FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

کتاب: نیکی اور سلوک کے مسائل

 

باب : والدین کے ساتھ نیکی کرنے کے بیان میں اور ان میں زیادہ حق کس کا ہے؟

1754: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! سب لوگوں میں کس کا حق مجھ پر سلوک کرنے کے لئے زیادہ ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ تیری ماں۔ وہ بولا کہ پھر کون؟ آپﷺ نے فرمایا کہ پھر تیری ماں۔ وہ بولا کہ پھر کون؟ آپ نے فرمایا کہ پھر تیری ماں۔ وہ بولا کہ پھر کون؟ آپﷺ نے فرمایا کہ پھر تیرا باپ۔ (آپﷺ نے ماں کو مقدم کیا کس لئے کہ ماں بچہ کے ساتھ بہت محنت کرتی ہے ، حمل نو مہینے ، پھر  جننا، پھر دودھ پلانا، پھر پالنا، بیماری، دکھ میں خبر لینا)۔

باب : والدین سے نیکی کرنا (نفلی) عبادت سے مقدم ہے۔

1755: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: گود میں کسی بچے نے بات نہیں کی سوائے تین بچوں کے۔ ایک عیسیٰ علیہ السلام دوسرے جریج کا ساتھی۔ اور جریج نامی ایک شخص عابد تھا، اس نے ایک عبادت خانہ بنایا اور اسی میں رہتا تھا۔ وہ نماز پڑھ رہا تھا کہ اس کی ماں آئی اور اسے بلایا کہ اے جریج! تو وہ (دل میں) کہنے لگا کہ یا اللہ میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں (میں نماز پڑھے جاؤں یا اپنی ماں کو جواب دوں)؟ آخر وہ نماز ہی میں رہاتو اس کی ماں واپس چلی گئی۔ پھر جب دوسرا دن ہوا تو وہ پھر آئی اور پکارا کہ اے جریج! وہ بولا کہ اے اللہ! میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں، آخر وہ نماز میں ہی رہا پھر اس کی ماں تیسرے دن آئی اور بلایا لیکن جریج نماز ہی میں رہا تو اس کی ماں نے کہا کہ یا اللہ! اس کو اس وقت تک نہ مارنا جب تک یہ فاحشہ عورتوں کا منہ نہ دیکھ لے (یعنی ان سے اس کا سابقہ نہ پڑے )۔ پھر بنی اسرائیل نے جریج کا اور اس کی عبادت کا چرچا شروع کیا اور بنی اسرائیل میں ایک بدکار عورت تھی جس کی خوبصورتی سے مثال دیتے تھے ، وہ بولی اگر تم کہو تو میں جریج کو آزمائش میں ڈالوں۔ پھر وہ عورت جریج کے سامنے گئی لیکن جریج نے اس کی طرف خیال بھی نہ کیا۔ آخر وہ ایک چرواہے کے پاس گئی جو اس کے عبادت خانے میں آ کر پناہ لیا کرتا تھا اور اس کو اپنے سے صحبت کرنے کی اجازت دی تو اس نے صحبت کی جس سے وہ حاملہ ہو گئی۔ جب بچہ جنا تو بولی کہ بچہ جریج کا ہے۔ لوگ یہ سن کر اس کے پاس آئے ، اس کو نیچے اُتارا، اس کے عبادت خانہ کو گرا اور اسے مارنے لگے۔ وہ بولا کہ تمہیں کیا ہوا؟ انہوں نے کہا کہ تو نے اس بدکار عورت سے زنا کیا ہے اور اس نے تجھ سے ایک بچے کو جنم دیا ہے۔ جریج نے کہا کہ وہ بچہ کہاؑ ہے ؟ لوگ اس کو لائے تو جریج نے کہا کہ ذرا مجھے چھوڑو میں نماز پڑھ لوں۔ پھر نماز پڑھی اور اس بچہ کے پاس آ کر اس کے پیٹ کو ایک ٹھونسا دیا اور بولا کہ اے بچے تیرا باپ کون ہے ؟ وہ بولا کہ فلاں چرواہا ہے۔ یہ سن کر لوگ جریج کی طرف دوڑے اور اس کو چومنے چاٹنے لگے اور کہنے لگے کہ ہم تیرا عبادت خانہ سونے اور چاندی سے بنائے دیتے ہیں۔ وہ بولا کہ نہیں جیسا تھا ویسا ہی مٹی سے پھر بنا دو۔ تو لوگوں نے بنا دیا۔ (تیسرا) بنی اسرائیل میں ایک بچہ تھا جو اپنی ماں کا دودھ پی رہا تھا کہ اتنے میں ایک بہت عمدہ جانور پر خوش وضع، خوبصورت سوار گزرا۔ تو اس کی ماں اس کو دیکھ کر کہنے لگی کہ یا اللہ! میرے بیٹے کو اس سوار کی طرح کرنا۔ یہ سنتے ہی اس بچے نے ماں کی چھاتی چھوڑ دی اور سوار کی طرف منہ کر کے اسے دیکھا اور کہنے لگا کہ یا اللہ! مجھے اس کی طرح نہ کرنا۔ اتنی بات کر کے پھر چھاتی میں جھکا اور دودھ پینے لگا۔ سیدنا ابو ہریرہؓ  نے کہا کہ گویا میں (اس وقت) نبیﷺ کو دیکھ رہا ہوں کہ آپﷺ نے اپنی انگلی کو چوس کر دکھایا کہ وہ لڑکا اس طرح چھاتی چوسنے لگا۔ پھر ایک لونڈی ادھر سے گزری جسے لوگ مارتے جاتے تھے اور کہتے تھے کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے۔ وہ کہتی تھی کہ مجھے اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے اور وہی میرا وکیل ہے۔ تو اس کی ماں نے کہا کہ یا اللہ! میرے بیٹے کو اس کی طرح نہ کرنا۔ یہ سن کر بچے نے پھر دودھ پینا چھوڑ دیا اور اس عورت کی طرف دیکھ کر کہا کہ یا اللہ مجھے اسی لونڈی کی طرح کرنا۔ اس وقت ماں اور بیٹے میں گفتگو ہوئی تو ماں نے کہا کہ او سرمنڈے !جب ایک شخص اچھی صورت کا نکلا اور میں نے کہا کہ یا اللہ! میرے بیٹے کو ایسا کرنا تو تو نے کہا کہ یا اللہ مجھے ایسا نہ کرنا اور لونڈی جسے لوگ مارتے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے تو میں نے کہا کہ یا اللہ! میرے بیٹے کو اس کی طرح کانہ کرنا تو تو کہتا ہے کہ یا اللہ مجھے اس کی طرح کرنا (یہ کیا بات ہے )؟ بچہ بولا، وہ سوار ایک ظالم شخص تھا، میں نے دعا کی کہ یا اللہ مجھے اس کی طرح نہ کرنا اور اس لونڈی پر لوگ تہمت لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے حالانکہ اس نے نہ زنا کیا ہے اور نہ چوری کی ہے تو میں نے کہا کہ یا اللہ مجھے اس کی مثل کرنا۔

باب : والدین کے ساتھ رہنے اور ان کے ساتھ نیکی کرنے کی غرض سے جہاد کو ترک کرنے کے متعلق۔

1756: سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ میں آپﷺ سے ہجرت اور جہاد پر بیعت کرتا ہوں اور اللہ سے اس کا ثواب چاہتا ہوں۔ آپﷺ نے پوچھا کہ تیرے ماں باپ میں سے کوئی زندہ ہے ؟ وہ بولا کہ دونوں زندہ ہیں۔ آپﷺ نے پوچھا کہ تو اللہ تعالیٰ سے ثواب چاہتا ہے ؟ وہ بولا کہ ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تو اپنے والدین کے پاس لوٹ جا اور ان سے نیک سلوک کر۔

باب : نبیﷺ کا فرمان کہ ”اللہ تعالیٰ نے ماں کی نافرمانی کو حرام قرار دیا ہے۔

1757: سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ  رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: بیشک اللہ عزوجل نے تم پر ماؤں کی نافرمانی، لڑکیوں کا زندہ گاڑھ دینا (جیسے کفار کیا کرتے تھے ) اور نہ دینا (اس کو جس کا دینا ہے مال ہوتے ہوئے ) اور مانگنا (اس چیز کا جس کے مانگنے کا حق نہیں) کو تم پر حرام کر دیا ہے۔ اور تین باتوں کو بُرا جانتا ہے (گو اتنا گناہ نہیں جتنا پہلی تین باتوں میں ہے ) بے فائدہ بولنا اور بہت زیادہ سوال کرنا اور مال کو برباد کرنا۔

باب : اس آدمی کی ناک خاک آلود ہو جس نے والدین یا ان میں سے ایک کو بڑھاپے میں پایا، پھر (انکی خدمت کر کے ) جنت میں داخل نہ ہوا۔

1758: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: خاک آلود ہو اس کی ناک، پھر خاک آلود ہو اس کی ناک، پھر خاک آلو د ہو اس کی ناک۔ کہا گیا کہ یا رسول اللہﷺ کس کی؟ فرمایا کہ جو اپنے ماں باپ دونوں کو یا ان میں سے ایک کو بوڑھا پائے ، پھر (ان کی خدمت گزاری کر کے ) جنت میں نہ جائے۔

باب : بڑی نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے دوستوں سے اچھا سلوک کرے۔

1759: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  سے روایت ہے کہ جب وہ مکہ کو جاتے تو اپنے ساتھ ایک گدھا تفریح کے لئے رکھتے اور جب اونٹ کی سواری سے تھک جاتے تو اس پر سوار ہو جاتے اور ایک عمامہ رکھتے جو سر پر باندھتے تھے۔ ایک دن وہ گدھے پر جا رہے تھے کہ اتنے میں ایک اعرابی نکلا۔ سیدنا عبد اللہؓ  نے کہا کہ کیا تو فلاں ابن فلاں نہیں ہے ؟ وہ بولا کہ ہاں۔ سیدنا عبد اللہؓ  نے اس کو گدھا دے دیا اور کہا کہ اس پر چڑھ جا اور عمامہ بھی دے دیا اور کہا کہ اپنے سر پر باندھ لے۔ سیدنا عبد اللہؓ  کے بعض ساتھی بولے کہ تم نے اپنی تفریح کا گدھا دے دیا اور عمامہ بھی دے دیا جو اپنے سر پر باندھتے تھے اللہ تعالیٰ تمہیں بخشے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ بڑی نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے فوت ہو جانے کے بعد اس کے دوستوں سے (اچھا) سلوک کرے اور اس دیہاتی کا باپ سیدنا عمرؓ  کا دوست تھا۔

باب : بیٹیوں کے ساتھ حسن سلوک کے بیان میں۔

1760: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس ایک عورت آئی اس کی دو بیٹیاں اس کے ساتھ تھیں، اس نے مجھ سے سوال کیا تو میرے پاس ایک کھجور کے سوا کچھ نہ تھا تو وہی میں نے اس کو دے دی۔ اس نے وہ کھجور لے کر دو ٹکڑے کئے اور ایک ایک ٹکڑا دونوں بیٹیوں کو دیا اور خود کچھ نہ کھایا۔ پھر اٹھی اور چلی گئی۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ تشریف لائے تو میں نے اس عورت کا حال آپﷺ سے بیان کیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ جو شخص بیٹیوں میں مبتلا ہو (یعنی ان کو پالے اور انہیں دین کی تعلیم کرے اور نیک شخص سے نکاح کر دے ) تو وہ قیامت کے دن جہنم سے اس کی آڑ بن جائیں گی۔

1761: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص دو لڑکیوں کی پرورش ان کے بالغ ہونے تک کرے ، تو قیامت کے دن میں اور وہ اس طرح سے آئیں گے اور آپﷺ نے اپنی انگلیوں کو ملایا (یعنی قیامت کے دن میرا اور اس کا ساتھ ہو گا۔ مسلمان کو چاہئیے کہ اگر خود اس کی لڑکیاں ہوں تو خیر ورنہ دو یتیم لڑکیوں کو پالے اور جوان ہونے پر ان کا نکاح کر دے تاکہ نبیﷺ کا ساتھ اس کو نصیب ہو)۔

باب : صلہ رحمی کرنا عمر کو بڑھاتا ہے۔

1762: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اس کی روزی بڑھے اور اس کی عمر دراز ہو تو اپنے ناتے کو ملائے۔ (یعنی رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرے )۔

باب : صلہ رحمی کرنا اگرچہ وہ قطع رحمی کریں۔

1763: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! میرے کچھ رشتہ دار ہیں، میں ان سے تعلق جوڑتا ہوں اور وہ مجھ سے قطع تعلق کرتے ہیں۔ احسان کرتا ہوں اور وہ بُرائی کرتے ہیں، میں بردباری کرتا ہوں اور وہ جہالت کرتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اگر حقیقت میں تو ایسا ہی کرتا ہے تو ان کے منہ پر جلتی راکھ ڈالتا ہے اور ہمیشہ اللہ کی طرف سے تیرے ساتھ ایک فرشتہ رہے گا جو تمہیں اس وقت تک ان پر غالب رکھے گا جب تک تو اس حالت پر رہے گا۔

باب : صلہ رحمی اور قطع رحمی کے متعلق۔

1764: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بیشک اللہ عزوجل نے خلق کو پیدا کیا، پھر جب ان کے بنانے سے فراغت پائی تو ناتا کھڑا ہوا اور بولا کہ یہ اس کا مقام ہے (یعنی بزبانِ حال یا کوئی فرشتہ اس کی طرف سے بولا اور یہ تأویل ہے اور ظاہری معنی ٹھیک ہے کہ خود ناتا بولا اور اس عالم میں ناتے کی زبان ہونے سے کوئی مانع نہیں ہے ) جو ناتا توڑنے سے پناہ چاہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہاں۔ تو اس بات سے خوش نہیں ہے کہ میں اس کو ملاؤں جو تجھے ملائے اور اس سے کاٹوں جو تجھے کاٹے ؟ ناتا بولا کہ میں اس سے راضی ہوں۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پس تجھے یہ درجہ حاصل ہوا۔ پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو اس آیت کو پڑھ لو اللہ تعالیٰ منافقوں سے فرماتا ہے کہ ”اگر تمہیں حکومت حاصل ہو جائے تو تم زمین میں فساد پھیلاؤ اور ناتوں کو توڑو۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی، ان کو (حق بات کے سننے سے ) بہرا کر دیا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا۔ کیا وہ قرآن میں غور نہیں کرتے کیا (ان کے ) دلوں پر تالے ہیں“ (محمدﷺ: 22..24 )۔

1765: سیدنا جبیر بن مطعمؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: رشتہ داری کو توڑنے والا شخص جنت میں نہیں جائے گا۔ ابن ابی عمر نے کہا کہ سفیان نے کہا کہ یعنی جو شخص رشتے ناتے کو توڑے (وہ جنت میں داخل نہ ہو گا)۔

باب : یتیم کی پرورش کرنے والے کے متعلق۔

1766: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: یتیم کی خبرگیری کرنے والا خواہ اس کا عزیز ہو یا غیر ہو، جنت میں میں اور وہ اس طرح سے ساتھ ہوں گے جیسے یہ دو انگلیاں۔ اور امام مالک رحمۃاللہ علیہ نے کلمہ کی انگلی اور درمیانی انگلی سے اشارہ کیا۔

باب : بیواؤں اور مسکینوں کے لئے کمانے والے کے ثواب میں۔

1767: سیدنا ابو ہریرہؓ  رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: جو شخص بیواؤں کے لئے کمائے اور محنت کرے یا مسکین کے لئے ، اس کے لئے ایسا درجہ ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے کا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی فرمایا کہ جیسے اس کا (درجہ ہے ) جو نماز کے لئے کھڑا رہے اور نہ تھکے اور جیسے اس روزہ دار کا جو روزہ ناغہ نہ کرے۔

باب : اللہ تعالیٰ کے لئے محبت کرنے والوں کی فضیلت۔

1768: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بیشک اللہ عزوجل قیامت کے دن فرمائے گا کہ کہاں ہیں وہ لوگ جو میری بزرگی اور اطاعت کے لئے ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے ؟ آج کے دن میں ان کو اپنے سایہ میں رکھوں گا اور آج کے دن میرے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہیں ہے۔

1769: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: ایک شخص اپنے بھائی کی ملاقات کو ایک دوسرے گاؤں میں گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی راہ میں ایک فرشتہ کھڑا کر دیا، جب وہ وہاں پہنچا تو اس فرشتے نے پوچھا کہ تو کہاں جاتا ہے ؟ وہ بولا کہ اس گاؤں میں میرا ایک بھائی ہے میں اس کو دیکھنے جا رہا ہوں۔ فرشتے نے کہا کہ اس کا تیرے اوپر کوئی احسان ہے جس کو سنبھالنے کے لئے تو اس کے پاس جاتا ہے ؟ وہ بولا کہ نہیں اس کا کوئی احسان مجھ پر نہیں ہے ، میں صرف اللہ کے لئے اس کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ تو فرشتہ بولا کہ پس میں اللہ تعالیٰ کا ایلچی ہوں اور اللہ تجھے چاہتا ہے جیسے تو اس (اللہ) کی راہ میں اپنے بھائی کو چاہتا ہے۔

باب : آدمی جس کے ساتھ محبت رکھتا ہے (روزِ قیامت) اسی کے ساتھ ہو گا۔

1770: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ یا رسول اللہﷺ! قیامت کب آئے گی؟ آپﷺ نے فرمایا کہ تو نے قیامت کے لئے کیا تیاری کی ہے ؟ وہ بولا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی محبت۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تو اسی کے ساتھ ہو گا جس سے تو محبت رکھے گا۔ سیدنا انسؓ  نے کہا کہ ہم اسلام لانے کے بعد کسی چیز سے اتنا خوش نہیں ہوئے جتنا اس حدیث کے سننے سے خوش ہوئے۔ سیدنا انسؓ  نے کہا کہ میں تو اللہ سے اور اس کے رسولﷺ سے اور سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما سے محبت رکھتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ میں قیامت کے دن ان کے ساتھ ہوں گا گو میں نے ان جیسے اعمال نہیں کئے۔

باب : جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ محبت کرتا ہے تو اپنے بندوں میں بھی اس کی محبت ڈال دیتا ہی۔

1771: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرئیل علیہ السلام کو بلا کر فرماتا ہے کہ میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں، پس تو بھی اس سے محبت کر۔ پھر جبرئیل علیہ السلام اس سے محبت کرتے ہیں اور آسمان میں منادی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں سے محبت کرتا ہے ، پس تم بھی اس سے محبت کرو۔ پھر آسان والے فرشتے اس سے محبت کرتے ہیں۔ اس کے بعد زمین والوں کے دلوں میں وہ مقبول کر دیا جاتا ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ کسی آدمی سے ناراض ہوتا ہے تو جبرئیل علیہ السلام کو بلا کر فرماتا ہے کہ میں فلاں سے بغض رکھتا ہوں پس تم بھی اس سے بغض رکھو، پھر وہ بھی اس سے بغض رکھتے ہیں۔ پھر آسمان والوں میں منادی کر دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے بغض رکھتا ہے تم بھی اس سے بغض رکھو وہ بھی اس سے بغض رکھتے ہیں اس کے بعد زمین والوں میں اس کی دشمنی جم جاتی ہے (یعنی زمین میں بھی اللہ کے جو نیک بندے یا فرشتے ہیں وہ اس کے دشمن رہتے ہیں)۔

باب : روحوں کے جھنڈ کے جھنڈ ہیں۔

1772: سیدنا ابو ہریرہؓ  مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ لوگ سونے چاندی کی معدنی کانوں کی طرح ہیں۔ جو جاہلیت میں اچھے ہوتے ہیں وہ اسلام قبول کرنے کے بعد بھی اچھے ہوتے ہیں، جب کہ وہ دین کی سمجھ حاصل کر لیں۔ اور روحیں جھنڈ کے جھنڈ ہیں۔ پھر جنہوں نے ان میں سے ایک دوسرے کی پہچان کی تھی، وہ دنیا میں بھی دوست ہوتی ہیں اور جو وہاں الگ تھیں، یہاں بھی الگ رہتی ہیں۔

باب : مومن (دوسرے ) مومن کے لئے عمارت ی طرح ہے۔

1773: سیدنا ابو موسیٰؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مومن (دوسرے ) مومن کے لئے ایسا ہے جیسے عمارت میں ایک اینٹ دوسری اینٹ کو تھامے رہتی ہے (اسی طرح ایک مومن کو لازم ہے کہ دوسرے مومن کا مددگار رہے )۔

باب : (سب مومن) رحمت و شفقت کے لحاظ سے ایک آدمی کی طرح ہیں

1774: سیدنا نعمان بن بشیرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مومنوں کی مثال ان کی دوستی اور اتحاد اور شفقت کے لحاظ سے ایک جسم کی طرح ہے (یعنی سب مومن مل کر ایک قالب کی طرح ہیں) جسم میں سے جب کوئی عضو درد کرتا ہے تو سارا جسم اس (تکلیف) میں شریک ہو جاتا ہے نیند نہیں آتی اور بخار آ جاتا ہے (اسی طرح ایک مومن پر آفت آئے خصوصاً وہ آفت جو کافروں کی طرف سے پہنچے تو سب مومنوں کو بے چین ہونا چاہئیے اور اس کا علاج کرنا چاہئیے )۔

باب : مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ، اس پر ظلم نہیں کرتا اور اس کو ذلیل بھی نہیں کرتا۔

1775: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: حسد مت کرو،بولی بڑھانے کے لئے قیمت مت لگاؤ۔ ایک دوسرے سے دشمنی مت کرو، تم میں سے کوئی دوسرے کی بیع پر بیع نہ کرے اور اللہ کے بندے بھائی بھائی ہو جاؤ۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے پس نہ اس پر ظلم کرے ، نہ اس کو ذلیل کرے اور نہ اس کو حقیر جانے۔ تقویٰ اور پرہیزگاری یہاں ہے اور آپﷺ نے اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ کیا (یعنی ظاہر میں عمدہ اعمال کرنے سے آدمی متقی نہیں ہوتا جب تک اس کا سینہ صاف نہ ہو) اور آدمی کو یہ بُرائی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔ مسلمان کی سب چیزیں دوسرے مسلمان پر حرام ہیں اس کا خون، مال، عزت و آبرو۔

1776: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا، لیکن تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے۔

باب : بندہ پر پردہ پوشی کے بیان میں۔

1777: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ کسی بندے پر دنیا میں پردہ ڈال دیتا ہے تو آخرت میں بھی پردہ ڈالے گا۔ سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: جو کوئی شخص دنیا میں کسی بندے کا عیب چھپائے گا، اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) اس کا عیب چھپائے گا۔

باب : ساتھ بیٹھنے والوں کی سفارش کرنے کے بیان میں۔

1778: سیدنا ابو موسیٰؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے پاس جب کوئی شخص ضرورت لے کر آتا تو آپﷺ اپنے ساتھیوں سے فرماتے کہ تم سفارش کرو، تمہیں ثواب ہو گا اور اللہ تعالیٰ تو اپنے پیغمبر کی زبان پر وہی فیصلہ کرے گا جو چاہتا ہے۔

باب : نیک ساتھی کی مثال۔

1779: سیدنا ابو موسیٰؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: نیک ساتھی اور بُرے ساتھی کی مثال ایسی ہے جیسے مشک بیچنے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی۔ مشک والا یا تو تجھے یونہی تحفہ کے طور پر سونگھنے کو دیدے گا یا تو اس سے خرید لے گا یا تو اس سے اچھی خوشبو پائے گا اور بھٹی پھونکنے والا یا تو تیرے کپڑے جلا وے گا یا تجھے بُری بُو سونگھنی پڑے گی۔(یعنی اچھے اور برے ساتھی کے اثرات آدمی پر مرتب ہوتے ہیں)۔

باب : ہمسایہ کے ساتھ (حسن سلوک کرنے ) کی وصیت کے متعلق۔

1780: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ جبرئیل علیہ السلام ہمیشہ مجھے ہمسائے کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی نصیحت کرتے رہے ، یہاں تک کہ میں سمجھا کہ وہ ہمسائے کو وارث بنا دیں گے۔

باب : نیکی میں ہمسایوں کا (خاص) خیال رکھنے کے متعلق۔

1781: سیدنا ابو ذرؓ  کہتے ہیں کہ میرے دوستﷺ نے مجھے وصیت کی کہ جب تو گوشت پکائے تو شوربا زیادہ رکھ اور اپنے ہمسایہ کے گھر والوں کو دیکھ اور انہیں اس میں سے دے۔

1782: سیدنا ابو ذرؓ  کہتے ہیں کہ مجھ سے نبیﷺ نے فرمایا کہ احسان اور نیکی کو مت کم سمجھو (یعنی ہر چھوٹے بڑے احسان میں ثواب ہوتا ہے ) اور یہ بھی ایک احسان ہے کہ تو اپنے بھائی سے کشادہ پیشانی کے ساتھ ملے۔

باب : نرمی کے بارے میں۔

1783: سیدنا جریرؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ جو شخص نرمی سے محروم ہے ، وہ بھلائی سے محروم ہے۔

1784: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبیﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: نرمی کسی چیز میں نہیں آتی مگر اس کو مزین کر دیتی ہے اور کسی چیز سے دور نہیں کی جاتی مگر اس کو عیب دار کر دیتی ہے۔

باب : بیشک اللہ تعالیٰ نرمی کو پسند فرماتا ہے۔

1785: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اے عائشہ! اللہ نرمی (اور خوش اخلاقی) کو پسند کرتا ہے اور خود بھی نرم ہے اور نرمی پر وہ دیتا ہے جو سختی پر نہیں دیتا اور نہ کسی اور چیز پر۔

باب : تکبر کرنے والے کے عذاب کے بار ے میں۔

1786: سیدنا ابو سعید خدری اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: عزت اللہ تعالیٰ کی (تہبند کی) چادر ہے اور بڑائی اس کی (اوڑھنے کی) چادر ہے (یعنی یہ دونوں اس کی صفتیں ہیں) پھر اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ جو کوئی یہ مجھ سے چھیننے کی کوشش کرے گا، میں اس کو عذاب دوں گا۔

1787: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تین آدمیوں سے نہ تو بات کرے گا، نہ ان کو پاک کرے گا، نہ ان کی طرف (رحمت کی نظر سے ) دیکھے گا اور ان کو دکھ دینے والا عذاب ہے۔ ایک تو بوڑھا زانی، دوسرا جھوٹا بادشاہ اور تیسرا محتاج مغرور۔

باب : اللہ تعالیٰ پر قسم اٹھانے والے کے متعلق۔

1788: سیدنا جندبؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے بیان فرمایا: ایک شخص بولا کہ اللہ کی قسم،اللہ تعالیٰ فلاں شخص کو نہیں بخشے گا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ کون ہے جو قسم کھاتا ہے کہ میں فلاں کو نہ بخشوں گا؟ میں نے اس کو بخش دیا اور اس کے (جس نے قسم کھائی تھی) سارے اعمال لغو (بیکار) کر دئیے۔

باب : نرمی اور اس شخص کے متعلق جس کی بُرائی سے بچا جائے۔

1789: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبیﷺ سے اندر آنے کی اجازت مانگی تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اس کو اجازت دو، یہ اپنے کنبے میں ایک بُرا شخص ہے۔ جب وہ اندر آیا تو رسول اللہﷺ نے اس سے نرمی سے باتیں کیں۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ آپ نے تو اس کو ایسا فرمایا تھا، پھر اس سے نرمی سے باتیں کیں۔ تو آپﷺ نے فرمایا کہ اے عائشہ! بُرا شخص اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت میں وہ ہو گا جس کو لوگ اس کی بدگمانی کی وجہ سے چھوڑ دیں۔

باب : درگزر کرنے کے بیان میں۔

1790: سیدنا ابو ہریرہؓ  رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: صدقہ دینے سے کوئی مال نہیں گھٹتا اور جو بندہ معاف کر دیتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھاتا ہے اور جو بندہ اللہ تعالیٰ کے لئے عاجزی کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کا درجہ بلند کر دیتا ہے۔

باب : غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابو پا لینے والے کے متعلق۔

1791: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ بے اولاد تم کس کو سمجھتے ہو؟ لوگوں نے عرض کیا کہ اس کو جس کے اولاد نہیں ہوتی (یعنی جیتی نہیں)۔ آپﷺ نے فرمایا کہ وہ بے اولاد نہیں ہے (اس کی اولاد تو آخرت میں اس کی مدد کرنے کو موجود ہے ) بے اولاد حقیقت میں وہ شخص ہے جس نے اپنی اولاد میں سے اپنے آگے کچھ نہ بھیجا (یعنی جس کے روبرو اس کا کوئی لڑکا یا لڑکی نہ مرے )۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اچھا تم اپنے درمیان پہلوان کس کو شمار کرتے ہو؟ ہم نے کہا کہ پہلوان وہ ہے جس کو مرد پچھاڑ نہ سکیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں پہلوان تو وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ کو سنبھال لے (یعنی زبان سے مصلحت کے خلاف کوئی بات نہ کہے اور کسی پر ہاتھ بھی نہ اٹھائے )۔

باب : غصہ کے وقت پناہ مانگنے کا بیان۔

1792: سیدنا سلیمان بن صردؓ  کہتے ہیں کہ دو آدمیوں نے رسول اللہﷺ کے سامنے گالی گلوچ کی۔ ان میں سے ایک آدمی غصے میں آ گیا اور اس کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ مجھے ایک کلمہ معلوم ہے کہ اگر یہ شخص اس کو کہے تو اس کا غصہ جاتا رہے۔ وہ کلمہ یہ ہے اَعُوْذُ بِا اللهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ رسول اللہ سے سننے والوں میں سے ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے یہ سن کر جا کر اس شخص سے بیان کیا (جو غصہ ہوا تھا) تو وہ بولا کہ کیا تو مجھے مجنون سمجھتا ہے ؟

باب : انسان اس طرح پیدا کیا گیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو سنبھال نہ سکے گا۔

1793: سیدنا انسؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کا پتلا جنت میں بنایا تو جتنی مدت چاہا اسے پڑا رہنے دیا۔ شیطان نے اس کے گرد گھومنا اور اس کی طرف دیکھنا شروع کیا، پھر جب اس کو خالی پیٹ دیکھا تو پہچان لیا کہ یہ اس طرح پیدا کیا گیا ہے جو تھم نہ سکے گا (یعنی شہوت اور غصے اور غضب میں اپنے آپ کو سنبھال نہ سکے گا یا وسوسوں سے اپنے آپ کو بچا نہ سکے گا)۔

باب : نیکی اور گناہ کے بارے میں۔

1794: سیدنا نواس بن سمعانؓ  کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے پاس مدینہ میں ایک سال تک رہا (اس طرح جیسے کوئی آپﷺ کی ملاقات کے لئے دوسرے ملک سے آتا ہے اور اپنے ملک میں پھر لوٹ جانے کا ارادہ رکھتا ہے ) اور میں نے اس وجہ سے ہجرت نہ کی (یعنی اپنے ملک میں جانے کا ارادہ موقوف نہ کیا) کہ جب کوئی ہم میں سے ہجرت کر لیتا تھا تو رسول اللہﷺ سے کچھ نہ پوچھتا تھا (برخلاف مسافروں کے کہ ان کو پوچھنے کی اجازت تھی)۔ میں نے آپﷺ سے بھلائی اور بُرائی کے بارے میں پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا کہ بھلائی اور نیکی حسن خلق ہے اور گناہ وہ ہے جو دل میں کھٹکے اور لوگوں کو اس کی خبر ہونا تجھے بُرا لگے۔

باب : اس آدمی کے بارے میں جو راستہ سے گندگی یا تکلیف دینے والی چیز کو دُور کرتا ہے۔

1795: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ایک شخص نے راہ میں (کانٹوں کی) شاخ دیکھی تو کہا کہ اللہ کی قسم! میں اس کو مسلمانوں کے آنے جانے کی راہ سے ہٹا دوں گا تاکہ ان کو تکلیف نہ ہو۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کو جنت میں داخل کر دیا۔

1796: سیدنا ابو برزہؓ  کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ یانبی اللہﷺ! مجھے کوئی ایسی بات بتلائیے جس سے میں فائدہ اٹھاؤں۔ تو آپﷺ نے فرمایا کہ مسلمانوں کی راہ سے تکلیف دینے والی چیز کو ہٹا دی۔

باب : جو کانٹا یا کوئی مصیبت مومن کو پہنچتی ہے ، اس (کے ثواب) کا بیان۔

1797: اسود کہتے ہیں کہ قریش کے چند نوجوان اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے جبکہ وہ منیٰ میں تھیں اور وہ لوگ ہنس رہے تھے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ تم کیوں ہنستے ہو؟ انہوں نے کہا کہ فلاں شخص خیمہ کی طناب پر گرا اور اس کی گردن یا آنکھ جاتے جاتے بچی۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ مت ہنسو اس لئے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اگر مسلمان کو ایک کانٹا لگے یا اس سے زیادہ کوئی دکھ پہنچے تو اس کے لئے ایک درجہ بڑھے گا اور ایک گناہ اس کا مٹ جائے گا۔

باب : جو تکلیف اور رنج مومن کو پہنچتا ہے اس کے ثواب کا بیان۔

1798: سیدنا ابو سعید خدریؓ  اور سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ مومن کو جب کوئی تکلیف یا ایذا یا بیماری یا رنج ہو یہاں تک کہ فکر جو اس کو ہوتی ہے اس سے بھی تو اس کے گناہ مٹ جاتے ہیں۔

1799: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری کہ ”جو کوئی بُرائی کرے گا، اس کو اس کا بدلہ ملے گا“ تو مسلمانوں پر بہت سخت گزرا (کہ ہرگناہ کے بدلے ضرور عذاب ہو گا)۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میانہ روی اختیار کرو اور ٹھیک راستہ کو ڈھونڈو اور مسلمان کو (پیش آنے والی) ہر ایک مصیبت (اس کے لئے ) گناہوں کا کفارہ ہے ، یہاں تک کہ ٹھوکر اور کانٹا بھی (لگے تو بہت سے گناہوں کا بدلہ دنیا ہی میں ہو جائیگا اور امید ہے کہ آخرت میں مؤاخذہ نہ ہو گا)۔

باب : ایک دوسرے کے ساتھ حسد بغض اور دشمنی کی ممانعت کے بارے میں۔

1800: سیدنا انس بن مالکؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ایک دوسرے سے بغض مت رکھو، ایک دوسرے سے حسد مت رکھو اور ایک دوسرے سے دشمنی مت رکھو اور اللہ کے بندو بھائیوں کی طرح رہو۔ اور کسی مسلمان کو حلال نہیں ہے کہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ تک (بغض کی وجہ سے ) بولنا چھوڑ دے۔

باب : ان دونوں میں اچھا وہ ہے جو سلام کی ابتداء کرے۔

1801: سیدنا ابو ایوب انصاریؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کسی مسلمان کو یہ بات درست نہیں ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین راتوں سے زیادہ تک (بولنا) چھوڑ دے ، اس طرح پر کہ وہ دونوں ملیں تو ایک اپنا منہ ادھر اور دوسرا اپنا منہ اُدھر پھیر لے اور ان دونوں میں بہتر وہ ہو گا جو سلام میں پہل کرے گا۔

باب : کینہ رکھنے اور آپس میں قطع کلامی کے متعلق۔

1802: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جنت کے دروازے پیر اور جمعرات کے دن کھولے جاتے ہیں۔ پھر ہر ایک بندے کی مغفرت ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا، لیکن جو شخص جو اپنے بھائی سے کینہ رکھتا ہے اس کی مغفرت نہیں ہوتی اور حکم ہوتا ہے کہ ان دونوں کو دیکھتے رہو جب تک کہ صلح کر لیں۔ ان دونوں کو دیکھتے رہو جب تک کہ صلح کر لیں (جب صلح کر لیں گے تو ان کی مغفرت ہو گی )۔

باب : (مسلمانوں کی) جاسوسی کرنے ، (دنیوی) رشک کرنے اور بدگمانی کی ممانعت۔

1803: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی بڑا جھوٹ ہے اور کسی کی باتوں پر کان مت لگاؤ اور جاسوسی نہ کرو اور (دنیا میں) رشک مت کرو (لیکن دین میں درست ہے ) اور حسد نہ کرو اور بغض مت رکھو اور ترک ملاقات مت کرو اور اللہ کے بندو اور (آپس میں) بھائی بھائی بن جاؤ۔

باب : شیطان کا، نمازیوں کے درمیان لڑائی کرانے کے بیان میں۔

1804: سیدنا جابرؓ  کہتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ بیشک شیطان اس بات سے نا امید ہو گیا ہے کہ اس کو نمازی لوگ عرب کے جزیرہ میں پوجیں گے (جیسے جاہلیت کے دَور میں پوجتے تھے ) لیکن شیطان ان کو بھڑکا دے گا (یعنی آپس میں لڑائی کرانے میں پُر امید ہے )۔

باب : ہر انسان کے ساتھ شیطان ہے۔

1805: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ رات کو ان کے پاس سے نکلے۔ پس مجھے غیرت آئی (وہ یہ سمجھیں کہ آپﷺ اور کسی بی بی کے پاس تشریف لے گئے ہیں) پھر آپﷺ آئے اور میرا حال دیکھا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اے عائشہ! تجھے کیا ہوا؟ کیا تجھے غیرت آئی؟ میں نے کہا کہ مجھے کیا ہوا جو میری سی بی بی (کم عمر خوبصورت) کو آپ جیسے خاوند پر رشک نہ آئے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ کیا تیرا شیطان تیرے پاس آگیا؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! کیا میرے ساتھ شیطان ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ہاں۔ میں نے کہا کہ کیا وہ ہر انسان کے ساتھ ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ہاں۔ پھر میں عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! آپ کے ساتھ بھی ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ہاں، لیکن میرے پروردگار نے میری مدد کی ہے حتیٰ کہ وہ میرے تابع ہو گیا ہے۔ (اب مجھے برائی کا حکم نہیں دیتا)۔

باب : غیبت کرنے کی ممانعت میں۔

1806: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسولﷺ خوب جانتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ غیبت یہ ہے کہ تو اپنے بھائی کا ذکر اس طرح پر کرے کہ (اگر وہ سامنے ہو تو) اس کو ناگوار گزرے۔ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! اگر ہمارے بھائی میں وہ عیب موجود ہو تو؟ آپﷺ نے فرمایا کہ جب ہی تو یہ غیبت ہو گی نہیں تو بہتان اور افتراء ہے۔

باب : چغل خوری کی ممانعت میں۔

1807: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ بیشک محمدﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں یہ نہ بتلاؤں کہ بہتان قبیح کیا چیز ہے ؟ وہ چغلی ہے جو لوگوں میں عداوت ڈالے۔ اور محمدﷺ نے فرمایا کہ آدمی سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک سچا لکھا جاتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ لیا جاتا ہے۔

باب : چغل خور آدمی جنت میں نہ جائے گا۔

1808: ہمام بن حارث کہتے ہیں کہ ہم سیدنا حذیفہؓ  کے پاس مسجد میں بیٹھے تھے کہ ایک آدمی آیا اور ہمارے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ لوگوں نے سیدنا حذیفہؓ  سے کہا کہ یہ آدمی بادشاہ تک بات پہنچاتا ہے۔ سیدنا حذیفہؓ  نے اس کو سنانے کی نیت سے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ چغل خور جنت میں نہ جائے گا۔

باب : دو منہ والے کی مذمت کے بارے میں۔

اس باب کے بار ے میں سیدنا ابو ہریرہؓ  کی حدیث فضیلتوں کے باب میں گزر چکی ہے۔ (دیکھئے حدیث: 1744)۔

باب : سچ اور جھوٹ کے بارے میں۔

1809: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم سچ کو لازم کر لو کیونکہ سچ نیکی کی طرف راہ دکھاتا ہے اور نیکی جنت کو لے جاتی ہے اور آدمی سچ بولتا رہتا ہے ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سچا لکھ لیا جاتا ہے۔ اور جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ بُرائی کی طرف راہ دکھاتا ہے اور بُرائی جہنم کو لے جاتی ہے اور آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جھوٹا لکھ لیا جاتا ہے۔

باب : جہاں جھوٹ بولنا جائز ہے ، اس کا بیان۔

1810: سیدہ اُمّ کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط رضی اللہ عنہا سے روایت ہے اور وہ مہاجراتِ اوّل میں سے تھیں جنہوں نے رسول اللہﷺ  سے بیعت کی تھی کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرما رہے تھے کہ جھوٹا وہ نہیں جو لوگوں میں صلح کرائے اور بہتر بات بہتری کی نیت سے کہے۔ ابن شہاب نے کہا کہ میں نے نہیں سنا کہ کسی جھوٹ میں رخصت دی گئی ہو مگر تین موقعوں پر۔ ایک تو لڑائی میں، دوسرے لوگوں میں صلح کرانے کے لئے اور تیسرے خاوند کو بیوی سے اور بیوی کو خاوند سے (خوش طبعی کے لئے )۔

اور ایک روایت میں کہتی ہیں کہ میں نے نہیں سنا کہ کسی جھوٹ میں رخصت دی گئی ہو مگر تین موقعوں پر۔ (یعنی لڑائی میں، دوسرے لوگوں میں صلح کرانے کے لئے اور تیسرے خاوند کو بیوی سے اور بیوی کو خاوند سے ) (خوش طبعی کے لئے )۔

باب : جاہلیت کی پکار کی ممانعت۔

1811: سیدنا جابرؓ  کہتے ہیں کہ ہم نبیﷺ کے ساتھ ایک غزوہ میں تھے کہ ایک مہاجر نے ایک انصار کی سرین پر مارا (ہاتھ سے یا تلوار سے ) انصاری نے آواز دی کہ اے انصار دوڑو! اور مہاجر نے آواز دی کہ اے مہاجرین دوڑو! رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ یہ تو جاہلیت کا سا پکارنا ہے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! ایک مہاجر نے ایک انصاری کی سرین پر مارا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اس بات کو چھوڑو کہ یہ گندی بات ہے۔ یہ خبر عبد اللہ بن ابی (منافق) کو پہنچی تو وہ بولا کہ مہاجرین نے ایسا کیا؟ اللہ کی قسم ہم مدینہ کو لوٹیں گے تو ہم میں سے عزت والا شخص ذلیل شخص کو وہاں سے نکال دے گا (معاذ اللہ اس منافق نے اپنے آپ کو عزت والا قرار دیا اور رسول اللہﷺ کو ذلیل کہا) سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! مجھے اس منافق کی گردن مارنے دیجئے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ جانے دے (اے عمر)! کہیں لوگ یہ نہ کہیں کہ محمدﷺ اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں۔ (گو وہ مردود اسی قابل تھا لیکن آپﷺ نے مصلحت سے اس کو سزا نہ دی)۔

باب : گالی دینے کی ممانعت میں۔

1812: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: دو شخص جب گالی گلوچ کریں تو دونوں کا گناہ اسی پر ہو گا جو ابتداء کرے گا، جب تک کہ مظلوم زیادتی نہ کر لے۔

باب : زمانہ کو گالی دینے کی ممانعت میں۔

1813: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ مجھے آدمی تکلیف دیتا ہے ، کہتا ہے کہ ہائے کمبختی زمانے کی۔ تو کوئی تم میں سے یوں نہ کہے کہ ہائے کمبختی زمانے کی۔ اس لئے کہ زمانہ میں ہوں، رات اور دن میں لاتا ہوں۔ جب میں چاہوں گا تو رات اور دن ختم کر دوں گا۔ (جب رات دن کو پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے تو رات اور دن کو یعنی زمانہ کو گالیاں دینا دراصل اللہ کو گالی دینا ہو گا)۔

1814: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: تم زمانے کو بُرا مت کہو، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ خود زمانہ ہے (یعنی زمانہ کچھ نہیں کر سکتا کرنے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے )۔

باب : کوئی آدمی اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے۔

1815: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو ہتھیار سے نہ دھمکائے ، معلوم نہیں کہ شیطان اس کے ہاتھ کو ڈگمگائے (اور ہاتھ چل جائے ) اور پھر (اپنے بھائی کو مارنے کے سبب) جہنم کے گڑھے میں چلا جائے۔

باب : مسجد میں تیر کو اس کے پیکان (نوک) سے پکڑ کر آئے (تاکہ کسی کو زخمی نہ کر دے )۔

1816: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے ایک شخص کو جو کہ مسجد کے قریب تیر بانٹتا تھا، یہ حکم دیا کہ جب تیر لے کر نکلے تو ان کی پیکان (یعنی نوک والی طرف) تھام لیا کرے۔

1817: سیدنا ابو موسیٰؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب کوئی تم میں سے مسجد یا بازار میں گزرے اور اس کے ہاتھ میں تیر ہوں تو چاہئیے کہ ان کی نوک سے اپنے ہاتھ میں پکڑ لے۔ پھر نوک سے پکڑ لے ، پھر نوک سے پکڑ لے (تین بار تاکید کے لئے فرمایا) سیدنا ابو موسیٰؓ  نے کہا کہ اللہ کی قسم ہم نہیں مرے ، یہاں تک کہ ہم نے تیر کو ایک دوسرے کے منہ پر لگایا۔ (یعنی آپس میں لڑے اور رسول اللہﷺ کے ارشاد کے خلاف کیا)۔

باب : منہ پر مارنے کی ممانعت میں۔

1818: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب کوئی تم میں سے اپنے بھائی سے لڑے تو اس کے منہ پر نہ مارے۔

1819: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے لڑے تو اس کے منہ سے بچا رہے ، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے آدمی کو اپنی صورت پر بنایا ہے۔ (یہ نسبت تشریفاً ہے جیسے کعبۃ اللہ کی نسبت اللہ کی طرف ہے یعنی بیت اللہ)۔

باب : جانوروں کو لعنت کرنے اور اس کی وعید کے بارے میں۔

1820: سیدنا عمران بن حصینؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ایک سفر میں تھے اور ایک انصاری عورت ایک اونٹنی پر سوار تھی۔ وہ تڑپی تو عورت نے اس پر لعنت کی۔ رسول اللہﷺ نے سنا تو فرمایا کہ اس اونٹنی پر جو کچھ ہے وہ اتار لو اور اس کو چھوڑ دو کیونکہ وہ ملعون ہے۔ سیدنا عمرانؓ  نے کہا کہ گویا میں اس اونٹنی کو اس وقت دیکھ رہا ہوں کہ وہ پھِرتی تھی اور لوگوں میں سے کوئی اس کی پرواہ نہ کرتا تھا۔

باب : آدمی کے لئے یہ بات مکروہ ہے کہ وہ لعنت کرنے والا ہو۔

1821: سیدنا ابو درداءؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ جو لوگ لعنت کرتے ہیں، وہ قیامت کے دن کسی کی شفاعت نہ کریں گے اور نہ گواہ ہوں گے۔

1822: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے کہا گیا کہ یا رسول اللہﷺ! مشرکوں پر بددعا کیجئے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میں اس لئے نہیں بھیجا گیا کہ لوگوں پر لعنت کروں بلکہ رحمت (کا سبب) بنا کر بھیجا گیا ہوں۔

باب : جو کہتا ہے کہ لوگ ہلاک ہو گئے ، اس کے بارے میں۔

1823: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب کوئی (اپنے آپ کو عمدہ اور لوگوں کو حقیر جان کر) یہ کہے کہ لوگ ہلاک ہوئے تو وہ خود سب سے زیادہ ہلاک ہونے والا ہے (اور اگر افسوس یا رنج سے دین کی خرابی پر کہے تو منع نہیں ہے )۔ ابو اسحٰق (ابن محمد بن سفیان) نے کہ میں نہیں جانتا کہ حدیث میں لفظ ”أَھْلَکَ“ ہے یا لفظ ”أَھْلَکُ“ ہے۔

باب : بات کو بڑھا چڑھا کر یا بے فائدہ گفتگو کرنے والے ہلاک ہو گئے۔

1824: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بال کی کھال اتارنے والے تباہ ہوئے (یعنی بے فائدہ موشگافی کرنے والے حد سے زیادہ بڑھنے والے اور تعصب کرنے والے )۔ تین بار یہی فرمایا۔

باب : نبیﷺ کی بددعا مومنین کے لئے رحمت ہی۔

1825: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ دو شخص رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور میں نہیں جانتی کہ انہوں نے آپﷺ سے کیا باتیں کیں کہ آپﷺ کو غصہ آ گیا تو آپﷺ نے ان دونوں پر لعنت کی اور ان کو بُرا کہا۔ جب وہ باہر نکلے تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! ان دونوں کو کچھ فائدہ نہ ہو گا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ کیوں؟ میں نے عرض کیا کہ اس وجہ سے کہ آپﷺ نے ان پر لعنت کی اور ان کو بُرا کہا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تجھے معلوم نہیں جو میں نے اپنے رب سے شرط کی ہے ؟۔ میں نے عرض کیا ہے کہ اے میرے مالک! میں بشر ہوں، تو جس مسلمان پر میں لعنت کروں یا اس کو بُرا کہوں تو اس کو پاک کر اور ثواب دے۔

1826: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ سیدہ اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا کے پاس ایک یتیم لڑکی تھی، جس کو اُمّ انس کہتے تھے۔ رسول اللہﷺ نے اس لڑکی کو دیکھا تو فرمایا کہ! وہ لڑکی تو بڑی ہو گئی، اللہ کرے تیری عمر بڑی نہ ہو۔ وہ لڑکی یہ سن کر اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا کے پاس روتی ہوئی گئی تو اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ بیٹی تجھے کیا ہوا؟ وہ بولی کہ رسول اللہﷺ نے مجھ پر بد دعا کی کہ میری عمر بڑی نہ ہو۔ اب میں کبھی بڑی نہ ہوں گی یا یہ فرمایا کہ تیری ہمجولی بڑی نہ ہو۔ یہ سن کر سیدہ اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا جلدی سے اپنی اوڑھنی اوڑھتی ہوئی نکلیں اور رسول اللہﷺ سے ملیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ کیا ہے اُمّ سلیم؟ وہ بولیں کہ اے اللہ کے نبیﷺ! آپ نے میری یتیم لڑکی کو بددعا دی؟ آپﷺ نے پوچھا کہ کیا بددعا؟ وہ بولیں کہ وہ کہتی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ اس کی یا اس کی ہمجولی کی عمر دراز نہ ہو۔ یہ سن کر آپﷺ مسکرائے اور فرمایا کہ اے اُمّ سلیم! تو نہیں جانتی کہ میں نے اپنے رب سے شرط کی ہے ؟ میری شرط یہ ہے کہ میں نے عرض کیا کہ اے رب! میں ایک بشر ہوں اور خوش ہوتا ہوں جیسے آدمی خوش ہوتا ہے اور غصہ ہوتا ہوں جیسے آدمی غصہ ہوتا ہے ، پس میں اپنی امت میں سے جس کسی پر بددعا کروں، ایسی بددعا جس کے وہ لائق نہیں تو اس کے لئے قیامت کے دن پاکی کرنا اور طہارت اور اپنا قرب عطا کرنا۔ اور ابو معن نے اس حدیث میں تینوں جگہ ”یَتِیْمَةٌ“ کی بجائے ”یُتَیِّمَةٌ“ تصغیر کے ساتھ بیان کیا ہے۔

1827: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ رسول اللہﷺ تشریف لائے۔ اور میں ایک دروازے کے پیچھے چھپ گیا۔ پس آپﷺ نے دستِ مبارک سے مجھے (پیار سے ) تھپکا اور فرمایا کہ جا معاویہ کو بلا لا۔ میں گیا پھر لوٹ کر آیا اور میں نے کہا کہ وہ کھانا کھا رہے ہیں۔ آپﷺ نے پھر فرمایا کہ جا اور معاویہ کو بلا لا۔ میں پھر لوٹ کر آیا اور کہا کہ وہ کھانا کھا رہے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ اس کا پیٹ نہ بھرے۔

ابن مثنیٰ نے کہا کہ میں نے امیہ سے کہا کہ ”حَطَأَ“ کا کیا مطلب ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ اس کا معنی ہے کہ آپﷺ نے گدی پر ابن عباسؓ  کو مارا۔ (یہ حدیث بھی اسی معنی میں ہے جیسے پچھلی احادیث میں گزرا کہ آپﷺ نے اللہ تعالیٰ پر شرط لگائی ہے کہ اگر کسی کے لئے خلاف واقعہ کوئی بات کر دوں تو اس کے لئے رحمت ہو جائے۔ اس لئے یہ حدیث معاویہؓ  کے مناقب میں ہے )۔

کتاب: ظلم و ستم کے بیان میں

باب : ظلم کرنا حرام ہے اور استغفار اور توبہ کرنے کا حکم۔

1828: سیدنا ابو ذرؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے اللہ تعالیٰ سے بیان فرمایا، اس نے فرمایا کہ اے میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام کیا اور تم پر بھی حرام کیا، پس تم آپس میں ایک دوسرے پر ظلم مت کرو۔ اے میرے بندو! تم سب گمراہ ہو مگر جس کو میں راہ بتلاؤں پس تم مجھ سے راہنمائی طلب کرو میں تمہاری راہنمائی کروں گا۔ اے میرے بندو! تم سب بھوکے ہو مگر جس کو میں کھلاؤں۔ پس تم مجھ سے کھانا مانگو میں تمہیں کھلاؤں گا۔ اے میرے بندو! تم سب ننگے ہو مگر جس کو میں پہناؤں۔ پس تم مجھ سے کپڑا مانگو میں تمہیں پہناؤں گا۔ اے میرے بندو! تم میرا نقصان نہیں کر سکتے اور نہ مجھے فائدہ پہنچا سکتے ہو اگر تمہارے اگلے اور پچھلے اور آدمی اور جنات، سب ایسے ہو جائیں جیسے تم میں بڑا پرہیزگار شخص ہو تو میری سلطنت میں کچھ اضافہ نہ ہو گا اور اگر تمہارے اگلے اور پچھلے اور آدمی اور جنات سب ایسے ہو جائیں جیسے تم میں سے سب سے بڑا بدکار شخص ہو تو میری سلطنت میں سے کچھ کم نہ ہو گا۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے اور پچھلے اور آدمی اور جنات، سب ایک میدان میں کھڑے ہوں، پھر مجھ سے مانگنا شروع کریں اور میں ہر ایک کو جو وہ مانگے دیدوں، تب بھی میرے پاس جو کچھ ہے وہ کم نہ ہو گا مگر اتنا جیسے دریا میں سوئی ڈبو کر نکال لو (تو دریا کا پانی جتنا کم ہو جاتا ہے اتنا بھی میرا خزانہ کم نہ ہو گا، اس لئے کہ دریا کتنا ہی بڑا ہو آخر محدود ہے اور میرا خزانہ بے انتہا ہے۔ پس یہ صرف مثال ہے )۔ اے میرے بندو! یہ تو تمہارے ہی اعمال ہیں جن کو تمہارے لئے شمار کرتا رہتا ہوں، پھر تمہیں ان اعمال کا پورا بدلہ دوں گا۔ پس جو شخص بہتر بدلہ پائے تو چاہئیے کہ اللہ کا شکر ادا کرے (کہ اس کی کمائی بیکار نہ گئی) اور جو بُرا بدلہ پائے تو اپنے تئیں بُرا سمجھے (کہ اس نے جیسا کیا ویسا پایا)۔ سعید نے کہا کہ ابو ادریس خولانی جب یہ حدیث بیان کرتے تو اپنے گھٹنوں کے بل گر پڑتے۔

1829: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم ظلم سے بچو، کیونکہ ظلم قیامت کے دن اندھیرے ہیں (ظلم کو قیامت کے دن بوجہ تاریکی اور اندھیرے کے راہ نہ ملے گی) اور تم بخیلی سے بچو، کیونکہ بخیلی نے تم سے پہلے لوگوں کو تباہ کیا۔ بخیلی کی وجہ سے (مال کی طمع) انہوں نے خون کئے اور حرام کو حلال کیا۔

1830: سیدنا ابن عمرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ، پس نہ اس پر ظلم کرے نہ اس کو تباہی میں ڈالے۔ جو شخص اپنے بھائی کے کام میں رہے گا، اللہ تعالیٰ اس کے کام میں رہے گا اور جو شخص کسی مسلمان پر سے کوئی مصیبت دُور کرے گا، اللہ تعالیٰ اس پر سے قیامت کی مصیبتوں میں سے ایک مصیبت دُور کرے گا اور جو شخص مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا۔

باب : ظالم کے لئے مہلت کا بیان۔

1831: سیدنا ابو موسیٰؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بیشک اللہ عزوجل ظالم کو مہلت دیتا ہے (اس کی باگ ڈھیلی کرتا ہے تاکہ خوب شرارت کر لے اور عذاب کا مستحق ہو جائے )، پھر جب پکڑتا ہے تو اس کو نہیں چھوڑتا۔ اس کے بعد آپﷺ نے یہ آیت پڑھی کہ ”تیرا رب اسی طرح پکڑتا ہے جب بستیوں کو پکڑتا ہے یعنی ان بستیوں کو جو ظلم کرتی ہیں بیشک اس کی پکڑ سخت دکھ والی ہے “ (ھود: 102)۔

باب : آدمی کو چاہیئے کہ اپنے بھائی کی مدد کرے چاہے ظالم ہو یا مظلوم۔

1832: سیدنا جابرؓ  کہتے ہیں کہ دو لڑکے آپس میں لڑ پڑے۔ ان میں سے ایک مہاجرین میں سے تھا اور ایک انصار میں سے۔ مہاجر نے اپنے مہاجروں کو پکارا اور انصاری نے انصار کو تو رسول اللہﷺ باہر نکلے اور فرمایا کہ یہ تو جاہلیت کا سا پکارنا ہے (کہ ہر ایک اپنی قوم سے مدد لیتا ہے اور دوسری قوم سے لڑتا ہے ، اسلام میں سب مسلمان ایک ہیں) لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! (کچھ بڑا مقدمہ نہیں ) دو لڑکے لڑ پڑے تو ایک نے دوسرے کی سُرین پر مارا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تو کچھ ڈر نہیں (میں تو سمجھا تھا کہ کوئی بڑا فساد ہے )۔ چاہئیے کہ آدمی اپنے بھائی کی مدد کرے چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ اگر وہ ظالم ہے تو یہ مدد کرے کہ اس کو ظلم سے روکے اور اگر مظلوم ہے تو اس کی مدد کرے (اور اس کو ظالم کے پنجہ سے چھڑائے )۔

باب : ان لوگوں کے متعلق جو لوگوں کو تکلیف دیتے ہیں۔

1833: سیدنا عروہ بن زبیر سیدنا ہشام بن حکیم بن حزامؓ  سے روایت کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ (ہشام ملکِ) شام میں کچھ لوگوں کے قریب سے گزرے وہ دھوپ میں کھڑے کئے گئے تھے اور ان کے سروں پر تیل ڈالا گیا تھا۔ انہوں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ سرکاری محصول دینے کے لئے ان کو سزا دی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے ، آپﷺ فرماتے تھے کہ اللہ ان لوگوں کو عذاب کرے گا جو دنیا میں لوگوں کو عذاب کرتے ہیں (یعنی ناحق۔ تو اس وہ عذاب داخل نہیں ہے جو حدًا یا تعزیراً ہو)۔

باب : اپنے آپ کر ظلم کرنے والی قوم کے مسکن میں مت جاؤ مگر یہ کہ ( تم اپنے رب سے ڈر کر) روتے ہوئے (گزرو)۔

1834: ابن شہاب سے روایت ہے اور وہ قوم ثمود کے مکانات جس کا نام حِجر ہے ، کا ذکر کر رہے تھے اور کہا کہ سالم بن عبد اللہ نے کہا کہ سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  نے فرمایا کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ حجر پر سے گزرے تو آپﷺ نے فرمایا کہ ظالموں کے گھروں میں مت جاؤ مگر روتے ہوئے اور بچو کہ کہیں تم پر بھی وہ عذاب نہ آ جائے جو اُن پر آیا تھا پھر آپﷺ نے اپنی سواری کو ڈانٹا اور جلدی چلایا، یہاں تک کہ حجر پیچھے رہ گیا۔

باب : معذب لوگوں کے کنوؤں سے پانی پینے کے بارے میں۔

1835: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  سے روایت ہے کہ لوگ رسول اللہﷺ کے ساتھ حجر (یعنی ثمود کے ملک میں) اترے تو انہوں نے وہاں کے کنوؤں کا پانی پینے کے لئے لیا اور اس پانی سے آٹا گوندھا تو رسول اللہﷺ نے ان کو اس پانی کے بہا دینے اور آٹا اونٹوں کو کھلانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ پینے کا پانی اس کنوئیں سے لیں جس پر صالح علیہ السلام کی اونٹنی آتی تھی۔

باب : قصاص اور حقوق کی ادائیگی قیامت کے دن ہو گی۔

1836: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ہم میں مفلس وہ ہے جس کے پاس روپیہ اور اسباب نہ ہو۔ آپﷺ نے فرمایا کہ مفلس میری امت میں قیامت کے دن وہ ہو گا، جو نماز، روزہ اور زکوٰۃ کے ساتھ آئے گا۔ لیکن اس نے دنیا میں ایک کو گالی دی ہو گی، دوسرے کو بدکاری کی تہمت لگائی ہو گی، تیسرے کا مال کھا لیا ہو گا، چوتھے کا خون کیا ہو گا اور پانچویں کو مارا ہو گا۔ پھر ان لوگوں کو (یعنی جن کو اس نے دنیا میں ستایا) اس کی نیکیاں مل جائیں گی اور جو اس کی نیکیاں اس کے گناہ ادا ہونے سے پہلے ختم ہو جائیں گی تو ان لوگوں کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی، آخر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔

1837: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم قیامت کے دن حقداروں کے حق ادا کرو گے ، یہاں تک کہ بے سینگ والی بکری کا بدلہ سینگ والی بکری سے لیا جائے گا (گو کہ جانوروں کو عذاب و ثواب نہیں لیکن قصاص ضرور ہو گا)۔

 

 

 

کتاب: تقدیر کے بیان میں

 

باب : اللہ تعالیٰ کے قول: ”ہم نے ہر چیز اندازۂ مقرر کے ساتھ پیدا کی ہے “ کے بارے میں۔

1838: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ مشرکین قریش تقدیر کے بارے میں جھگڑتے ہوئے رسول اللہﷺ کے پاس آئے تو یہ آیت اتری کہ ”جس دن اوندھے منہ جہنم میں گھسیٹے جائیں گے (اور کہا جائے گا کہ) اب جہنم (کی آگ) کا لگنا چکھو۔ ہم نے ہر چیز کو تقدیر کے ساتھ پیداکیا ہے “ (القمر: 48-49)۔ (اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اس آیت میں قدر سے یہی تقدیر مراد ہے اور بعض نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ ہم نے ہر چیز کو اس کے اندازے پر پیدا کیا یعنی جتنا مناسب تھا)۔

باب : ہر چیز تقدیر سے ہے یہاں تک کہ عاجزی اور دانائی بھی۔

1839: طاؤس کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کے کئی صحابہ کو پایا وہ کہتے تھے کہ ہر چیز تقدیر سے ہے اور میں نے سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  سے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپﷺ فرماتے تھے کہ ہر چیز تقدیر سے ہے یہاں تک کہ عاجزی اور دانائی بھی (یعنی بعض آدمی ہوشیار اور عقلمند ہوتے ہیں اور بعض بیوقوف اور کاہل ہوتے ہیں یہ بھی تقدیر سے ہے )۔

باب : طاقت (کا مظاہرہ کرنے ) کا حکم اور (اپنے کو) عاجز ظاہر کرنے سے پرہیز کرنے کا حکم۔

1840: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک طاقتور مومن ضعیف مومن سے زیادہ اچھا اور محبوب ہے اور ہر ایک میں خیر اور بھلائی ہے۔تم ان کاموں کی حرص کر جو تمہارے لئے مفید ہیں۔ (یعنی آخرت میں کام دیں) اور اللہ سے مدد مانگو اور ہمت نہ ہارو اور جو تجھ پر کوئی مصیبت آئے تو یوں مت کہہ کہ اگر میں ایسا کرتا یا ایسا کرتا تو یہ مصیبت نہ آتی، لیکن یوں کہو کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں ایسا ہی تھا جو اس نے چاہا کیا اور اگر مگر کرنا شیطان کے لئے راہ کھولنا ہے۔

باب : پیدائش سے پہلے قدیر کا لکھا جانا۔

1841: سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی تقدیر کو آسمان اور زمین کے بنانے سے پچاس ہزار برس پہلے لکھا اور اس وقت اللہ تعالیٰ کاعرش پانی پر تھا۔

باب : تقدیر کے ثبوت میں اور سیدنا آدم اور سیدنا موسیٰ علیہما السلام کی آپس میں بحث کا بیان۔

1842: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: آدم اور موسیٰ علیہما السلام نے اپنے رب کے پاس بحث کی تو آدم علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام پر غالب ہوئے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ تم وہی آدم ہو جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے بنایا، اپنی روح تم میں پھونکی اور تمہیں فرشتوں سے سجدہ کرایا (یعنی سلامی کا سجدہ نہ کہ عبادت کا اور سلامی کا سجدہ اس وقت جائز تھا اور ہمارے دین میں اللہ کے سوا کسی دوسرے کو سجدہ کرنا حرام ہو گیا) اور تمہیں اپنی جنت میں رہنے کو جگہ دی، پھر تم نے اپنی خطا کی وجہ سے لوگوں کو زمین پر اتار دیا۔ آدم علیہ السلام نے کہا کہ تم وہ موسیٰ ہو جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنا پیغمبر کر کے اور کلام کر کے چن لیا اور تمہیں اللہ تعالیٰ نے تورات شریف کی تختیاں دیں جن میں ہر بات کا بیان ہے اور تمہیں سرگوشی کے لئے اپنے نزدیک کیا اور تم کیا سمجھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تورات کو میرے پیدا ہونے سے کتنی مدت پہلے لکھا ہے ؟ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ چالیس برس۔ آدم علیہ السلام نے کہا کہ تم نے تورات میں نہیں پڑھا کہ ”آدم نے اپنے رب کے فرمان کے خلاف کیا اور بھٹک گیا“۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ کیوں نہیں میں نے پڑھا ہے۔ آدم علیہ السلام نے کہا کہ پھر تم مجھے اس کام کے کرنے پر ملامت کرتے ہو جو اللہ عزوجل نے میری تقدیر میں میرے پیدا ہونے سے چالیس برس پہلے لکھ دیا تھا؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ پس آدم علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام پر غالب آ گئے۔

باب : مقادیر کے سبقت لے جانے اور اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿ونفس و ما سواھا …﴾ کی تفسیر کے بیان میں۔

1843: ابی الاسود دئلی کہتے ہیں کہ مجھے سیدنا عمران بن حصینؓ  نے کہا کہ تو کیا سمجھتا ہے کہ آج جس کے لئے لوگ عمل کر رہے ہیں اور محنت اور مشقت اٹھا رہے ہیں، آیا وہ بات فیصلہ پا چکی اور گزر گئی اگلی تقدیر کی رو سے یا آگے ہونے والی ہے رسول اللہﷺ کی حدیث سے اور حجت سے ؟ میں نے کہا کہ وہ بات فیصلہ پا چکی اور گزر گئی۔ عمران نے کہا کہ کیا یہ ظلم نہیں ہے ؟ (اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے جب کسی کی تقدیر میں جہنمی ہونا لکھ دیا تو پھر وہ اس کے خلاف کیونکر عمل کر سکتا ہے ) یہ سن کر میں بہت گھبرایا اور میں نے کہا کہ یہ ظلم اس وجہ سے نہیں ہے کہ ہر ایک چیز اللہ کی بنائی ہوئی ہے اور اسی کی مِلک ہے ، اس سے کوئی نہیں پوچھ سکتا اور ان (لوگوں) سے پوچھا جائے گا۔ عمران نے کہا کہ اللہ تجھ پر رحم کرے ، میں نے یہ اس لئے پوچھا کہ تیری عقل کو آزماؤں۔ مزینہ قبیلہ کے دو شخص رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ! آپ کیا فرماتے ہیں کہ آج جس کے لئے لوگ عمل کر رہے ہیں اور محنت اٹھا رہے ہیں، آیا فیصلہ ہو چکا اور تقدیر میں وہ بات گزر چکی یا آئندہ ہونے والا ہے اس حکم کی رو سے جس کو پیغمبر لے کر آئے اور ان پر حجت ثابت ہو چکی؟ آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ اس بات کا فیصلہ ہو چکا اور اس کی تصدیق اللہ کی کتاب سے ہوتی ہے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ”قسم ہے جان کی اور قسم اس کی جس نے اس کو بنایا، پھر اس کو بُرائی اور بھلائی بتا دی“ (الشمس: 7-8)۔

باب : تقدیر، بدبختی اور نیک بختی کے بارے میں۔

1844: سیدنا علیؓ  کہتے ہیں کہ ہم بقیع میں ایک جنازہ کے ساتھ تھے کہ رسول اللہﷺ تشریف لائے آپﷺ بیٹھ گئے اور ہم بھی آپﷺ کے گرد بیٹھ گئے۔ آپﷺ کے پاس ایک چھڑی تھی۔ آپﷺ سر جھکا کر بیٹھے اور چھڑی سے زمین پر لکیریں کرنے لگے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے کوئی جان ایسی نہیں ہے جس کا ٹھکانہ اللہ نے جنت میں یا جہنم میں نہ لکھ دیا ہو اور یہ نہ لکھ دیا ہو کہ وہ نیک بخت ہے یا بدبخت ہے۔ ایک شخص بولا کہ یا رسول اللہﷺ ! پھر ہم اپنے لکھے پر کیوں بھروسہ نہ کریں اور عمل کو چھوڑ دیں (یعنی تقدیر کے روبرو عمل کرنا بے فائدہ ہے جو قسمت میں ہے وہ ضرور ہو گا)؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ جو نیک بختوں میں سے ہے وہ نیکوں والے کام کی طرف چلے گا اور جو بدبختوں میں سے ہے وہ بدبختوں والے کاموں کی طرف چلے گا۔ اور فرمایا کہ عمل کرو۔ ہر ایک کو آسانی دی گئی ہے لیکن نیکوں کے لئے آسان کیا جائے گا نیکوں کے اعمال کرنا اور بدوں کے لئے آسان کیا جائے گا بدوں کے اعمال کرنا۔ پھر آپﷺ نے یہ آیت پڑھی کہ ”پس جس نے خیرات کی اور ڈرا اور بہتر دین (یعنی اسلام) کو سچا جانا، پس اس پر ہم نیکی کرنا آسان کر دیں گے اور جو بخیل ہوا اور بے پرواہ بنا اور نیک دین کو اس نے جھٹلایا توہم اس پر کفر کی سخت راہ کو آسان کر دیں گے “ (اللیل: 5…10 )۔

باب : (جن) اعمال (پر انسان کی زندگی کا) خاتمہ (ہوا، ان) کے متعلق۔

1845: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: آدمی مدت تک اچھے کام کیا کرتا ہے (یعنی جنتیوں کے کام)، پھر اس کا خاتمہ دوزخیوں کے کام پر ہوتا ہے اور آدمی مدت تک جہنمیوں کے کام کرتا ہے ، پھر اس کا خاتمہ جنتیوں کے کام پر ہوتا ہے۔

باب : اجل مقرر ہو چکی ہیں اور رزق تقسیم ہو چکے ہیں۔

1846: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ اُمّ المؤمنین اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یا اللہ! تو مجھے میرے خاوند رسول اللہﷺ، میرے باپ ابو سفیانؓ  اور میرے بھائی معاویہؓ  سے فائدہ عطا کر۔ پس رسول اللہﷺ نے ان سے فرمایا کہ تو نے اللہ تعالیٰ سے ان باتوں کے لئے کہا جن کی میعادیں مقرر ہیں، اور قدم تک جو چلیں لکھے ہوئے ہیں، اور روزیاں بٹی ہوئی ہیں ان میں سے کسی چیز کو اللہ اس کے وقت سے پہلے یا وقت کے بعد دیر سے کرنے والا نہیں ہے۔ اگر تو اللہ سے یہ مانگتی کہ تجھے جہنم کے عذاب سے یا قبر کے عذاب سے بچائے تو بہتر ہوتا۔ ایک شخص بولا کہ یا رسول اللہﷺ! بندر اور سور ان لوگوں میں سے ہیں جو مسخ ہوئے تھے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جس قوم کو ہلاک کیا یا ان کو عذاب دیا ان کی نسل نہیں چلائی اور بندر اور سور تو ان لوگوں سے پہلے موجود تھے۔

باب : (انسانی) پیدائش کس طرح ہوتی ہے اور شقاوت اور سعادت کے بارے میں۔

1847: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہم سے فرمایا اور آپﷺ (صادق المصدوق) سچے ہیں اور سچے کئے گئے ہیں (فرمایا کہ) بیشک تم میں سے ہر ایک آدمی کا نطفہ اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن جمع رہتا ہے ، پھر چالیس دن جمے ہوئے خون کی شکل میں رہتا ہے ، پھر چالیس دن میں گوشت کی بوٹی بن جاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اس کی طرف فرشتے کو بھیجتا ہے ، وہ اس میں روح پھونکتا ہے اور اس کو چار باتوں کا حکم ہوتا ہے۔ ایک تو اس کی روزی لکھنا (یعنی محتاج ہو گا یا مالدا)، دوسرے اس کی عمر لکھنا (کہ کتنا جئے گا)، اور تیسرے اس کا عمل لکھنا (کہ کیا کیا کرے گا) اور یہ لکھنا کہ نیک بخت (جنتی) ہو گا یا بدبخت (جہنمی)ہو گا۔ پس میں قسم کھاتا ہوں اس کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے کہ بیشک تم لوگوں میں سے کوئی اہل جنت کے کام کرتا رہتا ہے ، یہاں تک کہ اس میں اور بہشت میں بالشت بھر کا فاصلہ رہ جاتا ہے (یعنی بہت قریب ہو جاتا ہے ) پھر تقدیر کا لکھا اس پر غالب ہو جاتا ہے ، پس وہ دوزخیوں کے کام کرنے لگتا ہے اور دوزخ میں چلا جاتا ہے۔ اور کوئی آدمی عمر بھر دوزخیوں کے کام کیا کرتا ہے ، یہاں تک کہ دوزخ میں اور اس میں سوائے ایک ہاتھ بھر کے کچھ فرق نہیں رہتا کہ تقدیر کا لکھا اس پر غالب ہوتا ہے ، پس وہ بہشتیوں کے کام کرنے لگتا ہے اور پھر بہشت میں چلا جاتا ہے۔

1848: سیدنا حذیفہ بن اسیدؓ  رسول اللہﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ جب نطفہ چالیس یا پینتالیس رات رحم میں ٹھہر جاتا ہے تو فرشتہ اس کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ اے رب! اس کو بدبخت لکھوں یا نیک بخت؟ پھر اللہ تعالیٰ جو کہتا ہے ویسا ہی لکھتا ہے۔ پھر کہتا ہے کہ مرد لکھوں یا عورت؟ پھر اللہ تعالیٰ جو فرماتا ہے ویسا ہی لکھتا ہے اور اس کا عمل، اثر، عمر اور روزی لکھتا ہے پھر کتاب لپیٹ دی جاتی ہے ، نہ اس سے کوئی چیز بڑھتی ہے نہ گھٹتی ہے۔

1849: سیدنا عامر بن واثلہ سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا ابن مسعودؓ  سے سنا، وہ کہتے تھے کہ بدبخت وہ ہے جو اپنی ماں کے پیٹ سے بدبخت ہے اور نیک بخت وہ ہے جو دوسرے سے نصیحت پائے۔عامر بن واثلہ سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  سے یہ سن کر رسول اللہﷺ کے ایک صحابی کے پاس آئے جن کو حذیفہ بن اسید  غفاریؓ  کہتے تھے ، اور ان سے عبد اللہ بن مسعود کا یہ قول بیان کیا اور کہا کہ بغیر عمل کے آدمی کیسے بدبخت ہو گا؟ سیدنا حذیفہؓ  بولے کہ تو اس سے تعجب کرتا ہے ؟ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ جب نطفہ پر بیالیس راتیں گزر جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجتا ہے ، وہ اس کی صورت بناتا ہے اور اس کے کان، آنکھ، کھال، گوشت اور ہڈی بناتا ہے۔ پھر عرض کرتا ہے کہ اے رب! یہ مرد ہو یا عورت؟ پھر اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے حکم کرتا ہے اور فرشتہ لکھ لیتا ہے۔ پھر عرض کرتا ہے کہ اے رب! اس کی عمر کیا ہے ؟ پھر اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے حکم کرتا ہے اور فرشتہ لکھ لیتا ہے۔ پھر عرض کرتا ہے کہ اے رب! اس کی روزی کیا ہے ؟ پھر جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے وہ حکم کرتا ہے اور فرشتہ لکھ لیتا ہے۔ پھر وہ فرشتہ اپنے ہاتھ میں یہ کتاب لے کر باہر نکلتا ہے اور اس (کتاب) سے نہ کچھ بڑھتا ہے اور نہ گھٹتا ہے۔اور ایک روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ (فرشتہ پوچھتا ہے کہ) یہ تندرست اعضاء والا ہو یا عیب دار، پھر اللہ اس کو عیب سے پاک یا عیب والا پیدا کرتا ہے۔

باب : انسان کی تقدیر میں اس کا حصۂ زنا لکھ دیا گیا ہے۔

1850: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: انسان کی تقدیر میں زنا سے اسکا حصہ لکھ دیا گیا ہے جس کو وہ خواہ مخواہ کرے گا۔ تو آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے ، کانوں کا زنا سننا ہے ، زبان کا زنا بات کرنا ہے ، ہاتھ کا زنا پکڑنا (اور چھونا) ہے ، پاؤں کا زنا (برائی کی طرف) چلنا ہے ، دل کا زنا خواہش اور تمنا ہے اور شرمگاہ ان باتوں کو سچ کرتی ہے یا جھوٹ۔

باب : اللہ تعالیٰ کا دلوں کو جس طرح چاہے پھیر دینا۔

1851: سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ  سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپﷺ فرماتے تھے کہ آدمیوں کے دل اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ایک دل کی طرح ہیں، وہ ان کو پھراتا ہے جس طرح چاہتا ہے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ! دلوں کو پھیرنے والے ! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت پر پھیر دے۔

باب : ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا کیا جاتا ہے۔

1852: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے ، (اسلام کی استعداد پر پیدا ہوتا ہے۔ اگر اس کے والدین اسلام پر ہوں تو وہ اسلام پر قائم رہتا ہے ورنہ وہ اسے اپنے دین پر کر لیتے ہیں لیکن اسلام کی استعداد اس میں پھر بھی قائم رہتی ہے اور اسی لئے ان میں سے کچھ بعد میں اسلام قبول کر لیتے ہیں) پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں، جیسے جانور چار پاؤں والا ہمیشہ سالم جانور جنتا ہے ،کیا تمہیں ان میں کوئی کان کٹا ہوا جانور محسوس ہوتا ہے ؟ پھر سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ تمہارا جی چاہے تو اس آیت کو پڑھو کہ ”اللہ کی پیدائش جس پر لوگوں کو بنایا اللہ کی پیدائش نہیں بدلتی ……“ پوری آیت (الروم:30)۔

باب : مشرکین کی اولاد کے متعلق جو بیان ہوا۔

1853: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے مشرکین کے بچوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جب ان کو پیدا کیا تو وہ خوب جانتا ہے کہ وہ (بڑے ہو کر) کیا عمل کرتے۔

باب : اس لڑکے کے متعلق جس کو سیدنا خضر علیہ السلام نے قتل کیا تھا۔

1854: سیدنا ابی بن کعبؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: وہ لڑکا جس کو سیدنا خضر علیہ السلام نے قتل کر دیا تھا، کفر پر پیدا ہوا تھا (یعنی بڑا ہو کر کافر ہو جاتا) اور اگر جیتا تو اپنے ماں باپ کو سرکشی اور کفر میں پھنسا دیتا۔

باب : ان (بچوں) کے متعلق جو بچپن میں فوت ہو گئے اور اہلِ جنت اور اہل دوزخ کی پیدائش کا ذکر، حالانکہ وہ ابھی اپنے باپوں کی پشت میں تھے۔

1855: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کو ایک بچے کے جنازہ پر بلایا گیا جو انصار میں سے تھا۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ خوشی ہو اس کو یہ تو جنت کی چڑیوں میں سے ایک چڑیا ہو گا، نہ اس نے بُرائی کی، نہ برائی کی عمر تک پہنچا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اور کچھ کہتی ہے اے عائشہ؟ بیشک اللہ تعالیٰ نے جنت کے لئے لوگوں کو بنایا اور وہ اپنے باپوں کی پشت میں تھے اور جہنم کے لئے لوگوں کو بنایا اور وہ اپنے باپوں کی پشت میں تھے۔

 

 

 

کتاب: علم کے بیان میں

 

باب : علم کے اٹھ جانے اور جہالت کے عام ہو جانے کے بیان میں۔

1856: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ کیا میں تم سے وہ حدیث بیان نہ کروں جس کو میں نے رسول اللہﷺ  سے سنا ہے اور میرے بعد کوئی ایسا شخص تم سے یہ حدیث بیان نہ کرے گا جس نے اس کو آپﷺ سے سنا ہو۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ علم اٹھ جائے گا اور جہالت پھیل جائے گی اور زنا کھلم کھلا ہو گا اور شراب پی جائے گی اور مرد کم ہو جائیں گے ، یہاں تک کہ پچاس عورتوں کے لئے ایک مرد ہو گا جو ان کی خبرگیری کرے گا (یعنی لڑائیوں میں بہت سارے مرد مارے جائیں گے ) اور عورتیں رہ جائیں گی۔

باب : علم کے قبض ہو جانے کے متعلق۔

1857: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: زمانہ قریب ہو جائے گا اور علم اٹھا لیا جائے گا (یعنی زمانہ قیامت کے قریب ہو جائے گا) اور (عالم میں) فتنے پھیل جائیں گے۔ اور دلوں میں بخیلی ڈال دی جائے گی (لوگ زکوٰۃ اور خیرات نہ دیں گے ) اور ہرج بہت ہو گا۔ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! ہرج کیا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ کشت و خون (یعنی قتل و خونریزی)۔

باب : علماء کے اٹھا لئے جانے سے علم کے اٹھائے جانے کے متعلق۔

1858: سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ اللہ عزوجل اس طرح علم نہیں اٹھائے گا کہ لوگوں کے دلوں سے چھین لے ، لیکن اس طرح اٹھائے گا کہ عالموں کو اٹھا لے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم نہ رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنے سردار بنا لیں گے۔ ان سے سوال کیا جائے گا تو وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے۔ وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔

باب : جو شخص اسلام میں اچھا یا بُرا طریقہ جاری کرے۔

1859: سیدنا جریر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ کچھ اعرابی لوگ رسول اللہﷺ کے پاس آئے وہ کمبل پہنے ہوئے تھے۔ پس آپﷺ نے ان کا بُرا حال دیکھا تو لوگوں کو صدقہ دینے کی رغبت دلائی۔ لوگوں نے صدقہ دینے میں دیر کی، یہاں تک کہ اس بات کا رنج آپﷺ کے چہرے پر معلوم ہوا۔ پھر ایک انصاری شخص روپوں کی ایک تھیلی لے کر آیا، پھر دوسرا آیا، یہاں تک کہ (صدقہ اور خیرات کا) تار بندھ گیا اور آپﷺ کے چہرے پر خوشی معلوم ہونے لگی۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اسلام میں اچھا طریقہ جاری کرے (یعنی عمدہ کام کو جاری کرے جو شریعت کی رو سے ثواب ہو اور اس کا نمونہ قرآن و سنت میں موجود ہو) پھر لوگ اس کے بعد اس کام پر عمل کریں تو اس کو اتنا ثواب ہو گا جتنا سب عمل کرنے والوں کو ہو گا اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں کچھ کمی نہ ہو گی اور جو اسلام میں بُرا طریقہ جاری کرے (مثلاً بدعت یا گناہ کا کام) اور لوگ اس کے بعد اس پر عمل کریں تو تمام عمل کرنے والوں کے برابر گناہ اس پر لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کا گناہ کچھ کم نہ ہو گا۔

باب : جو آدمی ہدایت یا گمراہی کی طرف بلاتا ہے۔

1860: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص ہدایت کی طرف بلائے ، اس کو ہدایت پر چلنے والوں کا بھی ثواب ملے گا اور چلنے والوں کا ثواب کچھ کم نہ ہو گا اور جو شخص گمراہی کی طرف بلائے گا، اس کو گناہ پر چلنے والوں کا بھی گناہ ہو گا اور چلنے والوں کا گناہ کچھ کم نہ ہو گا۔

باب : قرآن کے علاوہ کچھ لکھنے اور نبیﷺ پر جھوٹ بولنے سے بچنے کے متعلق۔

1861: سیدنا ابو سعید خدریؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: (میرا کلام) مجھ سے مت لکھو اور جس نے کچھ مجھ سے سن کر لکھا ہو تو وہ اس کو مٹا ڈالے مگر قرآن کو نہ مٹائے۔ البتہ میری حدیث بیان کرو اس میں کچھ حرج نہیں اور جس نے قصداً مجھ پر جھوٹ باندھا، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔

1862: سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ میرے اوپر جھوٹ باندھنا ایسا نہیں ہے جیسے کسی اور پر جھوٹ باندھنا، (کیونکہ اور کسی پر جھوٹ باندھنے سے جھوٹ بولنے والے کا نقصان ہو گا یا جس پر جھوٹ باندھا اس کا بھی یا اور تین آدمیوں کا سہی۔ لیکن رسول اللہﷺ پر جھوٹ باندھنے سے ایک عالم گمراہ ہو گا اور دنیا کو نقصان پہنچے گا)۔ پھر جو شخص مجھ پر قصداً جھوٹ باندھے ، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔

1863: سیدنا سمرہ بن جندب اور مغیرہ بن شعبہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص مجھ سے حدیث نقل کرے اور وہ خیال کرتا ہو کہ یہ جھوٹ ہے ، تو وہ خود جھوٹا ہے۔

 

 

 

کتاب: دعاء کے مسائل

 

باب : اللہ تعالیٰ کے ناموں کے متعلق اور (اس شخص کے متعلق) جو ان کو یاد کرتا ہے۔

1864: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: اللہ جل جلالہ کے ننانوے نام ہیں۔ جو کوئی ان کو یاد کر لے (یعنی ان ناموں کے معنی پر عقیدہ رکھ کر عمل کرے ) وہ جنت میں جائے گا اور اللہ تعالیٰ طاق ہے اور طاق عدد کو دوست رکھتا ہے (اس لئے پورے سو نام نہیں بتائے اگرچہ اللہ کے نام بے شمار ہیں)۔

باب : نبیﷺ کی دعا۔

1865: سیدنا فروہ بن نوفل اشجعیؓ  کہتے ہیں کہ میں نے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ اللہ کے رسولﷺ اللہ سے کیا دعا کیا کرتے تھے ؟ انہوں نے کہا کہ آپﷺ فرماتے تھے کہ اے اللہ! میں ان کاموں کی برائی سے جو میں نے کئے ہیں اور ان کی برائی سے جو میں نے نہیں کئے ، تیری پناہ مانگتا ہوں۔

1866: سیدنا ابن عباسؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ فرماتے تھے کہ ”اے اللہ ! میں تیرا فرمانبردار ہو گیا اور تجھ پر ایمان لایا اور تجھ پر بھروسہ کیا اور تیری طرف رجوع کیا اور تیری مدد سے دشمنوں سے لڑا۔ اے مالک! میں اس بات سے تیری عزت کی پناہ مانگتا ہوں کہ تو مجھے بھٹکا دے اور تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور تو زندہ ہے جس کو موت نہیں اور جن و انس مرتے ہیں۔

1867: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ جب سفر میں ہوتے اور صبح ہوتی تو فرماتے کہ سننے والے نے اللہ کی حمد اور اس کی اچھی آزمائش کو سن لیا۔ اے ہمارے رب! ہمارے ساتھ رہ (یعنی مدد کو) اور ہم پر اپنا فضل کر اور میں جہنم سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔

1868: سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ یہ دعا کیا کرتے تھے : اے اللہ! میری خطا، میری نادانی اور میری زیادتی کو بخش دے جو مجھ سے اپنے حال میں ہوئی اور بخش دے اس چیز کو جس کو تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔ اے اللہ! بخش دے میرے ارادہ کے گناہ اور میری ہنسی کے گناہ کو اور میری بھول چوک اور قصد کو اور یہ سب میری طرف سے ہے۔ اے مالک! میرے اگلے ، پچھلے ، چھپے اور ظاہر گناہوں کو اور جن کو تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے ، بخش دے۔ تو ہی مقدم کرنے والا اور تو ہی مؤخر کرنے والا ہے اور تو ہر چیز پر قادر ہے۔

1869: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ! میرے دین کو سنوار دے جو کہ میری آخرت کے کام کا حافظ اور نگہبان ہے اور میری دنیا کو سنوار دے کہ جس میں میری روزی اور زندگی ہے۔ اور میری آخرت کو سنوار دے کہ جس میں میری واپسی ہے۔ اور میری زندگی کو میرے لئے ہر بھلائی میں زیادتی اور میری موت کو ہر شر سے میری راحت کا سبب بنا دے۔(یہ دعا ہر مطلب کی جامع ہے )۔

1870: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ فرماتے تھے : اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت، پرہیزگاری، (حرام سے ) پاکدامنی اور دل کی دولتمندی  مانگتا ہوں۔

1871: سیدنا زید بن ارقمؓ  کہتے ہیں کہ میں تم سے وہی کہوں گا جو آپﷺ فرمایا کرتے تھے ، آپﷺ فرماتے تھے کہ اے اللہ! میں عاجزی، سستی، بزدلی، بخیلی، بڑھاپے اور قبر کے عذاب سے پناہ مانگتا ہوں۔ اے اللہ! میرے نفس کو تقویٰ عطا فرما اور اس کو پاک کر دے کہ تو اس کا بہتر پاک کرنے والا ہے ، تو اس کا آقا اور مولیٰ ہے۔ اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس علم سے جو فائدہ نہ دے ، اس دل سے جو تیرے سامنے نہ جھکے ، اس نفس سے جو سیر نہ ہو اور اس دعا سے جو قبول نہ ہو۔

باب : ”اللہم اغفرلی وارحمنی وعافنی وارزقنی“

1872: سیدنا ابو مالک اشجعی اپنے والدؓ  سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے سنا اور آپﷺ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہﷺ! جب اپنے رب سے مانگوں تو کیا کہوں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ کہہ  ”اے اللہ! میرے گناہ بخش دے اور مجھ پر رحم کر اور مجھے (گناہوں سے ) بچا اور مجھے (حلال و پاکیزہ) رزق عطا فرما“ اور آپﷺ ان کلمات کو فرماتے وقت ایک ایک انگلی بند کرتے جاتے تھے تو سب بند کر لیں صرف انگوٹھا رہ گیا آپﷺ نے فرمایا کہ یہ کلمے دنیا اور آخرت دونوں کے فائدے تیرے لئے اکٹھا کر دیں گے۔

باب : ”اللھم اتنا فی الدنیا حسنۃ…“ کی دعا۔

1873: عبدالعزیز (ابن صہیب) کہتے ہیں کہ قتادہ نے سیدنا انسؓ  سے پوچھا کہ رسول اللہﷺ کونسی دعا زیادہ مانگا کرتے تھے ؟ سیدنا انسؓ  نے کہا کہ آپﷺ اکثر یہ دعا مانگتے تھے کہ ”اے اللہ ہمیں دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی دے اور جہنم کے عذاب سے بچا لینا “ اور سیدنا انسؓ  بھی جب دعا کرنا چاہتے تو یہی دعا کرتے اور جب دوسری کوئی دعا کرتے تو اس میں بھی یہ دعا ملا لیتے۔

باب : ہدایت اور سیدھا رہنے کی دعا۔

1874: سیدنا علیؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ یہ کہا کرو۔ اے اللہ! مجھے ہدایت کر اور مجھے سیدھا کر دے اور فرمایا کہ اس دعا کے مانگتے وقت ہدایت سے (مراد) راستہ کی ہدایت اور راستی (سیدھا رہنے ) سے (مراد) تیر کی درستی کا دھیان رکھا کرو۔

باب : نیک اعمال، جو اللہ تعالیٰ کے لئے کئے ہوں، ان کے واسطے سے دعا کرنا

1875: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: تین آدمی جا رہے تھے کہ انہیں شدید بارش نے آ لیا تو انہوں نے پہاڑ کی ایک غار میں پناہ لی۔ اتنے میں پہاڑ پر سے ایک پتھر غار کے منہ پر آ گرا اور غار کا منہ بند ہو گیا۔ انہوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ اپنے اپنے نیک اعمال کا خیال کرو جو اللہ تعالیٰ کے لئے کئے ہوں اور ان اعمال کے وسیلہ سے دعا مانگو شاید اللہ تعالیٰ اس پتھر کو تمہارے لئے ہٹا دے۔ چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا کہ میرے ماں باپ بوڑھے ضعیف تھے اور میری بیوی اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے تھے ، میں ان کے واسطے بھیڑ بکریاں چرایا کرتا تھا۔ پھر جب میں شام کے قریب چرا کر لاتا تھا تو ان کا دودھ دوہتا تھا، اور اوّل اپنے ماں باپ سے شروع کرتا تھا یعنی ان کو اپنے بچوں سے پہلے پلاتا تھا۔ ایک دن مجھے درخت نے دُور ڈالا (یعنی چارہ بہت دُور ملا)، پس میں گھر نہ آیا یہاں تک کہ مجھے شام ہو گئی تو میں نے اپنے ماں باپ کو سوتا ہوا پایا۔ پھر میں نے پہلے کی طرح دودھ دوہا اور دودھ لے کر والدین کے سرہانے کھڑا ہوا۔ مجھے بُرا لگا کہ میں ان کو نیند سے جگاؤں اور بُرا لگا کہ ان سے پہلے بچوں کو پلاؤں۔ اور بچے بھوک کے مارے میرے دونوں پیروں کے پاس شور کر رہے تھے۔ سو اسی طرح برابر میرا اور ان کا حال صبح تک رہا (یعنی میں ان کے انتظار میں دودھ لئے رات بھر کھڑا رہا اور لڑکے روتے چلاتے رہے نہ میں نے پیا نہ لڑکوں کو پلایا) پس الٰہی! اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ کام تیری رضا مندی کے واسطے کیا تھا تو اس پتھر سے ایک راستہ کھول دے جس میں سے ہم آسمان کو دیکھیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کو تھوڑا سا کھول دیا اور انہوں نے اس میں سے آسمان کو دیکھا۔ دوسرے نے کہا کہ الٰہی! ماجرا یہ ہے کہ میرے چچا کی ایک بیٹی تھی جس سے میں محبت کرتا تھا جیسے مرد عورت سے کرتے ہیں (یعنی میں اس کا کمال درجے عاشق تھا)، سو اس کی طرف مائل ہو کر میں نے اس کی ذات کو چاہا (یعنی حرامکاری کا ارادہ کیا)۔ اس نے نہ مانا اور کہا کہ جب تک سو اشرفیاں نہ دے گا میں راضی نہ ہوں گی۔ میں نے کوشش کی اور سو اشرفیاں کما کر اس کے پاس لایا۔ جب میں جنسی عمل کرنے کے لئے بیٹھا (یعنی جماع کے ارادہ سے ) تو اس نے کہا کہ اے اللہ کے بندے ! اللہ سے ڈر اور مہر کو ناجائز طریقہ سے مت توڑ (یعنی بغیر نکاح کے بکارت مت زائل کر)۔ سو میں اس کے اوپر سے اٹھ کھڑا ہوا۔ الٰہی! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میں نے تیری رضا مندی کے لئے کیا تھا تو اس غار کو تھوڑا سا اور کھول دے۔ اللہ تعالیٰ نے تھوڑا سا اور کھول دیا (یعنی وہ راستہ بڑا ہو گیا)۔ تیسرے نے کہا کہ الٰہی میں نے ایک شخص سے ایک فرق (وہ برتن جس میں سولہ رطل اناج آتا ہے ) چاول پر مزدوری لی، جب وہ اپنا کام کر چکا تو اس نے کہا کہ میرا حق دے میں نے فرق بھر چاول اس کے سامنے رکھے تو اس نے نہ لئے۔ میں ان چاولوں کو بوتا رہا (اس میں برکت ہوئی)، یہاں تک کہ میں نے اس مال سے گائے بیل اور ان کے چرانے والے غلام اکٹھے کئے۔ پھر وہ مزدور میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اللہ سے ڈر اور میرا حق مت مار۔ میں نے کہا کہ جا اور گائے بیل اور ان کے چرانے والے سب تو لے لے۔ وہ بولا کہ اللہ (جبار) سے ڈر اور مجھ سے مذاق مت کر۔ میں نے کہا کہ میں مذاق نہیں کرتا، وہ گائے بیل اور چرانے والوں کو تو لے لے۔ اس نے ان کو لے لیا۔ سو اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میں نے تیری رضامندی کے لئے کیا تھا تو جتنا باقی ہے وہ بھی کھول دے۔ پس حق تعالیٰ نے غار کا باقی ماندہ منہ بھی کھول دیا (اور وہ لوگ اس غار سے باہر نکلے )۔

باب : مشکل وقت کی دعا۔

1876: سیدنا ابن عباسؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ سختی (اور مشکل) کی وقت یہ دعا پڑھتے : ”اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ہے جو بڑی عظمت والا بردبار ہے۔ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ہے جو بڑے عرش کا مالک ہے۔ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ہے جو آسمان، زمین اور عزت والے عرش کا مالک ہے۔

باب : بندے کی دعا قبول ہوتی رہتی ہے ، جب تک وہ جلدی نہ کرے۔

1877: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: بندے کی دعا ہمیشہ قبول ہوتی ہے ، جب تک وہ گناہ یا ناتا توڑنے کی دعا نہ کرے اور جلدی نہ کرے۔ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! جلدی کے کیا معنی ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ یوں کہے کہ میں نے دعا کی، اور دعا کی میں نہیں سمجھتا کہ وہ قبول ہو، پھر نا امید ہو جائے اور دعا چھوڑ دے۔ (یہ مالک کو ناگوار گزرتا ہے پھر وہ قبول نہیں کرتا۔ بندے کو چاہئیے کہ اپنے مالک سے ہمیشہ فضل و کرم کی امید رکھے اور اگر دنیا میں دعا قبول نہ ہو گی تو آخرت میں اس کا صلہ ملے گا)۔

باب : دعا میں یقین اور اصرار (ہونا چاہئیے اور دعا میں) ”اگر تو چاہے “ نہیں کہنا چاہئیے۔

1878: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ کوئی تم میں سے یوں نہ کہے کہ اے اللہ! اگر تو چاہے تو مجھے بخش دے۔ اور اے اللہ! اگر تو چہے تو مجھ پر رحم کر۔ بلکہ اسے چاہیئے کہ دعا میں اصرار کرے ، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے ، کوئی اس کو مجبور کرنے والا نہیں ہے۔

باب : رات میں ایک ایسا وقت بھی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔

1879: سیدنا جابرؓ  کہتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ رات میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ اس وقت جو بھی مسلمان اللہ تعالیٰ سے دنیا اور آخرت کی بھلائی مانگے ، اللہ تعالیٰ اس کو وہ عطا کر دیتا ہے۔ اور یہ (گھڑی) ہر رات میں ہوتی ہے۔

باب : رات کے آخر حصہ میں دعاء اور ذکر کرنے کی ترغیب اور اس میں قبولیت کا بیان۔

1880: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہمارا پروردگار جو بڑی برکتوں والا اور بلند ذات والا ہے ، ہر رات کی آخری تہائی میں آسمانِ دنیا پر اترتا ہے اور فرماتا ہے کہ کون ہے جو مجھ سے دعا کرے ؟ میں اس کی دعا قبول کروں، کون ہے جو مجھ سے مانگے ؟ میں اس کو دوں، کوئی ہے جو مجھ سے بخشش چاہے ؟ میں اسے بخش دوں۔

باب : مرغ کی آواز کے وقت کی دعا۔

1881: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جب تم مرغ کی آواز سنو تو اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگو، کیونکہ مرغ فرشتے کو دیکھتا ہے۔اور جب تم گدھے کی آواز سنو تو شیطان سے اللہ کی پناہ مانگو (اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پڑھو)، کیونکہ وہ شیطان کو دیکھتا ہے۔

باب : مسلمان کے لئے اس کی پیٹھ پیچھے دعا کرنا۔

1882: سیدنا صفوان (اور وہ ابن عبد اللہ بن صفوان تھے اور ان کے نکاح میں اُمّ درداء تھیں) نے کہا کہ میں (ملک) شام میں آیا تو ابو درداؓ  کے مکان پر گیا۔ لیکن وہ نہیں ملے اور سیدہ اُمّ درداءؓ  ملیں۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم اس سال حج کا ارادہ رکھتے ہو؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ اُمّ درداء نے کہا کہ تو میرے لئے دعا کرنا، اس لئے کہ رسول اللہﷺ فرماتے تھے کہ مسلمان کی دعا اپنے بھائی کے لئے پیٹھ پیچھے قبول ہوتی ہے۔ اس کے سر کے پاس ایک فرشتہ معین ہے ، جب وہ اپنے بھائی کی بہتری کی دعا کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے آمین اور تمہیں بھی یہی ملے گا۔ پھر میں بازار کو نکلا تو ابو درداءؓ  سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بھی رسول اللہﷺ سے ایسا ہی روایت کیا۔

باب : دنیا میں جلدی سزا کی دعا کرنا مکروہ ہے۔

1883: سیدنا انسؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک مسلمان کی عیادت کی جو بیماری سے چوزے کی طرح ہو گیا تھا (یعنی بہت ضعیف اور ناتواں ہو گیا تھا)۔ آپﷺ نے اس سے استفسار فرمایا کہ تو کچھ دعا کیا کرتا تھا یا اللہ سے کچھ سوال کیا کرتا تھا؟ وہ بولا کہ ہاں! میں یہ کہا کرتا تھا کہ اے اللہ! جو کچھ تو مجھے آخرت میں عذاب کرنے والا ہے ، وہ دنیا ہی میں کر لے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ سبحان اللہ! تجھ میں اتنی طاقت کہاں ہے کہ تو (دنیا میں) اللہ کا عذاب اٹھا سکے ، تو نے یہ کیوں نہیں کہا کہ اے اللہ! مجھے دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور مجھے جہنم کے عذاب سے بچا۔ پھر آپﷺ نے اس کے لئے اللہ عزوجل سے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اس کو اچھا کر دیا۔

باب : کسی تکلیف کی بناء پر موت کی آرزو کرنے کی کراہت اور دعائے خیر کا بیان۔

1884: سیدنا انسؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی بھی شخص کسی نازل ہونے والی مصیبت یا آفت کی وجہ سے موت کی آرزو نہ کرے۔ اگر ایسی ہی خواہش ہو تو یوں کہے کہ اے اللہ!! مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک جینا میرے لئے بہتر ہو اور اس وقت موت دے دینا جب مرنا میرے لئے بہتر ہو۔

1885: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی موت کی آرزو نہ کرے اور نہ موت کے آنے سے پہلے موت کی دعا کرے۔ کیونکہ تم میں سے جو کوئی مر جاتا ہے تو اس کا عمل ختم ہو جاتا ہے اور مومن کو زیادہ عمر ہونے سے بھلائی زیادہ ہوتی ہے (کیونکہ وہ زیادہ نیکیاں کرتا ہے )۔

کتاب: ذکر کے بیان میں

باب : اللہ کے ذکر کی ترغیب اور ہمیشہ اللہ کا ذکر کر کے اس کا تقرب حاصل کرنے کی ترغیب۔

1886: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے خیال کے پاس ہوں (یعنی اس کے گمان اور اٹکل کے ساتھ۔ نووی نے کہا کہ یعنی بخشش اور قبول سے اس کے ساتھ ہوں) اور میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں (رحمت، توفیق، ہدایت اور حفاظت سے ) جب وہ مجھے یاد کرتا ہے۔ اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اس کو اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے مجمع میں یاد کرتا ہے تو میں اس کو اس مجمع میں یاد کرتا ہوں جو اس کے مجمع سے بہتر ہے (یعنی فرشتوں کے مجمع میں) اور جب بندہ ایک بالشت میرے نزدیک ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے نزدیک ہو جاتا ہوں اور جب وہ ایک ہاتھ مجھ سے نزدیک ہوتا ہے تو میں ایک باع (دونوں ہاتھوں کے پھیلاؤ کے برابر) اس کے نزدیک ہو جاتا ہوں اور جب وہ میرے پاس چلتا ہوا اتا ہے تو میں اس کے پاس دوڑا ہوا آتا ہوں۔

باب : ذکر اللہ پر ہمیشگی اور اس کے ترک کے بیان میں۔

1887: ابو عثمان نہدی سیدنا حنظلہ اسیدیؓ  سے روایت کرتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ وہ رسول اللہﷺ کے کاتبوں میں سے تھے )، انہوں نے کہا کہ سیدنا ابو بکر صدیقؓ  مجھ سے ملے اور پوچھا کہ اے حنظلہ! تو کیسا ہے ؟ میں نے کہا کہ حنظلہؓ  تو منافق ہو گیا (یعنی بے ایمان)۔ سیدنا ابو بکرؓ  نے کہا کہ سبحان اللہ! تو کیا کہتا ہے ؟ میں نے کہا کہ ہم رسول اللہﷺ کے پاس ہوتے ہیں، آپﷺ ہمیں دوزخ اور جنت یاد دلاتے ہیں تو گویا کہ وہ دونوں ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ پھر جب ہم آپﷺ کے پاس سے نکل آتے ہیں تو بیوی بچوں اور کاروبار میں مصروف ہو جاتے ہیں تو بہت سی باتیں بھول جاتے ہیں۔ سیدنا ابو بکرؓ  نے کہا کہ اللہ کی قسم! ہمارا بھی یہی حال ہے۔ پھر میں اور سیدنا ابو بکرؓ  دونوں رسول اللہﷺ کے پاس پہنچے تومیں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! حنظلہ تو منافق ہو گیا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تیرا کیا مطلب ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! جب ہم آپﷺ کے پاس ہوتے ہیں اور آپ ہمیں دوزخ اور جنت یاد دلاتے ہیں تو گویا کہ وہ دونوں ہماری آنکھ کے سامنے ہیں۔ پھر جب ہم آپﷺ کے پاس سے چلے جاتے ہیں تو بیوی بچوں اور دوسرے کاموں میں مشغول ہو جاتے ہیں اور بہت باتیں بھول جاتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر تم سدا اسی حال پر قائم رہو جس طرح میرے پاس رہتے ہو اور یاد الٰہی میں رہو تو البتہ فرشتے تم سے تمہارے بستروں اور تمہاری راہوں میں مصافحہ کریں لیکن اے حنظلہ! ایک ساعت دنیا کا کاروبار اور ایک ساعت رب کی یاد۔ تین بار یہ فرمایا۔

باب : اللہ تعالیٰ کی کتاب کی تلاوت پر اکٹھے ہونے کے بیان میں۔

1888: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص کسی مومن پر سے کوئی دنیا کی سختی دُور کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر سے آخرت کی سختیوں میں سے ایک سختی دُور کرے گا۔ اور جو شخص مفلس کو مہلت دے (یعنی اس پر اپنے قرض کا تقاضا اور سختی نہ کرے ) تو اللہ تعالیٰ اس پر دنیا میں اور آخرت میں آسانی کرے گا اور جو شخص دنیا میں کسی مسلمان کا عیب ڈھانپے گا تو اللہ تعالیٰ دنیا میں اور آخرت میں اس کا عیب ڈھانکے گا اور اللہ تعالیٰ اس وقت تک اپنے بندے کی مدد میں رہے گا جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہے گا اور جو شخص حصول علم کے لئے کسی راستے پر چلے (یعنی علم دین خالص اللہ کے لئے ) تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کا راستہ سہل کر دے گا اور جو لوگ اللہ کے کسی گھر میں اللہ کی کتاب پڑھنے اور پڑھانے کے لئے جمع ہوں تو ان پر اللہ تعالیٰ کی سکینت اترتی ہے۔ اور رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے۔ اور فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا ذکر اپنے پاس رہنے والوں (یعنی فرشتوں) میں کرتا ہے اور جس کا نیک عمل سست ہو تو اس کا خاندان (نسب) اس کو آگے نہیں بڑھائے گا۔ (کچھ کام نہ آئے گا)۔

باب : جو اللہ کے ذکر اور اس کی حمد کے لئے بیٹھتا ہے ، اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے اس پر فخر کرتا ہے۔

1889: سیدنا ابو سعید خدریؓ  کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہؓ  نے مسجد میں (لوگوں کا) ایک حلقہ دیکھا تو پوچھا کہ تم لوگ یہاں کیوں بیٹھے ہو؟ وہ بولے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے بیٹھے ہیں۔ سیدنا معاویہؓ  نے کہا اللہ کی قسم! کیا تم اسی لئے بیٹھے ہو؟ انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم! صرف اللہ کے ذکر کے لئے بیٹھے ہیں۔ سیدنا معاویہؓ  نے کہا کہ میں نے تمہیں اس لئے قسم نہیں دی کہ تمہیں جھوٹا سمجھا اور میرا رسول اللہﷺ کے پاس جو مرتبہ تھا، اس رتبہ کے لوگوں میں کوئی مجھ سے کم حدیث کا روایت کرنے والا نہیں ہے (یعنی میں سب لوگوں سے کم حدیث روایت کرتا ہوں)۔ ایک دفعہ رسول اللہﷺ اپنے اصحاب کے حلقہ پر نکلے اور پوچھا کہ تم کیوں بیٹھے ہو؟ وہ بولے کہ ہم اللہ جل و علا کی یاد کرنے کو بیٹھے ہیں اور اس کی تعریف کرتے ہیں اور شکر کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں اسلام کی راہ بتلائی اور ہمارے اوپر احسان کیا۔ آپﷺ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ کی قسم! تم اسی لئے بیٹھے ہو؟ وہ بولے کہ اللہ کی قسم! ہم تو صرف اسی واسطے بیٹھے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میں نے تمہیں اس لئے قسم نہیں دی کہ تمہیں جھوٹا، سمجھا بلکہ میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے اور بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری وجہ سے فرشتوں میں فخر کر رہا ہے۔

باب : اللہ عز و جل کے ذکر کی مجالس، دعا اور استغفار کی فضیلت کا بیان۔

1890: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: بیشک اللہ تبارک و تعالیٰ کے کچھ فرشتے ہیں جو سیر کرتے پھرتے ہیں جنہیں اور کچھ کام نہیں وہ ذکرِ الٰہی کی مجلسوں کو ڈھونڈھتے ہیں۔ پھر جب کسی مجلس کو پاتے ہیں جس میں ذکرِ الٰہی ہوتا ہے تو وہاں بیٹھ جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو اپنے پروں سے ڈھانپ لیتے ہیں، یہاں تک کہ ان کے پروں سے زمین سے لے کر آسمان تک جگہ بھر جاتی ہے۔ جب لوگ اس مجلس سے جدا ہو جاتے ہیں تو فرشتے اوپر چڑھ جاتے ہیں اور آسمان پر جاتے ہیں۔ اللہ جل و علا ان سے پوچھتا ہے ، حالانکہ وہ خوب جانتا ہے کہ تم کہاں سے آئے ہو؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ ہم زمین سے تیرے ان بندوں کے پاس سے آئے ہیں جو تیری تسبیح (یعنی سبحان اللہ کہنا)، تیری بڑائی (اللہ اکبر کہنا)، تیری تہلیل (یعنی لا الٰہ الا اللہ کہنا)اور تیری تحمید (یعنی الحمد للہ کہنا) بیان کر رہے تھے۔ (یعنی سبحان اللہ و الحمد للہ ولا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر پڑھ رہے ہیں) اور تجھ سے کچھ مانگ رہے تھے۔ اللہ فرماتا ہے کہ وہ مجھ سے کیا مانگ رہے تھے ؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ تجھ سے تیری جنت مانگ رہے تھے۔ اللہ فرماتا ہے کہ کیا انہوں نے میری جنت کو دیکھا ہے ؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے مالک! انہوں نے دیکھا تو نہیں۔ اللہ فرماتا ہے کہ پھر اگر وہ جنت کو دیکھتے تو ان کا کیا حال ہوتا؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اور وہ تیری پناہ طلب کر رہے تھے۔ اللہ فرماتا ہے کہ وہ کس چیز سے میری پناہ مانگتے تھے ؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے مالک! تیری آگ سے۔ اللہ فرماتا ہے کہ کیا انہوں نے میری آگ کو دیکھا ہے ؟ فرشتے کہتے ہیں کہ نہیں۔ اللہ فرماتا ہے کہ پھر اگر وہ میری آگ کو دیکھتے تو ان کا کیا حال ہوتا؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ وہ تیری بخشش طلب کر رہے تھے ، اللہ فرماتا ہے (صدقے اللہ کے کرم اور فضل اور عنایت پر)، میں نے ان کو بخش دیا اور جو وہ مانگتے ہیں وہ دیا اور جس سے پناہ مانگتے ہیں اس سے پناہ دی۔ پھر فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے مالک! ان لوگوں میں ایک فلاں بندہ بھی تھا جو گنہگار ہے ، وہ ادھر سے گزرا تو ان کے سا تھ بیٹھ گیا تھا۔ اللہ فرماتا ہے کہ میں نے اس کو بھی بخش دیا، وہ لوگ ایسے ہیں کہ جن کا ساتھی بدنصیب نہیں ہوتا۔

باب : اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے مَردوں اور عورتوں کے بیان میں۔

1891: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ مکہ کی راہ میں جا رہے تھے کہ آپﷺ ایک پہاڑ پر سے گزرے جس کو جمدان کہتے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ چلو یہ جمدان ہے مفردون آگے بڑھ گئے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! مفردون کون ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں۔

باب : لا الٰہ الا اللہ کہنے کے متعلق۔

1892: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ہے ، وہ اکیلا ہے ، اس نے اپنے لشکر کو عزت دی اور اپنے بندے کی مدد کی اور اس اکیلے نے کافروں کی جماعتوں کو مغلوب کر دیا اس کے بعد کوئی شے نہیں ہی۔

باب : اونچی آواز کے ساتھ ذکر کرنے کا بیان۔

1893: سیدنا ابو موسیٰؓ  کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ لوگ بلند آواز سے تکبیر کہنے لگے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اے لوگو! اپنی جانوں پر نرمی کرو (یعنی آہستہ سے ذکر کرو)، کیونکہ تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکارتے ہو بلکہ تم اس کو پکارتے ہو جو (ہرجگہ سے ) سنتا ہے ، نزدیک ہے اور تمہارے ساتھ ہے (یعنی علم اور احاطہ سے )۔ سیدنا ابو موسیٰؓ  نے کہا کہ میں آپﷺ کے پیچھے تھا اور میں لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ اِلاَّ بِاللهِ کہہ رہا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اے عبد اللہ بن قیس! میں تمہیں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ بتلاؤں؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہﷺ! بتلائیے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ کہہ لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ اِلاَّ بِاللهِ (یہ کلمہ ہے تفویض کا اور اس میں اقرار ہے کہ اور کسی کو نہ طاقت ہے نہ قدرت، اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے )۔

باب : شام کے وقت کیا کہنا چاہئیے ؟

1894: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب شام ہوتی تو فرماتے کہ ہم نے شام کی، اور اللہ کے ملک نے شام کی، ہر طرح کی تعریف اللہ کے لئے ہے ، اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ہے ،جو اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے ، اسی کی سلطنت ہے ،اسی کو تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اے اللہ ! میں تجھ سے اس رات کی بہتری مانگتا ہوں اور اس رات کے بعد کی اور اس رات کی بُرائی سے پناہ مانگتا ہوں اور اس کے بعد کی بُرائی سے۔ اے اللہ! میں سستی اور بڑھاپے کی بُرائی سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اے اللہ! میں تجھ سے جہنم سے اور قبر کے عذاب سے پناہ مانگتا ہوں (راوی) حسن بن عبید اللہ نے کہا کہ زبید (راوی) نے ابراہیم بن سوید سے اس میں یہ زیادہ بیان کیا، انہوں نے انہوں نے عبدالرحمن بن یزید سے اور انہوں نے عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے اس کو مرفوعاً بیان کیا کہ ”اللہ واحد کے علاوہ کوئی معبود نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں ہر قسم کی بادشاہت اسی کے لئے ہے اور ہر قسم کی تعریف اسی (وحدہ لا شریک) کے لئے ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے “

ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب صبح ہوتی تو یہی دعا (اس طرح) کرتے کہ صبح کی ہم نے اور اللہ کے ملک نے صبح کی ……آخر تک (اور بجائے رات کے دن فرماتے )۔

باب : نیند اور لیٹتے وقت کیا کہے ؟

1895: سیدنا علی بن ابی طالبؓ  سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاتھوں پر چکی پیسنے کی وجہ سے نشان پڑ گئے تھے۔ اور رسول اللہﷺ کے پاس قیدی (غلام) آئے ، وہ آئیں۔ آپﷺ کو نہ پایا تو اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ملیں اور ان سے یہ حال بیان کیا۔ جب رسول اللہﷺ تشریف لائے تو اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے آپﷺ سے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے آنے کا حال بیان کیا۔ یہ سن کر رسول اللہﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم اپنے بچھونے پر جا چکے تھے ، ہم نے اٹھنا چاہا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اپنی جگہ پر رہو۔ پھر آپﷺ ہمارے بیچ میں بیٹھ گئے (یعنی میرے اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بیچ میں) یہاں تک کہ میں نے آپﷺ کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے سینہ پر پائی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میں تم دونوں کو وہ نہ بتاؤں جو اس چیز سے بہتر ہے جو تم نے مانگا (یعنی خادم سے )؟ جب تم دونوں (سونے کے لئے ) لیٹو تو چونیتس دفعہ ”اللہ  اکبر“، تینتیس دفعہ ”سبحان اللہ“ اور تینتیس دفعہ ”الحمد للہ“ کہہ لیا کرو۔ یہ تمہارے لئے ایک خادم سے بہتر ہے۔ ایک دوسری روایت میں یہ زیادہ ہے کہ سیدنا علیؓ  نے کہا کہ جب سے میں نے نبیﷺ سے یہ سنا ہے ،کبھی ترک نہیں کیا۔ آپؐ  سے پوچھا گیا کہ کیا صفین کی رات بھی تو جواب دیا کہ ہاں! صفین کی رات بھی (نہیں چھوڑا)۔

1896: سیدنا براء بن عازبؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تو سونے کو جائے تو وضو کر جیسے نماز کے لئے وضو کرتے ہیں پھر داہنی کروٹ پر لیٹ کر کہہ ”اے اللہ! میں نے اپنا منہ تیرے لئے جھکا دیا اور اپنا کام تجھے سونپ دیا اور تجھ پر بھروسہ کیا، تیرے ثواب کی خواہش سے اور تیرے عذاب سے ڈر کر۔ اور میں ایمان لایا تیری کتاب پر جو تو نے اتاری اور تیرے نبی پر جس کو تو نے بھیجا۔ تجھ سے بچنے کے لئے نہ کوئی پناہ کی جگہ ہے اور نہ کوئی ٹھکانہ۔ آخری بات یہی دعا ہو۔ (اور فرمایا کہ) پھر اگر تو اس رات کو مر جائے تو اسلام پر مرے گا (اور خاتمہ بخیر ہو گا) اور سیدنا براءؓ  نے کہا کہ میں نے ان کلموں کو دوبارہ یاد کرنے کے لئے پڑھا تو ”بِنَبِیِّکَ“ کے بدلے ”بِرَسُوْلِکَ“ کہا تو آپﷺ نے فرمایا کہ ”بِنَبِیِّکَ“ کہو۔

1897: سیدنا براء بن عازبؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ جب بستر پر لیٹتے تو فرماتے کہ ”اے اللہ! میں تیرے نام کے سا تھ جیتا ہوں اور تیرے نام کے ساتھ مرتا ہوں“۔ اور جب (نیند سے ) بیدار ہوتے تو فرماتے کہ ”شکر اس اللہ کا، جس نے ہمیں مار کر زندہ کیا (یعنی سلا کر کیونکہ سونا بھی ایک طرح کی موت ہے ) اور اسی کی طرف اٹھایا جانا یا لوٹنا ہے “۔

1898: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو سوتے وقت یہ پڑھنے کو کہا کہ ”اے اللہ! تو نے میری جان کو پیدا کیا اور تو ہی مارے گا، تیرے ہی لئے جینا اور مرنا ہے ، اگر تو اس کو زندہ کر دے تو اس کو اپنی حفاظت میں رکھ اور اگر مارے تو اس کو بخش دے۔ اے اللہ! میں تجھ سے عافیت کا سوال کر رہا ہوں“ ان سے ایک شخص بولا کہ تم نے یہ دعا سیدنا عمرؓ  سے سنی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ بلکہ ان سے سنی جو سیدنا عمرؓ  سے بہتر تھے ، یعنی رسول اللہﷺ۔

1899: سہیل کہتے ہیں کہ جب ہم میں کوئی سونے لگتا تو ابو صالح اسے داہنی کروٹ پر سونے اور یہ دعا پڑھنے کا حکم دیتے کہ ”اے اللہ! آسمانوں کے مالک اور زمین کے مالک، عرش عظیم کے مالک، ہمارے اور ہر چیز کے مالک، دانے اور گٹھلی کو (درخت اگانے کے لئے ) چیرنے والے اور تورات، انجیل اور قرآن مجید کے اتارنے والے ! میں ہر چیز کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں جس کی پیشانی کو تو تھامے ہوئے ہے (یعنی تیرے اختیار میں ہے )۔ تو سب سے پہلے ہے کہ تیرے سے پہلے کوئی شے نہیں، تو سب کے بعد ہے کہ تیرے بعد کوئی شے نہیں (یعنی ازلی اور ابدی ہے )، تو ظاہر ہے کہ تیرے اوپر کوئی شے نہیں اور تو باطن ہے (یعنی لوگوں کی نظروں سے چھپا ہوا ہے ) کہ تجھ سے ورے کوئی شے نہیں (یعنی تجھ سے زیادہ چھپی ہوئی)، ہم سے قرض دور کر دے اور ہمیں فقر سے مستغنی کر دے۔ ابو صالح اس دعا کو سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت کرتے تھے اور سیدنا ابو ہریرہ رسول اللہﷺ سے روایت کرتے تھے۔

1900: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنے بستر پر جائے تو اپنے تہبند کے اندرونی حصے سے اپنا بستر جھاڑے اور بسم اللہ کہے ، اس لئے کہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے بعد اس کے بستر پر کونسی چیز آئی اور جب لیٹنے لگے تو داہنی کروٹ پر لیٹے اور کہے کہ ”پاک ہے تو اے میرے اللہ ! تیرا نام لے کر میں کروٹ زمین پر رکھتا ہوں اور تیرے نام سے ہی اٹھاؤں گا۔ اگر تو میری جان روک لے تو اس کو بخش دینا اور جو (دوبارہ میرے بدن میں آنے کو) چھوڑ دے تو اس کی حفاظت کرنا جیسے اپنے نیک بندوں کی حفاظت کرتا ہے “۔

1901: سیدنا انسؓ  سے روایت ہے کہ جب رسول اللہﷺ اپنے بستر پر جاتے تو فرماتے : ”شکر ہے اس اللہ کا جس نے ہمیں کھلایا اور پلایا اور کافی ہوا ہمارے لئے اور ٹھکانہ دیا ہمیں، کتنے لوگ ایسے ہیں جن کے لئے نہ کوئی کفایت کرنے والا ہے اور نہ کوئی ٹھکانہ دینے والا ہے “۔

باب : صبح کی نماز کے بعد تسبیح کہنے کا بیان۔

1902: اُمّ المؤمنین جویریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبیﷺ صبح کی نماز کے بعد صبح سویرے ان کے پاس سے نکلے ، اور وہ اپنی نماز کی جگہ میں تھیں۔ پھر آپﷺ چاشت کے وقت لوٹے تو دیکھا کہ وہ وہیں بیٹھی ہوئی ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ جب سے میں نے تمہیں چھوڑا تم اسی حال میں رہیں؟ جویریہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میں نے تمہارے بعد چار کلمے تین بار کہے اگر وہ اس کے ساتھ وزن کئے جائیں جو تم نے اب تک پڑھا ہے ، تو البتہ وہی بھاری پڑیں گے۔ وہ کلمے یہ ہیں کہ ”میں اللہ کی پاکی بیان کرتاہوں اس کی خوبیوں کے ساتھ، اس کی مخلوقات کے شمار کے برابر اور اس کی رضامندی اور خوشی کے برابر اور اس کے عرش کے تول کے برابر اور اس کے کلمات کی سیاہی کے برابر (یعنی بے انتہا اس لئے کہ اللہ کے کلموں کی کوئی حد نہیں ہے سارا سمند اگر سیاہی ہو جائے اور وہ ختم ہو جائے گا اور اللہ تعالیٰ کے کلمے تمام نہ ہوں)۔ انہی سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا سے دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں: اللہ کے لئے پاکیزگی ہے اس کی مخلوقات کے شمار کے برابر، اللہ کے لئے پاکیزگی ہے اس کی رضامندی کے بقدر، اللہ کے لئے پاکیزگی ہے اس کے عرش کے وزن کے برابر اور اللہ کے لئے پاکیزگی ہے اس کے کلمات کی سیاہی کے برابر۔

1903: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص صبح اور شام کو ”سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِہ“ سو بار کہہ لے تو قیامت کے دن اس سے بہتر کوئی شخص عمل لے کر نہ آئے گا مگر جو اتنا ہی یا اس سے زیادہ کہے۔

باب : تسبیح کہنے کی فضیلت۔

904: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر ہلکے ہیں(قیامت کے دن)، میزان میں بھاری ہوں گے اور وہ اللہ کو بہت پسند ہیں۔ وہ یہ ہیں”سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِہ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِیْمِ“۔

1905: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اگر میں ”سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُِللهِ وَلَا اِلٰہ اِلَّا اللهُ وَاللهُ اکْبَر“ کہوں تو یہ مجھے ان تمام چیزوں سے زیادہ پسند ہے جن پر سورج طلوع ہوتا ہے۔ (یعنی ساری کائنات)

باب : لا الٰہ الا اللہ، الحمدللہ اور اللہ اکبر کے بارے میں۔

1906: موسیٰ جہنی، مصعب بن سعد سے روایت کرتے ہیں اور وہ اپنے والد سیدنا سعدؓ  سے کہ انہوں نے کہا کہ ایک دیہاتی آدمی رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ مجھے کوئی ایسا کلام بتائیے جسے میں کہا کروں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ یہ کہا کر کہ ”لا الٰہَ الا اللّٰہُ ……آخر دعا  تک“ تو وہ دیہاتی بولا کہ ان کلموں میں تو میرے مالک کی تعریف ہے ، میرے لئے بتائیے تو آپﷺ نے فرمایا کہ کہا کر کہ ”اللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ ……آخر  تک“۔ (راوئ حدیث) موسیٰ نے کہا کہ لفظ ”عافنی“ کا مجھے خیال آتا ہے لیکن یاد نہیں ہے کہ آپﷺ سے ثابت ہے یا نہیں۔

باب : سبحان اللہ وبحمدہ (کا وظیفہ) اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔

1907: سیدنا ابو ذرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں تجھے وہ کلام نہ بتلاؤں جو اللہ کو بہت پسند ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! مجھے وہ کلام بتائیے جو اللہ کو بہت پسند ہے ، آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ کلام ”سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِہ“ ہے۔

باب : جو آدمی روزانہ سو دفعہ ”لا الٰہ الا اللّٰہ وحدہ … “کہتا ہے اس کے بارے میں۔

1908: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص ایک دن میں سو بار یہ کلمات کہے کہ ”لا الٰہَ الا اللّٰہُ وحدہ … آخر تک“ تو اس کو اتنا ثواب ہو گا جیسے دس غلام آزاد کئے ، اس کی سو نیکیاں لکھی جائیں گی، اس کی سو بُرائیاں مٹائی جائیں گی، سارا دن شام تک شیطان سے بچا رہے گا اور (قیامت کے دن) اس سے بہتر عمل کوئی شخص نہ لائے گا مگر جو اس سے زیادہ عمل کرے (یعنی یہی تسبیح سو سے زیادہ بار پڑھے اور اعمالِ خیر زیادہ کرے )۔ اور جو شخص ”سبحان اللّٰہ وبحمدہ“ دن میں سو بار کہے تو اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں۔

باب : جو آدمی سو بار سبحان اللہ کہتا ہے ، اس کے بارے میں۔

1909: سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ  کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے پاس تھے کہ آپﷺ نے فرمایا: کیا تم میں سے کوئی ہر روز ہزار نیکیاں کرنے سے عاجز ہے ؟ آپﷺ کے پاس بیٹھنے والوں میں سے ایک شخص نے کہا کہ ہم میں سے کوئی ہزار نیکیاں کس طرح کرے گا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ سو بار ”سبحان اللہ“ کہے تو ہزار نیکیاں اس کے لئے لکھی جائیں گی اور اس کے ہزار گناہ مٹائے جائیں گے۔

زیادہ کرے )۔ اور جو شخص ”سبحان اللّٰہ وبحمدہ“ دن میں سو بار کہے تو اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں۔

باب : جو آدمی سو بار سبحان اللہ کہتا ہے ، اس کے بارے میں۔

1909: سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ  کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے پاس تھے کہ آپﷺ نے فرمایا: کیا تم میں سے کوئی ہر روز ہزار نیکیاں کرنے سے عاجز ہے ؟ آپﷺ کے پاس بیٹھنے والوں میں سے ایک شخص نے کہا کہ ہم میں سے کوئی ہزار نیکیاں کس طرح کرے گا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ سو بار ”سبحان اللہ“ کہے تو ہزار نیکیاں اس کے لئے لکھی جائیں گی اور اس کے ہزار گناہ مٹائے جائیں گے۔

تعوذ وغیرہ کے بارے میں

باب : فتنوں کے شر سے پناہ مانگنا۔

1910: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ان کلمات کے ساتھ دعا کیا کرتے تھے ”اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں جہنم کے فتنہ اور جہنم کے عذاب سے ، قبر کے فتنہ اور قبر کے عذاب سے ، امیری کے فتنہ کی برائی اور فقیری کے فتنہ کی بُرائی سے۔ اور میں مسیح دجال کے فتنہ کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اے اللہ! میرے گناہوں کو برف اور اولے کے پانی سے دھو دے اور میرا دل گناہوں سے ایسے پاک کر دے جیسے تو نے سفید کپڑے کو میل کچیل سے پاک کر دیا اور مجھ کو گناہوں سے ایسے دُور کر دے جیسے تو نے مشرق کو مغرب سے دُور کیا ہے۔ اے اللہ! میں سستی، بڑھاپے ، گناہ اور قرض سے تیری پناہ مانگتا ہوں“۔

باب : عاجز آ جانے اور سستی سے پناہ مانگنے کے بیان میں۔

1911: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ فرمایا کرتے تھے ”اے اللہ! میں عاجز ہونے ، سستی، بزدلی، بڑھاپے اور بخیلی سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور قبر کے عذاب اور زندگی اور موت کے فتنہ سے تیری پناہ مانگتا ہوں“

باب : بُری قضا اور بدبختی سے پناہ مانگنے کے بیان میں۔

1912: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ بُری قضا (بُری تقدیر)، اور بدبختی میں پڑنے سے ، دشمنوں کے خوش ہونے اور آزمائش کی سختی سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ عمرو نے یہ بھی کہا کہ سفیان (راوئ حدیث) نے کہا کہ مجھے شک ہے کہ ان چار چیزوں میں سے ایک چیز میں نے اس حدیث میں زیادہ کر دی۔

باب : نعمت کے زوال سے پناہ مانگنے کے بیان میں۔

1913: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہ کی دعا میں یہ بھی تھی کہ ”اے اللہ ! میں تیری نعمت کے زوال سے اور عافیت اور دی ہوئی صحت کے پلٹ جانے سے اور تیرے اچانک عذاب سے اور تیرے غضب والے سب کاموں سے تیری پناہ مانگتا ہوں“۔

باب : چھینکنے والے کو جواب دینا، جب وہ ”الحمد للہ“ کہے۔

1914: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے سامنے دو آدمیوں کو چھینک آئی۔ آپﷺ نے ایک کو جواب دیا اور دوسرے کو جواب نہ دیا۔ جس کو جواب نہ دیا تھا، اس نے کہا کہ اس کو چھینک آئی تو آپﷺ نے جواب دیا، لیکن مجھے چھینک آئی تو آپﷺ نے جواب نہ دیا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اس نے (یعنی جس کا جواب دیا) ”الحمدللہ“ کہا تھا اور تو نے ”الحمدللہ“ نہ کہا (اس لئے جواب نہ دیا)۔

1915: ایاس بن سلمہ سے روایت ہے کہ ان کے والد (سیدنا سلمہ بن اکوع ؓ) نے نبیﷺ سے سنا کہ آپﷺ کے پاس ایک آدمی کو چھینک آئی تو آپﷺ نے فرمایا کہ ”یرحمک اللہ“۔ پھر اسے (دوبارہ) چھینک آئی تو آپﷺ نے فرمایا کہ اس کو زکام ہو گیا ہے۔ (یعنی اگر کسی کو زکام سے چھینکیں آرہی ہوں تو اس کو کہاں تک ”یرحمک اللّٰہ“ کہیں گے )۔

1913: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہ کی دعا میں یہ بھی تھی کہ ”اے اللہ ! میں تیری نعمت کے زوال سے اور عافیت اور دی ہوئی صحت کے پلٹ جانے سے اور تیرے اچانک عذاب سے اور تیرے غضب والے سب کاموں سے تیری پناہ مانگتا ہوں“۔

باب : چھینکنے والے کو جواب دینا، جب وہ ”الحمد للہ“ کہے۔

1914: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے سامنے دو آدمیوں کو چھینک آئی۔ آپﷺ نے ایک کو جواب دیا اور دوسرے کوجواب نہ دیا۔ جس کو جواب نہ دیا تھا، اس نے کہا کہ اس کو چھینک آئی تو آپﷺ نے جواب دیا، لیکن مجھے چھینک آئی تو آپﷺ نے جواب نہ دیا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اس نے (یعنی جس کا جواب دیا) ”الحمدللہ“ کہا تھا اور تو نے ”الحمدللہ“ نہ کہا (اس لئے جواب نہ دیا)۔

1915: ایاس بن سلمہ سے روایت ہے کہ ان کے والد (سیدنا سلمہ بن اکوع ؓ) نے نبیﷺ سے سنا کہ آپﷺ کے پاس ایک آدمی کو چھینک آئی تو آپﷺ نے فرمایا کہ ”یرحمک اللہ“۔ پھر اسے (دوبارہ) چھینک آئی تو آپﷺ نے فرمایا کہ اس کو زکام ہو گیا ہے۔ (یعنی اگر کسی کو زکام سے چھینکیں آ رہی ہوں تو اس کو کہاں تک ”یرحمک اللّٰہ“ کہیں گے )۔

 

 

 

کتاب: توبہ، اسکی قبولیت اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کی وسعت۔

 

باب : اللہ تعالیٰ سے توبہ کرنے کا حکم۔

1916: سیدنا ابو بردہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا اغرؓ  سے سنا اور وہ نبیﷺ کے صحابہ میں سے تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابن عمرؓ  نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اے لوگو! اللہ کی طرف توبہ کرو کیونکہ میں اللہ تعالیٰ سے ہر دن میں سو بار توبہ کرتا ہوں۔

باب : توبہ کرنے پر شوق دلانا۔

1917: سیدنا حارث بن سوید کہتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ (بن مسعود)ؓ  بیمار تھے تو میں ان کی عیادت کو ان کے پاس گیا۔ انہوں نے مجھ سے دو حدیثیں بیان کیں ایک اپنی طرف سے اور ایک رسول اللہﷺ کی طرف سے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ البتہ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندہ کی توبہ سے اس سے زیادہ خوش ہوتا ہے جیسے کوئی اپنی سواری پر کہ جس پر اس کے کھانے پینے کی اشیاء بھی ہوں، ایک ہلاکت خیز سنسان جنگل میں جائے (جہاں نہ سایہ ہو نہ پانی ہو) اور وہ (آرام کے لئے ) سو جائے۔ جب وہ جاگے تو اس کی سواری کہیں جا چکی ہو۔ پھر اس کو ڈھونڈے ، یہاں تک کہ اسے سخت پیاس لگ جائے۔ پھر (مایوس ہو کر)کہے کہ میں لوٹ جاؤں جہاں تھا اور سوتے سوتے مر جاؤں۔(کیونکہ بچاؤ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی) پھر اپنا سر اپنے بازو پر رکھے اور مرنے کے لئے لیٹ جائے۔ پھر جو جاگے تو اپنی سواری اپنے پاس پائے اور اس پر اس کا توشہ ہو کھانا بھی اور پانی بھی۔ اللہ تعالیٰ کو مومن بندے کی توبہ سے اس سے کہیں زیادہ خوشی ہوتی ہے جتنی اس شخص کو اپنے اونٹ اور توشہ کے ملنے سے ہوتی ہے۔

باب : سچی توبہ کا بیان اور اللہ تعالیٰ کے قول ﴿وَعلَی الثَّلاَثَةِ الَّذِیْنَ خلفوا﴾ کی تفسیر۔

1918: ابن شہاب رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ پھر رسول اللہﷺ نے تبوک کا جہاد کیا اور آپﷺ کا ارادہ روم اور شام کے عرب نصرانیوں کے خلاف جہاد کا تھا۔ ابن شہاب نے کہا کہ مجھے عبدالرحمن بن عبد اللہ بن کعب بن مالک نے خبر دی کہ عبد اللہ بن کعب، جو کہ سیدنا کعب بن مالکؓ  کی نابینا ہو جانے کی بناء پر راہنمائی کیا کرتے تھے ، نے کہا کہ سیدنا کعب بن مالکؓ  کو میں نے اپنے غزوۂ تبوک سے پیچھے رہ جانے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے سنا۔ سیدنا کعب بن مالکؓ نے کہا کہ میں نے غزوۂ تبوک کے علاوہ کسی غزوہ میں پیچھے نہیں رہا، البتہ غزوۂ بدر میں بھی پیچھے رہ گیا تھا۔ لیکن اس میں رسول اللہﷺ نے کسی پیچھے رہ جانے والے پر ناراضگی کا اظہار نہیں کیا۔ اور بدر میں تو آپﷺ مسلمانوں کے ساتھ قریش کا قافلہ لوٹنے کے لئے نکلے تھے ، لیکن اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کے دشمنوں کے ساتھ اچانک لڑا دیا (اور قافلہ نکل گیا)۔ اور میں رسول اللہﷺ کے ساتھ لیلۃالعقبہ میں بھی موجود تھا (لیلة العقبہ وہ رات ہے جب آپﷺ نے انصار سے اسلام پر اور آپﷺ کی مدد کرنے پر بیعت لی تھی اور یہ بیعت جمرۃ العقبہ کے پاس جو منیٰ میں ہے دو بار ہوئی۔پہلی بار میں بارہ انصاری تھے اور دوسری بار میں ستر انصاری تھے ) اور میں نہیں چاہتا کہ اس رات کے بدلے میں جنگِ بدر میں شریک ہوتا، اگرچہ جنگ بدر لوگوں میں اس رات سے زیادہ مشہور ہے (یعنی لوگ اس کو افضل کہتے ہیں)۔ اور غزوہ تبوک میں میرا پیچھے رہ جانے کا قصہ یہ ہے کہ اس غزوہ کے وقت میں جتنا قوی جوان اور خوشحال تھا، اس سے پہلے کبھی نہ تھا۔ اللہ کی قسم! اس سے پہلے میرے پاس دو اونٹنیاں کبھی جمع نہیں ہوئیں تھیں اور اس لڑائی کے وقت میرے پاس دو اونٹنیاں تھیں۔ آپﷺ اس لڑائی کے لئے سخت گرمی کے دنوں میں چلے اور سفر بھی لمبا تھا اور راہ میں جنگل تھے (دور دراز جن میں پانی کم ملتا اور ہلاکت کا خوف ہوتا ہے ) اور بہت سارے دشمنوں سے مقابلہ تھا، اس لئے آپﷺ نے مسلمانوں سے صاف صاف فرمایا دیا کہ میں اس لڑائی کے لئے جا رہا ہوں (حالانکہ آپﷺ کی یہ عادت تھی کہ اور لڑائیوں میں اپنا ارادہ مصلحت کے تحت صاف صاف نہ فرماتے تھے تاکہ خبر مشہور نہ ہو) تاکہ وہ اپنی تیاری کر لیں۔ ان سے کہہ دیا کہ فلاں طرف کو جانا ہے اور اس وقت آپﷺ کے ساتھ بہت سے مسلمان تھے اور کوئی رجسٹر نہ تھا جس میں ان کے نام لکھے جا سکتے۔سیدنا کعب نے کہا کہ بہت کم کوئی ایسا شخص ہو گا جو یہ گمان کر کے اس غزوہ سے غائب ہونے کا ارادہ کرے کہ اس کا معاملہ جب تک وحی نہ آئے گی، مخفی رہے گا۔اور یہ جہاد رسول اللہﷺ نے اس وقت کیا جب پھل پک گئے تھے اور سایہ خوب تھا اور مجھے ان چیزوں کا بہت شوق تھا۔ آخر رسول اللہﷺ نے تیاری کی اور مسلمانوں نے بھی آپﷺ کے ساتھ تیاری کی۔ میں بھی ہر صبح کو اس ارادہ سے نکلنا شروع کیا کہ میں بھی ان کے ساتھ تیاری کروں، لیکن میں ہر روز لوٹ آتا اور کچھ فیصلہ نہ کرتا اور اپنے دل میں کہتا کہ میں جب چاہوں جا سکتا ہوں (کیونکہ سفر کا سامان میرے پاس موجود تھا) میں یہی سوچتا رہا حتی کہ مسلمانوں نے سامان سفر تیار کر لیا اور ایک صبح رسول اللہ مسلمانوں کو ساتھ لے کر نکل پڑے۔ اور میں نے کوئی تیاری نہ کی۔ پھر میں صبح کو نکلا اور لوٹ کر آگیا اور کوئی فیصلہ نہیں کر پایا۔ میرا یہی حال رہا، یہاں تک کہ لوگوں نے جلدی کی اور سب مجاہدین آگے نکل گئے۔ اس وقت میں نے بھی کوچ کا قصد کیا کہ ان سے مل جاؤں۔ اے کاش میں ایسا کرتا، لیکن میری تقدیر میں نہ تھا۔ رسول اللہﷺ کے جانے کے بعد جب میں باہر نکلتا تو مجھے رنج ہوتا، کیونکہ میں کوئی پیروی کے لائق نہ پاتا مگر ایسا شخص جس پر منافق ہونے کا گمان تھا یا معذور ضعیف اور ناتواں لوگوں میں سے۔ خیر رسول اللہﷺ نے (راہ میں) میری یاد کہیں نہ کی، یہاں تک کہ آپﷺ تبوک میں پہنچے۔ آپﷺ لوگوں میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اس وقت فرمایا کعب بن مالک کہاں گیا؟ بنی سلمہ میں سے ایک شخص بولا کہ یا رسول اللہﷺ اس کو اس کی چادروں نے روک لیا ہے ، وہ اپنے دونوں کناروں کو دیکھتا ہے (یعنی اپنے لباس اور نفس میں مشغول اور مصروف ہے )۔ سیدنا معاذ بن جبلؓ  نے یہ سن کر کہا کہ تو نے بُری بات کہی، اللہ کی قسم! یا رسول اللہﷺ! ہم تو کعب بن مالک کو اچھا سمجھتے ہیں۔ رسول اللہﷺ یہ سن کر چپ ہو رہے۔ اتنے میں آپﷺ نے ایک شخص کو دیکھا جو سفید کپڑے پہنے ہوئے آ رہا تھا اور (چلنے کی وجہ سے ) ریت کو اُڑا رہا تھا جو آپﷺ نے فرمایا کہ وہ ابو خیثمہ ہے۔ پھر وہ ابو خیثمہ ہی تھا اور ابو خیثمہ وہ شخص تھا جس نے ایک صاع کھجور صدقہ دی تھی اور منافقوں نے اس پر طعن کیا تھا۔ سیدنا کعب بن مالکؓ  نے کہا کہ جب مجھے خبر پہنچی کہ رسول اللہﷺ تبوک سے مدینہ کی طرف لوٹ رہے ہیں، تو میرا رنج بڑھ گیا۔ میں نے جھوٹ باتیں بنانا شروع کیں کہ کوئی بات ایسی کہوں جس سے کل (یعنی آپﷺ کی واپسی پر) آپﷺ کی ناراضگی سے بچ جاؤں اور اس معاملہ کے لئے میں نے اپنے گھر والوں میں سے ہر ایک عقلمند شخص سے مدد لینا شروع کی یعنی اُن سے بھی صلاح لی (کہ کیا بات بناؤں)۔ جب لوگوں نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ قریب آ پہنچے تو اس وقت سارا جھوٹ کافور ہو گیا اور میں سمجھ گیا کہ اب میں کوئی جھوٹ بنا کر آپﷺ سے نجات نہیں پا سکتا۔ آخر میں نے سچ بولنے کی نیت کر لی اور صبح کو رسول اللہﷺ تشریف لائے اور آپﷺ جب سفر سے آتے تو پہلے مسجد میں جاتے اور دو رکعت نماز پڑھتے ، پھر لوگوں سے ملنے کے لئے بیٹھتے۔ جب آپﷺ یہ کر چکے تو جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے انہوں نے اپنے عذر بیان کرنے شروع کئے اور قسمیں کھانے لگے۔ یہ لوگ اسی (80) سے کچھ زیادہ تھے۔ آپﷺ نے ان کی ظاہر بات کو مان لیا اور ان سے بیعت کی اور ان کے لئے مغفرت کی دعا کی اور ان کی نیت (یعنی دل کی بات کو) اللہ کے سپرد کر دیا۔ جب میں آیا، پس میں نے سلام کیا تو آپﷺ مسکرائے لیکن اس طرح جیسے کوئی غصہ کی حالت میں مسکراتا ہے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ آؤ۔ میں چلتا ہوا آیا اور آپﷺ کے سامنے بیٹھ گیا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تو پیچھے کیوں رہ گیا؟ تو نے تو سواری بھی خرید لی تھی۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! اگر میں آپﷺ کے سوا دنیا کے شخصوں میں سے کسی اور کے پاس بیٹھا ہوتا تو میں یہ خیال کرتا کہ کوئی عذر بیان کر کے اس کے غصہ سے نکل جاؤں گا اور مجھے اللہ تعالیٰ نے زبان کی قوت دی ہے (یعنی میں عمدہ تقریر کر سکتا ہوں اور خوب بات بنا سکتا ہوں)، لیکن اللہ کی قسم! میں جانتا ہوں کہ اگر میں کوئی جھوٹ بات آپﷺ سے کہہ دوں اور آپﷺ مجھ سے خوش ہو جائیں گے تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ آپﷺ کو میرے اوپر غصہ کر دے گا (یعنی اللہ تعالیٰ آپﷺ کو بتلائے گا کہ میرا عذر جھوٹ اور غلط تھا اور آپﷺ ناراض ہو جائیں گے ) اور اگر میں آپﷺ سے سچ سچ کہوں گا تو بیشک آپﷺ غصے ہوں گے لیکن مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا انجام بخیر کرے گا۔ اللہ کی قسم! جب آپﷺ سے پیچھے رہ گیا اس وقت مجھے کوئی عذر نہ تھا۔ اللہ کی قسم میں کبھی نہ اتنا قوی اور اتنا مالدار نہ تھا جتنا اس وقت تھا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ کعب نے سچ کہا۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ اچھا جا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تیرے بارے میں فیصلہ کر دے۔ میں کھڑا ہو گیا اور بنی سلمہ کے چند لوگ دوڑ کر میرے پیچھے ہوئے اور مجھ سے کہنے لگے کہ اللہ کی قسم! ہم نہیں جانتے کہ تم نے اس سے پہلے کوئی قصور کیا ہو، پس تم عاجز کیوں ہو گئے اور رسول اللہﷺ کے سامنے کوئی عذر کیوں نہ کر دیا جس طرح اور پیچھے رہ جانے والوں نے عذر بیان کئے ؟ اور تیرا گناہ بخشوانے کو رسول اللہﷺ کا استغفار کافی ہوتا۔ اللہ کی قسم وہ لوگ مجھے ملامت کرتے رہے ، یہاں تک کہ میں نے ارادہ کیا کہ پھر رسول اللہﷺ کے پاس لوٹ کر جاؤں اور اپنے آپ کو جھوٹا کروں (اور کوئی عذر بیان کروں)۔ پھر میں نے ان لوگوں سے کہا کہ کسی اور کا بھی ایسا حال ہوا ہے جو میرا ہوا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! دو شخص ایسے اور ہیں انہوں نے بھی وہی کہا جو تو نے کہا اور رسول اللہﷺ نے ان سے بھی وہی فرمایا جو تجھ سے فرمایا۔ میں نے پوچھا کہ وہ دو شخص کون ہیں؟ انہوں نے کہا کہ مرارہ بن ربیعہ اور ہلال بن امیہ واقفی۔ ان لوگوں نے ایسے دو شخصوں کے نام لئے جو نیک تھے ، بدر کی لڑائی میں موجود تھے اور پیروی کے قابل تھے۔ جب ان لوگوں نے ان دونوں کا نام لیا تو میں اپنے پہلے حال پر قائم رہا۔ اور رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کو پیچھے رہ جانے والے ہم تینوں سے بات چیت کرنے سے منع کر دیا، تو لوگوں نے ہم سے پرہیز شروع کیا اور ان کا حال ہمارے ساتھ بالکل بدل گیا، یہاں تک کہ زمین بھی گویا بدل گئی، وہ زمین ہی نہ رہی جس کو میں پہچانتا تھا۔ پچاس راتوں تک ہمارا یہی حال رہا۔ میرے دونوں ساتھی تو عاجز ہو گئے اور اپنے گھروں میں روتے ہوئے بیٹھ رہے لیکن میں تو سب لوگوں میں نوجوان اور طاقتور تھا۔ میں نکلا کرتا تھا اور نماز کے لئے بھی آتا اور بازاروں میں بھی پھرتا لیکن کوئی شخص مجھ سے بات نہ کرتا۔ اور رسول اللہﷺ جب نماز سے فارغ ہو کر اپنی جگہ پر بیٹھے ہوتے تو آ کر ان کو سلام کرتا اور دل میں یہ کہتا کہ آپﷺ نے اپنے لبوں کو سلام کا جواب دینے کے لئے ہلایا یا نہیں ہلایا؟ پھر آپﷺ کے قریب نماز پڑھتا اور چور نظر سے آپﷺ کو دیکھتا تو جب میں نماز میں ہوتا تو آپﷺ میری طرف دیکھتے اور جب میں آپﷺ کی طرف دیکھتا تو آپﷺ منہ پھیر لیتے۔ حتی کہ جب مسلمانوں کی سختی مجھ پر لمبی ہوئی تو میں چلا اور ابو قتادہؓ  کے باغ کی دیوار پر چڑھا، اور ابو قتادہ میرے چچازاد بھائی تھے اور سب لوگوں سے زیادہ مجھے ان سے محبت تھی۔ ان کو سلام کیا تو اللہ کی قسم انہوں نے سلام کا جواب تک نہ دیا (سبحان اللہ رسول اللہﷺ کے تابع ایسے ہوتے ہیں کہ آپﷺ کے ارشاد کے سامنے بھائی بیٹے کی پرواہ بھی نہیں کرتے جب رسول اللہﷺ سے ایسی محبت نہ ہو تو ایمان کس کام کا ہے ؟ آپﷺ کی حدیث جب معلوم ہو جائے کہ صحیح ہے تو مجتہد اور مولویوں کا قول جو اس کے خلاف ہو دیوار پر مارنا چاہئیے اور حدیث پر چلنا چاہئیے )۔ میں نے ان سے کہا کہ اے ابو قتادہ! میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ تم یہ نہیں جانتے کہ میں اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت رکھتا ہوں؟ وہ خاموش رہے۔ میں نے دوبارہ ان سے سوال کیا، وہ پھر خاموش رہے۔ میں نے پھر تیسری بار قسم دی تو بولے کہ اللہ اور اس کا رسولﷺ خوب جانتے ہیں (یہ بھی کعب سے نہیں بولے بلکہ خود اپنے میں بات کی)۔ آخر میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے اور میں پیٹھ موڑ کر چلا اور دیوار پر چڑھا۔میں مدینہ کے بازار میں جا رہا تھا کہ ملک شام کے کسانوں میں سے ایک کسان جو مدینہ میں اناج بیچنے کے لئے آیا تھا، کہہ رہا تھا کہ کعب بن مالک کا گھر مجھے کون بتائے گا؟ لوگوں نے اس کو میری طرف اشارہ شروع کیا، یہاں تک کہ وہ میرے پاس آیا اور مجھے غسان کے بادشاہ کا ایک خط دیا۔ میں چونکہ پڑھ سکتا تھا، میں نے اس کو پڑھا تو اس میں یہ لکھا تھا کہ اما بعد! ”ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ تمہارے صاحب (یعنی رسول اللہﷺ) تم پر ناراض ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں ذلت کے گھر میں نہیں کیا، نہ اس جگہ جہاں تمہارا حق ضائع ہو، تو تم ہم سے مل جاؤ، ہم تمہاری خاطر داری کریں گے “۔ میں نے جب یہ خط پڑھا تو کہا کہ یہ بھی اللہ کی طرف سے ایک آزمائش ہے اور اس خط کو میں نے تنور میں جلا دیا۔ جب پچاس میں سے چالیس دن گزر گئے اور وحی نہ آئی تو یکایک رسول اللہﷺ کا پیغام لانے والا میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ رسول اللہﷺ تمہیں حکم کرتے ہیں کہ اپنی بی بی سے علیحدہ رہو۔ میں نے کہا کہ اس کو طلاق دیدوں یا کیا کروں؟ وہ بولا کہ نہیں طلاق مت دو، صرف الگ رہو اور اس سے صحبت مت کرو۔ میرے دونوں ساتھیوں (جو پیچھے رہ گئے تھے ) کو بھی یہی پیغام ملا۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو اپنے عزیزوں میں چلی جا اور وہیں رہ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس بارے میں کوئی فیصلہ دے۔ سیدنا ہلال بن امیہؓ  کی بیوی یہ سن کر رسول اللہﷺ کے پاس گئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! ہلال بن امیہ ایک بوڑھا کمزور شخص ہے ، اس کے پاس کوئی خادم بھی نہیں تو کیا آپﷺ بُرا سمجھتے ہیں کہ اگر میں اس کی خدمت کیا کروں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ میں خدمت کو بُرا نہیں سمجھتا لیکن وہ تجھ سے صحبت نہ کرے۔ وہ بولی کہ اللہ کی قسم! اس کو کسی کام کا خیال نہیں اور اللہ کی قسم! وہ اس دن سے اب تک رو رہا ہے۔ میرے گھر والوں نے کہا کہ کاش تم بھی رسول اللہﷺ سے اپنی بیوی کے پاس رہنے کی اجازت لے لو، کیونکہ آپﷺ نے ہلال بن امیہ کی عورت کو اس کی خدمت کرنے کی اجازت دے دی تو میں نے کہا کہ میں کبھی آپﷺ سے اپنی بیوی کے لئے اجازت نہ لوں گا اور معلوم نہیں کہ رسول اللہﷺ کیا فرمائیں گے اگر میں اپنی بیوی کے لئے اجازت لوں اور میں جوان آدمی ہوں۔ پھر میں دس راتیں اسی حال میں رہا، یہاں تک کہ اس تاریخ سے پچاس راتیں پوری ہوئیں جب سے آپﷺ نے ہم سے سب لوگوں کو بات کرنے سے منع فرمایا تھا۔ پھر پچاسویں رات کو صبح کے وقت میں نے اپنے ایک گھر کی چھت پر نماز پڑھی میں اسی حال میں بیٹھا تھا جو اللہ تعالیٰ نے ہمارا حال بیان کیا کہ میرا جی تنگ ہو گیا اور زمین اپنی فراخی کے باوجود مجھ پر تنگ ہو گئی تھی۔ اتنے میں مَیں نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی، جو سلع (نامی) پہاڑ پر سے بلند آواز سے پکار رہا تھا کہ اے کعب بن مالک! خوش ہو جا۔ یہ سن کر میں سجدہ میں گرا اور میں نے پہچانا کہ اب کشادگی آ گئی۔ پھر رسول اللہﷺ نے صبح کی نماز کے بعد اس بات کا اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری توبہ قبول کر لی ہے۔ لوگ ہمیں خوشخبری دینے کو چلے ، میرے دونوں ساتھیوں کے پاس چند خوشخبری دینے والے گئے اور ایک شخص نے میرے پاس گھوڑا دوڑایا اور ایک دوڑنے والا اسلم قبیلہ سے میری طرف آیا اور اس کی آواز گھوڑے سے جلدی مجھ کو پہنچی۔ جب وہ شخص آیا جس کی خوشخبری کی آواز میں نے سنی تھی تو میں نے اپنے دونوں کپڑے اتارے اور اس خوشخبری کے صلہ میں اس کو پہنا دئیے۔ اللہ کی قسم! اس وقت میرے پاس وہی دو کپڑے تھے۔ میں نے دو کپڑے عاریةً لئے اور ان کو پہن کر رسول اللہﷺ سے ملنے کی نیت سے چلا۔ لوگ مجھ سے گروہ گروہ ملتے جاتے تھے اور مجھے معافی کی مبارکباد دیتے جاتے تھے اور کہتے تھے تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی معافی کی قبولیت مبارک ہو۔یہاں تک کہ میں مسجد میں پہنچا تو رسول اللہﷺ مسجد میں بیٹھے تھے اور آپﷺ کے پاس لوگ تھے۔ اور طلحہ بن عبید اللہؓ  نے مجھے دیکھتے ہی دوڑ کر آ کر مجھ سے مصافحہ کیا اور مبارکباد دی۔ اللہ کی قسم مہاجرین میں سے ان کے سوا کوئی شخص کھڑا نہیں ہوا تو سیدنا کعبؓ  سیدنا طلحہؓ  کے اس احسان کو نہیں بھولتے تھے۔ سیدنا کعب بن مالکؓ  نے کہا کہ جب میں نے رسول اللہﷺ کو سلام کیا تو آپﷺ کا چہرہ خوشی سے چمک دمک رہا تھا، آپﷺ نے فرمایا کہ خوش ہو جا، جب سے تیری ماں نے تجھ کو جنا آج کا دن سے تیرے لئے بہتر دن ہے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! یہ خوشخبری آپ کی طرف سے ہے یا اللہ جل جلالہ کی طرف سے ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ جل جلالہ کی طرف سے اور رسول اللہﷺ جب خوش ہو جاتے تو آپﷺ کا چہرہ چمک جاتا تھا گویا کہ چاند کا ایک ٹکڑا ہے اور ہم اس بات (یعنی آپﷺ کی خوشی) کو پہچان لیتے تھے۔ جب میں آپﷺ کے سامنے بیٹھا تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! میں اپنی معافی کی خوشی میں اپنے مال کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے لئے صدقہ کرتا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اپنا تھوڑا مال رکھ لو، یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا کہ پھر میں اپنا خیبر کا حصہ رکھ لیتا ہوں۔ اور میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! آخر کار سچائی نے مجھے نجات دی اور میری توبہ میں یہ بھی داخل ہے کہ ہمیشہ سچ کہوں گا جب تک زندہ رہوں۔ سیدنا کعبؓ  نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی مسلمان پر سچ بولنے پر ایسا احسان کیا ہو جب سے میں نے رسول اللہﷺ سے یہ ذکر کیا جیسا عمدہ طرح سے مجھ پر احسان کیا۔ اللہ کی قسم! جب سے یہ رسول اللہﷺ سے کہا اس وقت سے آج کے دن تک کوئی جھوٹ قصداً نہیں بولا۔ آج کے دن تک اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ باقی زندگی میں بھی مجھے جھوٹ سے بچائے گا۔ سیدنا کعب نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں اتاریں ”بیشک اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ، مہاجرین اور انصار کو معاف کیا جنہوں نے نبیﷺ کا مفلسی کے وقت ساتھ دیا“ یہاں تک کہ فرمایا ”وہ مہربان ہے اور رحم والا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان تین شخصوں کو بھی معاف کیا جو پیچھے چھوڑے گئے ، یہاں تک کہ زمین ان پر باوجود اپنی کشادگی کے تنگ ہو گئی اور ان کے نفس بھی تنگ ہو گئے اور سمجھے کہ اب اللہ تعالیٰ سے کوئی بچاؤ نہیں مگر اسی کی طرف، پھر اللہ نے ان کو معاف کیا تا کہ وہ توبہ کریں، بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈور اور سچوں کے ساتھ رہو“ (التوبہ:119 – 117)۔ سیدنا کعبؓ  نے کہا کہ اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے جب سے مجھے اسلام کی ہدایت دی ہے ، اس سے بڑھ کوئی احسان مجھ پر نہیں کیا جو میرے نزدیک اتنا بڑا ہو، کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سچ بول دیا اور جھوٹ نہیں بولا، ورنہ تباہ ہوتا جیسے جھوٹے تباہ ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے جھوٹوں کی جب وحی اتاری تو ایسی بُرائی بیان کی کہ کسی (اور)کی نہ کی ہو گی۔ فرمایا کہ ”جب تم ان کی طرف لوٹ کر جاؤ گے تو عنقریب وہ تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے کوئی تعرض نہ کرو، سو تم ان سے اعراض کر لو، بیشک وہ ناپاک ہیں اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے یہ بدلہ ہے ان کی کمائی کا۔ وہ تم سے اس لئے قسمیں کھاتے ہیں کہ تم ان سے خوش ہو جاؤ۔ پس اگر تم ان سے خوش بھی ہو جاؤ تو بھی اللہ تعالیٰ ان بدکاروں سے خوش نہیں ہو گا“۔ سیدنا کعبؓ  نے کہا کہ ہم تینوں کا معاملہ ان لوگوں سے مؤخر کیا گیا جن کا عذر رسول اللہﷺ نے قبول کر لیا تھا۔ جب انہوں نے قسم کھائی تو ان سے بیعت کی اور ان کے لئے استغفار کیا اور ہمیں رسول اللہﷺ نے پیچھے ڈال رکھا (یعنی ہمارا مقدمہ، فیصلہ پیچھے رکھا)، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا۔ اسی سبب سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”معاف کیا ان تینوں کو جو پیچھے ڈالے گئے تھے ، یہاں تک کہ ان پر زمین اپنی کشادگی کے باوجود تنگ ہو گئی“ اور اس لفظ (یعنی خُلِّفُوْا) سے یہ مراد نہیں ہے کہ ہم جہاد سے پیچھے رہ گئے ، بلکہ وہی مراد ہے ہمارے مقدمہ کا پیچھے رہنا اور آپﷺ کا پیچھے ڈال رکھنا بہ نسبت ان لوگوں کے جنہوں نے قسم کھائی اور عذر کیا آپﷺ سے اور آپﷺ نے ان کے عذر کو قبول کر لیا۔

باب : جس نے سو آدمی قتل کئے تھے اس کی توبہ قبول ہونے کے بارے میں

1919: سیدنا ابو سعید خدریؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم سے پہلی امتوں میں ایک شخص تھا، جس نے ننانوے قتل کئے تھے۔ اس نے پوچھا کہ زمین کے لوگوں میں سب سے زیادہ عالم کون ہے ؟ لوگوں نے ایک راہب کے بار ے میں بتایا، وہ اس کے پاس گیا اور کہا کہ اس نے ننانوے قتل کئے ہیں، کیا اس کے لئے توبہ ہے ؟ راہب نے کہا کہ نہیں! (تیری توبہ قبول نہ ہو گی) تو اس نے اس راہب کو بھی مار ڈالا اور سو قتل پورے کر لئے۔ پھر اس نے لوگوں سے پوچھا کہ زمین میں سب سے زیادہ عالم کون ہے ؟ لوگوں نے ایک عالم کے بارے میں بتایا (تو وہ اس کے پاس گیا) اور پوچھا کہ اس نے سو قتل کئے ہیں، کیا اس کے لئے توبہ ہے ؟ وہ بولا کہ ہاں ہے اور توبہ کرنے سے کونسی چیز مانع ہے ؟ تو فلاں ملک میں جا اور وہاں کچھ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں، تو بھی جا کر ان کے ساتھ عبادت کر اور اپنے ملک میں مت جا کہ وہ بُرا ملک ہے۔ پھر وہ اس ملک کی طرف چلا، جب آدھا سفر طے کر لیا تو اس کو موت آ گئی۔ اب عذاب کے فرشتوں اور رحمت کے فرشتوں میں جھگڑا ہوا۔ رحمت کے فرشتوں نے کہا کہ یہ توبہ کر کے صدق دل کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہو کر آ رہا تھا۔ اور عذاب کے فرشتوں نے کہا کہ اس نے کوئی نیکی نہیں کی۔ آخر ایک فرشتہ آدمی کی صورت بن کر آیا اور انہوں نے اس کو فیصلہ کرنے کے لئے مقرر کیا۔ اس نے کہا کہ دونوں طرف کی زمین ناپو اور جس ملک کے قریب ہو، وہ وہیں کا ہے۔ سو انہوں نے زمین کو ناپا تو انہوں نے اس زمین کو قریب پایا جس کا اس نے اراد کیا تھا، پس رحمت کے فرشتے اس کو لے گئے۔ قتادہ نے کہا (راوئ حدیث) حسن نے کہا کہ ہم سے یہ بھی بیان ہوا کہ جب وہ مرنے لگا تو اپنے سینہ کے بل بڑھا (تاکہ اس ملک سے نزدیک ہو جائے )۔

باب : جس نے مغرب سے سورج طلوع ہونے سے پہلے توبہ کی، اس کی توبہ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے گا۔

1920: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص اس سے پہلے توبہ کر لے کہ سورج مغرب سے طلوع ہو، تو اللہ تعالیٰ اس کو معاف کر دے گا (سورج کے مغرب سے نکلنے کے بعد توبہ قبول نہ ہو گی اسی طرح موت کے فرشتوں کو دیکھنے کے وقت توبہ قبول نہ ہو گی اور نہ اسکی وصیت نافذ ہو گی)

باب : رات اور دن کے گنہگار کی توبہ کی قبولیت۔

1921: سیدنا ابوموسیٰؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: بیشک اللہ عز و جل اپنا ہاتھ رات کو پھیلاتا ہے تاکہ دن کا گنہگار توبہ کر لے اور دن کو ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ رات کا گنہگار توبہ کر لے ، یہاں تک کہ آفتاب مغرب کی طرف سے نکلے۔ (یعنی اس کے بعد توبہ نہیں)۔

باب : گناہوں کے معاف کرنے کے بیان میں۔

1922: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اگر تم گناہ نہ کرو تو البتہ اللہ تعالیٰ تمہیں فنا کر دے گا اور ایسے لوگوں کو پیدا کرے گا جو گناہ کریں گے اور پھر اس سے بخشش مانگیں گے۔ پس اللہ تعالیٰ ان کو بخش دے گا (سبحان اللہ مالک کے سامنے قصور کا اقرار کرنا اور معذرت کرنا اور توبہ کرنا اور معافی چاہنا کیسی عمدہ بات ہے اور مالک کو کتنآپسند ہے۔ کسی بزرگ نے کہا کہ وہ گناہ مبارک ہے جس کے بعد معافی اور وہ عبادت منحوس ہے جس سے غرور پیدا ہو)۔

باب : اللہ تعالیٰ کی رحمت فراخ ہے اور اس کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے۔

1923: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ مخلوقات کو بنا چکا تو اپنی کتاب میں لکھا، اور وہ کتاب اس کے پاس رکھی ہے کہ میری رحمت میرے غصہ پر غالب ہے۔

1924: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی سو رحمتیں ہیں، ایک رحمت جنوں، آدمیوں، جانوروں اور کیڑوں مکوڑوں میں اتاری ہے ، اسی ایک رحمت کی وجہ سے وہ ایک دوسرے پر مہربانی کرتے ہیں اور رحم کرتے ہیں اور اسی رحمت کی وجہ سے وحشی جانور اپنے بچہ سے محبت کرتا ہے۔ اور ننانوے رحمتیں اللہ تعالیٰ نے اٹھا رکھیں ہیں جو اپنے بندوں پر قیامت کے دن کرے گا۔

باب : اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی سزا کے بیان میں۔

1925: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اگر مومن کو اللہ تعالیٰ کی تیار کرد ہ سزا (عذاب) کا علم ہو جائے تو کوئی جنت کی طمع نہ کرے۔ اور اگر کافر کو اللہ تعالیٰ کی رحمت (کی وسعت)کا علم ہو جائے تو کوئی اس کی جنت سے کوئی نا امید نہ ہو۔

باب : والدہ کی جتنی رحمت اپنی اولاد پر ہے ، اللہ کی رحمت اپنے بندوں پر اس سے کہیں زیادہ ہے۔

1926: سیدنا عمر بن خطابؓ  سے روایت ہے ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ کے پاس قیدی آئے تو ان میں سے ایک عورت (اپنا بچہ) تلاش کر رہی تھی۔ جب اپنا بچہ پا لیا تو اس کو اٹھا لیا اور پیٹ سے لگایا اور دودھ پلانے لگی۔ رسول اللہﷺ نے ہم سے فرمایا کہ تم کیا سمجھتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچہ کو آگ میں ڈال دے گی؟ ہم نے کہا کہ اللہ کی قسم! وہ کبھی نہ ڈال سکے گی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ البتہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اُس سے زیادہ مہربان ہے ، جتنی یہ عورت اپنے بچے پر مہربان ہے۔

باب : (فقط) عمل کسی کو نجات نہیں دلا سکتا۔

1927: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، وہ کہتی تھیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میانہ روی کرو اور (جو میانہ روی نہ ہو سکے تو) اس کے نزدیک رہو اور خوش رہو۔ اس لئے کہ کسی کو اس کا عمل جنت میں نہ لے جائے گا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! اور نہ آپ کو؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اور نہ مجھ کو، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت سے ڈھانپ لے اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ کو وہ عمل بہت پسند ہے جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ تھوڑا ہو۔

باب : تکلیف پر اللہ تعالیٰ سے زیادہ صبر کرنے والا کوئی نہیں۔

1928: سیدنا عبد اللہ بن قیسؓ  کہتے ہیں کہ اللہ جل جلالہ سے زیادہ کوئی ایذا یا تکلیف پر صبر کرنے والا نہیں (باوجودیکہ ہر طرح کی قدرت رکھتا ہے )۔ اللہ کے ساتھ لوگ شرک کرتے ہیں اور اس کے لئے بیٹا بتاتے ہیں (حالانکہ اس کا کوئی بیٹا نہیں سب اس کے غلام ہیں)۔ پھر بھی وہ ان کو تندرستی دیتا ہے ، روزی دیتا ہے اور ان کو (تمام نعمتیں) دیتا ہے۔

باب : اللہ تعالیٰ سے زیادہ غیرت مند اور کوئی نہیں ہے۔

1929: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کسی کو اپنی تعریف کرنا اتنا پسند نہیں ہے جتنا اللہ تعالیٰ کو پسند ہے (کیونکہ وہ تعریف کے لائق ہے اور سب میں عیب موجود ہیں تو تعریف کے قابل نہیں ہیں)، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنی خود تعریف کی اور اللہ سے زیادہ غیرت مند کوئی نہیں ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فواحش کو حرام قرار دیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ کسی کو عذر کرنا پسند نہیں ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کو یہ بہت پسند ہے کہ گنہگار بندے اس کے سا منے عذر کریں اور اپنے گناہ کی معافی چاہیں) اسی واسطے اس نے کتاب اتاری اور پیغمبروں کو بھیجا (اور توبہ کی تعلیم کی)۔

1930: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ غیرت کرتا ہے اور مومن بھی غیرت کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کو اس میں غیرت آتی ہے کہ مومن وہ کام کرے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس پر حرام کیا۔

باب : سرگوشی اور بندے کا اپنے گناہوں کا اقرار کرنے کے متعلق۔

1931: صفوان بن محرز کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے سیدنا ابن عمرؓ  سے کہا کہ تم نے رسول اللہﷺ سے سرگوشی کے بارے میں کیا سنا ہے ؟ (یعنی اللہ تعالیٰ جو قیامت کے دن اپنے بندے سے سرگوشی کرے گا) انہوں نے کہا کہ میں نے آپﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ مومن قیامت کے دن اپنے مالک کے پاس لایا جائے گا، یہاں تک کہ مالک اپنا بازو اس پر رکھ دے گا اور اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کرائے گا اور کہے گا کہ تو اپنے گناہوں کو پہچانتا ہے ؟ وہ کہے گا کہ اے رب! میں پہچانتا ہوں۔ پروردگار فرمائے گا کہ میں نے ان گناہوں کو دنیا میں تجھ پر چھپا دیا اور اب میں ان کو آج کے دن تیرے لئے بخش دیتا ہوں۔ پھر وہ نیکیوں کی کتاب دیا جائے گا اور کافر اور منافقوں کے لئے تو مخلوقات کے سامنے منادی ہو گی کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولا۔

باب : کافر اور منافق کا قیامت کے دن نعمتوں کا اقرار۔

1932: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! ہم اپنے پروردگار کو قیامت کے دن دیکھیں گے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ کیا تمہیں سورج کو دیکھنے میں شک پڑتا ہے ٹھیک دوپہر کے وقت جب کہ بادل بھی نہ ہو؟ صحابہؓ نے کہا کہ نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ کیا تمہیں چودھویں رات کے چاند کو دیکھنے میں تکلیف ہوتی ہے جب اس کے آگے بادل نہ ہو؟ صحابہؓ نے کہا کہ نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ پس قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تمہیں اپنے رب کے دیدار میں کوئی شبہ اور اختلاف یا تکلیف نہ ہو گی، مگر جیسے سورج یا چاند کو دیکھنے میں (یعنی جیسے چاند سورج کو دیکھنے میں اشتباہ نہیں ہے ، ویسے ہی اللہ تعالیٰ کو دیکھنے میں اشتباہ نہ ہو گا) پھر حق تعالیٰ بندے سے حساب کرے گا تو کہے گا کہ اے فلاں! میں نے تجھے عزت نہیں دی تھی اور تجھے سردار نہیں بنایا تھا اور تجھے تیرا جوڑا نہیں دیا اور گھوڑوں اور اونٹوں کو تیرا تابع نہیں کیا تھا اور تجھے چھوڑا کہ تو اپنی قوم کی سرداری (سیاست) کرتا تھا اور چوتھا حصہ لیتا تھا؟ تو بندہ کہے گا کہ سچ ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ حق تعالیٰ فرمائے گا کہ بھلا تجھے معلوم تھا کہ تو مجھ سے ملے گا؟ پس بندہ کہے گا کہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اب ہم بھی تجھے بھولتے ہیں (یعنی تیری خبر نہ لیں گے اور تجھے عذاب سے نہ بچائیں گے ) جیسے تو ہمیں بھولا۔ پھر اللہ تعالیٰ دوسرے بندے سے حساب کرے گا تو کہے گا کہ اے فلاں! بھلا میں نے تجھے عزت نہیں دی تھی اور تجھے سردار نہیں بنایا تھا اور تجھے تیرا جوڑا نہیں دیا تھا اور گھوڑوں اور اونٹوں کو تیرا تابع نہیں کیا تھا اور تجھے چھوڑا کہ تو اپنی قوم کی سرداری (سیاست) کرتا تھا اور چوتھا حصہ لیتا تھا؟ تو بندہ کہے گا کہ اے میرے رب! سچ ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ بھلا تجھے معلوم تھا کہ تو مجھ سے ملے گا ؟ تو بندہ کہے گا کہ نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ پس یقیناً میں بھی اب تجھے بھلا دیتا ہوں جیسے تو مجھے دنیا میں بھولا تھا۔ پھر تیسرے بندے سے حساب کرے گا اور اس سے بھی اسی طرح کہے گا۔ بندہ کہے گا جہ اے رب! میں تجھ پر ایمان لایا اور تیری کتاب پر اور تیرے رسولوں پر اور میں نے نماز پڑھی، روزہ رکھا اور صدقہ دیا۔ اسی طرح اپنی تعریف کرے گا جہاں تک اس سے ہو سکے گا۔ حق تعالیٰ فرمائے گا کہ دیکھ یہیں تیرا جھوٹ کھلا جاتا ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ پھر حکم ہو گا کہ اب ہم تیرے اوپر گواہ کھڑا کرتے ہیں۔ بندہ اپنے جی میں سوچے گا کہ کون مجھ پر گواہی دے گا۔ پھر اس کے منہ پر مہر ہو گی اور اس کی ران، گوشت اور ہڈیوں کو بولنے کے لئے کہا جائے گا، اس کی ران اس کا گوشت اور اس کی ہڈیاں اس کے اعمال کی گواہی دیں گی اور یہ گواہی اس واسطے ہو گی تاکہ اسی کی ذات کی گواہی سے اس کا عذر باقی نہ رہے۔ اور یہ شخص منافق یعنی جھوٹا مسلمان ہو گا اور اسی پر اللہ تعالیٰ غصہ کرے گا (اور پہلے دونوں کافر تھے۔ معاذ اللہ جب تک دل سے خالص اللہ کے لئے عبادت نہ ہو تو کچھ فائدہ نہیں۔ لوگوں کو دکھانے کی نیت سے نماز یا روزہ رکھنا اور وبال ہے ، اس سے نہ کرنا بہتر ہے )۔

باب : قیامت کے دن انسان کے اعمال کے متعلق اس کے اعضاء کی گواہی

1933: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ آپﷺ مسکرائے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ میں کس واسطے مسکرایا ہوں؟ ہم نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسولﷺ خوب جانتے ہیں۔ آپﷺ نے فرما یا کہ میں بندے کی اس گفتگو کی وجہ سے مسکرایا ہوں جو وہ اپنے مالک سے کرے گا۔ بندہ کہے گا کہ اے میرے مالک! کیا تو مجھے ظلم سے پناہ نہیں دے چکا ہے ؟ (یعنی تو نے وعدہ کیا ہے کہ ظلم نہ کروں گا) نبیﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جواب دے گا کہ ہاں! ہم ظلم نہیں کرتے۔ نبیﷺ نے فرما یا کہ پھر بندہ کہے گا کہ میں کسی کی گواہی کو اپنے اوپر سوائے اپنی ذات کے جائز نہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اچھا! تیری ہی ذات کی گواہی تجھ پر آج کے دن کفایت کرتی ہے۔ اور کراماً کاتبین کی گواہی۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ پھر بندہ کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کے اعضاء (ہاتھ پاؤں) کو حکم ہو گا کہ بولو۔ وہ اس کے سارے اعمال بول دیں گے۔ پھر بندہ کو بات کرنے کی اجازت دی جائے گی تو بندہ اپنے اعضاء (ہاتھ پاؤں) سے کہے گا کہ چلو دُور ہو جاؤ، تم پر اللہ کی مار، میں تو تمہارے لئے جھگڑا کرتا تھا (یعنی تمہارا ہی دوزخ سے بچانا مجھے منظور تھا۔ پس تم آپ ہی گناہ کا قرار کر چکے ، اب دوزخ میں جاؤ)۔

باب : اللہ تعالیٰ کی خشیت اور اس کے عذاب سے سخت خوف رکھنے کے متعلق۔

1934: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ایک شخص نے کبھی کوئی نیکی نہیں کی تھی، جب وہ مرنے لگا تو اپنے لوگوں سے بولا کہ (مرنے کے بعد) مجھے جلا کر راکھ کر دینا، پھر آدھی راکھ جنگل میں اُڑا دینا اور آدھی سمندر میں اللہ کی قسم! اگر اللہ مجھے پائے گا تو ایسا عذاب کرے گا کہ کہ ویسا عذاب دنیا میں کسی کو نہیں کرے گا۔ جب وہ شخص مر گیا تو لوگوں نے ایسا ہی کیا۔ اللہ تعالیٰ نے جنگل کو حکم دیا تو اس نے سب راکھ اکٹھی کر دی۔ پھر سمندر کو حکم دیا تو اس نے بھی اکٹھی کر دی۔ پھر اللہ نے اس شخص سے فرمایا کہ تو نے ایسا کیوں کیا؟ وہ بولا کہ اے اللہ! تو خوب جانتا ہے کہ میں نے یہ صرف تیرے ڈر کی وجہ سے کیا تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا۔

باب : اس آدمی کے متعلق، جس نے گناہ کیا اور پھر اپنے رب سے بخشش مانگی۔

1935: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اپنے رب سے روایت کی کہ ایک بندہ گناہ کر بیٹھا تو کہا کہ اے اللہ! میرا گناہ بخش دے۔ اللہ نے فرمایا کہ میرے بندے نے گناہ کیا پھر اس نے جان لیا کہ اسکا ایک مالک ہے ، جو گناہ بخشتا ہے اور گناہ پر مؤاخذہ کرتا ہے۔ پھر اس نے گناہ کیا اور کہا کہ اے میرے مالک! میرا گناہ بخش دے۔ اللہ نے فرمایا کہ میرے بندہ نے ایک گناہ کیا اور اس نے یہ جان لیا کہ اس کا ایک رب ہے ، جو گناہ بخشتا ہے اور گناہ پر مؤاخذہ بھی کرتا ہے۔ پھر اس نے گناہ کیا اور کہا کہ اے میرے پالنے والے ! میرا گناہ بخش دے۔ اللہ نے فرمایا کہ میرے بندے نے گناہ کیا اور اس نے یہ جان لیا کہ اس کا ایک اللہ ہے ، جو گناہ بخشتا ہے اور گناہ پر مؤاخذہ بھی کرتا ہے۔ اے بندے ! اب تو جو چاہے عمل کر، میں نے تجھے بخش دیا۔ (راوئ حدیث) عبد الاعلیٰ نے کہا کہ مجھے یاد نہیں کہ یہ ”اب جو چاہے عمل کر“ تیسری بار فرمایا یا چوتھی بار فرمایا۔

باب : اس آدمی کے متعلق جس نے گناہ کیا پھر وضو کیا اور فرض نماز پڑھی۔

1936: سیدنا ابو امامہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ مسجد میں تھے اور ہم لوگ بھی آپﷺ کے ساتھ بیٹھے تھے ، اتنے میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہﷺ! میں حد کے کام کو پہنچا ہوں، مجھے حد لگائیے۔ رسول اللہﷺ یہ سن کر چپ ہو رہے۔ اس نے پھر کہا کہ یا رسول اللہﷺ! میں نے حد کا کام کیا ہے ، مجھے حد لگائیے۔ آپﷺ چپ ہو رہے۔ اتنے میں نماز کھڑی ہوئی۔ جب آپﷺ نماز سے فارغ ہو کر چلے تو وہ شخص بھی رسول اللہﷺ کے پیچھے چلا اور میں بھی آپﷺ کے پیچھے یہ دیکھنے کو چلا کہ آپﷺ اس شخص کو کیا جواب دیتے ہیں۔ پھر وہ شخص رسول اللہﷺ سے ملا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! میں نے حد کا کام کیا ہے ، مجھے حد لگائیے۔ سیدنا ابو امامہؓ  نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جس وقت تو اپنے گھر سے نکلا تھا، تو نے اچھی طرح سے وضو نہیں کیا؟ وہ بولا کہ کیوں نہیں یا رسول اللہﷺ! آپﷺ نے فرمایا کہ پھر تو نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی؟ وہ بولا ہاں یا رسول اللہﷺ۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے تیری حد کو یا تیرے گناہ کو بخش دیا۔

باب : مسلم کے بدلے ایک کافر بطور فدیہ جہنم میں ڈالا جائے گا۔

1937: سیدنا ابو موسیٰؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب قیامت کا دن ہو گا تو اللہ تعالیٰ ہر ایک مسلمان کو ایک یہودی یا نصرانی دے گا اور فرمائے گا کہ یہ تیرا جہنم سے چھٹکارا ہے۔

 

 

 

کتاب: منافقین کے متعلق۔

 

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ”(اے محمدﷺ!) جب منافق لوگ تمہارے پاس آتے ہیں تو … یہاں تک کہ یہ (خودبخود) بھاگ جائیں“ کی تفسیر۔

1938: سیدنا زید بن ارقمؓ  کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ ایک سفر میں نکلے ، جس میں لوگوں کو (کھانے اور پینے کی) بہت تکلیف ہوئی۔ عبد اللہ بن ابی (منافق) نے اپنے ساتھی منافقوں سے کہا کہ ”تم ان لوگوں کو جو رسول اللہﷺ کے پاس ہیں، کچھ مت دو، یہاں تک کہ وہ آپﷺ کے پاس سے بھاگ نکلیں“۔ زہیر نے کہا کہ یہ اس شخص کی قرأت ہے جس نے مِنْ  حَوْلِہ پڑھا ہے (اور یہی قرأت مشہور ہے اور قرأت شاذ مَنْ حَوْلَہ ہے ، یعنی یہاں تک کہ بھاگ جائیں وہ لوگ جو آپﷺ کے گرد ہیں) اور عبد اللہ بن ابی منافق نے کہا کہ ”اگر ہم مدینہ کو لوٹیں گے تو البتہ عزت والا (یعنی مردود نے اپنے آپ کو عزت والا قرار دیا) ذلت والے کو نکال دے گا“ (یعنی مردود نے رسول اللہﷺ کو ذلت والا قرار دیا)۔ میں یہ سن کر رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور آپﷺ سے بیان کیا تو آپﷺ نے عبد اللہ بن ابی کے پاس کہلا بھیجا اور اس سے پچھوایا، تو اس نے قسم کھائی کہ میں نے ایسا نہیں کہا اور بولا کہ زید نے رسول اللہﷺ سے جھوٹ بولا ہے۔ اس بات سے میرے دل کو بہت رنج ہوا، یہاں تک کہ اللہ نے مجھے سچا کیا اور سورۂ ”اذا جآءَ کَ الْمُنَافِقُوْنَ ‘ اتری۔ پھر رسول اللہﷺ نے ان کو دعائے مغفرت کے لئے بلایا، لیکن انہوں نے اپنے سر موڑ لئے (یعنی نہ آئے ) اور اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں فرمایا ہے کہ ”گویا وہ لکڑیاں ہیں دیوار سے ٹکائی ہوئیں“ سیدنا زیدؓ  نے کہا کہ وہ لوگ ظاہر میں خوب اور اچھے معلوم ہوتے تھے۔

باب : منافقین کا نبیﷺ سے بخشش کی دعا کروانے سے اعراض کرنے کے متعلق۔

1939: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کون شخص مرار کی گھاٹی پر چڑھ جاتا ہے کہ اس کے گناہ ایسے معاف ہو جائیں جیسے بنی اسرائیل کے معاف ہو گئے تھے۔ سیدنا جابرؓ  نے کہا کہ سب سے پہلے اس گھاٹی پر ہمارے گھوڑے چڑھے یعنی قبیلہ خزرج کے لوگوں کے ، پھر لوگوں کا تار بندھ گیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک کی بخشش ہو گئی مگر لال اونٹ والے کی نہیں۔ ہم اس شخص کے پاس گئے اور ہم نے کہا کہ چل رسول اللہﷺ تیرے لئے مغفرت کی دعا کریں۔ وہ بولا کہ اللہ کی قسم! میں اپنی گمشدہ چیز پاؤں تو مجھے تمہارے صاحب کی دعا سے زیادہ پسند ہے۔ سیدنا جابرؓ  نے کہا کہ وہ شخص اپنی گمشدہ چیز ڈھونڈھ رہا تھا (وہ منافق تھا جبھی رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اس کی بخشش نہیں ہوئی اور یہ آپﷺ کا معجزہ ہے آپﷺ نے جیسا فرمایا تھا وہ شخص ویسا ہی نکلا)۔

باب : منافقوں کے ذکر اور ان کی نشانیوں کے بار ے میں۔

1940: قیس بن عباد کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمار بن یاسر سے پوچھا (اور عمار بن یاسر جنگ صفین میں سیدنا علیؓ  کی طرف تھے ) کہ تم نے جو لڑائی (سیدنا علیؓ  کی طرف سے ) کی، یہ تمہاری رائے ہے یا تم سے رسول اللہﷺ نے اس بارے میں کچھ فرمایا تھا؟ اگر رائے ہے تو رائے تو درست بھی ہوتی ہے اور غلط بھی ہوتی ہے۔ تو سیدنا عمارؓ  نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے ہم سے کوئی ایسی بات نہیں فرمائی جو عام لوگوں سے نہ فرمائی ہو،اور سیدنا عمارؓ  نے کہا کہ بیشک رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ بیشک میری امت میں (راوی حدیث شعبہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے انہوں نے یہ کہا تھا کہ مجھے سیدنا حذیفہ نے بیان کیا اور دوسرے راوی غندر کہتے ہیں کہ انہوں نے ”حدثنی حذیفہ“ کے الفاظ نہیں کہے ) بارہ منافق ہوں گے جو نہ جنت میں جائیں اور نہ ہی اس کی خوشبو پا سکیں گے حتی کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہو جائے۔ ان میں سے آٹھ کو تم سے ایک دبیلہ (پھوڑا) کافی ہو جائے گا (یعنی ان کی موت کا سبب بنے گا) یعنی ایک آگ کا چراغ ان کے کندھوں میں ظاہر ہو گا اور ان کے سینوں کو توڑتا ہوا نکل آئے گا۔ (یعنی اس پھوڑے میں ایک انگارا ہو گا جیسے چراغ رکھ دیا ہو، اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو محفوظ رکھے۔ آمین)۔

باب : لیلۃ عقبہ میں منافقین اور ان کی تعداد کے متعلق۔

1941: سیدنا ابو طفیل کہتے ہیں کہ عقبہ کے لوگوں میں سے ایک شخص اور سیدنا حذیفہؓ  کے درمیان کچھ جھگڑا تھا جیسے لوگوں میں ہوتا ہے۔ وہ بولا کہ میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ اصحاب عقبہ کتنے تھے ؟ (اس سے مراد وہ منافقین ہیں جو غزوۂ تبوک کے سفر کے دوران ایک گھاٹی میں آپ ﷺ کو نقصان پہنچانے کے لئے اکٹھے ہوئے تھے ، اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو ان کے شر سے محفوظ رکھا) لوگوں نے حذیفہ سے کہا جب وہ پوچھتا ہے تو اس کو بتا دو۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں (رسول اللہﷺ سے ) خبر دی جاتی تھی کہ وہ چودہ آدمی تھے۔ اگر تو بھی ان میں سے ہے تو وہ پندرہ تھے۔ اور میں قسم سے کہتا ہوں کہ ان میں سے بارہ تو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے دنیا اور آخرت میں دشمن تھے اور باقی تینوں نے یہ عذر کیا (جب ان سے پوچھا گیا اور ملامت کی گئی) کہ ہم نے تو رسول اللہﷺ کے منادی (کہ عقبہ کے راستے سے نہ آؤ) کی آواز بھی نہیں سنی اور نہ اس قوم کے ارادہ کی ہم خبر رکھتے ہیں۔ اور (اس وقت) رسول اللہﷺ پتھریلی زمین میں تھے۔ پھر چلے اور فرمایا کہ (اگلے پڑاؤ پر) پانی تھوڑا ہے ، تو مجھ سے پہلے کوئی آدمی پانی پر نہ جائے جب آپﷺ وہاں تشریف لے گئے تو کچھ (منافق) لوگ وہاں پہنچ چکے تھے تو آپﷺ نے اس دن ان پر لعنت فرمائی۔

باب : منافق کی مثال اس بکری کی ہے جو دو ریوڑوں کے درمیان بھاگتی ہے۔

1942: سیدنا ابن عمرؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: منافق کی مثال اس بکری کی ہے جو دو گلوں یعنی دو ریوڑوں کے درمیان ماری ماری پھرتی ہو، کبھی اس ریوڑ میں آتی ہو اور کبھی اس میں۔

باب : منافق کی موت پر سخت ہوا کا چلنا۔

1943: سیدنا جابرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ایک سفر سے واپس آ رہے تھے ، جب مدینہ کے قریب پہنچے تو ایسے زور کی ہوا چلی کہ سوار زمین میں دبنے کے قریب ہو گیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ یہ ہوا کسی منافق کے مرنے کے لئے چلی ہے۔ جب آپﷺ مدینہ پہنچے تو منافقوں میں سے ایک بڑا منافق مر چکا تھا (یہ رسول اللہﷺ کا ایک معجزہ تھا)۔

باب : قیامت کے دن منافقین کے لئے سخت عذاب کی سختی۔

1944: سیدنا سلمہ بن اکوعؓ  کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ کے ساتھ ایک آدمی کی عیادت کی جس کو بخار آر رہا تھا۔ میں نے اس پر اپنا ہاتھ رکھا اور کہا کہ اللہ کی قسم! میں نے آج کی طرح کسی شخص کو اتنا سخت گرم نہیں دیکھا (بخار کی شدت کی وجہ سے اس کا جسم سخت گرم تھا) رسول اللہﷺ نے فرمایا کیا میں تم سے اس شخص کے بارے میں بیان نہ کروں جو قیامت کے دن اس سے بھی زیادہ گرم ہو گا؟ وہ یہ دونوں سوار ہیں جو پیٹھ موڑ کر جا رہے ہیں (یہ دو آدمیوں کے بارہ میں جو کہ اس وقت آپﷺ کے ساتھیوں میں سے تھے۔ یہ اس لئے فرمایا کہ وہ دونوں منافق تھے اور آپﷺ ان کے نفاق سے باخبر تھے )۔

باب : زمین کا منافق، مرتد شخص کی لاش کو باہر پھینکنا اور لوگوں کا (اسی حالت میں) اس کو چھوڑ دینا۔

1945: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ ہماری قوم بنی نجار میں سے ایک شخص تھا جس نے سورۂ بقرہ اور آلِ عمران پڑھی تھیں اور وہ رسول اللہﷺ کے لئے لکھا کرتا تھا۔ پھر وہ بھاگ گیا اور اہلِ کتاب سے مل گیا۔ انہوں نے اس کو اٹھایا (یعنی اس کی آؤ بھگت کی) اور کہنے لگے کہ یہ محمدﷺ کا منشی تھا۔ وہ لوگ اس کے مل جانے سے خوش ہوئے۔ پھر تھوڑے دنوں میں اللہ تعالیٰ نے اس کو ہلاک کیا تو انہوں نے اس کے لئے قبر کھودی اور دفنا دیا۔ صبح کو دیکھا تو اس کی لاش باہر پڑی ہے۔ پھر انہوں نے گڑھا کھودا اور اس کو دفن کر دیا۔ پھر صبح کو دیکھا تو اس کی لاش باہر پڑی ہے۔ پھر گڑھا کھود کر اس کو دفن کر دیا۔ پھر صبح کو دیکھا تو اس کی لاش کو زمین نے باہر پھینک دیا۔ آخر اس کو یونہی پڑا ہوا چھوڑ دیا۔

 

 

 

کتاب: قیامت کے متعلق۔

 

باب : قیامت کے دن اللہ تعالیٰ زمین کو مٹھی میں لے گا اور ساتوں آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔

1946: سیدنا ابن عمرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آسمانوں کو لپیٹ لے گا اور ان کو داہنے ہاتھ میں لے لے گا پھر فرمائے گا کہ میں بادشاہ ہوں، کہاں ہیں زور والے ؟ کہاں ہیں غرور والے ؟ پھر بائیں ہاتھ سے زمین کو لپیٹ لے گا (جو داہنے ہاتھ کے مثل ہے اور اسی واسطے دوسری حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں)، پھر فرمائے گا کہ میں بادشاہ ہوں، کہاں ہیں زور والے ؟ کہاں ہیں بڑائی کرنے والے ؟

باب : قیامت کے دن زمین کی حالت کا بیان۔

1947: سیدنا سہل بن سعدؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن لوگ میدے کی روئی کی طرح سفید، سرخی مارتی ہوئی زمین پر اکٹھے کئے جائیں گے ، اس میں کسی کا نشان باقی نہ رہے گا (یعنی کوئی عمارت جیسے مکان یا مینار وغیرہ نہ رہے گی صاف چٹیل میدان ہو جائے گا)۔

باب : ہر آدمی اسی حالت پر اٹھایا جائے گا جس حالت پر وہ مرا تھا۔

1948: سیدنا جابرؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ ہر آدمی قیامت کے دن اسی حالت پر اٹھے گا، جس حالت پر مرا تھا (یعنی کفر یا ایمان پر۔ تو اعتبار خاتمہ کا ہے اور آخری وقت کی نیت کا ہے )

باب : (قیامت کے دن) اعمال پر اٹھنا۔

1949: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپﷺ فرماتے تھے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو عذاب کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تو جو لوگ اس قوم میں ہوتے ہیں سب کو عذاب پہنچ جاتا ہے (یعنی اچھے اور نیک بھی عذاب میں شامل ہو جاتے ہیں)، پھر قیامت کے دن اپنے اپنے اعمال پر اٹھائے جائیں گے (قیامت کے دن اچھے لوگ بُروں کے ساتھ نہ ہوں گے )۔

باب : (قیامت کے دن) لوگ ننگے پاؤں، ننگے بدن اور بغیر ختنہ کی حالت میں اکٹھے کئے جائیں گے۔

1950: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ قیامت کے دن لوگ ننگے پاؤں، ننگے بدن اور بغیر ختنہ کئے ہوئے اکٹھے کئے جائیں گے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! مرد اور عورت ایک ساتھ ہوں گے تو ایک دوسرے کو دیکھے گے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اے عائشہ! وہاں معاملہ ایک دوسرے کو دیکھنے سے بہت زیادہ سخت ہو گا (اپنے اپنے فکر میں ہوں گے )۔

باب : لوگ (قیامت میں تین) گروہوں کی صورت میں اکٹھے کئے جائیں گے

1951: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: لوگ تین گروہوں پر اکٹھے کئے جائیں گے (یہ وہ حشر ہے جو قیامت سے پہلے دنیا ہی میں ہو گا اور یہ سب نشانیوں کے بعد آخری نشانی ہے )۔ بعض خوش ہوں گے اور بعض ڈرتے ہوں گے ، دو ایک اونٹ پر ہوں گے ، تین ایک اونٹ پر ہوں گے ، چار ایک اونٹ پر ہوں گے ، دس ایک اونٹ پر ہوں گے ، اور باقی لوگوں کو آگ جمع کرے گی۔ جب وہ رات کو ٹھہریں گے تو آگ بھی ٹھہر جائے گی، اسی طرح جب دوپہر کو سوئیں گے تب بھی آگ ٹھہر جائے گی۔ اور جہاں وہ صبح کو پہنچیں گے آگ بھی صبح کرے گی اور جہاں وہ شام کو پہنچیں گے آگ بھی وہیں ان کے ساتھ شام کرے گی (غرض کہ سب لوگوں کو ہانک کر شام کے ملک کو لے جائے گی)۔

باب : قیامت کے دن کافر کا حشر منہ کے بل ہو گا (یعنی قیامت میں کافر منہ کے بل چلے گا)۔

1952: سیدنا انس بن مالکؓ  سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! کافر کا حشر قیامت کے دن منہ کے بل کیسے ہو گا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ کیا جس (ذات) نے اس کو دنیا میں دونوں پاؤں پر چلایا ہے ، وہ اس بات کی قدرت نہیں رکھتا کہ اس کو قیامت کے دن منہ کے بل چلائے ؟ قتادہ نے یہ حدیث سن کر کہا کہ بیشک اے ہمارے رب! تو ایسی طاقت رکھتا ہے۔

باب : قیامت کے دن سورج کا مخلوق کے قریب ہونا۔

1953: سلیم بن عامر کہتے ہیں کہ مجھ سے سیدنا مقداد بن اسودؓ  نے بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ قیامت کے دن سورج نزدیک کیا جائے گا، یہاں تک کہ ایک میل پر آ جائے گا۔ سلیم بن عامر نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا کہ میل سے کیا مراد ہے۔ یہ میل زمین کا جو کوس کے برابر ہوتا ہے یا میل سے مراد سلائی ہے جس سے سرمہ لگاتے ہیں۔ لوگ اپنے اپنے اعمال کے موافق پسینہ میں ڈوبے ہوں گے۔ کوئی تو ٹخنوں تک ڈوبا ہو گا، کوئی گھٹنوں تک، کوئی کمر تک اور کسی کو پسینہ کی لگام ہو گی اور رسول اللہﷺ نے اپنے ہاتھ سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا (یعنی منہ تک پسینہ ہو گا)۔

باب : قیامت کے دن پسینہ کی کثرت کا بیان۔

1954: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بیشک قیامت کے دن (لوگوں کا) پسینہ ستر باع (دونوں ہاتھ کی پھیلائی کے برابر) زمین میں جائے گا اور بعض آدمیوں کے منہ یا کانوں تک ہو گا (راوئ حدیث) ثور کو اس بات میں شک ہے (کہ منہ تک کہایا کانوں تک)۔

باب : قیامت کے دن کافر سے فدیہ کی طلب کا بیان۔

1955: سیدنا انس بن مالکؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس شخص سے فرمائے گا جس کو جہنم میں سب سے ہلکا عذاب ہو گا کہ اگر تیرے پاس دنیا اور جو کچھ اس میں ہے ، ہوتا تو کیا تو اس کو دیکر اپنے آپ کو عذاب سے چھڑاتا؟ وہ بولے گا جہ ہاں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے تو اس سے بہت آسان بات چاہی تھی (جس میں کچھ خرچ نہ تھا) جب آدم علیہ السلام کی پشت میں تھا کہ تم شرک نہ کرنا میں تجھے جہنم میں نہ لے جاؤں گا تو نے نہ مانا اور شرک کیا۔ (معاذ اللہ شرک ایسا گناہ ہے کہ وہ بخشا نہ جائے گا اور شرک کرنے والا اگر شرک کی حالت میں مرے تو ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا)۔

 

 

 

کتاب: جنت کے متعلق۔

 

باب : جنت میں جانے والے پہلے گروہ کا بیان۔

1956: محمد(ابن سیرین) کہتے ہیں کہ لوگوں نے فخر کیا یا ذکر کیا کہ جنت میں مرد زیادہ ہوں گے یا عورتیں زیادہ ہوں گی؟ سیدنا ابو ہریرہؓ  نے کہا کہ کیا ابو القاسمﷺ نے نہیں فرمایا کہ البتہ پہلا گروہ جو جنت میں جائے گا وہ چودھویں رات کے چاند کی طرح ہو گا اور جو گروہ اس کے بعد جائے گا وہ آسمان کے بڑے چمکدار تارے کی طرح ہو گا؟ ان میں سے ہر مرد کے لئے دو بیویاں ہوں گی جن کی پنڈلیوں کا گودا گوشت کے پرے نظر آئیگا اور جنت میں کوئی غیر شادی شدہ نہ ہو گا

1957: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: سب سے پہلے جو گروہ جنت میں جائے گا، وہ چودھویں رات کے چاند کی طرح ہو گا پھر جو گروہ ان کے بعد جائے گا وہ سب سے زیادہ چمکتے ہوئے تارے کی طرح ہو گا اور پھر ان کے بعد کئی درجے ہوں گے۔ اور جنتی نہ پیشاب کریں گے ، نہ پاخانہ، نہ تھوکیں گے ، نہ ناک سنکیں گے۔ ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی اور پسینہ سے مشک کی بُو آئے گی۔ ان کی انگیٹھیوں میں عود سلگے گا اور ان کی بیویاں بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ہوں گی اور ان کی عادتیں ایک شخص کی عادتوں کے موافق ہوں گی (یعنی سب کے اخلاق یکساں ہوں گے ) اپنے باپ آدمؑ کی قد و قامت یعنی ساٹھ ہاتھ کا قد ہو گا۔ابن ابی شیبہ نے کہا کہ ان کا اخلاق ایک جیسا ہو گا اور ابو کریب نے کہا کہ ان کی پیدائش ایک طرح کی ہو گی اور ابن ابی شیبہ نے کہا کہ وہ اپنے والد (آدم ں) کی صورت پر ہوں گے۔

باب : جو جنت میں جائے گا وہ آدم علیہ السلام کی صورت پر ہو گا۔

1958: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ جل جلالہ نے سیدنا آدمؑ کو اپنی صورت پر بنایا اور ان کا قد ساٹھ ہاتھ کا تھا۔ جب ان کو بنا چکا تو فرمایا کہ جاؤ اور گروہ کی شکل میں بیٹھے ہوئے فرشتوں کو سلام کرو اور سنو کہ وہ تجھے کیا جواب دیتے ہیں کیونکہ تیرا اور تیری اولاد کا یہی سلام ہو گا۔ سیدنا آدمؑ گئے اور کہا کہ السلام علیکم۔ فرشتوں نے جواب میں کہا کہ السلام علیک و رحمۃ اللہ۔ یعنی ورحمۃاللہ بڑھا دیا۔ سو جو کوئی بہشت میں جائے گا، وہ آدمؑ کی صورت پر ہو گا یعنی ساٹھ ہاتھ کا لمبا۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ آدمؑ ساٹھ ہاتھ کے تھے ، پھر ان کے بعد لوگوں کے قد اب تک گھٹتے گئے۔

باب : (کچھ) قومیں جنت میں (ایسی حالت میں) جائیں گی کہ انکے دل پرندوں کے دلوں جیسے ہوں گے۔

1959: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: جنت میں کچھ لوگ ایسے جائیں گے کہ ان کے دل پرندوں کے دلوں جیسے ہوں گے (یعنی نرمی کے لحاظ سے یا اللہ پر بھروسہ کرنے کے اعتبار سے )۔

باب : اہلِ جنت پر اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اترنے کے بیان میں۔

1960: سیدنا ابو سعید خدریؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: بیشک اللہ عزوجل جنتی لوگوں سے فرمائے گا کہ اے جنتیو! پس وہ کہیں گے کہ اے رب! ہم خدمت میں حاضر ہیں اور سب بھلائی تیرے ہاتھوں میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ کیا تم راضی ہوئے ؟ وہ کہیں گے کہ ہم کیسے راضی نہ ہوں گے ، ہمیں تو نے وہ دیا کہ اتنا اپنی مخلوق میں سے کسی کو نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ کیا میں تمہیں اس سے بھی کوئی عمدہ چیز دوں؟ وہ عرض کریں گے کہ اے رب! اس سے عمدہ کونسی چیز ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے تم پر اپنی رضامندی اتار دی اور اب میں اس کے بعد کبھی تم پر غصہ نہ ہوں گا۔

باب : اہل جنت کا بالا خانوں والوں کو دیکھنا۔

1961: سیدنا ابو سعید خدریؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بیشک جنت کے لوگ اوپر کی منزل والوں کو ایسے دیکھیں گے جیسے ستارے کو دیکھتے ہیں جو چمکتا ہوا ہو۔ اَور دُور آسمان کے کنارے پر مشرق میں یا مغرب میں ہو۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ ان میں درجوں کا فرق ہو گا لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! یہ درجے تو پیغمبروں کے ہوں گے اور کسی کو نہیں ملیں گے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ کیوں نہیں قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، ان درجوں میں وہ لوگ ہوں گے جو اللہ پر ایمان لائے اور انہوں نے پیغمبروں کو سچا جانا (یعنی پیغمبروں کا درجہ اس سے کہیں زیادہ ہو گا)۔

باب : جنت میں اہل جنت کا کھانا۔

1962: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جنت میں جانے والے کھائیں پئیں گے لیکن نہ تھوکیں گے ، نہ ناک صاف کریں گے اور نہ پیشاب کی حاجت ہو گی۔ لیکن ان کا کھانا کستوری کی مشک جیسا ایک ڈکار ہو گا (بس ڈکار اور پسینہ سے کھانا تحلیل ہو جائے گا)۔ انہیں تسبیح و تحمید (یعنی سبحان اللہ اور الحمد للہ کہنا) کا ایسے ہی الہام ہو گا جیسے سانس کا الہام ہوتا ہے۔

باب : اہل جنت کے لئے تحفہ۔

1963: سیدنا ثوبانؓ  مولیٰ رسول اللہﷺ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے پاس کھڑا تھا کہ یہودی عالموں میں سے ایک عالم آیا اور بولا کہ السلام علیکم یا محمدﷺ! میں نے اس کو ایسے زور سے ایک دھکا دیا کہ وہ گرتے گرتے بچا۔ وہ بولا کہ تو مجھے دھکا کیوں دیتا ہے ؟ میں نے کہا کہ تو (نبیﷺ کا نام لیتا ہے اور) رسول اللہﷺ کیوں نہیں کہتا؟ وہ بولا کہ ہم ان کو اس نام سے پکارتے ہیں جو ان کے گھر والوں نے رکھا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میرا نام جو گھر والوں نے رکھا ہے وہ محمدﷺ ہے۔ یہودی نے کہا کہ میں تمہارے پاس کچھ پوچھنے کو آیا ہوں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ بھلا میں اگر تجھے کچھ بتلاؤں تو تجھے فائدہ ہو گا؟ اس نے کہا کہ میں اپنے دونوں کانوں سے سنوں گا۔ رسول اللہﷺ نے اس چھڑی سے جو آپﷺ کے ہاتھ مبارک میں تھی زمین پر لکیر کھینچی (جیسے کوئی سوچتے وقت کرتا ہے ) اور فرمایا کہ پوچھ۔ یہودی نے کہا کہ جس دن یہ زمین آسمان بدل کر دوسرے زمین و آسمان ہوں گے ، لوگ اس وقت کہاں ہوں گے ؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ لوگ اس وقت اندھیرے میں پل صراط کے پاس کھڑے ہوں گے۔ اس نے پوچھا کہ پھر سب سے پہلے کون لوگ اس پل سے پار ہوں گے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ مہاجرین میں جو محتاج ہیں۔ (مہاجرین سے مراد وہ لوگ ہیں جو نبیﷺ کے ساتھ گھر بار چھوڑ کر نکل گئے اور فقر و فاقہ کی تکلیف پر صبر کیا اور دنیا پر لات ماری) یہودی نے کہا کہ پھر جب وہ لوگ جنت میں جائیں گے تو ان کا پہلا ناشتہ/ تحفہ کیا ہو گا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ مچھلی کے جگر کا ٹکڑا (جو نہایت مزیدار اور مقوی ہوتا ہے )۔ اس نے کہا پھر صبح کا کھانا کیا ہو گا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ان کے لئے وہ بیل کاٹا جائے گا جو جنت میں چرا کرتا تھا۔ پھر اس نے پوچھا کہ یہ کھا کر وہ کیا پئیں گے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ سلسبیل نامی چشمہ کا پانی۔ اس یہودی نے کہا کہ آپﷺ نے سچ فرمایا اور میں آپ سے ایک ایسی بات پوچھنے آیا ہوں جس کو دنیا میں کوئی نہیں جانتا سوائے نبیﷺ کے یا شاید ایک دو آدمی اور جانتے ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اگر میں تجھے وہ بات بتا دوں تو تجھے فائدہ ہو گا؟ اس نے کہا کہ میں اپنے کان سے سن لوں گا۔ پھر اس نے کہا کہ میں بچے کے بارے میں پوچھتا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ مرد کا پانی سفید ہے اور عورت کا پانی زرد ہے ، جب یہ دونوں اکٹھے ہوتے ہیں اور مرد کی منی عورت کی منی پر غالب ہوتی ہے ، تو اللہ کے حکم سے لڑکا پیدا ہوتا ہے اور جب مرد کی منی پر عورت کی منی غالب ہوتی ہے تو اللہ کے حکم سے لڑکی پیدا ہوتی ہے۔ یہودی نے کہا کہ البتہ آپ نے سچ کہا۔ اور بیشک البتہ آپ نبی ہیں۔ پھر وہ لوٹا اور چلا گیا۔ پس رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اس نے جب مجھ سے یہ سوالات کئے تو مجھے کسی چیز کا علم نہیں تھا، حتی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کا علم دے دیا۔

باب : اہل جنت کی نعمتیں ہمیشہ کی ہوں گی۔

1964: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: جو شخص جنت میں جائے گا، وہ سکون سے ہو گا اور بے غم رہے گا۔ نہ کبھی اس کے کپڑے بوسیدہ ہوں گے اور نہ اس کی جوانی مٹے گی (یعنی سدا جوان ہی رہے گا کبھی بوڑھا نہ ہو گا)۔

باب : جنت میں ایک درخت ہے کہ سو سال تک اگر سوار چلے تو (اس کا سایہ) قطع (عبور) نہ ہو۔

1965: سیدنا سہل بن سعدؓ  رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: جنت میں ایک درخت ہے ، جس کے سائے میں سو برس تک ایک سوار چلے گا اور وہ اس کو قطع (عبور) نہ کر سکے گا۔ ابو حازم نے کہا کہ یہ حدیث میں نے نعمان بن ابی عیاش زرقی سے بیان کی تو انہوں نے کہا کہ مجھ سے سیدنا ابو سعید خدریؓ  نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جنت میں ایک درخت ہے ، جس کے تلے اچھے تیار کئے ہوئے تیز گھوڑے کا سوار سو برس تک چلے تو اس کو تمام نہ کر سکے۔

باب : جنتی خیموں کا بیان۔

1966: سیدنا ابو موسیٰؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جنت میں ایک خولدار موتی کا خیمہ ہو گا، جس کی چوڑائی ساٹھ میل کی ہو گی۔ اس کے ہر کونے میں گھر والے ہوں گے جو دوسرے کونے والوں کو نہ دیکھتے ہوں گے۔ مومن ان پر دورہ کرے گا۔

باب : جنتی بازار کے بیان میں۔

1967: سیدنا انس بن مالکؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جنت میں ایک بازار ہے ، جس میں جنتی لوگ ہر جمعہ کے دن جمع ہوا کریں گے۔ پھر شمالی ہوا چلے گی، پس وہاں کا گرد و غبار (جو مشک اور زعفران ہے ) ان کے چہروں اور کپڑوں پر پڑے گا، پس ان کا حسن و جمال اور زیادہ ہو جائے گا۔ پھر وہ پہلے سے زیادہ حسین و جمیل ہو کر اپنے گھروں کی طرف پلٹ آئیں گے۔ پس ان سے ان کے گھر والے کہیں گے کہ اللہ کی قسم! تمہارا حسن و جمال ہمارے بعد تو بہت بڑھ گیا ہے۔ پھر وہ جواب دیں گے کہ اللہ کی قسم! تمہارا حسن و جمال بھی ہمارے بعد زیادہ ہو گیا ہے۔

باب : جنت کی نہروں میں سے کچھ نہریں دنیا میں۔

1968: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: سیحان، جیحان، نیل اور فرات جنت کی نہروں میں سے ہیں۔

باب : جنت کو ناپسندیدہ چیزوں سے گھیر دیا گیا ہے۔(یعنی جنت مشکل اور ناپسندیدہ کاموں کے کرنے سے حاصل ہوتی ہے )۔

1969: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جنت ان باتوں سے گھیر دی گئی ہے جو نفس کو ناگوار ہیں اور جہنم نفس کی خواہشوں سے گھیر دی گئی ہے۔

باب : عورتیں جنت میں تھوڑی ہوں گی۔

1970: ابو التیاح کہتے ہیں کہ مطرف بن عبد اللہ کی دو عورتیں تھیں، وہ ایک عورت کے پاس سے آئے تو دوسری بولی کہ تو فلاں عورت کے پاس سے آیا ہے ؟ مطرف نے کہا کہ میں عمران بن حصین کے پاس سے آیا ہوں، انہوں نے ہم سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جنت کے رہنے والوں میں عورتیں بہت کم ہیں۔

باب : جنتیوں اور دوزخیوں اور دنیا میں ان کی نشانیوں کے بیان میں۔

1971: سیدنا حارثہ بن وہبؓ  سے روایت ہے کہ انہوں نے نبیﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ کیا میں تمہیں جنت کے لوگوں کے متعلق نہ بتاؤں؟ لوگوں نے کہا کہ بتلائیے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ہر کمزور ، لوگوں کے نزدیک ذلیل،اگر اللہ کے بھروسے پر قسم کھا لے تو اللہ تعالیٰ اس کو سچا کر دے۔ اور پھر فرمایا کہ کیا میں تمہیں دوزخ والوں کے با رے میں نہ بتاؤں؟ لوگوں نے عرض کیا کہ کیوں نہیں! بتلائیے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ہر جھگڑالو، بڑے پیٹ والا اور مغرور یا ہر مال جمع کرنے والا مغرور۔

1972: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کئی لوگ ایسے ہیں کہ غبار آلود، پریشان حالت میں دروازوں پر سے دھکیلے جاتے ہیں (لیکن) اگر وہ اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھیں، تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم پوری کر دے (یعنی اللہ کے نزدیک مقبول ہیں گو دنیا داروں کی نظروں میں حقیر ہیں)۔

1973: سیدنا عیاض بن حمار مجاشعیؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک دن خطبہ میں فرمایا کہ آگاہ رہو کہ میرے رب نے مجھے حکم کیا ہے کہ تمہیں وہ باتیں سکھلاؤں جو تمہیں معلوم نہیں ہیں اللہ تعالیٰ نے مجھے بتائی ہیں۔ جو مال اپنے بندے کو دوں وہ اس کے لئے حلال ہے (یعنی جو شرع کی رو سے حرام نہیں ہے وہ حلال ہے ، لیکن لوگوں نے اس کو حرام کر رکھا ہو جیسے گھوڑا، زیبرا، گوہ، شارک مچھلی وغیرہ) اور میں نے اپنے سب بندوں کو مسلمان پیدا کیا ہے (یا گناہوں سے پاک یا استقامت پر اور ہدایت کی قابلیت پر اور بعضوں نے کہا کہ مراد وہ عہد ہے جو دنیا میں آنے سے پہلے لیا تھا) پھر ان کے پاس شیطان آئے اور ان کو ان کے دین سے ہٹا دیا (یا ان کے دین سے روک دیا) اور جو چیزیں میں نے ان کے لئے حلال کی تھیں، وہ حرام کیں اور ان کو میرے ساتھ شرک کرنے کا حکم کیا جس کی میں نے کوئی دلیل نہیں اتاری۔ اور بیشک اللہ تعالیٰ نے زمین والوں کو دیکھا، پھر کیا عرب کیا عجم سب کو بُرا سمجھا سوائے ان چند لوگوں کے جو اہل کتاب میں سے (دین حق پر) باقی تھے۔ (یعنی عرب و عجم کی اکثریت سوائے چند لوگوں کے جو عیسیٰؑ کے پیرو کاروں میں سے توحید پرست تھے ، باقی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے والے تھے ، اس لئے بُرا سمجھا) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے تجھے اس لئے بھیجا کہ تجھے آزماؤں (صبر اور استقامت اور کافروں کی ایذا پر) اور ان لوگوں کو آزماؤں جن کے پاس تمہیں بھیجا (کہ ان میں سے کون ایمان قبول کرتا ہے ، کون کافر رہتا ہے اور کون منافق) اور میں نے تجھ پر ایسی کتاب اتاری جس کو پانی نہیں دھوتا (کیونکہ وہ کتاب صرف کاغذ پر نہیں لکھی بلکہ سینوں پر نقش ہے )، تو اس کو سوتے جاگتے میں پڑھتا ہے اور اللہ نے مجھے قریش کے لوگوں کو جلا دینے کا حکم کیا (یعنی شدت سے حق سنانے کا) میں نے عرض کیا کہ اے رب! وہ تو میرا سر توڑ کر روٹی کی طرح کر ڈالیں گے اس کے ٹکڑے کر دیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کو نکال دے جیسے انہوں نے تجھے نکالا اور ان سے جہاد کر، ہم تیری مدد کریں گے اور خرچ کر،ہم عنقریب تجھ پر خرچ کریں گے (یعنی تو اللہ کی راہ میں خرچ کر، اللہ تجھے دے گا) اور تو لشکر بھیج، ہم ویسے (فرشتوں کے ) پانچ لشکر بھیجیں گے اور جو لوگ تیری اطاعت کریں، ان کو لیکر ان سے لڑ جو تیرا کہا نہ مانیں۔ فرمایا کہ جنت والے تین شخص ہیں، ایک تو وہ جو حکومت رکھتا ہے اور انصاف کرتا ہے ، سچا ہے اور نیک کاموں کی توفیق دیا گیا ہے۔ دوسرا وہ جو ہر رشتہ دار اور مسلمان پر مہربان اور نرم دل ہے۔ تیسرا جو پاک دامن ہے یا سوال نہیں کرتا اور بچوں والا ہے۔ اور دوزخ والے پانچ شخص ہیں ایک تو وہ کمزور، جس کو تمیز نہیں (کہ بُری بات سے بچے ) جو تم میں تابعدار ہیں، نہ وہ گھر بار چاہتے ہیں اور نہ مال (یعنی محض بے فکری۔ حلال حرام سے غرض نہ رکھنے والے۔ آج تو نام نہاد امیر اور حکمران لوگ بھی داخل ہیں) دوسرا وہ چور کہ جب اس پر کوئی چیز، اگرچہ حقیر ہو ، کھلے ، تو وہ اس کو چرائے۔ تیسرا وہ شخص جو صبح اور شام تجھ سے تیرے گھر والوں اور تیرے مال کے مقدمہ میں فریب کرتا ہے۔ اور آپﷺ نے بخیل یا جھوٹے کا بیان کیا (کہ وہ بھی دوزخی ہیں) اور شنظیر یعنی گالیاں بکنے والا اور فحش کہنے والا (وہ بھی جہنمی ہیں)۔

باب : جنتی اور دوزخی جہاں ہوں گے ، ہمیشہ رہیں گے۔

1974: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب جنت والے جنت میں چلے جائیں گے اور دوزخ واے دوزخ میں تو موت لائی جائے گی اور جنت اور دوزخ کے بیچ میں ذبح کی جائے گی، پھر ایک پکارنے والا پکارے گا کہ اے جنت والو! اب موت نہیں اور اے دوزخ والو! اب موت نہیں۔ جنت والوں کو یہ سن کر خوشی پر خوشی حاصل ہو گی اور دوزخ والوں کو رنج پر رنج زیادہ ہو گا۔