FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

منتخباتِ شادؔ عارفی

 

حصہ اول (منتخب نظمیں)

 

                مرتّبہ: ڈاکٹر مظفرؔ حنفی

 

 

 

 

محترم محمد اعظم خاں صاحب

کے نام

جن کے دم قدم سے رام پور میں

شادؔ عارفی پارک

وجود میں آیا

مظفرؔ حنفی

 

 

 

 

 

اُردو ادب میں شادؔ عارفی کا مقام

 

اُردو ادب کی مختلف اصنافِ سخن میں شاد عارفی نے جو کارنامے انجام دیے ہیں اور اضافے کیے ہیں اُن کی نوعیت، انفرادیت، افادیت اور مقدار کوذہن میں رکھیے تو شادؔ کے ہاں میدانی دریاکاسا پھیلاؤ اور پہاڑی ندی کا زور شور نظر آتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ میدانی دریا پھیل کر بہتا ہے اس لیے اُس میں اُتھلا پن اور پایابی آ جاتی ہے اور پہاڑی ندی زور شور سے بہتے ہوئے اپنا ذخیرۂ آب خارج کر کے بہت جلد خشک ہو جاتی ہے لیکن شادؔ عارفی کے فن میں پھیلاؤ کے باوجود گہرائی ہے۔ یہ گہرائی کانچ جیسے شفاف پانی کی سی گہرائی ہے جوسطحِ آب سے دیکھنے والوں کو پایا بی کے وہم میں مبتلا کر دیتی ہے لیکن اس میں اُترا جائے تو تھاہ نہیں ملتی اور اس کا طوفانی بہاؤ قدموں کو ٹکنے کی مہلت نہیں دیتا۔ فن کا یہ گہرا پاٹ دار اور تند و تیز دریا مسلسل پینتالیس سال تک پوری آن بان، تمکنت، بانکپن اور زور شور کے ساتھ بہتا رہا لیکن اس کے تخلیقی سوتے اتنے ذخّار تھے کہ ہمیشہ خطرے کے نشان کو چھوتا رہا۔

شادؔ عارفی غلام ہندوستان کی ایک ایسی چھوٹی سی سخت گیر ریاست میں پلے، بڑھے اور عمر گزار گئے جہاں اپنے لیے دنیاوی کامیابیوں اور راحتوں کے دروازے بند کرنے کے بعد ہی وسیع النظری بے باکی اور سیاسی شعور کو اپنایا جا سکتاتھا۔ جاگیر دارانہ معاشرے کی گھٹن اور اُس کی، آخری حدوں کو پہنچی ہوئی تمام خامیاں شادؔ کے ارد گرد بکھری ہوئی تھیں، شعر و سخن کا معیار امیر ؔ و داغؔ کے طرز کی جُگالی اور درباری قسم کی شاعری تک محدود تھا جس میں حقیقت نگاری اور صاف گوئی کی گنجائش کہیں نہ تھی۔ اس کے برعکس شادؔ عارفی کے دوسرے معاصرین کو، جو برطانوی ہند میں پھیلے ہوئے تھے، نسبتاُ بہت کھلی ہوئی سیاسی فضا اور سازگار ادبی ماحول میسر تھا اس کے باوجود شادؔ اپنے مقامی اور بیرونی ہم عصر فنکاروں سے بہت آگے نظر آتے ہیں۔ شادؔ کے مطالعے میں اس پس منظر کو بطور خاص مدّ نظر رکھنا ہو گا۔

انھوں نے زندگی کو کسی ٹیلے پر چڑھ کر نہیں دیکھا ہے۔ وہ اس دریا میں ڈوب ڈوب کر اُبھرے اور اُبھر اُبھر کر ڈوبے ہیں چنانچہ اُن کے تجربات، ان کا مشاہدہ اور اُن کی صلاحیتیں اکتسابی نہیں، وہبی ہیں۔

اُن کی شخصیت بڑی متنوّع، پہلو دار، چاق و چوبند اور اپنی بشری خامیوں کے باوجود انفرادی دل کشی کی حامل ہے۔

امام المتغزّلین، حسرت موہانی نے اُردو غزل کو تصنع، نمائش اور مبالغہ کی راہ سے ہٹا کر جس خلوص کے ساتھ اُسے ہندوستانی فضا سے روشناس کرانا چاہا تھا، اس کی تاریخی اہمیت برحق، لیکن اُن کی شاعری میں اس وصف کے حامل سطحی، سپاٹ، یک رُخے اور بے کیف نمونے زیادہ نظر آتے ہیں اور وہ کلّی طور پر گل و بلبل کی روایتی شاعری سے دامن کش نہیں ہوسکے۔ شادؔ عارفی کے عشقیہ غزلوں کے وسیلے سے ہمیں حقیقی معنوں میں پہلی بار ہندوستانی گھریلو محبت اور متوسط طبقے کے جیتے جاگتے، مانوس، عاشق و محبوب اردو شاعری میں نظر آتے ہیں۔ وہ رودادِ عشق بیان کرنے میں موشگافیوں سے کام نہیں لیتے بلکہ اپنے نجی تجربات کی چھوٹ سے غزل کو منور کرتے ہیں۔ صحت مند جسمانیت، پاکیزہ جنسیت، نرم و گرم لمسیت، مردانہ اور فعال رُجحان اور احتساسی ذائقہ رکھنے والی جوان عشقیہ غزل اُردو شاعری میں شادؔ عارفی کے ہاں پہلی بار نظر آتی ہے۔ اس میدان میں از اوّل تا آخر اُن کے کوئی ہم سفر ہیں تو حسرتؔ اور آتشؔ، لیکن آتشؔ بھی بہ لحاظِ مقدار و معیار شادؔ عارفی کی سطح سے نیچے رہ جاتے ہیں۔

ظرافت، ہزلیہ پھکڑ پن اور سطحیت سے پاک نتھری ستھری خالص طنزیہ غزل اُردو ادب کو شادؔ عارفی کی دین ہے۔ اُن سے قبل غالبؔ اور دوسرے بڑے شاعروں کے ہاں خالص طنز کے حامل کچھ اشعار کبھی کبھار نظر آ جاتے تھے، شادؔ نے پہلی بار خالص طنز کو اپنا فن قرار دے کر اپنی ایک انفرادی راہ تلاش کی جس میں قدما سے عہدِ حاضر تک اُن کے سامنے اکبرؔ یا کسی دوسرے بڑے سے بڑے شاعر کا چراغ نہیں جل سکتا۔ اُنھوں نے رائج الوقت اور فارمولا ٹائپ شاعری سے ہمیشہ اپنا دامن بچایا اس لیے ناقدین انھیں نظر انداز کرتے رہے۔

منظر یہ شاعری کے میدان میں شادؔ عارفی کی نظمیں اُردو کے بلند مرتبت منظر نگار شاعروں کی نگارشات کے مقابلے میں رکھی جا سکتی ہیں۔

اُن کی جیسی حقیقت آمیز، متوسط ہندوستانی گھرانوں کی محبت کا ذکر کرنے والی سچی اور دلکش عاشقانہ نظمیں اُردو شاعری میں نایاب ہیں۔ جس طرح حسرتؔ امام المتغزّلین ہیں، عشقیہ نظموں کے باب میں شادؔ کو بھی امام تسلیم کرنا چاہیے۔

طنزیہ نظموں میں شادؔ عارفی مجتہد کا درجہ رکھتے ہیں اور ایک بالکل ہی نئی طرز کے موجد ہیں۔ حقائق پر مبنی واقعات، گھریلو، سماجی، اشاریاتی اور علامتی نظمیں جن میں مکالماتی انداز اور ڈرامائی کیفیات نمایاں ہوں اور طنز رُوح کی طرح جاری و ساری ہو، اُردو ادب میں شادؔ کی طرف سے ایک نادر اور نایاب اضافہ ہیں۔ ان کی ان نظموں میں جوسماجی مقصدیت اور حقیقت نگاری ہے اُس سے شعریت مجروح نہیں ہوتی اور یہ خصوصیت مشہور ترقی پسند شاعروں کے کلام میں بھی کم نظر آتی ہے۔ وہ ترقی پسند ضرور ہیں لیکن ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے۔ نظریاتی طور پر کمیونزم سے اختلاف رکھتے ہیں لیکن عوامی بہبود انسان دوستی کا جذبہ اُن کی نظموں میں، پارٹی لائن پر کام کرنے والے کمیونسٹ شاعروں سے کہیں زیادہ ہے۔ اُن کی نظموں میں موضوعات کا جو تنوّع اور پھیلاؤ ہے وہ گہرائی اور افادیت سے مل کر اُنھیں نظیر ؔاکبرآبادی، انیسؔ، اقبالؔ اور جوشؔ کی صف کا نظم گو بناتا ہے۔

وہ حق پرست، بے باک اور جری شاعر ہیں۔ یگانہؔ چنگیزی کی طرح اُن کا لہجہ اور آواز دُور سے پہچان میں آنے والی چیزیں ہیں۔ ہماری شاعری نے لہجے کے یہی دو شاعر پیدا کیے ہیں البتہ وسعتِ نظر، موضوعات کے تنوع اور سماجی مقصدیت کے اعتبار سے شادؔ عارفی، یگانہؔ سے بلند ہیں۔

اُن کی رباعیوں، قطعات، نعت و منقبت، سہرے اور مبارکبادیوں، بچّوں کے گیتوں اور ہندی نظموں میں بھی انفرادیت اور مخصوص لہجے کی جھلک ملتی ہے لیکن یہ تخلیقات اُن کی ادبی قامت کو بالا نہیں کرتیں۔

نثر میں اُن کے تخلیقی مضامین دلچسپ اور پُر لطف ہونے کے باوجود اُن کی ادبی حیثیت میں کوئی اضافہ نہیں کرتے لیکن اس بات کے شاہد ضرور ہیں کہ اُنھیں زبان کا سچّا شعور حاصل تھا۔

اُن کے تنقیدی مضامین سکّہ بند تنقید کے معیار پر پُورے نہیں اُترتے کیونکہ وہ تنقید میں تخلیق کا سا لُطف پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور غیر متعلق امور پر بحث چھیڑ کر مضمون کو زیادہ پہلو دار بنانے کی سعی کرتے ہیں۔ اُن کا یہ انداز آگے چل کر ایک نئے دبستانِ تنقید کی شکل اختیار کر گیا ہے جس کے نمائندہ نقاد سلیم احمد، جیلانی کامران، سلیم اختر، محمود ہاشمی، وزیر آغا، وارث علوی، مظفر حنفی، باقر مہدی، شمیم احمد، شمس الرحمن فاروقی وغیرہ ہیں۔

شاعری میں الفاظ کے ساتھ جمہوری برتاؤ کرنے میں وہ اپنے ہم عصر تمام شاعروں سے آگے ہیں۔ اس باب میں اُن کے ساتھ صرف نظیر اکبر آبادی کا نام لیا جا سکتا ہے۔

شادؔ عارفی کے بعد آنے والے شاعروں کی پوری نئی نسل نے اُن سے اثر قبول کیا ہے اور یہ سعادت اُن کے دو ایک معاصروں کو ہی نصیب ہوئی ہے۔

اُردو کے مکتوباتی ادب میں اُن کے خطوط بہ اعتبارِ تعداد و معیار غالبؔ کے مکاتیب کے بعد دوسرا اہم درجہ رکھتے ہیں۔

وہ بیک وقت بڑے اور اہم غزل گو، منفرد نظم نگار، البیلے نقاد اور صاحبِ طرز مکتوب نویس ہیں۔ اُردو ادب میں شاد عارفی کی طرح کسی ایک ہی فنکار نے اتنی بڑی تعداد میں ایسی اعلیٰ غزلوں، بلند پایہ نظموں، تخلیقی تنقیدوں اور ادبی مکتوبات کا اضافہ نہیں کیا۔ ایک اچھے اور بڑے فنکار کی طرح شادؔ کا فن بھی تہہ بہ تہہ اور پہلو دار ہے جسے کسی ایک صنفِ سخن میں قید نہیں کیا جا سکتا۔

ان تمام اوصاف کے پیشِ نظر شادؔ عارفی کی مجموعی ادبی حیثیت کا تعین کرنا ہو تو بہت محتاط رہتے ہوئے بھی اُنھیں میرؔ، غالبؔ اور اقبال کے بعد اُردو ادب کے گنتی کے اُن چند بڑے اور ممتاز فنکاروں کی صف میں نمایاں جگہ دینی ہو گی جن کی تعداد دس پندرہ سے زیادہ نہیں ہے۔

مجھے اے شادؔ ان رجعت پرستوں سے تو کیا لینا

کرے گی یاد مستقبل کی تہذیبِ جواں مجھ کو

مظفر حنفی

(پروفیسر اقبال چیئر )

 

 

 

 

                نظمیں

 

’’شادؔ عارفی نے اپنی نظموں میں بیانیہ پیرایہ اختیار کرنے کے بجائے ڈرامائی، مکالماتی اور تمثیلی انداز اختیار کیا ہے۔ بعض نظمیں مختصر افسانے کی تکنیک میں لکھی گئی ہیں۔ ان نظموں میں شادؔ نے اپنی طرف سے کچھ کہنے کے بجائے کسی نہ کسی کردار کو پیش کر دیا ہے اور اس کی تصویر، اس کے عمل اور اس کی گفتگو کے ذریعے ابھارنے کی کوشش کی ہے۔ بعض اوقات ایک ہی نظم میں کئی کئی کردار عمل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بلکہ کبھی کبھی تو انھوں نے یہ کمال کیا ہے کہ ایک ہی مصرعے کے اندر دو دو اور تین تین کرداروں کے مکالمے ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ٹی، ایس، ایلیٹ نے شاعری کی تین آوازوں کا ذکر کیا ہے ان تینوں آوازوں کا ایک ہی نظم میں اجتماع بہت مشکل کام ہے۔ شادؔ نے اُردو نظم میں یہ کام کر دکھایا ہے۔ ‘‘

(خلیل الرحمن اعظمی: اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک۔ ص ۱۰۸)

 

 

 

 

 

 

 

سلام بحضور سُلطانِ مدینہؐ

 

السّلام علیک یا شمس الضّحیٰ

السّلام علیک یا بدر الدّجیٰ

السّلام علیک یا نور الہدیٰ

السّلام علیک یا فخر الامیں

السّلام علیک ختم المرسلیں

السّلام علیک یا شاہِ عرب

السّلام علیک یا طٰہٰ لقب

السّلام علیک یا قرشی حسب

السّلام علیک خیرالعالمیں

السّلام علیک ختم المرسلیں

السّلام اے نیک خواہِ بیکساں

السّلام اے مدّعائے انس وجاں

السّلام اے راز دارِ این و آں

السّلام اے حاصلِ دنیا و دیں

السّلام علیک ختم المرسلیں

السّلام اے شافعِ روزِ جزا

السّلام اے رحمت و فضلِ خدا

السّلام اے حاتمِ عفو وعطا

السّلام اے سالکِ عرشِ بریں

السّلام علیک ختم المرسلیں

وجہِ موجوداتِ عالم السّلام

خلق و ایثارِ مجسّم السّلام

بوئے گلشن، رنگ و شبنم السّلام

السّلام اے ذوقِ عرفان و یقیں

السّلام علیک ختم المرسلیں

 

ہم غریبوں کے نگہباں آپ ہیں

واقفِ حالِ پریشاں آپ ہیں

حاملِ تائیدِ یزداں آپ ہیں

السّلام اے دستگیرِ مذنبیں

السّلام علیک ختم المرسلیں

آپ جب ہم کو ہراساں پائیں گے

کیوں نہ تکلیفِ کرم فرمائیں گے

ہم نشینِ سنگِ در بن جائیں گے

چُوکتے ہیں آپ کے سائل کہیں

السّلام علیک ختم المرسلیں

 

ہر اندھیری رات ٹھہرے چاند رات

آپ کے نزدیک معمولی سی بات

امّتِ عاصی پہ چشمِ التفات

ڈس رہے ہیں دل کو مارِ آستیں

السّلام علیک ختم المرسلیں

 

یہ توقع ہے خدا کی ذات سے

آپ کا دامن نہ چھُوٹے ہات سے

گھٹ بھی جاتا ہے کبھی دن رات سے

کیا یہی حالت، نہیں ایسا نہیں

السّلام علیک ختم المرسلیں

 

مل چکے اشکوں کے موتی خاک میں

آ برو ہے پردۂ صد چاک میں

آ گیا حالات سے دم ناک میں

آسماں کا ساتھ دیتی ہے زمیں

السّلام علیک ختم المرسلیں

در پئے ایذا کئی شیطان ہیں

شوق بے جا ہے، غلط رجحان ہیں

اور پھر یہ بھی کہ ہم انسان ہیں

الغیاث اے ناظمِ دنیا و دیں

السّلام علیک ختم المرسلیں

 

ڈگمگاتے ہیں قدم، شاہا مدد

ہیں کڑی منزل میں ہم، شاہا مدد

کفر و طغیانِ ستم، شاہا مدد

غیر کے در پر نہ جھک جائے جبیں

السّلام علیک ختم المرسلیں

 

حسب منشائے خدائے کن فکاں

آپ جو چاہیں نہ ممکن ہو کہاں

بھیجیے وہ انقلابِ گل فشاں

ہو جو اسلام و شریعت آفریں

السّلام علیک ختم المرسلیں

’’خسروِ تادیب‘‘ و شاہِ در گزر

ہم خطا کاروں پہ شفقت کی نظر

خود بخود آ جائیں سیدھی راہ پر

ہو عطا تمئیزِ زہر و انگبیں

السّلام علیک ختم المرسلیں

اے شہِ بطحاؐ، رسولوں کے رسول

صدقۂ شاہِ شہیدان و بتول

التماسِ عفوِ لغزش ہو قبول

ساتھ ہی احساسِ عزمِ کارِ دیں

السّلام علیک ختم المرسلیں

٭٭٭

 

 

 

 

شادی کے بعد

 

جوش، جوانی، جھلکی الفت، قاصد، کوشش، منگنی، بیاہ

شادی تک ہی سب افسانے پھر ہستی کی سیدھی راہ

آغازِ عشرت پر گویا اب کوئی افتاد نہیں

شادی ایسا باغ کہ جس میں بلبل ہوں صیّاد نہیں

بھوکا ننگا کوئی نہیں ہے، راجہ اِندَر کا سا دیش

یکساں نرخِ نخود و گندم، چیزیں مہنگی بیش از بیش

دولھا دلہن ماہِ عسل منانے کو آتے ہیں یہاں

جس کی گلیاں گرد آلودہ، شہہ راہیں فردوس رساں

دِق کی ماری آبادی سے دُور’’ سول لائن کا روپ‘‘

جیسے کالی کسبی کے منہ پر’’ پوڈر کی ڈھلتی دھوپ‘‘

’’ ساس نند‘‘ گالی گفتاری، اس جنّت کی رسم نہیں

لٹّھے ململ کا خمیازہ جُز ’’کمبخت و بشم‘‘ نہیں

دیسی چھ بچّوں کا باوا پاتا ہے پندرہ ہر ماہ

مغرب زادے بانجھ بنجھوٹوں کو بارہ سو کی تنخواہ

اس کوپسلی، اس کی آنکھیں، اس کو جاڑا، اس کو دست

شہری اپنے حال پہ گریاں اور بدیشی جوڑے مست

توبہ! دھیان کدھر جا پہنچا، ہاں تو جب رچ جائے بیاہ

پاتے ہیں انجام فسانے پھر ہستی کی سیدھی راہ

٭٭٭

 

 

 

 

بہتان

 

ابھی شوروم جس نے چھوڑا ہے

شعر ہے بہترین جوڑا ہے

ان کا بچہ اگر نگوڑا ہے

 

اپنی دوہار پر گیا ہو گا

اپنی ننہار کی خطا ہو گا

کیچلی جھاڑ کر بڑا ہو گا

 

بد نما جِلد میں بھلے اشعار

کیوں سمجھتے ہو قسمتِ عطاّر

آپ اور چشمِ نقد؟ اے زنہار

 

یہ ملازم کی بات رہنے دو

ہے ’’ترقی پسند‘‘ کہنے دو

سب کو جِنسی دباؤ سہنے دو

 

حکمتاً مو شگاف ہوتے ہیں

دِن اُمیدوں کے صاف ہوتے ہیں

یعنی ماحول باف ہوتے ہیں

ریچھ کی کھال فرشِ کاشانہ

ایک بل ڈاگ’’ فحش دستانہ‘‘

یا کوئی ہولناک افسانہ

 

ہائے بنگال، دیکھنا ساراؔ

ماں سے چمٹا ہے بھوک کا مارا

ہار ہے ہڈیوں کا بیچارا

 

عین پورب میں ’ جبکہ آئے شرم‘

تھا منی پڑ گئی ہو ’’گرتی فرم‘‘

ضربِ آب و ہوا سے ’ پنڈا گرم‘

 

وضعِ منظر ہے لا شعور پہ دال

عکس لیتا ہے مضغۂ نقال

وہم کوسوجھتی ہے گندی فال

٭٭٭

 

 

 

 

دسہرا اشنان

 

اے شادؔ آج صبح زمانے کے واسطے

پُروا سنک رہی تھی سُلانے کے واسطے

یہ نظم آئی مجھ کو جگانے کے واسطے

 

چادر نسیمِ منظرِ فطرت نے کھینچ لی

آنکھوں سے نیند سیر کی عادت نے کھینچ لی

بستر چُبھا سمٹ کے اُٹھانے کے واسطے

 

بے اختیار اُٹھ کے چلا میں۔ ۔ ۔ ۔ کِدھر؟ اُدھر

دیوانہ وار اُٹھ کے چلا میں۔ ۔ ۔ ۔ کِدھر؟ اُدھر

جاتی تھی وہ جدھر کو نہانے کے واسطے

 

اس پُل پہ جس پہ مل کے گزرتے ہیں راستے

دریا عبور کر کے بکھرتے ہیں راستے

روکا ہے’’ اس کی‘‘ راہ دکھانے کے واسطے

 

چلتا ہوا، ہجوم ہے سیلاب کم خروش

آنکھوں میں کیفِ عزمِ پرستش، زباں خموش

جیون پوترتا میں سجانے کے واسطے

 

حُسنِ نظر نواز بھی جنسِ فضول بھی

شمشادِ نو نہال بھی، بوڑھے ببول بھی

انجامِ کشتِ عُمر بتانے کے واسطے

 

دس بیس ان میں آنکھ مچولی کے رات دن

چھ سات چھُپ کے ہاتھ نہ آنے کے سال و سِن

دو چار منتظر چھوئے جانے کے واسطے

 

مندر کے رو برو یہ پرستانِ خوش خرام

ہے جس میں پیش پیش مری شوخیِ کلام

کوشش میں اپنی جان جتانے کے واسطے

 

اب پاس آ چکی ہے یہ تمثیلِ کہکشاں

اب مجھ کو پھانستا ہے یہ انبوہِ مہ وشاں

میری نظر سے لطف اُٹھانے کے واسطے

 

سر ڈھک لیے گئے تو ہوئیں ساریاں درست

سینوں پہ سلوٹوں کو پریشاں، لباس چست

ہر ’ کوندنی‘ پہ ہاتھ گھمانے کے واسطے

 

گھُٹنوں کو جھول دے کے چھپائی ہیں پنڈلیاں

پھر بھی نظر نوازیِ ساقِ غزل فشاں

مضمونِ بے پناہ سُجھانے کے واسطے

 

جس کے لبوں پہ شرحِ تبسم، وہ مثنوی

جس کی جبیں پہ قشقۂ ابہام بے رخی

کہتی چلی ہے گھاٹ پہ آنے کے واسطے

 

وہ گھاٹ جس کا ریت ہمیں فرش انجمن

وہ پھاٹ، جس کے گیت محبت پہ نغمہ زن

وہ ’’جھاؤ‘‘ میل جول چھپانے کے واسطے

 

وہ ناؤ رہ گئی جو کنارے پہ ٹوٹ کے

ریتی میں دب چکی ہے جو پانی سے چھُوٹ کے

کافی ہے ولولوں میں بہانے کے واسطے

 

پھر بیریوں کی آڑ میں، میلے کی حدسے دُور

پہنچا ہوں اس امید پہ، آئے گی وہ ضرور

کھو جائے گی کہیں مجھے پانے کے واسطے

 

پلٹے گی جب کہے گی سبھوں سے کہ تھک گئی

میلے کی بھیڑ بھاڑ میں رستہ بہک گئی

چہرہ اُداس بات بنانے کے واسطے

 

وہ طرزِ گفتگو کہ بہانہ، نہ کھل سکے

مژگاں پہ وہ نمی کی بناوٹ نہ دھُل سکے

شبہوں کو سو یقین دلانے کے واسطے

 

جالے لگے ہوئے ہیں ابھی آستین پر

رفتار سست سست، نگاہیں زمین پر

پہنچی وہ یا نہیں یہ بتانے کے واسطے

٭٭٭

 

 

 

 

شوفر

 

’’ کھٹ کھٹ۔ کون؟ صبیحہ! کیسے؟ یونہی کوئی کام نہیں

پچھلی رات، بھیانک گیرج، کیا کچھ انجام، نہیں

میرا ذمّہ، میں آئی ہوں، تم پر کچھ الزام نہیں

ہم ہیں اس تہذیب کے پَیرو ہم ہیں اس اخلاق کے لوگ

جس میں عصمت اک مفروضہ، عفّت جس میں ذہنی روگ

جذبوں پر پہرے بٹھلانا، کیا سودائے خام نہیں

 

’دو بچوں کے باپ‘ تو کیا ہے؟ دل کا ہو انسان جوان

تم بھی ایسے بن جاؤ نا۔ جیسے منجھلے بھائی جان

سالی اور سلہج پر لٹّو، بیوی سے حمّام نہیں

 

’’ان سے‘‘ یہ تہذیب میں اونچی، چھوٹے بھائی سے وقتی چاہ

شوہر آئے نہ آئے لیکن دیور کی تکتی ہیں راہ

خواہش کی تکمیل بھی جاری، شادی بھی ناکام نہیں

 

نوکر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور نمک اور مذہب کی تاویلوں سے باز آؤ

مردوں کی اس بے جا نیکی پر مجھ کو آتا ہے تاؤ

’ عورت کے ہونٹوں پہ ٹھپّہ‘‘ اب مقبولِ عام نہیں

 

ہفتہ کی اک رات ، جگالی جائے، تو یہ عیب کہاں

ظاہر ہے پاپا، مامی کو حاصل علمِ غیب کہاں

’’ہر ہفتے اب غسل کی طے ہے ‘‘ یعنی اذنِ عام نہیں

 

جاتی ہوں، گھبراتے کیوں ہو، یہ یکجائی ’’ بور‘‘ ہے کیا

’’ دو دِل راضی‘‘ کے بارے میں قاضی کا کچھ زور ہے کیا

لو یہ دس کا نوٹ، تمھاری اُجرت ہے، انعام نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

نمائش

 

(۱)

 

ہر چند نمائش پھیکی ہے، مقصودِ نمائش فوت نہیں

جلووں کی قلّت پر مت جا، قلّت شاعر کی موت نہیں

کچھ ’مکڑی کے جالے برقعے، کچھ مکھڑوں پر ہالے برقعے

کچھ ’ ماتھوں کو چھُوتے برقعے‘ ’کچھ گورے منہ کالے برقعے‘

کچھ ’ آتش کے پرکالے سے، کچھ ’’ الّھڑ، کچھ متوالے‘‘ سے

کچھ ’ کوندے لینے والے سے، ’کچھ راز پہ پردہ ڈالے‘سے

کچھ نیلے ہیں، کچھ پیلے ہیں، کچھ ناموزوں، کچھ ڈھیلے ہیں

کچھ آزادی کے حامی ہیں و کچھ ’ ان کی ضد‘، شرمیلے ہیں

کچھ برقعے’’ ننگے بھوکے‘‘ ہیں، کچھ رستہ ’’ بھولے چوکے‘‘ ہیں

کچھ بک جانے پر آمادہ ہیں کچھ غیرت کے بھوکے ہیں

کچھ بد رنگے، بھگ میلے ہیں تہذیب کے دُکھتے ڈھیلے ہیں

کچھ ساٹن ہے، کچھ زمّا ہے، کچھ ریشم ہے، کچھ شنیلے ہیں

کچھ ’’سیدھی اور خالی‘‘ نظریں، کچھ ’’ ترچھی بنگالی‘‘ نظریں

کچھ ’ بیہودہ فقرے، نظریں ‘ کچھ ’ موٹی سی گالی‘ نظریں

کچھ چشموں سے مستور آنکھیں، کچھ سُرمے سے معمور آنکھیں

کچھ پاس آنکھیں، کچھ دور آنکھیں، مسرور آنکھیں، مغرور آنکھیں

کچھ میان کے باہر شمشیریں، کچھ بجلی ایسی تنویریں

کچھ’ گرتے پڑتے میخانے‘ کچھ ’ چلتی پھرتی تقصیریں ‘

کچھ رفتاریں، بے ڈھنگی سی، بے قابو سی، اڑدھنگی سی

پنڈلی کے پچھلے حصے پر کچھ ’ کھلتی سی، کچھ ننگی سی

کچھ سینے ’ گینڈے کی ڈھالیں ‘، ’سینوں پر رگبی کی بالیں ‘

دوڑیں، جھپٹیں، پکڑیں، پھینکیں، ٹھکرائیں اور ٹھوکر کھا لیں

کچھ رسوائی کی تاویلیں، کچھ اگلی پچھلی تمثیلیں

کچھ فرمائش، کچھ تعمیلیں، کچھ جنسیّاتی تحلیلیں

کچھ ہرنوں پر لرزہ طاری’’ ٹھہرے سائے، چلتی ساری‘‘

کچھ شلواریں ہاری ہاری، کُچھ ’’پورے دن، کچھ تیاری‘‘

پھاٹک سے ہٹ کر ’ اندھیاری‘ اک نوکر ہے اک ’ دلداری‘

افوہ۔ ’’ کھُلی بوسہ بازی‘‘ شاباش’’ نمائش کی ماری‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

نمائش

 

(۲)

 

بدلتی نہ دیکھی کبھی بھیڑ چال

اُڑا دی نہ جب تک گوالے نے کھال

نہیں سر سے پانی گزرنا محال

تو پھر طنز میں ’’ نقد عریاں ‘‘حلال

موادوں کو مِلتی ہے ’’نشتر سے فال‘‘

________

یہ پتھر کے چشمے، یہ رجعت پسند

مکانات پنجرے، تجلّی پرند

مؤثر بھی ہیں وعظِ اخلاق و پند

(غلط کاریِ ادّعائے بلند

مِرا ہاتھ روکے، میں ڈالوں کمند)

________

 

نمائش پر اک طائرانہ نظر

یہاں سے وہاں اس طرف سے اُدھر

گریزاں گریزاں ہیں جلوے، مگر

وہیں کی وہیں ہرنیاں گھوم کر

نتیجہ وہی۔ صبح کو دردِ سر

________

نمائش نہیں، بلکہ ’’ہرنوں کا بن‘‘

یہ کستوریہ یہ چکارہ ہرن

ستارہ جبینان و شیریں دہن

’’ کدھر چوکڑی بھر رہا ہے وطن‘‘

ترقی۔ ۔ ۔ مگر باعثِ سوئے ظن

________

یہ اسکول کی کنواریاں دیکھیے

وہ ٹھٹکیں طلب گاریاں دیکھیے

مچلتی ہوئی ساریاں دیکھیے

وہ سنبھلیں طرح داریاں دیکھیے

بہت نیک بیچاریاں دیکھیے

________

بڑی ماسٹرنی ہے، شوفر کی وہ

سپیدہ، غلامِ مکرر کی وہ

سکندر کی یہ ہے، مہندر کی وہ

یہ خلّاصنیں سارے دفتر کی وہ

یہ شادی شدہ، اس منسٹر کی وہ

________

اندھیرے کی نیچوں پہ کیا کچھ نہیں

بھلا ہی بھلا ہے بُرا کچھ نہیں

ترقی کی بھی انتہا کچھ نہیں

یہ پیاسا، وہ پانی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حیا کچھ نہیں

محبت خدا ہے، خدا کچھ نہیں

________

کئی چوٹیوں پر بھٹکنا فضول

بجز خار کیا دیں گے سُوکھے ببُول

بڑی شرم کی بات یہ ’’ ہوم رول‘‘

وہ ’’بجلی کا جھولا‘‘ گئے آپ بھول

ذرا دیر جھولے کہ قیمت وصول

________

سنیما کی جانب چلے آئیے

پتا دیجیے ’’ رنگ بتلائیے‘‘

یہ زینہ ہے، اوپر چلے جائیے

منیجر ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسا نہ فرمائیے

ترقی پسندوں سے گھبرائیے

٭٭٭

 

 

 

 

 

نمائش

 

(۳)

 

نمائش کے مقصد پہ زنگ آ گیا ہے

جبیں پر تنزّل کا رنگ آ گیا ہے

ترقی کے قدموں پہ لنگ آ گیا ہے

خریدار پیسے کو تنگ آ گیا ہے

دُکاندار سب مکھّیاں مارتے ہیں

نگاہوں سے جیبوں کو چمکارتے ہیں

 

’ رٹھونڈے کے میلے‘ سے پھیکی نمائش

گزشتہ سے کم ’ روشنی کی نمائش‘

مگر انتہا پر بدی کی نمائش

’کھری سے کھری‘ دلبری کی نمائش

جو ہیں ’’ ناظمانِ نمائش‘‘ کے بندے

نقابوں میں لائے ہیں ’’ ریشم کے پھندے‘‘

 

یہ برقعوں کے اندر حیا باختائیں

کھلی بیسوائیں، چھپی فاحشائیں

معیّت میں مائیں نہیں، نائیکائیں

کرم چند کے ساتھ ہیں ساجدائیں

’’ رسوخ در سائی‘‘کے خواہاں گھرانے

چلے آئے ہیں آنکھ نیچی کرانے

 

یہ ٹولی جو ’’ بھتنا‘‘ لیے پھر رہا ہے

یہ جھُرمٹ جو شرما لیے پھر رہا ہے

یہ ’’ سوسن‘‘ جو لالہ لیے پھر رہا ہے

یہ ’’ پیشے‘‘ جو’’ چشمہ‘‘ لیے پھر رہا ہے

ضرورت ہے زائد جو شرما رہی ہیں

تصوّر میں ننگی نظر آ رہی ہیں

 

ہمارے محلّے کی یہ اپسرائیں

نہ کمروں میں بیٹھیں، نہ ناچیں، نہ گائیں

مگر شوہروں سے زیادہ کمائیں

نمائش میں مانگے کی موٹر پہ آئیں

پڑا علم و حکمت کا بازار مندا

طبابت سے بہتر ہے عورت کا دھندا

 

بڑی پھانکڑی ہے یہ ’’مکّار انّا‘‘

جو باتوں میں ٹھگتی ہے ہاتھی سے گنّا

اگلتا ہے دولت یہاں سیٹھ دھنّا

ملے تاکہ خلوت کدوں کا ’’رَونّہ‘‘

’’ نئی ابریوں ‘‘ میں ’’ پُرانے فسانے

لگا لائی ہے ساتھ، قیمت بڑھانے

 

مرے طنز سے کیوں بُرا مانتے ہیں

جو مشہور ہے آپ بھی جانتے ہیں

حقیقت کو کیچڑ میں کیوں سانتے ہیں

یہ ’’ ماما‘‘ اسے آپ پہچانتے ہیں

یہ ہر طرح کی ’’ تکِلّیں ‘‘ بیچتی ہے

دکھاتی ہے ’’ رخ‘‘ اور قط کھینچتی ہے

 

اُڑاتی نہیں یہ پوَنَّے اَدھنّے

مگر تاؤ والے ترنگے، تِپَنّے

اڑاتی ہے دم بھر میں دشمن کے کنّے

وہ نوّاب جھمّن ہوں، یا شیخ بنّے

بڑے سے بڑا اس کو جچتے نہ دیکھا

جو اوپر سے آیا وہ بچتے نہ دیکھا

 

یہ مدھری وہ لمبی، یہ ہلکی وہ بھاری

مِلی خاک میں ان کی والا تباری

مگر اب بھی ہیں ٹھاٹ اگلے سے جاری

میسّر نہیں وقت سے سازگاری

مزاجوں سے جاتی نہیں عیش کوشی

نہ تھی ورنہ آسان غیرت فروشی

 

وہ اچکن کے سائے میں جھجکا سا برقعہ

حدودِ شریعت میں آتا سا برقعہ

کشش تاب اعضا پہ ڈھیلا سابرقعہ

’’رُخِ نیک پرویں ‘‘پہ سیدھا سا برقعہ

اسی وضع کی نیکیاں اور بھی ہیں

وطن کی بہو بیٹیاں اور بھی ہیں

 

یہ اپنے پرائے کو پہچانتی ہیں

’نقابیں اُلٹنی‘ نہیں جانتی ہیں

نئی روشنی سے بُرا مانتی ہیں

خدا اپنے شوہر کو گردانتی ہیں

’’ نہ پردے کی بوبو‘‘ نہ فیشن کی بندی

جنونِ ترقی، نہ رجعت پسندی

 

نہیں کوئی ٹھوکر میانہ روی ہیں

وہ افراط و تفریط ہے زندگی میں

یہ احساس و تمئیز ہے جس کسی میں

بڑی چیز ہے اعتدال آدمی میں

جو دوڑیں گے وہ ٹھوکریں کھائیں گے بھی

غلط کاریوں کی سزا پائیں گے بھی

 

نہ سنٹر، نہ سبزہ، نہ باجے، نہ تاشے

نہ تھیٹر، نہ سرکس، نہ کھیل اور تماشے

یہ فوّارۂ حوض قاضی کے لاشے

نہ کیفے۔ مگر ’’چاٹ کھاتے مہاشے‘‘

نہیں تازہ تر ہوٹلوں کی نِکاسی

جو ٹھنڈے پراٹھے تو حلوہ ہے باسی

 

ذرا غور کِیجے، یہ بزمِ سخن ہے

ادب سے یہاں فائدے کی لگن ہے

جو’’ لونڈا‘‘ ہے وہ ماہرِ علم و فن ہے

نہ جانے حکومت کا یہ کیا چلن ہے

نہ پوچھے کسی سے نہ خود جانتی ہے

خوشامد کو ’’روحِ سخن‘‘ مانتی ہے

 

کرائے پہ آئے ہیں بھاڑے کے ٹٹو

نکمّے، نگوڑے، نموہے، نِکھٹّو

یہ روڑے ادب کے، دوراہے کے لٹّو

’’ لکھائی ہوئی‘‘ چند غزلوں کے رٹوّ

’’ صدارت کا مُضغہ ‘‘ بٹورے برابر

’’ کہن سال ہتھنی‘‘ کا ’’اسقاطِ اصغر‘‘

 

رقم ان کے ناموں پہ بھر دی گئی ہے

نہیں دی گئی ہے، مگر دی گئی ہے

خبر کس کو شاعر کے گھر دی گئی ہے

مصارف کی تکمیل کر دی گئی ہے

بجٹ بھی نہ توڑا، رقم بھی بچا لی

جبھی تو’’ نظامت‘‘ پہ لڑتے ہیں پالی

 

نمائش سے باہر، یہ خیمے، یہ ڈیرے

یہاں دیو آتے ہیں پریوں کو گھیرے

مچاتے ہیں اودھم، مہذّب لٹیرے

مرے ساتھ چلیے سویرے سویرے

ہوا سچ تو ایمان لانا پڑے گا

خباثت کو نیکی بتانا پڑے گا

٭٭٭

 

 

 

 

نمائش

 

(۴)

 

نمائش پہ اس بار بھی میرے شاگرد و احباب کچھ تبصرہ چاہتے ہیں

حیا خوردہ و فحش غزلوں کی بابت نیا رُخ نیا زاویہ چاہتے ہیں

جو ہیں صرف کانوں میں کہنے کی باتیں بہ بانگِ دُہل بر ملا چاہتے ہیں

 

ادا ہو چکے افتتاحی مراسم، سُنا ہے کہ انجام اچھا رہے گا

اشاروں کی قسمت چمکتی رہے گی، کنایوں کا پیغام اچھا رہے گا

رواں سال، آوارہ صبحوں کے جمگھٹ کا پیچھا سرِ شام اچھا رہے گا

 

’’ چراغانِ ماضی‘‘ بجھاویں توہرسو دھندلکا نہیں ہے، سویرا پڑا ہے

سویرے سے آگے جہاں تک نظر جائے چاروں طرف گھُپ اندھیرا پڑا ہے

کہاں جا رہے ہو، وہاں کچھ نہیں ہے، پریشاں نگاہی کا ڈیرا پڑا ہے

 

نمائش کے سینے پہ صد رنگ بلبوں کو بجلی کے تاروں سے گوندھا گیا ہے

بہ الفاظِ دیگر طوائف کی چولی کوسلمہ ستاروں سے گوندھا گیا ہے

ہری دُوب کو ریتلی رہگزاروں کے دونوں کناروں سے گوندھا گیا ہے

 

یہ برطانیہ مارکہ خانوادوں کی پتلون میں ایک بھدّی سی لڑکی

کرپ سول کے ہونٹ، بٹنوں کی آنکھیں، کمر اور کولھوں پہ مینڈک ربڑ کی

سپیروں کی بِینوں کی مانند شانوں پہ مُنہ مارتی ناگنیں بالچھڑ کی

 

یہ ’’ ان پورنا‘‘ ایک ہوٹل ہے جس نے غذائی مسائل کا حل پا لیا ہے

جہاں تبصرے کی ضرورت نے مجھ کو پئے نقد و تحقیق بُلوا لیا ہے

یہ حل بھی بہر حال مہنگا پڑے گا اگر قوم کی جیب دیوالیہ ہے

 

وہ دیکھو کہ وہ لکھ پتی ہے مگر صَرف کرتا ہے ’’عصمت مآبی ‘‘ پہ رقمیں

ترقی پسندوں کا لفظی محافظ، تجوری کا رُخ ’’عیش گوئی‘‘ کے حق میں

لباس اور عادت’’ مربّے کی ہر کو لپیٹا گیا ہے سنہری ورق میں ‘‘

 

مِرے دائیں بازو کی اک میز پر سِن کے قبضے سے باہر نکلتی سی عورت

اداؤں پہ جاؤ تو سیدھی سی بھولی سی باتوں پہ جاؤ تو چلتی سی عورت

دبکتی، سمٹتی، لچکتی سی عورت، سنبھلتی، مچلتی، پھسلتی سی عورت

 

یہ ان عورتوں میں سے ہے جن کے نزدیک جا کر اگر آپ سیٹی بجا دیں

تو جیسے تعاقب نے تکمیل پالی ہو بے ساختہ اس طرح مُسکرا دیں

دکانوں کے تاریک رُخ پر پہنچ کر نگاہیں تو کیا؟ جانے کیا کیا بچھا دیں

یہ شاعر سنَد یافتہ یعنی’’ داغی‘‘ نہیں چھوڑتی جن کو شیوہ بیانی

زبانوں پہ طاری قصیدوں کا چسکہ جوانوں کے چربے، غزل آنجہانی

خوشامد کے بغچے، دیانت کے دھیمے، لبوں پر مگر دعویِٰ لن ترانی

 

ادب پروری کا جسے خبط لاحق ہے، پہچان لِیجے کہ یہ شخص وہ ہے

وہ منعم کہ جس کی بڑی بھّد ہوئی شہر میں جان لیجے کہ یہ شخص وہ ہے

دو رنگی تجارت میں شہرت ہے جس کی، مری مان لیجے کہ یہ شخص وہ ہے

 

یہ ’’خیمہ‘‘ تو اُردو نہیں بلکہ عربی کا اک لفظ ہے، اس کو پنڈال کہیے

یہاں اِک بڑے آدمی کا ڈِنر ہے تو چھوٹوں کی گل جائے گی دال کہیے

لدی ہیں جو بیروں کے کاندھوں پہ، ان میں ٹرے کس کو کہیے، کسے تھال کہیے

 

کرایوں کا ادبار جن سے نہ اُٹھّا، ابھی تک دکانیں وہ خالی پڑی ہیں

انھیں میں ’’اُجالے کی دھتکار‘‘ سے بچ کے کتّے نہیں ہیں تو کُتیاں کھڑی ہیں

چھپایا ہے زر تار پردوں نے جن کو، یہ اشیا حقیقت میں ’’ دھوکا دھڑی‘‘ ہیں

جواب اس طرف مُنہ بسورے ہوئے ہیں یہی تھے دھواں دھار گنجان ہوٹل

یہ شیخوں کے ہوتے تھے، یہ سیدوں کے یہ مغلوں کا تھا اور یہ خان ہوٹل

بتاتے تھے اصلی کو ایمان اپنا، پکاتے تھے’ نقلی‘ میں پکوان ہوٹل

 

ابھی دو بجے ہیں، ابھی سے یہ سائے، یہ شلوار، برقعے، دوپٹے گھروں کو

یہ دو چار، دس، پانچ ان کا تعاقب مبارک رہے کم نظر سر دھروں کو

مگر ہم تو شاعر ہیں اور شاعروں کو پرکھنا ہی پڑتا ہے کھوٹے کھروں کو

٭٭٭

 

 

 

 

مشورہ

 

مانتی ہوں سہروں کے پھول آپ کھلتے ہیں

اور ’’بر‘‘ زمانے میں بِن تلاش ملتے ہیں

کاہلی کی مسند سے باپ بھی تو ہلتے ہیں

گھر پہ آ کے قسمت کیوں دے صدا کہ حاضر ہوں

تم پہ ہے’ بڑی‘ اب تک بِن بیاہ بیٹھی ہے

دیکھتی ہے کنبے کی رسم و راہ بیٹھی ہے

پاک دامنی سے ہے داد خواہ، بیٹھی ہے

مجھ پہ ہو تو جو مِل جائے اس کو ہاتھ پکڑا دوں

 

بختیار کی نانی! کون تھی؟ پسنہاری

احتشام کی دادی! حُسنِ بامِ بازاری

خاندانِ رشدی تھا مرکزِ غلط کاری

چھان بین اور ایسی چھان بین، بے بس ہوں

باپ میں یہاں کچھ کھوٹ، ماں وہاں اُدھر کھوٹی

یہ زکات کا پیسہ، وہ حرام کی روٹی

اس کی آبرو دُبلی، اس کے بیکَسی موٹی

اونچ نیچ کی بابت سوچ لو کہ سنتی ہوں

لڑکیوں کی دشمن ہے دوپہر جوانی کی

وَلولوں پہ کھلتی ہے آنکھ پاسبانی کی

نوکروں پہ ہوتی ہے مشق دِلستانی کی

مشورے میں دل کی بات کیوں زبان پر روکوں

کل فلاں فلاں لڑکی نام اچھال کر چل دی

انتہا پہ ہر تتلی پر نکال کر چل دی

رکھ رکھاؤ کے سر پر خاک ڈال کر چل دی

یہ مثال کافی ہے اور کیا حوالہ دوں

جانتے ہو پردے کا گھر قفس نہیں ہوتا

اونچ نیچ کا کھٹکا سو میں دس نہیں ہوتا

دس میں پانچ وہ ’ بے چین‘ جن پہ بس نہیں ہوتا

نقلِ کفر کے اندر کفر کب سمجھتی ہوں

تم ہو دوسرا کوئی اس طرح اگر کہتا

’’ سوئے ظن کا خمیازہ‘‘ سطحِ فرش پر بہتا

حملۂ حمیّت پر مارتا کہ مر رہتا

مجھ سے ہو نہیں سکتا حرفِ ناسزا سُن لوں

نظمِ خانہ داری میں تم کو آج تک ٹوکا

صَرفِ جا و بے جا پر میں نے ہاتھ کب روکا

سائرہ کا رشتہ ہے واسطہ من و تو کا

تم زمیں پہ چلتی ہو مّیں ہوا میں اُڑتا ہوں

غیر کف میں شادی کا سلسلہ نہ مانوں گا

اب و جد کو پھٹکوں گا نسل و قوم چھانوں گا

پاک صاف ہڈی پاک صاف جانوں گا

’’شجرہ ہائے ساقط‘‘کو کیا صلائے نسبت دوں

آج سے ’بڑی‘‘ تنہا باغ میں نہ جانے پائے

جس میں ’’ آہ‘‘ شامل ہو وہ ہوا نہ کھانے پائے

وہ تووہ سلیمہ بھی ڈھول پر نہ گانے پائے

نوجواں گوالا بھی گھر میں اب نہ آئے۔ کیوں ؟

 

کیا؟ بڑی کو پندرہ دن ہو گئے بخار آتے

کام کاج سے بچتے، ناشتے سے کتراتے

اور کچھ مرض ایسے جو نہیں کہے جاتے

روگ نے جڑیں پکڑیں، اب حکیم بُلوا دوں

 

ہمتیں بڑھاتا ہے ہر طبیب اخلاقاً

طبِّ یوسفی یہ ہے اور طاق پر مخزن

دق نہیں تو نسخے میں ’ کاسنی‘ کا کیا کارن

نبض کے بُرے لچھّن، تھامنا میں گرتی ہوں

دق سے موت ہے اس جا’’ احتیاط کرداری‘‘

فرد فرد قصّے پر شدّتِ نگہ داری

جو نماز پڑھتا ہو وہ کرے نہ مئے خواری

پھر یہ ’’ عصمتیں ‘‘ لاکھوں ہو رہی ہیں اغوا کیوں

٭٭٭

 

 

 

 

اندھیر نگری

 

شادؔ میری نظموں کے کارن امّاں بی دُکھ سہتی ہیں

واقف ہیں خاموش فضا میں فکر کی دھاریں بہتی ہیں

دن بھر گھر کے کام کاج میں دور دور ہی رہتی ہیں

لیکن رات کو پوتوں سے روز ایک کہانی کہتی ہیں

جس میں اکثر بادشاہ کی سات بیٹیاں ہوتی ہیں

 

بادشاہ بیٹے کی خاطر جیتے جی مر لیتا ہے

دوا، دعا، تعویذ اور گنڈے سبھی جتن کر لیتا ہے

بیگم سے ہر مُلّاسیانا ’’نذر‘‘ پیٹ بھر لیتا ہے

پہلا مرغ و مشک، دوسرا گھینٹا۱؎ گو گر لیتا ہے

قسمت دُور سے ٹھینگا دکھلاتی ہے، امیدیں روتی ہیں

 

بادشاہ ان ساتوں سے کرتا ہے کسی دن کوئی سوال

یا یہ حکم کہ لائے کوئی امرت اور جائے پاتال

یا دشمن کے ہاتھوں تاج و تخت حرم سرا پاتال

ادل بدل کر وہی مضامیں، وہی تخیّل، وہی مآل

القصہ روز امّاں بی پوتوں کو سُلا کرسوتی ہیں

مجھ کو یہ یکساں افسانے پہلے پہلے بار ہوئے

پھر آہستہ آہستہ اس عادت سے دو چار ہوئے

جس کے ہوتے مجھ کو نوبت نقّارے بیکار ہوئے

ہر غوغا سے ’’قطعِ سماعت‘‘ جب چاہا اشعار ہوئے

وہ اشعار کہ جن کی خوشبوئیں کانٹے سے چبھوتی ہیں

آج رات جب دادی کو اُنکے پوتوں نے گھیر لیا

یہ کاندھے پر چڑھ بیٹھا، اس نے تکیوں کا ڈھیر لیا

ٹھہرو، کہہ کر موصوفہ نے روئے تخاطب پھیر لیا

کھا کر پان، فسانے کا عنوان ’’ غضب اندھیر‘‘ لیا

وہ اندھیر کی جس کا منہ ارواحِ خبیثہ دھوتی ہیں

 

بولیں، نام کہانی کا ہے اندھی نگری، چوپٹ رائے

اس نگری میں بھولے بِسرے ایک گُرو دو چیلے آئے

سُنیں صدائیں، ٹکے سیر، کوئی بھاجی لے کوئی کھاجا کھائے

چیلے اس من بھاتی ریت پہ رِیجھے اور گُرو گھبرائے

بولے، جلدی بھاگو یاں موجیں دریا کو ڈبوتی ہیں

جس بستی میں چلتی ’’گاڑی‘‘ نقد مال’’ کھویا‘‘ کہلائے

چال جہاں چنچل گھوڑے کی سرپٹ اور پویا کہلائے

’’ خُوب کلاں ‘‘ رائی کا دانہ، ہوشیار سویا کہلائے

سمجھیں پاک جہاں شہدے کو، بدمَعاش دھویا کہلائے

اس بستی میں پاپ کی راہیں پُن کا خون بلوتی ہیں

 

جب ان رمزوں نے چیلوں کے ہِردیوں پر تاثیر نہ کی

گُرو نے ان کی نا سمجھی پر ہاتھ مَلے، تقریر نہ کی

چمٹا، لٹیا، ڈور اٹھا لی، چلنے میں تاخیر نہ کی

چیلوں نے تعمیرِ بدن میں لقمہ بھر تقصیر نہ کی

دنبوں کی رگ رگ میں غذائیں نشو و نما سموتی ہیں

 

چارے کی بوُ لیتے پھرتے تھے اک دن یہ دانی سانڈ

کسی سود کے مارے نے کی سودخوار کی بیوی رانڈ

دوڑے، جھپٹے، اُچھلے، کودے بے آئین پولس کے بھانڈ

دُبلے قاتل سے کترا کر لیے یہ موٹے چیلے ڈانڈ

کاٹھ کا پتلا منصف بولا بِندھ جائیں سو موتی ہیں

 

تھی تمہید کہانی کی کچھ ایسی کڑوی، دل آویز

جیسے جامِ جہاں نما کے اندر مئے نمک آمیز

جیسے ترشی کیف و خمارِ حال کو بیداری انگیز

جیسے چلتے پھرتے مُردوں میں احساسِ رستاخیز

جیسے پھواریں سوکھے کانٹوں میں موتی سے پروتی ہیں

 

میں نے پوچھا، کیوں امّاں جی! آج یہ نگری ہے کہ نہیں

جس کی زمینیں الٹی گنگا کے سیلاب کو موزوں تھیں

فرمایا، انجان نہیں تم۔ رہنے دو، یہ بات یہیں

زیرِ ’’علم‘‘ آ سکتا ہے کیا کوئی رسمِ عام کہیں

عام ہیں وہ سرکاریں جو گیہوں کے لیے جَو بوتی ہیں

۔۔۔۔۔۔

۱ ؎   سوّر کا بچہ

٭٭٭

 

 

 

بیٹے کی شادی پر

 

چھ ہزار تخمینہ کم سے کم چڑھاوے کا

راگ اور کیا لاتا زیر و بم چڑھاوے کا

اے شعیبؔ کی امّی! کون غم چڑھاوے کا

باغ و قطعہ آراضی جا کے رہن رکھتا ہوں

 

اہتمامِ شادی میں ہم ذرا جو چوکیں گے

سوبنائیں گے باتیں، سو جنم پہ تھوکیں گے

تیر نکتہ چینوں کے وہ نہیں کہ اوکیں ۱؎گے

دوستوں کا یہ عالم، دشمنوں کو کیا کوسوں

سُن رہی ہو۔ پھر دل میں رہن کی صدا گونجی

لوگ سرکٹاتے ہیں اپنی بات پر۔ کیوں جی

باغ و قطعہ آراضی، آ پڑے، تو کیا پونجی

چھَے ہزار کم کیوں ہیں ؟لو میں تم کو سمجھاؤں

گُر بچن سے بارہ سو، سُود پر منگا لیں گے

دو ہزار سے اونچے پاس کے ملا لیں گے

رنگ بھی رچا لیں گے، ناک بھی بچا لیں گے

دل سماج کا بھر جائے، دیکھنا وہ دعوت دوں

 

رہن سے نبٹنے کا غم ابھی سے کیوں آخر

جو کہی سو اُردھنگی، میں حیات ہوں آخر

نَوج! کیا میں لَونڈی ہوں ؟ کیوں نہ رائے دوں آخر

کل کی بات ہے، جھُومر میرا رہن ہی تھا کیوں ؟

 

پٹّیوں پہ کھچڑی سر، اوپری سا جچتا ہے

یہ خضاب رہنے دو، کہہ رہے تھے اچھّا ہے

کہہ سکوں گی کس کس سے، اے بہن یہ نزلہ ہے

جانتی ہیں انّا بی، کون سنہ کی پَیدا ہوں

اب انھیں بھی لے دوڑیں اپنی ہم نوائی میں

اور بات مطلب کی ڈال دی کھٹائی میں

حق نہیں ادھیڑوں کو بزمِ خود نمائی میں

بزمِ خود نمائی سے تم کھِنچو تو میں بچ جاؤں

ہاں تو بینڈ باجا بھی آ چکا، براتی بھی

مستعد ہے آتش باز، شیخ شب براتی بھی

تھم گئی’’ رقم پیشہ‘‘ ناچتی بھی گاتی بھی

عورتوں سے تم بھگتو میں سواریاں بھیجوں

کیوں بھری چلی جائیں، رتھ ہے جیل تھوڑی ہے

کیوں ٹھنسی چلی جائیں، رتھ ہے ریل تھوڑی ہے

ہاں اری چلی جائیں رتھ ہے کھیل تھوڑی ہے

بیٹھ ری سلیمہ بیٹھ، رو رہی ہے۔ تھپّڑ دوں

گھُٹ گئی مری بچی! ہٹ تو جا ترے واری

اے بُوا مرا آنچل، اے سکھی مری ساری

تومی اور بُنت چُر مُر، ہو گئی خدا ماری

پھوڑ دوں ترے دیدے، گھورنے کا بدلہ لوں

ٹھیر! یار جھنڈا خاں، یہ برات دیکھیں گے

ٹھاٹ دار باجے کی کائنات دیکھیں گے

جھانکتے ہوئے جلوے پان سات دیکھیں گے

موت آئی ہے سالے، تو ٹھہر میں چلتا ہوں

مہر چاہیے اتنا جو ادا نہ ہو پائے

چاہیے شرافت کی انتہا نہ ہو پائے

روز خانہ جنگی ہو، فیصلہ نہ ہو پائے

ورنہ سو طلاقیں ہوں، حاضرینِ محفل ! کیوں ؟

 

ڈیڑھ سو کی آمد میں کب ہے دم درود اِتنا

بِل فلاں فلاں اتنے، گُربچن کو سُود اِتنا

ختم رہن کی مدّت، صرفِ ہست و بود اتنا

تار تار گھر بھر کا، لاؤ، بیچ آتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

گنگا اشنان

 

اشنان کی تقریب میں گنگا کے کنارے

جمعیّتِ افراد پہ حاوی ہیں نظارے

کچھ حُسن فروزِ چمنِ صبح بنارس

کچھ جلوہ فروشِ سمن آرائے بہارے

وہ بھی جو جوانی کی امنگوں میں رچے ہیں

وہ بھی جو چلے آئے ہیں لاٹھی کے سہارے

ایسے بھی جنھیں رستے میں لے ڈوبی تھی ’لاری‘

ایسے بھی جو چھکڑوں نے سرِ راہ اتارے

مزدور بھی دہقان بھی تاجر بھی گدا بھی

دس بیس مہاجن ہیں تو سَو سُود کے مارے

__________

میں شاعرِ نو عمر و جواں طبع ہوں اے شادؔ

بھاتے ہیں مجھے، عاتق و اعطال و نگارے

 

جاتا ہوں سوئے نغمہ و اشعارِ مجسم

آتا ہوں سوادِ پسِ منظر سے کنارے

__________

آغوشِ ’’صریمت‘‘ میں ’حسینانِ سمن پوش‘

ذرّات ضیا پاش پہ بکھرے ہیں ستارے

مستانہ اداؤں سے جھٹکتے ہوئے چپّل

ریتی پہ ٹہلتے ہیں شفق رنگ چکارے

وہ دوڑ رہی ہے کوئی ’’ رنگین شرارت‘‘

’ ہرنی ہے کہ میدان میں بھرتی ہے طرارے‘

بستر سے کوئی اٹھ کے نہانے کو چلی ہے

آتی ہے کوئی پھول سے چہرے کو نکھارے

وہ پھاٹ میں موجوں سے کوئی کھیل رہی ہے

وہ گھاٹ پہ بیٹھی ہے کوئی پاؤں پسارے

ڈھلتے ہوئے آنچل سے کوئی دھیان ہٹائے

لپٹی ہوئی چادر میں کوئی ’’ شرم کے مارے‘‘

آنکھوں میں لیے نُدرتِ معنائے سن و سال

نظروں کو جھکائے کوئی سینے کو اُبھارے

پانی میں اُترتی ہے کوئی پاؤں جما کر

ساحل پہ اُبھرتی ہے کوئی ہاتھ پسارے

منجدھار سے ڈر ڈر کے پلٹ آتی ہے کوئی

جاتی ہے کوئی دھار میں ساتھن کے سہارے

گِن گِن کے لگاتی ہے کوئی ڈبکی پہ ڈبکی

دم بھر کوئی ٹھہری ہے کہ بالوں کو سنوارے

_________

پگھلے ہوئے بلّور کی لہروں میں ’’ جوانی‘‘

ٹھہرے ہوئے سیماب کے پہلو میں شرارے

وہ ’’سوریا پوجا‘‘ وہ ’’ ہری اوم‘‘ کی جاپیں

زاہد بھی جو سُن لے تو ’’ ہری اوم‘‘ پکارے

میلہ ہے کہ اک نظمِ حسیں ’’ غیر مرتّب‘‘

اس فکر میں بہتے تھے خیالات کے دھارے

’’ آں عُربدہ کارے‘‘ کہ وفا داخلِ حُسنش

ناگاہ پدید آمدہ آں عُربدہ کارے

دزدیدہ نگاہوں سے عیاں پرسشِ احوال

اظہارِ غمِ ہجر پہ ’’ معلوم اشارے‘‘

________

القصہ میسّر رہے ساعاتِ تقرّب

فی الجملہ اسی حال میں چھَے روز گزارے

ہر صبح اسی طور سے انوارِ نظر تاب

ہر شام اسی شان سے بھرپور نظارے

بنتے رہے بگڑے ہوئے ’’ اوقاتِ جدائی‘‘

سُلجھے رہے اُلجھے ہوئے حالات ہمارے

________

دیکھے نہ گئے پیرِ فلک سے یہ روابط

جھلّا کے ہُوا در پئے آزار ہمارے

خورشیدِ جہاں تاب کی رفتار بڑھا دی

تعجیل کے چابُک کرۂ ارض پہ مارے

لمحاتِ سُبک سیر کو پرواز کا ایما

گھڑیوں کو دبے پاؤں گزرنے کے اشارے

________

اُٹھتے ہوئے میلے کی المناک صدائیں

لُٹتی ہوئی رونق کے ’’ جنوں خیز نظارے‘‘

تجّار نے آرائشِ بازار سمیٹی

صندوق بھرے، پردۂ زرتار اُتارے

ہر سمت ہوئے یاس کے آثار ہویدا

ڈیروں سے ہوئے دُور طنابوں کے سہارے

جانے لگے گنگا کے کناروں سے قبیلے

رہ رہ کے اُجڑنے لگے گنگا کے کنارے

وہ خیمۂ دلکش بھی ہوا نذرِ حوادث

تھے میرے لیے رشکِ حرم جس کے دوارے

ہمراہیِ احباب گوارا تھی کسے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آہ!

’’ واللہ عجب چیز ہیں احباب ہمارے‘‘

آغاز میں ہنستے ہوئے ہونٹوں سے مِلے تھے

انجام میں روتی ہوئی آنکھوں سے سدھارے

٭٭٭

 

 

دیوالی

 

ہو رہے ہیں رات کے دیووں کے ہر سو اہتمام

صبح سے جلوہ نُما ہے آج دیوالی کی شام

ہو چکی گھر گھر سپیدی دھُل رہی ہیں نالیاں

پھرتی ہیں کوچوں میں مٹّی کے کھلونے والیاں

بھولی بھالی بچّیاں چنڈول پاپا کر مگن

اپنی گڑیوں کے گھروندوں میں سجی ہے انجمن

رسم کی ان حکمتوں کو کون کہہ دے گا فضول

رکھ دیے ہیں ٹھیکروں میں خانہ داری کے اصول

جیت میں ہر شخص وہ نوخیز ہو یا پختہ کار

ہار سے انکار لب ہائے مسرّت پر نثار

سرد موسم کا لڑکپن گرم چولھوں پر شباب

’’برف میں ساقی لگا لایا ہے مِینائے شراب‘‘

اَبخرے بن کر کڑھائی پر ہوا لہکی ہوئی

ہر گلی پکوان کی بو باس سے مہکی ہوئی

گھی تڑخ کر پاس والوں کی خبر لیتا ہوا

’’چَر‘‘سے شعلوں پر ٹپک جانے سے بو دیتا ہوا

اَدھ جلے ایندھن کا آنکھوں میں دھواں بھرتا ہوا

’’ نرگسِ شہلا‘‘ میں تیزابِ خزاں بھرتا ہوا

نیک دل پتنی کا حصّہ ہے مصیبت جھیلنا

پوریاں تلنے کا پس منظر ہے پاپڑ بیلنا

’’ حلوۂ بے دود‘‘ کی تھالوں کا بحرِ بے کراں

’’ کشتیاں ‘‘ بہتی ہیں یا آ جا رہی ہیں ’’ مہریاں ‘‘

سالموں کے ساتھ ہیں ٹوٹے کھلونے کھانڈ کے

مور کا سر، شیر کا دھڑ، پاؤں غائب سانڈ کے

صحن میں کِھیلیں بتاشے ابر سے برسے ہوئے

برتنوں کے پاس ’’پتّل‘‘ رات کے پرسے ہوئے

کھو گئی ہیں کام کے اندر کنواری لڑکیاں

ساتھ وہ ہمجولیاں بھی، آئی ہیں جو مہماں

ایک۔ نازک انگلیوں سے دیولے دھوتی ہوئی

دوسری، دھوئے ہوؤں کو چُن کے خوش ہوتی ہوئی

بتّیاں بَٹتی ہے چوتھی روئی کا گالا لیے

اور گُڑوا، تیسری ’’ آفت کی پرکالا ‘‘ لیے

پانچویں ہر سو دِیے ترتیب سے دھرتی چلی

اور چھٹی بتّی سجا کر تیل سے بھرتی چلی

یہ جھمکّا کر چکا آراستہ جب طاق و در

صحن سے زینے پہ دوڑا اور پہنچا بام پر

جونہی ’’روکاروں پہ چھایا‘‘ تھوڑے تھوڑے فرق سے

اوڑھ کر کملی سوادِ شام نکلا شرق سے

بجھ گئی شمعِ شفق نظروں میں کہرا بھر گیا

شام کا گیسو کھُلی آنکھوں پہ جادو کر گیا

آنکھ مَلنا تھی کہ نظاّرہ پلٹ کر رہ گیا

طور کا جلوہ چراغوں میں سمٹ کر رہ گیا

مختلف آنچل ہوا کے رُخ پہ بل کھانے لگے

روشنی میں ساریوں کے رنگ لہرانے لگے

یہ دِوالی کے مناظر، یہ نگاہیں کامیاب

یا الٰہی تا قیامت بر نہ آید آفتاب

٭٭٭

 

 

 

مہترانی

 

ٹھہر او مست بے پروا یہ کیا جھاڑو لگائی ہے

کہ ہر ہر ہاتھ پر قربان دِیدے کی صفائی ہے

وہ تبّت، یہ ترائی اور وہ لنکا بنائی ہے

 

یہ پیمانوں کے ٹکڑے یہ سبُو کے یہ سگاروں کے

یہ گلدستوں کے اُجڑے باغ یہ ار مان ہاروں کے

یہ لاشے راکھ میں لپٹے ہوئے بکھرے شراروں کے

 

یہ کمرہ دیکھ تیری نوجوانی کی طرح مَیلا

قدم لیتا ہے اُٹھ اُٹھ کر غبارِ گیسوئے لیلا

چلی آ بے دھڑک اندر، جیا کے پاؤں مت پھیلا

 

ہٹو رستے سے ورنہ سر پہ خاک انداز دیتی ہوں

نہ جانے دو گے؟ جھاڑو کو پرِ پرواز دیتی ہوں

بڑے کمرے میں ہوں گی مالکن، آواز دیتی ہوں

 

گئی بھی دوست کے ہمراہ وہ دلّی ہوا کھانے

ہوا کھانے کے اندر جذب ہیں کالج کے یارانے

’’ نگوڑی بیگمیں ہیں یا کسی بھٹّی کے پیمانے‘‘

 

مری جاں ! تو ابھی تہذیبِ مشرق کی چمیلی ہے

ابھی اُلفت میں کچّی گولیاں شوہر سے کھیلی ہے

مزے میں آج کل وہ ہے جو آزادی کی چیلی ہے

 

میں کہتا ہوں اگر اندازِ مغرب تجھ کو چھُو جائے

تو پکّے آم کی صورت مرے پہلو میں چُو جائے

نہ میری آرزو کچلے نہ تیری آبرو جائے

 

جنھیں عفّت کا محمل اک تہی دامن محافہ ہے

دیانت سے جہاں مقصود اک رنگیں لفافہ ہے

وہاں کیا کیا ترقی ہے، وہاں کیا کیا اضافہ ہے

 

مرا رُتبہ ہو یا دیوان صاحب کی بلندی ہو

کوئی اعزاز نام آور ہو یا اقبال مندی ہو

نہیں آساں جو شوہر کی طرح بیوی نہ گندی ہو

 

یہی دیوان صاحب، تھے جو نمبر دس کے آوارہ

جنھیں حاصل نہ تھا قانون کے خطرے سے چھٹکارہ

قلوپطرہ سی بیوی ہاتھ آنی تھی کہ پو بارہ

 

یہ وہ عورت کہ جس کی خود روی موٹر سے ڈولی تک

حجابِ دامنِ عصمت ہی کیا، مجروح چولی تک

شبابِ شعلہ خو کی موج دیوالی سے ہولی تک

 

بڑی دم باز، حیلہ جوُ، بڑی کھُل کھیلنے والی

جسے یہ سوچنا دُوبھر کہ یہ مہتر ہے، یہ مالی

بڑی ’’ بے تال‘‘ سازندہ جو ’’ سم‘ ‘تک بھی نہ دے خالی

 

لگا کر مجھ کو باتوں میں، نہ ڈالو ہاتھ سینے پر

کہاں تک پنجۂ فولاد نازک آبگینے پر

جو ڈاکہ ڈال کر پی جائے لعنت ایسے پینے پر

 

طپنچہ سے ہرانا چاہتے ہو تم تو میں ہاری

ہوَس کے سامنے انسان کی جاتی ہے مَت ماری

تمھیں کچھ سوجھتا بھی ہے، مرا جمپر، مری ساری

 

اری سنتی ہے! بیرا دو روپے انعام لایا ہے

مگر وہ کون خدمت ہے یہ جس کے دام لایا ہے

ستمبر میں اضافہ کے لیے پیغام لایا ہے

٭٭٭

 

 

بھکارن

 

ہے شریکِ عقدِ ابراہیم گھر بھر، صرف میں

رہ گیا چھُٹی نہ ملنے پر، ملازم ہی تو ہوں

رخصتِ مردود پر دل میں کہاں تک پیچ و تاب

نفسِ راحت خور سچ کہتا ہے استعفیٰ نہ دوں

خود پرستوں کو روا فہمائشاتِ این و آں

زیر دستوں کی خطا، گستاخیِ چون و چگوں

وقت سے پہلے ہی آ پہنچا ہوں دفتر اس لیے

خوب اطمینان سے ڈیلی رپورٹیں بھر سکوں

چار گھنٹے، اور نبٹانی کئی ہفتوں کی ڈھیل

پَے بہ پَے ڈوبے قلم کو، کام لیکن جُوں کا توں

وحدتِ شیرازۂ جمعیّتِ خاطر کہاں

جی میں ایسی آ رہی ہے میز میں سرمار لوں

توڑ دوں مہتر کی پسلی، چھوڑ دوں سقّے پہ ہاتھ

دفتری کے دھول، چپراسی کے سر پر ٹیپ دوں

گھونٹ دوں گھنٹے کی بے ہنگام ٹِک ٹِک کا گلا

کرسیاں اوٹوں میں الجھا کر حجابی نوچ لوں

پِیک دانوں کے لہو ٹھوکر سے کر دوں فرش راہ

پارٹیشن کو لگا دوں آگ، شیشے توڑ دوں

جیسے آیا ہو ابھی دفتر کے اندر زلزلہ

جیسے بھاری ہم نے کر ڈالی ہو دنیا سرنگوں

____________

کیا کہا صاحب نے موٹر مانگ لی اچھا ہوا

مل گئی مہلت کہ میزانیں دوبارہ جانچ لوں

دھیان تھا شادی میں ’بسم اللہ‘ اور اتنی غلط

آٹھ نو سترہ کے دو آنے پہ رونے تک ہنسوں

زعمِ جودت سوخت، ہر میزان ہے صحّت طلب

کوفت آخر کوفت، ساری فائلیں گھر لے چلوں

اردلی صاحب کے بنگلے سے چِپک کر رہ گیا

اس کو کیا جچتا ہے آیا کا شبابِ نیلگوں

آڑ میں آیا کے رازِ خلوتِ سرخ و سپید

شلغمی رنگت پہ یہ تاریکی جرمِ دروں

سوچتا تھا صاحبہ اور فون پر فضلو کی رٹ

اور بخشش میں اسے جوتوں کے بدلے سینٹ دوں

صاحب اندھے تو نہیں بالفرض وہ ایسے بھی ہوں

چاہیے بیرا سلامت، میں زباں سے کیوں کہوں

وہ جو شوفر نے کہا صاحب بھی کِس گھر بند ہیں

دشمنوں کے کان بہرے، روز کچھ سنتا تو ہوں

موٹی موٹی بھدّی بھدّی، گود میں کُتّا لیے

میرے پَلّے باندھ دی جائے تو گولی مار دوں

اب کہ صاحب جا چکے بنگلے، تو فضلوؔ کیا ہوا

چھپ رہا ہو گا کہیں، رستہ نہ دیکھوں چل پڑوں

___________

قفل میں کنجی گھمانے کی صدا، قدموں کی چاپ

صحن میں بھوکے کبوتر غاں غٹر غوں غائیں غوں

اُڑ کے دو شانوں پہ آ بیٹھے تو سو پیروں کے پاس

فائلیں ٹپکوں کہیں، کھونٹی پہ اچکن پھینک دوں

لاؤ چپّل بھی لگے ہاتھوں پہن لوں اور پھر

سب سے پہلے بے زبانوں کی شِکم سیری کروں

دوسرے جوتے کا فیتہ کھولتی تھیں انگلیاں

یک بیک بھرّے کبوتر میں نے یہ دیکھا کہ یوں

سامنے تھی ایک عبرت خیز تجویزِ گناہ

یعنی کشمیری بِھکارن، پیکرِ حُسنِ زبوں

پیکرِ حُسنِ زبوں پر یہ اضافہ بھی سہی

زیورِ تخریب ہستی، دخترِ دنیائے دُوں

گھر کی تنہائی کو سمجھا، میری نظروں کو پڑھا

لالہ رُخ بننے لگی افسردگیِ ذو فنوں

زلفِ خاک افشاں پہ لہرائے بخاراتِ فریب

عارضِ پژمردہ پر کھیلے مراعاتِ فزوں

گھُورتے اعضا کی ہر جھلکی’’ تعاون ماجرا‘‘

عشوہ عشوہ اشتراک آمادہ لیکن ہاں نہ ہوں

__________

دل کو اب آتا نہیں تھا بے زبانوں پر ترس

کان اب سنتے نہیں تھے، ناکَسوں کی غائیں غوں

اب مجھے فضلو کی جرأت پر نہیں تھا اعتراض

صاف تھا اب ہر گھڑی آتے تھے ٹیلی فون کیوں

اب مجھے رخصت نہ ملنے کا نہ آتا تھا خیال

اب یہ ظاہر تھا ہوئی تنسیخِ معروضات کیوں

اب مجھے آیا کی بیباکی سے ہمدردی تھی اور

اب وہ نفرت کی عمارت ہو چکی تھی واژگوں

اب وہ صورت تھی کہ جیسے رات کا جاگا ہوا

اب یہ حالت تھی کہ جیسے شدّتِ جوشِ جنوں

اب مرے پندار میں تھی اس درندے کی جھلک

جس کو بُو دیتا ہو دلدل میں پھنسی چِیتل کا خوں

_____________

چار چھوٹے نوٹ لے کر پانچ کا دے دیجیے

ٹھیک لیکن یہ جو نقلی ہے اسے میں کیا کروں

دے دیا کس نے؟ کسی عیّار نے مکّار نے

بارہا ایسا ہُوا ہے، چھوڑیے، کیا کل ملوں ؟

میں نہیں تو اپنی اس چھوٹی بہن کو لاؤں ساتھ

موہ لیتی ہے دلوں کو جس کی چشمِ پُر فسوں

وہ کما لاتی ہے اتنی بھیک پہلی رات میں

مادرِ مجہول کہتی ہے اسے کب تک گِنوں

مجھ سے وعدہ چاہتی تھی وہ، مرا یہ حال تھا

ہائے بیچارے کبوتر! لاؤ دانہ ڈال دوں

٭٭٭

 

 

ساس، بہو

 

اُدھر منھ پھیر لو اندھے کہارو

بہن دُلہن کو ڈولے سے اتارو

ملے گا سب کو حق، چیخیں نہ مارو

 

میں صدقے جاؤں آنکھوں پر بٹھا لوں

بلائیں لوں کہ سینے سے لگا لوں

ذرا ٹھہرو، گلوری تو چبا لوں

 

اسی کمرے میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شمعیں تو جلا دو

گھسے آتے ہیں، بچوں کو ہٹا دو

مری گُڑیا کو تکیے سے بٹھا دو

 

غلاف اس گاؤ پر نوّے روپے کا

بُرا لگتا ہے اس مسند پہ چیکا

کسے آتا نہیں ہے یاد’’ میکا‘‘

 

اری پھوہڑ، یہ گھر کا رنگ کیا ہے

پتیلی یہ تو وہ لوٹا پڑا ہے

بڑی دلہن سے وہ جُوتے سوا ہے

 

مری پیزار سے موتی جڑی ہے

زباں گز بھر کی چھاتی پر پڑی ہے

تری خالہ ترے منھ پر کھڑی ہے

 

سُنا اس کو بھی آزادی کا دُکھڑا

دکھاتی پِھر زمانے بھر کو مُکھڑا

مرا دل کون دِن پردے سے اُکھڑا

 

نہ جانے کیا ہے یہ فلموں کا چکّر

ہوی مغرب کہ چل دی بن سنور کر

تجھے کرنا بھی ہے محمود کا گھر

 

یہ ریڈیو سٹ، یہ گانے، یہ رسالے

بڑے لچّے، بڑے شہدے حوالے

نئی تہذیب جو کیچڑ اُچھالے

 

تھئیٹر کا تو نام اکثر سُناتھا

موٹی چھمّو سے کلوا کہہ رہا تھا

غضب تھا، ’’با وفا قاتل‘‘ بھی کیا تھا

 

میں کیا ہوں، تھیں وہ جلّادَن مری ساس

زباں کی نوک پر تھا ستّیا ناس

چڑھا رہتا تھا مرحومہ پہ خنّاس

 

مِٹھائی، ہار، خوشبو تیرا شوہر

جو لاتا ہے تو شرماتا ہے گھر بھر

خدا بخشے، پٹک دیتیں وہ لے کر

 

زن و شو کے فرائض ہم نے بیشک

کِیے چھپ چھپ کے سر انجام اب تک

لگائی تو نہیں ماتھے پہ کالک

 

ہم اُٹھتے تھے اذانوں سے بھی پہلے

سحر کے راز دانوں سے بھی پہلے

نگاہوں سے، زبانوں سے بھی پہلے

 

یہ’’ جائز عیب‘‘ ممنونِ ہُنر ہے

وہ جس کو گوشت ہی مدِّ نظر ہے

گلے کی ہڈّیوں سے باخبر ہے

 

کھلے بندوں نہانے میں نہیں شرم

جو چمکی دھوپ تو پانی ہوا گرم

خراشیں جلد پر رخسار پر ورم

 

سحر تک جانے کیا زور آزمائی

بجی پائل تو چیخی چارپائی

چھُپاتی بھی نہیں ننگی کلائی

 

کہا کیا۔ اب نہیں ہے وہ زمانہ

تنزّل میں ترقی کا بہانہ

خدایا ناک اور چوٹی بچانا

٭٭٭

 

ساس

 

نمک سالن میں اِتنا تیز۔ توبہ

مزَعفر ڈالڈا آمیز۔ توبہ

بہو، اور ساس رستاخیز۔ توبہ

 

کِسے پیٹوں، کِسے ڈالوں کٹاون

کہاں غائب ہے پن کٹّی کی ہاون

اری مُردار یہ ٹسووں کا ساون

 

ڈراتی ہے مجھے جھڑیاں لگا کر

گِرا دے چلمنیں چڑیاں اُڑا کر

کہوں کب تک نہ چل کولھے ہلا کر

 

یہی اسکول میں سیکھا ہے تو نے

’’بڑے بیباک‘‘ مغرب کے نمونے

پڑھایا ہے پڑوسن کی بہو نے

 

یہ وہ قحبہ، کہ اِک دن یاد آیا

مری ماما سے اک اُلّو منگایا

پکا کر اپنے شوہر کو کھلایا

 

جونہی کھایا کہ اس کی کٹ گئی مت

بدی پر جب اُتر آئی ہے جرأت

حدوں کو پار کر جاتی ہے عورت

 

اسی نے تجھ کو بھی تعویذ گنڈے

ہوائی قلعوں کے برجوں پہ جھنڈے

مرے سر تھی کھلا دوں ’ان کو‘ انڈے

 

مگر میں نے کہا۔ اللہ توبہ

وہ خود چلتے ہیں سیدھی راہ توبہ

ترا لگتا ہے کلّو شاہ! توبہ

 

ترا شوہر ہے اس بندی کا بیٹا

وہ کب کرتا تھا۔ میں نے سر چَپیٹا

بُرا ہوتا ہے قسمت کا لپیٹا

 

خدا سمجھے، یہ ساری کون جامہ

جو پہنے ’’ساجدہ‘‘ بن جائے ’’ شاما‘‘

لونڈر، چھوڑ کر عطرِ شماما!

 

چھچھوندر کا سا بھپکا۔ مار ڈالا

یہ کس بھڑوے نے تھا پوڈر نکالا

نگاہوں کے لیے مکڑی کا جالا

 

مسلمانوں میں یہ بِندی کی پھِٹکار

صدا دیتی نہیں شیطان کی مار

یہ ہندو ماسٹرنی سے جو ہے پیار

 

لیے پھرتی ہے بِن شوہر کا بچّہ

مگر ’’ مس صاحبہ‘‘ ہونے کا غچّہ

یہ ’’ لے پالک‘‘ اری تو جان سچّا

 

تکے جاتی ہے منھ، کچھ پھُوٹ منہ سے

نکالا چاہتی ہے کام ’’ اونہہ‘‘ سے

دو ہتّر، سر پہ دوں، سینے پہ گھونسے

٭٭٭

 

 

 

رت جگا

 

مرے پڑوس میں اک رَت جگے کی شام ہے آج

ڈھُلا ہوا ہے محلہ۔ صلائے عام ہے آج

پِٹے نہ ڈھول تو مقصد ہی نا تمام ہے آج

بہن مجھے تو بڑے زور کا زکام ہے آج

خیالِ شعر تو کیا؟ خواب تک حرام ہے آج

 

شکستِ عہد ہے منّت سے دن گزرنے میں

’’نیاز و نذر‘‘ کی حدِّ ادب ہے ڈرنے میں

اگر یقین ہے مسجد کا طاق بھرنے میں

تو چاہیے نہ تکلف بھی قرض کرنے میں

جوانیاں ہیں کہ مصروف ہیں سنورنے میں

سڑک پڑے گی تو برقعے بدن چھپا لیں گے

خدا کے گھر میں پہنچ کر نقاب اٹھا لیں گے

عشاء کے بعد نمازی گھروں کو جا لیں گے

اگر ہوئے بھی تو شرعاً نظر نہ ڈالیں گے

جو چار چھ نے تکا بھی تو کیا چھُڑا لیں گے

 

یقیں نہیں کوئی ہم پر زبان کھولے گا

دِیا نہ جائے گا موقع تو کون بولے گا

جو اپنا وزن کرے گا ہمیں بھی تولے گا

نہیں تو کھا کے طمانچے فرار ہو لے گا

جما رہے گا تو جینے سے ہاتھ دھو لے گا

 

خدا بچائے نعیمہ۔ یہ گڑ کی بھیلی ہے

انھوں نے بَنییسے شِیرے کے بھاؤ لے لی ہے

چلِیں وہاں سے کہ حاجی شریف تیلی ہے

موئے نے سرسوں میں ’لائی‘ ملا کے پیلی ہے

جھرَپ نہ آئے تو اللہ تیرا بیلی ہے

 

نِکمّیو، کبھی پکوان بھی پکایا ہے؟

نہیں تو، ماؤں نے ریندھا ہے ہم نے کھایا ہے

جبھی تو چولھے میں ایندھن بہت لگایا ہے

یہ گھان بیچ سے کچّا ہے، وہ جلایا ہے

جو’’ گلگلا‘‘ ہے وہ مینڈک بنا بنایا ہے

 

دھواں گھٹے گا یہ پردہ ذرا ہٹا دینا

رُلا رہی ہے چہیتی کو اب سُلا دینا

کھڑی ہے۔ پان کا ٹکڑا مجھے بنا دینا

نظر گزر کی کھجوریں مجھے اُٹھا دینا

موئے چراغ کی بتّی سے گُل گرا دینا

 

خموش کس لیے بیٹھی ہو آج استانی

دُلائی تان کے سو جاؤ، یہ نہیں مانی

انھیں چُپاؤ۔ کہاں کھانسنے لگیں نانی

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو انقلاب سے مٹ جائے گی پریشانی

 

غنی کی ساس بھی پہنچی تھیں ووٹ دینے کو

کئی تو آئے تھے ووٹوں کے نوٹ دینے کو

کُسُم جو آئی دُلائی کی گوٹ دینے کو

کھُلا یہ بھید کہ آئے تھے چوٹ دینے کو

کَھروں کی ذات میں لائے تھے کھوٹ دینے کو

 

بٹھا لیا ہے کرم خاں نے اپنی بیٹی کو

کرے بھی کیا وہ بچارہ جنم کی ہیٹی کو

نہیں ہے موت پہ بس’’ بوریے سمیٹی‘‘ کو

یہ کس نے ہاتھ لگایا تھا میری پیٹی کو

بُری للک ہے یہ پھندو کی سر چپیٹی کو

 

پولیس پہ ’’ مفت مسافت‘‘ رہی ہیں رکشائیں

مجالِ چون و چرا کیا جدھر بھی لے جائیں

اناج، گنج سے، جنگل سے لکڑیاں لائیں

کریں جو عُذر حوالات کی ہوا کھائیں

رکے نہ بات جو رشوت پہ، جیل ہو آئیں

کل ایک مجرمِ ناکردہ کو بچایا تھا

اصولِ کار ٹریفک پہ مُسکرایا تھا

جو آ گیا تھا زباں پر وہ کہہ سُنایا تھا

فریبِ فرض شناسی پہ بڑبڑایا تھا

ڈیفنس ایکٹ کی زد میں مگر نہ آیا تھا

 

تو اس قصور میں، شوکت کی روشنی گُل تھی

نہیں بھی تھی تو بہر حال دبے تامّل تھی

مجسٹریٹ کی نیّت سوئے تجاہل تھی

حضور جھوٹ ہے۔ مدھم نہیں تھی، بالکل تھی

گواہ غیر ثقہ، واردات ڈھلمل تھی

 

عدالتوں میں تفکر کا بند ٹوٹا ہے

جو صاف صاف گزارش کرے وہ جھوٹا ہے

لُٹے ہوؤں نے یہاں زندگی کو لوٹا ہے

غرض مقدر انصاف و عدل جھوٹا ہے

بھگت کے تین مہینے کی قید چھوٹا ہے

 

بنا ہوا ہے یہ ہنگامہ رونقِ خانہ

بپا ہے شورشِ تقسیمِ نذر و نذرانہ

تجھے پڑوس کا کچھ دھیان بھی ہے ریحانہ

غریب دوست، امیروں کے حق میں بیگانہ

مزید یہ کہ وہ شاعر ہے یعنی دیوانہ

٭٭٭

 

 

 

شادی سے پہلے

 

سانولا رنگ، بڑی آنکھ، میانہ خد و خال

میری بیوی کہ غنیمت ہے مگر ’’ اب کی سال‘‘

’’ نو مہینے‘‘ کی مصیبت ہے کوئی چوتھی بار

یعنی ہر بار گدازیِ بدن ’’رو بہ زوال‘‘

 

نو بہاروں سے پلٹ جائیے ماضی کی طرف

رُخِ جلوہ پہ بناوٹ سے ’نہ لگتا تھا کلف‘

کنواریوں میں مری بیوی بھی نظر آتی تھی

وہی اندازِ ’مہِ نو‘ وہی ’آغازِ شرف‘

 

تھا میں ’ ایف۔ اے‘ میں ابھی اور وہ ’ بی اے‘ میں مگر

ہوسٹل چلیے گا؟ احمق نہ بنو، ’دائی کے گھر‘

کوئی تانگے پہ ہے ماں، کہہ دے کہ ’آئی بیٹا‘

 

مبتدا کان میں پڑنا تھا کہ عریاں تھی خبر

آؤ کھڑکی پہ ذرا دیر کو ’دائی دادی‘

رات تھی ان کے کسی دوست کی ’’خفیہ شادی‘‘

گھر اکیلا تھا، لگی آنکھ نہ ڈر کے مارے

کوئی نوخیز بُری طرح ہوا فریادی

 

رائے جے مَل کے بغیچے میں ’ دروغہ صاحب‘

کوئی اس جرمِ محبت کو چھپا کر غائب

تم نے اس بچّے میں ’’مایا‘‘ کی جھلک بھی دیکھی

کیا کہا۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ہیڈ محرّر ہے نہ کوئی نائب

 

انھیں باتوں سے تو ہو جاتا ہے تھانہ گندا

اس کے پہلو میں کُسم اس کی بغل میں چندا

میں بھی عیّاشی میں ان سب سے نہیں ہوں کچھ کم

شبِ عشرت کے لیے دن میں کوئی تو دھندا

 

کیوں کھُبا جاتا ہے آنکھوں میں یہ ننّھا مزدور

چٹکیاں لیتا ہے دل میں ’’ گُنہہِ تحت شعور‘‘

دائی نانی نے کہیں مجھ کو ’’ پڑا پایا تھا‘‘

جانے کیوں پھینک گئے تھے مجھے ماں باپ حضور

 

آج لا حول ولا قوۃ الّا باللہ

اختیاری ہے جسارت کو ’حرامی پلّا‘

خوفِ رسوائیِ عصمت سے چھڑا کر دامن

پھر وہی’’ دعوتِ خلوت‘‘ تھی نہا کر ’’ چِھلّا‘‘

 

ہیں جو رجعت کے طرفدار انھیں رونے دو

’ زُہدِ بدکار‘ کے دامن سے بدی دھونے دو

اب نہ دائی سے تعلق ہے نہ رسوائی سے

یہ دوائیں مثلاً ’’روک دو‘‘ مت ہونے دو!

٭٭٭

 

 

سالی

 

’ میرے گھر میں کہ اِطاعت کے سوا کچھ بھی نہیں

کچھ تو ہو عشوہ و انداز و ادا کچھ بھی نہیں

پی بھی لیتے ہیں مزا منھ کا بدلنے کے لیے

نہیں ’یک رنگیِ آئینِ غذا‘ کچھ بھی نہیں

گھر کی مرغی کو بہر حال نباہا اب تک

’’دال‘‘ کے حق میں چکوروں کو نہ چاہا اب تک

پاکبازی کا نہ کھُل جائے بھرم اے ہمدم

’’گھر گرہستی‘‘میں نہ آیا تھا دو راہا اب تک

 

میری سالی ہے مجھے گو شجر ممنوعہ

’’ بھوک میں ‘‘زہر نہیں ماحضرِ ممنوعہ

’’سایۂ تاک‘‘ میں نیت پہ بھروسہ کس کو

گود میں آ کے گرے جب ثمرِ ممنوعہ

 

کچھ جوانی ہے ابھی کچھ ہے لڑکپن اس کا

دو دغا بازوں کے قبضے میں ہے جوبن اس کا

چادرِ عفّت و عصمت پہ نہ دھبّہ ہے نہ چھینٹ

داغ دھبّوں سے ابھی پاک ہے دامن اس کا

 

ہے اچھوتی، پہ طرب ناک اشارہ ڈھونڈے

ظلمتِ گوشۂ تنہا کا سہارا ڈھونڈے

باوجودے کہ عفیفہ بھی ہے دوشیزہ

دامنِ پاک نگاہی میں شرارہ ڈھونڈے

 

میری خلوت میں نہ آنا تھا، مگر آتی ہے

بام پر جائے تو زینے پہ ٹھہر جاتی ہے

کوئی بے نام سا کھٹکا ہو کہ آہٹ ہو کہ چاپ

 

چھوڑ کر ’’بوسۂ مجروح‘‘ گزر جاتی ہے

بھاگتی ہے، مگر اس طرح کہ ہاتھ آ جائے

ہاتھ آنے پہ وہ تیور کہ بدی گھبرائے

لمسِ پستاں میں جو لہریں ہیں انھیں کیا کہیے

جیسے کانٹوں میں کوئی پھُول تسلّی پائے

 

اس تسلّی کے جھکولوں میں وہ ’’ تیور‘‘ پامال

بھول جاتا ہے جسے ہاتھ چھڑانے کا خیال

مست بانہوں میں مچلتی ہوئی سینے کی تپش

عزّتِ نفس کے ماتھے پہ حرارت کی مثال

 

آپ سوچیں گے کہ یہ نصف ملاقات ہی کیا

ایک نقطے پہ ٹھہر جائیں وہ حالات ہی کیا

لوگ ’’ نیزہ‘‘ جسے کہتے ہیں وہ ’’ سوئی‘‘ تھا کبھی

پھانس کا بانس نہ بن جائے تو پھر بات ہی کیا

 

’’ ہمہ تن خلق و اطاعت‘‘ ہے مری گھر والی

کل جو موقع کی نزاکت سے ’’ کھُلی شہ‘‘ پالی

بام پر جا کے ذرا دیر’’ ہوا کھا آؤں ‘‘

اور پھر پیٹ کا ہلکا نہیں۔ کمرہ خالی؟

٭٭٭

 

 

مال روڈ

 

مہذّب زمانے کی بیٹی سڑک

درختوں کے سائے میں لیٹی سڑک

حیا باختہ، گڈ پریٹی سڑک

________

سناؤں تمھیں بات اک رات کی

کہ وہ رات اندھیری تھی برسات کی

بڑی بات ہے اتفاقات کی

________

چمکنے سے جگنو کے تھا وہ سماں

ہوا میں اُڑیں جیسے چنگاریاں

تڑپتی تھی رہ رہ کے برق تپاں

________

کیا برق نے سرچ لائٹ کا کام

ابھی عالمِ نور و ظلمت تمام

وہ کوٹھی کہ جس میں نہیں اذنِ عام

________

وہیں ایک نظاّرۂ مختصر

تصوّر میں خطرہ سا گزرا مگر

نہ ٹھہرے قدم، واہمہ جان کر

________

بناوٹ پہ جگنو کی پہنچا خیال

کہ اتنے سے کیڑے میں ہے کیا کمال

تفکّر پکارا ’’مری کیا مجال‘‘

________

نہ ہو دسترس جس پہ اس کو نہ جانچ

دھواں ہے نہ شعلہ، نہ گرمی نہ آنچ

مناسب نہیں عقل کی سات پانچ

________

زہے غمزۂ برقِ موقع شناس

ذرا ہٹ کے پھاٹک سے اوجھل کے پاس

تغزّل میں مشغول، اونچے لباس

________

لباسوں میں ہلکی سی ردّ و بدل

’’ زحافات‘‘ ’’اِدغام‘‘ کا سا عمل

مصوّر تھی القصّہ عریاں غزل

________

یہ قدرت کی کاری گری ہے جناب

گناہوں کو چمکائے جوں آفتاب

یہ تہذیبِ حاضر، یہ دارالخراب

٭٭٭

 

 

مرے محلّے کے دو گھرانوں سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

یہ طنز ہے، ہجو تو نہیں ہے کہ خاندانوں کے نام لے دوں

جنابِ سوداؔ کی طرح ضاحکؔ سے بد زبانوں کے نام لے دوں

طرب شعاروں کو گالیاں دوں نگار خانوں کے نام لے دوں

بہت سمجھ بوجھ کر’’ گناہوں کا فیضِ جاری ‘‘ کہا ہے میں نے

جنھیں شکاری کہا ہے منٹو نے، کاروباری کہا ہے میں نے

ڈھکے چھُپے کسبِ زر کو ’’ اونچی دکانداری‘‘ کہا ہے میں نے

 

غلط نہیں ہے جو اُن گھروں کا کنایۃً کچھ اتا پتا دوں

جو جانتے ہیں وہ جانتے ہیں جو بے خبر ہیں انھیں سجھا دوں

جو طنز کا مدّعا نہیں ہیں، قلم کی زد سے انھیں بچا دوں

 

جُدا جُدا ان گھروں پہ لکھنے سے طول پا جائے گا فسانہ

ہزار ایجنسیوں پہ حاوی ہے جب کہ ’’ باٹا کا کارخانہ‘‘

وہی ہے شو روم ’’ ریسٹ ہاؤس‘‘لکھا ہوا ہے جہاں زنانہ

 

وہ’’سہ دری میں ‘‘ حکیم’’ بطخا‘‘ ہے جس کی حکمت برائے حکمت

یہ بورڈ، وہ پوسٹر‘ یہ اعلان ’’سب گھریلو مطب‘‘ کی نسبت

مریض کی تندرست جیبوں کو شرط ہیں ’’ نسخہ ہائے خلوت

 

یہ ’’ گھس کھُدے‘‘ تھے کبھی مگر اب تو لاریاں چل رہی ہیں ان کی

وہ لڑکیاں پل چکی ہیں ان کی یہ لڑکیاں پل رہی ہیں ان کی

بغیر ٹکسال کے زمانے میں گِنّیاں ڈھل رہی ہیں ان کی

 

نشست گاہوں میں ابتداء ً بڑے تکلف سے چاء پانی

سُنا کے جھنکار چوڑیوں کی رجھائے گی’’ ڈیوڑھی زنانی‘‘

سلام و آداب پہلے نوکر کی معرفت اور پھر زبانی

 

امیر ہیں آپ اس لیے آپ کی شرافت میں شک نہ ہو گا

رئیس ہیں آپ اس لیے آپ سے تعلق ہتک نہ ہو گا

جو کام چاہیں گے آپ نوٹوں کے بل پہ کیوں بے دھڑک نہ ہو گا

 

تبسّموں کی کھنک سے جنبش میں آئے گا ہر مکاں کا پردہ

کبھی ہٹے گا یہاں سے پردہ کبھی ہٹے گا وہاں کا پردہ

بڑے سلیقہ کے ساتھ نانی کے بعد ٹوٹے گا ماں کا پردہ

 

کسی بھی شوہر سے بات کیجے، کریگا بیوی کا آپ سودا

جو بیٹیوں کو پسند فرمائیں آپ، کر لے گا باپ سودا

کسی بھی دلّال کے لیے ہے نہ کوئی لغزش نہ پاپ ’’سودا‘‘

 

پسند فرمائیں گے جسے آپ، وہ دبائے گی پاؤں آ کر

حناؔ بنائے گی پان، شمسہؔ شراب دے جائے گی منگا کر

کہے گی نانی کہ رات جاتی ہے سو رہو ’روشنی بجھا کر

 

سحر کو حمّام بھی کرائے گی وہ، دبائے تھے پاؤں جس نے

ہزار پانسے پلٹ پلٹ کر کیے تھے کیسہ پہ داؤں جس نے

’’بڑی کھلاڑن‘‘ ہے کورٹ کروا دیے ہیں گاؤں گراؤں جس نے

 

رہی ہے جو داشتہ، کرائے گی ناشتہ بھی سحر سے پہلے

کرے گی رخصت، عقب کے زینے سے آپ کو ہر نظر سے پہلے

گلے میں بانہیں پڑی رہیں گی عطیۂ مال و زر سے پہلے

 

ادھر گئے آپ، اور چھوٹی بہن کے کمرے نے آنکھ کھولی

ہے شرط سرمایہ دار ہونا، وہ کوئی تیلی ہو یا تنبولی

اُسی کو ملتا ہے اذنِ خلوت جو بول سکتا ہو بڑھ کے بولی

٭٭٭

 

 

 

مال زادیاں اور دلاّل

 

کس لیے تکلیف فرمائی جنابِ محترم

’’ اجنبی تشریف ارزانی‘‘ کا باعث کم سے کم؟

ہم بہی خواہِ جوانی ہیں، بڑھاپے کی قسم

شربتِ فولاد، معجونِ شباب آور نہیں

بلکہ بھوکی آتما کو شانتی دیتے ہیں ہم

آپ ہوٹل کے منیجر ہوں تو گستاخی معاف

آپ کی ہیئت پہ ہے امدادِ ملک و قوم ضم

دیجیے بنگال کی ٹھنڈی چِتاؤں پر رقم

سائباں مسجد کا، مندر کا کلس، مکتب کی چھت

اور بھی دنیا کمانے کے ہزاروں ’’ عذر و بم‘‘

 

قوم کی دُکھتی رگوں پر چٹکیاں کس واسطے

قوم کے کچھ پیٹ پل جاتے ہیں یوں بھی جانِ غم!

واسطہ رکھتے ہیں اس ہوٹل کے اس شعبے سے ہم

جس کو لازم ہے مسافر کے لیے آسودگی

یہ بھی گارنٹی کہ حد بھر مال اچھا، دام کم

توبہ توبہ نیند آتی ہے تو کھو جاتی ہے عقل

ہوش کی دنیا کنارے نکتہ دانی کالعدم

بدگمانی کو نہیں سجتا مقامِ جامِ جم

ورنہ ہوں گے آپ تو ایجنٹ ایسی فرم کے

اعتدالِ نفع سے کھلتا نہیں جس کا بھرم

ہاں انھیں پگڈنڈیوں میں جادۂ مقصود ہے

ہاں اسی رستے پہ آگے کی طرف دو اک قدم

اعتباری ہے کسی بزنس میں کچھ پہلوئے ذم

ثالثِ بالخیر کی دنیا سے رہتی ہے طلب

اصطلاحی خبط ہے دلّال کی خدمت سے رم

کارو بارِ فطرتِ مجبور پرکھا چاہیے

روز و شب سے قبل صبح و شام لیتی ہے جنم

کس نے دیکھا اتصالِ نور و ظلمت ایک دم

بیچ میں ہلکے دھندلکے کی اگر کوشش نہ ہو

لغو، دونوں وقت ملنے کا تصور یک قلم

 

 

پھول کی ایجنٹ خوشبو ہی نہیں رنگت بھی ہے

رنگ و نکہت کے سبب لطفِ مناظر اور ہم

منھ بگاڑے شیخ کا ایماں برہمن کا دھرم

ہے ہمارا رہ نما، خیّام ہو یاابنِ رشد

ان دلائل پر کہیں گے آپ کیا لایا نعم

بندہ پرور فلسفی ہوں میں نہ کوئی منطقی

آپ اور سرمغزنیِ الشراحِ کیف و کم

حدِّ معلومات میخانے سے تابیت الصّنم

دیکھتی ہے فکر میری زندگی کے موڑ سے

بزمِ سرمایہ کے اندر مصرفِ دام و دِرم

اے معاذ اللہ ! میری گرگ باراں دیدگی

آپ شاعر ہیں مگر انداز حیوانوں سے کم

سیکڑوں دیکھے، جو خبطِ شعر کا بھرتے ہیں دم

اس کی گردن میں گریباں، بیل کی رسّی پہ طنز

بال اس کے سنبلِ خودرَو بافراطِ اتم

آپ کے ظاہر کو شاعر کہہ نہیں سکتا کوئی

سہہ رہا ہو گا مگر باطن حسینوں کے ستم

خونِ دل ممنونِ طغیانِ سرشکِ چشم نم

آپ ان ہمدردیوں کے بعد کیا کہنے کو ہیں

یہ کہ تشبیہوں کا پردہ اور حورانِ ارم

 

بعض دیدہ زیب، شیرازہ مگر اُدھڑا ہوا

یعنی ’’قیر آمیز‘‘ بندش چست، استعمال کم

رہن رکھ سکتے ہیں ’’ شعر الہند‘‘ کے یہ جز و ہم

سترہ ستائیس کا غذ جن کا ہے، دو چار ہیں

بعض میں سنہ طباعت ہے پہ مرفوع القلم

جائیے لِللّٰہ! ایسی چھانٹ کر لے آئیے

جِلد نازک، خوشنما جدول، طباعت مغتنم

اور کاتب خود ستا انداز کا گوہر رقم

جوڑ لفظوں کے غنیمت ہوں، بھلے نوک اور پلک

روشنائی کم سہی لیکن نہ توہینِ ’’ قدم‘‘

انفرادی ہے مگر ہر شخص کی افتادِ طبع

آٹھ جس کو مدح سمجھیں دس اسے کہتے ہیں ذم

اس لیے محفوظ ہی رکھتے ہیں اپنی رائے ہم

دیجیے، پہلو کے دروازے پہ دستک دیجیے

للعجب! یہ سب کتابیں ہیں کہ آہوئے حرم

٭٭٭

 

ملازمہ

 

وہ نوکرانی کہ مُفلسی جس کو خدمتوں سے لگا چکی ہے

وہ عجلتِ کار کے تقاضوں میں آدمیّت گنوا چکی ہے

جو بے محابا کباب تلنے میں ہاتھ اپنا جلا چکی ہے

جو ڈانٹ پر ڈانٹ کھا چکی ہے جو آگ پر گھی گرا چکی ہے

جو اپنے بھوکے یتیم بچے کو دے کے ٹکڑا ہٹا چکی ہے

یہ لغزشیں ہیں کہ جن پہ بیگم اسے ہزاروں سُنا چکی ہے

 

زباں کی قینچی میں خنجرِ آب دار کا رنگ آ گیا ہے

ٹریل میلی پڑی ہوئی ہے چھُری پہ بھی زنگ آ گیا ہے

نفاست و شستگی کا وہ حال، خیر دل تنگ آ گیا ہے

خراب ہے چوٹٹی کی میزبانِ عقل، پاسنگ آ گیا ہے

نظر بچا کر نمک حرامی کا ناروا ڈھنگ آ گیا ہے

میں سب سمجھتی ہوں رات جس طرح دودھ بلّی گرا چکی ہے

 

سوالِ آقا، کہ پانچ بجتے ہیں، چائے تیّار کیوں نہیں ہے

’ابھی اٹھی ہوں ‘ سے مجھ کو مطلب، سحر سے بیدار کیوں نہیں ہے

تِتر بِتر ہیں لباس و بستر، تجھے سروکار کیوں نہیں ہے

بھری ہیں کیوں گھنگھنیاں سی منہ میں، زباں پہ اقرار کیوں نہیں ہے

یہ جس کے لچّھن، یہ جس کے کرتوت ہوں، خطاوار کیوں نہیں ہے

تجھے ہماری ’ عنایتِ چشم پوش‘‘ کاہل بنا چکی ہے

 

پکڑ لیے ہیں قدم زمیں نے، کھڑی ہے مجبور سر جھکائے

نہیں سزاوارِ پیشِ خدمت کہ ہونٹ کھولے زباں ہلائے

جبیں سے بیچارگی نمایاں، مصیبتِ دل کہی نہ جائے

دماغ کے ساتھ گھر کی ہر چیز جیسے لٹّو کوئی گھمائے

نظر میں بیگم کے دھندلے دھندلے نقوش جس طرح نیند آئے

یہ ایک سپنا کہ سر کو آقا کی ٹھوکروں پر جھکا چکی ہے

 

مگر تکبّر نے عاجزی کو نہ لائقِ التفات سمجھا

ستم شعاری نے سجدۂ عفوِ جرم کو واہیات سمجھا

اصیل، مردار، سست، منحوس، بد نظر، نیچ ذات سمجھا

غرورِ سرمایہ نے غریبی کو پیکرِ بے حیات سمجھا

وہ جس نے گھر بھر کی خدمتوں کو فریضۂ کائنات سمجھا

’’ ابھی نِکل جا‘‘ کا حکم پاتے ہی اپنا بستر اُٹھا چکی ہے

٭٭٭

 

 

 

مُرید کی بیوی

 

ٹھیکے دار بھلے کو آئے

نکلے دھوپ تو جاڑا جائے

صبح کو پورا ’’ مرغا‘‘ کھائے

شام سے پھر دوزخ بھڑکائے

ہم اس جنت سے بھر پائے

 

دودھ، ملائی، ماوا، مسکا

اس مہنگے میں کس کے بس کا

متوالا گنّوں کے رس کا

چائے کی لت انڈوں کا چسکا

’کور‘ بنا جو، حلق سے کھسکا

 

آئے پیٹ پجاری بن کر

جم جائے بیماری بن کر

مذہب کا بیوپاری بن کر

قرقی کی تیاری بن کر

’’پھکٹ چند گردھاری‘‘ بن کر

 

موٹا تازہ، ہٹّا کٹّا

گاما سے تھوڑا سا بٹّا

ممدو کی بیوی سے سٹّا

ہی ہی، ہا ہا، چیل جھپٹّا

کیا جانے؟ ’’کب کھائے کھٹّا‘‘

 

اے انگھڑ صحرائی۔ روڑو!

ہل میں الٹا اونٹ نہ جوڑو

چھیلا خاں ! بیلوں کو موڑو

’کوٹوار کی‘‘ چندیا توڑو

اس ’’ آلھا اودل‘‘ کو چھوڑو

 

سالے سے اک بھیلی لاؤ

دونوں بیلوں کو کِھلواؤ

خالص گھی کی ناریں۔ جاؤ

جس جا دانہ بھوسہ پاؤ

قیمت ! یہ مونچھیں ! شرماؤ

 

پِیر تمھارا ہے۔ تم جانو

ایسوں کی عظمت پہچانو

جو مانگے، دو، بے ایمانو!

پھر کہنا۔ ’’چلنے کی ٹھانو‘‘

مجھ کو کیچڑ میں مت سانو

 

ممدو کی بیوی پر تہمت

ہمسایوں کی گندی عادت

عورت ہے شہکارِ فطرت

شہکارِ فطرت ہے رغبت

پیروں کو زیبا ہے۔ تم مت۔ ۔ ۔

٭٭٭

 

 

 

ابھی جبل پور جل رہا ہے

 

’’ لگانے والے‘‘ بنا کے باتیں، لگی ہوئی کو بجھا رہے ہیں

دھوئیں کے بادل، افق کے ماتھے ’’کلنک ٹیکے‘ سجا رہے ہیں

شفق کی سُرخی مگر بتاتی ہے، طور ’’لاوا اُگل رہا ہے‘‘

ابھی جبل پور جل رہا ہے

 

چنار کی طرح شاخ در شاخ، تلملاتے ہیں ’’برق پارے‘‘

کسی نشیمن کے اس کنارے، کسی نشیمن کے اس کنارے

جو ظلم بویا گیا تھا انسان کا لہو پی کے پھل رہا ہے

ابھی جبل پور جل رہا ہے

 

یہ مسجدیں، یہ مکان، یہ مدرسے، یہ ’’بھرپور کارخانے‘‘

یہ برج و محراب و طاق و در، اور جلی کتابیں، کھُلے خزانے

نقوش کالک سے بھر گئے ہیں مگر پتہ صاف چل رہاہے

ابھی جبل پور جل رہا ہے

 

’’اکاش وانی‘‘ سنا رہی ہے فغان و فریاد و آہ اب تک

دبی دبی سسکیوں میں ڈوبی ہوئی بلکتی کراہ اب تک

مگر سُنی اَن سُنی ہوئی ہے، سِتم کا چکّر وہ چل رہا ہے

ابھی جبل پور جل رہا ہے

 

یہ ’’بھینس‘‘ رسّی نہ توڑ پائی ’’وہ گائے‘‘ جَل بھُن کے رہ گئی ہے

کبوتروں، مرغیوں کے ٹاپوں میں رُوئی سی دھُن کے رہ گئی ہے

جوازِ قہرِ خدائے عادل کے واسطے وقت ٹل رہا ہے

ابھی جبل پور جل رہا ہے

 

انار، امرود، ناشپاتی کے پیڑ جھلسے کھڑے ہیں اب تک

وہ نیم، جامن، سرس جو تیورا کے گر پڑے تھے پڑے ہیں اب تک

ہنوز ’’عبرت کے حامیوں ‘‘کو پتہ تباہی کا چل رہا ہے

ابھی جبل پور جل رہا ہے

 

یہ کارخانہ کہ جس کا پھاٹک، دھواں اُگلتا ہے منہ کو پھاڑے

جوگھُپ اندھیروں میں چور کرتے، عمل ہوا اُس پہ دن دہاڑے

یہاں یہ اسٹاک جل رہا ہے وہاں وہ شعلوں میں ڈھل رہا ہے

ابھی جبل پور جل رہا ہے

 

جو آگ لگتی ہے خود، بُجھانے کو دوڑ پڑتا ہے کل محلہ

مگی ’’لگائی گئی‘‘ پہ بھاری رہا ہے ظلم و ستم کا پلّہ

فسادیوں کا ’’پلان‘‘ تجویز کے مطابق اٹل رہا ہے

ابھی جبل پور جل رہا ہے

 

محافظوں نے ’’نظر بچا کر‘‘ وطن پناہی کی لاج رکھ لی

سیاستِ ’’رام راج‘‘ رکھ لی، کیا ستِ تخت و تاج رکھ لی

تو آمریت کا دیو، جمہوریت کے پردے میں پل رہا ہے

ابھی جبل پور جل رہا ہے

 

سُنا ہے، وحشی سپاہیوں نے جو ’’اُس کو‘‘ بوٹوں سے روند ڈالا

تو ’’ اس کو‘‘ سنگین پر اُٹھا کر ’’بھڑکتی اگنی‘‘ کے رُخ اچھالا

زمین رہ رہ کے کانپتی، آسمان تھم تھم کے چل رہا ہے

ابھی جبل پور جل رہا ہے

 

نہیں بسائے گئے ہیں اب تک جو خانہ برباد ہو چکے ہیں

نہ چین سے سو سکے ہیں اب تک، ابھی نہ جی بھرکے رو چکے ہیں

لیے ہوئے رائفل ابھی تک سروں پہ خطرہ ٹہل رہا ہے

ابھی جبل پور جل رہا ہے

 

یہ جیل کی طرح اک عمارت جو کیمپ کا کام دے رہی ہے

جو دور سے اپنے ساکنوں کا ’’پیام‘‘ انجام دے رہی ہے

اُداس چہروں سے ناموافق، غذا کا طرزِ عمل رہا ہے

ابھی جبل پور جل رہا ہے

 

نہیں ہے ہر سَو میں، ساٹھ ستّر کے پاس کچھ ’’اوڑھنا بچھونا‘‘

جو جاگنا دن کو سر بہ زانو، تو شب کو ہاتھوں کے بل پہ سونا

سحر کو جو ہاتھ سر کے نیچے رہا تھا، مفلوج و شل رہا ہے

ابھی جبل پور جل رہا ہے

 

 

کسی کو شکوہ، کہ ’’جب سے آئے ہیں، چائے پلّے نہیں پڑی ہے‘‘

کسی کا کہنا کہ ’’پیٹ سے کم غذا‘‘ کی آفت بہت بڑی ہے

وہاں ’’پِٹا تھا‘‘ اگر دوالہ، یہاں ’’کچومر نکل رہا ہے‘‘

ابھی جبل پور جل رہا ہے

 

وہ عورتیں ’’جن کے بال ببرے‘‘ یہ لڑکیاں ’’جن کے جسم ننگے‘‘

پھٹیں جو کرتوں کی آستینیں، تو ’’کٹ کے‘‘ فرشی بنے اُوٹنگے

معاونت کا سوال دو عدہ ہنوز ہونٹوں پہ چل رہا ہے

ابھی جبل پور جل رہا ہے

 

خیال یہ تھا کہ چار چھ بند کہہ کے یہ نظم ختم کر دوں

جو فرض کی تشنگی بجھا دوں تو شعر گوئی کا پیٹ بھر دوں

مگر تصور کی باگ تھامے، خیال آگے کو چل رہا ہے

ابھی جبل پور جل رہا ہے

 

سلگ رہے ہیں مرے تصور میں ’’روزناموں کے وہ تراشے‘‘

مدیر جن کے کوئی ’’اکالی‘‘ کوئی ’’مسیحی ‘‘ کوئی ’’مہاشے‘‘

بنام انسانیت و آدمیّت، یہ حادثہ سب کو کھل رہا ہے

ابھی جبل پور جل رہا ہے

 

جو دوسروں کو کِھلا رہے تھے، وہ آج خیرات کھا رہے ہیں

جو ’’مرغ و ماہی‘‘ پہ لقمہ زن تھے وہ دال سے بھات کھا رہے ہیں

جو ہاتھ ’’مونچھوں کو تاؤ دیتا تھا‘‘ آج کھُرچن پہ چل رہا ہے

ابھی جبل پور جل رہا ہے

 

بسائے گی پھر جنھیں حکومت، وہ اس عنایت سے کانپتے ہیں

جو دے چکے ہیں، انھیں اذیت، وہ ان کے تیور بھی بھانپتے ہیں

یقینِ وعدہ بھی لازمی ہو گیا ہے، جی بھی دہل رہا ہے

ابھی جبل پور جل رہا ہے

 

خبر یہ پا کر ’’وزیر اعظم کریں گے ساگر کی سمت پھیرا‘‘

محافظانِ وطن کے، اِخفائے راز سے چھٹ گیا اندھیرا

قنات اس گھر پہ تن رہی ہے تو اُس کا چھجّہ سنبھل رہا ہے

ابھی جبل پور جل رہا ہے

 

کھنڈر جدھر سے نظر نہ آئیں، وہ راہ تجویز کی گئی ہے

گھروں کے مُنہ دھو دیے گئے ہیں درست’’دہلیز‘‘ کی گئی ہے

اُگل رہے تھے جو گیس، اب اُن نلوں سے پانی اُبل رہا ہے

ابھی جبل پور جل رہا ہے

 

یہ گھر جو ہندو رئیس کاہے، کہیں گے اس کو رئیس خاں کا

بعینہٖ جیسے ’’راج موہن‘‘ نے روپ دھارا ہو’ گل زماں ‘ کا

پہن کے شلوار و پوستیں، بھوپ چند، در پر ٹہل رہا ہے

ابھی جبل پور جل رہا ہے

 

کوئی کہے گا ’’صمد کے حُقّے‘‘ کی آگ ایندھن میں جا پڑی تھی

پڑے تھے جس پر لحاف و بستر وہ کھاٹ بھی پاس ہی کھڑی تھی

اقلیّت کا یہ ’’ جُرمِ معلوم‘‘ اکثریّت پہ ڈھل رہا ہے

ابھی جبل پور جل رہا ہے

 

کہی بُدی بات تھی کہ نظمِ وطن پہ کچھ اتّہام رکھو

جلے نہ کوئی بھی قیمتی چیزاس کا خاص اہتمام رکھو

برائے تصدیقِ قتل و غارت، یہ نعرۂ بے بدل رہا ہے

ابھی جبل پور جل رہا ہے

 

کیے گئے تھے مگر اکٹھّے، بچے ہوئے بیڑیوں کے پتّے

کٹے پھٹے ٹاٹ، بوریاں، گدڑیوں کے جھلّے، غلیظ لتّے

’’شعورِ نظمِ وطن‘‘ میں لیکن یہ شور، زیٹ و زٹل رہا ہے

ابھی جبل پور جل رہا ہے

 

نظامِ جمہوریت کے رخنے ہیں، ’’اشتمالی و اشتراکی‘‘

جو یہ اشارت ہے سوویت کی تووہ شرارت ہے چائنا کی

تو ’’برف مانس‘‘ ہی گوشے گوشے میں سردخطروں پہ چل رہا ہے

ابھی جبل پور جل رہا ہے

 

مگر ہم ایسے کسی بھی فرقے کو زندگانی کا حق نہ دیں گے

زبان و صوبہ کے احتجاجوں کو قہرمانی کا حق نہ دیں گے

وہ داؤں ناکامیاب ہو گا، جو اِن صداؤں پہ چل رہا ہے

ابھی جبل پور جل رہا ہے

٭٭٭

 

 

ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے

 

**

کہے دیتے ہیں آثار و قرائن

نہ کہتے بھی، تو ہوتا راز افشا

نہیں ہوتی کوئی تدبیر ممکن

ہوئی ہے ہر شکستِ ساز افشا

جسارت، مکر میں ناکام ہو کر

رہا کرتی ہے طشت از بام ہو کر

**

’’ذرا سا منھ نکل آتا ہے سُت کر‘‘

گلابی پھول پڑ جاتے ہیں پیلے

ندامت رخ پہ رہ جاتی ہے ’پُت کر‘

بہانے کام آتے ہیں، نہ حیلے

فضا کمرے کی چغلی جڑ رہی ہے

کوئی ہل چل کوئی گڑ بڑ رہی ہے

**

یہ پھیکے ہونٹ، یہ پامال غازہ

بڑی آنکھوں میں حلقے پڑ گئے ہیں

اگر یہ وہم ہے ’’بندہ نوازہ‘‘

نگینے چوڑیوں کے جھڑ گئے ہیں

تھکن شانوں سے ڈھلکاتی ہے پلّو

یہ کیوں منھ پھیر کر ہنستا ہے کلّو

**

اگر کچھ دال میں کالا نہیں ہے

نشیبوں میں مرا کرتا ہے پانی

تصور کے لیے تالا نہیں ہے

بیاں کرتی ہے قصہ بے زبانی

صدا دیتا ہے ’’جُرمِ چاکِ دامن‘‘

عقیدت مند ہو جاتے ہیں بد ظن

**

مگر کیوں رہ گئی چولی مسک کر

نئی ساری مگر کیوں ’’ چل گئی ہے‘‘

گری جاتی ہیں تاویلیں چھلک کر

نہیں ہے خادمہ ’’ یا ٹل گئی ہے‘‘

اسے بھی تاکتا رہتا ہے جھُنڈا

غرض ماحول کا ماحول غنڈا

**

پریشاں ایوننگ پیرس کے بھپکے

کسی بدبو میں گُڈ مڈ ہو گئے ہیں

’مشامِ جان و دل ‘، نکہت کے لپکے

کھنڈے گیسومیں گڈمڈ ہو گئے ہیں

کچل کر رہ گئی جوتوں میں بِندی

دھواں دیتا ہے اب تک ’’ عودِ ہندی‘‘

**

نہانے سے کثافت دور ہو گی

ضرورت ہے کہ سر مَیلا نہ رکھیے

بڑی حد تک نقاہت دُور ہو گی

سرو سامانِ شب پھیلا نہ رکھیے

سویرے غسل کی عادی بھی ہو تم

سراسر’’نقشِ فریادی‘‘ بھی ہو تم

**

ہمیں جیسے کہ لازم ہو گئی ہو

چہل قدمی کے پردے میں ملاقات

نمودِ صبح جیسے سوگئی ہو

تعلق، بے تکلف، ہاتھ میں ہاتھ

عموماً اوس میں ٹھنڈی سڑک پر

خنک پڑتے ہوئے جذبوں کے چکّر

**

’’پورینہ‘‘ پرسویرے چھ بجے تک

رہا میں منتظر اور تم نہ آئیں

تو امڈے یوں گمان و شبہ و شک

بھلی رائیں بھی دل پر جم نہ پائیں

اسی الجھن میں بائیں آنکھ پھڑکی

لطیفہ یہ کہ تم ’’ عورت نہ لڑکی‘‘

**

تو میں ان وسوسوں کے ساتھ بھاگا

’’ نصیبِ دشمناں ‘‘ کچھ ہو گیا ہو

تمھاری کیا ’’ نہ پیچھا ہے نہ آگا‘‘

مبادا کوئی ’’ دھنیا بو گیا ہو‘‘

پہن لیتی ہے جب غیرت لبادہ

بدل سکتی ہے دم بھر میں ارادہ

**

کسی کے ساتھ چل دینے کا شوشہ

فسانے گمشدہ استانیوں کے

پکارا حافظے کا گوشہ گوشہ

جو ہتّھے چڑھ گئیں افغانیوں کے

بعید و یاد رفتہ، وارداتیں

نظریوں آئیں جیسے کل کی باتیں

**

بتاتی ہو جو سر میں درد ہو گا

طبیبوں نے بھی یہ ’’چکمہ‘‘ نہ بُوجھا

اگر انسان ’’گرم و سرد‘‘ ہو گا

یہیں تک، اس سے آگے کچھ نہ سوجھا

یہ سر کا درد، یہ چکمہ، یہ چالیں

رہی ہیں مکتبی بچوں کی ڈھالیں

**

جہاں ’’ ہچکوں پتنگوں ‘‘ کا تصور

بڑھا اتنا کہ مکتب گھر سے بدلا

اُترا آیا بہانے پر تفکر

گرایا درد کے ماتھے پہ ’’ نزلہ‘‘

اُمید و نا اُمیدی کی مدد سے

مگر بچتے ہوئے قمچی کے زد سے

**

’’بڑھے آگے‘‘ تو مولانا نے ٹوکا

گزارش کی روہانسا منھ بنا کر

کہ سر میں ٹیس کا مدّھم ٹہوکا

رہے گا ضبط کا دامن چھڑا کر

یقیں کیجے ’’پھٹا جاتا ہے ماتھا‘‘

جونہی ’’ جھوٹی قسم‘‘ کھانے لگا تھا

**

تو جیسے ’’ شیر کا حملہ ہرن پر‘‘

یہ غرّاہٹ کہ گردانیں سناؤ

تپ و لرزہ شعورِ ممتحن پر

پسیجے کچھ تو فرمایا کہ جاؤ

پہنچ کر گھر پہ تھوڑی دیر لیٹے

تو امّاں بی نے فرمایا کہ بیٹے

**

مُوئے نزلے کو میں لُوکا لگاؤں

بُوا عیدن سے اطریفل منگا لے

وہ جب تک ’’جائیں آئیں ‘‘ میں بتاؤں

پہنچ کر چھت پہ کنکوّا اُڑا لے

یہ سُننا تھا کہ اُٹھّے ہڑ بڑا کر

بھگایا درد کنکوّے اُڑا کر

**

اگر تم بھی یہ بُتّا دے رہی ہو

حقیقت بن نہیں سکتی فسانہ

یہ کیوں زمبک کا احساں لے رہی ہو

شواہد ہو نہیں سکتے نشانہ

پریدہ رنگ چغلی کھا رہا ہے

یہ پنکھا لو، پسینہ آ رہا ہے

**

پڑا بھی تھا جوہسٹریا کا دورہ

یہ سوڈے اور یہ وہسکی کی بوتل

وہ دورہ جب کہ بیلا تھا نہ بورا

منایا کس نے پھر جنگل میں منگل

مرض تھا وہ کہ شاہد باز کوئی

چھپائے کب چھپا ہے راز کوئی

**

بلا سکتی تھیں لیڈی ڈاکٹر کو

یہ آخر فون کس دن کے لیے تھا

اگر اُٹھ کر چلا جاتا میں گھر کو

مرا اصرار ’’ اس دن کے لیے تھا‘‘

ٹھہرنا ہی نہ تھااس ہوسٹل میں

نیا حملہ نہ ہو پھر آج کل میں

**

نہ دیواریں، نہ دروازہ، نہ پہرا

اُچکّا ہو کہ شہدا ہو کہ لُچّا

سبھی کے ساتھ ہے موقع سنہرا

نِرا بدّھو ہے چوکیدار ٹُچّا

مرض گھس آئے یا منڈلائے ڈاکو

مرا جاتا ہے ’’پی پی کر تماکو‘‘

**

برائے نام ہی کر لیجیے عقد

’’برائے بیت‘‘ اک ساتھی رہے گا

نہیں ہے کچھ سوالِ’’ نسیہ و نقد‘‘

درِ عصمت پہ اک ہاتھی رہے گا

احاطے میں پڑا جھوما کرے گا

تمھارے پاؤں بھی چوما کرے گا

**

نشاط آرائیوں کو آڑ دے گا

نہ پھٹکے گا تمھاری خلوتوں میں

غبار آلود دامن جھاڑ دے گا

رقیبوں سے ملے گا جلوتوں میں

یہ مت سمجھو کہ رشتہ توڑ دے گا

تمھارے حق میں رستہ چھوڑ دے گا

**

ہر اک ارشاد کی تعمیل ہو گی

مہذّب ہو چکی ہے زن مریدی

بھگت جائے گا جو تذلیل ہو گی

وہی کردارِ رشدی و شہیدی

سمجھ بیٹھے ہیں یہ مغرب کے بیباک

کہ اُن کے منھ پہ ہے فولاد کی ناک

**

عموماً سَو میں نوّے مِسٹریسیں

جوانی میں نظر آتی ہیں بیمار

جو سہہ جاتی ہیں جذبوں کی کھریسیں

جو راتوں کو رہا کرتی ہیں بیدار

کسی شب خون سے ڈرتی نہیں ہیں

کھُلی پھرتی ہیں، گھر کرتی نہیں ہیں

**

کسی عورت کو آزادی کا حیلہ

سزاوارِ یقیں ہوتا نہیں ہے

کہ نازک جنس اور پھر بے وسیلہ

رَوِش مغرب کی مارِ آستیں ہے

وہاں عصمت کا مطلب ہے لفافہ

یہاں عفّت کو لازم ہے ’’ محافہ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

جنسِ جمیل

(دھوبی اور خاں صاحب کا مکالمہ)

 

دھوبی:              بیسوا ہو کہ طوائف کہ ’’ٹکے ہائی‘‘ ہو

سامنے آئے جو شلوار بھی دھلوائی ہو؟

 

خاں صاحب:                 ’مگر ان سب کے یہاں کپڑوں کے انبار نہیں

 

دھوبی:                          چال چلتی ہے شریفوں کی زبانِ بیباک

میری بیوی کی یہ ساری ہے یہ جمپر یہ فراک

ہم بھی بن جاتے ہیں ایسے کہ خبر دار نہیں

ورنہ ہم لوگ تو دھبّوں سے لگاتے ہیں سراغ

گھر گرہستی میں سموتے نہیں تفریح کے داغ

دل میں کہتے ہیں کہ ہاں جرأتِ اظہار نہیں

 

خاں صاحب:     مگر اس عہد کے اسباب خدا کے بندے

 

دھوبی:              ایک مچھلی ہی سے تالاب ہوئے ہیں گندے

’’خدمتِ جنسِ کثیفہ نہیں ‘ زنہار نہیں

خاں صاحب:     تم نے اِن بام نشینوں کو غلط سمجھا ہے

’’بیسوا‘‘ جنس کے بھوکوں کا قرنطینہ ہے

درِ اخلاق پہ پردہ سہی، دیوار نہیں

 

نہیں ہوتی جو سرِ راہ یہ لذّت کی سبیل

روکتی جوشِ جوانی کو نہ خندق نہ فصیل

اب بھی سب کچھ ہے مگر گرمیِ بازار نہیں

٭٭٭

 

 

پُرانے کوٹ

 

ہاتھی کان، گلا ہے جس کا

استر اُدھڑا، دامن کھسکا

آخر تم کیا دو گے اِس کا

 

اِتنے کم؟ سِلوائی دے دو

پانچ نہیں تو ڈھائی دے دو

’’ فی سِلوٹ‘‘ نَو پائی دے دو

 

لو یہ گھُنڈی تکمے والا

آگے پیچھے گڑبڑ جھالا

جاہل ہے نا، ہندی کالا

 

بڈّھا !تو کیا سوچ رہا ہے

مونچھوں کو کیوں نوچ رہا ہے

شاید جاڑا کوچ رہا ہے

 

آ سردی سے پنڈ کٹا لے

کوئی اونی کوٹ چُکا لے

اس دِن کو بھگوان اٹھا لے

 

جس دن یہ پہناوا چھوڑوں

جنم کے ساتھی سے منہ موڑوں

ناسمجھوں سے کیا سر جوڑوں

 

رسّی جس تہذیب کی ڈھیلی

بوتل ہو جس چاک میں کیلی

سب جلتی ہے سوکھی گیلی

 

یہ جس کی بھی اُترن ہو گی

یا بھنگن یا کَنچن ہو گی

بیوہ، بانجھ، گرہستن ہو گی

 

ان گندے کوٹوں کے دامن

جھٹکا کھائیں گے کیسے کندن

بلکیں گے بے گنتی جیون

 

میری یہ کھدّر کی بنڈی

اُون سے اونچی روئی کی منڈی

ان کوٹوں کو کالی جھنڈی

٭٭٭

 

 

نصف بہتر

 

فخر ہے مجھ کو کہ جاہل ہے مری ’’گھر والی‘‘

اتنی جاہل ہے کہ پابندِ نماز و روزہ

شرع کی حد میں کھُلا رکھتی ہے ماتھا موزہ

ذہن آزادیِ بے باک سے بالکل خالی

*

شرط یہ تھی، مری بیوی ہو نہ ’بی اے‘ نہ مڈل

گھر گرہستی میں کہاں جبر و مقالہ کی کھپت

شوربوں کے لیے بے کار سمندر کی نپَت

فارمولوں کی رٹائی رُخِ صحت پہ چَپت

نئی تعلیم کا منشاء ہے کہ سونے پہ نِکل

*

عصمت آلود ہیں کالح نہ سہی، کانِ نمک

سَو میں دس مائلِ قرآن‘ سو کس گنتی میں

مدّنی وضع کے انسان، سو کِس گنتی میں

یا بنارس کے مسلمان، سو کس گنتی میں

ڈگریاں ہیں مری دانست میں کنواری کی ہتک

*

یہی کافی ہے کہ بازار کا سودالکھ دے

اور دھوبن سے پڑے کام تو کیا کیا ٹوکے

آستیں ’’صاد‘‘ سے لکھتی ہو، بھتیجا ٹوکے

مسکرا دے جوکسی بات پہ بچّہ ٹوکے

اپنا رومال سمجھ بوجھ کے میرا لکھ دے

*

جانِ من! کیا تجھے اندازۂ دنیا ہے یہی

مجھ کو یہ رائے نہ دیجے کہ حیا کچھ بھی نہیں

ایک عورت کے لیے گھر کے سواکچھ بھی نہیں

کام دھندوں میں پپیہوں کی صدا کچھ بھی نہیں

میری توبہ، جو زمانے کا تقاضہ ہے یہی

 

*

نغمگی، جیسے پڑوسن کے میاں کی گالی

تم جو برکھا کی ملہاروں میں مہک جاتی ہو

قوس بنتی ہوئی پینگوں میں ڈھلک جاتی ہو

کاڑھتی بھی ہو کشیدہ تو پھڑک جاتی ہو

لڑکیاں دف پہ بجاتی ہوں اگر قوالی

*

سنیماہو کہ نمائش ہو کہ میلہ کوئی

جی نہیں، ان کو مبارک ہو جو جاتی ہیں وہاں

غیر مردوں میں نقابیں جو اٹھاتی ہیں وہاں

اپنے جوبن کو تماشا جو بناتی ہیں وہاں

کیا سنَد ہے کہ نہ ہوتا ہو جھمیلہ کوئی

*

یہ تو سمجھاؤ کہ آخر وہ جھمیلا کیا ہے

سنیما جا کے نہ پلٹی تھی دُلاری کی بہن

اور نمائش سے مجیدن سی بچاری کی بہن

بھینٹ میلے کے چڑھی راج بہاری کی بہن

صاف اندھیر ہے تہذیب کا ریلا کیا ہے

*

گھر میں خالہ کے سِوا کون سیاست کا دھنی

وقتِ فرصت انھیں اخبار سنانے سے غرض

ہمہ دانی کو ’’نئے اور پرانے‘‘ سے غرض؟

کسی تاریخ کا ہو، دھاک بٹھانے سے غرض

یہی الجھن ہے تو اب رُوس کی جرمن سے ٹھنی

*

فخر ہے مجھ کو کہ جاہل ہے مری گھر والی

ذہن، آزادیِ بیباک سے بالکل خالی

٭٭٭

 

 

ان اونچے اونچے محلوں میں

 

والا رتبہ مہماں آ کر رَین بسیراکر لیتا ہے

اَونے پَونے داموں ’ فرض و عدل‘ کا سودا کر لیتا ہے

وعدوں کے طعمے دے دے کر الّو سیدھا کر لیتا ہے

گیہوں بونے کی خدمت پر آتا ہے اور جوَ بوتا ہے

ان اونچے اونچے محلوں میں اور بتائیں کیا ہوتا ہے

 

بھینٹ میں یاقوتی ’’آویزے‘‘ مرواریدی مالا۔ تحفہ

جس میں ’وہ ‘ لپٹے ہوتے ہیں وہ خوشرنگ دوشالہ۔ تحفہ

بربط، مطرب، شاہد، ساقی، بادہ، مینا، پیالا۔ تحفہ

شب بھر احساسات کے گھوڑے بیچ رہا تھا، اب سوتا ہے

ان اونچے اونچے محلوں میں اور بتائیں کیا ہوتا ہے

 

آج ڈِنر کی تیّاری ہے کل اَیٹ ہوم دیا جائے گا

عیدو کی ٹولی آئے گی، چَھیلا ڈوم لیا جائے گا

انگوروں کی روح ڈھلے گی، لیکن ’’سوم‘‘ پیا جائے گا

اب کھُل کھیلے گا، چہکے گا وہ بھی جو گُلّڑ توتا ہے

ان اونچے اونچے محلوں میں اور بتائیں کیا ہوتا ہے

 

پھیلی رات، سیاسی کھوسٹ غدّاروں نے تانتا باندھا

غم خوارانِ قوم و وطن کی ہر کوشش کو ’’ فتنہ‘‘ باندھا

اس بیکَس پر تہمت رکھی، اس ذرّے کو صحرا باندھا

لیکن چغلی خور سدا قطرہ پاتا، دریا کھوتا ہے

ان اونچے اونچے محلوں میں اور بتائیں کیا ہوتا ہے

 

اس نے تسلیماتیں داغیں، اس نے جھوٹ کی لنکا ڈھائی

رائی کو پربت ٹھہرایا، پربت کو ٹھہرایا رائی

کچھ ایسے، جیسے بھینسوں کو بین سُنائیں یا شہنائی

ایک قصیدہ’’چھتیاتا‘‘ ہے ایک ’’ خوشامد‘‘ ’’برموتا‘‘ ہے

اِن اُونچے اونچے محلوں میں اور بتائیں کیا ہوتا ہے

 

ناداروں کی ناداری پر اور اضافے کی تدبیریں

بائیں بازو والے بھی کیا زور لگائیں، کیا منھ چیریں

روز نئے ٹیکسوں کے ڈھولے، روز جفاؤں کی تعمیریں

مفلس کے ’’پِن ہول‘‘ پہ طعنہ، اپنے دامن میں ’’کھوتا‘‘ ہے

ان اونچے اونچے محلوں میں اور بتائیں کیا ہوتا ہے

 

منھ کے پنجروں سے چھُٹتی ہیں بے پر کی نوّابی ڈینگیں

شیخی کم ظرفوں کی عادت، کج فہموں کی ہابی پینگیں

ورزش پر اعصابی ڈینگیں، طاقت پر ’’ سہرابی‘‘ ڈینگیں

’’بھاری نال‘‘ اٹھانے والا رستم کیا پتّھر ڈھوتا ہے

ان اونچے اونچے محلوں میں اور بتائیں کیا ہوتا ہے

 

ایسے بے بنیاد فسانے، جن پر عقل کو رونا آئے

’’ سنگل بیرل شیر دہاں ‘‘ سے دو جنگلی ہاتھی ٹپکائے

اور نشانے کا یہ عالم، جس کو تاکیں وہ بچ جائے

مُردہ مینڈھے پہ فرمائیں ’’بھاگو شیر پڑا سوتا ہے‘‘

ان اونچے اونچے محلوں میں اور بتائیں کیا ہوتا ہے

 

’’خوب اُگاؤ‘‘ پر ہوتی ہیں جب کھیتی باڑی کی باتیں

کمروں میں بیٹھے بیٹھے ہی بیہڑ اور جھاڑی کی باتیں

جس میں ’’جاوا مرغ‘‘ جُتے تھے اس فرضی گاڑی کی باتیں

گھر میں کیاری خشک پڑی ہے کہتے ہیں بنجر جوتا ہے

ان اونچے اونچے محلوں میں اور بتائیں کیا ہوتا ہے

 

خاصے کے رہوار کو اک دن ’اینجانب‘ نے ایڑ لگائی

کیسا اونچا، کیسا نیچا، کیسی خندق، کیسی کھائی

سانبھر آپس میں ٹکرائے، ہرنوں نے رفتار بھلائی

اس رہوار کے آگے شیریں کا گلگوں ’’مٹّھس خوتہ‘‘ ہے

ان اونچے اونچے محلوں میں اور بتائیں کیا ہوتا ہے

 

’’قدرِ گوہر شاہ بداند‘‘ کا دعویٰ کُچھ اُکھڑا اُکھڑا

جب بھی آجائے گا کوئی ہیروں کا تاجر ’’جل کُکڑا‘‘

’’ لعلِ بدخشاں ‘‘ کو سمجھیں گے ’’کنچ کے پیپر ویٹ‘‘ کا ٹکڑا

نیشاپوری فیروزے کو کہہ دیں گے، نیلا تھوتھا ہے

ان اونچے اونچے محلوں میں اور بتائیں کیا ہوتا ہے

 

اکثر اکثر برپا ہوتی رہتی ہے اک ’’رومی محفل‘‘

سارے گاما، رے گاما پا، ترکٹ دھُرکٹ، دانتا کِلکل

آنکھیں رقّاصہ سے زائد بانوئے خانہ پر مائل

طبلہ چھاتی پیٹ رہا ہوتا ہے اور بیلا روتا ہے

ان اونچے اونچے محلوں میں اور بتائیں کیا ہوتا ہے

 

غیرت کا دروازہ چوپٹ، چوکھٹ یا دہلیز نہیں ہے

غیر حقیقی اور حقیقی میں کوئی تمئیز نہیں ہے

عصمت کو ایمان بنا لیں، عصمت ایسی چیز نہیں ہے

یہ ’’جوڑا‘‘ جو ناچ رہا ہے اک بیٹی ہے اک پوتا ہے

ان اونچے اونچے محلوں میں اور بتائیں کیا ہوتا ہے

 

رنگ بدلتا ہے خربوزہ، خربوزے کی دیکھا دیکھی

’’علیا خاتونیں ‘‘ گدرائیں، ہوش سنبھالا، دنیا دیکھی

غیرت کو کجلاتے دیکھا، غفلت محوِ تماشا دیکھی

کنوارا جھلّا، کنواری سیپی میں جھوٹے موتی بوتا ہے

ان اونچے اونچے محلوں میں اور بتائیں کیا ہوتا ہے

 

کھاتا ہے پیراک بھی پائیں باغ کی موتی جھیل میں غوطے

الفت کی تکمیل میں اچّھو، لذّت کی تحصیل میں غوطے

خواہش کے ارشاد میں ڈُبکی، حکموں کی تعمیل میں غوطے

چہرے پر کالک ملتا ہے، دامن کے دھبّے دھوتا ہے

ان اونچے اونچے محلوں میں اور بتائیں کیا ہوتا ہے

 

قاضی صاحب درشن دیتے ہیں ہنگامِ طلاق ارزانی

پاتا ہے سونے کے سکّے، جرمِ جوازِ ’’عقدِ ثانی‘‘

نافرمانی پر تاویلیں، تاویلیں کیا آنا کانی

سنتے آئے تھے یہ قاضی اِبن الوقت کا پڑپوتا ہے

ان اونچے اونچے محلوں میں اور بتائیں کیا ہوتا ہے

 

کفرانِ رغبت کا دورہ پڑتا ہے سنڈے کے سنڈے

’’پِک اپ‘‘ میں لائے جاتے ہیں چُن چُن کے موٹے مسٹنڈے

ہر ہفتے بجتے ہیں شب بھر ’’نیلے پیلے کالے ڈنڈے‘‘

دن میں جس کو دیکھو یا تو اونگھ رہا ہے یاسوتا ہے

ان اونچے اونچے محلوں میں اور بتائیں کیا ہوتا ہے

 

عشرت کا مجمع رہتا ہے ان اونچے اونچے محلوں میں

غفلت کا بجرا بہتا ہے ان اونچے اونچے محلوں میں

کون ہماری سی کہتا ہے ان اونچے اونچے محلوں میں

ہم دریا ہیں اور دریا اپنے منفذ پر اک سوتا ہے

ان اونچے اونچے محلوں میں اور بتائیں کیا ہوتا ہے

٭٭٭

 

 

رنگیلے راجا کی مَوت

 

طبیبانِ شاہی بھی ہیں ڈاکٹر بھی

یہ نرسیں، یہ جرّاح، یہ چارہ گر بھی

سپہہ دارِ نو عمر و کرنل سمرؔ بھی

کئی دانت چاٹے ہوئے پنشنر بھی

نہیں کوئی اتنا جو مجھ کو بچا لے

ہُوا جا رہا ہوں قضا کے حوالے

 

میں کہتا تھا دیکھو یہ ڈینگیں نہ ہانکو

خوشامد پہ قابو میں رکھّو زباں کو

چھُڑا لو مصیبت سے مجھ نِیم جاں کو

نمک خوارِ دولت ہو، کونے نہ جھانکو

مرے خوانِ یغما کے اے ریزہ چینو!

یہی شرطِ حقِّ نمک تھی۔ کمینو!

 

یہ دو سو محل کس مرض کی دوا ہیں

یہ رانی یہ پٹ رانیاں کیا بلا ہیں

مریں کوچبانوں پہ، سقّوں کو چاہیں

ہے تریا چرِتّر، یہ آنسو، یہ آہیں

کوئی جام دو، سَر پھٹا جا رہا ہے

نگاہوں سے پردہ ہٹا جا رہا ہے

 

نکالو، یہ چمپاؔ کا شوہر کھڑا ہے

یہ زینت محل کا منگیتر کھڑا ہے

یہ سردارِ ملّت، وہ رہبر کھڑا ہے

گروہِ جوانانِ مضطر کھڑا ہے

وہ سب جی اٹھے جو فنا ہو چکے تھے

مرے ہاتھ سے خاکِ پا ہو چکے تھے

 

یہ وہ کنواریاں، جو اُڑا دی گئی تھیں

اُڑا دی، سُلادی، چھُپا دی گئی تھیں

چھُپا دی، مِٹا دی، جلا دی گئی تھیں

جلا دی، دبا دی، بہا دی گئی تھیں

بھیانک ارادوں سے للکارتی ہیں

مرے حال پر قہقہے مارتی ہیں

 

وہ بوڑھا جو آیا تھا بیٹی کے آڑے

وہ گلشن وہ گلبن جو میں نے اجاڑے

وہ بوڑھی جو لوٹی گئی دن دہاڑے

وہ کلیاں، کِھلی تھیں جو راجا کے باڑے

وہ سب ظلم کی ٹہنیاں پھل چکی ہیں

بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈھل چکی ہیں

یہ غوغا سُنا۔ طبلِ جنگی بجا دو

درِ قلعہ پر فوجِ شاہی لگا دو

ہر اِک بُرج پر چار توپیں چڑھا دو

بٹھا دو فصیلوں پہ پہرے بٹھا دو

وہ خود سر جو گاتے ہیں قومی ترانہ

بنا دو انھیں گولیوں کا نشانہ

 

بڑھے آرہے ہیں وطن کے پجاری

نظر آ رہی ہے شرارت تمھاری

دھرا رہ گیا غرّۂ قلعہ داری

کوئی توپ داغی کوئی باڑھ ماری؟

یہ حالات اور تم جہاں تھے وہیں ہو

سمجھتا ہوں سب دشنۂ آستیں کو

 

کھُلا اب کہ تم تھے چھُپے انقلابی

محل ڈھائے دیتی ہے خانہ خرابی

کلَس کانپ اُٹھّے گِری ماہتابی

نکل جاؤ باہر گِرا کر حجابی

مری سمت حیرت سے کیا دیکھتے ہو

تماشائے عبرت فزا دیکھتے ہو

 

وہ کمرے میں گھُس آئے پستول لانا

بٹھا کر مجھے گاؤ تکیہ لگانا

پڑے گا مجھے خود ہی زور آزمانا

کوئی ہے۔ ذرا خود و بکتر اُٹھانا

سنبھل جاؤ اے بد معاشو! اُٹھا میں

گھُٹا دم گھُٹا۔ ہائے لینا چلا میں

٭٭٭

 

 

اختلافات

 

جہاں گنگا سے کٹ جاتی ہیں شاخیں

جہاں شاخوں میں بٹ جاتی ہیں شاخیں

جہاں رستے سے ہٹ جاتی ہیں شاخیں

جہاں ریتی سے پٹ جاتی ہیں شاخیں

وہاں رہتی نہیں گنگا کی دھارا

یہی اے شادؔ ہے عالم ہمارا

٭٭٭

 

 

پروڈیوسر

 

خود ہی موسیقار خود عکاس بھی

خود ہی اسٹوری کا مارے ناس بھی

ڈائرکٹر بھی ’’ انِل بسواس ‘‘بھی

 

ایکٹر بھی خود ہی، ایڈیٹر بھی آپ

باپ خود، بیٹا بھی خود، شوہر بھی آپ

خود ہی پبلشر، پروڈیوسر بھی آپ

 

ثقلِ لہجہ پر گراں ہے شین قاف

’’ماف‘‘ سمجھوگے جو بولے گا ’’ معاف‘‘

فلم کے اندر زباں شستہ و صاف

 

جیسے پردے میں کوئی ’’اُردو فروش‘‘

گیت گپتاؔ کے لکھیں حضرت ’’خموش‘‘

ڈوب مر اے مبتلائے ناؤ نوش!

 

آ رہا ہے یاد مجھ کو وہ طبیب

جس کے ہاں بنتی تھی معجونِ عجیب

مینڈکوں سے لے کے تا ’’عودِ صلیب‘‘

 

درد کیسا بھی ہو یہ تریاک ہے

ذوقِ شاہانِ اودھ کی ناک ہے

اگلے وقتوں کی ’’سپاری پاک‘‘ ہے

 

عورتوں کی دوست مردوں سے سوا

کھائی اور ہونے لگے ’’باقاعدہ‘‘

گھر میں ’’ لیڈی ڈاکٹر‘‘ سے واسطہ

 

سہل ہو جائیں گے اب بچّوں کے دانت

اب کسی کے بھی نہیں اُترے گی آنت

ایک امرت اس کی دھارا بھانت بھانت

 

یہ پروڈیوسر، یہ بے ہمتا طبیب

’’کھیل‘‘ اِس کا اُس کی معجونِ عجیب

خود ستا، خود ساز لیکن خوش نصیب

٭٭٭

 

 

رسمی قید خانے

 

وہ بھولی لڑکیاں جو بند رہتی ہیں مکانوں میں

’’مکانوں سے ‘‘یہ مطلب ہے کہ رسمی قید خانوں میں

’’صدائے حکمِ پردہ‘‘ گونجتی رہتی ہے کانوں میں

انھیں ’’ذہنیّتِ آزاد‘‘ کے معنی نہ سوجھیں گے

جسے وہ خود نہ بوجھیں ان کے بچّے خاک بوجھیں گے

 

انھیں تعلیم دی جائے اُمورِ خانہ داری تک

گھریلو خانہ جنگی سے رواجِ ہرزہ کاری تک

نظر کی وسعتیں محدود ہوں گوٹے کناری تک

اگر ماحول کے سانچے میں ڈھل سکتی ہے خو بے شک

تو ان کی گود کے پھولوں میں آزادی کی بو بے شک

 

نظامِ اقتصادیات سے یہ بے تعلق ہیں

اُمورِ حرّیت آیات سے یہ بے تعلق ہیں

تمیزِ نبضِ احساسات سے یہ بے تعلق ہیں

قیامت ہے کہ ’’تہذیبِ وطن‘‘ حصہ نہیں اِن کا

سیاست کی کتابوں میں کوئی قصّہ نہیں ان کا

 

گِنی جاتی ہیں تنقیضِ تمدّن ان کی تدبیریں

انھیں زیبا نہیں منھ کھول کر جلسوں میں تقریریں

تو کیادلچسپ ایوانوں کی رونق ہیں یہ’’ تصویریں ‘‘

نہیں یہ مردِ خود اندیش کی مطلب پرستی ہے

نسائیّت عروجِ قوم کے حق میں ترستی ہے

 

انھیں اسلام نے جو مرتبہ بخشا وہ ظاہر ہے

عطا کی جو’’مساواتِ چمن آرا‘‘ وہ ظاہر ہے

معیّن تھا جو ان کے واسطے پردا وہ ظاہر ہے

’’گماں ‘‘ نے ’’اعتمادِ پاک دامانی‘‘ بدل ڈالا

’’شریکِ زندگی‘‘ کے ’’ حسنِ معنی‘‘ کو کچل ڈالا

 

انھیں پابندِ ’’خشت و گِل‘‘ بنانے سے نتیجہ کیا؟

حفاظت کے لیے محمل سجانے سے نتیجہ کیا؟

فروغِ جوہرِ کامل چھپانے سے نتیجہ کیا؟

دکھائے گا انھیں رستہ ’’ چراغِ نورِ ایمانی‘‘

اگر ہم سب انھیں کو سونپ دیں ان کی نگہ بانی

 

ہلالِ علم سے ان کی جبینیں جگمگا دیں ہم

تفکّر کے پروں میں شہپرِ جودت بڑھا دیں ہم

دلوں سے تیرگی آنکھوں سے کم بینی مٹا دیں ہم

جہیزوں میں انھیں ملبوس رنگیں دیں، نہ گہنا دیں

مگر ’’آزادیِ برحق‘‘ کے ’’چندر ہار‘‘ پہنا دیں

 

وہ مائیں جن کے بچّے قوم کی زینت کہاتے ہیں

وہ بہنیں جن کے بھائی دیش کی قسمت جگاتے ہیں

’’حقوقِ واقعی‘‘ سے ہم جنھیں محروم پاتے ہیں

نہ روکیں ان کو پیکارِ عمل میں ساتھ آنے سے

نہ ٹوکیں شوق میں آزادیوں کے گیت گانے سے

٭٭٭

 

 

 

دادی اور پوتی

 

اذان ہوتے ہی والدہ صاحبہ نے طاعت سے لَو لگائی

میں ڈر رہا تھا۔ قدم کی آہٹ پہ لیٹ کر تان لی رضائی

کھڑی رہیں تھوڑی دیر خاموش، پھر جو کی طبع آزمائی

بھلی ہوئی شاعری نگوڑی، لحاف چھُوٹے نہ چارپائی

بس ایک پوتی ہی گھر میں ایسی تھی جس نے بے طرح داد پائی

 

نماز پڑھنے کے بعد، جی ہاں، کلامِ اقدس کا ایک پارہ

اٹھی، بھرا کیتلی میں پانی، دھری انگیٹھی پہ، دودھ اُتارا

ابھی سموسے بنا رہی تھی کہ فاخرہؔ نے مجھے پکارا

گئی، تو بولی کہ منجھلے بھائی نے میری بلّی کے رول مارا

چپت دکھا کر کہا، خبردار! یہ شرارت نہ ہو دوبارا

بڑی ہی اچھی مِری سعیدہؔ !اُٹھا لیا گھر کا بوجھ سارا

 

نصیب اچھا ہو، عمر کے ہر برس پہ سو برکتیں نچھاور

تو اب اجازت ہے دادی امّاں، خوشی سے، لیکن دَوا پِلا کر

مزاج کیسا ہے آج امّی! بہت افاقہ ہے جانِ مادر!

جو آپ چاہیں تو سر دبا دوں ؟ نہیں، پہنچنا ہے ’’ان کو ‘‘دفتر

حبیب جائیں گے مدرسہ کو، لطیف جائیں گے نوکری پر

تلے نہیں ہیں کباب اب تک، گلے نہیں ہیں ابھی چقندر

 

ہماری اچکن کی جیب آپا! ہماری کاپی پھٹی پڑی ہے

سلیٹ کی پینسل کہاں ہے، قلم زمیں پر کٹی پڑی ہے

کسی بھی داوات میں سیاہی نہیں، پھپھوندی اٹی پڑی ہے

کہاں چلے؟ ٹوپیوں کو دیکھا بھی؟ دھول دھانی ڈٹی پڑی ہے

کہیں سے سُن لیجیے کہ ’’ راہِ نجات‘‘ مجھ کو رٹی پڑی ہے

توکل سنوں گی کہ دادی امّاں کے سر میں خشکی پٹی پڑی ہے

٭٭٭

 

 

پُرانا قلعہ

 

مقدر عداوت پہ جب ڈٹ پڑا ہے

زمیں ہل گئی آسماں پھٹ پڑا ہے

درِ قلعہ بے چارہ چوپٹ پڑا ہے

وہ کچرا، وہ کوڑا وہ کرکٹ پڑا ہے

ٹہلتے نہیں پانیئر کے سپاہی

تماشہ کر اے بندۂ تاجِ شاہی

 

کواڑوں پہ دھولوں کی پپڑی جمی ہے

گری ہے تو گُل میخ پر آ تھمی ہے

پھپھوندی میں تھوڑی کسر ہے، کمی ہے

پلستر پہ نونی، زمیں پر نمی ہے

’’غلاموں کی گردش‘‘ غلاموں سے خالی

نہ مہتر نہ دھوبی نہ سقّے نہ مالی

 

سرِ بام محراب، ڈنکا نہ نوبت

نفیری کی شامت نہ دھونسے کی دُرگت

نہ فرمانِ شوکت نہ اعلانِ عظمت

اُجالے کی دُشمن اندھیرے کی شدّت

بجھے دن پہ ہوتی تھی روشن جو چوکی

وہ اب منتظر ہے ستاروں کی ضو کی

 

خزاں کا عمل خشک پیڑوں کے تھالے

بہاروں کا موسم خزاں کے حوالے

یہ سبزے پہ کتّے، وہ پتّوں پہ جالے

بہا اشک چشمِ بصیرت، بہا لے

اُداسی کا منظر عمارت کے جنگلے

علاقے کے ویران سے ڈاک بنگلے

 

یہ مچّھی بھون جس پہ پردہ نہ اوٹے

ضیا تاب کلسوں کو پالِش کے ٹوٹے

نہ مانجھے کوئی جیسے پیتل کے لوٹے

سیہ پڑ گئے مچھلیوں کے پپوٹے

زمانے کا ہر وار پڑتا ہے تگڑا

پھریرے نے جھنڈے کا دامن نہ پکڑا

 

نہیں اب وہ بانات کا لال پردہ

نکمّے محلات کا لال پردہ

گناہوں کے دن رات کا لال پردہ

سیہ کار حالات کا لال پردہ

نگہبان تھے جس کے بونے پہاڑی

کھڑی ہے وہاں ایک گلے کی باڑی

 

پرندہ یہاں پر نہیں مارتا تھا

مگر بوالہوس ناگ پھنکارتا تھا

شبابوں کے دامن پہ منھ مارتا تھا

زمانہ یہاں عصمتیں بارتا تھا!

یہاں بھینٹ چڑھنے کو آتی تھی بھیڑیں

مناسب نہیں ہے کہ یہ ذکر چھیڑیں

 

جواں سال خلّاصنوں کا عمل تھا

مگر ان سے مشروط قومی خلل تھا

مچھیرن تھی ماں اور باوا مغل تھا

طلا کار نفسوں کو سب برمحل تھا

اگر عزم عصیاں پہ قدرت نہ ہوتی

حکیمانِ حاذِق جگاتے تھے جوتی

 

اگر تھیں بھی شوہر زدہ خادمائیں

یہ قانون تھا ساتھ بچّے نہ لائیں

سجیں خوب، اپنے کو دلکش بنائیں

تو ظلِّ الٰہی کے مُکّی لگائیں

جنم لے بھی لیتی جو یہ روسیاہی

’’پدم‘‘ سے وہ بنتا تھا اولاد شاہی

 

شریفوں پہ اطلاق دار و رسن تھا

گدھوں کی حفاظت میں شیروں کا بن تھا

رذیلوں کے ہاتھوں میں نظمِ وطن تھا

غرض جو رتن جوت تھا، نورتن تھا

اگر قرۃ العین تحفے میں لاتا

کراؤن، چچا باپ جاگیر پاتا

 

بڑا چلبلا ہے تخیّل کا گھوڑا

وہ بابو کا گڈھ تم نے دیکھا تو ہو گا

جو نقرہ بچھیری تو مشکی بچھیرا

نتیجے میں ہوتے تھے ابلق ہی پیدا

ہر اک مادیاں میرؔجی کی سی گھوڑی

جو پٹھوں میں بھاری تو دانتوں میں تھوڑی

 

کئی بار یہ گھوڑیاں ہنہنائیں

پچھاڑی اکھیڑی، لگا میں تڑائیں

کھتے سے نکل کر طویلوں میں آئیں

جو نَر مِل گیا اس سے آنکھیں لڑائیں

اولیلوں پہ آتی ہے جس وقت مادہ

یہاں استفادہ، وہاں استفادہ

 

جو اِن استفادوں سے تخلیق پائے

وہ تحقیق زادوں میں خچّر کہائے

یہ تازی کے پٹّھو یہ ویلر کے جائے

مگر میر مفتی نے شجرے بنائے

حسب اور نسب پر بجے شادیانے

شعوروں پہ تانے گئے شامیانے

 

لگاتا ہوں پھندنے اِدھر کے اُدھر کے

یہ انداز ہیں میری فکر و نظر کے

کہ لکھتا نہیں نظم خاکوں میں بھر کے

ملیں تاکہ میدان عرضِ ہُنر کے

یہ بابو کا گڑھ بھی یوں ہی آن دھمکا

نہ مقصود اُبھرا نہ مضمون چمکا

 

نہیں گو ہمیں تاجِ شاہی گوارا

نہ شاہوں کی عالم پناہی گوارہ

نہ عالم پناہانِ واہی گوارا

نہیں پھر بھی ایسی تباہی گوارا

کہ شاہی عصا گھٹ کے رہ جائے سونٹا

شہنشاہِ دوراں لگائے لنگوٹا

 

کسی کی تباہی پہ ہنسنا بُرا ہے

مقامِ تامّل ہے عبرت کی جا ہے

ہرن ہو گیا نشّہ، ہوش آ گیا ہے

یہ ہوتا رہے گا، یہ ہوتا رہا ہے

تشدّد کا بدلہ چکاتی ہے قدرت

رعونت کا پرچم جھکاتی ہے قدرت

٭٭٭

 

 

گُل کاریِ تصوّر

 

فرصتِ ہجر میں اکثر اکثر

ہم کہیں اور، نگاہیں ہم پر

کِس کو اعجازِ تصور کی خبر

حُسنِ تخئیل و تصور یکسر

تو مرے پاس، زہے ذوقِ نظر

شانۂ و زلفِ معنبر کی قسم

تیری آنکھوں کی، ترے سر کی قسم

میں ترے پاس پہنچ جاتا ہوں

 

چاندنی کے رُخِ انور کی قسم

تو مرے پاس، مقدّر کی قسم

سُن کے اربابِ طرب کے قصّے

قرب و تسکینِ نظر کے چرچے

میں ترے پاس پہنچ جاتا ہوں

 

شہپرِ فکر رسا کے صدقے

تو مرے پاس، کہوں ؟ کون کہے

دوست گلزار میں لاتے ہیں مجھے

پھول ہنس ہنس کے ستاتے ہیں مجھے

میں ترے پاس پہنچ جاتا ہوں

 

لوگ حیران سا پاتے ہیں مجھے

تو مرے پاس، بناتے ہیں مجھے

دل بہلتا ہے کتابوں سے کہیں

سر پٹکتے ہیں مضامینِ حسیں

میں ترے پاس پہنچ جاتا ہوں

 

فلسفہ مانعِ تخئیل نہیں

تو مرے پاس، مگر کس کو یقیں

اس سے زائد بھی محبت کیا ہو

نہ ہو یہ نقضِ شریعت، یا ہو

میں ترے پاس پہنچ جاتا ہوں

 

کوئی مندر میں بھجن گاتا ہو

تو مرے پاس، اگر چرچا ہو

٭٭٭

 

 

جبر و قدر

 

گھیر لی تہی ہم نے کتّوں سے جہاں ہرنوں کی ڈار

تھے اسی اوجھل میں تیتر محوِ ذکرِ کردگار

شام کو گھر کی طرف پلٹے بہ ایں قول و قرار

کل سحر کے وقت کھیلا جائے گا ان کا شکار

سب کو چُن چُن کر فنا کے گھاٹ اتارا جائے گا

سر نکالا نیستاں سے جس نے، مارا جائے گا

 

ایک ساعت بھی نہ گزری تھی، ابھی بارش رُکے

ہوکے ٹھنڈے ابر کے ٹکڑے زمیں پر جھُک پڑے

رات میں بلّی کی آنکھیں تھیں کہ برقی قمقمے

بھا پ بنتی تھی نفس کی آمد و شد کُہر سے

یوں جلن محسوس ہوتی تھی پلک ملنے کے ساتھ

جیسے چھو جاتے ہیں آنکھوں سے کبھی مرچوں کے ہاتھ

 

کھا کے سردی، منھ سے ہر بندوق دیتی تھی دھواں

اوس میں ڈوبے ہوئے گنّوں کا تاروں پر گماں

بُوٹ اور جیبوں میں ٹھٹھری جا رہی تھیں اُنگلیاں

پھر بھی اس شیخی میں تھی مصروف ہر اکڑی زباں

ہم شکاری ہیں، شکاری اور سردی کا سوال!

ایک اوچھا سا تصوّر، ایک ادنیٰ سا خیال

 

جا رہے تھے کیفِ خود بینی میں ہم مخمور سے

شہر کی حد پر ہوئے دو چار اُس مغرور سے

راہ رَو اندھا نظر آتا ہے جس کو دُور سے

جس کی خود مختاریاں بے زار ہیں مجبور سے

جس کو رہتی ہے رعایا سے ادب کی آرزو

چاہتا ہے ’’بندہ پرور‘‘ شاملِ ہر گفتگو

 

پھر نظر آئی وہ موٹر کبک سیر و موج رنگ

جس کا پردہ دستِ کافوری میں اک گوشے پہ تنگ

تھا کبھی حاضر، کبھی غائب شبابِ شوخ و شنگ

مسکراتی تھی حیا پر بے حجابی کی اُمنگ

تہہ بہ تہہ غازہ نگاہِ جلوہ بیں پر بار تھا

حُسن سے زاید فریبِ حُسن کا پرچار تھا

 

پا پیادہ پھر کئی جوڑے ملے آتے ہوئے

مشرقی رسمِ چہل قدمی سے کتراتے ہوئے

گھر میں پائیں باغ، جنگل کی ہوا کھاتے ہوئے

سر بسر مغرب کی نقّالی پہ اتراتے ہوئے

کثرتِ بادہ سے ہر شب خوابِ نوشیں میں خلل

یہ ہوا کھانا مگر اس نقصِ صحّت کا بدل

 

ہم سے آگے جا رہا تھا گاؤں کا وہ نوجواں

جس کی سرگرمی پہ برساتا ہے اولے آسماں

جس کا خرمن پھونکتی ہے فطرتِ نا مہرباں

دودھ جس کی گائے کا جاتا ہے پٹواری کے ہاں

جس کے بیلوں کو کبھی مہلت نہیں بیگار سے

جس کو چھٹکارا نہیں شیطان کی پھٹکار سے

 

حاملِ دیہات دَورے پر، اسی کا میہماں

مرغ و مسکہ نوش گرد آور اسی کا میہماں

شحنۂ بے رزق و بے بستر، اسی کا میہماں

شہر کا ہر ہیٹ ہر موٹر اسی کا میہماں

ہر وبالِ ضلع اس کے مال، اس کی جان پر

صادق و الحق طویلے کی بلا بندر کے سر

 

دھوپ چمکی تھی کہ ہم نے تیتروں جا لیا

پَے بہ پَے اتنے ہوئے فائر کہ جنگل گونج اٹھا

جان دی اِس نے زمیں پر وہ ہوا میں چل بسا

ایک بیچارے کے بازو یہ گِرے، سر وہ گرا

ظالموں کی دل لگی تکمیل پاتی ہے یوں ہی

بے ضرر مخلوق کو دنیا ستاتی ہے یوں ہی

٭٭٭

 

 

آپ کی تعریف

 

(۱)

 

ان کو ’’ادبارِ سخن‘‘ کہتے ہیں لوگ

مغبچوں پر شعر فرمانے میں طاق

داخلِ عادت ہے ’’ایرانی مذاق‘‘

’’قحط‘‘ میں ’’ارشاد سعدیؔ کے خلاف‘‘

عشق پر اصرار، گستاخی معاف

اس تامّل میں کہ ہو جائے نہ جیل

مَلتے ہیں اشعار پر سانڈے کا تیل

بد قماش و ننگِ فن کہتے ہیں لوگ

ان کو ’’ادبارِ سخن‘‘کہتے ہیں لوگ

 

(۲)

 

پیر ’’گلشن شاہ‘‘ سے بیعت ہیں آپ

سونگھتے ہیں پھول کھاتے کچھ نہیں

جھوٹ ہے، پیتے پلاتے کچھ نہیں

خلوتوں میں ’’مرغ و ماہی کے سوا‘‘

کر چکے ہیں ’’ترکِ حیوان و غذا‘‘

بخشتی ہے آپ کی مِیٹھی نظر

بانجھ کو اولاد اور کنواری کو بَر

بند کِیجے منھ بڑے حضرت ہیں آپ

پیر ’’گلشن شاہ‘‘ سے بیعت ہیں آپ

 

(۳)

 

آپ ظلّ اللہ و عالی جاہ تھے

ناچنے میں آپ کا ثانی نہ تھا

’’بھاؤ‘‘ میں امکانِ ارزانی نہ تھا

غلبۂ کیف و نشاط و انبساط

بزم سے خارج حجاب و احتیاط

’’مابدولت‘‘ کا اعادہ بار بار

اور ’’ ایں جانب‘‘ سے ’’تاکیدِ وقار‘‘

انقلاب آیا تو پرِّ کاہ تھے

آپ ظلّ اللہ و عالی جاہ تھے

 

(۴)

 

یہ فلاں بیگم، یہ بیٹی، یہ بہو

تو نہ کہہ میری نہ میں تیری کہوں

کوئی مانع کوئی حارج ہو تو کیوں

’’ایک مقصد، ایک مقصودِ نظر‘‘

اتّحادِ باہمیِ خیر و شر

اجتماعی استفادے کا سوال

لا نہیں سکتا رقابت کا خیال

ہوں، اگر دامن ہیں محتاجِ رفو

یہ فلاں بیگم، یہ بیٹی، یہ بہو

 

(۵)

 

کیا انھیں بھی آپ پہچانے نہیں

بلبلِ فردوس کے سالے ہیں یہ

بات اتنی ہے ذرا کالے ہیں یہ

چِھن چکی جاگیر، آمد بند ہے

اب فقط افیون میں آنند ہے

’’پھل پھلاری‘‘ بیچتے ہیں آج کل

’’بھوگتا ہے آدمی کرنی کے پھل‘‘

ہیں پریشاں حال، دیوانے نہیں

کیا انھیں بھی آپ پہچانے نہیں

 

(۶)

 

لگ چکا ہے ان کی ڈاڑھی کوکلَف

یہ غلامانِ سیاست اقتدار

قوم کے کاندھوں پہ رہتے ہیں سوار

دیکھنے میں ’’ہستیِ معقول‘‘ بھی

’’پردہ دارِ عیب‘‘ زرّیں جھول بھی

چغلیاں کھاتے ہیں کردار و عمل

عقل کو لاحق ہے ’’کرسی‘‘کا خلل

دیکھنا تالی پِٹے گی ہر طرف

لگ چکا ہے ان کی ڈاڑھی کو کلف

 

(۷)

 

لکھ پتی ہیں آپ۔ مِلیے آپ سے

کام چالو ہے ’’پرائے مال پر‘‘

آسرا گویا ہر اک دلّال پر

ناک، نقشہ، قد، کمر، کولھے، اٹھان

آنکھ، پلکیں، ہونٹ، سینہ، پیٹ، ران

بھیڑ بکری کی طرح عورت کا مول

ہِشت! اتنی عمر اور پٹّھوں پہ جھول

بھانپیے کردار منھ کی بھاپ سے

لکھ پتی ہیں آپ۔ ملیے آپ سے

 

(۸)

 

آپ ہیں شاہی حکیم ابنِ حکیم

کرتے ہیں مخصوص مردانہ علاج

نذرِ امساک و طلا شاہوں کے تاج

کشتۂ سیماب و سمّ الفار بھی

شحمِ خوکؔ و سوسمار و مارؔ بھی

کیجیے مالش ابھی اور جائیے

’’ماحضر‘‘ پر تجربہ فرمائیے

اُمِّ سلمیٰ یہ ہے وہ بنتِ سلیم

آپ ہیں شاہی حکیم ابنِ حکیم

 

(۹)

 

یہ مدرّس ہیں کسی اسکول میں

پانچ بچّے ایک بیوی ایک ماں

بیس ماہانہ بہت ہیں، کم کہاں ؟

ان کے جوتے بخیہ گر سیتے نہیں

سول بھی غائب اگر فیتے نہیں

ٹیوشن چاہیں تو کر سکتے نہیں

سر کھپا کر پیٹ بھر سکتے نہیں

لوٹ کر آئے ہوں جیسے دھول میں

یہ مدرّس ہیں کسی اسکول میں

 

(۱۰)

 

حافظِ قرآن ہیں، قاری ہیں یہ

گھر پہ کچھ بچوں کودو آنے سبق

قرأت و تجوید پر سعیِ ادق

پاؤں میں جوتا نہ کپڑا تن پہ ہے

نیستی چھائی ہوئی مسکن پہ ہے

لیتے ہیں صدقاتِ عیدالفطر بھی

رہتی ہے دو روٹیوں کی فکر بھی

قوم سے مایوسِ غم خواری ہیں یہ

حافظِ قرآن ہیں قاری ہیں یہ

 

(۱۱)

 

معتصم باللہ نامی مولوی

آپ ہیں پرہیزگار و نیک خو

غسل کی تعلیم و ترتیبِ وضو

اب تہجّد، چاشت جب، ’’اشراق‘‘ تب

ہے تیمم کا مگر اطلاق کب؟

یہ صلہ اس درس، اس تدریس کا

خرچ سو کا اور وسیلہ تیس کا

عہدِ نو میں ہیں سپردِ مفلسی

معتصم باللہ نامی مولوی

 

(۱۲)

 

لکھنؤ ٹائپ پروفیسر ہیں آپ

اچکنیں گرمی میں اور جاڑوں میں سُوٹ

فخرِ آبا پر قصیدے جھوٹ موٹ

روز دو گھنٹے کو لیتے ہیں کلاس

اور لڑکے فیل ہو جائیں کہ پاس

پانسو تنخواہ اور ’’لاجنگ فری‘‘

ہائے تنظیمِ وطن کی زر گری

حافظِ قرآن سے بہتر ہیں آپ

لکھنؤ ٹائپ پروفیسر ہیں آپ

 

(۱۳)

 

مال پر ٹی۔ پی کلینک ان کا ہے

آپ کو تھی عالمِ بالا میں دِق

داخلِ فطرت ہے جرثوموں کی ’’شق‘‘

منتقل ہو کر چچا میں، باپ میں

آپ کے دادا سے آئی آپ میں

پھیپھڑوں کا ’’ایکس رے‘‘ کروائیے

فیس! کیا حاجت ہے۔ اچھّا لائیے

مشورہ ہر طرح مہلک ان کا ہے

’’مال‘‘ پر ٹی۔ بی کلینک ان کا ہے

 

(۱۴)

 

حِرص کی دِق کھائے جاتی ہے انھیں

یہ جو الجھن آپ کو آنتوں کی ہے

سب خرابی آپ کے دانتوں کی ہے

یہ مسوڑھا پیپ سے بھرپور ہے

دو روپے فی دانت کا دستور ہے

بد نما چہرے کا غم کیوں کیجیے

ایک بتّیسی نہ بنوا لیجیے

نِت نئی چالیں سکھاتی ہے انھیں

حرص کی دِق کھائے جاتی ہے انھیں

(۱۵)

 

یہ کروڑی مل ہزاری لال ہیں

ڈاکٹر بھی ہیں، طبیب و وید بھی

مطمئن ہیں ان سے بکر و زید بھی

ماہرِ امراضِ چشم و بے سند

ہوں اگر روہے، بتاتے ہیں ’’رمد‘‘

نذر پکڑے بِن نہیں مِلتا دماغ

مفت کا پرچار۔ کورا سبز باغ

آدمیّت سے نرے کنگال ہیں

یہ کروڑی مل، ہزاری لال ہیں

(۱۶)

 

ڈالیے یہ سب دوائیں صبح و شام

جی نہیں، ہو گی نہ سُرخی دُور کیوں

پھٹ گیا یہ ’’زخم کا انگور‘‘ کیوں

اِس میں ’پنکی‘ اِس میں ’وہائٹ پینٹ ہے‘

ہر دوا مخصوص ہے پیٹنٹ ہے

’رِڈ بلُو‘ یہ ہے تو وہ ’سلور ڈراپ‘

تاکہ اصلیت سمجھ پائیں نہ آپ

سگرٹوں پر جن کے رکھ چھوڑے ہیں نام

ڈالیے یہ سب دوائیں صبح و شام

 

(۱۷)

 

ہیں تو ’’بی۔ اے‘‘ نام ایم۔ اے خان ہے

یہ شکایت ہے خداسے آپ کو

کیوں نہ مغرب میں اتارا باپ کو

عقد ’کالی ماں ‘ سے فرماتے نہ یہ

اور مشرق میں جنم پاتے نہ یہ

ناچتے جا جا کے ’رائل ہال‘ میں

پھانستے شہزادیوں کو جال میں

ان کی ’رنگت‘ پر تَوا حیران ہے

ہیں تو بی۔ اے نام ایم۔ اے خان ہے

 

(۱۸)

 

لائے ہیں لندن سے بوڑھی میم ساتھ

ڈالیاں، تحفے، سفارش، مئے، شباب

’آئی سی ایس‘ کو کلیدِ فتحِ باب

’فیملی ممبر‘ بنے تھے اس کے ہاں

چشمِ مغرب میں شعورِ سن کہاں

الغرض پلٹے جو صاحب اپنے گھر

تھی یہ ’ناکارہ سلیپر‘ ہم سفر

آپ سے پہلے ملاؤ اس سے ہاتھ

لائے ہیں لندن سے بوڑھی میم ساتھ

 

(۱۹)

 

یہ صحافی ہیں پرائے ہاتھ پر

جہل و طغیانِ معمّہ کی قسم

ہیں ملازم چند اذہانِ قلم

جو لکھا کرتے ہیں ان کے نام سے

کام ہے جن کو شباب و جام سے

ہو نہ جائے مطبع و اخبار ضبط

قوم کی خدمت کو فرماتے ہیں خبط

جس طرح اندھا کوئی فٹ پاتھ پر

یہ صحافی ہیں پرائے ہاتھ پر

 

(۲۰)

 

یہ مدیرانِ سرِ اوراق ہیں

نثر ہے ان کو کسی چڑیا کا نام

شعر جیسے آشیانے زیرِ دام

دعویِ علمِ ہجا کیا کیا غلط

سر بسر انشا غلط املا غلط

چھاپتے ہیں فلم اسٹاروں کے راز

تاکہ ہُن برسائے ان پر فلم ساز

مشتہر ہیں، شہرۂ آفاق ہیں

یہ مدیرانِ سرِ اوراق ہیں

 

(۲۱)

 

ان کو کہتے ہیں مدیرِ عام راہ

مصلحت اندیش کمیونسٹ ہیں

فکر کے عنوان سے اِن لسٹ ہیں

ہم خیالوں کے لیے بنتے ہیں ڈھال

تا نہ رسوا ہو پسِ پردہ کا حال

نظم سے وہ بند کر جاتے ہیں صاف

مقصدیت سے جو پڑتا ہے خلاف

ہیں عوامی مورچے کے خیر خواہ

ان کو کہتے ہیں مدیرِ عام راہ

 

(۲۲)

 

آپ سب گُرگے ہیں ’’عیدو میٹ ‘‘کے

پھیرتے رہتے ہیں رُخ تحریک کا

عزم و ہمّت پر عمل تشکیک کا

جھونکتے ہیں مذہبی آنکھوں میں دھول

تاکہ دہریّت ہو مقبول و قبول

اور سُرخی سر پہ لہرانے نہ پائے

انقلابِ واقعی آنے نہ پائے

ورنہ پڑ جائیں گے لالے پیٹ کے

آپ سب گُرگے ہیں عیدو میٹ کے

 

(۲۳)

 

مکر و فن میں آپ عیدو میٹ ہیں

جانتے ہیں نوٹ بک قرآن کو

اور خلّاقِ جہاں شیطان کو

لیتے ہیں اس طرح اسٹالن کا نام

جیسے ہونٹوں پر زبردستی کا جام

بھاگتی ہے بھینس جیسے بِین سے

آپ جلتے ہیں چراغِ چین سے

نسبتاً لینن کے ڈپلیکیٹ ہیں

مکر و فن میں آپ عیدو میٹ ہیں

٭٭٭

 

 

 

گویم مشکل و گر نہ گویم مشکل

 

جب مؤذن پاس کی مسجد میں دیتا ہے اذاں

روزنوں سے جھانکنے لگتی ہیں جس دم جوڑیاں

چہچہا اٹھتے ہیں ننھے طائرانِ نغمہ خواں

 

تب یہ دروازہ کہ جس کا رخ ہے جنگل کی طرف

کرتی ہے چشم تماشا جس سے ہر منظر ہدف

دور تک نظمیں ہی نظمیں جیسے قازیں صف بہ صف

 

چھیڑتی ہے اس کی کنڈی جب نسیمِ جاں فزا

اتنے دھیرے سے، خیال آتا ہے وہ کافر ادا

اورڑھ کر اک سر مئی برقع دبے پاؤں آ گیا

 

ہڑبڑا کر کھول دیتا ہوں میں دروازے کا پٹ

وہم کا یہ خوش نُما تِکّل مگر جاتا ہے کٹ

فکر سادہ ڈور کے ہچکے پہ آتی ہے سِمٹ

 

بیریوں میں میرے گھر کے سامنے سرسوں کے کھیت

دور افق پر لہریا بُنتا ہوا ’کوسی‘ کا ریت

نقطۂ وحدت پہ آ جاتا ہے اس کثرت سمیت

 

جیسے اک منہ زور گھوڑے پر سواری کے لیے

مُوڈ کو چمکارتا ہوں حمد باری کے لیے

مطلعِ شکریۂ فصلِ بہاری کے لیے

 

آ نہیں پاتی صلاحیت ابھی رجحان میں

ہچکچاہٹ آمدِ اشعار کے امکان میں

لفظ و معنی کی رسیلی گنگناہٹ کان میں

’السلام علیک‘ احساسات پر گھُن کی طرح

’ہیبتِ آواز‘ امریکہ کے انجن کی طرح

اور گَل مُچھّوں کا وہ عالم کہ راون کی طرح

 

بید کے بندوں کی سانپن دار لاٹھی ہاتھ میں

دن میں چِتّی کا نمونہ کوڑھیالی رات میں

چونکہ میری عمر گزری ہے انھیں حالات میں

 

بندۂ اخلاق ہوں ہر چند باتونی نہیں

چائے پیجے؟ میں تمھاری طرح افیونی نہیں

سگرٹوں سے شوق؟منہ انسان کا دھُونی نہیں

 

میری عادت پانسو ڈنڑ، سات سو مُگری کے ہاتھ

بعد ازاں بیسن کی روٹی چھاچھ اور مکھن کے ساتھ

چائے، بسکٹ، پیسٹری ’کالے کرسٹانوں ‘ کی بات

 

میرے لائق کوئی خدمت؟ میں نے کاٹا راستہ

آمدِ ناگاہ کا مطلب خدا نا خواستہ

بولے ہم لچّوں کو شاعر سے بھلا کیا واسطہ

 

کچھ نہ کچھ مقصد تو ہو گا، میں نے کی پھر التماس

ہنس کے فرمایا کہ میں یوں آ گیا ہوں تیرے پاس

اپنے پوتے کا عقیقہ کر رہی ہے میری ساس

 

چونکہ اس رشتہ کے اندر ہیں جلیبی کے سے پھیر

نظم رہ جائے گی بن کر بُور کے حلوے کا ڈھیر

میری اس میٹھی کہاوت نے کیا چیتے کو زیر

 

قہقہہ پر قہقہہ جیسے پکھاوج کی الاپ

ساس کے پوتے کا مطلب میرا سالااس کا باپ

اور پھر یہ طنز، سنتے تھے بڑے شاعر ہیں آپ

 

ایک نمبر چار بیت ہو جائے اس پر شام تک

دے نہ پایا ہوں ابھی میں لڈّوؤں کے دام تک

ناچ کی ’’سائی‘‘کسی رقّاصۂ گلفام تک

 

ایک سہرا، عقد ہے ’رنڈوے چچا‘ کا آج رات

میری بیوی ( داشتہ شاید) کی تاریخِ وفات

دُکھ رہی ہیں آپ کی آنکھیں یہ ایسی کون بات

 

آنکھ دکھنے کا تعلق شاعری سے کچھ نہیں

ہوں نہ عذرِ لنگ سے واقف تو ہم کر لیں یقیں

آئے ہیں پیدل توخالی ہاتھ جاتے ہیں کہیں

 

میرے گھر لڑکا ہوا ہے، اس کا اک اچھا سا نام

ہو سنہِ ہجری کے اندر عیسوی کا التزام

جیسے خسروؔ کی پہیلی یا امانتؔ کا کلام

 

کر رہا ہوں تین ہفتوں سے میں جس لڑکی پہ کام

اس تغافل کیش کی الفت میں ہے سونا حرام

چند شعر ایسے کہ طَے پا جائیں پیغام و سلام

 

میرا افسر جا رہا ہے، رخصتی اشعار کچھ

جس طرح گیندے کے گجرے جیسے جھوٹے ہار کچھ

اور اس ڈھب سے سمجھ پائے نہ وہ مکّار کچھ

 

ہے وہ پکا مُرتشی بھی، مفت کا عیّاش بھی

آپ لکّھیں گے مگر مرتاض بھی شب باش بھی

جھوٹ کیوں، ممکن ہے شب باشی برائے تاش بھی

 

اس کی بیوی آہ کیا اعضا ہیں کیا انداز ہیں

مدھ بھری آنکھوں میں غمزے شعلۂ آواز ہیں

آج تک ہم سے قسم لے لو امینِ راز ہیں

آ رہا ہے ان کی بدلی پر جو نینی تال سے

بیچتا تھا خوانچہ میں سیب آڑو فالسے

سنتے ہیں پایا ہے یہ رُتبہ ’’گھریلو چال سے‘‘

 

اُردلی سے بانٹ لیتا ہے عطیّوں کی رقم

دفتری پر اتہامِ ’’لنچ ٹائم‘‘ کم سے کم

کھا چکا ہے چونکہ یہ رشوت نہ لینے کی قسم

 

خود ہی کرتا ہے معطّل خود ہی لکھتا ہے اپیل

تھوپتا رہتا ہے عملے پر خطائے بے دلیل

سو روپے، اک مرغ، اک بوتل، بحالی کی سبیل

 

اس کی یہ کمزوریاں جو آپ نے مجھ سے سُنیں

شادؔ صاحب اپنے شعروں میں نہ لکھ دینا کہیں

ہاں مگر وہ کون خوبی ہے کہ جو اس میں نہیں

٭٭٭

 

 

ٹُکڑ گدے

 

آپ کو خدا رکھے پوتڑوں کے دولت مند۔ عرضِ واقعہ تا چند

آپ کے ابّ وجَد نے واردانِ سرحد نے

داد لی دو جوڑا پر اور فتح کی سرہند

 

سرفراز خاں نانا تھے حضور کی مانند اُس کھجور کی مانند

جس پہ باد و باراں کا حملہ ہائے طوفاں کا

کچھ اثر نہ ہوتا تھا شمعِ طور کی مانند

 

نانہار میں اکثر جسم کے اکہرے تھے۔ دیکھنے کے چہرے تھے

رام پور کا پانی آؤ تاؤ افغانی

بابِ عہدِ ماضی کے سب ورق سنہرے تھے

 

اُن کی آ گئی شامت یہ اُلجھ پڑے جن سے۔ بھڑ گئے اَڑے جن سے

ٹوک ٹوک کر مارا روک روک کر مارا

ان کو بھی دیا موقع چومُکھی لڑے جن سے

 

جس قدر بہادر تھے اتنے ہی سخی بھی تھے۔ ظلم سے بَری بھی تھے

نوجوان بیوائیں وضع دار مامائیں

پرورش بھی پاتی تھیں۔ اور آدمی بھی تھے

 

لغزشوں پہ لے آئے خادمانِ آوارہ۔ رکھ رکھاؤ ناکارہ

شیطنت نے شہ پائی۔ یہ گئی تو وہ آئی

رہن پڑ گیا زیور۔ بِک گیا زمیندارہ

 

آپ کو وراثت میں کُلُّہم و تخمیناً۔ کچھ بچی کھچی کھُرچن

مل گئی تو کیا پایا۔ ہائے باپ کا سایہ

خون تھا کہ پانی تھا۔ اقربا تھے یا دشمن

 

لکھ پتی بہت سے ہیں شہر میں مگر کنجوس۔ انتہا کے مکھّی چوس

طنز ہر سوالی پر۔ چوٹ خستہ حالی پر

عِشرۃً بڑے مُصرف، فطرۃً بڑے منحوس

 

ایک ایک پیسے کو دانت سے پکڑتے ہیں۔ گھٹّیاں رگڑتے ہیں

آنت اور کھالوں سے۔ سینگ اور بالوں سے

کیمیا بناتے ہیں ہڈّیوں پہ لڑتے ہیں

 

پوجتے ہیں پیروں کو بھیجتے ہیں کالا مال، چاٹگام اور بنگال

راستے بناتے ہیں مکر و فن دکھاتے ہیں

پِٹ نہ پائے اُس رُخ پر کھیلتے ہیں گہری چال

 

کھیپ کی برآمد سے چادریں چڑھاتے ہیں۔ منقبت گَواتے ہیں

شہر کے مزاروں پر عرس کے سہاروں پر

شاعرانِ مہمل کو روٹیاں کھلاتے ہیں

فاتحہ کے پردے میں افسروں کی دعوت میں سرخوشی کی حالت میں

کاک ٹیل بنتی ہے خوب خوب چَھنتی ہے

رنڈیاں نَچاتے ہیں پھر انھیں کی خلوت میں ؟

 

ساتھیو نمک خوارو۔ ہاں میں ہاں ملاتے ہو، سر ہِلائے جاتے ہو

گفتگو کو یارا دو بات کو سہارا دو

منتظر ہوں لقمے کا، کیوں مجھے تھکاتے ہو

 

اب خلیل خاں بھائی فاختہ اڑائیں آپ، گلستاں کھلائیں آپ

آپ کی گہُر ریزی بلکہ رنگ آمیزی

نُدرتیں کتر جائے وہ تُرُپ لگائیں آپ

 

آپ کی نوازش ہے آپ نے جو فرمایا۔ آں منم کہ من دانم

یہ کمین کس قابل۔ کمترین کس قابل

پھر بھی ہر چہ بادا باد۔ مدحتِ فزوں خوانم

 

جن کا تذکرہ گزرا، ان رئیس چوروں سے۔ تھُڑدلے چِھچھوروں سے

آپ کو نہیں نسبت۔ آپ کو نہیں مہلت

ہم سے مدح خوانوں سے۔ ہم سے مفت خوروں سے

 

عمر کے تناست سے آپ سِن رسیدہ ہیں۔ فلسفہ دریدہ ہیں

آنکھ ہے سیاست پر۔ دانت ہے وزارت پر

فکرِ شہر میں دُبلے بلکہ آبدیدہ ہیں

 

جب وزیر اعلیٰ نے وار سب دیے خالی۔ ہر طرف نظر ڈالی

شیخ و شاب کو پھانسا قوم کو دیا جھانسا

یہ جو غیر ملکی ہیں ان پہ پِیٹ دو تالی

 

اب ’’ریاستی گُرگے‘‘ چال اک نئی کھیلے۔ سانپ کی طرف ڈھیلے

پھینکنے کی صورت میں ’’کرسیِ وزارت ‘‘میں

آپ کو دیا غوطہ’’سٹ پٹائے روہیلے

 

اب حضور والا نے عذرِ لنگ فرمایا۔ خوب تنگ فرمایا

اپنے جاں نثاروں کو اپنے راز داروں کو

شہر سے نکل جائیں بے درنگ فرمایا

 

نقدِ شعر۔ ’’دایا‘‘ نے ڈال دی ہے گھٹّی میں۔ بالخصوص چھٹّی میں

لغو و سارق و مائر اور وہ غلط شاعر

باندھ لیں جو چھٹّی کے قافیے کو مُٹھّی میں

 

روز جمع ہوتے ہیں آپ کے نشیمن میں، مقبروں کے مدفن میں

’’محشرِ سخن چینی‘‘ فتنۂ عدم بینی

جھوم جھوم اٹھتے ہیں اتباع و ایقن میں

 

یادگارِ کنفیوشس یہ نفیس فنجانیں۔ آپ لوگ سچ مانیں

اب نصیب ہیں کس کو۔ ایک دو مِلیں جس کو

باوجودِ غمگینی جی اٹھی ہیں شریانیں

 

ایم سلامت اللہ کا در بہشت نعمت ہے۔ ذائقہ میں ندرت ہے

دیکھنے میں مُلّا ہے۔ شمع کا معمّہ ہے

اس کی ہر مٹھائی میں منفرد حلاوت ہے

 

کرسیوں سے اٹھ بیٹھا جھُنڈ بد لگاموں کا۔ مضحکہ سلاموں کا

شاہ راہ پر آ کر۔ بُعد و فاصلہ پاکر

بھر دیا خباثت نے منھ نمک حراموں کا

 

بے وقوف کو ہم نے کیا گدھا بنایا ہے ’’در بہشت‘‘ کھایا ہے

گرم و تلخ قہوہ بھی۔ خاصدان و حقہ بھی

خود پسند کو اکثر کم شعور پایا ہے

٭٭٭

 

 

دیہاتی لاری

 

’’سولھابیٹھنے کا حق‘‘ حاصل تیس مسافر یہ کیا سوانگ

بابواس قانون کی ہم نے رشوت دے کر توڑی ٹانگ

چھت پر ایسے اتنے بوجھے انمل بے جوڑ اوٹ پٹانگ

بِستر۔ نقلی گھی کے پیپے۔ شکر، تماکو، بسکٹ، بھانگ

جی ہاں ! جتنے آنے والے آتے جائیں۔ اتنی مانگ؟

 

چار کے چھے بجنے والے ہیں۔ چل کلّو اسٹارٹ تو کر

موٹے۔ آدھا روند لگا کر ہانپ گیا! ہٹ دیکھ اِدھر

لے یہ دو، یہ دس، یہ بارہ، آئیں ! کھٹ کھٹ گر گر گر!!

ہنستا کیا ہے۔ شرط رہی کچھ، بند نہ ہو پٹرول اگر

پگلے ہیں جو بگاڑیں پیسہ گھٹیا کاربوریٹر پر

 

یہ بے چارہ ٹھیک ہے، دوڑے ہی نہ کروسن آئیل تو پھر؟

’فلٹر‘ گاڑھی گاد میں بھر جانے سے بگاڑے کھیل تو پھر؟

خوب صفائی کی تھی جو نکلی میل کی ریلا پیل تو پھر؟

کام چور تُو بھولا ہو ٹنکی میں بھرنا تیل تو پھر؟

پانی جس پر بند ہوا ہو۔ منڈھے چڑھے وہ بیل تو پھر؟

 

کلّو تیل کا پیپا گھر سے لانے دوڑا ٹھمّک چال

لدے پھندے پنجرے کے اندر گھُس آیا اخلاقی کال

ہندو مسلم جھگڑے نے دی موقع پاکر ہڈی ڈال

ٹھہرے آگ بگولہ دونوں، تیور کڑوے آنکھیں لال

’’بر بر شامی‘‘ جوش میں آئے، اینٹھی اکڑی بھاجی دال

 

عمَامے نے گھونساتانا۔ پگڑی نے کی گالی ’’سر‘‘

عضویّاتی وِرد و وظائف، جنسیّاتی نقد و نظر

اس کا ہاتھ، گریباں اس کا، اس کا جوتا، اس کا سر

ثالث سعیِ صلح میں حیراں، یہ اسٹالن و ہ ہٹلر

دونوں کے دونوں دیوانے۔ ’’دونوں کے دونوں حق پر‘‘

 

تھانیدار کی صورت دیکھی بلوہ ختم فضا خاموش

ومکوکے جھاگوں کی صورت سِمٹا، بیٹھا قومی جوش

نتھنے سکڑے، چہرے اترے، کپڑے سنبھلے آیا ہوش

کیا احبابِ صوف و بریشم، کیا اربابِ کھدّر بوش

ہیں ممنونِ سیاست دونوں اِن کا جُرم نہ اُن کا دوش

٭٭٭

 

 

جہیز

 

گزرنے والی برات پر جائزے کا اقدام کر رہا ہوں

وطن کی تقلیدِ صرفِ بیجا پہ نقد کا کام کر رہا ہوں

وہ کہہ رہا ہوں جو چشمِ رسم و رواج میں ہے بڑی حماقت

بڑی حماقت کا دوسرارخ بڑی جسارت بڑی بغاوت

جہاں جہاں بھی غلط کہوں میں سماج میری زباں پکڑ لے

نہ یہ کہ پنچایتیں بٹھائے نہ یہ کہ پائے قلم جکڑ لے

_____________________

غلیظ کپڑوں میں دق کے مارے یہ ’’پھول باڑے اُٹھانے والے‘‘

غموں کی زردی کی وجہ سے جن کے رنگ ’’گورے رہے نہ کالے‘‘

’’یہ کاغذی گلستاں ‘‘جو سروِ رواں کی مانند چل رہا ہے

مسرّتوں کے ایاغِ رنگیں میں جرمِ اسراف ڈھل رہا ہے

_______________________

 

عروس کے ہاں سوالِ عزت بڑا کٹھن ہے، بہت اہم ہے

دلہن کے ڈولے کے آگے آگے جہیز جتنا بھی ہو وہ کم ہے

چنانچہ یہ آٹھ چائے کے سیٹ ہیں، چار قہوے کے، دو ڈنر کے

یہ دن میں میلے سے ملگجے سے ضرور برتے ہوئے ہیں گھر کے

مسہریاں دس، پلنگ بارہ، یہ بید کے کوچ ہیں وہ صوفے

سنگھار میزیں جو تین، تیرہ برائے ’’ ایٹ ہوم اور بوفے‘‘

بھرت کے پایوں کا وہ چھپرکھٹ کہ جس سے شرمائیں فیل پائے

نہ آئیں جب تک محلّے والے یہ کس میں طاقت اسے ہلائے

شمار کرنا ٹرے میں رکھّے ہوئے گلاسوں کا ’’ غیر ممکن‘‘

جگوں مگوں کی قطار جگمگ، اگالدانوں کا روپ بھِن بھِن

وہ خوان پوشوں کا ’’حشرساماں ‘‘ نگاہ جس تک پہنچ نہ پائے

تماش بینوں کی یہ تمنّا، کہیں سے گھونگھٹ ہوا اڑائے

ظروفِ نقرہ میں ایک ’’بہنگی‘‘ ہے جس سے الماریاں سجیں گی

جہاں بھی ٹھہرے جہاں بھی گزرے گی داد کی تالیاں بجیں گی

یہ دیگ، یہ دیگچے، پتیلے، پتیلیاں، باؤٹے، پیالے

یہ آفتابے، یہ سینیاں، یہ لگن، یہ لوٹے ’’نقوش والے‘‘

گھڑوچیوں، لٹکنوں کا وہ کارواں کہ طوفان جس کو کہیے

جو ہو ’’لکڑ ہٹ ‘‘ میں کچھ قباحت تو پھر ’’لکڑسان‘‘ جس کو کہیے

نماز کی چوکیوں پہ بھدّا کمنگری رنگ ’’ گل فشاں ہے‘‘

جو اک ’’ اقامت‘‘ کامنتظر ہے جو ایک سجدے کا میہماں ہے

وطن کے ’’جہلِ خرد نما‘‘ کے خلاف اقدام کر رہا ہوں

سماج کے عیب گن رہا ہوں، رواج پر کام کر رہا ہوں

٭٭٭

 

 

مرے پڑوس میں کچی شراب بکتی ہے

 

عدوئے ہوش جسے کامیاب کہتے ہیں

خرابِ بادہ جسے لا جواب کہتے ہیں

نہ جانے کیوں اُسے کچّی شراب کہتے ہیں

’’دو آتشہ‘‘ کے مثال و حساب بکتی ہے

 

جو کھنچ کے آئے حکومت کے کارخانے میں

وہ مستند بھی ہے، پکّی بھی ہے زمانے میں

چمن میں، پیٹھ کے پیچھے، کہ آشیانے میں

نہ کوئی حد نہ کوئی احتساب، بکتی ہے

 

وہ پختہ کار، جو بھپکوں میں توڑتے ہیں اُسے

غلاظتوں کا بدل کر کے چھوڑتے ہیں اسے

لگا کے گاؤ کی ’’مانی‘‘ نچوڑتے ہیں اُسے

تو جیسے کوئی مئے انتخاب بکتی ہے

 

جو ساز باز میں دنیاکے کاٹتے ہیں کان

کسی قریب کے جنگل میں ڈالتے ہیں لان

پس ازکشید، بھرے شہر میں علی الاعلان

وہ بیچتے ہیں یہ، خانہ خراب بکتی ہے

 

کہیں گے شیرۂ عنّاب سے بناتے ہیں

غلط ہے، جھوٹ ہے، تیزاب سے بناتے ہیں

گدھے کی لید سے، پیشاب سے بناتے ہیں

مگر بہ فخر ادھر، انتخاب بکتی ہے

 

اُسی جھجھک سے، جو مانی گئی ہے چوروں میں

پلائی جاتی مٹّی کے آب خوروں میں

’’بقدرِ ظرف و طلب ‘‘ مختلف سکوروں میں

پئے براہمن و شیخ و شاب بکتی ہے

 

مگر ستونِ وطن’’ افسرانِ رشوت خوار‘‘

جو بِل کلرک ہُوا ہے معطلی کا شکار

بُلا کے لایا ہے اُن کو۔ پلا رہا ہے اُدھار

عتاب کو جو اُڑھا دے نقاب، بکتی ہے

 

کئی وطن کے نگہبان پینے آتے ہیں

یہ اعتراض کہ شیطان پینے آتے ہیں

مگر جو حافظِ قرآن پینے آتے ہیں

بلا لحاظِ عذاب و ثواب بکتی ہے

 

یہ ’’شارک اسکن‘‘ و وائل وہ صوف و اطلس ہے

انھیں نشاط کا چسکہ ہے ان کو بڑ بھس ہے

ہرے کنیر کے پھل ہیں ببول کا کس ہے

تمام شہر میں ہم سے خراب بکتی ہے

 

کوئی چرٹ کوئی رکشا پہ آ کے پیتا ہے

کوئی نظر کوئی دامن بچا کے پیتا ہے

ٹھہر ٹھہر کے، کوئی ڈگمگا کے پیتا ہے

سوادِ شام سے تا آفتاب بکتی ہے

 

کوئی پران کی باڑی کی آڑ لیتا ہے

کسی بھی جھُنڈ کی جھاڑی کی آڑ لیتا ہے

بِنا جتی ہوئی گاڑی کی آڑ لیتا ہے

بہ احتیاط۔ مگر بے نقاب بکتی ہے

 

مشاہدہ ہے کہ پیتے ہیں سب بگاڑ کے مُنہ

سعیدؔ حلق پکڑ کر، مہیش پھاڑ کے مُنہ

یہاں لتھیڑ کے کیچڑ وہاں لتاڑ کے مُنہ

کرے جو عقل کی مِٹّی خراب بکتی ہے

 

رقیب اس کی نہیں گندگی میں شے کوئی

جو ’’ہاخ تھو‘‘ کوئی پی کر، چڑھا کے قے کوئی

کرے جو اس کو گوارا، دماغ ہے کوئی

سخن وروں کو مگر مُشکِ ناب بکتی ہے

 

دکان قسم کی کچھ باغبانیاں ہیں یہاں

بنا دیا ہے جنھیں شوہروں نے ’’جانِ جہاں ‘‘

بغیرِ جِنس علاجِ محرّکات کہاں

برائے جِنس یہ تحریکِ ناب بکتی ہے

 

گنوا کے ہوش جو میکش ترنگ لیتے ہیں

جواں سمجھ کے ادھیڑوں سے رنگ لیتے ہیں

کسی بھی کھیت کے معنیٰ پلنگ لیتے ہیں

فضول چیز، بہ شرحِ شباب بکتی ہے

 

شراب ’’شرطِ ڈنر‘‘ ہے ڈِنر برائے فرنگ

ہزار حیف، یہ تقلیدِ رسم ہائے فرنگ

یہ خانہ سازِ وطن ہے تو وہ عطائے فرنگ

یہ ’’بربنائے فضیلت مآب‘‘ بکتی ہے

 

تو اس شراب کا رشتہ ہے اُس بلندی سے

تکا کیے ہیں جسے ہم نیاز مندی سے

بنے گا کام نہ ’’قانونِ نشہ بندی ‘‘ سے

جہاں تہاں جو بدیسی شراب بکتی ہے

٭٭٭

 

بسنت

 

بہار بادلوں کی طرح گلستاں پہ چھا گئی

ہوا میں تازگی، فضا میں دلکشی سما گئی

بسنت کی خبر کلی کلی کو گدگدا گئی

وہ گدگدی جو ہر کلی کے لب پہ مُسکرا گئی

٭٭٭

وداعِ شب سے جاگ اُٹھے طیورِ نغمہ باختہ

دو صد اصول ساختہ، ترانہ ہا نواختہ

اُڑی پھُننگ سے بلندیوں کی سمت فاختہ

اسی پھُننگ پر کسی کو ساتھ لے کے آ گئی

٭٭٭

 

ترنجِ زر کو مات کر رہے ہیں زرد سنترے

یہ مرغزار ہیں کہ فرشِ مخملیں ہرے بھرے

پکارتے ہیں کھیت لائی کے ادھر ورے ورے

جونہی نظر جمی کہ زعفران میں نہا گئی

٭٭٭

 

شریکِ زندگی و کشت کار اُٹھ اُٹھا چکے

بچی کھچی، مٹھے کے ساتھ کھا کے کھیت جا چکے

جو آ گھسی تھیں کھیت میں وہ بکریاں بھگا چکے

یہ جن کی بکریاں تھیں، ان کو، جو زباں آ گئی

٭٭٭

 

یہ گاؤں کی جوانیاں، بغل میں گاگریں لیے

وہ بے جھجک شرارتیں کہ جیسے جامِ مئے پِیے

کمر میں کچھ تناؤ سا، قدم کو لغزشیں دیے

جو سب میں تیز تھی، کنوئیں میں ڈول بھی گرا گئی

٭٭٭

 

دلوں کو چھو رہا ہے شوقِ سیرِ باغ و بوستاں

قطار در قطار سبزہ زار پر جہاں تہاں

رخ و جبیں جواں جواں، نظر نظر مزاج داں

جدھر اُٹھی، جدھر پڑی دلوں کے بھید پا گئی

٭٭٭

 

جوانیوں پہ آ گیا شبابِ سوسن و سمن

کئی حسین جمگھٹے روش روِش پہ گامزن

گدازیِ بدن، ہوا کے رُخ پہ تنگ پیرہن

نسیمِ صبح آنچلوں پہ سلوٹیں بنا گئی

٭٭٭

 

وہ چمپئی لباس ہر طرف سے دل میں گھر کرے

نمودِ صبح کیا عجب نثار طشتِ زر کرے

یہ وہ سمَے یہ وہ سماں کہ روح پر اثر کرے

شعور چونک اٹھا تو فکرِ شعر تلملا گئی

٭٭٭

 

وہ پِیپلوں کی تتلیوں میں دلفریبیاں کہ بس

وہ تتلیاں، اُڑان جن کی دیکھ دیکھ کر ترس

کسی سے ان کو کیا غرض، کسی کو ان پہ دسترس

یہ دسترس کی بات صرف قافیہ سجا گئ

ی

٭٭٭

نہیں یہ قافیہ نہیں برائے بیت دبے اثر

جو شادؔ نوحہ خواں رہے ہیں اعتبارِ حُسن پر

یہ کہہ تو دوں کہ میں بھی ان کا ہم خیال ہوں، مگر

میں اور اس طرف بڑھا، وہ اور پاس آ گئی

٭٭٭

 

 

یہ ہماری زبان ہے پیارے

 

اے کہ دانندۂ پیام و خبر

ہے طبیعت پہ تیرے بار اگر

گفتگو ہم سے ریختہ میں نہ کر

یہ ہماری زبان ہے پیارے

شعر و نغمہ کی جان ہے پیارے

اک بڑی داستان ہے پیارے

 

لشکروں کی، حکومتوں کی قسم

کاروباری سہولتوں کی قسم

تاجرانہ ضرورتوں کی قسم

تھی یہ آپس کے میل جول کی بات

اس میں شامل ہیں دیس دیس کے ہات

قیدِ مذہب نہ شرطِ قوم نہ ذات

اس میں لہجے کی خوشگواری ہے

لفظ و معنی کی پاس داری ہے

سب کی ہمدم ہے سب کی پیاری ہے

 

دل کو چھوتے ہیں اس کے میٹھے بول

نہ تنافر کہیں نہ حشو نہ جھول

اس کی محفل کے سب رتَن انمول

چین، فارس، عرب، عجم، کابُل

گل و ریحان و نرگس وسنبل

سَبدِ گُل بھی ہے یہ دستۂ گل

رفتہ رفتہ جنم لیا اس نے

ہر سبق بیش و کم لیا اس نے

ریختہ بن کے دم لیا اس نے

 

تازہ د م ہو کے بربِنائے سکون

مسئلے حل کیے، لکھے مضمون

اور اپنا لیے علوم و فنون

علم و فن پر عبور ہونے سے

نا تمامی کے دُور ہونے سے

برتری کا شعور ہونے سے

اب دھنَش کے سمان ہے اُردو

اب ترنگا نشان ہے اُردو

اب ہماری زبان ہے اُردو

٭٭٭

 

 

ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں

 

آج مزدور بھی حکومت کا، گیان رکھتے ہیں، دھیان رکھتے ہیں

اک ترنگا نشان رکھتے ہیں

خون پہنچا کے اپنی محنت کا، نبضِ صنعت جوان رکھتے ہیں

قدر و قیمت کی آن رکھتے ہیں

_____________

ان مقولوں کے ہم نہیں قائل، درو دیوار کان رکھتے ہیں

کان ہی کیا زبان رکھتے ہیں

ہے مگر یہ بہت بڑی مشکل، آپ جو پاسبان رکھتے ہیں

اس سے اچھا گمان رکھتے ہیں

ان کی خلوت میں ان کی جلوت میں، ادب و شعر میں سیاست میں

فائدہ جان کر شرارت میں

بے سبب، بن خطا، بلا حُجّت، ہم سے جو آن تان رکھتے ہیں

نیشِ عقرب کی شان رکھتے ہیں

 

وہ جو بندے ہیں گوہر و زر کے، وہ جو مسجد کے ہیں نہ مندر کے

بے وفائی کا تذکرہ کر کے

چغلیاں کھا کے، کان بھر بھر کے، ہم غریبوں کو سان رکھتے ہیں

آپ کو بدگمان رکھتے ہیں

 

غنچہ و گل کی ناتمامی پر، روش و آب جو کی خامی پر

گلستاں کی بد انتظامی پر

دمِ تحقیق نام گلچیں کا، وہ اگر باغبان رکھتے ہیں

ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں

________________

 

نہ سُنیں وہ تو قصّۂ غم کیا؟ خلشِ آرزو کا ماتم کیا؟

فرق و تمئیزِ اشک و شبنم کیا؟

چارۂ درد و سعیِ مرہم کیا، ہم بھی جو دل میں ٹھان رکھتے ہیں

اَن کہی داستان رکھتے ہیں

شادؔ ازر راہِ التماسِ ہُنر، کھل کے کہنے سے رمز ہے بہتر

مختصر سے بھی مختصر ہے، مگر

مثلاً صرف واہ وا’’ کہہ کر‘‘ ادبیّت کی شان رکھتے ہیں

اک مفصل بیان رکھتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

’’التوا‘‘ سے ’’اجراء‘‘ تک

 

’’مجھ کو تنہا چھوڑ دو‘‘ شعر و ادب خطرے میں ہے

فن برائے زندگی یا للعجب خطرے میں ہے

کون جانے جُرم کیا ہے ’’بے سبب خطرے میں ہے‘‘

 

’’اس نگوڑی شاعری میں ‘‘ کیا دھرا ہے؟چھوڑیے

آپ ’ہندی‘ ہیں تو اُردو کیا بلا ہے، چھوڑیے

دیکھیے پنجرے میں ’’توتا‘‘ چیختا ہے چھوڑیے

 

میں کبوتر کھولتی ہوں، آپ دانہ ڈال دیں

ورنہ ان سب کے لیے نبّو کو بلّی پال دیں

آپ تووہ ہیں غزل گوئی میں صدمہ ٹال دیں

 

قطعہ لکھیے، نظم گڑھ لیجیے، غزل کہہ لیجیے

مصلحت آئے جو مانع، بے محل کہہ لیجیے

’’خط نہ ملنے‘‘ ڈاکخانوں کا خلل کہہ لیجیے

 

ہو چکے ہیں بند ’’چوٹی کے رسالے‘‘ آئیں کیا

جب رسالے ہی نہیں تو شاعری فرمائیں کیا

’’تیسرے درجے کے‘‘ آ مرتے ہیں اُن پر جائیں کیا

 

یہ جو طاقوں پر پڑے سڑتے ہیں، کیا کچھ بھی نہیں

عورتوں کے واسطے، مردوں کے لائق؟ جی نہیں

جانِ من جو پی چکا ہوں میں وہ تو نے پی نہیں

پوچھ سکتی ہوں کہ ٹوٹا مجھ پہ ’’تندر‘‘ کس لئے

فن برائے زندگی جیلوں کے اندر کس لیے

’’کوزۂ رجعت پسنداں ‘‘ میں ’’سمندر‘‘ کس لیے

 

تم نہ سمجھوگی کہ کیا ہے آج اُردو کا مقام

آچکا ہے جس صحافت کا صفِ اوّل میں نام

ہندو و پاکستان اس پر رکھ رہے ہیں اتہام

 

دوست کو دشمن سمجھ لینا ہی دانائی نہیں

کوئی جائز نکتہ چینی وجہِ رسوائی نہیں

معنویّت لیجیے، الفاظ پیمائی نہیں

 

ہے وہی زندہ ادب جو ارتقا، کو گدگدائے

وہ نہیں جو آسماں پر ’’آہ کی تِھگلی لگائے‘‘

احمقوں کی شان میں لمبے قصیدے ہائے، ہائے

 

عہدِ حاضر میں یہ ’’جھانپل ازم‘‘ چل سکتی نہیں

’’باز‘‘ کو پرچار کر کے ’’چیل‘‘ پل سکتی نہیں

لوگ کس ٹہنی کو کہتے ہیں کہ پھل سکتی نہیں

 

خامیوں پر طنزجب قید و قفس کی بات ہے

’’سیکڑوں پر جائے گی‘‘ دو چار دس کی بات ہے

نظم کہنی چھوڑ دوں، کیا میرے بس کی بات ہے

 

دوپہر سے آپ میں کچھ شاعرانہ موڈ ہے

پینسل کب تک بنے گی؟ والہانہ موڈ ہے!

چھت کو نظروں کا بنا لیجے نشانہ موڈ ہے!!

٭٭٭

 

 

چاند کی نو آبادی

 

سوال یہ ہے کہ امنِ عالم کہیں نہیں یا یہیں نہیں ہے

جواب یہ ہے کہ فی زمانہ یہ ’’جنسِ عنقا‘‘ کہیں نہیں ہے

سوال یہ ہے کہ یہ ’’مزائل‘‘ یہ ’’جوہری بم‘‘ بنیں گے کب تک

جواب یہ ہے کہ ’’فیصلہ کن‘‘ لڑی نہ جائے گی جنگ جب تک

سوال یہ ہے کہ چاند تاروں پہ یہ کمندیں مفید بھی ہیں ؟

جواب یہ ہے مفید میں کچھ ’’مقامِ سعیِ مزید‘‘ بھی ہیں

سوال ہے کیا خلا کو طے کر کے آدمی کام کر سکے گا

جواب یہ ہے، سنا گیا ہے نہ جی سکے گا نہ مر سکے گا

سوال یہ ہے ’’قمر کی تسخیر‘‘واقعہ یا ’’فراڈ‘‘ ہو گا

کہاں یہ واشنگٹن بنے گا، کدھر کو لینن گراڈ ہو گا

وہاں بھی کیا کولؔ اور دراوڑ کا نام پائیں گے چاند والے

یہاں جو ریڈ انڈین کہائے وہاں وہ ہوں گے ’’سپید کالے‘‘

وہاں کی مخلوق ہم کو تاتاریہ کہے گی کہ آریائی

یہ عہدِ ایٹم شمار ہو گا بطور پتھر کے ’’ابتدائی‘‘

سوال یہ ہے اقلیّت کی ہے اکثریّت غلام یہ کیا

جواب یہ ہے خواص سے منحصر ہے ذہنِ عوام یہ کیا

سوال یہ ہے کہ ختم ہو گی سیاستِ تخت و تاج کس دن

جواب یہ ہے سمجھ میں آئے گا خبثِ رسم و رواج جس دن

وہاں بھی کیا سام و جان مِل جُل کے ریچھ کی کھمبیا بھریں گے

نہیں، مگر دوسروں سے وعدے، لپٹ پڑو ہم مدد کریں گے

سوال یہ ہے وہاں بھر رشوت چلے گی یا اقربا نوازی

جواب یہ ہے، رواج پائے گی جس قدر بھی زمانہ سازی

سوال یہ ہے وہاں بھی ڈھائیں گے ظلم تاتاریوں کے حملے

جواب یہ ہے کہ غیر ممکن نہیں جو ’چنگیز‘ بھی جنم لے

سوال یہ ہے وہاں بھی دلّی کا تخت مغلوں کا راج ہو گا

جواب یہ ہے کہ لال قلعے کا ماحصل صرف ’’تاج‘‘ ہو گا

سوال یہ ہے وہاں بھی اُلجھن میں آئے گا کیا ظفرؔ کا مقطع

جواب یہ ہے ظفرؔ کے مقطع کے ساتھ ٹیپو کے سر کا مقطع

سوال یہ ہے وہاں بھی اُبھرے گا تانتیا فرنویس کوئی

ضرور۔ لیکن دغا کرے گا، رئیس اِبنِ رئیس کوئی

٭٭٭

 

 

مگر عورت کا دل کتنا

 

پہلے شہناز کے گھر ہو آؤں

پھر بتاؤں گا تجھے اے ہمدم

رات وہ جال بُنا ہے میں نے

پھنس کے رہ جائے گا آہوئے حرم!

_________

باز آتا ہے کہیں عزمِ جواں

پیش دستی سے نہ چُوکے غالبؔ

یاد کر برقِ فلاں اور فلاں

اور پھر میں نے جو بدلے قالب

_________

تو نے بی۔ اے نہ کیا پاس اب تک

لڑکیوں پر تری دام اندازی

یہ ترے عزم کے دو رُخ کیسے؟

کہیں ’’گھامڑ‘‘ تو کہیں ہے ’’تازی‘‘

_________

دوست! فطرت بھی ت وکوئی شے ہے

یعنی ’رنگین‘ ہوں میں، تو ’سادہ‘

میں نے اک چال چلی تھی، لیکن

عقد پر وہ نہ ہوئی آمادہ

_________

آپ کو میرا پیامِ شرعی

ایک دیوانے کی بڑ تھی گویا

’’قاقم و صوف‘‘ میں ’’پیوندِ پلاس‘‘

اس جسارت پہ کئی دن رویا

_________

کل تھی معذور پسندِ خاطر

آج مختار ہے، مجبور نہیں

ابھی رستے میں یہ سوچا میں نے

آپ سب کچھ ہیں پہ مشہور نہیں

_________

ذوقِؔ مرحوم کے اسباب، بخود

کوئی تالاب ’کوئی پُل‘ بے شک

حوضِ قاضی ہو کہ نیلا تالاب

یادگاروں کا مخالف ہے فلک

_________

لاٹ، مینار، ابوالہول، اہرام

ابدیت کا یہ امکان ہے کیا

دے نہ تاریخ گواہی کب تک

ذکر تھا آپ پہ احسان ہے کیا

_________

ساتھ ہے ان کے مری ہمدردی

جن کو ماحول غلط ملتا ہے

طیش آتا ہے مجھے فطرت پر

پھول کانٹوں میں اگر کھلتا ہے

_________

اپنے والد کی ہیں اکلوتی آپ

موت کانام نہیں ہے گالی

وہ جو اللہ کا پیارے ہو جائیں

صاف میدان ’’افق تک‘‘ خالی

_________

مُند گئی آنکھ تو ہر دولت مند

خاک کے ڈھیر میں تبدیل ہوا

گھاس رہتی نہیں برسات کے بعد

حال، ماحول میں تحلیل ہوا

_________

آپ کو بھی نہ بھُلا دے دُنیا

گھاس رہتی نہیں برسات کے بعد

نام ’’اولاد‘‘ سے کے پُشتوں تک

اصل اوجھل میں، فروعات کے بعد

_________

فلم لائن پہ کبھی غور کیا؟

اس میں شہرت کی وہ رفتار کہ آج

روشنی اپنی سبک سیری پر

سُست رو، پست قدم، سرد مزاج

_________

تجھ کو کرنا ہی پڑے گا ہمدم

میرے اس عزمِ جواں کا اقرار

جو کتابوں میں نہ لے دلچسپی

جس کو اک کھیل شکستِ پندار

_________

ابھی جھاڑو پھری شہناز کا تار

ڈپٹی صاحب نے پڑھا اور روئے

بمبئی کا کوئی زچّہ خانہ

کنواریاں ہیں انھیں اللہ کھوئے

٭٭٭

 

 

آپ تو گھُورنے لگے ہم کو!

 

آپ ہیں امن و عافیت اندیش

ڈھالتے ہیں جبھی تو ایٹم بم

گفتگو میں ہزارہا گوشے

ہونٹ ہنستے ہوئے، نظر میں خم

قیمتیں چڑھ رہی ہیں اشیاء کی

آ چکا ناک میں غریب کا دَم

ناک میں دم نہ آئے گا جب تک

نہ چڑھیں گے سیاہ کے ’’دم خم‘‘

یہی ہوتے ہیں سامراجی پیچ

یونہی پھرتا ہے سب پہ دستِ کرم

تاکہ پِستی رہے عوام کی روح

تاکہ بھُولا رہے خواص کا غم

آپ تو گھورنے لگے ہم کو

’’عالمی امن ‘‘ چاہتے ہیں ہم

٭٭٭

تشکر: مصنف اور پرویز مظفر جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید