FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

فہرست مضامین

مؤطا

 

 

حصہ دوم

               امام مالک

 

 

 

 

 

 

کتاب قربانیوں کی

 

               جن جانوروں کی قربانی کرنا منع ہے

 

براء بن عازب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا قربانی میں کن جانوروں سے بچنا چاہئے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی انگلیوں سے بتایا کہ چار سے بچنا چاہئے برا بن عازب بھی انگلیوں سے بتایا کرتے اور کہتے کہ میرا ہاتھ چوڑا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ سے، ایک لنگڑا جو چل نہ سکے اور کانا جس کا کانا پن کھلا ہو اور بیمار جس کی بیماری ظاہر ہوا اور دبلا جس میں گودا نہیں ہے۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر ان قربانیوں سے بچتے جو مسنہ نہ ہوتیں اور جس کا کوئی عضو نہ ہوتا۔

 

               جب تک امام عید کی نماز سے فارغ نہ ہو قربانی کی ممانعت کا بیان

 

بشیر بن یسار سے روایت ہے کہ ابا بردہ بن نیار نے ذبح کی قربانی اپنی قبل اس بات کے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ذبح کریں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دوسری قربانی کا ان کو حکم دیا انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میرے پاس تو اب کچھ نہیں صرف ایک بکری ہے ایک سال کی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اسی کو ذبح کر۔

 

عبادہ بن تمیم سے روایت ہے کہ عویمر بن اشقر نے ذبح کی قربانی اپنی دسویں تاریج کی فجر سے پیشتر جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دوسری قربانی کا حکم دیا۔

 

               جس جانور کی قربانی مستحب ہے اس کا بیان

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے قربانی کی ایک بار مدینہ میں تو مجھ کو حکم کیا ایک بکرا سینگ دار خریدنے کا اور اس کے ذبح کرنے کا عید الاضحیٰ کے روز عیدگاہ میں میں نے ایسا ہی کیا پھر وہ بکرا ذبح کیا ہوا بھیجا گیا عبداللہ بن عمر کے پاس جب انہوں نے اپنا سر منڈایا، ان دنوں میں وہ بیمار تھے عید کی نماز کو بھی نہیں آئے کہا نافع نے عبداللہ بن عمر کہتے تھے کہ سر منڈانا قربانی کرنے والے پر واجب نہیں ہے مگر عبداللہ بن عمر نے یوں ہی سر منڈایا۔

 

               قربانی کا گوشت رکھ چھوڑنے کا بیان

 

جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلے منع کیا تھا قربانی کا گوشت رکھ چھوڑنے سے تین دن سے زیادہ پھر فرمایا بعد اس کے کھاؤ اور دو اور توشہ بناؤ اور رکھ چھوڑو۔

 

عبد اللہ بن واقد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا قربانیوں کے گوشت کھانے سے بعد تین دن کے عبداللہ بن ابی بکر نے کہا میں نے یہ عمرہ بنت عبدالرحمن سے بیان کیا وہ بولیں سچ کہا عبداللہ بن واقد نے میں نے سنا حضرت عائشہ سے کہ کچھ لوگ جنگل کے رہنے والے آ

 

ابو سعید خدری سفر سے آئے ان کے گھر کے لوگوں نے گوشے سامنے رکھے انہوں نے کہا دیکھو کہیں قربانی کا گوشت نہ ہو انہوں نے کہا قربانی ہی کا تو ہے، ابوسعید نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع کیا تھا، لوگوں نے کہا بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس باب میں دوسرا حکم فرمایا، ابو سعید گھر سے نکلے اس امر کی تحقیق کرنے کو، جب ان کو خبر پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں نے تم کو منع کیا تھا قربانی کا گوشت کھانے سے بعد تین روز کے لیکن اب کھاؤ اور صدقہ دو اور رکھ چھوڑو اور میں نے تم کو منع کیا تھا نبیذ بنانے سے بعض برتنوں میں اب بناؤ جس برتن میں چاہو لیکن جو چیز نشہ پیدا کرے وہ حرام ہے اور میں نے تم کو منع کیا تھا قبروں کی زیارت سے اب زیارت کرو قبروں کی مگر منہ سے بری بات نہ نکالو۔

 

               ایک قربانی میں کئی آدمیوں کے شریک ہونے کا بیان

 

جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ ہم نے نحر کیا حدیبیہ کے سال اونٹ ساتھ آدمیوں کے طرف سے اور گائے ذبح کی سات آدمیوں کی طرف سے۔

 

عمارہ بن صیاد سے روایت ہے کہ عطاء بن یسار نے خبر دی ان کو، ابو ایوب انصاری سے سن کر کہتے تھے کہ ہم قربانی کرتے تھے ایک بکری اپنے اور اپنے تمام گھر والوں کی طرف سے بعد اس کے فخر سمجھ کر ہر ایک کی طرف سے ایک ایک بکری کرنا شروع کی۔

 

کہا مالک نے میں نے جو بہتر سنا ہے اس باب میں وہ یہ ہے کہ آدمی اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک اونٹ یا گائے یا بکری جس کا وہ مالک ہو ذبح کرے اور سب آدمیوں کو ثواب میں شریک کرے لیکن یہ صورت کہ ایک آدمی ایک اونٹ یا گائے یا بکری خرید کرے اور کئی آدمیوں کو قربانی میں شریک کرے یعنی ہر ایک سے حصہ رسد قیمت لے اور اس کے موافق گوشت دے مکروہ ہے ہم نے تو یہ سنا ہے کہ قربانی میں شریک نہیں ہو سکتا بلکہ ایک گھر کے لوگوں کی طرف سے ایک قربانی ہو سکتی ہے۔

 

ابن شہاب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی اپنے اور پنے اہل بیت کی طرف سے ایک انوٹ یا ایک گائے سے زیادہ نہیں قربانی کیا

 

               جو بچہ پیٹ میں ہو اس کی طرف سے قربانی کرنا

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے کہا قربانی دو دن تک درست ہے بعد عید الضحیٰ کے۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر پیٹ کے بچے کی طرف سے قربانی نہیں کرتے تھے۔

 

 

کتاب نکاح کے بیان میں

 

               نکاح کا پیام دینے کے بیان میں

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہ پیغام بھیجے نکاح کا کوئی تم میں سے اپنے بھائی مسلمان کے پیغام پر۔

 

کہا مالک نے اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک شخص کی نسبت کسی عورت سے ٹھہر جائے اور عورت کا دل کسی مرد کی طرف مائل ہو جائے اور مہر ٹھہر جائے اب پھر اس عورت کو دوسرا شخص پیام نہ دے اور غرض نہیں کہ کسی شخص نے ایک عورت کو پیام دیا ہو اور اس کا پیام ٹھہرا نہ ہو تو دوسرے کو پیام درست نہیں۔

 

قاسم بن محمد کہتے تھے اس آیت کی تفسیر میں (وَلَا جُنَاحَ عَلَیكُمْ فِـیمَا عَرَّضْتُمْ بِهٖ مِنْ خِطْبَۃ النِّسَاۗءِ اَوْ اَكْنَنْتُمْ فِیٓ اَنْفُسِكُمْ ۭ عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّكُمْ سَتَذْكُرُوْنَهُنَّ وَلٰكِنْ لَّا تُوَاعِدُوْھُنَّ سِرًّا اِلَّآ اَنْ تَقُوْلُوْا قَوْلًا مَّعْرُوْفًا ڛ وَلَا تَعْزِمُوْا عُقْدَۃ النِّكَاحِ حَتّیٰ یبْلُغَ الْكِتٰبُ اَجَلَهٗ  ۭوَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ یعْلَمُ مَا فِىْٓ اَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوْهُ  ۚ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ حَلِیمٌ ) 2۔ البقرۃ:235) یعنی گناہ نہیں ہے تم پر تعریض کرنا کسی عورت سے جب وہ عدت میں ہو۔

 

 

               عورت بکر اور ثیبہ سے اذن لینے کا بیان

 

ابن عباس سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ثیبہ زیادہ حقدار ہے اپنے نفس پر ولی سے اور باکرہ سے اذن لیا جائے گا اور اذن اس کا سکوت ہے۔

 

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا عورت کا نکاح نہ کیا جائے مگر اس کے ولی کے اذن سے یا اس کے کنبے میں یا جو شخص عقلمند ہو اس کے اذن سے یا بادشاہ کے اذن سے۔

 

قاسم بن محمد اور سالم بن عبداللہ اپنی بیٹیوں کا نکاح کرتے تھے اور ان سے نہیں پوچھتے تھے۔

 

قاسم بن محمد اور سالم بن عبداللہ اور سلیمان بن یسار کہتے تھے اگر باکرہ عورت کا نکاح اس کے اذن کے بغیر کر دے تو نکاح اس کا لازم ہو جاتا ہے۔

 

               مہر کا اور حبا کا بیان

 

سہل بن سعد ساعدی سے روایت ہے کہ ایک عورت جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئی اس نے کہا کہ تحقیق میں نے اپنی جان آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے واسطے بخشی اور کھڑی رہی دیر تک پھر ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس سے میرا نکاح کر دو اگر اس سے نکاح کی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو کچھ حاجت نیہں ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تیرے پاس کوئی چیز ہے کہ مہر میں دے اس کو وہ شخص بولا سوائے اس تہبند کے میرے پاس کچھ نہیں ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر تو اپنا تہبند اس کو دے دے گا تو بغیر تہ بند کے بیٹھے گا کوئی چیز ڈھونڈ لے اس نے کہا مجھے کچھ نہیں ملتا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ڈھونڈو اگرچہ لوہے کی ایک انگوٹھی ہو اس نے ڈھونڈا مگر کچھ نہ ملا تب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا تجھے قرآن یاد ہے بولا ہاں فلانی فلانی سورت یاد ہے کئی سورتوں کا نام لیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں نے اس قرآن کے عوض میں اس عورت کا نکاح تیرے ساتھ کر دیا جو تجھ کو یاد ہے۔

 

سعید بن مسیب نے کہا کہ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا کہ جو شخص کسی عورت سے نکاح کرے اور اس کو جنوں یا جذام یا برص ہو اور خاوند نہ جان کر اس سے جماع کرے اس عورت کو خاوند پورا مہرے دے اور اس کے ولی سے پھیر لے۔

 

کہا مالک نے ولی کو مہر اس صورت میں واپس دینا ہو گا جب وہ عورت کا باپ یا بھائی یا ایسا قریب ہو کہ عورت کا حال جانتا ہو اور جو ولی محرم نہ ہو جیسے چچا کا بیٹا یا مولی یا اور کوئی کنبے والا ہو جس کو عورت کا حال معلوم نہ ہو تو اس پر مہر پھیرنا لازم نہ ہو گا بلکہ اس عورت سے مہر پھیر لیا جائے گا صرف اس قدر چھوڑ دیا جائے گا جس سے اس کی فرج حلال ہو۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبید اللہ بن عمر کی بیٹی جن کی ماں زید بن خطاب کی بیٹی تھیں عبداللہ بن عمر کے بیٹے کے نکاح میں آئی وہ مر گئے مگر انہوں نے اس سے صحبت نہیں کی نہ ان کا مہر مقرر ہوا تھا تو ان کی ماں نے مہر مانگا عبداللہ بن عمر نے کہا کہ مہر کا ان کو استحقاق نہیں اگر ہوتا تو ہم رکھ نہ لیتے نہ ظلم کرتے ان کی ماں نے نہ مانا زید بن ثابت کے کہنے پر رکھا زید نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کو مہر نہیں ملے گا البتہ ترکہ ملے گا۔

 

عمر بن عبدالعزیز نے اپنے عامل کو لکھا کہ نکاح کر دینے والا باپ ہو یا کوئی اور اگر خاوند سے کچھ تحفہ یا ہدیہ لینے کی شرط کرے تو وہ عورت کو ملے گا اگر طلب کرے۔

 

کہا مالک نے جس عورت کا نکاح باپ کر دے اور اس کے مہر میں کچھ حبا کی شرط کرے اگر وہ شرط ایسی ہو جس کے عوض میں نکاح ہوا ہے تو وہ حبا اس کی بیٹی کو ملے گا اگر چاہے۔

 

کہا مالک نے جو شخص اپنی نا بالغ لڑکی کا نکاح کرے اور اس لڑکے کا کوئی ذاتی مال نہ ہو تو مہراس کے باپ پر واجب ہو گا اور اگر اس لڑکے کا ذاتی مال ہو تو اس کے مال میں سے دلایا جائے گا مگر جس صورت میں باپ مہر کو اپنے ذمے کر لے اور یہ نکاح لڑکی پر لازم ہو گا جب وہ نابالغ ہو اور اپنے باپ کی ولایت میں ہو۔

 

کہا مالک نے میرے نزدیک ربع دینار سے کم مہر نہیں ہو سکتا اور نہ ربع دینار کی چوری میں ہاتھ کاٹا جائے گا۔

 

               خلوت صحیحہ کے بیان میں

 

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے حکم کیا کہ جب کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرے اور خلوت صحیحہ ہو جائے تو مہر واجب ہو گیا۔

 

سعید بن مسیب کہتے تھے کہ جب مرد عورت کے گھر میں جائے تو مرد کی تصدیق ہو گی اور جو عورت مرد کے گھر میں جائے تو عورت کی تصدیق ہو گی۔

 

               ثیبہ اور باکرہ کے پاس رہنے کا بیان

 

ابو بکر بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب ام سلمہ سے نکاح کیا اور صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں ایسا کام نہ کروں گا جس کے سبب سے تو اپنے لوگوں میں ذلیل ہو اگر تجھ کو منظور ہے تو سات دن تک تیرے پاس رہوں گا پھر سات سات دن ہر ایک بی بی کے پاس رہوں گا اور اگر تو چاہے تو تین دن تیرے پاس رہوں اور ایک ایک دن سب کے پاس رہ کر آؤں گا ام سلمہ نے کہا تین دن رہیے۔

 

انس بن مالک کہتے تھے کہ باکرہ عورت کے سات دن ہیں اور ثیبہ کے تین دن۔

 

               جو شرطیں نکاح میں درست نہیں ان کا بیان

 

سعید بن مسیب سے سوال ہوا کہ اگر کوئی عورت اپنے خاوند سے شرط کرے کہ میرے شہر سے مجھ کو نہ نکالنا سعید بن مسیب نے جواب دیا کہ اس کے باوجود نکال سکتا ہے۔

 

               حلالہ کا نکاح اور جو اس کے مشابہ ہے اس کا بیان

 

زبیر بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ رفاعہ بن سموال قرظی نے اپنی بی بی تمیمہ بنت وہب کو رسول اللہ کے زمانے میں تین طلاقیں دیں تو انہوں نے نکاح کیا عبدالرحمن بن زبیر سے مگر عبدالرحمن اس پر قادر نہ ہوئے اور جماع نہ کر سکے اس واسطے عبدالرحمن نے اس کو چھوڑ دیا تب رفاعہ جو شوہر اول تھے انہوں نے پھر نکاح کرنا چاہا جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کا ذکر ہوا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا اور رفاعہ سے فرمایا کہ وہ عورت تجھ کو حلال نہیں جب تک دوسرے شخص سے جماع نہ کرائے۔

 

حضرت عائشہ سے سوال ہوا کہ ایک شخص اپنی عورت کو جماع کرنے سے پہلے تین طلاقیں دیدے اب پہلا شوہر اس سے نکاح کر سکتا ہے جواب دیا کہ نہیں کر سکتا جب تک دوسرا شوہر اس سے جماع نہ کرے۔

 

قاسم بن محمد سے سوال ہوا کہ ایک شخص نے اپنی عورت کو تین طلاقیں دیں پھر اس سے دوسرے شخص نے نکاح کیا اور وہ جماع کرنے سے پہلے مر گیا کیا پہلے شوہر کو اس سے نکاح کر لینا درست ہے جواب دیا نہیں۔

 

               جن عورتوں کا جمع کرنا درست نہیں نکاح میں

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ پھوپھی اور بھتیجی اور خالہ اور بھانجی کو جمع نہ کرے۔

 

سعید بن مسیب کہتے تھے بھتیجی سے پھوپھی کے اوپر اور بھانجی سے خالہ کے اوپر نکاح کرنا منع ہے اور جماع کرنا اس لونڈی سے جو حاملہ ہو کسی اور شخص سے منع ہے۔

 

یحیی بن سعید نے کہا کہ زید بن ثابت سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص نے نکاح کیا ایک عورت سے پھر چھوڑ دیا اس کو جماع کرنے سے پہلے کیا اس کی ماں سے نکاح درست ہے بولے نہیں کیونکہ اللہ جل جلالہ نے فرمایا تم پر تمہاری بیبیوں کی مائیں حرام ہیں اور اس میں کوئی شرط نہیں لگائی کہ جن بیبیوں سے تم جماع کر چکے ہو بلکہ شرط ربائب میں لگائی ہے۔

 

               ساس سے نکاح جائز نہ ہونے کا بیان

 

عبد اللہ بن مسعود سے پوچھا گیا کہ کوفہ میں ایک عورت سے نکاح کیا پھر قبل جماع کے اس کو چھوڑ دیا اب اس کی ماں سے نکاح کرنا کیسا ہے انہوں نے کہا کہ درست ہے پھر ابن مسعود مدینہ میں آئے اور تحقیق کی معلوم ہوا کہ بی بی کی ماں مطلقاً حرام ہے خواہ بی بی سے صحبت کرے یا نہ کرے اور صحبت کی قید ربائب میں ہے جب ابن مسعود کوفہ کو لوٹے پہلے اس شخص کے مکان پر گئے جس کو مسئلہ بتایا تھا اس سے کہا اس عورت کو چھوڑ دے۔

 

کہا مالک نے ایک شخص نے نکاح کیا ایک عورت سے پھر اس کی ماں سے نکاح کیا اور صحبت کی تو دونوں ماں بیٹی اس کو حرام ہو جائیں گئی ہمیشہ ہمیشہ۔

 

کہا مالک نے ایک شخص نکاح کرے ایک عورت سے پھر نکاح کرے اس کی ماں سے اور صحبت کرے اس سے تو اس پر اس عورت کی ماں کی ماں بھی حرام ہو جائے گی اور ماں (ساس) حرام رہے گی اس شخص کے باپ اور بیٹے پر۔

 

کہا مالک نے زنا سے حرمت ثابت نہ ہو گی۔

 

               جس عورت سے زنا کرے اس کی ماں سے نکاح درست ہونے کا بیان

 

کہا مالک نے جو شخص زنا کرے ایک عورت سے اور اس کو حد لگائی جائے اب وہ شخص اس عورت کی بیٹی سے نکاح کر سکتا ہے اور اس شخص کا بیٹا اس عورت سے نکاح کر سکتا ہے۔

 

کہا مالک نے اگر ایک شخص نے عدت کے اندر کسی عورت سے نکاح کیا اور اس سے صحبت کی تو وہ عورت اس کے بیٹے پر حرام ہو جائے گی اور اس عورت سے جو لڑکا پیدا ہو گا اس کا نسب اس شخص سے ثابت ہو گا اور اس شخص پر اس عورت کی بیٹی حرام ہو جائے گی۔

 

               جو نکاح درست نہیں اس کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے شغار سے منع کیا ہے۔

 

خنساء بنت خدام کا اس کے باپ نے نکاح کر دیا اور وہ ثیبہ تھیں اور اس نکاح سے ناراض تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا نکاح فسخ کر دیا۔

 

ابو زبیر سے روایت ہے کہ حضرت عمر خطاب کے سامنے ایک نکاح کا ذکر آیا جس کا کوئی گواہ نہ تھا سوائے ایک مرد اور ایک عورت کے آپ نے فرمایا یہ چوری چھپے کا نکاح میں جائز نہیں رکھتا اگر میں پہلے اس کو بیان کر چکا ہوتا تو اب میں رجم کرتا

 

سعید بن مسیب اور سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ طلحہ الاسدیہ رشید ثقفی کے نکاح میں تھیں انہوں نے طلاق دی تو طلحہ الاسدیہ نے عدت کے اندر دوسرے شخص سے نکاح کر لیا حضرت عمر نے دونوں کو کوڑے مارے اور نکاح چھڑوا دیا پھر فرمایا کہ عورت عدت میں نکاح کرے کسی اور شخص سے تو اگر جماع نہ کیا ہو تو نکاح چھوڑ کر پہلے خاوند کی جس قدر عدت باقی ہو پوری کرے اب جس سے جی چاہے نکاح کرے دوسرے خاوند سے زندگی بھر نکاح نہیں ہو سکتا سعید بن مسیب نے کہا کہ وہ عورت دوسرے خاوند سے اپنا مہر لے سکتی ہے۔

 

               آزاد عورت کے ہوتے ہوئے لونڈی سے نکاح کر نے کا بیان

 

عبد اللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمر سے سوال ہوا کہ ایک شخص کے نکاح میں آزاد عورت موجود ہو پھر وہ لونڈی سے نکاح کرنا چاہے جواب دیا ان دونوں کو جمع کرنا مکروہ ہے۔

 

سعید بن مسیب کہتے تھے کہ آزاد عورت کے ہوتے ہوئے لونڈی سے نکاح نہ کیا جائے گا مگر جب آزاد عورت راضی ہو جائے دو دن خاوند اس کے پاس رہے گا اور ایک دن لونڈی کے پاس۔

 

کہا مالک نے آزاد عورت سے نکاح کرنے کی قدرت ہو تو لونڈی سے نکاح نہ کرے اور اگر آزاد عورت سے نکاح کرنے کی قدرت نہ ہو تو بھی لونڈی سے نکاح نہ کرے مگر اس حال میں کہ زنا کا خوف ہو کیونکہ اللہ جل جلالہ نے فرمایا کہ جو شخص تم میں سے قدرت نہ رکھے آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کرنے کی تو مسلمان لونڈیوں سے نکاح کر لے اور یہ اس شخص کے واسطے ہے جو تم میں سے زنا کا خوف کرے۔

 

               تین طلاق کے بعد لونڈی کے خرید لینے کا بیان

 

زید بن ثابت کہتے تھے جو شخص لونڈی کو تین طلاقیں دے کر خرید لے تو صحبت کرنا درست نہیں جب تک دوسرا نکاح نہ کر لے۔

 

سعید بن مسیب اور سلیمان بن یسار سے سوال ہوا کہ ایک شخص نے اپنے غلام کا اپنی لونڈی سے نکاح کر دیا غلام نے لونڈی کو دو طلاقیں دیں اس کے بعد مولی نے وہ لونڈی غلام کو ہبہ کر دی اب وہ لونڈی غلام کو درست ہے یا نہیں ان دونوں نے جواب دیا درست نہیں یہاں تک کہ کسی اور سے نکاح نہ کر لے۔

 

کہا مالک نے ایک شخص نکاح کرے ایک لونڈی سے پھر اس سے بچہ پیدا ہو اس کے بعد لونڈی کو خرید کر لے تو وہ لونڈی پہلے بچے کی وجہ سے اس کی ام ولد نہ ہو گی البتہ اگر خریدنے کے بعد دوسرا بچہ مالک سے پیدا ہوا تو ام ولد ہو جائے گی اور جس نے اس لونڈی کو خریدا حمل کی حالت میں وہ حمل خریدنے والے کا تھا اس کے پاس آ کر جنے تو ام ولد ہو جائے گی۔

 

               دو بہنوں کو یا ماں بیٹیوں کو ملک یمین سے رکھنے کا بیان

 

حضرت عمر بن خطاب سے سوال ہوا کہ ماں بیٹی دونوں سے جماع کرنا آگے پیچھے ملک یمین کی وجہ سے درست ہے بولے میرے نزدیک اچھا نہیں اور اس کو منع کیا۔

 

قبیصہ بن ذویب سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عثمان بن عفان سے پوچھا کہ دو بہنوں کو ملک یمین سے رکھنا درست ہے یا نہیں حضرت عثمان نے فرمایا کہ ایک آیت کی رو سے درست ہے اور دوسری آیت کی رو سے درست نہیں ہے مگر میں اس کو پسند نہیں کرتا پھر وہ شخص چلا گیا اور ایک اور صحابی سے ملا ان سے بھی یہی مسئلہ پوچھا انہوں نے کہا اگر میں حاکم ہوتا اور کسی کو ایسا کرتے دیکھتا تو سخت سزا دیتا ابن شہاب نے کہا میں سمجھتا ہوں وہ صحابی حضرت علی تھے۔

 

زبیر بن عوام سے بھی ایسی ہی روایت ہے۔

 

کہا مالک نے اگر کسی شخص کے پاس ایک لونڈی ہو اور وہ اس سے جماع کرے پھر اس کی بہن سے جماع کرنا چاہے تو یہ درست نہیں ہے جب تک پہلی بہن کی فرج اپنے اوپر حرام نہ کرے مثلاً اس کا نکاح کر دے یا اپنے غلام سے بیاہ کر دے۔

 

               لونڈی باپ کے تصرف میں آئے اس سے جماع کرنے کی ممانعت کے بیان میں

 

حضرت عمر بن خطاب نے اپنے لڑکے کو ایک لونڈی ہبہ کی اور کہا اس سے صحبت نہ کرنا کیونکہ میں نے ایک بار اس کا بدن کھولا تھا۔

 

عبدالرحمن بن مجبر نے کہا کہ سالم بن عبداللہ نے اپنے بیٹے کو ایک لونڈی ہبہ کی اور کہا کہ اس سے جماع نہ کرنا کیونکہ میں نے ارادہ کیا تھا اس سے جماع کا میں رک گیا۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ ابو نہشل بن اسود نے قاسم بن محمد سے کہا کہ میں نے اپنی لونڈی کو ننگا دیکھا چاندنی میں تو میں اس کے پاؤں اٹھا کر جماع کو مستعد ہو گیا وہ بولی حائضہ ہوں تو میں اٹھ کھڑا ہوا اب میں اس لونڈی کو ہبہ کر دوں اپنے بیٹے کو تاکہ وہ اس سے جماع کرے قاسم بن محمد نے منع کیا۔

 

عبدالملک بن مروان نے اپنے دوست کو ایک لونڈی ہبہ کی پھر اس سے اس لونڈی کا حال پوچھا اس نے کہا میرا ارادہ ہے کہ میں اس لونڈی کو ہبہ کر دوں اپنے بیٹے کو تاکہ وہ اس سے جماع کرے عبدالملک نے کہا کہ مروان تجھ سے زیادہ پرہیز گار تھا اس نے اپنے بیٹے کو ایک لونڈی ہبہ کی اور کہہ دیا اس سے صحبت نہ کرنا کیونکہ میں نے اس کی پنڈلیاں کھلی ہوئی دیکھی تھیں۔

 

               یہود و نصاریٰ کی لونڈیوں سے نکاح کرنے کی ممانعت کے بیان میں

 

کہا مالک نے یہودی لونڈی اور نصرانی لونڈی سے نکاح کرنا درست نہیں اور اللہ جل جلالہ نے اپنی کتاب میں جو اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح درست کیا ہے اس سے آزاد عورتیں مراد ہیں اور اللہ جل جلالہ نے فرمایا جو شخص تم میں سے مسلمان آزاد عورتوں سے نکاح کرنے کی طاقت نہ رکھے تو وہ مسلمان لونڈیوں سے نکاح کرے اللہ نے مسلمان لونڈیوں سے نکاح کرنا حلال کیا ہے نہ کہ اہل کتاب کی لونڈیوں سے البتہ یہودی یا نصرانی لونڈی سے اس کے مالک کو جماع کرنا درست ہے مگر مشرکہ لونڈی سے درست نہیں۔

 

               احصان کا بیان

 

سعید بن مسیب نے کہا کہ محصنات سے دو عورتیں مراد ہیں جو خاوند والیاں ہیں مطلب اس کا یہ ہے کہ اللہ نے زنا کو حرم کیا۔

 

ابن شہاب اور قاسم بن محمد کہتے ہیں اگر آزاد شخص نے لونڈی سے نکاح کیا اور اس سے جماع کیا تو وہ محصن ہو گیا۔

 

               متعہ کا بیان

 

حضرت علی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا جنگ خبیر کے روز متعے سے اور گدھوں کے گوشت کھانے سے۔

 

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ خولہ بنت حکیم حضرت عمر کے پاس گئیں اور کہا کہ ربیعہ بن امیہ نے ایک عورت مولدہ سے متعہ کیا تھا وہ ربیعہ سے حاملہ ہے پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ گھبرا کر چادر گھسیٹتے ہوئے نکلے اور کہا یہ متعہ ہے اگر میں پہلے اس کی ممانعت کر چکا ہوتا تو رجم کرتا

 

               غلام کے نکاح کا بیان

 

ربیعہ بن ابو عبدالرحمن کہتے تھے غلام چار عورتوں سے نکاح کر سکتا ہے۔

 

کہا مالک نے یہ قول بہت اچھا ہے میرے نزدیک۔

 

کہا مالک نے غلام کا نکاح مالی کی اجازت پر موقوف ہے اگر مالی اجازت دے گا تو صحیح ہو گا ورنہ تفریق کی جائے اور حلالہ کا نکاح ہر طرح سے چھوڑا جائے گا۔

 

کہا مالک نے اگر زوج زوجہ کا مالک ہو جائے یا زوجہ زوج کی مالک ہو جائے تو نکاح خود بخود بغیر طلاق کے فسخ ہو جائے گا اب اگر پھر نکاح کریں گے تو خاوند کو تین طلاق کا اختیار رہے گا۔

 

کہا مالک نے اگر زوجہ اپنے خاوند کو خرید کر آزاد کر دے اور وہ عدت میں ہو تو وہ دونوں نئے نکاح کے بغیر نہیں مل سکتے۔

 

               مشرک کی زوجہ کا خاوند سے پہلے مسلمان ہونے کا بیان

 

ابن شہاب سے روایت ہے کہ چند عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں مسلمان ہو جاتی تھیں اپنے ملک میں ہجرت نہیں کرتی تھیں اور خاوند ان کے کافر ہوتے تھے انہی عورتوں میں سے ایک عاتکہ تھی جو ولید بن مغیرہ کی بیٹی تھیں جو صفوان بن امیہ کے نکاح میں تھیں وہ فتح مکہ کے روز مسلمان ہوئیں اور ان کے خاوند صفوان بھاگ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے چچا زاد بھائی وہب بن عمیر کو اپنی چادر نشانی کے واسطے دے کو صفوان کے پاس بھیجا اور ان کو امان دی اور اسلام کی طرف بلایا اور یہ کہا کہ میرے پاس آئے اگر تمہاری خوشی ہو تو مسلمان ہونا نہ تو تم کو دو مہینے کی مہلت ملے گی جب صفوان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آپ کی چادر لے کر آ آئے تو لوگوں کے سامنے پکار اٹھے اے محمد وہب بن عمیر میرے پاس تمہاری چادر لے کر آئے اور مجھ سے کہا کہ تم نے مجھ کو بلایا ہے اس شرط پر کہ اگر میں چاہوں تو مسلمان ہو جاؤں نہیں تو مجھ کو دو مہینے کی مہلت ملے گی۔ آپ نے فرمایا اترو اے ابووہب صفوان نے کہا قسم خدا کی میں کبھی نہ اتروں گا جب تک تم مجھ سے بیان نہ کرو گے کہ وہب بن عمیر کا پیام صحیح ہے آپ نے فرمایا وہ تو کیا میں تمہیں چار مہینے کی مہلت دیتا ہوں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قبیلہ ہوازن کی طرف حنین میں گئے اور آپ نے صفوان سے کچھ ہتھیار اور سامان عاریتاً مانگا صفوان نے کہا آپ خوشی سے مانگتے ہیں یا زبردستی سے آپ نے فرمایا خوشی سے صفوان نے ہتھیار اور سامان دئیے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لوٹے اور صفوان کفر ہی کی حالت میں آپ کے ساتھ رہے مگر آپ نے ان کی عورت کو ان سے نہ چھڑایا یہاں تک کہ صفوان بھی مسلمان ہو گئے اور ان کی عورت بدستور ان کے پاس رہیں۔

 

ابن شہاب نے کہا کہ صفوان کی بی بی خاوند سے ایک مہینہ پہلے اسلام لائی تھیں اور جو عورت دارالکفر سے مسلمان ہو کر دار الاسلام میں ہجرت کر کے آئے تو وہ اپنے خاوند سے جدا ہو جائے گی اور عدت کر کے دوسرا نکاح کر لے گی مگر جب اس کا خاوند اس کی عدت کے اندر مسلمان ہو کر دار الاسلام میں آ جائے۔

 

ابن شہاب سے روایت ہے کہ ام حکیم عکرمہ بن ابو جہل کی بی بی فتح مکہ کے روز مسلمان ہوئی اور ان کے خاوند عکرمہ یمن بھاگ گئے ام حکیم بھی وہاں چلی گئیں اور ان کو دین اسلام کی طرف بلایا وہ مسلمان ہو گئے اور اسی سال آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب ان کو دیکھا تو خوشی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور ان سے بیعت لی اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے جسم شریف پر چادر نہ تھی پھر دونوں میاں بی بی اپنے نکاح پر قائم رہے۔

 

کہا مالک نے جب مرد اپنی بی بی سے پہلے مسلمان ہو جائے اور بی بی سے مسلمان ہونے کو کہا جائے اور وہ مسلمان نہ ہو تو نکاح فسخ ہو جائے گا کیونکہ اللہ جل جلالہ اپنی کتاب میں فرماتا ہے مت علاقہ رکھو کافر عورتوں سے

 

               ولیمہ کے بیان میں

 

انس بن مالک سے روایت ہے کہ عبدالرحمن بن عوف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے اور ان پر زردی کا نشان تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا یہ کیا ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ایک انصاری عورت سے نکاح کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کیا مہر دیا ہے انہوں نے کہا ایک گٹھلی برابر سونا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ولیمہ کر اگرچہ ایک بکری کا ہو۔

 

یحیٰ بن سعید نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ولیہ کرتے تھے اس میں روٹی ہوتی تھی نہ گوشت۔

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی ولیمہ کی دعوت میں بلایا جائے تو حاضر ہو۔

 

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے ولیمہ کا کھانا سب کھانوں سے برا ہے اس میں امیر بلائے جاتے ہیں اور فقیر چھوڑ دیئے جاتے ہیں اور جو شخص دعوت میں نہ آئے اس نے نافرمانی کی اللہ اور رسول کی۔

 

انس بن مالک کہتے تھے کہ ایک درزی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی کچھ کھانا پکا کر دعوت کی میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ گیا وہ درزی جو کی روٹی اور کدو کا سالن سامنے لایا تو میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پیالے میں سے کدو ڈھونڈھ کر کھاتے تھے اس روز سے میں بھی کدوؤں کو پسند کرنے لگا۔

 

               نکاح کی مختلف حدیثوں کا بیان

 

زید بن اسلم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی کسی عورت سے نکاح کرے یا لونڈی خریدے تو اس کی پیشانی پکڑ کر برکت کی دعا کرے اور جب اونٹ خریدے تو اس کی کوہان پر ہاتھ رکھے اور شیطان مردود سے پناہ مانگے۔

 

ابو زبیر مکی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نکاح کا پیام دیا ایک شخص کی بہن کو اس نے بیان کیا کہ وہ عورت بدکار ہے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر پہنچی آپ نے اس شخص کو بلا کر مارا یا مارنے کا قصد کیا اور کہا کہ تجھے اس خبر پہنچانے سے کیا غرض تھی۔

 

ربیعہ بن ابو عبدالرحمن سے روایت ہے کہ قاسم بن محمد اور عروہ بن زبیر کہتے تھے جس شخص کی چار عورتیں ہوں پھر وہ اس میں سے ایک عورت کو تین طلاق دے دے تو ایک عورت نئی کر سکتا ہے اس کی عدت گزرنے کا انتظار ضروری نہیں۔

 

ربیعہ بن ابو عبدالرحمن سے روایت ہے کہ قاسم بن محمد اور عروہ بن زبیر نے ولید بن عبدالملک کو جس سال وہ مدینہ میں آیا تھا ایسا ہی فتوی دیا تھا مگر قاسم بن محمد نے یہ کہا کہ اس عورت کو کئی مجلسوں میں طلاق دی ہو۔

 

سعید بن مسیب نے کہا کہ تین چیزیں ایسی ہیں جن میں کھیل نہیں ہوتا نکاح اور طلاق اور عتاق۔

 

رافع بن خدیج نے محمد بن مسلمہ انصاری کی بیٹی سے نکاح کیا وہ ان کے پاس رہیں جب بڑھیا ہوئیں تو رافع نے ایک جوان عورت سے نکاح کیا تو اس کی طرف زیادہ مائل ہوئے تو بڑھیا عورت نے طلاق مانگی محمد بن مسلمہ نے ایک طلاق دے دی پھر جب عدت اس کی گزرنے لگی رجعت کر لی اور جوان عورت کی طرف مائل رہے پھر جب عدت گرنے لگی رجعت کر لی اور جوان عورت کی طرف مائل رہے بڑھیا نے پھر طلاق مانگی تب رافع بن خدیج نے کہا اب تجھے کیا منظور ہے ایک طلاق اور رہ گئی ہے اگر تو اس حال میں میرے پاس رہنا چاہتی ہے تو رہ اور اگر نہیں رہ سکتی تو میں تجھے چھوڑ دوں اس نے کہا مجھے اسی حال میں رہنا منظور ہے رافع نے اس کو رکھ لیا اور اپنے اوپر کچھ گناہ نہیں سمجھا۔

 

 

کتاب الطلاق کتاب طلاق کے بیان میں

 

               طلاق بتہ یعنی تین طلاق کے بیان میں

 

ایک شخص نے ابن عباس سے کہا کہ میں نے اپنی عورت کو سو طلاق دیں ابن عباس نے جواب دیا کہ وہ تین طلاق میں تجھ سے بائن ہو گئی اور ستانوے طلاق سے تو نے اللہ کی آیتوں سے ٹھٹھا کیا۔،

 

ایک شخص عبداللہ بن مسعود کے پاس آیا اور کہا میں نے اپنی عورت کو دو سو طلاقیں دیں ابن مسعود نے کہا لوگوں نے تجھ سے کیا کہا وہ بولا مجھ سے یہ کہا کہ تیری عورت تجھ سے بائن ہو گئی ابن مسعود نے کہا سچ ہے جو شخص اللہ کے حکم کے موافق طلاق دے گا تو اللہ نے اس کی صورت بیان کر دی اور جو گڑبڑ کرے گا اس کی بلا اس کے سر لگا دیں گے گڑبڑ مت کرو تاکہ ہم کو مصیبت نہ اٹھانا پڑے وہ لوگ سچ کہتے ہیں تیری عورت تجھ سے جدا ہو گئی۔

 

ابو بکر بن حزم سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے کہا کہ طلاق بتہ میں لوگ کیا کہتے ہیں ابوبکر نے کہا ابان بن عثمان اس کو ایک طلاق سمجھتے تھے عمر بن عبدالعزیز نے کہا اگر طلاق ایک ہزار تک درست ہوتی تو بتہ اس میں سے کچھ باقی نہ رکھتا جس نے بتہ کہا وہ انتہا کو پہنچ گیا۔

 

ابن شہاب سے روایت ہے کہ مروان طلاق بتہ میں تین طلاق کا حکم کرتا تھا۔

 

               خلیہ اور بریہ اور ان کے مشابہات کا بیان

 

حضرت عمر بن خطاب کے پاس خط لکھا ہوا آیا کہ ایک شخص نے اپنی عورت سے کہا جبلک علی غاربک حضرت عمر خطاب نے لکھا اس شخص سے کہہ دینا کہ حج کے موسم میں مکہ میں مجھ سے ملے حضرت عمر کعبہ کا طواف کر رہے تھے ایک شخص ملا اور سلام کیا پوچھا تم کون ہے آپ نے فرمایا میں وہی شخص ہوں جس نے تم نے حکم کیا تھا مکہ میں ملنے کا حضرت عمر نے کہا قسم ہے تجھ کو اس گھر کے رب کی جبلک علی غاربک سے تیری کیا مراد تھی وہ بولا اے امیر المومنین اگر تم مجھ کو کسی اور جگہ کی قسم دیتے تو میں سچ نہ کہتا اب سچ کہتا ہوں کہ میری نیت چھوڑ دینے کی تھی حضرت عمر نے فرمایا جیسے تو نے نیت کی ویسا ہی ہوا۔

 

حضرت علی کہتے تھے جو شخص اپنی عورت سے کہے تو مجھ پر حرام ہے تو تین طلاق پڑ جائیں گی۔

 

عبد اللہ بن عمر کہتے تھے کہ خلیہ اور بریہ ان میں سے ہر ایک میں تین طلاقیں پڑ جایئیں گی۔

 

قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ ایک شخص کے نکاح میں ایک لونڈی تھی اس نے لونڈی کے مالکوں سے کہہ دیا تم جانو تمہارا کام جانے لوگوں نے اس کو ایک طلاق سمجھا۔

 

ابن شہاب کہتے تھے اگر مرد عورت سے کہے میں تجھ سے بری ہوا اور تو مجھ سے بری ہوئی تو تین طلاقیں پڑیں گی مثل بتہ کے۔

 

کہا مالک نے اگر کوئی شخص اپنی عورت کو کہے تو خلیہ ہے یا بریہ ہے یا بائنہ ہے تو اگر اس عورت سے صحبت کر چکا ہے تین طلاق پڑیں گی اور اگر صحبت نہیں کی تو اس کی نیت کے موافق پڑے گی اگر اس نے کہا میں نے ایک کی نیت کی تھی تو حلف لے کر اس کو سچا سمجھیں گے مگر وہ عورت ایک ہی طلاق میں بائن ہو جائے گی اب رجعت نہیں کر سکتا البتہ نکاح نئے سرے سے کر سکتا ہے کیونکہ جس عورت سے صحبت نہ کی ہو وہ ایک ہی طلاق میں بائن ہو جاتی ہے جس سے صحبت کر چکا اور وہ تین طلاق میں بائن ہوتی ہے۔

 

کہا مالک نے یہ روایت مجھے بہت پسند ہے۔

 

               جس تملیک سے طلاق بائن پڑتی ہے اس کا بیان

 

امام مالک کو پہنچا کہ ایک شخص عبداللہ بن عمر کے پاس آیا اور بولا میں نے اپنی عورت کو طلاق کا اختیار دیا تھا اس نے اپنے آپ کو تین طلاق دے لی اب کیا کہتے ہو ابن عمر نے کہا کہ طلاق پڑ گئی وہ شخص بولا ایسا تو مت کرو ابن عمرو نے کہا میں نے کیا کیا تو نے اپنے آپ کیا۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے جب مرد اپنی عورت کو طلاق کا مالک کر دے تو جب بھی طلاق عورت چاہے اپنے اوپر ڈال لے مگر جب خاوند انکار کرے اور کہے میں نے ایک طلاق کا اختیار دیا تھا اور حلف کرے تو اس عورت کامستحق ہو گا جب تک وہ عدت میں ہے۔

 

               جس تملیک سے ایک طلاق پڑتی ہے اس کا بیان

 

خارجہ بن زید سے روایت ہے کہ وہ اپنے باپ زید بن ثابت کے پاس بیٹھے تھے اتنے میں محمد بن ابی عتیق روتے ہوئے آئے زید نے پوچھا کیوں انہوں نے کہا میں نے اپنی عورت کو طلاق کا اختیار دیا تھا اس نے مجھے چھوڑ دیا زید نے کہا تو نے کیوں اختیار دیا انہوں نے کہا تقدیر میں یوں ہی تھا زید نے کہا اگر تو چاہے تو رجعت کر لے کیونکہ ایک طلاق پڑی ہے ابھی تو اس کا مالک ہے۔

 

قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ ایک شخص ثقفی نے اپنی عورت کو طلاق کا اختیار دیا اس نے اپنے تئیں ایک طلاق دی یہ چپ ہو رہا پھر اس نے دوسری طلاق دی اس نے کہا تیرے منہ میں پتھر اس نے تیسری طلاق دی اس نے کہا تیرے منہ میں پتھر پھر دونوں لڑتے ہوئے مروان کے پاس آئے مروان نے اس بات کی قسم لی کہ میں نے ایک طلاق کا اختیار دیا تھا اس کے بعد وہ عورت اس کے حوالہ کر دی۔

 

کہا مالک نے عبدالرحمن کہتے تھے کہ قاسم بن محمد اس فیصلہ کو پسند کرتے تھے اور مجھے بھی بہت پسند ہے۔

 

               جس تملیک سے طلاق بائن نہیں پڑتی اس کا بیان

 

حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے بھائی عبدالرحمن کا پیام بھیجا قریبہ بنت ابی امیہ کے پاس ان کے لوگوں نے ان کا عبدالرحمن کے ساتھ نکاح کر دیا اس کے بعد لڑائی ہوئی ان لوگوں نے کہا یہ نکاح حضرت عائشہ نے کروایا ہے حضرت عائشہ نے عبدالرحمن سے کہا عبدالرحمن نے اختیار دے دیا قریبہ نے اپنے خاوند کو اختیار کیا اس کو طلاق نہ سمجھا۔

 

قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ نے حفصہ بنت عبدالرحمن(اپنی بھتیجی) کا منذر بن زبیر سے نکاح کیا اور عبدالرحمن جو کہ لڑکی کے باپ تھے شام کو گئے ہوئے تھے جب عبدالرحمن آئے تو انہوں نے کہا کیا مجھ ہی سے ایسا کرنا تھا اور میرے اوپر جلدی کرنا تھا۔

 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے منذر بن زبیر سے بیان کیا منذر نے کہا عبدالرحمن کو اختیار ہے۔ عبدالرحمن نے حضرت عائشہ سے کہا جس کام کو تم کر چکیں اس کام کو میں توڑنے والا نہیں پھر رہیں حضرت حفصہ منذر کے پاس اور اس اختیار کو طلاق نہ سمجھا۔

 

مالک کو پہنچا کہ عبداللہ بن عمر اور ابوہریرہ سے سوال ہوا ایک شخص اپنی عورت کو طلاق کا مالک کر دے مگر عورت اس کو قبول نہ کرے نہ اپنے تئیں طلاق دے انہوں نے کہا طلاق نہ پڑے گی۔

 

سعید بن مسیب نے کہا جب مرد اپنی عورت کو طلاق کا مالک کر دے مگر عورت خاوند سے جدا ہونا قبول نہ کرے اسی کے پاس رہنا چاہے تو طلاق نہ ہو گی۔

 

کہا مالک نے جس مجلس میں خاوند عورت کو طلاق کا اختیار دے اسی مجلس میں عورت کو اختیار ہو گا اگر وہ مجلس برخواست ہوئی اور عورت نے طلاق نہ لی تو پھر اختیار نہ رہے گا۔

 

               ایلاء کا بیان

 

حضرت علی فرماتے تھے جب مرد اپنی عورت سے ایلاء کرے تو عورت پو طلاق نہ پڑے گی اگرچہ چار مہینے گزر جائیں جب تک مقدمہ حاکم کے سامنے پیش نہ ہو اور خاوند کو مجبور کیا جائے یا طلاق دے یا جماع کرے۔

 

عبد اللہ بن عمر کہتے تھے جو شخص ایلا کرے اپنی عورت سے جب چار مہینے گزر جائیں تو خاوند کو حاکم کے سامنے مجبور کریں طلاق دے یا رجوع کرے اور بغیر طلاق دئیے چار مہینے گزر جانے سے عورت پر طلاق نہ پڑے گی۔

 

ابن شہاب سے روایت ہے کہ سعید بن مسیب اور ابوبکر بن عبدالرحمن کہتے تھے جو شخص ایال کرے اپنی عورت سے تو جب چار مہینے گزر جائیں ایک طلاق پڑ جائے گی مگر خاوند کو اختیار ہے کہ جب تک عورت عدت میں ہے رجعت کر لے۔

 

مالک کو پہنچا کہ مروان بن حکم حکم کرتے تھے جب کوئی شخص اپنی عورت سے ایلا کرے اور چار مہینے گز رجائیں تو ایک طلاق پڑ جائے گی مگر خاوند کو اختیار رہے گا کہ جب تک عورت عدت میں ہے رجعت کر لے۔

 

کہا مالک نے ابن شہاب کی رائے یہی تھی۔

 

               غلام کے ایلاء کا بیان

 

امام مالک نے ابن شہاب سے غلام کی ایلاء کا حال پوچھا تو ابن شہاب نے کہا کہ غلام کا ایلاء بھی آزاد شخص کی طرح ہے مگر غلام کی مدت دو مہینے ہے۔

 

سعید بن عمر نے قاسم بن محمد سے پوچھا اگر کوئی شخص کسی عورت سے کہے کہ اگر میں تجھ سے نکاح کروں تو تجھ کو طلاق ہے قاسم بن محمد نے کہا کہ ایک شخص نے حضرت عمر کے زمانے میں ایک عورت کی نسبت یہ کہا تھا کہ اگر میں اس سے نکاح کروں وہ مجھ پر ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ حضرت عمر نے حکم دیا کہ اگر وہ شخص اس عورت سے نکاح کرے تو جماع نہ کرے جب تک کفارہ ظہار نہ دے۔

 

مالک کو پہنچا کہ ایک شخص نے قاسم بن محمد اور سلیمان بن یسار سے پوچھا اگر کوئی شخص کسی عورت سے ظہار کرے نکاح سے پہلے تو دونوں نے کہا کہ اگر وہ شخص اس عورت سے نکاح کرے تو جماع نہ کرے جب تک کفارہ ظہار ادا نہ کرے۔

 

عروہ بن زبیر نے کہا جو شخص ایک ہی دفعہ چار عورتوں سے ظہار کرے تو اس پر ایک کفارہ لازم آئے گا۔

 

ربیعہ بن عبدالرحمن نے بھی ایسا ہی کہا۔

 

کہا مالک نے میرے نزدیک بھی ایسا ہی حکم ہے۔

 

کہا مالک نے ظہار کے کفارہ میں اللہ تعالی نے فرمایا تم میں سے جو لوگ اپنی عورتوں سے ظہار کرتے ہیں جماع سے پہلے اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا پڑے گا۔

 

کہا مالک نے جو شخص اپنی عورت سے کئی مرتبہ کئی مجلسوں میں ظہار کرے اس پر ایک کفارہ لازم آئے گا البتہ اگر ایک مرتبہ ظہار کر کے کفارہ ادا کر دیا پھر دوبارہ ظہار کیا تو پھر کفارہ لازم آئے گا

 

کہا مالک نے اگر کسی شخص نے ظہار کیا پھر کفارہ سے پہلے عورت سے جماع کیا تو اس پر ایک ہی کفارہ لازم آئے گا اب جب تک کفارہ نہ دے عورت سے علیحدہ رہے اور خدا سے استغفار کرے۔

 

کہا مالک نے یہ میں نے اچھا سنا۔

 

کہا مالک نے ظہار میں محرم رضاعی یا محرم نسبی سے تشبیہ دینا دونوں برابر ہیں۔

 

کہا مالک نے عورتوں پر ظہار کا کفارہ نہیں ہے۔

 

کہا مالک نے اللہ تعالی نے یہ فرمایا فرمایا ہے جو لوگ اپنی عورتوں سے ظہار کرتے ہیں پھر لوٹ کر دہی بارت کرتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ظہار کے بعد پھر عورت کو رکھنا اور اس سے صحبت کرنا چاہتے ہیں تو ان پر اللہ تعالیٰ نے کفارہ واجب کیا اور جو ظہار کے بعد عورت کو طلاق دے دے اور نہ رکھے تو کچھ کفارہ نہیں اگر طلاق کے بعد پھر اس سے نکاح کرے تو صحبت نہ کرے جب تک ظہار کا کفارہ نہ دے۔

 

کہا مالک نے جو شخص اپنی لونڈی سے ظہار کرے پھر اس سے صحبت کرنا چاہے تو درست نہیں جب تک کفارہ نہ دے۔

 

کہا مالک نے ظہار سے ایلاء نہیں ہوتا البتہ جب ظہار سے یہ نیت ہو کہ کفارہ نہ دیں گے اور عورت کو ضرر پہنچائیں گے تو ایلاء ہو جائے گا۔

 

ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عروہ بن زبیر سے پوچھا اگر کوئی شخص اپنی عورت سے کہے جب تک تو زندہ ہے اگر میں دوسری بیوی سے نکاح کروں تو وہ میرے اوپر ایسے ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ عروہ نے جواب دیا کہ اس شخص کو ایک غلام آزاد کرنا کافی ہے۔

 

               غلام کے ظہار کا بیان

 

مالک نے ابن شہاب سے پوچھا ظہار کے غلام کا حال تو انہوں نے کہا آزاد کی طرح ہے۔

 

کہا مالک نے مطلب یہ ہے کہ غلام پر بھی کفارہ لازم آتا ہے جیسے آزاد پر۔

 

کہا مالک نے غلام بھی ظہار میں دو مہینے کے روزے رکھے۔

 

کہا مالک نے ظہار کے غلام میں ایلاء شریک نہ ہو گا کیونکہ غلام جب دو مہینے کے روزے رکھے گا ایلاء کی طلاق پہلے ہی پڑ جائے گی۔

 

               آزادی کے وقت اختیار ہونے کا بیان

 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بریرہ کے سبب سے شرع کی تین باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ بریرہ جب آزاد ہوئی اس کو اختیار ہوا اگر چاہے اپنے خاوند کو چھوڑ دے دوسرا یہ کہ بریرہ جب آزاد ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ولا اس کو ملے گی جو آزاد کرے تیسرا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بریرہ کے پاس تشریف لائے گوشت کی ہانڈی چڑھی ہوئی تھی بریرہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے سالن پیش کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ ہانڈی چڑھی ہوئی ہے گوشت کی لوگوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وہ گوشت صدقہ کا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم صدقہ نہیں کھاتے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ بریرہ پر صدقہ ہے اور ہمارے واسطے ہدیہ ہے بریرہ کی طرف سے۔

 

عبد اللہ بن عمر کہتے تھے کہ لونڈی اگر غلام کے نکاح میں ہو پھر آزاد ہو جائے تو اس کو اختیار ہو گا آزادی کے بعد جب تک اس کا شوہر اس اس سے جماع نہ کرے۔

 

کہا مالک نے اگر خاوند نے آزادی کے بعد اس سے جماع کیا اور لونڈی نے یہ کہا کہ مجھ کو یہ اختیار کا مسئلہ معلوم نہیں تھا تو عذر اس کا مسموع نہ ہو گا اور اس کو اختیار نہ رہے گا۔

 

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ بنی عدی کی لونڈی جس کا نام زبرا تھا ایک غلام کے نکاح میں تھی وہ آزاد ہو گئی حضرت حفصہ نے اس کو بلایا اور کہا میں تجھ سے ایک بات کہتی ہوں مگر یہ نہیں چاہتی کہ تو کچھ کر بیٹھے تجھے اختیار ہے جب تک تیرا خاوند تجھ سے جماع نہ کرے اگر جماع کرے گا پھر تجھے اختیار نہ رہے گا زبرا بول اٹھی اگر ایسا ہی ہے تو طلاق ہے طلاق ہے پھر طلاق ہے جدا ہو گئی اپنے خاوند سے تین بار کہہ کر۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ سعید بن مسیب نے کہا جو شخص کسی عورت سے نکاح کرے اور خاوند کو جنون یا اور کوئی مرض نکلے تو عورت کو اختیار ہے خواہ مرد کے پاس رہے یا جدا ہو جائے۔

 

کہا مالک نے جو لونڈی غلام کے نکاح میں آئے پھر آزاد ہو جائے صحبت سے پہلے اور خاوند سے جدا ہونا اختیار کرے تو اس کو مہر نہ ملے گا ہمارے نزدیک یہی حکم ہے۔

 

کہا مالک نے ابن شہاب کہتے تھے جب مرد اپنی عورت کو طلاق دے اور عورت خاوند کو اختیار کرے تو طلاق نہ پڑے گی۔

 

کہا مالک نے میں نے یہ اچھا سنا۔

 

کہا مالک نے جب مرد عورت کو اختیار دے اور عورت اپنی تئیں اختیار کرے تو تین طلاق پڑ جائیں گی اگر خاوند کہے میں نے ایک طلاق کا اختیار دیا تھا تو یہ نہ سنا جائے گا۔

 

کہا مالک نے اگر خاوند نے بی بی کو طلاق کا اختیار دیا عورت نے کہا میں نے ایک طلاق قبول کی خاوند نے کہا میری غرض یہ نہ تھی میں نے تجھے تین طلاق کا اختیار دیا تھا مگر عورت ایک ہی طلاق کو قبول کرے زیادہ نہ لے تو وہ خاوند سے جدا نہ ہو گی۔

 

               خلع کا بیان

 

حبیبہ بنت سہل ثابت بن قیس کے نکاح میں تھیں ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اندھیرے میں فجر کی نماز کو نکلے حبیبہ کو دروازے پر پایا پوچھا کون بولی میں حبیبہ بنت سہل ہوں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کیوں کیا ہے بولی یا میں نہیں یا ثابت بن قیس نہیں جب ثابت بن قیس آئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے کہا اس حبیبہ بنت سہل نے مجھ سے کہا جو کچھ اللہ کو منظور تھا حبیبہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ثابت نے جو کچھ مجھے دیا ہے وہ میرے پاس موجود ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ثابت سے فرمایا تم اپنی چیز لے لو انہوں نے لے لی اور حبیبہ اپنے میکے میں بیٹھی رہیں۔،

 

صفیہ بنت ابو عبید کی لونڈی نے اپنے خاوند سے سارے مال کے بدلے میں خلع کیا تو عبداللہ بن عمر نے اس کو برا نہ جانا۔

 

کہا مالک نے جو عورت مال دے کر اپنا پیچھا چھڑائے پھر معلوم ہو کہ خاوند نے سرا سر ظلم کیا تھا اور عورت کا کچھ قصور نہ تھا بلکہ خاوند نے زور ڈال کر زبردستی سے اس کا پیسہ مار لیا تو عورت پر طلاق پڑ جائے گی۔ اور مالک اس کا پھروا دیا جائے گا میں نے یہی سنا اور میرے نزدیک یہی حکم ہے اگر عورت جتنا خاوند نے اس کو دیا ہے اس سے زیادہ دے کر اپنا پیچھا چھڑائے تو کچھ قباحت نہیں۔

 

               خلع کی طلاق کا بیان

نافع سے روایت ہے کہ ربیع بنت معوذ بن عفرا اور ان کی پھوپھی عبداللہ بن عمر کے پاس آئیں اور بیان کیا کہ انہوں نے اپنے خاوند سے خلع کیا تھا حضرت عثمان کے زمانے میں جب یہ خبر حضرت عثمان کو پہنچی انہوں نے برا نہ جانا عبداللہ بن عمر نے کہا جو عورت خلع کرے اس کی عدت مطلقہ کی عدت کی طرح ہے۔

 

سعید بن مسیب اور سلیمان بن یسار اور ابن شہاب کہتے تھے جو عورت خلع کرے وہ تین طہر تک عدت کرے جیسے مطلقہ عدت کرتی ہے۔

 

کہا مالک نے جو عورت مال دے کر اپنا پیچھا چھڑائے تو پھر اپنے خاوند سے مل نہیں سکتی مگر نیا نکاح کر کے۔

 

کہا مالک نے یہ میں نے اچھا سنا۔

 

               لعان کا بیان

 

سہل بن سعد ساعدی سے روایت ہے کہ عویمر عجلانی عاصم بن عدی کے پاس آئے اور پوچھا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ غیر مرد کو پائے پھر کیا کرے اگر اس کو مار ڈالے تو خود بھی مارا جاتا ہے تم میرے واسطے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس مسئلے کو پوچھو عاصم نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس مسئلے کو پوچھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سوال کو نا پسند کیا اور برا کہا عاصم کو یہ امر نہایت دشوار گزرا وہ جب لوٹ کر اپنے گھر میں آئے عویمر نے آ کر پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا فرمایا عاصم نے کہا تم سے مجھے بھلائی نہ پہنچی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سوال کو برا جانا عویمر نے کہا قسم خدا کی میں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے بغیر پوچھے نہ رہوں گا پھر عویمر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے لوگ جمع تھے انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اگر کوئی بیگانے مرد کو اپنی بی بی کے ساتھ پائے اور اس کو مار ڈالے تو خود مارا جاتا ہے پھر کیا کرے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تمہارے اور تمہاری بی بی کے حق میں اللہ کا حکم اترا ہے تم اپنی بی بی کو لے آؤ سہل کہتے ہیں دونوں نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے لعان کیا اور میں اس وقت موجود تھا جب لعان سے فارغ ہوئے عویمر نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اگر میں اس عورت کو رکھوں تو گویا میں نے جھوٹ بولا یہ کہہ کر تین طلاق دے دیں بغیر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کہے ہوئے ابن شہاب نے کہا پھر یہی متلاعنین کا طریقہ جاری رہا۔

 
عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی عورت سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں لعان کیا اور اس کے لڑکے کو یہ کہا کہ میرا نہیں ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دونوں میں تفریق کر دی اور لڑکے کو ماں کے حوالے کر دیا۔

 

کہا مالک نے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور جو لوگ تہمت لگاتے ہیں اپنی جوروؤں کو اور کوئی گواہ نہ ہو ان کے پاس سوائے ان کے خود کے تو اس صورت میں کسی کی گواہی یہ ہے کہ چار دفعہ گواہی دے اللہ کے نام کی کہ بے شک عورت سچی ہے اور پانچویں دفعہ یہ کہے کہ اللہ کی پھٹکار ہو اس شخص پر اگر وہ جھوٹا ہو اور عورت بھی گواہی دے چار دفعہ گواہی اللہ کے نام کی کہ بے شک وہ شخص جھوٹا ہے اور پانچویں دفعہ یہ کہے کہ اللہ کا غضب آئے اس عورت پر اگر وہ شخص سچا ہو۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک سنت یہ ہے کہ متلاعنین پھر کبھی آپس میں نکاح نہیں کر سکتے اور اگر خاوند عبد لعان کے اپنے آپ کو جھٹلا دے تو اس کے تئیں حد قذف پڑے گی۔ اور لڑکے کا نسب پھر اس سے ملا دیا جائے گا یہی سنت ہمارے ہاں چلی آتی ہے جس میں نہ کوئی شک ہے نہ اختلاف۔

 

کہا مالک نے جب مرد اپنی عورت کو طلاق بائن دے پھر اس کے حمل کو کہے کہ میرا نہیں ہے تو لعان واجب ہو گا۔ جس حالت میں وہ حمل اتنے دنوں کا ہو کہ اس کا ہو سکتا ہو ہمارے نزدیک یہی حکم ہے اور ہم نے ایسا ہی سنا۔

 

کہا مالک نے جس شخص نے اپنی عورت کو تین طلاق دیں اور اس کو حمل کا اقرار تھا اس کے بعد اس کو زنا کی تہمت لگائی تو خاوند پر حد قذف پڑے گا اور لعان اس پر واجب نہ ہو گا البتہ اگر طلاق کے بعد اس کے حمل کا انکار کرے تو لعان واجب ہے میں نے ایسا ہی کیا۔

 

کہا مالک نے غلام بھی لعان اور قذف دونوں میں آزاد شخص کی طرح ہے مگر جو شخص لونڈی کو زنا کی تہمت لگائے تو اس پر حد قذف لازم نہ ہو گی۔

 

کہا مالک نے جب مسلمان مرد کسی مسلمان لونڈی یا آزاد عورت یا یہودی یا نصرانی عورت سے نکاح کرے اور اس کو زنا کی تہمت لگائے تو لعان واجب ہو گا۔

 

کہا مالک نے جو شخص اپنی عورت سے لعان کرے پھر ایک یا دو گواہیوں کے بعد اپنے آپ کو جھٹلائے تو حد قذف لگائی جائے گی اور تفریق نہ ہو گی۔

 

کہا مالک نے جو شخص اپنی عورت کو طلاق دے پھر تین مہینے کے بعد عورت کہے میں حاملہ ہوں اور خاوند اس کے حمل کا انکار کرے تو لعان واجب ہو گا۔

 

کہا مالک نے جس لونڈی سے اس کا خاوند لعان کرے پھر اس کو خریدے تو اس سے وطی نہ کرے کیونکہ سنت جاری ہے کہ متلاعنین کبھی جمع نہیں ہوتے۔

 

کہا مالک نے اگر خاوند اپنی عورت سے لعان کرے صحبت سے پہلے تو عورت کو آدھا مہر ملے گا۔

 

               جس عورت سے لعان کیا جائے اس عورت کے بچے کی میراث کا بیان

 

امام مالک نے کہا کہ عروہ بن زبیر کہتے تھے کہ ملاعنہ کا بچہ اور ولد زنا جب مر جائے تو ماں اس کی وارث ہوں گی اور جو کچھ بچے گا وہ اس کی ماں کے مولی کو ملے گا اگر ماں اس کی آزاد کی ہوئی لونڈی ہو اور جو آزاد ہو تو ماں اور بھائیوں کے حصے دینے کے بعد جو کچھ بچے گا وہ بیت المال میں داخل ہو گا۔

 

               کنواری کی طلاق کا بیان

 

محمد بن ایاس بن بکیر نے کہا ایک شخص نے اپنی بی بی کو تین طلاق دیں وطی سے پہلے پھر اس سے نکاح کرنا چاہا پھر مسئلہ پوچھنے گیا میں بھی اس کے ساتھ گیا اس نے عبداللہ بن عباس اور ابوہریرہ سے پوچھا دونوں نے کہا کہ تجھ کو اس عورت سے نکاح کرنا درست نہیں جب تک وہ عورت دوسرے شخص سے نکاح نہ کرے وہ شخص بولا میری ایک طلاق سے وہ عورت بائن ہو گئی ابن عباس نے کہا تو نے اپنے ہاتھ سے خود اختیار کھو دیا۔

 

عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ ایک شخص عبداللہ بن عمرو کے پاس آیا پوچھنے لگا جو شخص اپنی عورت کو تین طلاق دے جماع سے پہلے اس کا کیا حکم ہے عطا نے کہا کہ باکرہ پر ایک طلاق پڑتی ہے عبداللہ بن عمرو نے کہا تو قصہ خوان ہے ایک طلاق سے بائن ہو جاتی ہے اور تین طلاق سے حرام ہو جاتی ہے یہاں تک کہ دوسرے شخص سے نکاح کرے۔

 

معاویہ بن ابو عیاش عبداللہ بن زبیر اور عاصم بن عمر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں محمد بن ایاس بن بکیر آئے اور کہا کہ ایک بدوی شخص نے اپنی عورت کو تین طلاق دیں صحبت سے پہلے تو تمہاری کیا رائے ہے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا اس مسئلے میں ہمیں کچھ معلوم نہیں عبداللہ بن عباس اور ابوہریرہ کے پاس جاؤ میں ان دونوں کو حضرت عائشہ کے پاس چھوڑ کر آیا ہوں اور جو وہ کہیں اس سے مجھے بھی خبر کرنا محمد بن ایاس وہاں گئے اور ان سے جا کر پوچھا عبداللہ بن عباس نے ابوہریرہ سے کہا تم بتاؤ کہ ایک مشکل مسئلہ تمہارے پاس آیا ہے ابوہریرہ نے کہا ایک طلاق میں دو صورت بائن ہو گئی اور تین طلاق میں حرام ہو گئی جب تک دوسرے شخص سے نکاح نہ کرے پھر عبداللہ بن عباس نے بھی ایسا ہی کہا۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہی حکم ہے اگر ثیبہ عورت کوئی نکاح کرے اور جماع سے پہلے اسے تین طلاق دے دے تو وہ حرام ہو جائے گی یہاں تک کہ دوسرے خاوند سے نکاح کرے۔

 

عبدالرحمن بن عوف نے بیماری کی حالت میں اپنی عورت کو تین طلاق دیں حضرت عثمان نے عبدا الرحمن کے ترکے میں سے ان کو حصہ دلایا عدت گزرنے کے بعد۔

 

عبدالرحمن بن ہرمز اعرج سے روایت ہے عثمان بن عفان نے ابن مکمل کی عورتوں کو ترکہ دلایا اور وہ بیماری میں طلاق دے کر مر گیا تھا۔

 

ربیعہ بن ابو عبدالرحمن کہتے تھے عبدالرحمن بن عوف کی بی بی نے ان سے طلاق مانگی عبدالرحمن نے یہ کہا جب تو حیض سے پاک ہو مجھے خبر کر دینا اس کو حیض ہی نہ آیا یہاں تک کہ عبدالرحمن بیمار ہو گئے اس وقت حیض سے پاک ہوئی اور عبدالرحمن سے کہا عبدالرحمن نے اس کو تین طلاق دے دیں یا آخری طلاق دے دی پھر عبدالرحمن مر گئے حضرت عثمان نے ان کی بی بی کو عدت گزر جانے کے باوجود ترکہ دلایا۔

 

محمد بن یحیی بن حبان سے روایت ہے کہ میرے دادا حبان بن منقذ کے پاس دو بیبیاں تھیں ایک ہاشمی اور ایک انصاری۔ انصاری کو انہوں نے طلاق دی اور وہ ایک برس تک دودھ پلایا کرتی تھیں اس کو حیض نہ آیا اس کے بعد حبان مر گئے وہ بولی میں ترکہ لوں گی کیونکہ مجھے حیض نہیں آیا اور میری عدت نہیں گزری جب حضرت عثمان کے پاس یہ مقدمہ پیش ہوا تو انہوں نے ترکہ دلانے کا حکم کیا ہاشمی عورت حضرت عثمان کو برا کہنے لگی انہوں نے کہا یہ حکم تو تیرے چچا کے بیٹے کا ہے انہوں نے مجھ سے ایسا ہی کہا تھا یعنی حضرت علی کا۔

 

               طلاق میں متعہ دینے کا بیان

 

امام مالک کو پہنچا کہ عبدالرحمن بن عوف نے اپنی عورت کو طلاق دی متعہ میں ایک لونڈی دی

 

عبد اللہ بن عمر کہتے تھے ہر مطلقہ کو متعہ ملے گا مگر جس عورت کا مہر مقرر ہو گیا ہو اور صحبت سے پہلے اس کو طلاق دی جائے تو اس کو آدھا مہر دینا کافی ہے۔

 

کہا مالک نے ابن شہاب کہتے تھے ہر مطلقہ کو متعہ ملے گا قاسم بن محمد سے بھی مجھے ایسا ہی پہنچا۔

 

               غلام کی طلاق کا بیان

 

سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ نفیع حضرت ام سلمہ کا مکاتب تھا یا غلام تھا اس کے نکاح میں ایک عورت آزاد تھی اس کو دو طلاق دیں پھر رجعت کرنا چاہا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیبیوں نے اس کو حکم کیا کہ حضرت عثمان سے جا کر مسئلہ پوچھ وہ حضرت عثمان سے جا کر ملا درج میں وہ حضرت زید بن ثابت کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے جب اس نے مسئلہ پوچھا دونوں نے کہا وہ عورت تجھ پر حرام ہو گئی۔

 

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ نفیع جو مکاتب تھا حضرت ام سلمہ کا اسی نے اپنی بی بی کو طلاق دی پھر حضرت عثمان سے مسئلہ پوچھا انہوں نے کہا تجھ پر حرام ہو گئی۔

 

محمد بن ابراہیم بن حارث تیمی سے روایت ہے کہ نضیع جو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ مکاتب تھا اس نے زید بن ثابت سے مسئلہ پوچھا کہ میں نے اپنی آزاد عورت کو دو طلاق دی ہیں زید بن ثابت نے کہا وہ عورت تیرے اوپر حرام ہو گئی۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے جب غلام اپنی عورت کو دو طلاق دے تو وہ اس پر حرام ہو جائے گی یہاں تک کہ دوسرے خاوند سے نکاح کرے خواہ اس کی بی بی لونڈی ہو یا آزاد عورت کی عدت تین حیض ہے اور لونڈی کی عدت دو حیض ہے ،۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کہتے تھے جو شخص اپنے غلام کو نکاح کی اجازت دے تو طلاق غلام کے اختیار میں ہو گی نہ کہ اور کسی کے ہاتھ میں اگر آدمی اپنے غلام کی لونڈی چھین کر اس سے وطی کرے تو درست ہے۔

 

               لونڈی حاملہ کو جب طلاق دی جائے اس کے نفقہ کا بیان

 

کہا مالک نے آزاد شخص یا غلام لونڈی کو طلاق دے یا غلام آزاد بی بی کو طلاق دے اگرچہ وہ حاملہ ہو تو اس کا نفقہ اس پر لازم نہ آئے گا جب طلاق بائن ہو جس میں رجعت نہیں ہو سکتی۔

 

               جس عورت کا خاوند گم ہو جائے اس کی عدت کا بیان

 

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب نے کہا جس عورت کا خاوند گم ہو جائے اور اس کا پتہ معلوم نہ ہو کہاں ہے تو جس روز سے اس کی خبر بند ہوئی ہے چار برس تک عورت انتظار کرے چار برس کے بعد چار مہینے دس دن عدت کر کے اگر چاہے تو دوسرا نکاح کرے۔

 

کہا مالک نے اگر عورت کی عدت گزر گئی اور اس نے دوسرا نکاح کر لیا تو پھر پہلے خاوند کو اختیار نہ رہے گا۔ خواہ دوسرے خاوند نے اس سے صحبت کی ہو یا نہ کی ہو ہمارے نزدیک بھی یہی حکم ہے۔

 

کہا مالک نے مجھے حضرت عمر سے پہنچا آپ نے فرمایا جس عورت کا خاوند کسی ملک میں چلا گیا ہو وہاں سے طلاق کہلا بھیجے اس کے بعد رجعت کر لے مگر عورت کو رجعت کی خبر نہ ہو اور وہ دوسرا نکاح کر لے اس کے بعد پہلا خاوند آئے تو اس کو کچھ اختیار نہ ہو گا خواہ دوسرے خاوند نے صحبت کی ہو یا نہ کی ہو۔

 

کہا مالک نے مجھے یہ روایت اور مفقود کی روایت بہت پسند ہے۔

 

               اقراء اور طلاق کی عدت کا اور حائضہ کی طلاق کا بیان

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں اپنی عورت کو حیض کی حالت میں طلاق دی حضرت عمر بن خطاب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ان کو حکم کرو رجعت کر لیں پھر رہنے دیں یہاں تک کہ حیض سے پاک ہو پھر حائضہ ہو پھر حیض سے پاک ہو اب اختیار ہے خواہ رکھے یا طلاق دے اگر طلاق دے تو اس طہر میں صحبت نہ کرے یہی عدت ہے جس میں اللہ نے طلاق دینے کا حکم دیا۔

 

حضرت عائشہ نے اپنی بھتیجی حفص بن عبدالرحمن کو عدت سے اٹھایا جب تیسرا حیض شروع ہوا ابن شہاب نے کہا میں نے یہ عمرہ سے بیان کیا عمرہ نے کہا عروہ نے سچ کہا بلکہ حضرت عائشہ سے اس باب میں لوگوں نے جھگڑا کیا اور کہا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے مطلقہ عورتیں روک رکھیں اپنے نفسوں کو تین قروء تک انہوں نے کہا سچ کہتے ہو لیکن قروء سے جانتے ہو کیا مراد ہے قروء سے طہر مراد ہے۔

 

ابن شہاب نے کہا میں نے ابوبکر بن عبدالرحمن سے سنا کہتے تھے میں نے سب فقیہوں کو حضرت عائشہ کی مثل کہتے ہوئے پایا۔

 

سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ احوص نے اپنی عورت کو طلاق دیدی تھی جب تیسرا حیض اس کو شروع ہوا احوص مر گئے معاویہ بن ابی سفیان نے زید بن ثابت کو لکھ کر بھیجا اس کا کیا حکم ہے زید بن ثابت نے جواب لکھا کہ جب اس کو تیسرا حیض شروع ہو گیا تو خاوند کو اس سے علاقہ نہ رہا اور نہ اس کو خاوند سے نہ اس کی وارث ہو گی نہ وہ اس کا وارث ہو گا۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ قاسم بن محمد بن سالم بن عبداللہ اور ابوبکر بن عبدالرحمن اور سلیمان بن یسار اور ابن شہاب کہتے تھے جب مطلقہ عورت کو تیسرا حیض شروع ہو جائے تو وہ اپنے خاوند سے بائن ہو جائے گی اور خاوند کو رجعت کا اختیار نہ رہے گا اب ایک کا ترکہ دوسرے کو نہ ملے گا۔

 

عبد اللہ بن عمر کہتے تھے جب مرد اپنی عورت کو طلاق دے اور تیسرا حیض شروع ہو جائے تو اس عورت کو خاوند سے علاقہ نہ رہا اور خاوند کو اس سے نہ تو وہ اس کا وارث ہو گا اور نہ وہ اس کی۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہی حکم ہے۔

 

فضیل بن عبداللہ سے روایت ہے کہ قاسم بن محمد اور سالم بن عبداللہ کہتے تھے جب مطلقہ عورت کو تیسرا حیض شروع ہو جائے تو وہ اپنے خاوند سے بائن ہو جائے گی اور اس کو دوسرا نکاح کرنا درست ہو جائے گا۔

 

سعید بن مسیب اور ابن شہاب اور سلیمان بن یسار کہتے تھے جو عورت خلع کرے اس کی عدت تین قروء ہیں۔

 

ابن شہاب کہتے تھے مطلقہ کی عدت طہر سے ہو گی اگرچہ بہت دن لگیں۔

 

ایک انصاری کی بی بی نے اپنے خاوند سے طلاق مانگی اس نے کہا جب تجھے حیض آئے تو مجھے خبر کر دینا جب حیض آیا اس نے خبر کی کہا جب پاک ہونا تو مجھے خبر کرنا جب پاک ہوئی اور خبر کی اس وقت انہوں نے طلاق دے دی۔

 

               جس گھر میں طلاق ہوئی وہیں عدت کرنے کا بیان

 

کہا مالک نے میں نے یہ اچھا سنا۔

 

قاسم بن محمد اور سلیمان بن یسار ذکر کرتے تھے کہ یحیی بن سعید نے عبدالرحمن بن حکم کی بیٹی کو طلاق بتہ دی ان کے باپ عبد الرحمن نے اس مکان سے اٹھوا منگوایا تو حضرت عائشہ نے مروان کے پاس کہلا بھیجا خدا سے ڈر ان دنوں میں وہ مدینہ کا حاکم تھا اور عورت کو اسی گھر میں پہنچا دے جس میں طلاق ہوئی ہے سلیمان کی روایت میں ہے کہ مروان نے کہا عبدالرحمن مجھ پر غالب ہے اور قاسم کی روایت میں ہے کہ مروان نے حضرت عائشہ سے کہا کیا تم کو فاطمہ بنت قیس کی حدیث یاد نہیں حضرت عائشہ نے کہا اگر فاطمہ کی حدیث تم یاد نہ کرو تو کچھ ضرر نہیں مروان نے کہا اگر تمہارے نزدیک فاطمہ کی نقل مکان کرنے کی یہ وجہ تھی کہ جورو اور خاوند میں لڑائی تھی تو وہ وجہ یہاں بھی موجود ہے۔

 

نافع سے روایت ہے کہ سعید بن زید کی بیٹی عبداللہ بن عمرو بن عثمان کے نکاح میں تھی انہوں نے اس کو تین طلاقین دیں وہ اس مکان سے اٹھ گئی عبداللہ بن عمر نے اسے برا جانا۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے اپنی بی بی کو حضرت حفصہ کے مکان میں طلاق دی اور ان کے گھر میں سے مسجد کو راستہ جاتا تھا عبداللہ بن عمر گھروں کے پیچھے سے ہو کر دوسرے راستے سے جاتے تھے کیونکہ مکروہ جانتے تھے مطلقہ عورت کے گھر میں جانے کو اذن لے کر بغیر رجعت کے۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ سعید بن مسیب سے سوال ہوا کہ اگر عورت گھر میں کرایہ سے ہو اور خاوند طلاق دے دے تو عدت تک کرایہ کون دے گا سعید نے کہا خاوند دے گا اس نے کہا اگر خاوند کے پاس نہ ہو سعید نے کہا بی بی دے گی اس نے کہا اگر بی بی کے پاس بھی نہ ہو سعید نے کہا حاکم دے گا۔

 

               مطلقہ کے نفقہ کا بیان

 

فاطمہ بنت قیس کو ابو عمرو بن حفص نے طلاق بتہ دی اور وہ شام میں تھیں انہوں نے اپنے وکیل کو جو دے کر بھیجا فاطمہ بنت قیس خفا ہوئی وکیل بولا تمہارا تو کچھ نہیں دینا فاطمہ خفا ہو کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بے شک تیرا خرچ خاوند پر نہیں ہے۔ اور تو شریک کے گھر میں عدت گزار آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ام شریک کے گھر میں رات دن میرے اصحاب آیا جایا کرتے ہیں عبداللہ بن مکتوم کے گھر میں تو عدت کر کیونکہ وہ اندھا ہے تو اگر تو اپنے کپڑے اتارے گی تو بھی کچھ قباحت نہیں جب تیری عدت گزر جائے تو مجھے کہنا فاطمہ بنت قیس نے کہا جب میری عدت گزر گئی تو میں نے حضرت سے کہا کہ معاویہ بن ابو سفیان اور ابو فہم بن ہشام دونوں نے مجھے پیام دیا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ابو جہم تو اپنی لکڑی کبھی ہاتھ سے رکھتا ہی نہیں اور معاویہ مفلس ہیں ان کے پاس مال نہیں تو اسامہ بن زید سے نکاح کر میں نے اسامہ کو ناپسند کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر فرمایا تو اسامہ سے نکاح کر فاطمہ نے کہا میں نے اسامہ سے نکاح کر لیا اللہ نے اس میں برکت دی اور لوگ رشک کرنے لگے۔

 

ابن شہاب کہتے ہیں جس عورت کو تین طلاق ہوئی ہوں وہ اپنے گھر سے نہ نکلے یہاں تک کہ عدت سے فارغ ہو اور اس کو نفقہ نہ ملے گا مگر جب حاملہ ہو تو وضع حمل تک ملے گا۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک بھی یہی حکم ہے۔

 

               لونڈی کی عدت کا بیان

 

کہا مالک نے اگر لونڈی کو غلام طلاق دے پھر وہ لونڈی آزاد ہو جائے تو اس کی عدت لونڈی کی سی ہے اس غلام کو رجعت کا حق باقی رہے یا نہ رہے۔

 

               عدت کے بیان میں مختلف حدیثیں

 

کہا مالک نے ایسا ہی اگر غلام پر حد واجب ہو پھر آزاد ہو جائے تو غلام ہی کی مثل حد رہے گی۔

 

کہا مالک نے آزاد شخص کو لونڈی پر تین طلاق کا اختیار ہے۔ مگر لونڈی کی عدت دو حیض ہیں اور غلام کو آزاد عورت پر دو طلاق کا اختیار ہے مگر عدت اس کی تین طہر ہیں۔

 

کہا مالک نے اگر لونڈی کسی کے نکاح میں ہو پھر خاوند اس کو خرید لے اور آزاد کر دے تو دو حیض سے عدت کرے اگر خرید نے کے بعد اس سے صحبت نہ کی ہو ورنہ ایک حیض سے استبراء کافی ہے۔

 

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا کہ جس عورت کو طلاق ہو پھر ایک یا دو حیض کے بعد اس کا حیض بند ہو جائے تو وہ نو مہینے تک انتظار کرے گی اگر حمل معلوم ہو تو بہتر ہے ورنہ پھر تین مہینے عدت کر کے دوسرا نکاح کرے۔

 

سعید بن مسیب کہتے تھے کہ طلاق مردوں کے لحاظ سے ہے اور عدت عورتوں کے لحاظ سے۔

 

سعید بن مسیب نے کہا مستحاضہ عورت کی عدت ایک برس تک ہے۔،

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک حکم یہ ہے کہ مطلقہ عورت کا اگر حیض بند ہو جائے تو وہ نو مہینے تک انتظار کرے اگر اس وقت تک بھی حیض نہ آئے تو تین مہینے عدت کرے اگر تین مہینے پورے ہونے سے پہلے حیض آنے لگے تو پھر عدت حیض سے شروع کرے اگر پھر نو مہینے تک حیض نہ آئے پھر تین مہینے عدت کرے اگر تین مہینے کے اندر پھر حیض آ جائے پھر حیض سے شروع کرے پھر اگر نو مہینے تک حیض نہ آئے تین مہینے عدت کرے اگر پھر ان تین مہینوں میں حیض آ جائے تو اب عدت حیضوں سے پوری ہو اور جب حیض نہ آئے تو تین مہینے عدت کر کے دوسرا نکاح کر لے اس تین برس کی عدت میں خاوند کو اختیار ہے رجعت کر لے مگر جب تین طلاق دے چکا ہو۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک حکم یہ ہے کہ اگر عورت مسلمان ہو جائے اور خاوند کافر ہو پھر خاوند بھی مسلمان ہو عدت کے اندر تو وہ عورت اسی کی رہے گی اگر عدت گزر جائے پھر عورت سے کچھ علاقہ نہ رہے گا البتہ نکاح کر سکتا ہے پھر تین طلاق کا مالک ہو گا کیونکہ عورت کے مسلمان ہونے سے طلاق نہیں پڑی بلکہ نکاح فسخ ہو گیا تھا۔

 

               حکم کے بیان میں

 

حضرت علی نے فرمایا جو اللہ جل جلالہ نے فرمایا اگر تم کو خاوند اور جورو کی آپس میں لڑائی کا خوف ہو تو ایک حاکم خاوند والوں میں سے مقرر کرو اور ایک حاکم جورو والوں میں سے اگر وہ بھلائی چاہیں گے تو اللہ اس کی توفیق دے گا بے شک اللہ جانتا خبرادر ہے ان حاکموں کو اختیار ہے کہ خاوند اور جورو میں تفریق کر دیں یا ملاپ کر دیں ،۔

 

کہا مالک نے میں نے یہ اچھا سنا کہ حاکموں کا قول تفریق اور ملاپ میں معتبر اور نافذ ہے۔

 

               عورت سے نکاح نہ کیا ہو اس کی طلاق پر قسم کھانے کا بیان

 

حضرت عمر بن خطاب اور عبداللہ بن مسعود اور سالم بن عبداللہ اور قاسم بن محمد اور ابن شہاب اور سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ جو کوئی شخص قسم کھا لے کسی عورت کی طلاق پر نکاح سے پہلے پھر نکاح کے بعد وہ قسم ٹوٹے تو طلاق پر جائے گی۔

 

عبد اللہ بن مسعود کہتے تھے جو شخص کہے میں جس عورت سے نکاح کروں اس عورت کو طلاق ہے اور کسی قبیلہ خاص اور عورت معین کا ذکر نہیں کیا تو یہ کلام لغو ہو جائے گا۔

 

کہا مالک نے میں نے یہ اچھا سنا۔

 

کہا مالک نے جو شخص اپنی عورت سے کہے اگر میں فلاں کام نہ کروں تو تجھ پر طلاق ہے اور جس عورت سے نکاح کروں اس پر طلاق ہے اور اس کا مال اللہ کی راہ میں صدقہ ہے پھر اس نے وہ کام نہ کیا تو اس کی عورت پر طلاق پڑ جائے گی مگر یہ جو کہا کہ جس عورت سے نکاح کروں اس پر طلاق ہے اگر کسی عورت معین یا قبیلہ معین کا نام نہ لیا تو لغو ہو جائے گی اور مال میں سے تلائی صدقہ دینا ہو گا۔

 

               جو شخص اپنی عورت سے جماع نہ کر سکے اس کو مہلت دینے کا بیان

 

سعید بن مسیب کہتے تھے جو شخص کسی عورت سے نکاح کرے پھر اس سے جماع نہ کر سکے اس کو ایک برس کی مہلت دی جائے اور اس عرصہ میں اگر جماع کرے گا تو بہتر نہیں تو تفریق کر دی جائے گی۔

 

امام مالک نے ابن شہاب سے پوچھا کہ کب سے ایک برس کی مہلت دی جائے گی جس روز سے خلوت ہوئی یا جس روز سے مقدمہ پیش ہوا حکم کے سامنے انہوں نے کہا جس روز مقدمہ پیش ہوا اس روز سے دعوت دی جائے گی۔

 

               طلاق کی مختلف حدیثوں کا بیان

 

ابن شہاب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ثقفی شخص سے فرمایا جو مسلمان ہوا تھا اور اس کی دس بیبیاں تھیں چار کو رکھ لے اور باقی کو چھوڑ دے۔

 

ابن شہاب نے کہا کہ میں نے سعید بن مسیب اور حمید بن عبدالرحمن بن عوف اور عیبد اللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود اور سلیمان بن یسار سے سنا سب کہتے تھے کہ ہم نے ابوہریرہ کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے حضرت عمر سے سنا کہتے تھے کہ جس عورت کو اس کا خاوند ایک طلاق یا دو طلاق دے پھر چھوڑ دے یہاں تک کہ اس کی عدت گزر جائے اور دوسرے خاوند سے نکاح کرے پھر وہ دوسرا خاوند مر جائے یا طلاق دے دے پھر اس سے پہلا خاوند نکاح کرے تو اس کو بقیہ ایک طلاق کا اختیار رہے گا۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک اس میں کچھ اختلاف نہیں ہے۔

 

ثابت احنف نے عبدالرحمن بن زید بن خطاب کی ام ولد سے نکاح کیا ان کو عبداللہ نے بلایا جو عبدالرحمن بن زید بن خطاب کے بیٹے تھے ثابت نے کہا میں ان کے پاس گیا دیکھا تو کوڑے رکھے ہوئے ہیں اور لوہے کی دو بیڑیاں رکھی ہوئیں ہیں اور دو غلام حاضر ہیں عبداللہ نے مجھ سے کہا تو اس ام ولد کو طلاق دے دے نہیں تو میں تیرے ساتھ ایسا کروں گا میں نے کہا ایسا ہے تو میں نے اس کو ہزار طلاق دیں جب میں ان کے پاس سے گزرا تو مکہ کے راستے میں عبداللہ بن عمر مجھ کو ملے میں نے ان سے ذکر کیا وہ غصے ہوئے اور کہا یہ طلاق نہیں ہے اور وہ ام ولد تیرے اوپر حرام نہیں ہے تو اپنے گھر میں جا ثابت نے کہا مجھ کو ان سے تسکیں نہ ہوئی یہاں تک کہ کہ میں مکہ میں عبداللہ بن زبیر کے پاس آیا اور وہ ان دنوں میں مکہ کے حاکم تھے میں نے ان سے یہ قصہ بیان کیا اور عبداللہ بن عمر نے جو کہا تھا وہ بھی ذکر کیا عبداللہ بن زبیر نے کہا بے شک وہ عورت تجھ پر حرام نہیں ہوئی تو اپنی بی بی کے پاس جا جابر بن اسود زہری جو مدینہ کے حاکم تھے ان کو خط لکھا کہ عبداللہ بن عبدالرحمن کو سزا دو اور ان کی بی بی کو ان کے حوالے کر دو ثابت کہتے ہیں میں مدینہ آیا تو عبداللہ بن عمر کی بی بی صفیہ نے میری عورت کو بنا سنوار کے میرے پاس بھیجا عبداللہ بن معمر کی اطلاع سے پھر میں نے ولیمہ کی دعوت کی اور عبداللہ بن عمر کو بلایا وہ دعوت میں آئے۔

 

عبد اللہ بن دینار نے کہا میں نے عبداللہ بن عمر کو سنا یوں پڑھتے تھے اے نبی جب تم طلاق دو اپنی عورتوں کو تو ان کی عدت کے استقبال میں طلاق دو۔

 

کہا مالک نے مطلب اس کا یہ ہے کہ ہر طہر میں ایک طلاق دے۔

 

عروہ بن زبیر کہتے تھے پہلے یہ دستور تھا کہ مرد اپنی عورت کو طلاق دیتا جب عدت گزرنے لگتی تو رجعت کر لینا ایسا ہی ہمیشہ کیا کرتا اگرچہ ہزار مرتبہ طلاق دے ایک شخص نے اپنی عورت کے ساتھ ایسا ہی کیا اس کو طلاق دی جب عدت گزرنے لگی تو رجعت کر لی پھر طلاق دیدی اور کہا قسم خدا کی نہ میں تجھے اپنے ساتھ ملاؤں گا اور نہ کسی اور سے ملنے دوں گا جب اللہ تعالی نے یہ آیت اتاری طلاق دو دو بار یا پھر رکھ لو دستور کے موافق یا رخصت کر دو دستور کے موافق اس دن سے لوگوں نے نئے سرے سے طلاق شروع کی جنہوں نے طلاق دی تھی اور جنہوں نے نہ دی تھی سب نے۔

 

ثور بن زید دیلی سے روایت ہے کہ اگلے زمانہ میں لوگ اپنی عورتوں کو طلاق دیتے تھے پھر رجعت کر لیتے تھے اور ان کے رکھنے کی نیت نہ ہوتی تھی تاکہ ان کی عدت بٹھ جائے اور ان کو ضرر پہنچے تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری عورتوں کو ضرر پہنچانے کے لیے مت روک رکھو جو ایسا کرے گا اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا اللہ تعالیٰ لوگوں کو یہ نصیحت کرتا ہے۔

 

سعید بن مسیب اور سلیمان بن یسار سے سوال ہوا کہ جو شخص نشے میں مست ہو اور طلاق دے اس کا کیا حکم ہے دونوں نے کہا کہ طلاق پڑ جائے گی اور وہ نشے میں مار ڈالے کسی کو تو مارا جائے گا۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہی حکم ہے۔

 

سعید بن مسیب کہتے تھے جب خاوند جورو کو نان نفقہ نہ دے سکے تو تفریق کر دی جائے گی۔

 

کہا مالک نے میں نے اپنے شہر کے عالموں کو اسی پر پایا

 

               جب حاملہ عورت کا خاوند مر جائے اس کی عدت کا بیان

 

ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس اور ابوہریرہ سے سوال ہوا کہ حاملہ عورت کا خاوند اگر مر جائے تو وہ کس حساب سے عدت کرے ابن عباس نے کہا کہ دونوں عدتوں میں سے جو عدت دور ہو اس کو اختیار کرے اور ابوہریرہ نے کہا کہ وضع حمل تک انتظار کرے پھر ابو سلمہ کے پاس گئیں اور ان سے جا کر پوچھا انہوں نے کہا کہ سبیعہ اسلمیہ اپنے خاوند کے مرنے کے بعد پندرہ دن میں جنی پھر دو شخصوں نے اس کو پیام بھیجا ایک نوجوان تھا دوسرا ادھیڑ وہ نوجوان کی طرف مائل ہوئی ادھیڑ نے کہا تیری عدت ہی ابھی نہیں گزری اس خیال سے کہ اس کے عزیز وہاں نہ تھے جب وہ آئیں گے تو شاید اس عورت کو میری طرف مائل کر دیں پھر سبیعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئی اور یہ حال بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تیری عدت گرز گئی تو جس سے چاہے نکاح کر لے۔

 

عبد اللہ بن عمر سے سوال ہوا کہ اگر حاملہ عورت کا خاوند مر جائے تو اس کی عدت کیا ہے عبداللہ بن عرم نے کہا جب وہ بچہ جنے اس کی عدت پوری ہو گئی اتنے میں ایک شخص انصاری نے کہا کہ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا اگر خاوند کا جنازہ تخت پر رکھا ہوا ہو اور اس کی عورت بچہ جنے تو اس کی عدت گزر جائے گی۔

 

مسعور بن مخرمہ سے روایت ہے کہ سبیعہ اسلمیہ نے اپنے خاوند کے مرنے کے بعد چند روز میں بچہ جنا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اب تیری عدت گزر گئی جس سے چاہے نکاح کرے۔

 

سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس اور ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے اس عورت کی عدت میں اختلاف کیا جو پندرہ دن کے بعد اپنے خاوند کے مرنے کے بعد بچہ جنے ابو سلمہ نے کہا جب وہ بچہ جنے تو اس کی عدت گزر گئی اور عبداللہ بن عباس نے کہا نہیں دونوں عدتوں میں جو دور ہو وہاں تک انتظار کرے اتنے میں ابوہریرہ آئے انہوں نے کہا کہ میں اپنے بھائی ابو سلمہ کے ساتھ ہوں پھر ان سب لوگوں نے اس مسئلے کو پوچھنے کے واسطے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے پاس کریب کو بھیجا جو عبداللہ بن عباس کے مولیٰ تھے انہوں نے کہا کہ سبیعہ اسلمیہ اپنے خاوند کے مرنے کے بعد چند روز کے بعد جنی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کیا آپ نے فرمایا تو حلال ہو گئی جس سے چاہے نکاح کرے۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہی حکم ہے اور ہمارے شہر کے عالم اسی مذہب پر رہے۔

 

زینت بنت کعب بن عجرہ سے روایت ہے کہ فریعہ بنت مالک بن سنان جو ابو سعید خدری کی بہن ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئیں اور پوچھا کہ مجھے اپنے لوگوں میں جانے کی اجازت ہے کیونکہ میرے خاوند کے چند غلام بھاگ گئے تھے وہ ان کو ڈھونڈ نے کو نکلے جب قدوم (ایک مقام ہے مدینہ سے سات میل پر) میں پہنچی وہاں غلاموں کو پایا اور غلاموں نے میرے خاوند کو مار ڈالا اور میرا خاوند میرے لیے نہ کوئی مکان ذات کا چھوڑ گیا ہے نہ کچھ خرچ دے گیا ہے اگر آپ کہئے تو میں اپنے کنبے۔۔۔۔۔۔۔۔

 

               جس عورت کا خاوند مر جائے اس کو عدت تک اسی گھر میں رہنے کا بیان

 

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ان عورتوں کو بیداء سے پھیر دیتے تھے حج کو نہ جانے دیتے تھے جو خاوند کے مرنے کے بعد سے عدت میں ہوتی تھیں۔

 

سائب بن خباب کا انتقال ہو گیا تو ان کی بی بی عبداللہ بن عمر کے پاس آئیں اور اپنے خاوند کا مرنا بیان کیا اور کہا کہ میری کچھ کھیتی ہے چاہے اگر آپ اجازت دیجیے تو میں شب کو وہاں رہا کروں انہوں نے اس سے منع کیا تو وہ مدینہ سے صبح کو جاتیں دن بھر اپنے کھیت میں رہتیں اور سارا دن وہاں کاٹتیں شام کو پھر مدینہ میں آ جاتیں اور رات پھر اپنے گھر میں بسر کرتیں۔

 

ہشام بن عروہ سے روایت ہے ان کے باپ عروہ کہتے تھے کہ جو لوگ جنگل میں رہا کرتے ہیں اگر ان میں سے کسی کا خاوند مر جائے تو وہ اپنے لوگوں کے ساتھ رہے جہاں وہ اتریں وہاں وہ بھی اترے۔ (عذر کی وجہ سے)

 

عبد اللہ بن عمر کہتے تھے کہ جس عورت کا خاوند مر جائے یا طلاق دے دے وہ رات کو اپنے گھر میں رہا کرے۔

 

               جب ام ولد کا مالک مر جائے اس کی عدت کا بیان

 

قاسم بن محمد کہتے تھے کہ یزید بن عبدالملک نے مردوں اور ان عورتوں کے درمیان جو ام ولد تھیں تفریق کر دی اور ان کے مولی مر گئے تھے انہوں نے ایک حیض یا دو حیض کے بعد نکاح کر لیے تھے اور حکم دیا چار مہینے دس دن عدت کرنے کاتب قاسم بن محمد نے کہا سبحان اللہ اللہ فرماتا ہے جو لوگ تم میں سے مر جائیں اور بیبیاں چھوڑ جائیں وہ چار مہینے دس دن عدت کریں اور ام دلد بیبیوں میں داخل نہیں۔

 
عبد اللہ بن عمر نے کہا ام ولد کا مولی جب مر جائے تو ایک حیض تک عدت کرے۔

 

               لونڈی کا جب مولی یا خاوند مر جائے اس کی عدت کا بیان

 

سعید بن مسیب اور سلیمان بن یسار کہتے تھے کہ لونڈی کا خاوند جب مر جائے تو اس کی عدت دو مہینے پانچ دن ہے۔

 

ابن شہاب نے بھی ایسا ہی کہا ہے۔

 

کہا مالک نے جو غلام لونڈی کو طلاق رجعی دے پھر مر جائے اور اس کی عورت عدت میں ہو تو اب دو مہینے پانچ دن تک عدت کرے۔ اگر وہ لونڈی آزاد ہو جائے اور اپنے خاوند سے جدا نہ ہونا چاہے یہاں تک کہ خاوند اس کا عدت میں مر جائے تو اب وہ لونڈی مثل آزاد عورت کے چار مہینے دس دن تک عدت کرے کیونکہ عدت وفات کے بعد آزادی کے اس پر لازم ہوئی تو مثل آزاد عورت کے کرنا چاہیے ہمارے نزدیک یہی حکم ہے۔

 

               عزل کے بیان میں

 

ابن محیریز سے روایت ہے کہ میں مسجد میں گیا وہاں ابو سعید خدری کو بیٹھے دیکھا میں نے پوچھا عزل درست ہوے انہوں نے کہا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ غزوہ بن مصطلق میں گئے وہاں عورتیں کافروں کی قید ہوئی ہم لوگوں کو شہوت ہوئی اور مجردی دشوار گزری اور یہ بھی کہ ہم چاہتے تھے کہ ان عورتوں کو بیچ کر روپیہ حاصل کریں اس لے ہم نے چاہا کہ عزل کریں پھر ہم نے سوچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم موجود ہیں بغیر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھے کیونکر عزل کریں اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا عزل رکنے میں کچھ قباحت نہیں کیونکہ جس جان کو پیدا کرنا اللہ کو منظور ہے وہ خوار مخواہ پیدا ہو گی قیامت تک۔

 

ابو ایوب انصاری عزل کرتے تھے۔

 

عبد اللہ بن عمر عزل نہیں کرتے تھے اور مکروہ جانتے تھے۔

 

حجاج بن عمرو بن غزیہ بن ثابت پاس بیٹھے تھے اتنے میں ابن فہد ایک شخص یمن کا رہنے والا آیا اور کہا اے ابس سعید میرے پاس چند لونڈیاں ہیں جو میری بیبیوں سے بہتر ہیں مکر میں نہ نہیں چاہتا کہ وہ سب حاملہ ہو جائیں کیا میں اس سے عزل کروں زید نے حجاج سے کہا مسئلہ بتاؤ حجاج نے کہا اللہ تمہیں بخشے ہم تو تمہارے پاس علم سیکھنے کو آتے ہیں زید نے کہا بتاؤ جب میں نے کہا وہ کھیتیاں ہیں تیری تیرا جی چاہے ان میں پانی پہنچا یا جی چاہے سوکھا رکھ میں اسیا ہی سنا کرتا تھا زید سے زید نے کہا سچ بولا۔

 

ذفیف سے روایت ہے کہ ابن عباس سے سوال ہوا عزل کرنا درست ہے یا نہیں انہوں نے اپنی لونڈی کو بلا کر کہا تو ان کو بتا دے اس نے شرم کیا عبداللہ بن عباس نے کہا دیکھ لو ایسا ہی حکم ہے میں تو عزل کیا کرتا ہوں۔

 

کہا مالک نے آزاد عورت سے عزل کرنا بغیر اس کی اجازت کے درست نہیں اور اپنی لونڈی سے بغیر اس کی اجازت کے درست ہے اور پرائی لونڈی سے اس کے مالک کی اجازت لینا ضروری ہے۔

 

               سوگ کا بیان

 

حمید بن نافع سے روایت ہے کہ زبیب بنت ابی سلمہ نے تین حدیثیں ان سے بیان کیں ایک تو یہ کہ میں ام حبیبہ کے پاس گئی جو بی بی تھیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی جب ان کے باپ ابو سفیان بن حرب مرے تھے تو ام حبیبہ نے خوشبو منگوائی جس روز دی ملی ہوئی تھی وہ خوشبو ایک لونڈی کے لگا کر اپنے کلوں پر لگا لی اور کہا کہ قسم خدا کی مجھ خوشبو کی احتیاج نہیں مگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سنا آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے تھے جو عورت ایمان لائے اللہ پر اور پچھلے دن پر اس کو درست نہیں کہ کسی مردے پر تین دن تک زیادہ سوگ کرے سوا خاوند کے کہ اس پر چار مہینے دس دن تک سوگ کرے دوسری حدیث یہ ہے کہ زینب نے کہا میں زینب بن جحش پاس جو بی بی تھیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی گئی جب ان کے بھائی مر گئے تھے انہوں نے خوشبو منگا کر لگائی اور کہا قسم خدا کی مجھے خوشبو کی حاجت نہیں مگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے تھے جو عورت ایمان لائے اللہ پر اور پچھلے دن پر اس کو درست نہیں کہ سوگ کرے کسی مردے پر تین روز سے زیادہ مگر خاوند پر چار مہینے دس دن تک سوگ کرے۔ تیسری حدیث یہ ہے کہ زینب نے کہا میں نے اپنی ماں ام سلمہ کے پاس گئی جو بی بی تھیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی انہوں نے ایک عورت آ

 

حضرت ام المومنین عائشہ اور حضرت ام المومنین حفصہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو عورت ایمان لائے اللہ پر اور پچھلے دن پر اس کو درست نہیں سوگ کرنا کسی مردے پر تین راتوں سے زیادہ مگر خاوند پر۔

 

حضرت ام سلمہ نے ایک عورت سے کہا جو سوگ میں تھی اپنی خاوند کے اور اس کی آنکھ دکھتی تھی رات کو وہ سرمہ لگا لے جس سے آنگھ روشن ہو اور دن کو پونچھ ڈالے۔

 

سالم بن عبداللہ اور سلیمان بن یسار کہتے تھے جس عورت کا خاوند مر جائے اور اس کو آنکھ کے آشوب یا کسی اور دکھ کی تکلیف ہو وہ سرمہ لگائے اور دو کرے اگرچہ اس میں خوشبو ہو۔

 

کہا مالک نے جب ضرورت ہو تو اللہ جل جلالہ کا دین آسان ہے۔

 

صفیہ بنت ابو عبید اپنے خاوند یعنی عبداللہ بن عمر کے سوگ میں تھیں انہوں نے سرمہ نہ لگایا اور ان کی آنکھیں دکھتی تھیں یہاں تک کہ چیپڑ آنے لگا۔

 

کہا مالک نے جو عورت سوگ میں ہو اپنے خاوند کے اور وہ زیور قسم سے کچھ نہ پہنے نہ انگوٹھی نہ پائے زیب نہ اور زیور نہ یمن کا کپڑا مگر جب موٹا اور سخت ہو نہ رنگا ہو کپڑا مگر سیاہ نہ کنگھی کرے نہ کھلی ڈالے مگر بیری وغیرہ کے پتوں سے بالوں کو دھو سکت ہے یا اور کسی چیز سے جس میں خوشبو نہ ہو

 

مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ام سلمہ رضی اللہ عنھا کے پاس گئے اور وہ اپنے خاوند ابو سلمہ کے سوگ میں تھیں انہوں نے اپنی آنکھوں پر ایلوا لگایا تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نے پوچھا اے ام سلمہ؟ یہ کیا لگایا انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یہ ایلوا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا رات کو لگایا کر اور دن کو پونچھ ڈالا کر۔

 

کہا مالک نے اگر عورت نابالغ ہو اس کو حیض نہ آتا ہو وہ بالغہ کی طرح ہے جب اس کا خاوند مر جائے تو سوگ کرے اور جن امور سے بالغہ کو پرہیز کرنا لازم ہے ان سے بھی پرہیز کرے۔

 

کہا مالک نے جب لونڈی کا خاوند مر جائے وہ دو مہینے پانچ دن تک سوگ کرے۔

 

کہا امام مالک نے جب ام ولد کا مولیٰ مر جائے تو وہ سوگ نہ کرے کیونکہ سوگ ان عورتوں پر لازم ہے جو خاوند والیاں ہوں۔

 

حضرت بی بی ام سلمہ فرماتی تھیں جو عورت سوگ میں ہو وہ اپنے سر کو بیری کے پتے سے دھو سکتی ہے اور زیتون کا تیل ڈال سکتی ہے۔

 

 

کتاب رضاع کے بیان میں

 

               بچے کو دودھ پلانے کا بیان

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عائشہ کے گھر میں ان کے پاس تھے اتنے میں حضرت عائشہ نے ایک مرد کی آواز سنی جو حضرت حفصہ کے گھر جانے کی اجازت چاہتا تھا حضرت عائشہ بولیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یہ کون شخص ہے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر میں جانا چاہتا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں سمجھتا ہوں کہ فلاں شخص ہے حضرت حفصہ کے رضاعی چچا کا نام لیا جب حضرت عائشہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اگر میرا رضاعی چچا زندہ ہوتا تو کیا میرے سامنے آتا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں رضاعت حرام کرتی ہے جیسے نسب حرام کرتا ہے۔

 

حضرت عائشہ نے کہا میرا رضاعی چچا میرے پاس آیا اور مجھ سے اندر آنے کی اجازت مانگی میں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پوچھے بغیر اجازت نہ دوں گی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آئے تو پوچھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ تیرا چچا ہے تو اس کو آنے کی اجازت دے دے میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مجھ کو تو عورت نے دودھ پلایا تھا مرد کا اس سے کیا تعلق آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ تیرا چچا ہے بے شک تیرے پاس آئے گا اور یہ گفتگو اس وقت کی ہے جب آیت حجاب اتر چکی تھی حضرت عائشہ نے کہا جو رشتے نسب سے حرام ہیں وہ رضاعت سے بھی حرام ہیں۔

 

حضرت عائشہ نے کہا کہ میرا رضاعی چچا افلح میرے پاس آیا آیت حجاب کے اترنے کے بعد میں نے اس کو اندر آنے کی اجازت نہ دی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آئے تو میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس واقعہ کی خبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میرے پاس اسے آنے کی اجازت دے دی۔

 

عبد اللہ بن عباس کہتے تھے دو برس کے اندر بچہ اگر ایک دفعہ بھی دودھ چوسے تو رضاعت کی حرمت ثابت ہو گی

 

عمرو بن شرید سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس سے سوال ہوا اگر ایک شخص کی دو بیبیاں ہوں ان میں سے ایک بی بی ایک لڑکے کو دودھ پلائے اور دوسری بی بی ایک لڑکی کو کیا اس لڑکے کا نکاح اس لڑکی سے درست ہے جواب دیا درست نہیں کیونکہ دونوں کا باپ ایک ہی ہے۔

 

عبد اللہ بن عمر کہتے تھے رضاعت وہی ہے جو دو برس کے اندر ہو اس کے بعد رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔

 

حضرت عائشہ نے سالم بن عبداللہ کو جب وہ شیر خوار تھے اپنے بہن ام کلثوم کے پاس بھیجا اس لئے کہ دس بار اس کو دودھ پلائی بغیر پردہ کے میرے سامنے آ جائیں سالم نے کہا ام کلثوم نے مجھ کو تین بار دودھ پلایا بعد اس کے میں بیمار ہو گیا اس لئے میں حضرت عائشہ کے سامنے نہیں جاتا کیونکہ میں نے ام کلثوم کا دس بار دودھ نہیں پیا تھا۔

 

صفیہ بن ابی عبید سے روایت ہے کہ ام المومنین حفصہ نے عاصم بن عبداللہ بن سعد کو ضب وہ شیر خوار تھے اپنی بہن فاطمہ بنت عمر بن خطاب کے پاس بھیجا تاکہ ان کو دس مرتبہ دودھ پلائیں جب وہ بڑے ہو جائیں تو اسن کے سامنے ہوا کریں فاطمہ نے عاصم کو دودھ پلا دیا پھر عاصم جب بڑے ہوئے تو حضرت حفصہ ان کے سامنے ہوا کرتیں۔

 

قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ سامنے ہوتیں ان لوگوں کے جن کو دودھ پلایا تھا ان کی بہنوں اور بھیتجوں کے اور نہیں سامنے ہوتی تھیں ان لوگوں کے جن کو دودھ پلایا تھا ان کی بھاوجوں نے۔

 

ابراہیم بن عتبہ نے سعید بن مسیب سے پوچھا رضاعت کا حکم سعید نے کہا جو رضاعت دو برس کے اندر ہو اس سے حرمت ثابت ہو جائے گی اگرچہ ایک قطرہ ہو اور جو دو برس کے بعد اس سے حرمت ثابت نہ ہو گی بلکہ وہ مثل کھانوں کے ہے ابراہیم نے کہا پھر میں نے عروہ بن زبیر سے پوچھا انہوں نے بھی ایسا ہی کہا۔

 

یحیی بن سعید نے کہا سعید بن مسیب کہتے تھے رضاعت وہی ہے جو بچپن میں ہو جب بچہ جھولی میں رہتا ہو اور اس رضاعت سے خون اور گوشت بڑھے۔

 

ابن شہاب کہتے تھے رضاعت تھوری ہو یا زیادہ حرمت ثابت کر دیتی ہے اور رضاعت مروروں کی طرح سے بھی حرمت ثابت کر دیتی ہے۔

 

کہا یحیی نے امام مالک کہتے تھے دو برس کے اندر رضاعت قلیل ہو یا کثیر حرمت ثابت کر دیتی ہے اور دو برس کی رضاعت سے حرمت ثابت نہیں ہوتی بلکہ وہ مثل اور کھانوں کے ہے۔

 

               بڑے پن میں رضاعت کا بیان

 

ابن شہاب سے سوال ہوا کہ بڑھ پن میں کوئی آدمی عورت کو دودھ پئے تو اس کا کیا حکم ہے انہوں نے کہا مجھ سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ خذیفہ بن عتبہ بن ریبعہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ میں سے تھے اور جنگ بدر میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھے انہوں نے بیٹا بنایا تھا سالم کو تو سالم مولی کہتے تھے انہوں بی خذیفہ کے جیسے زید کو بیٹا کیا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اور ابو خذیفہ نے سالم کا نکاح اپنی بھتیجی فاطمہ بنت ولد سے کر دیا تھا جو پہلے ہجرت کرنے والوں میں تھی اور تمام قریش کی ثیبہ عورتوں میں افضل تھی جب اللہ جل جلالہ نے اپنی کتاب میں اتارا زید بن حارثہ کے حق میں کہ ان کو کے باپو کا نام معلوم نہ ہوتا اپنے مالک کی طرف نسبت کئے جانے تو سہلہ بنت سہیل ابو حذیفہ کی جورو جو بنی عامر بن لوی کی اولاد میں سے تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئی اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہم تو حضرت سالم رضی اللہ عنہ کو اپنا بچہ سمجھتے تھے ہم ننگے کھلے ہوتے تھے وہ اندر چلا آتا تھا اب کیا کرنا چاہئیے دوسرا گھر بھی ہمارے پاس نہیں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس کو پانچ بار دودھ پلا دے تو وہ تیرا محرم ہو جائے گا۔ پھر حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کی بیوی نے ایسا ہی کیا اور سالم کو اپنا رضائی بیٹا سمجھنے لگی حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا اسی حدیث پر عمل کرتی تھیں اور جس مرد کو چاہتیں کہ اپنے پاس آیا جایا کرے تو اپنی بہن ام کلثوم کو حکم کرتیں اور اپنے بھتیجیوں کو کہ اس شخص کو اپنا دودھ پلا دیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اور بیبیاں اس کا انکار کرتی تھیں کہ بڑے پن میں کوئی دودھ پی کر ان کا محرم بن جائے اور ان کے پاس آیا جایا کرے اور وہ یہ کہتی تھیں کہ یہ خاص رخصت تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے حضرت سہلہ بنت سہیل رضی اللہ تعالی عنہا کو قسم خدا کی ایس رضاعت کی وجہ سے ہمارا کوئی محرم نہیں ہو سکتا۔

 

عبد اللہ بن دینار سے روایت ہے کہ ایک شخص عبداللہ بن عمر کے پاس آیا میں ان کے ساتھ تھا دارالقضا کے پا پوچھنے لگا بڑے آدمی کی رضاعت کا کیا حکم ہے عبداللہ بن عمر نے کہا ایک شخص حضرت عمر کے پاس آیا بولا میری ایک لونڈی تھی اس سے میں صحبت کیا کرتا تھا میری جورو نے قصداً اسے دودھ پلایا دیا جب میں اس کے پاس جانے لگا بولی سن لے قسم خدا کی میں اس کو دودھ پلا چکی ہوں حضرت عمر نے فرمایا اپنی بی بی کو سزا دے اور اپنی لونڈی سے صحبت کر رضاعت چھوٹے پن میں ہوتی ہے۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ابو موسیٰ اشعری سے کہا میں اپنی عورت کا دودھ چھاتی سے چوس رہا تھا وہ میرے پیٹ میں چلا گیا ابو موسیٰ نے کہا وہ میرے نزدیک وہ عورت تجھ پر حرام ہو گئی عبداللہ بن مسعود نے کہا دیکھو کیا مسئلہ بتاتے ہو اس شخص کو ابو موسیٰ بولے اچھا تم کیا کہتے ہو عبداللہ بن مسعود نے کہا رضاعت وہ ہے جو دو برس کے اندر ہو جب ابوموسیٰ نے کہا مجھ سے کچھ مت پوچھا کرو جب تک یہ عالم تم میں موجود ہے۔

 

               رضاعت کی مختلف حدیثوں کا بیان

 

حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا رضاعت سے حرام ہو جاتا ہے جو نسب سے حرام ہو جاتا ہے۔

 

جذامہ بنت وہب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں نے قصد کیا تھا کہ منع کر دوں جماع سے جب تک عورت اپنے بچے کو دودھ پلائے پھر مجھے معلوم ہوا کہ روم اور فارس کے لوگ ایسا کیا کرتے ہیں اور ان کی اولاد کو نقصان نہیں ہوتا۔

 

حضرت عائشہ نے فرمایا پہلے قرآن شریف میں یہ اترا تھا کہ دس بارہ دودھ پلائے تو حرمت ثابت ہوتی ہے پھر منسوخ ہو گیا اور پانچ بار پلانا ٹھہرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات ہوئی اور لوگ اس کو قرآن پڑھتے تھے۔

 

 

کتاب عتق اور ولاء کے بیان میں

 

               جو شخص غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے اور اس شخص کے پاس انتا مال کہ غلام کی قیمت دے سکے تو اس غلام کی قیمت لگا کر ہر ایک شریک کو موافق حصہ ادا کرے گا اور غلام اس کی طرف سے آزاد ہو جائے گا اور اگر اس کے پاس مال نہیں ہے تو جس قدر اس غلام میں سے آزاد ہوا ہے اتنا ہی حصہ آزاد رہے گا۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ مولیٰ اگر اپنے مرنے کے بعد اپنے غلام کا ایک حصہ جیسے ثلث یا ربع یا نصف آزاد کر جائے تو بعد مولیٰ کے مر جانے کے اسی قدر حصہ جتنا مولیٰ نے آزاد کیا تھا آزاد ہو جائے گا کیونکہ اس حصے کی آزادی بعد مولیٰ کے مر جانے کے لازم ہوئی اور جب تک مولیٰ زندہ تھا اس کو اختیار تھا جب مر گیا تو موافق اس کی وصیت کے اسی قدر حصہ آزاد ہو گا اور باقی غلام آزاد نہ ہو گا اس واسطے کہ وہ غیر کی ملک ہو گا تو باقی غلام غیر کی طرف سے کیونکر آزاد ہو گا نہ اس نے آزادی شروع کی اور نہ ثابت کی اور نہ اس کے واسطے ولاء ہے بلکہ یہ میت کا فعل ہے اسی نے آزاد کیا اور اسی نے اپنے لیے ولاء ثابت کی تو غیر کے مالک میں کیونکر درست ہو گا البتہ اگر یہ وصیت کر جائے کہ باقی غلام بھی اس کے مال میں سے آزاد کر دیا جائے گا اور ثلث مال میں سے وہ غلام آزاد ہو سکتا ہو تو آزاد ہو جائے گا پھر اس کے شریکوں یا وارثوں کو تعرض نہیں پہنچتا کیونکہ ان کا کچھ ضرر نہیں۔

 

کہا مالک نے اگر کسی شخص نے اپنی بیماری میں تہائی غلام آزاد کر دیا تو وہ ثلث مال میں سے پورا آزاد ہو جائے گا کیونکہ یہ مثل اس شخص کے نہیں ہے جو اپنی تہائی غلام کی آزادی اپنی موت پر معلق کر دے اس واسطے کہ اس کی آزادی قطعی نہیں جب تک زندہ ہے رجوع کر سکتا ہے اور جس نے اپنے مرض میں تہائی غلام قطعاً آزاد کر دیا اگر وہ زندہ رہ گیا تو کل غلام آزاد ہو جائے گا کیونکہ میت کا تہائی مال میں وصیت درست ہے جیسے صحیح سالم کا تصرف کل مالک میں درست ہے۔

 

کہا مالک نے جس شخص نے اپنا غلام قطعی طور پر آزاد کر دیا یہاں تک کہ اس کی شہادت ہو گئی اور اس کی حرمت پوری ہو گئی اور اس کی میراث ثابت ہو گئی اب اس کے مولیٰ کو نہیں پہنچتا کہ اس پر کسی مال یا خدمت کی شرط لگا دے یا اس پر کچھ غلامی کا بوجھ ڈالے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص اپنا حصہ غلام میں سے آزاد کر دے تو اس کی قیمت لگا کر ہر ایک شریک کو موافق حصہ کر آزاد کرے اور غلام اس کے اوپر آزاد ہو جائے گا پس جس صورت میں وہ غلام خاص اسی کی ملک ہے تو زیادہ تر اس کی آزادی پوری کرنے کا حقدار ہو گا اور غلامی کا بوجھ اس پر نہ رکھ سکے گا۔

 

               آزادی میں شرط کرنے کا بیان

 

حسن بصری اور محمد بن سیرین سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں اپنے چھ غلاموں کو آزاد کر دیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قرعہ ڈال کر دو کی آزاد قائم رکھی۔

 

ربیعہ بن ابی عبدالرحمن سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ابان بن عثمان کی خلافت میں اپنے سب غلاموں کو آزاد کر دیا اور سوا ان غلاموں کے اور کچھ مال اس شخص کے پاس نہ تھا تو ابان بن عثمان نے حکم کیا ان غلاموں کے تین حصے کئے گئے پھر جس حصے پر میت کا حصہ نکلا وہ غلام آزاد ہو گئے اور جب حصوں پر وارثوں کا نام نکلا وہ غلام رہے۔

 

               جب غلام آزاد ہو جائے اس کا مال کون لے

 

شہاب کہتے تھے کہ سنت جاری ہے اس بات پر جب غلام آزاد ہو جائے اس کا مال اسی کو ملے گا۔

 

کہا مالک نے اس کی دلیل یہ ہے کہ غلام اور مکاتب جب مفلس ہو جائیں تو ان کے مالک اور ام دلد لے لیں گے مگر اولاد کو نہ لیں گے کیونکہ اولاد غلام کا مالک نہیں ہے۔

 

کہا مالک نے اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ غلام جب بیچا جائے اور خریدار اس کے مالک لینے کی طرف کر لے تو اولاد اس میں داخل نہ ہو گی۔

 

کہا مالک نے غلام اگر کسی کو زخمی کرے تو اس دیت میں وہ خود اور مال اس کا گرفت کیا جائے گا مگر اس کی اولاد سے مواخذہ نہ ہو گا۔

 

               ام ولد کا آزاد ہونا اور آزاد کرنے کے اختیار کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا جو لونڈی اپنے مالک سے جنے تو مالک اس کے بہ بیچے نہ ہبہ کر نہ وہ مالک کے وارثوں کے ملک میں آ سکتی ہے بلکہ جب تک مالک زندہ رہے اس سے مزے لے جب مر جائے وہ آزاد ہو جائے گی۔

 

حضرت عمر بن خطاب کے پاس ایک لونڈی آئی جس کو اس کے مولی نے آگ میں جلایا تھا آپ نے اس کو آزاد کر دیا۔

 

               جس لونڈی یا غلام کا عتاق واجب میں آزاد کرنا درست ہے اس کا بیان

 

عمر بن حکم سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میری ایک لونڈی بکریاں چرا رہی تھی جب میں وہاں گیا دیکھا تو ایک بکری گم ہے پوچھا میں نے ایک بکری کہاں ہے بولی اس کو بھیڑیا کھا گیا ہے مجھے غصہ آیا آخر میں آدمی تھا میں نے ایک طماچہ اس کے منہ پر جڑا میرے ذمے ایک بردہ آزاد کرنا واجب ہے کیا اسی کو آزاد کر دوں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس لونڈی سے فرمایا اللہ جل جلالہ کہاں ہے وہ بولی آسمان پر ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں کون ہو بولی آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص کو فرمایا اس کو آزاد کر دے۔

 

عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے روایت ہے کہ ایک شخص انصاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس کالی لونڈی لے کر آیا اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میرے اوپر ایک مسلمان بردہ آزاد کرنا واجب ہے کیا میں اس کو آزاد کر دوں اگر آپ کہتے ہیں کہ یہ مومنہ ہے تو میں اسی کو آزاد کر دوں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس لونڈی سے فرمایا کیا تو یقین کرتی ہے اس بات کو کہ نہیں ہے کوئی معبود سچا سوائے اللہ کے وہ بولی ہاں پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تو یقین کرتی ہے اس بات کو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں وہ بولی ہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کیا تو یقین کرتی ہے اس بات کر کہ مرنے کے بعد پھر جی اٹھیں گے بولی ہاں تب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس کو آزاد کر دے

 

ابوہریرہ سے سوال ہوا کہ جس شخص پر ایک بردہ آزاد کرنا لازم ہو گیا ہو ولد الزنا کو آزاد کر سکتا ہے جواب دیا ہاں کر سکتا ہے۔

 

فضالہ بن عبید انصاری سے روایت ہے کہ ان سے پوچھا جس شخص پر ایک بردہ آزاد کرنا لازم ہو گیا وہ ولد ا لزنا کو آزاد کر سکتا ہے جواب دیا ہاں کر سکتا ہے۔

 

               جن بردوں کا آزاد کرنا درست ہنہیں واجب اعتاق میں

 

عبد اللہ بن عمر سے سوال ہوا کہ جس بردہ کا آزاد کرنا واجب ہو وہ شرط لگا کر خرید کیا جائے کہا نہیں۔

 

کہا مالک نے جو شخص غلام کو آزاد کرنے کے لیے اور اس پر آزاد کرنا واجب ہو تو اس شرط سے نہ خریدے کہ میں آزاد کر دوں گا اس واسطے کہ اگر اس شرط سے خریدے گا تو بائع رعایت کر کے اس کی قیمت کم کر دے گا اس صورت میں وہ پورا رقبہ نہ ہو گا۔

 

               مردے کی طرف سے آزاد کرنے کا بیان

 

عبدالرحمن بن ابی عمرہ نے وصیت کر نے کا ارادہ کیا پھر صبح تک دیر کی رات کو مر گئیں اور ان کا قصد بردہ آزاد کرنے کا تھا عبدالرحمن نے کہا میں نے قاسم بن محمد سے پوچھا اگر میں اپنی ماں کی طرف سے آزاد کر دوں تو ان کو کچھ فائدہ ہو گا قاسم نے کہا سعد بن عبادہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ میری ماں مر گئی اگر میں اس کی طرف سے آزاد کر دوں کیا اس کو فائدہ ہو گا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں۔

 

یحییٰ بن سعید نے کہا عبدالرحمن بن ابو بکر سوتے سوتے مر گئے حضرت عائشہ نے ان کی طرف سے بہت سے بردے آزاد کیے۔

               بردے آزاد کرنے کی فضلیت اور زانیہ اور ولد زنا کے آزاد کرنے کا بیان

 

حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال ہوا کون سا بررہ آزاد کرنا افضل ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس کی قیمت بھاری ہو اور اس کے مالکوں کو بہت مرغوب ہو۔

 

عبد اللہ بن عمر نے ولد الزنا کو اور اس کی ماں کو آزاد کیا۔

 

               ولا اسی کو ملے گی جو آزاد کرے

 

حضرت عائشہ کے پاس بریرہ آئی اور کہا کہ مجھ کو میرے لوگوں نے مکاتب کیا ہے نو اوقیہ پر ہر سال میں ایک اوقیہ تو میری مدد کرو حضرت عائشہ نے کہا اگر تیرے لوگوں کو منظور ہو تو میں ایک دفعہ میں سب سے دیتی ہوں مگر تیری ولا میں لوں گی بریرہ اپنے لوگوں کے پاس گئی ان سے بیان کیا انہوں نے ولا دینے سے انکار کیا پھر بریرہ لوٹ کر آئی حضرت عائشہ کے پاس اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے اور کہا میں نے اپنے لوگوں سے بیان کیا وہ انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں ولا ہم لیں گے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر پوچھا کیا حال ہے حضرت عائشہ نے سارا قصہ بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم بریرہ کو لے لو اور ولا کی شرط انہیں لوگوں کے واسطے کر دو کیونکہ ولا اسی کو ملے گی جو آزاد کرے حضرت عائشہ نے ایسا ہی کیا بعد اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں میں گئے اور کھڑے ہو کر اللہ جل جلالہ کی تعریف کی پھر فرمایا کیا حال ہے لوگوں کا ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہیں جو شرط اللہ کی کتاب میں نہ ہو وہ باطل ہے گو سو بار لگائی جائے اللہ کا حکم سچا اور اس کی شرط مضبوط ہے ولا اسی کو ملے گی جو آزاد کرے۔

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ نے ایک لونڈی کو خرید کر آزاد کرنا چاہا اس کے لوگوں نے کہا ہم اس شرط سے بیچتے ہیں کہ ولا ہم کو ملے حضرت عائشہ نے یہ امر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تیر کچھ حرج نہیں ولا اسی کو ملے گی جو آزاد کرے۔

 

عمرہ بنت عبدالرحمن سے روایت ہے کہ بریرہ آئی حضرت عائشہ سے مدد مانگنے کو حضرت عائشہ نے کہا اگر تیرے لوگوں کو منظور ہو کہ میں یک مشت ان کو تیری قیمت ادا کر دوں اور تجھ کو آزاد کر دوں تو میں راضی ہوں بریرہ نے یہ اپنے لوگوں سے بیان کیا انہوں نے کہا ہم نہیں بیچیں گے مگر اس شرط سے کہ ولا ہم کو ملے۔

 

عمرہ نے کہا کہ پھر حضرت عائشہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تو خرید کر آزاد کر دے کیونکہ ولا اسی کو ملے گی جو آزاد کر دے گا۔

 

عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا کہ اولاد کی بیع یا ہبہ سے۔

 

کہا مالک نے جو غلام اپنے تئیں مولیٰ سے مول لے لے اس شرط سے کہ میری ولاء جس کو میں چاہوں گا اس کو ملے گی تو یہ جائز نہیں کیونکہ ولاء اسی کو ملے گی جو آزاد کرے اور اگر مولیٰ نے غلام کو اجازت دے دی کہ جس سے جی چاہے موالات کا عقد کر لے تو بھی جائز نہ ہو گا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ولاء اس کو ملے گی جو آزاد کرے اور منع کیا آپ نے ولاء کی بیع اور ہبہ سے پس اگر مولیٰ کو یہ امر جائز ہو کہ غلام سے ولاکی شرط کر لے یا اجازت دے جس کو وہ چاہے ولاء ملے اس صورت میں ولاء کا ہبہ ہو جائے گا۔

 

               جب غلام آزاد ہو تو ولا اپنی طرف کھینچ لیتا ہے

 

ربیعہ بن ابی عبدالرحمن سے روایت ہے کہ زبیر بن عوان نے ایک غلام خریدا کر آزاد کیا اس غلام کی اولاد ایک آزاد عورت سے تھی جب زبیر نے غلام کو آزاد کر دیا تو زبیر نے کہا اس کی اولاد میری مولی ہیں اور ان کی ماں کے لوگوں نے کہا ہمارے مولی ہیں دونوں نے جھگڑا کیا ۔حضرت عثمان کے پاس آئے آپ نے حکم کیا کہ ان کی ولا زبیر کو ملے گی۔

 

سعید بن مسیب سے سوال ہوا اگر ایک غلام کا لڑکا آزاد عورت سے ہو تو اس لڑکے کی ولا کس کو ملے گی سعید نے کہا اگر اس لڑکے کا باپ غلامی کی حالت میں مر جائے تو ولا اس کی ماں کے موالی کو ملے گی۔

 

کہا مالک نے مثال اس کی یہ ہے ملا عنہ عورت کا لڑکا اپنی ماں کے موالی کی طرف منسوب ہو گا اگر وہ مر جائے گا وہی اس کے وارث ہوں گے اگر جنایت کرے گا وہی دیت دیں گے پھر اس عورت کا خاوند اقرار کر لے کہ یہ میرا لڑکا ہے تو اس کی ولاء باپ کے موالی کو ملے گی وہی وارث ہوں گے وہی دیت دیں گے مگر اس کے باپ پر حد قذف پڑے گی مالک نے اسی طرح کہا اگر عورت ملاعنہ عربی ہو اور خاوند اس کے لڑکے کا اقرار کر لے کا اقرار کر لے کہ میرا لڑکا ہے تو وہ لڑکا اپنے باپ سے ملا دیا جائے گا۔ جب تک خاوند اقرار نہ کرے تو اس لڑکے کا ترکہ اس کی ماں اور اخیافی بھائی کو حصہ دے کر جو بچ رہے گا۔ مسلمانوں کا حق ہو گا اور ملاعنہ کے لڑکے کی میراث اس کی ماں کے موالی کو اس واسطے ملتی ہے کہ جب تک اس کے خاوند نے اقرار نہیں کیا نہ اس لڑکے کا نسب ہے نہ اس کا کوئی عصبہ ہے جب خاوند نے اقرار کر لیا نسب ثابت ہو گیا اپنے عصبہ سے مل جائے گا۔

 

کہا مالک نے جس غلام کی اولاد آزاد عورت سے ہو اور غلام کا باپ آزاد ہو و (ف) اپنے پوتے یے ولاء کا مالک ہو گا جب تک باپ غلام رہے گا جب باپ آزاد ہو جائے گا تو اس کے موالی کو ملے گی اگر باپ غلامی کی حالت میں مر جائے گا تو میراث اور ولاء دادا کو ملے گی اگر اس غلام کے دو آزاد لڑکوں میں سے ایک لڑکا مر جائے اور باپ ان کا غلام ہو تو ولاء اور میراث اس کے دادا کو ملے گی۔

 

کہا مالک نے حاملہ لونڈی اگر آزاد ہو جائے اور خاوند اس کا غلام ہو پھر خاوند بھی آزاد ہو جائے وضع حمل سے پہلے یا بعد تو ولاء اس بچہ کی اس کی ماں کے مولیٰ کو ملے گی کیونکہ یہ بچہ قبل آزادی کے اس کا غلام ہو گیا البتہ جو حمل اس عورت کو بعد آزادی کے ٹھہرے گا اس کی ولاء اس کے باپ کو ملے گی جب وہ آزاد کر دیا جائے گا کہا مالک نے جو غلام اپنے مولیٰ کے اذن سے اپنے غلام کو آزاد کرے تو اس کی ولاء مولیٰ کو ملے گی غلام کو نہ ملے گی اگرچہ آزاد ہو جائے۔

 

               ولاء کی میراث کا بیان

 

عبد الملک بن ابی بکر بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ عاصی بن ہشام مر گئے اور تین بیٹے چھوڑ گئے دو اس میں سے سگے بھائی تھے اور ایک سوتیلا تو سکے بھائیوں میں سے ایک بھائی مر گیا اور ماں اور غلام آزاد کئے ہوئے چھوڑ گیا اس کا وارث سگا بھائی ہوا ماں اور غلاموں کی سب ولا اس نے لی پھر وہ بھائی بھی مر گیا اور ایک بیٹا اور سوتیلا بھائی چھوڑ گیا بیٹے نے کہا میں اپنے باپ کے مال اور ولا کا مالک ہوں بھائی نے کہا بے شک مال کا تو مالک ہے مگر ولا کا مالک نہیں فرض کر کہ اگر پہلا بھائی میرا آج مرتا تو میں اس کا وارث ہوتا تو پھر دونوں نے جھگڑا کیا حضرت عثمان کے پاس آئے آپ نے ولا بھائی کو دلائی

 

عبد اللہ بن ابی بکر بن حزم کے والد ابن بن عثمان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں کچھ لوگ جہنیہ کے اور کچ لوگ بنی الحارث بن خزرج کے لڑتے جھگڑتے آئے مقدمہ یہ تھا کہ ایک جہنیہ کے نکاح میں تھی ایک شخص بنی الحارث بن خزرج میں سے جس کا نام ابرہیم بن کلیب تھا وہ عورت مر گئی اور مال اور غلام آزاد کئے ہوئے چھوڑ گئی اس کا خاوند اور بیٹا وارث ہوا پھر اس کا بیٹا مر گیا اب بیٹے کو وارثوں نے کہا ولا ہم کے ملے گی کیونکہ عورت کا بیٹا اس ولا پر قابض ہو گیا تھا اور جہنیہ کے لوگ یہ کہتے تھے کہ ولا کے مستحق ہم ہیں اس لئے وہ غلام ہمارے کنبے کی عورت کے غلام ہیں جب اس عورت کا لڑکا مر گیا ولا ہم کے ملے گی ابان بن عثما نے جہنیہ کے لوگوں کو ولا دلائی۔

 

عید بن مسیب نے کہا جو شخص مر جائے اور تین بیٹے چھوڑ جائے اور آزاد کئے ہوئے غلام چھوڑ جائے پھر تینوں بیٹوں میں سے دو بیٹے مر جائیں اور اولاد اپنی چھوڑ جائیں تو ولا کا وارث تیسرا بھائی ہو گیا جب وہ مر جائے تو اس کی اولاد اور ان دونوں بھائیوں کی اولاد اول کے استحقاق میں برابر ہو گی۔

 

               سائبہ کی میراث کا بیان اور اس غلام کی ولا کا بیان جسکو یہودی یا نصرانی آزاد کرے

 

امام مالک نے ابن شہاب سے پوچھا سائبہ کا حکم انہوں نے کہا سائبہ جس شخص سے چاہے عقد موالات کرے اگر مر جائے اور کسی سے موالات نہ کرے تو اس کی میراث مسلمانوں کو ملے گی اگر وہ جنایر کرے گا تو دیب بھی وہی دیں گے۔

 

کہا مالک نے میرے نزدیک یہ ہے کہ سائبہ کسی سے عقد موالات نہ کرے اور میراث اس کی مسلمانوں کے ملے گی اور دیت بھی رہی دیں گے۔

 

کہا مالک نے اگر یہودی یا نصرانی کا لڑکا مسلمان ہو تو وہ اپنے باپ کے آزاد کیے ہوئے غلام کی ولاء پائے گا جب وہ غلام مسلمان ہو گیا ہو مگر باپ اس کا مسلمان نہ ہوا ہو جس نے آزاد کیا ہے اور اگر وہ غلام آزادی کے وقت بھی مسلمان تھا تو یہودی یا نصاریٰ کے مسلمان لڑکے کو ولاء نہ ہو گی بلکہ وہ مسلمانوں کا حق ہو گی۔

 

 

 

 

 

مکاتب کے بیان میں

 

               مکاتب کے احکام کے بیان

 

عبد اللہ بن عمر کہتے تھے مکاتب غلام رہے گا جب تک اس پر کچھ بھی بدل کتابت میں سے باقی رہے۔

 

عروہ بن زبیر اور سلیمان بن یسار کہتے تھے مکاتب غلام ہے جب تک اس پر کچھ بھی بدل کتاب میں سے باقی ہے۔

 

کہا مالک نے میری رائے یہی ہے کہ اگر مکاتب اپنی بدل کتابت سے زیادہ مالک چھوڑ کر مر جائے اور اپنی اولاد کو جو حالت کتابت میں پیدا ہوئی تھی یا عقد کتابت میں داخل تھی چھوڑ جائے تو پہلے اس کے مالک میں سے بدل کتابت ادا کریں گے پھر جس قدر بچ رہے گا اس کی وارث مکاتب کی اولاد ہو گی۔

 

حمید بن قیس مکی سے روایت ہے کہ ایک مکاتب ابن متوکل کا مکہ میں مر گیا اور کچھ بدل کتابت اس پر باقی رہ گیا تھا اور لگوں کا قرض بھی تھا اور ایک بیٹی چھوڑ گیا تو مکہ کے عامل کو اس باب میں حکم کرنا دشوار ہو تو اس نے عبدالملک بن مروان کو لکھا عبدالملک نے اس کے جواب میں لکھا کہ پہلے لوگوں کا قرض ادا کر پھر جس قدر بدل کتابت باقی رہ گیا ہے اس کو ادا کر بعد اس کے جو کچھ بچے وہ اس کی بیٹی اور مولی کو تقسیم کر دے۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے اگر غلام اپنے مولیٰ کو کہے مجھ کو مکاتب کر دے تو مولیٰ پر ضروری نہیں خواہ مخواہ مکاتب کرے اور میں نے کسی عالم سے نہیں سنا کہ مولیٰ پر جبر ہو گا اپنے غلام کے مکاتب کرنے پر اور جب وہ شخص اس نے اللہ جل جلالہ کے اس قول کو بیان کرتا کہ مکاتب کرو اپنے غلاموں کو اگر اس میں بہتری جانو تو وہ یہ آیتیں  پڑھتے جب تم احرام کھول ڈالو شکار کرو۔ جب نماز ہو جائے تو پھیل جاؤ زمین میں اور اللہ کا فضل ڈھونڈو۔

 

کہا مالک بلکہ یہ امر اذن کے واسطے ہے نہ کہ وجود وجوب کے واسطے۔

 

کہا مالک نے میں نے بعض اہل علم سے سنا اس آیت کی تفسیر میں (دو تم اپنے مکاتبوں کو اس مالک سے جو دیا تم کو اللہ تعالیٰ نے) کہتے تھے مراد اس آیت سے یہ ہے کہ آدمی اپنے غلام کو مکاتب کرے پھر اس کے بدل کتابت میں سے کچھ معاف کر دے۔

 

کہا مالک نے میں نے یہ اچھا سنا اور اسی پر لوگوں کو عمل کرتے ہوئے پایا۔

 

کہا مالک نے جب غلام مکاتب ہو جائے اس کا مال اسی کو ملے گا۔ مگر اولاد اس کے عقد کتابت میں داخل نہ ہو گی البتہ جب شرط لگائے تو اولاد بھی داخل ہو گی۔

 

کہا مالک نے جس شخص نے اپنے غلام کو مکاتب کیا اور اس غلام کی ایک لونڈی تھی جو حاملہ تھی اس سے مگر حمل کا حال نہ غلام کو معلوم تھا نہ مولیٰ کو تو وہ بچہ جب پیدا ہو گا مکاتب کو نہ ملے گا بلکہ مولیٰ کو ملے گا البتہ لونڈی مکاتب ہی کی رہے گی کیونکہ وہ اس کا مال ہے۔

 

کہا مالک نے اگر ایک عورت اپنا مکاتب چھوڑ کر مر گئی اور اس کے دو وارث ہیں ایک خاوند اور ایک لڑکا اس عورت کا پھر مکاتب مر گیا قبل ادا کرنے بدل کتابت کے تو خاوند اور لڑکا موافق کتاب اللہ کے اس کی میراث کو تقسیم کر لیں گے۔ (ایک ربع خاوند کا ہو گا اور باقی بیٹے کا) اور جو بعد ادا کرنے بدل کتابت کے مرا تو میراث اس کی سب بیٹے کو ملے گی خاوند کو کچھ نہ ملے گا۔

 

کہا مالک نے اگر مکاتب اپنے غلام کو مکاتب کرے تو دیکھیں گے اگر اس نے رعایت کے طور پر بدل کتابت کم ٹھہریا ہے تو یہ کتابت جائز نہ ہو گی اور جو بدل کتابت اپنا فائدہ دیکھ کر ٹھہرایا ہے تو جائز ہو گی۔

 

کہا مالک نے جو شخص اپنی مکاتبہ لونڈی سے صحبت کرے اور وہ حاملہ ہو جائے تو اس لونڈی کو اختیار ہے چاہے وہ ام ولدبن کر رہے چاہے اپنی کتابت قائم رکھے اگر حاملہ نہ ہو تو وہ مکاتب رہے گی۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ جو غلام دو آدمیوں میں مشترکہ ہو اس کو کوئی مکاتب نہیں کر سکتا اگرچہ دوسرا شریک اجازت بھی دے بلکہ دونوں شریک مل کر مکاتب کر سکتے ہیں کیونکہ اگر ایک شریک اپنے حصہ کو مکاتب کر دے گا اور مکاتب بدل کتابت ادا کر دے گا تو اس قدر حصہ آزاد ہونا پڑے گا اب اس شریک پر جس نے کچھ حصہ آزاد کیا لام نہیں کہ دوسرے شریک کو ضمانت دے کر اس کی آزادی پوری کرے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ حکم فرمایا ہے دوسرے شریک کے حصہ کی قیمت ادا کرنے کا وہ عتاق میں ہے نہ کی کتابت میں۔

 

کہا مالک نے اگر اس شریک کو یہ مسئلہ معلوم نہ ہو وہ اپنے حصہ کو مکاتب کر کے کل یا بعض بدل کتابت وصول کرے تو جس قعف وصول کیا ہو اس کو وہ اور اس کا شریک اپنے حصوں کو موافق بانٹ لیں کتابت باطل ہو جائے گی اور وہ مکاتب بدستور غلام رہے گا۔

 

کہا مالک نے جو مکاتب دو آدمیوں میں مشترک ہو پھر ایک آدمی ان میں سے اس کو مہلت دے اور دوسرا نہ دے اور جس شخص نے مہلت نہ دی وہ اپنا کچھ حق وصول کر لے بعد اس کے مکاتب مر جائے اور اس قدر مال نہ چھوڑے کہ اس کے بدل کتابت کو کافی ہو تو جس قدر مال چھوڑ گیا ہے تو پہلے دونوں شریک اپنے اپنے بقایا وصول کر کے جو کچھ بچے گا برابر بانٹ لیں گے۔ اگر مکاتب عاجز ہو گا اور جس شخص نے مہلت نہ دی اس نے دوسرے شریک کی نسبت کچھ زیادہ وصول کر لیا ہے تو غلام دونوں میں آدھا آدھا مشترک رہے گا اور جس نے زیادہ لیا ہے وہ اپنے شریک کو کچھ نہ پھیرے گا کیونکہ اس نے اپنے شریک کی اجازت سے لیا ہے۔ اگر ایک نے اپنا حصہ معاف کر دیا تھا اور دوسرے نے کچھ وصول کیا پھر غلام عاجز ہو گیا تو وہ غلام دونوں میں مشترک رہے گا اور جس نے کچھ وصول کر لیا ہے وہ دوسرے شریک کو کچھ نہ دے گا کیونکہ اس نے اپنا حق وصول کیا اس کی مثال یہ ہے کہ دو آدمیوں کا قرض ایک ہی دستاویز کی فو سے ایک آدمی پر ہو پھر ایک شخص اس کو مہلت دے اور دوسرا حرض کر کے کچھ وصول کر لے بعد اس کے قرض دار مفلس ہو جائے پھر جس شخص نے وصول کر لیا ہے وہ دوسرے شریک کو اس میں سے کچھ نہ دے گا۔

 

               کتابت میں ضمانت کا بیان

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ امر اتفاقی ہے کہ چند غلام اگر ایک ہی عقد میں مکاتب کیے جائیں تو ایک کا بار دوسرے کو اٹھانا پڑے گا اگر ان میں سے کوئی مر جائے تو بدل کتابت کم نہ ہو گا اگر کوئی ان میں سے عاجز ہو کر ہاتھ پاؤں چھوڑ دے تو اس کے ساتھیوں کو چاہیے کہ موافق طاقت کے اس سے مزدوری کرائیں اور بدل کتابت کے ادا کرنے میں مدد لیں اگر سب آزاد ہوں گے وہ بھی آزاد ہو گا اور جو سب غلام ہوں گے وہ بھی غلام ہو گا۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ امر اتفاقی ہے کہ بدل کتابت کی ضمانت نہیں ہو سکتی تو غلام کو جب مولیٰ مکاتب کرے تو بدل کتابت کی ضمانت اگر غلام عاجز ہو جائے یا مر جائے کسی سے نہیں لے سکتا نہ یہ مسلمانوں کا طریقہ ہے کیونکہ اگر کوئی شخص مکاتب کے بدل کتابت کا ضامن ہو اور مولیٰ اس پیچھا کرے ضامن سے بدل کتابت وصول کرے تو یہ وصول کرنا ناجائز طور پر ہو گا کیونکہ ضامن نے نہ مکاتب کو خرید کیا تاکہ جو مالک دیا ہے اس کے عوض میں آ جائے نہ مکاتب آزاد ہوا کہ وہ مالک اس کی آزادی کا بدلہ ہو بلکہ مکاتب جب عاجز ہو گیا تو پھر اپنے مولیٰ کا غلام ہو گیا اس کی وجہ یہ ہے کہ کتابت دین صحیح نہیں جس کی ضمانت درست ہو۔

 

کہا مالک نے جب غلام ایک ہی عقد میں مکتب کیے جائیں اور ان میں آپس میں ایسی قرابت نہ ہو جس کے سبب سے ایک دوسرے وارث نہ ہوں تو وہ سب ایک دوسرے کے کفیل ہوں گے کوئی ان میں سے بغیر دوسرے کے آزاد نہ ہو سکے گا۔ یہاں تک کہ بدل کتابت پورا پورا ادار کر دیں اگر ان میں سے کوئی مر جائے اور اس قدر مال چھوڑ گیا جو وسب کے بدل کتابت سے زیادہ ہے تو اس مال میں سے بدل کتابت ادا کیا جائے گا اور جو کچھ بچ رہے گا مولیٰ لے لے گا اس کے ساتھیوں کو نہ ملے گا پھر ایک غلام کی آزادی میں جس قدر روپیہ اس مال میں صرف ہوا ہے اس کو مولیٰ ہر ایک غلام سے مجرا لے گا۔ کیونکہ جو غلام مر گیا ہے وہ ان کا کفیل تھا جس قدر روپیہ اس کا ان کی آزادی میں اٹھا ان کو ادا کرنا پڑے گا۔ اگر اس مکاتب کا جو مر گیا کوئی آزاد لڑکا ہو جو حالت کتابت میں پیدا نہ ہوا ہو نہ عقد کتابت اس پر واقع ہوا ہو تو وہ اس کا وارث نہ ہو گا کیونکہ مکاتب مرتے وقت آزاد نہ تھا۔

 

               مکاتب سے قطاعۃ کر نے کا بیان

 

حضرت ام سلمہ اپنے مکاتبوں سے قطاعت کرتیں سونے چاندی پر۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ امر اتفاقی ہے کہ جو مکاتب دو آدمیوں میں مشترک ہو تو ایک شریک کو جائز نہیں کہ بغیر دوسرے شریک کی اذن کے اپنے حصے کی قطاعت کرے کیونکہ غلام اور اس کا مالک دونوں میں مشترک ہے ایک کو نہیں پہنچتا کہ اس کے مال میں تصرف کرے بغیر دوسرے شریک کے پوچھے ہوئے اگر ایک شریک نے قطاعت کے بغیر دوسرے سے پوچھے ہوئے اور زر قطاعت وصول کر لیا بعد اس کے مکاتب کچھ مال چھوڑ کر مرگیا تو قطاعت کر چکا اس کو اس مکاتب کے مالک میں استحقاق نہ ہو گا نہ یہ ہو سکے گا کہ زر قطاعت کو پھیر دے اور اس مکاتب کو پھر غلام کر لے البتہ جو شخص اپنے شریک کے اذن سے قطاعت کرے پھر مکاتب عاجز ہو جائے اور قطاعت کرنے والا یہ چاہے کہ زر قطاعت پھیر کر اس غلام کا اپنے حصے کے موافق مالک ہو جائے تو ہو سکتا ہے۔ اگر مکاتب مر جائے اور مال چھوڑ جائے تو جس شریک نے قطاعت نہیں کی اس کا بدل کتابت ادا کر کے جو کچھ مال بچے گا اس کو دونوں شریک اپنے حصے کے موافق بانٹ لیں گے اگر ایک نے قطاعت کی اور دوسرے نے نہ کی اور دوسرے نے نہ کی بعد اس کے مکاتب عاجز ہو گیا تو جس نے قطاعت کی اس سے کہا جائے گا اگر تجھ کو منظور ہے تو جس قدر روپیہ تو نے قطاعت کا لیا ہے اس کا آدھا اپنے شریک کو پھیر دے غلام تم دونوں میں مشرت رہے گا ورنہ پورا غلام اس شخص کا ہو جائے گا جس نے قطاعت نہیں کی۔

 

کہا مالک نے جو مکاتب دو آدمیوں میں مشترک ہو ایک آدمی ان میں سے قطاعت کرے دوسرے کے اذن سے پھر جس نے قطاعت نہیں کی وہ بھی اسی قدر غلام سے وصول کرے جتنا قطاعت کرنے والے نے وصول کیا ہے یا اس سے زیادہ بعد اس کے مکاتب عاجز ہو جائے تو قطاعت والا قطاعت نہ کرنے والے سے کچھ پھیر نہ سکے گا اگر دوسرے شریک نے قطاعت سے کم وصول کیا پھر غلام عاجز ہو گیا تو قطاعت والے کو اختیار ہے اگر چاہے تو جتنی قطاعت زیادہ ہے اس کا نصف اپنے شریک کو دے کر غلام میں آدھم ساجھا کریں اگر نہ دے تو سارا غلام دوسرے شریک کا جائے گا اگر مکاتب مر جائے اور مال چھوڑ گیا اور قطاعت والے نے چاہا کہ جتنا زیادہ لیا ہے اس کا نصف اپنے شریک کو پھیر دے اور میراث میں شریک ہو جائے تو ہو سکتا ہے اور جس نے قطاعت نہیں کی وہ بھی مکاتب سے قطاعت کے برابر یا اس سے زیادہ وصول کر چکا ہے اس صورت میں میراث دونوں کے ملے گی کیونکہ ہر ایک نے اپنا حق وصول کر لیا۔

 

کہا مالک نے جو مکاتب دو آدمیوں میں مشترک ہو ایک اس سے قطاعت کرے اپنے حق کے نصف پر دوسرے کے اذن سے پھر جس نے قطاعت نہیں کی وہ بھی مکاتب سے قطاعت سے کم وصول کرے بعد اس کے مکاتب عاجز ہو جائے تو قطاعت والا اگر چاہے جتنی قطاعت زیادہ ہے اس کا آدھا اپنے شریک کو دے کر غلام میں آدھم ساجھا کر لیں ورنہ اس قدر حصہ غلام کا دوسرے شریک کا ہو جائے گا۔

 

کہا مالک نے اس کی شرح یہ ہے کہ مثلاً ایک غلام دو آدمیوں میں مشترک ہو دونوں مل کر اس کو مکاتب کریں پھر ایک شریک اپنے نصف حق پر غلام سے قطاعت کر لے یعنی پورے غلام کے ربع پر بعد اس کے مکاتب عاجز ہو جائے تو جس نے قطاعت کی ہے اس سے کہا جائے گا کہ جس قدر تو نے زیادہ لیا ہے اس کا نصف اپنے شریک کو پھیر دے اور غلام میں آدھم ساجھا رکھ اگر وہ انکار کرے تو قطاعت والے کا ربع غلام بھی اس شریک کو مل جائے گا اس صورت میں اس شریک کے تین ربع ہوں گے اور اس کا ایک ربع۔

 

کہا مالک نے اگر مکاتب سے اس مولیٰ قطاعت کرے اور وہ آزاد ہو جائے اور جس قدر قطاعت کا روپیہ مکاتب پر رہ جائے وہ اس پر قرض ہے بعد اس کے مکاتب مر جائے اور وہ مقروض ہو لوگوں کا تو مولیٰ دوسرے قرض خواہوں کے برابر نہ ہو گا بلکہ اس مال میں سے پہلے اور قرض خواہ اپنا قرضہ وصول کریں گے۔

 

کہا مالک نے جو مکاتب مقروض ہو اس سے مولیٰ قطاعت نہ کرے ایسا نہ ہو کہ وہ غلام آزاد ہو جائے بعد اس کے سارا مال اس کا قرض خواہوں کو مل جائے مولیٰ کو کچھ نہ ملے گا۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے اگر کوئی شخص اپنے غلام کو مکاتب کرے پھر اس سے سونے پر قطاعت کرے اور بدل کتابت معاف کر دے اس شرط سے کہ زر قطاعت فی الفور دے دے تو اس میں کچھ قباحت نہیں ہے اور جس شخص نے اس کو مکروہ رکھا ہے اس نے یہ خیال کیا کہ اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص کا میعادی قرضہ کسی پر ہو وہ اس کے بدلے میں کچھ نقد لے کر قرضہ چھوڑ دے حالانکہ یہ قرض کی مثل نہیں ہے بلکہ قطاعت اس لیے ہوتی ہے کہ غلام جلد آزاد ہو جائے اور اس کے لیے میراث اور شہادت اور حدود لازم آ جائیں اور حرمت عتاقہ ثابت ہو جائے اور یہ نہیں لے کہ اس نے روپیوں کو روپیوں کے عوض میں یا سونے کو سونے کے عوض میں خریدا بلکہ اس کی مثال یہ ہے۔ ایک شخص نے اپنے غلام سے کہا تو مجھے اس قدر اشرفیاں لادے اور تو آزاد ہے پھر اس سے کم کر کے کہا اگر اتنے بھی لادے تو بھی تو آزاد ہے۔ کیونکہ بدل کتابت دین صحیح نہیں ہے ورنہ جب مکاتب مر جاتا تو مولیٰ بھی اور قرض خواہوں کے برابر اس کے مال کا دعویٰ دار ہوتا ہے۔

 

               مکاتب کسی شخص کو زخمی کرے

 

کہا مالک نے اگر مکاتب کسی شخص کو ایسا زخمی کرے جس میں دیت واجب ہو تو اگر مکاتب اپنے بدل کتابت کے ساتھ دیت بھی ادا کر سکے تو دیت ادا کر دے وہ مکاتب بنا رہے گا اگر اس پر قدر نہ ہو تو اپنی کتابت سے عاجز ہوا کیونکہ دیت کا ادا کرنا کتابت پر مقدم ہے پھر جب دیت دینے سے عاجز ہو جائے تو اس کے مولیٰ کو اختیار ہے اگر چاہے تو دیت ادا کر دے اور مکاتب کو غلام سمجھ کر رکھ لے اب وہ بدستور اس کا غلام ہو جائے گا اگر چاہے تو خود مکاتب کو اس شخص کے حوالے کر جو زخمی ہوا ہے مگر مولیٰ پر لازم نہیں ہے کہ غلام دے ڈالنے سے زیادہ اور کچھ اپنا نقصان کرے۔

 

کہا مالک نے اگر چند غلام ایک ساتھ مکاتب ہوں پھر ان میں سے ایی غلام کسی شخص کو زخمی کرے تو سب غلاموں سے کہا چائے گا دیت ادا کرو اگر ادا کریں گے اپنی کتابت پر قائم رہیں گے اگر نہ کریں گے سب کے سب عاجز سمجھے جائیں گے چاہے جس غلام نے زخمی کیا ہے اس کو حوالے کر دے باقی غلام بدستور مولیٰ کے غلام ہو جائیں گے کیونکہ وہ دیت دینے سے عاجز ہو گئے۔

 

کہا مالک نے اس کی شرح یوں ایک شخص نے اپنے غلاموں کو تین ہزار درہم پر مکاتب کیا اور اس کے زخم کی دیت ایک ہزار درہم وصول پائی تو اب جب وہ مکاتب دو ہزار درہم ادا کر دے گا آزاد ہو جائے گا اگر مولیٰ کے اس غلام پر ہزارہی درہم بابت کتابت کے باقی تھے کہ ایک ہزار درہم دیت کے پائے تو ہو آزاد ہو جائے گا اور جس قدر درہم باقی تھے اس سے زیادہ دیت کے درہم پائے تو مولیٰ جتنے باقی تھے اتنے لے کر باقی مکاتب کو پھیر دے گا اور مکاتب آزاد ہو جائے گا یہ درست نہیں کہ مکاتب کی دیت اسی کو حوالہ کر دیں وہ کھا پی کر برابر کر دے پھر اگر عاجز ہو جائے تو کانا لنگڑا لولا ہو کر اپنے مولیٰ کے پاس آئے کیونکہ مولیٰ نے اس کو اختیار دیا تھا اس کے مال اور کمائی پر نہ اپنی اولاد کی قیمت یا اپنی دیت پر کہ وہ کھا پی کر برابر کر دے بلکہ مکاتب کی دیت اور اس کی اولاد کی دیت جو حالت کتابت میں پیدا ہوئی یا ان پر عقد کتابت ہوا مولیٰ کو دی جائے گی اور اس کے بدل کتابت میں مجرا ہو گی۔

 

               مکاتب کی کتابت کو بیچنے کا بیان

 

کہا مالک نے جو شخص اپنے غلام کو روپیوں اشرفیوں پر مکاتب کرے وہ اس کی کتابت کو کسی اسباب کے بدلے میں بیچے مگر نقدا نقد وعدے پر نہیں کیونکہ اگر وعدہ کرے گا تو کالی کی بیع بعوض کالی کے ہو جائے گی یعنی دین کی بعوض دین کے اور اگر کسی مال پر مکاتب کیا ہو جیسے اونٹ یا گائے یا بکریاں یا غلاموں پر تو مشتری کو جائز ہے کہ روپیہ اشرفی دے کر اس کی کتابت خرید لے یا دوسری جنس دے کر سوا اس جنس کے جس پر مکاتب ہوا ہے مگر یہ ضروری ہے کہ دام نقدا نقد دے دیر نہ کرے۔

 

کہا مالک نے اگر چند شریک ہیں ایک مکاتب میں ان میں سے ایک شریک نے اپنا حصہ کتابت بیچنا چاہا ثلث یا ربع یا نصف تو مکاتب کو مثل شفیع کے یہ جبر نہیں پہنچتا کہ اس حصے کو خود خریدے کیونکہ یہ خرید مثل قطاعت کے ہے اور مکاتب کو یہ درست نہیں کہ اپنے شریک سے قطاعت کر لے مگر اور شریکوں کے اذن سے اور اس قدر حصہ خریدنے سے اس کو پوری آزادی بھی حاصل نہیں ہوتی اور اپنے مال پر قادر نہیں ہے بلکہ تھوڑا حصہ خریدنے میں یہ بھی خیال ہے کہ عاجز ہو جائے کیونکہ اس کا مال اس خرید میں صرف ہو جائے گا اور یہ اس کی مثل نہیں ہے کہ مکاتب اپنے تئیں پورا پورا خرید لے ہاں جس صورت میں باقی شرکاء بھی اجازت دیں تو اوروں سے زیادہ اس کو اس حصے کے خریدنے کا استحقاق ہو گا۔

 

کہا مالک نے مکاتب کی قسط کی بیع درست نہیں کیونکہ اس میں دھوکہ ہے اس واسطے کہ اگر مکاتب عاجز ہو گیا تو اس کے ذمے جو روپیہ تھا باطل ہو گیا اور اگر مکاتب مر گیا یا مفلس ہو گیا اور اس پر لوگوں کے قرضے ہیں تو جس شخص نے اس کی قسط خریدی تو وہ قرض خواہوں کے برابر نہ ہو گا بلکہ مثل مکاتب کے مولیٰ کے ہو گا اور مولیٰ مکاتب کے قرض خواہوں کے برابر نہیں ہوتا اسی طرح خراج مولیٰ کا اگر غلام کے ذمے پر جمع ہو جائے تب بھی مولیٰ اور قرض خواہوں کے برابر نہ ہو گا۔

 

کہا مالک نے مکاتب اگر اپنی کتابت کو خرید لے نقد روپیہ اشرفی کے بدلے میں یا کسی اسباب کے بدلے میں جو بدل کتابت کی جنس سے نہ ہو یا اسی جنس سے مؤجل ہو یا معجل ہو تو درست ہے۔

 

کہا مالک نے اگر مکاتب مر جائے اور اپنی ام ولد اور اولاد صغار کو جو اسی ام ولد سے ہو یا کسی اور عورت سے چھوڑ جائے اور اولاد اس کی محنت مزدوری پر قادر نہ ہو اور کتابت سے عاجز ہو جانے کا خوف ہو تو ام ولد کو بیچ ڈالیں گے جب اس کی قیمت اس قدر ہو کہ بدل کتابت پورا پورا ادا ہو سکے کیونکہ مکاتب کو اگر خوف ہوتا عجز کا تو وہ اس ام ولد کو بیچ سکتا ہے اسی طرح اولاد پر جب خوف ہو گا عجز کا تو ان کے باپ کی ام ولد بیچی جائے گی اور وہ آزاد ہو جائیں گے اگر اس ولد کی قیمت بدل کتابت کو مکتفی نہ ہو اور ام ولد سے محنت مزدوری نہ ہو سکے نہ مکاتب کی اولاد سے تو سب کے سب اپنے مولیٰ کے غلام ہو جائیں گے۔

 

کہا مالک نے جو شخص مکاتب کی کتابت خریدے پھر مکاتب مر جائے قبل اپنی کتابت ادا کرنے کے تو جس شخص نے کتابت خریدی ہے وہی اس کا وارث ہو گا اگر مکاتب عاجز ہو جائے تو اسی کا غلام ہو جائے گا اور اگر مکاتب نے بدل کتابت اس شخص کو ادا کر دیا اور عاجز ہو گیا تو ولاء اس شخص کو ملے گی جس نے اس کو مکاتب کیا تھا نہ کہ اس شخص کو جس نے اس کی کتابت خریدی تھی۔

 

 

 

               مکاتب کی محنت مزدوری کا بیان

 

عروہ بن زبیر اور سلیمان بن یسار سے سوال ہوا جو شخص اپنے لیے اور اپنے بیٹوں کو مکاتب کرے اور پھر مر جائے تو اس کے بیٹے بدل کتابت کے ادا کرنے میں محنت مزدوری کریں گے یا غلام رہیں گے انہوں نے کہا سعی کریں گے اپنے باپ کی کتابت میں اور ان کے باپ کے مر جانے کی وجہ سے بدل کتابت میں کچھ کمی نہ ہو گی۔

 

کہا مالک نے اگر مکاتب کے بیٹے کمسن ہوں محنت مزدوری نہ کر سکیں تو ان کے بڑے ہونے کا انتظار نہ کیا جائے گا اور اپنے باپ کے مولیٰ کے غلام ہو جائیں گے مگر جس صورت میں مکاتب اس قدر مال چھوڑ جائے جو ان کے بلوغ تک کی قسطوں کو کافی ہو اس صورت میں بلوغ تک انتظار کیا جائے گا بعد بلوغ کے اگر بدل کتابت کو ادا کر دیں تو آزاد ہو جائیں گے اور اگر عاجز ہو جائیں تو غلام ہو جائیں گے۔

 

کہا مالک نے اگر مکاتب مر جائے اور اس قدر مال چھوڑ جائے جو بدل کتابت کو مکتفی نہ ہو اور اپنی اولاد اور ام ولد کو جو کتابت میں داخل ہو چھوڑ جائے پھر ام ولد یہ چاہے وہ مال لے کر اولاد کے اور اپنے آزاد کرنے میں محنت مزدوری کرے تو اگر وہ ام ولد معتبر اور مشقت محنت پر قادر ہو تو وہ مال اس کے حوالے کیا جائے گا ورنہ وہ مال مولیٰ لے لے گا اور ام ولد اور مکاتب کی اولاد غلام ہو جائیں گے مولیٰ کے۔

 

کہا مالک نے اگر چند غلام ایک ہی وقت میں مکاتب کیے جائیں اور ان میں آپس میں کوئی قرابت نہ ہو پھر بعض ان میں سے عاجز ہو جائیں اور بعض محنت مزدوری کر کے بدل کتابت ادا کریں تو سب آزاد ہو جائیں گے پھر جن لوگوں نے محنت مزدوری کی ہے وہ ان لوگوں سے عاجز ہو گئے تھے ان کا حصہ پھیر لیں گے۔

 

               اگر مکاتب جو قسطیں مقرر ہوئی تھیں اس سے پہلے بدل کتابت ادا کر دے تو آزاد ہو جائے گا

 

ربیعہ بن ابی عبدالرحمن وغیرہ سے روایت ہے کہ فرافصۃ بن عمیر کا ایک مکاتب تھا جو مدت پوری ہونے سے پہلے سب بدل کتابت لے کر آیا فرافصہ نے اس کے لینے سے انکار کیا مکاتب مروان کے پاس گیا جو حاکم تھا مدینہ کا اس سے بیان کیا مروان نے فرافصہ کو بلا بھیجا اور کہا بدل کتابت لے لے فرافصہ نے انکار کیا مروان نے حکم کیا کہ مکاتب سے وہ مال لے کر بیت المال میں رکھا جائے اور مکاتب سے کہا جا تو آزاد ہو گیا جب فرافصہ نے یہ حال دیکھا تو مال لے لیا۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ مکاتب اگر اپنی سب قسطوں کو مدت سے پیشتر ادا کر دے تو درست ہے اس کے مولی کو درست نہیں کہ لینے سے انکار کرے کیونکہ مولیٰ اس کے سبب سے ہر شرط کو اور خدمت کو اس کے ذمے سے اتار دیتا ہے اس لیے کہ کسی آدمی کی آزادی پوری نہیں ہوتی جب تک اس کی حرمت تمام نہ ہو اور اس کی گواہی جائز نہ ہو اور اس کو میراث کا استحقاق نہ ہو اور اس کے مولیٰ کو لائق نہیں کہ بعد آزادی کے اس پر کسی کام یا خدمت کی شرط لگائے۔

 

کہا مالک نے جو مکاتب سخت بیمار ہو جائے اور یہ چاہے کہ سب قسطیں اپنے مولیٰ کو ادا کر کے آزاد ہو جائے تاکہ اس کے وارث میراث پائیں جو پہلے سے آزاد ہیں اس کی کتابت میں داخل نہیں ہیں تو مکاتب کو یہ امر درست ہے کیونکہ اس سے اس کی حرمت پوری ہوتی ہے اور اس کی گواہی درست ہوتی ہے اور جن آدمیوں کے قرضہ کا اقرار کرے وہ اقرار جائز ہوتا ہے اور اس کی وصیت درست ہوتی ہے اور اس کے مولیٰ کو انکار نہیں پہنچتا اس خیال سے کہ اپنا مال بچانا چاہتا ہے۔

 

 

 

               جب مکاتب آزاد ہو جائے اس کی میراث کا بیان

 

سعید بن مسیب سے سوال ہوا کہ ایک مکاتب دو آدمیوں میں مشترک ہو ایک شخص ان میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے پھر مکاتب مر جائے اور بہت سا مال چھوڑ جائے تو سعید نے کہا جس نے آزاد نہیں کیا اس کا بدل کتابت ادا کر کے باقی جو کچھ بچے گا دونوں شخص بانٹ لیں گے۔

 

کہا مالک نے جب مکاتب آزاد ہو جائے تو اس کا وارث وہ شخص ہو گا جس نے مکاتب کیا یا مکاتب کے قریب سے قریب رشتہ دار مردوں میں سے جس دن مکاتب مرا ہے لڑکا ہو یا اور عصبہ۔

 

کہا مالک نے اس طرح جو شخص آزاد ہو جائے تو اس کی میراث اس شخص کو ملے گی جو آزاد کرنے والے کا قریب سے قریب رشتہ دار ہو لڑکا ہو یا اور کوئی عصبہ جس دن وہ غلام مرا ہے۔

 

کہا مالک نے اگر چند بھائی اکٹھا مکاتب کر دیئے جائیں اور ان کی کوئی اولاد نہ ہو جو کتابت میں پیدا ہوئی ہو یا عقد کتابت میں داخل ہو تو وہ بھائی آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوں گے اگر ان میں سے کسی کا لڑکا ہو گا جو کتابت میں پیدا ہوا ہو یا اس پر عقد کتابت واقع ہوا ہو اور وہ مر جائے تو پہلے اس کے مال میں سے سب کا بدل کتابت ادا کر کے جو کچھ بچ رہے گا وہ اس کی اولاد کو ملے گا اس کے بھائیوں کو نہ ملے گا۔

 

 

 

               مکاتب پر شرط لگانے کا بیان

 

کہا مالک نے جس شخص نے اپنے غلام کو مکاتب کیا سونے یا چاندی پر اور اس کی کتابت میں کوئی شرط لگا دی سفر یا خدمت یا اضحیہ کی لیکن اس شرط کو معین کر دیا پھر مکاتب اپنے قسطوں کے ادا کرنے پر مدت سے پہلے قادر ہو گیا اور اس نے قسطیں ادا کر دیں مگر یہ شرط اس پر باقی ہے تو وہ آزاد ہو جائے گا اور حرمت اس کی پوری ہو جائے گی اب اس شرط کو دیکھیں گے اگر وہ شرط ایسی ہے جو مکاتب کو خود ادا کرنا پڑتی ہے (جیسے سفر یا خدمت کی شرط) تو یہ مکاتب پر لازم نہ ہو گی اور نہ مولیٰ کو اس شرط کے پورا کرنے کا استحقاق ہو گا اور جو شرط ایسی ہے جس میں کچھ دینا پڑتا ہے جیسے اضحیہ یا کپڑے کی شرط تو یہ مانند روپوں اشرفیوں کے ہو گی اس چیز کی قیمت لگا کر وہ بھی اپنی قسطوں کے ساتھ ادا کر دے گا جب تک ادا نہ کرے گا آزاد نہ ہو گا۔

 

کہا مالک نے مکاتب مثل اس غلام کے ہے جس کو مولیٰ آزاد کر دے دس برس تک خدمت کرنے کے بعد اگر مولیٰ مر جائے اور دس برس نہ گزرنے ہوں تو ورثاء کی خدمت میں دس برس پورے کرے گا اور ولاء اس کی اسی کو ملے گی جس نے اس کی آزادی ثابت کی یا اس کی اولاد کو مردوں میں سے یا عصبہ کو۔

 

کہا مالک نے جو شخص اپنے مکاتب سے شرط لگائے تو سفر نہ کرنا یا نکاح نہ کرنا یا میرے ملک میں سے باہر نہ جانا بغیر میرے پوچھے ہوئے اگر تو ایسا کرے گا تو تیری کتابت باطل کر دینا میرے اختیار میں ہو گا۔ اس صورت میں کتابت کا باطل کرنا اس کے اختیار میں نہ ہو گا اگرچہ مکاتب ان کاموں میں سے کوئی کام کرے اگر مکاتب کی کتابت کو مولیٰ باطل کرے تو مکاتب کو چاہیے کہ حاکم کے سامنے فریاد کرے وہ حکم کر دے کہ کتابت باطل نہیں ہو سکتی مگر اتنی بات ہے کہ مکاتب کو نکاح کرنا یا سفر کرنا یا ملک سے باہر جانا بغیر مولیٰ کے پوچھے ہوئے درست نہیں ہے خواہ اس کی شرط ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ آدمی اپنے غلام کو سو دینار کے بدلے میں مکاتب کرتا ہے اور غلام کے پاس ہزار دینار موجود ہوتے ہیں تو وہ نکاح کر کے ان دیناروں کو مہر کے بدلے میں تباہ ہو کر پھر عاجز ہو کر مولیٰ کے پاس آتا ہے نہ اس کے پاس مول ہوتا ہے نہ اور کچھ اس میں سراسر مولیٰ کا نقصان ہے یا مکاتب سفر کرتا ہے اور قسطوں کے دن آ جاتے ہیں لیکن وہ حاضر نہیں ہوتا تو اس میں مولیٰ کا حرج ہوتا ہے اسی نظر سے مکاتب کو درست نہیں کہ بغیر مولیٰ کے پوچھے ہوئے نکاح کرے یا سفر کرے بلکہ ان امورات کا اختیار کرنا مولیٰ کو ہے چاہے اجازت دے چاہے منع کرے۔

 

               مکاتب جب آزاد ہو جائے تو اس کی ولا کا بیان

 

کہا مالک نے مکاتب اپنے غلام کو آزاد نہیں کر سکتا مگر مولیٰ کے اذن سے اگر مولیٰ نے اذن دے دیا پھر مکاتب بھی آزاد ہو گیا تو ولاء اس کی مکاتب کو ملے گی اگر مکاتب آزاد ہونے سے پہلے مر گیا تو اس کی ولاء مکاتب کے مولیٰ کو ملے گی اسی طرح اگر وہ غلام کی آزادی سے پہلے مر گیا جب بھی اس کی ولاء مکاتب کے مولیٰ کو ملے گی۔

 

کہا مالک نے اگر مکاتب نے بھی اپنے غلام کو مکاتب کیا پھر مکاتب کا مکاتب مکاتب سے پہلے آزاد ہو گیا تو اس کی ولاء مکتب کے مولیٰ کو ملے گی جب تک مکاتب آزاد نہ ہو جب مکاتب آزاد ہو جائے گا اس کے مکاتب کی ولاء اس کی طرف لوٹ آئے گی۔ اگر مکاتب بدل کتابت ادا کرنے سے پہلے مر گیا یا عاجز ہو گیا تو اس کی آزاد اولاد اپنے باپ کے مکاتب کی ولاء نہ پائیں گے کیونکہ ان کے باپ کو ولاء کا استحقاق نہیں ہوا تھا اس واسطے کہ وہ آزاد نہیں ہوا تھا۔

 

کہا مالک نے جو مکاتب دو آدمیوں میں مشترک ہو پھر ایک شخص اپنا حق معاف کر دے اور دوسرا نہ کرے پھر مکاتب مر جائے اور مال چھوڑ جائے تو جس شخص نے معاف نہیں کیا وہ اپنا حق وصول کر کے جس قدر مال بچے گا وہ دونوں تقسیم کر لیں گے جیسے وہ غلامی کی حالت میں مرتا کیونکہ جس شخص نے اپنا حق چھوڑ دیا اس نے آزاد نہیں کیا بلکہ اپنا حق معاف کر دیا۔

 

کہا مالک نے اس کی دلیل یہ ہے ایک شخص مر گیا اور ایک مکاتب چھوڑ گیا اور بیٹے اور بیٹیاں بھی چھوڑ گیا پھر ایک بیٹی نے اپنا حصہ آزاد کر دیا تو ولاء اس کے واسطے ثابت نہ ہو گی اگر یہ آزادی ہوتی تو ولاء اس کے لیے ضروری ثابت ہوتی۔

 

کہا مالک نے یہ بھی اس کی دلیل ہے کہ اگر ایک شخص نے اپنا حصہ آزاد کر دیا پھر مکاتب آزاد ہو گیا تو جس شخص نے آزاد کیا ہے اس کو باقی حصوں کی قیمت نہ دینا ہو گی اگر یہ آزادی ہوتی تو اس کو اوروں کے حصے کی قیمت بموجب حدیث سے دینا پڑتی۔

 

کہا مالک نے اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کا طریقہ جس میں کچھ اختلاف نہیں یہ ہے کہ جو شخص ایک حصہ مکاتب میں سے آزاد کر دے تو وہ اس کے مال سے آزاد نہ ہو گا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ولاء اس کو ملتی اس کے شریکوں کو نہ ملتی۔

 

               جس مکاتب کا آزاد کرنا درست نہیں اس کا بیان

 

کہا مالک نے اگر چند غلام ایک ہی عقد میں مکاتب کیے جائیں تو مولیٰ ان میں سے ایک غلام کو آزاد نہیں کر سکتا جب تک باقی مکاتب راضی نہ ہوں اگر وہ کم سن ہوں تو ان کی رضامندی کا اعتبار نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ چند غلاموں میں ایک غلام نہایت ہوشیار اور محنتی ہوتا ہے اس کے سبب سے توقع یہ ہوتی ہے کہ محنت مزدوری کر کے اوروں کو بھی آزاد کرا دے مولیٰ کیا کرتا کہ اسی شخص کو آزاد کر دیتا ہے تاکہ باقی غلام محنت سے عاجز ہو کر غلام ہو جائیں تو یہ جائز نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں باقی غلاموں کا ضرر ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اسلام میں ضرر نہیں ہے۔

 

کہا مالک نے اگر چند غلام مکاتب کیے جائیں اور ان میں کوئی غلام ایسا ہو کہ نہایت بوڑھا ہو یا نہایت کم سن ہو جس کے سبب سے اور غلاموں کو بدل کتابت کی ادا کرنے میں مدد نہ ملتی ہو تو مولیٰ کو اس کا آزاد کرنا درست ہے۔

 

               مکاتب کی اور ام ولد کی آزادی کا بیان

 

کہا مالک نے جو شخص اپنے غلام کو مکاتب کرے پھر مکاتب مر جائے اور ام ولد چھوڑ جائے اور اس قدر مال چھوڑ جائے کہ اس کو بدل کتابت کو مکتفی ہو تو وہ ام ولد مکاتب کے مولیٰ کی لونڈی ہو جائے گی کیونکہ وہ مکاتب مرتے وقت آزاد نہیں ہوا نہ اولاد چھوڑ گیا جس کے ضمن میں ام ولد بھی آزاد ہو جائے۔

 

کہا مالک نے اگر مکاتب اپنے غلام کو آزاد کر دے یا اپنے مال میں سے کچھ صدقہ دے دے اور مولیٰ کو اس کی خبر نہ ہو یہاں تک کہ مکاتب آزاد ہو جائے تو اب مکاتب کو بعد آزادی کے اس صدقہ یا عتاق کا باطل کرنا نہیں پہنچتا البتہ اگر مولیٰ کو قبل آزادی کے اس کی خبر ہو گئی اور اس نے اجازت نہ دی تو وہ صدقہ یا عتاق لغو ہو جائے گا اب پھر مکاتب کو لازم نہیں کہ بعد آزادی کے اس غلام کو پھر آزاد کرے یا صدقہ نکالے البتہ خوشی سے کر سکتا ہے۔

 

               مکاتب کے باب میں وصیت کر نے کا بیان

کہا مالک نے اگر مولیٰ مرتے وقت اپنے مکاتب کو آزاد کر دے تو مکاتب کی اس حالت میں جس میں وہ ہے قیمت لگا دیں گے اگر قیمت اس کی بدل کتابت سے کم ہے تو ثلث مال میں وہ قیمت مکاتب کو معاف ہو جائے گی اور جس قدر بدل کتابت اس پر باقی ہے اس کی مقدار کی طرف خیال نہ آئے گا وہ اگر کسی کے ہاتھ سے مارا جائے تو اس کے قاتل پر قتل کے دن کی قیمت لازم آئے گی اور اگر مجروح ہو تو زخمی کرنے والے پر اس دن کی دیت لازم آئے گی اور ان سب امور میں کتابت کی مقدار کی طرف خیال نہ کریں گے کیونکہ جب تک اس پر بدل کتابت میں سے باقی ہے وہ غلام ہے البتہ اگر بدل کتابت قیمت سے کم باقی ہے تو جس قدر بدل کتابت باقی رہ گیا ہے وہ ثلث مال میں معاف ہو جائے گا گویا میت نے مکاتب کے واسطے اس قدر مال کی وصیت کی۔

 

کہا مالک نے تفسیر اس کی یہ ہے مثلاً قیمت مکاتب کی ہزار درہم ہوں اور بدل کتابت میں اس پر سو درہم باقی ہوں تو گویا مولیٰ نے اس کے لیے سو درہم کی وصیت کی اگر ثلث مال میں سے سو درہم کی وصیت کی اگر ثلث مال میں سے سو درہم نکل سکیں تو آزاد ہو جائے گا۔

 

کہا مالک نے جو شخص اپنے غلام کو مکاتب کرے مرتے وقت تو اس کی قیمت لگا دیں گے اگر ثلث مال میں گنجائش ہو گی تو یہ عقد کتابت جائز ہو گا۔

 

کہا مالک نے اس کی تفسیر یہ ہے کہ غلام کی قیمت ہزار دینار ہو اور مولیٰ اس کو مرتے وقت دو سو دینار کو مکاتب کر گیا اور ثلث مال مولیٰ کا ہزار دینار کے مقدار ہو تو کتابت جائز ہو گی گویا یہ مولیٰ نے وصیت کی اپنے مکاتب کے لیے ثلث مال میں اگر مولیٰ نے اور بھی لوگوں کو وصیتیں کی ہیں اور ثلث مال مکاتب کی قیمت سے زیادہ نہیں ہے تو پہلے کتابت کی وصیت کو ادا کریں گے کیونکہ کتابت کا نتیجہ آزادی ہے اور آزادی اور وصیتوں پر مقدم ہے پھر اور وصیت والوں کو حکم ہو گا کہ مکاتب کا پیچھا کریں اور اس سے اپنی وصیتیں وصول کریں اور میت کے وارثوں کو اختیار ہے چاہیں وصیت والوں کو ان کی وصیتیں ادا کریں اور مکاتب کی کتابت آپ لے لیں اگر چاہیں مکاتب کو اور اس کے بدل کتابت کو وصیت والوں کے حوالے کر دیں کیونکہ ثلث مال مکاتب ہی میں رہ گیا ہے اور اس واسطے کہ جب کوئی شخص وصیت کرے پھر اس کے وارث یہ کہیں کہ یہ وصیت ثلث سے زیادہ ہے اور میت نے اپنے اختیار سے زیادہ تصرف کیا تو اس کے ورثہ کو اختیار ہو گا چاہیں تو وصیت والوں کو ان کی وصیتیں ادا کریں اور چاہیں تو میت کا ثلث مال وصیت والوں کے سپرد کر دیں اگر وارثوں نے مکاتب کو وصیت والوں کے سپرد کر دیا تو بدل کتابت وصیت والوں کا ہو جائے گا اب اگر مکاتب نے بدل کتابت ادا کر دیا تو سب وصیت والے اپنے حصوں کے موافق بانٹ لیں گے اگر مکاتب عاجز ہو گیا تو وصیت والوں کا غلام ہو جائے گا اب وصیت والے اس غلام کو وارثوں پر پھیر نہیں سکتے کیونکہ وارثوں نے اپنے اختیار سے اسے چھوڑ دیا اور اس واسطے کہ وصیت والوں کو جب وہ غلام مل گیا تو وہ اس کے ضامن ہو گئے اگر وہ غلام مر جاتا تو وارثوں سے یہ کچھ نہ لے سکتے اگر مکاتب بدل کتابت ادا کرنے سے پہلے مر گیا اور بدل کتابت سے زیادہ مال چھوڑ گیا تو وہ مال وصیت والوں کو ملے گا اگر مکاتب نے بدل کتابت ادا کر دیا تو وہ آزاد ہو جائے گا اور ولاء اس کی مکاتب کرنے والے کے عصبوں کو ملے گی۔

 

کہا مالک نے جس مکاتب پر مولیٰ کے ہزار درہم آتے ہوں پھر مولیٰ مرتے وقت ہزار درہم معاف کر دے تو مکاتب کی قیمت لگائی جائے گی اگر اس کی قیمت ہزار درہم ہوں گے تو گویا دسواں حصہ کتابت کا معاف ہوا اور قیمت کی رو سے دو سو درہم ہوئے تو گویا دسواں حصہ قیمت کا اس نے معاف کر دیا اس کی مثال ایسی ہے کہ اگر مولیٰ سب بدل کتابت کو معاف کر دیتا تو ثلث مال میں صرف مکاتب کی قیمت کا حساب ہوتا یعنی ہزار درہم کا اگر نصف معاف کرتا تو ثلث مال میں نصف کا حساب ہوتا اگر اس سے کم زیادہ ہو وہ بھی اسی حساب سے۔

 

کہا مالک نے جو شخص مرتے وقت اپنے مکاتب کو ہزار درہم میں سے معاف کر دے مگر یہ نہ کہے کہ کون سی قسط میں یہ معافی ہو گی اول میں یا آخر میں تو ہر قسط میں سے دسواں حصہ معاف کیا جائے گا۔

 

کہا مالک نے جب آدمی اپنے مکاتب کو ہزار درہم اول کتابت یا آخر کتابت میں معاف کر دے اور بدل کتابت تین ہزار درہم ہوں تو مکاتب کی قیمت لگا دیں گے پھر اس قیمت کو تقسیم کریں گے ہر ایک ہزار پر جو ہزار کہ مدت اس کی کم ہے اس کی قیمت کم ہو گی بہ نسبت اس ہزار کے جو اس کے بعد سے اسی طرح جو ہزار سب کے اخیر میں ہو گا اس کی قیمت سب سے کم ہو گی کیونکہ جس قدر میعاد بڑھتی جائے گی اسی قدر قیمت گھٹتی جائے گی پھر جس ہزار پر معافی ہوئی ہے اس کی جو قیمت ان کو پڑے گی وہ ثلث مال میں سے وضع کی جائے گی اگر اس سے کم زیادہ ہو وہ بھی اسی حساب سے ہے۔

 

کہا مالک نے جس شخص نے مرتے وقت ربع مکاتب کی کسی کے لیے وصیت کی اور ربع کو آزاد کر دیا پھر وہ شخص مر گیا بعد اس کے مکاتب مر گیا اور بدل کتابت سے زیادہ مال چھوڑ گیا تو پہلے مولیٰ کے وارثوں کو اور موصی لہ کو جس قدر بدل کتابت باقی تھا دلا دیں گے پھر جس قدر مال بچ جائے گا ثلث اس میں سے موصی لہ کو ملے گا اور دو ثلث وارثوں کو۔

 

کہا مالک نے جس مکاتب کو مولیٰ مرتے وقت آزاد کر دے اور ثلث میں سے وہ آزاد نہ ہو سکے تو جس قدر گنجائش ہو گی اسی قدر آزاد ہو گا اور بدل کتابت میں سے اتنا وضع ہو جائے گا مثلاً مکاتب پر پانچ ہزار درہم تھے اور اس کی قیمت دو ہزار درہم تھی اور میت کا ثلث مال ہزار درہم ہے تو نصف مکاتب آزاد ہو جائے گا اور نصف بدل کتابت یعنی اڑھائی ہزار روپیہ ساقط ہو جائیں گے۔

 

کہا مالک نے اگر ایک شخص نے وصیت کی کہ فلانا غلام میرا آزاد ہے اور فلانے کو مکاتب کرنا پھر ثلث مال میں دونوں کی گنجائش نہ ہو تو آزادی مقدم ہو گی کتابت پر۔

 

               مدبرہ کی اولاد کا بیان

 

کہا مالک نے جو شخص اپنی لونڈی کو مدبر کرے بعد اس کے اس کی اولاد پیدا ہو پھر وہ لونڈی مولیٰ کے سامنے مر جائے تو اس کی اولاد اپنی ماں کی طرح مدبر رہے گی جب مولیٰ مر جائے گا اور ثلث مال میں گنجائش ہو تو آزاد ہو جائے گی۔

 

کہا مالک نے اگر کوئی شخص حاملہ لونڈی کو بیچے مگر اس کے حمل کو نہ بیچے تو درست نہیں کس واسطے کیا معلوم ہے کہ وہ حمل مرد ہے یا عورت خوبصورت ہے یا بدصورت پورا ہے یا لنڈور زندہ ہے یا مردہ تو کس طور سے اس کی قیمت لونڈی کی قیمت میں سے وضع کرے گا۔

 

کہا مالک نے اگر ایک شخص ایک لونڈی یا غلام سو دینار کو خریدے اور قیمت ادا کرنے کی ایک میعاد مقرر کرے (مثلاً ایک مہینے کے وعدے پر) پھر بائع شرمندہ ہو کر خریدار سے کہے کہ اس بیع کو فسخ کر ڈال اور دس دینار مجھ سے نقد یا اس قدر میعاد میں لے لے تو درست ہے اور اگر مشتری شرمندہ ہو کر بائع سے کہے کہ بیع فسح کر ڈال اور دس دینار مجھ سے نقد لے لے یا اس میعاد کے بعد جو ٹھہری تھی تو درست نہیں کیونکہ یہ ایسا ہوا گویا بائع نے اپنے میعاد سے سو دینار کو ایک لونڈی اور دس دینار نقد یا میعادی پر بیع کیا تو سونے کی بیع سونے سے ہوئی میعاد پر اور یہ درست نہیں۔

 

               جب غلام یا لونڈی بکے تو اس کا مال کس کو ملے

 

عبداللہ بن عمر سے روایت ہے حضرت عمر نے فرمایا جو شخص غلام کو بیچے اور اس کے پاس مال ہو تو وہ مال بائع کو ملے گا مگر جب خریدار شرط کر لے کہ وہ مال میں لوں گا۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک اس پر اجماع ہے کہ خریدار اگر شرط کر لے گا اس مال کے لینے کی تو وہ مال اسی کو ملے گا نقد ہو یا کسی پر قرض ہو یا اسباب ہو معلوم ہو یا نہ معلوم ہو اگرچہ وہ مال اس زر ثمن سے زیادہ ہو۔ جس کے عوض میں وہ غلام بکا ہے کیونکہ غلام کے مال میں مولیٰ پر زکوٰۃ نہیں ہے وہ غلام ہی کا سمجھا جائے گا اور اس غلام کی اگر کوئی لونڈی ہو گی تو مولیٰ کو اس سے وطی کرنا درست ہو جائے گا اور اگر یہ غلام آزاد ہو جاتا یا مکاتب تو اس کا مال اسی کو ملتا اگر مفلس ہو جاتا تو قرض خواہوں کو مل جاتا اس کے مولیٰ سے مؤاخذہ نہ ہوتا۔

 

               غلام یا لونڈی کی بیع میں بائع سے کب تک مواخذہ ہو سکتا ہے

 

عبداللہ بن ابی بکر سے روایت ہے کہ ابان بن عثمان اور ہشام بن اسماعیل دونوں نے خطبے میں بیان کیا کہ غلام اور لونڈی کے عیب کی جواب دہی بائع پر تین روز تک ہے خریدنے کے وقت سے اور ایک جواب دہی سال بھر تک ہے۔

 

کہا مالک نے غلام اور لونڈی کو جو عارضہ لاحق ہو تین دن کے اندر وہ بائع کی طرف سے سمجھا جائے گا اور مشتری کو اس کے پھیر دینے کا اختیار ہو گا اور اگر جنون یا جذام یا برص نکلے تو ایک برس کے اندر پھیر دینے کا اختیار ہو گا بعد ایک سال کے پھر بائع سب باتوں سے بری ہو جائے اس کو کسی عیب کی جواب دہی لازم نہ ہو گی اگر کسی نے وارثوں میں سے یا اور لوگوں میں سے ایک غلام یا لونڈی کو پیچا اس شرط سے کہ بائع عیب کی جواب دہی سے بری ہے تو پھر بائع پر جواب دہی لازم نہ ہو گی البتہ اگر جان بوجھ کر اس نے کوئی عیب چھپایا ہو گا تو جواب دہی اس پر لازم ہو گی اور مشتری کو پھیر دینے کا اختیار ہو گا۔ یہ جواب دہی خاص غلام یا لونڈی میں ہے اور چیزوں میں نہیں۔

 

               غلام لونڈی میں عیب نکالنے کا بیان

 

سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے ایک غلام بیچا آٹھ سو درہم کو اور مشتری سے شرط کر لی کہ عیب کی جواب دہی سے میں بری ہوا بعد اس کے مشتری نے کہا غلام کو ایک بیماری ہے تم نے مجھ سے اس کا بیان نہیں کیا تھا پھر دونوں میں جھگڑا ہوا اور گئے عثمان بن عفان کے پاس مشتری بولا کہ انہوں نے ایک غلام میرے ہاتھ بیچا اور اس کو ایک بیماری تھی انہوں نے بیان نہیں کیا عبداللہ بن عمر نے کہا کہ میں نے شرط کر لی تھی عیب کی جواب دہی میں نہ کروں گا حضرت عثمان نے حکم کیا کہ عبداللہ بن عمر حلف کریں میں نے یہ غلام بیچا اور میرے علم میں اس کو کوئی بیماری نہ تھی عبداللہ نے قسم کھانے سے انکار کیا تو وہ غلام پھر آیا عبداللہ پاس اور اس بیماری سے اچھا ہو گیا پھر عبداللہ نے اس کو ایک ہزار پانچ سو درہم کا بیچا۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ مسئلہ اتفاقی ہے کہ جو شخص خریدے ایک لونڈی کو پھر وہ حاملہ ہو جائے خریدار سے یا غلام خرید لے پھر اس کو آزاد کر دے یا کوئی اور امر ایسا کرے جس کے سبب سے اس غلام یا لونڈی کا پھیرنا نہ ہو سکے بعد اس کے گواہ گواہی دیں کہ اس غلام یا لونڈی میں بائع کے پاس سے کوئی عیب تھا یا بائع خود اقرار کر لے کہ میرے پاس یہ عیب تھا یا اور کسی صورت سے معلوم ہو جائے کہ عیب بائع کے پاس ہی تھا تو اس غلام اور لونڈی کی خرید کے روز کے عیب سمیت قیمت لگا کر بے عیب کی بھی قیمت لگا دیں دونوں قیمتوں میں جس قدر فرق ہو اس قدرت مشتری بائع سے پھیر لے۔

 

کہا مالک نے اگر کسی شخص نے ایک غلام خریدا پھر اس میں ایسا عیب پایا جس کی وجہ سے وہ غلام بائع کو بھیر سکتا ہے مگر مشتری کے پاس جب وہ غلام آیا اس میں دوسرا عیب ہو گیا مثلاً اس کا کوئی عضو کٹ گیا یا کانا ہو گیا تو مشتری کو اختیار ہے چاہے اس غلام کو رکھ لے اور بائع سے عیب کا نقصان لے لے چاہے غلام کو واپس کر دے اور عیب کا تاوان دے اگر وہ غلام مشتری کے پاس مر گیا تو عیب سمیت قیمت لگا دیں گے خرید کے روز کی مثلاً جس دن خریدا تھا اس روز عیب سمیت اس غلام کی قیمت اسی دینار تھی اور بے عیب سو دینار تو مشتری بیس دینار بائع سے مجرا لے گا مگر قیمت اس کی لگائی جائے گی جس دن خریدا تھا۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ اگر ایک شخص نے لونڈی خریدی پھر عیب کی وجہ سے اسے واپس کر دیا مگر اس سے جماع کر چکا تھا تو اگر وہ لونڈی باکرہ تھی تو جس قدر اس کی قیمت میں نقصان ہو گیا مشتری کو دینا ہو گا اور اگر ثییبہ تھی تو مشتری کو کچھ دینا نہ ہو گا۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک اس پر اجماع ہے کہ اگر کوئی شخص غلام یا لونڈی یا اور کوئی جانور بیچے یہ شرط لگا کر کہ اگر کوئی عیب نکلے گا تو میں بری ہوں یا بائع عیب کی جواب دہی سے بری ہو جائے گا مگر جب جان بوجھ کر کوئی عیب اس میں ہو اور وہ اس کو چھپائے اگر ایسا کرے گا تو یہ شرط مفید نہ ہو گی اور وہ چیز بائع کو واپس کی جائے گی۔

 

کہا مالک نے اگر ایک لونڈی کو دو لونڈیوں کے بدلے میں بیچا پھر ان دو لونڈیوں میں سے ایک لونڈی میں کچھ عیب نکل جس کی وجہ سے وہ پھر سکتی ہے تو پہلے اس لونڈی کی قیمت لگائی جائے گی جس کے بدلے میں یہ دونوں لونڈیاں آئی ہیں پھر ان دونوں لونڈیوں کی بے عیب سمجھ کر قیمت لگا دیں گے پھر اس لونڈی کے زر ثمن کو ان دونوں لونڈیوں کی قیمت پر تقسیم کریں گے ہر ایک کا حصہ جدا ہو گا بے عیب لونڈی کا اس کے موافق اور عیب دار کا اس کے موافق پھر عیب دار لونڈی اس حصہ ثمن کے بدلے میں واپس کی جائے گی قلیل ہو یا کثیر مگر قیمت دو لونڈیوں کی اسی روز کی لگائی جائے گی جس دن وہ لونڈیاں مشتری کے قبضے میں آئی ہیں۔

 

کہا مالک نے اگر ایک شخص نے ایک غلام خریدا اور اس سے مزدوری کرائی اور مزدوری کے دام حاصل کیے قلیل ہوں یا کثیر بعد اس کے اس غلام میں عیب نکلا جس کی وجہ سے وہ غلام پھیر سکتا ہے تو وہ اس غلام کو پھیر دے اور مزدوری کے پیسے رکھ لے اس کا واپس کرنا ضروری نہیں ہمارے نزدیک جماعت علماء کا یہی مذہب ہے اس کی نظیر یہ ہے کہ اگر ایک شخص نے ایک غلام خریدا اور اس کے ہاتھ سے ایک گھر بنوایا جس کی بنوائی اس کی قیمت سے دوچند سہ چند ہے پھر عیب کی وجہ سے اسے واپس کر دیا تو غلام واپس ہو جائے گا اور بائع کو یہ اختیار نہ ہو گا کہ مشتری سے گھر بنوانے کی مزدوری لے اسی طرح سے غلام کی کمائی بھی مشتری کی رہے گی۔

 

کہا ملک نے اگر ایک شخص نے کئی غلام ایک ہی دفعہ (یعنی ایک ہی عقد میں) خریدے اب ان میں سے ایک غلام چوری کا نکلا یا اس میں کچھ عیب نکلا تو اگر وہی غلام سب غلاموں میں عمدہ اور ممتاز ہو گا اور اسی کی وجہ سے باقی غلام خریدے گئے ہوں تو ساری بیع فسخ ہو جائے گی اور سب غلام پھر واپس دیئے جائیں گے۔ اگر ایسا نہ ہو تو صرف اس غلام کو پھیر دے گا اور زر ثمن میں سے بقدر اس کی قیمت کے حصہ لگا کر بائع سے واپس لے گا۔

 

               لونڈی کو شرط لگا کر بیچنے کا بیان

 

عبد اللہ بن مسعود نے ایک لونڈی خریدی اپنی بی بی زینب ثقفیہ سے ان کی بی بی نے اس شرط سے بیچی کہ جب تم اس لونڈی کو بیچنا عبداللہ بن مسعود اس امر کو حضرت عمر سے بیان کیا انہوں نے کہا تو اس لونڈی سے صحبت مت کر جس میں کسی کی شرط لگی ہو۔

 

عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ وہ کہتے تھے آدمی کو اس لونڈی سے وطی کرنا درست ہے جس پر سب طرح کا اختیار ہو اگر چاہے اس کو بیچ ڈالے چاہے ہبہ کر دے چاہے رکھ چھوڑے جو چاہے سو کر سکے۔

 

کہا مالک نے جو شخص کسی لونڈی کو اس شرط پر خریدے کہ اس کو بیچوں گا نہیں یا ہبہ نہ کروں گا یا اس کی مثل اور کوئی شرط لگا دی تو اس لونڈی سے وطی کرنا درست نہیں کیونکہ جب اس کو اس لونڈی کے بیچنے یا ہبہ کرنے کا اختیار نہیں ہے تو اس کی ملک پوری نہیں ہوئی اور جو لوازم تھے اس کی ملک کے وہ غیر کے اختیار میں رہے اور اس طرح کی بیع مکروہ ہے۔

 

               خاوند والی لونڈی سے وطی کرنا منع ہے

 

ابن شہاب سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے عثمان بن عفان کو ایک لونڈی ہدیہ دی مگر اس کا ایک خاوند تھا اور عبداللہ نے اس لونڈی کو بصرے میں خریدا تھا تو عثمان نے کہا میں اس لونڈی سے وطی نہ کروں گا جب تک اس کا خاوند اس کو چھوڑ نہ دے عبداللہ نے اس خاوند کو راضی کر دیا تو اس نے چھوڑ دیا۔

 

ابی سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ عبدالرحمن بن عوف نے ایک لونڈی خریدی بعد اس کے معلوم ہوا وہ خاوند رکھتی ہے تو اس کو واپس کر دیا۔

 

               جب درخت بیچا جائے تو اس کے پھل اس میں شامل نہ ہوں گے

 

عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص کھجور کا درخت تابیر کیا ہو بیچ تو اس کے پھل بائع کے ہوں گے مگر جس صورت میں مشتری شرط کر لے کہ پھل میرے ہیں۔

 

               جب تک پھلوں کی پختگی معلوم نہ ہو اس کے بیچنے کی ممانعت

 

ابن عمر سے روایت ہے کہ منع کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھلوں کے بیچنے سے یہاں تک کہ ان کی پختگی اور بہتری کا یقین ہو جائے منع کیا بائع کو اور مشتری کو۔

 

حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا پھلوں کے بیچنے سے یہاں تک کہ خوش رنگ ہو جائیں لوگوں نے کہا اس سے کیا مراد ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سرخ یا زرد ہو جائیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کیا اگر اللہ ان پھلوں کو پکنے نہ دے تو کس چیز کے بدلے میں تم میں سے کوئی اپنی بھائی کا مال لے گا۔

 

عمرہ بنت عبدالرحمن سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا پھلوں کی بیع سے یہاں تک کہ آفت کا خوف جاتا رہے۔

 

زید بن ثابت اپنے پھلوں کو اس وقت بیچتے جب ثریا کے تارے نکل آتے۔

 

کہا مالک نے خربوزہ اور ککڑی اور گاجر کا بیچنا درست ہے جب ان کو بہتری کا حال معلوم ہو جائے پھر جو کچھ اگیں وہ فصل کے تمام ہونے تک مشتری کے ہوں گے اس کا کوئی وقت مقرر نہیں ہر جگہ کے دستور اور رواج کے موافق حکم ہو گا اگر قبل اس وقت کے کسی آفت کے سبب نقصان ہو تہائی مال تک تو مشتری کو وہ نقصان مجرا دیا جائے گا تہائی سے کم اگر نقصان ہو تو مجرانہ دیا جائے گا۔

 

               عریہ کے بیان میں

 

زید بن ثابت سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے رخصت دی عریہ والے اپنا میوہ بیچنے کی اٹکل سے۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے رخصت دی عریوں کے بیچنے کی اٹکل سے بشرطیکہ پانچ وسق سے کم ہوں یا پانچ وسق کے اندر ہوں۔

 

کہا مالک نے عریہ کا اندازہ درختوں پر کر لیا جائے گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو جائز رکھا یہ تولیہ یا اقالہ یا شرکت کے مثل ہے اگر یہ اور بیعوں کے مثل ہوتا تو کھانے کی چیزوں کا تولیہ یا اقالہ یا شرکت قبل قبضے کے نا درست ہے یہ بھی درست نہ ہوتا۔

 

               پھلوں اور کھیتوں کی بیع میں آفت کا بیان

 

عمرہ بنت عبدالرحمن سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں ایک شخص نے باغ کے پھل خریدے اور اس کی درستی میں مصروف ہوا مگر ایسی آفت آئی جس سے نقصان معلوم ہوا تو باغ کے مالک سے کہا یا تو پھلوں کی قیمت کچھ کم کر دو یا اس بیع کو فسخ کر ڈالو اس نے قسم کھا لی میں ہرگز نہ کروں گا تب خریداری کر ڈالو اس نے قسم کھا لی میں ہرگز نہ کروں گا تب خریدار کی ماں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے آن کر یہ سب قصہ بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کیا قسم کھا لی اس نے کہ میں یہ بہتری کا کام نہ کروں گا جب مالک باغ کو یہ خبر پہنچی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جیسا خریدار کہے وہ مجھ کو منظور ہے۔

 

عمر بن عبدالعزیز نے حکم کیا مشتری کو نقصان دلانے کا جب کھیت یا میوے کو آفت پہنچے۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہی حکم ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ اس آفت سے تہائی مال یا زیادہ نقصان ہوا ہو اگر اس سے کم نقصان ہو گا اس کا شمار نہیں۔

 

               کچھ پھل یا میوے کا بیع سے مستثنی کرنے کا بیان

 

قاسم بن محمد اپنے باغ کے میووں کو بیچتے پھر اس میں سے کچھ مستثنی کر لیتے۔

 

عبداللہ بن ابی بکر سے روایت ہے کہ ان کے دادا محمد بن عمرہ بن حزم نے اپنے باغ کا میوہ بیچا چار ہزار درہم کو اس میں سے آٹھ سو درہم کے کھجور مستثنی کر لئے اس باغ کا نام افرق تھا۔

 

عمرہ بنت عبدالرحمن اپنے پھلوں کو بیچتیں اور اس میں سے کچھ نکال لیتیں۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ جو آدمی اپنے باغ کا میوہ بچے اس کو اختیار ہے کہ تہائی مال تک مستثنیٰ کرے اس سے زیادہ درست نہیں اور جو سارے باغ میں سے ایک درخت یا درخت کے پھل مستثنی کر لے اور اس کو معین کر دے تو بھی کچھ قباحت نہیں ہے کیونکہ گویا مالک نے سوائے ان درختوں کے باقی کو بیچا اور ان کو نہ بیچا اس امر کا مالک کو اختیار ہے۔

 

 

 

               جو بیع کھجوروں کی مکروہ ہے اس کا بیان

 

عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ کھجور کو کھجور کے بدلے میں برابر برابر بیچو ایک شخص بولا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ کو عامل خبری پر ایک صاع کھجور لے کر دو صاع دیتا ہے کھجور دے کر ایک صاع لیتا ہے وہ بولا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک صاع بہتر کھجور اور ایک صاع بری کھجور کے بدلے میں نہیں آتی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پہلے بری کھجور کو روپوں کے بدلے میں بیچ کر پھر عمدہ کھجور کو خرید کر لے۔

 

ابو سعید اور ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کو عامل مقرر کیا خیبر پر وہ عمدہ کھجور لے کر آیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا سب کھجوریں خبیر کی ایسی ہی ہوتی ہیں وہ بولا نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہم اس کھجور میں سے ایک صاع دو صاع کے بدلے میں یا دو صاع تین صاع کے بدلے میں خرید کیا کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ایسا نہ کرے پہلے بری کھجور کو روپوں کے بدلے میں بیچ کر پھر عمدہ کھجور روپے دے کر خرید لے۔

 

زید بن ابو عیاش سے روایت ہے کہ انہوں نے پوچھا سعد بن ابی وقاص سے کہ جو کے غور اور حجاز میں پیدا ہوتا ہے کے بدلے میں بیچ سکتے ہیں انہوں نے کہا دونوں میں کونسا اچھا ہے بولے جو تو منع کیا اس سے اور سعد نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں سے پوچھا کہ خشک کھجور کو رطب بدلے میں بیچنا کیسا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا رطب جب سوکھ جاتا ہے تو وزن اس کا کم ہو جاتا ہے لوگوں نے کہا ہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا۔

 

 

 

               مزابنہ اور محاقلہ کا بیان

 

عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا مزابنہ اس کو کہتے ہیں کہ درخت پر پھل کھجور یا انگور اندازہ کر کے خشک کھجور یا انگور کے بدلے میں فروخت کی جائیں۔

 

ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا مزابنہ اور محاقلہ سے مزابنہ کے معنی اوپر بیان ہوئے اور محاقلہ اس کو کہتے ہیں کہ گیہوں کا کھیت بدلے میں خشک گیہوں کے بیچے۔

 

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا مزابنہ اور محاقلہ سے دونوں کے معنی اوپر گزرے۔

 

ابن شہاب نے کہا میں نے سعید بن مسیب سے پوچھا کہ زمین کو کرایہ پر دینا سونے اور چاندی کے عوض میں درست ہے بولے ہاں درست ہے کچھ قباحت نہیں ہے۔

 

کہا مالک نے جو چیز ڈھیر لگا کر بیچی جائے اور اس کا وزن اور کیل معلوم نہ ہو تولی اور ناپی ہوئی چیز کے بدلے میں وہ مزابنہ میں داخل ہے (بشرطیکہ ایک جنس ہو) اگر ایک شخص دوسرے سے کہے کہ یہ جو تیرا ڈھیر پڑا ہے گیہوں یا کھجور یا چارہ یا گٹھلیوں یا گھاس یا کسم یا روئی یا ریشم کا اس کو ناپ تول یا شمار اگر قدر سے نکلے تو میں تجھ کو مجرا دوں گا اور جو زیادہ نکلے تو میں لے لوں گا اس قسم کی بیع درست نہیں ہے بلکہ یہ جوئے کے مشابہ ہے۔

 

کہا مالک نے اسی طرح اگر کوئی شخص دوسرے سے کہے کہ یہ کپڑا اتنی ٹوپیوں کو کافی ہے اگر پڑے تو میں دوں گا اور جو بڑھے میں لے لوں گا یا اس کپڑے میں اتنے کرتے بنیں گے اگر کم پڑے میں دے دوں گا اور جو زیادہ ہو لے لوں گا یا اس قدر کھا لوں میں اتنی جوتیاں بنیں گی اگر کم پڑے میں دوں گا زیادہ ہو تو لے لوں گا یا اس قدر دانوں میں اتنا تیل نکلے گا اگر کم نکلے تو میں دوں گا زیادہ نکلے تو میرا ہے یہ سب مزابنہ میں داخل ہے جائز نہیں یا یوں کہے کہ تیرے اس ڈھیر کے بدلے میں پتوں یا گٹھلیوں یا روئی یا تر کاری یا کسم کے اس قدر پتے گٹھلیاں یا روئی یا ترکاری یا کسم تول ناپ کر دیتا ہوں ہر ایک کو اس کی جنس کے ساتھ بیچے تو بھی نادرست ہے۔

 

               پھلوں اور میووں کی بیع کے مختلف مسائل کا بیان

 

کہا مالک نے جو شخص کسی معین درختوں کے پھلوں کو خریدے یا ایک باغ کے میووں کو خریدے یا معین بکریوں کے دودھ کو خریدے تو کچھ قباحت نہیں ہے بشرطیکہ خریدار قیمت ادا کرتے ہی اپنا مال وصول کرنا شروع کر دے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی روپیہ دے کر ایک کپہ میں سے کسی قدر گھی مول لے اس میں کچھ قباحت نہیں ہے اگر کپہ قبل گھی لینے کے پھٹ جائے اور گھی بہہ جائے تو خریدار اپنے روپے پھیر لے گا۔

 

کہا مالک نے مثال اس کی یہ ہے کہ ایک شخص تین ڈھیر کھجور کے لگائے ایک عجوہ کا جو پندرہ صاع ہے اور ایک بیس کا جو دس صاع ہے اور ایک عذق کا جو بارہ صاع ہے پھر مشتری نے کھجور والے دینار دے یا اس شرط سے کہ ان تینوں ڈھیروں میں سے جو میں چاہوں لے لوں گا تو یہ جائز نہیں۔

 

کہا مالک نے اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص اپنے اونٹ یا غلام کو جو درزی یا بڑھئی یا اور کوئی کام کرتا ہو کرایہ کو دے یا مکان کرایہ پر دے اور زر کرایہ پیشگی لے لے بعد اس کے اونٹ یا غلام مر جائے اور گھر گر جائے تو اونٹ والا اسی طرح غلام یا مکان والا حساب کر کے جس قدر اجرت اس کے ذمہ پر باقی رہ گئی ہو واپس کر دے گا فرض کیجئیے کہ اگر مستاجر نے اپنا نصف حق وصول کیا تھا تو نصف اجرت اس کو واپس ملے گی۔

 

کہا مالک نے ان سب صورتوں میں سلف کرنا یعنی اجرت پیشگی دے دینا جب ہی درست ہے کہ اجرت دیتے ہی غلام یا اونٹ یا گھر پر قبضہ کر لے یا رطب توڑنا شروع کر دے یہ نہیں کہ اس میں دیر کرے یا کوئی میعاد ٹھہرائے۔

 

کہا مالک نے یہ سلف مکروہ ہے کہ کوئی شخص اونٹ کا کرایہ دے دے اونٹ والے سے یہ کہے کہ حج کے دنوں میں تیرے اونٹ پر سوار ہوں گا اور ابھی حج میں ایک عرصہ باقی ہو یا ایسا ہی غلام اور گھر میں کہے تو یہ صورت گویا اس طرح پر ہوئی کہ اگر وہ اونٹ یا غلام یا گھر اس وقت تک باقی رہے تو اسی کرایہ سے اس سے منفعت اٹھا لے اور اگر وہ اونٹ یا غلام یا لونڈی واپس کی جائے تو اپنے کرایہ کے پیسے پھیر لے۔

 

کہا مالک نے اگر وہ شخص کرایہ دیتے ہی اونٹ یا غلام یا گھر پر قبضہ کر لیتا تو کراہت جاتی رہتی اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص غلام یا لونڈی خرید کر اپنے قبضے میں لائے اور قیمت ان کی ادا کرے بعد اس کے کسی عیب کی وجہ سے وہ غلام یا لونڈی واپس کی جائے تو مشتری اپنا زر ثمن بائع سے پھیر لے اور اس میں کچھ قباحت نہیں ہے۔

 

کہا مالک نے جو شخص کسی معین غلام یا اونٹ کو کرایہ پر لے اور قبضے کی ایک میعاد مقرر کر دے یعنی یہ کہہ دے کہ فلاں تاریخ سے میں اونٹ یا غلام کو اپنے قبضے و تصرف میں لوں گا تو یہ جائز نہیں کیونکہ نہ مستاجر نے قبضہ کیا اس اونٹ یا غلام پر نہ موجر نے ایسے دین میں سلف کی جس کا دینا مستاجر پر واجب ہے۔

 

               میووں کی بیع کا بیان

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے جو شخص کوئی میوہ تر یا خشک خریدے اس کو نہ بیچے یہاں تک کہ اس پر قبضہ کر لے اور میوے کو میوے سے بدلیں اگر بیچے تو اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے اور جو میوہ لیا ایسا ہے کہ سوکھا کر کھایا جاتا ہے اور رکھا جاتا ہے اس کو اگر میوے کے بدلے میں بیچے اور ایک جنس ہو تو اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے اور برابر بیچے کمی بیشی اس میں درست نہیں البتہ اگر جنس مختلف ہو تو کمی بیشی درست ہے مگر نقدا نقد بیچنا چاہیے اس میں میعاد لگانا درست نہیں اور جو میوہ سُکھایا نہیں جاتا بلکہ تر کھایا جاتا ہے۔ جیسے خربوزہ ککڑی ، ترنج ، کیلا، گاجر، انار وغیرہ اس کو ایک دوسرے کے بدلے میں اگرچہ جنس ایک ہو کمی بیشی کے ساتھ بھی درست ہے جب اس میں میعاد نہ ہو نقدا نقد ہو۔

 

               سونے اور چاندی کی بیع کا بیان مسکوک ہو یا غیر مسکوک

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ حکم کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دونوں سعد کو کہ جتنے برتن سونے اور چاندی کے مال غنیمت میں آئے ہیں

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک دینار کو ایک دینار کے بدلے میں بیچو اور ایک درہم کو ایک درہم کے بدلے میں نہ زیادہ کے بدلے میں۔

 

ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مت بیچو سونے کے بدلے میں سونا مگر برابر نہ زیادہ کرو ایک دوسرے پر اور مت بیچو چاندی کے بدلے میں چاندی کے مگر برابر نہ زیادہ کرو ایک دوسرے پر نہ بیچو کچھ اس میں سے نقد وعدہ پر۔

 

مجاہد سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کے پاس بیٹھا تھا اتنے میں ایک سنار آیا اور بولا اے ابو عبدالرحمن میں سونے کا زیور بناتا ہوں پھر اس کے وزن سے زیادہ دینار لے کر اس کو بیچتا ہوں اور یہ زیادتی اپنی محنت کے عوض میں لیتا ہوں عبداللہ بن عمر منع کرتے رہے یہاں تک کہ عبداللہ بن عمر مسجد کے دروازے پر آئے یا اپنے جانور پر سوار ہونے کو آئے اس وقت عبداللہ بن عمر نے کہا دینار کو بدلے میں دینار کے اور درہم کو بدلے میں درہم کے بیچ اور زیادتی نہ لے یہی وصیت ہے۔

 

حضرت عثمان سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مت بیچو ایک دینار کو دو دینار کے بدلے میں نہ ایک درہم کو دو درہم کے بدلے میں۔

 

عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان نے ایک برتن پانی پینے کا سونے یا چاندی کا اس کے وزن سے زیادہ سونے یا چاندی کے بدلے میں بیچا تو ابو الدردا نے ان سے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس سے منع کرتے تھے مگر برابر برابر بیچنا درست رکھتے تھے معاویہ نے کہا میرے نزدیک کچھ قباحت نہیں ہے ابو الدردا نے کہا بھلا کان میرے عذر قبول کرے گا اگر میں معاویہ کو اس بدلہ دوں میں تو ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث بیان کرتا ہوں اور وہ مجھ سے اپنی رائے بیان کرتے ہیں اب میں تمہارے ملک میں نہ رہوں گا پھر ابو دردا مدینہ میں حضرت عمر کے پاس آئے اور ان سے یہ قصہ بیان کیا حضرت عمر نے معاویہ کو لکھا کہ ایسی بیع نہ کریں مگر برابر تول کر۔

 

حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا مت بیچو سونے کو بدلے میں سونے کے مگر برابر برابر نہ زیادہ کرو ایک کو دوسرے پر اور نہ بیچو چاندی کے بدلے میں چاندی کے مگر برابر نہ زیادہ کرو ایک کو دوسرے پر اور نہ بیچو چاندی کو بدلے میں سونے کے اس طرح پر کہ ایک نقد ہو اور دوسرا وعدے پر بلکہ تجھ سے اگر اتنی مہلت چاہے کہ اپنے گھر میں سے ہو کر آئے تو اتنی بھی اجازت مت دے میں خوف کرتا ہوں تمہارے اوپر سود کا۔

 

حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا بیچو سونے کو سونے کے مگر برابر برابر نہ زیادہ کرو ایک کو دوسرے پر اور نہ بیچو ایک کو دوسرے پر اور نہ بیچو چاندی کو بدلے میں سونے کے اس طرح پر کہ ایک نقد ہو دوسرا وعدہ پر بلکہ تجھ سے اگر اتنی مہلت چاہے کہ اپنے گھر میں سے ہو کر آئے تو اتنی بھی اجازت مت دے میں خوف کرتا ہوں تمہارے اوپر سود کا۔

 

حضرت عمر نے کہا ایک دینار بدلے میں ایک دینار کے چاہے ایک درہم بدلے میں ایک درہم کے اور ایک صاع بدلے میں ایک صاع کے اور نہ بیچو نقد بدلے میں وعدے کے۔

 

سعید بن مسیب کہتے تھے نہیں ربا ہے مگر سونے میں یا چاندی میں یا جو چیز ناپ تول کر بکتی ہے کھانے پینے کی۔

 

سعید بن مسیب کہتے تھے روپیہ اشرفی کا کانٹا گویا ملک میں فساد کرنا ہے۔

 

کہا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اگر سونے کو چاندی کے بدلے میں یا چاندی کو سونے کے بدلے میں ڈھیر لگا کر خریدے تو کچھ قباحت نہیں ہے جب وہ ڈلی ہوں یا زیور ہوں لیکن روپے اشرفی کا خریدنا بغیر گنے ہوئے جائز نہیں بلکہ اس میں دھوکا ہے اور مسلمانوں کے دستور کے خلاف ہے لیکن سونے چاندی کا ڈلا یا زیور جو تل کے بکتا ہے اس کو اٹکل سے خریدنا جیسے گیہوں یا کھجور وغیرہ کو خریدتے ہیں برا نہیں ہے۔

 

کہا مالک نے جو شخص کلام مجید یا تلوار یا انگوٹھی جس میں سونا یا چاندی لگا ہو روپے اشرفی کے بدلے میں خرید کرے تو دیکھیں گے اگر ان چیزوں میں سونا لگا ہوا ہے اور اشرفیوں کے بدلے میں اس کو خرید کیا اور اس چیز کی قیمت دو ثلث سے کم نہیں ہے اور جس قدر سونا اس میں لگا ہوا ہے اس کی قیمت ایک ثلث سے زیادہ نہیں ہے تو درست ہے جب نقدا نقد ہو اسی طرح اگر چاندی لگی ہوئی ہے اور روپیوں کے بدلے میں خرید کیا تب بھی یہی حکم ہے۔

 

               بیع صرف کے بیان میں

 

مالک بن اوس نے کہا مجھے حاجت ہوئی سو دینار کے درہم لینے کی تو مجھے بلایا طلحہ بن عبید اللہ نے پھر ہم دونوں راضی ہوئے صرف کے اوپر اور انہوں نے دینار مجھ سے لے لئے اور ہاتھ سے لٹ پلٹ کرنے لگے اور کہا صبر کرو یہاں تک کہ میرا خزانچی غابہ آ جائے حضرت عمر نے یہ سن کر کہا نہیں قسم خدا کی مت چھوڑنا طلحہ کو بغیر روپے لئے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سونے کا بیچنا چاندی کے بدلے میں ربا ہے مگر جب نقدا نقد ہو اور گیہوں بدلے گیہوں کے بیچنا ربا ہے مگر نقدا نقد اور کھجور بدلے کھجور کے بیچنا رہا ہے مگر نقدا نقد اور جو بدلے جو کے بیچنا رہا ہے مگر نقدا نقد اور نمک بدلے نمک کے بیچنا رہا ہے مگر نقدا نقد۔

 

کہا مالک نے اگر کسی شخص نے روپے اشرفیوں کے بدلے میں لیے پھر اس میں ایک روپیہ کھوٹا نکلا اب اس کو پھیرنا چاہے تو سب اشرفیاں اپنی پھیر لے اور سب روپے اس کے واپس دے دے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سونا بدلے میں چاندی کے ربا ہے مگر جب نقدا نقد ہو اور حضرت عمر نے فرمایا اگر تجھ سے اپنے گھر جانے کی مہلت مانگے تو مہلت نہ دے اگر ایک روپیہ اس کو پھیر دے گا اور اس سے جدا ہو جائے گا تو مثل دین کے یا میعاد کے ہو جائے گا اسی واسطے یہ مکروہ ہے خود اس بیع کو توڑ ڈالنا چاہیے کہ ایک طرف نقد ہو دوسرے طرف وعدہ خواہ ایک جنس یا کئی جنس ہوں۔

 

               مرطلہ کا بیان

 

یزید بن عبداللہ بن قسیط نے کہا سعید بن مسیب کو دیکھا جب سونے کو سونے کے بدلے میں بیچتے تو اپنے سونے کو ایک پلہ میں رکھتے اور دوسرا شخص اپنے سونے کو دوسرے پلے میں رکھتا جب ترازو کا کاٹنا برابر ہو جاتا تو دوسرے کا سونا لے لیتا اور اپنا سونا دے دیتے۔

 

کہا مالک نے جو شخص سونے کو سونے کے بدلے میں تول کر بیچے تو کچھ قباحت نہیں اگرچہ ایک پلڑے میں گیارہ دینار چڑھیں اور دوسری طرف دس دینار جب نقدا نقد ہوں اور وزن برابر ہو اگرچہ شمار میں کم زیادہ ہوں ایسا ہی درہم کا حکم ہے۔

 

               بیع عینہ کا بیان اور کھانے کی چیزوں کو قبل قبضہ کے بیچنے کا بیان

 

عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص طعام خریدے پھر اس کو نہ بیچے جب تک اس پر قبضہ نہ کرے۔

 

عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص اناج خریدے پھر اس کو نہ بیچے جب تک اس پر قبضہ نہ کرے۔

 

عبداللہ بن عمر نے کہا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں اناج خریدتے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے پاس ایک آدمی بھیجتے تھے وہ ہم کو حکم کرتا تھا کہ غلہ اس جگہ سے اٹھا لے جائیں جہاں خریدا ہے قبل اس کے کہ ہم اس کو بیع کریں۔

 

نافع سے روایت ہے کہ حکیم بن حزام نے غلہ خریدا جو حضرت عمر نے لوگوں کو دلوایا تھا پھر حکیم بن حزام نے اس غلہ کو بیچ ڈالا قبضہ سے پہلے جب حضرت عمر کو اس کی خبر پہنچی آپ نے وہ غلہ حکیم بن حزام کو پھروا دیا اور کہا جس غلہ کو تو خریدے پھر اس کو مت بیچ جب تک اس پر قبضہ نہ کر لے۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ مروان بن حکم کے عہد حکومت میں لوگوں کو سندیں ملیں جار کے غلہ کی لوگوں نے ان سندوں کو بیچا ایک دوسرے کے ہاتھ قبل اس بات کے کہ غلہ اپنے قبضہ میں لائیں تو زید بن ثابت اور ایک اور صحابہ مروان کے پاس گئے اور کہا کیا تو ربا کو درست جانتا ہے اے مروان مروان نے کہا معاذاللہ کیا کہتے ہو انہوں نے کہا کہ یہ سندیں جن لوگوں نے خریدا پھر خرید کر دوبارہ بیچا قبلہ غلہ لینے کے مروان نے چوکیدار کو بھیجا کہ وہ سندیں لوگوں سے چھین کر سند والوں کے حوالے کر دیں۔

 

امام مالک کو پہنچا ایک شخص نے اناج خریدنا چاہا ایک شخص سے وعدے پر تو بائع مشتری کو بازار میں لے گیا اور اس کو بورے دکھا کر کہنے لگا کون سے غلہ میں تمہاری واسطے خرید کروں مشتری نے کہا کیا تو میرے ہاتھ اس چیز کا بیچتا ہے جو خود تیرے پاس نہیں ہے پھر بائع اور مشتری دونوں عبداللہ بن عمر کے پاس آئے اور ان سے بیان کیا عبداللہ بن عمر نے مشتری سے کہا مت خریدو اس چیز کو جو بائع کے پاس نہیں ہے اور بائع سے کہا مت بیچ اس چیز کو جو تیرے پاس نہیں ہے۔

 

جمیل بن عبدالرحمن نے سعید بن مسیب سے کہا میں ان غلوں کو جو سرکار کی طرف سے لوگوں کو مقرر ہیں جار میں خرید کرتا ہوں پھر میں چاہتا ہوں کہ غلہ کو میعاد لگا کر لوگوں کے ہاتھ بیچوں سعید نے کہا تو چاہتا ہے ان لوگوں کو اسی غلہ میں سے ادا کرے جو تو نے خریدا ہے جمیل نے کہا ہاں سعید بن مسیب نے اس سے منع کیا۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے جو شخص اناج خرید کرے جیسے گیہوں جو جوار باجرہ ڈالیں وغیرہ جن میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے یا روٹی کے ساتھ کھانے کی چیزیں جیسے زیتون کا تیل یا گھی یا شہد یا سرکہ یا پنیر یا دودھ یا تل کا تیل اور جو اس کے مشابہ ہیں تو ان میں سے کوئی چیز نہ بیچے جب تک ان پر قبضہ نہ کر لے۔

 

               اناج کو میعاد پر بیچنا جس طرح مکروہ ہے اس کا بیان

 

سعید بن مسیب اور سلیمان بن یسار منع کرتے تھے اس بات سے کوئی شخص گیہوں کو سونے کے بدلے میں بیچے میعاد لگا کر پھر قبل سونا لینے کے اس کے بدلے میں کھجور لے لے۔

 

کثیر بن فرقد نے ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم سے پوچھا کوئی شخص اناج کو سونے کے بدلے میں میعاد لگا کر بیچے پھر قبل سونا لینے کے اس کے بدلے میں کھجور خرید لے انہوں نے کہا یہ مکروہ ہے اور منع کیا اس سے۔

 

ابن شہاب سے بھی ایسا ہی مروی ہے۔

 

کہا مالک نے سعید بن المسیب اور سلیمان بن یسار ابوبکر بن محمد اور ابن شہاب نے اس بات سے منع کیا ہے کہ کوئی آدمی گیہوں کو سونے کے بدلے میں بیچے پھر اس سونے کے بدلے کھجور خرید لے اسی شخص نے جس کے ہاتھ گیہوں بیچے قبل اس بات کے کہ سونے پر قبضہ کرے اگر اس سونے کے بدلے میں کسی اور شخص سے کھجور خریدے سوائے اس شخص کے جس کے ہاتھ گیہوں بیچے ہیں اور کھجور کی قیمت کا حوالے کر دے اس شخص پر جس کے ہاتھوں گیہوں بیچے ہیں تو درست ہے۔

 

               اناج میں سلف کر نے کا بیان

 

عبداللہ بن عمر نے کہا کچھ قباحت نہیں اگر ایک مرد دوسرے مرد سے سلف کرے اناج میں جب اس کا وصف بیان کر دے نرخ مقرر کر کے میعاد معین پر جب وہ سلم کسی ایسے کھیت میں نہ ہو جس کی بہتری کا حال معلوم نہ ہو یا ایسی کھجور میں نہ ہو جس کی بہتری کا حال معلوم نہ ہو۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے جو شخص سلف کرے اناج میں نرخ مقرر کر کے مدت معین پر تو جب مدت گزرے اور خریدار بائع کے پاس وہ اناج نہ پائے اور سلف کو مسخ کرے تو خریدار کو چاہیے اپنی چاندی یا سونا دیا ہو یا قیمت دی ہوئی بعینہ پھیر لے یہ نہ کرے کہ اس کے بدلے میں دوسری شئی بائع سے خرید لے جب تک اپنے ثمن پر قبضہ نہ کر لے کیونکہ اگر خریدار نے جو قیمت دی ہے اس کے سوا کچھ لے آیا اس کے بدلے میں دوسرا اسباب خرید لے تو اس نے اناج کو قبل قبضہ کے بیچا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع کیا ہے۔

 

کہا مالک نے اگر مشتری نے بائع سے کہا سلف کو فسخ کر ڈال اور ثمن واپس کرنے کے لیے میں تجھ کو مہلت دیتا ہوں تو یہ جائز نہیں اور اہل علم اس کو منع کرتے ہیں کیونکہ جب میعاد گزر گئی اور اناج بائع کے ذمہ واجب ہو اب مشتری نے اپنے حق وصول کرنے میں دیر کی اس شرط سے کہ بائع سلم کو فسخ کر ڈالے تو گویا مشتری نے اپنے اناج کو ایک مدت پر بیچا قبل قبضے کے۔

 

کہا مالک نے اس کی مثال یہ ہے کہ جب مدت پوری ہوئی اور خریدار نے اناج لینا پسند نہ کیا تو اس اناج کے بدلے میں کچھ روپے ٹھہرا لیے ایک مدت پر تو یہ اقالہ نہیں ہے اقالہ وہ ہے جس میں کمی بیشی بائع یا مشتری کی طرف سے نہ ہو اگر اس میں کمی بیشی ہو گی یا کوئی میعاد بڑھ جائے گی یا کچھ فائدہ مقرر ہو گا بائع کا یا مشتری کا تو وہ اقالہ بیع سمجھا جائے گا اور اقالہ اور شرکت اور تولیہ جب تک درست ہیں کہ کمی بیشی یا میعاد نہ ہو اگر یہ چیزیں ہوں گی تو وہ نئی بیع سمجھیں گے۔ جن وجوہ سے بیع درست ہوتی ہے یہ بھی درست ہوں گی اور جن وجوہ سے بیع نادرست ہوتی ہے یہ بھی نادرست ہو گی۔

 

کہا مالک نے جو شخص سلف میں عمدہ گیہوں ٹھہرائے پھر میعاد گزرنے کے بعد اس سے بہتر یا بری لے لے تو کچھ قباحت نہیں بشرطیکہ وزن وہی ہو جو ٹھہرا ہو یہی حکم انگور اور کھجور میں ہے۔

 

               اناج جب اناج کے بدلے میں بکے تو اس میں کمی بیشی نہیں چاہئے

 

سلیمان بن یسار نے کہا سعد بن ابی وقاص کے گدھے کا چارہ تمام ہو گیا انہوں نے اپنے غلام سے کہا گھر میں سے گیہوں لے جا اور اس کے برابر جو تلوا لا زیادہ مت لیجیو۔

 

ابن معیقب دوسری سے بھی ایسا ہی مروی ہے۔

 

عبدالرحمن بن اسود کے جانور کا چارہ تمام ہو گیا انہوں نے اپنے غلام سے کہا گھر سے گیہوں لے جا اور اس کے برابر جو تلوا لا۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ نہ بیچا جائے گا گیہوں بدلے میں گیہوں کے اور کھجور بدلے کھجور کے اور گیہوں بدلے میں کھجور کے اور کھجور بدلے میں انگور کے مگر نقدا نقد کسی طرف میعاد نہ ہو اگر میعاد ہو گی تو حرام ہو جائے گا اسی طرح جتنی چیزیں روٹی کے ساتھ کھائی جاتی ہیں اگر ان میں سے ایک کو دوسرے کے ساتھ بدلے تو نقدا نقد لے۔

 

کہا مالک نے جتنی کھانے کی چیزیں ہیں یا روٹی کے ساتھ لگانے کی جب جنس ایک ہو تو ان میں کمی بیشی درست نہیں۔ مثلاً ایک مد گیہوں کو دو مد گیہوں کے بدلے میں یا ایک مد کھجور کو دو مد کھجور کے بدلے میں یا ایک مد انگور کو دو مد انگور کے بدلے میں نہ بیچیں گے اسی طرح جو چیزیں ان کے مشابہ ہیں کھانے کی یا روٹی کے ساتھ لگانے کی جب ان کی جنس ایک ہو تو ان میں کمی بیشی درست نہیں اگرچہ نقدا نقد ہو جیسے کوئی چاندی کو چاندی کے بدلے میں اور سونے کو سونے کے بدلے میں اور بیچے تو کمی بیشی درست نہیں بلکہ ان سب چیزوں میں ضروری ہے کہ برابر ہوں۔ اور نقدا نقد ہوں۔

 

کہا مالک نے جب جنس میں اختلاف ہو تو کمی بیشی درست ہے مگر نقدا نقد ہونا چاہیے جیسے کوئی ایک صاع کھجور کو دو صاع گیہوں کے بدلے میں یا ایک صاع کھجور کو دو صاع انگور کے بدلے یا ایک صاع گیہوں کے دو صاع گھی کے بدلے میں خریدے تو کچھ قباحت نہیں جب نقدا نقد ہوں میعاد نہ ہو اگر میعاد ہو گی تو درست نہیں۔

 

کہا مالک نے یہ درست نہیں کہ ایک گیہوں کا بورا دے کر دوسرا گیہوں کا بورا اس کے بدلے میں لے یہ درست ہے کہ ایک گیہوں کا بورا دے کر کھجور کا بورا اس کے بدلے میں لے نقدا نقد کیونکہ کھجور کو گیہوں کے بدلے میں ڈھیر لگا کر اٹکل سے بیچنا درست ہے۔

 

کہا مالک نے جتنی چیزیں کھانے کی یا روٹی کے ساتھ لگانے کی ہیں جب ان میں جنس مختلف ہو تو ایک دوسرے کے بدلے میں ڈھیر لگا کر بیچنا درست ہے جب نقدا نقد ہو اگر اس میں میعاد ہو تو درست نہیں جیسے کوئی چاندی سونے کے بدلے میں ان چیزوں کا ڈھیر لگا کر بیچے تو درست ہے۔

 

کہا مالک نے اگر ایک شخص نے گیہوں تول کر ایک ڈھیر بنایا اور وزن چھپا کر کسی کے ہاتھ بیچا تو یہ درست نہیں۔ اگر مشتری یہ چاہے کہ وہ گیہوں بائع کو واپس کر دے اس وجہ سے کہ بائع نے دیا ہو دانستہ وزن کو اس سے چھپایا اور دھوکا دیا تو ہو سکتا ہے اسی طرح جو چیز بائع وزن چھپا کر بیچے تو مشتری کا اس کے پھیر دینے کا اختیار ہے اور ہمیشہ اہل علم اس بیع کو منع کرتے رہے۔

 

کہا مالک نے ایک روٹی کو دو روٹیوں سے بدلنا یا بڑی روٹی کو چھوٹی روٹی سے بدلنا اچھا نہیں البتہ اگر روٹی کو دوسری روٹی کے برابر سمجھے تو بدلنا درست ہے اگرچہ وزن نہ کرے۔

 

کہا مالک نے ایک مد زبد اور ایک مد لبن کو دو مد زبد کے بدلے میں لینا درست نہیں کیونکہ اس نے اپنے زبد کی عمدگی لبن کے شریک کر کے برابر کر لی اگر علیحدہ لبن کو بیچتا تو کبھی ایک صاع لبن کے بدلے میں ایک صاع زبد نہ آتی۔ اس قسم کا مسئلہ اوپر بیان ہو چکا۔

 

               اناج بیچنے کے مختلف مسائل کا بیان

 

سعید بن مسیب سے محمد بن عبداللہ بن مریم نے پوچھا میں غلہ خرید کرتا ہوں جار کا تو کبھی میں ایک دینار اور نصف درہم کو خرید کرتا ہوں کیا نصف درہم کے بدلے میں اناج دے دوں سعید نے کہا نہیں بلکہ ایک درہم دے دے اور جس قدر باقی رہے اس کے بدلے میں بھی اناج لے لے۔

 

محمد بن سیرین کہتے تھے مت بیچو دانوں کو بالی کے اندر جب تک پک نہ جائے۔

 

کہا مالک نے جو شخص اناج خریدے نرخ مقرر کر کے میعاد معین پر جب میعاد پوری ہو تو جس کے ذمہ اناج واجب ہے (مسلم الیہ) وہ کہے میرے پاس اناج نہیں ہے جو اناج میرے ذمہ ہے وہ میرے ہی ہاتھ بیچ ڈال اتنی میعاد پر وہ شخص (رب السلم) کہے یہ جائز نہیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا ہے اناج بیچنے کو جب تک قبضے میں نہ آئے جس کے ذمہ پر اناج ہے وہ کہے اچھا تو کوئی اور اناج میرے ہاتھ بیچ ڈال میعاد پر تاکہ میں اسی اناج کو تیرے حوالے کر دوں۔ تو یہ درست نہیں کیونکہ وہ شخص اناج دے کر پھیر لے گا اور بائع مشتری کو جو قیمت دے گا وہ گویا مشتری کی ہو گی جو اس نے بائع کو دی اور یہ اناج درمیان میں حلال کرنے والا ہو گا تو گویا اناج کی بیع ہو گی قبل قبضے کے۔

 

کہا مالک نے یہ اس واسطے کہ اہل علم نے ان چیزوں میں رواج اور دستور کا اعتبار رکھا ہے اور ان کو مثل بیع کے نہیں سمجھا اس کی نظیر یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے ناقص کم وزن روپے دیئے پھر مسلم الیہ نے اس کو پورے وزن کے روپے ادا کر دیئے تو یہ درست ہے مگر ناقص روپوں کی بیع پورے وزن کے روپوں کے بدلے میں درست نہیں اگر اس شخص نے سلم کرتے وقت ناقص کم وزن روپے دے کر پورے روپے لینے کی شرط کی تھی تو درست نہ ہو گا۔

 

کہا مالک نے اس کی نظیر یہ بھی کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مزابنہ سے منع کیا اور عرایا کی اجازت دی وجہ یہ ہے کہ مزابنہ کا معاملہ رجارت اور ہوشیاری کے طور پر ہوتا ہے اور عرایا بطور احسان اور سلوک کے ہوتا ہے۔

 

کہا مالک نے یہ درست نہیں کہ ربع یا ثلث درہم یا اور کسی کسر کے بدلے میں اناج خریدے اس شرط پر کہ اس ربع یا ثلث یا کسر کے عوض میں اناج دے گا وعدے پر البتہ اس میں کچھ قباحت نہیں کہ ربع یا ثلث درہم یا کسی کسر کے بدلے میں اناج خریدے وعدے پر جب وعدہ گزرے تو ایک درہم حوالے کر دے اور باقی کے بدلے میں کوئی اور چیز خرید کر لے۔

 

               احتکار کے بیان میں

 

امام مالک کو پہنچا کہ حضرت عمر نے فرمایا ہمارے بازار میں کوئی احتکار نہ کرے جن لوگوں کو ہاتھ میں حاجت سے زیادہ روپیہ ہے وہ کسی ایک غلہ کو جو ہمارے ملک میں آئے خرید کر احتکار نہ کریں اور جو شخص تکلیف اٹھا کر ہمارے ملک میں غلہ لائے گرمی یا جاڑے میں تو وہ مہمان ہے عمر کا جس طرح اللہ کو منظور ہو بیچے اور جس طرح اللہ کو منظور ہو رکھ چھوڑے۔

 

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب حاطب بن ابی بلتعہ کے پاس سے ہو کر گزرے اور وہ انگور بیچ رہے تھے بازار میں حضرت عمر نے فرمایا تو تم نرخ بڑھا دو یا ہمارے بازار سے اٹھ جاؤ۔

 

حضرت عثمان بن عفان منع کرتے تھے احتکار سے۔

 

               جانور کو جانور کے بدلے میں بیچنے کا بیان اور جانور میں سلف کرنے کا بیان

 

حضرت علی نے اپنا اونٹ جس کا نام عصیفیر تھا بیس اونٹوں کے بدلے میں بیچا وعدے پر۔

 

عبد اللہ بن عمر نے ایک سانڈنی چار اونٹوں کے بدلے میں خریدی اور یہ ٹھہرایا کہ ان چار اونٹوں کو زبذہ میں بائع کو پہنچائیں گے۔

 

امام مالک نے ابن شہاب سے پوچھا کہ ایک جانور کے بدلے میں دو جانور بیچنا میعاد پر بیچنا درست ہے انہوں نے کہا کچھ قباحت نہیں۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے ایک اونٹ کو دوسرے اونٹ سے بدلنے میں کچھ قباحت نہیں اس طرح ایک اونٹ اور کچھ روپے دے کر دوسرا اونٹ لے لینے میں اگرچہ اونٹ کو نقد دے اور روپوں کو ادھار رکھے اور روپے نقد دے اور اونٹ کو ادھار رکھے یا دونوں کو ادھار رکھے تو بہتر نہیں ہے۔

 

کہا مالک نے اگر دو تین اونٹ لادنے کے دے کر ایک اونٹ سواری کا خریدے تو کچھ قباحت نہیں اگر ایک نوع کے جانور جیسے اونٹ یا بیل آپس میں ایسا اختلاف رکھتے ہوں کہ ان میں کھلم کھلا فرق ہو تو ایک جانور دے کر دو جانور خریدنا نقد یا ادھار دونوں طرح سے درست ہے اگر ایک دوسرے کے مشابہ ہوں خواہ جنس ایک ہو یا مختلف تو ایک جانور دے کر دو جانور لینا وعدے پر درست نہیں ہے۔

 

کہا مالک نے اس کی مثال یہ ہے کہ جو اونٹ یکساں ہوں ان میں باہم فرق نہ ہو ذات میں اور بوجھ لادنے میں تو ایسے اونٹوں میں سے دو اونٹ دے کر ایک اونٹ لینا وعدے پر درست نہیں البتہ اس میں کچھ قباحت نہیں کہ اونٹ خرید کر قبل قبضہ کرنے کے دوسرے کے ہاتھ بیچ ڈالے جب کہ قیمت اس کی نقد لے لے۔

 

کہا مالک نے جانور میں سلف کرنا درست ہے جب میعاد معین ہو اور اس جانور کے اوصاف اور حلیے بیان کر دے اور قیمت دے دے تو بائع کو اسی طرح کے جانور دینے ہوں گے اور مشتری کو لینے ہوں گے ہمارے شہر کے لوگ ہمیشہ سے ایسا ہی کرتے رہے اور اسی کے قائل رہے۔

 

               جس طرح یا جس جانور کو بیچنا نا درست ہے

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا حبل الحبلہ کی بیع سے یہ بیع ایام جاہلیت میں مروج تھی آدمی اونٹ خریدتا تھا اس وعدے پر کہ جب اونٹنی کا بچہ ہو گا اور پھر بچے کا بچہ اس وقت میں دام لوں گا۔

 

سعید بن مسیب نے کہا حیوان میں ربا نہیں ہے بلکہ حیوان میں تین بیعیں نا درست ہیں ایک مضامیں کی دوسرے ملا قیح کی تیسے حبل الحبلہ کی مضامیں وہ جانور جو مادہ کے شکم میں ہیں ملاقیح وہ جانور جو رن کے پشت میں ہیں حبل الحبلہ کا بیان ابھی ہو چکا ہے ،۔

 

کہا مالک نے معین جانور کی بیع جب وہ غائب ہو خواہ نزدیک ہو یا دور درست نہیں ہے۔ اگرچہ مشتری اس جانور کو دیکھ چکا ہو اور پسند کر چکا ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ بائع مشتری سے دام لے کر نفع اٹھائے گا۔ اور مشتری کو معلوم نہیں وہ جانور صحیح سالم جس طور سے اس نے دیکھا تھا ملے یا نہ ملے البتہ اگر غیر معین جانور کو اوصاف بیان کر کے بیچے تو کچھ قباحت نہیں۔

 

 

 

               جانور کو گوشت کے بدلے میں بیچنا

 

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا جانور کے بیچنے سے گوشت کے بدلے میں۔

 

سعید بن مسیب کہتے تھے یہ بھی جاہلیت کا جوا ہے گوشے کو ایک بکری یا دو بکریوں کے عوض میں بیچنا ،۔

 

سعید بن مسیب کہتے تھے جانور کو گوشت کے بدلے میں بیچنا منع ہے ابولزناد نے کہا میں نے سعید بن مسیب سے پوچھا اگر کوئی شخص دس بکریوں کے بدلے میں ایک اونٹ خرید کرے تو کیسا ہے سعید نے کہا اگر ذبح کرنے کے لئے خرید کرے تو کیسا ہے سعید نے کہا اگر ذبح کرنے کے لئے خرید کرے تو بہتر نہیں ابو لزناد نے کہا میں نے سب عالموں کو جانور کی بیع سے گوشت کے بدلے میں منع کرتے ہوئے پایا اور ابان بن عثمان اور ہشام بن اسماعیل کے زمانے میں عاملوں کے پروانوں میں اس کی ممانعت لکھی جاتی تھی۔

 

               گوشت کو گوشت کے بدلے میں بیچنے کا بیان

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ گوشت اونٹ کا ہو یا بکری کا یا اور کسی جانور کا اس کا گوشت ، گوشت سے بدلنا درست نہیں مگر برابر تول کر نقدا نقد اگر اٹکل سے برابری کرے تو بھی کافی ہے۔

 

کہا مالک نے مچھلیوں کا گوشت اگر اونٹ یا گائے یا بکری کے گوشت کے بدلے میں بیچے کم وبیش تو بھی کچھ قباحت نہیں ہے مگر یہ ضروری ہے کہ نقدا نقد ہو میعاد نہ ہو۔

 

کہا مالک نے پرندوں کا گوشت میرے نزدیک چرندوں اور مچھلیوں کے گوشت سے بڑا فرق رکھتا ہے اگر یہ کم و بیش بیچے جائیں تو کچھ قباحت نہیں ہے مگر یہ ضروری ہے کہ نقدا نقد ہو۔ میعاد نہ ہو۔

 

               کتے کی بیع کا بیان

 

ابی مسعود انصاری سے روایت ہے کہ منع کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کتے کی قیمت لینے سے اور خرچی سے فاحشہ کی اور کمائی سے فال نکالنے والے کی۔

 

               بیع سلف کا بیان اور اسباب کو اسباب کے بدلے میں بیچنے کا بیان

 

رسول اللہ نے منع کیا ہے بیع سے اور سلف سے۔

 

کہا مالک نے اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص کسی سے کہے میں تیرا اسباب اس شرط سے لیتا ہوں کہ وہ مجھ سے سلف کرے اس طرح تو یہ جایز نہیں اگر سلف کی شرط موقوف کر دے تو بیع جائز ہو جائے گی۔

 

کہا مالک نے جن کپڑوں میں کھلم کھلا فرق ہے ان میں سے ایک کو دو یا تین کے بدلے میں بیع کرنا نقدا نقد یا میعاد پر طرح سے درست ہے اور جب ایک کپڑا دوسرے کپڑے کے مشابہ ہو اگر نام جدا جدا ہوں تو کمی بیشی درست ہے مگر ادھار درست نہیں۔

 

کہا مالک نے جس کپڑے کو خریدا اس کا بیچنا قبل قبضے کے بائع کے سوا اور کسی کے ہاتھ درست ہے۔ جب کہ اس کی قیمت نقد لے لے۔


               اسباب میں سلف کرنے کا بیان

 

قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس سے ایک شخص نے پوچھا جو کوئی کپڑوں میں سلف کرے پھر قبل قبضے کے ان کو بیچنا چاہے ابن عباس نے کہا یہ چاندی کی بیع ہے چاندی کے بدلے میں اور اس کو مکروہ جانا۔

 

کہا مالک نے ہماری دانست میں اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص ان کپڑوں کو اسی کے ہاتھ بیچنا چاہے جس سے خریدا ہے پہلی قیمت سے کچھ زیادہ پر کیونکہ اگر وہ کسی اور شخص سے ان کپڑوں کو بیچنا چاہے تو کچھ قباحت نہیں۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے جو شخص سلف کرے غلام میں یا جانور میں یا کسی اور اسباب میں اور اس کے اوصاف بیان کر دے ایک میعاد معین پر جب میعاد گزرے تو مشتری ان چیزوں کو اسی بائع کے ہاتھ پہلی قیمت سے زیادہ پر نہ بیچے جب تک کہ ان چیزوں کو اپنے قبضے میں نہ لائے ورنہ ربا ہو جائے گا گویا بائع نے ایک مدت تک مشتری کے روپوں سے فائدہ اٹھایا پھر زیادہ دے کر اس کو پھیر دیا تو یہ عین ربا ہے۔

 

کہا مالک نے جو شخص سلف کرے سونا چاندی دے کر کسی اسباب میں یا جانور میں اور اس سے اوصاف بیان کر دے ایک میعاد معین پر جب میعاد گزر جائے یا نہ گزرے تو مشتری اس اسباب یا جانور کو بائع کے ہاتھ کسی اور اسباب کے بدلے میں بیچ سکتا ہے مگر یہ ضروری ہے کہ اس اسباب کو نقد لے لے اس میں میعاد نہ ہو سوائے غلے کے کہ اس کا بیچنا قبل قبضے کے درست نہیں اور اگر مشتری اس اس اسباب کو سوائے بائع کے اور کسی کے ہاتھ بیچے تو سونے چاندی کے بدلے میں بھی بیچ سکتا ہے مگر یہ ضروری ہے کہ دام نقد لے میعاد نہ ہو ورنہ کالئی کی بیع کالئی کے بدلے میں ہو جائے گی یعنی دین کے بدلے میں دین۔

 

کہا مالک نے جو شخص کسی اسباب میں جو کھانے پینے کا نہیں ہے سلف کرے ایک میعاد پر تو مشتری کو اختیار ہے کہ اس اسباب کو سوائے بائع کے اور کسی کے ہاتھ سونا یا چاندی یا اسباب کے بدلے میں فروخت کر ڈالے قبضے سے پیشتر مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ بائع کے ہاتھ ہی بیچے اگر ایسا کرے تو اسباب کے بدلے میں بید ڈالے تو کچھ قباحت نہیں مگر نقدا نقد بیچے۔

 

کہا مالک نے جس نے روپے یا اشرفیاں دے کر سلف کی چار کپڑوں میں ایک میعاد پر اور ان کپڑوں کے اوصاف بیان کر دیئے۔ جب مدت گزری تو مشتری نے بائع پر ان چیزوں کا تقاضا کیا لیکن بائع کے پاس اس قسم کے کپڑے نہ نکلے بلکہ اس سے ہلکے اس وقت بائع نے کہا تو ان ہلکے کپڑوں میں سے آٹھ کپڑے لے لے تو مشتری کو لینا درست ہے مگر اسی وقت نقد لینا چاہیے دیر نہ کرے اگر ان آٹھ کپڑوں کی کوئی میعاد نہ کرے گا تو درست نہیں ہے اگر قبل میعاد گزرنے کے دوسرے کپڑے اسی قسم کے ٹھہرائے تو درست نہیں البتہ دوسرے قسم کے کپڑوں سے بدلنا درست ہے۔

 

               تانبے اور لوہے اور جو چیزیں تل کر بکتی ہیں ان کا بیان

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ جو چیزیں تل کر بکتی ہیں سوائے چاندی اور سونے کے جیسے تانبا اور پیتل اور رانگ اور سیسہ اور لوہا اور پتے اور گھاس اور روئی وغیرہ ان میں کمی بیشی درست ہے جب کہ نقدا نقد ہو مثلاً ایک رطل لوہے کہ دو رطل لوہے کے بدلے میں یا ایک رطل پیتل کو دو رطل پیتل کے بدلے میں لینا درست ہے مگر جب جنس ایک ہو تو وعدے پر لینا درست نہیں۔ اگر جنس مختلف ہو اس طرح کہ کھلم کھلا فرق ہو (جیسے پیتل بدلے میں لوہے کے) تو وعدے پر لینا بھی درست ہے۔ اگر کھلم کھلا فرق نہ ہو صرف نام کا فرق ہو جیسے قلعی اور سیسہ اور پیتل اور کانسی تو میعاد پر لینا مکروہ ہے۔

 

کہا مالک نے ان چیزوں کو قبضے سے پہلے بیچنا درست ہے سوائے بائع کے اور کسی کے ہاتھ نقد داموں پر جب ناپ تول کر لیا ضمان میں آ جاتی ہے اور ناپ تول کر خریدنے میں جب تک مشتری اس کو پھر ناپ تول نہ لے اور قبضہ نہ کر لے ضمان میں نہیں آتی۔ یہ حکم ان چیزوں کا میں نے اچھا نسا اور ہمارے نزدیک لوگوں کا عمل اسی پر رہا۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہی حکم ہے کہ جو چیزیں کھانے اور پینے کی نہیں ہیں اور ناپ تول پر بکتی ہیں جیسے کسم اور گٹھلیاں یا پتے وغیرہ ان میں کمی بیشی درست ہے اگرچہ جنس ایک ہو مگر ادھار درست نہیں اگر جنس مختلف ہو تو ادھار بھی درست ہے اور ان چیزوں کو قبل قبضے کے بھی بیچنا درست ہے۔ سوائے بائع کے اور کسی کے ہاتھ جب قیمت نقد لے لے۔

 

کہا مالک نے جتنی چیزیں ایسی ہیں جو کام میں آتی ہیں جیسے ریتی اور چونا اگر اپنی جنس کے بدلے میں بیچی جائیں میعاد پر برابر برابر ہوں یا کم و بیش ناجائز ہیں اگر نقد بیچی جائیں تو درست ہے اگرچہ کم وبیش ہوں۔

 

               ایک بیع میں دو بیع کرنے کی ممانعت

 

امام مالک کو پہنچا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا دو بیعوں سے ایک بیع میں۔

 

ایک شخص نے دوسرے سے کہا تم میرے واسطے یہ اونٹ نقد خرید کر لو میں تم سے وعدے پر خرید کرلوں گا عبداللہ بن عمر نے اس کا برا جانا اور منع کیا

 

قاسم بن محمد سے سوال ہوا ایک شخص نے ایک چیز خریدی دس دینار کے بدلے میں یا پندرہ دینار اور ادھار کے بدلے میں تو قاسم بن محمد نے اس کو برا جانا اور اس سے منع کیا۔

 

کہا مالک نے اگر کسی شخص نے ایک کپڑا اس شرط سے خریدا اگر نقد دے تو دس دینار دے اگر وعدے پر دے تو پندرہ دینار دے بہر حال مشتری کو دونوں میں ایک قیمت دینا ضروری ہے تو یہ جائز نہیں کیونکہ اس نے اگر دس دینار نقد نہ دیئے تو دس کے بدلے پندرہ ادھار ہوئے اور جو دس نقد دے دیئے تو گویا پندرہ ادھار اس کے بدلے میں لیے۔

 

کہا مالک نے اگر مشتری نے بائع سے کہا میں نے تجھ سے اس قسم کی کھجور پندرہ صاع یا اس قسم کی دس صاع ایک دینار کے بدلے میں لی دونوں میں سے ایک ضرور لوں گا یا یوں کہا میں نے تجھ سے اس قسم کی گیہوں پندرہ صاع یا اس قسم کی گیہوں دس صاع ایک دینار کے بدلے میں لیے دونوں میں سے ایک ضرور لوں گا تو یہ درست نہیں گویا اس نے دس صاع کھجور لے کر پھر اس کو چھوڑ کر پندرہ صاع کھجور لی یا دس صاع گیہوں چھوڑ کر اس کے عوض میں پندرہ صاع لیے یہ بھی اس میں داخل ہے یعنی دو بیع کرنا ایک بیع میں۔

 

               جس بیع میں دھوکا ہو اس کا بیان

 

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا دھوکے کی بیع سے

 

کہا مالک نے دھوکے کی بیع میں یہ داخل ہے کسی شخص کا جانور گم ہو گیا ہو یا غلام بھاگ گیا ہو اور اس کی قیمت پچاس دینار ہو ایک شخص اس سے کہے میں تیرے اس جانور یا غلام کو بیس دینار کو لیتا ہوں اگر وہ مل گیا تو بائع کے تیس دینار نقصان ہوئے اور جو نہ ملا تو مشتری کے پاس بیس دینار گئے۔

 

کہا مالک نے اس میں ایک بڑا دھوکا ہے معلوم نہیں وہ جانور یا غلام اسی حال میں ہے یا اس میں کوئی عیب ہو گیا یا ہنر ہو گیا جس کی وجہ سے اس کی قیمت گھٹ بڑھ گئی۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ حمل کا خریدنا بھی دھوکے کی بیع میں داخل ہے معلوم نہیں بچہ نکلتا ہے یا نہیں اگر نکلے تو خوبصورت ہو گا یا بدصورت پورا ہو گا یا لنڈورا۔ نر ہو یا مادہ اور ہر ایک کی قیمت کم و بیش ہے۔

 

کہا مالک نے مادہ کو بیچنا اور اس کے حمل کو مستثنیٰ کر لینا درست نہیں جیسے کوئی کسی سے کہے میری دودھ والی بکری کی قیمت تین دینار ہیں تو دو دینار کو لے لے مگر اس کے پیٹ کا بچہ جب پیدا ہو گا تو میں لے لوں گا یہ مکروہ ہے درست نہیں۔

 

کہا مالک نے زیتون کی لکڑی اس کے تیل کے اور تل تیل کے بدلے میں اور مکھن گھی کے بدلے میں بیچنا درست نہیں اس لیے کہ یہ مزابنہ میں داخل ہے۔ اور اس میں دھوکہ ہے معلوم نہیں اس تل یا لکڑی یا مکھن میں اسی قدر تیل یا گھی نکلتا ہے یا اس سے کم یا زیادہ۔

 

کہا مالک نے اسی طرح حب البان کا بیچنا روغن بان کے بدلے میں نادرست ہے البتہ حب البان کو خوشبودار بان کے بدلے میں بیچنا درست ہے کیونکہ وہ خوشبو ملانے سے تیل کے حکم میں نہ رہا۔

 

کہا مالک نے ایک شخص نے اپنی چیز کسی کے ہاتھ اس شرط پر بیچی کہ مشتری کو نقصان نہ ہو گا تو یہ جائز نہیں گویا بائع نے مشتری کو نوکر رکھا اگر اس چیز میں نفع ہو اور اگر اتنے ہی کو بکے جتنے کو خریدا ہے یا کم کو مشتری کی محنت برباد ہوئی تو یہ درست نہیں مشتری کو اس کی محنت کے موافق مزدوری ملے گی اور جو کچھ نفع نقصان ہو بائع کا ہو گا مگر یہ حکم جب ہے کہ مشتری اس چیز کو بیچ چکا ہو اگر اس نے نہیں بیچا تو بیع کو فسخ کریں گے۔

 

کہا مالک نے اگر کسی شخص نے اپنی چیز بیچ ڈالی پھر مشتری شرمندہ ہو کر بائع سے کہنے لگا کچھ قیمت کم کر دے بائع نے انکار کیا اور کہا تو غم نہ کھا بیچ دے تجھے نقصان نہ ہو گا اس میں کچھ قباحت نہیں نہ دھوکا ہے بلکہ بائع نے ایک رائے اپنی بیان کی کچھ اس شرط پر نہیں بیچا ہمارے نزدیک یہی حکم ہے۔

 

               ملامسہ اور منابذہ کے بیان

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا ملامسے اور منابذے سے۔

 

کہا مالک نے ملامسہ اس کو کہتے ہیں کہ آدمی ایک کپڑے کو چھوڑ کر خرید کر لے نہ اس کو کھولے نہ اندر سے دیکھے یا اندھیری رات میں خریدے نہ جانے اس میں کیا ہے اور منابذہ اس کو کہتے ہیں کہ بائع اپنا کپڑا مشتری کی طرف پھینک دے اور مشتری اپنا کپڑا بائع کی طرف نہ سوچیں نہ بچاریں یہ اس کے بدلے میں اور وہ اس کے بدلے میں یہ دونوں بیع ممنوع ہیں۔

 

کہا مالک نے جوتھان تہہ کیا یا چادر بستے میں بندھی ہو تو اس کو بیچنا درست نہیں جب تک کھول کر اندر نہ دیکھے۔

 

               مرابحہ کا بیان

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے جو شخص ایک شہر سے کپڑا خرید کر کے دوسرے شہر میں لائے پھر مرابحہ کے طور پر بیچنا چاہے تو اصل لاگت میں دلالوں کی دلالی اور تہہ کرنے کی مزدوری اور باندھا بوندھی کی اجرت اور اپنا خرچ اور مکان کا کرایہ شریک نہ کرے البتہ کپڑے کی بار برداری اس میں شریک کر لے مگر اس پر نفع نہ لے مگر جب مشتری کو اطلاع دے اور وہ اس پر بھی نفع دینے کو راضی ہو جائے تو کچھ قباحت نہیں۔

 

کہا مالک نے کپڑوں کی دھلائی اور رنگوائی اس لاگت میں داخل ہو گی اور اس پر نفع لیا جائے گا۔ جیسے کپڑے پر نفع لیا جاتا ہے۔ اگر کپڑوں کو بیچا اور ان چیزوں کا حال بیان نہ کیا تو ان پر نفع نہ ملے گا اب اگر کپڑا تلف ہو گیا تو کرایہ بار برداری کا محسوب ہو گا مگر اس پر نفع نہ لگایا جائے گا۔ اگر کپڑا موجود ہے تو بیع کو فسخ کر دیں گے جب دونوں راضی ہو جائیں کسی امر پر۔

 

کہا مالک نے اگر کسی شخص نے کوئی اسباب سونے یا چاندی کے بدلے میں خریدا تو اس دن چاندی سونے کا بھاؤ یہ تھا کہ دس درہم کو ایک دینار آتا تھا پھر مشتری اس مال کو لے کر دوسرے شہر میں آیا اور اسی شہر میں مرابحہ کے کے طور پر بیچنا چاہا اسی نرخ پر جو سونے چاندی کا اس دن تھا اگر اس نے درہم کے بدلے میں خریدا تھا اور دیناروں کے بدلے میں بیچا یا دیناروں کے بدلے میں خریدا تھا اور درہموں کے بدلے میں بیچا اور اسباب موجود ہے۔ تلف نہیں ہوا تو خریدار کو اختیار ہو گا چاہے لے چاہے نہ لے اور اگر وہ اسباب تلف ہو گیا تو مشتری سے وہ ثمن جس کے عوض میں بائع نے خریدا تھا نفع حساب کر کے بائع کو دلا دیں گے۔

 

کہا مالک نے اگر ایک شخص نے اپنی چیز جو سو دینار کو پڑی تھی دس فی صدی کے نفع پر بیچی پھر معلوم ہوا کہ وہ چیز نوے دینار کو پڑی تھی اور وہ چیز مشتری کے پاس تلف ہو گئی تو اب بائع کو اختیار ہو گا چاہے اس چیز کی قیمت بازار کی لے لے اس دم کی قیمت جس دن وہ شئے مشتری کے پاس آئی تھی مگر جس صورت میں قیمت بازار کی اس ثمن سے جو اول میں ٹھہری تھی یعنی ایک سو دس دینار سے زیادہ ہو تو بائع کو ایک سو دس دینار سے زیادہ نہ ملیں گے اور اگر چاہے تو نوے دینار پر اسی حساب سے نفع لگا کر یعنی ننانوے دینار لے لے مگر جس صورت میں یہ ثمن قیمت سے کم ہو تو بائع کا اختیار ہو گا۔

 

کہا مالک نے اگر کسی شخص نے ایک چیز مرابحہ پر بیچی اور کہا سو دینار کو مجھ کو پڑی ہے پھر اس کو معلوم ہوا ایک سو بیس دینار کو پڑی تو اب خریدار کو اختیار ہو گا اگر چاہے تو بائع کا اس دن کی قیمت بازار کی جس دن وہ شئے لی ہے دے دے اور اگر چاہے تو جس ثمن پر خرید کیا ہے نفع لگا کر جہاں تک پہنچے دے مگر جس صورت میں قیمت بازار کی پہلی ثمن سے (یعنی جو سو دینار پر لگی ہے) کم ہو تو مشتری کو یہ نہیں پہنچتا کہ اس سے کم دے اس واسطے کہ مشتری اس پر راضی ہوچکا ہے مگر بائع نے اس سے زیادہ بیان کیا تو خریدار کو اصلی ثمن سے کم کرنے کا اختیار نہ ہو گا۔

 

               بر نامے پر بیع کرنے کا بیان

 

کہا مالک نے اگر چند آدمیوں نے مل کر اسباب خریدا اب ایک شخص دوسرا ان میں سے ایک شخص کو کہے تو نے جو اسباب خریدا ہے میں نے اس کے اوصاف سنے ہیں تو اپنا حصہ اس قدر نفع پر مجھے دے دے۔ میں تیری جگہ ان لوگوں کا شریک ہو جاؤں گا اور وہ منظور کرے بعد اس کے جب اس اسباب کو دیکھے تو برا اور گراں معلوم ہو اب اس کو اختیار نہ ہو گا لینا پڑے گا جب کہ اس کے ہاتھ بر نامے پر بیچا ہو اور اوصاف بتا دیئے ہوں۔

 

کہا مالک نے ایک شخص کے پاس مختلف کپڑوں کی گٹھڑیاں آئیں اور اس نے برنامہ سنا کے ان گٹھڑیوں کو فروخت کیا جب لوگوں نے مال کھول کر دیکھا تو گراں معلوم ہوا اور نادم ہوئے اس صورت میں وہ مال ان کو لینا ہو گا۔ جب کہ برنامے کے موافق ہو۔

 

 

 

               جس بیع میں بائع اور مشتری کا اختیار ہو اس کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بائع اور مشتری دونوں کو اختیار ہے جب تک جدا نہ ہوں مگر جس بیع میں اختیار کی شرط ہو۔

 

عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب بائع اور مشتری اختلاف کریں توبائع کو قول معتبر ہو گا اور بیع کا رد کر ڈالیں گے۔

 

کہا مالک نے ایک شخص نے ایک چیز بیچی اور بیچتے وقت یہ شرط لگائی کہ میں فلانے سے مشورہ کروں گا اگر اس نے اجازت دی تو بیع نافذ ہے اور جو اس نے منع کیا تو بیع لغو ہے مشتری اس شرط پر راضی ہو گیا بعد اس کے پشیمان ہوا تو اس کو اختیار نہ ہو گا بلکہ بائع کو جب وہ شخص اجازت دے گا تو نافذ ہو جائے گا۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ اگر ایک شخص کوئی چیز خرید کرے کسی شخص سے پھر ثمن میں اختلاف ہو بائع کہے میں نے دس دینار کو بیچا مشتری کہے میں نے پانچ دینار کو خریدا تو بائع سے کہا جائے گا اگر تیرا جی چاہے تو پانچ دینار کو مشتری کو دے دے نہیں تو تو قسم کھا اس امر پر میں نے اپنی چیز نہیں بیچی مگر دس دینار کو اگر بائع نے قسم کھائی تو مشتری سے کہا جائے گا اگر تیرا جی چاہے تو اس کی چیز دس دینار کو لے لے نہیں تو قسم کھا میں نے اس چیز کو نہیں خریدا مگر پانچ دینار کو مشتری نے یہ قسم کھائی تو وہ بری ہو جائے گا کیونکہ ہر ایک ان میں سے دوسرے کا مدعی ہے۔

 

 

 

               قرض میں سود کا بیان

 

ابو صالح نے کہا میں نے اپنا کپڑا دار نخلہ والوں کے ہاتھ بیچا ایک وعدے پر جب میں کوفے جانے لگا تو ان لوگوں نے کہا اگر کچھ کم کر دو تم تمہارا روپیہ ہم ابھی دے دیتے ہیں میں نے یہ زید بن ثابت سے بیان کیا انہوں نے کہا میں تجھے اس روپے کے کھانے اور کھلانے کی اجازت نہیں دیتا۔

 

عبد اللہ بن عمر سے سوال ہوا ایک شخص کا میعادی قرض کسی پر آتا ہو قرضدار یہ کہے یہ مجھ سے کچھ کم کر کے نقد لے لے اور قرض خواہ اس پر راضی ہو جائے تو عبداللہ بن عمر نے اس کو مکروہ جانا اور اس سے منع کیا۔

 

زید بن اسلم نے کہا کیا جاہلیت میں سود اس طور پر ہوتا تھا ایک شخص کا قرض میعادی دوسرے شخص پر آتا ہو جب میعاد گزر جائے تو قرض خواہ قرضدار سے کہے یا تم قرض ادا کرو یا سود دو اگر اس نے قرض ادا کیا تو بہتر ہے نہیں تو قرض خواہ اپنا قرضہ بڑھا دیتا اور پھر میعاد کراتا۔

 

کہا مالک نے اگر کسی شخص کے دوسرے شخص پر سو دینار آتے ہوں وعدے پر جب وعدہ گزر جائے تو قرضدار قرض خواہ سے کہے تو میرے ہاتھ کوئی ایسی چیز جس کی قیمت سو دینار ہوں ڈیڑھ سو دینار کو بیع ڈال ایک میعاد پر یہ بیع درست نہیں اور ہمیشہ اہل علم اس سے منع کرتے رہے اس لیے کہ قرض خواہ نے اپنی چیز کی قیمت سو دینار وصول کر لی اور وہ جو سو دینار قرضے کے تھے ان کی میعاد بڑھا دی۔ بعوض پچاس دینار کے جو اس کو فائدہ حاصل ہو اس شئے کے بیچنے میں۔ یہ بیع مشابہ ہے اس کے جو زید بن اسلم نے روایت کیا کہ جاہلیت کے زمانے میں جب قرض کی مدت گزر جاتی تو قرض خواہ قرضدار سے کہتا یا تو قرض ادا کر یا سود دے اگر وہ ادا کر دیتا تو لے لیتا نہیں تو اور مہلت دے کر قرضہ کو بڑھا دیتا۔

 

 

 

               قرض کے مختلف مسائل کا بیان

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مالدار شخص کا دیر کرنا قرض ادا کرنے میں ظلم ہے اور جب تم میں سے کوئی حوالہ کیا جائے مالدار شخص پر تو چاہے کہ حوالہ قبول کر لے۔

 

موسی بن میسرہ نے سنا ایک شخص پوچھ رہا تھا سعید بن مسیب سے میں قرض کے بدل میں بیچا کرتا ہوں سعید نے کہا تو نہ بیچ مگر اس چیز کو جو تیرے پاس ہو۔

 

کہا مالک نے جو شخص کوئی چیز خرید کرے اس شرط پر کہ بائع وہ شئے مشتری کو اتنی مدت میں سپرد کر دے اس میں مشتری نے کوئی مصلحت رکھی ہو مثلاً اس وقت بازار میں اس مال کی نکاسی کی امید ہو یا اور کچھ غرض ہو پھر بائع اس وعدے میں خلاف کر اور مشتری چاہے کہ وہ شئے بائع کو پھیر دے تو مشتری کو یہ حق نہیں پہنچتا اور بیع لازم رہے گی اگر بائع اس شئے کو قبل میعاد کے لیے آیا تو مشتری پر جبر نہ کیا جائے گا اس کے لینے پر۔

 

کہا مالک نے جو شخص اناج خرید کر اس کو تول لے پھر ایک خریدار آئے جو مشتری سے اس اناج کو خرید کرنا چاہے مشتری اس سے کہے کہ میں اناج تول چکا ہوں اور وہ شخص مشتری کو سچا سمجھ کر اس غلے کو نقد مول لے لے تو کچھ قباحت نہیں مگر وعدے پر لینا مکروہ ہے جب تک وہ خریدار دوبارہ اس کو تول نہ لے۔

 

کہا مالک نے دین کا خریدنا درست نہیں خواہ غائب پر ہو یا حاضر پر مگر جب شخص حاضر اس کا اقرار کرے اسی طرح جو دین میت پر ہو اس کا بھی خریدنا درست نہیں کیونکہ اس میں دھوکا ہے معلوم نہیں وہ قرض ملتا ہے یا نہیں اس واسطے اگر میت یا غائب پر اور بھی دین نکلا تو اس کے پیسے مفت گئے دوسرے یہ کہ وہ قرض اس کی ضمان میں داخل نہیں ہو اگر نہ پنٹا تو اس کے پیسے مفت گئے۔

 

کہا مالک نے بیع سلف(قرض) میں اور بیع عینہ میں یہ فرق ہے کہ بیع عینہ والا دس دینار نقد دے کر پندرہ دینار وعدے پر لیتا ہے تو یہ صریح دھوکا ہے اور بالکل فریب ہے۔

 

               شرکت اور تولیہ اور اقالہ کے بیان میں

 

کہا مالک نے جس شخص نے کئی قسم کا کپڑا بیچا اور چند رقم کے کپڑے مستثنی کر لینے کی شرط کر لی تو کچھ قباحت نہیں اگر شرط نہیں کی تو وہ ان کپڑوں میں شریک ہو جائے گا۔ اس لیے کہ ایک رقم کے کپڑوں میں بھی کم و بیش ہوتی ہے۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ شرکت اور تولیہ اور اقالہ کھانے کی چیزوں میں درست ہے ہے خواہ ان پر قبضہ ہوا ہو یانہ ہوا ہو مگر یہ ضروری ہے کہ نقد ہو میعاد نہ ہو اور کمی بیشی نہ ہوا اگر اس میں کمی بیشی ہو گی یا میعاد ہو گی تو یہ معاملے بیع سمجھے جائیں گے شرکت اور تولیہ اور اقالہ نہ ہوں گے۔

 

کہا مالک نے اگر کسی شخص نے کوئی اسباب جیسے کپڑا یا غلام یا لونڈی خرید کیا پھر ایک شخص نے اس سے کہا کہ مجھ کو بھی اس میں شریک کر لو اس نے قبول کیا اور دونوں نے مل کر بائع کو قیمت ادا کر دی پھر وہ اسباب کسی اور کا نکلا تو جو شخص شریک ہو وہ اپنے دام پہلے مشتری سے لے لے گا۔ اور وہ بائع سے لے گا مگر جس صورت میں مشتری نے خریدتے وقت بائع کے سامنے اس شریک سے کہہ دیا ہو کہ اگر بیع میں فتور نکلے تو اس کی جواب وہی بائع پر ہو گی تو اس صورت میں وہ شریک اپنا نقصان بائع سے لے گا اگر ایسا نہ ہو تو مشتری کی شرط کچھ کام نہ آئے گی اور تاوان کا نقصان اسی پر ہو گا۔

 

کہا مالک نے زید نے عمرو سے یہ کہا تو اس شئے کو خرید کر لے میرے اور اپنے ساجھے میں بکوا دوں گا۔ تو میری طرف سے بھی دام دے دے تو یہ درست نہیں کیونکہ یہ سلف (قرض) ہے بکوا دینے کی شرط پر اگر وہ شئے تلف ہو جائے تو عمرو زید سے اس کے حصہ کے دام لے لے گا البتہ اگر عمرو ایک شئے خرید کر چکا پھر زید نے کہا مجھے بھی اس میں شریک کر لے نصف کا میں بکوادوں گا تو یہ درست ہے۔

 

               قرض دار کے مفلس ہو جانے کا بیان

 

ابی بکر بن عبدالرحمن سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے اپنا مال بیچا کسی کے ہاتھ پھر مشتری مفلس ہو گیا اور بائع کو ثمن وصول نہیں ہوئی لیکن بائع نے اپنی چیز بجنسہ مشتری کے پاس پائی تو بائع اس چیز کا زیادہ حقدار ہو گا اگر مشتری مر گیا تو اس چیز میں بائع اور قرض خواہوں کے برابر ہو گا۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے اپنا مال بیچا کسی کے ہاتھ پھر مشتری مفلس ہو گیا اور بائع نے اپنی چیز بعینہ مشتری کے پاس پائی تو وہ اس کا زیادہ حقدار ہے۔

 

کہا مالک نے جس شخص نے کوئی اسباب بیچا پھر مشتری مفلس ہو گیا اور بائع نے اپنی چیز بعینہ مشتری کے پاس پائی تو بائع اس کو لے لے گا اگر مشتری نے اس میں سے کچھ بیچ ڈالا ہے تو جس قدر باقی ہے اس کا بائع زیادہ حقدار ہے بہ نسبت اور قرض خواہوں کے۔ اگر بائع تھوڑی سی ثمن پاچکا ہے پھر بائع یہ چاہے کہ اس ثمن کو پھیر کر جس قدر اسباب اپنا باقی ہے اس کو لے لے اور جو کچھ باقی رہ جائے اس میں اور قرض خواہوں کے برابر ہے تو ہو سکتا ہے۔

 

کہا مالک نے اگر کسی شخص نے سوت یا زمین خریدی پھر سوت کا کپڑا بن لیا اور زمین پر مکان بنایا بعد اس کے مشتری مفلس ہو گیا اب زمین کا بائع یہ کہے کہ میں زمین اور مکان سب لیے لیتا ہوں تو یہ نہیں ہو سکتا بلکہ زمین کی اور عملے کی قیمت لگائیں کے پھر دیکھیں گے اس قیمت کا حصہ زمین پر کتنا آتا ہے اور عملے پر کتنا آتا ہے اب بائع اور مشتری دونوں اس میں شریک رہیں گے زمین کا مالک اپنے حصہ کے موافق اور باقی قرض خواہ عملے کے موافق۔

 

کہا مالک نے اس کی مثال یہ ہے جیسے زمین اور عملے کی قیمت پندرہ سو ہوئی اس میں سے زمین کی قیمت پانچ سو ہے اور عملے کی ہزار ہے تو زمین والے کا ایک ثلث ہو گا اور باقی قرض خواہوں کے دو ثلث ہوں گے۔

 

کہا مالک نے یہی حکم سوت میں ہے جب کہ مشتری نے اس کو بن لیا بعد اس کے قرضدار ہو کر مفلس ہو گیا۔

 

کہا مالک نے اگر مشتری نے اس چیز میں تصرف نہیں کیا مگر اس چیز کی قیمت بڑھ گئی اب بائع یہ چاہتا ہے کہ اپنی شئے پھیر لے اور قرض خواہ چاہتے ہیں کہ وہ شئے بائع کو نہ دیں گو قرض خواہ ہوں کو اختیار ہے خواہ بائع کی ثمن پوری پوری حوالے کر دیں۔ اگر اس چیز کی قیمت گھٹ گئی تو بائع کو اختیار ہے خواہ اپنی چیز لے لے پھر اس کو مشتری کے مال سے کچھ غرض نہ ہو گی خواہ اپنی چیز نہ لے اور قرض خواہوں کے ساتھ شریک ہو جائے۔

 

کہا مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اگر کسی شخص نے لونڈی خریدی یا جانور خریدا پھر اس لونڈی یا جانور کا مشتری کے پاس آن کر بچہ پیدا ہوا بعد اس کے مشتری مفلس ہو گیا تو وہ بچہ بائع ہو گا البتہ اگر قرض خواہ بائع کی پوری ثمن ادا کر دیں تو بچہ کو اور اس کی ماں کو دونوں کو رکھ سکتے ہیں۔

 

               جس چیز میں سلف درست ہے

 

ابو رافع سے روایت ہے کہ جو مولی تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قرض لیا ایک چھوٹا اونٹ جب صدقے کے وقت ۔۔۔۔۔

 

مجاہد سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے ایک شخص سے روپے قرض لئے پھر اس سے اچھے ادا کئے وہ شخص بولا اے عبدالرحمن یہ تو میرے روپوں سے اچھے ہیں عبداللہ بن عمر نے کہا ہاں میں جانتا ہوں مگر میں اپنی خوشی سے دئے ہیں۔

 

کہا مالک نے جو شخص سونا چاندی یا اناج یا جانور قرض لے پھر اس سے بہتر ادا کرے تو کچھ قباحت نہیں جب کہ اس کی شرط نہ ہوئی ہو یا ایسی رسم نہ ہو یا اس کا وعدہ نہ کیا ہو اگر شرط یا رسم یا وعدے کے سبب سے ہو تو مکروہ ہے۔ بہتر نہیں۔

 

کہا مالک نے دیکھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے چھوٹا اونٹ قرض لے کر اچھا بڑا اونٹ دیا اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے روپے قرض لے کر اس سے بہت دیئے مگر اس کی شرط یا وعدہ نہیں ہوا تھا تو جو کوئی خوشی سے ایسا کرے حلال ہے۔

 

               جو سلف درست نہیں اس کا بیان

 

حضرت عمر بن خطابن سے کسی نے کہا جو شخص کسی کو اناج قرض دئیے اس شرط پر کہ فلانے شہر میں ادا کرنا انہوں نے اس کو مکروہ جانا اور کہا بار برداری کی اجرت کہاں جائے گی۔

 

ایک شخص عبداللہ بن عمر کے پاس آیا اور کہا میں نے ایک شخص کو قرض دیا اور عمدہ اس سے ٹھہرایا عبداللہ بن عرمں نے کہا یہ ربا ہے اس نے کہا پھر کیا حکم کرتے ہو عبداللہ بن عمر نے کہا قرض تین طور پر ہے ایک خدا کے واسطے اس میں تو خدا کی رضا مندی ہے ایک اپنے دوست کی خوشی کے لئے اس میں دوست کی رضا مندی ہے ایک قرض اس واسطے ہے کہ حلال مال دے کر حرام مال لے یہ سود ہے پھر وہ شخص بولا اب مجھ کو کیا حکم کرتے ہو ابو عبدالرحمن انہوں نے کہا میرے نزدیک مناسب یہ ہے کہ تو دستاویز کو پھاڑ ڈال اگر وہ شخص جس کو تو نے قرض دیا ہے جیسا مال تو نے دیا ہے ویسا ہی دے تو لے لے اگر اس سے برا دے اور تو لے لے تو تجھے اجر ہو گا اگر وہ اپنی خوشی سے اس سے اچھا دے تو اس نے تیرا شکریہ ادا کیا اور تو نے جو اتنے دنوں تک اس کو مہلت دی اس کا ثواب تجھے ملا۔

 

عبد اللہ بن عمر کہتے تھے جو شخص کسی کو قرض دے تو سوائے قرض ادا کرنے کے اور کوئی شرط نہ کرائے۔

 

عبد اللہ بن مسعود کہتے تھے جو شخص کسی کو قرض دے اس سے زیادہ نہ ٹھہرائے اگر ایک مٹھی گھاس کی ہو۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ جو شخص کوئی جانور جس کا حلیہ اور صفت معلوم ہو کسی کو قرض دے تو کچھ قباحت نہیں اب مقروض ویسا ہی جانور ادا کرے۔ مگر لونڈی کو قرض لینا درست نہیں کیونکہ یہ ذریعہ ہے حرام کے حلال کرنے کا لوگ ایک دوسرے کی لونڈی قرض لے آئیں گے پھر جب تک جی چاہے گا اس سے جماع کریں گے بعد اس کے مالک کو پھیر دیں گے یہ تو حلال نہیں ہمیشہ اہل علم اس سے منع کرتے رہے اور کسی کو اس کی اجازت نہ دی۔

 

               جو مول تول یا بیع ممنوع ہے اس کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نہ بیچیں بعض تمہارے اوپر بعض کے۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مت ملو بنجاروں سے آگے بڑھ کر ان کا مال خریدنے کے واسطے اور نہ بیچنے ایک تم میں کا دوسرے کی بیع پر اور نہ بخش کرو اور نہ بیچے بستی والا دیہات والے کی طرف سے اور نہ جمع کرے دودھ اونٹ اور بکری کے تھنوں میں اگر کوئی ایسی اونٹنی یا بکری خریدے پھر دودھ دوہنے کے بعد اس کا حال معلوم ہو تو مشتری کو اختیار ہے اگر چاہے رکھ لے یا چاہے تو پھیر دے اور دودھ کے بدلے میں ایک صاع کھجور دے دے۔

 

کہا مالک نے یہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہ بیچے تم میں کا دوسرے کی بیع پر اس سے یہ مراد ہے کہ ایک شخص دوسرے کے مول پر مول نہ کرے جب بائع پہلے مول پر راضی ہو چکا ہو اور اپنی چیز تولنے لگا ہو اور عیب سے اپنے تئیں بری کرنے لگا ہو یا اور کوئی کام ایسا کرے جس سے معلوم ہو کہ بائع پہلے مول پر راضی ہو چکا ہے اور جو بائع پہلے مول پر راضی نہ ہو بلکہ وہ مال اسی طرح بیچنے کے واسطے رکھا ہوا تو ہر ایک کو اس کا مول کرنا درست ہے اور اگر ایک شخص کے مول کرتے ہی اور لوگوں کو مول کرنا منع ہو جائے تو اس میں بیچنے والے کا نقصان ہے۔

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا نجش سے اور یہ نجش ہے کہ مال کی قیمت اس کی حیثیت سے زیادہ دینے لگے لینے کی نیت سے نہیں بلکہ اس غرض سے کہ دوسرا شخص دھوکا کھا کر اس قیمت کو لے لے۔

 

               بیع کے مختلف مسائل کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کیا کہ مجھ کو لوگ فریب دیتے ہیں خرید و فروخت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تو خرید و فروخت کیا کرے تو کہہ دیا کر کہ فریب نہیں ہے وہ شخص جب معاملہ کرتا تو یہی کہا کرتا کہ فریب نہیں ہے۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ محمد بن منکدر کہتے تھے اللہ اس بندے کو چاہتا ہے جو بیچتے وقت نرمی کرتا ہے اور خریدتے وقت بھی نرمی کرتا ہے قرص ادا کرتے وقت بھی نرمی کرتا ہے اور قرض وصول کرتے وقت بھی۔

 

سعید بن مسیب کہتے تھے جب تو ایسے ملک میں آئے جہاں کے لوگ پورا پورا ناپتے اور تولتے ہوں تو وہاں زیادہ رہ جب ایسے ایسے ملک میں آئے جہان کے لوگ ناپ تول میں کمی کر تے ہوں تو وہاں کم رہ۔

 

کہا مالک نے کوئی شخص اونٹ یا بکریاں یا کپڑا یا غلام لونڈی بے گنے جھنڈ کے جھنڈ خرید لے اچھا نہیں جو چیزیں گنتی ہے بکتی ہیں ان کو گن لینا بہتر ہے۔

 

ابن شہاب سے سوال ہوا کوئی شخص ایک جانور کو لے پھر دوسرے شخص کو اس سے زیادہ پر کرایہ کو دے انہوں نے کہا کچھ قباحت نہیں۔

 

 

 

کتاب قراض کے بیان میں

 

               قراض کا بیان

 

زید بن اسلم نے اپنے باپ سے روایت ہے کہ کہ عبداللہ بن عبید اللہ بیٹے حضرت عمر بن خطا کے ایک لشکر کے ساتھ نکلے جہاد کے واسطے عراق کی طرف جب لوٹے تو ابوموسیٰ اشعری کے پاس گئے جو حاکم تھے بصرے کے انہوں نے کہا مرحبا اور سہلا پھر کہا کاش میں تم کو کچھ نفع پہنچا سکتا تو پہنچاتا میرے پاس کچھ روپیہ ہے اللہ کا جس کو میں بھیجنا چاہتا ہوں حضرت عمر کے پاس تو میں وہ روپے تم کو قرض دے دیتا ہوں اس کا اسباب خرید لو عراق سے پھر مدینہ میں اس مال کو بیچ کر اصل روپیہ حضرت عمر کو دے دینا اور نفع تم لے لینا انہوں نے کہا ہم بھی یہ چاہتے ہیں ابو موسیٰ نے ایسا ہی کیا اور حضرت عمر کو لکھ بھیجا کہ ان دونوں سے اصل روپیہ وصول کر لیجئے گا جب دونوں مدینہ کو آئے انہوں نے مال بیچا اور نفع حاصل کیا پھر اصل مال لے کر حضرت عمر کے پاس گئے حضرت عمر نے پوچھا کی ابو موسیٰ نے لشکر کے سب لوگوں کو اتنا اتنا روپیہ قرض دیا تھا انہوں نے کہا نہیں حضرت عمر نے کہا پھر تم کو امیرالمومنین کا بیٹا سمجھ کر یہ روپیہ دیا ہو گا اصل روپیہ اور نفع دونوں دے دو عبداللہ تو چپ ہو رہے اور عیبد اللہ نے کہا اے امیر المومنین تم کو ایسا نہیں کرنا چاہئے اگر مال تلف ہوتا یا نقصان ہوتا تو ہم ضمان دیتے حضرت عمرنے کہا نہیں دے دو عبداللہ چپ ہو رہے عبید اللہ نے پھر جواب دیا اتنے میں ایک شخص حضرت عمر کے مصاحبوں میں سے بولا اے امیر المومنین تم اس کو مضاربت کر دو تو بہتر ہے حضرت عمر نے کہا میں نے کیا پھر حضرت نے اصل مال اور نصف نفع لیا اور عبداللہ اور عبید اللہ نے آدھا نفع لیا۔

 

حضرت عثمان بن عفان کو مال دیا مضاربت کے طور پر تاکہ یعقوب محنت کریں اور نفع میں شریک ہوں۔

 

 

 

               جس طرح مضاربت درست ہے اس کا بیان

 

کہا مالک نے مضاربت اس طور پر درست ہے کہ آدمی ایک شخص سے روپیہ لے اس شرط پر کہ محنت کرے گا لیکن اگر نقصان ہو تو اس پر ضمان نہ ہو گا اور مضاربت کا خرچ سفر کی حالت میں کھانے پینے سواری کا دستور کے موافق اسی مال میں سے دیا جائے گا نہ کہ اقامت کی حالت میں۔

 

کہا مالک نے اگر مضارب رب المال کی مدد کرے یارب المال کی دستور کے موافق بغیر شرط کے تو درست ہے۔

 

کہا مالک نے اگر رب المال مضارب سے کوئی چیز خرید لے بغیر شرط کے تو کچھ قباحت نہیں۔

 

کہا مالک نے اگر رب المال ایک غیر شخص اور ایک اپنے غلام کو مال دے مضاربت کے طور پر اس شرط سے کہ دونوں محنت کریں درست ہے اور غلام کے حصہ کا نفع غلام کے پاس رہے گا مگر جب مولیٰ اس سے لے لے تو مولیٰ کا ہو جائے گا۔

 

کہا مالک نے اگر ایک شخص کا قرض دوسرے پر آتا ہو پھر قرضدار یہ کہے قرض خواہ سے تو اپنا روپیہ مضاربت کے طور پر رہنے دے میرے پاس تو یہ درست نہیں بلکہ قرض خواہ کو چاہیے کہ اپنا روپیہ وصول کر لے پھر اختیار ہے خواہ مضاربت کے طور پر دے یا اپنے پاس رکھ چوڑے کیونکہ قبل روپیہ وصول کرنے کے اس کو مضاربت کر دینے میں ربا کا شبہ ہے گویا قرضدار نے مہلت لے کر قرض میں زیادتی کی۔

 

کہا مالک نے ایک شخص نے دوسرے کو روپیہ دیا مضاربت کے طور پر پھر اس میں سے کچھ روپیہ تلف ہو گیا قبل تجارت شروع کرنے کے پھر مضارب نے جس قدر روپیہ بچا تھا اس میں تجارت کر کے نفع کمایا اب مضارب یہ چاہے کہ رائس المال اسی کو قرار دے جو بچ رہا تھا بعد نقصان کے اور جس قدر اس سے زیادہ ہو اس کو نفع سمجھ کر آدھوں آدھ بانٹ لے تو یہ نہیں ہو سکتا بلکہ رائس المال کی تکمیل کر کے جو کچھ بچے گا اس کو شرط کے موافق تقسیم کر لیں گے۔

 

               جس طور سے مضاربت درست نہیں اس کا بیان

 

کہا مالک نے مضاربت درست نہیں مگر چاندی اور سونے میں اور اسباب وغیرہ میں درست نہیں لیکن قراض اور بیوع میں اگر فساد قلیل ہو اور فسخ ان کا دشوار ہو تو جائز ہو جائیں گے برخلاف ربا کے کہ وہ قلیل و کثیر حرام ہے کسی طرح جائز نہیں کیونکہ اللہ جل جلالہ فرماتا ہے اگر تم توبہ کرو ربا سے تو تم کو اس مال ملے گانہ ظلم کرو نہ ظلم کیے جاؤ۔

 

               مضاربت میں جو شرط ہو اس کا بیان

 

کہا مالک نے اگر کوئی شخص دوسرے کو اپنا مال مضاربت کے طور پر دے اور یہ شرط لگائے کہ فلاں فلاں قسم کا اسباب نہ خریدنا تو اس میں کچھ قباحت نہیں۔

 

کہا مالک نے اگر یہ شرط لگائے کہ فلاں ہی قسم کا مال خریدنا تو مکروہ ہے۔ مگر جب وہ اسباب کثرت سے ہر فصل میں بازار میں رہتا ہو تو کچھ قباحت نہیں۔

 

کہا مالک نے اگر رب المال مضاربت میں کچھ خاص نفع اپنے لیے مقرر کرے اگرچہ ایک درہم ہو تو درست نہیں۔ البتہ یہ درست ہے کہ مضارب کے واسطے آدھا یا تہائی یا پاؤ نفع ٹھہرائے اور باقی اپنے لیے۔

 

               جو شرط مضاربت میں درست نہیں اس کا بیان

 

کہا مالک نے رب المال کو یہ درست نہیں کہ نفع میں سے کچھ خاص اپنے لیے نکال لے نہ مضاربت کو درست ہے اور مضاربت کے ساتھ یہ درست نہیں کہ کسی بیع یا کرائے یا قرض یا اور کوئی احسان کی شرط ہو البتہ یہ درست ہے کہ بلاشرط ایک دوسرے کی مدد کرے موافق دستور کے اور یہ درست نہیں کہ کوئی ان میں سے دوسرے پر زیادتی کی شرط کر لے خواہ وہ زیادتی سونے یا چاندی یا طعام اور کسی قسم سے ہو اگر مضاربت میں ایسی شرطیں ہوں تو وہ اجارہ ہو جائے گا پھر اجارہ درست نہیں مگر معین معلوم اجرت کے بدلے میں اور مضاربت کو درست نہیں کہ کسی کے احسان کا بدلہ مضاربت میں سے ادا کرے نہ یہ درست ہے کہ مضاربت کے مال کو تولیہ کے طور پر دے یا آپ لے۔ اگر مال میں نفع ہو تو دونوں نفع کو بانٹ لیں گے اپنی شرط کے موافق اگر نفع نہ ہو یا نقصان ہو تو مضارب پر ضمان نہ ہو گا نہ اپنے خرچ کا نہ نقصان کا بلکہ مالک کا ہو گا۔ اور مضاربت درست ہے جب رب المال اور مضارب راضی ہو جائیں نفع کے تقسیم کرنے پر آدھوں آدھ یا دو تہائی رب المال کا اور ایک تہائی مضارب کا یا تین ربع رب المال کے ایک ربع مضارب کا یا اس سے کم یا زیادہ۔

 

کہا مالک نے مضارب اگر یہ شرط کرنے کہ اتنے برس تک رائس المال مجھ سے واپس نہ لیا جائے یا رب المال یہ شرط کرے کہ اتنے برس تک مضارب رائس المال نہ دے تو یہ درست نہیں۔ کیونکہ مضاربت میں میعاد نہیں ہو سکتی جب رب المال اپنا روپیہ مضارب کے حوالے کرے اور مضارب کو اس میں تجارت کرنا اچھا معلوم نہ ہو اگر وہ روپیہ بجنسہ اسی طرح موجود ہے تو رب المال اپنا روپیہ لے لے اگر مضارب ان روپوں کے بدلے میں کوئی اسباب خرید کر چکا تو رب المال اس اسباب کو نہیں لے سکتا نہ مضارب دے سکتا ہے جب تک اس اسباب کو بیچ کر نقد روپیہ نہ کر لے۔

 

کہا مالک نے رب المال مضارب سے یہ شرط کر لے کہ زکوٰۃ اپنے نفع کے حصہ میں سے دینا تو درست نہیں نہ رب المال کو یہ شرط لگانا درست ہے کہ مضارب خواہ مخواہ فلانے ہی شخص سے اسباب خریدے۔

 

کہا مالک نے اگر رب المال مضارب پر ضمان کی شرط کر لے تو درست نہیں اس صورت میں اگر نفع ہو تو مضارب کو شرط سے زیادہ اس وجہ سے نقصان کا تاوان لیا تھا نہ ملے گا اگر مال تلف ہوا یا اس میں نقصان ہو تو مضارب پر تاوان نہ ہو گاگو اس نے تاوان کی شرط لگائی ہو۔

 

 

 

کتاب مساقات کے بیان میں

 

               مساقات کا بیان

 

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا خبیر کے یہودیوں سے جس دن خبیر فتح ہوا جو تم کو اللہ نے دیا ہے اس پر میں تہیں برقرار رکھوں گا اس شرط سے کہ جتنے پھل یہاں پیدا ہوتے ہیں وہ ہم میں تم میں مشترک ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عبداللہ بن رواضہ کو بھیجتے تھے وہ درختوں کو دیکھ کر ان کے پھلوں کا اندازہ کرتے تھے اگر تم چاہو تو تم ان پھولوں کو لے لو اور جو اندازہ ہوا ہے اس کا آدھا ہم کو دے دو ہم تم کو اس اندازے کے آدھے پھل دیں گے یہود خود پھل لے لیا کرتے۔

 

سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عبداللہ بن روحہ کو بھیجتے تھے خبیر کی طرف وہ پھلوں کا اور زمینوں کا اندازہ کر دیتے تھے ایک بار یہودیوں نے اپنی عورتوں کا زیور جمع کیا اور عبداللہ بن روحہ کو دینے لگے یہ لے مگر ہمارے محصول میں کمی کر دو عبداللہ بن روحہ نے کہا اے یہود خدا کی ساری مخلوق میں میں تم کو زیادہ برا سمجھتا ہوں اس پر بھی میں نہیں چاہتا کہ تم پر ظلم کروں اور جو تم مجھے رشوت دیتے ہو وہ حرام ہے اس کو ہم لوگ نہیں کھاتے اس وقت یہودی کہنے لگے اس وجہ سے اب تک آسمان اور زمین قائم ہیں۔

 

کہا مالک نے اگر کوئی ایسی زمین کی مساقات کرے جس میں درخت بھی ہوں انگور کے یا کھجور کے اور خالی زمین بھی ہو تو اگر خالی زمین ثلث یا ثلث سے کم ہو تو مساقات درست ہے اور اگر خالی زمین زیادہ ہو اور درخت ثلث یا ثلث سے کم میں ہوں تو ایسی زمین کا کرایہ دینا درست ہے مگر مساقات درست نہیں کیونکہ لوگوں کا یہ دستور ہے کہ زمین میں مساقات کیا کرتے ہیں اور اس میں تھوڑی سی زمین میں درخت بھی رہتے ہیں یا جس مصحف یا تلوار میں چاندی لگی ہو اس کو چاندی کے بدلے میں بیچنے میں یا ہار یا انگوٹھی کو جس میں سونا بھی ہو سونے کے بدلے میں بیچتے ہیں اور ہمیشہ سے لوگ اس قسم کی خرید و فروخت کر تے چلے آئے ہیں اور اس کی کوئی حد نہیں مقرر کی کہ اس قدر سونا یا چاندی ہو تو حلال ہے اور اس سے زیادہ ہو تو حرام ہے مگر ہمارے نزدیک لوگوں کے عملدرامد کے موافق یہ حکم ٹھہرا ہے کہ جب مصحف یا تلوار یا انگوٹھی میں سونا چاندی د ثلث قیمت کے برابر ہو یا اس سے کم تو اس کی بیع چاندی یا سونے کے بدلے میں درست ہے ورنہ درست نہیں۔

 

               غلاموں کی خدمت کی شرط کرنا مساقات میں

 

کہا مالک نے اگر عامل زمین کے مالک سے یہ شرط کر لے کہ کام کاج کے واسطے جو غلام پہلے مقرر تھے وہ میرے پاس بھی مقرر رکھنا تو اس میں کچھ قباحت نہیں کیونکہ اس میں عامل کی کچھ منفعت نہیں ہے صرف اتنا فائدہ ہے کہ اس کے ہونے سے عامل کو محنت کم پڑے گی اگر وہ نہ ہوتے تو محنت زیادہ پڑتی۔ اس کی ایسی ہے کہ ایک مساقات ان درختوں میں ہو کہ جن میں پانی چشموں سے آتا ہے اور ایک مساقاۃ ان درختوں میں ہو کہ نہاں پانی بھر کر اونٹ پر لانا پڑتا ہے دونوں برابر نہیں ہو سکتیں اس لیے کہ ایک میں محنت زیادہ ہے اور دوسرے میں کم۔

 

کہا مالک نے عامل کو یہ نہیں پہنچتا کہ ان غلاموں سے اور کوئی کام لے یا مالک سے اس کی شرط کر لے۔

 

کہا مالک نے عامل کو یہ درست نہیں کہ مالک سے ان غلاموں کی شرط کر لے جو پہلے سے باغ میں مقرر نہ تھے۔

 

کہا مالک نے زمین کے مالک کو یہ درست نہیں کہ جو غلام پہلے سے باغ میں مقرر تھے ان میں سے کسی غلام کے نکال لینے کی شرط مقرر کرے بلکہ اگر کسی غلام کو نکالنا چاہے تو مساقات کے اول نکال لے اسی طرح اگر کسی کو شریک کرنا چاہے تو مساقات کے اول شریک کر لے بعد اس کے مساقات کرے۔

 

کہا مالک نے اگر باغ کے غلاموں میں سے کوئی مر جائے یا غائب ہو جائے تو باغ کے مالک کو دوسرا غلام اس کی جگہ پر دینا پڑے گا۔

 

               کراء الارض زمین کو کرایہ پر دینے کے بیان میں

 

رافع بن خدیج سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا کھیتوں کے کرایہ دینے سے حنظلہ نے کہا میں نے رافع سے پوچھا اگر سونے یا چاندی کے بدلے میں کرایہ کر دے انہوں نے کہا کچھ قباحت نہیں۔

 

سعید بن مسیب سے ابن شہاب نے پوچھا زمین کو کرایہ پر دینا سونے یا چاندی کے بدلے میں درست ہے کہا ہاں کچھ قباحت نہیں۔

 

ابن شہاب نے سالم بن عبداللہ سے پوچھا کہ کھتیوں کا کرایہ دینا کیسا ہے انہوں نے کہا کچھ قباحت نہیں سونے یا چاندی کے بدلے میں ابن شہاب نے کہا کیا تم کو رافع بن خدیج کی حدیث نہیں پہنچی سام نے کہا رافع نے زیادتی کی اگر میرے پاس زمین مزروعہ ہوتی تو میں اس کو کرایہ دیتا۔

 

عبدالرحمن بن عورف نے ایک زمین کرایہ کو لی ہمیشہ ان کے پاس رہی مرے دم تک ان کے بیٹے نے کہا ہم اس کو اپنی ملک سمجھتے تھے اس وجہ سے کہ مدت تک ہمارے پاس رہی جب عبدالرحمن مرنے لگے تو انہوں نے کہا وہ کرایہ کی ہے اور حکم کیا کہ کرایہ ادا کرنے کا جو ان پر باقی تھا سونے یا چاندی کی قسم سے۔

 

عروہ بن زبیر اپنی زمین کو کرایہ پر دیتے تھے چاندی یا سونے کے بدلے میں۔

 

 

 

 

کتاب شفعے کے بیان میں

 

               جس چیز میں شفعہ ثابت ہو اس کا بیان

 

سعید بن مسیب اور ابی سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم کیا شفعہ کا اس چیز میں جو تقسیم نہ ہوئی ہو شریکوں میں جب تقسیم ہو جائے اور حدیں قائم ہو جائیں پھر اس میں شفعہ نہیں۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہی حکم ہے اور اس میں کچھ اختلاف نہیں ہے۔

 

سعید بن مسیب سے سوال ہوا کہ شفعے میں کیا حکم ہے انہوں نے کہا شفعہ مکان میں اور زمین میں ہوتا ہے اور شفعے کا استحاق صرف شریک کو ہوتا ہے۔

 

سلیمان بن یسار نے بھی ایسا ہی کہا۔

 

کہا مالک نے اگر ایک شخص نے مشترک زمین کا ایک حصہ کسی جانور یا غلام کے بدلے میں خریدا اب دوسرا شریک مشتری سے شفعے کا مدعی ہوا لیکن وہ جانور یا غلام تلف ہو گیا اور اس کی قیمت معلوم نہیں مشتری کہتا ہے اس کی قیمت سو دینار تھی اور شفیع کہتا ہے پچاس دینار تھی تو مشتری سے قسم لیں گے اس امر پر کہ اس جانور یا غلام کی قیمت سو دینار تھی۔ بعد اس کے شفیع کو اختیار ہو گا چاہے سو دینار دے کر زمین کے اس حصے کو لے لے چاہے چھوڑ دے البتہ اگر شفیع گواہ لائے اس امر پر کہ اس جانور یا غلام کی قیمت پچاس دینار تھی تو اس کا قول معتبر ہو گا۔

 

کہا مالک نے جس شخص نے اپنے مشترک گھر یا مشترک زمین کا ایک حصہ کسی کو ہبہ کیا موہوب لہ نے واہب کو اس کے بدلے میں کچھ نقد دیا یا چیز دی تو اور شریک موہوب لہ کو اسی قدر نقد یا اس چیز کی قیمت دے کر شفعہ لے لیں گے۔

 

کہا مالک نے اگر کسی شخص نے اپنا حصہ مشترک زمین یا مشترک گھر میں ہبہ کیا لیکن موہوب لہ نے اس کا بدلہ نہیں دیا تو شفیع کو شفعہ کا استحقاق نہ ہو گا جب موہوب لہ دے گا تو شفیع موہوب لہ کو اس بدلہ کی قیمت دے کر شفعہ لے لے گا۔

 

کہا مالک نے اگر بیع کے وقت شفیع غائب ہو تو اس کا شفعہ باطل نہ ہو گا اگرچہ کتنی ہی مدت گزر جائے۔

 

کہا مالک نے اگر کئی شریکوں کو شفعے کا استحقاق ہو تو ہر ایک ان میں سے اپنے حصے کے موافق مبیع میں سے حصہ لیں گے اگر ایک شخص نے مشترک حصہ خرید کیا اور سب شریکوں نے شفعے کا دعویٰ چھوڑ دیا مگر ایک شریک نے مشتری سے یہ کہا کہ میں اپنے حصے کے موافق تیری زمین سے شفعہ لوں گا۔ مشتری یہ کہے یا تو تو پوری زمین جس قدر میں نے خریدی ہے سب لے لے یا شفعے کا دعویٰ چھوڑے تو شفیع کو لازم ہو گا یا تو پورا حصہ مشتری سے لے لے یا شفعے کا دعویٰ چھوڑ دے۔

 

کہا مالک نے ایک شخص زمین کو خرید کر اس میں درخت لگا دے یا کنواں کھود دے پھر ایک شخص اس زمین کے شفعے کا دعویٰ کرتا ہوا آئے تو اس کو شفعہ نہ ملے گیا جب تک کہ مشتری کے کنوئیں اور درختوں کی بھی قیمت نہ دے۔

 

کہا مالک نے جس شخص نے مشترک گھر یا زمین میں سے اپنا حصہ بیچاجب بائع کو معلوم ہوا کہ شفیع اپنا شفعہ لے تو اس نے بیع کو فسخ کر ڈالا اس صورت میں شفع کا شفعہ ساقط نہ ہو گا بلکہ اس قدر دام دے کر جتنے کو وہ حصہ بکا تھا اس حصے کو لے گا۔

 

کہا مالک نے اگر ایک شخص نے ایک حصہ مشترک گھر یا زمین کا اور ایک جانور اور کچھ اسباب ایک ہی عقد میں خرید کیا پھر شفیع نے اپنا حصہ یا شفعہ اس زمین یا گھر میں مانگا مشتری کہنے لگا جتنی چیزیں میں نے خریدی ہیں تو ان سب کو لے لے کیونکہ میں نے ان سب کو ایک عقد میں خریدا ہے تو شفیع زمین یا گھر میں اپنا شفعہ لے گا اس طرح پر کہ ان سب چیزوں کی علیحدہ علیحدہ قیمت لگائیں گے اور پھر ثمن کو ہر ایک قیمت پر حصہ رسد تقسیم کریں گے جو حصہ ثمن کا زمین یا مکان کی قیمت پر آئے اس قدر شفیع کو دے کر وہ حصہ زمین یا مکان کا لے لے گا اور یہ ضروری نہیں کہ اس جانور اور اسباب کو بھی لے لے البتہ اگر اپنی خوشی سے لے تو مضائقہ نہیں۔

 

کہا مالک نے جس شخص نے مشترک زمین میں سے ایک حصہ خرید کیا اور سب شفیعوں نے شفعے کا عدویٰ چھوڑ دیا مگر ایک شفیع نے شفعہ طلب کیا تو اس شفیع کو چاہیے کہ پورا حصہ مشتری کا لے لے یہ نہیں ہو سکتا کہ اپنے حصے کہ موافق اس میں سے لے لے۔

 

کہا مالک نے اگر ایک گھر میں چند آدمی شریک ہوں اور ایک آدمی ان میں سے اپنا حصہ بیچے سب شرکاء کی غیبت میں مگر ایک شریک کی موجودگی میں اب جو شریک موجود اس سے کہا جائے تو شفعہ لیتا ہے یا نہیں لیتا۔ وہ کہے بالفعل میں اپنے حصے کے موافق لے لیتا ہوں بعد اس کے جب میرے شریک آئیں گے وہ اپنے حصوں کو خرید کریں گے تو بہتر۔ نہیں تو میں کل شفعہ لے لوں گا تو یہ نہیں ہو سکتا بلکہ جو شریک موجود ہے اس سے صاف کہہ دیا جائے گا یا تو شفعہ کل لے لے یا چھوڑ دے اگر وہ لے لے گا تو بہتر نہیں تو اس کا شفعہ ساقط ہو جائے گا۔

 

               جن چیزوں میں شفعہ نہیں ہے ان کا بیان

 

حضرت عثمان نے کہا جب زمین میں حدیں پڑ جائیں تو اس میں شفعہ نہ ہو گا اور نہیں شفعہ ہے کنوئیں میں اور نہ کھجور کے نر درخت میں۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہی حکم ہے۔

 

کہا مالک نے راستے میں شفعہ نہیں ہے خواہ وہ تقسیم کے لائق ہو یا نہ ہو۔

 

کہا مالک نے اگر مشتری نے خیار کی شرط سے زمین کے ایک حصے کو خریدا تو شفیع کو شفعے کا حق نہ ہو گا جب تک کہ مشتری کا خیار پورا نہ ہو۔ اور وہ اس کو قطعی طور پر نہ لے۔

 

کہا مالک نے اگر ایک شخص نے زمین خریدی اور مدت تک اس پر قابض رہا بعد اس کے ایک شخص نے اس زمین میں اپنا حق ثابت کیا تو اس کو شفعہ ملے گا اور جو کچھ زمین میں منفعت ہوئی ہے وہ مشتری کی ہو گی جس تاریخ تک اس کا حق ثابت ہوا ہے کیونکہ وہ مشتری اس زمین کا ضامن تھا اگر وہ تلف ہو جاتی یا اس کے درخت تلف ہو جاتے۔ اگر بہت مدت گزر گئی یا گواہ مر گئے یا بائع اور مشتری مر گئے یا وہ رندہ ہیں مگر بیع کو بھول گئے بہت مدت گزرنے کی وجہ سے اس صورت میں اس شخص کو اس کا حق تو ملے گا مگر شفعے کا دعویٰ نہ پہنچے گا۔ اگر زمانہ بہت نہیں گزرا ہے اور اس شخص کو معلوم ہوا کہ بائع نے قصداً شفعہ باطل کرنے کے واسطے بیع کو چھپایا ہے تو اصل زمین کی قیمت اور جو اس میں زیادہ ہو گیا ہے اس کی قیمت وہ شخص ادا کر کے شفعہ لے لے گا۔

 

کہا مالک نے جیسے زندہ کے مال میں شفعہ ہے ویسے میت کے مال میں بھی شفعہ ہے۔ البتہ اگر میت کے وارث اس کے مال کو تقسیم کر لیں پھر بیچیں تو اس میں شفعہ نہ ہو گا۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک غلام اور لونڈی اور اونٹ اور گائے اور بکری اور جانور اور کپڑے میں شفعہ نہیں ہے نہ اس کنوئیں میں جس کے متعلق زمین نہیں ہے کیونکہ شفعہ اس زمین میں ہوتا ہے جو تقسیم کے قابل ہے اور اس میں حدود ہوتے ہیں زمین کی قسم سے جو چیز ایسی نہیں ہے اس میں شفعہ بھی نہیں ہے۔

 

کہا مالک نے اگر کسی شخص نے ایسی زمین خریدی جس میں لوگوں کو حق شفعہ پہنچتا ہے تو چاہیے کہ شفیعوں کو حاکم کے پاس لے چائے یا شفعہ لیں یا چھوڑ دیں اگر مشتری شفیعوں کو حاکم کے پاس نہیں لے گیا لیکن ان کو خریدنے کی خبر ہو گئی تھی اور انہوں نے مدت شفعہ کا دعویٰ نہ کیا بعد اس کے دعویٰ کیا تو مسموع نہ ہو گا۔ پوری ہوئی کتاب شفعے کی۔

 

 

 

کتاب حکموں کی

 

               سچے حکم کرنے کا بیان

 

ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں بھی بشر ہوں اور تم میرے پاس لڑتے جھگڑتے آتے ہو شائد تم میں سے کوئی باتیں بنا کر اپنے دعوے کو ثابت کر لے پھر میں اس کے موافق فیصلہ کروں اس کے کہنے پر تو جس شخص کو میں اس کے بھائی حقل دلا دوں وہ نہ لے کیونکہ میں ایک انگارہ آگ کا اس کو دلاتا ہوں۔

 

حضرت عمر بن خطاب کے پاس ایک یہودی اور ایک مسلمان لڑتے ہوئے آئے حضرت عمر کو یہودی کی طرف حق معلوم ہوا انہوں نے اس کے موافق فیصلہ کیا پھر یہودی بولا قسم خدا کی تم نے سچا فیصلہ کیا حضرت عمر نے اس کو درے سے مار اور کہا تجھے کیوں کر معلوم ہوا یہودی نے کہا ہماری کتابوں میں لکھا ہے جو حاکم سچا فیصلہ کرتا ہے اس کے داہنے ایک فرشتہ ہوتا ہے اور بائیں ایک فرشتہ دونوں اس کو مضبوط کرتے ہیں اور سیدھی راہ بتلاتے ہیں جب تک کہ وہ حاکم حق پر جما رہتا ہے جب حق چھوڑ دیتا ہے وہ فرشتے بھی اس کو چھوڑ کر آسمان پر چڑھ جاتے ہیں۔

 

               گواہیوں کا بیان

 

زید بن خالد جہنی سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا نہ خبر دوں میں تم کو سب سے بہتر گواہ کی جو گواہی دیتا ہے قبل اس کے کہ پوچھا جائے اس سے۔

 

ربیعہ بن ابو عبدالرحمن سے روایت ہے کہ ایک شخص عراق کا رہنے والا حضرت عمرب کے پاس آیا اور بولا میں تمہارے پاس اس کام کو آیا ہوں جس کا سر پیر کچھ نہیں حضرت عمر نے کہا کیا ہے اس نے کہا جھوٹی گواہیاں ہمارے ملک میں بہت پھیل گئی ہیں حضرت عمر نے کہا سچ اس نے کہا ہاں تب حضرت عمر نے کہا اب کوئی شخص مسلمان قید نہ کیا جائے گا بغیر معتبر گواہوں کے۔

 

حضرت عمر نے کہا نہیں درست ہے گواہی دشمن کی اور متہم کی۔

 

               جس کو حد قذف پڑی ہو اس کی گواہ کا بیان

 

سلیمان بن یسار وغیرہ سے سوال ہوا کہ ایک شخص کو حد قذف پڑی پھر اس کی گواہی درست ہے انہوں نے کہا ہاں جب وہ توبہ کر لے اور اس کی توبہ کی سچائی اس کے اعمال سے معلوم ہو جائے۔

 

ابن شہاب سے بھی یہ سوال ہوا انہوں نے بھی ایسا ہی کہا۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہی حکم ہے کیونکہ اللہ جل جلالہ نے فرمایا جو لوگ لگاتے ہیں نیک بخت بیبیوں کو پھر چار گواہ نہیں لاتے ان کو اسی کوڑے مارو پھر کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرو وہی گنہگار ہیں مگر جو لوگ توبہ کریں بعد اس کے اور نیک ہو جائیں تو بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے پس جو شخص حد قذف لگایا جائے پھر توبہ کرے اور نیک ہو جائے اس کی گواہی درست ہے۔

 

 

 

               ایک گواہ اور قسم پر فیصلہ کرنے کا بیان

 

جعفر بن محمد اپنے باپ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فیصلہ کیا ایک قسم اور ایک گواہ پر۔

 

عمر بن عبدالعزیز نے لکھا عبدالحمید بن عبدالرحمن کو اور وہ عامل تھے کوفہ کے کہ ایک قسم اور ایک گواہ پر فیصلہ کیا کر۔

 

ام سلمہ بن عبدالرحمن اور سلیمان بن یسار سے سوال ہوا کہ ایک گواہ اور ایک قسم پر فیصلہ کرنا درست ہے انہوں نے کہا ہاں۔

 

کہا مالک نے جب مدعی کے پاس ایک گواہ ہو تو اس کی گواہی لے کر مدعی کو قسم دیں گے اگر وہ قسم کھا لے گا تو بری ہو جائے گا اگر وہ قسم کھانے سے انکار کرے تو مدعی کا دعویٰ اس پر ثابت ہو جائے گا۔

 

کہا مالک نے ایک قسم اور ایک گواہ سے فیصلہ کرنا صرف اموال کے عدوے میں ہو گا اور حدود اور نکاح اور طلاق اور عتاق اور سرقہ اور قذف میں ایک گواہ اور ایک قسم پر فیصلہ کرنا درست نہیں اور جس شخص نے عتاق کو اموال کے دعوے میں داخل کیا اس نے غلطی کی کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو غلام جب ایک گواہ لاتا اس امر پر کہ مولیٰ نے اس کو آزاد کر دیا ہے تو چاہیے تھا کہ غلام سے حلف لے کے اس کو آزاد کر دیتے حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ جب غلام اپنی آزادی پر ایک گواہ لائے تو اس کے مولیٰ سے حلف لیں گے اگر حلف کر لے گا تو آزادی ثابت نہ ہو گی۔

 

کہا مالک نے اسی طرح اگر عورت ایک گواہ لائے اس امر پر کہ اس کے خاوند نے اس کو طلاق دی تو خاوند سے قسم لیں گے اگر وہ قسم کھائے اس امر پر کہ میں نے طلاق نہیں دی تو طلاق ثابت نہ ہو گی۔

 

کہا مالک نے اگر طلاق اور عتاق میں جب ایک گواہ ہو تو خاوند اور مولیٰ پر قسم لازم آئے گی۔ کیونکہ عتاق ایک حد شرعی ہے جس میں عورتوں کی گواہی درست نہیں اس لیے کہ غلام جب آزاد ہو جاتا ہے تو اس کی حرمت ثابت ہو جاتی ہے اور اس کی حدیں اوروں پر پڑتی ہیں اور اوروں کی حدیں اس پر پڑتی ہیں اگر وہ زنا کرے اور محصن ہو تو رجم کیا جائے گا اگر اس کو کوئی مار ڈالے تو قاتل بھی مارا جائے گا اور اس کے وارثوں کو میراث کا استحقاق حاصل ہو گا اگر کوئی حجت کرنے والا یہ کہے کہ مولیٰ جب غلام کو آزاد کر دے پھر ایک شخص اپنا قرض مولیٰ سے مانگنے آئے اور ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی سے اپنا قرض ثابت کرے تو مولیٰ پر قرضہ ثابت ہو جائے گا اگر مولیٰ کے پاس سوائے اس غلام کے کوئی مال نہ ہو گا تو اس غلام کی آزادی فسخ کر ڈالیں گے اس سے یہ بات نکالی کہ عورتوں کی گواہی عتاق میں درست ہے تو یہ نہیں ہو سکتا کیونکہ عورتوں کی گواہی قرضے کے اثبات میں معتبر ہوئی نہ کہ عتاق میں اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص اپنے غلام کو آزاد کر دے پھر اس کا قرض خواہ ایک گواہ اور ایک قسم سے اپنا قرضہ مولیٰ پر ثابت کر دے اور اس کی وجہ سے آزادی فسخ کی جائے یا مولیٰ پر قرضے کا دعویٰ کرے اور گواہ نہ رکھتا ہو تو مولیٰ سے قسم لی جائے اور وہ انکار کرے تو مدعی سے قسم لے کر اس کا قرضہ ثابت کر دیا جائے اور آزادی فسخ کی جائے اسی طرح ایک شخص نکاح کرے لونڈی سے پھر لونڈی کا مولیٰ خاوند سے کہنے لگے کہ تو نے اور فلاں شخص نے مل کر میری اس لونڈی کو اتنے دینار میں خرید کیا ہے اور خاوند انکار کرے تو مولیٰ ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ لائے اپنے قول پر اس صورت میں بیع ثابت ہو جائے گی۔ اور وہ لونڈی خاوند پر حرام ہو جائے گی۔ اور نکاح فسخ ہو جائے گا حالانکہ طلاق میں عورتوں کی گواہی درست نہیں۔

 

کہا مالک نے اسی طرح اگر ایک شخص قذف کرے ایک شخص کو پھر ایک مرد یا دو عورتیں گواہی دیں کہ جس شخص کو قذف کیا ہے وہ غلام ہے تو قاذف کے ذمہ سے حد ساقط ہو جائے گی حالانکہ قذف میں شہادت عورتوں کی درست نہیں۔

 

کہا مالک نے یہ بھی اس کی مثال ہے کہ وہ عورتیں گواہی دیں بچے کے رونے پر تو اس بچے کے لیے میراث ثابت ہو جائے گی اور جو بچہ مر گیا ہو گا تو اس کے وارثوں کو میراث ملے گی حالانکہ ان دو عورتوں کے ساتھ نہ کوئی مرد ہے نہ قسم ہے اور کبھی میراث کا مال کثیر ہوتا ہے جیسے سونا چاندی زمین ، باغ، غلام وغیرہ اگر یہی دو عورتیں ایک درہم پر یا اس سے کم پر بھی گواہی دیں تو ان کی گواہی سے کچھ ثابت نہ ہو گا۔ جب تک کہ ان کے ساتھ ایک مرد یا ایک قسم نہ ہو۔

 

کہا مالک نے بعضے لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایک قسم اور ایک گواہ سے حق ثابت نہیں ہو تو بہ سبب قول اللہ تعالیٰ کے فان لم یکونا رجلین الایۃ تو حجت ان لوگوں پر یہ ہے کہ آیا تم نہیں دیکھتے کہ اگر ایک شخص نے دعویٰ کیا ایک شخص پر مال کا کیا نہیں حلف لیا جاتا مدعی علیہ تو اگر حلف کرتا ہے باطل ہو جاتا ہے اس سے یہ یہ حق اگر نکول کرتا ہے پھر حلف دلاتے ہیں صاحب حق کو تو یہ امر ایسا ہے کہ نہیں ہے اختلاف اس میں کسی کا لوگوں میں سے اور نہ کسی شہر میں شہروں میں سے تو کسی دلیل سے نکالا ہے اس کو اور کس کتاب اللہ میں پایا ہے اس مسئلے کو تو جب اس امر کو اقرار کرے تو ضرور ہی اقرار کرے یمین مع الشاہد کا اگرچہ نہیں ہے یہ کتاب اللہ میں مگر حدیث میں تو موجود ہے آدمی کو چاہیے کہ ٹھیک راستہ پہچانے اور دلیل کا موقع دیکھے اس صورت میں اگر خدا چاہے گا تو اس کی مشکل حل ہو جائے گی۔

 

               ایک شخص مر جائے اور اس کا قرض لوگوں پر ہو جس کا ایک گواہ ہو اور لوگوں کا قرض اس پر ہو جس کا ایک گواہ ہو تو کس طرح فیصلہ کرنا چاہے

 

کہا مالک نے اگر ایک شخص مر جائے اور وہ لوگوں کا قرضدار ہو جس کا ایک گواہ ہو اور اس کا بھی قرض ایک پر آتا ہو اس کا بھی ایک گواہ ہو اور اس کے وارث قسم کھانے سے انکار کریں تو قرض خواہ قسم کا کر اپنا قرضہ وصول کریں اگر کچھ بچ رہے گا تو وہ وارثوں کو نہ ملے گا کیونکہ انہوں نے قسم نہ کھا کر اپنا حق آپ چھوڑ دیا مگر جب وارث یہ کہیں کہ ہم کو معلوم نہ تھا کہ قرض میں سے کچھ بچ رہے گا اسی واسطے ہم نے قسم نہیں کھائی اور حاکم کو معلوم ہو جائے کہ وارثوں نے اسی واسطے قسم نہ کھائی تھی تو اس صورت میں وارث قسم کھا کر جو کچھ مال بچ رہا ہے اس کو کے سکتے ہیں۔

 

               دعوے کے فیصلے کا بیان

 

جمیل بن عبدالرحمن عمر بن عبدالعزیز کے پاس آیا کرتے تھے جب وہ فیصلہ کرتے تھے لوگوں کا جو شخص کسی پر دعوی کرے گو مدعی اور مدعا علیہ میں یک جائی اور تعلق اور ارتباط معلوم ہوتا تو مدعا علیہ سے حلف لیتے ورنہ حلف نہ لیتے۔

 

               لڑکوں کی گواہی کا بیان

 

ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن زبیر لڑکوں کی گواہی پر حکم کرتے تھے ان کے آپس کی مار پیٹ کے۔

 

کہا مالک نے لڑکے لڑ کر ایک دوسرے کو زخمی کریں تو ان کی گواہی درست ہے لیکن لڑکوں کی گواہی اور مقدمات میں درست نہیں ہے یہ بھی جب درست ہے کہ لڑ لڑا کر جدا نہ ہو گئے ہوں مکر نہ کیا ہو اگر جدا جدا چلے گئے ہوں تو پھر ان کی گواہی درست نہیں ہے مگر جب عادل لوگوں کو اپنی شہادت پر شاہد کر گئے ہوں۔

 

               رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے منبر پر جھوٹی قسم کھانے کا بیان

 

جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص میرے منبر پر جھوٹی قسم کھائے اس نے اپنا ٹھکانہ بنا لیا جہنم میں

 

ابو امامہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص اپنے بھائی مسلمان کا حق اڑا لے جھوٹی قسم کھا کر تو اللہ جنت کو اس پر حرام کرے گا اور جہنم اس کے لئے ضروری کرے گا صحابہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اگرچہ وہ حق تھوڑا ہو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر ایک شاخ ہو پیلو کی اگرچہ ایک شاخ ہو پیلو کی اگرچہ ایک شاخ ہو پیلو کی تین بار فرمایا۔

 

 

 

               منبر پر قسم کھانے کا بیان

 

ابی غطفان بن طریف سے روایت ہے کہ زید بن ثابت اور عبداللہ بن مطیع نے جھگڑا کیا ایک گھر میں جو دنوں میں مشترک تھا تو لے گئے مقدمہ مروان بن حکم کے پاس وہ ان دنوں میں حاکم تھا مدینہ کا مروانے فیصلہ کیا اس بات پر کہ زید بن ثابت قسم کھائیں منبر شریف پر زید نے کہا میں اپنی جگہ پر قسم کھاؤں گا مروان نے کہا نہیں وہیں قسم کھاؤ جہاں لوگوں نے قضیے چکتے ہیں تو زید بن ثابت قسم کھاتے تھے میں سچا ہوں لیکن منبر پر قسم کھانے سے انکار کرتے تھے اور مروان کو تعجب ہوتا تھا۔

 

 

 

کتاب رہن کے بیان میں یعنی گروی رکھنے کے بیان میں

 

               رہن کا روکنا درست نہیں ہے

 

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہ روکی جائے گی رہن۔

 

               پھلوں اور جانوروں کے رہن کا بیان

 

کہا مالک نے جو شخص باغ رہن کرے ایک میعاد معین پار تو جو پھل اس باغ میں رہن سے پہلے نکل چکے تھے وہ رہن نہ ہوں گے مگر جس صورت میں مرتہن نے شرط کر لی ہو تو وہ پھل بھی رہن رہیں گے اور جو کوئی شخص حاملہ لونڈی کو رہن رکھے یا بعد رہن کے وہ حاملہ ہو جائے تو اس کا بچہ بھی اس کے ساتھ رہن رہے گا یہی فرق ہے پھل اور بچے میں اس واسطے کہ پھل بیع میں بھی داخل نہیں ہوتے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس شخص نے کھجور کے درخت بیچے تو پھل بائع کو ملیں گے مگر جب مشتری شرط کر لے۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک اس میں کچھ اختلاف نہیں ہے اگر کوئی لونڈی یا جانور بیچے اور اس کے پیٹ میں بچہ ہو تو وہ بچہ مشتری کا ہو گا خواہ مشتری اس کی شرط لگائے یا نہ لگائے تو کھجور کا درخت جانور کی مانند نہیں نہ پھل کھجور کے بچے کے مانند ہیں۔

 

کہا مالک نے یہ بھی اس کی دلیل ہے کہ آدمی درخت کے پھلوں کو رہن کر سکتا ہے بغیر درختوں کے اور یہ نہیں ہو سکتا کہ پیٹ کے بچے کو رہن کرے بغیر اس کی ماں کے آدمی ہو یا جانور۔

 

               جانور کو رہن رکھنے کا بیان

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک اس میں کچھ اختلاف نہیں ہے کہ شئے مرہوں اگر ایسی ہو جس کا تلف ہونا معلوم ہو جائے جیسے زمین اور گھر اور جانور تو اس صورت میں شئے مرہوں کے تلف ہونے سے مرتہن کا کچھ حق کم نہ ہو گا بلکہ راہن کا نقصان ہو گا اور جو شئے مرہوں ایسی ہو جس کا تلف ہونا صرف مرتہن کے کہنے سے معلوم ہو (جیسے سونا چاندی وغیرہ) تو مرتہن اس کی قیمت کا ضامن ہو گا (جس صورت میں گواہ نہ رکھتا ہو اس کے تلف ہونے کا) اب اگر راہن اور مرتہن زر رہن میں اختلاف کریں تو مرتہن سے کہا جائے گا تو خلفاً شئے مرہوں کے اوصاف اور زر رہن کو بیان کر جب وہ بیان کرے گا تو نگاہ والے لوگ اس شئے کی قیمت مرتہن نے جو اوصاف بیان کیے ہیں ان کے لحاظ سے لگائیں گے اگر قیمت زر رہن سے زیادہ ہو تو رہن جس قدر زیادہ ہے مرتہن سے وصول کر لے گا اگر قیمت زر رہن سے کم ہو تو راہن سے حلف لیں گے اگر وہ حلف کر لے گا تو جس قدر مرتہن نے زر رہن قیمت سے زیادہ بیان کیا ہے وہ اس کے ذمہ سے ساقط ہو جائے گا اور جو حلف سے انکار کرے تو اس قدر مرتہن کو ادا کرے گا اگر مرتہن نے کہا میں شئے مرہوں کی قیمت نہیں جانتا تو راہن سے شئے مرہوں کے اوصاف پر حلف لے کر اس کے بیان پر فیصلہ کریں گے جب کہ وہ کوئی امر خلاف واقعہ بیان نہ کرے۔

 

               دو آدمیوں کے پاس رہن رکھنے کا بیان

 

کہا مالک نے اگر ایک شئے دو آدمیوں کے پاس رہن ہو تو ایک مرتہن اپنے دین کا تقاضا کرے اور شئے مرہوں کو بیچنا چاہے اور ایک مرتہن راہن کو مہلت دے اگر شئے مرہوں ایسی ہے کہ اس کے نصف بیچ ڈالنے سے دوسرے مرتہن کا نقصان نہیں ہوتا تو آدھی بیچ کر ایک مرتہن کا دین ادا کر دیں گے اور جو نقصان ہوتا ہے تو کل شئے مرہوں کو بیچ کر جو مرتہن تقاضا کرتا ہے اس کو نصف دے دیں گے اور جس مرتہن نے مہلت دی ہے وہ اگر خوشی ہے چاہے تو نصف ثمن کو راہن کے حوالہ کر دے نہیں تو حلف کرے میں نے اس واسطے مہلت دی تھی کہ شئے مرہوں اپنے حال پر میرے پاس رہے پھر اس کا حق اسی وقت ادا کر دیا جائے۔

 

کہا مالک نے اگر غلام کو رہن رکھے تو غلام کا مال راہن لے لے گا مگر جب مرتہن شرط کر لے کہ اس کا مال بھی اس کے ساتھ رہن رہے۔

 

               رہن کے مختلف مسائل کا بیان

 

کہا مالک نے ایک شخص نے اسباب رہن رکھا وہ مرتہن کے پاس تلف ہو گیا لیکن راہن اور مرتہن کو زر رہن کی مقدار میں اختلاف نہیں ہے البتہ شئے مرہوں کی قیمت میں اختلاف ہے راہن کہتا ہے اس کی قیمت بیس دینار ہے۔ اور مرتہن کہتا ہے اس کی قیمت دس دینار تھی اور رہن بیس دینار ہے اور مرہن سے کہا جائے گا کہ شئے مرہوں کے اوصاف بیان کر جب وہ بیان کرے تو اس سے حلف لے کر نگاہ والوں سے ایسی شئے کی قیمت دریافت کریں اگر وہ قیمت زر رہن سے زیادہ ہو تو مرتہن سے کہا جائے گا جس قدر زیادہ ہے وہ راہن کو دے اگر قیمت کم ہے تو مرتہن جس قدر کم ہے راہن سے لے لے اگر برابر ہے تو خیر قصہ چکا نہ یہ کچھ دے نہ وہ کچھ دے۔

 

کہا مالک نے اگر شئے مرہوں موجود ہو لیکن راہن زر رہن دس دینار بیان کرے اور مرتہن بیس دینار تو مرتہن حلف اٹھائے اگر شئے مرہوں کی بیس دینار قیمت ہو تو اسی شئے مرہوں کو اپنے دین کے بدلے میں لے لے البتہ اگر راہن بیس دینار ادا کر کے اپنی شئے لینا چاہے تو لے سکتا ہے اگر اس شئے مرہوں کی قیمت بیس دینار سے کم ہو تو مرتہن سے حلف لے پھر راہن کو اختیار ہے یا بیس دینار دے کر اپنی شئے لے لے یا خود بھی حلف اٹھائے کہ میں نے اتنے پر رہن کی تھی اگر حلف اٹھائے تو جس قدر شئے مرہوں کی قیمت سے مرتہن نے دین زیادہ بیان کیا ہے وہ اس کے ذمے سے ساقط ہو جائے گا ورنہ دینار پڑے گا۔

 

کہا مالک نے اگر وہ شئے مرہوں سے تلف ہو گئی اب اختلاف ہوا زر رہن کی مقدار اور شئے مرہوں کی قیمتیں مرتہن نے کہا زر رہن بیس دینار تھا اور شئے مرہوں کی قیمت دس دینار تھی اور راہن نے کہا زر رہن دس دینار تھا اور شئے مرہوں کی قیمت بیس دینار تھی تو مرتہن سے کہیں گے شئے مرہوں کے اوصاف بیان کر جب وہ بیان کرے تو اس سے حلف لے کر نگاہ والوں سے قیمت کا اندازہ کرائیں اگر قیمت بیس دینار سے زیادہ (مثلاً تیس دینار ہو) تو مرتہن سے حلف لے کر جس قدر قیمت زیادہ (مثلاً دس دینار) راہن کو دلا دیں گے اگر قیمت بیس کم ہو (مثلاً پندرہ دینار) تو مرتہن سے زر رہن پر حلف لے کر جس قدر قیمت ہے وہ گویا مرتہن کو وصول ہو چکی باقی کے واسطے راہن سے حلف لیں گے اگر وہ حلف اٹھائے گا تو مرتہن راہن سے کچھ نہ لے سکے گا اگر حلف نہ اٹھا لے تو بیس دینار میں جتنا کم ہے وہ راہن سے مرتہن کو دلا دیں گے۔

 

               جانور کو کرایہ پر لینے اور اس میں زیادتی کرنے کا بیان

 

کہا مالک نے اگر کوئی شخص جانور کرایہ پر لے اس اقرار سے کہ فلاں مقام تک جاؤں گا پھر اس سے آگے بڑھ جائے تو جانور کے مالک کو اختیار ہے کہ اگر چاہے جتنا آگے گیا ہے اتنی دور کا کرایہ دستور کے موافق اور لے لے نہیں تو اپنے جانور کی قیمت اس دن کی اور اس مقام کی جہاں تک جانا ٹھہرا تھا کرایہ دار سے لے لے اور کرایہ جو پہلے ٹھہر چکا تھا وہ بھی لے لے اگر صرف جانے پر کرایہ ہوا تھا اور جو آنے پر کرایہ ہوا تھا تو جو کرایہ ٹھہرا تھا اس کا نصف لے کیونکہ نصف کرایہ جانے کا تھا اور نصف آنے کا اور جس وقت کرایہ دار نے زیادتی کی اس وقت اس پر نصف ہی کرایہ واجب ہوا تھا اگر کرایہ دار نے آنے جانے کے لیے جانور کرایہ پر لیا اور جب جانے کی جگہ پہنچا تو وہ جانور مر گیا تو کرایہ دار پر تاوان نہ ہو گا اور الک کو نصف کرایہ ملے گا اسی طرح اگر رب المال مضارب کو منع کر دے کہ فلاں فلاں مال نہ خریدنا اور مضارب وہی خریدے اس خیال سے کہ میں ضمان دے دوں گا اور نفع سارا مار کھاؤں گا تو رب المال کو اختیار ہے چاہے اس سے مال میں مضاربت قائم رکھے چاہے اپنا رائس المال پھیر لے اسی طرح نضاعت میں صاحب مال اگر یہ کہے کہ فلاں فلاں مال خریدنا اور وہ شخص دوسرا مال خریدے تو صاحب مال کو اختیار ہے چاہے اسی مال کو اپنا سمجھے یا اپنا رائس المال پھیر لے۔

 

               جس عورت سے جبراً کوئی جماع کرے تو کیا حکم ہے

 

ابن شہاب سے روایت ہے کہ عبدالملک بن مروان نے حکم دیا ایک عورت کے مہر دینے کا اس شخص پر جس نے اس سے جبراً جماع کیا تھا۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے جو شخص کسی عورت کو غصب کرے بکر ہو یا ثیبہ اگر وہ آزاد ہے تو اس پر مہر مثل لازم ہے اور اگر لونڈی ہے تو جتنی قیمت اس کی جماع کی وجہ سے کم ہو گئی دینا ہو گا اور اس کے ساتھ غصب کرنے والے کو سزا بھی ہو گی لیکن لونڈی کو سزا نہ ہو گی۔ اگر غلام نے کسی کی لونڈی غصب کر کے یہ کام کیا تو تاوان اس کے مولیٰ پر ہو گا مگر جب مولیٰ اس غلام کو جنایت کے بدلے میں دے ڈالے۔

 

               کوئی شخص کسی جانور یا کھانا تلف کر دے تو کیا حکم ہے

 

یحییٰ نے نقل کیا کہ کہا مالک نے جو شخص مالک سے بن پوچھے اس کے جانور کو ہلاک کر دے تو اسے دن کی قیمت دینی ہو گی نہ کہ اس کے مانند اور جانو اور اسی طرح مالک کو جانور کے بدلے میں ہمیشہ اسی دن کی قیمت دی جائے گی نہ کہ جانور یہی حکم ہے اور اسباب کا۔

 

کہا مالک نے البتہ اگر کسی کا اناج تلف کر دے تو اسی قسم کا اتنا ہی اناج دے دے کیونکہ چاندی سونے (جن کا مثل اور بدل ہوا کرتا ہے) کے مشابہ ہے نہ کہ جانور کے۔

 

کہا مالک نے اگر امانت کے روپوں سے کچھ مال خریدا اور نفع کمایا تو وہ نفع اس شخص کا ہو جائے گا جس کے پاس روپے امانت تھے مالک کو دینا ضروری نہیں کیونکہ اس نے جھ امانت میں تصرف کیا تو وہ اس کا ضامن ہو گیا۔

 

               مرتد کا حکم

 

زید بن اسلم سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو شخص اپنا دین بدل ڈالے تو اس کی گردن مارو۔

 

کہا مالک نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ جو فرمایا جو شخص اپنا دین بدل ڈالے اس کی گردن مارو ہمارے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں جو مسلمان اسلام سے باہر ہو جائیں جیسے زنادقہ یا ان کی مانند تو جب مسلمان ان پر غلبہ پائیں تو ان کو قتل کر دیں یہ بھی ضروری نہیں کہ پہلے ان سے توبہ کرنے کو کہیں کیونکہ ان کی توبہ کا اعتبار نہیں ہو سکتا وہ کفر کو اپنے دل میں رکھتے ہیں اور ظاہر میں اپنے تئیں مسلمان کہتے ہیں لیکن اگر مسلمان شخص (کسی شبہ کی وجہ سے) علانیہ دین اسلام سے پھر جائے تو اس سے توبہ کرائیں (اور جو شبہ ہوا ہو اس کو دور کر دیں) اگر توبہ کرے تو بہتر۔ ورنہ قتل کیا جائے اور جو کافر ایک کفر کے دین کو چھوڑ کر دوسرا کفر کا دین اختیار کرے مثلاً پہلے یہودی تھا پھر نصرانی ہو جائے تو اس کو قتل نہ کریں گے بلکہ جو دین اسلام کو چھوڑ کر اور کوئی دین اختیار کرے گا اسی کے لیے یہ سزا ہے۔

 

محمد بن عبداللہ بن عبدالقاری سے روایت ہے کہ حضرت عمر کے پاس ایک شخص آیا ابو موسیٰ اشعری کے پاس سے حضرت عمر نے اس سے وہاں کے لوگوں کا حال پوچھا اس نے بیان کیا پھر حضرت عمر نے کہا تم کو کوئی نادر چیز معلوم ہے وہ شخص بولا ہاں ایک شخص کافر ہو گیا تھا بعد اسلام کے حضرت عمر نے پوچھا تم نے اس سے کیا کیا وہ شخص بولا ہم نے اسے پکڑا اور اس کی گردن ماری حضرت عمر نے کہا تم نے اس کو تین دن تک قید کیا ہوتا اور ہر روز روٹی دی ہوتی پھر توبہ کروائی ہوتی شائد وہ توبہ کرتا اور پھر اللہ کے حکم مان لیتا پھر حضرت عمر نے فرمایا یا اللہ میں اس وقت وہاں موجود نہ تھا میں نے حکم کیا نہ میں خوش ہوا جب کہ مجھے معلوم ہوا۔

 

               جو شخص اپنی عورت کے ساتھ کسی اجنبی مرد کو پائے اس کا کیا حکم ہے

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا اگر میں اپنی عورت کے ساتھ کسی مرد کو پاؤں کیا میں اس کو مہلت دوں یہاں تک کہ چار گواہ لاؤں فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہاں۔

 

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ ایک شخص نے شام والوں میں سے اپنی عورت کے ساتھ ایک مرد کو پایا تو مار ڈالا اس مرد کو یا مرد عورت دونوں کو معاویہ بن ابی سفیان ان کو اس فیصلہ دشوار ہوا انہوں نے ابو موسیٰ اشعری کو لکھا کہ تم حضرت علی سے اس مسئلہ کو پوچھو ابو موسیٰ نے حضرت علی سے پوچھا حضرت علی نے کہا یہ واقعہ میرے ملک میں نہیں ہوا میں تم کو قسم دیتا ہوں تم سچ بیان کرو کہاں یہ امر ہوا ابو موسیٰ نے کہا مجھے معاویہ بن سفیان نے لکھا ہے کہ میں تم سے اس مسئلہ کو پوچھوں حضرت علی نے کہا میں ابو ا لحسن ہوں اگر چار گواہ نہ لائے تو قتل پر راضی ہو جائے۔

 

               منبوذ کا حکم

 

سنین بن ابی جمیلہ نے ایک منبوذ پایا حضرت عمر کے زمانے میں انہوں نے کہا میں اس کو حضرت عمر کے پاس لے آیا حضرت عمر نے پوچھا تو نے اس کو کیوں اٹھایا میں نے کہا یہ پڑے پڑے مر جاتا اس واسطے میں نے اٹھا لیا اتنے میں حضرت عمر کے عریف نے کہا اے امیر المومنین میں اس شخص کو جانتا ہوں نیک آدمی ہے حضرت عمر نے کہا نیک ہے اس نے کہا ہاں حضرت عمر نے کہا جادہ مبنوذ آزاد ہے تجھ کو اس کی ولا ملے گی اور ہم اس کا خرچ دیں گے۔

 

کہا مالک نے منبوذ آزاد رہے گا اور ولاء اس کی مسلمانوں کو ملے گی وہی اس کے وارث ہوں گے وہی اس کی طرف سے دیت بھی دیں گے۔

 

               لڑکے کو باپ سے ملانے کا بیان

 

حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ عتبہ بن ابی وقاص نے مرتے وقت اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص سے کہا کہ زمعہ کی لونڈی کا لڑکا میرے نطفہ سے ہے تو اس کو اپنے پاس رکھوں تو جب مکہ فتح ہوا تو سعد نے اس لڑکے کو لے لیا اور کہا میرے بھائی کا بیٹھا ہے اس نے وصیت کی تھی اس کے لینے کی عبدزمعہ نے کہا یہ لڑکا میرا بھائی ہے میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے دونوں نے جھگڑا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس سعد نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یہ بیٹا ہے میرے بھائی کا اس نے مجھے وصیت کی تھی اور میرے باپ کی لونڈی سے پیدا ہوا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا عبدا زمعہ سے کہ یہ لڑکا تیرا ہے پھر فرمایا لڑکا ماں کے خاوند یا مالک کا ہوتا ہے اور زنا کرنے والے کے لئے پتھر ہیں پھر سودہ بنت زمعہ سے کہا کہ تو اس لڑکے سے پردہ کیا کر کیونکہ وہ لڑکا مشابہ تھا عتبہ بن ابی وقاص کے سوا اس لڑکے نے نہ دیکھا سودہ کر یہاں تک کہ انتقال ہوا اس کا۔

 

عبد اللہ بن امیہ سے روایت ہے کہ ایک عورت کا خاوند مر گیا تو اس نے چار مہینے دس دن تک عدت کی پھر دوسرے شخص سے نکاح کر لیا ابھی اس کے پاس ساڑھے چار مہینے رہی تھی کہ ایک لڑکا جنا خاصا پورا تو اس کا خاوند حضرت عمر کے پاس آیا اور اس نے یہ حال بیان کیا حضرت عمر نے اپنی پرانی عورتوں کو جاہلیت کے زمانے میں تھیں بلوایا اور ان سے پوچھا ان میں سے ایک عورت بولی میں تم کو اس عورت کا حالات باتی ہوں یہ حاملہ ہو گئی تھی اپنے پہلے خاوند سے جو مر گیا تو حیض کا خون بچے پر پڑتے پڑتے وہ بچہ سوکھ گیا تھا اس کے پیٹ میں تو جب اس نے دوسرا نکاح کیا مر کی منہ پہنچے سے پھر بچے کو حرکت ہوئی اور بڑا ہو گیا حضرت عمر نے اس کی تصدیق کی اور نکاح توڑ ڈالا تو فرمایا کہ خیر ہوئی تمہاری کوئی بری بات مجھے نہیں پہنچی اور لڑکے کا نسب پہلے خاوند سے ثابت کیا،۔

 

سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ حضرت عمر جاہلیت کے بچوں کو جو ان کا دعوی کرتا اسلام کے زمانے میں اسی سے ملا دیتے ایک بار دو آدمی دعوی کرتے ہوئے آئے ایک لڑکے کا حضرت عمر نے قائف کو بلایا قائف نے دیکھ کر کہا اس لڑکے میں دونوں شریک ہیں حضرت عمر نے قائف کو درے سے مارا پھر اس عورت کو بلایا اور کہا تو اپنا حال مجھ سے کہہ اس نے ایک مرد کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ میرے پاس آتا تھا اور میں اپنے لوگوں کے اونٹوں میں ہوتی تھی تو وہ مجھ سے الگ نہیں ہوتا تھا بلکہ مجھ سے چمٹا رہتا تھا یہاں تک کہ وہ بھی اور بھی بھی گمان کرتے حمل رہ جانے کا پھر جاتا اور مجھے خون آیا کرتا تب دوسرا مرد آتا وہ بھی صحبت کرتا میں نہیں جانتی ان دونوں میں سے یہ کسی کا نطفہ ہے قائف یہ سن کر خوشی کے مارے پھول گیا حضرت عمر نے کہا لڑکے سے تجھے اختیار ہے جس سے چاہے ان دنوں میں سے مولات کر لے۔

 

حضرت عمر نے یا عثمان نے جب ایک عورت نے دھوکہ سے اپنے کو آزاد قرار دے کر ایک شخص سے نکاح کیا اور اولاد ہوئی یہ فیصلہ کیا کہ خاوند اپنی اولاد کو فدیہ دے کر چھڑا لے اس کے مانند غلام لونڈی دے کر۔

 

کہا مالک نے قیمت دینا بہت بہتر ہے۔

 

               جو لڑکا کسی شخص سے ملا جائے اس کی وارث ہونے کا بیان

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے ایک شخص مر جائے اور کئی بیٹے چھوڑ جائے اب ایک بیٹا ان میں سے یہ کہے کہ میرے باپ نے یہ کہا تھا کہ فلاں شخص میرا بیٹا ہے تو ایک آدمی کے کہنے سے اس کا نسب ثابت نہ ہو گا اور وارثوں کے حصوں میں سے اس کو کچھ نہ ملے گا البتہ جس نے اقرار کیا ہے اس کے حصے میں سے اس کو ملے گا۔

 

کہا مالک نے اس کی تفسیر یہ ہے ایک شخص مر جائے اور دو بیٹے چھوڑ جائے اور چھ سو دینار ہر ایک بیٹا تین تین سو دینار لے پھر ایک بیٹا یہ کہے کہ میرے باپ نے اقرار کیا تھا اس امر کا کہ فلاں شخص میرا بیٹا ہے تو وہ اپنے حصے میں سے اس کو سو دینار دے کیونکہ ایک وارث نے اقرار کیا ایک نے اقرار نہ کیا تو اس کو آدھا حصہ ملے گا اگر وہ بھی اقرار کر لیتا تو پورا حصہ یعنی دو سو دینار ملتے اور نسب ثابت ہو جاتا اس کی مثال یہ ہے ایک عورت اپنے باپ یا خاوند کے ذمے پر قرض کا اقرار کرے اور باق وارث انکار کریں تو وہ اپنے حصے کے موافق اس میں سے قرضہ ادا کرے اسی حساب سے۔

 

کہا مالک نے ایک مرد بھی اس قرض خواہ کے قرضے کا گواہ ہو تو اس کو حلف دے کر ترکے میں سے پورا قرضہ دلادیں گے۔ کیونکہ ایک مرد جب گواہ ہو اور مدعی بھی حلف کرے تو دعویٰ ثابت ہو جاتا ہے البتہ اگر قرض خواہ حلف نہ کرے تو جو وارث اقرار کرتا ہے اسی کے حصے کے موافق قرضہ وصول کرے۔

 

               لونڈیوں کی اولاد کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا کیا حال ہے لوگوں کو جماع کرتے ہیں اپنی لونڈیوں سے پھر ان سے جدا ہو جاتے ہیں اب سے میرے پاس جو لونڈی آئے گی اور اس کے مولی کو اقرار ہو گا اس سے جماع کرنے کا تو میں اس لڑکے کو مولی سے ملا دوں گا تم کو اختیار ہے چاہے عزل کرو یا نہ کرو۔

 

صفیہ بن عبید سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا کیا حال ہے لوگوں کو جماع کرتے ہیں اپنی لونڈیوں سے پھر ان کو چھوڑ دیتے ہیں وہ نکلی پھرتی ہیں اب میرے پاس جو لونڈی آئے گی اور مولی کا اقرار ہو گا اس سے صحبت کرنے کا تو میں اس کے لڑکے کا نسب مولی سے ثابت کر دوں گا اب اس کے بعد چاہے انہیں بھیجا کرو چاہے روکے رکھا کرو

 

کہا مالک نے ام ولد جب جنایت کرے تو مولیٰ اس کا تاوان دے اور ام ولد کو اس جنایت کے عوض میں نہیں دے سکتا مگر قیمت سے زیادہ تاوان نہ دے گا۔

 

               بنجر زمین کو آباد کرنے کا بیان

 

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو شخص بنجر زمین کو آباد کرے وہ اسی کی ہے جو شخص ظلم سے وہاں کچھ تصرف کرے اس کو کچھ حق نہیں ہے۔

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا جو شخص بنجر زمین کو آباد کرے وہ اسی کی ہے۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہی حکم ہے۔

 

 

               پانی لینے کا بیان

 

عبد اللہ بن ابی بکر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا دو نالوں میں ایک کا نام مہروز تھا اور دوسرے کا نام مذینیب کہ جس کا باغ نالہ کے متصل ہے وہ اپنے باغ میں ٹخنوں ٹخنوں پانی بھر کے پھر دوسرے کے باغ میں پانی چھوڑ دے۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نہیں روکا جائے گا پانی جو بچ رہا ہو تاکہ گھانس بچ جائے۔

 

عمرہ بنت عبدالرحمن سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نہ منع کیا جائے اس پانی سے کنوئی کے جو بچ رہے۔

 

               مروت کا بیان

 

یحیی بن عمارہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نہ ضرر ہے اسلام میں نہ ضرار۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کرتے تم میں سے کوئی اپنے ہمسایہ کو لکڑی گاڑنے سے اپنی دیوار میں پھر ابوہریرہ کہتے تھے کیا وجہ ہے کہ تم اس حدیث کو متوجہ ہو کر نہیں سنتے قسم خدا کی میں اس کو خوب مشہور کروں گا۔

 

یحیی بن عمارہ سے روایت ہے کہ ضحاک بن خلیفہ نے ایک نہر نکالی عرض میں سے محمد بن مسلمہ کی زمین میں سے ہو کر انہوں نے منع کیا ضحاک نے کہا تم کیوں منع کرتے ہو تمہارا تو اس میں نفع ہے اپنی زمین کو اول اور آخر پانی دیا کرنا اور کچھ ضرر نہی محمد نہ مانا ضحاک نے حضرت عمر سے بیان کیا حضرت عمر نے محمد بن مسلمہ کا بلا کر کہا تم اجازت دو محمد نے کہا میں نہ دوں گا حضرت عمر نے کہا تم اپنے بھائی مسلمان کو ایسی بات سے منع کرتے ہو جس میں اس کا نفع ہے اور تمہارا بھی نفع ہے تم بھی پانی لیا کرنا اول اور آخر میں اور تمہارا کچھ ضرر نہیں محمد نے کہا قسم خدا کی میں اجازت نہ دوں گا حضرت عمر نے کہا وہ نہر بہائی جائے اگرچہ تمہارے پیٹ پر سے ہو پھر حضرت عمر نے ضحاک کو حکم کیا نہر جاری کرنے گا محمد بن مسلمہ کی زمین سے ہو کر ضحاک نے ایسا ہی کہا۔

 

یحیی بن عمارہ سے روایت ہے کہ میرے دادا کے باغ میں سے ہو کر ایک نہر بہتی تھی عبدالرحمن بن عوف کی عبدالرحمن نے یہ چاہا کہ اس کو باغ کی دوسری طرف سے لے جائیں کیونکہ وہ قریب تھا ان کی زمین سے لیکن باغ کے مالک یعنی میرے داد نے اجازت نہ دی عبدالرحمن نے حضرت عمر سے بیان کیا حضرت عمر نے اجازت دے دی۔

 

               قسمت کا بیان

 

ثور بن زید ویلی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو زمین یا مکان جاہلیت کے زمانے میں تقسیم ہو چکا ہے وہ اسی طور پر رہیگا البتہ جو مکان یا زمین اسلام کے زمانے تک تقسیم نہیں ہوئی تو وہ اسلام کے قاعدوں کے موافق تقسیم ہو گی۔

 

کہا مالک نے اگر ایک شخص مر جائے اور بارانی اور چاہی زمینیں چھوڑ جائے تو بارانی کو چاہی کے ساتھ ملا کر تقسیم نہ کریں گے بلکہ جدا جدا تقسیم کریں گے۔ (کیونکہ بارانی کا لگان دسواں حصہ اور چاہی کا بیسواں حصہ پیداوار کا) مگر جب سب شریک ملا کر تقسیم کرنے پر راضی ہو جائیں تو ملا کر تقسیم کر دیں گے البتہ بارانی اور زیر تالاب یا کاریز کو ملا کر تقسیم کر دیں گے۔ (کیونکہ ان کا دھارا ایک ہے یعنی دونوں قسموں کی زمینوں کا لگان پیداوار کا دسواں حصہ ہے اسی طرح اگر کسی قسم کے مال ہوں ایک ہی جگہ اور ایک دوسرے کے مشابہ ہوں تو ہر ایک مال کی قیمت لگا کر ایک ساتھ تقسیم کر دیں گے مکانوں اور گھروں کا بھی یہی حکم ہے۔

 

               ضواری اور حریسہ کا بیان

 

حرام بن سعد محیصہ سے روایت ہے کہ برا بن عازب کا اونٹ ایک باغ میں چلا گیا اور نقصان کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم کیا کہ باغ کی حفاظت دن کو باغ والے کے ذمے پر ہے البتہ اگر رات کو کسی کا جانور باغغ میں جا کر نقصان کرے تو ضمان اس کا جانور کے مالک پر ہو گا۔

 

یحیی بن عبدالرحمن بن حاطب سے روایت ہے کہ غلاموں نے ایک شخص کا اونٹ چرا کر کاٹ ڈالا جب یہ مقدمہ حضرت عمر کے پاس گیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کثیر بن صلت سے کہا ان غلاموں کا ہاتھ کاٹ ڈال پھر حاطب سے کہا میں سمجھتا ہوں کہ تو ان غلاموں کو بھوکا رکھتا ہو گا پھر حضرت عمر نے کہا حاطب سے قسم خدا کی میں تجھ سے ایسا تاوان دلاؤں گا جو تجھ پر بہت گراں گزرے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اونٹ والے سے پوچھا تیرا اونٹ کتنے کا ہو گا اس نے کہا میں نے چار سو درہم کو اسے اس نے نہیں بیچا حضرت عمر نے کہا تو آٹھ سو درہم اس کے دے

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک قیمت دوچند لینے میں اس روایت پر عمل نہ ہو گا لیکن در آمد لوگوں کی یہ رہی کہ اس جانور کی جو قمیت چرانے کے دن ہو گی وہ دینی ہو گی۔

 

               جو شخص کسی جانور کو نقصان پہنچائے اس کا حکم

 

کہا مالک نے جو کسی کے جانور کو نقصان پہنچائے تو نقصان کی وجہ سے جس قدر قیمت اس کی کم ہو جائے اس کا تاوان دینا ہوا۔

 

کہا مالک نے ایک اونٹ حملہ کرے کسی آدمی پر اور وہ آدمی اپنی جان کو خوف کر کے اس کو مار ڈالے یا زخمی کرے تو اگر وہ گواہ رکھتا ہو اس امر کا کہ اونٹ نے اس پر حملہ کیا تھا تو اس پر تاوان نہ ہو گا ورنہ تاوان دینا ہو گا۔

 

               کاریگروں کا جو مالک دیا جاتا ہے اس کا بیان

 

کہا مالک نے اگر کسی نے اپنا کپڑا رنگریز کو رنگنے کو دیا اس نے رنگا اب کپڑے والا یہ کہے میں نے تجھ سے یہ رنگ نہیں کہا تھا اور رنگریز کہے تو نے یہی رنگ کہا تھا تو رنگریز کا قول قسم سے مقبول ہو گا ایسا ہی درزی کا بھی حکم ہے اور سنار کا جب وہ حلف اٹھا لیں البتہ اگر ایسی بات کا دعویٰ کرتے ہوں جو بالکل عرف اور رواج کے خلاف ہو تو اس کا قول مقبول نہ ہو گا بلکہ کپڑے والے سے قسم لی جائے گی اگر وہ قسم نہ کھائے گا تو کاریگر سے قسم لی جائے گی۔

 

کہا مالک نے ایک شخص نے اپنا کپڑا رنگریز کو دیا رنگنے کو واسطے رنگریز نے وہ کپڑا دوسرے شخص کو پہننے کو دے دیا۔ تو رنگریز پر اس کا تاوان ہو گا اگر پہننے والے کو یہ معلوم نہ ہو کہ یہ کپڑا کسی اور کا ہے اور جو معلوم ہو تو تاوان اسی پر ہو گا۔

 

               حوالے اور کفالت کا بیان

 

کہا مالک نے ایک شخص نے اپنے ذمے پر جو قرض ہے اس کو اپنے ایک قرض دار پر اتار دیا قرض خواہ کی رضامندی سے اب وہ قرض دار مفلس ہو گیا یا بے جائداد مرگیا تو قرض خواہ پھر اس سے مطالبہ نہیں کر سکتا۔ ہمارے نزدیک اس میں کچھ اختلاف نہیں ہے البتہ اگر ایک شخص دوسرے کے ذمے پر جو قرض ہے اس کا ضامن ہو گیا پھر جو ضامن ہوا تھا بے جائداد مر گیا یا مفلس ہو گیا تو قرض خواہ قرضدار سے مطالبہ کر سکتا ہے۔

 

               جو شخص کپڑا خرید کرے اور اس میں عیب نکلے

 

کہا مالک نے جب کوئی شخص کپڑا خریدے اور اس میں عیب نکلے مثلاً پھٹا ہوا ہو یا اور کچھ عیب بائع کے پاس کا ہو گواہوں کی گواہی سے یا بائع کے اقرار سے اب مشتری نے اس کپڑے میں تصرف کیا جیسے اس کو کتربیونت کر ڈالا۔ جس سے کپڑے کی قیمت گھٹ گئی پھر اس کو عیب معلوم ہوا تو وہ کپڑا بائع کو پھیر دے اور کاٹنے کا ضمان مشتری پر نہ ہو گا۔

 

کہا مالک نے اگر کسی شخص نے کپڑا خریدا اور اس میں عیب پایا مثلاً پھٹا ہو یا چرا ہوا ہے بائع نے کہا مجھے اس عیب کی خبر نہ تھی اور مشتری اس کپڑے کو کاٹ بیونت کر چکا ہے یا رنگ چکا ہے تو مشتری کو اختیار ہے چاہے کپڑا رکھ لے اور بائع سے عیب کے موافق نقصان مجرا لے چاہے کپڑا پھیر دے اور جس قدر کاٹ بیونت یا رنگ سے کپڑے کی قیمت گھٹ گئی ہے اس قدر بائع کو مجرا دے اگر مشتری نے اس پر وہ رنگ کیا ہے جس کی وجہ سے اس کی قیمت بڑھ گئی تب بھی مشتری کو اختیار ہو گا چاہے عیب کا نقصان بائع سے وصول کر کے کپڑا رکھ لے چاہے بائع کا شریک ہو جائے۔ اس کپڑے میں اب دیکھا جائے گا کہ اس کپڑے کی قیمت عیب کے لحاظ سے کتنی ہے مثلاً دس درہم ہو اور مشتری کے رنگنے کی وجہ سے پندرہ درہم قیمت ہو گئی ہو تو بائع دو ثلث کا اور مشتری ایک ثلث کا اس کپڑے میں شریک ہو گا جب وہ کپڑا بکے اس کی قیمت کو اسی حساب سے بانٹ لیں گے۔

 

               جو ہبہ درست نہیں اس کا بیان

 

نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ میرے باپ مجھ کو رسول اللہ کے پاس لے کر آئے اور کہا یا رسول اللہ میں نے اس بیٹے کو اپنا ایک غلام ہبہ کیا ہے رسول اللہ نے فرمایا کیا سب بیٹوں کو تو نے ایسا ہی غلام دیا بولا نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا رجوع کر ہبہ سے

 

حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ ان کے باپ حضرت ابوبکر صدیق نے ان کو ہبہ کئے تھے کھجور کے درخت جن میں سے بیس وسق کھجور نکلتی تھی اپنے باغ میں سے جو غابہ میں تھے جب حضرت ابوبکر کی وفات ہونے لگی انہوں نے کہا اے بیٹی کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جس کا مالدار رہنا مجھے پسند ہو بعد اپنے تجھ سے زیادہ اور نہ کسی آدمی کا مفلس رہنا نا پسند ہے مجھ کو بعد اپنے تجھ سے زیادہ میں نے تجھے بیس وسق کھجور کے درخت ہبہ کئیے تھے اگر تو ان درختوں سے کھجور کاٹتی اور ان پر قبضہ کر لیتی تو وہ تیرا مال ہو جاتا اب تو وہ سب وارثوں کا مال ہے اور وارث کون ہیں دو بھائی ہیں تمہارے اور دو بہنیں ہیں تو بانٹ لینا کا کو کتاب اللہ کے موافق حضرت عائشہ نے کہا اے میرے باپ قسم خدا کی اگر بڑے سے بڑا مال ہوتا تو میں اس کو چھوڑ دیتی لیکن میں حیران ہوں اور دوسری بہن کون ہے حضرت ابوبکر نے کہا وہ جو حبیبہ بنت خارجہ کے پیٹ میں ہے میں اس کو لڑکی سمجھتا ہوں۔

 

عبدالرحمن بن عبدالقاری سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے کہا کیا حال ہے لوگوں کا کہ ہبہ کرتے ہیں اپنے بیٹوں کو پھر روک لیتے ہیں اگر بیٹا مر جاتا ہے تو کہتے ہیں میرا مال میرے قبضے میں ہے کسی کو نہیں دیا اگر باپ مر جاتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ کہ وہ میرے بیٹے کو ہے اس کو میں ہبہ کر چکا ہوں جو کوئی ہبہ کرے اور اس کو نافذ نہ کرے یعنی موہوب لہ اس پر قبضہ نہ کرے اس طرح سے کہ جب موہوب لہ مرے تو وہ اس کے وارثوں کو ملے تو وہ ہبہ باطل ہے۔

 

کہا مالک نے جو شخص ثواب کے واسطے کسی کو کوئی شئے دے اس کا عوض نہ چاہتا ہو اور لوگوں کو اس پر گواہ کر دے تو وہ نافذ ہو جائے گا مگر جب دینے والا مر جائے معطی لہ کے قبضے سے پہلے۔ اگر دینے والا یہ چاہے کہ بعد دینے کے اس کو رکھ چھوڑے تو یہ نہیں ہو سکتا معطی کہ جب چاہے تو جبراً اس سے لے سکتا ہے۔

 

کہا مالک نے ایک شخص نے ایک شئے لللہ دی پھر معطی لہ قبل قبضے کے مر گیا تو اس کے وارث اس کے قائم مقام ہوں گے اگر دینے والا قبل معطی لہ کے قبضے کے مر گیا تو اب اس کو کچھ نہ ملے گا کیونکہ قبضہ نہ ہونے کے سبب سے وہ ہبہ لغو ہو گیا اگر دینے والا اس کو روک رکھے اور ہبہ پر گواہ نہ ہوں گو یہ نہیں ہو سکتا جب معطی لہ لینے کو کھڑا ہو جائے تو لے سکتا ہے۔

 

 

 

               ہبہ کا حکم

 

ابی غطفان بن طریف مرسی سے روایت ہے کہ حضرت عمربن خطاب نے فرمایا جو شخص ہبہ کرے کسی ناتے والے کو صلہ رحم کے واسطے یا صدقی کے طور پر ثواب کے واسطے تو اس میں رجوع نہیں کر سکتا اور جو ہبہ کرے عوض لینے کے واسطے تو وہ رجوع کر سکتا ہے جب کہ ناراض ہو۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ جب موہوب میں کچھ تفاوت ہو جائے کمی بیشی سے اور وہ ہبہ ایسا ہو جوعوض کے واسطے دیا گیا ہو تو موہوب لہ کو اس کی قیبت قبضے کے دن کی دینی پڑے گی۔

 

               صدقہ میں وجوع کرنے کا بیان

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک اس میں کچھ اختلاف نہیں ہے باپ اگر اپنے بیٹے کو کچھ صدقہ کے طور پر دے تو بیٹا اس کو اپنے قبضے میں کر لے یا بیٹاصغیر سن ہو خودباپ کی گود میں ہو اور وہ صدقہ پر گواہ کر دے تو اب باپ کو اس میں رجوع کرنا درست نہیں کیونکہ کسی صدقہ میں رجوع درست نہیں۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکن اجماعی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے بیٹے کو کوئی چیز محبت کی وجہ سے دے نہ کہ صدقہ کے طور پر تو وہ اس میں رجوع کر سکتا ہے جب تک کہ بیٹا اس جائداد کے اعتماد پر معاملہ نہ کرنے لگے اور لوگ اس کو اس جائداد کے بھروسے پر قرض نہ دیں لیکن جب ایسا ہو جائے تو پھر رجوع نہیں کر سکتا۔

 

               عمری کے بیان میں

 

جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص کسی کو عمری دے اس کے واسطے اور اس کے وارثوں کے واسطے تو پھر وہ عمرہ اس کا ہو جاتا ہے دینے ولاے کو پھر نہیں مل سکتا۔

 

عبدالرحمن بن قاسم نے سنا مکحول سے پوچھتے ہوئے قاسم سے عمری کے متعلق کیا قول ہے لوگوں کا اس میں قاسم نے کہا میں نے تو لوگوں کو اپنی شرطین پوری کرتے وہئے پایا اپنے مالوں میں اور جو کچھ وہ دیا رکتے تھے اس کو بھی پورا کرتے تھے۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر وارث ہوئے ام المومنین حفصہ کے وہ اپنا گھر زید بن خطاب کی بیٹی کو زندگی پھر رہنے کر دے گئی تھیں جب وہ مر گئیں تو عبداللہ بن عمر نے اس گھر کو لے لیا اپنا سمجھ کر۔

 

               لقطے کا بیان

 

زید بن خالد جہنی سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اور پوچھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے لقطہ کو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پہچان رکھ طرف اس کا لقطہ ہو خواہ چمڑے میں ہو یا کپڑے میں ہو پاور پہچان رکھ بندھن اس کا پھر ایک برس تک لوگوں سے اس کا حال کہا کر اگر اس کا مالک مل جائے تو اس کے دے دے نہیں تو لے لے پھر اس نے کہا گر کوئی بکری بہکی بھٹکی مل جائے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بکری تیرے کام میں آئے گی یا تیرے بھائی کے نہیں تو بھیڑیا کھا جائے گا پھر اس شخص نے کہا اگر اونٹ بھولا ملے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اونٹ سے تجھے کیا کام وہ تو اپنے ساتھ اپنا پانی رکھتا ہے اور موزے رکھتا ہے جہاں اس کو پانی مل جاتا ہے پی لیتا ہے جو درخت ملتا ہے کھالیتا ہے یہاں تک کہ مالک اس کا اس کو پا لیتا ہے

 

معاویہ بن عبداللہ بن بدر الجہنی سے روایت ہے کہ ان کے باپ نے بیان کیا کہ انہوں نے شام کے راستے میں ایک منزل میں جہاں لوگ آتے جاتے تھے ایک تھیلی پائی جس میں اسی دینار تھے انہوں نے حضرت عمر سے بیان کیا آپ نے کہا مسجدوں کے دروازوں پر لوگوں سے کہا کر اور جو شخص شام سے آ۔۔۔۔۔۔

 

نافع سے روایت ہے کہ ایک شخص نے لقطہ پایا اس کو عبداللہ بن عمر کے پاس لے آیا اور پوچھا کیا کہتے ہو اس باب میں عبداللہ بن عمر نے کہا لوگوں سے پوچھا اور بتا اس نے کہا میں پوچھ اور بتا چکا عبداللہ بن عمر نے کہا اور سہی اس نے کہا میں پوچھ بتا چکا ہوں عبداللہ نے کہا میں کبھی تجھ کو حکم نہ کروں گا اس کے کھانے کا اگر تو چاہتا تو اس کو نہ لیتا۔

 

               غلام لقطے کو پا کر خرچ کر ڈالے تو کیا حکم ہے

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک حکم یہ ہے غلام اگر لفظ پائے اور اس کو خرچ کر ڈالے میعاد گزرنے سے پہلے یعنی ایک برس سے پہلے تو وہ اس کے ذمہ رہے گا اب جب اس کا مالک آئے تو غلام کا مولیٰ  لقطے کی قیمت ادا کرے یا غلام کو حوالے کر دے اگر غلام نے میعاد گزرنے کے بعد اس کو صرف کیا تو وہ اس کے ذمے قرض رہے گا جب آزاد ہو اس سے لے لے فی الحال کچھ نہیں لے سکتا نہ مولیٰ کو اس کا دینا لازم ہے۔

 

               جو جانور مالک کے پاس سے گم ہو گئے ہوں اس کا بیان

 

سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ ثابت بن ضحاک انصاری نے ایک اونٹ پایا حرہ میں اس کو رسی سے باندھا اور حضرت عمر سے بیان کیا حضرت عمر نے کہا تین مرتبہ اس کو بتاؤ ثابت نے کہا اپنی زمین کی خبر لیتے سے میں مجبور ہو گیا حضرت عمر نے کہا جہاں سے تو نے اس اونٹ کو پایا ہے وہیں چھوڑ دے۔

 

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب کعبہ سے اپنی پیٹھ لگائے ہوئے بیٹھے تھے فرمایا جو شخص گم ہوئی چیز اٹھائے وہ خود گمراہ ہے۔

 

ابن شہاب کہتے تھے کہ حضرت عمر کے زمانے میں جو اونٹ گمے ہوئے ملتے تھے وہ چھوڑ دئے جاتے تھے بچے جنا کرتے تھے کوئی ان نہ لتیا تھا جب حضرت عثمان کا زمانہ ہوا انہوں نے حکم کیا کہ بتائے جائیں پھر بیچ کر ان کی قیمت بیت المال میں رکھی جائے جب مالک آئے تو اس کو دیدی جائے

 

               زندہ مردے کی طرف سے صدقہ دے تو مردے کو ثواب پہنچتا ہے

 

شرجیل بن سعید بن سعد بن عبادہ سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ جہاد کر نکلے ان کی ماں مدینہ میں مرنے لگیں لوگوں نے ان سے کہا وصیت کروں انہوں نے کہا کیا وصیت کروں مال تو سعد کا ہے پھر مر گئیں سعد کے آنے سے پہلے جب سعد آئے لوگوں نے بیان کیا سعد نے رسول سے پوچھا کہ اگر میں اپنی ماں کی طرف سے لللہ دوں تو اس کو فائدہ ہو گا۔

 

حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا کہ میرے ماں کا دم یکایک نکل گیا اگر بات کرنے پاتی تو ضرور صدقہ کرتی کیا میں اس کی طرف سے صدقہ کروں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں۔

 

ایک شخص انصاری نے اپنے والدین کو کھجور کے درخت صدقہ میں دئیے پھر والدین مر گئے تو وہی شخص اس کا وارث ہو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اتجھے صدقہ کا ثواب ہوا اب میراث میں اس کو لے لے

 

               وصیت کا حکم

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہیں لائق ہے آدمی کو جس کے پاس چیز یا معاملہ ایسا ہو جس میں وصیت کرنا ضروری ہو اور وہ دو راتیں گزارے بغیر وصیت لکھے ہوئے

 

کہا مالک نے اگر موصی اپنی وصیت کے بدلنے پر قادر نہ ہوتا تو چاہیے تھا کہ ہر وصیت کرنے والے کا مال اس کے اختیار سے نکل کر رکا رہتا حالانکہ ایسا نہیں ہے کبھی آدمی اپنی صحت کو بدل سکتا ہے سوائے تدبیر کے۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک ہر وصیت کو بدل سکتا ہے سائے تدبیر کے۔

 

               ضعیف اور کم سن اور مجنوں اور احمق کی وصیت کا بیان

 

عمرو بن سلیم زرقی سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب سے کہا گیا کہ اس جگہ مدینہ میں ایک لڑکا ہے قریب بلوغ کے مگر بالغ نہیں ہوا قبیلہ غسان سے اور اس کے وارث شام میں ہیں اور اس کے پاس مال ہے اور یہاں اس کا کوئی وارث نہیں سوائے ایک چچا زاد بہن کے تو حضرت عمر نے کہا اس کو وصیت کرے اس لڑکے نے مال کی وصیت جس کا نام بیر جشم تھا اپنی چچا زاد بہن کے واسطے کی عمرو بن سلیم نے کہا وہ مال تیس ہزار درہم کا بکا اور اس کی چچا زاد بہن عمرو بن سلیم کی ماں تھی۔

 

ابوبکر بن حزم سے روایت ہے کہ ایک لڑکا غسان کا مرنے لگا مدینہ میں اور وارث اس کے شام میں تھے حضرت عمر سے اس کا ذکر ہوا اور پوچھا گیا کیا وصیت کرے آپ نے فرمایا وصیت کرے یحیی بن سعید نے کہا وہ لڑکا دس برس کا تھا یا بارہ برس کا اور بیر جشم چھوڑ گیا اس کی وصیت کر گیا لوگوں نے اسے تیس ہزار درہم کا بیچا۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ ضعیف العقل اور نادان اور مجنوں کی جس کو کبھی افاقہ ہو جاتا ہے وصیت درست ہے جب اتنی عقل رکھتے ہوں کہ وصیت جو کریں اس کو سمجھیں اگر اتنی بھی عقل نہ ہو تو اس کی وصیت درست نہیں ہے۔

 

               ثلث سے زیادہ وصیت درست نہ ہونے کا بیان

 

سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میری عیادت کو آئے (یعنی بیمار پرسی کے لیے) حجۃ الوداع کے سال میں اور میرا مرض شدید تھا میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میری بیماری کا حال تو آپ دیکھتے ہیں اور میں مالدار ہوں اور میری وارث صرف میری ایک بیٹی ہے کیا میں دو ثلث مال للہ دے دوں آپ نے فرمایا نہیں میں نے کہا آدھا مال دے دوں۔ آپ نے فرمایا نہیں پھر خود آپ نے فرمایا تہائی مال للہ دے دے اور تہائی بہت ہے اگر تو اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑ جائے تو بہتر ہے اس سے کہ فقیر بھیک منگا چھوڑ جائے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں اور تو جو چیز صرف کرے گا خدا کی رضامندی کے واسطے تجھ کو اس کا ثواب ملے گا یہاں تک کہ تو جو اپنی بی بی کے منہ میں دیتا ہے اس کا بھی ثواب ملے گا پھر میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیا میں اپنے ساتھیوں کے پیچھے رہ جاؤں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر تو پیچھے رہ جائے گا اور نیک کام کرے گا تیرا درجہ بلند ہو گا اور شاید تو زندہ رہے (مکہ میں نہ مرے) یہاں تک کہ نفع دے اللہ جل جلالہ تیرے سبب سے ایک قوم کو اور نقصان دے ایک قوم ہے۔

 

کہا مالک نے اگر کوئی وصیت کرے تہائی مال کی ایک شخص کو اور کہے غلام میرا فلاں شخص کی خدمت کرے جب تک وہ شخص زندہ رہے پھر آزاد ہے بعد اس کے اس غلام کی قیمت ثلث مال نکلے تو غلام کی خدمت کی قیمت لگا دیں گے اور اس غلام میں حصہ کر لیں گے جس کو ثلث مال کی وصیت کی ہے اس کا حصہ ایک ثلث ہو گا اور جس کو خدمت کی وصیت کی ہے اس کا حصہ خدمت کے موافق ہو گا بعد اس کے دونوں شخص کی خدمت یا کمائی میں سے اپنا حصہ لیا کریں گے۔ جب وہ شخص مر جائے گا جس کے واسطے خدمت کی تھی تو غلام آزاد ہو جائے گا۔

 

کہا مالک نے جو شخص وصیت کرے کئی آدمیوں کے لیے پھر اس کے وارث یہ دعویٰ کریں کہ وصیت ثلث سے زیادہ ہے تو وارثوں کو اختیار ہو گا چاہے ہر ایک موصی لہ کو اس کی وصیت ادا کریں اور میت کا پورا ترکہ آلے لیں یا تہائی مال موصی لہ جتنے ہوں ان کے حوالہ کر دیں اور اپنے حصوں کے موافق اس کو تقسیم کر لیں گے۔

 

               حاملہ اور بیمار کو اور اس شخص کو جو میدان جنگ میں کھڑا ہو اپنے مال میں کتنا اختیار ہے

 

کہا مالک نے حاملہ بھی مثل بیمار کے ہے اگر بیماری خفیف ہو جس میں موت کا خوف نہ ہو تو مالک مال کو اختیار ہے جیسا چاہے تصرف کرے البتہ جس بیماری میں موت کا خوف ہو تو ثلث سے زیادہ تصرف درست نہیں۔

 

کہا مالک نے اسی طرح حاملہ بھی اوائل حمل میں جب تک خوشی اور سرور اور صحت سے رہے نہ مرض ہو نہ خوف اپنے کل مال میں اختیار رکھے گی۔ اللہ جل جلالہ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے ہم نے بشارت دی سارہ کو اسحاق کی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی۔ اور فرمایا اللہ جل جلالہ نے جب آدمی نے عورت سے جماع کیا تو اس کو حمل ہو گیا ہلکا ہلکا چلتے پھرتے رہے جب حمل بھاری ہوا تو دونوں نے دعاکی اللہ سے جو ان کا رب تھا کہ اگر تو ہم کو نیک (یا صحیح و سالم) بچہ دے گا تو ہم تیرا شکر ادا کریں گے۔ پس عورت حاملہ جب بوجھل ہو جائے تو اس وقت ثلث مال سے زیادہ اختیار نہیں رہتا اور یہ بعد چھ مہینے کے ہے کیونکہ اللہ جل جلالہ فرماتا ہے مائیں اپنے بچے کو دو برس کامل دودھ پلائیں جو شخص دودھ کی مدت پوری کرنا چاہے۔ اور پھر فرماتا ہے حمل اور دودھ چھڑائی اس کی تیس مہینے میں ہوتی ہے۔ تو جب حاملہ پر چھ مہینے گزر جائیں حمل کے روز سے اس وقت سے اس کا تصرف ثلث مال سے زیادہ میں درست نہ ہو گا۔

 

کہا مالک نے جو شخص صف جنگ میں کھڑا ہو اور لڑائی کو جائے اس کو بھی ثلث مال سے زیادہ اپنے مال میں تصرف درست نہیں وہ بھی حاملہ اور بیمار کے حکم میں ہے۔

 

               وارث کے واسطے وصیت کا بیان اور وارث کو کچھ مال دے جانے کا بیان

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک وارث کے واسطے وصیت درست نہیں ہے مگر جب اور ورثاء اجازت دیں اور اگر بعض ورثاء اجازت دیں اور بعض نہ دیں تو جو اجازت دیں گے ان کے حصے میں سے وصیت ادا کی جائے گی۔

 

کہا مالک نے جو شخص بیمار ہو وہ اپنے وارثوں سے اجازت چاہے ثلث سے زیادہ وصیت کرنے کی اور وارث اجازت دیں اس بات کی کہ ثلث سے زیادہ کسی وارث کے لیے وصیت کرے تو پھر ان وارثوں کو رجوع کا اختیار نہیں اگر رجوع درست ہوتا تو ہر وارث یہی کیا کرتا جب موصی مر جاتا تو مال وصیت آپ لے لیا کرتے اور اس کی وصیت روک دیتے البتہ اگر کوئی شخص صحت کی حالت میں اپنے وارثوں سے اجازت چاہے وارث کے واسطے وصیت کرنے کی اور وہ اجازت دے دے تو اس سے رجوع کر سکتے ہیں کیونکہ جب آدمی صحیح ہے تو اپنے کل مال میں اختیار رکھتا ہے چاہے سب صدقہ دے چاہے سب کسی کے حوالے کر دے تو یہ اذن لینا لغو ہوا اور وارثوں کا اذن دینا بھی اپنے وقت سے پیشتر ہوا اس واسطے ان کو رجوع درست ہے بلکہ اذن لینا اس وقت درست ہے جب وہ اپنے مال میں اختیار نہ رکھتا ہو اور ثلث سے زیادہ صرف کرنے پر قادر نہ ہو اس وقت وارثوں کو دو ثلث کا اختیار ہو گا وہ اجازت بھی دے سکتے ہیں اگر مریض نے اپنے وارث سے کہا تو اپنا حصہ میراث کا مجھے ہبہ کر دے اس نے ہبہ کر دیا لیکن مریض نے اس میں کچھ تصرف نہیں کیا یوں ہی مر گیا تو وہ حصہ پھر اسی وارث کا ہو جائے گا البتہ اگر میت یوں کہے ایک وارث سے کہ فلانا وارث بہت ضعیف ہے تو بھی اپنا حصہ اس کو ہبہ کر دے اور اگر وہ ہبہ کر دے تو درست ہو جائے گا اگر وارث نے اپنا حصہ میراث میت کو ہبہ کرد یا اس نے کچھ اس میں سے کسی کو دلایا کچھ بچ رہا تو جو بچ رہا وہ اسی وارث کا ہو گا۔

 

 

 

               جو مرد عورت کی مثل ہو اس کا بیان اور لڑکے کا کون حقدار ہے ماں یا باپ

 

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ ایک مخنث خلقی حضرت ام سلمہ کے پاس تھا اس نے عبداللہ بن امیہ سے کہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سن رہے تھے اے عبداللہ اگر کل اللہ جل جلالہ تمہارے ہاتھ سے طائف کو فتح کرا دے تو تم غیلان کی بیٹی کو ضرور لینا جب وہ سامنے آتی ہے تو اس کے پیٹ پر چار بٹیں معلوم ہوتی ہیں اور جب پیٹھ موڑ کر جاتی ہے تو چار کی آٹھ بٹیں معلوم ہوتی ہیں (دونوں جانب پہلو سے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہ لوگ تمہارے پاس نہ آیا کریں۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ میں نے قاسم بن محمد سے سنا کہتے تھے حضرت عمر بن خطاب کے پاس ایک انصاری عورت تھی اس سے ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام عاصم بن عمر رکھا تھا پھر حضرت عمر نے اس عورت کو چھوڑ دیا اور مسجد قبا میں آئے وہاں عاصم کو لڑکوں کے ساتھ کھیلتا ہوا پایا مسجد کے صحن میں حضرت عمر نے اس کا بازو پکڑ کر اپنے جانور پر سوار کر لیا لڑکے کی نانی نے یہ دیکھ کر ان سے جھگڑا کیا اور اپنا لڑکا طلب کیا پھر دونوں حضرت ابوبکر صدیق کے پاس آئے حضرت عمر نے کہا میرا بیٹا ہے عورت نے کہا میرا بچہ ہے ابوبکر صدیق نے کہا عمر اسے چھوڑ دو بچے کو اور دے دو اس کی نانی کو حضرت عمر چپ ہو رہے اور کچھ تکرار نہ کی۔

 

               اسباب میں عیب نکلنے کا بیان اور اس کا تاوان کس پر ہے

 

کہا مالک نے ایک شخص جانور یا کپڑا یا اور کوئی اسباب خریدے پھر یہ بیع ناجائز معلوم ہو اور مشتری کو حکم ہو کہ وہ چیز بائع کو پھیر دے (حالانکہ اس شئے میں کوئی عیب ہو جائے) تو بائع کو اس شئے کی قیمت ملے گی اس دن کی جس دن کہ وہ شئے مشتری کے قبضے میں آئی تھی نہ کہ اس دن کی جس دن وہ پھیرتا ہے کیونکہ جس دن سے وہ شئے مشتری کے قبضے میں آئی تھی اس دن سے وہ اس کا ضامن ہو گیا تھا اب جو کچھ اس میں نقصان ہو جائے وہ اسی پر ہو گا اور جو کچھ زیادتی ہو جائے وہ بھی اسی کی ہو گی اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی مال ایسے وقت میں لیتا ہے جب اس کی قدر اور تلاش ہو پھر اس کو وقت میں پھیر دیتا ہے جب کہ وہ بے قدر ہو کوئی اس کو نہ پوچھے تو آدمی ایک شئے خریدتا ہے دس دینار کو پھر اس کو رکھ چھوڑتا ہے اور پھیرتا ہے ایسے وقت میں جب اس کی قیمت ایک دینار ہو تو یہ نہیں ہو سکتا کہ بے چارے بائع کا نو دینار کا نقصان کرے یا جس دن خریدا اسی دن اس کی قیمت ایک دینار تھی پھر پھیرتے وقت اس کی قیمت دس دینار ہو گئی تو بائع مشتری کو ناحق نو دینار کا نقصان دے اسی واسطے وہ قیمت اس دن کی واجب ہوئی جس دن کہ وہ شئے مشتری کے قبضے میں آئی ہو۔

 

               قضاکی مختلف احادیث کا بیان اور قضا کے مکروہ ہونے کا بیان

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ ابو الدرداء نے سلمان فارسی کو لکھا کہ چلے آؤ مقدس زمین میں سلمان نے جواب لکھا کہ زمین کسی کو مقدس نہیں کرتی بلکہ آدمی کو اس کے عمل مقدس کرتے ہیں اور میں نے سنا ہے تم طبیب بنے ہو لوگوں کی دوا کرتے ہو اگر تم لوگوں کو دوا سے اچھا کرتے ہو تو بہتر ہے اور اگر تم طب نہیں جانتے تو اور خواہ مخواہ طبیب بن گئے تو بچو کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی آدمی کو مار ڈالو تو جہنم میں جاؤ پھر ابوالدردا جب فیصلہ کیا کرتے دو شخصوں میں اور وہ جانے لگتے تو دوبارہ ان کو بلاتے اور کہتے پھر بیان کرو اپنا قصہ میں تو واللہ طب نہیں جانتا یوں ہی علاج کرتا ہوں۔

 

کہا مالک نے اگر کسی شخص نے دوسرے کے غلام سے بغیر اس کی اجازت کے کسی بڑے کام میں مدد لی جس کے واسطے نوکر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے یا مزدور بلانے کی اور غلام میں کوئی عیب ہو گیا اس کام کرنے کی وجہ سے تو اس پر ضمان لازم آئے گی اور جو غلام صحیح و سالم رہا اور اس کے مولیٰ (مالک) نے مزدوری طلب کی تو مزدوری دینی پڑے گی۔

 

کہا مالک نے اگر غلام کا ایک حصہ آزاد ہو اور کچھ فقیق (مملوک) تو مال اس کا اس کے پاس رہے گا اگر اس میں کوئی نیا کام نہیں کر سکتا بلکہ بقدر ضرورت کھاتا پیتا ہے تو جب مر جائے گا تو وہ مال اس کو ملے گا جس کی ملک باقی تھی۔

 

کہا مالک نے جس روز سے لڑکا مالدار ہو جائے تو والد نے جو اس پر خرچ کیا ہو اس روز سے حساب کر کے اس سے کٹوتی لے سکتا ہے اگر چاہے، خواہ مال لڑکے کا نقد کی قسم سے ہو یا جنس کی قسم سے۔

 

عمر بن عبدالرحمن بن دلاف مزنی سے روایت ہے کہ ایک شخص قبیلہ جہینہ کا سب حاجیوں سے آگے جا کر اچھے اچھے مہنگے اونٹ خریدا کرتا تھا اور جلدی چلا کرتا تھا سب حاجیوں سے پہلے پہنچتا تھا ایک بار وہ مفلس ہو گیا اور اس کا مقدمہ حضرت عمر کے پاس آیا آپ نے کہا بعد حمد و صلوۃ کے لوگوں کو معلوم ہو کہ اسیفع نے جو جہنیہ کے قبیلے کا ہے دین اور امانت میں بھی بات پسند کی کہ لوگ اس کو کہا کریں کہ وہ سب حاجیوں سے پہلے پہنچا آگاہ رہو کہ اس نے قرض خریدا ادا کرنے کا خیال نہ رکھا تو وہ مفلس ہو گیا اور قرض نے اس کے مال کو لپیٹ لیا تو جس شخص کا اس پر قرض آتا ہے وہ ہمارے پاس صبح کو آئے ہم اس کا مال قرض خواہوں کو تقسیم کریں گے تم لوگوں کو چاہیے کہ قرض لینے سے پرہیز کرو قرض میں لیتے ہی رنج ہوتا ہے اور آخر میں لڑائی ہوتی ہے

 

               غلام کسی کا نقصان کرین یا کسی کو زخمی کریں تو کیا حکم ہے

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک غلام کی جنایت میں سنت یہ ہے کہ اگر غلام کا رقبہ (گردن۔ آزادی یا غلامی) اس میں پھنس جائے گا تو مولیٰ (مالک) کو اختیار ہے چاہے ان چیزوں کی قیمت یا زخم کی دیت ادا کرے اور اپنے غلام کو رکھ لے چاہے اس غلام ہی کو صاحب جنایت کے حوالے کر دے غلام کی قیمت سے زیادہ مولیٰ (مالک کو کچھ نہ دینا ہو گا اگرچہ اس چیز کی قیمت یا دیت اس کی قیمت سے زیادہ ہو۔

 

               اپنی اولاد کو جو دینا درست ہے اس کا بیان

 

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ عثمان بن عفان نے کہا کہ جو شخص اپنے نابالغ لڑکے کو کوئی چیز ہبہ کرے تو درست ہے جب کہ علانیہ دے اور اس پر گواہ کر دے پھر اس کا ولی باپ ہی رہے گا۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک حکم یہ ہے کہ جو شخص اپنے نابالغ بچے کو سونا یا چاندی دے پھر وہ بچہ مر جائے اور باپ ہی اس کا ولی تھا تو وہ مال اس بچے کا شمار نہ کیا جائے گا الاّ جس صورت میں باپ نے اس مال کو جدا کر دیا ہو یا کسی کے پاس رکھوایا ہو تو وہ بیٹے کا ہو گا (اب وہ مال بیٹے کے سب وارثوں کو بموجب فرائض کے پہنچے گا۔)

 

 

 

ترکے کی تقسیم کے بیان میں

 

               اولاد کی میراث کا بیان

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اجماعی ہے کہ جب ماں یا باپ مر جائے اور لڑکے اور لڑکیاں چھوڑ جائے تو لڑکے کو دوہرا حصہ اور لڑکی کو ایک حصہ ملے گا۔ اگر میت کی صرف لڑکیاں ہوں دو یا دو سے زیادہ تو دو ثلث ترکے کے اس کو ملیں گے اگر ایک ہی لڑکی ہے اس کو آدھا ترکہ ملے گا۔ اگر میت کے ذوی الفروض میں سے بھی کوئی ہو اور لڑکے لڑکیاں بھی ہوں تو پہلے ذوی الفروض کا حصہ دے کر جو بچ رہے گا اس میں سے دوہرا حصہ لڑکے کو اور ایک حصہ لڑکی کو ملے گا۔ اور جب بیٹے بیٹیاں نہ ہوں تو پوتے پوتیاں ان کی مثل ہوں گی جیسے وہ وارث ہوتے ہیں یہ بھی وارث ہوں گے اور جیسے وہ محجوب (محروم) ہوتے ہیں یہ بھی محجوب ہوں گے۔ اگر ایک بیٹا بھی موجود ہو گا تو بیٹے کی اولاد کو یعنی پوتے اور پوتیوں کو ترکہ نہ ملے گا اگر کوئی بیٹا نہ ہو لیکن دو بیٹیاں یا زیادہ موجود ہوں تو پوتیوں کو کچھ نہ پہنچے گا مگر جس صورت میں ان پوتیوں کے ساتھ کوئی پوتا بھی ہو خواہ انہی کے ہم رتبہ ہو یا ان سے بھی زیادہ دور ہو۔ (مثلاً پوتے کا بیٹا یا پوتا ہو) تو بعد بیٹیوں کے حصے دینے کے اور باقی ذوی الفروض کے جو کچھ بچ رہے گا اس کو للذکور مثل حظ الانثییین کے بانٹ لیں گے اور اس پوتے کے ساتھ وہ پوتیاں جو اس سے زیادہ میت کے (رشتہ و ترکہ میں ) قریب ہیں یا اس کے برابر ہیں وارث ہوں گی جو اس سے بھی زیادہ پوتیاں دور ہیں وہ وارث نہ ہوں گی۔ اور جو کچھ نہ بچے گا تو پوتیوں اور پوتے کو کچھ نہ ملے گا۔ اگر میت کی صرف ایک بیٹا ہو تو اس کو آدھا مال ملے گا اور پوتیوں کو جتنی ہوں چھٹا حصہ ملے گا۔ اگر ان پوتیوں کے ساتھ کوئی پوتا بھی ہو تو اس صورت میں ذوی الفروض کے حصے ادا کر دیں گے اور جو بچ رہے گا وہ للذکر مثل حظ الانثیین پوتا اور پوتیاں تقسیم کر لیں گی اور یہ پوتا ان پوتیوں کو حصہ دلا دے گا جو اس کے ہمرتبہ ہوں یا اس سے زیادہ قریب ہوں مگر جو اس سے بعید ہوں گی وہ محروم ہوں گی اگر ذوی الفروض سے کچھ نہ بچے تو ان پوتے پوتیوں کو کچھ نہ ملے گا کیونکہ اللہ جل جلالہ اپنی کتاب میں ارشاد فرماتے ہیں کہ وصیت کرتا ہے تم کو اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد میں مرد کو دوہرا حصہ اور عورت کو ایک اگر سب بیٹیاں ہوں دو سے زیادہ تو ان کو دو تہائی مال ملے گا اگر ایک بیٹی ہو تو اس کو نصف ملے گا۔

 

 

 

               خاوند اور بیوی کی میراث کا بیان

 

کہا مالک نے جب میت کا لڑکا لڑکی یا پوتا پوتی نہ ہو تو اس کے خاوند کو آدھا مال ملے گا اگر میت کی اولاد ہے یا میت کے بیٹے کی اولاد ہے مرد ہو یا عورت تو خاوند کو ربع (چوتھائی) حصہ ملے گا بعد ادا کرنے وصیت اور دین (قرض کے اور خاوند جب مر جائے اور اولاد نہ ہو اور اس کے بیٹے کی اولاد ہو تو اس کی بی بی کو ربع (چوتھائی) حصہ ملے گا۔ اگر اولاد ہو یا بیٹے کی اولاد ہو مرد ہو یا عورت تو بیوی کو ثمن (آٹھواں حصہ اور وصیت اور دین (قرض ادا کرنے کے کیونکہ اللہ جل جلالہ ارشاد فرماتا ہے تمہارے واسطے آدھا ترکہ ہے تمہاری بیویوں کا اگر ان کی اولاد نہ ہو اور اگر ان کی اولاد ہو تو تم کو ربع (چوتھائی) ملے گا بعد وصیت اور دین کے اور عورتوں کو تمہارے ترکہ سے ربع (چوتھائی ملے گا اگر تمہاری اولاد نہ ہو اور اگر اولاد ہو تو ان کو ثمن (آٹھواں ملے گا بعد وصیت اور دین (قرض) ادا کرنے) کے۔

 

               اخیافی بھائی یا بہنوں کی میراث کا بیان

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ اخیافی بھائی اور اخیافی بہنیں جب کہ میت کی اولاد ہو یا اس کے بیٹے کی اولاد ہو یعنی پوتے یا پوتیاں یا میت کا باپ یا دادا موجود ہو تو ترکے سے محروم رہیں گے البتہ اگر یہ لوگ نہ ہوں تو ترکہ پائیں گے اگر ایک بھائی اخیافی یا ایک بہن اخیافی ہو تو اس کو چھٹا حصہ ملے گا اگر دو ہوں تو ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا اگر دو سے زیادہ ہوں تو ثلث (تہائی) مال میں سب شریک ہوں گے برابر برابر بانٹ لیں گے بہن بھی بھائی کے برابر لے گی کیونکہ اللہ جل جلالہ فرماتا ہے کہ اگر کوئی شخص مر جائے جو کلالہ ہو یا کوئی عورت مر جائے کلالہ ہو کر اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن (اخیافی جیسے سعد بن ابی وقاص کی قرات میں ہے) ہو تو ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا اگر اس سے زیادہ ہوں (یعنی ایک بھائی اور ایک بہن یا دو بہنیں دو بھائی یا اس سے زیادہ ہوں) تو وہ سب ثلث (تہائی) میں شریک ہوں گے (یعنی مرد اور عورت سب برابر پائیں گے۔

 

 

 

               سگے بھائی بہن کی میراث کا بیان

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ سگے بھائی بہن بیٹے یا پوتے کے ہوتے ہوئے یا باپ کے ہوتے ہوئے کچھ نہ پائیں گے بلکہ سگے بھائی بہن بیٹیوں یا پوتیوں کے ساتھ وارث ہوتے ہیں۔ جب میت کا دادا یعنی باپ کا باپ زندہ نہ ہو تو جس قدر مال بعد ذوی الفروض کے حصہ دینے کے بچ رہے گا وہ سگے بہن بھائیوں کا ہو گا بانٹ لیں گے اس کو اللہ کی کتاب کے موافق للذکر مثل حظ الانثیین کے طور پر اور اگر کچھ نہ بچے گا تو کچھ نہ پائیں گے۔ کہا مالک نے اگر میت کا باپ اور دادا یعنی باپ کا باپ نہ ہو نہ اس کا بیٹا ہو نہ پوتا ہو نہ بیٹے نہ پوتے صرف ایک بہن ہو سگی تو اس کو آدھا مال ملے گا اگر دو سگی بہنیں ہوں یا زیادہ تو دو ثلث (دو تہائی) ملیں گے اگر ان بہنوں کے ساتھ کوئی بھائی بھی ہو تو بہنوں کو کوئی معین حصہ نہ ملے گا۔ بلکہ اور ذوی الفروض کا فرض ادا کر کے جو بچ رہے گا وہ للذکر مثل حظ الانثیین کے طور پر بھائی بہن بانٹ لیں گے مگر ایک مسئلہ میں سگے بھائی یا بہنوں کے لیے کچھ نہیں بچتا تو وہ اخیافی بھائی بہنوں کے شریک ہو جائیں گے۔ صورت اس مسئلے کی یہ ہے ایک عورت مر جائے اور خاوند اور ماں اور سگے بھائی بہنیں اور اخیافی بھائی بہنیں چھوڑ جائے تو خاوند کو نصف اور ماں کو سدس (چھٹا) اور اخیافی بھائی بہنوں کو ثلث ملے گا اب سگے بہن بھائیوں کے واسطے کچھ نہ بچا تو ثلث (تہائی) میں وہ اخیافی بھائی بہنوں کے شریک ہو جائیں گے مگر مرد اور عورت سب کو برابر پہنچے گا اس واسطے کہ سب بھائی بہن مادری ہیں کیونکہ ماں سب کی ایک ہے۔ کیونکہ اللہ جل جلالہ ، فرماتا ہے کہ اگر کوئی شخص کلالہ مرے اس کا بھائی ہو یا بہن تو ہر ایک کو سدس ملے گا اگر زیادہ ہوں تو سب شریک ہوں گے ثلث (تہائی) میں۔ پس حقیقی بہن بھائی بھی اخیافی بہن بھائیوں کے ساتھ شریک ہو گئے ثلث (تہائی) میں اس مسئلے میں اس لیے کہ وہ بھی مادری بھائی ہیں۔

 

               سوتیلے یعنی علاتی بھائی بہنوں کی میراث کا بیان جس کا باپ ایک ہو اور ماں جدا جدا

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ جب سگے بھائی بہنیں نہ ہوں تو سوتیلے بھائی بہنیں ان کی مثل ہوں گے ان کا مرد ان کے مرد کے برابر ہے اور ان کی عورت ان کی عورت کے برابر ہے۔ (تو اگر میت کا صرف ایک سوتیلا بھائی ہو تو کل مال لے لے گا اگر صرف ایک سوتیلی بہن ہو تو نصف لے گی اگر دو یا تین سوتیلی بہنیں ہوں تو دو ثلث لیں گی اگر سوتیلے بھائی اور بہن بھی ہوں تو للذکر مثل حظ الانثیین کے طور پر تقسیم ہو گا) مگر سگے بھائی بہنوں میں یہ فرق ہے کہ سوتیلے بھائی بہن اخیافی بھائی بہنوں کے اس مسئلے میں شریک نہ ہوں گے جو ابھی بیان ہوا کیونکہ ان کی ماں جدا ہے۔ اگر سگی بہنیں اور سوتیلی بہنیں جمع ہوں اور سگی بہنوں کے ساتھ کوئی سگا بھائی بھی ہو تو سوتیلی بہنوں کو کچھ نہیں ملے گا اگر سگا بھائی نہ ہو بلکہ ایک سگی بہن ہو اور باقی سوتیلی بہنیں تو سگی بہن کو نصف ملے گا اور سوتیلی بہنوں کو سدس (چھٹا) ثلثین (دو ثلث) کے پورا کرنے کے واسطے اگر سوتیلی بہنوں کے ساتھ کوئی سوتیلا بھائی بھی ہو تو ان کا کوئی حصہ معین نہ ہو گا بلکہ ذوی الفروض کو دے کر جو بچ رہے گا اس کو سوتیلے بھائی بہن للذ کر مثل الانثیین کے طور پر بانٹ لیں گے اور اگر کچھ نہ بچے گا تو کچھ نہ لیں گے اگر سگی بہنیں دو ہوں یا زیادہ تو دو ثلث ان کو ملیں گے اور سوتیلی بہنوں کو کچھ نہ ملے گا مگر جب سوتیلی بہنوں کے ساتھ کوئی سوتیلا بھائی بھی ہو تو ذوی الفروض کا حصہ ادا کر کے جو کچھ بچے گا اس کو للذکرین مثل حظ الانثیین کے طور پر بانٹ لیں گے۔ اگر کچھ نہ بچے گا تو کچھ نہ ملے گا۔ اخیافی بھائی بہنوں کو خواہ سگے بھائی بہنوں کے ساتھ ہوں یا سوتیلے بھائی بہنوں کے ایک کو سدس (چھٹا) ملے گا اور دو کو ثلث مرد اور عورت ان کے سب برابر ہیں۔ جیسے اوپر گزر چکا ہے۔

 

               دادا کی میراث کا بیان

 

معاویہ بن ابی سفیان نے لکھا زید بن ثابت کو اور پوچھا دادا کی میراث کے متعلق زید بن ثابت نے جواب لکھا کہ تم نے مجھ سے پوچھا دادا کی میراث کے متعلق اور یہ وہ مسئلہ ہے جس میں خلفاء حکم کرتے تھے میں حاضر تھا تم سے پہلے دو خلیفاؤں کے سامنے تو ایک بھائی کے ساتھ وہ دادا کو نصف دلاتے تھے اور دو بھائیوں کے ساتھ ثلث اگر بہت بھائی بہن ہوتے تب بھی دادا کو ثلث سے کم نہ دلاتے۔

 

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن خطاب نے دادا کو اتنا دلایا جتنا کہ آج کل لوگ دلاتے ہیں۔

 

سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عثمان بن عفان اور زید بن ثابت نے دادا کے واسطے بھائی بہنوں کے ساتھ ایک ثلث دلایا۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ دادا باپ کے ہوتے ہوئے محروم ہو لیکن بیٹے اور پوتے کے ساتھ دادا کو چھٹا حصہ بطور فرض کے ملتا ہے اگر بیٹا یا پوتا نہ ہو نہ سگا بھائی بہن ہو نہ سوتیلا بہن بھائی مگر اور ذوی الفروض ہوں تو ان کا حصہ دے کر اگر چھٹا حصہ بچ رہے گا یا اس سے زیادہ تو دادا کو مل جائے گا اگر اتنا نہ بچے تو دادا کا چھٹا حصہ بطور فرض کے مقرر ہو گا۔

 

کہا مالک نے اگر دادا اور اس کے بھائی بہنوں کے ساتھ کوئی ذوی الفورض سے بھی ہو تو پہلے ذوی الفروض کو ان کا فرض دیں گے بعد اس کے جو بچے گا اس میں سے کئی صورتوں میں سے جو دادا کے لیے بہتر ہو گی کریں گے وہ صورتیں یہ ہیں ایک تو یہ کہ جس قدر مال بچا ہے اس کا ثلث دادا کو دے دیا جائے۔ دوسرے یہ کہ دادا بھی مثل بھائیوں کے ایک بھائی سمجھا جائے۔ اور جس قدر حصہ ایک بھائی کا ہو اسی قدر اس کو بھی ملے۔ تیسرے یہ کہ کل مال کا سدس (چھٹا حصہ) اس کو دے دیا جائے گا ان صورتوں میں جو صورت اس کے لیے بہتر ہو گی وہ کریں گے بعد اس کے دادا کودے کر جس قدر مال بچے گا وہ بھائی بہن للذکر مثل حظ الانثیین کے طور پر تقسیم کر لیں گے مگر ایک مسئلے میں تقسیم اور طور سے ہو گی (اس کو مسئلہ اکدریہ کہتے ہیں) وہ یہ ہے ایک عورت مر جائے اور خاوند اور ماں اور سگی بہن اور دادا کو چھوڑ جائے تو خاوند کو نصف اور ماں کو ثلث اور دادا کو سدس (چھٹا) اور سگی بہن کو نصف ملے گا۔ پھر دادا کو سدس (چھٹا) اور بہن کا نصف ملا کر اس کے تین حصے کریں گے دو حصے دادا کو ملیں گے اور ایک حصہ بہن کو۔

 

کہا مالک نے اگر دادا کے ساتھ سوتیلے بھائی ہوں تو ان کا حکم وہی ہو گا جو سگے بھائیوں کا ہے اور جب سگے بھائی بہن بھی ہوں اور سوتیلے بہن بھائی بھی ہوں تو سوتیلے صرف بھائیوں کی گنتی میں شریک ہو کر دادا کے حصے کو کم کر دیں گے مگر کچھ نہ پائیں گے۔ مگر جس صورت میں سگے بھائی بہنوں کے ساتھ اخیافی یعنی مادری بھائی ہوں تو وہ بھائیوں کی گنتی میں شریک ہو کر دادا کے حصے کو کم نہ کریں گے کیونکہ اخیافی بھائی بہن دادا کے ہوتے ہوئے محروم ہیں۔ اگر دادا ہوتا اور صرف اخیافی بھائی بہن ہوتے تو کل مال دادا کو ملتا اور اخیافی بھائی بہن محروم ہو جاتے خیر اب جس صورت میں دادا کے ساتھ سگے بھائی بہن اور علاقی یعنی سوتیلے بھائی بہن بھی ہوں تو جو مال بعد دادا کے حصے دینے کے بچے گا وہ سب سگے بھائی بہنوں کو ملے گا۔ اور سوتیلوں کو کچھ نہ ملے گا مگر جب سگوں میں صرف ایک بہن ہو اور باقی سب سوتیلے بھائی اور بہن ہوں تو سوتیلے بھائی اور بہنوں کے سبب سے وہ سگی بہن دادا کا حصہ کم کر دی گئی پھر اپنا پورا حصہ یعنی نصف لے لے گی اگر اس پر بھی کچھ بچ رہے گا تو سوتیلے بھائی اور بہن کو مثل حظ الانثیین کے طور پر تقسیم ہو گا اور اگر کچھ نہ بچے گا تو سوتیلے بھائی اور بہنوں کو کچھ نہ ملے گا۔

 

 

 

               نانی اور دادی کی میراث کا بیان

 

قبیصہ بن ذویب سے روایت ہے کہ میت کی نانی ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس میراث مانگنے آئی ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اللہ کی کتاب میں تیرا کچھ حصہ مقرر نہیں ہے اور نہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس باب میں کوئی حدیث سنی ہے تو واپس جا۔ میں نے لوگوں سے پوچھا تو مغیرہ بن شعبہ نے کہا کہ میں اس وقت موجود تھا میرے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نانی کو چھٹا حصہ دلایا ہے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کوئی اور بھی تمہارے ساتھ ہے تو محمد بن مسلمہ انصاری کھڑے ہوئے اور جیسا مغیرہ بن شعبہ نے کہا تھا ویسا ہی بیان کیا ابوبکر نے چھٹا حصہ اس کو دلا دیا پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وقت میں ایک دادی میراث مانگنے آئی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اللہ کی کتاب میں تیرا کچھ حصہ مذکور نہیں اور پہلے جو حکم ہو چکا ہے وہ نانی کے بارے میں ہوا تھا اور میں اپنی طرف سے فرائض میں کچھ بڑھا نہیں سکتا لیکن وہی چھٹا حصہ تو بھی لے اگر نانی بھی ہو تو دونوں سدس کا بانٹ لو اور جو تم دونوں میں سے ایک اکیلی ہو وہی چھٹا حصہ لے لے۔

 

قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ نانی اور دادی دونوں آئیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس، ابوبکر صدیق نے سدس یعنی چھٹا حصہ نانی کو دینا چاہا ایک شخص انصاری بولا اے ابوبکر تم اس کو نہیں دلاتے جو اگر مر جاتی اور میت زندہ ہوتا یعنی پوتا اور وارث ہوتا اور اس کو دلاتے ہو جو اگر مر جاتی اور میت زندہ ہوتا یعنی اس کا نواسہ تو وارث نہ ہوتا پھر ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ سن کر سدس ان دونوں کو دلایا۔

 

ابوبکر بن عبدالرحمن حصہ نہیں دلاتے تھے مگر نانی کو یا دادی کو۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے جس میں کچھ اختلاف نہیں ہے کہ نانی ماں کے ہوتے ہوئے کچھ نہ پائے گی البتہ اگر ماں نہ ہو تو اس کو چھٹا حصہ ملے گا اور دادی ماں کے یا باپ کے ہوتے ہوئے کچھ نہ پائے گی جب ماں باپ نہ ہوں تو اس کو چھٹا حصہ ملے گا اگر نانی اور دادی دونوں ہوں اور میت کے ماں باپ جو نانی دادی سے زیادہ قریب ہیں نہ ہوں تو ان میں سے نانی اگر میت کے ساتھ زیادہ قریب ہو گی تو اسی کو سدس (چھٹا حصہ) ملے گا۔ اور جو دادی زیادہ قریب ہو گی یا دونوں برابر ہوں تو سدس میں دونوں شریک ہوں گے۔

 

کہا مالک نے میراث کسی کے واسطے نہیں ہے دادیوں اور نانیوں میں سے مگر ماں کی ماں کو اگرچہ کتنی ہی دور ہو جائے۔ ان کے سوا اور نانیوں دادیوں کو میراث (دینا مقرر) نہیں ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ترکہ دلایا نانی کو پھر ابوبکر نے بھی اس کا پوچھا جب ان کو بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نانی کو ترکہ دلایا انہوں نے دلایا بعد اس کے دادی حضرت عمر کے وقت میں آئی آپ نے فرمایا میں فرائض کو بڑھا نہیں سکتا لیکن اگر تو بھی ہو اور نانی بھی ہو تو دونوں سدس (چھٹا) کو بانٹ لیں اور جو کوئی تم میں سے تنہا ہو تو وہ پورا سدس (چھٹا) لے لے۔

 

               کلالہ کی میراث کا بیان

 

زید بن اسلم سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا کلالے کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کافی ہے تجھ کو وہ آیت جو گرمی میں اتری ہے سورۃ نساء کے آخر میں۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک اس امر میں کچھ اختلاف نہیں ہے کہ کلالہ دو قسم کا ہے ایک تو وہ آیت جو سورہ نساء کے شروع میں ہے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اگر ایک شخص مر جائے کلالہ یا کوئی عورت مر جائے کلالہ اور اس کا ایک بھائی یا بہن ہو (اخیافی) تو ہر ایک کو سدس ملے گا اگر زیادہ ہوں تو سب شریک ہوں گے ثلث میں یہ وہ کلالہ ہے جس کا نہ باپ ہو نہ اس کی اولاد ہو کیونکہ اس وقت تک اخیافی بھائی بہن وارث نہیں ہوتے تھے۔ دوسری وہ آیت جو سورہ نساء کے آخر میں ہے فرمایا اللہ تعالیٰ نے پوچھتے ہیں تجھ سے کلالے (کی میراث) کے متعلق کہہ دے تو اللہ تم کو حکم دیتا ہے کلالے میں اگر کوئی شخص مر جائے اس کی اولاد نہ ہو اگر دو یا ایک بہن ہو تو اس کو آدھا متروکہ ملے گا اگر بہن مر جائے تو وہ بھائی اس کے کل ترکے کا وارث ہوتا ہے جبکہ اس بہن کی اولاد نہ ہو اگر دو بہنیں ہوں تو ان کو دو ثلث ملیں گے اگر بھائی بہن ملے جلے ہوں تو مرد کو دوہرا حصہ اور عورت کو ایک حصہ ملے گا اللہ تم سے بیان کرتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہو جاؤ اللہ ہر چیز کو جانتا ہے۔ یہ وہ کلالہ ہے جس میں بھائی بہن عصبہ ہو جاتے ہیں جب میت کا بیٹا نہ ہو تو وہ دادا کے سات وارث ہوں گے کلالے میں۔

 

کہا مالک نے دادا بھائیوں کے ساتھ وارث ہو گا اس لیے کہ وہ ان سے اولیٰ ہے کیونکہ دادا بیٹے کے ساتھ بھی سدس (چھٹا) کا وارث ہوتا ہے برخلاف بھائی اور بہنوں کے اور کیونکہ دادا بھائی کے برابر نہ ہو گا وہ میت کے بیٹے کے ہوتے ہوئے بھی ایک سدس لیتا ہے تو بھائی بہنوں کے ساتھ ثلث کیوں نہ ملے گا اس لیے کہ اخیافی بھائی بہن سگے بھائی بہنوں کے ساتھ ثلث لیتے ہیں اگر دادا بھی موجود ہو تو وہ اخیافی بھائی بہنوں کو محروم کر دے گا پھر وہ ثلث اپنے آپ لے لے گا کیونکہ اسی نے ان کو محروم کیا ہے اگر وہ نہ ہو تو اس ثلث کو اخیافی بھائی بہن لیتے تو دادا نے وہ مال لیا جو سگے یا سوتیلے بھائی بہنوں کو نہیں مل سکتا تھا بلکہ اخیافی بھائی بہنوں کا حق تھا اور دادا ان سے اولیٰ تھا اس واسطے اس نے لے لیا اور اخیافی بھائی بہن کو محروم کیا۔

 

               پھوپھی کی میراث کا بیان

 

ایک مولی سے قریش کے روایت ہے کہ جس کو ابن موسیٰ کہتے تھے کہا کہ میں بیٹھا تھا عمر بن خطاب کے پاس انہوں نے ظہر کی نماز پڑھ کر یرفا (حضرت عمر کے غلام) سے کہا میری کتاب لے آنا وہ کتاب جو انہوں نے لکھی تھی پھوپھی کی میراث کے بارے ، میں نے اپنی رائے سے پھوپھی کے واسطے میراث تجویز کی تھی اس قیاس سے کہ پھوپھی کا وارث بھتیجا ہوتا ہے وہ بھی اس کی وارث ہو گی انہوں نے کتاب منگوائی کہ ہم لوگوں سے پوچھیں اور مشورہ لیں پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک کڑاہی یا پیالہ منگایا جس میں پانی تھا اور اس کتاب کو دھو ڈلا اور فرمایا اگر پھوپھی کو حصہ دلانا اللہ کو منظور ہوتا تو اپنی کتاب میں ذکر فرماتا۔

 

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ تعجب کی بات ہے کہ پھوپھی کا بھتیجا وارث ہوتا ہے لیکن بھتیجے کی پھوپھی وارث نہیں ہوتی۔


 

               عصبات کی میراث کا بیان

 

؂کہا مالک نے ہمارے نزدیک اس امر میں کچھ اختلاف نہیں ہے اور ہم نے اپنے شہر والوں کو اسی پر پایا کہ سگا بھائی مقدم ہے سوتیلے بھائی کا بیٹا مقدم ہے سگے بھائی کے پوتے اور سوتیلے بھائی کا بیٹا مقدم ہے سگے چچا پر اور سگا چچا مقدم ہے سوتیلے چچا پر (جو باپ کا سوتیلا بھائی ہو) اور سوتیلا چچا سگے چچا کے بیٹوں پر مقدم ہے اور سوتیلے چچا کے بیٹے باپ کے چچا پر مقدم ہیں (جو دادا کا سگا بھائی ہو)

 

کہا مالک نے دادا بھتیجوں سے مقدم ہے اور چچا سے بھی مقدم ہے اور بھتیجا سگے بھائی کا بیٹا ولاء لینے میں دادا سے مقدم ہے۔

 

               جس کو میراث نہیں ملتی

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ اخیافی بھائی کا بیٹا اور نانا اور باپ کا اخیافی بھائی اور ماموں اور نانا کی ماں اور سگے بھائی کے بیٹے اور پھوپھی اور خالہ وارث نہ ہوں گے۔

 

کہا مالک نے جو عورت دور کے رشتے کی ہو ان عورتوں میں سے وہ وارث نہ ہو گی اور عورتوں میں کوئی وارث نہیں مگر جن کو اللہ جل جلالہ نے بیان کر دیا ہے اپنی کتاب میں وہ ماں ہے اور بیٹی اور بیوی اور بہن سگی اور سوتیلی اور بہن اخیافی اور نانی دادی کی میراث حدیث سے ثابت ہے اسی طرح عورت اپنے اس غلام کی وارث ہو گی جس کو وہ آزاد کرے۔

 

 

 

               ملت اور مذہب کا اختلاف ہو تو میراث نہیں ہے

 

اسامہ بن زید سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہ مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا۔

 

علی بن حسین سے روایت ہے انہوں نے کہا جب ابو طالب مر گئے تو ان کے وارث عقیل اور طالب ہوئے اور علی ان کے وارث نہیں ہوئے علی بن حسین نے کہا اسی واسطے ہم نے اپنا حصہ مکہ میں گھروں میں سے چھوڑ دیا۔

 

محمد بن اشعث کی ایک پھوپھی یہودی تھی یا نصرانی مر گئی محمد بن اشعث نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کیا اور پوچھا کہ اس کا کون وارث ہو گا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اس کے مذہب والے وارث ہوں گے پھر عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عفان جب خلیفہ ہوئے تو ان سے پوچھا عثمان نے کہا کیا تو سمجھتا ہے کہ عمر نے جو تجھ سے کہا تھا اس کو میں بھول گیا وہی اس کے وارث ہوں گے جو اس کے مذہب والے ہیں۔

 

اسمعیل بن ابی حکیم سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز کا ایک غلام نصرانی تھا اس کو انہوں نے آزاد کر دیا وہ مر گیا تو عمر بن عبدالعزیز نے مجھ سے کہا کہ اس کا مال بیت المال میں داخل کر دو۔

 

سعید بن مسیب کہتے تھے کہ عمر بن خطاب نے انکار کیا غیر ملک کے لوگوں کی میراث دلانے کا اپنے ملک والوں کی مگر جو عرب میں پیدا ہوا ہو۔

 

کہا مالک نے اگر ایک عورت حاملہ کفار کے ملک میں سے آ کر عرب میں رہے اور وہاں (بچہ ) جنے تو وہ اپنے لڑکے کی وارث ہو گی اور لڑکا اس کا وارث ہو گا۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اجماعی ہے اور اس میں کچھ اختلاف نہیں ہے کہ مسلمان کافر کا کسی رشتہ کی وجہ سے وارث نہیں ہو سکتا خواہ وہ رشتہ نانے کا ہو یا ولاء کا یا قرابت کا اور نہ کسی کو اس کی وراثت سے محروم کر سکتا ہے۔

 

کہا مالک نے اسی طرح جو شخص میراث نہ پائے وہ دوسرے کو محروم نہیں کر سکتا۔

 

               جن کی موت کا وقت معلوم نہ ہو مثلاً لڑائی میں کئی آدمی مارے جائیں ان کا بیان

 

ربیعہ بن ابی عبدالرحمن اور بہت سے علماء سے روایت ہے کہ جتنے لوگ قتل ہوئے جنگ جمل اور جنگ صفین اور یوم الحرہ میں اور جو یوم القدید میں مارے گئے وہ آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوئے مگر جس شخص کا حال معلوم ہو گیا کہ وہ اپنے وارث سے پہلے مارا گیا۔

 

کہا مالک نے یہی حکم ہے اگر کوئی آدمی ڈوب جائے یا مکان سے گر کر مارے جائیں یا قتل کیے جائیں جب معلوم نہ ہو سکے کہ پہلے کون مرا اور بعد میں کون مرا تو آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں گے بلکہ ہر ایک کا ترکہ اس کے وارثوں کو جو زندہ ہوں پہنچے گا۔

 

کہا مالک نے کوئی کسی کا وارث شک سے نہ ہو گا بلکہ علم و یقین سے وارث ہو گا مثلاً ایک شخص مر جائے اور اس کے باپ کا مولیٰ (غلام آزاد کیا ہوا) مر جائے اب اس کے بیٹے یہ کہیں اس مولیٰ کا وارث ہمارا باپ تھا تو یہ نہیں ہو سکتا جب تک کہ علم و یقین یا گواہوں سے یہ ثابت نہ ہو کہ پہلے مولیٰ مرا تھا۔ اس وقت تک مولیٰ کے وارث جو زندہ ہوں اس ترکہ کو پائیں گے۔

 

کہا مالک نے اسی طرح اگر سگے دو بھائی مر جائیں ایک کی اولاد ہو اور دوسرا لا ولد ہو ان دونوں کا ایک سوتیلا بھائی بھی ہو پھر معلوم نہ ہو سکے کہ پہلے کون سا بھائی مرا ہے تو جو بھائی لا ولد مرا ہے اس کا ترکہ اس کے سوتیلے بھائی کو ملے گا اس کے بھتیجوں کو نہ ملے گا۔

 

               لعان والی عورت کے بچے اور ولد الزنا کی میراث کا بیان

 

عروہ بن زبیر کہتے تھے کہ لعان والی عورت کا لڑکا یا زنا کا لڑکا جب مر جائے تو اس کی ماں کتاب اللہ کے موافق اپنا حصہ لے گی اور جو اس کے مادری بھائی ہیں وہ اپنا حصہ لیں گے باقی اس کی ماں کے موالی کو ملے گا اگر وہ آزاد کی ہوئی ہو اور اگر عربیہ ہو تو بعد ماں اور بھائی بہنوں کے حصے کے جو بچے گا وہ مسلمانوں کا حق ہو گا۔

 

کہا مالک نے سلیمان بن یسار سے بھی مجھے ایسا ہی پہنچا اور ہمارے شہر کے اہل علم کی یہی رائے ہے۔

 

 

کتاب دیتوں کے بیان میں

 

               دیتوں کا بیان

 

ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن محمد بن عمرو بن حزم سے روایت ہے کہ جو کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عمرہ بن حزم کے واسطے لکھی تھی دیتوں کے بیان میں اس میں یہ تھا کہ جان کی دیت سو اونٹ ہیں اور ناک کی جب پوری کاٹی جائے سو اونٹ ہیں اور مامومہ میں تیسرا حصہ دیت ہے اور جائفہ میں بھی تیسرا حصہ دیت کا ہے اور آنکھ کی دیت پچاس اونٹ ہیں اور ہاتھ کے بھی پچاس اور پیر کے بھی پچاس اور ہر انگلی کے دس اونٹ ہیں اور ہر دانت کے پانچ اونٹ اور موضحہ کی دیت پانچ اونٹ ہیں۔

 

               دیت کے وصول کرنے کا بیان

 

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن خطاب نے دیت کی قیمت لگائی گاؤں والوں پر تو جن کے پاس سونا رہتا ہے ان پر ہزار دینار مقرر کئے اور جن کے پاس چاندی رہتی ہے ان پر بارہ ہزار درہم مقرر کئے۔

 

کہا مالک نے سونے والے شام اور مصر کے لوگ ہیں اور چاندی والے عراق کے لوگ ہیں۔

 

مالک نے سنا لوگوں سے کہ دیت وصول کی جائے گی تین برس میں یا چار برس میں۔

 

کہا مالک نے تین سال میں وصول کرنا دیت کا مجھے بہت پسند ہے۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ اتفاق ہے کہ سونے چاندی والوں سے دیت میں اونٹ نہ لیے جائیں گے اونٹ والوں سے سونا چاندی نہ لیا جائے گا اور سونے والے سے چاندی نہ لی جائے گی اور چاندی والے سے سونا نہ لیا جائے گا۔

 

               قتل عمد میں جب مقتول کے وارث دیت پر راضی ہو جائیں اس کا بیان اور مجنوں کی جنایت کا بیان

 

ابن شہاب کہتے تھے قتل عمد میں کہ جب مقتول کے وارث دیت پر راضی ہو جائیں تو دیت پچیس بنت مخاض اور پچیس بنت لبون اور پچیس حقے اور پچیس جذعے ہو گی۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ مروان بن حکم نے معاویہ بن ابی سفیان کو لکھا کہ میرے پاس ایک مجنوں لایا گیا ہے جس نے ایک شخص کو مار ڈالا معاویہ نے جواب میں لکھا کہ اسے قید کر اور اس سے قصاص نہ لے کیونکہ مجنوں پر قصاص نہیں ہے۔

 

کہا مالک نے اگر ایک بالغ اور نابالغ نے مل کر ایک شخص کو عمداً قتل کیا تو بالغ سے قصاص لیا جائے گا اور نابالغ پر نصف دیت لازم ہو گی۔

 

کہا مالک نے اسی طرح سے ایک آزاد شخص اور ایک غلام مل کر ایک غلام کو عمداً مار ڈالیں تو غلام قصاصاً قتل کیا جائے گا اور آزاد پر آدھی قیمت اس غلام کی لازم ہو گی۔

 

               قتل خطا کی دیت کا بیان

 

عراک بن مالک اور سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ ایک شخص نے جو بنی سعد میں سے تھا اپنا گھوڑا دوڑایا اور ایک شخص کی انگلی جو جہینہ کا تھا کچل دی اس میں سے خون جاری ہوا اور وہ شخص مر گیا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہلے کچلنے والے کی قوم سے کہا کہ تم پچاس قسمیں کھاتے ہو اس امر پر کہ وہ شخص انگلی کچلنے سے نہیں مرا انہوں نے انکار کیا اور رک گئے پھر میت کے لوگوں سے کہا تم قسم کھاتے ہو انہوں نے بھی انکار کیا آپ نے آدھی دیت بنی سعد سے دلائی۔

 

کہا مالک نے اس حدیث پر عمل نہیں ہے۔

 

ابن شہاب اور سلیمان بن یسار اور ریبعہ بن ابی عبدالرحمن کہتے قتل خطا کی دیت بیس بنت مخاض اور بیس بنت لبون اور بیس ابن لبون اور بیس حقے اور بیس جذعے ہیں۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ نابالغ لڑکوں سے قصاص نہ لیا جائے گا اگر وہ کوئی جنایت قصداً بھی کریں تو خطا کے حکم میں ہو گی ان سے دیت لی جائے گی جب تک کہ بالغ نہ ہوں اور جب تک ان پر حدیں واجب نہ ہوں اور احتلام نہ ہونے لگے اسی واسطے اگر لڑکا کسی کو قتل کرے تو وہ قتل خطا سمجھا جائے گا اگر لڑکا اور ایک بالغ مل کر کسی کو خطاءً قتل کریں تو ہر ایک کے عاقلے پر نصف دیت ہو گی۔

 

کہا مالک نے جو شخص خطاءً قتل کیا جائے اس کی دیت مثل اس کے اور اس کے مال کے ہو گی اس سے اس کا قرض ادا کیا جائے گا اور اس کی وصیتیں پوری کی جائیں گی اگر اس کے پاس اتنا مال ہو جو دیت سے دوگنا ہو اور وہ دیت معاف کر دے تو درست ہے اور اگر اتنا مال نہ ہو تو ثلث کے موافق معاف کر سکتا ہے کیونکہ باقی وارثوں کا بھی حق ہے۔

 

               خطاء سے کسی کو زخمی کرنے کی دیت کا بیان

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک خطا میں یہ حکم اتفاقی ہے کہ زخم کی دیت کا حکم نہ ہو گا جب تک مجروح اچھا نہ ہو جائے۔ اگر ہاتھ یا پاؤں کی ہڈی ٹوٹ جائے پھر جڑ کر اچھی ہو جائے پہلے کے موافق تو اس میں دیت نہیں ہے اور اگر کچھ نقص رہ جائے تو اس میں دیت ہے نقصان کے موافق۔ اگر وہ ہڈی ایسی ہو جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے دیت ثابت ہے تو اسی قدر دیت لازم ہو گی ورنہ سوچ سمجھ کر جس قدر مناسب ہو دیت دلائیں گے۔

 

کہا مالک نے اگر بدن میں خطاءً زخم لگ کر اچھا ہو جائے نشان نہ رہے تو دیت نہیں ہے اگر دھبہ یا عیب رہ جائے تو اس کے موافق دیت دینی ہو گی مگر جائفہ میں تہائی دیت لازم ہو گی اور منقلہ جسد میں دیت نہیں ہے جیسے موضحہ جسد میں۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ اگر جراح نے ختنہ کرتے وقت خطاء سے حشفے کو کاٹ ڈالا تو اس پر دیت ہے اور یہ دیت عاقلے پر ہو گی اسی طرح طبیب سے جو غلطی ہو جائے بھول چوک کر اس میں دیت ہے (اگر قصداً ہو تو قصاص ہے)۔

 

               عورت کی دیت کا بیان

 

سعید بن مسیب کہتے تھے کہ مرد اور عورت کی دیت ثلث دیت تک برابر ہے مثلاً عورت کی انگلی جیسے مرد کی انگلی اور دانت عورت کا جیسے دانت مرد کا اور موضحہ عورت کی مثل مرد کے موضحہ کے اس طرح منقلہ عورت کا مثل مرد کے منقلے کے ہے۔

 

ابن شہاب اور عروہ بن زبیر کہتے تھے جیسے سعید بن مسیب کہتے تھے کہ عورت ثلث دیت تک مرد کے برابر ہو گی پھر وہاں سے اس کی دیت مرد کی آدھی ہو گی۔

 

کہا مالک نے تو موضحہ اور منقلہ میں عورت اور مرد دونوں کی دیت برابر ہو گی اور مامومہ اور جائفہ جس میں ثلث دیت واجب ہے عورت کی دیت مرد کی دیت سے نصف ہو گی۔

 

ابن شہاب کہتے تھے کہ یہ سنت چلی آتی ہے کہ مرد اپنی عورت کو اگر زخمی کرے تو اس سے دیت لی جائے گی اور قصاص نہ لیا جائے گا۔

 

کہا مالک نے یہ جب ہے کہ مرد خطا سے اپنی عورت کو زخمی کرے عمداً یہ کام نہ کرے (اگر عمداً کرے تو قصاص واجب ہو گا)۔

 

کہا مالک نے جس عورت کا خاوند یا لڑکا اس کی قوم سے نہ ہو تو عورت کی جنایت کی دیت میں وہ شریک نہ ہو گا اسی طرح اس کا لڑکا یا اخیافی بھائی جب اور قوم سے ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے وقت سے دیت کنبے والوں پر ہوتی ہے مگر میراث لڑکے اور اخیافی بھائیوں کو ملے گی جیسے عورت کے موالی (غلامان آزاد) کی میراث اس کے لڑکے کو ملے گی اگرچہ اس کی قوم سے نہ ہو مگر اس کی جنایت کی دیت عورت کے کنبے والوں پر ہو گی۔

 

               پیٹ کے بچے کی دیت کا بیان

 

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ دو عورتیں ہذیل کی آپس میں لڑیں ایک نے دوسرے کے پتھر مارا اس کے پیٹ کا بچہ نکل پڑا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیت میں ایک غلام یا ایک لونڈی دینے کا حکم کیا۔

 

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم کیا پیٹ کے بچے میں جو قتل کیا جائے ایک غلام یا لونڈی دینے کا جس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیت دینے کا حکم کیا وہ بولا کیونکر میں تاوان دوں اس بچے کا جس نے نہ پیا نہ کھایا نہ بولا نہ رویا ایسے شخص کا خون ہدر ہے یعنی لغو ہے اس میں دیت نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ شخص کاہنوں کا بھائی ہے۔

 

ربیعہ بن ابو عبدالرحمن کہتے تھے کہ غلام یا لونڈی کی قیمت جو پیٹ کے بچے کی دیت میں دی جائے پچاس دینار ہونے چاہئے یا چھ سو درہم اور عورت مسلمان آزاد کی دیت پانچ سو دینار ہیں یا چھ ہزار درہم۔

 

کہا مالک نے آزاد عورت کے پیٹ میں جو بچہ ہے اس کی دیت عورت کی دیت کا دسواں حصہ ہے اور وہ پچاس دینار ہے یا چھ سو درہم اور یہ دیت پیٹ کے بچے میں اس وقت لازم آتی ہے جب کہ وہ پیٹ سے نکل پڑے مردہ ہو کر میں نے کسی کو اس میں اختلاف کرتے نہیں سنا اگر پیٹ سے زندہ نکل کر مر جائے تو پوری دیت لازم ہو گی۔

 

کہا مالک نے جنین یعنی پیٹ کے بچے کی زندگی اس کے رونے سے معلوم ہو گی اگر رو کر مر جائے تو پوری دیت لازم آئے گی اور لونڈی کے جنین میں اس لونڈی کی قیمت کا دسواں حصہ دینا ہو گا۔

 

کہا مالک نے اگر ایک عورت حاملہ نے کسی مرد یا عورت کو مار ڈالا تو اس سے قصاص نہ لیا جائے گا جب تک وضع حمل نہ ہو اگر عورت حاملہ کو کسی نے مار ڈالا عمداً یا خطاءً تو اس کے جنین کی دیت واجب نہ ہو گی بلکہ اگر عمداً مارا ہے تو قاتل قتل کیا جائے گا اور اگر خطاءً مارا ہے تو قاتل کے عاقلہ پر عورت کی دیت واجب ہو گی۔ سوال ہوا مالک سے اگر کسی نے یہودیہ یا نصرانیہ کے جنین کو مار ڈالا تو جواب دیا کہ اس کی ماں کی دیت کا دسواں حصہ دینا ہو گا۔

 

               جس میں پوری دیت لازم ہے

 

سعید بن مسیب کہتے تھے کہ دونوں ہونٹوں میں پوری دیت ہے اگر صرف نیچے کا ہونٹ کاٹ ڈالے تو ثلث دینی ہو گی۔

 

کہا مالک نے میں نے ابن شہاب سے پوچھا کہ اگر کانا کسی اچھے آدمی کی آنکھ پھوڑ ڈالے تو انہوں نے کہا کہ اس کو اختیار ہے خواہ کانے کی آنکھ پھوڑے خواہ دیت لے ہزار دینار بارہ ہزار دینار۔

 

کہا مالک نے مجھے پہنچا کہ جو چیزیں انسان کے جسم میں دو دو ہیں اگر دونوں کو کوئی تلف کر دے تو پوری دیت دینی ہو گی۔ اسی طرح زبان میں پوری دیت دینی ہو گی۔ اگر کانوں پر ایسی ضرب لگائے جس کی وجہ سے دونوں کی سماعت جاتی رہے اگرچہ کانوں کو نہ کاٹے تب بھی پوری دیت دینی ہو گی۔ اسی طرح ذکر (عضو تناسل) اور انیثین (فوطوں) میں پوری دیت لازم ہو گی۔

 

کہا مالک نے مجھے پہنچا جب عورت کی دونوں چھاتیاں کاٹ ڈالے تو اس میں پوری دیت ہو گی لیکن ابروؤں کے اور مرد کی دونوں چھاتیاں کاٹ ڈالنے میں پوری دیت لازم نہ آئے گی۔

 

کہا مالک نے اگر کسی شخص کے دونوں ہاتھ کاٹ ڈالے اور دونوں پاؤں اور دونوں آنکھیں بھی اس کی پھوڑ ڈالیں تو اس کو پوری دیت ملے گی ہاتھوں کی الگ اور پاؤں کی الگ اور آنکھوں کی الگ یعنی تین دیتیں دینی ہوں گی۔

 

کہا مالک نے اگر کانے کی جو آنکھ اچھی تھی اس کو کسی نے پھوڑ ڈالا خطا سے تو پوری دیت لازم ہو گی۔

 

               جب آنکھ کی روشنی جاتی رہے لیکن آنکھ قائم رہے تو دیت کیا ہے

 

زید بن ثابت کہتے تھے کہ جب آنکھ قائم رہے اور روشنی جاتی رہے تو سو دینار ہوں گے۔

 

               زخموں کی دیت کا بیان

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ سلیمان بن یسار کہتے تھے کہ موضحہ چہرے میں ایسا ہے جیسے موضحہ سر میں مگر جب چہرے میں اس کی وجہ سے کوئی عیب ہو جائے تو دیت بڑھا دی جائے گی موضحہ سر کے نصف تک ہو تو اس میں پچھتر دینار لازم ہوں گے۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اجماعی ہے کہ منقلہ میں پندرہ اونٹ ہیں۔

 

کہا مالک نے منقلہ وہ ضرب ہے جس سے ہڈی اپنے مقام سے جدا ہو جائے اور دماغ تک نہ پہنچے اور وہ سر اور منہ میں ہوتی ہے۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اجماعی ہے کہ مامومہ اور جائفہ میں قصاص نہیں ہے اور ابن شہاب نے بھی ایسا ہی کہا ہے کہ مامومہ میں قصاص نہیں ہے۔

 

کہا مالک نے مامومہ وہ ضرب ہے جو دماغ تک پہنچ جائے ہڈی توڑ کر اور مامومہ سر ہی میں ہوا کرتی ہے۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اجماعی ہے کہ موضحہ سے کم جو زخم ہو اس میں دیت نہیں ہے جب تک کہ موضحہ تک نہ پہنچے بلکہ دیت موضحہ میں ہے یا جو اس سے بھی زیادہ ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا عمرو بن حزم کی حدیث میں موضحہ میں پانچ اونٹ ہیں اس سے کم کو بیان نہ کیا نہ کسی امام نے زمانہ سابق یا حال میں موضحہ سے کم میں دیت کا حکم کیا۔

 

سعید بن مسیب نے کہا کہ جو زخم پار ہو جائے کسی عضو میں تو اس کی دیت دینی ہو گی۔

 

کہا مالک نے ابن شہاب کی یہ رائے نہ تھی۔

 

عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قصاص لیا منقلہ کا

 

               انگلیوں کی دیت کا بیان

 

ربیعہ بن ابی عبدالرحمن کہتے ہیں میں نے سعید بن مسیب سے پوچھا کہ عورت کی انگلی میں کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ دس اونٹ ہیں میں نے کہا دو انگلیوں میں تو انہوں نے کہا بیس اونٹ ہیں میں نے کہا تین انگلیوں میں تو انہوں نے کہا تیس اونٹ میں نے کہا چار انگلیوں میں تو انہوں نے کہا بیس اونٹ میں نے کہا کیا خوب جب زخم زیادہ ہو گیا اور نقصان زیادہ ہو تو دیت کم ہو گئی سعد نے کہا کیا تو عراقی ہے میں نے کہا نہیں بلکہ مجھے جس چیز کا علم ہے اس پر جما ہوا ہوں اور جو چیز نہیں جانتا اس کو پوچھتا ہوں سعید نے کہا کہ سنت میں ایسا ہی ہے اے میرے بھائی کے بیٹے

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اجماعی ہے کہ جب پوری ایک ہتھیلی کی انگلیاں کاٹ ڈالی جائیں تو دیت لازم ہو گی اس حساب سے کہ ہر انگلی میں دس اونٹ تو پچاس اونٹ لازم ہوں گے اور ہتھیلی بھی اگر اس کی کاٹی جائے تو اس میں حاکم کی رائے کے موافق دینا ہو گا۔ دنانیر کے حساب سے ہر انگلی کے سو دینار اور ہر ایک پور کے تینتیس دینار ہوئے اور ہر ایک پور کے تین اونٹ اور ثلث اونٹ ہوئے۔

 

 

 

               دانتوں کی دیت کا بیان

 

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکم کی ڈاڑھ میں ایک اونٹ کا اور ہنسلی کی ہڈی میں ایک اونٹ کا اور پہلو کی ہڈی میں ایک اونٹ کا۔

 

سعید بن مسیب نے کہا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہر ڈاڑھ میں ایک اونٹ کا حکم کیا اور معاویہ نے ہر ڈاڑھ میں پانچ اونٹ کا حکم کیا تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیت میں کمی کی اور معاویہ نے زیادتی کی اگر میں ہوتا تو ہر ڈاڑھ میں دو دو اونٹ دلاتا اس صورت میں دیت پوری ہو جاتی۔

 

سعید بن مسیب کہتے تھے کہ جب دانت کو ضرب پہنچے اور وہ کالا ہو جائے تو اس کی پوری دیت لازم ہو گی اگر کالا ہو کر گرجائے تب بھی پوری دیت لازم ہو گی۔

 

               دانتوں کی دیت کا اور حال

 

ابی غطفان بن طریف سے روایت ہے کہ مروان بن حکم نے ان کو بھیجا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس یہ پوچھنے کو کہ ڈاڑھ میں کیا دیت ہے ابن عباس نے کہا کہ پانچ اونٹ ہیں مروان نے پھر ان کو بھیجا اور کہلایا کہ کیا دانت سامنے کے اور ڈاڑھیں دیت میں برابر ہیں ابن عباس نے کہا کہ اگر تو دانتوں کو انگلیوں پر قیاس کر لیتا تو کافی تھا ہر ایک انگلی کی دیت ایک ہی ہے۔ اگر منفعت کسی سے کم ہے کسی سے زیادہ ایسا ہی دانت اور ڈاڑھ بھی سب یکساں ہیں۔

 

عروہ بن زبیر کہتے تھے کہ اگلے زمانے میں سب دانتوں کی دیت برابر تھی کوئی دوسرے پر زیادہ نہ تھی۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ دانت اور کچلیاں اور داڑھیں سب برابر ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر دانت میں پانچ اونٹ کا حکم کیا داڑھ بھی ایک دانت ہے۔

 

               غلام کے زخموں کی دیت کا بیان

 

سعید بن مسیب اور سلیمان بن یسار کہتے تھے کہ غلام کے موضحہ میں اس کی قیمت کا بیسواں حصہ دینا ہو گا۔

 

مروان بن حکم فیصلہ کرتا تھا اس شخص پر جو زخمی کرے غلام کو کہ جس قدر اس زخم کی وجہ سے اس کی قیمت میں نقصان ہوا وہ ادا کرے۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ غلام کے موضحہ میں اس کی قیمت کا بیسواں حصہ اور منقلہ میں دسواں حصہ اور بیسواں حصہ اور مامومہ اور جائفہ میں تیسرا حصہ دینا ہو گا سوائے ان کے اور طرح کے زخموں میں جس قدر قیمت میں نقصان ہو گیا دینا ہو گا جب وہ غلام اچھا ہو جائے تب دیکھیں گے کہ اس کی قیمت اس زخم سے پہلے کیا تھی اور اب کتنی ہے۔ جس قدر کمی ہو گی وہ دینی ہو گی۔

 

کہا مالک نے جب غلام کا ہاتھ یا پاؤں کوئی شخص توڑ ڈالے پھر وہ اچھا ہو جائے تو کچھ تاوان نہیں ہو گا البتہ اگر کسی قدر نقصان رہ جائے تو اس کا تاوان دینا ہو گا۔

 

کہا مالک نے غلاموں میں اور لونڈیوں میں قصاص کا حکم مثل آزادوں کے ہو گا اگر غلام لونڈی کو قصداً قتل کرے تو غلام بھی قتل کیا جائے گا اگر اس کو زخمی کرے وہ بھی زخمی کیا جائے گا ایک غلام نے دوسرے غلام کو عمداً مار ڈالا تو مقتول کے مولیٰ کو اختیار ہو گا چاہے قاتل کو قتل کرے چاہے دیت یعنی اپنے غلام کی قیمت لے لے۔ قاتل کے مولیٰ کو اختیار ہے چاہے مقتول کی قیمت ادا کرے اور قاتل کو اپنے پاس رہنے دے چاہے قاتل ہی کو حوالے کر دے اس سے زیادہ اور کچھ لازم نہ آئے گا۔ اب جب مقتول کا مولیٰ دیت پر راضی ہو کر قاتل کو لے لے تو پھر اس کو قتل نہ کرے۔ اسی طرح اگر ایک غلام دوسرے غلام کا ہاتھ یا پاؤں کاٹے تو اس کے قصاص کا بھی یہی حکم ہے۔

 

کہا مالک نے اگر مسلمان غلام کسی یہودی یا نصرانی کو زخمی کرے تو غلام کے مولیٰ کو اختیار ہے چاہے دیت دے یا غلام کو حوالے کر دے تو اس غلام کو بیچ کر اس کی دیت ادا کریں گے مگر وہ غلام یہودی یا نصرانی کے پاس رہ نہیں سکتا (کیونکہ مسلمان کو کافر کا محکوم کرنا درست نہیں )۔

 

               کافر ذمی کی دیت کا بیان

 

عمر بن عبدالعزیز نے کہا کہ یہودی یا نصرانی کی دیت آزاد مسلمان کی دیت سے نصف ہے۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ کوئی مسلمان کافر کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے گا مگر جب مسلمان فریب سے اس کو دھوکہ دے کر مار ڈالے تو قتل کیا جائے گا۔

 

سلیمان بن یسار کہتے تھے کہ مجوسی کی دیت آٹھ سو درہم ہے۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہی حکم ہے۔

 

کہا مالک نے یہودی یا نصرانی کے زخموں کی دیت اسی حساب سے ہے موضحہ میں بیسواں حصہ اور مامومہ اور جائفہ میں تیسرا حصہ وقس علی ہذا۔

 

               جن جنایات کی دیت خاص قاتل کو اپنے مال میں سے ادا کرنی پڑتی ہے یعنی عاقلہ سے نہیں لی جاتی ان کا بیان

 

عروہ بن زبیر کہتے تھے کہ قتل عمد میں عاقلہ پر دیت نہیں ہے عاقلہ پر خطا کی دیت ہے۔

 

ابن شہاب نے کہا کہ عاقلہ پر عمداً خون کرنے کا بار نہیں ڈالا جاتا مگر خوشی سے دینا چاہیں۔

 

یحیی بن سعید نے بھی ایسا ہی کہا۔

 

کہا مالک نے ابن شہاب کہتے تھے سنت یوں ہی ہے کہ جب قتل عمد میں مقتول کے وارث قصاص کو عفو کر کے دیت پر راضی ہو جائیں تو وہ دیت قاتل کے مال سے لی جائے گی عاقلہ سے کچھ غرض نہیں مگر جب عاقلہ خود دینا چاہیں۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ دیت عاقلہ پر لازم نہیں آتی جب ایک ثلث یا زیادہ نہ ہو اگر ثلث سے کم ہو تو جنایت کرنے والے کے مال سے لی جائے گی۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک اس میں کچھ اختلاف نہیں ہے کہ قتل عمد یا اور جراحات میں جن میں قصاص لازم آتا ہے اگر دیت قبول کر لی جائے تو قاتل یا جارح کی ذات پر ہو گی عاقلہ پر نہ ہو گی اگر اس کے پاس مال ہو اور جو مال ہو تو اس پر قصاص رہے گا البتہ اگر عاقلہ خوشی سے دینا چاہیں تو اور بات ہے۔

 

کہا مالک نے اگر کوئی شخص اپنے تئیں آپ عمداً یا خطاءً زخمی کرے تو اس کی دیت عاقلہ پر نہ ہو گی اور میں نے کسی کو نہیں سنا جو عمد کی دیت عاقلہ سے دلائے اس وجہ سے کہ اللہ جل جلالہ نے قتل عمد میں فرمایا جس کا بھائی معاف کر دے کچھ (یعنی قصاص چھوڑ دے) تو چاہیے کہ دستور کے موافق چلے اور دیت اچھی طرح ادا کرے۔ (اس سے معلوم ہوا کہ عمد کی دیت قاتل کو ادا کرنی چاہیے )

 

کہا مالک نے جس لڑکے کے پاس کچھ مال نہ ہو یا جس عورت کے پاس مال نہ ہو اور وہ کوئی جنایت کرے جس میں ثلث سے کم دیت واجب ہوتی ہے تو دیت انہی کے مال میں سے دی جائے گی اگر مال نہ ہو تو ان پر قرض کے طور پر رہے گی عاقلہ پر یا لڑکے کے باپ پر کچھ لازم نہیں آئے گا۔

 

کہا مالک نے جب غلام قتل کیا جائے تو اس کی قیمت جو قتل کے روز ہے دینی ہو گی قاتل کے عاقلہ پر کچھ لازم نہ آئے گا بلکہ قاتل کے خاص مال میں سے لیا جائے گا اگرچہ اس غلام کی قیمت دیت سے زیادہ ہو۔

 

               دیت میں میراث کا بیان

 

ابن شہاب سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بلایا لوگوں کو منی میں اور کہا کہ جس شخص کو دیت کا مسئلہ معلوم ہو وہ بیان کرے مجھ سے، تو ضحاک بن سفیان کلابی کھڑے ہوئے اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے لکھ بھیجا تھا کہ اشیم ضبابی کی عورت کو میراث دلاؤں اشیم کی دیت میں سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تو خیمے میں جا جب تک میں آؤں جب تک حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے تو ضحاک نے یہی بیان کیا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی کا حکم کیا ابن شہاب نے کہ اشیم خطا سے مارا گیا تھا۔

 

عمرو بن شعیب سے روایت ہے کہ ایک شخص نے بنی مدلج میں سے جس کا نام قتادہ تھا اپنے لڑکے کو تلوار ماری وہ اس کے پنڈلی میں لگی خون بند نہ ہوا آخر مر گیا تو سراقہ بن جعشم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور ان سے بیان کیا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا قدید کے پاس ایک سو بیس اونٹ تیار رکھ جب تک میں وہاں آؤں جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں آئے تو ان اونٹوں میں سے تین حقے اور بیس جزعے لئے اور چالیس حقے لیے پھر کہا کون ہے مقتول کا بھائی؟ اس نے کہا کیوں میں موجود ہوں نا! کہا تو یہ سب اونٹ لے لے اس واسطے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قاتل کو میراث نہیں ملتی

 

سعید بن مسیب اور سلیمان بن یسار سے سوال ہوا کہ ماہ حرام میں اگر کوئی قتل کرے تو دیت میں سختی کریں گے انہوں نے کہا نہیں بلکہ بڑھا دیں گے بوجہ ان مہینوں کی حرمت کے پھر سعید سے پوچھا کہ اگر کوئی زخمی کرے ان مہینوں میں تو اس کی بھی دیت بڑھا دیں گے جیسسے قتل کی دیت بڑھا دیں گے سعید نے کہا ہاں۔

 

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ ایک شخص انصار کا جس کا نام احیحہ بن جلاح تھا اس سے چھوٹا چچا تھا وہ اپنی ننہیال میں تھا اس کو احیحہ نے لے کر مار ڈالا اس کے ننہیال کے لوگوں نے کہا ہم نے پالا پرورش کیا جب جوان ہوا تو اس کا بھتیجا ہم پر غالب آیا اور اسی نے لے لیا عروہ نے کہا اس وجہ سے قاتل مقتول کا وارث نہیں ہوتا۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک اس میں کچھ اختلاف نہیں ہے کہ قتل عمد کرنے والا مقتول کی دیت کا وارث نہیں ہوتا نہ اس کے مال کا نہ وہ کسی وارث کو محروم کر سکتا ہے اور قتل خطا کرنے والا دیت کا وارث نہیں ہوتا لیکن اور مال کا وارث ہوتا ہے یا نہیں اس میں اختلاف ہے میرے نزدیک اور مال کا وارث ہو گا۔

 

 

 

               دیت کے مختلف مسائل کا بیان

 

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جانور کسی کو صدمہ پہنچائے تو اس کا بدلہ نہیں کنوئیں میں کوئی گر کر مر جائے تو اس کا بدلہ نہیں اور کان کھودنے میں کوئی مزدور مر جائے تو بدلہ نہیں (کافروں کے) گڑے خزانے میں پانچواں حصہ لیا جائے گا۔

 

کہا مالک نے جو شخص جانور کو آگے سے کھینچ رہا ہے یا پیچھے سے ہانک رہا ہے یا جو اس پر سوار ہے وہ جرمانہ دے گا اگر جانور کسی کو صدمہ پہنچائے لیکن خود بخود وہ لات سے کسی کو مار دے تو تاوان نہیں ہے۔ حضرت عمر نے حکم کیا دیت کا اس شخص پر جس نے اپنا گھوڑا دوڑا کر کسی کو کچل ڈالا تھا۔

 

کہا مالک نے جب دوڑانے والا ضامن ہوا تو کھینچنے والا اور ہانکنے والا اور سوار تو ضرور ضامن ہو گا۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ جو کوئی راستے میں کنواں کھودے یا جانور باندھے یا مشابہ اس کے کوئی کام کرے تو راہ میں کرنا درست نہیں ہے اور اس کی وجہ سے کسی کو صدمہ پہنچے تو وہ ضامن ہو گا ثلث دیت تک اپنے مال میں سے دے گا جو ثلث سے زیادہ ہو تو اس کے عاقلہ سے وصول کی جائے گی اور اگر ایسا کام کرے جو درست ہے تو اس پر ضمان نہ ہو گا جیسے گڑھا کھودے یا بارش کے واسطے یا اپنے جانور پر سے کسی کام کو اترے اور راہ پر کھڑا کر دے۔

 

کہا مالک نے اگر ایک شخص کنوئیں میں اترے پھر دوسرا شخص اترے اب نیچے والا اوپر والے کو کھینچے اور دونوں گر کر مر جائیں تو کھینچنے والے کے عاقلہ پر دیت لازم آئے گی۔

 

کہا مالک نے اگر کوئی شخص کسی بچے کو حکم کرے کنوئیں میں اترنے کا یا درخت پر چڑھنے کا اور وہ لڑکا ہلاک ہو جائے تو وہ شخص ضامن ہو گا اس کی دیت کا یا نقصان کا۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ عاقلہ میں عورتیں اور بچے داخل نہ ہوں گے بلکہ بالغ مردوں سے دیت وصول کی جائے گی۔

 

کہا مالک نے مولیٰ کی دیت اس کے عاقلہ پر ہو گی اگرچہ وہ دفتر سرکار میں ماہوار یاب (ملازم) نہ ہوں جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے وقت تھا کیونکہ دفتر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے نکلا تو ہر ایک کی دیت اس کے موالی اور قوم ادا کریں گے کیونکہ ولاء بھی انہیں کو ملتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ولاء اسی کو ملے گی جو آزاد کرے۔

 

کہا مالک نے جو کوئی شخص کسی کے جانور کو نقصان پہنچائے تو جس قدر قیمت اس نقصان کی وجہ سے کم ہو جائے اس کا تاوان لازم ہو گا۔

 

کہا مالک نے ایک شخص قصاصاً قتل کے لائق ہو پھر وہ کوئی کام ایسا کرے جس سے حد لازم آئے (مثلاً زنا کرے کوڑے و رجم لازم آئے یا چوری کرے ہاتھ کاٹنا لازم ہو) تو کسی حد کا مواخذہ نہ کیا جائے صرف قتل کافی ہے مگر حد قذف کا، اس میں کوڑے مار کر پھر اس کو قتل کریں اگر اس نے کسی کو زخمی کیا تو زخمی کا قصاص لینا ضروری نہیں۔ قتل کرنا کافی ہے۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ اگر کوئی نعش کسی گاؤں وغیرہ میں ملے یا کسی کے دروازے پر تو یہ ضروری نہیں کہ جو لوگ اس کے قریب ہوں وہ پکڑے جائیں کیونکہ اکثر ہوتا ہے کہ لوگ مار کر کسی کے دروازے پر ڈال دیتے ہیں تاکہ وہ پکڑا جائے۔

 

کہا مالک نے اگر چند آدمی مل کر لڑے اس کے بعد جب جدا ہوئے تو ایک شخص ان میں مقتول یا مجروح پایا گیا لیکن ہنگامے میں معلوم نہیں ہو سکا کہ کس نے مارا یا زخمی کیا تو فریق ثانی (یعنی جن کا مقتول نہیں ہے) کی قوم پر اس کی دیت واجب ہو گی اور اگر وہ شخص دونوں فریق میں سے نہ ہو تو دونوں فریق پر دیت واجب ہو گی۔

 

               مکرو فریب سے مارنے یا جادو سے مارنے کا بیان

 

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پانچ یا سات آدمیوں کو ایک شخص کے بدلے میں قتل کیا انہوں نے دھوکا دے کر اس کو مار ڈالا تھا پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اگر سارے صنعا والے اس کے قتل میں شریک ہوتے تو میں سب کو قتل کرتا۔

 

حضرت ام المومنین حفصہ نے ایک لونڈی کو قتل کیا جس نے ان پر جادو کیا تھا اور پہلے آپ اس کو مدبر کر چکی تھیں پھر حکم کیا اس کے قتل کا تو قتل کی گئیں۔

 

کہا مالک نے جو شخص جادو جانتا ہے اور اس کو کام میں لاتا ہے اس کا قتل کرنا مناسب ہے۔

 

               قتل عمد کا بیان

 

کہا مالک نے ایک شخص نے دوسرے کو لکڑی سے مار ڈالا عبدالملک بن مروان نے قاتل کو ولی مقتول کے حوالے کیا اس نے بھی اس کو لکڑی سے مار ڈالا۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو لکڑی یا پتھر سے قصداً مارے اور وہ ہلاک ہو جائے تو قصاص لیا جائے گا۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک قتل عمد یہی ہے کہ ایک آدمی دوسرے کو قصداً مارے یہاں تک کہ اس کا دم نکل جائے اور یہ بھی قتل عمد ہے کہ ایک شخص سے دشمنی ہو اس کو ایک ضرب لگا کر چلا آئے اس وقت وہ زندہ ہو بعد اس کے اسی ضرب سے مر جائے اس میں قسامت واجب ہو گی۔

 

کہا مالک نے قتل عمد میں ایک شخص آزاد کے عوض میں کئی شخص آزاد مارے جائیں گے کہ جب سب قتل میں شریک ہوں اسی طرح عورتوں اور غلاموں میں بھی حکم ہو گا۔

 

               قصاص کا بیان

 

امام مالک کو پہنچا کہ مروان بن حکم نے معاویہ بن ابی سفیان کو لکھا کہ ایک شخص نے نشے کی حالت میں ایک شخص کو مار ڈالا معاویہ نے جواب لکھا کہ تو بھی اس کو مار ڈال۔

 

کہا مالک نے میں نے اس کی تفسیر بہت اچھی سنی فرمایا اللہ تعالیٰ نے قتل کر آزاد کو آزاد کے بدلے میں اور غلام کو غلام کے بدلے میں اور عورت کو عورت کے بدلے میں تو قصاص عورتوں میں آپس میں لیا جائے گا جیسا کہ مردوں میں لیا جاتا ہے اور مرد اور عورت میں بھی لیا جائے گا کیونکہ اللہ جل جلالہ فرماتا ہے نفس بدلے نفس کے قتل کیا جائے گا تو عورت مرد کے بدلے میں قتل کی جائے گی اور مرد عورت کے بدلے میں مارا جائے گا اسی طرح ایک دوسرے کو اگر زخمی کرے گا تب بھی قصاص لیا جائے گا۔

 

کہا مالک نے اگر ایک شخص ایک شخص کو پکڑ لے اور دوسرا اس کو آ کر مار ڈالے اور معلوم ہو جائے کہ اس نے مار ڈالنے ہی کے واسطے پکڑا تھا تو دونوں شخص اس کے بدلے میں قتل کیے جائیں گے اگر اس نے اس نیت سے نہیں پکڑا تھا بلکہ اس کو یہ خیال تھا کہ دوسرا شخص یوں ہی اسے مارے گا تو پکڑنے والا قتل نہ کیا جائے گا لیکن اس کو سخت سزا دی جائے گی۔ اور بعد سزا کے ایک برس تک قید کیا جائے گا۔

 

کہا مالک نے زید نے عمرو کو قتل کیا یا اس کی آنکھ پھوڑ ڈالی ، قصداً اب قبل اس کے کہ زید سے قصاص لیا جائے اس کو بکر نے مار ڈالا یا زید کی آنکھ پھوڑ ڈالی تو اس پر دیت یا قصاص واجب نہ ہو گا کیونکہ عمرو کا حق زید کی جان میں تھا یا اس کی آنکھ میں اب زید ہی نہ رہا یا وہ آنکھ ہی نہ رہی۔ اس کی نظیر یہ ہے کہ زید عمرو کو عمداً مار ڈالے گا پھر زید بھی مر جائے تو عمرو کے وارثوں کو اب کچھ نہ ملے گا کیونکہ قصاص قاتل پر ہوتا ہے جب وہ خود مرگیا تو نہ قصاص ہے نہ دیت۔

 

کہا مالک نے آزاد اور غلام میں قصاص نہیں ہے زخموں میں لیکن اگر غلام آزاد کو مار ڈالے گا تو غلام مارا جائے گا اور جو آزاد غلام کو مار ڈالے گا تو آزاد نہ مارا جائے گا یہ میں نے بہت اچھا سنا۔

 

               قتل عمد میں عفو کرنے کا بیان

 

امام مالک نے کئی اچھے عالموں سے سنا کہ وہ کہتے تھے کہ جب مقتول مرتے وقت اپنے قاتل کو معاف کر دے تو درست ہے قتل عمد میں اس کو اپنے خون کا زیادہ اختیار ہے وارثوں سے۔

 

کہا مالک نے جو شخص قاتل کو عمداً معاف کر دے تو قاتل پر دیت لازم نہ ہو گی مگر جب کہ قصاص عفو (معاف) کر کے دیت ٹھہرا لے۔

 

کہا مالک نے اگر قاتل کو مقتول معاف کر دے تب بھی قاتل کو سو کوڑے لگائیں گے اور ایک سال تک قید کریں گے۔

 

کہا مالک نے جب کوئی شخص عمداً مارا گیا اور گواہوں سے قتل ثابت ہوا اور مقتول کے بیٹے اور بیٹیاں ہیں بیٹوں نے تو معاف کر دیا لیکن بیٹیوں نے معاف نہ کیا تو بیٹیوں کے معاف کرنے سے کچھ خلل واقع نہ ہو گا بلکہ خون معاف ہو جائے گا کیونکہ بیٹوں کے ہوتے ہوئے ان کو اختیار نہیں ہے۔

 

               زخموں میں قصاص کا بیان

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ جو شخص کسی کا ہاتھ یا پاؤں توڑ ڈالے تو اس سے قصاص لیا جائے گا دیت لازم نہ آئے گی۔

 

کہا مالک نے زخم کا قصاص نہ لیا جائے گا جب تک کہ وہ شخص اچھا نہ ہو لے جب وہ اچھا جائے گا تو قصاص لیں گے اب اگر جارح کا بھی زخم اچھا ہو کر مجروح کے مثل ہو گیا تو بہتر نہیں تو اگر جارح کا زخم بڑھ گیا اور جارح اسی کی وجہ سے مر گیا تو مجروح پر کچھ تاوان نہ ہو گا اگر جارح کا زخم بالکل اچھا ہو گیا اور مجروح کا ہاتھ شل ہو گیا یا اور کوئی نقص رہ گیا تو پھر جارح سے قصاص نہ لیا جائے گا لیکن بقدر نقصان کے دیت اس سے وصول کی جائے گی۔

 

کہا مالک نے اگر کسی شخص نے اپنی عورت کی آنکھ پھوڑ دی یا اس کا ہاتھ توڑ ڈالا یا اس کی انگلی کاٹ ڈالی قصداً تو اس سے قصاص لیا جائے گا البتہ اگر اپنی عورت کو تنبیہاً رسی یا کوڑے سے مارے اور بلا قصد کسی مقام پر لگ کر زخم ہو جائے یا نقصان ہو جائے تو دیت لازم آئے گی قصاص نہ ہو گا۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ ابوبکر بن حزم نے قصاص لیا ران توڑنے کا۔

 

               سائبہ کی دیت و جنایت کا بیان

 

سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ ایک سائبہ نے جس کو کسی حاجی نے آزاد کر دیا تھا ایک شخص کے بیٹے کو جو بنی عاذ میں تھا مار ڈالا مقتول کا باپ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس اپنے بیٹے کی دیت مانگنے آیا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اس کے لئے دیت نہیں ہے وہ شخص بولا اگر میرا بیٹا سائبہ کو مار ڈالتا تو تم کیا حکم کرتے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اس وقت تم کو اس کی دیت ادا کرنی ہوتی وہ شخص بولا پھر تو سائبہ کیا ہے ایک چتلا سانپ ہے اگر چھوڑ دو تو ڈس لے اگر مارو تو بدلہ لے۔

 

 

کتاب قسامت کے بیان میں

 

               قسامت میں پہلے وارثوں سے قسم لینے کا بیان

 

سہل بن ابی حثمہ کو خبر دی کچھ لوگوں نے جو اس کی قوم کے معزز تھے کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ فقر اور افلاس کی وجہ سے خبیر کو گئے محیصہ کے پاس ایک شخص آیا اور بیان کیا کہ عبداللہ بن سہل کو کسی نے قتل کر کے کنوئیں میں یا چشمے میں ڈال دیا ہے محیصہ یہ سن کر خیبر کے یہودیوں کے پاس آئے اور کہا قسم خدا کی تم نے اس کو قتل کیا ہے یہودیوں نے کہا قسم خدا کی ہم نے قتل نہیں کیا اس کو، پھر محیصہ اپنی قوم کے پاس آئے اور ان سے بیان کیا بعد اس کے محیصہ اور ان کے بھائی حویصہ جو محیصہ سے بڑے تھے اور عبدالرحمن بن سہل(جو عبداللہ بن سہل مقتول کے بھائی تھے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئے محیصہ نے چاہا کہ میں بات کروں کیونکہ وہی خبیر کو گئے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بزرگی کی رعایت کر۔ حویصہ نے پہلے بیان کیا پھر محیصہ نے بیان کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو یہودی تمہارے قتل کی دیت دیں یا جنگ کریں پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہودیوں کو اس بارے میں لکھا انہوں نے جواب میں لکھا کہ قسم خدا کی ہم نے اس کو قتل نہیں کیا تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حویصہ اور محیصہ اور عبدالرحمن سے کہا تم قسم کھاؤ کہ یہودیوں نے اس کو مارا ہے تو دیت کے حقدار ہو گے انہوں نے کہا ہم قسم نہ کھائیں گے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اچھا اگر یہودی قسم کھالیں کہ ہم نے نہیں مارا انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہ مسلمان نہیں ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے پاس سے دیت ادا کی سہل کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے پاس سو اونٹ بھیجے ان کے گھروں پر ان میں سے ایک سرخ اونٹنی نے مجھے لات ماری تھی۔

 

بشیر بن یسار سے روایت ہے کہ عبداللہ بن سہل انصاری اور محیصہ بن مسعود خبیر کو گئے اور عبداللہ بن سہل کو کسی نے مار ڈلا تو محیصہ اور ان کے بھائی حویصۃ اور عبدالرحمن بن سہل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آ آئے تو عبدالرحمن نے بات کرنی چاہی اپنے بھائی کے مقدمے میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بزرگی کی رعایت کر تو حویصہ اور محیصہ نے قصہ بیان کیا عبداللہ بن سہل کا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم پچاس قسمیں کھاتے ہو ( اس بات پر کہ فلاں شخص نے اس کو مار ڈالا ہے ) اگر کھاؤ گے تو خون کا استحقاق (یا قاتل کا استحاق؟ ) تمہیں حاصل ہو گا انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ( ہم کیونکر کھائیں ) ہم اس وقت موجود نہ تھے نہ ہم نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تو یہودی پچاس قسمیں کھا کر بری ہو جائیں گے انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وہ کافر ہیں ان کی قسمیں ہم کیونکر قبول کریں گے بشیر بن یسار نے کہا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے پاس سے دیت ادا کی۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے اور میں نے بہت سے اچھے عالموں سے سنا ہے اور اس پر اتفاق کیا ہے۔ اگلے اور پچھلے علماء نے کہا قسامت میں پہلے مدعیوں سے قسم لی جائے گی وہ قسم کھائیں (اگر وہ قسم نہ کھائیں تو مدعی علیہم سے قسم لی جائے گی اگر وہ قسم کھالیں گے تو بری ہو جائیں گے) اور قسامت دو امروں میں ایک امر سے لازم ہوتی ہے یا تو مقتول خود کہے مجھ کو فلانے نے مارا ہے (اور گواہ نہ ہوں) یا مقتول کے وارث کسی پراپنا اشتباہ ظاہر کریں اور گواہی کامل نہ ہو تو انہیں دو وجہوں سے قسامت لازم آئے گی۔

 

کہا مالک نے اس سنت میں کچھ اختلاف نہیں ہے کہ پہلے قسم ان لوگوں سے لی جائے گی جو خون کے مدعی ہوں۔ خواہ قتل عمد ہو یا قتل خطا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بنی حارث سے جن کا عزیز خیبر میں مارا گیا تھا پہلے قسم کھانے کو فرمایا تھا۔

 

کہا مالک نے اگر مدعی قسم کھالیں تو ان کے خون کا مدعیوں سے پچاس قسمیں لی جائیں گی جب وہ پچاس آدمی ہوں تو ہر ایک سے ایک ایک قسم لی جائے گی اور پچاس سے کم ہوں یا بعض ان میں سے قسم کھانے سے انکار کریں تو مکرر قسمیں لے کر قسمیں پچاس پوری کریں گے مگر جب مقتول کے وارثوں میں جن کو عفو کا اختیار ہے کوئی قسم کھانے سے انکار کرے گا تو پھر قصاص لازم نہ ہو گا بلکہ جب ان لوگوں میں جن کو عفو کا اختیار نہیں کوئی قسم کھانے سے انکار کرے تو باقی لوگوں سے قسم لیں گے اور جن کو عفو کا اختیار ہے ان میں سے اگر کوئی ایک بھی قسم کھانے سے انکار کرے تو باقی وارثوں کو بھی قسم نہ دیں گے۔ بلکہ اس صورت میں مدعیٰ علیہم کو قسم دیں گے ان میں سے پچاس آدمیوں کو پچاس قسمیں دیں گے اگر پچاس سے کم ہوں تو مکرر کر کے پچاس پوری کریں گے اگر مدعیٰ علیہ ایک ہی ہو تو اس سے پچاس قسمیں لیں گے جب وہ پچاس قسمیں کھا لے گا بری ہو جائے گا۔

 

کہا مالک نے اگر ایک قوم کی قوم کو جس میں بہت آدمی ہوں خون کی تہمت لگے اور مقتول کے وارث ان سے قسم لینا چاہیں تو ہر شخص ان میں سے پچاس پچاس قسمیں کھائے گا یہ نہ ہو گا کہ پچاس قسمیں سب پر تقسیم ہو جائیں یہ میں نے اچھا سنا۔

 

کہا مالک نے قسامت مقتول کی عصبوں کی طرف ہو گی جو خون کے مالک ہیں انہی کو قسم دی جاتی ہے اور انہی کی قسم کھانے سے قصاص لیا جاتا ہے۔

 

               خون کے وارثوں میں سے کن کن لوگوں سے قسم لینی چاہے

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک اس میں کچھ اختلاف نہیں ہے کہ قسامت میں عورتوں سے قسم نہ لی جائے گا اور جو مقتول کی وارث صرف عورتیں ہوں تو ان کو قتل عمد میں نہ قسامت کا اختیار ہو گا نہ عفو کا۔

 

کہا مالک نے ایک شخص عمداً مارا گیا اس کے عصبہ یا موالی نے کہا کہ ہم قسم کھا کر قصاص لیں گے تو ہو سکتا ہے اگرچہ عورتیں معاف کر دیں تو ان سے کچھ نہ ہو گا بلکہ عصبے یا موالی ان سے زیادہ مستحق ہیں خون کے کیونکہ وہی قسم اٹھائیں گے۔

 

کہا مالک نے البتہ عصبات یا موالی نے خون معاف کر دیا بعد حلف اٹھا لینے کے اور خون کے مستحق ہو جانے کے اور عورتوں نے عفو سے انکار کیا تو عورتوں کو قصاص لینے کا استحقاق ہو گا۔

 

کہا مالک نے قتل عمد میں کم سے کم دو مدعیوں سے قسم لینا ضروری ہے انہیں سے پچاس قسمیں لے کر قصاص کا حکم کر دیں گے۔

 

کہا مالک نے اگر کئی آدمی مل کر ایک آدمی کو مار ڈالیں اس طرح کہ وہ سب کی ضربوں سے اسی وقت مرے تو سب قصاصاً قتل کیے جائیں گے اور جو بعد کئی دن کے مرے تو قسامت واجب ہو گی اس صورت میں قسامت کی وجہ سے صرف ایک شخص ان لوگوں میں سے قتل کیا جائے گا۔ کیونکہ ہمیشہ قسامت سے ایک ہی شخص مارا جاتا ہے۔

 

               قتل خطا میں قسامت کا بیان

 

کہا مالک نے قتل خطاء میں بھی پہلی قسم خون کے مدعیوں پر ہو گی وہ پچاس قسمیں کھائیں گے اپنی حصے کے موافق ترکے میں سے اگر قسموں میں کسر پڑے تو جس وارث پر کسر کا زیادہ حصہ آئے وہ پوری قسم اس کے حصے میں رکھی جائے گی۔

 

کہا مالک نے اگر مقتول کی وارث صرف عورتیں ہوں تو وہی حلف اٹھا کے دیت لیں گی اور اگر مقتول کا وارث ایک ہی مرد ہو تو اسی کو پچاس قسمیں دیں گے اور وہ پچاس قسمیں کھا کر دیت لے لے گا یہ حکم قتل خطا میں ہے نہ کہ قتل عمد میں۔

 

               قسامت میں میراث کا بیان

 

کہا مالک نے جب خون کے وارث دیت کو قبول کر لیں تو اس کی تقسیم موافق کتاب اللہ کے ہو گی دیت کے وارث مقتول کی بیٹیاں اور بہنیں اور جتنی عورتیں ترکہ پاتی ہیں وہ ہوں گی اگر عورتوں کے حصے ادا کر کے کچھ بچ رہے تو جو عصبہ قریب ہو گا وہ مابقی (باقی) کا وارث ہو گا۔

 

کہا مالک نے اگر مقتول کے بعض ورثاء غائب ہوں اور بعض حاضر جو حاضر ہوں وہ یہ چاہیں کہ اپنے حصے کی قسمیں کھا کر دیت کا حصہ وصول کر لیں تو یہ نہیں ہو سکتا جب تک کہ پوری قسمیں نہیں کھائیں گے اگر پوری پچاس قسمیں کھالیں تو دیت میں سے اپنا حصہ لے سکتے ہیں کیونکہ خون ثابت نہیں ہوتا بغیر پچاس قسموں کے اور جب تک خون ثابت نہ ہو دیت لازم نہیں آتی اب جو ورثاء غائب تھے ان میں سے اگر کوئی آ جائے تو وہ اپنے حصے کے موافق قسمیں کھا کر دیت میں سے اپنا حصہ لے لے یہاں تک کہ سب وارثوں کا حق پورا ہو جائے۔ اگر اخیافی بھائی آئے تو پچاس قسموں کا چھٹا حصہ جو ہو اتنی ہی قسمیں کھائیں اور اپنا حصہ لے لے اگر انکار کرے گا تو اس کا حصہ باطل ہو گا اگر بعض ورثاء غائب ہوں جو نابالغ ہوں تو جو حاضر ہیں ان سے پچاس قسمیں لی جائیں گی اور جو غائب ہے وہ جب آئے گا اس سے بھی اس کے حصے کے موافق قسمیں لی جائیں گی اور جب وہ نابالغ بالغ ہو جائے وہ بھی اپنے حصے کے موافق قسم کھائے یہ میں نے اچھا سنا۔

 

               غلام میں قسامت کا بیان

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ جب غلام قصداً یا خطاء مارا جائے پھر اس کا مولیٰ ایک ایک گواہ لے کر آئے تو وہ اپنے گواہ کے ساتھ ایک قسم کھائے بعد اس کے اپنے غلام کی قیمت لے لے غلام میں قسامت نہیں ہے نہ عمد میں نہ خطا میں اور میں نے کسی اہل علم سے نہیں سنا۔

 

کہا مالک نے اگر غلام عمداً یا خطاء مارا گیا تو اس کے مولیٰ پر نہ قسامت ہے نہ قسم ہے اور مولیٰ کو قیمت کا اس وقت استحقاق ہو گا جب کہ وہ گواہ عادل لائے دو یا ایک لائے اور ایک قسم کھائے میں نے یہ اچھا سنا۔

 

 

 

کتاب حدوں کے بیان میں

 

               رجم کرنے کے بیان میں

 

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ یہودی رسول اللہ کے پاس آئے اور بیان کیا کہ ہم میں سے ایک مرد اور عورت نے زنا کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تورات میں کیا حکم ہے رجم کا؟ یہودیوں نے کہا ہم میں جو کوئی زنا کرے اس کو ہم رسوا کرتے ہیں اور کوڑے مارتے ہیں عبداللہ بن سلام نے کہا تم جھوٹ بولتے ہو تورات میں رجم ہے لاؤ تم تورات کو پڑھو اس کو ، انہوں نے تورات کو کھولا اور ایک شخص نے ان میں سے اپنا ہاتھ رجم کی آیت پر رکھ لیا اور اس کے اول اور آخر کی آیتیں پڑھیں عبداللہ بن سلام نے اس سے کہا اپنا ہاتھ اٹھا اس نے جو ہاتھ اٹھایا تو رجم کی آیت نکلی تب سب یہودی کہنے لگے کہ سچ کہا عبداللہ بن سلام نے آیت رجم کی موجود ہے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم کیا رجم کا تو وہ مرد اور عورت رجم کئے گئے عبداللہ بن عمر نے کہا کہ میں نے مرد کو دیکھا کہ وہ عورت کی طرف جھکتا تھا اس کو بچانے پتھروں سے۔

 

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ ایک شخص اسلم کے قبیلے کا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ اس نالائق نے (اپنی طرف اشارہ کر کے) زنا کیا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تو نے یہ بات اور کسی سے تو بیان نہیں کیا بولا نہیں ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تو توبہ کر اللہ سے اور چھپا رہ اللہ کے پردے میں کیونکہ اللہ جل جلالہ توبہ قبول کرتا ہے اپنے بندوں کی اس کو تسکین نہ ہوئی وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا حضرت عمر سے بھی ایسا ہی کہا جیسا کہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا تھا حضرت عمر نے بھی وہی جواب دیا پھر بھی اس کو تسکین نہ ہوئی پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا اور کہا کہ اس نالائق نے زنا کیا تین بار اس نے کہا اور تینوں بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا جب بہت اس نے کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں سے فرمایا کیا یہ بیمار ہو گیا ہے یا اس کو جنون ہے لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہ تندرست ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کا نکاح ہوا ہے یا نہیں لوگوں نے کہا ہوا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم کیا اس کو سنگسار کرنے کا وہ سنگسار کر دیا گیا۔

 

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہا ایک شخص کو جو اسلم کے قبیلے سے تھا اس کا نام ہزال تھا کہ اے ہزال اگر اس خبر کو تو چھپا لیتا تو تیرے واسطے بہتر ہوتا یحیی بن سعید نے کہا کہ میں نے اس حدیث کو ایک مجلس میں بیان کیا جس میں یزید بن عنیم بن ہزال اسلمی بیٹھے تھے تو یزید نے کہا کہ ہزال میرے دادا تھے اور یہ حدیث سچ ہے۔

 

ابن شہاب کہتے تھے کہ ایک شخص نے اقرار کیا زنا کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں اور چار بار اقرار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے رجم کرنے کا حکم کیا وہ رجم کیا گیا ابن شہاب نے کہا کہ اسی وجہ سے آدمی اپنے پر جواقرار کرے اس کا مواخذہ ہوتا ہے۔

 

عبد اللہ بن ابی ملیکہ سے روایت ہے کہ ایک عورت (غامدیہ) آئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اور کہا میں نے زنا کیا اور وہ حاملہ تھی آپ نے فرمایا جب وضع حمل ہو جائے تو آنا جب اس نے (بچہ) جنا تو پھر آئی آپ نے فرمایا جب دودھ چھڑا لینا تو آنا پھر جب وہ دودھ پلا چکی تو آئی آپ نے فرمایا جا لڑکے کو کسی کے سپرد کر دے (حفاظت اور پرورش کے واسطے وہ سپرد کر کے پھر آئی تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم کیا اور وہ رجم کی گئی۔

 

 

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا کہ اگر میں اپنی عورت کے ساتھ کسی مرد کو پاؤں تو کیا میں اس کو مہلت دوں چار گواہ جمع کرنے تک آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں۔

 

ابوہریرہ اور زید بن خالد جہنی سے روایت ہے کہ دو شخصوں نے جھگڑا کیا رسول اللہ کے پاس ایک بولا یا رسول اللہ آپ فیصلہ کیجیے ہمارا موافق کتاب اللہ کے اور دوسرا شخص جو زیادہ سمجھدار تھا وہ بولا ہاں یا رسول اللہ فیصلہ کیجیے کتاب اللہ کے اور اجازت دیجیے مجھے بات کرنے کی آپ نے فرمایا اچھا بولو اس نے کہا میرا بیٹا اس شخص کے ہاں نوکر تھا اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا لوگوں نے مجھ سے کہا کہ تیرے بیٹے پر رجم ہے میں نے سو بکریاں اس کی طرف سے فدیہ دیں اور ایک لونڈی دی پھر میں نے اہل علم سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میرے بیٹے پر سو کوڑے ہیں اور ایک برس جلاوطنی اور رجم اس کی عورت پر ہے رسول اللہ نے فرمایا تم دنوں کا فیصلہ اللہ کی کتاب کے موافق کرتا ہوں تیری بکریاں اور لونڈی تیرا مال ہے اس کولے لے اور اس کے بیٹے کو سو کوڑے مارنے کا حکم کیا اور ایک برس تک جلاوطن کیا اور حکم کیا انیس اسلمی کو کہ دوسرے شخص کی بیوی کے پاس جا اگر وہ زنا کا اقرار کرے تو اس کو رجم کر اس نے زنا کا اقرار کیا وہ رجم کی گئی۔

 

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سنا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا فرماتے تھے کہ رجم اللہ کی کتاب میں ہے سچ ہے جو شخص زنا کرے مرد ہو یا عورت وہ محصن ہو تو وہ رجم کیا جائے گا جب ثابت ہو چار گواہوں سے یا عورت پر حمل سے یا مرد اور عورت دونوں پر اقرار سے۔

 

ابو واقد لیثی سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک شخص آیا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شام میں تھے اس نے بیان کیا کہ میں نے اپنی عورت کے ساتھ ایک مرد کو پایا آپ نے ابو واقد کو بھیجا کہ عورت سے جا کر پوچھے وہ عورت کے پاس گئے اس کے پاس اور عورتیں بیٹھی تھیں انہوں نے کہا وہ جو اس کے خاوند نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کیا تھا اور یہ بھی کہہ دیا کہ خاوند کے کہنے سے تجھے مواخذہ نہ ہو گا اس کو سکھانے بھی لگے اس قسم کی باتیں تاکہ وہ اقرار نہ کرے لیکن اس نے نہ مانا اور اقرار کیا زنا کا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو رجم کا حکم کیا اور رجم کی گئی۔

 

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ حضرت عمر لوٹے منی سے تو آپ نے اونٹ کو بٹھایا ابطح میں اور ایک طرف کنکریوں کا ڈھیر لگا کر چادر کو اپنے اوپر ڈال دیا اور چت لیٹ گۓ پھر دونوں ہاتھ اٹھائے آسمان کی طرف اور فرمایا اے پروردگار بہت عمر ہوئی میری اور گھٹ گئی قوت میرے اور پھیل گئے رعیت میری (یعنی ملکوں ملکوں خلافت اور حکومت پھیل گئی دور دراز تک لوگ رعایا ہو گئے) اب اٹھا لے مجھ کو اپنی طرف اس حال میں کہ تیرے احکام کو ضائع نہ کروں اور عبادت میں کوتاہی نہ کروں پھر مدینہ میں تشریف لائے اور لوگوں کو خطبہ سنایا فرمایا اے لوگوں جتنے طریقے تھے سب کھل گئے اور جتنے فرائض تھے سب مقرر ہو گئے اور ڈالے گئے تم صاف سیدھی راہ پر مگر ایسا نہ ہو کہ تم بہک جاؤ دائیں بائیں، اور ایک ہاتھ کو دوسرے پر مارا پھر فرمایا نہ یہ ہو کہ تم بھول جاؤ رجم کی آیت کو کوئی یہ کہنے لگے ہم دو حدوں کو اللہ کی کتاب میں نہیں پاتے دیکھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رجم کیا ہے اور ہم نے بھی بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے رجم کیا ہے قسم اس ذات پاک کی جس کے اختیار میں میری جان ہے اگر لوگ یہ نہ کہتے کہ عمر نے بڑھا دیا کتاب اللہ میں تو میں اس آیت کو قرآن میں لکھوا دیتا اور محصنہ عورت جب زنا کریں تو سنگسار کرو ان کو، ہم نے اس آیت کو پڑھا ہے سعید بن مسیب نے کہا کہ پھر ذی الحجہ کا مہینہ نہ گزرا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قتل کئے گئے۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ حضرت عثمان کے پاس ایک عورت آئی جس کا بچہ چھ مہینے میں پیدا ہوا تھا آپ نے اس کے رجم کا حکم کیا حضرت علی نے فرمایا کہ اس پر رجم نہیں ہو سکتا اللہ جل جلالہ فرماتا ہے اپنی کتاب میں آدمی کا حمل اور دودھ چھڑانا تیس مہینے میں ہوتا ہے اور دوسری جگہ فرماتا ہے مائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس دودھ پلائیں جو شخص رضاعت کو پورا کرنا چاہے تو حمل کے چھ مہینے ہوئے اس وجہ سے رجم نہیں ہے۔ حضرت عثمان نے یہ سن کر لوگوں کو بھیجا اس عورت کے پیچھے (تاکہ اس کو رجم نہ کریں) دیکھا تو وہ رجم ہو چکی تھی۔

 

ابن شہاب سے پوچھا جو کوئی لواطت کرے اس کا کیا حکم ہے ابن شہاب نے کہا کہ اس کو رجم کرنا چاہئے خواہ محصن ہو یا غیر محصن۔

 

               جو شخص زنا کا اقرار کرے اس کا بیان

 

زید بن اسلم سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اقرار کیا زنا کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں آپ نے کوڑا منگوایا تو نیا کوڑا آیا جس کا سرا بھی نہیں کٹا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس سے نرم لاؤ پھر ایک کوڑا آیا جو بالکل ٹوٹا ہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرما اس سے سخت لاؤ پھر ایک کوڑا آیا جو سواری میں کام آیا تھا اور نرم ہو گیا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم کیا اس کوڑے سے مارنے کا بعد اس کے فرمایا اے لوگوں اب وہ وقت آ گیا ہے کہ تم باز رہو اللہ کی حدوں سے جو شخص اس قسم کا کوئی گناہ کرے تو چاہیے کہ چھپا رہے اللہ کے پردے میں اور جو کوئی کھول دے گا اپنے پردے کو تو ہم موافق کتاب اللہ کے اس پر حد قائم کریں گے۔

 

صفیہ بنت ابی عیبد سے روایت ہے کہ لوگ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک شخص کو لائے جس نے ایک باکرہ لونڈی سے زنا کر کے اس کو حاملہ کر دیا تھا بعد اس کے زنا کا اقرار کیا اور وہ محصن نہ تھا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکم کیا اس کو کوڑا مارنے کا اس کو حد پڑی بعد اس کے نکال دیا گیا فدک کی طرف ایک موضع ہے مدینہ سے دو دن کی راہ پر۔

 

کہا مالک نے جو شخص زنا کا اقرار کرے بعد اس کے منکر ہو جائے اور کہے میں نے زنا نہیں کیا بلکہ میں نے فلانا کام کیا (جیسے اپنی عورت سے حالت حیض میں جماع کیا اس کو زنا سمجھا) تو اس پر حد نہ پڑے گی کیونکہ حد پڑنے میں یا تو گواہ عادل ہونے چاہئیں یا اقرار ہو جس پر وہ قائم رہے حد پڑنے تک۔

 

               زنا کی حد میں مختلف حدیثیں

 

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور زید بن خالد جہنی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کسی نے پوچھا کہ لونڈی غیر محصنہ جب زنا کرے تو کیا حکم ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اگر وہ زنا کرے تو اس کو کوڑے مار پھر اگر زنا کرے تو پھر اس کو کوڑے مارو پھر اگر زنا کرے تو پھر اس کو کوڑے مارو بعد اس کے چوتھی مرتبہ یا تیسری مرتبہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بیچ ڈالو ایسی لونڈی کو اگرچہ ایک رسی کے عوض میں ہو۔

 

نافع سے روایت ہے کہ ایک غلام مقرر تھا ان غلام اور لونڈیوں پر جو خمس میں آئی تھیں اس نے انہیں غلام اور لونڈیوں میں سے ایک لونڈی سے زبردستی جماع کیا حضرت عمر بن خطاب نے اس کو کوڑے مارے اور نکال دیا اور لونڈی کو نہ مارا کیونکہ اس پر جبر ہوا تھا۔

 

عبد اللہ بن عیاش سے روایت ہے کہ مجھ کو اور کئی جوانوں کو جو قریش کے تھے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکم کیا حد مارنے کا تو ہم نے لونڈیوں کو پچاس پچاس کوڑے لگائے زنا میں وہ لونڈیاں امارت یعنی بیت المال کی تھیں۔

 

               جس عورت کو کوئی چھین لے جائے اور جبراً اس سے جماع کرے اس کا بیان

 

کہا مالک نے اگر عورت حاملہ ہو جائے اور اس کا خاوند نہ ہو پھر وہ کہنے لگے کہ مجھ سے زبردستی کسی نے جماع کیا تھا یا میں نے نکاح کیا تھا تو یہ قول اس کا قبول نہ کیا جائے گا بلکہ حد ماری جائے گی جب تک کہ اس نکاح پر گواہ نہ لائے یا اپنی مجبوری کا ثبوت نہ دے گواہوں سے یا قرینے سے مثلاً باکرہ (کنواری) ہو تو چلی آئے فریاد کرتی ہوئی اس حال میں کہ خون نکل رہا ہو اس کی شرمگاہ سے یا چلانے لگے یہاں تک کہ لوگ آ جائیں۔ بغیر ان باتوں کے اس کا قول مقبول نہ ہو گا اور حد پڑے گی۔

 

کہا مالک نے جس عورت سے زبردستی کوئی جماع کرے تو وہ نکاح نہ کرے جب تک کہ اس کو تین حیض نہ آ لیں اگر حمل کا شبہ ہو تو بھی نکاح نہ کرے جب تک کہ یہ شبہ دور نہ ہو۔

 

               حد قذف کا باور نفی نسب کا اور اشارے کنائے میں دوسرے کو گالی دینے کا بیان

 

ابو زناد سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے ایک غلام کو حد قذف کے اسی کوڑے لگائے تو میں نے عبداللہ بن عامر سے پوچھا انہوں نے کہا میں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عثمان اور خلفاء کو ان کے بعد دیکھا کہ کسی نے غلام کو حد قذف میں چالیس کوڑے سے زیادہ نہیں لگائے۔

 

زریق بن حکیم سے روایت ہے کہ ایک شخص نے جس کا نام مصباح تھا اپنے بیٹے کو کسی کام کے واسطے بلایا اس نے دیر کی جب آیا تو مصباح نے کہا کہ اے زانی، کہا زریق نے اس لڑکے نے میرے پاس فریاد کی میں نے جب اس کے باپ کو حد مارنی چاہی تو وہ لڑکا بولا اگر تم میرے باپ کو کوڑوں سے مارو گے تو میں زنا کا اقرار کر لوں گا میں یہ سن کر حیران ہوا اور اس مقدمے کا فیصلہ کرنا مجھ پر دشوار ہوا تو میں نے عمر بن عبدالعزیز کو لکھا وہ اس زمانے میں حاکم تھے مدینہ کے (سلمان بن عبدالملک کی طرف سے) عمر بن عبدالعزیز نے جواب لکھا کہ لڑکے کے عفو کو جائز رکھ(یعنی بیٹے نے اگر باپ کو حد معاف کر دی ہے تو عفو صحیح ہے) زریق نے کہا میں نے عمر بن عبدالعزیز کو یہ بھی لکھا تھا کہ اگر کوئی شخص دوسرے پر تہمت زنا کی لگائے یا اس کے ماں باپ کو اور ماں باپ اس کے مر گئے ہوں یا دونوں میں سے ایک مر گیا ہو تو پھر کیا کرے، عمر بن عبدالعزیز نے جواب میں لکھا کہ جس شخص کو تہمت زنا کی لگائے اگر وہ معاف کر دے تو عفو درست ہے لیکن اگر اس کے والدین کو تہمت زنا کی لگائے تو اس کا عفو کر دینا درست نہیں جب کہ والدین مر گئے ہوں یا ان دو میں سے ایک مر گیا ہو بلکہ حد لگا اس کو موافق کتاب اللہ کے مگر جب بیٹا اپنے والدین کا حال چھپانے کے واسطے عفو کر دے تو عفو درست ہے۔

 

کہا مالک نے یعنی اس کو خوف ہو اگر میں تہمت لگانے والے کو معاف نہ کروں گا تو والدین کا زنا گواہوں سے ثابت ہو جائے گا اس وجہ سے عفو کر دے تو عفو درست ہے۔

 

عروہ بن زبیر نے کہا کہ جو شخص بہت سے آدمیوں پر ایک ہی قول میں زنا کی تہمت لگائے تو اس پر ایک ہی حد پڑے گی۔

 

عمرہ بنت عبدالرحمن سے روایت ہے کہ دو مردوں نے گالی گلوچ کی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ایک نے دوسرے سے کہا قسم خدا کی میرا باپ تو بدکار نہ تھا نہ میری ماں بدکار تھی حضرت عمر نے اس بات میں مشورہ کیا ایک شخص بولا اس میں کیا برائی ہے اس نے اپنے باپ اور ماں کی خوبیاں بیان کیں اور لوگوں نے کہا کیا اس کے باپ اور ماں کی صرف یہی خوبی تھی ہمارے نزدیک اس کو حد قذف مارنی چاہیے

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک حد نہیں ہے مگر قذف میں یا نفی میں (نفی کہتے ہیں نسب دور کرنے کو مثلاً یہ کہنا تو اپنے باپ کا بیٹا نہیں ہے) یا تعریض میں (یعنی اشارے کنائے میں کسی کو گالی دینا جیسے ابھی بیان ہوا) ان سب صورتوں میں حد پوری پوری لازم آئے گی لیکن یہ ضروری ہے کہ تعریض سے نفی یا قذف مقصود ہونا معلوم ہو جائے۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے جب کوئی کسی کو اسی کے باپ سے نفی کرے تو حد واجب ہو گی اگرچہ اس کی ماں لونڈی ہی کیوں نہ ہو۔

 

کہا مالک نے جو کوئی شریک مشترک لونڈی سے صحبت کر لے تو اس پر حد نہیں ہے اب جو لڑکا پیدا ہو گا اس کا نسب اسی سے لگایا جائے گا اور لونڈی کی قیمت لگا کر باقی شریکوں کو ان کے حصے کو موافق قیمت ادا کرنی ہو گی اور لونڈی پوری اسی کی ہو جائے گی ہمارے نزدیک یہی حکم ہے۔

 

کہا مالک نے اگر ایک شخص اپنی لونڈی کسی کو مباح کر دے (یعنی اس سے جماع کرنے کی اجازت دے دے ہر چند یہ درست نہیں) وہ شخص اس سے جماع کرے تو لونڈی کی قیمت دینی ہو گی خواہ حاملہ ہو یا نہ ہو لیکن حد نہ پڑے گی۔ اگر حاملہ ہو جائے گی تو بچے کا نسب اس سے ثابت کر دیں گے۔

 

 

کتاب چوری کے بیان میں

 

               جس چوری میں ہاتھ کاٹا جاتا ہے اس کا بیان

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہاتھ کاٹا ایک ڈھال کی چوری میں جس کی قیمت تین درہم تھی

 

عبد اللہ بن عبدالرحمن مکی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جو میوہ درخت پر لٹکتا ہو یا جو بکری پہاڑ پر پھرتی ہو اس کے اٹھا لینے میں ہاتھ نہ کاٹا جائے گا مگر جب وہ بکری اپنے گھر میں آ جائے یا میوہ کاٹ کر کھانے کو کہیں رکھا جائے پھر اس کو کوئی چرائے تو ہاتھ کاٹا جائے گا بشرطیکہ قیمت اس کی ڈھال کے برابر ہو۔

 

حضرت عمرہ بنت عبدالرحمن سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ترنج چرایا حضرت عثمان نے اس کی قیمت لگوائی وہ تین درہم کا نکلا بارہ درہم فی دینار کے حساب سے تو حضرت عثمان نے اس کا ہاتھ کاٹا۔

 

حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ابھی کچھ زیادہ زمانہ نہیں ہوا اور نہ میں بھولی ہوں کہ چور کا ہاتھ ربع دینا میں یا زیادہ میں کاٹا جائے گا۔

 

عمرہ بنت عبدالرحمن سے روایت ہے کہ حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکہ کو گئیں ان کے ساتھ دو لونڈیاں تھیں ان کی آزاد کی ہوئیں اور ایک غلام تھا عبداللہ بن ابی بکر کی اولاد کا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مکہ سے ان دو لونڈیوں کے ہاتھ ایک چادر بھیجی جس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں مردوں کی۔ ایک سبز کپڑے میں لپیٹ کر سی دیا تھا اس غلام نے کیا کیا کپڑے کی سیون ادھیڑ کر اس میں سے چادر نکال لی اور اس کی جگہ ایک تھیلا پوستین رکھ دی اور پھر سی دیا جب وہ لونڈیاں مدینہ کو آئیں اور وہ امانت جن کو حضرت عائشہ نے کہا تھا کہ سپرد کی انہوں نے ادھیڑ کر دیکھا تو نمدہ ہے چادر نہیں ہے لونڈیوں سے پوچھا لونڈیوں نے حضرت عائشہ سے بیان کیا یا ان کو لکھ بھیجا اور اپنا گمان غلام پر ظاہر کیا جب غلام سے پوچھا گیا تو اس نے اقرار کیا حضرت عائشہ نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم کیا اس کا ہاتھ کاٹا گیا حضرت عائشہ نے فرمایا ربع دینار یا زیادہ میں ہاتھ کاٹا جاتا ہے۔

 

               جو غلام بھاگ جائے پھر چوری کرے اس کے ہاتھ کاٹنے کا بیان

 

نافع سے روایت ہے کہ ایک غلام عبداللہ بن عمر کا بھاگا ہوا تھا اس نے چوری کی عبداللہ بن عمر نے اس غلام کو سعید بن العاص کے پاس بھیجا جو حاکم تھے مدینہ کے ہاتھ کاٹنے کو، سعید بن عاص نے نہ مانا اور کہا جب کوئی بھاگ جائے تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جاتا عبداللہ بن عمر نے کہا کہ تو نے یہ حکم کس کتاب اللہ میں پایا، پھر عمد اللہ بن عمر نے حکم کیا اس کا ہاتھ کاٹا گیا۔

 

زر یق بن حکیم نے ایک بھاگے ہوئے غلام کو گرفتار کیا جس نے چوری کی تھی پھر ان کو یہ مسئلہ مشکل معلوم ہوا انہوں نے عمر بن عبدالعزیز کو لکھا وہ اس زمانے میں امیر المو منین تھے اور یہ بھی لکھا کہ میں سنتا تھا جو غلام بھاگ جائے پھر وہ چوری کرے تو اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے عمر بن عبد العز یز نے جواب میں لکھا اور میری تحریر کا حوالہ دیا اور کہا کہ تو نے لکھا ہے کہ تو سنتا تھا جو غلام بھاگا ہوا ہو وہ چوری کرے تو اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے گا حالانکہ اللہ نے فرمایا ہے کہ جو مرد چوری کرے یا عورت چوری کرے تو ان کے ہاتھ کاٹو یہ بدلہ ہے ان کے کام کا اور عذاب ہے اللہ کی طرف سے اللہ غالب ہے حکمت والا پس اگر اس غلام نے ربع دینار کے موافق یا اس سے زیادہ چوری کی ہو اس کا ہاتھ کاٹ ڈال۔

 

قاسم بن محمد اور سالم بن عبداللہ اور عروہ بن الزبیر کہتے تھے بھاگا ہوا غلام جب اس قدر چرائے جس میں ہاتھ کاٹنا واجب ہوتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک اس میں کچھ اختلاف نہیں ہے۔

 

               جب چور حاکم تک پہنچ جائے پھر اس کی سفارش نہیں کرنی چاہیے

 

صفوان بن عبداللہ بن صفوان سے روایت ہے کہ صفوان بن امیہ سے کسی نے کہا کہ جس نے ہجرت نہیں کی تو وہ تباہ ہوا تو صفوان مدینہ میں آئے اور مسجد نبوی میں اپنی چادر سر کے تلے رکھ کر سو رہے چور آیا اور چادر ان کی لے گیا صفوان نے اٹھ کر چور کو گرفتار کیا اور رسول اللہ کے پاس لے آئے آپ نے چور سے پوچھا کہ کیا تو نے صفوان کی چادر چرائی وہ بولا ہاں آپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم کیا صفوان نے کہا میری نیت یہ نہ تھی یا رسول اللہ وہ چادر تو اس پر صدقہ ہے آپ نے فرمایا تجھ کو یہ امر میرے پاس لانے سے پہلے کرنا تھا

 

ربیعہ بن ابی عبدالرحمن سے روایت ہے کہ زبیر بن عوام نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ چور کو پکڑے ہوئے حاکم کے پاس لئے جاتا تھا زبیر نے سفارش کی کہا چھوڑ دے وہ بولا کبھی نہیں چھوڑوں گا جب تک کہ حاکم کے پاس نہ لے جاؤں گا زبیر نے کہا جب تو حاکم کے پاس لے گیا تو خدا کی لعنت سفارش کرنے والے پر اور سفارش ماننے والے پر

 

               ہاتھ کاٹنے کے مختلف مسائل کا بیان

 

قاسم بن محمد سے روایت ہے کہ ایک شخص یمن کا رہنے والا ہاتھ پاؤں کٹا ہوا مدینہ میں آیا اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس اتر کر بولا کہ یمن کے حاکم نے مجھ پر ظلم کیا اور وہ راتوں کو نماز پڑھتا تھا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ قسم تیرے باپ کی تیری رات چوروں کی رات نہیں ہے۔ اتفاقا ایک ہار اسما بنت عمیس ابوبکر کی بی بی کا گم ہو گیا لوگوں کے ساتھ وہ لنگڑا بھی ڈھونڈتا پھرتا تھا اور کہتا تھا کہ اے پروردگار تباہ کر اس کو جس نے ایسے نیک گھر والوں کے ہاں چوری کی، پھر وہ ہار ایک سنار کے پاس ملا سنار بولا مجھے اس لنگڑے نے دیا ہے اس لنگڑے نے اقرار کیا یا گواہی سے ثابت ہوا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکم کیا تو اس کا بایاں ہاتھ کاٹا گیا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا قسم خدا کی مجھے اس کی بدعا جو اپنے اوپر کرتا تھا چوری سے زیادہ سخت معلوم ہوئی۔

 

کہا مالک نے اگر ایک شخص نے کئی بار چوری کی بعد اس کے گرفتار ہوا تو سب چوریوں کے بدلے میں صرف اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا جب اس کا ہاتھ نہ کٹا ہو اور جو ہاتھ کٹنے کے بعد اس نے چوری کی ربع دینار کے موافق تو بایاں پاؤں کاٹا جائے گا۔

 

ابو زناد سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے ایک عامل نے چند آدمیوں کو ڈکیتی میں گرفتار کیا پھر انہوں نے کسی کو قتل نہیں کیا تھا عامل نے چاہا کہ ان کے ہاتھ کاٹے یا ان کو قتل کرے پھر عمر بن عبدالعزیز کو اس بارے میں لکھا انہوں نے جواب میں لکھا کہ اگر تو آسان امر کو اختیار کرے تو بہتر ہے۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ جو شخص بازار کے ان مالوں کو چرائے جن کو مالکوں نے کسی برتن میں محفوظ کر کے رکھا ہو ملا کر ایک دوسرے سے، ربع دینار کے موافق چرائے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا برابر ہے کہ مالک وہاں موجود ہو یا نہ ہو رات کو ہو یا دن کو۔

 

کہا مالک نے جو شخص ربع دینار کے موافق مال چرائے پھر مال مسروقہ مالک کے حوالے کر دے تب بھی اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص نشے کی چیز پی چکا ہو اور اس کی بو آتی ہو اس کے منہ سے لیکن اس کو نشہ نہ ہو تو پھر بھی حد ماریں گے کیونکہ اس نے نشے کے واسطے پیا تھا اگرچہ نشہ نہ ہوا ہو، ایسا ہی چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا اگرچہ وہ چیز مالک کو پھیر دے کیونکہ اس نے لے جانے کے واسطے چرایا تھا اگرچہ لے نہ گیا۔

 

کہا مالک نے اگر کئی آدمی مل کر مال چرانے کے لیے ایک گھر میں گھسے اور وہاں سے ایک صندوق یا لکڑی یا زیور سب ملا کر اٹھا لائے اگر اس کی قیمت ربع دینار ہو تو سب کا ہاتھ کاٹا جائے گا اگر ہر ایک ان میں سے جدا جدا مال لے کر نکلا تو جس کا مال ربع دینار تک پہنچے گا اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ اور جس کا اس سے کم ہو گا اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے گا۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ اگر ایک گھر ہو اس میں ایک ہی آدمی رہتا ہو اب کوئی آدمی اس گھر میں سے کوئی شئے چرائے لیکن گھر سے باہر نہ لے جائے (مگر اسی گھر میں ایک کوٹھڑی سے دوسری کوٹھڑی میں رکھے یا صحن میں لائے) تو اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے گا جب تک گھر سے باہر نہ لے جائے البتہ اگر ایک گھر میں کئی کوٹھڑیاں الگ الگ ہوں اور ہر کوٹھڑی میں لوگ رہتے ہوں اب کوئی شخص کوٹھڑی والے کا مال چرا کر کوٹھڑی سے باہر نکال لائے لیکن گھر سے باہر نہ نکالے تب ہاتھ کاٹا جائے گا۔

 

کہا مالک نے جو غلام گھر میں آ جاتا ہو یا لونڈی آ جاتی ہو اور اس کے مالک کو اس پر اعتبار ہو وہ اگر کوئی چیز چرائے اپنے مالک کی تو اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے گا اسی طرح جو غلام یا لونڈی آمدو رفت نہ رکھتے ہوں نہ ان کا اعتبار ہو وہ بھی اگر اپنے مالک کا مال چرائیں تو ہاتھ نہ کاٹا جائے گا اور جو اپنے مالک کی بیوی کا مال چرائیں یا اپنی مالکہ کے خاوند کا مال چرائیں تو ہاتھ کاٹا جائے گا۔

 

کہا مالک نے اسی طرح مرد اپنی عورت کے اس مال کو چرائے جو اس گھر میں نہ ہو جہاں وہ دونوں رہتے ہیں بلکہ ایک اور گھر میں محفوظ ہو یا عورت اپنے خاوند کے ایسے مال کو چرائے جو اس گھر میں نہ ہو جہاں وہ دونوں رہتے ہیں بلکہ ایک اور گھر میں بند ہو تو ہاتھ کاٹا جائے گا۔

 

کہا مالک نے چھوٹا بچہ یا غیر ملک کا آدمی جو بات نہیں کر سکتا ان کو اگر کوئی ان کے گھر سے چرا لے جائے تو ہاتھ کاٹا جائے گا اور جو راہ میں سے لے جائے یا گھرکے باہر سے تو ہاتھ نہ کاٹا جائے گا اور ان کا حکم پہاڑ کی بکری اور درخت پر لگے ہوئے میوے کا ہو گا۔

 

کہا مالک نے قبر کھود کر اگر ربع دینار کے موافق کفن چرائے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا کیونکہ قبر ایک محفوظ جگہ ہے جیسے گھر لیکن جب تک کفن قبر سے باہر نکال نہ لے تب تک ہاتھ نہ کاٹا جائے گا۔

 

               جن صورتوں میں ہاتھ نہیں کاٹا جاتا ان کا بیان

 

محمد بن یحیی بن حبان سے روایت ہے کہ ایک غلام نے ایک شخص کے باغ میں سے کھجور کا پودا چرا کر اپنے مولی کے باغ میں لگا دیا پودے والا اپنا پودا ڈھونڈنے نکلا اس نے پا لیا اور مروان بن حکم کے پاس غلام کی شکایت کی مروان نے غلام کو بلا کر قید کیا اور اس کا ہاتھ کاٹنا چاہا اس غلام کا مولی رافع بن خدیج کے پاس گیا اور ان سے یہ حال کہا رافع نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ نہیں کاٹا جائے گا ہاتھ پھل میں نہ پودے میں وہ شخص بولا مروان نے میرے غلام کو پکڑا ہے اور اس کا ہاتھ کاٹنا چاہتا ہے میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ چلیے اور مروان سے اس حدیث کو بیان کر دیجیے، رافع اس شخص کے ساتھ مران کے پاس گئے اور پوچھا کیا تو نے اس شخص کے غلام کو پکڑا ہے مروان نے کہا ہاں رافع نے پوچھا اس غلام کے ساتھ کیا کرے گا مروان نے کہا ہاتھ کاٹوں گا رافع نے کہا میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے فرماتے تھے کہ پھل اور پودے کی چوری میں ہاتھ نہ کاٹا جائے گا مروان نے یہ سن کر حکم دیا کہ اس غلام کو چھوڑ دو۔

 

سائب بن یزید سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے اپنے ایک غلام کو لے کر آیا اور کہا میرے اس غلام کا ہاتھ کاٹا جائے اس نے چوری کی ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کیا چرایا؟ وہ بولا میری بیوی کا آئینہ چرایا جس کی قیمت ساٹھ درہم تھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا چھوڑ دو اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے گا تمہارا خادم تھا تمہارا مال چرایا۔

 

ابن شہاب سے روایت ہے کہ مروان بن حکم کے پاس ایک شخص آیا جو کسی کا مال اچک لے گیا تھا مروان نے اس کا ہاتھ کاٹنا چاہا پھر زید بن ثابت کے پاس ایک شخص کو بھیجا یہ مسئلہ پوچھنے کو انہوں نے کہا اچکے کا ہاتھ نہ کاٹا جائے گا۔

 

ابو بکر بن محمد عمر بن حزم نے ایک نبطی (نبط کا رہنے والا) کو پکڑا جس نے انگوٹھیاں لوہے کی چرائی تھیں اور اس کو قید کیا ہاتھ کا ٹنے کے واسطے عمرہ بنت عبدالرحمن نے اپنی مولاۃ(آزاد لونڈی) کو جس کا نام امیہ تھا ابوبکر کے پاس بھیجا ابوبکر نے کہا وہ مولاۃ میرے پاس چلی آئی اور میں لوگوں میں بیٹھا ہوا تھا، بولی تمہاری خالہ عمرہ نے کہا ہے کہ اے میرے بھانجے تو نے ایک نبطی کو پکڑا ہے تھوڑی چیز کے واسطے اور چاہتا ہے اس کا ہاتھ کاٹنا میں نے کہا ہاں! اس نے کہا عمرہ نے کہا ہے کہ قطع نہیں ہے مگر ربع دینار کی مالیت میں یا زیادہ میں تو میں نے نبطی کو چھوڑ دیا۔

 

کہا مالک نے غلام اگر ایسے قصور کا اقرار کرے جس میں اس کے بدن کا نقصان ہو تو درست ہے اس کو تہمت نہ لگائیں گے اس بات کی کہ اس نے مولیٰ کے ضرر کے واسطے جھوٹا اقرار کر لیا۔

 

کہا مالک نے اگر ایسے قصور کا اقرار کرے جس کا تاوان مولیٰ کو دینار پڑے تو اس کا اقرار صحیح نہ سمجھا جائے گا۔

 

کہا مالک نے اگر مزدور یا اور کوئی شخص لوگوں میں رہتا ہو اور آتا ہو پھر وہ ان کی کوئی چیز چرائے تو اس پر قطع نہیں ہے کیونکہ وہ مثل خائن کے ہوا اور خائن پر قطع نہیں ہے۔

 

کہا مالک نے جو شخص کوئی چیز بطور عاریتاً کے لے پھر مکر جائے تو اس پر قطع نہیں ہے اس کی مثال ایسی ہے کہ کسی کا قرض کسی پر ہو اور وہ مکر جائے تو قطع نہیں ہے۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ اچک لینے میں قطع نہیں ہے اگرچہ اس شئے کی قیمت ربع دینار یا زیادہ ہو۔

 

 

کتاب شرابوں کی بیان میں

 

               خمر کی حد کا بیان

 

سائب بن یزید سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نکلے اور کہا میں نے فلانے کے منہ سے شراب کی بو پائی وہ کہتا ہے میں طلا (انگور کے شیرے کو اتنا پکایا جائے کہ وہ گاڑھا ہو جائے مثلاً دو ثلث جل جائے ایک ثلث رہ جائے) پی اور میں پوچھتا ہوں کہ اگر اس میں نشہ ہے تو اس کو حد ماروں گا حضرت عمر نے اس کو پوری حد لگائی۔

 

ثور بن زید سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے صحابہ سے مشورہ لیا خمر کی حد میں (کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کوئی حد معین نہیں کی تھی) حضرت علی نے فرمایا میرے نزدیک اسی کوڑے لگانے مناسب ہیں کیونکہ آدمی جب شراب پیے گا مست ہو جائے گا اور جب مست ہو جائے گا واہیات بکے گا اور جب واہیات بکے گا تو کسی کو گالی بھی دے گا ایسا ہی کیا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی کوڑے مقرر کیے خمر میں۔

 

ابن شہاب سے پوچھا گیا غلام اگر شراب پیے تو اس کی کیا حد ہے انہوں نے کہا مجھے یہ پہنچا کہ غلام پر آزاد کی نصف حد ہے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عثمان اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے غلاموں کو آزاد کے نصف حد لگائی۔

 

سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے تھے کہ کوئی گناہ نہیں مگر اللہ چاہتا ہے کہ معاف کر دیا جائے سوائے حد کے۔

 

کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ جو کوئی ایسی شراب پئے جس میں نشہ ہو تو اس کو حد پڑے گی خواہ اس کو نشہ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔

 

               جن دو چیزوں کو ملا کر نبیذ نہ بنانی چاہئے

 

عطا بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا کہ گدر کھجور اور پکی کھجور ملا کر بھگوئی جائیں یا کھجور اور انگور ملا کر بھگوئے جائیں۔

 

ابو قتادہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ منع کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھجور اور انگور کے ملا کر نبیذ پینے سے اور گدر اور پختہ کھجور کو ملا کر نبیذ پینے سے۔

 

کہا مالک نے اس امر پر اتفاق کیا ہے ہمارے شہر کے علماء نے کہ یہ مکروہ ہے کیونکہ منع کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے۔

 

               جن برتنوں میں نبیذ بنانا مکروہ ہے

 

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کسی غزوے میں خطبہ پڑھا میں بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف چلا سننے کے واسطے لیکن میرے پہنچنے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فارغ ہو گئے میں نے لوگوں سے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کیا فرمایا لوگوں نے کہا منع کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نبیذ بھگونے سے تونبے اور مرتبان میں۔

 

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع کیا میوہ تر کرنے سے توبنے اور مرتبان میں۔

 

               خمر کی حرمت کا بیان

 

حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کسی نے پوچھا بتع ( شہد کی شراب) کا حکم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شراب نشہ کرے وہ حرام ہے۔

 

عطاء بن یسار سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال ہوا جوار کی شراب کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بہتر نہیں ہے اور منع کیا اس سے۔

 

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص دنیا میں شراب پئے گا پھر اس سے توبہ نہ کرے گا تو آخرت میں شراب سے محروم رہے گا۔

 

               شراب کی حرمت کے مختلف مسائل

 

ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واسطے ایک مشک شراب کی تحفہ لایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالی نے اس کو حرام کیا ہے وہ بولا مجھے خبر نہیں، ایک شخص نے چپکے سے اس کے کان میں کچھ کہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا تو نے کیا کہا؟ وہ بولا میں نے بیچ ڈالنے کو کہا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے اس کا پینا حرام کیا اس نے اس کا بیچنا بھی حرام کیا یہ سن کر اس شخص نے مشک کا منہ کھول دیا سب شراب بہہ گئی۔

 

انس بن مالک سے روایت ہے کہ میں ابوعیبد بن جراح اور ابی بن کعب کو شراب پلایا کرتا تھا کھجور اور خشک کھجور کی اتنے میں ایک شخص آیا اور بولا شراب حرام ہو گئی، ابو طلحہ نے کہا اے انس اٹھو گھڑے پھوڑ دو میں اٹھا اور موسل سے مار کر سب گھڑوں کو پھوڑ دیا۔

 

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب شام کی طرف آئے تو لوگوں نے وبا اور آب و ہوا کے بھاری ہونے کا بیان کیا اور کہا بغیر اس شراب کے ہمارا مزاج اچھا نہیں رہتا آپ نے کہا شہد پیو انہوں نے کہا شہد موافق نہیں ایک شخص بولا ہم اسی کو اس طرح تیار کریں جس میں نشہ نہ ہو آپ نے کہا ہاں، انہوں نے اس کو پکایا اتنا کہ ایک تہائی رہ گیا دو تہائی جل گیا اس کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس لائے انہوں نے انگلی ڈالی جب وہ چَپ چَپ کرنے لگا آپ نے فرمایا یہ طلا تو اونٹ کے طلا کے مشابہ ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے پینے کی اجازت دی عبادہ بن صامت نے کہا آپ نے حلال کر دیا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا نہیں قسم خدا کی یا اللہ میں نے کبھی اس چیز کو حلال نہیں کیا جس کو تو نے حرام کیا اور نہ حرام کیا جس کو تو نے حلال کیا۔

 

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے عراق کے لوگوں نے کہا ہم کھجور اور انگور کے پھل خریدتے ہیں پھر اس کی شراب بنا کر بیچتے ہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں گواہ کرتا ہوں اللہ کو اور فرشتوں کو اور جو سنتے ہیں جن اور آدمی کہ میں اجازت نہیں دیتا تم کو بیچنے کی نہ خریدنے کی نہ نچوڑنے کی نہ پینے کی نہ پلانے کی کیونکہ شراب پلید ہے شیطان کا کام ہے۔

 

 

کتاب مختلف بابو کے بیان میں

 

               مدینہ کے واسطے اور مدینہ کے رہنے والوں کے واسطے دعا کا بیان

 

انس بن مالک سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اے پروردگار برکت دے مدینہ والوں کی ناپ میں اور برکت دے ان کے صاع میں اور مد میں۔

 

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب لوگ پہلا میوہ دیکھتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آتے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو لے کر فرماتے اے پروردگار برکت دے ہمارے پھلوں میں اور برکت دے ہمارے شہر میں اور برکت دے ہمارے صاع میں اور برکت دے ہمارے مد میں، اے پروردگار ابراہیم نے جو تیرے بندے اور تیرے دوست ہیں اور تیرے نبی تھے دعا کی تھی مکہ کے واسطے تیرا بندہ ہوں اور نبی ہوں جیسے ابراہیم نے دعا کی تھی مکہ کے لئے اور اتنی اور اس کے ساتھ(اشارہ کر کے) پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سب سے چھوٹے بچے کو جو موجود ہوتا بلاتے اور وہ میوہ اس کو دے دیتے۔

 

               مدینے میں رہنے کا بیان اور مدینے سے نکلنے کا بیان

 

یحنس جو مولی تھا زبیر بن عوام کا نقل کرتا ہے میں بیٹھا تھا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس اتنے میں ایک لونڈی آئی ان کی اور بولی میں مدینہ سے نکلنا چاہتی ہوں اے ابو عبدالرحمن کیونکہ یہاں سختیاں ہیں اور وہ زمانہ فساد کا تھا مدینہ میں، عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا بیٹھ نالائق میں نے سنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے مدینہ کی تکلیف اور سختیوں پر جو صبر کرے گا میں اس کا قیامت کے روز گواہ ہوں گا یا اس کی شفاعت کروں گا۔

 

جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے بیعت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اسلام پر اس کو بخار آنے لگا مدینہ میں وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری بیعت تور دیجئے آپ نے انکار کیا پھر آیا اور کہا میری بیعت تور دیجئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انکار کیا وہ مدینہ سے نکل گیا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مدینہ مثل دھونکنی یا کھریا (بھٹی) ہے کہ جو میل نکال دیتی ہے اور خالص کندن رکھ لیتی ہے۔

 

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے ایسی بستی میں جانے کا حکم ہوا جو بہت سی بستیوں کو کھا جائے گی لوگ اس کو یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے برے آدمیوں کو نکال باہر کرتا ہے جیسے کھریا لوہے کا میل نکال دیتی ہے۔

 

عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہ کوئی شخص مدینہ سے نفرت کر کے نہیں نکلتا مگر اللہ جل جلالہ اس سے بہتر دوسرا آدمی مدینہ کو دے دیتا ہے۔

 

سفیان بن ابی زہیر سے روایت ہے کہا سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے فرماتے تھے کہ فتح ہو گا یمن وہاں سے لوگ سیر کرتے ہوئے مدینہ کو آئیں گے اور اپنے گھر بار کو اور جو ان کے ساتھ جائے گا مدینہ سے سے جائیں گے حالانکہ مدینہ بہتر ہو گا ان کے لئے کاش وہ جانتے ہوتے اور فتح ہو گا شام وہاں سے کچھ لوگ سیر کرتے ہوئے آئیں گے اور اپنے گھر بار کو اور جو ان کا کہنا مانے گا مدینہ سے لے جائیں گے حالانکہ مدینہ بہتر ہو گا ان کے لئے کاش وہ جانتے ہوتے اور عراق فتح ہو گا وہاں سے کچھ لوگ سیر کرتے ہوئے آئیں گے اور اپنے گھر بار کو اور جو ان کا کہنا مانے گا مدینہ سے لے جائیں گے حالانکہ مدینہ بہتر ہو گا ان کے لیے کاش وہ جانتے ہوتے۔

 

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے البتہ تم چھوڑ دو گے مدینہ کو اچھے حال میں یہاں تک کہ آئے گا اس میں کتا یا بھیڑیا تو پیشاب کیا کرے گا مسجد کے کھمبوں یا منبر پر صحابہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس زمانے میں مدینہ کے پھلوں کو کون کھائے گا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو جانور بھولے ہوں گے پرندے اور درندے۔

 

عمر بن عبدالعزیز جب مدینہ سے نکلے تو مدینہ کی طرف دیکھ کر روئے اور اپنے غلام مزاحم سے کہنے لگے کہ شاید تم اور ہم ان لوگوں میں سے ہوں جن کو مدینہ نے نکال دیا۔

 

               مدینہ منورہ کی حرمت کا بیان

 

انس بن مالک سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو احد کا پہاڑ دکھائی دیا کہ یہ وہ پہاڑ ہے جو ہم کو چاہتا ہے اور ہم بھی اس کو چاہتے ہیں اے میرے رب! ابراہیم نے حرام کیا مکہ کو اور میں حرام کرتا ہوں مدینہ کے دونوں کناروں کے درمیان لڑائی کو۔

 

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ کہتے تھے اگر میں ہرنوں کو چرتے ہوئے دیکھوں مدینہ میں تو ہرگز نہ چھیڑوں ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ مدینہ کے دونوں کنارے حرام ہیں۔

 

ابو ایوب انصاری نے لڑکوں کو دیکھا انہوں نے ایک لومڑی کو گھیر رکھا تھا ایک کونے میں تو آپ نے لڑکوں کو ہنکا دیا اور لومڑی کو چھوڑ دیا۔

 

کہا مالک نے ابوایوب نے یہ کہا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حرم میں ایسا کام ہوتا ہے۔

 

ایک شخص سے روایت ہے کہ میرے پاس زید بن ثابت آئے اور میں اسواف میں تھا اور میں نے شکار کیا تھا ایک چڑیا کا انہوں نے میرے ہاتھ سے اس کو لے کر چھوڑ دیا۔

 

               مدینہ کی وبا کا بیان

 

حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ میں آئے تو ابوبکر اور بلال کو بخار آیا حضرت عائشہ ان کے پاس گئیں اور کہا کہ اے میرے باپ کیا حال ہے اے بلال کیا حال ہے حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ابوبکر کو جب بخار آتا تو وہ ایک شعر پڑھتے جس کا ترجمہ یہ ہے ہر آدمی صبح کرتا ہے اپنے گھر میں اور موت اس سے نزدیک ہوتی ہے اس کے جوتی کے تسمے سے۔ اور بلال کا جب بخار اترتا تو اپنی آواز نکالتے اور پکار کر کہتے کاش کہ مجھے معلوم ہوتا کہ میں ایک رات پھر مکہ کی وادی میں رہوں گا اور میرے گرد اذخر اور جلیل ہوں گی ( اذخر اور جلیل دونوں گھاس ہیں مکہ کی ) اور کبھی میں پھر اتروں گا مجنہ کے پانی پر ( مجنہ ایک جگہ ہے کئی میل پر مکہ سے وہاں زمانہ جاہلیت میں بازار تھے ) اور کبھی پھر دکھلائی دینگے مجھے شامہ طفیل (دو پہاڑ ہیں مکہ سے تیس میل پر یا دو چشمے ہیں ) حضرت عائشہ نے یہ باتیں سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے آ کر بیان کیں آپ نے دعا فرمائی اے پروردگار محبت ڈال دے ہمارے دلوں میں مدینہ کی جتنی محبت تھی مکہ کی یا اس سے بھی زیادہ اور صحت اور تندرستی کر دے مدینہ میں اور برکت دے اس کے صاع اور مد میں اور دور کر دے بخار وہاں کا اور بھیج دے اس بخار کو جحفہ (ایک بستی ہے مکہ سے بیاسی میل دور وہاں یہودی رہتے تھے) میں۔

 

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ عامر بن فہیرہ کہتے تھے کہ میں نے موت کو مرنے سے آگے دیکھ لیا نامرد کی موت اوپر سے آتی ہے۔

 

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مدینہ کی راہوں پر فرشتے ہیں اس میں نہ طاعون آتا ہے نہ دجال۔

 

 

 

               مدینہ سے یہودیوں کے نکالنے کا بیان

 

عمر بن عبدالعزیز سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آخری کلام یہ فرمایا اللہ جل جلالہ تباہ کرے یہود اور نصاریٰ کو انہوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو مسجدیں بنایا آگاہ رہو عرب میں دو دین نہ رہیں۔

 

ابن شہاب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جزیرہ عرب میں دو دین نہ رہیں۔

 

               مدینہ کی فضیلت کا بیان

 

عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا احد کو دیکھ کر کہ یہ پہاڑ ہم کو چاہتا ہے ہم بھی اسے چاہتے ہیں۔

 

اسلم جو مولی ہیں عمر بن خطاب کے ان سے روایت ہے کہ ہم مکہ کے راستے میں عبداللہ بن عیاش کی ملاقات کو گئے ، ان کے پاس نبیذ پائی اسلم نے کہا کہ اس شربت کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت چاہتے ہیں عبداللہ بن عیاش ایک بڑا سا پیالہ بھر کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس لائے اور ان کے سامنے رکھ دیا انہوں نے اس کو اٹھا کر پینا چاہا پھر سر اٹھا کر کہا یہ شربت بہت اچھا ہے پھر اس کو پیا اس کے بعد ایک شخص ان کے داہنی طرف بیٹھا تھا اس کو دے دیا جب عبداللہ بن عیاش لوٹ کر چلے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو بلایا اور کہا تو کہتا ہے کہ مکہ بہتر ہے مدینہ سے عبداللہ بن عیاش نے کہا کہ وہ حرم ہے اللہ کا اور امن کی جگہ ہے اور وہاں اس کا گھر ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں اللہ کے گھر اور حرم کا نہیں پوچھتا (بلکہ ان دونوں میں کون سا افضل ہے) پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تو کہتا ہے کہ مکہ بہتر ہے مدینہ سے، عبداللہ بن عیاش نے کہا کہ مکہ میں اللہ کا حرم ہے اور امن کی جگہ ہے وہاں اس کا گھر ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں اللہ کے گھر اور حرم میں کچھ نہیں کہتا پھر عبداللہ بن عیاش چلے گئے۔

 

               طاعون کا بیان

 

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ شام کی طرف نکلے جب سرغ(ایک بستی ہے) میں پہنچے تو لشکر کے بڑے بڑے افسران سے ملے جیسے ابو عیبدہ بن جراح اور ان کے ساتھی انہوں نے کہا شام میں آج کل وباء ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ابن عباس سے کہ بلاؤ بڑے بڑے مہاجرین کو جنہوں نے پہلے ہجرت کی ہے تو بلایا ان کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے مشورہ کیا اور بیان کیا ان سے کہ شام میں وباء ہو رہی ہے انہوں نے اختلاف کیا بعضوں نے کہا آپ کام کے واسطے نکلے ہیں لوٹنا مناسب نہیں ہے بعضوں نے کہا کہ آپ کے ساتھ اور لوگ بھی ہیں اور صحابہ ہیں مناسب نہیں کہ آپ ان کو اس وبا میں لے جائیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا جاؤ اور کہا بلاؤ انصار کو ابن عباس کہتے ہیں میں نے انصار کو بلایا اور وہ آئے ان سے مشورہ کیا انہوں نے بھی مہاجرین کی مثل بیان کی اور اسی طرح اختلاف کیا آپ نے کہا جاؤ۔ پھر کہا قریش کے بوڑھے بوڑھے لوگوں کو جنہوں نے ہجرت کی فتح مکہ کے بعد بلاؤ، میں نے ان کو بلایا ان میں سے دو آدمیوں نے بھی اختلاف نہیں کیا بلکہ سب نے کہا ہمارے نزدیک مناسب یہ ہے کہ آپ لوٹ جائیں اور لوگوں کو اس وباء میں نہ لے جائیے جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں میں منادی کرا دی کہ صبح کو اونٹ پر سوار ہو کر چلے اور اس وقت ابو عیبدہ نے کہا کہ اللہ جل جلالہ کی تقدیر سے بھاگے جاتے ہو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کاش یہ بات کسی اور نے کہی ہوتی ہاں ہم بھاگتے ہیں اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر کی طرف کیا اگر تمہارے پاس اونٹ ہوں اور تم ایک وادی میں جاؤ جس کے دو کنارے ہوں ایک کنارہ سر سبز اور شاداب ہو اور دوسرا خشک اور خراب ہو اگر تو اپنے اونٹوں کو سر سبز اور شاداب میں چرائے تب بھی تو نے اللہ کی تقدیر سے چرایا اور جو تو نے خشک اور خراب میں چرائے تب بھی تو نے اللہ کی تقدیر سے چرایا اتنے میں عبدالرحمن بن عوف آئے اور وہ کہیں کام کو گئے ہوئے تھے انہوں نے کہا میں اس مسئلے کا عالم ہوں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ جب تم سنو کہ کسی سر زمین میں وباء ہے تو وہاں نہ جاؤ اور جب کسی سر زمین میں وبا پڑے اور تم وہاں موجود ہو تو بھاگو بھی نہیں کہا ابن عباس نے کہ اس وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ جل جلالہ کی حمد بیان کی اور لوٹ کھڑے ہوئے۔

 

سعد بن ابی وقاص نے اسامہ بن زید سے پوچھا تم نے کیا سنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے طاعون کے بارے میں انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ طاعون ایک عذاب ہے جو بھیجا گیا تھا بنی اسرائیل کے گروہ پر یا یہ کہا کہ ان پر جو تم سے پہلے تھے تو جب سنو تم کسی زمین میں طاعون ہے تو وہاں نہ جاؤ اور جب کسی زمین میں طاعون پڑے اور تم وہاں موجود ہو تو بھاگو بھی نہیں ابو النصر نے کہا نہ نکلو بھاگنے کے قصد سے۔

 

عبد اللہ بن عامر بن ربیعہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب شام کی طرف نکلے جب سرع میں پہنچے ان کو خبر ملی شام میں وبا پڑی ہے تو عبدالرحمن بن عوف نے ان سے کہا رسول اللہ نے فرمایا کہ جب کسی زمین میں سنو کہ وبا ہے تو وہاں نہ جاؤ اور جب وبا پڑے اس زمین میں جس میں تم ہو تو اس سے نکل نہ بھاگو یہ سن کر حضرت عمر سرغ سے لوٹ آئے۔

 

سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر سرع سے لوٹ آئے عبدالرحمن بن عوف کی حدیث سن کر

 

امام مالک کو پہنچا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ایک گھر رکبہ میں (ایک مقام ہے درمیان میں عمرہ اور ذات عرق کے) پسند ہے مجھ کو شام میں دس گھروں سے۔

 

               تقدیر میں گفتگو کی ممانعت

 

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ بحث کی آدم اور موسیٰ نے تو غالب ہوئے آدم موسیٰ پر موسیٰ نے کہا تو وہی آدم ہے کہ گمراہ کیا تو نے لوگوں کو اور نکالا ان کو جنت سے آدم نے کہا کہ تو وہی موسیٰ ہے کہ اللہ نے تجھے علم دیا ہر چیز کا اور برگزیدہ کیا رسالت سے انہوں نے کہا ہاں پھر آدم نے کہا باوجود اس کے تو مجھے ملامت کرتا ہے ایسے کام پر جو میری تقدیر میں لکھا جا چکا تھا قبل میرے پیدا ہونے کے۔

 

مسلم بن یسار جہنی سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال ہوا اس آیت کے متعلق یعنی یاد کر اس وقت کو جب تیرے پروردگار نے آدم کی پیٹھ سے ان کی تمام اولاد کو نکالا اور ان کو گواہ کیا ان پر اس بات کا کیا میں نہیں ہوں پروردگار تمہارا، بولے کیوں نہیں تو پروردگار ہے ہمارا، ہم نے اس واسطے گواہ کیا کہ کہیں ایسا نہ کہو تم قیامت کے روز کہ ہم تو اس سے غافل تھے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بھی اس آیت کی تفسیر کا سوال ہوا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ جل جلالہ نے آدم کو پیدا کیا پھر ان میں اپنا داہنا ہاتھ پھیرا اور اولاد نکالی اور فرمایا میں نے ان کو جنت کے لئے پیدا کیا اور یہ لوگ جنیتوں کے کام کریں گے پھر بایاں ہاتھ پھیرا ان کی پیٹھ پر اور اولاد نکالی فرمایا میں نے ان کو جہنم کے لیے پیدا کیا اور یہ جہنموں کے کام کریں گے ایک شخص بولا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پھر عمل کرنے سے کیا فائدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب پیدا کرتا ہے کسی بندے کو جنت کے واسطے تو اس سے جنیتوں کے کام کراتا ہے اور موت کے وقت بھی وہ نیک عمل کر کے مرتا ہے تو اللہ جل جلالہ اسے جنت میں داخل کرتا ہے اور جب کسی بندے کو جہنم کے لئے پیدا کرتا ہے تو اس سے جہنیموں کے کام کراتا ہے یہاں تک کہ موت بھی اسے برے کام پر آتی ہے تو اسے جہنم میں داخل کرتا ہے۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہ چھوڑے جاتا ہوں میں تم میں دو چیزوں کو نہیں گمراہ ہو گے جب تک پکڑے رہو گے ان کو، کتاب اللہ اور اس کے رسول کی سنت۔

 

طاؤس الیمانی سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا میں نے چند صحابہ کو پایا کہتے تھے کہ ہر چیز تقدیر سے ہے طاؤس نے کہا میں نے عبداللہ بن عمر سے سنا کہتے تھے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہ ہر چیز تقدیر سے ہے یہاں تک کہ عاجزی اور ہوشیاری بھی۔

 

عمرو بن دینار سے روایت ہے کہ میں نے عبداللہ بن زبیر سے سنا خطبہ میں فرماتے تھے کہ اللہ ہی ہدایت کرنے والا اور گمراہ کرنے والا ہے۔

 

ابی سہیل بن مالک عمر بن عبدالعزیز کے ساتھ جا رہے تھے انہوں نے پوچھا ابو سہیل سے کہ تمہاری کیا رائے ہے قدریہ کے بارے میں ابو سہیل نے کہا میری رائے یہ ہے کہ ان سے توبہ کراؤ توبہ کر لیں تو بہتر، نہیں تو قتل کئے جائیں عمر بن عبدالعزیز نے کہا میری رائے بھی یہی ہے مالک نے کہا میری بھی یہی رائے ہے ان لوگوں کے بارے میں۔

 

               قدر کے بیان میں مختلف حدیثیں

 

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہ نہ چاہے کوئی عورت طلاق اپنی بہن کی تاکہ خالی کرے پیالہ اس کا بلکہ نکاح کر لے کیونکہ جو اس کے مقدر میں ہے اس کو ملے گا۔

 

محمد بن کعب قرظی سے روایت ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان نے منبر پر کہا اے لوگوں جو اللہ جل جلالہ دے اس کو کوئی روکنے والا نہیں ہے اور جو نہ دے اس کو کوئی دینے والا نہیں ہے اور کسی طاقت والے کی طاقت کام نہیں آتی جس شخص کو اللہ بھلائی پہنچانا چاہتا ہے اس کو دین میں سمجھ دیتا ہے اور علم فقہ دیتا ہے پھر کہا معاویہ نے میں نے ان کلمات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا انہیں لکڑیوں پر۔

 

امام مالک سے روایت ہے کہ پہلے زمانے میں لوگ یوں کہا کرتے تھے کہ سب خوبیاں اس اللہ کی ہیں جس نے پیدا کیا عرش کو جیسے چاہے جو وقت مقرر کر دیا ہے اس سے پہلے کوئی چیز نہیں ہو سکتی کافی ہے مجھ کو اللہ اور کافی ہے ایسا کافی ہے کہ سنتا ہے اللہ جو اس کو پکارے اللہ کے سوا کوئی شخص نہیں جس سے دعا کیا جائے۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ پہلے زمانے میں یوں کہا جاتا تھا کہ کوئی آدمی نہیں مرے گا جب تک کہ اس کا رزق پورا نہ ہو پس اختصار کرو طلب معاش میں۔

 

               خوش خلقی کے بیان میں

 

معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ آخری وصیت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو کی جب میں رکاب میں پاؤں رکھنے لگا یہ تھی کہ اے معاذ خوش خلقی کر لوگوں سے۔

 

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جب دنیا کے دو کاموں میں اختیار ہوا تو آپ نے آسان امر کو اختیار کیا بشرطیکہ اس میں گناہ نہ ہو اگر گناہ ہوتا تو سب سے زیادہ آپ اس سے پرہیز کرتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی ذات کے واسطے کسی سے بدلہ نہیں لیتے تھے مگر جب اللہ کی حرمت میں خلل پڑے تو اس وقت بدلہ لیتے تھے اللہ کے واسطے۔

 

علی بن حسین بن علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسلام کی بہتریوں میں سے یہ ہے کہ آدمی بے کار اور فضول چیزوں کو چھوڑ دے۔

 

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اذن چاہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آنے کا اور میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھی گھر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا برا آدمی ہے یہ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو آنے کی اجازت دی حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ تھوڑی دیر نہیں گزری تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو میں نے اس کے ساتھ ہنستے ہوے سنا جب وہ چلا گیا تو میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ابھی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو برا کہا تھا ابھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس سے ہنسنے لگے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ سب آدمیوں میں برا وہ آدمی ہے جس سے لوگ بچیں یا ڈریں اس کے شر کے سبب سے۔

 

کعب احبار نے کہا کہ جب تم کسی بندہ کا حال جاننا چاہو اس کے پروردگار کے پاس تو دیکھو لوگ اس کو کیسا کہتے ہیں۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ مجھ کو یہ پہنچا کہ آدمی حسن خلق کی وجہ سے رات بھر عبادت کرنے والے اور دن بھر پیاسے رہنے والے کا درجہ حاصل کرتا ہے۔

 

سعید بن مسیب نے کہا کیا میں بہ بتاؤں تم کو وہ چیز جو بہت سی نمازوں اور صدقہ سے بہتر ہے لوگوں نے کہا بتاؤ سعید نے کہا ایک دوسرے کے بیچ صلح کرا دیں اور بچو تم بغض اور عداوت سے یہ خصلت مونڈنے والی ہے نیکیوں کو۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں اس واسطے بھیجا گیا کہ اخلاق کی خوبیوں کو پورا کر دوں

 

               حیا یعنی شرم کے بیان میں

 

زید بن طلحہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہ ہر دین کا ایک خلق ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے۔

 

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیکھا ایک شخص کو نصیحت کر رہا تھا اپنے بھائی کو حیا کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جانے دے کیونکہ حیا ایمان میں سے ہے۔

 

               غضب کے بیان میں

 

حمید بن عبدالرحمن بن عوف سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس اور بولا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھے چند باتیں بتا د یجئے جن سے میں نفع اٹھاؤں اور بہت باتیں نہ بتانا میں بھول جاؤں گا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو غصہ مت کیا کر۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہ وہ آدمی زور آور نہیں ہے جو کشتی میں لوگوں کو پچھاڑ دے زور آور ہے جو اپنے نفس پر قادر ہو غصے کے وقت۔

 

               ملاقات ترک کرنے کے بیان میں

 

ابو ایوب انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ مسلمان کو درست نہیں کہ اپنے بھائی مسلمان کی ملاقات ترک کرے یعنی اس کو چھوڑ دے تین دن سے زیادہ یا یہ ملے تو وہ نہ دیکھے یا وہ ملے تو نہ دیکھے بہتر ان دونوں میں وہ ہے جو پہلے سلام علیک کرے۔

 

انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ مت بغض کرو مر حسد کرو مت پیٹھ پھیرو ایک دوسرے سے بلکہ ہو جاؤ اللہ کے بندے بھائی بھائی نہیں درست ہے کسی مسلمان کو کہ اپنے بھائی کو چھوڑ دے تین راتوں سے زیادہ۔

 

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہ بچو تم بد گمانی سے کیونکہ بد گمانی بڑا جھوٹ ہے اور مت کھوج لگاؤ اور مت تفتیش کرو اور مت حرص کرو دنیا کی اور مت حسد کرو نہ بغض کرو نہ ایک دوسرے سے پیٹھ موڑو بلکہ ہو جاؤ اللہ کے بندے بھائی بھائی۔

 

عطا بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خراسانی سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہا مصافحہ کرو ایک دوسرے سے دل کا کینہ جاتا رہے گا ہدیہ بھیجو ایک دوسرے کی دوست ہو جاؤ گے اور دشمنی جاتی رہے گی۔

 

ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہ جنت کے دروازے کھل جائے ہیں پیر اور جمعرات کے روز تو ہر بندہ مسلمان جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا وہ بخش دیا جاتا ہے مگر وہ شخص جو اپنے بھائی سے عداوت رکھتا ہو کہا جاتا ہے کہ ان دونوں آدمیوں کے متعلق کہ دیکھتے رہو جب تک وہ مل جائیں ان دونوں آدمیوں کو دیکھتے رہو جب تک وہ مل جائیں۔

 

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ہر ہفتہ میں دو مرتبہ پیر اور جمعرات کے روز بندوں کے اعمال دیکھے جاتے ہیں پھر ہر مومن بندہ بخش دیا جاتا ہے مگر وہ بندہ جو اپنے بھائی سے عداوت رکھتا ہو تو حکم ہوتا ہے کہ ابھی ان دونوں کو رہنے دو یہاں تک کہ مل جائیں

 

               کپڑے زینت کے واسطے پہننے کا بیان

 

جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نکلے غزوہ بن انمار میں تو ہم ایک درخت کے تلے اترے ہوئے تھے اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دکھائی دئے میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سائے میں آئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آ کر اتر میں اپنی زنبیل کو دیکھنے گیا اس میں ڈھونڈنے لگا تو ایک ککڑی ملی میں اس کو توڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے لے گیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا یہ کہاں سے آئی جابر نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ سے ہم اس کو لے کر نکلے تھے پھر جابر کہتے ہیں ہمارے ساتھ ایک شخص تھا جس کا سامان سفر ہم نے کر دیا تھا وہ ہمارے جانور چراتا تھا جب وہ پیٹھ موڑ کر جانور چرانے جانے لگا تو وہ چادریں اوڑھے ہوئے تھا جو پھٹ کر چندی چندی ہو گئی تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو دیکھ کر فرمایا کہ کیا اور کپڑے اس کے پاس نہیں ہیں جابر نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں گٹھری میں بندھے ہیں میں نے اس کو پہننے کے لئے دئیے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اس سے کہو کہ وہ کپڑے پہن لے میں نے اس کو بلایا اس نے وہ کپڑے گٹھری سے نکال کر پہن لئے جب پھر جانے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اس کو کیا ہو گیا تھا خدا اس کی گردن مارے اب کیا اچھا معلوم نہیں ہوتا اس کو اس شخص نے یہ سن کر کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا اللہ کی راہ میں میری گردن ماری جائے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں اللہ کی راہ میں پھر وہ شخص شہید ہوا اللہ کی راہ میں۔

 

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں چاہتا ہوں عالم کو اچھے کپڑے پہنے ہوئے دیکھوں۔

 

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ جب اللہ تم کو وسعت دے تو اپنے اوپر بھی وسعت کرو اپنے کپڑے بنالو۔

 

               رنگین کپڑے پہننے اور سونا پہننے کا بیان

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر گیرو میں رنگے ہوئے کپڑے اور زعفران میں رنگے ہوئے کپڑے پہنا کرتے تھے۔

 

کہا مالک نے میرے نزدیک بچوں کو یعنی لڑکوں کو سونا پہنانا مکروہ ہے کیونکہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پہنچا کہ آپ نے سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا اور میں مکروہ جانتا ہوں سونے کا پہننا بڑے مرد اور چھوٹے لڑکے کے واسطے زرقانی نے کہا بڑے مرد کے واسطے مکروہ تنزیہی ہے مگر چاندی کا زیور لڑکے کو پہنانا بعض علماء کے نزدیک درست ہے اور بعض کے نزدیک مکروہ ہے۔

 

کہا مالک نے مردوں کو کسم سے رنگی ہوئی چادریں اوڑھنا گھر یا اس کے گرداگرد میں حرام نہیں سمجھتا لیکن نہ پہننا میرے نزدیک بہتر اور اس سوائے اس کے اور لباس پہننا اچھا ہے۔

 

               اون اور ریشم کے کپڑے پہننے کا بیان

 

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عبداللہ بن زبیر کو ایک کپڑا پہناتا جس میں اون اور ریشم تھا اور حضرت عائشہ بھی اس کو پہنا کرتی تھیَ

 

               جو کپڑا عورتوں کو پہننا مکروہ ہے اس کا بیان

 

مرجانہ سے روایت ہے کہ حفصہ بنت عبدالرحمن بن ابی بکر عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گئیں ایک باریک سر بند اوڑھ کر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو پھار ڈالا اور موٹے کپڑے کا سر بند اوڑھا دیا۔

 

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جو عورتیں کپڑا پہنے ہوئے ہیں لیکن ننگی ہیں خود بھی سیدھی راہ سے ہٹی ہوئی ہیں اور خاوند کو بھی ہٹا دیتی ہیں جنت میں نہ جائیں گی بلکہ جنت کی خوشبو تک نہ سونگھیں گی حالانکہ جنت کی خوشبو پانچ سو برس کی راہ سے آتی ہے۔

 

ابن شہاب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کو بیدار ہوئے اسمان کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ رات کو اللہ جل جلالہ نے کتنے ایک خزانے کھولے اور کتنے ایک فتنے واقع ہوئے کتنی عورتیں ایسی ہیں جو دینا میں تو کپڑے پہنے ہوئی ہیں مگر قیامت کے روز ننگی ہوں گی ہوشیار کر دو ان کوٹھریوں والیوں کو۔

 

 

               کپڑا بے کار لٹکانے کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہ جو شخص اپنا کپڑا لٹکائے گا تکبر کے طور پر تو قیامت کے روز اللہ جل جلالہ اس کی طرف نظر تک نہ کرے گا۔

 

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہ نہیں نظر کرے گا اللہ قیامت کے روز اس شخص کی طرف جو اپنا تہ بند لٹکائے تکبر کے طور پر۔

 

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہ نہیں نظر کریگا اللہ جل جلالہ قیامت کے روز اس شخص کی طرف جو اپنا کپڑا لٹکائے غرور اور گھمنڈ کے طور پر۔

 

عبدالرحمن بن یعقوب سے روایت ہے کہ کہتے ہیں ابو سعید خدری سے پوچھا ازار کا حال انہوں نے کہا مجھے علم ہے میں بتاتا ہوں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ مومن کی ازار پنڈلیوں تک ہوتی ہے خیر ٹخنوں تک بھی رکھے تو کچھ قباحت نہیں ہے اس سے نیچے جہنم میں جانے کی بات ہے اللہ قیامت کے روز اس شخص کی طرف نظر نہ کرے گا جو اپنی ازار لٹکائے غرور اور گھمنڈ کے طور پر۔

 

 

               عورت اپنا کپڑا لٹکا دے تو کیا حکم ہے ؟

 

ام سلمہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ازار لٹکانے کا ذکر کی تو میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عورت کیا کرے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک بالشت ازار نیچے رکھے ام سلمہ نے کہا اتنی تو کھل جائے گی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک ہاتھ نیچے رکھے اس سے زیادہ نہیں۔

 

               جوتی پہننے کا بیان

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہ نہ چلے تم میں کوئی ایک جوتی پہن کر چاہئے کہ دونوں جوتیاں پہنے یا دونوں اتار دے۔

 

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہ جب جوتا پہنے کوئی تم میں سے چاہے کہ داہنے پیر میں اول پہنے اور جب اتارے تو پہلے بائیں پیر کا اتارے تو داہنا پیر پہنتے وقت شروع میں رہے اور اتارتے وقت اخیر میں رہے۔

 

کعب الاحبار سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی جوتی اتاری کعب الاحبار نے کہا تم نے کیوں جوتیاں اتاریں شاید تو نے اس آیت کو دیکھ کر اتاری ہوں گی اللہ جل جلالہ نے حضرت موسیٰ علی نبینا سے جب وہ طور پر جانے لگے فرمایا اتار جوتیاں اپنی مگر تو جانتا ہے موسیٰ علیہ السلام کی جوتیاں کا ہے کی تھیں۔

 

کہا مالک نے مجھ معلوم نہیں اس شخص نے کیا جواب دیا کعب نے کہا حضرت موسیٰ کی جوتیاں مردہ گدھے کی کھال کی تھیں۔

 

               کپڑے پہننے کا بیان

 

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ منع کیا رسول اللہ نے دو لباسوں سے اور دو بیعوں سے ایک بیع ملامسہ اور دوسرے بیع منابذہ سے اور ایک کپڑے اوڑھ کر اختباء کرنے سے جب کہ اس کی شرمگاہ پر کوئی کپڑا نہ ہوا اور ایک کپڑا سارے بدن پر لپیٹ لینے سے۔

 

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک کپڑا ریشمی بکتا ہوا دیکھا مسجد کے دروازے پر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا کاش آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو خرید لیتے اور جمعہ کے روز اور جس روز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس وفد کے لوگ آیا کرتے ہیں پہنا کرتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کپڑے کو وہ شخص پہنے گا جس کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں ہے پھر اسی قسم کے چند کپڑے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان میں سے ایک کپڑا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عطارد کے کپڑے کی بابت فرمایا تھا کہ اس کو وہ شخص پہنے گا جس کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  میں نے تجھے یہ کپڑا پہننے کو تھوڑی دیا ہے پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ کپڑا اپنے ایک کافر بھائی کو دے دیا جو مکہ میں تھا۔

 

انس بن مالک نے کہا میں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا جب کہ وہ امیر المومنین تھے ان کے دونوں مونڈھوں کے بیچ میں کرتے میں تین پیوند لگے تھے ایک کے اوپر ایک۔

 

 

               آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حلیہ شریف کا بیان

 

انس بن مالک کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نہ لمبے تھے بہت نہ ٹھگنے تھے سفید تھے چونے کی طرح نہ بہت گندمی اور بال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بہت گھونگریالے بھی نہ تھے اور بہت سیدھے بھی نہ تھے جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سن چالیس برس کا ہوا تو اللہ جل جلالہ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نبوت عطا فرمائی پھر بعد نبوت کے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ میں دس برس رہے اور مدینہ میں دس برس رہے اور ساٹح برس کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وفات ہوئی اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سر اور داڑھی میں بیس بال بھی سفید نہ ہوں گے۔

 

               عیسی بن مریم علیہ السلام اور دجال کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہ مجھ کو خواب میں ایک رات معلوم ہوا کہ کعبہ کے پاس ہوں تو میں نے ایک شخص کو دیکھا گندمی رنگ جیسے کہ تو نے بہت اچھے گندمی رنگ کے آدمی دیکھے ہوں اس کے کندھوں تک بال ہیں جیسے کہ تو نے بہت اچھے کندھوں تک بال دیکھے ہوں سو اس نے مرد نے اس بال میں کنگھی کی ہے تو ان سے پانی ٹپکتا ہے دو آدمیوں پر تکیہ لگائے یوں فرمایا کہ دو آدمیوں کے کندھوں رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر تکیہ لگائے وہی شخص بیت اللہ کا طواف کرتا ہے سو میں نے پوچھا یہ کون شخص ہے تو کسی نے مجھ سے کہا یہ کہ مسیح ہے مریم کا بیٹا پھر میں نے یکایک ایک اور شخص دیکھا نہایت گھنگریالے بال والا دائیں آنکھ کا کانا اس کی کافی آنکھ ایسی تھی جیسے پھولا ہوا انگور سو میں نے پوچھا کہ یہ کون شخص ہے کسی نے مجھ سے کہا یہ مسیح دجال ہے۔

 

               مومنوں کے طریقے کا بیان

 

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ پانچ چیزیں پیدائشی سنت ہیں ایک ناخن کاٹنا دوسرے مونچھیں کتروانا تیسرے بغل کے بال اکھاڑنا چوتھے زیر ناف کے بال مونڈنا پانچویں ختنہ کرنا۔

 

سعید بن مسیب نے کہا کہ حضرت ابراہیم ہی نے سب سے پہلے مہمان کی ضیافت کی اور سب سے پہلے ختنہ کیا اور سب سے پہلے مونچھیں کتریں اور سب سے پہلے سفید بال کو دیکھ کر کہا کہ اے پروردگار یہ کیا ہے اللہ جل جلالہ نے فرمایا یہ عزت اور وقار ہے، حضرت ابراہیم نے کہا تو اے پروردگار زیادہ عزت دے مجھ کو۔

 

کہا مالک نے مونچھوں کو اتنا کترنا چاہیے کہ ہونٹ کے کنارے کھل جائیں یہ نہیں کہ بالکل کتر ڈالے۔

 

               بائیں ہاتھ سے کھانے کی ممانعت

 

جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع کیا بائیں ہاتھ سے کھانے کو اور ایک جوتا پہن کر چلنے کا اور ایک کپڑا سر سے پاؤں تک لپیٹ لینے کو اور ایک کپڑا اوڑھ کر گوٹ مار کر بیٹھنے کو اس طرح کہ شرم گاہ کھلی رہے۔

 

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہ جب کوئی کھائے تم میں سے تو اپنے داہنے ہاتھ سے کھائے اور جب پئے تو چاہئے کہ داہنے ہاتھ سے پئے اس واسطے کہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا ہے اور بائیں ہاتھ سے پیتا ہے۔

 

 

               مسکین کا بیان

 

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ مسکین وہ نہیں ہے جو گھر گھر مانگتا پھرتا ہے کہیں سے ایک لقمہ ملا کہیں سے دو لقمے کہیں سے ایک کھجور کہیں سے دو کھجوریں۔ صحابہ نے پوچھا پھر یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسکیں کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جس شخص کے پاس مال نہیں ہے کہ وہ اپنی حاجت پوری کرے نہ لوگوں کو اس کا حال معلوم ہے تاکہ اس کو صدقہ دیں نہ وہ مانگنے کو کھڑا ہوتا ہے۔

 

ام بجید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا. دو مسکین کو اگرچہ جلا ہوا کھر ہو۔

 

               کافر کی آنتوں کا بیان

 

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ مسلمان ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔

 

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ایک کافر آیا مہمان ہو کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک بکری کے دودھ دوہنے کا حکم کیا وہ سب پی گیا پھر دوسری بکری کو دوہا گیا وہ بھی پی گیا پھر تیسری بکری کا بھی پی گیا یہاں تک کہ سات بکریوں کا دودھ پی گیا پھر دوسرے دن صبح کو وہ شخص مسلمان ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بکری کا دودھ اس کے پینے کو دیا وہ پی نہ سکا تب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ مومن ایک آنت میں پیتا ہے اور کافر سات آنتوں میں پیتا ہے۔

 

               چاندی کے برتن میں پینے کی ممانعت اور پانی میں پھونکنے کی ممانعت کے بیان میں

 

ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص چاندی کے برتن میں پئے وہ اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ غٹاغٹ ڈالتا ہے۔

 

ابو مثنی جہنی سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں بیٹھا ہوا تھا مروان بن حکم کے پاس کہ اتنے میں ابو سعید خدری آئے مروان نے ان سے کہا کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے کہ منع کیا ہے آپ نے پانی میں پھونکنے سے، حضرت ابوسعید خدری نے کہا ہاں! ایک شخص بولا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں ایک سانس میں سیر نہیں ہوتا تو آپ نے فرمایا پیالے کو اپنے منہ سے جدا کر کے سانس لے لیا کر پھر وہ شخص بولا میں پانی میں کوڑا دیکھوں تو کیا کروں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس کو بہا دے۔

 

               کھڑے ہو کر پانی پینے کا بیان

 

امام مالک کو پہنچا کہ عمر بن خطاب اور علی بن ابی طالب اور عثمان بن عفان کھڑے ہو کر پانی پیتے تھے۔

 

إابن شہاب سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور سعد بن ابی وقاص کھڑے ہو کر پانی پینے میں کچھ قباحت نہیں جانتے تھے۔

 

ابو جعفر قاری نے دیکھا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے کر پانی پیتے تھے۔

 

عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہو کر پانی پیتے تھے۔

 

               پانی یا شربت پلانا شروع کرنا داہنی طرف سے

 

انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کے پاس دودھ آیا جس میں کنوئیں کا پانی ملا ہوا تھا اور داہنی طرف آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بدوی تھا اور بائیں طرف ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پی کر اعرابی کو دیا اور کہا پہلے داہنی طرف والے کو دو پھر جو اس سے ملا ہوا ہے پھر جو اس سے ملا ہوا ہے۔

 

سہل بن سعد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس دودھ آیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے داہنی طرف ایک لڑکا تھا اور بائیں طرف بوڑھے بوڑھے لوگ تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لڑکے سے فرمایا اگر تو اجازت دے تو پہلے میں ان لوگوں کو دے دوں؟جو بائیں طرف تھے، لڑکے نے کہا نہیں! خدا کی قسم یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں اپنا حصہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جو ٹھے میں سے کسی کو دینا نہیں چاہتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی لڑکے کو دے دیا۔

 

               کھانے پینے کی مختلف احادیث کا بیان

 

انس بن مالک سے روایت ہے کہ ابو طلحہ نے ام سلیم سے: کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آواز سنی جو بھوک کی وجہ سے نہیں نکلتی تھی۔ تو تیرے پاس کوئی چیز ہے کھانے کی ام سلیم نے کچھ روٹیاں جو کی نکالیں اور ایک کپڑے میں لپیٹ کر میری بغل میں دبا دیں اور کچھ کپڑا مجھے اڑھا دیا پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس اس کو لے کر آ گیا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ بہت سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے میں کھڑا ہو رہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خود پوچھا کیا تجھ کو ابا طلحہ نے بھیجا ہے؟ میں نے کہا ہاں! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کھانے کے واسطے؟ میں نے کہا ہاں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے سب ساتھیوں کو فرمایا سب اٹھو! سب اٹھ کر چلے، میں سب کے آگے آ گیا اور ابو طلحہ کو جا کر خبر کی، ابو طلحہ نے ام سلیم سے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگوں کو ساتھ لیئے ہوئے آتے ہیں اور ہمارے پاس اس قدر کھانا نہیں ہے جو سب کو کھلائیں ام سلیم نے کہا اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے ابو طلحہ نکلے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے آ کر ملے یہاں تک کہ ابو طلحہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دونوں مل کر آئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے ام سلیم جو کچھ تیرے پاس ہو لے آ! ام سلیم وہی روٹیاں لے آئیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو ٹکڑے ٹکڑے کرایا پھر ام سلیم نے ایک کپی گھی کی اس پر نچوڑ دی وہ ملیدہ بن گیا اس کے بعد جو اللہ جل جلالہ کو منظور تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دس آدمیوں کو بلاؤ انہوں نے دس آدمیوں کو بلایا وہ سب کھا کر سیر ہو کر چلے گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دس آدمیوں کو بلاؤ وہ بھی آئے اور سیر ہو کر چلے گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دس آدمیوں کو بلاؤ وہ بھی آئے اور سیر ہو کر چلے گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دس کو اور بلاؤ یہاں تک کہ جتنے لوگ آئے ستر (70) آدمی تھے یا اسی (80) سب سیر ہو گئے۔

 

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو شخصوں کا کھانا کفایت کرتا ہے تین آدمیوں کو اور تین کا کھانا چار کو کفایت کرتا ہے۔

 

جابر بن عبداللہ اسلمی سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بند کر دروازے کو اور منہ باندھا کرو مشک کا اور بند رکھا کرو برتن کو اور بجھا دیا کرو چراغ کو کہ شیطان دروازہ کو نہیں کھولتا اور ڈاٹ کو نہیں نکالتا اور برتن نہیں کھولتا اور چوہا گھر والوں کو جلا دیتا ہے۔

 

ابی شریح الکعبی سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو ایمان لایا ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر تو اسے چاہئے نیک بات بولا کرے یا چپ رہے اور جو ایمان لایا ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر تو اسے چاہئے اپنے ہمسایہ (یعنی پڑوسی) کی خاطر داری کیا کرے اور جو ایمان لایا ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر اس کو چاہئے کہ اپنے مہمان کی آؤ بھگت کرے ایک رات دن تک مہمانی اچھے طور سے کرے اور تین رات دن تک جو کچھ خاطر ہو کھلائے اور زیادہ اس سے ثواب ہے اور مہمان کو لائق نہیں کہ بہت ٹھہرے میزبان کے پاس کہ تکلیف دے اس کو۔

 

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ایک شخص راستہ میں جا رہا تھا اس کو بہت شدت سے پیاس لگی تو اس نے ایک کنواں دیکھا اس میں اتر کر پانی پیا جب کنوئیں سے نکلا تو دیکھا ایک کتا ہانپ رہا ہے اور پیاس کے مارے کیچڑ چاٹ رہا ہے، اس نے سوچا اس کا بھی پیاس کی وجہ سے میری طرح حال ہو گا، پھر اس نے کنوئیں میں اتر کر اپنے موزے میں پانی بھرا اور منہ میں اس کو دبا کر اوپر چڑھا اور کتے کو پانی پلایا اللہ جل جلالہ اس سے خوش ہو گیا اور اس کو بخش دیا۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم کو جانوروں کے پانی پلانے میں بھی ثواب ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیوں نہیں ہر جاندار کے جگر میں ثواب ہے۔

 

جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک لشکر بھیجا ساحل دریا کی طرف اور ان پر حاکم مقر کیا ابو عیبدہ بن جراح کو۔ اس لشکر میں تین سو آدمی تھے میں بھی ان میں شریک تھا راہ میں کھانا ختم ہوچکا ابو عبیدہ نے حکم کیا کہ جس قدر کھانا باقی ہے اس کو اکٹھا کرو سب اکٹھا کیا گیا تو دو ظرف کھجور کے ہوئے ابو عبیدہ اس میں سے ہر روز ہم کو تھوڑا تھوڑ کھانا دیا کرتے تھے یہاں تک کہ ایک کھجور ہمارے حصہ میں آنے لگی پھر وہ بھی تمام ہو گئی وہب بن کیسان کہتے ہیں میں نے جابر سے پوچھا ایک ایک کھجور میں تمہارا کیا ہوتا تھا؟ انہوں نے کہا جب وہ بھی نہ رہی تو قدر معلوم ہوئی۔ دریا کے کنارے پر ہم نے ایک مچھلی پڑی پائی پہاڑ کے برابر سارا لشکر اس سے اٹھارہ دن رات تک کھاتا رہا پھر ابو عیبدہ نے حکم کیا اس مچھلی کی ہڈیاں کھڑی کرنے کا دو ہڈیاں کھڑی کر کے رکھی گئیں تو ان کے نیچے سے اونٹ چلا گیا اور ان سے نہ لگا۔

 

عمر بن سعد بن معاذ کی دادی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اے مسلمان عورتو! نہ ذلیل کرے کوئی تم میں سے اپنے ہمسائے کو اگرچہ وہ ایک کھر جلا ہوا بکری کا بھیجے۔

 

عبد اللہ بن ابی بکر سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تباہ کرے اللہ یہود کو حرام ہوا ان پر چربی کا کھانا تو انہوں نے اس کو بیچ کر اس کے دام کھائے۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ حضرت عیسیٰ فرماتے تھے کہ اے بنی اسرائیل تم پانی پیا کرو اور ساگ پات جو کی روٹی کھایا کرو اور گیہوں کی روٹی نہ کھاؤ اس کا شکر ادا نہ کر سکو گے۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد میں آئے وہاں ابوبکر صدیق اور عمر بن خطاب کو پایا ان سے پوچھا تم کیسے آئے انہوں نے کہا بھوک کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں بھی اسی سبب سے نکلا پھر تینوں آدمی ابو الہیثم ابن تیہان انصاری کے پاس گئے انہوں نے جو کی روٹی پکانے کا حکم کیا اور ایک بکری ذبح کر نے پر مستعد ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دودھ والی کو چھوڑ دے انہوں نے دوسری بکری ذبح کی اور میٹھا پانی مشک میں بھر کر درخت سے لٹکا دیا پھر کھانا آیا تو سب نے کھایا اور وہی پانی پیا تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہی نعیم ہے جس کے بارے میں اس روز تم پوچھے جاؤ گے۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روٹی گھی سے لگا کر کھا رہے تھے ایک بدو آیا آپ نے اس کے بلایا وہ بھی کھانے لگا اور روٹی کے ساتھ جو گھی کا میل کچیل پیالے میں لگ رہا تھا وہ بھی کھانے لگا حضرت عمرب نے فرمایا بڑا ندیدہ ہے اس نے کہا قسم خدا کی میں نے اتنی مدت سے گھی نہیں کھایا نہ اس کے ساتھ کھاتے دیکھا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں بھی گھی نہ کھاؤں گا جب تک کہ لوگوں کی حالت پہلے کی سی نہ ہو جائے۔

 

حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا حضرت عمر کے سامنے ایک صاع کھجور کا ڈالا جاتا تھا وہ اس کو کھاتے تھے یہاں تک کہ خراب اور سوکھی کھجور بھی کھا لیتے تھے اور اس وقت آپ امیر المؤمنین تھے۔

 

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ٹڈی کے بارے میں (حلال ہے یا حرام) پوچھا گیا تو کہا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میں چاہتا ہوں کہ میرے پاس ایک زنبیل ہوتی ٹڈیوں کی کہ میں ان کو کھایا کرتا۔

 

حمید بن مالک سے روایت ہے کہ میں بیٹھا ہوا تھا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ان کی زمین میں جو عقیق میں تھی اس کے پاس کچھ لوگ مدینہ کے آئے جانوروں پر سوار ہو کر وہیں اترے حمید نے کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے کہا میری ماں کے پاس جاؤ اور میرا سلام ان سے کہو اور کچھ کھانا ہم کو کھلاؤ حمید نے کہا انہوں نے تین روٹیاں اور کچھ تیل زیتون کا اور کچھ نمک دیا اور میرے سر پر لاد دیا، میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس لایا اور ان کے سامنے رکھ دیا ابوہریرہ نے دیکھ کر کہا اللہ اکبر اور کہا شکر ہے اس خدا کا جس نے ہم کو سیر کیا روٹی سے اس سے پہلے ہمارا یہ حال تھا کہ سوائے کھجور کے اور پانی کے کچھ میسر نہیں تھا وہ کھانا ان لوگوں کو پورا نہ ہوا جب وہ چلے گئے تو ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے کہا اے بیٹے میرے بھائی کے اچھی طرح رکھ بکریوں کو اور پونچھتا رہ ناک ان کی اور صاف کر جگہ ان کی اور نماز پڑھ اسی جگہ ایک کونے میں کیونکہ وہ بہشت کے جانوروں میں سے ہیں قسم خدا کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ایک زمانہ قریب ہے ایسے لوگوں پر آئے گا کہ اس وقت ایک چھوٹا سا گلہ بکریوں کا آدمی کو زیادہ پسند ہو گا مروان کے گھر سے۔

 

ابو نعیم وہب بن کیسان سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس کھانا آیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ربیب عمر بن ابی سلمہ تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے کہا کہ اپنے سامنے سے کھا بسم اللہ کہہ کر۔

 

یحیی بن سعید نے کہا میں نے سنا قاسم بن محمد کہتے تھے کہ ایک شخص آیا عبداللہ بن عباس کے پاس اور کہا میرے پاس ایک یتیم لڑکا ہے اس کے اونٹ ہیں کیا میں دودھ ان کا پیوں ابن عباس نے کہا کہ اگر تو اس کے گمے ہوئے اونٹ ڈھونڈتا ہے اور خارشی اونٹ میں دوا لگاتا ہے اور ان کا حوض لیپتا پوتتا ہے اور ان کو پانی کے دن پانی پلاتا ہے تو دودھ ان کا پی مگر اس طرح نہیں کہ بچے کے لئے نہ بچے اور نسل کو ضرر پہنچے یا اس اونٹنی کو ضرر پہنچے۔

 

عروہ بن زبیر کے سامنے جب کوئی کھانے پینے کی چیز آتی یہاں تک کہ دوا بھی تو اس کو کھاتے پیتے اور کہتے سب خوبیاں اسی پروردگار کو لائق ہیں جس نے ہم کو ہدایت کی اور کھلایا اور پلایا اور نعمتیں عطا فرمائیں وہ اللہ بڑا ہے اے پروردگار تیری نعمت اس وقت آئی جب ہم سراسر برائی میں مصروف تھے ہم نے صبح کی اور شام کی اس نعمت کی وجہ سے اچھی طرح ، ہم چاہتے ہیں تو پورا کرے اس نعمت کو اور ہمیں شکر کی توفیق دے سوائے تیری بہتری کے کہیں بہتری نہیں ہے کوئی معبود برحق نہیں سوائے تیرے اے پروردگار نیکوں کے اور پالنے والے سارے جہاں کے سب خوبیاں اللہ کو زیبا ہیں کوئی سچا معبود نہیں سوائے اس کے جو چاہتا ہے اللہ وہی ہوتا ہے کسی میں طاقت نہیں سوائے خدا کے یا اللہ برکت دے ہماری روزی میں اور بچا ہم کو دوزخ کے عذاب سے۔

 

               گوشت کھانے کا بیان

 

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا بچو تم گوشت سے کیونکہ گوشت کی طلب ہو جاتی ہے جیسے شراب پینے سے اس کی طلب ہو جاتی ہے۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے جابر بن عبداللہ انصاری کو دیکھا کہ ان کے ساتھ ایک بوجھ تھا گوشت کا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ اے امیر المومنین ہم کو خواہش ہوئی گوشت کھانے کی تو ایک درہم کا گوشت خریدا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کیا تم میں سے کوئی یہ نہیں چاہتا کہ اپنے پیٹ کو مارے اور ہمسائے کو کھلائے یا چچا کے بیٹے کو کھلائے کہاں بھلا دیا تم نے اس آیت کو یعنی اٹھا لیئے تم نے اپنے مزے دنیا کی زندگی میں اور خوب فائدہ اٹھائے تو آج کے دن چکھو ذلت کا عذاب آخر آیت تک۔

 

               انگوٹھی پہننے کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک انگوٹھی سونے کی پہنا کرتے تھے ایک دن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھڑے ہو کر اسے پھینک دیا اور فرمایا اب کبھی اس کو نہ پہنوں گا لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں

 

صدقہ بن یسار نے سعید بن مسیب سے پوچھا انگوٹھی پہننے کی بابت انہوں نے کہا پہن ! اور لوگوں سے کہہ دے میں نے تجھے پہننے کو کہا ہے۔

 

               جانوروں کے گلے سے پٹے اور گھنٹے نکالنے کا بیان

 

عباد بن تمیم سے روایت ہے کہ ابو بشیر انصاری نے خبر دی ان کو کہ وہ ساتھ تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کسی سفر میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کے ہاتھ سے کہلا بھیجا اور لوگ سو رہے تھے کہ نہ باقی رہے کسی اونٹ کی گردن میں تانت کا گنڈا یا کوئی گنڈا مگر یہ کہ کاٹ ڈالا جائے۔

 

               جس کی نظر لگ جائے اس کو وضو کرانے کا بیان

 

ابو امامہ بن سہل بن حنیف کہتے تھے میرے باپ نے غسل کیا خرار میں تو انہوں نے اپنا جبہ اتارا اور عامر بن ربیعہ دیکھ رہے تھے اور سہل خوش رنگ تھے عامر بن ربیعہ نے دیکھ کر کہا میں نے تو آپ سا کوئی آدمی نہیں دیکھا اور نہ کسی بکر عورت کا پوست اسی وقت سہل کو بخار آنے لگا اور سخت بخار آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس کوئی شخص آیا اور بیان کیا کہ سہل کو بخار آ گیا ہے اب وہ آپ کے ساتھ نہ جائیں گے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سہل کے پاس آئے سہل نے عامر بن ربیعہ کا کہنا بیان کیا آپ نے سن کر فرمایا کیا مار ڈالے گا ایک تم میں سے اپنے بھائی کو (اور عامر کو کہا) کیوں تو نے بارک اللہ نہیں کہا (یعنی برکت دے اللہ جل جلالہ ، یا ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ جیسے دوسری روایت میں ہے) نظر لگنا سچ ہے سہل کے لئے وضو کر۔ پھر عامر نے سہل کے واسطے وضو کیا (دوسری حدیث میں اس کا بیان آتا ہے) بعد اس کے سہل اچھے ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ گئے۔

 

ابوامامہ بن سہل بن حنیف سے روایت ہے کہ عامر بن ربیعہ نے سہل بن حنیف کو نہاتے ہوئے دیکھ لیا تو کہا میں نے آپ کا سا کوئی آدمی نہیں دیکھا نہ کسی پردہ نشین بالکل باہر نہ نکلنے والی عورت کی ایسی کھال دیکھی یہ کہتے ہی سہل اپنی جگہ سے گر پڑے لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے آ کر بیان کیا اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کچھ سہل بن حنیف کی خبر بھی لیتے ہیں قسم خدا کی وہ اپنا سر بھی نہیں اٹھاتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہاری دانست میں کس نے اس کو نظر لگائی انہوں نے کہا عامر بن ربیعہ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عامر بن ربیعہ کو بلایا اور اس پر غصے ہوئے اور فرمایا کیوں قتل کرنا ہے ایک تم میں سے اپنے بھائی کو تو نے بارک اللہ کیوں نہ کہا اب غسل کر اس کے واسطے عامر نے اپنے منہ اور ہاتھ اور کہنیاں اور گٹھنے اور پاؤں کے کنارے اور تہ بند کے نیچے کا بدن پانی سے دھو کر اس پانی کو ایک برتن میں جمع کیا وہ پانی سہل پر ڈالا گیا سہل اچھے ہو گئے اور لوگوں کے ساتھ چلے۔

 

               نظر کے منتر کا بیان

 

حمید بن قیس مکی سے روایت ہے کہ جعفر بن ابی طالب کے دو لڑکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئے آپ نے ان کی دایہ سے کہا کیا سبب ہے یہ لڑکے دبلے ہیں وہ بولی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان کو نظر لگ جاتی ہے اور ہم نے منتر اس واسطے نہ کیا کہ معلوم نہیں آپ ان کو پسند کرتے ہیں یا نہیں۔ آپ نے فرمایا منتر کرو ان کے واسطے کیونکہ اگر کوئی چیز تقدیر سے آگے بڑھتی تو نظر بڑھتی۔

 

عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بی بی ام سلمہ کے مکان میں گئے اور گھر میں ایک لڑکا رو رہا تھا لوگوں نے کہا اس کو نظر لگ گئی ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا منتر کیوں نہیں کرتے اس کے لئے۔

 

               بیمار کے ثواب کا بیان

 

عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جب بندہ بیمار ہوتا ہے تو اللہ تعالی اس کی طرف دو فرشتے بھیجتا ہے اور فرماتا ہے کہ دیکھتے رہو وہ کیا کہتا ہے ان لوگوں سے جو اس کی بیمار پرسی کو آتے ہیں اگر وہ ان کے سامنے اللہ جل جلالہ کی تعریف اور ستائش کرتا ہے تو وہ دونوں فرشتے اوپر چڑھ جاتے ہیں اللہ جل جلالہ اسے خوب جانتا ہے مگر پوچھتا ہے بعد اس کے، فرماتا ہے اگر میں اپنے بندے کو اپنے پاس بلا لوں گا تو اس کو جنت میں داخل کروں گا اور جو شفا دوں گا تو پہلے سے اس کو زیادہ گوشت اور خون عنایت کروں گا اور اس کے گناہوں کو معاف کر دوں گا۔

 

حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ نے کہ مومن کو کوئی رنج یا مصیبت لاحق نہیں ہوتی مگر یہ کہ اس کے گناہ معاف کئے جاتے ہیں یہاں تک کہ کانٹا بھی اگر لگے تو اس کے گناہ معاف کئے جاتے ہیں یزید نے کہا مجھے یہ یاد نہیں کہ عروہ نے قص اور کفر میں سے کونسا لفظ استعمال کیا تھا۔

 

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہ جس شخص کے ساتھ اللہ جل جلالہ بہتری کرنا چاہتا ہے اس پر مصیبتیں ڈالتا ہے۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ ایک شخص مر گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں ایک شخص بولا واہ کیا اچھی موت ہوئی نہ کچھ بیماری ہوئی نہ کچھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بھلا یہ کیا کہتا ہے تجھے کیا معلوم ہے کہ اگر جل جلالہ اس کو کسی بیماری میں مبتلا کرتا تو اس کے گناہوں کو معاف کرتا ہے۔

 

               بیماری میں تعویذ منتر کرنے کا بیان

 

عثمان بن ابی عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئے ان کے ایسا درد ہوتا تھا جس سے قریب ہلاکت کے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا داہنا ہاتھ اپنے درد کے مقام پر سات بار پھیر اور کہہ "اعوذ بعزۃ اللہ وقدرتہ من شر ما اجد ” عثمان کہتے ہیں میں نے یہی کہا اللہ نے میرا درد دور کر دیا پھر میں ہمیشہ اپنے گھر والوں کو اور دوسرے لوگوں کو اس کا حکم دیا کرتا۔

 

حضرت ام المومنین عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب بیمار ہوتے تو قل ہو اللہ احدا اور قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھ کر اپنے اوپر پھونکتے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیمار ہوئے تو میں ان سورتوں کو پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا داہنا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جسم مبارک پر پھیرتی برکت کے واسطے

 

عمرہ بنت عبدالرحمن سے روایت ہے کہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آئے وہ بیمار تھیں اور ایک یہودی عورت ان پر پڑھ کر پھونک رہی تھی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کلام اللہ پڑھ کر پھونک۔

 

               بیمار کے علاج کا بیان

 

زید بن اسلم سے روایت ہے کہ ایک شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں زخم لگا اور خون وہاں آ کر بھر گیا تو اس شخص نے دو شخصوں کو بلایا بنی انمار میں سے ان دونوں نے آ کر دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے کہا کہ تم دونوں میں سے کون طب زیادہ جانتا ہے وہ بولے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم طب میں بھی کچھ فائدہ ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دوا بھی اسی نے اتاری ہے جس نے بیماری اتاری ہے۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ سعد بن زرارہ نے داغ لیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں خناق کی بیماری میں تو مر گئے۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے داغ لیا لقوہ میں اور متنر کیا بچھو کا

 

               بخار میں پانی سے غسل کرنا

 

فاطمہ بنت منذر سے روایت ہے کہ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پاس جب کوئی عورت آتی جو بخار میں مبتلا ہوتی تو پانی منگا کر اس کے گریبان میں ڈالتیں اور کہتیں کہ رسول اللہ حکم دیتے تھے بخار کو ٹھنڈا کرنے کا پانی سے۔

 

عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ بخار جہنم کا جوش ہے اس کو ٹھنڈا کرو پانی سے ،۔

 

               بیمار پرسی اور فال بد کا بیان

 

جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جب کوئی تم میں سے بیمار کو دیکھنے جاتا ہے تو گھس جاتا ہے پروردگار کی رحمت میں پھر جب وہاں بیٹھتا ہے تو وہ رحمت میں اس شخص کے اندر بیٹھ جاتی ہے یا مثل اس کے کچھ فرمایا۔

 

ابن عطیہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ نہیں ہے عدوی اور نہ صفر کا مہینہ لیکن بیماری اونٹ تندرست اونٹ کے پاس نہ اتارا جائے البتہ جس شخص کا اونٹ اچھا ہو اس کو اختیار ہے جہاں چاہے اترے لوگوں نے پوچھا اس کا کیا سبب ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مرض سے نفرت ہوتی ہے یا تکلیف ہوتی ہے۔

 

               بالوں کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مونچھوں کے مونڈنے اور داڑھیوں کے چھوڑ دینے ( بڑھانے ) کا حکم دیا۔

 

حمید بن عبدالرحمن بن عوف سے روایت ہے کہ انہوں نے معاویہ بن ابو سفیان سے سنا جس سال انہوں نے حج کیا اور وہ منبر پر تھے انہوں نے ایک بالوں کا چٹلا اپنے خادم کے ہاتھ سے لیا اور کہتے تھے کہ اے مدینہ والو کہاں ہیں علماء تمہارے؟ سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منع کرتے تھے اس سے اور فرماتے تھے کہ تباہ ہوئے بنی اسرائیل جب ان کی عورتوں نے یہ کام شروع کیا۔

 

ابن شہاب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے بال پیشانی کی طرف لٹکاتے رہے ایک مدت تک بعد اس کے مانگ نکالنے لگے۔

 

عبد اللہ بن عمر مکروہ جانتے تھے خصی کرنے کو اور کہتے تھے کہ خصیے رکھنے میں پیدائش کو پورا کرنا ہے۔

 

صفوان بن سلیم کو پہنچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں یتیم کا پالنے والا خواہ یتیم کا عزیز ہو یا غیر، بہشت میں ایسے ہیں جیسے یہ دونوں انگلیاں جبکہ پرہیزگاری کرے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اشارہ کیا کلمہ کی انگلی اور بیچ کی انگلی کی طرف۔

 

               بالوں میں کنگھی کرنے کا بیان

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ انصاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا میرے بال کندھوں تک ہیں ان میں کنگھی کروں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں کنگھی کر اور بالوں کی عزت کر ابو قتادہ کبھی کبھی ایک دن میں دو بار تیل ڈالتے اس وجہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تھا کہ بالوں کی عزت کر۔

 

عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں ایک شخص نجس بال سر اور داڑھی کے پریشان تھے آیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو اشارہ کیا یعنی مسجد سے باہر جا اور بالوں کو درست کر کے آ وہ شخص درست کر کے پھر آیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا یہ اچھا نہیں اس صورت سے کہ آئے کوئی تم میں سے پریشان سر جیسے شیطان۔

 

               بالوں کے رنگنے کے بیان میں

 

ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ عبدالرحمن بن اسود ان کا ہم صحبت تھا اور اس کے سر اور داڑھی کے بال سب سفید تھے ایک روز صبح کو آیا اپنے بالوں پر سرخ خضاب لگا کر تو لوگوں نے کہا یہ اچھا ہے وہ بولا میری ماں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہلا بھیجا نخیلہ اپنی لونڈی کے ہاتھ قسم دے کر کہ تو اپنے بالوں پر خضاب لگا اور بیان کیا کہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی خضاب لگایا کرتے تھے۔

 

کہا مالک نے سیاہ خضاب میں میں نے کوئی حدیث نہیں سنی اور سوائے سیاہ کے اور کوئی رنگ بہتر ہے اور خضاب نہ کرنا بہت بہتر ہے اگر خدا چاہے، اور لوگوں پر اس بارے میں کچھ تنگی نہیں ہے۔

 

کہا مالک نے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خضاب نہیں لگایا اگر لگایا ہوتا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا عبدالرحمن کے پاس یہی کہلا بھیجتیں۔

 

               سوتے وقت شیطان سے پناہ مانگنے کا بیان

 

خالد بن ولید نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہ میں ڈرتا ہوں سوتے میں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ یہ پڑھ لیا کر پناہ مانگتا ہوں میں اللہ کے پورے کلمات سے اس کے غصے اور عذاب سے اور اس کے بندوں کے شر سے اور شیطانوں کے وسوسوں سے اور شیطانوں کے میرے پاس آنے سے۔

 

یحیی بن سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جس رات معراج ہوئی ایک دیو نظر آیا گویا اس کے ایک ہاتھ میں ایک شعلہ تھا آگ کا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نگاہ کرتے تو اس کو دیکھتے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف چلا آتا تھا حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو چند کلمات سکھا دوں کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کو فرمائیں تو ان کا شعلہ بجھ جائے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیوں نہیں سکھاؤ جبرائل نے کہا کہو اعوذ بوجہ اللہ یعنی پناہ مانگتا ہوں میں اللہ کی منہ سے جو بڑا عزت والا ہے اور اس کے کلمات سے جو پورے ہیں جن سے کوئی نیک یا بد آگے نہیں بڑھ سکتا برائی سے اس چیز کی جو آسمان سے اترے اور جو اسمان کی طرف چڑھے اور برائی سے ان چیزوں کی جن کو پیدا کیا ہے اس نے زمین میں اور جو نکلے زمین سے اور رات دن کے فتنوں سے اور شب و روز کی آفتوں سے اور حادثوں سے مگر جو حادثہ بہتر ہے یا رحمن۔

 

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی قبیلہ اسلم کا بولا میں رات کو نہیں سویا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا کیوں کس وجہ سے؟ وہ بولا مجھے بچھو نے کاٹا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تو شام کے وقت یہ کہہ لیتا اعوذبکلمات اللہ التامات من شرماخلق (یعنی پناہ مانگتا ہوں میں اللہ کے پورے کلمات سے ان چیزوں کے شر سے جن کو پیدا کیا اس نے) تو بچھو تجھے کچھ ضرر نہ دیتا۔

 

قعقاع بن حیکم سے روایت ہے کہ کعب الاحبار نے کہا اگر میں چند کلمات نہ پڑھا کرتا تو یہودی مجھے گدھا بنا دیتے لوگوں نے پوچھا وہ کلمات کیا ہیں کعب نے کہا یعنی میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے منہ سے جو بڑی عظمت ولا ہے نہیں ہے کوئی چیز عظمت میں اس سے بڑھ کر اور اس اللہ کے پورے کلمات سے جن سے کوئی نیک یا بد آگے نہیں بڑھ سکتا اور اس اللہ کے تمام اسمائے حسنی سے جن کو میں جانتا ہوں اور جن کو میں نہیں جانتا اس چیز کے شر سے جس کو اس نے بنایا پیدا کیا اور پھیلایا۔

 

 

 

               خدا کے واسطے دوستی رکھنے والوں کا بیان

 

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ جل جلالہ ارشاد فرما دے گا دن قیامت کے کہ کہاں ہیں وہ لوگ جو آپس میں دوستی رکھتے تھے میری بزرگی کے واسطے آج کے دن میں ان کو سائے میں رکھوں گا یہ وہ دن ہے جس دن کہیں سایہ نہیں سوائے میرے سائے کے۔

 

ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ سات شخص جن کو اللہ تعالی اپنے سائے میں رکھے گا جس دن اس کے سائے کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہو گا ایک تو منصف حاکم دوسرے وہ جوان جو جوانی کی امنگ ہی سے خدا کی بندگی میں مشغول ہوں تیسرے وہ مرد جس کا دل مسجد میں لگا رہے جب کہ نکلے پھر آنے تک چوتھے وہ دو مرد جو خدا کے واسطے آپس میں محبت رکھتے ہیں تو اسی پر جدا ہوتے ہیں تو اسی پر ملتے ہیں، پانچویں وہ مرد جس نے خدا کو یاد کیا تنہائی میں دونوں آنکھوں سے اس کی آنسو بہہ نکلے، چھٹے وہ مرد جس کو شریف خوبصورت عورت نے بد فعلی کے لئے بلایا وہ بولا مجھے خوف ہے اللہ کا جو پالنے والا ہے سارے جہان کا ساتویں وہ مرد جس نے خیرات کی چھپا کر یہاں تک کہ جو داہنے ہاتھ سے دیا بائیں ہاتھ کو اس کی خبر نہیں ہوئی

 

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جب اللہ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو پکارتا ہے جبریل کو اور یہ فرماتا ہے کہ بے شک خدا نے فلانے کو دوست رکھا ہے سو تو بھی اس کو دوست رکھ تو جبرائیل اس سے محبت رکھتا ہے پھر پکار دیتا ہے جبرائیل آسمان والوں میں یعنی فرشتوں میں کہ بے شک خدا نے فلانے کو دوست رکھا ہے سو تم بھی اس کو دوست رکھو تو آسمان والے اس سے محبت رکھتے ہیں پھر اس محبوب بندے کی زمین میں قبولیت اتاری جاتی ہے یعنی زمین کے نیک لوگ اس کو مقبول جانتے ہیں اور اس سے محبت رکھتے ہیں اور جب خدا کسی بندہ سے ناراض وغصہ ہوتا ہے۔ (تو بھی اسی طرح کرتا ہے یعنی اس کا الٹ)

 

ابو ادریس خولانی سے روایت ہے کہ میں دمشق کی مسجد میں گیا وہاں مں نے ایک نوجوان کو دیکھا جو سفید دندان تھا اس کے ساتھ والے لوگ جب کسی بات میں اختلاف کرتے ہیں تو جو وہ کہتا ہے اسی کی سند پکڑتے ہیں اور اس کے قول پر تھم جاتے ہیں میں نے پوچھا یہ نوجوان کون ہے لوگوں نے کہا معاذ بن جبل ہیں جب دوسرا روز ہوا تو میں بہت سویرے گیا دیکھا تو وہ مجھ سے آگے آئے ہیں اور نماز پڑھ رہے ہیں میں ٹھہرا رہا جب نماز پڑھ چکے تو میں ان کے سامنے آیا اور سلام کیا پھر میں نے کہا میں تم کو اللہ جل جلالہ کے واسطے چاہتا ہوں اور محبت کرتا ہوں انہوں نے کہا اللہ کے واسطے؟ میں نے کہا ہاں اللہ کے واسطے انہوں نے پھر کہا اللہ کے واسطے؟ میں کہا ہاں اللہ کے واسطے پھر انہوں نے میری چادر کا کونا پکڑ کے مجھے گھسیٹا اور کہا خوش ہو جا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ اللہ جل جلالہ فرماتے ہے واجب ہوئی محبت میری ان لوگوں سے جو میرے واسطے دوستی اور محبت رکھتے ہیں اور میرے واسطے مل کر بیٹھتے ہیں اور میرے واسطے اپنی جان اور مال صرف کرتے ہیں اور میرے واسطے ایک دوسرے کی ملاقات کو جاتے ہیں۔

 

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں میانہ روی اور نرمی اور اچھی سج دھج ایک جز ہے نبوت کے پچیس جزوں میں سے۔

 

               خواب کا بیان

 

انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اچھا خواب نیک بخت آدمی کا نبوت کا ایک جز ہے چھیالیس  جزوں میں سے۔

 

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ایسا ہی روایت کیا ہے۔

 

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب فارغ ہوتے صبح کی نماز سے تو فرماتے کہ تم میں سے کسی نے رات کو کوئی خواب دیکھا ہے اور فرماتے کہ میرے بعد نبوت میں سے کچھ باقی نہ رہے گا سوائے اچھے خواب کے۔

 

عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میرے بعد نبوت میں سے کچھ نہ رہے گا مگر مبشرات، صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مبشرات کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اچھے خواب جس کو نیک بخت آدمی دیکھے یا دوسرا اس کے واسطے دیکھے یہ جز ہے نبوت کے چھیالیس جزوں میں سے۔

 

ابو قتادہ بن ربعی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ اچھا خواب اللہ کی طرف سے ہے اور برا خواب شیطان کی طرف سے تو جب کوئی تم میں سے برا خواب دیکھے تو چاہئے کہ بائیں طرف تھتکار دے تین بار اور پناہ مانگے اللہ سے اس کے شر سے پھر وہ اس کو نقصان نہ پہنچائے گا اگر خدا چاہئے ابو سلمہ نے کہا پہلے میں خواب ایسے دیکھتا جن کا بوجھ میرے اوپر پہاڑ سے بھی زیادہ رہتا جب سے میں نے اس حدیث کو سنا ان کی کچھ پرواہ نہیں کرتا۔

 

عروہ بن زبیر کہتے تھے کہ یہ جو اللہ جل جلالہ نے فرمایا ان کے واسطے خوشخبریاں ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اس سے مراد نیک خواب ہیں جس کو آدمی خود دیکھے یا کوئی اس کے واسطے دیکھے۔

 

               چوسر یا شطرنج کا بیان

 

ابوموسی اشعری سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہ جس نے چوسر کھیلا تو اس نے نا فرمانی کی اور اللہ اور اس کے رسول کی۔

 

حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ان کے گھر میں کچھ لوگ رہا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سنا ان کے پاس شطرنج ہے تو کہلا بھیجا کہ شطرنج کو تم دور کر دو میرے گھر سے نہیں تو میں تم کو اپنے گھر سے نکال دوں گا اور برا جانا اس کو۔

 

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب اپنے گھر والوں میں سے کسی کو شطرنج کھیلتے دیکھتے تو اس کو مارتے اور شطرنج کو توڑ ڈالتے کہا یحیی نے سنا میں نے مالک سے شطرنج کھیلنا بہتر نہیں ہے نہ اس میں کوئی فائدہ بھلائی ہے اور مکروہ جانتے تھے اس کو اور سنا میں نے مالک سے کہتے تھے شطرنج کھیلنا اور لغو بے ہودہ کھیل سب مکروہ ہیں اور پڑھتے تھے اس آیت کو پس کیا ہے بعد حق کے سوائے گمراہی کے۔

 

               سلام کا بیان

 

زید بن اسلم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سلام کرے سوار پیادے کو اور جب ایک آدمی قوم میں سے سلام کرے تو ان سب سے کافی ہو جائے گا۔

 

محمد بن عمرو بن عطاء سے روایت ہے کہ میں بیٹھا ہوا تھا عبداللہ بن عباس کے پاس اتنے میں ایک شخص یمن کا رہنے والا آیا اور بولا السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ اور اس پر بھی کچھ زیادہ کیا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ان دنوں بینائی جاتی رہی تھی انہوں نے کہا یہ کون ہے لوگوں نے کہا یہ وہی یمن کا رہنے والا ہے جو آیا کرتا ہے آپ کے پاس اور پتہ دیا اس کا یہاں تک کہ ابن عباس پہچان گئے اس کو ابن عباس نے کہا سلام ختم ہو گیا و برکاتہ پر اس سے زیادہ نہ بڑھانا چاہئے کہا یحیی نے سوال ہوا مالک سے مرد سلام کرے عورت پر انہوں نے کہا بڑھیا پر تو کچھ قباحت نہیں لیکن جوان پر اچھا نہیں۔

 

               یہودی اور نصرانی کے سلام کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہودی جب تم کو سلام کرتے ہیں تو السلام علیکم کے بدلے السام علیکم کہتے ہیں تم بھی علیک کہا کرو۔

 

               سلام کی مختلف احادیث کا بیان

 

ابو واقد لیثی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھے تھے مسجد میں لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے اتنے میں تین آدمی آئے دو تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئے اور ایک چلا گیا جب وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس پہنچے تو سلام کیا اور ایک شخص ان میں سے حلقے میں جگہ پا کر بیٹھ گیا اور ایک پیچھے بیٹھا رہا اور تیسرا تو پہلے ہی چلا گیا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا میں تم کو ان تینوں آدمیوں کا حال نہ بتلاؤں؟ ایک تو ان میں سے اللہ کے پاس آیا اللہ نے بھی اس کو جگہ دی ایک نے ان میں سے شرم کی اللہ نے بھی اس سے شرم کی اور ایک نے ان میں سے منہ پھیر لیا اللہ نے بھی اس طرف سے منہ پھیر لیا۔

 

انس بن مالک نے سنا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کو ایک شخص نے سلام کیا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کا جواب دیا پھر اس سے مزاج پوچھا اس نے کہا شکر کرتا ہوں اللہ کا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میرا یہی مطلب تھا۔

 

طفیل بن ابی بن کعب عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آتے اور صبح صبح ان کے ساتھ بازار کو جاتے طفیل کہتے ہیں جب ہم بازار میں پہنچے تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر ایک ردی ودی بیچنے والے پر اور ہر دکاندار پر اور ہر مسکین پر اور ہر کسی پر سلام کرتے ایک روز میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا انہوں نے مجھے بازار لے جانا چاہا میں نے کہا تم بازار میں جا کر کیا کرو گے نہ تم بیچنے والوں کے پاس ٹھہرتے ہو نہ کسی اسباب کو پوچھتے ہو اس سے یہیں بیٹھے رہو ہم تم باتیں کریں گے عبداللہ بن عمر نے کہا اے پیٹ والے بازار میں سلام کرنے کو جاتے ہیں جس سے ملاقات ہوتی ہے اس کو سلام کرتے ہیں۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ ایک شخص نے سلام کیا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تو کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ والغایات الرائحات عبداللہ بن عمر نے کہا وعلیک الفا اور اس طرح کہا جیسے کہ اس کو برا جانا۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ جب کوئی آدمی ایسے گھر میں جائے جو خالی پڑا ہو تو کہے السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین یعنی سلامتی ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر۔

 

               گھر میں جا تے وقت اذن لینے کا بیان

 

عطا بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا ایک شخص نے کیا اجازت مانگوں میں اپنی ماں سے گھر جاتے وقت؟ آپ نے فرمایا ہاں وہ بولا میں تو اس کے ساتھ ایک گھر میں رہتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اجازت لے کر جا وہ بولا میں تو اس کی خدمت کرتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اجازت لے کر جا کیا تو چاہتا ہے کہ اس کو ننگا دیکھے وہ بولا نہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پس اجازت لے کر جا۔

 

ابوموسی اشعری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اجازت تین بار لینا چاہیے اگر اجازت ہو تو جاؤ نہیں تو لوٹ آؤ۔

 

ربیعہ بن سبی عبد الرحمن سے روایت ہے کہ انہوں نے بہت سے علماء سے سنا کہ ابو موسیٰ اشعری نے اجازت چاہی اندر آنے کی حضرت عمر کے مکان پر تین بار جب تینوں بار جواب نہ ملا تو وہ لوٹ گئے حضرت عمر نے ان کے پیچھے آدمی بیھجا جب وہ آئے تو ان سے کہا تم اندر کیوں نہ آئے ابو موسیٰ اشعری نے کہا کہ میں نے رسول اللہ سے سنا کہ آپ فرماتے تھے کہ اذن تین بار لینا چاہیے اگر اجازت ہو تو جاؤ نہیں تو لوٹ آؤ حضرت عمر نے کہا تمھارے سوا اور کسی نے یہ حدیث سنی ہے اس کو لے کر آؤ اگر نہ لاؤ گے تو میں تم کو سزا دوں گا ابو موسیٰ نکلے اور مسجد میں بہت سے آدمیوں کو بیٹھے دیکھا ایک مجلس میں جس کو مجلس انصار کہتے تھے اور کہا میں نے رسول اللہ سے سنا کہ آپ فرماتے کہ اذن تین بار لینا چاہیے اگر اجازت ہو تو جاؤ نہیں تو لوٹ آؤ میں نے یہ حدیث حضرت عمر سے بیان کی انہوں نے کہا کہ اگر کسی اور نے یہ حدیث سنی ہو تو ان کو لے کر آؤ نہیں تو میں تم کو سزا دوں گا اگر تم میں سے کسی نے یہ حدیث سنی ہو تو میرے ساتھ چلے لوگ ابو سعید ابو موسیٰ کے ساتھ آئے اور حدیث حضرت عمر سے بیان کی حضرت عمر نے ابو موسیٰ سے کہا میں نے تم کو جھوٹا نہیں سمجھا لیکن میں ڈرا ایسا نہ ہو کہ لوگ آنحضرت پر باتیں جوڑ لیا کریں

 

               چھینک کا جواب دینے کا بیان

 

محمد بن عمر بن حزم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص چھینکے تو اس کا جواب دو پھر اگر چھینکے تو جواب دو پھر چھینکے تو جھٹ کہہ دو تجھ زکام ہو گیا؟ عبداللہ بن ابی بکر نے کہا معلوم نہیں کہ تیسری کے بعد آپ نے یہ کہا یا چوتھی کے بعد۔

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر کو جب چھینک آتی اور کوئی یرحمک اللہ کہتا تو وہ یرحمنا اللہ وایاکم و یغفرلنا و لکم کہتے یعنی اللہ ہم پر رحم کرے اور تم پر بھی اور ہم کو بخشے اور تم کو بھی۔

 

               تصویروں اور مورتیوں کا بیان میں

 

رافع بن اسحاق سے جو مولی ہیں شفا کے روایت ہے کہ میں اور عبداللہ بن ابی طلحہ مل کر ابو سعید خدری کے پاس گئے ان کے دیکنے کو وہ بیمار تھے ابو سعید نے کہا مجھ سے بیان کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہ فرشتے اس گھر میں نہیں جاتے جس میں تصویریں یا مورتیاں ہوں اسحاق کو شک ہے کہ ابو سعید نے ان دونوں میں سے کیا کہا ،۔

 

عبید اللہ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ وہ ابو طلحہ انصاری کی عیادت کو گئے وہاں سہل بن حنیف کو بھی دیکھا ابو طلحہ نے ایک آدمی کو بلایا اور کہا میرے نیچے سے شطرنجی نکال لے سہل نے کہا کیوں ابو طلحہ نے کہا اس میں تصویروں کے بارے میں جو ارشاد فرمایا وہ ہے اگر نقشی ہو کپڑے وغیرہ پر تو کچھ قباحت نہیں ابو طلحہ نے کہا ہاں یہ سچ ہے مگر میری خوشی یہی ہے کہ ہر قسم کی تصویر سے پرہیز کرو۔

 

حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک تکیہ خریدا اس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حجرے کے دروازے پر کھڑے ہو رہے اور اندر نہ آئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چہرہ مبارک پر ناراضگی کے آثار معلوم ہوئے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا میں توبہ کرتی ہوں اللہ اور اس کے رسول سے میرا کیا گناہ ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ تکیہ کیسا ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا میں نے اس تکیے کو اس لئے خریدا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس پر بیٹھیں اس پر تکیہ لگائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تصویر بنانے والے عذاب دیئے جائیں گے قیامت کے روز ان سے کہا جائے گا تم جان ڈالو ان صورتوں کو جن کو تم نے دنیا میں بنایا تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس گھر میں تصویریں ہوتی ہیں اس میں فرشتے نہیں آتے۔

 

               گوہ کھانے کا بیان

 

سلیمان بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میمونہ بنت حارث کے مکان میں گئے وہاں گوہ دیکھا سفید اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ عبداللہ بن عباس اور خالد بن ولید تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا یہ گوشت کہاں سے آیا میمونہ نے کہا میری بہن ہزیلہ بنت حارث نے بھیجا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عبداللہ بن عباس اور خالد بن ولید سے کہا کھاؤ انہوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نہیں کھاتے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میرے پاس اللہ جل جلالہ کی طرف سے کوئی نہ کوئی آیا کرتے ہیں میمونہ نے کہا ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دودھ پلادیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں، جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دودھ پی چکے تو پوچھا یہ کہاں سے آیا میمونہ نے کہا میری بہن ہزیلہ نے تحفہ بھیجا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تم اپنی لونڈی کو جس کے آزاد کرنے کے واسطے تم نے مجھ سے مشورہ کیا تھا اپنی بہن کو دے دو اور قرابت کی رعایت کرو وہ اس کی بکریاں چرایا کرے تو مناسب ہے اور بہتر ہے تیرے واسطے۔

 

خالد بن ولید بن مغیرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ میمونہ کے گھر میں گئے وہاں ایک گوہ بھنا ہوا آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی طرف ہاتھ اٹھایا کھانے کو عورتوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بتا دو جس کا یہ گوشت ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہاتھ کھینچ لیا، میں نے کہا کیا حرام ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں لیکن یہ میرے ملک میں نہیں ہوتا اس واسطے مجھے اس کے کھانے سے کراہت آتی ہے خالد نے کہا میں نے اس کو اپنی طرف کھینچ کر کھایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دیکھ رہے تھے۔

 

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے پکار کر کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ گوہ کے گوشت کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہ میں اس کو کھاتا ہوں نہ حرام کہتا ہوں۔

 

               کتوں کے حکم

 

سفیان بن زہیر سے روایت ہے کہ وہ لوگوں سے حدیث بیان کر رہے تھے مسجد نبوی کے دروازے پر انہوں نے کہا میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے جو شخص کتا پالے نہ کھیت کی حفاظت کے واسطے نہ بکریوں کی حفاظت کے واسطے تو ہر روز اس کے اعمال میں ایک قیراط کے برابر کمی و نقصان ہوا کرے گا، سائب نے سفیان سے کہا تم نے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں قسم ہے اس مسجد کے پروردگار کی۔

 

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جو کتا پالے سوائے شکاری کتے کے یا کھیت کے کتے کے تو ہر روز اس کے عمل میں سے دو قیراط کے برابر کمی و نقصان ہو گا۔

 

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم کیا کتوں کے قتل کا۔

 

 

               بکریوں کا بیان

 

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ بڑا کفر مشرق کی طرف ہے اور فخر اور تکبر گھوڑوں اور اونٹ والوں میں ہے جو بلند آواز رکھتے ہیں جنگل میں رہتے ہیں اور عاجزی اور تواضع بکری والوں میں ہے۔

 

ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہ قریب ہے کہ بہترین مال مسلمان کا چند بکریاں ہوں گی جن کو لے کر کسی پہاڑ کی چوٹی پر چلا جائے گا یا کسی وادی کے اندر بھاگے گا فتنوں سے اپنا دین بچانے کو۔

 

ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ نہ دوہے کوئی کسی کے جانور کو بلا اس کی اجازت کے بھلا کوئی تم میں یہ چاہتا ہے کہ کوئی اس کے خزانہ کی کوٹھڑی میں آ کے اس کو توڑ کے اس کے کھانے کا غلہ نکال لے جائے سو ان کے جانور کے تھن تو ان کے کھانے کی دودھ کو حفاظت میں رکھتے ہیں یعنی تھن کوٹھڑی کی طرح حفاظت کے واسطے ہیں سو ہرگز نہ دوہے کوئی کسی کے جانور کو بدون اس کی اجازت کے۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں لوگوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ نے بھی؟ فرمایا کہ میں نے بھی۔

 

               چوہا گھی میں گر پڑے تو یا کرنا چاہئے اور کھانا بھی آ جائے اور نماز کا وقت بھی آ جائے تو پہلے کھانا کھا لینا چاہئے

 

نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے شام کا کھانا پیش کیا جاتا تو وہ امام کی قرات سنا کرتے اپنے گھر میں اور کھانے میں جلدی نہ کرتے جب تک اچھے طور سے نہ کھا لیتے۔

 

حضرت ام المومنین میمونہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال ہوا کہ اگر چوہا گھی میں گر پڑے تو کیا کرنا چاہئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اس کو نکال ڈالو اور اس کے آس پاس کا گھی پھینک دو۔

 

               جس کی نحوست سے بچنا چاہیے

 

سہل بن سعد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اگر نحوست ہوتی تو تین چیزوں میں ہوتی ایک گھوڑے میں دوسرے عورت میں تیسرے گھر میں۔ عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ نحوست تین چیزوں میں ہوتی ہے ایک گھر دوسرے عورت تیسرے گھوڑے میں۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ ایک عورت آئی رسول اللہ کے پاس، بولی یا رسول اللہ ایک گھر تھا جس میں ہم رہتے ہیں ہماری گنتی بھی زیادہ تھی اور مال بھی تھا، پھر گنتی بھی کم ہو گئی یعنی لوگ مر گئے اور مال میں بھی نقصان ہوا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا چھوڑ دے تو اس گھر کو جبکہ تو اس کو برا جانتی ہے۔

 

               جو نام برے ہیں ان کا بیان

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہ اس اونٹی کا دودھ کون دوہے گا؟ ایک شخص کھڑا ہوا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا تیرا کیا نام ہے؟ وہ بولا مرہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بیٹھ جا آپ نے اس کا نام اچھا نہ سمجھا، مرہ تلخ کو بھی کہتے ہیں پھر آپ نے فرمایا کون دوہے گا؟ اس اونٹنی کو ایک شخص اور کھڑا ہوا آپ نے پوچھا تیرا نام کیا ہے وہ بولا حرب۔ آپ نے فرمایا بیٹھ جا، پھر آپ نے فرمایا کون دوہے گا؟ اس اونٹنی کو ایک شخص اور کھڑا ہوا آپ نے پوچھا تیرا نام کیا ہے وہ بولا یعیش آپ نے فرمایا جا دوھ۔ یعیش نام آپ نے پسند کیا کیونکہ وہ عیش سے ہے آپ فال نیک بہت لیا کر تے تھے

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ عمر نے ایک شخص سے پوچھا تیرا نام کیا ہے؟ وہ بولا جمرہ (انگارہ) انہوں نے پوچھا باپ کا نام؟ کہا ابن شہاب (شعلہ) ، پوچھا کس قبیلے سے؟ کہا حرقہ سے جس کے معنے جنے کے ہیں، پوچھا کہاں رہتا ہے؟ کہا حرۃ النار میں، پوچھا کون سی جگہ میں؟ کہا ذات لظی میں، ان کے معنے بھی شعلے اور دہکتی آگ کے ہیں، حضرت عمر نے کہا جا اپنے لوگوں کی خبر لے وہ سب جل گئے راوی نے کہا جب وہ شخص گیا تو دیکھا یہی حال تھا جو حضرت عمر نے کہا تھا یعنی سب جل گئے تھے۔

 

               پچھنے لگانا اور اس کی مزدوری کا بیان

 

انس بن مالک نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پچھنے لگوائے ابو طیبہ کے ہاتھ سے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مزدوری میں ایک صاع کھجور کا دیا اور اس کے مالکوں کو حکم دیا کہ اس کے خراج میں کمی کر دیں۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ اگر کوئی دوا ایسی ہوتی جو بیماری تک پہنچ جاتی تو وہ پچھنے ہوتے

 

ابن محیصہ انصاری سے روایت ہے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا حجام کی اجرت کو اپنے خرچ میں لا نا کیسا ہے؟ (کیونکہ ان کے غلام ابو طبیہ حجام تھے وہ چاہتے تھے اس کی کمائی کھائیں) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع کیا مگر یہ ممانعت تنزیہا ہے اکثر علماء کے نزدیک وہ ہمیشہ پوچھا کر تے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اجازت مانگتے تھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کی کمائی اپنے اونٹوں اور غلاموں کی خوراک میں صرف کر۔

 

               پورب کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر نے کہا کہ دیکھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اشارہ کر تے تھے مشرق کی طرف اور فرماتے تھے فتنہ اسی طرف سے ہے فتنہ اسی طرف سے ہے جہاں سے شیطان کی چوٹی نکلتی ہے۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ حضرت عمر بن خطاب نے عر اق کو جا نا چاہا تو کعت احبار نے کہا آپ وہاں نہ جائیے اے امیر المو میین کیونکہ اس ملک میں جادو کے دس حصوں میں سے نو حصے ہیں اور جتنے شریر اور خبیث جن میں وہاں موجود ہیں اور وہاں ایک بیماری ہے جو لا علاج ہے۔

 

               سانپوں کے مارنے کا بیان اور سانپوں کا حال

 

ابو لبابہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع کیا ان سانپوں کے مارنے سے جو گھر میں ہیں

 

سائبہ مولا سائبہ جو مولا تھے حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے منع کیا ان سانپوں کے مارنے سے جو گھر میں ہوتے ہیں مگر ذی الطفیتین اور ابتر کو کہ وہ آنکھ کو اندھا کر دیتے ہیں اور حمل گرا دیتے ہیں۔

 

ابو سائب سے مولی ہشام بن زہرہ کے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں ابو سعید خدری کے پاس گیا وہ نماز پڑھ رہے تھے میں بیٹھ گیا نماز سے فارغ ہونے کا انتظار کر رہا تھا اتنے میں میں نے ان کے تخت کے تلے سرسراہٹ سنی، دیکھا تو سانپ ہے میں اس کے مارنے کو اٹھا ابو سعید نے اشارہ کیا بیٹھ جا اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں اشارہ کرنا درست ہے جب نماز سے فارغ ہوئے تو ایک کوٹھڑی کی طرف اشارہ کیا اور کہا اس کوٹھڑی کو دیکھتے ہو؟ میں نے کہا ہاں ابو سعید خدری نے کہا اس کوٹھڑی میں ایک نوجوان رہتا تھا جس نے نئی شادی کی تھی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ جنگ خندق میں گیا پھر وہ یکایک آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھے اجازت دیجیے میں نے شادی کی ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اجازت دے دی اور فرمایا ہتھیار لیکر جا کیونکہ مجھے بنی قریضہ کا خوف ہے وہ نوجوان ہتھیار لے کر گیا جب گھر پہنچا تو بیوی کو دیکھا دروازہ پر کھڑی ہے اس نوجوان نے غیرت سے کچھ اس کے مارنے کو اٹھایا وہ بولی جلدی مت کر اپنے گھر میں جا کر دیکھ کہ اس میں کیا ہے وہ گھر میں گیا دیکھا تو ایک سانپ کنڈلی مارے ہوئے اس کے بچھو نے پر بیٹھ ہوئے ہے وہ نوجوان سانپ کو برچھی سے چھید کر نکلا اور برچھی کو گھر میں کھڑا کر دیا وہ سانپ اس برچھی کی نوک میں پیچ کھاتا رہا اور نوجوان اسی وقت مر گیا معلوم نہیں سانپ پہلے مرا یا وہ نوجوان پہلے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے قصہ بیان کیا گیا تو آپ نے فرمایا ۔

 

               سفر کی دعا کا بیان

 

امام مالک کو پہنچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب اپنا پاؤں رکاب میں رکھتے سفر کے قصہ سے تو فرماتے کہ اللہ کے نام سے سفر کرتا ہوں اے پروردگار تو رفیق ہے سفر میں اور خلیفہ ہے میرے اہل و عیال میں اے پروردگار نزدیک کر دے ہم کو زمین جہاں ہم جاتے ہیں اور آسان کر ہم پر سفر اے پروردگار پناہ مانگتا ہوں میں تجھ سے سفر کی تکلیف سے اور برے لوٹنے اور برے حال اور مال کے

 

خولہ بنت حکیم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی منزل میں اترے اور کہے کہ پناہ مانگتے ہوں میں اللہ کے پورے کلمات سے ہر مخلوق کے شر سے تو اس کو کسی چیز سے نقصان نہ ہو گا کوچ کے وقت تک

 

               اکیلے سفر کر نے کی ممانعت مرد اور عورت کے واسطے

 

عبد اللہ بن عمر بن العاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اکیلا سفر کر نے والا شیطان ہے اور دو مل کر سفر کرنے والے دو شیطان ہیں اور تین جماعت ہے۔

 

سعید بن المسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ شیطان قصد کرتا ہے ایک دو پر جب آدمی ہوں تو ان پر قصد نہیں کرتا

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جو عورت ایمان لائے اللہ پر اور آخرت کے دن پر اس کو درست نہیں سفر کرنا ایک دن رات کا مگر اپنے محرم کے ساتھ

 

               سفر کے احکام کا بیان

 

خالد بن سعدان سے روایت ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ نرمی کرتا ہے اور نرمی کرنے والے کو پسند فرماتا ہے پر وہ جو نہیں کرتا سختی پر جب تم چڑھو ان بے زبان جانوں پر تو اتار دن کو ان کی منزلوں پر000

 

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سفر بھی ایک قسم کا عذاب ہے۔ روک دیتا ہے آدمی کو کھانے اور پینے اور سونے سے تو جب تم میں سے کوئی اپنے کام کیلئے سفر کرے اور وہ کام پورا ہو جائے تو جلدی اپنے گھر لوٹ آئے۔

 

               غلام لونڈی کے ساتھ نرمی کر نا

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مملوک( غلام لونڈی) کو کپڑا اور کھانا ملے گا موافق دستور کے اور کام اس سے نہ لیا جائے طاقت سے زیادہ۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ حضرت عمر بن الخطاب ہر ہفتے کے روز مدینے کے آس پاس گاؤں میں جایا کر تے تھے جب کسی غلام کو ایسے کام میں مشغول پاتے جو اس کی طاقت سے زیادہ ہوتا تو کم کر دیتے تھے۔

 

مالک بن ابی عامر اصبحی نے حضرت عثمان بن عفان سے سنا وہ خطبے میں فرماتے تھے کہ جو لونڈی کوئی ہنر نہ جانتی ہو اس کو مجبور مت کرو کمائی پر کیونکہ جب تم اس کو مجبور کرو گے کمائی پر تو وہ غلط کام(حرام کاری) سے کمائی گی، اور نابالغ غلام کو کمائی پر مجبور مت کرو کیونکہ وہ جب مجبور ہو گا تو چوری کرے گا اور جب اللہ تمہیں اچھی طرح روزی دیتا ہے تو تم بھی ان کو محنت معاف کر دو جیسے اللہ نے تمہیں معاف کیا ہے اور لازم کرو وہ کمائی جو حلال ہے

 

               غلام لونڈی کی تربیت اور وضع کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ غلام جب اپنے مولی کی خیر خواہی کرے اور اللہ کی عبادت بھی کرے تو اس کو دوہرا ثواب ہو گا۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ عبداللہ بن عمر کی ایک لونڈی تھی اس نے آزاد عورتوں کی وضع بنائی تھی حضرت عمر نے اس کو دیکھا اور اپنی صاحبزادی حضرت ام المومنین حفصہ کے پاس گئے اور کہا میں نے تیرے بھائی کی لونڈی کو دیکھا جو آزاد عورتوں کی وضع بنا کو لوگوں میں پھرتی ہے اور حضرت عمر نے اس کو برا جانا

 

               بیعت کا بیان

 

عبد اللہ بن دینار سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے کہا کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بیعت کر تے ماننے اور طاعت کرنے پر تو شفقت اور رحمت سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے کہ جہاں تک تم کو طاقت ہو۔

 

امیمہ بنت رقیقہ سے روایت ہے کہ اس نے کہا کہ میں رسول اللہ کے پاس آئی بہت سی عورتوں میں جو بیعت کرنے کو آئی تھیں دین اسلام پر ان عورتوں نے کہا یا رسول اللہ ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بیعت کرتی ہیں اس بات پر کہ شریک نہ کریں گی ساتھ اللہ کے کسی چیز کو اور نہ چوری کریں گی اور نہ زنا کریں گی اور نہ اپنی اولاد کو ماریں گی اور نہ بہتان باندھیں گی اپنی اپنی طرف سے اسی پر اور نہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نافرمانی کریں گی شروع کے کام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کمال شفقت اور محبت سے فرمایا جہاں تک تمہاری طاقت یا قدرت ہے

 

عبد اللہ بن دینار سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے عبدالملک بن مروان کو لکھا بیعت نامہ اس مضمون سے بسم اللہ الرحمن الرحیم اللہ جل جلالہ کے بندے سلام ہو تجھ پر میں تعریف کرتا ہو اس اللہ کی جس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ہے اور اقرار کرتا ہوں تیری بات سننے اور اطاعت کرنے کا اللہ جل جلالہ کے حکم کے موافق اور اس کے رسول کی سنت کے موافق جہاں تک کہ مجھے قدرت ہے۔

 

               بری بات چیت کا بیان

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جس نے اپنے بھائی کو کافر کہا تو دونوں میں سے ایک کافر ہو گیا۔

 

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جب تو سنے کسی کو یہ کہتے ہوئے کہ لوگ تباہ ہو گئے تو وہ سب سے زیادہ تباہ ہے

 

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ کوئی تم میں سے زمانے کو برا نہ کہے کیونکہ اللہ خود زمانہ ہے۔

 

یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ حضرت عیسیٰ کے سامنے ایک سور آیا راہ میں، آپ نے فرمایا چلا جا سلامتی سے، لوگوں نے کہا آپ سور سے اس طرح فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کے میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میری زبان کو بری بات چیت کی عادت نہ ہو جائے۔

 

بلال بن حارث سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ آدمی ایک بات کہہ دیتا ہے وہ نہیں جانتا کہ کہاں تک اس کا اثر ہو گا اس کی وجہ سے اللہ اپنی رضا مندی قیامت تک اس بندے سے لکھ دیتا ہے اور ایک ایسی بات کہتا ہے جس کو وہ نہیں جانتا کہ کہاں تک اس کا اثر ہو گا اس کی وجہ سے قیامت تک اللہ اپنی ناراضگی اس بندے کیلئے لکھ دیتا ہے۔

 

               بات سمجھ بو جھ کر کہنا

 

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ آدمی بے سمجھے بوجھے ایک بات کہہ دیتا ہے جس سے وہ جہنم میں جاتا ہے، آدمی بے سمجھے بوجھے ایک بات کہہ دیتا ہے جس سے وہ جنت میں جاتا ہے

 

               بے ہودہ گوئی کی مذمت

 

ز ید بن اسلم سے روایت ہے کہ دو آدمی پورب (مشرق) سے آئے انہوں نے خطبہ پڑھا لوگ سن کر فریفتہ ہو گئے آپ نے فرمایا بعض بیان جادو کا اثر رکھتے ہیں۔

 

مالک کو پہنچا کہ حضرت عیسیٰ فرماتے ہیں کہ مت باتیں کرو بے کار سوائے یاد الہی کے کہ کہیں سخت ہو جائیں دل تمہارے اور سخت دل دور ہے اللہ سے لیکن تم نہیں سمجھتے اور مت دیکھو دوسروں کے گناہ کو گویا تم رب ہو۔ اپنے گناہوں کو دیکھو اپنے تئیں بندہ سمجھ کر، کیونکہ لوگوں میں سب طرح کے لوگ ہیں بعض اچھے ہیں۔ تو رحم کرو بیماروں پر اور اللہ کا شکر کرو اپنی تندرستی پر۔

 

مالک کو پہنچا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بعد نماز عشاء کے اپنے لوگوں سے کہلا بھیجتیں کیا اب بھی تم آرام نہیں دیتے لکھنے والے فرشتوں کو۔

 

               غبیت کا بیان

 

مطلب بن عبداللہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے غیبت کس کو کہتے ہیں آپ نے فرمایا کسی کا حال ایسا بیان کرے جو اگر وہ سنے تو اس کو برا معلوم ہو، وہ بولا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اگرچہ سچ ہو آپ نے فرمایا اگر جھوٹ ہو تو وہ بہتان ہے۔

 

               زبان کے گناہ کا بیان

 

عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جس شخص کو اللہ بچا دے دو چیزوں کی برائی سے وہ جنت میں جائے گا۔ ایک شخص نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ ہم کو نہیں بتاتے وہ دو چیزیں کیا ہیں؟ آپ چپ ہو رہے پھر آپ نے یہی فرمایا وہ شخص یہی بولا اور آپ چپ ہو رہے پھر آپ نے یہی فرمایا وہ شخص و ہی بولا یعنی آپ ہم کو نہیں بتاتے؟ پھر آپ نے یہی فرمایا وہ شخص بولا آپ ہم کو نہیں بتاتے پھر آپ نے یہی فرمایا وہ شخص و ہی بولا جاتا تھا اتنے میں ایک دوسرے شخص نے اس کو چپ کرا دیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خود ہی فرمایا جس کو اللہ دو چیزوں کے شر سے بچا دے وہ جنت میں جائے گا ایک وہ جو اس کے دونوں جبڑوں کے بیچ میں ہے یعنی زبان دوسری وہ جو اس کے دونوں پاؤں کے بیچ میں ہے (شرم گاہ) تین بار آپ نے اس کو ارشاد فرمایا۔

 

اسلم عدوی سے روایت ہے کہ حضرت عمر گئے ابوبکر کے پاس اور وہ اپنی زبان کھینچ رہے تھے حضرت عمر نے کہا ٹھہرو بخشے اللہ تم کو ابوبکر صدیق نے کہا اسی نے مجھ کو تباہی میں ڈالا ہے۔

 

               دو آدمی ایک کو چھوڑے کر کانا پھوسی اور نہ سرگوشی نہ کر یں

 

عبد اللہ بن دینار سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میں اور عبداللہ بن عمر خالد بن عقبہ کے گھر کے پاس تھے جو بازار کے ساتھ تھا عبداللہ بن عمر سے کان میں کچھ کہنا چاہا اور عبداللہ کے ساتھ سوائے میرے اور اس شخص کے جو کان میں کہنے کو آیا تھا اور کوئی نہ تھا عبداللہ بن عمر نے ایک اور شخص کو بلایا اب ہم چار آدمی ہو گۓ پھر عبداللہ بن عمر نے مجھ کو اور چوتھے شخص کو کہا ذرا ہٹ جاؤ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے اس سے تیسرے آدمی کو رنج ہوتا ہے۔

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جب تین آدمی ہوں تو دو مل کر کانا پھوسی اور سرگوشی نہ کریں تیسرے کو چھوڑ کر۔

 

               سچ اور جھوٹ کا بیان

 

صفو ان بن سیلم سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا میں اپنی عورت سے جھوٹ بولوں آپ نے فرمایا جھوٹ بولنا اچھا نہیں ہے اور اس میں کچھ بھلائی و خیر نہیں ہے اور وہ شخص بولا میں اپنی عورت سے وعدہ کروں اور اس سے کہوں میں تیرے لیے یوں کر دوں گا یہ بنا دوں گا آپ نے فرمایا اس میں کچھ گناہ نہیں ہے۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ عبداللہ بن مسعود فرماتے تھے لازم جانوں تم سچ بولنے کو کیونکہ سچ بولنا نیکی کا راستہ بتاتا ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے اور بچو تم جھوٹ سے کیونکہ جھوٹ برائی کا راستہ بتاتا اور برائی جہنم میں لے جاتی ہے کیا تم نے نہیں سنا لوگ کہتے ہیں فلاں نے سچ کہا اور نیک ہوا، جھوٹ بولا اور بدکار ہوا۔

 

امام مالک کو پہنچا کہ حضرت لقمان سے کسی نے پوچھا کہ تم کو کس وجہ سے اتنی بزرگی حاصل ہوئی؟ لقمان نے کہا سچ بولنے سے امانت داری سے اور لغو کام چھوڑ دینے سے۔

 

عبد اللہ بن مسعود فرماتے تھے کہ ہمیشہ آدمی جھوٹ بولا کرتا ہے پہلے اس کے دل میں ایک نکتہ سیاہ ہوتا ہے پھر سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے ہاں جھوٹوں میں لکھ لیا جاتا ہے

 

صفوان بن سلیم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کسی نے پوچھا کہ کیا مؤمن بودا بزدل ہو سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں، پھر پوچھا کیا مومن بخیل ہو سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں، پوچھا کیا مومن جھوٹا ہو سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں۔

 

               مال کو برباد کر نے کا (یعنی اسراف کا بیان) اور ذوالوجہین (دوغلے) کا بیان

 

ابو صالح سے روایت ہے ( انہوں نے ابوہریرہ سے سنا) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ خوش ہوتا ہے تین باتوں پر اور ناراض ہوتا ہے تین باتوں پر، خوش ہوتا ہے اس سے جو تم شریک نہ کرو اس کے ساتھ کسی کو، پکڑے رہو اللہ کی رسی کو یعنی قرآن کو) اور نصیب کرو اپنے حکم کو یعنی نیک باتیں اسے بتلاؤ اور بری باتوں سے بچاؤ اور ناراض ہوتا ہے بہت باتیں کر نے سے اور مال تلف کر نے سے یعنی بے جا خرچ کرنے سے اور بہت سوال کرنے سے۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ بہت برا سب آدمیوں میں ذوالوجہین ہے جو ایک گروہ کے پاس جائے و ہاں انہی کی سی بات کہہ دے جب دوسرے گروہ میں آئے و ہاں ان کی بات کہے۔

 

               چند آدمیوں کے گناہ کی وجہ سے ساری خلقت کا تباہ ہونا

 

حضرت ام المومنین ام سلمہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا ہم اس وقت بھی تباہ ہوں گے جب ہم میں نیک لوگ موجود ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں جب گناہ بہت ہونے لگیں۔

 

عمر بن عبدالعزیز کہتے تھے کہ اللہ جل جلالہ کسی خاص شخصوں کے گناہ کے سبب عام لوگوں کو عذاب میں مبتلا نہ کرے گا مگر جب گناہ کی بات اعلانیہ کی جائے گی تو سب عذاب کے مستحق ہوں گے۔

 

 

 

               اللہ سے ڈرنے کا بیان

 

انس بن مالک سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سنا اور میں ان کے ساتھ تھا آپ ایک باغ میں تھے اور میرے اور ان کے درمیان ایک دیوار حائل تھی آپ فرماتے تھے واہ واہ اے خطاب کے بیٹے ڈر اللہ سے، نہیں تو اللہ عذاب کرے گا تجھ کو۔

 

قاسم بن محمد کہتے تھے کہ میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ باتوں پر فریفیہ نہیں ہوتے تھے۔

 

               بادل گر جنے کے وقت کیا کہنا چاہیے

 

عامر بن عبداللہ بن زبیر جب گرج کی آواز سنتے تو بات کرنا چھوڑ دیتے اور کہتے کہ پاک ہے وہ ذات جس کی پاکی بیان کرتا ہے ایک فرشتہ جو مقرر ہے ابر (بادل) پر اس کی آواز ہے جو گرج معلوم ہوئی اور بیان کرتے ہیں فرشتے پاکی اس کی اس کے ڈر سے پھر کہتے تھے کہ یہ آواز زمین کے رہنے والوں کے واسطے سخت وعید ہے۔

 

               رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ترکے کا بیان

 

حضرت ام المومینن عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیبیوں نے بعد آپ کی وفات کے چاہا کہ حضرت عثمان کو ابوبکر صدیق کے پاس بھجیں اور اپنا ترکہ طلب کریں تو حضرت عائشہ نے کہا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہیں فرمایا کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میرے بعد میرے وارث ترکہ کو تقسیم نہ کریں گے جو میں چھوڑ جاؤں اپنی بیبیوں کی خوراک کے اور عامل کے خرچ کے بعد وہ سب صدقہ ہے

 

               جہنم کا بیان

 

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہ آدمیوں کی آگ جس کو وہ سلگاتے ہیں ایک جز ہے ستر جزوں میں سے جہنم کی آگ کا ( یعنی جہنم کی آگ میں اس آگ سے انہتر حصے زیادہ جلن اور تیزی ہے۔ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ آگ دنیا ہی کی کافی تھی ( جلانے کو) آپ نے فرمایا وہ آگ اس آگ سے انہتر حصے زیادہ ہے۔

 

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ کیا تم جہنم کی آگ کو سرخ سمجھتے ہو جیسے دنیا کی آگ وہ قار سے بھی زیادہ سیاہ ہے اور قار کو زفت کہتے ہیں۔

 

               صدقے کی فضیلت کا بیان

 

سعد بن یسار سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہ جو شخص حلال مال سے صدقہ دے اور اللہ جل جلالہ نہیں قبول کرتا مگر مال حلال کو تو وہ اس صدقے کو اللہ جل جلالہ کی ہتھیلی میں رکھتا ہے اور پروردگار اس کو پرورش کرتا ہے جیسے کوئی تم میں سے پالتا ہے اپنے بھپیرے برابر ہو جاتا ہے۔

 

انس بن مالک کہتے تھے کہ ابو طلحہ سب انصاریوں سے زیادہ مالدار تھے مدینے میں یعنی کھجور کے درخت سب سے زیادہ ان کے پاس تھے اور سب مالوں میں ان کو ایک باغ بہت پسند تھا جس کو بیر حاء کہتے تھے اور وہ مسجد نبوی کے سامنے تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس میں جایا کرتے تھے اور وہاں کا صاف پانی پیا کرتے تھے، حضرت انس فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری "لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ” 3۔ ال عمران:92)  یعنی تم نیکی کو نہ پہنچو گے جب تک کہ تم خرچ نہ کرو گے اس مال میں سے جس کو تم چاہتے ہو تو ابو طلحہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئے اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا آپ نے ارشاد فرمایا ہے لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون اور مجھے اپنے سب مالوں میں بیر حاء پسند ہے وہ صدقہ ہے اللہ کی راہ میں اللہ سے اس کی بہتری اور جزاء چاہتا ہوں اور وہ بیر حاء ذخیرہ ہے اللہ کے پاس آپ نے فرمایا واہ واہ یہ مال تو بڑا اجر لانے والا ہے یا بڑے نفع والا ہے اور میں سن چکا ہوں جو تم نے اس مال کے بارے میں کہا ہے میرے نزدیک تم اس مال کو اپنے عزیزوں میں بانٹ دو ابو طلحہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بانٹ دوں پھر ابو طلحہ نے اس کو تقسیم کر دیا اپنے عزیزوں اور چچا کے بیٹوں میں۔

 

زید بن اسلم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ دو وسائل کو اگرچہ آئے وہ گھوڑے پر۔

 

مالک ، زید بن اسلم، عمرو بن معاذ اشہلی انصاری سے روایت ہے کہ ان کی دادی فرماتی تھیں کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہ اے مسلمان عورتو ! نہ حقیر کرے کوئی تم میں سے کسی ہمسائی اپنی کو اگرچہ وہ ایک کھر بھیجے بکری کا جلا ہوا۔

 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک فقیر آیا مانگتا ہوا اور آپ روزہ دار تھیں اور گھر میں کچھ نہ تھا سوائے ایک روٹی کے، آپ نے اپنی لونڈی سے کہا یہ روٹی فقیر کو دیدے وہ بولی آپ کے افطار کے لئے کچھ نہیں ہے آپ نے کہا دیدے لونڈی نے وہ روٹی فقیر کہ حوالے کر دی شام کو ایک گھر سے حصہ آیا بکری کا گوشت پکا ہوا حضرت عائشہ نے لونڈی کو بلا کر کہا کھا یہ تیری روٹی سے بہتر ہے۔

 

امام مالک نے کہا کہ ایک مسکین نے سوال کیا حضرت عائشہ سے اور ان کے سامنے انگور رکھے تھے انہوں نے ایک آدمی سے کہا ایک دانا انگور کا اٹھا کر اس کو دے وہ شخص تعجب سے دیکھنے لگا حضرت عائشہ نے کہا ایک دانہ کئی ذروں کے برابر ہے اور ایک ذرے کا ثواب بھی ضائع نہ ہو گا۔

 

               سوال سے بچنے کا بیان

 

ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ سے سوال کیا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو دیا پھر انہوں نے سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھر دیا یہاں تک کہ جو کچھ آپ کے پاس تھا تمام ہو گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میرے پاس جہاں تک مال ہو گا میں تم سے دریغ نہ کروں گا لیکن جو سوال سے بچے گا تو اللہ بھی اس کو بچائے گا اور جو قناعت کر کے اپنی تونگری ظاہر کرے گا تو اللہ اس کو غنی کر دے گا اور جو صبر کرے گا اللہ اس کو صبر کی توفیق دے گا اور کوئی نعمت جو لوگوں کو دی گئی ہے صبر سے زیادہ بہتر اور کشادہ نہیں ہے

 

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اور آپ اس وقت منبر پر ذکر کرتے صدقے کا اور سوال سے بچنے کا اوپر والا ہاتھ بہتر ہے نیچے والے ہاتھ سے اور اوپر والا خرچ کرنے والا ہے اور نیچے والا مانگنے والا ہے۔

 

عطار بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عمر کے پاس کچھ مال بھیجا حضرت عمر نے اس کو پھیر دیا پوچھا تم نے کیوں پھیر دیا حضرت عمر نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ نے فرمایا کے بہتر وہ شخص ہے جو کسی سے کچھ نہ لے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ مانگ کر کچھ نہ لے اور جو بن مانگے ملے وہ اللہ کا دیا ہوا ہے حضرت عمر نے کہا قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں اب کسی سے کچھ نہ مانگوں گا اور جو بن مانگے میرے پاس آئے گا اس کو لوں گا۔

 

ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہ قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر ایک تم میں سے اپنی رسی میں لکڑی کا گٹھا باندھ کر اپنی پٹھے پر لادے تو وہ بہتر ہے اس سے کہ وہ اسے شخص کے پاس آئے جس کو اللہ نے مال دیا ہے اور اس سے مانگے وہ دے یا نہ دے۔

 

ایک شخص سے روایت ہے کہ جو بنی اسد میں سے تھا کہ میں اور میرے گھر کے لوگ بقیع الغرقد میں اترے میری بی بی نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس جا اور کھانے کے لیے آپ سے کچھ مانگے اور اپنی محتاجی بیان کر تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کہ پاس گیا اور دیکھا کہ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کر رہا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں کہ میرے پاس نہیں ہے جو میں تجھ کو دوں وہ شخص غصے میں پیٹھ موڑ کر چلا اور کہتا جاتا تھا قسم اپنی عمر کی تم اسی کو دیتے ہو جس کو چاہتے ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ دیکھو وہ غصے ہوتا ہے اس بات پر کہ میرے پاس نہیں ہے جو میں اس کو دوں جو شخص تم میں سے سوال کرے اور اس کے پاس چالیس درہم ہوں یا اتنا مال ہو تو اس نے پلٹ کر سوال کیا میں نے کہا ایک اونٹ ہم کو بہتر ہے چالیس درہم سے پھر میں لوٹ آیا اور میں نے حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کچھ سوال نہیں کیا بعد اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس جو اور خشک انگور آئے آپ نے ہم کو بھی اس میں سے حصہ دیا یہاں تک کہ اللہ نے غنی کر دیا ہم کو۔

 

علاء بن عبد الرحمن کہتا ہے کہ صدقہ دینے سے مال میں کمی و نقصان نہیں ہوا اور جو بندہ معاف کرتا رہتا ہے اس کی عزت زیادہ ہوتی ہے اور جو تواضع کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کا رتبہ اور بلند کر دیتا ہے۔

 

               صدقہ مکروہ ہے اس کا بیان

 

امام مالک کو پنہچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ درست نہیں ہے صدقہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آل کو کیونکہ یہ میل ہے لوگوں کا۔

 

ابو بکر بن محمد ، عمرو بن حزم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کو عامل کیا بنی عبد اشہل میں سے صدقہ لینے پر جب لوٹ کر آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے صدقے کا اونٹ مانگا (اپنی اجرت کے سوا) آپ غصے ہوئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چہرہ مبارک پر غصہ معلوم ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے غصے کی نشانی یہ تھی کہ آنکھیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سرخ ہو جاتیں پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ بعض آدمی مانگتے ہیں مجھ سے جو لائق نہیں دیتا اس کو نہ مجھ کو اگر میں نہ دوں تو مجھے بھی برا معلوم ہوتا ہے ( کیونکہ) سخاوت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طبیعت خلقی تھی اور جو اسے دوں تو وہ چیز دیتا ہوں جو اس کو دینی درست نہیں وہ شخص بولا یا رسول اللہ اب میں کوئی چیز اس میں سے نہ مانگوں گا۔

 

اسلم عدوی سے عبداللہ بن ارقم نے کہا کہ مجھے ایک اونٹ بتا دے سواری کا میں اس کو حضرت عمر سے کہہ کر اپنی سواری کے لیے لے لوں گا میں نے کہا اچھا ایک اونٹ ہے صدقے کا عبداللہ بن ارقم نے کہا تمہیں یہ پسند ہے کہ ایک موٹا شخص گرمی کے دنوں میں اپنی شرمگاہ اور چڈ سے دھو کر تمھیں وہ پانی دے اور تو اس کو پی لے، اسلم کہتے ہیں کہ مجھے غصہ آ گیا اور میں نے کہا کہ اللہ تمہیں بخشے تم مجھ سے ایسی بات کہتے ہو عبداللہ بن ارقم نے کہا کہ صدقہ بھی لوگوں کا میل ہے اور ان کا دھون ہے

 

               علم حاصل کر نے کا بیان

 

حضرت لقمان فرماتے تھے اپنے بیٹے سے (مرتے وقت اس بیٹے کا نام شکو تھا یا اسم) کہ اے میرے بیٹے عالموں کے پاس بیٹھا کر اور اپنے گھٹنے ان سے ملا دے کیونکہ اللہ جل جلالہ جلاتا (آباد کرتا) ہے دلوں کو حکمت کے نور سے جیسے جلاتا (آباد کرتا) ہے مری ہوئی زمین کو بارش سے۔

 

               مظلوم کی بد دعا سے بچنے کا بیان

 

اسلم عدوی سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے مولی کو جس کا نام ہنی تھا عامل مقرر کیا حمی پر (حمی وہ احاطہ ہے جہاں صدقے کے جانور جمع ہوتے ہیں) اور کہا کہ اے ہنی اپنا بازو روکے رہ لوگوں سے، ظلم مت کر کیونکہ مظلوم کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے اور جس کے پاس تیس اونٹ ہیں یا چالیس بکریاں ان کو چرانے سے مت روک اور بچا رہ عثمان نعم بن عضان اور عبدالرحمن بن عوف کے جانوروں پر رعایت کر نے سے کیونکہ اگر ان کے جانور تباہ ہو جائیں گے تو وہ اپنے باغات اور کھتیوں میں چلے آئیں گے اور تیس اونٹ والا اور چالیس والا اگر تباہ ہو جائے گا تو وہ اپنی اولاد کو لے کر میرے پاس آئے گا اور کہے گا اے امیرالمومنین اے امیر المومنین پھر کیا میں ان کو چھوڑ دوں گا ان کی خبر گیری نہ کروں گا، تیرا باپ نہ ہو (یہ ایک بد دعا ہے عرب کے محاورے میں) پانی اور گھاس دینا آسان ہے مجھ پر سونا چاندی دینے سے قسم اللہ کی وہ جانتا ہے کہ میں نے ان پر ظلم کیا حالانکہ وہ ان کی زمین ہے اور انہی کا پانی ہے، جس پر لڑے زمانہ جاہلیت میں پھر مسلمان ہوئے اسی زمین اور پانی پر ، قسم خدا کی اگر یہ صدقہ کے جانور نہ ہوتے جو انہی کے کام میں آتے ہیں خدا کی راہ میں تو ان کی زمین سے ایک بالشت بھر بھی نہ لیتا۔

 

               نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ناموں کا بیان

 

محمد بن جبیر بن مطعم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میرے پانچ نام ہیں، محمد (بہت سراہا ہوا) احمد (سب مخلوقات سے زیادہ تعریف کے لائق) ماحی (کفر کو مٹانے والا) میرے ہاتھ سے اللہ کفر کو مٹائے گا اور حاشر سب کا حشر میرے قدم پر ہو گا، (پانچواں) عاقب ہے

٭٭٭

ماخذ:

http://www.esnips.com/web/hadeesbooks

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید