FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

مشکوٰۃِ بخشش

(نعتیہ دیوان)

               ڈاکٹرمحمدحسین مُشاہدؔ رضوی

 

انتساب

اُن عاشقانِ رسول (ﷺ) اور مدحت نگارانِ مصطفی (ﷺ)

کے نام

جنھوں نے فروغِ نعت میں اپنا سب کچھ تج دیا

اور

آج بھی چمنستانِ نعت میں روز بہ روز نو بہ نو انداز میں

نعتِ پاک کے حسین اور خوب صورت گل بوٹے کھلا رہے ہیں

 ع     گر قبول افتد زہے عزّ و شرَف

 

سخن ہائے مُشاہدؔ

            ناچیز کو بچپن ہی سے پڑھنے لکھنے کا بے حد شوق ہے۔  جماعت دہم سے مَیں نے نعت گوئی کے ذریعہ اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا،  جس کا اظہار قدرے تفصیل کے ساتھ راقم نے اپنے اوّلین نعتیہ دیوان’’ لمعاتِ بخشش ‘‘ کے سر نوشت میں کیا ہے۔ اللہ کریم جل شانہٗ اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضل و کرم اورساداتِ مارہرہ مطہرہ کی روحانی و عرفانی نوازشوں اور قدر داں حضرات کی پیہم پذیرائی کے زیرِ سایا میرا تصنیفی و تالیفی سفر مسلسل جاری و ساری ہے۔  ویسے شاعری سے زیادہ مَیں نے نثر کی طرف توجہ مرکوز رکھی۔ اور روزانہ کچھ نہ کچھ لکھتے رہنے کا سلسلہ جاری رکھا۔  یہی وجہ ہے کہ ۲۰۰۳ء میں UGCکے مشکل ترین امتحان NETمیں پہلی ہی شرکت میں تمغۂ کام یابی نصیب ہوا۔  شاعری سے زیادہ نثر نگاری کی طرف مہمیز دینے میں میرے بزرگوں کی نصیحتیں شامل رہی ہیں۔

            اردو کے نمائندہ افسانہ نگار،  مشہور فکشن رائٹر حضور شرفِ ملّت سید محمد اشرف میاں قادری برکاتی مارہروی( انکم ٹیکس کمشنر،  دہلی ) نے ناچیز کے نام اپنے ایک کرامت نامے مرقومہ ۲۷؍ نومبر ۲۰۰۰ء میں یوں نصیحت فرمائی کہ  :

            ’’ آپ کی تحریری کاوشوں سے دل بہت خوش ہوا  …  اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ  …  مَیں عمر میں آپ سے بڑا ہوں اس لیے دل چاہتا ہے کہ آپ کو ایک بے مانگے کا مشورہ بھی دیتا چلوں۔  ہماری جماعت میں اچھی نثر لکھنے والے بہت کم ہیں۔  اس میدان میں ریاض جاری رکھیے۔  اگر کچھ لکھنے کو نہ ہو تب بھی روزانہ دو صفحات روزنامچے کی صورت لکھیے۔  کسی کتاب پر تبصرہ لکھیے۔  کوئی حکایت،  کوئی کہا نی لکھیے۔  کسی جلسے کی کارروائی لکھیے۔  کچھ نہیں تو اعزہ کو خط لکھیے۔  لیکن روزانہ دو صفحات ضرور لکھیے۔  ان شاء اللہ تعالیٰ کچھ ہی مہینوں میں قلم ایسا رواں ہو جائے گا کہ کسی بھی موضوع پر لکھنے میں ہچکچائیں گے نہیں۔  نثر لکھیے اور خوب لکھیے۔  درمیان کے تکان کے وقفوں کو شاعری سے پُر کر لیجیے۔ ‘‘

            اسی طرح ۱۳؍ مئی ۲۰۰۴ء کو اپنے ایک دوسرے شفقت نامے میں حضرت سید محمد اشرف میاں برکاتی مارہروی دام ظلہٗ العالی نے ناچیز کو شادی کی پیشگی مبارک باد( ۱۷؍ مئی ۲۰۰۴ء کو ناچیز کی رسمِ مناکحت ادا ہوئی) دیتے ہوئے دوبارہ اس طرح لکھا کہ  :

            ’’ نثر میں کچھ نہ کچھ لکھتے رہا کیجیے۔  اب تقریبات کا حال شروع سے آخر تک ایک رپورتاژ کی شکل میں،  جب بھی شادی کے بعد موقع ملے ضرور لکھیے گا۔  ‘‘

            حضور شرف ملت سید محمد اشرف میاں برکاتی دام ظلہ کے ان ہی نصیحت آمیز کلمات کی وجہ سے نظم کی بہ نسبت نثر میں دل چسپی بڑھتی گئی۔ دینی و علمی،  ادبی و تعلیمی اور اصلاحی و دیگر موضوعات پر درجنوں مضامین و مقالات ناچیز نے لکھے جو ملک و بیرونِ ملک کے نمائندہ اخبارات و رسائل اور ماہ ناموں کی زینت بنتے رہے،  نیز حضور مفتیِ اعظم قدس سرہٗ کی نعتیہ شاعری پر Ph.D کا میرا دیرینہ خواب بھی شرمندۂ تعبیر ہو گیا جو نثر ہی سے تعلق رکھتا ہے۔  جولائی ۲۰۰۸ء میں محترمہ ڈاکٹر شرف النہار صاحبہ (صدر شعبۂ اردو ڈاکٹر رفیق زکریا ویمن کالج،  اورنگ آباد) کی نگرانی میں ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونی ورسٹی سے رجسٹریشن ہوا اور اپریل ۲۰۱۱ء میں Ph.Dکی ڈگری تفویض ہوئی۔  وما توفیق الا باللہ۔

            جماعت دہم سے جذبۂ شوق نے سرکار ِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو نعتیں لکھوائی تھیں ان کا اچھا خاصا ذخیرہ جمع ہو گیا اور دورانِ پی ایچ ڈی فروری ۲۰۰۹ء میں میرا اوّلین نعتیہ دیوان ’’ لمعاتِ بخشش‘‘ منظرِ عام پر آیا۔  اہلِ علم و دانش اور اصحابِ نقد و نظر نے میری نعت گوئی اور فکر و فن پر اپنے گراں قدر تاثرات سے نوازا اور دل کھول کر خوبیوں اور خامیوں دونوں کی نشان دہی فرما کر میرے حوصلوں کو جِلا بخشی۔ جن میں دنیائے اردو ادب کی قد آور شخصیات سلیم شہزاد،  سلطان سبحانی،  پروفیسر شکیل الرحمان باباسائیں،  پروفیسرشمس الرحمان فاروقی،  پروفیسر ساحل احمد،  علیم صبا نوید ی، ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی،  ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط،  ناوک حمزہ پوری،  سیفی سرونجی،  بیکل اتساہی،  عبدالاحد ساز،  شبیر آصف وغیرہم شامل ہیں۔  یہی نہیں بل کہ شہزادۂ خاندانِ برکات حسان العصر حضورسید آلِ رسول حسنین میاں نظمی مارہروی نے ’’ لمعاتِ بخشش ‘‘ کی رونمائی پر منظوم دعائیہ تاثر سے نوازا،  جو میرے لیے اعزازِ خسروانہ سے کم نہیں۔

             پی ایچ ڈی کی ڈگری ملنے کے بعد حوصلہ افزائیوں کے جِلو میں دل شکنی کی حد تک ناقدری کا مظاہرہ بھی ناچیز کے ساتھ ہوا جس کا اس لیے کوئی قلق نہیں کہ امام احمد رضا محدثِ بریلوی اور مفتیِ اعظم علامہ مصطفی رضا نوریؔ بریلوی قدس سرہم کے پیر خانے دنیائے سنیت کے مرکزِ روحانیت مارہرہ مطہرہ سے ناچیز کو خوب خوب دعاؤں سے نوازا گیا اور مسلسل حوصلہ افزائی کی گئی جس کے نتیجے میں دیکھتے ہی دیکھتے میری کتابیں شائع ہو گئیں اور صرف سال ۲۰۱۱ ء میں ناچیز کی گیارہ کتابیں منظرِ عام پر آ گئیں۔  ۲۰۱۱ء میں شائع شدہ گیارہ کتابوں میں – ’’ درمیان کے تکان کے وقفوں کو شاعری سے پُر کرتے ہوئے۔  ‘‘ اردو کی ایک دل چسپ اور غیر معروف صنعت ’’ صنعتِ تشطیر‘‘ پر مشتمل ایک شعری مجموعہ ’’ تشطیراتِ بخشش‘‘ منصۂ شہود پر جلوہ گر ہو گیا۔  جسے مذکورہ صنعت پر مبنی شہرِ ادب مالیگاؤں کے پہلے شعری مجموعے کا اعزا ز حاصل ہوا۔

            اہل علم جانتے ہیں کہ حکومتی ملازمت سے منسلک رہنے والوں کے پاس سب سے زیادہ جس چیز کی کمی ہوتی ہے وہ ہے وقت۔  ناچیز بھی ضلع پریشد کی ایک اسکول میں گذشتہ ۹؍ سال سے درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہے۔  راقم کی اسکول فل ٹائم ہے قارئین سمجھ سکتے ہیں کہ میرے پاس کتنا وقت بچتا ہو گا۔  خیر یہ تو اللہ اور اس کے رسول( جل و علا و صلی اللہ علیہ وسلم) کا بے پایاں فضل و کرم ہے کہ وہ مجھ جیسے کم علم سے کچھ کام لے رہے ہیں،  ورنہ من آنم کہ من دانم۔ مجھے اس امر کی بے انتہا خوشی ہے کہ مَیں نے اپنے وقت کا غلط استعمال نہیں کیا ہے۔

            جملۂ معترضہ کے طور پر چند بے ربط باتیں درمیان میں آ گئیں۔  بہ ہر کیف! نثر نگاری کے ساتھ شاعری یعنی نعت گوئی بھی جاری رہی۔  لیکن سچ تو یہ ہے کہ نعتیں لکھی نہیں گئیں بل کہ لکھوائی گئی ہیں۔  مجھے بڑی مسرت ہو رہی ہے کہ آپ کے ہاتھوں میں ناچیز کی ۳۶؍ویں پیش کش،  تیسرا شعری مجموعہ اور دوسرا نعتیہ دیوان ’’ مشکوٰۃِ بخشش‘‘ ہے۔ اس مجموعہ میں نعتوں کے علاوہ قطعات،  مناقب،  قصائد اور چند آزاد منظومات شامل ہیں۔  مجھے تسلیم ہے کہ میرا کلام فنّی اسقام سے مبرا نہیں ہو گا۔  اصحابِ نقد و نظر سے ملتمس ہوں کہ تنقید برائے اصلاح سے کام لے کر حوصلہ افزائی فرمائیں۔  معلوم ہونا چاہیے کہ ناچیز کی دوسری شعری تصنیف ’’تشطیراتِ بخشش‘‘ کے بارے میں بعض علما و ناقدین نے صنعتِ تشطیر پر مشتمل نعتیہ ادب میں ایک بہترین اور اولین کاوشات میں سے شمار کیا ہے۔

            دعا گو ہوں کہ اللہ عزوجل اس نعتیہ دیوان کو میرے اور میرے والدین اور جملہ اہلِ خانہ کے لیے توشۂ نجات بنائے ( آمین بجاہ الحبیب الامین صلی اللہ علیہ و آلہ و بارک وسلم)

                                                                        محمد حسین مُشاہدؔ رضوی،

۲۲؍ ذی الحجہ ۱۴۳۲ھ یوم ولادت حضور مفتیِ اعظم          سروے نمبر ۳۹،  پلاٹ نمبر ۱۴ نیااسلام پورہ،  مالیگاؤں

۱۹؍ نومبر ۲۰۱۱ء بروز سنیچر                 ( ضلع ناسک )Cell # 09420230235

٭٭٭

 

مشکوٰۃ بخشش۔  اردو کے نعتیہ ادب میں عمدہ اضافہ

               تحریر: سہیل احمد صدیقی

            مشکوٰۃ بخشش،  مشاہد رَضوی کا دوسرا نعتیہ مجموعہ کلام ہے،  اس سے قبل،  انہیں ’’لمعاتِ بخشش‘‘ کی شکل میں ابتدا کی سعادت نصیب ہوئی۔ ’’ صنعتِ تشطیر‘‘ پر مشتمل ایک شعری مجموعہ ’’ تشطیراتِ بخشش‘‘  اور گزشتہ سال لگاتار گیارہ کتب کی اشاعت نے بھی انہیں ممتاز کر دیا ہے۔ ہم یہاں اُن کے اس کارنامے پر تفصیلی گفتگو سے قاصر ہیں جو اُنہوں نے ادب ِ اطفال کے لیے تحریکی انداز میں انجام دیا،  نیز امہات المؤمنین اور مشاہیر صحابہ کرام(رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے متعلق تصنیف و تالیف اس پر مستزاد…….سر دست،  اُن کے تازہ نعتیہ گلدستے پر کچھ خامہ فرسائی کی جا رہی ہے۔

            ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رَضوی عہد جدید کے اُن منفرد اہل قلم میں شامل ہیں جن کا خامہ کبھی تھکتا دکھائی نہیں دیتا،  خصوصاً جس طرح انہوں نے خود کو حمد و ثنائے کبریا و مدحت مصطفیٰ (ﷺ) میں مشغول اور مخصوص کیا ہے،  وہ یقیناً لائق ستائش و قابل تقلید ہے۔ ہم اکثر رسماً کہا کرتے ہیں :   ؎

 ایں سعادت بزور بازو نیست…….یا۔     ؎

 اللہ اگر توفیق نہ دے،  انسان کے بس کی بات نہیں،

             مگر یہ حقیقت مسلّم ہے کہ جب حمد و نعت کی بات ہو گی تو ہر کس و ناکس کے لیے محض طبع آزمائی بربنائے خوش طبعی،  ممکن نا ہو گی۔ ہمارے بزرگوں میں اعلیٰ حضرت احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ جیسی نابغہ شخصیات کا ہونا،  یقیناً باعث فخر ہے کہ نا صرف اعلیٰ پائے کے نعت گو تھے،  پابند شریعت تھے،  ذی علم سخن ور تھے،  بلکہ بیک وقت متعدد علوم و فنون پر حاوی تھے۔  آج ایسے سائنس داں کی تلاش بھی کی جاتی ہے کہ اُ ن کے محض سائنسی کارنامو ں کا ہی پورا احاطہ کرتے ہوئے وہ سارا علم اردو،  انگریزی اور دیگر زبانوں میں منتقل کرے…….مگر،  محض یہ حسرت و تأسف کافی نہیں،  ہمیں کم از کم اُ ن کے علمی سرمائے سے اکتساب کی ایسی سعی تو کرنی لازم ہے کہ جیسے عطر فروش کی دکان سے کچھ عطر،  مفت ہی سہی،  بطور نمونہ لے کر اپنے بدن سے مَس کر لیں۔ اس تمہید کے پیش نظر،  برادرم مشاہد رَضوی کا نعت گوئی میں انہیں ’مثال‘(Ideal) بنانا اور حتیٰ المقدور،  اُ ن کی اتباع کرنا،  خصوصاً،  قرآنی آیات اور احادیث سے خوشہ چینی کی ’’سنتِ رَضوی‘‘ پر عمل،  خود مشاہد کو دوسرے نعت گو شعرائے عصر کے لیے مثال بناتا ہے۔

            مشکوٰۃ بخشش کی ابتدا میں حمدیہ کلام دیا گیا ہے۔  مشاہد اس ضمن میں بہت محتاط ہیں،  لہٰذا انہوں نے ذات باری تعالیٰ کے لیے توصیفی الفاظ بھی کہیں اور سے چننے کی بجائے،  اسماء الحسنیٰ سے انتخاب کیے ہیں۔  اچھی کاوش ہے،  اس سے قبل،  اُن کے کئی معاصر،  بشمول یہ خاکسار،  یہ سعی کر چکے ہیں …….اس طرح شاعر کی کسی ناموزوں عبارت سے ممکنہ طور پر حفاظت بھی ہوتی ہے اور خالق کے اپنے الفاظ ہی میں اُس کی حمد و ثنا کرنے سے ثواب کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے کہ

شعر بھی ہو گیا،  وِرد بھی ہو گیا،  بات بھی بن گئی،  کام بھی ہو گیا!

            ایک سرسری نظر کلام مشاہد پر ڈالیں تو اندازہ ہو گا کہ انہوں نے جہاں بَرتی ہوئی ردیفوں پر طبع آزمائی کی،  مشاہیر کے پہلے سے نظم کردہ،  خیالات کی نئی بندش لائے،  وہیں بعض جگہ انہوں نے مضمون آفرینی کی کوشش بھی کی۔ عقیدت سے مملو کلام میں صنائع و بدائع کی تلاش یقیناً  کوئی اہل نظر،  ذی علم سخن ور کر سکتا ہے،  لیکن ان کا اکثر نعتیہ کلام،  کسی قسم کی دقیق نکتہ سنجی سے بے نیاز ہے۔ چند نمونے دیکھیے:

جدھر سے گذرے وہ جانِ بہار کیا کہنا

مہک مہک اٹھی وہ رہ گزار کیا کہنا

دلِ حزیں مرا کھل جائے بن کے باغ و بہار

جو دیکھوں کوئے نبی خلد زار کیا کہنا

            ان اشعار میں شعریت بھی ہے،  عقیدت بھی اور کہیں غلو کا احتمال نہیں۔

            کہیں وہ معجزات سے خوشہ چینی کرتے ہیں :

بس ایک پیالہ سے ستّر کو کر دیا سیراب

کہ مصطفی (ﷺ) ہیں وہ با اختیار کیا کہنا

            تو کہیں حدیث کی مدد سے صحیح عقیدے اور عقیدت کا امتزاج ایسے پیش کرتے ہیں کہ قاری و سامع جھوم اٹھیں :

خدا نے اُن کو بنایا ہے قاسمِ نعمت

ہے اُن کے صدقے مرا روزگار کیا کہنا

            جب وہ یہ کہتے ہیں کہ حضور پُر نور علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کے روضے کی زیارت میری منزل ہے تو وہ یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ شوق ہی امام اور رہنما بھی بنتا ہے:

منزل مرے قدموں میں، خود آپ سمٹ آئے

جب دل میں چلوں لے کر،  مَیں شوق زیارت کا

            اور یہ دیکھیے کہ اس شعر میں کلاسیکی شعرا کا سا انداز نظر آتا ہے، جب کہ عقیدت بھی اپنی جگہ موجزن ہے:

خالق نے ازل ہی سے،  سرکارِ مدینہ کو

مختار بنایا ہے،  مَے خانۂ وحدت کا

            جب وہ جدت طراز ی کا قصد کرتے ہیں تو ایسی ردیف میں نعت کہتے ہیں کہ نظیر کم کم ملے….یہ پوری نعت اس امر کی مقتضی ہے کہ اس پر کوئی دیانت دار ناقد کچھ لکھے:

نوکِ خامہ نے کھلائے جب کہ مدحت کے گلاب

کھل اُٹھے بزمِ الم میں تب مَسرّت کے گلاب

آپ آئے تو صنم خانوں میں آیا زلزلہ

ہو گئے خوشبو بداماں ہر سو وحدت کے گلاب

دشتِ ویراں کی طرح ہو قبر اُن کی خار زار

ہوں نہ جن کے دل میں شاہِ دیں کی عظمت کے گلاب

سرخروئی دونوں عالم کی اگر مقصود ہے

زیست کے حاصل بنیں آقا کی سیرت کے گلاب

نعت لکھنا ہے مُشاہدؔ،  تو رہے پیشِ نظر

عشق و الفت کے کنول،  حُسنِ شریعت کے گلاب

            کہیے،  عقیدت اور عقیدے کا درست امتزاج و عکاسی نظر آتی ہے کہ نہیں ……ہمیں اُن معترضین سے کچھ لینا دینا نہیں جو اپنی تبلیغ کا آغاز ہی اس مکروہ و شنیع فعل سے کرتے ہیں کہ ’’رسول (ﷺ) کو یہ علم نہ تھا،  انہیں وہ پتہ نہ تھا……وہ ہمارے جیسے عام انسان تھے،  ان کا کام توبس ڈاکیے والا تھا …… معاذاللہ!۔ ۔ جہاں عقیدت کی جگہ تنقیص لے لے،  وہاں ایمان کہاں باقی رہا؟؟؟……بات کی بات ہے کہ آج کا عام سائنس داں نہیں،  بلکہ سائنس کا طالب علم بھی اس قابل ہے کہ منکرین رسالت کے جدید معترضین کے احمقانہ اعتراضات کا علمی اور سائنسی انداز میں جواب دے سکے۔  جب اللہ توفیق دے تو وہ اس ذریعے سے بھی ہدایت حاصل کر سکتے ہیں،  ورنہ،  وحی میں بھی اپنے مطلب کی بات ڈھونڈنے کا شیطانی فعل تو بہت ہوا اور اس سے شان مصطفوی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

            غالبؔ  جیسے یکتائے روزگار سخن ور نے تو یہ کہہ کر اپنی عاجزی ظاہر کر دی تھی کہ ہم نے اس عظیم ہستی کی ثنا کا معاملہ،  خدائے بزرگ و برتر پر چھوڑا جو اُن کی صحیح مرتبہ شناس ہے:

غالب ثنائے خواجہ(ﷺ) بہ یزداں گزاشتیم

کاں ذات ِ پاک مرتبہ دان  ِ محمد (ﷺ) است

            مگر مشاہد نے یہ کہہ کر عقیدت نگاری کا صحیح نمونہ رقم کیا ہے:

قلم میں تاب کیا جو لکھ سکوں سرکار کی مدحت

  بہ فضلِ رب زباں پر ہے شہِ ابرار کی مدحت

            ایک جدید فتنہ انگیز عورت نے اپنے ایک خطاب میں دریدہ دہنی کی یہ جسارت کی تھی کہ اردو کی پوری نعتیہ شاعری کیا ہے،  حضور (ﷺ) کے بال کیسے تھے،  گال کیسے تھے،  معاذاللہ!  …..جواب دینے والوں نے جواب بھی دیا اور اُس کے اندھے عقیدت مند،  اُسے پاکستان کے سب سے بڑے نجی ٹیلی وژن چینل پر عالمہ بنا کر بھی لے آئے،  مگر مشاہد بھی بحمد اللہ،  ہر راسخ العقیدہ مسلمان کی طرح،   یہ کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں :

جہانِ فکر و فن اُن کا نکھر جائے سنور جائے

کہ جو کرتے ہیں ان کی زلفِ خوشبو دار کی مدحت

            شعری صنائع پر لکھنا میرا منصب نہیں،  نہ ہی میں اس مرتبہ بعض دیگر کتب کی طرح کلام مشاہد میں صنائع کی طرف اشارہ کروں گا،  مگر یہ ضرور کہوں گا کہ میرے قابل احترام دوست اپنی کتاب کی بصد احتیاط،  متن خوانی(Proofreading)اور نظر ثانی ضرور کرا لیں۔ بعض جگہ ایسی اغلاط راہ پا گئی ہیں کہ جن سے مطلب خبط ہوتا ہے،  کئی مقامات پر انہوں نے شعوری طور پر،  مشہور و معروف اسما اور اصطلاحات کے لیے مختلف،  شاید جدید،  املا استعمال کر کے مجھ ایسے ’’کہنہ پسند‘‘ کو چونکا دیا ہے اور محض ایک نعت کا حوالہ دے کر بات مختصر کروں گا:

ترے قلم کو مُشاہدؔ مَیں چوم لوں بڑھ کر

کہ لکھ رہا ہے وہ مدحت محبتوں کے ساتھ

            اس نعت کی ردیف پر مجھے اعتراض ہے۔  مشاہد رضوی،  اہل زبان ہیں تو انہیں چاہیے کہ چالو زبان کا استعمال،  وہاں نہ کریں کہ سند بن جائے۔ محبت کی جمع بنانا اور پھر محبت سے کی بجائے محبت کے ساتھ ….. ایں چہ بوالعجبیست!

            مجموعی طور پر مشکوٰۃ بخشش،  یقیناً اردو کے نعتیہ ادب میں عمدہ اضافہ ہے اور اس پر تنقید نگاری کے لیے اہل سخنور،  نعت گو شعرائے کرام کو صلائے عام ہے۔ رب ذوالجلال میرے اس معاصر خورد کو دارین کی سرخروئی اور مسرت و شادمانی، نیز علم میں اضافہ عطا کرے۔ آمین بجاہ النبی الامین (ﷺ)

                                                            س ا ص/۳۔ ۱۰۔ ۲۰۱۲ء

٭٭٭

 

حمدِ باریِ تعالیٰ

اَلْحَمْدُ لِلمُتَوَ حِّدٖ
بِجَلَالِہِ الْمُتَفَرِّدٖ
وَصَلَاتُہٗ دَوْمًا عَلٰی
خَیْرِ الْاَنَامِ مُحَمَّدٖ

                                                (کلام: امام احمد رضا بریلوی )

                                    اُس خدائے یکتا کی حمد و ثنا

                                    جو اپنے جلال میں یکتا و یگانہ ہے

                                    تمام مخلوق میں سب سے اعلیٰ انسان محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)

                                    پر خدا کی رحمت ہمیشہ ہمیش نازل ہوتی رہے۔

 

حمدِ باریِ تعالیٰ

تری ذات سب سے عظیم ہے تری شان جل جلالہٗ

تو ہر اک سے بڑھ کے کریم ہے تری شان جل جلالہٗ

تو قدیر ہے تو بصیر ہے،  تو نصیر ہے تو کبیر ہے

تو خبیر ہے تو علیم ہے تری شان جل جلالہٗ

تو غفور بھی تو شکور بھی،  تو ہی نور بھی تو صبور بھی

تو حفیظ ہے تو حلیم ہے تری شان جل جلالہٗ

تو مقیت بھی تو فرید بھی،  تو ممیت بھی تو وحید بھی

نہیں کوئی تیرا سہیم ہے تری شان جل جلالہٗ

تو حسیب ہے تو رقیب ہے،  تو مجیب ہے تو حبیب ہے

تو روف بھی تو رحیم ہے تری شان جل جلالہٗ

تو شہید بھی تو رشید بھی،  تو مجید بھی تو مُعید بھی

تو حمید ہے تو حکیم ہے تری شان جل جلالہٗ

تو ہے منتقم تو وکیل بھی،  تو ہے مقتدر تو کفیل بھی

تو ہی نعمتوں کا قسیم ہے تری شان جل جلالہٗ

ترے دم سے باغ و بہار ہے،  کہ تجھی سے ہر سو نکھار ہے

تو گلوں میں وجہِ شمیم ہے تری شان جل جلالہٗ

مِلا حمد و نعت کا شوق جو،  یہ مُشاہدِؔ خطاکار کو

یہ ترا ہی فضلِ عمیم ہے تری شان جل جلالہٗ

٭٭٭

 

مدحتیں

 

نویدِ عیسیٰ دعائے خلیل ہیں آقا

حبیبِ اعظمِ ربِّ جلیل ہیں آقا

ہر ایک شَے کے لیے آپ بے گماں رحمت

کہ عاصیوں کے یقیناً وکیل ہیں آقا

ہمارا ایماں ہے ابوینِ شہ کے ایماں پر

ہر اک اصیل کے بے شک اصیل ہیں آقا

نہ اُن سا کوئی بنایا ہے دستِ قدرت نے

خدا کی خلق میں وہ بے مثیل ہیں آقا

قسیمِ نعمتِ ربِّ جہاں وہی تو ہیں

زمانے بھر کے مُشاہدؔ کفیل ہیں آقا

٭٭٭

 

اِس دل کی سیاہی کو سرکار مٹا دینا

انوارِ محبت سے پُر نور بنا دینا

پژمردہ طبیعت کو سرکار کھِلا دینا

دربارِ مقدس کا دیدار کرا دینا

دنیا کی محبت سے سرکار چھڑا دینا

بس اپنی عقیدت ہی اِس دل میں بسا دینا

طائف میں ہُوا کیا کیا ہو کیسے بیاں ؟ لیکن

سرکار کا دیکھیں تو ایسوں کو دُعا دینا

لب پر مرے نعتیں ہوں،  نظروں میں مدینہ ہو

اس وقت مرے مولا! تُو مجھ کو قضا دینا

مَیں نعت کے سارے ہی آداب بجا لاؤں

حسّان کے صدقے میں مدحت وہ سکھا دینا

کہتا ہے مُشاہدؔ یہ نوریؔ کے وسیلے سے

’’ہر داغ مٹا دینا اور دل کی دوا دینا‘‘

٭٭٭

 

شہِ کوثر کا بٹتا ہے جہاں میں ہر طرف باڑا

جو اُن سے دور ہو گا وہ رہے گا ہر جگہ تنہا

ہر اک دھڑکن یہ کہتی ہے دکھا دے یا خدا طیبہ

سیاہی دل کی دھل جائے جو دیکھوں گنبدِ خضرا

جہاں میں چار جانب نفرتوں کا بول بالا تھا

محبت کا مروّت کا اخوت کا کیا چرچا

کہ باندھا پیٹ پر پتھر چٹائی کا رہا بستر

دیا ہے سادگی کا درس ہم کو آپ نے ایسا

یتیموں،  بے کسوں،  بیواؤں،  مظلوموں کو آقا نے

عطا کی عزّتیں،  جینے کا اُن کو حوصلہ بخشا

بنایا پیکرِ بے مثل اپنے چار یاروں کو

صداقت کا،  عدالت کا،  سخاوت کا،  شجاعت کا

مُشاہدؔ کچھ نہ تھا اوقات بھی رکھتا نہیں تھا کچھ

کرم سے آپ کے کہلا رہا ہے نعت گو شاہا

٭٭٭

 

سوچو تو کیسا اعلا ہے رتبہ حضور کا

عرشِ بریں نے چوما ہے تلوا حضور کا

قرآن میں ہے رفعتِ خیرالبشر رَقَم

ادراک سے بھی دور ہے رُتبہ حضور کا

مدحت کا حق ادا ہو یہ ممکن نہیں کبھی

اللہ جب ہے واصف و شیدا حضور کا

طیبا میں ہو رہی جوہے برسات نور کی

مرکز تجلّیوں کا ہے روضہ حضور کا

پُشتوں تلک مہک نہ گئی عرقِ پاک کی

خوش بُو کا وہ خزینہ پسینہ حضور کا

طرزِ حیات کی نہیں تمثیل دہر میں

سب سے بلند و بالا سلیقہ حضور کا

فضلِ خدا سے ہے یہ مُشاہدؔ ہمیں یقیں

دیکھیں گے ہم ضرور مدینہ حضور کا

٭٭٭

 

بن جائے گا خادم جو اک بار شہِ دیں کا

دامن نہ وہ چھوڑے گا زنہار شہِ دیں کا

اے چارہ گرو! تم سے دنیا میں کسی صورت

اچھا نہ کبھی ہو گا بیمار شہِ دیں کا

کیوں دل میں کرے خواہش وہ اور کسی شَے کی

ہو جائے جسے حاصل دیدار شہِ دیں کا

کوشش تو کی لوگوں نے جاں توڑ مگر پھر بھی

حل کر نہ سکا کوئی اَسرار شہِ دیں کا

پہلے کی طرح قدسی پھر رشک کریں تجھ پر

اپنا لے اگر انساں اَطوار شہِ دیں کا

پامال خزاؤں سے ہو گا نہ قیامت تک

شاداب ازل سے ہے گل زار شہ دیں کا

اللہ بھلا دوں مَیں ہر شَے کی محبت کو

جائے نہ مگر دل سے اِک پیار شہِ دیں کا

کرتا ہوں مُشاہدؔ مَیں دن رات دعا رب سے

دکھلا دے مجھے روضہ اِک بار شہِ دیں کا

٭٭٭

 

فضا ہوئی ہے بڑی خوش گوار کیا کہنا

ہے لب پہ مدحِ شہِ ذی وقار کیا کہنا

جدھر سے گذرے وہ جانِ بہار کیا کہنا

مہک مہک اٹھی وہ رہ گزار کیا کہنا

دلِ حزیں مرا کھل جائے بن کے باغ و بہار

جو دیکھوں کوئے نبی خلد زار کیا کہنا

کرم سے اُن کے تصور میں آ گیا طیبا

قرار پا گئے یوں بے قرار کیا کہنا

بس ایک پیالہ سے ستّر کو کر دیا سیراب

کہ مصطفی ہیں وہ با اختیار کیا کہنا

خدا نے اُن کو بنایا ہے قاسمِ نعمت

ہے اُن کے صدقے مرا روزگار کیا کہنا

لحد بنے گی مُشاہدؔ کی مسکنِ انوار

کہ آئیں گے مرے وہ غم گسار کیا کہنا

٭٭٭

 

جو نعتِ نبی گنگناتا رہے گا

تو پھر اس کو غم کیوں ستاتا رہے گا

وہ جنت میں اک گھر بناتا رہے گا

جو جاں اپنی اُن پر لٹاتا رہے گا

جو یادیں نبی کی بساتا رہے گا

کنول اپنے دل کے کھلاتا رہے گا

جو سنّت کو ہر دم نبھاتا رہے گا

خدا اس کا رتبہ بڑھاتا رہے گا

جو رہبر رضاؔ کو بناتا رہے گا

مُشاہدؔ تُو نعتیں سناتا رہے گا

جو دل سے کرتا ہے اظہار اُن کی عظمت کا

بنے گا دیکھنا حق دار وہ تو جنت کا

حرا کے چاند کی نوری کرن سے عالم میں

کہیں نظر نہیں آتا نشان ظلمت کا

یہ کہکشاں یہ ستارے یہ چاند یہ سورج

بلا شبہ ہے یہ صدقہ اُنھیں کی رحمت کا

کوئی گھٹا نہیں سکتا نبی کے رُتبے کو

بیان آیا ہے قرآں میں اُن کی رفعت کا

کہاں قلم میں مُشاہدؔ کے تاب مدحت کی

جو نعت لکھتا ہے صدقہ ہے شاہِ برکت کا

٭٭٭

 

پوشیدہ نہیں آپ سے جو حال ہے امت کا

سیلاب سا امڈا ہے باطل کی عداوت کا

توحید کی دنیا میں پھیلے گی ضیا ہر سو

فاران سے ابھرا ہے خورشید رسالت کا

پھر آج ضرورت ہے فاروق کی خالد کی

دنیا ہے پھر بدلا انداز قیامت کا

پھر دامنِ رحمت میں خود آپ سمٹ آئے

جینے ہی نہیں دیتا احساس ندامت کا

اب گنبدِ خضرا کا منظر ہے نگاہوں میں

یا میرے تصور میں نظّارا ہے جنت کا

منزل مرے قدموں میں خود آپ سمٹ آئے

جب دل میں چلوں لے کر مَیں شوق زیارت کا

خالق نے ازل ہی سے سرکارِ مدینہ کو

مختار بنایا ہے مَے خانۂ وحدت کا

جب نام شہِ دیں کا سنتا ہوں سرِ محفل

جھک جاتا ہے سر میرے جذبات و عقیدت کا

مسرور نہ ہوں کیوں کر وہ اپنے مقدّر پر

حاصل ہے شَرَف جن کو سرکار کی مدحت کا

کیوں ڈر ہو مُشاہدؔ کو میزان و سرِ پُل پر

ہر شعر میں ہے میرے انداز عبادت کا

٭٭٭

 

مرے قلم کا تو دیکھیں چمک اُٹھا ہے نصیب

جو نعت لکھنے کا فن اُس کو ہو گیا ہے نصیب

مَیں اُس کی پیاری نگاہوں کو چوم لوں بڑھ کر

جسے زیارتِ در کا شَرَف ہُوا ہے نصیب

جسے جگہ ملے طیبا میں دفن ہونے کی

ہر ایک انساں سے بڑھ کر اُسے مِلا ہے نصیب

درِ رسول پہ جانے کی آس ہو پوری

چمک اُٹھے مرے مولا! بجھا بجھا ہے نصیب

اے کاش! خواب میں آقا کبھی یہ فرما دیں

مرے غلاموں میں تیرا بھی ہو گیا ہے نصیب

وہ جس کے دل میں محبت نہ ہو شہِ دیں کی

یقین جانو کہ اُس کا بڑا بُرا ہے نصیب

نہ کیوں ہو نازاں مُشاہدؔ نصیب پر اپنے

کہ اُن کی مدحتیں لکھنا مرا بنا ہے نصیب

٭٭٭٭

 

نوکِ خامہ نے کھلائے جب کہ مدحت کے گلاب

کھل اُٹھے بزمِ الم میں تب مَسرّت کے گلاب

آپ آئے تو صنم خانوں میں آیا زلزلہ

ہو گئے خوشبو بداماں ہر سو وحدت کے گلاب

دشتِ ویراں کی طرح ہو قبر اُن کی خار زار

ہوں نہ جن کے دل میں شاہِ دیں کی عظمت کے گلاب

سرخ روئی دونوں عالم کی اگر مقصود ہے

زیست کے حاصل بنیں آقا کی سیرت کے گلاب

نعت لکھنا ہے مُشاہدؔ،  تو رہے پیشِ نظر

عشق و الفت کے کنول،  حُسنِ شریعت کے گلاب

٭٭٭

 

دیکھوں جو کبھی خواب میں سرکار کی صورت

دل میرا چمک اُٹّھے گا انوار کی صورت

وحشت بھی تھی نفرت بھی تھی ذہنوں میں ہر اک سمت

آقا نے نکالی حسیٖں کردار کی صورت

توحید کے انوار لیے آئے شہِ دیں

عالم میں بنے رحمتِ غفّار کی صورت

بس ایک تصور سے فقط شاہِ دنا کے

سب مٹ گئی اندوہِ گراں بار کی صورت

وہ جس میں ہوئے جلوہ فگن سیدِ عالم

میں دیکھ لوں اک بار اسی غار کی صورت

میں سانس بھی لوں تیز تو یہ بے ادبی ہے

کس طرح نکالوں یہاں اظہار کی صورت

یا ربِّ جہاں کلکِ مُشاہدؔ سے ہمیشہ

کھلتی ہی رہے نعت کے گل زار کی صورت

٭٭٭

 

قلم میں تاب کیا جو لکھ سکوں سرکار کی مدحت

بہ فضلِ رب زباں پر ہے شہِ ابرار کی مدحت

جہانِ فکر و فن اُن کا نکھر جائے سنور جائے

کہ جو کرتے ہیں ان کی زلفِ خوشبو دار کی مدحت

دلِ ظلمت زَدا میں نور کا سیلِ رواں اُترے

زباں کرنے لگے جب چہرۂ انوار کی مدحت

لحد اُن کی معطر ہو،  معنبر ہو،  منور ہو

کہ جو کرتے رہیں خوشبوئے  تنِ سرکار کی مدحت

مُشاہدؔ اِک نہ اِک دن روضۂ سرکار دیکھے گا

کیے جا ہر نفَس اُمّت کے اُس غم خوار کی مدحت

٭٭٭

 

خدا رکھتا ہے ہر لمحہ اسی انسان سے رغبت

ہے جس کو شاہِ دیں صلِّ علا ذی شان سے رغبت

نہ وہ منزل کو بل کہ خود ہی منزل اُن کو ڈھونڈے گی

رہے پختہ دلِ مسلم میں گر قرآن سے رغبت

مقدر ذلّت و خواری ہمارا بن نہیں پاتا

جو رہتی دل میں شاہِ دین کے فرمان سے رغبت

نبیِ پاک کے دشمن سے وہ رشتہ نہیں رکھتے

ہے ذرّہ بھر بھی جس انسان کو ایمان سے رغبت

مُشاہدؔ خستہ جاں کی ہے دُعا ربِّ جہاں تجھ سے

رہے قائم ہمیشہ اُسوۂ حسّان سے رغبت

٭٭

 

لکھا جو شعرِ عقیدت بڑی محبت سے

برس برس اٹھی رحمت بڑی محبت سے

صریرِ خامہ نوائے سروش بن جائے

کہ جب رقَم کرے مدحت بڑی محبت سے

بنے گا توشۂ بخشش یہ فکر و فن میرا

کریں گے آقا شفاعت بڑی محبت سے

جہاں میں امن کی بادِ بہار چلنے لگے

بنیں جو عاملِ سیرت بڑی محبت سے

مکاں سے لامکاں ان کی رسائی کیا کہنا

عطا کی رب نے یہ رفعت بڑی محبت سے

حرا کے چاند کی نوری کرن سے عالم میں

شکست کھا گئی ظلمت بڑی محبت سے

ترے قلم کو مُشاہدؔ مَیں چوم لوں بڑھ کر

کہ لکھ رہا ہے وہ مدحت بڑی محبت سے

٭٭٭

 

ذکرِ نبی سے دوری ہو یہ بات ہے عبث

بے عشق جو بسر ہو وہ حیات ہے عبث

جس دن دُرود نہ پڑھیں وہ دن فضول ہے

یادِ مدینہ آئے نہ وہ رات ہے عبث

ہم تو گدائے در ہیں ہمارے لیے سُنیں

لعل و جواہرات کی سوغات ہے عبث

وہ جس کے دل میں عظمتِ شاہِ رُسل نہیں

لاریب! اُس بشر کی ہر اک بات ہے عبث

جو لکھ سکے نہ نعت مُشاہدؔ کسی بھی طَور

فکرِ سخن وری میں وہی ذات ہے عبث

٭٭٭

 

سجے گا سر پہ انھیں کے شفاعتوں کا تاج

انھیں مِلا ہے یقینا وکالتوں کا تاج

بس اک چٹائی کا بستر،  شکم پہ ہے پتھر

نبی نے پہنا ہے کیسی قناعتوں کا تاج

زبان سارے فصیحوں کی ہو گئی گونگی

سجائے آئے جو آقا بلاغتوں کا تاج

کلیم طور پہ عرشِ عُلا سے آگے یہ

نبی کو زیبا ہے رب کی قرابتوں کا تاج

مہک مہک اُٹھے کوچے جدھر سے گذرے آپ

اُنھیں عطا ہوا ساری لطافتوں کا تاج

وہ صدق و عدل و سخا و وفا کے پیکر تھے

جنھیں بھی بخشا نبی نے خلافتوں کا تاج

رضاؔ کی نعتوں کو تُو رہنما بنائے رکھ

انھیں مِلا ہے مُشاہدؔ فصاحتوں کا تاج

٭٭٭

 

روضۂ پاک آرزوئے روح

نعتِ سرکار آبروئے روح

ارضِ طیبا پہ میرا دم نکلے

ہے یہی بالیقیں علوئے روح

خاکِ پائے نبی ملے مجھ کو

پوری ہو جائے جستجوئے روح

الفتِ شہ کی مَے سے دل ہو صاف

کہ اسی سے ملے وضوئے روح

نعت کا فن مِلا مُشاہدؔ کو

روز افزوں ہوئی ہے بوئے روح

٭٭٭

 

اُن کی مدحت کی طرف جب سے ہوا ہے میرا رُخ

روز افزوں ہے عنایاتِ خداوندی کا رُخ

کچھ نہ دے گی تجھ کو دنیا کی محبت دیکھنا

نوجواں کر اُن کی الفت کی طرف تو اپنا رُخ

ایک اک موئے بدن پُر نور ہو جائے مرا

خواب میں گر دیکھ لوں مَیں سیدِ والا کا رخ

خارہائے دشتِ طیبا کی طلب ہے زاہدو!

لالۂ جنت کی جانب کیوں کروں میں اپنا رُخ

ہے یقیں معراجِ قسمت ہو گی میری جلد ہی

ہاں ! مُشاہدؔ تُو کرے گا روضۂ آقا کا رُخ

٭٭٭

 

چل کر درِ رسول پہ آنے کے باوجود

اٹھتی نہیں نگاہ اٹھانے کے باوجود

عشقِ نبی میں لٹنے لٹانے کے باوجود

مٹتا نہیں یہ نقش مٹانے کے باوجود

قرآن ہے گواہ کہ موسا کلیم سے

دیکھا گیا نہ جلوہ دکھانے کے باوجود

سردارِ انبیا کا لقب آپ کو ملا

تشریف سب سے بعد میں لانے کے باوجود

سرکار کو عزیز تھی غربت کی زندگی

ساری خدائی ہاتھ میں آنے باوجود

عرشِ بریں سے بھی تھا تعلق حضور کا

تشریف بزمِ دہر میں لانے کے باوجود

مَیں مطمئن ہوں عشقِ رسولِ انام سے

سرمایۂ حیات لٹانے کے باوجود

جب تک نہ دل لگایا نبی سے،  ملا نہ کچھ

سر کو درِ خدا پہ جھکانے کے باوجود

ممکن نہیں کہ پوری نہ ہو آرزوئے دل

یعنی درِ رسول پہ جانے کے باوجود

امت پہ اپنی رہتے ہیں ہر وقت مہرباں

سرکار بزمِ دہر سے جانے کے باوجود

مومن نہیں ہے وہ جو نہ دیکھے حضور کو

بزمِ تصورات سجانے کے باوجود

سرکارِ کائنات کے مستوں کو دہر سے

کوئی مٹا سکا نہ مٹانے کے باوجود

مجھ کو مُشاہدؔ اپنی شفاعت کا ہے یقیں

لہو و لعب میں عمر گنوانے کے باوجود

٭٭٭

 

جو ہر دیار میں ہو نظمِ مصطفی نافذ

تو ہو گا امن و صفا صدق و اتقا نافذ

اصولِ شرم و حیا،  نظم و ضبط و وفا

نبیِ پاک نے دنیا میں کر دیا نافذ

بنیں جو سنتِ سرکارِ دوجہاں کے امین

ہمارے قلب میں ہو نور اور ضیا نافذ

وہی ہیں باعثِ تخلیقِ کل جہاں بے شک

انھیں کے نور سے ہر خشک و تر ہوا نافذ

رہے مُشاہدِؔ رضوی کے فکر و فن پہ خدا

ثنائے سرورِ کونین کی ادا نافذ

٭٭٭

 

رحمتِ دوجہاں صد سلام آپ پر

شاہِ کون و مکاں صد سلام آپ پر

آپ ہوتے نہ گر کچھ بھی ہوتا نہیں

باعثِ کن فکاں صد سلام آپ پر

آپ آئے تو ظلمت جہاں سے مٹی

نورِ رب بے گماں صد سلام آپ پر

آپ ہیں بے قراروں کے آقا قرار

وجہِ تسکینِ جاں صد سلام آپ پر

آپ نے سب کو رب سے مِلایا شہا

رہبرِ انس و جاں صد سلام آپ پر

بے زباں جانور استغاثہ کریں

مرکزِ بے اماں صد سلام آپ پر

آپ ہیں نائبِ خالقِ کبریا

نازشِ مرسلاں صد سلام آپ پر

ہیں شفیع الورا آپ ہی،  ہو گا یہ

روزِ محشر عیاں صد سلام آپ پر

ہو مُشاہدؔ سے بے کل پہ لطف و کرم

آپ ہیں مہرباں صد سلام آپ پر

٭٭٭

 

کرم فرمائیے ہم پر کرم فرمائیے ہم پر

سنہری جالیوں والے یہی ہے التجا لب پر،  مٹا دیں داغِ فرقت اب مدینہ دیکھ لیں آقا

دلِ ظلمت زدا کر دیں منور نورِ عرفاں سے مٹا دیں ظلمتیں ساری مرے شمس الضحیٰ مولا

کرم فرمایئے ہم پر کرم فرمایئے ہم پر

مساوات و صفا و صدق و عدل و آگہی دیدیں اخوت دیں محبت دیں خلوص و سادگی دیدیں

تشدد سارے عالم سے فنا ہو یا رسول اللہ، ہو انصاف و مروت کا جہاں میں ہر طرف چرچا

کرم فرمایئے ہم پر کرم فرمایئے ہم پر

عطا ہو حق کے متوالوں کو ایسی شعلگی آقا، جو کر دے خرمنِ باطل کو یکسر راکھ کو تودہ

جہاں میں بول بالا ہو صداقت کا عدالت کاسخاوت کا شجاعت کا شریعت کا طریقت کا

کرم فرمایئے ہم پر کرم فرمایئے ہم پر

پریشاں کر رہے ہیں ہر جگہ سرکار اُمت کو،  مٹانے پر تُلے ہیں ہر نفَس سرکار سنّت کو

جلالِ بے نہایت دیں تمامی اہلِ سنّت کو،  رہے روشن چراغِ عشق و الفت ہر گھڑی آقا

کرم فرمایئے ہم پر کرم فرمایئے ہم پر

مُشاہدؔ کا قلم ہر پل بیاں کرتا رہے مدحت،  ہو شامل اُس کے روز و شب میں آقا آپ کی سیرت

رہے دل میں ہمیشہ اُس کے شاہا آپ کی الفت،  عطا حُسنِ یقیں کر دیں شہِ کون و مکاں آقا

کرم فرمایئے ہم پر کرم فرمایئے ہم پر

٭٭٭

 

بختِ خفتہ کو جگا دیں یا شہنشاہِ حجاز

روضۂ والا دکھا دیں یا شہنشاہِ حجاز

دم قدم سے آپ ہی کے ہے بہارِ جاوداں

سُونے گلشن کو کھلا دیں یا شہنشاہِ حجاز

چارہ گر! ہیں آپ ہی رنج و غم و آلام کے

رنج و غم سارے مٹا دیں یا شہنشاہِ حجاز

ظلمتِ فکر و نظر کو دور کر دیں یا نبی

نور اِس دل میں بسا دیں یا شہنشاہِ حجاز

یہ مُشاہدؔ روز و شب بس نعت ہی لکھتا  رہے

اُس کو کچھ ایسا بنا دیں یا شہنشاہِ حجاز

٭٭٭

 

عشقِ رسولِ پاک ہے ایمان کی اَساس

نعتِ رسول راحت و درمان کی اَساس

تخلیقِ نورِ پاک سے ظاہر ہے بالیقیں

ذاتِ رسول روح و دل و جان کی اَساس

گنجینۂ غیاب و شہود اسوۂ نبی

علمِ رسول آگہی،  ایقان کی اَساس

وحیِّ خدا ہے آپ کی ہر بات بے گماں

قولِ رسول جملہ ایقان کی اَساس

مکہ کی فتح اور وہ اعلانِ در گزر

طرزِ رسول رحمت و احسان کی اَساس

سارے بلیغ مکہ کے گونگے ہی بن گئے

خُطَبِ نبی بیان و لَسّان کی اَساس

ڈوبا رہے ثنا میں مُشاہدؔ،  ہے بے گماں

یادِ رسول رحمت و غفران کی اَساس

٭٭٭

 

نفَس نفَس ہو مجھے اُن کے نقشِ پا کی تلاش

ہو ثبت دل پہ جو پوری ہو مدعا کی تلاش

درِ رسول پہ پہنچوں یہی تمنّا ہے

دلِ حزیں کو ہے دربارِ مصطفا کی تلاش

حبیبِ حق شہِ کوثر کے پہلے ہو جاؤ

کہ ہو گی پوری خداوندِ کبریا کی تلاش

’’فنا‘‘ جو الفتِ احمد میں ہو گئے دل سے

سمجھ لو پا گئی تکمیل پھر ’’بقا‘‘ کی تلاش

سنو! اے اہلِ خرد اُن کے در پہ آ جاؤ

اگر ہو امن و مساوات اور وفا کی تلاش

کہ فن کے ساتھ ادب کا بھی رنگ آ جائے

جو فکر کرتی رہے شرعِ مصطفا کی تلاش

دُرود و نعت مُشاہدؔ وظیفہ کر لینا

جو پیش آئے کبھی بھی کسی دوا کی تلاش

٭٭٭

 

خدائے پاک کی دیتا ہے آگہی اِخلاص

مٹاتا ہے دلِ بے کل کی بے کلی اِخلاص

عطا یہ کرتا ہے گم کردہ راہ کو منزل

شبِ سیاہ کی لاریب! روشنی اِخلاص

وہ سجدہ جس میں رِیا ہو کبھی قبول نہ ہو

عبادتوں کی ہے لاریب! زندگی اِخلاص

ہو جس کا سنّتِ سرکار پر عمل نہ کچھ

نہ پا سکے گی کبھی اُس کی عاشقی اِخلاص

وہ جس نے نذرِ سیاست کیا ہے مذہب کو

نہ پا سکے گی کبھی اُس کی رہبری اِخلاص

دُعا ہے صبح و مسا یا خدائے بخشندہ

بنے مُشاہدِؔ رضوی کی نغمگی اِخلاص

٭٭٭

 

جو ہو گا ہم پہ شہنشاہِ ذوالمنن کا فیض

تبھی ملے گا ہمیں خلد کے چمن کا فیض

رواں دواں ہے رگوں میں جو خونِ وحدت آج

بلا شبہ ہے یہ حضراتِ پنجتن کا فیض

ہے جن کو نکہتِ زلفِ نبی سے آگاہی

وہ کچھ نہ چاہیں گے بے شک کبھی ختن کا فیض

اندھیری قبر اُجالوں سے میری بھر جائے

جو جلوہ گر ہو رُخِ شاہِ ذوالمنن کا فیض

جہاں میں مدحتِ سرکار ہر سو جاری ہے

کہ بڑھتا جاتا ہے اب نعت کے چلن کا فیض

جنابِ نظمی ہیں حسّانِ عصرِ حاضر ایک

ہے مجھ پہ سایا فگن اُن کے فکر و فن کا فیض

جو نعت لکھنے کا فن مِل گیا مُشاہدؔ کو

رضاؔ و نوریؔ کا ہے اور ہے حسنؔ کا فیض

٭٭٭

 

دلِ حزیں میں تمنا یہی بسی ہو فقط

تصورات میں طیبہ کی وہ گلی ہو فقط

خدایا! دردِ محبت فزوں رہے دل میں

کہ عشق میں نہ کبھی کوئی بھی کمی ہو فقط

خدایا! روح مری تن سے یوں جدا کرنا

کہ نعتِ پاک زباں پر مرے سجی ہو فقط

ملے گا سیرتِ احمد میں اے جہاں والو!

اگر تلاشِ مساوات و آشتی ہو فقط

خدایا! عاملِ سنّت بنا دے تو ہم کو

انھیں کے نقشِ قدم پہ یہ زندگی ہو فقط

تقاضا پورا شریعت کا نعت میں ہو ادا

نہ صرف ندرتِ فن اور نغمگی ہو فقط

خدایا! پوری مُشاہدؔ کی آرزو کرنا

ہو اُس کی لاش مدینے کی وہ گلی ہو فقط

٭٭٭

 

جو بھی کرتے ہیں شہِ کوثر کی حرمت کا لحاظ

اہلِ الفت کرتے ہیں پھر اُن کی عزّت کا لحاظ

دعویِٰ عشقِ نبی اب تو زبانی ہے فقط

کچھ نہیں کرتا ہوئی آقا کی سیرت کا لحاظ

جیسا انصار و مہاجر کو مِلایا آپ نے

کیا کوئی رکھتا ہے اُن جیسی اُخوّت کا لحاظ

سرنگوں پرچم ہماری عظمتوں کا ہو گیا

جب سے کرنا چھوڑا ہم نے ان کی سنّت کا لحاظ

’’طَوقِ تہذیبِ فرنگی توڑ ڈالو مومنو!‘‘

دل میں رکھو ہر نفَس آقا کی الفت کا لحاظ

دُخترِ حوّا کو زندہ دفن کرتے تھے جہاں

آپ نے کرنا سکھایا اُن کی عصمت کا لحاظ

وہ ثنا خوانی مُشاہدؔ قابلِ تعریف ہے

نعت میں جب ہو ادا پورا شریعت کا لحاظ

٭٭٭

 

دل میں جاگی اُن کی الفت کی طمع

سب سے عالی شان دولت کی طمع

ذکرِ سرکارِ دوعالم کرتا جا

دل میں کیوں ہو کچھ بھی شہرت کی طمع

ہے مدینہ رشکِ گل زارِ جناں

کیوں کروں میں باغِ جنت کی طمع

حرص نہ رکھ ظاہری آرام سے

دل میں ہو بس ماں کی خدمت کی طمع

ہے مُشاہدؔ نعت لکھنے کی لگن

کس قدَر دل کش ہے مدحت کی طمع

٭٭٭

 

دل میں گر روشن رہے ان کی الفت کا چراغ

قبر میں ہو تا ابد پھر تو راحت کا چراغ

گر گئے لات و ہبل اک پل میں سارے سر کے بل

جب جلایا  مصطفا نے رب کی وحدت کا چراغ

ہر طرف لاریب تھیں خوں ریزیاں چھائی ہوئیں

آپ آئے جل اُٹھا امن و اُخوت کا چراغ

جشنِ میلاد النبی ہے عیدِ اکبر بے گماں

چار جانب ہم جلائیں گے مَسرّت کا چراغ

انبیائے سابقہ کے بجھ گئے سارے دیے

لے کر آئے مصطفا ختمِ نبوت کا چراغ

’’چاند شق ہو پیڑ بولیں جانور سجدہ کریں ‘‘

جس گھڑی روشن ہوا آقا کی قدرت کا چراغ

نعتِ پاکِ مصطفا کی برکتیں تو دیکھیے

ہے فروزاں میرے گھر میں ان کی رحمت کا چراغ

مصطفا کے چار یاروں نے جلایا دہر میں

صدق کا عدل و کرم کا اور ہمت کا چراغ

غوث و خواجہ،  شاہِ برکت نوری میاں سے پیار ہو

دل میں روشن ہی رہے حُسنِ عقیدت کا چراغ

جب ہوائیں نفرتوں کی چل رہی تھیں چار سو

اعلا حضرت نے جلایا اُن کی عظمت کا چراغ

ہے خداوندِ جہاں سے یہ مُشاہدؔ کی دُعا

اُس کے دل میں ہر نفَس ہو اُن کی مدحت کا چراغ

٭٭٭

 

’’لو وہ آئے مسکراتے ہم اسیروں کی طرف‘‘

بجلیاں گر جائیں گی اب غم کے تیروں کی طرف

روضۂ والائے طیبا ہم بھی دیکھیں یا نبی

ہو نگاہِ لطف و رحمت ہم فقیروں کی طرف

کر رہے ہیں آپ کی امت کو حیراں روز و شب

بارشِ قہر و غضب کر دیں شریروں کی طرف

جو درِ خیرالبشر کا بن گیا ادنا غلام

کیوں کرے وہ رُخ بھلا اپنا امیروں کی طرف

جب گھڑی پُرسش کی پیش آئے لحد میں دوستو!

پڑھ اٹھوں نعتِ نبی دیکھوں،  نکیروں کی طرف

دور کر دیجے مُشاہدؔ سے ہر اک درد و الم

دیکھیے سرکار میرے بہتے نیروں کی طرف

٭٭٭

 

دو عالم میں یقیناً ہے شہِ ابرار سے رونق

مرے خیر الورا صلِّ علا سرکار سے رونق

مجھے کیا فکر ہو؟ جلوہ فگن ہوں گے شہِ بطحا

مری تربت میں ہو گی گیسوئے خم دار سے رونق

چلے آؤ درِ احمد پہ گر ہو امن کی خواہش

کہ پھیلے گی جہاں میں آپ کے کردار سے رونق

گلاب و موگرا جوہی،  چنبیلی،  بیلا اور چمپا

ہے ان پھولوں میں خوشبوئے تنِ سرکار سے رونق

جہاں میں صدق و عدل و جُود اور ہمت کی پھیلی ہے

ابوبکر و عمر،  عثمان اور کرّار سے رونق

مُشاہدؔ مدحتِ سرکارِ عالی ہر نَفَس کرنا

ملے گی دونوں عالم میں ان ہی اشعار سے رونق

٭٭٭

 

وہی ہیں باعثِ تخلیقِ کل جہاں بے شک

انھیں کے نور سے آدم نے پائی جاں بے شک

جہاں میں فتنہ و شر ہر طرف تھا روز افزوں

نبی نے دہر میں پھیلائی ہے اماں بے شک

غموں کی دھوپ میں آقا کے اک تصور سے

دلِ حزیں سے مٹے درد کے نشاں بے شک

مدینہ راحتِ جان و سرورِ سینہ ہے

ہمیں بھی کر دیں زیارت سے شادماں بے شک

ملے گا اجر یقیناً مُشاہدِؔ رضوی

کبھی نہ جائے گی مدحت یہ رایگاں بے شک

٭٭٭

 

سِوا ہے عرشِ بریں سے بھی بارگاہِ رسول

بیاں ہو کیسے کسی سے بھی عزّ و جاہِ رسول

جو نعت پڑھتے ہیں سرکار کی انھیں لوگو!

ملے گی حشر میں رحمت بھری پناہِ رسول

ستارا اس کا چمک اٹھا بن گئی قسمت

پڑی ہے جس پَہ بھی اک بار ہی نگاہِ رسول

ہوئے ہزاروں پہ غالب وہ تین سو تیرہ

شجاعتوں کا خزینہ تھی ہاں ! سپاہِ رسول

تلاش کرتی ہیں خود ان کو منزلیں بے شک

لگائے رہتے ہیں سینے سے جو کہ راہِ رسول

یہاں پہ سانس بھی آہستگی سے لیں لوگو!

ادب کی ایسی ہی حامل ہے بارگاہِ رسول

لحد میں ہوں گی مُشاہدؔ تجلیاں ظاہر

جو دیکھوں چہرۂ صد رشکِ مہر و ماہِ رسول

٭٭٭

 

سرکار پہ ہو جائے جو قربان مکمل

ہو گا اسی انسان کا ایمان مکمل

گر اسوۂ حسنہ پہ عمل کرنے لگیں سب

حاصل ہو جہاں والوں کو ایقان مکمل

ہر چیز کا روشن ہے بیاں اس میں یقیناً

ہے ضابطۂ زندگی قرآن مکمل

افسوس! کہ یہ سیرت و سنت سے ہوا دور

بن جائے مسلمان،  مسلمان مکمل

ثانی نہ ہوا آپ کا سایا بھی نہیں تھا

آیا نہ کوئی آپ سا انسان مکمل

ہے امن و اخوت کا جہاں بھر میں جو چرچا

ہے یہ تو شہِ دین کا فیضان مکمل

ہو لطف و کرم از پَے حسّانِ مدینہ

بن جائے مُشاہدؔ بھی ثنا خوان مکمل

٭٭٭

 

پہلے دھولیں زم زمِ تطہیر سے فکر و قلم

کاغذِ اخلاص پر ہو نعتِ احمد پھر رقَم

با ادب دروازۂ مدحت کھلے اس شان سے

چار جانب خوشبوئے توصیف پھیلے دم بہ دم

نعت کا لکھنا نہیں آساں سنو اے دوستو!

تیغ آسا راہ پر جیسے چلانا ہے قدم

اُن کے دربارِ مقدس کا بیاں کرتے ہوئے

آیتِ ’لاترفعوا‘ قرآں میں ہے دیکھیں رقَم

خُلقِ پاکِ مصطفی کا مرتبہ کیسے لکھوں ؟

جب خدا نے خود کیا ہے اُس کو لوگو! محتشم

مدحتِ خیر الورا کا حق ادا کیا ہوسکے؟

بعدِ رب لاریب! ہیں جب وہ بزرگ و محترم

مَیں نے تفسیرِ قرآں میں سیرتِ سرور پڑھی

ہر ورق پر نقش ہے نعتِ شہنشاہِ اُمم

اُن کی عظمت کا بیاں کرنا تو ممکن ہی نہیں

جب ’رفعنا‘ میں بیاں ہے رفعتِ شاہِ اُمم

نعت گوئی بھی مُشاہدؔ اِک عبادت ہی تو ہے

تُو نے پائی یہ سعادت ہے خدا کا یہ کرم

٭٭٭

 

مٹے گی بے کلی دل کی یقیناً دیکھنا اِک دن

کھلے گی ہر کلی دل کی یقینا دیکھنا اِک دن

شہِ کوثر کے صدقے میں پئیں گے زم زم و کوثر

بجھے گی تشنگی دل کی یقینا دیکھنا اِک دن

مرا تن من شگفتہ سبز گنبد دیکھ کر ہو گا

بڑھے گی زندگی دل کی یقینا دیکھنا اِک دن

اگر بن جائیں سب عامل شہِ کوثر کی سنّت کے

بڑھے کی راستی دل کی یقینا دیکھنا اِک دن

مُشاہدؔ سُرخ رُو ہو گا لکھے جا نعت آقا کی

پھلے گی تازگی دل کی یقیناً دیکھنا اِک دن

٭٭٭

 

ہے دعوا ہم نہ چھوڑیں گے شہِ ابرار کا دامن

مگر یہ کیا کہ چھوٹا ہے رہِ سرکار کا دامن

ہماری عظمتیں دنیا میں یوں رسوا نہیں ہوتیں

اگر ہاتھوں میں ہوتا سنّتِ سرکار کا دامن

لحد میں اُن کی ظلمت کا گذر ہو ہی نہیں سکتا

کہ جو تھامے رہیں اس معدنِ انوار کا دامن

بروزِ حشر ہر اک سمت نفسی کی صدا ہو گی

ہمارے کام آئے گا اُسی غم خوار کا دامن

مُشاہدؔ سُرخرو ہو گا جو ہاتھوں میں رہے اُس کے

شہنشاہِ زمن ہاں ! احمدِ مختار کا دامن

٭٭٭

 

انھیں کے اوصاف کی ہو خوشبو مرے یقیں میں مرے گماں میں

مرے قلم میں مرے سخن میں مرے تخیل مرے بیاں میں

ہے خُلق اکمل،  ہے خَلق اجمل،  وہی ہیں محبوبِ ربِّ اکبر

قرآں کی تفسیر اُن کی سیرت،  کوئی نہ ان سا مکیں مکاں میں

نظیر اُن کی ملے گی کیسے،  نہ اُن سا پیدا ہوا ہے کوئی

مکیں مکاں میں زمیں زماں میں،  نہ اِس جہاں میں نہ اُس جہاں میں

یہ چاند سورج ستارے سارے انھیں کے جلووں سے فیض پائیں

انھیں کے تلووں کی روشنی ہے،  شفق میں جاری تو کہکشاں میں

چمن چمن ہے سمن سمن ہے،  نبی کے تن کے عَرَق کی نکہت

انھیں کے گیسوئے عنبریں کی بسی ہے خوش بو گلِ جناں میں

مٹائی دنیا سے بُت پرستی،  چراغِ وحدت جلا دیا ہے

نہ آیا ہے اور نہ آئے گا اُن سا کوئی ظلمت شکن جہاں میں

بڑھی تھی وحشت جہاں میں لوگو! نہ حُسنِ اَخلاق تھا کہیں بھی

وہ آئے پھیلی یقیں کی خوش بو،  ادب بسا قومِ بد نشاں میں

لباسِ پیوند جسم پر ہے،  شکم پہ اُن کے بندھے ہیں پتھر

وہ سادگی ہے ملے نہ تمثیل اِس جہاں کیا؟ کسی جہاں میں

یہی مُشاہدؔ کی آرزو ہے،  سطورِ مدحت لکھے ہمیشہ

دُرود اُس کی خموشیاں ہوں،  سلام جاری رہے زباں میں

٭٭٭

 

تمنّا موج زن ہے دوستو! یہ میرے سینے میں

گذر جائے، را اے کاش اک لمحہ مدینے میں

مسلماں اس جہاں میں ہو نہیں سکتا کبھی رسوا

اگر شامل رکھے سنّت شہِ دیں کی وہ جینے میں

خدایا! بخش دے عشقِ شہِ دیں کی مجھے دولت

نہ رکھوں کوئی بھی رغبت مَیں دنیا کے خزینے میں

ہر اک موجِ بَلا خود ناخدا بنتی گئی میری

جو دیکھا بادباں نامِ محمد کا سفینے میں

کئی پشتوں تلک مہکا کیے بچّے صحابی کے

بسی ہے ایسی خوشبو جانِ گلشن کے پسینے میں

بہ فیضِ ازہری اختر مُشاہدؔ نعت لکھتا ہے

کہاں ہے تاب مدحت کی وگر نہ اِس کمینے میں

٭٭٭

 

مدینے کے مسافر جب مدینے کو نکلتے ہیں

مرے قلبِ حزیں میں دردِ فرقت تب مچلتے ہیں

ہوں کب سے منتظر مَیں اُن کے فضل و لطف کا مولا

مرے دل کو شہِ دیں کب مسرت سے بدلتے ہیں

یہی دل کی صدا ہے ہو زیارت سبز گنبد کی

کرم سے اُن کے دیکھیں کب مرے ارماں نکلتے ہیں

مَے حُبِّ شہِ کوثر میں ہے لوگو! سُرور ایسا

یہ پی کر اُن کے دیوانے ہر اک لمحہ سنبھلتے ہیں

خداوندِ جہاں نے اُن کو قاسم کر دیا بے شک

ہر انساں مصطفی پیارے کے ہی ٹکڑوں پہ پلتے ہیں

بروزِ حشر ہوں گے وہ پریشاں حال اے لوگو!

شہِ کون و مکاں کی عظمتوں سے جو کہ جلتے ہیں

یہ ہے فکرِ رضاؔ نوریؔ کا بے شک فیضِ روحانی

مُشاہدؔ کے تخیل میں میں جو یہ اشعار ڈھلتے ہیں

٭٭٭

 

سبز گنبد کی رعنائیاں دیکھ لوں

نور و نکہت کی پروائیاں دیکھ لوں

اہلِ قسمت چلے شوق سے جھومتے

مَیں بھی طیبا کی زیبائیاں دیکھ لوں

جن کے سایے میں آ کر ملے راحتیں

نخلِ طیبا کی پرچھائیاں دیکھ لوں

جو قرآں کو جلانے کی کرتے ہیں بات

یا خدا! اُن کی رسوائیاں دیکھ لوں

ذکرِ سرکار کی روضۂ پاک پر

یا خدا! محفل آرائیاں دیکھ لوں

مَیں مُشاہدؔ کبھی روضۂ پاک پر

اُن کے فیضاں کی پہنائیاں دیکھ لوں

٭٭٭

 

وہ علیمِ رازِ عیاں بھی ہیں

وہی مغزِ سرِ نہاں بھی ہیں

ہے انھیں کے دم سے جہاں کا دم

وہی وجہِ کون و مکاں بھی ہیں

وہی چارہ سازِ غم و الم

وہ علاجِ سوزشِ جاں بھی ہیں

وہی رحم و لطف کا سائباں

وہی کنزِ امن و اماں بھی ہیں

وہی نورِ حق وہی ظلِّ رب

وہی مالکِ مُلکِ جہاں بھی ہیں

وہی وجہِ نکہتِ بوستاں

وہ بہارِ باغِ جناں بھی ہیں

وہی لامکاں کے مکیں بنے

وہ مُشاہدِؔ ربِّ جہاں بھی ہیں

٭٭٭

 

وہ جو سرکارِ مدینہ سے وفا کرتے ہیں

ان کے ہر رنج و الم پَل میں مٹا کرتے ہیں

ان کی خاطر درِ رحمت بھی کھلا کرتے ہیں

وہ جو نعتِ شہِ کونین پڑھا کرتے ہیں

جشن میلادِ نبی کا جو بپا کرتے ہیں

لطف و اکرامِ خدا اس پہ ہُوا کرتے ہیں

ان کی خاطر جو ہر اک درد سہا کرتے ہیں

ان کے قد دنیا و عقبیٰ میں بڑھا کرتے ہیں

کیسی عظمت ہے شہِ کون و مکاں کے در کی

بے زباں بھی وہاں فریاد و بُکا کرتے ہیں

ان کے دربارِ معلا سے رُجوع ہو جائیں

اپنی جانوں پَہ وہی جو کہ جفا کرتے ہیں

ہو گی دیدارِ مدینہ کی تمنا پوری

ہاں ! مُشاہدؔ شہِ دیں کی جو ثنا کرتے ہیں

٭٭٭

 

مقدر سے جو ہو جائے مرا جانا مدینے میں

تو مدحت کا کروں مَیں پیش نذرانہ مدینے میں

وہ قسمت کا سکندر ہے،  ہے رتبہ بھی بلند اس کا

مقدر سے جسے مل جائے مر جانا مدینے میں

گنہ گارو! چلے آؤ خطا کارو! چلے آؤ

ہے بے شک زہرِ عصیاں کا شفا خانا مدینے میں

ضیا بخشی اُسی سرکار کی مشہورِ عالم ہے

چلو! ظلمت زدا دل اپنا چمکانا مدینے میں

تری رفعت کا اندازہ لگانا ہو گا ناممکن

’’ٹھہر جا روحِ مضطر تُو نکل جانا مدینے میں ‘‘

طفیلِ ازہری اختر مُشاہدؔ کی تمنّا ہے

ہمیشہ کے لیے مل جائے رہ جانا مدینے میں

٭٭٭

 

فرش پر عرشِ بریں کی جستجو

یعنی طیبہ کی زمیں کی جستجو

روز و شب جس جا ملائک آتے ہیں

ہے اسی شمعِ مبیں کی جستجو

دم بہ دم طیبہ نگر کی آس ہو

اِس سے بہتر ہے کہیں کی جستجو

نور کی برسات ہوتی ہے جہاں

ہے اسی کوئے حسیں کی جستجو

جائیں طیبہ تو وہیں رہ جائیں ہم

موت کو ہو بس وہیں کی جستجو

خواب میں دیدار ہو جائے کبھی

پوری ہو قلبِ حزیں کی جستجو

ہیں وہی چارہ گرِ رنج و الم

ہے طبیبوں کو انھیں کی جستجو

آؤ! ان کے در پہ اے ٹوٹے دلو!

گر ہے ماحیِّ حزیں کی جستجو

اے مُشاہدؔ سیرتِ سرکار دیکھ

ہے اگر امن و یقیں کی جستجو

٭٭٭

 

یادِ طیبہ میں جو آنکھوں نے گرائے آنسو

دامنِ شب میں وہ انوار بسائے آنسو

غم و آلامِ جہاں مٹ گئے میرے سارے

دل کی پژمردہ کلی پل میں کھلائے آنسو

اُس کی قسمت پہ کریں رشک فرشتے تو بجا

حُبِّ دنیا میں کبھی جس کو نہ آئے آنسو

ایک ہم ہیں کہ ہمیں کچھ نہیں آقا کا خیال

غمِ اُمّت میں شہِ دیں نے بہائے آنسو

سرورِ دیں کی عقیدت میں مُشاہدؔ جو بہے

سُن وہ ہرگز نہ کبھی رایگاں جائے آنسو

٭٭٭

 

وہ جو مضبوط رکھتے ہیں نبیِ پاک سے رشتہ

تو ہو جاتا ہے اُن کا فہم اور ادراک سے رشتہ

دواؤں کی ضرورت پیش اُس کو کچھ نہیں آتی

ہے جس کا ارضِ طیبہ کی مقدس خاک سے رشتہ

ذلیل و خوار مسلم یوں کبھی ہوتا نہیں ہرگز

اگر ہوتا ہمارا سنّتِ لولاک سے رشتہ

مسلماں نوجواں دنیا کے فیشن پر نہ ہو شیدا

تُو رکھ طارق و خالد جیسے اُن بے باک سے رشتہ

پریشاں کس طرح ہو گا مُشاہدؔ جب کہ رکھتا ہے

دُرود و نعت جیسے قیمتی تریاک سے رشتہ

٭٭٭

 

محبت آپ کی ہے جن کا ایماں یا رسول اللہ

نہ کیوں وہ آپ پر ہو جائیں قرباں یا رسول اللہ

یہ بد بختی نہیں اُس کی تو آخر اور پھر کیا ہے؟

نہ آئے آپ کے جو زیرِ داماں یا رسول اللہ

حقیقت میں ہو کیا؟ اِس سے تو ہے اللہ ہی واقف

یہ مانا آپ کہنے کو ہیں انساں یا رسول اللہ

جو ہو جائے اشارہ اِک ذرا بھی چشمِ رحمت کا

ہماری مشکلیں ہو جائیں آساں یا رسول اللہ

جنھیں ہے آپ سے اُلفت،  شہ دیں پائے اقدس پر

نچھاور کیوں نہ کر دیں وہ دل و جاں یا رسول اللہ

بنایا رحمتِ عالم خدا نے آپ کو آقا

یہ ہے اللہ کا بندوں پہ احساں یا رسول اللہ

بلاتا عرشِ اعظم پر خدا کیوں دید کی خاطر

نہ ہوتے آپ جو محبوبِ یزداں یا رسول اللہ

کسی دن دیکھ لوں آنکھوں سے مَیں بھی گنبدِ خضرا

مرے دل میں ہے یہ مدّت سے ارماں یا رسول اللہ

نہ کیوں رضوی مُشاہدؔ آپ کی عظمت کے گن گائے

خدا خود آپ کا ہے جب ثنا خواں یا رسول اللہ

٭٭٭

 

ہوئی جب آپ کی جلوہ نمائی یا رسول اللہ

منور ہو گئی ساری خدائی یا رسول اللہ

وہ جس نے آپ سے کی آشنائی یا رسول اللہ

خدا تک ہو گئی اُس کی رسائی یا رسول اللہ

ہوئی غم سے اُسے حاصل رہائی یا رسول اللہ

دی جس نے آپ کی دل سے دہائی یا رسول اللہ

جو منزل اپنی کھو بیٹھے تھے ان کو مل گئی منزل

جب آ کر آپ نے کی رہنمائی یا رسول اللہ

دیا جو وقت نے موقع تو آ کر آپ کے در پر

کروں گا مَیں بھی قسمت آزمائی یا رسول اللہ

شہنشاہوں نے بھی اُس کے قدم چومے عقیدت سے

کی جس نے آپ کے در کی گدائی یا رسول اللہ

بروزِ حشر پائے گا وہی پروانۂ بخشش

کریں گے آپ جس کی ہم نوائی یا رسول اللہ

کسی دیگر نبی کو وہ ہوئی حاصل نہ دنیا میں

ہوئی جو آپ کو حاصل بڑائی یا رسول اللہ

رہے گا جب تلک خستہ مُشاہدؔ بزمِ عالم میں

کرے گا آپ کی مدحت سرائی یا رسول اللہ

٭٭٭

 

آپ اگر نذیر ہیں آپ ہی تو بشیر بھی

آپ ہی تو ہیں بے گماں نورِ خدا منیر بھی

اپنے ہوں یا کہ غیر ہوں،  اُن کا کرم تو عام ہے

بخشش چشیدہ آپ کے سارے فقیر،  امیر بھی

رب کی عطا سے آپ پر ہر خشک و تر ہُوا عیاں

آپ ہی تو علیم ہیں آپ ہی تو خبیر بھی

سرکار ہم غریبوں پر لطف و کرم کی ہو نظر

آپ ہی کی مِلک میں کوثر بھی ہے کثیر بھی

سرکار اِس مُشاہدِؔ رضوی کو طیبہ دیں دکھا

کہتا ہے دل بھی بار بار کہتے ہیں بہتے نیر بھی

٭٭٭

 

برکتِ رضا

اُن کی نعت سے میرے قلب نے شفا پائی

جس نے کی ذرا غفلت اُس نے تو سزا پائی

فکر کو مِلا میری،  کیسی عظمتوں کا فن

نطق نے مرے کتنی دل نشیں ادا پائی

رشک اُس پہ کرتے ہیں دیکھیے فرشتے بھی

ہاں ! وہ جس نے آقا کی الفت و وِلا پائی

دھوپ غم کی اِک پل میں چھٹ گئی مرے سر سے

پیاری ماں کی جب مَیں نے دوستو! دعا پائی

ہو گیا قلم میرا،  مدحت آشنا لوگو!

جب سے اِس مُشاہدؔ نے برکتِ رضا پائی

٭٭٭

 

یہی صدا ہے نکلتی ہمارے سینے سے

ہو ذکرِ شاہِ مدینہ بہ صد قرینے سے

یہی دُعا ہے خداوندِ دوجہاں تجھ سے

نہ آئیں لوٹ کے واپس کبھی مدینے سے

اغثنی یا شہِ کونین! جب پکارا تو

ہر ایک موجِ بَلا پھِر گئی سفینے سے

لُٹا چکا ہے جو سب کچھ نبیِ رحمت پر

وہ کیا بہک سکے لوگو! کسی خزینے سے

جو ہو گی روضۂ سرکارِ دوجہاں کی دید

تبھی تو آئے گا کیف و سرور جینے سے

صحابہ مثلِ ستارا تو ناؤ آلِ نبی

یہ آسمانِ ہدایت کے ہیں نگینے سے

خدایا! تُجھ سے مُشاہدؔ ہے طالبِ رحمت

تُو کر دے دُور بُرے طَور اِس کمینے سے

٭٭٭

 

یاد سے اُن کی خالی سینا ہے

ایسا جینا بھی کوئی جینا ہے

جو تصور میں اُن کے رہتے ہیں

اُن پہ الطافِ با قرینا ہے

جن کے دل میں نبی کی عظمت ہے

اُن پہ تنزیلِ ہر سکینا ہے

بھینی بھینی وہ نکہتیں پیاری

مُشک سے بھی سِوا پسینا ہے

ہاں ! پکارو نبیِ رحمت کو

گر بھنور میں پھنسا سفینا ہے

جاؤ کوئے رضا میں گر تم کو

بادۂ نابِ عشق پینا ہے

مَیں مُشاہدؔ ہوں اِس لیے نازاں

مجھ پہ لطفِ شہِ مدینا ہے

٭٭٭

 

 زمیں طیبا کی جیسی دل نشیں ہے

جہاں میں کیا کوئی ایسی زمیں ہے

گِلِ طیبا میں مِل جاؤں مَیں مر کر

تمنّا اِس سے بہتر بھی کہیں ہے؟

عطائے رب سے سُن لیں اہلِ محفل

مرا آقا شفیع المذنبیں ہے

’’وہی ہے مالکِ مُلکِ خدا خاص‘‘

وہی محبوبِ رب العالمیں ہے

مرے لب پر ہے مدحت مصطفی کی

شفاعت کا مجھے اپنی یقیں ہے

وہی ہے وجہِ تخلیقِ دو عالم

وہی تو خاتَمِ کُل مرسلیں ہے

مُشاہدؔ نعت لکھتا ہی رہوں مَیں

بجز اِس کے تمنّا کچھ نہیں ہے

٭٭٭

 

ختم کب تلک ہوں گے انتظار کے لمحے

کاش! مجھ کو مِل جائیں کوئے یار کے لمحے

دوجہاں میں اُس کا تو رتبہ ہو گیا اعلا

دائمی ملیں جس کو اُس دیار کے لمحے

سبز سبز گنبد ہو سامنے نگاہوں کے

میری سانسوں میں جب ہوں انتشار کے لمحے

مدحتِ پیمبر ہی میرے لب پَہ جاری ہو

مجھ کو پیش جب آئیں قبرِ تار کے لمحے

غم مِٹے مُشاہدؔ کے وِردِ نامِ آقا سے

کھل اٹھیں مسرّت سے بے قرار کے لمحے

٭٭٭

 

ہجرِ طیبا سے ہمارا دل بڑا رنجوٗر ہے

دیکھیے کب آئے مژدہ مدّعا منظوٗر ہے

حاضری کی ہم کو مِل جائے اجازت اِس برس

آپ کے لطف و کرم سے کچھ نہیں یہ دوٗر ہے

اُس کو حبِّ مال و منصب سے غرَض کچھ بھی نہیں

بادۂ عشقِ نبی پی پی کے جو مخموٗر ہے

کہکشاں شمس و قمر اور انجمن در انجمن

ذرّہ ذرّہ آپ ہی کے نور سے معموٗر ہے

نور و نکہت لے کے آئیں گے شہِ دنیا و دیں

کیوں مُشاہدؔ تجھ کو خوفِ تربتِ دیجوٗر ہے؟

٭٭٭

 

امین و صادق خطاب والے

وہی ہیں روشن کتاب والے

بشیر بھی وہ نذیر بھی وہ

وہ رحمتوں کے سحاب والے

وہ مصطفی ہیں وہ مجتبیٰ ہیں

وہ نبیوں میں انتخاب والے

وہی معلم ہیں سب سے بہتر

وہ سب سے اعلا نصاب والے

کوئی پیمبر نہ اُن سا آیا

وہی تو ہیں لاجواب والے

وہ کر دیں کھاری کنویں کو میٹھا

وہ معجِزاتی لعاب والے

وہ نُور آنکھوں سے پل میں لے لیں

بنیں وہ جب احتساب والے

نظر نہ آ پائے وقتِ ہجرت

نبی ہیں ایسے نقاب والے

انھیں مُشاہدؔ وہ شاد کر دیں

جو ہیں غم و اضطراب والے

٭٭٭

 

محوِ ثنا جب اُن کا گدا ہو جاتا ہے

پژ مُردہ احساس ہَوا ہو جاتا ہے

دل کی ساری کلیاں کھل کھل جاتی ہیں

باغِ تمنّا میرا ہرا ہو جاتا ہے

سوئے مدینہ قافلے جب جب جاتے ہیں

شوقِ زیارت میرا سِوا ہو جاتا ہے

نُور کی بارش اُس محفل پر ہوتی ہے

جس میں کوئی مدح سرا ہو جاتا ہے

اُن کا توسل جس نے مُشاہدؔ نہ مانا

تیرِ دُعا تو اُس کا خطا ہو جاتا ہے

٭٭٭

 

تصور میں مدینہ ہے لبوں پر نعتِ سرور ہے

ذرا دیکھیں تو کیسا اوج پر پہنچا مقدر ہے

بجا ہے ناز کرنا ہم کو شاہِ دیں کی رحمت پر

جب الطاف و کرم اُن کا ہمیں پر ہے ہمیں پر ہے

ہدایت کے لیے قرآں نمونہ ہے بڑا عمدہ

جہاں کی رہبری کو سیرتِ سرکار بہتر ہے

جسے طیبہ میں تھوڑی سی جگہ مِل جائے مدفن کو

وہ خوش قسمت ہے بے شک وہ مقدر کا سکندر ہے

زہے قسمت زیارت کی سعادت ہم کو مِل جائے

مُشاہدؔ کے لبوں پر التجا یہ شاہِ کوثر ہے

٭٭٭

 

قطعاتِ بخشش

 

٭

اُسی کے ذکر سے معراجِ بندگی ہو گی

اُسی کی بات سے تکمیلِ آرزو کرنا

اُسی کے نام ہیں مختص تمام تعریفیں

اُسی کے نام سے آغازِ گفتگو کرنا

٭

صبح تا شام لب پہ ہو ہر پل

نغمۂ نعتِ مصطفی مولا!

اُن کی سنت کے ہم بنیں عامل

تجھ سے ہے بس یہی دعا مولا!

٭

ہے دوائے سوزِ قلبی شہ دیں کی مدح خوانی

اُسے کیا ہو بے قراری جو نبی سے منسلک ہے

اُسے کیا گزند پہنچے سرِ حشر گرمیوں سے

جو ثنائے مصطفا میں شب و روز منہمک ہے

٭

دیا جو درسِ اُخوّت نبیِ رحمت نے

زمانہ کیا کبھی کوئی مثال لا پائے؟

بدن جھلس گیا چھوٗٹا نہ دامنِ احمد

کبھی کیا کوئی جوابِ بلال لاپائے؟

٭

نشاط انگیز ہے لمحہ بڑا نعتیں سنانے کا

غم و آلامِ دوراں کی تمازت کو مٹانے کا

ہے ذکرِ مصطفا بھی باعثِ تسکینِ جان و دل

دلِ ظلمت زَدا کو نور کا بقعہ بنانے کا

٭

قابلِ رشک یہ احساس ہے سوچیں تو سہی !

طیبہ جانے کی مجھے آس ہے سوچیں تو سہی!

مجھ کو دیدارِ رُخِ شاہِ مدینہ ہو نصیب

کیسی پیاری یہ مری پیاس ہے سوچیں تو سہی!

٭

اللہ نے بڑھائی ہے توقیر مدینے کی

کس طرح کرے کوئی تحقیر مدینے کی

گھر گھر میں چراغاں ہے ہر سمت سویرا ہے

پھیلی ہے جہاں بھر میں تنویر مدینے کی

٭

تصورات میں طیبہ کی جب گلی آئی

بہ صد نیاز و ادب شوق نے لی انگڑائی

ہر اک تمنا سے بڑھ کر یہی تمنا ہے

اخیر وقت ہو نظروں پہ وہ گلی چھائی

٭

مَیں جب حیاتِ نبی کا بیان پڑھتا ہوں

مجھے یہ لگتا ہے جیسے قرآن پڑھتا ہوں

بلند ہوتا گیا قد مرا،  جہاں والو!

مَیں جب سے نعتِ شہِ انس و جان پڑھتا ہوں

٭

بہ فضلِ رب کسی دن روضۂ سرکار دیکھیں گے

برستے ہیں جہاں رحمت کے ہم انوار دیکھیں گے

فرازِ عرش سے بڑھ کر ہمیں تو خاکِ طیبا ہے

ہم اِترائیں گے قسمت پر جو وہ دربار دیکھیں گے

٭

حالِ دل آپ کو سنانے کی

بگڑی قسمت شہا بنانے کی

اِس برس بھی نہ ہوسکی پوری

آرزوٗ میری طیبا جانے کی

٭

لب پہ ہو ذکر شاہِ طیبا کا

ہے یہ لاریب! مدعائے دل

اُن کے روضے پہ موت آ جائے

بس یہی ایک ہے دعائے دل

٭

تفرقہ تھا جو سارے عالم میں

شاہِ کونین نے مٹا ڈالا

تھے جو صدیوں سے خون کے پیاسے

بھائی بھائی انھیں بنا ڈالا

٭

دینِ اسلام ایسا مذہب ہے

امن ہے جس کے نام میں شامل

اس کو آتنک سے جوڑنے والو!

پڑھ لو حالاتِ رہبرِ کامل

٭

کس نے دنیا کو یہ بتایا ہے

ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے

بنتِ حوّا کو کس نے دی عزت

یہ مرے مصطفی کی برکت ہے

٭

آمدِ محبوب سے دل کے کنول کھلنے لگے

اہلِ حق شاداب ہو کر سب گلے ملنے لگے

جشنِ میلاد النبی کی برکتیں تو دیکھیے

چاک دامن رنج و غم کے خود بہ خود سِلنے لگے

٭

مرے دل میں یہ حسرت ہے مدینے کی زیارت ہو

کہ حاصل دوجہاں کی اس طرح مجھ کو سعادت ہو

درِ اقدس پہ آ کر نعتیہ نغمات گاؤں مَیں

شہ کوثر ترحم پوری مجھ عاصی کی حاجت ہو

٭

صد شکر سفر طیبا کا درپیش ہوا ہے

خوشیوں سے مسرت سے کنول دل کا کھِلا ہے

دیدارِ مدینہ کی تھی اک عرصہ سے خواہش

صد شکر کہ اب اِذنِ سفر ہم کو مِلا ہے

٭

جو زلفِ حُسنِ نبی کا اسیر ہو جائے

قسم خدا کی وہ روشن ضمیر ہو جائے

اُسے نہ آتشِ دوزخ سے کچھ ضرر پہنچے

کہ عشقِ مصطفی جس کا خمیر ہو جائے

٭

قلبِ ظلمت زَدا جگمگانے لگا

جب مدینہ مجھے یاد آنے لگا

کلکِ احمد رضا کا کرم یوں ہوا

مدحتِ مصطفی مَیں سنانے لگا

٭

عیدِ میلاد النبی کی شان و شوکت دیکھیے

منعقد ہے جا بہ جا جشنِ ولادت دیکھیے

بر طفیلِ سرورِ کون و مکاں کونین میں

ہو رہی ہے ہر طرف بارانِ رحمت دیکھیے

٭

آرزوؤں کا گلشن شاہِ دیں کھلائیں گے

ہے یقیں مجھے طیبا مصطفی بلائیں گے

دل مرا چمک اُٹھے اُن کے سبز گنبد سے

میرے فکر و فن کو وہ دیکھنا جِلائیں گے

٭

طیبا کو قافلے چلے مَیں رہ گیا حضور

فرقت کے غم کو دل سے مرے کیجیے گا دور

مجھ کو یقیں ہے آپ کی فرمانِ لطف پر

طیبا بلائیں گے شہا اک دن مجھے ضرور

٭

اُن پہ فضلِ خدا نہیں ہو گا

جن کو پاس آپ کا نہیں ہو گا

لاکھ دنیا میں خوش رہیں لیکن

حشر میں تو بھلا نہیں ہو گا

٭

فکر اُس کی ناقص ہے نعت جو نہ لکھ پائے

وہ بڑا ہے خوش قسمت جس نے یہ رقَم کی ہے

کوئی مانے نا مانے ہے یہی حقیقت اِک

’’نعتِ مصطفی لکھنا آبرو قلم کی ہے‘‘

٭

اپنی ناکامی کو اے اہلِ جہاں دور کریں

سیرتِ پاک سے لیں درس جہاں بانی کا

صدق و اخلاص و وفا عدل و مساوات و یقیں

آپ نے چرچا کیا امن کی تابانی کا

٭

اللہ نے نازل کیے جتنے بھی صحیفے

ہر ایک میں موجود ہیں اوصافِ پیمبر

ممدوحِ نبی جب کہ ہے خود خالقِ کونین

مدحت میں بشر کیوں نہ رہے عاجز و کم تر

٭

بعد از خدا بزرگ شہِ دوجہاں کی ذات

روشن انھیں کے نور سے لاریب! شش جہات

توحید کی ضیائیں جہاں میں بکھیر کر

سب کو بنایا مسکنِ خلّاقِ کائنات

٭

مرے مردہ دل کو جِلا دیا

غمِ روزگار مٹا دیا

یہ شہ مدینہ کا ہے کرم

مرا سویا بخت جگا دیا

٭

تصور میں مدینہ دیکھتا ہوں

مَیں یوں جنت کا نقشہ دیکھتا ہوں

قضا لے آتی ہے طیبہ میں جن کو

بلند اُن کا مَیں رتبہ دیکھتا ہوں

٭

آساں ہے دعوا عشق کا مشکل مگر ہے یہ

اللہ کے رسول کے اسوہ پہ ہو عمل

تیری تباہی کا ہے سبب خود تری ہی ذات

طرزِ حیات اپنا مسلمان تُو بدل

٭

دُرودِ پاک ہے لاریب دل کے درد کا درماں

کہ اُن کے ذکر سے لوگو! غم و آلام مٹتے ہیں

جو نعتِ مصطفی شام و سحر کر لیں وظیفہ ہم

تو دیکھیں دل کے سارے غنچے پھر کس طرح کھلتے ہیں

٭

چلی توحید کی نوری کرن مکّہ سے یوں ہر سو

نظامِ بت کدہ درہم ہوا آقا کی آمد سے

خوشی کے شادیانے سارے عالم میں بجے لوگو!

فقط ابلیس ہی برہم ہوا آقا کی آمد سے

٭

وہ جس کو ہو گیا آقا کی دشمنی کا خبط

یقین جانو کہ ایمان ان کا ہو گیا ضبط

اگر ہے دعویِٰ الفت شہِ مدینہ سے

نہ رکھیں دشمنِ محبوبِ کبریا سے ربط

٭

نعل سرکار کی جو سر پہ سجا لیتے ہیں

بادشاہوں سے سِوا رتبہ بنا لیتے ہیں

بے نیازِ زر و اموالِ جہاں ہو کر وہ

ہو کے الفت میں فنا سوزِ بقا لیتے ہیں

٭

پکارتا ہوں مَیں اُن کو لوگو!

وہی کریں گے مداوا غم کا

ہیں غم زُدا غم زَدا دلوں کے

کیا دل میں کھٹکا ہو پھر الَم کا؟

٭

روح کی غذا بے شک نعتِ پاکِ احمد ہے

درد کی دوا بے شک نعتِ پاکِ احمد ہے

آبروٗ قلم کی تو،  زندگی سخن کی ہے

رب کی تو رضا بے شک نعتِ پاکِ احمد ہے

٭

لمحہ لمحہ میرے دل میں ذکرِ شاہِ طیبا بسا ہو

نعتِ نبی ہی پڑھتے پڑھتے مولا میرے میری قضا ہو

جب کہ اکیلی جان ہو میری گھر ہو اندھیرا تنہائی بھی

ایسے میں اے کاش کے لب پر صلِ علا کی جاری صدا ہو

٭

فرحتوں کی دہر میں ہر سو گھٹائیں گھر گئیں

باغِ عالم سے خزاں کی شکلیں ساری پھر گئیں

جشنِ میلاد النبی کی برکتیں تو دیکھیے

ظلم و عدواں سرکشی کی تیغیں ساری کِر گئیں  ۱؎

                                    ۱؎  کِرجانا: زنگ لگنا

٭

مَیں نے نعت گوئی کا جب سے ذوق پایا ہے

سر پہ میرے رحمت کا تب سے نوری سایا ہے

فوجِ غم نے گھیرا جب مجھ کو اے جہاں والو!

رب نے ذکرِ احمد سے میرا غم مِٹایا ہے

٭

ظلمتِ قلب و نظر پل میں مٹانے کے لیے

سبز گنبد کی کرن دل میں بسانے کے لیے

یا خدا! اِذنِ سفر کر دے مُشاہدؔ کو عطا

شوق سے نعت مدینے میں سنانے کے لیے

٭

ستارا اُن کے مقدر کا اوج پہ پہنچا

جنھیں ہوا ہے شہ انس و جاں کا پیار نصیب

جو سر کٹاتے ہیں ناموسِ مصطفائی پر

انھیں بہشت کے ہوتے ہیں لالہ زار نصیب

٭

داعیِ امن و اماں ہیں آپ اے شاہِ شہاں

آپ آئے تو مٹے ظلم و تشدد کے نشاں

جان کے دشمن سے بھی نرمی رکھی سرکار نے

کوئی بھی آیا نہیں ہے مثلِ شاہِ مرسلاں

٭

رہے گا نفسی کا عالم جہاں اِلیٰ غیری

اَنالہا کا سنائیں گے مژدہ شاہِ دَنا

شفیعِ روزِ جزا جرم بخشوائیں گے

وکیل بالیقیں ہوں گے ہمارے پیشِ خدا

٭

الفتِ پیمبر کا غم کبھی بھی کم نہ ہو

سیم و زر کی چاہت میں آنکھ میری نم نہ ہو

شاعری بھی لاحاصل اور قلم بھی بد قسمت

نعتِ مصطفی جس سے ایک بھی رقَم نہ ہو

٭

کارٹوں بنا کر وہ چاہے جتنا خوش ہولیں

عظمتِ شہِ کوثر پھر بھی کچھ نہ کم ہو گی

روز و شب وطیرہ ہے جن کا شہِ کی گستاخی

قوم دیکھ لینا وہ ساری ہی ختَم ہو گی

٭

زندگی کی ابتدا آپ ہیں مرے نبی

بندگی کی انتہا آپ ہیں مرے نبی

خُلقِ پاک آپ کا یا نبی قرآن ہے

سادگی کی وہ ضیا آپ ہیں مرے نبی

٭

آپ انبیا میں اک انتخاب ہیں بے شک

وصف سارے کے سارے لاجواب ہیں بے شک

آپ کی عنایت کا حصہ سب نے پایا ہے

رحمتوں کا نور افزا اک سحاب ہیں بے شک

٭

اگر بس جائے ہر سو آپ کے کردار کی خوشبو

تو چپے چپے پر پھیلے سکون اور پیار کی خوشبو

کہیں باقی نہ رہ پائے گا دہشت کا نشاں ہرگز

بسالیں زندگی میں آپ کے اَطوار کی خوشبو

٭

ذرا سوچیں تو ہم کیسا حسیں احساس رکھتے ہیں ؟

تصور میں مدینے کو ہمیشہ پاس رکھتے ہیں

درِ اقدس پہ مر جائیں یہی آقا تمنا ہے

دلِ حسرت زدا میں بس یہی اک آس رکھتے ہیں

٭

درِ مصطفی پہ جاؤں یہی آرزو ہے میری

مَیں وہیں پہ مر بھی جاؤں یہی آرزو ہے میری

ہو کرم خدائے برتر درِ مصطفی پہ جا کر

کوئی نعت مَیں سناؤں یہی آرزو ہے میری

٭

جب سے غمِ احمد کو سینے سے لگایا ہے

کونین کے ہر غم سے مولا نے بچایا ہے

سرکار کی شفقت کی بارش کا وہ حامل ہے

جس عاشقِ صادق کو لوگوں نے ستایا ہے

٭

اُمّی لقب ہیں آپ مگر جب زباں کھلی

اہلِ زباں کی دیکھیے گونگی زباں ہوئی

تاثیر کیا رقم ہو بیانِ رسول کی

اعدائے دیں کی سنگ دِلی ختم ہو گئی

٭

یہ کائنات تھی ڈوبی غرور و نخوت میں

کسی میں پاسِ وفا تھا نہ دَرک اُلفت میں

مرے نبی نے اُنھیٖں کو بنا دیا ہادی

کچھ اس طرح سے لیا سب کو بزمِ وحدت میں

٭

اعلان وہ معافی کا مکہ کی فتح پر

کیسا مرے نبی کے کرم کا کمال ہے؟

طائف میں ظلم سہہ کے دعاؤں کا سلسلا

کیسا عظیم آپ کا صبر و نوال ہے؟

٭

درِ رسول پہ اے کاش مجھ کو موت آئے

ہر ایک غم سے مری جاں نجات پا جائے

کبھی بھی عمرِ رواں میں نہ ہو گی کچھ الجھن

کہ اُن کے در کی زیارت سے وہ سرور آئے

٭

مجھے یقیں ہے کہ دربار اُن کا دیکھوں گا

مَیں طیبہ آنکھ سے اِک بار اُن کا دیکھوں گا

قضا سمیٹ لے فوراً ہی اپنی بانہوں میں

مَیں جب مدینے میں گل زار اُن کا دیکھوں گا

٭

٭

ہو نمایش کے لیے جو بندگی اچھی نہیں

کل بھی وہ اچھی نہ تھی اور آج بھی اچھی نہیں

ہو نہ جس انساں کے دل میں جذبۂ حُبِّ نبی

وہ نہ اچھا اور اس کی زندگی اچھی نہیں

٭

جب سے تہذیبِ نَو کا چلا سلسلا

دوستو! عظمتِ آدمی کھو گئی

دور کرتی تھیں جو دل کی تاریکیاں

آج وہ علم کی روشنی کھو گئی

٭

ہے یوں تو کہنے کو آدمی سے بھری ہوئی بزمِ دہر لیکن

ہو آدمیت کا جس میں جوہر حقیقتاً وہ ہی آدمی ہے

ہے بات تو جب ہر ایک سجدہ ادا ہو واعظ خلوصِ دل سے

نہ ہو گی مقبول کوئی صورت کہ جو دکھاوے کی بندگی ہے

٭

وصالِ یار کی مَیں تاب لا نہیں سکتا

مجھے فراق کی لذت کشید کرنے دو

جب اُن کے فضل سے طاقت نصیب ہو گی مجھے

مدینے جاؤں گا جا کر کبھی نہ آؤں گا

زہے نصیب جو ہو جائے آرزو پوری

غمِ فراق کا قصہ ہی ختم ہو جائے

نکل رہی ہے صدا یہ دلِ مُشاہدؔ سے

نشاطِ دائمی مِل جائے اس طرح سے مجھے

٭

حمد کی خوشبو گھر گھر پھیلے نعت کا ہر سو چھائے اجالا

اِن کی قوت سے پستی کو مِل جائے گی رفعتِ بالا

رَجعتِ شمس و شقِّ قمر کا معجزہ دیکھیں دنیا والو!

شاہِ مدینہ نے ہے پائی کیسی شانِ تصرف اعلا؟

آپ کی آمد علم و علم کی نوری برکھا ساتھ میں لائی

جہل کی تاریکی سے بے شک آپ نے دنیا کو ہے نکالا

٭٭٭

 

بول بالے مری سرکاروں کے

(مناقب و قصائد)

 

جانشینِ مصطفی  (ﷺ)

خلافت ناز کرتی ہے امامت ناز کرتی ہے

مرے صدیقِ اکبر پر صداقت ناز کرتی ہے

وہی ہیں جانشینِ مصطفی بعدَ الرُسل افضل

بہ صد ناز و ادب اُن پر نیابت ناز کرتی ہے

٭

مرادِ رسول  (ﷺ)

ہوتے نبی جو ختم نہ ہوتی پیمبری

حضرت عمر مثیلِ مرادِ رسول ہیں

مرضی بنی خدا کی یہ سوچا عمر نے جو

روشن جہاں میں آپ کے سارے اصول ہیں

٭

 

زوجِ دو نور عفّت

دین کی ایسی نصرت ہیں عثماں غنی

دولتِ جیشِ عُسرت ہیں عثماں غنی

شاہِ کوثر نے رفعت عطا کی اُنھیں

زوجِ دو نور عفّت ہیں عثماں غنی

٭

شیر خدا

نبی نے علم کا در کہہ کے احترام دیا

بیاں مَیں کیسے کروں عز و شانِ شیرِ خدا

وہی ہیں سیدِ عالم،  شہِ ولایت بھی

مَیں جس کا مولا،  علی اُس کے مولا ہیں،  یہ کہا

٭٭٭

 

منقبت در شان حضور غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ

مرید آپ کے صف بہ صف غوثِ اعظم

پھرے دہر میں جاں بکف غوثِ اعظم

نہیں منحصر کچھ عرب اور عجم تک

ہے ذکر آپ کا ہر طرف غوثِ اعظم

ہے مرقوم،  کرتے تھے بے حد تمہارا

ادب صالحین سلَف غوثِ اعظم

خدا نے رکھا آپ کے جدِّ اعلا

علی،  یعنی شاہِ نجف غوثِ اعظم

کھٹکتی ہے بس اُن کو عظمت تمہاری

ہیں ایمان جن کے تلَف غوثِ اعظم

غلامی تمہاری گدائی تمہاری

ہمارے لیے ہے تُحف غوثِ اعظم

ہوا وہ نہ حاصل کسی بھی ولی کو

جو حاصل ہے تم کو شرَف غوثِ اعظم

بہ پاسِ ادب سب نے گردن جھکا لی

نبی کے ہوئے جب خلَف غوثِ اعظم

مُشاہدؔ کے دل میں بھی جو حسرتیں ہیں

وہ ہیں آپ پر منکشف غوثِ اعظم

٭٭٭

 

مناقبِ مارہرہ مطہرہ

( عرسِ قاسمی ۲۰۱۱ء مارہرہ مطہرہ میں پہلی بار شرکت کے بعد رخصت ہوتے ہوئے)

چمکا لے اپنی قسمت کو چل پیم نگر مارہرہ میں

پا جائے گا رب کی رحمت کو چل پیم نگر مارہرہ میں

لفظوں میں بیاں مَیں کیسے کروں اِس خاک کی کیا کیا عظمت ہے

عاجز ہوں مَیں اس کی مدحت کو چل پیم نگر مارہرہ میں

٭

مارہرہ میرا مرکزِ روحانیت ہے دوستو!

قرباں ہے میری جان اس کے ذرّے ذرّے پر

ہے فیض مجھ پہ خوب ہی اس ارضِ پاک کا

ہو جائے کاش دائمی اس خاک پر بسر

٭٭٭

 

اَسرارِ مارہرہ

ہمیشہ لہلہاتا ہی رہے گل زارِ مارہرہ

کرے صیقل دلوں کو خوب ہی انوارِ مارہرہ

تہی دامن مَیں آیا ہوں درِ والا پہ یاقاسمؔ

مرادوں کے بھریں گوہر مرے سرکارِ مارہرہ

ہوئی کچھ مصطفی حیدر حسنؔ کی اس طرح برکت

امینؔ،  اشرفؔ،  نجیبؔ،  افضلؔ بنے مینارِ مارہرہ

مَیں صدقے جاؤں جذباتِ امانِؔ دین و ملّت کے

بسادیں ہر جگہ عالم میں وہ مہکارِ مارہرہ

مُشاہدؔ کیا بیاں کر پائے مارہرہ کی عظمت کا

امام احمد رضا سے پوچھیے اَسرارِ مارہرہ           ٭٭٭

 

سرکارِ نور

اللہ اللہ! کیا بیاں ہوں رتبۂ سرکارِ نور

ہر طرف پھیلا ہوا ہے لمعۂ سرکارِ نور

دوجہاں کی سُرخ روئی بن گئی اُس کا نصیب

ہو گیا جو دل سے لوگو! کُشتۂ سرکارِ نور

کامرانی سر فرازی اس کے زیرِ پا ہوئی

جس نے بھی اپنا لیا ہے رستۂ سرکارِ نور

ایک پل میں صفحۂ دل کی سیاہی صاف ہو

نور کا مخزن ہے ایسا روضۂ سرکارِ نور

روشنی ہی روشنی ہے دل کشی ہی دل کشی

میری نظروں میں بسا ہے قبۂ سرکارِ نور

رحمتِ عالم کی رحمت اس پہ ہو گی ہر نَفَس

جس کا پختہ تر رہے گا رشتۂ سرکارِ نور

بار بار آئے مُشاہدؔ حاضری کے واسطے

کاش! مِل جائے مجھے یہ مژدۂ سرکارِ نور

٭٭٭

 

عرسِ قاسم

بہارِ جاوداں کا استعارا عرسِ قاسم ہے

شریعت اور طریقت کا ستارا عرسِ قاسم ہے

اسے سیدؔ میاں نے اور حسنؔ نے مِل کے سینچا ہے

گلِ خوش رنگ کا نوری نظارا عرسِ قاسم ہے

امینؔ،  افضلؔ،  نجیبؔ،  اشرفؔ پہ میری جان ہو قرباں

اِنھوں نے خوش سلیقے سے سنوارا عرسِ قاسم ہے

شہِ قاسم کے برکاتی چمن کی بات اعلا ہے

کہ بے شک غم کے ماروں کا سہارا عرسِ قاسم ہے

مُشاہدؔ گلشنِ برکات روز افزوں پھلے پھولے

دُعا میری اجابت کے درِ والا کو اب چھولے

٭٭٭

 

فیضانِ مارہرہ

قلم سے اب نکلتا ہے بیانِ شانِ مارہرہ

ہمیشہ قادریوں پر رہے فیضانِ مارہرہ

شریعت کا طریقت کا حسیں سنگم ہے یہ دھرتی

اسی دھرتی پہ دنیا سنیت کی ساری ہے مرتی

شہِ عبدالجلیلِ بلگرامی نے یہاں آ کر

عروجِ خاص بخشا ارضِ مارہرہ کو وہ یکسر

کہ سارے جگ میں شہرہ ہو گیا اس پاک دھرتی کا

بنا مارہرہ مرکز بالیقیں سب اہلِ سنت کا

ہے مجھ پر صاحبُ البرکات کی برکت بہت زیادہ

جو مَیں بھی بن گیا مدحت نگارِ ارضِ مارہرہ

’’شہِ آلِ محمد عابدِ ذی شانِ مارہرہ‘‘

حضور آلِ رسولِ احمدی سلطانِ مارہرہ

جمالِ حضرتِ نوری،  مثالِ حضرتِ نوری

بیاں مَیں کر نہیں سکتا کمالِ حضرتِ نوری

ہے فیضِ جاریِ قاسم جہاں میں ہر جگہ لوگو!

عقیدت کی نگاہوں سے ذرا تم دوستو! دیکھو

نہ بھولیں گے کبھی سیدؔ میاں کی شفقتیں سُنّی

نہ بھولیں گے کبھی حیدر حسنؔ کی برکتیں سُنّی

امینِؔ با صفا،  نظمیؔ کی دانائی کے کیا کہنے

میاں اشرفؔ نجیبؔ افضلؔ کی رعنائی کے کیا کہنے

مُشاہدؔ ہو فدا عزمِ امانِ دین و ملت کے

کہ اُن کے دم سے گلشن شاہِ برکت کا پھلے پھولے

٭٭٭

 

شاد کامی کا سبب

شَرَف حاصل ہے ہم کو شاہِ برکت کی غلامی کا

یہی تو ہے سبب لوگو! ہماری شاد کامی کا

ہے میرے گھر میں رونق شاہِ حمزہ،  آلِ احمد سے

ہے فیضاں مجھ پہ میر عبدالجلیلِ بلگرامی کا

ہے اُن کا تن بھی نوری من بھی نوری جان بھی نوری

ہے شہرہ چار سو نوری میاں کی نیک نامی کا

بڑے اچھے بڑے ستھرے یہ مارہرہ کے سیّد ہیں

ہمیشہ درس دیتے ہیں جہاں کو خوش کلامی کا

سعادت مدحتوں کی جو مُشاہد کو ہوئی حاصل

ہے صدقہ عشقی عینی کا رضا کا اور جامی کا

٭٭٭

 

میرے تاج الشریعہ سلامت رہیں

مرشدِ با صفا،  رہبرِ گمرہاں میرے تاج الشریعہ سلامت رہیں

شمعِ راہِ ہدیٰ،  عظمتوں کا نشاں میرے تاج الشریعہ سلامت رہیں

آپ کی شان و شوکت ہو کیسے بیاں،  علم و تقویٰ میں ہیں آپ رشکِ جہاں

وارثِ نوری،  حامد،  رضا بے گماں میرے تاج الشریعہ سلامت رہیں

نازشِ بزمِ اہلِ سنن آپ ہیں،  نکتہ داں نکتہ سنج و سخن آپ ہیں

عاشقِ مصطفی جانِ امن و اماں میرے تاج الشریعہ سلامت رہیں

آپ کے روئے زیبا میں ہے وہ اثر،  غم ہو کافور فوراً جسے دیکھ کر

وجہِ تسکینِ جاں،  وجہِ تسکینِ جاں میرے تاج الشریعہ سلامت رہیں

مدحتِ مصطفی کا سلیقہ ملا،  مجھ مُشاہدؔ کو اے صاحبِ اتقا

آپ کی ہے نظر فیض بخش و رساں میرے تاج الشریعہ سلامت رہیں                  ٭٭٭

 

منقبت در شان حضرت قطب الاقطاب دیوان جی رحمۃ اللہ علیہ

چشتیہ فیضان سے ہو کر سراپا مالامال

بن کے چمکے شمسِ حق صاحبِ فضل و کمال

شمعِ عرفان و ولایت ذاتِ والا آپ کی

انجمن در انجمن ہے روشنی ہی روشنی

قطبِ اقطاب آپ ہیں اک پیکرِ رُشد و ہدا

خوفِ حق،  عشقِ نبی کو عام دنیا میں کیا

علمِ باطن،  علمِ ظاہر سے ہوئے جو فیض یاب

آپ کے در سے،  ہوئے وہ دوجہاں میں کام یاب

دور ہوتے ہیں جہاں سے سارے آلام و غموم

آج بھی صبح و مسا در پر ہے منگتوں کا ہجوم

ٹوٹے دل کا آبگینہ لے کر حاضر آئے ہیں

ہو کرم دیوان جی دنیا کے ہم ٹھکرائے ہیں

ہو مُشاہدؔ کی مکمل شمسِ حق یہ آرزو

روح جب نکلے تو روضہ ہو نبی کا رو بہ رو

٭٭٭

 

اما م احمد رضا کون؟

                        وہ امامِ علم و حکمت، وہ مخزنِ صدق و صفا

                        وہ عارفِ ربُ العلا، وہ عاشقِ خیر الورا

                        وہ کہ جس کا لمحہ لمحہ وقفِ نعتِ مصطفی

                        ذاتِ والا سر سے پاتک مخزنِ عشقِ نبی

                        وہ کہ جس کے خوش نما با غاتِ بخشش کے طفیل

                        صحرا صحرا کھِل رہا ہے گل بُنِ عشقِ نبی

                        وہ کہ جس کے ترجمہ میں کنزِ ایماں موج زن

                        ہر ورق لاریب! جس کا معدنِ عشقِ نبی

                        ہے وہی جامعِ علوم ِ دین و دنیا بے گماں

                        سائنس،  الجبرا،  ادب،  فلسفہ و ہیئت کا

                        وہ کہ جس نے توڑا اپنی علمی ضرب سے

                        ساحرانِ دہر کا سارا فسوٗں

                        وہ مجاہد،  وہ سپہ سالار،  و ہ مردِ جری

                        بزمِ دوشیں کی وہ شمعِ آخری

                        کفر کی ہر ایک چال

                        روٗ بہ روٗ اُس کے عیاں

                        جو اُڑائے فتنہ و غوغا و شر کی دھجیاں

                        وہ نڈر احقاقِ حق میں،  پیشِ باطل وہ قوی

                        دشمنانِ دیں کی حق میں ذوالفقارِ حیدری

                        وہ مصلحِ امت،  مٹایا بدعتوں کو دہر سے

                        وہ حامیِ سنت،  سنتوں کو عام دنیا میں کیا

                        عمر بھر جو بے قرارِ مصطفی بن کر جِیا

                        خونِ دل سے جس نے بزمِ دیں کو بخشی روشنی

                        ہند میں چاروں طرف ہے اُس کے رُخ کی چاندنی

                        روشنی ہی روشنی،  تازگی ہی تازگی

                        عشق کی تابندگی،  زندگی ہی زندگی

                        خوشبوئے ایماں لیے آئی نسیمِ آگہی

                        عشقِ سرور(ﷺ) کی شمیمِ جاں فزا

                        یوں چلی،  مُرجھائے غنچے کھل اُٹھے

                        قافلے صحراوں میں بھٹکے ہوئے

                        گنبدِ خضرا کے رُخ پر چل پڑے

                        اے مُشاہدؔ کون ہے وہ؟ کس کا ذکرِ خیر ہے

                        کون ہے فکر و نظر کا آج مرکز حبذا

                        وہ مفکر،  وہ محدث،  وہ مفسر با صفا

                        وہ محقق،  وہ مصنف،  وہ سراپا اتقا

                        وہ مدبر،  وہ معلم،  وہ ہمارا رہِ نما

                        وہ امامِ عشق و اُلفت و ہ فنا فی المصطفیٰ

                        وہ مجدد دین کا وہ سیدی احمد رضا

٭٭٭

 

اعلا حضرت کی باتیں

کیے جاؤ دل سے عقیدت کی باتیں

شہنشاہِ عشق و محبت کی باتیں

مدینے کا آ جائے خود ہی تصور

جو لب پر رہے اعلا حضرت کی باتیں

بر وفاتِ ماہرِ رضویات حضرت مسعودِ ملت علیہ الرحمہ

ماہرِ رضویات و نقیبِ عمل

تھے مصنف محقق بڑے بے بدل

چھوڑ کر ہم کو مسعودِ ملّت گئے

جس سے کمھلا گئے دل کے سارے کنول

بر وفاتِ ڈاکٹر مختار الدین احمد آرزوؔ

سونی سونی چار جانب بزمِ دانش ہو گئی

کون محفل سے گیا روتا سسکتا چھوڑ کر

یادگارِ سلف تھے مختار احمد آرزوؔ

چل دیے علم و ہنر کا بہتا دریا چھوڑ کر

٭٭٭

 

تصوف کا نقیب

(شہزادۂ خاندانِ برکا ت پروفیسر ڈاکٹر سید محمد امین میاں مارہروی، پروفیسر شعبۂ اردو مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ،  سجادہ نشین خانقاہِ عالیہ برکاتیہ،  مارہرہ مطہرہ کو دنیا کی ۵۰۰؍ با اثر شخصیات میں شامل کیے جانے پر گدائے خاندانِ برکات کا خراجِ عقیدت و محبت)

                        تو پیکرِ علم و عمل

                        تو رہبرِ راہِ ہدی

                        تو رونقِ بزمِ سنن

                        تو مخزنِ صدق و صفا

                        تو قوم و ملت کا امین

                        تیرا تفکر دل نشین

                        تیرا تخیل جاں فزا

                        تیرا تدبر خوش نما

                        تو وفا افروز باغِ مصطفی کا عندلیب

                        تو جہانِ رنگ و بو میں ہے تصوف کا نقیب

                        بالیقیں تو آشنائے رازِ شرعِ مصطفی

                        تو وارثِ حسنین تو آلِ علیِ مرتضیٰ

                        لاریب! تیرا نام ہے اک معتبر شایستگی

                        عرفانِ ذاتِ لم یزل بخشا شعورِ بندگی

                        تو مصدرِ امن و اماں

                        تو محورِ عرفانِ حق، تو مرکزِ ایقانِ حق

                        تیری ادائیں ضو فشاں

                        تجھ سے ہوا رونق فزا گلشن شہِ برکات کا

                        تابندہ تیری زندگی، روشن ترا طرزِ بیاں

                        تو اتالیقِ زماں

                        تو اتالیقِ زماں

                        صد مرحبا! صد مرحبا!

                        اکنافِ عالم میں ترا

                        شہرہ بپا ہے حبّذا!

                        شہرہ بپا ہے حبّذا!

                        مژدہ باد اے قوم و ملّت کے امیں

                        تو با اثر کردار میں، توبا اثر گفتار میں

                        تو با اثر اطوار میں، تو با اثر رفتار میں

                        تو با اثر تدریس میں، تو با اثر تبلیغ میں

                        تحسین اس اعزاز کو

                        تبریک تیری ذات کو

                        صد آفریں صد آفریں

                        اے قوم و ملّت کے امیں

                        اے قوم و ملّت کے امیں

٭٭٭

 

اعزازِ خسرَوانہ

(حضور محدثِ کبیر علامہ ضیا المصطفیٰ صاحب قبلہ دام ظلہٗ العالی کی ذاتِ با برکات سے علامہ وقار احمد عزیزی صاحب کو حضور حافظِ ملّت اور حضور مفتیِ اعظم قدس سرہما کی خصوصی خلافت و اجازت عطا ہونے پر تہنیتی خراجِ خلوص و عقیدت)

غوّاصِ بحرِ علمِ حدیثِ رسوٗل توٗ

ہاں ! واقفِ رُموٗزِ فُروع و اصوٗل توٗ

خوشبوٗ بکھیرتا ہے توٗ قولِ رسوٗل کی

باغِ سُنن کا ایک شگفتہ سا پھوٗل توٗ

توٗ پاسبان مسلکِ احمد رضا کا ہے

لاریب! ایک ماحیِ کفر و جَہوٗل توٗ

اعزازِ خُسرَوانہ کی ہو تہنیت تجھے

’’مُرشد‘‘ کی بارگاہ میں بے شک قَبوٗل توٗ

دونوں جہاں میں بالیقیں پائے گا تو فلاح

بن جا مُشاہدؔ اپنے بزرگوں کی دھوٗل توٗ

٭٭٭

 

اعزازِ لاجواب

(حضور محدثِ کبیر علامہ ضیا المصطفیٰ صاحب قبلہ دام ظلہٗ العالی کی ذاتِ با برکات سے علامہ وقار احمد عزیزی صاحب کو حضور حافظِ ملّت اور حضور مفتیِ اعظم قدس سرہما کی خصوصی خلافت و اجازت عطا ہونے پر تہنیتی خراجِ خلوص و عقیدت)

                        اے وقارِ قوم و ملّت

                        اے شناورِ بحرِ حدیث

                        اے واقفِ علمِ شریعت

                        اے نازشِ بزمِ سُنن

                        اے آشنائے رازِ طریقت

                        اے ناظمِ شیریٖں سخن

                        مائل بہ لطف تجھ پر اَسلاف رہے بالیقیٖں

                        افلاکِ علم و عمل کا ہے بے شک توٗ اک نجمِ مبیٖں

                        توٗ محترم، توٗ معتبر،  توٗ رونقِ بزمِ ہنر

                        توٗ وجہِ تطہیٖرِ عمل،  توٗ راحتِ قلب و جگر

                        لاریب! تیری ذات ہے اِک خوش نُما شایستگی

                        علمِ حدیث و قرآں میں حاصل تجھے وہ پختگی

                        تجھ پر محدثِ کبیر کی ٹھہری نگاہِ انتخاب

                        فیضِ عزیزی،  نوٗری کا بخشا اعزازِ لاجواب

                        تہنیت !اِس انعام کو

                         تحسیٖن! اِس اکرام کو

                        تبریک! تیری ذات کو

                        اے وقارِ بزمِ سنّت،  اے وقارِ بزمِ سنّت

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید