FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

معاملہ ہنسنے ہنسانے کا

 

حصہ دوم

 

مجتبیٰ حسین

 

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

الف سے الہ آباد، امرود اور اکبر الہ آبادی

 

 

(ہم جس شہر میں بھی جاتے ہیں اگر وہاں ذرا سی بھی فرصت میسر آ جائے تو اس شہر میں بیٹھ کر خود اسی شہر کے بارے میں ضرور کچھ نہ کچھ لکھتے ہیں۔ پچیس برس پہلے جب ہمیں پہلی بار الہ آباد جانے کا موقع ملا تو ایک صبح گنگا، جمنا اور سرسوتی کے سنگم پر جانے سے پہلے ہم نے حسب عادت الہ آباد کے بارے میں کچھ لکھا تھا۔ پچھلے دنوں ہم پرانے کاغذات کو الٹ پلٹ رہے تھے تو ان میں سے یہ بھولی بسری تحریر بھی نکل آئی جسے تبدیلی ذائقہ کے طور پر ہم اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں )

 

الف سے الہ آباد، الف سے اکبر، الف سے امرود، الف سے آنند بھون … اور بھی بہت سی چیزیں ہیں جو الف سے شروع ہو کر الہ آباد پر ختم ہو جاتی ہیں جیسے اعجاز حسین، امرناتھ جھا، احتشام حسین، امیتابھ بچن اور اوپیندر ناتھ اشک۔

اب تو خیر سے الہ آباد میں الف سے شروع ہونے والی چیزوں کی بہتات ہو گئی ہے لیکن ایک زمانہ تھا جب اکبر الہ آبادی کو بھی یہ شکایت لاحق ہو گئی تھی …

اب الہ آباد میں ساماں نہیں بہبود کے

واں دھرا کیا ہے بجز اکبر کے اور امرود کے

ذرا ان دنوں کے بارے میں سوچئے جب الہ آباد میں خود اکبر الہ آبادی بھی نہیں ہوا کرتے تھے اور الہ آباد کو سارے ملک میں شہرت دلانے کی ذمہ داری بیچارے امرودوں کے کندھوں پر تھی (اگر امرود کے کندھے ہوتے ہوں تو)۔ ان دنوں الہ آباد بھی امرود جتنا ہی ہو گا، بلکہ بعضے امرود تو الہ آباد سے بھی بڑے ہوں گے۔ شہروں کے بسنے کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے اور الہ آباد کے بسنے کے بارے میں قیاس کیا جاتا ہے کہ لوگ یہاں پہلے امرود کھانے کے ارادہ سے ہی آئے اور اتنے دنوں تک امرود کھاتے رہے کہ ان کے بال بچے پیدا ہو گئے۔ یہاں بچے اس لئے پیدا ہو گئے کہ آدمی چوبیسوں گھنٹے تھوڑا ہی امرود کھاسکتا ہے۔ اسے دوسرے ضروری کام بھی تو کرنے پڑتے ہیں اور بال بچے پیدا کرنا تو ہم ہندوستانیوں کا سب سے زیادہ ضروری کام ہے۔

یہ بات ہم وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اکبر الہ آبادی کا کلام ضرور پڑھا ہے لیکن یہ بات یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ زندگی میں ہم نے کبھی الہ آباد کے امرود کھائے بھی ہیں یا نہیں۔ پٹنہ جاتے ہوئے اس شہر سے ہم کئی بار گزرے ہیں اور ہر بار الہ آباد کے ریلوے اسٹیشن سے امرود خریدے ہیں لیکن بعد میں لوگوں نے بتایا کہ یہ امرود الہ آباد کے نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی شہر کا ریلوے اسٹیشن اس شہر کا حصہ نہیں ہوتا۔ وہ تو خود ایک بھاگتا ہوا شہر ہوتا ہے۔ یوں بھی ریلوے اسٹیشن اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں شہر کے گھٹیا مال کو بیچنے کا نہایت اعلی انتظام ہوتا ہے۔ الہ آباد کے امرود کھانے ہوں تو ریلوے اسٹیشن سے اتر کر سیدھے امرود کے کسی باغ میں چلے جاؤ۔ پھر کسی اچھے سے پیڑ پر لگے ہوئے کسی اچھے امرود کو تاک کر پتھر کی مدد سے گراؤ اور اس سے پہلے کے باغ کا مالی تمہیں پکڑنے کے لئے آئے، امرود سمیت وہاں سے فرار ہو جاؤ۔ الہ آباد کے اصلی امرودوں کو کھانے کا یہی طریقہ ہے۔ کسی بھی پھل کے ذائقہ میں جب تک مالی کا ڈر شامل نہ ہو تب تک مزہ نہیں آتا۔ ہمارے بچپن کا مشاہدہ تو یہی کہتا ہے۔

ایک بار ہم نے الہ آباد کے ریلوے اسٹیشن پر امرود بیچنے والے سے پوچھا ’’میاں! کیا یہ امرود الہ آباد کے ہی ہیں؟‘‘۔

بولا ’’جی نہیں، فیض آباد کے ہیں‘‘۔

’’پھر الہ آباد کے امرود کہاں ملیں گے؟‘‘ ہم نے پوچھا

بولا ’’الہ آباد کے سوائے ہر جگہ مل جائیں گے۔ ویسے آپ کہاں سے آ رہے ہیں؟‘‘

ہم نے کہا ’’دہلی سے آ رہے ہیں‘‘

بولا ’’الہ آباد سے روزانہ ڈھیروں امرود دہلی جاتے ہیں۔ آپ کو وہیں مل جائیں گے۔ یوں بھی الہ آباد کی ہر اچھی چیز دہلی جا کر ہی پنپتی ہے۔ چاہے وہ امرود ہوں یا آنند بھون کے باسی‘‘۔

ہم مایوس ہو کر ٹرین کے کمپارٹمنٹ میں واپس آ گئے تو ساتھی مسافر نے کہا ’’یہ کیا آپ الہ آباد کے امرودوں کے چکر میں پڑ گئے‘‘۔ ہم نے کہا ’’بس ذرا چکھ کے دیکھنا چاہتے تھے کہ ان کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے‘‘۔

مسافر بولا ’’بالکل ملیح آباد کے آموں جیسا ہوتا ہے‘‘۔

اس پر دوسرے مسافر نے مداخلت کرتے ہوئے کہا ’’جی نہیں! ان کا ذائقہ تو ناگپور کے سنگتروں جیسا ہوتا ہے‘‘۔ تب تیسرا مسافر بیچ میں کچھ بولنا ہی چاہتا تھا کہ ہم نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا ’’آپ ان کے ذائقہ کے بارے میں کچھ نہ بولیں۔ میں جانتا ہوں کہ آپ کیا کہنے والے ہیں۔ آپ کہیں گے کہ الہ آباد کے امرودوں میں آگرہ کے پیٹھے کا ذائقہ ہوتا ہے۔ غنیمت ہے کہ کسی نے یہ نہیں کہا کہ الہ آباد کے امرود کھاؤ تو یوں لگتا ہے جیسے آپ دلی کی نہاری کھا رہے ہوں‘‘۔

ایک بزرگ بیچ میں بول پڑے ’’میاں سچ تو یہ ہے کہ تم میں سے کسی نے بھی آج تک الہ آباد کے امرود نہیں کھائے ہیں۔ اگر کھائے ہوتے تو یوں بہکی بہکی باتیں نہ کرتے۔ تم لوگ تو صرف اپنے سفر کو آسان بنانے کے لئے اپنے پسندیدہ ذائقوں کو امرودوں کے ذائقہ میں ملاتے چلے جا رہے ہو۔ یوں بھی الہ آباد وہ شہر ہے جہاں تین دریاؤں کا ملاپ ہوتا ہے۔ اب اگر تم بھی الہ آباد کے امرودوں کی مدد سے کئی ذائقوں کا سنگم بنا رہے ہو تو کوئی غلط بات بھی نہیں ہے‘‘۔

ہم نے کہا ’’اب میل ملاپ اور سنگم وغیرہ تو صرف دریاؤں میں ہی پایا جاتا ہے ورنہ انسانوں میں تو یہ چیز ختم ہوتی جا رہی ہے‘‘۔

بزرگ بولے ’اور الہ آباد اس بھولی بسری گنگا جمنی تہذیب کا مرکز رہ چکا ہے۔ فراقؔ زندگی بھر اپنے نام کے ساتھ گورکھپور کا دم چھلہ لگاتے رہے لیکن رہے الہ آباد ہی میں۔ حیدرآباد میں ایک سڑک ہے جس کا نام ’’جگر مراد آبادی روڈ‘‘ ہے (شاید اب بھی ہو) جو لوگ اردو شاعری سے واقف نہیں ہیں وہ حیرت کرتے ہیں کہ حیدرآباد میں مراد آباد کی روڈ کہاں سے آ گئی۔ مراد آباد والے اسے یہاں سے اٹھا کر کیوں نہیں لے جاتے۔ کیا مراد آباد میں سڑکوں کی اتنی فراوانی ہے کہ وہاں کی سڑکیں دوسرے شہروں کو دی جانے لگی ہیں۔ شہر صرف سڑکوں اور عمارتوں سے نہیں بنتا۔ اس شہر میں بسنے والوں کے رہن سہن کے انداز اور رنگ ڈھنگ سے بنتا ہے اور اچھا شہر وہی ہوتا ہے جو باہر سے جتنا آباد نظر آتا ہے اس سے کہیں زیادہ وہاں کے بسنے والوں کے دلوں کے اندر بھی آباد نظر آئے اور حقیقت تو یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں بسنے والا شہر باہر بسے ہوئے شہر سے کہیں زیادہ بڑا اور با رونق ہوتا ہے۔ پھر الہ آباد ایک ایسا شہر ہے جو کسی زمانہ میں آزادی کی تحریک کا مرکز رہا ہے۔ ایک زمانہ میں تو یہ سارے دیش کے باسیوں کے دلوں میں آباد رہا کرتا تھا، الہ آباد پہلے سوچتا تھا اور سارا دیش بعد میں اس پر عمل کرتا تھا۔ آپ اسے صرف امرودوں کے حوالے سے ہی کیوں جاننے کی کوشش کرتے ہیں‘‘۔

ہم جیسوں کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ ہم دماغ سے نہیں بلکہ پیٹ سے سوچتے ہیں۔ چنانچہ اس بات چیت کے بعد ہم نے امرود (صرف الہ آباد کے ) کھانے سے توبہ کر لی۔ اب اکبر الہ آبادی اور فراق گورکھپوری کی شاعری کو پڑھ کر اور امیتابھ بچن کی فلموں کو دیکھ کر امرودوں کا مزہ لوٹتے ہیں۔ لیکن جی چاہتا ہے کہ اے کاش الہ آباد کا گنگا جمنی سنگم کبھی ہمارے معاشرہ کو پھر سے سیراب کر دے۔

٭٭٭

 

 

 

 

اُردو کو برتو اور پھینکو

 

جیسا کہ آپ جانتے ہیں آج کی مصروف ترین زندگی میں Use and Throw یعنی استعمال کرو اور پھینکو کا رویہ دن بہ دن مقبول ہوتا جا رہا ہے۔ در حقیقت ہم اس رویہ کو رویہ نہیں بلکہ ’’یوز اینڈ تھرو کلچر‘‘ کہتے ہیں۔ اور یہ کلچر امریکہ کی دین ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ چیزیں صرف امریکہ میں ہی پھینکی جاتی ہیں اور ہمارے یہاں پھینکی نہیں جاتیں۔ اصل میں غریب ملکوں کے ہم جیسے لوگ خاصے کفایت شعار اور محتاط ہوتے ہیں اور کسی چیز کو اُس وقت تک نہیں پھینکتے جب تک کہ ہمیں یہ یقین نہ ہو جائے کہ اس چیز کے مزید استعمال میں آنے کے سارے امکانات ختم ہو چکے ہیں۔ اسی لئے برتنوں، پیالوں اور کٹوروں وغیرہ کو دھو دھُلا کر پھر سے استعمال کرتے رہتے ہیں جب تک کہ یہ خود سے ٹوٹ نہ جائیں۔ امریکہ اور مغرب میں ایسی چیزیں کاغذ اور پلاسٹک وغیرہ کی مدد سے بنائی جاتی ہیں جنہیں استعمال کرتے ہی پھینک دیا جاتا ہے۔ چیزوں کو برتنے اور پھینکنے کا یہ کلچر اتنا مقبول ہو گیا ہے کہ صرف چیزیں ہی نہیں بلکہ ملکوں، قوموں اور افراد کو بھی استعمال کرنے کے بعد کوڑے کرکٹ کے ڈھیر میں پھینک دیا جاتا ہے۔ چنانچہ امریکہ میں جب پرانی نسل بوڑھی اور از کار رفتہ ہو جاتی ہے اور مزید استعمال کئے جانے کے قابل نہیں رہتی تو نئی نسل پرانی نسل کو بوڑھوں کے گھر (Old Age Home) میں پھینک آتی ہے جہاں وہ کوڑے کرکٹ میں از خود تبدیل ہو کر معدوم ہو جاتی ہے۔ یوں بھی امریکہ ملکوں اور قوموں کو استعمال کر کے کوڑے دان میں پھینکنے کا عادی ہے۔ پہلے افغانستان اور پھر عراق کو ذرا دیکھئے کہ امریکہ نے کس طرح استعمال کر کے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا ہے۔ یہی نہیں فلسطینیوں اور عربوں کو تو آئے دن استعمال کرتا اور انہیں حسب توفیق اور حسب ضرورت پھینکتا رہتا ہے تاکہ پھینکنے کا سلسلہ اُس وقت تک رکنے نہ پائے جب کہ کہ عربوں کے پاس تیل کی دولت ختم نہ ہو جائے۔ ’’

٭٭ پڑ گئے‘‘۔ ہم نے کہا ’’بس ذر یوز اینڈ تھرو کلچر‘‘ اسی کو تو کہتے ہیں۔

ہم سے مشکل یہ ہے کہ بات شروع کرتے ہیں کوئی اور بات کہنے کے ارادے سے لیکن بات میں سے کچھ اس طرح بات نکلتی چلی جاتی ہے کہ دوسری باتوں میں اُلجھ جاتے ہیں اور اصل بات کہیں رہ جاتی ہے۔ آج ہم اصل میں ایک نہایت اہم انگریزی کتاب Redefining Urdu politics in India کے بارے میں کچھ اظہار خیال کرنا چاہتے ہیں جو پچھلے چار پانچ دنوں سے ہمارے زیر مطالعہ رہی ہے۔ اس کتاب کے مولف ہمارے نوجوان دوست، اسکالر اور صحافی ڈاکٹر اطہر فاروقی ہیں۔ جو اپنی بے باکی، راست گوئی اور اپنے مخصوص احتجاجی رویہ کے باعث بدنامی کی حد تک شہرت رکھتے ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ اس کتاب کو نہایت مشہور و معروف پبلشر آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے چھاپا ہے۔ یہ ایک اتفاق ہے کہ ہم نے جیسے ہی اس کتاب کا مطالعہ ختم کیا ہماری نظر ایک خبر پر پڑی جس میں لکھا تھا کہ امریکہ کے سابق صدر جیرالڈ فورڈ، جو اب خاصے معمر ہو گئے ہیں ان دنوں شدید بیمار ہیں۔ ایک طویل عرصے بعد دنیا کے سب سے مقتدر حکمران کے بارے میں ایک چھوٹی سی خبر کو پڑھ کر ہمیں خیال آیا کہ امریکہ کے صدور جب تک برسر اقتدار رہتے ہیں ملکوں اور قوموں کو امریکہ کے مفاد میں استعمال کر کے پھینک دیتے ہیں لیکن جب یہ خود اپنے عہدے سے ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں تو امریکی عوام بھی انہیں ’برتو اور پھینکو‘ والے کلچر کا حصہ بنا دیتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو امریکہ کے بعض بقید حیات سابق صدور کے حالات کا جائزہ لیجئے۔ پھر ہم نے اپنے کفایت شعار اور محتاط معاشرے کے پس منظر میں یہ جاننے کی کوشش کی کہ ہمارے ہاں ایسی کونسی چیز ہے جسے ہم استعمال کر کے پھینک دیتے ہیں۔ غالباً اس کتاب کے مطالعے کا اثر ہی تھا کہ ہمارے ذہن میں اچانک اُردو زبان کا خیال آ گیا جس کے ساتھ ہمارا معاشرہ پچھلی ایک صدی سے مختلف تقاضوں اور ضروریات کے تحت ’’یوز اینڈ تھرو‘‘ کا سلوک کرتا آیا ہے۔

اس ملک کی پہلی جنگ آزادی صرف اور صرف اسی زبان میں لڑی گئی جس کی سزا دینے کے لئے ہمارے نو آبادیاتی حکمرانوں نے بڑی ہوشیاری سے اس زبان کے رسم الخط کو بنیاد بنا کر اور اس زبان کا سہرا بیرونی حملہ آوروں کے سرباندھ کر ہمارے معاشرے میں ایک تہذیبی رخنہ پیدا کر دیا۔ عجیب بات ہے کہ اس نوآبادیاتی لسانی نظریہ کو ہمارے فرقہ پرستوں نے نہ صرف قبول کیا بلکہ اس پر آج تک قائم ہیں۔ پھر دلچسپ بات یہ ہے کہ خود اس نظریہ کا پرچار بھی شروع شروع میں اردو رسم الخط والی زبان میں ہی ہوا اور جب فرقہ پرست عناصر اپنے نظریہ کے پرچار میں مستحکم اور خود مکتفی ہو گئے تو انہوں نے اُردو کو استعمال کر کے پھینک دیا۔ پھینکے جانے کے اس عمل کے باوجود ملک کی آزادی تک یہ زبان عوامی سطح پر مستحکم اور توانا رہی۔ اس کے بعد سیاسی سطح پر مختلف موقعوں، مختلف اغراض اور مختلف مفادات کے تحت اس زبان کو پھینکنے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ اس بدقسمت اور مظلوم زبان پر نہ صرف پاکستان کی تشکیل کا بلکہ بنگلہ دیش کے قیام کا بھی الزام عائد کیا گیا۔ اسے پھینکنے کے عمل میں وہ شدت پیدا ہوئی کہ سیاست دانوں کو صرف الیکشن کے وقت ہی اُردو کی یاد آتی رہی اور وہ اسے ’’عید کی شیروانی‘‘ کے طور پر استعمال کرتے رہے۔ اگرچہ یہ زبان اب مسلمانوں کی زبان کہلانے لگی ہے۔ لیکن مسلمانوں کے طبقہ نے بھی اسے پھینکنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہاں تک کہ اس کا کوئی علاقہ مستحکم توانا اور فعال باقی نہیں رہا۔ اس وقت ہمیں اُردو کے ایک نامی گرامی پروفیسر کی یاد آ گئی جنہوں نے زندگی بھر اردو کو استعمال کیا۔ اس کی روٹی روزی کھاتے رہے۔ اس کے ذریعہ ساری دنیا میں شہرت اور نیک نامی حاصل کی لیکن جب امریکہ چلے گئے تو وہاں جا کر خود اردو کے خلاف ایک ایسی زہریلی کتاب لکھی جسے پڑھنے کے بعد ہمیں اندازہ ہوا کہ پروفیسر صاحب زندگی بھر اردو کو صرف اس لئے استعمال کرتے سمیٹتے اور یکجا کرتے رہے کہ بعد میں اسے کوڑے کرکٹ کی صورت میں امریکہ میں لے جا کر پھینک سکیں۔ کیا موزوں جگہ چنی ہے پروفیسر صاحب نے اردو کی شکل میں اپنی زندگی بھر کی کمائی اور نیک نامی کو پھینکنے کیلئے، آخر کو ’برتو اور پھینکو کلچر‘ کا قبلہ و کعبہ تو امریکہ ہی ہے۔

صاحبو! اطہر فاروقی کی کتاب کے مطالعے کا ہی اعجاز ہے کہ ہمارے دل میں اردو کے لئے اچانک ایسا سوز اور ایسا گداز پیدا ہو گیا ہے، جیسا کہ آپ جانتے ہیں اطہر فاروقی اردو کے اسکالر ہیں لیکن اردو کے مسائل کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہونچانے کی غرض سے کبھی کبھار اردو میں لیکن اکثر و بیشتر انگریزی میں مضامین لکھتے رہتے ہیں۔ وہ صحیح معنوں میں اردو کے سچے Activist ہیں۔ اردو کے سلسلے میں ہونے والی نا انصافیوں اور اردو اداروں میں ہونے والی دھاندلیوں کے خلاف انہوں نے ہمیشہ بیباکانہ مگر عالمانہ انداز میں لکھا۔ آزادی کے بعد اردو کے سیاسی و سماجی پہلوؤں کا انہوں نے نہایت باریک بینی سے جائزہ لیا ہے جس پر انہیں جواہر لال نہرو یونویرسٹی نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی ہے۔ اس موضوع پر انہوں نے پورے انہماک کے ساتھ دس برسوں تک نہایت معروضی انداز میں ریسرچ کرنے کے علاوہ مختلف اعداد و شمار بھی جمع کئے۔ یہ بات باعث افتخار ہے کہ مشہور برطانوی اسکالر رالف رسل نے 1996 میں اپنا جو مشہور مقالہ Urdu in India Since Independence لکھا۔ اس کی بنیاد ہی اطہر فاروقی کی ریسرچ اور تحریروں پر تھی۔ ہمیں یاد ہے کہ اطہر فاروقی نے ذاکر حسین اسٹیڈی سرکل کی جانب سے 2002 میں ایک بین الاقوامی اردو کانفرنس منعقد کی تھی۔

جس میں دنیا بھر کی یونیورسٹیوں سے سماجی علوم کے اساتذہ کے علاوہ ہندوستان کے ماہرین تعلیم اور دانشوروں نے شرکت کی تھی۔ یہ ایک تاریخ ساز کانفرنس تھی۔ جس میں پڑھے گئے اکثر مقالے زیر نظر کتاب میں شامل ہیں۔ سارے مقالہ نگاروں نے دیانت داری اور عرق ریزی کے ساتھ نہایت معروضی انداز میں اردو کے موجودہ موقف اور صورتحال کا جائزہ لیا ہے۔ جس کے بعد اس زبان کے سارے ہی پہلو اپنے سیاق و سباق کے ساتھ نمایاں ہو گئے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کتاب کے ہر مقالے کے موضوع پر ایک کتاب الگ سے لکھی جا سکتی ہے۔ اس اعتبار سے 332 صفحات کی اس کتاب میں اردو زبان کے ہر ایک موضوع پر نہایت منصوبہ بند اور جامع انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کے مطالعے سے ایک حقیقت یہ واضح ہو جاتی ہے کہ جب تک اردو کو ہمارے عام اسکولی نظام میں نصاب کا حصہ نہیں بنایا جاتا تب تک اس کے فروغ کی صورت نظر نہیں آتی۔ اس کتاب کے مرتب کی حیثیت سے ڈاکٹر اطہر فاروقی قابل مبارکباد ہیں کہ انہوں نے ان مضامین کو اکٹھا کر کے کتابی صورت میں شائع کیا ہے۔ ہر مقالہ نگار نے اپنے موضوع کے ساتھ نہ صرف انصاف کیا ہے بلکہ ایک لائحہ عمل بھی پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہمارا ذاتی خیال ہے کہ اردو کی موجودہ بری صورتحال پر اس سے اچھی کتاب کوئی اور شائع نہیں ہوئی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ کوئی اردو ادارہ اس کتاب کا اردو ایڈیشن بھی شائع کرے۔ یہ کتاب آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، وائی ایم سی اے لائبریری بلڈنگ، جے سنگھ روڈ نئی دہلی 110001 سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس کی قیمت 595 روپئے ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

اندھے شیر کو عینک کون پہنائے گا؟

 

اطلاع آئی ہے کہ پچھلے دنوں جے پور کے چڑیا گھر میں ایک 20 سالہ ببر اور ایک 19 سالہ شیر کی آنکھوں کا کامیاب آپریشن کیا گیا اور اہم بات یہ ہے کہ اس آپریشن کو علاج حیوانات کے ماہرین امراض چشم نے انجام دیا ہے ورنہ اس سے پہلے دہلی کے چڑیا گھر میں جب ایک ببر کی بینائی خراب ہوئی تھی تو اس کے آپریشن کے لئے ایک ایسے ماہر امراض چشم کی خدمات حاصل کی گئیں جو انسانوں کی آنکھوں کے خصوصی معالج ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ببر کی آنکھوں کا آپریشن کرتے وقت انسانوں کی آنکھوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹر پر کیا گذری ہو گی، اس کے بارے میں سوچتے ہیں تو جسم پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے اور رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ پھر ایسا کرتے ہوئے ہمیں نہ جانے کیوں اپنے کرم فرما ڈاکٹر شیام سندر پرشاد کا خیال آ گیا جو حیدرآباد کے ممتاز ماہر امراض چشم ہیں اور ہم جیسے غیر ممتاز انسانوں کی آنکھوں کا بھی علاج کرتے رہتے ہیں۔ یہ جو ہم دنیا کو بُری نظر سے دیکھتے ہیں تو یہ سب ڈاکٹر شیام سندر پرشاد کا ہی فیض ہے۔ یہاں ہم یہ وضاحت بھی کر دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر شیام سندر پرشاد تو صرف ہماری نظر ٹھیک کر دیتے ہیں۔ اب اس نظر کو ’’بُری نظر‘‘، ترچھی نظر‘‘، ’’ٹیڑھی نظر‘‘، ’’کڑی نظر‘‘ اور ’’تیکھی نظر‘‘ بنانا ہماری ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس معاملے میں ماہرین امراض چشم کے علاج کا کوئی دخل نہیں ہوتا، وہ ہمیں صرف نظر عطا کر دیتے ہیں جسے ہم حسب توفیق اور حسب موقع ٹیڑھی، ترچھی، سیدھی، بُری اور اچھی وغیرہ بنا لیتے ہیں۔ بعض لوگ آنکھوں کے ڈاکٹر سے بڑی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں اوراس خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ آنکھوں کا ڈاکٹر نہ صرف کمزور بینائی رکھنے والی آنکھوں کو تیز نظر عطا کرے گا بلکہ وہ خوشگوار اور حسین منظر بھی فراہم کرے گا جسے یہ آنکھیں دیکھ سکیں۔ نظر فراہم کرنے کی ذمہ داری یقیناً ڈاکٹر کی ہوتی ہے لیکن حسین و خوشگوار منظر فراہم کرنے کا معاملہ سیاستدانوں اور حکمرانوں کا ہوتا ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ آنکھوں کا ڈاکٹر وہ سب کچھ کرے جس کے کرنے کا وہ اہل نہیں۔ ہمیں اس وقت اپنے ایک بزرگ دوست یاد آ گئے جو شراب بہت پیتے تھے اور کثرت شراب نوشی کی وجہ سے ان کی بینائی خراب ہونے لگی تھی۔ ایک دن ان کے ڈاکٹر نے وارننگ دینے کے انداز میں کہا ’’جناب! اب پانی سر سے اونچا ہو گیا ہے۔ یا تو آپ اپنے اندھے ہو جانے کو ہنسی خوشی قبول کر لیں یا پھر شراب بالکل ترک کر دیں۔ اس کے سوائے کوئی تیسری صورت ممکن نہیں ہے‘‘۔ اس پر ہمارے بزرگ دوست نے جو اس وقت قطعاً نشے میں نہیں تھے، کچھ دیر کے لئے سوچا پھر بولے ’’ڈاکٹر صاحب! میرا خیال ہے کہ پچھلے پچھتر برسوں میں میں نے بہت دنیا دیکھ لی ہے۔ اب مجھ میں اسے مزید دیکھتے رہنے کی سکت نہیں ہے۔ لہذا آپ مجھے بشوق اندھا بنا دیں۔ میں شراب کے سہارے باقی زندگی جیسے تیسے گذار لوں گا‘‘۔ ڈاکٹر نے حیرت سے کہا ’’آپ پہلے مریض ہیں جو میرے پاس اپنے اندھے پن سے نجات حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ اندھے پن کو اختیار کرنے کے لئے آئے ہیں، آپ بھی عجیب آدمی ہیں‘‘۔ اس پر ہمارے بزرگ دوست نے کہا تھا ’’جناب! یہاں معاملہ بصارت کا نہیں بلکہ بصیرت کا ہے‘‘۔

بہرحال اس کالم کو لکھتے ہوئے ہمیں ڈاکٹر شیام سندر پرشاد کا خیال اس لئے آیا کہ اب پانی خود آنکھوں کے ڈاکٹروں کے سروں سے بھی اونچا ہوتا جا رہا ہے کیونکہ ہماری چشم تصور نے یہ دیکھا کہ ایک خونخوار اور خوفناک شیر ڈاکٹر شیام سندر پرشاد کے سامنے بیٹھا ہے اور سامنے دیوار پر ایک بڑا سا پوسٹر آویزاں ہے جس میں بکری اور کتّا دونوں کی جلی تصویریں ہیں۔ ان کے نیچے کچھ کم جلی تصویریں بلی اور خرگوش کی ہیں۔ اور نیچے جائیں تو بھینس، گینڈے، گھوڑے اور گدھے بھی موجود ہیں۔ ایسے میں ڈاکٹر صاحب ایک ہاتھ میں بجلی کا ہنٹر لئے کھڑے ہیں جسے وہ بار بار گھما کر زمین پر مارتے جا رہے ہیں اور بہ آواز بلند شیر کو حکم دے رہے ہیں کہ وہ بکری اور کتے کی جوڑی والی تصویر میں اپنے پسندیدہ جانور پر پنجہ مارے۔ پھر علی الترتیب بلی اور خرگوش یا گدھے اور گینڈے کو سامنے رکھ کر اپنی پسند کا اظہار کرے۔ ظاہر ہے کہ شیر ہماری طرح پڑھا لکھا تو نہیں ہوتا کہ حروف تہجی کو پڑھ کر اپنی بینائی کا ثبوت دے۔ یوں بھی شیر کی بینائی کا ٹسٹ اسی طرح لیا جا سکتا ہے ورنہ ڈاکٹر کو کیسے معلوم ہو گا کہ شیر کی بینائی اچھی ہے یا خراب ہو چکی ہے۔ جب ہماری چشم تصور نے ڈاکٹر شیام سندر پرشاد کو اس حال میں دیکھا تو ان کی جرأت اور دلیری پر ہمیں یقیناً رشک آیا کہ ایسا دلیر اور شیر دل ڈاکٹر کہاں پیدا ہو گا جس نے ایک خطرناک اور خونخوار شیر کو بھیگی بلی بنا کر اپنے سامنے بٹھا رکھا ہے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب موصوف سے ہمیں جو تعلق خاطر ہے اور عقیدت ہے اس کے پیش نظر ہمیں یہ خوف بھی رہا کہ کہیں یہ شیر ڈاکٹر پر حملہ نہ کر دے۔ اگر جانوروں اور وہ بھی خونخوار جانوروں کا علاج کرنے کے لئے انسانوں کے ڈاکٹروں کی خدمات سے استفادہ کرنے کا رواج عام ہو جائے تو ہمیں یقین ہے کہ آنکھوں کے ڈاکٹروں کا پیشہ سب سے خطرناک پیشہ سمجھا جائے گا۔ اس لئے کہ کسی شیر کی بصارت کا حال جاننا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بکری اور کتے کے پوسٹروں کی مدد سے شیر کی بینائی کا حال معلوم ہو جائے۔ لیکن شیر کو عینک کیسے لگائی جائے گی اور اسے کون لگائے گا۔ عینک کا نمبر کیسے معلوم کیا جائے۔ بائی فوکل عینک لگائی جائے گی یا دور کی نظر کی عینک اور پاس کی نظر کی عینک الگ الگ ہو گی۔ آپ شیر کی بینائی کی جانچ کی بات کرتے ہیں، یہاں تو انسانوں کی بصارت کا تعین بھی مشکل ہے۔ ہمارے ایک دوست کی بینائی کی خرابی کا حال ان کے احباب کو اس وقت معلوم ہوا جب وہ ہمارے ساتھ ایک پارک میں سیر کر رہے تھے کہ زوردار ہوا چلی جس کے باعث ان کی ٹوپی اُڑ کر زمین پر گری اور ہوا کے زور سے زمین پر لڑھکنے لگی۔ یہ اسے پکڑنے کے لئے پیچھے بھاگتے رہے۔ بڑی دیر تک وہ بھاگتے رہے اور ہم ان کی واپسی کے انتظار میں چپ چاپ کھڑے رہے۔ بالآخر جب وہ واپس آئے تو دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں ٹوپی کی جگہ ایک عدد بلی ہے جسے وہ اپنے سر پر بٹھانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔

بہرحال ایسی پریشانیوں کے باوجود یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ اب انسانوں کے ڈاکٹر جانوروں کا علاج بھی کریں گے۔ ہمیں سچ مچ نہیں معلوم کہ شیر کا نارمل بلڈ پریشر کتنا ہوتا ہے۔ بلی کو شوگر کی بیماری کیوں نہیں ہوتی۔ مینڈک کو زکام ہو جائے تو کیا طریقۂ علاج اپنایا جائے۔ گدھے کی بائی پاس سرجری کرنے کی نوبت کب آتی ہے۔ ہاتھی کا بلڈ پریشر ناپنے کے لئے بلڈ پریشر کے آلے کی پٹی ہاتھی کے پاؤں میں باندھی جائے یا اس مقصد کے لئے اس کی سونڈ کو زحمت دی جائے۔ ایسے بے شمار سوالات ہیں جو ہمارے ذہن میں پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ اگر ان کا جواب تلاش کر لیا جائے تو طب کے شعبے میں یقیناً ترقی ہو گی۔

شیر کی بصارت پر ہمیں اپنے ایک شکاری دوست کی یاد آ گئی۔ نوجوانی میں وہ ہمیں اکثر شکار پر لے جایا کرتے تھے۔ ایک بار شکار پر گئے تو گھنے جنگل میں ایک ڈاک بنگلے میں قیام کیا۔ چوکیدار نے بتایا کہ نواحی علاقے میں ایک شیر رہتا ہے جس کی بینائی کمزور ہو گئی ہے اور ثقلِ بصارت کی وجہ سے وہ غفلت اور ناسمجھی میں خود شیروں اور انسانوں پر حملہ کر دیتا ہے۔ شام کا وقت تھا، ہمارے شکاری دوست نے کہا کہ ہم ڈاک بنگلے میں ہی رُکے رہیں۔ اتنی دیر میں وہ آس پاس اس اندھے شیر کو دیکھ آتے ہیں۔ اگر مل جائے تو اس کا خاتمہ بالخیر کر دیں گے کیونکہ انسانوں پر بھی حملہ کرنے لگا ہے۔ کچھ دیر بعد ہم ڈاک بنگلے کی بالکنی میں کھڑے تھے کہ بندوق کے چلنے کی آواز آئی۔ پھر دیکھا کہ ہمارے دوست دیوانہ وار ڈاک بنگلے کی طرف بھاگتے ہوئے آ رہے ہیں۔ ہم نے زور سے پکار کر پوچھا کیا تم نے شیر کو ہلاک کر دیا ہے۔ اس پر انھوں نے بھاگتے بھاگتے کہا ’’فوراً نیچے آ کر ڈرائنگ روم کا دروازہ کھولو، میں زندہ شیر کو ساتھ لے کر ڈاک بنگلے میں آ رہا ہوں‘‘۔ کچھ دیر بعد ہم نے دیکھا کہ ان کے پیچھے پیچھے شیر بھی بے تحاشہ بھاگتا چلا آ رہا ہے۔

بینائی کے بارے میں کچھ لکھنے پر آئیں تو ہم بے شمار قصے اور واقعات لکھ سکتے ہیں۔ اگر ماہرینِ امراضِ چشم انسانوں کے علاوہ حیوانوں کی آنکھوں کا علاج بھی کرنا چاہتے ہیں تو بسر و چشم ضرور کریں۔ چشم ما روشن، دلِ ما شاد۔ لیکن ہماری آنکھوں میں اب بھی بعض خامیاں، اتنی لمبی زندگی گزارنے کے باوجود موجود ہیں۔ جیسے ہماری آنکھ کا پانی مرگیا ہے، اسے بحال کریں۔ ہماری آنکھ میں رحم اور محبت کی رمق کیوں نہیں دکھائی دیتی۔ لوگ ہم پر آنکھیں کیوں نکالتے ہیں اور یہ کہ ہم ان کی آنکھوں میں کیوں نہیں بھاتے۔ ہماری آنکھوں کا نہ سہی ان کی آنکھوں کا علاج تو ہو۔ انسانوں اور حیوانوں کے بیچ علاج کے معاملے میں آپسی تعاون تو یہ بھی ہونا چاہئے کہ جانوروں کے اعضا انسانوں میں لگا دیئے جائیں۔ کیا یہ ممکن ہے شیر کا دل ہمارے سینے میں لگا دیا جائے۔ پھر چیتے کا جگر، ہرن کی آنکھیں، بلبل کا گلہ، گھوڑے کی ٹانگیں، بلی کے پنجے، گینڈے کی کھال بھی ہمیں درکار ہے۔ یہ بات ہم اس لئے کہہ رہے ہیں کہ صدیوں سے انسان اپنے ذاتی اعضاء کی مدد سے انسانیت کی بلندی کو نہ چھوسکا بلکہ اب تو زوال کی منزل آنے لگی ہے۔ لومڑی کی چالاکی، گائے کی شرافت، شیر کی خود داری، اونٹ کا توکل، عقاب کی آنکھیں، ہاتھی کی توانائی وغیرہ جیسی چیزیں انسان کو میسر آ جائیں تو شاید انسان میں تھوڑی سی انسانیت پیدا ہو جائے۔ سچ تو یہ ہے کہ ان دنوں حیوانوں میں جتنی انسانیت پائی جاتی ہے اتنی انسانیت تو خود انسان میں دکھائی نہیں دیتی۔

٭٭٭

 

 

 

 

معاملہ ہنسنے ہنسانے کا

 

واشنگٹن کی ایک اطلاع کے مطابق میری لینڈ اسکول آف میڈیسن کے تحقیق کاروں نے پتہ چلایا ہے کہ قہقہہ لگانے سے انسانی جسم میں خون کی گردش کا نظام بہتر ہو جاتا ہے جس سے دل کی بیماریوں کے خطرات کم ہو جاتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق ہنسی مذاق کی باتیں کرنے، مزاحیہ تحریریں پڑھنے اور مزاحیہ فلمیں دیکھنے سے ذہنی تناؤ کم ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں دوران خون کا عمل معمول پر آ جاتا ہے۔ تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ ایک انسان روزانہ پندرہ منٹ تک قہقہے لگائے تو وہ دل کی بیماریوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔

اس تحقیق میں ہماری دلچسپی اظہر من الشمس ہے کیونکہ ہنسی مذاق سے ہمارا بھی ایک واجبی سا تعلق ہے۔ یوں تو ہم تقریباً اسّی برسوں سے اس دنیا میں ہنستے چلے آ رہے ہیں لیکن پچھلے 53 برسوں سے تو ہم نے ہنسی کو پیشے کے طور پر اپنایا ہوا ہے۔ ہنسی کے اتنے لمبے تجربے کی وجہ سے ہمیں اب یہ یاد نہیں رہتا کہ ہم اصلی ہنسی کب ہنس رہے ہوتے ہیں اور اس میں نقلی یا پیشہ ورانہ ہنسی کی ملاوٹ کب کر دیتے ہیں۔ اب ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اگر کوئی روزانہ پندرہ منٹ تک قہقہے لگائے تو اسے دل کی بیماری نہیں ہو سکتی۔ مانا کہ ایسا کرنے سے دل کی بیماری نہیں ہوتی لیکن کوئی آدمی بلاوجہ پندرہ منٹ تک قہقہہ لگاتا رہے یہ بات بھی ہمارے سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ جب بھی ہم کسی آدمی کو بلاوجہ ہنستے ہوئے دیکھ لیتے ہیں تو ہمیں شبہ ہوتا ہے کہ کہیں یہ آدمی پاگل تو نہیں ہو گیا ہے۔ ہم تو تصویر کشی کے وقت بھی منٹ، دو منٹ کے لئے ہی سہی، اپنے ہونٹوں پر فرمائشی ہنسی کو پیدا کرنے کے اہل نہیں ہیں۔ یہ کیا بات ہوئی کہ ادھر ایک اچھا بھلا فوٹوگرافر آپ کی تصویر کھینچنے کو کھڑا ہو جائے اور ادھر آپ اس پر ہنسنے لگ جائیں۔ آدمی کو کب ہنسنا چاہئے، جس طرح ہنسنا چاہئے، کتنا ہنسنا چاہئے اور کس پر ہنسنا چاہئے اس کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو جگہ جگہ کوئی نہ کوئی ہنستا ہوا تو ضرور دکھائی دے گا لیکن سچی اور بے لوث ہنسی ہنستے ہوئے لوگ بہت کم دکھائی دیں گے۔ ایک بچہ کسی بات پر رونے لگا تو اس کی ماں نے رونے کا سبب پوچھا۔ اس پر بچے نے روتے روتے بتایا کہ برابر کے کمرے میں اس کا باپ اسٹول پر چڑھ کر دیوار پر تصویر ٹانگ رہا تھا کہ اپنا توازن کھو بیٹھا اور نیچے گر پڑا۔ اس پر ماں نے کہا ’’بیٹا! عدم توازن کی اس کیفیت پر تو تمہیں رونے کی بجائے ہنسنا چاہئے تھا۔ پھر تم رو کیوں رہے ہو‘‘۔ بچے نے کہا ’’ممی! میں نے بھی آپ کی توقع کے مطابق اس بات پر زوردار قہقہہ لگایا تھا۔

لیکن نہ جانے کیوں ڈیڈی نے میرے گال پر ایک زوردار طمانچہ رسید کیا اور یوں مجھے رونے پر مجبور کر دیا‘‘۔ اس واقعے نے ثابت کر دیا کہ ایک انسان کی ہنسی دوسرے انسان میں بھی ہنسی کا جذبہ پیدا کرے یہ ضروری نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی آدمی ہنستا ہے تو ہم اس ہنسی کے پیچھے اس جذبہ کو تلاش کرتے ہیں جو اس ہنسی کا موجب بنتا ہے۔ کبھی یہ ہنسی شرمندگی کا روپ اختیار کر لیتی ہے، کبھی یہ ہنسی مجبوری بن کر ابھرتی ہے، کبھی کسی ہنسی کے پیچھے صبر کا پتھر دکھائی دیتا ہے، کبھی کوئی ہنسی مصلحت سے لبریز نظر آتی ہے اور کبھی کوئی ہنسی ہنسنے والے کی قوت برداشت کی عکاسی کر رہی ہوتی ہے۔ یوں آج کے زمانے میں خالص اور بے لوث ہنسی بڑی مشکل سے دکھائی دیتی ہے۔ لہذا یہ سمجھنا کہ ہر ہنسی دل کو تقویت پہنچاتی ہے اور خون کی گردش کو تیز کر دیتی ہے، بالکل غلط ہو گا۔ کیا عجب کہ کوئی کھسیانی ہنسی یا مصلحت آمیز ہنسی انسان کے قلب پر حملے کا سبب بن جائے۔ کبھی کبھی تو ہمیں چلو بھر خالص ہنسی بالٹی بھر مصنوعی ہنسی سے کہیں زیادہ صحت مند اور توانا نظر آتی ہے۔ اگر سچ مچ ہمیں سچی ہنسی مل جاتی تو اس کی مدد سے دواساز کمپنیاں قہقہوں کے کیپسول، گولیاں، شربت اور معجون وغیرہ نہ تیار کر لیتے۔ ہنسی کے ذریعے بیماریوں کا علاج کرنے کا خیال نہایت عمدہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس معاملے میں ہم مشہور ماہر نفسیات ڈاکٹر مجید خان سے بھی مشورہ کرنے کے آرزو مند تھے کیونکہ ڈاکٹر مجید خان ہماری طرح نہ صرف کالم نگار ہیں بلکہ ہمارے کرم فرما بھی ہیں اور اپنے کالموں میں اظہار پسندیدگی کے طور پر ان کے کرداروں کی تحلیل نفسی بھی فرماتے رہتے ہیں جنھیں ہم اپنے کالموں میں پیش کر دیتے ہیں۔ ہمارے بارے میں ان کا نفسیاتی تجزیہ یہ ہے کہ ہم نہایت حوصلہ مند، صابر و شاکر ہونے کے علاوہ خوش باش اور دلیر انسان ہیں، ظاہر ہے کہ انہوں نے ہمارے کالموں کا مطالعہ کرنے کے بعد ہی ہمارے بارے میں یہ رائے قائم کی ہے۔ ایک بار ہم نے اپنے کالم میں ایک کردار ’’محتاط بیگ‘‘ کے زیر عنوان پیش کیا تھا۔ یہ کردار اپنی ساری زندگی احتیاط سے گزار دیتا ہے۔ اس کی احتیاط کا یہ عالم ہے کہ دیگر محتاط لوگ تو پھونک پھونک کر قدم اٹھا ہی دیتے ہیں، یہ کردار قدم اٹھانے کا نام نہیں لیتا صرف پھونکتا رہ جاتا ہے۔

اس کی خدمت میں پانی کا گلاس پیش کیا جائے تو اچانک یہ خوف اس کا دامن پکڑ لیتا ہے ہے کہ کہیں گلاس کے پانی میں کوئی خوفناک مگرمچھ اس کے لئے تاک لگائے نہ بیٹھا ہو۔ اندیشہ ہائے دور دراز کو وہ اس طرح پیدا کر لیتا ہے جیسے یہ اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہو۔ محتاط بیگ گھڑی گھڑی اپنی نبض پر ہاتھ رکھ کر یہ اطمینان کر لیتا ہے کہ وہ زندہ بھی ہے یا مرگیا۔ وہ محض اس ڈر سے شادی نہیں کرتا کہ ایک نہ ایک دن کہیں اس کی بیوی مر نہ جائے۔ ڈاکٹر مجید خان کو ہمارا یہ کالم اتنا پسند آیا کہ اس کی کئی فوٹو کاپیاں بنوا کر اپنے مریضوں میں تقسیم کیں۔ پھر ہمارے بارے میں یہ رائے بھی دی کہ ہم انسانی نفسیات کی گتھیوں اور پیچیدگیوں کو بخوبی جانتے ہیں۔ ہم اپنے قارئین کے سامنے آج برملا اعتراف کرنا چاہتے ہیں کہ ہم نہایت بزدل اور ڈرپوک آدمی ہیں۔ اتنے ڈرپوک ہیں کہ اپنی مزاح نگاری میں خود اپنے سوائے کسی اور کا مذاق اڑا ہی نہیں سکتے۔ اپنا مذاق آپ اڑانا دنیا کا سب سے محفوظ اور محتاط کام ہے۔ اطلاعاً عرض ہے کہ ڈاکٹر مجید خان ہمارے تخلیق کردہ کردار محتاط بیگ کی جو تحلیل نفسی فرما رہے ہیں وہ کردار ہم خود ہیں۔ اب آپ سے کیا چھپائیں کہ ادھر چار پانچ برسوں کے عرصے میں اپنی صحت کی خرابی کے باعث ہم خود دن بہ دن محتاط بیگ بنتے چلے جا رہے ہیں۔ اب ہم ڈاکٹر مجید خان کو کیسے بتائیں کہ وہ جس مزاح نگار کو دلیر اور حوصلہ مند آدمی سمجھ رہے ہیں وہ ایک بزدل اور ڈرپوک آدمی ہے۔ ابھی حال ہی میں ڈاکٹر مجید خان نے ’’میاں مکمل‘‘ کے عنوان سے ایک کالم لکھا تھا اور آخر میں ہمارا حوالہ دیا تھا کہ جس وقت وہ اس خاکے کو لکھ رہے تھے تو ہم ان کے ذہن میں موجود تھے۔ یہ تو ڈاکٹر مجید خان کا کرم ہے کہ وہ ہمیں اپنے ذہن میں تر و تازہ رکھتے ہیں ورنہ سماج میں مزاح نگار کو پوچھتا کون ہے۔ یقین مانئے ہمارا جی چاہتا ہے کہ کبھی ہم بھی ڈاکٹر مجید خان کی خدمت میں ایک نفسیاتی مریض کے طور پر پیش ہوں اور ان سے اپنے نفسیاتی مسائل کے حل کے طلبگار ہوں۔ ہمارا تو خیال ہے کہ دنیا کے سارے ہی مزاح نگار کہیں نہ کہیں نفسیاتی مریض ہوتے ہیں لیکن چونکہ ان کے پاس ایک ضمیر، ایک ظرف اور ایک انا ہوتی ہے اس لئے وہ خود کے نفسیاتی مریض ہونے کا اعتراف نہیں کرتے۔ اردو کے پہلے مزاح نگار شاعر جعفر زٹلی کو اپنے ضمیر اور انا کی حفاظت کے جرم میں بادشاہ وقت نے پھانسی پر لٹکا دیا تھا۔ لوگ اس کے پھانسی پر لٹکنے کو بھی ایک مزاحیہ صورت حال سمجھتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ مزاح نگار کے درد کو آج تک کسی نے نہیں پہچانا بلکہ لوگ تو اس کے درد پر بھی دھاڑیں مار مار کر قہقہے لگاتے ہیں۔

ہمیں اس وقت طنز و مزاح کے پیر و مرشد ازبکستان والے ملّا نصیر الدین یاد آ گئے جو مذاق مذاق میں پتے کی بات کہہ جاتے تھے۔ ملّا  نصیر الدین کو اپنی شعر فہمی پر بڑا ناز تھا اور اچھے اچھے سخن فہم ان کے آگے پانی بھرتے تھے۔ بادشاہ وقت کو اچانک شعر گوئی کا شوق چرایا تو بادشاہ نے ملّا  نصیر الدین کو اپنے دربار میں طلب کیا تاکہ اپنے اشعار کے بارے میں ان کی رائے پوچھی جا سکے۔ بادشاہ کو یہ خوش فہمی تھی کہ ملّا  نصیرالدین اگر اس کے اشعار پر داد دیں گے تو بادشاہ کی شعر گوئی کا ڈنکا سارے عالم میں بج اٹھے گا۔ بہرحال ملّا  نے بڑی توجہ کے ساتھ بادشاہ کے اشعار تو سُنے مگر کسی رد عمل کا اظہار نہ کیا اور خاموش رہے۔ اس پر بادشاہ نے ملّا  سے پوچھا ’’کیوں ملّا  کیسی ہے میری شاعری؟‘‘ ملّا  نے نفی میں سرہلا کر کہا ’’حضور! کچھ بات نہیں بنی۔ مشق سخن جاری رکھئے‘‘۔ بادشاہ کو غصہ آیا تو اس نے ملّا  نصیر الدین کو جیل میں ڈال دینے کا حکم دے دیا۔ بادشاہ نے سوچا چند دن جیل کی ہوا ملّا  کھالیں تو عقل ٹھکانے لگ جائے گی اور انھیں اپنے آپ ہی بادشاہ کی شاعری پسند آنے لگے گی۔ سال چھ مہینے بعد بادشاہ نے پھر غزل کہی تو سوچا کہ کیوں نہ اب ملّا  کو بلا کر ان کی رائے لی جائے۔ چنانچہ دربار کو آراستہ کیا گیا۔ ملّا کو دربار میں بلایا گیا۔ نحیف و نزار، سر کے بال بڑھے ہوئے، کپڑوں اور سر میں جوئیں پڑی ہوئیں۔ بادشاہ نے اپنا کلام سنایا پھر ملّا  سے پوچھا ’’کیوں اب کیا رائے ہے تمہاری؟‘‘۔ ملّا  نے کوئی جواب نہ دیا اور اٹھ کر چپ چاپ دربار سے جانے لگے۔ بادشاہ نے پکار کر کہا ’’ملّا  چوری چوری کہاں جا رہے ہو؟‘‘ ملّا  نصیرالدین نے کہا ’’حضور! اس سے پہلے کہ آپ مجھے پھر سے جیل خانے میں ڈالنے کا حکم دیں میں خود ہی جیل میں جانا پسند کروں گا‘‘۔ اس پر درباری اپنی ہنسی نہ روک سکے اور زور زور سے قہقہے لگانے لگے۔

ملّا  نے اپنی اس حرکت کے ذریعے پھر سے دربار میں ہنسی کی دولت انڈیل دی لیکن کسی نے یہ نہیں سوچا کہ جیل خانے میں ملّا  پر کیا گزری ہو گی۔ لوگ آج تک ملّا  نصیرالدین کی اس حرکت کو یاد کر کے بے ساختہ ہنستے ہیں لیکن کسی کو ملّا  کے جیل جانے پر آنسو بہانے کی توفیق عطا نہ ہوئی۔ ہنسی کے دوسرے رخ پر مزاح نگار کا جو المیہ ہوتا ہے اس تک کسی کی رسائی نہیں ہو سکتی۔ اب اگر قہقہوں کے ذریعے بیماریوں کے علاج کی صورت نکلتی ہے تو اچھی بات ہے لیکن جو آدمی قہقہوں کا سوداگر ہوتا ہے خود اس کا علاج کون کرے گا۔ بسا اوقات قدرت بھی مزاح نگار کی زندگی میں کچھ ایسے حالات پیدا کر دیتی ہے کہ مزاح نگار کے قول اور فعل میں تضاد نظر آنے لگتا ہے۔ ہمارے اکبر الہ آبادی کو ہی لیجئے۔ زندگی بھر وہ سرسید احمد خاں کی تحریک کی مخالفت میں انگریزی تہذیب و تمدن کا مذاق اڑاتے رہے لیکن بعد میں خود ان کے بیٹے عشرت حسین اعلی تعلیم کے حصول کے لئے نہ صرف انگلستان گئے بلکہ واپسی میں ایک میم کو بھی ساتھ لیتے آئے۔ کہتے ہیں کہ عشرت حسین خود اپنے والد یعنی اکبر الہ آبادی سے فاصلہ قائم رکھنے کی کوشش کرتے تھے اور اپنے دوستوں سے اکبر الہ آبادی کا تعارف نہیں کراتے تھے۔ ایک بار عشرت حسین کے کچھ احباب ایسے وقت گھر آ گئے جب اکبر الہ آبادی عشرت حسین کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے۔ عشرت حسین نے بوکھلاہٹ میں اپنے احباب سے اکبر الہ آبادی کا تعارف یوں کرایا ’’یہ بزرگ ہمارے فیملی فرینڈ یعنی خاندان کے دوست ہیں‘‘۔ اس پر اکبر الہ آبادی نے بہ آواز بلند کہا ’’جی نہیں! میں ان کی فیملی کا نہیں بلکہ ان کی والدہ کا دوست ہوں‘‘۔

٭٭٭

 

 

 

 

تجھے اے جنوری ہم دور سے پہچان لیتے ہیں

 

بزرگوں سے سُن رکھا ہے کہ سال کے بارہ مہینے ہوتے ہیں اور ہر سال کا آغاز جنوری کے مہینے سے ہوتا ہے۔ بزرگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے، مگر ہم نے جب حساب لگایا تو پتہ چلا کہ سال میں صرف گیارہ مہینے ہوتے ہیں اور ہمارا شخصی اور اصلی سال جنوری سے نہیں فروری سے شروع ہوتا ہے۔ حساب کا یہ گھپلا کئی برس سے چلا آ رہا ہے۔ جنوری کی آمد کے خوف سے ہم دسمبر ہی میں گھبرانے لگتے ہیں اور ہمارے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے کیوں کہ

تجھے اے جنوری ہم دور سے پہچان لیتے ہیں

اس مہینہ سے ہمارے خوف کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہی وہ مبارک و مسعود مہینہ ہے جس میں ہماری شادی ہوئی تھی۔ اگرچہ یہ سانحہ پچاس برس پہلے پیش آیا تھا مگر یہ اسی سانحہ جاریہ کا لازمی نتیجہ ہے کہ ہماری چار اولادوں کے تین جنم دن اسی مہینے کی مختلف تاریخوں میں آتے ہیں۔ آپ پوچھیں گے کہ چار اولادوں کے تین جنم دن کیوں کر ہوتے ہیں تو جواب اس کا یہ ہے کہ جنوری کا مہینہ ہی حساب کے گھپلے کا ہوتا ہے، ہماری دو سعادت مند اولادیں جنوری کی ایک ہی تاریخ کو پیدا ہوئی تھیں۔ ہم ان دونوں بیٹوں کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے اپنی پیدائش کے لئے ایک ہی تاریخ کا انتخاب فرمایا ورنہ ہمیں ان کے جنم کو دو الگ الگ تقریبوں کی صورت میں منعقد کرنا پڑتا۔ تاہم ان سے یہ شکایت ہے کہ انہوں نے اپنی پیدائش کے لئے مہینہ کا انتخاب غلط فرمایا۔ میاں پیدا ہونا اتنا ہی ضروری تھا تو کسی اچھے مہینے میں پیدا ہوتے۔ لوگ کہتے ہیں کہ جنوری کا مہینہ خوشیوں اور مسرتوں کا مہینہ ہوتا ہے۔ یہی وہ مہینہ ہوتا ہے جس کی پہلی تاریخ سے نیا سال شروع ہوتا ہے۔ لوگ خوش ہوتے ہیں کہ وہ گذرے ہوئے سال کے چنگل سے بچ کر نکل آئے۔ لہذا اس خوشی میں آدمی کیا کیا نہیں کرتا۔ پچھلی جنوری کی پہلی تاریخ کا واقعہ ہے کہ نئے سال کی عمر ابھی پندرہ منٹ بھی نہیں ہوئی تھی اور ہم ایک دوست کے گھر سے نئے سال کی پارٹی بھگتا کر واپس ہو رہے تھے کہ ہمیں ایک صاحب نظر آئے جو نفیس سوٹ میں ملبوس فٹ پاتھ پر چاروں خانے چت لیٹے ہوئے تھے۔ ہم نے سوچا عجیب آدمی ہیں۔ ساری دنیا نئے سال کی آمد کی خوشیاں منا رہی ہے اور یہ شدید سردی میں فٹ پاتھ پر آرام فرما رہے ہیں۔ ہم نے از راہ ہمدردی ان کے قریب جا کر انہیں جگاتے ہوئے کہا ’’حضرت اٹھئے کہ زمانہ قیامت کی چال چل گیا ہے۔ نیا سال آ گیا ہے اور کم از کم نئے سال میں تو اپنے گھر جا کر سوجایئے‘‘۔ یہ سنتے ہی موصوف نے اپنی آنکھیں کھولیں۔ ایک عدد ہچکی لی اور ’’نیا سال مبارک ہو‘‘ کہہ کر ہم سے یوں بغل گیر ہوئے جیسے ہماری پسلیوں کی مضبوطی کا امتحان لینا چاہتے ہوں۔ امتحان لے چکے تو اچانک ہمارے قدموں میں گر گئے اور گڑ گڑا کر معافی مانگنے لگے کہ اگر پچھلے سال میں ان سے کوئی غلطی ہوئی ہو تو ہم انہیں معاف کر دیں۔ ہم نے انہیں بہتیرا سمجھایا کہ پچھلے سال میں آپ سے ہماری ملاقات ہی نہیں ہوئی تھی۔ ہم تو ابھی نئے سال میں پانچ منٹ پہلے آپ سے متعارف ہوئے ہیں اگر آپ سے غلطی ہو بھی جائے تو نئے سال میں ہو گی۔ پچھلے سال میں نہیں۔ آب دیدہ ہو کر بولے یہ آپ کی بڑائی ہے ورنہ میں نہایت برا آدمی ہوں۔ گناہگار ہوں۔ خطاکار ہوں۔ اتنا کہہ کر انہیں نہ جانے کون سے نا کردہ گناہ یاد آ گئے کہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ ہم نے انہیں دلاسہ دینے کی کوشش کی تو لڑکھڑا کر اپنی دونوں بانہیں ہماری گردن میں ڈال دیں اور جسم کا سارا بوجھ ہماری نازک گردن پر کچھ اس طرح ڈال دیا کہ ہم بھی نئے سال کی مسرت میں ان کے ساتھ فٹ پاتھ پر گر گئے۔ اب نیا سال ہمارے سر سے اونچا ہو گیا تھا۔ لہذا موقع کو غنیمت جان کر ہم وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ بڑی دور تک اُن کی آوازیں آتی رہیں کہ ’’بھیا! نئے سال کی مبارکباد تو قبول کرتے جاؤ‘‘۔

اس واقعہ کے بعد سے اب تک بے شمار افراد نے ہمیں نئے سال کی مبارک دی ہے مگر اس نئے سال کی پہلی مبارک باد ہمیں کچھ اس طرح ملی ہے کہ ہر مبارک باد پر جی گھبراتا ہے۔ دوسرے دن صبح صبح اخبار والے نے ہم سے کہا ’’صاحب نیا سال آپ کو مبارک ہو، پچاس روپے نکالئے۔ پچھلے مہینے بھی آپ نے اخبار کا چندہ نہیں دیا تھا‘‘۔ نئے سال کے موقع پر ہم اسے مایوس کرنا نہیں چاہتے تھے لہذا ہم نے اس سے مبارک باد اور اس نے ہم سے چندہ وصول کیا۔ وہ چلا گیا تو ہمارے مالک مکان نئے سال کی مبارک باد دینے آ گئے، بڑی گرم جوشی کے ساتھ نئے سال کی مبارک باد دی۔ پچھلے سال کی زیادتیوں کا رقّت آمیز لہجہ میں ذکر کیا۔ ان آفات ارضی و سماوی کا مثالوں کے ساتھ حوالہ دیا جو ان پر پچھلے سال ٹوٹی تھیں۔ نئے سال کے مبارک موقع پر ہی ہمیں یہ معلوم ہوا کہ دس مہینے پہلے ہمارے مالک مکان کی چہیتی بھینس اس دنیا سے گذر گئی۔ ضمنی طور پر انہوں نے اپنی ساس کے گذر جانے کا سانحہ بھی سنایا۔ لیکن اس سانحہ کو بیان کرتے وقت ان کے لہجہ میں وہ رقّت نہیں تھی جو بھینس کے گذر جانے کے سانحہ کو بیان کرتے وقت ان کے لہجہ میں سمٹ آئی تھی۔ یوں بھی بھینس اور ساس کا کیا مقابلہ، ساس سب کچھ کر سکتی ہے مگر دودھ تو نہیں دے سکتی۔ ہر سال کی طرح ہم ان کے پچھلے سال کے غموں میں شریک ہو گئے تو انہوں نے دبی زبان میں التجا کی کہ پچھلے سال ان کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اس کی تلافی کے طور پر ہم نئے سال میں ان کے مکان کے کرایہ میں اضافہ کر دیں کیوں کہ عموماً کرایہ میں اضافہ کے بعد بھینس اور ساس کے گذر جانے کا غم کچھ ہلکا ہو جاتا ہے۔ مالک مکان ہونے کا سب سے بڑا فائدہ ہمیں یہی نظر آیا کہ مکان کے کرائے میں اضافہ کر کے مالک مکان ہر قسم کے غم کو برداشت کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ نئے سال کے پرمسرت ماحول میں ہم کسی کو مایوس نہیں کرنا چاہتے تھے لہذا کرایہ میں اضافہ کی بات مان لی۔ تاہم ڈرتے ڈرتے مکان مالک سے دست بستہ عرض کی کہ حضور! وہ جو ہم نے دو سال پہلے کی پہلی جنوری کو مکان کی سفیدی کرانے کی درخواست کی تھی تو اس کا کیا ہوا؟

بولے ’’اگلے سال جب میں نئے سال کی مبارک باد دینے آؤں تو ضرور یاد دلائیے گا۔ انشاء اللہ کچھ نہ کچھ ضرور ہو ہی جائے گا‘‘۔ ہم نل کی ٹونٹیوں کی خرابی، گھر کے دروازوں کی خستہ حالت اور چھت کے ٹپکوں کی طرف آنا ہی چاہتے تھے کہ ہمارے مالک مکان نے موضوع کو بدلتے ہوئے کہا ’’صاحب! نئے سال کے خوشگوار ماحول میں آپ کن ناخوشگوار باتوں کا ذکر لے بیٹھے۔ آپ کا اور ہمارا تو جنم جنم کا ساتھ ہے، یار زندہ صحبت باقی، پھر ایک بار نئے سال کی دلی مبارک باد قبول فرمایئے۔ اچھا تو میں چلتا ہوں‘‘۔ یہ کہہ کر وہ چلے گئے تو دیکھا کہ گھر کے سامنے ایک ٹیکسی آ کر رک گئی، اس میں سے ہمارے ایک ایسے عزیز دوست اپنے بال بچوں سمیت برآمد ہوئے جن کی صورت ہم نے دس برسوں سے نہیں دیکھی تھی۔ ہمیں دیکھتے ہی گلے سے لگ گئے اور بولے ’’نیا سال مبارک ہو۔ بمبئی سے سیدھا تمہارے پاس آ رہا ہوں، کئی برس سے تم سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ تم نے میرے بچوں کو بھی نہیں دیکھا تھا، سوچا کہ اس بار تمہیں شخصی طور پر نئے سال کی مبارک باد دی جائے۔ بس دو دن تمہارے گھر مہمان رہوں گا تاکہ تمہیں اچھی طرح نئے سال کی مبارک باد دے سکوں‘‘۔

ہر نئے سال پر جنوری کے مہینے میں ہمارے پاس عموماً اسی طرح کے ملنے والے آتے ہیں۔ پتہ نہیں لوگوں کو نئے سال کی مبارک باد دینے میں کیا مزہ آتا ہے کہ وہ زندگی کو بھول کر صرف مبارک باد دینے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ آپ یقین کریں کہ نئے سال کے پہلے ہفتے میں ہم کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ صرف نئے سال کی مبارک باد ہی قبول کرتے رہتے ہیں۔ یوں سمجھئے کہ نئے سال کے پہلے ہفتے میں ہماری زندگی کی سرگرمیاں رُک جاتی ہیں۔ اگر کوئی گالی بھی دے تو اسے ’’آپ کو بھی نیا سال مبارک ہو‘‘ کہتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ایک منزل وہ بھی آتی ہے جب ہمیں نئے سال کی مبارک باد ایک گالی کی طرح دکھائی دینے لگتی ہے۔ بس میں کوئی مسافر آپ کو دھکا دیتا ہے تو اظہار ندامت کرنے سے پہلے آپ کو نئے سال کی مبارک باد دیتا ہے۔ گویا خبردار کرنا چاہتا ہو کہ نئے سال میں بسوں میں نت نئے دھکے کھانے کے لئے تیار رہئے۔

ان مبارک باد دینے والوں سے فرصت ملتی ہے تو ہمارے پاس نئے سال کے کارڈ آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ عموماً یہ تہنیتی کارڈ ان افراد کی طرف سے آتے ہیں جنہوں نے یا تو ہم سے پچھلے سال میں کوئی فائدہ اٹھایا تھا یا آنے والے سال میں ہم سے فائدہ اٹھانے کا ارادہ رکھتے ہوں۔ جنوری کے آدھے مہینہ میں ہم ان کارڈوں کو وصول کرتے ہیں اور بقیہ آدھا مہینہ ان کارڈ بھیجنے والوں کا شکریہ ادا کرنے میں گذر جاتا ہے۔ اس بیچ اہل غرض ہمارے پاس نئے سال کی پہلی مبارک باد کے کلینڈر بھیجنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کلینڈروں پر عموماً ایسی دوشیزاؤں کی تصویریں ہوتی ہیں جن کے بدن پر گھڑی کے سوائے کوئی اور لباس نہیں ہوتا۔ ان کلینڈروں کو دیکھ کر جنوری کے مہینے میں کئی راتوں تک ہمیں نیند نہیں آتی۔

ہم نے یہ بھی محسوس کیا ہے کہ جنوری کے مہینے میں آدمی خواہ مخواہ ہی مہذب اور شریف بننے کی کوشش کرتا ہے۔ نئے سال کی مبارک باد تو دیتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ نئے ارادے اور نئے فیصلے بھی کرتا ہے۔ ہم نے بھی کئی بار فیصلہ کیا ہے کہ نئے سال میں سگریٹ چھوڑ دیں گے، نئے سال میں آوارہ گردی نہیں کریں گے۔ جھوٹ نہیں بولیں گے، صحت کا خیال رکھیں گے، بیوی سے اپنی آمدنی پوشیدہ نہیں رکھیں گے وغیرہ وغیرہ۔ جنوری کے مہینہ کی ابتدائی تاریخوں میں ہم ان نئے فیصلوں اور نئے ارادوں پر عمل کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں لیکن جیسے جیسے وقت گذرتا ہے ہم اپنی اصلی حالت پر واپس آ جاتے ہیں۔ اور سال کے بقیہ مہینوں میں ہم جنوری کے مہینے کے خلاف تردیدی بیان جاری کرتے رہتے ہیں۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں آدمی بلاوجہ اپنے دل کو ٹٹولتا ہے اور دماغ کو جھنجھوڑتا ہے۔ جنوری کا تو کچھ بھی نہیں بگڑتا، البتہ آدمی ہی بعد میں بگڑ جاتا ہے۔ اس لئے تو ہم جنوری کے مہینے کو اپنی عمر کے کھاتے میں شمار نہیں کرتے۔

٭٭٭

 

 

 

 

ہم اٹھاون برس سے شادی شدہ ہیں

 

کل ہم اپنے بعض پرانے بلکہ بوسیدہ کاغذات کو الٹ پلٹ رہے تھے کہ ان میں سے ایک مڑا تڑا کاغذ بھی نکل آیا۔ اب جو ہم نے اس کا بغور مطالعہ کیا تو حیران رہ گئے کہ یہ تو ہماری ہی شادی کا نکاح نامہ ہے جس کے مطابق ہم 11 نومبر 1956 کو یعنی اٹھاون برس پہلے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے تھے۔ گویا ہماری شادی شدہ زندگی کی عمر اب اٹھاون برس کی ہونے والی ہے۔ اگر یہ موقع کسی اسٹیڈیم میں ہمارے کرکٹ کھیلنے کا ہوتا تو نصف سنچری کے اوپر جا کر ہمارے اس اسکور پر سارا اسٹیڈیم تالیوں سے گونج رہا ہوتا مگر ہمارے ہاں کرکٹ کے اسکور پر تو لوگ ضرور تالیاں بجاتے ہیں لیکن شادی کی سالگرہ کے اسکور پر عموماً اپنے سینوں پر ہتّڑ مار لیتے ہیں جیسے اس مبارک موقع پر ماتم کناں ہوں۔ یہ مذاق نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ ہمارے ایک دوست اپنی شادی سے اس قدر نالاں تھے کہ اپنی شادی کی سالگرہ نہیں بلکہ برسی مناتے تھے۔ وہ تو خدا کا فضل ہوا کہ پانچ برس کی شادی خانہ بربادی کے بعد جب انھوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو ہر سال بڑی پابندی کے ساتھ طلاق کی سالگرہ شادی کی برسی سے کہیں زیادہ دھوم دھام سے منانے لگے۔ خرد کا نام جنوں اور جنوں کا خرد اسی طرح تو پڑتا ہے۔ بہرحال اس بھولے بسرے نکاح نامہ کو پانے کے بعد ہم نے اپنی اہلیہ محترمہ کو پکار کر خوشی خوشی بتایا ’’اجی سنتی ہو! ہماری شادی شدہ زندگی کی عمر اب اٹھاون برس کی ہونے والی ہے‘‘۔ یہ سنتے ہی موصوفہ کی حالت اچانک ایسی ہو گئی جیسے انھیں سانپ سونگھ گیا ہو۔ بولیں ’’یہ سانحہ کب ہوا؟ کیسے ہوا؟ تمہیں کس نے بتایا؟‘‘ ہم نے نکاح نامہ کا بوسیدہ کاغذ انھیں تھمایا تو پوچھا ’’یہ تمہیں کہاں مل گیا۔ شادی کے ابتدائی چار پانچ برسوں میں میں نے اس کاغذ کو بہت تلاش کیا مگر یہ نہ ملا۔ اب کیسے مل گیا‘‘۔ ہم نے کہا ’’میں بھی کم و بیش اسی عرصے میں اس کاغذ کا متلاشی رہا مگر مجھے بھی نہ ملا۔ میں تو اس کاغذ میں صرف دیکھنا چاہتا تھا کہ کسی ناگہانی صورت میں مجھے مہر کی کتنی رقم تمہیں ادا کرنی ہو گی‘‘۔ شرما کے بولیں ’’سچ تو یہ ہے کہ میں بھی مہر کی رقم کے بارے میں ہی جاننا چاہتی تھی۔

لیکن بعد میں زندگی کے جھمیلوں میں اس قدر الجھ گئی اور تم نے گھر کی اتنی ساری ذمے داریاں مجھ پر لاد دیں کہ مجھے اس نگوڑے نکاح نامے کو ڈھونڈنے کی مہلت ہی نہ ملی (یہ الگ بات ہے کہ مہر کی رقم نہایت حقیر تھی) تم اپنی دفتری اور سماجی زندگی میں مگن رہے اور مجھے گھر کی چار دیواری میں پھنسادیا۔ ایک بات بتاؤ کیا تمہیں سچ مچ یقین آ رہا ہے کہ ہماری شادی کو اٹھاون برس ہو گئے ہیں۔ مجھے تو یوں لگ رہا ہے کہ جیسے یہ ابھی کل کی بات یا بہت سے بہت پانچ برس پہلے کی بات ہو‘‘۔ ہم نے کہا ’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم نے نہایت کامیاب شادی شدہ زندگی گزاری ہے۔ وقت اچھا اور خوشگوار ہو تو پوری ایک صدی بھی کم سے کم ایک پل یا زیادہ سے زیادہ ایک سال میں گزر جاتی ہے۔ تمہارے احساس کی ندرت اور خیال کی وسعت بتا رہی ہے کہ تمہاری شادی شدہ زندگی بے حد کامیاب اور خوشگوار رہی ہے۔ کیونکہ تمہارے احساس کے مطابق اٹھاون برس کا یہ عرصہ چٹکی بجانے میں بیت گیا۔ دیکھا جائے تو مجھے بھی اس بات پر فخر ہے کہ میں نے تمہیں ایسی خوشگوار اور اتنی لمبی ازدواجی زندگی دی‘‘۔ بولیں ’’میری اس خوشگوار زندگی سے تمہارا کیا تعلق ہے اور تمہیں کس نے اس بات پر فخر کرنے کا موقع عطا کیا۔ مان نہ مان میں تیرا مہمان والی بات ہے۔ بھلا تم نے کولھو کے کسی بیل کو خوشگوار زندگی گزارتے ہوئے دیکھا ہے۔ تم نے بڑی ہوشیاری سے مجھے گھر کے جھمیلوں میں کچھ اس طرح پھنسایا کہ صبح پانچ بجے اٹھتی ہوں تو رات میں گیارہ بارہ بجے سے پہلے اپنی کمر سیدھی کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ اس سارے عرصے میں تم علی الصبح سیٹی بجاتے ہوئے گھر سے نکل جاتے رہے اور رات کے پچھلے پہر حسب معمول ویسے ہی سیٹی بجاتے ہوئے واپس بھی آتے رہے۔ بھلا یہ بھی کوئی ازدواجی زندگی ہے۔ یقین مانو پچھلے اٹھاون برسوں میں مجھے اتنی بھی فرصت نہ مل سکی کہ کبھی آئینہ میں جی بھر کے اپنی شکل ہی دیکھ لوں‘‘۔ اس پر ہم نے کہا ’’یہی وجہ ہے کہ تم آج بھی ویسی ہی دکھائی دیتی ہو جیسے آج سے اٹھاون برس پہلے دکھائی دیتی تھیں۔ تمہیں آئینہ دیکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ میں جو تمہیں دیکھ لیتا ہوں‘‘۔ غصے سے بولیں ’’تمہاری ایسی ہی لفظی اور زبانی جمع خرچ کی وجہ سے مجھے گھر کے جمع خرچ کے سلسلے میں جان کھپانی پڑتی ہے‘‘۔ ہم نے بھی مناسب سمجھا کہ اپنی شادی کی گولڈن جوبلی کے معاملے کو اتنا طول نہ دیں کہ پھر کوئی نیا جھگڑا کھڑا ہو جائے۔

ہمیں 1956 ء کا وہ جان لیوا نومبر اچھی طرح یاد ہے جب ہم ابھی طالب علم ہی تھے کہ ہمارے والد بزرگوار مولوی احمد حسین سابق تحصیل دار گلبرگہ اسی مہینے کی آٹھ تاریخ کو اچانک عثمان آباد سے حیدرآباد آئے اور اپنے برادر خورد یعنی ہمارے چچا مولوی محمد غوث سابق تحصیل دار تعلقہ کلم کے ہاں مقیم ہوئے (ہمارے یہ چچا صاحب قبلہ جنھیں 11 نومبر 1956 ء کے بعد ہمارے خسر محترم بننے کا شرف بھی حاصل ہوا، ابھی آٹھ برس پہلے 102 سال کی عمر میں براہ امریکہ راہی ملک عدم ہوئے۔ خدا انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے )۔ یہ اتفاق ہے کہ اسی نومبر کے پہلے ہفتے میں ہم سے دو سنگین گناہ سرزد ہوئے تھے۔ ایک بار ہم دبیر پورہ کے ایک ہوٹل میں چائے پی کر اور دوسری بات یاقوت محل ٹاکیز سے کوئی فلم دیکھ کر نکل رہے تھے کہ دونوں مرتبہ ہمارے چچا صاحب قبلہ نے ہمیں رنگے ہاتھوں دیکھ لیا۔ ہمارا ما تھا تو اسی وقت ٹھنکا تھا۔ چنانچہ ان سانحات کے تین چار دن بعد ہی ہمارے والد بزرگوار اچانک حیدرآباد آ گئے تو ہم نے تاڑ لیا کہ ہماری بربادی کے مشورے آسمانوں میں ہونے والے ہیں۔ دونوں بھائیوں میں نہ جانے کیا بات چیت ہوئی۔ قیاس اغلب ہے کہ ہمارے چچا نے ہمارے والد بزرگوار کو بتایا ہو گا کہ ہم غلط راستے پر گامزن ہیں، ہوٹلوں اور سنیما گھروں میں جانے لگے ہیں، فوراً اسے شادی کے کھونٹے سے باندھ کر راہ راست پر لانا ضروری ہے ورنہ لڑکا ہاتھ سے نکل جائے گا۔ (اس زمانے میں بگڑے ہوئے نوجوانوں کو راہ راست پر لانے اور حد سے زیادہ سیدھے اور سادہ لوح نوجوانوں کو بھی کسی حد تک بگاڑنے کا واحد علاج شادی کو ہی سمجھا جاتا تھا۔ بھئی کیا زمانہ تھا اور کیا علاج تھا)۔ ہمارے والد محترم جہاندیدہ انسان ہونے کے علاوہ شطرنج کے بہترین کھلاڑی بھی تھے۔ انھوں نے فوراً پانسہ پلٹا اور اپنے برادرِ خورد سے کہا ’’بیٹا میرا ہے تو کیا ہوا تمہارا بھتیجہ بھی تو ہے۔ تم اسے راہ راست پر لانے کے لئے اپنی ہی کسی بیٹی کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں کیوں نہیں دے دیتے‘‘۔

اس پر ہمارے چچا کو وہ پرانا مقولہ یاد آیا ’’سگ باش برادرِ خورد مباش‘‘۔ گئے تو تھے نماز معاف کروانے اُلٹے روزے گلے پڑ گئے۔ پھر انھیں یہ بھی معلوم ہو گیا کہ علاج بالمثل کس کو کہتے ہیں۔ اپنے بڑے بھائی کے حکم کی تعمیل نہ کرنے کی اپنے میں ہمت نہ پا کر انھوں نے نظریں نیچی کر لیں اور ہمارا رشتہ طے ہو گیا۔ مخفی مباد ہمارے والد محترم جہاں زیادہ تر اولادِ نرینہ پیدا کرنے کے قائل تھے وہیں ہمارے چچا صاحب قبلہ اولادِ نرینہ کے علاوہ اولادِ زرینہ بھی پیدا کرنے کے حامی تھے۔ ان کے ہاں اس وقت ’اسٹاک‘ میں جو بیٹی پڑی ہوئی تھی وہ بھی اصل میں اتنی بڑی نہیں تھی کیونکہ صرف آٹھویں جماعت کی طالبہ تھی (ویسے ہم بھی تو بی اے کے طالب علم تھے ) بالآخر وہی ہمارے حصے میں آئی اور ہماری رفاقت میں پچھلے اٹھاون برسوں سے لگاتار بڑی ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ہم نے شادی کی پہلی ہی رات کو اپنی نئی نویلی دلہن یعنی اپنی سابق کزن سسٹر کی انگریزی دانی کا اندازہ لگانے کی خاطر ان سے انگریزی میں میریج کے spelling پوچھے تو بے انتہا شرمانے کے باوجود نہایت اعتماد سے کہا ’MARAGE‘۔ ہم نے خوش ہو کر کہا ’’شاباش! تم تو بہت اچھی انگریزی جانتی ہو۔ اب انگریزی پر اپنی توانائی ضائع نہ کرو بلکہ اردو پر اپنی توجہ مرکوز کرو کیونکہ ہم اردو کے صحافی بننا چاہتے ہیں اور ہم تمہیں اردو بیوی کے روپ میں ہی دیکھنے کے متمنی ہیں‘‘۔ شادی کے بعد ہماری اہلیہ نے بارہا اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتی ہیں مگر ہم نے انھیں باور کرایا کہ تمہیں تعلیم کے حصول کی خاطر اپنا قیمتی وقت برباد کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ کیونکہ تمہاری شادی خود ایک ایسے شخص سے ہوئی ہے جو علم کا خزانہ ہے، علم کا منبع ہے بلکہ عالمِ بے عمل ہے۔ ان دنوں ہمارا رویہ بھی ملتِ اسلامیہ کی موجودہ قیادت جیسا تھا جو ملت کی صفوں میں جہالت کو نہ صرف برقرار رکھنا چاہتی ہے بلکہ اسے فروغ دینے کو ضروری سمجھتی ہے کیونکہ اسے اندازہ ہے کہ ملت کی جہالت میں ہی قیادت کی عافیت مضمر ہے۔

ہمیں 11 نومبر 1956ء کا وہ دن اچھی طرح یاد ہے۔ ہماری شادی کی تاریخ کچھ ایسی عجلت میں طے ہوئی تھی کہ اگرچہ شادی کے دعوت نامے برائے نام چھپوائے گئے تھے لیکن انھیں تقسیم کرنے کی مہلت نہ ملی تھی۔ بزرگوں میں عابد علی خاں صاحب اور ہمارے بڑے بھائی محبوب حسین جگر کے علاوہ چند قریبی رشتے داروں کی شرکت ضرور یاد ہے لیکن ہمارے دوستوں میں دعوت ناموں کے بغیر ہی یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح کچھ اس طرح پھیلی کہ لگتا تھا ہماری شادی کے دن عثمانیہ یونیورسٹی کا آرٹس کالج دبیر پورہ کے فرحت نگر میں منتقل ہو گیا ہے۔ غرض اٹھاون برس پہلے بھی جب کہ ہم نے اس دنیا میں بمشکل تمام صرف بیس ہی برس گزارے تھے عوام الناس میں ہماری مقبولیت دیدنی تھی۔ مگر ہماری مقبولیت سے کہیں زیادہ ہمارے پرانے چچا اور نئے خسر محترم کی پریشانی دیدنی تھی جنھیں ہمارے ڈھائی تین سو بن بلائے دوستوں کی ضیافت کا اہتمام کرنے کی خاطر نہ صرف دبیر پورہ اور یاقوت پورہ کے سارے ہوٹلوں سے بلکہ پتھر گٹی کے مدینہ ہوٹل سے بھی کھانا منگوانا پڑا تھا۔ مرحوم جب تک زندہ رہے ہماری اس غیر ذمے دارانہ حرکت کے شاکی رہے۔ جہاں وہ اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ ہم نے گھوڑے جوڑے کی کوئی رقم نہیں لی، جہیز وغیرہ بھی نہیں لیا، بہت اچھا کیا لیکن اپنے دوستوں کی ضیافت پر اتنا خرچ کروا دیا کہ اس زمانے کے حساب سے کم از کم دو اور بیٹیوں کی شادی کا بندوبست ہو سکتا تھا۔ خدا کے فضل سے ہم نے بعد کی زندگی بھی اسی غیر ذمے دارانہ آن بان اور شان کے ساتھ گزاری۔ یوں بھی اب ہماری زندگی کا دریا وقت کے سمندر میں ملا چاہتا ہے۔ اس کا حال جان کر آپ کیا کریں گے۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ اس طویل سفر میں ہم نے اور ہماری ’نصف بہتر‘ دونوں نے بے سرو سامانی، بے اطمینانی کو ہی اطمینان ابتر کو بہتر اور بدحالی کو خوشحالی سمجھنے کا ہنر سیکھ لیا۔

دیکھو ہم نے ایسے بسر کی اس آباد خرابے می

٭٭٭

 

 

 

 

قصّہ ایک ہم شکل کا

 

 

بعض اوقات کچھ ایسے واقعات پیش آ جاتے ہیں کہ ان واقعات کے پیش آ جانے کے باوجود آپ لوگوں کو یہ یقین نہیں دلاسکتے کہ یہ واقعہ آپ کے ساتھ پیش آیا تھا۔ پچھلے دنوں میں بذریعہ ٹرین دہلی سے حیدرآباد جا رہا تھا۔ ایک حیدرآبادی دوست بھی میرے ہم سفر تھے۔ ناگپور کے اسٹیشن پر گاڑی بڑی دیر تک ٹھہرتی ہے۔ ہم دونوں سفر کی بوریت کو ختم کرنے کے لئے پلیٹ فارم پر اترے تو اچانک ایک شخص بڑی گرم جوشی کے ساتھ میری طرف آیا اور مجھ سے بغل گیر ہوتے ہوئے بولا ’’یار! دیپک سکسینہ کیسے ہو؟ کہاں جا رہے ہو؟‘‘ میں نے کہا ’’حیدرآباد جا رہا ہوں‘‘ پوچھا ’’تو کیا اب حیدرآباد میں بھی تم نے اپنا بزنس شروع کر دیا ہے؟‘‘ میں نے کہا ’’شروع تو نہیں کیا ہے۔ شروع کرنے کی سوچ رہا ہوں‘‘۔ کہنے لگا ’’بہت اچھا خیال ہے۔ یہ بتاؤ گھر پر سب کیسے ہیں؟‘‘۔

میں نے کہا ’’سب اچھے ہیں۔ مہندر انجینئرنگ کرنے کے بعد باہر چلا گیا ہے۔ سرلا اپنی سسرال میں خوش ہے۔ ویریندر کے بارے میں تو تم جانتے ہو گے کہ اس نے اب پلاسٹک کی چیزیں بنانے کا اپنا ایک کارخانہ کھول لیا ہے‘‘۔ اس شخص نے کہا ’’اچھا مجھے پتہ نہیں تھا۔ اتنا بڑا ہو گیا ہے۔ وہ ذہین پہلے ہی سے تھا۔ کاروبار میں تم سے یقیناً آگے جائے گا‘‘۔ میں نے کہا ’’بس تمہارا آشیرواد چاہئے‘‘۔ پھر اس شخص نے پوچھا ’’اور بھابی کا کیا حال ہے؟‘‘ میں نے کہا ’’بھگوان کی کرپا سے بالکل اچھی ہیں۔ وہ جو اپنے الہ آباد کے مشہور وید پنڈت پربھاکر دویدی ہیں نا ان کے علاج سے بڑا فائدہ ہوا ہے۔ جوڑوں کا درد بالکل جاتا رہا ہے‘‘۔ اس شخص نے حیرت سے کہا ’’اچھا وید جی اب تک زندہ ہیں۔ بہت بوڑھے ہو گئے ہوں گے۔ کیا اسی پرانے مکان میں رہتے ہیں؟‘‘۔ میں نے کہا ’’ہاں وہی گھاس منڈی والے مکان میں رہتے ہیں‘‘۔ بولا ’’اچھا کیا تم نے بتا دیا۔ انہیں خط لکھتا ہوں۔ پچھلے کچھ دنوں سے میں بھی جوڑوں کے درد میں مبتلا ہوں۔ حیدرآباد سے الہ آباد کب واپس جاؤ گے؟‘‘ میں نے کہا ’’ایک ہفتہ میں واپس ہو جاؤں گا‘‘۔

بولا ’’یار تمہاری دکان کی مٹھائیاں اور نمکین چیزیں بہت یاد آتی ہیں۔ کئی برس ہو گئے الہ آباد آئے ہوئے۔ اب کے آؤں گا تو ضرور ملوں گا اور ہاں تمہیں یاد ہو گا کہ الہ آباد سے چلتے وقت میں نے تم سے سو روپے اُدھار لئے تھے۔ پورے چھ سات برس بیت گئے۔ ہمیشہ خیال آیا کہ تمہیں منی آرڈر کر دوں لیکن فرصت ہی نہیں ملی۔ اب رکھ لو‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے مجھے سو روپے کا نوٹ دیا۔ میں نے پوچھا ’’مگر یہ تو بتاؤ کہ تم ناگپور میں کیا کر رہے ہو۔ اپنا پتہ تو دو‘‘۔ اس اثناء میں ٹرین نے چلنے کی تیاری شروع کر دی۔ اس شخص نے اپنا وزیٹنگ کارڈ مجھے دیا اور ٹرین کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے کہنے لگا ’’الہ آباد کی صحبتیں بہت یاد آتی ہیں۔ سارے دوستوں کو میری طرف سے پوچھنا اور بھابی کو نمستے کہنا۔ بچوں کو پیار اور ہاں حیدرآباد سے واپس ہوتے وقت دو ایک دن ناگپور میں رک جاؤ۔ اب میرے حالات اچھے ہو گئے ہیں۔ پہلے کی سی بات نہیں رہی‘‘۔

گاڑی آگے کو نکل گئی اور وہ بڑی دیر تک پلیٹ فارم پر ہاتھ ہلاتا رہ گیا۔ جب ہم ڈبہ میں واپس ہوئے تو میرے حیدرآبادی دوست نے کہا ’’یار مجتبیٰ کمال ہے۔ تم تو عملی مذاق بھی خوب کر لیتے ہو۔ یہ تم مجتبیٰ سے دیپک سکسینہ کیسے بن گئے۔ یہ الہ آباد۔ یہ گھاس منڈی اور پربھاکر دویدی۔ یہ سب کیا ہے۔ اور یہ تمہارا بیٹا مہندر کہاں سے آ گیا اور یہ دیویندر نے پلاسٹک کا کارخانہ کب کھول لیا۔ اور ہاں بھابی تو کبھی جوڑوں کے درد میں مبتلا نہیں ہوئیں‘‘۔ میں نے ہنس کر کہا ’’اس شخص سے سو روپے لینے کے لئے یہ کہنا ضروری تھا‘‘۔ میرے دوست نے کہا ’’مگر تم نے تو اسے کبھی سو روپے نہیں دیئے تھے‘‘۔ میں نے کہا ’’مگر دیپک سکسینہ نے تو دیئے تھے‘‘۔ میرے دوست نے پوچھا ’’کیا مذاق کرتے ہو۔ کون ہے یہ دیپک سکسینہ؟‘‘ میں نے کہا ’’وہی جو الہ آباد میں رہتا ہے۔ رانی منڈی میں اس کی کنفکشنری کی دکان ہے اور جس کی بیوی جوڑوں کے درد کی مریض ہے‘‘۔ میرے دوست نے کہا ’’تب تو یہ سو روپئے اس دیپک سکسینہ کے ہوئے۔ تم نے کیوں وصول کر لئے؟‘‘ میں نے کہا ’’اور وہ جو میرے مزاحیہ مضامین کی داد ہر ایک سے وصول کرتا رہتا ہے تو یہ داد کس کھاتے میں جائے گی‘‘۔ میرے دوست نے جھنجھلا کر کہا ’’یار یہ معمہ میری کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔ کھل کر تو بتاؤ کہ معاملہ کیا ہے؟‘‘۔

اور میں نے جو بات اپنے حیدرآبادی دوست کو بتائی وہ اب آپ سب کو بھی بتائے دیتا ہوں۔ بات در اصل یوں ہوئی کہ آج سے سات آٹھ برس پہلے میں دہلی کے کناٹ پلیس کی ریگل بلڈنگ کے سامنے کھڑا تھا کہ ایک شخص نے اچانک پیچھے سے میری پیٹھ پر ایک گھونسہ رسید کرتے ہوئے کہا ’’ابے دیپک سکسینہ تو یہاں کیا کر رہا ہے؟ کب آیا الہ آباد سے؟‘‘ میں نے اپنی پیٹھ کو سہلاتے ہوئے کہا ’’معاف کیجئے۔ میں دیپک سکسینہ نہیں ہوں۔ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے‘‘۔ وہ شخص بولا ’’ابے لفنگے! مجھ سے مذاق کرتا ہے۔ بچپن کا دوست اور مجھے ’آپ‘ کہہ کے شرمندہ کر رہا ہے۔ اچھا یہ تو بتا کب آیا الہ آباد سے؟‘‘میں نے قدرے بلند آواز میں اس سے کہا ’’دیکھئے جناب! آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے میں دیپک سکسینہ نہیں ہوں اور نہ الہ آباد سے میرا تعلق ہے۔ خواہ مخواہ میرا وقت برباد کرنے کا کیا فائدہ۔ اس پر وہ شخص بپھر گیا اور غصہ سے بولا۔ ’’اب میں سمجھا کہ تو کس بات پر خفا ہے۔ یہی نا کہ میں نے تیری دکان سے ڈھائی تین سو روپیوں کی مٹھائی اُدھار لی تھی۔ یہ لے پانچ سو روپئے اور رکھ اپنی جیب میں۔ تیری پائی پائی چکا دوں گا۔ تو سمجھتا کیا ہے اپنے آپ کو۔ بہت دنوں سے الہ آباد نہیں آیا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں تیرے پیسے ہڑپ کرنا چاہتا تھا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ تو پیسے کے لئے اتنا گر جائے گا۔ آج سے تیری میری دوستی ختم‘‘۔ اس شخص نے غصہ سے پانچ سو روپیوں کا نوٹ میرے شرٹ میں ٹھونس دیا اور میرے منع کرنے کے باوجود آگے کو نکل گیا۔

اس واقعہ کے بعد بہت دنوں تک وہ پانچ سو روپے میری جیب میں پڑے رہے۔ چار برس پہلے کسی ادبی محفل کے سلسلہ میں مجھے لکھنؤ جانا پڑا۔ لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن کے دو چار دوستوں کے ساتھ میں امین آباد پارک سے گزر رہا تھا کہ اچانک ایک صاحب نے پیچھے سے پکارا ’’بھئی دیپک سکسینہ! کیسے ہو یار؟ دیکھ کر بھی انجان بنے چلے جا رہے ہو۔ مٹھائیاں اچھی بناتے ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ پرانے دوستوں کو بھی بھول جاؤ‘‘۔ دیپک سکسینہ کا نام سن کر مجھے اچانک کناٹ پلیس والا واقعہ یاد آ گیا۔ قبل اس کے کہ میں اس کی غلط فہمی دور کرتا میرے ریڈیو کے دوستوں نے اس سے کہا ’’معاف کیجئے۔ یہ دیپک سکسینہ نہیں مجتبیٰ حسین ہیں۔ دہلی سے آئے ہیں‘‘۔ مگر میں نے بیچ میں مداخلت کرتے ہوئے اس شخص سے کہا ’’حضور ان کی باتوں میں نہ آیئے۔ میں ہی دیپک سکسینہ ہوں الہ آباد والا۔ آپ نے میری دکان سے جو مٹھائی لی تھی اس کے پیسے اب تک نہیں دیئے۔ میں آپ کو کیسے نہیں پہچانوں گا‘‘۔

اس پر اس شخص نے ندامت سے کہا ’’ہاں بھئی دیپک ابھی پچھلے مہینے تو تم نے سو روپے کی مٹھائی ادھار دی تھی۔ ایسی بھی کیا جلدی ہے۔ اگلے ہفتے الہ آباد آ رہا ہوں۔ پیسے دے دوں گا‘‘۔

تب میں نے اس شخص پر اپنی اصلیت کو ظاہر کرتے ہوئے کہا ’’حضور! مجھے اس دیپک سکسینہ کا ذرا پتہ بتایئے۔ میں اس سے ملنا چاہتا ہوں۔ یہ کیسا آدمی ہے کہ ہر ایک کو اُدھار مٹھائی دے دیتا ہے اور پھر بھی اس کا کاروبار چل رہا ہے‘‘۔ بہرحال میں نے اس شخص سے دیپک سکسینہ کا پورا پتہ حاصل کیا۔ اتفاق سے اس واقعہ کے پورے ایک سال بعد ایک ادبی محفل کے سلسلہ میں الہ آباد جانا پڑ گیا تو میں دیپک سکسینہ کی کنفکشنری کی دکان پر گیا۔ دیپک سکسینہ کو دور سے دیکھا تو یوں لگا جیسے میں خود دکان پر بیٹھا ہوا مٹھائیاں بیچ رہا ہوں۔ جیسے ہی میں اس کی دکان پر گیا دیپک سکسینہ نے مجھے ایک نظر دیکھا۔ پھر زور سے بولا ’’السلام وعلیکم مجتبیٰ صاحب! کب آئے آپ دہلی سے الہ آباد؟ مجھے یقین تھا کہ آپ ایک نہ ایک دن میری دکان پر ضرور آئیں گے‘‘۔ میں نے کہا ’’یار دیپک سکسینہ! تمہیں میرا نام کیسے معلوم ہوا؟‘‘بولا ’’کمال کرتے ہیں آپ بھی۔ جیسے آپ کو میرا نام معلوم ہو گیا ویسے ہی مجھے بھی آپ کا نام معلوم ہو گیا۔ دو ایک بار دہلی گیا تو جگہ جگہ لوگوں نے مجھے ’’مجتبیٰ حسین‘‘ سمجھ کر پکڑ لیا۔ آپ کے ایک دوست نے تو مجھے بے پناہ گالیاں بھی دیں کہ رات کھانے کی دعوت پر آنے کا وعدہ کر کے میں ان کے ہاں نہیں پہنچا‘‘۔

دیپک سکسینہ سچ مچ میرا ہم شکل تھا۔ مجھ سے مل کر وہ بہت خوش تھا۔ مجھے خوشی خوشی اپنے گھر لے گیا۔ بیوی بچوں سے ملایا۔ شام کو مجھے الہ آباد کی ایک ادبی محفل میں شرکت کرنی تھی۔ سو میں نے دیپک سکسینہ کو بھی ادبی محفل میں شرکت کی دعوت دے دی۔ کسی وجہ سے میں ادبی محفل میں دیر سے پہنچا تو دیکھا کہ ادبی محفل کے منتظمین اسے زبردستی پکڑ کر ڈائس پر بٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ تو اچھا ہوا کہ میں نے بروقت بیچ بچاؤ کیا ورنہ اس دن دیپک سکسینہ کو پتہ چلتا کہ ہوٹنگ کس کو کہتے ہیں۔ منتظمین بھی ہم دونوں کی مشابہت سے پریشان تھے۔

بہرحال جب میں الہ آباد سے دہلی واپس جانے لگا تو دیپک سکسینہ میرے لئے مٹھائی کے کئی ڈبے لے کر آ گیا۔ میں نے اس کے کناٹ پلیس والے دوست کے دیئے ہوئے پانچ سو روپے دینے کی کوشش کی تو دیپک نے کہا ’’مجتبیٰ صاحب! آپ بھی کمال کرتے ہیں۔ آپ کی تصویریں ہندی رسالوں میں چھپتی رہتی ہیں۔ ٹیلی ویژن پر بھی آپ اکثر آتے رہتے ہیں۔ آپ کو کیا پتہ کہ میں نے آپ کے مزاحیہ مضامین کی جتنی داد وصول کی ہے اس کے آگے ان پانچ سو روپیوں کی کیا حیثیت ہے۔ انہیں اپنے پاس ہی رکھئے‘‘۔ میں نے پوچھا ’’دیپک سکسینہ یہ سب تمہیں کیسا لگتا ہے‘‘ بولا ’’بہت اچھا لگتا ہے۔ لیکن کبھی کبھی اس ملک میں جب فرقہ وارانہ دنگے ہونے لگتے ہیں تو آپ کے تعلق سے تشویش میں مبتلا ہو جاتا ہوں‘‘۔ میں نے کہا ’’دیپک! تم میرے لئے تشویش میں مبتلا ہو جاتے ہو اس بات کی مجھے خوشی ہے۔ مجھے اور کیا چاہئے۔ مگر مجھے تم سے ہمدردی بھی ہے۔ حالانکہ تمہارا کاروبار ٹھیک چل رہا ہے لیکن لوگوں کو اُدھار میں مٹھائی تو نہ دیا کرو‘‘ بولا ’’مجتبیٰ صاحب۔ آپ بھی تو لوگوں کو اُدھار میں ہنساتے رہتے ہیں۔ یہ سماج آپ کی باتوں پر ہنس تو لیتا ہے لیکن اس کی قیمت آپ کو کہاں ادا کرتا ہے‘‘۔ دیپک سکسینہ کی بات سن کر مجھے یوں لگا جیسے میں مٹھائی فروش ہوں اور وہ مزاح نگار ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

ہمارے گھر پر چھاپہ

 

 

کل رات ہم نے ایک عجیب و غریب خواب دیکھا۔ اس خواب کی تفصیل آپ کو بھی سنائے دیتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں۔

ہم رات کے پچھلے پہر اپنے کمرہ میں گہری نیند سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ ہماری بیوی نے ہمیں جگاتے ہوئے کہا ’’ذرا سنئے، دیکھئے تو سہی ہمارے گھر چھاپہ مارنے والے آ گئے ہیں‘‘۔ ہم نے کروٹ بدلتے ہوئے کہا ’’ان سے کہو معاف کریں اور آگے جائیں‘‘۔ بیوی نے کہا ’’آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ یہ وہ لوگ نہیں ہیں جو معاف کر دیتے ہیں۔ یہ تو چھاپہ مارنے والے ہیں۔ ان کا معافی سے کیا تعلق؟‘‘۔ ہم نے ایک اور کروٹ بدلتے ہوئے کہا ’’کون سے چھاپہ مارنے والے؟ ان دنوں چھاپہ مارنے والے بھی کئی قسم کے ہو گئے ہیں۔ انکم ٹیکس کے چھاپہ مار، سی بی آئی کے چھاپہ مار، انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ، کمرشیل ٹیکس اور نہ جانے کس کس کے چھاپہ مار۔ پہلے پتہ تو کرو کہ کس ڈپارٹمنٹ سے آئے ہیں‘‘۔ ہماری بیوی نے کہا ’’تم خود جا کر پوچھ لو۔ میں پوچھوں گی تو کہیں واپس نہ چلے جائیں۔ مجھے تو صورت سے یہ چھاپہ مارنے والے کم اور …!‘‘

اس وقت تک ہم نیند کے خمار سے نکل آئے تھے۔ جب ہمیں پتہ چلا کہ ہمارے گھر سچ مچ چھاپہ مارنے والے آئے ہیں تو ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔ ہم نے بیگم سے کہا ’’میں نہ کہتا تھا ایک دن ہمارا شمار بھی بڑے آدمیوں میں ہو گا۔ خدا کا شکر ادا کرو کہ آج اس نے ہمیں یہ اعزاز بخشا ہے۔ اگرچہ لکشمی کبھی ہمارے گھر نہیں آئی لیکن چھاپہ مارنے والے تو آ گئے ہیں، تم جلدی جلدی ان سارے احباب اور رشتہ داروں کو اس خوش خبری کی اطلاع دے دو جو ہمیں دیکھ دیکھ کر بلاوجہ حسد کی آگ میں جلتے رہتے ہیں۔ انہیں مزید جلانے کا اس سے بہتر کوئی اور موقع نہیں ہو سکتا‘‘ بیگم نے کہا ’’کیسے اطلاع دوں۔ ٹیلی فون کا بل بروقت ادا نہ کرنے کی وجہ سے آج ہی تو ہمارا ٹیلی فون کٹا ہے۔ کتنی بار تم سے کہا کہ ہمارے ٹیلی فون کا یوں بار بار کٹ جانا اچھا نہیں۔ کوئی بھی ایمرجنسی آ سکتی ہے‘‘۔ ہم نے کہا ’’تم پڑوسی کے یہاں جا کر ٹیلی فون کرو۔ میں اتنی دیر میں چھاپہ مارنے والوں سے نمٹتا ہوں‘‘۔

ہم دیوان خانہ میں آئے تو دیکھا کہ چار پانچ اصحاب دیوان خانہ کی ہر چیز کو نہایت غور سے دیکھ رہے ہیں اور دیکھنے سے زیادہ انہیں پرکھ رہے ہیں۔ ان کے افسر اعلی نے ہم سے کہا ’’معاف کیجئے ہم آپ کے گھر چھاپہ مارنے کے لئے آئے ہیں‘‘۔ ہم نے کہا ’’زہے نصیب۔ ضرور چھاپہ ماریئے۔ ہمیں تو آپ ہی کا انتظار تھا‘‘۔ افسر نے کہا ’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کو ہماری آمد کا پہلے ہی سے پتہ تھا‘‘۔ ہم نے کہا ’’آپ بھی کیسی باتیں کرتے ہیں۔ اگر آپ کی آمد کا پہلے سے پتہ ہوتا تو ہم آپ کو یوں سوتے ہوئے ملتے۔ ہم تو آپ کے خیر مقدم کے لئے گھر پر چراغاں کرتے اور گلی کے نکڑ پر ایک خیر مقدمی کمان تو کھڑی کر دیتے‘‘۔

افسر اعلی: ’’دیکھئے مذاق بند کیجئے۔ پہلے ہم آپ کے گھر کی تلاشی لینا چاہتے ہیں‘‘۔ ہم: ’’ضرور لیجئے مگر اسی بھی کیا جلدی ہے۔ پہلے چائے وغیرہ تو پیجئے۔ ہم نے اپنے کچھ صحافی دوستوں اور فوٹوگرافروں کو فون پر اطلاع دینے کے لئے کہا ہے کہ وہ جلد از جلد یہاں آ جائیں۔ وہ آ جائیں تو تلاشی شروع کر دیجئے‘‘۔

افسر اعلی: ’’آپ نے صحافیوں اور فوٹوگرافروں کو کیوں بلایا۔ آپ بھی عجیب آدمی ہیں۔ لوگ تو چھاپے کی اطلاع کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں‘‘۔

ہم: ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہمارے گھر چھاپہ پڑے اور اس کی اطلاع اخباروں میں نہ آئے۔ پھر چھاپہ روز روز تو پڑنے سے رہا۔ اخبار والے آ جائیں تو ذرا مزہ آ جائے گا۔ ہمارے گھر سے اگر کوئی چیز نہ بھی ملے تو اخبار والے اپنی خبر میں نکال لیں گے۔ اس طرح ہماری عزت اور احترام میں اضافہ ہو گا‘‘۔

چھاپہ مار ٹیم کا افسر ہم سے یہ بات چیت کر ہی رہا تھا کہ اچانک کسی چیز کے گرنے کی آواز آئی۔ دیکھا تو معلوم ہوا کہ ٹیم کے ایک کارندے نے ہماری وہ لا قیمت اور بے مثال دیواری گھڑی گرا دی ہے جو ہمیں اپنے والد سے اور ہمارے والد کو ان کے والد سے ورثہ میں ملی تھی۔ یہ گھڑی فرانس کے ایک گھڑی ساز نے 1857ء میں اس وقت تیار کی تھی جب ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی لڑی جا رہی تھی۔ ہمارے پاس یہ گھڑی پچھلے پچاس برسوں سے تھی۔ اس سے پہلے یہ ہمارے والد کے پاس تھی۔ ان کا بیان تھا کہ ان کے پاس یہ گھڑی کبھی نہیں چلی۔ لگ بھگ سو برس سے یہ گھڑی دس بج کر پینتیس منٹ بجا رہی تھی۔ یہ معلوم نہیں تھا کہ دن کے دس بج کر پینتیس منٹ بجا رہی تھی یا رات کے۔ البتہ مشہور یہ تھا کہ جس وقت ہمارے دادا کا انتقال ہوا تھا عین اس وقت ہمارے ایک تایا نے اس گھڑی کو چلنے سے روک دیا تھا۔ گویا پچھلے سو برس سے وہ ہمارے اہل خاندان کو ہمارے دادا کے مرنے کا وقت بتا رہی تھی۔ ہمارے والد صاحب کہا کرتے تھے کہ بھلے ہی یہ گھڑی نہ چلے لیکن اس میں ایک خوبی یہ ہے کہ دن میں دو دفعہ بالکل صحیح وقت بتاتی ہے۔ دیگر گھڑیوں کی طرح بالکل نہیں تھی جو دن کے کسی بھی وقت میں صحیح وقت نہیں بتاتیں۔ تاہم اس گھڑی میں ہم وقت نہیں دیکھتے تھے بلکہ اپنے اسلاف کے کارناموں کو ڈھونڈتے تھے۔ جیسے ہی یہ دیواری گھڑی گری ہمارے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ ہم نے کارندے کو جا کر پکڑا کہ میاں جب تک اس گھڑی کا معاوضہ ہمیں ادا نہیں کیا جاتا تب تک ہم تمہیں کسی اور چیز کو ہاتھ لگانے نہیں دیں گے اور مزید تلاشی کی اجازت نہیں دیں گے۔ افسر اعلی نے مداخلت کرتے ہوئے کہا ’’آپ اطمینان رکھیں آپ کو اس گھڑی کا معاوضہ مل جائے گا‘‘۔ ہم نے کہا ’’مگر معاوضہ کیا ہو گا۔ پہلے یہ تو طے کیجئے‘‘۔

افسر اعلی نے گھڑی کے ٹوٹے ہوئے پرزوں کا جائزہ لینے کے بعد کہا ’’آپ کو اس کے پچاس روپئے مل جائیں گے‘‘۔

ہم نے چیخ کر کہا ’’کیا کہا پچاس روپئے۔ بھائی صاحب میں اس گھڑی کے پچاس لاکھ روپئے سے کم نہیں لوں گا۔ آپ نے اس گھڑی کو کیا سمجھا ہے۔ ہمارے باپ دادا کی نشانی ہے۔ جس فرانسیسی کاریگر نے یہ گھڑی بنائی تھی اگر اس کے اہل خاندان کو اس گھڑی کا پتہ چل جائے تو وہ کروڑوں روپیوں میں اسے ہم سے خرید لیں گے‘‘۔ ہم یہ بحث کر ہی رہے تھے کہ کچھ صحافی حضرات اور فوٹوگرافر وہاں آ گئے۔ ہم نے انہیں سارا ماجرا کہہ سنایا اور بتایا کہ اس قدیم گھڑی کے دام پر ہم میں اور چھاپہ مارنے والوں میں اختلاف رائے پیدا ہو گیا ہے۔ وہ ہمیں پچاس روپئے دینا چاہتے ہیں اور ہم اس کے پچاس لاکھ سے کم نہیں لینا چاہتے۔ وہ تو اچھا ہوا کہ ایک جہاندیدہ صحافی نے اس گھڑی کے ٹوٹے ہوئے کل پرزوں کا بغور جائزہ لینے کے بعد کہا کہ اس کا دام آسانی سے ایک کروڑ روپئے بھی تعین کیا جا سکتا ہے لیکن جب تم نے پچاس لاکھ روپئے طے کر دیا ہے تو چلو یہی سہی۔ اس گھڑی کی قیمت اس کے کل پرزوں سے نہیں بلکہ اس کی عمر سے لگائی جانی چاہئے۔ بھلے ہی وہ بیسویں صدی میں ایک منٹ کے لئے نہیں چلی لیکن اس نے پوری ایک پُر آشوب صدی کو گزرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس گھڑی سے تمہارے ارکان خاندان کا جو جذباتی رشتہ ہے وہ ایسا بیش قیمت ہے کہ اس کا معاوضہ تو کوئی ادا کر ہی نہیں سکتا۔ پھر بھی تم نے کہہ دیا ہے تو پچاس لاکھ روپئے لے کر معاملہ کو رفع دفع کرو۔

اس استدلال کے بعد افسر اعلی نے اپنی ٹیم کے کارندوں سے کہا کہ وہ چھاپہ مارنے کی مہم کو روک دیں۔ کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔ ہم نے چھاپہ مارنے والوں کے یہ تیور دیکھے تو کہا ’’حضور! آپ کو اب چھاپہ تو مارنا ہی پڑے گا۔ اب تو صحافی اور فوٹوگرافر بھی آ چکے ہیں۔ ہم آپ کو یوں جانے نہیں دیں گے۔ پھر آپ کی ٹیم نے تو ابھی اس گراموفون کو نہیں دیکھا ہے جو ہمیں اپنے نانا کی طرف سے ورثہ میں ملا ہے۔ بخدا ایسا تاریخی اور یادگار گراموفون ہے کہ آپ اسے دیکھیں گے تو حیران رہ جائیں گے۔ کچھ لوگوں کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ یہ گراموفون اس وقت کا بنا ہوا ہے جب ابھی سائنسدانوں نے خود گراموفون کو ایجاد نہیں کیا تھا۔ اگر خدا کرے یہ کسی طرح ٹوٹ جائے تو ہمارے خاندان کو کم از کم ایک کروڑ روپئے ضرور دلاسکتا ہے۔ ہماری بات کو سن کر افسر اعلی نے پہلے تو ہم سے یہ پتہ کیا کہ گراموفون مذکور کہاں رکھا ہوا ہے اور جب اس کے محل وقوع کا پتہ چل گیا تو اس نے اپنے کارندوں سے کہا کہ ’’خبردار! جو کوئی اس گراموفون کے قریب گیا تو۔ یہ ایک عجیب و غریب گھر ہے یہاں ٹوٹنے سے پہلے کسی چیز کا دام تو پچاس روپئے ہوتا ہے۔ لیکن یہی جب ٹوٹ جائے تو اس کا دام پچاس لاکھ ہو جاتا ہے۔ لہذا چھاپہ مارنا بند کرو!‘‘۔

ہمارے بچوں نے کہا ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ چھاپہ نہ ماریں، آپ کو چھاپہ تو مارنا ہی پڑے گا۔ ہم تو کب سے آپ کا انتظار کر رہے ہیں‘‘۔ ایک بچہ نے کہا ’’میرا ایک بال پین پچھلے ایک ہفتہ سے غائب ہے۔ آپ کو تلاشی میں ملے تو واپس کر دینا‘‘۔ ہماری بیوی نے کہا ’’اور ہاں ہماری پوتی کی ایک انگوٹھی کہیں گر گئی ہے۔ بہت تلاش کیا لیکن پتہ نہیں چلا۔ آپ لوگ تو ماہر ہیں۔ آپ کو یہ انگوٹھی ملے تو ضرور دے دیں‘‘۔ ہم نے کہا ’’ہماری بھی بعض ضروری چیزیں غائب ہیں۔ یہ فہرست ہم آپ کو بعد میں دیں گے۔ لیکن پہلے وہ دیواری گھڑی کا معاوضہ طے ہو جائے‘‘۔

ہماری بات معقول تھی اس لئے ہمارے صحافی دوستوں نے بھی اصرار کرنا شروع کر دیا کہ جب تک دیواری گھڑی کی قیمت طے نہیں ہو جاتی تب تک چھاپہ مار ٹیم کو یہاں سے جانے نہ دیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی چھاپہ مار ٹیم کے ارکان نے بھاگنا شروع کر دیا۔ دوسرے دن اخباروں میں ہمارے گھر پر چھاپہ کی تفصیلی خبریں شائع ہوئیں۔ جگہ جگہ ہمارے چرچے ہونے لگے اور لوگ ہمیں مبارکباد دینے لگے کہ اس چھاپہ کے عوض انکم ٹیکس والے تمہیں پچاس لاکھ روپئے ادا کر رہے ہیں۔ ایسا تاریخی چھاپہ آج تک کہیں نہیں پڑا ہو گا۔ اس کے بعد اچانک ہماری آنکھ کھُل گئی۔ دیکھا تو دور دور تک کسی کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ ہم نے بیوی سے پوچھا ’’چھاپہ مارنے والے کہاں چلے گئے؟‘‘۔ بیوی نے ہمیں ڈانٹتے ہوئے کہا ’’کوئی خواب دیکھا ہے کیا؟ کیسا چھاپہ اور کہاں کا چھاپہ؟‘‘۔ ابھی میں نے تمہارے پرس پر چھاپہ مارا تھا صرف دو روپئے نکلے۔ یہ منہ اور مسورکی دال‘‘۔ اور یہ سن کر ہم اپنی آنکھیں ملنے میں مصروف ہو گئے۔

٭٭٭

 

 

 

 

جب میرا پہلا مضمون چھپا

 

 

پہلا گناہ، پہلا عشق اور پہلا مضمون ہمیشہ یادگار ہوتے ہیں۔ ماہ و سال کی گرد ان پر جمنے نہیں پاتی۔ زندگی میں بہت سے گناہ کئے لیکن پہلے گناہ کی یاد بمع اس کی لذت کے اب بھی تازہ ہے۔ ہم نے اپنی پچاس سالہ ادبی زندگی میں ڈھیروں مضامین لکھے، داد بھی پائی، نقادوں کے چونچلے سہے۔ ان کے مشوروں پر عمل کرنے کی کوشش میں بُرے مضامین بھی لکھے۔ لیکن اپنے پہلے مضمون کی بات کہیں نہ آئی۔ اسے لکھتے وقت ہمارے سامنے نہ تو ناقد تھا اور نہ ہی ناظرین۔ ہم تھے اور ہمارا مضمون۔ آج کی طرح نہیں کہ اب مضمون لکھنے بیٹھتے ہیں تو کبھی ناقدین کو حاضر و ناظر جانتے ہیں اور کبھی ناظرین کو۔ اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا کہ ہمارا پہلا مضمون ہی ہمارا آخری خالص مضمون تھا۔ پچاس برس پہلے کی وہ سہانی شام ہمیں آج تک یاد ہے۔ ہمیں اس سہانی شام سے پہلے پتہ ہی نہ تھا کہ ہم میں مضمون لکھنے کی صلاحیت موجود ہے۔ ہم اس شام کو بھی حسب معمول آوارہ گردی کے لئے نکلے تھے۔ برسات تھم چکی تھی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ ایسا موسم آوارہ گردی کے لئے بہت موزوں ہوتا ہے۔ لیکن ابھی ہم تھوڑی دور بھی نہیں گئے تھے کہ اچانک ہمارے اندر کچھ گڑبڑ ہونے لگی۔ سمجھ میں نہ آیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے، سوچا کسی ڈاکٹر سے مشورہ کیا جائے۔ یہ ایک عجیب و غریب بے چینی تھی۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ سب ’تخلیق کا کرب‘ تھا۔ ہم اس سہانے موسم کو چھوڑ کر گھر واپس آ گئے۔ قلم اٹھایا اور جو جی میں آیا لکھنے لگے۔ چار گھنٹوں بعد پتہ چلا کہ ماشاء اللہ ہم بھی ادیب بن گئے ہیں۔ یہی وہ دن تھا جہاں سے ہماری زندگی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ مضمون سے پہلے کی زندگی اور مضمون کے بعد کی زندگی۔ ہم نے اپنے ادیب بن جانے کی خوش خبری کسی کو نہیں سنائی۔ مضمون کو اچھی طرح صاف کر کے اس کی دو کاپیاں بنائیں۔ سوچا کہ جب ہم نے مضمون لکھ ہی لیا ہے تو کیوں نہ اسے کسی رسالے میں شائع کرایا جائے۔ ہمیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ رسالوں میں مضامین کس طرح چھپوائے جاتے ہیں۔

تاہم بعض رسالوں میں ان کے مدیروں کے نام چھپنے والے ادیبوں کے خطوط دیکھ کر ہمیں یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ ادیب کے لئے صرف اچھا مضمون لکھ دینا کافی نہیں ہوتا بلکہ اس میں یہ صلاحیت بھی ہونی چاہئے کہ وہ مضمون سے زیادہ اچھا خط رسالے کے مدیر کے نام لکھ سکے۔ اس وقت تک کسی رسالے کے مدیر سے ہماری ملاقات بھی نہیں ہوئی تھی، لہذا ایک رسالے کے مدیر کے نام ایک اچھا سا خط لکھنے میں مصروف ہو گئے۔ اصل مضمون تو ہم نے چار گھنٹوں میں لکھا تھا لیکن مدیر کے نام خط کا مسودہ تحریر کرنے میں چار دن محنت کرنی پڑی۔ آمد اور آورد کس کو کہتے ہیں اس کا پتہ بھی اسی وقت چلا۔ ہم نے مدیر محترم کے نام جو خط لکھا تھا اس میں انھیں انواع و اقسام کے القاب عطا کئے تھے۔ پھر ادب کے لئے ان کی گرانقدر خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے یہ بتایا تھا کہ اگر وہ یہ رسالہ شائع نہ کرتے تو ادب کا جغرافیہ اس طرح نہ ہوتا جیسا کہ اب ہے۔ ہم نے ان کی درازی عمر کی دعا مانگنے کے بعد اس تمنا کا اظہار بھی کیا تھا کہ اگر ہمارا مضمون ان کے رسالے میں شائع ہو گیا تو یہ ہماری عین خوش نصیبی ہو گی۔ اگرچہ ہمیں بہت بعد میں پتہ چلا کہ مدیر موصوف تعلیم کے معاملے میں ہم سے کہیں زیادہ پسماندہ ہیں اور یہ کہ اگر وہ رسالہ نہ نکالتے تو کسی دفتر میں چپراسی کی نوکری بھی انھیں نہ ملتی۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ اپنے ملازموں سے ادب کی خدمت کروا رہے تھے اور اس خدمت کا سہرا اپنے سر باندھ لیتے تھے۔ بڑے بڑے ادیبوں کی دعوتیں کرتے تھے اور ان کی تصویریں اپنے رسالے میں نہایت اہتمام سے شائع کرتے تھے۔

ادب کی سچی خدمت اسی کو کہتے ہیں۔ خیر ہمیں اس سے کیا لینا دینا تھا۔ ہمارا مقصد تو آم کھانا تھا پیڑ گننا نہیں۔ غرض ہم نے بڑے ارمانوں کے ساتھ خط سمیت اپنا مضمون مدیر موصوف کو روانہ کر دیا۔ مشہور تھا کہ مدیر موصوف نئے ادیبوں کے خطوط کے جواب نہیں دیتے۔ مضمون پسند آ جائے تو صرف اسے چھاپ دیتے تھے، نئے ادیبوں کی ہمت افزائی کی یہ ادا ان کی اپنی تھی۔ مضمون بھیجنے کے بعد ہمیں اس رسالے سے خواہ مخواہ اُنس پیدا ہو گیا۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ ہمارے مضمون کو بھیجنے کے بعد اس رسالے کا جو شمارہ آیا اس میں مدیر محترم نے ایک درد انگیز اداریہ لکھا تھا جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ کس طرح وہ اپنی بیگم کے زیورات بیچ کر رسالے کی اشاعت کا بندوبست کر رہے ہیں اور یہ کہ اس رسالے کی اشاعت سے پہلے وہ کروڑ پتی تھے، اب صرف لکھ پتی رہ گئے ہیں۔ انہوں نے ادب دوستوں کی غیرت وغیرہ کو للکارنے کے بعد یہ بھی دھمکی دی تھی کہ اگر ان کے رسالے کے نئے خریدار نہیں بنے اور انھیں اشتہار نہ ملے تو وہ رسالے کو بند کر کے کوئی شریفانہ پیشہ اختیار کر لیں گے۔ اس اداریے کو پڑھ کر ہم تشویش میں مبتلا ہو گئے۔ ہم نے سوچا کہ اگر یہ رسالہ بند ہو گیا تو ہمارے مضمون کا کیا ہو گا۔ ایک دوست سے اس الجھن کا ذکر کیا تو اس نے کہا کہ اس اداریے سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ مدیر محترم سال میں دو تین اداریے اس طرح کے ضرور لکھتے ہیں۔ اگر وہ اس طرح کے اداریے نہ لکھیں تو لوگوں کو کیسے پتہ چلے کہ وہ ادب کی بے لوث خدمت انجام دے رہے ہیں۔ پھر ہمارے دوست نے ہمیں مطمئن کرنے کے لئے یہ معقول دلیل بھی پیش کی کہ جب تک تمہارا مضمون شائع نہ ہو تو یہ رسالہ بند کیسے ہو سکتا ہے۔ رسالے کو بند کرنے کی کوئی معقول وجہ بھی تو ہونی چاہئے۔ لیکن اس تسلی کے باوجود ہمیں چین نہ آیا۔ ہم نے بھاگ دوڑ کر کے بشمول اپنے اس رسالے کے دس خریدار بنوا دئے کہ رسالہ کم از کم ہمارے مضمون کی اشاعت تک چھپتا رہے۔ ہم نے مدیر محترم کو اس اداریے کی روشنی میں ایک درد بھرا خط بھی لکھا۔ انھیں باور کرایا تھا کہ اگر خدانخواستہ انھوں نے رسالے کو بند کر دیا تو میرؔ، غالبؔ، اقبالؔ وغیرہ وغیرہ کا کوئی نام لیوا تک نہ ہو گا۔ یہ جملہ لکھتے وقت ہمیں میرؔ اور غالبؔ کے نام سے کہیں زیادہ اپنے نام کی فکر تھی۔ غرض ہماری اس بے لوث خدمت کے نتیجے میں رسالہ بند نہیں ہوا اور اس کے شمارے آنے لگے۔ ہم ہر شمارے میں اپنے مضمون کو تلاش کرتے لیکن مضمون دکھائی نہ دیتا۔ ہم ادب سے ہمیشہ کے لئے مایوس ہونے ہی والے تھے کہ ایک دن گھر پہنچے تو دیکھا کہ اس رسالے کا ایک شمارہ آیا رکھا تھا۔ ہر شمارے کی آمد پر اپنے دل کو دھڑکانا اور جذبات کو بھڑکانا مناسب نہیں ہوتا لہذا ہم نے بڑے اطمینان کے ساتھ رسالے کے لفافے کو پھاڑا۔ شمارے کو کھولا تو ہماری نظر اپنے نام پر پڑ گئی۔ جس دل کو ہم نے دھڑکنے سے منع کیا تھا اس نے اچانک دھڑکنا شروع کر دیا۔ اپنی بینائی پر یقین نہ آتا تھا کہ کیا واقعی ہم اپنا نام پڑھ رہے ہیں۔ تھوڑی دیر کے لئے رسالے کو اپنے سے الگ کیا۔ اپنے جذبات پر قابو پانے کی کوشش کی۔ پھر اچانک رسالے کو ایک ہاتھ میں لے کر گھر سے باہر نکل گئے۔ گھر والوں نے پوچھا بھی کہ ابھی آئے ہو، پھر کہاں چلے۔ ہم نے کہا ’’ہمارا انتظار نہ کرنا، اب ہم ادب میں  جا چکے ہیں۔ جو آدمی ادب میں چلا جاتا ہے اس کے لئے گھر کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی‘‘۔ ہم نے اور نہ جانے کیا کیا کہا یہ ہمیں یاد نہیں۔ ہم گھر سے سیدھے بک اسٹال پر پہنچے۔ بک اسٹال کے مالک سے کہا اس رسالے کی جتنی کاپیاں اس کے پاس آئی ہوں وہ ہمیں فروخت کر دے۔ بک اسٹال کے مالک نے ہمیں اردو کا رسالہ خریدتے دیکھا تو بولا ’’کیا بات ہے، آج آپ اردو کا رسالہ خرید رہے ہیں، مجھے تو اردو کا مستقبل کافی تابناک نظر آنے لگا ہے‘‘۔

ہم نے شرماتے ہوئے کہا ’’بات در اصل یہ نہیں ہے۔ اس رسالے کی اتنی ساری کاپیاں اس لئے خریدی جا رہی ہیں کہ اس میں میرا مضمون چھپا ہے‘‘۔

بک اسٹاک کے مالک نے گھورتے ہوئے کہا ’’کیا کہا! آپ کا مضمون اس رسالے میں چھپا ہے۔ میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں۔ مجھے تو اردو کا مستقبل خاصا تاریک دکھائی دینے لگا ہے‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے رسالے کی دس کاپیاں ہمارے حوالے کر دیں۔

ہم ان کاپیوں کو لے کر سیدھے کافی ہاؤس پہنچے۔ اس مضمون کو دس بار پڑھا یعنی ہر کاپی نکال کر مضمون کا مطالعہ کیا کہ کہیں کسی کاپی میں ہمارا مضمون ادھورا نہ رہ گیا ہو۔ جب اچھی طرح اطمینان ہو گیا کہ ہمارا مضمون رسالے کی ہر کاپی میں موجود ہے تو ہم کافی ہاؤس میں اپنے کسی ملاقاتی کی آمد کا انتظار کرنے لگے کہ وہ آئے تو اسے نہ صرف یہ خوش خبری سنائی جائے بلکہ مضمون بھی اس سے پڑھوایا جائے۔ مگر ہماری بدقسمتی دیکھئے کہ اس دن کافی ہاؤس میں کوئی ملاقاتی نہیں آیا۔ چار و ناچار بیرے کو بلایا، اسے پیشگی ٹپ دی۔ جب اس سے مضمون پڑھنے کو کہا تو پتہ چلا کہ زبان یار من ترکی ہے۔ انجام کار اسے سامنے بٹھا کر مضمون سنایا۔ مضمون سننے کے دوران میں وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے ہمیں دیکھتا رہا۔ جب مضمون ختم ہوا تو اس نے کہا ’’حضور! آج آپ کی طبعیت خاصی ناساز لگتی ہے۔ کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھائیے‘‘۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔ ہم رسالے کی کاپیوں کا بنڈل اٹھائے کافی ہاؤس سے باہر آ گئے۔ ایک دوست کے گھر پہنچے تو ہماری خوشی اور حیرت کی انتہا نہ رہی کیونکہ اس وقت وہ اسی رسالے کے مطالعہ میں مصروف تھا اور یہ کہ اس کے سامنے بھی رسالے کے تازہ شمارے کی چار کاپیاں پڑی تھیں۔ ہم نے دل میں سوچا دوست ہو تو ایسا ہو۔ بڑی گرم جوشی سے ملا۔ ہمارے ہاتھ میں رسالے کے تازہ شمارے کی کاپیاں دیکھ کر بولا ’’مجھے یقین تھا کہ تم اس شمارے کی کاپیاں ضرور خریدو گے کیونکہ میرے عزیز ترین دوست جو ٹھہرے‘‘۔

ہم نے کہا ’’اچھا یہ بتاؤ تمہیں میرا مضمون کیسا لگا؟‘‘

دوست نے کہا ’’کون سا مضمون؟ کیسا مضمون؟ کیا اس رسالے میں تمہارا کوئی مضمون شائع ہوا ہے۔ مجھے تو اس کا پتہ ہی نہیں۔ میں نے تو اس رسالے کی کاپیاں اس لئے خریدی ہیں کہ اس میں میری پہلی غزل شائع ہوئی ہے۔ دیکھو صفحہ نمبر 23‘‘۔ ہم نے کہا ’’مجھے کیا معلوم کہ اس شمارے میں تمہاری کوئی غزل بھی شائع ہوئی ہے۔ میں نے تو اس رسالے کی کاپیاں اس لئے خریدی ہیں کہ اس میں میرا مضمون شائع ہوا ہے۔ دیکھو صفحہ نمبر 62‘‘۔

ہمیں اچانک احساس ہوا کہ ہم ایک صحیح دوست کے پاس غلط وقت میں پہنچے ہیں۔ لہذا رسالے کی کاپیاں اٹھا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ خیر بعد میں ہمیں کئی ناظرین ملے، دوستوں کو پکڑ پکڑ کر اپنا مضمون پڑھوایا۔ دوستوں کو اس مضمون کے مطالعے کا معاوضہ، خاطر تواضع کی صورت میں ادا کیا۔ ہمیں یاد ہے کہ دو مہینوں تک یہ رسالہ ہماری ذات کا حصہ بنا رہا۔ ہم اسے اپنی ذات سے علیحدہ نہیں ہونے دیتے تھے۔ بیت الخلاء وہ واحد جگہ تھی جہاں ہم اسے ساتھ نہیں لے جاتے تھے۔ ورنہ یہ خلوت اور جلوت میں ہمارے ساتھ رہتا تھا۔ جیسے ہی کوئی نیا دوست ملتا تو ہم رسالہ اس کے ہاتھ میں تھما کر کہتے ’’دیکھو صفحہ 62‘‘۔ ہمارے گھر والوں کا کہنا تھا کہ ہم نیند میں بھی دیکھو صفحہ 62 کا ورد کرتے رہتے ہیں۔ دوست احباب جب اس شمارے سے گھبرا کر ہم سے دور بھاگنے لگے تو ہم نے چار و ناچار دوسرا مضمون لکھا۔

اب دوسرا مضمون کا ذکر سن کر آپ کیا کریں گے۔ اب ہم ایک ایسے ادیب ہیں جس کے سینکڑوں مضامین نہ جانے کہاں کہاں چھپ چکے ہیں۔ ہمیں ان رسالوں کے نام بھی یاد نہیں ہیں۔ اب ہم اردو کے رسالے نہیں خریدتے کیونکہ رسالوں کے مدیر ہمارے پاس اعزازی کاپیاں روانہ کرتے ہیں۔ ہمیں لمبے چوڑے خط لکھتے ہیں۔ ہم اردو کی جو بے لوث خدمت انجام دے رہے ہیں اس کی تعریف اپنے خطوط میں کرتے ہیں۔ ہماری تصویریں بڑے اہتمام سے اپنے رسالوں میں چھاپتے ہیں۔ لیکن انھیں کیا معلوم کہ جب ہمارا پہلا مضمون چھپا تھا تو ہم پر کیا بیتی تھی اس کی یاد آتی ہے تو اپنے آپ پر ہنسی آتی ہے۔ پورے پچاس برس بیت گئے لیکن پہلے مضمون کی سوندھی سوندھی یاد اب بھی ذہن میں محفوظ ہے۔ کبھی کبھی ہمیں یوں لگتا ہے جیسے ہم نے پہلے مضمون کے سوائے کچھ لکھا ہی نہیں۔ انگریزی کے ایک ادیب نے کہیں لکھا تھا ’’پچاس برس تک لگاتار لکھنے کے بعد ایک دن میں اس نتیجے پر پہنچا کہ مجھے لکھنا بالکل نہیں آتا لیکن مشکل یہ تھی کہ اس وقت تک ادیب کی حیثیت سے میں نے عالمگیر شہرت حاصل کر لی تھی‘‘۔ ہمارا بھی یہی حال ہے۔ اب لوگ ہم سے زبردستی لکھواتے ہیں۔ سچ پوچھئے تو ہم نے ایک ہی مضمون لکھا تھا اور وہ تھا ہمارا پہلا مضمون۔ ٭٭٭

 

 

 

 

 

دستار فضیحت۔ ہیلمٹ

 

ہمیں اب سچ مچ یاد نہیں کہ ہم نے ہیلمٹ کے استعمال کے خلاف پہلا کالم کب لکھا تھا تاہم یہ ضرور یاد ہے کہ ابھی کسی حیدرآبادی کے سر میں ہیلمٹ کے خلاف کچھ کہنے کا سودا بھی نہیں سمایا تھا کہ ہم نے اپنے سر پر ہیلمٹ کا بوجھ اٹھا کر ہیلمٹ کے خلاف اپنے دل کے بوجھ کو ہلکا کر لیا تھا۔ اس واقعہ کو بھی لگ بھگ تیس برس بیت گئے جب دہلی میں اسکوٹر چلانے والوں پر ہیلمٹ کا استعمال لازمی قرار دیا گیا تھا تو تب پہلی بار ہم نے اپنے سر پر ہیلمٹ پہنا اور آئینہ میں اپنی شکل دیکھی تو یقین مانئے ہم خود اپنے آپ کو دیکھ کر ڈر گئے تھے۔ پھر ہمیں تاریخ کی پرانی کتابوں میں چھپی ہوئی سکندر اعظم کی وہ تصویر یاد آ گئی تھی جس میں سکندر اعظم کو اپنے بدن پر زرہ بکتر اور سر پر خود پہنے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ ہمیں یوں لگا جیسے ہم خود زمانہ قدیم کے کوئی بادشاہ ہیں اور ہم نے خلعت شاہانہ کے بغیر اپنے سر پر تاج کو سجا رکھا ہے۔ رہی یہ بات کہ ہیلمٹ کے ساتھ آئینہ میں اپنی شکل کو دیکھ کر ڈر کیوں گئے تھے تو بھیا اس آسان سوال کا مشکل جواب صرف یہ ہے کہ جلیل القدر بادشاہوں کو دیکھ کر کون نہیں ڈرتا بلکہ پچھلے زمانہ میں تو بادشاہ کو دیکھنے والے پر ڈر کے مارے کپکپی طاری ہو جاتی تھی۔ سکندر اعظم کو فاتح عالم سمجھا جاتا ہے

اگرچہ اس نے ہیلمٹ پہننے کے باوجود لمبی عمر نہیں پائی لیکن اس لباس شاہانہ کو پہن کر اس نے کئی ملکوں کو فتح کیا۔ وہ ہمیشہ برسرپیکار رہا۔ ہمارا خیال ہے کہ اس نے ہیلمٹ کی شکل کا تاج تو ضرور پہن لیا لیکن تخت پر بیٹھنے کا اسے کوئی موقع نہ ملا ہو گا۔ ہم نے بیشتر پرانے حکمرانوں کو جنہوں نے عظیم الشان سلطنتیں قائم کیں اور کروفر کیساتھ حکمرانی کی کبھی سادہ لباس میں نہیں دیکھا۔ مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر کے بارے میں مشہور ہے کہ ظل سبحانی زیادہ تر اپنے یونیفارم کے ساتھ ہی گھوڑے کی پیٹھ کر سوار دکھائی دیتے تھے۔ ہمایوں بھی اسی یونیفارم میں اپنی جان بچانے کی خاطر صحراؤں کی خاک چھانتا رہا۔ البتہ اکبر اعظم کے تخت نشین ہونے تک مغلیہ سلطنت کو استحکام مل چکا تھا۔ ہم نے موصوف کو صرف ایک ہی مرتبہ اپنے شاہی ہیلمٹ کے ساتھ زرہ بکتر والے یونیفارم میں دیکھا تھا۔ جب وہ انارکلی کے معاملہ میں خود اپنے گستاخ شہزادہ سلیم سے جنگ کرنے کے ارادے سے فلم ’’مغل اعظم‘‘ میں نکلے تھے اور یہ یونیفارم بھی انہیں مہارانی جودھا بائی نے اپنے دست مبارک سے پہنایا تھا۔ گویا جو بادشاہ بر سر پیکار رہتے تھے ان پر ہیلمٹ پہننے کی پابندی ضروری تھی۔ عہد وسطی کے بعد جب سلطنیتیں مستحکم ہوتی چلی گئیں اور دنیا میں امن قائم ہوتا چلا گیا تو تاریخ کے ابتدائی ہیلمٹ کا استعمال رفتہ رفتہ ختم ہوتا چلا گیا۔ پھر بادشاہوں نے بھی اپنے عظیم الشان قلعوں اور محلوں میں چین و سکون، عیش و عشرت اور رقص و سرود کی زندگی اپنائی نتیجہ میں بربنائے سہولت و ثقافت، قدیم ہیلمٹ نے دستاروں، بگڑیوں، کلاہوں اور انواع و اقسام کی ٹوپیوں وغیرہ کی شکل اختیار کر لی۔ چنانچہ مغل تاجدار محمد شاہ رنگیلے کے عہد تک آتے آتے بادشاہ کی بگڑی میں خطرے سے بچاؤ کی کوئی سہولت بھی باقی نہیں رہ گئی تھی۔ البتہ اس میں اتنی گنجائش ضرور نکل آئی تھی کہ کوہ نور کے سائز کے ہیرے کو چھپایا جا سکے۔

دوسری طرف نادر شاہ نے بھلے ہی تخت طاؤس کو ایران لے جانے کا خصوصی بندوبست کیا ہو لیکن کوہ نور ہیرے کو ایران لے جانے کی خاطر اس نے محمد شاہ کی پگڑی (یعنی ہیلمٹ) سے اپنی بگڑی بدل لی تھی۔ بعد کی تاریخ میں ہیلمٹ کا زوال بڑی تیزی سے ہوا۔ یہاں تک کہ آخری فرماں روائے اودھ نواب واجد علی شاہ دو پلی پہن کر اپنے آپ کو زیادہ محفوظ سمجھنے لگے تھے۔ اس کا مطالبہ ہوا کہ جوں جوں دنیا میں انسان کی جان کو لاحق خطرہ کم سے کم ہوتا چلا گیا، ہیلمٹ نے نہ صرف ہیٹ اور ٹوپی کی شکل اختیار کر لی بلکہ دو پلی اور گاندھی ٹوپی کا روپ تک اختیار کر لیا۔ یوں ہیلمٹ نے دو پلی تک کا جو تاریخی سفر طے کیا ہے وہ جہاں قدیم ہیلمٹ کے زوال کی داستان سناتا ہے وہیں ایک اعتبار سے انسانی تہذیب و تمدن کے ارتقاء کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔ چنانچہ ابھی حال حال تک انسان گھر سے باہر نکلتا تھا تو ایسے انتظام کے ساتھ نہیں نکلتا تھا جیسے اپنے آخری سفر پر جا رہا ہو مگر کیا کریں سو ڈیڑھ سو برس پہلے سائنس دانوں نے اچانک بھاپ اور بجلی کی مدد سے چلنے والی سواریاں ایجاد کر لیں۔ شروع میں تو یہ سواریاں بڑی آرام دہ ثابت ہوئیں جس کی وجہ سے تہذیب و تمدن کی ترقی کی رفتار بھی تیز تر ہو گئی۔ انسان کو زمانہ قدیم کی بھیانک جنگوں کی ہلاکت خیزی کا اندازہ تھا اس لئے جنگوں میں حصہ لینے کے لئے خود پہن کر جایا کرتا تھا۔ لیکن اسے یہ پتہ نہیں تھا کہ تہذیب و تمدن کی ہلاکت خیزی کتنی بھیانک ہوتی ہے۔ رفتہ رفتہ سڑکوں پر اتنی سواریاں نمودار ہو گئیں کہ سواریاں تو ہر طرف دکھائی دینے لگیں لیکن وہ سڑک دکھائی دینی بند ہو گئی جن پران گاڑیوں کو چلایا جا سکے۔ دور کیوں جایئے خود ہماری مثال لیجئے دہلی میں اگرچہ ہماری اسکوٹر کو ہم سے زیادہ شہرت نصیب ہوئی لیکن آپ سے کیا بتائیں کہ ہمارے پاس ایک موٹر گاڑی بھی تھی۔ تاہم ہمارے پاس وہ سڑک نہیں تھی جس پر ہم اس گاڑی کوچلاسکیں۔ ہرسال اپنی جائیداد اور ملکیت وغیرہ کا اعلان کرنا پڑتا تھا تو ہم غیر منقولہ جائیداد کے خانہ میں اپنی موٹر گاڑی کو بھی شامل رکھتے تھے، اس لئے کہ یہ گاڑی بھی مکان کی طرح اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتی تھی، تاوقتیکہ زلزلہ نہ آ جائے۔ غرض سڑکوں پر سواریوں کی فراوانی نے ایک نئے خطرہ کو جنم دیا جسے ’’ٹریفک‘‘ کہتے ہیں اور ٹریفک اس بندوبست کو کہتے ہیں جس کے تحت گاڑیاں آپس میں ٹکرا جائیں اور اس کے نتیجہ میں گاڑیاں تو نہ مریں البتہ انسان مر جائیں۔ چاہے وہ گاڑی میں بیٹھے ہوں یا سڑک پر چل رہے ہوں۔ گویا جو حشر انسان کا پہلے میدان جنگ میں ہوا کرتا تھا اب ٹریفک کے زیر عنوان سڑکوں پر ہونے لگا ہے۔

ہم سے مشکل یہ ہے کہ بات کسی موضوع پر شروع کرتے ہیں اور اگر ایسے میں ٹریفک جام ہو تو موضوع کے اصل راستہ سے بھٹک کر دور دراز کے راستوں پر بھٹکنے لگ جاتے ہیں۔ ہم آج در اصل ہیلمٹ جیسی حقیر سی چیز کے بارے میں کچھ لکھنا چاہتے تھے لیکن موضوع کے راستہ سے بھٹک کر زمانہ قدیم سے تہذیب و تمدن کی ترقی تک پہنچ گئے حالانکہ ہمیں صرف اتنا کہنا تھا کہ آج انسان کی زندگی اتنی غیر محفوظ ہو گئی ہے کہ وہ جب بھی گھر سے باہر نکلتا ہے تو اپنے رشتہ داروں اور احباب سے نہ صرف اپنا بولا چالا معاف کروا لیتا ہے بلکہ وہ ساری احتیاطی تدابیر بھی اختیار کرتا ہے جن کی مدد سے وہ اپنی زندگی کو ظالم زمانہ سے بچا کر اپنے گھر تک واپس لے آ سکے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ جب کوئی بڑا حکمران سڑک پر نکلتا ہے تو اس کے آگے پائلٹ گاڑیاں ہوتی ہیں لیکن اس کی گاڑی کے پیچھے ایمبولنس گاڑیاں یعنی سالم دوا خانہ بھی موجود رہتا ہے۔ ہم جیسا عام آدمی تو خیر ایسے وسیع انتظام کا متحمل نہیں ہو سکتا اس لئے اسے ’’ہیلمٹ‘‘ پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آدمی سڑک پر نکلتا ہے تو اس کی سلامتی کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ پولیس کا فرض ہے کہ وہ عام آدمی کی حفاظت کرے۔ گویا عام آدمی کو پولیس کی امانت میں دیا جاتا ہے لیکن ہماری ٹریفک پولیس موقع ملتے ہی اس امانت میں خیانت کر دیتی ہے۔

پچھلے دنوں آپ نے اخبار میں پڑھا ہو گا کہ ایک نوجوان کو پولیس نے لاٹھیوں سے اتنا مارا کہ اس کی آنکھ پھوٹ گئی اور اس کا سرزخمی ہو گیا۔ اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ اسکوٹر چلاتے وقت اس کے سر پر ہیلمٹ نہیں تھا۔ چنانچہ پولیس جیسے ہی ہیلمٹ کی چیکنگ شروع کی تو اس نوجوان نے وہاں سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کی تاکہ اس کا چالان نہ ہونے پائے۔ بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ ایک خاطی قانون کی خلاف ورزی کرے اور رشوت دیئے بغیر چالان کٹوائے بغیر فرار ہو جائے۔ لہذا پولیس کے سپاہی نے جی جان سے اس کا تعاقب کیا اور حسب استطاعت و توفیق خاطی کی آنکھ پھوڑ دی تاکہ اسے قرار واقعی سزا دی جا سکے۔ اس خبر کے بارے میں عوام میں شدید غم و غصہ ہے اور وہ پولیس کی زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں، چونکہ اس معاملہ میں ہمارا شمار اولین آواز اٹھانے والوں میں ہے اور ہمیں اندازہ ہے کہ ایسی آواز کو کوئی نہیں سنتا لہذا ہم نے سوچا کہ بلاوجہ کیوں اپنی آواز کو ضائع کریں اور اس کے اسراف کے مرتکب ہوں۔ ہم نے اس واقعہ سے ایک ہی سبق حاصل کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ آج کے زمانہ میں جو آدمی بھی سڑک پر نکلے گا اس کا زخمی ہونا برحق ہے۔ یا تو وہ ہیلمٹ پہننے کے باوجود ٹریفک حادثہ میں زخمی ہو گا یا اگر اس کے پاس ہیلمٹ نہ ہو تو تب بھی پولیس اسے زخمی کر دے گی۔ چت بھی اپنی اور پٹ بھی اپنی اسی کو تو کہتے ہیں۔ ہیلمٹ کے موضوع پر یہ جو ہم اظہار خیال کر رہے ہیں تو یہ بھی ایک لحاظ سے بے وقت کی راگنی ہے کیوں کہ اکیسویں صدی میں ہم اسکوٹر پر بیٹھ کر داخل نہیں ہوئے۔ یہ ضرور ہے کہ بیسویں صدی کے آخری دو مہینوں تک ہم بڑی پابندی سے اسکوٹر چلایا کرتے تھے اور ہیلمٹ کے خلاف ہمارے پاس جتنا بھی غم و غصہ تھا اس کا اظہار ہم بیسیویں صدی ہی میں کر چکے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

جناب صدر

 

بچپن میں جب پہلی بار ہمیں ایک جلسہ میں شریک ہونے کا موقع ملا تو دیکھا کہ جلسہ کا ہر مقرر ’جناب صدر‘ ’جناب صدر‘ کی گردان کر رہا ہے اور وقت بے وقت ’جناب صدر‘ کی اجازت سے ایسی باتیں کہہ رہا ہے جن کے کہنے کے لئے بظاہر کسی کی بھی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہم نے اپنے طور پر یہ پتہ چلانے کی کوشش کی کہ آخر یہ ’جناب صدر‘ کون ہے اور کہاں واقع ہے۔ ایک شخص کو دیکھا جو بڑی مستعدی کے ساتھ جلسہ گاہ کے آخری حصے میں دریاں بچھا رہا ہے اور پٹرومکسوں کو ادھر ادھر منتقل کر رہا ہے۔ چونکہ اس وقت یہ شخص جلسہ کا سب سے کار کرد اور اہم شخص نظر آ رہا تھا، اس لئے ہم نے سوچا کہ ہو نہ ہو یہی شخص ’جناب صدر‘ ہے۔ ہم اس کے قریب گئے اور پوچھا ’’بھئی کیا جناب صدر تم ہی ہو؟‘‘۔ وہ شخص اچانک بپھر گیا اور بولا ’’ذرا منہ سنبھال کے بات کرو، کسے جناب صدر کہتے ہو؟ کیا میں تمہیں ناکارہ، مفلوج اور بیکار آدمی نظر آتا ہوں جو تم مجھے ’جناب صدر‘ کہہ رہے ہو۔ ابھی تو میرے قوی اچھے ہیں، میں اپنی روزی خود کماتا ہوں۔ میں ابھی اتنا اپاہج نہیں ہوا کہ تم مجھے ’جناب صدر‘ کہو۔ جناب صدر تو وہ ہے جو ڈائس پر اپنے سامنے پھولوں کے ہار رکھے یوں بیٹھا ہے جیسے شیر اپنے مارے ہوئے شکار کو سامنے رکھتا ہے‘‘۔ یہ کہتے ہوئے اس نے اس شخص کی طرف اشارہ کیا جو کرسی صدارت پر تقریباً اونگھ رہا تھا۔ اس دن کے بعد سے آج تک ہم بے شمار جلسوں میں شرکت کر چکے ہیں بلکہ دو ایک جلسوں کی صدارت کا آفر بھی ہمیں آیا تھا لیکن جب ہم نے اس آفر کو قبول کرنے کے بارے میں غور کیا تو ہمیں اس شخص کی بات یاد آ گئی اور ہمیں احساس ہوا کہ ابھی تو ہم اپنی روزی خود کما سکتے ہیں اور ہم ابھی اتنے اپاہج بھی نہیں ہوئے کہ ’جناب صدر‘ بننے کا اعزاز حاصل کریں۔

آپ نے بہت سے صدر دیکھے ہوں گے اور آپ کو اس بات کا یقین بھی آ چکا ہو گا کہ ہر صدر دوسرے صدر سے ملتا جلتا ہوتا ہے۔ خدا نے انسان کے ایک ہاتھ کی پانچوں انگلیاں برابر نہیں بنائی ہیں، لیکن تعجب ہے کہ اس نے سارے صدر ایک جیسے کس طرح بنائے۔ ان کی سرگرمیاں مشترک ہوتی ہیں، ان کی حرکتیں مشترک ہوتی ہیں اور ان کے کاروبار بھی مشترک۔ ’’جناب صدر‘‘ کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ کرسی صدارت پر گوند لگا کر بیٹھ جائے اور کبھی ’’کرسی‘‘ سے ہٹنے کی کوشش نہ کرے۔ اسے صرف اتنی رعایت حاصل ہوتی ہے کہ اگر ایک ہی رخ پر مسلسل بیٹھنے کی وجہ سے اس کے اعضاء میں درد ہونے لگے یا کرسی صدارت میں سے کوئی کھٹمل نکل کر ’’جناب صدر‘‘ کو بے تاب کرنے لگے، تب وہ صرف اپنا پہلو بدل سکتا ہے لیکن کرسی سے اپنا پہلو نہیں بچاسکتا۔ بعض صدور کو صدارت کی کرسی پر اتنی دیر تک بیٹھنا پڑتا ہے کہ ایک منزل وہ بھی آ جاتی ہے جب کرسی اور صدارت میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا۔ حاضرین جلسہ کو یہ اندازہ لگانے میں دشواری پیش آتی ہے کہ کرسی کہاں ختم ہو رہی ہے اور ’’جناب صدر‘‘ کہاں سے شروع ہو رہا ہے۔ ’’کرسی‘‘ اور ’’صدر‘‘ یک جان دو قالب بن جاتے ہیں۔ ہمیں اس وقت اس بچہ کی یاد آ رہی ہے جس نے کرسی صدارت پر ایک صدر کو لگاتار دو گھنٹوں تک دیکھتے رہنے کے بعد اپنے باپ سے پوچھا تھا ’’ڈیڈی! کیا جناب صدر کی چھ ٹانگیں ہوتی ہیں؟‘‘۔ اس پر باپ نے بڑے پیار سے بیٹے کو سمجھایا تھا ’’نہیں بیٹے ان چھ ٹانگوں میں سے دو ٹانگیں جناب صدر کی ہیں اور بقیہ چار ٹانگیں ’’کرسی صدارت‘‘ کی ہیں‘‘۔

اگرچہ مثل مشہور ہے کہ ’’صدر ہر جا کہ نشیند صدر است‘‘ لیکن اس کے باوجود ’’صدارت‘‘ کے لئے ’’کرسی صدارت‘‘ کا ہونا نہایت ضروری ہوتا ہے۔ بلکہ ایک صاحب کا تو یہاں تک خیال ہے کہ ’’صدارت‘‘ میں ’’کرسی صدارت‘‘ کے سوائے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ کرسی ہٹا لیجئے تو صدارت خود بخود غائب ہو جائے گی۔ کرسی صدارت پر بیٹھنے کے لئے بڑے تجربہ اور مہارت کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ ہم تو سمجھتے ہیں کہ پیشہ ور صدر اس فن میں باضابطہ تربیت بھی حاصل کرتے ہیں، کیونکہ ایک ہی کرسی پر خواہ مخواہ گھنٹوں بیٹھے رہنا بھی تو آخر کرتب کا درجہ رکھتا ہے۔ بعض ماہر جناب صدر تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو ’’کرسی صدارت‘‘ پر کچھ اس طرح جم کر بیٹھ جاتے ہیں کہ ’’صدارت‘‘ کی کرسی آیت الکرسی پڑھنے لگتی ہے اور بالآخر ٹوٹ جاتی ہے مگر جناب صدر نہیں ٹوٹتے۔ ایسے ’’کرسی توڑ صدر‘‘ کے لئے تابڑ توڑ نئی کرسی صدارت ریزرو میں رکھتے ہیں کہ آفت کی گھڑی جناب صدر کی اجازت لے کر نہیں آتی۔

جناب صدر دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک پیدائشی صدر اور دوسرا نمائشی صدر۔ ویسے ایک صاحب کا کہنا ہے کہ یہ تقسیم بھی کچھ مناسب نہیں ہے، کیوں کہ صدر چاہے پیدائشی ہو یا نمائشی، وہ ہر حالت میں نمائشی ہوتا ہے اور پھر دونوں ہی اقسام کے صدر ایک ہی قسم کی حرکتیں کرتے ہیں۔ ان کی حرکتوں کی تفصیل کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ جب مقرر تقریر کر رہا ہو تو وہ ٹکٹکی باندھے مقرر کو گھورتے رہتے ہیں اور وقت بے وقت اپنی گردن بھی ہلا دیتے ہیں۔ یہ گردن بھی اس لئے ہلائی جاتی ہے کہ کہیں حاضرین جلسہ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ ’’کرسی صدارت‘‘ پر ’’صدر جلسہ‘‘ کے بجائے صدر جلسہ کا مجسمہ بیٹھا ہوا ہے۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے ’’صدر جلسہ‘‘ کو اور بھی بہت سے فرائض انجام دینے پڑتے ہیں۔ یعنی کبھی جلسہ کے سکریٹری کو بلایا جاتا ہے اور اس کے کان میں پوچھا جاتا ہے ’’کیا آپ نے کسی فوٹوگرافر کا انتظام نہیں کیا ہے۔ جلسہ کی کار روائی بڑی بے جان سی چل رہی ہے۔ فوراً کسی فوٹوگرافر کو پکڑ کر لایئے‘‘۔ میز پر رکھے ہوئے پیڈ کو صدر اپنے سامنے کھینچ لیتا ہے اور مقرر کی طرف دیکھ دیکھ کر کچھ لکھنے لگتا ہے۔ حاضرین سمجھتے ہیں کہ وہ ضرور کوئی اہم پوائنٹ لکھ رہا ہے لیکن آپ غلط فہمی میں مبتلا نہ رہیں۔ کیوں کہ وہ اس وقت اصل میں ان ہاروں کا حساب لکھنے میں مصروف رہتا ہے جو اسے پہنائے گئے۔ اس کے بعد وہ پیڈ کو آگے بڑھا دیتا ہے۔ پھر حاضرین پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالتا ہے، ان کی تعداد کا اندازہ لگاتا ہے اور دل ہی دل میں خوش بھی ہوتا ہے۔ بعض صدور جلسہ اپنے ساتھ اپنی بیویوں کو بھی لے آتے ہیں تاکہ بیویوں پر ان کی دھونس جمی رہے۔ وہ تھوڑے تھوڑے وقفہ سے اپنی بیوی کی طرف کچھ ایسی نگاہوں سے دیکھتا ہے جیسے وہ اپنی بیوی کو پہلی بار دیکھ رہا ہو یا جیسے وہ اسے پہچانتا ہی نہ ہو صدر جلسہ کی بیوی جلسہ گاہ میں بیٹھی پیچ و تاب کھاتی ہے مگر کچھ کر نہیں سکتی، اس لئے کہ کرسی صدارت تک اس کی رسائی ممکن نہیں ہوتی اور صدر جلسہ بھی جانتا ہے کہ جب تک وہ کرسی صدارت پر براجمان ہے اس وقت تک وہ ساری آفات اور خود اپنی بیوی سے ہر طرح سے محفوظ ہے۔

عام طور پر جلسوں میں وہ منظر بڑا دل نشین ہوتا ہے جب صدر جلسہ کو ہار پہنائے جاتے ہیں اور جلسوں کی روایت کے مطابق پہلے صدر کو ہار پہنائے جاتے ہیں اور تب کہیں جلسہ کی کار روائی شروع ہوتی ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ روایت بھی ’’صدر جلسہ‘‘ کی طرف سے ہی ڈالی گئی ہے کیوں کہ جلسہ سے پہلے ہار پہنا دئے جائیں تو دل کو بڑا سکون رہتا ہے ورنہ یہ اندیشہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ جلسہ کے بعد منتظمین ہاروں کے معاملے میں بالکل ہی خاموش اور انجان بن جائیں کہ غرض نکل جانے کے بعد کون کسی کی ضرورت کے بارے میں سوچتا ہے۔ لہذا ’’صدور‘‘ پہلے ہار پہنتے ہیں اور بعد میں جلسہ شروع کرتے ہیں۔ ویسے ہار پہننے کے بعد کم از کم ’’صدر جلسہ‘‘ کے لئے تو جلسہ تقریباً برخاست ہو جاتا ہے۔ وہ تو بس تکلفاً بیٹھا رہتا ہے، جب اسے ہار پہنائے جاتے ہیں فوٹوگرافر کی موجودگی نہایت ضروری ہوتی ہے۔ جب تک فوٹوگرافر نہ آئے اس وقت تک ’’صدر جلسہ‘‘ ہاروں میں اپنی گردن نہیں ڈالتا۔ ہم ایک جلسہ کے عینی شاہد ہیں جس میں صدر جلسہ کی گردن ہار کی طرف بڑھ رہی تھی اور ہار گردن کی طرف بڑھ رہا تھا کہ اچانک فوٹوگرافر کے کیمرہ میں کوئی خرابی پیدا ہو گئی۔ جب صدر جلسہ کو اس خرابی کا پتہ چلا تو انہوں نے ایک جھٹکے کے ساتھ اپنی گردن ہار میں سے نکال لی۔ لیکن جلسہ کا سکریٹری برابر ان کی گردن کا تعاقب کر رہا تھا۔ یقین مانئے کہ ’’صدر مذکور‘‘ نے ہار پہننے کے معاملہ میں اس دن ایسی ہی حرکت کی جیسے کوئی اڑیل گھوڑا منہ میں لگام ڈالنے کے وقت کرتا ہے۔ بالآخر جب کیمرہ درست ہو گیا تو ’’صدر جلسہ‘‘ کو چمکار کر ہار کی طرف لایا گیا اور جب کیمرے کا فلیش بلب جل اٹھا تو لوگوں نے دیکھا کہ صدر کی گردن ہار میں داخل ہو گئی ہے۔ صدر جب ہار پہن لیتا ہے تو اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے اور یہ دیکھ کر اسے پہنائے گئے ہاروں کے پھول خود بخود مرجھا جاتے ہیں۔

صدر جلسہ اس وقت بہت خوش ہوتا ہے جب جلسہ کا صدر استقبالیہ اپنی خیر مقدمی تقریر میں ’’صدر جلسہ‘‘ کی اعلی صفات کا ذکر کرتا ہے۔ جب اس کی تعریف ہونے لگتی ہے تو ’’صدر جلسہ‘‘ جان بوجھ کر چھت کی طرف دیکھنے لگتا ہے اور اگر جلسہ زیر سماں ہو رہا ہو تو تارے گننے میں مصروف ہوتا ہے، اس کی نظر تو اوپر ہوتی ہے لیکن کان صدر استقبالیہ کی طرف مڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ ہر صدر بڑا مصروف رہتا ہے اور وہ اپنی گوناگوں مصروفیات میں سے تھوڑا سا وقت بڑی مشکل سے نکالتا ہے، حالانکہ جناب صدر کے قریبی حلقے بخوبی جانتے ہیں کہ جناب صدر کے سامنے وقت کا ایک وسیع سمندر ہمیشہ ٹھاٹھیں مارتا رہتا ہے اور اس سمندر میں ’’صدارتوں‘‘ کی حیثیت ان جزیروں کی سی ہوتی ہے جہاں ’’جناب صدر‘‘ تھوڑی دیر کے لئے سستا لیتا ہے۔

سب سے آخر میں ’’جناب صدر‘‘ اپنی صدارتی تقریر کے لئے اٹھ کھڑا ہوتا ہے تو پہلے اپنی گھڑی کی طرف دیکھتا ہے اور حاضرین کو یہ موقع عطا کرتا ہے کہ اس کے کرسی صدارت سے اٹھ کر مائیکروفون کے قریب پہنچنے تک وہ تالیاں بجا سکیں۔ پھر وہ بڑی سادگی کے ساتھ صدر استقبالیہ کی تقریر کے خلاف ایک تردیدی بیان جاری کرنے لگتا ہے کہ آپ نے میرے بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ صرف ذرہ نوازی ہے ورنہ خاکسار تو اس قابل بھی نہیں کہ اسے کسی جلسہ میں شرکت کی دعوت دی جائے۔ وہ اپنی تقریر میں منتظمین کو جلسہ کے انعقاد پر مبارکباد دیتا ہے اور مستقبل میں بھی ایسی غلطیوں کا ارتکاب کرنے کا پر خلوص مشورہ دیتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ وہ ہر وقت منتظمین سے تعاون کرنے کے لئے تیار ہے۔ اس تعاون کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اگلی بار بھی صدارت کرنے کے لئے تیار ہے۔ صدر جلسہ کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ ہر موضوع پر اظہار خیال کر سکتا ہے۔ وہ کسی جلسہ میں ’’پولٹری فارمنگ‘‘ پر اظہار خیال کرتا ہے تو دوسرے جلسہ میں ’’ماہی گیری کی اہمیت‘‘ پر روشنی ڈالتا ہے۔ کہیں ’’دیا سلائی بنانے کی صنعت کے فوائد‘‘ بیان کرتا ہے تو کہیں ’’صابن سازی‘‘ کے موضوع پر اظہار خیال کرتا ہے۔ آپ یقین کریں کہ آدمی جب ایک بار ’’صدر جلسہ‘‘ بن جاتا ہے تو پھر زندگی بھر وہ ’’صدر جلسہ‘‘ ہی برقرار رہتا ہے۔ کرسی صدارت اس سے چمٹ کر رہ جاتی ہے اور معاملہ وہی ہوتا ہے کہ میں کمبل کو چھوڑنا چاہتا ہوں، کمبل مجھے نہیں چھوڑتا۔

یاد رکھئے کہ صدر جلسہ ہمیشہ جلسہ میں دیر سے آتا ہے۔ اس کے دیر سے آنے کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ وہ لوگوں کو اپنے انتظار میں مبتلا کر کے اپنی اہمیت ان پر واضح کرنا چاہتا ہے۔ حالانکہ وہ صبح ہی سے شام کے جلسہ کی ’’صدارت‘‘ کی تیاریاں شروع کر دیتا ہے۔ کپڑوں پر استری کرواتا ہے، جوتوں کے ساتھ ساتھ خود اپنی صدارتی تقریر کو پالش کرواتا ہے۔ آئینہ کے سامنے ٹھہر کر ’’کرسی صدارت‘‘ پر بیٹھنے کے مختلف ’’پوزوں‘‘ کا جائزہ لیتا ہے لیکن اس کے باوجود جلسہ میں دیر سے پہنچتا ہے۔ ہمیں اس وقت اس ’’صدر جلسہ‘‘ کا لطیفہ یاد آ رہا ہے جسے زندگی میں پہلی بار ’’صدر جلسہ‘‘ بننے کا موقع ملا تھا۔ اس نے اپنی صدارت کے لئے خوب سارا اہتمام کیا لیکن جلسہ میں بہت دیر سے پہنچا۔ منتظمین نے کافی دیر تک انتظار کرنے کے بعد ایک ’’ریڈی میڈ صدر‘‘ کی خدمات حاصل کیں اور صدارت کے فرائض اسے سونپ دئے۔ پہلا صدر اس بات پر بہت برہم ہوا۔ منتظمین نے جب اس سے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی تو وہ بولا ’’بھائی میں در اصل جلسہ کے کاموں میں ہی مصروف تھا۔ چونکہ یہ جلسہ میری صدارت میں ہو رہا تھا اس لئے میں دن بھر جلسہ کے پوسٹر شہر کی دیواروں پر چسپاں کرتا رہا۔ پوسٹر لگانے سے اب فرصت ملی ہے تو جلسہ میں آیا ہوں‘‘۔

٭٭٭

 

 

 

 

آداب علالت۔ پُرسی سے پُرسے تک

 

ہمارا شمار ان معدودے چند مہذب اور شائستہ انسانوں میں ہوتا ہے جو علالت کو بھی اس وقت تک قبول نہیں کرتے یا اسے مستحسن نہیں سمجھتے جب تک کہ انہیں یہ یقین نہ ہو جائے کہ وہ آداب علالت کی اقل ترین شرائط کی پاسداری کرنے کے اہل ہو گئے ہیں۔ بخدا ہم علالت سے اتنا پریشان نہیں ہوتے جتنا کہ آداب علالت کے رموز و نکات سے عدم واقفیت کی بنا پر ہراساں ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب تک ہم پینسٹھ برس کے نہیں ہو گئے تب تک ہم نے کسی بھی قسم کی علالت کو اپنے پاس پھٹکنے نہیں دیا۔ لہذا آداب علالت کے معاملہ میں ہم آج بھی خاصے اناڑی اور نا تجربہ کار واقع ہوئے ہیں۔ پھر ہر علیل ہونے والے کے آداب علالت کا معیار اور انداز مختلف ہوتا ہے جس سے اس میدان میں اس کے دیرینہ تجربہ یا سراسر نا تجربہ کاری دونوں ہی کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ ہمارے ایک دوست علالت کا نہایت طویل تجربہ رکھتے ہیں اور جب بھی کسی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو اس اہتمام سے مبتلا ہوتے ہیں کہ پہلے تو اپنا بستر علالت خود اپنے ہاتھوں سے بچھاتے ہیں اور پھر بعد میں خود اس پر بچھ جاتے ہیں۔ یہی نہیں بیماری کی کیفیات اور خصوصیات کے مطابق اپنے کمرۂ علالت کی تزئین و زیبائش کی گنجائش بھی پیدا کر لیتے ہیں مثلاً یرقان کے مرض میں مبتلا ہوں تو اپنے بستر علالت پر پیلے رنگ کی چادر بچھاتے ہیں، کمرۂ علالت کے دروازوں اور کھڑکیوں پر یرقانی رنگ کے پردے لٹکاتے ہیں۔

میز علالت کی وضع کچھ ایسی ہوتی ہے کہ اس پر سارے پرہیزی کھانوں کے رکھنے کی گنجائش کے علاوہ غیر ضروری دواؤں، ضروری پھلوں اور از کار رفتہ آلات طب کو رکھا جا سکے۔ مزاج پرسی کے لئے آنے والوں کو ان کے سماجی رتبہ اور حیثیت کے اعتبار سے بٹھانے کے لئے عام کرسیوں کے علاوہ خود مریض کی کرسی علالت کی جگہ بھی مختص کر دی جاتی ہے۔ ایک ایسی الماریِ علالت بھی کمرے میں رکھی ہوتی ہے جس میں انواع و اقسام کے ایسے میوے، مٹھائیاں، گلدستے، یونانی خمیرے اور مقوی ادویات رکھی جاتی ہیں جنہیں مزاج پرسی کے لئے آنے والے حضرات اپنے ساتھ ’’ہدیۂ علالت‘‘ کے طور پر مریض کے لئے لے آتے ہیں۔ ایسے مریض اپنی علالت کو ایک سانحہ ہی نہیں، اپنی زندگی کا ایک اہم واقعہ بلکہ آخری واقعہ تک سمجھ لیتے ہیں۔ مزاج پرسی کے لئے آنے والوں کا ایک رجسٹر بھی مرتب کیا جاتا ہے جس میں عیادت کنندگان کے نام پتے اور ٹیلیفون نمبر بڑی دوراندیشی کے ساتھ اس آس میں لکھوا لئے جاتے ہیں کہ کسی ناگہانی صورت کے پیش آنے پر انہیں بروقت اطلاع دی جا سکے۔ بعض نامی گرامی مریض ان کی عیادت کے لئے آنے والوں کے نام بڑے اہتمام اور التزام کے ساتھ اخباروں میں بھی شائع کرواتے ہیں تاکہ سندرہے اور وقت ضرورت کام نہ آوے۔ ہمارے ایک وی آئی پی دوست نزلہ زکام میں مبتلا ہو کر بستر علالت پر دراز ہو گئے تو عیادت کرنے والوں کا تانتا بندھ گیا اور ان کے اسمائے گرامی اخباروں میں پابندی سے شائع ہونے لگے۔ جب ان کی علالت نے ’’شعلے‘‘ فلم کی سی مقبولیت حاصل کر لی تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ جب تک ان کی ریاست کے چیف منسٹر ان کی مزاج پرسی نہیں کریں گے تب تک وہ صحت یاب نہیں ہوں گے۔ مرکزی قیادت سے چیف منسٹر پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ موصوف کی مزاج پرسی ضرور کریں تاکہ خود چیف منسٹر کی کرسی محفوظ رہ سکے۔ چیف منسٹر تیار بھی ہو گئے لیکن خدا کا کرنا کچھ ایسا ہوا کہ خود چیف منسٹر بیمار ہو کر بستر علالت پر لیٹ گئے۔ نتیجہ میں ہمارے وی آئی پی دوست کو مجبوراً صحت یاب ہونا پڑا۔ یہاں تک کہ اخباروں میں خود ان کا نام بھی چیف منسٹر کی عیادت کرنے والوں کی فہرست میں شامل ہو گیا۔

مزاج پرسی کرنا اور پرسہ دینا دونوں ہی فن کا درجہ رکھتے ہیں جس میں پہلے تو مریض کے ناز اٹھائے جاتے ہیں اور بالآخر بہت بعد میں اس کا جنازہ اٹھانے کی نوبت آ جاتی ہے۔ آج ہم اپنے کالم میں مزاج پرسی کے بارے میں کوئی لمبی چوڑی بات نہیں کرنا چاہتے بلکہ اس معاملہ میں مزاح نگار کے موقف اور رویے کو واضح کرنا چاہتے ہیں۔ بحیثیت مزاح نگار ہمارا ذاتی خیال ہے کہ مزاح نگار دوسروں کی مزاج پرسی کرنے کا گُر بہت اچھی طرح جانتے ہیں (غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ مزاج اور مزاح میں ایک نقطہ کا ہی فرق ہوتا ہے )۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنے معروضی نقطہ نظر اور گہری سنجیدگی کے باعث مزاح نگار خود اپنی مزاج پرسی کروانے کے معاملہ میں اناڑی پن کی حد تک حقیقت شناس ہوتے ہیں۔ آپ تو جانتے ہیں کہ بلی خالہ نے شیر کو پیڑ پر چڑھنے کا گر تو سکھادیا تھا لیکن جب پیڑ سے اترنے کا گر سکھانے کی نوبت آئی تو بلی کو اچانک ایک چوہا نظر آ گیا اور وہ شیر کو اترنے کا گر سکھانا بھول گئی۔ چنانچہ شیر آج تک پیڑ سے اتر نہیں سکتا اور مزاح نگار اپنی مزاج پرسی نہیں کرواسکتا۔ یہ بات ہم اپنے ذاتی تجربہ کی بنا پر کہہ رہے ہیں۔

اول تو مزاح نگاروں کی صحت بہت اچھی ہوتی ہے۔ ابھی سات برس پہلے تک ہمیں پتہ ہی نہیں تھا کہ علالت کس کو کہتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ بعد میں خود ہم نے اپنے ہاتھوں سے اپنی ٹانگیں تڑوائیں۔ تب بھی کسی کو اپنی مزاج پرسی کرنے کا موقع عطا نہیں کیا۔ دوسری طرف ہم نے دکنی زبان کے مستند شاعر اور منفرد مزاح نگار حمایت اللہ کو (جواب ماشاء اللہ پچھتر برس کے ہو گئے ہیں اور ہمارے بزرگ کہلائے جانے کے مستحق ہیں )۔ جب بھی دیکھا چاق و چوبند ہی دیکھا۔ مخفی مباد کہ ان سے ہماری دوستی نصف صدی پرانی ہے۔ بخدا ہم نے انہیں کبھی چھینکتے ہوئے تک نہیں دیکھا مگر پچھلے دو مہینوں سے انہیں اچانک چلنے پھرنے میں تکلیف رہنے لگی تو پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ مینڈکی کو بھی زکام ہو سکتا ہے۔ اب حمایت بھائی بھی ہماری ہی طرح ہو گئے ہیں، یعنی ان کی نقل و حرکت اب محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ پہلے منزل کے لئے وہ دو گام بھی چلتے تھے تو منزل بالکل سامنے آ جاتی تھی اب منزل دکھائی تو دیتی ہے لیکن وہاں تک جانے کی ہمت نہیں پڑتی۔ نتیجہ میں حمایت بھائی اب گھر سے باہر کم ہی نکلتے ہیں۔ نتیجہ میں ہم بھی اب کہیں نہیں نکلتے کیونکہ تین سال پہلے جب دہلی میں ہماری ٹانگوں کی تکلیف میں اضافہ ہونے لگا تو ہم نے محض یہ سوچ کر حیدرآباد منتقل ہونے کا فیصلہ کر لیا کہ حیدرآباد میں حمایت بھائی کی ٹانگیں جو موجود ہیں۔ یوں بھی ہم نے ساری زندگی دوستوں کے سہارے ہی گزاری ہے۔ کسی دوست کی آنکھوں سے دنیا کو دیکھتے ہیں، کسی اور دوست کے کان سے اپنی بات سنتے ہیں۔ دوستوں کے دل ہمارے سینہ میں دھڑک رہے ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہم بسا اوقات ان کے ذہنوں سے سوچتے بھی ہیں۔ حمایت بھائی کی ٹانگوں کی صورت میں جب ہماری ٹانگیں بالکل ہی بے روزگار ہو گئیں تو ایک دن دیکھا کہ حمایت بھائی اپنے ڈرائیور کی مدد سے چل کر ہمارے پاس آ رہے ہیں۔ ہم نے پوچھا ’’جناب! ادھر کیسے آنا ہوا؟‘‘ بولے ’’اپنی مزاج پرسی کروانے آیا ہوں‘‘۔ ہم نے کہا ’’اتفاق دیکھئے کہ آج میں خود آپ کی طرف اپنی مزاج پرسی کروانے کی خاطر آنے والا تھا۔ آپ نے پہل کیسے کر دی؟‘‘۔ کہنے لگے ’’یہ سب وقت وقت کی بات ہے۔ آج تم کل ہماری باری ہے‘‘۔ ان کے اس جواب نے ہمیں قائل کرا دیا کہ سچا مزاح نگار وہی ہوتا ہے جو دوسروں کے دکھ میں تو ضرور شامل ہو جاتا ہے لیکن کسی دوسرے کو اپنے دکھ میں شامل ہونے کا موقع عطا نہیں کرنا چاہتا۔

ہمیں اندازہ ہے کہ ایک مزاح نگار کی مزاج پرسی کرتے وقت اپنے چہرے پر وہ مصنوعی تشویش، رقت اور ترحم کے آثار پیدا ہی نہیں کر سکتا جو عموماً پیشہ ور عیادت کنندگان کسی مریض کے بستر علالت کے قریب پہنچ کر اچانک اپنے چہرے پر طاری کر لیتے ہیں۔ بعض کا انداز مزاج پرسی تو کچھ ایسا ہوتا ہے جیسے مریض کی آخری مرتبہ مزاج پرسی کر رہے ہوں۔ ہمارا خیال تو یہ ہے کہ اکثر مریض ڈاکٹروں کے غلط علاج یا اپنی صحیح بیماری کی وجہ سے نہیں مرتے بلکہ مزاج پرسی کرنے والوں کی مہلک مزاج پرسی کی وجہ سے گزر جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں مزاح نگار حضرات اگر اپنے پاس مزاج پرسی کرنے والوں کو پھٹکنے نہیں دینا چاہتے بلکہ بہ نفس نفیس خود جا کر اپنی مزاج پرسی کروا لیتے ہیں تو نہایت نیک کام کرتے ہیں۔ بہرحال ادھر خود ہماری مصروفیت کا زیادہ عرصہ احباب کے پاس جا کر خود اپنی مزاج پرسی کروانے اور ان کی مزاج پرسی کرنے اور کبھی کبھار پرسہ دینے میں صرف ہونے لگا ہے۔ پچھلے دنوں ہم دلی گئے تو وہاں ایک عدد پُرسے کے علاوہ تین مزاج پرسیاں ہماری منتظر تھیں۔ وہاں سے حیدرآباد واپس آئے تو یہاں بھی کم و بیش اتنی ہی مزاج پرسیاں ہمارا انتظار کر رہی تھیں۔ غرض پرسیوں اور پُرسوں کے بیچ ہماری حالت قابل رحم ہوتی جا رہی ہے۔ ہمیں اس وقت ایک مشہور رہنما کی یاد آ گئی جو بے حد خوش اخلاق، با مروت اور فرض شناس تھے۔ شادیوں اور جنازوں میں شرکت کو ایک اہم اخلاقی فریضہ تصور کرتے تھے۔ ایک دن انہیں دس بارہ جنازوں اور آٹھ دس شادیوں میں شرکت کرنے کا مرحلہ درپیش آ گیا۔ بیچارے ہڑبڑا گئے اور بے خیالی میں دولہا کو شادی کی مبارکباد دینے کی بجائے کہہ دیا ’’میاں جو ہونا تھا وہ ہو چکا۔ اب صبر کرو۔ مشیت ایزدی کے آگے کس کی چلی ہے۔ خدا تمہیں صبر جمیل عطا کرے۔ آمین ثم آمین‘‘۔

٭٭٭

 

 

 

ہیلمٹ کے فائدے بھی ہیں

 

صاحبو! پچھلے ہفتہ ہم نے ایک طویل عرصہ بعد ہیلمٹ کے خلاف ایک کالم یونہی ذائقہ بدلنے کے لئے ’’دستار فضیحت‘‘ کے عنوان کے تحت لکھا تھا جس میں ہیلمٹ کے استعمال کی آڑ میں ٹریفک پولیس کی زیادتیوں کو اجاگر کرنے کے علاوہ سکندر اعظم کے زمانے سے لے کر دور جدید تک ہیلمٹ کی بتدریج بدلتی ہوئی شکلوں جیسے پگڑی، ترکی ٹوپی، ہیٹ اور دو پلی وغیرہ کے حوالے سے ہیلمٹ کے زوال کی مختصر تاریخ بیان کی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ اسکوٹر سوار بھلے ہی ہیلمٹ پہنے یا نہ پہنے اس کا زخمی ہونا ہر حالت میں برحق ہوتا ہے کیونکہ ہمارے ہاں ٹریفک کا وہ عالم ہوتا ہے کہ اگر آدمی ہیلمٹ پہن بھی لے تو وہ کسی نہ کسی سے ٹکرا کر اپنے آپ ہی زخمی ہو جاتا ہے اور اگر ہیلمٹ نہیں پہنتا تو پولیس کے سپاہی تعاقب کر کے اس کی اتنی پٹائی کرتے ہیں کہ بے چارا اپنی حالت کو دیکھ کر کف افسوس ملتا ہے کہ اے کاش وہ پولیس کی پٹائی کی بجائے ٹریفک حادثے میں زخمی ہو جاتا تو اس کی حالت اتنی تشویشناک اور حالات اتنے خراب نہ ہوتے۔

ہم در اصل اس بات کے قائل ہیں کہ قسمت میں جو لکھا ہوتا ہے وہ بالآخر ہو کر رہتا ہے چاہے آدمی ہیلمٹ پہن لے یا دبابے میں بیٹھ کر سڑک پر نکلے۔ پھر سو بات کی ایک بات یہ کہ جو کوئی بھی یہاں آتا ہے اسے بالآخر ایک نہ ایک دن اس دنیا کو چھوڑ کر جانا ہی ہوتا ہے۔ اتنی آسان سی بات کسی کی سمجھ میں آ جائے تو پھر کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ بہرحال اس کالم کے جواب میں ایک صاحب نے نظام آباد سے خط لکھ کر ہمیں یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ہم ایک ایسے قدامت پرست، دقیانوسی اور از کار رفتہ انسان ہیں جسے سائنسی ایجادات اور زمانہ کی ترقی ایک آنکھ نہیں بھاتی اور یہ کہ ہم آئین نو سے ڈرنے اور طرز کہن پر اڑنے کے عادی ہیں حالانکہ دیکھا جائے تو ہیلمٹ کے کئی فائدے ہیں۔ اس ضمن میں موصوف نے خود نظام آباد کے ایک واقعہ کا ذکر کیا ہے کہ دو اسکوٹر سواروں کے ہیلمٹ سائز، برانڈ اور رنگ کے اعتبار سے بالکل ایک دوسرے سے ملتے جلتے تھے۔ دونوں اپنی بیویوں کے ہمراہ شاپنگ کے ارادے سے ایک دکان پر گئے۔ واپسی میں دونوں جوڑے ایک ساتھ باہر نکلے لیکن ہیلمٹ کی مشابہت کی وجہ سے دونوں کی بیویاں غلط شوہروں کے ساتھ صحیح اسکوٹروں پر بیٹھ کر چلی گئیں۔ بہرحال منزل پر پہنچنے کے بعد دونوں خواتین کو غلطی کا احساس ہوا تو پھر منزل مقصود پر واپس آ گئیں۔ ان صاحب نے اس مزاحیہ صورت حال کو اپنے دلچسپ انداز میں بیان کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہیلمٹ کے استعمال کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آدمی بوالعجبی میں ایسی حرکتیں کر گزرتا ہے کہ معاشرے میں ہنسی اور خوش مذاقی کی دولت تقسیم ہونے لگتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ محض اس ایک اتفاقی واقعہ کو لے کر ہم ہیلمٹ کو ایک فائدہ مند چیز تسلیم کرنے سے قاصر ہیں۔ یوں بھی بیویوں کا بدل جانا بھلے ہی کوئی ٹریفک حادثہ نہ ہو لیکن ایک بڑا جذباتی حادثہ تو ہو سکتا ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ ہم عمر کی اس منزل میں ہیں جہاں آدمی اپنے آپ ہی شریف، پاکباز، نیک اور پرہیزگار بن جاتا ہے۔ اب ہماری عمر ایسی نہیں رہی کہ بالوں میں چاندی سجا کر ایسی باتوں سے لطف اندوز ہوں اور نعوذ باللہ ان باتوں کو فائدہ مند سمجھیں۔ اگر ہیلمٹ کے ایسے فائدے گنانے پر ہم اتر آئیں تو بخدا ایسے فائدوں کی ایک منڈی سجا کر رکھ دیں۔ بہت پرانی بات ہے ہم ایک ایسے مکان میں کرایہ پر رہتے تھے جس کے مالک کو شاعری کا بے پناہ شوق تھا۔ خود بھی شعر کہتے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ اپنے مکان ہی کی طرح بے بحر شعر کہتے تھے۔ جس طرح ان کے شعر کا کوئی مصرعہ دوسرے مصرعہ سے موزوں نہیں ہوتا تھا اسی طرح ان کے گھر کے کمرے بھی ایک دوسرے سے مطابقت اور مماثلت نہیں رکھتے تھے۔ حد ہو گئی کہ کھڑکیوں کے پٹ بھی اپنی چوکھٹوں سے میل نہیں کھاتے تھے۔ اس پر مستزاد یہ کہ انہیں اپنے اسی قماش کے شعر سنانے کا بے حد شوق تھا۔ چونکہ ہم بروقت کرایہ ادا کرنے کے قابل نہیں رہتے تھے اس لئے وہ اپنے بے معنی اور بے موزوں شعروں کی داد وصول کرنے کے لئے ہمارے پاس اکثر آ جاتے تھے۔ لہذا ہم نے ہیلمٹ کی آڑ میں ان سے بچنے کا ایک نادر طریقہ ڈھونڈ نکالا تھا۔ چنانچہ ہم نے ایک ایسا ہیلمٹ خریدا جسے پہننے کے بعد بھلے ہی لوگوں کو ہماری آنکھیں نظر آ جاتی تھیں لیکن چہرہ بالکل دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اکثر ایسا ہوا کہ ادھر وہ بصد اشتیاق اپنا کلام بلاغت نظام سنانے کی غرض سے ہمارے پاس آ رہے ہیں اور ہم ان کے سامنے سے ہیلمٹ میں ملفوف ہو کر شاداں و فرحاں چلے جا رہے ہیں۔ دو ایک بار تو ایسا بھی ہوا کہ انہوں نے دروازے پر دستک دی اور ہم نے ہیلمٹ پہن کر نہ صرف خود ہی دروازہ کھولا بلکہ آواز بدل کر گھر میں اپنے موجود نہ ہونے کا اعلان بھی کیا جسے ہمارے مالک مکان نے بلا چوں و چرا قبول بھی کر لیا۔ ذرا سوچئے کہ ہیلمٹ کا کتنا بڑا فائدہ ہے کہ آپ بے معنی اور بے وزن شعر سننے کی زحمت سے بچ جاتے ہیں۔ یہی نہیں راستہ سے گزرتے ہوئے آپ ہیلمٹ کی عنایت اور برکت سے کئی ناپسندیدہ عناصر سے صاف بچ کر نکل جاتے ہیں۔

اب آپ سے کیا چھپائیں کہ دہلی میں ہمارے ایک دوست صرف ہیلمٹ کے استعمال کی پابندی کی وجہ سے آج ملک کے ممتاز طبلہ نواز سمجھے جاتے ہیں۔ جب دہلی میں ہیلمٹ کا چلن عام ہوا تو ہم نے دیکھا کہ جب بھی وہ اسکوٹر کو پارک کر دینے کے بعد ہیلمٹ کو اپنے ساتھ لے کر ہمارے کمرے میں آتے تو ان کی انگلیاں انجانے میں ہیلمٹ کی پیٹھ کر طبلہ بجانا شروع کر دیتی تھیں۔ اس کا اندازہ انہیں بھی نہیں تھا اور ہمیں بھی نہیں تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اس سے پہلے بھی وہ بسا اوقات ہماری ٹیبل کو اس مقصد کے لئے استعمال کیا کرتے تھے لیکن ہیلمٹ پر ان کے ریاض کے باعث ایک دن ان کی قسمت اور ان کی طبلہ نوازی کے جوہر اچانک چمک اٹھے۔ ہوا یوں کہ ایک دن ہمارے یہ دوست حسب معمول ہمارے کمرے میں اپنے ہیلمٹ پر طبلہ کا ریاض کر رہے تھے کہ دہلی دور درشن کے مشہور طبلہ نواز، جن کا تعلق تان سین گھرانے سے ہے، ہم سے ملنے کے لئے آ گئے۔ آئے تو وہ ہم سے ملنے کیلئے تھے لیکن جب انہوں نے ہیلمٹ پر ہمارے دوست کو طبلہ بجاتے ہوئے دیکھ لیا تو ان کی انگلیوں کی فنکاری کے سحر میں ڈوب گئے۔ بولے ’’قبلہ! آپ تو پیدائشی طبلہ نواز ہیں۔ اپنے فن کو ہیلمٹ پرکیوں ضائع کر رہے ہیں؟‘‘۔ اس کے بعد ہمارے ان دوست نے ان کی شاگردی قبول کر لی اور ماشاء اللہ آج ان کا شمار مستند طبلہ نوازوں میں ہوتا ہے۔ خدا کے فضل سے اب وہ ہیلمٹ کے استعمال کی پابندی سے بھی ماورا ہو چکے ہیں کیونکہ اب وہ موٹر نشین بن گئے ہیں اور اپنے طبلوں کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہیلمٹ کے استعمال کے کتنے فائدے آپ کو بتائیں۔ لیجئے ہمیں ایک اور واقعہ یاد آ گیا۔ پچیس تیس برس پہلے کی بات ہے۔ ایک رات ہم جامع مسجد دہلی کی سیڑھیوں کے آگے اپنے دوستوں کی ٹولی کے ساتھ کھڑے باتیں کر رہے تھے۔ حسب معمول ہمارے ہاتھ میں ہیلمٹ تھا جسے ہم نے اپنی پیٹھ کے پیچھے کچھ اس طرح پکڑ رکھا تھا جیسے ہیلمٹ کو دوسروں کی نظر سے چھپانا مقصود ہو۔ خود ہمارا رخ چونکہ اپنے احباب کی طرف تھا اس لئے ہم نے غور نہیں کیا کہ ہماری پیٹھ پیچھے ہمارے ہیلمٹ کے ساتھ کیا سلوک کیا جا رہا ہے۔ بڑی دیر کی گپ شپ کے بعد جب ہم نے اپنے سرپر ہیلمٹ پہننے کی کوشش کی تو اچانک ہمارے سر کے اوپر سے کئی چھوٹے موٹے سکے گرنے لگے۔ گنتی کی تو پورے پندرہ روپیوں کی مالیت کی ریزگاری نکلی۔ دوستوں کا خیال تھا کہ راہ گیروں نے ہمیں ایک ایسا خوددار بھکاری سمجھا جس نے اپنی انا کی حفاظت کی خاطر کشکول کو اپنی پیٹھ کے پیچھے پکڑ رکھا ہے تاکہ بھیک دینے والے اور بھیک وصول کرنے والے دونوں کی آنکھوں میں علی الترتیب تفاخر اور شرمساری کے آثار پیدا نہ ہوں۔

ہیلمٹ کا ایک فائدہ ہمیں یہ بھی نظر آیا کہ بازار سے سودا سلف خریدنے کے بعد اگر آپ کے پاس سامان زیادہ ہو جائے اور تھیلی میں گنجائش نہ رہ گئی ہو تو آپ اس زائد مال کو ہیلمٹ کے کشکول میں رکھ سکتے ہیں۔ یوں بھی پلاسٹک کی تھیلی کے مقابلہ میں ہیلمٹ کا کشکول زیادہ پائیدار اور مضبوط ہوتا ہے۔ ہمارے ایک شناسا، جو آبکاری کے محکمہ میں کام کرتے ہیں، اپنی بالائی آمدنی کو ہیلمٹ میں ہی محفوظ رکھتے ہیں تاکہ محنت کی کمائی اور بالائی آمدنی میں فرق برقرار رہے اور حساب فہمی میں کوئی دشواری نہ پیش آئے۔ چلتے چلتے یہ واقعہ بھی سن لیں کہ کچھ برس پہلے دہلی میں وقفہ وقفہ سے زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے جانے لگے تھے۔ عوام کی سہولت کی خاطر ایسی احتیاطی ہدایات بھی دی جانے لگیں کہ زلزلہ کا جھٹکا محسوس ہو تو دیوار کے ساتھ لگ کر نہ کھڑے رہیں بلکہ ہو سکے تو کسی میز یا پلنگ کے نیچے گھس جائیں تاکہ دیوار کا ملبہ گرے تو آپ کو چوٹ نہ آئے۔ ہم نے اس ہدایت پر عمل کرنے میں وہ مستعدی دکھائی کہ گھر میں نہ صرف چوبیس گھنٹے ہیلمٹ پہنے رہتے تھے بلکہ جب کھانا کھانے کا وقت آتا تھا تو ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ کر کھانا نہیں کھاتے تھے بلکہ ڈائننگ ٹیبل کے نیچے دسترخوان بچھا کر با ہیلمٹ کھانا کھاتے تھے۔ کیا یہ ہیلمٹ کا کوئی معمولی فائدہ ہے۔ اگر ہم نے غلطی سے ہیلمٹ کے خلاف ایک کالم لکھا تھا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ہیلمٹ کے فائدوں سے سراسر نابلد اور ناواقف ہیں۔ زندہ رہنے کے لئے آدمی کو کئی آزمائشوں اور مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے اور ایک کامیاب زندگی کا کامیاب سفر سود و زیاں کے مقر رہ اور مروجہ اصولوں کا پابند و محتاج نہیں ہوتا۔ یہی کلید کامیابی ہے اور ہم نے اس راز کو بہت پہلے پا لیا تھا۔ چنانچہ آج بھی ہیلمٹ کے بغیر ہم نے اپنی کلاہ کج کو اسی بانکپن کے ساتھ برقرار رکھا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج ہم بھی کروڑ پتی ہوتے۔ یہ بات الگ ہے کہ ہماری جھولی تجربات و حوادث کی دولت سے اتنی مالا مال نہ ہوتی۔

٭٭٭

 

 

 

 

دانتوں میں تو دم ہے

 

 

آج کے پر آشوب دور میں جب کہ انسان کے سوائے ہر چیز کے دام بڑھتے چلے جا رہے ہیں ہم اس قابل بالکل نہیں ہیں کہ خود اپنی پسند سے کوئی چیز خرید سکیں۔ یوں بھی خرید و فروخت یا شاپنگ سے ہمیں ابتداء ہی سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ رہی کہ ہم سدا کے فراخ دل اور ہمیشہ ہی کے تنگ دست رہے۔ فراخدلی کا یہ عالم رہا کہ نوجوانوں کے دنوں میں اپنی ہتھیلی میں خود اپنے دل کو سجائے آوازیں لگاتے پھرتے تھے ’’بھئی لے لو ہمارا دل لے لو۔ واجبی دام۔ کوڑیوں کے مول۔ جو لے اس کا بھلا اور جو نہ لے اس کا بھی بھلا‘‘۔ کسی نے پلٹ کر نہ پوچھا ’’میاں ذرا دکھانا تو اپنا دل آخر یہ ہے کیسا؟‘‘۔

دوسری طرف جب بھی ہم نے کسی کے دل کو اپنے قابو میں کرنا چاہا تو ہماری تنگ دستی نے خود ہمارا ہاتھ یہ کہہ کر پکڑ لیا کہ میاں چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے۔ اسی لئے ہم دنیا کے بازار سے ہمیشہ سے گزرتے تو رہے ہیں لیکن کبھی خریدار نہیں بن سکے۔ بعض مردم شناس احباب کا خیال ہے کہ ہم بازار میں کچھ خریدنے کے ارادے سے نہیں جاتے بلکہ خود کو بیچنے یا بک جانے کی آس میں جاتے ہیں۔ بشرطیکہ کوئی غافل خریدار مل جائے۔ ملکوں ملکوں گھومنے کے باوجود ہم نے کبھی کوئی چیز یا اشیائے تعیش وغیرہ بالکل نہیں خریدیں۔ ہانگ کانگ کے ڈپارٹمنٹل اسٹورس میں بھی صرف تفریحاً یہ دیکھنے کے لئے چلے گئے کہ دیکھیں دنیا نے کیا کیا غیر ضروری اور فالتو چیزیں بنا رکھی ہیں۔ حالانکہ ہانگ کانگ کے ڈپارٹمنٹل اسٹورس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں سے کوئی خالی ہاتھ واپس نہیں جاتا۔ دروغ بر گردن راوی ایک صاحب ایک ڈپارٹمنٹل اسٹور میں چیزیں خریدنے کے ارادے سے گئے۔ کوئی چیز پسند نہ آئی۔ مایوس ہو کر واپس جانے لگے تو اتفاقاً اسٹور کی سیلز گرل پر نظر پڑ گئی اور وہ انہیں پسند آ گئی۔ نتیجہ میں موصوف نے ڈپارٹمنٹل اسٹور کے چکر لگانے شروع کر دیئے یہاں تک کہ سیلز گرل سے بالآخر ان کی شادی ہو گئی اور یوں انہوں نے اپنے دولت خانے کو ہی ڈپارٹمنٹل اسٹور بنا لیا۔ چاہے کچھ بھی ہو شاپنگ کے معاملہ میں ہمارا شخصی تجربہ کبھی پان، بیڑی، سگریٹ، تیل اور کنگھی سے آگے نہ بڑھ سکا تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چیزوں کی فروخت کے معاملہ میں اچھی شکل و صورت کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ یادش بخیر نوجوانی کے دنوں میں ایک معصوم غریب لڑکی ہمارے محلہ میں ’’منجل‘‘ بیچنے آیا کرتی تھی۔ اس کی آواز اور خد و خال میں کچھ ایسی طرحداری ہوا کرتی تھی کہ ہم اس سے ’’منجل‘‘ ضرور ہی خریدتے تھے۔ ایک لحاظ سے وہ مخدوم کی ’’بانکی تلنگن‘‘ سے بڑی حد تک مشابہ تھی جو اجنبی کو دیکھ کر اپنا گانا بند کر دیتی تھی اور نتیجہ میں مخدوم کو ضرورت شعری کے تحت ایک لاجواب نظم لکھنی پڑی تھی۔ یوں سمجھئے کہ منجل کی خریدی کے معاملہ میں یہ معصوم لڑکی ہمارے حق میں منجل کی برانڈ ایمبیسیڈر کا درجہ حاصل کر گئی تھی۔

ایک زمانہ تک چیزیں خود اپنی خوبیوں، پائیداری اور افادیت کی بنا پر خریدی جاتی تھیں۔ مگر جب زمانہ سفارشوں کا آ گیا اور فن تشہیر نے ترقی کی اور کرتی ہی چلی جا رہی ہے تو اچھی شکل و صورت والی حسین لڑکیوں اور وجیہ و شکیل خوبرو نوجوانوں کی مدد سے چیزوں کی فروخت کی گنجائش نکل آئی ہے۔ اب فلمی اداکاروں، ہیروئنوں، کرکٹ اور ٹینس کے کھیل سے وابستہ مشہور و معروف ہستیوں کی سفارش پر چیزیں بکنے لگی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان ہستیوں کو اب اپنے پیشے سے اتنی آمدنی نہیں ہوتی جتنی کہ ٹیلی ویژن، اخبارات اور ہورڈنگس پر تصویروں میں ان کے مسکرانے اور اٹھلانے اور ادائیں وغیرہ دکھانے سے حاصل ہوتی ہے۔ آپ کون سا صابن استعمال کریں گے اس کا مشورہ آپ کو ایشوریہ رائے سے مل جائے گا۔ ٹوتھ برش کون سا استعمال کریں گے اس کے لئے مادھوری ڈکشٹ سے لے کر رانی مکرجی اور شلپا شیٹی مشورہ دینے کے لئے موجود ہیں۔ سمینٹ، پریشر کوکر، مکھن، سیل فون، پنکھے، ٹیلی ویژن سیٹ، جوتے، غرض کون سی ایسی چیز ہے جسے آپ خریدنے کے لئے نکلیں اور آپ کو سچن ٹنڈولکر، عرفان پٹھان، کٹرینہ کیف، دھرمیندر، ہیما مالنی اور بیسیوں ایسے ہی فنکار اپنے زرین مشوروں کے ساتھ آپ کو راستہ میں نہ مل جائیں۔ اس خصوص میں مشورہ دینے والوں کی اتنی بہتات ہوتی ہے کہ ہم بالآخر کوئی بھی چیز نہیں خریدتے کیونکہ ہمارا مسلک صلح کل کا ہے اور ہم اپنے کسی بھی محبوب فنکار کا دل نہیں توڑنا چاہتے۔ کسی ٹوتھ پیسٹ کے معاملہ میں ایشوریہ رائے کے مشورہ پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو اچانک مادھوری ڈکشٹ کی مسکراہٹ یاد آ جاتی ہے۔ رانی مکرجی کسی شئے کی سفارش کرتی ہیں تو شلپا شیٹی ہمارا دامن پکڑ لیتی ہے۔ ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر والا معاملہ پیش آ جاتا ہے۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے ہمارے ایک دل پھینک دوست ایسے بھی ہیں جو ہر خوش شکل دوشیزہ کے مشورے کو دل و جان سے قبول کر لیتے ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ پچاس برس پہلے انہوں نے آنجہانی گیتا بالی کے مشورے پر اپنے نہانے کے لئے ایک صابن کا انتخاب کیا تھا جس میں وہ بعد میں نمی، مینا کماری، نوتن اور نہ جانے کن کن پری چہروں کے کہنے کے مطابق تبدیلیاں کرتے رہے اور آج ان کی جلد کا یہ عالم ہے کہ جب تک خود سے اپنا تعارف نہ کرائیں پہچانے نہیں جاتے۔ ’’دل پھینک‘‘ لوگ تو ہم نے بہت سے دیکھے ہیں لیکن ایسا ’’جلد پھینک‘‘ آدمی ہم نے کہیں نہیں دیکھا۔ اصل میں ہمارا معاشرہ اب صارفین کا معاشرہ بن گیا ہے۔ کنزیومرازم کا وہ بول بالا ہے کہ چیزیں بنانے والے اپنی چیزوں کو بیچنے کے لئے حسینان عالم کے مقابلے بڑے زور و شور کے ساتھ منعقد کرتے ہیں اور جب یہ حسینائیں منتخب ہو جاتی ہیں تو اپنی چیزوں کو ان دوشیزاؤں کے حسن کی آڑ میں بیچنا شروع کر دیتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ فیشن ڈیزائنرس اپنے ملبوسات کی تشہیر کے لئے بڑے اہتمام سے فیشن شو آراستہ کرتے ہیں جن میں حسیناؤں کو ایسے لباس میں دکھایا جاتا ہے جس میں لباس کم سے کم اور حسیناؤں کا حسن زیادہ سے زیادہ نمایاں ہو سکے۔ عنوان ملبوسات کا ہوتا ہے لیکن متن میں عریانی کے سوائے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ والا سلسلہ ہے۔ صارفین کے معاشرے کے تقاضے اور اس کی باریکیاں اور نزاکتیں کم از کم ہماری تو سمجھ میں نہیں آتیں۔ یقین مانئے اچھے چہروں کو دیکھتے دیکھتے اب ہماری آنکھیں پتھرانے لگی ہیں۔ مانا کہ چیزیں بیچنے والی دوشیزائیں یقیناً خوش جمال ہوتی ہیں لیکن جو چیزیں وہ بیچتی ہیں وہ قطعاً خوش خصال نہیں ہوتیں۔

بہرحال کنزیومرازم کے اس غلغلے اور حسن کی بہتات میں ہمیں ایک خوش آئند پہلو بھی نظر آیا ہے اور وہ یہ کہ پچھلے دنوں اخباروں میں الوال کے متوطن اور 84 سال کے ایک جوان رعنا کرشنا مورتی راؤ کی تصویر ان کے ایک بیان کے ساتھ شائع ہوئی ہے جس میں انہوں نے ببانگ دہل یہ اعلان کیا ہے کہ وہ بچپن ہی سے ’’منجن فاروقی‘‘ استعمال کرتے آئے ہیں اور یہ کہ آج بھی ان کے پورے بتیس دانت نہ صرف موجود ہیں بلکہ پوری طرح محفوظ بھی ہیں۔ اس اعلان نے ہمیں اپنے ماضی کی کئی یادیں تازہ کر دیں۔ ہمارے اس بیان کو اگر آپ کنزیومرازم کے پس منظر میں نہ دیکھیں اور ہمیں بھی کوئی مشہور و معروف ہستی تصور نہ کریں (جنہیں ایسے بیان دینے کا معقول معاوضہ دیا جاتا ہے ) تو عرض کریں کہ جب سے ہم نے آنکھیں کھولی ہیں تب سے حیدرآباد کے کارخانہ زندہ طلسمات میں بننے والی دو چیزوں یعنی خود زندہ طلسمات اور منجن فاروقی کو بصد شوق استعمال کرتے آئے ہیں۔ اگرچہ بچپن کی حدوں کو پھلانگنے کے بعد بوجوہ منجن فاروقی کے استعمال کو جاری نہ رکھ سکے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے گھر کی دیوار پر کسی خوش خط پینٹر نے جلی حروف میں ’’منجن فاروقی‘‘ کا اشتہار لکھ دیا تھا۔ بھلے ہی ایک عمر کے بعد ہم نے منجن فاروقی کا استعمال تو ترک کر دیا تھا لیکن اجنبیوں کو اپنے گھر کا پتہ سمجھانے کے لئے منجن فاروقی کے اس اشتہار کو استعمال ضرور کرتے تھے۔

البتہ زندہ طلسمات کو ہم نے کبھی ترک نہیں کیا۔ ہماری والدہ محترمہ کی خوبی یہ تھی کہ ہماری ہر بیماری کا علاج اس دوا میں ڈھونڈ لیتی تھیں۔ چھینک آئی تو اسے پلا دیا، سر میں درد ہو تو اسے ماتھے پر لگا دیا، پیٹ میں گڑبڑ ہوئی تو اس کے چند قطرے ہمارے پیٹ میں پہنچا دئے، زخمی ہوئے تو زندہ طلسمات کو زخم پر لگا دیا۔ رفتہ رفتہ یہ دوا ہمارے لئے ممتا کی نشانی اور علامت بن گئی۔ جب ایک دوا ماں کی محبت اور شفقت بن جائے تو اس کے مجرب ہونے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے۔ اگرچہ ہماری والدہ کو گزرے ہوئے برسوں بیت گئے ہیں لیکن ان کی شفقت آج بھی ہمارے ساتھ شیشی میں بند رہتی ہے۔ حد ہو گئی کہ دو اہم ملازمتوں کے انٹرویو دینے کے لئے جانے لگے تو ہم نے نیک شگون کے طور پر زندہ طلسمات کے چار قطرے پی لئے اور آپ یقین کریں کہ دونوں جگہ ہمارا انتخاب ہو گیا۔ اب آپ اسے دوا کی تاثیر سمجھیں یا ہماری ماں کی دعا۔ نتیجہ میں یہ دوا ہماری زندگی سے کچھ اس طرح جڑ گئی کہ ہماری ابتدائی تحریروں میں جا بجا ہم نے اس دوا کو محاورے کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔ ہمیں احساس ہی نہ ہوا کہ ہم انجانے میں ایک دوا کی تشہیر کر رہے ہیں۔ جب ہماری تحریریں ہندی میں چھپنے لگیں تو ہندی رسالوں کے مدیروں نے آگاہ کیا کہ ہم ایک دوا کی تشہیر کر رہے ہیں جو مناسب نہیں ہے۔ ہم نے لاکھ سمجھایا کہ ہم دوا کی نہیں بلکہ اپنی ماں کی ممتا کی تشہیر کر رہے ہیں، مگر وہ نہ مانے اور دوا کو نکال دیا۔ الوال کے کرشنا مورتی راؤ کی تصویر کو دیکھنے اور ان کے بیان کو پڑھنے کے بعد اب ہمیں یقین ہو چلا ہے کہ کنزیومرازم کے اس دور میں ہم جیسے از کار رفتہ بوڑھوں کی خدمات سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ ہے کوئی نیک نفس صنعت کار جو سچن ٹنڈولکر، شاہ رخ خان اور عامر خان کے ساتھ ساتھ ہمارا مکھڑا بھی اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لئے استعمال کر سکے۔ آخر میں ایک دلچسپ تبصرہ بھی سن لیں۔ ہم نے جب اپنے دوست اور منفرد دکنی شاعر حمایت اللہ کو 84 سالہ کرشنا مورتی راؤ کے پورے بتیس دانتوں کے صحیح و سالم رہنے کی اطلاع دی تو بے ساختہ بولے …

گو ہاتھ کو جنبش نہیں دانتوں میں تو دم ہے

٭٭٭

 

 

 

 

محکمہ موسمیات کی حمایت میں

 

دہلی کے ہندی روزنامہ ’’جے وی جی ٹائمس‘‘ میں محکمہ موسمیات کے خلاف ایک قاری کا خط شائع ہوا ہے جس میں اس نے محکمہ موسمیات پر گرج چمک کے ساتھ اپنے غصہ کے چھینٹے برسائے ہیں اور محکمہ موسمیات کے خلاف اپنی برہمی کے نہ صرف طوفانی ہواؤں کے تیز جھکڑ چلائے ہیں بلکہ کہیں کہیں اولے بھی برسائے ہیں۔ اس کا غصہ اتنا شدید ہے کہ لگتا ہے یہ اس کی زندگی کا اعظم ترین غصہ ہے۔ مراسلہ نگار کا کہنا ہے کہ محکمہ موسمیات حکومت کا واحد محکمہ ہے جس کا مصرف کسی کی سمجھ میں نہ آ سکا۔ اس کی بیشتر پیش قیاسیاں نہ صرف غلط اور گمراہ کن ہوتی ہیں بلکہ خود قدرت کے لئے بھی اس محکمہ کا وجود ناقابل برداشت نظر آتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے قدرت، محکمہ موسمیات کی تاک میں بیٹھی رہتی ہے۔ ادھر اس محکمہ نے پیشین گوئی کی اور اُدھر قدرت اس پیشین گوئی کی تردید کرنے کے لئے کمربستہ ہو گئی۔ محکمہ موسمیات اور قدرت کے درمیان وہ رشتہ اور تعلق خاطر نظر نہیں آتا جو عموماً چولی اور دامن کے درمیان پایا جاتا ہے۔ بلکہ یہ تعلق کچھ ایسا ہے جو آگ اور پانی کے بیچ ہو سکتا ہے۔ مراسلہ نگار نے ایک مثال بھی دی ہے کہ پچھلے دنوں دور درشن جب دہلی کے موسم کے بارے میں یہ پیش قیاسی کر رہا تھا کہ دہلی میں ابھی تک مانسون کے بادل نہیں آئے ہیں اور یہ کہ دہلی میں عام طور پر موسم خشک رہے گا تو عین اسی وقت ساری دہلی پر مانسون کے بادل چھائے ہوئے تھے اور دہلی میں موسلادھار بارش ہو رہی تھی۔ یہ ایسا نکما اور کام چور محکمہ ہے کہ کھڑکی سے باہر تک جھانک کر نہیں دیکھتا کہ موسم کیا کر رہا ہے۔ جو محکمہ دن کو رات اور رات کو دن کہے ایسے محکمہ کو رکھنے کا کیا فائدہ۔ مراسلہ نگار نے آخر میں یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ اس محکمہ کو فوراً برخاست کیا جائے۔ اس طرح حکومت کے اخراجات میں خاصی کمی واقع ہو سکتی ہے۔

مراسلہ نگار سے ہمیں دلی ہمدردی ہے کہ وہ ایک ایسے مسئلہ پر شدید غم و غصہ کا اظہار کر رہا ہے جس پر اسے ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرنا چاہئے۔ ہم بھی محکمہ موسمیات کی پیش قیاسیوں کو نہایت پابندی سے سنتے ہیں لیکن کبھی اپنا خون اس طرح نہیں کھولاتے جس طرح مذکورہ بالا قاری نے کھولایا ہے۔ ہم تو ان پیش قیاسیوں کو ایک تفریحی پروگرام کے طور پر سنتے ہیں۔ پھر مراسلہ نگار نے جس طرح اپنا سارا غصہ محکمہ موسمیات پر اتارا ہے اس سے لوگوں کو یہ غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ حکومت کے سارے محکمے تو ٹھیک ٹھاک کام کر رہے ہیں اور محکمہ موسمیات ہی واحد محکمہ ہے جو ایمانداری سے کام نہیں کر رہا ہے۔ مراسلہ نگار کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارے ہاں حکومت کا کوئی محکمہ ایسا نہیں ہے جو ایمانداری سے کام کر رہا ہو۔ بیچارے محکمہ موسمیات پر ہی سارا غصہ اتارنے کی کیا ضرورت ہے بلکہ ہمارا ذاتی خیال تو یہ ہے کہ حکومت کا یہی وہ واحد محکمہ ہے جہاں ایمانداری کا پورا خیال رکھا جاتا ہے اور اس میں کسی بے ایمانی اور گھپلے کی گنجائش نظر نہیں آتی۔ ہم نے آج تک محکمہ موسمیات کے کسی افسر کو قدرت سے رشوت لیتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اس محکمہ کے عہدیدار تو دیانتداری اور حلال کی روٹی کھاتے ہیں۔

پنی تنخواہ پر گذارا کرتے ہیں اور ان کی بالائی آمدنی وہی ہوتی ہے جو خدا کی طرف سے انہیں ملتی ہے۔ ان کی جانب سے کی جانے والی پیش قیاسیاں جب غلط ثابت ہوتی ہیں تو ان کا ایمان کچھ اور بھی مستحکم ہو جاتا ہے۔ اس محکمہ کے سوائے کسی اور محکمہ کے عہدیدار اس حقیقت کو نہیں مانتے کہ قدرت جو چاہتی ہے وہی ہو کر رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محکمہ موسمیات کا عملہ نہایت دین دار ہوتا ہے۔ خدا کی ذات پر اس کے عملہ کو پورا بھروسہ ہوتا ہے اور دنیا کی بے ثباتی کا جتنا گہرا ادراک اسے ہوتا ہے کسی اور کو نہیں ہوتا۔ جب کہ حکومت کے دوسرے محکموں میں کام کرنے والے بعض عہدیدار تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو خود کو خدا سمجھ بیٹھتے ہیں۔ ان کے کروفر کو دیکھ کر عام آدمی کو یہ غلط فہمی ہو جاتی ہے کہ دنیا ان ہی کے حکم سے چل رہی ہے۔ جب کہ محکمہ موسمیات کے عہدیدار ایک گوشہ میں بیٹھے یاد الٰہی میں مصروف رہتے ہیں اور اپنے اختیارات کا کبھی ناجائز فائدہ نہیں اٹھاتے۔ مراسلہ نگار سے ہمیں ایک شکایت اور بھی ہے۔ جب اسے پتہ ہے کہ محکمہ موسمیات اور قدرت کے درمیان نہایت شدید اختلافات ہیں اور ان دونوں کی آپس میں کبھی نہیں بنتی تو مراسلہ نگار کو ان دونوں کے اختلافات سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ ہماری تو روایت یہ رہی ہے کہ دو فریقوں کے درمیان آپس میں اختلافات ہیں تو ان سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے۔ انگریزوں کو دیکھئے کہ انہوں نے کس طرح ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے تین سو برس سے زیادہ عرصہ تک اس ملک میں اپنی بالادستی برقرار رکھی۔ آپ تو جانتے ہیں کہ دو بلیاں جب روٹی کی تقسیم کے مسئلہ پر لڑ جھگڑ کر تصفیہ کے لئے بندر کے پاس جاتی ہیں تو فائدہ بلیوں کا نہیں بلکہ بندر کا ہوتا ہے۔ مراسلہ نگار کو بھی اس معاملہ میں بندر بن جانا چاہئے۔

ہمیں دیکھئے کہ محکمہ موسمیات اور قدرت کے درمیان پائی جانے والی ازلی دشمنی سے ہم کتنا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کسی دن محکمہ موسمیات جب پیش قیاسی کرتا ہے کہ موسلادھار بارش ہو گی تو ہم اس دن رین کوٹ اور چھتری وغیرہ لے کر نہیں جاتے اور جب محکمہ موسمیات موسم کے خشک رہنے کی پیش قیاسی کرتا ہے تو ہم اپنے ساتھ نہ صرف چھتری اور رین کوٹ رکھتے ہیں بلکہ اکثر اوقات تو حفظ ماتقدم کے طور پر گھر سے باہر ہی نہیں نکلتے اور نہایت مزے میں رہتے ہیں۔ مراسلہ نگار بھی اگر ہمارے اصول پر عمل کرنے لگے تو اسے محکمہ موسمیات کے خلاف مراسلہ شائع کرنے اور نزلہ زکام اور کھانسی بخار میں مبتلا ہونے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔ عقلمند کو اشارہ کافی ہوتا ہے بشرطیکہ آدمی واقعی عقلمند ہو۔ البتہ مراسلہ نگار کی اس رائے سے ہم متفق ہیں کہ دوردرشن جب موسم کا حال نشر کرے تو نیوز ریڈر کو موسم کا حال نشر کرنے سے پہلے اسٹوڈیو کی کھڑکی کھول کر ضرور دیکھ لینا چاہئے کہ باہر بارش ہو رہی یا موسم خشک ہے۔ ہم نے دوردرشن کے ایک اعلی عہدیدار کے سامنے یہ تجویز بھی رکھی تھی کہ موسم کا حال نشر کرنے والے نیوز ریڈر کو اصولاً اس ٹاور کے اوپر بٹھایا جانا چاہئے جہاں سے ٹیلی ویژن نشریات کو پھیلانے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ یہ ممکن نہ ہو تو پھر اسے قطب مینار کی اوپری منزل پر بٹھایا جائے۔ اس طرح نیوز ریڈر آسمان اور موسم دونوں سے حتی الامکان قریب رہے گا اور اسے موسم کا حال نشر کرنے میں سہولت رہے گی۔ لیکن ہماری تجویز یہ کہہ کر مسترد کر دی گئی کہ خبروں کو اسٹوڈیو کے سوائے کسی اور جگہ سے نشر نہیں کیا جا سکتا۔ اچھی اور سچی تجویزوں کو یوں بھی کون مانتا ہے۔ ہمیں مراسلہ نگار کی اس تجویز سے بھی سخت اختلاف ہے جس میں اس نے سرے سے محکمہ موسمیات کو ہی برخاست کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ بھیّا! غصہ میں ایسی باتیں اچھی نہیں لگتیں۔ خدا کے فضل سے اس ملک میں سرکار کا ایک ہی محکمہ تو ایسا ہے جہاں دیانتداری اور ایمانداری پر سچے دل سے عمل کیا جاتا ہے۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ اگر اس محکمہ کو چھوڑ کر حکومت کے سارے محکموں کو برخاست کر دیا جائے تو اس ملک میں دائمی امن و سکون قائم ہو سکتا ہے۔ عوام کی ساری پریشانیوں کا اصل سبب ہی یہ ہے کہ اس ملک میں کئی محکمے قائم ہیں۔ اگر یہ نہ ہوں تو عوام کے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔ محکمہ پولیس کو ہی لیجئے۔ یہ محکمہ ابتداء میں اس لئے قائم کیا گیا تھا کہ اس سے ملک میں امن و امان قائم ہو گا۔ لیکن اب اس محکمہ کی سرپرستی میں کئی غنڈے، بدمعاش اور مجرم پروان چڑھ رہے ہیں اور روز افزوں ترقی کر رہے ہیں۔ عام آدمی حوالات میں بند رہتا ہے اور مجرم کھلے بندوں سماج میں دندناتے پھرتے رہتے ہیں۔ آپ اس محکمہ کو برخاست کرنے کے بارے میں کیوں تجویز پیش نہیں کرتے۔

ہمارے ہاں انسداد رشوت ستانی کا بھی ایک محکمہ قائم ہے جس میں سب سے زیادہ رشوت چلتی ہے۔ یہ محکمہ رشوت ستانی کا انسداد نہیں کرتا بلکہ اسے ’’فروغ‘‘ دیتا ہے۔ اس لئے ہم نے بہت عرصہ پہلے اس محکمہ کے بارے میں ایک جائز تجویز رکھی تھی کہ اس محکمہ کو برخاست کر کے اس کی جگہ ’’فروغ رشوت ستانی‘‘ کا ایک الگ محکمہ قائم کیا جائے جس کے ذمہ یہ کام ہو کہ مختلف محکموں میں مختلف کاموں کے سلسلہ میں لی جانے والی رشوت کی شرح مقرر کرے۔ ٹیلی فون خراب ہو جائے تو لائن میں کو کتنی رشوت دی جائے، راشن کی دکان، گیس کی ایجنسی اور پٹرول پمپ کا پرمٹ حاصل کرنے کی رشوت کیا ہو گی۔ اگر ایک بار مختلف کاموں کے لئے رشوت کے نرخ مقرر ہو جائیں تو اہل غرض کو بے پناہ سہولت حاصل ہو گی۔ اکثر اوقات رشوت کے نرخ طئے نہ ہونے کی وجہ سے عوام کو بڑی پریشانی ہوتی ہے۔ ایک عہدیدار ایک کام کے دس ہزار روپئے لیتا ہے تو دوسرا عہدیدار اسی کام کے صرف دس روپئے لیتا ہے۔ رشوت کے نرخ میں اتنا بھاری فرق تو نہیں ہونا چاہئے۔ اس لئے اگر اس ملک میں ’’رشوت ستانی‘‘ کو قانونی حیثیت دے دی جائے اور رشوت کے نرخ مقرر کر دیئے جائیں تو عوام اطمینان اور چین کی زندگی جی سکیں گے۔ اگر کوئی شخص غصہ کی حالت میں صرف محکمہ موسمیات کو برخاست کرنے کی تجویز پیش کرتا ہے تو ہم اس کے خلاف ہیں۔

بھیّا! ہم تو پورے ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ حکومت کے سارے ہی محکموں کو برخاست کرنے کے حامی ہیں۔ البتہ محکمہ موسمیات کو برقرار رکھنے کے اس لئے قائل ہیں کہ ہمارے ہاں کوئی محکمہ تو ایسا باقی رہے جہاں رشوت کا چلن نہ ہو۔ مشکل یہ ہے کہ لوگ ہماری باتوں کو مذاق میں ٹال دیتے ہیں حالانکہ ہم پتے کی باتیں کہتے ہیں، جن پر اگر حکومت سنجیدگی سے عمل کرے تو اس کا بھی بھلا ہو گا اور ہم جیسے عوام کا بھی بھلا ہو گا۔

٭٭٭

 

 

 

ماخذ:

http://urdu.siasat.com

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل