FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

میرا جی

 

 

                   جمع و ترتیب: ارشد خالد

’عکاس‘ راولپنڈی کے شمارہ ۱۴ سے

 

 

 

 

 

کوائفِ میرا جی

 

                   مرتب کردہ: ڈاکٹر جمیل جالبی

 

نام:                محمد ثنا اللہ ثانی ڈار

والد کا نام:         منشی محمد مہتاب الدین          والدہ کا نام:       زینب بیگم عرف سردار بیگم

ولادت میرا جی:         ۲۵  مئی ۱۹۱۲ء

تخلص:           پہلے ’’ساحری‘‘  اور پھر  ’’میرا جی‘‘۔ ہزلیہ شاعری میں تخلص  ’’لندھور‘‘  آیا ہے۔

تصانیف:

شاعری:

میرا جی کے گیت              مکتبہ اردو لاہور          ۱۹۴۳ء

میرا جی کی نظمیں              ساقی بک ڈپو دہلی         ۱۹۴۴ء

گیت ہی گیت               ساقی بک ڈپو دہلی         ۱۹۴۴ء

پابند نظمیں                   کتاب نما، راولپنڈی       ۱۹۶۸ء

تین رنگ                    کتاب نما، راولپنڈی       ۱۹۶۸ء

سہ آتشہ                            بمبئی              ۱۹۹۲ء

کلیاتِ میرا جی۔مرتبہ ڈاکٹر جمیل جالبی  اردو مرکز لندن      ۱۹۸۸ء

کلیاتِ میرا جی۔مرتبہ ڈاکٹر جمیل جالبی، نیا ایڈیشن۔لاہور   ۱۹۹۴ء

تنقید:

مشرق و مغرب کے نغمے:(تنقید و تراجمِ شاعری)                      اکادمی پنجاب (ٹرسٹ)لاہور     ۱۹۵۸ء

اس نظم میں :                   ساقی بک ڈپو۔دہلی      ۱۹۴۴ء

تراجم:

نگار خانہ  : (سنسکرت شاعر دامودر گپت کی کتاب ’’نٹنی مَتَم‘‘ کا نثری ترجمہ)۔

پہلے ماہنامہ خیال بمبئی میں شائع ہوا۔جنوری ۱۹۴۹ء۔ اور پھر کتابی صورت میں مکتبۂ جدید لاہور سے نومبر۱۹۵۰ء میں شائع ہوا۔

خیمے کے آس پاس:(عمر خیام کی رباعیات کا ترجمہ)۔مکتبۂ جدید لاہور۔۱۹۶۴ء(کلیاتِ میرا جی سے انتخاب)

٭٭٭

 

یگانگت

 

زمانے میں کوئی برائی نہیں ہے

فقط اک تسلسل کا جھولا رواں ہے یہ میں کہہ رہا ہوں

میں کوئی برائی نہیں ہوں، زمانہ نہیں ہوں، تسلسل کا جھولا نہیں ہوں

مجھے کیا خبر کیا برائی میں ہے، کیا زمانے میں ہے، اور پھر میں تو یہ بھی کہوں گا

کہ جو شے اکیلی رہے اس کی منزل فنا ہی فنا ہے

برائی، بھلائی، زمانہ، تسلسل۔۔یہ باتیں بقا کے گھرانے سے آئی ہوئی ہیں

مجھے تو کسی بھی گھرانے سے کوئی تعلق نہیں ہے

میں ہوں ایک، اور میں اکیلا ہوں، ایک اجنبی ہوں

یہ بستی، یہ جنگل، یہ بہتے ہوئے راستے اور دریا

یہ پربت، اچانک نگاہوں میں آتی ہوئی کوئی اونچی عمارت

یہ اُجڑے ہوئے مقبرے اور مرگِ مسلسل کی صورت مجاور

یہ ہنستے ہوئے ننھے بچے، یہ گاڑی سے ٹکرا کے مرتا ہوا ایک اندھا مسافر

ہوائیں، نباتات اور آسماں پر اِدھرسے اُدھر آتے جاتے ہوئے چند بادل

یہ کیا ہیں ؟

یہی تو زمانہ ہے، یہ اک تسلسل کا جھولا رواں ہے

یہ میں کہہ رہا ہوں یہ بستی، یہ جنگل، یہ رستے، یہ دریا، یہ پربت، عمارت، مجاور۔مسافر

ہوائیں، نباتات اور آسماں پر اِدھرسے اُدھر آتے جاتے ہوئے چند بادل

یہ سب کچھ، یہ ہر شے مرے ہی گھرانے سے آئی ہوئی ہے

زمانہ ہوں میں، میرے ہی دَم سے اَن مٹ تسلسل کا جھولا رواں ہے

مگر مجھ میں کوئی برائی نہیں ہے

کہ مجھ میں فنا اور بقا دونوں آ کر ملے ہیں !

(تین رنگ)

٭٭٭

 

 

ریل میں

 

’’گجرات کے ہو؟‘‘۔۔۔۔کیا تم سے کہوں، پردیسی کو دھتکارتے ہیں اس دیس میں

جس کے تم ہو امیں،

انگشت سے خاتم دور ہوئی، کیا تم سے کہوں، اب پہلی چمک باقی ہی نہیں، اب

ٹوٹ چکا وہ نقشِ حسیں، اوجھل ہے نگاہوں سے وہ نگیں

پربت سے دھارا بہتی ہے، ویسے ہی بہا ہے نورِ جبیں

دل کا امرت، آنکھوں کا لہو۔

 

یوں رستے میں گھل جاتے ہیں وہ رنگ نہیں کچھ جن کو خبر

جب چاند ڈھلے، جب تاروں کا آکاش سے مٹ جائے منظر

کالی راتوں سے بڑھ کے کہیں کالا دن کیسے ہو گا بسر؟

تم گھلتے ہو، میں گھل بھی چکا، اب آنکھ میں کوئی نہیں ہے اثر

تم دیکھتے ہو، میں دیکھتا ہوں اور کہتی ہے میری یہ نظر

جب راتیں تھیں، جب باتیں تھیں، اور ایک ہی دھیان تھا۔۔۔میں اور تو!

بے کار یہ باتیں کرتے ہیں، کیوں پوچھتے ہیں گجرات کے ہو؟

کیا اپنی بات کے دامن سے پونچھیں گے آنکھ کے آنسو کو؟

جو ہونی تھی وہ ہو بھی چکی اب چاہے ہنسو، چاہے رو لو،

بس یونہی کبھی آ جاتی ہے گھلتی گھلتی میٹھی خوشبو

آنکھوں کی چمک، بازو کی دمک ایسے ہے جیسے دودِ روا ں، باقی ہی نہیں  کچھ ان کا نشاں

لہنگے کا جھولا ٹوٹ گیا، اب سوکھی ہے وہ جوئے رواں جس میں بہتے بہتے میں نے دیکھا تھا سماں

اُس چاندنی کا جو آتی ہے اور جاتی ہے جیسے سورج کی کرن سے دھندلکا ہو پنہاں

جیسے جنگل میں پھسلتے پھسلتے پتوں پر ہو جائے نگاہوں سے اوجھل کوئی آہو!                  (۱۹۴۲ء)

٭٭٭

 

 

 

ابوالہول

 

بچھا ہے صحرا اوراُسمیں ایک ایستادہ صورت بتا رہی ہے

پرانی عظمت کی یادگار آج بھی ہے باقی

 

نہ اب وہ محفل، نہ اب وہ ساقی

مگر انہی محفلوں کا اک پاسباں کھڑا ہے

فضائے ماضی میں کھو چکی داستانِ فردا

مگر یہ افسانہ خواں کھڑا ہے

زمانہ ایوان ہے، یہ اس میں سنا رہا ہے پرانے نغمے

میں ایک ناچیز و ہیچ ہستی

فضائے صحرا کے گرم و ساکن، خموش لمحے

مجھے یہ محسوس ہو رہا ہے

ابھی وہ آ جائیں گے سپاہی وہ تُند فوجیں

دلوں میں احکام بادشاہوں کے لے کے

آ جائیں گی اُفق سے

ہوائے صحرا نے چند ذرے کیے پریشاں

ہے یا وہ فوجوں کی آمد آمد؟

خیال ہے یہ فقط مِرا اک خیال ہے، میں خیال سے

دل میں ڈر گیا ہوں

مگر یہ ماضی کا پاسباں پُر سکون دل سے

زمیں پہ اک بے نیاز انداز میں ہے قائم

(۱۹۳۶ء)

٭٭٭

 

 

غزل

 

 

چاند ستارے قید ہیں سارے وقت کے بندی خانے میں

لیکن میں آزاد ہوں ساقی! چھوٹے سے پیمانے میں

 

عمر ہے فانی، عمر ہے باقی اس کی کچھ پروا ہی نہیں

تو یہ کہہ دے وقت لگے گا کتنا آنے جانے میں

 

تجھ سے دُوری دُوری کب تھی، پاس اور دور تو دھوکا ہیں

فرق نہیں انمول رتن کو کھو کر پھر سے پانے میں

 

دو پل کی تھی اندھی جوانی، نادانی کی، بھر پایا

عمر بھلا کیوں بیتے ساری رو رو کر پچھتانے میں

 

پہلے تیرا دیوانہ تھا اب ہے اپنا دیوانہ

پاگل پن ہے ویسا ہی کچھ فرق نہیں دیوانے میں

 

خوشیاں آئیں ؟اچھا آئیں، مجھ کو کیا احساس نہیں

سُدھ بُدھ ساری بھول گیا ہوں دُکھ کے گیت سنانے میں

 

اپنی بیتی کیسے سنائیں مد مستی کی باتیں ہیں

میراؔ جی کا جیون بیتا پاس کے اک مے خانے میں

٭٭٭

 

 

 

 

میرا جی کے بارے میں ایک خط

 

                   اخترالایمان(ممبئی)

 

عزیزم رشید امجد!

سلام بن رزاق نے آپ کا خط پہنچا دیا تھا، انہیں دنوں مجھے آنکھ کا آپریشن کرانا پڑا اور لکھنا پڑھنا کچھ دنوں کے لئے معطل ہو گیا۔میرا جی کی شخصیت اور فن پر لکھنا تو لمبا کام ہے، کبھی کراچی یا اسلام آباد آیا تو ملئے، اس موضوع پر باتیں کر لیں گے۔وہ پارسی لڑکی جس کے بارے میں آپ جاننا چاہتے ہیں اس کا نام منی رباڈی ہی تھا۔ اس لڑکی سے میرا جی کے عشق کو بہت اہمیت نہ دیجئے۔ایسی اور بہت لڑکیاں ہیں۔ دو ایک دلی ریڈیو اسٹیشن میں تھیں۔ مجھے ان کے نام یاد نہیں۔

میرا جی بمبئی آنے کے بعد کچھ دن چار بنگلے میں بھی رہے تھے۔یہ ایک بہت بڑی کوٹھی نما عمارت تھی۔کس کی تھی؟ مجھے نہیں معلوم۔اکثر ادیبوں اور شاعروں کو یہاں رہنے کا ٹھکانا مل جاتا تھا۔کرشن چندر، ساحر لدھیانوی، وشوا متر عادل اور کئی ادیب اور شاعر بمبئی آنے کے بعد وہیں رہے تھے۔میرا جی بھی کچھ دن وہاں رہے۔کچھ دن دادرا میں مہندر ناتھ کے پاس رہے۔ اس کے بعد موہن سہگل کے پاس ما لنگا منتقل ہو گئے تھے۔موہن سہگل، وشوا متر عادل، منی رباڈی، اس کی بہن نرگس جو فلموں میں شمیؔ کے نام سے معروف ہوئی اور ان کے ساتھ اور بہت سے لڑکے، لڑکیاں انڈین پیپلز تھیٹر سے وابستہ تھے۔منی رباڈی، موہن سہگل کی دوست تھیں وہ آج کل فلموں میں ڈریس ڈیزائنر کا کام کرتی ہیں۔

میں ان دنوں شالیمار پکچرس سے وابستہ تھا جو پونے میں تھی۔جوش ملیح آبادی اور کرشن چندر بھی وہیں تھے۔تقسیم ہند کے بعد کمپنی کے مالک ڈبلیو  زیڈ احمد لاہور چلے گئے۔کمپنی بند ہو گئی، میں بمبئی آ گیا۔میرا جی سے میری پہلی ملاقات ۴۰ء یا۴۱ء میں آل انڈیا ریڈیو پر ہوئی تھی۔کچھ دن میں نے بھی وہاں کام کیا تھا۔شام کو اکثر ہم دونوں کا ساتھ رہتا تھا۔دلی میں لال قلعہ کے سامنے جو بازار ہے وہاں ایک ریستوران تھا وہاں بیٹھ کر ڈرافٹ بیر پیا کرتے تھے۔چھے آنے کا گلاس ملا کرتا تھا۔

میں دلی سے میرٹھ چلا گیا۔کچھ دن سپلائی کے محکمے میں کام کیا پھر ایم اے کے لیے علی گڈھ یونیورسٹی چلا گیا۔علی گڈھ سے پونے گیا تھا۔میرا جی بھی تلاشِ معاش میں بمبئی آئے وہاں کوئی خاطر خواہ کام نہیں ملا تو میرے پاس پونے آ گئے اور میرے پونا چھوڑنے تک وہیں میرے پاس ہی رہے۔کام وہاں بھی انہیں نہیں مل سکا۔۴۷ء میں جب بمبئی آیا تو میرا جی بھی آ گئے۔موہن سہگل فلم ڈائریکٹر بن گئے اور وہ مکان چھوڑ گئے۔وشوا متر عادل مدراس کی ایک فلم کمپنی سے متعلق ہو کر مدراس چلے گئے۔مہا جی   نام کے ایک فلم جرنلسٹ میرے دوست تھے۔لاہور جاتے وقت وہ اپنا فلیٹ مجھے دے گئے۔وہ فلیٹ میں نے مدھو سودن اور میرا جی کو دے دیا۔

کچھ مدت وہاں رہنے کے بعد میرا جی بیمار ہو گئے۔ڈاکٹر نے بتایا ان کی آنتوں میں زخم ہو گئے ہیں۔ یہ کثرت سے دیسی کچی شراب پینے کا نتیجہ تھا۔مجھے باندرہ میں ایک مکان مل گیا تھا، میں انہیں اپنے پاس لے آیا۔دو ڈاکٹر ان کا علاج کرتے رہے۔ان میں ایک ہومیو پیتھ تھا۔میرا جی کا اصرار تھا انہیں ضرور بلایا جائے۔اس کے باوجود بھی کہ علاج برابر جاری رہا انہیں افاقہ نہیں ہوا اور ان کی حالت اتنی بگڑ گئی کہ حوائج ضروری کے لئے پلنگ سے اُٹھ کر پا خانے تک جاتے جاتے کپڑے خراب ہو جاتے تھے۔ فرش تک گندہ ہو جاتا تھا۔مہترانی نے کچھ دن کام کرنے کے بعد انکار کر دیا۔وہ کام میری بیوی کو کرنا پڑا۔

میری شادی انہیں دنوں ہوئی تھی، میری بیوی کم عمر بھی تھیں، سولہ سترہ کے قریب ان کی عمر تھی۔میری اور ان کی عمر میں پندرہ سال کا فرق تھا۔میرے گھر کے قریب بھابا اسپتال تھا۔اس کے انچارج ڈاکٹر طوے میرے دوست تھے۔میرا جی کی یہ حالت دیکھ کر انہوں نے مشورہ دیا میں انہیں اسپتال میں منتقل کر دوں۔ کھانا گھر سے بھجوا دیا کروں، اس لئے کہ ساگودانہ یا اسی طرح کا بہت ہلکا کھانا ڈاکٹر نے ان کے لئے تجویز کیا تھا، چنانچہ انہیں بھابا اسپتال میں منتقل کر دیا گیا۔ایک دو بار میں اسپتال جاتا تھا، ڈاکٹر بھی آتے رہتے تھے۔

ایک بار ڈاکٹر طوے نے آ کر شکایت کی کہ میرا جی پرہیز نہیں کرتے۔برابر کے مریضوں سے مانگ کر دال چاول کھا لیتے ہیں۔ میں نے اسپتال جا کر انہیں بہت سمجھایا مگر میری بات کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا اور نہایت ڈھٹائی سے کہنے لگے: ’’میں تو گھر میں رات کو باورچی خانے میں جا کر کھانا کھا لیتا تھا‘‘۔ تب مجھے احساس ہوا کہ اتنے علاج  کے باوجود بھی وہ ٹھیک کیوں نہیں ہوئے۔میں نے انہیں لالچ بھی دیا کہ آپ ٹھیک ہو جائیں گے تو والدہ کے پاس لاہور بھجوا دوں گا مگر اُن کی حالت گرتی ہی چلی گئی۔اور ایک روز ڈاکٹر نے مجھے بتایا ان کی ذہنی حالت بگڑ گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہو گیا ہے۔مجھے بڑا افسوس ہوا۔ڈاکٹر نے بتایا کہ آتشک کے مریضوں کے ساتھ ایک عمر میں یہ ہو جانا ممکن ہے۔ان کی عمر اس وقت سینتیس کے قریب تھی مگر بال سب سفید ہو گئے تھے۔ انجان لوگ کبھی کبھی پوچھ بیٹھتے تھے  ’’یہ آپ کے والد ہیں ؟‘‘۔

اُس روز انہیں بھابا اسپتال سے کے ای ایم(KEM )اسپتال میں منتقل کیا۔ڈاکٹر نے کہا انہیں بجلی کے جھٹکے دینے پڑیں گے۔میرا جی یہ سن کر بہت افسردہ ہوئے۔

’’اختر میں یہ نہیں چاہتا‘‘

’’آپ اچھے ہو جائیں گے‘‘

’’میرے امراض  (؟)دور ہو گئے تو لکھوں گا کیسے؟‘‘ انہوں نے افسردہ ہو کر کہا

میں ہنسنے لگا ’’لکھنا تو آپ کے دماغ کا کمال ہے۔۔۔۔کا نہیں۔ ‘‘

ایک نوجوان ڈاکٹر جو لاہور سے آیا تھا مجھ سے پوچھنے لگا میرا جی وہ شاعر تو نہیں جو لاہور میں تھے؟

میں نے کہا یہ وہی ہیں۔ اس نے ان کے علاج میں بہت دلچسپی لی۔میں اور سلطانہ، میری بیوی روز انہیں دیکھنے جاتے تھے۔ایک روز جو گئے تو معلوم ہوا، انہوں نے ایک نرس کی کلائی میں کاٹ لیا۔میں نے کہا ’’میرا جی اتنی خوبصورت نرس کی کلائی میں کاٹ لیا آپ نے‘‘

بگڑ کر کہنے لگے ’’ پھر اس نے مجھے انڈا کیوں نہیں دیا کھانے کو۔‘‘

ایک دو روز بعد ریل گاڑیوں کی ہڑتال ہو گئی اور میں شام کو اسپتال جا نہیں پایا۔رات کو کھانا کھا رہا تھا کہ اسپتال کا تار ملا کہ میرا جی گزر گئے۔ میرے پڑوس میں نجم الحسن نقوی رہتے تھے، مشہور فلم ڈائریکٹر تھے۔میں نے ان سے ذکر کیا اور ہم دونوں اسی وقت ایڈورڈ میموریل اسپتال پہنچے اور اگلے روز لاش پہنچانے کی بات کر کے انہیں مارچری میں رکھوا دیا۔

میرا جی اپنے زمانے کا بڑا نام تھا، میں نے بمبئی کے تمام ادیبوں کو اطلاع بھجوائی، اخبار میں بھی چھپوایا مگر کوئی ادیب نہیں آیا۔جنازے کے ساتھ صرف پانچ آدمی تھے۔میں، مدھو سودن، مہندر ناتھ، نجم نقوی اور میرے ہم زلف آنند بھوشن۔میرن لائنز کے قبرستان میں تجہیز و تکفین کے فرائض انجام دئیے اور انہیں سپردِ خاک کر کے چلے آئے۔         وفات کی تاریخ ۳ نومبر ۱۹۴۹ء      پیدائش ۲۵ مئی ۱۹۱۲ء۔دن سنیچر

بھرتری ہری کا ترجمہ اتنا ہی جتنا چھپا ہے، البتہ خیامؔ کی رباعیوں کا کچھ ترجمہ میرے پاس ہے۔ان کے ہاتھ کی لکھی ہوئی دو کتابوں کے مسودے ’’تین رنگ‘‘  اور  ’’سہ آتشہ‘‘ میرے پاس ہیں۔ کئی سال ادھر کی بات ہے میں بیمار ہو گیا تھا۔احتیاطاً میں نے اکثر نظمیں نقل کر کے جمیل جالبی  اور سب کو بھجوا دی تھیں، وہیں نظمیں اکٹھی کر کے ان کا مجموعہ چھاپا گیا ہے۔چونکہ باہر نظمیں چھپ گئی تھیں اس لئے میں نے کتاب نہیں چھاپی۔اب ارادہ کر رہا ہوں، شاید کچھ نظمیں رہ گئیں۔

انہوں نے آپ بیتی لکھنے کی نیت کئی بار کی تھی مگر کبھی ایک صفحہ، کبھی ڈیڑھ صفحہ لکھا اور چھوڑ دیا۔اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ میرا جی سے متعلق تاثرات جاننے کے لئے یا تو آپ کبھی بمبئی آئیے یا کبھی میں اُدھر آیا تو ملئے۔

امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔

اخترالایمان

۲۷ اکتوبر ۹۱ء

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(مطبوعہ سوغات بنگلور۔شمارہ:۵)

٭٭٭

 

 

                   حیدر قریشی(جرمنی)

 

میرا جی، شخصیت اور فن

 

(ڈاکٹر رشید امجد کا پی ایچ ڈی کا مقالہ)

 

ادبی دنیا میں آنے سے پہلے اپنی ٹین ایج میں میرے پسندیدہ شاعر وہی شعراء تھے جو ٹین ایجرز کے سدا بہار شاعر ہیں۔ لیکن انہیں شاعروں میں، اُن شاعروں سے یکسر مختلف میراجی بھی شامل تھے جنہیں میں نے ٹین ایج میں ہی حیرت کے ساتھ پڑھا تھا۔ان کا شعری مجموعہ ’’ تین رنگ‘‘  مجھے کہیں سے ملا تھا اور میں نے اس کی نظمیں، گیت اور غزلیں اسی عمر میں پڑھ لی تھیں۔ یہ غالباً ۱۹۶۹ء کا سال تھا۔(عمر ۱۷ سال)جب میں نے میرا جی کو کچھ سمجھا، کچھ نہیں سمجھا مگر کوئی انوکھا سا شعری ذائقہ ضرور محسوس کیا۔تب جہاں میں نوکری کرتا تھا، اس ملز میں لیبارٹری کے دوستوں کا بیت بازی کا مقابلہ ہوا تھا اور اس میں سب سے زیادہ میرا جی کے شعر پڑھے گئے۔ بیت بازی کا فیصلہ میرا جی کی ایک غزل نے کرایا۔

؎  گناہوں سے نشوونما پا گیا دل         درِ  پختہ  کاری  پہ پہنچا گیا دل

لام سے شروع ہونے والے اشعار ختم ہو گئے اور میرا جی کی اس غزل کے شعر ابھی باقی تھے۔اسی کتاب میں ایک نظم غالباً  ’’خلا ‘‘ (۱)کے عنوان سے تھی۔

خدا نے الاؤ جلایا ہوا ہے

اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے

ٹین ایج، خام ذہن اور ایسی بات۔۔۔اس کے بعد میرا جی کو مربوط طور پر پڑھنے کا موقعہ تو نہیں ملا لیکن ادبی رسائل کے ذریعے کافی کچھ پڑھنے کو ملتا رہا، تعارف بڑھتا رہا۔یوں جدید نظم کے حوالے سے ان کی اہمیت کا احساس بھی ہوتا گیا۔

میرا جی پر اب تک کافی کام ہو چکا ہے۔ایم اے اردو کا تحقیقی مقالہ انوار انجم نے لکھا، متعدد اہم ادبی رسائل نے میرا جی سے متعلق دستیاب یادگار مواد کو محفوظ کیا۔اور اب زیرِ نظر کتاب ڈاکٹر رشید امجد کا تحقیقی مقالہ ہے جس پر انہیں پی ایچ دی کی ڈگری دی گئی ہے۔ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا اس مقالہ میں ان کے نگران تھے۔میں سمجھتا ہوں جدید نظم میں میرا جی جتنی اہم شخصیت ہیں، رشید امجد جدید افسانے میں لگ بھگ اتنی ہی اہم شخصیت ہیں۔ لگ بھگ اس لیے لکھا ہے کہ ہلکے سے تقدم و تاخر کی گنجائش موجود ہے لیکن اس کے باوجود رشید امجد کا جدید افسانے کے حوالے سے جو کام ہے وہ میرا جی کے جدید نظم والے کام جتنا ہی اہم ہے۔شاید اسی لیے رشید امجد نے نہ صرف دستیاب معلومات سے استفادہ کیا ہے بلکہ میرا جی کو جدید ادب کے باطنی حوالوں سے بھی عمدگی سے دریافت کیا ہے۔

اس مقالہ کے سات ابواب ہیں۔ پہلا باب خاندانی، سوانحی اور شخصی حالات پر مشتمل ہے اور یہ باب اس مقالہ کا اہم ترین حصہ ہے۔اس باب میں میرا جی کے بارے میں جو اہم معلومات یکجا ہوئی ہے اسے اختصار کے ساتھ بیان کیے دیتا ہوں۔

میرا جی کا اصل نام ثناء اللہ ڈار تھا۔۲۵ مئی ۱۹۱۲ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔(ایک روایت میں گجرات بھی مذکور ہے)ان کے والد منشی محمد مہتاب الدین کی پہلی بیوی فوت ہوئیں تو انہوں نے میرا جی کی والدہ سے شادی کر لی جو عمر میں منشی صاحب سے بہت چھوٹی تھیں۔ عمروں کے اس تفاوت نے بھی میرا جی کے ذہن پر گہرا اثر ڈالا۔ان کے والد کو ریلوے کی ملازمت کی وجہ سے مختلف شہروں میں قیام کرنا پڑا۔گجرات کا ٹھیا واڑ سے لے کر بوستان،  بلوچستان تک انہوں نے سکھر، جیکب آباد، ڈھابے جی، جیسے مقامات گھوم لیے۔بنگال کے حسن کے جادو نے انہیں لاہور میں اپنا اسیر کیا۔ ۱۹۳۲ء میں انھوں نے ایک بنگالی لڑکی میرا سین کو دیکھا اور پھر اسی کے ہو رہے۔یہ سراسر داخلی نوعیت کا یکطرفہ عشق تھا۔ میرا سین کو اس کی کلاس فیلوز میرا جی کہتی تھیں، چنانچہ ثناء اللہ ڈار نے اپنا نام میرا جی رکھ لیا اور رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی کی زندہ مثال بن گئے۔اس عشق میں میٹرک پاس نہ کر سکے۔ہومیو پیتھک ڈاکٹری سیکھ لی لیکن نہ اس کی بنیاد پر ڈاکٹر کہلوانا مناسب سمجھا اور نہ ہی اس مہارت سے کوئی تجارتی فائدہ اٹھایا۔  بال بڑھا لیے، ملنگوں جیسا حلیہ اختیار کر لیا۔پھر اس میں تدریجاً ترقی کرتے گئے، لوہے کے تین گولے، گلے کی مالا، لمبا اور بھاری بھر کم اوور کوٹ، بغیر استر کے پتلون کی جیبیں اور ہاتھ عام طور پر جیب کے اندر، بے تحاشہ شراب نوشی، سماجی ذمہ داریوں سے یکسر بے گانگی۔۔۔یہ سارے نشان میرا جی کی ظاہری شخصیت کی پہچان بنتے گئے۔بقول محمد حسن عسکری :

’’جب انہوں نے دیکھا کہ دوست انہیں افسانہ بنا دینا چاہتے ہیں تو بے تامل افسانہ بن گئے، اس کے بعد ان کی ساری عمر اس افسانے کو نبھاتے گزری‘‘۔

میرا سین سے میرا جی کی پہلی ملاقات یا پہلی بار دیکھنا ۲۰ مارچ ۱۹۳۲ء کا واقعہ ہے۔وہ اپنی تعلیم مکمل کرنا تو کیا میٹرک بھی نہ کر سکے۔اس کے باوجود انگریزی زبان اور ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔جدید نظم کا تجربہ انگریزی ادب سے ہی آیا تھا میرا جی نے اسے ہندوستان کی مقامیت میں گوندھ کر اردو کی مستقل اور جاندار صنف بنا دیا۔ان کے کئے ہوئے سارے تراجم بھی انگریزی سے ہوئے ہیں۔ پھر ان کی تنقیدی بصیرت میں مغربی علوم سے مثبت استفادہ کے ساتھ اسے اپنے ادب کے تناظر میں دیکھنے کا رویہ بھی موجود ہے۔یوں میٹرک فیل میرا جی، جو ظاہری زندگی میں ایک ملنگ سا شاعر ہے ادب کے معاملہ میں بہت ذمہ دار دکھائی دیتا ہے۔۲۹ اپریل ۱۹۳۶ء کو بزم داستاں گویاں کے نام سے لاہور میں ایک ادبی تنظیم قائم ہوئی جو بعد میں حلقہ ارباب ذوق بن گئی۔۲۵ اگست ۱۹۴۰ء کو میرا جی پہلی مرتبہ حلقہ کے اجلاس میں شریک ہوئے، ان کی آمد نے حلقہ میں ایک نئی روح پھونک دی۔

میرا جی کے والد نے ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی رقم سے مولانا صلاح الدین احمد کے ساتھ مل کر ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی کھولی۔ لیکن ایجنسی گھاٹے کا شکار ہوئی۔نوبت مقدمہ بازی تک پہنچی۔ایسی فضا میں میرا جی نے مولانا صلاح الدین احمد کے ادبی رسالہ  ’’ادبی دنیا‘‘ میں شمولیت اختیار کر لی۔والد نے برا منایا تو انہیں سمجھا بجھا دیا۔  ’’ادبی دنیا‘‘  میں ان کی شمولیت سے جدید ادبی رویوں کو فروغ ملنے لگا۔ ۱۹۴۲ء میں  ’’ادبی دنیا‘‘  کو چھوڑ کر دہلی گئے۔جون ۱۹۴۷ء کو بمبئی گئے لیکن اپنے مخصوص مزاج کے باعث دنیا داری میں کہیں بھی کامیاب نہ ہو سکے۔لاہور کے زمانہ سے لے کر دہلی کے دور تک طوائفوں کے پاس بھی جاتے رہے اور لاہور کی ایک طوائف سے آتشک کا موذی تحفہ لے کر آئے۔دہلی میں ریڈیو کی ملازمت کے دوران دو اناؤنسرز کو کچھ پسند کرنے لگے لیکن ایک اناؤنسر کی پھٹکار کے بعد میرا سین کی مستی میں واپس چلے گئے۔بمبئی کی فلمی دنیا میں پاؤں جمانے کی کوشش کی۔مگر کامیاب نہ ہوئے۔اس دوران ماں سے ملنے کی خواہش لاہور جانے پر اکساتی رہی، لاہور تو نہ جا سکے البتہ  ’’سمندر کا بلاوا‘‘  جیسی خوبصورت نظم تخلیق ہو گئی۔ایک بار والدہ سے ملنے کے لیے معقول رقم جمع کر لی تھی کہ ایک تانگے والے نے اپنا مسئلہ بتایا کہ رقم نہ ہونے کی وجہ سے شادی نہیں ہو رہی۔میرا جی نے ساری رقم اٹھا کر تانگے والے کو دے دی اور والدہ سے ملنے کا پروگرام موخر کر دیا جو تا دمِ مرگ موخر ہی رہا۔ایک اور موقعہ پر ایک ترقی پسند شاعر کی درد بھری داستان سن کر ساری جمع پونجی اس کے حوالے کر دی۔بمبئی میں سخت غربت، بھیک مانگنے جیسی حالت، دن میں چالیس سے پچاس تک پان کھانے کی عادت، کثرت شراب نوشی، استمنا بالید اور آتشک کے نتیجہ میں ۳ نومبر ۱۹۴۹ء کو میرا جی بمبئی کے ایک ہسپتال میں ساڑھے ۳۷ سال کی عمر میں وفات پا گئے۔الطاف گوہر کی تحریر کے مطابق  ’’مرنے سے چند دن پہلے جب ایک پادری نے ان سے پوچھا۔۔’آپ یہاں کب سے ہیں ؟ ‘

تو میرا جی نے بڑی متانت سے کہا۔۔’ازل سے‘۔‘‘

اخترالایمان نے بڑی وضاحت سے لکھا ہے کہ چونکہ تقسیم بر صغیر کے معاً بعد کا زمانہ تھا۔ اس لیے میرا جی جیسا شاعر جو زندگی بھر قدیم ہندوستان کی رُوح کا پرستاررہا، اس کا مسلمان اور پاکستانی ہونا تعصب کا موجب بن گیا۔اختر الایمان نے خود اخبارات کے دفاتر میں فون کر کے خبر دی۔دوسرے دن خود جا کر میرا جی کی وفات کی خبر دی لیکن کسی اخبار نے ان کی وفات کی خبر چھاپنا گوارا نہیں کیا(۲)۔میرا جی کو بمبئی کے میرن لائن قبرستان میں دفن کیا گیا۔جنازے میں صرف پانچ افراد شامل ہوئے۔اخترالایمان، نجم نقوی، مدھو سودن، مہندر ناتھ اور آنند بھوشن۔

میرا جی کی داستان کے اس مقام پر ڈاکٹر رشید امجد نے میرا جی کی ایک غزل کا ایک مصرعہ بڑا ہی برجستہ درج کیا ہے    ؎    نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستہ بھول گیا

میرا جی اپنی زندگی کے مختصر دور میں دہلی، لاہور، بمبئی، پونہ تک جن مختلف ادیبوں کے کسی نہ کسی رنگ میں قریب رہے،  ان میں سے چند نام یہ ہیں۔ مولانا صلاح الدین احمد، شاہد احمد دہلوی، منٹو، یوسف ظفر، قیوم نظر، الطاف گوہر، مختار صدیقی، ن۔م۔راشد، اخترالایمان، راجہ مہدی علی خان، کرشن چندر، احمد بشیر، محمود نظامی، و دیگر۔

مقالہ کے دوسرے باب میں میرا جی کی نظم نگاری پر بات کی گئی ہے۔تیسرے باب میں میرا جی کے گیتوں اور غزلوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔چوتھے باب میں ان کی تنقید کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔پانچویں باب میں میرا جی کے تراجم کا احوال بیان کیا گیا ہے۔ چھٹے باب میں میرا جی کی نثر کا ذکر کیا گیا ہے۔یہاں کم از کم مجھے پہلی بار علم ہوا کہ اپنی عام ظاہری ہیئت کے بر عکس انہوں نے حالاتِ حاضرہ کے حوالے سے اور سماجی موضوعات پر بھی بعض فکر انگیز مضامین تحریر کیے تھے اور علم فلکیات میں بھی انہیں دلچسپی تھی۔ ساتویں باب میں مذکورہ تمام حوالوں سے میرا جی کے ادبی مقام کا تعین کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر رشید امجد نے میرا جی کی ذاتی زندگی سے لے کر ان کے ادبی مقام تک مقالہ لکھتے ہوئے انتہائی محنت اور عرق ریزی سے کام لیا ہے۔تحقیق کے تقاضوں کو پوری طرح ملحوظ رکھا ہے۔مختلف اور متضاد آراء کو بھی یکجا کیا ہے اور اپنی طرف سے اپنا تجزیہ بھی پیش کیا ہے۔

یہاں ڈاکٹر رشید امجد کے ایسے تجزیوں کے چند اقتباس پیش کر دینا مناسب سمجھتا ہوں۔

’’میرا جی خود کو تکلیف دے کر ایک طرح کی خوشی محسوس کرتے تھے۔ان کا کچھ تعلق ملامتی فرقے سے بھی بنتا ہے۔ملامتی خود کو برا بھلا کہہ کر ایک قسم کی روحانی بالیدگی حاصل کرتے ہیں۔ میرا جی کے یہاں کچھ ملامتی اور کچھ بھگتی تحریک کے اثرات نے ایک ملی جلی کیفیت پیدا کر دی تھی لیکن مکمل طور پر انہیں کسی خانے یا خاص اثر کے تحت نہیں دیکھا جا سکتا۔بہت سے اثرات سے مل کر جو کچھ بنا وہ خالصتاً ’’میرا جیت‘‘  تھی‘‘ (ص ۹۵)

’’یہ ان کا بہت سوچا سمجھا فیصلہ تھا کہ وہ ثناء اللہ ڈار کی حیثیت سے نہیں بلکہ میرا جی کی حیثیت سے زندہ رہیں گے۔انہوں نے اپنی شخصیت کی یہMyth ممکنہ رنج و غم سہہ کر بنائی تھی اور یہ محض ڈرامہ نہیں تھا کیونکہ ساری زندگی دکھوں کی نگری میں مارا مارا پھرنے والا مسافر اتنا طویل ڈرامہ نہیں کر سکتا۔یہ تو ایک شخصیت کیMyth کی تعمیر تھی جس کے لیے انہوں نے ثناء اللہ ڈار ہی کی قربانی نہیں دی بلکہ تمام ظاہری آرام و آسائش اور معمولات سے بھی کنارہ کشی کی۔زندگی کا جہنم بھوگ کر وہ میرا جی کو زندہ کر گئے۔یہی ان کا مقصد بھی تھا اور یہی ان کا ثمر بھی ہے۔(ص۱۰۵)

میرا جی کی نظم نگاری کے حوالے سے ڈاکٹر رشید امجد لکھتے ہیں :

’’میرا جی کی شاعری میں تنوع ہے ہی ایسا کہ اس کی کئی جہتیں وا ہوتی چلی جاتی ہیں ‘‘ (ص۱۵۸)

’’میرا جی کی نظموں کا منظر نامہ اتنا پھیلا ہوا اور متنوع ہے کہ اس میں داخلیت پسندی کا گزر ہی نہیں ہو سکتا۔ہاں یہ ضرور ہے کہ انہوں نے اس خارجی منظر نامے اور وسیع کینوس کو اپنی ذات کے حوالے سے دیکھا اور بیان کیا ہے۔

داخلیت پسندی اور بیمار ذہنیت کے الزامات میرا جی پر ان لوگوں نے لگائے تھے جو ان کی نظموں کی تہہ تک نہیں پہنچ سکے۔‘‘ (ص ۱۵۹)

میرا جی کی گیت نگاری  اور غزل گوئی کے بارے میں ڈاکٹر رشید امجد اپنی رائے کا اظہار یوں کرتے ہیں :

’’میرا جی کے گیتوں میں جو کرب اور دکھ ہے وہ ان کی ذات کے ایوان سے چھن چھن کر وہاں آ رہا ہے اور خاص طور پر سنجوگ کی ایک کیفیت، تمناؤں کی مستقل کسک، اور آشاؤں کی ایک بے انت دنیا، یہ سب ان کی ذات کے وہ گوشے ہیں جو ان کے مزاج کو گیت کے قریب لاتے ہیں اور گیت بطور صنف ان کے اس مزاج سے ایسا تال میل کھاتا ہے کہ میرا جی کے گیت نہ صرف یہ کہ ایک انفرادی حیثیت حاصل کرتے ہیں بلکہ ان کی ایک پہچان بھی بنتے ہیں ‘‘ (ص ۱۷۱۔۱۷۲)

’’میرا جی کی یہ غزلیں اسلوب اور اظہار کے حوالے سے ایک منفرد حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کی لفظیات بھی وہی ہیں جو میرا جی کی نظموں اور گیتوں کی ہیں۔ گویا انہوں نے اپنے گیتوں کے مزاج کو غزل کے مزاج سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے، اس لیے یہ غزلیں نظم کا رنگ بھی لیے ہوئے ہیں ‘‘ (ص۱۸۷)

یہاں میں اپنی طرف سے یہ بات ایزاد کرنا چاہوں گا کہ میرا جی اپنے عہد کے نظم نگاروں میں بھی اور بعد میں آنے والے بیشتر اہم نظم نگاروں میں بھی اس لحاظ سے منفرد مثال ہیں کہ تخلیقی لحاظ سے جتنی ان کی نظمیں اعلیٰ پائے کی ہیں، اتنی ہی ان کی غزلیں بھی اعلیٰ پائے کی ہیں۔ یہ الگ بات کہ انہوں نے غزلیں بہت کم کہی ہیں۔ ان کے برعکس ہمارے بیشتر اچھے نظم نگار (بہ استثنائے چند)جب غزل کہتے ہیں تو بہت ہی کمزور غزل کہہ پاتے ہیں۔

میرا جی کی تنقیدی بصیرت ان کی تنقیدی آراء سے عیاں ہے۔ایم ڈی تاثیر کی ایک نظم میں تخلص کے استعمال پر میرا جی نے اپنی رائے کا اظہار یوں کیا:

’’تخلص غزل کی پیداوار ہے اور غزل تک ہی اسے محدود رہنا چاہیے کیونکہ غزل میں اس کی کھپت بہت خوبی سے ہو جاتی ہے۔نظم میں اس کے استعمال سے تسلسل میں فرق پڑتا ہے۔خصوصاً اس نظم میں جس کی خوبی اس کے تصورات کا بہاؤ ہے۔ایسی نظم میں موضوع سے قرب ہر لمحہ ضروری تھا اور تخلص موضوع کی بجائے شاعر کے قریب لے جاتا ہے۔‘‘ (ص۲۰۰)

ڈاکٹر رشید امجد نے میرا جی کی تنقید نگاری کے سلسلے میں کئی اہم نکات کی طرف توجہ دلائی ہے۔ان کے بقول:

’’میرا جی کا رجحان نفسیاتی تنقید کی طرف تھا لیکن انہوں نے نظموں کا تجزیہ کرتے ہوئے اسے ایک فریم کے طور پر استعمال نہیں کیا۔انہوں نے مختلف شاعروں کی نظموں کا تجزیہ کیا ہے، ان میں ترقی پسند بھی شامل ہیں، جن کے نظریات سے ان کا بنیادی اختلاف تھا، لیکن انہوں نے ان کی نظموں کو ان کے نظریے کی روشنی میں رکھ کر ان کا فنی تجزیہ کیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ میرا جی فن پارے کو کسی مخصوص نظریے سے دیکھنے کی بجائے اس کی فنی حیثیت کو سامنے رکھتے تھے‘‘ (ص۲۰۲)

’’نظم کے بنیادی خیال کی تلاش میرا جی کی تنقید کا مرکزی نقطہ ہے اور اس مرکزی نقطہ کو وہ اکثر نفسیاتی توجیہات سے واضح کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں ‘‘ (۲۰۴)

’’میرا جی کی تنقید میں ایک تحقیقی ذائقہ بھی شامل ہے۔یہ در اصل ان کے وسیع مطالعہ کی عطا ہے‘‘ (۲۰۹)

میرا جی کی ایک خوبصورت نظم  ’’میں ڈرتا ہوں مسرت سے‘‘ دیکھیے:

میں ڈرتا ہوں مسرت سے

کہیں یہ میری ہستی کو

پریشاں کائناتی نغمۂ مبہم میں الجھا دے

کہیں یہ میری ہستی کو بنا دے خواب کی صورت

مِری ہستی ہے اک ذرہ

کہیں یہ میری ہستی کو چکھا دے کہر عالم تاب کا نشہ

ستاروں کا علمبردار کر دے گی، مسرت میری ہستی کو

اگر پھر سے اسی پہلی بلندی سے ملا دے گی

تو میں ڈرتا ہوں۔۔۔ڈرتا ہوں

کہیں یہ میری ہستی کو بنا دے خواب کی صورت

میں ڈرتا ہوں مسرت سے کہیں یہ میری ہستی کو

بھلا کر تلخیاں ساری

بنا دے دیوتاؤں سا

تو پھر میں خواب ہی بن کر گزاروں گا

زمانہ اپنی ہستی کا

اس نظم کے حوالے سے ڈاکٹر رشید امجد نے میرا جی کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے :

’’ان کے نزدیک اگر انسانی زندگی سے درد کی میراث چھِن جائے تو آدمی محض دیوتا بن جاتا ہے، یا محض خواب۔میرا جی کے نزدیک تلخیوں سے بھرا ہوا انسان مسرت کے ان لمحوں سے زیادہ قیمتی ہے جہاں آدمی دیوتا بن جاتا ہے یا خواب۔دونوں کیفیتیں میرا جی کے یہاں ایک ہیں۔ دنیا کے دکھوں سے بھرے لوگ ان کے نزدیک معراج انسانیت ہیں، اسی لیے انہیں وہ لوگ بھی عزیز ہیں جو دکھوں کی دلدل میں ہمیشہ پھنسے رہتے ہیں۔ اس سے یہ بھی نہ سمجھا جائے کہ وہ دکھوں کے حامی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ان کے نزدیک انسان کا مقدر دکھوں سے عبارت ہے اور خوشیاں اس کے مقابلے میں نا پائیدار ہیں ‘‘           (ص۱۵۰ )

اپنے تجزیے میں آگے چل کر ڈاکٹر رشید امجد نے مہابھارت کے حوالے سے ایک بڑی عمدہ مثال پیش کی ہے۔جنگ کے خاتمہ پر جب کرشن جی مہاراج دوارکا جانے لگے تو تو انہوں نے مہارانی کنتی سے کہا کہ اے ماتا ! میں واپس جانے لگا ہوں تم کوئی ور مانگ لو۔اس پر مہارانی کنتی نے پوچھا  مہاراج آپ واپس کب آئیں گے؟

اس پر کرشن جی نے کہا کہ جب تم دکھ اور تکلیف میں ہو گی تب واپس آ جاؤں گا۔اس پر ماتا کنتی نے ور مانگا کہ سدا دکھ اور تکلیف میں رہوں۔ اس قصہ کو بیان کرنے کے بعد ڈاکٹر رشید امجد لکھتے ہیں :

’’کنتی اور میرا جی نے ایک ہی ور مانگا ہے یعنی دکھ اور تکلیف کا ور، لیکن کنتی اور میرا جی کے ور میں فرق یہ ہے کہ ماتا کنتی نے یہ ور کرشن جی کے درشنوں کے لیے مانگا تھا مگر میرا جی نے یہ خواہش بھی نہیں کی، انہوں نے ایک طرف تو دکھ اور تکلیف کا انتخاب کیا اور میرا سین کی واپسی کی خواہش کی بجائے خود میرا سین بن کر اسے ہمیشہ کے لیے اپنے اندرسمو لیا۔رانجھا رانجھا کردی نی میں آپ ای رانجھا ہوئی‘‘ (ص۱۵۱)

اپنے مقالہ کے صفحہ ۱۶۰ تا ۱۶۱ پر انہوں نے میرا جی کی نظم کی انفرادیت کے جو گیارہ نکات بیان کیے ہیں، وہ سب اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں۔  ڈاکٹر رشید امجد کی تحقیقی و تنقیدی بصیرت یہاں کمال کو پہنچی ہوئی ہے۔

ڈاکٹر رشید امجد کی یہ رائے میرا جی کی شخصیت کے ایک مخفی پہلو کو روشن کرتی ہے:

’’جنس کا حوالہ میرا جی کے ساتھ اس طرح چپک گیا ہے کہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ میرا جی کا سارا مسئلہ جنس ہی ہے اور انہوں نے دوسرے مسائل کی طرف بالکل توجہ نہیں دی۔در اصل میرا جی کے شخصی افسانے نے ان کے گرد ایک ایسا ہالہ بنا دیا ہے کہ اس سے باہر نکلنے کی دوسروں نے کو ئی کو شش ہی نہیں کی اور عام لوگ میرا جی کو ان افسانوں اور ان کی شاعری پر ہونے والے سطحی اعتراضات ہی کے حوالے سے جانتے ہیں۔ یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ میرا جی نے اپنے مضامین میں جس سیاسی اور سماجی شعور کا اظہار کیا ہے اور ان کے مضامین جس طرح بر صغیر کی سیاسی، سماجی اور اقتصادی صورت حال کا احاطہ کرتے ہیں وہ شعور ان کے بہت کم ہم عصروں کو حاصل تھا۔عام طور پر میرا جی کو اینٹی ترقی پسند سمجھا جاتا ہے لیکن میرا جی نے اپنے مضامین میں بر صغیر کی اقتصادی صورتحال کے جو تجزیے کیے ہیں وہ ان کے عہد کا بڑے سے بڑا ترقی ترقی پسندبھی نہیں کرتا‘‘ (ص۲۸۷)

آج کل مابعد جدیدیت کے نام پر، قاری (در حقیقت غیر تخلیقی نقاد) کی قرات کو غیر ضروری بلکہ ناجائز اہمیت دلانے کا کھیل چل رہا ہے۔ یوں قاری کی اہمیت کے جو ’’ راز‘‘  کھولے جا رہے ہیں میرا جی نے کسی لسانی گورکھ دھندے کے بغیر آج سے ساٹھ ستر سال پہلے اس بات کا معقول پہلو آسان لفظوں میں بیان کر دیا تھا اور نا معقول پہلو آج کے مابعد جدید نقاد کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ان کے ایک مضمون کا یہ اقتباس دیکھیے :

’’ہر لفظ ایک تصور یا خیال کا حاصل ہے اور اس تصور یا خیال کے ساتھ ساتھ ہی اس کے لوازم بھی ایک ہالے کی مانند موجود ہوتے ہیں۔ لوازم کا یہ ہالہ انفرادی انداز نظر کا پابند ہے، یعنی ایک ہی لفظ زید کے لیے اور تلازم خیال ہے اور بکر کے لیے اور۔لیکن ایک ہی زبان سے بہت سے افراد کا مانوس ہونا مختلف افراد کے لیے الفاظ میں قریباً قریباً یکساں تلازم خیال پیدا کر دیتا ہے۔جب کوئی لفظ ہمارے فہم و ادراک کے دائرے میں آتا ہے تو یہ تلازم خیال کا ہالہ ذہن میں ایک خاص ہیئت اختیار کرتا ہے اور جب اس پہلے لفظ کے ساتھ کوئی دوسرا لفظ ملایا جائے تو ہالہ اپنی ہیئت کو دوسرے لفظ کی مناسبت سے تبدیل کر لیتا ہے‘‘ (ص۲۰۶)

میرا جی کے ادبی مقام کے تعین میں ڈاکٹر رشید امجد لکھتے ہیں :

’’میرا جی کے یہاں مادیت اور ماورائیت کا جو امتزاج نظر آتا ہے وہ انہیں اپنے عہد کے دوسرے شعراء سے منفرد و ممتاز بناتا ہے۔اپنے عہد کے مجموعی انتشار اور مختلف نظریات اور فلسفوں کی یلغار کے باوجود میرا جی کی شخصیت میں ایک روایتی عنصر بھی موجود تھا۔یہ عنصر ایک ایسی باطنی یا روحانی تنہائی ہے جس کے ڈانڈے صوفیانہ درد و غم سے جا ملتے ہیں۔ یہ ایک ایسا رویہ ہے جو انسان کو اپنے آس پاس کی الجھنوں سے بے نیاز کر دیتا ہے‘‘  (ص۳۰۲)

’’یہ حقیقت ہے کہ میرا جی بیسویں صدی کے اردو ادب میں ایک اہم اور منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری خصوصاً نظموں کے ذریعے جدید اردو کی بنیاد رکھی اور اپنی تنقید کے توسط سے اردو شاعری کی تفہیم کی اور نئے تنقیدی پہلوؤں کو اجاگر کیا۔ان کا کام ان کی عظمت کی سند ہے کہ میرا جی اپنے عہد ہی میں نہیں، آج بھی ایک اہم ادبی شخصیت کی حیثیت رکھتے ہیں ‘‘ (۳۲۵)

ڈاکٹر رشید امجد نے اپنے مقالہ میں تحقیق کے تمام تقاضے پورے کرنے کے ساتھ اپنی تخلیقی اور تنقیدی بصیرت سے کام لیتے ہوئے میرا جی کی ادبی حیثیت پر دستاویزی نوعیت کا اہم اور یاد گار کام کر دیا ہے۔

اس کتاب(مقالہ)کا مطالعہ کرتے ہوئے میں نے میرا جی سے بھر پور ملاقات کی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

(۱)           یہ نظم اب ’’ کلیاتِ میرا جی‘‘ میں  ’’سلسلۂ روز و شب‘‘ کے عنوان سے ملی ہے تاہم اس کی تیسری لائن

’’ہر اک سمت اس کے خلا ہی خلا ہے‘‘ سے اندازہ ہوتا ہے کہ میری یادداشت میں ۳۶ سال پہلے کی پڑھی ہوئی نظم کا عنوان ’’ خلا‘‘  کیوں رہ گیا تھا۔

(۲)اب اخترالایمان کے مطبوعہ خط سے علم ہوا کہ اخبار میں میرا جی کی وفات کی خبر چھپی تھی، رشید امجد کے مقالہ میں ایسا چھپنا کسی سہو کا نتیجہ ہے۔                             (ح۔ق)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(مطبوعہ جدید ادب جرمنی۔شمارہ:۵۔جولائی ۲۰۰۵ء)

٭٭٭

 

 

 

 

سمندر کا بلاوا

 

یہ سرگوشیاں کہہ رہی ہیں اب آؤ کہ برسوں سے تم کو بلاتے بلاتے مِرے

دل پہ گہری تھکن چھا رہی ہے

 

کبھی ایک پل کو کبھی ایک عرصہ صدائیں سنی ہیں، مگر یہ انوکھی ندا آرہی ہے

بلاتے بلاتے تو کوئی نہ اب تک تھکا ہے نہ آئندہ شاید تھکے گا

’’مِرے پیارے بچے‘‘۔۔ ’’مجھے تم سے کتنی محبت ہے‘‘۔۔ ’’دیکھو‘‘ اگر یوں کیا تو

بُرا مجھ سے بڑھ کر نہ کوئی بھی ہو گا۔۔ ’’خدایا، خدایا!‘‘

کبھی ایک سسکی، کبھی اک تبسم، کبھی صرف تیوری

مگر یہ صدائیں تو آتی رہی ہیں

انہی سے حیاتِ دو روزہ ابد سے ملی ہے

مگر یہ انوکھی ندا جس پہ گہری تھکن چھا رہی ہے

یہ ہر اک صدا کو مٹانے کی دھمکی دئے جا رہی ہے

 

اب آنکھوں میں جنبش نہ چہرے پہ کوئی تبسم نہ تیوری

فقط کان سنتے چلے جا رہے ہیں

یہ اک گلستاں ہے۔۔۔ہوا لہلہاتی ہے، کلیاں چٹکتی ہیں

غنچے مہکتے ہیں اور پھول کھلتے ہیں،  کھِل کھِل کے مرجھا کے

گِرتے ہیں، اِک فرشِ مخمل بناتے ہیں جس پر

مری آرزوؤں کی پریاں عجب آن سے یوں رواں ہیں

کہ جیسے گلستاں ہی اِک آئینہ ہے

اسی آئینے سے ہر اک شکل نکھری، مگر ایک پل میں جو جو مٹنے لگی ہے تو پھر نہ اُبھری

 

یہ صحرا ہے۔۔۔پھیلا ہوا، خشک، بے برگ صحرا

بگولے یہاں تند بھوتوں کا عکسِ مجسم بنے ہیں

مگر میں تو دور۔۔ایک پیڑوں کے جھرمٹ پہ اپنی نگاہیں جمائے ہوئے ہوں

نہ اب کوئی صحرا، نہ پربت، نہ کوئی گلستاں

اب آنکھوں میں جنبش نہ چہرے پہ کوئی تبسم تیوری

فقط ایک انوکھی صدا کہہ رہی ہے کہ تم کو بلاتے بلاتے مِرے دل پہ گہری تھکن چھا رہی ہے

بلاتے بلاتے تو کوئی نہ اب تک تھکا ہے نہ شاید تھکے گا

تو پھر یہ ندا آئینہ ہے، فقط میں تھکا ہوں

نہ صحرا، نہ پربت، نہ کوئی گلستاں، فقط اب سمندر بلاتا ہے مجھ کو

کہ ہر شے سمندر سے آئی سمندر میں جا کر ملے گی

 

(تین رنگ)

٭٭٭

 

 

 

 

                   ڈاکٹر ناصر عباس نیّر(لاہور)

 

 سمندر کا بلاوا : ساختیاتی مطالعہ

 

میرا جی کی نظم’سمندر کا بلاوا‘ اپنے معانی کی گہرائی اور  ہئیت کے انوکھے پن کی وجہ سے اردو کی اہم جدید نظموں میں شمار ہوتی ہے۔اسے جدید نظم کا ’ پروٹو ٹائپ‘ بھی قرار دیا جا سکتا ہے کہ اس میں تجربے کی ترسیل کے لیے جو اُسلوبی وضع اختیار کی گئی اور جو تکنیک برتی گئی ہے، اُسے اردو نظم نے عام طور پر قبول کیا ہے۔تاہم واضح رہے کہ یہ وضع اور تکنیک میرا جی کی اختراع نہیں تھی، اسے انھوں نے مغرب سے مستعار لیا تھا۔یہ دوسری بات ہے کہ جس ہنرمندی سے انھوں نے مغربی نظم کی ہئیت کو برتا، کم لوگوں کو اس کی توفیق ہوئی۔اس نظم کو ساختیاتی مطالعے کی غرض سے منتخب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ’ پروٹو ٹائپ‘ ہونے کی وجہ سے اس کا ساختیاتی مطالعہ دیگر(اسی وضع کی) اردو نظموں کے لیے نمونہ ثابت ہو سکتا ہے۔

یہ بات اولاً نشانِ خاطر رہے کہ کسی متن کا ساختیاتی مطالعہ واحد تنقیدی مطالعہ نہیں ہو سکتا۔ادبی متن کی تفہیم، تعبیر اور تجزیے کے متعدد حربے ہیں۔ ساختیات انھی میں سے ایک حربہ ہے۔تاہم ہر تنقیدی حربے کی اپنی افادیت (اور اپنے مضمرات بھی) ہے۔ اور یہ افادیت کسی تنقیدی نظریے اور حربے کے عملی اطلاق کے نتیجے میں سامنے آتی ہے۔(۱)

نظم کے با قاعدہ تجزئے کی طرف بڑھنے سے پہلے نظم کی مختصر نثری تلخیص مناسب ہو گی۔اس ضمن میں یہ چند نکات اہم ہیں ۔:

*         میں ( نظم کا متکلم) نے کئی صدائیں سنی ہیں۔ بعض ایک پل کی تھیں،  بعض ایک عرصے پر محیط تھیں،  مگر اب انوکھی ندا آ رہی ہے۔

*         ’ انوکھی ندا‘ ما قبل کی تمام صداؤں سے مختلف ہے۔صدائیں عمومی تھیں تو ندا غیر عمومی ہے۔

*      صدا حیاتِ دو روزہ کو ابد سے ملاتی تھی، مگر ندا سب صداؤں کو مٹانے پر تلی ہے۔

*      صدا زندگی اور ندا موت کی پیام بر ہے۔

*      صدا کا چہرہ تھا، کبھی سسکی کبھی تبسم اور کبھی فقط تیوری تھی۔مگر ندا کا کوئی چہرہ نہیں۔ صدا کو دیکھا جا سکتا تھا مگر ندا کو فقط سُنا جا سکتا ہے

*      تاہم ندا متکلم کی متخیّلہ میں بعض مناظر ابھارتی ہے۔

*      گلستاں،  پربت اور صحرا کی تمثالیں ’ندا‘ سے متحرّک ہوتی ہیں اور ندا کا آئنہ ہیں۔

*      آئنہ علامت ہے۔

*      ندا باہر سے نہیں،  متکلم کے اندر سے آ رہی ہے۔

*      اندر سمندر ہے اس لیے یہ بلاوا کہیں اور سے نہیں (اندر کے ) سمندر سے آ رہا ہے۔ہر شے سمندر سے آئی اور سمندر میں جا کر ملے گی۔

یہ چند نکات بہ ظاہر نظم کی پوری کہانی بیان کرتے ہیں،  اور نظم کے مفہوم کی بڑی حد تک وضاحت بھی کرتے ہیں،  مگر اصلاً یہ مختلف النوع اجزا ہیں،  جن کے باہمی تعامل سے نظم کی متنی ساخت تشکیل پاتی ہے۔ساختیاتی تنقید اسی ساخت   (یا شعریات) تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ساخت/ شعریات کی وجہ سے ہی کوئی تحریر بہ طور متن قائم ہوتی ہے۔اور متن جن معانی کا حامل ہوتا ہے، ان کی تشکیل اور حد بندی یہی ساخت کرتی ہے۔ہر ساخت ضابطوں (کوڈز) اور رسومیات(کنونشنز) کا مجموعہ ہوتی ہے۔اس طرح ساختیاتی مطالعہ ضابطوں اور رسومیات کو دریافت کرتا ہے۔

سمندر کا بلاوا کی ساخت جن کوڈز سے مرتب ہوئی ہے، انھیں شعریاتی، علامتی، تفکیری کوڈز اور بیانیاتی کنونشن کا نام دیا جا سکتا ہے(۲) یہ تمام ضابطے ایک دوسرے سے مربوط بھی ہیں اور ایک دوسرے کے ہم قرین(OVERLAP ) بھی۔ یعنی ایک کی خصوصیات کا ٹکراؤ دوسرے کی خصوصیات سے ہوتا ہے۔تاہم ہر کوڈ نظم کی ساخت کی تشکیل میں جدا گانہ کردار رکھتا ہے، اور یہ اور بات ہے کہ یہ ’کردار‘ پوری ساخت کے تناظر میں قابلِ فہم ہے۔

شعریاتی کوڈ

اس سے مراد وہ ضابطہ ہے، جس کے تحت نظم کی ہئیتی تعمیر ہوئی ہے۔اسی کی رُو سے نظم نے مخصوص آہنگ اختیار کیا اورمخصوص لفظیاتی نظام کا انتخاب کیا ہے۔اسے وہ تصورِ شعر بھی قرار دیا جا سکتا ہے، جو اس نظمیہ متن کی تہ میں کار فرما ہے۔شعریاتی کوڈ یا تصورِ شعر ایک زاویے سے شاعر کا اختیاری معاملہ ہوتا ہے اور دوسرے زاویے سے یہ شاعر کو بے اختیار بھی بناتا ہے۔ادبی سماج میں،  ایک ہی وقت میں کئی شعریاتی کوڈز موجود اور مروّج ہوتے ہیں،  ان میں سے کسی ایک کا انتخاب شاعر کا اختیاری معاملہ ہے، منتخب شعریاتی کوڈ میں جزوی تبدیلی کا اختیار بھی شاعر رکھتا ہے۔مگر اس سے آگے شاعر ’ ’بے بس‘‘  ہو جاتا ہے۔شعریاتی کوڈ ماورائی حد بندیاں قائم کرتا ہے، شاعر انھی کے اندر خواب دیکھ سکتا ہے۔ اسے اشیا و مظاہراسی طرح دکھائی دیتے ہیں اور اتنے ہی دکھائی دیتے ہیں،  جیسے اور جتنے شعریاتی کوڈ کی حد بندیاں دکھانے کی اجازت دیتی ہیں۔

زیرِ تجزیہ نظم کا شعریاتی کوڈ اپنی اصل میں جدید، یورپی ہے۔جدید شعریاتی کوڈ کی اہم ترین خصوصیت لفظ کے معنیاتی ابعاد کی جستجو ہے۔کلاسیکی شعریات لفظ کے معنوی بُعد کے مقرر، مستحکم اور طے شدہ ہونے میں یقین رکھتی تھی، مگر جدید شعریات ( جوکلاسیکی شعریات کا ردِّ عمل ہے) کے پیدا ہونے اور اسے جمالیاتی قدر کا درجہ ملنے کا باعث یہی ہے۔ سمندر کا بلاوا میں بھی ابہام موجود ہے۔سمندر، ندا، صدا، گلستاں،  صحرا، پربت، آئنہ۔۔۔۔۔یہ تمام الفاظ اپنے عمومی مفاہیم سے ہٹ کر نئے تناظر میں استعمال ہوئے ہیں۔ کلاسیکی شعریاتی کوڈ میں لفظ کو مروجہ اور مانوس تناظر میں برتا جاتا تھا۔ لفظ کے روایتی مفہوم کو قائم رکھا جاتا تھا۔اگر کہیں جدّت کا تھوڑا بہت مظاہرہ ہوتا بھی تھا   تو      وہ  ’’ روایتی مفہوم‘‘  کے دائرے کے اندر ہوتا تھا۔ مگر جدید شعریات روایتی مفہوم کے دائرے کو توڑتی ہے اور نیا، منفرد اور نا مانوس تناظر تشکیل دیتی ہے۔اس سے ایک طرف متن کی تفہیم میں کچھ دشواری پیدا ہوتی ہے تو دوسری طرف متن قاری کی فعال شرکت کا امکان ابھارتا ہے۔ سمندر کا بلاوا میں یہ دونوں صورتیں موجود ہیں۔

علامتی کوڈ

علامتی کوڈ شعریاتی کوڈکی توسیع ہے۔ شعریاتی کوڈ لفظ کے محِل استعمال کے  ’’ کیسے‘‘  کا جواب دیتا ہے، جبکہ علامتی کوڈ  ’’ کیوں کر‘‘  کی وضاحت کرتا ہے۔   یہ کوڈ     اس  ’’ سپیس‘‘  کی تعبیر کرنے میں بھی مدد دیتا ہے، جو نظم میں بعض لفظوں کے غیر روایتی انداز میں استعمال ہونے کی وجہ سے پیدا ہو جاتی ہے۔

اس نظم میں غیر روایتی انداز میں استعمال ہونے والے بعض لفظ تمثال کی صورت، بعض استعارے اور کچھ علامت کے درجے کو پہنچ گئے ہیں۔ پہلے تمثالوں کو لیجیے۔ نظم میں گلستاں،  پربت اور صحرا کی بصری تمثالیں آئی ہیں۔ پہلی دو تمثالیں  ’’ محاکاتی‘‘  بھی ہیں۔  یعنی ان میں گلستاں اور پربت کے مناظر کو جزیات کے ساتھ مصوّر کیا گیا ہے۔تاہم جُزیات کو پیش کرتے ہوئے یہ اہتمام ضرور کیا گیا ہے کہ وہ آرائشی نہ بن جائیں۔ انھیں نظم میں پیش ہونے والے بنیادی تجربے سے مربوط رکھا گیا ہے۔ مگر یہ ربط  ’’ صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے، پا بہ گِل بھی ‘‘  کی صورت ہے یعنی گلستاں اور پربت کی تمثالیں تفصیلی اور ’محاکاتی‘ ہونے کے سبب نظم کا حصہ ہوتے ہوئے نظم میں ذیلی متن(SUB-TEXT ) کا درجہ اختیار کر گئی ہیں۔ گُلستاں کی تمثال ہی کو لیجیے:

یہ اک گلستاں ہے۔۔۔ہوا لہلہاتی ہے، کلیاں چٹکتی ہیں

غنچے مہکتے ہیں اور پھول کھلتے ہیں،  کھِل کھِل کے مرجھا کے

گِرتے ہیں، اِک فرشِ مخمل بناتے جس پر

مری آرزوؤں کی پریاں عجب آن سے یوں رواں ہیں

کہ جیسے گلستاں ہی اِک آئینہ ہے

یہ ذیلی متن بجائے خود ایک مِنی نظم ہے۔ جو ایک سطح پر گلستاں کی پوری، متحرک تصویر ہے اور دوسری سطح پر زندگی، حُن، جوبن اور اِن کے چھِن جانے کے مفہوم کو پیش کرتی ہے۔کچھ یہی صورت پربت کی تمثال کی ہے۔وہ بھی محاکات کے ساتھ ساتھ ’علامت‘ بھی ہے۔پربت اور اس سے وابستہ مناظر کی متحرّک بصری تمثال بھی ہے اور زندگی اور اس کے جمال کے مِٹ جانے کی علامت بھی۔ دونوں تمثالیں دو ذیلی متن ہیں اور دونوں بعد ازاں ایک استعارے میں مبدّل ہو جاتی ہیں۔ وہ استعارہ ہے: آئنہ۔ ’’ گلستاں ہی اِک آئینہ ہے/ اسی آئینے میں ہر اِک شکل نکھری، سنور کر مٹی اور مِٹ ہی گئی، پھر نہ اُبھری‘‘۔  نیز   ’’ ندی بہتی ہوئی ناؤ ہی آئینہ ہے/ اسی آئینے میں ہر اِک شکل، ہر اک شکل نکھری، مگر ایک پل میں جو مٹنے لگی ہے تو پھر نہ ابھری ‘‘۔  گلستاں بھی آئنہ ہے اور ناؤ بھی آئینہ ہے۔گویا VEHICLE ایک مگر TENOR دو ہیں (۳) دراصل آئنہ استعارے کی وہ قسم ہے جسے ویل رائٹ نےDIAPHOR کا نام دیا ہے۔اُس نے استعارے کی دو ساختی اقسام کی نشان دہی کی ہے۔ایک کو EPIPHOR اور دوسرے کو DIAPHOR کا نام دیا ہے(۴)پہلی قسم کے استعارے میں دو چیزوں کا تقابل ہوتا، جبکہ ’ڈایافر‘ میں امتزاج ہوتا ہے۔گویا دو (تمثالیں ) مِل کر ایک استعارہ بناتی ہیں۔ جیسے اس نظم میں گلستاں اور پربت کی تمثالیں مِل کر آئنے کا استعارہ تشکیل دے رہی ہیں۔ دونوں تمثالوں کی نسبت سے آئینے کی صفات یکساں ہیں :  ’’ اسی آئینے میں ہر اِک شکل نِکھری، مگر ایک پل مین جع مِٹنے لگی ہے تو پھر نہ ابھری‘‘۔  آئنے میں شکل ابھرتی اور نکھرتی ہے، مگر آخرِ کار ہمیشہ کے لیے مِٹ جاتی ہے۔ویسے ہی جیسے گلستاں میں پھول کھلتے ہیں اور ندی میں ناؤ چلتی ہے اور پھر غائب ہو جاتی ہے۔

آئنے کا ستعارہ افلاطون کی آئنے کی تمثیل کی یاد بھی دلا رہا ہے۔افلاطون نے اپنے نقل کے نظریے کی وضاحت میں آئنے کی تمثیل پیش کی ہے۔آئنے کو چہار طرف گھُمانے سے تمام مناظر آئنے میں  ’’ رُو نما‘‘  ہو جاتے ہیں (۵)آئنہ خلق نہیں کرتا بلکہ خلق کرنے کا التباس ابھارتا ہے۔آئنے میں کوئی عکس مستقل نہیں۔ اسی طرح گلستاں میں  کوئی پھول ہمیشہ موجود نہیں رہتا، ناؤ سدا ایک جگہ نہیں رہتی۔

’ندا‘ نظم میں ایک مکمل  ’’علامتی وجود ۔۔‘‘ ہے۔’ندا‘ کے معانی نظم میں رفتہ رفتہ اور پوری نظم کے تناظر کے قائم ہونے کے بعد ’طے‘ پاتے ہیں۔ علامت کا بنیادی تفاعل ہی یہ ہے کہ وہ ڈھلی ڈھلائی صورت میں متن میں ظاہر نہیں ہوتی۔علامت تو نظم کے تشکیلی مراحل کے ساتھ ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچتی ہے۔اگر ہم ہر تشکیلی مرحلے کو ذیلی متن کا نام دیں تو علامت ہر مرحلے یا ذیلی متن میں اپنا جو مفہوم باور کراتی ہے، وہ اگلے مرحلے یا اگلے ذیلی متن میں ’ملتوی‘ ہو جاتا ہے۔تاہم جملہ مراحل /متون میں ظاہر اور بعد ازاں ملتوی ہونے والے معانی میں ربط ہوتا ہے۔یہ ربط کئی طرح کا ہوتا ہے۔۔۔۔فرق کا، تقابل کا، امتزاج کا، سبب اور نتیجے کا ! ’ندا‘ کی علامت سمندر کا بلاوا کے تمہیدی مرحلے یا پہلے ذیلی متن میں اپنا مفہوم صدا کے ساتھ تقابل کی صورت میں قائم کرتی ہے۔ندا، صدا کی نقیض ہے۔صدا زندگی بخش اور ندا پیام برِ مرگ ہے۔آگے چل کر ’ندا‘ نظم کے تین ذیلی متون(گلستاں، پربت اور صحرا) کو وجود میں لانے کا سبب بن رہی ہے۔’ندا‘ نظم کے متکلّم کی سماعت پر کچھ ایسے طلسماتی انداز میں حاوی ہوئی ہے کہ اُس کی متخیّلہ میں گلستاں،  پربت اور صحرا کی تمثالیں بیدار اور متحرّک ہو جاتی ہیں۔ یہاں ’ندا‘ بہ ظاہر پس منظر میں چلی جاتی ہے اور گلستاں و پربت کی تمثالیں نظم کے متن پر حاوی ہو جاتی ہیں،  مگر حقیقتاً ’ندا‘ ان تمثالوں کی وجودی اور معنوی علّت کے طور پر کار فرما رہتی ہے۔اور آخر میں تمثالوں اور استعارے کو یک جا کر دیتی ہے :گلستاں و پربت آئنے کے استعارے میں مبدّل ہو تے ہیں تو آئنہ اور ندا ممزوج ہو جاتے ہیں۔  ندا آئنہ بن جاتی ہے۔آئنہ میں کوئی عکس زیادہ دیر نہیں ٹھہرتا، ابھرتا، نکھرتا پھر غائب ہو جاتا ہے۔آئنہ عکسوں کو ’کھا‘ جاتا ہے۔ندا صداؤں کو ’کھا‘ جاتی ہے۔

نظم میں سمندر بھی علامت ہے، مگر اس کا قصہ تقلیبی کوڈ کے تحت پڑھیے۔

تقلیبی کوڈ

تقلیبی کوڈ نظم میں برتے جانے والے مواد کی تقلیب کرتا ہے، اس مواد کی جسے شاعر خود تخلیق نہیں کرتا، بلکہ جسے بروئے کار لاتا ہے۔اس مواد کو متعدد ذرائع سے  اخذ اور حاصل کیا جاتا ہے۔ کبھی یہ مواد کسی سماجی گروہ کی آئیڈیالوجی ہوتا ہے اور کبھی اس کلا ذریعہ وہ متون ہوتے ہیں،  جو کسی ثقافت نے تاریخ کے کسی محور پر تشکیل دیے ہوتے ہیں۔ یہ متون زبانی اور تحریری دونوں قسم کے ہو سکتے ہیں۔

مواد خواہ کہیں سے آئے، تقلیبی کوڈ اسے یکساں طریقے سے منقلب کرتا ہے۔اور تقلیب کا یہ عمل دراصل مانوس کا نا مانوس بنانے سے عبارت ہوتا ہے۔اس کوڈ کی    کار فرمائی کالرج کی ثانوی متخیّلہ کی کار کردگی سے غیر معمولی مشابہت رکھتی ہے: یعنی(مواد کے) عناصر کو پھینٹ کر ان سے ایک نئی چیز بنائی جاتی ہے۔مانوس، مروّج اور موجود کو نئے اور نا مانوس میں بدل دیا جاتا ہے۔تاہم ’نیا‘ اپنے اندر پرانے پن کے کچھ اشارے (TRACES ) رکھتا ہے جن سے معلوم ہو جاتا ہے کہ کس بنیادی مواد کی تقلیب ہوئی ہے۔

اس نظم میں بلاوا اور ندا ایسے اشارے ہیں جو اس طرف راہنمائی کر تے ہیں کہ نظم میں کس متن کی تقلیب ہوئی ہے۔یہ متن ’کوہِ ندا‘ کا قصّہ ہے۔یہ اشارے اتنے واضح اور ندا کی معنویت  ’ کوہِ ندا‘ کے قصے سے اس قدر مماثل ہے کہ بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ یہ نظم ماں کے بلاوے کا مفہوم لیے ہوئے ہے، حیران کُن ہے۔نظم کی یہ لائنیں :  ’’مرے پیارے بچے‘‘۔۔۔مجھے تم سے کتنی محبت ہے‘‘۔۔۔ ’’دیکھو‘‘  اگر یوں کہا تو/ بُرا مجھ سے بڑھ کر نہ کوئی بھی ہو گا۔۔۔‘‘  غالباً ماں کے بلاوے کا شائبہ ابھارتی ہیں۔ مگر یہ ندا نہیں،  صدا ہے۔نظم کے مفہوم کی بنیادی کلید صدا اور ندا  کے تقابل میں یہی ہے۔اور مرکزیت صدا کو نہیں ندا کو حاصل ہے۔

کوہِ ندا حاتم طائی کے اسفار میں ضمنی قصے کے طور پر آیا ہے۔حُسن بانو نے منیر شامی سے جن سات سوالات کے جوابات تلاش کرنے کے لیے کہا تھا، کوہِ ندا ان سوالات میں چھٹے نمبر پر تھا۔حاتم طائی منیر شامی کی خاطر سات سوالوں کے جوابات تلاش کرنے کے لیے سفر اختیار کرتا ہے۔حاتم طائی کوہِ ندا تک پہنچنے کے لیے بہت رنج کھینچتا ہے۔اسے کئی صبر آزما اور خوف ناک واقعات پیش آتے ہیں۔ ہر واقعہ موت سے متعلق ہے۔کوہِ ندا بھی ایک عجب طلسماتی پہاڑ ہے، جہاں سے  ’’ یا اخی یا اخی‘‘  کی ندا بلند ہوتی ہے اور جس کا نام پکارا جاتا ہے، وہ بے اختیار ہو کر اس کی طرف دوڑ پڑتا ہے۔کوئی اسے روک پاتا ہے نہ وہ خود رُکنے پر قادر ہوتا ہے۔میرا جی نے کی سمندر کا بلاوا کی صورت میں تقلیب کر دی ہے۔’کوہ‘ کو ’سمندر‘ بنا دیا ہے۔سمندر کے بلاوے میں اسی طرح کا تحکّم، ہمہ گیریت اور آدمی کے حواس کو ماؤف کرنے کی صلاحیت ہے جو کوہِ ندا سے آنے والی ندا میں ہے۔

جب ایک دوسرے حاتم کا بلاوا کوہِ ندا سے آتا ہے تو حاتم طائی بھی اس کے ساتھ کوہِ ندا کی طرف دوڑ پڑتا ہے اور وہ کوہِ ندا کے اندر پہنچنے اور اس کے اسرار سے آگاہ ہونے میں کامیاب ہوتا ہے:

’’وہاں ایک ایسا سبزہ زار نظر پڑا کہ نظر کام نہ کرتی تھی؛ گویا فرشِ زمرّدی چار طرف بچھا ہے، پر تھوڑی سی زمین اس میں خالی تھی۔وہ جوان(جس کے ساتھ حاتم وہاں پہنچا تھا) اس پر پاؤں رکھنے لگا پاؤں رکھتے ہی چِت گِر پڑا۔حاتم نے چاہا کہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اٹھا دے، اتنے میں منہ اس کا زرد ہو گیا، آنکھیں پتھرا گئیں،  ہاتھ پاؤں سخت ہو گئے۔ یہ احوال اس کا دیکھ کر حاتم نے اپنے دل میں کہا یہ مَر گیا؛ آنکھوں میں آنسو بھر لایا، بے اختیار رونے لگا کہ اُس میں زمین تڑق گئی۔ وہ جوان اس میں سما، ووں ہی وہ جگہ سبز ہو گئی۔‘‘  (۶)

قصے کا یہ حصہ نظم کے گلستان والے منظر سے کس قدر مماثلت رکھتا ہے !

’’ یہ اک گلستاں ہے‘‘۔۔ ’’ وہاں ایک ایسا سبزہ زار نظر پڑا‘‘  اور،  ’’ پھول کھلتے ہیں، کھل کھل کے مرجھا کے/ گرتے ہیں،  اک فرشِ مخمل بناتے ہیں ‘‘۔۔۔ ’’ پاؤں رکھتے ہی چِت گِر پڑا، وہ جوان اس میں سما، ووں ہی وہ جگہ سبز ہو گئی‘‘۔  قصہ حاتم طائی کے متن اور نظم کے متن میں یہ غیر معمولی مماثلتیں اتّفاقی نہیں ہیں،  بلکہ قصے کے متن پر نظم کی بنیاد رکھنے کی (شعوری یا غیر شعوری؟) کوشش کا نتیجہ ہیں۔

اس نظم میں تقلیبی کوڈ کی کارفرمائی کیا محض نام کی تبدیلی یعنی کوہِ ندا کو سمندر بنانے تک محدود ہے یا اس سے آگے تک ہے؟ اصل یہ ہے کہ کوہِ ندا کو  ’’ندا کے سمندر‘‘  میں منقلب کیا گیا ہے۔ اور یہ تقلیب دراصل پیراڈائم شفٹ کی مانند ہے۔ کوہِ ندا کی معنویت قبل جدید ذہن کے لیے قابلِ فہم تھی، مگر سمندر کے بلاوے کی معنویت جدید ذہن کے لیے قابلِ فہم ہے قبل جدید ذہن کا پیراڈائم اجتماعی تھا، مگر جدید ذہن جس پیراڈائم کے تحت ہے، وہ انفرادی انا سے عبارت ہے۔ چناں چہ حاتم طائی دوسروں کے لیے سوالات کے جوابات تلاش کرتا ہے، دوسروں کو موت کے سپرد ہوتے دیکھتا ہے اور اپنے قصے میں سب کو شریک کرتا ہے اور  ’’سب‘‘  اسے اپنا مہمان بناتے اور اس کی مدد کرتے ہیں۔ حاتم طائی ہر سطح پر ایک اجتماعی وجود ہے، مگر سمندر کا بلاوا کا متکلم انفرادی وجود ہے، اسے دوسروں کے نہیں، اپنے وجود کی معنویت کا سوال درپیش ہے، اور، جس سمندر سے اسے بلاوا آ رہا ہے، وہ کہیں باہر نہیں،  اس کے اندر ہے۔

تفکیری کوڈ

اس کوڈ سے مراد وہ تعقلاتی ضابطہ ہے، جو اشیا و کیفیات اور مظاہر کے’ مخصوص علم‘ کو ممکن بناتا ہے۔یہ ضابطہ کسی مخصوص ڈسپلن یا شعبہ علم کی مخصوص بصیرت سے بھی عبارت ہوتا ہے اور کسی عقیدے، روایت یا آئیڈیالوجی پر بھی استوار ہو سکتا ہے۔کوئی متن جس تجربے، واردات، خیال یا تصور کو پیش کرتا ہے، اس کی معنوی جہت اسی ضابطے سے طے ہوتی ہے۔

اس نظم کا تفکیری کوڈ وجودیت اور وحدت الوجودی فلسفے کی ملی جلی بصیرت سے مرتّب ہوا ہے  وجودی فلسفے کے مطابق فرد زندگی کے تمام تلخ و نا خوشگوار حقائق کا سامنا تنہا کرتا ہے۔سارترے کے مطابق ’’ کوئی شخص دوسرے کو ہدایت نہیں کر سکتا۔ کوئی شخص یہ نہیں بتلا سکتا کہ کسی نے کیا کرنا ہے یا اُسے کیا کرنا چاہیے، کیونکہ کوئی عا لمگیر اخلاقی اصول نہیں اور نہ ہی کوئی مستقل اقدار ہیں۔ ہر انسان کو خود فیصلہ کرنا پڑے گا۔جب انسان خود فیصلہ نہیں کرتا یا اپنی ذمّہ داری تسلیم نہیں کرتا تو وہ بے ایمانی کی زندگی گزارتا ہے۔سماجی مطابقت(SOCIAL CONFORMITY )سماجی بے ایمانی ہے۔انسان تنہا ہے اور اپنی دنیا خود بناتا ہے‘‘  (۷) اپنی دنیا خود بنانے کا مطلب اپنے وجود کی ساری ذمہ داری کو قبول کرنا بھی ہے۔اسی میں انسان کی آزادی ہے۔ انسانی آزادی کو سب سے بڑا خطرہ موت سے ہے۔سارترے کا کہنا ہے کہ موت انسانی آزادی کو محدود یا مسدود نہیں کرتی کہ موت وجود برائے خود کو ختم کرتی ہے، جبکہ وجود (BEING ) ’’ برائے خود‘‘ سے آگے تاریخی وجود بھی ہے۔یہ وجود باقی رہتا ہے۔تاہم انسان تنہا موت کا سامنا کرتا ہے۔وجودی فلسفی لمحہ موجود کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔

نظم میں تفکیری کوڈ کا مظہر  ’’یہ‘‘  اور  ’’ اب‘‘  ہیں۔   ’’یہ‘‘  اسمَ اشارہ قریب اور مکانیت کا حامل ہے، جبکہ  ’’اب‘‘  زمانیت کا علمبردار ہے۔ ’’ یہ سرگوشیاں کہہ رہی ہیں ‘‘،   ’’ یہ انوکھی ندا ہے‘‘،   ’’ یہ اک گلستاں ہے۔ یہ پربت ہے، یہ صحرا ہے، یہ ندا آئینہ ہے‘‘۔ گویا  ’’یہ‘‘  کے کوڈ کے ذریعے نظم میں موجود جملہ مکانی مظاہر کا احاطہ کیا گیا ہے۔گویا سامنے اور متخیّلہ میں موجود زندگی کی جسمیت کو گرفت میں لیا گیا ہے۔جب کہ  ’’ اب‘‘  لمحہ موجود کی علامت نہیں بلکہ خود لمحہ حاظر ہے۔ ’’ یہ‘‘  میں اثبات اور تیقّن ہے جس کی بنیاد حسی ادراک پر ہے، مگر  ’’اب‘‘  کشف کا لمحہ ہے اور اپنا اثبات اور دیگر کی نفی کرتا ہے، اور، دیگر میں  ’’یہ‘‘  کی نفی بھی شامل ہے۔یعنی  ’’یہ‘‘  اپنا اثبات  ’’اب‘‘  کی قیمت پر کرتا ہے۔

نہ اب کوئی صحرا، نہ پربت، نہ کوئی گلستاں / ان آنکھوں میں جنبش نہ چہرے پہ کوئی تبسّم نہ تیوری/ نہ صحرا، نہ پربت، نہ کوئی گلستاں، فقط اب سمندر بلاتا ہے مجھ کو

وجودی فکر میں  ’’اب‘‘  کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔یہ اچانک کشف کی صورت ہے، ایک لمحے کی تجلّی ہے، جس میں اصل روشن ہوتا اور التباسات سے نجات مل جاتی ہے۔ ’’ یہ‘‘  التباسات تھے اور  ’’ اب ‘‘  اصل ہے ’’یہ‘‘  میں سرگوشیاں اور صدائیں شامل ہیں جن کا خاتمہ ندا کرتی ہے۔ ’اب‘ سمندر ہے۔ ’یہ‘ وجود برائے خود ہے، جسے ’اب کا سمندر‘ اپنی طرف بلاتا ہے۔’ اب کا سمندر‘ انسانی BEING کی علامت ہے، جس میں محدود و منفرد وجود جذب ہو جاتا ہے، مگر، ’اب کے سمندر‘ کے شعور کا جلوہ محدود و منفرد وجود اپنے اندر ہی دیکھتا ہے۔اسی لیے نظم کے متکلم کو بلاوا اپنے اندرسے، اندر کے سمندر سے آتا ہے۔سمندر وحدت الوجودی علامت بھی ہے جس میں جزو اور قطرے کو بالآخر مِل جانا ہے۔

وجودی کشف دہشت سے عبارت ہے۔بعض لوگوں نے اسے خوف کہا ہے، جو درست نہیں۔  خوف کسی ایسی شے کا ہوتا ہے، جو آدمی سے الگ وجود رکھتی ہو۔خوف کا خاتمہ ممکن ہے، خاص طور پر اس وقت جب اس شے کی حقیقت کا علم ہو جائے۔ مگر دہشت شے کی نہیں،  حقیقت کی، اپنی حقیقت اپنی تقدیر کی ہوتی ہے، اس لیے دہشت سے نجات ممکن نہیں۔ اس نظم میں دہشت کی جگہ تھکن کا ذکر ہوا ہے۔ دہشت نفسیاتی، جب کہ تھکن طبعی ہوتی ہے(تاہم ایک حد تک نفسیاتی بھی ہو سکتی ہے)۔ تاہم یہ تھکن حقیقت کی دہشت کا سامنا کرنے کا طبعی مظہر قرار دی جا سکتی ہے۔اندر/ سمندر کی ندا کا تحکّم تھکن طاری کر سکتا ہے !

بیانیاتی کنونشن

بیانیاتی رسمیات متن (کی کہانی) کو بیان کرنے کے طریقے کی وضاحت کرتی ہے، اور، متن کے بیانیے میں سب سے اہم بیان کنندہ ہے۔سوال یہ ہے کہ اس نظم میں بیان کنندہ کون ہے؟  ’’ مَیں ‘‘  اور  ’’ مجھے‘‘  کے پسِ پردہ کون ہے؟ کیا شاعر ہے یا کوئی کردار، جسے شاعر نے تخلیق کیا ہے؟ ویسے شاعر اور میرا جی میں بھی امتیاز کی ضرورت ہے(میرا جی اور ثناء اللہ میں بھی فرق کرنے کی ضرورت ہو گی، مگر یہاں نہیں بلکہ نفسیاتی مطالعے میں یہ ضروری ہو گا) میرا جی ایک سماجی وجود ہے اور شاعر شعریاتی وجود رکھتا ہے۔مِیرا جی فرد ہے اور شاعر ’نوع‘ ہے۔نوع فرد سے more than ہوتی ہے، اور، فرد کی شناخت نوع کے وسیلے سے اور نوع پر منحصر ہوتی ہے۔بنا بریں ہمارے لیے میرا جی سے زیادہ شاعر اہم ہے۔نفسیاتی تجزیہ شاعر سے زیادہ میرا جی کو اہمیت دے گا مگر ساختیاتی مطالعہ چوں کہ نوع کو اور اُس کلی نظام کو اہمیت دیتا ہے، جس کی وجہ سے، اور جس کے اندر، فرد اور شخص اور متن اپنے معانی قائم کرتا ہے، اس لیے ہمارے لیے شاعر اہم ہے۔بالفرض ہم میرا جی کو اہمیت دیں تو ’ مَیں ‘ سے مراد میرا جی ہو گا اور نظم میں پیش ہونے والے تجربے کو میرا جی کی سوانح میں تلاش کیا جائے گا، اور غالباً یہ نتیجہ اخذ کیا جائے گا کہ سمندر کا بلاوا در اصل ماں کا بلاوا ہے۔ میرا جی اپنی ماں کو چھوڑ کر ممبئی چلے گئے تھے۔ماں انھیں نہ صرف یاد کرتی تھی بلکہ میرا جی سے ملنے اس کے پیچھے بھی گئی تھی۔اور نظم میں  ’’ مرے پیارے بچّے ‘‘  کو ماں کے الفاظ ہی قرار دیا جائے گا یہ مفروضہ نہ صرف نظم کو معمولی متن ثابت کرتا ہے، بلکہ نظم کے تفصیلی مطالعے سے ہی بے نیاز کر دیتا ہے۔اس نظم کے ساتھ اس  سے بڑی زیادتی کیا ہو سکتی ہے ! یوں بھی نظم ایک مکمل متن ہے اور ہمارے لیے اس کی اہمیت اس کی تکمیل شدہ صورت کی وجہ سے ہے، اور، اس مکمل متن میں،  متن کو بیان کرنے والا بھی شاعر نہیں،  ایک کردار ہے۔اس لیے کہ اس میں کسی شاعرانہ تجربے کو نہیں،  ایک وجودی تجربے کو پیش کیا گیا ہے، یعنی یہ تجربہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایسا نہیں،  جو فقط شاعروں سے( بہ حیثیت نوع) یا ان کے تخلیقی عمل سے، مخصوص ہو، بلکہ یہ تجربہ ایک ایسے کردار کا ہے، جو خود آگاہ ہے، تفکّر پسند ہے، یا تجزیاتی ذہن رکھتا ہے۔متن میں اس کردار کی حیثیت راوی کی نہیں ہے جو کہانی کو بیان کرتا ہے، مگر کہانی کے واقعاتی عمل سے الگ رہتا ہے۔وہ ساحل پر کھڑا تماشائی ہوتا ہے۔ بلکہ یہ متجانس بیان کنندہ ہے، جو اس کہانی کو بیان کرتا ہے، جس کا وہ خود ایک کردار ہے۔مرکزی اور کبیری کردار !

چناں چہ یہ نظم آپ بیتی بھی ہے اور تجزیہ ذات بھی۔ وہ اپنی کہانی لمحہ حال کی نوک پر ایستادہ ہو کر سناتا ہے۔لمحہ حال کے ایک طرف اس کا ماضی ہے، جو کئی صداؤں سے عبارت ہے، اور لمحہ حال بس ایک ندا ہے، جو تمام صداؤں کو ختم کرنے پر تلی ہے۔آگے سمندر ہے، لمحہ  حال جس سے ’ بندھا ‘ ہے۔سمندر ابدیت ہے، لا محدودیت ہے اور ہر شئے کی اصل ہے۔ چوں کہ ہر شئے کی اصل ہے، اس لیے اس کے اپنے کوئی خد و خال نہیں ہیں،  یہ ایک نا مختتم بہاؤ ہے، جو اشیاکو آئنے  کے عکس کی طرح پَل بھر کے لیے اچھالتا اور پھر اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حواشی

(۱) راقم کو اس بات سے اتفاق نہیں کہ کسی نظریے کے عملی اطلاق کے بغیر وہ نظریہ بے کار یا غیر ضروری ہوتا ہے۔اوّل تو نظریے کے اطلاق کے لیے ضروری ہے کہ اس کا پورا نظری فریم ورک پہلے معرضِ بحث میں آئے، دو م،  نظری مبحث بجائے خود ادب کی تفہیم و تحسین کی بصیرت( عمومی انداز میں ) دیتا ہے تاہم ایک تنقیدی نظریہ، ادب کی تفہیم و تجزیے کے جو دعوے کرتا اور توقعات ابھارتا ہے، ان کی تصدیق کے لیے عملی تنقید نا گزیر ہوتی ہے۔

(۲) رولاں بارتھ  نے بالزاک کی کہانی SARASANE  کے تجزیے میں پانچ کوڈز کی نشاندہی کی تھی اور انھیں HERMENEUTIC ،  SEMIC، SYMBOLIC،  PROAIRTIC   اور CULTURAL  کا نام دیا تھا۔ضروری نہیں کہ ہر ساختیاتی تجزیے میں انھی کوڈز کو تلاش کیا جائے۔ ساختیاتی تجزیہ کوڈز اور کنونشنز کی تلاش تو ضرور کرتا ہے، مگر ہر نقاد، کوڈز کے نام متعیّن کرنے اور ان کی عمل آرائی کی صورتوں کا جائزہ لینے میں آزاد ہے۔اسی لیے راقم نے اس نظم کے تجزیے میں جن کوڈز کی نشاندہی کی ہے وہ مستعار نہیں،  راقم کی اپنی اختراع ہیں۔ اس لیے ان کے صواب و نا صواب کی ذمہ داری بھی راقم پر ہے۔

(۳)آئی اے رچرڈز نے استعارے کے موضوع اور استعارے  میں فرق کے لیے یہ اصطلاحیں وضع کی تھیں۔  اُردو میں TENOR کو مستعار مِنہ، اور VEHICLE کو مستعار لہ کہہ سکتے ہیں۔

(۴) مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے:

TERRENCE HAWKES, METAPHOR, THE CRITICAL IDIOM, LONDON,METHUEN,1972 pp 57-70

(۵)مزید مطالعہ کے لیے رجوع کیجیے: افلاطون، ریاست(ترجمہ سیّد عابد حسین)

(۶)حیدر بخش حیدری، آرائشِ محفل، لاہور: مجلس ترقی ادب، ۱۹۶۴ء۔ص  ۲۶۲

(۷)ڈاکٹر سی اے قادر، فلسفۂ جدید کے خد و خال، لاہور، مغربی پاکستان اردو اکادمی، ۱۹۸۱ء۔ص ۱۵۱

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(مطبوعہ سمبل راولپنڈی، شمارہ: ۵۔سال ۲۰۰۷ء)

٭٭٭

تشکر: مدیر ارشد جاوید جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی ، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید