FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

مشترکہ خاندانی نظام – شرعی نقطۂ نظر سے

               مولانا اختر امام عادل قاسمی

مہتمم جامعہ ربانی منوروا شریف، سمستی پور، بہار

 

 

          اللہ پاک نے اس روئے زمین کو انسانوں سے آباد کیا، ان کے آپس میں رشتے ناطے قائم کیے، ایک دوسرے کے ساتھ ضرورتیں وابستہ کیں، باہم تعارف کے لیے خاندانوں اور معاشروں کا سلسلہ جاری کیا، اور حقوق و فرائض کا ایک کامل نظام عطا فرمایا، یہ سب چیزیں ظاہر کرتی ہیں کہ انسان باہم مربوط بھی ہے اور ان کے درمیان کچھ فاصلے بھی ہیں، انسان بہت سے سماجی اقدار و روایات کا پابند بھی ہے اور اپنی پرائیوٹ زندگی میں بہت حد تک آزاد بھی، یہ دونوں چیزیں توازن کے ساتھ ہوں تو گھر اور معاشرہ جنت نظیر بن جاتا ہے اور توازن بگڑ جائے تو وہی گھر اور سماج جہنم کا نمونہ بن جاتا ہے۔

انسانی فطرت

          انسان فطری طور پر حریت پسند واقع ہوا ہے، وہ سخت اجتماعیت میں بھی انفرادیت کا خواہاں ہوتا ہے اور بے پناہ مشغولیت میں بھی تنہائی کا متمنی ہوتا ہے، اللہ پاک نے انسان کی عجیب خلقت بنائی ہے، وہ سب کے ساتھ رہتے ہوئے بھی اکیلا رہنا چاہتا ہے اور تنہائی میں بھی وہ اکیلا نہیں ہوتا، ہر شخص کی اپنی شناخت ہے، اپنا ذوق اور مزاج ہے، اپنے مسائل اور ضروریات ہیں اور کوئی شخص زندگی کے کسی بھی مرحلے پر اس کے لیے ہرگز رضامند نہیں ہے کہ اس کی شناخت گم ہو جائے اور اس کے ذوق و مزاج اور شخصی مسائل کو دوسروں کی خاطر نظرانداز کیا جائے، ہر اعتدال پسند انسان چاہتا ہے کہ وہ دوسروں کے کام آئے، مگر دوسروں کے لیے خود اس کی شخصیت فنا نہ ہو جائے، عام انسانی اقدار کا لحاظ و احترام ضروری ہے، مگر اس کی اپنی پرائیویسی بھی ختم نہ ہو، وہ دنیا کے ہر رنگ و نوع کو قبول کرنے کو آمادہ ہے، مگر اس کا اپنا امتیاز بھی برقرار رہنا چاہیے، انسان کے اسی مزاج اور طبقاتی اور خاندانی رنگا رنگی کے اسی راز کو قرآن کریم نے مختصر اور بلیغ انداز میں اس طرح بیان کیا ہے:

          ﴿جَعَلْنَاکُمْ شُعُوباً وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا﴾ (الحجرات:۱۳)

          ترجمہ: ہم نے تمہارے اندر مختلف جماعتیں اور خاندان بنائے تاکہ تم باہم پہچانے جاؤ۔

طبقاتی فرق کا مقصد

          یہ طبقاتی فرق انسان کے لیے ایک امتحان ہے کہ اس فرق کا استعمال بندہ کس طور پر کرتا ہے؟ قرآن کریم میں ایک دوسرے مقام پر ہے:

          وَہُوَ الذِیْ جَعَلَکُمْ خَلٰئِفَ الاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِیَبْلُوَکُمْ فِی مَا اٰتٰکُم انَّ رَبّک سریعُ العقابِ وَانہٗ  لَغَفُوْرٌ رَّحِیْم (۶:۱۶۶)

          ترجمہ: اللہ پاک ہی نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا اور باہم فرق مراتب رکھا تاکہ تم کو عطا کردہ چیز کے بارے میں آزمائے، بیشک تیرا پروردگار جلد عذاب دینے والا ہے اور وہ یقیناً بخشنے والا اور مہربان بھی ہے۔

          اسی لیے شریعت مطہرہ نے اپنے تمام قانونی احکام اور اخلاقی ہدایات میں اس فطری تنوع کا لحاظ رکھا ہے، زندگی کا کوئی مرحلہ ہو اسلام نے اپنے کسی بھی حکم میں یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ اس نے کسی فریق یا زندگی کے کسی پہلو کو نظر انداز کیا ہو، یا کسی کی شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کی ہو، اسلامی قانون سراپا عدل و انصاف پر مبنی ہے، اسی بنیاد پر یہ دین قیم اور دین فطرت ہے، اسلام کے نزدیک عدل ہی تقویٰ کا معیار ہے۔

          قرآن کی ہدایت ہے کہ سخت سے سخت حالات میں بھی عدل کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہیے:

          اِعْدِلُوْا ہُوَ اَقْرَبُ للتقویٰ (مائدہ:۸)

          ترجمہ: انصاف کرو یہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے۔

احکام و ہدایات میں ہر طبقہ کی رعایت

          ہم مثال کے طور پر اسلام کی چند ان ہدایات کا تذکرہ کرتے ہیں، جن کا تعلق دو مختلف المراتب فریقین سے ہے اور جن سے انسان کو روز و شب دو چار ہونا پڑتا ہے:

          * والدین اور اولاد دو مختلف طبقے ہیں، مگر اسلام نے دونوں کے مراتب کا مکمل لحاظ رکھتے ہوئے قانونی ہدایات دی ہیں، ایک طرف والدین کا اتنا عظیم حق بتایا گیا کہ ان کے سامنے اُف تک کہنے کی اجازت نہیں ہے، قرآن کریم میں ہے:

          وَبِالْوَالِدَیْنِ احْسَاناً امَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الکِبَرَ أحَدُہُمَا أوْ کِلاَہُمَا فَلا تَقُل لَّہُمَا أفٍ وَلاَ تَنْہَرْہُمَا وَقُلْ لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْمًا وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِی صَغِیْراً (الاسراء:۲۴)

          ترجمہ: اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اُف نہ کہو اور نہ جھڑکو، ان سے اچھے لہجے میں بات کرو اور رحمت وانکسار کے ساتھ ان کے آگے جھک جاؤ اور ان کے لیے دعا کرو کہ پروردگار ان پر رحم فرما، جس طرح انھوں نے بچپن میں میری پرورش کی تھی۔

          احادیث میں والدین کے حق کو جہاد فی سبیل اللہ سے بھی مقدم بتایا گیا ہے، حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ  روایت کرتے ہیں:

          ﴿قُلْتُ یَا رسولَ اللّٰہِ أیُّ العَمَلِ أحَبُّ الی اللّٰہِ؟ قَالَ: الصلاۃُ علٰی وَقْتِہَا قُلْتُ ثُمَّ أيٌّ؟ قَالَ بِرُّ الْوَالِدَیْنِ، قُلْتُ ثُمَّ أيٌّ؟ قالَ الجہادُ فی سبیلِ اللّٰہ﴾

          (بخاری مواقیت الصلوٰۃ: ۵۰۴، مسلم کتاب الایمان ۸۵، ترمذی باب البر والصلۃ ۱۸۹۸، نسائی المواقیت ۶۱۰، احمد ۱/۴۳۹، دارمی الصلوٰۃ ۱۲۲۵)

          ترجمہ: میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ پاک کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل کیا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا، وقت پر نماز پڑھنا، میں نے عرض کیا، اس کے بعد کس عمل کا درجہ ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا، والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا، میں نے عرض کیا پھر کون سا عمل؟ آپ نے فرمایا جہاد فی سبیل اللہ۔

          دوسری طرف والدین کو اپنی اولاد کے حقوق کی طرف توجہ دلائی گئی اورانسان پر اولاد کی تعلیم و تربیت کی پوری ذمہ داری ڈالی گئی اور کہا گیا کہ اس سلسلے میں اللہ کے دربار میں ان کو جوابدہی کا سامنا کرنا ہو گا، ایک حدیث کے الفاظ ہیں:

          ﴿وَالرَّجُلُ رَاعٍ فی أہلہٗ

 ومَسْئُولٌ عن رَعِیَّتِہٗ ﴾ (بخاری باب الجمعہ:۸۵۳)

          ترجمہ: مرد اپنے گھر والوں کا نگراں ہے، اس سے اس کی رعیت کے بارے میں بازپرس ہو گی۔

          اولاد کو انسان کی سب سے بڑی پونجی اور صدقۂ جاریہ قرار دیا گیا، ارشاد نبوی ہے:

          ﴿اذا مَاتَ العبدُ انقطَعَ عَمَلُہٗ  الاّ مِنْ ثلاثٍ: صَدَقَۃٌ جَارِیۃٌ أو عِلمٌ یُنْتَفَعُ بِہٗ مِنْ بَعْدہٗ أو وَلدٌ صَالِحٌ یَدْعُو لہٗ ﴾ (مسلم الوصیۃ:۱۶۳۱)

          ترجمہ: جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل بند ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے کہ ان کا ثواب موت کے بعد بھی جاری رہتا ہے:

(۱) صدقۂ جاریہ

(۲) ایسا علم جس سے بعد میں بھی نفع اٹھایا جا سکے

(۳) نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔

          * نکاح کے باب میں اولیاء کو ہدایت دی گئی کہ بالغ لڑکیوں کا نکاح ان کی مرضی کے بغیر نہ کیا جائے، ورنہ نکاح درست نہیں ہو گا۔

          ﴿وَالْبِکْرُ تُسْتَأذَنُ فی نَفْسِہا وَاذْنُہَا صمَاتُہا، متفق علیہ﴾ (مشکوٰۃ باب الولی فی النکاح ص:۲۷۰)

          ترجمہ: کنواری لڑکی سے اجازت لی جائے گی، اور اس کی اجازت کا مطلب خاموشی ہے۔

          دوسری طرف لڑکیوں کو متنبہ کیا گیا کہ اپنے اولیا کے مشورہ کے بغیر نکاح نہ کریں، جو عورت بغیر کسی مجبوری کے ایسا کرے گی وہ بے حیائی اور گناہ کی مرتکب قرار دی جائے گی، ارشاد نبوی ہے:

          ﴿أیُّمَا امْرَأۃ نَکَحَتْ نَفْسَہَا بِغَیْرِ اذنِ وَلِیِّہا فَنِکَاحُہَا بَاطِلٌ، رواہ احمد والترمذی﴾ (مشکوٰۃ:۲۷۰)

          ترجمہ: جو عورت اپنے ولی کی مرضی کے بغیر اپنا نکاح کرے گی اس کا نکاح باطل ہے۔

          * میاں اور بیوی گھریلو زندگی کے بڑے ستون ہیں، ازدواجی زندگی میں دونوں کو الگ الگ ہدایات دی گئیں، شوہر سے کہا گیا کہ تمہاری یک گونہ فضیلت کے باوجود ان کے حقوق کے معاملہ میں تم اسی طرح جواب دہ ہو جس طرح کہ وہ تمہارے معاملے میں جواب دہ ہیں:

          ﴿وَلَہُنَّ مِثْلُ الذِی عَلَیْہِنَّ بِالمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلیہن درجۃ﴾ (بقرہ:۲۲۸)

          ترجمہ: عورتوں کا مردوں پر اتنا ہی حق ہے، جتنا مردوں کا ان پر ہے، البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت حاصل ہے۔

          جو لوگ اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھے طور پر رہتے ہیں، ان کو سوسائٹی کا اچھا آدمی قرار دیا گیا، نبی کریم … نے ارشاد فرمایا:

          خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَہْلِہٗ وَأنَا خَیْرُکُمْ لِاَہْلِی الحدیث رواہ الترمذی والدارمی․ (مشکوٰۃ باب عشرۃ النساء:۲۸۱)

          تم میں بہتر شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔

          عورتوں کی دلدہی کا اس قدر خیال رکھا گیا کہ ان کی جبری اصلاح سے بھی روکا گیا، ارشاد فرمایا گیا:

          ﴿انَّ الْمَرْأۃَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ وَلَنْ تَسْتَقِم لکَ علٰی طریقۃٍ فانِ اسْتَمْتَعْتَ بِہَا اِسْتَمْتَعْتَ بِہا وَفِیْہا عِوَجٌ وَانْ ذَہَبْتَ تُقِیْمُہا کَسَرْتَہا وَکَسْرُہَا طَلاَقُہا﴾ (صحیح مسلم الرضاع: ۱۴۶۸)

          ترجمہ: بیشک عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور وہ کبھی تمہارے ایک راستے پر سیدھی نہیں چل سکتی، پس اس سے جو نفع اٹھا سکتے ہو اٹھا لو، اس میں کجی ہے اگر تم اس کو ٹھیک کرنے کے درپے رہے تو اس کو توڑ ڈالو گے، توڑنے کا مطلب طلاق ہے۔

          ایک حدیث میں ہے:

          ﴿لاَیَفرکُ موٴمنٌ موٴمنۃً ان کَرِہَ منہا خُلُقاً رَضِیَ منہا خُلُقاً آخرَ﴾ (مسلم الرضاع ۱۴۶۹، احمد ۲/۳۲۹)

          ترجمہ: کوئی مومن مرد کسی مومن عورت سے نفرت نہ کرے، اس لیے کہ اگر ایک بات ناپسند ہو گی تو دوسری کوئی بات ضرور پسند آئے گی۔

          دوسری طرف عورت کو تنبیہ کی گئی کہ:

          ﴿لَوْ کُنْتُ آمِراً أحداً ان یَسْجُدَ لِأحَدٍ لأمرتُ المرأۃَ تَسْجُدُ لِزَوْجِہَا وَلَو أَمَرَہَا أنْ تَنْتَقِلَ مِنْ جَبَلِ أصفرَ الٰی جَبَلِ أسودَ وَمِنْ جَبَلِ أسودَ الٰی جَبَلِ أبْیَضَ کَانَ ینبغی لَہا أنْ تَفْعَلَہٗ ﴾ (رواہ احمد والترمذی الرضاع ۱۵۹، مشکوٰۃ باب الخلع والطلاق ص۲۸۳)

          ترجمہ: اگر میں کسی کو کسی کا سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کا سجدہ کرے اور اگر شوہر حکم دے کہ زرد پہاڑ سے سیاہ پہاڑ پر چلی جائے اور سیاہ پہاڑ سے سفید پہاڑ کی طرف منتقل ہو تو عورت کو یہ حکم مان لینا چاہیے۔

          ایک حدیث میں ہے کہ:

          ﴿اذَا دَعَا الرَّجُلُ الٰی فِرَاشہٗ فَأبَتْ أَنْ تَجِیءَ فَبَاتَ غَضْبَانَ عَلَیْہَا لَعَنَتْہَا المَلائِکَۃُ حَتی تَصْبَحَ﴾ (بخاری باب بدء الخلق ۳۰۶۵، مسلم النکاح ۱۴۳۶)

          ترجمہ: مرد اگر اپنی بیوی کو اپنے پاس بلائے اور عورت آنے سے انکار کر دے، پھر شوہر اس سے ناراض ہو کر سوجائے تو صبح تک فرشتے اس عورت پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔

          ایک دوسری حدیث میں ہے:

          ﴿لَا یَحِلُّ لامْرَأۃٍ أنْ تَصُوْمَ و زَوْجُہا شاہدٌ الّا باذنہ، ولا تأذن لأحد فی بیتہٗ الا باذنہ﴾ (البخاری، النکاح ۴۸۹۹، مسلم الزکاۃ ۱۰۲۶، احمد۲/۳۱۶)

          ترجمہ: کسی عورت کے لیے درست نہیں کہ شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر (نفل) روزہ رکھے یاکسی کو اس کی مرضی کے بغیر اس کے گھر میں آنے کی اجازت دے۔

          شوہر کی رضا مندی کو عورت کے لیے جنت میں داخلہ کا وسیلہ قرار دیا گیا، حضرت ام سلمہؓ  روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ … نے ارشاد فرمایا:

          أیُّما اِمْرَأۃٍ مَاتَتْ وَزَوْجُہا رَاضٍ دَخَلَتِ الْجَنَّۃَ (الترمذی الرضاع ۱۱۶۱، ابن ماجہ النکاح ۱۸۵۴)

          ترجمہ: جو عورت مر جائے اور اس کا شوہر اس سے راضی ہو تو وہ جنت میں داخل ہو گی۔

          * ایک طرف امراء و حکام کو عدل و انصاف، ادائے امانت، رحم و کرم، خوف خدا اور قانون کی بالادستی کی تاکید کی گئی، ﴿الرَّاحِمُونَ یَرْحَمُہُمُ الرَّحمٰنُ اِرْحَمُوا مَنْ فِی الأرْضِ یَرْحَمْکُمْ مَنْ فی السَّماء﴾ (رواہ ابوداؤد والترمذی:۴۳۲)

          ترجمہ: رحم کرنے والوں پر رحمن رحم کرتا ہے، اہل زمین پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔

          اعْدِلُوا ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْویٰ (مائدہ:۸) ترجمہ: انصاف کرو یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔

          أَنْ تُوٴدُّوا الأماناتِ الٰی أہْلِہَا وَ اذا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ أنْ تَحْکُمُوا بِالْعَدْلِ الآیۃ (نساء:۸)

          ترجمہ: امانتیں اہل امانت کے حوالے کرو اور لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو۔

          نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

          مَا مِنْ امامٍ یَغْلِقُ بابَہٗ  مِنْ ذَوِی الْحَاجَۃِ وَالخُلَّۃِ وَالْمَسْکَنَۃِ الّا أغْلَقَ اللّٰہُ أبْوَابَ السَّماءِ دُوْنَ خُلَّتِہٗ وَحَاجَتِہٗ وَمَسْکَنَتِہٗ (ترمذی ابواب الاحکام ص۲۲۷)

          ترجمہ: جو امام و حاکم ضرورت مندوں سے اپنا دروازہ بند کر لیتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت کے وقت آسمان کے دروازے بند کر لے گا۔

          من ولی من امر المسلمین شیئاً فاحتجب دون خلتہم وحاجتہم وفقرہم وفاقتہم احتجب اللّٰہ عز وجل یوم القیٰمۃ دون خلتہٗ وفاقتہٗ وفقرہٗ (مستدرک حاکم کتاب الاحکام ج۴ ص ۹۳ حیدرآباد)

          ترجمہ: جو شخص مسلمانوں کے معاملہ کا ذمہ دار ہونے کے بعد ان کی ضرورت کے وقت سامنے نہ آئے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی ضرورت و حاجت کے وقت اس کو نظر نہیں آئے گا۔

          الامام الذی علی الناس راع ہو مسئول عن رعیتہٗ (بخاری کتاب الاحکام۲/۱۰۵۷)

          ترجمہ: وہ امام جو لوگوں پر مقرر ہے وہ نگراں کار ہے اس سے اس کے زیر نگرانی اشخاص کے متعلق بازپرس ہو گی۔

          مامن عبد یسترعیہ اللّٰہ رعیۃ فلم یحطہا بنسجتہٗ الا لم یجد رائحۃ الجنۃ (بخاری کتاب الاحکام ۲/۱۰۵۷)

          ترجمہ: جس بندہ کو اللہ کسی رعیت کا نگراں بنائے اور وہ اس کی خیرخواہی پوری نہ کرے تو وہ جنت کی بو بھی نہیں پائے گا۔

          دوسری جانب عوام کو اپنے امیر کی ہر جائز امر میں اطاعت کی تلقین کی گئی اوراس کو اللہ اور رسول کی اطاعت کا حصہ قرار دیا گیا، اگر امیر اپنی ذمہ داریوں کے باب میں کوتاہی کا شکار ہو تب بھی اس کو نظر انداز کر کے اپنی ذمہ داریوں کو نباہنے کی ہدایت کی گئی۔

          قرآن کریم میں ہے:

          ﴿یٰأیُّہا الذِیْنَ آمنوا أطِیْعُوا اللّٰہَ وَأطِیْعُوا الرَّسُولَ وَأولِی الأمرِ مِنْکُم﴾ (النساء:۵۹)

          ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ اوراس کے رسول اور اپنے ذمہ داروں کی اطاعت کرو۔

          ارشاد نبوی ہے:

          ﴿علی المرء المسلم السمع والطاعۃ فیما أحب وکرہ الا أن یوٴمر بمعصیۃ فاذا أمر بمعصیۃ فلا سمع ولا طاعۃ﴾ (البخاری الاحکام ۶۷۲۵، مسلم الامارۃ ۱۸۳۹، الترمذی الجہاد ۱۷۰۷)

          ترجمہ: ہر مسلمان پر امیر کی سمع و طاعت ہر معاملہ میں واجب ہے، جی چاہے یا نہ چاہے، الا یہ کہ کسی معصیت کا حکم دیا جائے، اگر امیر معصیت کا حکم دے تو پھر سمع و طاعت واجب نہیں ہے۔

          ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ … سے سوال کیا:

          یا نبی اللّٰہ! أرأیت ان قامت علینا أمراء یسألوننا حقہم ویمنعوننا حقنا فما تأمرنا؟ فأعرض عنہ ثم سألہ مرۃ ثانیۃ، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اسمعوا وأطیعوا فانما علیہم ما حملوا وعلیکم ما حملتم﴾ (مسلم الامارۃ ۱۸۴۶، الترمذی الفتن ۲۱۹۹)

          ترجمہ: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اگر ہم پر ایسے امراء مسلط ہو جائیں جو ہم سے اپنا حق وصول کریں، لیکن ہمیں ہمارا حق نہ دیں تو ایسے امراء کے بارے میں آپ کا حکم کیا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: اس بات کو نظر انداز کر دو، اس نے دوبارہ یہی سوال کیا، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا کام سمع و طاعت ہے تم پر تمہارے کام کی ذمہ داری ہے ان پر ان کے کام کی ذمہ داری ہے۔

          * ایک طرف مال والوں کو مال خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی اور صدقہ و خیرات کے اتنے فضائل بیان کیے گئے کہ بعض صحابہؓ  نے اپنا سارا مال ہی صدقہ کر دینے کی ٹھان لی تھی۔

          پڑوسیوں کا اتنا حق بتایا گیا کہ گھر کے سالن میں بھی ان کو شریک کیا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

          ﴿اذا طبخت مرقۃ فاکثر مائہا وتعاہد جیرانک﴾ (مسلم البر والصلۃ والآداب ۲۶۲۵، الترمذی الأطعمۃ ۱۸۳۳، ابن ماجہ الأطعمۃ ۳۳۲۶)

          ترجمہ: شوربہ پکاؤ تو پانی بڑھا دو اور اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھو۔

          لیکن دوسری طرف سوال کرنے اور کسی سے مدد مانگنے کو انسانی غیرت کے خلاف کہا گیا اور اس کو چہرہ پر گدائی کے بدنما داغ سے تعبیر کیا گیا (دیکھئے صحیح بخاری کتاب الصدقات باب من سأل الناس تکثراً، ۱/۱۹۹) اور فرمایا گیا: الیدُ العُلیا خَیْرٌ مِنَ الیدِ السُفلٰی (بخاری کتاب الصدقات باب الاستعفاف عن المسئلۃ ۱/۱۹۹)

          ترجمہ: اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔

          * ایک طرف انسان کو مواقع تہمت سے بچنے کا حکم دیا گیا تاکہ کسی کو بدگمانی یا قیاس آرائی کا موقعہ نہ ملے تودوسری طرف اپنے مومن بھائیوں کے ساتھ حسن ظن رکھنے کا حکم دیا گیا اور بہت سے گمانوں کو گناہ قرار دیا گیا اور کسی کی ٹوہ میں رہنے سے منع کیا گیا، بلکہ بے اختیار اگر کسی مسلمان کے کسی عیب پر نگاہ بھی پڑ جائے تو اس کو ہر ممکن طور پر مخفی رکھنے کی تاکید کی گئی۔

          ﴿یٰأیُّہَا الذین آمَنُوا اجْتَنِبُوا کثیراً مِنَ الظَّنِ انَّ بَعْضَ الظَّنِّ اثْمٌ وَلاَ تَجَسَّسُوا﴾ (حجرات: ع۲)

          ترجمہ: ایمان والو! اکثر گمانوں سے بچو، اس لیے کہ بہت سے گمان گناہ ہوتے ہیں۔

          عن عقبۃ بن عامرؓ  قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من راٰی عورۃ فسترہا کان کمن أحییٰ مووٴدۃ․ (رواہ احمد والترمذی، مشکوٰۃ ص۴۲۴)

          ترجمہ: حضرت عقبہ بن عامرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ … نے ارشاد فرمایا کہ جس نے کسی کا کوئی عیب دیکھا پھر اس کو چھپا لیا تو اس نے گویا کسی دفن شدہ لڑکی کو زندہ کر دیا۔

          * ایک طرف مردوں کو یہ حکم کہ نامحرم عورتوں پہ نظر نہ پڑے اور اپنی نگاہیں نیچے رکھیں۔

          قُلْ لِلْمُوٴْمِنِیْنَ یَغُضُّوا مِنْ أبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوْجَہُمْ ذلک أزکٰی لَہُمْ․ (النور:ع۴)

          ترجمہ: آپ ایمان والوں سے کہہ دیں کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے پاکی کا باعث ہے۔

          دوسری طرف عورتوں کو یہ ہدایت کہ

          قَرْنَ فِیْ بُیُوتِکُنَّ وَلاَ تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الجَاہِلِیَّۃِ الأولٰی (الاحزاب:۳۳)

          ترجمہ: اپنے گھروں میں رہیں اور پرانی جاہلیت کی طرح بن سنور کر باہر نہ نکلیں۔

          * بزرگوں کو حکم کہ چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے پیش آئیں اور چھوٹوں کو تاکید کہ حد ادب ملحوظ رہے، ارشاد نبوی ہے:

          ﴿لیس منا من لم یرحم صغیرنا ولم یوقر کبیرنا﴾ (رواہ الترمذی، مشکوٰۃ باب الشفقۃ والرحمۃ علی الخلق ص ۴۳۲)

          ترجمہ: جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کی عزت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔

          اس طرح کی بیشمار مثالیں ہیں، جن میں شریعت اسلامیہ نے دو طرفہ اور سہ طرفہ ہدایات دے کر لوگوں کے حقوق، ان کی شناخت اور ترجیحات کا تحفظ کیا ہے، تاکہ نظام عالم قائم رہے، معاشرتی اقدار و روایات جاری رہیں اور ہر شخص کی ذاتیات بھی محفوظ رہیں، اسلام کسی بھی ایسے فکر و عمل کی اجازت نہیں دیتا جس سے کسی فرد یا اجتماع کا مفاد متاثر ہوتا ہو،  صلی اللہ علیہ وسلم خاندانی نظام کے مسائل کو سمجھنے کے لیے اسلام کے اس مزاج اور مذاق کو پیش نظر رکھنا از حد ضروری ہے۔

٭٭٭

ماخذ:

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 3-4 ‏، جلد: 96 ‏، ربیع الثانی ‏، جمادی الاولی 1433 ہجری مطابق مارچ ‏، اپریل 2012ء

http://www.darululoom-deoband.com/urdu/magazine/new/tmp/02-Mushtarka%20Khandani%20Nizam_MDU_3-4_January_12.htm

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید