FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

ملفوظات اقبال

 

 

 

               یوسف سلیم چشتی

 

ماخوذ: مطالعۂ اقبال کے سو سال

مرتبہ: رفیع الدین ہاشمی، سہیل عمر، وحید اختر عشرت

 

 

 

 

 

علامہ اقبال مرحوم سے میری ملاقاتوں کا سلسلہ ۱۹۲۵ء سے۱۹۳۸ء تک جاری رہا۔ ان سے ملاقات کی تقریب اس طرح پیدا ہوئی کہ اس زمانے میں مجھے فلسفہ، الہٰیات اور علم کلام کے مسائل سے بڑی دلچسپی تھی۔ ان تینوں علوم میں ہستی باری کا مسئلہ بنیادی اور سر فہرست ہے لیکن کانٹ نے اپنی ’’تنقید عقل خالص ‘‘میں اثبات واجب الوجود پر جس قدر اَدِلہّ حکما اور متکلمین نے قائم کی ہیں ، سب کا ابطال کر دیا ہے۔ اس لیے میں حضرت علامہ سے ملنے گیا اور ان سے عرض کی کہ کیا آپ کے ذہن میں اثبات واجب پر کوئی ایسی دلیل ہے جو ناقابل رد ہو؟انہوں نے کہا کہ عقل انسانی اس معاملے میں عاجز ہے۔ خدا کی ہستی کا یقین دلائل عقلیہ سے پیدا نہیں ہو سکتا،اس کے لیے مشاہدہ باطنی درکار ہے۔ عقل یہ تو بتا سکتی ہے کہ اس کائنات کا کوئی ،خالق یا صانع ہونا چاہیے لیکن اس کا اثبات نہیں کر سکتی کہ یہ بات اس کے حیطۂ اقتدار سے باہر ہے۔ اس کے حکما کی تقلید کے بجائے ارباب کشف و شہود یعنی صوفیائے کرام کی پیروی کرو۔ بالفاظ دیگر رازی کو چھوڑ کر رومی کو اپنا راہنما بناؤ۔

اس ملاقات کے بعد ان سے رسم و راہ کا سلسلہ قائم ہو گیا اور کچھ عرصے کے بعد میں نے ان کے کلام کا مطالعہ شروع کر دیا۔ اس مطالعے کی بدولت مجھے ان کی شخصیت سے بڑا لگاؤ پیدا ہو گیا۔ اور جہاں تک ممکن ہو سکا میں نے ان سے استفادہ کیا۔چونکہ وہ یہ بات پسند نہیں کرتے تھے کہ ان کے ارشادات ان کے سامنے بیٹھ کر، قلمبند کروں اس لیے گھر آ کر جو کچھ ذہن میں محفوظ رہتا تھا اسے ایک ضخیم نوٹ بک میں لکھ لیا کرتا تھا۔ ۱۹۵۵ء میں دریائے راوی کے سیلاب کا پانی میرے گھر میں بلائے بے درماں کی طرح داخل ہوا اور صد ہا کتابوں کے ساتھ وہ نوٹ بک بھی برباد ہو گئی۔یہ ملفوظات جو میں ذیل میں درج کر رہا ہوں ان متفرق کاغذات اور پاکٹ بکس میں مندرج تھے جو ایک ٹرنک میں محفوظ تھیں۔

٭٭

 

 

 

 

۱۔ ۱۹مارچ ۱۹۳۰ء ۶بجے شام، میکلوڈ روڈ

علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوا۔ عرض کی کہ یاجوج اور ماجوج سے کون اشخاص مراد ہیں ؟ فرمایا کہ یہ عربی زبان کے الفاظ نہیں ہیں ، بلکہ بابلی زبان کے الفاظ گاگ اور میٹ گاگ کا معرب ہیں۔ بابل (عراق)میں دو طبقے آباد تھے ایک وہ جس کے پاس زمین تھی دوسرا وہ جو اس سے محروم تھا۔ جدید اصطلاح میں جاگیر دار اور مزدور طبقہ کہہ سکتے ہیں۔

پھر میں نے حکیم اسپنوزا کا تذکرہ چھیڑا تو علامہ نے فرمایا کہ میری رائے میں اس کی اخلاقی تعلیمات، جناب مسیحؑ کی تعلیمات سے برتر ہیں۔ یہودی قوم میں صرف دو آدمی پیدا ہوئے جن کا نام قیامت تک زندہ رہے گا، یعنی جناب مسیحؑ اور حکیم اسپنوزا۔پھر فرمایا کہ حکیم اسپنوزا ایک اونچی قسم کی وحدت الوجود کا قائل تھا۔ جناب مسیحؑ کی ولادت بھی عام انسانوں کی طرح ہوئی تھی۔ میرا یہی خیال ہے، مذہب کی بنیاد عقل پر نہیں بلکہ باطنی تجربے پر ہے۔ لیکن جب کوئی شخص اپنے تجربے کو دوسروں کو سمجھانا چاہتا ہے تو وہ عقل سے کام لے سکتا ہے۔ یعنی ہم عقل کی مدد سے اپنے تجربے کو دوسروں کے لیے قریب الفہم بنا سکتے ہیں۔

مذہب کی غایت ’’حضور ‘‘ ہے اور یہ کیفیت شعور کی گرفت میں نہیں آسکتی۔ انسان اس کیفیت کو بذریعہ الفاظ  بیان نہیں کر سکتا۔ خدا کا کامل طور سے ادراک کر لینا، عقل کے بس کی بات نہیں ہے۔ انسانی ذہن خدا کا کامل تصور نہیں کر سکتا۔ وہ صرف اس کے مظاہر کا تصور کر سکتا ہے۔ یعنی خدا کا ظہور جس طرح فطرت میں ہوتا ہے بس اس کا ادراک کر سکتا ہے۔

٭٭

 

 

 

 

۲۔ ۳۰ستمبر ۱۹۳۰ء میکلوڈ روڈ

علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔بقائے روح کے مسئلہ پر گفتگو میں فرمایا: ’’انسان کو اس کے حصول کے لیے جدوجہد کرنی لازم ہے۔ یہ وہ نعمت ہے جو مفت نہیں ملتی۔ صرف وہ لوگ اس نعمت کو حاصل کر سکیں گے جو اس کے لیے اپنے آپ کو تیار کریں گے۔ سکرات الموت میں بھی کوئی مصلحت ضرور پوشیدہ ہے۔ ممکن ہے کہ اس کی بدولت خودی میں یہ طاقت پیدا ہو جائے کہ وہ انتشار سے محفوظ رہ سکے۔‘‘

پھر فرمایا:’’شوپن ہاور کا نظریہ یہ ہے کہ آرزو منبع شر ہے،لیکن میری رائے میں یہ نظریہ بالکل غلط ہے۔ خواہشات کو فنا مت کرو بلکہ ان کو احکام شرع کے تابع کر دو‘‘۔

٭٭

 

 

 

 

۳۔ یکم اکتوبر ۱۹۳۰ء میکلوڈ  روڈ

علامہ کی خدمت میں حاضر ہُوا۔ وحدت الوجود کے مسئلے پر گفتگو میں فرمایا :’’ایک صوفی جب اپنی باطنی واردات کا بیان کرتا ہے تو اسے وحدت وجود سے تعبیر کرتا ہے۔ یعنی اس پر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ ذات واحد، کائنات کی اصل ہے۔ دنیا کا کوئی مذہب تصوف کے عنصر سے خالی نہیں ہے حتیٰ کہ سائنس میں تصوف کا رنگ جھلکتا ہے۔‘‘

’’اسپنوزا، فلسفی تھا، صوفی نہیں تھا کیونکہ صوفی وہ ہے جو وراء العقل ذرائع سے علم حاصل کرتا ہے۔ اسپنوزا عقلی اعتبار سے حلول (Pantheism)کا قائل تھا۔ لیکن شیخ اکبر ابن عربی حلول کے قائل نہیں تھے کیونکہ یہ نظریہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔‘‘

ختم نبوت کے عقیدے پر گفتگو میں انہوں نے فرمایا کہ ’’ختم نبوت کے عقیدے کی ثقافتی قدر و قیمت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیشہ کے لیے اعلان فرما دیا کہ آئندہ کسی انسان کے ذہن پر کسی انسان کی حکومت نہیں ہو گی۔ میرے بعد کوئی شخص دوسروں سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ میری بات کو بلا چوں و چرا تسلیم کر لو۔ ختم نبوت ایسا عقیدہ ہے جس کی بدولت انسانی علم کے دائرے کو وسعت نصیب ہو گئی۔

’’علی محمد باب کی دریافت یہ ہے کہ جہاد منسوخ ہو گیا۔ صاحب الہام کے لیے کسی گرامر (صرف و نحو)کی پابندی لازمی نہیں ہے۔ یعنی الہام ایسی عبارت میں بھی ہو سکتا ہے جو گرامر کے لحاظ سے غلط ہو۔‘‘

پھر فرمایا ’’حقیقت کا علم انسان کو کئی طریقوں سے حاصل ہو سکتا ہے۔ مثلاً مشاہدات حسی یا مشاہدہ باطنی (واردات قلبی )

’’میں نے کبھی ایسا کوئی شعر نہیں کہا جسے اپنے قلب میں محسوس نہ کیا ہو، اور محض عقل کے زور سے کہہ دیا ہو۔ یعنی میرے اشعار میں فکر اور جذبہ دونوں کا امتزاج پایا جاتا ہے۔‘‘

٭٭

 

 

 

۴۔۳اکتوبر ۱۹۳۰ء میکلوڈ روڈ

علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ عرض کی کہ مذہب کا دارومدار عقل پر ہے یا جذبات پر؟

’’یہ سوال ہی غلط ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ جب ایغو (خودی)اپنے گرد و پیش کی دنیا کا جائزہ لیتی ہے تو اس میں جذبہ،شعور اور ارادہ، تینوں کار فرما ہوتے ہیں۔مذہب کا تعلق انسان کے ان تینوں پہلوؤں سے ہے۔ کوئی جذبہ ایسا نہیں ہے جس میں خودی کے دوسرے پہلو (شعور اور ارادہ)شامل نہ ہوں۔انسان خالص جذبات یا خالص شعور یا خالص ارادے سے ناآشنا ہے۔ مثلاً علم الدین شہید کا جذبہ اس کی مکمل شخصیت کی گہرائی سے ابھرا تھا۔ اس میں شعور اور ارادہ بھی شامل تھا۔

’’ایمان دراصل عمل کی استعداد کا نام ہے۔ اسلام ایسے ایمان کو پسند نہیں کرتا جو انسان کو عمل پر آمادہ نہ کر سکے۔’’

’’وحی میں بھی شعور اور ارادے کے عناصر شامل ہوتے ہیں ‘‘۔ جو لوگ مجھ سے ملنے آتے ہیں ان میں اکثر ایسے ہوتے ہیں جن کا دل سوز دروں سے بیگانہ ہوتا ہے یعنی وہ متکلم نعش‘‘ ہوتے ہیں۔’’جو آدمی دوسروں کے لیے اسوہ (نمونہ)ہوتا ہے اس کی کوئی ’’پرائیوٹ زندگی نہیں ہوتی‘‘۔ یعنی وہ خلوت اور جلوت دونوں میں یکساں زندگی بسر کرتا ہے بالفاظ دیگر اس کے ظاہر اور باطن میں مطابقت ہوتی ہے۔

٭٭

 

 

 

 

۵۔ اکتوبر ۱۹۳۰ء ۶بجے شام میکلوڈ روڈ

علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ عرض کی کہ مذہب اور نظریہ حلول (Pantheism)میں بنیادی فرق کیا ہے؟ فرمایا کہ نظریہ حلول کی رو سے خدائے مشخص کا وجود نہیں ہے۔ جبکہ مذہب کی تعلیم یہ ہے کہ خدا ایک شخص (Person)ہے جو سنتا ہے، جواب دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ مذہب میں خدا کا تصور انسانی خودی کے رنگ میں کیا جاتا ہے، اور ہم تصور کرنے پر مجبور ہیں۔

ہمارا تصور طاقت (Force)ہمارے تصور ارادہ سے ماخوذ ہے ’’آخر الامر اس بات کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ صرف باطنی تجربہ ہی کسی مذہب کی صداقت کا معیار ہے۔ ہاں جب تم اپنے باطنی تجربے کو دوسروں کو سمجھاؤ گے تو عقل سے کام لے سکتے ہو۔ الہٰیات دراصل اپنے باطنی تجارب کو دوسروں کو بذریعہ عقل سمجھانے کا دوسرا نام ہے۔

میں نے اسی زمانے میں خطباتِ مدراس کا پہلی مرتبہ مطالعہ کیا تھا۔ ان خطبات کی خوبیاں بیان کیں تو فرمایا ’’اگر یہ کتاب المامون کے عہد میں لکھی گئی ہوتی تو تمام دنیائے اسلام میں ایک غلغلہ برپا ہو جاتا’’۔ پھر فرمایا ’’دراصل میری یہ کتاب آیندہ فلسفہ اسلام پر قلم اٹھانے والوں کے لیے ایک مقدمے کا کام دے گی۔

٭٭

 

 

 

 

۶۔۲۱  اکتوبر ۱۹۳۰ء۱۔۵بجے شام میکلوڈ روڈ

علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ملوکیت کے بارے میں گفتگو ہوئی۔ میں نے یہ دریافت کیا کہ اسلام ملوکیت کو کس نظر سے دیکھتا ہے؟ فرمایا ’’اسلام کو ملوکیت سے کوئی علاقہ نہیں ہے۔ وہ ملوکیت کی ہر صورت کو مذموم قرار دیتا ہے۔ اسلام میں ملوکیت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ پھر فرمایا ملوکیت کی بنیاد انسان کا یہ جذبہ ہے، کہ وہ طاقت حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ دوسروں پر حکومت کر سکے اور اس طاقت کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ دوسرا اس میں شریک ہو۔ِ

ملوکیت کا طریق کار یہ ہے کہ بادشاہ،قوم میں تقسیم اور تفریق کا رنگ پیدا کرتا ہے تاکہ وہ ثالث کا فرض انجام دے سکے اور اس طرح متخاصم جماعتوں کو یقین دلاتا ہے کہ تمہاری عافیت کے لیے میرا وجود ضروری ہے۔

ملوکیت کا ثمرہ یہ ہے کہ محکوم قوم میں (الف) فسق و فجور پیدا ہوتا جاتا ہے۔ (ب) اعلیٰ ادنیٰ اور ادنیٰ اعلیٰ ہو جاتے ہیں (ج) محکوم قوم رفتہ رفتہ اخلاق حسنہ سے عاری ہو جاتی ہے۔ اس سلسلے میں ملکۂ سبا کا قول لائق مطالعہ ہے:

قالت ان الملوک اذا دخلواقریۃ افسلوھا وجعلوا اعزۃ اھلھا اذلۃ (النمل۔ ۳۳)

(ترجمہ) ’’ملکہ نے کہا کہ بلا شک جب بادشاہ کسی شہر میں داخل ہوتے ہیں تو وہ اس میں فساد برپا کرتے ہیں (تباہ کر دیتے ہیں ) اور اس شہر کے معزز افراد کو ذلیل کر دیتے ہیں (تاکہ وہ سر نہ اٹھا سکیں )۔

٭٭

 

 

 

۷۔۱۳دسمبر ۱۹۳۰ء  میکلوڈ روڈ

علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ خدا اور انسان کے باہمی رشتے پر گفتگو چلی تو علامہ نے فرمایا:

’’حقیقی معنی میں صرف خدا ہی موجود ہے۔ انسان موجود ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔

چو موج می تپد آدم بجستجوئے وجود

ہنوز تا بہ کمر درمیانہ عدم است

پھر فرمایا:”God is in effort as seen through man”

پھر فرمایا:’’خدا کے سوا اور کوئی شے حقیقی معنی میں موجود نہیں ہے۔‘‘

فرمایا کہ ’’اس بات کی تائید نہ فلسفے سے ہو سکتی ہے نہ الہٰیات سے کہ خدا وہاں ہے اور انسان یہاں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خدا اور انسان مدمقابل ہستیاں نہیں ہیں :

اگر خواہی خدا را فاش بنیی

خودی را فاش تر دیدن بیاموز

اگر زیری ز خود گیری زبر شو

خدا خواہی؟ بخود نزدیک تر شو

ہیگل کا نظریہ یہ ہے کہ ’’میرا وجود خدا کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ اس کا وجود میرے لیے‘‘۔ پھر فرمایا ’’موت بھی زندگی ہی کا ایک رخ (Aspect) ہے۔ اس لیے اس سے ہراساں نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

’’کوئی شخص ہمہ اوست کا مفہوم لفظوں کے ذریعے سے دوسرے کو نہیں سمجھا سکتا۔ اس کا تعلق وجدان سے ہے نہ کہ ادراک سے۔‘‘

’’اگر ہم خدا، خودی یا کسی اور شے کو جوہر قرار دیں تو ان میں سے کسی کی ہستی کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ ہم نے یہ فرض کر لیا ہے کہ صفات، جوہر میں پائی جاتی ہیں۔ یعنی وہ قائم بذات غیر ہیں ، اس لیے کوئی غیر یعنی جوہر ضرور موجود ہے۔ حالانکہ درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ اس لیے ہم خدا یا خودی کو جوہر نہیں کہہ سکتے‘‘۔

٭٭

 

 

 

 

۸۔ ۴ستمبر ۱۹۳۱ء یوم جمعہ۔۵بجے شام۔میکلوڈ روڈ

علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ موصوف یکم ستمبر کو لاہور سے روانگی کا قصد کر چکے تھے مگر فوری علالت کی وجہ سے التوا واقع ہو گیا۔

میں نے عرض کی کہ آپکے الٰہ آباد کے خطبہ ء صدارت کو میں اپنے اشاعت اسلام کالج کے طلبہ کو سبقاً سبقاً پڑھا رہا ہوں۔ فرمایا تم نے اچھا کیا، مگر اس میں دوامی قدر و قیمت(Permanent Value) کی چیز تو صرف شروع کا حصہ ہی ہے، یعنی اسلام اور قومیت۔ اسے خاص توجہ سے پڑھنا چاہیے اور اگر ہو سکے تو اس کی شرح لکھنی چاہیے۔

پھر فرمایا ’’شاید مسلمانوں نے کسی سیاسی خطبہ کو اس ذوق و شوق سے نہیں پڑھا ہو گا جیسے اس خطبے کو پڑھا ہے، اور نہ اس قدر زیادہ افراد نے کسی خطبے کو اس قدر لائق اعتنا سمجھا ہو گا‘‘۔

میں نے عرض کی کہ ایمان اور عقل میں کیا رشتہ ہے؟ فرمایا ’’دونوں جداگانہ چیزیں ہیں۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایک دوسرے کے معاون ہیں۔ بعض کی رائے میں عقل بمنزلہ خادم ہے اور ایمان مخدوم ہے، وغیرہ۔ لیکن میری رائے یہ ہے کہ ان کو مخلوط نہ کیا جائے، دونوں اپنی اپنی جگہ رہیں۔

حضور انور سے جبریل علیہ السلام نے پوچھا کہ اسلام کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’اسلام یہ ہے کہ تو زبان سے کلمہ ء شہادت ادا کرے، نماز پڑھے، روزہ رکھے، زکوٰۃ دے، اور اگر استطاعت ہو تو حج کرے۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ تو ایمان لائے اللہ پر، ملائکہ پر، کتابوں پر، رسولوں پر، قدر خیرو شر من اللہ پر اور یوم آخرت پر۔ پھر انہوں نے پوچھا احسان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کر گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر یہ حالت ممکن نہ ہو تو پھر یہ محسوس کر گویا وہ تجھے دیکھ رہا ہے‘‘۔

حدیث بیان کرنے کے بعد علامہ نے فرمایا کہ ’’یہ اسلام ہی کے تین مراتب ہیں اور ایمان اور احسان میں بہت تھوڑا سا فرق ہے۔ یہ احسان والی کیفیت ہی دراصل اسلام کی روح ہے اور کیفیت ایمان عمل صالح سے پیدا ہوتی ہے‘‘۔

پھر فرمایا ’’ایمان کے جس قدر ارکان ہیں وہ سب کے سب، عقل کے حیطہء اقتدار سے باہر ہیں۔ عقل زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتی ہے کہ ان کے ممکن یا غیر ممکن ہونے کا فتویٰ دیدے مثلاً: (الف)

Whether the concept of "God” is logically possible or not.

یعنی تصور ذات باری عقلاً ممکن ہے یا نہیں ؟ اب ظاہر ہے کہ قیامت، حشرونشر، وزن اعمال، جنت و نار وغیرہ کا ہمیں کوئی شخصی تجربہ نہیں ہے۔ اس لیے عقل ان امور سے متعلق نفیاً یا اثباتاً کچھ نہیں کہہ سکتی۔ وہ تو صرف مادیات میں چل سکتی ہے۔ یا ان باتوں میں جو ہمارے تجربے یا مشاہدے میں آ چکی ہیں۔ مثلاً جزو اپنے کل سے چھوٹا ہوتا ہے‘‘۔

پھر فرمایا ’’جیسا کہ میں کئی دفعہ واضح کر چکا ہوں ، ہم خدا کو مجرد عقل سے نہیں پا سکتے(عقل اس کا ادراک نہیں کر سکتی)اسے باطنی مشاہدے یا تجربے کی بدولت جان سکتے ہیں اور مذہب جیسا کہ ارباب علم جانتے ہیں تجارب کے ایک طویل سلسلے کا نام ہے۔چونکہ خدا لامتناہی(Infinite) ہے اور وہ ہر لمحہ نئی تجلی فرماتا ہے   کماقال:۔ کل یوم ھو فی شان  (۲۷۔۲۹)

’’یعنی حق تعالیٰ ہر لمحہ اپنی ذات کی نئی تجلی کرتا رہتا یبکہءبہ: ہے۔ اس لیے اس کی ہستی سے متعلق ہمارے مشاہدات اور تجارب باطنی بھی لامتناہی ہیں۔ نیز، یہ ضروری تو نہیں کہ ہمارا آج کا تجربہ کافی یا آخری یا معیاری قرار پائے۔ عین ممکن ہے کل ہمیں بہتر اور برتر تجربہ حاصل ہو جائے۔

پس ثابت ہوا کہ ایمان ایک ترقی پذیر کیفیت ہے جس میں روز بروز اضافہ ہو سکتا ہے۔ اور یہ بات قرآن حکیم سے ثابت ہے کہ ایمان میں کمی، بیشی ہو سکتی ہے:۔ واذاتلیت علیھمٰ ایتہ زادتھم ایمانا (۱۱:۶۴)اور جب ان پر اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو زیادہ کر دیتی ہیں ان کے ایمان کو۔

پھر فرمایا’’ ہاں عقل کو اس حالت میں مذہبی عقائد یا مسلمات پر تنقید کا حق حاصل ہے جب وہ مسلمات، تحکمانہ (Dogmatic) رنگ میں پیش کئے جائیں مثلاً فلاں بات پر ایمان لے آؤ ورنہ نجات نہیں ہو گی۔ الحمد اللہ اسلام میں کوئی Dogma نہیں ہے، یعنی اسلام کسی بات کو زبردستی نہیں منواتا۔ قرآن جس قدر عقائد تلقین کرتا ہے، ان کی راستی پر دلائل عقلیہ مرتب کرتا ہے۔

پھر فرمایا’’ اگر ایک شخص کو اپنی ذات میں خدا کی ہستی کا تجربہ یا مشاہدہ ہو گیا ہے تو پھر عقل کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اس میں دخل دے۔ اور سچ پوچھو تو عقل کو اس باطنی تجربے اور مشاہدے سے سروکار بھی کیا ہو سکتا ہے؟ یہ تجربہ تو عقل کی رسائی سے بالاتر ہے۔ جب کوئی شخص اچھا شعر کہتا ہے یا اچھی تصویر بناتا ہے تو اس پر تنقید کے لیے کسی مہندس یا منجم کے پاس نہیں جاتا بلکہ کسی شاعر یا مصور کے پاس جاتا ہے۔ لہٰذا ایک فلسفی یا منطقی،کسی باطنی مشاہدے پر کس طرح تنقید کر سکتا ہے۔ یاد رکھو! مذہبی تجارب(مشاہدات باطنی) عقل کی دسترس سے باہر ہیں۔

آخر میں عودالی المقصود کے انداز میں فرمایا کہ ایمان اس کیفیت کا نام ہے جو انسان کو عمل پر آمادہ کر دے۔ یعنی مومن وہ ہے جس سے اعمال صالحہ خلوص قلب کے ساتھ سرزد ہوں ، نہ اس لیے کہ وہ دوزخ سے خوفزدہ ہے یا جنت کا آرزو مند ہے۔ بلکہ اس لیے کہ اس کی ذہنیت ہی ایسی ہو گئی ہے کہ اگر وہ اعمال حسنہ ادا نہ کرے تو اسے راحت قلبی نصیب نہیں ہو سکتی۔ بالفاظ دیگر نکو کاری اس کی طبیعت ثانیہ بن جائے۔ کم از کم میں اس بات کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوں کہ ایک آدمی مومن بھی ہو اور بد کار بھی ہو۔ ہاں ایک مسلم گناہ کا ارتکاب کر سکتا ہے۔

٭٭

 

 

 

 

۹۔ ۲۷مئی ۱۹۳۲ء،۸بجے دن،میکلوڈ روڈ

علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ڈرائینگ روم میں تنہا بیٹھے ہوئے تھے۔ میں رسالہ ’’نگار‘‘ لکھنؤ بابت ماہ مئی ساتھ لایا تھا۔ اس میں ان کی شاعری پر فنی نقطہ نگاہ سے تنقید کی گئی تھی۔ اسے پڑھ کر فرمایا ’’ خدا جانے مسلمانوں کو یہ توفیق کب حاصل ہو گی کہ وہ وزن اور بحر سے بالاتر ہو کر معانی تک پہنچنے کی کوشش کریں گے‘‘۔ اس کے بعد دیر تک شاعری کے مقصد پر گفتگو کی۔

پچھلی ملاقات میں ، میں نے عرض کی تھی کہ اسرار خودی کے بعض اشعار آپ سے سمجھنا چاہتا ہوں۔ چونکہ اس امر کی اجازت دے دی تھی، اس لیے آج اسرار خودی بھی ساتھ لایا تھا۔ اشارہ پا کر میں نے پہلا مصرع پڑھا:

پیکر ہستی ز آثار خودی است

فرمایا ’’ہر شے میں خودی موجود ہے۔ پتھر ہی کو لے لو۔ اگر تم کمزور ہو تو تم سے اٹھائے نہیں اٹھے گا۔ اس میں وزن ہے اور یہی اس کی خودی ہے۔ درخت کو کاٹو تو مشکل سے کٹے گا۔غرض ہر                 شے کسی نہ کسی رنگ میں قوت مزاحمت (Power of resistance)رکھتی ہے اور یہی اس کی خودی ہے۔ یہی اس کی ہستی کا ثبوت ہے، کہ وہ ہے۔

فرمایا کہ ایغو کے لیے غیر ایغو(Non ego)کا ہونا ضروری ہے، جب تک آپ غیر کو ثابت نہ کریں ،ایغو کو ثابت نہیں کر سکتے۔ ایغو کو مشخص کرنے کے لیے اسے اغیار سے متمیّز کرنا ضروری ہے،اور اس امتیاز کے لیے دوسری اشیا کا وجود ضروری ہے جن کے مقابلے میں یا موجودگی میں ذہن کسی خاص شے کے وجود کا تصور کر سکتا ہے۔ الغرض انا کے لیے غیر کا وجود ضروری ہے:

باطل از قوت پذیر د شان حق

فرمایا کہ قوت ایسی شے ہے کہ اگر یہ حاصل ہو جائے تو باطل میں بھی حق کی ایک شان پیدا ہو جاتی ہے اور اس میں شک بھی کیا ہے۔ نصرانیت کو دیکھ لو۔ چونکہ اس وقت اس کے پیروؤں کو قوت حاصل ہے، اس لیے بہتوں کے حق میں باعث مزلت اقوام نبی ہوئی ہے:

زندگانی محکم از تقنطوا است

فرمایا ’’یاد رکھو غم اور خوف یہ دونوں چیزیں ایسی ہیں کہ خودی کو تباہ کر دیتی ہیں۔ اور ایک مسلمان جب تک ان دو عیبوں سے پاک نہ ہو جائے حقیقی معنی میں مسلمان نہیں ہو سکتا اور ان کے ازالے کی صورت یہ ہے کہ انسان، توحید الٰہی کو اپنے دل میں پختہ کر لے، بایں طور کہ پھر شک دل میں راہ نہ پا سکے۔ یعنی اسے یہ یقین ہو جائے کہ جب تک خدا نہ چاہے، کوئی طاقت مجھے نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ پھر اس کے دل میں نہ حزن راہ پا سکتا ہے نہ خوف۔اگر غیر اللہ کا خوف کسی درجے میں بھی دل میں موجود ہے تو خودی کبھی ہرگز نہیں ابھر سکتی:

بیم غیر اللہ عمل را دشمن است

فرمایا ’’ہم جملہ مظاہر فطرت سے ڈرتے ہیں ، زلزلے سے آگ سے، امراض سے، سانپ سے، تاریکی سے، شیر سے، وغیرہ۔ محض اسی لیے کہ ہم موت سے ڈرتے ہیں۔ لیکن اگر ہمیں یہ یقین ہو جائے کہ موت ایک مرحلہ ہے جو روحانی ترقی کے سلسلے میں لازماً پیش آتا ہے تو ہم موت سے خوفزدہ نہیں ہو سکتے ‘‘۔ موت بھی زندگی ہی کی ایک شان (Aspect)ہے۔ موت زندگی کے خاتمے کا نام نہیں ہے بلکہ موت وہ دروازہ ہے جس میں سے ہو کر ہم نئی دنیا میں داخل ہوتے ہیں ‘‘۔

’’کائنات میں کوئی شے تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ جب ہم کہتے ہیں کہ دنیا کی کوئی حقیقت نہیں ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ کائنات سراب (Illusion)ہے۔ بلکہ یہاں جو کچھ ہے مومن کی نگاہ میں اس کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ کیونکہ اس کا مطمح نظر بہت بلند ہوتا ہے۔ وہ مادی ساز و سامان سے مطلق مرعوب نہیں ہوتا، کیونکہ ہر شے فانی ہے‘‘۔

’’اگر ہم یہ یقین کر لیں کہ کائنات میں یا میں ہوں یا خدا ہے‘ تیسری کوئی ہستی نہیں ہے، تو پھر خوف کیسا؟ یعنی ہم مومن اس وقت بن سکتے ہیں جب خدا کے سوا کسی کا وجود ہماری نگاہ میں نہ سمائے۔

رمز قرآں از حسینؓ آموختیم

فرمایا کہ تعلیمات قرآنی کی روح یہ ہے کہ مومن وہ ہے جو باطل کا مقابلہ کرے اور مطلق ہراساں نہ ہو۔ یعنی ایسے موقع پر نفع یا نقصان کا خیال دل میں نہ لائے، شہید کو شہید اسی لیے کہتے ہیں کہ  وہ اپنے معتقدات کی سچائی پر اپنے خون سے گواہی دیتا ہے۔

ایک فرنچ مصنف نے لکھا ہے کہ اسلام ایک آسان مذہب ہے۔ والٹیر نے اس کے جواب میں یہ کہا کہ اسلام آسان مذہب نہیں ہے، دن میں پانچ مرتبہ نماز پڑھنا، موسم گرما میں روزے رکھنا، زکوٰۃ دینا اور حج کرنا، یہ باتیں آسان نہیں ہیں۔ میں نے دل میں کہا اسلام کی حقیقت سے نہ معترض واقف ہے نہ مجیب بے شک اسلام نے نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کا حکم دیا ہے مگر اسلام کا نصب العین ان ارکان سے بالاتر ہے۔ نماز پڑھنی آسان ہے مگر باطل کے مقابلے میں صف آرائی ہر شخص کا کام نہیں ہے۔ اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ انسان جان دے دے مگر فرعون کے سامنے سر نہ جھکائے:

ماسوا اللہ را مسلماں بندہ نیست

پیش فرعونے سرش افگندہ نیست

ہمارے زمانے میں انور پاشا شہید نے اسی اصول پر عمل کیا۔ انہوں نے ترکستان میں آزاد اسلامی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی۔ چونکہ مشیت ایزدی کو منظور نہ تھا اس لیے وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ مگر انہوں نے روسیوں کے آگے سر تسلیم خم نہیں کیا۔ بلکہ مردانہ وار موت کو لبیک کہا اور ابدی زندگی حاصل کر لی۔

در جہاں نتواں اگر مردانہ زیست

ہمچو مرداں جاں سپردن زندگیست

٭٭

 

 

 

 

۱۰۔ ۳جون ۱۹۳۲ء، یومِ جمعہ، میکلوڈ روڈ‘۵بجے شام

علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ باہر بیٹھے تھے اور ایک صاحب سے اپنی کوٹھی کے لیے زمین کی خریداری کے مسئلے پر گفتگو کر رہے تھے۔ میں خاموش بیٹھا رہا۔ جب وہ صاحب چلے گئے تو آپ نے حقے کے چند کش لیے اور میری طرف مخاطب ہو کر فرمایا ’’مجھے مسلمانوں کی حالت پر رونا آتا ہے۔ ان میں غیرت کا مادہ بہت کم رہ گیا ہے۔ اسی لیے انہیں اب اتنی تمیز بھی نہیں ہے کہ جس کی وہ خوشامد کرتے ہیں اس سے انہیں کچھ فائدہ بھی حاصل ہو گا یا نہیں۔ جس شخص کو صاحب اقتدار دیکھتے ہیں اس کی خوشامد  کرنے لگتے ہیں۔ اور یہ مسئلہ کہ جسے وہ فائدہ سمجھتے ہیں دراصل اس کی قیمت (Value) کیا ہے، اس قدر اونچا کہ اس تک ان کے ذہنوں کی رسائی بھی نہیں ہو سکتی۔ اس کے بعد مجھے پڑھنے کے لیے اشارہ کیا۔ میں نے یہ شعر پڑھا:۔

شعلہ ہائے او صد ابراہیمؑ سوخت

تا چراغِ یک محمدؐ بر فروخت

فرمایا ’’اس سے پہلے یہ شعر آ چکا ہے:

عذرِ ایں اسراف و ایں سنگیں دلی

خَلق و تکمیلِ جمالِ معنوی

مطلب یہ ہے کہ فطرت بظاہر خونریزی کرتی ہے لیکن جمال باطنی کی تکمیل اسی سے ہوتی ہے۔ جب ملائکہ نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی‘ خلافت ارضی ہمیں عطا کی جائے۔ انسان تو بہت خصیم اور خونریز ہے اور ہم ہر وقت آپ کی تسبیح و تقدیس کرتے رہتے ہیں تو اللہ نے ان کی تردید تو نہیں کی مگر یہ فرمایا:اِنّیْ اَعْلَمُ مَا لَاْ تَعْلَمُوْن یعنی خدا نے کائنات کی تخلیق ایک خاص نہج پر کی ہے۔خصومت اور سفک دم، دونوں باتیں انسان کی فطرت میں ودیعت کی ہیں۔ اگر وہ چاہتا تو تکمیل جمال معنوی کے لیے کوئی اور صورت پیدا کر سکتا تھا، مگر اس نے یہی پسند کیا کہ جدوجہد اور جنگ و جدل سے جمال کی تکمیل ہو۔ اسی لیے اس نے فرشتوں کو ا س کام کے لیے منتخب نہیں کیا کیونکہ ان کے اندر خصومت اور خونریزی کا مادہ نہیں۔ جبکہ پیکار اور جدال انسان کی سرشت میں داخل ہے۔

فطرت میں بظاہر خونریزی اور تباہ کاری نظر آتی ہے۔ بہت ضیاع ہوتا ہے اس کے بعد کوئی عمدہ شے تیار ہوتی ہے۔ مثلاً لاکھوں پھول آتے ہیں ، اکثر ضائع ہو جاتے ہیں ، چند پھولوں پر پھل لگتے ہیں۔ لاکھوں بچے پیدا ہوتے ہیں اکثر مر جاتے ہیں ، کمتر پروان چڑھتے ہیں۔ اسی طرح خودی کے شعلے نے سیکڑوں ابراہیم پیدا کر کے فنا کر دیے۔ تب جا کر ایک انسان کامل پیدا ہوا۔ یہ صورت اس لیے مد نظر ہوئی کہ انسان جدوجہد کرنے کے بعد تکمیل جمال کر سکے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:  الّٰذی خَلَقَ فَسَوّٰی وَالّٰذِیْ قَدَّرَ فَھَدٰی

یعنی پیدا کیا، پھر درست کیا (مناسب حال صورت بخشی)پھر اندازہ مقرر کیا کہ اس حد تک ترقی ممکن ہے۔ پھر اس حد تک پہنچنے کے لیے ہدایت عطا کی۔ اس کے بعد آزادی عطا کی کہ جدوجہد کرے۔ زندگی از اول تا آخر عمل سے عبارت ہے سکون موت ہے۔

شعلہ خود در شرر تقسم کرد

جز پرستی عقل را تعلیم کرد

فرمایا ’’عقل ‘کل کو نہیں دیکھ سکتی صرف جز کو دیکھ سکتی ہے کیونکہ وہ زنجیر ی زمان و مکان ہے۔ کل کو صرف وجدان پا سکتا ہے، کیونکہ وجدانی حالت میں نفس ناطقہ ،قید زمان و مکان سے آزاد ہو جاتا ہے:

علم از سامان حفظ زندگی است

فرمایا :’’علم و فن کا مقصد اصلی، محض آگاہی نہیں ہے بلکہ یہ کہ انسان علم کی بدولت اپنی زندگی اور خودی کی حفاظت کے طریقوں سے آگاہ ہو جائے۔ مذہب کا مقصد بھی یہی ہے۔ جو لوگ ’’فن برائے فن‘‘ کے قائل ہیں ، وہ غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ فلسفہ، آرٹ اور مذہب، اگر خودی کی حفاظت میں معاون نہ ہوں تو بالکل بیکار ہیں :

در اطاعت کوش اے غفلت شعار

می شود از جبر پیدا اختیار

فرمایا ’’خودی کی تربیت میں پہلا مرحلہ اطاعت ہے۔ اسی لیے اسلام کے معنی ہیں احکام شرع کی بلا چون و چرا اطاعت کرنی۔ جب انسان احکام شرع کی اطاعت کرتا ہے تو اس میں اختیار کا رنگ پیدا ہو جاتا ہے یعنی وہ صاحب اقتدار ہو جاتا ہے۔ حقیقی آزادی (حریت)احکام الٰہی کی تعمیل ہی سے پیدا ہوتی ہے۔

کائنات پر نظر ڈالو۔ جو شے قیمتی اور معزز ہے وہ اطاعت ہی کی وجہ سے ہے۔ ہوا جب پھول میں مقید ہوتی ہے تو خوشبودار بن جاتی ہے۔ اسی طرح مرد مومن، اطاعت سے مراتب عالیہ حاصل کرتا ہے۔ اس لیے مسلمان کو سختی، آئین کی شکایت کرنی زیبا نہیں ہے۔ اور نہ آئین میں تاویل کرنی چاہیے۔

اطاعت سے ضبط نفس کی صفت پیدا ہوتی ہے۔ انسان دو عناصر سے مرکب ہے‘ خوف اور محبت۔ ان کا تقاضا یہ ہے کہ وہ دنیا کی طرف مائل رہتا ہے اور یہ دنیا طلبی اسے فحشاء اور منکرات پر ابھارتی ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ مسلمان یہ عقیدہ اپنے دل میں راسخ کر لے کہ اللہ کے سوا اور کوئی ہستی مجھے نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ ’’لا الہ‘‘ کا عصا اس قدر طاقتور ہے کہ خوف اور محبت کے طلسم کو چشم زدن میں باطل کر دیتا ہے۔ دیکھ لو! حضرت ابراہیمؑ نے اپنے فرزند کے گلے پر چھری رکھ دی، کیوں ؟ محض اس لیے کہ انہیں اللہ کے سوا اور کسی سے محبت نہیں تھی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے اس فعل کو قیامت تک مسلمانوں کے لیے اسوۂ حسنہ قرار دیا کہ مومن وہ ہے جس کے دل میں خدا کے سوا اور کسی کی محبت نہ ہو۔ خالد جانباز کو ’’سیف اللہ‘‘ کا لقب اسی چیز نے دلوایا کہ وہ خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تھے۔

آخر میں فرمایا کہ ’’لا الہ الا اللہ‘‘ زبان سے مت کہو بلکہ دل سے کہو۔ یعنی اس بات پر کامل یقین رکھو کہ خدا کے علاوہ کوئی ہستی تم پر قاہر اور غالب نہیں ہے۔ جب ما سویٰ اللہ کا خوف اور اس سے امید، یہ دو باتیں دل سے نکل جاتی ہیں تو مسلمان، مومن بن جاتا ہے۔

٭٭

 

 

 

 

۱۱۔ ۱۵۔ اپریل ۱۹۳۳ء

ادارہ معارف اسلامیہ کے پہلے اجلاس منعقدہ لاہور میں علامہ اقبال مرحوم نے اپنا افتتاحی خطبہ پڑھا تھا۔ اس میں سے چند اقتباسات ذیل میں درج کرتا ہوں۔

’’عصرِ حاضر کے مسلمان، علم کلام کی بحثوں کے مقابلے میں اسلام کی ثقافتی تاریخ سے زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ اور اسی لیے مسلمان ملکوں میں ثقافت جدیدہ کے تصورات کو اپنے اندر جذب کرنے کا میلان پیدا ہو گیا ہے‘‘۔

انسان نے ہمیشہ سے کائنات میں نظم و ربط باہمی تلاش کرنے کی کوشش کی ہے اور قرآنی تعلیمات کی رو سے نظم و ضبط (Order) اس کائنات کی سرشت میں داخل ہے۔ کما قال اللہ تعالیٰ:

ما تَرٰی فِی خَلَقِ الرَّحْمٰنِ مِن تَفٰوُت فَارْجِعِ الْبَصَرَ ھَلْ تَریٰ مِنْ فُطُوْر(اے انسان)تو اللہ کی تخلیق میں کہیں تفاوت نہ پا سکے گا۔(اگر تجھے شک ہو تو)دوبارہ نگاہ (غور)کر کے دیکھ لے، کیا تو کہیں کوئی شگاف (فساد)دیکھتا ہے؟

’’تمام سائنس اس یقین پر مبنی ہے کہ کائنات میں نظم و نسق پایا جاتا ہے۔ چنانچہ جدید سائنس اسی مفروضے سے شروع ہوتا ہے۔ اور اگر یہ مفروضہ صحیح ہے تو پھر علم کا صحیح ذریعہ صرف تجربہ اور مشاہدہ ہے۔ آیت مذکورہ بالا جدید سائنس اور اسلام میں استقرائی طریق کا سنگ بنیاد ہے۔

سب سے پہلے مسلمان ماہرین فلکیات نے بطلیموسی نظام کی صحت اور واقعیت میں شک کیا۔ اور اس طرح کا پر نیکی نظام کی بنیاد پڑی۔

’’موجودہ عہد کے مسلمان علما اور حکما کا فرض منصبی یہ ہے کہ وہ اس مجوسی گردو غبار کو دور کریں جس نے اسلام کے محاسن کو ہماری نظروں سے پوشیدہ کر دیا ہے‘‘

٭٭

 

 

 

 

۱۲۔ یکم مئی ۱۹۳۳ء میکلوڈ روڈ

علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں اپنے ساتھ مسلم ریوائیول کا دسمبر نمبر لے گیا تھا۔ اس میں علامہ کا وہ لیکچر شائع ہوا تھا جو انہوں نے مجلس ارسطو لندن میں دیا تھا۔ میں نے عرض کی کہ اس کا اردو ترجمہ کرنے کی اجازت دے دیجئے تو فرمایا کہ میں نے پروفیسر سید نذیر نیازی (جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی)سے ترجمہ کے لیے کہہ دیا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد جناب میکش (مرتضیٰ احمد مرحوم)ملنے آ گئے۔ انہوں نے ایسڑن ٹائمز (اس زمانے میں لاہور سے شائع ہوتا تھا)کے ایک مضمون کو علامہ کے سامنے پیش کیا۔ پڑھ کر فرمایا بڑا افسوس ہے کہ روسی مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے لیے تو مسلمانان عالم کو کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے گا۔

اس مضمون کو پڑھ کر کمیونزم اور بالشوزم پر تبصرہ فرمایا اور اس ضمن میں جاوید نامے سے چند اشعار جو ان تحریکوں سے متعلق ہیں ، پڑھ کر سنائے۔

اس کے بعد مسٹر نور احمد چیف رپورٹر سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور ملنے آ گئے ان سے تھوڑی دیر تک بعض سیاسی مسائل پر گفتگو ہوئی۔ وہ چلے گئے تو علامہ نے میکش صاحب سے مخاطب ہو کر فرمایا ’’چند روز ہوئے سردار عبد الرسول خاں اور ان کے ایک دوست میرے پاس آئے تھے، کہتے تھے کہ ’’ہم دونوں ابھی فریضہ حج سے فارغ ہو کر آئے ہیں۔ سلطان ابن سعود نے بہت برا کیا کہ زائرین کو روضہ اقدس کی جالیوں کو بوسہ دینے سے روک دیا۔ مجھے سلطان نے عصرانے پر مدعو کیا تھا لیکن میں نے ان کی دعوت اس لیے رد کر دی کہ انہوں نے ہمارے جذبات کا احترام نہیں کیا۔‘‘ یہ سن کر میکش کہنے لگے کہ میری رائے میں سلطان نے بہت اچھا کیا۔ کیونکہ جالیوں کو بوسہ دینا ایک مشرکانہ فعل ہے۔ اس پر علامہ نے فرمایا کہ میں اس بات میں آپ سے متفق نہیں ہوں۔ اگر کوئی شخص فرط محبت سے اپنے بیٹے کو سینے سے لگا لے اور اس کی پیشانی چوم لے تو یہ شرک کیسے ہو گیا؟ یہ تو اظہار محبت ہے۔ اسی طرح حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اقدس کی جالیوں کو چومنا، مشرکانہ فعل نہیں ہے بلکہ حضور انورؐ سے محبت کا اظہار ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص آنحضرت میں خدائی صفات تسلیم کرتا ہے یا آپ کو الوہیت میں شریک کرتا ہے تو وہ بلاشبہ مشرک ہے۔ مجھے بخوبی معلوم ہے کہ جو مسلمان جالیوں کو چومتے ہیں وہ فرط محبت و عقیدت سے ایسا کرتے ہیں اور یہ فعل مشرکانہ نہیں ہے۔

اس پر میکش کہنے لگے کہ محبت یہ نہیں ہے کہ جالیوں کو بوسہ دیا جائے، محبت یہ ہے کہ محبوب کے Cause(مقصد حیات)کی حمایت کی جائے یا اس کی اتباع کی جائے۔ یہ سن کر علامہ لیٹے سے اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ آپ کو یہ غلطی، محبت کے مدارج میں امتیاز نہ کر سکنے کی وجہ سے لاحق ہوئی ہے۔ محبت کے مختلف مدارج ہیں۔ اگر ایک شخص محبت میں اس قدر بلند مرتبہ حاصل کر لے کہ محبوب کے رنگ میں رنگین ہو جائے یا اس کے لیے اپنی جان قربان کر دے تو یہ اس کی انتہائی خوش نصیبی ہے۔ مگر سب لوگ اس بلند مرتبے تک نہیں پہنچ سکتے۔ جو شخص اپنے محبوب کے لیے جان نہیں دے سکتا ظاہر ہے کہ اس کی محبت ادنیٰ درجے کی ہے لیکن آپ اس کی محبت کی مطلق نفی نہیں کر سکتے۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اسے سرے سے محبت ہی نہیں۔

آپ محبت کو منطق کے پیمانے سے ناپنا چاہتے ہیں۔حالانکہ یہ اصول ہی غلط ہے۔ محبت، منطق سے بالاتر ہے۔ یہاں Higher logicکی حکومت ہے۔ ارسطو اور مل کی منطق بیکار ہے۔ محبت کیا شے ہے؟ لفظوں کے ذریعہ سے اس کا اظہار بہت مشکل ہے۔ اور محبت کا تجزیہ کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے:ع۔’’ ذوق این بادہ ندانی بخدا تا نچشی‘‘ والا معاملہ ہے اس کا تعلق دماغ سے نہیں ہے، دل سے ہے۔اگر آپ کے وضع کردہ اصول کو صحیح تسلیم کر لیا جائے کہ جو شخص جس قدر زیادہ متبع رسول ہے اسی قدر زیادہ رسول سے محبت کرتا ہے یعنی اگر محبت کا معیار، اتباع رسول قرار دیا جائے تو آپ علم الدین شہید کے بارے میں کیا کہیں گے؟ وہ تو نماز کا بھی پابند نہ تھا اتباع رسول تو بڑی چیز ہے؟

دراصل یہ سب کچھ، انسان کے مزاج Temperament پر موقوف ہے۔ بعض لوگوں کی عقل  ان کی محبت کے تابع ہوتی ہے اور بعض کی محبت ان کی عقل کے تابع ہوتی ہے، اور دونوں قسم کے آدمی دنیا میں پائے جاتے ہیں مثلاً:

حضرت علیؓ اگرچہ علم و فضل کے اعتبار سے بہت بلند مرتبے پر فائز تھے لیکن حُبِّ رسولؐ کا جذبہ ان کی عقل پر غالب تھا۔ وہ بعض باتیں ایسی کرتے تھے جن پر منطقی اعتراض وارد ہو سکتا ہے۔ مثلاً وہ  جب کبھی اس درخت کے نیچے سے گُزرتے تھے جس کے نیچے سے ایک مرتبہ حضور انور ﷺگزرے تھے ‘تو جھک کر گزرتے تھے حالانکہ، وہ قصیرالقامتہ تھے۔ اس لیے اس کی مطلق ضرورت نہ تھی، جب لوگوں نے سبب دریافت کیا تو کہا حضور انور جھک کر گزرے تھے۔ میں جھک کر ‘ اپنے محبوب کے فعل کی تقلید کرتا ہوں۔

دوسری مثال حضرت با یزید بسطامیؒ کی ہے جنہوں نے ساری عمر خربوزہ نہیں کھایا کیونکہ انہیں کوئی حدیث ایسی نہیں ملی جس سے حضور کا خربوزہ کھانا ثابت ہو جاتا۔ اسی لیے میں نے لکھا ہے:

کامل بسطام در تقلید فرد

اجتناب از خوردنِ خربوزہ کرد

ان کے برعکس، حضرت فاروق اعظمؓ کی عقل ان کی محبت پر غالب تھی، اسی بنا پر انہوں نے وہ درخت کٹوا دیا جس کے تنے سے حضور انور نے پشت مبارک لگائی تھی۔ اگر ان کی محبت علیؓ کی محبت کی طرح ہوتی تو ہرگز وہ درخت نہ کٹواتے۔

قصہ مختصر علیؓ اور عمرؓ کو حضور سے محبت تھی لیکن طبائع کے اختلافات کی بنا پر ان کی محبتوں کی نوعیت اور کیفیت جداگانہ تھی۔ ہر شخص کو اختیار ہے کہ اپنی افتاد طبع کی روشنی میں جو رنگ مرغوب نظر آئے، اختیار کر لے۔ اس میں کسی مباحثے کی ضرورت نہیں بلکہ گنجائش ہی نہیں ہے۔

چونکہ حضرت علی ؓ کی محبت Human type عام انسانی ٹائپ کی ہے اس لیے وہ عموماً لوگوں کو اپیل کرتی ہے۔ حضرت عمر ؓ کی محبت Superhuman type فوق البشر نوعیت کی ہے اس لیے کم لوگوں کو پسند آتی ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے، کہ عموماً لوگوں پر جذبات کا رنگ غالب ہوتا ہے عقلی ٹائپ کے آدمی بہت کم ہوتے ہیں۔

دیکھ لو!آنحضرت بمقابلہ دیگر پیشوایان مذاہبِ عالم، مسلمانوں کو زیادہ اپیل کرتے ہیں۔ اس کی، وجہ یہ ہے کہ وہ ہم میں ہی سے ہیں قُلْ اِنَّما اَنَا بَشَرُ‘مِّثْلَکُمْ تصور ذات باری تعالیٰ کا ذکر آیا تو فرمایا قرآن مجید کا پیش کردہ تصور ہمیں زیادہ اپیل کرتا ہے کیونکہ وہ کہتا ہے تم مجھے پکارو میں تمہاری پکار کا جواب دوں گا   ادُعْوُنِی اَسْتَجِبْ لَکُمْ گویا اس طرح بندے اور خدا (عابد اور معبود)میں ایک روحانی رابطہ قائم ہو جاتا ہے اور یہ رابطہ ہی مذہب کی جان ہے۔

معتزلہ کا پیش کردہ تصور باری‘ عام مسلمانوں کو اپیل نہیں کر سکتا کیونکہ ان کی رو سے خدا نہ سمیع ہے نہ بصیر نہ علیم ہے نہ مجیب۔ بلکہ میری تو رائے یہ ہے کہ ایسے خدا کو ماننے کی بھی چنداں ضرورت نہیں ہے۔

خدا وہ کیا ہے جو بندوں سے احتراز کرے

٭٭

 

 

 

 

۱۳۔ ۱۸فروری ۱۹۳۴ء میکلوڈ روڈ

ایک عرصے کے بعد حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ غزنی کے رہنے والے ایک احمدی بزرگ عبدالقادر نامی بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت علامہ نے انہیں مجھ سے متعارف کرتے ہوئے بتایا کہ یہ صاحب ۱۹۱۸ء میں ہندوستان آئے تھے۔ کچھ عرصے کے بعد قادیانی مذہب اختیار کر لیا، اس لیے افغانستان واپس نہیں گئے۔آج کل احمدیہ بلڈنگس میں مقیم ہیں اور گاہے گاہے میرے پاس آتے رہتے ہیں۔

اس تعارف کے بعد انہوں نے علامہ سے کہا کہ مسلمانان عالم کے ادبار سے میرا دل خون ہو رہا ہے، مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے اس قوم سے اپنی توجہ بالکل ہٹا لی ہے (ان کے الفاظ یہ تھے کہ مونہہ موڑ لیا ہے)

علامہ نے فرمایا،میرا خیال ہے کہ خدا نے ان سے مونہہ نہیں موڑا بلکہ خود انہوں نے قرآن سے مونہہ موڑ لیا ہے اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ ساری دنیا میں ذلیل و خوار ہیں۔ میں یہ بات آج سے بیس سال پہلے کہہ چکا ہوں۔

اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

تاہم جائے شکر ہے کہ ابھی ان کی حالت ہنود یا یہود کی سی نہیں ہوئی ہے۔ علاوہ بریں مسلمانوں میں بیداری پیدا ہو رہی ہے، اور مجھے یقین ہے کہ انہیں دوبارہ عروج حاصل ہو گا۔ خدا نے ۱۹۱۷ء میں ایک موقع دیا تھا مگر افسوس!

اس کے بعد عبدالقادر صاحب نے مسیحؑ اور مہدی کا تذکرہ چھیڑ دیا۔

اس پر علامہ نے فرمایا کہ میری رائے میں مسیح اور مہدی کے نزول کا تخیل سراسر غیر اسلامی ہے۔ قرآن حکیم میں ان بزرگوں کی دوبارہ تشریف آوری کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ صحیح بخاری میں نزول مہدی کا مطلق ذکر نہیں ہے۔ ہاں، مسیح کی آمد ثانی سے متعلق دو حدیثیں ضرور موجود ہیں مگر جب قرآن میں اس کی آمد ثانی کا کوئی وعدہ نہیں ہے تو لامحالہ ان کو ناقابل اعتماد قرار دینا پڑے گا۔ مسیح اور مہدی کا انتظار کرتے رہنے کے بجائے خود مسلمانان عالم ہی وہ کام کیوں نہ کریں جو وہ مسیح اور مہدی سے متعلق سمجھتے ہیں۔

میں نے علامہ کی توجہ شری جواہر لعل نہرو کی خود نوشتہ سوانح حیات میں اس عبارت کی طرف مبذول کی جس میں انہوں نے Organised Religionسے نفرت اور اس کی ضرر رسانی کا ذکر کیا ہے فرمایا ’’ پنڈت جی نے مذہب سے متعلق جو کچھ لکھا ہے وہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جو لوگ مذہب کی حقیقت سے ناواقف ہیں وہ عموماً یہی کہتے ہیں کہ وہ تعصب اور تنگدلی سکھاتا ہے۔

حالانکہ موجودہ نیشنلزم (وطنیت کا نظریہ)مذہب سے زیادہ تعصب اور تنگدلی سکھاتا ہے۔ موجودہ زمانے میں جنگوں کا سبب یہی نیشنلزم ہے۔ مذہب کو ارباب سیاست نے ہمیشہ اپنے مقاصد مشومہ کے لیے استعمال کیا ہے۔ حروب صلیبی کی تہ میں بھی یہی جذبہ کار فرما تھا۔ ارباب سیاست مذہب کے نام پر لوگوں کو لڑاتے ہیں اور مخالفین مذہب کو یہ کہنے کا موقع مل جاتا ہے کہ مذہب خونریزی کراتا ہے ارباب اقتدار کا شیوہ یہ ہے کہ وہ پہلے جنگ کو عوام کی نظروں میں مقدس بناتے ہیں ، پھر انہیں  اپنا سر کٹانے کے لیے میدان جنگ میں بھیجتے ہیں۔ یعنی مذہب کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

گذشتہ زمانے کی تاریخ پر نظر ڈالو۔ برہمنوں نے بودھ دھرم کو اس بنا پر ہندوستان سے خارج نہیں کیا کہ وہ اصولاً اس کے مخالف تھے، بلکہ محض اس لیے کہ اس کی وجہ سے ان کا اقتدار خطرے میں پڑ گیا تھا۔ ورنہ بودھ دھرم تو ویدانت کی تعلیم کا منطقی نتیجہ ہے۔ غور کرو!جب ہر شخص کی آتما یکساں ہے تو پھر ذات پات اور چھوت چھات کیسی؟ ویدانت کی تعلیم کا منطقی نتیجہ مساوات نسل انسانی ہے اور بودھ دھرم نے ویدانت کے اسی نتیجے کو ہندوؤں میں عام کرنے کی کوشش کی تھی جس کی پاداش میں اسے خارج البلد بلکہ خارج الوطن کر دیا گیا۔

اس کے بعد ہندوستان کے سماجی حالات سے متعلق گفتگو رہی۔ بعد ازاں گفتگو مذہب کی طرف آ گئی۔ فرمایا کہ نبی اور مجدد میں کئی پہلوؤں سے فرق ہوتا ہے، مگر سب سے بڑا فرق یہ ہوتا ہے کہ دونوں کی ذہنی کیفیات مختلف النوع ہوتی ہیں۔ اسی طرح مشاہدہ باطنی میں بھی کیفیت کا فرق ہوتا ہے، آخر میں فرمایا کہ اگر تم میرے مضمون ’’ اسلام اور احمدیت ‘‘ کا اردو ترجمہ شائع کرو تو اس پر حواشی بھی لکھنا اور خصوصاً بروز کے عقیدہ کی وضاحت کر دینا۔

٭٭

 

 

 

 

۱۴۔ ۷ستمبر ۱۹۳۶ء جاوید منزل میو روڈ، ۶بجے شام

علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مسلمانوں کی سیاسی پستی کا ذکر چلا تو فرمایا ’’ پنجاب کے مسلمان اب تک کوئی انگریزی روز نامہ نہیں جاری کر سکے۔ اس سے ان کی قومی زندگی کی پستی اور زبونی کا کچھ اندازہ ہو سکتا ہے۔ مسلمان امرا مشاغل لا طائل پر لاکھوں روپے خرچ کر سکتے ہیں لیکن قومی کاموں کے لیے ان کے پاس ایک پیسہ نہیں ہے۔ مجھے سالہا سال سے مسلمانوں کی اس ذہنیت کا تجربہ ہے‘‘ پھر فرمایا ’’انگلینڈ کی سوچی سمجھی ہوئی حکمت عملی یہ ہے کہ کوئی ایسی تحریک جو اسلامی ممالک کو متحد کر سکے، کامیاب نہ ہونے دی جائے۔ برطانیہ ہر گز نہیں چاہتا کہ اسلامی ممالک میں بیداری پیدا ہو، اسے ہر وقت پین اسلامزم کا خوف دامن گیر رہتا ہے۔‘‘

اس کے بعد نیازی صاحب آ گئے۔ انہوں نے لائٹ سے چند اقتباسات علامہ کو سنائے۔ ان پر علامہ نے تبصرہ فرمایا۔ اس ضمن میں یہ بھی فرمایا ’’ بروئے قرآن وحی و الہام کسی خاص قوم، ملک یا نسل سے مختص نہیں ہے، الہام تمام زندہ ہستیوں کا مشترکہ سرمایہ ہے۔ شہد کی مکھی بھی اس نعمت سے سرفراز ہو سکتی ہے، اور سائنس دان بھی الہام کے محتاج ہیں۔ د نیا میں جس قدر عظیم ایجادات ہوئی ہیں وہ سب الہام کی بدولت ہوئی ہیں نہ کہ ریسرچ کی بدولت۔ نیز انسان اپنی زندگی کے اکثر معاملات Inspirationالہام ہی کے تحت طے کرتا ہے۔ میری رائے میں نزول مسیح کا عقیدہ مجوسیت کی راہ سے مسلمانوں میں آیا ہے۔ کسی زمانے میں ’’انتظار‘‘ عوام الناس کے لیے مفید تھا لیکن ختم نبوت کے بعد کسی کے انتظار کی ضرورت نہیں ہے۔

ہوئی جس کی خودی پہلے نمودار

وہی مہدی وہی آخر زمانی

٭٭

 

 

 

 

۱۵۔ اکتوبر ۱۹۳۶ء جاوید منزل میو روڈ

علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ادبی تنقید کا ذکر نکلا تو فرمایا ’’جہاں تک صحیح تنقید کا سوال ہے، ہندوستان ابھی مغرب سے سو سال پیچھے ہے۔ ہندوؤں میں تو کچھ حقیقت پسندی پیدا ہو چلی ہے لیکن مسلمانوں میں ابھی تک رومانیت کا اثر باقی ہے۔ گزشتہ پانچ سو سال میں مسلمانوں کے آرٹ، لٹریچر اور  شاعری کا رجحان یہ رہا ہے کہ حقائق سے گریز کیا جائے اور خیالی دنیا میں زندگی بسر کی جائے۔

ایک صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ مسجد قرطبہ کو دیکھ کر آپ پر کیا اثر ہوا؟ میں نے کہا It is a commentary on the Quran written in stones یہ قرآن کی تفسیر ہے جو پتھروں کے ذریعے سے لکھی گئی ہے۔‘‘

پھر فرمایا ’’میری شاعری کو شعر کے معیار پر جانچنا مناسب نہیں ہے کیونکہ اسرار خودی سے لے کر بال جبریل تک ہر کتاب میں میں نے یہی لکھا ہے کہ شاعری میرے لیے مقصود بالذات نہیں ہے۔ میں تو مسلمانوں کے سامنے حقائق حیات بیان کرتا ہوں اور انہیں مشکلات زندگی کا مقابلہ کرنے کا مشورہ دیتا ہوں۔ لیکن مسلمانوں پر گزشتہ تین سو سال سے رومانیت کی وجہ سے ایسا رنگ چڑھ گیا ہے کہ اگر کوئی شخص انہیں بذریعہ شعر‘ حقائق حیات کی طرف دعوت دے تو وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ شاعری نہیں ہے۔ بالفاظ دیگر ان کی نظر میں شاعری وہ ہے جس میں خلاف عقل اور تخیلی باتیں ہوں جن کو حقیقت سے کوئی سروکار نہ ہو۔ ’’خدا مست‘‘ کی ترکیب پر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ ترکیب اساتذہ کے یہاں نہیں ملتی۔ وہ یہ غور نہیں کرتے کہ اقبال کا پیغام کیا ہے؟

اقوام کے عروج و زوال کے اسباب بہت مخفی ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کا پتہ لگانا بہت مشکل ہے ہم کو جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ علامات ہیں نہ کہ اسباب۔ قومی عروج انتہائی نظم و ضبط کی صفت پر موقوف ہے۔ ظاہر ہے کہ قانون کی اطاعت بہت مشکل چیز ہے اور اس کے لیے بڑی ہمت درکار ہے۔ جو قومیں رو بہ زوال ہیں وہ محنت اور پابندیوں سے گھبراتی ہیں جس طرح مریض طبیب کے احکام کی تعمیل سے گریزاں ہوتا ہے۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ مرض بڑھتا جاتا ہے۔

٭٭

 

 

 

۱۶۔ ۲۶اکتوبر ۱۹۳۶ء جاوید منزل

علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جہاد پر گفتگو چلی۔ اس ضمن میں فرمایا ’’جہاد کرنا انسانی فطرت میں شامل ہے، بلکہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے۔ اگر ایک شخص اپنے ایمان، اپنے تمدن اور اپنے وطن کی حفاظت یا حمایت میں تلوار بلند نہیں کر سکتا تو میں نہیں سمجھتا کہ پھر تلوار کا اور مصرف کیا ہے؟ جب کبھی مسلمان کا دین خطرے میں ہو‘ اس پر تلوار اٹھانا فرض ہے۔ اگر وہ اس مقدس فرض کی انجام دہی کے لیے بھی تلوار نہیں اٹھاتا تو پھر اس کی تلوار اس کے کس دن کام آئے گی؟

جہاد، اگر جوع الارض کے لیے ہو تو حرام ہے۔ لیکن اسلام کی حفاظت کے لیے جہاد کرنا پہلے بھی جائز تھا اور آج بھی جائز ہے ’’جو قیصر کا حق ہے وہ قیصر کو دو، یہ خالص رومن پروپاگنڈا تھا‘‘۔

٭٭

 

 

 

 

۱۷۔ ۶نومبر ۱۹۳۶ء جاوید منزل

علامہ کی خدمت میں حاضری ہوئی۔ میں نے سوال کیا کہ آج کل ہندوستان میں بیکاری روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ آپ کی رائے میں اس کا حل کیا ہے؟ فرمایا:

(ا)۔     جب تک ہم انگریزوں کی غلامی میں ہیں۔

(ب)۔ سرمایہ داری ہم پر مسلط رہے گی۔

(ج)۔  فوج پر ملکی محاصل کا کثیر حصہ خرچ ہوتا رہے گا۔

(د)۔    خود مسلمان رسوم لا یعنی پر اسراف بیجا کرتے رہیں گے۔ اس وقت تک کوئی صحیح حل دستیاب نہیں ہو سکتا۔

٭٭

 

 

 

 

۱۸۔۲۰نومبر ۱۹۳۶ء جاوید منزل

علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے سوال کیا کہ شفاعت کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ فرمایا ’’انسانی فطرت کی ایک کمزوری یہ ہے وہ سہارا تلاش کرتی ہے۔ سابقہ ادیان نے اس کمزوری سے فائدہ اٹھایا اور ’’ شفیع‘‘ کا تصور پیش کیا اور کہا ہمارا مذہب قبول کر لو گے تو ہمارے مذہب کا بانی تمہاری شفاعت کر دے گا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ قوت عمل کمزور ہو گئی اور عوام، مذہبی پیشواؤں کے غلام ہو گئے۔ اس لیے اسلام نے اگر شفاعت کا تذکرہ بھی کیا تو ’’اِلاّباذنہٖ‘‘ کی قید لگا دی یعنی قیامت کے دن ‘اللہ کے حکم کے بغیر کوئی شخص کسی کی شفاعت (سفارش)نہیں کر سکے گا۔ تاکہ قوت عمل مردہ نہ ہو جائے۔ اسلام میں  سب سے بڑا شفیع خود انسان کا عمل صالح ہے۔

لَیْسَ لِْلِاْنَساِن اِلاّ مَاْسَعیٰ انسان کو وہی ملے گا جس کے لیے اس نے جدوجہد کی ہے۔ شفاعت بمعنی کفارہ تو صریحاً خلاف اسلام ہے لیکن سفارش پر کوئی منطقی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ خدا کے حضور میں کسی نیک بندے کا کسی گناہ گار کے لیے سفارش کرنا نہ عقلاً معیوب ہے نہ نقلاً مذموم ہے۔

فرمایا ’’مجھے تو اب یہ خیال ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی دینی اصلاح ممکن بھی ہے یا نہیں ؟ وہ تو غیر اسلامی عقائد اور رسوم کے اس طرح قدر خوگر ہو چکے ہیں کہ اب حقیقی اسلام سے انھیں تسلی نہیں ہو سکتی‘‘۔

فرمایا ’’ہندی مسلمان کی ذہنی پستی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ وہ کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا کہ جو کام میں کر رہا ہوں وہ کہیں میری یا قوم کی تضیع اوقات کا موجب تو نہیں ہو جائے گا۔

فرمایا ’’لوگوں میں اس بات کا احساس بھی باقی نہیں رہا کہ ہم جو کچھ لکھ رہے ہیں اس سے ہمیں یا قوم کو فائدہ پہنچے گا یا نقصان؟

فرمایا ’’چند روز ہوئے ایک شاعر میرے پاس آئے اور کہا مجھے اپنے اشعار میں تصرف کی اجازت دے دیجیے۔ میں نے کہا ’’بندۂ خدا!مجھ پر کیوں ظلم کرتے ہو؟ خود ہی اپنے مطلب کے اشعار کیوں نہیں تصنیف کر لیتے؟ مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آج کل ہر شخص صاحب تصنیف بننا چاہتا ہے اور یہ معلوم کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا کہ مجھ میں تصنیف کی اہلیت بھی ہے یا نہیں ؟ کس قدر تکلیف دہ ہے ایسے ماحول میں رہنا!

٭٭

 

 

 

 

۱۹۔۱۷دسمبر ۱۹۳۶ء جاوید منزل

علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت باہر صحن میں چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ مسئلہ تجسیم پر گفتگو ہوئی۔فرمایا کہ دیگر مذاہب نے خدا کو اتنا پست کیا کہ وہ انسان کی سطح پر آ گیا۔ لیکن اسلام نے انسان کو اتنا بلند کیا کہ مظہر صفات بن گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا اگر بشکل انسان جلوہ گر ہو تو وہ خدائی صفات سے معریٰ ہو جائے گا، اس لیے ہم اسے خدا نہیں کہہ سکتے۔

اس کے بعد ماسٹر عبداللہ چغتائی علامہ سے ملنے آ گئے۔ وہ فرانس جا رہے ہیں۔ علامہ ان کو مفید مشورے دیتے رہے۔ چلتے وقت انہیں دعا دی اور کہا اگر اللہ نے مجھے صحت عطا فرما دی تو ۱۹۳۸ء میں حج کرنے جاؤں گا۔

٭٭

 

 

 

 

۲۰۔۱۹۳۷ء (نوٹ بک میں تاریخ درج نہیں ہے۔ غالباً اکتوبر کا مہینہ تھا)

علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ سوال کیا کہ جمہوریت کے بارے میں اسلام کی تعلیم کیا ہے؟ فرمایا ’’اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ امیر کے لیے مقدم شرط یہ ہے کہ وہ اسلام کی حمایت کرے گا۔خواہ وہ عربی ہو یا عجمی ‘‘اسلام نے جمہوریت کی روح اختیار کی ہے اور وہ ’’شوریٰ‘‘ ہے اسلام نے دنیا کو جمہوریت کی روح سے روشناس کیا۔ اسی لیے اسلام نے وحی کا سلسلہ بند کر دیا تاکہ ہم آنحضرت ؐ کے بعد کسی انسان کے سامنے سر تسلیم خم نہ کریں۔ بنی آدم کو حُریّت کی نعمت سے مالا مال کرنے کے لیے، وحی کو ختم کرنا لازمی تھا۔ اسلام نے اسی لیے ملوکیت، احباریت اور نبوت کو ختم کر دیا تاکہ انسان آزادی کی نعمت سے بہرہ ور ہو سکے۔اس کے علاوہ انفرادی ذمہ داری کا قانون نافذ کیا  لا تزروازرت وزر اخری(۶:۱۶۴)کوئی شخص کسی شخص کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔

اسلام میں امارت بھی نکاح کی طرح ایک عمرانی معاہدہ ہے، امیر اور قوم کے درمیان۔عوام نے ایک شخص سے کہا کہ اگر تم شریعت کی پابندی اور اس کے نفاذ کا وعدہ کرو تو ہم تمہیں اپنا امیر منتخب کرتے ہیں۔ اس شخص نے وعدہ کیا کہ میں ایسا ہی کروں گا۔بس وہ قوم کا امیر منتخب ہو گیا۔اگر وہ خلاف ورزی کرے تو قوم کو اس کے خلاف بغاوت کا حق حاصل ہے۔اسلامی جمہوریت میں رائے دہی کے لیے کلمہ شہادت ادا کرنا کافی ہے۔

مغربی جمہوریت میں بر سر اقتدار پارٹی عوام کو فریب دیتی ہے کہ تم حکمراں ہو۔ حالانکہ دراصل زمام کار چند افراد کے ہاتھ میں ہوتی ہے جو پرائم منسٹر کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔۱۹۱۴ء کی جنگ میں دراصل انگلستان کا وزیر اعظم، اس ملک کا حکمراں تھا، نام عوام کا تھا۔مجھے برسوں علامہ مرحوم کی خدمت میں حاضری کا موقع ملا۔ ۱۹۳۰ء اور ۱۹۳۶ء میں جبکہ وہ انجمن حمایت اسلام کے صدر تھے اور میں انجمن کے قائم کردہ اشاعت اسلام کالج کا پرنسپل تھا۔ مجھے بہت زیادہ ان کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملا۔ کیونکہ انہیں اس کالج سے بہت دلچسپی تھی۔ اور سچ تو یہ ہے کہ یہ کالج ۱۹۲۹ء میں ان کی اور غلام بھیک نیرنگ مرحوم کی متفقہ کوشش ہی سے قائم ہُوا تھا۔

ان کی زندگی کے بہت سے واقعات آج بھی میرے حافظے میں محفوظ ہیں ، اور ان کی یاد اس قدر روشن ہے کہ آج بائیس سال گذر جانے کے بعد بھی وہ مدھم نہیں پڑی، اگر مدیر محترم نے ارشاد فرمایا تو میں انہیں جداگانہ مضمون کی صورت میں قلمبند کر دوں گا…ان شاء اللہ و بتوفیقہ…

 

 

مقالات یوسف سلیم چشتی (بہ سلسلہ علامہ اقبال)

مرتب: اختر النسا بزم اقبال لاہوری لاہور، ۱۹۹۹ء

٭٭٭

تشکر: وسیع اللہ کھوکھر جن کےتوسط سے فائل کا حصول ہوا

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید