی لے  کر گھر چلا آیا، اگلے  دن تین چار لڑکوں کو لے  کر ان کا گریبان پکڑ لیا کہ چودھری ہونے  کے  باوجود تیری ہمت کیسے  ہوئی مجھے  مسجد سے  باہر نکالنے  کی، تیرے  باپ کی مسجد ہے، تو ہمارے  مندر میں چل، اگر تجھے  کسی نے  بھگایا یا کچھ کہا تو ہم دیکھیں گے  اسے، وہ کہنے  لگے  کہ بھائی یہ اللہ کا گھر ہے  اور اس میں ناپاک آدمی نہیں جاتے، اس نے  مجھ سے  کہا کہ تم مندر میں کیا پڑھتے  ہو، تو میں نے  اس کو اشلوک پڑھ کر سنایا پھر میں نے  اس سے  پوچھا تو بتا تو کیا پڑھ رہا تھا، وہ کہنے  لگا، وہ اللہ کلام تھا، تیری سمجھ میں نہیں آئے  گا، اس کو دل سے  پڑھتے  ہیں تو فائدہ ہو تا ہے، پھراس نے  مجھے  کلمہ پڑھوا دیا، احمد بھائی مجھے  ایسا لگا جیسے  کوئی نور میرے  اندر داخل ہو گیاہو۔

سوال  :   اس کے  بعد کیا ہوا؟

جواب  :  اس کے  بعد میں نے  پیکٹ انٹر کالج کھتولی میں ایڈمیشن لیا، وہاں پر جمعہ کے  دن نماز کے  لئے  کلاس میں اعلان کیا جا تا تھا کہ جو لوگ جمعہ کی نماز پڑھنا چاہتے  ہیں ہاتھ اٹھائیں، جو اسٹوڈنٹ ہاتھ اٹھاتے  تھے، ان کی چٹھی کر دی جاتی تھی، میں بھی اپنا سر نیچا کر کے  ہاتھ اٹھا دیتا تھا اور باہر جا کر ادھر ادھر گھومتا تھا، ایک مرتبہ جب جمعہ کی نماز کی چھٹی لے  کر باہر نکلا تو میرے  مسلمان ساتھیوں نے  کہا تم نماز کی ہر بار چھٹی لیتے  ہو اور نماز نہیں پڑھتے  اس لئے  وہ جمعہ کی نماز پڑھانے  کے  لئے  مجھے  ساتھ لے  گئے  اور انھوں نے  مجھے  نیت وغیرہ باندھنی سکھائی۔

سوال  :  پھر کیا ہوا؟

جواب  : اسکے  بعد میں جین انٹر کالج مظفر نگر چلا گیا، وہاں پر کھالہ پار ایک جگہ ہے، میں لسی پینے  کے  لئے  جایا کرتا تھا وہاں پر ایک صاحب مجھ سے  کہا کرتے، یار تو اتنا تو خوب صورت ہے  لیکن تو آگ میں جلے  گا، میں نے  کہا میں کیوں آگ میں جلوں گا ؟ وہ کہنے  لگے، سوا نیزہ پر سورج ہو گا، وہاں لوگوں کی کھوپڑیاں پکتی ہوئی ہوں گی، لیکن اس شخص کی نہیں پکیں گی جو ایمان والا ہو گا، وہ مجھے  بہت سمجھایا کرتے  اور میرے  ساتھ بہت اچھا برتاؤ کرتے  لیکن میں نے  ان کی بات پر زیادہ توجہ نہیں دی، لیکن جب میں کھتولی میں بڈھانہ روڈ پرنوزل پلنجر کا کام کرنے  لگا، تو میری وہاں انعام بھائی سے  ملاقات ہو ئی، انھوں نے  مجھے  اسلام کی دعوت دی اور مجھے  مولانا شکیل صاحب کے  پاس بھاوڑی لے  جا کر کلمہ پڑھوایا پھراس کے  بعد میں مسلسل نماز پڑھنے  لگا۔

سوال  : آپ پھلت میں کئی سال سے  نظر آتے  ہیں، یہاں آپ کو کس نے  بھیجا؟

جواب  :ہاں احمد بھائی، کھتولی میں ریاض الدین صاحب ہیں وہ مجھ سے  کہنے  لگے  کہ عبد الرحمن کام وغیرہ تو چلتا ہی رہتا ہے، ہر آدمی کام سیکھ بھی لیتا ہے، لیکن سب سے  پہلے  آپ کے  لئے  ضروری ہے  کہ آپ اسلام کوسیکھیں، سمجھیں اور جانیں اور اس پر عمل کریں، میں نے  کہا بہت اچھا، پھر انھوں نے  مجھے  سیکھنے  کے  لئے  پھلت بھیج دیا۔

سوال  : اچھا آپ نے  اسلام کب قبول کیا ؟

جواب  : اسلام تو میں نے  پیر کے  روز ۱۴/ جنوری ۱۹۹۱ء میں قبول کیا تھا، لیکن چودہ سال تک میں نے  کچھ نہ سیکھا اور اسی طرح گھومتا رہا، لیکن جب سے  ابی کے  پاس آیا ہوں، الحمد للہ میں نے  بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔

سوال  : ابی سے  آپ کی کیسے  ملاقات ہوئی اور کب ہوئی ؟

جواب  : تین سال پہلے  میری ابی سے  ملاقات ہوئی، احمد بھائی، میں پھلت میں ایک صاحب کے  یہاں رہتا تھا، ان کے  سا تھ میری ان بن ہو گئی، تو میں ان کے  پاس سے  گھر چلا گیا، گھر جانے  کا میرا مقصد کچھ اور تھا لیکن لوگوں نے  افواہ پھیلا دی کہ عبد الرحمن مرتد ہو گیا جب کہ ایسا کچھ نہیں تھا، جب میرا کام ہو گیا تو میں پھلت ابی کے  پاس آیا اس وقت میں بہت جنون میں تھا اور ہتھیاروں سے  لیس بھی تھا اور پھلت میں میرے  آنے  کا مقصد یہی تھا کہ میں ان کے  گولی مار دوں، لیکن میری یہ بات ابی کو میرے  کسی ساتھی کے  ذریعہ معلوم ہو گئی انھوں نے  مجھے  سمجھایا اور آپ ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کی قربانی کا میرے  سامنے  تذکرہ کیا، تو میں نے  صبر کیا اور جب سے  میں ابی کے  پاس آیا ہوں تب سے  میری زندگی میں سکون ہے۔

سوال  : اسلام کے  بارے  میں آپ نے  اب تک جو کچھ جانا، اس کا ذریعہ کیا ہے ؟

جواب  : لوگوں نے  مجھ سے  یہی سوال کیا ہے  کہ آپ کو کس چیز نے  متاثر کیا؟میں لوگوں سے  یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ مذہب اسلام کے  اندر کون سی چیز ایسی ہے  جو متاثر نہیں کرتی، مثال کے  طور پر سنت کے  مطابق لباس، چہرہ پر داڑھی کا ہونا، پانچ وقت کی نماز کا پڑھنا اور کم درجہ میں غیر ایمان والوں کے  ساتھ اپنے  معاملات جس کو کہ معاشرہ کا دین کہا جا تا ہے  اور ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانا یہ سب سے  اچھا لگا کہ ان میں برادری بازی نہیں ہوتی جب کہ ایک ماں باپ کی اولاد اور ایک گھر کے  پلے  ہوئے  ایک دوسرے  کا جھوٹا پانی تک نہیں پیتے  تھے، خود میرے  والد بھی میرے  جھوٹے  گلاس میں پانی تک نہیں پیتے  تھے  اور نہ میں ان کے  گلاس میں پیتا تھا، یہ سب باتیں بہت اچھی ہیں اور متاثر کرنے  والی ہیں، انھیں کو دیکھ کر میں نے  اسلام قبول کیا۔

سوال  : میں نے  آپ سے  سوال کیا تھا کہ اسلام کے  بارے  میں ابھی تک جو باتیں آپ نے  سیکھی ہیں وہ کس سے  یا کہاں سے  سیکھی ہیں، اس کا کیا ذریعہ رہا ہے ؟

جواب  : اس کا ذریعہ یہ ہوا کہ حضرت نے  مجھے  جماعت میں بھیجا وہاں جا کر میں نے  نماز وغیرہ ٹھیک سے  سیکھی اور اسلام کے  بارے  میں بہت کچھ جانا اور الحمد للہ تین چلے  میں جماعت میں لگا چکا ہوں اور آج اگر انسانیت میرے  اندر ہے  تو وہ صرف ابی کی وجہ سے  ہے، ابی نے  مجھے  ایسی باتیں بتائیں کہ میں اسلام کو کافی حد تک سمجھتا ہوں اور اس پر عمل کرنے  کی کوشش کرتا ہوں۔

سوال  : آج کل آپ کیا کر رہے  ہیں ؟

جواب  : میں نے  حکمت سیکھی ہے  اور مطب کھولنا چاہتا ہوں۔

سوال  : حکمت کی طرف آپ کا کیسے  رجحان ہوا ؟

جواب  : احمد بھائی ! ابی نے  مجھ سے  کہا کہ عبد الرحمن کچھ کام کر لو خالی رہنا اچھی بات نہیں ہے، میں نے  ابی سے  کہا کہ میں ڈرائیونگ سیکھنا چاہتا ہوں وہ کہنے  لگے  یہ کوئی کام تو ہے  نہیں، میں نے  کہا کہ مدرسہ میں کینٹین کھول لیتا ہوں، ابی کہنے  لگے  کہ میں کہیں رشتہ لے  کر جاؤں گا وہ کہیں گے  کہ لڑکا کیا کام کرتا ہے  تو ان کو بتانا پڑے  گا کہ چائے  کی دوکان کرتا ہے  اور گلاس دھوتا ہے، کوئی ایسا کام کرو، جس سے  ہمیں بھی خوشی ہو، تو میں نے  کہا اگر آپ کی اجازت ہو تو میں حکمت سیکھنا چاہتا ہوں، ابی نے  مجھے  اسی دن دیوبند حکیم آصف کے  پاس بھیج دیا، وہاں پر کچھ دن میں نے  حکمت سیکھی، اس کے  بعد ڈاکٹر نذر الاسلام نے  مجھے  کام سکھایا، ایک سال کے  بعد ابی نے  مجھے  حکیم جمیل کے  پاس روڑکی بھیج دیا، میں وہاں سے  ایک سال کے  بعد لوٹ کر آیا ہوں اور اب یہ ارادہ ہے  کہ انشاء اللہ قوم کو نفع پہنچانا ہے۔

سوال  :  آپ کی اپنے  والدین سے  ملاقات ہے ؟

جواب  : ہاں احمد بھائی میں ان کے  پاس گیا تھا تو انھوں نے  مجھے  سمجھایا کہ اپنے  مذہب میں آ جاؤ، کہاں ان ملاؤں کے  چکر میں پڑ گئے، میں نے  کہا میں ملاؤں کے  چکر میں نہیں ہوں بلکہ ایک سچے  مذہب کو مانتا ہوں اور آپ کو بھی کہتا ہوں کہ اسلام قبول کر لیجئے، ایک روز گھر پر دودھ نکال رہا تھا، میری سوتیلی ماں ہے، جس کے  برے  برتاؤ کی وجہ سے  میں نے  گھر چھوڑا تھا اور ا سلام کی طرف راغب ہوا تھا اگر وہ نہ ہوتی تو شاید ہی میں اسلام قبول کرتا اس طرح اس کا مجھ پر بڑا احسان ہے، کہنے  لگی کہ واپس آ جاؤ ابھی بھی موقع ہے، میں نے  اس سے  کہا یہ دودھ جو میں نے  بھینس کے  تھن سے  نکالا ہے، جیسے  اس کو واپس تھن میں نہیں ڈالا جا سکتا ویسے  ہی میں اسلام کو چھوڑ کر واپس نہیں آ سکتا، اس سائنسی دور میں تو اس دودھ کو واپس تھن میں ڈالنے  کے  بارے  میں سوچا بھی جا سکتا ہے، لیکن میرے  واپس آنے  کے  بارے  میں سوچنا بھی نہیں، اس کے  بعد گھر والوں نے  سوچا کہ یہ تو مانے  گا نہیں، اس کا کام تمام کر دیں، نہ رہے  گا بانس نہ بجے  گی بانسری، یہ بات مجھے  میری چھوٹی بہن نے  بتائی کہ گھر والوں کایہ پروگرام ہے، اس لئے  یہاں سے  بھاگ جاؤ، میں رات کو ہی گھر سے  نکل گیا، گھر والے  میرا پیچھا کرتے  ہوئے  آ گئے، مجھے  آیت الکرسی یاد تھی میں نے  پڑھ کر اپنے  اوپر دم کیا اور ایک جگہ چھپ کر کھڑا ہو گیا، احمد بھائی وہ میرے  پاس سے  کئی مرتبہ گزرے  لیکن مجھے  دیکھ نہیں پائے، اس کے  بعد وہ واپس چلے  گئے، میں نے  صبح ان کوفون کیا تو کہنے  لگے، اس بار تو بچ گیا، اگلی مرتبہ نہیں چھوڑیں گے۔

سوال  : اس کے  بعد آپ کی ان سے  کبھی ملاقات ہوئی؟

جواب  : نہیں احمد بھائی، ملاقات تو کبھی نہیں ہوئی، کیونکہ وہ غازی آباد میں شفٹ ہو گئے  ہیں، لیکن ایک مرتبہ والد صاحب کو دور سے  کھتولی میں دیکھا تھا۔

سوال  : کیا آپ نے  والدہ کو دعوت نہیں دی؟

جواب  : دعوت تو دی اور ایک مرتبہ تو وہ اسلام قبول کرنے  کو راضی بھی ہو گئی تھیں اور وہ اسلام کو سمجھنے  کے  لئے  پھلت بھی آ گئی تھیں لیکن جہاں میں پہلے  رہتا تھا وہ میری والدہ سے  بات کر رہے  تھے  لیکن شاید اس وقت ہدایت ان کے  نصیب میں نہیں تھی، ان کے  پاس ایک نیتا جی آ گئے  اور وہ میری والدہ کو چھوڑ کر چلے  گئے، میری والدہ نے  دو گھنٹے  تک انتظار کیا لیکن وہ نہیں آئے، میں نے  ان کا خوب خیال رکھا اور ان کی خدمت بھی کی، لیکن وہ بد ظن ہو کر چلی گئیں اور اس کے  بعد مجھ سے  فون تک پر بات نہیں کی، لیکن آج کل میری والد صاحب پر کوشش چل رہی ہے، والد صاحب نے  گنگوہ میں کلینک کر رکھی ہے  میں ابھی جماعت میں گیا تھا تو ہماری جماعت کے  امیر صاحب گنگوہ ہی کے  تھے  میں نے  ان سے  بات کی، آج کل وہ والد صاحب پر کام کر رہے  ہیں بس آپ سے  اور قارئین ارمغان سے  دعا کی درخواست ہے  کہ اللہ تعالی ان کو جلد سے  جلد ایمان قبول کرنے  کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

سوال  : اسلام قبول کرنے  کے  بعد کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟

جواب  :  بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا، جن میں سب سے  زیادہ مشکل یہ ہے  کہ میرے  گھر پر بہت ساری بھینس وغیرہ تھیں لیکن میں نے  کبھی ان کا گوبر نہیں اٹھایا گھر چھوڑنے  کے  بعد مجھے  یہ سب کام کرنے  پڑے، جھیلنا پڑا، یہاں تک کہ میں نے  مزدوری بھی کی۔

سوال  : اور کوئی زندگی کا اچھا سا واقعہ سنائیے ؟

جواب  : میری نظام الدین سے  کولہا پور جماعت جا رہی تھی، اس میں شریک تھا، سفر میں نکلنے  سے  پہلے  کچھ ہمیں سفر کے  آداب بتائے  گئے  اور یہ بھی بتایا گیا کہ سفر میں جو بھی دعا مانگی جاتی ہے  قبول ہوتی ہے، ہم ٹرین میں بیٹھے  تو مجھے  ان کی یہ بات یاد آئی، میرے  پیر میں زخم تھا میں نے  ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی اے  اللہ تیرا نیک بندہ ہمیں یہ بات بتا رہا تھا کہ سفر میں جو دعا مانگی جاتی ہے  وہ قبول ہوتی ہے  میں بہت گناہگار ہوں، میری بھی دعا قبول فرما لے، میرے  پیر میں جو زخم ہے  اس کو ٹھیک کر دے، احمد بھائی کولہا پور اسٹیشن سے  پہلے  پہلے  میرا یہ زخم بالکل ٹھیک ہو گیا، آج جو بھی میں اللہ سے  مانگتا ہوں الحمد للہ ملتا ہے۔

سوال  : قارئین ارمغان کو کچھ پیغام دینا چاہیں گے ؟

جواب  : مسلمان بھائیوں کے  لئے  یہ پیغام ہے  کہ خود بھی دین پر رہیں جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا آمِنُوْا ’’اے  ایمان والو ایمان لے  آو‘‘ میں سترہ سال پہلے  جو بات ایمان والوں کے  اندر دیکھتا تھا وہ اب نظر نہیں آتی، مجھے  جن لوگوں نے  اسلام کی دعوت دی تھی آج میں ان کو دیکھتا ہوں کہ وہ نماز تک نہیں پڑھتے، میں نے  ان سے  کہا کہ تم نے  مجھے  یہاں تک پہنچایا اور خود کہاں پہنچ گئے، ایمان کے  اندر پورے  کے  پورے  داخل ہونے  کا مطلب یہ ہے  کہ ہم اللہ کے  رسول کی سنت اور اللہ کے  حکم کے  تابع ہو جائیں اور دوسروں کو دین پر چلنے  کی دعوت دیں، اس سے  بڑا اللہ نے  ہمیں کوئی کام نہیں دیا، باقی سب تو اخراجات پوری کرنے  کی بات ہے۔آج جو ابی کا کام ہے  وہ یہی ہے  اور ان کی سوچ اور کڑھن بھی یہی ہے  اور رات دن ان کا محنت کرنا وہ سب دین کے  لئے  ہے، کیوں نہ ہم سب ایمان والے  ایسے  ہی بن جائیں تو انشاء اللہ میں سمجھتا ہوں کہ کفر کا نام اس دنیا سے  ختم ہو جائے  گا اور ہر طرف اسلام ہی اسلام نظر آنے  لگے  گا۔

مستفاد از ماہنامہ ارمغان، اپریل  ۲۰۰۸ء

٭٭٭

 

 

 

 

محمد سلمان {رام ویرسنگھ} وزیرآباد دہلی سے  ایک ملاقات

 

احمد اواہ  :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

محمد سلمان :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال  : سب سے  پہلے  آپ اپنا تعارف کرائیں ؟

جواب  : مجھے  ہندو مذہب میں رام ویر سنگھ کہا کرتے  تھے  لیکن جب ۱۹۹۴ء میں میں نے  بودھ مذہب قبول کیا تو میں نے  اپنا نام ویر چھٹّو رکھا، پھر ۱۹۹۷ء میں عیسائیت کو قبول کیا وہاں پر ان لوگوں نے  بپ ٹائز(Baptise)کرا دیا تھا نام نہیں بدلا تھا اور میرا اسلامی نام محمد سلمان ہے، ہم لوگ میرٹھ کے  رہنے  والے  ہیں لیکن اب دہلی میں رہ رہے  ہیں، میرے  والد بہت کم عمری میں دہلی آ گئے  تھے  اور دہلی کو ہی اپنا وطن بنا لیا تھا، میری پیدائش بھی دہلی کی ہی ہے  اور اب ہم دہلی کے  محلہ وزیرآباد میں رہ رہے  ہیں۔

سوال  : آپ کی تعلیم  ؟

جواب  : میں نے  انگلش اور مارشل آرٹ میں ایم اے  کیا ہے، میں تین سال تک دہلی صوبہ کا مارشل آرٹ کا چمپین بھی رہ چکا ہوں، میں مشرقی دہلی میں ایک کوچنگ انسٹی ٹیوٹ چلاتا ہوں انگلش اسپیکنگ کورس خاص طور پر میرا شوق رہا ہے۔

سوال  :آپ نے  اسلام کب قبول کیا؟

جواب  :  میں نے  ۶/ اپریل ۲۰۰۷ء کو اسلام قبول کیا۔

سوال  :   آپ نے  بدھ مذہب اور عیسائیت کو کب اور کیسے  قبول کیا؟کیا کسی نے  آپ کو دعوت دی تھی؟

جواب  : احمد بھائی، اصل میں حق میری پیاس تھی، اس کی تلاش مجھے  در در لئے  پھری، مجھے  دنیا میں سکون کی تلاش تھی، میرے  اللہ کا کرم ہے  کہ اللہ نے  مجھے  کتنے  باطل کے  مزے  چکھائے، اب اسلام میرے  لئے  تحقیقی مذہب ہے  تقلیدی نہیں۔میں نے  ۱۹۹۴ء میں بدھ مذہب اختیار کیا میرے  گھر سے  تقریباً ڈیڑھ کلو میٹر دور بنتھے  ویر چھٹّو (امام)رہتے  ہیں ان کے  نام پر ہی میں نے  اپنا نام ویر سنگھ سے  ویر چھٹّو رکھا تھا انھوں نے  مجھے  بدھ مذہب کی دعوت دی اور کسی فارن کنٹری میں بھیجنے  کا لالچ دیا، میں نے  ان کی بات مان لی اور یہ مذہب قبول کر لیا۔

سوال  : آپ نے  اس مذہب کو کیسے  چھوڑا؟

جواب  : میرا ان کے  گھر پر آنا جانا تھا اور وہاں میں بے  تکلفی سے  رہا کرتا تھا ایک مرتبہ میں نے  ان کا فریج کھولا، تو پورک (خنزیر)کا گوشت رکھا ہوا تھا میں اس کو دیکھتے  ہی سمجھ گیا کہ اس مذہب کے  جھوٹا ہونے  کے  لئے  یہی کافی ہے  کہ یہ لوگ پورک کھاتے  ہیں اور یہ بات میں ان سے  کہہ کر چلا آیا کہ امن کا ڈھونگ بھرتے  ہیں اور گوشت کھاتے  ہیں، وہ بھی گندے  جانور کا۔

سوال  : آپ نے  عیسائیت کو کیسے  قبول کیا؟

جواب  :  میری والدہ مستقل چرچ میں جایا کرتی تھیں، ان کے  ساتھ مجھے  بھی جا نا پڑتا تھا، وہاں پر جو پادری تھے  وہ مجھے  عیسائیت کے  بارے  میں سمجھاتے  تھے  اور میرے  ساتھ بہت اچھا برتاؤ کیا کرتے  تھے، کبھی مجھے  گلے  لگاتے  اور کبھی بہت محبت کا اظہار کرتے  مجھے  ان کی یہ باتیں بہت اچھی لگیں اور میں ان سے  بہت متاثر ہوا کہ کتنے  اچھے  لوگ ہیں، انھوں نے  مجھ سے  اتنی محبت کا اظہار کر کے  عیسائیت کی طرف مائل کر لیا اور میں نے  عیسائیت کو قبول کر لیا، وہ بھی بنتھے  ویر چھٹّو کی طرح مجھ سے  کہا کرتے  تھے  کہ تم ہمارے  ساتھ رہو، ہم تمھیں باہر ملک میں لے  جائیں گے، لیکن اللہ تعالی کو کہیں بھیجنا منظور نہ تھا اس لئے  اس نے  مجھ سے  اس مذہب کی حقیقت کو کھول دیا اور میں نے  وہی ہندو مذہب کی طرح کی مورتی پوجا کو دیکھ کر اس مذہب کو چھوڑ دیا۔

سوال  : اس کے  بعد کیا ہوا، آپ کے  اسلام کی طرف مائل ہو نے  کا کیا راستہ بنا؟

جواب  : اصل میں حق میری پیاس تھی، دور  دور تک مجھے  بے  چینی اور ڈھونگ کے  علاوہ کچھ دکھائی نہ دیا، میں روحانیت اور سچ کی تلاش میں تھا، میرے  ایک ہندو دوست نے  مجھے  بدایوں کے  ایک پیر صاحب سے  ملوایا، جو دہلی آیا کرتے  تھے، مجھے  بدایوں جانے  کو کہا، میں بدایوں ان کی درگاہ میں گیا، وہاں لوگ مرید ہو رہے  تھے، وہاں کے  کچھ لوگوں نے  مجھے  بھی کپڑا پکڑوا دیا ا ور مجھ سے  کہا کہ آپ ہمارے  حضرت صاحب سے  مرید ہو گئے، انھوں نے  کلمہ اور اللہ کا ذکر بتایا، احمد بھائی ! مجھے  کلمہ اور اللہ کے  ذکر میں تو مزا آتا تھا، مگر ان پیر صاحب کا سارا نظام ہندوؤں کی طرح ہی لگتا تھا، بس مورتی کی جگہ پیر بدل گیا تھا، پیر صاحب کو سب سجد ہ کرتے  تھے، مجھے  بھی نہ چاہتے  ہوئے  یہ سب کرنا پڑتا تھا، میں چند بار بدایوں گیا مگر مجھے  گھر پر رہ کر ذکر میں تو چین سا ملتا تھا، مگر وہاں جا کر پھر وہی بے  چینی ہو جاتی تھی۔

سوال  :کیا پیر صاحب نے  آپ کو کلمہ پڑھایا اور باقاعدہ  مسلمان بنایا ؟

جواب  : نہیں، ان کے  یہاں اپنے  مذہب میں رہ کر ہی سب ان کے  مرید رہتے  ہیں

سوال  : پھر اسلام قبول کرنے  کا کیا واقعہ ہوا ؟

جواب  : ہمارے  گھر میں تعمیر کا کام چل رہا تھا، مجیب بھائی سے  میں نے  کچھ سامان خریدا مجیب بھائی نے  ایک بار مجھے  اسلام کے  بارے  میں بتایا اور اسلام قبول کرنے  کی دعوت دی میں نے  اپنی حق کی تلاش اور در بدر مارے  مارے  پھرنے  کی داستان سنائی اور پیر صاحب سے  بیعت ہونے  کی بات بھی بتائی، انھوں نے  مجھ سے  اسلام قبول کرنے  کے  بارے  میں سوال کیا تومیں نے  بتایا کہ پیر صاحب اپنے  مذہب میں رہ کر سب کو مرید کرتے  ہیں، تو وہ بہت ہنسے  اور میرا مذاق سا اڑایا اور مجھ سے  حضرت مولانا کلیم صاحب صدیقی کا تعارف کرایا اور بتایا کہ سچے  پیر ایسے  ہوتے  ہیں آپ ان سے  ملیں تو پھر آپ کو در در بے  چین پھرنا نہیں پڑے  گا، میں نے  وعدہ کر لیا اور تین روز کے  بعد ہم پھلت کے  لئے  چلے  راستہ میں مجیب بھائی نے  اسلام کے  بارے  میں مجھے  تفصیل سے  بتایا ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘ مجھے  دی، میں نے  اسے  پڑھا، مجھے  ایسا لگا کہ جس حق کو تو تلاش کر رہا ہے  وہ تجھے  مل گیا ہے، ہم لوگ مغرب کے  بعد پھلت پہنچے  حضرت نے  مجھے  محبت سے  گلے  لگایا بہت وقت دیا اور مجیب بھائی کے  کہنے  سے  دوبارہ کلمہ پڑھوایا، حضرت مولانا نے  مجھے  توحید اور شرک کے  سلسلہ میں خاص طور پر بڑی تفصیل سے  بتایا، جس سے  میرا دل بہت مطمئن ہو گیا حضرت نے  مجھے ’’مرنے  کے  بعد کیا ہو گا؟ ‘‘ اسلام کیا ہے ؟ اور خطبات مدراس کا ترجمہ پڑھنے  کا مشورہ دیا میں نے  دہلی جا کر کتابیں خریدیں، ان کتابوں کو پڑھ کر مجھے  ایسا لگا کہ اندھے  کو آنکھیں مل گئیں، میں نے  حضرت سے  کہا کہ بڑی تعداد مسلمانوں کی بھی توحید سے  دور ہے  اور پیر پرستی کرتی ہے، خود میرے  پیر صاحب سجدہ کرواتے  ہیں، ان کو شرک سے  روکنے  کی کوشش کرنی چاہئے، میں نے  حضرت سے  کہا کیا میں پیر صاحب کو سمجھانے  کی کوشش کروں ؟حضرت نے  فرمایا کہ انھوں نے  آپ کو ذکر بتایا ہے  وہ آپ کے  محسن ہیں  ان کو سمجھانے  کی کوشش کرنی چاہئے، مجیب بھائی کے  مشورہ سے  میں نے  حضرت مولاناسے  بیعت کی درخواست کی حضرت نے  فرمایا کہ آپ پڑھے  لکھے  آدمی ہیں، آپ کو ہر فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہئے  اب تک آپ بہت جلدی میں فیصلے  کرتے  رہے  ہیں یہ فیصلہ اور بھی زیادہ سوچ سمجھ کر کرنا چاہئے، میں نے  اصرار کیا کہ حضرت مجھے  اپنے  اللہ سے  قوی امید ہے  کہ میرے  اللہ نے  مجھے  بھٹکا بھٹکا کر منزل تک پہنچا دیا ہے، اب انشاء اللہ ان کے  بعد مجھے  کہیں جانے  کی ضرورت نہیں، میرے  بہت اصرار پر حضرت نے  مجھے  بیعت کر لیا،  الحمد للہ۔

سوال  :  پھر آپ اپنے  پہلے  پیر صاحب سے  ملنے  نہیں گئے ؟

جواب  : میں گیا اور ان کو شرک کی برائی مثالوں سے  بتانے  کی کوشش کی، شروع میں تو وہ بہت غصہ ہوئے  اور بولے  یہ چوبیس نمبری ہو گیا ہے، کسی وہابڑے  کے  چکر میں آ گیا ہے  لیکن میں نے  ہمت نہیں ہاری بار بار ان سے  ملتا رہا، وہ رفتہ رفتہ نرم پڑتے  گئے  انھوں نے  ایک روز کوئی خواب دیکھا، اب وہ انشاء اللہ ہمارے  حضرت سے  مرید ہونے  آنے  والے  ہیں وہ اب اس راہ سے  توبہ کر کے  ادھر حق پر آنے  کو تیار ہیں ان کے  ساتھ مجھے  امید ہے  ان کے  ہزاروں مرید بھی شرک اور خرافات سے  توبہ کریں

گے۔

سوال  :کیا اس سے  پہلے  آپ کو کسی نے  اسلام کی دعوت نہیں دی ؟

جواب  :  دعوت تو نہیں دی لیکن میرے  دوستوں نے  مجھے  اسلام کے  بارے  میں بتایا اور ممبئی میں بھی مجھے  ایک صاحب نے  اسلام کے  متعلق بہت سی باتیں بتائیں لیکن وہ مجھے  ٹھیک سے  سمجھا نہیں پائے  اور کچھ مسلمانوں سے  مجھے  نفرت بھی تھی کیونکہ جہاں میں رہتا ہوں وہاں پر مسلمان ہر برا کام کرتے  ہیں، کرائم کرنا اور شراب پینا ان کے  لئے  عام بات تھی، اس لئے  مجھے  مسلمان پسند نہیں تھے  اور جو لوگ مجھے  اسلام کے  بارے  میں بتاتے  تھے  وہ اسلام سے  خود بہت دور تھے  ان میں کوئی بھی اسلامی بات نہیں پائی جاتی تھی، اس لئے  بھی ان کی باتوں نے  مجھ پر کوئی اثر نہیں کیا۔

سوال  : اسلام قبول کرنے  کے  بعد آپ نے  تربیت کہاں حاصل کی اور اسلام کے  بارے  میں کہاں سے  جانا؟

جواب  :  اسلام کے  بارے  میں مجھے  مجیب بھائی نے  بتایا، مجھے  جب بھی کوئی مشکل پیش آتی تھی، تو میں مجیب بھائی کے  پاس آ کر اس کو حل کر لیتا تھا اور بہت سی باتیں کتابوں سے  سیکھی ہیں۔

سوال  : جماعت میں بھی آپ نے  کبھی وقت لگایا ہے ؟

جواب  :  جی ہر مہینہ تین دن کیلئے  جماعت میں جاتا ہوں۔

سوال  : اسلام قبول کرنے  کے  بعد آپ نے  کیسا محسوس کیا ؟

جواب  : اسلام قبول کرنے  کے  بعد میں نے  بہت اچھا محسوس کیا، کیونکہ مجھے  مکمل زندگی گزارنے  کا طریقہ مل گیا ہے، معاشرہ میں کس طرح رہنا ہے  اور لوگوں سے  کیسے  میل جول رکھنا ہے  اور کیسے  معاملات ہونے  چاہئیں مجھے  ایک مثبت فکر مل گئی اور میں نے  بہت سکون محسوس کیا۔

سوال  : آپ نے  اپنے  گھر والوں پر دعوت کا کام نہیں کیا؟

جواب  :  میرے  حضرت نے  الحمد للہ میرے  دل و دماغ میں یہ بات بٹھا دی ہے  کہ مسلمان کی زندگی کا مقصد، اس کا پیشہ اور اس کی پہچان دعوت ہونی چاہئے  اور یہ مسلمانوں میں جو اسلام دکھائی نہیں دیتا اس کی وجہ یہ ہے  کہ مسلمان اپنے  دعوتی منصب سے  غافل ہیں، اس لئے  تم اگر داعی بن کر نہ رہے، جس طرح نمک کی کان میں ہر چیز نمک بن جاتی ہے، تم بھی اسلام کے  نعرے  اور حقیقت سے  محروم نام کے  مسلمان بن کر رہ جاؤ گے۔ الحمد للہ میں نے  داعی بن کر جینے  کی کوشش کی اور اس کے  صدقہ میں اللہ نے  میرے  بیوی بچوں کو اسلام کی دولت سے  نوازا، میری اہلیہ نہ صرف یہ کہ وہ مسلمان ہو گئیں بلکہ وہ میری بہت مضبوط دعوتی رفیق ہیں، اس کے  بعد میرے  والد صاحب مشرف بہ اسلام ہوئے، اللہ کی رحمت پر قربان جاؤں کہ میرے  حضرت اور مجیب بھائی دعوتی مشکل مراحل پر مجھے  بڑی امید کے  ساتھ بھیجتے  ہیں اور اللہ کا شکر ہے  کہ اللہ تعالی حضرت کی امید کی لاج رکھتے  ہیں۔

سوال  : ایک دو واقعات سنائیے ؟

جواب  :  مدھیہ پردیش کے  ایک سید گھرانہ کی لڑکی ایک ہندو لڑکے  کے  ساتھ دہلی آ گئی تھی اور کورٹ میریج کر کے  دہلی میں ہندو بن کر اس کے  ساتھ رہ رہی تھی، ان کے  چچا اور ماموں حضرت کے  یہاں آئے  حضرت نے  مجھے  فون کیا، مجیب بھائی اور میں نے  اس لڑکی سے  اپنے  شوہر سے  ملوانے  کو کہا، مگر وہ راضی نہ ہوئی اور ہمیں بھی دعوت سے  روکتی تھی کہ اگر آپ دعوت دیں گے  تو وہ مجھے  چھوڑ دیں گے، حضرت نے  فون پر مجھ سے  کہا تھا، اگر ان دونوں کو کلمہ پڑھوا کر نکاح کروا دیا تو پیٹ بھرکے  مٹھائی کھلائی جائے  گی ہم لوگ لگے  رہے، میں نے  لڑکے  کے  دفتر جا کر لڑکی کو خبر کئے  بغیر جا کر بات کی الحمد للہ پہلی میٹنگ میں اس نے  کلمہ پڑھ لیا اور بعد میں لڑکی کو بھی ایمان کی تجدید کروائی اور جعفر آباد بلا کر ان کا نکاح کروایا اب وہ دونوں اسلامی زندگی گزار رہے  ہیں، حضرت بہت خوش ہوئے  ہمارے  ماتھوں کو چوما اور فوراً مٹھائی منگوا کر مٹھائی کھلوائی۔

ایک جج کے  پاس حضرت نے  ہمیں دعوت کے  لئے  بھیجا الحمد للہ انھوں نے  بھی کلمہ پڑھا، اصل میں احمد بھائی، سچی بات یہ ہے  کہ حضرت سچ فرماتے  ہیں کہ ہدایت تو اتری ہوئی ہے  ہم لوگ جہاں جائیں کوشش کریں لوگوں کے  لئے  اتری ہوئی ہدایت ہماری جھولی میں آ سکتی ہے۔

مجھے  ایک رات عشاء کے  بعد معلوم ہوا کہ ایک مسلمان وکیل نے  ایک مسلم لڑکی کی شادی ایک ہندو لڑکے  کے  ساتھ شدھی کرا کے  کروا دی ہے، میں بیان نہیں کر سکتا میرے  بدن میں غصہ میں آگ سی لگ گئی، ساڑھے  دس بجے  وکیل صاحب کا پتہ معلوم کر کے  میو ر وہار ان کے  گھر گیا، میں نے  ان سے  کہا آپ مسلمان تو نہیں انسان بھی نہیں، انسان سے  ہمدردی اگر آپ کو ہوتی تو ہر ایک کو مرنے  کے  بعد دوزخ کی آگ سے  بچانے  کی کوشش کرتے، آپ نے  ایک دوسری کو بھی جہنمی بنا دیا، آپ خود مسلمان نہیں رہے، کیا آپ کو مرنا نہیں، مجھے  پتہ بتائیے  وہ لڑکی لڑکا کہاں رہ رہے  ہیں ؟وہ کہنے  لگے، فائل میرے  دفتر میں ہے، صبح لے  لینا، میں نے  کہا رات کو دونوں مر گئے  تو کیا ہو گا میں نے  دباؤ دیا کہ مجھے  پتہ ابھی چاہئے  میں نے  ساڑھے  دس بجے  ان کو دفتر لے  جا کر فائل نکلوائی اور ساڑھے  گیارہ بجے  ان کے  فلیٹ پر پہنچا اور ان سے  بات کی، کہ رات کو میں اس لئے  آپ کے  پاس آیا کہ اگر رات کو آپ کی یا میری موت ہو گئی تو آپ کا کیا ہو گا، ایک بجے  تک بات ہوتی رہی، الحمد للہ ایک بجے  اس لڑکے  نے  جو کمپیوٹر انجینئر تھا کلمہ پڑھا، لڑکی کا حال بھی یہ تھا کہ اسے  کلمہ یاد نہیں تھا، میں نے  اگلے  روز ان کا نکاح پڑھوایا اور اپنی اہلیہ کو اس لڑکی کو دین سکھانے  کے  لئے  بھیجنا شروع کیا، الحمد للہ اس نے  نماز پڑھنا شروع کر دی۔

سوال  : اسلام قبول کرنے  کے  بعد کیا کچھ مشکل کا سامنا کرنا پڑا؟

جواب  : اسلام جیسی نعمت کے  مقابلہ میں جو کچھ مشکل آئی وہ کچھ بھی نہیں تھی اصل میں قیمتی چیز بڑی قیمت پر خریدی جاتی ہے، چاندی کے  لئے  کم قیمت اور سونے  کے  لئے  زیادہ قیمت دینی پڑتی ہے، ایمان سے  زیادہ کائنات میں کوئی چیز قیمتی نہیں، اللہ نے  اس بندہ کو بالکل سستے  میں عطا فرما دی، کچھ تھوڑی تھوڑی مشکلیں آئیں ان میں سب سے  پہلی یہ تھی کہ میرے  انسٹی ٹیوٹ سے  سارے  اسٹوڈنٹ چھوڑ کر چلے  گئے  کہ یہ تو پڑھا لکھا جاہل ہو گیا اور میرا روزگار کا مسئلہ مشکل ہو گیا، مگر اللہ نے  جلد ہی مسلمان لڑکوں کی بڑی تعداد بھیج دی اور بعد میں ان میں سے  بھی بہت سے  لڑکے  دوسری جگہ ناکام ہو کر میرے  یہاں واپس آ گئے۔سسرال والوں نے  بائیکاٹ کر دیا، مکان بنانے  میں کچھ لوگوں کا قرض ہو گیا تھا، ان لوگوں نے  میرے  مسلمان ہونے  کے  بعد بہت سختی کی، مگر یہ معمولی باتیں ہیں، یہ تو عام آدمی کی زندگی میں آتی ہیں، ان مشکلوں نے  مجھے  دعا کا مزہ سکھا دیا اور الحمد للہ دعا کی قوت پر میرا اعتماد بڑھا۔

سوال  : کچھ اور لوگوں نے  بھی آپ کی دعوت پر اسلام قبول کیا ہے  اس کی کچھ تفصیلات؟

جواب  :  الحمد للہ ایک خاصی تعداد ہے۔

سوال  : وہ تعداد کتنی ہو گی؟

جواب : ہمارے  حضرت یہ کہتے  ہیں کہ جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے  ان تک دعوت پہنچانی ہے  وہ ساڑھے  چار ارب ہیں، ان کے  مقابلے  میں جو مسلمان ہوئے  وہ بالکل نہ کے  برابر ہیں تاہم ہم گندوں کو اللہ نے  ذریعہ بنایا اور اس پر ہم اللہ کا کروڑوں کروڑ شکر ادا کرتے  ہیں، الحمد للہ بڑی تعداد تو ایسے  لوگوں کی ہے  کہ خاندانوں کے  لئے  مسئلہ بنے  ہوئے  تھے، اللہ نے  ہم دونوں کو ہدایت کا ذریعہ بنایا۔

سوال  : ارمغان کے  قارئین کے  لئے  کچھ پیغام آپ دیں گے   ؟

جواب  : پوری انسانیت حق کی پیاسی ہے، سراب دیکھ کر ان کو پانی کا گمان ہو تا ہے، کبھی اس مذہب میں، کبھی اس مذہب میں، کبھی اس ست سنگ میں، کبھی اس ست سنگ میں، کبھی جے  گرودیو، کبھی شر ڈی والے  بابا، مگر سب اندھیرے  میں ہیں، صرف اور صرف اسلام ہی ان کے  سکون اور درد کا مداوا اور ان کی بے  چینی کا علاج ہے، آج دولت کی ریل پیل اور سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی نے  انسانیت کو پہلے  سے  بہت زیادہ بے  چین کر دیا ہے، خدا را بے  چین انسانیت پر ترس کھائیں، اسلام کے  مزے  سے  آشنا ہونے  کے  لئے  بھی اور دکھی اور بے  چین انسانیت پر ترس کھا کر بھی اپنے  دعوتی منصب اور فریضہ کا حق ادا کریں۔

سوال  : اسلام کے  مطالعہ کے  لئے  آپ کیا کر رہے  ہیں ؟

جواب  : الحمد للہ میں مسلسل مطالعہ کرتا ہوں اور اب میں نے  قرآن مجید حفظ شروع کر دیا ہے، میری دلی خواہش ہے  کہ میں داعی بالقرآن بنوں، اس کے  لئے  قرآن کا حفظ بہت ضروری سمجھتا ہوں۔

سوال  : بہت بہت شکریہ  ! جزاکم اللہ خیر الجزاء

جواب  : وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ  و برکاتہ

مستفاد از ماہنامہ ارمغان، مئی  ۲۰۰۸ء

٭٭٭

 

 

 

 

چودھری عبداللہ سے  ایک ملاقات

 

 

احمد اوّاہ         :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

عبد اللہ چودھری   :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ

سوال  :  چودھری صاحب، ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے، کب سے  آپ کا ذکر آتا رہتا ہے، ابی اپنی تقریروں میں باقاعدہ آپ کا نام لے  کر ذکر کرتے  ہیں، میرے  دل میں خیال آتا تھا کہ آپ سے  انٹرویو لوں، آج اس کا دن آ گیا ہے، ہمارے  یہاں پھلت سے  اردو میں ارمغان میگزین نکلتا ہے، اس کے  لئے  آپ سے  بات کرنی ہے  ؟

جواب  : مولانا احمد صاحب، ارمغان میرے  لئے  تعارف کا محتاج نہیں ہے، میں اردو  تو مصروفیت بلکہ سچی بات تو یہ ہے  کہ کاہلی کی وجہ سے  نہیں پڑھ سکا مگر پابندی سے  ارمغان پڑھوا کر سنتا ہوں، حافظ ادریس اور مولانا وصی صاحب سے  کتنے  دنوں سے  کہتا رہتا ہوں کہ ہندی والوں پر بھی ترس کھائیے  اور ارمغان کا ہندی ایڈیشن ضرور شائع کیجئے، جب میں کہتا ہوں تو ایسا لگتا ہے  کہ اگلے  مہینہ شروع ہو جائے  گا  کہ شاید ان کو ترس آ گیا ہے، مگر کب سے  انتظار ہے، اصل میں ان کو بھی بہت کام ہیں، کوئی نئی میگزین نکالنا اتنا آسان تو ہے  نہیں، میں نے  مولانا صاحب سے  کہہ رکھا ہے  کہ ہندی ایڈیشن کے  لئے  زیادہ نہیں تو کم از کم ۵۰۰/ ممبر بنانے  میرے  ذمہ ہیں، اللہ تعالی کبھی تو ہماری بھی ضرور سنیں گے۔

سوال  :  آپ مایوس نہ ہوں، انشاء اللہ جلد آپ کی مراد پوری ہو گی۔عید کے  بعد انشاء اللہ امید ہے  ارمغان کا ضرور ہندی ایڈیشن شروع ہو جائے  گا۔

جواب  :  احمد بھائی، آپ کو پیٹ بھر کے  مٹھائی کھلاؤں گا، اگر یہ خبر سچی ہو گئی تو۔

سوال  :  چودھری صاحب ! آپ اپنا خاندانی تعارف کرائیں ؟

جواب  :  میں ۶/ دسمبر ۱۹۵۱ء میں پھلت کے  پڑوسی گاؤں کے   ایک جاٹ گھرانے  میں پیدا ہوا، میرے  والد ایک زمین دار تھے، انگریزی زمانے  کے  انٹر میڈیٹ بھی تھے، وہ ایک پرائمری اسکول میں ہیڈ ماسٹر تھے، ۱۰۱/ سال کی عمر ہوئی، جس اسکول میں بھارت کے  پردھان منتری لال بہادر شاستری ہمارے  علاقہ میں پڑھاتے  تھے  میرے  پتا جی، اس اسکول کے  ہیڈ ماسٹر تھے، اسی اسکول میں میں نے  پرائمری اور پھر جونیر ہائی اسکول(آٹھویں کلاس)پاس کیا، اس کے  بعد ایس ایس کالج کھتولی میں ہائی اسکول اور انٹر میڈیٹ کیا، خاندانی ماحول اس طرح کا رہا کہ ورزش اور باڈی بلڈنگ کا شوق رہا، انٹر تک دنگلوں میں کشتی بھی لڑتا رہا، بہت سی کشتیاں جیتیں، یوپی بہار کے  دنگلوں میں نام کمایا، بچپن سے  نڈر اور بہادری کا مزاج بنا تھا، والد صاحب غریبوں اور کمزوروں کا حد درجہ خیال رکھتے  تھے، کتنے  غریب بچوں کی فیس وغیرہ خود ادا کرتے  تھے، کسی مشکل میں پھنسے  لوگوں کا ساتھ دیتے، ہم سبھی بھائیوں کو یہ بات وراثت میں ملی، اس جذبہ کی وجہ سے  بعض مظلوموں کی مدد میں بعض قاتلوں اور بدمعاشوں سے  دشمنی ہو گئی اور مقابلے  کے  لئے  طاقت کی ضرورت میں غلط لوگوں کو ساتھ جوڑنا پڑا اور پھراس غلط سنگت (صحبت)نے  اپنی طرف کھینچ لیا، پھر اسی لائن کا ہو رہا، اس کے  لئے  پورے  ضلع میں مشہور ہو گیا اور نہ جانے  کتنے  لوگوں میں نام کا خوف سا بیٹھ گیا، اکثر پولس والے  تک ڈرنے  لگے، احمد بھائی یہ حالت تھی کہ کھتولی میں تھانے  کے  سامنے  سے  گزرتا تو پولس والے  یا کوتوال بھی دروازے  پر کھڑا ہوتا تو اندر چلا جاتا کہ کوئی پنگا نہ بنا دے، مجھے  بھی کچھ زعم سا ہو گیا تھا، لوگ ایسے  میں میرے  نام سے  لالاؤں، سے  تاجروں سے  پیسے  وصول کرنے  لگے، لوگ نام سن کر دے دیتے، میرے  اللہ کا مجھ پر کرم رہا کہ اس غلط راہ پر بھی ہمیشہ مظلوموں اور بے  سہارا لوگوں کے  ساتھ جینا میرا مزاج رہا، اس کی وجہ سے  پراپرٹی ڈیلنگ کا کام کیا، جو بہت اچھا چلا، کئی شہروں میں اپنے  نام سے  کالونیاں بنائیں جو بہت جلد آباد ہو گئیں، غریبوں اور مظلوموں کی مدد اس دنیا میں میرے  کام آئی، میرا کاروبار دن دونی رات چوگنی ترقی کرتا رہا اور ۲۶/ دسمبر ۱۹۹۲ء کو اللہ نے  مجھے  ہدایت نصیب فرمائی۔

سوال  :  اپنے  قبول اسلام کے  بارے  میں بتائیے ؟

جواب  :  کسی مظلوم کا مدد کرنا میرے  کام آیا اور میرے  اللہ کو مجھ بدمعاشوں کے  سردار پر ترس آ گیا، اصل میں مجھے  غصہ بہت آتا تھا اور کبھی کبھی غصہ اس قدر بڑھ جاتا تھا کہ میرے  بدن میں آگ سی لگنے  لگتی، ایک بار ڈاکٹر کو چیک کرایا، تو بلڈ پریشر بہت بڑھا ہوا تھا، مسلسل مرض بڑھتا رہا، پورے  بدن میں درد رہنے  لگا، اس کے  لئے  انجکشن لگوانے  پڑے، انجکشن لگواتے  لگواتے  عادت ہو گئی اور مجھے  ایڈیکشن ہو گیا، ایک روز میں چار فورٹ ون کے  انجکشن دو دو ملوا کر صبح و شام لگوانے  پڑتے، ایک روز دن چھپنے  کے  بعد میں ایک ڈاکٹر کی کلینک پر انجکشن لگوانے  کے  لئے  گیا، کلینک ٹیلی فون اکسچنج کے  پاس تھی، آپ کے  والد مولانا کلیم صاحب کو جب کبھی فون کرنا ہوتا تو ڈاکٹر صاحب کے  فون سے  کال بک کرا کے  فون کرتے  تھے، ڈائرکٹ فون ڈائل کرنے  کا نظام کھتولی میں نہیں تھا اور پھلت میں تو فون کی سہولت بھی نہیں تھی، وہ، ڈاکٹر صاحب کی کلینک پر بیٹھتے  تھے، میں نے  ڈاکٹر صاحب کو انجکشن دئیے، انھوں نے  دونوں ملا کر میرے  ہاتھ کی نس میں لگا دئیے  مولانا صاحب کو فورٹ ون انجکشن کی خاصیت معلوم تھی کہ عام آدمی کے  ایک انجکشن لگا دیا جائے  تو دس گھنٹے  بے  ہوش ہو جائے  میں دو انجکشن لگوا کر باتیں کر رہا تھا، مولانا صاحب حیرت میں پڑ گئے  اور مجھے  دیکھ کر حد درجہ پریشان بھی ہوئے، گویا انجکشن میرے  نہیں ان کے  ہی لگے  ہوں، مجھ سے  بولے  چودھری صاحب آپ اپنی زندگی  پر ظلم کر رہے  ہیں، آپ یہ انجکشن کیوں لگواتے  ہیں ؟ میں نے  کہا میرے  پورے  بدن میں درد ہوتا ہے  اور بے  حد غصہ آتا ہے  اس کے  لئے  مجھے  صبح و شام دو دو انجکشن لگوانے  پڑتے  ہیں مولانا صاحب بے  تاب ہو گئے، روزانہ چار فورٹ ون، پھر تو آپ دن میں دو بار خود کشی کرتے  ہیں، آپ نے  دوسری طرح علاج نہیں کرایا آپ یہ انجکشن چھوڑ دیجئے، مولانا صاحب نے  کہا کہ آپ کو غصہ کیوں آتا ہے ؟ میں نے  کہا کہ جب طاقت ور اپنے  مال اور طاقت کے  نشہ میں کسی کمزور مظلوم کو ستاتا ہے  تو جی چاہتا ہے  کہ یا تو اس کی جان لے  لوں یا اپنی جان دے  دوں، اسی میں سینکڑوں مقدمے  مجھ پر چل رہے  ہیں، میں نے  کہا کئی بار مہینے  مہینے  تک ایڈکشن ختم کرنے  کے  لئے  اسپتالوں میں رہا، کتنے  حکیموں کو دکھایا، لاکھوں لاکھ، بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ دس لاکھ روپئے  میں علاج میں خرچ کر چکا ہوں تو یہ جھوٹ نہ ہو گا، مولانا صاحب نے  مجھ سے  پوچھا، آپ کہاں رہتے  ہیں ؟ میں نے  کہا، مولانا صاحب آپ شاید پھلت کے  ہیں، انھوں نے  کہا ہاں، آپ نے  کیسے  پہچانا، میں نے  کہا کہ پھلت کے  راستہ میں میں نے  کچھ زمین خریدی تھی وہیں آپ کو آتے  جاتے  دیکھا تھا، میں آپ کا پڑوسی ہوں شاید آپ نے  میرا نام سنا ہو، مولانا صاحب نے  نام سن کر کہا اچھا آپ ہیں جن کا اخباروں میں نام بھی آتا تھا، میں نے  کہا کہ وہ اوت نالائق میں ہی ہوں، مولانا صاحب نے  کہا :آپ نے  بہت علاج کرا لیا اب آپ ایک مہینہ ہمیں دیجئے، آپ وہاں گھر آئیے، آرام سے  رہئے  کھانا پینا اور علاج سب میرے  ذمہ ہو گا، آپ کا کوئی پیسہ خرچ نہیں ہو گا، بس آپ میرے  ساتھ رہیں گے، مالک کے  کرم سے  امید ہے  کہ آپ ایک مہینہ میں ان انجکشنوں سے  چھٹکارہ پا جائیں گے، مولانا صاحب نے  زور دیا کہ مجھ سے  وعدہ کیجئے، آپ کب پھلت آئیں گے ؟ میں نے  کہا مولانا صاحب آپ کی محبت کا بہت آبھاری ہوں، میں بھی اپنی حالت سے  بہت پریشان ہوں، ذرا کچھ مقدمے  کی تاریخوں سے  چھٹی مل جائے، تو میں آپ کی بات ضرور  مانوں گا۔

مولانا صاحب سے  اجازت لے  کر میں گھر آیا ساری رات مولانا صاحب کی ہمدردی اور محبت کی وجہ سے  مولانا کا بے  تاب چہرہ میری آنکھوں کے  سامنے  گھومتا رہا، ایک دو بار آنکھ بھی لگی تو خواب میں دیکھا مولانا صاحب سامنے  رو رہے  ہیں،  چودھری صاحب آپ اپنے  جیون پر ترس کھائیے، آنکھ کھل جاتی میں سوچتا بھگوان آپ کا کیسا سنسار ہے، کچھ لوگ دوسروں کی گردن کاٹ کر اپنا الو سیدھا کرتے  ہیں کچھ لوگ ایسے  بھی ہیں جو دوسروں کے  درد میں ایسے  بے  تاب ہو جاتے  ہیں، بے  چینی میں رات گزری، صبح سویرے  بستر چھوڑ دیا، ورزش وغیرہ کی، کوٹھی پر لان میں پھلواری کو پانی دینے  کے  لئے  پائپ اٹھایا پانی دے  رہا تھا کہ دروازے  پر گھنٹی بجی، حافظ ادریس صاحب سامنے  تھے، میں نے  دروازہ کھولا، آئیے  مولانا صاحب آئیے، حافظ صاحب نے  بتایا کہ میں پھلت سے  آیا ہوں، ایک خط، ایک چھوٹی سی ہندی کتاب ان کے  ہاتھ میں تھی، میں نے  کہا پھلت وہ دیوتاؤں کا پھلت وہاں کی ایک مہان آتما سے  میری ڈاکٹر کے  یہاں کھتولی میں  ملاقات ہوئی تھی، ساری رات ان کے  پریم نے  مجھے  بے  چین رکھا، حافظ صاحب نے  بتایا میں انہی کے  پاس سے  ایک پریم پتر(محبت نامہ)لے  کر آپ کے  پاس آ یا ہوں، آپ کی محبت میں وہ بھی ساری رات نہیں سوئے، وہ خط حافظ صاحب نے  مجھے  دیا، میرا بھتیجہ بھی میرے  ساتھ دوسرے  پائپ سے  پانی ڈلوا رہا تھا میں نے  اس کو بلایا، آ بیٹے  دیکھ ایک دیوتا کا پریم پتر آیا ہے، میں نے  خط لے  کر ماتھے  سے  محبت اور ادب میں لگا یا، اس کو نکال کر پڑھا(خط نکالتے  ہوئے )یہ خط ہے  مولانا احمد، اس کو اس وقت سے  میں اپنے  پرس میں رکھتا ہوں لیمنیشن کرا لیا ہے،  خط یہ تھا:

’’ میرے  بہت بہت پیارے  بھائی، چودھری جی! اس پر سلام ہو جو سچی را ہ چلے، آپ سے  ڈاکٹر صاحب کی کلینک پر  ملاقات کر کے  میں چلا تو آیا مگر میرا ننھا سا دل آپ میں اٹک کر رہ گیا، رات کو آپ کی حالت آنکھوں کے  سامنے  رہی، آپ کے  لگنے  والے  انجکشنوں کے  نتیجہ میں کسی بھی وقت منڈلاتی موت اپنی موت کی طرح مجھے  بے  چین کرتی رہی، یہ جیون تو اپنے  وقت پر ختم ہونا ہے، مجھے  قرآن نے  خبر دی ہے  کہ موت نہ ایک لمحہ پہلے  آ سکتی ہے  اور نہ ایک پل ٹل سکتی ہے، مگر اس جیون کے  بعد ایک ہمیشہ کا جیون جس میں یا تو سورگ کا سکھ ہی سکھ ہے، یا نرک کا دکھ ہی دکھ،  نرک کا ایک دکھ اور ایک پل کی سزا پورے  جیون کے  آگ میں جلنے  سے  زیادہ ہے، کانوں سے  سنی خبر آنکھوں سے  دیکھی بات جھوٹی ہو سکتی ہے، مگر میرے  بہت پیارے  بھائی ایشور کے  سچے  سندیشٹاحضرت محمد ﷺ اور اس کے  لائے  ہوئے  پوتر(مقدس ) قرآن کی بات میں ذرا شک نہیں کہ اگر آپ ایمان کے  بغیر مر گئے  اور مسلمان نہ ہوئے  تو ہمیشہ کی نرک کی سزا بھگتنی پڑے  گی، اس لئے  میرے  بھائی اپنے  پیار کرنے  والے  بھائی پر ترس کھا کر اپنے  جیون پر ترس کھاؤ اور ایمان قبول کر کے  مسلمان بن جاؤ، سچے  دل سے  کہو: اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًاعَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ

ترجمہ: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے  سوا کوئی پوجا کے  لائق نہیں اور حضرت محمدﷺ اللہ کے  بندے  اور انتم سچے  سندیشٹا ہیں، میرے  بھائی اگر آپ نے  پوتر مقدس قرآن جو( انتم سن وِدھان ) آخری خدائی منشور ہے، کا پالن کرنے  کا حلف اس کلمہ کو پڑھ کر نہ دیا، تو پھر نرک کی آگ میں جلنا ہو گا میرے  پیارے  بھائی ذرا سوچو وہاں سے  واپسی بھی ممکن نہیں اور پھر افسوس کے  سوا کچھ نہیں کر سکو گے۔

میرے  بھائی آپ کو کیا معلوم رات میری کس طرح کٹی، رات کو ایک بجے  بے  چین ہو کرمیں نے  بستر چھوڑا، پھر اپنے  مالک کے  سامنے  سررکھ کر آپ کے  لئے  دعا کرتا رہا، میرے  مالک وہ مظلوموں اور کمزوروں پر ظلم برداشت نہ کرنے  والا اور اس غصہ میں اپنی زندگی کو خطرے  میں ڈالنے  والا آپ کی ہدایت اور دیا (رحم) کا کتنا مستحق ہے، مجھے  امید ہے  کہ وہ مالک اس گندے  مگر دکھیارے  کی دعا کو ضرور سنے  گا، بلکہ مجھے  تو ایسا لگتا ہے  کہ اس نے  سن لیا ہے، بس آپ مجھے  اپنے  مسلمان ہونے  کی خوش خبری دے  دیجئے  تاکہ آپ کا یہ پیا ر کرنے  والا بھائی کچھ چین پا سکے، میں جس انتم سندیشٹا (آخری رسول)کے  لائے  ہوئے  کلمہ کی طرف آپ کو بلا رہا ہوں، اس کے  جیون پر آدھارت(سیرت پر مشتمل)ایک پمفلٹ آپ کو بھیج رہا ہوں اللہ کرے  میرے  دل کی بات آپ تک پہنچے  اور وہ اللہ ہمیں اور آپ کو ہدایت پر رکھے  اور اسی پر ہماری اور آپ کی موت آئے ‘‘  والسلام آپ کا بہت محبت کرنے  والا بھائی

محمد کلیم ۱۳/ دسمبر ۱۹۹۷ء

سوال  : اس کے  بعد کیا ہوا؟

جواب  : میں نے  اس خط کو زور زور سے  اپنے  بھتیجہ کو پڑھ کر سنایا اس خط میں بے  لوث محبت سے  میرے  جسم کا رواں رواں کھڑا ہوتا رہا اور اس محبت کے  سامنے  میں ایک بے  بس غلام کی طرح مولانا صاحب کے  سامنے  اپنے  کو گھرا پاتا تھا، میرا دل چاہتا تھا کہ میں فوراً جا کر مولانا صاحب سے  گلے  ملوں ان کا شکریہ ادا کروں اور ان کی خواہش پوری کروں مگر ایک بہت اہم مقدمے  کی تاریخ تھی، گواہوں سے  بات بھی کرنی تھی، وکیل سے  بھی ملنا تھا، اس لئے  میں نے  حافظ صاحب سے  کہا: میں رات کو، یا پھر کل کو، مولانا صاحب سے  ملوں گا۔ اس روز میں مظفر نگر سے  دیر سے  آیا، رات کو دیر سے  مولانا صاحب کے  پاس جانا مناسب نہ سمجھا، رات کو دیر سے  سونے  کی وجہ سے  صبح دس بجے  آنکھ کھلی، گیارہ بجے  پھلت پہنچا تو مولانا صاحب سفر پر جا چکے  تھے  اس کے  بعد آٹھ نو بار پھلت گیا، میرے  اللہ بھی شاید میری محبت کا امتحان لے  رہے  تھے، مولانا صاحب سے  ملاقات نہ ہو سکی۔ ۲۳/ دسمبر کو مولانا صاحب کا ایک سفر بلند شہر کا تھا تو انھوں نے  کھتولی سے  حافظ ادریس کو بھیجا کہ آج شام کو ہم واپس آ جائیں گے  آپ آ کر مل لیں، اس روز بھی میری تین مقدموں کی تاریخیں تھیں میں دیر سے  گھر پہنچا اور رات کو دس بجے  سردی میں بلٹ موٹر سائیکل پر اپنے  بھتیجہ کے  ساتھ پھلت پہنچا، مولانا صاحب بستر سے  نکل کر آئے  باہر بیٹھ کر جو اَب خانقاہ کہلانے  لگی ہے  بلکہ الحمد للہ خانقاہ بن گئی ہے، ملاقات ہوئی، مولانا صاحب نے  کہا آپ نے  کلمہ پڑھ لیا کہ نہیں، میں نے  مولانا صاحب سے  اکیلے  میں ملنے  کی درخواست کی، مولانا صاحب مجھے  گھر کے  اندر والے  کمرے  میں لے  گئے، میں نے  کہا آپ کے  پریم(محبت)نے  مجھے  غلام بنا لیا ہے، آپ بیچیں یا آزاد کریں، پہلے  تو میں معافی چاہتا ہوں کہ اتنے  دنوں کے  بعد ملا، مگر میں گیارہ بار پہلے  حاضر ہوا، آپ سے  ملاقات نہ ہو سکی، میرے  مسلمان ہونے  کے  دو طریقے  ہو سکتے  ہیں، ایک تو یہ کہ مجھے  سب کے  سامنے  کلمہ پڑھائیے  اور یہاں مسجد میں اذان وغیرہ دینے  پر لگا دیجئے، یہ بھی خوشی سے  منظور ہے، دوسرا طریقہ یہ ہے  کہ میری دو بیویاں ہیں اور ان کے  بچے  ہیں، میں کلمہ پڑھ لوں، اپنے  مقدموں وغیرہ سے  نکل آؤں اور گھر کے  لوگوں کو تیار کروں اور پھر کچھ دن کے  بعد کھل کر اعلان کروں، آپ جو چاہیں گے  ویسا ہی ہو گا، آپ کو شاید معلوم نہیں کہ میں ضلع شیو سینا کا ذمہ دار بھی تھا، ۱۳/ دسمبر کو آپ کے  خط کے  بعد میں نے  شام کو ہی استعفا دے دیا کہ اب مولانا کے  پیچھے  رہ کر جیون گزارنا ہے، مولانا صاحب نے  کہا پہلے  کلمہ پڑھ کر میرا دل تو ٹھنڈا کیجئے، میں نے  کہا پڑھوائیے، ویسے  میں نے  سچے  دل سے  آپ کے  خط میں کلمہ پڑھ لیا تھا اور اپنا نام بھی عبد اللہ اپنے  من میں رکھ لیا ہے، اب دوبارہ مجھے  پڑھوا دیجئے  مولانا صاحب نے  کہا کہ ایمان کو تو بار بار تازہ کرتے  رہنا چاہئے، مجھے  کلمہ پڑھوایا اور کہا کہ عبد اللہ بہت اچھا نام ہے، ہمارے  نبیﷺ نے  فرمایا ہے  کہ عبد اللہ اور عبدالرحمن نام اللہ کو بہت پسند ہیں۔

سوال  : اس کے  بعد کیا ہوا؟

جواب  :  مولانا صاحب نے  مجھے  موقع لگا کر نماز وغیرہ سیکھنے  اور گھر والوں پر کام کرنے  کے  لئے  کہا، الحمد للہ دو مہینے  میں میری چھوٹی اہلیہ اور اس کے  چاروں بچے  مسلمان ہو گئے، مقدموں سے  میں بہت پریشان تھا، مولانا صاحب نے  کہا کہ جس مقدمے  میں جائیں دو رکعت صلاۃ التوبہ اور صلاۃ الحاجت پڑھ کر جائیں جب اللہ توبہ قبول کر لیتے  ہیں تو فرشتوں سے  بھی بھلا دیتے  ہیں اور نامہ اعمال سے  بھی مٹا دیتے  ہیں میں نے  یہ نسخہ استعمال کیا، اللہ کا شکر ہے  سارے  مقدموں سے  اللہ نے  مجھے  بری کر دیا۔ بس دو مقدمے  باقی ہیں۔

سوال  : آپ کے  انجکشنوں کا کیا رہا؟

جواب  :  میرے  اسلام قبول کرنے  کے  بعد رمضان آئے  مولانا نے  مجھے  بلایا اور کہا اللہ نے  انسان کو بڑی قوت ارادی عطا کی ہے  آدمی پختہ ارادہ کر لے  تو پہاڑوں میں دودھ کی ندی کھود سکتا ہے، یہ انجکشن ایک نشہ ہے  اور نشہ اسلام میں حرام ہے، آپ گناہ سمجھ کر سچے  دل سے  توبہ کیجئے، رمضان کے  پورے  روزے  رکھئے، اخیر میں اعتکاف میں کچھ وقت ہمارے  ساتھ گزارئیے، میں نے  ہمت کی اور روز صلاۃ التوبہ پڑھ کر ارادہ اور عزم کرتا، درد کی وجہ سے  ہاتھ پیر دے  دے  مارتا، مگر اپنے  سے  کہتا ہرگز ہرگز حرام نہیں کروں گا، یہ جان چلی جائے  تو چلی جائے، اخیر عشرہ آیا تو میں بعض مقدموں کی وجہ سے  پھلت نہ آ سکا، حضرت نے  حافظ ادریس کو بھیجا، میں پھلت آیا جامع مسجد میں تین روز گزارے، پھلت کے  لوگوں نے، سنا ہے  کہ، حضرت پر بہت اعتراض بھی کیا کہ اس بدمعاش اور ڈاکو کو مسجد میں بلا لیا، میرے  دل میں بہت سی شکایتیں اور اعتراضات تھے  وہ بھی اللہ نے  حضرت سے  کہنے  کا موقع دیا اور وہ سب حل ہو گئے  اور الحمد للہ فورٹ ون کے   عذاب سے  مجھے  نجات ملی۔

احمد بھائی!عجیب بات ہے   کہ مولانا صاحب سے  ملاقات کے  ایک ماہ میں وہ فورٹ ون جو بیس سال سے  نہیں چھوٹی تھی، اب مجھ سے  چھوٹ گئی۔

سوال  :  آپ شیو سینا جیسی جماعت کے  ضلع کے  ذمہ دار تھے  آپ کو اسلام میں آ کر اجنبیت سی نہیں لگی؟

جواب  : نہیں بھائی احمد بالکل نہیں، مجھے  ایسا لگا کہ میں بائی نیچر فطرتاً مسلمان ہی تھا، اسلام کی ہر بات میری انتر آتما (اندر کی روحانی پکار) لگتی تھی۔

سوال  :  آپ کی دوسری بیوی کا کیا ہوا؟

جواب  :  وہ ابھی تک مسلمان نہیں ہوئی، میں نے  ان کو چھوڑ دیا ہے  ان کا حصہ ان کو دے  دیا ہے، ایک بیٹا بیٹی ان کے  میرے  ساتھ دہلی میں رہتے  ہیں، میں نے  مولانا صاحب کے  مشورہ سے  دہلی میں کوٹھی لے  کر رہائش اختیار کر لی ہے، یہ فیصلہ میرے  لئے  سکون کا ذریعہ بنا اور اسلام کا اعلان کرنے  میں مجھے  بڑی سہولت کا ذریعہ بنا۔

سوال  : آپ کو ابی نے  دعوت پر نہیں لگایا؟

جواب  : ایسا کیسے  ہو سکتا ہے، اللہ کا شکر ہے  کہ میں، جو کچھ کرتا ہوں، دین کے  لئے  کرنے  کی کوشش کرتا ہوں، میرے  بھائی ایک ہائی اسکول چلاتے  تھے  وہاں پر اکثر مسلمانوں کے  بچے  پڑھتے  تھے، کھتولی میں ایک مسلم جونیر ہائی اسکول چلتا تھا، اس کے  ذمہ دار ایک حاجی صاحب بہت جذبہ کے  آدمی تھے، ہیڈماسٹر سے  کچھ بات ہونے  کی وجہ سے  وہاں پر تین دینیات کے  استاذوں نے  وہاں دو مہینے  تک ایک بھی سبق نہیں پڑھایا، حاجی صاحب نے  معاملہ کی جانچ کے  بجائے  یہ فیصلہ کیا کہ میں مدرسہ نہیں رکھتا، بس اسکول چلاؤں گا، تینوں حافظ اور مولویوں کو الگ کر دیا، اتفاق سے  ایک روز اپنے  بھائی کے  اسکول میں چھٹی کے  وقت کچھ مسلمان بچوں سے  میں نے  کلمہ سنانے  کو کہا، تو انھیں کلمہ یاد نہیں تھا، مجھے  بہت دکھ ہوا، میں نے  اپنے  بھائی سے  کہا، آپ کا اسکول مسلمان محلہ میں ہے  اگر آپ یہاں قرآن اور اردو شروع کر دیں تو تعداد بڑھ جائے  گی ان کی سمجھ میں آ گیا، میں نے  مولانا صاحب سے  استاذ دینے  کے  لئے  کہا، مولانا صاحب نے  ان تینوں استاذوں کو بلایا جو مسلم اسکول سے  نکالے  گئے  تھے  اور اللہ کا شکر ہے  کہ آج تک پانچویں چھٹی ساتویں کلاس میں قرآن مجید اور دینیات کی تعلیم کسی مدرسہ کی طرح ہو رہی ہے  اور الحمد للہ میرے  بھائی بھی مسلمان ہو گئے  ہیں، ان کا نام میں نے  عبد الرحمن رکھا ہے، مولانا صاحب اس قصہ کو اکثر سناتے  ہیں کہ اللہ تعالی اس طرح تبدیلی کا نظم کرتے  ہیں۔

سوال  :  قارئین ارمغان کے  لئے  کچھ پیغام آپ دیں گے ؟

جواب  : کسی کے  ظاہر اور حالات کو مخالف سمجھ کر یہ سمجھنا کہ یہ حالات اور یہ شخص اسلام دشمن ہے  بالکل غلط ہے، ظاہری طور پر شیو سینا کا ضلعی ذمہ دار کتنے  غلط کاموں سینکڑوں مقدموں میں مبتلا مجھ جیسا اوت آدمی، اسلام کے  مخالف حالات میرے  لئے   بابری مسجد کی شہادت کے  بعدحد درجہ نفرت زدہ تھے، ایک مزے  کی اور بات بتاؤں کہ ہمارے  خاندان کا ایک لڑکا رشتہ کا میرا بھائی ڈاکٹر صاحب کا لڑکا مسلمان ہو کر عبدالرحمن بن کر گھر چھوڑ کر پھلت رہنے  لگاتھا، میری بھابھی بہت روتی تھی جب وہ یاد کر کے  روتی تو مجھے  بہت ترس آتا تھا اور کئی بار دل میں خیال آیا : اس حضرت جی کا اور خاتمہ کر آؤںجہاں اتنے  مقدمے  ہیں ایک مقدمہ اور سہی، مگر احمد بھائی سچ کہتا ہوں جب اسلام کو میں نے  پایا تو مجھے  بالکل یہ محسوس ہوا یہ میرے  اندر کی مایا تھی اور اسی فطرت پرمجھے  پیدا کیا گیا تھا، بابری مسجد کی شہادت کے  بعدکسی شیو سینا کے  ذمہ دار کا مسلمان ہونا کیسا عجیب لگتا ہے، مگر مجھے  بالکل عجیب نہیں لگا، نہ مجھے  لگا کہ کوئی انہونی فیصلہ ہوا، بس یہ بات ہے  کہ محبت سے  کہنے  والا کوئی نہ ملا اور ہمارے  دیش کی کمزوری ہمارے  حضرت کے  بقول جوش محبت ہے، ہر ہتھیار اور ہر حملے  کا مقابلہ یہ قوم کر سکتی ہے، مگر محبت کی دھار اس کے  دل میں فوراًًاتر جاتی ہے، مجھے  مولانا صاحب کی محبت نے  ایسا غلام بنایاکہ رواں رواں اب تک گرفتار ہے، صرف محبت اور بے  لوث ہمدردی نے  مجھ جیسے  سخت انسان کو شکار کیا، نہ میں نے  کوئی چمتکار دیکھا نہ کوئی دوسری بات ہوئی، صرف اور صرف بے  لوث محبت اور ہمدردی میری ہدایت کا ذریعہ بنی۔

پھلت کا ایک نائی جمال الدین جو کھتولی دوکان کرتا ہے، پانچ سال پہلے  ساڑھے  دس بجے  اس نے  مجھے  بتایا کہ چودھری صاحب آپ یہاں پھر رہے  ہیں، مولانا صاحب ایک ہفتہ سے  بستر پر پڑے  ہیں، احمدبھائی بس میری جان نکل گئی اپنے  کو تھاما اور گھر گیا گاڑی لی اور پونے  بارہ بجے  روتا ہوا پھلت پہنچا، مولانا صاحب اتفاق سے  ممبئی کے  کچھ مہمانوں کے  ساتھ بیٹھے  باتیں کر رہے  تھے  اور مسقرارہے  تھے، جا کر چمٹ گیا اور خوشی سے  سسکیوں سے  روتاہوا بولا کہ مجھے  جمال الدین نے  ڈرا دیا تھا، کہ آپ بستر پر بیمارپڑے  ہیں سارے  راستہ دعا کرتا آیا، میرے  اللہ میرے  جیون کی گھڑیاں بس میرے  مولانا کو لگ جائیں، آپ کو ٹھیک دیکھ کرجان میں جان آ گئی، اب بھی دعا کرتا ہوں کہ زندگی کی باقی گھڑیاں بس مولانا صاحب کو لگ جائیں کچھ کام آ جائیں گی مولانا صاحب نے  بتایاکہ پنجاب کا ایک ہفتہ کا سفر لووں (گرم ہواؤں ) میں ہوا، گرمی میں رہنے  کی وجہ سے  گردہ میں درد ہو گیا تھا آج صبح پتھری نکل گئی۔

ہمارے  حضرت سچ کہتے  ہیں، یہ ہندوستان کے  لوگ بس مریض ہیں، ان کی دشمنیاں، سازشیں بس بیماری کی چیخ و پکار ہے، ان کی سب بیماریوں کا علاج محبت اور جرات ہے، ارمغان کے  قارئین سے  بس میری یہ درخواست ہے  کہ ان کووہ حریف نہ سمجھیں بلکہ مریض سمجھیں اور محبت کی بولی ان کے  مرض کا علاج ہے  اور میرے  لئے  حسن خاتمہ کی دعا کریں۔

سوال  : بہت بہت شکریہ  چودھری عبد اللہ صاحب۔

جواب  : شکریہ تو آپ کاہے  احمد بھائی، مجھے  ارمغان کی محفل میں شامل کیا۔

سوال  :  حسن اتفاق ہے  کہ رمضان سے  قبل آپ کو اسلام ملا اور رمضان سے  قبل آپ کا انٹرویو ارمغان میں آ رہا ہے، ماہ مبارک کی دعاؤں میں میرے  لئے، گھر والوں کے  لئے  دعا کرنے  کی درخواست ہے۔

مستفاد از ماہ نامہ ارمغان، ستمبر  ۲۰۰۸ء

 

جناب محمد عمر{ گوتم }کی آپ بیتی

 

میری پیدائش ۱۹۶۴ء میں صوبہ  یوپی کے  فتح پور ضلع کے  ایک راج پوت خاندان میں ہوئی، یہ خاندان گوتم کے  نام سے  جانا جاتا ہے، والد صاحب کا نام جناب دھن راج سنگھ گوتم صاحب ہے، جو ایک ریٹائرڈگورنمنٹ آفیسر ہیں۔ کئی سوبیگھے  کی کھیتی کے  مالک ہیں، اللہ نے  دنیاوی اعتبار سے  بہت نوازا ہے، میری ابتدائی تعلیم ہائی اسکول تک کی گاؤں ہی میں ہوئی اور پندرہ سال کی عمرمیں الہٰ آباد میں اعلیٰ تعلیم کا دور شروع ہوا، بارہویں جماعت کے  بعد نینی تال ضلع کی پنت نگر ایگری کلچر یونی ورسٹی میں بی ایس سی اگریکلچر کی ڈگر ی کے  لئے  ۱۹۸۰ء میں داخلہ لیا۔اور اسی یونی ورسٹی میں ۱۹۸۴ء میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے  ہدایت کا معاملہ کیا اور میں نے  اسلام قبول کیا اور اپنا نام شیام پرتاپ سنگھ گوتم سے  بدل کر محمد عمر گوتم رکھا پندرہ سال کی عمر میں میرے  دل اور دماغ میں یہ سوال پیدا ہوا کہ ہمارے  گھر اور خاندان میں جو پوجا پاٹ کا طریقہ رہا ہے  اور بتوں کی پوجا ہو رہی ہے، وہ کہاں تک صحیح ہے۔ ہمیں پندرہ سال کی عمر میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ ہم ہندو ہیں تو کیوں ہیں اور ہمارا ایمان و یقین کیا ہے  ؟ میں نے  جب ان تمام سماجی حالات پر نظر ڈالی اور غور و فکرکیا تو بہت سارے  سوالات ذہن میں پیدا ہو گئے۔مثال کے  طور پر ہمارا خالق ومالک کون ہے ؟ ہمارا رازق کون ہے  ؟ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے  ؟ مرنے  کے  بعد کہاں پہنچیں گے  ؟ کس کی پوجا کی جائے  اور کس کی نہ کی جائے  ؟ تینتیس کروڑ دیوی دیوتاؤں کی پوجا پاٹ کیسے  کی جائے  ؟ ۸۶/ لاکھ یونیوں میں آوا گون کیسے  ممکن ہے  ؟ کہیں ماں باپ ہی تو خالق و مالک نہیں ہیں ؟سماج میں اپنے  ہی جیسے  انسانوں کو اچھوت کیوں بنا دیا گیا ہے  ؟ وغیرہ وغیرہ ان سوالات کا جواب حاصل کرنے  کے  لئے  میں نے  سب سے  پہلے  اپنے  گھر والوں سے  ہی انکوائری شروع کی، ان کے  پاس کبھی بھی صحیح جواب نہ تھا، نہ انہوں نے  دیا، کیوں کہ انہیں اپنے  دھرم (مذہب)کے  بار ے  میں معلومات ہی نہیں تھیں، بے  چارے  جواب کہاں سے  دیتے، انہوں نے  مجھے  سمجھانے  کی کوشش کی کہ بیٹا! جو تمہارے  باپ دادا کا دھرم ہے، وہی تمہارا دھرم (مذہب) ہے، اسی پر تمہیں چلنا ہے۔اور جو خاندانی رسم و رواج دھرم (مذہب ) کے  نام پر چلے  آ رہے  ہیں، انہیں ہی اپنانا ہے  اور تمہاری زندگی کا مقصد ایک کامیاب انسان بننا ہے، ماں باپ کی سیوا  (خدمت)کرنی ہے  اور غلط کاموں سے  بچنا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن کبھی بھی یہ بات سامنے  نہیں آئی کہ ہندو دھرم (مذہب)کی جو سب سے  پرانی مذہبی کتابیں ہیں، جنہیں ویدوں کے  نام سے  جانا جاتا ہے، ان کی بنیادی تعلیم یہ ہے  کہ: ’’ایکم برہم دوتیو ناستی ‘‘  ’’یعنی برہم صرف ایک ہے، دوسرا نہیں ہو سکتا ‘‘اس کا مطلب صرف اور صرف ایک ہی ایشور کی پوجا پاٹ یا عبادت ہونی چاہیے، کسی دوسرے  کی نہیں۔ ویدوں میں بت پرستی کے  خلاف آواز اٹھائی گئی ہے  اور لوگوں کو بتایا گیا ہے  کہ انسان اگر کامیابی چاہتا ہے  تو صرف اور صرف ایک ایشور (خدا )کی اپاسنا (عبادت)کرے۔ مجھے  جب اپنے  گھر والوں سے، اپنے  بڑوں سے  اور ان تمام پنڈتوں سے  جو ہمارے  یہاں پوجا پاٹ کرانے  آتے  تھے، صحیح جواب نہیں ملا تومیں نے  دھارمک (مذہبی)کتابوں کا مطالعہ شروع کیا۔

سب سے  پہلے  ہندو دھرم کی کتابیں پڑھنے  کو ملیں اور خاص طور پر گیتا پریس گورکھ پور کی کافی کتابیں مطالعہ میں آئیں۔ گیتا، رام چرت مانس، مہابھارت وید، پران اور منوسمرتی سے  متعلق کافی کتابیں پڑھنے  اور سمجھنے  کی کوشش کی۔پنت نگر یونی ورسٹی     (اترا کھنڈ )میں دوران  تعلیم تقریباً تین سال یونی ورسٹی لائبریری میں کافی کتابیں مطالعے  میں آئیں۔ خاص طور پر گوتم بدھ، و ویکا نند، پرم ہنس رام کرشن گاندھی، نہرو اور مختلف سوشل ریفارمرس کی سوانح عمریاں پڑھنے  کا شوق پیدا ہوا، میں اس کوشش میں تھا کہ ان لوگوں کی کامیابی کا راز پتا چلے۔ بہت زیادہ مطالعے  کی وجہ سے  ہزاروں سوالات ذہن میں پیدا ہو تے  چلے  گئے  اور میں کافی کنفیوز ہونے  لگا کہ آخر سچائی کا پتا کیوں نہیں چل رہا ہے، میں نے  یہاں تک ذہن بنا لیا کہ اپنی ڈگر ی مکمل کرنے  کے  بعد اپنے  والد صاحب کو خط لکھوں گا اور ان کا شکر یہ ادا کروں گا کہ انہوں نے  تمام اخراجات برداشت کئے، لیکن میری زندگی کا مقصد، حق کی تلاش ہونے  کی وجہ سے  ان کے  ارمانوں کو اور ان کی چاہت کو پورا نہ کر سکا، جس کی میں معافی بھی مانگوں گا اور پہاڑ میں جا کر سنیاسی والی زندگی گزاروں گا۔ میڈیٹینشن یعنی چنتن (دھیان )اور منن (غور و فکر)کے  ذریعے  اپنے  ایشور (خدا )کو پہچانوں گا کہ وہ کہاں  ہے، کیسا ہے  اور ہم سے  کیا چاہتا ہے  ؟یہ وقت آتا کہ اس سے  پہلے  ہی اللہ نے  دل میں یہ بات ڈال دی کہ تم اپنے  پیدا کرنے  والے  سے  براہ  راست خود کیوں نہیں مانگتے  کہ وہ تمہیں سیدھا راستہ دکھائے  اور حق کو پہچاننے  اور اس پر چلنے  میں مدد کرے۔ اسی بنیاد پر میں نے  راتوں کو مانگنا شروع کیا اور اللہ تعالیٰ نے  میرے  لئے  اپنا راستہ آسان کر دیا۔

۱۹۸۴ء میں ہمارے  ایک دوست ناصر خاں صاحب جو ضلع بجنور کے  رہنے  والے  ہیں، وہ میرے  ہم جماعت تھے، انہیں اللہ نے  میری ہدایت کا ذریعہ بنایا۔ اسکوٹر سے  میرا ایکسیڈینٹ ہو گیا تھا اور پیر میں کافی چوٹ آ گئی تھی جس کی بنا پر ہاسپٹل جانے  کی نوبت آ گئی، سائیکل چلانا چھوٹ گیا اور کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران ناصر خاں صاحب نے  میری مدد کی، وہ مجھے  اپنے  ساتھ ہاسپٹل لے  جاتے  تھے، کالج لے  جاتے  تھے  اور مجھے  میس سے  کھانا لا کر روم میں میرے  ساتھ بیٹھ کر کھاتے  تھے۔ تقریباً ایک مہینہ تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور میں ان سے  کافی متاثر ہوا۔ایک دن میں نے  انہیں بٹھا کر سوال کیا کہ آپ میرے  ساتھ اتنی ہمدردی کا معاملہ کیوں کرتے  ہیں اور یہ اخلاق آپ نے  کہاں سے  سیکھا ؟ انہوں نے  جواب دیا کہ :گوتم صاحب ! میں یہ کام کسی لالچ میں یا کسی دباؤ میں نہیں کر رہا ہوں، بلکہ میں ایک مسلمان ہوں اور میرا مذہب اسلام ہے۔ اسلام کی تعلیم ہے  کہ پڑوسی پڑوسی ہے، چاہے  وہ کوئی بھی ہو، پڑوسی کے  ساتھ اچھا سلوک کرنا، اس کی مدد کرنا اور مصیبت میں اس کے  کام آنا، یہ ایک مسلمان کی بنیادی ذمہ داری ہے، اور مجھے  اس بات کا خوف ہے  کہ اگر میں نے  آپ کی مدد نہیں کی اور آپ کے  کام نہیں آیا تو میں محشر کے  میدان میں اللہ کو کیا منھ دکھاؤں گا۔ مجھ سے  تو اس کے  بارے  میں بھی سوال کیا جائے  گا کہ میں نے  آپ کے  ساتھ کیسا سلوک کیا ؟ میں ان کے  اس جواب سے  بہت زیادہ متاثر ہوا اور مجھے  اسلام کا سب سے  پہلا سبق پڑوسی کے  حقوق کے  بارے  میں ملا اور حساب کتاب کے  دن حشر کے  میدان کی اطلاع ملی کہ ایسا بھی ہونے  والا ہے، اب ناصر خاں صاحب کے  ذریعے  اسلامی کتابوں کا مطالعہ شروع ہوا، یہ سلسلہ تقریباً چھے  مہینے  تک چلتا رہا، اس دوران میں نے  چالیس پچاس کتابیں مختلف عنوانات پر مطالعہ کیں اور اسلام کی پوری تصویر میرے  سامنے  آ گئی، قرآن کریم بھی میں نے  مطالعہ کیا   خاص طور پر قرآن کی روشنی میں، انھوں نے  مجھے  قرآن حکیم کے  مطالعے  سے  پہلے  یہ احساس دلایا تھا کہ قرآن ایک اللہ کی نازل کردہ آسمانی کتاب ہے  اور کتابِ ہدایت ہے، یعنی تمام انسانوں کے  لئے  ہدایت نامہ ہے، اسی بنیاد پر پوری اخلاص نیت کے  ساتھ جب قرآن کریم کا ترجمہ پڑھا تو تمام سوالوں کے  جواب خود بخود ملتے  چلے  گئے  اور اللہ نے  اپنا وعدہ سچ کر دیا کہ جو لوگ ہدایت کے  طلب گار ہوں گے  انہیں ضرور ہدایت ملے  گی، اللہ کا بڑا احسان ہے  کہ اس نے  اتنی بڑی دولت بغیر کسی محنت، مشقت اور قربانی کے  عنایت فرما دی۔

اسلام قبول کرنے  کے  بعد سب سے  پہلے  یونی ورسٹی میں پڑھنے  والے  دوست و احباب نے  مخالفت کی اور زیادہ تر لوگ یہ سوال کرتے  تھے  کہ آخر ایسی کون سی مجبوری آ گئی تھی جس کی وجہ سے  اسلام دھرم (مذہب )کو ہی اپنانا پڑا ؟ کیا اور کوئی دھرم  (مذہب) نہیں تھا ؟ ان بے  چاروں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اسلام کی تعلیمات کیا ہیں اور اسلام کی بنیاد کن چیزوں پر ہے، کچھ عرصے  کے  بعد کالج کی وال میگزین میں میرا انٹر ویو قبولِ اسلام کے  تعلق سے  چسپاں کر دیا گیا۔ جسے  کئی ہزار اسٹوڈنٹس نے  پڑھا اور یونی ورسٹی کے  لوگ چہ می گوئیاں کرنے  لگے۔ یہاں تک کہ بریلی سے  نکلنے  والے  ایک ہندی اخبار ’’امر اجالا ‘‘ میں ’’گوتم عمر ہوئے  ‘‘ ہیڈنگ بنا کر نیوز چھاپ دی گئی۔ پورے  علاقے  میں ہو ا کی طرح خبر پھیل گئی اور بہت سارے  لوگ یہاں تک کہ پولس اور سی آئی ڈی والے  بھی انکوائری میں لگ گئے۔اس سلسلہ میں تفصیلی معلومات کے  لئے  جو بھی آتا تھا، میں انہیں اپنے  حساب سے  جواب دیتا رہتا تھا۔ آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشد کے  لوگوں کو یہ بات پسند نہیں آئی اور انہوں نے  ہاسٹل سے  اغوا کر کے  جنگل میں لے  جا کر مار پیٹ کی اور دھمکی دی کہ اگر تین دن کے  اندر واپس ہندو دھرم نہیں اپنایا تو ہم تمھاری بوٹی بوٹی کر دیں گے۔ حالات یہاں تک خراب ہو گئے  کہ مجھے  اپنی ایم ایس سی ایگری کلچر ڈگری چھوڑ کر یونی ورسٹی سے  باہر جانا پڑا اور میں نے  دہلی کا سفر کیا۔ دو تین سال یوں ہی گزر گئے۔

۱۹۸۸ء میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ایم اے  اسلامک اسٹڈیز میں داخلہ لیا اور اگر یکلچر کی لائن چھوڑ دی، گھر والوں کی طرف سے  بھی مخالفت ہوئی اور انہوں نے  بھی فیملی بائی کاٹ کر دیا، جس کی بنا پر تمام رشتے  دار خاندان والوں سے  کئی سال تک کٹ کر رہنا پڑا   یہاں تک کہ دس بارہ سال اسی حال میں گزر گئے، اس کے  بعد حالات نارمل ہوئے  اور آنا جانا شروع ہوا۔

جہاں تک دعوتی نوعیت کا تعلق ہے، اللہ کا کرم ہے، سب سے  پہلے  گھر والوں میں سے  میری اہلیہ نے  پھر میری والدہ محترمہ نے  اسلام قبول کیا۔ اور آج کی تاریخ میں تمام رشتے  دار خاندان کے  لوگ دعوتی نسبت سے  برابر رابطے  میں ہیں اور اکثریت ایسی ہے  جو اسلام کے  بارے  میں صحیح معلومات حاصل کرنا چاہتی ہے۔ افسوس تب ہوتا ہے  جب ان کے  سامنے  ایک طرف اسلام کی حقانیت اور اس کی عمدہ تعلیمات آتی ہیں، تو دوسری طرف مسلمانوں کے  معاشرتی اور اخلاقی حالات، بہر حال تقریباً سو افراد کو اسلام کے  دائرے  میں داخل کرنے  میں کامیاب ہو چکا ہوں۔ فالحمدللہ علی ذٰلک

ایسے  ہزاروں غیر مسلم بھائیوں سے  رابطہ ہونے  کے  بعد یہ محسوس ہوتا ہے  کہ دین کی دعوت صحیح معنی میں ان تک نہیں پہنچا ئی گئی، جس کی وجہ سے  و ہ غلط فہمی کا شکار ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے  کہ اسلام تمام انسانوں کے  لئے  ہے، بنیادی طور پر اسلام نے  انسانیت کی تعلیم دی ہے، اگر کوئی باقاعدہ اسلام میں داخل نہ ہو تب بھی وہ اسلامی تعلیمات سے  فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اور ا ٓج دنیا کی بہت ساری قومیں اور ممالک انہیں تعلیمات سے  فائدہ اٹھا رہے  ہیں اور مسلمان دور کھڑے  ہو کر انہیں دیکھ رہے  ہیں اور ان کی تعریف کر رہے  ہیں، اللہ سے  دعا ہے  کہ ہمارا معاشرہ اسلامی بنے، جس سے  ہمیں دوسروں کی نقل کرنے  کی ضرورت پیش نہ آئے  دوسری طرف ایسے  بہت سارے  لوگ ہیں جنہیں کسی نہ کسی بہانے  سے  اسلام میں داخل ہونے  کا موقعہ ملا۔ لیکن اچھی تعلیم و تربیت نہ ملنے  کی وجہ سے  وہ سماج میں اپنی پہچان نہ بنا سکے  اور اس کمزوری کی وجہ سے  مسلمان تو غلط فہمی کا شکار ہوتے  ہی ہیں، نئے  آنے  والے  لوگوں کے  لئے  بھی وہ نمونہ نہیں بن پاتے  ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ اس بارے  میں تمام ذمہ داران قوم جو دین کی بات پہنچانا چاہتے  ہیں اور دعوت کا کام کر رہے  ہیں۔خاص طور پر غیر مسلم بھائیوں میں دین کی بات پہنچانا چاہتے  ہیں، انہیں چاہیے  کہ ہر نئے  آنے  والے  کی اسلامی تعلیم اور تربیت کا مکمل بندوبست کریں اور انہیں ثابت قدم رہنے  میں مدد کریں، اس ملک میں جہاں اکثریت غیر مسلم بھائیوں کی ہے، دعوت  دین کی سخت ضرورت ہے۔ آج بھی اگرمسلمان دین پر چلیں اور اپنے  اخلاق و کر دار کو سنواریں اور انسانیت کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد بنائیں تو ہزاروں لاکھوں لوگ اسلام کو سمجھنے  اور اپنانے  میں کامیاب ہو سکتے  ہیں۔

یہ بات بھی دنیا کے  سامنے  آنی چاہیے  کہ اسلام کسی کو بھی زبردستی اپنی آغوش میں نہیں لیتا اور کوئی مسلمان کسی کو زبردستی مسلمان نہیں بنا سکتا ہے، بلکہ یہ فیصلہ بندے  اور اللہ کے  بیچ میں ہوتا ہے۔ جب تک کوئی شخص دل کی گہرائیوں سے  اسلام کو نہیں پہچانے  گا اور آخرت کی کامیابی کو مد نظر نہیں رکھے  گا۔ اسلام میں داخل نہیں ہو سکتا ہے۔ اگر آنکھ بند کر کے  اسلام میں داخل ہو بھی گیا تو حالات کا مقابلہ کرنا اس کے  لئے  نا قابل برداشت ہو گا۔

آخر میں میں اپنے  تمام غیر مسلم بھائیوں کو یہ دعوت دیتا ہوں کہ وہ اسلام کو قرآن اور حدیث کی روشنی میں پڑھیں اور سمجھیں  عام مسلمانوں کو دیکھ کر نہیں۔اسلام کے  بارے  میں کوئی بھی رائے  قائم کرنے  سے  پہلے  یہ ضروری ہے  کہ اس کی پوری تحقیق کر لیں۔ اپنے  مسلمان بھائیوں سے  درخواست کرتا ہوں کہ وہ غیر مسلم بھائیوں کے  ساتھ اپنے  اخلاق، کر دار اور معاملات کو ایسا معیاری بنائیں کہ سب لوگوں کو اسلام کی پہچان ہو سکے  اور لوگ آپ سے  فائدہ اٹھا سکیں۔ایسانہ ہو کہ آپ کی بد عملی کی وجہ سے  لوگ آپ سے  نفرت کریں اور ساتھ ہی اسلام سے  بھی نفرت کرنے  لگیں میری نظر میں اس سے  بڑی اور کوئی ٹریجڈی نہیں ہو سکتی۔اللہ سے  دعا ہے  کہ ہم دین کے  صحیح نمائندے  بن سکیں۔ آمین

مستفاد از ماہ نامہ ارمغان، جنوری  ۲۰۰۹ء

٭٭٭

 

 

 

 

جناب محمد شاہد{رام دھن} سے  ایک ملاقات

 

 

احمد اواہ    :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

محمد شاہد    :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال  :شاہد صاحب، آپ کی تشریف اور ی ہوئی، بہت خوشی ہوئی، ابی نے  بتایا کہ آپ جماعت سے  وقت لگا کر آ رہے  ہیں، آپ سے  ارمغان کے  لئے  ایک انٹر ویو لوں، مگر آپ جماعت سے  سیدھے  گھر چلے  گئے، مجھے  بہت افسوس ہوا۔اللہ نے  آج ملاقات کروا دی۔

جواب  : اصل میں، میں جماعت میں مالیر کوٹلہ وقت لگا رہا تھا، آخری دن میں نے  فون کیا تو معلوم ہوا کہ بچہ سخت بیمار ہے، اسپتال میں ہے، میں نے  مولانا صاحب (مولانا محمد کلیم صدیقی) سے  فون پر بات کی، انھوں نے  کہا آپ فوراً چلے  جائیں بعد میں کسی وقت ملاقات ہو جائے  گی۔اب اللہ کا شکر ہے  کہ گھر خیریت ہے، میں کمپنی کے  کام نکال کر دہلی آیا ہوں اور دل میں تڑپ تھی مولانا صاحب سے  ملنے  کی، الحمد للہ ملاقات ہو گئی۔

سوال  :آپ اجازت دیں  تو میں اپنی بات شروع کروں ؟

جواب  :  ضرور، میرے  لائق جو خدمت ہے، میں حاضر ہوں۔

سوال  :پہلے  آپ اپنا خاندانی تعارف کرائیے ؟

جواب  : میں الہ آباد کے  دویدی برہمن خاندان میں ۴/ نومبر ۱۹۵۷ء کو پیدا ہوا۔میرا نام رام دھن میرے  والد صاحب نے  رکھا تھا، پتاجی ایک اسکول کے  ہیڈماسٹر تھے، میری دو بہنیں اور ایک بھائی ہے۔میں ان میں سب سے  بڑا ہوں۔یوں تومیں سب سے  چھوٹا ہوں، پیدائش کے  لحاظ سے  سب سے  پہلے  پیدا ہوا ہوں، ہائی اسکول میں نے  اپنے  والد صاحب کے  اسکول میں کیا اس کے  بعد سائنس سے  انٹر کیا، انٹر میں میری ڈویزن نہ بن سکی، جس کی وجہ سے  مجھے  لائن بدلنی پڑی اور پھر بی کام کیا، بی کام کے  بعد میں نے  ایک فیکٹری میں ملازمت کر لی، بعد میں پونا میں ایک کمپنی میں ملازم ہو گیا، اس کے  بعد ایک کے  بعد ایک چار کمپنیوں میں اچھے  کام کی تلاش میں جاتا رہا اور اب ایک کمپنی میں پروڈکشن منیجر ہوں، میری شادی بنارس کے  ایک برہمن خاندان میں ہوئی۔ میری بیوی انٹر میڈیٹ پاس ہے، میں نے  جان بوجھ کر گھریلو زندگی کے  سکون کے  لئے  گھریلو خاتون سے  شادی کی ہے، میرے  تین بچے  ہیں، بڑا بیٹا جس کا پہلا نام للت کمار تھا، اب الحمد للہ محمد جاوید ہے، بیٹیاں جن کے  پہلے  نام کملا اور گیتا تھے  اب الحمد للہ عائشہ اور فاطمہ ہیں، میری بیوی کا نام اب الحمد للہ خدیجہ ہے۔

سوال  : اپنے  قبول اسلام کے  سلسلہ میں ذرا تفصیل سے  بتائیے ؟

جواب  :  اب سے  پانچ سال پہلے  جون ۲۰۰۳ء میں بچوں کی چھٹیوں میں گھر والوں نے  گھومنے  کا پروگرام بنایا، پونا سے  چند دن گھوم کر دہلی اور پھر شملہ کا پروگرام تھا، اگست کرانتی میں ممبئی سے  دہلی کا ٹکٹ تھا، جس کیبن میں ہم لوگ تھے  میرے  تین بچے  اور ہم دونوں اور چھٹے  آپ کے  والد مولانا محمد کلیم صدیقی تھے، ان کو دیکھا تو ہمیں اچھا لگا کہ ایک دھارمک آدمی کی سنگتی ہمارے  بچوں کو ملے  گی۔تفریح کے  ساتھ کچھ نہ کچھ سیکھنے  کو مل جائے  گا۔تفریح کا سفر تھا، میرے  اللہ کا کرم ہے  کہ میرے  گھر میں بچوں میں پہلے  سے  بھی بہت پریم محبت ہے  اور سفر میں تو اور بھی بے  تکلفی ہوتی ہے  اور مقصد تفریح تھا اس لئے  بچے  اور بھی مستی کر رہے  تھے، رات ہونے  لگی تو میں نے  بچوں کو دھمکایا، انکل بھی ساتھ ہیں تم لوگ مستی کر رہے  ہو، مگر مولانا صاحب نے  کہا، یہ بچے  ہیں، معصوم بچے  خوش ہو رہے  ہیں آپ ان کو کیوں روکتے  ہیں ؟ مجھے  اچھا لگ رہا ہے، رات کے  دس بجے  میں نے  مولانا صاحب نے  کہا آپ سونا چاہیں تو برتھ کھول لیں، انھوں نے  کہا بہت اچھا، برتھ کھول لی گئی، مولانا صاحب چادر وغیرہ بچھانے  لگے  تو میری بیوی نے  بچیوں کو دھمکایا، تم لوگوں کو شرم نہیں آتی، دو بیٹیوں کے  ہوتے  ہوئے، انکل خود بستر بچھا رہے  ہیں، بچیاں دوڑیں اور بولیں انکل لائیے  ہم بستر کر دیتے  ہیں، مولانا صاحب نے  ان کو بہت منع کیا مگر انھوں نے  زبردستی لے  کر بستر بچھا دیا اوپر والی برتھ پر مولانا کا بستر ہو گیا، میری بیوی جو بہت خدمت گزار عورت ہے  انھوں نے  مولانا صاحب کے  جوتے  اٹھا کر حفاظت سے  اندر رکھ دئیے  اور مولانا صاحب کو بتا بھی دیا کہ جوتے  سامنے  برتھ کے  نیچے  رکھ دئیے  ہیں، کبھی رات کو آپ اتریں اور تلاش کریں اور پریشان ہوں۔ مولانا صاحب نے  کہا آپ نے  بہت شرمندہ کیا، یہ سچی بات ہے، احمد بھائی انسانیت کے  سچے  ہمدرد ایک داعی کی ذرا سی خدمت نے  کہ میری بچیوں نے  مولانا صاحب کا بستر بچھا دیا تھا اور میری بیوی نے  جوتے  اٹھا کر رکھ دئیے  تھے، ہماری قسمت بدل دی اور زندگی بھر کفر و شرک میں بھٹکتے  ہم نکموں پر ہدایت کی بارش کا ذریعہ بن گئی بلکہ میرے  بچوں اور میری بیوی کی خدمت ابھی تک ہمارے  آدھے  خاندان کے  لئے  ہدایت کا ذریعہ بن چکی ہے۔

سوال  :اس کی ذرا تفصیل بتائیے  ؟

جواب  : احمد بھائی، مولانا صاحب نے  ہمیں بعد میں بتایا کہ بچیوں کے  بستر بچھانے  اور میری بیوی کے  جوتا اٹھا کر رکھنے  سے  ان کا دل بھر آیا اور رات کو دیر تک وہ ہمارے  لئے  ہدایت کی دعا کرتے  رہے، صبح سویرے  تہجد کے  لئے  اٹھے  اور مولانا صاحب کہتے  ہیں کہ وہ ہمارے  اور ہماری نسلوں کے  لئے  ہدایت کی دعا کرتے  رہے، مولانا صاحب بتاتے  ہیں کہ میں نے  اللہ سے  فریاد کی  کہ میرے  مولیٰ  ! نفرت کے  اس ماحول میں ان بچیوں اور ان کی ماں نے  آپ کے  اس حقیر اور تہی داماں بندے  کے  ساتھ بھلائی کی ہے  مولائے  کریم یہ گندہ اس کا بدلہ نہیں دے  سکتا، بس آپ ان کی نسلوں کے  لئے  ہدایت کے  فیصلے  فرما دیجیے، مولانا صاحب کہتے  ہیں میں نے  دعا کی اور ارادہ کیا کہ ہم لوگوں سے  دعوت کے  سلسلہ میں بات کریں گے، صبح آٹھ بجے  تک بچے  سوتے  رہے  اور سو کر اٹھے  تو ناشتہ وغیرہ میں لگ گئے۔اور پھر کھیلنے  لگ گئے، مستی کرنے  لگے  مولانا صاحب کہتے  ہیں مجھ پر حد درجہ بے  چینی تھی کہ کس طرح میں انھیں اسلام کی دعوت دوں ؟ مگر جیسے  زبان پر کسی نے  تالہ لگا دیا ہو، بار بار مولانا صاحب کچھ کہنے  کو ہوتے  مگر کہہ نہ پاتے۔۱۱/ بجے  ٹرین تھوڑی سی دیر سے  نظام الدین اسٹیشن پہنچی، مولانا صاحب بتاتے  ہیں جیسے  جیسے  وقت گزرتا گیا بے  چینی بڑھتی گئی اور خیال تھا کہ اگر میں نے  ان کو دعوت نہ دی تو پھر کون ان سے  مسلمان ہونے  کو کہے  گا؟مگر زبان کھل نہیں پا رہی تھی، گاڑی سے  ہم سب اترے  میں نے  مولانا صاحب کا بیگ زبر دستی اٹھا لیا کہ ایک سجن کی خدمت میں میں بھی شامل ہو جاؤں بہت ہمت کر کے  مولانا نے  اپنے  بریف کیس سے  ایک کتاب ’آپ کی امانت‘ نکالی، مولانا صاحب کہتے  ہیں، میں نے  اپنے  کو بہت ملامت کی اور ہمت کر کے  بچوں کو اکھٹا کیا اور ہماری موجودگی میں بچوں سے  کہا، تمھاری محبت اور آپس کی ہنسی سے  دل بہت خوش ہوا، تم کتنے  اچھے  لگ رہے  تھے  بس تمھارے  انکل کی ایک درخواست ہے  اس کو یاد رکھنا، وہ یہ ہے  کہ شادی کے  بعد بھی تم لوگ اسی محبت سے  رہنا، صرف دو پیسوں اور بچوں اور اپنے  شوہروں کے  چکر میں اس مقدس رشتہ کو مت خراب کرنا، سب بچوں نے  مولانا کے  پاؤں چھوئے  مولانا نے  منع کیا اور آخر میں مولانا نے  آپ کی امانت آپ کی سیوا میں مجھے  یہ کہتے  ہوئے  دی، یہ میرا پتہ ہے، میرے  پاس ویزیٹنگ کارڈ اس وقت نہیں ہے۔ میں اپنے  گھر والوں سے  بار بار کہتا رہا کہ کس دیوتا کے  ساتھ مالک نے  ہمیں سفر کرایا کہ ہمارے  بچوں سے  کیسی ہمدردی اور محبت کی بات کہہ گئے  اور میں بار بار بچوں کو یاد دلاتا رہا کہ دیکھو انکل کی بات یاد رکھنا، وہ کوئی دیوتا آدمی تھے۔

دو تین دن دہلی میں رہے، اس کے  بعد ہم لوگ شملہ گئے۔راستہ میں ہماری چندی گڑھ کے  سفر میں ایک آدمی سے  ملاقات ہوئی وہ ٹرین میں مانگ رہا تھا، اس نے  اپنی زندگی کی دکھ بھری کہانی بیٹھ کر سنائی کہ میرا دل بھر آیا، ہم لوگ شملہ پہنچے، راستہ کی باتیں ہو رہی تھیں تو مولانا صاحب کی بات بھی آئی میں نے  پھر بچوں کو یاد دلایا انکل کی نصیحت یاد رکھنا۔کملا نے  کہا پتاجی وہ کتاب بھی تو انکل نے  دی تھی وہ کہاں گئی، میں نے  کتاب نکالی اور ایک بیٹھک میں پڑھ ڈالی، میں نے  اس کتاب کو دوبارہ سب بچوں کو سنایا مولانا صاحب کی نظام الدین اسٹیشن کی باتوں سے  میرے  اور میرے  بچوں کے  دل میں یہ بات بالکل بس گئی تھی کہ وہ ہمارے  ہمدرد اور بے  لوث ہمدرد ہیں، ہم سبھی نے  اس کتاب کو اپنے  ہمدرد اور خیرخواہ کی بات سمجھ کر پڑھا اور سنا، احمد بھائی آپ جانتے  ہیں آپ کی امانت تو ایک پھندہ ہے۔اگر کسی انسان کے  سینہ میں پتھر نہیں ہے  دل ہے  تو پھر وہ دل اس کتاب کا ہو ہی جاتا ہے، شملہ سے  واپس ہوئے  کیونکہ اس کتاب میں اس کو دوسروں تک پہنچانے  کی ذمہ داری بھی سونپی ہے  اس لئے  چندی گڑھ سے  میں  نے  اس کتاب کی بیس زیراکس کاپیاں بنوائیں، اب یہ سفر ہماری زندگی کا انقلابی سفر تھا یوں تو ہمارے  والد صاحب ایک سیکولر انسان تھے  اس لئے  عام لوگوں کی طرح مسلمانوں سے  نفرت ہمارے  گھرانے  میں نہیں تھی، مگر اسلام اور مسلمان ہمارے  لئے  غیر تھے، مگر اب ایسا نہیں تھا، ٹرین میں میں نے  مسافروں کو وہ کاپیاں دیں اور سارے  راستہ بچوں میں اسی کتاب کا ذکر ہوتا رہا  شاید اس کتاب کی اکثر باتیں ہمارے  بچوں کو بھی زبانی یاد ہو گئیں، پونا آیا تو مجھے  اسلام کو مزید جاننے  کا شوق پیدا ہوا، کسی نے  مجھے  پروفیسرانیس چشتی صاحب سے  ملنے  کا مشورہ دیا میں ان سے  ملا بھی، مگر نہ جانے  کیوں وہ کچھ مسائل میں گھرے  تھے  وہ مجھے  خاطر خواہ وقت نہیں دے  سکے۔ایک جگہ سے  ’’اسلام کیا ہے ؟ ‘‘ کتاب میں نے  حاصل کی، اس کو پڑھا اس کے  بعد قرآن مجید کا ہندی انواد یعنی ترجمہ پڑھا، مہینوں کے  سوچ وچار کے  بعد ایک بار پھر آپ کی امانت ہم نے  پڑھی اور مسلمان ہونے  کا فیصلہ کیا، مسلمان ہونے  کے  لئے  میں بہت سے  پڑھے  لکھے  مسلمانوں سے  ملا، مگر کوئی اس بات کے  لئے  تیار نہیں ہوا، مسجدوں میں اماموں کے  پاس بھی گیا، میرے  بیٹے  نے  مجھے  مشورہ دیا کہ میں پھلت میں مولانا صاحب کو خط لکھوں مولانا صاحب کا خط ہمیں عید کے  چار روز پہلے  ملاجس میں لکھا تھا:

(یہ خط ہمیشہ میرے  جیب میں رہتا ہے، نکالتے  ہوئے )

پریہ دویدی صاحب ! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

آپ نے  اپنے  بچوں کے  ساتھ ایک دن کے  سفر میں مجھے  اپنا کر لیا، آپ اور بچے  مجھے  بہت یاد آتے  ہیں، آپ پڑھے  لکھے  ہو کر مسلمان ہو نے  کے  لئے  کیوں ادھر ادھر پھر رہے  ہیں۔ اسلام ایک سچائی ہے  بس آپ نے  آپ کی امانت کتاب پڑھ کر سچے  دل سے  کلمہ پڑھ لیا تو مسلمان ہو گئے۔اسلام رسم و رواج کا دھرم نہیں ہے، ہاں اپنے  اطمینان کے  لئے  آپ پھلت آئیں تو آپ کا سواگت (استقبال)ہے، کاش آپ کا خط پہلے  مل جاتا تو عید آپ ساتھ کر سکتے، اگر بھابی اور بچے  بھی آ جائیں تو ہمارے  گھر والوں کی بھی عید ہو جائے، جب آپ آئیں خوشی ہو گی۔والسلام

آپ کا اپنا

کلیم

میں نے  تتکال میں رزرویشن بنوایا راجدھانی سے  دہلی پہنچے  اور پھر ڈھائی بجے  عید کے  دن، پھلت پہنچے، مولانا صاحب خوشی سے  چمٹ گئے  اور دیر تک گلے  لگایا بچوں کو پیار کیا اور ہماری تسلی کے  لئے  کلمہ پڑھوایا، میرا نام شاہد رکھا، میری بیوی کا خدیجہ بڑی بچی کا آمنہ چھوٹی کا فاطمہ اور بچے  کا نام محمد جاوید رکھا۔سچی بات تو یہ ہے  کہ عید تو ہماری ہوئی اور ہر عید کو ہم خوشی مناتے  ہیں کہ عید کا دن تو ہمارے  لئے  ہے  کہ بغیر روزوں کے  عید کی خوشی ہمیں نصیب ہوئی مولانا صاحب نے  بتایا کہ اس سفرمیں مجھے  اپنی ذات سے  بہت مایوسی ہوئی میں اللہ کے  سامنے  بہت فریاد کرتا رہا کہ الٰہی میری نا اہلی کا یہ حال ہے  کہ اتنا چاہنے  کے  بعد ایسے  پیارے  لوگوں کو دین کی ایک بات نہ کہہ سکا، بعد میں مجھے  خوشی بھی ہوئی کہ اللہ تعالی اپنے  دین کی دعوت دینے  والوں کی حفاظت فرماتے  ہیں اور اس کی اپنی ذات سے  نگاہ ہٹا کر اپنی ذات عالی سے  ہونے  کا یقین بناتے  ہیں۔اس لئے  زبان کو تالہ لگا دیا۔

مولانا صاحب بتا رہے  تھے، میں نے  بہت دعا کی، یا اللہ کوئی بات تو ایسی کہلا دیجئے  کہ یہ مجھے  اپنا ہمدرد سمجھ کرآپ کی امانت پڑھ لیں، اللہ نے  ایک بات ذہن میں ڈال دی اور سچی بات یہ ہے  کہ آپ کی امانت ہم لوگوں نے  اس محبت بھرے  جملے  کے  سایہ میں پڑھی اس لئے  اور بھی اس کے  ہو رہے۔

سوال  :اس کے  بعد کیا ہوا؟

جواب  : دو روز ہم پھلت میں رہے، وہاں دوسال پہلے  مشرف باسلام ہونے  والے  بھائی عبد الرحمن نے  ہمیں بتایا کہ ہمیں گھر کی یاد آتی ہے  لوگ بھی دھتکارتے  ہیں، دل دکھتا ہے  اور بہت ٹوٹ جاتے  ہیں، بس مولانا سفر سے  آتے  ہیں مصافحہ ملاتے  ہیں کبھی گلے  لگاتے  ہیں، ایک آدھ مذاق کی بات کی، بس ایسا لگتا ہے  کہ مرجھایا دل ہرا ہو گیا۔میں نے  دو روز پھلت گزار کر ان کی بات کی سچائی دیکھی، مولانا نے  ٹیکسی کر کے  ہمیں دہلی تک اپنے  خرچ سے  بھیجا اور گھر والوں کے  لئے  ہدایت کی دعا کرنے  اور ماں باپ اور رشتہ داروں پر کام کرنے  کی تاکید کی۔بلکہ ہم پانچوں سے  وعدہ لے  کر رخصت کیا۔

سوال  :آپ نے  گھر والوں پر کام کیا  ؟

جواب  :  میرے  اللہ نے  میرے  وعدہ کی لاج رکھ لی، میری ایک بہن اور بھائی اپنے  بچوں کے  ساتھ مسلمان ہو گئے  میرے  والد اور والدہ دونوں مسلمان ہو گئے، والد صاحب کا انتقال ہو گیا، الحمد للہ الہ آباد میں ان کو دفن کیا گیا، میر ے  دو دوست بھی مسلمان ہو گئے  اس سے  زیادہ حیرت کی بات یہ ہے  کہ مولانا نے  بتایا، واپسی میں ہمارے  ساتھ سفر کرنے  والے  ان لوگوں میں جن کو میں نے  آپ کی امانت دی تھی دو ایک اندور کے  تاجر اور ایک دہلی کے  انجینئر مشرف بہ اسلام ہو گئے  ہیں ان میں سے  ہر ایک کے  قبول اسلام کی کہانی بہت دل چسپ ہے  اور اللہ کی شان ہادی کا کرشمہ ہے  اور ہم گندوں پر اللہ کی رحمت کی کرشمہ سازی ہے۔میں آپ کو ضرور بتاتا مگر ٹرین کا ٹائم ہو رہا ہے  انشا ء اللہ اور کسی ملاقات میں تفصیلات سناؤں گا۔وہ واقعات بہت دلچسپ ہیں۔الحمد للہ ہم لوگ گذشتہ سال بچوں اور والد صاحب کے  ساتھ حج کو گئے  تھے۔میرے  اللہ کا کرم ہے  کہ اللہ نے  ہم گندوں کو اپنا گھر دکھا دیا۔

سوال  : بہت بہت شکریہ شاہد صاحب، قارئین ارمغان کو آپ کچھ پیغام دینا چاہیں گے ؟

جواب  :سچی بات یہ ہے  کہ انسانیت آج پیاسی ہے، بس ضروری بات یہ ہے  کہ مسلمانوں کو انسانیت کی خیر خواہی کے  لئے  پیدا کیا گیا ہے، بس یہ ثابت کریں کہ وہ لوگوں کے  بے  لوث ہمدرد ہیں اور جو چاہیں لوگوں سے  منوا لیں۔خصوصاً ہندستان کے  ہندوؤں کی تو گھٹی میں یہ بات پڑی ہے  کہ اس کو یہ یقین ہو جائے  کہ یہ میرا ہمدرد ہے، بس اس کے  غلام بن جاتے  ہیں۔میرے  لئے  دعا بھی کریں اور سارے  انسانوں کیلئے  دعا کریں۔ اللہ تعالی ہمارے  سب ہندو بھائیوں کو میری طرح عید نصیب کرے۔

سوال  :  آمین ثم آمین۔السلام علیکم

جواب  : وعلیکم السلام احمد بھائی مولانا صاحب سے  میرا ایک بار پھر بہت بہت سلام کہہ دینا۔

سوال  : ضرور انشاء اللہ

مستفاد از ماہ نامہ ارمغان، اکتوبر  ۲۰۰۷ء

٭٭٭

 

 

 

شمیم بھائی {شیام سندر} سے  ایک ملاقات

 

احمد اواہ     :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

شمیم بھائی  :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال  : شمیم بھائی آپ جماعت میں سے  کب آئے ؟

جواب  : میں جماعت میں سے  ۲۲/ اپریل کو واپس آ گیا تھا۔

سوال  : آپ کا یہ چلہ کہاں لگا تھا؟

جواب  : میرا یہ چلہ میوات میں لگا، بجنور کی جماعت تھی مفتی عباس صاحب امیر تھے، الحمدللہ اس چلے  میں میرا پہلے  چلے  سے  بہت اچھا وقت گزرا۔

سوال  :  اچھا ماشاء اللہ، آپ کا یہ دوسرا چلہ تھا؟

جواب  :   ہاں احمد بھائی، پہلا چلہ تو میرا جب مولانا صاحب حج سے  آئے  تھے  اس کے  فوراً بعد لگا تھا، حج سے  آنے  کے  چار روز بعد میں نے  کلمہ پڑھا تھا اور تین دن بعد میرے  کاغذات بنوا کر نظام الدین سے  مجھے  جماعت میں بھیج دیا گیا تھا، وہ چلہ میرا سیتا پور میں لگا تھا، مگر وہ جماعت ذرا میری جیسی تھی، میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ اچھی نہیں تھی امیر بھی نئے  تھے  اور ساتھیوں میں بھی روز لڑائی ہوتی رہی، چار ساتھی درمیان میں واپس آ گئے  میں تو یہ کہوں گا کہ میری نحوست تھی کہ اللہ کی راہ میں بھی مجھے  میرے  جیسے  حال والوں سے  سابقہ پڑا۔

سوال  :  اچھا شمیم بھائی، آپ اپنا خاندانی تعارف کرایئے ؟

جواب  : میں مظفر نگر ضلع کے  سکھیڑہ گاؤں کے  پاس ایک گاؤں کے  گوجر زمیندار پریوار میں پیدا ہوا، ۱۹/اپریل ۱۹۸۴ء میری جنم تتھی (تاریخ پیدائش )ہے، میرے  پتاجی نے  نام شیام سندر رکھا، میرا خاندان پڑھا لکھا خاندان ہے، میرے  چچا سرکاری افسر ہیں، میرے  والد بھی ماسٹر تھے  اور ستر بیگھہ زمین بھی تھی، میرے  بڑے  بھائی فوج میں ہیں، ایک بہن ہے  ان کی شادی سرکاری اسکول کے  ٹیچر سے  ہوئی ہے، میں نے  ہائی اسکول سے  پڑھائی چھوڑ دی اور فلم دیکھنا، سگریٹ پینا، گٹکہ کھانا اور آوارہ لڑکوں کے  ساتھ رہنا میرا کام تھا، میرے  پتاجی نے  مجھے  پڑھنے  پر زور دیا تو میں گھر سے  بھاگ گیا، میری سنگتی اچھی نہیں رہی اور پھر مجھے  گولیاں کھانے  کی عادت ہو گئی، کافی دنوں کے  بعد میں کسی طرح گھر آیا، مگر میرا تعلق غلط لوگوں سے  تھا، خرچ گھر والے  دیتے  نہیں تھے، میں نے  خرچ بڑھا رکھا تھا مجبوراً گھر سے  چوری کرتا، کبھی کچھ نکال کر بیچ آتا کبھی کچھ گھر والوں نے  احتیاط کی تو پھر باہر سے  چوری کرنے  لگا، بات بگڑتی گئی اور میں لوٹ مار کر نے والے  لڑکوں کی گینگ میں جا ملا اور میرے  اللہ کی رحمت پر قربان کہ یہ گینگ ہی میری نیا پار لگائی گئی۔

سوال  : اصل میں گینگ میں رہنا تو نیا کو ڈبوتا ہی ہے، بس اللہ کی رحمت نے  آپ کو پھول سمجھ کر اس گندی گینگ کی کیچڑ سے  آغوش رحمت میں اٹھا لیا۔

جواب  : ہاں آپ سچ کہتے  ہیں۔ اصل میں میرا خاندان اور پورا پریوار بڑے  سجن لوگوں کا پریوار ہے  میرے  گھر والوں کے  زیاد ہ تر مسلمانوں سے  تعلقات رہے  ہیں میرا بچپن بھی اسی ماحول میں گزرا، میں بد قسمتی سے  اس ماحول سے  دور ہوتا رہا مگر مجھے  اس غلط ماحول سے  سوبھاؤ (فطرت) کے  لحاظ سے  میل محسوس نہ ہوا۔

سوال  :  اپنے  اسلام قبول کرنے  کے  بارے  میں ذرا بتایئے ؟

جواب  : احمد بھائی پچھلے  سال دکھیڑی جلسہ سے  واپس آتے  ہوئے  رات کو منصور پورسے  پہلے  آپ کے  اور ہم سب کے  ابی مولانا کلیم صاحب کی گاڑی پر بدمعاشوں نے  گولی چلا دی تھی، ہمارے  ڈرائیور سلیم میاں کے  دو گولیاں لگی تھیں، ایک ہاتھ میں اندر گھس گئی تھی دوسری گولی بالکل دل کے  سامنے  سینہ پر لگی تھی، کرتا بری طرح پھٹ گیا، ۳۱۵ کی گولی، مگر کلائی سے  (اللہ کی رحمت سے  ) بس جیسے  چھوکر واپس آ گئی، گولی کا نشان دیکھ کر آدمی خود حیرت کرے  گا کہ اللہ کی شان تھی، اللہ تعالی اپنے  سچے  بندوں کو ساتھی بھی ایسے  دیتے  ہیں کہ گولی لگنے  کے  با وجود سلیم نے  گاڑی کو دو تین کلو میڑ الٹا بیک گیر میں دوڑایا اور موقع لگا کر موڑا اور دس کلو میڑ دور جا کر بتایا کہ مجھے  گولی لگ گئی ہے  اور حوصلہ نہیں کھویا، ورنہ ہمارے  ساتھی تو یہ کہہ رہے  تھے  کہ ہم نے  ایسا نشانہ بنا کر گولی سامنے  سے  ماری تھی کہ ہم کو یقین تھا کہ ڈرائیور تو مرگیا ہو گا، کوئی دوسرابرابر والا گاڑی بھگا رہا ہے۔

وہ جو گولی چلانے  والے  لوگ تھے  سب میرے  ساتھی تھے، مگر میرے  اللہ کا کرم تھا میں دو ہفتہ سے  بیمار ہو گیا تھا اور مجھے  پیلیا ہو گیا تھا، میں مظفر نگر اسپتال میں بھرتی تھا، یہ خبر پورے  علاقہ میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی، ہم آٹھ لوگوں کا گینگ تھا، صرف میں ایک ہندو تھا اور سب سات لوگ مسلمان تھے  اتفاق سے  میرے  علاوہ ساتوں اس روز اس واقعہ میں موجود تھے، کھتولی کوتوالی نے  سی آئی ڈی انچارج کو بلایا اور دونوں نے  قسم کھائی کہ ایسے  سجن، بھلے  اور مہان آدمی کی گاڑی پر ہمارے  چھیتر (علاقہ ) میں یہ حملہ ہوا ہے  ہمارے  لئے  ڈوب مرنے  کی بات ہے، قسم کھا کر عہد کیا جب تک مجرموں کو پکڑ نہ لیں گے  اس وقت تک کھانا نہیں کھائیں گے، بھلا ایسے  لوگوں پر گولی چلانے  والے  کب بچ سکتے  تھے، تیسرے  روز ان میں سے  تین پکڑے  گئے  اور پٹائی پر سب نے  بتا دیا، باقی چار بھی ایک ہفتہ میں گرفتار ہو گئے، بہت سے  کیس لوٹ مار چوری ڈاکے  کے  کھلے  اور تھانہ انچارج نے  ایسے  کیس بنائے  کہ ضمانت تو سالوں تک ممکن ہی نہیں تھی نہ ہوئی۔

ایک ہفتہ کے  بعد میری طبیعت کچھ ٹھیک ہوئی، دو بار خون بھی چڑھا تو میری چھٹی ہوئی، دو ہفتے  تک گھر پر ہی رہا، ساتھیوں کے  پکڑے  جانے  کی خبر مجھے  مل گئی تھی، میرا خون سوکھتا تھا کہ سختی میں میرا نام نہ لے  لیا ہو، مگر دو مہینے  تک جب ہمارے  گھر پولیس نہ آئی تو کچھ اطمینان ہوا کچھ طبیعت بھی ٹھیک ہو گئی تو میں کسی طرح موقع لگا کر جیل میں ملائی کرنے  گیا، جیل میں ساتھیوں نے  سارا معاملہ بتایا اور مجھے  بدھائی دی کہ تو بیمار ہو گیا ورنہ تو بھی ہمارے  ساتھ جیل میں ہوتا، مظفر نگر جیل میں ان کی ملاقات کچھ قیدیوں سے  ہوئی جو مولانا صاحب کے  ان ساتھیوں کی کوشش سے  جن کو دشمنی میں لوگوں نے  جھوٹ ایک قتل کے  کیس میں پھنسا دیا تھا مسلمان ہو گئے  تھے، ان قیدیوں سے  ملنے  مولانا کلیم کئی بار جیل آئے، جیل والوں سے  مولانا صاحب اور ان کے  گھر والوں اور ان کی والدہ کے  بارے  میں کہانیاں سی سناتے  رہتے  تھے، ان کے  گھر کا یہ حال ہے  کہ اپنے  چوروں کو خود چھڑا کر لاتے  ہیں، معاف کرتے  ہیں ان کے  گھر راشن پہنچاتے  ہیں، کوکڑا گاؤں کے  میرے  ایک ساتھی نے  جو ہمارا سردرد تھا مجھ سے  کہا تو پھلت جانا اور مولانا صاحب سے  ہماری پریشانی بتانا اور خوب رونا، منھ بنا کر خوب پریشانیاں بتانا، میں نے  کہا تمہیں شرم نہیں آتی، بھلا ان کے  یہاں جانے  کا کس طرح منھ ہو سکتا ہے، مگر وہ زور دیتا رہا تو جا کر دیکھنا وہ تجھے  کچھ نہیں کہیں گے، ان سے  کہنا سب ساتھی دل سے  معافی مانگ رہے  ہیں اور سبھی عہد کر رہے  ہیں کہ اب اچھی زندگی گزاریں گے  اور آپ کے  مرید بھی بن جائیں گے، میری ہمت نہ ہوئی، ہفتے  دو ہفتے  کے  بعد وہ مجھے  زور دیتے  رہے۔

بار بار کہنے  پر مجھے  بھی ان کے  حال پر ترس آ گیا اور میں پتہ لینے  کے  بعد پھلت پہنچا، سردی کا زمانہ تھا راستہ میں بارش ہو گئی اور میں بھیگ گیا، مولانا صاحب ظہر کی نماز کے  لئے  جا رہے  تھے  نماز کا وقت قریب تھا، مجھے  دیکھا معلوم کیا کہاں سے  آئے  ہو؟ میں نے  اپنے  گاؤں کا نام بتایا، مولانا صاحب گھر میں گئے  اور میرے  لئے  ایک شرٹ پینٹ لے  کر آئے  اور بولے  سردی سخت ہو رہی ہے  آپ اندر جا کر کپڑے  بدل لیجئے، میرا نام پوچھا میں نے  نام بتایا شیام سندر، تو انھوں نے  رضائی میں بیٹھ جانے  کو کہا اور اندر سے  بچے  کو ایک کپ چائے  لانے  کو کہا، نماز کے  لئے  جاتے  وقت ہنستے  ہوئے  بولے، آپ تو اس علاقے  کے  مہمان ہیں جہاں ہماری اچھی مہمانی ہوئی تھی، ہمارے  ڈرائیور کے  گولی لگی تھی، میں یہ سن کر سہم گیا، میرے  چہرے  کے  اترنے  سے  مولانا صاحب بولے  آپ کیوں شرماتے  ہیں، کوئی آپ نے  گولی نہیں چلائی تھی، آپ تو ہمارے  مہمان ہیں، مولانا صاحب نماز پڑھنے  چلے  گئے۔

نماز پڑھ کر واپس آئے  تو میں نے  الگ بات کرنے  کے  لئے  کہا، برابر کے  چھوٹے  کمرے  میں مجھے  لے  گئے  میں نے  اپنا تعارف کرایا اور اپنے  ساتھیوں کا حال اور ان کے  گھر کا حال خوب بناوٹی رونا بنا کر سنایا اور مولانا صاحب سے  کہا آپ چاہیں تو ان کی ضمانت ہو سکتی ہے، مولانا صاحب نے  کہا نہ ہم نے  ان کو گرفتار کیا ہے  اور ہم ان کو مجرم کم اور بیمار زیادہ سمجھتے  ہیں، ایسے  سچے  اور اچھے  دین کو ماننے  والے، ایسے  رحمت بھرے  رسول اللہﷺ پر ایمان رکھنے  والے، ایسی بے  دھڑک لوگوں کی جانیں لیں گے  تو پھر دنیا کا کیا ہو گا؟ ان کا علاج یہ ہے  کہ ان سے  کہوں یا عمر قید میں رہو یا تین چلے  کے  لئے  جماعت چلے  جاؤ، اگر وہ سچے  دل سے  اپنی غلطی پر شرمندہ ہیں تو وہ جیل سے  سیدھے  تین چلے  کے  لئے  ساتوں جماعت میں چلے  جائیں، ہم خود گواہی دینے  کے  بجائے  ان کی ضمانت کو تیار ہیں۔

مولانا صاحب نے  مجھ سے  کہا، آپ پہلے  کھانا کھالیں میں ابھی آتا ہوں، ایک صاحب اندر سے  کھانا لے  آئے، تھوڑی دیر میں مولانا آئے  اور مجھ سے  کہا اپنے  ساتھیوں کی جیل کی تو تم فکر کرتے  ہو تمہیں بھی ایک جیل میں مرنے  کے  بعد جانا پڑسکتا ہے، وہ جیل ہمیشہ کی ہے  جس سے  ضمانت بھی نہیں ہے  وہ نرک کی جیل ہے، جس میں ایسی سزائیں ہیں جن کا تصور بھی یہ دنیا کی پولیس والے  نہیں کر سکتے، اس جیل سے  بچنے  کے  لئے  یہ کتاب پڑھو یہ کہہ کر ’’ آپ کی امانت آپ کی سیوا میں ‘‘مجھے  دی پھر وہ ایک ساتھی کو میرے  پاس بھیج کر چلے  گئے  ان سے  بات کرو، وہ مجھے  مسلمان ہونے  کے  لئے  کہتے  رہے  اور بولے  تم بڑے  خوش قسمت ہو کہ مالک نے  آپ کو اسی بہانے  ہمارے  حضرت کے  یہاں بھیج دیا، مالک کی مہر ہوتی ہے  تو اللہ اس در کا پتہ دیتے  ہیں، میں نے  ان سے  اس کتاب کو پڑھنے  کا وعدہ کیا اور اس لحاظ سے  خوش خوش گھر لوٹا کہ چار مہینے  جماعت میں جانا تو بہت آسان ہے، میں نے  اگلے  روز جیل جا کر ساتھیوں کو خوش خبری سنائی انھوں نے  پوری بات سنی اور بہت روئے  ایسے  آدمی کے  ساتھ ہم نے  بڑا ظلم کیا اور پھر ان نو مسلم قیدیوں کے  ساتھ رہنے  لگے  نماز پڑھنی شروع کر دی، روزانہ تعلیم میں بیٹھنے  لگے  اور تین قیدی ان کے  کہنے  سے  مسلمان بھی ہوئے۔

میں نے  دوسرے  روز وہ کتاب پڑھی، ایک اجنبی آدمی کے  ساتھ مولانا صاحب کے  برتاؤ نے  میرے  اندر ون کو مولانا کا کر دیا اور مجھے  اندر میں ایسا لگ رہا تھا کہ میں مولانا کا غلام ہو گیا ہوں، اس کتاب نے  مجھے  اور بھی جذباتی بنا دیا، میں تین دن کے  بعد پھلت گیا مولانا نہیں ملے، بہت مایوس واپس لوٹا دوسری بار گیا، تیسری بار گیا تو معلوم ہوا کہ وہ آئے  تھے  اور آج ہی حج کے  سفر پر چلے  جائے  گے  اور ایک مہینے  بعد آئیں گے۔

ایک ایک دن کر کے  دن گنتا رہا، میں بیان نہیں کر سکتا احمد بھیا، میں نے  ایک مہینہ سالوں کی قید کی طرح گزارا، اللہ کا کرم ہوا میں نے  پھلت فون کیا معلوم ہوا کہ مولانا صاحب آ گئے  ہیں اور کل تک رہیں گے، ۱۶/جنوری کو صبح کے  دس بجے  میں نے  مولانا صاحب کے  پاس جا کر کلمہ پڑھا میں نے  مولانا صاحب سے  کہا کہ میرے  پتاجی مجھے  مارتے  اور ڈانٹتے  تو کہا کرتے  تھے  کہ نالائق ہمارے  بڑے  تو یہ کہا کرتے  تھے، کہ انسان وہ ہے  کہ اس کے  دشمن بھی اس سے  فائدہ اٹھائیں، تو نے  اپنے  ہی گھر کو نرک بنا دیا ہے، میں یہ سن کر کہتا ایسے  لوگ کسی دوسرے  لوک میں ہوں گے، لیکن آپ کے  قاتلوں کے  ساتھ رہنا میرے  لئے  ایمان لانے  کا ذریعہ بن گیا، مولانا صاحب نے  کہا میں کیا بلکہ وہ مالک جس نے  پیدا کیا اس کو آپ پر رحم آ گیا، آپ رحمت کی قدر کریں، میرا نام مولانا صاحب نے  شمیم احمد رکھا۔

سوال  :  پھر اس کے  بعد آپ جماعت میں چلے  گئے ؟

جواب  : دوسرے  روز میرے  کاغذات میرٹھ بھجوا کر بنوائے  اور مجھے  ساتھ لے  کر مولانا صاحب دلی گئے  اور ایک مولانا کے  ساتھ مجھے  مرکز بھیج دیا، سیتا پور چلہ لگا، کچھ نماز وغیرہ تو میں نے  سیکھ لی واپس آ کر میں نے  کار گزاری سنائی مولانا صاحب نے  کہا چالیس دن میں اگر آپ کلمہ بھی اچھی طرح یاد کر کے  آ گئے  تو کافی ہے، آپ کو نماز بھی خاصی آ گئی ہے، دو بارہ جا کر اور اچھی طرح یاد کر لینا، کچھ روز میں مظفر نگر ایک مدرسہ میں رہا پھر جماعت میں دوبارہ گیا، الحمدللہ اس بار میں نے  ایک پارہ بھی پڑھ لیا اور اردو بھی پڑھنا سیکھ لی، گھر والوں اور ساتھیوں کے  لئے  دعا بھی کی، واپس جا کر جیل گیا اور ساتھیوں سے  جماعت اور مسلمان ہونے  کی کارگزاری سنائی، وہ بہت خوش ہوئے، اب انشاء اللہ جلدی ان کی ضمانت ہونے  والی ہے، دو لوگوں کی ضمانت تو کسی طرح ہو گئی مگر میں نے  ان کو بھی تیار کیا ہے  وہ ساتوں انشاء اللہ جلد چار مہینے  کی جماعت میں جانے  والے  ہیں۔

سوال  :  جماعت سے  واپس آ کر آپ گھر گئے ؟ تو گھر والوں کو آپ نے  کیا بتایا؟

جواب  : میرے  گھر والے  یہ سمجھ رہے  تھے  کہ پھر گینگ میں چلا گیا ہوں، میرے  گھر سے  باہر جانے  کے  وہ عادی تھے  ان کے  لئے  یہ کوئی نئی بات نہیں تھی، ٹوپی اوڑھ کر کرتا پاجامہ پہن کر میں گھر پہنچا تو گھر والے  حیرت میں پڑ گئے، شروع میں میرے  پتاجی بہت ناراض ہوئے، پھر میں نے  پھلت جانے  کی اور وہاں کی ساری رپورٹ سنائی تو وہ خاموش ہو گئے، میں نے  ایک دن بہت خوشامد سے  ان سے  وقت لیا کمرہ بند کر کے  دو گھنٹے  ان سے  دعوت کی بات کی، پھر آپ کی امانت ان کو دی الحمدللہ، اللہ نے  ان کے  دل کو پھیر دیا اور وہ پھلت جا کر مسلمان ہو گئے، ہمارے  گاؤں میں مسلمان نام کے  برابر ہیں مولانا صاحب نے  ان سے  ابھی اظہار اور اعلان کرنے  کے  لئے  منع کر دیا ہے، البتہ وہ گھر والوں کو سمجھانے  میں لگ رہے  ہیں۔ خدا کرے  ہمارا سارا گھر جلد مشرف بہ اسلام ہو جائے۔

سوال  :  ماشاء اللہ بہت خوب، اللہ تعالیٰ مبارک کرے، آپ کوئی پیغام ارمغان کے  واسطہ سے  مسلمانوں کو دینا چاہیں گے ؟

جواب  : میں اپنی بات کیا کہوں میرا منھ کہاں میں کچھ کہہ سکوں، مگر میں ضرور کہوں گا جو مولانا صاحب کہتے  ہیں، کہ مسلمان اپنے  کو داعی اور ساری امت کو مدعو سمجھنے  لگے  تو ساری دنیا رشک جنت بن جائے  گی اور داعی طبیب اور مدعو مریض ہوتا ہے  وہ آدمی نہیں جو اپنے  مریض سے  مایوس ہو اور وہ بھی طبیب نہیں جو مریض سے  نفرت کرے، اس سے  کراہت کرے، اسے  دھکے  دیدے، مسلمانوں نے  اپنے  مریضوں کو اپنا حریف، اپنا دشمن سمجھ لیا ہے، اس کی وجہ سے  خود بھی پس رہے  ہیں اور پوری انسانیت ایمان اور اسلام سے  محروم ہو رہی ہے۔

سوال  :  ماشاء اللہ! بہت اچھا پیغام دیا، شمیم بھائی، بہت دنوں سے  میں انٹرویو لے  رہا ہوں مگر اتنی اہم بات آپ نے  کہی، آپ کو یہ سمجھ مبارک ہو۔

جواب  : احمد بھائی! بس یاد کر کے  میں نے  آپ کو سنا دیا ہے، سبق تو مولانا صاحب نے  یاد کرایا ہے۔

سوال  :   بہت بہت شکریہ!  السلام علیکم

جواب  :  آپ کا بھی شکریہ!  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ

 

مستفاد از ماہ نامہ ارمغان، جون  ۲۰۰۷ء

٭٭٭

 

 

 

  محمد اسجد صاحب {ونود کمار} سے  ایک ملاقات

 

احمد اواہ  :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

محمد اسجد  :   وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

سوال  :اسجد بھائی ماشاء اللہ آپ سے  خوب ملاقات ہو گئی آپ کو اس حلیہ میں دیکھ کر میں بیان نہیں کر سکتا کہ مجھے  کتنی خوشی ہوئی ہے ؟

جواب  : احمد بھائی جب آپ کو اتنی خوشی ہو رہی ہے  تو اندازہ لگائیے  میں جب آئینہ دیکھتا ہوں تو مجھے  کتنی خوشی ہوتی ہو گی۔ میں نے  جماعت میں وقت لگایا تو بار بار رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان سنا تھا کہ ایک زمانہ وہ آئے  گا کہ آدمی صبح کو مومن ہو گا شام کو کافر اور شام کو مو من ہو گا تو صبح کو کافر یعنی ایک دن اور ایک رات ایمان کو بچانا مشکل ہے۔ یہی وہ زمانہ ہے  ایمان جانے  کے  زمانے  میں میرے  اللہ نے  مجھ کمینے  کو میری طلب کے  بغیر ایمان سے  نوازا میں کس طرح اپنے  رب کا شکریہ ادا کر سکتا ہوں، اکثر آئینہ دیکھ کر مجھ پر یہ احساس چھا جاتا ہے  پھر یہ خیال آتا ہے  کے  گھر سے  مجھے  یہ مایا ملی تو میں بے  اختیار اپنے  رب کے  حضور الحاح و زاری سے  ہاتھ اٹھاتا ہوں کہ اس خاندان کو قیامت تک کے  لئے  عالم کی ہدایت کے  لئے  قبول کر لیجئے، بلکہ ایک تقریر مولانا کلیم صاحب کی سننے  کے  بعد تو میں یہ دعا کرنے  لگا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے  خاندان کو صرف عالم کے  لئے  نہیں بلکہ عالمین کی ہدایت کے  لئے  قبول فرما لے۔

سوال  :آپ جیسے  نیک پاک صاف مسلمان کی دل سے  دعا ہمارے  لئے  اور خاندان کے  لئے  سرمایہ ہے۔ اللہ آپ کی دعا کو بہت بہت قبول فرمائے۔ اسجد بھائی ارمغان کے  لئے  آپ سے  کچھ بات کرنا ہے ؟

جواب  : احمد بھائی ضرور کیجئے۔

سوال  :   اپنا خاندانی تعارف کرایئے ؟

جواب : میرا ملک نیپال ہے ’ کاٹھمانڈو ‘سے  دس کلو میٹر دور ایک گاؤں ہے، ۲۱/مئی۱۹۸۰ئ کو پیدا ہوا ہوں برہمن خاندان سے  میرا تعلق ہے۔ ونود کمار میرا بچپن کا نام تھا مگر پیار میں مجھے  گڈو کہا جاتا تھا ابتدائی تعلیم ہائی اسکول تک نیپال میں حاصل کی، والد کا انتقال ہو گیا تو میرے  ایک عزیز مجھے  دہلی لے  آئے  میں نے  بارہویں کا امتحان دیا تو میرے  وہ عزیز بھی دہلی میں انتقال کر گئے  اب میرے  لئے  آگے  تعلیم مشکل تھی اس لئے  میں نے  جامعہ نگر اوکھلا کے  علاقہ میں آپ کے  گھر کے  قریب دکان پر سیلس مین کی نوکری کر لی اور جامعہ میں بی کام میں بھی داخلہ لے  لیا وہیں سے  اللہ نے  مجھ پر رحم کیا۔

سوال  :  ماشاء اللہ حیرت ہے  کہ آپ کی پیدائش ہمارے  ابی کی شادی کے  دن ہوئی، ہمارے  ابی کی شادی بھی ۲۱/مئی ۱۹۸۰ء کو ہوئی۔

جواب   : واقعی عجیب بات ہے  احمد اللہ نے  میرے  لئے  ہدایت تقدیر میں لکھی تھی اس لئے  ہدایت کا ذریعہ بھی میری پیدائش کے  دن جوڑنا شروع کر دیا نہ آپ کے  والد کی شادی ہوتی نہ اسجد میاں پیدا ہوتے  نہ اللہ میاں مجھے  ہدایت دیتے۔ سبحان اللہ احمد بھائی آپ نے  کیا عجیب بات بتائی۔

سوال  :  واقعی مجھے  بھی بہت مزہ آیا آپ کی تاریخ پیدائش سن کر اچھا آپ اپنے  قبول اسلام کا واقعہ سنایئے ؟

جواب  : آپ کے  علم میں ہے  کہ میں آپ کے  گھر کے  قریب ایک جنرل مرچینٹ کے  یہاں ملازمت کرتا تھا۔ آپ کے  چھوٹے  بھائی اسجد میاں میرے  سامنے  پانچوں وقت بہت پابندی سے  نماز پڑھنے  جاتے  تھے، چلتے  چلتے  وہ دوسرے  بچوں کو بھی نماز کو کہتے  تھے، جب وہ نماز سے  واپس آتے  تو راستے  میں محلے  کے  نمازی ان کو چھیڑتے، کوئی کہتا حضرت اسجد ہمارے  یہاں چائے  پی لو، کوئی کہتا ہمارے  یہاں کھانا کھا لو، وہ شر ما کر بھاگ جاتے  آپ کی بلڈنگ میں ایک چوکی دار تھا وہ مسلمان تھا نماز نہیں پڑھتا تھا اسجد اس کو نماز پڑھنے  کو کہتے  ایک روز میں نے  بھی اس سے  کہا کہ روزانہ تم اسجد سے  وعدہ کرتے  ہو مگر نماز پڑھنے  نہیں جاتے  کچھ میں نے  زور دیا کچھ اسجد میاں نے  دوزخ سے  ڈرایا وہ نماز کو چلا گیا اب اس نے  بھی نماز شروع کر دی، ہر نماز سے  پہلے  اسجد اس کو لینے  پہنچ جاتے  ایک روز وہ ظہر کی نماز پڑھنے  گیا تو اس کے  چپل چوری ہو گئے  اسجد میاں نے  گھر سے  پیسے  لا کر اس کو نئی چپلیں لا کر دیں اور بولے  دیکھو تمہیں اللہ نے  نماز کے  بدلہ پرانے  چپلوں کے  بدلہ نئی چپلیں دے  دیں۔

سوال  :امی نے  مجھے  بتایا کہ اس کی چپل چوری ہو گئی تو اسجد آ کر خوب روئے  اور بار بار فریاد کرتے  تھے۔ امی اب وہ نماز نہیں پڑھے  گا وہ یہ سمجھے  گا کہ نماز پڑھنے  سے  تو نقصان ہوتا ہے  اگر آپ مجھے  پیسے  دے  دیں اور اس کی نئی چپل آ جائے گی تو پھر وہ ہمیشہ کا نمازی بن جائے  گا اور ضد کر کے  پیسے  لے  کر گیا اور اس کو نئی چپلیں دلوائیں۔

سوال  :ہاں تو آگے  کیا ہوا؟

جواب  : جب وہ نمازی بن گیا تو اب میری باری آئی اسجد میاں کو معلوم نہیں تھا کہ میں ہندو ہوں میں ان کو پیار سے  السلام علیکم بھی کرتا تھا تب مجھ سے  بھی کہتے  گڈو بھائی آپ دکان پر بیٹھے  رہتے  ہیں اور اذان سنتے  ہیں اور نماز کو نہیں جاتے۔ اذان سن کر جو نماز کو نہ جائے  مسجد اس کے  لئے  بد دعا کرتی ہے  میں اسجد سے  کہتا تم نماز کو چلو میں ذرا دیر میں آؤں گا دو ہفتہ اس طرح گزر گئے  وہ روزانہ عصر مغرب اور عشاء تینوں وقت تقاضہ کرتے  مگر میں ان کو بہکا دیتا اور انہیں ٹلا دیتا ایک روز عصر کی نماز میں وہ آ کر مجھ سے  لپٹ گئے، گڈو بھائی آج میں آپ کو نماز کے  لئے  لے  جا کر رہوں گا، میں نے  اسجد سے  کہا تم مجھے  جانتے  نہیں ہو میرا نام ونود کمار ہے  اور میں مسلمان نہیں ہوں بلکہ ہندو ہوں، وہ بولے  پھر تو آپ کے  لئے  بہت مشکل ہے  گڈو بھائی، آپ تو بے  نمازی سے  بہت زیادہ خطرہ میں ہیں۔ میں نے  کہا وہ کیسے ؟ وہ بولے  کہ بے  نمازی تو دوزخ میں جل کر ایک دن جنت میں چلا جائے  گا، مگر ایمان کے  بغیر تو ہمیشہ کی جہنم ہے۔ گڈو بھائی آپ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جاؤ۔ جماعت کا وقت ہو گیا میں نے  کہا اسجد تمہاری جماعت نکل جائے  گی، وہ بولے  جماعت میری نکل جائے  گی اور اگر آپ کی جان نکل گئی اور ہندو مر گئے  تو کتنا نقصان ہو گا۔ میں نے  کہا اچھا تم نماز پڑھ آؤ پھر بات کریں گے۔ وہ نماز پڑھنے  چلے  گئے  اور آ کر میری دکان کے  سامنے  کھڑے  ہو گئے، گاہک آتے  گئے  مگر وہ لگے  رہے  اور بار بار زور دیتے  رہے  کہ گڈو بھائی آپ کے  یہاں سے  ہم سودا لاتے  ہیں، آپ ہم سے  بہت بات کرتے  ہیں، میں کلمہ پڑھوائے  بغیر ہر گز نہیں جاؤں گا۔ آپ کو مسلمان ہونا پڑے  گا، میں کہتا رہا اسجد تم جاؤ پھر کسی دن بات کریں گے  وہ بولے  کیا پتہ آج ہی آپ کی موت آ جائے  یا میں مرجاؤں وہ جب زیادہ ضد کرنے  لگے  تو مجھے  خیال آیا کہ یہ ننہا سا بچہ، احمد بھائی اسجدکی عمر اب کتنی ہے ؟ گیارہ سال ہے۔ یعنی جب ان کی عمر آٹھ سال تھی یا اس سے  بھی کم، مجھے  یہ خیال آیا کہ بچے  کا دل رکھنے  میں کیا حرج ہے  کوئی کلمہ پڑھنے  سے  میں مسلمان تو ہونے  سے  رہا میں نے  ان کو ٹالنے  یا دل رکھنے  کے  لئے  کہا کہ اچھا کلمہ پڑھاؤ، انہوں نے  مجھے  کلمہ پڑھایا میں نے  ہنستے  ہوئے  کلمہ پڑھا وہ بولے  اب گڈو بھائی آپ اپنا مسلمان نام رکھ لو میں نے  کہا کہ نام بدلنا بھی ضروری ہے، اسجد نے  کہا ابی کہتے  ہیں نام بدلنا تو ضروری نہیں مگر اچھا ہے، جب تم نے  کلمہ پڑھ لیا تو نام بھی بدل لو تو اچھا ہے، میں نے  کہا اچھا بتاؤ میرا نام تم کیا رکھو گے  ؟ اسجد بولے  تم اپنی پسند سے  کوئی مسلمان نام رکھ لو میں نے  کہا مجھے  تو تمہارا نام پسند ہے۔ میں تو محمد اسجد نام رکھوں گا بولے  کوئی حرج نہیں اسجد بھی اچھا نام ہے  اس کے  معنی ہیں زیادہ سجدے  کرنے  والا۔ بہت اچھا نام ہے، میں نے  کہا پھر تمہیں اپنا نام بدلنا پڑے  گا۔ بولے  مجھے  کیوں بدلنا پڑے  گا، ایک نام کے  بہت لوگ ہوتے  ہیں مغرب کی نماز کا وقت ہو گیا اسجد بولے  اب تم مسلمان ہو گئے  چلو نماز پڑھنے  میں ٹلایا کہ میرے  کپڑے  گندے  ہیں میں نئے  کپڑے  پہن کر آؤں گا اور نماز پڑھوں گا اسجد نماز پڑھنے  چلے  گئے  نماز کے  بعد گھر سے  آپ کے  ابی کی کتاب آپ کی امانت لے  کر آئے  اور بولے  اسجد بھائی آپ اس کتاب کو غور سے  پڑ ھئے  تاکہ آپ کو معلوم ہو جائے  اللہ نے  مسلمان بنا کر آپ پر کیسا کرم کیا ہے  دیکھئے  آپ اس کو کئی بار پڑھنا میں نے  کتاب اسجد سے  لے  لی اور دل میں یہ بھی خیال آیا کہ یہ عجیب بچہ ہے  جونک کی طرح لپٹ گیا میرے  اندر سے  جیسے  کسی نے  کہا کہ یہ ننہا سا بچہ کچھ تو بات ہے  جو ایسی ہمدردی اور تڑپ کے  ساتھ اس کلمہ اور نماز کو کہہ رہا ہے۔ میں نے  اسجد سے  کہا کہ میں ضروراس کتاب کو پڑھوں گا اسجد نے  کہا پکا وعدہ ہے  میں نے  کہا پکا وعدہ ہے۔

دکان بند کر کے  میں کمرے  پر چلا گیا کھانا کھا کر سو گیا تھوڑی دیر بعد میں نے  خواب دیکھا کہ ایک آگ کا الاؤ ہے  اور اس سے  آگ کے  شعلے  اٹھ رہے  ہیں اور لوگ اس میں جل رہے  ہیں کبھی اٹھتی ہے  کبھی بیٹھ جاتی ہے  آگ کی لپٹیں آسمان کو چھو رہی ہیں انتہائی خطرناک آگ کی لپٹوں کے  ساتھ جلنے  والے  لوگ بھی چیختے  چلاتے  اوپر جاتے  ہے۔ دور اسجد کھڑے  کہہ رہے  ہیں گڈو بھائی یہ دوزخ ہے  جس سے  اللہ نے  آپ کو کلمہ پڑھوا کر بچا لیا میری آنکھ کھل گئی میں بیان نہیں کر سکتا۔ اس آگ کا مجھ پر ایسا خوف طاری ہوا میں نے  کمرے  میں سوتے  ساتھیوں کی پرواہ کیے  بغیر لائٹ جلائی اور آپ کی امانت کو پڑھا ایک بار پڑھا، دوبار پڑھا، تین بار پڑھا پھر میں نے  دل ہی دل میں کہا اسجد میرے  خیر خواہ اسجد تم نے  بہت اچھا کیا مجھے  ونود کمار سے  اسجد بنا لیا اسجد تم نے  مجھ سے  اپنا وعدہ پورا کراہی لیا، اسجد تم بچے  ہو یا اللہ نے  تمہیں کچھ اور بنایا ہے۔ دل میں تقاضہ ہوا کہ میں نے  عصر کے  بعد کلمہ پڑھا ہے  مجھے  جو نمازیں مجھ پر فرض ہیں ضرور پڑھنی چاہئیں۔ اسجد نفیس سے  بتاتے  تھے  کے  ایک وقت کی نماز قضاء کرنے  پر دو کروڑ اٹھاسی لاکھ برس جہنم میں جلنا پڑے  گا۔ میں نے  اپنے  کمرے  کے  ساتھی فرید کو اٹھایا اور اس سے  کہا شام چھ بجے  کے  بعد سے  ایک مسلمان کتنی نمازیں پڑھتا ہے۔ اس نے  کہا دو، میں نے  کہا تم مجھے  نماز پڑھوا دو میں پڑھتا جاؤں وہ بولا سو جاؤمیری نیند خراب نہ کرومگر میں نے  خوشامد کی اس کے  پاؤں دبائے  اس کو ترس آ گیا اور وہ اٹھا مجھے  وضو کرایا اور مغرب اور عشاء کی نماز پڑھائی میں نے  الٹے  سیدھے  رکوع سجدے  کئے۔

اگلے  روز صبح کو میں دکان پر گیا تو اسجد اسکول سے  آئے  میں نے  دکان سے  اٹھ کر ان سے  کہا اسجد تم بستہ رکھ کر کھانا وغیرہ کھا کر جلدی آؤ مجھے  کچھ ضروری بات کرنی ہے۔ وہ جلدی نماز وغیرہ سے  فارغ ہو کر دکان پر آئے  میں نے  کہا، کل میں نے  تمہیں بہکانے  اور جان بچانے  کے  لئے  کلمہ پڑھ لیا تھا اب میں نے  آپ کی امانت پڑھ لی ہے  اور اسلام کو سمجھ لیا ہے  اب تم مجھے  سچ مچ میں کلمہ پڑھوا دو اور مسلمان بنالو اسجد نے  مجھے  کلمہ پڑھوایا میں نے  مسجد میں نماز پڑھنے  جانا شروع کر دیا میرے  دکان مالک بے  چارے  عام مسلمان تاجر ہیں دو تین روز کے  بعد انہوں نے  مجھے  نماز سے  آتے  دیکھا تو بولے  ابے  گڈو تو مسجد کیوں گیا تھا میں نے  کہا یہ اسجد ضد کر رہا تھا۔ میں نے  سوچا میں بھی نماز پڑھ کر دیکھوں وہ بولے  دماغ خراب ہو گیا ہے  یہاں گاہک انتظار کر رہے  ہیں۔میرا دل بہت ٹوٹا کہ کیسا جانوروں کی طرح ڈانٹ رہے  ہیں آپ کی امانت میں میں نے  پڑھا تھا کہ مسلمان کو نماز کی پابندی ضروری ہے  اور ایک نماز قضا کرنے  کی سزا جو اسجد نے  بتائی تھی وہ میرے  لئے  ایسی اہم تھی کہ نماز نہ پڑھنا میرے  لئے  مشکل نہیں بلکہ ممکن نہیں تھا۔ اذان کی آواز آتے  ہی میں نے  غلامی کا ا قرار کیا ہے  آقا آواز لگائے  بلائے  اپنے  دربار عالی میں اور یہ ادنیٰ غلام حاضر نہ ہو اس سے  زیادہ اور کیا کم ظرفی ہو سکتی ہے، مجھے  خیال آیا کہ یہ دکان کے  مالک ہیں، ہواکریں یہ میرے  مالک تو نہیں مجھے  دکان مالک کی نہیں اپنے  مالک آقا کی بات ماننا ہے۔ میں غلام اور بندہ دکان مالک کا نہیں سارے  جہاں کے  مالک کا اپنے  مالک کا ہوں۔ میں نماز پڑھنے  جاتا رہا دو تین روز کے  بعد ایک رات میں عشاء کی نماز پڑھ کر آیا تو دکان مالک بہت برہم ہوئے  بولے  صبح کو جا کر مندر میں پوجا کو نہیں جاسکتا تو ہندو ہے  اپنے  مذہب کو مان تو ناپاک مسجد کیوں جاتا ہے  میرے  دسیوں گاہک چلے  گئے  میں نے  کہا کے  صاحب میں اب ہندو نہیں ہوں میں مسلمان ہو گیا ہوں وہ مجھے  مکان میں لے  گئے  اور اندر لے  جا کر بہت گالیاں دیں اور مجھ پر دباؤ دیا کہ میں مسلمان نہ بنوں اور بولے  پورے  علاقہ میں تو فساد کروائے  گامیں نے  کہا یہ علاقہ مسلمانوں کاہے  اور میرا گھر نیپال ہے  اور مجھے  اپنے  گھر والوں سے  کوئی واسطہ بھی نہیں آپ کیوں ڈرتے  ہیں میں مسلمان ہوا ہوں خود رسک لوں گا، وہ بہت ناراض ہوئے  میرے  بحث کرنے  پر انہوں نے  جوتا پاؤں سے  نکالا اور بولے  لے  تجھے  مسلمان بناؤں بہت گالیاں دیں اور جوتوں سے  بے  تحاشہ مارا ما تھا چھل گیا خون نکلنے  لگا اس پر بس نہیں کیا انہوں نے  کہا کہ میرے  سامنے  سے  چلا جا میرا سامان کمرے  سے  باہر نکال کر پھینک دیا فروری کی رات تھی رات کو بارش بھی ہوئی میری ساری کتابیں بھیگ گئیں میں نے  بھی کوئی سایہ تلاش نہیں کیا بس دل ہی دل میں فریاد کرتا رہا میرے  مالک میں آپ کا غلام آپ کی غلامی کے  لئے  مجھے  چاہے  جان بھی دینی پڑے  تو مجھے  منظور ہے  بس آپ میرے  ایمان کو قبول کر لیجئے۔

سوال  :  اسجد بھائی ہمیں بالکل معلوم نہیں تھا کہ آپ کے  ساتھ ایسا ظلم ہوا۔ پھر کیا ہوا؟

جواب  : اگلے  روز میں نے  سامان اٹھایا ایک شیڈ کے  نیچے  ڈال دیا ایک صاحب کار لے  کر کسی دوست کے  یہاں ملنے  گئے  تھے۔ انہوں نے  اس شیڈ کے  قریب گاڑی روکی مجھ سے  بولے  آپ یہاں کیوں پڑے  ہیں میں نے  کہا ایسے  ہی وہ بولے  نہیں سچ سچ بتایئے  مجھے  شرم آئی ہے  کہ اللہ کے  علاوہ کسی سے  اپنا دکھ کہوں وہ بولے  دیکھو اللہ نے  مجھے  پیدا کیا آپ نے  مجھ سے  کہا تو نہیں گاڑی روکو اللہ نے  مجھ کو رکنے  پر مجبور کیا اللہ نے  میرے  دل میں ڈالا اللہ ہی سب کام کرتے  ہیں مگر اس دنیا میں اسباب سے  ہی اللہ کام کرواتے  ہیں۔ ان کے  بہت اصرار پر میں نے  اپنا حال بتایا انہوں نے  میرا سامان اپنی گاڑی کی ڈگی میں رکھا اور بولے  آج سے  تم میرے  بیٹے  ہو میرے  کوئی اولاد نہیں ہے  میں نے  کہا آپ مجھے  اولاد بنا کر پابند بنائیں گے  میں اب اللہ کے  علاوہ کسی کی غلامی نہیں چاہتا بولے  اب ایسا نہیں ہو گا میں بھی اللہ کا بندہ ہوں میں نے  کہا ایک شرط پر آپ کے  ساتھ جا سکتا ہوں کہ آپ نماز اور دین کے  کسی کام سے  مجھے  نہیں روکیں گے۔ میری بات سن کر وہ رونے  لگے  اور بولے  ایک مسلمان نے  نا سمجھی کی ہے  تو اللہ کی زمین پر کوئی مسلمان ہی نہیں، میں ان کے  ساتھ جعفر آباد چلا گیا وہ موتیوں کی تجارت کے  الحمد للہ بڑے  تاجر ہیں۔ میں نے  بی کام مکمل کر لیا تھا چھٹیوں میں میں تین چلوں کے  لئے  جماعت میں بنگلور چلا گیا۔ ہمارے  رہبر صاحب بنگلور کے  ایک عالم تھے  وہ مولانا کلیم صاحب کو جانتے  تھے  انہوں نے  جماعت میں میری بہت خدمت کی وہ سب ساتھیوں کی بہت خدمت کرتے  تھے  اور وقت بھی بہت اصولوں کے  ساتھ لگواتے۔ الحمدللہ میرا وقت بہت مبارک گزرا واپس آ کر میں نے  ایم بی اے  میں داخلہ لے  لیا۔ ایم بی اے  مکمل کر کے  مجھے  ایک امریکی کمپنی میں اسسٹنٹ منیجر کی ملازمت مل گئی الحمدللہ گڑ گاؤں میں میں سروس کرتا ہوں میں نے  مشرقی دہلی میں ایک فلیٹ بھی خرید لیا ہے۔

سوال  :  ابی سے  آپ کی ملاقات کب ہوئی؟

جواب  : دکان پر ہم روز ملتے  تھے  وہ مجھے  جانتے  تھے  میں تین چلے  مکمل کر کے  آیا تو نظام الدین ایک روز گیا تھا۔ مولانا کے  کوئی مہمان نظام الدین میں ٹھہرے  تھے  وہ ان سے  ملنے  وہاں آئے  نظام الدین کے  مین گیٹ کے  باہر میں نے  ان کو دیکھا ملاقات کی وہ مجھے  پہچان نہ سکے  میں نے  کہا۔ میں گڈو ہوں سامنے  والی دکان پر بیٹھتا تھا، وہ مجھ سے  چمٹ گئے  بلائیں لیتے  تھے  اور حیرت سے  پوچھنے  لگے  کیسے  مسلمان ہو گئے  میں نے  پورا واقعہ سنایا انہوں نے  مجھے  گھر چلنے  کا اصرار کیا۔ میں گھر گیا اسجد مجھ سے  مل کر بہت خوش ہوئے  مجھ سے  بولے  نفیس نے  مجھے  بتایا تھا کہ آپ کے  مالک نے  آپ کے  ساتھ بہت ظلم کیا تھا۔ میں نے  رو رو کر دعائیں کیں اللہ ان کو دنیا ہی میں بدلہ دیجئے۔ بیچارے  پر دیسی مسلمان کے  ساتھ یہ ظلم کیا تو اللہ نے  تمہارے  اوپر ظلم کا بدلہ دے  دیا دکان بند ہو گئی انکا کروڑوں کا پلاٹ بدمعاشوں نے  قبضہ کر لیا سارا سامان گلی میں پھکوا دیا دو سال ہو گئے  گل سڑ گیا محلہ والے  ان کو کھانا پانی کھلاتے  رہے  اب ان کے  سامان سے  عاجز ہیں کئی دفعہ پولیس میں رپورٹ کر چکے  ہیں سارا محلہ سڑ رہا ہے۔ انکا سامان گلی سے  صاف کرواؤ میں نے  سنا تو افسوس بھی ہوا، میں نے  اللہ سے  دعا کی کہ اللہ تعالیٰ آپ ان کو معاف کر دیجئے  بے  چارے  بے  گھر ہو گئے  ان کو گھر دیجئے۔

سوال  :  اب آج کل کیسے  حالات چل رہے  ہیں۔

جواب  : الحمدللہ میری شادی ہو گئی میری اہلیہ دین دار گریجویٹ ہیں پرانی دلی کی پنجابی خاندان کی لڑکی ہیں ہم لوگ خوش رہ رہے  ہیں مستورات کی جماعت کے  ساتھ وقت لگا چکے  ہیں میرا ایک چلہ کینیا میں بھی لگا ہے۔

سوال  :  اپنے  ملک میں رشتہ داروں کی آپ نے  فکر کی تھی؟

جواب  : میری اہلیہ نے  مجھے  توجہ دلائی اگلے  مہینہ ہم لوگ کاٹھمانڈو جانے  والے  ہیں آپ دعاء کریں کے  ہمارا سفر کامیاب ہو۔

سوال  :ارمغان کے  قارئین کے  لئے  کوئی پیغام دینا چاہیں گے ؟

جواب  :  اس حقیر کی زندگی یہ داستان خود ایک پیغام ہی ہے  اور عبرت کا سامان بھی ہمارے  نبی ﷺ کے  زمانہ میں مسلمانوں کو غیر مسلم ستاتے  تھے، کہ مسلمان کیوں بنے  ہو آج اسلام کی دعوت پر مامور ہم اپنے  نو مسلم بھائیوں کو مارتے  ہیں کہ تم کیوں مسلمان ہوئے  ہو، ایسی حالت میں ہمیں سرداری کیوں مل سکتی ہے  مولانا کلیم صاحب پچھلے  ہفتہ فرما رہے  تھے  کہ اللہ کا خوف دلوں میں نہیں ہے  کہ دعوت کا کام کوئی کرتا ہے  اور پڑوس والے  ڈرتے  ہیں، گھر والے  ڈرتے  ہیں کیسی افسوس کی بات ہے۔

سوال  :  بہت بہت شکریہ اسجد بھائی السلام علیکم و رحمۃ اللہ و بر کا تہ، سنا ہے  آپ دعوتی کیمپ میں پھلت دس روز کے  لئے  آنے  والے  ہیں ؟

جواب  :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکا تہٗ  حضرت مولانا سے  معلوم کروں گا، نیپال کا بھی تقاضہ ہے  اور کیمپ کا بھی۔ ہم نے  تو بیعت ہو کر دنیا کو بیچ دیا ہے  جیسا حکم ہو گا ویسا انشاء اللہ کریں گے۔

مستفاد از ماہ نامہ ارمغان، اپریل  ۲۰۰۷ء

٭٭٭

 

 

 

 

جناب عبدالحلیم {نرمل کمار} سے  ایک گفتگو

 

 

احمد اواہ   :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

عبدالحلیم  :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ

سوال  :عبدالحلیم بھائی آپ سے  ارمغان کے  لئے  کچھ باتیں کرنی ہیں ؟

جواب  :  احمد بھائی ضرور کیجئے، میرے  لئے  بڑی سعادت کی بات ہے، میرا کچھ حصہ ہو جائے  یا نام کے  لئے  ہی ارمغان جیسے  دعوتی میگزین میں میر ا نام آ جائے۔

سوال  :آپ اپنا خاندانی تعارف کرایئے  اور اپنی تعلیم وغیرہ کے  بارے  میں بتایئے ؟

جواب   :  میں ضلع بیگو سرائے  بہار کے  ایک راجپوت خاندان میں ۲۳/ سال پہلے  پیدا ہوا، میرا نام میرے  گھر والوں نے  نر مل کمار رکھا تھا، میرے  پتاجی کا نام گنگا پر ساد تھا، وہ فارمیسسٹ تھے، میرے  چھ بہنیں اور تین بھائی مجھ سے  الگ ہیں، میری والدہ بھی ہیلتھ ڈپارٹمنٹ میں ایل ایچ وی ہیں، ابتدائی تعلیم شاہ پورہ میں ہوئی اور سمستی پور میں آچاریہ نریندر دیو مہا ودیا لیہ سے  بی اے  کیا، میرے  والد صاحب فطرتاً مسلمان تھے، مورتی پوجا کو حد درجہ احمقانہ بات سمجھ کر بڑی نفرت کرتے  تھے، مجھے  بھی بچپن سے  اسلام سے  بہت لگاؤ تھا، لوگ جب مندر میں پوجا کے  لئے  جاتے  تھے  تو میں ان سے  کہتا تھا کہ ان پتھروں میں کیا رکھا ہے، سائنس کے  اس یگ (دور) میں آپ اپنے  ہاتھوں سے  بنائی ہوئی مورتیوں کی پوجا کرتے  ہو، پانچ سال پہلے  کام کے  لئے  پانی پت آیا، میرے  ایک دوست نے  مجھے  بلایا تھا، پانی پت انٹر نیشنل پانی پت میں انہوں نے  مجھے  ڈرائینگ آپریٹر کے  طور پر ملازم رکھوا دیا اور مجھے  ملازمت کے  دوران کام سکھایا، بعد میں وہ فیکٹری چھوڑ گئے  تو میں نے  بھی پانی پت چھوڑ دیا، تب ہماچل گیا اور کالا آمب میں سر سوتی اسپننگ مل میں ڈرائننگ آپریٹر کی حیثیت سے  ملازمت کر لی۔

سوال  :اپنے  اسلام قبول کرنے  کے  بارے  میں بتایئے ؟

جواب   :  سچے  نبی ﷺ نے  فرمایا کہ ہر پیدا ہونے  والا بچہ اسلامی فطرت پر پیدا ہوتا ہے، اس کے  ماں باپ اس کو یہودی بناتے  ہیں یا نصرانی یا مجوسی بناتے  ہیں، دنیا کو سچائی عطا کرنے  والے  نبی کی بات میں کس کو شک ہو سکتا ہے، مگر مجھے  اس سچائی کا کچھ زیادہ ہی احساس رہا، مجھے  بچپن سے  اسلام پسند تھا، جیسے  میں نے  ابھی بتایا کہ مورتی پوجا کرنے  والوں پر مجھے  ہنسی آتی تھی اور کبھی ترس بھی آتا تھا، کبھی کبھی میں ان لوگوں کو روکتا بھی تھا، کئی بار ایسا ہوتا تھا کہ میں دیکھتا کہ کتا مندر میں پرساد کھا رہا ہے، شیوجی یا دوسرے  دیوتا کی مورتی کو چاٹ رہا ہے  اور ٹانگ اٹھا کر پیشاب بھی مورتی کے  منھ پر کر رہا ہے، تو زور زور سے  لوگوں کو بلاتا دیکھو لوگو تمہارے  بھگوان پر کتا موت رہا ہے، اپنے  بھگوان کو بچاؤ، میں جب قرآن مجید میں حضرت ابراہیم کا قصہ پڑھتا ہوں تو مجھے  ایسا لگتا ہے  کہ میرا حال بھی حضرت ابراہیم کی طرح تھا، وہ اللہ کے  نبی تھے  میں تو ان کے  پاؤں کی دھول بھی نہیں، مگر بائی نیچر (فطرتاً) میں بالکل ابراہیمی تھا، احمد بھائی، اذان کی آواز آتی تھی تو مجھے  ایسا لگتا تھا کہ میرے  مالک کی طرف سے  مجھے  آواز لگوائی جا رہی ہے  ہمارے  قریب ایک مسجد میں ایک قاری صاحب بالکل عربی انداز میں اذان کہتے  تھے  میں بہت توجہ سے  اذان سنتا کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ میں کھانا کھا رہا ہوتا تو کھانے  سے  رک جاتا اور اذان سنتا پھر کھانا شروع کرتا، پانی ہاتھ میں ہوتا اذان کی آواز آ جاتی تو پانی ہاتھ میں لئے  ہوئے  اذان سنتا رہتا اور ختم ہو جا نے  کے  بعد پانی پیتا، کبھی کبھی اذان ختم ہوتی تو دل ہی دل میں اور کبھی زبان سے  بھی کہا کرتا کہ کبھی تو میں بھی میرے  مالک آپ کی آواز کو سن کر آؤں گا اور آپ کے  گھر میں صرف آپ کے  سامنے  ما تھا ٹیکوں گا، میری خوش قسمتی اور ایک طرح سے  بد قسمتی بھی کہہ سکتے  ہیں کہ مجھے  اللہ نے  ایسا باپ دیا تھا جو بائی نیچر مسلمان تھا اس نے  مجھے  بالکل بت پرست نہیں بننے  دیا مگر افسوس کہ وہ کلمہ کے  بغیر خود اس دنیا سے  چلا گیا (آہ بھرتے  ہوئے۔۔) میرا اندرون مجھے  اسلام کی پیاس سے  بے  چین رکھتا تھا، میرے  اللہ نے  میری رہنمائی فرمائی، کالا آمب میں میری فیکٹری میں ایک نوجوان ملاجی توحید نام کے  کام کرتے  تھے، بہت خوبصورت، پوری داڑھی، گول ٹوپی اور شرعی لباس، میری اسلامی فطرت کے  زندہ ہونے  کی بات ہی تھی کہ پوری فیکٹری میں وہ نوجوان مسلمان ہی مجھے  سب سے  خوبصورت لگتا تھا، میرے  دل میں آیا کہ میرے  مالک نے  مجھے  ہندوؤں میں پیدا کیا ہے، میرا اندر تو جیسا بھی ہو میں اپنے  لباس اور صورت کو خوبصورت انداز میں رکھ سکتا ہوں، میں نے  موقع پا کر ایک روز اس نوجوان توحید سے  کہا میرا دل چاہتا ہے  کہ میں تمھارے  جیسا لباس پہنوں اور داڑھی رکھوں، آپ مجھے  دو جوڑی کپڑے  اور ٹوپی بنوا دیں، انہوں نے  مجھ سے  کہا صرف لباس سے  ہی کیا ہوتا ہے  پورے  مسلمان بن جاؤ، میں نے  ان سے  کہا مجھے  مالک نے  ہندو گھرانہ میں پیدا کیا ہے  میں اندر سے  مسلمان کیسے  بن سکتا ہوں ؟انھوں نے  کہا جس طرح میں مسلمان بنا ہوں، میں نے  کہا تم تو مسلمان گھر میں پیدا ہوئے  ہو انھوں نے  بتایا، نہیں بلکہ میں ایک ہندو گھرانہ میں پیدا ہوا ہوں اور جوانی میں شیوسینا کا بہت سرگرم

کا رکن تھا مگر اللہ نے  مجھے  ہدایت دی اور میں نے  کلمہ پڑھا میں نے  پوچھا تم نے  کلمہ کہاں پڑھا ؟ انھوں نے  بتایا دلی میں ہمارے  ابی جی ہیں مولانا کلیم صاحب، ان کے  پاس جا کر مسلمان ہو سکتے  ہیں، ہم نے  مشورہ سے  پروگرام طئے  کیا اور سنیچر کے  روز دہلی کا سفر کیا، مولانا نے  مجھے  مسجد خلیل اللہ میں کلمہ پڑھایا اور میرے  پرانے  نام کی مناسبت سے  میرا نام عبدالحلیم رکھا اس کے  بعد میں نے  ملازمت سے  استعفا دےد یا اور جماعت میں چلا گیا۔ راجستھان میں میرا وقت لگا، الحمدللہ امیر صاحب بڑے  شفیق آدمی تھے  انھوں نے  میرے  ساتھ بہت محبت کا برتاؤ کیا اور مجھے  چالیس روز میں مکمل نماز سکھائی اور ٹوٹی پھوٹی بات چیت بھی کرنے  لگا۔

سوال  :ایمان میں آنے  کے  بعد آ پ نے  کیسا محسوس کیا ؟

جواب   :   مجھے  کفر و شرک کے  ماحول میں بہت گھٹن محسوس ہوتی تھی، ایمان قبول کرنے  کے  بعد مجھے  ایسا لگا جیسے  میرے  دل کو کسی نے  قید سے  نکال دیا ہو مجھے  بالکل ایسا لگا جیسے  آدمی بیگانہ ماحول سے  اپنے  ماحول میں آ جا تا ہے، مجھے  بہت سکون محسوس ہوا، مولانا صاحب نے  مجھے  مشورہ دیا کہ اسلام کا حقیقی مزہ حاصل کرنے  کے  لئے  آپ کو اسلام کو گہرائی سے  جاننا چاہیے، اس کے  لئے  مجھے  پھلت میں جونیر ہائی اسکول میں پڑھانے  کے  لئے  لگا دیا، الحمدللہ میں بہت دل چسپی سے  اسلام کو پڑھنے  میں وقت لگا رہا ہوں۔

سوال  :کیا آپ نے  اپنے  اہل خانہ سے  اپنے  قبول اسلام کا ذکر کیا؟

جواب  :   ابھی تک میں گھر نہیں گیا ہوں، ہاں میں نے  اپنے  چھوٹے  بھائی سے  بھی فون پر بتایا اور ماں کو بھی، چھوٹے  بھائی جو الیکٹر یکل انجینئر ہیں ان کو میں نے  اسلام کی دعوت دی، چار پانچ دفعہ کی بات کے  بعد انھوں نے  کلمہ پڑھ لیا میں نے  والدہ سے  بھی کہا انھوں نے  بھی خوشی کا اظہار کیا اور کہا، سچے  راستہ پر چلو ہمیں خوشی ہے۔ہمارا تمھارا رشتہ تو کچا ہی تھا کب موت آ جائے  اور ٹوٹ جائے، اصل اور پکا رشتہ تو مالک سے  ہے  جو سات جنم ٹوٹنے  والا نہیں تم نے  اچھا کیا کہ اپنا رشتہ مالک سے  پکا کر لیا۔

سوال  :آپ کے  والد کا انتقال کتنے  دن پہلے  ہوا؟

جواب  : بھائی یہ سوال میرے  دل کا ناسور ہے  اور یہ سوال ایسا ہے  کہ اسلام میں آ جانے  کے  بعد بھی میرے  لئے  بڑا تڑپا دینے  والا ہے، میرے  والد جو بائی نیچر مسلمان تھے، وہ مورتی پوجا کے  سخت مخالف تھے، ہندوؤں کو چھوڑ کر وہ مسلمانوں سے  دوستی رکھتے  تھے، ہندو راج پوت تھے، حلال گوشت کھاتے  تھے  اور گوشت کے  شوقین تھے، ہندو تہواروں خصوصاً ہولی اور دسہرہ کا مذاق اڑاتے  تھے، مسلمانوں کے  ساتھ عید مناتے  تھے، مگر کسی مسلمان نے  ان سے  کلمہ پڑھنے  کے  لئے  نہیں کہا، کسی کا دل دکھانا ان کے  یہاں بڑا جرم تھا، کسی مصیبت زدہ پریشان حال کی مدد کو وہ سب سے  بڑی نیکی سمجھتے  تھے، احمد بھائی اچانک ایک دو گھنٹوں کی بیماری کے  بعد ان کا انتقال ہو گیا اور وہ دنیا سے  رخصت ہو گئے  اور ایمان و کلمہ کے  بغیر کوئی نیکی اللہ کے  یہاں قبول نہیں ہوتی، احمد بھائی میرے  اپنے  پیارے  باپ دوزخ میں جل رہے  ہوں گے  آپ بڑے  خوش قسمت ہیں، آپ میرے  اس درد کو کہاں سمجھ سکتے  ہیں ذرا تصور کیجئے  اس بیٹے  کے  غم کا، جس کو معلوم ہو جائے  کہ اس کے  والد کے  لئے  ہمیشہ ہمیش کی (احمد بھائی سوچئے ) ہمیشہ ہمیشہ کی دوزخ ہو، کبھی مجھے  سب مسلمانوں سے  بدلہ لینے  کو جی چاہتا ہے، کبھی کبھی ساری ساری رات میں اللہ سے  شکوہ کرتا رہتا ہوں، کبھی کبھی میری چیخیں لگ جاتی ہیں میرے  اللہ میرے  باپ اور یہ ظالم مسلمان، کسی نے  پھوٹے  منھ سے  ان سے  کلمہ پڑھنے  کو نہیں کہا، مجھے  یقین ہے  اگر کوئی جھوٹ بھی ان سے  مسلمان ہونے  کو کہتا تو وہ سچ میں کلمہ پڑھ لیتے، کاش میرے  باپ مولانا کلیم صاحب سے  مل لیتے  (روتے  ہوئے۔۔) کاش میں پیدا ہی نہ ہوا ہوتا، میرے  باپ کے  دوزخ میں جلنے  کا غم ایسا غم ہے  جس کا کوئی علاج نہیں اور اس غم میں میرا کوئی شریک بھی نہیں۔

سوال  : عبدالحلیم بھائی، آپ ایسا مت سوچئے  آپ کو کلمہ پڑھوانے  والے  بھی تو مسلمان ہی ہیں اور جب آپ کے  والد موحد تھے، صرف ایک خدا کو مانتے  تھے  تو آپ امید رکھئے  کہ اللہ تعالیٰ آپ کے  والد کو مشرک اور کافروں کے  ساتھ دوزخ میں نہیں جلائیں گے، اللہ کی رحمت سے  امید رکھنی چاہئے۔

جواب   :   احمد بھائی میرا حال بھی یہ ہی ہوتا ہے، کلمہ کے  بغیر والد کی موت سے  بے  حال ہو کر میں مسلمانوں پر اپنا غصہ اتارتا ہوں، مگر اپنے  مسلمان ہونے  کا اللہ کا احسان پھر اپنے  آپ ہی مجھے  شرمندہ کر دیتا ہے۔ مگر احمد بھائی یہ بھی سچ ہے  کہ یہ غم میرا ایسا غم ہے  جس کو شاید میرے  علاوہ میری طرح کے  انسان کے  علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتا۔

سوال  : آپ کا واقعی حق ہے  مگر آپ کو اب یہ بھی خیال کرنا چاہئے  کہ اللہ نے  آپ کو مسلمان بنا دیا ہے  اب آپ غافل مسلمانوں کی طرح نہ بنیں، بلکہ باقی لوگ ایمان کے  بغیر نہ مریں اس کی فکر کریں۔ ابی اکثر کہتے  ہیں خرابی یہ ہے  کہ ہم میں سے  ہر ایک کو اس کا شکوہ ہے  کہ مسلمان یہ نہیں کر رہے  ہیں وہ نہیں کر رہے  ہیں، وہ اپنے  حق ادا نہیں کرتا، یہ اپنا حق ادا نہیں کرتا، حالانکہ ہمیں یہ فکر کرنی چاہئے  کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے  اور مجھے  اپنا حق ادا کرنا چاہئے۔

جواب   : ہاں بھیا احمد! ابی صاحب مجھے  بھی یہ سمجھاتے  ہیں اور مجھے  کئی بار یہ بھی بتایا کہ شیطان بہت ہوشیار ہے  کام سے  خصوصاً دعوت کے  کام سے  باز رکھنے  کے  لئے، اس غم کو بنانے  کی فکر کرتا ہے  کہ وہ ایمان کے  بغیر مرگیا تو اس کا کیا ہو گا، ہمیں اپنی توجہ اس پر لگانی چاہئے  کہ اب ہم لوگوں کو ایمان پر لانے  کی فکر کریں۔ تاکہ اب ہمارے  رشتہ دار، ہمارے  عزیز، ہمارے  بھائی بہن، دوزخ میں جانے  والے  نہ بنیں اور یہ بھی کہتے  ہیں کہ یوں تو سارے  انسان ہی ہمارے  خونی رشتہ کے  بھائی ہیں، مگر قریبی رشتہ داروں کا حق زیادہ ہے  الحمد للہ میری سمجھ میں بھی آتا ہے  اور الحمد للہ میں کوشش کر بھی رہا ہوں اور اللہ کا شکر ہے  کہ کامیابی بھی مل رہی ہے، مگر احمد بھائی باپ کا رشتہ وہ بھی ایسے  باپ کا جو بس جھوٹ کلمہ کو کہنے  کی وجہ سے  ایمان سے  محروم رہ گیا ہو مجھے  بے  چین کر دیتا ہے۔

سوال  : ان کے  لئے  آپ اطمینان رکھئے  اگر وہ شرک نہیں کرتے  تھے  اور اس سے  نفرت رکھتے  تھے  تو کریم رب انشاء اللہ ان کا حشر اہل ایمان کے  ساتھ فرمائیں گے۔

جواب  : اللہ تعالی آپ کی زبان مبارک کرے۔

سوال  :کوئی پیغام ارمغان کے  قارئین کے  لئے  آپ دیں گے ؟

جواب   :  میرا کہنا تو صرف یہ ہی ہے  کہ ہمارے  نبی ﷺ پر نبوت ختم ہو گئی اور نبوت ختم کر کے  اللہ نے  یہ کام ہمارے  سپرد کیا ہے، یہ زمانہ جو علم اور عقل کا دور ہے  اور نہ جانے  مجھ جیسے  اور میرے  والد جیسے  لوگ ایسے  ہیں جو غیر ایمان والے  گھر میں پیدا ہونے  کے  باوجود اپنی اسلامی فطرت پر ہوتے  ہیں، ان کی فکر کریں اور میرے  لئے  بھی دعا کریں، اللہ تعالیٰ مجھے  مثالی مسلمان اور پیارے  نبی ﷺ کا سچا امتی بنائے  تاکہ جنت میں ہم بھی آقاﷺ کے  قدموں میں منھ لے  جانے  کے  لائق ہو جائیں۔ میں نے  چار لائن بھی کہی ہیں   ؎

نہ جانے  موت کا پیغام کب آ جائے        زندگی کی آخری شام کب آ جائے

ہم تو کرتے  ہیں اس وقت کا دوست انتظار             ہماری زندگی اسلام کے  نام کام آ جائے

سوال  : بہت شکریہ عبدالحلیم بھائی اللہ تعالی آپ کے  اس جذ بہ کو قبول فرمائے  اور ہمیں بھی اس سے  حصہ نصیب کرے۔

جواب   : آپ کا بہت بہت شکریہ۔ آمین!

 

مستفاد از ماہ نامہ ارمغان، مارچ  ۲۰۰۷ء

٭٭٭

 

 

 

 

ڈاکٹر محمد عمر {راج ببر ٹھاکر} سے  ایک ملاقات

 

 

احمد اواہ     :  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

ڈاکٹر محمد عمر  :  وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ

سوال  : ڈاکٹر صاحب ! ابی ایک بار علی گڑھ کے  سفر سے  واپس آئے  تو آپ کا تذکرہ کر رہے  تھے، اس وقت سے  ملاقات کا اشتیاق تھا، کل ابی نے  بتایا کہ آپ دہلی آ رہے  ہیں، متھرا کے  سفر پر جاتے  وقت مجھے  فون پر ابی نے  حکم کیا کہ میں آپ سے  ملوں اور ارمغان کے  لئے  آپ سے  کچھ باتیں کروں براہ کرم آپ اپنا تعارف Introduction کرایئے ؟

جواب   : میرے  اسکول کے  سرٹیفکٹ کے  لحاظ سے  ۳۰/ اکتوبر  ۱۹۳۹ء  میں بنارس کے  ایک گاؤں کے  ایک راجپوت خاندان میں پیدائش ہوئی، والد صاحب ایک بڑے  زمین دار تھے، میرا نام راج بیر ٹھاکر تھا، شروع کی تعلیم قریب کے  ایک اسکول میں ہوئی، ہائی اسکول کے  بعد بنارس چلا گیا، بی کام بنارس سے  کیا، میرے  چچا بنارس یونیورسٹی میں پروفیسر تھے  انھوں نے  مجھے  انگلینڈ جا کر ایم بی اے  کرنے  کا مشورہ دیا اور انھوں نے  وہاں جانے  کی ساری کاروائی پوری کرائی، انگلینڈ جا کر تعلیم کے  شوق میں اضافہ ہوا اور میں نے    Ph.D.   میں رجسٹریشن کرا لیا اچانک اطلاع ملی کہ میرے  والد کا دل کا دورہ پڑنے  سے  انتقال ہو گیا، دور ملک میں رہنے  والے  اکیلے  بیٹے  کے  لئے  یہ خبر جس قدر نا قابل برداشت تھی وہ ظاہر ہے، میری زندگی کا سب سے  تکلیف دہ وہ زمانہ تھا میں اپنے  دل میں سوچتا کہ اپنی ہوس کے  لئے  میں نے  اپنی گھریلو زندگی داؤں پر لگا دی، گھر پر رہ کر اپنی زمینوں کو دیکھتا اور اپنے  ماتا پتا ( والدین )  کی خدمت میں رہتا تو کتنا اچھا تھا، بہت اداس میں گھر لوٹ آیا اور تعلیم بند کرنے  کا ارادہ کیا مگر میری ماں نے  بتایا کہ میرے  پتاجی کو میرے  پی ایچ ڈی کے  ارادے  سے  بہت خوشی ہوئی تھی وہ کہتے  تھے، ہمارے  خاندان میں جائیداد اور مال کی کمی نہیں تھی چلو بھائی کے  بعد ایک بیٹا بھی پی ایچ ڈی ہو جائے  گا، میری ماں نے  مجھ سے  کہا کہ تمھارے  پی ایچ ڈی کرنے  سے  ان کی آتما کو خوشی ہو گی اس لئے  میں انگلینڈ واپس چلا گیا، بزنس مینجمنٹ میں ریسرچ مکمل کی اور واپس ہندوستان آیا، یہ وہ زمانہ تھا جب   MBA  ہی بہت کم ہوتے  تھے، بزنس مینجمنٹ میں ہمارے  ملک میں توپی ایچ ڈی کی تعلیم تھی ہی نہیں، میرا خیال ہے  کہ ہم چند لوگ ہی اس موضوع پر پی ایچ ڈی ہوں گے، واپس آنے  کے  بعد میری خواہش تھی کہ میں کسی تعلیمی ادارہ میں سروس کروں، مگر میں کامیاب نہ ہو سکا، میں یو نیورسٹی یا معیاری ادارہ سے  وابستہ ہو نا چاہتا تھا، میں کوشش میں تھا کہ ٹاٹا نگر جمشید پور سے  وہاں کے  چیف جنرل منیجر آئے  اور مجھے  جمشید پور لے  گئے، مجھے  ایک کمپنی کا جنرل منیجر بنایا مگر میری دلچسپی تعلیمی لائن میں تھی پانچ سال سروس کر کے  مجھے  ایک موقع مل گیا، مجھے  بنارس یونیورسٹی میں ایک اچھی ملازمت مل گئی اس دوران میری والدہ کا شادی کے  لئے  دباؤ تھا، پرتاب گڈھ میں ایک بڑے  راجا خاندان میں میری شادی ہو گئی، میری اہلیہ نے  سینٹ اسٹیفن کا لج دہلی سے  گریجویشن کیا اور بنارس یونیورسٹی سے  ایم اے  اور پی ایچ ڈی کیا ہے، ان کے  والد بھی یونیورسٹی میں رجسٹرار رہ چکے  ہیں ان کے  تعلق سے  بہت جلدی میں پروفیسر بن گیا اور ڈین کی پوسٹ سے  ۱۹۹۹ء میں رٹائر ہوا، یہ میری پہلے  جنم کی زندگی کی داستان ہے  اس زندگی میں بہت موڑ آئے  نہ جانے  کتنے  ساتھیوں سے  اور افسروں سے  واسطہ پڑا اور اسٹوڈنٹ کی ایک بھیڑ ہے، جو اللہ کے  کرم سے  ملک بھر میں بڑی بڑی پوسٹوں پر پھیلے  ہوئے  ہیں اس زندگی کی ایک لمبی داستان ہے  جس میں خود میری شادی کی ایک لمبی کہانی جو ایک لمبے  زمانے  تک افیر کے  بعد ہوئی اس میں شامل ہے۔ مگر یہ سب پہلے  جنم کی باتیں ہیں ان کا ذکر بھی کیا کرنا۔

سوال  :  الحمد اللہ آپ نے  اسلام قبول کیا ہے، آپ بار بار پہلے  جنم کی بات کر رہے  ہیں اسلام میں تو اس کا تصور ہی نہیں ہے ؟

جواب  : پہلے  جنم کا جو تصور ہندو دھرم میں ہے، اس کا میں پہلے  بھی قائل نہیں تھا، مگر پہلے  دوسرے  تیسرے  جنم کا تصور تو اسلام میں ہے، ہم لوگ اپنی روحوں کے  ساتھ ازل میں تھے، اس دنیا میں جنم لے  کر آئے  اور پھر برزخ اور آخرت کے  دو دور باقی ہیں میں جو پہلے  جنم کی بات کر رہا ہوں وہ صرف میری زندگی میں مجھ جیسے  خوش قسمت لوگوں کی زندگی میں ہوتا ہے، جن کو اس دنیا کی زندگی میں نیا جنم ملتا ہے، آپ میری بات سنیں گے  تو آپ بھی پہلے  اور دوسرے  جنم کے  قائل ہو جائیں گے۔

سوال  :جی جی قبول اسلام کے  بعد از سر نو زندگی شروع تو ہوتی ہی ہے۔

جواب   :  آپ سمجھ گئے  ہوں گے  نا ! آپ بھی دوسرے  جنم کے  قائل ہیں۔

سوال  :تو اب آپ اس دوسرے  جنم کی بات بتایئے، یعنی اپنے  قبول اسلام کے  بارے  میں ؟

جواب   :   رٹائر منٹ کے  بعد مجھے  بہت سی جگہوں سے  آفر آئے  میں نے  بجاج کمپنی کی ایک آفر کو قبول کیا، ان کو یوپی میں کچھ شو گر ملیں لگانا تھیں اس کے  لئے  ایک ایڈ وائزر کی ضرورت تھی میں نے  اپنے  لحاظ سے  اس کام کو مناسب سمجھا اور آفر کو قبول کر لیا، جنوری ۲۰۰۳ء کو ایک میٹنگ کے  لئے  میرا ممبئی کا سفر تھا میٹنگ سے  واپسی پر علی گڑھ کے  قریب ایک قصبہ میں معائنہ کے  لئے   جانا تھا، فلائٹ سے  دہلی جا کر پھر گاڑی سے  لمبا سفر کرنے  کے  بجائے  میں نے  اگست کرانتی سے  متھرا آ کر کار سے  سائٹ پر جانے  کو اچھا سمجھا، فرسٹ اے  سی میں ایک رزرویشن کرایا، ممبئی میں سڑکوں کا جام بس اللہ بچائے، بالکل گاڑی چھوٹنے  سے  آدھا منٹ پہلے  گاڑی میں سوار ہو سکا، چلتی گاڑی میں کیبن میں پہنچا  تو دیکھا کہ ایک مسلمان سجن ہمارے  کیبن میں موجود ہیں، ملاقات و مصافحہ کیا خیال ہوا ایک دھارمک آدمی کے  ساتھ راستہ ذرا اچھا گزرے  گا میں نے  خوشی کا اظہار کیا، سامان سیٹ کے  نیچے  رکھ کر ڈریس بدلی اور پیشاب وغیرہ سے  فارغ ہوا اور ذرا ریلیکس(Relax)  محسوس کیا، آپس میں تعارف ہوا تو معلوم ہوا کہ وہ بھی یوپی کے  ضلع مظفر نگر کے  کھتولی کے  پاس ایک بزرگوں اور اسلامی اسکالرس کی بستی پھلت کے  رہنے  والے  ہیں اور ان کا تعلق وشو و کھیات اسلامی مہا پرش مولانا علی میاں سے  ہے، وہ دھارمک سجن آپ کے  والد مولانا کلیم صدیقی صاحب تھے، ان سے  کئی مناسبتیں ہوئیں، ایک تو کھتولی بارہا گیا، یونیورسٹی کی ملازمت کے  دوران میرے  ایک دوست کوہلی جی کھتولی شوگر مل کے  جی ایم تھے، وہ مجھے  ملازمین میں لکچر کے  لئے  بارہا بلایا کرتے  تھے  کئی دفعہ میں نے  مسز کے  ساتھ چھٹیاں وہاں گزاریں، دوسرے  وہ یوپی کے  رہنے  والے  تھے  اور تیسرے  میں مسلمانوں میں حضرت مولانا علی میاں جی سے  بہت متاثر تھا، میں لکھنو میں چھ سات بار ان کی خدمت میں گیا اور ان کے  پیام انسانیت کے  چار پانچ پروگراموں میں شریک ہو چکا تھا، میں نے  بیگ سے  کچھ ناشتہ خود نکالا اور مولانا کی خدمت میں پیش کیا مولانا صاحب نے  پہلے  تو بہت انکار کیا مگر میرے  بہت زور دینے  پر انھوں نے  اس میں سے  کچھ لے  لیا، میں بھی میٹنگ میں ایک لمبی بحث کے  بعد لوٹا تھا اور مولانا صاحب بھی، ممبئی میں بہت مصروف سفر سے  لوٹے  تھے، ایک دو گھنٹے  ہم دونوں ایک دوسرے  سے  کچھ نہیں بولے، سات بجے  کے  بعد میں نے  مولانا صاحب سے  کہا، بہت تھکا ہوا گاڑی میں سوار  ہوا تھا، خیال تھا کہ فوراً گاڑی میں سوجاؤں گا، مگر آپ کو گاڑی میں دیکھا تو دل میں خیال آیا کہ چلو ایک دھارمک آدمی کی سنگتی ملی ہے، بدن کا آرام تو کل بھی مل جائے  گا آتما کی شانتی اور آرام کو حاصل کیا جائے۔ مجھے  دھرم سے  بڑا تعلق رہا ہے  میں بہت سے  دھارمک لوگوں سے  ملا ہوں، بنارس خود ہندو دھرم کے  پنڈتوں کا گڑھ ہے  الہ آباد، رشی کیش، ہری دوار میں جاتا رہا ہوں، جے  گرو دیو، بر ہما کماری، راما کرشنا مشن، رادھا سوامی ست سنگ، نرنکاری ست سنگ، پران ناتھی کے  علاوہ، گولڈن ٹیمپل گیا، میں بدھ مت کے  لوگوں سے  بھی ملا ہوں، دلائی لاما سے  ملاقات کی ہے، ساؤتھ کے  مٹھوں میں وقت گزارا ہے، بریلی اور اجمیر بھی گیا ہوں، میری نیچر ریسرچ کی ہے  ان سب جگہوں پر جانے  کے  باوجود میرا دماغ مطمئن نہ ہو سکا میری آتما کو شانتی کس طرح نہیں ملی، میں نے  مولانا صاحب سے  کہا کبھی کبھی شانتی کی تلاش میں اپنے  یہاں کی مسجد میں چلا جاتا ہوں تو مجھے  مسجد میں بڑی شانتی ملتی ہے  یا مولانا علی میاں جی سے  جب بھی ملا ہوں تو اپنے  اندر عجیب شانتی محسوس کرتا تھا ایسا لگتا جیسے  کوئی گرم دھوپ سے  ہلکی ساون کی پھوار میں چلا گیا، دو ڈھائی گھنٹے  آپ کے  سامنے  شانت بیٹھا رہا تو مجھے  بالکل ایسا محسوس ہوا جیسے  میں مولانا علی میاں جی کی سنگتی میں بیٹھ آیا، مولانا صاحب نے  کہا یہ آپ کے  دل کی صفائی کی علامت ہے  دل کی حیثیت آئینہ کی ہوتی ہے  اگر اس سے  میل صاف ہو تو اس کے  سامنے  جو آتا ہے  وہ دکھائی دیتا ہے  سچی بات یہ ہے  کہ میں مظفر نگر کا ایک گنوار ہوں جو کچھ مجھے  ملا صرف اور صرف میرے  مالک نے  میرے  حضرت مولانا علی میاں کی سنگتی اور ان کے  چرنوں کی طفیل دیا ہے  ہمارے  پاس اپنا کچھ نہیں ہے، صرف اس دیوڑھی کا فیض ہے، مولانا بار بار حیرت سے  کہتے  رہے  کہ واقعی آپ کی حس پر بہت تعجب ہوا۔

حضرت مولانا علی میاں کے  رشتہ کی وجہ سے  ہم دونوں نے  ایسا محسوس کیا کہ جیسے  ہم دونوں ایک گھر کے  فرد ہوں، مولانا صاحب نے  مجھ سے  تفصیلات معلوم کیں سب سے  پہلے  آپ کس دھرم گرو سے  ملے، میں بنارس کے  مختلف آشرموں اور ہندو پنڈتوں سے  ملاقات اور اس کے  بعد الگ الگ مذہبی لوگوں سے  ملاقات، مٹھوں اور آشرموں اور ست سنگوں کے  سفروں اور وہاں جا کر مایوس اور بے  چین لوٹنے  کی روداد تفصیل سے  سنائی اس دوران کھانا بھی آیا اور ہم نے  کھایا میں سناتا رہا اور مولانا صاحب سنتے  رہے  اور اتنی لمبی داستاں سنتے  سناتے  بارہ بج گئے، مولا نا صاحب نے  کہا میں بھی چند منٹ اپنی بات کرنا چاہتا تھا مگر آپ ممبئی کے  سفر سے  واپس آئے  ہیں اور میں نے  اپنے  مزے  کے  لئے  چار گھنٹے  آپ کو لگائے  رکھا اب آپ آرام کر لیجئے  صبح کو مالک نے  زندگی باقی رکھی تو میں بھی چند منٹ آپ سے  لوں گا کا اب مجھے  اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ ایک دھارمک آدمی کے  ساتھ جس کی سنگتی کی تاثیر میں محسوس بھی کر رہا تھا، زبان بننے  کے  بجائے  کان بننا چاہئے  تھا میں نے  کسی صوفی کا یہ اپدیش پڑھا تھا کہ کسی پیر کے  پاس فائدہ اٹھانے  کے  لئے  زبان بند کر کے  اور کان کھول کر وقت گزارنا چاہئے  میں نے  اپنے  ماتھے  پر ہاتھ مارا اور مولانا صاحب سے  بہت معافی مانگی میں نے  اپنا وقت تو ضائع کیا آپ کو تھکا دیا مولانا صاحب نے  محبت سے  میرا ہاتھ پکڑ لیا اور بڑے  پیار سے  کہا ٹھا کر صاحب کیسی بات کرتے  ہیں مجھے  بہت مزا آیا اور تھوڑے  وقت میں بہت سی نئی معلومات بھی ہوئیں، آپ نے  مجھ پر احسان کیا میں مولانا صاحب کے  اخلاق سے  بہت متاثر ہو ا سوا بارہ بجے  ہم دونوں سو گئے۔

صبح سویرے  مولانا صاحب اٹھے، ایک دو دفعہ میری آنکھ کھلی تو دیکھا کہ وہ کیبن میں نمازو دعا میں مشغول ہیں صبح آٹھ بجے  ناشتہ والوں نے  ہمیں اٹھایا میں ٹائلٹ جا کر فریش ہوا، ناشتہ کیا اس کے  بعد مولانا صاحب نے  بات شروع کی گاڑی ایک گھنٹہ راستہ میں لیٹ ہو گئی تھی، ڈیڑھ گھنٹہ متھرا پہنچنے  میں باقی تھا مولانا نے  مجھے  اسلام کے  بارے  میں بتایا اور تھوڑی دیر کے  بعد مجھے  زور دیا کہ میں کلمہ پڑھ لوں اور بار بار مجھے  یہ بھی کہتے  رہے  کہ آپ کی پوری کہانی سن کر بالکل مطمئن ہوں کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے  نہ صرف مسلمان بنایا، مسلمان تو ہر انسان پیدائشی طور پر پیدا ہوتا ہے  آپ کو اللہ نے  مسلمان رکھا ہے  اور مجھے  امید ہے  کہ آپ کا خاتمہ ضرور انشاء اللہ اسلام پر ہونا ہے۔اس لئے  آپ ابھی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جایئے  میں نے  اپنے  ذہن میں آپ کا نام بھی محمد عمر طئے  کر لیا ہے  انھوں نے  اپنے  بریف کیس سے  اپنی کتاب آپ کی امانت آپ کی سیوا میں مجھے  دی میں اسے  پڑھنے  لگا مولانا صاحب بولے  یہ تو آپ بعد میں بھی پڑھ سکتے  ہے  یہ تو صرف اس لئے  دی ہے  کہ آپ اپنے  فیصلہ پر مطمئن ہو جائیں اب تو کلمہ پڑھ لیں میں نے  کہا یہ فیصلہ اتنی آسانی سے  کرنے  کا نہیں میں غور کروں گا اور پھر آپ کے  پاس پھلت آؤں گا  مولانا صاحب نے  بتایا دو روز کے  بعد ان کا علی گڑھ کا سفر ہے  ایک دن رات علی گڑھ رہیں گے   آپ فون پر رابطہ کر لیں وہاں آ کر بھی مل سکتے  ہیں مگر اس فیصلہ میں دیر کی گنجائش نہیں ہے  نہ جانے  موت کا کب پیغام آ جائے۔میں نے  وعدہ کیا کہ بہت جلد اور سنجیدگی سے  غور کروں گا اور علی گڑھ تو ملنے  ضرور آؤں گا متھرا آ گیا، مولانا صاحب دروازے  تک گاڑی سے  مجھے  سی آف کرنے  آئے، گاڑی چلنے  کے  بعد بھی کھڑکی پر کھڑے  مجھے  دیکھتے  رہے۔

گاڑی سے  میں اتر تو آیا مگر اندر سے  کوئی بار بار کہتا تھا کہ تجھے  مولانا صاحب کی بات مان کر کلمہ پڑھ لینا چاہئے  تھا، یہ احساس بڑھتا گیا میں نے  دوپہر کو مولانا صاحب کو فون کیا مگر نہ مل سکا اگلے  روز دوپہر کو پچاسوں مرتبہ کوشش کے  بعد فون ملا معلوم ہوا کہ مولانا چندی گڑھ کے  پاس کسی پروگرام میں گئے  ہیں میں نے  اجازت چاہی کہ میں وہیں آ جاؤں مولانا نے  کہا کہ ہم یہاں سے  نکلنے  والے  ہیں اچھا ہے  آپ علی گڑھ میں ملیں میرے  لئے  ایک دن گزارنا مشکل ہو گیا، جب احساس زیادہ ہوتا میں آپ کی امانت لے  کر بیٹھ جاتا دو روز میں دس دفعہ میں نے  اسے  پڑھا اپنی حالت سے  بے  چین ہو کر میں صبح دس بجے  علی گڑھ پہنچ گیا نئے  گیسٹ ہاوس میں ان کا انتظار کیا مولانا صاحب حسب پروگرام بارہ بجے  آئے  مجھے  انتظار میں دیکھ کر بہت خوش ہوئے  دونوں ایک دوسرے  سے  ملے  رسیپشن پر ہی مولانا صاحب سے  اپنا ارادہ ظاہر کر دیا مولانا صاحب نے  فوراً کلمہ پڑھوایا فرط محبت سے  میرا ما تھا چوما اور بولے  نام تو میں نے  ٹرین میں رکھ دیا تھا محمد عمر آپ کا نام انشاء اللہ رہے  گا۔

سوال  :اسلام قبول کرنے  کے  بعد آپ نے  کیسا محسوس کیا؟

جواب   : ایمان قبول کرنے  کے  بعد احمد میاں بالکل مجھے  ایسا لگا جیسے  میں آج ہی پیدا ہوا ہوں میں نے  کلمہ پڑھ کر ایسا محسوس کیا جیسے  کوئی جان لیواگھٹن سے  چھٹکارہ پاتا ہے، ۱۸/نومبر ۲۰۰۳ء سے  آج تک ہر لمحہ مجھے  مولانا صاحب کے  اس قول کی سچائی دکھائی دے  رہی ہے  کہ مسلمان تو ہر بچہ پیدا ہوتا ہے  مگر اللہ نے  آپ کو بائی نیچر (فطرتاً) مسلمان رکھا ہے  مجھے  اسلام قبول کر کے  اجنبی پن محسوس کرنے  کے  بجائے  بہت اپنائیت اور مناسبت معلوم ہوئی، ان دودنوں میں مجھے  ٹرین میں اسلام قبول کرنے  سے  محرومی کی وجہ سے  ایسی بے  چینی رہی کہ سائٹ کا معائنہ نہ کر سکا تین روز تک کام روک رکھا، مولانا صاحب کو بھی میرے  اسلام قبول کرنے  کی بڑی خوشی ہوئی انھوں نے  بتایا کہ ہم جیسے  درمیانی درجہ کے  لوگ فرسٹ اے  سی میں تو دور کی بات تھرڈاے  سی میں بھی سفر نہیں کرتے  میں تو ہمیشہ سلیپر کلاس میں سفر کرتا ہوں پہلے  سے  واپسی طئے  نہ ہونے  کی وجہ سے  ہمارے  رفیق مفتی محمد ہارون صاحب نے  اگست کرانتی میں رزرویشن کرا دیا کہ دہلی اور چندی گڑھ کے  پروگرام میں شرکت ہو جائے  گی ایک روز پہلے  رزرویشن کرانے  کے  باوجود انھوں نے  ٹکٹ تک مجھے  نہیں دیا اور سیدھے  گاڑی میں چھوڑنے  آئے  فرسٹ اے  سی کے  ڈبے  میں جانے  لگے  تو میں بار بار کہتا رہا کہ یہ فرسٹ اے  سی ہے  مفتی صاحب اور بھائی عبدالعزیز صاحب نو مسلم دونوں بولے  کہ یہاں سے  نکل کر چلے  جائیں گے  کیا ہم کمپارمنٹ اندر سے  دیکھ بھی نہیں سکتے، جب انھوں نے  مجھے  اندر بٹھا یا تو میں نے  کہا کہ میں ہر گز اس کوچ میں نہیں جاسکتا مفتی صاحب نے  بتایا کہ اگست کرانتی میں رزرویشن نہیں ملا تو بھائی عبدالعزیز نو مسلم پیسے  لے  کر گئے  کہ میں کرا کر لاتا ہوں اور جا کر رزرویشن کرا لائے، ٹکٹ دیکھا تو فرسٹ اے  سی کا تھا مفتی صاحب نے  ان سے  کہا کہ وہ ہر گز فرسٹ اے  سی میں سفر نہیں کریں گے۔بھائی عبدالعزیز نو مسلم نے  کہا میں مولانا صاحب کو راضی کر لوں گا جب میں کسی طرح سفر پر راضی نہ ہوا تو بھائی عبدالعزیز بولے  کہ جہاز میں تین گھنٹے  سفر کے  دوران ڈاکٹرقاسم جیسے  بڑے  آدمی مسلمان ہو گئے  اب آپ کے  ساتھ تین آدمی ہوں گے  اور ۱۶ / گھنٹے  کا ٹائم ہو گا اگر کچھ روپئے  خرچ ہو کر تین وی آئی پی مسلمان ہو گئے  تو سودا کتنا سستا ہے  مولانا صاحب نے  بتایا کہ عبدالعزیز بھائی کی اس تقریر نے  مجھے  مطمئن کر دیا مگر فرسٹ اے  سی میں کون سفر کرتا ہے  جس کو دوسروں کے  پیسوں سے  جانا ہو جب کوئی نہ آیا ٹرین چلنے  کو ہو گئی تو میں نے  سوچا کہ دوسرے  کیبن والے  سے  بات کر لیں گے۔آپ آئے  اور اپنے  برابر ایک داڑھی والے  کو دیکھ کر اجنبیت محسوس نہ کرنے  کے  بجائے  خوشی کا اظہار کیا میں نے  مولانا صاحب سے  کہا کہ میں بھی آپ کو فرسٹ اے  سی میں دیکھ کر ذرا عجیب سامحسوس کرتا تھا مگر بعد میں خیال ہو ا کہ کسی شردھالو عقیدت مند نے  ٹکٹ کرایا ہو گا، مگر آج محسوس ہوا کہ کسی عقیدت مند نے  نہیں بلکہ میرے  کریم مالک نے  مجھ پیاسے  اور بے  چین بندے  کے  لئے  آپ کو دوست بنا کر اے  سی ڈبے  میں سوار کیا تھا۔

سوال  :اس کے  بعد کیا ہوا؟

جواب  : میں بار بار اللہ کے  اس احسان پر سجدہ کرتا ہوں اور میرا رواں رواں تعریف کرتا ہے  کہ میرے  لئے  فطری طور پر اسلام کو آسان بنا دیا۔

سوال  :آپ کے  گھر والوں کا کیا ہوا ؟

جواب  : مجھے  اپنی بیوی کے  لئے  تو ذرا جوجھنا پڑا وہ گھر چھوڑ کر چلی گئی ایک سال تک ہم لوگ الگ رہے  مگر میں اللہ تعالیٰ سے  دعا کرتا رہا اور اللہ نے  بھی میری دعا قبول کی اور خود اسلام کے  لئے  راضی ہو گئی، الحمد للہ وہ مسلمان ہیں مولانا صاحب نے  ان کا نام عائشہ رکھا انھوں نے  اسلام کا بہت مطالعہ کیا اور ماشاء اللہ تہجد گزار ہیں میں بھی دو چلے  لگا چکا ہوں، میرا بیٹا اور اس کی بہو جو نیو یارک امریکہ میں ہے  اپنے  دونوں بچوں کے  ساتھ مسلمان ہیں اور ان کو اسلام قبول کرانے  میں مجھے  ذرا بھی دقت محسوس نہیں ہوئی میری بیٹی بھی مسلمان ہے  جو فرانس میں ہے  اور انھوں نے  ایک عرب سے  میرے  مشورہ سے  شادی کی ہے  ان کے  قبول اسلام کی بڑی تفصیلات ہیں، مولوی احمد صاحب وہ سننے  کی چیزیں ہیں مگر فلائٹ ہے  اور مجھ کو کوچین جانا ہے  اس لئے  انشاء اللہ پھر کسی وقت باقی باتیں ہو گی۔

سوال  :ایک منٹ میں مسلمانوں کے  لئے  کوئی پیغام ؟

جواب  : اسلام ہر انسان کی ضرورت، اس کی بھوک، اس کی پیاس کا حقیقی علاج ہے، اللہ نے  مسلمانوں کے  پاس پوری انسانیت کے  مسائل اور امراض کا علاج رکھا ہے  انسانیت پر ترس کھائیں اور ان کو دوزخ سے  بچانے  کی فکر کریں، انشاء اللہ اگلی ملاقات میں اپنے  دعوتی تجربات اور عزائم کے  بارے  میں بات کروں گا۔میری خواہش ہے  کہ آپ میرے  ساتھ میرے  نشانوں میں تعاون کریں بس بات یہ ہے  کہ مجھے  آپ کی ضرورت ہے  میں بہت جلد صرف آپ سے  اس سلسلہ میں بات کرنے  کے  لئے  سفر کروں گا۔

سوال  :  بہت بہت شکریہ ! جزا کم اللہ میں ہر وقت حاضر ہوں۔

السلام علیکم و رحمۃ اللہ استودعکم اللہ دینکم و خواتیم اعمالکم

جواب  :   و علیکم السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

 

مستفاد از ماہ نامہ ارمغان، فروری ۲۰۰۷ء

٭٭٭

تشکر ادارہ ماہنامہ ’ارغوان‘ اسور جناب عمر کیرانوی جن کے توسط سے فائل کا حصول ہوا

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید