FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

               شراب کی حقیقت اور شراب پینے والے کے بارے میں وعید کا بیان

 

اس باب میں ایک تو خمر یعنی شراب کی حقیقت کو بیان کیا جائے گا کہ خمر کس کو کہتے ہیں۔ دوسری چیز یہ بیان ہو گی کہ شراب پینے والے کے بارے میں کس چیز کا خوف ہے اور اس کے حق میں کیا کیا وعیدیں منقول ہیں۔

 

                   خمر کسے کہتے ہیں؟

 

قاموس میں لکھا ہے کہ خمر اس چیز کو کہتے ہیں جس کے استعمال (یعنی جس کو پینے) سے نشہ و مستی پیدا ہو جائے۔ اور وہ انگور کے شیرے کی صورت میں ہو یا عام کہ وہ انگور کا شیرہ ہو یا کسی چیز کا عرق و کاڑھا وغیرہ ہو، زیادہ صحیح یہی ہے کہ اس کا عام مفہوم مراد لیا جائے) یعنی نشہ لانے والی چیز خواہ وہ انگور کا شیرہ ہو یا کسی دوسری چیز کا شیرہ وغیرہ کیونکہ شراب مدینہ میں حرام ہوئی ہے اور اس زمانہ میں انگور کی شراب کا کوئی وجود نہیں تھا بلکہ وہ کھجور سے بنائی جاتی تھی خمر کیوجہ تسمیہ یہ ہے کہ لغت میں  خمر  کے معنی ہیں  ڈھانپنا  چھپانا ، خلط کرنا  اور چونکہ شراب انسان کی عقل کو ڈھانپ دیتی ہے اور اس کے فہم وشعور کی قوتوں کو خلط و خبط کر دیتی ہے اس لئے اس کو  خمر  کہا گیا۔

 

نشہ آور چیزوں کی قسمیں

 

جو چیزیں نشہ پیدا کرتی ہیں ان کی کئی قسمیں ہیں۔ ایک قسم تو شراب کی ہے جو انگور سے اس طرح بنتی ہے کہ انگور کا عرق نکال کر کسی برتن میں رکھ دیتے ہیں ، کچھ دنوں کے بعد وہ گاڑھا ہو جاتا ہے اور اس میں ابال پیدا ہو جاتی ہے اور اس طرح وہ نشہ آور ہو جاتا ہے ، صحیح تر اور مختار قول کے مطابق اس میں جھاگ کا پیدا ہونا شرط نہیں ہے اس کو عربی میں  خمر  کہتے ہیں۔

دوسری قسم یہ کہ انگور کے عرق کو قدرے جوش دے کر رکھ دیتے ہیں اس کو عربی میں  باذق  اور فارسی میں  بادہ  کہتے ہیں اور انگور کا وہ عرق جس کو اتنا پکایا جاتا ہے کہ اس کا چوتھائی حصہ جل کر صرف تین چوتھائی حصہ رہ جاتا ہے۔ طلا  کہلاتا ہے۔

تیسری قسم  نقیع التمر  ہے جس کو سکر  بھی کہتے ہیں یعنی تر خرما کا وہ شربت جو گاڑھا ہو جائے اور اس میں جھاگ پیدا ہو جائے ،

چوتھی قسم  نقیع الزبیب  ہے یعنی منقیٰ اور کشمش وغیرہ کا وہ شربت جس میں ابال اور جھاگ پیدا ہو جائے۔

ان چاروں قسموں میں سے پہلی قسم تو بلا کسی قید کے حرام ہے اور باقی تین قسمیں اس صورت میں بہ اتفاق حرام ہیں جب کہ ان کو جوش دے کر رکھ دیا جائے اور ان میں گاڑھا پن آ جائے کیونکہ اس صورت میں ان چیزوں میں نشہ پیدا ہو جاتا ہے ہاں اگر ان میں مذکورہ چیزیں نہ پائی جائے تو ان کو حرام نہیں کہیں گے مثلاً کچھ دیر کے لئے پانی میں خرما بھگو کر رکھ دیا جائے یہاں تک کہ وہ پانی شربت کی طرح ہو جائے اور اس میں کسی قسم کا کوئی تغیر واقع نہ ہو تو اس کا پینا درست ہو گا۔

ان کے علاوہ پینے کے چار مشروب اور ہیں جن کا پینا امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک حلال ہے بشرطیکہ ان کو معمولی طور پر اس طرح جوش دیا گیا ان میں نشہ پیدا نہ ہوا ہو اور اگر ان میں نشہ پیدا ہو گیا ہو تو یہ قسمیں بھی حرام ہوں گی ، اسی طرح اگر ان کو جوش دئیے بغیر کافی عرصہ کے لئے رکھ دیا گیا ان میں جھاگ پیدا ہو گیا تب بھی ان کا پینا حرام ہو گا ، ان چاروں میں سے ایک قسم تو نبیذ  ہے یعنی وہ مشروب جو خرما سے بنایا گیا ہو اور اس کو اس قدر جوش دیا گیا ہو ، اگر اس میں گاڑھا پن بھی آگیا ہو تو اس کا پینا جائز ہے۔

دوسری قسم  خلیط  ہے یعنی وہ شربت جو خرما اور منقیٰ کو قدرے جوش دے کر ان سے نکالا گیا ہو۔

تیسری قسم : وہ نبیذ ہے جو شہد ، گیہوں ،جو اور جوار وغیرہ کو پانی میں قدرے جوش دے کر مشروب کی صورت میں بنائی گئی ہو۔

اور چوتھی قسم مثلث یمنی ہے اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ انگور کے عرق کو اتنا پکایا جاتا ہے کہ اس کا وہ حصہ خشک ہو جاتا ہے اور ایک حصہ شراب کی شکل میں باقی رہ جاتا ہے۔

ان چاروں چیزوں کے بارے میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص ان کو عبادت کے لئے طاقت حاصل کرنے کی غرض سے پئے تو جائز ہے اور اگر لہو و لعب کے طور پر اور جنسی لذت کے لئے پئے تو حرام ہے لیکن حضرت امام محمد کے نزدیک عبادت کے لئے طاقت حاصل کرنے کی غرض سے بھی ان کا پینا حرام ہے۔چنانچہ حنفی مسلک میں اہل تحقیق کا فتویٰ حضرت امام محمد ہی کے قول پر ہے۔

جیسا کہ یمنی شرح کنز میں لکھا ہے کہ  حضرت امام مالک ، حضرت امام شافعی ، حضرت امام احمد اور حنیفہ میں سے حضرت امام محمد کا قول یہ ہے کہ جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ آور ہو اور بدمست بنا دیتی ہو اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے خواہ کسی طرح کا نشہ ہو کیونکہ ابن ماجہ اور دارقطنی کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو چیز نشہ آور ہو وہ شراب ہے اور ساری نشہ آور چیزیں حرام ہیں ، لہٰذا حنفیہ مسلک میں فتویٰ امام محمد کے قول پر ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ ہر نشہ آور چیز  شراب  ہے اور حرام ہے خواہ وہ  مشروب  کی صورت میں ہو اور انگور یا کھجور یا منقیٰ یا شہد سے بنے یا گیہوں ، جو، باجرہ یا جوار سے بنے اور خواہ وہ کسی درخت کا عرق ہو جیسے تاڑی وغیرہ یا کوئی گھاس ہو بھنگ وغیرہ اسی طرح وہ ہر مقدار میں حرام ہے خواہ تھوڑی ہو یا بہت ہو ، نیز اگر کوئی شخص نشہ کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دے تو مفتی بہ قول کے مطابق اس کی طلاق واقع ہو جائے خواہ شراب کا نشہ ہو یا نبیذ وغیرہ کا۔

جیسا کہ اوپر بتایا گیا حضرت امام مالک، حضرت امام شافعی، حضرت امام احمد بن حنبل ، اور حنفیہ میں سے حضرت امام محمد نیز محدثین کرام کا مسلک یہ ہے کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے خواہ تھوڑی ہو یا بہت ہو ، اور اگرچہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک وہ مشروب نجس و حرام اور شراب کے حکم میں ہے جب میں ابال ، گاڑھا اور جھاگ پیدا ہو گیا ہو ، اس کے علاوہ اور چیزیں جب تک کہ ان میں نشہ نہ ہو حرام نہیں ہے۔ لیکن حنفی مسلک کے احتیاط پسند مصنفین کے ہاں فتویٰ حضرت امام محمد ہی کے قول پر ہے جیسا کہ نہایہ ،عینی ،دیلمی ، درمختار ، الاشباہ والنظائر ، فتاوٰی عالمگیری ، فتاویٰ حمادیہ اور شرح مواہب الرحمن میں مذکور ہے بلکہ شرح وہبانیہ وغیرہ میں تو حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا قول بھی حضرت امام محمد کے مطابق ہی منقول ہے اس صورت میں یہ مسئلہ تمام ائمہ و مجتہدین کا متفقہ ہو جاتا ہے ، چنانچہ حضرت مولانا عبد العلی لکھنوی نے ایک استفتاء کے جواب میں تاڑی اور نان پاؤ (ایک قسم کی خمیری روٹی) کی حرمت کو ظاہر کرتے ہوئے اس مسئلہ پر بڑی تحقیق و تفصیل اور وضاحت کے ساتھ لکھا ہے اور تیس چالیس حنفی و شافعی علماء نے اپنی تصدیق کی مہریں ثبت کی ہیں۔

نشہ آور چیزوں میں ایک قسم کی بھنگ نشہ لانے والی گھاس اور جڑی بوٹیاں اور افیون ہیں کہ ان کو کھانا پینا بھی حرام ہے کیونکہ یہ چیزیں بھی انسان کی عقل کو تباہ کرتی ہیں اور ذکر اللہ و نماز وغیرہ سے باز رکھتی ہیں۔ علماء نے لکھا ہے کہ جو شخص بھنگ وغیرہ کو حلال جانے وہ زندیق و بدعتی ہے ، بلکہ فقیہ نجم الدین زاہدی نے تو ایسے شخص پر کفر کا حکم لگایا ہے اور اس کو قتل کر دینا مباح جانا ہے۔

اسی طرح تمباکو بھی حرام ہے جیسا کہ در مختار میں لکھا ہے اور حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے حقہ نوشی کو مکروہ تنزیہی کہا ہے کیونکہ حقہ پینے والے کے منہ سے پیاز و لہسن کے مانند بدبو ہی نہیں بلکہ اس میں ایک طرح سے دوزخیوں کی مشابہت بھی ہے۔ کہ جس طرح دوزخیوں کو منہ سے دھواں نکلے گا اسی طرح حقہ پینے والے کے منہ سے بھی دھواں نکلتا ہے ، علاوہ ازیں حقہ نوشی ایک ایسی عادت ہے جس کو سلیم طبع ، مکروہ جانتی ہے اور حقہ پینے سے بدن میں بہت زیادہ سستی پیدا ہو جاتی ہے اور بعضوں پر غشی بھی طاری ہوتی ہے اور یہ چیز  مفتر  میں داخل ہے اور ایک روایت کے مطابق جس کو حضرت امام احمد وغیرہ نے نقل کیا ہے۔

جو چیز مفتر یعنی سستی پیدا کرنے والی ہو وہ حرام ہے۔صاحب صراح اور صحاح نے  مفتر  کے معنی سستی پیدا کرنے والا  لکھا ہے اور حضرت امام ابو القاسم حسین ابن محمد ابن مفضل راغب نے اپنی کتاب  مفردات القرآن  میں  فتر  اور فتور  کے معنی یہ لکھے ہیں کہ  تیزی کے بعد تھم جانا ،شدت (چشتی) کے بعد نرم (صحت کے کمزور ہو جانا  چنانچہ یہ معنی حقہ پینے والے پر صادق آتے ہیں۔ جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ مفتر کے معنی میں  بدن کا گرم ہو جانا  بھی داخل ہے تو یہ شاذ معنی ہے جو اکثر علماء لغت کی تحقیق کے خلاف ہے یا اس سے  اندر کی گرمی  مراد ہے۔ بہر حال حقہ نوشی حق تعالیٰ کی رضا و خوشنودی سے بعید ہے کیونکہ حقہ ، مسواک کی سنت کے منافی ہے بایں وجہ کہ مسواک منہ کو بدبو سے پاک کرتی ہے جب حقہ منہ کو بدبودار بناتا ہے اور مسواک کے بارے میں یہ حدیث صحاح وغیرہ میں منقول ہے کہ

(السواک مطہرۃ للفم ومرضات للرب

مسواک منہ کی صفائی و پاکیزگی کا ذریعہ اور حق تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا سبب ہے۔

 

                   شراب کن چیزوں سے بنتی ہے

 

حضرت ابوہریرہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  شراب ان دو درختوں یعنی انگور اور کھجور سے بنتی ہے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

مراد یہ ہے کہ اکثر انہی دو چیزوں سے شراب بنتی ہے ، گویا یہاں حصر یعنی یہ ظاہر کرنا مراد نہیں ہے کہ شراب بس انہی دو چیزوں سے بنتی ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد ہے کہ کل مسکر خمر ، یعنی ہر نشہ آور چیز شراب ہے چنانچہ اس ارشاد میں جو عمومیت ہے اس سے بھی یہی واضح ہوتا ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ (ایک دن) حضرت عمر فاروق نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے منبر پر (کھڑے ہو کر) خطبہ دیا ارشاد فرمایا کہ  شراب کی حرمت نازل ہو گئی ہے اور شراب پانچ چیزوں سے بنتی ہے یعنی انگور سے ، کھجور سے ، گیہوں سے ، جو سے ، اور شہد سے ، اور شراب وہ ہے جو عقل کو ڈھانپ لے۔ (بخاری)

 

تشریح

 

علماء نے وضاحت کی ہے کہ حضرت عمر نے  اور شراب وہ ہے جو عقل کو ڈھانپ لے۔ کے ذریعہ اس طرف اشارہ کیا کہ شراب کا انحصار انہی پانچ چیزوں میں نہیں ہے بلکہ ان کے علاوہ کسی بھی چیز سے بنا ہوا ہر وہ مشروب ،شراب ہے جس میں نشہ ہو اور اس کے پینے سے عقل و شعور پر پردہ پڑ جاتا ہو۔

 

                   پہلے زیادہ تر کھجور سے شراب بنتی تھی

 

اور حضرت انس کہتے ہیں کہ جب شراب کی حرمت نازل ہوئی تو اس وقت اس کی حرمت (نافذ) ہو گئی تھی اور (اس وقت) ہمیں انگور کی شراب کم ملتی تھی ہماری شراب زیادہ تر کچی کھجور اور خشک کھجور سے بنتی تھی۔ (بخاری)

 

تشریح

 

کھجور کے درخت پر پہلے جو شگوفہ لگتا ہے اس کو عربی میں  طلع  کہتے ہیں اور وہ کھجور کی ابتدائی حالت ہوتی ہے پھر اس کے بعد  خلال  پھر  بسر پھر (رطب) اور پھر خشک ہو جانے کے بعد اس کی آخری شکل  تمر ہوتی ہے۔

 

 

                   ہر نشہ آور مشروب حرام ہے

 

اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے بتع یعنی شہد کی نبیذ کے بارے میں پوچھا گیا (کہ آیا اس کا پینا جائز ہے یا نہیں؟) تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  وہ مشروب جو نشہ لائے ، حرام ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

اس حدیث میں تو  بتع  کو با کے زیر اور تا کے جزم کے ساتھ یعنی  بتع  نقل کیا گیا ہے جب کہ یہ بعض جگہ تا کے زیر کے ساتھ منقول ہے  شہد کی نبیذ اس شہد کو کہتے ہیں جس کو کسی برتن میں ڈال کر رکھ چھوڑا جائے تاکہ کھجور کی نبیذ کی طرح اس میں ایک خاص قسم کی تیزی پیدا ہو جائے ، چنانچہ اس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر شہد کی نبیذ بھی نشہ لائے تو وہ بھی حرام ہے اور تمر کی نبیذ کا بھی یہی حکم ہے کہا جاتا ہے کہ اہل یمن کی شراب یہی بتع ہوتی ہے۔

 

                    جو شخص اس دنیا میں شراب پئے گا وہ شراب طہور سے محروم رہے گا

 

اور حضرت ابن عمر راوی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو چیز نشہ لائے وہ شراب ہے اور جو چیز نشہ لانے والی ہے وہ حرام ہے (خواہ مقدار میں تھوڑی ہو یا زیادہ ہو) اور جو شخص دنیا میں شراب پئے گا وہ ہمیشہ پیتا رہے یہاں تک کہ بغیر توبہ کئے مر جائے گا تو اس کو آخرت میں شراب پینا نصیب نہ ہو گا۔ (مسلم)

 

 

تشریح

 

اس کو آخرت میں شراب پینا نصیب نہ ہو گا  سے مراد یا تو اس شخص کی حالت کو بیان کرنا ہے جو شراب کو حلال جانتے ہوئے ہمیشہ پیتا تھا۔ یا یہ ارشاد زجر و توبیخ اور شراب پینے کی شدید ممانعت پر محمول ہے ، اور یا یہ مراد ہے کہ اس شخص کو آخرت میں ان لوگوں کے ساتھ شراب طہور پینا نصیب نہیں ہو گا جو نجات یافتہ اور جنت میں پہلے داخل ہونے والوں میں ہوں گے۔

 

                   شرابی کے بارے میں وعید

 

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ یمن کا ایک شخص (دربار نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے جوار کی شراب کے بارے میں پوچھا جو یمن میں پی جاتی تھی اور جس کو  مزر  کہا جاتا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے دریافت فرمایا کہ  کیا وہ نشہ لاتی ہے؟  اس نے کہا کہ  ہاں  آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  نشہ لانے والی ہر چیز حرام ہے اور (یاد رکھو) کہ اللہ تعالیٰ کا یہ عہد ہے کہ جو شخص نشہ لانے والی کوئی بھی چیز پئے گا وہ اس کو طینہ الخبال  پلائے گا۔ صحابہ نے عرض کیا کہ  یا رسول اللہ !طینۃ الخبال کیا ہے؟  آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  خبال  دوزخیوں کا پسینہ ہے۔ یا فرمایا کہ۔خبال وہ پیپ اور لہو ہے جو دوزخیوں کے زخموں سے بہتا ہے۔ (مسلم)

 

                   نبیذ کے بارے میں ایک حکم

 

اور حضرت ابو قتادہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے خشک کھجور اور کچی کھجور کو ملا کر نبیذ بنانے سے منع فرمایا ہے ، خشک کھجور اور خشک کو ملا کر نبیذ بنانے سے منع فرمایا ہے کہ کچی کھجور اور تر کھجور کو ملا کر نبیذ بنانے سے منع فرمایا ہے کہ (اگر نبیذ بنانا ہی ہو تو) ان میں سے ہر ایک کی الگ الگ نبیذ بناؤ۔ (مسلم)

 

 

تشریح

 

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے دو پھلوں کو ملا کر بھگونے (یعنی ان کا نبیذ بنانے) سے منع فرمایا اور الگ الگ کر کے بھگونے (اور اس کی نبیذ بنانے) کو جائز رکھا ہے اس میں حکمت یہ ہے کہ جب دو مختلف طرح کے پھل ایک ساتھ بھگوئے جائیں گے تو ایک پر پانی جلد اثر کرے گا۔ اور دوسرے پر دیر سے ، نتیجہ یہ ہو گا جو پانی سے جلد تغیر قبول کرے گا اس میں نشہ پیدا ہو جائے گا اور اس کا اثر دوسرے تک پہنچے کا، اس طرح جو نبیذ تیار ہو گی اس میں ایک نشہ آور چیز مخلوط ہو جانے کا قوی امکان ہو گا جس کا امتیاز کرنا ممکن نہیں ہو گا لہٰذا جب اس نیبذ کو پیا جائے گا تو گویا ایک حرام چیز کو پینا لازم آئے گا۔ چنانچہ حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد نے اسی کی بنیاد پر اس حدیث کے ظاہری مفہوم پر عمل کیا ہے اور کہا ہے کہ ایسی نبیذ پینا جو دو پھلوں کو باہم بھگو کر بنائی گئی ہو ، حرام ہے خواہ اس میں نشہ ہو یا نشہ نہ ہو لیکن جمہور علماء یہ فرماتے ہیں کہ ایسی نبیذ کا پینا اسی صورت میں حرام ہو گا جب کہ وہ نشہ آور ہو۔

 

                   شراب کا سرکہ بنا کر اس کو کھانے پینے کے کام میں لانا جائز ہے

 

اور حضرت انس راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ اگر شراب (میں نمک و پیاز وغیرہ ڈال کر اس) کا سرکہ بنا لیا جائے تو وہ حلال ہے یا نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  نہیں  (مسلم)

 

تشریح

 

حنیفہ کہتے کہ اگر شراب ، سرکہ میں تبدیل ہو جائے تو اس کو کھانے پینے کے مصرف میں لانا جائز ہو گا خواہ شراب میں کوئی چیز ڈال کر اس کا سرکہ بنا لیا گیا ہو یا اس میں کوئی چیز ڈالے بغیر مثلاً زیادہ دن رکھے رہنے یا دھوپ میں رکھ دینے کی وجہ سے خود بخود اس کا سرکہ بن گیا ہو۔ حضرت امام شافعی یہ فرماتے ہیں کہ اگر شراب میں کوئی چیز ڈال کر اس کا سرکہ بنایا تو وہ حلال نہیں ہے۔ اور اگر کچھ ڈالے بغیر مثلاً دھوپ میں رکھ دینے کی وجہ سے اس کا سرکہ بن گیا ہو تو اس کے بارے میں ان کے دو قول ہیں جس میں سے صحیح قول یہ ہے کہ وہ شراب ، شراب نہیں رہے گی بلکہ اس میں پاکی آ جائے گی اور اس کو کھانے پینے کے کام میں لانا جائز ہو گا۔

حنفیہ کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اول تو بلا کسی قید کے یہ فرمایا ہے کہ حدیث (نعم الادام الخل) (بہترین سالن ، سرکہ ہے) لہٰذا جو چیز بھی سرکہ ہو گی اس کا استعمال حلال ہو گا ، دوسرے جب شراب میں سے وہ بری خاصیت نکل گئی جس کی وجہ سے وہ حرام تھی اور اس میں اچھی خاصیت پیدا ہو گئی تو اب وہ ایک مباح چیز کے درجہ میں آ گئی لہٰذا اس کا کھانا پینا حلال ہو گا جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں حنفیہ کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو حلال اس لئے نہیں فرمایا تھا کہ اس وقت شراب کی حرمت نازل ہوئے تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا اور لوگوں نے بڑی طویل عادت کو ترک کر کے شراب سے منہ موڑا تھا ، اور یہ ایک فطری بات ہے کہ انسان جس کو ایک طویل عادت کے بعد چھوڑتا ہے اس کی طرف اس کی طبیعت اور خواہش کا میلان کافی عرصہ تک رہتا ہے ، لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس وقت شیطان کی مداخلت سے خوف محسوس فرما کر کہ مبادا شیطان لعین کو اپنا حربہ آزمانے کا موقع مل جائے اور اس کے نتیجہ میں لوگ اس چیز کو شراب پینے کا وسیلہ بنا لیں، آپ نے اس کو حلال نہیں فرمایا لیکن شراب کی حرمت پر طویل عرصہ گذر جانے اور شراب کی طرف لوگوں کے میلان کے ہلکے سے بھی شائبے کی جڑیں تک اکھڑ جانے کے بعد جب اس قسم کا کوئی خوف نہ رہا اور اس طرح وہ  مصلحت  ختم ہو گئی جس کی بناء اس کو حلال نہ فرمایا گیا تھا تو وہ حرمت زائل ہو گئی اور پھر شراب سے بنے ہوئے سرکہ کو استعمال کرنا بھی حلال ہو گیا۔علاوہ ازیں صاحب ہدایہ نے ایک روایت بھی نقل کی ہے جس کو بیہقی نے اپنی کتاب معرفت میں حضرت جابر سے بطریق مرفوع نقل کیا ہے کہ

حدیث (خیر خلکم خل خمرکم)۔ (بیہقی)

یعنی تمہارے سرکوں میں بہترین سرکہ وہ ہے۔ جو شراب سے بنا ہو۔

 

                   شراب کو دوا کے طور پر بھی استعمال کرنا جائز نہیں ہے

 

اور حضرت وائل حضرمی روایت کرتے ہیں کہ طارق ابن سوید نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے شراب نوشی کے بارے میں پوچھا تو آپ نے ان کو منع فرمایا ، پھر طارق نے کہا کہ ہم تو شراب کو دوا کے طور پر استعمال کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  وہ دوا نہیں ہے بلکہ (خود ایک) بیماری ہے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

اکثر علماء نے شراب کو دوا کے طور پر بھی استعمال کرنے سے منع کیا ہے جب کہ بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اگر حاذق طبیب و معالج کے کہنے کے مطابق شراب ہی کسی مرض کا واحد علاج ہو یعنی معالج یہ کہے کہ اس مرض کی بس شراب ہی دوا ہے اور کوئی دوا نہیں ہے تو اس صورت میں اس کا استعمال مباح ہو گا ، اسی طرح اگر حلق میں کوئی لقمہ وغیرہ اٹک اور اس کی وجہ سے جان کی ہلاکت کا خوف ہو نیز اس وقت پانی یا ایسی اور کوئی چیز موجود نہ ہو جس سے وہ لقمہ وغیرہ حلق سے اتر جائے تو اس صورت میں تمام علماء کا متفقہ فیصلہ یہ ہے کہ صرف اتنی شراب پی لینا حلال ہے جس سے وہ لقمہ وغیرہ حلق سے نیچے چلا جائے۔

 

                   کسی حرام چیز میں اللہ نے شفا نہیں رکھی ہے

 

پچھلے باب کے ابتدا میں بتایا گیا تھا کہ شراب کی حرمت دفعۃً نازل ہونے کی بجائے بتدریج نازل ہوئی ہے ، چنانچہ اس سلسلہ میں جو پہلی آیت نازل ہوئی ہے وہ بھی اس موقع پر نقل کی گئی ہے اس آیت میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ (ومنافع للناس) یعنی اس شراب میں لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں۔ وہ فائدے کیا ہیں ، اس بارے میں مفسرین نے بہت کچھ لکھا ہے لیکن بعض مفسرین نے وضاحت کی ہے کہ  فائدے  سے مراد انسانی بدن کی صحت ہے کہ شراب نسان کی جسم کو کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہے یا اس کے ذریعہ کسی مرض سے نجات مل سکتی ہے۔ اس ضمن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد گرامی بھی ملحوظ رہنا چاہئے کہ  اللہ تعالیٰ نے کسی حرام چیز میں شفا نہیں رکھی ہے۔

 

                   شراب نوشی کا وبال

 

حضرت عبداللہ ابن عمرو راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص (پہلی مرتبہ) شراب پیتا ہے (اور توبہ نہیں کرتا) تو اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں کرتا ، پھر اگر وہ (خلوص دل سے) توبہ کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے ، پھر اگر وہ (دوسری مرتبہ) شراب پیتا ہے تو اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں کرتا اور پھر اگر وہ توبہ کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے پھر اگر وہ (تیسری مرتبہ) شراب پیتا ہے تو اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں کرتا اور پھر اگر وہ توبہ کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ چوتھی مرتبہ شراب پیتا ہے تو اللہ تعالیٰ (نہ صرف یہ کہ) چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں کرتا (بلکہ) اگر وہ توبہ کرتا ہے تو اس کی توبہ (بھی) قبول نہیں کرتا اور (آخرت میں) اس کو دوزخیوں کی پیپ اور لہو کی نہر سے پلائے گا۔ (ترمذی، نسائی ، ابن ماجہ ، اور دارمی نے اس روایت کو عبداللہ ابن عمرو سے نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

اس کی نماز قبول نہیں کرتا  کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کو اپنی نماز کا ثواب نہیں ملتا اگرچہ وقت پر نماز کی ادائیگی کا فرض اس پر سے ساقط ہو جاتا ہے۔ یہاں خاص طور پر نماز کو ذکر کرنے کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ جب نماز جیسی عبادت قبول نہیں ہوتی جو تمام بدنی عبادتوں میں سب سے افضل ہے تو دوسری عبادتیں بطریق اولیٰ قبول نہیں ہوں گی نیز  چالیس دن  کی تعداد شائد اس لئے لگائی گئی ہے کہ شراب پینے والے کے باطن میں شراب کا اثر مختلف نوعیتوں سے اتنی ہی مدت تک رہتا ہے۔

یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمانا کہ چوتھی مرتبہ میں قبول نہیں کی جاتی دراصل زجر و تشدید اور سخت تنبیہ پر محمول ہے کیونکہ ایک جگہ یہ فرمایا گیا ہے کہ  جس شخص نے گناہ سے توبہ کی اور نادم ہوا اور اللہ تعالیٰ سے بخشش کی امید رکھی تو اس نے اصرار نہیں کیا (یعنی ایسے شخص کو  مصر  نہیں کہہ سکتے اور اس کی توبہ قبول ہو گی) اگرچہ ایک ہی دن میں وہی گناہ ستر بار کرے  یا یہ مراد ہے کہ جو شخص بار بار شراب پیتا ہے تو اس ام الخبائث کے ارتکاب کی نحوست کی وجہ سے اس کو حقیقی توبہ کی توفیق عطا نہیں ہوتی اور آخرکار وہ  مصر  مر جاتا ہے۔

 

                   نشہ آور چیز کی قلیل مقدار بھی حرام ہے

 

اور حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو چیز نشہ لاتی ہو اس کی قلیل ترین مقدار بھی حرام ہے۔  (ترمذی ، ابو داؤد، ابن ماجہ ،)

 

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ اگر مثلاً شراب کی کوئی ایسی قسم ہے جس کی زیادہ مقدار نشہ لاتی ہے ، کم مقدار نشہ نہیں لاتی تو یہ نہیں ہے کہ اس کو کم مقدار میں پینا جائز ہو گا بلکہ اس کی کم مقدار بھی حرام ہو گی کیونکہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ پہلے جس چیز کی کم مقدار کو اختیار کرتا ہے وہی کم مقدار اس کو زیادہ مقدار تک پہنچا دیتی ہے لہٰذا اس کم مقدار سے بھی اجتناب کرنا ضروری ہو گا۔

 

                   مسکر چیز کا ایک چلو بھی حرام ہے

 

اور حضرت عائشہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جس چیز (مثلاً شراب) کا ایک  فرق  (یعنی آٹھ سیر کی مقدار) نشہ لائے اس کا ایک بھرا ہوا چلو بھی حرام ہے۔ (احمد ، ترمذی، ابوداؤد ،)

 

تشریح

 

اس حدیث کا بھی یہی مطلب ہے کہ جس نشہ آور چیز کی زیادہ مقدار حرام ہے۔ اس کی قلیل ترین مقدار بھی حرام ہے۔

 

                   شراب کن چیزوں سے بنتی ہے

 

اور حضرت نعمان ابن بشیر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  گیہوں کی بھی شراب ہوتی ہے ، جو کی بھی شراب ہوتی ہے ، کھجور کی بھی شراب ہوتی ہے ، انگور کی بھی شراب ہوتی ہے اور شہد کی بھی شراب ہوتی ہے۔ (ترمذی ، ابوداؤد ، ابن ماجہ ،) ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

علماء نے لکھا ہے کہ یہاں حصر مراد نہیں ہے کہ بس انہیں چیزوں سے شراب بنتی ہے ، بلکہ ان چیزوں کو خاص طور پر اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ عام طور پر شراب انہی چیزوں سے بنتی ہے۔ اس ارشاد میں اس بات کی دلیل ہے کہ خمر صرف انگوری شراب کو نہیں کہتے جب کہ ابن مالک کہتے ہیں کہ یہاں انگوری شراب کی علاوہ دوسری چیزوں کی شراب کو بھی خمر مجازاً کہا گیا ہے اور اس میں مناسبت یہ ہے کہ ان چیزوں کی شراب (یا نشہ آور نبیذ) بھی انسان کی عقل کو زائل کر دیتی ہے۔

 

                   شراب مال متقوم نہیں ہے

 

اور حضرت ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ ہمارے پاس یتیم کی شراب رکھی ہوئی تھی (یعنی ہمارے گھر میں ایک یتیم رہا کرتا تھا جو ہماری پرورش میں تھا اس کی ملکیت میں جہاں اور بہت سا مال و اسباب تھا وہیں شراب بھی تھی کیونکہ اس زمانہ میں شراب مباح تھی) چنانچہ سورہ مائدہ کی وہ آیت (اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ) 5۔ المائدہ:90) نازل ہوئی (جس میں شراب کی حرمت کا بیان ہے جو باب حد الخمر کے ابتداء میں نقل کی جا چکی ہے) تو میں نے اس یتیم کی شراب کے بارے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا اور عرض کیا کہ وہ ایک یتیم کا مال ہے (اور چونکہ یتیم کا مال ضائع نہیں کرنا چاہئے اس لئے اب کیا حکم ہے) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اس کو پھینک دو۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ارشاد کے ذریعہ واضح فرمایا کہ شراب متقوم مال نہیں ہے نہ صرف یہ کہ اس سے کوئی نفع حاصل کرنا کسی بھی مسلمان کے لئے حلال نہیں ہے بلکہ ہمیں اس کی اہانت کا حکم دیا گیا ہے۔ لہٰذا اس صورت میں اس شراب کو پھینک دینا ہی ضروری ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت انس حضرت ابو طلحہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں (یعنی ابو طلحہ نے) عرض کیا کہ  یا نبی اللہ ! میں نے ان یتیموں کے لئے شراب خریدی تھی جو میری پرورش میں ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  شراب کو پھینک دو اور اس کے برتن کو توڑ ڈالو۔ ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور ضعیف قرار دیا ہے۔

 

تشریح

 

حضرت ابو طلحہ نے شراب کی حرمت نازل ہونے سے پہلے اپنے زیر پرورش یتیموں کے لئے جو شراب خریدی تھی اس کے بارے میں پوچھا کہ اب شراب حرام ہو گئی ہے میں اس شراب کا کیا کروں؟ آیا اس کو پھینک دوں یا رہنے دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو حکم دیا کہ اس کو بہا ڈالو۔ اس کے ساتھ ہی اس کے برتن کو توڑ ڈالنے کا حکم اس لئے دیا کہ شراب کی نجاست اس میں سرایت کر گئی تھی اور اس کا پاک کرنا اب ممکن نہیں رہا تھا۔ یا یہ کہ آپ نے شراب کی ممانعت میں شدت کو ظاہر کرنے کے لئے یہ حکم دیا کہ جس برتن میں وہ شراب رکھی ہے اس کو بھی توڑ ڈالو، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شراب کا سرکہ بنا لینے سے جو منع فرمایا اس کا تعلق بھی یا تو زجر و تنبیہ سے ہے یا یہ ممانعت  نہی تنزیہی  کے طور پر ہے۔

 

                   ہر مسکر و مفتر چیز حرام ہے

 

حضرت ام سلمہ کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر اس چیز (کو کھانے پینے) سے منع فرمایا ہے جو نشہ آور اور مفتر ہو۔ (ابو داؤد)

 

 

تشریح

 

نہایہ میں لکھا ہے کہ  مفتر  اس چیز کو کہتے ہیں جس کو پینے سے قلب و دماغ میں گرمی سرایت کر جائے اور ان اعضاء ریئسہ میں فتور یعنی ضعف و اضمحلال پیدا ہو جائے چنانچہ  افتراء الرجل  کسی شخص کے بارے میں اس وقت کہا جاتا ہے جب کہ اس کی پلکیں کمزور ہو جاتی ہیں اور گوشہ چشم مضمحل ہو جاتا ہے جیسے جو شخص بہت بوڑھا ہو جاتا ہے اس کی پلکیں کمزور ہو جاتی ہیں یا ٹوٹ ٹوٹ کر گرتی رہتی ہیں جس کی وجہ سے آنکھیں چندھیائی سی رہتی ہیں۔

اس ارشاد گرامی سے بیخ (خراسانی اجوائن یا بھنگ) اور دوسری مغیرات اور مفتر چیزوں کی حرمت پر استدلال کی جاتا ہے۔

 

                   شراب نوشی کی کسی حال میں اجازت نہیں ہے

 

اور حضرت دیلم حمیری کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ !ہم لوگ ایک سرد علاقے کے باشندے ہیں جہاں ہمیں سخت محنت کے کام کرنے پڑتے ہیں (اور وہ سخت محنت بہت زیادہ جسمانی مشقت کے متقاضی ہوتی ہے۔ اس لئے ہم لوگ گیہوں سے شراب تیار کرتے ہیں جس کے ذریعہ جس کے ذریعہ ہم اپنی محنت کے لئے طاقت کرتے ہیں اور اس کی قوت سے اپنے علاقے کی سردی پر قابو پاتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  کیا وہ شراب نشہ لاتی ہے؟  میں نے کیا  ہاں  آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  تو پھر اس سے اجتناب کرو۔ میں نے عرض کیا  لوگ اس کو چھوڑنے والے نہیں ہیں  آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اگر لوگ اس کو پینا بند نہ کریں (اور اس کو حلال جانیں) تو ان سے قتال کرو۔ (ابو داؤد)

 

                   شراب اور جوئے کی ممانعت

 

اور حضرت عبداللہ بن عمر روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے شراب پینے اور جوا کھیلنے سے منع فرمایا اور کوبہ اور غبیرا سے منع کیا ہے نیز فرمایا کہ  جو چیز بھی نشہ لائے وہ حرام ہے۔ (ابو داؤد)

 

تشریح

 

قاموس میں لکھا ہے کہ  کوبہ  نرد (ایک کھیل) اور شطرنج کو کہتے ہیں ، اسی طرح طبل یعنی نقارے سے اور برط کو بھی  کوبہ  کہتے ہیں چونکہ یہ ساری ہی چیزیں ممنوع ہیں اس لئے یہاں کوبہ سے جو بھی چیز مراد لی جائے صحیح ہے۔  غبیرا  ایک قسم کی شراب کا نام ہے جو چنے سے بنتی تھی اور عام طور پر حبشی بنایا کرتے تھے۔

 

                   شرابی جنت میں داخل نہیں ہو گا

 

اور حضرت عبداللہ ابن عمرو روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (جو بندگان خاص نجات پا کر شروع میں جنت میں داخل ہوں گے ان کے ساتھ) جنت میں نہ تو وہ شخص داخل ہو گا جو اپنے ماں باپ کی (بلاوجہ شرع) نافرمانی کرتا ہے ، نہ جواری داخل ہو گا ، نہ وہ شخص داخل ہو گا جو فقراء کو صدقہ دے کر احسان جتاتا ہے ، اور نہ وہ شخص داخل ہو گا جو ہمیشہ شراب پیتا ہے (دارمی) اور دارمی ہی کی ایک روایت میں  نہ جواری داخل ہو گا  کے بجائے یہ ہے کہ  نہ ولد الزنا (جنت میں) داخل ہو گا۔

 

تشریح

 

موجودہ زمانے کے اعتبار سے ہر وہ کھیل جوا ہے جس میں عام شرط باندھی جاتی ہے کہ جیتنے والا ہارنے والے سے اتنے روپے یا فلاں چیز لے لے گا جیسے تاش و  نرد اور شطرنج وغیرہ ، اسی طرح  سٹہ  بھی جوئے کے حکم میں داخل ہے۔

طیبی کے قول کے مطابق منان کے ایک معنی تو وہ ہیں جو ترجمہ سے ظاہر ہیں یعنی  کسی فقیر و محتاج کو صدقہ و خیرات دے کر اس پر احسان جتانا  لیکن ایک احتمال یہ بھی ہے کہ منان دراصل من سے ہو جس کے معنی  قطع  کے ہیں اس طرح منان وہ شخص ہوا جو رشتوں ناتوں کو قطع کرنے والا ہو۔

یہ حدیث کہ  ولد الزنا جنت میں داخل نہیں ہو گا  نہ تو صحیح ہے اور نہ اس کو موضوع ہی قرار دیا جا سکتا ہے بلکہ یہ ایک ضعیف روایت ہے ، تاہم اگر اس کے کسی درجہ میں صحیح ہونے کا احتمال بھی ہو تو اس صورت میں اس کی تاویل اور وضاحت یہ ہے کہ جو اولاد زنا کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے وہ چونکہ باپ کی تربیت و نگرانی سے محروم رہتی ہے اور ماں کی بدکرداری کا سایہ اس کے اوپر ہوتا ہے اس لئے وہ عام طور پر بگڑ جاتی ہے اور ظاہری و باطنی تربیت نہ پانے کی وجہ سے مختلف طرح کی برائیوں اور بداعمالیوں میں مبتلا ہو جاتی ہے اور مآل کار وہ عذاب خداوندی میں گرفتار رہتی ہے ، مزید برآں جس طرح حرام ذرائع مثلاً جوئے اور سود سے کمائے جانے والے مال میں ایک طرح کی  نحوست  ہوتی ہے اس طرح ولد الزنا میں بھی ایک طرح کی نحوست ہوتی ہے کیونکہ وہ ایسے نطفے سے وجود میں آتا ہے جو  حرام جگہ  میں  حرام ذریعہ  سے قرار پایا تھا۔ یا یہ کہا جائے کہ اس ارشاد  ولد الزنا جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ کے ذریعہ دراصل زانی پر تعریض و تشدید مقصود ہے جو اس (ولد الزنا) کی پیدائش کا سبب بنا ہے۔

علاوہ ازیں بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ یہاں  ولد الزنا  سے مراد وہ شخص ہے جو زنا پر مواظبت و مداومت اختیار کرتا ہے اور بدکاری اس کی عادت بن جاتی ہے جیسے بہادروں کو  بنوالحرب  (یعنی جنگ کی اولاد) یا مسلمان کو بنوالاسلام (یعنی اسلام کی اولاد) کہہ دیتے ہیں۔ حاصل یہ کہ اس ارشاد کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ولد الزنا محض اس وجہ سے کہ وہ زنا کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے ،عذاب خداوندی میں گرفتار ہو گا یا اس کو جنت کی سعادت سے محروم رکھا جائے گا کیونکہ جس برائی نے اس کو جنم دیا ہے اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے۔

 

                   شرابی کے بارے میں ایک وعید

 

اور حضرت ابوامامہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اللہ تعالیٰ نے مجھ کو پوری دنیا کے لئے رحمت اور تمام عالم کے لئے ہادی بنا کر بھیجا ہے ، اور میرے بزرگ و برتر خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں باجوں ، مزامیر ، بتوں ، سولیوں اور زمانہ جاہلیت (یعنی حالت کفر) کے تمام رسوم و عادات کو مٹا دوں ، اور میرے بزرگ و برتر خدا نے اپنی عزت کی قسم کھائی ہے کہ میرے بندوں میں سے جو بھی بندہ شراب کا ایک گھونٹ بھی پئے گا میں اس کو (آخر میں) اسی بقدر دوزخیوں کی پیپ پلاؤں گا ، اور جو بندہ میرے خوف سے شراب پینا چھوڑے گا میں اس کو (آخرت میں) پاک حوضوں (یعنی جنت کی نہروں) سے (شراب طہور) پلاؤں گا۔ (احمد)

 

 

تشریح

 

باجوں  سے ڈھول ، ڈھولکی ، نقارہ ، تاشہ ، طبلہ ، طنبورہ ، سارنگی ، ستار اور اسی قسم کے دوسرے باجے مراد ہیں ، اسی طرح  مزامیر سے شہنائی ، چنگ ، بانسری اور اس قسم کی دوسری چیزیں مراد ہیں۔

یہ حدیث باجوں اور مزامیر کے حرام ہونے پر دلالت کرتی ہے کیونکہ یہ چیزیں زمانہ قدیم سے اہل فسق اور گمراہ لوگوں کے رسوم و عادات میں داخل رہی ہیں۔

فقہاء لکھتے ہیں کہ راگ و نغمہ ، باجوں اور مزامیر کے ساتھ تو حرام ہے اور محض آواز کے ساتھ مکروہ ہے ، نیز اجنبی عورتوں سے سننا سخت حرام ہے۔

سولی  سے مراد وہ صلیبی نشان (کراس) ہے جو عیسائیوں کے ہاں ایک مقدس علامت اور قومی و مذہبی نشان ہے جو اس شکل میں ہوتا ہے یعنی ایک خط دوسرے خط کو کاٹتا ہے۔ یہ دراصل یہ سولی کا نشان ہے جس پر عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو چڑھایا گیا تھا ، اسی مناسبت سے عیسائی اس نشان کو بہت ہی مقدس اور بابرکت سمجھتے ہیں اور نہ صرف یہ کہ ان کے مرد عورت اس نشان کو مختلف صورتوں میں اپنے جسم پر آویزاں رکھتے ہیں بلکہ اپنی تمام چیزوں پر بھی یہ نشان بناتے ہیں ، اس سے ان کا یہ مقصد حصول برکت بھی ہوتا ہے اور اس واقعہ کی حسرت ناکی اور غمگینی کو یاد رکھنا بھی ہوتا ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ پیش آیا تھا۔ لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اس نشان کے نیست و نابود کرنے کا بھی حکم دیا گیا اور مسلمانوں کو سختی کے ساتھ منع کیا گیا کہ وہ کسی بھی ایسی چیز کو استعمال نہ کریں جس پر یہ نشان ہو اور نہ اپنی کسی چیز پر یہ نشان بنائیں کیونکہ اس سے ایک غیر قوم کی مشابہت ہو گی ہے جو اسلام میں سخت حرام ہے۔

زمانہ جاہلیت کی رسوم و عادات سے مراد وہ چیزیں ہیں جو سراسر باطل ہیں اور جو زمانہ اسلام سے قبل کثرت سے رائج تھیں جیسے نوحہ و بین کرنا ، اپنی نسل یا اپنے خاندان پر بے جا فخر کرنا اور دوسروں کے نسب میں طعن و  طنز کرنا وغیرہ وغیرہ۔

 

 

                   والدین کی نافرمانی کرنے والے، دیوث اور شرابی پر جنت کے دروازے بند ہیں

 

اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  تین طرح کے آدمیوں پر اللہ تعالیٰ نے جنت کو حرام کر دیا ہے (یہ نجات یافتہ بندوں کے ساتھ ابتداء ً جنت میں داخل ہونا ان تینوں پر حرام قرار دیا ہے) ایک تو وہ شخص جو ہمیشہ شراب پئے ، دوسرا وہ شخص جو اپنے والدین کی نافرمانی کرے ، اور تیسرا وہ دیوث کہ جو اپنے اہل و عیال میں ناپاکی پیدا کرے۔ (احمد نسائی)

 

تشریح

 

جو اپنے اہل و عیال میں ناپاکی پیدا کرے۔ کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص اپنی بیوی، اپنی لونڈی یا اپنی کسی اور رشتہ دار کو برائی اور بد چلنی کی راہ پر لگائے یعنی انہیں غیر مردوں کے ساتھ ہم بستر ہونے یا مقدمات زنا جیسے بوس و کنار اور غیر حجابانہ اختلاط وغیرہ مجبور کرے ، یا انہیں اس کا موقع دے۔ اسی حکم میں اور تمام گناہ گناہ جیسے شراب نوشی ، اور غسل جنابت کا ترک وغیرہ بھی شامل ہیں ، یعنی اگر وہ شخص اپنی بیوی کو شراب پیتے دیکھے یا اس کو غسل جنابت ترک دیکھے یا اسی طرح کے کسی اور گناہ میں مبتلا دیکھے اور اس کو اس سے منع نہ کرے تو یہ بھی دیوثی ہے۔

طیبی کہتے ہیں کہ  دیوث  اس بے غیرت شخص کو کہتے ہیں جو اپنے اہل یعنی اپنی عورت کو کسی برائی میں مبتلا دیکھے لیکن نہ تو اس کو اس کی وجہ سے کوئی غیرت محسوس ہو اور نہ اس کو اس برائی سے منع کرے (یعنی اپنی عورت کے پاس غیر مردوں کا آنا گوارا کرے۔

مجمع البحرین میں لکھا ہے کہ  دیوث  کو کشخان  اور  قرنان بھی کہتے ہیں لیکن بعض حضرات نے دیوث ، کشخان وہ ہے جو اپنی بہنوں کے پاس غیر مردوں کو آنے دے اور قرنان وہ ہے جو اپنی بیٹیوں کے پاس غیر مردوں کو آنے دے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ تین طرح کے لوگ جنت میں (ابتداءً) داخل ہونے سے محروم رہیں گے۔ (١) ہمیشہ شراب پینے والا۔ (٢) ناتے توڑنے والا۔ (٣) سحر پر یقین کرنے والا۔ (احمد)

 

تشریح

 

سحر پر یقین کرنے والا  سے وہ شخص مراد ہے جو سحر کو مؤثر بالذات جانے ، ورنہ سحر پر بایں معنی یقین کرنا صحیح ہے۔ کہ وہ حق تعالیٰ ہی کا پیدا کیا ہوا ہے اور حق تعالیٰ کے حکم سے اس کا اثر انداز واقع ہونا ثابت ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے کہ السحر حق یعنی سحر ایک حقیقت ہے۔

 

                   شراب نوشی بت پرستی کے مترادف ہے

 

اور حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو شخص ہمیشہ شراب نوشی میں مبتلا رہے اور پھر مر جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں بت پرست کی طرح حاضر ہو گا۔ (احمد) ابن ماجہ نے اس روایت کو حضرت ابوہریرہ سے اور بیہقی نے شعب الایمان میں محمد ابن عبداللہ سے اور انہوں نے اپنے والد سے نقل کیا ہے نیز بیہقی نے کہا ہے کہ امام بخاری نے اس روایت کو اپنی تاریخ میں محمد ابن عبداللہ سے انہوں نے اپنے والد سے نقل کیا ہے۔

 

٭٭اور حضرت ابو موسیٰ اشعری سے منقول ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے  میں نے اس میں کوئی فکر (فرق) نہیں کرتا کہ میں شراب پیوں یا اللہ کے سوا اس ستون (یعنی پتھر کے بت) کو پوجوں۔ (نسائی)

 

تشریح

 

اس ارشاد سے حضرت موسیٰ کا مقصد یہ ظاہر کرتا ہے کہ میرے نزدیک شراب نوشی اور بت پرستی دونوں ایک ہی حکم رکھتے ہیں۔

 

 

 

               امارت و قضا کا بیان

 

امارت سے مراد  سرداری و حکمرانی  ہے اور قضاء سے مراد  شرعی عدالت  ہے اسلامی نظام حکومت کی عمارت کے یہ دو بنیادی ستون ہیں ! امیر وامام (یعنی سربراہ مملکت) اسلام کے قانون اساسی کا محافظ ، نظم حکومت اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا ذمہ دار حفاظت مذہب اور امت اسلامیہ کی طاقت و قوت کا امین ، اور امور عامہ کا نگہبان ہوتا ہے اسلامی معاشرہ کے افراد کا تعلق جن امور سے ہے ان سب پر امیر و امام ہی کا اختیار کار فرما ہوتا ہے۔

قاضی ، اسلامی عدالت کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے شہریوں کے حقوق (امن ، آزادی ، مساوات) کا محافظ ہوتا ہے اور وہ معاملات کا فیصلہ کرنے میں شریعت کی طرف سے حکم کی حیثیت رکھتا ہے ، اس کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کے نزاعی مقدمات کا شریعت کے مطابق فیصلہ کرے اور اس کا اس سے بڑا فرض یہ ہوتا ہے کہ وہ عدل و انصاف ، دیانت داری اور ایمانداری کے تقاضوں کو ہر حالت میں مد نظر رکھے۔

 

                   اسلام اور حکومت

 

اسلام ، دنیا کا یگانہ مذہب بھی ہے اور دنیا کی سب سے بڑی طاقت بھی اسلام جس طرح انسانیت عامہ کی دینی ، مذہبی اور اخلاقی ، اخروی فلاح کا سب سے آخری اور مکمل قانون ہدایت ہے اس طرح وہ ایک ایسی لافانی سیاسی طاقت بھی ہے جو انسانوں کے عام فائدے ، عام بہتری اور عام تنظیم کے لئے حکومت و سیاست سے اپنے تعلق کو برملا اظہار کرتی ہے۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اسلام صرف ایک مذہب ہی نہیں بلکہ مذہب کی حیثیت سے کچھ اور بھی ہے اس کو حکومت حاکمیت ، سیاست اور سلطنت سے وہی تعلق ہے جو اس کائنات کی کسی بھی بڑی حقیقت سے ہو سکتا ہے اس کو محض ایک ایسا نظام نہیں کہا جا سکتا ہے جو صرف باطن کی اصلاح کا فرض انجام دیتا ہے بلکہ اس کو ایسا دینی نظام بھی سمجھنا چاہئے جو خدا ترس و خدا شناس روح کی قوت سے دنیا کے مادی نظام پر عالمگیر غلبہ کا دعوی رکھتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم جو اسلامی تصورات و نظریات کا سر چشمہ ہے اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و سلم جو ہدایات کی شارح و ترجمان ہیں ، ان کا ایک بہت بڑا حصہ اسلام اور حکومت و سیاست کے تعلق کو ثابت کرتا ہے کہیں تاریخی انداز میں ، کہیں تعلیمات کے پیرایہ میں اور کہیں نعمت الہٰی کو ظاہری کرتے ہوئے ہم پر یہ واضح کیا جاتا ہے کہ اسلام اور حکومت خدا کا حق ہے اس لئے اسلام کا ایک بنیادی مقصد یہ بھی ہے کہ اس زمین پر خدا کی حکومت قائم کی جائے اور اس کا اتارا ہوا قانون نافذ کیا جائے۔

ہم میں سے جو کج فکر لوگ  مذہب اور سیاست  کے درمیان تفریق کی دیوار حائل کر کے اسلام کو سیاست و حکومت سے بالکل بے تعلق و بے واسطہ رکھنا چاہتے ہیں وہ دراصل مسلم مخالف عناصر کے اس شاطر دماغ کی سازش کا شکار ہیں جو خود تو حقیقی معنے میں آج تک حکومت کو  مذہب  سے آزاد نہ کر سکا لیکن مسلمانوں کی سیاسی پرواز اور ہمہ گیر پیش قدمی کو مضمحل کرنے کے لئے  مذہب  اور سیاست و حکومت  کی مستقل بحثیں پیدا کر کے مسلمانوں کے چشمہ فکر و عمل میں دین اور دنیا کی پلیدگی کا زہر گھول رہا ہے۔

کتاب الامارۃ والقضاء سے اس کتاب جو حصہ شروع ہو رہا ہے اور اس میں جو احادیث نقل ہوں گی وہ اس دعوی کی واضح دلیل ہیں کہ اسلام اور حکومت و سیاست دو متضاد چیزیں نہیں ہیں ان احادیث میں امیر و خلیفہ قاضی و منصف ، عوام اور رعایا ، ملک و فوج اور نظم مملکت کے دیگر گوشوں سے متعلق جو ہدایات و احکام بیان کئے جائیں گے ان سے واضح ہو گا کہ حکومت و سیاست بھی اسلام کا ایک موضوع ہے۔

 

                   امیر کی اطاعت اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہے

 

حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص میری فرمانبرداری کرتا ہے اس نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی اور جس شخص نے میری نافرمانی کی اس شخص نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس شخص نے اپنے امیر (سردار) کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس شخص نے اپنے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی ! اور یاد رکھو ، امام یعنی سربراہ مملکت (مسلمانوں کے لئے) ڈھال کی مانند ہے جس کے پیچھے سے (یعنی اس کی طاقت کے بل بوتہ پر) جنگ کی جاتی ہے اور جس کے ذریعہ (دشمنوں کی آفات و بلیات سے) حفاظت حاصل کی جاتی ہے ! پس (اگر وہ (امام) اللہ سے ڈر کر (اس کے قانون کے مطابق) فیصلہ کرے اور عدل و انصاف سے کام لے تو اس کی وجہ سے وہ امام بڑے اجر و ثواب کا مستحق ہو گا اور اگر وہ ایسا نہ کرے۔ (یعنی اس کے احکام و فیصلے ، اللہ کے خوف ، قانون الہٰی کی روح اور عدل و انصاف سے خالی ہوں) تو اس کی وجہ سے وہ سخت گنہگار ہو گا۔ (بخاری و مسلم)۔

 

 

تشریح

 

امام (سربراہ مملکت) کو ڈھال کے ساتھ تشبیہ دینے کی وجہ سے یہ ہے کہ جس طرح ڈھال جنگ میں (دشمن کے تیر و تلوار سے بچاتی ہے اسی طرح امام کا وجود ، مسلمانوں کو دشمنان دین کے حملوں اور ان کی آفات و بلاؤں سے بچانے کا باعث ہے۔

 

                   اگر کسی کمتر شخص کو امیر بنایا جائے تو اس کی اطاعت بھی ضروری ہے

 

اور حضرت ام حصین کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اگر کسی نکٹے اور کن کٹے غلام کو بھی تمہارا حاکم بنایا جائے اور وہ اللہ کے  قانون کے مطابق تم پر حکمرانی کرے تو تم اس کا حکم سنو اور اس کی اطاعت کرو۔ (مسلم)

 

تشریح

 

اس ارشاد گرامی کا مقصد اولو الامر کی اطاعت و فرمانبرداری کی اہمیت کو واضح کرنا ہے اور اس اہمیت کو زیادہ سے زیادہ واضح کرنے کے لئے  غلام  کا ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے  جو شخص مسجد بنائے اگرچہ وہ چڑیا کے گھونسلے کی مانند ہو الخ  سے ظاہر ہے کہ مسجد چڑیا کے گھونسلے کی مانند کبھی نہیں ہو سکتی بلکہ اس ارشاد کا مقصد مسجد بنانے کی اہمیت اور اس کی فضیلت کو زیادہ سے زیادہ بیان کرنا ہے اسی طرح یہاں بھی  غلام  کے ذکر سے مبالغہ مقصود ہے یا پھر یہ مراد ہے کہ وہ غلام جو بادشاہ یا خلیفہ اعظم (سربراہ مملکت) کا نائب ہو یا اسے کسی خاص علاقہ کا حاکم بنایا گیا ہو۔ اس ساری تاویل کی بنیاد یہ ہے کہ  غلام  کو امیر و امام (سربراہ مملکت) بنانا جائز نہیں ہے۔

واضح رہے کہ ان تمام احادیث میں بھی یہی تاویل کی جائے گی جن میں غلام کی امارت و سرداری کا ذکر ہے۔

نکٹا اور کن کٹا  کے الفاظ بھی مقصد کو مؤکد کرنے کے لئے استعمال کئے گئے ہیں اور ان سے مراد  حقیر و کمتر  غلام ہے حاصل یہ کہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے امیر و امام کی اطاعت و فرمانبرداری کریں اور اس کے منصب امارت و امت کی پوری عزت و توقیر کریں خواہ وہ امیر اپنی ذاتی حیثیت میں کتنا ہی کمتر کیوں نہ ہوں۔

 

 

٭٭اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (اپنے امیر و حاکم کا فرمان سنو) اور (اس کے اوامر و نواہی کی) اطاعت کرو۔ تاوقتیکہ اس کا کوئی حکم و فرمان اللہ کے اور اس کے رسول کے خلاف نہ ہو) اگرچہ تم پر کسی ایسے غلام ہی کو حکمران کیوں نہ بنایا گیا ہو جس کا سر (چھوٹے پن اور سیاہی میں) انگور (کی مانند) ہو۔ (بخاری)

 

                   غیر شرعی حکم کی اطاعت واجب نہیں

 

اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اپنے امیر و حاکم کی بات کو سننا اور (اس کے احکام کی) فرمانبرداری کرنا ہر حالت میں مرد مسلم پر واجب ہے خواہ (اس کا کوئی حکم اس کو پسند ہونا پسند ہو۔ تاوقتیکہ کسی گناہ کی بات کا حکم نہ کیا جائے۔ لہٰذا جب حاکم کوئی ایسا حکم دے جس (پر عمل کرنے میں گناہ ہو تو اس کی اطاعت کرنا واجب نہیں۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

امیر و حاکم کی بات کو سننا اور اس کے احکام و فرامین کی اطاعت کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے خواہ اس کا حکم و فرمان طبیعت و پسند کے موافق ہو یا غیر موافق ہو لیکن شرط یہ ہے کہ اس کا کوئی حکم شریعت کی حدود سے متجاوز نہ ہو لہٰذا اگر امیر و حاکم کوئی ایسا حکم و فرمان جاری کرے جس پر عمل کرنے سے گناہ لازم آتا ہو ، اس کی اطاعت و فرمانبرداری واجب نہیں ہو گی لیکن اس صورت میں بھی امیر و حاکم کے خلاف بغاوت کرنا یا اس سے جنگ و جدال کرنا جائز نہیں ہو گا۔

 

 

٭٭اور حضرت علی کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  کسی بھی ایسے حکم کی اطاعت و فرمانبرداری جائز نہیں ہے جس کا تعلق گناہ سے ہو (خواہ وہ حکم امیر و حاکم کی طرف سے ہو یا ماں باپ اور استاد پیر وغیرہ کی جانب سے ہو) اطاعت و فرمانبرداری تو صرف اچھے حکم میں واجب ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

                   اطاعت و فرمانبرداری کا عہد

 

اور حضرت عبادہ ابن صامت کہتے ہیں کہ ہم نے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ پر بیعت کی یعنی آپ کے روبرو ان امور کا عہد کیا کہ  ہم (آپ کی ہدایات کو توجہ سے) سنیں گے (اور ہر قسم کے حالات میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے احکام کی) اطاعت کریں گے تنگی اور سخت حالات میں بھی اور آسان و خوش آئند زمانہ میں بھی ، خوشی کے موقع پر بھی اور ناخوشی کی حالت میں ہم پر ترجیح دی جائے گی (تو ہم صبر کریں گے۔ ہم امر کو اس کی جگہ سے نہیں نکالیں گے ہم (جب زبان سے کوئی بات کہیں کے تو) حق کہیں گے خواہ ہم کسی جگہ ہوں (اور کسی حال میں ہوں) اور ہم اللہ کے معاملے میں (یعنی دین پہنچانے اور حق بات کہنے میں) کسی ملامت کرنے والے شخص کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔ اور ایک روایت میں یوں ہے کہ (ہم نے اس بات کا عہد کیا کہ ہم امر کو جگہ سے نہیں نکالیں گے۔ (چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ امر کو اس کی جگہ سے نہ نکالو) ہاں اگر تم صریح کفر دیکھو جس پر تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے (یعنی قرآن کی کسی آیت یا کسی حدیث کی صورت میں دلیل ہو (اور اس میں کسی تاویل کی گنجائش نہ ہو تو اس صورت میں امر کو اس کی جگہ سے نکالنے کی اجازت ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

ہم پر ترجیح دی جائے گی  کا مطلب یہ ہے کہ ہم انصار نے یہ بھی عہد کیا کہ اگر ہم پر کسی کو ترجیح دی جائے گی ہم صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں گے۔ ایک روایت میں منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے انصار سے فرمایا تھا کہ (میرے بعد تم لوگوں سے ترجیحی سلوک ہو گا یعنی بخشش و انعام اور اعزاز مناصب کی تقسیم کے وقت تم پر دوسرے لوگوں کو ترجیح و تفصیل دی جائے گی ایسے موقع پر تم لوگ صبر کرنا  چنانچہ آپ کی یہ پیش گوئی ثابت ہوئی کہ خلفاء راشدین کے زمانے کے بعد جب امراء کا عہد حکومت شروع ہوا تو انصار کے ساتھ ترجیحی سلوک کیا گیا اور انصار نے بھی آپ کے ارشاد کی تعمیل میں اور اپنا عہد نباہتے ہوئے اس ترجیحی سلوک کے خلاف شکوہ شکایت کرنے کی بجائے صبر و تحمل کی راہ کو اختیار کیا۔

ہم امر کو اس کی جگہ سے نہیں نکالیں گے  کا مطلب یہ ہے کہ ہم امارت و حکومت کی طلب و خواہش نہیں کریں گے ہم پر جس شخص کو امیر و حاکم بنا دیا جائیگا ہم اس کو معزول نہیں کریں گے اور اپنے امیر و حاکم کے خلاف ہنگامہ آرائی کر کے کوئی شورش پیدا نہیں کریں گے۔

روایت کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اگر امیر و حاکم کے قول و فعل میں صریح کفر دیکھو تو اس کو معزول کر دینے کی اجازت ہے اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا واجب ہو گا۔

 

                   فسق و فجور ،عزل منصب کی بنیاد بن سکتا ہے یا نہیں؟

 

اس ارشاد گرامی سے یہ واضح ہوا کہ امام یعنی سربراہ مملکت کو معزول کرنے کی اسی صورت میں اجازت ہے جب کہ وہ صریح طور پر کفر کا مرتکب ہو اور اس کا کفر قرآن و حدیث کی روشنی میں اتنے واضح طور پر ثابت ہو کہ اس امام کے لئے کفر کی کوئی بھی تاویل کرنا ممکن نہ ہو۔چنانچہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ یہ فرماتے ہیں کہ اگر امام فسق فجور میں مبتلا ہو جائے تو اس کو معزول کیا جا سکتا ہے یہی مسئلہ ہر قاضی و امیر کا ہے۔

واضح رہے کہ اس مسئلہ میں ان ائمہ کے اختلافی اقوال کی بنیاد یہ ہے کہ حضرت امام شافعی کے نزدیک تو فاسق شخص اس بات کا اہل نہیں ہو گا کہ اس کو ولایت (کسی کا ولی ہونے) کی ذمہ داری سونپی جائے جب کہ امام اعظم ابو حنیفہ یہ فرماتے ہیں کہ فاسق ، ولایت کا اہل ہو سکتا ہے چنانچہ ان کے نزدیک فاسق باپ کے لئے اپنی نابالغ لڑکی کا نکاح کر دینا جائز ہے۔

 

                   فرمانبرداری بقدر طاقت

 

اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ جب ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ پر بیعت کرتے (یعنی اس بات کا عہد کرتے) کہ ہم (آپ کی ہدایات کو توجہ سے سنیں گے اور (آپ کے احکام کی) اطاعت کریں گے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہم سے فرماتے کہ  ان امور میں جن کو تم طاقت رکھتے ہو۔ (بخاری و مسلم)

تشریح

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یا تو اپنے ارشاد کے ذریعہ صحابہ کو یہ رخصت (یعنی آسانی و سہولت) عطا فرمائی کہ تم سے جس قدر فرمانبرداری ہو سکے اس قدر کرو۔ یا یہ ارشاد اسی بات کی تاکید و تشدید کے لئے تھا کہ تم جتنی فرمانبرداری کر سکو اس میں کسی قسم کی کوئی کوتاہی یا قصور واقع نہ ہونا چاہئے۔

 

                   ملت کی اجتماعیت میں رخنہ ڈالنے والے کے بارے میں وعید

 

اور حضرت ابن عباس راوی ہیں کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اگر کوئی شخص اپنے امیر و سردار کی طرف سے کوئی ایسی بات دیکھے جو اسکو (شرعاً یا  طبعاً) پسند نہ ہو تو اس کو اس پر صبر کرنا چاہئے اور اس کی وجہ سے امام کے خلاف بغاوت کا جھنڈا بلند نہ کرنا چاہئے کیونکہ جو شخص جماعت سے بالشت بھر (بھی) جدا ہوا اور (توبہ کئے بغیر اسی حالت میں) مر گیا تو اس کی موت اہل جاہلیت کی موت کی مانند ہو گی۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے امام و امیر کی اطاعت و فرمانبرداری سے اپنے کو آزاد کر لیا اور مسلمانوں کی جماعت (تنظیم) سے علیحدگی اختیار کر لی اور تمام مسلمانوں کے اجتماع و اتحاد کی مخالفت پر کمر بستہ رہا اور پھر اسی حالت میں وہ مر گیا تو گویا زمانہ جاہلیت کے لوگوں کی موت مرا اور اس مشابہت کی بنیاد ہے کہ زمانہ جاہلیت کے لوگ چونکہ دین سے بے بہرہ تھے اس لئے وہ اپنے امیر و سردار کی اطاعت کرتے تھے نہ اپنے امام (رہنما) کی ہدایت کو مانتے تھے بلکہ ان سے وہ علی الاعلان بیزاری کا اظہار کرتے تھے اسی طرح چونکہ ان کے یہاں ملی شیرازہ بندی اور اجتماعی تنظیم کا کوئی اہتمام نہیں تھا اس لئے وہ نہ کسی چیز پر اجتماع و اتحاد کا مظاہرہ کرتے تھے اور نہ کسی رائے پر متفق ہوتے تھے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلام میں ملت کی شیرازہ بندی ، مسلمانوں کی مضبوط اجتماعی تنظیم ، لیڈر شب پر مکمل اعتماد اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری اور ملی امور میں آپس میں اتفاق و اتحاد کی بڑی اہمیت ہے بلکہ یہ چیزیں دین کا مطلوب ہیں اور دین کی سربلندی کا بنیادی عنصر ہیں۔

 

                   تعصب کے خلاف تنبیہ

 

اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ  جو شخص امام (سربراہ مملکت) کی اطاعت و فرمانبرداری سے نکل جائے اور اسلام کی جماعت (ملت کی اجتماعی ہئیت) سے علیحدگی اختیار کرے اور پھر اس حالت میں مر جائے تو اس کا مرنا جاہلیت پر مرنے کے مترادف ہو گا ،جو شخص کسی ایسے جھنڈے کے نیچے یعنی ایسے مقصد کے لئے) لڑا جس کا حق و باطل ہونا ظاہر نہ ہو درآنحالیکہ وہ تعصب سے غضبناک ہوا اور متعصب ہوا اور تعصب کی وجہ سے لوگوں کو اپنی طرف بلایا یا تعصب کی وجہ سے کسی کی مدد کی (یعنی اس کا لڑنا غضبناک ہونا لوگوں کو اپنی مدد کے لئے بلانا یا کسی کی مدد کرنا اعلاء کلمۃ الحق اور دین سے اظہار کے لئے نہیں تھا بلکہ محض تعصب یعنی اپنی قوم کے ظلم کی حمایت اور اس کی ناروا جانب داری کی بنیاد پر تھا) اور اسی حالت میں) وہ مارا گیا تو اس کا مرنا جاہلیت پر مرنے کے مترادف ہو گا اور جس شخص نے میری امت کے خلاف تلوار اٹھائی اور اس کے ذریعہ میری امت کے اچھے اور برے آدمیوں کو مارا اور میری امت کے مسلمان کی پرواہ نہیں کی (یعنی اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کی کہ ایک مسلمان کو مارنا کتنا بڑا جرم ہے اور اس کا وبال و عذاب کتنا سخت ہے) اور نہ اس نے عہد والے کے عہد کو پورا کیا تو نہ وہ میری امت میں سے ہے (یعنی میرے راستے پر چلنے والوں میں سے نہیں ہے اور نہ میرا اس سے کوئی تعلق ہے۔  (مسلم)

 

 

               فضائل قرآن کا بیان

 

                   معوذتین کی فضیلت

 

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ جب کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ جحفہ اور ابواء (جو کہ مکہ اور مدینہ کے راستہ میں دو مقام ہیں) کے درمیان چلے جا رہے تھے کہ اچانک سخت آندھی اور شدید اندھیرے نے ہمیں آ گھیرا چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اعوذ برب الفلق اور اعوذ برب الناس کے ذریعہ پناہ مانگنی شروع کی (یعنی یہ سورتیں پڑھنے لگے) اور مجھ سے (بھی) فرماتے کہ عقبہ ان دونوں سورتوں کے ذریعہ پناہ چاہو، جان لو کہ کسی پناہ چاہنے والے نے ان دونوں (سورتوں) کی مانند کسی چیز کے ذریعہ پناہ نہیں چاہی ہے (کیونکہ آفات و بلاؤں کے وقت اللہ کی پناہ طلب کرنے کے سلسلے میں یہ دونوں سورتیں سب سے افضل ہیں)۔ (ابو داؤد)

 

 

٭٭حضرت عبداللہ بن خبیب فرماتے ہیں کہ ہم ایک سخت اندھیری اور بارش کی رات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ڈھونڈھتے ہوئے نکلے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کہیں تشریف لے جا رہے ہم بھی آپ کو ڈھونڈھتے ہوئے نکلے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ جائیں) چنانچہ ہم نے آپ کو پا لیا، آپ نے (اس وقت) فرمایا کہ پڑھو میں نے فرمایا کہ کیا پڑھوں! آپ نے فرمایا صبح اور شام کے وقت تین مرتبہ قل ہوا للہ احد ، قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھ لیا کرو یہ تمہیں ہر چیز سے کفایت کریں گی (یعنی ہر آفت و بلاء کو دفع کریں گی۔ (ترمذی، ابوداؤد ، نسائی)

 

 

٭٭حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا میں (پناہ چاہنے اور شر و برائی کے دفعیہ کے لئے) سورہ ہود یا سورہ یوسف پڑھ لیا کروں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اللہ کے نزدیک قل اعوذ برب الفلق سے زیادہ بہتر کوئی چیز (یعنی کوئی سورۃ یا آیت) ہر گز نہیں پڑھ سکتے۔ (احمد، نسائی، دارمی)

 

تشریح

 

لن تقرأ شیئا ابلغ عنداللہ کا مطلب یہ ہے کہ آفات و بلاؤں اور برائیوں سے پناہ چاہنے کے سلسلہ میں اس سورۃ یعنی قل اعوذ برب الفلق سے زیادہ کامل اور بہتر دوسری کوئی سورۃ نہیں ہے کیونکہ یہ سورۃ سب سے زیادہ کامل ہے جس میں ہر مخلوق کی برائی اور شر سے پناہ مانگی گئی ہے قل اعوذ برب الفلق من شر ما خلق (آپ کہئے کہ میں صبح کے مالک کی پناہ لیتا ہوں تمام مخلوقات کے شر سے)۔

علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پناہ چاہنے کے سلسلہ میں دونوں سورتیں یعنی قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس سے زیادہ کامل اور کوئی سورۃ نہیں ہے۔

ابن مالک کہتے ہیں کہ اس جملہ سے مقصود ان دونوں سورتوں کے ذریعہ پناہ طلب کرنے کی رغبت دلانا ہے گویا علامہ طیبی اور ابن مالک دونوں کے قول کا حاصل یہ ہے کہ اس ارشاد گرامی میں صرف ایک سورۃ یعنی قل اعوذ برب الفلق ذکر کی گئی ہے اور چونکہ قرینہ سے دوسری سورۃ یعنی قل اعوذ برب الناس بھی مفہوم ہوتی ہے اس لیے یہاں یہ دونوں سورتیں مراد ہیں۔

 

                   قرآن کی پیروی کرنے کا حکم

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قرآن کے معانی بیان کرو اور اس کے غرائب کی پیروی کرو اس کے غرائب سے اس کے فرائض اور اس کی حدود ہیں۔

 

 

تشریح

 

اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ قرآن کے غرائب کیا ہیں؟ چنانچہ فرمایا کہ قرآن کے فرائض اور اس کی حدود، قرآن کے غرائب ہیں اب اس بات کو بھی سمجھ لیجئے کہ فرائض اور حدود سے مراد ہیں منہیات، یعنی وہ چیزیں جن کو کرنے سے منع فرمایا گیا ہے ، حاصل یہ کہ قرآن کی اطاعت و پیروی کا مطلب یہ ہے کہ قرآن نے جن چیزوں کو کرنے کا حکم دیا ہے ان کو کیا جائے اور جن چیزوں سے روکا ہے ان سے اجتناب کیا جائے۔

 

                   قرآن پڑھنے کی فضیلت

 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نماز میں قرآن کی قرأت نماز کے علاوہ قرآن پڑھنے سے افضل ہے اور نماز کے علاوہ قرآن کا پڑھنا تسبیح و تکبیر سے زیادہ ثواب رکھتا ہے اور تسبیح صدقہ (خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے) زیادہ ثواب رکھتی ہے اور صدقہ روزہ سے زیادہ ثواب رکھتا ہے اور روزہ دوزخ کی آگ سے ڈھال ہے۔

 

تشریح

 

جس طرح حالت نماز میں قرآن پڑھنا نماز کے علاوہ تلاوت قرآن سے افضل ہے اسی طرح جو نماز کھڑے ہو کر پڑھی جاتی ہے اس کی قرأت قرآن اس نماز کی قرأت قرآن سے افضل ہے جو بیٹھ کر پڑھی جاتی ہے نماز کے علاوہ دوسرے اوقات میں تلاوت قرآن تسبیح و تکبیر اور دیگر اور دو اذکار سے افضل ہے کیونکہ قرآن کریم نہ صرف یہ کہ کلام الٰہی ہے بلکہ اس میں اللہ تعالیٰ کے احکام بھی مذکور ہیں۔

تسبیح و تکبیر و  اوراد و اذکار خدا کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنے سے افضل ہے اگرچہ مشہور یہ ہے کہ عبادت متعدی کہ جس کا فائدہ اپنی ذات کے علاوہ دوسروں کو بھی پہنچے (مثلاً صدقہ) افضل ہے عبادت لازم (مثلاً تسبیح اور اذکار) سے کہ جس کا فائدہ صرف اپنی ذات تک محدود رہتا ہے لیکن یہ بات ذکر کے علاوہ دوسری عبادات کے ساتھ مخصوص ہے ذکر اس سے مستثنی ہے کیونکہ اللہ کا ذکر سب سے بڑا اور سب سے افضل ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ میں فرمایا گیا ہے کہ ذکر خدا کی راہ میں سونا چاندی خرچ کرنے سے بہتر اور افضل ہے۔

صدقہ روزے سے زیادہ ثواب رکھتا ہے۔ یعنی خدا کی راہ میں اور خدا کی خوشنودی کے لئے اپنا مال خرچ کرنا نفل روزہ سے افضل ہے کیونکہ صدقہ کا فائدہ متعدی ہے یعنی اس سے دوسرے لوگوں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے جب کہ روزہ کا فائدہ صرف اپنی ذات تک محدود رہتا ہے لیکن روزہ کے سلسلہ میں یہ حدیث بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بنی آدم کے ہر عمل پر دس گنا ثواب ملتا ہے مگر روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا (یعنی روزہ کا ثواب لامحدود ہے)

اس طرح ان دونوں روایتوں میں بظاہر اختلاف نظر آتا ہے کیونکہ پہلی روایت سے تو معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ روزہ سے افضل ہے جب کہ اس دوسری روایت کا حاصل یہ ہے کہ روزہ صدقہ سے افضل ہے علماء لکھتے ہیں کہ اس وجہ مطابقت سے یہ ظاہری تضاد ختم ہو جاتا کہ افضلیت بایں اعتبار ہے کہ روزہ دار اللہ رب العزت کی صفت اختیار کرتا ہے بایں طور کہ وہ کھانے پینے سے باز رہتا ہے۔

 

                   ناظرہ تلاوت زبانی تلاوت سے افضل ہے

 

حضرت عثمان بن عبداللہ بن اوس ثقفی رضی اللہ عنہما اپنے دادا (حضرت اوس) سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ آدمی کا بغیر مصحف (یعنی زبانی) قرآن پڑھنا ہزار درجہ ثواب رکھتا ہے اور مصحف میں (دیکھ کر) پڑھنے کا ثواب بغیر مصحف(یعنی زبانی) پڑھنے کے ثواب سے دو ہزار درجہ تک زیادہ کیا جاتا ہے۔

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ مصحف (قرآن مجید) میں دیکھ کر تلاوت کا ثواب زبانی تلاوت کے ثواب سے زیادہ ہوتا ہے اور اس میں ثواب کی زیادتی کی وجہ یہ ہے کہ مصحف میں دیکھ کر کی جانے والی تلاوت میں غور و فکر اور خشوع و خضوع زیادہ حاصل ہوتا ہے مصحف شریف کی زیارت نصیب ہوتی ہے اور مصحف کو ہاتھ لگایا جاتا ہے اسے اوپر اٹھایا جاتا ہے اس طرح نہ صرف یہ کہ قرآن کریم کی عظمت و احترام کا اظہار ہوتا ہے بلکہ جیسا کہ منقول ہے کہ قرآن کریم کی زیارت بھی عبادت ہے چنانچہ اکثر صحابہ و تابعین مصحف میں دیکھ کر ہی تلاوت کیا کرتے تھے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارہ میں منقول ہے کہ ناظرہ تلاوت کی کثرت کی وجہ سے ان کے پاس دو قرآن خستگی کی حالت کو پہنچ گئے تھے۔

 

                   موت کی یاد اور قرآن کی تلاوت دل کی جلا کا باعث ہے

 

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یاد رکھو یہ دل زنگ پکڑتے ہیں جیسا کہ پانی پہنچنے سے لوہا زنگ پکڑتا ہے۔ عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ! اس کی جلا کا کیا ذریعہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا موت کو زیادہ یاد کرنا اور قرآن کی تلاوت (یہ چاروں روایتیں بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کی ہیں)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ گناہ و مصیبت کے صدور اور نیکیوں میں غفلت کی وجہ سے دل زنگ آلود ہو جاتا ہے لہٰذا دل کے جلا کا ذریعہ بتایا گیا ہے کہ موت کو کثرت سے یاد کرنے اور قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول رہنے سے دل کو جلا یعنی صفائی حاصل ہو جاتی ہے۔

 

                   سب سے عظیم الشان سورت

 

حضرت ایفع بن عبدالکلاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! قرآن مجید میں (صفات باری تعالیٰ کے بیان کے سلسلہ میں) سب سے عظیم الشان سورۃ کون سی ہے؟ آپ نے فرمایا قل ہو اللہ احد اس نے عرض کیا کہ قرآن کریم میں سب سے عظیم الشان آیت کون سی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آیت الکرسی (اَللّٰہ لَآ اِلٰہ اِلَّا ھُوَ  ۚ اَلْحَيُّ الْقَيُّوْمُ) 2۔ البقرۃ:255) اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! وہ کون سی آیت ہے جس کے بارہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پسند کرتے ہیں کہ وہ (یعنی اس کا ثواب اور اس کا فائدہ) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی امت کو پہنچے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سورہ بقرہ کا آخری حصہ، بیشک وہ آخری آیتیں خدا کی رحمت کے خزانوں میں عرش کے نیچے سے اتری ہیں جو اس امت کو عطا کی گئی ہیں اور دنیا و آخرت کی ایسی کوئی بھلائی نہیں ہے جو اس میں نہ ہو۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

گزشتہ صفحات میں ایک حدیث گزری ہے جس میں سورہ فاتحہ کو بہت بڑی اور سب سے عظیم الشان سورت فرمایا گیا ہے جب کہ یہاں قل ہواللہ احد کو سب سے عظیم الشان سورۃ فرمایا جا رہا ہے۔ اگرچہ ان دونوں حدیثوں میں بظاہر تضاد نظر آتا ہے حالانکہ حقیقت میں دونوں میں کوئی تضاد اور منافات نہیں ہے کیونکہ سورہ فاتحہ اس اعتبار سے عظیم الشان ہے کہ وہ خدا کی حمد، دعا اور عبادت پر مشتمل ہے نیز وہ قرآن کا خلاصہ ہے اور سورۃ قل ہواللہ احد اس اعتبار سے سب سے عظیم الشان ہے کہ اس میں اللہ رب العزت کی صفت وحدانیت بہت عمدہ ہے اور بلیغ انداز میں بیان کی گئی ہے۔

سورہ بقرہ کا آخری حصہ سے اٰمن الرسول سے آخر سورت تک کی آیتیں مراد ہیں اسی موقع پر سائل کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد کا حاصل یہ تھا کہ میں اس بات کو پسند کرتا ہوں اور میرے نزدیک یہ چیز محبوب ہے کہ سورہ بقرہ کے آخری حصہ کی ان آیتوں کا ثواب اور ان کی برکت مجھے اور میری امت کو باقی تمام قرآن کی برکت و فائدہ سے پہلے پہنچے کیونکہ یہ آیتیں دین و دنیا کی تمام بھلائیوں پر حاوی ہیں چنانچہ ان تمام آیتوں میں اٰمن الرسول سے اشارہ ہے اسلام و احکام کی اطاعت و پابندی کی طرف والیک المصیر سے اشارہ ہے آخرت میں جزائے عمل کی طرف اور لایکلف اللہ نفسا الخ سے اشارہ ہے منافع دنیوی و اخروی کی طرف۔

 

                   سورہ فاتحہ شفا ہے

 

حضرت عبدالملک بن عمیر رضی اللہ عنہ بطریق ارسال روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سورہ فاتحہ ہر بیماری کے لیے شفاء ہے۔ (دارمی، بیہقی)

 

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص سورہ فاتحہ کو ایمان و یقین اور اعتقاد کے ساتھ پڑھے تو اس کی برکت سے دینی دنیاوی، ظاہری و باطنی غرض ہر قسم کی بیماری و مصیبت سے شفا و نجات حاصل ہوتی ہے۔

علماء لکھتے ہیں کہ کسی بھی قسم کے جسمانی و روحانی مرض میں سورہ فاتحہ لکھ کر اسے چاٹنا ، پینا یا لٹکانا فائدہ پہنچاتا ہے اور مریض کو سکون حاصل ہوتا ہے۔

 

                   آل عمران کی آخری آیتوں کی فضیلت و برکت

 

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو شخص رات میں آل عمران کا آخری حصہ پڑھے تو اس کے لئے قیام لیل (یعنی شب بیداری) کا ثواب لکھا جاتا ہے۔

 

تشریح

 

آل عمران کے آخری حصہ سے (اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ) 3۔ آل عمران:190) سے آخر سورۃ تک کی آیتیں مراد ہیں۔ رات کا مطلب رات کا ابتدائی حصہ بھی ہو سکتا ہے اور آخری حصہ بھی یعنی چاہئے تو ابتداء شب میں ہی آیتیں پڑھے چا ہے شب کے آخری حصہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارہ میں منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب نماز تہجد کے لئے اٹھتے تو اس وضوء وغیرہ سے پہلے یہ آیتیں پڑھا کرتے تھے۔

 

                   آل عمران جمعہ کے دن پڑھنے کی برکت

 

حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ جو شخص جمعہ کے دن سورہ آل عمران پڑھتا ہے تو اس کے لئے رات تک فرشتے دعا اور استغفار کرتے ہیں (یہ دونوں روایتیں دارمی نے نقل کی ہیں)

 

                   سورہ بقرہ کی آخری آیتیں عورتوں کو سکھانے کا حکم

 

حضرت جبیر بن نفیر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کو دو آیتوں (یعنی امن الرسول سے آخرت تک) 2۔ البقرۃ:190) پر ختم فرمایا ہے یہ دو آیتیں مجھے اس خزانے سے عطا فرمائی گئی ہیں جو عرش کے نیچے ہے لہٰذا ان آیتوں کو تم سیکھو اور اپنی عورتوں کو سکھلاؤ کیونکہ وہ آیتیں رحمت ہیں (خدا کے قرب) کا ذریعہ ہیں اور تمام دینی و دنیاوی بھلائیوں کے حصول کے لئے دعا ہیں (اس روایت کو دارمی نے بطریق ارسال نقل کیا ہے)

 

                   جمعہ کے دن سورہ ہود پڑھنے کا حکم

 

حضرت کعب رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جمعہ کے دن سورۃ ہود پڑھا کرو۔ (دارمی)

 

                   جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنے کی برکت

 

حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھتا ہے تو اس کے لئے (یعنی اس کے دل میں ایمان و ہدایت کا) نور دوسرے جمعہ تک روشن رہتا ہے بیہقی نے اس روایت کو دعوات کبیر میں نقل کیا ہے۔

 

                   الم تنزیل پڑھنے کی برکت

 

حضرت خالد بن معدان سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا (رات کے ابتدائی حصہ میں) اس سورۃ کو پڑھا کرو جو (قبر و حشر کے) عذاب سے نجات دینے والی ہے اور وہ سورۃ الم تنزیل ہے کیونکہ (صحابہ سے) مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ ایک شخص تھا جو یہی سورۃ پڑھا کرتا تھا وہ اس سورۃ کے علاوہ اور کچھ نہیں پڑھتا تھا (یعنی اس سورۃ کے علاوہ اور کسی چیز کو ورد نہیں قرار دیا تھا) اور وہ شخص بہت زیادہ گنہگار تھا، چنانچہ (جب اس شخص کا انتقال ہوا تو) اس سورت نے اس پر اپنے بازو پھیلا دئیے اور فریاد کی کہ اے میرے پروردگار! اس شخص کی بخشش فرما کیونکہ یہ مجھے بہت زیادہ پڑھا کرتا تھا۔ حق تعالیٰ نے اس شخص کے حق میں اس سورت کی شفاعت قبول فرمائی اور فرشتوں کو حکم دیا کہ (اس کے نامہ اعمال میں) اس کے ہر گناہ کے بدلہ نیکی لکھ دو اور اس کے درجات بلند کر دو، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ بھی فرماتے تھے کہ بے شک یہ سورت اپنے پڑھنے والے کی طرف سے قبر میں جھگڑتی ہے کہ یا الٰہی! اگر میں تیری کتاب (قرآن کریم) میں سے ہوں جو لوح محفوظ میں لکھا ہے تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما اور اگر (بفرض محال) میں تیری کتاب میں سے نہیں ہوں تو مجھے اس میں سے مٹا دے۔ نیز حضرت خالد نے فرمایا یہ سورت (قبر میں) ایک پرندہ کی مانند آئے گی اور اس پر اپنے بازو پھیلا کر اس کے لئے (اللہ تعالیٰ سے) شفاعت کرے گی۔ حضرت خالد نے سورۃ تبارک الذی بیدہ الملک کے بارہ میں بھی یہی کہا ہے کہ (اس سورۃ کی بھی یہی تاثیر اور برکت ہے) حضرت خالد کا معمول یہ تھا کہ وہ دونوں سورتیں پڑھے بغیر نہیں سوتے تھے۔ حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ ان دونوں سورتوں کو قرآن کریم کی ہر سورۃ پر ساٹھ نیکیوں کے ساتھ فضیلت بخشی گئی ہے۔ (دارمی یعنی ان دونوں روایتوں کو ایک حضرت خالد سے اور دوسری حضرت طاؤس سے منقول ہے ، دارمی نے نقل کیا ہے)۔

 

تشریح

 

حضرت خالد ایک جلیل القدر تابعی ہیں ستر صحابہ سے ملاقات اور صحبت کا شرف حاصل ہے اسی طرح حضرت طاؤس بھی مشاہیر تابعین میں سے ہیں لہٰذا حضرت خالد اور حضرت طاؤس دونوں سے منقول مذکورہ بالا روایتیں اگرچہ مرسل ہیں (کہ یہاں صحابی کا واسطہ ذکر نہیں کیا گیا ہے) لیکن حکم میں مرفوع ہی کے ہیں کیونکہ اس قسم کی باتیں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی سے معلوم ہو سکتی ہیں جو صحابہ کے ذریعہ تابعین تک پہنچتی ہیں اس لیے یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ یہ دونوں حضرات کے اپنے اقوال نہیں بلکہ مرفوع روایتیں ہیں۔

اس پر اپنے بازو پھیلا دئیے کا مطلب یہ ہے کہ وہ سورۃ یا اس کا ثواب پرندہ کی صورت اختیار کر گیا اور اپنے بازو اپنے پڑھنے والے پر پھیلا دئیے تاکہ اس پر سایہ کر لے یا یہ کہ اس نے اپنی رحمت کے بازو پھیلا دئیے یعنی اسے اپنی پناہ میں لے لیا اور اس کی طرف سے شفاعت و وکالت کی۔

قبر میں جھگڑتی ہے کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اس سورت کو پڑھتا ہے مداومت کے ساتھ تو یہ سورۃ اس کے لئے عذاب کی تخفیف یا قبر میں فراخی و وسعت یا اسی قسم کی دوسری آسانی و سہولت کی شفاعت و سفارش کرتی ہے۔

حضرت طاؤس کی روایت کے یہ الفاظ ان دونوں سورتوں کو قرآن کی ہر سورۃ پر فضیلت دی گئی ہے۔ اس صحیح روایت کے منافی نہیں ہے کہ سورۃ بقرہ، سورۃ فاتحہ کے بعد قرآن کی تمام سورتوں سے افضل ہے کیونکہ سورۃ بقرہ کی فضیلت اس اعتبار سے ہے کہ اس میں بہت عمدہ اور اعلیٰ مضامین مذکور ہیں اور ان دونوں سورتوں کو اس جہت و اعتبار سے فضیلت حاصل ہے کہ یہ اپنے پڑھنے والے کو عذاب قبر سے بچاتی ہیں۔

 

                   سوۃ یٰسین پڑھنے کی فضیلت

 

حضرت عطاء بن ابی رباح (تابعی) کہتے ہیں کہ مجھ تک یہ حدیث پہنچی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص دن کے ابتدائی حصہ میں سورۃ یٰسین پڑھتا ہے تو اس کی (دینی و دنیوی) حاجتیں پوری کی جاتی ہیں۔ (دارمی نے اس روایت کو بطریق ارسال نقل کیا ہے)۔

 

                   قریب المرگ کے سامنے یٰس کا پڑھنا

 

حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص اللہ رب العزت کی رضا و خوشنودی کی طلب میں سورۃ یٰسین پڑھتا ہے تو اس کے وہ گناہ بخش دئیے جاتے ہیں جو اس نے پہلے کئے ہیں لہٰذا اس سورۃ کو اپنے مردوں کے سامنے پڑھو۔ (بیہقی)

 

 

تشریح

 

گناہوں سے مراد صغیرہ گناہ ہیں کہ وہ اس سورۃ کی برکت سے بخش دئیے جاتے ہیں اسی طرح کبیرہ گناہ بھی بخشے جاتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کی بے پایاں رحمت شامل حال ہو۔

مردوں سے مراد قریب المرگ ہیں، مطلب یہ ہے کہ جو شخص قریب المرگ ہو اس کے سامنے سورہ یٰسین پڑھنی چاہئے تاکہ وہ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں اس کو سنے اور اس کے معانی کی طرف اس کی توجہ ہو اس طرح اس کا سننا اس کے پڑھنے کے حکم میں ہو جائے گا جو اس کی مغفرت و بخشش کا سبب ہو گا۔ یا پھر مردوں سے مراد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس سورت کو اپنی میت کی مغفرت و بخشش کی زیادہ احتیاج ہوتی ہے۔

 

                   سورہ بقرہ قرآن کی رفعت ہے

 

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارہ میں مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا۔ ہر چیز کے لئے رفعت و بلندی ہوتی ہے اور قرآن کی رفعت و بلندی سورۃ بقرہ ہے ہر چیز کا خلاصہ (حاصل مقصد) ہوتا ہے اور قرآن کا خلاصہ مفصل ہے۔ (دارمی)

 

تشریح

 

سورۃ بقرہ قرآن کریم کی رفعت و بلندی اس لئے ہے کہ نہ صرف یہ کہ وہ قرآن کی سورتوں میں سب سے بڑی ہے بلکہ اس سورت میں بہت زیادہ احکام مذکور ہیں۔

پہلے بھی کئی مقامات پر بتایا جا چکا ہے ، مفصل یا مفصلات سورۃ حجرات سے ختم قرآن یعنی سورۃ ناس تک کی سورتوں کو کہا جاتا ہے ، یہ سورتیں پورے قرآن کا خلاصہ اس طور پر ہیں کہ قرآن کریم کے جو مضامین اختصار اور اجمالی طور پر متفرق سورتوں میں ہیں وہ ان سورتوں میں یکجا اور تفصیلی طور پر بیان فرمائے گئے ہیں اسی لئے ان سورتوں کو مفصل کہنے کی وجہ تسمیہ بھی بہت خوب ہے۔

 

                   قرآن کی زینت سورہ رحمٰن

 

حضرت علی کرم اللہ وجہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ہر چیز کے لئے زینت ہوتی ہے اور قرآن کریم کی زینت سورۃ رحمٰن ہے۔

 

تشریح

 

سورۃ رحمٰن کو قرآن کریم کی زینت اس لئے فرمایا گیا ہے کہ اس میں دنیا و آخرت کی نعمتوں کا بیان ہے حوروں کے اوصاف کا بیان ہے جو جنت کی دلہنیں ہیں اور ان حوروں کے زیورات وغیرہ کا بیان ہے۔

 

                   سورہ واقعہ کی تاثیر

 

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص شب میں سورہ واقعہ پڑھتا ہے وہ کبھی بھی فاقہ کی حالت کو نہیں پہنچتا حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ اپنی صاحبزادیوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ وہ ہر شب میں یہ سورۃ پڑھا کریں۔ (ان دونوں روایتوں کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے)۔

 

 

تشریح

 

فاقہ کے معنی ہیں محتاجگی اور حاجت مندی۔ لہٰذا اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص روزانہ رات میں سورہ واقعہ پڑھتا ہے اس کے لئے محتاجگی، نقصان و پریشانی کا باعث نہیں بنتی اس وجہ سے کہ اسے صبر و قناعت کی دولت فرما دی جاتی ہے یا یہ کہ ایسے شخص کو دل کی محتاجگی نہیں ہوتی یعنی ظاہری محتاجگی کے باوجود اس کا دل مستغنی ہوتا ہے کیونکہ اس کے قلب میں وسعت و فراخی عطا کی جاتی ہے ، معرفت الٰہی حاصل ہوتی ہے اور توکل و اعتماد کا سرمایہ اس کے قلب و روح میں طمانیت پیدا کر دیتا ہے اور اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ وہ شخص اس سورۃ کے معانی و مفہوم سے استفادہ کرتا ہے۔

بہر کیف اتنی بات جان لینی چاہئے کہ شارع نے بعض ان عبادات و نیکیوں کی طرف رغبت دلائی ہے جو نہ صرف یہ کہ اخروی طور پر باعث فلاح و سعادت ہوتی ہیں بلکہ ان دنیاوی امور میں بھی نافع اور موثر بنتی ہیں جن کا حصول دین کے لئے ممد و معاون ہوتا ہے اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ بہر صورت کسی نہ کسی طرح عبادت اور نیک کاموں میں مصروف رہیں۔

 

                   سورہ اعلیٰ کی فضیلت

 

حضرت علی کرم اللہ وجہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس سورۃ یعنی سبح اسم ربک الاعلیٰ کو بہت محبوب رکھتے تھے۔ (احمد)

 

تشریح

 

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سورہ اعلیٰ یعنی سبح اسم ربک الاعلیٰ کو اس لیے بہت زیادہ محبوب رکھتے تھے کہ اس میں یہ آیت (اِنَّ ہٰذَا لَفِي الصُّحُفِ الْاُوْلٰى   1   8۝ۙ  صُحُفِ اِبْرٰہيْمَ وَمُوْسٰى   1     9۝ۧ) 87۔ الاعلی:18۔19) ہے جو قرآن کریم کی حقانیت و صداقت پر شاہد اور مشرکین و اہل کتاب کے خیالات و اعتقادات کی بہت مضبوط تردید ہے۔

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! حضرت ابراہیم کے صحیفوں میں کیا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس میں تمام مثالیں بیان کی گئی ہیں مثلاً کہا گیا ہے کہ اے مسلط! گرفتار نفس اور فریب خوردہ بادشاہ میں نے تجھے دنیا میں اس لئے نہیں بھیجا کہ تو دنیا جمع کرنے لگے بلکہ میں نے تجھے دنیا میں اس لئے بھیجا تھا کہ تو مظلوموں کی بد دعا سے بچے کیونکہ میں مظلوموں کی بد دعا رد نہیں کرتا خواہ مظلوم کافر ہی کیوں نہ ہو سلیم الطبع اور عقل مند انسان کے لئے لازم ہے کہ جب تک اس میں عقل ہو وہ اپنے لیے چار اوقات مقرر کرے ایک وقت میں تو وہ اپنے رب سے مناجات کرے ، دوسرے وقت میں اپنے نفس کا محاسبہ کرے ، تیسرے وقت میں خدا کی صفت و قدرت میں غور و فکر کرے اور چوتھے وقت میں اپنی حاجت مثلاً کھانے پینے وغیرہ میں مشغول رہے۔ عقل مند کے لئے لازم ہے کہ وہ صرف تین چیزوں کی طمع کرے (١) معاد (آخرت) کے لئے زاد راہ تیار کرنے کی (٢) یا اپنی معاش کی اصلاح کی (٣) یا غیر حرام سے لذت و نفع حاصل کرنے کی۔ عقلمند کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے زمانہ پر نظر رکھنے والا ہو، اپنے حال کی طرف متوجہ ہو اور اپنی زبان کی حفاظت کرنے والا ہو (یاد رکھو) جس شخص نے اپنے کلام کا اپنے اعمال سے محاسبہ کیا اس کا کلام زیادہ نہیں ہو گا وہ صرف وہی کلام کرے گا جو ضروری ہو۔

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اچھا حضرت موسیٰ کے صحیفوں میں کیا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس میں عبرتیں یعنی ڈرانے کی باتیں تھیں مثلاً اس میں یہ کہا گیا ہے کہ مجھے اس شخص پر تعجب ہے جو موت پر یقین رکھتا ہے مگر اس کے باوجود (وہ اپنی دنیاوی زندگی کے عیش و عشرت پر) خوش بھی ہوتا ہے۔ مجھے اس شخص پر تعجب ہے جو دوزخ کی آگ پر یقین رکھتا ہے مگر وہ پھر بھی ہنستا ہے۔ مجھے اس شخص پر تعجب ہے جو تقدیر پر یقین رکھتا ہے مگر وہ پھر بھی (طلب معاش کے سلسلہ میں) رنج و غم اٹھاتا ہے مجھے اس شخص پر تعجب ہے جو دنیا اور اس کے انقلابات کو دیکھتا ہے اور پھر بھی اس سے مطمئن رہتا ہے اور مجھے اس شخص پر تعجب ہے جو کل (قیامت) کے دن کے حساب پر یقین رکھتا ہے اور پھر بھی عمل نہیں کرتا۔

 

                   جامع سورت

 

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے پڑھائیے ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قرآن کریم کی ان سورتوں میں سے کہ جن کے شروع میں الر ہے پڑھو۔ اس نے عرض کیا میری عمر زیادہ ہو چکی ہے اور دل میرا سخت ہو گیا ہے (یعنی میرے قلب پر حافظہ کی کمی اور نسیان کا غلبہ ہے) نیز میری زبان موٹی ہے (یعنی کلام اللہ خصوصاً بڑی سورتیں میں یاد نہیں کر سکتا) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تم وہ سورتیں نہیں پڑھ سکتے تو ان سورتوں میں سے تین سورتیں پڑھو جن کے شروع میں حم ہے (کیونکہ یہ سورتیں ان سورتوں کی نسبت چھوٹی ہیں) اس شخص نے پھر وہی کہا کہ یا رسول اللہ! مجھے کوئی جامع سورت پڑھائیے (یعنی کوئی ایسی سورۃ بتائیے جس میں بہت سی باتیں جمع ہوں) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے سورہ اذا زلزلت پڑھائی جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (پوری سورت پڑھا کر) اس سے فارغ ہوئے اس شخص نے کہا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں (اس سورۃ پر عمل کرنے کے سلسلہ میں) اس پر کبھی بھی زیادتی نہیں کروں گا۔ پھر اس شخص نے پیٹھ پھیری (یعنی جب واپس ہو گیا) تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اس شخص نے مراد حاصل کر لی یہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو مرتبہ فرمایا۔ (احمد، ابوداؤد)

 

تشریح

 

جن سورتوں کی ابتداء لفظ الر سے ہوتی ہے ان کی تعداد پانچ ہے ان سورتوں کے بارہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سائل سے فرمایا کہ ان میں سے کوئی بھی تین سورتیں پڑھ لیا کرو۔

سورۃ اذا زلزلت کو سورۃ جامعہ (جامع سورۃ) اس لئے فرمایا گیا ہے کہ اس سورۃ میں یہ ایک آیت (فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَّرَہ   Ċ۝ۭ  وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرّاً يَّرَہ ) 99۔ الزلزلہ:7-8) (تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا)۔ اس آیت میں وہ تمام چیزیں آ گئی ہیں جن کو کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور جن کے مجموعہ کا نام ہے خیر و بھلائی اور وہ تمام چیزیں بھی اس میں شامل ہیں جن سے بچنے کا حکم دیا ہے جن کے مجموعہ کا نام ہے شر و برائی۔

 

                   الہٰکم التکاثر کی فضیلت

 

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات پر قادر نہیں ہے کہ وہ روزانہ ایک ہزار آیتیں پڑھا کرے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ کون شخص اس بات پر قادر ہو سکتا ہے کہ وہ ہمیشہ روزانہ ایک ہزار آیتیں پڑھتا رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا کوئی شخص اس بات پر قادر نہیں ہو سکتا کہ وہ روزانہ الہٰکم التکاثر پڑھ لیا کرے۔ (بیہقی)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص روزانہ یہ سورۃ پڑھ لیا کرے تو اسے ایک ہزار آیتوں کا ثواب ملے گا کیونکہ اس سورت میں دنیا سے بے رغبتی دلائی گئی ہے اور آخرت کی طرف متوجہ ہونے کی ترغیب دی گئی ہے۔

 

                   قل ہو اللہ احد پڑھنے کی تاثیر

 

حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ بطریق ارسال نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص سورۃ قل ہواللہ احد دس بار پڑھے تو اس کی وجہ سے جنت میں اس کے لئے ایک محل بنایا جاتا ہے جو شخص اس کو بیس مرتبہ تو اس کی وجہ سے جنت میں اس کے لئے دو محل بنائے جاتے ہیں اور جو شخص اس کو تیس مرتبہ پڑھے تو اس کی وجہ سے جنت میں اس کے لئے تین محل بنائے جاتے ہیں۔ (لسان ببوت سے یہ بشارت سن کر) حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ خدا کی قسم! اے اللہ کے رسول پھر تو اب ہم (جنت میں) اپنے بہت زیادہ محل بنا لیں گے (یعنی جب اس سورت کو پڑھنے کی یہ برکت اور اس کا یہ ثواب ہے تو پھر ہم اب اس سورت کو بہت زیادہ پڑھیں گے تاکہ اس کی وجہ سے جنت میں ہمارے لئے بہت زیادہ محل بنیں) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس سے بھی بہت زیادہ فراخ ہے۔ (یعنی اس سورت کی فضیلت اور اس کا ثواب بہت عظیم اور بہت وسیع ہے لہٰذا اس بشارت پر تعجب نہ کرو بلکہ اس کے حصول کی کوشش کرو اور اس کی طرف راغب ہو)۔ (دارمی)

 

                   رات میں قرآن پڑھنے کا اثر

 

حضرت حسن رضی اللہ عنہ بطریق ارسال نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص رات میں قرآن کی سو آیتیں پڑھے تو رات میں قرآن اس سے نہیں جھگڑے گا جو رات میں دو سو آیتیں پڑھے تو اس کے لئے شب بیداری کا ثواب لکھا جاتا ہے اور جو شخص رات میں پانچ سو سے ہزار تک آیتیں پڑھے تو وہ اس حال میں صبح کرتا ہے کہ اس کے لئے قنطار کے بقدر ثواب لکھا جا چکا ہوتا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ قنطار کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بارہ ہزار (درہم یا دینار)۔ (دارمی)

 

تشریح

 

قرآن اس سے نہیں جھگڑے گا کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص قرآن نہیں پڑھتا اور اس سے تعلق نہیں رکھتا تو قرآن اس کا دشمن ہو جاتا ہے اور اس پر لعنت و ملامت کرتا ہے لہٰذا رات میں قرآن کی سو آیتیں پڑھنا اس رات میں قرآن کی دشمنی کے دفعیہ اور اس کے حق کی ادائیگی کے لئے کافی ہے۔

اس موقع پر اتنی بات بھی جان لینی چاہئے کہ قرآن کا جھگڑنا یعنی قرآن کی لعنت و ملامت دو سبب سے ہے ایک تو قرآن نہ پڑھنے کی وجہ سے دوسرے قرآن پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ، پس اگر قرآن کی لعنت و ملامت قرآن نہ پڑھنے کی وجہ سے ہو گی تو وہ پڑھنے سے دفع ہو جائے گی اور اگر قرآن کی لعنت و ملامت قرآن پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہو گی تو وہ لعنت و ملامت باقی رہے گی جب تک کہ وہ عمل نہ کرے جب قرآن پر عمل کرے گا تو اس کی لعنت و ملامت بھی ختم ہو جائے گی، حاصل یہ ہے کہ اگر کوئی شخص قرآن پڑھے گا اور اس پر عمل بھی کرے گا تو وہ قرآن کی دشمنی اور اس کی لعنت و ملامت سے کلیۃً محفوظ رہے گا بلکہ قرآن ایسے شخص کے حق میں شفاعت سفارش بھی کرے گا اور اگر ایک بات میں بھی قصور و کوتاہی ہو گی تو قرآن کی دشمنی بھی باقی رہے گی اور لعنت و ملامت بھی ختم نہیں ہو گی۔

علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قرأت قرآن ہر شخص پر واجب ہے اگر کوئی شخص قرآن نہیں پڑھے گا تو اللہ تعالیٰ اس سے جھگڑے گا، لہٰذا جھگڑنے کی نسبت قرآن کی طرف مجازی ہے حقیقت میں وہ خدا کا جھگڑنا ہو گا یعنی قرآن نہ پڑھنے والے پر براہ راست خدا کی لعنت ہو گی۔

قنطار کے بقدر، کا مطلب قنطار کی تعداد کے برابر یا قنطار کے وزن کے برابر، بہرکیف یہاں مراد یہ ہے کہ حدیث میں مذکور تعداد میں قرآن کی آیتیں پڑھنے والا شخص بہت ہی زیادہ ثواب پاتا ہے۔

 

 

کچھ سورتوں کے فضائل

 

گزشتہ صفحات میں جو احادیث گزری ہیں ان میں کچھ سورتوں اور آیتوں کے فضائل بیان کئے جا چکے ہیں یہ باب ختم ہو رہا ہے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اب بعض سورتوں کے فضائل تفصیل کے ساتھ بیان کر دئیے جائیں جنہیں تفسیر عزیزی اور درمنثور نے نقل کیا ہے تاکہ ان فضائل کو پڑھنے کے بعد مسلمانوں کا دل خوش ہو کہ وہ زیادہ سے زیادہ راغب اور سرگرم ہو کر اس عظیم نعمت کو حاصل کرنے کی کوشش کریں اس طرح وہ دنیا کی فلاح و سعادت سے بہرہ ور ہو سکیں۔

 

                    بسم اللہ کی برکت

 

حضرت مولانا عبدالعزیز رحمۃ اللہ لکھتے ہیں کہ مفسرین نے کہا جب طوفان نوح نے اس دنیا کو اپنے خوفناک عذاب کے چنگل میں گھیر لیا اور حضرت نوح علیہ السلام اپنی کشتی میں سوار ہوئے تو وہ بھی خوف غرق سے ہراساں ولرزاں تھے انہوں نے غرق سے نجات پانے اور اس عذاب خداوندی سے محفوظ رہنے کے لئے بسم اللہ مجریہا ومرسہا کہا اس کلمہ کی برکت سے ان کی کشتی غرقابی سے محفوظ و سالم رہی مفسرین کہتے ہیں کہ جب اس آدھے کلمہ کی وجہ سے اتنے ہیبت ناک طوفان سے نجات حاصل ہوئی تو جو شخص اپنی پوری عمر اس پورے کلمہ یعنی بسم اللہ الرحمن الرحیم سے اپنے ہر کام کی ابتداء کرنے کا التزام کرے وہ نجات سے کیونکر محروم رہ سکتا ہے؟

علماء لکھتے ہیں کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم میں انیس حروف ہیں دوزخ کے موکل بھی انیس ہیں لہٰذا بسم اللہ الرحمن الرحیم کے ہر حرف کے ذریعہ ان میں سے ہر ایک کی بلا دفع ہو سکتی ہے نیز علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ دن رات کو چوبیس گھنٹے ہوتے ہیں پانچ گھنٹوں کے لئے تو پانچ وقت کی نمازیں مقرر فرمائی گئیں اور بقیہ انیس گھنٹوں کے لئے یہ انیس حروف عطا فرمائے گئے تاکہ ان انیس گھنٹوں میں ہر نشست و برخاست ہر حرکت و سکون اور ہر کام کے وقت ان انیس حروف کے ذریعہ برکت و عبادت حاصل ہو یعنی ان حروف بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنے کی برکت سے یہ انیس گھنٹے بھی عبادت میں لکھے جائیں۔

علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ سورۃ برات کو جو قتل کفار کے حکم پر مشتمل ہے بسم اللہ الرحمن الرحیم سے خالی رکھا گیا ہے کیونکہ یہ کلمہ رحمت ہے جو موقع کا مقتضی نہیں ہے اسی طرح جانور کو ذبح کرتے وقت بھی صرف بسم اللہ اللہ اکبر کہنا مقرر فرمایا گیا ہے بسم اللہ الرحمن الرحیم کہنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے کیونکہ ذبح کی صورت قہر عذاب کی شکل ہے اور یہ کلمہ رحمت (یعنی بسم اللہ الرحمن الرحیم) اس کا محل اور اس کا مقتضی نہیں لہٰذا جو شخص اس کلمہ رحمت یعنی بسم اللہ الرحمن الرحیم پر ہر وقت اور ہر آن مداومت کرتا ہے جس کا اولیٰ درجہ یہ ہے کہ وہ ہر روز ستر مرتبہ فرض نماز میں یہ کلمہ اپنی زبان پر جاری کرتا ہے کہ وہ شخص غضب و عذاب سے محفوظ اور ثواب سے محظوظ ہو گا۔

اس آیت یعنی بسم اللہ الرحمن الرحیم کے خواص میں سے یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جب کوئی شخص بیت الخلاء جائے تو اسے چاہئے کہ وہ بسم اللہ کہہ کر جائے تاکہ اس کی وجہ سے اس کی شرم گاہ اور جنات کے درمیان پردہ واقع ہو جائے کوئی شخص بسم اللہ کہہ کر بیت الخلاء جاتا ہے تو اس کا خاصہ یہ ہے کہ جنات کی نظر اس کی شرمگاہ کی طرف نہیں جاتی، لہٰذا جب اس کی تاثیر یہ ہے کہ یہ آیت انسان اور اس کے دنیاوی دشمن جنات کے درمیان پردہ بن جاتی ہے تو امید ہے کہ یہ ایک مسلمان اور عذاب عقبی کے درمیان بھی یقیناً پردہ بن کر حائل ہو گی۔

 

                    سورہ فاتحہ کے فضائل اور اس کی تاثیر

 

صحاح ستہ میں یہ روایت آتی ہے کہ جب کسی شخص کو بچھو یا سانپ کاٹ لیتا تھا یا کوئی مرگی میں مبتلا ہوتا تھا یا کوئی دیوانہ ہو جاتا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ سورۃ فاتحہ پڑھ کر اس شخص پر دم کیا کرتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس عمل کو پسند فرماتے تھے۔

دارقطنی اور ابن عساکر حضرت زید بن سائب رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سورہ فاتحہ پڑھ کر ان پر دم کیا اور یہ سورہ پڑھنے کے بعد اپنے دہن مبارک کا لعاب ان کے جسم کے اس حصہ پر ملا جہاں درد تھا۔

بزار نے اپنی مسند میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے اپنا پہلو اپنے بچھونے پر رکھا (یعنی سونے کے لئے اپنے بستر پر گیا) اور پھر اس نے سورہ فاتحہ اور قل ہواللہ احد پڑھ کر اپنے اوپر دم کیا تو وہ ہر آفت و بلاء سے محفوظ ہو گیا الا یہ کہ اس کی موت کا وقت آ پہنچا ہو یعنی موت سے کوئی چیز نہیں بچا سکتی۔

عبد حمید نے اپنی مسند میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بطریق مرفوع یہ روایت نقل کی ہے کہ فاتحۃ الکتاب (سورہ فاتحہ) باعتبار ثواب کے دو تہائی قرآن کے برابر ہے ، ابو شیخ طبرانی، ابن مردویہ، دیلمی اور ضیاء مقدسی روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے کہ مجھے گنج العرش (عرش کے خزانہ) سے چار چیزیں عطا کی گئی ہیں اس خزانہ سے ان چار چیزوں کے علاوہ اور کوئی چیز دوسرے کو نہیں دی گئی ہے اور وہ چار چیزیں ہیں۔ (١) ام الکتاب (سورہ فاتحہ) (٢) آیۃ الکرسی (٣) سورہ بقرہ کی آخری آیتیں (٤) سورہ کوثر۔

ابو نعیم اور دیلمی نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سورہ فاتحہ اس چیز سے کفایت کرتی ہے کہ قرآن کی اور کوئی سورت و آیت کفایت نہیں کرتی اور اگر سورہ فاتحہ کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھیں اور باقی تمام قرآن کو دوسرے پلڑے میں رکھیں تو یقیناً سورہ فاتحہ سات قرآن کے برابر ہو۔

حضرت ابو عبید فضائل قرآن میں حسن بصری سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، جس شخص نے سورہ فاتحہ پڑھی اس نے گویا توریت و انجیل زبور اور قرآن کو پڑھا۔

تفسیر وکیع، کتاب، المصاحف ابن ابناری، کتاب، العظمہ، ابو الشیخ اور حلیۃ الاولیاء ابو نعیم میں منقول ہے کہ ابلیس ملعون کو نوحہ و آہ و زاری کرنے اور اپنے سر پر خاک ڈالنے کا چار مرتبہ اتفاق ہوا ہے اول تو اس وقت جب کہ اس کو ملعون قرار دیا گیا دوسرے اس وقت جب کہ اسے آسمان و زمین پر ڈالا گیا تیسرے اس وقت جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خلعت نبوت سے نوازا گیا اور چوتھے اس وقت جب کہ سورہ فاتحہ نازل ہوئی۔

ابو شیخ نے کتاب الثواب میں لکھا ہے کہ جس شخص کو کوئی حاجت درپیش ہو تو اسے چاہئے کہ وہ سورہ فاتحہ پڑھے اور اس کے بعد اپنی حاجت کے لئے دعا کرے (انشاء اللہ اس کی حاجت پوری ہو گی)

ثعلبی حضرت شعبی سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے درد گردہ کی شکایت کی انہوں نے اس شخص سے کہا کہ تمہیں چاہئے کہ اساس القرآن پڑھ کر درد کی جگہ دم کرو (انشاء اللہ شفا ہو گی) اس شخص نے پوچھا کہ اساس القرآن کیا ہے؟ شعبی نے فرمایا کہ فاتحۃ الکتاب یعنی سورہ فاتحہ۔

مشائخ کے مجرب اعمال میں یہ مذکور ہے کہ سورہ فاتحہ اسم اعظم ہے اس سورۃ کو ہر مطلب و حاجت کے لئے پڑھنا چاہئے اس سلسلے میں اس سورت کو پڑھنے کے دو طریقے منقول ہیں اول یہ کہ اس سورۃ کو فجر کی سنت و فرض نماز کے درمیان چالیس دن تک اکتالیس مرتبہ اس طرح پڑھا جائے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کے میم کو الحمد کے لام کے ساتھ ملا یا جائے یعنی بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمدللہ رب العالمین الآیۃ۔ اس سورت کو مقرر بالا دن تک مذکورہ بالا طریقہ سے پڑھنے کے بعد مطلوب انشاء اللہ حاصل ہو گا اگر کسی مریض یا سحر زدہ کی شفا منظور ہو تو مذکورہ بالا طریقہ سے یہ سورت پڑھ کر پانی پر دم کر کے اس مریض یا سحر زدہ کو پلایا جائے انشاء اللہ شفا حاصل ہو گی۔

دوم یہ کہ نو چندی اتوار کو فجر کی سنت و فرض نماز کے درمیان میم کو لام کے ساتھ ملانے کی قید کے بغیر ستر مرتبہ یہ سورت پڑھے بعد ازاں ہر روز اسی وقت پڑھے مگر اس طرح کہ ہر روز مذکورہ تعداد میں سے دس مرتبہ کم کر دے یعنی نو چندی اتوار کو ستر مرتبہ، دوسرے روز ساٹھ مرتبہ تیسرے روز پچاس مرتبہ، اس طرح دس دس بار کم کرتا جائے تاآنکہ ہفتہ کے روز ختم ہو جائے اگر پہلے مہینہ میں مطلب حاصل ہو جائے تو فبہا ورنہ دوسرے اور تیسرے مہینہ میں اسی طرح پڑھے۔

امراض مزمنہ پرانے امراض کی شفاء کے لئے اس سورت کو چینی کے پیالے یا پلیٹ پر گلاب، مشک اور زعفران سے لکھ کر پلانا ایک مجرب عمل ہے اسی طرح دانتوں کے درد، شکم اور دوسرے دردوں میں سات مرتبہ سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کرنا بھی مجرب ہے۔

 

                   فضائل سورہ بقرہ

 

سورہ بقرہ کی فضیلت بھی بہت زیادہ منقول ہے صحیح مسلم میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد منقول ہے کہ ہم میں سے جو شخص سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران پڑھ لیتا تھا تو ہم اس کے مرتبہ باعتبار جاہ و عظمت کے بہت بلند ہو جاتا تھا چنانچہ اس بات کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک لشکر کو کہیں بھیجنا چاہتے تھے اس لشکر کے امیر کے تعین میں تردد پیدا ہو رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس مقررہ لشکر کے ہر فرد کو بلا کر اس سے پوچھتے تھے کہ تم قرآن کی کون سی سورۃ یاد رکھتے ہو؟ اسے جو سورۃ یاد ہوتی وہ بتا دیتا یہاں تک کہ نوبت ایک جوان تک پہنچی جو عمر میں سب سے چھوٹا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے بھی دریافت فرمایا کہ تم قرآن کی کون سی سورت یاد رکھتے ہو؟ اس نے عرض کیا کہ فلاں فلاں سوت اور سورۃ البقرہ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم سورہ بقرہ بھی یاد رکھتے ہو۔ اس نوجوان نے عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جاؤ اس لشکر کے تم ہی امیر مقرر کئے گئے۔

بیہقی نے شعب الایمان میں یہ روایت نقل کی ہے کہ امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سورہ بقرہ کو اس کے حقائق نکات کے ساتھ بارہ برس کے عرصہ میں پڑھا اور جس روز انہوں نے یہ سورت ختم کی اس دن ایک اونٹ ذبح کیا اور بہت زیادہ کھانا لا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ کو کھلایا۔

اس سلسلہ میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے کہ انہوں نے آٹھ برس تک اس سورۃ کو پڑھنے میں اپنے آپ کو منہمک رکھا۔ آٹھ برس کے بعد انہوں نے یہ سورت ختم کی غرضیکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے نزدیک اس سورۃ کو جو عظمت و فضیلت حاصل تھی وہ کسی اور سورۃ کو حاصل نہیں تھی۔

اس سورۃ کے مجرب خواص میں یہ ہے کہ جس موسم میں بچوں کو چیچک نکلتی ہے اس وقت جس بچے کی عافیت منظور ہو تو اس بچہ کو روبرو نہار منہ اس سورۃ کو تجوید کے ساتھ پڑھ کر اس پر دم کیا جائے وہ بچہ بھی نہار منہ ہونا چاہئے انشاء اللہ اس سال اس بچہ کو چیچک نہیں نکلے گی اگر نکلے گی بھی تو انجام بخیر ہو گا لیکن شرط یہ ہے کہ جس وقت اس سورت کو پڑھنا شروع کیا جائے تو اڑھائی پاؤ چاول اور اس پر دہی و کھانڈ ڈال کر اسے اسی مجلس میں کسی مستحق کو کھانے کے لئے دے دیا جائے۔

 

                   فضائل آیات سورہ کہف

 

درمنثور میں منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص سورہ کہف کی ابتدائی دس آیتیں یاد کرے گا وہ دجال کے فتنہ سے بچایا جائے گا اسی طرح وہ شخص بھی دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا جو اس سورت کی آخری دس آیتیں یاد کرے گا جو شخص سوتے وقت سورہ کہف کی دس آیتیں پڑھ لیا کرے گا وہ فتنہ دجال سے بچایا جائے گا اور جو شخص سوتے وقت اس سورت کا آخری حصہ پڑھے گا تو اس کے لئے قیامت کے دن اس کی قرأت کے نزدیک سے اس کے قدم تک نور ہی نور ہو گا۔

ایک اور روایت میں ہے کہ جو شخص جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھتا ہے تو اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک (کے صغیرہ گناہوں) کا کفارہ ہو جاتا ہے اسی طرح ایک روایت میں یہ ہے کہ جس گھر میں سورہ کہف پڑھی جاتی ہے اس رات کو اس گھر میں شیطان داخل نہیں ہوتا۔

 

                   فضائل سورہ ملک اور سورہ یٰس وغیرہ

 

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا رشاد گرامی ہے کہ جس شخص نے عشاء کے بعد چار رکعتیں پڑھیں اس طرح کہ پہلے دو رکعتوں میں قل یا ایہا الکافرون اور قل ہواللہ احد پڑھے اور اس کے بعد دو رکعتوں میں تبارک الذی اور الم تنزیل السجدہ تو اس کے لئے چار رکعتوں کا ثواب ایسی چار رکعتوں کے ثواب کے برابر لکھا جاتا ہے جو لیلۃ القدر میں پڑھی جائیں اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ جس شخص نے مغرب و عشاء کے درمیان سورہ تبارک الذی اور الم تنزیل السجدہ پڑھی تو گویا اس نے لیلۃ القدر میں شب بیداری کی۔

ایک اور روایت میں حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ جس شخص نے رات میں الم تنزیل السجدہ اور تبارک الذی پڑھی اس کے لئے ستر نیکیاں لکھی جاتی ہیں ، اس کی ستر برائیاں دور کی جاتی ہیں اور اس کے ستر درجات بلند کئے جاتے ہیں ایک اور روایت میں ہے کہ جس شخص نے رات میں الم تنزیل السجدہ اور تبارک الذی پڑھی اللہ تعالیٰ اس کے لیے لیلۃ القدر کے ثواب کی مانند ثواب لکھتا ہے۔

ابن خریس، ابن مردویہ اور بیہقی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تورات میں سورہ یٰس کا نام معمہ رکھا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سورت اپنے پڑھنے والے کے لئے دنیا و آخرت کی تمام نیکیوں اور بھلائیوں پر مشتمل ہے اپنے پڑھنے والے سے دنیا و آخرت کی مصیبت دفع کرتی ہے اور اس سے آخرت کی ہولناکی دور کرے گی۔ اور اس کا نام رافعہ یا (دافعہ)، خافضہ یا (قاضیہ) بھی رکھا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سورت مومنین کو بلند مرتبہ بناتی ہے اور کافروں کو پست کرتی ہے نیز اپنے پڑھنے والے سے ہر برائی دفع کرتی ہے اور اس کی ہر حاجت پوری کرتی ہے جو شخص اسے پڑھتا ہے تو وہ اس کے حق میں بیس حج کے برابر ہوتی ہے جو شخص اسے سنتا ہے تو وہ اس کے حق میں ایسے دینار کے برابر ہوتی ہے جسے وہ اللہ کی راہ میں (یعنی جہاد میں) خرچ کرے اور جو شخص اسے لکھ کر پیتا ہے تو وہ اس کے پیٹ میں ہزار دائیں، ہزار نور، ہزار برکتیں اور ہزار رحمتیں داخل کرتی ہے اور اس میں سے ہر کینہ اور ہر دکھ درد نکال باہر کرتی ہے۔

ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ، میں اس بات کو پسند کرتا ہوں اور دوست رکھتا ہوں کہ سورہ یٰس میری امت کے ہر فرد بشر کے دل میں ہو (یعنی ہر شخص کو یاد ہو) اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے ہر رات میں سورہ یٰس پڑھنے پر مداومت کی (یعنی وہ روزانہ رات میں اسے پڑھتا رہے) اور پھر وہ مر جائے تو اسے شہادت کی موت نصیب ہوتی ہے۔ نیز رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے دن کے ابتدائی حصہ میں سورہ یٰس پڑھی اس کی حاجتیں پوری کی جاتی ہیں۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو شخص سورہ یٰس صبح کے وقت پڑھتا ہے اسے شام تک اس دن کی آسانیاں عنایت کی جاتی ہیں اور جس شخص نے شب کے ابتدائی حصہ میں اس کو پڑھا اسے صبح تک اس رات کی آسانیاں عطا کی جاتی ہیں۔ بیہقی نے حضرت ابو قلابہ رحمۃ اللہ سے جو جلیل القدر تابعین میں سے ہیں ان کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ جس شخص نے سورہ یٰس پڑھی اس کی مغفرت کی جاتی ہے جس شخص نے یہ سورۃ بھوک کی حالت میں پڑھی وہ سیر ہو جاتا ہے جس شخص نے اس حالت میں پڑھی کہ وہ راستہ بھول گیا ہے تو اپنا راستہ پا لیتا ہے جس شخص نے اس حالت میں پڑھی کہ اس کا جانور جاتا رہا تو وہ اپنا جانور پا لیتا ہے جس شخص نے کھانے کے وقت اس حالت میں پڑھی کہ اسے کھانے کی کمی کا خوف ہے تو اس کا کھانا کافی ہو جاتا ہے جس شخص نے اسے میت یا قریب المرگ کے پاس پڑھا تو اس میت یا قریب المرگ پر آسانی ہو جاتی ہے جس شخص نے اسے کسی ایسی عورت پر پڑھا جو ولادت کی شدید تکلیف میں مبتلا ہے تو اس کے لئے ولادت میں آسانی کر دی جاتی ہے اور جس شخص نے یہ سورت پڑھی اس نے گویا پورا قرآن گیارہ مرتبہ پڑھا اور یاد رکھو ہر چیز کا دل ہوتا ہے قرآن کا دل سورہ یٰس ہے۔

مقبری کہتے ہیں کہ اگر کسی قسم کا کوئی خوف ہو حکومت وقت کا کوئی ناقابل برداشت یا غلط مطالبہ ہو کسی دشمن کی طرف سے ایذاء رسانی کا اندیشہ ہو تو سورہ یٰس پڑھو انشاء اللہ اس کی برکت کی وجہ سے تم ہر قسم کے خوف و اندیشہ سے محفوظ رہو گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے جس نے جمعہ کے دن سورہ یٰس اور والصافات پڑھی اور پھر خدا سے کوئی چیز مانگی تو اللہ تعالیٰ اسے وہ چیز عنایت فرمائے گا۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نماز سے فارغ ہونا اس بات سے پہچانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز کے بعد یہ آیت (سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُوْنَ) 37۔ الصافات:180) آخر آیت تک پڑھتے تھے۔ نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جس شخص نے نماز کے بعد یہ آیت (سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُوْنَ) 37۔ الصافات:180) آیت تک تین مرتبہ پڑھی تو بلا شک اس نے پورے پیمانہ کے ساتھ (یعنی بھر پور) ثواب حاصل کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ بھی فرماتے تھے کہ جس شخص کے لئے یہ بات خوش کن ہو کہ وہ قیامت کے روز بھرپور ثواب کا حق دار ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اپنی مجلس کے آخر میں جب کہ وہ اٹھنے کا ارادہ کرے یہ آیت یعنی سبحان ربک الخ پڑھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے سبع طول(یعنی وہ سات بڑی سورتیں جو ابتداء قرآن میں مذکور ہیں) تورات کی جگہ دی ہیں۔ الرآت سے طواسین تک انجیل کی جگہ دی ہیں طواسین اور حامیمون کے درمیان کی سورتیں زبور کی جگہ دی ہیں اور حامیمون سے وہ مفصل (قرآن کی آخری سورتوں) کے ذریعہ مجھے امتیاز و فضیلت بخشی ہے مجھ سے پہلے کسی نبی نے ان سورتوں کو نہیں پڑھا (یعنی ان سورتوں کے مضامین صرف مجھے ہی عنایت فرمائے گئے ہیں اور کسی نبی کو اس سے سرفراز نہیں کیا گیا ہے)۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہر چیز کا خلاصہ ہوا کرتا ہے قرآن کا خلاصہ حامیمون ہیں حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے بطریق مرفوع منقول ہے کہ حامیمون جنت کے باغات میں سے باغ ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے کہ حامیمون سات ہیں یعنی ایسی سورتوں کی تعداد سات ہے جن کے شروع میں حم ہے اور دوزخ کے دروازے بھی سات ہیں ان میں سے ہر حم قیامت میں دوزخ کے ہر دروازے پر کھڑی رہے گی اور ہر ایک عرض کرے گی کہ اے پروردگار! اس دروازے کے ذریعہ اس شخص کو دوزخ میں داخل نہ کر جو مجھ پر ایمان رکھتا تھا اور مجھ کو پڑھتا تھا۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، جس طرح ہر درخت کا پھل ہوتا ہے اسی طرح قرآن کا پھل حامیمون ہیں وہ باغ ہیں ارزانی کرنے والے ، سیر کرنے والے ، تجارت کی جگہ، لہٰذا جس شخص کو یہ بات پسندیدہ اور محبوب ہو کہ وہ جنت کے باغات میں خوشہ چینی کرے تو اسے چاہئے کہ وہ حامیمون پڑھے۔

بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب تک تبارک الذی اور حم السجدہ نہ پڑھ لیتے تھے سوتے نہیں تھے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جو شخص جمعہ کی شب میں حم الدخان اور یٰس پڑھتا ہے تو وہ اس حالت میں صبح کرتا ہے کہ اس کی بخشش ہو چکی ہوتی ہے۔ ایک دوسری روایت میں فرمایا ہے جو شخص جمعہ کی شب میں یا جمعہ کے دن حم الدخان پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر بناتا ہے نیز ایک روایت یہ ہے جو شخص جمعہ کی رات میں سورہ دخان پڑھتا ہے تو وہ اس حالت میں صبح کرتا ہے کہ اس کی مغفرت ہو چکی ہوتی ہے۔ اور اس کا نکاح حور عین سے کیا جائے گا۔ اور جو شخص رات میں سورہ دخان پڑھتا ہے اس کے پہلے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے الم تنزیل ، یٰس اقتربت الساعۃ اور تبارک الذی پڑھی یہ سورتیں اس کے لئے نور ہوں گی اور شیطان و شرک سے پناہ بن جائیں گی نیز قیامت کے دن اس کے درجات بلند کئے جائیں گے۔

ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص ہر رات میں اقتربت الساعۃ پڑھے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے اس حال میں اٹھائے گا کہ اس کا منہ چودہویں رات کے چاند کی مانند روشن ہو گا۔ نیز رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ سورہ اذا وقعت اور رحمن پڑھنے والا زمین و آسمان میں رہنے والوں کے درمیان ساکن الفردوس کے نام سے پکارا جاتا ہے یعنی وہ خوش نصیب جنت الفردوس میں کہ جو سب سے اعلیٰ جنت ہے رہے گا۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سورۃ الواقعہ سورۃ الغنی ہے لہٰذا اسے پڑھو اور اپنی اولاد کو سکھاؤ اور ایک روایت میں ہے کہ اسے اپنی بیویوں کو سکھلاؤ۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارہ میں منقول ہے کہ وہ عورتوں سے کہا کرتی تھیں کہ تم میں سے کسی کو سورہ واقعہ پڑھنے سے کوئی چیز روک نہ دے۔

منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص سے فرمایا کہ وہ جب سونے کے لیے اپنے بستر پر جائے تو سورۃ حشر پڑھے۔ ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ شیطان سے پناہ مانگے اور پھر تین مرتبہ سورہ حشر کا آخری حصہ پڑھے تو اللہ تعالیٰ ستر ہزار فرشتے بھیجتا ہے جو اس شخص سے جن و انس کے شیاطین کو دور رکھتے ہیں اگر وہ یہ رات میں پڑھتا ہے تو وہ فرشتے ان شیاطین کو شام تک دور رکھتے ہیں نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جس شخص نے سورۃ حشر کی آخری آیتیں دن میں یا رات میں پڑھیں اور اس دن میں یا رات میں مر گیا تو اس کے لئے جنت واجب ہو گی۔

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں اس بات کو پسندیدہ اور محبوب رکھتا ہوں کہ میری امت کے ہر فرد و بشر کے دل میں تبارک الذی ہو (یعنی ہر شخص کو یہ سورت یاد ہو)

اور حضرت عکرمہ بن سیان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت اسماعیل کے سامنے قرآن پڑھا جب میں سورۃ والضحیٰ پر پہنچا تو انہوں نے فرمایا کہ سورہ والضحیٰ کے بعد آخر تک ہر سورت کے ختم ہونے کے بعد اللہ اکبر کہو اس لئے کہ جب میں نے حضرت عبداللہ بن کثیر کے سامنے قرآن کریم پڑھا اور میں سورہ والضحیٰ پر پہنچا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ اس سورۃ کے بعد قرآن کریم کے آخر تک ہر سورۃ کے ختم ہونے کے بعد اللہ اکبر کہو، نیز حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی اس بات کا حکم دیا ہے ، چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے اس بات کا حکم حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے دیا اور حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے مجھے بتایا کہ انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس بات کا حکم دیا ہے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اذازلزلت آدھے قرآن کے برابر ہے والعادیات بھی آدھے قرآن کے برابر ہے ، نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص رات میں ہزار آیتیں پڑھا کرے گا وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ ہنستا ہو گا عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ! ہزار آیتیں پڑھنے کی طاقت کون رکھتا ہے آپ نے فرمایا بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر الہکم التکاثر آخر سورۃ تک پڑھے اور پھر فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے ! یہ سورت ہزار آیتوں کے برابر ہے۔

ابوالشیخ نے عظمت میں اور ابومحمد سمرقندی نے قل ہواللہ احد کے فضائل میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ خیبر کے یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ اے ابو القاسم! اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو نور حجاب سے آدم کو حماء مسنون یعنی سڑی ہوئی کیچڑ سے ابلیس کو شعلہ آگ سے آسمان کو دھوئیں سے اور زمین کو پانی کے جھاگ سے پیدا کیا لہٰذا اب آپ اپنے رب کے بارہ میں بتائیے کہ اللہ تعالیٰ کس چیز سے پیدا ہوا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا، تاکہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ کے پاس یہ سورۃ یعنی قل ہواللہ احد لائے جس کا مطلب یہ ہے کہ اے محمد آپ ان سے کہہ دیجئے اللہ ایک ہے نہ اس کے اصول ہیں نہ فروع اور نہ اس کا کوئی شریک ہے اللہ الصمد اللہ تعالیٰ بالکل بے پرواہ اور مستغنی ہے نہ تو وہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے اور نہ اسے کسی چیز کی حاجت و ضرورت ہے یہ ساری سورۃ آپ نے پڑھ کر سنا دی، چنانچہ اس سورۃ میں نہ جنت کا ذکر ہے اور نہ دوزخ کا نہ حلال چیزوں کا ذکر ہے اور نہ حرام کا بلکہ اس سورۃ کو اللہ تعالیٰ نے صرف اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ لہٰذا یہ سورۃ خاص طور پر اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے۔ یعنی اس سورۃ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات و صفات اور وحدانیت کی حقیقت بتائی ہے اس لیے جس شخص نے اس سورۃ کو تین مرتبہ پڑھا گویا اس نے تمام وحی یعنی پورا قرآن پڑھ لیا، جس شخص نے اس سورت کو تیس مرتبہ پڑھا ہو اس دن میں دنیا میں کوئی شخص اس کی فضیلت کے برابر نہیں ہو گا علاوہ اس شخص کے جس نے اس سے بھی زیادہ پڑھا ہو جس شخص نے اس سورۃ کو دو بار پڑھا ہو وہ جنت الفردوس میں رہے گا اور جو شخص اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت اسے تین مرتبہ پڑھے تو اس سے فقر و محتاجگی دور رہتے ہیں۔

ایک روایت میں ہے کہ ایک رات رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس طرح گزاری کہ تمام رات صبح تک اس سورۃ کو بار بار پڑھتے تھے۔

ایک روایت میں ہے کہ جس شخص نے قل ہو اللہ احد پڑھی اس نے گویا تہائی قرآن پڑھا ایک اور روایت میں ہے کہ جس شخص نے سورۃ اخلاص کو دو سو مرتبہ پڑھا اس کے دو سو برسوں کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں (یعنی اس کے بہت ہی زیادہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں)

اور ایک روایت میں ہے کہ جس شخص نے قل ہواللہ احد پچاس مرتبہ پڑھی اس کے پچاس برس کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں ایک روایت یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے ہر روز دو مرتبہ قل ہو اللہ احد پڑھی اس کے لئے ڈیڑھ ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اس سے پچاس برس کے گناہ دور کئے جاتے ہیں الا یہ کہ اس پر دین کوئی قرض ہو۔

ابن سعید، ابن خریس، ابویعلیٰ اور بیہقی دلائل میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ملک شام میں تھے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور عرض کیا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم! معاویہ ابن معاویہ مزنی رضی اللہ عنہ (صحابی) کا انتقال ہو گیا ہے کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جانتے ہیں کہ ان کی نماز جنازہ پڑھیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ہاں ! چنانچہ حضرت جبرائیل نے اپنا بازو زمین پر مارا جس سے ان کے لئے ہر چیز پست ہو کر زمین کی سطح سے مل گئی یہاں تک کہ معاویہ کا جنازہ بلند ہو کر سامنے نظر آنے لگا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی نماز جنازہ فرشتوں کی دو صفوں میں پڑھی اور ہر صف میں چھ لاکھ فرشتے تھے۔ حضرت جبرائیل نے کہا کہ قل ہواللہ احد کے پڑھنے نے وہ اس سورۃ کو ہر وقت کھڑے بیٹھے آتے جاتے اور سوتے (یعنی لیٹے لیٹے) پڑھا کرتے تھے۔

ایک اور روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی سے منقول ہے کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ تبوک میں تھے ایک دن آفتاب طلوع ہوا تو اس میں ایسی روشنی و شعاع اور ایسا نور تھا کہ ہم نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سورج کی اس روشنی و نور کے بارہ میں اظہار تعجب ہی فرما رہے تھے کہ اچانک حضرت جبرائیل تشریف لے آئے ان سے پوچھا کہ سورج کے لئے ایسا کیا سبب پیش آیا کہ میں اس کو ایسی روشنی ونور کے ساتھ دیکھ رہا ہوں کہ پہلے کبھی اس طرح طلوع ہوتے نہیں دیکھا؟ انہوں نے کہا کہ اس کا سبب یہ ہے کہ آج مدینہ میں معاویہ ابن معاویہ لیثی کا انتقال ہو گیا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف ستر ہزار فرشتے بھیجے تاکہ وہ ان نماز جنازہ پڑھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا کہ اے جبرائیل ! اس فضیلت و کرامت کا سبب کیا ہے حضرت جبرائیل نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ قل ہواللہ احد بہت زیادہ پڑھتے تھے کھڑے بیٹھے چلتے اور دن و رات کے دوسرے اوقات میں اس سورۃ کو بہت زیادہ پڑھتے تھے کیونکہ یہ سورۃ آپ کے رب کی نسبت ہے جو شخص اس سورۃ کو پچاس مرتبہ پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے پچاس ہزار درجے بلند کرتا ہے اور اس سے پچاس ہزار برائیاں دور کرتا ہے نیز اس کے لئے پچاس ہزار نیکیاں لکھتا ہے اور جو شخص اس سے بھی زیادہ پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس سے بھی زیادہ ثواب عطا فرماتا ہے پھر جبرائیل نے کہا کہ کیا میں آپ کے لئے زمین سمیٹ لوں تاکہ آپ ان کی نماز جنازہ پڑھ سکیں؟ آپ نے کہا ہاں۔ چنانچہ آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تین چیزیں ایسی ہیں جن کو جو شخص تکمیل ایمان کی خاطر اختیار کرے تو وہ جنت کے جس دروازے سے چا ہے گا داخل ہو گا اور جس بھی حور عین سے چا ہے گا نکاح کرے گا۔ (١) اپنے قاتل کو معاف کرے (٢) دین خفیہ ادا کرے (٣) ہر فرض نماز کے بعد دس مرتبہ قل ہواللہ احد پڑھے۔ (یہ سن کر) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اگر ان میں سے کوئی ایک چیز بھی اختیار کرے گا تو مذکورہ بالا ثواب سعادت کا حقدار ہو گا۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے جو شخص روزانہ پچاس مرتبہ قل ہواللہ احد پڑھے تو اسے قیامت کے دن اس کی قبر سے اس طرح بلایا جائے گا کہ اے اللہ کے مدح کرنے والے جنت میں داخل ہو جا۔

ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، جو شخص کھانا شروع کرتے وقت بسم اللہ کہنا بھول جائے تو اسے چاہئے کہ جب وہ کھانے سے فارغ ہو تو قل ہواللہ احد پڑھ لے نیز رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت قل ہواللہ احد پڑھتا ہے تو نہ صرف یہ کہ اس کے گھر والوں سے بلکہ ہمسایوں سے بھی فقر و محتاجگی دور ہوتی ہے ایک روایت میں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک دن حضرت جبرائیل بڑی اچھی صورت میں شاداں وفرحاں میرے پاس ائے اور کہنے لگے کہ اے محمد! اللہ تعالیٰ آپ کو سلام فرماتا ہے اور فرماتا ہے کہ ہر ذات کے لئے سلسلہ نسب ہوتا ہے میرا نسب قل ہواللہ احد ہے لہٰذا آپ کی امت میں سے جو شخص میرے پاس اس حال میں آئے گا کہ اس نے کبھی قل ہواللہ احد ہزار بار پڑھی ہو گی تو میں اسے اپنا نشان عطا کروں گا۔ اسے اپنے عرش کے قریب رکھوں گا اور ایسے ستر آدمیوں کے حق میں اس کی شفاعت قبول کروں گا جو مستوجب عذاب ہوں گے اور اگر میں نے اپنے اوپر یہ واجب نہ کر لیا ہوتا کہ آیت (کل نفس ذائقۃ الموت (یعنی میں نے یہ کلیہ نہ بنا دیا ہوتا کہ ہر جاندار موت کا مزہ ضرور چکھے گا) تو میں اس کی روح قبض نہ کرتا۔

ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص نماز جمعہ کے بعد قل ہواللہ احد، قل اعوذ براب الفلق اور قل اعوذ برب الناس سات سات مرتبہ پڑھے تو اللہ تعالیٰ اسے دوسرے جمعہ تک برائیوں سے پناہ میں رکھتا ہے۔

ایک روایت یہ ہے کہ جس شخص نے قل ہواللہ احد ہزار مرتبہ پڑھی تو اس کا یہ پڑھنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس بات سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے کہ وہ فی سبیل اللہ (یعنی جہاد میں) ایک ہزار گھوڑے مع لگام و زین کے دے۔

حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جو شخص قل ہواللہ احد پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے گوشت کو آگ پر حرام کر دیتا ہے ، نیز کعب احبار رضی اللہ عنہ سے یہ بھی منقول ہے کہ جو شخص روزانہ رات و دن میں دس بار قل ہواللہ احد اور آیۃ الکرسی پڑھنے پر مواظبت کرے تو وہ اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگے تو وہ عطا فرماتا ہے۔ ایک روایت میں یہ ہے کہ جس شخص نے اس سورت کو ہزار مرتبہ پڑھا اس نے اپنا نفس اللہ تعالیٰ سے خرید لیا یعنی وہ آگ سے محفوظ ہو گیا، اسی طرح ایک روایت میں یوں ہے کہ جو شخص اس سورت کو دو سو مرتبہ پڑھتا ہے تو اسے پانچ سو برس کی عبادت کا ثواب حاصل ہوتا ہے۔

ایک روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارہ میں منقول ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نکاح حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پانی منگا کر اس میں کلی کی پھر اسے اپنے گھر میں لے گئے اور اس پانی کو ان کے گریبان میں اور ان کے دونوں مونڈھوں کے درمیان چھڑکا نیز قل ہواللہ احد، قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھ کر انہیں خدا کی پناہ میں دیا۔ ایک روایت میں ہے کہ جس شخص نے فجر کی نماز کے بعد کسی سے بات چیت کرنے سے پہلے ستر مرتبہ قل ہواللہ احد پڑھی تو اس دن اس کی طرف سے پچاس صدیقین کے عمل اوپر پہنچائے جاتے ہیں۔

 

 

               حرم مدینہ کا بیان

 

                   احد پہاڑ کی فضیلت

 

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نظر مبارک جب احد پہاڑ پر پڑی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں (پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ فرمایا کہ) اے اللہ! حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرام کیا (یعنی اس کے حرم ہونے کو ظاہر کیا) اور میں اس قطعہ زمین کو حرام کرتا ہوں (یعنی قابل تعظیم قرار دیتا ہوں) جو سنگسان مدینہ کے دونوں کناروں کے درمیان ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے یہ جملہ بلا شک و شبہ اپنے طاہری معنی ہی پر محمول ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جمادات (یعنی پتھروں وغیرہ) میں بھی ان کے حسب حال علم و فہم اور محبت و عداوت، خاص طور سے انبیاء و اولیاء اور بالاخص حضرت سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی محبت پیدا کی ہے ، نیز یہ کہ پروردگار عالم جس کو دوست رکھتا ہے اس کو تمام چیزیں دوست رکھتی ہیں کیونکہ ہر چیز پروردگار کی مخلوق اور اس کی تابعدار ہے ، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مفارقت کی وجہ سے کھجور کے تنے کے رونے کا واقعہ اس دعویٰ کی صریح دلیل ہے۔

وانی احرم ما بین لابتیہا کا مطلب جیسا کہ ترجمہ میں بھی ظاہر کیا گیا ، یہ ہے کہ میں اس قطعہ زمین کو جس میں مدینہ ہے بزرگ قدر اور قابل تعظیم قرار دیتا ہوں، اس جملہ سے یہ مراد نہیں ہے کہ مکہ کی طرح مدینہ اور اس کے اطراف کی زمین بھی بایں معنی حرم ہے کہ اس کا درخت کاٹنا اور اس میں شکار وغیرہ حرام ہے۔

 

 

٭٭حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  احد پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں۔ (بخاری)

 

                   حرم مدینہ کا مسئلہ

 

حضر سلیمان بن ابوعبداللہ (تابعی) کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو پکڑا جو اس حرم مدینہ (یعنی مدینہ کے اطراف) میں شکار مار رہا تھا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حرام یعنی قابل تعظیم) قرار دیا ہے ، چنانچہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اس شخص کے کپڑے زجر و تنبیہ کے طور پر چھین لئے ، پھر اس شخص کے مالک آئے اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے اس کے بارہ میں گفتگو کی، حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس حرم کو حرام قرار دیا ہے ، نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی ایسے آدمی کو پکڑے جو اس میں شکار مار رہا ہو تو وہ اس کا سامان چھین لے۔ لہٰذا جو چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے دلوائی ہے (یعنی جو چیز میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے حاصل کی ہے) وہ تو میں (کسی حال میں بھی) واپس نہیں کروں گا ، ہاں اگر تم چاہو تو میں اس کی قیمت (از راہ مروت و احسان) تمہیں دے دوں۔ (ابوداؤد)

 

 

 

٭٭حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام صالح کہتے ہیں کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے مدینہ کے غلاموں میں سے کچھ غلاموں کو مدینہ کا درخت کاٹتے ہوئے پایا تو انہوں نے ان کے اسباب ضبط کر لئے اور پھر ان کے مالکوں سے فرمایا کہ میں نے خود سنا ہے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مدینہ کے درخت کا کوئی بھی حصہ کاٹنے سے منع فرمایا ہے نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص مدینہ کے درخت کا کچھ بھی حصہ کاٹے تو اس کا اسباب اس شخص کے لئے ہے جو اس کو پکڑے۔ (ابوداؤد)

 

 

تشریح

 

عن صالح مولیٰ لسعد (حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام صالح کہتے ہیں) کے بجائے صحیح یوں ہے عن صالح عن مولیٰ لسعد (صالح حضرت سعد کے آزاد کردہ غلام سے روایت کرتے ہیں) گویا مولیٰ لسعد سے پہلے لفظ عن یا تو کاتب کی غلطی سے نہیں لکھا گیا ، یا پھر اس بارہ میں خود مصنف کو سہو ہوا ہے کیونکہ صالح حضرت سعد کے آزاد کردہ غلام نہیں بلکہ توامہ کے آزاد کردہ غلام ہیں اور صالح نے یہ روایت حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام سے نقل کی ہے۔

 

                   وج میں شکار وغیرہ کی ممانعت

 

حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  وج کا شکار اور اس کے خاردار درخت حرام ہیں جو اللہ تعالیٰ کے لئے (یعنی اللہ تعالیٰ بموجب) حرام کیے گئے (یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں یعنی غازیوں کی وجہ سے) حرام کیے گئے ہیں۔ (ابوداؤد)

امام محی السنہ فرماتے ہیں کہ  وج  کے بارہ میں علماء نے لکھا ہے کہ یہ یعنی وج طائف کے کنارے ایک مقام ہے ، نیز خطابی نے انہا من ناحیۃ الطائف میں انہا کی بجائے انہ لکھا ہے۔

 

تشریح

 

علماء لکھتے ہیں کہ مقام وج میں شکار وغیرہ کی حرمت حمی کے طور پر تھی (حمی اس چراگاہ کو کہتے ہیں جس میں دوسروں کے جانور کو چرانے کی ممانعت ہو) چنانچہ مقام وج میں چونکہ غازیوں کے گھوڑوں کے لئے گھاس وغیرہ روکی جاتی تھی اس لئے اس مقام میں شکار کے لئے جانا یا اس کے درخت وغیرہ کاٹنا ممنوع تھا، حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مقام وج کی مذکورہ بالا حرمت حرم کے طور پر تھی ، اور اگر یہ حرمت حرم ہی کے طور پر تھی تو پھر کہا جائے گا کہ اس حرمت کا تعلق ایک مخصوص زمانہ کے ساتھ تھا جو بعد میں منسوخ ہو گئی تھی۔

امام شافعی اس بات کے قائل ہیں کہ مقام وج میں نہ تو شکار کیا جائے نہ وہاں کے درخت وغیرہ کاٹے جائیں تاہم انہوں نے اس میں ضمان (یعنی بطور جزاء و کفارہ کسی چیز کا واجب ہونا) ذکر نہیں کیا ہے۔

 

                   مدینہ میں مرنے کی سعادت

 

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص مدینہ میں مر سکتا ہو اسے مدینہ ہی میں مرنا چاہئے کیونکہ جو شخص مدینہ میں مرے گا میں اس کی شفاعت کروں گا۔ (احمد، ترمذی)

امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث سند کے اعتبار سے حسن صحیح غریب ہے۔

 

تشریح

 

حدیث کے پہلے جزو کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اس بات پر قادر ہو کہ مدینہ میں اپنی زندگی کے آخری لمحات تک رہ سکے ، تو اسے چاہئے کہ وہ مدینہ ہی میں رہے تاآنکہ اس کی موت اسی مقدس شہر میں واقع ہو اور میں اس کی شفاعت کروں بایں طور کہ اگر وہ گنہگار ہو گا تو میں اسے بخشواؤں گا اور اگر نیکوکار ہو گا تو اس کے درجات بلند کراؤں گا۔

واضح رہے کہ یہاں شفاعت سے مراد وہ خاص شفاعت ہے جو صرف مدینہ میں رہنے والوں ہی کو حاصل ہو گی اور کسی دوسرے کو نصیب نہ ہو گی ، البتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شفاعت عام ہر مسلمان کے لئے ہو گی۔ لہٰذا افضل یہ ہے کہ جس کی عمر زیادہ ہو جائے یا کشف وغیرہ کے ذریعہ اسے معلوم ہو جائے کہ اس کی موت کا وقت قریب آ گیا ہے تو وہ مدینہ منورہ میں جا رہے تاکہ وہاں مرنے کی وجہ سے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شفاعت خاص کی اس سعادت عظیم کا حق دار ہو جائے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دعا کیا خوب ہے۔ اللہم ارزقنی شہادۃ فی سبیلک واجعل موتی ببلد رسولک۔ اے اللہ! مجھی اپنی راہ میں شہادت نصیب کر اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے شہر میں مجھے موت دے۔

دعا ہے کہ رب کریم ہم جیسے بے رز و بے پر کو بھی یہ دولت نصیب کرے۔ آمین

 

                   قرب قیامت میں مدینہ سب سے آخر میں ویران ہو گا

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ ویران و اجاڑ ہونے والے اسلامی شہروں میں سب سے آخری نمبر مدینہ کا ہو گا امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جب قیامت قریب ہو گی تو تمام آبادیاں اور شہر ویران و اجاڑ ہو جائیں گے اور ان میں مدینہ سب سے آخر میں ویران و اجاڑ ہو گا۔ گویا مدینہ کو یہ برکت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔

 

                   آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہجرت کے لئے مدینہ کا تعین

 

حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی مجھے مطلع فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان تین شہروں (١) مدینہ (٢) بحرین(٣) قنسرین۔ میں سے جس شہر میں (رہنے کے لئے) اتریں گے وہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے دارالہجرت (ہجرت کا مکان) ہو گا۔ (ترمذی)

 

 

تشریح

 

بحرین موجودہ جغرافیائی نقشہ کے مطابق ان متعدد جزیروں کے مجموعہ کا نام ہے جو خلیج غربی کے جنوب مغربی گوشے میں واقع ہیں، ان جزیروں میں سب سے بڑا جزیرہ ، جزیرہ منامہ ہے جس کا دوسرا نام بحرین بھی ہے اسی جزیرہ کے نام پر پورے ملک کو بحرین کہتے ہیں۔ لیکن حدیث شریف اور تاریخ کی کتابوں میں  بحرین کا لفظ اس علاقہ کے متعلق آیا ہے جو جزیرہ العرب کے مشرقی ساحل پر خلیج بصرہ سے قطر اور عمان تک پھیلا ہوا ہے اور موجودہ بحرین کے مغرب میں واقع ہے۔ اس علاقہ کو اب  احساء کہا جاتا ہے ، لہٰذا یہاں حدیث میں بھی  بحرین سے مراد وہی علاقہ ہے جس کا نام اب  احساء ہے۔

قنسرین  ملک شام کے ایک شہر کا نام ہے ! بہرکیف آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا تھا کہ ان تین شہروں میں جس شہر کے بارہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خواہش ہو مکہ سے ہجرت کر کے وہاں چلے جائیں اور اسی شہر کو اپنا مسکن قرار دیجئے۔ لیکن تاریخ مدینہ میں لکھا ہے کہ اگرچہ شروع میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ان تین شہروں میں سے کسی بھی ایک شہر میں رہنے کا اختیار دیا گیا تھا مگر آخر میں مدینہ ہی کو متعین کر دیا گیا تھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لے آئے۔

 

                   دجال سے مدینہ کی حفاظت

 

حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  مدینہ میں کانے دجال کا خوف (بھی) داخل نہیں ہو گا، اس دن (جب کہ کانا دجال نمودار ہو گا) مدینہ کے سات دروازے (یعنی سات راستے) ہوں گے اور ہر دروازہ یعنی ہر راستہ پر دائیں بائیں دو فرشتے (مدینہ کی حفاظت پر مامور) ہوں گے۔ (بخاری)

 

                   مدینہ میں برکت کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعا

 

حضرت انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (بطور دعا) فرمایا۔ اے اللہ! مدینہ کو اس برکت سے دوگنی برکت عطا فرما جو تو نے مکہ کو عطا کی ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

دعا کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ! مکہ کی شان و شوکت کی نسبت مدینہ کو دوگنی شان و شوکت عطا فرما، یہ دعا مدینہ پر مکہ کی فضیلت کے منافی بایں اعتبار نہیں ہے کہ مکہ میں حسنات کی زیادتی اس کے افضل ہونے کی سب سے بڑی وجہ ترجیح ہے۔

 

                   حرمین میں سکونت پذیر ہونے کی سعادت

 

اور خطاب کے خاندان کا ایک شخص ناقل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص بالقصد میری زیارت کرے گا وہ قیامت کے دن میرا ہمسایہ اور میری پناہ میں ہو گا، جس شخص نے مدینہ میں سکونت اختیار کر کے اس کی سختیوں پر صبر کیا قیامت کے دن میں اس کی اطاعت کا گواہ بنوں گا اور اس کے گناہوں کی بخشش کے لئے شفاعت کروں گا، اور جو شخص حرمین (مکہ اور مدینہ) میں سے کسی ایک میں مرے گا قیامت کے دن اسے اللہ تعالیٰ امن والوں میں اٹھائے گا (یعنی یہ قیامت کے دن عذاب کے خوف سے مامون رہے گا)۔

 

تشریح

 

جو شخص بالقصد میری زیارت کرے گا، کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص تجارت، دکھانے سنانے ، یا اسی طرح کی اور کسی دنیاوی غرض کے لئے نہیں بلکہ حصول ثواب کے پیش نظر صرف میری زیارت کے لئے آئے گا اسے مذکورہ سعادت حاصل ہو گی۔

 

                   روضہ اطہر کی زیارت کی فضیلت

 

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بطریق مرفوع (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے حج کیا اور پھر میرے وصال کے بعد میری قبر کی زیارت کی تو وہ اس شخص کی مانند ہو گا جس نے میری زندگی میں میری زیارت کی یہ دونوں روایتیں بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کی ہیں۔

 

تشریح

 

روضہ اطہر کی زیارت کرنے والا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیارت کرنے والے کی مانند اس لئے ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حیات ہیں! یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ روضہ اطہر کی زیارت حج کے افعال سے فراغت کے بعد کی جائے۔

ایک اور روایت میں منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص میری قبر کی زیارت کرتا ہے اس کے لئے میری شفاعت واجب و لازم ہوتی ہے ایک اور روایت میں یہ ہے کہ جس شخص نے حج بیت اللہ کی اور میری زیارت نہیں کی اس نے مجھ پر ظلم کیا۔ اسی طرح ایک روایت میں یہ منقول ہے کہ جس شخص نے مکہ یعنی حج کا قصد کیا اور پھر میری زیارت اور میری مسجد میں شرف حاضری کے حصول کا قصد کیا تو اس کے لئے یعنی اس کے نامہ اعمال میں دو مقبول حج لکھے جاتے ہیں۔

 

                   مدینہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا کمال تعلق

 

حضرت یحییٰ بن سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ تک یہ حدیث پہنچی ہے کہ ایک دن مدینہ میں ایک قبر کھودی جا رہی تھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی وہاں تشریف فرما تھے ، ایک شخص نے قبر میں جھانکا اور کہنے لگا یہ قبر مومن کے لئے بری خوابگاہ ہے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ سن کر فرمایا کہ بری تو وہ چیز ہے کہ جو تم نے کہی ہے اس شخص نے عرض کیا کہ میرا منشاء یہ نہیں تھا، بلکہ اس بات سے میرا مطلب اللہ کی راہ میں شہید ہونے کی فضیلت کو ظاہر کرنا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا (ہاں یہ بات تو صحیح ہے کہ) اللہ کی راہ میں شہید ہونے سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے لیکن یہ بات بھی ہے کہ روئے زمین کا کوئی بھی ٹکڑا ایسا نہیں جس میں میری قبر بنے اور وہ مجھے مدینہ سے زیادہ محبوب ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بات تین مرتبہ فرمائی۔ اس روایت کو امام مالک نے بطریق ارسال نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

بری تو وہ چیز ہے جو تم نے کہی ہے کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری یہ بات بری اور غلط ہے کہ قبر مؤمن کے لئے بری خوابگاہ ہے کیونکہ تم نے مؤمن کی قبر کو برا کہا ہے حالانکہ مؤمن کی قبر جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے۔ چنانچہ اس شخص نے اپنی بات کی وضاحت کی کہ میرا منشاء قبر کو مطلقاً مؤمن کی بری خوابگاہ کہنا نہیں تھا بلکہ میرا مطلب تو یہ تھا کہ اللہ کی راہ میں شہید ہونا گھر میں مرنے سے بہتر ہے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے اس نکتہ کو پسند فرمایا اور تصدیق کی کہ واقعی اللہ کی راہ میں شہید ہونے کے برابر کوئی چیز نہیں ہے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی قبر کے لئے مدینہ کی زمین کو پسند فرما کر اس شخص کی فضیلت کو ظاہر کیا جو مدینہ میں مرے اور مدینہ ہی میں دفن کیا جائے خواہ وہ شہید ہو یا غیر شہید۔

 

                   وادی عقیق میں نماز کی فضیلت

 

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے وادی عقیق میں (جو مدینہ کا ایک جنگل ہے) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آج کی رات میرے پروردگار کی طرف سے ایک آنے والا یعنی فرشتہ میرے پاس آیا اور کہا کہ اس مبارک وادی میں نماز پڑھئے اور وہ عمرہ کہئے جو حج کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ اور عمرہ و حج کہئے (یعنی اس وادی میں نماز پڑھنا حج و عمرہ کے برابر ہے۔ (بخاری)

 

تشریح

 

پہلے تو یہ سمجھ لیجئے کہ عربی قواعد کے مطابق لفظ قول فعل کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے ، لہٰذا حدیث کے آخری جملہ قل عمرۃ فی حجۃ کے معنی ہیں اور اس نماز کو وہ عمرہ شمار کیجئے جو حج کے ساتھ ہوتا ہے گویا اس جملہ کے ذریعہ وادی عقیق میں ادا کی جانے والی نماز کی فضیلت کو بیان کرنا مقصود ہے کہ وادی عقیق میں جو نماز پڑھی جاتی ہے اس کا ثواب اس عمرہ کے برابر ہے جو حج کے ساتھ کیا جاتا ہے ، اسی طرح دوسری روایت کے الفاظ وقل عمرۃ وحجۃ کا مطلب یہ ہے کہ وادی عقیق میں پڑھی جانے والی نماز عمرہ و حج کے برابر ہے۔

 

                   مدینہ منورہ کے کچھ اور فضائل

 

علماء نے لکھا ہے کہ حکیم مطلق اللہ جل شانہ، نے اس شہر پاک کی خاک پاک اور وہاں کے میوہ جات میں تاثیر شفا ودیعت فرمائی ہے۔ اکثر احادیث میں منقول ہے کہ مدینہ کے غبار میں ہر قسم کے مرض کی شفا ہے بعض دوسرے طرق سے منقول احادیث میں ہے کہ مدینہ کے غبار میں جذام اور برص کی شفا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کو حکم فرمایا تھا کہ وہ بخار کا علاج اس کی خاک پاک سے کریں۔ چنانچہ نہ صرف مدینہ ہی میں اس حکم پر عمل ہوتا رہا ہے بلکہ اس خاک پاک کو بطور دوا لے جانے کے سلسلہ میں بھی کتنے ہی آثار منقول ہیں اور بعض علماء نے تو اس معالجہ کا تجربہ بھی کیا ہے ، حضرت شیخ مجددالدین فیروز آبادی کا بیان ہے کہ میں نے خود اس کا تجربہ کیا ہے کہ میرا ایک خدمت گار مسلسل ایک سال سے بخار کے مرض میں مبتلا تھا میں نے مدینہ کی وہ تھوڑی سی خاک پاک پانی میں گھول کر اس خدمت گار کو پلا دی اور وہ اسی دن صحت یاب ہو گیا۔

حضرت شیخ عبدالحق فرماتے ہیں کہ مدینہ کی خاک پاک سے معالجہ کا تجربہ مجھے بھی ہوا ہے وہ اس طرح کہ جن دنوں میں مدینہ منورہ میں مقیم تھا میرے پاؤں میں ایک سخت مرض پیدا ہو گیا جس کے بارہ میں تمام اطباء کا یہ متفقہ فیصلہ تھا کہ اس کا آخری درجہ موت ہے اور اب صحت دشوار ہے۔ میں نے اسی خاک پاک سے اپنا علاج کیا، تھوڑے ہی دنوں میں بہت آسانی سے صحت حاصل ہو گئی۔ اسی قسم کی خاصیتیں وہاں کی کھجور کے بارہ میں بھی منقول ہیں چنانچہ صحیح احادیث میں وارد ہے کہ اگر کوئی شخص سات عجوہ کھجوریں (عجوہ مدینہ کی کھجور کی ایک قسم ہے) نہار منہ کھا لیا کرے تو کوئی زہر اور کوئی سحر اس پر اثر نہیں کرے گا۔

فضائل مدینہ کے سلسلہ میں یہ بات بھی بطور خاص قابل لحاظ ہے کہ اس مقدس شہر کی عظمت و بزرگی ہی کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو اس شہر کے رہنے والوں کی تعظیم و تکریم کی یہ وصیت کی تھی کہ میری امت کے لوگوں کو چاہئے کہ وہ میرے ہمسایوں یعنی اہل مدینہ کے احترام کو ہمیشہ پیش ملحوظ رکھیں، ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کریں، ان سے اگر کوئی لغزش ہو جائے تو اس پر مواخذہ نہ کریں اور اس وقت تک ان کی خطاؤں سے درگزر کریں جب تک کہ وہ کبائر سے اجتناب کریں (یعنی اگر وہ کبائر کے مرتکب ہوں تو پھر رعایت اور درگزر کا کوئی سوال نہیں ہے بلکہ اللہ اور بندوں کے حقوق کے سلسلے میں شریعت کا جو حکم ہو اسے جاری کرے) یاد رکھو، جو شخص ان کے احترام کو ہمیشہ ملحوظ رکھے گا میں قیامت کے دن اس کا گواہ اور شفاعت کرنے والا ہوں گا اور جو شخص اہل مدینہ کے احترام و حرمت کو ملحوظ نہیں رکھے گا اسے طینۃ الخبال کا سیال پلایا جائے گا (واضح رہے کہ  طینۃ الخبال دوزخ کے ایک حوض کا نام ہے جس میں دوزخیوں کی پیپ اور لہو جمع ہوتا ہے)

ایک روایت میں یہ منقول ہے کہ  ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دست دعا بلند کئے اور یوں گویا ہوئے خداوندا! جو شخص میرے اور میرے شہر والوں کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے اس کو جلد ہی ہلاک کر دے نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے کہ  جس شخص نے اہل مدینہ کو ڈرایا اس نے گویا مجھے ڈرایا  نسائی کی روایت میں یہ ہے کہ  جس شخص نے اہل مدینہ کو اپنے ظلم کے خوف میں مبتلا کیا اسے (اللہ تعالیٰ خوف میں مبتلا کرے گا اور اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہو گی اور ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ایسے شخص کا کوئی بھی عمل بارگاہ خداوندی میں مقبول نہیں ہو گا خواہ فرض ہو یا نفل۔

 

 

               حج کے کچھ مسائل اور ادائیگی حج کا طریقہ

 

اگرچہ احادیث کی تشریح  میں حج کے اکثر مسائل بیان کئے جا چکے ہیں مگر اب  کتاب الحج  کے اختتام پر مناسب ہے کہ کچھ اور مسائل یکجا طور پر ذکر کر دئیے جائیں اور حج کی ادائیگی کا طریقہ بھی بیان کر دیا جائے۔

حج میں چار چیزیں فرض ہیں۔ (١) احرام۔ (٢) عرفہ کے دن وقوف عرفات (٣) طواف الزیارت (٤) ان فرائض میں ترتیب کا لحاظ یعنی احرام کو وقوف عرفات پر وقوف عرفات کو طواف الزیارت پر مقدم کرنا۔

واجبات حج یہ ہیں، وقوف مزدلفہ، صفا و مروہ کے درمیاں سعی، رمی جمار، آفاقی کے لئے طواف قدوم، حلق یا تقصیر ، احرام میقات سے باندھنا، غروب آفتاب تک وقوف عرفات، طواف حجر اسود سے شروع کرنا (بعض علماء نے اسے سنت کہا ہے) طواف کی ابتداء دائیں طرف سے کرنا، طواف پیادہ پا کرنا بشرطیکہ کوئی عذر لاحق نہ ہو، طواف با طہارت کرنا، طواف میں ستر ڈھانکنا، سعی کی ابتداء صفا سے کرنا، سعی پا پیادہ کرنا بشرطیکہ کوئی عذر نہ ہو، قارن اور متمتع کو بکری یا اس کی مانند جانور ذبح کرنا، ہر سات شوط یعنی ایک طواف کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا، رمی حلق اور قربانی میں ترتیب کا لحاظ رکھنا بایں طور کہ پہلے رمی کی جائے پھر قربانی پھر حلق اور پھر طواف زیارت کی جائے ، طواف الزیارۃ ایام نحر میں کرنا، طواف اس طرح کرنا کہ حطیم طواف کے اندر آ جائے ، سعی طواف کے بعد کرنا، حلق حرم اور ایام نحر میں کرنا، وقوف عرفہ کے بعد ممنوعات احرام مثلاً جماع وغیرہ سے اجتناب ، نیز وہ چیزیں بھی واجبات حج میں شامل ہیں، جن کو ترک کرنے سے دم لازم آتا ہے ، ان چیزوں کے علاوہ اور سب حج کے مستحبات اور آداب میں سے ہیں۔

غنی کا حج فقیر کے حج سے افضل ہے ، والدین کی فرمانبرداری سے حج فرض تو اولیٰ ہے لیکن حج نفل اولیٰ نہیں ہے۔ بلکہ والدین کی فرمانبرداری ہی حج نفل سے افضل ہے۔ سرائے بنانا حج نفل سے افضل ہے۔ البتہ صدقہ کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں کہ بعض تو صدقہ کو افضل کہتے ہیں۔ اور بعض نے حج نفل کو افضل کہا ہے ، تاہم بزازیہ میں ہے کہ حج نفل کی فضیلت ہی کو ترجیح دی گئی ہے ، کیونکہ حج میں مال بھی خرچ ہوتا ہے اور جسمانی مشقت بھی ہوتی ہے جب کہ صدقہ میں صرف مال خرچ ہوتا ہے جس حج میں وقوف عرفات جمعہ کے دن ہو وہ حج ستر حجوں پر فضیلت رکھتا ہے اور اس حج میں ہر شخص کی بلاواسطہ مغفرت ہوتی ہے ، اس بارہ میں اختلافی اقوال ہیں کہ آیا حج کی وجہ سے کبیرہ گناہ ساقط ہو جاتے ہیں یا نہین؟ بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ ساقط ہو جاتے ہیں جس طرح کہ جب کوئی حربی کافر اسلام قبول کرتا ہے تو اس کے سب گناہ ساقط ہو جاتے ہیں لیکن بعض حضرات کا یہ قول ہے کہ حج کی وجہ سے حقوق اللہ تو معاف ہو جاتے ہیں لیکن حقوق العباد معاف نہیں ہوتے جس طرح کہ جب کوئی ذمی کافر، اسلام قبول کر لیتا ہے تو اس کے ذمہ سے حقوق اللہ تو ساقط ہو جاتے ہیں لیکن حقوق العباد ساقط نہیں ہوتے۔

قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ تمام علماء اہل سنت کا اس پر اتفاق ہے کہ کبیرہ گناہ صرف توبہ ہی سے ساقط ہوتے ہیں، محض حج کی وجہ سے بھی ساقط نہیں ہوتے ، نیز کوئی بھی عالم حج کی وجہ سے دین(قرض) کے ساقط ہونے کا بھی قائل نہیں ہے۔ خواہ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ ہی سے ہو جیسے نماز و زکوۃ، ہاں ادائیگی قرض یا ادائیگی نماز وغیرہ میں تاخیر کا گناہ ضرور ساقط ہو جاتا ہے لہٰذا جو علماء کبیرہ گناہ کے ساقط ہو جانے کے قائل ہیں ان کی مراد بھی یہی ہے۔

خانہ کعبہ کے اندر داخل ہونا مستحب ہے بشرطیکہ خود اس کو یا کسی اور کو اس سے تکلیف نہ پہنچے ، خانہ کعبہ کا غلاف اور پردہ بنی شیبہ سے خریدنا جائز نہیں ہے ہاں امام سے یا اس کے نائب سے لینا جائز ہے ، خانہ کعبہ کے غلاف و پردہ کو لباس میں استعمال کرنا جائز ہے اگرچہ جنبی (ناپاک) یا حائضہ ہی کیوں نہ ہو، اگر کوئی شخص کسی کو قتل کر کے حرم میں پناہ لے لے تو اس کو بطور قصاص قتل کرنا اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک کہ وہ حرم میں رہے ، ہاں اگر قاتل نے حرم ہی میں قتل کا ارتکاب کیا ہو تو اس کو بھی حرم میں مار ڈالنا جائز ہے لیکن خانہ کعبہ کے اندر قاتل کو اس صورت میں بھی قتل کرنا جائز نہیں ہے جب کہ اس نے خانہ کعبہ کے اندر ہی قتل کا ارتکاب کیا ہو۔

آب زمزم سے استنجا کرنا تو مکروہ ہے لیکن نہانا مکروہ نہیں ہے۔ مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ سے افضل ہے لیکن مدینہ منورہ کی زمین کا وہ قطعہ پاک جس پر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آرام فرما ہیں مطلقاً افضل ہے حتیٰ کہ کعبہ اور عرش و کرسی سے بھی افضل ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے روضہ اطہر کی زیارت کرنا مستحب ہے بلکہ بعض علماء تو یہ کہتے ہیں کہ اس شخص کے لئے واجب ہے جسے فراغت میسر ہو! حج فرض کی ادائیگی کی صورت میں حج روضہ اطہر کی زیارت سے پہلے کرنا چاہئے ہاں نفل کی صورت میں اختیار ہے کہ چا ہے تو پہلے کیا جائے چا ہے پہلے زیارت کی جائے بشرطیکہ مدینہ راستہ میں نہ پڑتا ہو۔ اگر مکہ کا راستہ مدینہ سے ہو کر گزرتا ہو تو پھر پہلے روضہ اطہر کی زیارت کرنا ضروری ہے ، روضہ اطہر کی زیارت کے ساتھ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیارت کی نیت بھی کرنی چاہئے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے کہ مسجد نبوی میں ادا کی جانے والی ایک نماز مسجد حرام کے علاوہ دوسری مساجد میں ادا کی جانے والی ہزار نمازوں سے بہتر ہے (مسجد حرام کا استثناء اس لئے ہے کہ اس میں ادا کی جانے والی ایک نماز کا ثواب دس لاکھ نمازوں کے ثواب کے برابر ہوتا ہے)

حج کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ جس خوش نصیب کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے حج کی سعادت عظمی کی توفیق بخشے اور وہ حج کا ارادہ کرے تو اسے چاہئے کہ پہلے وہ اپنی نیت کو درست کرے کہ اس کے پیش نظر محض اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور ادائیگی فرض ہو، کوئی دنیاوی غرض یا نام و نمود کا کوئی ہلکا سا تصور بھی نہ ہو ورنہ سب محنت اکارت جائے گی، پھر اپنے ماں باپ سے اجازت لے کر، اعزہ و احباب سے رخصت ہو کر ، سب سے معافی تلافی کر کے اپنے وطن سے کم از کم ایسے وقت روانہ ہو کہ مکہ مکرمہ میں ساتویں ذی الحجہ سے پہلے پہنچ جائے اور ساتویں تاریخ کا خطبہ سن سکے ، جب میقات پر پہنچے (ہندوستانیوں کی میقات یلملم ہے) تو احرام باندھے ، اگر مفرد ہو تو صرف حج، کا قارن ہو تو حج و عمرہ دونوں کا اور متمتع وہ تو صرف عمرہ کا احرام باندھے ، مستحب یہ ہے کہ احرام باندھنے سے پہلے ہاتھ پاؤں کے ناخن کٹوائے ، زیر ناف اور بغل کے بال صاف کرے ، حجامت بنوائے ، اگر سر منڈانے کی عادت ہو تو سر منڈائے ورنہ بال درست کرائے اور ان میں کنگھی کرے ، اگر بیوی ہمراہ ہو تو صحبت کرے ، پھر وضو کرے یا نہائے لیکن نہانا افضل ہے اس کے بعد احرام کا لباس پہنے یعنی ایک لنگی باندھے اور ایک چادر اس طرح اوڑھے کہ سر کھلا رہے ، یہ دونوں کپڑے نئے ہوں تو افضل ہے ورنہ صاف دھلے ہوئے ہونے چاہئیں، اگر کسی کے پاس دو کپڑے میسر نہ ہوں تو ایک ایسا کپڑا لپیٹ لینا بھی جائز ہے جس سے ستر پوشی ہو جائے پھر خوشبو لگائے ، اس کے بعد نیت کرے ، اگر قران کا ارادہ ہو تو اس طرح کہے۔ دعا (اللہم انی ارید الحج والعمرۃ فیسرہمالی وتقبلہما منی)۔ اگر تمتع کا ارادہ ہو تو یوں کہے۔ دعا (اللہم انی ارید العمرۃ فیسرہا لی وتقبلہا منی)۔ اور اگر افراد کا ارادہ رکھتا ہو تو اس طرح کہے دعا (اللہم انی ارید الحج فیسرہ لی وتقبلہ منی۔) اگر نیت کے مذکورہ بالا الفاظ زبان سے ادا نہ کئے جائیں بلکہ دل ہی میں نیت کر لی جائے تو بھی جائز ہے ، نیت کے بعد لبیک کہے حج یا عمرہ کی نیت کے ساتھ لبیک کہتے ہی محرم ہو جائے گا، لبیک کے الفاظ یہ ہیں۔ لبیک اللہم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک۔ ان الفاظ میں کمی نہ کی جائے ہاں زیادتی جائز ہے چنانچہ یہ الفاظ بھی منقول ہیں جن کے اضافہ میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لبیک و سعدیک والخیر بیدیک لبیک والرغباء الیک والعمل لبیک لبیک الہ الخلق لبیک۔ بعد ازاں اکثر اوقات آواز بلند لبیک کہتا رہے خصوصاً نماز کے بعد خواہ فرض ہو خواہ نفل نماز ، صبح کے وقت ، باہم ملاقات کے ، بلندی پر چڑھتے یا نشیب میں اترتے وقت، غرضیکہ یہ سفر حج چونکہ نماز کے حکم میں ہے کہ جس طرح نماز میں ہر حالت کی تبدیلی پر تکبیر کہی جاتی ہے اس طرح اس سفر میں ہر حالت کی تبدیلی کے وقت لبیک کہنی چاہئے ! احرام باندھ لینے کے بعد ان تمام چیزوں سے اجتناب کرنا ضروری ہے جو حالت احرام میں ممنوع ہیں مثلاً سلے ہوئے کپڑے جیسے کرتہ، انگرکھا، پاجامہ، فرغل ، جبہ، قبا، بارانی موزہ، دستانہ اور ٹوپی وغیرہ نہ پہنے جائیں ، جو کپڑے رنگ دار خوشبو جیسے زعفران وغیرہ میں رنگے ہوئے ہوں وہ بھی استعمال نہ کئے جائیں ہاں دھلنے کے بعد کہ جس سے خوشبو نہ آتی ہو استعمال کرنا جائز ہے ، سر اور منہ کسی چیز سے نہ ڈھانکا جائے ، جوئیں نہ ماری جائیں ، بیوی سے نہ تو صحبت کی جائے اور نہ ان چیزوں کا ارتکاب کیا جائے جو جماع کا باعث بنتی ہیں مثلاً بوسہ لینا، شہوت کے ساتھ عورت کو ہاتھ لگانا یا اس کے سامنے فحش باتیں یا جماع کا ذکر کرنا وغیرہ وغیرہ۔ فسق و فجور سے پرہیز کیا جائے کسی کے ساتھ جنگ و جدل سے گریز کیا جائے ، صحرائی وحشی جانوروں کا شکار نہ کیا جائے حتی ٰ کہ کوئی محرم نہ تو شکار کی طرف اشارہ کرے اور نہ شکار میں کسی کی اعانت کرے ، ہاں دریائی جانوروں مثلاً مچھلی کا شکار درست ہے۔ خوشبو کا استعمال نہ کیا جائے ، ناخن نہ کٹوائے جائیں، سر داڑھی بلکہ تمام بدن کے بال نہ کتروائے جائیں نہ منڈوائے جائیں اور نہ اکھاڑے جائیں، سر و داڑھی کے بالوں کو خطمی سے نہ دھویا جائے البتہ محرم نہا سکتا ہے ، حمام میں داخل ہو سکتا ہے ، گھر اور کجاوہ کے سایہ میں بیٹھ سکتا ہے ، ہمیانی (یعنی روپیہ رکھنے والی تھیلی) کمر میں باندھ سکتا ہے اور اپنے دشمن سے دفاعی لڑائی لڑ سکتا ہے۔ احرام کی حالت میں جن جانوروں کو مارنا جائز ہے اور جن کے مارنے کی وجہ سے بطور جزاء نہ دم لازم ہوتا ہے نہ صدقہ وہ یہ ہیں۔ کوا، چیل، سانپ ، بچھو، چوہا، چیچڑی، کچھوا ، بھیڑیا، گیدڑ، پتنگا، مکھی ، چیونٹی، گرگٹ ، بھڑ، مچھر، حملہ آور درندہ اور موذی جانور۔

جب مکہ مکرمہ کے قریب آ جائے تو غسل کرے کہ یہ مستحب ہے پھر دن میں کسی وقت باب المعلیٰ سے مکہ میں داخل ہو، اور اپنی قیام گاہ پر سامان وغیرہ رکھ کر سب سے پہلے مسجد حرام کی زیارت کرے ، مستحب یہ ہے کہ مسجد حرام میں لبیک کہتا ہوا اور باب السلام سے داخل ہو اور اس وقت نہایت خشوع و خضوع کی حالت اپنے اوپر طاری کرے اور اس مقدس مقام کی عظمت و جلالت کا تصور دل میں رکھے اور کعبہ کے جمال دلربا پر نظر پڑتے ہی جو کچھ دل چا ہے اپنے پروردگار سے طلب کرے پھر تکبیر و تہلیل کرتا ہوا حمد و صلوٰۃ پڑھتا ہوا حجر اسود کے سامنے آئے اور اس کو بوسہ دے اور بوسہ کے وقت اپنے دونوں ہاتھ کو اس طرح اٹھائے جس طرح تکبیر تحریمہ کے وقت اٹھاتے ہیں، اگر اژدہام کی وجہ سے بوسہ نہ دے سکے تو حجر اسود کو ہاتھ لگا کر ہاتھ کو چوم لے اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو کسی لکڑی سے حجر اسود کو چھو کر چومے اور اگر یہ بھی نہ کر سکے تو پھر دونوں ہتھیلیوں سے حجر اسود کی طرف اشارہ کر کے ہتھیلیوں کو چوم لے ، حجر اسود کے استلام کے بعد حجر اسود کے پاس ہی سے اپنی داہنی جانب سے طواف قدوم شروع کرے ، طواف میں سات شوط (چکر) کرے ، اور ہر شوط کو حجر اسود ہی پر ختم کرتے اور ہر شوط ختم کرنے کے بعد مذکورہ بالا طریقے سے حجر اسود کا استلام اور تکبیر و تہلیل کرے طواف میں حطیم کو بھی شامل کرے ، طواف میں اضطباع کرے اور پہلے تین شوطوں میں رمل کرے نیز ہر شوط میں رکن یمانی کا ابھی استلام کرے مگر اس کے استلام میں اس کو چومنا نہیں چاہئے طواف ختم کرنے کے بعد دو رکعت نماز طواف مقام ابراہیم کے قریب پڑھے ، یہ نماز حنفیہ کے نزدیک واجب ہے ، اگر اژدحام وغیرہ کی وجہ سے اس نماز کو مقام ابراہیم کے قریب پڑھنا ممکن نہ ہو تو پھر مسجد حرام میں جہاں بھی چا ہے پڑھ لے ، اس نماز کی پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ قل یا ایہا الکافرون اور دوسری رکعت میں قل ھو اللہ کی قرأت کرے ، اور دعا میں جو چا ہے اللہ سے مانگے ، اس کے بعد چاہ زمزم پر آئے اور زمزم کا پانی پیٹ بھر کر پئے پھر مقام ملتزم میں آئے اور ہاتھ اٹھا کر اپنے مقصد کے لئے دعا مانگے پھر صفا سے مروہ کی طرف اپنی چال کے ساتھ چلے مگر جب وادی بطن پہنچے ، تو میلین اخضرین کے درمیان تیز تیز چلے اور پھر جب مروہ پر چڑھے تو وہی کچھ یعنی تکبیر و تہلیل وغیرہ کرے جو صفا پر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح صفا و مروہ کے درمیان سات شوط کرے ، ہر شوط کی ابتداء صفا سے ہو اور انتہا مروہ پر اور ہر شوط میں میلین اخضرین کے درمیان تیز تیز چلے ، یہ بات ذہن میں رہے کہ سعی سے پہلے طواف کرنا ضروری ہے اگر کسی نے طواف سے پہلے سعی کر لی تو اس کے لئے ضروری ہو گا کہ وہ طواف کے بعد پھر دوبارہ سعی کرے۔ یہ بھی معلوم رہنا چاہئے کہ اس سعی ، وقوف عرفات، وقوف مزدلفہ اور رمی جمار کے لئے طہارت (پاکی) شرط نہیں ہے لیکن اولیٰ ضرور ہے جب کہ طواف کے لئے طہارت شرط ہے۔ نیز طواف و سعی کے وقت ٹھہرا رہے اور اس کے دوران نفل طواف جس قدر ہو سکے کرتا رہے ، مگر نفل طواف کے درمیان رمل اور اس کے بعد سعی نہ کرے ، پھر ساتویں ذی الحجہ کو مسجد حرام میں خطبہ سنے ، اس خطبہ میں جو ظہر کی نماز کے بعد ہوتا ہے امام حج کے احکام و مسائل بیان کرتا ہے ، پھر اگر احرام کھول چکا ہو تو آٹھ ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھ کر طلوع آفتاب کے بعد منیٰ روانہ ہو جائے ، اگر ظہر کی نماز پڑھ کر منیٰ میں پہنچے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں، رات منیٰ میں گزارے اور عرفہ کے روز یعنی نویں تاریخ کو فجر کی نماز اول وقت اندھیرے میں پڑھ کر طلوع آفتاب کے بعد عرفات جائے اگر کوئی آٹھویں تاریخ کو منیٰ میں نہ جائے بلکہ نویں کو عرفات میں پہنچ جائے تو بھی جائز ہے مگر یہ خلاف سنت ہے۔ عرفات میں بطن عرنہ کے علاوہ جس جگہ چا ہے اترے لیکن جبل عرفات کے نزدیک اترنا افضل ہے پھر اسی دن زوال آفتاب کے بعد غسل کرے (جو سنت ہے) اور عرفات میں وقوف کرے (جو فرض ہے اور جس کے بغیر حج ہوتا ہی نہیں) امام جو خطبہ دے اسے سنے اور امام کے ساتھ بشرط احرام ظہر و عصر کی نماز ایک وقت میں پڑھے اور جبل رحمت کے پاس کھڑا ہو کر نہایت خشوع و خضوع اور تذلل و اخلاص کے ساتھ تکبیر و تہلیل کرے ، تسبیح پڑھے ، اللہ کی ثنا کرے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر درود بھیجے اور اپنے تمام اعزہ و احباب کے لئے استغفار کرے اور تمام مقاصد دینی و دنیوی کے لئے دعا مانگے ، پھر غروب آفتاب کے بعد امام کے ہمراہ مزدلفہ کی طرف روانہ ہو جائے اور راستہ میں استغفار، لبیک ، حمد و صلوۃ اور اذکار میں مشغول رہے مزدلفہ پہنچ کر امام کے ہمراہ مغرب و عشاء کی نماز ایک ساتھ پڑھے اور رات میں وہیں رہے کیونکہ رات میں وہاں رہنا واجب ہے ، نیز اس پوری رات میں نماز، تلاوت قرآن اور ذکر و دعا میں مشغول رہنا مستحب ہے ، جب صبح ہو جائے تو (یعنی دسویں ذی الحجہ کو) فجر کی نماز اول وقت اندھیرے میں پڑھے اور وہاں وقوف کرے ، مزدلفہ میں سوائے بطن محسر کے جہاں چا ہے وقوف کر سکتا ہے ، اس وقوف کی حالت میں نہایت الحاح و زاری کے ساتھ اپنے دینی و دنیاوی مقصد کے لئے خداوند عالم سے دعا مانگے ، آفتاب نکلنے سے کچھ پہلے وقوف ختم کر لیا جائے ، پھر جب روشنی خوب پھیل جائے تو آفتاب سے پہلے منیٰ واپس پہنچ کر جمرۃ العقبہ پر سات کنکریاں مارے اور پہلی کنکری مارتے ہی تلبیہ موقوف کر دے ، اس کے بعد قربانی کرے پھر سر منڈوائے یا بال کتروائے ، اس کے بعد وہ تمام چیزیں جو حالت احرام میں ممنوع تھیں، سوائے رفث کے ، جائز ہو جائیں گی، پھر عید کی نماز منیٰ ہی میں پڑھ کر اسی دن مکہ آ جائے اور طواف زیارت کرے ، اس طواف کے بعد سعی نہ کرے ہاں اگر پہلے سعی نہ کر چکا ہو تو وہ پھر اس طواف کے بعد سعی کرے ، اس کے بعد رفث بھی جائز ہو جائے گا طواف زیارت سے فارغ ہو کر پھر منیٰ واپس آ جائے اور رات میں وہاں قیام کرے۔گیارہویں تاریخ کو تینوں جمرات کی رمی کرے بایں طور کہ پہلے تو اس جمرہ پر سات کنکریاں مارے جو مسجد خیف کے قریب ہے اور جس کو جمرۃ اولیٰ کہتے ہیں اس کے بعد اس جمرہ پر جو اس کے قریب ہے اور جس کو جمرۃ وسطیٰ کہتے ہیں سات کنکریاں مارے اور پھر سوار ہو کر پا پیادہ ہی جمرہ عقبہ پر سات کنکریاں مارے اور ہر کنکری مارتے وقت تکبری کہتا رہے ، اسی طرح بارہویں تاریخ ہی کو منیٰ سے رخصت ہو گیا تو پھر اس پر تیرہویں تاریخ کو واجب نہیں ہو گی۔ گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں تاریخوں میں رمی کا وقت زوال آفتاب کے بعد ہے لیکن تیرہویں تاریخ کو اگر طلوع فجر کے بعد اور زوال آفتاب سے پہلے بھی رمی کرے تو جائز ہے مگر مسنون زوال آفتاب کے بعد ہی ہے جب کہ گیارہویں اور بارہویں تاریخوں میں زوال آفتاب سے پہلے رمی جائز نہیں ہے۔ آخری دن رمی سے فارغ ہو کر مکہ روانہ ہو جائے اور راستہ میں تھوڑی دیر کے لئے محصب میں اترے ، پھر جب مکہ مکرمہ سے وطن کے لئے روانہ ہونے لگے طواف وداع کرے اس طواف میں بھی رمل اور اس کے بعد سعی نہ کرے طواف کے بعد دو رکعت پڑھ کر زمزم کا مبارک پانی گھونٹ گھونٹ کر کے پیے اور ہر مرتبہ کعبہ مکرمہ کی طرف دیکھ کر حسرت سے آہ سرد بھرے نیز اس مبارک پانی کو منہ، سر اور بدن پر ملے پھر خانہ کعبہ کی طرف آئے اگر ممکن ہو بیت اللہ کے اندر داخل ہو اگر اندر نہ جا سکے تو اس کی مقدس چوکھٹ کو بوسہ دے اور اپنا سینہ اور منہ ملتزم پر رکھ دے اور کعبہ مکرمہ کے پردوں کر پکڑ پکڑ کر دعا کرے اور روئے اور اس وقت بھی تکبیر و تہلیل ، حمد و ثنا اور دعاء استغفار میں مشغول رہے اور اللہ تعالیٰ سے اپنے مقاصد کی تکمیل طلب کرے۔ اس کے بعد پچھلے پیروں یعنی کعبہ مکرمہ کی طرف پشت نہ کر کے مسجد حرام سے باہر نکل آئے حج تمام افعال ختم ہو گئے۔

 

                   عمرہ کے احکام

 

عمرہ واجب نہیں ہے بلکہ عمر بھر میں ایک مرتبہ سنت مؤکدہ ہے عمرہ کے لئے کسی خاص زمانہ کی شرط نہیں ہے ، جیسا کہ حج کے لئے ہے بلکہ جس وقت چا ہے کر سکتا ہے اسی طرح ایک سال میں کئی مرتبہ بھی عمرہ کیا جا سکتا ہے ، البتہ غیر قارن کو ایام حج میں عمرہ کرنا مکروہ ہے ایام حج کا اطلاق یوم عرفہ یوم نحر اور ایام تشریق پر ہوتا ہے۔ عمرہ کا رکن طواف ہے اور اس میں دو چیزیں واجب ہیں ایک تو صفا و مروہ کے درمیان سعی اور دوسرے سر منڈوانے یا بال کتروانا۔ جو شرائط اور سنن و آداب حج کے ہیں وہی عمرہ کے بھی ہیں۔

 

                   جنایات کے احکام

 

حج کے بیان میں  جنایت اس حرام فعل کو کہتے ہیں جس کی حرمت احرام یا حرم کے سبب سے ہو اور جس کے مرتکب پر کوئی چیز مثلاً قربانی یا صدقہ بطور جزاء یعنی بطور کفارہ واجب ہوتی ہو ، چنانچہ اس کی کچھ تفصیل اس طرح ہے کہ اگر محرم اپنے کسی ایک پورے عضو پر خوشبو لگائے یا کوئی خوشبودار چیز کھا کر منہ کو خوشبو دار کرے بشرطیکہ وہ خوشبو خالص ہو اور اس میں کسی دوسری چیز کی آمیزش نہ ہو یا رقیق مہندی کا استعمال کرے خواہ سر میں لگائے یا داڑھی یا ہاتھ پر وغیرہ میں یا زیتون لگائے یا پورے ایک دن سلے ہوئے کپڑے رواج و عادت کے موافق استعمال کرے یا پورا دن اپنا سر ڈھانکے رکھے یا سر، داڑھی چوتھائی یا اس سے زیادہ منڈوائے یا پوری ایک بغل کے بال یا زیر ناف بال یا گردن کے بالوں کو دور کرے یا دونوں ہاتھوں یا دونوں پیروں یا ایک ہاتھ اور ایک پیر کے ناخن ترشوائے یا طواف قدوم یا طواف صدر حلالت جناب میں کرے یا طواف زیارت (یعنی طواف فرض) بے وضو کرے یا عرفات سے امام سے پہلے واپس آ جائے یا سعی چھوڑے یا وقوف مزدلفہ چھوڑ دے یا تمام دنوں کی رمی یا ایک دن کی یا پہلے دن کی رمی نہ کرے ، یا حلق و تقصیر حرم سے باہر کرائے یا احرام کی حالت میں بیوی کا بوسہ لے لے یا اس کو شہوت کے ساتھ چومے یا حلق و تقصری یا طواف زیارت ایام نحر گزر جانے کے بعد کرے ، یا افعال حج کی واجب ترتیب کو بدل دے مثلاً قربانی سے پہلے سر منڈوا لے تو ان تمام صورتوں میں اس پر بطور جزاء ایک قربانی واجب ہو گی۔ اور اگر محرم تلبید کرے یعنی اپنے سر کے بال گوند وغیرہ لگا کر جما لے یا قارن ہونے کی صورت میں قربانی سے پہلے حلق یا تقصیر کرائے تو اس پر دو قربانی واجب ہوں گی۔ اور اگر محرم ایک عضو سے کم میں خوشبو استعمال کرے یا ایک دن سے کم اپنا سر ڈھانکے یا سلا ہوا کپڑا پہنے یا سر داڑھی چوتھائی حصہ سے کم منڈوائے یا پانچ ناخن سے کم ترشوائے یا پانچ ناخن مختلف مجلسوں میں ترشوائے یا طواف صدر یا طواف قدوم بے وضو کرے یا یوم نحر کے بعد تینوں جمرات میں سے کسی ایک جمرہ کی رمی ترک کر دے تو ان سب صورتوں میں اس پر صدقہ واجب ہو گا جس کی مقدار نصف صاع گیہوں ہے۔ اگر محرم کسی عذر یا بیماری کی وجہ سے خوشبو استعمال کرے یا سر منڈوائے یا سلا ہوا کپڑا پہنے تو ان صورتوں میں اسے اختیار ہو گا کہ چا ہے تو ایک بکری ذبح کرے چا ہے چھ مسکینوں ایک ایک مقدار صدقہ فطر دے دے اور چا ہے تین روزے مسلسل یا غیر مسلسل رکھ لے۔ خوشبو یا خوشبودار پھول یا خوشبو دار میوہ سونگھنے سے محرم پر کچھ واجب نہیں ہوتا تاہم یہ مکروہ ہے۔ اگر کوئی محرم جوں مارے تو بطور صدقہ تھوڑی سی کھانے کی چیز مثلاً ایک مٹھی آٹا دے دے بشرطیکہ اس نے وہ جوں اپنے بدن سے یا سر سے یا کپڑے سے نکال کر ماری ہو، اور اگر زمین سے پکڑ کر مارے تو کچھ بھی واجب نہیں ہوتا اور اگر اس نے اپنے کپڑے دھوپ میں اس نیت سے ڈال دیئے کہ اس میں موجود جوئیں مر جائیں اور پھر بہت ساری جوئیں مر جائیں تو اس پر نصف صاع گیہوں کا صدقہ واجب ہو گا۔ ہاں اگر کپڑے کو خشک کرنے کی نیت سے دھوپ میں ڈالے اور جوئیں مارنا اس کا مقصد نہ ہو اور پھر اس صورت میں جوئیں مر جائیں تو اس پر کچھ واجب نہیں ہو گا۔ اگر محرم شکار مارے یا کسی کو شکار کی راہ بتائے یا شکار کی طرف کسی کو متوجہ کرے تو اس پر بطور جزاء اس شکار کی وہ قیمت واجب ہو گی جو دو عادل شخص تجویز کریں اور وہ قیمت اس مقام کے اعتبار سے ہو جہاں شکار مارا گیا ہے ہو یا اس کے قریب تر مقام کے اعتبار سے ہو، اس بارہ میں محرم کو اختیار ہو گا کہ چا ہے تو وہ اس قیمت سے قربانی کا کوئی جانور خرید کر ذبح ہونے کے لئے حرم بھیج دے چا ہے اس قیمت سے گیہوں وغیرہ خرید کر ہر فقیر کو صدقہ فطر کی ایک مقدار تقسیم کر دے اور چا ہے ہر فقیر کی مقدار صدقہ کے عوض ایک ایک روزہ رکھ لے۔

آخر میں یہ بات بھی بتا دینی ضروری ہے کہ ان تمام جنایات کے ارتکاب میں قصداً اور اضطرار علم اور لاعلمی، رغبت اور جبر سب برابر ہے یعنی محرم ممنوعات احرام میں سے جو بھی فعل کرے گا اس پر جزاء بہر صورت واجب ہو گی خواہ اس سے اس فعل کا ارتکاب قصداً ہوا ہو یا بلا قصد اس کے علم کے باوجود ہوا ہو یا اس کی لاعلمی کی وجہ سے اور اس نے وہ فعل اپنی رغبت سے کیا ہو یا کسی دوسرے کی زبردستی کی وجہ سے۔

 

                   روضۂ اطہر کی زیارت کے احکام و آداب

 

جو کوئی حج کرنے جائے اس کو چاہئے کہ اگر حج فرض ہو تو پہلے اپنے حج سے فارغ ہو جائے پھر روضہ اطہر کی زیارت کے لئے مدینہ جائے اور اگر حج نفل ہو تو اختیار ہے کہ چا ہے تو پہلے زیارت کرے اور اس کے بعد حج کرے چا ہے پہلے حج کر لے بعد میں زیارت کرے بشرطیکہ حج کے لئے مکہ جانے والا راستہ مدینہ کی طرف سے نہ ہو،۔ جب زیارت کے لئے چلے تو یہ نیت کرے کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قبر مبارک اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مسجد انور کی زیارت کے لئے سفر کرتا ہوں۔ راستہ میں جتنی مسجدیں ملیں سب میں نماز پڑھے ، راستہ میں درود پڑھتا رہے ، جب مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو اس شہر مقدس کی عظمت کو دل میں جاگزیں کرے ، جب مدینہ منورہ بالکل سامنے آ جائے تو بہ خیال ادب اور بہ مقتضائے شوق اپنی سواری سے اتر پڑے اور اگر ممکن ہو تو وہاں سے مسجد شریف تک پاپیادہ جائے۔ حدود شہر میں داخل ہونے سے پہلے اگر ممکن ہو تو غسل کر لے ورنہ وضو کر کے عمدہ اور خاص طور پر سفید کپڑے پہن لے اور خوشبو لگائے ، شہر کے اندر پہنچ کر سب سے پہلے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں جائے ، مسجد نبوی میں داخلہ سے پہلے غسل کر لے تو بہتر ہے ورنہ وضو کرے اور خوشبو لگائے ، مسجد نبوی پہنچ کر تحیۃ المسجد اور نماز شکر پڑھے ، اس کے بعد اس تصور و یقین کے ساتھ بصد ادب و احترام قبر اقدس کی زیارت کی طرف متوجہ ہو کہ میں اس با عظمت درگاہ میں حاضر ہو رہا ہوں جس کے سامنے تمام دنیا کے پر جلال بادشاہوں کی بھی کوئی وقعت نہیں، پھر مرقد اطہر کے پاس آ کر نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ نماز کی طرح داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ کر اس طرح کھڑا ہو کہ حضرت سید بشر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف منہ ہو اور قبلہ کی طرف پیٹھ اور اس بات کا یقین کرے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری حاضری سے واقف ہیں، میرے سلام کا جواب دیتے ہیں اور میری دعا پر آمین کہتے ہیں اور پھر انتہائی شوق و ذوق کے ساتھ معتدل آواز میں سلام و صلوٰۃ پیش کرے اور عرض و معروض کرے ، جب اپنی عرض و نیاز سے فارغ ہو جائے تو اپنے اعزاء و احباب میں سے جس نے عرض سلام کی درخواست کی ہو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں اس کی طرف سے اس طرح سلام عرض کر دے کہ یا رسول اللہ!(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فلاں بن فلاں نے آپ کو سلام عرض کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے لئے پروردگار سے شفاعت کریں۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق اور پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما کے سر مبارک کے سامنے کھڑا ہو اور ان کی خدمت میں سلام عرض کرے ، اس کے بعد پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سر مبارک کے سامنے پہلے کی طرح دست بستہ کھڑا ہو اور بہت ذوق و شوق کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں سلام عرض کرے اور جو جو خواہش رکھتا ہو، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے طفیل میں حق تعالیٰ سے مانگے ، وہاں سے ہٹ کر حضرت ابولبابہ رضی اللہ عنہ کے ستون کے پاس جس قدر ممکن ہو نوافل پڑھے اور توبہ و استغفار کرے اس کے بعد آثار نبویہ کی زیارت کرے جو معلمین بتا دیتے ہیں، اور جنت البقیع جائے وہاں صحابہ کرام اور اہل بیعت کے مزارات مقدسہ کی زیارت کرے پھر شہدائے احد خصوصاً سید الشہداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی قبر کی زیارت کرے اور ان تمام مشاہد

و مزارات پر فاتحہ پڑھے اور شنبہ کے دن یا جس دن ممکن ہو مسجد قبا کی زیارت کرے اور دو رکعت نماز بہ نیت تحیۃ المسجد پڑھے۔

مدینہ منورہ اور روضہ اطہر کی زیارت کے آداب یہ ہیں کہ جتنے دنوں مدینہ منورہ میں قیام ہو سکے اس کو غنیمت سمجھے حتی الامکان اپنا اکثر وقت مسجد شریف نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں صرف کرے وہاں اعتکاف کرے اور ہر قسم کی عبادت یعنی نماز، روزہ تلاوت، درود اور صدقہ و خیرات سے اپنے اوقات کو آباد رکھے ، جب تک مسجد میں رہے حجرہ شریف کی طرف نہایت شوق کی نگاہوں سے نظر کرتا رہے اور اگر مسجد سے باہر ہو تو بنظر احترام و تعظیم اور انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ قبہ شریف کو دیکھتا رہے کیونکہ روضہ حبیب کبریا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نظر ڈالنا استحباباً حکم نظر کرنے کعبہ شریف کا ہے نیز شہر سے باہر قبہ شریف پر نظر کرنے سے اہل شوق کو جو نورانیت اور سرور و ذوق حاصل ہوتا ہے اس کا ادراک اسی حالت پر موقوف ہے جس کو الفاظ کے ذریعہ ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔ع ذوق ایں می نشناسی بخدا تانہ چشی۔

مسجد نبوی میں جس قدر بھی شب بیداری کی سعادت حاصل ہو سکے خواہ ایک ہی شب کے لئے ہو اسے ہاتھ سے نہ جانے دے کیونکہ شب قدر و منزلت کے اعتبار سے شب قدر سے کم نہیں ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے اس لئے اس ایک رات کو اپنی تمام عمر کا ماحصل اور خلاصہ سمجھ کر عبادت میں کاٹ دے بہتر یہی ہے کہ اس رات میں اور کوئی عبادت نہ کرے بلکہ صرف درود شریف پڑھتا رہے ، اور اگر نیند آنے لگے تو حبیب کبریا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حضوری اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جمال باکمال کا سرور آمیز تصور کر کے نیند کو دفع کرے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جمال کمال کا تصور اس کے دل و دماغ کو کیف حضوری کا سرور بخشے گا تو کہاں نیند رہے گی اور کہاں غفلت قرار چیست صبوری کدام و خواب کجا۔ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں جب تک رہے اپنے دل ، اپنی زبان اور تمام اعضاء کو برے کلمات و خیالات اور ہر خلاف اولیٰ فعل سے محفوظ رکھے اور محبوب دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حضوری کے تصور کے سوا اور کسی طرف متوجہ نہ ہو اگر کوئی اس کی مشغولیت میں مخل ہو تو اس سے کنارہ کشی اختیار کرے ہاں کسی سے نہایت ضروری گفتگو کرنی ہو تو مختصر کلام کر کے اسی جناب مقدس صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف متوجہ ہو جائے ، مسجد شریف کے آداب کے بطور خاص خیال رکھے تھوک وغیرہ وہاں نہ گرنے پائے مسجد میں آنے سے قبل روضہ اطہر اور منبر کے درمیان اپنا مصلے پہلے سے نہ بچھوائے رکھے بلکہ اس اگر اس مقدس مقام پر ادائیگی نماز کی فضیلت کے حصول کا شوق ہو تو سب سے پہلے مسجد میں پہنچنے کی کوشش کرے اور وہاں بیٹھ جائے اس مقدس مسجد میں جو نزول قرآن و جبریل کی جگہ ہے قرآن پاک ختم کرنے میں کوتاہی نہ کرے کم از کم ایک قرآن مجید کا ختم اس مسجد پاک میں ضرور کرے اگر ممکن ہو تو ایسی کتابیں پڑھے یا سنے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مبارک حالات و خصائل اور فضائل ہوں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ملاقات اور عبادت کا شوق فزوں ہو۔ قبر شریف کے سامنے سے جتنی مرتبہ بھی گزرنا ہو وہاں تمام آداب زیارت کو ملحوظ رکھ کر کھڑا ہو جائے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں سلام و  صلوٰۃ پیش کرے ، مدینہ منورہ اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے رہنے والوں اور خدمت گاروں کی محبت و تعظیم کو ہمہ وقت ملحوظ رکھے چا ہے ان میں کوئی بات خلاف شریعت و سنت ہی کیوں نہ دیکھے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہمسائیگی کا شرف ہی ان کی سب سے بڑی فضیلت ہے جو کسی گناہ و بدعت کی وجہ سے ختم نہیں ہوتا اور انہیں حسن خاتمہ و مغفرت کی سعادت سے محروم نہیں ہونے دیتا۔

 

                   دیار مقدس سے وطن کو واپسی

 

جب مدینہ منورہ میں قیام کی مدت ختم ہو جائے اور اس مقام مقدس سے جدا ہو کر وطن کو روانہ ہونے کا ارادہ ہو جائے تو مصلی نبوی یا اس کے قریب نماز پڑھ کر اور دعا مانگ کر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سے رخصت ہو بعد ازاں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی زیارت کرے اور اللہ تعالیٰ سے نہ صرف اپنے لئے بلکہ اپنے اعزاء و احباب کے لئے کونین کی سعادتوں کے حصول کی دعا مانگے نیز دیار مقدس میں اپنی تمام عبادات کی قبولیت اور اپنے اہل و عیال کے پاس امن و سلامتی کے ساتھ پہنچنے کی درخواست کرے اور یہ دعا پڑھے (اللہم انا نسئلک فی سفرنا ہذا لبر والتقویٰ ومن العمل ما تحب وترضی اللہم لا تجعل ہذا آخر العہد بنبیک ومسجدہ وحرمہ ویسر لی العود الیہ والعکوف لدیہ وارزقنی العفو والعافیۃ فی الدنیا والآخرۃ ورددنا الی اھلنا سالمین غانمین آمنین۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ مقبولیت دعا اور حصول مقصد کی علامت یہ ہے کہ اس وقت بے اختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں اور دل دیار محبوب کی جدائی کی حسرت و یاس سے معمور ہو بلکہ درحقیقت تمام اوقات دعا میں گریہ و زاری حصول رزق کا باعث اور امیدواری رحمت کی علامت ہے ایں دلم باغست وچشم ابروش ابر گرید باغ خندوشادوخوش!۔

اس وقت اگر خدانخواستہ کسی شخص پر حالت گریہ و زاری طاری نہ ہو تو وہ بہ تکلف اپنے اوپر یہ حالت طاری کرے اور ان باتوں کا تصور کرے جو ذوق اور گریہ و رقت کی حالت پیدا کریں کیونکہ اس وقت حالت گریہ ہی بہر صورت قبولیت کی علامت ہے ، اور پھر وہاں کی جدائی سے بہ چشم نم اور بہ حسرت و یاس رخصت ہو اور رخصت ہوتے وقت پچھلے پیروں نہ لوٹے کیونکہ یہ صرف خانہ کعبہ کے ساتھ مخصوص ہے اور وقت وداع جس قدر ہو سکے صدقہ و خیرات کرے اور ان تمام آداب کو ملحوظ رکھے جو سفر سے واپسی کے وقت کے سلسلہ میں منقول ہیں اور پھر جب اپنے شہر کے قریب پہنچ جائے تو یہ دعا پڑھے۔ (اللہم انی اسئلک خیرہا وخیر اھلہا وخیر ما فیہا واعوذبک من شرہا وشر اھلہا وشر ما فیہا اللہم اجعل لنا بہا قرار اور زقا حسنا)۔ اور جب شہر میں پہنچ جائے تو یہ دعا پڑھے۔(لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شیء قدیر اٰئبون تائبون عابدون ساجدون لربنا حامدون لاالہ الا اللہ وحدہ صدق وعدہ ونصر عبدہ وھزم الاحزاب وحدہ واعز جندہ فلا شیء بعدہ)۔ اور چاہئے کہ اپنے شہر و مکان تک پہنچنے سے پہلے اپنے اعزہ کو خبر کر دے کہ میں فلاں دن فلاں وقت پہنچ رہا ہوں بغیر اطلاع کے ایک دم نہ پہنچ جائے نیز اپنے شہر میں پہنچنے کا بہترین وقت چاشت ہے یا شام۔ رات کے وقت نہ پہنچے پھر جب اپنے مکان پہنچ جائے۔ تو مکان کے اندر جانے سے پہلے اگر وقت مکروہہ نہ ہو تو مسجد میں جا کر دو رکعت نماز پڑھے دعا مانگے اور بخیر و عافیت وطن واپس پہنچ جانے پر باری تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور یہ کہے الحمد للہ الذی بنعمتہ وجلالہ تتم الصالحات۔

 

 

               خرید و فروخت کے مسائل و احکام

 

                   خرید و فروخت کا بیان

 

اسلامی نقطہ نظر سے کائنات انسانی کی عملی زندگی کی دو محور ہیں اول حقوق اللہ کہ جسے عبادات کہتے ہیں اور دو حقوق العباد کہ جسے معاملات کہا جاتا ہے یہی دو اصطلاحیں ہیں جو انسانی نظام حیات کے تمام اصول و قواعد اور قوانین کی بنیاد ہیں

ان دونوں میں چونکہ حقوق اللہ کی عمومیت حاصل ہے کہ اس کا تعلق کائنات انسانی کے ہر فرد سے ہے اس لئے مصنف کتاب نے پہلے ان کو بیان کیا اب اس کے بعد حقوق العباد یعنی معاملات کا بیان شروع کیا ہے جس کا سب سے اہم جزو بیع ہے۔

 

                   بیع کے معنی

 

بیع کے معنی ہیں بیچنا یعنی فروخت کرنا لیکن کبھی اس کے معنی خریدنا بھی مراد ہوتے ہیں اس لئے بیع کا ترجمہ اصطلاحی طور پر خرید و فروخت کیا جاتا ہے۔

فخر الاسلام کا بیان ہے کہ اصطلاح شریعت میں آپس کی رضا مندی سے مال کے ساتھ مال بدلنا بیع کہلاتا ہے

 

                   بیع کی شرعیت

 

بیع یعنی خرید و فروخت کا شرعی ہونا قرآن کریم کی اس آیت (وَاَحَلَّ اللّٰہ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا) 2۔ البقرۃ:275) (اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے) اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث جو (آگے آئیں گی) سے ثابت ہے

 

                   بیع کی قسمیں

 

بیع یعنی خریدو فروخت میں بنیادی طورپر تین چیزیں ہوتی ہیں اول تو عقد بیع یعنی نفس معاملہ کہ ایک شخص کوئی چیز فروخت کرتا ہے اور دوسرا اسے خریدتا ہے دوم مبیع یعنی وہ چیز جس کو فروخت کیا جاتا ہے اور سوم ثمن یعنی قیمت ان تینوں کے اعتبار سے فقہی طور پر بیع کی کچھ قسمیں ہیں۔ چنانچہ نفس معاملہ اور اس کے حکم کہ بیع صحیح ہوئی یا نہیں۔ کے اعتبار سے بیع کی چار قسمیں ہیں

1 نافذ 2موقوف 3فاسد 4باطل

بیع نافذ اس بیع کو کہتے ہیں کہ طرفین میں مال ہو یعنی بیچنے والے کے پاس بیع ہو خریدار کے پاس ثمن ہو اور عاقدین یعنی بیچنے والا اور خریدار دونوں عاقل ہوں نیز وہ دونوں بیع یا تو اصالۃ کریں یا وکالۃ اور دلالۃ جس بیع میں یہ تینوں چیزیں پائی جائیں گی وہ بیع بالکل صحیح اور نافذ ہو گی بیع موقوف اس بیع کو کہتے ہیں جس میں کوئی شخص کسی دوسرے کی چیز کو اس کی اجازت یا ولایت کے بغیر فروخت کرے۔ اس بیع کا حکم یہ ہے کہ جب تک کہ اصل مالک کی اجازت و رضا مندی حاصل نہ ہو جائے یہ بیع صحیح نہیں ہوتی۔ اجازت کے بعد صحیح ہو جاتی ہے بیع فاسد وہ بیع ہے جو باصلہ یعنی معاملہ کے اعتبار سے تو درست ہو مگر بوصفہ یعنی کسی خاص وجہ کی بنا پر درست نہ ہو بیع باطل اس بیع کو کہتے ہیں جو نہ باصلہ درست ہو اور نہ بوصفہ بیع فاسد اور بیع باطل کی تفصیل اور ان کی مثالیں ان شاء اللہ باب المنہی عنہا من البیوع میں ذکر کی جائیں گی

مبیع یعنی فروخت کی جانے والی چیز کے اعتبار سے بھی مبیع کی چار قسمیں ہیں۔

1مقائضہ 2 صرف 3 سلم 4 بیع مطلق

بیع مقائضہ یہ ہے کہ مبیع بھی مال اور ثمن بھی مال ہو مثلاً ایک شخص کپڑا دے اور دوسرا شخص اس کے بدلے میں اس کو غلہ دے۔ گویا بیع کی یہ وہ صورت ہے جسے عرف عام میں تبادلہ مال کہا جاتا ہے۔ بیع صرف یہ ہے کہ نقد کا تبادلہ نقد سے کیا جائے مثلاً ایک شخص ایک روپیہ کا نوٹ دے اور دوسرا شخص اس کے بدلے میں ایک روپیہ کے پیسے دے یا ایک شخص اشرفی دے اور دوسرا شخص اس کے بدلے میں اسے روپیہ دے گویا روپیہ بھنانا یا روپیہ کی ریزگاری لینا دینا بیع صرف کی ایک قسم ہے۔ بیع سلم یہ ہے کہ بیچنے والا خریدار سے کسی چیز کی قیمت پیشگی لے لے اور یہ طے ہو جائے کہ خریدار یہ چیز اتنی مدت مثلاً ایک دو مہینے کے بعد لے لے گا۔ بیع مطلق یہ ہے کہ کسی چیز کی بیع نقد کے عوض کی جائے مثلاً بیچنے والا ایک من گیہوں دے اور خریدار اس کی قیمت کے طور پر تیس روپے ادا کرے۔

ثمن یعنی قیمت کے اعتبار سے بیع کی چار قسمیں یہ ہے۔

1مرابحہ 2 تولیت 3ودیعت 4مساومت

مرابحہ کی یہ صورت ہے کہ بیچنے والا مبیع کو اپنے خریدار سے نفع لے کر فروخت کرے تولیت کی یہ صورت ہے کہ بیچنے والا مبیع کو بلا نفع کے اس قیمت پر فروخت کرے جتنی قیمت میں اس نے خود خریدی ہو اور مساومت کی صورت یہ ہے کہ بیچنے والا اور خریدار آپس کی رضا مندی سے کسی چیز کی خریدو فروخت چا ہے جس قیمت پر کریں اور اس میں بیچنے والے کی قیمت خرید کا کوئی لحاظ نہ ہو۔

 

                    کسب اور طلب حلال کا بیان

 

کسب اور طلب حلال کا مطلب ہے اپنی معاشی ضروریات مثلاً روٹی کپڑے وغیرہ کے حصول کے لئے کمانا اور پاک روزی وحلال پیشہ کو بہرصورت اختیار کرنا چنانچہ اس باب میں کسب معاش کی فضیلت ذکر کی گئی ہے اور یہ بیان کیا گیا ہے کہ کون سا کسب اور کون سا پیشہ اچھا ہے اور کون سا برا ہے۔

فقہ کی کتابوں میں اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ سب سے بہتر کسب و پیشہ جہاد ہے اس کے بعد تجارت پھر زراعت اور پھر دستکاری یعنی کتابت وغیرہ۔

کسب یعنی کمانا فرض بھی ہے اور مستحب بھی اسی طرح مباح بھی ہے اور حرام بھی چنانچہ اتنا کمانا فرض ہے جو کمانے والے اور اس کے اہل و عیال کی معاشی ضروریات کے لئے اور اگر اس کے ذمہ قرض ہو تو اس کی ادائیگی کے لئے کافی ہو جائے اس سے زیادہ کمانا مستحب ہے بشرطیکہ اس نیت کے ساتھ زیادہ کمائے کہ اپنے اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات سے جو کچھ بچے گا وہ فقراء و مساکین اور اپنے دوسرے مستحق اقرباء پر خرچ کروں گا اسی طرح ضروریات زندگی سے زیادہ کمانا اس صورت میں مباح ہے جب کہ نیت اپنی شان و شوکت اور اپنے وقار و تمکنت کی حفاظت ہو البتہ محض مال و دولت جمع کر کے فخر و تکبر کے اظہار کے لئے زیادہ حرام ہے اگرچہ حلال ذرائع ہی سے کیوں نہ کمایا جائے۔

کمانے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی کمائی کو اپنی ذات پر اور اپنے اہل و عیال پر اس طرح خرچ کرے کہ نہ تو اسراف میں مبتلا ہو اور نہ بخل و تنگی کرے۔

جو شخص کمانے اور اپنی روزی خود فراہم کرنے پر قادر ہو اس پر لازم ہے کہ وہ کمائے اور جس طرح بھی ہو سکے حلال ذرائع سے اپنی اور اپنے اہل و عیال کی آبرومندانہ زندگی کے تحفظ کے لئے معاشی ضروریات خود فراہم کر کے دوسروں پر بار نہ بنے ہاں جو شخص کسی بھی مجبوری اور عذر کی وجہ سے کسب و کمائی پر قادر نہ ہو تو پھر اس کے لئے یہ ضروری ہو گا کہ وہ دوسروں سے سوال کر کے اپنی زندگی کی حفاظت کرے اگر اس صورت میں کوئی شخص محض اس وجہ سے کہ دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانا اس کی غیرت کو گوارا نہیں اس نے کسی سے سوال نہیں کیا یہاں تک کہ بھوک و افلاس نے اس کی زندگی کے چراغ کو گل کر دیا تو نہ صرف یہ کہ وہ اپنی موت کا خود ذمہ دار ہو گا بلکہ ایک گنہگار کی موت مرے گا۔ نیز جو شخص خود کما کر اپنا پیٹ بھرنے سے عاجز ہو تو اس کا حال جاننے والے پر یہ فرض ہے کہ وہ اس کی سفارش کرے جو اس کی مدد کرنے پر قادر ہو حضرت مولانا شاہ عبد العزیز دہلوی نے اس آیت کریمہ (يٰٓاَيُّہا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ) 2۔ البقرۃ:172) (اے مؤمنو تم صرف وہی پاک و حلال رزق کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کیا ہے) کی تفسیر میں یہ لکھا ہے کہ سب سے بہتر کسب جہاد ہے بشرطیکہ جہاد کے ارادے کے وقت مال غنیمت کے حصول کا خیال دل میں قطعاً نہ ہو بلکہ نیت میں اخلاص ہو اس کے بعد تجارت کا درجہ ہے خاص طور پر وہ تجارت جو ایک ملک سے دوسرے ملک میں یا ایک شہر سے دوسرے شہر میں مسلمانوں کی ضروریات خاص کی چیزوں کو لانے لے جانے کا ذریعہ ہو اس قسم کی تجارت کرنے والا شخص اگر حصول منفعت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی خدمت اور ان کی حاجت روائی کی نیت بھی رکھے تو اس کی تجارت عبادت کی بھی ایک صورت بن جائے گی۔ تجارت کے بعد زراعت کا درجہ ہے زراعت کا پیشہ بھی دنیاوی منفعت کے علاوہ اجر و ثواب کا ایک بڑا ذریعہ بنا جاتا ہے جب کہ اس میں مخلوق خدا یعنی انسانوں اور جانوروں کی غذائی ضروریات کی فراہمی کی نیت خیر اور اللہ تعالیٰ کی رحمت یعنی بارش وہوا وغیرہ پر توکل اور اعتماد ہو ان تینوں پیشوں کے علاوہ اور پیشے آپس میں کوئی فضیلت نہیں رکھتے البتہ کتابت کا پیشہ بہتر درجہ ضرور رکھتا ہے کیونکہ اس پیشے میں نہ صرف یہ کہ علم کی خدمت ہوتی ہے بلکہ دینی علوم، شرعی احکام، انبیاء اور بزرگوں کے احوال بھی یاد ہو جاتے ہیں۔

مذکورہ بالا پیشوں کے بعد ان پیشوں کا درجہ آتا ہے جو بقاء عالم اور معاشرت وتمدن کی اصل ضروریات کے ساتھ گہرا تعلق رکھتے ہیں مثلاً معماری، بیلداری،  خشت سازی،  چونا بنانا گھی اور تیل نکالنا روئی بیچنا سوت کا تنا کپڑے سینا اور آٹا پیسنا وغیرہ یہ تمام کسب اور پیشے ان پیشوں سے بہتر ہیں جو محض تکلف و تزئین اور اظہار امارت و دولت کے کام آتے ہیں جیسے زردوزی و نقاشی مٹھائی بنانا عطر بنانا بیچنا اور رنگریزی وغیرہ تاہم یہ پیشے بھی اگر حسب موقع ہوں بایں طور کہ ان کی وجہ سے خلاف شرع امور کا ارتکاب نہ ہوتا ہو تو ان میں بھی کچھ کراہیت نہیں ہے۔ بخلاف ان پیشوں کے جن میں آلودگی نجاست مخلوق خدا کی بد خواہی گناہوں کے ارتکاب میں اعانت دین فروشی کذب و جہل سازی اور فریب و دغا کا دخل رہتا ہو جیسے شاخ کشی جاروب کشی دباغی احتکار غلہ حمالی مردہ شوئی کفن فروشی کٹنائی ناچنا گانا نقالی جرہ بازی (پہلے زمانے میں ایک مستقل پیشہ تھا کہ کچھ چہل باز شارع عام پر ایک شخص کو کھڑا کر دیتے جو راہ چلتے آدمی کو کوکھ میں اس طرح ٹھوکا مار دیتا کہ اسے یہ پتہ نہ چلتا کہ یہ کس کی حرکت ہے چنانچہ جب وہ اس پر حیران وپریشان ہوتا تو سب چہل باز اس پر قہقہے لگاتے اس کو جرہ بازی کہتے تھے) نقالی دلالی اور وکالت (جس میں جھوٹ فریب سے کام لیا جاتا ہو) امام اذان اور خدمت مسجد کی اجرت اور قرآن کی تلاوت و تعلیم کا معاوضہ لینا وغیرہ یہ سب پیشے مکروہ ہیں (شاہ عبد العزیز)

مغنی الطالب میں لکھا ہے کہ کسب اور کسب کرنے والے کی فضیلت احادیث میں بہت منقول ہے اسی طرح جو شخص کسب پر قادر ہونے کے باوجود از راہ کسل و سستی کسب نہ کرے بلکہ اپنی گزر اوقات کے لئے دوسروں سے مانگتا پھرے اس کے حق میں بڑی وعید بیان کی گئی ہے لیکن جو شخص خدا کی رزاقی پر اعتماد و بھروسہ کرتے ہوئے کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائے اور نہ ہی اپنی دینی مصروفیات اور عبادت و اذکار میں خلل پڑنے کی وجہ سے کسب وغیرہ کرے تو اس وعید میں داخل نہیں بشرطیکہ اپنی امداد کے لئے دوسرے لوگوں کی طرف نہ تو اس کا دل متوجہ ہو اور نہ وہ کسی سے اپنی امداد و اعانت کی توقع رکھتا ہو کیونکہ اسے سوال دلی کہتے ہیں جو سوال زبانی سے کہیں بد تر چیز ہے۔

جو شخص اتنا مال زر رکھتا ہو جو اس کی معاشی ضروریات کے لئے کافی ہو یا اوقات وغیرہ اسے بقدر ضروریات روپیہ پیسہ مل جاتا ہو (مطلب یہ کہ گھر بیٹھے اسے کسی بھی جائز وسیلے سے بقدر ضروریات آمدنی ہو جاتی ہو) تو اس کے لئے بہتر یہی ہے کہ وہ عبادت وغیرہ میں مشغول رہے اپنے اوقات کسی کسب وغیرہ میں صرف نہ کرے ،  اسی طرح دینی علوم کی تعلیم دینے والے مفتی،  قاضی اور اسی زمرہ کے دوسرے لوگوں کے لئے بھی یہی حکم ہے اگر یہ لوگ بقدر کفایت ضروریات آمدنی رکھتے ہوں تو ان کو اپنے امور ہی میں مصروف رہنا چاہئے کسب وغیرہ میں مصروف نہ ہوں۔

 

جو شخص کسی کسب مثلاً تجارت وغیرہ کا پیشہ اختیار کرے تو اس پر فرض ہے کہ وہ صرف حلال اور جائز مال کمائے حرام سے کلیۃً اجتناب کرے اور اپنے پیشے و ہنر میں احکام شرعی کی رعایت بہرصورت ملحوظ رکھے نیز اپنے پیشہ میں تمام تر محنت و جد و جہد کے باوجود اللہ کی ذات پر توکل و اعتماد رکھے کہ رزاق مطلق صرف اللہ تعالیٰ اور کسب محض ایک ظاہری وسیلہ کے درجہ کی چیز ہے اپنے پیشے و کسب کو رزاق ہرگز نہ سمجھے کیونکہ یہ شرک خفی ہے۔ حرام کسب کے ذریعے حاصل ہونے والے مال و زر سے مکمل پرہیز کرے کیونکہ اس کے بارے میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ وعید منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص حرام مال سے صدقہ و خیرات کرتا ہے تو اس کا صدقہ قبول نہیں ہوتا اور مال حرام اپنے پیچھے یعنی مالک کی موت کے بعد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں رہتا کہ وہ اپنے مالک کے لئے ایسا برا زاد راہ بن جاتا ہے جو اسے یعنی مالک کو دوزخ کی آگ میں پہنچا دیتا ہے۔

بعض لوگ حرام مال کی بڑی تعداد سے تو پرہیز کرتے ہیں لیکن قلیل مقدار میں احتیاط نہیں کرتے حالانکہ حرام مال کی قلیل ترین مقدار سے بھی اسی طرح اجتناب کرنا چاہئے جس طرح بڑی سے بڑی مقدار سے اجتناب ضروری ہے اس بارے میں یہ احساس ہونا چاہئے کہ حرام مال کی وہ قلیل ترین مقدار بقیہ تمام حلال مال میں مل کر سارے مال کو مشتبہ بنا دے گی اور مشتبہ مال و مشتبہ پیشے کے بارے میں بھی یہ مسئلہ ہے کہ اس سے اجتناب ہی اولیٰ ہے۔

اگر کوئی شخص کسی کو بطور ہدیہ وغیرہ کوئی ایسی چیز یا ایسا مال دے جس کی حرمت و حلت کے بارے میں شبہ ہو تو چاہئے کہ اس چیز یا اس مال کو اچھے انداز میں اور نرمی کے ساتھ دینے والے کو واپس کر دے ہاں اگر واپس کرنے دینے والا آزردہ خاطر ہو تو پھر واپس نہ کرنا چاہئے یہی حکم اس مشتبہ مال کی تحقیق کرنے کا بھی ہے کہ اگر وہ مشتبہ مال دینے والا آزردہ خاطر نہ ہو تو تب اس مال کی تحقیق کی جائے اور اگر وہ تحقیق کرنے سے آزردہ خاطر ہو تو پھر تحقیق بھی نہ کی جائے کیونکہ کسی مسلمان کو آزردہ خاطر کرنا حرام ہے جب کہ مشتبہ مال کی تحقیق کرنا ورع (تقوی) ہے اور اس بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ ورع کے لئے حرام کا ارتکاب نہ کرنا چاہئے ہاں جس مال کے بارے میں بالکل تحقیق ہو کہ یہ حرام محض ہے تو پھر اس کو واپس کر دینا بہرصورت ضروری ہے اگرچہ دینے والا آزردہ خاطر ہی کیوں نہ ہو البتہ اگر اس مال کو واپس کرنے میں کسی فتنہ انگیزی کا خوف ہو تو پھر اسے بھی واپس نہ کرے بلکہ اسے لے کر کسی مضطرب کو دیدے اور اگر خود مضطر ہو تو اسے اپنے استعمال میں لے آئے۔

جس بازار میں حرام مال کی تجارت ہوتی ہو اس بازار سے بھی اجتناب کرنا چاہئے کہ اس میں خرید و فروخت نہ کرے جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ فلاں مال حرام ہے مشتبہ ہے اس کی تحقیق و تفتیش ضروری نہیں کیونکہ حرمت و شبہ کے معلوم نہ ہونے کی صورت میں ہر جگہ اور ہر چیز کی تحقیق و تجسس محض وسوسہ ہے۔

غیر مشروع کسب کی اجرت بھی حرام ہے مثلاً مردوں کے لئے ریشمی کپڑے سینا یا مردوں کے لئے سونے کے زیور بنانا اسی طرح غیر مشروع خرید و فروخت سے حاصل ہونے ولا نفع و مال بھی حرام ہے جیسے محتکرہ غلہ بیچنا تمام تجارتوں میں سب سے بہتر تجارت بزازی ہے اسی طرح تمام پیشوں میں سب سے بہتر پیشہ مشک بنانا و سینا ہے۔ خریدو فروخت میں کھوٹے سکوں کو پھیلانا قطعاً نا جائز ہے اگر کھوٹے ہاتھ لگیں تو انہیں کنویں وغیرہ میں ڈال کر ضائع کر دینا چاہئے۔

اسی طرح ہر تاجر اور دوکاندار کے لئے ضروری ہے کہ وہ معاملات میں مکر و فریب سے کام نہ لے بات بات پر قسم نہ کھائے کسی چیز میں اگر کوئی عیب ہو تو اسے خریدار سے پوشیدہ نہ رکھے اپنی اشیاء کی تعریف و توصیف حقیقت سے زیادہ نہ کرے کوئی چیز کسی ایسے شخص کے ہاتھ فروخت نہ کرے جو اسے حرام کام میں استعمال کرے مثلاً انگور کسی شراب ساز کو نہ بیچے یا ہتھیار وغیرہ کسی ڈاکو و قزاق وغیرہ کے ہاتھ فروخت نہ کرے دستکار و صنعت گر اپنی بنائی ہوئی چیز میں کھوٹ ملاوٹ اور غلط چیزوں کی آمیزش نہ کرے کیونکہ ایسی چیز سے حاصل ہونے والی اجرت و قیمت حرام ہوتی ہے ناپ تول میں کمی نہ کرے غبن و دھوکہ دہی میں اپنا دامن ملوث نہ کرے ہمہ وقت یہ تصور رکھے کہ نا جائز طریقوں اور حرام ذرائع سے حاصل ہونے والا ایک پیسہ بھی جنت میں داخل ہونے سے روک دے گا تھوڑے منافع پر اکتفاء کرے کہ یہ مستحب ہے اور جس تجارت و حرفت میں مشغول ہو اور اس سے اس کی ضروریات پوری ہو جاتی ہوں تو اسی پر قناعت کرے اس کی موجودگی میں دوسری تجارتوں اور دوسرے کاروبار کے ذریعے زیادہ کمانے کی حرص نہ رکھے بلکہ اپنے بقیہ اوقات کو آخرت کی بھلائیوں کو حاصل کرنے میں صرف کرے کیونکہ صرف اس دنیا کی فانی زندگی کی راحت و تعیش کے حصول میں ہمہ وقت لگے رہنا اور آخرت کی ابدی زندگی کی سعادتوں سے بے پرواہ ہو جانا عقل و دانش سے بعید تر بات ہے۔

 

                   اپنے ہاتھ کی محنت کی روزی سب سے بہتر ہے

 

حضرت مقدام بن معدی کرب کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کبھی کسی نے اپنے ہاتھ کی محنت کی روزی سے بہتر کوئی کھانا نہیں کھایا یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھوں کی محنت سے کمائی ہوئی روزی کھاتے تھے (بخاری)

 

تشریح

 

حضرت داؤد علیہ السلام اللہ کے ایک جلیل القدر نبی تھے اور ساتھ ہی خدا نے انہیں دنیا کی سلطنت حکومت بھی عطا کی تھی۔ ان کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اپنی حکومت میں لوگوں سے اپنے بارے میں تجسس کرتے رہتے تھے چنانچہ جو شخص ان کو نہیں پہچانتا تھا اس سے وہ دریافت کرتے کہ بتاؤ داؤد کیسا ہے؟ لوگوں میں اس کی سیرت و عادت کس درجے کی ہے اور اس کے بارے میں تمہارا تاثر کیا ہے ایک دن ایسا ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ کو آدمی کی صورت میں ان کے پاس بھیجا انہوں نے اس سے بھی اس قسم کے سوال کئے اس نے کہا داؤد علیہ السلام ہیں تو بہت اچھے آدمی مگر اتنی بات ضرور ہے کہ وہ بیت المال سے روزی کھاتے ہیں بس یہ سننا تھا کہ حضرت داؤد علیہ السلام کے دل و دماغ میں ایک بجلی سی کوند گئی فوراً اپنے پروردگار سے دعا کی کہ رب العالمین مجھے بیت المال سے مستغنی بنا دے اور مجھے کوئی ایسا ہنر عطا کر دے کہ جس سے میں اپنی روزی کما سکوں چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کی اور انہیں زرہ بنانے کا ہنر عطا فرمایا منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں کو ایسی خاصیت عنایت کی کہ لوہا ان کے ہاتھوں میں پہنچتے ہی موم کی طرح نرم ہو جاتا تھا جس سے وہ زرہ بناتے اور جو چار چار ہزار درہم میں فروخت ہوتی بلکہ بعض علماء نے تو یہ لکھا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام ہر روز ایک زرہ بناتے اور اس کو چھ ہار درہم میں فروخت کرتے پھر اس چھ ہزار کو اس طرح صرف کرتے کہ دو ہزار تو اپنی ذات اور اہل و عیال پر خرچ کرتے اور چار ہزار درہم بنی اسرائیل کے فقراء ومساکین میں بطور صدقہ وخیرات تقسیم کر دیتے۔

بہرکیف آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مذکورہ بالا ارشاد گرامی کے ذریعے جہاں یہ ارشاد فرمایا کہ کسب یعنی اپنی روزی خود پیدا کرنا انبیاء کی سنت ہے جیسا کہ حضرت داؤد علیہ السلام کے عمل سے معلوم ہوا اس لئے تم بھی ان کے طریقے کو اختیار کرو وہیں گویا آپ نے اپنی روزی خود اپنی صنعت وحرفت کے ذریعے پیدا کرنے پر لوگوں کو ترغیب دلائی ہے کیونکہ اس میں بڑے بڑے فائدے ہیں مثلاً جو شخص اپنی صنعت وحرفت سے کماتا ہے نہ صرف یہ کہ خود اسے منافع حاصل ہوتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی اس کی صنعت وحرفت سے فائدہ پہنچتا ہے پھر یہ کہ ایسا شخص اپنے پیشے میں مصروف رہنے کی وجہ سے بری باتوں اور لہوولعب سے محفوظ رہتا ہے نیز چونکہ اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرنے کی وجہ سے کسرنفسی بھی پیدا ہوتی ہے اس لئے وہ اپنے نفس کی سرکشی سے بچتا ہے اور پھر سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ایسا شخص کسی کا محتاج نہیں رہتا کسی کے آگے دست سوال دراز نہیں کرتا کسی کے آگے جھکتا نہیں اور اسے ایک ابرومندانہ زندگی حاصل رہتی ہے۔

 

                   صرف حلال مال کھانے کی فضیلت اور حرام مال سے بچنے کا اثر

 

اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمام کمی اور عیوب سے پاک ہیں اس پاک ذات کی بارگاہ میں صرف وہی صدقات و اعمال مقبول ہوتے ہیں جو شرعی عیوب اور نیت کے فساد سے پاک ہوں۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ نے جس چیز (یعنی حلال مال کھانے اور اچھے اعمال) کا حکم اپنے رسولوں کو دیا ہے اسی چیز کا حکم تمام مؤمنوں کو بھی دیا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے آیت (یا ایہا الرسل کلوا من الطیبات واعملوا صالحا) (یعنی اے رسولو حلال روزی کھاؤ اور اچھے اعمال کرو) نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت (یا ایہا الذین امنوا کلوا من طیبات ما رزقنکم) (یعنی اے مؤمنو تم صرف وہی پاک و حلال رزق کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطاء کیا ہے) پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بطور مثال ایک شخص کا حال ذکر کیا کہ وہ طول طویل سفر اختیار کرتا ہے پراگندہ بال اور غبار آلودہ ہے وہ اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتا ہے اور کہتا ہے اے میرے رب اے میرے رب یعنی وہ اپنے مقاصد کے لئے دعا مانگتا ہے حالانکہ کھانا اس کا حرام لباس اس کا حرام شروع سے اب تک پرورش اس کی حرام ہی غذاؤں سے ہوئی پھر کیونکر اس کی دعا قبول کی جائے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

اس ارشاد گرامی میں پہلے تو حلال مال کمانے کی فضیلت اور اس کا حکم بیان کرتے ہوئے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کہ خود پاک ہے اور حلال رزق کو اس کی جناب پاک میں اس وجہ سے ایک نسبت حاصل ہے کہ حلال رزق بھی حرمت کی نجاستوں سے پاک ہوتا ہے تو تقاضاء عبودیت یہی ہے کہ بندہ حلال ہی رزق کھائے تاکہ اس پاک وحلال رزق کی وجہ سے اس بندہ کو بارگاہ خداوندی میں تقرب کی دولت حاصل ہو،

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بتایا ہے کہ حرام مال سے اجتناب نہ کرنے کا اثر دعا کا قبول نہ ہونا ہے چنانچہ اس بات کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس مثال کے ذریعے ظاہر فرمایا ہے کہ ایک شخص حج یا اور عبادات کے لئے طول طویل سفر اختیار کرتا ہے وہ ان مقامات مقدسہ تک پہنچنے میں پوری مشقت وجد وجہد کرتا ہے جہاں مانگی جانے والی دعا باب قبولیت تک پہنچتی ہے یہاں تکہ کہ وہ ان مقامات تک پہنچ جاتا ہے وہاں پہنچ کر وہ اس حال میں دست سوال اٹھاتا ہے کہ سفر کی مشقت وطوالت کی وجہ سے اس کے بال پراگندہ ہیں پورا جسم گرد وغبار سے آلودہ ہے اور تضرع والحاح کی پوری کیفت اس پر طاری ہے ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں اس کی دعا بظاہر قبول ہونی چاہئے کیونکہ اول تو ایک عبادت گزار بندہ ہے پھر وہ مسافر بھی ہے اور مسافر کے بارے میں یہ معلوم ہو چکا ہے کہ اس کی دعا باب قبولیت تک پہنچ کر رہتی ہے دوسرے یہ کہ اس جگہ دعا مانگ رہا ہے جہاں مانگی جانے والی ہر دعا کی لاج رکھی جاتی ہے غرضیکہ قبولیت دعا کے تمام آثار موجود ہیں مگر اس شخص کی دعا قبول نہیں ہوتی کیوں اس لئے کہ جاننے والا جانتا ہے کہ وہ حرام مال سے پرہیز نہیں کرتا گویا اس کی ساری محنت ومشقت اور اس کی ساری عبادت وحالت اس کی دعا کو صرف اس لئے مؤثر نہیں بنا سکی وہ حرام مال کھاتا ہے حرام لباس پہنتا ہے اور کمائی کے حرام ذرائع سے اجتناب نہیں کرتا اس سے معلوم ہوا کہ دعا کی قبولیت حلال رزق پر موقوف ہے اسی لئے کہا گیا ہے کہ دعا کے دو بازو ہیں (جن کے سہارے وہ دعا باب قبولیت تک پہنچتی ہے) ایک تو اکل حلال دوسرا صدق مقال یعنی حلال کھانا اور سچ بولنا۔

 

                   آنے والے زمانہ کے بارے میں ایک پیش گوئی

 

اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئیگا کہ آدمی کو جو مال ملے گا اس کے بارے میں وہ اس کی پرواہ نہیں کرے گا کہ یہ حلال ہے یا حرام(بخاری)

 

تشریح

 

قیامت کے قریبی زمانہ میں جہاں عام گمراہی کی وجہ سے افکار و اعمال کی اور بہت سی خرابیاں پیدا ہونگی وہیں ایک بڑی خرابی بھی پیدا ہو گی کہ لوگ حلال وحرام مال کے درمیان تمیز کرنا چھوڑ دینگے جس کو جو بھی مال ملے گا اور جس ذریعہ سے بھی ملے گا اسے یہ دیکھے بغیر کہ یہ حلال ہے یا حرام ہضم کر جائے گا اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ یہ پیش گوئی آج کے زمانہ پر پوری طرح منطبق ہے آج ایسے کتنے لوگ ہیں جو حلال وحرام مال کے درمیان تمیز کرتے ہیں ہر شخص مال و زر بٹورنے کی ہوس میں مبتلا ہے مال حلال ہے یا حرام ہے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی بس ہاتھ لگنا چاہئے کسی نے سچ کہا ہے

(ہرچہ آمد بدہان شاں خورند و آنچہ آمد بزبان شان گفتند)

یہ اس دور کی عام وبا ہے جس سے کوئی طبقہ اور کوئی جماعت محفوظ نہیں ہے۔

 

                   مشتبہ چیزوں سے بھی اجتناب کرنا چاہئے

 

اور حضرت نعمان ابن بشیر راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا حلال ظاہر ہے حرام ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان مشتبہ چیزیں ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے لہذا جس شخص نے مشتبہ چیزوں سے پرہیز کیا اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو پاک ومحفوظ کر لیا (یعنی مشتبہ چیزوں سے بچنے والے کے نہ تو دین میں کسی خرابی کا خوف رہیگا اور نہ کوئی اس پر طعن وتشنیع کریگا اور جو شخص مشتبہ چیزوں میں مبتلا ہوا وہ حرام میں مبتلا ہو گیا اور اس کی مثال اس چروا ہے کی سی ہے جو ممنوعہ چراگاہ کی مینڈ پر چراتا ہے اور ہر وقت اس کا امکان رہتا ہے کہ اس کے جانور اس ممنوعہ چراگاہ میں گھس کر چرنے لگیں۔ جان لو ہر بادشاہ کی ممنوعہ چراگاہ ہوتی ہے اور یاد رکھو اللہ تعالیٰ کی ممنوعہ چراگاہ حرام چیزوں ہیں اور اس بات کو بھی ملحوظ رکھو کہ انسان کے جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست حالت میں رہتا ہے یعنی جب وہ ایمان و عرفان اور یقین کے نور سے منور رہتا ہے تو اعمال خیر اور حسن اخلاق واحوال کی وجہ سے پورا جسم درست حالت میں رہتا ہے اور جب اس ٹکڑے میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے یاد رکھو گوشت کا وہ ٹکڑا دل ہے (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

حلال ظاہر ہے کا مطلب یہ ہے کہ کچھ چیزیں تو وہ ہیں جن کا حلال ہونا سب کو معلوم ہے نیک کلام اچھی باتیں وہ مباح چیزیں ہیں جن کو کرنا یا جن کی طرف دیکھنا درست ہے شادی بیاہ کرنا اور چلنا پھرنا وغیرہ وغیرہ اسی طرح حرام ظاہر ہے کا مطلب یہ ہے کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کا حرام ہونا نص کے ذریعہ بالکل واضح طور پر معلوم ہو گیا ہے جیسے شراب خنزیر مردار جانور، جاری خون زنا سود جھوٹ غیبت چغل خوری امرد اور اجنبی عورت کی طرف بہ نظربد دیکھنا وغیرہ وغیرہ ایسے ہی کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جن کی حرمت یا حلت کے بارہ میں دلائل کے تعارض کی بناء پر کوئی واضح حکم معلوم نہیں ہوتا بلکہ یہ اشتباہ ہوتا ہے کہ یہ حرام ہیں یا حلال ایسی کتنی ہی چیزیں ہیں جن کے حلال ہونے کی دلیلیں بھی ہیں اور حرام ہونے کی بھی اس صورت میں کوئی واضح فیصلہ کرنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہوتی جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسی چیزوں کے بارے میں دونوں طرف کی دلیلوں میں سے کسی ایک طرف کی دلیل کو اپنی قوت اجتہاد اور بصیرت فکر ونظر کے ذریعہ راجح قرار دے کر کوئی واضح فیصلہ کر لیتے ہیں۔ بہرکیف مشتبہ چیز کے بارہ میں علماء کے تین قول ہیں۔

-1 ایسی چیز کو نہ حلال سمجھا جائے نہ حرام اور نہ مباح یہی قول سب سے زیادہ صحیح ہے اور اسی پر عمل کرنا چاہئے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی چیز سے اجتناب کرنا ہی بہتر ہے۔

-2 ایسی چیز کو حرام سمجھا جائے

-3 ایسی چیز کو مباح سمجھا جائے

اب ان تینوں اقول کو ذہن میں رکھ کر مشتبہ کو بطور مثال اس طرح سمجھئے کہ مثلاً ایک شخص نے کسی عورت سے نکاح کیا ایک دوسری عورت نے آ کر کہا کہ میں نے ان دونوں کو اپنا دودھ پلایا ہے اس صورت میں وہ منکوحہ عورت اس شخص کے حق میں مشتبہ ہو گئی کیونکہ ایک طرف تو عورت کا بیان ہے کہ میں نے چونکہ ان دونوں کو دودھ پلایا ہے اس لئے یہ دونوں رضاعی بہن بھئی ہوئے اور ظاہر ہے کہ رضاعی بھائی بہن کے درمیان نکاح درست نہیں ہوتا لہذا اس دلیل کا تو یہ تقاضا ہے کہ اس نکاح کو قطعاً نا جائز کہا جائے مگر دوسری طرف نکاح کے جائز رہنے کی یہ دلیل ہے کہ صرف یہ ایک عورت کی بات ہے جس پر کوئی شرعی گواہی نہیں ہے اس پر کیسے یقین کر لیا جائے کہ یہ عورت صحیح ہی کہہ رہی ہے ہو سکتا ہے کہ یہ محض بدنیتی کی وجہ سے یہ بات کہ کر ان دونوں کے درمیان افتراق کرانا چاہتی ہے اس صورت میں کہا جائے گا کہ نکاح جائز اور درست ہے دلائل کے اس تعارض کی وجہ سے لا محالہ یہی حکم ہو گا کہ یہ ایک مشتبہ مسئلہ ہو گیا ہے اس لئے اس شخص کے حق میں بہتر یہی ہو گا کہ وہ اس عورت کو اپنے نکاح میں نہ رکھے کیونکہ مشتبہ چیز سے اجتناب ہی اولیٰ ہے مشتبہ چیز کی دوسری مثال یہ ہے کہ مثلاً ایک شخص کے پاس کچھ روپے ہیں جن میں سے کچھ تو جائز آمدنی کے ہیں اور کچھ نا جائز آمدنی کے اس صورت میں وہ سب روپے اس شخص کے حق میں مشتبہ ہیں لہذا اس کو ان روپیوں سے اجتناب وپرہیز کرنا چاہئے۔

ارشاد گرامی میں حرام چیزوں کو ممنوعہ چراگاہ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح کوئی حاکم کسی خاص چراگاہ کو دوسروں کے لئے منوع قرار دے دیتا ہے جس کے نتیجہ میں لوگوں کے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے جانوروں کو اس ممنوعہ چراگاہ سے دور رکھیں اسی طرح جو چیزیں شریعت نے حرام قرار دی ہیں وہ لوگوں کے لئے ممنوع ہیں کہ ان کے ارتکاب سے اجتناب وپرہیز واجب و ضروری ہے اور مشتبہ چیزوں میں مبتلا ہونے کو ممنوعہ چراگاہ کی مینڈ (منڈیر) پر عام جانور چرانے کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح چروا ہے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے جانوروں کو ممنوعہ چراگاہ سے دور رکھ کر چرائے تا کہ اس کے جانور اس ممنوعہ چراگاہ میں نہ گھس جائیں اور اگر وہ اپنے جانوروں کو ممنوعہ چراگاہ کی مینڈ پر چرائے گا تو پھر اس بات کا ہر وقت احتمال رہے گا کہ اس کے جانور ممنوعہ چراگاہ میں گھس جائیں جس کے نتیجہ میں اسے مجرم قرار دے دیا جائیگا اسی طرح انسان کو چاہئے کہ وہ مشتبہ چیزوں سے دور رہے تا کہ محرمات حارم چیزوں میں مبتلا نہ ہو جائے اس کے بعد آپ نے مذکورہ بالا تشبیہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ جان لو کہ ہر بادشاہ کا ایک ایسا ممنوعہ علاقہ ہوتا ہے جس میں جانور چرانا جرم سمجھا جاتا ہے (یہ گویا زمانہ جاہلیت کے بادشاہوں اور حکام کے بارہ میں خبر دی ہے یا یہ کہ مسلمانوں میں سے ان بادشاہوں اور حکام کے بارے میں خبر دی ہے جو غیر عادل ہیں کیونکہ کسی علاقہ کی گھاس کو جانوروں کے چرنے سے روک کو ممنوعہ چراگاہ قرار دینا درست نہیں ہے) اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ممنوعہ علاقہ حرام چیزیں ہیں کہ جن میں مبتلا ہونا لوگوں کے لئے ممنوع قرار دے دیا گیا ہے لہذا جو کوئی اس ممنوعہ علاقہ میں داخل ہو گا یعنی حرام چیزوں کا ارتکاب کریگا اسے مستوجب عذاب قرار دیا جائے گا اور پھر ان حرام چیزوں میں بھی بعض چیزیں تو ایسی ہیں جن کے مرتکب کی بخشش ہی نہیں ہو گی جیسے شرک اور کچھ چیزیں ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہیں کہ چا ہے ان کے مرتکب کو بخشے چا ہے نہ بخشے البتہ سچے دل کے ساتھ توبہ استغفار سے ہر چیز بخشی جائے گی۔

حضرت شیخ علی متقی نے اس موقع پر یہ ترتیب ضروری مباح مکروہ حرام کفر قائم کر کے لکھا ہے کہ جب بندہ اپنی معاشی تمدنی اور سماجی زندگی کے تمام گوشوں میں اس قدر ضرورت پر اکتفاء کر لیتا ہے جس سے اس کا وجود اور اس کی عزت باقی رہے تو وہ اپنے دین میں ہر خطرہ سے سلامت رہتا ہے مگر جب حد ضرورت سے گزرنے کی کوشش کرتا ہے تو حد مکروہات میں داخل ہو جاتا ہے یہاں تک کہ حرص وہوس حد مکروہات سے نکال کر محرمات کی مد میں داخل کر دیتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا اگلا قدم کفر میں پہنچ جاتا ہے نعوذ باللہ من ذلک۔

حدیث کے آخر میں انسانی جسم میں گوشت کے اس ٹکڑے کی اہمیت بیان کی گئی ہے جسے دل کہا جاتا ہے چنانچہ فرمایا کہ جب وہ ٹکڑا بگڑ جاتا ہے یعنی انکار شک اور کفر کی وجہ سے اس پر ظلمت طاری ہو جاتی ہے تو اس کے نتیجہ میں ارتکاب گناہ ومصیبت کی وجہ سے پورا جسم بگڑ جاتا ہے لہذا ہر عاقل وبالغ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے دل کی طرف متوجہ رہے اور اس کو خواہشات نفسانی میں منہمک ہونے سے روکے تاکہ وہ آگے بڑھ کر مشتبہ چیزوں کی حد میں داخل نہ ہو جائے کیونکہ جب دل خواہشات نفسانی کی طرف چل پڑتا ہے تو پھر خدا کی پناہ وہ تمام حدوں کو پھلانگتا ہوا ظلمت کی آخری حدوں تک پہنچ جاتا ہے۔

آخر میں یہ سمجھ لیجئے کہ یہ حدیث اس طرف اشارہ کر رہی ہے کہ بدن کی بھلائی وبہتری حلال غذا پر موقوف ہے کیونکہ حلال غذا سے دل کو صفائی حاصل ہوتی ہے اور دل کی صفائی ہی سے تمام بدن اچھی حالت میں رہتا ہے بایں طور کہ اس کے ایک ایک عضو سے اچھے اعمال ہی صادر ہوتے ہیں اور تمام اعضاء کا برائی کی طرف میلان ختم ہو جاتا ہے۔

اور اب ایک بات یہ جان لیجئے کہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ حدیث علم ومسائل کے بڑے وسیع خزانے کی حامل ہے نیز جن حدیثوں پر اسلامی شرائع واحکام کا مدار ہے وہ تین ہیں ایک تو حدیث (انما الاعمال بالنیات) دوسری حدیث (من حسن اسلام المرء ترکہ ما لا یعنیہ) اور تیسری ہی ہے حدیث (الحلال بین) الخ۔

 

                   زانیہ کی اجرت مال حرام ہے

 

اور حضرت رافع ابن خدیج کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کتے کی قیمت ناپاک مال ہے زنا کار عورت کی اجرت حرام مال ہے سینگی کھینچنے والے کی کمائی نا پسندیدہ مال ہے۔

 

تشریح

 

پہلے تو یہ سمجھ لیجئے کہ لفظ خبیث کے لغوی معنی ، ناپاک اور برا، کے ہیں لیکن فقہی طور پر اس کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ ائمہ مجتہدین اور فقہاء حسب موقع و محل اس کے معنی کبھی حرام کبھی ناپاک اور کبھی مکروہ وغیرہ مراد لیتے ہیں۔

چنانچہ حضرت امام شافعی نے ثمن الکلب خبیث میں خبیث کے معنی حرام مراد لیتے ہوئے کہا ہے کہ حدیث سے چونکہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ کتے کی قیمت کے طور پر حاصل ہونے والا مال حرام ہے اس لئے کتے کی خریدو فروخت بھی نا جائز ہے۔ کتا خواہ معلم (یعنی سدھایا ہوا ہو خواہ غیر معلم (یعنی سدھایا ہوا نہ) ہو حضرت امام اعظم ابوحنیفہ حضرت امام محمد اور بعض دوسرے ائمہ کا قول یہ ہے کہ ان کتوں چیتوں اور درندوں کی خرید و فروخت جائز ہے جن سے فائدے حاصل ہوتے ہیں خواہ وہ معلم ہوں یا غیر معلم ان حضرات نے ثمن الکلب خبیث کے بارہ میں یہ کہا ہے کہ لفظ خبیث محض حرمت ہی پر دلالت نہیں کرتا جس کی واضح مثال اس حدیث کے الفاظ وکسب الحجام خبیث ہیں اگر لفظ خبیث سے حرام ہی مراد لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا سینگی کھینچنے والے کو جو اجرت حاصل ہوتی ہے وہ بھی حرام ہے حالانکہ متفقہ طور پر تمام علماء کے نزدیک وہ حرام نہیں ہے لہذا ثمن الکلب خبیث میں لفظ خبیث کے معنی ناپاک مراد لیتے ہوئے اس جملہ کا مطلب یہ ہو گا کہ کتے کی قیمت کے طور پر حاصل ہونے والا مال ناپاک یعنی مکروہ ہے حرام نہیں ہے۔

کسب الحجام خبیث میں لفظ خبیث کے معنی نا پسندیدہ مراد لئے گئے ہیں کیونکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بارہ میں ثابت ہے کہ آپ نے سینگی کھنچوانے کی اجرت ادا کی ہے اگر یہ اجرت حرام ہوتی تو آپ خود کیوں دیتے لہذا اس جملہ کا مطلب یہ ہو گا کہ سینگی کھینچنے والے کو اپنی اجرت کے طورپر جو مال ملتا ہے وہ ناپسندیدہ یعنی مکروہ تنزیہی ہے۔

 

                   کتے کی قیمت کا مسئلہ

 

اور حضرت ابومسعود انصاری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کتے کی قیمت بدکار عورت کی اجرت اور کاہن کے حلوان یعنی اس کی اجرت کے طور پر حاصل ہونے والے مال کو استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے۔

 

تشریح

کتے کی خریدو فروخت اور اس کی قیمت کے طور پر حاصل ہونے والے مال کے سلسلہ میں تفصیلی بحث اس سے پہلی حدیث کی تشریح میں کی جا چکی ہے چنانچہ اس حدیث میں کتے کی قیمت کے ممنوع ہونے کا جو حکم بیان کیا گیا اس کے بارے میں حنفی علماء یہ کہتے ہیں کہ یہ حکم اس وقت تھا جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا تھا نیز آپ نے کتوں سے فائدہ حاصل کرنے کی بھی ممانعت کر دی تھی مگر پھر بعد میں آپ نے یہ اجازت دے دی تھی کہ کتوں سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے یہاں تکہ یہ بھی منقول ہے کہ ایک شخص نے ایک شکاری کتے کو مار ڈالا تو آپ نے اسے حکم دیا کہ وہ مالک کو اس کتے کے بدلہ میں ایک دنبہ دے۔

علامہ طیبی فرماتے ہیں ک جمہور علماء کا مسلک یہ ہے کہ نہ تو کتے کی خریدو فروخت جائز ہے اور نہ کسی کتے کو مار ڈالنے والے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اس کتے کی قیمت اس کے مالک کو ادا کرے کتا خواہ معلم ہو یا غیر معلم ہو اسی طرح خواہ اس کتے کا پالنا جائز ہو یا نا جائز ہو لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ نے اس کتے کی خرید و فروخت جائز قرار دی ہے جس سے فائدہ اٹھانا مقصود ہو مثلاً گھر بار کی نگرانی یا ریوڑ گلوں کی نگہبانی وغیرہ نیز حضرت امام اعظم نے ایسے کتے کو مار ڈالنے والے کے لئے یہ ضروری قرار دیا ہے کہ وہ اس کتے کی قیمت اس کے مالک کو ادا کرے۔

بدکار عورت کے اس مال کا حکم جو اس نے اپنی بدکاری کی اجرت کے طور پر حاصل کیا ہو گذشتہ حدیث کی تشریح  میں ذکر کیا جا چکا ہے کاہن اس شخص کو کہتے ہیں جو آنے والے زمانہ کی خبریں بتایا کرتا ہے اسی طرح حلوان کے لغوی معنی اگرچہ شیرینی اور مٹھائی ہے لیکن اصطلاحی طور پر عربی میں حلوان اس اجرت کو کہتے ہیں جو کاہن آئندہ کی خبریں معلوم کرنے والے سے وصول کرتا ہے خواہ وہ مٹھائی اور کھانے وغیرہ کی صورت میں ہو یا کپڑے زیور اور نقدی وغیرہ کی شکل میں کاہن کی اجرت کو حلوان کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح شیرینی اور مٹھائی کھانے سے طبیعت کو فرحت محسوس ہوتی ہے اسی طرح کاہن کو اپنی یہ اجرت لے کر بہت ہی فرحت محسوس ہوتی ہے کیونکہ بغیر کسی محنت ومشقت کے وہ اچھا خاصا مال بٹور لیتا ہے۔

یہ بات تو معلوم ہی ہو گی کہ جس طرح کاہن کے پاس جانا اور ان سے آئندہ کی خبریں معلوم کرنا حرام ہے اسی طرح پوشیدہ باتوں کو معلوم کرنے کے لئے نجومی اور پامسٹ وغیرہ کے پاس جانا اور ان کی بتائی ہوئی باتوں پر یقین کرنا حرام ہے اس بارے میں کسی عالم کا کوئی اختلاف نہیں ہے اس کی تفصیلی بحث ان شاء اللہ باب السحر والکہانۃ میں آئے گی۔

 

                   خون بیچنا حرام ہے

 

اور حضرت ابو جحیفہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے خون کی قیمت کتے کی قیمت اور بدکار عورت کی اجرت کے طور پر حاصل ہونے والے مال کے استعمال سے منع فرمایا ہے نیز آپ نے سود لینے والے اور سود دینے والے گودنے والے اور گودوانے والے اور مصور پر لعنت فرمائی ہے۔

 

تشریح

 

خون کی قیمت سے منع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے خون کی خریدو فروخت سے منع فرمایا ہے کیونکہ خون نجس ہوتا ہے اور اس کی خریدو فروخت جائز نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ جس چیز کی خریدو فروخت نا جائز ہوتی ہے اس کی قیمت کے طور پر حاصل ہونے والا مال بھی نا جائز ہوتا ہے بعض حضرات نے ثمن الدم(خون کی قیمت) کو سینگی کھینچنے والے کی اجرت پر محمول کیا ہے اس صورت میں ممانعت کا تعلق مکروہ تنزیہی سے ہو گا کتے کی قیمت اور بدکار عورت کی اجرت کے بارے میں گزشتہ احادیث میں بیان کی جا چکی ہے۔

گودنے کی صورت یہ ہوتی ہے کہ جسم کے کسی حصہ پر یا پورے جسم پر سوئی سے گود کر سرمہ یا تیل بھر دیتے ہیں جس سے سرمئی یا نیلے داغ ہو جاتے ہیں چنانچہ آپ نے گودنے والے پر بھی اور گودوانے والے پر بھی لعنت فرمائی ہے۔ کیونکہ یہ فاسقوں اور غیر مسلموں کا کام ہے نیز اس طریقہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا شدہ جسم کی اصل خلقت میں تغیر و بدنمائی ہوتی ہے اگر کسی مسلمان کے جسم پر گودنے کے داغ ہوں تو اس کے بارہ میں تعلیق القرار میں لکھا ہے کہ اسے کسی بھی تدبیر سے مٹا دیا جائے اور اگر زخم و خراش پیدا کئے بغیر کسی بھی تدبیر سے اس کو مٹانا ممکن نہ ہو تو پھر چھوڑ دیا جائے ان کو مٹانے کے لئے زخم و خراش کی تکلیف برداشت کرنے کی ضرورت نہیں ہے تا ہم بہرصورت اس قبیح فعل پر ندامت کے ساتھ توبہ کی جائے توبہ کے بعد گناہگار نہیں رہے گا۔

آپ نے مصور پر بھی لعنت فرمائی ہے لیکن مصور سے مراد یہ ہے وہ جانور کا فوٹو کھینچنے یا جاندار کی تصویر بنائے یا تصویر گاڑھے غیر جاندار چیزوں مثلاً مکانات درخت اور پہاڑ وغیرہ کی تصویریں کھینچنا بنانا اور گاڑنا درست ہے۔

خطابی نے لکھا ہے کہ تصویر کی دو قسمیں ہوتی ہیں ایک تو یہ ہے کہ جس چیز پر تصویر بنائی جاتی ہے وہ چیز تصویر کی ایک ضمنی شئ ہوتی ہے اور تصویر مقصود بالذات ہوتی ہے مثلاً جب فوٹو کھینچا جاتا ہے یا کاغذ پر تصویر بنائی جاتی ہے تو اس فوٹو یا تصویر کے کاغذ کی حیثیت محض ضمنی ہوتی ہے اصل مقصد کا تعلق تصویر سے ہوتا ہے دوسری قسم یہ ہے کہ جس چیز پر تصویر بنی ہوئی ہوتی ہے وہ چیز مقصود بالذات ہوتی ہے اور تصویر اس چیز کا ایک ضمنی وصف ہوتا ہے مثلاً برتن دیواروں چھتوں قالینوں اور پردوں وغیرہ پر بنی ہوئی تصویریں۔ لہذا دوسری قسم کی خرید و فروخت جائز ہے جب کہ بنانا دونوں ہی کا نا جائز ہے۔

 

                   حرام چیزوں کی خرید و فروخت بھی حرام ہے

 

اور حضرت جابر سے روایت ہے کہ انہوں نے فتح مکہ کے سال مکہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے شراب مردار خنزیر اور بتوں کی خریدو فروخت کو حرام قرار دیا ہے جب آپ سے عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ ہمیں مردار کی چربی کا حکم بھی بتائیے جو کشتیوں پر ملی جاتی ہے نیز اس سے چمڑوں کو چکنا کیا جاتا ہے اور لوگ(گھروں میں) اس سے چراغ جلاتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ مردار کی چربی بھی حرام ہے اس لئے اس سے یہ فائدے اٹھانے جائز نہیں پھر آپ نے اسی وقت یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یہود پر لعنت فرمائے جب اللہ تعالیٰ نے مردار کی چربی کو حرام قرار دیا تو یہود (نے یہ حیلہ اختیار کیا کہ وہ) چربی کو پگھلاتے اور بیچ ڈالتے اور پھر اس کی قیمت کھا جاتے (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

عطاء نے لکھا ہے کہ شراب وغیرہ کے مذکورہ بالا حکم میں باجا بھی داخل ہے کہ اس کی خریدو فروخت بھی جائز نہیں ہے نیز اگر کوئی شخص کسی باجے کو تلف کر دے تو اس پر ضمان یعنی مالک کو اس کی قیمت ادا کرنا واجب نہیں ہوتا۔

حضرت امام شافعی کا مسلم یہ ہے کہ مردار کی چربی کی خریدو فروخت تو جائز نہیں ہے لیکن اس چربی سے فائدہ اٹھانا یعنی اس کو کھانے اور آدمی کے جسم پر ملنے کے علاوہ اور کام میں استعمال کرنا جائز ہے خواہ کشتی پر ملے خواہ چراغ میں جلائے اور خواہ کسی اور کام میں لائے اسی طرح ان کے مسلک کے مطابق جو گھی یا زیت یا اور کوئی تیل نجاست پڑ جانے کی وجہ سے نجس ہو گیا ہو تو اس کو چراغ میں جلانے یا اس کا صابون بنانا جائز ہے جب کہ جمہور کا مسلک یہ ہے کہ جس طرح مردار کی خریدو فروخت نا جائز ہے اسی طرح اس سے کسی بھی طرح کا فائدہ اٹھانا یعنی اس کی کسی بھی چیز کو اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے کیونکہ مردار کی حرمت بطریق عموم ثابت ہے البتہ دباغت کیا ہوا چمڑا اس سے مستثنی ہے کیونکہ اس کا جواز خصوصی طور پر ثابت ہے۔

حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور ان کے متبعین علماء نے نجس زیت کو بیچنے کی اجازت دی ہے البتہ ان کے نزدیک نجس تیل کو چراغ میں جلانا بالخصوص مسجد میں جلانا مکروہ ہے۔

حدیث کے آخر میں یہودیوں کی ایک خاص عیاری کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جب ان کے لئے مردار کی چربی کو حرام قرار دیا تو انہوں نے یہ حیلہ اختیار کیا کہ وہ چربی کو پگھلا کر اس کو بیچ دیتے تھے اور پھر اس کی قیمت کے طور پر حاصل ہونے والے مال کو اپنے استعمال میں لے آتے اور یہ کہتے تھے کہ اللہ نے تو چربی کھانے سے منع کیا ہے اور ہم چربی نہیں کھاتے بلکہ اس کی قیمت کے طور پر حاصل ہونے والا مال کھاتے ہیں گویا وہ جاہل چربی کو پگھلا کر یہ سمجھتے تھے کہ ہم نے چربی کی حقیقت کو بدل دیا ہے کہ پگھلنے کے بعد وہ چربی نہیں رہ گئی ہے اس لئے اس صورت میں حکم الٰہی کی خلاف ورزی نہیں ہوتی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی اس عیارانہ چال کی وجہ سے ان کو اللہ کی لعنت کا مستحق قرار دیا اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ایسا حیلہ اختیار کرنا کہ جس کے سبب سے حرام کا ارتکاب ہوتا ہو بالکل غلط ہے نیز یہ حدیث اس بات کی بھی دلیل ہے کہ کسی چیز کی قیمت حکم کے اعتبار سے اسی چیز کے تابع ہے کہ اگر وہ چیز حرام ہو گی تو اس کی قیمت بھی حرام ہو گی اور جو چیز حلال ہو گی اس کی قیمت بھی حلال ہو گی۔

 

                   یہودیوں کی ایک عیاری

 

اور حضرت عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ یہودیوں کو ہلاک کرے ان پر مردار کی چربیاں حرام کی گیں تو انہوں نے اس کو پگھلایا تاکہ چربی کا نام باقی نہ رہے اور پھر اس کی خریدو فروخت شروع کر دی اس کی وضاحت حدیث بالا میں کی جا چکی ہے۔ (بخاری و مسلم)

 


بلی کی خرید و فروخت کا مسئلہ

 

اور حضرت جابر کہتے کہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے کتے اور بلی کی قیمت کو استعمال میں لانے سے منع فرمایا ہے (مسلم)

 

تشریح

 

علامہ طیبی کہتے ہیں کہ بلی کی قیمت کو استعمال میں لانے کی یہ ممانعت نہی تنزیہی کے طور پر ہے چنانچہ تقریباً تمام علماء نے بلی کی خریدو فروخت ہبہ کرنے اور عاریۃ دینے کو جائز کہا ہے البتہ حضرت ابوہریرہ اور تابعین میں سے کچھ حضرات اس حدیث کے ظاہری معنی کے پیش نظر اس کے جواز کے قائل نہیں تھے۔

 

                   پچھنے لگانے کا پیشہ حلال ہے

 

اور حضرت انس کہتے ہیں کہ ابوطیبہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پچھنے لگائے تو آپ نے اس کے مالکوں کو حکم دیا کہ وہ ابوطیبہ کی کمائی میں سے کم لیا کریں۔

 

تشریح

 

اہل عرب کی عادت تھی کہ وہ اپنے غلاموں اور لونڈیوں کو مختلف پیشوں میں لگا دیتے تھے اور ان سے یہ طے کر دیتے تھے کہ اجرت کے طور پر حاصل ہونے والے مال میں سے اتنا حصہ ہمارا ہو گا اور باقی کے تم حقدار ہو گے چنانچہ ابوطیبہ نے جو بنی بیاضہ کے غلام تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت گزاری کی تو آپ ان سے بہت خوش ہوئے اور ان کے مالکوں سے کہا کہ تم لوگ ابوطیبہ کی کمائی میں جو کچھ روزانہ لیا کرتے ہو اس میں کمی کر دو۔

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ پچھنے لگانے کا پیشہ ایک حلال پیشہ ہے اور اس کی اجرت دینا جائز ہے نیز اس حدیث سے چند اور مسائل ثابت ہوتے اول یہ کہ علاج کرنا اور علاج کرانے کی اجرت دینا مباح ہے دوم یہ کہ مالک کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنے غلام کو کمائی پر لگا دے اور اس کے کمائے ہوئے مال میں سے اپنا کوئی حصہ مقرر کرے سوم یہ کہ صاحب حق اور صاحب مطالبہ سے سفارش کرنا جائز ہے۔

 

                   اولاد کی کمائی کھانا جائز ہے

اور حضرت عائشہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو کچھ تم کھاتے ہو اس میں سب سے بہتر وہ چیز ہے جو تمہیں کمائی سے حاصل ہوئی ہے اور تمہاری اولاد بھی تمہاری کمائی ہے (ترمذی نسائی ابن اجہ)

 

تشریح

 

اولاد کو کمائی اس اعتبار سے کہا گیا ہے کہ وہ ماں باپ کے آپس کے نکاح کے نتیجہ ہی میں پیدا ہوتی ہے گویا اس ارشاد کے ذریعہ اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ ماں باپ اگر خود کمانے کے قابل نہ ہوں تو ان کے لئے اپنی اولاد کی کمائی کھانا جائز ہے ہاں اگر ماں باپ اپنے دست وبازو کی محنت سے اپنے رزق کی راہیں خود بنا سکتے ہوں تو پھر ان کے لئے یہ جائز نہیں ہو گا کہ وہ اپنی اولاد پر بار بنیں البتہ اولاد کی خوشنودی و مرضی اگر یہی ہو کہ ماں اس کی کمائی کھائیں تو پھر بہرصورت اولاد کی کمائی کھانا جائز ہو گا چنانچہ حنفی علماء کا یہی قول ہے۔

علامہ طیبی کہتے ہیں کہ اگر والدین محتاج ہوں تو ان کی ضوررت زندگی کی کفالت لڑکے پر واجب ہے لیکن حضرت امام شافعی کے مسلک میں اس وجوب کی شرط یہ ہے وہ کمانے سے معذور بھی ہوں جب کہ دوسرے علماء کے ہاں یہ شرط نہیں ہے۔

 

 

                   مال حرام کا حکم

 

اور حضرت عبداللہ بن مسعود رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ کوئی بندہ حرام مال کما کر اس میں سے صدقہ وخیرات کرتا ہو اور اس کا وہ صدقہ قبول کر لیا جاتا ہو یعنی اگر کوئی شخص حرام ذرائع سے کمایا ہوا مال صدقہ وخیرات کرے تو اس کا صدقہ قطعاً قبول نہیں ہوتا اور نہ اسے کوئی ثواب ملتا ہے اور نہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ شخص اس حرام کو اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہو اور اس میں اسے برکت حاصل ہوتی ہو یعنی حرام مال میں سے جو بھی خرچ کیا جاتا ہے اس میں بالکل برکت نہیں ہوتی اور جو شخص اپنے مرنے کے بعد حرام مال چھوڑ جاتا ہے اس کی حیثیت اس کے علاوہ اور کچھ نہیں رہتی کہ وہ مال اس شخص کے لئے ایک ایسا توشہ بن جاتا ہے جو اسے دوزخ کی آگ تک پہنچا دیتا ہے اور یہ بات یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ برائی کو برائی کے ذریعہ دور نہیں کرتا بلکہ برائی کو بھلائی کے ذریعہ دور کرتا ہے اسی طرح ناپاک مال ناپاک کو دور نہیں کرتا یعنی حرام مال برائی کو دور نہیں کرتا بلکہ حلال مال برائی کو دور کرتا ہے (شرح السنۃ)

 

تشریح

 

خدا کی پناہ مال و زر کی ہوس انسان کو کتنا اندھا بنا دیتی ہے کہ وہ اس چند روزہ دنیا کی جائز و نا جائز آسائشوں کی خاطر عاقبت کی کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی کو تباہ و برباد کر لیتا ہے۔ وہ یہ نہیں سوچتا کہ جس مال و زر کی خاطر وہ اپنی زندگی کو عزت و آبرو کی بڑی سے بڑی نیلام گاہ میں لا کھڑا کرتا ہے جس کے نتیجہ میں کبھی جھوٹ بولتا ہے کبھی مکر و فریب سے کام لیتا ہے کبھی دوسروں کا حق غصب کرتا ہے کبھی غریبوں کا خون چوستا ہے یہاں تکہ کہ اپنے دین و ایمان کا سودا کرتا ہے اپنے ضمیر کو گروی رکھتا ہے اپنی عزت کو داؤ پر لگاتا ہے اور انسانی شرف و عظمت کی ساری حدوں کو پار کر جاتا ہے آخر کار ان تمام ذرائع اور حرام طریقوں سے کمایا ہوا وہی مال و زر اپنے کمانے والے کے لئے بعد مرگ ایک ایسا توشہ اور ذریعہ بن جاتا ہے جو اسے جہنم کی آگ تک پہنچا دیتا ہے کیونکہ اول تو حرام ذرائع سے کمانے اور پھر اس کمائی سے فائدہ اٹھانے کا گناہ اس پر ہوتا ہے اس کے علاوہ مرنے کے بعد وہ جو کچھ حرام مال و زر چھوڑ جاتا ہے وہ یکے بعد دیگرے اس کے وارثوں کی ملکیت میں جاتا ہے جس سے فائدہ اٹھانے کی وجہ سے وہ سب گناہ و معصیت میں مبتلا ہوتے ہیں اور انجام کار اس حرام مال کے ذریعہ قیامت تک صادر ہونے والے گناہوں کی سیاہی اس کے نامہ اعمال کو داغدار کرتی رہتی ہے۔

(ان اللہ لا یمحوا لسئی) یہ جملہ مستانفہ یعنی ایک علیحدہ جملہ ہے جو بمنزلہ تعلیل عدم قبول یعنی مال حرام کے صدقہ کے قبول نہ ہونے کی علت کو بیان کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ حرام مال میں سے صدقہ دینا ثواب کا ذریعہ تو کیا ہوتا یہ خود ایک برائی اور گناہ ہے اور اللہ تعالیٰ برے اعمال کو برائیوں کے ذریعہ دور نہیں کرتا یعنی اگر کوئی یہ چا ہے کہ اپنے حرام مال میں سے کچھ خدا کے نام پر صدقہ دے کر اپنے گناہوں میں تخفیف کا سامان کرے تو یہ ناممکن ہے کیونکہ حرام مال میں سے صدقہ دینا خود گناہ ہے بلکہ بعض علماء نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ اگر کوئی حرام مال میں سے صدقہ و خیرات کرے اور پھر اس پر ثواب کی امید رکھے تو وہ کفر کی حد تک پہنچ جاتا ہے نیز اگر کسی فقیر و محتاج کو یہ معلوم ہو جائے کہ اسے صدقہ دینے والا بطور صدقہ جو مال دے رہا ہے وہ حرام ذرائع سے حاصل کیا گیا ہے اور اس کے باوجود وہ صدقہ دینے والے کے لئے دعا کرے تو وہ بھی کفر کی حد تک پہنچ جاتا ہے۔

(ولکن یمحوا السیئی بالحسن) کا تعلق ما قبل کے جملہ سے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ گناہوں میں تخفیف یا گناہوں کی بخشش تو نیک اعمال اور اچھے کاموں کے ذریعہ ہوتی ہے مثلاً حلال میں سے صدقہ کرنا ایک نیک عمل ہے جو شخص اپنے حلال مال میں سے خدا کی راہ میں خرچ کریگا اسے اس کا ثواب بھی ملے گا اور اس کے گناہ بھی دور کئے جائیں گے گویا اس آیت کریمہ کی طرف اشارہ ہے آیت (اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْہبْنَ السَّيِّاٰتِ) 11۔ہود:114) (بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو دور کرتی ہیں) اور یہ سب جملے اصل حدیث کی آخری عبارت (ان الخبیث) کی تمہید ومقدمہ کے طور پر ہیں۔

 

                   حرام مال کھانے پر وعید

 

اور حضرت جابر راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ گوشت جس نے حرام مال سے پرورش پائی ہے جنت میں داخل نہیں ہو گا اور جو گوشت یعنی جو جسم حرام مال سے نشوونما پائے وہ دوزخ کی آگ ہی کے لائق ہے (احمد دارمی بیہقی)

 

تشریح

 

حرام مال سے نشوونما پانے والے جسم کے دوزخ میں داخل ہونے سے مراد یا تو یہ ہے کہ ایسا شخص شروع میں نجات یافتہ لوگوں کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہو گا بلکہ اس نے جتنا حرام مال کھایا ہو گا اس کے بقدر جب سزا بھگت لے گا تو اس کو جنت میں داخل کیا جائے گا یا یہ کہ ایسا شخص جنت کے اعلی درجات میں داخل نہیں ہو سکے گا یا یہ مراد ہے وہ لوگ جنت میں داخل نہیں ہوں گے جو حرام مال کو حرام مال سمجھ کر نہیں بلکہ حلال مال یقین کر کے کھاتے ہیں یا پھر یہ کہ اس ارشاد گرامی کا اصل مقصد حرام مال کھانے کی برائی بیان کرنا ہے اور اس سے مراد زجر و توبیخ تہدید اور سخت وعید ہے۔

جو شخص حرام مال کھانے کمانے کے بعد اپنے اس قبیح فعل پر ندامت وشرمندگی کے ساتھ سچے دل سے توبہ کرے یا اللہ تعالیٰ اس کو بغیر توبہ کے محض اپنے فضل وکرم سے بخش دے اور اس نے جن لوگوں کا مال حرام طریقوں سے کمایا ہو گا ان کو راضی کر دے اور یا اسے کسی کی شفاعت حاصل ہو جائے تو وہ شخص اس وعید سے مستثنی ہو گا۔

 

 

 

               طب کا بیان

 

                   علم نجوم حاصل کرنا گویا سحر کا علم حاصل کرنا ہے

 

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو شخص علم نجوم کا ایک حصہ سیکھتا ہے تو گویا وہ علم سحر کا ایک حصہ سیکھتا ہے اس طرح وہ اتنا زیادہ سحر کا علم سیکھتا ہے جتنا زیادہ نجوم کا علم سیکھتا ہے۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

علم نجوم کو سحر سے تشبیہ دی گئی ہے کہ نجوم کا علم سیکھنا ایسا ہی ہے جیسا کسی نے جادو ٹوٹکے کا علم سیکھ لیا اور اس مشابہت کی وجہ سے علم نجوم کی برائی کو ظاہر کرنا ہے اس اعتبار سے علم نجوم پر عمل کرنے والا گویا جادوگروں اور کاہنوں میں کا ایک فرد ہے جو خلاف شریعت امور کو اختیار کرتے ہیں اور غیب کی باتیں بتانے کا دعوی کرتے ہیں۔

 

                   کاہنوں کی بتائی ہوئی باتوں کو سچ جاننے والے کے بارے میں وعید

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص کاہن کے پاس جائے اور اس کی بتائی ہوئی باتوں کو سچا جانے ، یا جو شخص کاہن کے پاس جائے اور اس کی بتائی ہوئی باتوں کو سچا جانے ، یا جو شخص حیض کی حالت میں اپنی بیوی سے ہم بستر ہو، یا جو شخص اپنی بیوی کے پیچھے کی طرف سے بد فعلی کرے تو وہ اس چیز (یعنی قرآن و سنت و شریعت) سے بیزار ہوا جو محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) پر نازل ہوئی ہے۔ (احمد ، ابوداؤد)

 

تشریح

 

بیزار ہوا  کا مطلب یہ ہے کہ وہ کافر ہو گیا، لیکن یہ اس صورت میں پر محمول ہے جب کہ وہ اس کو حلال جانے ، حلال نہ جاننے کی صورت میں یہ ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ و سلم ان چیزوں کی سخت ترین برائی کو زیادہ سے زیادہ اہمیت کے ساتھ بیان کرنے اور ان سخت برائیوں کے اختیار کرنے والے کو شدت کے ساتھ متنبہ کرنے اور ڈرانے پر محمول ہو گا۔

 

                   نجومی اور کاہن غیب کی باتیں کس طرح بتاتے ہیں؟

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس وقت اللہ تعالیٰ آسمان میں کسی چیز کا حکم جاری کرتا ہے۔تو فرشتے اللہ کے فرمان سن کر خوف و عاجزی سے اپنے بازو کو پھڑپھڑانے لگتے ہیں (یعنی فرشتے حکم الہٰی کی ہیبت و عظمت سے مارے ڈر کے پرندوں کی طرح اپنے چکھ پھیلا دیتے ہیں اور لرزنے کانپنے لگتے ہیں) اور اللہ تعالیٰ کے فرمان یعنی اس کے کلام کی آواز(گویا) اس زنجیر کی آواز کی مانند ہوتی ہے جس کو صاف پتھر پر کھینچا جائے پھر جب فرشتوں کے دلوں سے خوف دور ہو جاتا ہے تو وہ (نیچے رہنے والے) تمام فرشتے مقرب فرشتوں سے دریافت کرتے ہیں کہ تمہارے پروردگار نے کیا حکم جاری فرمایا ہے ، مقرب فرشتے وہ حکم بتاتے ہیں جو پروردگار نے جاری کیا ہے (یا مقرب فرشتے دریافت کرنے والے فرشتوں سے کہتے ہیں کہ جو کچھ ہمارے پروردگار نے فرمایا ہے) حق ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات بلند قدر اور بلند مرتبہ ہے۔چنانچہ ان باتوں کو (جو فرشتوں کے درمیان ہوتی ہیں) چوری چھپے سننے والے (یعنی جنات و شیاطین) سن لیتے ہیں اور وہ چوری چھپے سننے والوں کی ہیئت کو اپنے ہاتھ (کی انگلیوں) کے ذریعہ بیان کیا چنانچہ انہوں نے ہاتھ کو ٹیڑھا کر کے انگلیوں کے درمیان فرق کیا (یعنی حضرت سفیان رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ کی انگلیوں کے اوپر تلے ہونے کی طرف اشارہ کیا اور بتایا کہ وہ جنات و شیاطین آسمان سے زمین تک اس طرح سلسلہ وار اور اوپر تلے کھڑے رہتے ہیں) اور اوپر والا جن فرشتوں کی بات کو چوری چھپے سن کر اپنے نیچے والے جن کو پہنچا دیتا ہے اور وہ اپنے نیچے والے جن کو پہنچاتا ہے یہاں تک کہ آخری جن (جو سب سے نیچے ہوتا ہے) اس بات کو ساحر یا کاہن کی زبان تک پہنچاتا ہے ادہر (ان جنات و شیاطین کو مارنے اور بھگانے کے لئے آسمان سے شعلے پھینکے جاتے ہیں تو) کبھی تو یہ شعلے ساحر یا کاہن تک وہ بات پہنچانے سے پہلے ہی چوری چھپے سننے والے (جن کو) آ پکڑتے ہیں اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ جن اس شعلے کے پہنچنے سے پہلے ساحر یا کاہن تک وہ بات پہنچا دیتا ہے اور جب اس ساحر یا کاہن تک وہ بات پہنچا دیتا ہے اور جب اس ساحر یا کاہن تک وہ بات پہنچ جاتی ہیں تو وہ اس میں سو جھوٹی باتیں شامل کر لیتا ہے (اور لوگوں کے سامنے ان جھوٹی باتوں کے درمیان وہ بات بھی بیان کرتا ہے جو اس تک جنات و شیاطین کے ذریعہ پہنچتی ہے) چنانچہ جب کوئی شخص اس کاہن کو (اس کی بتائی ہوئی باتوں میں سے جھوٹی باتوں کے ذریعہ) جھٹلاتا ہے (یعنی یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے جو فلاں فلاں بات کہی تھی ثابت ہوئی) تو (ان گمراہ لوگوں کی طرف سے جو کاہن کی باتوں کو سچا جانتے ہیں جھٹلانے والے کے سامنے) یہ کہا جاتا ہے کہ کیا یہ حقیقت نہیں ہے اور کیا تم نہیں جانتے کہ اس کاہن نے فلاں فلاں دن ہم سے فلاں بات کہی تھی اور اس طرح اس کاہن کی سچائی کی تصدیق اس بات سے کی جاتی ہے جو اس تک (جنات کے ذریعہ) آسمان سے پہنچتی تھی۔ (بخاری)

 

تشریح

 

حدیث میں وہ صورت بیان کی گئی ہے جو کاہنوں تک غیب کی باتیں پہنچنے کا سبب بنتی ہے اس کے ساتھ حدیث کے آخر میں اس گمراہی کا ذکر کیا گیا ہے کہ جب کاہن کی بتائی ہوئی اکثر باتیں جھوٹ ثابت ہوتی ہیں اور لوگ اس کو جھٹلاتے ہیں تو وہ لوگ جو کاہن کی سچائی کا اعتقاد رکھتے ہیں اور باطن کی گمراہی میں مبتلا ہوتے ہیں اس کاہن کی ساری جھوٹی باتوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور صرف اس بات کا حوالہ دے کر اس کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو جنات و شیاطین فرشتوں سے چوری چھپے سن کر کاہن تک پہنچانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور جو واقعہ کے مطابق ہوتی ہے یہی صورت نجومیوں کے بارے میں بھی ہوتی ہے کہ جب سینکڑوں باتیں بتاتے ہیں اور اس میں کوئی بات اتفاق سے صحیح ثابت ہو جاتی ہے تو وہ دنیا دار لوگ جن کے باطن میں گمراہی و کجی ہوتی ہے اس ایک بات کی بنیاد پر ان نجومیوں کے معتقد ہو جاتے ہیں۔

 

آگے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت آ رہی ہے جس میں صراحت کے ساتھ کاہن کو ساحر فرمایا گیا ہے اس اعتبار سے اس حدیث کے ان الفاظ علی لسان الساحر او الکاہن میں ساحر سے مراد کاہن ہے اس صورت میں حرف او راوی کے شک کے اظہار کے لئے ہو گا (یعنی یہ کہا جائے گا کہ راوی نے اپنے شک کا اظہار کیا ہے کہ یہاں ساحر کا لفظ فرمایا گیا ہے یا کاہن کا) اور اگر یہ بات پیش نظر ہو کہ ساحر چونکہ غیب کی باتیں نہیں بتایا کرتا اور اس اعتبار سے یہاں ساحر کا لفظ اپنے حقیقی معنی پر محمول نہیں ہو سکتا تو یہ کہا جائے گا کہ  ساحر  سے مراد نجومی ہے جیسا کہ ایک روایت میں فرمایا گیا ہے المنجم ساحر یعنی نجومی ساحر ہے اس صورت میں الساحر والکاہن میں حرف او تنویع کے لئے ہو گا۔

رہی یہ بات کہ چوری چھپے آسمان میں داخل ہونے اور فرشتوں کی باتیں سننے والے جن و شیطان کو بھگانے کے لئے جب شعلے پھینکے جاتے ہیں اور وہ شعلے اس جن یا شیطان کو پکڑتے ہیں تو اس کا حشر کیا ہوتا ہے؟ چنانچہ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ وہ جن یا شیطان ان شعلوں کی زد میں آ کر جل بھن جاتے ہیں اور ختم ہو جاتے ہیں جب کہ بعض حضرات کا قول یہ ہے کہ وہ جل بھن کر ختم نہیں ہوتے بلکہ شعلوں سے تکلیف و ایذاء پا کر زندہ واپس آ جاتے ہیں۔

 

                   شہاب ثاقب کی حقیقت

 

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے انصاری صحابہ میں سے ایک صحابی نے مجھ سے بیان کا کہ ایک دن رات کے وقت کچھ صحابہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک ستارہ ٹوٹا اور اس کی تیز روشنی پھیل گئی یہ دیکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ سے فرمایا کہ تم زمانہ جاہلیت میں اس طرح ستارہ ٹوٹنے کو کیا کہتے تھے؟ صحابہ نے عرض کیا۔ حقیقت حال کو اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں ہم تو یہ کہا کرتے تھے کہ آج کی رات کوئی بڑا آدمی پیدا کیا گیا ہے (یا کبھی یہ کہتے کہ) آج کی رات کوئی بڑا آدمی مر گیا ہے (یعنی ہم اس طرح ستارہ ٹوٹنے کو کسی بڑے اور اہم واقعے کی علامت سمجھا کرتے تھے) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ستارہ نہ تو کسی کی موت سے ٹوٹتا ہے اور نہ کسی کے پیدا ہونے سے بلکہ، حقیقت حال یہ ہے کہ ہمارا رب جس کا نام بابرکت ہے جس کو کوئی حکم جاری فرماتا ہے تو عرض الہٰی کو اٹھانے والے فرشتے تسبیح (یعنی سبحان اللہ، سبحان اللہ کا ورد کرنے لگتے ہیں) پھر ان کی تسبیح کی آواز سن کر آسمان کے فرشتے تسبیح کرنے لگتے ہیں ،جو عرش اٹھانے والے فرشتوں کے قریب ہے یہاں تک کہ اس تسبیح کی آواز ایک دوسرے آسمان سے ہوتی ہوئے آسمان دنیا پر رہنے والے فرشتوں تک پہنچ جاتی ہے ، پھر وہ فرشتے جو عرش الہٰی کو اٹھانے والے فرشتوں سے قریب رہتے ہیں عرش کو اٹھانے والے فرشتوں سے پوچھتے ہیں تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا ہے؟ وہ فرشتے ان کو وہ بات بتاتے ہیں جو پروردگار نے فرمائی ہے ، پھر اس بات کو ان سے دوسرے فرشتے دریافت کرتے اور ان سے اور فرشتے ، یہاں تک کہ یہ سلسلہ آسمان دنیا پر رہنے والوں تک پہنچ جاتا ہے پھر اس کی سنی ہوئی بات کو جنات اچک لیتے ہیں یعنی وہ کان لگائے ایسی باتوں کے منتظر رہتے ہیں اور جب وہ چوری چھپے کوئی بات سن لیتے ہیں تو اس کو وہاں سے لے اڑتے ہیں۔ اور اپنے دوستوں یعنی کاہنوں تک پہنچا دیتے ہیں ، چنانچہ ان جنات کو مارنے کے لئے ستارے پھینکے جاتے ہیں (لہٰذا ان ستاروں کے پھینکے جانے کا سبب یہ ہے نہ کہ وہ جس کا تم اعتقاد رکھتے ہو ، یعنی کسی کی موت یا پیدائش وغیرہ) اس طرح کاہن اگر اس بات کو جو آسمان سے سنی گئی ہے۔ اور جنات کے ذریعہ اس تک پہنچی ہے جوں کی توں (یعنی اس میں کوئی تصرف اور کمی بیشی کے بغیر) بیان کریں تو وہ یقیناً صحیح ثابت ہو گی ، (لیکن وہ کاہن ایسا نہیں کرتے بلکہ) اس میں جھوٹی باتیں شامل کر دیتے ہیں اور ایک بات کی بہت سی باتیں بنا لیتے ہیں۔ (مسلم ،)

 

                   ستارے کس لئے پیدا کئے گئے؟

 

اور حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ستاروں کو تین باتوں کے لئے پیدا کیا ہے ایک تو یہ کہ ان کو آسمانوں کی زینت بنایا اور دوسرے شیاطین و جنات کو مارنے کے لئے اور تیسرے علامات کے لئے کہ لوگ ان کے ذریعہ جنگل و دریا میں اپنا راستہ پا سکیں، لہٰذا جس شخص نے ان ستاروں میں ان تین باتوں کے سوا اور کوئی غرض بیان کی تو اس نے خطا کی، اپنا حصہ ضائع کیا اور پھر اس چیز میں تکلف کیا جس کو وہ نہیں جانتا (یعنی آسمان کی چیزوں کے بارے میں جو حقوق ہیں ان کا علم قرآن و سنت کے علاوہ اور کسی ذریعہ سے حاصل ہونا ممکن نہیں اور جب قرآن و سنت میں ستاروں کی غرض ان تین باتوں کے علاوہ اور کوئی بیان نہیں کی گئی ہے تو مذکورہ باتوں کے علاوہ کوئی اور غرض بیان کرنا ایسی بات کا بیان کرنا ہے جس کا معلوم ہونا متصور ہی نہیں ہے۔! اس روایت کو بخاری نے بغیر سند کے نقل کیا ہے اور رزین کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ اس نے اس چیز کا تکلف کیا جو اس کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی اور اس چیز میں تکلف کیا (یعنی اس چیز کو جاننے کا دعوی کیا) جس کا اس کو علم نہیں ہے اور اس چیز میں تکلف کیا جس کے علم سے انبیاء اور فرشتے عاجز رہے ہیں۔ ربیع نے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ قسم ہے خدا کی ! اللہ تعالیٰ نے ستارے میں نہ تو کسی کی زندگی (یعنی پیدائش) مقرر کی ہے نہ کسی کا رزق یعنی مال و جاہ وغیرہ اور نہ کسی کی موت ! اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ کاہن اللہ تعالیٰ کے بارے میں جھوٹی افتراء پردازی کرتے ہیں اور ستاروں کے طوع و غروب ہونے کو کسی واقعہ و حادثہ کی علت قرار دیتے ہیں !۔

 

تشریح

 

اپنا حصہ ضائع کیا  کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے آپ کو اس طرح لایعنی باتوں اور بیکار امور میں مبتلا کیا کہ جن کا کوئی فائدہ نہ دنیا میں حاصل ہوتا ہے اور نہ آخرت میں حاصل ہونے والا ہے۔ اس طرح اس نے گویا اپنی عمر عزیز کا قیمتی حصہ گنوایا۔

 

                   نجومی ، ساحر ہے

 

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جس شخص نے علم نجوم کا کوئی حصہ سیکھا اور سیکھنے کی غرض ان تین چیزوں کے علاوہ کسی اور چیز سے متعلق ہو کہ جو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ذکر فرمائی ہیں۔ (اور جن کا بیان حدیث میں گزرا) تو اس نے بلا شبہ علم سحر کا ایک حصہ سیکھا (جب کہ علم سحر ایک برا علم ہے کیونکہ اس کی بعض قسم فسق میں داخل ہے ، اور بعض قسم موجب کفر ہے) اور (یاد رکھو) منجم (علم نجوم کا جاننے والا) کاہن کے حکم میں ہوتا ہے (کیونکہ کاہن کی طرح منجم بھی بعض علامات کے ذریعہ غیب کی خبر دیتا ہے) اور کاہن، ساحر کے حکم میں ہے (کیونکہ کاہن بھی بری باتوں کا ارتکاب کرتا اور لوگوں کو نقصان پہنچاتا ہے) اور جو شخص ساحر کرے اور اس کے جائز ہونے کا اعتقاد رکھے وہ کافر ہو جاتا ہے (اسی طرح منجم اور کاہن بھی اپنی بد اعتقادی کی بنا پر کافر ہو جاتے ہیں)۔ (رزین)

 

تشریح

 

حدیث کا حاصل یہ ہے کہ نجوم کہانت اور سحر ، یہ سب چیزیں ایک ہی جنس سے ہیں کہ ان سب کا ایک ہی حکم ہے اور یہ سب کافروں اور بے دین لوگوں کے کام ہیں۔

 

                   منازل قمر کو نزول باراں میں مؤثر حقیقی جاننا کفر ہے

 

اور حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اگر اللہ تعالیٰ مثلاً پانچ برس تک اپنے بندوں کو بارش سے محروم رکھے اور پھر بارش برسائے تو لوگوں کی ایک جماعت جو نجوم پر اعتقاد رکھتی ہے اس صورت میں بھی کفر کرتی ہوئی یہ کہے گی کہ مجدح یعنی قمر کی منزل کے سبب ہم پر بارش ہوئی ہے۔ (نسائی)

 

تشریح

 

مجدح  میم کے زیر جیم کے جزم اور دال کے زبر کے ساتھ اہل عرب کے نزدیک منازل قمر میں سے ایک منزل کا نام ہے زمانہ جاہلیت میں اہل عرب اس منزل کو بارش برسنے کا سبب قرار دیتے تھے۔ یہ بات پہلے بھی بتائی جا چکی ہے کہ ستاروں کے طلوع و غروب اور منازل قمر کو بارش برسنے کا حقیقی سبب سمجھنا کفر ہے۔

 

 

 

               خواب کا بیان

 

خواب  کے معنی ہیں وہ بات جو انسان نیند میں دیکھے  محققین  کہتے ہیں کہ خواب تین طرح کے ہوتے ہیں ایک تو محض خیال کہ دن بھر انسان کے دماغ اور ذہن پر جو باتیں چھائی رہتی ہیں، وہ خواب میں مشکل ہو کر نمودار ہو جاتی ہیں ، دوسری طرح کا خواب وہ ہے جو شیطانی اثرات کا عکاس ہوتا ہے جیسا کہ عام طور پر ڈراؤنے خواب نظر آیا کرتے ہیں، اور تیسری طرح کا خواب وہ ہے جو منجانب اللہ بشارت اور بہتری کو ظاہر کرتا ہے ، خواب کی یہی تیسری قسم  رویاء صالحہ  کہلاتی ہے اور اس کی حقیقت علماء اہل سنت کے نزدیک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سونے والے کے دل میں علوم معرفت اور ادراکات و احسان کا نور پیدا کر دیتا ہے ، جیسا کہ وہ جاگنے والے کے دل کو علوم و معرفت اور ادراکات و احساسات کی روشنی سے منور کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ بلا شک و شبہ اس پر قادر ہے ، کیونکہ نہ تو بیداری قلب انسانی میں نور بصیرت کے پیدا ہونے کا ذریعہ ہے اور نہ نیند اس سے مانع۔

واضح رہے کہ سونے والا اپنے خواب میں جن باتوں کا ادراک و احساس کرتا ہے اور جن چیزوں کو اس کا نور بصیرت دیکھتا ہے وہ دراصل وقوع پذیر ہونے والی چیزوں کی علامت و اشارہ ہوتا ہے اور یہی علامت و اشارہ تعبیر کی بنیاد بنتا ہے۔ کبھی یہ علامت و اشارہ اتنا غیر واضح ہوتا ہے کہ اس کو عارفین و معبرین ہی سمجھ پاتے ہیں اور کبھی اتنا واضح ہوتا ہے کہ عام انسانی ذہن بھی اس کی مراد پا لیتا ہے۔ جیسا کہ بادل کو دیکھ کر بارش کے وجود کی طرف ذہن خود بخود چلا جاتا ہے۔

 

                   مسلمان کا اچھا خواب حق ہے

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نبوت کے آثار میں سے اب کچھ باقی نہیں رہا ہے علاوہ مبشرات کے صحابہ نے یہ سن کر عرض کیا کہ مبشرات سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اچھے خواب۔ (بخاری)

اور امام مالک نے اس روایت میں جس کو انہوں نے حضرت عطاء بن یسار رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں (وہ اچھے خواب) جن کو مسلمان آدمی (اپنے لئے) دیکھتا ہے یا اس کے بارے میں کوئی اور شخص دیکھے۔

 

تشریح

 

مبشرات  (میم کے پیش اور باء کے زبر کے ساتھ) بشارت سے مشتق ہے جس کے معنی خوش خبری کے ہیں اعرابی میں لفظ  بشارت  کا استعمال عام طور پر خیر کے سیاق میں ہوتا ہے لیکن کبھی شر کے ساتھ بھی اس کو استعمال کر لیا جاتا ہے اسی طرح رویا کا اطلاق عام طور پر اچھے خواب پر ہوتا ہے اور برے خواب کو حلم کہتے ہیں لیکن یہ فرق و تخصیص شرعی نقطہ نظر سے ہے ویسے لغت کے اعتبار سے رؤیا مطلق خواب کو کہتے ہیں، چنانچہ یہاں حدیث میں بھی لفظ رؤیا مطلق خواب کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ رؤیاء سے اچھا خواب مراد ہے تو اس صورت میں کہا جائے گا کہ لفظ  صالحہ  کا ذکر محض لفظ رؤیا کی وضاحت و تشریح کے لئے ہے یا یہ کہ  صالحہ  اصل میں صادقہ کے معنی میں ہے کہ رؤیا صالحہ سے مراد وہ اچھا خواب ہے جو سچا یعنی واقع کے مطابق ہو۔ پہلے معنی میں یعنی لفظ صالحہ کو رؤیا کی وضاحت و تشریح قرار دینا زیادہ صحیح اور مبشرات کے معنی کے موافق ہے کیونکہ اچھے خواب کا مطلب اچھی خبر ہے اور بشارت بھی کلیۃً یا عام طور پر دل و دماغ کو خوش کرنے والی ہی ہوتی ہے اگرچہ طیبی کے قول کے مطابق بشارت میں صدق کا بھی اعتبار ہونا ہے لیکن حدیث کا سیاق اس کا متقاضی ہے کہ دوسرے معنی صالحہ (بمعنی صادقہ) مراد لیا جائے کیونکہ حدیث میں خواب کو نبوت کا ایک جز کہا گیا ہے اور نبوت میں سچی خبر کا اعتبار ہے خواہ وہ خوش کرنے والی ہو یا ڈرانے والی ہو ، اس صورت میں کہا جائے گا کہ لفظ مبشرات کا استعمال از راہ تغلیب یا یہ کہ  مبشرات  اپنے مطلق معنی یعنی  مخبرات  پر محمول ہے۔

 

                   اچھے خواب کی فضیلت

 

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اچھا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے (بخاری و مسلم)

 

 

تشریح

 

ظاہر یہ ہے کہ یہاں رویاء صالحہ سے مراد صادقہ ہے یعنی وہ اچھا خواب جو سچا بھی ہو اس موقع پر ایک اشکال واقع ہوتا ہے اور وہ یہ کہ کسی چیز کا کوئی جزو حصہ اس چیز سے جدا نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ ہوتا ہے اس اعتبار سے کہا جائے گا کہ جب نبوت باقی نہیں رہی ہے تو نبوت کا جزو حصہ یعنی رویاء صالحہ کیوں کر باقی رہے گا؟اس کا جواب یہ ہے کہ اس ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ و سلم کے معنی یہ ہیں کہ رویاء صالحہ علم نبوت کے اجزاء اور حصوں میں سے ایک جز و حصہ ہے اور ظاہر ہے کہ علم نبوت باقی ہے اگرچہ نبوت باقی نہیں ہے گویا حدیث میں مذکورہ الفاظ کے ذریعہ رویاء صالحہ کی فضیلت و منقبت بیان فرمائی گئی ہے کہ اچھا خواب حقیقت میں نبوت کا پر تو ہے اگرچہ اس کو دیکھنے والا غیر نبی ہو جیسا کہ ایک ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے نیک راہ دردش حلم گرانباری اور میانہ روی نبوت میں سے ہے چھیالیس کے عدد کی تخصیص کے بارے میں اگرچہ علماء نے مختلف باتیں لکھی ہیں لیکن زیادہ صیح بات یہ ہے کہ نہ صرف اس کا بلکہ دوسری متعدد چیزوں جیسے نماز کی رکعات اور تسبیحات وغیرہ کے بارے میں اعداد مشروع و مذکور ہیں ان کی علت و حقیقت کا علم شارع السلام علیہ کو ہی ہے ایک اور رایت میں چھیالیس کے بجائے چھبیس ایک روایت میں چھہتر اور ایک روایت میں چوبیس کا عدد مذکور ہے اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کسی بھی روایت میں کسی خاص عدد سے تحدید مراد نہیں ہے محض تکثیر مراد ہے

 

 

                   آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو خواب میں دیکھنے کا ذکر

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جس شخص نے مجھ کو خواب میں دیکھا اس نے درحقیقت مجھ کو ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت نہیں بن سکتا۔ (بخاری و مسلم)

 

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے مجھ کو خواب میں دیکھا اس نے گویا عالم بیداری میں میرا دیدار کیا ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہو گا کہ اس شخص پر وہ احکام عائد ہوں جو واقعۃً آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے دیدار و صحبت کی صورت میں ہوتے ہیں۔ یعنی نہ تو ایسے شخص کو صحابی کہا جائے گا اور نہ اس چیز پر عمل کرنا اس کے لئے ضروری ہو گا جس کو اس نے اپنے خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہو گا، بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ حدیث اپنے زمانہ کے لوگوں کے لئے فرمائی میرے زمانہ میں جو شخص مجھ کو خواب میں دیکھے گا اس کو اللہ تعالیٰ ہجرت کی توفیق عطا فرمائے گا۔تاکہ وہ مجھ سے آ کر ملے۔ یا یہ مراد ہے کہ آخرت میں میرا دیدار کرے گا۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ یہ ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ و سلم بمعنی اخبار کے ہے ، مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے مجھ کو خواب میں دیکھا اس کو خبر دے دو کہ اس کا خواب حقیقی اور سچا ہے اضغاث احلام میں سے نہیں ہے کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کر سکتا۔ یعنی اس کی یہ مجال نہیں ہے کہ وہ کسی کے خواب میں آئے اور اس کے خیال میں یہ بات ڈالے کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہوں اور اس طرح وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر یہ جھوٹ لگائے۔

بعض محققین نے لکھا ہے کہ شیطان حق تعالیٰ کی ذات کے بارے میں جھوٹ دکھا سکتا ہے ، یعنی دیکھنے والے کو اس خیال و وسوسہ میں مبتلا کر سکتا ہے کہ یہ حق تعالیٰ کی صورت ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی صورت ہرگز نہیں بن سکتا۔ اور نہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات پر جھوٹ لگا سکتا ہے ، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہدایت و راستی کے مظہر ہیں۔ جب کہ شیطان لعین ضلالت و گمراہی کا مظہر ہے اور ہدایت و ضلالت کے درمیان پانی اور آگ کی نسبت ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں، اس کے برخلاف حق تعالیٰ کی ذات الٰہی صفات ہدایت و اضلال اور صفات متضادہ کی جامع ہے علاوہ ازیں صفت الوہیت ایسی صفت ہے جس کا مخلوقات میں سے کسی کا دعوی کرنا صریح البطلان ہے اور محل اشتباہ نہیں ہے ، جب کہ وصف نبوت اس درجہ کی صفت نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص الوہیت کا دعوی کرے تو اس سے خرق عادات صادر ہو سکتا جب کہ اگر کوئی شخص نبوت کا دعوی کرے تو اس سے معجزہ کا ظاہر ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔

 

 

٭٭او رحضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جس نے اپنے خواب میں مجھ کو دیکھا اس نے حق دیکھا یعنی اس کا خواب سچا ہے کہ اس نے مجھ کو ہی دیکھا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

واضح رہے کہ اس مضمون کی احادیث، جو متعدد طرق و اسانید سے اور مختلف الفاظ میں منقول ہیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جس شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو خواب میں دیکھا اس نے حقیقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہی کو دیکھا اس بارے میں دروغ خیال اور شیطانی اثرات کا قطعاً دخل نہیں ہوتا، چنانچہ علماء نے اس چیز کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے خصائل میں شمار کیا ہے اور اس کو اعجاز نبوی صلی اللہ علیہ و سلم قرار دیا ہے البتہ علماء کے ہاں اس بات میں اختلاف ہے کہ ان احادیث کا تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو کس صورت و حلیہ میں دیکھنے سے ہے چنانچہ بعض حضرات تو کہتے ہیں کہ ان احادیث کا تعلق اس شخص سے ہے جو اپنے خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اس مخصوص صورت و حلیہ میں دیکھے جس سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم متصف تھے ، پھر بعض حضرات نے اس بارے میں توسع کیا ہے اور کہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اس صورت و شکل میں دیکھے جو پوری عمر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے متعلق رہی ہے۔ یعنی خواہ جوانی کی صورت و شکل میں دیکھے خواہ کہولت اور خواہ آخری عمر کی صورت میں دیکھے۔ اور بعض حضرات نے اس دائرے کو محدود کیا اور کہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس شکل و صورت میں دیکھنے کا اعتبار ہے جو بالوں کو بھی دیکھنے کا اعتبار کیا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سر مبارک اور لحیہ مبارک میں تھے اور جو تعداد میں بیس تک بھی نہیں پہنچے تھے ،

منقول ہے کہ حضرت محمد بن سیرین جو تعبیر خواب کے فن میں امام تھے کے پاس جب کوئی شخص آ کر بیان کرتا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو خواب میں دیکھا ہے تو وہ کہتے تھے کہ بتاؤ تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو کس شکل و صورت اور کس حلیہ میں دیکھا ہے اگر وہ شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا حلیہ بیان نہ کرتا جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ مخصوص تھا تو ابن سیرین اس سے کہتے کہ بھاگ جاؤ تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو خواب میں نہیں دیکھا ہے۔

اس بارے میں حضرت امام نووی فرماتے ہیں کہ جس شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو خواب میں دیکھا اس نے بہر صورت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا خواہ اس نے مخصوص صورت و حلیہ میں دیکھا ہو جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں منقول ہے یا کسی اور شکل و شباہت میں دیکھا ہو کیونکہ شکل و شباہت کا مختلف ہونا ذات کے مختلف کے ہونے کو ضروری قرار نہیں دیتا، علاوہ ازیں یہ نکتہ بھی ملحوظ رہنا چاہئے کہ شکل و شباہت میں اختلاف و تفاوت کا تعلق خواب دیکھنے والے کے ایمان کے کمال و نقصان سے بھی ہو سکتا ہے یعنی جس شخص نے خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اچھی صورت و شکل میں دیکھا یہ اس کے ایمان کامل اور عقیدے کے صالح ہونے کی علامت قرار پائے گا اور جس شخص نے اس کے بہر خلاف دیکھا، یہ اس کے ایمان کی کمزوری اور عقیدے کے فساد کی علامت قرار پائے گا اسی طرح ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بوڑھا دیکھا ایک شخص نے جوان دیکھا ایک شخص نے رضامند دیکھا ایک شخص نے خفگی کے عالم میں دیکھا ایک شخص نے روتے ہوئے دیکھا ایک شخص نے شاد و خوش دیکھا اور ایک شخص نے ناخوش دیکھا تو یہ ساری حالتیں خواب دیکھنے والے کے ایمانی احوال کے فرق و تفاوت پر مبنی ہوں گی کہ جو شخص جس درجہ کے ایمان کا حامل ہو گا وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اسی درجہ کی مثالی صورت میں دیکھا گا اس اعتبار سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو خواب میں دیکھنا گویا اپنے احوال ایمانی کو پہچاننے کا ایک معیار ہے لہٰذا یہ ایک چیز سالکین طریقت کے لئے یہ ایک مفید ضابطہ کی حیثیت رکھتی ہے کہ وہ اس کے ذریعہ اپنے باطن کی حالت کو پہچان کر اس کی اصلاح کریں اسی پر قیاس کرتے ہوئے بعض علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ جو شخص خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے کوئی ارشاد سنے تو اس کا حدیث و سنت سے تقابل کرے اگر وہ ارشاد حدیث و سنت کے موافق ہو تو وہ یقیناً حق ہے اور اگر موافق نہ ہو، جانے کہ یہ میرے ذہن اور سامع کا خلل ہے لہٰذا خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات کریمہ کو اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کو سننا حق ہے اگر صورت مبارک اور ارشادات مقدسہ میں کوئی تفاوت و مخالفت نظر آئے تو سمجھنا چاہئے کہ یہ خواب دیکھنے والے کے نقص و کوتاہی کے اعتبار سے ہے حضرت شیخ متقی سے منقول ہے کہ ایک فقیر نے خواب میں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس کو شراب کے لئے فرما رہے ہیں، اس خواب کی وجہ سے اس کے ذہن میں سخت خلجان پیدا ہو اس نے اس خلجان کو دور کرنے کے لئے علماء سے رجوع کیا اور ان سے پوچھا کہ اس خواب کی حقیقت کیا ہے کہ ہر عالم نے اس کی مختلف تعبیر و تاویل بیان کی اسی دوران یہ مسئلہ حدیث کے ایک عالم حضرت شیخ ابن عراۃ کے سامنے آیا جو عالم با عمل اور نہایت متبع سنت تھے انہوں نے فرمایا کہ اصل بات یوں نہیں ہے جس طرح اس نے سنی ہے بلکہ اس کا ذہن و سامعہ، خلل اور انتشار کا شکار ہوا ہے۔ حقیقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یوں فرمایا تھا کہ لاتشرب الخمر شراب ہرگز نہ پینا مگر اس نے اس جملہ کو یوں سنا اشرب الخمر (شراب پیؤ)

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے مجھ کو خواب میں دیکھا وہ جلد ہی مجھ کو بیداری کے عالم میں دیکھے گا اور شیطان میری صورت نہیں بن سکتا۔ (بخاری و مسلم)۔

 

تشریح

 

اس حدیث کا تعلق آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ سے ہے کہ جو شخص خواب میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ یہ توفیق عطا فرما دیتا ہے کہ وہ عالم بیداری میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دیدار سے مشرف ہوتا ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوتا۔ اور اسلام قبول کرتا۔ یا اس ارشاد گرامی کی مراد یہ ہے کہ مجھ کو خواب میں دیکھنے والا شخص آخرت میں عالم بیداری میں مجھ کو دیکھے گا۔

 

 

                   اچھا خواب اور برا خواب

 

اور حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اچھا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور برا خواب شیطان کی طرف سے ہے لہٰذا جب تم میں سے کوئی شخص ایسا خواب دیکھے جس سے وہ خوش ہو تو چاہئے کہ خواب کو صرف اس شخص کے سامنے بیان کرے جس کو وہ دوست و ہمدرد سمجھتا ہے (جیسے علماء و صلحاء اور اقرباء نیز وہ اس خواب پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور اس کی حمد و تعریف کرے جیسا کہ بخاری و مسلم کی ایک اور روایت میں منقول ہے) اور جب ایسا خواب دیکھے جس کو وہ پسند نہیں کرتا تو چاہئے کہ اس خواب کی برائی اور شیطان کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگے اور شیطان کو دور کرنے کے قصد سے تین مرتبہ تھتکار دے نیز اس خواب کو کسی کے سامنے بیان نہ کرے (خواہ دوست ہو یا دشمن) اس لئے وہ خواب اس کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔ (بخاری ، و مسلم)

 

تشریح

 

برا خواب شیطان کی طرف سے ہے  کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ اچھے اور برے دونوں طرح کے خواب کو پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہوتا ہے اور دیکھنے والا اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے دیکھتا ہے ، لیکن برا خواب شیطانی اثرات کا عطاس ہوتا ہے اور چونکہ اس خواب سے انسان کو پریشانی ہوتی ہے اس لئے اس پر شیطان کو بہت خوشی ہوتی ہے ، حاصل یہ کہ اچھا خواب تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندہ کو بشارت ہوتی ہے تاکہ وہ بندہ خوش ہو اور اس کا وہ خواب اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے حسن سلوک اور امید آوری کا باعث اور شکر خداوندی کے اضافہ کا موجب بنے جب کہ غمگین اور پریشان کرنے والا جھوٹا خواب شیطانی اثرات کے تحت ہوتا ہے جس سے شیطان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ مسلمان کو غمگین و پریشان کر کے ایسی واہ پر ڈال دے جس سے وہ بدگمانی اور ناامیدی اور تقرب الہٰی و تلاش حق کی راہ میں سست روی کا شکار ہو جائے۔

وہ خواب اس کو نقصان نہیں پہنچائے گا  کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے صدقہ و خیرات کو مال کی حفاظت و برکت اور دفع بلیات کا سبب بنایا ہے اسی طرح اس نے مذکورہ چیزوں یعنی اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے ، تین دفع تھتکارنے اور کسی کے سامنے بیان نہ کرنے کو برے خواب کے مضر اثرات سے سلامتی کا سبب قرار دیا ہے۔

 

                   برا خواب دیکھے تو کیا کرے

 

اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جب تم میں سے کوئی شخص ایسا خواب دیکھے جس کو وہ ناپسند کرتا ہو تو اس کو چاہئے کہ بائیں طرف تین بار تھتکار دے اور تین بار شیطان سے اللہ کی پناہ مانگے اور اپنی کروٹ کو تبدیل کر دے جس پر وہ خواب دیکھنے کے وقت سویا ہوا تھا۔ (مسلم)

 

تشریح

 

یہاں تھتکارنے کے لئے لفظ  بصق  استعمال کیا گیا ہے جب کہ پچھلی حدیث میں لفظ  تفل  مذکور  ہے ، مفہوم و مطلب کے اعتبار سے تو دونوں لفظ بظاہر یکساں ہیں لیکن دونوں میں ایک ہلکا سا فرق یہ ہے کہ تفل کے معنی ہیں منہ سے تھوک نکالنا جب کہ  بصق  کا مفہوم ہے منہ کے اندر سے (تھوک) نکالنا اس طرح کہ کچھ حلق سے بھی نکلے منہ سے نکلے ہوئے تھوک کو  بصاق  کہتے ہیں اور  بزاق بھی کہا جاتا ہے اس سے واضح ہوا کہ تھتکارنے کے سلسلے میں پہلا درجہ  بصق ہے اس کے بعد  تفل ہے  تفل کے بعد  نفث ہے جس کے معنی ہیں لبوں کے تھوک کے ساتھ پھونکنا اور اس کے بعد  نفخ  ہے جو محض پھونک مارنے کو کہتے ہیں۔ مسلم کی ایک روایت ہے میں فلیبصق کے بجائے فلینفث کا لفظ منقول ہے نیز اس حدیث میں بائیں طرف تھتکارنے کا حکم دیا گیا ہے جب کہ پچھلی حدیث میں مطلق تھتکارنے کا حکم ہے اسی طرح اسی حدیث میں کروٹ تبدیل کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے ، چنانچہ علماء لکھتے ہیں کہ خواب کے اثرات و کیفیات میں تغیر و تبدیلی کے لئے یہ چیزیں یعنی کروٹ پھیر لینا بہت تاثیر رکھتی ہے۔

 

                   چند خوابوں کی تعبیر

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جس وقت کہ زمانہ قریب ہو گا تو مؤمن کا خواب جھوٹا نہیں ہو گا اور مؤمن کا خواب نبوت کا چھیالیس اجزاء میں سے ایک جزو ہے اور جو چیز نبوت کے اجزاء میں ہو وہ جھوٹی نہیں ہوا کرتی۔ حضرت محمد بن سیرین جو (ایک جلیل القدر تابعی اور فن تعبیر خواب کے امام ہیں) فرماتے ہیں کہ اور میں (آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول احادیث کی روشنی میں یہ کہتا ہوں کہ خواب تین طرح کے ہوتے ہیں ایک تو نفس کا خیال، دوسرے شیطان کا ڈرانا اور تیسرے خدا کی طرف سے بشارت پس جو شخص کوئی برا خواب  (ڈراؤنا) دیکھے تو اس کو کسی کے سامنے بیان نہ کرے اور (یہ کرے کہ خواب دیکھنے کے بعد) اٹھے اور (نفل) نماز پڑھ لے تاکہ نماز کی برکت و نورانیت کے سبب اس کے دل کو اطمینان نصیب ہو اور خواب کی برائی کا جو وہم و وسوسہ دل میں پیدا ہو گیا ہے وہ جاتا رہے گا) نیز ابن سیرین فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم خواب میں طوق کو دیکھنا اچھا نہیں سمجھتے تھے اور قید کو دیکھنا پسند فرماتے تھے چنانچہ کہا جاتا ہے (یعنی تعبیر خواب کے ماہر علماء کہتے ہیں) کہ قید کا مطلب دین پر ثابت قدم رہنا ہے یہ پوری روایت (جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد اور ابن سیرین کے قول پر مشتمل ہے) بخاری و مسلم نے نقل کی ہے لیکن روایت کے آخری جزو کے بارے میں دونوں کو تردد ہے چنانچہ امام بخاری کہتے ہیں کہ اس حدیث کو یعنی پوری روایت کو یا صرف اسی جزو کو کہ جس میں قید کا ذکر ہے قتادہ ، یونس ، ہشیم ، اور ابو ہلال نے محمد بن سیرین سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے (ابتدائی جزو بطریق مرفوع اور آخری جزو بطریق موقوف) نقل کیا ہے اور یونس نے کہا ہے کہ میرا گمان ہے کہ یہ حدیث کا وہ جزو جس میں ابن سیرین نے قید کا ذکر کیا ہے یعنی یہ الفاظ یعجبہم القید والقید ثبات فی الدین) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول نہیں ہے بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے (گویا بخاری کے اس قول کا مطلب یہ ہوا کہ ابن سیرین نے نقل کرنے والے ایک راوی یونس کے مطابق روایت کا وہ جزو کہ جس میں طوق کا ذکر ہے ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یا ابن سیرین کا اپنا قول ہے ، البتہ وہ جزو کہ جس میں قید کا ذکر ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یا ابن سیرین کا اپنا قول نہیں ہے بلکہ حدیث مرفوع یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے محمد بن سیرین نے نقل کیا ہے) اور امام مسلم نے جو (ابن سیرین سے روایت نقل کر کے) یہ کہا ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ وہ (جزء کہ جس میں قید کے الفاظ ہیں) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث کے الفاظ ہیں یا ابن سیرین کا اپنا قول ہے ، مسلم کی ایک اور روایت میں اسی طرح کے الفاظ ہیں نیز مسلم نے یہ بھی کہا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یا محمد بن سیرین نے حدیث میں ادراج کیا ہے۔ بایں طور کہ انہوں نے کہا میں طوق کو دیکھنا اچھا سمجھتا ہوں ……..الخ (گویا مسلم کے قول کا مطلب یہ ہے کہ حدیث کا پورا آخری جزو، جو طوق اور قید کے ذکر پر مشتمل ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد نہیں ہے ، بلکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یا محمد بن سیرین کا اپنا قول ہے نیز بخاری و مسلم کے ان اقوال کی روشنی میں قال و کان یکرہ کی ضمیروں کی حقیقت حال بھی منکشف ہو جاتی ہے کہ ان ضمیروں کو کس کی طرف راجع ہونا چاہئے !

 

تشریح

 

جس وقت کہ زمانہ قریب ہو گا کے تین معنی بیان کئے جاتے ہیں ایک تو یہ کہ زمانہ قریب ہونے سے مراد قرب قیامت کا آخری زمانہ ہے جیسا کہ ایک اور حدیث میں صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ آخر زمانہ میں قیامت کے قریب مؤمن کا خواب جھوٹا نہیں ہو گا دوسرے یہ کہ زمانہ قریب ہونے سے مراد موت کے زمانہ سے قریب ہونا ہے یعنی جس مؤمن کی موت کا زمانہ قریب ہوتا ہے اس کا خواب جھوٹا نہیں ہوتا یہ معنی حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اپنے بعض مشائخ سے نقل کئے ہیں تیسرے یہ کہ اس سے مراد وہ ایام ہیں جن میں دن رات برابر ہوتے ہیں چنانچہ جس زمانہ میں دن رات برابر ہوتے ہیں ان میں انسانی مزاج اعتدال پر ہوتا ہے اور ذہن و فکر کی صلاحیتیں صحت و سلامت روی کے ساتھ کام کرتی ہیں ایسے دنوں میں دیکھا جانے والا خواب ذہنی و جسمانی خلل و انتشار سے محفوظ اور زیادہ سچا ہوتا ہے چوتھے یہ کہ زمانہ قریب ہونے سے مراد وہ زمانہ ہے جب سال مہینہ کی طرح مہینہ ہفتہ کی طرح ہفتہ دن کی اور دن ساعت کی طرح گزرنے لگے علماء نے لکھا ہے کہ ایسا زمانہ حضرت امام مہدی کے دور میں آئے گا کیونکہ اس وقت حضرت امام مہدی کے عدل و انصاف اور رعایا پروری کی وجہ سے سب ہی لوگ آسودگی و مسرت اور بے فکری کے دن گزاریں گے اور ظاہر ہے کہ آسودگی وبے فکری کے دن بڑی سرعت کے ساتھ گزرتے معلوم ہوتے ہین خواہ وہ کتنا ہی طویل زمانہ کیوں نہ ہو اس کے برعکس عسرت و تنگی اور محنت مشقت کے دن اتنے بھاری معلوم ہوتے ہیں کہ خواہ وہ کتنا ہی مختصر عرصہ کیوں نہ ہو ایک ایک دن پہاڑ کی طرح گزرتا ہے ، لہٰذا حضرت مہدی کے زمانہ میں بھی خواب صحیح و درست ہوں گے کیوں کہ وہ راستی کا زمانہ ہو گا ، ایک حدیث میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ وہ شخص جتنا زیادہ راست باز ہو گا اس کا خواب اتنا ہی سچا ہو گا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد گرامی سے چونکہ مطلق خواب سچا ہونا اور اس کی توصیف و فضیلت واضح ہوتی تھی تو اس لئے خواب کی قسمیں بیان کرنے کے لئے حضرت محمد بن سیرین کا ایک قول نقل کیا گیا جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ خواب کی ہر قسم نہ تو سچی ہوتی ہے اور نہ قابل تعبیر و لائق اعتبار، بلکہ خواب کی صرف وہی قسم تعبیر و لائق اعتبار ہوتی ہے جس کو حق تعالیٰ کی طرف سے بشارت اور آئندہ پیش آنے والے واقعات و حادثات کی خبر و علامت قرار دیا جاتا ہے۔

ابن سیرین نے خواب کی جو تین قسمیں بیان کی ہیں ان میں پہلی قسم نفس کا خیال ہے ، یعنی انسان دن بھر جن امور میں مشغول رہتا ہے اور اس کے دل و دماغ پر جو باتیں چھائی رہتی ہیں وہی رات میں بصورت خواب مشکل ہو کر نظر آتی ہیں مثلاً ایک شخص اپنے پیشہ و روزگار میں مصروف رہتا ہے اور اس کا ذہن و خیال انہیں باتوں کی فکر اور ادھیڑ پن میں لگا رہتا ہے جو اس کے پیشہ و روزگار سے متعلق ہیں تو خواب میں اس کو وہی چیزیں نظر آتی ہیں، یا ایک شخص اپنے محبوب کے خیال میں مگن رہتا ہے اور اس کے ذہن پر ہر وقت اسی محبوب کا سایہ رہتا ہے تو اس کے خواب کی دنیا پر بھی وہی محبوب چھایا رہتا ہے غرضکہ عالم بیداری میں جس شخص کے ذہن و خیال پر جو چیز زیادہ چھائی رہتی ہے وہی اس کو خواب میں نظر آئے گی لہٰذا اس طرح کے خواب کا کوئی اعتبار نہیں۔

دوسری قسم ڈراؤنا خواب ہے ، یہ خواب اصل میں شیطانی اثرات کا پر تو ہوتا ہے ، شیطان چونکہ ازل سے بنی آدم کا دشمن ہے اور جس طرح وہ عالم بیداری میں انسان کو گمراہ کرنے اور پریشان کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح نیند کی حالت میں بھی وہ انسان کو چین نہیں لینے دیتا ، چنانچہ وہ انسان کو خواب میں پریشان کرنے اور ڈرانے کے لئے طرح طرح کے حربے استعمال کرتا ہے کبھی تو وہ کسی ڈراؤنی شکل و صورت میں نظر آتا ہے جیسے وہ دیکھتا ہے کہ میرا سر قلم ہو گیا وغیرہ وغیرہ اسی طرح خواب میں احتلام کا ہونا کہ موجب غسل ہوتا ہے اور بسا اوقات اس کی وجہ سے نماز فوت یا قضا ہو جاتی ہے اسی شیطانی اثرات کا کرشمہ ہوتا ہے پہلی قسم کی طرح یہ قسم بھی بے اعتبار اور ناقابل تعبیر ہوتی ہے۔

خواب کی تیسری قسم وہ ہے کہ جس میں منجانب اللہ بشارت کہا گیا ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کے خواب میں بشارت دیتا ہے اور اس کے قلب کے آئینہ میں بطور اشارات و علامات ان چیزوں کو مشکل کر کے دکھاتا ہے جو آئندہ وقوع پذیر ہونے والی ہوتی ہے۔ یا جن کا تعلق مؤمن کی روحانی و قلبی بالیدگی و طمانیت سے ہوتا ہے وہ بندہ خوش ہو اور طلب حق میں تر و تازگی محسوس کرے ، نیز حق تعالیٰ سے حسن اعتقاد اور امید آوری رکھے خواب کی یہی وہ قسم ہے جو لائق اعتبار اور قابل تعبیر ہے اور جس کی فضیلت و تعریف احادیث میں بیان کی گئی ہے۔

تو اس کو کسی کے سامنے بیان نہ کرے  کا مطلب یہ ہے کہ جب اس طرح کا خواب بے اعتبار ہے اور اس کی کوئی تعبیر نہیں تو اس کو کسی کے سامنے بیان کرنا عبث ولا حاصل ہے علاوہ ازیں ایک بات یہ بھی ہے کہ جب اس قسم کے خواب کو کسی کے سامنے بیان کرے گا اور سننے والا خواب کی ظاہری حالت کے پیش نظر اس کی خراب تعبیر دے گا۔تو اس کی وجہ سے فاسد وہم میں مبتلا ہونا اور بدشگونی لینا لازم آئے گا نیز دل و دماغ مختلف قسم کے اندیشوں اور وسوسوں سے پریشان ہو جائیں گے ، مزید برآں خواب کے وقوع پذیر ہونے میں خواب کو ایک خاص تاثیر حاصل ہے کہ خواب کو سننے والا جو تعبیر دیتا ہے اللہ تعالیٰ سے ویسا ہی وقوع پذیر ہو جاتا ہے۔

قال وکان یکرہ الغل الخ  میں لفظ قال اور کان کی ضمیروں کے بارے میں شارحین حدیث نے کئی احتمال لکھے ہیں۔ ایک تو یہ کہ قال کی ضمیر محمد بن سیرین کی طرف سے راجع ہو جیسا کہ ما قبل کی عبارت قال محمد بن سیرین سے بظاہر یہی مفہوم ہوتا ہے اور اس بنا پر کان یکرہ کی ضمیریں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف راجع ہوں، اس صورت میں مذکورہ جملہ کے معنی وہی ہوں گے جو ترجمہ میں بیان کئے گئے یعنی حضرت محمد بن سیرین نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس بات کو اچھا نہیں سمجھتے تھے کہ کوئی شخص خواب میں یہ دیکھے کہ اس کے گلے میں طوق ڈالا گیا ہے کیونکہ گلے میں طوق کا ڈالا جانا دوزخیوں کی صفت ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے اذالاغلال فی اعناقہم دوسرا احتمال یہ ہے کہ  قال  کی ضمیر تو ابن سیرین کی طرف راجع ہو اور کان یکرہ کی ضمیریں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف راجع ہوں اس صورت میں یہ معنی ہوں گے کہ ابن سیرین نے کہا ہے ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس بات کو اچھا نہیں سمجھتے تھے کہ کوئی شخص خواب میں یہ دیکھے کہ اس کے گلے میں طوق ڈالا گیا ہے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا اس بات کو اچھا نہ سمجھنا یا تو اس پر تھا کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے اسی طرح سنا ہو گا یا اپنے ان کے اجتہاد کی بنا پر تھا۔ اور تیسرا احتمال یہ ہے کہ قال کی ضمیر تو اس راوی کی طرف راجع ہو جس نے اس حدیث کو حضرت ابن سیرین سے نقل کیا ہے اور کان یکرہ کی ضمیریں حضرت ابن سیرین کی طرف راجع ہوں اس صورت میں یہ معنی ہوں گے کہ راوی نے کہا کہ حضرت ابن سیرین خواب میں طوق کو دیکھنا اچھا نہیں سمجھتے تھے ، ! بظاہر یہ تیسرا احتمال ایک طرح کی ترجیح رکھتا ہے کیوں کہ حضرت ابن سیرین تعبیر خواب کے فن کے امام سمجھے جاتے ہیں اور ان سے اس طرح کے بہت سے اقوال منقول ہیں۔

اور قید کو دیکھنا پسند فرماتے تھے یعنی کوئی شخص خواب میں دیکھتا کہ اس کے پیروں میں بیڑیاں ڈال کر اس کو قیدی بنا لیا گیا ہے تو اس خواب کو اچھا سمجھتے تھے ، بخاری نے اس جملہ میں جمع کا صیغہ یعنی لفظ یعجبہم نقل کیا ہے ، لہٰذا ضمیروں کے سلسلے میں اوپر نقل کئے گئے احتمالات میں سے پہلے احتمال کی بنا پر یعجبہم کی ضمیر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کی طرف راجع ہو گی دوسرے احتمال کی بنا پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ان کے تابعین کی طرف اور تیسرے احتمال کی بنا پر حضرت ابن سیرین اور ان کے زمانہ کے تعبیر دینے والے علماء کی طرف راجع ہو گی۔خواب میں اپنے کو قیدی دیکھنا اس لئے اچھا ہے کہ دراصل برے امور ، گناہوں اور کمزوری و گمراہی سے باز رہنے اور دینی احکامات و طاعت پر ثابت قدم رہنے کی علامت ہے جیسا کہ روایت میں فرمایا گیا ہے۔ ویقال القید ثبات فی الدین (کہا جاتا ہے کہ قید کا مطلب دین پر ثابت قدم رہنا ہے) لیکن واضح رہے کہ یہ تعبیر اہل دین و طاعت کی نسبت سے ہے یعنی جو شخص دینی زندگی کا حامل اور عبادات و طاعات پر عامل ہو گا اور وہ خواب میں اپنے کو قیدی دیکھے گا تو اس کے لئے تو مذکورہ تعبیر ہو گی اسی لئے تعبیر خواب کے ماہرین نے لکھا ہے کہ اگر کوئی بیمار یا قیدی، یا مسافر اور یا کوئی مصیبت زدہ شخص خواب میں دیکھے کہ میرے پیروں میں قید کی بیڑیاں پڑی ہوئی ہیں تو اس حق میں خواب کی یہ تعبیر ہو گی کہ وہ اپنے حال پر قائم رہے گا اسی طرح ایک ہی خواب کو دو مختلف حالت کے آدمی دیکھیں تو اس کی تعبیر ان کے حق میں ان کی حالت کے مطابق الگ الگ ہو گی، مثلاً اگر کوئی تاجر یہ خواب دیکھے کہ وہ اپنا سامان لے کر کشتی پر بیٹھا ہوا ہے اور ہوا کشتی کے موافق چل رہی ہے تو اس کے حق میں خواب نقصان و ضرر سے سلامتی اور تجارت میں نفع کی علامت قرار پائے گا اور اگر یہی خواب کوئی سالک طریقت دیکھے تو اس کے حق میں یہ خواب شریعت کی اتباع اور مرتبہ حقیقت کو پہنچنے کی علامت قرار پائے گا۔

 

                   ڈراؤنا خواب شیطانی اثر ہے اس کو کسی کے سامنے بیان نہ کرو

 

اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ایک دیہاتی آیا اور عرض کیا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ گویا میرا سر کاٹ ڈالا گیا ہے ، جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم یہ خواب سن کر ہنس دئیے اور فرمایا کہ جب تم میں سے کسی شخص کے خواب میں اس کے ساتھ شیطان تماشہ کرے تو وہ اس خواب کو لوگوں کے سامنے بیان نہ کرے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے دیہاتی سے فرمایا کہ تمہارا یہ خواب اضغاث احلام میں سے ہے اور اس قسم سے ہے جس میں انسان کے ساتھ شیطان تماشہ کرتا ہے تاکہ اس کو پریشان و رنجور کرے ایسے خواب کو چھپانا چاہئے نہ کہ لوگوں کے سامنے بیان کیا جائے۔

یحییٰ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو بذریعہ وحی یہ معلوم ہو گیا ہو گا کہ یہ خواب اضغاث احلام میں سے ہے اور شیطانی اثرات کا عکاس ہے ورنہ اہل تعبیر کے نزدیک اس خواب کی تعبیر زوال نعمت، قوم برادری سے مفارقت اور اس جیسی دوسری چیزوں کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔

 

                   آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ایک خواب

 

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں نے ایک رات کو ان چیزوں میں کہ جن میں سونے والا دیکھتا ہے (یعنی خواب میں) دیکھا کہ گویا میں اور میرے صحابہ رضی اللہ عنہم عقبہ بن رافع رضی اللہ عنہ کے گھر بیٹھے ہوئے ہیں اور میرے سامنے تازہ کھجوریں لائی گئیں جن کو رطب ابن طاب کہا جاتا ہے ، چنانچہ میں نے اس خواب کی یہ تعبیر لی کہ ہمارے لئے دنیا رفعت و سربلندی ہے۔ اور آخرت میں نیک عاقبت یعنی اچھی جزا کا انعام ہے اور یہ ہمارا دین اچھا ہے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

مذکورہ تعبیر میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے گویا ناموں کے الفاظ کو بنیاد بنایا بایں طور کہ رفعت کی تعبیر تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے رافع سے لی …… عاقبت کی تعبیر سے لی اور  طاب یعنی اچھا ہے  رطب ابن طاب سے لیا ، چنانچہ یہ عادت شریفہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ناموں کے الفاظ کے ذریعہ بطریق تفاؤل و تاویل حصول مقصد کا مفہوم حاصل کرتے تھے۔ اور یہ بات محض تعبیر خواب کے ساتھ مخصوص نہیں تھی بلکہ عالم بیداری اور روز مرہ کی زندگی میں بھی ان کے ذریعہ نیک فال لیتے تھے۔ جیسا کہ منقول ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ روانہ ہوئے تو راستہ میں ایک شخص بریدہ اسلمی کو چند سواروں کے ساتھ دیکھا جس کو قریش مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو پکڑ کر مکہ واپس لانے پر معمور کیا تھا اور اس کے بطور انعام سو اونٹ مقرر کئے تھے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو دیکھ کر پوچھا کہ تم کون ہو اور تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے کہا کہ بریدہ، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سنا (تو لفظ بریدہ سے نیک فال لیتے ہوئے) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا قد برد امرنا یعنی ہمارا معاملہ ٹھنڈا ہو گیا کہ (دشمن کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا)

 

                   ہجرت سے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا خواب

 

اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ہجرت سے پہلے مکہ میں ایک دن میں نے خواب دیکھا کہ میں مکہ ہجرت کر کے ایک ایسی زمین کی طرف جا رہا ہوں جس میں کھجوروں کے درخت ہیں، چنانچہ اس خواب کی تعبیر میں میرا یہ خیال ہوا کہ وہ شہر جہاں میں ہجرت کر کے جاؤں گا یمامہ ہو گا یا ہجر، لیکن حقیقت میں وہ مدینہ نکلا جس کا قدیم نام یثرب ہے میں نے اپنے اس خواب میں یہ بھی دیکھا تھا کہ میں نے اپنی تلوار کو ہلایا اور وہ اوپر سے ٹوٹ گئی ، چنانچہ ٹوٹنے کی تعبیر جنگ احد کے ان پریشانیوں اور مصائب کی صورت میں ظاہر ہوئی جس سے مسلمانوں کو دو چار ہونا پڑا کہ ابتداء میں مسلمانوں کو بظاہر شکست سے دوچار ہونا پڑا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے دندان مبارک شہید ہوئے ، کتنے ہی مسلمان شہید ہوئے اور کتنے زخمی ہو گئے پھر میں نے خواب ہی میں تلوار کو دوسری مرتبہ ہلایا تو تلوار نہ صرف درست ہو گئی بلکہ پہلے سے بھی بہتر ہو گئی چنانچہ تلوار درست ہونے کی تعبیر جنگ احد ہی کے موقع پر یا فتح مکہ اور یا صلح حدیبیہ کے وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی جانے والی فتح اور مسلمانوں کی اجتماعیت کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ (بخاری ، و مسلم)

 

تشریح

 

جزیرہ نمائے عرب (نجد و حجاز) کا وہ علاقہ ہے جو جبل طویق کے جنوب مشرق میں پھیلا ہوا ہے اور اب نجد کے علاقے میں شامل ہے یمامہ کہا جاتا ہے یہ بڑا سرسبز و شاداب علاقہ تھا اور اس میں کھجور کی بڑی پیداوار تھی موجود زمانہ میں  یمامہ  ایک چھوٹی سی بستی کی صورت میں سعودی عرب کے دارالسلطنت ریاض اور الالم کے درمیان پایا جاتا ہے ہجر بھی یمامہ سے متصل مشرق میں ایک بستی تھی یہاں بھی کھجور بکثرت پیدا ہوتے ہیں۔

زمانہ جاہلیت میں  مدینہ  کا نام یثرب تھا، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مکہ سے ہجرت فرما کر یہاں تشریف لائے تو اس کا نام مدینہ ، طابہ ، اور طیبہ رکھا گیا ، لیکن زیادہ مشہور مدینہ ہی ہوا ! آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شہر مقدس کو یثرب کہنے سے منع فرمایا دیا تھا ، کیونکہ یثرب اصل میں ثرب بالتحریک سے مشتق ہے جس کے معنی فتنہ و فساد کے ہیں جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس حدیث میں یا بعض دوسری احادیث میں اس شہر کے لئے اس کا قدیم نام یثرب کیوں استعمال فرمایا تو اس کی وجہ تو یہ ہے کہ یہ احادیث مذکورہ ممانعت سے پہلے کی ہیں یا یہ ممانعت چونکہ نہی تنزیہی کے طور پر ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم بیان جواز کی خاطر کبھی کبھی قدیم نام کو بھی استعمال فرما لیتے تھے اور یا یہ کہ ابتداء ہجرت میں چونکہ عام طور پر لوگ اس نئے نام یثرب کا بھی ذکر فرما دیا اور یہی آخری احتمال زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے نیز قرآن کریم میں جو فرما یا گیا ہے کہ آیت (یا اہل یثرب لامقام لکم) الخ یہ تو یہ منافقین کی زبانی فرمایا گیا ہے اس لئے اس کے بارے میں کوئی اشکال نہیں ہونا چاہئے۔

 

                   ایک خواب کی تعبیر

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (ایک دن) میں سو رہا تھا کہ (خواب) میں زمین کے خزانے میرے سامنے لائے گئے پھر میرے ہاتھ پر سونے کے دو کڑے رکھے گئے جو مجھ پر گراں گزرے (یعنی مردوں کے لئے سونا حرام ہونے کی وجہ سے ان کڑوں کا میرے ہاتھوں میں ہونا مجھ کو ناگوار ہوا) اس کے بعد مجھ پر وحی آئی (یعنی خواب ہی میں بطور الہام میرے دل میں اللہ نے یہ بات ڈالی) کہ ان کڑوں پر پھونک مارو چنانچہ میں نے پھونک ماری تو وہ کڑے اڑے گئے میں نے ان دونوں کڑوں سے ان دونوں جھوٹوں کے بارے میں تعبیر لی (باعتبار مسکن علاقہ کے) جن کے درمیان میں ہوں ، یعنی ایک تو یمامہ والا ،  اور دوسرا صنعاء والا۔ (بخاری و مسلم) اور ایک روایت میں جس کو (ترمذی نے نقل کیا ہے) یوں ہے کہ (آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دونوں جھوٹوں کی وضاحت اس طرح فرمائی) کہ ان میں سے ایک کو تو مسیلمہ کہا جاتا ہے جو یمامہ کا رہنے والا ہے اور دوسرا عنسی ہے جو صنعاء کا رہنے والا ہے مصنف مشکوۃ کہتے ہیں کہ مجھے یہ روایت بخاری و مسلم میں نہیں ملی ہے اور اس کو صاحب جامع الاصول نے ترمذی سے نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

زمین کے خزانے  یعنی زمین کے خزانے کی کنجیاں میرے سامنے لائی گئیں۔ اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے حقیقت میں خزانے ہی لائے گئے تھے خزانوں کے ذریعہ گویا یہ بشارت دی گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی امت کے لوگ اس روئے زمین پر اپنا تسلط قائم کریں گے اور دنیا کے خزانوں کے مالک قرار پائیں گے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی امت اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شریعت چار دانگ عالم میں پھیل جائے گی۔

صنعاء  یمن کے ایک مشہور کا نام ہے اس کے سردار کا نام اسود عنسی تھا جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ حیات میں نبوت کا دعوی کیا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم مرض وفات میں صاحب فراش تھے تو حضرت فیروز دیلمی نے اسود عنسی کو قتل کیا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کی اطلاع ملی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا فاز فیروز یعنی فیروز فائز المرام ہوئے ، اسود عنسی کی طرح یمامہ کے رہنے والے مسیلمہ کذاب نے بھی نبوت کا دعوی کیا تھا اس کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں حضرت وحشی نے قتل کیا تھا یہ وہی وحشی ہیں جنہوں نے اسلام قبول کرنے سے قبل غزوہ احد میں امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا۔

کڑوں سے دونوں جھوٹوں کے بارے میں تعبیر لینے کی وجہ علماء نے یہ لکھی ہے کہ کڑے اصل میں ہتھکڑی کی مشابہت رکھتے ہیں جس کو ہاتھوں میں ڈال کر قیدی بنایا جاتا ہے۔ اور ہتھکڑی ہاتھوں کو اس طرح باندھ دیتی ہے کہ وہ ہاتھ نہ کسی چیز کو پکڑ سکتے ہیں نہ کوئی کام کر سکتے ہیں اور نہ حرکت و تصرف کی قدرت رکھتے ہیں ، چنانچہ وہ دونوں کذاب کہ جو نبوت کا دعوی کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلہ پر آئے تھے قیدیوں کے مشابہ ہوئے جن کے ہاتھ کی کڑی کڑوں کی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک میں تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دنوں ہاتھوں کو ہتھکڑی میں ڈال کر پکڑ رکھا ہے اور چھوڑتے نہیں تاکہ وہ اپنی حرکت و عمل سے باز رہیں اور کوئی کام نہ کر سکیں۔ رہی یہ بات کہ اس تعبیر کے پیش نظر سونے ہی کے کڑے کیوں دکھائے گئے لوہے کے کڑے کیوں نہ دکھائے گئے جو ان کے زیادہ مناسب حال تھے تو اس میں بھی دراصل ایک نکتہ ہے اور وہ یہ کہ سونے کے کڑے دکھا کر اشارہ کیا گیا کہ دونوں جھوٹے دنیاوی عزت و جاہ کے لالچ اور زیب و زینت کے انہماک میں کس قدر مبتلا ہیں اور یہ کہ ان کا مردود و مجرم ہونا کس قدر واضح اور ان کی نوعیت کتنی سنگین ہے

 

 

٭٭اور حضرت ام العلاء انصاریہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ عثمان بن مظعون کے لئے پانی کا ایک چشمہ جاری ہے جب میں نے یہ خواب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ یہ ان کے عمل کا ثواب ہے جو ان کے لئے جاری رکھا گیا ہے۔ (بخاری)

 

تشریح

 

حضرت عثمان ابن مظعون رضی اللہ عنہ ایک جلیل القدر اور قدیم الاسلام صحابی ہیں ، مہاجرین میں بڑی فضیلت کے حامل تھے ، میدان کار زار میں جان باز مجاہد کی حیثیت رکھتے تھے ان کے ایک بڑی فضیلت یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو مرابط یعنی میدان کار زار میں اسلامی لشکر و سرحد کا پاسبان مقرر کیا تھا۔شریعت میں مرابط کے بہت فضائل منقول ہیں ان میں سے ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ مرابط جب انتقال کر جاتا ہے تو اس کا عمل صالح قیامت تک بڑھتا رہتا ہے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مذکورہ خواب کی یہ تعبیر بیان فرمائی کہ وہ چشمہ دراصل ان کا عمل صالح ہے اور جس طرح وہ چشمہ جاری ہے اسی طرح ان کے عمل صالح کا ثواب برابر جاری ہے جو قیامت تک ان کی طرف پہنچتا رہے گا۔

 

 

                   عالم برزخ کی سیر سے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ایک خواب

 

اور حضرت سمرہ ابن جندب کہتے ہیں ، رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ معمول تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم (صبح کی) نماز سے فارغ ہوتے تواپنا چہرہ اقدس ہماری طرف متوجہ کرتے اور پوچھتے کہ آج کی رات تم میں سے کسی نے خواب دیکھا ہے؟ حضرت سمرہ کہتے ہیں کہ اگر ہم سے کسی نے خواب دیکھا ہوتا تو وہ اس کو بیان کرتا اور آپ اس کی وہ تعبیر فرما دیتے جو اللہ تعالیٰ الہام فرماتا۔چنانچہ اپنے اپنے معمول کے مطابق ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم سے وہی سوال کیا اور فرما یا کہ کیا تم میں سے کسی شخص نے خواب دیکھا ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ نہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا لیکن میں آج کی رات خواب دیکھا ہے (اور وہ یہ) کہ دو شخص میرے پاس آئے اور میرے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر مجھے مقدس سرزمین ، ملک شام کی طرف لے چلے ، پس ایک جگہ پہنچ کر میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص میرے پاس آئے بیٹھا ہوا ہے اور ایک شخص اپنے ہاتھ میں لوہے کا آنکڑا لئے کھڑا ہے ، اور وہ پھر اس آنکڑے کو بیٹھے ہوئے شخص کے کلے میں ڈالتا ہے اور اس کو چیرتا ہے ، یہاں تک کہ اس کی گدی تک چیرتا چلا جاتا ہے ، پھر وہ دوسرے کلے کے ساتھ اس طرح کرتا ہے (یعنی اس کو بھی گدی تک چیر دیتا ہے) جب وہ کلہ اپنی اصلی حالت پر آ جاتا ہے تو پھر پہلے کی طرح وہی عمل کرتا ہے (یعنی وہ کلے کو چیرتا ہے اور جب وہ کلہ درست ہو جاتا ہے تو پھر چیرتا ہے غرضیکہ بار بار یہی عمل کرتا ہے اور یہ عمل جاری رہتا ہے) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم یہ فرماتے ہیں کہ میں نے (یہ مت پوچھئے کہ کیا ہو رہا ہے بلکہ آگے چلئے ابھی بہت عجائبات دیکھنے ہیں اس کی تعبیر معلوم ہو جائے گی) چنانچہ ہم آگے چلے یہاں تک کہ ایک ایسی جگہ آئے جہاں ایک شخص چت پڑا ہوا تھا اور ایک شخص اس سرکے پاس اتنا بڑا پتھر لئے کھڑا تھا جس سے ہاتھ بھر جائے اور اس سے چت پڑے شخص کے سر کو کچلتا تھا ، چنانچہ جب وہ پتھر کو (کھینچ کر) اس کے سر پر مارتا ہے تو پتھر سرکو کچل کر لڑھکتا ہوا دور چلا جاتا (پھر وہ دوبارہ مارنے کی غرض سے) اس پتھر کو اٹھانے کے لئے جاتا اور جب لوٹ کر آتا تو اس کے پہنچنے سے پہلے ہی اس شخص کا سر درست ہو جاتا اور پھر وہ اس پر پتھر مارتا اور اسی طرح یہ سلسلہ جاری تھا کہ اس کا سر درست ہوتا رہتا اور وہ اس پر پتھر مارتا رہتا میں نے (یہ دیکھ کر) پوچھا کہ کیا ہورہا ہے؟ ان دونوں نے جواب دیا کہ چلے چلئے۔چنانچہ ہم آگے چلے یہاں تک کہ ایک ایسے گڑھے پر پہنچے جو تنور کی مانند تھا ۃکہ اس کے اوپر کا حصہ تنگ تھا اور نیچے کا حصہ کشادہ تھا اور اس کے اندر آگ بھڑک رہی تھی جس آگ اوپر کی طرف بھڑکتی تو کچھ لوگ جو آگ کے اندر تھے (شعلوں کے ساتھ) او پر آ جاتے یہاں تک کہ اس گڑھے سے نکلنے کے قریب ہو جاتے اور جب شعلہ کا زور گھٹ جاتا تو وہ سب پھر اندر چلے جاتے میں نے دیکھا کہ اس آگ میں کئی مرد تھے اور کئی عورتیں تھیں اور سب ننگے تھے میں نے (یہ دیکھ کر) پوچھا کہ کیا ہورہا ہے تو ان دونوں نے کہا کہ چلے چلئے چنانچہ ہم آگے چلے یہاں تک کہ ایک ایسی نہر پر پہنچے جو (پانی کے بجائے) خون سے بھری ہوئی تھی ، نہر کے بیچ میں ایک شخص کھڑا ہوا تھا اور ایک شخص اس کے کنارے پر تھا جس کے آگے پتھر رکھے ہوئے تھے جب وہ شخص جو نہر کے بیچ میں تھا (آگے کنارے پر) آیا اور چاہا کہ باہر نکل آئے تو اس شخص نے جو کنارے پر تھا اس کے منہ پر پتھر پھینک کر مارا جس سے وہ اپنی جگہ لوٹ گیا اور پھر اسی طرح یہ سلسلہ جاری رہا کہ نہر کے اندر کا آدمی جب باہر نکلنے کا ارادہ کرتا تھا تو کنارے والا آدمی اس کے منہ پر پتھر مارتا اور اس کو اسی جگہ واپس کر دیتا ہے میں نے (یہ دیکھ کر) پوچھا کہ کیا ہو رہا ہے؟ تو ان دونوں نے کہا کہ چلے چلئے۔چنانچہ ہم آگے چلے یہاں تک ایک سرسبز شاداب باغ کے پاس پہنچے اس باغ میں ایک بڑا درخت تھا اور اس کی جڑ پر ایک بوڑھا اور کچھ لڑکے (بیٹھے) تھے پھر کیا دیکھتا ہوں کہ اس درخت کے پاس ایک اور شخص بھی ہے جس کے آگے آگ جل رہی ہے وہ اس کو جلا بھڑکا رہا تھا ، پھر وہ دونوں آدمی مجھ کو لے کر درخت پر چڑھے اور مجھ کو ایک ایسے گھر میں داخل کیا جو درخت کے بالکل درمیان تھا (اور یہ گھر اتنا اچھا تھا ، کہ) میں نے کبھی بھی اس سے اچھا کوئی گھر نہیں دیکھا اس گھر میں کتنے ہی جوان بوڑھے ، مرد تھے ، کتنی ہی عورتیں اور کتنے اور کتنے ہی بچے تھے ، اس کے بعد وہ دونوں مجھ کو اس گھر سے نکال کر درخت کے اور اوپر لے گئے اور مجھ کو ایک ایسے گھر میں داخل کیا جو پہلے گھر سے بھی بہت اچھا اور افضل تھا اس میں بھی بوڑھے اور جوان آدمی موجود تھے اب میں نے ان دونوں آدمیوں سے کہا کہ آج کی رات تم نے مجھ کو خوب گھمایا پھر ایا لیکن میں نے جو کچھ دیکھا ہے اس کی حقیقت سے تو مجھ کو آگاہ کرو؟ ان دونوں نے کہا کہ اچھا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بتاتے ہیں (پھر انہوں نے بیان کرنا شروع کیا کہ) جس شخص کو آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے دیکھا کہ اس کے کلے چیرے جا رہے تھے وہ ایسا شخص ہے جو جھوٹا ہے ،جھوٹ بولتا ہے اور اس کی جھوٹی باتیں نقل وبیان کی جاتی ہیں ، جو دنیا میں چاروں طرف پھیلتی ہیں ، جن سے لوگ گمراہ ہوتے ہیں چنانچہ اس کے ساتھ وہ سلوک کیا جا رہا ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے دیکھا اور اس کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا اور جس شخص کو آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے دیکھا کہ اس کا سر کچلا جا رہا تھا وہ ایسا شخص ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن سکھایا تھا یعنی اس کو قرآنی علوم سیکھنے کی توفیق عطا فرمائی تھی لیکن وہ شخص اس (قرآن سے) بے نیاز ہو کر رات میں سوتا رہا اور دن میں قرآن کے مطابق عمل نہیں کیا ، چنانچہ اس کے ساتھ وہ سلوک کیا جا رہا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم (صلی اللہ علیہ و سلم) نے دیکھا اور اس کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا اور جن لوگوں کو آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے تنور میں دیکھا ہے وہ زناکار ہیں اور جس شخص کو آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے نہر میں دیکھا وہ سود خور ہے (ان سب کو بھی اپنے کئے کی سزا مل رہی ہے اور قیامت تک یوں ہی ملتی رہے گی) اور جس بوڑھے شخص کو آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے درخت کی جڑ کے پاس بیٹھے ہوئے دیکھا ہے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے اور ان کے پاس جو بچے ہیں وہ آدمیوں کی اولاد ہیں اور جو شخص درخت سے کچھ فاصلہ پر آگ جلا رہا ہے وہ دوزخ کا دروغہ ہے اور درخت کے اوپر پہلا گھر جس میں آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) داخل ہوئے تھے وہ (جنت میں عام) مؤمنوں کا مکان ہے اور یہ گھر (جو پہلے گھر سے اوپر واقع ہے) شہداء کا مکان ہے میں جبرائیل (علیہ السلام) ہوں اور یہ جو میرے ساتھ ہیں میکائیل (علیہ السلام) ہیں اور ذرا آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) اوپر سر اٹھائیے (آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم) فرماتے ہیں کہ) میں نے اپنا سر اوپر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے اوپر (نہایت بلندی میں) ابر کی مانند کوئی چیز ہے۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ تہ در تہ سفید ابر کی مانند کوئی چیز ہے ان دونوں نے کہا کہ یہ ابر کی مانند جو چیز آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) دیکھ رہے ہیں دراصل جنت میں آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کا مکان ہے۔ میں نے کہا کہ تو پھر تم لوگ مجھے چھوڑ دو تاکہ میں اپنے مکان میں چلا جاؤں ان دونوں نے کہا کہ ابھی تو آپ کی عمر باقی ہے جس کو آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے پورا نہیں کیا ہے جب آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) اپنی عمر کو پورا کر لیں گے تو اپنے مکان میں چلے جائیں گے۔ (بخاری)

اور حضرت عبداللہ ابن عمر کی وہ روایت جو مدینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے خواب دیکھنے سے متعلق ہے وہ حرم مدینہ کے باب میں نقل کی جا چکی ہے۔

 

تشریح

 

رات میں سوتا رہا  یعنی اس شخص نے نہ تو ، رات میں قرآن کریم کی تلاوت کی اور نہ دن میں اس پر عمل کیا !یا تو قرآن پر عمل کرنے کا تعلق دن اور رات دونوں سے ہے اور رات میں اس کی تلاوت بھی اس پر عمل ہی کرنا ہے ، لیکن چونکہ عبادت گزار بندے عام طور پر قرآن کریم کی تلاوت رات ہی کو کرتے ہیں اس لئے اس کو رات کے ساتھ مخصوص کیا گیا۔ اور چوں کہ زندگی کی زیادہ تر حرکت و عمل کا تعلق دن سے ہوتا ہے اور اس اعتبار سے قرآنی احکام یعنی اس کے اوامر و نواہی پر عمل کرنے کا تعلق زیادہ تر دن ہی سے ہوتا ہے اس لئے قرآن پر عمل کرنے کو ان کے ساتھ مخصوص کیا گیا۔

ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کو اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم نعمت عطا فرمائی کہ اس کو قرآن کا علم دیا لیکن اس نے اس نعمت کی قدر نہ کی بایں طور کہ رات کے وقت اس کی تلاوت سے غافل ہو کر سو رہا اور یہ جیز بسا اوقات قرآن کو بھول جانے کا سبب بنتی ہے۔ نیز اس نے قرآن کے اوامر نواہی پر عمل بھی نہیں کیا باوجودیکہ قرآن نازل ہونے کا اصل مقصد یہی ہے کہ اس پر عمل کیا جائے اسی لئے فرمایا گیا ہے کہ جو شخص قرآن پر عمل کرتا ہے وہ گویا ہمیشہ قرآن کی تلاوت کرتا ہے اگرچہ وہ حقیقت میں تلاوت نہ کرے اور جو ہمیشہ تلاوت کرتا ہے لیکن اس پر عمل نہیں کرتا تو اس نے گویا قرآن کی کبھی تلاوت نہیں کی۔

یحیی کہتے کہ  سوتا رہا  کا مطلب یہ ہے کہ اس نے قرآن کریم سے اعراض کیا اور بے نیازی اختیار کی لہذا جو شخص تلاوت کے بغیر اس طرح سوئے کہ اس میں اس کے اعراض کرنے اور بے نیازی برتنے کو قطعاً دخل نہ ہو بلکہ محض غفلت و کوتاہی یا کسی مجبوری کا دخل ہو تو ایسا شخص مذکورہ وعید سے مستثنی ہو گا۔

اور یہ گھر شہداء کا مکان ہے  کے بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ  شہداء  سے مراد مؤمنین خاص ہیں جیسے انبیاء علیہ السلام اولیاء ، اور علماء کیوں کہ منقول ہے کہ علماء کی سیاہی شہداء کے خونوں پر غالب ہو گی۔

امام نووی فرماتے ہیں کہ اس ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ ہدایت واضح ہوتی ہے کہ امام کے لئے یہ مستحب ہے کہ نماز فجر میں اسلام پھیرنے کے بعد مقتدیوں سے متوجہ ہو یہ بھی مستحب ہے کہ وہ امام مقتدیوں سے خواب دریافت کرے اور یہ بھی مستحب ہے کہ تعبیر بیان کرنے والا خواب کی تعبیر دن کے ابتدائی حصے میں بیان کر دے تاکہ معاش روز گار میں مشغولیت کی وجہ سے ذہن منتشر نہ ہو اور دل جمی کے ساتھ تعبیر دے سکے۔

 

                   اپنا برا خواب کسی مرد دانا یا دوست کے علاوہ اور کسی کے سامنے بیان نہ کرو

 

حضرت ابو رزین عقیلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ مؤمن کا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے اور خواب کو جب تک بیان نہ کیا جائے وہ پرندہ کے پاؤں پر ہوتا ہے اور جب اس کو کسی کے سامنے بیان کر دیا جاتا ہے تو وہ واقع ہو جاتا ہے راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی فرمایا دانا اور دوست کے علاوہ کسی اور کے سامنے خواب کو بیان نہ کرو۔ (ترمذی)

اور ابوداؤد کی روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا خواب کی تعبیر جب تک بیان نہیں کی جاتی وہ پرندہ کے پاؤں پر ہوتا ہے اور جب تک اس کی تعبیر بیان کر دی جاتی ہے تو وہ تعبیر واقع ہو جاتی ہے اور میرا خیال ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی فرمایا اور دوست و عقلمند کے علاوہ کسی اور کے سامنے خواب کو بیان نہ کرو۔

 

تشریح

 

علی رجل طائر (وہ پرندہ کے پاؤں پر ہے) دراصل عربی کا ایک محاورہ ہے جو اہل عرب کسی ایسے معاملہ اور کسی ایسی چیز کے بارے میں استعمال کرتے ہیں جن کو قرار و ثبات نہ ہو ، مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس طرح پرندہ عام طور پر کسی ایک جگہ ٹھہرا نہیں رہتا ، بلکہ اڑتا اور حرکت کرتا رہتا ہے اور جو چیز اس کے پیروں پر ہوتی ہے وہ بھی کسی ایک جگہ قرار نہیں پاتی بلکہ ادنی سی حرکت سے گر پڑتی ہے اسی طرح یہ معاملہ اور یہ چیز بہی کسی ایک جگہ پر قائم و ثابت نہیں رہتی لہذا فرمایا گیا کہ خواب کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے کہ جب تک اس کو کسی کے سامنے بیان نہیں کیا جاتا اور اس کو اپنے دل میں پوشیدہ رکھا جاتا ہے اس وقت تک وہ کوئی اعتبار نہیں رکھتا اور واقع نہیں ہوتا ، لیکن جب اس کو کسی کے سامنے بیان کر دیا جاتا ہے اور جوں ہی اس کی تعبیر دی جاتی ہے وہ اسی تعبیر کے مطابق واقع ہو جاتا ہے ، لہذا کسی کے سامنے اپنا خواب بیان نہ کرنا چاہئے لیکن واضح رہے کہ یہ حکم برے خواب کے بارے میں ہے کہ جس کے واقع ہونے سے انسان ڈرتا ہے اور نقصان و ضرر کا واہمہ رکھتا ہے جیسا کہ دوسری احادیث میں اس کی وضاحت بھی کی گئی ہے۔

مرد دانا اور دوست کے سامنے خواب بیان کرنے کو اس لئے فرمایا گیا ہے کہ عقلمند و دانا اپنی عقل و حکمت کی بنا پر خواب کی اچھی ہی تعبیر دے گا اسی طرح جو شخص دوست و ہمدرد ہو گا وہ بھی خواب کو بھلائی پر ہی محمول کرے گا اور اچھی تعبیر دے گا جب کہ بیوقوف تو اپنی نادانی کی بنا پر اور دشمن اپنے بغض و عناد کے تحت خراب تعبیر دے گا۔

اس موقع پر یہ اشکال وارد ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جب تمام ہی چیزوں کا وقوع پذیر ہونا قضا و قدر سے متعلق ہے تو خواب کا شرمندہ تعبیر نہ ہونا اس خواب کو ظاہر نہ کرنے پر کس طرح موقوف ہو سکتا ہے اور خواب کے وقوع پذیر ہونے میں تعبیر کا مؤثر ہونا کیونکر ہے؟ اس کا مختصر سا جواب یہ ہے کہ یہ چیز بھی قضاء و قدر کے مطابق ہے جیسا کہ دعا اور صد قہ و خیرات اور دوسرے اسباب و ذرائع کا مسئلہ ہے۔

 

                   ورقہ ابن نوفل کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا خواب

 

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے ورقہ ابن نوفل کے بارے میں پوچھا گیا (کہ وہ مؤمن تھے یا نہیں؟) اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے بیان کیا کہ وہ ورقہ بن نوفل آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تصدیق کرتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت ظاہر ہونے سے پہلے مر گئے تھے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مجھ کو خواب میں ورقہ بن نوفل کو اس حالت میں دکھلایا گیا ہے کہ اس پر سفید کپڑے تھے اور وہ دوزخی ہوتے تو ان کے جسم پر اور طرح کے کپڑے ہوتے۔ (الترمذی)

 

تشریح

 

ورقہ ابن نوفل ابن اسد ابن عبد العزی۔ ام المؤمنین حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا کے چچا زاد بھائی تھے انہوں نے زمانہ جاہلیت میں عیسائی مذہب کی تعلیم حاصل کر کے اس میں کافی ورک پیدا کیا تھا اور انجیل کو عربی زبان میں منتقل کیا تھا ان کے بارے میں ثابت ہے کہ بت پرستی سے سخت بیزار تھے اور اپنے طریقے پر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہا کرتے تھے ، کافی معمر تھے اور عمر کے آخری حصے میں بینائی سے بالکل محروم ہو گئے تھے ، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو نبوت سے سرفراز فرمایا گیا۔ اور پہلے پہل آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی نازل ہوئی تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو لے کر ان کے پاس گئیں انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کی تصدیق کی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بشارت دی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم وہی نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ و سلم ہیں جن کا تذکرہ آسمانی کتب میں کیا گیا ہے یہ واقعہ بہت مشہور ہے اور سیرت و تاریخ کی ہر کتاب میں موجود ہے۔

مشہور کتاب اسد الغابہ کے مصنف نے ورقہ ابن نوفل کا تذکرہ صحابہ کے زمرے میں کیا ہے اور ان کے اسلام کے بارے میں علماء کے جو اختلافی اقوال ہیں ان کو ذکر کرتے ہوئے مذکورہ بالا حدیث کو بعینہ نقل کیا ہے ! حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی حیات میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں نہیں تھیں اس لئے انہوں نے اس روایت کو صحابہ سے بطریق سماع نقل کیا ہو گا۔

اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے بیان کیا الخ  یعنی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے ورقہ ابن نوفل کے بارے میں سوال کیا گیا تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے جواب دینے سے پہلے اپنے چچا زاد بھائی کی حالت کو بیان کیا لیکن اسلوب کلام ایسا اختیار کیا کہ ورقہ ابن نوفل کی حقیقت بھی واضح ہو جائے اور مرتبہ نبوت کا ادب بھی ملحوظ رہے چنانچہ انہوں نے کہا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تصدیق کرتے تھے یعنی انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ جس فرشتہ کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دیکھا ہے وہ اللہ کی طرف سے انبیاء کے پاس وحی لانے والا ہی فرشتہ ہے جو آپ پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر بھی نازل ہوتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم خدا کے پیغمبر ہیں اور اگر میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ظہور و غلبہ کے وقت زندہ رہا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مدد کروں گا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو طاقت پہنچاؤں گا۔ گویا ایک طرف تو اس بات سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان کے ایمان کو ثابت کرنا چاہا اور دوسری طرف انہوں نے یہ بھی کہا کہ لیکن وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت ظاہر ہونے سے پہلے مر گئے تھے اس سے انہوں نے ان کے ایمان کے بارے میں شک کو بھی ظاہر کر دیا اور پھر اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مذکورہ ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ یہ ثابت کر دیا کہ وہ مؤمن تھے لہٰذا یہ حدیث ورقہ ابن نوفل کے ایمان پر دلالت کرتی ہے اور ظاہر بھی ہے کہ جب انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے مبعوث ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تصدیق کی تو پھر ان کے ایمان کے سلسلہ میں اختلاف کی کیا گنجائش ہو سکتی ہے۔ہاں اگر ان کا تصدیق کرنا نبوت سے پہلے ہوتا تو بے شک اختلاف کی گنجائش تھی۔

 

                   آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشانی پر سجدہ کرنے سے متعلق ایک خواب

 

اور حضرت خزیمہ بن ثابت اپنے چچا حضرت ابوخزیمہ رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے اس حالت میں جس میں سونے والا دیکھتا ہے یعنی خواب میں دیکھا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشانی پر سجدہ کیا ہے ، پھر انہوں نے یہ خواب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم (وہ خواب سن کر) ابوخزیمہ کی خاطر لیٹ گئے (تاکہ وہ پیشانی اقدس پر سجدہ کر لیں) اور فرمایا کہ اپنے خواب کو سچا کرو یعنی اپنے خواب کے مطابق عمل کرو ، چنانچہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشانی پر سجدہ کر لیا۔ (شرح السنۃ) اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی یہ روایت کان میزانا نزل من السماء کو مناقب ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے باب نقل کیا جائے گا۔

 

تشریح

 

یہ حدیث اس بات پر اگر کسی شخص نے یہ خواب دیکھا کہ روزہ رکھا ہے ، یا نماز پڑھی ہے ، یا صدقہ یا خیرات کیا ہے اور کسی بزرگ کی زیارت کی زیارت کی ہے وغیرہ وغیرہ تو اس خواب کے مطابق عالم بیداری میں نماز پڑھنا یا روزہ رکھنا یا صدقہ خیرات کرنا ، یا اس بزرگ کی زیارت کر لینا مستحب ہے۔

 

                   عالم برزخ کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے خواب کے کچھ اور حصے

 

حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے صحابہ سے اکثر یہ پوچھا کرتے تھے کہ کیا تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ جس کو خواب دکھانا چاہتا اور وہ خواب دیکھتا تو وہ اپنا خواب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے بیان کر دیتا ، ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمارے سامنے بیان کیا کہ آج رات (میں نے خواب دیکھا کہ) دو شخص میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھ کو اٹھا کر کہا ہمارے ساتھ چلئے چنانچہ میں ان کے ساتھ چل پڑا۔ اس کے بعد حدیث کے راوی سمرہ نے وہی طویل حدیث بیان کی جو (اس خواب سے متعلق) پہلی فصل میں گزر چکی ہے لیکن اس حدیث میں پہلی فصل والی حدیث سے کچھ زیادہ باتیں ہیں اور وہ یہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پس ہم ایک باغ میں پہنچے جہاں (درختوں کی کثرت اور ان میں سرسبزی و شادابی کی بہتات کی وجہ سے) اندھیرا پھیلا ہوا تھا باغ میں ہر طرف بہار ہی بہار تھی اور ہمہ اقسام کے شگوفے کھلے ہوئے تھے ، پھر اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ باغ کے بیچوں بیچ ایک شخص کھڑے ہوئے ہیں وہ بہت لمبے تھے کہ ان کا بھی مجھے نظر نہیں آ رہا تھا کیونکہ ان کی لمبائی آسمان سے باتیں کر رہی تھی پھر مجھے یہ بھی نظر آیا کہ ان کے گرد بہت سے لڑکے تھے جن کو میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا میں نے ان دونوں سے پوچھا کہ یہ لمبا شخص کون ہے اور یہ لڑکے کون ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ان دونوں نے میری بات کا جواب دینے کے بجائے مجھ سے کہا کہ چلے چلئے چنانچہ ہم آگے چلے اور ایک بہت بڑے باغ کے پاس پہنچے جس سے بڑا اور جس سے اچھا کوئی اور باغ میں نے نہیں دیکھا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ وہاں پہنچ کر ان دونوں نے مجھ سے کہا کہ باغ کے اندر چلئے یا اس کے درختوں پر چڑھئے چنانچہ ہم چڑھے اور ایک ایسے شہر کے قریب پہنچے جو سونے اور چاندی کی اینٹوں سے تعمیر کیا گیا ہے پھر ہم اس شہر کے دروازے پر آئے اور اس کو کھلوایا اور جب وہ دروازہ ہمارے لئے کھول دیا گیا تو ہم اندر داخل ہوئے اور اس شہر میں ہم ایسے کتنے ہی لوگوں سے ملے جن میں سے ہر ایک کے بدن کا آدھا حصہ اس سے بھی بہتر تھا جس کو تم دیکھتے ہو اور آدھا حصہ اس سے بھی بدتر تھا اور آدھا حصہ انتہائی حسین و تندرست تھا اور آدھا حصہ انتہائی بھدا و خراب تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ان دونوں نے (جو مجھ کو اپنے ساتھ لے گئے تھے) ان سب نے کہا کہ جاؤ اس نہر میں غوطہ لگاؤ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں (کہ جب ان دونوں نے یہ بات کہی تو) میں کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں عرضاً ایک نہر بہ رہی ہے جس کا پانی خالص دودھ کی طرح سفید ہے ، چنانچہ وہ لوگ نہر کے پاس گئے اور اس میں کود گئے ، پھر جب وہ (غوطہ لگا کر) ہمارے پاس واپس آئے تو ان کے جسم کی خرابی و برائی دور ہو چکی تھی۔

اور ان کا پورا جسم بہترین شکل و صورت میں تبدیل ہو گیا تھا اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حدیث کے ان زیادہ الفاظ کی وضاحت میں فرمایا کہ وہ لمبے شخص جو باغ میں تھے حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے اور ان کے گرد جو لڑکے تھے۔ وہ ایسے بچے تھے جو فطرت پر مر جاتے ہیں یعنی جو بچے چھوٹی عمر میں نابالغ مر جاتے ہیں وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس رہتے ہیں راوی یہ کہتے ہیں کہ بعض صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! اور مشرکوں کے لڑکے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مشرکوں کے نابالغ لڑکے بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کے پاس رہتے ہیں اور وہ لوگ جن کا آدھا جسم اچھا اور آدھا جسم برا تھا وہ ایسے لوگ تھے جن کے اعمال ملے جلے تھے کہ انہوں نے کچھ اچھے عمل کئے اور کچھ برے عمل ، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو معاف فرما دیا۔ (بخاری)

 

                   جھوٹا خواب نہ بناؤ

 

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بڑے بہتانوں میں سے ایک بڑا بہتان یہ بھی ہے کہ کوئی شخص اپنی آنکھوں سے وہ چیز دکھلائے جو حقیقت میں آنکھوں نے نہیں دیکھی ہے۔ (بخاری)

 

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ آنکھوں پر یہ جھوٹ باندھا جائے کہ انہوں نے دیکھا ہے حالانکہ حقیقت میں انہوں نے کچھ نہیں دیکھا، گویا مقصود جھوٹا خواب بنانے کی مذمت ظاہر کرنا ہے اور اس کو بڑا بہتان اس لئے فرمایا گیا ہے کہ خواب ایک طرح سے وحی کے قائم مقام ہے اور اس کا تعلق حق تعالیٰ سے ہے پس جھوٹا خواب بنانا گویا حق تعالیٰ بہتان باندھنا ہے۔ ایک حدیث میں منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ خواب دکھانے کے لئے فرشتے کو بھیجتا ہے۔

 

                    کس وقت کا خواب زیادہ سچا ہوتا ہے؟۔

 

اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پچھلے پہر کا خواب زیادہ سچا ہوتا ہے۔ (ترمذی ، دارمی ،)

 

تشریح

 

پچھلا پہر عام طور پر دل و دماغ کے سکون کا وقت ہوتا ہے اس وقت نہ صرف یہ کہ خاطر جمعی حاصل رہتی ہے بلکہ وہ نزول ملائکہ، سعادت اور قبولیت دعا کا بھی وقت ہے۔ اس لئے اس وقت جو خواب دیکھا جاتا ہے وہ زیادہ سچا ہوتا ہے۔

 

 

 

 

               آداب کا بیان

 

ادب کے معنی ہیں وہ قول و فعل جس کو اچھا اور قابل تعریف کہا جائے یا ادب کا مطلب یہ ہے کہ ہر بات کو درستی و اچھائی کے ساتھ اچھے موقع پر کہا جائے اور ہر کام کو احتیاط اور دور اندیشی کے ساتھ انجام دیا جائے۔

بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ ادب کا مطلب یہ ہے کہ نیکی، بھلائی کی راہ کو اختیار کیا جائے اور گناہ و برائی کے راستہ سے اجتناب کیا جائے۔ بعض حضرات کے نزدیک ادب کے معنی یہ ہیں کہ اپنے بڑے بزرگ کی عزت و توقیر کی جائے اور اپنے سے چھوٹے کے ساتھ شفقت و محبت اور نرمی کا برتاؤ کیا جائے۔

ادب اپنے وسیع تر مفہوم کے اعتبار سے چونکہ انسانی زندگی اور تہذیب و معاشرت کے مختلف پہلوؤں سے متعلق احادیث نقل کی جائے گی۔

 

                   سلام کا بیان

 

سلام کے معنی ہیں نقائص و عیوب سے برات و نجات پانا۔سلام اللہ تعالیٰ کا ایک اسم پاک ہے جس کے معنی ہیں وہ ذات جو ہر عیب و آفت اور تغیر و فنا سے پاک اور محفوظ ہے۔

سلام اسلامی تہذیب و معاشرت کا ایک خاص رکن ہے اس کے لیے جو الفاظ مقرر کیے گئے وہ السلام علیک ہے اس کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ تیرے حال سے واقف ہے لہذا غفلت اختیار نہ کر، یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کے اسم پاک کا تجھ پر سایہ ہے یعنی اللہ کی حفاظت و نگہبانی میں ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے۔ اللہ معک۔ یعنی اللہ تیرے ساتھ ہے اکثر علماء کے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں کہ تجھ پر سلامتی ہو یعنی تو مجھ سے سلامتی میں ہے اور مجھ کو بھی اپنے سے سلامتی میں رکھ۔ اس صورت میں سلام سلم سے مشتق ہو گا جس کے معنی مصالحت کے ہیں اور اس کلمہ کا مطلب یہ ہو گا کہ تو مجھ سے حفظ و امان میں رہ اور مجھ کو بھی حفظ و امان میں رکھ۔ منقول ہے کہ سلام کرنے کا طریقہ اسلام کے بالکل ابتدائی زمانہ میں مشروع ہوا تھا اور اس کا مقصد ایک ایسی علامت کو رائج کرنا تھا جس کے ذریعہ مسلمان اور کافر کے درمیان امتیاز کیا جا سکے تاکہ ایک مسلمان، دوسرے مسلمان سے تعرض نہ کرے گویا اس کلمہ کو اپنی زبان سے ادا کرنے والا اس بات کا اعلان کرتا تھا کہ میں مسلمان ہوں اور پھر یہ طریقہ مستقل طور پر مشروع قرار پایا۔

 

                    فرشتوں کو حضرت آدم کا سلام

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم نے فرمایا اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا، ان کی لمبائی ساٹھ گز کی تھی جب خدا نے ان کو بنایا تو ان سے فرمایا جاؤ اور اس جماعت کو سلام کرو اور وہ جماعت فرشتوں کی تھی جو وہاں بیٹھی ہوئی تھی پھر سنو کہ وہ تمہیں کیا جواب دیتی ہے وہ جو جواب دے گا وہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا جواب ہے۔چنانچہ حضرت آدم اس حکم خداوندی کی تعمیل میں فرشتوں کی اس جماعت کے پاس گئے اور کہا کہ السلام علیکم فرشتوں نے جواب دیا۔ السلام علیک و رحمۃ اللہ (یعنی تم پر اللہ کی رحمت نازل ہو) آنحضرت نے فرمایا کہ گویا آدم کے سلام کے جواب میں و رحمۃ اللہ کا لفظ فرشتوں نے زیادہ کیا پھر آپ نے فرمایا کہ پس جو شخص جنت میں داخل ہو گا وہ آدم کی صورت پر ہو گا بایں طور پر کہ اس کی لمبائی ساٹھ گز کی ہو گی یعنی جنت میں جانے والے حضرت آدم کے قد کی مذکورہ بلندی اور ان کے حسن و جمال کے ساتھ وہاں داخل ہوں گے۔ پھر حضرت آدم کے بعد لوگوں کی ساخت برابر کم ہوتی رہی یہاں تک کہ موجودہ مقدار کو پہنچی۔ (بخاری ، مسلم)

 

تشریح

 

اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا۔ اس ارشاد گرامی کے معنی میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں بعض حضرات تو یہ کہتے ہیں کہ یہ ارشاد گرامی احادیث صفات میں سے ہے جس کے حقیقی مفہوم و مطلب تک رسائی ممکن نہیں ہے اس لیے اس بارے میں کوئی تاویل و توجہیہ کرنے کے بجائے سکوت ہی بہتر ہے جیسا کہ اس قسم کے ان اقوال و ارشادات کے بارے میں سکوت اختیار کیا جاتا ہے جو متشابہات کہلاتے ہیں علماء سلف اسی قول کی طرف مائل ہیں جب کہ بعض دوسرے حضرات اس ارشاد گرامی کی مختلف تاویلیں کرتے ہیں جن سے مشہور تاویل یہ ہے کہ فلاں معاملہ کی صورت مسئلہ یہ ہے یا صورت حال یوں ہے ظاہر ہے کہ جس طرح کسی مسئلہ یا حال کی کوئی ظاہر صورت نہیں ہوتی بلکہ اس کے ساتھ صورت کا لفظ استعمال کر کے حقیقت میں اس مسئلہ یا حال کی صفت و کیفیت مراد ہوتی ہے اس طرح یہاں اللہ کی صورت کا لفظ سے مراد اللہ کی صفت جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صفت پر بنایا اور ان کو صفات کے ساتھ موصوف کیا جو صفات کریمہ باری تعالیٰ کا پر تو ہے چنانچہ اللہ نے ان کو، حیّ،عالم، قادر، مرید، متکلم، سمیع اور بصیر بنایا۔

بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ صورتہ کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف، شرف و عظمت کو ظاہر کرنے کے لیے ہے۔ جیسا کہ روح اللہ اور بیت اللہ میں روح اور بیت کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے اس صورت میں اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اس لطیف و جمیل صورت پر پیدا کیا جو اسرار و لطائف پر مشتمل ہے اور جس کو اس نے اپنی قدرت کاملہ کے ذریعہ اپنے پاس سے عطا کیا۔

بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ صورتہ کی ضمیر حضرت آدم کی طرف راجع ہے یعنی اللہ نے آدم کو انہی کی صورت پر بنایا مطلب یہ ہے کہ وہ ابتداء آفرینش سے ہی شکل پر تھے دوسرے انسانوں کی طرح ان کی تخلیق اس تدریجی طور پر نہیں ہوئی تھی کہ پہلے وہ نطفہ تھے پھر مضغہ ہوئے پھر جنین ، پھر طفل ، پھر صبی اور پھر پورے مرد ہوئے بلکہ وہ ابتداء ہی میں تمام اعضاء و جوارح، کامل شکل و صورت اور ساٹھ گز کے قد کے پورے انسان بنائے گئے تھے لہذا اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا سے مراد آدم کی تخلیق و پیدائش کی حقیقت کو واضح کرنا ہے اور چونکہ دیگر صفات کے برخلاف قد کی لمبائی ایک غیر معروف چیز تھی اس لیے اس کو خاص طور پر ذکر کیا اسی طرح چونکہ لمبائی پر چوڑائی بھی قیاس کی جا سکتی ہے اور اجمالی طور پر اس کا تصور ذہن میں آ سکتا ہے لہذا چوڑائی کو ذکر نہیں کیا۔

و رحمۃ اللہ کا لفظ فرشتوں نے زیادہ کیا اس کے ذریعہ سلام کے جواب کے سلسلے میں ایک تہذیب و شائستگی اور ادب فضیلت کی طرف اشارہ کیا گیا چنانچہ افضل طریقہ یہی ہے کہ اگر کوئی شخص السلام علیک کہے تو اس کے جواب میں وعلیک السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ کہا جائے اسی طرح اگر کوئی السلام علیک ورحمۃ اللہ کہے تو اس کے جواب میں وعلیک السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ کہا جائے ایک روایت میں و رحمۃ اللہ کے بعد و مغفرۃ کا لفظ بھی منقول ہے حدیث سے معلوم ہوا کہ سلام کے جواب میں وعلیک السلام کے بجائے السلام علیک کہنا بھی درست ہے کیونکہ معنی کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے لیکن جمہور علماء کے نزدیک افضل یہی ہے کہ جواب میں وعلیک السلام یا وعلیکم السلام ہی کہا جائے رہی یہ بات کہ فرشتوں نے حضرت آدم کے سلام کے جواب میں وعلیک کے بجائے السلام علیک کیوں کہا تو ہو سکتا ہے کہ ملائکہ نے بھی یہ چاہا ہو گا کہ سلام کرنے میں وہ خود ابتداء کریں ،جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے کہ جب دو آدمی ملتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک سلام میں ابتداء کرنا چاہتا ہے تو دونوں ہی ایک دوسرے سے السلام علیک یا السلام علیک یا السلام علیکم کہتے ہیں لیکن یہ بات واضح رہے کہ جواب کے درست و صحیح ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ جواب سلام کے بعد واقع ہو نہ کہ دونوں ایک ساتھ واقع ہوں جیسا کہ فاستمع مایحیونک سے واضح ہوتا ہے چنانچہ فاسمتع میں حرف فاتعقیب کے لیے ہے جو مذکورہ وضاحت کی دلیل ہے عام طور پر لوگ اس مسئلہ سے بہت غافل ہیں اس لیے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اگر دو شخص ملیں اور دونوں ایک ہی ساتھ السلام علیکم کہیں تو دونوں میں سے ہر ایک پر جواب دینا واجب ہو گا۔

حدیث کا آخری جملہ، تقدیم و تاخیر، پر دلالت کرتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت آدم کا قد ساٹھ گز تھا ان کے بعد لوگوں کے قد بتدریج کوتاہ ہوتے گئے پھر جنت میں داخل ہوں گے تو سب کے قد دراز ہو جائیں گے جیسا کہ حضرت آدم کا قد تھا۔

 

                    افضل اعمال

 

اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اکرم سے دریافت کیا کہ اہل اسلام کی کون سی خصلت بہتر ہے آپ نے فرمایا کہ کھانا کھلانا اور ہر شناسا و ناشناسا کو سلام کرنا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

اور دو اوصاف کی تخصیص، سائل کے حال کے مناسبت سے ہے لہذا مختلف اوقات میں مختلف اعمال کو افضل فرمانا کہ کسی موقع پر کسی عمل کو افضل فرمایا اور کسی موقع پر کسی کو، سائل کے احوال کے اختلاف و تفاوت پر مبنی ہوتا تھا دریافت کرنے والا جس مزاج و احوال کا آدمی ہوتا تھا اور اس کا رجحان جس نیک خصلت کی ضد کی طرف ہوتا اس کے سامنے اسی نیک خصلت کو افضل قرار دیا جاتا تھا مثلاً کسی شخص نے پوچھا کہ کون سا عمل افضل ہے؟اور آپ جانتے تھے کہ اس شخص کے مزاج میں بخل ہے تو اس سے فرماتے کہ کھانا کھلانا، سب سے بہتر ہے لہذا یہاں جس شخص نے سوال کیا تھا آپ نے اس کے احوال کے مناسبت سے اس سے فرمایا کہ کھانا کھلانا اور ہر آشنا و ناآشنا کو سلام کرنا بہتر عمل ہے۔

لفظ تقری (تا کے پیش کے ساتھ) اقراء سے مشتق ہے اور اس کے معنی پڑھوانے کے ہیں یہ لفظ تاء کے زبر کے ساتھ منقول ہے جو قرأت سے مشتق ہے اور جس کے معنی پڑھنے کے ہیں اگر موخر الذکر صورت میں مفہوم زیادہ بہتر طور پر واضح نہیں ہوتا لہذا اس کی توجیہ یہ کی جائے گی کہ سلام کرنے والا چونکہ مسلم علیہ (جس کو سلام کیا گیا ہے) کے جواب دینے کے باعث ہوتا ہے اس لیے گوایا وہ اس کی زبان سے وہ کلمہ پڑھواتا ہے جس کا تعلق سلام اور اس کے جواب سے ہے۔

اس حدیث یہ بات واضح ہوئی کہ سلام کا تعلق شناسائی کے حقوق سے نہیں ہے بلکہ یہ ان حقوق میں سے ہے جو اسلام نے ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے تئیں عائد کیے ہیں اس طرح مریض کی عیادت اور اس جیسے دوسرے امور بھی اسلامی حقوق و واجبات سے تعلق رکھتے ہیں جیسا کہ آگے آنے والی حدیث سے واضح ہو گا۔

 

                   ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے کیا حقوق ہیں؟

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مسلمان پر مسلمان کے چھ حق ہیں (ایک تو یہ ہے کہ) جب کوئی مسلمان بیمار ہو تو دوسرا مسلمان اس کی عیادت کرے دوسرے یہ کہ جب کوئی مسلمان مر جائے تو دوسرا مسلمان اس کی نماز جنازہ میں شریک ہو تیسرے یہ کہ جب کوئی مسلمان کھانے پر بلائے تو بلایا جانے والا مسلمان اس کی دعوت کو قبول کرے (بشرطیکہ کوئی شرعی عذر مانع نہ ہو۔ جیسے کہ اس دعوت میں باجا گاجا وغیرہ ہو یا اس دعوت کا تعلق اظہار فخر و ریا کاری سے ہو۔چوتھے یہ کہ جب کوئی مسلمان ملے تو اس کو سلام کرے پانچویں یہ کہ جب کوئی مسلمان چھینکے اور الحمدللہ کہے تو اس کا جواب دے یعنی یرحمک اللہ کہے اور اگر چھینکنے والا الحمدللہ نہ کہے تو وہ جواب کا مستحق نہیں ہو گا۔ اور چھٹے یہ کہ ایک مسلمان کی ہر حالت میں خیر خواہی کرے خواہ وہ حاضر ہو یا غائب اور مشکوۃ کے مولف کہتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کو نہ تو صحیحین(بخاری و مسلم) میں پایا ہے اور حمیدی کی کتاب میں، البتہ اس کو صاحب جامع الاصول نے نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

خیر خواہی کرے  کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں پر یہ واجب ہے کہ وہ ہر حالت میں ایک دوسرے کے خیر خواہ و ہمدرد ہیں جو مسلمان سامنے ہے اس کے ساتھ بھی خیر خواہی کی جائے اور جو نظروں سے دور ہے اس کے ساتھ بھی خیر خواہی کریں، یہ طرز عمل اختیار نہ کرنا چاہیے کہ جب کسی مسلمان کے سامنے آئیں تو اس کے ساتھ تملق یعنی خوشامد چاپلوسی کا رویہ اپنائیں اور جب وہ سامنے نہ ہو تو غیبت کریں یہ خالص منافقانہ رویہ ہے اور منافقوں کی خاصیت ہے۔

 

                   تعلق دوستی قائم کرنے کا بہترین ذریعہ سلام ہے

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم جب تک کہ ایمان نہ لاؤ جنت میں داخل نہیں ہو سکو گے اور تمہارا ایمان اس وقت کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ تم اللہ کی رضاء خوشنودی کے لیے آپس میں تعلق و دوستی قائم نہ کرو۔ نیز آپ نے فرمایا اور کیا میں تمہیں ایک ایسا ذریعہ نہ بتا دوں جس کو تم اختیار کرو تو آپس میں دوستی کا تعلق قائم ہو جائے اور وہ ذریعہ یہ ہے کہ تم آپس میں سلام کا چلن عام کرو یعنی آشنا و ناآشنا سب کو سلام کرو۔ (مسلم)

 

تشریح

 

مشکوۃ کے ان صحیح و معتمد نسخوں میں کہ جو اونچے درجہ کے مشائخ کے سامنے پڑھے گئے ہیں لفظ ولاتومنوا نون کے حذف کے ساتھ ہے اور یہ حذف نون حتی تومنوا کے مجانست و مقارنت کی وجہ سے ہے تاہم بعض نسخوں میں یہ لفظ نون کے ساتھ یعنی ولاتومنون منقول ہے اور یہ نحوی قاعدہ کے مطابق ہے۔

 

                   مجلس ایسی جگہ منعقدہ کرنی چاہیے جو فراخ و کشادہ ہو

 

اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بہترین مجلس وہ ہے جو کشادہ و فراخ جگہ میں منعقد کی جائے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی مجلس وعظ و نصیحت منعقد کرنی ہو یا کسی بھی مباح تقریب کے موقع پر کسی جگہ لوگوں کو جمع کرنا ہو تو اس مقصد کے لیے ایسی جگہ اختیار کرنی چاہیے جو کشادہ و فراخ ہو تاکہ لوگوں کو بیٹھنے میں تنگی نہ ہو اور وہ تکلیف میں مبتلا نہ ہوں۔

 


مجلس میں الگ الگ نہ بیٹھو

 

اور حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم گھر سے باہر نکل کر تشریف لائے جب کہ مسجد نبوی میں آپ کے صحابہ ادھر ادھر بیٹھے ہوئے تھے آپ نے ان کو اس طرح بیٹھے ہوئے دیکھ کر فرمایا کہ کیا بات ہے کہ میں تم لوگوں کو متفرق و منتشر بیٹھا ہوا دیکھ رہا ہوں۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

عزین اصل میں عزۃ کی جمع ہے جس کے معنی لوگوں کے جماعت کے ہیں لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جب یہ دیکھا کہ صحابہ کی ایک جماعت اس طرف بیٹھی ہوئی ہے تو دوسری جماعت اس طرف کچھ لوگ اس کونے میں بیٹھے ہوئے ہیں تو کچھ لوگ اس کونے میں تو چوں کی الگ الگ گروہوں میں بیٹھنا اور علیحدہ علیحدہ مجلسیں قائم کرنا آپس میں وحشت و بیگانگی کو فروغ دینے اور ایک دوسرے سے علیحدگی و جدائی اختیار کرنے کا موجب ہوتا ہے اس لیے آپ نے مذکورہ ارشاد گرامی کے ذریعہ اس طرح متفرق و منتشر طور پر بیٹھنے کو ناپسند فرمایا اور متحدہ و مجتمع ہو کر بیٹھنے کی طرف راغب کیا کیونکہ ایک جگہ جمع ہو کر بیٹھنا دراصل باہمی یگانگت و اتحاد اور ایک دوسرے سے تعلق موانست کی علامت ہے۔ حاصل یہ کہ اگر کسی جگہ مسلمان جمع ہوں تو ان کو چاہیے کہ وہ علیحدہ علیحدہ جماعتیں بنا کر نہ بیٹھیں بلکہ سب لوگ ایک جگہ حلقہ بنا کر یا صف بندی کے ساتھ بیٹھیں۔

 

                   اس طرح نہ لیٹو کہ جسم کا کچھ حصہ دھوپ میں رہے اور کچھ سایہ میں

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص سایہ میں بیٹھا ہو اور پھر وہ سایہ ختم ہو رہا ہو بایں طور کہ اس سایہ کی جگہ دھوپ آ جانے کی وجہ سے اس کے جسم کا کچھ حصہ دھوپ میں اور کچھ حصہ سایہ میں ہو تو اس کو چاہیے کہ وہاں سے اٹھ جائے اور ایسی جگہ جا کر بیٹھ جائے جو پوری طرح سایہ میں یا پوری طرح دھوپ میں کیونکہ جب کوئی شخص ایسی جگہ بیٹھا رہتا لیٹتا ہے کہ کچھ دھوپ میں ہو اور کچھ سایہ میں، تو اس کے جسم پر ایک ہی وقت میں دو متضاد چیزوں کے اثر انداز ہونے کی وجہ سے اس کا مزاج بھی فساد و اختلال کا شکار ہو جاتا ہے۔ (ابوداؤد)

اور شرح السنہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے یعنی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم میں سے جو شخص سایہ میں بیٹھا ہو اور پھر وہ سایہ ختم ہو رہا ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ وہاں سے اٹھ جائے کیوں کہ ایسی جگہ کہ کچھ سایہ میں ہو اور کچھ دھوپ میں، شیطان کے بیٹھنے کی جگہ ہے اسی طرح جیسا کہ شرح السنۃ میں ہے معمر نے بھی اس روایت کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بطریق موقوف نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے آنحضرت کا ارشاد گرامی نہیں ہے لیکن واضح رہے کہ یہ موقوف حکم کے اعتبار سے مرفوع حدیث کے ہی درجہ میں ہے کیونکہ دین کی جو بات اجتہاد قیاس کے ذریعہ ثابت ہونے والی نہیں ہوتی اور اس کو کوئی صحابی اپنے قول کے طور پر نقل کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس صحابی نے وہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے ضرور سنی ہے ورنہ یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی صحابی دین کی کوئی ایسی بات نقل کرے جو اجتہاد قیاس سے باہر اور اس بات کو اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے نہ سنا ہو۔شیطان کے بیٹھنے کی جگہ ہے کہ بارے میں بعض حضرات تو یہ کہتے ہیں کہ یہ عبارت اپنے ظاہری معنی پر محمول ہے یعنی واقعۃً ایسا ہوتا ہے کہ شیطان اس جگہ بیٹھتا ہے جس کا کچھ حصہ دھوپ میں اور کچھ حصہ سایہ میں ہوتا ہے اس اعتبار سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ کچھ سایہ اور کچھ دھوپ میں بیٹھنا شیطان کا کام ہے بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ ایسی جگہ کی نسبت شیطان کی طرف اس اعتبار سے کی گئی ہے کہ شیطان جس شیطان کو پریشان کرنا چاہتا ہے اس کو ایسی جگہ پر بیٹھنے یا لیٹنے کی طرف راغب کرتا ہے اور گویا اس جگہ پر کسی شخص کے بیٹھنے یا لیٹنے کا سبب شیطان بنتا ہے اور اس سے شیطان اپنے مقصد کہ وہ شخص تکلیف و دکھ میں مبتلا ہو کامیاب ہو جاتا ہے لہذا معلوم ہوا کہ شیطان جس طرح انسان کے دین کا دشمن ہے اسی طرح اس کے بدن کا بھی بدخواہ ہے۔ یہ بات ملحوظ رہے کہ کسی ایسی جگہ بھی بیٹھنا یا لیٹنا مکروہ ہے جو پوری طرح دھوپ میں ہو اگرچہ اس صورت میں ممانعت و کراہت کا سبب یہ نہیں ہو گا کہ ایسی جگہ شیطان کی نشست گاہ ہوتی ہے بلکہ یہ اس لیے ممنوع ہو گا کہ کہ پوری طرح دھوپ میں بیٹھنا گویا اپنے آپ کو تعب و مشقت اور تکلیف میں ڈالنا ہے اور اگر جاڑے موسم ہو تو پھر دھوپ میں بیٹھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہو گا۔

 

                   عورتوں کو راستوں کے کناروں پر چلنے کا حکم

 

اور حضرت ابواسید انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو اس وقت جب کہ آپ مسجد سے نکل رہے تھے لوگوں سے دینی ہدایات و احکام شرعی مسائل بیان کرتے ہوئے سنا پھر راستہ میں مرد عورتوں سے مل گئے یعنی مرد اور عورتیں مخلوط ہو کر راستہ میں چلنے لگے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ دیکھ کر عورتوں سے فرمایا کہ تم مردوں کے پیچھے چلو اور ان سے الگ رہو کیونکہ تمہارے لیے ضروری ہے کہ تم راستہ کے کنارے پر چلا کرو۔چنانچہ عورتوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اس حکم پر اس طرح عمل کیا کہ وہ راستہ چلتیں تو دیواروں سے لگ کر چلا کرتیں یہاں تک کہ بعض اوقات ان کا کپڑا دیوار سے اٹک جاتا تھا۔ (ابوداؤد، بیہقی)

 

                   عورتوں کے درمیان نہ چلو

 

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے دو عورتوں کے درمیان چلنے سے منع فرمایا، یعنی مرد کو۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

لفظ  یعنی راوی کا اپنا قول ہے جس سے الفاظ حدیث کی وضاحت مقصود ہے گویا راوی نے یہ بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یمشی کا فاعل الرجل مراد لیا ہے حاصل یہ ہے کہ لفظ الرجل حدیث کے اصل متن کا جزء نہیں ہے بلکہ اس کو کسی راوی نے بطور وضاحت نقل کیا ہے اس طرح روایت کے درمیان یہ عبارت یعنی الرجل گویا جملہ معترضہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مرد کو عورتوں کے درمیان چلنے سے اس لیے منع فرمایا کہ مرد عورت کا اختلاط نہ صرف یہ کہ مختلف قسم کی برائیوں کے فتنہ میں مبتلا کر دیتا ہے بلکہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو شرم و حیا اور سنجیدگی و متانت کے تقاضوں کے خلاف سمجھا گیا ہے۔ واضح رہے کہ جس طرح عورتوں کے درمیان چلنا منع ہے اسی طرح راستہ میں کسی عورت کے ساتھ بھی چلنا منع ہے بشرطیکہ اس کی وجہ سے کسی فتنہ میں مبتلا ہو جانے کا خوف ہو۔

 

                   مجلس میں جہاں جگہ دیکھو وہاں بیٹھ جاؤ

 

اور حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں ہم حاضر ہوتے تو ہم میں سے جو شخص جہاں جگہ دیکھتا اور آخر میں جو جگہ خالی ہوتی وہاں بیٹھ جاتا۔ (ابوداؤد) اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی دونوں حدیثیں یعنی ایک تو لایحل للرجل اور دوسری جو اس کے بعد ولا یجلس بین رجلین باب القیام میں نقل کی جا چکی ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ و حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دونوں روایتیں ہم انشاء اللہ باب اسماء النبی میں نقل کریں گے جن میں سے ایک تو کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اذا مشی تکفا اور دوسری مارایت شیاء احسن من رسول اللہ ہے۔

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ مجلس میں ہر شخص مجلس نبوی کے آداب وقار کو ملحوظ رکھتا تھا اور اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ اس کو دوسروں کی بہ نسبت نمایاں اور برتر مقام ملے جہاں جگہ دیکھتا وہیں بیٹھ جاتا کیونکہ مجلس میں نمایا اور برتر جگہ پر بیٹھنے کی خواہش اور اس کے لیے کوشش کرنا دراصل اس نفس کا تقاضہ ہوتا ہے جو ہر موقع پر اپنے آپ کو بلا ضرورت نمایاں کرنے اور برتر ثابت کرنے کا متلاشی رہتا ہے اور یہ ان لوگوں کی شان ہے جو جاہ پسند اور دنیاوی عزت اور بڑائی کے حریص ہوتے ہیں جبکہ صحابہ اس طرح کے جذبات سے بالکل عاری تھے نہ ان کو اس چیز کے حصول کی خواہش ہوتی تھی اور نہ کسی بھی موقع پر برخاست نشست کے سلسلہ میں خواہ مخواہ کے تکلفات و اہتمام کے عادی تھے ان کے مزاج میں جو سادگی و خاکساری اور بے تکلفی اور روا داری تھی اس کی بناء پر بھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ادب و احترام ملحوظ رکھتے ہوئے بھی وہ مجلس نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں جہاں جگہ دیکھتے بیٹھ جاتے۔

 

                   بیٹھنے کا ایک ممنوع طریقہ

 

اور حضرت عمر بن شرید تابعی اپنے والد ماجد (حضرت شرید ثقفی رضی اللہ عنہ صحابی) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم میرے پاس سے گزرے جب کہ میں اس طرح بیٹھا ہوا تھا کہ میرا بایاں ہاتھ تو میری پیٹھ کے پیچھے تھا اور انگوٹھے کی جڑ کے گوشت پر میں سہارا دیا ہوئے تھا آپ نے مجھ کو اس طرح بیٹھا ہوا دیکھ کر فرمایا کہ کیا تم اس ہیبت پر بیٹھے ہوئے جو ہیبت پر وہ لوگ بیٹھتے ہیں جن پر خدا کا غضب نازل ہوا۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

جن پر خدا کا غضب نازل ہوا سے مراد یہودی ہیں یہاں یہودیوں کا صراحت کے ساتھ ذکر کرنے کے بجائے مغضوب علیھم کے ذریعہ ان کی طرف اشارہ کرنے کی ایک وجہ تو اس بات سے اگاہ کرنا ہے کہ اس ہیبت پر بیٹھنا ان چیزوں میں سے جن کو حق تعالیٰ دشمن رکھتا ہے اور دوسرے یہ کہ مسلمان چونکہ ایک ایسی امت کا فرد ہے جس پر اللہ نے اپنی رحمت و نعمت فرمائی ہے اس لیے اس کو چاہیے کہ وہ ان لوگوں کی مشابہت اختیار نہ کرے جن پر اللہ نے اپنا غضب نازل کیا اور ملعون قرار دیا ہے واضح رہے کہ قرآن کریم کی سورۃ فاتحہ میں مغضوب علیھم کے ذریعہ جن لوگوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ان سے بھی یہی یہود مراد ہیں۔ بعض حضرات نے یہ کہا کہ حدیث میں مغضوب علھیم کا لفظ اپنے وسیع و عام مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے یعنی اس سے تمام کافر اور وہ لوگ مراد ہیں جو اپنے بیٹھنے چلنے اور دیگر افعال میں غرور و تکبر کا اظہار کرتے ہیں۔

 

                   پیٹ کے بل لیٹنا دوزخیوں کا طریقہ ہے

 

اور حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم میرے پاس سے گزرے جب کہ میں اپنے پیٹ کے بل یعنی اوندھا لیٹا ہوا تھا آپ نے یہ دیکھ کر اپنے پاؤں سے مجھے ٹھوکا دیا اور فرمایا جندب تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس طرح لیٹنا دوزخیوں کا طریقہ ہے۔

 

تشریح

 

جندب حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کا اصل نام ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس موقع پر ان کی کنیت کے بجائے اصل نام سے مخاطب کیا کہ اس طرح لیٹنا دوزخیوں کا طریقہ ہے کے بارے میں دو احتمال ہیں ایک تو یہ کہ اس ارشاد گرامی سے آپ کی مراد یہ تھی کہ اس دنیا میں کفار و فجار اسی طرح لیٹتے ہیں دوسرے یہ کہ آپ نے اس ارشاد کے ذریعہ اس طرف اشارہ کیا کہ کفار فجار دوزخ میں جس ہیبت پر لٹائے جائیں گے وہ یہی ہیبت ہو گی یعنی پیٹ کے بل۔

 

                   جمائی کا آنا شیطانی اثر ہے

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ چھینکنے والے کو پسند فرماتا ہے لیکن جمائی لینے والے کو ناپسند فرماتا ہے لہذا تم میں سے جو شخص چھینکے اور اللہ کی تعریف کرے تو اس چھینک اور الحمدللہ کو سننے والے ہر مسلمان پر حق ہے کہ وہ اس کے جواب میں یرحمک اللہ کہے رہی جمائی کی بات جمائی کا آنا شیطانی اثر ہے لہذا تم میں سے جب کسی کو جمائی آئے تو چا ہے کہ وہ حتی الامکان اس کو روکے واضح رہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص جمائی لیتا ہے تو اس پر شیطان ہنستا ہے (بخاری)

اور مسلم کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ تو (چا ہے حتی الامکان اس جمائی کو روکے) کیونکہ جب تم میں سے کوئی شخص ہاء کہتا ہے یعنی جمائی لیتا ہے تو اس پر شیطان ہنستا ہے۔

 

تشریح

 

اللہ تعالیٰ چھینکنے کو پسند کرتا ہے ، مطلب یہ ہے کہ چھینکنے کی وجہ سے چونکہ دماغ پر بوجھ ہٹ جاتا ہے اور فہم و ادراک کی قوت کا تزکیہ ہو جاتا ہے اور یہ چیز طاعت و حضوری قلب کا باعث و مددگار بنتی ہے اس لیے چھینکنا پسندیدہ ہے اس کے برخلاف جمائی کا آنا طبیعت کے امتلاء نفس کے بھاری پن اور جو اس کی کدورت کی وجہ سے ہوتا ہے اور یہ چیز غفلت و سستی و بد فہمی نیز طاعت و عبادت میں عدم نشاط کا باعث بنتی ہے اس لیے جمائی کا آنا شیطان کی خوشی کا ذریعہ ہے اور اسی وجہ سے جمائی کے آنے کو شیطانی اثر قرار دیا ہے اور اس کی نسبت شیطان کی طرف کی گئی ہے اس سے معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ چھینکنے والے کو پسند کرنا، اور جمائی کو ناپسند کرنا ان کے نتیجہ میں و ثمرہ کے اعتبار سے ہے کہ چھینکنے کا نتیجہ عبادت و طاعت میں نشاط و تازگی کا پیدا ہونا ہے اور جمائی کا نتیجہ کسل و سستی کا پیدا ہو جانا ہے۔

اللہ کی تعریف کرے یعنی جب چھینک آئے تو الحمد للہ کہے اور اگر رب العالمین بھی بڑھا دے یعنی الحمد للہ رب العالمین کہے تو بہتر ہے جب کہ الحمد للہ علی کل حال کہنا بھی بہتر ہے ، نیز کتاب مصنف میں ابن ابی شیبہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بطریق موقوف یہ نقل کیا ہے کہ جس شخص کو چھینک آئے اور وہ یوں کہے ، الحمد للہ رب العالمین علی کل حال تو وہ داڑھ اور کان کے درد میں کبھی مبتلا نہیں ہو گا۔ واضح رہے کہ علماء نے چھینک آنے پر الحمد للہ کہنے کی یہ حکمت بیان کی ہے چھینک دراصل دماغ کی صحت و صفائی اور مزاج طبعیت میں نشاط و توانائی کی علامت ہے اور یہ چیز جسمانی صحت و تندرستی کے اعتبار سے اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے اور ظاہر ہے کہ حصول نعمت پر اللہ کی تعریف کرنا نہایت موزوں و مناسب چیز ہے۔

 

                   یرحمک اللہ کہنا فرض یا واجب؟

 

حدیث کی یہ عبارت ہر مسلمان پر حق ہے کہ وہ چھینکنے والے کے جواب میں یرحمک اللہ کہے بظاہر اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ چھینکنے والا الحمدللہ کہے تو اس سننے والے ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ جواب میں یرحمک اللہ کہے۔ لیکن اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں۔ حنفی مسلک کے اعتبار سے زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ جواب میں یرحمک اللہ کہنا واجب علی الکفایہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر چھینکنے والے کی حمد کو سننے والے ایک سے زائد ہوں تو وہاں موجود سب میں سے کسی ایک شخص کا یرحمک اللہ کہہ دینا سب کے ذمہ سے جواب کا وجوب ساقط کر دے گا۔ جب کہ ایک قول میں اس جواب کو مستحب کہا گیا ہے کہ اس کے برخلاف سفر السعادۃ میں مصنف نے یہ لکھا ہے کہ اس بارے میں منقول صحیح احادیث کا ظاہری مفہوم یہ واضح کرتا ہے کہ چھینکنے والے کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا سننے والے ہر مسلمان پر فرض ہے اور وہاں موجودہ لوگوں میں سے کسی ایک کا جواب دے دینا اس فرض کو سب کے ذمہ سے ساقط نہیں کرتا۔چنانچہ اکابر علماء کی ایک جماعت کا مسلک اسی قول پر ہے۔شوافع کا مسلک یہ ہے کہ چھینکنے والے کا جواب دینا سنت علی الاکفایہ ہے لیکن افضل یہی ہے کہ حاضرین میں ہر شخص جواب میں یرحمک اللہ کہے حضرت امام مالک کے مسلک میں اختلافی قول ہیں کہ چھینکنے والے کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا آیا سنت ہے یا واجب؟ لیکن اس امر پر اتفاق ہے کہ یہ اختلاف اس صورت میں ہے کہ جب چھینکنے والا الحمدللہ کہے اور اس کو حاضرین سنیں لہذا اگر چھینکنے والا الحمدللہ نہ کہے تو وہ جواب کا مستحق نہیں ہو گا اسی طرح اس نے الحمدللہ تو کہا لیکن اتنی آواز سے کہا کہ کسی ایک نے بھی نہیں سنا تو اس صورت میں بھی جواب دینا یعنی یرحمک اللہ کہنا لازم نہیں ہو گا۔چنانچہ لفظ سمعہ جو اس حدیث میں منقول ہے اس بات پر دلالت کرتا ہے اور یہی حکم سلام اور تمام فرض کفایہ امور جیسے عیادت مریض، تجہیز میت اور نماز جنازہ وغیرہ کا بھی ہے۔

شرح السنہ میں لکھا ہے کہ یہ حدیث اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ چھینکنے والے کو چا ہے کہ الحمد للہ بلند آواز سے کہے تاکہ اہل مجلس سن لیں اور وہ جواب کا مستحق ہو۔

 

                   یرحمک اللہ کہنے والے کے جواب میں کیا کہا جائے

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی شخص کو چھینک آئے تو چاہیے کہ وہ الحمدللہ کہے اور اس کے مسلمان بھائی یا یہ فرمایا کہ اس کے دوست کو چاہیے کہ وہ اس چھینکنے والے کے الحمد للہ کہنے کے جواب میں یرحمک اللہ کہے اور جب اس کے جواب میں یرحمک اللہ کہے تو چھینکنے والے کو چاہیے یوں کہے ، یھدیکم اللہ یعنی اللہ تعالیٰ تمہاری ہدایت کرے۔ اور تمہارے دل و تمہارے احوال کو درست کرے۔ (بخاری)

 

تشریح

 

یھدیکم اللہ  میں مخاطب کے لیے جمع کا صیغہ یا تو باعتبار غالب کے ہے کہ عام طور پر چھینکنے والے کے پاس کئی آدمی ہوتے ہیں لہذا مذکورہ دعا میں ان سب کو شریک ہونا چا ہے یا مخاطب کے لیے جمع کا صیغہ بطور تعظیم و تکریم کے ہے اور یہ کہ اس دعا میں مخاطب کے واسطے سے پوری امت مرحومہ کو شامل کرنا مراد ہوتا ہے۔

 

                   جو چھینکنے والا الحمد للہ نہ کہے وہ جواب کا مستحق نہیں ہوتا

 

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بیٹھے ہوئے دو آدمیوں کو چھینک آئی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان میں سے ایک آدمی کی چھینک کا جواب نہیں دیا جس آدمی کی چھینک کا جواب آپ نے نہیں دیا اس نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا وجہ ہے کہ آپ نے اس آدمی کو تو جواب دیا لیکن مجھے جواب نہیں دیا؟ آپ نے فرمایا اس آدمی نے اللہ تعالیٰ کی حمد کی تھی جب کہ تم نے اللہ کی حمد نہیں کی (لہذا تم جواب کے مستحق نہیں ہوئے) بخاری و مسلم)۔

 

 

تشریح

 

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص چھینکنے کے بعد الحمد للہ نہ کہے وہ اس بات کا مستحق نہیں ہوتا کہ اس کی چھینک کے جواب میں یرحمک اللہ کہا جائے۔ حضرت مکحول بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ کسی شخص نے مسجد کے کسی کونے میں چھینکا، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس چھینک کو سنا تو فرمایا کہ یرحمک اللہ ان کنت حمدت اللہ یعنی اگر تو نے اللہ کی حمد کی ہے تو تجھ پر اللہ اپنی رحمت نازل کرے۔شعبی کہتے ہیں کہ اگر تمہارے کان میں دیوار کے پیچھے سے کسی چھینکنے اور الحمدللہ کہنے کی آواز آئے تو اس کو بھی جواب دو یعنی یرحمک اللہ کہو۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم میں سے کوئی شخص چھینکے اور اللہ کی حمد کرے یعنی چھینک آنے پر الحمد للہ کہے تو اس کے جواب میں یعنی یرحمک اللہ کہو اور اگر وہ اللہ کی حمد نہ کرے تو اس کو جواب نہ دو۔ (مسلم)

 

                   جس شخص کو لگاتار چھینک آتی رہے اس کے جواب کا مسئلہ

 

اور حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس شخص کی چھینک کا جواب دیتے سنا جو اس وقت آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا چنانچہ آپ نے اس کے جواب میں فرمایا یرحمک اللہ پھر جب اس کو دوسری چھینک آئی تو آپ نے فرمایا کہ اس شخص کو زکام ہو گیا ہے اور ترمذی کی ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ نے اس شخص کو تیسری بار چھینکنے پر یہ فرمایا کہ اس شخص کو زکام ہو گیا ہے۔

 

 

تشریح

 

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد گرامی کا مطلب یہ تھا کہ اس شخص کو چونکہ زکام ہو گیا ہے اس لیے یہ بار بار چھینکے گا اور الحمد للہ کہے گا لہذا اس کے جواب میں بار بار یرحمک اللہ کہنے کی ضرورت نہیں واضح رہے کہ ابوداؤد اور ترمذی کی ایک اور روایت میں یہ فرمایا گیا کہ جس شخص کو لگاتار چھینک آتی رہے اور وہ الحمد للہ کہتا رہے تو تین چھینکوں تک جواب دیا جائے تیسری مرتبہ کے بعد اختیار ہو گا کہ چا ہے جواب دے چا ہے نہ دے۔ پس حدیث کا حاصل یہ ہوا کہ اگر کسی شخص کو لگاتار چھینک آتی رہے تو اس کے جواب میں تین چھینکوں تک یرحمک اللہ تو واجب یا سنت موکدہ ہے تیسری مرتبہ کے بعد سکوت اور جواب کے درمیان اختیار ہو گا کہ چا ہے تو تین مرتبہ کے بعد جواب نہ دے جو رخصت یعنی شریعت کی طرف سے آسانی اور چا ہے تین مرتبہ کے بعد بھی جواب دیتا رہے جو مستحب ہے گویا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ تین مرتبہ کے بعد جواب دینا کوئی نا جائز بات نہیں ہے لیکن واجب یا سنت مؤکدہ نہیں ہے۔

 

                   جب جمائی آئے تو منہ پر ہاتھ رکھ لے

 

اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی شخص کو جمائی آئے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنا ہاتھ منہ پر رکھ لے کیونکہ شیطان اگر منہ کھلا ہوا پاتا ہے تو اس میں گھس جاتا ہے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

منہ میں شیطان گھسنے سے مراد یا تو حقیقتاً گھسنا ہے یا مراد یہ ہے کہ جو شخص جمائی کے وقت اپنے منہ کو بند نہیں رکھتا شیطان اس پر اثر انداز ہونے اور اس کو وساوس و اوہام میں مبتلا کرنے پر قادر ہو جاتا ہے۔

 

                   چھینکتے وقت چہرہ پر ہاتھ رکھ لینا چاہیے

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جب چھینکتے تو اپنے چہرہ مبارک پر اپنے ہاتھوں یا اپنے کسی کپڑے سے ڈھانک لیتے تھے اور اپنی چھینک کی آواز کو پست کر لیتے۔ اس روایت کو ترمذی، اور ابوداؤد نے نقل کیا ہے نیز ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

 

تشریح

 

چھینکتے وقت چہرے کو ڈھانک لینا اور بلند آواز سے نہ چھینکنا، یہ دونوں چیزیں تہذیب و شائستگی کی علامت بھی ہیں اور آداب شریعت کا تقاضہ بھی کیونکہ ایک تو چھینک کے ذریعہ عام طور پر دماغ کا فضلہ و بلغم وغیرہ ناک یا منہ سے نکل پڑتا ہے دوسرے چھینکتے وقت چہرہ کی ہیبت بگڑ جاتی ہے اس لیے چہرے کو ڈھانک لینا چاہیے اسی طرح زیادہ زور دار آواز کے ساتھ چھینکنے کی صورت میں بسا اوقات لوگ چونک اٹھتے ہیں اور ویسے بھی زیادہ بلند آواز اور بے ساختہ آواز کے ساتھ چھینکنا طبیعت کی سلامتی اور وقار کے خلاف سمجھا جاتا ہے لہذا ہلکی آواز کے ساتھ چھینکنا حسن ادب سمجھا گیا ہے علماء نے لکھا ہے کہ چھینکنے والے کے لیے مستحب ہے کہ اپنی چھینک کو پست رکھے اور الحمد للہ بلند آواز میں کہے تاکہ لوگ سن کر جواب دیں۔

 

                   یرحمک اللہ کہنے والے کے حق میں دعا

 

اور حضرت ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی شخص کو چھینک آئے تو چا ہے کہ وہ یوں کہے الحمد للہ علی کل حال۔ یعنی ہر حال میں خدا کی تعریف ہے اور وہ شخص جو اس کا جواب دے اس کو یوں چاہیے یرحمک اللہ اور پھر اس کے جواب میں چھینکنے والے کو یوں کہنا چاہیے ، یھدیکم اللہ ویصلح بالکم، یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں ہدایت بخشے اور تمہارے دل یا تمہارے احوال کو درست فرمائے۔

 

                   یہودیوں کی چھینک اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا جواب

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہودی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ہوتے جان بوجھ کر چھینکتے اس امید میں کہ آپ ان کے جواب یرحمک اللہ کہیں گے لیکن آپ ان کی چھینک کر جواب میں محض یہ فرماتے یھدیکم اللہ ویصلح بالکم یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں ہدایت بخشیں اور تمہارے قلوب یا تمہارے احوال کی اصلاح فرمائے۔ (ترمذی، ابوداؤد)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کی چھینک کے جواب میں یرحمک نہ کہتے کیونکہ اللہ کی رحمت صرف مومن کے لیے مخصوص ہے البتہ آپ ان کے حسب حال ان کی ہدایت و اصلاح کی دعا فرماتے۔

 

                   چھینک کے وقت سلام

 

اور حضرت ہلال ابن یساف (تابعی) کہتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ حضرت سالم بن عبید رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے کہ جماعت میں سے ایک شخص کو چھینک آئی اور اس نے الحمد للہ کے بجائے السلام علیکم کہا بایں گمان کے چھینک کے بعد الحمد للہ کے بجائے السلام علیکم کہنا بھی جائز ہے حضرت سالم رضی اللہ عنہ نے اس شخص کے جواب میں کہا تم پر اور تمہاری ماں پر بھی سلام اس شخص نے گویا اپنے دل میں ان الفاظ (تمہاری ماں پر بھی سلام) کا برا مانا، حضرت سالم رضی اللہ عنہ نے اس کی ناگواری کو محسوس کیا اور کہا اس ناگواری کی کیا بات ہے تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میں نے وہی الفاظ کہے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس وقت ارشاد فرمائے تھے جب کہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے چھینکا تھا اور اس نے الحمد للہ کے بجائے السلام علیکم کہا تھا چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے جواب میں فرمایا تھا کہ تم پر اور تمہاری ماں پر سلام۔ پھر آپ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی شخص کو چھینک آئے تو اس کو چاہیے کہ الحمدللہ کہے اور جواب دینے والے کو چاہیے کہ یرحمک اللہ کہے اور پھر چھینکنے والے کو بطریق استحباب چاہیے کہ یغفرللہ لی ولکم یعنی اللہ تعالیٰ تمہاری اور میری مغفرت فرمائے۔ (ترمذی، ابوداؤد)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ چھینک آنے پر الحمد للہ کے الفاظ کہنے چاہیے اس موقع پر حاضرین کو سلام کرنا نہ کوئی معنی رکھتا ہے اور نہ اس کی کوئی اصل ہے۔ بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ یرحمک اللہ کہنے کے جواب میں چھینکنے والے یغفراللہ لی ولکم کے ساتھ یھدیکم اللہ بھی کہنا اولیٰ اور افضل ہے۔ حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر چھینکنے والا الحمد للہ کے بجائے کوئی اور الفاظ کہے تو وہ چھینک کے جواب کا مستحق نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص کی چھینک کے جواب میں یرحمک اللہ نہیں فرمایا البتہ اس شخص نے چونکہ آپ کو سلام کیا آپ نے سلام کا جواب دیا، رہی یہ بات کہ آپ نے سلام کے جواب میں وعلی امک اور تمہاری ماں پر بھی سلام کے الفاظ کیوں فرمائے تو دراصل آپ نے اس لفظ کے ذریعہ دو باتوں کی طرف اشارہ فرمایا ایک تو یہ کہ اس موقع پر سلام کرنا بے محل و بے موقع ہے اور یہ ایسا ہی جیسے کوئی شخص سلام تو تمہیں کرنا چا ہے مگر یہ ہے یوں کہ تم پر اور تمہاری ماں پر سلام۔ دوسری بات یہ کہ کسی بھی لفظ و کلام کا بے محل و بے موقع استعمال کرنا چاہیے اپنے آپ کو علم و تربیت اور مجلس کے آداب سے بے بہرہ ثابت کرنا ہے اور اس بات کا اظہار کرنا ہے کہ میں اس شخص کی طرح ہوں جو کسی مرد دانا کی تربیت سے محروم اور محض ماں کی غیر موزوں تربیت کا حامل ہو اور جس کے دل و دماغ پر زنانہ ماحول اور زنانہ طور طریقوں کا اثر ہو، نیز علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ ان الفاظ کے ذریعہ گویا اس شخص کی نادانی کو ظاہر کیا گیا ہے جو اس میں ماں کے اوصاف کے سرایت کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی اسی اعتبار سے وہ اپنی ماں کے حق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا کا محتاج تھا، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تمہارے ساتھ تمہاری ماں پر بھی سلامتی ہو کہ اللہ اس کو عقل کی دولت سے نوازے اور نادانی کے فتنہ سے محفوظ رکھے۔

 

                   لگاتار تین بار سے زائد چھینکنے والے کو جواب دینا ضروری نہیں ہے

 

اور حضرت عبید بن رفاعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ چھینکنے والے کی لگاتار تین چھینک تک جواب دیا جائے اور اگر کوئی تین بار سے زائد چھینکے تو اس صورت میں اختیار ہے کہ چا ہے اس کو جواب دیا جائے اور چا ہے نہ دیا جائے اس روایت کو امام ابوداؤد اور ترمذی نے نقل کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم اپنے مسلمان بھائی کی چھینک کا تین بار تک جواب دو اگر وہ اس سے زائد چھینکے تو سمجھو کہ اس کو زکام ہو گیا ہے اس روایت کو ابوداؤد اور ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ میں جانتا ہوں کہ حضرت ابوہریرہ نے رضی اللہ عنہ اس حدیث کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچایا ہے۔

 

تشریح

 

امام ابوداؤد کی عبارت کا مطلب یہ ہے کہ یہ حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا اپنا قول نہیں ہے بلکہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے جس کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نقل کیا ہے اور اگر اس روایت کو حدیث موقوف یعنی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول کہا جائے تو بھی یہ روایت حدیث مرفوع یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد گرامی کے حکم میں ہو گی کیونکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تین کے عدد کا تعین شارع علیہ السلام سے سنے بغیر نہیں کر سکتے۔

 

                   چھینک آنے پر الحمد کے ساتھ صلوۃ و سلام کے الفاظ غیر مستحب ہے

 

اور حضرت نافع (تابعی) کہتے ہیں کہ ایک دن کا واقعہ ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے برابر بیٹھے ہوئے ایک شخص نے چھینکا اور پھر کہا الحمد للہ والسلام علی رسول اللہ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا کہ میں بھی کہتا ہوں الحمد للہ والسلام علی رسول اللہ، لیکن یوں ہے نہیں (یعنی نہ تو اس کا حکم دیا گیا اور نہ یہ مستحب اور آداب میں سے ہے کہ چھینک آنے پر الحمد للہ کے ساتھ سلام کے الفاظ ملائیں جائیں بلکہ اصل ادب اور حکم نبوی کے اتباع کا تقاضہ یہی ہے کہ چھینک آنے پر ہم بلا کسی کمی و زیادتی کے وہی کہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں سکھایا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم یوں کہیں الحمدللہ علی کل حال یعنی ہر حال میں خدا کی تعریف ہے۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

                    آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ہنسی

 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اتنا زیادہ ہنستے ہوئے کبھی نہیں دیکھا کہ آپ کا منہ کھل گیا ہو اور مجھے آپ کے تالو یا حلق کا کوا یا مسوڑھا نظر آیا ہو بلکہ اکثر و بیشتر آپ کا ہنسنا مسکرانے کی حد تک رہتا تھا۔ (بخاری)

 

 

٭٭اور حضرت جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہی کہ جب سے میں مسلمان ہوا ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی مجھ کو منع نہیں کیا کہ اور جب آپ مجھ کو دیکھتے مسکرا دیتے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

مجھ کو منع نہیں کیا  سے مراد یہ ہے کہ آپ نے کبھی بھی مجھ کو اپنے پاس آنے سے نہیں روکا میں جس وقت چاہتا آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتا چا ہے کوئی خصوصی مجلس ہی کیوں نہ ہوتی بشرطیکہ مردانہ مجلس ہوتی یا یہ مراد ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں نے آپ سے کوئی چیز مانگی ہو اور آپ نے اس کے دینے سے انکار کیا ہو میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے جب مانگا اور جو کچھ بھی مانگا وہ مجھ کو عطا ہوا۔

 

                   صحابہ کی زبان سے زمانہ جاہلیت کی باتیں سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا مسکرانا

 

اور حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا معمول تھا کہ آپ جس مصلے پر فجر کی نماز پڑھتے وہاں سے اس وقت تک نہیں اٹھتے تھے جب تک سورج اچھی طرح نہ نکل آتا جب سورج نکل آتا اور خاصا بلند ہو جاتا آپ اشراق کی نماز پڑھنے یا گھر میں تشریف لے جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے اس دوران صحابہ بطریق استہزاء مذمت زمانہ جاہلیت کی باتیں کرتے رہتے اور ہنسا کرتے ان کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بھی مسکراتے رہتے (مسلم) ترمذی کی روایات میں یوں ہے کہ اس دوران صحابہ کرام اشعار پڑھنے سننے میں لگے رہتے۔

 

تشریح

 

اشعار سے مراد وہ اشعار ہیں جو بیان توحید، منقبت رسالت اور ترغیب و ترہیب کے مضامین پر مشتمل ہوتے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زمانہ جاہلیت کی باتیں کرنا اور ان پر ہنسنا جائز ہے۔

 

                    آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بہت مسکراتے تھے

 

حضرت عبداللہ بن حارث بن جزء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے زیادہ کسی اور شخص کو مسکراتے نہیں دیکھا۔ (ترمذی)

 

                   صحابہ کے ہنسنے کا ذکر

 

حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ کیا رسول اللہ کے صحابہ ہنسا کرتے تھے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں، حالانکہ ان کے دلوں میں پہاڑ سے بھی بڑا ایمان تھا، اور حضرت بلال ابن سعد تابعی کہتے ہیں کہ میں نے صحابہ کو اس حال میں پایا کہ وہ دن میں تیر اندازی کی مشق کے وقت تیر کے نشانوں کے درمیان دوڑا کرتے تھے اور ایک دوسرے کی باتوں پر ہنسا کرتے تھے مگر جب رات آتی تو وہ اللہ سے بہت ڈرنے والے ہو جاتے۔ (شرح السنہ)

 

 

تشریح

 

حالانکہ ان کے دلوں میں پہاڑ سے بھی بڑا ایمان تھا  کے ذریعہ اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب ہنسنے مسکرانے کا موقع ہوتا تو وہ ہنسا کرتے تھے لیکن اس طرح نہیں ہنستے تھے جیسے اہل غفلت اور دنیا دار لوگ ہنستے ہیں کیوں کہ ایسی ہنسی جو حد سے بڑھی ہوئی ہو دل کو غافل کر دیتی ہے اور نور ایمان میں خلل ڈالتی ہے چنانچہ صحابہ ہنسنے کی حالت میں شرعی آداب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے تھے اور اپنے ایمان کو کامل درجہ پر باقی رکھتے تھے۔تو وہ اللہ سے بہت زیادہ ڈرنے والے ہو جاتے کا مطلب یہ ہے کہ جب رات آتی تو صحابہ دنیا کے سارے کام کاج اور آرام و اراحت چھوڑ کر خدا کی عبادت میں مشغول ہو جاتے اور خوف الٰہی کے غلبہ سے روتے گڑگڑاتے اور مناجات و التجا میں مصروف رہتے۔