FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

مکاتیب اقبال کا اسلامی تناظر

               سید طالب حسین بخاری

 

اقبال کے والدین اور ابتدائی زمانہ طالب علمی کے اساتذہ (جن میں سید میر حسن کا کردار نمایاں دکھائی دیتا ہے) کی شخصیات کا جائزہ لیا جائے تو حیاتِ اقبال کے پس منظر میں تصوف کی کارفرمائی نمایاں دکھائی دیتی ہے۔  مکاتیب اقبال کے مطالعہ سے علامہ اقبال کے فطری رجحان اور شخصیت کے کئی دوسرے پہلوؤں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔  مکاتیب سے اُن کے اسلامی افکار اور دنیائے اسلام کے لیے اُن کے چھوڑے ہوئے فکری سرمایے کا اندازہ ہوتا ہے۔

ابو محمد مصلح کے نام مکتوب میں علامہ اقبال لکھتے ہیں ـ

…قرآنی تحریک کا پروگرام مبارک ہے۔  اس زمانہ میں قرآن کا علم ہندوستان سے مفقود ہوتا جاتا ہے۔  ضرورت ہے کہ مسلمانوں میں نئی زندگی پیدا کی جائے۔  کیا عجب کہ آپ کی تحریک بارآور ہو اور مسلمانوں میں قوت عمل پھر عود کر آئے…[1]

اس مکتوب کے حاشیے میں درج ہے کہ جنوری ۱۹۲۹ء میں جب علامہ اقبال حیدرآباد دکن پہنچے تو ابو محمد مصلح نے نواب نذیر جنگ بہادر کے ہمراہ علامہ سے ملاقات کی اور انھیں اپنی ’’تحریک قرآن‘‘ کے مقاصد سے آگاہ کیا۔  بعد میں قیام حیدرآباد کے دوران میں علامہ اقبال نے ’’تحریک قرآن‘‘ کا لٹریچر بھی دیکھا اور ابو محمد مصلح کو مذکورہ خط لکھا۔

علامہ اقبال کی نگاہ میں مشاہیر اسلام کی بڑی قدر و منزلت تھی۔  وہ سلطان فتح علی ٹیپو شہید جیسے فرزندانِ اسلام کی عظمتوں کے معترف تھے۔  اُنھوں نے اپنے تخیل سے سلطان ٹیپو شہید کے افکار کی ترجمانی کرتے ہوئے انھیں منظوم خراجِ عقیدت پیش کیا ہے جو اُن کے مجموعۂ کلام ضربِ کلیم میں شامل ہے۔ [2]

علامہ اقبال کے نام پر ایک سکول قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا تو آپ نے اسے قبول نہ فرمایا بلکہ ٹیپو سلطان شہید کے نام پر یہ سکول بنانے کی تجویز دی۔  آپ نے میجر سعید محمد خان کو ایک مراسلے میں لکھا:

ایک معمولی شاعر کے نام فوجی سکول کو موسوم کرنا کچھ زیادہ موزوں نہیں معلوم ہوتا۔  میں تجویز کرتا ہوں کہ آپ اس فوجی سکول کا نام ’’ٹیپو فوجی سکول‘‘ رکھیں۔  ٹیپو ہندوستان کا آخری مسلمان سپاہی تھا جس کو ہندوستان کے مسلمانوں نے جلد فراموش کر دینے میں بڑی نا انصافی سے کام لیا ہے۔  جنوبی ہندوستان میں جیسا کہ میں نے خود مشاہدہ کیا ہے اس عالی مرتبت مسلمان سپاہی کی قبر زندگی رکھتی ہے بہ نسبت ہم جیسے لوگوں کے جو بظاہر زندہ ہیں یا اپنے آپ کو زندہ ظاہر کر کے لوگوں کو دھوکا دیتے رہتے ہیں۔ [3]

اسلامی ثقافت کی خصوصیات کے متعلق ایک خط میں سیّد نذیر نیازی کو لکھتے ہیں :

خالدہ خانم کے متعلق آپ کی رائے درست ہے۔  مشرق کی روحانیت اور مغرب کی مادّیت کے متعلق جو خیالات اُنھوں نے ظاہر کیے ہیں اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی نظر بہت محدود ہے۔  اُنھوں نے انھیں خیالات کا اعادہ کیا جن کو یورپ کے سطحی نظر رکھنے والے مفکرین دہرایا کرتے ہیں۔  کاش اُن کو معلوم ہوتا کہ مشرق و مغرب کے تصادم میں (کلچرل) اُمّیؐ عرب کی شخصیت اور قرآن نے کیا کام کیا ہے۔  مگر یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہے کیونکہ مسلمانوں کی فتوحات نے اسلام کے کلچرل تاثرات کو دبائے رکھا نیز خود مسلمان دو ڈھائی سوسال تک یونانی فلسفے کے شکار رہے۔ [4]

۱۸؍ فروری ۱۹۲۹ء کو ایک خط محمد عبدالجلیل بنگلوری کو لکھا گیا:

اب باوجود مالی مشکلات کے ایران و ترکی کے سفر کی تیاری میں مصروف ہوں۔  خداوند تعالیٰ کے فضل و کرم پر بھروسا ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ اس سفر کے لیے جو میں محض اسلام اور مسلمانوں کی بہتری و بلندی کے لیے اختیار کر رہا ہوں، زاد راہ میسر آ جائے گا۔  مجھے اس اطلاع سے بے حدمسرت ہوئی کہ میرا سفرِ میسور مسلم نوجوانوں میں تاریخی تحقیق کے شوق و ذوق کا باعث ہوا… اسلام کی خدمت کے لیے ان کے ذوق و جوش نے میرے دل پر ایک ایسا اثر کیا ہے جو کبھی محو نہ ہو گا۔ [5]

ظاہر ہوتا ہے کہ باوجود مالی مشکلات کے حضرت علامہ اقبال اسلام اور مسلمانوں کی بہتری اور سربلندی کے لیے دور دراز کے سفروں کی صعوبات برداشت کرنے کے لیے تیار تھے۔  اور جہاں بھی کوئی شخص اسلام کی سربلندی کے لیے عمل پیرا ہوتا اس سے آپ کو قلبی مسرت ہوتی تھی۔

محمد عبدالجلیل بنگلوری کو لکھے گئے اسی مکتوب کے آخری حصے میں یہ عبارت ہے:

… اسلام کے ثقافتی اور فلسفیانہ پہلو پر ابھی کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔  جرمن زبان میں چند کتابیں ہیں۔  جن کا حال ہی میں کلکتہ کے صلاح الدین خدا بخش صاحب نے انگریزی میں ترجمہ کیا۔  لیکن وہ کتابیں بھی کچھ یونہی سی ہیں۔

اقبال کی علمیت اور مطالعۂ اسلام کے بارے میں خواتین کے حلقے بھی باخبر تھے۔  آپ کا فقہی مسائل کے متعلق بھی گہرا مطالعہ تھا۔  ایک مکتوب میں اُنھوں نے ایک نہایت ہی اہم فقہی مسئلے پر روشنی ڈالی ہے جس کا تعلق بیوی خاوند کی خانگی زندگی سے ہے۔

ایڈیٹر انقلاب اخبار کو لکھے گئے مراسلے میں یہ الفاظ دکھائی دیتے ہیں :

… خواتین مدراس کے سپاس نامے کے جواب میں جو تقریر میں نے کی تھی، وہ آج آپ کے اخبار میں میری نظر سے گزری ہے۔  افسوس ہے کہ جن صاحب نے تقریر مذکور کے نوٹ لیے ان سے بعض ضروری باتیں چھوٹ گئیں … فقہ اسلامی میں بیوی، بچوں کو دودھ پلانے کی اجرت طلب کرسکتی ہے نہ کہ بچہ جننے کی… میں نے تقریر میں اسی کا ذکر کیا تھا۔ [6]

اقبال محمد عبد الجلیل بنگلوری کو اپنے ترکی اور مصر کے سفر کے پروگرام سے آگاہ کر رہے ہیں۔  سارے متمول لوگ اسلام کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔  اقبال کو یہی شکوہ ہے وہ چاہتے ہیں کہ دین اسلام کی تبلیغ کے مناسب ذرائع اختیار کیے جائیں تو اسلام میں یہ قوت ہے کہ وہ دوسری غیر مسلم اقوام پر اثرات مرتب کرسکتا ہے۔  اس طرح کی سعی سے اسلام زور پکڑ سکتا ہے۔

محمد عبدالجلیل بنگلوری کو ایک اور مکتوب میں لکھا:

…میں ترکی اور مصر کے سفر کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہوں۔  جیسا کہ آپ جانتے ہیں، زرمی طلبد والا معاملہ ہے اور ہندوستان کے مسلمان امراء اسلام کی راہ میں خرچ کرنے کی ضرورت و اہمیت سے قطعاً ناآشنا ہیں۔  تاریخ اسلام میں یہ دور نہایت نازک ہے۔  اگر مناسب ذرائع اور طریق اختیار کیے جائیں تو اسلام اقوام عالم کو اب بھی مسخر کرسکتا ہے۔  مجھ سے جو خدمت ممکن ہوئی بجا لاؤں گا۔ [7]

اپنی بہن کریم بی بی سے خط میں دل کی کیفیت اور آرزو ظاہر کی ہے:

… مسلمان کی بہترین تلوار دعا ہے سو اسی سے کام لینا چاہیے۔  ہر وقت دعا کرنا چاہیے اور نبی کریم پر درود بھیجنا چاہیے۔  کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ اس امت کی دعا سن لے… میں نے اپنی عمر یورپ کا فلسفہ وغیرہ پڑھنے میں گنوائی۔  اللہ تعالیٰ نے مجھ کو قوائے دماغی بہت اچھے عطا فرمائے تھے۔  اگر یہ قویٰ دینی علوم کے پڑھنے میں صرف ہوتے تو آج خدا کے رسول کی مَیں کوئی خدمت کرسکتا… بہرحال جو کچھ خدا کے علم میں تھا ہوا اور مجھ سے بھی جو کچھ ہوسکا میں نے کیا۔  لیکن دل چاہتا ہے… زندگی تمام و کمال نبی کریمﷺ کی خدمت میں بسر ہونی چاہیے تھی۔ [8]

سرراس مسعود کو لکھے گئے مکتوب میں یہ عبارت دیکھیے:

… اس طرح میرے لیے ممکن ہوسکتا تھا کہ میں قرآن کریم پر عہدِ حاضر کے افکار کی روشنی میں اپنے وہ نوٹ تیار کر لیتا جو عرصہ سے میرے زیر غور ہیں۔  لیکن اب تو نہ معلوم کیوں ایسا محسوس کرتا ہوں کہ میرا یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکے گا۔  اگر مجھے حیات مستعار کی بقیہ گھڑیاں وقف کر دینے کا سامان میسر آئے تو میں سمجھتا ہوں قرآن کریم کے ان نوٹوں سے بہتر میں کوئی پیش کش مسلمانانِ عالم کو نہیں کرسکتا۔ [9]

تعلیماتِ قرآنی میں حضرت علامہ اقبال کو منزل آخریں دکھائی دیتی ہے۔  وہ مطالعۂ قرآن کو ہی راحتِ جاں اور بخشش کا ساماں سمجھتے ہیں۔  وہ تبلیغِ تعلیماتِ قرآنی کے آرزو مند ہیں۔  اُن کی یہ آرزو ہنوز پوری نہیں ہوسکی۔  وہ اسی مراسلہ میں لکھتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اُن کے مقدر میں اس آرزو کی تکمیل لکھی ہے تو وہ یہ کام کر لیں گے۔

محمد عبدالجلیل بنگلوری کو لکھے گئے مراسلہ کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں :

مجھے اس اطلاع سے بے حد مسرت ہوئی کہ جنوبی ہندوستان میں یوم النبی(ﷺ) کی تقریب کے لیے ایک ولولہ پیدا ہو گیا ہے۔  میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان میں ملتِ اسلامیہ کی شیرازہ بندی کے لیے رسول اکرم (ﷺ) کی ذاتِ اقدس ہی ہماری سب سے بڑی اور کارگر قوت ہوسکتی ہے۔  مستقبل قریب میں جو حالات پیدا ہونے والے ہیں، اُن کے پیش نظر مسلمانانِ ہند کی تنظیم اشد لازمی ہے (عبد المجید صاحب قریشی) بانی تحریک (سیرت) آج تشریف لائے ہوئے تھے میں نے انھیں بتایا ہے کہ کس طرح اس تحریک کو ہندوستان میں خدمتِ اسلام کے لیے مفید و مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔ [10]

علامہ اقبال کو سرکار دو عالم حضرت محمدﷺ سے گہری عقیدت تھی۔  ’’طلوع اسلام‘‘ ان کے مجموعۂ کلام بانگِ درا میں شامل ایک طویل نظم ہے جو مسلمانانِ عالم کے لیے ایک تحریک کی صورت میں جلوہ گر ہے۔  آپ فرماتے ہیں :

بہ مشتاقاں حدیثِ خواجۂ بدروحنین آور

تصرف ہائے پنہانش بچشمِ آشکار آمد[11]

اقبال مسلمانانِ عالم کو فرما رہے ہیں کہ خواجۂ بدر و حنین حضرت محمدﷺ کا طرز عمل اور آپﷺ کے ارشادات اُن کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔

ایک بہت ہی اہم مراسلہ مولانا غلام مرشد، مولانا احمد علی، مولانا ظفر علی خان، سیّد حبیب، مولوی نور الحق، سیّد عبدالقادر اور مولانا مہر کے نام لکھا گیا۔  لکھتے ہیں :

…ایک نہایت ضروری امر میں مشورہ کرنے کو آج آٹھ بجے شام غریب خانہ پر تشریف لا کر مجھے ممنون فرمائیے۔  مشورہ طلب امر نہایت ضروری ہے۔ [12]

مولانا غلام مرشد کافی عرصے تک بادشاہی مسجد کے خطیب رہے۔  مولانا احمد علی نے انجمن خدام الدین کی بنیاد رکھی۔  وہ مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم کے داماد اور شاگرد تھے۔

مولانا ظفر علی خان روزنامہ زمیندار کے مالک و ایڈیٹر تھے۔  سیاسی راہنما اور ادیب تھے۔  سید حبیب روزنامہ سیاست لاہور کے ایڈیٹر تھے۔  مولوی نور الحق روزنامہ مسلم آؤٹ لک لاہور کے مالک تھے۔  سید عبدالقادر اسلامیہ کالج لاہور کے پروفیسر تاریخ اور صاحبِ دل بزرگ تھے۔  مہر صاحب کے حوالے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ مشورہ مسلمانوں کے فقہی مسائل کے متعلق تھا۔ [13] مسلمانانِ عالم کی زبوں حالی اور بے راہ روی پر اقبال کی نظر تھی۔  لہٰذا اُنھوں نے جید علماء اور اہلِ بصیرت کو مشورے کے لیے دعوت دی۔

خان محمد نیاز الدین خاں کے نام ایک مکتوب میں جو لاہور سے ۱۸؍ مارچ ۱۹۲۰ء کو لکھا گیا، اُنھیں مشورہ دیتے ہیں :

… آپ کے سوال کا جواب اس میں آ جاتا ہے۔  ابنِ خلکان نہیں دیکھ سکا لیکن سب سے زیادہ معتبر طبقات ابنِ سعد ہے۔  مجھے یقین ہے خالد بن ولید کا ذکر اس میں ضرور ہو گا۔  علی گڑھ کالج کے کتب خانہ میں ہے وہاں کسی کو لکھ کر دریافت کیجیے…[14]

طبقات ابنِ سعد علامہ ابو عبداللہ محمد بن سعد البصری کی آٹھ جلدوں پر مشتمل تصنیف ہے۔  اس کے حصہ اول میں سیرتِ کونینﷺ کا بطریق احسن تذکرہ کیا گیا ہے۔  اقبال، خان محمد نیاز الدین خان کو طبقات ابنِ سعد کے مطالعہ کا مشورہ دیتے ہیں۔  حضرت اقبال نے اپنے مکاتیب میں جن کتب کا ذکر کیا ہے یا کسی کو پڑھنے کا مشورہ دیتے یا خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا، اُن میں زیادہ تر اسلامی کتب ہیں۔

۱۸؍مئی ۱۹۲۰ء کو ایک مکتوب خان محمد نیاز الدین خان کو لکھتے ہیں :

… مَیں نے نبی کریمﷺ کو مخاطب کر کے ایک قصیدہ لکھنا شروع کیا ہے جس میں یہ سب مضامین ان۔ شاء اللہ آئیں گے۔  خدا کرے یہ ختم ہو جائے… ابھی چند اشعار ہی لکھے ہیں مگر ان کے لکھتے وقت قلب کی جو حالت ہوئی اس سے پہلے عمر بھر کبھی نہ ہوئی تھی۔ [15]

سرکار خاتمی مرتبتﷺ سے علامہ اقبال کو گہری عقیدت تھی۔  آپ کے کلام میں جگہ جگہ اس کا اظہار دکھائی دیتا ہے۔  آپ فرماتے ہیں :

مقامِ خویش اگر خواہی دریں دیر

بحق دل بند و راہِ مصطفی رو[16]

ترجمہ: اگر تو اس زمانے میں کوئی مقام حاصل کرنے کی آرزو رکھتا ہے تو پھر اپنا دل اللہ کریم سے لگا اور حضور سرکار دو عالم محمد مصطفیﷺ کا راستہ اپنا لے۔

اقبال نبی پاکﷺ کی سیرتِ پاک کی روشنی میں راہِ ہدایت کے متلاشی تھے۔  وہ حضور اکرمﷺ کی عادتِ کم خوری کو اپنا کر صحت کو برقرار رکھنے کے متمنی تھے اور یہی بات وہ اپنے والد شیخ نور محمد کو لکھتے ہیں۔  وہ دنیا کی نجات بھی اسوۂ رسول اکرمﷺ میں دیکھتے تھے۔

اقبال نے اپنے والد بزرگوار شیخ نور محمد کے نام ایک مکتوب ۳؍ جون ۱۹۲۰ء کو لکھا:

… روحانی کیفیات کا سب سے بڑا ممد و معاون یہی کھانے پینے کی چیزوں میں احتیاط ہے۔  نبی کریمﷺ کی ساری زندگی اس بات کا ثبوت ہے۔  مَیں خود اپنی زندگی کم از کم کھانے پینے کے متعلق اسی طریق پر ڈھال رہا ہوں … یہ زمانہ انتہائی تاریکی کا ہے لیکن تاریکی کا انجام سفید ہے۔  کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرے اور بنی نوع انسان کو پھر ایک دفعہ نور محمدی عطا کرے۔  بغیر کسی بڑی شخصیت کے اس دنیا کی نجات نظر نہیں آتی…[17]

منشی طاہر الدین کے نام ایک طویل مکتوب لکھا گیا جس میں کہتے ہیں :

… جہاز کی روزمرہ کی زندگی کی داستان نہایت مختصر ہے۔  میں اپنی قدیم عادت کے مطابق آفتاب نکلنے سے پہلے ہی تلاوت سے فارغ ہو جاتا ہوں …[18]

قرآن کی روشنی میں اپنی منزل مقصود کی راہوں کا تعین کرتے ہیں۔  آپ کا ارشاد ہے:

بہ بند صوفی و مُلاّ اسیری

حیات از حکمتِ قرآں نگیری

بآیاتش ترا کارے جز ایں نیست

کہ از یٰسین او آساں بمیری[19]

ترجمہ: اے بندے (مسلمان) تو صوفی اور مُلاّ کے جال میں پھنسا ہوا ہے۔  تو قرآن کی حکمت تلاش کر کے زندگی کا مقصد حاصل نہیں کر رہا۔

اس (قرآن کریم) کی آیات سے تیرا تعلق اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ اس کی سورۃ یٰسین پڑھنے سے تیری جان آسانی سے نکل جائے۔

اقبال مسلمانوں کو حکمتِ قرآن اور تعلیماتِ قرآن سے آشنا کرنے کے متمنی ہیں۔

ڈاکٹر سیّد عبداللہ کی کتاب میں درج ہے:

… اب رہا ماخذ تشریح کا معاملہ تو عرض ہے کہ علامہ اقبال کے نزدیک قرآن مجید تو ایک ناگزیر ماخذ ہے وہ دوسرا مسلّم ماخذ حدیث کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ [20]

مختار احمد کو تحریر فرماتے ہیں :

…طاہر دین نے بنکوں کے متعلق فکر کا اظہار کیا تھا اس سے کہہ دینا چاہیے کہ کوئی فکر کی بات نہیں۔  میرے تمام معاملات جان و مال اور روپیہ اللہ کے سپرد ہے۔  جب سے مَیں نے ایسا کیا ہے مجھے کوئی تردد نہیں ہوتا۔  سب کچھ اُسی کا ہے اُس کی مرضی میری مرضی ہے۔ [21]

اقبال اللہ کریم کی ذات پر مکمل یقین رکھتے ہیں۔  انھیں سود و زیاں کی فکر نہیں ہے۔  آپ کا ارشاد ہے:

لا دیں ہو تو ہے زہر ہلاہل سے بڑھ کر

ہو دیں کی حفاظت میں تو ہر زہر کا تریاک[22]

سر راس مسعود کے نام مکتوب میں اپنی خواہش کا اظہار فرماتے ہیں :

میری خواہش ہے کہ اعلیٰ حضرت خود مجھے اپنی ریاست سے پینشن منظور کر دیں تاکہ میں اس قابل ہو جاؤں کہ قرآن پاک پر اپنی کتاب لکھ سکوں۔  میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ ایک بے نظیر کتاب ہو گی اور مَیں شیخی نہیں بگھار رہا ہوں …[23]

علامہ اقبال قرآن کریم کی صرف تلاوت ہی نہیں کرتے تھے بلکہ اس کے معانی و مطالب پر غور فرماتے تھے اور راہنمائی حاصل کرتے تھے۔  دولتِ قرآنی جو اُن کے سینے میں تھی اُس کا اظہار انھوں نے اپنے اشعار اور نثری تحریروں میں فرمایا۔  فرماتے ہیں :

کسے خبر کہ ہزاروں مقام رکھتا ہے

وہ فقر جس میں ہے بے پردہ روح قرآنی[24]

علامہ اقبال ۱۳؍ مئی ۱۹۳۵ء کو سرراس مسعود کو ایک خط میں لکھتے ہیں :

… مجھے یہ احساس ہے کہ میں زندگی کے آخری دن گزار رہا ہوں اور میری دلی تمنا ہے کہ میں قرآن کے بارے میں اپنے افکار کو اس دنیا سے جانے سے پہلے قلم بند کر دوں۔  جو تھوڑی سی توانائی مجھ میں باقی ہے اُسے اب اسی خدمت کے لیے وقف کر دینا چاہتا ہوں۔  تاکہ (قیامت کے دن) آپ کے جد امجد (حضور نبی کریمﷺ) کی زیارت مجھے اس اطمینانِ خاطر کے ساتھ میسر ہو کہ اس عظیم الشان دین کی جو حضور نے ہم سب تک پہنچایا، کوئی خدمت بجا لا سکا…[25]

چونکہ علامہ اقبال حضور خاتمی مرتبت سے قلبی عقیدت رکھتے ہیں اس لیے اُن کی خواہش ہے کہ وہ روزِ قیامت جب حضورﷺ کے سامنے آئیں تو قرآن کریم سے اُن کا عشق ثابت ہو اور وہ اپنے آقاﷺ سے شرمندہ نہ ہوں اور وہ خدمت دین کا کوئی ثبوت فراہم کرسکیں۔ فرماتے ہیں :

ما کہ توحید خدا را حجتیم

حافظ رمز کتاب و حکمتیم[26]

ترجمہ: ہم وہ ہیں جو خداوند تعالیٰ کی توحید کی حجت ہیں۔  اس لیے ہم کتاب (قرآن پاک) اور حکمت کی رمزوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

۱۹۳۵ء میں حضرت علامہ اقبال نے ایک مراسلہ مدیر اسٹیٹسمین کو بھیجا۔  یہ ایک طویل مراسلہ تھا جس میں مذہب پر کافی کچھ لکھا گیا۔  ایک اقتباس درج ذیل ہے:

… اول یہ کہ اسلام لازمی طور پر ایک مذہبی فرقہ ہے جس کی حدود کی مکمل طور پر نشاندہی ہو چکی ہے یعنی آنحضرت محمدﷺ کے خاتم المرسلین ہونے پر ایمان۔  یہ ایمان فی الحقیقت مسلمانوں اور غیرمسلموں کے مابین صحیح حد فاصل قائم کرتا ہے اور کسی کو یہ فیصلہ کرنے میں مدد دیتا ہے کہ آیا کوئی فردِ واحد یا گروہ مسلم فرقہ کا جز ہے یا نہیں۔  مثال کے طور پر برہمو سماج والے ذاتِ الٰہی پر ایمان رکھتے ہیں … تاہم ان کو اسلام کا فرقہ نہیں سمجھ سکتے کیونکہ وہ قادیانیوں کی طرح پیغمبروں کے ذریعہ وحی الٰہی کے تسلسل پر ایمان رکھتے ہیں اور محمدﷺ پر بحیثیت نبی آخرالزماں ایمان نہیں لاتے۔ [27]

آپ نبی پاکؐ سے والہانہ عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

در آں دریا کہ اور ا ساحلے نیست

دلیلے عاشقاں غیر از دلے نیست

تو فرمودی رہِ بطحا گرفتیم

وگرنہ جز تو ما را منزلے نیست[28]

ترجمہ: اُس دریا میں جس کا کوئی کنارہ نہیں ہے، عاشقوں کی دلیل دل کے سوا کوئی نہیں ہے۔  تو نے فرما دیا تو ہم نے بطحا کا راستہ اختیار کیا۔  وگرنہ تیرے سوا ہمارے لیے کوئی منزل نہیں ہے۔

حضرت اقبال وادیِ بطحا کا راستہ رسولﷺ کا راستہ قرار دیتے ہیں اور اللہ کریم تک رسائی حاصل کرنے کا ذریعہ اُن کے نزدیک نبی پاکﷺ کا راستہ ہے۔

مولوی صالح محمد ادیب تونسوی سے اقبال اپنے دل کی بات کہتے ہیں۔  زیارت مدینہ کی بات ہوتی ہے:

مدینۃ النبیﷺ کی زیارت کا قصد تھا۔  مگر میرے دل میں یہ خیال جاگزیں ہو گیا کہ دنیوی مقاصد کے لیے سفر کرنے کے ضمن میں حرم نبوی کی زیارت سوئِ ادب ہے۔ [29]

شاعر مشرق قرآن کریم کی تلاوت فرماتے تھے اور دوسروں کو بھی قرآن کریم کو مشعل راہ بنانے کی ہدایت فرماتے تھے۔  ڈاکٹر عباس علی خاں لمعہ حیدرآبادی نے آپ کو قرآن کریم کا تحفہ بھیجا تو آپ نے شکریے کا خط لکھا:

قرآن شریف کا تحفہ جو آپ نے بہ کمال عنایت ارسال فرمایا ہے ابھی موصول ہوا اس مقدس تحفے کے لیے مَیں آپ کا نہایت شکرگزار ہوں۔  ان شاء اللہ یہی نسخہ استعمال کیا کروں گا۔  امید ہے کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ [30]

سید نذیر نیازی کو ایک طویل خط لکھا گیا۔ اس میں نبوت اور اتباع رسولﷺ پر بحث کی گئی ہے۔  ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے:

… یا یوں کہیے کہ ایک کامل الہام و وحی کی غلامی قبول کر لینے کے بعد کسی اور الہام و وحی کی غلامی حرام ہے۔  بڑا اچھا سودا ہے کہ ایک غلامی سے باقی سب غلامیوں سے نجات ہو جائے اور لطف یہ کہ نبی آخرالزماں ﷺ کی غلامی، غلامی نہیں بلکہ آزادی ہے کیونکہ ان کی نبوت کے احکام دینِ فطرت ہیں یعنی فطرت صحیحہ ان کو خودبخود قبول کرتی ہے۔  فطرت صحیحہ کا انھیں خود بخود قبول کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ احکام زندگی کی گہرائیوں سے پیدا ہوتے ہیں اس واسطے عین فطرت ہیں۔  اسلام کو دین فطرت کے طور پر Realise کرنے کا نام تصوف ہے اور ایک اخلاق مند انسان کا فرض ہے کہ وہ اس کیفیت کو اپنے اندر پیدا کرے…[31]

حکیم الامت اپنی شاعری میں بھی یہی صدا بلند کرتے سنائی دیتے ہیں :

کشودم پردہ را از روئے تقدیر

مشو نومید و راہ مصطفیٰؐ گیر

اگر باور نداری آنچہ گویم

زدیں بگریز و مرگِ کافرے میر[32]

مَیں نے تقدیر کے چہرے سے پردہ اٹھایا۔  نا امید نہ ہو اور حضرت محمد مصطفیﷺ کا راستہ اختیار کر لو۔  تو اگر اس پر یقین نہیں رکھتا جو کچھ مَیں نے کہا ہے تو دین سے بھاگ اور کافر کی موت مر۔

ایک خط میں اپنے والد شیخ نور محمد کو لکھتے ہیں :

… حقیقی شخصیت یہی ہے کہ انسان اپنی اصلی حقیقت کا خیال کر کے تمام تعلقات سے آزاد ہو جائے یعنی بالاتر ہو جائے۔  نبی کریمﷺ کی زندگی میں بھی اس کی مثال ملتی ہے۔  ان سے زیادہ اپنے عزیزوں سے محبت کرنے والا بلکہ ساری دنیا کو اپنا عزیز جاننے والا اور کون ہو گا… یہ کتاب ایک زبردست آواز ہے جو مسلمانوں کو محمدﷺ اور قرآن کی طرف بلاتی ہے اور اس آواز میں صداقت کی آواز ایسی ہے کہ ہم اس کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ …[33]

ذیل میں نعیم صدیقی کے ایک مضمون ’’الوداع اے اقبال‘‘ سے اقتباس پیش کیا جاتا ہے جو مندرجہ بالا تحریر کی تائید کرتا ہے:

… تو نے ہمیں تمیز رنگ و نسب اور مغرب کی وطنی قومیت کے طلسم سے نکال کر دنیا میں واحد قوم بنانا چاہا تھا۔  مگر ہم نے چھوٹے چھوٹے علاقوں اور صوبوں اور علاقائی بولیوں کی عصبیتوں کے جھنڈے اُٹھا کر باہم آویزی کا معرکۂ جہاد شروع کر دیا ہے۔ [34]

ڈاکٹر سید عبداللہ کہتے ہیں :

اگر کوئی شخص فلسفی کے لفظ ہی کو اہمیت دینا چاہتا ہے تو مجھے یہ لفظ بھی منظور ہے۔  صرف اتنی احتیاط ملحوظ رہے کہ علامہ کو مغربی طرز کا فلسفی نہ کہا جائے بلکہ مسلم روایت کا فلسفی۔  یا حکیم مشرق۔ [35]

٭٭٭

 

حواشی و حوالہ جات

[1] سید مظفر حسین برنی (مرتب)، کلیات مکاتیب اقبال جلد سوم، دہلی بھارت، اردو اکادمی ۱۹۹۳ء، ص۴۹۔

[2] اقبال، کلیات اقبال اردو، لاہور، اقبال اکادمی ۱۹۹۴ء، ص۸۶۔

[3] مکاتیب اقبال جلد سوم، ص۵۱، ۵۲۔

[4] مکاتیب اقبال جلد چہارم، ص۶۱، ۶۲۔

[5] مکاتیب اقبالجلد سوم، ص۵۳، ۵۴۔

[6] ایضاً، ص۵۵۔

[7] ایضاً، ص۶۳۔

[8] مکاتیب اقبال جلد دوم، ص۱۵۷۔ ۱۵۸۔

[9] مکاتیب اقبال جلد چہارم، ص۱۰۸۔

[10] مکاتیب اقبال جلد سوم، ص۷۵۔

[11] اقبال، کلیات اقبال اردو، ص۲۹۰؍۳۰۶۔

[12] مکاتیب اقبال جلد سوم، ص۷۶، ۷۷۔

[13] مکاتیب اقبال جلد سوم، حاشیہ، ص۷۷۔

[14] مکاتیب اقبال جلد دوم، ص۷۰۔

[15] ایضاً، ص۱۷۹۔

[16] اقبال، کلیات اقبال فارسی، لاہور، شیخ بشیر اینڈسنز، سال اشاعت ندارد، ص۶۳؍۴۸۔

[17] مکاتیب اقبال جلد دوم، ص۱۸۱، ۱۸۲۔

[18] مکاتیب اقبال جلد سوم، ص۲۴۴۔

[19] کلیات اقبال فارسی، ص۷۷۱؍۵۶۔

[20] ڈاکٹر سید عبداللہ، مطالعہ اقبال کے چند نئے رخ، لاہور، بزم اقبال، جون ۱۹۸۴ء، ص۱۳۵۔

[21] مکاتیب اقبال جلد سوم، ص۲۵۴۔

[22] کلیات اقبال اردو، ص۴۱؍۵۴۱۔

[23] مکاتیب اقبال جلد چہارم، ص۱۱۔

[24] کلیات اقبال اردو، ص۴۴؍ ۵۴۴۔

[25] مکاتیب اقبال جلد چہارم، ص۱۱۸۔

[26] کلیات اقبال فارسی، ص۴۰۸؍۱۹۲۔

[27] مکاتیب اقبال جلد چہارم، ص۱۳۵۔

[28] کلیات اقبال فارسی، ص۷۴۹؍۳۴۔

[29] مکاتیب اقبالجلد سوم، ص۲۷۰۔

[30] ایضاً، ص۲۸۷۔

[31] مکاتیب اقبال جلد چہارم، ص۲۱۴۔

[32] کلیات اقبال فارسی، ۷۶۵؍۵۰۔

[33] مکاتیب اقبال جلد دوم، ص۲۲۴۔

[34] نعیم صدیقی، اقبال کا شعلہ نوا، لاہور، ادارہ معارف اسلامی منصورہ، ۱۹۹۱ء، ص۸۳۔

[35] مطالعۂ اقبال کے چند نئے رخ، ص۲۳۴۔

٭٭٭

ماخذ:

علامہ اقبال ڈاٹ کام

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید