FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

               ڈاکٹر محمد اظہر حیات

(ریڈر  (اردو)،  یشودا گرلز آرٹس اینڈ کامرس کالج، ناگپور)
صدر مسلم لائبریری ، ناگپور کے اجلاس میں پڑھے گئے مضامین

 

حافظ محمد ولایت اﷲ حافظ

ناگپور میں اردو زبان و ادب کی تاریخ کے  سرسری مطالعہ سے  ہی ہمیں ایسے  نام مل جائیں گے  جن کے  علم و فضل کی بنیاد پر ہندوستان میں ناگپور کو پہچانا جاتا ہے۔ ان چند ہستیوں میں حافظ محمد ولایت اﷲ کا نام نمایاں نظر آتا ہے۔

حافظ صاحب ہندوستان کے  سابق نائب صدر اور سپریم کورٹ کے  چیف جسٹس محمد ہدایت اﷲ صاحب کے  والد بزرگوار تھے۔ ان کے  آباء و اجداد کا وطن بنارس تھا۔ حافظ صاحب کے  والد کا نام محمد قدرت اﷲ تھا۔ وہ زود گو شاعر کثیر التصانیف بزرگ اور با اثر شخصیت کے  مالک تھے۔ غدر کے  زمانے  میں قومی و ملکی افراتفری کے  سبب انہوں نے  ہجرت کر کے  بھوپال کے  پاس سیہور نامی شہر میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کی وجہ سے  قدرت اﷲ ریاست بھوپال میں کئی اہم منصب پر فائز ہوئے۔ ان کے  چار بیٹے  تھے۔ محمد ولایت اﷲ ان کے  دوسرے  نمبر کے  فرزند تھے۔

محمد ولایت اﷲ ۴/ ستمبر ۱۸۷۳ء کو سیہور میں پیدا ہوئے۔ صرف نو سال کی عمر میں انھوں نے  قرآن کریم حفظ کر لیا تھا۔ اس سے  ان کی غیر معمولی ذہانت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ابتدائی تعلیم سیہور میں حاصل کی بعد ازاں جبلپور سے  انٹرنس کے  امتحان میں نمایاں کامیابی کے  بعد اعلیٰ تعلیم کے  لیے  محمڈن اینگلو اور ینٹل کالج علی گڈھ میں داخلہ لیا۔  ۱۸۹۵ء میں بی۔ اے۔ کا امتحان امتیازی نمبروں سے  پاس کیا۔

ایم۔ اے۔ او  کالج میں حافظ صاحب کا زمانہ طالب علمی بڑا یادگار رہا۔ ایک طرف مولانا محمد علی جوہرؔ ، مولانا شوکت علی، بابائے  اردو مولوی عبدالحق وغیرہم جیسے  با کمال حضرات ان کے  ہم مکتب تھے  تو دوسری طرف سر سید احمد خاں، مولانا الطاف حسین حالی، محسن الملک اور مولانا شبلی نعمانی جیسی قد آور شخصیات ابھی بقید حیات تھیں۔ جن کے  افکار و خیالات سے  پوری قوم متاثر ہو رہی تھی۔ حافظ ولایت اﷲ کو بھی ان بزرگوں کی صحبت نصیب ہوئی۔ جس سے  ان کے  خیالات میں وسعت پیدا ہوئی اور فطری صلاحیتوں کو جِلا ملی۔

۱۸۹۰ء میں بی۔ اے۔ پاس کرنے  کے  بعد حافظ صاحب اپنے  وطن لوٹ آئے۔ اور روزگار کی تلاش میں  ۱۸۹۷ء میں ممالک متوسط و برار کی طرف رخ کیا۔ یہاں پہلی تقرری چاندہ میں تحصیلدار کی حیثیت سے  ہوئی۔ بعد ازاں ایڈیشنل کمشنر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے  عہدے  پر فائز ہوئے۔  ۱۹۲۹ء میں ڈپٹی کمشنر کی حیثیت سے  ریٹائر ڈ ہوئے۔ اور ناگپور کو ہمیشہ کے  لیے  جائے  مسکن بنا لیا۔

حافظ صاحب نے  سرکاری ملازمت کے  فرائض نہایت حسن و خوبی کے  ساتھ انجام دئیے  جس کے  صلے  میں حکومت نے  انہیں خان بہادر ’قیصر ہند، آئی ایس او اور بیج آف سینٹ جونس  ایمبولبنس جیسے  گراں قدر خطابات سے  سرفراز کیا۔

حافظ صاحب خوش مزاج ظریف طبیعت اور بذلہ سنج تھے۔ بے  تکلّف دوستوں کی محفل میں ان کی گلفشانیِ گفتار سننے  کے  قابل ہوتی۔ ان کی ظریفانہ طبیعت کا اندازہ اس واقعہ سے  لگایا جا سکتا ہے  جس کے  راوی مرحوم پروفیسر ڈاکٹر سید عبدالرحیم صاحب تھے۔ انہوں نے  کہا کہ ایک شام حافظ صاحب دوستوں کے  ساتھ اپنے  مکان کے  سامنے  باغ میں بیٹھے  تھے۔ ایک شادی شدہ جوڑا سامنے  کی سڑک پر سے  گزر رہا تھا ایک دوست نے  حافظ صاحب کی طرف معنی خیز نظروں سے  دیکھا اور کہا حافظ صاحب آپ کو بھی اسی طرح جوڑے  کے  ساتھ گھومنا چاہئے۔ حافظ صاحب کی رگ ظرافت پھڑک اٹھی انھوں نے  برجستہ کہا ’’لوگ کہیں گے  کیا اس لیے  ایسی صورت کو چالیس سال تک پردے  میں رکھا تھا۔ ‘‘

طبیعت کی شگفتگی اور بذلہ سنجی کا اثر کلام میں بھی نمایاں نظر آتا ہے۔

’’سوز و گداز‘‘ کے  نام سے   ۱۹۴۱ء میں ایک مجموعہ کلام شائع ہوا۔ ۳۳۰ صفحات پر محیط اس مجموعہ میں غزلیں، نظمیں، قصائد اور قطعات شامل ہیں۔ حافظ صاحب کی دوسری تصنیف ’’تعمیرِ حیات‘‘ اگست  ۱۹۴۹ء میں شائع ہوئی یہ ایک طویل نظم ہے  جس میں اصلاحی پہلو غالب ہے۔

حافظ صاحب کا مخصوص میدان یوں تو نظم گوئی تھا۔ اس میں وہ مزاحیہ نظموں کے  بادشاہ کہے  جا سکتے  ہیں۔ لیکن اردو کے  بیشتر شعراء کی طرح انہوں نے  بھی شعر گوئی کی ابتداء غزل سے  ہی کی تھی۔ ’’سوز و گداز‘‘ میں غزلیات کے  تحت ۵۳ غزلیں شامل ہیں۔ سادگی، سلاست، ندرت خیال اور جدّت تخّیل ان کی غزلوں کے  نمایاں اوصاف ہیں۔ مثال کے  طور پر یہ چند اشعار دیکھئیے  :

عشق کہتا ہے  میرے  نالوں سے

دل لگی تھی جو دل لگا بیٹھے

دل یہ کہتا ہے  بار بار مرا

کوئی کرتا ہے  انتظار مرا

غیر کی اتنی کہاں ہمّت کہ وہ آئے  یہاں

کس طرح ہم کو یقیں ہو آپ کا ایما نہ تھا

ناصح کو نہ سمجھا تھا کہ کم ظرف ہے  ایسا

کیا دھوم مچائی ہے  جو تھوڑی سی پلا دی

دنیا کی بے  ثباتی اور شہر خموشاں کی ویرانی پر کیا ہی بلیغ تبصرہ ہے    ؂

ہزاروں نامور آ کر بسے  شہر خموشاں میں

مگر اس سر زمیں کی پھر بھی ویرانی نہیں جاتی

حیات بعد الممات کی گتھی کس طرح سلجھاتے  ہیں  ؂

مرنا جسے  کہتے  ہیں وہ ہے  زیست کا آغاز

ملتی ہے  بقا سب کو اسی راہ فنا میں

حافظ صاحب نے  سہل ممتنع میں بڑی کامیاب غزلیں کہی ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیے   :

راہ پر مڑ کے  کیوں مجھے  دیکھا

کی محبت کی ابتداء تو نے

نہیں پہلو میں جب قیام و قرار

اے  خدا کیوں یہ دل دیا  تو نے

اس بحر میں ایک حمدیہ غزل کے  یہ اشعار بھی دیکھیے  :

مجھ کو پیدا کیا خدا تو نے

اور سب کچھ عطا کیا تو نے

دور پھینکا نہ بعد مردن بھی

پاس اپنے  بلا لیا تو نے

حافظ ولایت اﷲ حافظ کا اصلی جوہر تو میدانِ ظرافت میں کھلتا ہے۔ اکبر الہ آبادی کے  رنگ میں انھوں نے  خوب کہا ہے۔ اکبر کا تتبع اور تقلید انھوں نے  کچھ اس طرح کیا کہ لوگ انہیں اکبر ثانی کہنے  لگے۔ سوز و گداز میں مزاحیات کا الگ عنوان قائم کیا گیا ہے  جس میں مختلف عنوانات کے  تحت ۸۶ نظمیں شامل ہیں۔ اکبر کی طرح وہ بھی مسلمانوں کی زبوں حالی، اخلاقی پستی اور اسلامی اقدار سے  بیزاری پر کڑھتے  ہیں۔ مولویوں اور علماء کی بے  حسی پر جا بجا طنز کرتے  ہیں۔

اکبر نے  جن موضوعات پر اشعار کہے  ہیں کم و بیش وہی موضوعات ہمیں حافظ صاحب  کے  کلام میں بھی نظر آتے  ہیں۔ مثلاً پردہ، حالات حاضرہ، زبان، مسلمانوں کی زبوں حالی  فیشن پرستی اور قوم و وطن کی محبت کے  موضوعات دونوں کے  یہاں مشترک نظر آتے  ہیں۔

پردہ کے  متعلق اکبر الہ آبادی کے  اشعار زبان زد خاص و عام ہیں۔

بے  پردہ کل جو آئیں نظر چند بی بیاں

اکبر زمیں میں غیرت قومی سے  گڑ گیا

پوچھا جو ان سے  آپ کا پردہ وہ کیا ہوا

کہنے  لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا

حافظ صاحب کے  یہ اشعار دیکھیے

ایک دن وہ تھا کہ ہر جانب یہ ہوتی تھی پکار

بیبیاں پردہ میں ہو جائیں کہ مرد آتے  ہیں یاں

پھر یہ دیکھا لوگ کہتے  تھے  بہ آواز بلند

مرد کر لیں اس طرف منہ آ رہی ہیں بیبیاں

مرد اب رہتے  ہیں پیچھے  بیبیاں ہیں پیش پیش

اور سب ان کے  لیے  کرتے  ہیں خالی کُرسیاں

عام جلسوں میں صفِ اوّل میں ہے  ان کی نشست

بیوی لکچر دیتی ہیں خاموش بیٹھے  ہیں میاں

شکل جس کی نہ ہو اچھی وہ رکھے  پوشیدہ

اچھی صورت کے  لیے  حاجتِ پردہ کیا ہے

شیخ واعظ، مولوی پنڈت کی ظاہرداری و ریاکاری اکبر کا محبوب موضوع تھا۔ حافظ صاحب نے  بھی اس موضوع پر خوب شعر کہے  ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیے   :   ؂

شیخ کی عادت ہوئی اتنی خراب

ان کو زمزم بھی کشیدہ چاہئیے

شیخ صاحب برسر منبر بہت آساں ہے  وعظ

پستیِ اخلاق کی حالت مگر کیسے  بنے

آپ نے  اپنا بنا رکھا ہے  دستور العمل

دعوتیں کھائیں لیا نذرانہ اور چلتے  بنے

اکبر کے  یہاں سماجی برائی چندہ اور غیر ضروری کمیٹیاں اس موضوع پر بھی اشعار ملتے  ہیں۔ اکبر کی طرح حافظ صاحب کی گلفشانی دیکھئیے  :  ؂

چلتے  ہیں سارے  کام چندوں سے

صرف ان کا حساب ہے  غائب

لسٹ چندوں کی چند روزہ ہے

بعد میں وہ کتاب ہے  غائب

نقد تحویل کے  امین بنے

اب جو پوچھو جواب ہے  غائب

سخت مشکل حساب میں یہ ہے

کہ وہاں بے  حساب ہے  غائب

ایک طویل نظم ’’تذکیر و تانیث  بزُبان اردو‘‘ کے  منتخب چند اشعار ملاحظہ کیجئے  :   ؂

بہت پر لطف گو اردو زباں ہے

مذکر اور مونّث کی ہے  دقّت

حجاب و پردہ گھونگھٹ اور برقع

مذکر ہے  یہ کل سامانِ عورت

مونث ہے  جناب شیخ کی ریش

ہو کچھ بھی اس کی مقدار و طوالت

مذکر ہو گیا گیسوئے  جاناں

ہوئی اس کی طوالت کی یہ عزّت

دُوپٹّہ عورتوں کا ہے  مذکر

مونث کیوں ہے  دستارِ فضیلت

فراق و وصل ہیں دونوں مذکر

مونث ہے  مگر واعظ کی صحبت

ہوئیں جب مونچھ اور داڑھی مونث

تو پھر کرنا پڑا دونوں کو رخصت

حافظ صاحب ہندی اور انگریزی کے  الفاظ بڑی بے  تکلفی سے  استعمال کرتے  تھے  ایک طویل طنزیہ نظم ’’نوجوانوں سے  خطاب‘‘ کا مطلع بھی دیکھئے :

نوجواں تجھ کو سزاوار ہو یورپ کا چلن

یہ دعا ہے  کہ مبارک ہو تجھے  یہ فیشن

اس نظم میں ڈائمن، مینشن، سیمی کولن، کٹھن، آرگن، رشین، لوشن، انجن، جرمن، لندن، لیٹن، کچن، ٹفن، سمّن، رن، وغیرہ انگریزی قوافی کا استعمال بڑی خوبی سے  کیا گیا ہے۔ ۷۲ اشعار کی اس نظم میں ۶۰ مقامات پر انگریزی لفظوں کا استعمال کیا گیا ہے۔

حافظ صاحب کے  ہاں طنز و مزاح ایک خاص رنگ و آہنگ کا حامل ہے۔ وہ مزاج کے  ساتھ طنز کی آمیزش اس طرح کرتے  کہ قاری  زیر لب مسکراتا اور پھر سنجیدہ بھی ہو جاتا۔ آخر میں شاعر کے  جذبہ خلوص کا قائل ہو جاتا۔ در حقیقت حافظ صاحب کے  کلام کی یہی خوبی انہیں وسط ہند کا اکبر ثانی بناتی ہے۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے  کہ ناگپور میں حافظؔ صاحب طنز و ظرافت کے  نقشِ اوّل ہیں اور اگر میں یہ کہوں کہ اب تک ان کا کوئی ثانی نہیں ہے  تو شاید غلط بھی نہ ہو۔

حافظؔ صاحب نے  پیرانہ سالی کے  سبب ۱۲/ نومبر ۱۹۴۹ء کو رحلت فرمائی۔ اس وقت ان کی عمر  ۷۶/ برس تھی۔ زری پٹکا قبرستان، ناگپور میں تدفین عمل میں آئی۔ بیدلؔ نے   تاریخ وفات نکالی :

ہے  مرگ حضرت حافظ گراں بار

ادب کی محفلیں تھیں ان کے  دم سے

ہوئے  بے  چین سب اپنے  پرائے

جدائی ہے  بزرگِ محترم سے

بزرگوں کی گئی آخر نشانی

جہاں خالی ہوا اہلِ قلم سے

دعا بیدلؔ کی ہے  یہ بہتر تاریخ

الٰہی بخش دے  ان کوکر م سے

٭٭٭

 

 

شاعر ہمہ صفات۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت جلیل سازؔ

حضرت جلیل سازؔ وسطِ ہند کے  معتبر شعراء میں شمار کیے  جاتے  ہیں ۷/ اگست ۲۰۰۷ء کو جب ان کی رحلت ہوئی تو وہ اپنی زندگی کے  ۷۶ سرد گرم موسم دیکھ چکے  تھے۔ وہ جئے  اور بھر پور جئے۔ زندگی کے  نشیب و فراز سے  گزرے، قسمت کی ستم ظریفیاں جھیلیں، تقدیر کی یاوری کے  لطف اٹھائے۔ ناگپور میں بے  شمار ادبی علمی چپقلش کے  روح رواں رہے۔ سماجی و ثقافتی سرگرمیاں برپا کیں اور اس کے  محور و مرکز رہے۔

جلیل سازؔ مرحوم کہنہ مشق شاعر تھے۔ انھوں نے  دشتِ ادب میں عرصۂ دراز تک سیّاحی کی۔ اس طویل سفر میں انھوں نے  محض شاعری نہیں کی بلکہ شاعروں کی ایک نسل کی ادبی و شعری تربیت بھی کی۔ اس اعتبار سے  وہ ایک ایسے  مرکز و سر چشمہ تھے  جہاں سے  تشنگانِ شعر و ادب حسبِ استعداد سیراب ہوتے۔ وہ دنیائے  ادب میں استادی و شاگردی کے  رشتے  کی قدر کرتے  تھے۔ یہ روایت ناگپور میں ان کے  دم سے  زندہ بھی تھی۔

جلیل سازؔ کو میں تب سے  جانتا ہوں جب میں ۷ یا ۸ برس کا تھا۔ مجھے  خوب یاد ہے  ڈھیلا ڈھالا سفید قمیض پائیجامہ پہنے  لمبے  لمبے  پیروں سے  چھوٹے  چھوٹے  قدم اٹھاتے  جلدی جلدی چلتے  وہ ہمارے  گھر کے  سامنے  سے  جاتے  آتے  تھے۔ وہ ہمارے  گھر کے  قریب مومن بنکر کو آپریٹیو سوسائٹی میں معمولی تنخواہ پر کلرک تھے۔ اس لیے  ان کا آنا جانا روز کا معمول تھا۔ کبھی کبھار میرے  والد صاحب کو سلام بھی کر دیتے  اور والد صاحب بڑے  تپاک سے  ان کے  سلام کا جواب دیتے۔ ایک روز میں نے  والد صاحب سے  پوچھ لیا ابّاجی یہ کون صاحب ہیں ؟ انھوں نے  کہا ان کا نام جلیل سازؔ ہے۔ اچھے  شاعر ہیں۔

’’اچھے  شاعر ہیں ‘‘ میرے  تحت ا لشعور میں چپک کر رہ گیا۔ گویا ۷۔ ۸ سال کی عمر میں میرا ان کا تعارف ہو گیا۔ اس کے  بعد تو جلیل سازؔ صاحب سے  میری ملاقات ہر رہ گزر پر ہونے  لگی۔

قریبی رشتہ داروں میں شادیاں ہوتیں وہ سربراہی کرتے  نظر آتے۔ مشاعرہ ہوتا تو وہاں کرسیِ صدارت پر جلوہ افروز ہوتے۔ تعلیمی جلسوں میں مہمانانِ خصوصی کے  صف میں ہوتے  اور کبھی سیاسی پارٹی کے  جلسوں میں تقریر کرتے  نظر آتے  گویا ہر جگہ جلیل سازؔ کا نام سننے  کو ملتا۔

۱۹۶۹ء میں جب وہ ناگپور کارپوریشن کے  وارڈ الیکشن میں کھڑے  ہوئے  تو دیگر بچوں کے  ساتھ میں بھی گلی گلی ’’ساز صاحب کو ووٹ دو‘‘ کے  نعرے  لگاتے  پھرتا رہا۔ ہم نے  ان کے  لیے  خوب محنت کی نتیجہ آیا ساز صاحب کثیر ووٹوں سے  وارڈ کے  ممبر منتخب ہو گئے۔ پھر وہ پانچ سال تک ہمارے  وارڈ کے  معزز ممبر ر ہے۔ مجھے  بہت بعد میں معلوم ہوا کہ انھوں نے  صرف آٹھویں کلاس تک ہی تعلیم حاصل کی تھی۔ ان کی تحریر پڑھ کر یا ان کی تقریر سن کر یا ان سے  گفتگو کر کے  اندازہ ہوتا تھا کہ وہ ڈگریاں رکھتے  ہوں گے۔

سازؔ صاحب ہمہ جہت صلاحیتوں کے  مالک تھے۔ ان کی شخصیت پر کشش اور جاذب نظر تھی وہ بلا کے  معاملہ فہم تھے۔ سنجیدگی اور متانت ان کے  بشرے  سے  ظاہر ہوتی تھی۔ ان کا قد ایسا تھا کہ سیکڑوں میں الگ پہچانے  جاتے  تھے۔ مطالعہ وسیع تھا اور حافظہ غضب کا پایا تھا، غالبؔ ، اقبالؔ ، جگرؔ ، فیضؔ ، سیمابؔ ، ساحرؔ اور شکیلؔ بدایونی کے  بے  شمار اشعار انہیں ازبر تھے۔ وہ اکثر کہتے  تھے  میاں خوش بختی اور اکتساب علم بزرگوں کی صحبت کا فیض ہوتا ہے  جو مجھے  نصیب ہوا۔

ایک زمانے  میں سازؔ صاحب کی تحریر کر دہ ’بدائی، ، ’’چلی میکے  سے  دلہن دے  کے  صد رنج و محن‘‘ کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ جب تک یہ پڑھی نہ جاتی تب تک دلہن وداع ہی نہیں ہوتی تھی۔ اس کے  پڑھنے  والوں کی مخصوص جماعت ہوتی جو پر سوز ترنم کے  ساتھ اس وداعی کو پڑھتے  تو سارا ماحول غمگین ہو جاتا اور گھر ماتم کدہ بن جاتا کیا مرد کیا عورتیں، بچے  بوڑھے  دھاڑیں مار مار کر روتے  تھے۔ ایک روز میں نے  سازؔ صاحب سے  پوچھا حضرت آپ نے  یہ وداعی گیت کس عالم میں لکھا تھا کہنے  لگے  عالم والم تو کچھ نہیں تھا بلکہ یہ تو میں نے  اپنے  چھوٹے  بھائی وکیل پرویز کی شادی کے  موقع پر اس کی بیوی کے  میکے  والوں کی فرمائش پر لکھا تھا۔ مجھے  بھی گمان نہیں تھا کہ یہ گیت اس قدر مقبول ہو جائے  گا۔ سچ تو یہ ہے  کہ یہ وداعی گیت زبان و بیان کے  اعتبار سے  ایسا مرصّع اور پر اثر ہے  کہ اگر سازؔ صاحب صرف یہ گیت لکھ کر ہی چلے  جاتے  تو ناگپور کی ادبی تاریخ میں اپنا نام درج کرا جاتے۔

سازؔ صاحب کے  کاموں پر غور کرو تو احساس ہوتا ہے  کہ اگر وہ صرف یہی کام کر جاتے  تو امر ہو جاتے۔ دیکھئے  انھوں نے  لڑکیوں کے  لیے  ڈاکٹر ذاکر حسین کے  نام سے  ایک ڈی ایڈ کالج کی بنیاد رکھی جسکے  ذریعے  سیکڑوں نہیں ہزاروں بچیوں نے  ڈی ایڈ کیا اور برسر روزگار ہوئیں۔ آج ۳۰۔ ۳۵ سال قبل لڑکیوں کے  لیے  کالج کھولنا گناہ کے  برابر سمجھا جاتا تھا۔ سماج میں کالج کے  معنی محض عیاشی کا اڈّہ گردانہ جاتا تھا۔ سازؔ صاحب نے  سماج کے  ان طعنوں کی پرواہ بھی نہ کی اور ڈی ایڈ کالج قائم کر دیا جو آج بھی شان سے  جاری ہے۔ اگر ہم کہیں کہ سازؔ صاحب صرف یہی کام کر کے  دنیا سے  رخصت ہو جاتے  تو اہل ناگپور ان کے  احسان کو کبھی نہ بھولتے۔

ان میں انتظامی صلاحیتیں بھی خوب تھیں وہ بیک وقت ڈی ایڈ کالج کے  صدر کے  ساتھ مجیدیہ گرلز ا سکول ناگپور کی مجلس انتظامیہ کے  صدر، اور یعقوبیہ مدرسہ مومن پورہ کے  سکریٹری بھی تھے۔ اس کے  علاوہ شہر کی بے  شمار ادبی و سماجی سرگرمیوں سے  وابستہ تھے۔

سازؔ صاحب سادہ مزاج، مخلص اور ملنسار تھے۔ ان میں غرور نام کو نہیں تھا۔ وہ ہر خاص و عام سے  یکساں پیش آتے۔ محلّے  کے  لڑکوں سے  ایسی بات کرتے  گویا وہ ان کے  ہم راز ہوں۔ ان کا ذہن ہمیشہ ادبی، علمی، تعلیمی و سیاسی سر گرمیاں کرنے  پر آمادہ ہوتا۔ در اصل ناگپور میں بیشتر سماجی و ثقافتی سرگرمیاں ان کے  دم سے  رواں دواں تھیں۔ رمضان کا مہینہ آتا۔ مومن پورہ میں گہماگہمی اور چہل پہل اپنے  شباب پر ہوتی اس عالم میں نوجوان لڑکوں کی ٹولی ’’قصیدہ‘‘ پڑھنے  نکلتی۔ فلمی دھن اور طرز پر حالاتِ حاضرہ پر چوٹیں ہوتیں۔ بیشتر قصیدے  سازؔ صاحب کے  تحریر کر دہ ہوتے  جو رات میں پڑھے  جاتے  اور راتوں رات پورے  شہر میں مشہور ہو جاتے۔ انہوں نے  دلہوں کے  لیے  سہرے  بھی خوب لکھے۔ اگر ان سہروں، قصیدوں، وطن کے  گیتوں اور قومی نظموں کو یک جا کر دیا جائے  تو سازؔ صاحب کی شاعری کے  حوالے  سے  سماجی منظر نامہ بھی مرتب ہو سکتا ہے۔

انھیں اردو اور اردو کے  لکھنے  والوں سے  والہانہ محبت تھی۔ وہ شہر کے  لکھنے  والوں کی ہمت افزائی کرتے۔ میری کتاب ’’حافظ ولایت اﷲ حافظ حیات و خدمات‘‘ شائع ہوئی تو میں نے  اس کی ایک جلد ان کی خدمت میں پیش کی۔ فوراً جیب سے  ۱۰۰ روپیے  نکالے  اور مجھے  عنایت کیے   میں نے  کہا حضرت اس کی ضرورت نہیں ہے  کہنے  لگے  دیکھو جب کبھی کوئی مصنف یا شاعر کتاب دے  تو اس کا ہدیہ ضرور دیا کرو۔ ہاں ایک زمانہ تھا کہ میری مالی حالت اس قدر خستہ تھی کہ مجھے  کتابیں مانگ کر پڑھنی پڑتی تھیں مگر اب تو اﷲ کا فضل و کرم ہے۔ میں نے  کہا حضرت اس کی قیمت تو صرف ۴۰ روپیے  ہے  کہنے  لگے  میں قیمت کب دے  رہا ہوں۔ ہدیہ قبول کرو۔ اور زبردستی میری جیب میں سو کا نوٹ ڈال دیا۔

مہاراشٹر اردو اکادیمی کے  زیر اہتمام اردو طنز و مزاح پر ایک سیمینار تھا۔ بڑے  بڑے  اشتہارات شہر میں چسپاں تھے۔ شفیقہ فرحت، زہرہ موڈک، ڈاکٹر شیخ رحمن آکولوی اس میں شامل تھے۔ سازؔ صاحب اس کے  کنوینر تھے۔ میں نے  سازؔ صاحب سے  سر راہ یوں ہی کہہ دیا کہ سازؔ صاحب میں بھی طنز و مزاح لکھتا ہوں آپ مجھے  بھول گئے  کہنے  لگے  ہاں بابا تمہارا نام رہ گیا۔ لیکن تم اپنی تحریر ضرور پڑھو گے  اور پھر شام میں میرے  نام علیحدہ سے  ایک دعوت نامہ خود لے  کر آئے  اور اصرار کیا کہ تمھیں اس سیمینار میں ضرور شرکت کرنی ہے۔

سازؔ صاحب کا مجموعۂ کلام ’’نگاہ‘‘ ۲۰/ اگست ۲۰۰۶ء کو منظرِ عام پر آیا۔ اجراء کی تقریب ہندی مور بھون سیتا بلڈی میں تزک و احتشام سے  منعقد کی گئی۔ کامریڈ اے  بی بردھن کے  ہاتھوں اجراء ہوا۔ محترم شمیم  فیضی دہلی سے، شگوفہ کے  مدیر مصطفےٰ  کمال حیدر آباد سے  اور ہارون بی۔ اے  مالیگاؤں سے  اور عبدالاحد ساز بمبئی سے  بطور خاص تشریف لائے  تھے۔ اسی دن کثیر الاشاعت مراٹھی روزنامہ ’’دیش انّتی‘‘ میں ساز صاحب کی شخصیت اور شاعری پر میں نے  ڈاکٹر کرن دھوڑ کے  تعاون سے  ایک مضمون مراٹھی میں لکھا جو اسی دن شائع ہوا۔ دیکھ کر بہت خوش ہوئے  کہنے  لگے  جو کام اردو والے  نہ کر سکے  مراٹھی والوں نے  کر دکھایا۔

سازؔ صاحب کی شخصیت کو ان کی شاعری سے  جدا نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی زندگی کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے  تو یہ بات معلوم ہوتی ہے  کہ ان کی شاعری دراصل ان کی شخصیت کا آئینہ ہے۔ ان کے  کلام میں عصری آگہی کا عنصر بدرجہ اتم موجود ہے۔ ان کی غزلوں میں گرد و پیش کی زندگی کا گہرا مشاہدہ ملتا ہے۔ وہ فلسفی نہیں تھے  اور نہ ہی فلسفیانہ شاعری کرتے  تھے۔ سیدھی سادی زبان میں بات کہتے۔ سماجی زندگی کی ناہمواری، استحصال، جبر و ستم، فرقہ وارانہ کشیدگی اور ہمارے  سماج و معاشرے  کی بے  بسی ان کی شاعری کا موضوع تھے۔

میرے  ان دعووں کو پرکھنا ہو تو ان کے  مجموعہ کلام ’’نگاہ‘‘ پر نظر ڈالیے  جہاں پر غزل میں ایسے  اشعار ضرور مل جائیں گے  جو نگاہ کے  ذریعے  دل میں اتر جانے  کی صلاحیت رکھتے  ہیں۔ تاہم اشعار ملاحظہ فرمائیے   :

بساط یہ ہے  کہ بس ایک مشتِ خاک ہیں ہم

کمال یہ ہے  کہ کون و مکاں پہ چھائے  ہیں

تمھیں خوشی کی تمنّا تھی، سو ملی تم کو

خدا نے  بخشی متاعِ غمِ حیات مجھے

ملو تو سازؔ خلوص اور سادگی سے  ملو

نہیں پسند یہ بے  جا تکلّفات مجھے

الگ یہ بات کہ میں ہنس نہیں پایا ہوں برسوں سے

مری تقدیر لیکن مجھ پہ اکثر مسکراتی ہے

کوئی آئے  گا آ کر زندگی میں رنگ بھر دے  گا

یہی امید ہر انسان کو جینا سکھاتی ہے

انہیں سمٹتی ہوئی زندگی کا علم نہیں

بڑے  گھروں میں جو سوتے  ہیں پاؤں پھیلا کر

میں اپنے  عہد سے  آنکھیں چرا نہیں سکتا

تری یہ ضد کہ فقط میری سمت دیکھا کر

عشق وہ چیز ہے  واعظ تجھے  معلوم نہیں

ہوش مندوں کو یہ دیوانہ بنا دیتا ہے

’’نگاہ‘‘ میں ایسے  اشعار کی تعداد بے  شمار ہے  جسے  سنبھال کر رکھا جانا چاہئے۔

سازؔ صاحب نے  منہ پھٹؔ ناگپوری کے  نام سے  بھی طنز و ظرافت کے  پیرائے  میں دل کے  پھپھولے  پھوڑے  ہیں۔ اب ناگپور کے  ادبی حلقوں کی ذمہ داری ہے  کہ سازؔ صاحب کے  مزاحیہ کلام کو سنجیدگی سے  یکجا کر کے  کتابی صورت میں شائع کروائیں۔ سازؔ صاحب اس معاملہ میں قدرے  سست واقع ہوئے  تھے۔ ۷/اگست ۲۰۰۷ء کو سازؔ ہمیشہ کے  لیے  خاموش ہو گئے۔ مگر سازؔ کے  نغمات ہنوز زندہ ہیں اور آئندہ بھی زندہ رہیں گے۔ بقول سازؔ مرحوم  :

یہ زندگی ہے  سفر، صرف چند سانسوں کا

طویل اس کی مگر داستان کتنی ہے

٭٭٭

 

موجودہ عہد کا نوحہ گر۔ ۔ ’’ میکشؔ ناگپوری‘‘

کپڑوں کا ہوش نا خود کا خیال،  پراگندہ بال، لڑکھڑاتی چال، درمیانہ قد،  منحنی جسم۔ میکش کا خیال آتے  ہی ذہن کے  قرطاس پر یہ تصویر ابھر آتی ہے  گویا میکشؔ ناگپوری اسمِ با مسمّیٰ تھے۔ میکش رندِ بلا نوش تھے۔ ہمیشہ شراب کے  نشے  میں دھت اور مد مست رہتے  تھے۔ یار دوست ان کی کیفیت سے  خوب فائدہ اٹھاتے  تھے۔ لیکن ایسی مد ہوشی میں بھی ان کا شعور جاگتا رہتا تھا۔ حافظہ غضب کا پایا تھا۔ ایسے  ایسے  اشعار زبان سے  ادا ہوتے  کہ سننے  والے  حیرت سے  میکشؔ کا منہ تکتے۔

میکشؔ ناگپوری کا پورا نام محمّد یونس تھا۔ وہ یکم جولائی ۱۹۳۳ء کو ناگپور میں پیدا ہوئے۔ ان کے  والد عظمت علی ایک اچھّے  جرّاح تھے  اور یہی ان کا پیشہ تھا۔ محمّد یونس میکشؔ نے  میٹرک تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے  ناگپور پاور ہاؤس اور انڈین جیولاجی اینڈ مائننگ میں بالترتیب ملازمت کی لیکن اپنی لا ابالی طبیعت و مزاج کی وجہ سے  بہت جلد دونوں ملازمتوں کو یکے  بعد دیگرے  چھوڑ دیا۔ میکشؔ کی شادی بھنڈارہ میں جناب احمد خان پٹھان کی صاحبزادی محترمہ طاہر النساء سے  ۱۲! دسمبر ۱۹۷۱ء میں ہوئی۔ ان کی اہلیہ بھنڈارہ ضلع پریشد ا سکول میں مراٹھی کی ٹیچر تھیں۔ ابھی میکشؔ زندگی سے  لطف اندوز ہو رہے  تھے  کہ شادی کو صرف پانچ سال بعد طاہرالنساء نے  انہیں مفارقت کا داغ دے  دیا۔ اور ایک لڑکا اور ایک لڑکی اپنی یادگار چھوڑ گئیں۔ میکش جو بے  روزگار ی سے  نبرد آزما تھے  رفیقِ حیات کی دائمی جدائی سے  ٹوٹ کر رہ گئے۔ اور کہہ اٹھے۔  ؂

مرے  رفیقِ سفر کو کس نے  چھین لیا

نہ جانے  کھانی ہے  ٹھوکر کہاں کہاں مجھ کو

میکشؔ نے  شاعری کی ابتداء زمانۂ طالب علمی سے  شروع کر دی تھی۔ ا سکول میں ان کے  استاد حضرت حمید اللہ خان آذرؔ سیمابی نے  ان کی شعری صلاحیتوں کو پرکھا اور نکھارا۔  ۱۹۶۳ء میں آذرؔ صاحب پاکستان ہجرت کر گئے  تو اس کے  بعد میکشؔ نے  کبھی کسی سے  مشورۂ سخن نہیں کیا۔ اور واقعہ یہ ہے  کہ انہیں اس کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ وہ اپنے  کلامِ بلاغت سے  ناگپور کے  اہلِ ادب کو متاثر کر رہے  تھے۔ حضرت مولانا ناطقؔ گلاوٹھوی،  نواب غازیؔ آف گیوردھا، حافظ انورؔ کامٹوی،  جناب حمیدؔ ناگپوری اور حضرت طرفہؔ قریشی جیسے  با کمال شعراء کرام میکشؔ کی شاعرانہ صلاحیتوں کے  مدّاح تھے۔

میکشؔ ذہین، بے  باک اور منہ پھٹ تھے۔ وہ سچ کو سچ کہنے  میں کبھی نہیں چوکتے  تھے۔ ریاکاری، مکّاری اور فریب کاری سے  دور تھے۔ ان خوبیوں کی وجہ سے  وہ عوام النّاس میں بیحد مقبول تھے۔ مشاعرے  میں ان کی شرکت مشاعرے  کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی تھی۔ وہ محفل میں مرکزِ نظر ہوتے۔ اپنی حاضر جوابی اور غیر معمولی ذہانت سے  ہر خاص و عام کو متاثر کرتے  تھے۔ ایک مرتبہ ایک مشاعرے  میں کلام سنا کر بیٹھے  ہی تھے  کہ مولانا ناطقؔ گلاوٹھوی نے  داد کے  انداز میں فرمایا۔ ’’ میاں یہ کہاں سے  لاتے  ہو‘‘

میکشؔ نے  بر جستہ جواب دیا۔ حضرت آپ جہاں سے  لاتے  ہو۔ اور پھر اپنا ہی ایک شعر برجستہ پڑھا۔  ؂

جہاں ان کا ٹھکانہ ہے  وہاں میری رسائی ہے

مقیّد کر نہیں سکتا کوئی پروازِ انساں کو

میکشؔ بادہ نوشی میں بھی شعر کبھی غلط نہیں پڑھتے  تھے۔ مجھے  ایک نعتیہ مشاعرہ خوب یاد ہے  جب میکشؔ نے  نشے  کی     حالت میں ایک نعت پاک ترنّم سے  سنا کر خوب داد پائی تھی۔ گویا مشاعرہ لوٹ لیا تھا۔ مگر کسی کی ہمت نہیں تھی کہ کوئی اس حالت میں انہیں ٹوک دیتا۔ اسی مشاعرے  میں انہوں نے  نعت کا یہ مطلع کہا تھا۔

یادِ حبیب آئی تو جی بھر کے  رو لئے

پھولوں کے  ہو لئے  کبھی کانٹوں کے  ہو لئے

ملک کے  معیاری رسائل و جرائد میں میکش کا کلام چھپتا اور قوال حضرات ان کی تحریر کر دہ قوّالیاں جھوم جھوم کر گاتے  تھے۔ لوگوں کی فرمائش پر انھوں نے  بے  شمار سہرے  لکھے۔ محرم کے  ایّام میں ان کے  تحریر کر دہ نوحے  اور مرثیے  آج بھی جوش و خروش کے  ساتھ پڑھے  جاتے  ہیں۔ رمضان کے  مہینے  میں قصائد اور فلمی گیتوں کی دھن پر حالاتِ حاضرہ پر طنز بھرے  نغمے  اب تک لوگوں کے  ذہنوں میں محفوظ  ہیں۔ میکشؔ نے  عجیب طبیعت پائی تھی۔ وہ نشہ میں ہوتے  تو بھی شریف، ملنسار، نیک دل، نیک طبیعت ہوتے۔ رمضان کا مہینہ شروع ہوتے  ہی وہ  میخانے  کی بجائے  مسجد کی راہ لیتے۔ سر پر ٹوپی۔ گردن نیچی۔ خراماں خراماں راہ چلتے۔ کم بولتے  اور رمضان کے  پورے  روزے  اہتمام سے  رکھتے۔ اکثر تلاوت میں مصروف نظر آتے۔ گویا روزوں سے  ان کا ظاہر بدل جاتا تھا۔ مگر شراب ان کا باطن بدلنے  میں کبھی کامیاب نہ ہو ئی۔ وہ ہر حال میں شریف النفس اور پاکباز تھے۔ بزرگوں کا ادب کرنا ان کی فطرت میں تھا۔ میں نے  سنا کہ وہ اپنی والدہ کا اس قدر خیال کرتے  تھے  کہ ایک مرتبہ بمبئی کے  سفر پر گئے  اور کام ہونے  سے  قبل محض یہ کہہ کر لوٹ آئے  کہ ’’والدہ کی یاد آ رہی ہے ‘‘۔

ایک دن برادرِ محترم جناب قمر حیات صاحب سے  سر راہ ملاقات ہوئی۔ نشے  میں تھے۔ دیکھتے  ہی کہنے  لگے۔ قمر حیات فی البدیہہ شعر سنو۔  ؂

قمر کی چاندنی شب کو،  اجالا مہر کا دن کو

         یہ دنیا روشنی ہی روشنی معلوم ہوتی ہے

یہ دنیا ہے، محبت ہے  اسے  باطل پرستوں سے

         خدا لگتی یہاں سب کو بری معلوم ہوتی ہے

محترم قمر حیات صاحب ایک اور واقعہ  بیان کرتے  ہیں کہ ایک روز میکشؔ صاحب حسبِ عادت اپنے  پورے  سرور میں تھے۔ قمر صاحب کو دیکھا تو آواز دی  اور وہی قطعہ پڑھ دیا۔ قمر صاحب نے  کہا۔ میکشؔ صاحب نے  کہا میرا شعر سنو۔ پھر میکشؔ ایک دم سنجیدہ ہو گئے  اور کہا سناؤ۔ قمر صاحب نے  کہا  ؂

زندگی میں مقام پیدا کر

عمل صالح سے  نام پیدا کر

میکشؔ نے  فوراً کہا خیال اچّھا ہے  مگر بحر سے  بالکل خارج ہے  اور کہا اسے  یوں کر دو  ؂

زندگی میں مقام پیدا کر

نیک سیرت سے  نام پیدا کر

یہ کہہ کر میکشؔ اپنی ترنگ میں آگے  بڑھ گئے۔ اس واقعہ سے  یہ بتانا مقصود ہے  کہ میکشؔ شعر کے  معاملہ میں بھی کتنا ہوش رکھتے  تھے۔ جنابِ میکشؔ نے  ادب کی تمام اصناف پر طبع آزمائی کی لیکن غزل اور قطعات میں انہیں  خاص ملکہ حاصل تھا۔ وہ وارداتِ قلب و نظر کو کیف و سرور میں ڈوب کر بیان کرتے  تھے  اس لیے  ان کے  کلام میں زندگی کی تازگی اور حرارت محسوس ہوتی ہے۔ ان کی غزلیں تغزل کی بھر پور ترجمانی کرتی ہیں۔ زبان و بیان میں سلاست و روانی بدرجہ اتم موجود ہے۔ ان کے  اشعار زبان زد خاص و عام ہو نے  کی صلاحیت رکھتے  ہیں۔ اپنی اس خوبی کا انہیں بھی احساس تھا۔ کہا ہے   ؂

ترکیب میں جدّت ہے  تو الفاظ میں شوکت               میکشؔ ترا نکھرا ہوا اندازِ بیاں ہے

میکشؔ حسّاس با شعور اور باخبر شاعر تھے۔ عصری حسّیت ان کے  کلام کی نمایاں خصوصیت ہے۔ وہ سماج میں عدم مساوات، نا انصافی، ظلم و تشدّد سے  تڑپ جاتے  تھے۔ اس اعتبار سے  ہم میکشؔ کو موجودہ عہد کا نوحہ گر کہہ سکتے  ہیں۔ شعر کا تیور دیکھئے۔

بے  سود کٹ رہے  ہیں لاکھوں حسین میکشؔ

بھارت کی سر زمیں بھی میدانِ کربلا ہے

کیا بجھتی مجھ سے  آگ کسی کے  مکان کی

اپنے  ہی گھر کی آگ بجھانے  میں رہ گیا

میکشؔ کو میکشی میں اپنی بربادی کا احساس تھا مگر مجبور تھے۔ اس کا اظہار انھوں نے  کئی اشعار میں کیا ہے۔ کہا ہے   ؂

میرے  دلِ تباہ کا عالم نہ پوچھیے               خانہ خراب کر دیا ذوقِ شراب نے

باہر کوئی سکون نہ گھر میں قرار ہے                  مجھ کو کہیں کا رکھا نہیں اس شراب نے

ہم نے  خود بڑھ کے  جلایا ہے  نشیمن اپنا              اس میں اے  برقِ تپاں تیرا کوئی دوش نہیں

کبھی میکشؔ اپنی اس کمزوری کو فطرت کا نام دیتے  تھے   ؂

ابتدائے  حیا ت سے  میکشؔ

   اپنی قسمت کو رو رہا ہوں میں

ازل سے  اپنی قسمت میں لکھا ہے  ٹھوکریں کھانا

 نہ دیکھیں اہلِ دانش یوں مجھے  چشمِ پریشاں سے

برائی مے  پرستی کی کروں یہ ہو نہیں سکتا

      ازل سے  پائی ہے  میکشؔ طبیعت میں نے  رندانہ

میکشؔ اکثر اشعار میں میکشی، میکدہ اور شراب سے  خوب فائدہ اٹھاتے  تھے۔ ایک جگہ کہا ہے   ؂

یہ میکدہ ہے  مگر ہوش مند آتے  ہیں

یہاں سمجھ کے  کرو جس کسی سے  بات کرو

کیفؔ بھوپالی نے  میکشؔ کے  کلام پر تبصرہ ان الفاظ میں کیا ہے۔ ’’  میکشؔ کے  کلام کی یہ خصوصیت مجھے  بے  حد پسند ہے  کہ وہ پیچیدگیوں سے  پاک و صاف اور آمد سے  لبریز ہوتا ہے۔ ‘‘ کیفؔ مرحوم کے  دعوے  پر بطور دلیل یہ اشعار دیکھئے۔

   آب و تابِ آئینہ کم ہو گئی تو کیا ہوا

رفتہ رفتہ رنگ اڑ جاتا ہے  ہر تصویر کا

جو بھی کر نا ہے  آج کر لیجے

کل یہ دنیا رہی رہی نہ رہی

      اب درد محبت مری رگ رگ میں رواں ہے

صرف ایک جگہ ہو تو بتاؤں کہ یہاں ہے

      میں خوب سمجھتا ہوں دو عالم کی حقیقت

آرام سے  انسان یہاں ہے  نہ وہاں ہے

       اک روز رہا تھا ترے  جلوؤں کی فضا میں

آنکھوں میں ابھی تک وہی رنگین سماں ہے

غزل کے  یہ اشعار دیکھئے۔

 تم اپنی آنکھوں میں کیفِ شراب بھر لینا

ہمارے  آنے  سے  پہلے  یہ کام کر لینا

 تمھارے  جلوؤں سے  کھیلے  گا میرا ذوقِ نظر

 نقاب الٹنے  سے  پہلے  ذرا سنور لینا

الجھ رہے  ہیں جو کانٹے  ذرا ادھر دیکھو

پھر اپنے  دامنِ رنگیں میں پھول بھر لینا

ہے  کارِ عشق جہاں میں محال اے  میکشؔ

      بہت ہی سو چ کے  یہ کام اپنے  سر لینا

یہ مختلف اشعار ملاحظہ فرمائیے۔

مجھے  نہ دیکھ میں نبّاض ہوں زمانے  کا

میں تیرے  رُخ سے  تری بات کو سمجھتا ہوں

   یہ دیکھنا ہے  کدھر ٹوٹتے  ہیں پروانے

        میں دل جلاتا ہوں اپنا تو آفتاب جلا

     زخموں کی تعداد نہ پو چھو

        چھوٹا گھر مہمان بہت ہیں

    یوں تو کہنے  کو ایک کانٹا ہوں

        خاص نسبت ہے  پھر بھی پھول کے  ساتھ

   نارِ دوزخ حرام ہے  مجھ پر

        ہے  محبت مجھے  رسول کے  ساتھ

جنابِ میکشؔ نے  اپنی زندگی میں ہی ’ بادہ نو، کے  نام سے  اپنا مجموعہ کلام ترتیب دے  دیا تھا۔ مگر افسوس ان کی زندگی میں وہ زیورِ طباعت سے  آراستہ نہ ہو سکا وہ یہ حسرت لیے  ۹  جنوری  ۱۹۸۷ء بروز جمعہ ۸ بجے  شب اس دنیائے  فانی سے  رحلت کر گئے۔ دوسرے  دن مومن پورہ قبرستان میں ان کی تدفین عمل میں آئی۔

ہو گا جس دِن نہ یہ میکشِ خوش نوا

سونی ہو جائے  گی بزمِ شعرو سخن

٭٭٭

 

عبد الحفیظ پاگل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نام کے  پاگل

اب سے  تقریباً ۳۰۔ ۳۵ سال قبل کی بات ہے  مومن پورہ میں ایک گوشت کی دکان پر میں کھڑا تھا۔ کسی نے  زور سے  آواز لگائی ’’پاگل صاحب آپ کی قمیض جل رہی ہے۔ ‘‘ پاگل صاحب نے  فوراً اپنی انگلیوں میں پھنسی بیڑی کو پیروں تلے  دبا دیا اور دامن جھٹکتے  ہوئے  کہنے  لگے  :’’یار گریبی میں آٹا گیلا ہو گیا۔ ‘‘ پاگل انصاری سے  پہلی بار میں یوں متعارف ہوا۔ اس واقعہ کے  بعد اکثر مشاعروں میں ان سے  کلام سنتا۔ دوسروں کے  ساتھ مجھے  بھی لطف آتا ان کے  اشعار سن کر مجھے  ان کی شخصیت میں دلچسپی سی پیدا ہو گئی۔ وہ میرے  ہم محلہ تھے  اکثر ان سے  ملاقات ہوتی۔ پر گندہ کھچڑی بال، ڈھیلا ڈھالا قمیض پائجامہ اور سلیپر پہنے  انگلیوں میں بیڑی دبائے  اور گاہے  بگاہے  دھواں اڑاتے  وہ روایتی انداز کے  غریب شاعر نظر آتے  بلکہ سچ تو یہ اسمِ بامسمّٰی نظر آتے۔

پاگلؔ انصاری کا پورا نام عبدالحفیظ انصاری تھا۔ ۱۹۱۶ء میں وہ ناگپور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے  کے  بعد معاش کے  جھمیلے  میں پڑ گئے۔ شعر و سخن کا فطری مزاج پایا تھا اس لیے  غزلوں سے  ہی شاعری کا آغاز کیا مگر بعد میں ہزلوں کی طرف مائل ہو گئے  اور آخر تک ہزل کہتے  رہے۔ ابتداء میں مرحوم مولانا ناطقؔ گلاؤٹھوی سے  مشورۂ سخن کرتے  رہے  مگر اس کے  بعد کسی کو اپنا کلام نہیں دکھا یا بلکہ شہر کے  بیشتر شعراء ان سے  مشورۂ سخن کرتے  رہے۔ پاگلؔ صاحب کی اہلیہ کا نام قمر النساء تھا جن کی وفات ۱۹۹۲ء میں ہوئی۔ ان کے  تین بیٹیاں اور تین بیٹے  تھے۔ نور محمد ان کے  بڑے  صاحبزادے  تھے  جن کا انتقال دو سال قبل ہوا۔ خلیل تابش اور شکیل احمد بقید حیات ہیں۔

عبدالحفیظ کو معاشی بحران نے  پاگل بنا دیا تھا۔ شاید اسی لیے  انھوں نے  اپنا تخلّص ہی پاگلؔ کر لیا تھا۔ کہا ہے    ؂

پاگل ترے  نصیب میں آرام ہے  کہاں

اک دن بھی جب کہ چین کی روٹی نہیں ملی

پاگل صاحب شروع سے  غربت کے  شکار رہے۔ لیکن اس غربت و افلاس میں بھی ہمیشہ ہنستے  رہے  اور دوسروں کو ہنساتے  رہے۔ اﷲ پر یقین، توکل اور قناعت ان کی طبیعت کا خاصّہ تھا۔ کہتے  ہیں   ؂

ارے  پاگل خدا پر رکھ بھروسہ

تجھے  کیوں فکر ہے  شام و سحر کی

ایک جگہ اﷲ کی عنایت کا ذکر کس طرح کیا ہے  ملاحظہ کیجئے  :

مجھ سے  سڑے  گلے  ہوئے  مٹی کے  پینڈ پر

اﷲ میاں کی خاص عنایت ہے  زندگی

اکثر اشعار میں وہ اپنی غربت و پریشانی کا ذکر کرتے  تھے۔ یہ اشعار دیکھئے  جس میں طنز زیادہ ہے۔ اسے  سن کر ہمیں شاعر سے  ہمدردی ہو جاتی ہے  :

روز اول سے  پاؤں ہے  بھاری

زندگی پیٹ لے  کے  آئی ہے

اب تو خدا ہی حافظ ہے  اپنی زندگی کا

چھو ہو گیا زمانہ سارا ہنسی خوشی کا

روز اول سے  شاید اﷲ میاں سے  ہم نے

بیمہ کرا لیا تھا غربت کی زندگی کا

وہ غالبؔ کے  اس شعر کی تشریح و تفسیر معلوم ہوتے  تھے  جس میں غالبؔ اہلِ کرم کا تماشہ دیکھنے  کے  لیے  فقیروں کا بھیس اختیار کرتے  تھے۔ پاگل بھی در حقیقت نام کے  ہی پاگل تھے۔ ان کا کلام دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے  کہ وہ فرزانوں سے  بڑھ کر فرزانہ تھے۔ زمانے  پر ان کی گہری نظر تھی۔ روز مرّہ کی باتوں میں بھی وہ نکتہ پیدا کرنے  کا ہنر جانتے  تھے۔ یہ اشعار دیکھئے۔

کردار جانور کا کرتے  ہیں ہم ادا یوں

کھاتے  ہیں گھاس لیکن لیتے  ہیں نام گھی کا

دنیا سیدھے  سادوں کے  لیے  ذلّت کا باعث ہے

یہ دنیا اس کی ہے  جس نے  اِدھر مارا اُدھر دیکھا

یہ شعر دیکھیے۔

رونا تو سبھی روتے  ہیں اس دور میں لیکن

رکھتا ہے  کوئی اپنے  بھی عیبوں پہ نظر کیا

میری بربادیوں پر ہنسنے  والوں

خبر لینا ذرا اپنے  بھی گھر کی

پاگل صاحب وضع دار، منکسر المزاج اور شریف النفس شاعر تھے۔ اس لیے  لوگ ان کی عزت کرتے  تھے  اور انہیں پاگل صاحب کہتے  تھے  وہ  مشاعروں میں دور دور مدعو کیے  جاتے  تھے۔ تحت میں کلام سناتے  مگر اس انداز میں کہ سامعین ٹوٹ کر داد دیتے  تھے۔ کلام سن کر محفل زعفران زار ہو جاتی مگر پاگل صاحب بڑی سنجیدگی سے  اپنے  بکھرے  بالوں میں انگلیوں سے  کنگھی کرتے  اور کنکھیوں سے  ادھر ادھر دیکھتے۔ ایک مشاعرے  میں انہوں نے  جب یہ قطعہ سنایا تو سامعین لوٹ پوٹ ہو گئے    ؂

میں یہ سمجھا کہ انھیں مجھ سے  محبت ہو گی

وہ یہ سمجھے  کہ مری جیب میں پیسہ ہو گا

جب پڑیں جیب پہ نظریں تو وہ ہنس کر بولے

تم ہی بتلاؤ بھلا ایسے  سے  کیسا ہو گا

دنیا کے  تجربات و حوادث نے  انہیں سنجیدہ بنا دیا تھا۔ اس سنجیدگی میں وہ مزاح کا پہلو نکال لیتے  تھے  اور مزاح میں طنز کی آمیزش کر کے  سنجیدگی پیدا کر دیتے  تھے۔ یہ متفرق اشعار ملاحظہ کیجئے   :

اب تک دل و جگر میں نشتر سا چبھ رہا ہے

          کہہ دینا مجھ کو پاگل یک بارگی کسی کا

انوکھے  قسم کی فرمائش ہوتی ہے  روزانہ

          محبت آجکل ایک نوکری معلوم ہوتی ہے

بھروسہ کیا کرے  کوئی کسی کے  عہد و پیماں کا

زمانے  کی فضا منہ چوپڑی معلوم ہوتی ہے

مجھے  وعدوں ہی وعدوں پر ٹلایا

محبت کی، مگر اس نے  اُدھر کی

ذخیرہ عیب کا ہو گا بر آمد

تلاشی لیں اگر اہل ہنر کی

پاگلؔ صاحب کے  کلام میں خالص مزاح کی بھی کمی نہیں تھی بلکہ حقیقت یہ ہے  کہ وہ اسی خوبی کی وجہ سے  جانے  اور مانے  جاتے  تھے۔ لیکن یہاں بھی وہ مزاح کو مزاح کے  معیار سے  گرنے  نہیں دیتے  تھے۔ یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں  :

           تو مجھ کو قتل کرتا ہے  تو کر، لیکن بتا پاگلؔ             شب وعدہ تیری زلفوں کی جھالر کون دیکھے  گا

سڑکیں سدھر گئی ہیں گلیاں سدھر گئی ہیں              سدھرا نہیں اگر تو میدان شاعری کا

      آؤ ملنے  کو تو دَلنے  لگا دیتے  ہیں              ہے  یہ پھٹکار تو کوئی نہ پھٹکتا ہو گا

وفا کی راہ میں پھسلن بہت ہے

   ضمانت ضبط ہو جاتی ہے  سر کی

تعجب ہے ، نہ ہوں بولو نہ ہاں کچھ

یہ تم ہو یا کوئی گڑیا ربر کی

              آج ہوٹل میں تری یاد جو آئی مجھ کو

چائے  میں بھیگا ہوا میں نے  بٹر چھوڑ دیا

       توبہ توبہ عشق کی دھن میں یہ کیا سمجھے  تھے  ہم

تھا وہ انجن کا دھواں جس کو گھٹا سمجھے  تھے  ہم

غیر تمہارا کون ہے  لگتا              ا  بّا ہے  یا چاچا ماما

   اس کے  آگے  انڈے  انڈے              میرے  آگے  بیگن بیگن

ایک روز پاگل صاحب سے  میں نے  مجموعہ کلام شائع کرنے  کے  لیے  کہا تو انتہائی سادگی اور سنجیدگی سے  کہنے  لگے  بھائی! کلام تو بہت ہے۔ ترتیب دیا رکھا ہے۔ پھر وہ خلاء میں دیکھنے  لگے۔ کچھ روز قبل میں نے  ان کے  صاحبزادے  شکیل احمد سے  کلام کے  متعلق کہا تو انھوں نے  بتایا کہ ابّا کے  انتقال کے  بعد دو شاعر حضرات اظہارِ تعزیت کے  لیے  آئے  اور امّاں سے  مجموعہ کلام شائع کرانے  کے  لیے  ڈائری لے  گئے  مگر آج تک نہ مجموعہ کلام منظر عام پر آیا اور نہ ہی یہ معلوم ہو سکا کہ وہ لوگ کون تھے۔

یہ بات قابلِ ذکر اور شکر ہے  کہ جب میں نے  پاگلؔ صاحب پر مقالہ لکھنے  کا ارادہ کیا اور ان کے  کلام کی جستجو میں کچھ لوگوں سے  ذکر کیا تو بہت جلد مجھے  حضرت کی چھ ہزلیں اور کئی متفرق اشعار مل گئے۔ اس سے  اندازہ لگایا جا سکتا ہے  کہ پاگلؔ صاحب لوگوں کے  ذہن و دل میں اب بھی محفوظ ہیں۔

۹!نومبر ۱۹۷۹ء کی صبح جب پاگلؔ انصاری کی وفات کا علم ہوا تو مجھے  یوں محسوس ہوا کہ اردو طنز و مزاح کی چھوٹی سی دیوار کے  بیچ سے  ایک اینٹ کھسک گئی ہے۔ ناگپور کے  ادبی حلقوں میں رنج و غم کی فضا چھا گئی۔ بعد نماز عصر مومن پورہ قبرستان میں تجہیز و تکفین عمل میں آئی۔

دوسرے  روز یعنی ۱۰! نومبر کی شب اسلامیہ ا سکول، مومن پورہ میں نواب غازیؔ مرحوم کی یاد میں ایک سیمینار اور مشاعرہ منعقد کیا گیا۔ ناظم مشاعرہ ثقلین حیدر نے  بڑے  ہی پر سوز اور جذباتی انداز میں پاگلؔ صاحب کو خراجِ عقیدت پیش کرتے  ہوئے  کہا ’’شاعر امیر ہو یا غریب، شاعر غزل گو ہو یا ہزل گو، شاعر غازی ہو یا پاگل، شاعر شاعر ہوتا ہے۔ تخلیق کار ہوتا ہے  اور تخلیق کار عظیم ہوتا ہے۔ اس کا نقصان قوم کا نقصان ہوتا ہے۔ ادب کا نقصان ہوتا ہے۔ پاگلؔ انصاری کی وفات ہمارے  سماج کا نقصان ہے۔ اردو ادب کا نقصان ہے۔ ‘‘سامعین پر ایک سکتہ طاری ہو گیا۔ انھیں پاگلؔ انصاری کی موت کھلنے  لگی۔

اگر پاگلؔ صاحب زندہ ہوتے  اور ثقلین حیدر کی یہ باتیں سنتے  تو ہر گز وہ یہ نا کہتے    ؂

موت پر مفلس کی، تھا اس کا پڑوسی بے  خبر

اہلِ زر کوئی مرا تو شہر بھر ماتم ہوا

سچ تو یہ ہے  کہ پاگل معاشی طور پر مفلس ضرور تھے  لیکن وہ شعر و سخن کی دولت سے  مالامال تھے۔

حق مغفرت کرے  عجب آزاد مرد تھا

٭٭٭

 

وسط ہند کے  اکبر ثانی: غزل کے  مزاج داں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نظیر احمد نظیر

مجھے  ذہن پر بہت زیادہ زور ڈالنے  کی ضرورت نہیں ہوئی مرحوم نظیر احمد نظیر کو ذہن کے  قرطاس پر وا کرنے  میں۔ کشادہ پیشانی، ذہانت کی نشانی، کالے  گھنے  گھنگریالے  بال۔ فارغ البال، شرافت کی چمک روشن آنکھوں پر۔ پان کی لالی پتلے  لبوں پر، صحت مند نکلتا قد، کبھی کرتہ پاجامہ میں ملبوس تو کبھی پنٹ شرٹ زیب تن۔ مومن پورہ میں ہوں یا کسی مشاعرہ گاہ یا ادبی نشستوں میں۔ قد و قامت کی وجہ سے  الگ پہچانے  جاتے۔ نرم دم گفتگو گرم دم جستجو۔ مشاعرے  میں کلام سناتے  تو سامعین و ناظرین ہمہ تن گوش ہوتے  اور ’’تجھ کو دیکھیں کہ تجھ سے  بات کریں ‘‘ کی تصویر ہوتے۔

آپ کے  ذہن پر جو تصویر ابھری ہے  وہی تو نظیر احمد نظیر ہیں جن کی شاعری بے  نظیر ہے۔ نظیر یکم جولائی ۱۹۳۴ء کو ناگپور میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک خوشحال گھرانے  کے  چشم و چراغ تھے۔ ان کے  والد کا نام بشیر احمد اور دادا کا نام کریم بخش تھا۔ دادا مسجد بقر قصاب میں عمر بھر امامت کے  فرائض انجام دیتے  رہے۔ نظیر صاحب ابھی صرف ایک سال کے  تھے  کہ والد کا سایہ سر سے  اٹھ گیا، چار سال کی عمر کو پہنچے  تو والدہ کے  دستِ شفقت سے  محروم ہو گئے۔ چچا رفیق احمد نے  ان کی پرورش کی۔ نظیر صاحب نے  ۱۹۵۷ء میں انجمن ہائی ا سکول، صدر سے  میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ کچھ دنوں بعد ہی انہیں  ناگپور الیکٹریسٹی بورڈ میں ملازمت مل گئی۔ نظیر صاحب کی شادی کامٹی کے  مولا شریف کی صاحبزادی محترمہ قمر جہاں سے  ہوئی۔ ان کا سسرال بھی کامٹی کا متمول خاندان تھا۔ زندگی خوب گزر رہی تھی کہ نظیرؔ صاحب کو کینسر جیسے  موذی مرض نے  آن گھیرا اور وہ ۲ سال تک موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے  کے  بعد ۷! اپریل ۱۹۸۲ء کو اس جہانِ فانی سے  رحلت کر گئے۔ مومن پورہ قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔

مرحوم کی اہلیہ قمر جہاں ماشاء اﷲ بقیدِ حیات ہیں اور اپنے  اکلوتے  بیٹے  بشر نظیف کے  ساتھ زندگی گزار رہی ہیں۔ بشر صاحب بھی M.S.E.B  میں برسرِ روزگار ہیں۔ بیٹی نصرت فردوس، انیق احمد صاحب سے  بیاہی گئی ہیں جو ائیر انڈیا میں انجینیر ہیں اور فی الحال دبئی میں مقیم ہیں اور بال بچّوں کے  ساتھ خوش و خرّ م ہیں۔

مرحوم نظیرؔ صاحب ملنسار، منکسر المزاج اور باغ و بہار طبیعت کے  مالک تھے۔ ایک روز اسٹیشن سے  ایک شخص کو گھر لے  آئے۔ اسے  نہلایا دھلایا، اپنے  کپڑے  پہنائے  اور کھانا کھلا کر روانہ کیا۔ پوچھا گیا، کون تھے  تو کہنے  لگے  بیچارہ ضرورت مند مسافر تھا اپنے  ابو کے  اس واقعہ کو بیان کرتے  ہوئے  بشر صاحب کی آنکھوں میں کچھ شرمندگی کا احساس میں نے  محسوس کیا۔ شاید وہ سوچ رہے  ہوں کہ ان کے  ابّو کو کوئی پاگل نہ سمجھے ! اس نفسہ نفسی کے  دور میں یہ حرکت پاگل پن کے  زمر  ے  میں آ سکتی ہے  لیکن بشر بھائی تمھیں کیا معلوم کہ تمھارے  ابّو کتنے  عظیم تھے۔ ان میں انسانی ہمدردی کتنی کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ ان کے  اندر کتنا اخلاص تھا۔ جس میں ریا کاری نام کو نہ تھی۔ میں تو کہوں گا کہ نظیرؔ صاحب بے  نظیر انسان تھے۔ ایسی باتیں تو پرانے  وقتوں کی معلوم ہوتی ہیں۔ مگر نظیرؔ صاحب تو ہمارے  ہی عہد کے  انسان تھے۔ اچھّے  تھے  نیک تھے۔ اسی لیے  تو اﷲ نے  انہیں بہت جلد بلا لیا۔

نظیرؔ صاحب کی شاعری کا آغاز طالب علمی کے  زمانے  سے  ہی ہو چکا تھا۔ کلام پر اصلاح آذرؔ سیمابی سے  حاصل کی۔ شاعری ان کے  مزاج اور مذاق میں رچی بسی تھی۔ انھوں نے  نعت، منقبت، رباعی، قطعہ، نظم اور غزل سبھی اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے  لیکن غزل کا خاص میدان تھا۔ زندگی میں اپنے  کلام کا مجموعہ ’’عکسِ احساسات‘‘ کے  عنوان سے  ترتیب دیا تھا افسوس کہ اب تک شرمندۂ طباعت نہ ہو سکا۔

نظیر صاحب شاعری میں روایات کے  پاسدار تھے  لیکن شاعری میں مضامین کا تنّوع اور اظہار خیال میں جدّت کا رجحان پایا جاتا تھا۔ ان کی شاعری کا مطالعہ کرتے  ہوئے  پہلا تاثر یہی ہوتا ہے  کہ وہ آسان و سہل انداز میں ایسے  اشعار کہنا جانتے  تھے  جس کو سن کر سامع سر دھنتا ہے  اور جو سنتے  ہی دل میں اتر جانے  کی صلاحیت رکھتے  ہیں۔

جمالیاتی احساس ان کی غزلوں کا خاصّہ ہے۔ اس کے  اظہار کے  لیے  انھوں نے  کہیں بھی معیار سے  سمجھوتا نہیں کیا۔

مجروحؔ سلطان پوری نے  ان کی شاعری پر تبصرہ کچھ یوں کیا ہے   :

’’نظیرؔ صاحب غزل کو عشق و محبت کے  دائرہ سے  باہر ذرا کم ہی پسند کرتے  ہیں۔ غزل کے  مزاج داں ہیں جبھی تو بات ندرت و ذہانت کی آمیزش کے  ساتھ ساتھ پورے  طور پر غزل کے  رنگ و آہنگ میں ڈوبی ہوئی کہتے  ہیں۔ ‘‘

مجروحؔ صاحب نے  یہ رائے  ۲۱! مارچ ۱۹۸۲ء کو نظیرؔ صاحب کے  مجموعہ کلام کے  مسودے  پر دی تھی۔ کیسا جچا تلا تبصرہ ہے  نظیرؔ صاحب کی شاعری پر اس کے  بعد مزید کچھ کہنا محض بات کو الفاظ بدل کر دہرا نا ہی ہو گا۔

نظیر احمد نظیرؔ فطری شاعر تھے۔ شاعری ان کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ شب و روز شاعروں کی صحبت میں گزرتے  تھے۔ ان کا گھر اردو شاعری کا آماجگاہ معلوم ہوتا۔ کیا مقامی شعراء اور کیا بیرونی شعراء اکثر نظیرؔ صاحب کے  دسترخوان کے  خوشہ چیں ہوتے۔ مجروحؔ سلطان پوری، شعریؔ بھوپالی اور کاملؔ بہزادی کا اکثر آنا جانا رہتا۔ ان کے  صاحبزادے  بشر نظیف کا کہنا ہے  کہ ابّو کے  انتقال کے  بعد ان کے  شاعر دوستوں نے  آج تک پلٹ کر نہیں دیکھا کہ ان کے  مرحوم دوست کے  بچے  کس حال میں ہیں۔

’’عکس احساسات‘‘ میں سے  کچھ متفرق اشعار پیش ہیں جس سے  نظیرؔ صاحب کی شاعری کے  مزاج اور اسلوب کا اندازہ ہو گا  :

غم سے  پائی اگر ذرا بھی نجات

آپ فوراً ہی یاد آئے  ہیں

حشر کے  طالبو! مبارک ہو

مدتوں میں وہ مسکرائے  ہیں

یہ عالمِ شباب یہ دل کی تباہیاں

ایسا بہار میں نہ کوئی آشیاں لُٹے

رُخ پریشاں آنکھ میں ہیں سرخ ڈورے  کس لیے

رات بھر شاید تصوّر میں تمھارے  ہم رہے

تمھاری یاد بھی شاید اس مقصد سے  آتی ہے

اگر تھوڑا سا باقی ہو تو مٹ جائے  سکوں وہ بھی

اس قدر باغباں کی نگہبانیاں

گل ترسنے  لگے  ناز و انداز کو

نظیرؔ اگر ہوں لاکھ غم زباں سے  اف نہ کیجیے

اسی بس ایک بات پر وفا کا انحصار ہے

اُدھر ہے  ظلم و بے  رخی ادھر ہے  ضبط و انکسار

وہ حسن کا شعار ہے  یہ عشق کا وقار ہے

کیا مری سانس کی آس باقی نہیں

دیکھتا ہوں فسردہ میں دمساز کو

نظیرؔ آج بساطِ جہاں سے  اٹھا ہے

ہر ایک بزم میں رنج و الم کی بات چلی

آخر میں ہم دعا کرتے  ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نظیر احمد نظیرؔ کو کروٹ کروٹ جنّت سے  نوازے  اور ان کے  خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کر دے،  آمین!

٭٭٭

ماخذ: مجلہ ’زرنگار‘ صدر مسلم لائبریری ناگپور سے

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید