FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فی ظلال القرآن

قرآن کے سائے میں

 

سورۃ الفاتحہ وسورۃ البقرۃ کی مکمل تفسیر

حصہ پنجم

 

                شہید اسلام سید قطب رحمہ اللہ

ترجمہ:سید معروف شاہ شیرازی

 

 

 

 

 

پارۂ سوم ایک نظر میں

 

(سورۃ البقرہ کا آخری حصہ)

 

یہ تیسرا پارہ دواجزاء پر مشتمل ہے۔ پہلا سورۂ بقرہ کے بقیہ پر مشتمل ہے (یاد رہے کہ پہلے دو اجزاء سورۂ بقرہ ہی پر مشتمل رہے ہیں )اور دوسرا سورۂ آل عمران کے ابتدائی حصہ پر مشتمل ہے۔

یہاں صرف بقرہ کے آخری حصہ کے بارے میں اجمالی بحث کریں گے۔ اور آل عمران کے حصہ پر بحث اس وقت کریں گے جب سورۂ آل عمران پر بحث کا آغاز ہو گا۔

سورۂ بقرہ کے اس حصہ میں بھی اسی اساسی موضوع ہی کو لیا گیا ہے جس کے بارے میں ہم حصہ اول کے آغاز میں بتا چکے ہیں۔ اور جس کا مطالعہ ہر اس سورت میں مسلسل کرتے رہتے ہیں۔ وہ یہ کہ امت مسلمہ کو اس ہدف کے لئے تیار کرنا جس کی خاطر اسے برپا کیا گیا ہے تاکہ وہ ان مقاصد کو لے کر آگے بڑھے، ایسے حالات میں کہ اس کے سامنے ایمانی تصور حیات ہو اور اسے یہ احساس ہو کہ اس عظیم امت اور تحریک کو انہی مقاصد کے لئے برپا کیا گیا ہے۔ اور اس کے سامنے امم سابقہ کے وہ تمام تجربات بھی کھول کر رکھ دیئے ہیں۔ اسے آگاہ کر دیا گیا ہے کہ اس راہ کے لئے اس نے کن وسائل کو کام میں لانا ہے، اور یہ کہ اس راہ کی مشکلات کیاہیں اور یہ کہ تحریک کے دشمن اس کے خلاف کیا کیا سازشیں کرسکتے ہیں۔ کیونکہ وہ اللہ کے دشمن، حق کے دشمن اور ایمان کے دشمن ہیں، اور یہ اس لئے کہ یہ امت اس مشکل راہ میں بیدار مغزی کے ساتھ آگے بڑھے اور تمام مراحل طے کرے۔

امت مسلمہ کی تربیت و تیاری، اس کی یہ تمام سروسامانیاں اور اس کی ہمہ گیر ٹریننگ اور اس کا نصب العین اور اس کے اغراض و مقاصد وہ مضامین ہیں جن کے ذریعہ قرآن کریم، ابتدائی نسل کے بعد، ہر دور میں جماعت مسلمہ کو تر و تازہ رکھتا ہے۔ کیونکہ ہر دور میں تحریک اسلامی کی قیادت و راہنمائی کے لئے یہی منتہاہ متین ہے۔ لہٰذا قرآن مجید ایک زندہ فعال اور محرک ذریعہ تربیت ہے اور وہ ہر وقت اور ہر زمانہ میں ایک زندہ اور فعال اور مکمل دستور ہے بلکہ قرآن مجید ہر مرحلے، ہر قدم اور ہر دور میں ایک قائد، ایک مرشد اور ایک راہنما ہے۔ لیکن صرف اس شخص کے لئے جو قرآن سے نصیحت، ہدایت اور راہنمائی کا طالب ہے۔

پارۂ دوئم کا خاتمہ اس آیت پر ہوا تھاتِلْكَ آيَاتُ اللَّہِ نَتْلُوہَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ……………. "یہ اللہ کی آیات ہیں جو ہم ٹھیک ٹھیک تم کو سنارہے ہیں اور تم یقیناً مرسلین میں سے ہو۔ "اور یہ آیت بنی اسرائیل کے بعض لوگوں کے اس قصے کے بعد "جو موسیٰ کے بعد سرداران بنی اسرائیل کو پیش آیا تھا، جنہوں نے اپنے نبی سے کہا تھا کہ ہمارے لئے ایک بادشاہ مقرر کر دو تاکہ ہم اللہ کی راہ میں جنگ کریں۔ "(۲۴۶:۲) اور اس قصے کے آخر میں کہا گیا تھا”اور داؤد نے جالوت کو قتل کر دیا اور اللہ نے اسے سلطنت اور حکمت سے نوازا اور جن چیزوں کا چاہا اسے علم دیا۔ "(۲۵۱:۲)تو گویا پارۂ دوئم کا خاتمہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی بات پر ہوا۔ جس میں حضرت داؤد کے واقعہ کی تفصیل تھی۔ اس میں رسول اکرمﷺ کی رسالت کی طرف بھی اشارہ تھا اور یہ بتا دیا گیا تھا کہ آپﷺ کو ان تجربات سے مسلح کیا جا رہا ہے جو تمام مرسلین کو انسانی تاریخ میں پیش آتے رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ پارۂ سوئم میں بات یوں شروع کی جاتی ہے کہ وہ اس سے پہلے کے کلام سے مربوط ہے۔ یعنی انبیائے سابقہ کے بارے میں بات یوں چلتی ہے کہ ان میں سے بعض دوسروں کے مقابلے میں زیادہ برگزیدہ تھے۔ بعض کے درجات دوسروں پر بلند تھے۔ اور یہ کہ ان رسولوں کے پیروکاروں نے ازمنۂ مابعد میں باہم اختلافات پیدا کر لئے۔ حالانکہ انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ حق پر کون ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے اختلافات قائم رکھے۔ ان میں سے بعض لوگ ایمان پر قائم رہے اور بعض نے کفر کاراستہ اپنایا۔ ان میں سے بعض نے دوسروں کو قتل کیا:”یہ رسول…………….ہم نے ان کو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر مرتبے عطا کئے۔ ان میں سے کوئی ایسا تھا جس سے اللہ خود ہمکلام ہوا۔ کسی کو اس نے دوسری حیثیتوں سے بلند درجے دئیے اور آخر میں عیسیٰ ابن مریم کو روشن نشانیاں عطا کیں اور روح پاک سے اس کی مدد کی۔ اگر اللہ چاہتا تو ممکن نہ تھا کہ ان رسولوں کے بعد جو لوگ روشن نشانیاں دیکھ چکے تھے وہ آپس میں لڑتے۔ مگر انہوں نے باہم اختلاف کیا، پھر کوئی ان میں ایمان لایا اور کسی نے کفر کی راہ اختیار کی۔ ہاں، اللہ چاہتا، تو وہ ہرگز نہ لڑتے، مگر اللہ جو چاہتا ہے، کرتا ہے۔ ”

ربط کلام بالکل واضح ہے کہ پارۂ دوئم کے آخر میں بھی رسولوں کی نسبت بات تھی اور پارہ سوئم کے آغاز میں بھی یہی بات ہے بلکہ اس پوریہ سورت میں کلام مربوط ہے۔ اس پوری سورت میں، مدینہ میں منظم ہونے والی اسلامی جماعت اور بنی اسرائیل کے درمیان فکری مجادلہ ہے۔ اور قرآن مجید کے پہلے دو پاروں میں عموماً یہی مباحث ہیں۔ اسی نسبت سے یہاں رسولوں اور ان کے بعد ان کی امم کے مابین فرقہ وارانہ اختلافات اور باہم قتل و مقاتلہ کی بات یہاں تفصیل سے چھیڑی گئی ہے۔ یعنی یہ کہ ان امتوں میں سے بعض لوگ تو ایمان پر قائم رہے اور بعض نے کفر کا راستہ اختیار کیا اور پھر ناحق باہم دست گریباں ہوئے۔ لہٰذا ربط کلام واضح ہے۔ (مرحوم سید قطب نے اپنی تفسیر قرآن مجید کے پاروں کو پیش نظر رکھ کر لکھی ہے۔ حالانکہ قرآن مجید کی تدوین میں پاروں کا لحاظ نہ تھا۔ پاروں کی تقسیم محض ایک ماہ میں تلاوت کرنے کی سہولت پیدا کرنے کے لئے کی گئی ہے۔ لہٰذا تلک الرسل سے جو کلام شروع ہوتا ہے ظاہر ہے کہ وہ سابقہ آیات سے مربوط ہے۔ مترجم)

یہاں یہ بات اس لئے کی گئی ہے کہ تحریک اسلامی کے سامنے، اس وقت کے متبعین انبیاء ، بنی اسرائیل وغیرہ کی مبہم اور واقعی بہتر مال خرچ کرے اور یہ تو محض توشۂ آخرت کے لئے جہاں "نہ خرید و فروخت ہو گی، نہ دوستی کام آئے گی اور نہ سفارش چلے گی "(۲۱۰۴:۲) اس لئے انفاق فی سبیل ایک ایسا مالی فریضہ ہے جو فریضۂ جہاد فی سبیل اللہ کا ایک لازمہ ہے۔ اور خصوصاً ایسے حالات میں جو تحریک اسلامی کو اس وقت درپیش تھے۔ جن میں غازیان کرام کو خود ان کے لئے اپنے اموال اور ان لوگوں کے اموال کے ذریعہ جنگ کے لئے تیار کیا جا رہا تھا جو انفاق فی سبیل اللہ کے نتیجے میں فراہم ہوتے تھے۔

اس کے بعد اس فکری اساس کے بعض پہلوؤں پر بحث کی گئی ہے جس پر اسلامی جماعت کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ یعنی وجود باری اور اس کی وحدانیت یہ کہ اللہ وحدہ ہر چیز کا منتظم ہے اور ہر چیز اس کی وجہ سے قائم ہے۔ وہ اس کائنات کا مالک مطلق ہے۔ وہ اس کائنات کی ہر چیز کا علیم و خبیر ہے۔ اسے اس پوری کائنات پر قدرت حاصل ہے، وہ پوری طرح اس کے قبضہ میں ہے اور اس کی حفاظت میں ہے۔ اور یہ کہ قیامت کے دن اس کے ہاں کوئی سفارش کارگر نہ ہو گی الا یہ کہ وہ اجازت دے، یہ کہ اس جہاں میں انسان کو وہی علم حاصل ہے جو وہ عطا کرتا ہے، تاکہ ایک مسلمان اپنی راہ پر اس طرح گامزن ہو کہ اس کے ذہن میں اس کے نظریات کا ایک واضح تصور ہو جن نظریات پر یہاں وہ نظام زندگی قائم کرنے چلا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

"اللہ وہ زندۂ جاوید ہستی ہے جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اس کے سوا کوئی اللہ نہیں ہے۔ وہ نہ سوتا ہے اور نہ اسے اونگھ لگتی ہے زمین وہ آسمان میں جو کچھ ہے، اسی کا ہے۔ کون ہے جو اس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے ؟جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے وہ بھی جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے، اس سے بھی واقف ہے اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز بھی ان کی گرفت ادراک میں نہیں آسکتی۔ الا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی ان کو دینا چاہے۔ اس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور ان کی نگہبانی اس کے لئے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں ہے۔ بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے۔ "(۲۰۰:۲)

اس تصور حیات کے مطابق ایک مسلمان آگے بڑھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتال شروع کرتا ہے، اس لئے نہیں کہ وہ لوگوں سے اپنے نظریۂ حیات اور اپنے عقائد زور سے منوائے، بلکہ اس لئے کہ ہدایت اور گمراہی کے درمیان تمیز ہو جائے فتنہ وفساد اور ضلالت و گمراہی کے اصل عوامل واسباب کا خاتمہ کر دیا جائے اور اس کے بعد لوگوں کو مکمل آزادی ہو گی کہ وہ جو رویہ چاہیں اپنائیں۔

"دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔ اب جو کوئی طاغوت سے انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا، اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔ اللہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ "(۲۵۶:۲)

یوں ایک مسلمان اپنی راہ حیات پر پورے اطمینان کے ساتھ رواں دواں ہے۔ وہ اپنے آپ کو اللہ کی پناہ میں سمجھتا ہے۔ اور اللہ کی نصرت اس کے ساتھ ہوتی ہے۔ اسے یقین ہوتا ہے کہ اللہ کی راہنمائی اور اللہ کی امداد اس کے شامل حال ہے۔

"جو لوگ ایمان لاتے ہی اللہ ان کا مددگار ہے۔ وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف لاتا ہے۔ اور جن لوگوں نے کفر کی راہ اپنائی ہے ان کے حامی شیطان ہیں جو انہیں روشنی سے تاریکیوں کی طرف لاتے ہیں۔ یہ لوگ آگ میں جانے والے لوگ ہیں جو وہاں ہمیشہ رہیں گے۔ "(۲۵۷:۲)

غرض اس پارے کے آخر میں بھی، یہ پیراگراف مسلسل اسی ہدف کی طرف آگے بڑھتا ہے جس کی طرف اس پارہ کے آغاز میں روئے سخن تھا یعنی تحریک اسلامی کے اغراض و مقاصد کا بیان اور جماعت اسلامی میں ان مقاصد کی آبیاری۔

اس کے بعد اسلامی نقطۂ نظر سے موت و حیات کی حقیقت پر ایک نظر ڈالی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نظریاتی زندگی کے دو تجربات بیان کئے جاتے ہیں اور ایک مشاہدہ ایک دوسرے شخص کا بیان کیا گیا ہے جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا۔ ان تجربات میں موت و حیات کی یہ حقیقت بتائی گئی ہے کہ اس کا تعلق صرف اللہ کے علم وا رادہ کے ساتھ ہے۔ اور یہ کہ انسان کا محدود ادراک موت و حیات کی اصل حقیقت کو اپنے احاطہ میں لانے سے قاصر ہے کیونکہ اصل حقیقت ماوراء الادراک ہے۔ اور اس کی حقیقت صرف اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔

یہاں موت اور حیات کو اس واضح کیا گیا ہے کہ ایک تو حیات انسانی کے بارے میں انسانی تصور اور فکر کی اصلاح ہودوسرے یہ کہ جہاد و قتال میں جو لوگ شریک ہوتے ہیں ان کے پیش نظر بھی موت و حیات کا صحیح تصور آنا ضروری ہے۔

ان فکری ہدایات کے بعد اسلامی معاشرہ کے اجتماعی معاملات کے سلسلے میں قدرے طویل بات ہوتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ سوشل سیکورٹی اسلامی معاشرہ کی اساس ہے، اس معاشرہ میں ربا کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک قابل لعنت فعل تصور ہو گا۔ اس کے مقابلے میں اسلامی معاشرہ میں زیادہ دولت بذریعہ صدقات و انفاق فی سبیل اللہ خرچ کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے اور اس پر قدرے طویل بحث ہوتی ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ کا بیان بہترین تصویر کشی، بہترین تاثرات و اشارات اور اعلیٰ فنی خوبیوں پر مشتمل ہے۔ اس فنی اور ادبی پہلو پر ہم ان شاء اللہ اس وقت بات کریں گے جب یہ خوبصورت آیات تشریح کے وقت ہمارے سامنے ہوں گی۔ یہاں اس قدر اشارہ مناسب ہے جہاد و قتال اور انفاق فی سبیل اللہ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ نیز انفاق فی سبیل اللہ اور صدقہ و خیرات اسلام کی اجتماعی زندگی کا ایک اہم پہلو ہے۔ اور معاشی زندگی کے اس پہلو کو اس سورت میں ترغیب اور قانون سازی کے مختلف طریقوں سے منظم کیا گیا ہے۔

احسان و صدقہ کے بالمقابل سود کا خبیث نظام ہے۔ اس خبیث نظام کے خلاف قرآن مجید نے طویل جنگ کی ہے۔ اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ قرآن مجید نے بمباری کر کے اجتماعی زندگی کے معاشی نظام سے اس مذموم ادارے کی بنیادیں بھی منہدم کر دی ہیں۔ قرآن سودی نظام کی جگہ ایک مستحکم اور صحت مند معاشی نظام قائم کرنا چاہتا ہے۔ جس کے ذریعہ معاشرے کا اقتصادی نظام ترقی کرسکے۔

اس کے بعد باہمی لین دین کے بارے میں قانون سازی کی گئی ہے اور ایسا قانون بنایا گیا ہے کہ دنیا کے کسی قانونی نظام میں یہ قانون (معاملات کی تحریری شکل)نہ تھا۔ یہ قانون سازی دو آیات میں کی گئی ہے۔ ایک آیت قرآن کریم کی طویل ترین آیات میں سے ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم قانون سازی میں کیا طریق کار اختیار کرتا ہے۔ اور کس انداز سے کرتا ہے۔ قرآن کا قانون ایک زندہ، منفرد اور معجزانہ قانون ہوتا ہے اور ہر دور اور ہر زمانے کے لئے موزوں بھی۔

اس سورت کا خاتمہ بھی انہی الفاظ اور مضامین پر کیا جاتا ہے جس سے اس کا آغاز ہوا تھا یعنی اللہ کی ذات، ملائکہ، اللہ کی کتابوں ں اور رسولوں کے بارے میں اسلامی تصور اور نظریہ کہ لَا نُفَرِّقُ بَینَ اَحَدٍ مِّن رُّسُلِہٖ”ہم اللہ کے رسولوں کے درمیان فرق نہیں کرتے۔ "یہ وہ اصول ہے جس کا اس سورت میں بار بار اظہار کیا گیا۔ آخر میں مومنین کو طریقہ دعا سکھایا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ ایک مومن کا تعلق اپنے رب کے ساتھ کیسا ہوتا ہے ؟اور اس دعا میں بھی بنی اسرائیل کی تاریخ کی طرف ایک اشارہ ہے یعنی یہ کہ انہوں نے اپنے اللہ کے ساتھ اپنا تعلق نہ جوڑا تھا۔ اس دعا پر اس سورت کا خاتمہ ہوتا ہے جو مختلف مضامین پر مشتمل ایک طویل سورت کامناسب خاتمہ ہے۔

"اے ہمارے رب!ہم سے بھول چوک میں قصور ہو جائے ان پر گرفت نہ کر۔ مالک!ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال، جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے۔ پروردگار!جس بوجھ کو اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ۔ ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے درگزر فرما، ہم پر رحم کر، تو ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔ "(۲۸۶:۲)

٭٭٭

 

 

 

 

درس ۱۷ ایک نظر میں

 

اس سبق کے آغاز ہی میں ہمیں رسولوں کے بارے میں قرآن کریم کا مخصوص انداز تعبیر ملتا ہے۔ تِلکَ الرُّسُلُ………”رسولوں کی جماعت "اور ھٰٓؤُلَآ ء ِالرُّسُلُ………”یہ رسول”کا لفظ اختیار نہیں کیا گیا۔ رسولوں کے لئے آغاز کلام میں یہ خاص طرز تعبیر کیوں اختیار کیا گیا ؟اس میں کچھ واضح اشارات ہیں۔ مناسب ہے کہ تشریح آیات سے پہلے اس انداز کلام پر کچھ بات ہو جائے۔

تِلکَ الرُّسُلُ………”یہ گرو ہ رسل "جو ایک خاص جماعت ہیں۔ اس جماعت کا ایک خاص مزاج ہے اور ایک خاص ماہیت ہے۔ اگرچہ وہ بشر ہیں۔ تو پھر وہ کون ہیں ؟رسالت کی حقیقت کیا ہے ؟رسالت کا مزاج کیا ہے ؟یہ فریضہ کیسے ادا کیا جاتا ہے ؟پھر صرف ان مخصوص افراد ہی کو کیوں درجہ رسالت پر فائز کیا گیا اور کیسے کیا گیا ؟یہ ایسے سوالات ہیں جن پر میں ایک طویل عرصہ سے سوچتا رہا ہوں۔ تسلی بخش جواب کا متلاشی رہا ہوں۔ میرے پردۂ احساس پر کچھ ایسے مفہوم اور معانی ابھرتے ہیں جن میں کلمات و عبارات کی صورت میں منتقل نہیں کرسکتا۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ میں اپنے اس وجدان و شعور کو اور ان تصورات و مفہومات کو الفاظ و افہام کے قریب تر کرسکوں۔

یہ کائنات جس میں ہم زندہ ہیں اور ہم جس کا ایک اہم حصہ ہیں کچھ اصول و قواعد پر چل رہی ہے۔ اور یہ اصول وہ تکوینی اصول و ضوابط ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کے لئے وضع فرمائے ہیں۔ اور اس کائنات کو حکم دیا ہے کہ یہ ان کے مطابق چلتی رہے اور ان کے مطابق حرکت کرے اور ان اصولوں کے منشا کے مطابق چلے۔ اور اس کائنات میں انسان جونہی علمی میدان میں ایک قدم آگے بڑھتا ہے اور کچھ نئے اکتشافات و دریافت کر لیتا ہے یا انسان کو اللہ تعالیٰ کچھ مزید معلومات حاصل کرنے کے مواقع فراہم کر دیتا ہے تو یہ ادراک اور اکتشاف اس کی محدود قوت مدرکہ کے حدود کے اندر ہوتا ہے اور اسی قدر ہوتا ہے جس قدر اسے اس دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے تاکہ وہ یہاں اپنی محدود زندگی میں انسانی خلافت کے فرائض اچھی طرح سر انجام دے سکے۔

اور اس کائنات میں، ان طبعی قوانین اور ضوابط کے دریافت کرنے کے لئے انسان اپنی شخصیت کے نقطۂ نظر سے دو چیزوں کو کام میں لاتا ہے۔ ایک مشاہدہ اور دوسرا تجربہ۔ مشاہدہ اور تجربہ اپنے مزاج کے اعتبار سے دونوں جزوی ذرائع علم ہیں۔ وہ اپنے نتائج کے اعتبار سے اٹل اور آخری اور فیصلہ کن نہیں ہوتے۔ البتہ ان دو ذرائع سے اس کائنات میں بعض ایسے کلی قواعد و ضوابط دریافت کر لیے جاتے ہیں جو ایک طویل عرصے تک قوانین کلیہ سمجھے جاتے ہیں لیکن آخر کار یہ دریافت بھی ایک جزوی دریافت بن جاتی ہے۔ جو نہ تو انتہائی ہوتی ہے اور نہ ہی مطلق۔ اس لئے کہ کائنات کے ان قوانین کے درمیان تناسق و تطابق اس کلی ناموس سے منسلک ہے، جو ان تمام کلیات کو باہم مربوط کرتا ہے۔ اور یہ ناموس اکبر ہمیشہ سے مخفی رہتا ہے اور یہ اس کی جزوی مشاہدہ اور تجربہ کے دائرہ سے باہر ہوتا ہے۔ اگرچہ بحث و تحقیق کا ایک طویل دور گزر جائے اس لئے کہ اس سلسلے میں زمانہ کوئی اہم عنصر نہیں ہے۔ اس کائنات میں اس کی اہمیت اور اس کی تشکیل کے لحاظ سے یہ تو انسانی ذات اور طاقت کے میدان کے لئے ایک حد ہے۔ اور اس کی یہ حیثیت بھی ایک جزوی اور نسبتی حیثیت ہے۔ پھر پوری بنی نوع انسان کو جو زمان عطا کیا گیا ہے وہ بھی جزئی اور محدود ہے۔ اس لئے ہمارے ذرائع معرفت اور ان ذرائع کے نتیجے میں حاصل ہونے والے تمام نتائج جزئی ہی رہتے ہیں اس لئے کہ یہ جزوی اور نسبتی ذرائع کے واسطے سے سامنے آتے ہیں۔

یہاں آ کر معلوم ہوتا ہے کہ اس کائنات میں رسالت کی اہمیت کیا ہے۔ رسالت کا ایک خاص مزاج ہوتا ہے اور یہ مزاج خاص اور یہ قوت اسے اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا ہوتی ہے تاکہ وہ اس ناموس اکبر کو اخذ کر کے اور اس کی گہرائی تک جا سکے۔ جس پر اس کائنات کا وجود قائم ہے۔ ایک رسول کا رابطہ اس ناموس اکبر کے ساتھ کس نوعیت کا ہوتا ہے، ہم آج تک اس کی حقیقت کو نہیں پا سکے۔ ہم صرف اس رابطہ و تعلق کے آثار کو سمجھ سکتے ہیں۔

رسول کی یہ مخصوص طبیعی قوت ہوتی ہے جو اس ناموس اکبر سے وحی حاصل کرتی ہے اور اس میں اس کی صلاحیت ہوتی ہے، اس لئے کہ رسول کا یہ مزاج اس پیغام کے وصول کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے۔ اور یہ پیغام وہی پیغام ہوتا ہے جو اس ناموس اکبر سے یہ پوری کائنات بھی وصول کرتی رہتی ہے۔ اس لئے یہ پوری کائنات براہ راست اس ناموس اکبر سے منسلک ہے اور اس کے تصرف اور کنٹرول میں ہے۔ اب رسول یہ اشارہ کس طرح وصول کرتا ہے، وہ کس ذریعہ یا کس سے یہ اشارہ وصول کرتا ہے ؟اس سوال کا جواب ہم صرف اس وقت دے سکتے ہیں جب اللہ تعالیٰ ہمیں بھی وہ استعدادبخش دے جو وہ اپنے بندوں میں سے ان مختار اور منتخب لوگوں کو بخش دیتا ہے جو رسول کہلاتے ہیں اور اللَّہُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَہُ …………….”اور اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ استعداد رسالت کہاں رکھ دے "یہ ایک عظیم الشان معاملہ ہے اور یہ اس کائنات کا وہ عظیم الشان راز ہے جو انسان کی قوت ادراک سے ماوراء ہے۔

تمام رسول توحید کی حقیقت کو پا گئے تھے اور تمام رسولوں کا نظریہ نظریۂ توحید رہا ہے۔ اس لئے کہ ان رسولوں کے وجود کے اندرناموس اعظم کے ساتھ رابطے کی استعداد ودیعت کی گئی اس لئے کہ ان تمام انبیاء کا منبع ہدایت ایک ہی تھا۔ اگر یہ منبع اور مصدر ہدایت ایک نہ ہوتا تو ان انبیاء کے نظریات جدا ہوتے اور ان کا طریقۂ واردات متنوع ہو جاتا۔ رسولوں کا یہ ادراک اس دور میں ہوا جب کہ انسانیت اپنے ابتدائی دور میں تھی اور فہم و ادراک اور مشاہدہ وتجربہ کے وہ ذرائع جو آج ہیں انسانیت کو میسر نہ تھے اور نہ ہی اس دور میں کلی قوانین بشریت پر ظاہر ہوئے تھے جو نظریۂ توحید پر دلالت کرتے ہیں۔

آغاز بشریت سے آج تک تمام رسولوں نے صرف اللہ کی بندگی کی طرف دعوت دی ہے۔ یہ تمام انبیاء اس ایک حقیقت کی طرف بلاتے رہے ہیں اور انہوں نے اپنے اس مزاج خاص اور طبیعت خاصہ سے یہی پیغام پایا ہے۔ اس لئے ان کے اس مزاج نبوی پر جب اس ناموس کلی کا القاء ہوا، تو اس سے ان کے قلوب پر ایک فطری سوچ ابھری جو اس ناموس کلی سے پوری طرح مربوط تھی۔ پھر اس پیغام کی تبلیغ و اشاعت بھی ان کی اس سوچ اور یقین کا قدرتی نتیجہ تھی۔ ان کا یہ پختہ ایمان تھا کہ یہ حق ہے اور سوچ ان کی طرف اللہ وحدہ کی طرف سے القاء ہوئی ہے اور یہ کہ عالم بالا سے ان کے اس وثیق اور قوی رابطہ اور ان کی مخصوص رسولانہ فطرت کی وجہ سے ان کو پورا یقین تھا کہ وہ ناموس اللہ وحدہ لاشریک ہے اور ا س کی ذات میں تعدد ممکن نہیں ہے۔

عقیدۂ توحید رسولوں کی فطرت نبوت کا لازمی شعور ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے انبیاء علیہم السلام کے جو قصص نقل کئے ہیں ان میں بعض الفاظ ایسے موجود ہیں جن سے اس فطرت نبویہ کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ بعض اوقات انبیاء کو اس فطرت سے موصوف کیا جاتا ہے۔ مثلاً حضرت نوح علیہ السلام کے قصے میں مذکور ہے۔

قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كُنْتُ عَلَى بَيِّنَۃٍ مِنْ رَبِّي وَآتَانِي رَحْمَۃً مِنْ عِنْدِہِ فَعُمِّيَتْ عَلَيْكُمْ أَنُلْزِمُكُمُوہَا وَأَنْتُمْ لَہَا كَارِہُونَ (٢٨)وَيَا قَوْمِ لا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْہِ مَالا إِنْ أَجْرِيَ إِلا عَلَى اللَّہِ وَمَا أَنَا بِطَارِدِ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّہُمْ مُلاقُو رَبِّہِمْ وَلَكِنِّي أَرَاكُمْ قَوْمًا تَجْہَلُونَ (٢٩)

"اے برادران قوم!ذرا سوچوتوسہی کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک کھلی شہادت پر قائم تھا اور پھر اس نے مجھ کو اپنی خاص رحمت سے بھی نواز دیا، مگر وہ تم کو نظر نہ آئی تو آخر ہمارے پاس کیا ذریعہ ہے کہ تم ماننا چاہو اور ہم زبردستی اس کو تمہارے سر چپک دیں ؟اور اے برادران قوم!میں اس کام پر تم سے کوئی مال نہیں مانگتا، میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے۔ اور میں ان لوگوں کو دھکے دینے سے بھی رہا جنہوں نے میری بات مانی ہے، وہ آپ بھی اپنے رب کے حضور جانے والے ہیں۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ جہالت برت رہے ہو اور اے قوم !اگر میں ان لوگوں کو دھتکار دوں تو اللہ کی پکڑ سے مجھے کون بچانے آئے گا ؟تم لوگوں کی سمجھ میں کیا اتنی بات نہیں آتی ؟”(۲۸:۱۱)

اور حضرت صالح علیہ السلام کی زبانی فرمایا گیا:

قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كُنْتُ عَلَى بَيِّنَۃٍ مِنْ رَبِّي وَآتَانِي مِنْہُ رَحْمَۃً فَمَنْ يَنْصُرُنِي مِنَ اللَّہِ إِنْ عَصَيْتُہُ فَمَا تَزِيدُونَنِي غَيْرَ تَخْسِيرٍ

"اے برادران قوم !تم نے کچھ اس بات پر غور کیا کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک صاف شہادت رکھتا تھا اور پھر اس نے اپنی رحمت سے بھی مجھے نواز دیا تو اس کے بعد اللہ کی پکڑ سے مجھے کون بچائے گا۔ اگر میں اس کی نافرمانی کروں تم خسارے میں ڈالنے کے سوا میرے کس کام آسکتے ہو۔ ”

اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرۃ میں بھی یہی نظر آتا ہے۔

وَحَاجَّہُ قَوْمُہُ قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللَّہِ وَقَدْ ہَدَانِي وَلا أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِہِ إِلا أَنْ يَشَاء َ رَبِّي شَيْئًا وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْء ٍ عِلْمًا أَفَلا تَتَذَكَّرُونَ (٨٠)وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُمْ بِاللَّہِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِہِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالأمْنِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (٨١)

"اور اس کی قوم اس سے گھڑنے لگی تو اس نے قوم سے کہا "کیا تم لوگ اللہ کے معاملے میں مجھ سے جھگڑتے ہو ؟حالانکہ اس نے مجھے راہ راست دکھا دی ہے۔ اور میں تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں سے نہیں ڈرتا۔ ہاں اگر میرا رب کچھ چاہے تو ضرور ہوسکتا ہے۔ میرے رب کا علم ہر چیز پر چھایا ہوا ہے۔ پھر کیا تم ہوش میں نہیں آؤ گے ؟اور آخر میں تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں سے میں کیسے ڈروں جب کہ تم اللہ کے ساتھ ان چیزوں کو خدائی شریک بناتے ہو ئے نہیں ڈرتے۔ جن کے لئے اس نے تم پر کوئی سند نازل نہیں نازل کی ہے۔ ہم دونوں فریقوں میں سے کون زیادہ بے خوفی اور اطمینان کا مستحق ہے۔ بتاؤ اگر تم کچھ علم رکھتے ہو۔ ”

اور حضرت شعیب علیہ السلام کے حصے میں بھی یہی بات بتائی گئی ہے۔

قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كُنْتُ عَلَى بَيِّنَۃٍ مِنْ رَبِّي وَرَزَقَنِي مِنْہُ رِزْقًا حَسَنًا وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَى مَا أَنْہَاكُمْ عَنْہُ إِنْ أُرِيدُ إِلا الإصْلاحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِيقِي إِلا بِاللَّہِ عَلَيْہِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْہِ أُنِيبُ (٨٨)

"بھائیو!تم خود ہی سوچو کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک کھلی شہادت پر تھا اور پھر اس نے اپنے ہاں سے مجھ کو اچھا رزق بھی عطا کیا اور میں ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ جن باتوں سے میں تم کو روکتا ہوں ان کا خود ارتکاب کروں۔ میں تو اصلاح کرنا چاہتا ہوں، جہاں تک میرا بس چلے اور یہ جو کچھ میں کرنا چاہتا ہوں، اس کا سارا انحصار اللہ کی توفیق پر ہے۔ اس پر میں نے بھروسہ کیا اور ہر معاملہ میں اس کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ "(۸۸:۱۱)

اور یہ بات حضرت یعقوب علیہ السلام نے ان الفاظ میں کی

قَالَ إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّہِ وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّہِ مَا لا تَعْلَمُونَ

"اس نے کہا میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کی فریاد اللہ کے سوا کسی سے نہیں کرتا۔ اور اللہ سے جیسا میں واقف ہوں تم نہیں ہو۔ "(۸۶:۱۲)

یوں اور اسی طرح تمام رسولوں کے اقوال اور ان کے اوصاف میں اس گہری ہم آہنگی اور رابطے کے اثرات پائے جاتے ہیں جو ان کی فطرت کا حصہ ہیں اور ان کے ضمیر کی گہرائیوں میں جاگزیں ہیں۔ اور جن کی وجہ سے ان رسولوں کا کلام متنوع اور مزین ہوتا ہے۔

مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ انسان کے علم و معرفت نے کچھ ایسی علامات و دریافت کر لی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کائنات میں قانون وحدت موجود ہے۔ انسانوں میں اہل علم اس بات کو پا چکے ہیں کہ اس طویل و عریض کائنات میں وحدت وجود اور وحدت حرکت موجود ہے۔ اور انسان نے اپنے محدود علم کے اندر رہتے ہوئے اس بات کو پا لیا ہے کہ اس کائنات کی تعمیر ذرہ سے ہوئی ہے اور یہ کہ ذرہ دراصل (Power)ہے۔ یوں اس ذرے میں مادہ اور قوت دونوں ملے ہوئے ہیں اور علماء طبیعات اس عرصے تک جس نظریہ پر قائم تھے کہ یہ کائنات مادہ اور قوت دو علیحدہ چیزوں سے مرکب ہے وہ اب ختم ہو گیا ہے۔ اب صحیح بات یہ ہے کہ کائنات ذرے سے مرکب ہے اور ذرے کو اگر توڑ دیا جائے تو یہ ایک عظیم قوت ہے۔ اور انسان نے اپنے محدود علم کی حد تک اس بات کو پا لیا ہے کہ یہ ذرہ اپنے اندرونی نظام کے اندر متحرک ہے اور وہ الیکٹرون اور پروٹون اور نیوٹرون سے مرکب ہے۔ اور الیکٹرون دونوں کے ارد گرد ہر وقت حرکت کرتے ہیں جو اس ذرے کا قلب ہوتا ہے۔ اور یہ حرکت دائمی ہے اور ہر ذرے میں ہے۔ اور جس طرح فرید الدین العطار نے کہا ہے کہ ہر ذرہ ایک سورج کے مانند ہے جس کے اردگرد ستارے گھومتے ہیں۔ جس طرح ہمارے اس سورج کے ارد گرد ستارے گھومتے ہیں اور جو تسلسل کے ساتھ گھوم رہے ہیں۔

اس کائنات کی وحدت اور حرکت کی وحدت اس کائنات کی وہ خصوصیات ہیں جن کو انسان نے پا لیا ہے اور یہ دونوں خصوصیات دور سے یہ اشارہ کر رہی ہیں کہ اس کائنات کو ایک وسیع تر ضابطۂ وحدت اپنے احاطہ میں لئے ہوئے ہے۔ اس حقیقت تک انسانی علم نے اس حد تک رسائی کر لی ہے جس حد تک انسان کی قوت مشاہدہ اور قوت تجربہ کے لئے رسائی ممکن تھی لیکن خواص کی قوائے موہوبہ اس قدر طاقتور ہوتی ہیں کہ وہ ان تمام حقائق کو ایک لمحہ میں پا لیتی ہیں، اس لئے کہ ان پر یہ حقائق بلا واسطہ القاء ہوتے ہیں اور ان حقائق کی ادراک کی قوت صرف ان خواص کے پاس ہوتی ہے۔

ان خواص نے علمی تجربات کے ذریعہ ان مشاہدات اور خصوصیات کا ادراک نہیں کیا ہوتا، ان کو ایسی قوت مدرکہ عطا کی گئی ہوتی ہے جو اس حقیقت وحدت کو براہ راست پا لیتی ہے۔ یہ خواص اس واحد ناموس کو براہ راست پاتے ہیں اور یہ ان کا داخلی، اپنی ذات کے اندر کا عمل ہوتا ہے۔ وہ اس بات کو پاتے ہیں کہ یہ ایک جیسا القاء لازماً ایک ہی مصدر اور منبع سے صادر شدہ ہے۔ ان خواص کی ذات میں جو مشینی قوت مدرکہ ودیعت کی جاتی ہے وہ نہایت ہی کامل اور نہایت ہی پیچیدہ ہوتی ہے۔ اس لئے کہ وہ آن واحد میں اس حقیقت کو پا لیتے ہیں، جس منبع سے ان کو ہدایت ملتی ہے۔ وہ واحد ہے، جس ارادے کے تحت وہ رو بعمل ہوتے ہیں۔ وہ اسی منبع سے صادر ہوتا ہے۔ لہٰذا ان کی یہ مخصوص قوت مدرکہ یا یہ مخصوص آلات مدرکہ بشکل یقین اس حقیقت کو پا لیتے ہیں کہ اللہ جل شانہ کی وحد ذات ہی ہے جو اس کائنات میں متصرف حقیقی ہے۔

میں یہ بات اس بناء نہیں کہہ رہا ہوں کہ جدید سائنس کا یہ دعویٰ ہے کہ اس وحدت کائنات سے متعلق کوئی ایک یا دو حقائق دریافت کر لئے ہیں۔ اس لئے کہ سائنسی حقائق کبھی ثابت تصور ہوتے ہیں اور کبھی ان کی تردید ہو جاتی ہے اور سائنس جن حقائق تک پہنچتی ہے جو جزوی اور نسبتی حقائق ہوتے ہیں کیونکہ سائنس کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ کسی مطلق اور اٹل حقیقت تک پہنچ سکے۔ اس لئے کہ سائنسی نظریات بدلتے رہتے ہیں۔ بعض نظریات بعض دوسرے نظریات کی تکذیب کرتے ہیں۔ بعض ایک دوسرے میں تبدیلی کرتے ہیں۔

میں نے وحدت کائنات اور وحدت حرکت کے بارے میں جو بات کی ہے اس لئے نہیں کہ ا س کا اور اس ناموس وحدت کے درمیان کو ئی مماثلت ہے جو ان خواص رسل پر منجانب اللہ القاء ہوا کرتی ہے۔ میرا منشاء یہ ہرگز نہیں ہے۔ میرا مقصد ایک دوسرا امر ہے اور وہ یہ ہے کہ ہدایت اور راہنمائی کا قابل اعتماد مصدر اور منبع صرف انبیاء کے ہاں ہے اور انبیاء ہی اس کائنات کے بارے میں واحد، مکمل، جامع اور سچائی پر مشتمل تصور دے سکتے ہیں۔

یہ ممکن ہے کہ جدید علمی اتکشافات نے اس کائنات کی حقیقت عظمیٰ کے بعض پہلو اور بعض خواص پا لئے ہوں اور انہوں نے یہ معلوم کر لیا ہو کہ حقیقت کبریٰ صرف ایک ہی ہے لیکن وہی حقیقت ہے جسے رسولوں نے براہ راست اپنی مخصوص قوت مدرک سے پا لیا ہوتا ہے اور اس کا احاطہ کر لیا ہوتا ہے اور وہ حقیقت ان رسولوں کی فطری قوت مدرکہ میں براہ راست پوری طرح موجود ہوتی ہے اور یہ کہ رسولوں کا یہ ادراک اپنی جگہ سچائی پر مبنی ہوتا ہے، چاہے جدید سائنس نے اس کی بعض خصوصیات کو صحیح طرح پا لیا ہو یا نہ پایا ہو۔ اس لئے کہ سائنسی نظریات قابل بحث اور قابل نظر ثانی ہوتے ہیں۔ پہلے تو یہ ثابت نہیں ہوتے۔ ظن و تخمین پر مبنی ہوتے ہیں پھر اگر بظاہر ثابت نظر بھی آئیں تو یہ ثبوت اٹل نہیں ہوتا۔ اس لئے حقیقت رسالت کو ان نظریات پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے کہ مقیاس و معیار ہمیشہ ایسا ہونا چاہئے جو ثابت ہو اور اٹل ہو۔ اس لئے ہم لازماً ا س نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ رسالت ہی وہ معیار ومقیاس ہے جس پر ہم جدید سائنسی نظریات کی جانچ پڑتال کریں گے۔

اس حقیقت سے ایک دوسری حقیقت سامنے آتی ہے جو نہایت ہی اہم ہے۔ وہ یہ کہ مخصوص شخصیات جن کا براہ راست ناموس حقیقت سے رابطہ ہوتا ہے۔ یہی اس بات کی مستحق ہیں کہ انسانیت کے لئے نظریہ و عمل کی مکمل سمت مقرر کریں۔ ایسی سمت جو اس کائنات کی فطرت اور کائنات کے مستحکم ضابطوں اور اس کے اٹل اصولوں سے ہم آہنگ ہو۔ یہ شخصیات براہ راست مہبط وحی ہوتی ہیں اس لئے ان کی ہدایات میں کسی خطا کا کوئی امکان نہیں ہوتا اور نہ اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ وہ صحیح راستے سے بھٹک جائیں۔ یہ شخصیات نہ تو جھوٹ بولتی ہیں اور نہ ہی حق کو چھپاتی ہیں۔ اظہار حقیقت سے ان کی راہ میں زمان و مکان کے عوامل زائل نہیں ہوتے۔ اس لئے کہ یہ شخصیات اس حقیقت کو اللہ کی جانب سے پا رہی ہوتی ہیں اور اللہ کی ذات حقیقت زمان و مکان کے عوامل سے وراء ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ کی شان کبریائی نے یہ ارادہ کیا کہ اس کائنات کی تاریخ میں وقفے وقفے سے انبیاء ورسل کو بھیجا جاتا رہا ہے تاکہ انسانیت کا رابطہ حقیقت مطلقہ سے قائم رہے۔ اس لئے کہ انسان اپنے تجربے اور مشاہدے کے بل بوتے پر ہزارہاسال کی جدوجہد کے بعد بھی اس کے ایک حصے تک نہیں پہنچ سکتا۔ اور اپنی پوری زندگی یعنی تا قیامت اس حقیقت کو نہیں پا سکتا۔ اس رابطے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ یہ اشخاص اس پوری کائنات کے ساتھ ہم آہنگی سے قدم اٹھاتے ہیں۔ اس کی حرکت اس کائنات کی حرکت کی سیدھ میں ہوتی ہے اور ان کی فطرت، فطرت کائنات سے ہم آہنگ ہوتی ہے۔

ایک اور صرف ایک منبع صافی ہے جس سے تمام بشریت کا ایک سچا، ایک جامع اور کامل تصور حیات اخذ کرسکتی ہے۔ ایسا تصور حیات جس میں اس پوری کائنات کی ماہیت کو سمودیا گیا ہو۔ اس میں حقیقت انسانی کا صاف تصور بھی موجود ہو۔ اس میں اس پوری کائنات کی تخلیق کی غرض و غایت بھی موجود ہو اور اس کائنات میں وجود انسانی کی تخلیق کے مقاصد بھی موجود ہوں۔ ایسے جامع تصور کے نتیجے ہی میں ایک صحیح اور مضبوط نظام وجود میں آسکتا ہے جو تخلیق کائنات کے اصل منصوبے کے مطابق ہو، جو نظام اس کائنات کی حرکت اور اس کے رخ کے مطابق ہو اور جس قیام کے نتیجے میں پوری انسانیت کو امن وسلامتی نصیب ہو۔ انسان اس کائنات کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہو اور انسان اپنی فطرت سے بھی ہم آہنگ ہو۔ اس لئے کہ فطرت انسان بھی فطرت کائنات ہی کا ایک حصہ ہے۔ اور تمام انسان اس دنیا میں اپنی جدوجہد، اپنی سرگرمیوں، اپنی ترقیات اور اپنی تمام حرکات وسکنات میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہو اور ان کے درمیان کوئی تلخی نہ ہو۔

اور یہ مصدر وحید اور یہ منبع صافی صرف انبیاء کا سرچشمہ ہے اور اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ باطل اور گمراہی ہے۔ کیونکہ ان تمام دوسرے سرچشموں کا تعلق خالق کائنات سے نہیں ہوتا۔

وحی کے علاوہ علم معرفت کے جو ذرائع انسان کو دئیے گئے ہیں وہ بہت ہی محدود ہیں۔ اور وہ اس لئے دیئے گئے ہیں کہ انسان اس کائنات کے بعض ظاہری قوانین دریافت کر لے اور اس کائنات کی بعض طبیعی قوتوں تک رسائی حاصل کر لے اور اسے یہ محدود علم اس لئے دیا گیا ہے کہ اس کرۂ ارض پر اسے جو محدود خلافت کا منصب سپرد کیا گیا ہے وہ اس کی ذمہ داریاں پوری کرسکے۔ اور یہاں اپنی اس محدود زندگی کو کسی قدر پرسکون بنا سکے۔ بعض اوقات انسان اس محدود دائرے کے اندر اندر کافی آگے بڑھ جاتا ہے، لیکن اپنی اس تمام ترقی کے باوجودانسان اپنے خالق اور قادر مطلق تک اور ماوراء تک رسائی نہیں حاصل کرسکتا، حالانکہ انسان اس بات کا محتاج ہے کہ وہ حقیقت مطلقہ تک پہنچ سکے اور اپنی زندگی کو اس کے رنگ میں رنگ سکے۔ فقط نئے نئے ظروف و احوال کے مطابق نہیں بلکہ اس کائنات کے ثابت شدہ اور اٹل قوانین کے مطابق جن پر اس کائنات کا وجود قائم ہے، بلکہ اس غرض و غایت کے مطابق جس کے لئے اس پوری کائنات کی تخلیق کی گئی ہے اور اس حقیقت کا علم صرف خالق کائنات ہی کے پاس ہے جو زمان و مکان کے محدود دائروں سے باہر ہے۔ اور انسان اس کا ادراک اس لئے نہیں کرسکتا کہ اس کی قوتیں محدود ہیں اور وہ زمان و مکان کے محدود دائروں ہی میں کام کرسکتا ہے۔

جو ذات سفر آخرت اور اس کائنات کے انجام کا منصوبہ بناتی ہے وہی اس کے پورے راستے کے نشیب وفراز سے واقف ہوتی ہے۔ انسان جس کا علم محدود ہے اور اس کا دائرہ علم محدود ہے۔ اس کائنات کے اوجھل انجام تک صرف اپنے عقل کے بل بوتے پر نہیں پہنچ سکتا۔ اسے آنے والے پل کی خبر نہیں ہے۔ آنے والے واقعات اور انسان کے درمیان ایک پردہ حائل ہے۔ اسی لئے انسان کے لئے جائز بھی نہیں ہے اور نہ اس کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ اس پورے سر آخرت کے لئے کوئی منصوبہ خود تیار کرے۔

انسان یا تو تباہی اور گمراہی کا راستہ اختیار کرے گا اور یا اسے رسولوں کے اس راستے کی طرف لوٹنا ہو گ۔ اسے وہ نظام زندگی اختیار کرنا ہو گاجو رسولوں نے براہ راست خلاق کائنات سے پایا۔ یہ ان انبیاء عالی مقام کا نظام ہے جن کو خالق کائنات کے ساتھ براہ راست رابطہ کی سہولت حاصل ہوتی ہے۔

یہ انبیاء ورسل یکے بعد دیگرے گزرتے رہے اور یہ مشعل نور لئے ہوئے اور انسانیت کا ہاتھ پکڑے ہوئے اس کی مسلسل راہنمائی کرتے رہے اور اسے ایک مقام بلند تک پہنچا گئے۔ انسانیت کبھی ایک جگہ سے بھٹک جاتی اور کبھی دوسری جگہ سے گمراہ ہو جاتی۔ کبھی ایک مقام پر منحرف ہو جاتی اور کبھی غفلت کا شکار ہو جاتی اور اللہ تعالیٰ اس کی ہدایت کے لئے ایک نیا رسول بھیج دیتے جو اس کائنات کا قائد ہوتا اور اسے پھر سے راہ راست پر لاتا۔

ہر بار نیا رسول ایک ہی حقیقت کو پیش کرتا لیکن انسانیت علمی دنیا میں جو نئے تجربات کر چکی ہوتی تھی یہ حقیقت ان تجربات کی مناسبت سے ذرا ترقی یافتہ شکل میں ہوتی۔ جب یہ سلسلہ رسل آخر الزمان کے دور تک پہنچا تو انسانوں کی حالت یہ ہو گئی تھی کہ وہ عقلی لحاظ سے بالغ ہو چکے تھے اور ان کی عقل منور ہو گئی تھی۔ یہ اس آخری رسالت نے آخرکار انسانی عقل سے خطاب کیا اور عقل انسانی کو اس حقیقت مطلقہ کے جملہ اصول بتادئیے تاکہ ان خطوط کے مطابق انسانیت اس راہ حقیقت پر گامزن رہے۔ اور اس آخری رسالت نے حقیقت اعلیٰ کو اس قدر واضح شکل میں بیان کر دیا کہ اب اس کے بعد کسی جدید رسالت کی ضرورت ہی نہ رہی۔ اب امت کے لئے آئندہ زمانوں کے لئے یہ انتظام کر دیا گیا کہ مجددین ان اصولوں کی تعبیر جدید کرتے رہیں گے۔

بہرحال انسانیت کے لئے اب اس کے سوا کوئی اور چارہ کار نہیں رہا کہ یا تو وہ انبیاء کے وضع کردہ دائرہ فکر و عمل میں داخل ہو جائے جو انسانیت کی سرگرمیوں کے لئے ہمیشہ کھلا اور کشادہ ہے اور جو انسانیت کی ترقی یافتہ سے ترقی یافتہ سرگرمیوں کے لئے کافی ہے اور اس حقیقت کبریٰ تک رسائی حاصل کر لے جس تک انسانیت کسی اور راستے سے نہیں پہنچ سکتی۔ اور یا پھر اس بات کے لئے تیار ہو جائے کہ گمراہی کے گڑھے میں ڈوبی رہے اور بے آب وگیا صحرا میں یوں بھٹکتی رہے کہ اسے کوئی نشان راہ نظر نہ آئے

٭٭٭

 

 

 

درس ۱۷تشریح آیات ۲۵۳ تا ۲۵۷

 

اس آیت میں رسولوں اور ان کے مشنوں کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے۔ نیز اس نے جماعت رسل کو علیحدہ رکھ کر اسے تمام لوگوں سے ایک امتیازی مقام دیا ہے۔ اور یہ حقیقت بھی بیان کر دی ہے کہ خود رسولوں میں سے بھی بعض رسول بعض کے مقابلے میں زیادہ فضیلت کے حامل رہے ہیں۔ اور اس میں اس فضیلت و امتیاز کی بعض علامتوں کا بیان بھی ہے۔ اس کے بعد اس میں آنے والی نسلوں کے اختلافات کا تذکرہ ہے، حالانکہ ان کے پاس واضح نشانیاں آ گئی تھیں اور یہ بتایا گیا ہے کہ اختلافات کی وجہ سے یہ قومیں باہم جنگ و جدال میں بھی مبتلا ہیں اور بعض نے ایمان کی راہ لی اور بعض نے کفر کا راستہ اختیار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان جدل و جدال اور قتل و قتال کا فتنہ ڈال دیا تاکہ کفر کا مقابلہ ایمان سے کیا جائے اور شر کی مدافعت بذریعہ خیر ہو۔ یہ سب مضامین جن کی طرف اس آیت میں اشارات کئے گئے ہیں یہ اس طویل تاریخ رسالت کے اہم واقعات ہیں۔

تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلَى بَعْضٍ

"یہ رسول (ایسے تھے کہ )ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر زیادہ فضیلت دی۔ "یہ فضیلت کبھی اس نسبت سے ہوئی ہے کہ بعض رسولوں کو دوسروں کے مقابلے میں وسیع دائرہ کار دیا گیا۔ جس کے اندر اس رسول نے کام کرنا تھا۔ مثلاً کبھی وہ ایک قبیلے کا رسول ہوتا یا وہ ایک قوم کا رسول ہوتا، یا وہ ایک نسل کا رسول ہوتا یا تمام امتوں اور اپنے وقت کی تمام اقوام کا رسول ہوتا۔ نیز رسولوں کے درمیان فرق مراتب ان خصوصیات کی وجہ سے ہوتا جو کسی رسول یا اس کی قوم کو عطا کی جاتی تھیں۔ نیز اس پیغام، اور اس کی عمومیت اور اس کی ہمہ گیری اور جامعیت کی اساس پر بھی رسولوں کے درمیان فرق مراتب رہا ہے۔

یہاں اس آیت میں بطور مثال دو پیغمبروں کا ذکر کیا ہے۔ یعنی حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام اور ان کے علاوہ دوسرے انبیاء کی طرف اجمالی اشارہ کیا گیا ہے۔

مِنْہُمْ مَنْ كَلَّمَ اللَّہُ وَرَفَعَ بَعْضَہُمْ دَرَجَاتٍ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاہُ بِرُوحِ الْقُدُسِ

"ان میں کوئی ایسا تھا جس سے اللہ تعالیٰ خود ہمکلام ہوا۔ کسی کو اس نے دوسری حیثیتوں سے بلند درجے دیئے اور آخر میں عیسیٰ ابن مریم کو روشن نشانیاں عطا کیں اور روح پاک سے اس کی مدد کی۔ ”

جب اس بات کا ذکر ہوتا ہے کہ کوئی نبی اللہ سے ہمکلام ہوا تو ذہن حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف خود بخود منتقل ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ان کا نام نہیں لیا گیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام لیا گیا۔ اور قرآن مجید کے اکثر مقامات پر ان کے نام کی نسبت ان کی والدہ کی طرف کی گئی ہے۔ جس کی حکمت واضح ہے۔ اس لئے کہ نزول قرآن کے زمانے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بے شمار رطب ویابس قصے مشہور تھے۔ نعوذ باللہ کہ وہ اللہ کے بیٹے ہیں اور یہ کہ ان مزاج لاہوت اور ناسوت کا مرکب تھا یا یہ کہ وہ منفرداً خود ایک الٰہ تھے اور اس ک اندر مادی مزاج اس طرح گھل مل گیا تھا جس طرح قطرہ دریا میں۔ یہ اور ان جیسے فضول تصورات اور نظریات جن پر مجمعوں اور کنیسوں میں جدل و جدال اور بحث و مناظرے کے بازار گرم تھے۔ اور مملکت روما میں اس بات پر اس قدر خونریزی ہوئی تھی کہ خون کی ندیاں بہہ گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشریت کا ذکر بطور تاکید بار بار کرتا ہے۔ اور اکثر مقامات پر اسے ابن مریم کہا گیا ہے۔ روح القدس سے قرآن کی مراد حضرت جبرئیل علیہ السلام ہیں۔ کیونکہ وہ رسولوں تک پیغام پہنچانے کے ذمہ دار تھے۔ اس لئے بینات کے ساتھ ساتھ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عظیم تائید تھی۔ یہ حضرت جبرئیل ہی تھے جو رسولوں تک وہ پیغام اور بشارت لے کر آئے تھے کہ انہیں اس عظیم ذمہ داری کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔ یہ وہی تھے جو انہیں اس طویل اور پر محنت راستے میں جہد مسلسل کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ وہی تھے جو کہ اس راستے کے ہولناک اور مایوس کن مواقع پر سکینہ لے کر آتے تھے اور الٰہی تاکید و نصرت سے رسولوں کو ثابت قدم رہنے کی تلقین کرتے تھے۔ یہ سب وہ تائیدیں ہیں جو جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ ہوا کرتی تھیں۔ بینات میں سے سے پہلے انجیل آتی ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دی گئی۔ نیز بینات میں وہ معجزات بھی آتے ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں ظاہر ہوئے اور جن سے مخالفین بنی اسرائیل کے مقابلے میں آپ کی تائید ہوئی اور جن کی تفصیل قرآن مجید کے دوسرے مقامات پر بیان کی گئی ہے۔

قرآن مجید کی اس آیت میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہیں لیا گیا۔ اس لئے خطاب خود رسول اللہﷺ سے ہو رہا ہے۔ اس آیت سے پہلی آیت میں تِلْكَ آيَاتُ اللَّہِ نَتْلُوہَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ تِلْكَ الرُّسُلُ ……..”یہ اللہ کی آیات ہیں جو ہم ٹھیک ٹھیک تم کو سنارہے ہیں اور تم یقیناً ان لوگوں میں سے ہو جو رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ یہ رسول……..” یعنی بات یہ ہو رہی ہے کہ آپ کو دوسرے رسولوں کی بابت بتایا جا رہا ہے اور آپ تو یقیناً رسولوں میں سے ہیں۔

انبیاء ورسل کی سیرتوں اور خصوصیات کے اعتبار سے ہم ان کے جس پہلو پر بھی نظر ڈالتے ہیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سرفہرست پاتے ہیں۔ رسالت کی جامعیت اور شمولیت کے اعتبار سے دیکھیں یا اس کے دائرہ کار کی وسعت اور زمانی دوام کے اعتبار سے دیکھیں ہر اعتبار سے رسول اللہ سرور انبیاء ﷺ نظر آتے ہیں۔

اسلام نے نظریۂ توحید کو اپنی بہترین شکل میں پیش کیا ہے۔ اور یہ الہیاتی حقائق میں سے اعلیٰ حقیقت ہے کہ یہ، خالق صرف ایک ہے اور اس جیسا کوئی نہیں (لَیسَ کَمِثلِہٖ شَیئیٌ)……..اور یہ کہ وہ اپنی ذات میں بھی ایک ہے اور صرف اس کے ارادۂ کن سے پوری کائنات وجود میں آئی ہے اور وہ قانون قدرت بھی ایک ہے جو اس پوری کائنات میں جاری وساری ہے۔ اور سادہ سے سادہ مخلوقات سے لے کر انسان ناطق جیسی پیچیدہ سے پیچیدہ مخلوقات بھی اسی ارادۂ کن اور اسی قانون قدرت کا نتیجہ ہے اور آدم علیہ السلام سے دنیا کے آخری انسان تک تمام انسان بھی ایک ہی مخلوق ہیں اور اس ایک انسانیت کے لئے اللہ کی ارسال کردہ تہذیب اور دین بھی ایک ہے۔ جماعت انبیاء بھی ایک ہی جماعت ہے اور تمام امم بھی ایک امت ہیں جنہوں نے ان انبیاء کی دعوت پر لبیک کہا ہے۔ اور وہ تمام بشریت ایک ہے جو ا س ایک خالق کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور ا س توجہ اور یکسوئی کا نام بھی ایک ہے یعنی عبادت ……..دنیا اور آخرت بھی ایک ہیں۔ بدیں مضمون کہ دنیا دار العمل ہے اور آخرت دار الجزاء ہے اور شریعت اور قانون بھی ایک ہے جو اللہ نے ان انسانوں کے لئے وضع کیا ہے۔ اس کے سوا کوئی اور شریعت مقبول نہیں ہے اور سرچشمہ اور مصدر اور منع بھی ایک ہے جس سے اس انسانیت نے اپنی زندگی کا نظام فکر و عمل اخذ کرنا ہے۔

اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم وہ ذات ہیں جن کو اس قدر روحانی قوت دی گئی تھی کہ ان کی روح وحدانیت کبریٰ اور لامحدود سے رابطہ رکھتی تھی۔ نیز آپ کو اس قدر طاقتور قوت ادراک دی گئی تھی۔ آپ وحدانیت کبریٰ کا تصور کرسکتے تھے۔ اور اسے مثالی شکل دے سکتے تھے اور آپ کی ذات میں ایسی قوت پنہاں تھی کہ آپ نے اپنی ظاہری اور عملی زندگی میں وحدانیت کبریٰ کے اس تصور کو عملاً پیش کیا۔

یہ تھا وہ رسول جو پوری بشریت کی ہدایت کے لئے بھیجا گیا۔ اپنے یوم بعث سے لے کر اس وقت تک جب تک اس دنیا کی مخلوقات اپنے خالق اللہ کے ہاں حاضر نہیں ہو جاتی۔ آپ کی رسالت ایسی تھی جس نے انسان کے فہم و ادراک پر بغیر کسی پابندی کے اعتماد کیا۔ یہاں تک کہ مادی اور قاہرانہ معجزات کے مقابلے میں بھی اور اس سے مقصود یہ تھا کہ دنیا کے سامنے یہ اعلان کر دیا جائے کہ اب وہ دور آ گیا ہے جس میں انسان نے عقلی بلوغ کا مقام پا لیا ہے۔

اس کا منطقی نتیجہ یہی ہوسکتا تھا کہ آپ خاتم الرسل ہوں اور آپ کی رسالت خاتم رسالات ہو اور یہی وجہ ہے کہ آپ کے بعد اب سلسلہ وحی منقطع ہو گیا اور آپ کی رسالت کے عہد میں بشریت کے لئے وحدانیت کبریٰ کے خطوط و حدود قائم ہو گئے اور ایک ایسے مکمل نظام زندگی کا اعلان کر دیا گیا جس کے حدود میں تمام آنے والی نسلیں زندگی کی تگ و دو جاری رکھ سکتی ہیں۔ اس نے تفصیلات و تشریحات تو عقل انسانی پر چھوڑ دیں اور باقی سب کچھ بتا دیا اور لازم کر دیا گیا ہے کہ یہ تفصیلات و تشریحات بھی اس مکمل نظام الٰہی کی روشنی میں طے کی جائیں۔ کیونکہ ان کے لئے جدید رسالت کی ضرورت نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ خوب جانتا تھا وہی تو تھا جس نے انسان کو پیدا کیا تھا۔ وہ خوب جانتا تھا کہ وہ کون ہیں اور کیا ہیں۔ وہ خوب جانتا تھا کہ وہ کیا تھے اور کیا ہیں ؟وہ خوب جانتا تھا کہ اس رسالت آخرہ نے جو مکمل نظام زندگی تجویز کیا ہے وہ اس انسان کی جدید سے جدید اور ترقی یافتہ سے ترقی یافتہ زندگی کے لئے کافی ہے۔ کون ہے جو یہ زعم لے کر سامنے آسکتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کے بندوں کی مصلحت کے بارے میں زیادہ جانتا ہے یا کون ہے جو یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ خاتم النبیین کا پیش کردہ نظام زندگی اس قابل نہیں ہے کہ دور جدید میں انسان کی ترقی یافتہ زندگی کے لئے مفید ہو۔ یا کون ہے جو یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ وہ الٰہی نظام زندگی کے مقابلے میں کوئی اچھا نظام زندگی تجویز کرسکتا ہے۔ جو شخص بھی ان میں سے کوئی ایک دعویٰ کر بیٹھے یا یہ یقین کرتا ہو کہ یہ دعوے درست ہیں تو اس شخص نے کفر صریح کا ارتکاب کر لیا ہے۔ اور یہ ایسی حرکت ہے جس کے کفریہ حرکت ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ اور ایسے شخص نے گویا اپنی ذات اور پوری انسانیت کے لئے ایک عظیم فتنہ اور ایک عظیم شر کا ارادہ کر لیا ہے۔ یہ شخص صریحاً اللہ کا دشمن ہے۔ یہ انسانیت کا کھلا دشمن ہے حالانکہ اسلامی نظام زندگی اس بشریت کے لئے بطور رحمت و برکت نازل کیا گیا تھا تاکہ وہ قیامت تک انسانی زندگی پر حکم فرما ہو۔

اور اس کے بعد کیا ہوا؟ان رسولوں کے پرستاروں نے باہم مقاتلہ شروع کر دیا۔ تمام انبیاء علیہم السلام کی دعوت اور پیغام کی ایک نوعیت نے انہیں کوئی فائدہ نہ دیا۔ تمام انبیاء کی جماعت کے اتحاد سے بھی انہیں کوئی فائدہ نہ ہوا۔ یہ حقیقت ان متبعین کو اس بات سے باز نہ رکھ سکی کہ وہ باہم جدال و قتال میں مبتلا ہوں اور یہ اس لئے کہ

 

"اگر اللہ چاہتا، تو ممکن نہ تھا کہ ان رسولوں کے بعد، جو لوگ روشن نشانیاں دیکھ چکے تھے، وہ آپس میں لڑتے مگر (اللہ کی مشیئت یہ نہ تھی کہ وہ لوگوں کو جبراً اختلافات سے روکے، اس وجہ سے )انہوں نے باہم اختلاف کیا۔ پھر کوئی ایمان لایا اور کسی نے کفر کی راہ اختیار کی۔ ہاں اللہ چاہتا تو وہ ہرگز نہ لڑتے مگر جو اللہ چاہتا ہے کرتا ہے۔ ” (٢٥٣)

 

یعنی جدال وقتال اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے خلاف نہ تھے۔ اس لئے کہ اللہ کی مشیئت کے خلاف اس کائنات میں کوئی واقعہ نہیں ہوسکتا۔ یہ کارخانۂ قدرت جس طرح چل رہا ہے یہی اللہ کی مشیئت ہوتی ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور اس میں ہدایت اور ضلالتوں دونوں کی استعداد کا ودیعت ہونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات انسان کے اختیار تمیزی پر چھوڑ دی ہے کہ وہ اچھا راستہ اختیار کرتا ہے یا برا۔ اس لئے کہ اس تخلیق اور اس کے اندر ودیعت کی ہوئی استعداد کے نتیجے میں جو امر بھی وقوع پذیر ہوتا ہے وہ دائرہ مشیئت ایزدی میں شامل ہے اور وہ اللہ کی مشیئت کے عین مطابق ہے۔

اسی طرح مخلوقات اور خصوصاً انسان میں قابلیت اور استعداد کا تفاوت بھی سنن الٰہیہ میں سے ایک اہم سنت ہے۔ خالق نے مخلوقات کو متنوع بنایا ہے۔ اگرچہ اصل تخلیق اور نشوونما سب کی ایک جیسی ہے اور یہ اس لئے کہ انسان نے اس کرۂ ارض پر جو فریضۂ خلافت اٹھانا تھا وہ مختلف النوع تھا۔ اس لئے ہرکسے رابہر کارے ساختند۔ اللہ تعالیٰ کی مشیئت یہ نہ تھی کہ تمام مخلوقات کو ایک ہی صلاحیت اور ایک ہی معیار پر کاربن کاپی کی طرح بناتا چلائے۔ اس لئے کہ اس دنیا میں اس مخلوقات نے مختلف النوع کام سرانجام دینے تھے۔ جہاں حیات انسانی کو ترقی دینا مقصود تھا، اس میں رنگا رنگی اور بو قلمونی پیدا کرنا مطلوب تھا۔ اگر اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کے لئے متنوع فرائض منصبی پیدا کئے تھے تو لازمی تھا کہ استعداد اور صلاحیتوں میں بھی فرق ہوتا۔ تاکہ یہ اختلاف وسیلۂ کمال بنے۔ ہاں اللہ تعالیٰ نے ہر انسان پر یہ لازم کیا ہے کہ وہ غور و فکر کرے۔ اپنے لئے راہ ہدایت اور حقیقت ایمان تلاش کرے۔ اس لئے کہ اس نے انسان کے اندر یہ استعداد اور صلاحیت ودیعت کی ہے کہ وہ غور و فکر کے ذریعہ براہ راست ہدایت پائے۔ اس کائنات میں ایمان و ہدایت کی راہ پانے کے لئے واضح دلائل بکثرت موجود ہیں اور انسانی تاریخ میں سلسلہ انبیاء ورسل کا تاریخی ریکارڈ موجوداس کے سامنے موجود رہا ہے۔ اور اس ہدایت اور ایمان کے دائرے کے اندر اندر ہر قسم کا صحت مند تنوع اور اختلاف جاری رہے گا۔ اور یوں کبھی نہ ہو گا کہ لوگ کاربن کاپی بن جائیں اور ایک ہی قالب سے نکلی ہوئی مصنوعات کی طرح بنتے رہیں۔

وَلَكِنِ اخْتَلَفُوا فَمِنْہُمْ مَنْ آمَنَ وَمِنْہُمْ مَنْ كَفَرَ……..

"مگر انہوں نے باہم اختلاف کیا پھر کوئی ایمان لایا اور کسی نے کفر کی راہ اختیار کی۔ ”

انسانوں کا اختلاف ایمان و عقیدہ کے اعتبار سے اس حد تک پہنچ جائے تو یہ نظریاتی اختلاف کفر و ایمان کا اختلاف بن جاتا ہے۔ پھر تصادم ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اور یہ تصادم اس لئے ہوتا ہے کہ دنیا میں قوت کا توازن قائم ہو اور ایک قوت کا دفاع دوسری قوت کے ذریعہ ہو۔ کفر کا دفاع ایمان کے ذریعہ کیا جائے۔ گمراہی کا مقابلہ ہدایت سے کیا جائے۔ شر کا دفاع خیر سے کیا جائے، اس لئے کہ اللہ اس سرزمین کو کفر، گمراہی اور شر کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ اور جب صورت حال یہاں تک پہنچ جائے کہ ایک گروہ اور دوسرے گروہ کے درمیان کفر و ایمان کی خلیج واقعہ ہو جائے تو اس وقت کوئی گروہ یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ مطیع انبیاء ہے۔ جب مدینہ طیبہ میں یہ آیات نازل ہوئیں تو جماعت مسلمہ ایسی صورت حال سے دوچار تھی۔ مکہ مکرمہ میں مشرکین اس زعم میں مبتلا تھے کہ صرف وہی ملت ابراہیمی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مدینہ طیبہ میں یہودی یہ دعویٰ کرتے تھے کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دین کے پیروکار ہیں۔ اور عیسائیوں کا دعویٰ یہ تھا کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دین کے پیروکار ہیں۔ حالانکہ ان فرقوں میں سے ہر ایک فرقہ اپنے اصل دین سے بہت دور جا چکا تھا۔ اس نے اپنے نبی کے پیغام کو ترک کر دیا تھا۔ اور وہ اپنے اصل ادیان سے اس قدر دور جا چکے تھے کہ ان پر کافر ہونے کا اطلاق درست طور پر ہوسکتا تھا۔

جس دور میں یہ آیات نازل ہوئیں اس دور میں مسلمان مشرکین عرب کے ساتھ برسرپیکار تھے اور حالات یہ رخ اختیار کر رہے تھے کہ قریب ہی اہل کتاب کے اہل کفر کے ساتھ بھی ان کی لڑائی شروع ہونے والی تھی۔ اس لئے ایسے حالات میں عام مسلمانوں کے ذہن کو صاف کر دیا گیا تھا کہ مختلف الخیال لوگوں کے درمیان نظریاتی جنگ اور مسلح جنگ ایسے حالات میں مشیئت الٰہی کے عین مطابق ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی اجازت سے یہ جنگ لڑی جا رہی ہے۔

وَلَوْ شَاء َ اللَّہُ مَا اقْتَتَلُوا…….. "اگر اللہ کی مشیئت ہوتی تو وہ ہرگز نہ لڑتے۔ ”

لیکن اللہ نے چاہا کہ وہ لڑیں اور اس لئے چاہا کہ ایمان کفر کے مقابلے میں صف آراء ہو اور دنیا میں وہ نظریاتی اساس جم جائے اور مستحکم ہو جائے جسے تمام انبیاء لے کر آئے جو ایک بھی ہے اور مسلم سچائی بھی ہے۔ لیکن بعض لوگوں نے اس متحدہ سچائی سے انحراف اختیار کر لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس حقیقت کو خوب جانتے تھے کہ باطل اور گمراہی کا مزاج یہی ہے کہ وہ کبھی غیر جانبدار ہو کر کھڑی نہیں رہتی۔ وہ اپنے مزاج کے اعتبار سے شوریدہ سر ہے۔ ۔ اس لئے وہ لازماً جارحیت کی راہ اختیار کرتی ہے۔ اور اہل ہدایت کو گمراہ کرتی ہے۔ وہ راستی کو کجی میں تبدیل کرتی ہے۔ لہٰذا اہل ایمان اور اہل راستی کا فرض ہے کہ وہ گمراہی اور کجی کے خلاف برسرپیکار رہیں۔

وَلَكِنَّ اللَّہَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ…….. "مگر اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ ”

اللہ کی مشیئت بے قید ہے۔ اس کے قدرت کامل اور فعال ہے۔ اس نے فیصلہ کیا کہ انسان اپنی تخلیق کے اعتبار سے مختلف ہوں۔ اس نے یہ فیصلہ فرمایا کہ انہیں اپنی زندگی کی راہیں اختیار کرنے کی آزادی ہو۔ اس نے یہ فیصلہ کیا جو راہ ہدایت اختیار نہ کرے گا وہ گمراہ ہو گا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ شر اپنے مزاج کے اعتبار سے جارح ہو گی اور کجی کو پسند کرے گی۔ اس نے فیصلہ کیا کہ خیر و شر برسر پیکار ہوں۔ اس نے یہ فیصلہ کیا کہ اہل ایمان اس واحد، واضح اور بالکل سیدھی حقیقت کے قیام کے لئے جہاد کریں۔ اس نے یہ قرار دیا کہ انبیاء ورسل کے متبعین کے لئے صرف یہ کافی نہیں کہ وہ اپنے آپ کو انبیاء کی طرف منسوب کر دیں۔ اعتبار اس بات کا ہے کہ ان کا رویہ کیسا ہے اور ان کا عمل کیا ہے ؟اور یہ کہ اہل ایمان کے جہاد کی زد سے وہ محض اس لئے نہ بچ سکیں گے کہ وہ انبیاء کے وارث ہیں حالانکہ انہوں نے انبیاء کے عقیدہ اور ایمان سے انحراف کر لیا ہے۔

یہ حقیقت اور اصول جس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے مدینہ کی پہلی اسلامی جماعت کے لئے کیا، ایک ایسی حقیقت اور ایک ایسا اصول ہے جو بے قید ہے اور جس کا تعلق کسی خاص زمانے سے نہیں ہے۔ قرآن مجید کا یہ انداز بیان ہے کہ وہ ایک عام اصول اور مطلق بات کو بھی ایک مخصوص واقعہ کے ضمن میں بیان کرتا ہے۔ محل خاص ہوتا ہے لیکن حکم عام ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس اصولی بات یعنی اختلاف عقیدہ اور قتال کے بعد، اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو خطاب کر کے یہ حکم دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں جو وسائل رزق دئیے ہیں اس میں سے اس کی راہ میں خرچ کریں۔ اس لئے کہ انفاق مال جہاد ہے اور مالی قربانی جہاد کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔

 

"اے لوگو!جو ایمان لائے ہو، جو کچھ مال و متاع ہم نے تم کو بخشا ہے، اس میں خرچ کرو، قبل اس کے کہ وہ دن آئے، جس میں نہ خرید و فروخت ہو گی، نہ دوستی کام آئے گی اور نہ سفارش چلے گی۔ اور ظالم اصل میں وہی ہیں جو کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ ” (٢٥٤)

 

اہل ایمان کے دلوں سے یہ ایک محبت بھری اپیل ہے۔ یہ اپیل اہل ایمان اور اپیل کنندہ کے درمیان ایک روحانی رابطہ ہے کیونکہ وہ ذات باری پر ایمان لائے ہوئے ہیں۔ "اے ایمان لانے والو!”

اپیل یہ ہے کہ جو ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس کا ایک حصہ ہمیں دے دو۔ آخر ہم ہی دینے والے ہیں اور داتا ہیں اور ہم ہی اپنے دئیے سے کچھ مانگ رہے ہیں۔ أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُمْ…….. "اور جو کچھ ہم نے تمہیں دیا ہے، اس میں سے خرچ کرو۔ ”

دیکھو ایسے مواقع بار بار نہیں آتے۔ اگر تم نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا تو پھر یہ مواقع نصیب نہ ہوں گے۔ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ يَوْمٌ لا بَيْعٌ فِيہِ وَلا خُلَّۃٌ وَلا شَفَاعَۃٌ…….. "قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس میں نہ خرید و فروخت ہو گی، نہ دوستی کام آئے گی اور نہ سفارش چلے گی۔ ”

یہ آخری موقعہ ہے۔ اگر تم سے چلا گیا تو پھر ہاتھ نہ آئے گا۔ اس موقعہ پر مال نفع بخش کاروبار میں لگ رہا ہے۔ اس کے بعد کوئی دوستی، کوئی سفارش اس نقصان اور خسارے کی تلافی کرنے کے لئے نہیں ہے۔

یہاں اس مقصد کی طرف بھی اشارہ کر دیا جاتا ہے جس کے لئے خالق کائنات خود چندہ کی اپیل کر رہے ہیں یعنی جہاد فی سبیل اللہ کے یہ مطالبہ ہو رہا ہے۔ اور جہاد اس لئے ہے کہ کفر کا دفعیہ کیا جائے گا۔ دنیا سے ظالمانہ نظام کو ختم کیا جائے جو کفر کی شکل میں قائم ہے۔ وَالْكَافِرُونَ ہُمُ الظَّالِمُونَ……………. "ظالم وہی ہیں جو کفر کی روش پر جم جاتے ہیں۔ ”

انہوں نے سچائی کا انکار کر کے ظلم کا ارتکاب کیا۔ انہوں نے خود اپنے نفوس پر ظلم کیا ہے جنہیں وہ ابدی ہلاکت کے گڑھے میں گرا رہے ہیں۔ وہ عوام الناس پر بھی ظلم کر رہے ہیں۔ یوں کہ وہ انہیں راہ ہدایت پر آنے سے روکتے ہیں اور انہیں گمراہ کرتے ہیں اور انہیں اس بھلائی تک پہنچنے نہیں دیتے جس جیسی اور کوئی بھلائی نہیں ہے۔ یعنی امن وسلامتی کی بھلائی، اطمینان و محبت کی بھلائی اور اصلاح و یقین کی بھلائی۔

جو لوگ اس بات کے دشمن ہیں کہ لوگوں کے دل و دماغ میں ایمان کی حقیقت جاگزیں ہو جائے۔ جو اس بات کے دشمن ہیں کہ ایمانی نظام زندگی ہماری زندگیوں میں جاری وساری ہو جائے اور جو لوگ اس بات کی جدوجہد کر رہے ہیں کہ ایمانی شریعت ہمارے اجتماعی نظام میں نافذ نہ ہونے پائے، وہ اس انسانیت کے بدترین دشمن ہیں۔ وہ پرلے درجے کے ظالم ہیں۔ اگر انسانیت نے راہ راست کو پا لیا ہے تو اس کا یہ فرض ہے کہ وہ ایسے لوگوں کا اس وقت تک تعاقب کرے جب تک وہ اس ظلم سے باز نہیں آتے۔ جو وہ مسلسل انسانیت پر ظلم ڈھا رہے ہیں۔ انسانیت کا یہ فرض اولیں ہے کہ وہ ایسے لوگوں کے مقابلے کے لئے جان و مال کی یہ قربانی دے۔ اور یہ ہر اس اسلامی جماعت کا بھی فرض ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لئے برپا کیا ہے۔ اور جسے یہ فریضہ سر انجام دینے کی دعوت دیجا رہی ہے اور جسے اس کا رب ایسے گہرے الہامی الفاظ میں پکار رہا ہے۔

رسولوں کے بعد ان کی امتوں کے درمیان نظریاتی اختلافات اور تاریخی جنگ و جدال کے بیان کے بعد اور یہ واضح کرنے کے بعد کہ واضح ایمانی دلائل کے باوجود انہوں نے ناحق کفریہ تصورات اپنا لئے۔ اب یہاں یہ مناسب سمجھا گیا کہ یہاں ایک ایسی جامع آیت اتاری دی جائے جو ایمانی تصورات کے اصول و قواعد پر مشتمل ہے۔ یہ آیت الکرسی ہے جو نظریۂ توحید کو اپنی پوری گہرائیوں اور واضح نشانات کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ یہ ایک عظیم المرتبہ آیت ہے۔ جس میں گہرے معانی پوشیدہ ہیں اور جس کا دائرہ اطلاق بہت ہی وسیع ہے۔ (جس میں وہ کم از کم عقائد بیان کئے گئے ہیں جو کفر و ایمان کے درمیان فاصلہ متعین کرتے ہیں )

 

"اللہ زندۂ جاوید ہستی، جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ وہ نہ سوتا ہے اور نہ اسے اونگھ لگتی ہے۔ زمین وآسمان میں جو کچھ ہے، اسی کا ہے۔ کون ہے جو اس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے ؟جو کچھ بندوں کے سامنے ہے۔ اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے، اس سے بھی وہ واقف ہے اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز ان کی گرفت ادراک میں نہیں آسکتی۔ الا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی ان کو دینا چاہے اس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور ان کی نگہبانی اس کے لئے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں ہے۔ بس وہی بزرگ و برتر ذات ہے۔ ” (٢٥٥)

 

اس آیت میں جن صفات کو گنوایا گیا ہے ان میں ہر ایک اسلامی تصور کائنات کے اساسی اصولوں میں کسی ایک اصول پر مشتمل ہے۔ اگرچہ اسلامی نظریہ حیات اور اسلام کے اساسی عقائد پر مکی دو ر میں نازل ہونے والی آیات میں تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ تاہم اس اہم اور اساسی موضوع پر مدینہ میں نازل ہونے والی آیات میں بھی بعض اوقات بحث کی گئی ہے۔ اس لئے کہ ان عقائد و تصورات پر ہی اسلامی نظام زندگی کی بنیاد رکھی گئی ہے اور جب تک اساس ٹھیک نہ ہو، پوری دیوار درست نہیں ہوسکتی۔ نہ اس نظام کی تشریح ہوسکتی اور نہ یہ نظام نفس انسانی کے مسلمہ حقائق سے ہم آہنگ ہوسکتا ہے۔ نہ اس کی کوئی معقول اور پر از تعین تعبیر کی جا سکتی ہے۔

اس کتاب کے حصہ اول میں، تفسیر سورۂ فاتحہ کے ضمن میں، میں نے اس گمراہی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اور یہ کہا ہے کہ ذات باری کے بارے میں انسانی ضمیر اور عقیدہ کی تطہیر کی بڑی ضرورت ہے۔ انسانی ضمیر جاہلیت کی تہہ بہ تہہ افکار کے نیچے محض اس لئے دبا ہوا تھا کہ انسان کے ذہن میں تصور الٰہ اپنی صاف و شفاف اور واضح شکل میں نہ تھا۔ یہ عقیدہ خرافات اور دیومالائی عقائد کے نیچے دبا ہوا تھا۔ یہاں تک کے بڑے بڑے فلاسفر کے ہاں بھی تصور خدا واضح اور صاف نہ تھا۔ یہاں تک کہ جب اسلامی نظریۂ حیات آیا اور اس نے ذات باری کو اپنے صحیح تصور کے ساتھ پیش کیا اور انسانی ضمیر کو ان ناقابل یقین مروجہ تصورات کے بوجھ کے نیچے سے نکال دیا اور انسان جس اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا تھا، اس سے اسے نجات ملی۔

غرض اس آیت میں جو صفات بھی بیان کی گئی ہیں وہ اسلامی تصور کائنات کے لئے ایک عمومی اساس ہیں اور اس طرح یہ صفات پھر اسلام کے تفصیلی نظام زندگی کے لئے ماخذ ہیں۔

اللَّہُ لا إِلَہَ إِلا ہُوَ…….. "اللہ، جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ "یہ ایک فیصلہ کن وحدانیت ہے جس میں کسی قسم کے انحراف کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اور اس میں وہ شرکیہ شائبے بھی نہیں ہیں جو سابقہ ادیان کے تصور الٰہ پر طاری ہو گئے تھے۔ مثلاً تثلیث کاخودساختہ عقیدہ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد اہل کلیسا نے اختیار کیا ……..یا وہ عقائد جن کی قدیم مصری اقوام قائل تھیں۔ جو کسی وقت ایک خدا کے قائل تھے لیکن ازمنہ مابعد میں اس ایک خدا کو سورج کی ٹکیا کی شکل میں متمثل کر دیا گیا اور بعدہ، اس بڑے سورج الٰہ کے تحت بہت سے چھوٹے الٰہ گھڑ لئے گئے۔

یہ فیصلہ کن وحدانیت، اسلامی تصورات و عقائد کی اساس ہے جس سے اسلامی نظام زندگی اپنی مفصل صورت میں متشکل ہوتا ہے۔ یہی تصور اللہ ہے جس کے نتیجے میں ہم اپنی عبادات اور اطاعات میں صرف اللہ کی جانب متوجہ ہوتے ہیں اس کے مطابق کوئی انسان اللہ کے سوا کسی کا مطیع فرمان اور کسی کا غلام نہیں ہوسکتا۔ وہ صرف اللہ کی عبادت کرسکتا ہے۔ صرف اللہ کی اطاعت اس پر فرض ہے جس کا اللہ نے اطاعت کرنے کا واضح حکم دیا ہے۔ اسی تصور خدا سے یہ اصول پھوٹتا ہے کہ حاکمیت صرف اللہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس لئے صرف وہی قانون ساز ہوسکتا ہے اور انسان اپنے قواعد و ضوابط صرف شریعت کی روشنی میں وضع کرسکتا ہے۔ اسی تصور الٰہ سے یہ بات نکلتی ہے کہ انسان اپنے لئے اقدار حیات صرف اللہ سے اخذ کرسکتا ہے۔ زندگی کی کوئی قدر اگر اللہ کے ترازو میں کوئی وزن نہیں رکھتی تو اس کا کوئی وزن نہ ہو گا۔ کوئی قانون، کوئی رواج اور کوئی تنظیم جو اللہ کے نظام کے خلاف ہے بالکل کالعدم ہے۔ غرض عقیدۂ توحید کے نتیجے میں انسانی ضمیر میں ایک شعور پیدا ہوتا ہے اور پھر اس کے نتیجے میں ایک تفصیلی نقشۂ حیات مرتب ہوتا ہے۔

الْحَيُّ الْقَيُّومُ…….. "زندۂ جاوید اور سنبھالنے والا "جس حیات کی نسبت یہاں ذات باری کی طرف کی گئی ہے۔ وہ ذاتی صفت ہے۔ وہ ایسی حیات نہیں ہے جو مثلاً ایک مخلوق اپنے خالق سے مستعار لیتی ہے۔ اس معنی میں صرف اللہ ہی زندۂ جاوید ہے۔ وہ ازلی اور ابدی زندہ ہے۔ نہ ا س کا کوئی نقطۂ آغاز ہے اور نہ نقطۂ انتہا ہے۔ حیات الٰہیہ زمان و مکان کے اس تصور سے پاک ہے جو مخلوقات کی زندگی کا ایک لازمہ ہے۔ جس کا ایک نقطہ سے آغاز ہوتا ہے اور ایک یونٹ پر وہ جا کر ختم ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ہُوَ الْحَيُّ…….. کہا گیا کہ صرف وہی زندہ ہے۔ اس مفہوم کے ساتھ اور کوئی زندہ نہیں ہے۔ پھر حیات باری ان تصوراتی لوازم سے پاک ہے۔ جن کے ساتھ ایک انسان زندگی کا کوئی تصور کرسکتا ہے۔ اس لئے کہ اللہ جیسا کوئی نہیں ہے لَیسَ کَمِثلِہٖ شَیئیٌ…….. یہی وجہ ہے کہ عام زندگی کے مفہوم کے ساتھ جو خصائص وابستہ ہیں اللہ تعالیٰ کی زندگی میں ان کا شائبہ تک نہیں ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی حیات ایک مطلق اور بے قید حیات ہے اور ان خصوصیات سے پاک ہے جو انسانی زندگی کا لازمہ ہیں۔ لہٰذا اس سے ان تمام تصوراتی دیومالائی مفاہیم کی نفی ہو جاتی ہے جو لوگوں نے اللہ کی جانب منسوب کر رکھے ہیں۔

القیوم کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کا نگہبان ہے اور تمام موجودات اس کی وجہ سے موجود ہیں۔ اور تمام موجودات اپنے وجود اور قیام کے لئے اس کے محتاج ہیں اور اس کے زیر تدبیر ہیں۔ یہ بات نہیں ہے کہ اللہ تخلیق کے بعد اپنی مخلوقات کے بارے میں کوئی فکر نہیں کرتا جیسا کہ ارسطو کا قول ہے۔ ارسطو کا یہ خیال تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے علاوہ کسی کے بارے میں فکر مند نہیں ہوسکتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ قیومیت کے اس تصور میں مکمل پاکی اور عظمت پائی جاتی ہے۔ حالانکہ اس کے اس تصور کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ جل شانہ کا رابطہ اپنی مخلوق کے ساتھ کٹ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ مخلوق کو ترک کر دیتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اللہ کا اسلامی تصور ایک مثبت تصور ہے اس میں سلبیت نہیں ہے۔ وہ اس اساس پر قائم ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا نگہبان ہے اور دنیا کی ہر ہستی اپنے وجود میں اللہ کے وجود اور تدبیر کی محتاج ہے۔ یوں ایک مسلم مومن کا ضمیر و شعور، اس کی پوری زندگی اور اس کا پورا وجود، اس کے اردگرد پھیلی ہوئی کائنات کا وجود اللہ جل شانہ کے وجود کے ساتھ مربوط اور متعلق ہو جاتا ہے۔ اور وہ اللہ ہی ہے جو اس مومن ومسلم کی زندگی میں متصرف ہے اور پھر وہی ذات اس کے اردگرد پھیلی ہوئی کائنات میں بھی متصرف ہے اور یہ تصرف ذات باری تعالیٰ نہایت ہی حکیمانہ اور مدبرانہ ہے۔ اسی منہاج سے وہ اپنی اقدار حیات اور حسن و قبح کے پیمانے اخذ کرتا ہے۔ اور اس پوری زندگی میں اور اس پورے عمل میں اللہ تعالیٰ انسان کا نگہبان رہتا ہے۔

لا تَأْخُذُہُ سِنَۃٌ وَلا نَوْمٌ……………. "زمین وآسمان میں جو کچھ ہے، اسی کا ہے۔ "یہ ایک ہمہ گیر ملکیت ہے اور بے قید ملکیت ہے۔ کسی شرط کے ساتھ مشروط نہیں۔ کسی حد میں محدود نہیں ہے۔ نہ اس میں کوئی شریک ہے اور نہ یہ ملکیت کبھی ختم ہوتی ہے۔ یہ وحدہٗ لاشریک الٰہ واحد ہے معانی میں سے ایک معنی ہے۔ وہ واحد اللہ ہے۔ صرف وہی الحی ہے۔ صرف وہی نگہبان ہے۔ صرف وہی مالک ہے۔ اس سے ان تمام شرکیہ عقائد کی نفی کر دی گئی جو بھی انسانی عقل میں در آسکتے ہیں۔ اس دنیا میں ملکیت اور حاکمیت کے نظریہ کی بھی وضاحت ہو جاتی۔ جب اللہ ہی حاکم و مالک ٹھہرا تو پھر اس دنیا میں بھی حق ملکیت کسی کو حاصل نہ ہو گا۔ انسان حاکم نہ ہو گا بلکہ وہ اسی وحدہ لاشریک حاکم کا خلیفہ ہو گا۔ اور وہ نظام خلافت میں ان تمام حدود و قیود کا پابند ہو گا جو حدود و قیود خلیفہ گیرندہ نے استخلاف کے وقت اپنی شریعت میں خلیفہ پر عائد کی ہیں۔ اس لئے کوئی خلیفہ شریعت کی حدود و قیود سے آزاد نہ ہوسکے گا۔ اور اگر کوئی خلیفہ ان قیود کی پابندی نہ کرے گا جو خلافت کے منصب کی وجہ سے اس پر عائد ہیں تو سرے سے اس کی خلافت ہی کالعدم ہو جائے۔ اور اہل ایمان کا یہ فرض ہو گا کہ وہ اس خلیفہ کے خلاف شریعت اقدامات کو مسترد کر دیں۔ اسلامی شریعت میں یہی اسلامی نظریہ کارفرما ہے نیز اس شریعت پر مبنی جو عملی زندگی تشکیل ہوتی ہے۔ اس کی تہہ میں بھی یہی نظریہ کارفرما ہے۔ جب اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں یہ فرماتے ہیں لَہُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الأرْضِ…….. "اور اسی کے لئے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے۔ "تو اس سے محض عقیدہ اور نظریہ یا محض خیال مراد نہیں ہوتا۔ یہ فقرہ دراصل انسان کی پوری زندگی کے لئے ایک دستوری دفعہ ہوتی ہے۔ نیز دنیاوی زندگی میں باہم جو رابطے قائم ہوتے ہیں، وہ بھی اسی اساس پر ہیں کہ جو اس دنیا میں ہے وہ اللہ کا ہے۔

جب یہ حقیقت انسانی ضمیر میں جاگزیں ہو جائے۔ جب انسان اپنے مالک حقیقی کا صحیح شعور اپنا لیتا ہے کہ وہ زمین وآسمان کا مالک ہے اور جب انسان اپنے دل و دماغ سے یہ غلط خیال نکال لیتا ہے کہ جسے وہ اپنی ملکیت سمجھتا ہے وہ تو اس کی ملکیت ہی نہیں ہے اور جب وہ شعوری طور پر اپنی جملہ مقبوضات کو مالک حقیقی کی ملکیت سمجھتا ہے اور جب انسان کے ذہن میں صرف یہ احساس پیدا ہو جاتا ہے کہ اس کے ہاتھ میں جو کچھ ہے وہ تو عارضی طور پر مانگا ہوا ہے۔ اور اسے مالک حقیقی کی جانب سے ایک محدود وقت کے لئے دیا ہوا ہے تو ان حقائق کا محض ادراک اور احساس ہی انسان کے دل سے اس کی سرتیزی، لالچ، حرص، بخل اور رات دن جمع کرنے کی فکر کی شدت کو کم کر دیتا ہے۔ اس تصور حیات اور ان احساسات کی وجہ سے انسان کے اندر صبر، تمنا اور قناعت اور راضی برضا ہونے کی صفات پیدا ہو جاتی ہیں۔ وہ فیاض اور سخی ہو جاتا ہے۔ اس کے دل میں سکون اور طمانیت پیدا ہو جاتی ہے۔ چاہے وہ امیر ہو یا غریب اس کی چال ڈھال میں ایک قسم کا سکون و اطمینان اور قرار پیدا ہو جاتا ہے۔ اگر اسے کچھ نہ ملے تو اسے حسرت نہیں ہوتی اور اگر اسے اس کا مطلوب حاصل نہیں ہوتا تو وہ اپنے دل میں جلن یا گھٹن نہیں پاتا۔

مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَہُ إِلا بِإِذْنِہِ……………. "کون ہے جو اس کے ہاں، اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرتا ہے ؟”یہ صفات باری میں سے ایک دوسری صفت ہے۔ اس سے مقام الوہیت اور مقام عبدیت کی اچھی طرح وضاحت ہو جاتی ہے۔ بندے سب کے سب اللہ تعالیٰ کے دربار میں مقام عبودیت میں کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے اس مقام سے نہ آگے بڑھ سکتے ہیں اور نہ تجاوز کرسکتے ہیں۔ وہ بندے کے مقام پر خشوع وخضوع کی حالت میں ایستادہ ہوتے ہیں۔ جو نہ رب کی طرف آگے بڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی اس کے ہاں سفارش کی جرأت کرسکتا ہے۔ الا یہ کہ اسے پیشگی اجازت مل گئی ہو تو وہ اس صورت میں اس اجازت کی حدود میں سفارش کرسکتا ہے۔ ہاں یہ بندے اور غلام خود اپنے درمیان ضرور فرق مراتب رکھتے ہیں اور خود اللہ کے ہاں بھی ان کے درجات و مقامات میں ضرور تفاوت ہے۔ لیکن جناب باری تعالیٰ میں ان کے لئے ایک حد عبدیت ہے جس سے انہیں آگے بڑھنے کی نہ اجازت ہے اور نہ صلاحیت۔

اللہ تعالیٰ کی شان کبریائی، اس کی جلالت شان اور اس کے رعب و دبدبے کی طرف یہاں ایک اشارہ کیا گیا ہے اور استفہام انکاری کا فقرہ استعمال کر کے اس اشارے کو مزید مؤثر بنا دیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟اور اگر ایسا ہوا تو وہ ناپسندیدہ ہو گا۔ لہٰذا کون ہے جو جناب باری تعالیٰ میں ایسی جرأت کرسکے ؟ہاں اگر اس کی اجازت ہو تو……..

اس حقیقت کی روشنی میں وہ تمام باطل تصورات واضح ہو جاتے ہیں۔ جو انبیاء ورسل کے بعد میں آنے والے لوگوں میں پیدا ہو گئے تھے جن کے حاملین نے حقیقت الٰہیہ اور حقیقت عبدیت کے درمیان التباس پیدا کر دیا تھا۔ ان لوگوں نے یہ عقیدہ اختیار کر لیا تھا کہ اللہ کا بیٹا ہے جو ا س کے ساتھ بوجہ تعلق ابنیت کسی نہ کسی شکل میں شریک اور خلیط ہے۔ پھر انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسے لوگوں کا شریک بنا لیا تھا جو اللہ کے ہاں سفارش کرتے ہیں اور وہ لازماً ان کی سفارش کو تسلیم کرتے ہیں یا پھر انہوں نے انسانوں میں سے بعض کو اللہ کا جانشین مقرر کر دیا تھا جو اللہ سے اپنی قرابت کی وجہ سے اختیارات حاصل کر چکے تھے لیکن اس حقیقت کے اظہار کے بعد اللہ کے ہاں کوئی شفیع نہیں ہے۔ یہ تمام تصورات باطل اور ناپسندیدہ ٹھہرتے ہیں۔ اور انسانی ذہن انہیں قبول ہی نہیں کرتا۔ انسانی ضمیر اس کا انکار کرتا ہے اور وہ ایک مومن کے رخ خیال پر آتے ہی نہیں۔

یہ اسلامی تصور حیات کا ایک جلا ہے کہ اس میں کوئی وہم وتلبیس نہیں ہے۔ اسلامی سوچ میں کوئی لچک نہیں ہے۔ خدائی، خدائی ہے اور بندگی، بندگی ہے۔ ان دو حقائق میں کوئی ذاتی التقاء ممکن نہیں ہے۔ رب، رب ہے اور بندہ، بندہ ہے۔ ان کے مزاج اور طبیعت میں اشتراک ممکن نہیں ہے اور نہ ہی ان کا آپس میں ملاپ اور ایکا ممکن ہے۔

ہاں بندے کا اپنے رب کے ساتھ ایک تعلق ہوتا ہے۔ رب کی جانب سے بندے پر رحمت کا نزول ہوتا ہے۔ قرب، محبت اور اعانت ہوتی ہے۔ اسلام اس تعلق کو تسلیم کرتا ہے اور تعلق باللہ سے نفس انسانی کو شرابور کر دیتا ہے۔ اس سے دل مومن بھر جاتا ہے اور اس پر فیضان رحمت و محبت ہوتا ہے اور مومن رحمت رب کی خوشگوار چھاؤں میں زندگی بسر کرتا ہے۔ بغیر اس کے ذات الٰہی اور ذات انسانی کے درمیان اختلاط ہو کوئی تصور پیش کیا جائے۔ بغیر اس کے کہ ہم حق و باطل کی کوئی آمیزش کریں یا افکار باطلہ کا ڈھیر لگا کر کوئی ایسا فکری انتشار و اضطراب پیدا کریں، جس میں صداقت اور سچائی کوئی واضح اور صاف و شفاف صورت نظر نہ آئے۔

يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وَلا يُحِيطُونَ بِشَيْء ٍ مِنْ عِلْمِہِ إِلا بِمَا شَاء َ……………. "جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے اس سے بھی وہ واقف ہے۔ اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز بھی ان کی گرفت ادراک میں نہیں آسکتی۔ الا یہ کہ کسی چیز کا علم ہو خود انہیں دینا چاہے۔ "اس حقیقت کے دو متقابل پہلو ہیں۔ ایک جانب اس سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ ایک مسلم کا تصور الٰہ کیا ہے ؟دوسری جانب اس کا اظہار ہوتا ہے کہ اس الٰہ کے سامنے بندۂ مسلم کا مقام کیا ہے ؟اللہ کا مقام یہ ہے کہ وہ ہر ظاہر و باطن، حاضر و غائب کے بارے میں مکمل علم رکھتا ہے۔ وہ علیم و خبیر ہے۔ اس کا علم، کامل، جزئیات پر حاوی اور تمام موجودات پر مشتمل ہے۔ وہ انسان کی موجود حاضر پر بھی حاوی ہے۔ اور ان سے پوشیدہ ماضی اور آنے والے مستقبل پر بھی حاوی ہے۔ وہ ان امور پر بھی حاوی ہے جنہیں انسان جانتا ہے اور ان پر بھی حاوی جن کے بارے میں اسے کوئی علم نہیں ہے۔ غرض ان فقیروں میں اللہ تعالیٰ کے علم کی شمولیت اور استقصاء کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ رہے انسان تو وہ صرف اس قدر جانتے ہیں جس قدر انہیں اللہ تعالیٰ جاننے کی اجازت دیتے ہیں۔

حقیقت کا پہلا حصہ یہ ہے کہ اللہ ہر ظاہر و باطن کا عالم ہے۔ یہ حقیقت نفس انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے انسان اور اس کا ضمیر باری تعالیٰ کے سامنے بالکل ننگا ہو جاتا ہے۔ باری تعالیٰ ظاہر و باطن کا علیم و بصیر ہے۔ جس حقیقت کا انسان کو علم ہے اور وہ اس کا اظہار کر رہا ہے وہ بھی اس کے سامنے ہے اور جس چیز کو وہ نہیں جانتا وہ بھی اس کے سامنے ہے۔ وہ ماضی، حال اور مستقبل مستور کو بھی جانتا ہے۔ جس کے بارے میں نفس انسانی بے علم ہوتا ہے۔ جب انسان کو اس حقیقت کا صحیح شعور ہو جائے تو اس کے جسم پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ وہ تو باری تعالیٰ کے سامنے بالکل ننگا کھڑا ہے۔ نیز اس تصور سے نفس انسانی میں تسلیم و رضا اور خدا خوفی کے جذبات پید اہوتے ہیں اس لئے کہ وہ علیم و بصیر ہے۔

دوسرا پہلو اس حقیقت کا یہ ہے کہ انسان کا علم صرف اس حد تک محیط ہے جس حد تک اللہ تعالیٰ کی مرضی ہو۔ انسانوں کو اس حقیقت پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہئے۔ خصوصاً اس دور میں جبکہ انہوں نے اس کائنات کے طبیعی اور تخلیقی شعبے میں قدرے معلومات حاصل کر لی ہیں۔

وَلا يُحِيطُونَ بِشَيْء ٍ مِنْ عِلْمِہِ إِلا بِمَا شَاء َ……………. "اور وہ اللہ کے علم میں سے کسی چیز کا ادراک نہیں کرسکتے الا یہ کہ خود اللہ چاہے۔ "صرف اللہ ہی ہر چیز کا مکمل علم رکھتا ہے جو کامل اور شامل ہے۔ اور اس کا علم بے قید ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی اجازت ہی سے انسانوں پر بعض علوم منکشف ہو جاتے ہیں۔ اور یہ انکشافات اللہ تعالیٰ اس لئے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا وعدہ فرمایا ہوا ہے اور اس کا وعدہ ہمیشہ سچا ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں سَنُرِيہِمْ آيَاتِنَا فِي الآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِہِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ……………. "عنقریب ہم ان کو اپنے نشانات دکھائیں گے جو آفاق میں بھی ہیں اور خود ان کے نفسوں میں بھی ہیں، تاکہ ان پر یہ حقیقت واضح ہو جائے کہ وہ حق ہیں۔ "لیکن انسان اس بات کو بھول جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان پر جن علوم و حقائق کا انکشاف کر دیتے ہیں وہ ان کے لئے فتنہ بن جاتے ہیں۔ چاہے اس انکشاف کا تعلق قوانین فطر ت کائنات سے ہو یا اس کا تعلق ان پوشیدہ معلومات سے ہو جسے وہ چند لحظوں کے لئے ایک متعین حد کے اندر اندر رہ کر جان لیتے ہیں۔ ان دونوں حقائق اور عطا کردہ معلومات سے انسان فتنے اور گمراہی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اور وہ اس حقیقت کو فراموش کر دیتا ہے کہ ان انکشافات کا اصل داتا تو اللہ ہے۔ اس فتنے اور گمراہی کی وجہ سے وہ نہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور نہ ذکر الٰہی ان کے دل میں ہوتا ہے بلکہ وہ خود سر ہو جاتے ہیں اور پھول جاتے ہیں بلکہ بعض اوقات کفر تک کی نوبت پہنچ جاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے جب چاہا کہ انسان کو اس کرۂ ارض پر اپنا خلیفہ بنائے تو اس نے انسان کو اپنی معرفت سے نوازا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے ساتھ یہ وعدہ کیا کہ وہ عنقریب تمہیں انفس اور تمہارے آفاق میں تمہیں بعض نشانات راہ دکھائے گا۔ اللہ کا وعدہ ہمیشہ سچا ہوتا ہے۔ اور اللہ نے اسے یوں سچا کر دکھایا کہ آئے دن انسان پر نئے نئے رازوں کا انکشاف ہوتا ہے۔ نسلوں کے بعد نسلوں میں ان اکتشافات کا گراف مسلسل اوپر چلا جا رہا ہے۔ ان انکشافات میں قدرتی توانائیاں، اور اس کائنات کے طبیعی اصول شامل ہیں جو فریضۂ خلافت ارضی ادا کرنے کے لئے انسان کے لئے ضروری ہیں تاکہ وہ اصولوں کی دریافت کے نتیجے میں ان درجات بلند تک پہنچ سکے جو اس کے لئے اللہ نے مقدر کر رکھے ہیں۔

اس میدان میں اللہ تعالیٰ نے جس قدر علم مناسب سمجھا، انسان کو عطا کر دیا اور اسے اجازت دے دی کہ وہ اس میں کام کرے اور کچھ گوشے ایسے بھی تھے جن کی بابت اللہ تعالیٰ نے انسان کو علم نہیں دیا۔ اس لئے کہ منصب خلافت فی الارض کے لئے اسے ان گوشوں کی ضرورت نہ تھی۔ مثلاً انسان سے خود زندگی کا راز پوشیدہ رکھا گیا جو ابھی تک پوشیدہ ہے اور مستقبل میں بھی وہ ذہن انسانی کے قابو میں آنے والا معلوم نہیں ہوتا۔ اور ابھی تک پوزیشن یہ ہے کہ اس موضوع پر بحث کرنا اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے برابر ہے۔ جبکہ کسی بات پر کوئی بین دلیل نہیں ہوتی۔ اس طرح انسان سے اگلے لمحے میں ہونے والے واقعات محفوظ اور پوشیدہ رکھے گئے۔ کیونکہ وہ واقعات غیب ہیں جن تک رسائی کی کوئی سبیل نہیں ہے۔ اور ان کے آگے اس قدر بھاری دیوار کھڑی کر دی گئی ہے کہ انسان اسے دور نہیں کرسکتا۔ ہاں البتہ بعض اوقات اس پردۂ مستور کے پیچھے سے اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو ایک جھلک دکھا دیتا ہے۔ اور پھر پردہ گر جاتا ہے اور خاموشی چھا جاتی ہے۔ اور انسان کی رفتار ایک حد پر رک جاتی ہے اور وہ اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔

بہت سے اسرار و رموز انسان سے پوشیدہ رکھے گئے، جن کے علم کی اسے کوئی حقیقی ضرورت نہ تھی۔ جن کے بغیر بھی وہ خلافت فی الارض کے فرائض سرانجام دے سکتا تھا۔ اور اس زمین کی حقیقت کیا ہے ؟یہ تو ایک ذرہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ اس وسیع کائنات کی فضا میں تیر رہا ہے۔

اپنے اس علم کی محدودیت کے باوجود اور اس حقیقت کے باوجود کہ اسے جو کچھ دیا گیا ہے وہ اللہ کی جانب سے ہے اور اس کی اجازت ہے۔ انسان فتنے میں پڑ جاتا ہے۔ وہ اس زمین پر اپنے آپ کو الٰہ سمجھنے لگتا ہے۔ وہ کفر کی راہ اختیار کرتے ہوئے اس کائنات کے لئے کوئی اور الٰہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ حالانکہ آج بیسویں صدی کے سائنس دان بڑی عاجزی سے یہ تسلیم کرنے لگے ہیں کہ ان کا علم محدود ہے۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس کائنات کے وہ گوشے بہت ہی کم ہیں جن کا وہ ادراک کرسکے ہیں۔ ہاں بعض جاہل جو اپنے آپ کو سائنس دان سمجھتے ہیں وہ اس غرے میں مبتلا ہیں کہ وہ بہت کچھ جانتے ہیں۔

وَسِعَ كُرْسِيُّہُ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضَ وَلا يَئُودُہُ حِفْظُہُمَا…….. "اس کی حکومت آسمانوں اور زمینوں پر چھائی ہوئی ہے اور اس کی نگہبانی اس کے لئے تھکا دینے والا کام نہیں ہے۔ ”

یہ مقام تو ایسا ہے کہ یہاں اللہ کے اقتدار اعلیٰ کا بیان مجرد طور پر کیا جاتا لیکن یہ قرآن کریم کا ایک خاص انداز بیان ہے کہ وہ مجرد حقائق کو بھی محسوسات کی شکل میں پیش کرتا ہے۔ اس محسوس تصویر کشی کے انداز بیان سے ذہن انسانی اصل حقیقت کے قریب آ جاتا ہے۔ اور یوں حقیقت انسان کے دل و دماغ میں بیٹھ جاتی ہے۔ کرسی سے مراد بالعموم اقتدار اعلیٰ ہوتا ہے۔ اور جب یہ کہا گیا کہ اس کی کرسی آسمانوں اور زمین سے بھی وسیع تر ہے تو گویا آسمانوں اور زمین پر اسی کا اقتدار اعلیٰ قائم ہے۔ یہ بات تو تصوراتی پہلو سے ہے لیکن ایک محسوس اور ٹھوس انداز تعبیر سے جو تصویر ذہن نشین ہوتی ہے وہ دیرپا اور ٹھوس ہوتی ہے۔ یہی بات وَلا يَئُودُہُ حِفْظُہُمَا میں ہے۔ اس میں بطور کنایہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا بیان کیا گیا ہے۔ لیکن یہ تعبیر بھی محسوس انداز میں پیش کی گئی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کو اس عظیم نگہبانی میں نہ کوئی جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ اور نہ ہی اسے کوئی تھکاوٹ لاحق ہوتی ہے۔ تعبیر کا یہ انداز قرآن کریم اس لئے اختیار کرتا ہے کہ معانی کی ایسی تصویر کشی کی جائے کہ وہ حس میں اتر جائے اور اس طرح ذہن انسانی میں یہ معانی اچھی طرح بیٹھ جائیں اور یوں نظر آئیں جس طرح محسوسات نظر آتے ہیں۔

جو شخص قرآن کے اس انداز بیان کو سمجھ لیتا ہے اسے ان مباحث اور اعتراضات سے کوئی دلچسپی نہیں رہتی جو قرآن کی اس محسوس انداز تعبیر پر یونانی فلسفہ کے نتیجے میں پیدا ہوئیں اور ان پر طویل عرصے تک جدل و جدال ہوتا رہا۔ کیونکہ ان مباحث نے قرآن مجید کے سادہ اور فطری انداز تعبیر کو خواہ مخواہ چیستاں بنانے کی کوشش کی اور اس کے حسن سادہ کو ختم کر دیا(تفصیلات کے لئے دیکھئے میری کتاب التصویر الفنی فی القرآن میں فصل التصویر الفنی اور طریقتہ القرآن)

یہاں اس قدر کہنا کافی ہے کہ کرسی اور عرش کے بارے میں مجھے کوئی ایسی صحیح حدیث نہیں ملی ہے جس میں کرسی اور عرش کی تفسیر اور توضیح کی گئی ہو۔ اس لئے میں یہی مناسب سمجھتا ہوں کہ اس سے زیادہ ان کے بارے میں مزید کچھ نہ کہوں۔

وَہُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ……………. "اور وہ بزرگ و برتر ہے۔ "اس آیت میں جو صفات بیان کی گئی ہیں یہ ان میں سے آخری صفات ہیں۔ جن میں ایک حقیقت کا بیان ہے اور نفس انسانی میں اس حقیقت کا القاء مقصود ہے۔ یعنی صرف وہ ذات ہی بلند ہے اور صرف وہ ذات ہی عظیم ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ اس کے علاوہ نہ کوئی عظیم ہے اور نہ کوئی سربلند ہے۔ یہ نہیں کہا گیا کہ "وہ بزرگ وبرتر ہے "بلکہ یہ کہا گیا کہ "وہی علی اور وہی عظیم ہے "پہلی تعبیر میں نص علو وعظمت ثابت ہوتی ہے۔ دوسری تعبیر میں علو اور عظمت کو ذات باری کے ساتھ مخصوص کر دیا گیا۔ اور یہ اشارہ دیا گیا کہ اس معاملے میں اس کے ساتھ کوئی بھی شریک نہیں ہے۔

صرف وہی علی ہے۔ عظمت میں وہ منفرد ہے۔ اور بندوں میں سے جو بھی علو اور عظمت کا ادعاء کرتا ہے اللہ اسے ذلیل اور سرنگوں کرتا ہے۔ اور آخرت میں وہ توہین آمیز سزا کا مستحق ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں تِلْكَ الدَّارُ الآخِرَۃُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِينَ لا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الأرْضِ وَلا فَسَادًا……………. "وہ آخرت کا گھر ان لوگوں کے لئے مخصوص کر دیں گے جو زمین پر اپنی بڑائی نہیں چاہتے اور نہ فساد کرنا چاہتے ہیں "(۸۳:۲۸) اور جب فرعون کو ہلاک کیا گیا تو اس پر یہ تبصرہ کیا گیا انہ کان من العالین…………….”وہ ان لوگوں میں سے تھا جو اپنی بڑائی چاہتے ہیں۔ ”

انسان بہت بلند ہوسکتا ہے، وہ عظمت وسربلندی کے اونچے مدارج تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ لیکن وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کے حدود و قیود سے باہر نہیں نکل سکتا۔ اور جب قلب مومن میں یہ عقیدہ اچھی طرح بیٹھ جاتا ہے تو وہ اسے مقام عبودیت تک پہنچا دیتا ہے۔ اور وہ سرکشی اور بڑائی سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اس کی طبیعت میں جھکاؤ پیدا ہو جاتا ہے۔ اور اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس کی ہیبت بیٹھ جاتی ہے۔ اس کے دل میں اللہ کی عظمت اور جلالت قدر کا شعور پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کا طرز عمل نہایت ہی مؤدبانہ اور پھر وہ اللہ کے بندوں کے مقابلے میں غرور و تکبر کا رویہ بھی اختیار نہیں کرتا۔ غرض یہ شعور ایک طرف سے ایک عقیدہ اور ایک تصور ہے اور دوسری جانب ایک طرز عمل اور ایک سلوک اور رویہ ہے۔

اسلامی تصور حیات کے ان دقیق پہلوؤں کی وضاحت اور تشریح اور اس کے بیان کے بعد کہ اس کائنات اور مخلوقات کا اپنے خالق کے ساتھ تعلق کیا ہے اور وضاحت کے بعد کہ خالق کائنات کے اوصاف کیا ہیں، اب یہاں یہ موضوع لیا جاتا ہے کہ اس ایمانین تصور حیات کو اپنا نصب العین بنانے کے بعد اب اہل ایمان کا طریق کار کیا ہو گا ؟وہ اس نظریہ کی دعوت کس طرح دیں گے۔ اور وہ اس گم راہ انسانیت کی ہدایت کے لئے کیا طریقہ اختیار کریں گے۔

 

"دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔ اب جو کوئی طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا، اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں اور اللہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ جو لوگ ایمان لاتے ہیں ان کا حامی اور مددگار اللہ ہے۔ اور وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں ان کا حامی و مددگار طاغوت ہے۔ اور وہ انہیں روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں۔ یہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے۔ ” (آیت ۲۵۶، ٢٥٧)

 

نظریہ ایک ایسی چیز ہے کہ بیان و ادراک کے بعد یہ سمجھنے اور سمجھانے کی چیز ہے۔ جبر و تشدد اور ظلم و عدوان کے نتیجے میں نظریات نہیں پھیلائے جا سکتے اور یہی پالیسی اسلام نے اسلامی نظریۂ حیات کی بابت اختیار کی ہے۔ دین اسلام اپنی پوری قوت اور طاقت کے ساتھ انسانی قوت مدرکہ کو خطاب کرتا ہے۔ وہ غور و فکر کرنے والے دماغوں کو خطاب کرتا ہے۔ اور ایک واضح سوچ دیتا ہے۔ اور وہ اثر پذیر وجدان کو مخاطب کرتا ہے۔ اسلام فطرت سلیمہ کو خطاب کرتا ہے بلکہ پوری انسانی شخصیت پر اثر انداز ہوتا ہے اور وہ انسانی فہم و ادراک کے ہر پہلو کو آزماتا ہے۔ جس میں وہ جبر و تشدد کو کام میں نہیں لاتا۔ یہاں تک کہ وہ نظریۂ حیات دینے میں خوارق عادت ذرائع کا بھی زیادہ استعمال نہیں کرتا۔ اس لئے کہ خوارق عادت واقعات کے نتیجے میں ذہن انسانی اگرچہ یقین کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے لیکن یقین کے باوجود ذہن انسانی اس حقیقت کے فہم و ادراک سے قاصر رہتا ہے۔ بات انسان کی عقل میں نہیں اترتی کیونکہ خارق عادت مناظر کی وجہ سے وہ عقل و ادراک کے دائرے سے باہر ہوتی ہے۔

اگر دین اسلام، اسلامی نظریۂ حیات کو لوگوں کے دلوں میں اتارنے کے لئے خارق عادت مناظر اور معجزات کا استعمال کرنا مناسب نہیں سمجھتا، اس لئے کہ یہ بھی مخاطب کو ایک طرح مجبور کرنا ہوتا ہے کہ وہ مان لے، تو اسلامی نظریہ کے پھیلانے میں جبر و اکراہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسلام کی یہ پالیسی نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو دباؤ اور تہدید کے ذریعہ دائرہ اسلام میں داخل کرے، اس معاملہ میں اسلام صرف تبلیغ اور تلقین افہام و تفہیم سے کام لیتا ہے۔ اور وہ لوگوں کے دل و دماغ کو مطمئن کرتا ہے۔

اسلام سے قبل مسیحیت آخری دین حق تھا۔ ا س کے پیروکاروں نے اس کے پھیلانے کے لئے اسلحہ کا استعمال کیا۔ لوگوں کو زندہ جلایا گیا۔ اور جوں ہی شہنشاہیت روما کے فرمانروا قسطنطین نے عیسائیت کو قبول کیا، حکومت نے جبر و تشدد کے تمام وسائل استعمال کئے اور لوگوں کو مسیحیت قبول کرنے پر مجبور کیا۔ حالانکہ اس سے پہلے یہی حکومت ان مسیحیوں کے خلاف جبر و تشدد کے تمام وسائل بروئے کار لا چکی تھی جنہوں نے برضاء و رغبت عیسائیت کو قبول کیا تھا۔ سلطنت روما کا یہ جبر و تشدد صرف ان لوگوں کے خلاف نہ تھا جو مسیحیت قبول نہ کر رہے تھے بلکہ یہ جبر و تشدد ان صحیح العقیدہ مسیحیوں کے خلاف بھی بڑی بے دردی سے جاری رہا جو حضرت مسیح علیہ السلام کی ذات کے بارے میں حکومت روما کے غلط عقائد تثلیث قبول کرنے پر آمادہ نہ تھے۔

جب اسلام آیا تو اس کا پہلا اعلان ہی یہ زریں اصول تھا کہ اسلام کے قبول کرنے پر کسی کو مجبور نہ کیا جائے۔ گمراہی سے ہدایت بالکل الگ ہو گئی ہے۔ اب یہ لوگوں کا اپنا کام ہے کہ وہ برضا ہدایت قبول کریں۔

اس اصول کو وضع کر کے اللہ تعالیٰ نے انسان کو عزت و کرامت سے نوازا۔ اس کے ارادے، اس کی فکر اور اس کے شعور کا احترام کیا گیا اور نظریاتی ہدایت و گمراہی کے اختیار کرنے میں اسے آزاد چھوڑ دیا ہے۔ اسے کہہ دیا گیا کہ وہ ایک ذمہ دار ذات ہے۔ اس سے اس کے افعال و اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ یہ آزادی انسانی آزادیوں میں سے اہم ترین آزادی ہے جو اسلام نے انسان کو عطا کی۔ یہ وہ آزادی ہے جس سے انسان اس بیسویں صدی میں بھی محروم ہے۔ متعصب نظریات اور ظالمانہ نظامہائے زندگی آج بھی انسان کو یہ آزادی نہیں دیتے۔ ذات انسانی جسے اللہ نے مکرم بنایا ہے آج اسے اپنے عقائد کے معاملے میں مجبور و مقہور بنا دیا گیا ہے۔ اسے مجبور کیا جا رہا ہے کہ یا تو ان نظریات کو اپنائے جسے حکومت وقت اپنے تمام وسائل اور میڈیا کے ذریعہ پھیلاتی ہے اور جو ایسے نظریات ہیں جو انکار خدا کے تصورات پر مبنی ہیں اور یا وہ موت کے لئے تیار ہو جائے۔

حقیقت یہ ہے کہ نظریاتی آزادی وہ پہلا حق ہے جوانسان کو بحیثیت ملنا چاہئے۔ جو شخص یا نظام انسان سے نظریاتی آزادی چھین لیتا ہے، وہ درحقیقت انسان سے اس کی انسانیت سلب کر لیتا ہے۔ نظریاتی آزادی کا پھر فطری تقاضا ہے کہ انسان کو اپنے عقیدہ کی تبلیغ کی بھی اجازت ہو۔ اور ایسا کرنے میں وہ محفوظ و مامون بھی ہو۔ اگر حریت عقیدہ کے ساتھ اظہار رائے کی آزادی نہ ہو تو آزادی رائے بے معنی ہو جاتی ہے اور اس میں کوئی واقعیت نہیں رہتی۔

اسلام زندگی اور موجودات کا ایک بہترین تصور ہے اور وہ بلا شک و شبہ ایک بہترین اور مستحکم نظام زندگی ہے۔ یہ اسلام ہی ہے جو ببانگ دہل پکار رہا ہے کہ اختیار کردہ دین میں کوئی جبر و اکراہ نہیں ہے۔ وہ اپنے قبول کرنے والوں کو سب سے پہلے یہ تلقین کرتا ہے کہ وہ لوگوں کو دین اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کرسکتے۔ جب اسلام جیسا دین فطرت لوگوں کو مسلمان بنانے کے لئے مجبور نہیں کرسکتا تو اس کے دوسرے مروجہ ادیان باطلہ کو یہ اجازت کیسے دی جا سکتی ہے کہ وہ محض حکومت کے بل بوتے پر ان ادیان کے نہ ماننے والوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیں۔

یہاں جبر و اکراہ کی مطلق نفی کی گئی ہے۔ یعنی دین میں سرے سے جبر نہیں ہے۔ یعنی جنس جبر کا وجود دین میں نہیں ہو گا۔ یعنی جبر کا وجود ہی نہ ہو گا۔ وہ وقوع پذیر ہی نہ ہو گا۔ یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ تم جبر کا ارتکاب نہ کرو۔ یعنی جبر تو ہو گا مگر تم جبر کا ارتکاب نہ کرو۔ جنس جبر اور وجود جبر کی نفی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سخت تاکید فرما رہے ہیں کہ اسلام میں جبر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور یہ انداز کلام نہایت ہی مؤثر ہے۔

یہاں سیاق کلام، انسانی ضمیر کو ٹچ کرتا ہے اور اسے جگا دیتا ہے، اسے راہ ہدایت اختیار کرنے کی ترغیب دلاتا ہے۔ اسے راہ راست کی طرف موڑ دیتا ہے اور یہ بیان کر دیا جاتا ہے کہ جس حقیقت ایمانی کا اعلان کیا گیا ہے وہ واضح اور متمیّز ہو چکی ہے۔ فرماتے ہیں قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ……………. "راہ ہدایت غلط راہوں سے الگ کر دی گئی ہے۔ "ایمان کی راہ، راہ ہدایت ہے۔ انسان کو چاہئے کہ وہ اسے پالے اور اس کی طرف لپکے۔ اور کفر بے راہ روی ہے۔ انسان کو چاہئے کہ اس سے نفرت کرے اور اس سے منسوب ہونے کے مواقع اپنے لئے فراہم نہ کرے۔

عملی صورتحال کچھ ایسی ہے کہ انسان دولت ایمان کی حقیقت کو پانے کی کوشش نہیں کر رہا ہے۔ ایمان انسانیت کو ایک صاف ستھرا تصور حیات دیتا ہے۔ وہ انسانیت کو اطمینان قلب اور سلامتی عطا کرتا ہے۔ وہ انسان کے دل و دماغ میں اعلیٰ قدریں اور پاک ترجیحات پیدا کرتا ہے۔ وہ انسانی معاشرہ کو ایک صحت مند نظام زندگی اور ترقی پذیر پالیسی عطا کرتا ہے۔ جس سے زندگی ترقی یافتہ اور متنوع بن جاتی ہے۔ ان خطوط پر اگر انسان حقیقت ایمانی پر غور کرتا تو پھر کوئی بے وقوف ہی ہوتا جو راہ ایمان کو اختیار نہ کرتا۔ ہدایت چھوڑ کر گمراہی لیتا، سیدھی راہ چھوڑ کر ٹیڑھی راہ اختیار کرتا۔ اطمینان، سلامتی، بلندی اور علوشان کے مقابلے میں بے اطمینانی، پریشانی، گراوٹ اور گمراہی اختیار کرتا۔

اس کے بعد حقیقت ایمانی کی مزید وضاحت اور تشریح کرتے ہوئے کہا جاتا ہے فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللَّہِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقَى لا انْفِصَامَ لَہَا……………. "اب جو طاغوت کا انکار کر کے، اللہ پر ایمان لے آیا، اس نے ایک مضبوط سہارا تھام لیا، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔ ”

الطاغوت، طغیان سے ہے۔ مفہوم ہے ہر وہ شخص جو صحیح فکر سے تجاوز کر جائے جو حق سے سرکشی کرے۔ جو ان حدود سے آگے بڑھ جائے جو اللہ نے اپنے بندوں کے لئے قائم کئے ہیں۔ اس کا اللہ کے بارے میں کوئی باضابطہ عقیدہ نہ ہو۔ وہ اللہ کی شریعت کا پابند نہ ہو۔ اسی طرح ہر وہ نظام طاغوتی نظام ہے جو ذات باری سے اخذ نہ کیا گیا ہو۔ اسی طرح ہر وہ عقیدہ، وہ تمام عادات و تقالید جو ذات باری سے مستفاد نہ ہوں، طاغوت ہیں۔ پس راہ راست پر وہی شخص ہے جو طاغوت کی ان تمام شکلوں اور تمام صورتوں کا انکار کر دے اور صرف اللہ وحدہ پر ایمان لائے اور وہی کامیاب ہے۔ اور اس کی مثال اس طرح ہے جس طرح ایک شخص مشکل حالات میں ایک مضبوط سہارا تھام لے جو گرنے والا نہ ہو۔

یہاں آ کر ہم اپنے آپ کو ایک شعوری حقیقت کی محسوس تصویر سامنے پاتے ہیں۔ اللہ پر ایمان لانا دراصل ایک ایسے سہارے کا دستیاب ہونا ہے جس کے کبھی کوئی زوال نہیں ہے۔ یہ ایک ناقابل انقطاع ٹھوس سہارا ہے جو شخص بھی اس سہارے کو مضبوطی سے پکڑ لے وہ کبھی بھی گمراہ نہ ہو گا۔ اس سہارے کا براہ راست اس ذات سے تعلق ہے جو کامیابی اور ناکامی کا مالک ہے۔ ایمان دراصل اس حقیقت کبریٰ تک رسائی کا نام ہے جس کی ذات سے اس کائنات کے تمام حقائق قائم ہیں یعنی ذات باری تک رسائی۔ ایمان اس ناموس اکبر تک رسائی کا نام ہے جو ذات باری نے کائنات کے لئے وضع کیا ہے۔ اور جس پر یہ کائنات قائم ہے۔ اور جو شخص ایمان کو مضبوط کر لیتا ہے وہ راہ راست پر پڑ کر اپنے رب تک جا پہنچتا ہے۔ اس کے پاؤں نہیں ڈگمگاتے۔ وہ پیچھے نہیں رہتا اور نہ وہ بھول بھلیوں میں پڑتا ہے۔ نہ بے راہ روی میں پڑتا ہے اور نہ گمراہی کا شکار ہوتا ہے۔

وَاللَّہُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ……………. "اور اللہ سن کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ "وہ مختلف بولیوں کی بات سنتا ہے۔ وہ دلوں کے مضمرات کو جانتا ہے۔ اس لئے جو شخص اس ذات پر ایمان لے آئے وہ گھاٹے میں نہ رہے گا۔ اس پر کوئی ظلم نہ ہو گا۔ اور نہ ہی وہ کبھی ناکام ہو گا۔

اب سلسلہ کلام اور آگے بڑھتا ہے۔ ایک متحرک اور محسوس انداز میں منظر کشی کی جاتی ہے۔ ہدایت کا صراط مستقیم اور گمراہی اور ضلالت کے راستے صاف صاف آنکھوں کے سامنے آ جاتے ہیں۔ نظر آتا ہے کہ ہدایت کیا ہے اور ضلالت کیسی ہے ؟اسکرین پر نظر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو ہاتھ سے پکڑ کر اندھیروں سے نکالتے ہیں اور روشنی میں لاتے ہیں جبکہ طاغوت جو کفار کے مددگار ہیں اہل کفر کا ہاتھ تھامے ہوئے انہیں نور ایمان سے ظلمات کفر میں لے جاتے ہیں۔

یہ ایک عجیب پر کیف زندہ منظر ہے۔ رہوار خیال کبھی ایک منظر کی طرف سرپٹ دوڑ رہا ہے اور کبھی دوسرے کی طرف۔ ادھر سے واپس ہوتا ہے تو ادھر بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ یہ انداز گفتگو ایسے جامد اور غیر متحرک انداز میں کلام کی جگہ اختیار کرتا ہے جو راہوار خیال کو مہمیز نہیں دے سکتا۔ نہ اس سے انسانی احساس لطف اندوز ہوسکتا ہے نہ شعور و وجدان میں تلاطم آتا ہے۔ اور جو صرف ذہن انسانی سے بذریعہ الفاظ ہی خطاب کرسکتا ہے۔

اگر ہم کلام الٰہی کی عظمت کا صحیح اندازہ کرنا چاہیں تو اسی مفہوم کو ہم مختلف الفاظ میں لفظ اور معانی کا اظہار کرسکتے ہیں مثلاً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ مسلمانوں کا دوست ہے وہ انہیں راہ ایمان کی طرف لاتا ہے اور وہ لوگ جو کفر اختیار کرتے ہیں، وہ انہیں راہ کفر کی طرف کھینچتے ہیں۔ "دیکھئے یہ الفاظ اور انداز کلام ہمارے سامنے مردہ پڑا ہے۔ اس میں وہ گرمی، وہ حرکت اور القاء نہیں ہے جو کلام الٰہی میں ہے (تفصیل کے لئے دیکھئے میری کتاب التصویر الفنی فی القرآن کی فصل طریقہ قرآن)

لیکن اس حسی اور القائی تصویر کشی کے ساتھ قرآن کریم کا حسن تعبیر اور حقیقت پسندانہ اظہار مفہوم دیکھئے۔

اللَّہُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُہُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُہُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَہُمْ مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ……………. "جو لوگ ایمان لاتے ہیں ان کا حامی و مددگار اللہ ہے اور وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں ان کے حامی و مددگار طاغوت ہیں اور وہ انہیں تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں۔ ”

حقیقت یہ ہے ایمان نور ہے۔ وہ اپنے مزاج اور حقیقت کے اعتبار سے ایک منفرد نور ہے۔ اور بے شک کفر اندھیرے ہیں اور یہ اپنے مزاج اور حقیقت کے اعتبار سے متعدد اور متنوع ہیں لیکن ہیں سب کے سب اندھیرے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان کی تعبیر نور کے ساتھ اور کفر کی تعبیر ظلمات کے ساتھ ایک بہترین تعبیر ہے۔ یہ نہایت ہی حقیقت پسندانہ انداز تعبیر ہے۔

جب دل مومن میں پہلے پہل ایمان کی چنگاری سلگتی ہے تو اس کے ذریعہ مومن کی پوری شخصیت نور سے بھر جاتی ہے۔ اس کی روح روشن ہوتی ہے اور اسے تشفی ہو جاتی ہے۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک مومن کی روح اپنے ماحول میں روشنی پھیلاتی ہے۔ اس کا ماحول روشن اور واضح ہو جاتا ہے۔ اس نور سے تمام موجودات کی حقیقت سامنے آ جاتی ہے۔ تمام اقدار کی تشریح ہو جاتی ہے۔ تمام تصورات حیات کی اصلیت سامنے آ جاتی ہے۔ مومن کا دل و دماغ ان تمام حقائق کو بغیر کسی ملاوٹ کے واضح طور پر پا لیتا ہے۔ وہ ہر قدر کو اپنی جگہ دیکھتا ہے اور اسے اس کا صحیح مقام دیتا ہے۔

ایمان ایک ایسا نور ہوتا ہے جس کے ذریعہ ایک مومن اس کائنات میں رائج قانون قدر ت کو پا لیتا ہے۔ اب یہ مومن اپنے طرز عمل کو اس کائنات میں رائج قانون قدرت کے ساتھ ہم آہنگ کر لیتا ہے۔ جو اس کے ارد گرد جاری وساری ہوتا ہے۔ اور وہ بڑی سنجیدگی کے ساتھ پر وقار طریقے سے اپنی راہ پر آگے بڑھتا ہے۔ وہ اپنی راہ کو چونکہ اچھی طرح پا لیتا ہے اس لئے وہ نہ کہیں گمراہ ہوتا ہے اور نہ ہی اپنی راہ میں غیر اہم رکاوٹوں کے ساتھ الجھتا ہے۔

یہ ایک ایسی روشنی ہے جو صرف ایک اور منفرد راستہ دکھاتی ہے۔ کفر کی گمراہیاں تو وہ مختلف قسم کی تاریکیاں ہیں۔ شہوت و خود سری کی تاریکی، فسق و فجور کی تاریکی، کبر و غرور اور سرکشی کی تاریکی، غلامی اور ضعیفی کی تاریکی، ریاکاری اور نفاق کی تاریکی، لالچ اور نفع اندوزی کی تاریکی، شک اور بے چینی کی تاریکی، غرض بے شمار اور لاتعداد ظلمات ہیں جو سب کے سب کفر و گمراہی کی تاریکیاں ہیں اور سب کا مزاج یہ ہے کہ ان میں گھرا ہوا انسان اللہ کی راہ سے بے طرف ہو جاتا ہے۔ وہ غیر اللہ سے ہدایت حاصل کرتا ہے اور غیر اسلامی نظام زندگی کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے اور جونہی ایک انسان اللہ کے اس منفرد نور اس واحد حقیقت پسندانہ اور واضح روشنی کو ترک کر دیتا ہے، وہ کفر کے مختلف اندھیروں میں سے کسی اندھیرے میں پھنس جاتا ہے۔ یہ اندھیرے متنوع ہیں اور سب ہپی اندھیرے ہیں۔ اور ان اندھیروں کا انجام کیا ہے ؟جو لوگ ان اندھیروں میں زندگی بسر کرتے ہیں أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ہُمْ فِيہَا خَالِدُونَ……………. "یہ لوگ آگ والے ہیں اور یہ ہمیشہ آگ میں رہنے والے ہیں۔ "اگر یہ لوگ اسلام کی روشنی میں راہ پانے کی کوشش نہیں کرتے تو وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ ہمیشہ آگ میں رہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ سچائی ایک اور منفرد حقیقت ہے۔ سچائیاں دو نہیں ہوسکتیں اور گمراہی کی مختلف انواع واقسام ہیں اور حق و صداقت کے علاوہ جو کچھ ہے وہ سب گمراہی ہے۔

اس سے پہلے کہ ہم اس سبق پر بات ختم کر کے آگے بڑھیں، مناسب یہ ہے کہ ہم اس قاعدے یعنیلاإِكْرَاہَ فِي الدِّينِ…………….کے بارے میں ایک اصولی بات کر دیں۔ اس قاعدہ کلیہ کے ساتھ ساتھ اسلام میں فرضیت جہاد کا بھی حکم دیا گیا ہے اور ایسے مواقع پیش آئے ہیں جن میں اسلام نے جہاد میں حصہ لیا ہے۔ حالانکہ ایک سابقہ آیت میں کہا گیا ہے۔ وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّى لا تَكُونَ فِتْنَۃٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّہِ……………. (بقرہ۱۹۳)”اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ نہ رہے اور نظام زندگی اللہ کا ہو جائے۔ ”

اسلام کے بعض مفاد پرست دشمنوں نے یہ الزام لگایا ہے کہ لاإِكْرَاہَ فِي الدِّينِ……………. کے اصولی قاعدہ کے ساتھ ساتھ جہاد کی فرضیت کا حکم دینا ایک متضاد بات ہیں۔ اس سوال کے جواب میں بعض لوگوں نے بظاہر اسلام کی مدافعت کرتے ہوئے اور بباطن اسلام کے ساتھ دشمنی کرتے ہوئے مسلمانوں کے شعور سے جذبۂ جہاد ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسے لوگ فریضہ جہاد کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اسلام کے قیام اور اس کی نشر و اشاعت میں فریضۂ جہاد نے بہت اہم رول ادا کیا ہے۔ ایسے لوگ بڑی مکاری سے، نہایت ہی نرم اندازسے اور نہایت ہی حکیمانہ انداز سے مسلمانوں کے دل میں یہ بات بٹھانا چاہتے ہیں کہ آج جہاد کی ضرورت باقی نہیں رہی اور نہ آئندہ کبھی فریضہ جہاد کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ بظاہر یہ لوگ یہ بات اسلام کی مدافعت میں کرتے ہیں (دیکھئے آرنلڈ کی کتاب "دعوت اسلامی "ترجمہ ڈاکٹر ابراہیم حسن وبرادرز)

یہ دونوں قسم کے لوگ مستشرقین ہیں۔ جو ایک ہی میدان میں کام کرتے ہیں۔ یہ دونوں اسلام کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ یہ اسلامی منہاج میں تحریف کرنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ اس شعور کو ختم کرنا چاہتے ہیں جو نظام جہاد ایک مسلمان کے نفس میں پیدا کر دیتا ہے۔ یہ لوگ اسلام کے شعور جہادسے خائف ہیں۔ اس لئے کہ میدان جہاد میں وہ کبھی بھی اسلام کا مقابلہ نہیں کرسکے۔ اس لئے اس شعور کو مٹا کر یہ اپنے لئے امن و اطمینان پیدا کرنا چاہتے ہیں اور جب سے انہوں نے دل مسلم سے جہاد ختم کیا ہے یا اسے الجھا دیا ہے، انہوں نے امت مسلمہ کے جسم پر مختلف پہلوؤں سے ضرب ہائے کاری لگائی ہیں اور ہر میدان میں اسے شکست دے دی ہے۔ یہ لوگ امت مسلمہ کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مسلم اقوام اور استعماری قوم کی جنگ فقط معاشی اور تجارتی منڈیوں کی جنگ ہے۔ لہٰذا اس جنگ میں امت مسلمہ کو جذبہ جہاد کو بیچ میں نہیں لانا چاہئے جو فقط نظریاتی جنگ میں کارآمد ہوتا ہے۔ اس لئے اس دور جدید میں جہاد کی بات بلا جواز ہے۔

اسلام نے پہلے پہل جہاد اس وقت شروع کیا جس وقت مسلمانوں پر مظالم توڑے جا رہے تھے تاکہ ان کی جان، مال اور نظریۂ حیات کو محفوظ کیا جا سکے۔ یعنی جہاد برائے قیام امن۔ اس تفسیر کے حصہ دوئم میں اس اصول کی تشریح آیت وَالْفِتْنَۃُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ……………. "اور فتنہ وفساد قتل سے زیادہ شدید ہیں "کی تفسیر کے موقع پر کر چکے ہیں۔ اس اصول کے مطابق اسلام نے نظریاتی تشدد اور اس کی وجہ سے جسمانی اذیت اور اہل نظریہ پر بوجہ نظریہ ظلم و تشدد کو قتل سے زیادہ شدید قرار دیا۔ اس اصول کے مطابق نظریات کی قدر و قیمت انسانی زندگی سے بھی زیادہ ہے۔ اگر ایک مسلمان کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اپنے مال اور اپنی جان کی حفاظت میں ہتھیار اٹھا سکتا ہے تو اسے بطریق اولیٰ اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اپنے دین، عقیدے اور نظریہ کی حفاظت اور دفاع میں ہتھیار اٹھائے۔ اس وقت مسلمان محض اپنے عقیدے کی وجہ سے ظلم و تشدد کی چکی میں پس رہے تھے۔ ان کے سامنے اس کے سوا اور کوئی چارۂ کار ہی نہ تھا کہ وہ اپنی عزیز ترین دولت یعنی دولت ایمان کی مدافعت میں ہتھیار اٹھائیں۔ ان پر یہ تشدد محض ان کے عقیدے کی وجہ سے ہو رہا تھا اور کرۂ ارض کے مختلف حصوں میں ان پر یہ مظالم ڈھائے جا رہے تھے۔ سرزمین اندلس نے ان وحشیانہ مظالم کو دیکھا ہے۔ وہ اس اجتماعی قتل و غارت کی گواہ ہے۔ جو مسلمانوں پر محض ان کے دین اور عقیدے کی وجہ سے ڈھائے گئے۔ پھر یہ سرزمین ان مظالم کی بھی گواہ ہے جو وہاں عیسائیوں کے کیتھولک فرقے نے دوسرے فرقوں کے خلاف روا رکھے تاکہ انہیں زبردستی کیتھولک بنایا جائے۔ آج اسپین کی حالت یہ ہے کہ وہاں سے مسلمان اور دوسرے عیسائی فرقوں کا نام و نشان مٹا دیا گیا ہے۔ پھر بیت المقدس اور اس کے اردگرد کے اسلامی علاقے صلیبی حملوں سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ جن کا ہدف صرف اسلامی نظریۂ حیات اور دین اسلام پر غلبہ پانا تھا۔ ان جنگوں کا دفاع بھی اہل اسلام نے اسلامی نظریۂ حیات کے پلیٹ فارم سے کیا اور وہ اس میں بہت اچھی طرح کامیاب رہے۔ اور ا س علاقے کو اندلس کے انجام بد سے بچالیا۔ آج بھی اشتراکی علاقوں، بت پرست علاقوں، یہودی علاقوں اور مسیحی علاقوں میں مسلمانوں پر ظلم ڈھائے جا رہے ہیں اور یہ محض اس لئے کہ وہ مسلمان ہیں۔ لہٰذا اگر صحیح معنوں میں مسلمان ہیں تو آج بھی ان پر جہاد فرض ہے جس طرح پہلے فرض تھا تاکہ مسلمانوں کے خلاف ان مظالم کو بند کیا جا سکے۔

اسلام کے نظریۂ جہاد کی پشت پر دوسرا محرک یہ تھا کہ نظریاتی آزادی کے بعد نظریاتی دعوت و تبلیغ کی آزادی کے لئے بھی مواقع پیدا کئے جائیں۔ اس لئے اسلام انسانی زندگی اور اس کائنات کا ایک بہترین حل پیش کرتا ہے۔ وہ اس کرۂ ارض پر انسانی زندگی کی نشوونما کے لئے ایک بہترین نظام تجویز کرتا ہے۔ وہ اس بہترین عقیدے اور مکمل نظام کو پوری انسانیت تک پہنچانا چاہتا ہے۔ تاکہ وہ اسے سنیں اور سمجھیں۔ اور سننے اور سمجھنے کے بعد پھر وہ آزاد ہیں کہ وہ اسے قبول کر لیں یا رد کر دیں۔ اس لئے کہ دین وہ عقیدے کے بارے میں وہ کسی جبر و اکراہ کا قائل نہیں ہے۔ لیکن مکمل نظریاتی آزادی سے پہلے اس امر کی ضرورت ہے کہ تمام انسانوں تک اسلامی پیغام کے پہنچنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ اس لئے کہ اللہ کی جانب سے یہ پیغام تمام انسانوں کے لئے بھیجا گیا ہے۔ لہٰذا وہ تمام رکاوٹیں دور ہونی چاہئیں جو عوام الناس کو اس پیغام کے سننے، اسے قبول کرنے اور اگر وہ چاہیں تو قافلہ ہدایت یافتگان میں شامل ہونے کی راہ میں حائل ہیں۔ ان رکاوٹوں میں سب سے بڑی رکاوٹ اس کرۂ ارض پر قائم طاغوتی نظام زندگی ہوتا ہے۔ یہ نظام عوام الناس اور اس پیغام کی راہ میں حائل ہوتا ہے۔ اور جو لوگ کسی طرح اس عقیدے اور پیغام کو سن کر اپنا لیتے ہیں۔ یہ طاغوتی نظام ان پر تشدد شروع کر دیتا ہے۔ لہٰذا اسلام نے جب بھی جہاد کیا ہے اس نے ایسے باطل اور طاغوتی نظامہائے زندگی کا قلع قمع کیا ہے۔ اور اس نے ایسے نظاموں کی جگہ ایسا عادلانہ نظام زندگی قائم کیا ہے جس میں ہر جگہ دعوت حق اور داعی حق کو پوری پوری آزادی حاصل ہو۔ یہ مقصد اور ہدف آج بھی قائم ہے۔ لہٰذا آج بھی مسلمانوں پر جہاد فرض ہے تاکہ وہ اس پیغام کو عام کرسکیں بشرطیکہ مسلمان، مسلمان ہوں۔

ایک دوسرا مقصد جس کے لئے اسلام نے جہاد کو روا رکھا ہے وہ اسلامی نظام زندگی کا قیام اور اس کی حفاظت ہے۔ یہ واحد نظام زندگی ہے جو ایک انسان کو اپنے دوسرے انسان بھائی تک رسائی حاصل کرنے کی آزادی عطا کرتا ہے۔ اور اس میں ہرانسان دوسرے انسان کی نسبت سے بالکل آزاد بھی ہے۔ اس نظام میں بندگی صرف خدائے واحد بلند و برتر کے لئے مخصوص ہے۔ اور یہ نظام اس دنیا سے انسان کی جانب سے دوسرے انسان کے لئے ہر قسم کی غلامی کا قلع قمع کر دیتا ہے۔ اس نظام میں کوئی فرد، کوئی طبقہ اور کوئی قوم دوسرے انسان کے لئے قانون سازی کا کام نہیں کرسکتی۔ اور نہ اس قانون سازی کے ذریعہ انسانوں کو کوئی اپنا غلام اور زیر دست بنا سکتا ہے۔ اس نظام میں سب انسانوں کا ایک ہی رب ہے۔ وہ تمام انسانوں کے قانون وضع کرتا ہے بالکل مساوات کے ساتھ۔ اور تمام انسان صرف اس رب کی بارگاہ میں خضوع اور خشوع کے ساتھ سجدہ ریز ہوتے ہں، صرف اس رب واحد کی بندگی کرتے ہیں اور صرف اس پر ایمان لاتے ہیں۔ اس نظام میں انسان کی جانب سے کسی دوسرے انسان کی اطاعت صرف ایک ہی صورت میں کی جاتی ہے کہ وہ اللہ کی شریعت کا نافذ کنندہ ہو۔ اور امت کی جانب سے نفاذ شریعت کا کام اس کے سپرد کر دیا گیا ہو۔ نفاذ شریعت کا کام بھی کوئی از خود نہیں کرسکتا۔ اس لئے کہ قانون سازی صرف اللہ کا کام ہے۔ انسانی زندگی میں شریعت شان خداوندی کا اظہار ہے۔ اس لئے کوئی انسان اس بات کا مستحق نہیں ہے کہ وہ اپنے لئے شریعت سازی کا کام مخصوص کرسکے حالانکہ وہ صرف ایک بندۂ اللہ ہے۔

یہ اسلامی نظام حیات کا اصل الاصول ہے اور اس اصول ودستور کے نتیجے میں ایک ایسا پاک اخلاقی نظام زندگی پرورش پاتا ہے جس میں تمام بنی نوع انسان کو کامل حریت اور آزادی حاصل ہوتی ہے۔ ان انسانوں کو بھی جو اسلامی عقیدۂ حیات کو سرے سے قبول ہی نہیں کرتے۔ اس نظام میں ہر شخص کی عزت محفوظ ہوتی ہے، یہاں تک کہ جو لوگ اسلامی نظام زندگی کو قبول ہی نہیں کرتے ہر اس باشندے کے حقوق محفوظ ہوتے ہیں جو کسی اسلامی ملک میں رہائش پذیر ہوتا ہے۔ چاہے اس کا عقیدہ جو بھی ہو۔ اس نظام میں کسی بھی شخص کو اسلامی عقیدہ اپنانے پر مجبور نہیں کیا جاتا۔ اس میں دین کے بارے میں کسی کو مجبور نہیں کیا جاتا۔ اس میں صرف تبلیغ کی آزادی ہوتی ہے۔

محض اسلام نے جہاد کو اس لئے فرض کیا ہے کہ وہ دنیا میں مذکورہ بالا ارفع اور اکمل نظام زندگی کو قائم کرے اور اس کی حمایت اور بچاؤ کی تدابیر اختیار کرے۔ یہ اسلام کا حق تھا کہ وہ بذریعہ جہاد باطل اور فاسد نظامہائے زندگی کا قلع قمع کر دے جو اس اصول پر قائم تھے کہ بعض انسان بعض دوسرے انسانوں کے غلام ہیں اور جن میں بعض انسان خدائی کے مقام کے مدعی ہوتے ہیں جو خدائی فرائض سنبھالتے ہیں، حالانکہ یہ ان کا حق نہیں ہوتا۔ اور ظاہر ہے کہ جب اسلام اس نصب العین کو لے کر اٹھتا ہے تو باطل نظامہائے زندگی بھی اس کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور وہ اس کے دشمن ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا اس کے سوا کوئی چارۂ کار ہی نہ تھا کہ اسلام ان طاغوتی نظاموں کا قلع قمع کر کے ان کی جگہ اس کرۂ ارض پر اپنے ارفع اور اکمل نظام کا اعلان کر دے۔ اور پھر اس نظام کے زیر سایہ انہیں اپنے مخصوص عقائد کے اندر آزادی عطا کر دے اور ان پر صرف اسلام کے اجتماعی سول کوڈ، اسلامی اخلاقیات اور مملکت کی اقتصادی پالیسی کی پابندی لازم ہو۔ رہے دینی اور قلبی عقائد و رجحانات تو وہ ان میں مکمل طور پر آزاد ہیں۔ ان کے شخصی قوانین و معاملات میں بھی وہ مکمل طور پر آزاد ہیں۔ اپنے عقائد کے مطابق اپنے معاملات طے کریں لیکن اسلامی نظام زندگی ان پر قائم ہو جو ان کی حفاظت کرے۔ ان کی آزادی اس کے سایہ میں محفوظ ہو۔ ان کو مکمل آزادی رائے حاصل ہو۔ ان کی عزت محفوظ ہو اور ان کے مکمل اساسی حقوق انہیں حاصل ہوں لیکن اس نظام کے دائرے کے اندر۔

یہ جہاد اب بھی باقی ہے اور مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اسلامی نظام زندگی کے قیام کے لئے اس جہاد کو قائم رکھیں۔

حَتَّى لا تَكُونَ فِتْنَۃٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّہِ……………. "یہاں تک کہ کوئی فتنہ باقی نہ رہے اور جنس دین اللہ کا ہو جائے۔ "اور اس دنیا سے انسان کی خدائی ختم ہو اور اللہ کے سوا کسی کی بندگی اور غلامی دنیا میں نہ رہے۔ (مسئلہ جہاد کی زیادہ وضاحت کے لئے ملاحظہ فرمائیے کتاب الجہاد فی الاسلام مصنفہ المسلم العظیم سید ابو ا لاعلیٰ مودودی۔ نیز میری کتاب "السلام العالمی فی الاسلام "(سید قطب)

غرض اسلام نے تلوار اس لئے نہیں اٹھائی کہ وہ لوگوں کو اسلامی اعتقادات اور تصورات اپنانے پر مجبور کر دے۔ نہ دنیا میں اسلام کا پھلاؤ تلوار کے بل بوتے پر ہوا ہے جیسا کہ اسلام کے بعض اعداء اسلام یہ الزام لگاتے ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے جہاد اس لئے شروع کیا تھا کہ وہ اس کرۂ ارض پر ایک پر امن نظام زندگی قائم کر دے جس کے سائے میں تمام عقائد اور مختلف دینی تصورات رکھنے والے لوگ امن و آشتی کی زندگی بسر کرسکیں۔ ہاں وہ اسلام کے سیاسی دائرے عمل میں رہتے ہوئے اپنے عقائد محفوظ رکھیں اور آزادی سے رہیں۔ اگرچہ وہ اسلامی عقائد قبول نہ کریں۔

اسلامی نظام کے وجود، اس کے پھیلاؤ اور اہل اسلام کے امن وسکون کے لئے اور ان لوگوں کے امن و اطمینان کے لئے جو لوگ اس نظام زندگی میں داخل ہونا چاہتے تھے اسلام کی مسلح قوت کی اشد ضرورت تھی۔ نیز اقامت دین اور حفاظت دین کے لئے بھی مسلح قوت کا وجود از بس ضروری تھا۔ اسلامی جہاد کا ادارہ کوئی معمولی اہمیت کا حامل نہ تھا۔ نہ وہ ایسا تھا کہ اس کی اس وقت کوئی ضرورت نہ ہو یا اس کی ضرورت نہ ہو یا یہ کہ مستقبل میں اس کی ضرورت نہ ہو۔ مسلمانوں کا بدترین دشمن یہ بات ان کے ذہن نشین کرتے ہیں کہ اب جہاد کی ضرورت نہیں ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کو ایک اجتماعی نظام کی ضرورت ہے۔ اس نظام کو ایک اجتماعی قوت کی ضرورت ہے۔ اور یہ قوت اسلام کے جذبہ جہاد میں مضمر ہے۔ یہ اسلام کا مزاج ہے جس کے بغیر نہ اسلام قائم ہوسکتا ہے اور نہ ہی وہ قائدانہ کردار ادا کرسکتا ہے۔

لا إِكْرَاہَ فِي الدِّينِ…………….”دین میں جبر نہیں ہے ” لیکن اس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید یہ حکم بھی دیتا ہے

وَأَعِدُّوا لَہُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّۃٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْہِبُونَ بِہِ عَدُوَّ اللَّہِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِنْ دُونِہِمْ لا تَعْلَمُونَہُمُ اللَّہُ يَعْلَمُہُمْ

"اور تم لوگ، جہاں تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کے لئے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعداء کو خوفزدہ کر دو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔ ”

اسلام کی نظر میں یہ بنیادی نقطہ ہے اور اسی کی روشنی میں مسلمانوں کو اپنے دین کو سمجھنا چاہئے اور اسی نقطۂ نظر سے اہلِ اسلام کو اپنی تاریخ پڑھنا چاہئے۔ اسلام کے نظریۂ جہاد کے بارے میں مسلمانوں کو ایسا موقف اختیارنہ کرنا چاہئے جس میں وہ ایک ملزم کی طرح کھڑے ہوں اور اپنا دفاع کرنے کی کوشش کر رہے ہوں۔ اس سلسلے میں انہیں ایک پر اعتماد، پر عزم اور خود دار شخص کا موقف اختیار کرنا چاہئے جسے یہ یقین ہو کہ وہ اس دنیا کے تمام تصورات سے بلند تر ہے۔ اسلامی نظام تمام نظاموں کے مقابلے میں بلند تر ہے۔ دین اسلام تمام ادیان سے بالاتر ہے۔ اہل اسلام کو ان لوگوں سے دھوکہ نہ کھانا چاہئے جو بظاہر دین اسلام کا دفاع کر رہے ہوتے نظر آتے ہیں لیکن دراصل وہ ان کے دل و دماغ سے تصور جہاد کھرچ کھرچ کر نکال رہے ہیں تاکہ وہ خود اسلام دشمن اقوام کو محفوظ کرسکیں۔ جہاد دراصل ظالم طاغوت کی برتری کو ریزہ ریزہ کرنے والا عمل ہے۔ اور جہاد میں تمام انسانیت کی بھلائی ہے۔ اور انسانیت کا سب سے بڑ دشمن وہ شخص ہے جو اسے جہادسے محروم کرتا ہے اور انسانیت اور جہاد کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے۔ لہٰذا یہ شخص انسانیت کا دشمن نمبر ایک قرار پاتا ہے۔ اور انسانیت میں اگر رشد و ہدایت ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے اس عظیم دشمن انسانیت کا پیچھا کرے۔ اس لئے کہ اہل ایمان امت مختار ہیں۔ انہیں دولت ایمان سے برگزیدہ بنایا گیا ہے۔ اس لئے خود ان کے اپنے نفوس کے لئے بھی اور پوری انسانیت کی خاطر بھی یہ ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ منکر جہاد کا تعاقب کریں اور یہ ان کا ایسا فریضہ ہے جس کے بارے میں ازروئے شریعت وہ عنداللہ مسئول ہیں۔

 

 

 

درس ۱۸ایک نظر میں

 

 

یہ تین آیات ہیں اور ان کا موضوع ایک ہے یعنی زندگی اور موت کی حقیقت کیا ہے ؟اور موت کے بعد زندگی کا راز کیا ہے ؟حیات بعد الممات اسلامی نظریات کا ایک اہم پہلو ہے۔ جس پر قرآن مجید میں بحث کی گئی ہے۔ اور اس پارہ کے آغاز ہی سے جا بجا اس پر بحث کی گئی ہے۔ نیز ان آیات کا ان صفات الٰہی کے ساتھ بھی براہ راست تعلق ہے جو آیت الکرسی میں بیان کی گئی ہیں۔ اور ان سب آیات سے قرآن کریم کی اس واضح جدوجہد کا اظہار ہوتا ہے، جو قرآن مجید، ایک مسلمان کے شعور و ادراک میں، ایک صحیح اسلامی تصور حیات کے پیدا کرنے کے لئے آ رہا ہے۔ اور انسانی زندگی کے بصیرت افروز جائزے کی خاطراس بات کی ضرورت ہے کہ ذہن انسانی میں اس کا صاف ستھرا تصور موجود ہو، جو اس کائنات کے حقیقی مشاہدے پر مبنی ہو۔ اور جو مضبوط اور دل نشین اعتقاد پر مبنی ہو۔ اس لئے کہ انسان کے پورے نظام زندگی، انسان کے مکمل طرز عمل اور اس کے تمام اخلاق و آداب کے قواعد و ضوابط کا ایک گہرا تعلق اگر اس عقائد و نظریات اور اس کے مکمل تصور کائنات کے ساتھ نہ ہو تووہ نظام زندگی نہ تو مضبوط ومستحکم ہوسکتا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی ایک مستقل معیار ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے تطہیر افکار اور عقائد و تصورات کی توضیح اور پختگی پر بڑا زور دیا ہے اور قرآن کریم کا مکی دور زیادہ تر اسی پر مشتمل ہے۔ اور یہی رنگ مدنی دور کی آیات میں بھی نظر آتا ہے۔ جہاں تفصیلی ہدایات اور قانون سازی بھی ہو رہی ہے۔

ان میں سے پہلی آیات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے دور کے بادشاہ کے درمیان ہونے والی گفتگو کو نقل کیا گیا ہے۔ یہاں بادشاہ کا نام نہیں دیا گیا، اس لئے کہ یہاں اس کے نام کے ذکر سے اصل بات میں کسی چیز کا اضافہ نہیں ہوتا۔ یہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور جماعت مسلمہ کے سامنے استعجاب کے ساتھ اس گفتگو کو پیش کیا جاتا ہے کہ اس شخص نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ رب کائنات کے بارے میں یہ مناظرہ کیا اور کس قدر احمقانہ موقف اختیار کیا۔ اس نے اور قرآن کریم نے اپنے خاص بلیغانہ انداز میں اس مباحثے کو نقل کیا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

تشریح آیات درس نمبر ۱۸ آیت ۲۵۸ تا ۲۶۰

 

"کیا تم نے اس شخص کے حال پر غور نہیں کیا جس نے ابراہیم علیہ السلام سے جھگڑا کیا تھا۔ جھگڑا اس بات پر کہ ابراہیم علیہ السلام کا رب کون ہے اور اس بنا پر کہ اس شخص کو اللہ نے حکومت دے رکھی تھی۔ جب ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ "میرا رب وہ ہے جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے۔ "تو اس نے جواب دیا :”زندگی اور موت میرے اختیار میں ہے۔ "ابراہیم علیہ السلام نے کہا:”اچھا، اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے رو ذرا اسے مغرب سے نکال لا۔ "یہ سن کر وہ منکر حق ششدر رہ گیا، مگر اللہ ظالموں کو راہ راست نہیں دکھایا کرتا۔ یا مثال کے طور پر اس شخص کو دیکھو، جس کا گزر ایک ایسی بستی پر ہوا، جو اپنی چھتوں پر اوندھی گری پڑی تھی۔ اس نے کہا:”یہ آبادی جو ہلاک ہو چکی ہے، اے اللہ کس طرح دوبارہ زندگی بخشے گا ؟”اس پر اللہ نے اس کی روح قبض کر لی اور وہ سو برس تک مردہ پڑا رہا۔ پھر اللہ نے دوبارہ اسے زندگی بخشی اور اس سے پوچھا :”بتاؤ کتنی مدت پڑے رہے ہو؟”اس نے کہا :”ایک دن یا چند گھنٹے رہا ہوں گا”فرمایا:”تم پر سو برس اسی حالت میں گزر چکے ہیں۔ اب ذرا اپنے کھانے اور پانی کو دیکھو کہ اس میں ذرا تغیر نہیں آیا ہے۔ دوسری طرف ذرا پنے گدھے کو بھی دیکھو (کہ اس کا پنجر تک بوسیدہ ہو رہا ہے )اور یہ ہم نے اس لئے کیا ہے کہ ہم تمہیں لوگوں کے لئے ایک نشانی بنا دینا چاہتے ہیں۔ پھر دیکھو کہ ہڈیوں کے اس پنجر کو ہم کس طرح اٹھا کر گوشت پوست اس پر چڑھاتے ہیں۔ "اس طرح جب حقیقت اس کے سامنے بالکل نمایاں ہو گئی، تو اس نے کہا؛”میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ "اور وہ واقعہ بھی پیش نظر رہے، جب ابراہیم علیہ السلام نے کہا تھا "میرے مالک، مجھے دکھا دے، تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے۔ "فرمایا:”کیا تو ایمان نہیں رکھتا؟”اس نے عرض کیا "ایمان تو رکھتا ہوں، مگر دل کا اطمینان درکار ہے۔ "فرمایا:”اچھا تو چار پرندے لے اور ان کو اپنے سے مانوس کر لے۔ پھر ان کا ایک ایک ٹکڑا ایک ایک پہاڑ پر رکھ دے۔ پھر ان کو پکار، وہ تیرے پاس دوڑے چلے آئیں گے۔ خوب جان لے کہ اللہ نہایت با اقتدار اور حکیم ہے۔ ” (آیت ۲۵۸، ٢٦٠)

 

 

یہ شخص جس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ یہ مباحثہ کیا وہ وجود باری کا منکر نہ تھا۔ وہ اگر منکر تھا تو اللہ کی وحدانیت اور ربوبیت کا منکر تھا۔ وہ اللہ تعالیٰ کو اس کائنات میں واحد متصرف اور واحد مدبر ماننے کے لئے تیار نہ تھا۔ اسی طرح جس طرح جاہلیت کے گمراہ لوگوں میں سے بعض ایسے تھے جو وجود باری کے معترف تھے لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بعض دوسروں کو شریک ٹھہراتے تھے۔ بعض افعال واقعات کو ان شریکوں کی طرف منسوب کرتے تھے۔ اسی طرح یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی صفت حاکمیت کے بھی منکر تھے۔ اسلامی تصور کائنات کے مطابق جس طرح اس کائنات کے تکوینی امور اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اسی طرح یہاں قانون سازی اور اجتماعی امور کے فیصلے کا اختیار بھی اللہ کے پاس ہے اور اس میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔

یہ منکر حق بادشاہ بہت ہی ہٹ دھرم تھا اور یہ اس سبب کی وجہ سے منکر حق تھا کہ اسے اللہ نے حکومت دی رکھی تھی۔

أَنْ آتَاہُ اللَّہُ الْمُلْكَ…………….حالانکہ اس سبب کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ اس کی وجہ سے پکا مومن ہوتا اور شکر گزار ہوتا اور اللہ کے احسانات کا معترف ہوتا لیکن اس نے اس اقتدار اور بادشاہت کی وجہ سے کفر و طغیان کا راستہ اختیار کیا۔ اور اللہ کے اس انعام کی ناقدری کی اور اس انعام و اکرام کی اصل حقیقت اور اس کے حقیقی تصور کو نہ پا سکا۔ شکر کی جگہ اس نے کفر کی روش اختیار کی۔ اور جو بات ان کی ہدایت کا سبب ہونا چاہئے تھی، اس کی وجہ سے وہ گمراہ ہو گئے۔ وہ حاکم اس لئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حاکم بنایا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حاکم اس لئے نہیں بنایا کہ وہ عوام کو خود اپنا بندہ بنا لیں۔ اور خود اپنے بنائے ہوئے قوانین کی پیروی کرائیں۔ وہ تو خود اللہ کے بندے ہیں جس طرح دوسرے لوگ اللہ کے بندے ہیں۔ وہ بھی ان کی طرح اللہ سے شریعت پانے والے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ سے بغاوت کر کے نہ حاکم رہتے ہیں اور نہ کوئی قانون بنا سکتے ہیں۔ یہ حکام تو خلفاء ہیں اصل حاکم نہیں ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ جب یہ بادشاہ نبی وقت کے ساتھ مباحثہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کو ان کا یہ طرز عمل عجیب نظر آتا ہے۔

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاہِيمَ فِي رَبِّہِ أَنْ آتَاہُ اللَّہُ الْمُلْكَ……………. "کیا تم نے اس شخص کے حال پر غور نہیں کیا جس نے ابراہیم علیہ السلام سے جھگڑا کیا تھا۔ جھگڑا اس بات پر کہ ابراہیم کا رب کون ہے ؟اس بنا پر کہ اس شخص کو اللہ نے حکومت دے رکھی تھی۔ "کیا تو نے نہیں دیکھا!یہ قابل مذمت رویے اور حقارت آمیز طرز عمل پر استعجاب کا اظہار ہے۔ انکار اور استنکار اپنے لفظی اور معنوی ہم آہنگی کی وجہ سے ایک ساتھ چلتے ہیں۔ اس بادشاہ کی یہ حرکت فی الحقیقت ناپسندیدہ ہے۔ اس لئے کہ انعام و اکرام پانے کے سبب اگر کوئی جدل و جدال شروع کر دے تو یقیناً قابل مذمت ہوتا ہے۔ نیز یہ بات بھی قابل مذمت ہے کہ کوئی رب کائنات کی صفات اپنے لئے مخصوص کرے۔ اور کوئی حاکم اپنی خواہشات نفس کے مطابق عوام الناس پرحکمرانی کرے اور تقنین وتشریح کے کام میں اللہ سے ہدایت نہ لے۔

إِذْ قَالَ إِبْرَاہِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ……………. "جب ابراہیم نے کہا کہ میرا رب وہ ہے جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے۔ "زندگی اور موت ایسے واقعات ہیں جن کا اعادہ ہر لحظہ ہوتا رہتا ہے، یہ حقائق ہر وقت انسانی احساس اور انسانی عقل کے سامنے آتے رہتے ہیں لیکن باوجود اس تکرار اور کثرت وقوع کے زندگی اور موت ایک حیرت انگیز راز ہیں۔ اس سربستہ راز کے حل کے لئے عقل انسانی ایک ایسے سرچشمے کی طرف رجوع کرتی ہے جو بشریت سے وراء ہے۔ اور ایک ایسے مرجع اور مصدر کی رجوع جس کا اس مخلوقات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لہٰذا اس ناقابل حل پہیلی کے صحیح حل کے لئے ضروری ہے کہ انسان ذات باری کی طرف رجوع کرے جو پیدا کرنے پر بھی قادر ہے اور فنا کرنے پر بھی قادر ہے۔

آج تک ہم موت و حیات کی حقیقت نہیں پا سکے۔ البتہ زندوں میں ہم زندگی کے آثار سمجھ لیتے ہیں اور مردوں سے ہم موت کی خصوصیات جان لیتے ہیں۔ اس لئے ہم مجبور ہیں کہ موت و حیات کی حقیقت اس حقیقی قوت کے حوالے کر دیں جو ان تمام قوتوں سے وراء ہے جن کو ہم جانتے ہیں یعنی قوت الٰہیہ۔

یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے رب کی ایک ایسی صفت بیان کی جس میں اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے۔ نہ کسی کو یہ زعم ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں شریک کار ہوسکتا ہے۔ جب ابراہیم علیہ السلام سے اس بادشاہ نے پوچھا کہ تمہارا رب کون ہے جو تمہارے لئے قانون بناتا ہے، ، جس کے پاس اقتدار اعلیٰ ہے اور جسے قانون سازی کے پورے اختیارات حاصل ہیں ؟تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا کہ میرا رب وہ ہے جس کے ہاتھ میں موت و حیات ہے۔ لہٰذا وہی ہے جو حاکم اور قانون ساز ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام موت و حیات کی حقیقت سے خوب واقف تھے۔ اور موت اور زندگی سے ان کی مراد یہ تھی کہ اللہ ان حقائق کا خالق ہے۔ اس لئے کہ وہ رسول تھے اور انہیں وہ لدنی اسرار و رموز عطا کئے گئے تھے جن کے بارے میں ہم نے حصہ اول میں بحث کی ہے۔ اور موت و حیات کی تخلیق ایک ایسا عمل ہے جس میں اللہ کے ساتھ اس کے بندوں میں سے کوئی شریک نہیں ہے لیکن جو بادشاہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ مباحثہ کر رہا تھا وہ یہ سمجھتا تھا کہ وہ اپنی قوم کا حاکم مختار ہے۔ اس کی قوم پر اس کے پورے احکام نافذ ہوتے ہیں۔ وہ سزائے موت بھی دے سکتا ہے اور معاف بھی کرسکتا ہے۔ تو گویا یہ بھی ایک قسم کی ربوبیت ہے۔ اس لئے اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا:”میں اس قوم کا سردار ہوں۔ ان کے معاملات میرے ہاتھ میں ہیں۔ اس لئے میں ہی ایک قسم کا رب ہوں۔ جس کے سامنے تمہیں بھی جھکنا چاہئے اور مری حاکمیت اور اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کرنا چاہئے۔ "چنانچہ اس نے کہا أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ…………….”زندگی اور موت میرے اختیار میں ہے۔ ”

اس موقعہ پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ مناسب نہ سمجھا کہ وہ اس کے ساتھ حقیقت موت و حیات کے موضوع پر تفصیلی بات چیت شروع کر دیں۔ خصوصاً ایسے شخص کے ساتھ جو حقیقت موت و حیات میں بذات خود اشتباہ میں تھا اور ڈانواں ڈول تھا۔ جو ہمیشہ ایک مشکل مسئلہ رہی ہے۔ یعنی یہ مشیئت کہ اللہ تعالیٰ انسان کو کس طرح زندگی عطا کرتے ہیں اور کس طرح اس پر موت طاری کر دیتے ہیں۔ یہ ایک ایسا راز ہے جس تک پوری انسانیت کی رسائی آج تک نہیں ہوسکی ہے۔ اس لئے اس مقام پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مناسب سمجھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اس مشکل تکوینی حقیقت سے ذرا ہٹ کر ایسی ظاہری سنت کا سہارالیں جو ہر وقت اس شخص کے مشاہدے میں آتی رہتی ہے۔ پہلے تو آپ نے صرف تکوینی سنت الٰہیہ کو پیش کیا کہ اللہ وہ ہے جو زندگی اور موت عطا کرتا ہے۔ اب انہوں نے اپنے مخالف کے لئے ظاہری چیلنج کاراستہ اختیار کیا کہ تم اللہ کی قدرت کے بارے میں جھگڑتے ہو تو اللہ کی سنن میں سے کسی سنت کو تبدیل کر کے دیکھ لو۔ اور یہ چیلنج انہوں نے یہ دکھانے کے لئے دیا کہ رب وہ نہیں ہوتا جو انسانی زندگی کے کسی ایک شعبے میں حاکم ہو یا کسی ایک خطے میں حاکم ہو وہ تو اس پوری کائنات میں متصرف ہوتا ہے اور اس کی عمومی ربوبیت کا تقاضا یہی ہے کہ وہ تمام لوگوں کے لئے قانون ساز بھی ہو اس لئے کہ وہ ان کا رب ہے۔

تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: قَالَ إِبْرَاہِيمُ فَإِنَّ اللَّہَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِہَا مِنَ الْمَغْرِبِ ……… "ابراہیم نے کہا:”اچھا اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تو ذرا اسے مغرب سے نکال لا۔ ” یہ بھی ایک مسلسل وقوع پذیر ہونے والی کائناتی حقیقت ہے۔ ہماری نظر روز یہ نظارہ دیکھتی ہے اور ہماری قوت مدرکہ روز اسے پاتی ہے اور کبھی بھی اس نظام میں کوئی تعطل یا تاخیر واقعہ نہیں ہوتی۔ یہ کائنات ایک شہادت ہے جو ہماری فطرت کو اپیل کرتی ہے۔ اگرچہ ہم اس کائنات کی طبیعت اور مزاج کو اچھی طرح نہ سمجھ پا رہے ہوں۔ اگرچہ ہم نے فلکیات کے بارے میں مختلف نظریات کا علم حاصل نہ کیا ہو۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے جس قدر انبیاء مبعوث فرمائے ہیں انہوں نے ہمیشہ انسانی فطرت کو مخاطب کیا ہے۔ چاہے فطرت انسانی اپنی علمی اور عقلی ترقی کے تاریخی مراحل میں سے جس مرحلے میں بھی ہو اور فطرت انسانی نے اجتماعی لحاظ سے ترقی کے جو مدارج بھی طے کئے ہوں انبیاء نے فطرت انسانی کا ہاتھ پکڑا ہے۔ اور اسے ترقی کے اگلے مدارج تک پہنچایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس بادشاہ کو چیلنج دیا اور جو مطالعہ فطرت پر مبنی تھا وہ لاجواب تھا۔ اور نتیجہ یہ نکلا فَبُہِتَ الَّذِي كَفَرَ……………. "تو وہ منکر حق ششدر رہ گیا۔ ”

یہ چیلنج اس منکر حق کے سامنے کھڑا تھا۔ بات بالکل واضح تھی، کسی غلط فہمی کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ مناسب رویہ تو یہ تھا کہ وہ سیدھی طرح ایمان لے آتا اور سر تسلیم خم کر دیتا لیکن جو شخص کافرانہ رویہ اختیار کر لیتا ہے اور پھر متکبر بھی ہوتا ہے۔ یہ صفات اسے رجوع الی الحق سے روک لیتی ہیں اور وہ حیران رہ جاتا ہے، پریشان ہوتا ہے اور متحیر ہو جاتا ہے۔ اسے نہیں سوجھتا کہ وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ لیکن اسے اللہ تعالیٰ راہ حق اس لئے نہیں سجھاتے کہ وہ ہدایت کا متلاشی ہی نہیں ہوتا۔ اسے راہ حق کی طرف آنے کا شوق نہیں ہوتا۔ وہ سیدھی راہ نہیں پکڑتا تاکہ منزل مقصود پائے۔ اس لئے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وَاللَّہُ لا يَہْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ……………. "مگر اللہ ظالموں کو راہ راست نہیں دکھایا کرتا۔ ”

اس واقعہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی پہلی جماعت، جماعت مسلمہ کے سامنے، بغض عناد اور ضلالت اور ہٹ دھرمی کی مثال کے طور پر پیش فرمایا۔ نیز ان لوگوں کے لئے بھی جو دور جدید میں دعوت اسلامی کا کام کرتے ہیں۔ یہ ایک تاریخی تجربہ کے طور پر قرآن مجید میں درج کر دیا گیا کہ اہل دعوت منکرین حق کا مقابلہ کس طرح کریں۔

سیاق کلام ایسے حقائق کو لے کے آگے بڑھتا جو ایمان و یقین کے ساتھ ایک واضح تصور کے عناصر ترکیبی ہیں۔ "میرا رب وہ ہے جس کے اختیار میں موت و حیات ہے۔ "اور "اللہ تو سورج کو مشرق سے نکال کر لاتے ہیں، تم ذرا اسے مغرب سے نکال کر دکھاؤ۔ "ایک حقیقت ایسی ہے جو نفوس انسانی میں پائی جاتی ہے۔ دوسری حقیقت ایسی ہے جو آفاق کائنات میں عیاں ہے۔ دونوں عظیم تکوینی حقیقتیں ہیں لیکن اپنی عظمت کے ساتھ ساتھ پیش پا افتادہ ہیں۔ روز کے مشاہدے میں ہیں۔ رات دن فکر و نظر کی آماجگاہ ہیں اور ان حقائق کے پانے کے لئے کسی بڑی علمی استعداد کی ضرورت نہیں ہے۔ اور نہ کسی طویل غور و فکر کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحیم و کریم ہے۔ وہ اللہ پر ایمان لانے اور اللہ کی جانب ہدایت پانے کے مسئلے پر اس قسم کی علمی اور منطقی بحث نہیں کرتا کہ جو کم علم آدمی کی دسترس سے باہر ہو یا ایسے لوگوں کی استعداد فکری کے دائرے سے باہر ہو جو غور و فکر کے معاملے میں طفل مکتب ہوں۔ یہ ایک زندہ اور اہم معاملہ ہے۔ انسانی فطرت کے لئے وہ لابدی ہے۔ اس کے بغیر انسانی زندگی استوار ہوسکتی ہے نہ انسانی معاشرہ اس کے بغیر منظم ہوسکتا ہے۔ اس کے بغیر انسان یہ پہچان حاصل نہیں کرسکتے کہ ان کے اجتماعی نظام اور اعلیٰ اقتدار اور آداب کا ماخذ کیا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ ایمان کے مسئلہ میں انسان کے ساتھ ایسے حقائق کو پیش نظر رکھ کر بات کرتا ہے، جو سب کے سامنے ہوتے ہیں اور جن کا تعلق فطرت انسانی سے ہوتا ہے۔ اور وہ حقائق ایسے ہوتے ہیں جو ہر فطرت سلیمہ سے اپنے آپ کو خود تسلیم کراتے ہیں۔ ان حقائق اور مشاہدات کے اشارات اس قدر مضبوط ہوتے ہیں کہ ان کی گرفت سے انسان بمشکل نکل سکتا ہے۔ اور ان سے دامن چھڑانے کے لئے اسے انتہائی محنت، مشقت، کبر و غرور اور عناد و مکابرہ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

اعتقادات اور ایمانیات کے علاوہ بھی انسانی زندگی کے وہ معاملات جن پر حیات انسانی مکمل طور پر موقوف ہے، ان میں بھی انسان راہ فطرت اپناتا ہے اور اشارات فطرت کے دائرے میں رہتا ہے۔ مثلاً تلاش معاش، ہوا، پانی، تناسل و تکاثر وغیرہ ان اہم معاملات میں بھی انسان کو اپنے حال پر نہیں چھوڑا گیا۔ یہاں تک کہ اس کی سوچ مکمل اور پختہ ہو گئی۔ اس کا علم ترقی کر گیا اور پختہ ہو گیا۔ اگر اسے یونہی چھوڑ دیا جاتا تو وہ کب کا ہلاک و برباد ہو گیا ہوتا۔ ایمان انسان کے لئے اسی قدر اہم اور ضروری ہے جس قدر اس کی زندگی کے لئے کھانا، پینا اور ہوا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان موضوعات پر اللہ تعالیٰ فطرت انسانی کے تقاضوں کے مطابق بات کرتا ہے اور ایسے آثار و شواہد پیش کرتا ہے جو انسان کے اردگرد صفحہ کائنات پر پھیلے ہوئے ہیں۔

راز حیات اور اسرار وجود ہی کے موضوع پر ایک دوسرا قصہ شروع ہو جاتا ہے۔

 

"یا پھر مثال کے طور پر اس شخص کو دیکھو، جس کا گزر ایک ایسی بستی پر ہوا، جو اپنی چھتوں پر اوندھی گری پڑی تھی۔ اس نے کہا :”یہ آبادی جو ہلاک ہو چکی ہے، اسے اللہ کس طرح دوبارہ زندگی بخشے گا ؟”اس پر اللہ نے اس کی روح مکمل قبض کر لی اور وہ سو برس تک مردہ پڑا رہا۔ پھر اللہ نے اسے دوبارہ زندگی بخشی اور اس سے پوچھا :”بتاؤ کتنی مدت پڑے رہے ہو؟”اس نے کہا:”ایک دن یا چند گھنٹے رہا ہوں گا”فرمایا:”تم پر سو برس اسی حالت میں گزر چکے ہیں۔ اب ذرا اپنے کھانے اور پانی کو دیکھو کہ اس میں ذرا تغیر نہیں آیا ہے۔ دوسری طرف ذرا اپنے گدھے کو بھی دیکھو (کہ اس کا پنجر تک بوسیدہ ہو رہا ہے )اور یہ ہم نے اس لئے کیا ہے کہ ہم تمہیں لوگوں کے لئے ایک نشانی بنا دینا چاہتے ہیں۔ پھر دیکھو کہ ہڈیوں کے اس پنجر کو ہم کس طرح اٹھا کر گوشت پوست اس پر چڑھاتے ہیں۔ "اس طرح جب حقیقت اس کے سامنے بالکل نمایاں ہو گئی، تو اس نے کہا :”میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ ” (٢٥٩)

 

یہ شخص کون تھا جس کا گزر ایک بستی پر ہوا۔ وہ کون سی بستی تھی جو اپنی چھتوں پر اوندھی گری ہوئی تھی۔ اس کے بارے میں قرآن کریم خاموش ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کی مشیئت ہوتی تو قرآن کریم اس بستی کے بارے میں تفصیلات بتا دیتا۔ اگر ان تفصیلات کے حذف کر دینے سے حکمت قرآنی کے اظہار و بیان میں کچھ فرق پڑتا تو قرآن کریم میں اس کی تفصیلات ضرور بتائی جاتیں۔ یہاں صرف اس بستی کی ایک جھلک دکھائی گئی ہے اور جس طرح فی ظلال القرآن میں ہمارا منہج ہے ہم بھی بس اس جھلک سے آگے تفصیلات میں جانا مناسب نہیں سمجھتے۔ اس بستی کی جو جھلک دکھائی گئی ہے وہ نہایت ہی واضح، مؤثر اور پردہ دماغ میں مرتسم اور منقش ہو جاتی ہے۔ موت، پھر بوسیدگی اور ٹوٹ پھوٹ کا ایک واضح نقشہ اپنی پوری صفات کے ساتھ ذہن نشین ہو جاتا ہے۔ وَہِيَ خَاوِيَۃٌ عَلَى عُرُوشِہَا……………. "جو اپنی چھتوں پر اوندھی گری پڑی ہے۔ "یہ بستی گر کر اپنی بنیادوں پر پڑی ہے اور ریزہ ریزہ ہو چکی ہے۔ جو شخص اس پر سے گزرتا ہے اس کے احساسات میں یہ تصور نمودار ہوتا ہے۔ وہ سوچنے لگتا ہے قَالَ أَنَّى يُحْيِي ہَذِہِ اللَّہُ بَعْدَ مَوْتِہَا……………. "یہ آبادی جو مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے اسے اللہ کس طرح دوبارہ زندگی بخشے گا۔ ”

قائل یہ یقین رکھتا ہے کہ اللہ موجود ہے لیکن اس بستی کی موجودہ شکست و ریخت کی صورتحال دیکھ کر سوچتا ہے۔ ا س کے احساسات میں یہ تصور پیدا ہوتا ہے کہ اس ہمہ گیر تباہی کے بعد اللہ اسے کس طرح دوبارہ زندہ و تابندہ بنا دے گا۔ احساسات کی یہ تعبیر !کسی منظر کو دیکھ کر جو احساسات پیدا ہوسکتے ہیں۔ قرآن کریم ان کی نہایت رقت کے ساتھ، پر تاثیر تعبیر کرتا ہے۔ یوں قرآن کریم اپنا پر تو اور اپنی تعبیرات کو مخاطب کے ذہن میں منقش کر دیتا ہے۔ یوں نظر آتا ہے کہ قاری کے سامنے وہ منظر عیاناً موجود ہے۔ وہ اسے دیکھ رہا ہے اور اس کے دل میں وہی احساسات پیدا ہو رہے ہیں جو کبھی اس شخص کے دل میں پیدا ہوئے تھے۔

أَنَّى يُحْيِي ہَذِہِ اللَّہُ بَعْدَ مَوْتِہَا……………. "اسے اللہ کس طرح دوبارہ زندگی بخشے گا۔ "اس تباہی میں سے تعمیر کس طرح نمودار ہو گی ؟” فَأَمَاتَہُ اللَّہُ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہُ……………. "تو اللہ تعالیٰ نے اس کی روح قبض کر لی۔ وہ سو برس تک مردہ پڑا رہا۔ پھر اللہ نے اسے دوبارہ زندگی بخشی۔ "اللہ تعالیٰ نے اسے زبانی طور پر یہ نہ کہا کہ اسے اس طرح زندہ کیا جائے گا۔ بلکہ اسے واقعات کی دنیا میں بطور تجربہ دکھایا گیا۔ اس لئے کہ تأثر اور شعور بعض اوقات اس قدر گہرے اور مشکل ہوتے ہیں کہ عقلی دلائل سے انہیں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ نہ منطق اور وجدان سے وہ تأثر پیدا کیا جا سکتا ہے۔ بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ عام اور پیش پا افتادہ واقعات سے بھی ایسا تأثر اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ شعور اور تأثر صرف براہ راست ذاتی تجربے ہی سے پیدا کا جا سکتا ہے۔ ایسے تجربے کے بعد یہ شعور انسان کے احساسات پر چھا جاتا ہے۔ دل اس پر مطمئن ہو جاتا ہے اور پھر کسی مزید یقین دہانی کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

قَالَ كَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ……………. "اللہ نے اس سے پوچھا "بتاؤ کتنی مدت پڑے رہے ہو؟اس نے کہا ایک دن یا چند گھنٹے رہا ہوں۔ "اسے کیا پتہ تھا کہ وہ کتنی مدت پڑا رہا ہے۔ زمانے کا احساس اور شعور تب ہوتا ہے جب انسان زندہ ہو اور اس کی سمجھ کام کر رہی ہو۔ یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ انسانی حس دراصل ادراک حقیقت کے لئے صحیح معیار بھی نہیں ہے۔ اس لئے کہ حس اور ادراک حقیقت میں کبھی دھوکہ دیتی ہے اور کبھی دھوکہ کھاجاتی ہے۔ مثلاً حس نے یہاں ایک طویل زمانے کے ادراک میں دھوکہ کھایا اور اسے ایک دن یا اس سے بھی مختصر زمانہ سمجھا۔ اور کبھی یوں ہوتا ہے کہ انسانی حس ایک مختصر زمانے کو ایک طویل عرصہ تصور کرتی ہے۔

قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِائَۃَ عَامٍ……………. "اللہ نے کہا بلکہ تو نے اس حالت میں سو سال گزارے ہیں۔ "اس تجربے کی نوعیت کا تقاضا یہ تھا، خصوصاً جبکہ ایک حسی تجربہ تھا، کہ وہاں لازماً ایسے آثار ہونے چاہئیں جو یہ بتائیں کہ ایک سوسال کا طویل عرصہ گزر گیا ہے لیکن اس شخص کے کھانے اور پینے کے سامان سے تو ایسے آثار ظاہر نہیں ہو رہے تھے۔ اس لئے کہ اس کے کھانے پینے کے سامان میں کوئی تغیر واقعہ نہیں ہوا تھا۔ نہ وہ خراب اور متعفن ہوئے تھے۔

فَانْظُرْ إِلَى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّہْ……………. "اور اپنے کھانے اور پانی کو دیکھو کہ اس میں کوئی تغیر واقعہ نہیں ہوا۔ "اور ظاہر ہے کہ پھر ایسے آثار صرف اس شخص کی ذات یا اس کے گدھے کے ساتھ متعلق ہوسکتے ہیں۔

وَانْظُرْ إِلَى حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَۃً لِلنَّاسِ وَانْظُرْ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنْشِزُہَا ثُمَّ نَكْسُوہَا لَحْمًا

"اور اپنے گدھے کو بھی دیکھو اور یہ ہم نے اس لئے کیا ہے کہ ہم تمہیں لوگوں کے لئے ایک نشانی بنادینا چاہتے ہیں۔ پھر دیکھو کہ ہڈیوں کے اس پنجر کو ہم کس طرح اٹھا کر گوشت پوست اس پر چڑھاتے ہیں۔ ”

کون سی ہڈیاں ؟کیا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کی ہڈیاں ؟اگر یوں ہوتا جس طرح بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اس شخص کی ہڈیاں گوشت وپوست سے ننگی ہو گئی تھیں تو جب اس کی نظروں میں بینائی ڈالی گئی اور وہ سمجھنے لگا تو وہ سب سے پہلے خود اپنی حالت کو دیکھتا اور سوچنے لگتا۔ اور اس وقت اس کا جواب یہ نہ ہوتالَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ……………. "کہ میں ایک دن یا چند گھنٹے رہا ہوں۔ ”

اس لئے صحیح تفسیر یہ ہے کہ ان ہڈیوں سے مراد صرف گدھے کی ہڈیوں کا پنجر ہے جو گوشت پوست سے ننگی ہو کر علیحدہ ہو گئی تھیں۔ اور اس کے بعد یہ معجزہ رونما ہوا کہ یہ ہڈیاں آپس میں جڑنے لگیں۔ ان پر گوشت وپوست چڑھنے لگا۔ اور پھر اسی صحیح وسالم گدھے کو دوبارہ حیات بخشی گئی۔ اور یہ شخص جو اس طویل عرصہ میں بذات خود اپنے کھانے اور پینے کے سامان سمیت صحیح وسالم اپنی اصلی حالت میں رہا تھا اس کے دیکھتے ہی دیکھتے یہ معجزہ رونما ہوا۔ تاکہ ایک ہی جگہ ان دونوں مادی اشیاء کے انجام کا یہ متضاد فرق، باوجود اس کے کہ فضا اور موسمی موثرات ایک ہی تھے۔ ایک دوسرے معجزے کا اظہار کر دے۔ یہ معجزہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی اس مخلوقات پر قدرت کاملہ حاصل ہے۔ اس کی قدرت و اختیار بے قید ہے۔ اس معجزے سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پوری کائنات کو دوبارہ زندہ کرے گا اور اس کی کیفیت کچھ ایسی ہی ہو گی۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ معجزہ کس طرح وقوع پذیر ہوا۔ یہ اسی طرح ہوا جس طرح تمام معجزات وقوع پذیر ہوا کرتے ہیں۔ اس طرح کرۂ ارض پر پہلی زندگی کو وجود میں لانے کا معجزہ رونما ہوا۔ جسے ہم اکثر اوقات بھول جاتے ہیں۔ اور ہم نہیں جانتے کہ آغاز حیات کیونکر ہوا؟زندگی کس طرح آئی ؟یہ آئی اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے چاہا، اسے لے آیا اور جو ہمارے سامنے موجو د ہے۔ ڈارون، علمائے حیاتیات میں ایک اونچے درجے کا سائنسدان تھا۔ وہ اپنے نظریات کو لے کر درجہ بدرجہ نیچے آتا رہا۔ زندگی کی گہرائیوں میں دور تک سرگرداں رہا اور آخر کار وہ اسے یہاں تک پہنچا سکا کہ اس کا آغاز ایک زندہ خلیے سے ہوتا ہے۔ یہاں آ کر وہ رک جاتا ہے اور اس کا راستہ آگے سے بند ہے۔ اس زندہ خلیے میں زندگی کہاں سے داخل ہوئی ؟اس راز کو وہ نہیں پا سکتا۔ لیکن اس کے باوجود وہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا جسے انسانی ادراک کو تسلیم کر لینا چاہئے۔ جو حقیقت انسانی کی فطری سوچ اور منطق کو ہر لمحہ مجبور کر رہی ہے کہ اسے تسلیم کیا جائے۔ یہ کہ ایک ایسی ذات کو تسلیم کیا جائے جس نے اس خلیے کو زندگی عطا کی اور ڈارون کسی علمی یا منطقی دلیل کی بنا پر اس حقیقت کے تسلیم کرنے سے انکاری نہیں ہے بلکہ یہ انکار اہلِ کلیسا کے اس رویہ کی وجہ سے ہے جو انہوں نے اہل علم و دانش کے خلاف اپنی پوری تاریخ میں اختیار کیا۔ ڈارون اس تعصب کی وجہ سے کہتا ہے "زندگی کے معاملات کی ایسی تفسیر جس میں ایک خالق کے وجود کو تسلیم کیا جائے، رب ہے جس طرح ایک خالص طبعی میکانزم میں ایک خارق العادت عنصر کو شامل کیا جائے۔ "سوال یہ ہے کہ وہ طبعی میکانزم کیا ہے ؟میکانزم کا اس حقیقت سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہے جو ہمارے فکر ونظر کے سامنے کھڑی ہے اور ہم سے باصرار مطالبہ کر رہی ہے کہ ہم اس کا راز بتائیں یعنی حیات اولیٰ کا راز۔

ایک مرحلہ ایسا بھی آتا ہے کہ اس فطری نظام اور منطقی استدلال کے سامنے خود ڈارون بھی بے بس ہو جاتا ہے۔ جو استدلال باصرار مطالبہ کرتا ہے کہ خلیہ اولیٰ کے پیچھے خالق کائنات کو تسلیم کیا جائے تو وہ خلیہ اول کو سب اول کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔ اور اگر اس سے کوئی پوچھے کہ یہ سبب اول ہے کیا؟اس کا ماہر حیاتیات کے پاس کوئی جواب نہیں ہے حالانکہ یہ ایک اہم سوال ہے کہ خلیہ اول کے اندر حیات اور زندگی کا موجد کون ہے ؟اس سوال کا جواب دئیے بغیر ہی وہ اس خلیے سے اپنے نظرئیے کا آغاز کرتا ہے جبکہ آج اس کا یہ مشہور نظریہ بھی محل نظر بن گیا ہے۔ اس کا نظریہ یہ ہے کہ زندگی اپنی موجودہ شکل میں اس خلیے کی ترقی یافتہ شکل ہے حالانکہ آغاز حیات کا دوسرا طریق کار بھی ہوسکتا ہے اور ہے۔

آغاز حیات کے بارے میں اہم سوال کا جواب ڈارون نہ دے سکا۔ اس نے فرار کی راہ اختیار کی اور اپنا بناؤٹی بوگس نظریہ پیش کیا۔ (تفصیلات کے لئے دیکھئے کتاب "الانسان بین المادیہ والاسلام "کا باب "فرائڈ”)

اس متضاد صورت حال کی وضاحت دراصل اس حقیقت سے ہوتی ہے کہ مشیئت ایزدی بے قید ہے۔ اللہ کی مشیئت اس ہمہ گیر قانون فطرت سے بھی آزاد ہے جسے ہم لازمی اور اٹل سمجھتے ہیں اور ہمارے ذہنوں میں بیٹھی ہوئی ہے نہ اس قانون فطرت کی مخالفت ہوسکتی ہے اور نہ اس سے کوئی جزئیہ مستثنیٰ ہوسکتا ہے۔ ہمارے لئے یہ بات کافی ہے کہ اللہ کی مشیئت کی نسبت یہ عقیدہ غلط ہے کہ قانون طبیعت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ اور ہمارے لئے یہ الجھن اس لئے پیدا ہو جاتی ہے کہ ہم اپنے اندازوں یا عقلی فیصلوں کو نام نہاد سائنسی اصولوں کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھی لازماً منطبق کرتے ہیں اور یہ ہمارے فکر و نظر کی وہ غلطی ہے جو کئی دوسری غلطیوں کو جنم دیتی ہے۔

۱۔         مثلاً ہمیں یہ حق کب پہنچتا ہے کہ ہم قادر مطلق کو اس قانون کا تابع قرار دیں جس کے ہم قائل ہیں، جو ہمارے محدود وسائل کے محدود تجربات سے اخذ کیا گیا ہوتا ہے۔ پھر ہم اپنی محدود قوت مدرکہ کی وجہ سے ان تجربات کی تفسیر کرتے ہیں جس میں غلطی کا امکان ہر وقت موجود ہوتا ہے۔

۲۔        چلو ہم نے قوانین قدرت میں سے کوئی قانون صحیح طور پر سمجھ لیا اور وہ فی الحقیقت ہے بھی قانون قدرت۔ لیکن ہمیں یہ کس نے بتایا کہ بس یہ قانون انتہائی اٹل قانون ہے، بے قید و شرط ہے۔ اور اس سے زیادہ کلی اور جامع اور کوئی قانون اور ضابطہ نہیں ہے۔

۳۔        چلو مان لیا کہ وہ قانون اٹل ہے، مطلق ہے اور عام حالات میں اس سے تخلف ممکن نہیں لیکن یہ قانون اللہ کا وضع کردہ ہے۔ ذات باری کس طرح اپنے بنائے ہوئے قانون میں مقید ہو گئی۔ ذات باری تو بہرحال مختار کل ہے۔

غرض یہ تجربہ یوں ہی آگے بڑھتا ہے۔ جدید اہل دعوت کے فکری سرمایہ میں ایک صحیح ایمانی تصور حیات کا اضافہ کرتا ہے اور موت و حیات کی حقیقت کے اظہار کے ساتھ ساتھ اس دوسری حقیقت کا اضافہ بھی کرتا ہے جس کی جانب ہم نے ابھی اشارہ کیا۔ یہ حقیقت کہ اللہ مشیئت بے قید ہے۔ اور قرآن کریم نے اس حقیقت کو بار بار بیان کر کے اہل ایمان کے ضمیر میں اسے پختہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاکہ اہل ایمان براہ راست اپنے اللہ سے تعلق قائم کریں۔ اس سلسلے میں ظاہری اسباب کو کوئی اہمیت نہ دیں۔ ان تمہیدات کو خاطر میں نہ لائیں جو عام طور پر منظور ہوتی ہیں۔ اللہ جو چاہتا ہے، کر گزرتا ہے۔ اور یہی بات اس شخص نے کی، جس کے سامنے اس تجربے کو دہرایا گیا تھافَلَمَّا تَبَيَّنَ لَہُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّہَ عَلَى كُلِّ شَيْء ٍ قَدِيرٌ……………. "میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ ”

اس کے بعد حقیقت موت و حیات کے سلسلے میں ایک تیسرا تجربہ بیان کیا جاتا ہے۔ یہ تجربہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کرایا گیا۔ جو امت مسلمہ کے تر نبی گزرے ہیں۔

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَۃً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْہُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَى كُلِّ جَبَلٍ مِنْہُنَّ جُزْء ًا ثُمَّ ادْعُہُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا وَاعْلَمْ أَنَّ اللَّہَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

"جب ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ "میرا رب مجھے دکھا دے تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے ؟”فرمایا”کیا تو ایمان نہیں رکھتا ؟”اس نے عرض کیا "ایمان تو رکھتا ہوں مگر دل کا اطمینان درکار ہے۔ فرمایا اچھا چار پرندے لے اور ان کو اپنے سے مانوس کر لے پھر ان کا ایک ایک جز ایک ایک پہاڑ پر رکھ دے۔ پھر ان کو پکار، وہ تیرے پاس دوڑے چلے آئیں گے۔ خوب جان لے کہ اللہ نہایت با اقتدار اور حکیم ہے۔ ”

یہ قدر الٰہیہ کی کاریگریوں تک رسائی کا ایک شوق ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جو نہایت ہی حلیم الطبع اور مطیع فرمان اولوالعزم نبی تھے ان کی جانب سے ی شوق اس حقیقت کا اظہار کرتا ہے کہ بعض اوقات اللہ کے برگزیدہ اور اقرب المقربین بندوں کے دل میں بھی یہ امنگ پیدا ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالی کی کاریگریوں کے راز ہائے پس پردہ تک رسائی حاصل کریں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسے راضی برضا، خشوع و خضوع کرنے والے اور عبادت گزار بندے کی جانب سے اس خواہش کا اظہار دراصل اسی قسم کی امنگ کا نتیجہ ہے۔

اس امنگ کا تعلق ایمان، کمال ایمان یا ایمان کی پختگی اور ثبوت و قرار کے ساتھ نہیں ہے۔ اس امنگ کے ذریعہ حضرت ابراہیم کسی قوی دلیل کا مطالبہ نہ کر رہے تھے یا ایمان کی کمزوری دور کر کے اس میں پختگی حاصل نہ کرنا چاہتے تھے۔ یہ چیزیں تو انہیں پہلے سے حاصل تھیں۔ راز ہائے درون پردہ تک رسائی دراصل ایک دوسرا ہی ذوق ہے۔ یہ ایک قسم کا روحانی شوق ہے۔ بندہ مومن راز ہائے الٰہیہ کے ساتھ منسلک ہونا چاہتا ہے۔ عملاً ان واقعات کو رونما ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے۔ وجود انسانی میں یہ ذوق و شوق ایک فطری امر ہے۔ اس کا تعلق ایمان بالغیب سے نہیں ہے۔ ایمان بالغیب کمال درجہ میں موجود ہوتا ہے۔ پھر بھی یہ جذبہ کمال درجہ موجود ہوتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام ذات باری سے ہمکلام ہیں۔ رب کریم حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہمکلام ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس ہمکلامی سے زیادہ کس ایمان کی ضرورت تھی، کس دلیل و برہان کی ضرورت تھی ؟وہ جو چیز دیکھنا چاہتے تھے وہ یہ تھی کہ کارخانہ قدرت میں قدرت کو کام کرتے ہوئے دیکھیں تاکہ ان کے اس جذبہ حصول راز ہائے دروں کو تسکین حاصل ہو۔ وہ ان رازوں کے ہم نفس ہو جائیں۔ اور ان میں گھل مل جائیں۔ یہ ایک ایسی بات ہے جس نفس ایمان سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ کیونکہ نبی کے ایمان کے لئے کوئی اور ایمان درکار نہیں ہوتا وہ تو درجہ کمال میں ہوتا ہے۔

جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی گفتگو اور ان کا یہ تجربہ مکمل ہوتا ہے تو پھر پتہ چلتا ہے کہ ایمان کے نتیجے میں قلب مومن میں متعدد قسم کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ اور مومن کامل کے دل میں پیدا ہونے والی یہ امنگیں اسے مجبور کرتی ہیں کہ وہ حریم قدرت کے اندر جھانکنے کی کوشش کرے۔

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي

"جب ابراہیم نے کہا”مجھے دکھا دے تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے ؟”فرمایا:”کیا تو ایمان نہیں رکھتا ؟”اس نے عرض کیا”ایمان تو رکھتا ہوں مگر دل اک اطمینان درکار ہے۔ "حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مطلب یہ تھا کہ قلبی اطمینان تب حاصل ہوتا جب وہ دست قدرت کو کام کرتے دیکھ لیں۔ اور جذبہ افشائے راز ہاں درون خانہ کی تسکین تب ہوتی ہے جب انسان ان رازوں کو کھول دیتا ہے اور وہ اس پر عیاں ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو اچھی طرح علم تھا کہ اس کا بندہ اور دوست پکا مومن ہے لیکن اس کایہ سوال محض تسکین شوق اور اعلان ذوق کی خاطر ہے۔ سوال و جواب کا یہ سلسلہ اللہ کریم کی جانب سے اپنے اس مطیع فرمان اور حلیم الطبع بندے کے ساتھ ایک قسم کا اظہار لطف و کرم تھا اور ذرہ نوازی تھی۔

غرض اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس شوق تجسس کی تسکین کا سامان فراہم فرما دیا۔ اور اس کو راہ راست ایک ذاتی تجربے سے دوچار کر دیا۔

قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَۃً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْہُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَى كُلِّ جَبَلٍ مِنْہُنَّ جُزْء ًا ثُمَّ ادْعُہُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا وَاعْلَمْ أَنَّ اللَّہَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

"فرمایا تو چار پرندے لے لے اور ان کو اپنے سے مانوس کر لے۔ پھر ان کا ایک جزء ایک پہاڑ پر رکھ دے۔ پھر ان کو پکار، وہ تیرے پاس دوڑتے چلے آئیں گے۔ خوب جان لے کہ اللہ نہایت با اقتدار اور حکیم ہے۔ ”

اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ اب چار پرندے لیں۔ ان کو اپنے ساتھ مانوس کر لیں۔ ان کی خصوصیات اور ان کی نشانیاں اچھی طرح جان لیں تاکہ انہیں جاننے میں غلطی واقعہ نہ ہو۔ پھر انہیں ذبح کر کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں اور ان کے اجزاء کو ارد گرد کے پہاڑوں پر بکھیر دیں۔ اور پھر ان کو پکاریں۔ اب ان کے یہ متفرق اعضاء دوبارہ صحیح ہونے لگیں گے۔ ان میں زندگی لوٹ آئے گی اور دوڑ کر وہ تمہاری طرف لوٹ آئیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے راز تخلیق کو عیاں پایا۔ یہ وہ راز ہے جو ہر لحظہ دہرایا جا رہا ہے۔ لیکن لوگ اس راز کی تکمیل کے بعد صرف اس کے آثار دیکھ سکتے ہیں۔ یہ راز عطائے حیات کا راز تھا۔ یہ وہ حیات ہے جو اس کائنات کو عطا کی گئی جبکہ پہلے کچھ نہ تھا۔ اور اب وہ ہر زندہ مخلوق کی شکل میں دہرائی جا  رہی ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی آنکھوں سے اس راز کو دیکھ لیا۔ چند پرندے تھے، جن سے زندگی الگ ہو گئی تھی۔ ان کا قیمہ مختلف مقامات پر بکھیر دیا گیا۔ اب ان کے اجزاء جمع ہو رہے ہیں اور ان میں دوبارہ زندگی ڈالیجا رہی ہے۔ اور وہ آ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام تک پہنچ جاتے ہیں۔

یہ کیونکر ہوا ؟یہی تو وہ راز ہے جس کا ادراک اس بشر کے حیطۂ قدرت سے وراء ہے۔ کبھی انسان اس راز کو اسی طرح دیکھتا ہے جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دیکھا۔ وہ اس کی تصدیق اس طرح کرتا ہے جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کی تصدیق فرمائی۔ لیکن وہ اس کی حقیقت کا ادراک نہیں کرسکتا۔ اس کا طریقہ واردات اسے معلوم نہیں ہے۔ یہ امر الٰہی ہے۔ اور لوگوں کی حالت یہ ہے کہ وہ علوم الٰہیہ میں سے ایک محدود مقدار کو جان اور پا سکتے ہیں، وہ جسے وہ چاہے دے دے لیکن راز حیات سے اس کسی کو آگاہ نہیں کیا۔ اس لئے کہ وہ انسان کی قدرت اور طاقت کے مقابلے میں بہت بڑا راز ہے۔ اس نے کسی کو آگاہ نہیں کیا۔ اس لئے کہ وہ انسان کی قدرت اور طاقت کے مقابلے میں بہت ہی بڑا راز ہے۔ اس کو عبث ہمارے حس و ادراک کی نوعیت سے مختلف ہے۔ اور اس کرۂ ارض پر ادائیگی فریضۂ خلافت کے سلسلے میں انہیں اس تکوینی علم کی قدرت بھی نہیں ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص شان ہے اور مخلوقات کا شملہ علم اس کے مقابلے میں بہت ہ کوتاہ ہے اور اگر انسان دروازۂ مستورات میں جھانکنے کی سعی بھی کرے تو اسے پردے ہی پردے نظر آئیں گے اور حجاب در حجاب نظر آئے گا۔ اس کی یہ سعیٔ لاحاصل ہو گی اور علم الغیب کا دائرہ علوم النبوت تک ہی محدود رہے گا۔

٭٭٭

 

 

 

درس نمبر ۱۹ ایک نظر میں

 

اس پارے میں سابقہ تینوں سبق مجموعی طور پر بعض اساسی ایمانی تصورات کے بارے میں تھے۔ اور ان میں اس تصور حیات کے بارے میں بعض وضاحتیں کی گئی تھیں۔ اور مختلف پہلوؤں سے اس کی جڑیں مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ یہ اس طویل سورت کی اس لائن کا ایک مرحلہ تھا، جس پر یہ پوری سورتجا رہی ہے یعنی انسانیت کی قیادت کے نصب العین کی راہ میں امت مسلمہ پر جو فرائض عائد ہوتے ہیں ان سے عہدہ برآ ہونے کے لئے امت کو تیار کرنا جیسا کہ اس سے قبل ہم بات کی تشریح کر چکے ہیں۔

یہاں سے لے کر تقریباً اس سورت کے اختتام تک اب بیان کا رخ ان اساسی معاشی اصولوں کے بیان کی طرف ہے جن پر امت مسلمہ کے اجتماعی نظام کی نیو اٹھائی جانی مقصود ہے۔ اور جن کے مطابق جماعت مسلمہ کی تنظیم بھی مقصود تھی۔ اور یہ اجتماعی نظام دراصل باہم تعاون اور تکافل پر مبنی ہے اور جس کی تشکیل عشر و زکوٰۃ اور خیرات و صدقات پر مبنی ہے۔ اور یہ معاشی نظام اس سودی نظام سے بالکل مختلف ہے۔ جو اس دور جاہلیت میں رائج تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں صدقہ کی فضیلت اور آداب کا بیان کیا جاتا ہے اور ربا کی مذمت کی جاتی ہے۔ اور اگلے اسباق میں آپ پڑھیں گے کہ قرضہ اور تجارت کے اساسی اصول بیان کئے گئے ہیں اور مجموعی طور پر یہ سب چیزیں اسلام کے اقتصادی نظام کا حصہ ہیں اور اسلام کی اجتماعی زندگی ان پر قائم ہے۔ آگے آنے والے تینوں اسباق باہم مربوط ہیں۔ یہ سب دراصل ایک موضوع (اقتصادیات)کے مختلف پہلو ہیں یعنی اسلام کا اقتصادی نظام۔

اس سبق میں انفاق فی سبیل اللہ اور دولت کے خرچ کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ اور اسلام کے ایک اقتصادی پہلو یعنی صدقہ اور اجتماعی کفالتی نظام کے بارے میں زور دیا گیا ہے۔ یہ بتایا گیا ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ دراصل جہاد کی ایک قسم ہے اور یہ بات واضح ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ امت مسلمہ پر فرض کیا گیا ہے۔ اس لئے کہ اللہ کی جانب سے امت مسلمہ پر یہ ڈیوٹی عائد کی گئی ہے کہ وہ پوری دنیا میں اس دعوت کو پھیلائے۔ پوری دنیا تک اس پیغام کو پہنچائے۔ پوری دنیا میں اہل ایمان کی حمایت کرے اور پوری دنیا سے شر وفساد اور ظلم و زیادتی کو ختم کر دے اور ان تمام قوتوں کو پاش پاش کر دے جو اہل اسلام کے مقابلے میں غالب ہیں اور جو زمین پر فساد پھیلاتی ہیں اور اہل دنیا کو اللہ کی سیدھی راہ اپنانے میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔ اور با الفاظ دیگر دنیا کو اس خیر عظیم سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔ جس کا حامل اسلامی نظام حیات ہے۔ دنیا کو اس خیر سے محروم کرنا اس قدر بڑا جرم ہے اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ اور انسانی روح اور انسانی جسم اور مال کے خلاف اس سے بڑی دست درازی اور کوئی فرق نہیں ہے۔

اس سورت میں بار بار انفاق فی سبیل اللہ کی دعوت دی گئی ہے لیکن یہاں انفاق فی سبیل اللہ کے اصول و آداب کو ذرا تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے۔ یہاں دستور انفاق کی تصویر کشی بڑے ہی پیار ے اور مانوس پرتوسے کی جاتی ہے۔ اس کے اجتماعی اصول اور آداب و اثرات اور نفسیاتی مضمرات سے تفصیلاً بحث کی جاتی ہے۔ ایسے آداب جن کی وجہ سے خود انفاق کرنے والے کی نفسیاتی اصلاح ہو جاتی ہے۔ اور دوسری جانب صدقہ وصول کرنے والے کے لئے وہ مفید بن جاتا ہے۔ اور اس کے نتیجہ میں معاشرتی انقلاب یوں برپا ہوتا ہے کہ یہ معاشرہ اجتماعی طور پر باہم متعاون اور متکافل (Socally Sacure)معاشرہ بن جاتا ہے۔ اور اس کے افراد میں باہم محبت اور ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ سے انسانیت ایک بلند مقام تک جا پہنچتی ہے۔ اور جس میں دہندہ اور گیرندہ بالکل ایک ہی سطح کے لوگ بن جاتے ہیں۔

اس حقیقت کے باوجود کہ اس سبق میں جو ہدایات دی گئی ہیں وہ عمومی ہیں اور کسی زمان و مکان کی قید کے ساتھ مقید نہیں ہیں۔ اور ایک دائمی دستور کی حیثیت رکھتی ہیں۔ لیکن یہ بات ہمارے پیش نظر رہنی چاہئے کہ اس وقت جماعت مسلمہ کے اندر ایسے حالات موجود تھے جن کی اصلاح کے لئے یہ ہدایات اتاری گئیں۔ اور یہ بات بھی عین ممکن ہے کہ آنے والے ادوار میں بھی یہ بات ممکن تھی کہ مستقبل کا اسلامی معاشرہ بھی ایسی ہدایات کا محتاج ہو۔ اس وقت اسلامی معاشرہ میں ایسے اشخاص موجود تھے جن کی نظروں میں مال ہی سب کچھ تھا اور جن کی اصلاح کے لئے ایسی ضربات کی ضرورت تھی اور جن کے لئے اس طرح کی موثر اثر اندازی کی ضرورت تھی۔ انہیں ضرورت تھی کہ ضرب الامثال کے ذریعہ حقائق کو ان کے مشاہدے میں لایا جائے اور یوں بات ان کی دلی گہرائیوں تک اتر جائے۔

اس وقت کے معاشرے میں اگر ایک طرف ایسے لوگ تھے جو سود خوری کے بغیر کسی کو مال دینا تصور نہ کرسکتے تھے تو دوسری طرف اس معاشرے میں ایسے لوگ بھی تھے جو بادل ناخواستہ خرچ کرنے والے تھے یا محض دکھاوے کے لئے خرچ کرتے تھے۔ بعض ایسے بھی تھے جو خرچ کر کے مسلسل احسان جتاتے تھے اور یوں دوسروں کے لئے باعث اذیت ہوتے تھے۔ بعض ایسے تھے جو ردی اور بیکار مملوکات اللہ کے نام پر دیتے تھے اور ان کے ساتھ ساتھ بہرحال مخلصانہ طور پر اللہ کی راہ میں بھی انفاق کرنے والے موجود تھے جو اپنے بہترین اموال خرچ کیا کرتے تھے جو اگر موقعہ و محل کا تقاضا خفیہ طور پر خرچ کرنے کا ہو تو خفیہ خرچ کرتے تھے اور اگر موقعہ و محل علی الاعلان خرچ کرنے کا ہو تو اعلانیہ خرچ کرتے تھے۔ یہ خرچ خالص اللہ کے لئے، بالکل پاک اور ستھرا ہوتا تھا۔

اور مذکورہ بالا دونوں قسم کے افراد جماعت مسلمہ میں اس موجود تھے۔ ہمیں اس حقیقت پر غور کرنا چاہئے اور اگر اسے پالیں تو یہ ہمارے لئے نہایت مفید ہو گی۔

اس حقیقت سے پہلا فائدہ یہ ہو گا کہ ہم اس کتاب کی حقیقت کو صحیح طرح پا سکیں گے۔ اور اس کے مقاصد ہم پر واضح ہوں گے۔ ہمیں یوں نظر آئے گا کہ قرآن کریم ایک زندہ اور متحرک حقیقت ہے۔ ان واقعات کی روشنی میں وہ ہمیں مسلسل سرگرم اور متحرک نظر آتا ہے اور قرآن کریم کی یہ تحریک جماعت مسلمہ کے اندر نظر آتی ہے۔ اس کا مقابلہ واقعی حالات سے ہے۔ وہ بعض اوقات اور حقائق کو برقرار رکھتا ہے اور بعض حالات کو تبدیل کر رہا ہے۔ یوں یہ جماعت قدم بقدم آگے بڑھ رہی ہے۔ اور قرآن ان حالات کا مقابلہ کر رہا ہے۔ وہ مسلسل فعال اور متحرک ہے۔ اس کی حرکت میں تسلسل اور دوام ہے۔ وہ زندگی کے عملی میدان میں برسرپیکار ہے۔ قرآن کریم ہی اس معاشرہ میں واحد ترقی پسند، محرک اور عملی میدان میں آگے بڑھنے والا عنصر ہے۔

آج ہمیں اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ہم اس نہج پر قرآن کریم کا احساس کریں اور دیکھیں کہ قرآن کریم ایک زندہ حقیقت، متحرک اور آگے بڑھنے کے لئے اقدام کرنے والا ایک فیکٹر ہے۔ اس لئے آج تحریک اسلامی، اسلامی نظام زندگی، اور اسلامی معاشرہ کے ناپید ہوئے ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے۔ قرآن کریم، جس طرح ہم نے اسے محسوس کیا ہے اور سمجھا ہے وہ انسانی تاریخ کے زندہ دھارے سے الگ تھلگ ایک کتاب ہے۔ آج قرآن کریم کو جس طرح ہم نے سمجھا ہے وہ ا س نظام زندگی کا کوئی نقشہ پیش نہیں کرتا جو کبھی یہی قرآن عملاً اس کرۂ ارض پر وجود میں لایا تھا اور جو جماعت مسلمہ کی تاریخ میں کبھی زندہ حقیقت تھی۔ اور اب ہمیں یہ سبق یاد نہیں رہا ہے کہ اس وقت کے مسلم مجاہد اول کے لئے قرآن حکم الیوم(Order of the day)تھا۔ یعنی ان کے لئے قرآن کریم ایسی ہدایات تھا جن پر عمل ضروری تھا۔ ان پر فرض تھا کہ وہ ہر روز کی ہدایات کو عملاً نافذ کر دیں۔ ہمارے فہم وادراک میں وہ عملی قرآن گویا مرگیا ہے یا وہ سوگیا ہے۔ اور ہم قرآن کریم کو اس طرح سمجھنے اور محسوس کرنے کی کوشش نہیں کرتے جس طرح اسے دور اول کے مسلمانوں نے سمجھا اور محسوس کیا۔

ہمارا طرز عمل یہ بن گیا ہے کہ ہم قرآن کریم کو نہایت ہی خوش الحانی اور گلوکاری کے ساتھ پڑھتے ہیں اور جھومتے ہیں یا ہمارا وجدان اس سے کچھ چالو، مجمل اور ناقابل فہم و ناقابل تاویل تاثرات لیتا ہے یا ہم اس کی تلاوت اور اد کرتے ہیں، جس سے مومنین صادقین کے دل میں وجد، خوشی اور قلبی اطمینان کی ایک مبہم اور مجمل سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ تلاوت قرآن میں یہ سب فائدے بھی موجود ہیں لیکن ان تمام فوائد کے ساتھ ساتھ اصل مطلوب یہ ہے کہ قرآن قلب مومن میں فہم وفراست اور عمل و حرکت پیدا کر دے۔ اسے زندہ کر دے۔ اعلیٰ ترین مقصد یہ ہے کہ مسلمان کے دل و دماغ میں ایسی کیفیت پیدا ہو جائے کہ وہ قرآن کریم کی ہدایات کے ساتھ ساتھ ایک زندہ اور عملی زندگی لے کر چلتا رہے، ایسی زندگی جسے قرآن یہاں رائج کرنا چاہتا ہے اور جس کے لئے اس کا نزول ہوا ہے۔ ایسی زندگی جسے مومن اس عرصۂ کار و زار میں اور اس میدان کشمکش میں پائے، جس کے لئے ایک مومن اپنے آپ کو ہمیشہ تیار رکھتا ہے۔ کیونکہ امت مسلمہ کی زندگی میں یہ کشمکش ایک لابدی امر ہے۔ مطلوب یہ ہے کہ ایک مسلمان قرآن کریم کی طرف اس نیت سے متوجہ ہو کر وہ اس سے اپنی زندگی کا لائحہ عمل اخذ کرنا چاہتا ہے۔ بعینہ اس طرح جس طرح "مسلم اول”کرتا تھا، وہ آج کی زندگی، آج کے واقعات، آج کے مسائل جو اس کے ارد گرد رواں دواں ہیں، ان کے بارے میں قرآنی ہدایات و اشارات کا طلبگار ہو۔ اسے چاہئے کہ وہ امت مسلمہ کی تاریخ کی تشریح بھی قرآنی ہدایات کی روشنی میں کرے۔ قرآنی کلمات و اشارات کو اسلامی تاریخ کی تشریح قرار دے۔ اور یوں محسوس کرے کہ اسلامی تاریخ قرآن کریم سے کوئی علیحدہ تاریخ نہیں ہے۔ اسلامی تاریخ قرآن کی تاریخ ہے۔ اور آج امت مسلمہ جس صورت حالات سے دوچار ہے، وہ بھی قرآنی تاریخ ایک حصہ ہے۔ آج کے حالات ان حالات کا منطقی نتیجہ ہیں جو اس امت کے اسلاف کو پیش آئے۔ اس وقت بھی قرآن ان حالات و حوادث میں ایک معین تبدیلی کا خواہاں تھا اور آج بھی یہ قرآن ویسی ہی تبدیلیاں چاہتا ہے۔ اس لئے ایک مومن یہ محسوس کرتا ہے کہ جس طرح یہ قرآن اس امت کے لئے کتاب عمل تھی، آج میرے لئے بھی کتاب عمل ہے۔ آج بھی وہ چاہتا ہے کہ اپنے شب و روز کے معاملات میں، پیش آمد حادثات میں قرآن کی طرف رجوع کرے گا۔ وہ اس کے تصورات اور اس کی فکر کا اصول اساسی ہے۔ وہ آج بھی اس کی تگ و دو اور اس کی جہد و عمل کا حقیقی محرک ہے۔ وہ کل بھی اس کے لئے محرک ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کی زندگی کا محور ہے۔

اس حقیقت کے سمجھ لینے کا دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ اس سے ہمیں انسانی فطرت اور انسانی مزاج کی حقیقت اور ماہیت کا واضح ادراک ہو جاتا ہے۔ دعوت اسلامی اور اس کے عائد کردہ فرائض اور واجبات کو ہمیشہ اس انسانی فطرت سے واسطہ پڑا ہے۔ ان آیات میں پہلی اسلامی جماعت کے حوالے سے، انسانی فطرت کا جو واضح نقشہ کھینچا گیا ہے اس سے انسانی فطرت اپنی اصلی شکل اور ماہیت میں واضح ہوتی ہے۔ اس پہلی جماعت پر قرآن نازل ہو رہا تھا۔ اس جماعت کے نگران و مربی خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ اس جماعت کی صفوں میں بعض کمزور پہلو تھے۔ جن کی اصلاح کی ضرورت تھی، جن کی طرف مستقلاً توجہ دینے کی ضرورت تھی۔ اور جن کی نشاندہی اور جن کی رعایت کی ضرورت تھی۔ یاد رہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اصلاح کرنا اس بات کے منافی نہیں کہ وہ امت کے تمام طبقات سے برگزیدہ تھے۔ اس حقیقت کا ادراک ہمارے لئے بہت ہی مفید ہے۔ یوں ہم ایک انسانی جماعت اور تنظیم کی حقیقت و ماہیت بغیر افراط و تفریط کے سمجھ سکیں گے۔ بغیر اس کے کہ اس مصنوعی خول چڑھائے ہوئے ہوں۔ بغیر اس کے کہ اس کے بارے میں کسی قسم کے گمراہ کن تصورات قائم کئے جائیں۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے ہمارے دل و دماغ سے مایوسی کے بادل چھٹ جاتے ہیں۔ کیونکہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام انسانیت کے لئے جو مقام بلند تجویز کرتا ہے ہم اس سے بہت دور ہیں۔ لہٰذا ہمارے لئے کافی ہے کہ ہم اس راہ پر چلتے رہیں۔ اس مقام بلند تک پہنچنے کی جدوجہد جاری رکھیں۔ اس سے ہمیں ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم اس حقیقت کو پا لیتے ہیں کہ لوگوں کو مقام بلند اور کمال کے اعلیٰ درجوں تک پہنچانے کے لئے مسلسل دعوت کی ضرورت ہے۔ اس میں کسی وقت بھی کمی، سستی، مایوسی اور وقفہ نہیں ہونا چاہئے۔ اگرچہ بعض نفوس میں نقص اور عیب پایا جاتا ہو کیونکہ انسان تو ہوتا ہی ایسا ہے۔ انسان مسلسل دعوت اور اصلاحی جدوجہد کے نتیجے میں اصلاح پذیری کی راہ پر آہستہ آہستہ چلتا ہے۔ اسے قرآن کے مقام بلند تک پہنچانے کے لئے مسلسل دعوت کی ضرورت ہے۔ اسے ہمیشہ بھلائی کی یاد دہانی کی ضرورت ہے۔ ہمیشہ اس بات کی ضرورت ہے کہ اس کے سامنے بھلائی کو اچھی صورت میں اور شر کو قبیح صورت میں مسلسل پیش کیا جاتا رہے۔ اور کردار کی کمزوری، اور نقائص سے اس کے دل میں مسلسل نفرت بٹھانا چاہئے۔ اور جب بھی وہ بے راہ روی اختیار کرے، اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے صحیح راہ پر ڈال دیا جانا چاہئے۔ کیونکہ زندگی کا یہ سفر بہت ہی طویل اور کٹھن ہے۔

اس سے ہمیں تیسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہم اس سادہ حقیقت کو اچھی طرح پا لیتے ہیں جس سے بارہا ہم غافل ہو جاتے ہیں۔ یہ کہ انسان بہرحال انسان ہے۔ دعوت اسلامی بہرحال اسلام کی طرف بلاوا ہے۔ اور یہ معرکہ بہرحال انسانوں کا معرکہ اور انسانی جدوجہد ہے۔ یہ معرکہ سب سے پہلے اپنی ذات کی کمزوریوں، اپنے ذاتی نقائص اور نفس انسانی میں پوشیدہ جذبات حرص اور بخل کے خلاف ہے۔ اس کے بعد انسان کے اردگرد پھیلی ہوئی زندگی میں باطل، شر، ظلم اور گمراہی کے خلاف معرکہ ہے۔ یہ ایک قسم کی دو طرفہ جنگ ہے جو ایک داعی کو کرنی ہے۔ اور اس کرۂ ارض پر جماعت مسلمہ کی لیڈر شپ کو یہ دو طرفہ جنگ لازماً لڑنا پڑے گی۔ جس طرح قرآن کریم کو پہلی مرتبہ یہ جنگ لڑنا پڑی تھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے پہلے یہ جنگ لڑنا پڑی تھی اور اس مسلسل معرکہ کے دوران یہ امر لازمی ہے کہ کچھ غلطیاں بھی ہوں، لغزشیں بھی ہوں اور اس کٹھن راہ کے مختلف مراحل میں بعض نقائص اور بعض کمزوریوں کا ظہور بھی ہو۔ اور نئے واقعات اور نئے تجربوں کے دوران ان نقائص اور لغزشوں کی اصلاح بھی ہوتی رہتی رہے۔ اور اصلاح و ہدایت کے معاملے میں قرآن کریم نے جو طریقۂ کار اختیار کیا ہے، اس کے مطابق لوگوں کے دل و دماغ کی اصلاح بھی ہوتی رہے۔ یہاں میں پھر یہ بات کہوں گا جو پہلے کہہ چکا ہوں کہ ہم تمام حالات، اور اپنی زندگی کی تمام تگ و دو میں قرآن مجید کو اپنا مشیر اور ہادی بنا دیں۔ یوں نظر آئے کہ ہمارے خیالات سوشعور میں ہماری عملی زندگی میں اور ہمارے تمام معاملات میں قرآن کریم یوں جاری وساری ہے جس طرح پہلی جماعت مسلمہ کی زندگی میں وہ پوری طرح جاری وساری تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

درس نمبر ۱۹تشریح آیات ۲۶۱ تا ۲۷۴

 

اب ہم اس سبق کی قرآنی آیات و نصوص کی تفصیلی تشریح کرتے ہیں۔

"جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں، ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سودانے ہوں۔ اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے، فراوانی عطا کرتا ہے۔ وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی۔ ” (٢٦١)

 

اسلامی نظام زندگی کا آغاز فرائض واجبات سے نہیں ہوتا۔ اسلام اپنے کام کا آغاز، محبت، تالیف قلب اور نیکی کی تحریک سے کرتا ہے۔ وہ انسانی شعور کو جگاتا ہے اور انسانی زندگی میں زندہ جاوید جذبات پیدا کرتا ہے۔ وہ انسان کے مطالعہ اور مشاہدہ کے لئے زندگی کی ایک ایسی تصویر پیش کرتا ہے جو پھوٹتی ہے، بڑھتی ہے اور آخر کار ایک مفید پھل دیتی ہے۔ انسان اس سے ثمرہ حاصل کرتا ہے۔ وہ انسان کے سامنے فصل کی مثال پیش کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ اور زمین کا ایک عام عطیہ ہے۔ کھیتی ایک دانہ لیتی ہے لیکن سینکڑوں دانے واپس دیتی ہے تخم اور بیج کی نسبت سے وہ کئی گنا حاصلات دیتی ہے۔ قرآن کریم میں یہ زندہ منظر ان لوگوں کے سامنے رکھتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی کمائی خرچ کرتے ہیں۔

مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ فِي سَبِيلِ اللَّہِ كَمَثَلِ حَبَّۃٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِائَۃُ حَبَّۃٍ

"جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس کی سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں۔ ”

تعبیر کا یہ تصوراتی انداز حساب و کتاب کے عمل پر جا   پہنچتا ہے۔ ایک دانہ بڑھ کر سات سو دانے بن جاتا ہے لیکن اس مفہوم کو قرآن مجید، جس زندہ و تابندہ انداز میں پیش کرتا ہے وہ نہایت ہی حسین و جمیل ہے۔ اس سے انسانی شعور میں ایک قسم کا جوش و خروش پیدا ہوتا ہے۔ انسانی ضمیر جاگ اٹھتا ہے۔ ایک زندہ اور بڑھنے والی فصل کا منظر سامنے آتا ہے۔ ایک زندہ طبیعت ظاہر ہوتی ہے۔ پیداوار دینے والا ایک ہرا بھرا کھیت نظروں کے سامنے آتا ہے۔ عام نباتات کا ایک عام اور عجیب بیش پا افتادہ تجربہ سامنے آتا ہے۔ ایک نال پر سات بالیں ہیں اور ہر بال میں سودانے ہیں۔

اس زندہ اور نامی منظر کے سامنے انسانی ضمیر بھی بذل و عطا کی طرف متوجہ ہوتا ہے لیکن دراصل وہ دیتا نہیں کچھ لیتا ہی ہے۔ یو یہ عطا اور داد و دہش ایک ایسے راستے پر جاتی ہے جس میں وہ کئی گناہ نشو و نما پاتی ہے۔ یوں انسان کا جذبہ داد و دہش کئی گنا زیادہ ہو جاتا ہے۔ اور وہ فصل کی طرح کئی گنا زیادہ حاصلات لاتا ہے۔ اور اللہ جسے چاہتا ہے، اس سے زیادہ حاصلات دیتا ہے۔ بغیر حساب دیتا ہے اور بے شمار دیتا ہے۔

وہ اپنی مخلوق کے لئے اس کے رزق میں اس قدر فراوانی کرتا ہے جو بے حد وحساب ہوتی ہے۔ اس کی رحمت اس قدر وسیع ہے کہ جس کی انتہاؤں کا پتہ نہیں۔ وَاللَّہُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ……………. "وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی۔ ”

وہ اس قدر فراخ دست ہے کہ جس کی عطا میں کوئی تنگی نہیں ہے۔ وہ نہ ختم ہونے والی ہے اور نہ اس کے جوش میں کمی آنے والی ہے وہ علیم ہے۔ وہ نیتوں کا مالک ہے۔ نیت اور نیکی پر بھی اجر دیتا ہے۔ اس پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ وہ کون سا انفاق فی سبیل اللہ ہے جو بڑھتا ہے اور نفع بخش ہے اور وہ کون سی جود و کرم ہے، جسے اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں دوچند کر دیتا ہے ؟جس کے لئے چاہے۔ یہ انفاق وہ ہے جو انسانی جذبات کو بلند کر دے اور انہیں پاک وصاف کر دے۔ وہ انفاق فی سبیل اللہ وہ ہے جو کسی انسان کی شرافت و عزت نفس نہ کچلے۔ وہ انفاق جسے دلی طہارت اور صفائی کے نتیجے میں رو بعمل لایا جائے۔ وہ محض جذبہ رضائے الٰہی کے تحت کیا جائے۔ اور اس کے علاوہ کوئی اور مقصد پیش نظر نہ ہو۔

 

"جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور خرچ کر کے پھر احسان نہیں جتاتے، نہ دکھ دیتے ہیں، ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے۔ اور ان کے لئے کسی رنج اور خوف کا موقعہ نہیں۔ ” (٢٦٢)

 

احسان جتلانا ایک مکروہ، ناپسندیدہ اور گھٹیا درجے کی حرکت ہے۔ یہ ایک ایسا شعور ہے جو نہایت ہی پست ہے۔ نفس انسانی صرف اس صورت میں احسان جتلاتا ہے جب وہ جھوٹے احساس برتری میں مبتلا ہو اور اسے تعلی کا روگ لگا ہو۔ یا وہ گیرندہ کو ذلیل کرنا چاہتا ہو، یا وہ دل میں یہ خواہش رکھتا ہو کہ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوں اور اس کے اس فعل انفاق کو پسندیدہ نظروں سے دیکھیں۔ اس صورت میں بھی مطمح نظر لوگ ہیں۔ اللہ کی ذات نہیں ہے۔ یہ تمام جذبات ایسے ہیں جو کبھی ایک پاکیزہ دل میں پروان نہیں چڑھ سکتے۔ اور نہ ایسے جذبات ایک سچے مومن کے دل میں پیدا ہوتے ہیں۔ پس احسان جتلانا بیک وقت ایک دہندہ کے لئے اور گیرندہ کے لئے موجب اذیت ہے۔ دہندہ کے لئے اذیت ہے کہ اس کے دل میں کبر و غرور پیدا ہوتا ہے۔ اس کے دل میں یہ خیال اور یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ ایک بھائی اس کے سامنے ذلیل اور شکستہ حال صورت میں ظاہر ہو۔ اور خود دہندہ کے دل میں نفاق، ریا کاری اور اللہ سے دوری کے جذبات پیدا ہوں گے اور گیرندہ کے لئے اذیت یوں ہے کہ وہ اپنے آپ کو کمتر اور شکستہ حال تصور کرتا ہے اور پھر اس کے دل میں حقارت اور انتقام کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ انفاق فی سبیل اللہ سے اسلام کی غرض صرف یہ نہیں ہے کہ ایک خلا کو پرکر دیا جائے، کسی کی حاجت پوری ہو اور بھوکا پیٹ بھر جائے۔ صرف یہ غرض ہرگز نہیں ہے۔ اس سے اسلام ایک طرف تو عطا کنندہ کی اخلاقی تطہیر کا بندوبست کرتا ہے اس کے نفس کو پاک کرتا ہے۔ اس کے اندر ہمدردی کے جذبات کو ابھارتا ہے۔ اور ایک مسلم بھائی اور بھائی کے درمیان رابطہ پیدا کر کے بحیثیت انسان اور مسلمان صرف رضائے الٰہی کے لئے اسے ایک فقیر کی امداد پر آمادہ کرتا ہے۔ اسلام ایک دہندہ کو یہ یاد دلاتا ہے کہ اس پر اللہ کا فضل ہے اور اس نے اس فضل کے بارے مں اللہ سے ایک عہد بھی کر رکھا ہے۔ اور وہ عہد یہ ہے کہ وہ اس فضل و نعمت سے بغیر اسراف کے بقدر ضرورت کھائے بھی اور اس سے فی سبیل اللہ خرچ بھی کرے۔ یعنی بغیر کسی رکاوٹ اور احسان جتلانے کے۔ دوسری جانب اس سے اللہ تعالیٰ گیرندہ کی دلجوئی اور رضامندی کا سامان بھی کرتے ہیں۔ اور یوں ایک انسان اور ایک انسان اور ایک مومن اور مومن کے درمیان اچھے تعلقات قائم ہو جاتے ہیں۔ اور اسلامی معاشرہ میں یہ خطرہ بھی نہیں رہتا کہ اس کے درمیان تعاون و تکافل نہ ہو۔ یوں ایک اسلامی معاشرہ کی تعمیر وحدت، اس کے رجحانات میں یکسوئی، اس کے فرائض و ذمہ داریوں میں ہم آہنگی پیدا ہو جاتی ہے۔ لیکن احسان جتلانے سے یہ تمام فائدے ختم ہو جاتے ہیں اور انفاق فی سبیل اللہ زہر اور آگ بن جاتا ہے۔ اگرچہ انسان کے ہاتھ اور اس کی زبان سے کسی گیرندہ کو کوئی اذیت نہ پہنچی ہو لیکن مجرد احسان جتلانا ہی بہت بڑی اذیت ہے۔ یہ بذات خود مجسم اذیت ہے۔ اس سے انفاق بے اثر ہو جاتا ہے۔ معاشرہ کے اندر تفرقہ پیدا ہوتا ہے اور افراد معاشرہ کے درمیان دشمنیاں اور نفرتیں پیدا ہوتی ہیں۔ جدید علوم نفسیا ت کے ماہرین اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ احسان جتلانے یا احسان کرنے کے نتیجے میں بالآخر محسن اور وہ شخص جس کے ساتھ احسان کیا گیا، کے درمیان کسی نہ کسی وقت دشمنی ضرور پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ اس سلسلے میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ ایک گیرندہ اپنے دل ہی دل میں احساس کمتری اور معطی کے سامنے اپنے ضعف جذبات اپنے دل میں پیدا کر لیتا ہے۔ اور یہ شعور ہر وقت اس کے دل میں چبھتا رہتا ہے۔ اور ایک احسان مند شخص اس شعور پر غلبہ پانے کے لئے رد عمل میں خود احسان کنندہ پر حملہ آور ہو جاتا ہے اور اپنے دل میں اس کی دشمنی کو چھپا لیتا ہے۔ اس لئے کہ احسان کنندہ کی نسبت سے وہ ہمیشہ اپنے آپ کو کمتر سمجھتا ہے اور خود احسان کنندہ بھی یہ شعور اپنے اندر پیدا کر لیتا ہے کہ وہ اس شخص کے مقابلے میں برتر ہے۔ اور یوں یہ شعور یعنی ایک جانب احساس برتری اور دوسری جانب احساس کمتری ایک دوسرے کی دشمنی میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔

بے شک ماہرین نفسیات کا یہ تجربہ بعض اوقات جاہلی اور غیر اسلامی معاشروں کے درمیان بالکل درست نکلتا ہے۔ یہ جاہلی معاشرے ایسے ہوتے ہیں۔ جن میں نہ اسلامی روح ہوتی ہے نہ اس میں اسلامی افکار کی حکمرانی ہوتی ہے۔ لیکن اسلامی نظام زندگی نے اس مسئلے کو بالکل ایک نئے انداز میں حل کیا ہے۔ وہ یوں کہ اسلام تمام لوگوں کے دل و دماغ میں یہ حقیقت بٹھاتا ہے کہ مال و دولت دراصل اللہ کی ملکیت ہے جو رزق اور دولت اہل ثروت کے ہاتھوں میں ہے وہ اس کے امین و محافظ ہیں۔ اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار جاہل سے جاہل شخص بھی نہیں کرسکتا۔ اس لئے کہ دولت و ثروت کے قریبی اور دور کے اسباب اللہ کے پیدا کردہ ہیں۔ ان اسباب میں سے کوئی سبب بھی انسان کے دائرہ قدرت میں نہیں ہے۔ یہ سب کچھ اللہ کا دیا ہوا ہے۔ گندم کا ایک دانہ لیجئے۔ اس کی پیدائش میں اس کائنات کی کئی قوتیں شریک ہوتی ہیں۔ سورج سے لے کر زمین تک اور پانی سے لے کر ہوا تک۔ ان میں سے کوئی قوت بھی انسان کے دائرہ قدرت میں نہیں ہے۔ گندم کے ایک دانے پر تمام دوسری اشیاء کو قیاس کیا جا سکتا ہے۔ چاہے وہ کپڑے کا ایک ریشہ ہو یا کوئی اور چیز ہو۔ یوں اس تصور کے ساتھ اگر کوئی صاحب ثروت اگر کوئی چیز خرچ کرتا ہے تو گویا وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی چیز خرچ کرتا ہے۔ نیز اس تصور کے مطابق اگر کوئی شخص کوئی نیکی کر کے اپنی آخرت کے لئے جمع کرتا ہے تو گویا وہ اللہ تعالیٰ کو قرض دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے اس کا کئی گنا اجر دے گا۔ البتہ یہ نادار شخص اس مالدار شخص کے اخروی اجر کا ایک سبب بن جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اخذ و عطا کے لئے ایسے آداب مقرر فرمائے ہیں جن کو یہاں ہم بیان کر رہے ہیں۔ یہ آداب انسانی دل و دماغ میں یہ تصور راسخ کرتے ہیں کہ کوئی دینے والا تعلی نہ کرے اور نہ کوئی لینے والا احساس کمتری کا شکار ہو اور دونوں ان آداب و اصول کا لحاظ رکھیں جو اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے لئے وضع فرمائے ہیں۔ اور ان عہدوں کی پوری پوری پابندی کریں جو اللہ تعالیٰ نے ان سے لئے ہیں۔ فرماتے ہیں

وَلا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ……………. "ان کے لئے کسی خوف کا موقعہ نہ ہو گا۔ "یعنی ان کے لئے نہ یہ خطرہ ہے کہ ان کے ساتھ دشمنی ہو گی، نہ یہ خطرہ ہے کہ وہ غریب ہو جائیں گے اور نہ یہ خطرہ ہے کہ ان کا کوئی اجر ضائع ہو گا۔

وَلا ہُمْ يَحْزَنُونَ……………. "اور نہ ان کے لئے رنج و ملال کا موقع ہو گا۔ "یعنی دنیا میں بھی ان کے لئے کوئی رنج نہ ہو گا۔ اور نہ آخرت میں انجام بد سے دوچار ہو کر وہ پریشان ہوں گے۔

بذل و نفاق کی مذکورہ بالا حکمت کی تائید مزید کے لئے اور اس بات کی مزید وضاحت کے لئے انفاق فی سبیل اللہ سے اصل غرض و غایت تہذیب نفس اور اصلاح القلوب ہے۔ اور عطا کنندہ اور گیرندہ کے درمیان محض دینی محبت کا قیام ہے، اگلی آیت میں کہا جاتا ہے۔

قَوْلٌ مَعْرُوفٌ وَمَغْفِرَۃٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَۃٍ يَتْبَعُہَا أَذًى وَاللَّہُ غَنِيٌّ حَلِيمٌ

"ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اس خیرات سے بہتر ہے، جس کے پیچھے دکھ ہو۔ "اور اللہ بے نیاز ہے اور بربادی اس کی صفت ہے۔ ”

یہاں یہ فیصلہ کر دیا جاتا ہے کہ جس صدقہ کے بعد نادار کو اذیت دی جاتی ہو، ایسے صدقے کے سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس سے تو ایک میٹھا بول اور ایک نرم بات ہی بہتر ہے۔ ایک اچھی بات سے دلوں کے زخم جڑ جاتے ہیں۔ اس سے خوشی اور رضا جوئی پیدا ہوتی ہے، جس سے زخم بھر آتے ہیں۔ معافی اور چشم پوشی سے دلوں کی میل دور ہو جاتی ہے۔ اور اس کے بدلے بھائی چارہ اور دوستی پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسے حالات میں میٹھا بول اور عفو و درگزر دوستی اور اخوت کے راستے میں خشت اول کا کام دیتے ہیں۔ اس سے نفوس میں پاکیزگی اور دو دلوں میں یگانگت پیدا ہوتی ہے۔

یہ بات کہنے کے بعد کہ صدقہ عطا کنندہ کی طرف سے گیرند پر کوئی برتری نہیں اس لئے کہ صدقہ کر کے ایک شخص دراصل اللہ تعالیٰ کو قرض دیتا ہے، تو اس کے بعد کیا جاتا ہے وَاللَّہُ غَنِيٌّ حَلِيمٌ……………. "اور اللہ بے نیاز ہے اور بردباری اس کی صفت ہے۔ "وہ عطا کنندہ کی ایسی عطا سے مستغنی ہے جس کے بعد وہ ایک نادار کو اذیت دیتا ہو، اور وہ برد بار ہے۔ کیونکہ وہ اپنے بندوں کو سب کچھ دیتا ہے اور پھر بھی وہ اس کا شکر ادا نہیں کرتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ انہیں سزا دینے میں عجلت سے کام نہیں لیتے اور نہ ہی شتابی سے انہیں اذیت دیتے ہیں۔ اللہ اپنے بندوں کو سب کچھ دیتا ہے اور سب کچھ دینے سے پہلے انہیں وجود عطا کرتا ہے۔ لہٰذا بندوں کو بھی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے بردباری سیکھیں۔ وہ اگر اللہ کے دیئے میں سے کسی کو کچھ دے بھی دیں تو فوراً ہی اس احسان مند کے درپے آزار نہ ہو جائیں۔ ایسے حالات میں جبکہ انہیں ان کی کوئی بات پسند نہ ہو یا یہ کہ وہ احسان مند شخص ان کا شکر ادا کر رہا ہو۔

قرآن کریم بار بار لوگوں کے سامنے صفات باری کا ذکر کرتا ہے۔ اور مطلوب یہ ہے کہ لوگ حتی الوسع اپنے اندر وہ صفات پیدا کریں۔ اسلامی زندگی کے آداب میں سے یہ ایک اہم طرز عمل ہے کہ ایک مسلم اپنے اندر صفت باری پیدا کرتا ہے اور اس راہ کے مختلف مراحل مسلسل طے کرتا رہے۔ اور ان صفات میں سے جو حصہ اس کا ہے وہ اسے حاصل کرتا رہے۔ اپنے مزاج اور اپنی طبیعت کی صلاحیتیوں کے مطابق۔

جب یہ وجدانی تاثر اپنی انتہاؤں کو چھو لیتا ہے اور جو لوگ اپنے اموال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، جب ان کے سامنے ترقی پذیر اور مفید زندگی کے طبعی مظاہر پیش کر دئیے جاتے ہیں، اور یہ انفاق ایسا ہوتا ہے کہ اس کے بعد کوئی احسان مندی، احسان جتلا کر اذیت رسانی نہیں ہوتی اور یہ اشارہ دینے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ کو ایسے انفاق اور ایسے صدقات اور احسانات کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جن کے بعد ایذا رسانی ہو اور یہ کہ اللہ تعالیٰ رازق اور داتا ہے۔ وہ اپنا قہر و غضب نازل کرنے میں اور اذیت رسانی میں جلد بازی نہیں کرتا۔ غرض جب یہ وجدانی تاثر اپنی ان انتہاؤں تک جا پہنچتا ہے۔ تو اب روئے سخن ان لوگوں کی طرف پھر جاتا ہے جو اہل ایمان ہیں کہ وہ احسان جتا کر اور احسان کے بعد اذیت دے کر اپنے صدقات اور نیکیوں کو ضائع نہ کریں۔

قرآن یہاں ان کے سامنے ایک عجیب صورتحال کی منظر کشی کرتا ہے۔ یہ وہ مناظر ہیں جو بڑے خوبصورت ہیں۔ جو پہلے منظر کے ساتھ ایک جگہ چلتے ہیں۔ پہلا منظر یہ تھا کہ ایک کھیت ہے جو نشوونما پا رہا ہے۔ لیکن ان دو نئے مناظر میں اس انفاق فی سبیل اللہ کا مزاج بتایا جا رہا ہے جو خالص للّٰہ ہو اور اس انفاق کی حقیقت بھی بتائی جاتی ہے جو احسان مندی اور اذیت رسانی کے ساتھ ہو اور یہ مناظر قرآن کریم کے اسلوب میں ہیں جو وہ فن کارانہ تصویر کشی کے لئے اختیار کرتا ہے یعنی مفہوم اور معنی کو ایک مشخص شکل میں پیدا کیا جاتا ہے اور اس میں کسی عمل کے اثرات متحرک شکل میں ہوتے ہیں اور یہ منظر کشی ایسے حالات میں ہوتی ہے کہ پورا نظارہ ہمارے تخیل کے سامنے ہوتا ہے۔

 

"اے ایمان لانے والو!اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور دکھ دے کر اس شخص کی طرح خاک میں نہ ملا دو، جو اپنا مال محض لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے، نہ آخرت پر۔ اس شخص کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چٹان تھی، جس پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی۔ اس پر جب زور کا مینہ برسا تو ساری مٹی بہہ گئی اور صاف چٹان کی چٹان رہ گئی۔ ایسے لوگ اپنے نزدیک خیرات کر کے جو نیکی کماتے ہیں، اس سے کچھ بھی ان کے ہاتھ نہیں آتا، اور کافروں کو سیدھی راہ دکھانا، اللہ کا دستور نہیں ہے۔ بخلاف اس کے جو لوگ اپنے مال محض اللہ کی رضا جوئی کے لئے دل کے پورے ثبات و قرار کے ساتھ خرچ کرتے ہیں۔ ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی سطح مرتفع پر ایک باغ ہو۔ اگر زور کی بارش ہو جائے تو دگنا پھل لائے، اور اگر زور کی بارش نہ بھی ہو تو ایک ہلکی پھوار ہی اس کے لئے کافی ہو جائے۔ تم جو کچھ کرتے ہو، سب اللہ کی نظر میں ہے۔ ” (۲۶۴، ٢٦٥)

 

یہ ہے وہ پہلا منظر یہ ایک مکمل اور دو اجزاء سے مرکب منظر ہے، جو اپنی شکل وضع اور اپنے نتائج کے اعتبار سے ایک دوسرے کے متضاد مناظر ہیں۔ ہر منظر ک پھر مختلف اجزاء ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ متناسق ہیں۔ وہ تعبیر اور مشاہدے کے اعتبار سے بھی باہم متوافق اور ہم رنگ ہیں۔ اور معانی اور جذبات کے اعتبار سے بھی جو معانی اور جو جذبات اس منظر کشی سے پیدا کرنے مطلوب تھے۔ جن کا اظہار اس پوری منظر کشی سے مطلوب تھا یا جو شعور ان مناظر کی وجہ سے پیدا کیا جانا مطلوب تھا۔

پہلے منظر میں ہمیں ایک ایسے دل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو پتھر سے بھی سخت ہے۔ كَالَّذِي يُنْفِقُ مَالَہُ رِئَاء َ النَّاسِ وَلا يُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ……………. "اس شخص کی طرح جو اپنے مال کو محض لوگوں کو دکھاوے کے لئے خرچ کرتا ہے۔ نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور نہ آخرت پر۔ "اسے ایمان کی تر و تازگی اور مٹھاس کا شعور نہیں ہوتا لیکن وہ اپنی اس سنگ دلی پر ریاکاری کا پردہ ڈالتا ہے۔ یہ دل جس پر ریاکاری کا پردہ ہوتا ہے، اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چٹان ہو اور اس پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی ہو۔ ایک ایسا پتھر جس پر کوئی تر و تازگی نہ ہو، جس میں کوئی نرمی نہ ہو۔ اس پر مٹی کی ایک ہلکی سی تہہ ہو اور اس کی سختی اور درشتی کو اس تہہ نے چھپا رکھا ہو۔ بعینہ اسی طرح جس طرح ایک شخص اپنی ریاکاری کی وجہ سے اپنے دل کی کیفیت کو چھپا لیتا ہے جو ایمان سے خالی ہو۔

فَأَصَابَہُ وَابِلٌ فَتَرَكَہُ صَلْدًا ……………. "اس پر زور کا مینہ برسا تو ساری مٹی بہہ گئی اور صاف چٹان رہ گئی۔ "موسلا دھار بارش نے مٹی کی اس خفیف تہہ کو ختم کر دیا۔ چٹان ظاہر ہو گئی اور وہ کیا تھی ؟ایک سخت اور مضبوط اور کرخت چٹان۔ جس پر کوئی روئیدگی ممکن نہ تھی۔ نہ اس سے کسی قسم کی پیداوار حاصل ہوسکتی تھی۔ یہی مثال اس دل کی ہے جو اپنا مال محض ریاکاری کے طور پر خرچ کرتا ہے۔ جس سے کوئی فائدہ نہ ہو گا دنیا میں اور نہ آخرت میں۔

اس منظر کے بالمقابل ایک دوسرا منظر ہے، جو اس کے بالکل متضاد ہے۔ ایک دل ہے جو ایمان سے بھرا ہوا ہے۔ وہ ایمان کی تر و تازگی سے سرشار ہے۔ وہ اپنے مال کو محض رضائے الٰہی کی خاطر خرچ کرتا ہے۔ اسے پورا پورا یقین ہے کہ وہ جو کچھ خرچ کر رہا ہے اس کا وہ اجر ضرور پائے گا۔ اور یہ خرچ وہ محض اپنے ایمان اور نظریہ کے تقاضے کے طور پر کرتا ہے۔ یہ نظریہ اس کے دل کی گہرائیوں میں رچا بسا ہے۔ ایک طرف یہاں ریاکار دل ہے، اس کو ایک ایسے پتھر کے ساتھ مشابہت دی گئی ہے جس پر مٹی کا ایک خفیف سا پردہ ہے۔ اور دوسری جانب ایک ایسا دل ہے جو ایمان سے بھرپور ہے اور اسے ایک سرسبز باغ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جس کی زمین زرخیز ہے اور مٹی گہری ہے جبکہ پتھر پر مٹی کا ایک خفیف سا پردہ تھا۔ باغ ایک اونچے مقام پر ہے اور مذکورہ چٹان ایک گہرے گڑھے میں ہے۔ تاکہ یہ دونوں مناظر متناسب اور ہم شکل ہو جائیں۔ اب اگر اس باغ پر موسلادھار بارش برس جاتی ہے تو اس سے اس کی تر و تازگی ختم نہیں ہوتی۔ جس طرح چٹان پر سے مٹی کی خفیف تہہ بہہ نکلتی ہے۔ بلکہ بارش اس باغ کو زیادہ سرسبز اور شاداب کر دیتی ہے۔ اسے نئی زندگی عطا کرتی ہے اور اس کی نشوونما ہوتی ہے۔ أَصَابَہَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُكُلَہَا ضِعْفَيْنِ ……………. "اور اس پر زور کی بارش ہو جائے تو دگنا پھل لائے۔ ”

یہ بارش اس باغ کو زندہ اور سرسبز کر دیتی ہے۔ جس طرح صدقہ ایک مومن کے دل کو پاک وصاف کر دیتا ہے اور اس کی وجہ سے ایک مومن کا تعلق باللہ مضبوط ہو جاتا ہے۔ دل مومن کی طرح ایک مومن کا مال بھی صاف ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈالتے ہیں اور اسی طرح انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعہ جماعت مسلمہ کی اجتماعی زندگی میں پاکیزگی پیدا ہوتی ہے اور اس سے اجتماعی روابط بڑھتے ہیں۔ اور اگر وہ بارش نہ بھی ہو تو ایک ہلکی پھوار ہی اس کے لئے کافی ہو جاتی ہے جبکہ مٹی میں پہلے سے نم موجود ہو تو ہلکی بارش بھی کافی ہوتی ہے۔

یہ ہے ایک مکمل نظارہ، جس کے مناظر ایک دوسرے کے بالمقابل صاف نظر آتے ہیں جس کی جزئیات باہم متناسب ہیں اور جسے ایک معجزانہ پیرایہ اظہار میں پیش کیا گیا ہے۔ طرز ادا میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور اس کے مناظر تمام دلی خلجانات اور تمام غلط تصورات کے علاج کے لئے بالکل واضح ہیں۔ یہ منظر انسانی وجدان اور انسانی شعور کے سامنے ایک صاف تصویر پیش کرتا ہے۔ تمام حالات اور تمام محسوسات کو بڑے امتیاز کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ جو انسان کے قلب پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ اور انسان بڑی آسانی سے راہ ہدایت پا لیتا ہے۔

اس منظر کا تعلق چونکہ فکر و نظر سے تھا۔ اور اس سے اصل غرض و غایت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کی جائے اور اس ظاہری دنیا سے آگے اس کے کرشمہ ہائے قدرت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا جائے۔ اس لئے اس کے آخر میں یہ نتیجہ نکالا گیا وَاللَّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ ……………. "رہا دوسرا منظر تو احسان جتلانے اور اذیت دینے کی انتہائی تمثیل ہے۔ اس میں باری تعالیٰ بتاتے ہیں کہ اس قسم کے صدقے اور احسان کو اللہ تعالیٰ کس طرح تباہ و برباد کر دیتے ہیں، جبکہ صاحب صدقہ اور صاحب احسان اس وقت اس صدقے اور احسان کے فائدے کا زیادہ محتاج ہوتا ہے۔ وہ ضعیف ہو جاتا ہے۔ جسمانی قوتیں ختم ہوتی ہیں لیکن وہ اس بربادی کا کوئی علاج نہیں کرسکتا۔ یہ انجام بدکی ایک انتہائی قسم کی بری منظر کشی ہے۔ اور نہایت ہی موثر اور سبق آموز۔ اس منظر میں امن اور خوشحالی کے بعد مکمل تباہی اور ویرانی ہے۔

 

"کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے پاس ایک ہر ا باغ ہو، نہروں سے سیراب، کھجوروں اور انگوروں اور ہر قسم کے پھلوں سے لدا ہوا، اور وہ عین اس وقت میں ایک تیز بگولے کی زد میں آ کر جھلس جائے جبکہ وہ خود بوڑھا ہو اور اس کے کم سن بچے ابھی کسی لائق نہ ہوں ؟اس طرح اللہ اپنی باتیں تمہارے سامنے بیان کرتا ہے، شاید کہ تم غور و فکر کرو۔ ” (٢٦٦)

 

یہاں صدقہ کو اپنی حقیقت اور اپنے آثار کے اعتبار سے ایک محسوس شکل میں پیش کیا گیا ہے۔

جَنَّۃٌ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِہَا الأنْہَارُ لَہُ فِيہَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ ……………. "یہ صدقہ گویا ایک باغ ہے جو نہروں سے سیراب ہے۔ کھجوروں اور انگوروں اور ہرقسم کے پھلوں سے لدا ہوا۔ "اس کی چھاؤں گھنی ہے، خوشگوار اور تر و تازہ ہے۔ اس میں ہر قسم کے پھل کثرت سے ہیں جس طرح یہ باغ مفید ہے اس طرح صدقہ بھی مفید اور فائدہ بخش اور فرحت بخش تھا۔ یہ صدقہ دینے والے کے لئے بھی مفید تھا۔ لینے والے کے لئے بھی مفید تھا اور پورے معاشرے کے لئے بھی مفید تھا۔ جس کے روحانی فائدے بے شمار تھے اور اس میں خیر و برکت تھی جس کے ذریعہ معاشرے کو مفید غذا مل رہی تھی اور جو معاشرے میں اجتماعی نشوونما اور ترقی کا باعث تھا۔

کوئی ایسا بدبخت ہے جو اس قسم کے باغ کا مالک ہو اور جو اس قسم کے اعلیٰ بھائی چارے اور نیکی کا مالک ہو اور پھر وہ ایسے باغ کو احسان جتلانے یا احسان کے بعد اذیت دینے کی افادیت و بلیات کے ذریعے جلا کر خاکستر کر دے، جس طرح ایک آتشی بگولا کسی سرسبز و شاداب باغ کو جھلسا کر خاکستر کر دیتا ہے۔

اور پھر یہ عمل کیسے حالات میں ہو ؟ایسے حالات میں کہ اس باغ کا مالک صاب احتیاج ہو۔ جسمانی لحاظ سے ضعیف ہو گیا ہو، عیالدار ہو اور اسے اس باغ کی چھاؤں اور نعمتوں کی اشد ضرورت بھی ہو وَأَصَابَہُ الْكِبَرُ وَلَہُ ذُرِّيَّۃٌ ضُعَفَاء ُ فَأَصَابَہَا إِعْصَارٌ فِيہِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ……………. "وہ خود بوڑھا ہو جائے اور اس کے بچے بھی کسی لائق نہ ہوں اور ایسے میں ایک تیز بگولے کی زد میں آ جائے جس میں آگ ہو۔ "کون ہے جو ایسی صورتحال کو پسند کرے گا ؟کون ہے جو اگر ایسے انجام کو سمجھ سکتا ہو اور اس سے بچنے کی سعی نہ کرے ؟

كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّہُ لَكُمُ الآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ……………. "اس طرح اللہ اپنی باتیں تمہارے سامنے بیان کرتا ہے، شاید تم غور و فکر کرو۔ ”

یوں یہ زندہ و تابندہ منظر اسٹیج ہوتا ہے۔ اس کی ابتدا نہایت خوشی، خوشگواری اور آرام سے ہوتی ہے۔ منظر کا آغاز تر و تازگی، فراخ و سرور اور حسن و جمال سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد تباہی کا منظر آتا ہے اور یہ ایک خوفناک منظر ہوتا ہے۔ ایک بگولا آتا ہے جو اس کی تر و تازگی کو پژمردہ کر دیتا ہے۔ جب یہ سب مناظر اسٹیج پر پر آتے ہیں تو انسان کو ایک لاشعوری احساس دلاتے ہیں اور یہ شعور اس قدر پر تاثیر ہوتا ہے کہ ایک با شعور آدمی کو ایک صحیح راہ اختیار کرنے میں کوئی تردد نہیں رہتا۔ اس سے پہلے کہ انسان کے ہاتھ سے موقعہ جاتا رہے اور اس سے پہلے کہ گھنی چھاؤں والے باغات اور پھلوں سے لدے ہوئے درخت پژمردہ ہو جائیں اور جھلس جائیں۔ ایک با شعور انسان رد و قبول کا فیصلہ کر ہی لیتا ہے۔

میں یہاں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ حسین و جمیل انداز کلام اور مربوط اور ہم آہنگ مناظر جن سے اس سبق کا ہر انفرادی منظر تشکیل پاتا ہے اور پھر جس خوش اسلوبی سے ہر ایک انفرادی منظر کو پیش کیا جاتا ہے۔ یہ ربط وہم آہنگی صرف ان انفرادی مناظر تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ یہ ہم آہنگی مجموعی طور پر ان تمام مناظر میں بھی پائی جاتی ہے۔ یہ تمام مناظر بھی باہم مربوط اور متناسب ہیں۔ دیکھئے !ایک زرعی ماحول ہے۔ ایک دانہ ہے جس سے سات بالیاں اگتی ہیں۔ ایک چٹان ہے جس پرمٹی کی ایک خفیف تہہ جمی ہوئی ہے۔ اور اس پر اچانک موسلا دھار بارش ہو جاتی ہے۔ پھر ایک اونچی جگہ پر ایک باغ ہے جو ہر قسم کے پھلوں سے لدا ہوا ہے۔ اور دوچند پھل لگا ہوا ہے۔ یہ باغ کھجوروں اور انگوروں پر مشتمل ہے۔ کہیں زوردار بارش اور کہیں پھوار ہے۔ اور پھر ایک بگولا ہے جو اکثر زرعی کھیتوں میں تباہی مچاتا ہے۔ غرض ایک زرعی ماحول کے تمام قدرتی اجزاء یہاں موجود ہیں اور کوئی ایسا جز غائب نہیں ہے جو موثر ہوسکتا ہو۔

قرآن کریم کے بلیغانہ انداز گفتگو کی یہ ایک اہم خصوصیت ہے کہ وہ انسانی ادراک اور اس زمین کے قدرتی ماحول کے درمیان فاصلے کم کر دیتا ہے کیونکہ انسان کا وجود اسی کائنات کے عناصر ترکیبی سے مرکب ہے۔ انسان اور کائنات میں نباتات کی نشوونما کے درمیان ایک مکمل آہنگی ہے۔ جس طرح ایک بگولا اس کائنات کی تر و تازگی کو جھلس دیتا ہے، اسی طرح گمراہی انسان کی روحانی دنیا کو نیست و نابود کر دیتی ہے۔ یہ ہے قرآن کریم۔ ایک خوبصورت انداز گفتگو جو یقیناً حلیم و خبیر کی جانب سے ہے۔

انفاق فی سبیل اللہ کے آداب اور نتائج کے بیان کے بعد اب یہاں سیاق کلام، انفاق فی سبیل اللہ کے دستور کو لے کر اب مزید آگے بڑھتا ہے۔ انفاق کی حقیقت، انفاق کا طریقہ کار اور لوازمات کو بیان کیا جاتا ہے۔

 

"اے لوگو!جو ایمان لائے ہو، جو مال تم نے کمائے ہیں اور جو ہم نے زمین سے تمہارے لئے نکالا ہے، اس میں سے بہتر حصہ راہ اللہ میں خرچ کرو۔ ایسا نہ ہو کہ اس کی راہ میں دینے کے لئے بری سے بری چیز چھاٹنے کی کوشش کرنے لگو، حالانکہ وہی چیز اگر کوئی تمہیں دے، تم ہرگز اسے لینا گوارا نہ کرو گے۔ الا یہ کہ اس کو قبول کرنے میں تم اغماض برت جاؤ۔ تمہیں جان لینا چاہئے کہ اللہ بے نیاز ہے اور بہترین صفات سے متصف ہے۔ ” (٢٦٧)

 

اس آیت سے پہلی آیات میں انفاق فی سبیل اللہ کے لئے جو قواعد اور اساسات متعین کئے گئے تھے اور جن پر اس کی عمارت اٹھانے کا حکم دیا تھا، ان کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں بہترین مال خرچ کیا جائے۔ اللہ کی راہ میں ردی اور گھٹیا اشیاء خرچ کرنے کا ارادہ ہی نہ کیا جائے جن میں خود مالک کی کوئی دلچسپی نہیں رہتی۔ ایسی اشیاء اگر خود ایسے شخص کو کسی سودے یا بیوپار میں دی جائیں تو وہ ان کے عوض حقیر قیمت دینے کے لئے بمشکل تیار ہو۔ اللہ غنی بادشاہ ہے۔ اسے ضرورت نہیں ہے کہ ایسی ردی اشیاء قبول کرے۔

اللہ کی یہ پکار تمام مسلمانوں کے لئے ہے۔ وہ جب کبھی ہوئے ہوں اور جہاں کہیں بھی ہوں اور یہ حکم تمام اموال کے لئے ہے جو ان کے ہاتھ آ جائیں۔ وہ تمام اموال جو انہوں نے حلال اور پاکیزہ طریقے سے کمائے ہوں یا وہ اموال ہوں جو ان کے لئے زمین سے پیدا کئے گئے ہوں۔ زرعی اجناس ہوں معدنیات ہوں مثلاً پٹرول وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت میں عمومی الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ یعنی وہ اموال جو رسول اللہﷺ کے وقت موجود تھے یا وہ جو بعد میں پیدا ہوئے۔ اس لئے آیت کے الفاظ عام ہیں۔ ان کا اطلاق ان اموال پر بھی ہوتا ہے جو بعد میں پیدا ہوں۔ ان تمام پر زکوٰۃ واجب ہو گی۔ ہاں نصاب زکوٰۃ کا تعین سنت نبویﷺ نے کر دیا ہے۔ لہٰذا ہر قسم کی پیداوار کو ان اموال پر قیاس کر لیا جائے۔ جو رسولﷺ کے وقت موجود تھے۔ ہر نئی پیداوار کو ان اجناس پر قیاس کر لیا جائے جو رسولﷺکے وقت موجود تھیں، اپنی اپنی نوعیت کے مطابق۔

بعض روایات میں، اس آیت کا شان نزول بھی بیان ہوا ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہاں ان کا تذکرہ غیر موزوں نہ ہو گا۔ کیونکہ ان روایات کے ذریعہ وہ حالات دو بارہ سامنے آ جاتے ہیں، جن میں ان آیات کا نزول ہوا۔ ان روایات سے وہ پست معاشرتی صورتحال بھی مستحضر ہو جاتی ہے جس کی اصلاح قرآن کے پیش نظر تھی اور جس کے معیار کی بلندی کے لئے قرآن کریم جد و جہد کر رہا تھا۔

ابن جریر نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، فرماتے ہیں "یہ آیت انصار کے بارے میں نازل ہوئی، جب کھجوریں توڑنے کا وقت قریب آتا تو وہ اپنے باغوں سے کھجوروں کے ایسے کوشے توڑ لاتے جن کے رنگ پیلے ہو جاتے تھے، لیکن ابھی پکے نہ ہوتے تھے اور وہ انہیں مسجد نبوی کے دوستونوں کے درمیان لٹکا دیتے تھے، تو فقراء مہاجرین ان سے کھاتے تھے۔ بعض لوگ ردی قسم کی کھجوریں بھی لا کر ان میں لٹکا دیتے۔ وہ یہ سمجھتے کہ یہ جائز ہے۔ جو لوگ یہ کام کرتے تھے ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی وَلا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْہُ تُنْفِقُونَ ……………. "اور خبیث کا ارادہ نہ کرو کہ اس میں سے تم خرچ کرو۔ "اس حدیث کو براء سے حاکم نے بھی روایت کیا ہے۔ اور یہ کہا ہے کہ یہ حدیث اگرچہ بخاری اور مسلم کی شرائط کی صحت کے مطابق ہے۔ لیکن بخاری ومسلم نے اسے روایت نہیں کیا۔ ابن ابی حاتم نے اپنی سند کے ساتھ ایک دوسری سند کے ساتھ حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔ کہتے ہیں یہ ہمارے متعلق نازل ہوئی ہے۔ ہم کھجوروں کے مالک تھے تو ہر شخص تھوڑی بہت کھجوریں لایا کرتا تھا، بعض لوگ نا پختہ لاتے تھے اور مسجد میں لٹکاتے تھے۔ اہل صفہ کے طعام وقیام کا بندوبست کوئی نہ تھا۔ ان میں سے جو بھی بھوکا ہو جاتا، وہ آتا اور اپنی لاٹھی کو ان لٹکی ہوئی کھجوروں پر مارتا اور نیم پختہ اور پوری پختہ کھجوروں میں سے جو کچھ گرتا، وہ کھا لیتا۔

لوگوں میں سے بعض ایسے بھی تھے جو مائل بخیر نہ تھے، وہ نا پختہ اور ردی قسم کی کھجوریں لے آتے۔ وہ خصوصاً ایساخوشہ لاتے جو ٹوٹ چکا ہوتا تھا اور جس کے دانے نا پختہ ہوتے تھے، اسے لٹکا دیتے تو یہ آیت نازل ہوئی وَلا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْہُ تُنْفِقُونَ وَلَسْتُمْ بِآخِذِيہِ إِلا أَنْ تُغْمِضُوا فِيہِ……………. "ایسانہ ہو کہ اس کی راہ میں دینے کے لئے بری سی بری چیز چھاٹنے کی کوشش کرنے لگو، حالانکہ وہی چیز اگر کوئی تمہیں دے تو تم ہرگز اسے لینا گوارا نہ کرو گے۔ الا یہ کہ اسے قبول کرنے میں تم اغماض برت جاؤ۔ "فرمایا :کہ اگر تم میں سے کسی کو ایسی ہر چیز ہدایہ دے جو وہ خود دے رہا ہے، تو وہ اسے ہرگز نہ لے۔ الا یہ کہ اغماض برتے یا حیا چشمی سے کام لے۔ چنانچہ اس کے بعد ہم سے ہر شخص کے بعد جو کچھ ہوتا، اس میں سے اچھی چیز لاتا۔

دونوں روایات قریب المفہوم ہیں۔ دونوں مدینہ طیبہ میں فی الواقع موجود صورتحال کا نقشہ کھینچ رہی ہیں۔ یہ دونوں احادیث تاریخ کے ایک ورق کے بالمقابل ایک دوسرا ورق دکھاتی ہیں، جس کے اوپر انصار مدینہ فیاضانہ داد و دہش کے انمٹ نشان چھوڑ دیتے ہیں۔ نیز یہ احادیث بتاتی ہیں کہ ایک ہی جماعت کے اندر بعض افراد نہایت ہی عجیب اور بلند مقام کے حامل ہوتے ہیں اور بعض دوسرے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی تربیت اور تہذیب کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ انہیں درجہ بلند کے راستے پر ڈالا جائے، جس طرح بعض انصار کے معاملے میں یہ ضرورت پیش آئی، انہیں اللہ کے راستے میں ردی اموال کو خرچ کرنے سے منع کیا جائے۔ ایسے اموال کہ خود اگر انہیں پیش کئے جائیں تو وہ انہیں قبول نہ کریں۔ الا یہ کہ رد کرنے میں حیا مانع ہو اور اگر کوئی لین دین ہو تو اس میں وہ اغماض برت جائیں۔ یعنی قیمت میں کمی کرنے کے معاملے میں۔ حالانکہ وہ جس ذات باری کے سامنے ہدیہ پیش کر رہے ہیں وہ باری تعالیٰ ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آیت کا خاتمہ اس فقرے پر ہوتا ہے۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّہَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ……………. "تمہیں جان لینا چاہئے کہ اللہ بے نیاز ہے اور بہترین اوصاف سے متصف ہے۔ "یعنی وہ اس بات سے مطلقاً بے نیاز ہے کہ اس کی راہ میں کوئی دیتا ہے یا نہیں دیتا۔ اگر کوئی اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو خود اپنے مفاد کے لئے کرتا ہے۔ توبس اس کے لئے مناسب یہی ہے کہ وہ بہترین چیز خرچ کرے اور بطیب خاطر کرے نیز وہ حمید ہے۔ وہ پاکیزہ چیزیں قبول کرتا ہے اور ان کی تعریف کرتا ہے۔ ان پر جزا دیتا ہے اور اچھی جزا۔ غرض اس مقام پر یہ ان دونوں صفات کے ذکر سے انسانی دل اس طرح دہل جاتے ہیں، جس طرح انصار کے دل دہل گئے تھے جن کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئیں۔ "اے لوگو!جو ایمان لائے ہو، جو مال تم نے کمائے ہیں، ان میں سے بہترین حصہ راہ اللہ میں خرچ کرو۔ "ورنہ اللہ کو اس ردی چیز کی ضرورت نہیں جس کو تم چھانٹ کر بطور صدقہ خرچ کرتے ہو، حالانکہ اللہ وہ ذات ہے جو تمہاری تعریف اس صورت میں کرتا ہے کہ تم اس کی راہ میں پاکیزہ چیزیں خرچ کرو اور اس رضامندی کی وجہ سے وہ پھر تمہیں اچھی جزا بھی دیتا ہے۔ درآں حالیکہ یہ مال اسی نے تمہیں دیا ہے۔ اصل داتا تو وہی ہے وہ تو بطور اعزاز تمہیں اس فیاضی پر جزا دیتا ہے، اس لئے کہ تم جو کچھ دیتے ہو وہ اسی نے تو تمہیں عطا کیا ہے۔ کس قدر شاندار تفہیم ہے یہ!کیا عجب انداز ترغیب ہے !یہ ایک عجیب اسلوب تربیت ہے جو قرآن کریم نے اختیار کیا ہے۔

حقیقت یہ تھی اور ہے کہ اللہ کی راہ میں انفاق نہ کرنا، یا ردی اور بے کار چیز بارگاہ الٰہی میں پیش کرنا، اپنے اندر بعض برے تصورات لئے ہوتے ہیں۔ ایسے شخص کو دراصل ان اعمال پر اللہ تعالیٰ کے ہاں جو اجر مقرر ہے اس پر پورا یقین نہیں ہوتا یا ایسے شخص کو تنگ دستی کا خوف لاحق ہوتا ہے، جو کبھی بھی ان لوگوں کو لاحق نہیں ہوتا جن کا رابطہ اللہ تعالیٰ سے ہوتا ہے، جن کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر پورا بھروسہ ہوتا ہے۔ انہیں اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ ہر چیز کا انجام آخرکار اللہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پر پختہ ایمان کے مقابلے میں ان تصورات کی حقیقت کھول کر رکھ دی، یہ بات عیاں کر دی اور اچھی طرح سمجھا دیا کہ نفس انسانی کے اندر یہ تصورات کہاں سے پیدا ہوتے ہیں۔ اور انسانی دلوں میں ان کو بار بار جگانے والی وہ قوت کون سی ہے ؟چنانچہ بتایا جاتا ہے کہ وہ قوت شیطانی قوت ہے۔

 

"شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور شرمناک طرز عمل اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ ، مگر اللہ تمہیں اپنی بخشش اور فضل کی امید دلاتا ہے۔ اللہ بڑا فراخ دست اور دانا ہے۔ جس کو چاہتا ہے، حکمت عطا کرتا ہے اور جس کو حکمت ملی، اسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی۔ ان باتوں سے صرف وہی لوگ سبق لیتے ہیں جو دانشمند ہیں۔ ” (۲۶۸، ٢٦٩)

 

شیطان تمہیں فقر اور تنگ دستی کا خوف دلاتا ہے۔ اس وجہ سے تمہارے نفوس کے اندر حرص، بخل پیدا کرتا ہے۔ شیطان تمہیں فحاشی کا حکم دیتا ہے۔ عربی زبان میں فحاشی ہر اس معصیت کو کہتے ہیں، جس میں انسان حد سے تجاوز کر جائے۔ اگرچہ زیادہ تراس کا استعمال ایک خاص معصیت میں ہوتا ہے۔ تاہم یہ لفظ عام ہے۔ تنگدستی کا یہ خوف ہی تھا، جس کی وجہ سے ایام جاہلیت میں اقوام عرب اپنی بچیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے جو ایک قسم کی فحاشی تھی۔ اسی طرح زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹنے کا جذبہ انہیں سود خوری پر آمادہ کرتا تھا۔ جو ایک قسم کی فحاشی تھا۔ نیز یہ خوف کہ انفاق فی سبیل اللہ سے وہ تنگدست ہو جائیں گے بجائے خود فحاشی ہے۔

ایک طرف شیطان تمہیں تنگدستی سے ڈراتا ہے اور فحشاء پر آمادہ کرتا ہے، جبکہ دوسری طرف اللہ تعالیٰ تمہیں مغفرت کا یقین دلاتا ہے اور وعدہ کرتا ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ پر وہ تمہیں اجر عطا کرے گا وَاللَّہُ يَعِدُكُمْ مَغْفِرَۃً مِنْہُ وَفَضْلا……………. "لیکن اللہ تمہیں اپنی بخشش اور فضل کی امید دلاتا ہے۔ ”

یہاں لفظ مغفرت کو پہلے لایا گیا ہے، اس لئے کہ کہ فضل و کرم مغفرت کے بعد ہوتا ہے۔ اور اس فضل و کرم میں اس سرزمین پر وسائل رزق بھی شامل ہیں یعنی بطور جزائے انفاق فی سبیل اللہ اس دنیا میں بھی رزق فراواں ہو گا۔ وَاللَّہُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ……………. "اللہ بہت بڑا فراخ دست اور دانا ہے۔ ”

وہ اپنی وسعت اور فراخ دستی سے عطا کرتا ہے، وہ تمام دلی خلجانات کو بخوبی جانتا ہے۔ وہ انسانی ضمیر کے تمام میلانات اور رجحانات سے بھی واقف ہے، اس لئے وہ فقط مال ہی عطا نہیں کرتا، فقط مغفرت ہی نہیں کرتا بلکہ وہ حکمت و دانشمندی بھی عطا کرتا ہے۔ اور دانشمندی اور حکمت سے انسان میں توازن اور اعتدال پیدا ہوتا ہے۔ انسان اسباب اور مقاصد کے ادراک سے بہرہ ور ہوتا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں انسان ہر چیز کو ماہیت کے مطابق مقام عطا کرتا ہے۔ اور وہ تمام فیصلے فہم وفراست کے ساتھ سوچ سمجھ کر کرتا ہے۔

يُؤْتِي الْحِكْمَۃَ مَنْ يَشَاء ُ وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَۃَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا…………….”جس کو چاہتا ہے، حکمت عطا کرتا ہے اور جس کو حکمت ملی، اسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی۔ ”

اسے میانہ روی دی گئی اور اعتدال نصیب ہوا، اس لئے وہ انتہاپسندی اور حد سے تجاوز سے محفوظ ہو گیا۔ اسے تمام چیزوں کے اسباب و نتائج سمجھائے گئے۔ اس لئے وہ ان اشیاء کی قدر و قیمت کے تعین میں غلطی نہیں کرتا، اسے روشن بصیرت دی گئی، اس لئے وہ حرکات وسکنات اور اعمال وافعال میں سے صالح اور صائب کا انتخاب کرتا ہے اور یہ ایک ایسی دولت ہے جو مختلف رنگوں میں ظاہر ہوتی ہے۔

وَمَا يَذَّكَّرُ إِلا أُولُو الألْبَابِ……………. "ان باتوں سے صرف وہی لوگ سبق لیتے ہیں جو دانشمند ہیں۔ "غرض وہی لوگ سبق لیتے ہیں صاحب بصیرت ہیں اور عقلمند ہیں۔ ایسے لوگ سبق کو یاد بھی کرتے ہیں، بھول بھی جاتے ہیں۔ ایک دفعہ اگر متنبہ ہو جائیں تو پھر غفلت نہیں کرتے۔ اگر کسی واقعہ سے عبرت پکڑیں تو پھر گمراہی کے راستے پر نہیں پڑتے۔ یہ سب کام عقل کے فرائض میں شمار ہوتے ہیں۔ عقل کا یہ فرض منصبی ہے کہ وہ راہ ہدایت اور اس کے نشانات کو پالے۔ وہ معقول روش اختیار کرے اور لہو و لعب کی بے مقصد زندگی نہ گزارے۔

یہ حکمت اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے پسندکرتا ہے، اسے عطا کر دیتا ہے، یہ حکمت و دانائی اللہ کی مشیئت پر موقوف ہے۔ اسلامی تصور حیات کا یہ اصل الاصول ہے۔ یہاں ہر چیز کا مرجع اللہ جل شانہ کی با اختیار مشیئت ہے۔ ہاں اس کے ساتھ ساتھ قرآن کریم نے ایک دوسرا بھی اصول بیان کیا ہے۔ وہ یہ کہ جو شخص بھی راہ ہدایت کی تلاش کا ارادہ کرے اور اس کے لئے پوری جدوجہد کرے تو اللہ کبھی بھی اسے راہ ہدایت سے محروم نہیں کرتا بلکہ وہ اس سلسلے میں اس متلاشی کی پوری پوری اعانت کرتا ہے۔

وَالَّذِينَ جَاہَدُوا فِينَا لَنَہْدِيَنَّہُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ……………. "جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے ہم انہیں اپنے راستے دکھائیں گے، اور یقیناً اللہ نیکو کاروں کے ساتھ ہے۔ "(۶۹:۲۹)اس لئے ہر وہ شخص جو راہ ہدایت اختیار کرنا چاہتا ہے، پوری طرح مطمئن رہے کہ مشیئت ایزدی اس کا حصہ ضرور کرے گی اور اسے راہ ہدایت کے ساتھ ساتھ حکمت و دانشمندی بھی عطا ہو گی اور اسے اس کے ساتھ ساتھ خیر کثیر بھی عطاء ہو گی۔

ذرا رکئے !اس سے قبل کہ ہم اس آیت پر غور و خوض ختم کر دیں۔ ایک دوسری اور اہم حقیقت کی طرف اشارہ ضروری ہے۔ ذرا غو ر کیجئے، شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے۔ اور شرمناک طرز عمل اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے، مگر اللہ تمہیں اپنی بخشش اور فضل کی امید دلاتا ہے۔ اللہ بڑا فراخ دست اور دانا ہے۔ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے اور جس کو حکمت ملی، اسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی۔

انسان کے سامنے صرف دو راستے ہیں، کوئی تیسراراستہ نہیں ہے۔ ایک اللہ کا راستہ ہے اور ایک شیطان کا راستہ ہے۔ وہ یا تو اللہ کے وعدہ کی طرف کان لگائے اور یا شیطان کی پکار پر لبیک کہے گا۔ اور یاد رکھو کہ جو شخص اللہ کی راہ پر گامزن نہیں اور اللہ کی پکار نہیں سن رہا ہے، وہ شیطان کی راہ پر گامزن ہے اور اس کے ورغلانے میں آ گیا ہے۔ صرف ایک ہی طریق زندگی ہے، یعنی حق کا راستہ۔ وہ منہج، وہ نظام جسے اللہ تعالیٰ نے وضع کیا۔ اس کے علاوہ جو بھی راستہ ہے وہ شیطان کا راستہ ہے اور اس کی انتہاء شیطان تک ہے۔ وہ شیطان تک پہنچتا ہے۔

قرآن کریم اس حقیقت کو بار بار بیان کرتا ہے۔ بار بار اس کی تاکید کرتا ہے۔ اس لئے کہ جو شخص اسلامی طریقۂ حیات کو ترک کر کے شیطانی نظام زندگی اختیار کرنا چاہتا ہے، اس کے لئے کوئی ایسا دعویٰ کرنے کی گنجائش نہ رہے کہ وہ کسی طرح بھی راہ ہدایت پر ہے۔ اس میں اب نہ کوئی شبہ کی گنجائش ہے اور نہ اس میں کوئی پوشیدگی ہے۔ ایک جانب اللہ ہے اور دوسری طرف شیطان ہے۔ ایک طرف خدائی طریق حیات ہے اور دوسری جانب شیطانی طریقۂ کار ہے۔ ایک طرف اللہ کی راہ ہے دوسری جانب شیطان کی راہ ہے۔ جو چاہے جس راستے کا اختیار کر لے۔

لِيَہْلِكَ مَنْ ہَلَكَ عَنْ بَيِّنَۃٍ وَيَحْيَا مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَۃٍ……………. "اور جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے۔ "(۴۲:۸)کوئی بات پوشیدہ نہ ہو۔ کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہ ہو۔ یا گمراہی ہے یا صراط مستقیم ہے۔ یہ راہ راست ہی حق اور سچائی ہے اور یہی واحد راہ ہے۔ اس راہ کے علاوہ جس قدر راہیں ہیں وہ سب باطل ہیں اور ضلالت کی راہیں ہیں۔

اس اہم نکتے کے بعد ہم اصل بات کی طرف آتے ہیں۔ یعنی صدقہ اور انفاق فی سبیل اللہ۔ جو شخص بھی اللہ کی راہ میں جو کچھ بھی خرچ کرے اللہ کو اس کا پوری طرح علم ہے۔ وہ صدقہ ہو یا نذر ہو۔ وہ خفیہ ہو یا اعلانیہ ہو، وہ اللہ کے علم میں ہوتی ہے اور علم الٰہی کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ وہ اس فعل پر بھی اجر دیتا ہے اور اس فعل کے پس منظر میں جو نیت اور ارادہ پنہاں ہوتا ہے، اس پر بھی اجر ملتا ہے۔

 

"تم نے جو کچھ بھی خرچ کیا ہو اور جو نذر بھی مانی ہو، اللہ کو اس کا علم ہے، اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔ اگر اپنے صدقات اعلانیہ دو تو یہ بھی اچھا ہے، لیکن اگر چھپا کر حاجت مندوں کو دو تو یہ تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے۔ تمہاری بہت سی برائیاں اس طرز عمل سے محو ہو جاتی ہیں۔ اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ کو بہرحال اس کی خبر ہے۔ ” (٢٧٠، ٢٧١)

 

انسان اپنی دولت میں سے جو کچھ خرچ کرتا ہے، اس پر صدقہ کا اطلاق ہوتا ہے۔ زکوٰۃ خیرات و صدقات اور جہاد فی سبیل اللہ کے لئے دیا جانے والا مال سب صدقات کے ضمن میں آتے ہیں۔ نذر بھی انفاق فی سبیل اللہ کی ایک قسم ہے۔ صرف فرق یہ ہوتا ہے کہ انفاق کرنے والا ایک معلوم چیز کو اپنے اوپر لازم کر دیتا ہے۔ اللہ کے سوا کسی کے لئے، کسی کی راہ میں، کسی کی وجہ سے، کسی قسم کی نذر و نیاز دینا منع ہے۔ اللہ کے سوا، اس کے بندوں میں کسی کی نذر ماننا ایک گونا شرک ہے۔ جس طرح مشرکین اپنے الٰہوں اور بتوں کے استہانوں پر مختلف جانور ذبح کرتے تھے اور یہ کام جاہلیت کے مختلف ادوار میں ہوتا رہتا ہے۔

وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَۃٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ فَإِنَّ اللَّہَ يَعْلَمُہُ……………. "تم نے جو کچھ بھی خرچ کیا ہواور جو نذر بھی مانی ہو، اللہ کو اس کا علم ہے۔ "مومن کا یہ عقیدہ کہ ذات باری کو اس کی نیت کا پورا علم ہے، وہ اس کی ضمیر کی پوشیدہ خواہشات سے بھی خبردار ہے اور اس کی تمام خفیہ حرکات بھی اس کی نظر میں ہیں، اس کے شعور میں مختلف قسم کے زندہ احساسات پیدا ہو جاتے ہیں۔ وہ اس بات سے پرہیز کرتا ہے کہ اس کی سوچ اور اس کے عمل میں کسی قسم کی ریاکاری یا دکھاوا پایا جائے۔ وہ بخیلی اور کنجوسی سے نفرت کرنے لگتا ہے۔ اس کے دل میں کمی وسائل اور فقر مسکنت کا خوف پیدا نہیں ہوتا۔ اس کا یہ شعور پختہ ہو جاتا ہے کہ وہ اللہ کے ہاں پوری پوری جزا پالے گا۔ وہ راضی برضا ہو کر اطمینان اور راحت کی زندگی بسر کرنے لگتا ہے۔ وہ اللہ کے دربار میں اس کے انعامات کا شکر ادا کرتے ہوئے حاضر ہوتا ہے۔

لیکن اس کے برعکس جو شخص حق نعمت ادا نہیں کرتا، وہ اللہ اور اپنے بندوں کے حقوق ادا نہیں کرتا۔ وہ اللہ کے دئیے سے خیرات و صدقات نہیں ادا کرتا، تو وہ شخص ظلم کا ارتکاب کرتا ہے۔ وہ اپنے عہد کے ساتھ ظلم کرتا ہے، عوام الناس پر ظلم کرتا ہے، خود اپنے نفس پر ظلم کرتا ہے وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ……………. "اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہے۔ ”

صدقہ اگر نفلی ہو تو اس صورت میں اللہ کے ہاں پسندیدہ یہ ہے کہ وہ خفیہ ہو، اور اس لائق ہے کہ اس میں ریاکاری اور دکھاوے کا شائبہ تک نہ ہو۔ لیکن اگر صدقہ، صدقات واجبہ اور فرائض میں سے ہو، تو اس میں اطاعت اور حکم کی بجا آوری کا پہلو بھی ہوتا ہے۔ اور اس پہلو کا ظاہر اور اشاعت زیادہ مطلوب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

إِنْ تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا ہِيَ وَإِنْ تُخْفُوہَا وَتُؤْتُوہَا الْفُقَرَاء َ فَہُوَ خَيْرٌ لَكُمْ……………. "اگر اپنے صدقات اعلانیہ دو تو یہ بھی اچھا ہے لیکن اگر چھپا کر حاجت مندوں کو دو تو تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے۔ "اس میں ان دو حالتوں کا ذکر کر دیا گیا ہے۔ اس لئے ہر صورت کو اس وقت کے موجودہ حالات کی نسبت اختیار کیا جاتا ہے اور ہر بات عملاً موجودہ حالت کے مطابق اچھی یا بری شمار ہوتی ہے۔ بہرحال اہل ایمان انفاق فی سبیل اللہ کے لئے جو صورت بھی اختیار کریں، اس پر ان کے ساتھ وعدہ کیا جاتا ہے کہ یہ ان گناہوں کا کفارہ ہو گا۔ وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِنْ سَيِّئَاتِكُمْ……………. "تمہاری بہت سی برائیاں محو کر دے گا۔ "ایک طرف اہل ایمان کے دل خدا خوفی اور برائی کے مقابلے میں پر جوش اور ہوشمند ہو جاتے ہیں اور دوسری طرف وہ راحت، اطمینان کا صلہ پاتے ہیں۔ اور نیت اور اعمال کے ہر مرحلے اور ہر حال میں وہ تعلق باللہ قائم رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ وَاللَّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ……………. "اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ کو بہرحال اس کی خبر ہے۔ ”

یہاں مناسب ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کی ان طویل ہدایات پر قدرے غور کریں۔ ان ہدایات میں مختلف انداز میں ترغیب و ترہیب سے بھی کام لیا گیا ہے۔ اس غو ر و فکر سے ہمیں دو باتیں حاصل ہوتی ہیں۔ پہلی یہ کہ اسلامی نظام میں انسان کے مزاج اور اس کی طبیعت کا پورا خیال رکھا گیا ہے۔ انسانی مزاج میں بخل اور کنجوس داخل ہے۔ انسان مال سے بے حد محبت کرتا ہے۔ اور اس بات کی ضرورت ہے کہ بار بار اسے انفاق فی سبیل اللہ پر آمادہ کیا جائے۔ اس کے سر انجام دینے کے لئے اسے بار بار جوش دلاتے رہنا چاہئے تاکہ وہ اس بخل اور لالچ سے ذرا بلند ہو کر سوچے اور بخل وکنجوسی کے بندھنوں سے رہائی پائے۔ اور اس رتبہ بلند پر فائز ہو جو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لئے پسند کیا ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ اگرچہ عربی معاشرہ میں جود و کرم ایک عام صفت تھی لیکن وہ لوگ جود و کرم محض اس لئے کرتے تھے کہ انہیں شہرت عام نصیب ہو، ان کی فیاضی کا ڈھنڈورہ پٹ جائے۔ شہروں اور بازاروں میں ان کا تذکرہ ہو۔ اسلام کے لئے یہ آسان نہ تھا کہ وہ ابتدائے کار ہی میں لوگوں سے یہ مطالبہ کرے کہ وہ ان امور میں سے کسی کا انتظار کئے بغیر ہی اللہ کی راہ میں خرچ کریں۔ اور ان امور میں سے کسی کا کوئی لحاظ نہ رکھیں۔ صرف اللہ کی ذات پیش نظر ہو اور عوام الناس ہو خاطر ہی میں نہ لائیں۔ یہ مقام تو ایک طویل تعلیم و تربیت ہی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ وہ بھی ایک طویل جدوجہد کے بعد۔ یہ تو تب حاصل ہو گا کہ لوگوں کو یہ بلند مقام حاصل کرنے کے لئے مسلسل پکارا جائے اور ان کو تزکیہ اور اخلاص کی تربیت دی جائے۔ چنانچہ تحریک اسلامی نے مسلسل یہ کام جاری رکھا۔

یہی وجہ ہے کہ یہاں اب اہل ایمان سے روئے سخن پھیر کر، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کیا جاتا ہے۔ اور روئے سخن اس لئے پھیر دیا جاتا ہے کہ وہ تمام حقائق یہاں ذہن نشین کر دئیے جائیں جن کا اسلامی تصور حیات کی نشوونما میں بہت زیادہ دخل ہے، اور اسلامی نظام زندگی کے حوالے سے اسلامی طرز عمل اختیار کرنے اور انسانی طرز عمل کو درست کرنے میں وہ بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔

 

"لوگوں کو ہدایت دینے کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے۔ ہدایت تو اللہ ہی جسے چاہتا ہے بخشتا ہے۔ اور خیرات میں جو مال تم خرچ کرتے ہو، وہ تمہارے اپنے لئے بھلائی ہے۔ آخر تم اسی لئے خرچ کرتے ہو کہ اللہ کی رضا حاصل ہو۔ تو کچھ مال تم خیرات میں خرچ کرو گے، اس کا پورا پورا اجر تمہیں دیا جائے گا اور تمہاری حق تلفی ہرگز نہ ہو گی۔ ” (٢٧٢)

 

ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ذریعہ رسول اللہﷺ سے یہ روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ یہ حکم فرماتے تھے کہ صرف اہل اسلام پر صدقہ کیا جائے۔ یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی "لوگوں کو ہدایت دینے کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے …………….”تو آپ نے حکم دیا کہ جس دین کے پیروکار بھی تم سے سوال کریں انہیں صدقہ دیا کرو۔

دل اللہ کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ اللہ کی مخلوق میں سے یہ بات کسی کے اختیار میں نہیں ہے کہ وہ کسی کو ہدایت دے یا گمراہ کر دے۔ اگرچہ وہ خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم خود ہوں۔ ہدایت دینا یا گمراہ کرنا اللہ وحدہ کی ذات کا کام ہے۔ اس لئے کہ وہ دلوں کا خالق ہے۔ دلوں پر صرف اللہ کی حکمرانی ہے۔ صرف اللہ ہی دلوں کو موڑسکتا ہے۔ وہی ہے جو دلوں کو حکم دے سکتا ہے۔ رسول کا کام صرف یہ ہے کہ وہ پیغام اچھی طرح پہنچا دے۔ رہی ہدایت تو یہ صرف اللہ کا کام ہے۔ وہ جسے چاہے ہدایت نصیب کر دے کیونکہ وہی ہدایت دینے کا مستحق ہے۔ ہدایت دینا صرف اللہ کا استحقاق ہے۔ انسان سے اس استحقاق کو لے لینا، محض اس لئے ہے کہ ایک مومن طلب ہدایت کے لئے صرف اللہ کی طرف رجوع کرے اور وہ صرف اللہ ہی سے دلائل اخذ کرے۔ اس کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس استحقاق کو صرف خاصہ خدا قرار دینے کے بعد اب ایک داعی کے لئے یہ جواز باقی نہیں رہتا کہ وہ گمراہ لوگوں کے ساتھ نفرت کرے یا ان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے دلی تنگی محسوس کرے۔ اس لئے کہ وہ انہیں مسلسل دعوت دیتا رہے گا۔ ان کے ساتھ رحیمانہ برتاؤ کرے گا اور اس بات کا انتظار کرے گا کہ کب اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو اجازت دیتا ہے کہ وہ راہ راست پر آ جائیں ؟کب انہیں توفیق بخشتا ہے کہ وہ اس سمت قدم اٹھائیں اور اپنے اللہ کو پہچانیں۔

لَيْسَ عَلَيْكَ ہُدَاہُمْ وَلَكِنَّ اللَّہَ يَہْدِي مَنْ يَشَاء ُ…………… "لوگوں کو ہدایت دینے کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے۔ ہدایت تو اللہ ہی ہے جسے چاہتا ہے بخشتا ہے۔ "لہٰذا تم انہیں کھلے دل کے ساتھ دعوت دو اور ان کے لئے سینہ کھول دو۔ ان پر اپنی رحمت اور حسن عمل کا فیضان کرو۔ اس کے ساتھ بھلائی کرتے رہو اور ان کے لئے مددگار ثابت بنو جہاں تک وہ تمہاری امداد کے محتاج ہوں۔ انہیں حکم دیتے رہو کہ وہ اللہ کی طرف لوٹ آئیں اور اس امداد کا اجر اللہ کے ہاں محفوظ ہے۔

یہاں آ کر ہم ان بلندیوں تک پہنچ جاتے ہیں جن کے آفاق وسیع اور روشن ہیں۔ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے دل و دماغ کو ان بلندیوں تک پہنچا دیتے ہیں اور ان پر ان کے دلوں کو مستحکم کر دیتے ہیں۔ اسلام نہ صرف یہ کہ مذہبی آزادیوں کا اصول متعین کرتا ہے، نہ صرف یہ کہ وہ دینی امور میں جبر و تشدد کا ہی قلع قمع کرتا ہے بلکہ وہ اس سے بھی آگے بڑھ کر مذہبی رواداری کی ایسی فضا قائم کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہدایات پر مبنی ہے اور وہ یہ اصول طے کرتا ہے کہ بلا امتیاز مذہب و عقیدہ، معاشی تعاون اور معاشی امداد کے دروازے تمام لوگوں پر کھلے ہیں۔ بشرطیکہ وہ امت مسلمہ کے ساتھ حالت جنگ میں نہ ہوں۔ وہ یہ یقین دلاتا ہے کہ ایسے حالات میں غیر مسلموں پر خرچ کرنے والوں کا اجر بھی عند اللہ محفوظ ہے، بشرطیکہ یہ انفاق فی سبیل اللہ محض رضائے الٰہی کے لئے ہو۔ انسانیت کی یہ ایک ایسی سربلندی ہے جس سے ایک جست میں وہ ایک مقام بلند تک پہنچ جاتی ہے اور یہ مقام بلند اسے صرف اسلام کے طفیل ہی نصیب ہوسکتا ہے اور صرف وہی لوگ اس مقام بلند کی حقیقت پا سکتے ہیں۔ جو صحیح معنوں میں مسلمان ہوں۔

وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلأنْفُسِكُمْ وَمَا تُنْفِقُونَ إِلا ابْتِغَاء َ وَجْہِ اللَّہِ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لا تُظْلَمُونَ

"اور خیرات میں جو مال تم خرچ کرتے ہو وہ تمہارے اپنے لئے بھلائی ہے۔ آخر تم اسی لئے خرچ کرتے ہو کہ اللہ کی رضا حاصل ہو۔ تو جو کچھ مال تم خیرات میں خرچ کرو گے، اس کا پورا پورا اجر تمہیں دیا جائے گا۔ اور تمہاری حق تلفی ہرگز نہ ہو گی۔ ”

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کی شان کی جو جھلک دکھائی ہے، وہ ہمارے پیش نظر رہنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اہل ایمان جب خرچ کرتے ہیں تو وہ وَمَا تُنْفِقُونَ إِلا ابْتِغَاء َ وَجْہِ اللَّہِ…………… "تم اسی لئے تو خرچ کرتے ہو کہ اللہ کی رضا حاصل ہو۔ "ایک مومن کی صفت بس یہی ہے، اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔ وہ یہ ہے کہ صرف وہ رضائے الٰہی کے لئے خرچ کرتا ہے۔ وہ خواہشات نفسانیہ یا کسی غرض اور مطلب براری کے لئے نہیں خرچ کرتا۔ وہ یوں انفاق فی سبیل اللہ نہیں کرتا کہ انفاق کرے اور پھر کان لگا کر بیٹھ جائے اور سنے کہ لوگ کیا کہتے ہیں۔ وہ اس لئے خرچ نہیں کرتا کہ وہ اپنے انفاق کے ذریعہ لوگوں کی گردنوں پر سوار ہو جائے۔ ان پر اپنی برتری ثابت کرے اور ان کے مقابلے میں اپنے آپ کو بڑ ثابت کرے۔ وہ اس لئے نہیں خرچ کرتے کہ ان سے صاحبان اقتدار لوگ راضی ہوں یا وہ انہیں اس کا کوئی بدلہ دیں۔ وہ تو صرف رضائے الٰہی کی لئے خرچ کرتے ہیں۔ خالص اللہ کے لئے۔ اس لئے دل مومن اس مطمئن ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس صدقہ کو ضرور قبول فرمائیں گے۔ نیز اسے پورا اطمینان ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے مال میں برکت دے گا۔ اسے یہ اطمینان بھی ہوتا ہے کہ اللہ نہ صرف یہ کہ اسے پورا پورا اجر دے گا بلکہ اس پر مزید انعام بھی ہو گا۔ اسے پورا اطمینان ہوتا ہے کہ اللہ کی مخلوق پر احسان اور انفاق کے نتیجے میں اللہ کی جانب سے وہ احسان اور بھلائی کا مستحق ہے۔ چنانچہ اسی داد و دہش کی وجہ سے اس کا تزکیہ نفس ہوتا ہے۔ اس کے اخلاق پاکیزہ ہوتے ہیں۔ اور اس کی شخصیت بلند ہو جاتی ہے۔ جب تک وہ اس جہاں میں زندہ ہوتا ہے رہی جزائے آخرت تو وہ بہرحال اعلیٰ و افضل ہوتی ہے۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ خیرات و صدقات کے مصارف میں سے خصوصاً ایک مصرف کا ذکر فرماتے ہیں۔ مومنین میں سے ایک گروہ کی تصویر پیش کی جاتی ہے جو صاف و شفاف ہے۔ شریفانہ اور با وقار ہے۔ اس تصویر کو دیکھ کر انسانی شعور میں تلاطم برپا ہوتا ہے۔ اس تصویر کو دیکھ کر دل مومن حرکت میں آتا ہے اور نفس انسانی ایسی شخصیات کا ادراک کر لیتا ہے جو کسی جانب سے، کسی قسم کی امداد حاصل کرنے کو پسند نہیں کرتیں۔ اس لئے ان کی عزت نفس کو کسی طرح بھی ٹھیس نہ لگے۔ اور وہ طلب حاجت نہیں کرتیں۔ مبادا کہ انہیں حقیر سمجھ لیا جائے۔ اس لئے وہ دست سوال دراز کرنے پر آمادہ نہیں ہو پاتیں۔ اور نہ وہ اس سلسلے میں اظہار مطلب کرتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

 

"خاص طور پر مدد کے مستحق وہ تنگ دست لوگ ہیں جو اللہ کے کام میں ایسے گھر گئے ہیں کہ اپنی ذاتی کسب معاش کے لئے زمین میں کوئی دوڑ دھوپ نہیں کرسکتے۔ ان کی خود داری دیکھ کر ناواقف آدمی یہ گمان کرتا ہے کہ یہ خوش حال ہیں۔ تم ان کے چہروں سے ان کی اندرونی حالت پہچان سکتے ہو۔ مگر وہ ایسے لوگ نہیں ہیں کہ لوگوں کے پیچھے پڑ کر کچھ مانگیں۔ ان کی اعانت میں جو مال تم خرچ رو گے وہ اللہ سے پوشیدہ نہ رہے گا۔ "(٢٧٣)

 

یہ پر تاثیر صفت مہاجرین کی ایک جماعت پر پوری طرح منطبق تھی۔ وہ اپنے پیچھے اپنی دولت اور اپنا خاندان چھوڑ آئے ہوئے تھے وہ مدینہ میں قیام پذیر تھے اور انہوں نے اپنے آپ کو جہاد فی سبیل اللہ کے لئے وقف کر لیا تھا۔ یہ لوگ ہر وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باڈی گارڈ تھے۔ مثلاً اہل صفہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقامت گاہوں کے محافظ بھی تھے۔ کوئی دشمن ان سے آنکھ چرا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقامت گاہوں تک نہ پہنچ سکتا تھا۔ اس کے علاوہ وہ جہاد فی سبیل اللہ کے لئے وقف تھے اور کسب معاش یا تجارتی مقاصد کے لئے ادھر ادھر نہ جا سکتے تھے۔ اس صورت حال کے باوجود وہ لوگوں سے کچھ مانگتے بھی نہ تھے۔ وہ اس قدر خود دارانہ رویہ اختیار کئے ہوئے تھے کہ جو شخص ان کے حالات سے وقف نہ ہوتا، وہ سمجھتا کہ یہ تو بہت خوش حال اور فارغ البال لوگ ہیں۔ نہ کسی سے کچھ مانگتے ہیں اور نہ ہی کوئی کاروبار کرتے ہیں۔ صرف اصحاب عقل و دانش ان کی اصل صورت حال و کیفیت کو سمجھ پاتے تھے۔

لیکن اس ابتدائی مصداق کے باوجود، یہ آیت عام ہے۔ اس کا اطلاق ہر دور اور ہر زمانے میں پائے جانے والے لوگوں پر ہوتا ہے جو شرفاء میں سے ہوں جو ایسے حالات میں محبوس ہوں کہ وہ ان میں تلاش معاش نہ کرسکتے ہوں۔ اور ان کی شرافت نفس انہیں اس بات سے روک رہی ہو کہ وہ کسی سے سوال کریں۔ وہ بظاہر ایسا رویہ رکھتے ہوں جس سے ان کی اصل حالت کا اندازہ نہ ہوسکتا ہو اور ان کی اس ظاہری حالت کے پس پردہ جو صورت حال ہو، ناواقف آدمی ان کی اس خود داری کی وجہ سے اس کا صحیح اندازہ نہ کرسکتا ہو، ہاں ایک حساس اور سمجھ دار شخص ہی ان کی اصل صورت حال سے واقف ہوسکتا ہو۔ اس لئے کسی بھی شخص کے اندرونی تیز احساسات چہرے پر آ ہی جاتے ہیں۔ اگر چہ وہ شخص حیاء اور خود داری کی وجہ سے انہیں چھپانے کی بہتیری کوشش کرتا ہو۔

یہ ایک ایسی تصویر ہے جو گہرے اشارات کی مظہر ہے۔ یہ مختصر آیت ان شرفاء کی ایسی تصویر بناتی ہے۔ یہ ایک مکمل تصویر ہے اور خود داری اور حیا چشمی کے رنگوں سے بنی ہوئی ہے۔ اس آیت کا ہر جملہ گویا نقاش کی قلم کی نوک۔ جو ان لوگوں کے خدوخال کو کاغذ پر منتقل کرتی چلی جا رہی ہے اور اس تصویر سے ان کے تأثرات اور احساسات کا پوری طرح اظہار ہوتا ہے۔ جو نہی ایک انسان ان آیات کی تلاوت کرتا ہے، اس کی لوح دماغ پر ان حضرات کی تصاویر منقش ہو جاتی ہیں۔ اس طرح کہ گویا وہ شخصیات نظروں کے سامنے کھڑی ہیں۔ وہ چہرے صاف نظر آرہے ہیں۔ انسانیت کے مختلف نمونوں کی تصویر کشی میں قرآن کریم کا یہی انداز ہے۔ مختلف قسم کے انسان یوں نظر آتے ہیں کہ گویا وہ زندہ اور متحرک شخصیات ہیں۔

ان شرفاء اور فقراء کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ ضروریات اور حاجات کو یوں چھپاتے ہیں۔ جس طرح ایک انسان اپنے ستر کو چھپاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو اگر کچھ دیا جائے تو وہ صرف تنہائی میں دیا جائے تاکہ ان کی خود داری اور عزت نفس کو ٹھیس نہ لگے۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کے آخر میں ایک قسم کا اشارہ دیا جاتا ہے کہ ایسے لوگوں کی امداد بھی نہایت ہی خفیہ طریقے سے کی جانی چاہئے۔ چنانچہ انفاق کنندہ کو یقین دہائی کرائی جاتی ہے کہ اللہ خوب جانتا ہے۔ اور اس کی پوری پوری جزا دینے والا ہے۔ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّہَ بِہِ عَلِيمٌ…………… "ایسے لوگوں کی اعانت میں جو مال تم خرچ کرو گے وہ اللہ سے پوشیدہ نہ رہے گا۔ "یہ صرف اللہ ہی ہے جو خفیہ بھیدوں کا جانتا ہے اور اس کے ہاں کوئی بھلائی بغیر اجر کے ضائع نہیں ہوتی۔

سب سے آخر میں اس ضابطہ انفاق فی سبیل اللہ کا خاتمہ ایک عام اور ایک کلیہ پر مشتمل آیت پر ہوتا ہے۔ جو ہر قسم کے انفاق اور صدقات کو شامل ہے۔ اور اس کا حکم بھی عام ہے اور ہر اس چیز کو شامل ہے جو اللہ کے لئے دی جائے۔

 

"جو لوگ اپنے شب و روز کھلے اور چھپے خرچ کرتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے۔ اور ان کے لئے کسی خوف و رنج کا مقام نہیں۔ ” (٢٧٤)

 

اس خاتمہ کلام میں اس آیت کی عمومیت اور ہم آہنگی بہت ہی خوبصورت نظر آتی ہے۔ آیت کا آغاز اور اختتام ایک موزوں سر کی طرح باہم متوازن اور اصول عام کی صورت میں دوبارہ دہرایا جاتا ہے۔ اور بہت ہی موزونیت کے ساتھ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ…………… "وہ لوگ جو اپنے اموال خرچ کرتے ہیں۔ "یعنی ہر قسم کے مال اور دولت جو وہ خرچ کرتے ہیں۔ اس میں کوئی تخصیص نہیں ہے۔ بِاللَّيْلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا وَعَلانِيَۃً…………… "شب و روز چھپے یا کھلے۔ "یعنی جن اوقات اور جن حالات میں بھی وہ انفاق فی سبیل اللہ کرتے ہیں فَلَہُمْ أَجْرُہُمْ…………… "تو ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے۔ "ان کا ہر قسم کا اجر محفوظ ہے۔ اس میں اضافہ بھی ہو گا، اس سے ان کی عمر میں برکت بھی ہو گی۔ آخرت میں بھی پوری پوری جزا ملے گی۔ اور اللہ کی رضامندی اس پر مستزاد ہو گی۔ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَلا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلا ہُمْ يَحْزَنُونَ…………… کسی بھی جانب سے انہیں کوئی خوف نہ ہو گا۔ کسی جانب سے کسی کا کوئی خدشہ نہ ہو گا۔ نہ دنیا میں ہو گا نہ آخرت میں ہو گا۔ غرض دستور انفاق فی سبیل اللہ کا یہ موزوں اور متناسب اختتامیہ ہے جس میں یہ اشارات پنہاں ہیں کہ انفاق فی سبیل اللہ اپنی عمومی شکل میں ماجور ہے چاہے وہ جس قسم کا ہو جس وقت ہو، جس مقصد کے لئے ہو۔

یہاں یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کی زندگی کی معیشت کا مدار صرف انفاق فی سبیل اللہ پر نہیں رکھتا۔ اسلامی نظام میں معیشت کا دارومدار اس پر تھا کہ ہر شخص کے لئے جو قدرت رکھتا ہو، روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں۔ اس کے علاوہ اسلام نے اپنی معیشت کا دارومدار، اہل اسلام کے درمیان، دولت کی منصفانہ تقسیم پر رکھا ہے اور دولت کی اس تقسیم کا اصول حسن کارکردگی اور استحقاق پر رکھا گیا ہے لیکن بعض اوقات ایسے استثنائی حالات درپیش ہو جاتے ہیں، جن میں معیشت کے عمومی اصول کارآمد نہیں ہوتے اور ان حالات میں درپیش مشکلات ان سے حل نہیں ہوتیں۔ ایسے حالات کو اسلام انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعے حل کرتا ہے۔ یہ انفاق بعض اوقات تو ایک لازمی ٹیکس کی صورت میں ہوتا ہے، جسے وہ اسلامی حکومت نافذ کرتی ہے جو اسلامی شریعت نافذ کرنے والی ہو۔ صرف اسلامی حکومت ہی اس قسم کا لازمی ٹیکس نافذ کرسکتی ہے۔ زکوٰۃ اور صدقات واجبہ اسلامی حکومت کے محاصل میں سے اہم ہوتے ہیں اور بعض اوقات یہ تقسیم دولت صدقات نفلیہ کی صورت میں ہوتا ہے جن کی مقدار کا تعین نہیں ہوتا اور یہ نفلی صدقات اہل ثروت کی جانب سے مستحقین کے لئے ہوتے ہیں۔ جو انہیں ذاتی طور پر دئیے جاتے ہیں۔ اور اس قسم کا عطیہ دیتے وقت ان آداب اور شرائط کا لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے جن کا اوپر ذکر ہوا۔ اور ان آداب ہی کی وجہ سے لینے والے خود داری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہی خود داری ہے جس کا اظہار اس آیت میں ہوا ہے۔ اس خود داری کو اسلام نے اسلامی معاشرہ میں اس قدر ترقی دی تھی کہ ایک شخص کے پاس کچھ بھی نہ ہوتا تھا اور وہ معمولی ضروریات زندگی کا بھی محتاج ہوتا، تب بھی وہ دست سوال کسی کے سامنے دراز نہ کرتا۔

بخاری نے عطاء ابن یسار اور عبدالرحمن بن ابی عمرہ سے روایت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے ابوہریرہ سے سنا۔ فرمایا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”مسکین وہ نہیں ہوتا جسے ایک کھجور یا دو کھجوریں لوٹا دیں۔ یا ایک لقمے یا دو لقموں کے لئے وہ بھیک مانگتا پھرے، مسکین وہ ہوتا ہے جو خوددار ہو۔ "اگر تم چاہو تو اس آیت لا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا…………… "وہ لوگوں کے پیچھے پڑ کر سوال نہیں کرتے۔ ”

امام احمد نے ابوبکر، عبدالحمید بن جعفر، اس کے والد کے واسطہ سے قبیلہ مزینہ کے ایک شخص کی روایت نقل کی ہے۔ اس شخص کو اس کی والدہ نے مشورہ دیا کہ دوسرے لوگوں کی طرح تم کیوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر سوال نہیں کرتے ؟اس نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگوں۔ پہنچا تو آپ تقریر فرما رہے تھے "جس نے خود داری کی اللہ تعالیٰ اسے دے دے گا اور جو شخص استغناء کرے گا اللہ تعالیٰ اسے غنی بنا دے گا۔ جو شخص لوگوں سے سوال کرتا ہو حالانکہ اس کے پاس پانچ اوقیہ کے برابر مال موجود ہے تو گویا اس نے اصرار کر کے سوال کیا (الحافاً)میں نے اپنے دل میں کہا "میرے پاس ایک اونٹنی ہے جو یقیناً پانچ اوقیہ سے زیادہ قیمتی ہے۔ اور میرے غلام کے پاس ایک دوسری اونٹنی ہے، وہ بھی پانچ اوقیہ سے زیادہ قیمتی ہے۔ "اس لئے میں واپس ہو گیا اور درخواست نہ کی۔

حافظ طبرانی نے اپنی سند کے ساتھ، محمد بن سیرین سے روایت کی ہے۔ حارث کو (ایک شخص جو قریشی تھے اور شام میں رہتے تھے )خبر ملی کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کے مالی حالات ٹھیک نہیں تو اس نے انہیں تین سو دنیار بھجوائے۔ ابوذر نے جواب دیا :”کیا عبداللہ کو مجھ سے زیادہ تنگ دست اور کوئی نظر نہیں آیا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا”جو شخص سوال کرے اور اس کے پاس چالیس درہم ہوں تو اس نے الحاف کیا۔ "ابوذر کے خاندان کے پاس چالیس درہم موجود ہیں ایک بکری اور دو نوکر بھی موجود ہیں۔ ابوبکر بن عیاش نے کہا ماہنان سے خادمان ہیں۔

غرض اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے۔ اس کے نصوص، اس کی ہدایات اور اس کے قوانین سب کے سب بیک وقت کام کرتے ہیں ان نصوص و ہدایات اور قوانین کے دفعات پر علیحدہ علیحدہ غور نہ کیا جائے گا۔ اسلام کے اصول اور ضابطے بیک وقت رو بعمل ہوتے ہیں۔ اس لئے ان میں باہم تناسق اور تناسب ہوتا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں ایک ایسا مشورہ وجود میں آتا ہے جس کی نظیر اس کرۂ ارض پر انسانی معاشروں میں نہیں ہوتی۔ وہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد معاشرہ ہوتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

درس ۲۰ ایک نظر میں

 

 

گزشتہ سبق میں، اسلامی نظام زندگی میں انفاق فی سبیل اللہ اور صدقہ کا دستور اور طریقہ بیان کیا گیا تھا۔ یہاں انفاق اور صدقے کا عین صفحۂ بالمقابل الٹا جاتا ہے۔ یعنی نظام ربا اور اس کے ظالمانہ اور سیاکارانہ نتائج صدقہ میں تو داد و دہش، احسان و پاکیزگی ہے اور طہارت و جوانمردی ہے۔ باہم تعاون اور تکافل ہے۔ جبکہ سود خوری میں بخل اور کنجوسی، گندگی اور نجاست، خود غرضی اور ذاتی مفاد ہے۔

صدقہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اس میں دنیا میں مال کو ترک کر لیا جاتا ہے۔ اور بظاہر اس کا کوئی عوض یا بدلہ نہیں لیا جاتا اور ربا کا خلاصہ یہ ہے قرض روپیہ واپس لینے کے ساتھ ساتھ سود خور کچھ زیادہ بھی وصول کرتا ہے۔ یہ زائد دولت مدیون کی محنت یا اس کے گوشت اور خون سے لی جاتی ہے۔ محنت سے اس صورت میں جب مدیوں نے مال لیا، اس کے ساتھ محنت کی اور اس کی محنت کے نتیجے میں اسے منافع حاصل ہوا۔ اس صورت میں تو زائد دولت محنت کا حصہ ہو گی لیکن اگر اسے منافع نہ ہوا یا اسے خسارہ ہو گیا تو اس صورت میں اس کے خون پسینہ کا حصہ ہو گی۔ یا مثلاً قرض اس نے ذاتی اخراجات یا اپنے خاندان کے ضروری اخراجات کے لئے لیا ہو اور اسے نفع بخش کاروبار میں لگایا ہی نہ ہو تو اس صورت میں بھی سود کی رقم گویا، اس شخص کی ذات سے وصول ہو گی۔

یہی وجہ ہے کہ اگر صدقہ روشن صفحہ ہے تو ربا اس کے بالمقابل ایک تاریک صفحہ ہے۔ انفاق کرنے والے کا چہرہ اگر روشن ہے تو سود خور کا چہرہ تاریک اور سیاہ ہے۔ اس لئے کہ اس حسین و جمیل اور پاک وصاف اور رحیم و کریم چہرے کے بیان کے متصلاً بعد سود خور کے بدنما چہرے کو بھی پیش کر دیا گیا۔ اس چہرے کو ایسے انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ جس سے سودی کاروبار کی تمام اندرونی برائیاں اور قباحتیں اس چہرے سے عیاں ہو گئیں، افراد کا سنگدلانہ طرز عمل، ناداروں کی ہلاکت اور معاشرہ میں اس سودی نظام سے پیدا ہونے والی تمام برائیاں اور فسادات ظاہر ہو گئے۔

اسلام نے دور جاہلیت کی تمام برائیوں کو ختم کیا، لیکن اسلام نے جس قدر مذمت سودخوری کی کی ہے، اس قدر مذمت کسی دوسری برائی کی نہیں کی ہے۔ نیز اسلام نے سود خوری کے خلاف جس طرح لفظی اور معنوی دھمکی دی ہے، اس قدر کسی بھی دوسری برائی کے ارتکاب کرنے والے کو نہیں دی گئی۔ ان آیات میں بھی اور ان کے علاوہ دوسرے مقامات پر بھی۔ اور اللہ کی ذات یقیناً دوررس حکمتوں کا احاطہ کرنے والی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ دور جاہلیت میں جو سودی نظام جاری وساری تھا اس کے اپنے مفاسد اور قباحتیں بھی تھیں، لیکن آج ہمارے دور سرمایہ داری میں جس طرح اس کے نتائج اور فسادات کھل کر سامنے آ گئے ہیں اور اس کا یہ بدنما چہرہ جس خوش اسلوبی سے بے نقاب ہو کر سامنے آ گیا ہے، دور جاہلیت میں ایسا کبھی نہ تھا۔ اس دور میں یہ مکروہ چہرہ اس طرح بدنما، بدشکل اور پھر تیوری چڑھائے ہوئے نہ تھا، جس طرح وہ آج ہے۔ اور ہمارے اس جدید دور میں وہ کھل کر سامنے آ گیا ہے۔

اس وقت کے غالب سودی معیشت پر، اس آیت میں جو خوفناک حملہ شروع کیا گیا ہے، اس کی حقیقی حکمت و افادیت، دور جاہلیت کے مقابلے میں آج بھی اچھی طرح ظاہر ہو رہی ہے جبکہ پوری انسانیت آج اس نظام کی چکی میں پس رہی ہے۔ جو شخص اسلامی نظام زندگی کی اصل حکمت، اس کی حقیقی عظمت اور اس کی جامعیت اور اس کی باریک بینی پر اچھی طرح غور و فکر اور تدبر کرنا چاہتا ہے، وہ ان آیات و نصوص پر غور کر کے وہ کچھ پا سکتا ہے، جو ان لوگوں کے لئے ممکن نہ تھا، جنہوں نے سب سے پہلے ان آیات کا مطالعہ کیا تھا۔ اس لئے کہ آج پوری انسانی معیشت ان نصوص کے ایک ایک حکم کی براہ راست تصدیق کر رہی ہے۔ آج کی پوری انسانیت جو سود کھلاتی ہے اور سودکھاتی ہے، اس پر مصائب و شدائد کے وہ پہاڑ ٹوٹ چکے ہیں، جنہوں نے اس کی کمر توڑ دی ہے اور اسے پیس کر رکھ دیا ہے۔ اس نظام نے اس کے اخلاق کو بگاڑ دیا ہے۔ اس کی صحت کا معیار گرا دیا ہے، اس کا اقتصادی نظام درہم برہم ہو گیا ہے اور سب سے بڑی خرابی یہ کہ اس کے دین کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ آج دنیا خالق حقیقی کے ساتھ برسر پیکار ہے۔ جس کی وجہ سے وہ عذاب الٰہی میں مبتلا ہے۔ ایک فرد ہے تو وہ بھی اس عذاب میں گرفتار ہے۔ کوئی قوم ہے یا امت ہے تو وہ بھی اس مصیبت میں گرفتار ہے۔ لیکن نہ تو اس عذاب میں کمی آتی ہے اور نہ ہی کوئی قوم یا امت عبرت پکڑتی ہے۔

گزشتہ سبق میں قرآن نے جو دستور انفاق فی سبیل اللہ وضع فرمایا تھا، تو وہ دراصل اسلام کے اجتماعی اور اقتصادی نظام کا اصل الاصول تھا، مطلوب یہ تھا کہ ایک اسلامی معاشرہ کا اقتصادی نظام باہم برد احسان اور صدقہ و انفاق پر قائم ہو اور اس کے سائے میں لوگ باہم شفیق و ہمدرد بن کر رہیں۔ جبکہ جاہلی نظام، اس کے بالمقابل سود خوری کے ظالمانہ اور گھٹیا درجے کی اخلاقیات پر قائم ہوتا ہے۔ جس میں احسان اور رحم کی گنجائش نہیں ہوتی۔

یہ دونوں نظام دراصل ایک دوسرے کے بالمقابل نظام ہیں۔ ایک اسلامی نظام ہے اور دوسرا سودی نظام ہے۔ اپنے اساسی فکر کے اعتبار سے یہ کبھی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔ کسی اساس پر یہ متحد نہیں ہوسکتے۔ نہ اپنے اثرات و نتائج کے اعتبار سے وہ ایک جیسے ہوسکتے ہیں۔ ہر ایک اپنے مخصوص تصور حیات، اپنے اہداف و مقاصد کے پیش نظر کام کرتا ہے اور یہ دونوں نظام پوری طرح ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔ ان دونوں کے نتائج بھی ایک دوسرے سے مختلف مرتب ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے چھوٹتے ہی اس نظام پر یہ خوفناک حملہ کیا گیا اور جو لوگ نظام سود خوری کے کل پرزے ہیں انہیں خوفناک نتائج کی دھمکی دی گئی۔

اسلام اپنے اقتصادی نظام، بلکہ اپنے پورے نظام کی بنیاد اس سچائی کے تصور پر رکھتا ہے جو اس کائنات میں موجود ہے۔ یہ سچائی ذات باری ہے۔ وہ اس کائنات کی خالق ہے۔ وہ اس زمین کی خالق ہے۔ وہ اس انسان کی خالق ہے۔ وہی تو ہے جس نے ہر موجود کو انور وجود سے آراستہ کیا۔ وہی تو ہے جو ہر موجود کا مالک ہے۔ اس لئے کہ وہی ہر موجود کا موجد ہے۔ اس نے اس کائنات میں ہر بنی نوع انسان کو اپنا جانشین بنایا۔ اس کائنات میں اس نے جو قوتیں اور جو ضروریات ودیعت کئے تھے، ا س نے انہیں بنی نوع انسان کے تصرف میں دیا۔ لیکن یہ اختیارات ایک وعدے اور ایک شرط کے ساتھ مشروط تھے۔ یہ عظیم کائنات اس حضرت انسان کے تصرف میں بے قید وبے شرط نہیں دے دی کہ جو چاہے اس میں کرتا پھرے۔ یہاں زندگی بسر کرنے کے لئے، اس نے انسان کے لئے کچھ حدود و قیود واضح طور پر متعین کر دیئے تھے۔ اس نے اسے خلافت فی الارض اس شرط پر دی کہ وہ الٰہی نظام حیات کے مطابق یہاں اپنی زندگی بسر کرے گا۔ وہ اللہ کی شریعت کا پیروکار ہو گا۔ اس لئے یہاں اس کے وہ تمام فیصلے، اعمال، اخلاق اور عبادات جو اس کے عہد کے مطابق ہوں گے وہ نافذ العمل اور معتبر ہوں گے۔ اور اس کے جو کام اس عہد کے مخالف اور شریعت سے متضاد ہوں گے وہ باطل، کالعدم اور موقوف ہوں گے۔ اور اگر وہ خلاف شریعت کسی اصول و اخلاق کو زبردستی یہاں نافذ کرتا ہے تو وہ ظلم و عدوان ہو گا۔ اور انہیں نہ مسلمان تسلیم کریں گے اور نہ ہی اللہ انہیں قبول کرے گا۔ لہٰذا اس کرۂ ارض پر حاکمیت صرف اللہ کے لئے مخصوص ہے۔ جس طرح اس کائنات میں حاکمیت صرف اللہ کی جاری وساری ہے۔ رہے انسان تو وہ حاکم ہوں یا محکوم، ان کی حاکمیت کا ماخذ اور منبع اسلامی نظام زندگی اور اسلامی شریعت کا نفاذ ہے۔ پوری کی پوری انسانیت بھی اگر فیصلہ کر دے تب بھی اسے یہ فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں کہ اب وہ اتباع شریعت سے آزاد ہے۔ اس لئے کہ انسان بحیثیت حاکم و مختار یہاں اللہ کا نائب اور ایجنٹ ہے اور اسے یہ ایجنسی ایک چارٹر کے تحت دی گئی ہے۔ جس کی پابندی اس کے لئے ضروری ہے۔ انسان بذات خود اس دولت کا مالک نہیں ہے جو اس کے تصرف میں ہے۔

اس عہد اور چارٹر کی دفعات میں سے ایک اہم دفعہ یہ ہے کہ اس کرۂ ارض پر وہ تمام لوگ جو اپنے خالق پر ایمان لانے والے ہیں، باہم تعاون اور تکافل سے زندگی بسر کریں۔ وہ ایک دوسرے کے ولی اور دوست ہوں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں جو وسائل رزق عطا کئے ہیں ان سے سب کے سب فائدہ اٹھائیں۔ باہمی تعاون و نکافل کی اساس پر۔ اس اساس پر نہیں کہ یہ تمام وسائل مطلقاً مشترک ہیں۔ جس طرح مارکسیت جدیدہ کا تصور ہے۔ یہ تکافل وتعاون محدود انفرادی ملکیت کی اساس پر ہے۔ اس محدود ملکیت کی اساس پر اگر کسی کی محنت پھل لائے اور اس کے پاس وافر دولت جمع ہو جائے تو اس کا فرض ہے کہ وہ اللہ کے دیئے میں سے ان لوگوں پر خرچ کرے جو نادار ہیں اور جن کے وسائل محدود ہیں لیکن انفاق کے ساتھ ساتھ تمام افراد معاشرہ اپنی طاقت ووسعت کے مطابق کسب وعمل فرض کیا گیا ہے۔ جس قدر وسائل اسے میسر ہیں۔ کسی کے لئے جائز یہ نہیں قرار دیا گیا کہ وہ دوسروں پر بوجھ بنے۔ یا باوجود ا س کے کہ وہ کسب و عمل پر قادر ہو اور پھر بھی معاشرے سے اجتماعی کفالت کا طالب ہو۔ جیسا کہ اس سے قبل ہم بیان کر چکے ہیں۔ اسلامی نظام کے اس اجتماعی کفالتی نظام کے لئے ہر شریعت نے زکوٰۃ کو فرض قرار دیا ہے اور صدقہ اور انفاق فی سبیل اللہ کو نفلی مدد قرار دیا ہے، جس کی کوئی انتہاء اور کوئی حد نہیں ہے۔

اسلام نے اپنے اقتصادی نظام کے اصول وضع کرتے وقت میانہ روی اور اعتدال کو پیش نظر رکھا ہے۔ اس نظام میں انفاق فی سبیل اللہ میں بھی اسراف اور ظلم اور حد سے تجاوز کو منع کیا گیا ہے۔ نیز جو پاک چیزیں یہاں انسان کے لئے جائز قرار دی گئی ہیں، ان سے انتفاع اور تلذذ میں بھی اسراف سے منع کیا گیا ہے۔ اس لئے کہ انسان کی ضروریات زندگی کی مد میں اخراجات کے دائرے کو محدود کر دیا گیا ہے۔ اور اسے دائرہ اعتدال میں محدود کیا گیا ہے۔ محدود ضروریات کے جو بچ جاتا ہے، اس پر زکوٰۃ اور صدقات نافلہ کا ہر وقت تصرف رہتا ہے۔ خصوصاً ایسے حالات میں جبکہ ایک مومن کو یہ حکم بھی دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی دولت کو نفع بخش کاروبار میں لگائے اور اس میں اضافہ کرتا رہے۔

کاروباری زندگی میں اہل اسلام پر یہ قید لگائی گئی ہے کہ وہ اپنی کاروباری جدوجہد میں کسی کے لئے اذیت اور مضرت کا باعث نہ بنیں۔ اور ایسا کاروبار نہ کریں جس کے نتیجے میں لوگوں تک ان کی ضروریات کی رسد میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا ہو۔ نہ ایسا کاروبار کریں جس کے نتیجے میں دولت بالا بالا چند ہاتھوں تک محدود ہو جائے اور اس کا دائرہ محدود ہو جائے كَيْ لا يَكُونَ دُولَۃً بَيْنَ الأغْنِيَاء ِ مِنْكُمْ……………. "تاکہ وہ تمہارے مالداروں کے درمیان گردش نہ کرتا رہے۔ ”

اسلام نے معاشی جدوجہد میں فکر و عمل کی طہارت و پاکیزگی کو بھی لازم قرار دیا ہے۔ اس نے کاروبار میں وسائل و نتائج کی پاکیزگی پر بہت زور دیا۔ کاروبار کی ترقی اور دولت میں اضافہ کرنے کے بارے میں ایسے ضابطے اور قاعدے وضع کئے ہیں جن کے نتیجے میں انسانی ضمیر اور انسانی اخلاق پر برے اثرات نہیں پڑتے۔ نہ ان سرگرمیوں سے معاشرے کے اجتماعی وجود اور اجتماعی زندگی متاثر ہوتی ہے (تفصیلات کے لئے ملاحظہ فرمائیں میری کتاب العدالۃ الاجتماعیہ فی الاسلام)

یہ سب اصول اور سرگرمیاں اس سچائی کی اساس پر ہیں جو اس پوری کائنات میں جاری ہے۔ یعنی تصور الٰہ اور پھر اس عہد کے دائرے کے اندر موجود جو انسان اور حقیقت وجود کے درمیاں طے پایا جو خلیفہ بننے والے انسان کے تمام تصرفات اور سرگرمیوں پر حاوی ہے، جو اللہ کی مملوکہ سرزمین پر فرائض خلافت سرانجام دے رہا ہے۔

یہ وجوہات ہیں جن کے نتیجے میں سود خوری ایک ایسا عمل قرار پاتی ہے، جو اساسی طور پر پوری پوری طرح ایمانی تصور حیات کے ساتھ متصادم ہے۔ اس لئے کہ سودی نظام بالکل ایک علیحدہ تصور حیات پر مبنی ہے۔ ایک ایسا تصور جس میں عقیدۂ توحید اور وجود باری کے لئے "تاکہ وہ تمہارے مالداروں کے درمیان گردش نہ کرتا رہے۔ ”

اسلام نے معاشی جدوجہد میں فکر و عمل کی طہارت و پاکیزگی کو بھی لازم قرار دیا ہے۔ اس نے کاروبار میں وسائل ونتائج کی پاکیزگی پر بہت زور دیا۔ کاروبار کی ترقی اور دولت میں اضافہ کرنے کے بارے میں ایسے ضابطے اور قاعدے وضع کئے ہیں جن کے نتیجے میں انسانی ضمیر اور انسانی اخلاق پر برے اثرات نہیں پڑتے۔ نہ ان سرگرمیوں سے معاشرے کے اجتماعی وجود اور اجتماعی زندگی متاثر ہوتی ہے (تفصیلات کے لئے ملاحظہ فرمائیں میری کتاب العدالۃ الاجتماعیہ فی الاسلام)

یہ سب اصول اور سرگرمیاں اس سچائی کی اساس پر ہیں جو اس پوری کائنات میں جاری ہے۔ یعنی تصور الٰہ اور پھر اس عہد کے دائرے کے اندر موجود جو انسان اور حقیقت وجود کے درمیاں طے پایا جو خلیفہ بننے والے انسان کے تمام تصرفات اور سرگرمیوں پر حاوی ہے، جو اللہ کی مملوکہ سرزمین پر فرائض خلافت سرانجام دے رہا ہے۔

یہ وجوہات ہیں جن کے نتیجے میں سود خوری ایک ایسا عمل قرار پاتی ہے، جو اساسی طور پر پوری پوری طرح ایمانی تصور حیات کے ساتھ متصادم ہے۔ اس لئے کہ سودی نظام بالکل ایک علیحدہ تصور حیات پر مبنی ہے۔ ایک ایسا تصور جس میں عقیدۂ توحید اور وجود باری کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ وہ ایک بے خدا تصور حیات ہے۔ اس لئے سودی نظام میں اصول و اخلاق کی کوئی گنجائش نہیں ہے جس اصول اور اخلاق کی اساس اللہ تعالیٰ انسانی زندگی کی تنظیم چاہتے ہیں۔

سودی نظام کا اساسی تصور یہ ہے کہ انسانی زندگی اور اراۂ الٰہی کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہے۔ انسان ابتداء ہی سے کرۂ ارض کا مالک ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی عہد و پیمان کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے جاری کردہ احکام کا سرے سے پابند ہی نہیں ہے۔

اسی تصور حیات کے مطابق انسان ان تمام ذرائع کے استعمال میں آزاد ہے، جن کے ذریعہ وہ دولت جمع کرسکے۔ وہ دولت کے بڑھانے اور ترقی دینے میں بھی کسی اصول کا پابند نہیں ہے۔ اسی طرح وہ دولت کے استعمال میں بھی کسی حد وقید کا پابند نہیں ہے۔ اس سلسلے میں اللہ کے ساتھ کسی عہد و پیمان کا بھی پابند نہیں ہے۔ نہ وہ اس بات کا پابند ہے کہ دوسرے لوگوں کی مصلحتوں کو خاطر میں لائے۔ اس لئے اس پر اس بات کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اگر اس کی ذخیرہ اندوزی اور سرمایہ میں بے پناہ اضافے کے نتیجے میں لاکھوں انسانوں کو تکلیف پہنچے۔ بعض اوقات انسان کے بنائے ہوئے قوانین، ایسے شخص کی آزادی پر بعض جزوی پابندیاں عائد کر کے، دولت کی لامحدود ارتکاز کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً سود کی شرح پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ بعض اوقات انسان کے بنائے ہوئے قوانین بعض مالی چالبازیوں، ظلم و زیادتی، دھوکہ بازی اور مالی ضرر انسانی پر پابندیاں عائد کر دیتے ہیں۔ لیکن یہ پابندیاں ایک روٹین بن جاتی ہیں اور لوگ اپنی اصلی عادت کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ اس لئے وہ وہی کام کرنے لگتے ہیں جن کی خواہش ان کے دلوں میں بھی رچی بسی ہوتی ہے۔ یہ انسانی قوانین معاشرے میں وہ اصول رائج اور راسخ نہیں کرسکتے جو خداوند قدوس کی طرف سے نازل کردہ قوانین انسان کے دل میں پیدا کر دیتے ہیں۔ غرض سودی نظام کی نیو ایک غلط اور فاسد اساس پر اٹھائی جاتی ہے۔ اور وہ یہ کہ اس جہاں میں انسان کا مقصد اعلیٰ صرف یہ ہے وہ مال و دولت جمع کرتا پھرے۔ چاہے اس کے لئے جو مکروہ ذریعہ اسے اختیار کرنا پڑے۔ اور پھر وہ اس دولت سے فائدہ اٹھائے اور اسے جس طرح چاہے خرچ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مادہ پرست شخص کے دل میں ا سقدر لالچ پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ کتوں کی طرح دولت پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ اور سب کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے اور اس سے ہر طرح کے مفادات حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یوں وہ تمام اصولوں کو پامال کر کے اور تمام جہاں کے مفادات کو قربان کر کے بھی دولت جمع کرنے میں لگا رہتا ہے۔

نظام ربا کا ایک نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ تمام بشریت کو پیس کر رکھ دیتا ہے۔ اس میں افراد اور معاشرے کی زندگی دوبھر ہو جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں اقوام و ملل تباہ ہو جاتی ہیں۔ اور یہ تباہی صرف ان مٹھی بھر لوگوں کے مفاد کے لئے ہوتی ہے جو اس نظام میں روپیہ فراہم کرتے ہیں۔ جو اقوام اس نظام کی زد میں آ جاتی ہیں وہ اخلاقی، نفسیاتی اور اعصابی اعتبار سے بھی گر جاتی ہیں، ان اقوام کا مالی نظام خراب ہو جاتا ہے، اور انسانی اقتصادیات میں مناسب نشوونما نہیں ہوتا۔ اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پوری انسانیت پر حقیقی اور عملی اقتدار چند ایسے لوگوں کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے، جو اللہ کی اس پوری مخلوق میں ذلیل ترین لوگ ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ پرلے در جے کے فسادی ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسا طبقہ ہوتا ہے جو انسانیت کے لئے اس کرۂ ارض پر کسی قسم کی دوستی، ہمدردی یا ذمہ داری کا کوئی پاس نہیں رکھتا۔ جیسا کہ ہمارے اس جدید دور میں انسانیت کو ایسے ہی ایک گروہ سے واسطہ پڑا ہوا ہے۔ یہ گرہ جس طرح افراد کو روپیہ فراہم کرتا ہے اسی طرح حکومتوں اور اقوام کو بھی روپیہ فراہم کرتا ہے۔ اپنے وہ ممالک جہاں یہ گروہ رہائش پذیر ہوتا ہے، ان کے اندر یہ کاروبار کرتا ہے اور بیرونی دنیا میں بھی یہ کام کرتا ہے۔ اور تمام انسانیت کو محنت کا پھل اسے ملتا رہتا ہے۔ اور لوگوں کی خون پسینے کی کمائی غیر محسوس طور پر ان کی تجوریوں کی طرف لوٹتی رہتی ہے۔ اور یہ فائدہ انہیں محض اپنے اس سودی کاروبار کی وجہ سے ملتا رہتا ہے، جس میں خود ان کی محنت و مشقت کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔

نہ صرف یہ کہ لوگوں کی دولت اس گروہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے بلکہ اس گروہ کو اس معاشرہ میں مکمل اثر ورسوخ بھی حاصل ہوتا ہے۔ اس گروہ کے پیش نظر نہ اصول ہوتے ہیں، نہ وہ کسی اخلاقی نظام کا پابند ہوتا ہے، نہ وہ کسی دین و مذہب پر یقین رکھتا ہے بلکہ وہ مذہب و اخلاق اور اصول اور کردار کا مذاق اڑانے میں اپنا اثر ورسوخ استعمال میں لاتے ہیں۔ جو اس سودی معاشرے میں انہیں حاصل ہوتا ہے اور اس خوفناک اثر ورسوخ کے نتیجے میں وہ ایسے حالات پیدا کرتے ہیں اور ایسے ایسے منصوبے رو بعمل لاتے ہیں اور ایسی فکری فضا پیدا کرتے ہیں جس کے اندر رہ کر وہ اس سودی نظام کی وجہ سے عوام الناس کا مزید استحصال کرتے ہیں۔ ان حالات میں ان کی خساست اور قابل نفرت لالچ کی راہ میں رکاوٹ نہیں رہتی۔ اور ان کے تمام مقاصد پورے ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایسے لوگوں کا بہترین اور آسان طریقہ یہ ہوتا ہے وہ عوام کو جنسیت اور لذتیت کا خوگر بنا کر انسانی اخلاق اور عفت کو ختم کر کے انسان کو شہوات و لذتیت کے گندے نالے میں گرا دیتے ہیں۔ اور وہ اس کے اس قدر عادی ہو جاتے ہیں کہ اپنی آخری کوڑی بھی اس میں صرف کر دیتے ہیں۔ چنانچہ ان کی دولت ان کے اقتصادی جال میں پھنستی چلی جاتی ہے۔ یہ کام یوں سر انجام دیا جاتا ہے کہ یہ سودی کاروبار کرنے والے تمام عالمی اقتصادی نظام کو اپنی محدود مصلحتوں کے موافق چلاتے ہیں۔ چاہے ان کے ان اقدامات کی وجہ سے عالمی اقتصادی پیداوار عوام الناس اور پورے انسانی معاشرے کے مفاد کے مقابلے میں چند سرمایہ داروں کے مفاد میں محبوس ہو جاتی ہے جو سرمایہ فراہم کرتے ہیں اور جن کے ہاتھ میں عالمی سرمایہ کی باگیں آ جاتی ہیں اور وہ سب تاریں اپنے مفاد میں ہلاتے ہیں۔

یہ اندوہناک واقعہ ہمارے، اس جدید دور میں یوں پایہ تکمیل کو پہنچا کہ دور جاہلیت میں بھی وہ ایسی خوفناک صورت میں نہ تھا۔ اس لئے کہ قرون اولیٰ کے سود خور، جو ایک فرد کی صورت میں یا ایک ادارے کی صورت میں ہوتے تھے وہ اس قدر موثر نہ تھے، جیسا کہ جدید دور کے بینک اور مالی ادارے کام کرتے ہیں۔ ان جدید مالی اداروں کو پوری دنیا میں بڑی بڑی حکومتوں کے اندر اثر ورسوخ حاصل ہوتا ہے۔ وہاں حکومتوں کی خارجہ پالیسیوں اور تجارتی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ پھر وہ صحافت اور نشر و اشاعت کے عالمی اداروں پر قابض ہیں۔ اپنے مزاج اور نظریات کے مطابق تصانیف لکھواتے ہیں۔ اساتذہ اور یونیورسٹیوں پر ان کا قبضہ ہوتا ہے۔ اور میڈیا پر مکمل طور پر وہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان وسائل و ذرائع سے وہ عامۃ الناس میں ایک ایسی ذہنیت پیدا کرتے ہیں کہ وہ عوام جن کا گوشت و پوست وہ کھا رہے ہوتے ہیں۔ ان کا خون چوس رہے ہوتے ہیں اور اس سودی نظام کی وجہ سے ان کی محنت کے مزے لوٹ رہے ہوتے ہیں وہ ان کے ذہنوں کو اس طرح مسخر کر دیتے ہیں کہ یہ سودی نظام ان کی نظروں میں ایک معقول نظام اور لازمی نظام بن جاتا ہے جو بالکل معقول نظر آتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سودی نظام کے بغیر دنیا اقتصادی ترقی سے محروم رہے گی۔ اور یہ کہ مغربی دنیا کی اقتصادی ترقی محض اس سودی نظام کی وجہ سے ہوئی ہے اور یہ کہ جو لوگ سودی نظام کے خاتمہ کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں وہ عملی لوگ نہیں، محض خیالی گھوڑے دوڑاتے ہیں۔ اور یہ کہ ان کے خیالات و تصورات کی اساس محض اخلاقی نظریات پر ہے یا محض نظریاتی اصولوں پر ہے۔ جن کا عملی دنیا میں کوئی نمونہ موجود نہیں ہے۔ اور نہ ان کے نفاذ کی کوئی راہ ہے۔ اور اگر ایسا کوئی نظام وضع کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کے نتیجے میں پوری دنیا کا اقتصادی نظام تباہ ہو جائے گا۔ پھر یہ سود خور ان لوگوں کو مزاح کا نشانہ بناتے ہیں جو موجود سودی اقتصادی نظام پر تنقید کرتے ہیں۔ اور یہ مزاح ان لوگوں کے ذریعہ سے کرایا جاتا ہے، جو خود اس سودی نظام کے ڈسے ہوئے ہیں اور صرف اس نظام کی وجہ سے وہ مفلوک الحال ہیں جس طرح آج کا پورا عالمی اقتصادی نظام اس سودی نظام کی وجہ سے خستہ اور تباہ و برباد ہو گیا ہے اور سود خوروں کی یہ عالمی تنظیمیں اس اقتصادی نظام کو محض اپنی نہج اور اپنی منشاء کے مطابق چلاتی ہیں اور جب وہ ان کی منشاء کے خلاف جائے، یہ اسے ایسے جھٹکے دیتی ہیں اور ایسے مالی بحران پیدا کرتی ہیں کہ ماہرین اقتصادیات کے دماغ درست ہو جاتے ہیں اور وہ اس پورے عالمی مالی نظام کو از سر نو مٹھی بھر سود خوروں کی جماعت کے مفاد کے مطابق استوار کر دیتے ہیں۔

خاص اقتصادی نقطۂ نظر سے بھی، یہ سودی نظام ایک ناقص نظام ہے۔ بعض مغربی ماہرین اقتصادیات پر بھی اس کے مفاسد آشکارا ہو چکے ہیں، حالانکہ یہ لوگ اس سودی نظام میں پروان چڑھے۔ اور خود مغربی علوم و ثقافت اور اخلاق و تصورات میں مغربی مالیاتی اداروں کے پروپیگنڈے کی وجہ سے سود کا تصور رچابسا تھا۔ وہ ماہرین اقتصادیات جو محض اقتصادی نظام کے نقطہ نظر سے سود کے خلاف ہیں، ان میں سرفہرست جرمنی کے ڈاکٹر شناخت ہیں۔ وہ جرمنی بینک "رائخ”کے سابق ڈائریکٹر تھے۔ ۱۹۵۳ء میں انہوں نے دمشق میں جو تقاریر کیں ان میں یہ ایک اہم نتیجہ حیرت انگیز ہے کہ ایک گہرے اور مسلسل شماریاتی عمل سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ پوری دنیا کی دولت آخر کار چند مٹھی بھر سود خوار مالی اداروں کی طرف لوٹتی نظر آتی ہے۔ اس لئے کہ اس نظام میں روپیہ فراہم کرنے والا فائدہ ہی اٹھاتا چلا جاتا ہے جبکہ قرض لینے والا ہر وقت خسارہ اٹھاتا ہے۔ لہٰذا آخر کار شماریات کے عمل کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ دولت ہمیشہ قرض دینے والے سود خواروں کی طرف لوٹتی رہتی ہے۔ ہمارے دور میں شناخت کا نظریہ پوری طرح ثابت ہو چکا ہے۔ اس لئے کہ اس وقت کرۂ ارض کی پوری دولت کا حقیقی مالک چند ہزار افراد اور ادارے ہیں۔ دوسرے وہ افراد جو مالک تصور ہوتے، یا کارخانوں کے مالک جو بینکوں سے قرضہ لیتے ہیں یا وہ لوگ جو ان کارخانوں میں کام کرتے ہیں، یہ سب لوگ دراصل ان مالی اداروں کے کارکن اور ملازم ہیں اور ان کے مفادات کے لئے کام کرتے ہیں یہ چند ہزار افراد اور ادارے اس پوری دنیا کے کارکنوں کے محنت کے نتائج وصول کرتے ہیں۔

سودی اقتصادی نظام کی یہ صرف ایک کمزوری ہے۔ جو نظام بھی سودی لین دین پر مبنی ہو گا، اس میں رقم ادا کرنے والے اور صنعت و تجارت کے میدانوں میں کام کرنے والوں کے درمیان ہمیشہ مخالفت اور تضاد کا تعلق ہو گا اور وہ ایک جواری کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں اور مسلسل ایک دوسرے کی مخالفت کرتے ہیں۔ قرض دہندہ ہر وقت زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے درپے ہوتا ہے۔ اس لئے وہ یہ کوشش کرتا ہے کہ دولت کو سمیٹے رکھے اور تجارت اور صنعت کو اس کی بے حد ضرورت ہو جائے اور یوں ایک تاجر اور ایک صنعت کار اسے زیادہ سے زیادہ نفع دینے پر آمادہ ہو جائے۔ وہ شرح سود مسلسل بڑھاتا رہتا ہے یہاں تک کہ قرض لینے والے تاجر اور صنعت کار یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس کام میں انہیں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس لئے وہ جو کام کرتے ہیں، اس کے نتائج قرض اور سود میں چلے جاتے ہیں، ان کے لئے کچھ نہیں بچتا۔ ایسے وقت میں مال کا پھیلاؤ ختم ہو کر سکڑتا ہے۔ کارخانے پیداوار بند کر دیتے ہیں۔ کارکن بے روزگار ہو جاتے ہیں۔ لوگوں کی قوت خرید کم ہو جاتی ہے۔ اور جب اقتصادی بحران اس مقام تک پہنچ جاتا ہے تو سود خور اب محسوس کرتا ہے کہ دولت کی طلب ختم ہو گئی ہے، سرمایہ بے کار پڑا ہے تو وہ مجبوراً پھر سود کی شرح کم کر دیتا ہے بلکہ کم کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اور صنعت کار اور تاجر پھر اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور پھر زندگی میں خوشحالی عود کر آتی ہے۔ یوں دنیا عالمی اقتصادی بحرانوں کا شکار ہوتی رہتی ہے اور ایک عام آدمی اس چکی میں پستا رہتا ہے اور ایک مویشی کی طرح بے خبر رہتا ہے۔

اس نظام میں ہر صارف بالواسطہ سودخوروں کو ان کے حصے کا ٹیکس ادا کرتا ہے۔ اس لئے تاجر اور صنعت کارسود خوروں کو جو نفع ادا کرتے ہیں وہ انہیں اپنی جیب سے نہیں ادا کرتے۔ وہ یہ نفع ایک صارف سے وصول کرتے ہیں۔ وہ اشیائے صرف کی قیمت بڑھاتے ہیں اور یوں یہ سودی رقم پوری انسانیت پر تقسیم ہوتی ہے اور ان سے وصول ہو کر آخرکار سود خوار کے ہاں جمع ہوتی ہے۔ رہے وہ قرض جو حکومتیں ان مالی اداروں سے لیتی ہیں یعنی اصلاحات اور ترقیاتی منصوبوں کے لئے، تو ان کا بوجھ بھی آخر کار ایک عام آدمی پر پڑتا ہے۔ اس لئے کہ حکومت ان قرضوں کا سود ادا کرنے کے لئے لوگوں پر مزید ٹیکس عائد کرتی ہے۔ اور یوں ایک عام آدمی یہ بوجھ بھی اٹھاتا ہے۔ غرض آخرکار ہر شخص سود خوروں کو شرح سود ادا کرنے میں اپنے حصے کا بوجھ اٹھاتا ہے۔ لیکن اس حد تک بھی یہ معاملہ رکتا نہیں۔ یہ استعماریت صرف سودی لین دین پر آ کر نہیں رکتی۔ اس کے اس استحصال کے لئے جنگیں شروع ہوتی ہیں۔

یہاں فی ظلال القرآن میں ہمارے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ سودی نظام کے مفاسد گنوا دیں۔ اس کے لئے ایک مستقل بحث کی ضرورت ہے (اس سلسلے میں وہ قیمتی مباحث ملاحظہ ہیں جو المسلم العظیم سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اسلام اور جدید اقتصادی نظریات کے نام سے لکھیں ہیں۔ سید قطب)اس لئے ہم یہاں صرف اس قدر تلخیص پیش کرتے ہیں تاکہ جو لوگ صحیح مسلمان بننا چاہتے ہیں، انہیں یہ معلوم ہو جائے کہ وہ اساسی حقائق کیا ہیں جن کی وجہ سے اسلام نے اس مکروہ سودی نظام کو حرام قرار دیا ہے :

۱۔         پہلی بات یہ ہے کہ ہمیں اس بارے میں اپنے دل و دماغ کو صاف کر لینا چاہئے۔ وہ یہ کہ اسلام کے ساتھ کسی بھی جگہ سودی نظام جمع نہیں ہوسکتا۔ اس کے علاوہ جو عالم، جو مفتی بھی جو بات کہے گا وہ فریب کاری ہے۔ اور صریح دھوکہ ہے۔ اس لئے کہ اسلامی تصور حیات بنیادی طور پر سودی نظام سے متصادم ہے۔ سودی نظام کے نتائج جو عوام کے فکر و عمل میں پیدا ہوتے ہیں یا اس کے نتیجے میں جو اخلاقیات پیدا ہوتی ہیں وہ اسلام کے خلاف ہیں۔

۲۔        سودی نظام پوری انسانیت کے لئے ایک مصیبت ہے۔ صرف ایمان اخلاق، اور تصور حیات کے میدان ہی میں نہیں بلکہ خالص اقتصادی زندگی کی گہرائیوں میں بھی ایک عذاب ہے۔ یہ نظام انسان کی خوشحالی اور فلاح پر ڈاکہ ڈالتا ہے اور انسانیت کی متوازن نشوونما کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ حالانکہ بظاہر ا س نظام پر یہ جعلی لیبل لگایا گیا ہے کہ وہ پوری انسانیت کی اقتصادی ترقی کے لئے وضع کیا گیا ہے۔

۳۔        اسلام میں عملی نظام اور اخلاقی نظام کا باہم چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اسلام میں تصور یہ ہے کہ اپنے تمام معاملات اور تصرفات میں انسان اس عہد کا پابند ہے کہ وہ اس کرۂ ارض پر اللہ کا نائب اور خلیفہ ہے۔ اور اس کے تمام تصرفات شرط خلافت سے مشروط ہیں۔ اور یہ کہ یہاں اس کی پوری زندگی امتحان گاہ میں ہے۔ وہ بطور آزمائش بھیجا گیا ہے۔ اور اس نے اپنی پوری زندگی کا حساب و کتاب ایک دن دینا ہو گا۔ اسلامی نظام زندگی نہ تو صرف اخلاقی نظام ہے جو صرف چند اخلاقی ہدایات پر مشتمل ہو اور نہ ہی صرف عملی نظام ہے، یہ بیک وقت اخلاقی اور عملی ہدایات پر مشتمل نظام زندگی ہے۔ اگر اس نے اچھی طرح اس نظام کو اپنایا تو اسے اس کی پوری زندگی پر اس طرح اجر ملے گا، گویا اس نے عبادت کی۔ اور اگر اس نے اسے ترک کیا تو بعینہٖ اسی طرح اسے آخرت میں ان دو پہلوؤں پر سزا دی جائے گی۔ چنانچہ اسلام کا اقتصادی نظام اس کے اخلاقی پہلو کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ اور اسلام کے اقتصادی اخلاقیات کوئی غیر لازم عمل نہیں ہے بلکہ اسلام کے اقتصادی نظام کا لازمی جزو ہیں۔ ان کے بغیر اسلام کا عملی اقتصادی نظام چل ہی نہیں سکتا۔

۴۔        چوتھی بات یہ کہ سودی کاروبار کے نتیجے میں لازماً انسانی ضمیر مردہ اور خراب ہو جاتا ہے۔ انسان کے اخلاق خراب ہو جاتے ہیں۔ دوسرے بنی نوع انسان کے حق میں ایک سود خور کا رویہ اور اس کے جذبات اچھے نہیں رہتے۔ انسانی معاشرہ کی زندگی دوبھر ہو جاتی ہے۔ معاشرے کی اجتماعی کفالت کا انتظام خراب ہو جاتا ہے۔ سودی نظام کی وجہ سے عوام کے اندر طمع، لالچ، خود غرضی، دھوکہ بازی اور قمار بازی کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں۔ دور جدید کے ماہرین اقتصادیات سود خوری کو اس بات کی بڑی وجہ تصور کرتے ہیں کہ جس کی وجہ سے سرمایہ گھٹیا درجے کی غیر پیداواری مصارف کی طرف بہہ نکلتا ہے، تاکہ سرمایہ کاری پر یقینی فائدہ حاصل ہو۔

اور سود ادا کرنے کے بعد اس سے قرض حاصل کرنے والے کے لئے بھی کچھ بچ جائے۔ یہی جذبہ ہے کی وجہ سے گھٹیا درجے کی گندی فلموں، گندی صحافت، رقص گاہوں، عیاشی کے اڈوں، شراب خانوں اور تمام مصارف میں سرمایہ لگایا جاتا ہے جو اخلاق کے لئے تباہ کن ہوتے ہیں اور جن کے ذریعہ اخلاقی توڑ پھوڑ کا عمل جاری رہتا ہے اور سودی نظام کے تحت ایسے کاموں میں سرمایہ کاری نہیں کی جاتی جو انسانیت کے لئے مفید ہوں بلکہ مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایسے منصوبوں میں سرمایہ لگایا جائے جن سے زیادہ سے زیادہ نفع ملے۔ آج کی عالمی اقتصادیات میں یہ روزانہ کا مشاہدہ ہے۔ اور اس کا پہلا سبب سودی کاروبار کا موجودہ نظام ہے۔

۵۔        پانچواں نکتہ یہ ہے کہ اسلامی نظام ایک مکمل نظام حیات ہے جو باہم مربوط ہے۔ وہ جب سودی کاروبار حرام قرار دیتا ہے تووہ ایک ایسا نظام تیار کرتا ہے، جس میں اس سودی کاروبار کی طرف سے کوئی احتیاج ہی نہیں رہتی۔ وہ اقتصادی زندگی کی تشکیل و تنظیم یوں کرتا ہے کہ کسی شعبے میں سرے سے اس کی ضرورت ہی نہ رہے۔ اور اس سے انسان کی معاشی ترقی کا کوئی گوشہ بھی متاثر نہیں ہوتا۔ اجتماعی اقتصادی ترقی جاری رہتی ہے۔

۶۔        ششم نکتہ یہ ہے کہ جب اسلامی نظام زندگی کو اپنا نظام نافذ کرنے کا موقعہ ملے گا، تو اس کی پالیسی یہ نہ ہو گی کہ وہ اجتماعی ترقی کے اداروں کو سرے سے ختم کر دے بلکہ پالیسی یہ ہو گی کہ ان اداروں کو سود سے پاک کر دیا جائے۔ چنانچہ ان اداروں سے سودی نجاستوں کو ختم کر دیا جائے گا۔ یہ ادارے بعض دوسرے اصولوں پر منظم ہوں کے اور اجتماعی ترقی کے لئے کام کرتے رہیں گے۔ ان اداروں میں بینک، کمپنیاں اور جدید اقتصادی ادارے سب شامل ہیں۔

۷۔        یہ نہایت ہی اہم نکتہ ہے۔ ایک مسلمان کو یہ پختہ یقین کر لینا چاہئے کہ یہ بات بالکل محال ہے کہ اللہ تعالیٰ سودی کاروبار کو حرام کر دیں اور پھر صورتحال یہ ہو کہ انسان کی اجتماعی زندگی غیر سودی کاروبار کے ذریعے چل ہی نہ سکے۔ اس طرح یہ بھی محال ہے کہ ایک ناپاک، نجس اور مضر چیز ہو انسانی زندگی اس کے بغیر استوار نہ ہوسکتی ہو۔ اس لئے اللہ ہی اس کرۂ ارض پر حیات انسانی کا خالق ہے۔ اسی نے اس کرۂ ارض پر انسان کو اپنا خلیفہ قرار دیا ہے اور خود ذات باری کا حکم ہے کہ اس کرۂ ارض پر حیات انسانی کو ترقی دی جائے اور انسان کو سہولیات فراہم کی جائیں۔ ہرکام اللہ تعالیٰ کے ارادے سے ہی سرانجام پاتا ہے۔ وہی ہے جو انسان کو توفیق دیتا ہے کہ وہ اس جہاں میں بھلائی کرے۔ اسی لئے نظریاتی حوالے سے یہ بات محال ہے کہ کوئی چیز اللہ کے ہاں حرام ہو اور اس کے ساتھ ساتھ وہ زندگی کی ترقی اور نشوونما کے لئے ضروری ہو۔ اس کے سوا زندگی میں ترقی نہ کی جا سکتی ہو۔ یا کوئی بھی گندگی اور خبیث چیز ایسی ہو، جس کے سوا زندگی قائم نہ رہ سکتی ہو یا اس کے سوا اس جہاں میں زندگی کو ترقی نہ دی جا سکتی ہو جو شخص یہ سوچ رکھتا ہو، یقیناً اس کی یہ سوچ غلط ہے اس کا یہ دعویٰ زہر آلود اور یہ تصور غلط ہے۔ جسے نسل بعد نسل پھیلایا گیا ہے۔ یعنی یہ کہ سودی نظام دنیا کی ترقی اور نشوونما کے لئے سنگ میل ہے۔ اور یہ کہ سودی نظام ایک قدرتی نظام ہے۔ اس تصور کو دراصل ایک منظم سازش کے ذریعہ تعلیم و ثقافت کے سرچشموں میں داخل کر دیا گیا ہے اور شرق و غرب میں علوم اور تربیت کے منابع کے اندر سے سے داخل کر دیا گیا ہے پھر دور جدید میں، زندگی کی اساس اس نظام پر استوار کر دی گئی ہے۔ اور یہ کام ان افراد اور ایجنسیوں نے کیا ہے جو اس نظام میں سرمایہ فراہم کرنے والی ہیں۔ مشکل یہ درپیش ہے کہ ہر کسی کو زندگی کا نظام سود کے سوا کسی دوسری اساس پر قائم کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ یہ مشکل اس ایک بھیانک شکل اختیار کر لیتی ہے جب ایک انسان دولت ایمان سے محروم ہو۔ پھر ذہنی غلامی اور آزادانہ غور و فکر نہ کرنے کی وجہ سے بھی یہ کام مشکل نظر آتا ہے۔ اس لئے کہ سرمایہ فراہم کرنے والی ایجنسیوں نے یہ وہم انسانی دل و دماغ میں یقین کی صورت میں جانشین کر دیا ہے۔ اس لئے کہ ذرائع علم و معرفت پر ان کا مکمل کنٹرول ہے۔ بین الاقوامی اداروں اور حکومتوں پر ان ایجنسیوں کو مکمل کنٹرول حاصل ہے۔ عام اور خاص نشر و اشاعت کے اداروں پر ان سود خوروں کا مکمل قبضہ ہے۔

۸۔        آٹھویں بات یہ ہے کہ جو لوگ یہ خیال رکھتے ہیں کہ دور جدید میں سودی نظام کے علاوہ کسی اور نظام پر اقتصادی نظام استوار نہیں ہوسکتا، دراصل ایک بے حقیقت وہم ہے۔ یہ دراصل ایک بہت بڑا جھوٹ ہے اور یہ جھوٹ اس لئے رائج ہے کہ بعض طاقتور بین الاقوامی ادارے اسے محض اپنی مصلحت کے لئے زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ جس وقت بھی بین الاقوامی مالی اداروں کی نیت درست ہو گی۔ جس وقت بھی پوری انسانیت اس نظام کو بدلنے کا عزم کرے گی یا کم از کم امت مسلمہ اس کی تبدیلی کا ارادہ کر لے گی اور یہ ٹھان لے گی کہ اب وہ بین الاقوامی مالی اداروں کے چنگل سے آزاد ہونا چاہتی ہے اور وہ اپنی بھلائی کا انتظام خود کرتی ہے، اپنی خوشحالی اور ترقی کے نظام کی اساس، اخلاق اور پاکیزگی پر استوار کرتی ہے تو اسی وقت دنیا کے سامنے بالکل ایک نیا مالی نظام استوار ہو کر سامنے آ جائے گا۔ یہ اسلامی نظام ہو گا اور جسے اللہ تعالیٰ نے تمام انسانیت کے لئے پسند کیا ہوا ہے۔ جس کا نفاذ عملاً ہو چکا ہے۔ اس کے سائے میں زندگی نے بھرپور مظاہرہ کیا ہوا ہے۔ اب بھی یہ نظام قابل نفاذ ہے اور اس کے تحت اقتصادی نظام منظم ہوسکتا ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ لوگ سمجھیں اور راہ ہدایت پالیں۔

یہاں ہم وہ تفصیلات نہیں دے سکتے جن سے اس نظام کی مکمل تفصیلات اور جزئیات سے بحث کی جا سکے۔ ہمارے لئے یہ اجمالی اشارات ہی کافی ہیں (اس سلسلے میں بعض عملی تجاویز مولانا ابو الاعلیٰ مودودی نے پیش کی ہیں جن کا حوالہ میں اس سے پہلے دے چکا ہوں۔ ان پر غور کیا جا سکتا ہے۔ سید قطب)ان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سود خوری کی یہ برائی اقتصادی زندگی کی ضروریات میں سے نہیں ہے۔ تاریخ انسانیت میں اس سے پہلے بھی سودی نظام چھا گیا تھا اور اسلام نے انسانیت کو اس کے چنگل سے آزاد کرایا تھا۔ آج بھی انسانیت نے اقتصادی بے راہ روی اختیار کر لی ہے۔ اور اسے اس بے راہ روی سے صرف اسلام کا مستحکم، رحیمانہ اور سلیم الفطرت نظام نجات دلا سکتا ہے۔

اب ذرا تفصیل سے ملاحظہ کیجئے کہ سود کے تلخ اقتصادی نظام پر اسلام کس طرح حملہ آور ہوتا ہے۔ اس نظام نے انسانیت کو ان تلخیوں سے دوچار کر دیا ہے۔ جس سے زیادہ کوئی اور تلخی انسانیت کو کبھی نصیب نہیں ہوئی۔

٭٭٭

 

 

 

درس نمبر ۲۰تشریح آیات ۲۷۵تا ۲۸۱

 

 

"جو لوگ سود کا مال کھاتے ہیں ان کا حال اس شخص کا سا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھوکر باؤلا کر دیا ہو اور اس کی حالت میں ان کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں :”تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے "حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے۔ لہٰذا جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت آ پہنچے اور آئندہ وہ سود خواری سے باز آ جائے تو جو کچھ وہ پہلے کھا چکا، سو کھا چکا اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے اور جو اس حکم کے بعد پھر اسی حرکت کا اعادہ کرے، وہ جہنمی ہے، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اللہ سود کا مٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو نشوونما دیتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے بد عمل انسان کو پسند نہیں کرتا۔ ” (٢٧٥، ٢٧٦)

 

یہ ایک خوفناک جملہ ہے اور دہشت ناک تصویر کشی ہے۔ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لا يَقُومُونَ إِلا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُہُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ……………. "ان کا حال اس شخص جیسا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھو کر باؤلا کر دیا ہو۔ ”

قرآن کریم نے سود خور کی جو تصویر کھینچی ہے جس طرح سود خوار کو زندہ اور متحرک شکل میں پیش کیا ہے۔ اس جیسی تاثیر اور تنبیہ حسین سے حسین معنوی اور نظری پیرایہ اظہار میں نہیں پیدا کی جا سکتی۔ یہ ایسی تصویر کشی ہے جس کے نتیجے میں سود خوار کی تصویر الگ محسوس اور پیش پا افتادہ پیرائے میں نظر آتی ہے۔ اس تصویر کے ذریعے معروف اور عام طور پر تجربے میں آنے والے کرداروں کو ظاہر کیا گیا ہے۔ قرآن لوگوں کے اس دیکھے ہوئے کردار کو ان کی نظروں سے تازہ کرتا ہے تاکہ یہ کردار انسانی احساس میں خوف پیدا کرے، سرمایہ کاری کرنے والے سود خوروں کے انسانی جذبات جاگیں اور متحرک ہوں۔ انہیں جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر ان کے مروج اور عادی سودی نظام اقتصادیات سے انہیں نکالا جائے۔ اور انہیں لالچ اور خود غرضی کی اس فضاء سے نکالا جائے جس میں انہیں بہت سے فائدے نظر آتے ہیں۔ اپنی جگہ یہ انداز تربیت بہت ہی مفید ہوتا ہے جبکہ یہ پیرایہ بیان اپنی جگہ حقیقت پسندانہ اور واقعی بھی ہوتا ہے۔

اکثر تفاسیر میں لا يَقُومُونَ…….. کا مفہوم یہ بیان ہوا ہے کہ اس سے مراد روز قیامت کا قیام اور حشر ہے لیکن میرا خیال یہ ہے کہ اس کرۂ ارض پر ہماری زندگی میں بھی خوفناک تصویر عملاً موجد ہوتی ہے۔ نیز یہ مفہوم کہ دنیا میں سود خوار کی حالت ایسی ہوتی ہے اگلے فقرے کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہوتا ہے کہ جو لوگ سودی نظام ترک نہیں کرتے وہ دراصل اللہ تعالیٰ کے ساتھ اعلان جنگ کر رہے ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ عالم اقتصادیات میں یہ جنگ مسلسل لڑی جا رہی ہے اور گم کردہ راہ انسانیت پر یہ جنگ مسلط ہے اور اس نظام میں ایک سود خور اسی طرح دیوانہ وار تگ و دو میں مصروف ہے جس طرح شیطان کا چھوا ہوا شخص دیوانہ ہوتا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم سود خور کی دیوانگی کو زندگی کے عملی نظام میں تلاش کریں ذرا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ رسول اکرمﷺ کے دور میں نزول قرآن کے وقت سودی اقتصادی نظام جس نہج پر چل رہا تھا ذرا اس کی تصویر کشی کر دیں۔ نیز یہ کہ اس سودی نظام کے بارے میں اہل جاہلیت کے ماہرین اقتصاد کے تصورات کیا تھے۔

سودی نظام عرب اقتصادیات میں نزول قرآن کے وقت ایک معروف نظام تھا اور اس وقت اچھی طرح مروج تھا۔ جس سودی نظام کو ان آیات میں باطل قرار دیا گیا ہے اس کی بڑی دو صورتیں اس وقت رائج تھیں۔ ایک "ربائے معیاد”اور دوسری "ربائے فاضلہ”ربائے میعاد کے بارے میں حضرت قتادہ فرماتے ہیں "یوں ہوتا کہ ایک شخص کسی پر کچھ فروخت کرتا اور ادائیگی ثمن کے لئے وقت مقرر ہو جاتا۔ "جب مقررہ وقت آ پہنچتا تو مدیوں کے پاس رقم نہ ہوتی تو قرض خواہ میعاد میں اضافہ کر دیتا لیکن زر ثمن میں بھی اضافہ کر دیتا۔ "……..اور حضرت مجاہد فرماتے ہیں "جاہلیت میں ایسی صورت پیش آتی کہ ایک شخص کا دوسرے کے ذمہ قرض ہوتا تو قرض دار قرض خواہ کے سامنے یہ تجویز پیش کرتا کہ آپ قرض میں تاخیر کر دیں اور اس کے عوض آپ کے لئے یہ رقم ہو گی چنانچہ قرض خواہ قرض موخر کر دیتا۔ ” امام ابوبکر الجصاص اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں "یہ بات طے شدہ ہے کہ جاہلیت میں مروج ربا کی حقیقت یہ تھی کہ وہ ایک قرض ہوتا تھا اور اس میں ایک مقرر شرح کے عوض میعاد مقرر ہوتی تھی اور شرح سود کا اضافہ اس میعاد کا اضافہ ہوتا تھا جو مدیون کو دی جاتی تھی، اللہ تعالیٰ نے اسے حرام قرار دیا۔ ”

رازی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ "میعادی رباوہ تھی جو جاہلیت میں معروف اور مروج تھی۔ ان میں سے کوئی اپنا مال دوسرے پر ادھار فروخت کرتا اور ہر مہینہ میں ایک مقرر شرح سے سود وصول کرتا اور اصل زر ثمن اپنی جگہ قائم رہتا جب بھی میعاد پہنچی سرمایہ دار سرمایہ کی واپسی کا مطالبہ کرتا۔ اگر مدیون ادا نہ کرسکتا تو وہ سرمایہ اور میعاد دونوں میں اضافہ کر دیتا۔ ”

حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ بات آئی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:لَا رِبَا اِلَّا فِی النِّسیئَتَہِ…………….”سود صرف معیاد میں ہوتا ہتے "(بخاری، مسلم)

"ربائے فاضلہ”دراصل اجناس کے باہم تبادلہ میں ہوتی یعنی ایک جنس کا تبادلہ اسی جنس سے ہو رہا ہو، مثلاً سونے کا تبادلہ سونے سے روپے کا تبادلہ روپے سے، گندم کا تبادلہ جو سے ہو رہا ہو تو اگر اس میں اگر کوئی فریق زیادہ لے گا تو وہ سود ہو گا۔ اس قسم کے تبادلہ اجناس کو سود میں اس لئے شامل کیا گیا ہے کہ یہ سودی کاروبار کے بالکل ہم جنس اور ہم شکل ہے۔ اس میں وہی جذبات کار فرما ہوتے ہیں جو سودی کاروبار کرنے والے تجار کے دل و دماغ پر چھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ جدید سودی نظام اقتصادیات پر بحث کرتے وقت ہمیں "ربائے فاضلہ”کے متعلق وارد ہونے والی حرمت پر زیادہ غور کرنا ہو گا۔

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں :رسول اللہﷺ نے فرمایا”سونا سونے کے عوض، چاندی چاندی کے بدلے، گندم گندم کے بدلے، جو جو کے بدلے کھجور کھجوروں کے بدلے، نمک نمک کے بدلے برابر ہوں گے اور دستی ہوں گے، جس شخص نے اضافہ کیا یا اضافے کا مطالبہ کیا تو گویا اس نے سود لیا۔ سودی معاملات میں لینے اور دینے والا دونوں برابر ہیں "(شیخان)حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے ایک دوسری روایت میں مروی ہے فرماتے ہیں :”حضرت بلال رسول اللہﷺ کے پاس "برنی”کھجور لے کر آئے۔ "رسول اللہﷺ نے فرمایا:بلال!یہ کہاں سے لائے ہو ؟فرمایا ہمارے پاس ردی قسم کی کھجوریں تھیں تو ہم نے انہیں ایک صاع کے بدلے دو صاع کے ساتھ تبادلہ کر لیا۔ تو آپ نے فرمایا”بہت افسوس”یہ تو عین ربا ہے۔ ایسا نہ کیا کرو اگر کبھی تمہیں بدلنے کی ضرورت پڑے تو ردی کھجوروں کو علیحدہ سودے میں فروخت کر دو اور پھر رقم کے عوض اچھی خرید لو۔ "(بخاری، مسلم)

ربائے میعادی (ربا النسیہ)بالکل واضح ہے، اس کے بارے میں کسی قسم کی تشریح کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس لئے کہ اسی میں سودی معاملہ کے تمام اجزاء بالکل واضح نظر آتے ہیں یعنی یہ کہ اصل زر پر اضافہ وہ میعاد جس کی وجہ سے یہ اضافہ کیا گیا اور یہ کہ اس اضافے کا سودی معاہدہ بطور شرط طے پانا یعنی سرمایہ کی وجہ جلب از بوجہ میعاد اور مدت ایک خالص سودی معاملہ ہے۔

رہی دوسری قسم یعنی ربائے فاضلہ تو یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اس میں ہم جنس تبادلہ میں آنے والی اشیاء کی نوعیت اور قیمت میں بنیادی طور پر فرق ہوتا ہے جس کی وجہ سے اضافہ کا تقاضا پیدا ہوتا ہے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے واقعہ سے یہ بات واضح ہو کر آ جاتی ہے کہ انہوں دو ردی صاع کھجوریں دیں اور ایک صاع اعلیٰ قسم کی لے لیں لیکن دو قسم کی کھجوریں چونکہ ہم جنس ہیں اور دونوں پر کھجور کا اطلاق ہوتا ہے اسی لئے ان میں اضافہ سودی کاروبار کا شبہ پیدا کرتا ہے کیونکہ کھجور کے بدلے کھجور ہی آتی ہے اور اضافے کو رسول اللہﷺ نے ربا قرار دیا اور اس سے منع فرمایا اور حکم دیا کہ پہلے ردی اور گھٹیا چیز کو فروخت کر کے نقد وصول کرو اور پھر نقد دے کر اچھی چیز لے لو، چاہے اس میں کمی بیشی ہوتا کہ بظاہر معاملے میں سودی کاروبار کا شبہ نہ رہے۔

اسی طرح ایسے تبادلے میں یہ شرط لگائی کہ ایک تو مقدار کے برابر ہو اور دوسری یہ کہ ہم جنس اشیائے مبادلہ کو حالاً اپنے اپنے قبضے میں لے لیا جائے۔ ا س سلسلے میں کوئی میعاد مقرر نہ ہو یعنی اگر زیادت نہ بھی ہو تو قبضہ فوری ضروری ہے۔ اس لئے کہ مدت اور میعاد سودی کاروبار کا اہم جز ہے ……..اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ رسولﷺ کاروبار میں سودی عنصر کے خلاف کس قدر حساس تھے۔ آپ نے اس معاملے میں بے حد سختی کر کے اس وقت نظام جاہلیت میں رائج و شائع سودی نظام کو ختم کرنے کی کوشش کی۔

ہمارے زمانے میں مغرب کے سرمایہ دارانہ نظاموں کے مقابلے میں شکست خوردہ بعض ماہرین اقتصادیات یہ کوشش کرتے ہیں کہ سودی عمل و نظام کو صرف اس شکل میں محدود کر دیا جائے جسے اسلامی اقتصادیات میں "ربائے میعاد”کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ حضرت اسامہ کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں یا ان آثار سے استدلال کرتے ہیں جن میں بعض سلف صالحین نے دور جاہلیت میں مروج ربا کی شکلوں کو بیان کیا ہے۔ یہ لوگ اسلامی نقطہ نظر سے جدید دور کے سودی نظام کو ان تمام جدید شکلوں کو جائز گردانتے ہیں جو حرف بحرف دور جاہلیت میں مروج شکلوں کے ساتھ منطبق نہ ہوں۔

ان لوگوں کی یہ حرکت اور سعی لاحاصل صرف اس بات کا اظہار کر دیتی ہے کہ یہ لوگ روحانی اور ذہنی طور پر مغربی سودی نظام کے مقابلے میں بری طرح شکست کھا چکے ہیں۔ اسلام کوئی ایسا نظام نہیں ہے جس میں معاملات کی صرف ظاہری شکل دیکھ کر فیصلہ کر دیا جاتا ہو۔ یہ نظام ایک حقیقی تصور حیات پر قائم ہے۔ اس نے جب ربا کو حرام قرار دیا تو مقصد یہ نہ تھا کہ ربا کی صرف ایک شکل کو حرام قرار دے دیا جائے اور دوسری شکلوں کو ترک کر دیا جائے۔ اسلام ہر اس تصور حیات کا مقابلہ کرتا ہے جو اس کے اپنے تصور حیات کے خلاف ہو۔ وہ ہر اس ذہنیت سے برسرپیکار ہوتا ہے جو اس کی ذہنیت کے مطابق نہ ہو۔ اس نے "ربائے فاضلہ”کو محض اس لئے حرام قرار دیا کہ اس میں بظاہر سودی ذہنیت کی ایک مماثلت پائی جاتی تھی اور بالکل ایک معمولی سودی شعور پایا جاتا تھا۔

اس لئے ہمارے نزدیک تمام سودی معاملات حرام ہیں۔ چاہے وہ ان سودی معاملات سے ہم شکل ہوں جو دور جاہلیت میں مروج تھے یا جاہلیت جدیدہ میں نئی شکلوں میں سامنے آئے ہیں۔ بشرطیکہ ان شکلوں میں سودی معاملہ کے اساسی عنصر ترکیبی پائے جاتے ہوں یا ان میں سودی ذہنیت کارفرما ہو اور یہ سودی ذہنیت کیا ہے ؟وہ خود غرضی، لالچ، انفرادیت اور قمار بازی ہے جن میں یہ خبیث شعور اور بری نیت پائی جاتی ہے کہ جس طرح ہو فائدہ حاصل کیا جائے چاہے جس طرح بھی ہو۔

اس لئے دور جدید میں اہل اسلام کا فرض ہے کہ وہ اس حقیقت کو اچھی طرح پالیں اور اس بات کا یقین کر لیں کہ کہیں وہ اپنے معاملات میں سودی کاروبار کر کے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ اعلان جنگ تو نہیں کر رہے۔

الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لا يَقُومُونَ إِلا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُہُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ……………. "جو لوگ سود کھاتے ہیں ان کا حال اس شخص کا سا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھو کر باؤلا کر دیا ہو۔ "اس سے مراد صرف وہ لوگ نہیں جو سودی منافع کماتے ہیں اگرچہ اس خوفناک دھمکی کا پہلا نشانہ یقیناً وہی ہیں اس آیت کے مفہوم میں وہ معاشرہ بھی شامل ہے جس کا تمام لین دین سودی اصولوں پر ہوتا ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ "رسول اللہﷺسود کھانے والے سود کھلانے والے، سودی معاہدے کے دو گواہوں اور سودی دستاویز لکھنے والے سب پہ لعنت فرمائی اور فرمایا کہ وہ سب کے سب برابر ہیں۔ "(مسلم، احمد، ابوداؤد، ترمذی)

یہ تو تھے وہ لوگ جو فرداً سودی معاملات کرتے ہیں۔ رہا وہ معاشرہ جس میں سودی کاروبار ہوتا ہے جس کا اقتصادی نظام اصول ربا پر قائم ہے تو اس معاشرے کے تمام افراد قابل لعنت و ملامت ہیں۔ وہ اللہ اور رسولﷺ کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں اور بے شک وہ اللہ کی رحمت سے محروم ہیں۔

ایسے لوگوں کی حالت یہ ہوئی کہ وہ اس زندگی کے ہر موقف میں یوں نظر آتے ہیں کہ گویا آسیب زدہ ہیں۔ پریشان اور مضطرب نظر آتے ہیں ایک نامعلوم خوف اور خطرہ ہر وقت ان کے چہروں سے عیاں ہوتا ہے اور دولت اطمینان سے محروم اور مخبوط الحواس نظر آتے ہیں۔ آج سے چار صد سال قبل جب سودی اصول پر مبنی نظام سرمایہ داری وجود میں آیا۔ اس نظام کی ان مضرتوں میں شک و شبہ کی گنجائش موجود تھی لیکن گزشتہ چارسو سالوں کے تجربے نے اس شک کے لئے اب کوئی گنجائش نہیں چھوڑی۔

آج ہم جس جہاں میں رہ رہے ہیں۔ اس کے اطراف و اکناف میں قلق و اضطراب اور خوف و خطرات کا دور دورہ ہے، لوگوں کے اعصاب شل ہو چکے ہیں اور وہ نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہیں۔ ہماری اس ترقی یافتہ دنیا کے عقلاء ، مفکرین علماء اور پروفیسر کھلے بندوں اس بات کا اعتراف کرتے ہیں اور جن لوگوں نے مغربی تہذیب اور مغربی معاشروں کا مشاہدہ کیا ہے وہ بچشم سران بیماریوں اور اعصاب شکن حالات کا مشاہدہ کر چکے ہیں۔ اس کے باوجود کہ مغربی معاشرہ، مغربی تہذیب کے زیر سایہ اپنی مادی ترقیات کے حوالے سے آج بھی بام عروج پر ہے۔ ان ممالک میں مجموعی پیداوار کا گراف بہت ہی اونچا ہے۔ ہر طرف خوشحالی اور مادی عروج کے مظاہرے ہیں اور نظروں کو چکا چوند کر رہے ہیں۔ اعصابی اور نفسیاتی بیماریوں کے علاوہ یہ معاشرے ہر وقت عالم گیر جنگوں کے خطرات سے دوچار ہیں۔ حکومتوں کے درمیان ایک نہ ختم ہونے والی اعصابی کشمکش جاری ہے اور وہ معاشرے ایک نہ ختم ہونے والی اضطراری کیفیات کا شکار ہیں اس لئے کہ ان کے سر پر ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔

مصائب سے پر اور ہر بھلائی سے محروم ایک ہمہ گیر شقاوت وبد بختی جو جہان مغرب پر چھائی ہوئی ہے اور مغرب کی خالص مادی تہذیب و تمدن کے پاس اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ مادی خوشحالی اور مادی زندگی کی ہمہ گیر سہولتوں اور مغربی ممالک کی اکثریت جہاں زندگی نہایت آسان ہے اور اشیاء ضرورت کی فراوانی ہے اس میں ان بیماریوں کا کوئی علاج نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان تمام سہولیات اور فراوانیوں کی کیا قدر و قیمت رہ جاتی ہے۔ اگر ان کی وجہ سے نفس انسانی کو تسلیم ورضا اور طمانیت اور سکون حاصل نہ ہو؟

دور جدید میں یہ ایک عظیم حقیقت ہے جسے اگر کوئی چاہے تو مشاہدہ کرسکتا ہے۔ بشرطیکہ وہ خود اپنی آنکھوں پر از خود وہ مصنوعی پردے نہیں ڈالتا جو اس نے خود اپنے لئے تیار کئے ہیں تاکہ وہ بھیانک منظر نہ دیکھے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس کرہ ارض کے وہ تمام ممالک جو مادی لحاظ سے ترقی یافتہ ہیں۔ جہاں زندگی کی تمام سہولیات وافر مقدار میں فراہم کیجا رہی ہیں۔ مثلاً امریکہ، سوئٹزر لینڈ، وغیرہ جہاں مادی سہولیات کے دریا بہہ رہے ہیں، وہاں کے لوگوں کو دیکھو تو وہ خوشحال ہونے کے بجائے پریشان حال ہیں۔ وہ گہرے قلق میں مبتلا ہیں۔ یہ اندرونی رنج و الم ان کی نظروں سے آنسوؤں کی طرح ٹپک رہا ہے، حالانکہ بظاہر وہ بڑے دولتمند ہیں۔ وہ رات دن پیداوار (Production) کے اضافے میں مصروف ہیں لیکن یہ اندرونی قلق ان کی زندگی کو گھن کی طرح کھائے چلا جا رہا ہے۔ اس قلق کو کبھی تو وہ بد اخلاقیوں کا ارتکاب کر کے چھپاتے ہیں کبھی شور و شغب میں اسے بھلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی وہ عجیب و غریب حرکات کا ارتکاب کر کے اسے بھلانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس سے بھی مسئلہ حل نہ ہو تو وہ جنسی آوارگی میں پناہ لیتے ہیں۔ اگر پھر بھی افاقہ نہ ہو تو پھر وہ اس ترقی یافتہ اور آسائشوں سے بھرپور زندگی سے فرار اختیار کرتے ہیں۔ اپنے آپ سے بھاگتے ہیں۔ اس خلاء سے بھاگنا چاہتے ہیں جس میں وہ جی رہے ہوتے ہیں۔ انہیں اس پرکشش اور سہولیات سے بھرپور زندگی میں اس قلق و اضطراب کا کوئی منطقی سبب بھی نظر نہیں آتا چنانچہ یا تو وہ پاگل ہو کر اس سے نجات پاتے ہیں اور پھر بھی نہ ہو تو وہ خودکشی کر کے نجات پاتے ہیں۔ جنسی بے راہ روی تو ایک عام بات ہے۔ غرض قلق و اضطراب کا خلا اور گمشدگی کا یہ بھوت بدستور ان کا پیچھا کرتا رہتا ہے اور کسی وقت بھی ان کو چین لینے نہیں دیتا۔

سوال یہ ہے کہ یہ مغربی مادی معاشرہ اس صورت حال سے کیوں دوچار ہے اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ اپنی مادی ترقیات کے باوجود مغرب کی روح اندر سے خالی اور تہی دامن ہے۔ وہ سرگرداں، گم کردہ راہ ہے اور یہ روح اطمینان سے محروم، اہل مغرب کو روحانی غذاء اور دوا کی ضرورت ہے اور روحانی علاج بغیر ایمان کے نصیب نہیں ہوسکتا۔ اطمینان صرف ذکر الٰہی سے نصیب ہوتا ہے جس سے روح مغرب محروم ہے۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ اہل مغرب انسانیت کے مقاصد بلندسے تہی دامن ہیں جو صرف ایمان کے نتیجے میں وجود میں آتے ہیں۔ جن کے خدوخال ایمان سے متعین ہوتے ہیں۔ ان کا تعین اس معاہدۂ خلافت سے تصور ہوتا ہے جس کے امر سے انسان کو اسی کرۂ ارض پر اللہ کا نائب بنایا گیا ہے۔

اس بڑے سبب کے ضمن میں پھر مغرب کا سودی نظام بھی ان مصائب کا ایک اہم سبب ہے۔ سودی نظام ایک ایسی مصیبت ہے جس میں اقتصادیات بظاہر تو ترقی پذیر نظر آتی ہیں لیکن دراصل ان میں کوئی ترقی نہیں ہوتی۔ اس لئے کہ سودی نظام میں ترقی میں اعتدال، توازن اور وسعت نہیں ہوتی۔ اس ترقی کے ثمرات عامۃ الناس تک نہیں پہنچتے۔ بلکہ تمام انسانیت کے مقابلے میں اس کے ثمرات اور اس کی برکات سے سود خور فائدہ اٹھاتے ہیں اور سود خوروں کا بھی ایک قلیل گروہ جو سرمایہ فراہم کرتا ہے اور جو بینکوں اور مالی اداروں کے پس منظر میں ہر وقت روپے کھرے کرتا رہتا ہے۔ جو صنعتی اداروں، تجارتی اداروں کو ہر قوت مجبور کرتا ہے اور جو بینکوں اور مالی اداروں کے پس منظر میں ہر وقت روپے کھرے کرتا رہتا ہے۔ جو صنعتی اداروں، تجارتی اداروں کو ہر وقت مجبور کرتا رہتا ہے کہ وہ ان کے پسندیدہ پروگرام کے مطابق چلتے رہیں اور ان کے مفادات کے لئے کام کریں۔ ان سودخوروں کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ وہ لوگوں کو ان کی بنیادی ضروریات فراہم کریں یا ایسی پیداوار سامنے لائیں جس میں معاشرے کا اجتماعی مفاد ہو یا یہ کہ عملاً منظم طریقے سے عامۃ الناس کے لئے فراہمی رزق کا بندوبست کریں یا وہ عامۃ الناس کا اطمینان قلب اور سوشل سیکورٹی کے کوئی مقاصد سامنے رکھتے ہوں بلکہ ان کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ ایسی پیداوار مارکیٹ میں لائی جائے جس سے انہیں زیادہ سے زیادہ مفاد حاصل ہو۔ اگرچہ اس پیداوار کے نتیجے میں ہزاروں لاکھوں افراد شکست و ریخت کا شکار ہوں اور لاکھوں کی زندگی تباہ ہو جائے یا لاکھوں افراد شک، بے اطمینانی اور خوف و خطرے سے دوچار ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بالکل برحق ہے کہ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لا يَقُومُونَ إِلا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُہُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ……………. "وہ لوگ جو سود کھاتے ہیں ان کا حال اس شخص کا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھوکر باؤلا کر دیا ہو۔ "رسول اللہﷺ کے دور میں سود خوروں نے سود کی حرمت پر سخت اعتراض کئے تھے۔ ان کا سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ سودی اقتصادیات کو حرام قرار دینے اور تجارتی لین دین کو جائز قرار دینے کی کوئی حقیقی وجہ ان کے فہم میں نہیں آتیذَلِكَ بِأَنَّہُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّہُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا……………. "اس حالت میں مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں "تجارت بھی تو دراصل سود ہی جیسی چیز ہے۔ "حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے۔ ”

وہ جس اعتراض اور شبہ پر اعتماد کرتے تھے وہ ہ تھا کہ تجارت بھی ایک نفع بخش عمل ہے اور سود خوری بھی ایک نفع بخش عمل ہے حالانکہ یہ ایک بالکل واہیات قسم کا استدلال تھا۔ اسی لئے کہ تجارتی عمل میں نفع و نقصان دونوں کا احتمال ہوتا ہے۔ پھر اس میں شخصی محنت اور مہارت کا بھی دخل ہوتا ہے تجارت میں قدرتی حالات یہ فیصلہ کرتے کہ تاجر کو فائدہ یا نقصان ہو لیکن سودی کاروبار میں ہر حالت اور ہر صورت میں فائدہ اور سود متعین ہوتا ہے۔ یہ تجارت اور ربا میں ایک بنیادی فرق ہے اور یہی وہ بڑی علت ہے جس کی وجہ سے ایک کو حلال اور دوسری کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ ہر وہ کاروبار جس میں ہر صورت اور ہر حال میں فائدہ متعین کر دیا گیا ہو وہ حرام ہے اس لئے کہ وہ ربا ہے۔ اس لئے کہ اس میں فائدہ محفوظ و مامون ہے اور مقرر ہے۔ اس میں کسی ہیر پھیر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

وَأَحَلَّ اللَّہُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا……………. "اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور ربا کو حرام قرار دیا ہے۔ "اس لئے کہ سود کے اساسی عناصر ترکیبی تجارت میں نہیں پائے جاتے۔ نیز تجارت کے جواز کے لیے بہت سے دوسرے اسباب و علل بھی ہیں۔ مثلاً یہ کہ تجارتی سرگرمیاں بنیادی طور انسانیت کے لئے مفید ہیں اور سودی لین دین اپنی اصل کے اعتبار سے انسانیت کے لئے تباہ کن ہے۔ (وہ عمدہ بحث جو ان موضوعات پر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ نے کی ہے اور جس کی ہم اس سے پہلے اشارہ کر چکے ہیں وہ ملاحظہ فرمائیں۔ سید قطب رحمہ اللہ)

جب اسلام آیاتو اس دور میں سودی اقتصادیات جس حالت میں فی الواقعہ رائج تھیں اس نے ان کی حقیقت پسندانہ اصلاح کی۔ ایسی اصلاح جس کی وجہ سے نہ کوئی اقتصادی بحران پیدا ہوا نہ اجتماعی نظام میں کوئی اکھاڑ پچھاڑ ہوا۔ فَمَنْ جَاء َہُ مَوْعِظَۃٌ مِنْ رَبِّہِ فَانْتَہَى فَلَہُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُہُ إِلَى اللَّہِ…………… "لہٰذا جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لئے وہ سود خوری سے باز آ جائے تو جو کچھ وہ پہلے کھا چکا سو کھا چکا، اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ ”

اسلام نے اپنے نظام کا دارومدار وعظ و نصیحت اور اصلاح پر رکھا ہے اور اسی مقصد سے اسلام قانون سازی کرتا ہے۔ جو شخص نصیحت پکڑے۔ اللہ کے حکم کو تسلیم کرتے ہوئے سود خوری سے باز آ جائے تو اسلام وہ دولت اس سے واپس نہیں لیتا جو وہ کھا چکا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ قیامت کے دن اس کا فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہو گا۔ وہ جو چاہے فیصلہ کرے گا۔ اس انداز بیان سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ ایام ماضیہ میں جو سود کھایا جا چکا ہے اس کا فیصلہ اللہ کی رضا اور مشیئت پر ہے۔ اس سے ایک مسلمان اور خطاکار مسلمان کے دل میں ہر وقت یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ اس نے جو کچھ کیا وہ بہر حال غلط تھا۔ وہ سوچے گا جو سرمایۂ گناہ وہ جمع کر چکا ہے بس وہ اس کے لئے کافی ہے اور اگر میں نے آئندہ اس برے عمل سے توبہ واستغفار کے ساتھ اجتناب کیا تو امید کی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سابقہ گناہوں کو معاف فرما دے گا۔ اس لئے مجھے اس سرمایہ میں مزید اضافہ نہیں کرنا چاہئے۔ یوں قرآن مجید اپنے اس منفرد انداز اصلاح کے ساتھ انسانی قلوب و شعور کی تربیت کرتا ہے۔

وَمَنْ عَادَ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ہُمْ فِيہَا خَالِدُونَ…………… "اور جو اس حکم کے بعد پھراسی حرکت ک اعادہ کرے وہ جہنمی ہے، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔ ”

یہ تہدید اور تنبیہ کو جو دوبارہ اس حرکت کا ارتکاب کرے گا وہ عذاب کا مستحق ہو گا۔ یہ بتاتی ہے کہ قرآن کریم کا انداز تربیت کیا ہے۔ قرآن کریم انسان کے دل میں خوف آخرت پیدا کر کے اس کی اصلاح کرتا ہے۔

بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جنہیں شاید یہ طویل ڈھیل غرہ میں مبتلا کر دے۔ شاید وہ وعدۂ آخرت کا علم و یقین نہ رکھتے ہوں اور شاید ان کے حساب و کتاب میں عذاب آخرت کا کوئی مقام نہ ہو، س لئے قرآن انہیں اس حقیقت سے آگاہ کرتا ہے اس دنیا میں بھی سودی نظام نیست و نابود ہو گا اور آخرت میں بھی وہ کالعدم تصور ہو گا۔ قرآن مجید یہ قرار دیتا ہے کہ یہ نظام صدقات ہی ہے جو اس دنیا میں بھی نشو و نما پائے گا اور ایک پاکیزہ نظام ہو گا اور آخرت میں بھی وہ موجب اجر ہو گا۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ان ہدایا ت کو تسلیم نہیں کرتے وہ گناہ گار ہیں اور کفریہ اعمال کے مرتکب ہیں اور اللہ تعالیٰ کافروں اور گناہ گاروں سے نفرت کرتے ہیں۔

يَمْحَقُ اللَّہُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللَّہُ لا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ…………… "اللہ تعالیٰ سود کا مٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو نشوونما دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی ناشکرے بد عمل انسان کو پسند نہیں کرتا۔ ”

اللہ تعالیٰ کا وعدہ بھی سچا ہے اور اس کی وعید بھی یقینی ہے۔ ہمارے اس دور میں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ آج کے دورجدید میں جو معاشرے بھی سودی کاروبار کرتے ہیں ان کے افراد کے دلوں میں سکون اور اطمینان نصیب نہیں ہے ان معاشروں سے برکت اٹھ گئی ہے اور خوشحالی اور اطمینان قلب ختم ہے۔

اللہ تعالیٰ ربا کو محو کرنا چاہتا ہے اس لئے وہ ایسے معاشرے پر اپنے فیوض و برکات نازل نہیں فرماتا جس میں ربا کی گندگی پائی جاتی ہو۔ ایسے معاشروں کو وہ قحط اور بدنصیبی سے دو چار کرتا ہے بظاہر تو یوں نظر آتا ہے کہ معاشرے میں ہر سو خوشحالی ہی خوشحالی ہے۔ ہر طرف وافر پیداوار نظر آتی ہے۔ ہر طرف سے وافر مقدار میں آمدن ہو رہی ہے لیکن جس قدر زیادہ آمدن ہو رہی ہے اس قدر برکت نظر نہیں آتی۔ اس طرح کہ انسان اس وافر آمدنی سے پاکیزہ طریقے سے امن و اطمینان کے ساتھ فائدہ اٹھائے۔ اس سے پہلے ہم اس محرومی اور بدنصیبی کی طرف اشارہ کر چکے ہیں جو مغرب کے مالدار اور کثیر آمدنیوں والے ممالک میں لوگوں کے چہروں سے ٹپکی پڑتی ہے اور اس روحانی قلق اور پریشانی کا بیان بھی ہم ا س سے قبل بیان کر چکے ہیں۔ جس میں زیادہ دولت مندی کی وجہ سے اضافہ ہی ہو رہا ہے، کوئی کمی نہیں ہوتی۔ ان ممالک کی جانب سے یہ قلق و اضطراب اور یہ محرومی اور بدحالی تمام دنیا میں پھیل رہی ہے۔ اس لئے کہ ان ممالک میں انسانیت ایک دائمی اور مسلسل مہلک جنگ میں مصروف ہے۔ وہاں کے لوگ صبح و شام سرد جنگ میں اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ شب و روز کے بعد ان اعصاب پر زندگی کا بوجھ بھاری ہوتا جا رہا ہے۔ چاہے انہیں اس کا شعور ہو یا نہ ہو۔ اس ذہنی اور اعصابی کشمکش کی وجہ سے نہ ان کے مال میں برکت ہوتی ہے، نہ عمر میں برکت ہوتی ہے، نہ ان کی صحت قابل رشک ہوتی ہے اور نہ ان کے دل مطمئن ہوتے ہیں۔

اس کے برعکس جو معاشرہ اجتماعی تعاون اور باہم کفالت پر استوار ہو، چاہے یہ تعاون بذریعہ سدقات واجبہ ہو یا صدقات نافلہ ہو اور اس معاشرے میں باہم محبت، باہم احسان، باہم رضامندی کی روح کارفرما ہو اور جس میں ہر فرد تگ و دو محض اس لئے ہو کہ وہ اللہ کی رضامندی حاصل کر کے اس کے اجر کا مستحق بنے اور جسے ہر وقت اطمینان ہو کہ اللہ اس کا مددگار ہے اور وہ صدقہ اور احسان کا اجر اس سے کئی گنا دے گا تو ایسے تمام معاشروں پر اللہ تعالیٰ اپنی برکت نازل کرتا ہے، جو معاشرے کے افراد پر بھی برکات نازل ہوتی ہیں اور ایسے معاشرہ کی جماعتوں پر بھی فیوض نازل ہوتے ہیں۔ ان کے مال میں برکت ہوتی ہے، ان کے رزق میں فراوانی ہوتی ہے، ان کی صحت میں برکت ہوتی ہے، ان کی قوت میں برکت ہوتی ہے اور ان کے دل اطمینان سے سرشار ہوتے ہیں اور دل برقرار ہوتے ہیں۔

جن لوگوں کو انسان کی موجودہ صورتحال میں یہ حقائق نظر نہیں آتے، وہ اس قسم کے لوگ ہیں جو ان حقائق کو درحقیقت دیکھنا ہی نہیں چاہتے، اس لئے کہ ان کی نفسانی خواہشات یہ تقاضا کرتی ہیں کہ وہ ان حقائق کو نہ دیکھیں۔ یہ لوگ ایسے ہیں جن کی آنکھوں پر پردے پڑ گئے ہیں اور یہ پردے انہوں نے قصداً ڈالے ہوئے ہیں اور یہ لوگ وہ سود خوار ہیں جن کی ذاتی مصلحت اس میں ہے کہ یہ سودی نظام دائم و قائم رہے، اس لئے ان حقائق کو نہ دیکھ سکے۔

وَاللَّہُ لا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ…………… "اور اللہ تعالیٰ کسی ناشکرے، بد عمل انسان کو پسند نہیں کرتا۔ "اس تعقیب اور اس نتیجے سے یہ بات قطعی طور پر معلوم ہو جاتی ہے کہ سودی نظام اقتصادیات کی حرمت کے بعد بھی اگر کچھ لوگ اسے جاری رکھنے پر اصرار کرتے ہیں تو وہ گناہ گار اور کفار ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے محبت نہیں کرتا اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جو لوگ بھی اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں ان پر کفر اور گناہ گاری کی صفت کا اطلاق ہوتا ہے اگرچہ وہ اپنی زبان سے ایک ہزار مرتبہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌرَّسُولُ اللّٰہِ………….. کہتے رہیں، اس لئے کہ اسلام صرف زبانی کلمات کا نام نہیں ہے وہ تو ایک مکمل نظامِ حیات اور طریقۂ عمل ہے اور ا س کے سوا کسی ایک جزو کا انکار اس بات کو مستلزم ہے کہ وہ سب کا انکار کر دے۔ ربا اور سود خوری کی حرمت میں تو کوئی شبہ نہیں ہے اور اسے حلال تصور کرنے اور اس کی اساس پر اپنی اقتصادیات کو استوار کرنے پر یقیناً ایک شخص گناہ گار ہوتا ہے اور کفر کا ارتکاب کرتا ہے۔ نعوذ باللہ منہ۔

اس کفریہ اور غیر صالح نظام زندگی کے بالمقابل اور سودی اقتصادیات کے حاملین اور حامیوں کے لئے اس حقارت آمیز ڈراوے کے مقابلے میں، قرآن کریم اور عمل صالح کے باب کا آغاز کرتا ہے جو اس معاملے میں جماعت مسلمہ کی اہم خصوصیات ہیں اور اس ظالمانہ سودی نظام کے بالمقابل جو صالح اسلامی نظام ہے، اس کا مرکزی نکتہ یہاں بیان کیا جاتا ہے، یعنی نظام ربا کے مقابلے میں نظام زکوٰۃ۔

 

"جو لوگ ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں، ان کا اجر بے شک ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقعہ نہیں ہے۔ ” (٢٧٧)

 

نظامِ ربا کے صفحۂ بالمقابل کا بنیادی عنصر زکوٰۃ ہے اور زکوٰۃ کی ماہیت یہ ہے کہ وہ ایک قسم کا خرچ اور انفاق ہے، جس کا کوئی عوض اس جہاں میں نہیں ہے نہ اس خرچ کے نتیجے میں کچھ واپس ہوتا ہے اور سیاق کلام میں زکوٰۃ کے ذکر سے مقصد یہ ہے کہ یہاں مومنین کی اس اہم صفت کو بیان کر دیا جائے نیز اسلامی معاشرہ کی اس اہم صفت کو بیان کر دیا جائے اور یہ بتایا جائے کہ سودی معاشرہ کے مقابلے میں اس ایمانی معاشرہ میں اطمینان قلب، امن وامان، اللہ کی رضامندی اور برکات الٰہی کے کیا کیا نظارے ہیں اور کس قدر پر کیف منظر ہے اس معاشرہ کا۔

زکوٰۃ دراصل ایک ایسے معاشرے کا اصل الاصول ہے جو باہم تضامن اور باہم کفالت پر مبنی ہوتا ہے اور اس معاشرے کے کسی بھی شعبے اور کسی بھی پہلو میں سودی اقتصادیات کا نہ وجود ہوتا ہے اور نہ وہ اقتصادیات سے کوئی ضمانت طلب کرتا ہے۔

امت اسلامیہ کے احساس اور خود ہمارے احساسات میں زکوٰۃ کی اصل صورت پریشان اور گم ہو گئی ہے۔ امت مسلمہ کی بدبخت نسلوں نے صدیاں گزر گئیں کہ اسلام کے اقتصادی نظام کو عملاً چلتا ہوا نہیں دیکھا ہے۔ اس نے اسلامی نظام زندگی کا عملی مشاہدہ نہیں کیا کہ وہ خالص ایمانی تصور حیات، خالص نظریاتی تربیت اور نظریاتی اخلاق کی اساس پر قائم ہوا ہو اور وہ انسانیت کو اور انسانی نفسیات کو ایک خاص نہج پر ڈھال رہا ہو اور خود یہ نظام اس طرح ہو کہ اس میں اس کے صحیح تصورات زندہ ہوں، پاک اخلاق نظام رائج ہو اور اونچی اقدار حیات قائم ہوں اور اس میں اسلام کے اقتصادی نظام کا مرکزی نکتہ زکوٰۃ ہو جبکہ اس کے مقابلے میں تمام دوسرے نظام عملاً ربا کی اساس پر قائم ہوں اور پھر امت دیکھے کہ انسانی زندگی نشو و نما پا رہی ہو اور اقتصادی نظام انفرادی سعی و جد و جہد پر قائم ہو اور اگر باہم تعاون کی کوئی اجتماعی شکل ہو تو وہ ربا سے پاک ہو۔

زکوٰۃ کی اصل شکل و صورت ہمارے دور کی بدبخت اور ہدایت سے محروم نسلوں کے دل و دماغ میں مشتبہ ہو گئی ہے، اس لئے کہ ان نسلوں نے انسانیت کی وہ بلند وبرتر خوبصورت تصویر دیکھی ہی نہیں جو نظام زکوٰۃ کے نتیجے میں سامنے آتی ہے۔ موجودہ نسلیں جدید مادی نظام کے اندر پیدا ہوئیں اور اسی کے سائے میں پروان چڑھیں اور یہ جدید نظام خالص سودی تصور پر قائم ہے۔ ان نسلوں نے صرف بخل اور کنجوسی، حرص و لالچ اور انفرادیت اور خود غرضی ہی دیکھی ہے جو دور جدید میں ہرکسی کے دلوں پر حکمران ہے۔ اس دور میں دولت محتاجوں اور غریبوں تک صرف قابل نفرت سودی نظام ہی کے ذریعے پہنچ رہی ہے۔ لوگ بغیر کسی اجتماعی کفالتی نظام کے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ صرف اس صورت میں انہیں تحفظ ملتا ہے جب وہ خود سرمایہ رکھتے ہوں یا انہوں نے اپنی دولت کا ایک معتدبہ حصہ خرچ کر کے موجودہ سودی نظام کے تحت اپنے آپ کو انشور کرا لیا ہو۔ آج صنعت اور تجارت کو صرف اس صورت میں سرمایہ دستیاب ہوتا ہے۔ جب وہ اسے سودی نظام کے واسطہ سے لیں، اس لئے جدید نسلوں کے دل و دماغ پر یہ بات چھا گئی ہے کہ ماسوائے سودی نظام اقتصادیات کے اور کوئی اقتصادی نظام سرے سے موجود ہی نہیں ہے اور یہ کہ صرف اسی نظام کے تحت زندگی بسر ہوسکتی ہے۔

جدید دور کے انسانوں کے ذہن سے زکوٰۃ کا حقیقی تصور یوں مٹ گیا ہے کہ وہ اسے صرف ایک انفرادی احسان اور نیکی سمجھنے لگے ہیں اور یہ کہ اس کی اساس پر کوئی اجتماعی نظام استوار نہیں ہوسکتا لیکن یہ لوگ حاصلات زکوٰۃ کے عظیم حجم کا تصور بھی نہیں کرسکتے کہ اڑھائی فیصد زکوٰۃ اصل سرمایہ اور منافع دونوں پر واجب ہے اور وہ لوگ بڑی خوشی سے یہ شرح ادا کرتے ہیں جن کی تربیت اسلام نے کی ہوئی ہوتی ہے اور اپنے مخصوص انداز میں کی ہوئی ہوتی ہے۔ وعظ و ارشاد کے ذریعہ، قانون سازی کے ذریعہ اور ایک ایسے نظام زندگی کے ذریعے جس کا تصور ان کے دل و دماغ پر چھایا ہوتا ہے اور اس شرح زکوٰۃ ۃ کو ایک اسلامی حکومت بطور ایک لازمی حق کے وصول کرتی ہے، یوں نہیں کہ کوئی چیز بطور خیرات یہ حق ادا کرے اور اس عظیم فنڈ سے ان تمام لوگوں کی کفالت ہوتی ہے، جن کے لیے اپنے ذاتی وسائل ناکافی ہو جائیں اور حالت یہ ہوتی ہے کہ کہ معاشرے کا ہر فرد یہ ضمانت پا لیتا ہے کہ اس کی زندگی اور اس کی اولاد کی زندگی محفوظ ہے اور ہر حالت میں محفوظ ہے۔ اس فنڈ میں سے ان لوگوں کے قرضے بھی ادا کئے جاتے ہیں جو قرضوں کے بوجھ تلے دب جائیں چاہے یہ تجارتی قرضے ہوں یا غیر تجارتی ہوں۔

اسلام میں اہمیت اس بات کو حاصل نہیں ہے کہ کسی نظام کی ظاہری شکل و صورت کیسی ہے۔ اہمیت اس بات کو حاصل ہے کہ کسی نظام کی روح کیسی ہے۔ اسلام اپنی تربیت اور ہدایت، اپنے قانونی نظام اور ضابطہ بندی اور اپنے پورے نظام کے ذریعہ جس قسم کی سوسائٹی وجود میں لانا چاہتا ہے۔ وہ سوسائٹی اس کے نظام کی شکل و صورت، اس کے اجزاء اور اداروں اور اس کی حکمت عملی کے ساتھ مکمل طور پر متناسب اور متناسق ہوتی ہے۔ وہ سوسائٹی اس کے قانون کا تکملہ ہوتی ہے۔ اس سوسائٹی کے افراد کے ضمیر کی گہرائیوں میں سے ایک اجتماعی کفالتی نظام وجود میں آتا ہے۔ اس کے تمام ادارے اور حکمت عملیاں ایک اجتماعی کفالت وجود میں لاتی ہیں۔ اس نظام میں فرد اور ادارہ باہم معاون اور باہم کفیل ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ان لوگوں کے فہم و ادراک سے بہت بلند ہے جو جدید مادی نظام زندگی میں پروان چڑھے ہیں لیکن یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے ہم مسلمان بخوبی جانتے ہیں۔ اور ہمارا ذوق ایمانی اس کی مٹھاس محسوس کرتا ہے۔ جبکہ جدید دور کے باسی اپنی بدبختی اور بد ذوقی کی وجہ سے یہ مٹھاس نہیں محسوس کرتے۔ جدید دور کا انسان اس محرومی اور بدبختی میں اس لئے مبتلا ہے کہ اس کی باگ دوڑ اس جدید مادی نظام کے ہاتھ میں ہے۔ خدا کرے یہ اسی طرح محروم ہوں اور یہ اس خیر سے دور ہی رہیں جس کی خوشخبری اللہ ان الفاظ میں دیتے ہیں۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَقَامُوا الصَّلاۃَ وَآتَوُا الزَّكَاۃَ………….. "جو لوگ ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں، ان کا اجر بے شک ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقعہ نہیں "ایسے لوگ جو ان آسمانی ہدایات سے محروم ہیں۔ وہ قلبی اطمینان اور سکون سے بھی محروم رہیں گے۔ جبکہ اجر و ثواب سے تو وہ محروم ہیں ہی۔ اس لئے کہ وہ اپنی جہالت، اپنی جاہلیت، اپنی ضلالت اور اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے تو وہ محروم ہیں۔

اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے پختہ عہد کرتا ہے کہ جو لوگ اپنی زندگی کو ایمان اور عمل صالح پر استوار کریں گے۔ باہم اقتصادی تعاون کر کے اپنی معیشت کو درست کریں گے۔ ان کا اجر اللہ کے ہاں محفوظ ہے۔ وہ امن میں رہیں گے، وہ کسی خوف و خطرے سے دوچار نہ ہوں گے۔ وہ خوش قسمت ہیں۔ محروم نہیں ہیں۔ اس لئے وہ ہر قسم کے اندیشوں سے محفوظ ہوں گے لَہُمْ أَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَلا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلا ہُمْ يَحْزَنُونَ…………… "ان کا اجر بے شک ان کے رب کے پاس ہے، ان کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔ ”

ایسے حالات میں جبکہ ایک سودی نظام اقتصادیات والی سوسائٹی اللہ کے قہر و غضب کی مستحق قرار پاتی ہے۔ اس کے افراد مخبوط الحواس اور گم کردہ راہ ہوتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں وہ روحانی خوف اور رنج والم کا شکار ہوتے ہیں۔

انسانی تاریخ میں انسانیت نے صحیح اسلامی معاشرہ میں یہ نظام امن وسکون بچشم سر دیکھا ہے۔ اور وہ رنج والم اور خوف وبے اطمینانی کی عام فضاء وہ جدید سودی معاشرہ میں بھی دیکھ رہی ہے۔ اے کاش کہ ہم ہرحساس دل کو پکڑ کر جھنجھوڑ سکتے۔ تو اسے خوب جھنجھوڑتے اور وہ خواب غفلت سے بیدار ہو کر اس حقیقت کو پا لیتا۔ اے کاش !کہ اگر ممکن ہوتا تو ہم سوتی آنکھ کو جگاتے۔ اسے کھولتے اور وہ اس عظیم حقیقت کو پا لیتی۔

افسوس کے ہمارے پاس وہ قوت نہیں ہے۔ اگر ہوتی تو ہم ایسا کر گزرتے ……..ہم صرف حقیقت کی طرف اشارہ ہی کرسکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اللہ اس گم کردہ راہ اور بدنصیب انسانیت کو اس طرف متوجہ کر دیں۔ اور دل تو اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں وہ جدھر چاہے پھیر دے۔ اور ہدایت تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ ہی میں ہے جسے چاہے عطا کرے۔ ان حالات میں امن و فراوانی، جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے ایک اسلامی سوسائٹی کے ساتھ کر رہا ہے۔ جو اپنی زندگی سے ربا کو نکال دیتی ہے۔ یوں وہ گویا کفر اور معصیت کو اپنی زندگی سے نکال پھینکتی ہے۔ اور اپنی زندگی کو ایمان، عمل صالح اور اللہ کی بندگی اور نظام زکوٰۃ پر قائم کرتی ہے۔ غرض ایسے حالات میں امن و فراوانی میں اللہ تعالیٰ اپنی جانب لوگوں کو پکارتے ہیں۔ جو ایمان لے آئے ہیں اور یہ پکار دراصل آخری وارننگ ہے۔ انہیں حکم دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی کو نجس اور مفلس سودی اقتصادی نظام سے پاک کر دیں اور اگر وہ اس کام کے لئے تیار نہیں ہیں تو یہ گویا ان کی جانب سے اللہ اور رسولﷺ کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ بغیر کسی نرمی کے، بغیر مہلت کے اور بغیر کسی تاخیری حربے کے۔

 

"اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور جو کچھ تمہارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے، اسے چھوڑ دو، اگر واقعی تم ایمان لائے ہو۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا، تو ا اگاہ ہو جاؤ کہ اللہ اور رسول کی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے۔ اب بھی توبہ کر لو اور سود چھوڑ دو تو اپنا اصل سرمایہ تم لینے کے حق دار ہو نہ تم ظلم کرو، نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ ” (٢٧٨۔٢٧٩)

 

اس آیت میں ان لوگوں کو جو ایمان لا چکے ہیں۔ اس بات سے متعلق کر دیا گیا ہے کہ وہ اس سود کو چھوڑ دیں جو باقی رہ گیا ہے۔ وہ اس وقت تک صحیح مومن نہیں ہوسکتے جب تک وہ اللہ سے ڈریں گے نہیں اور باقی ماندہ سودی رقم کو ترک نہ کر دیں گے وہ صحیح مومن نہیں ہیں اگرچہ وہ اپنے ایمان کا اعلان کرتے پھریں۔ اس لئے کہ اللہ کے احکام و فرامین کی اطاعت و انقیاد کے بغیر ایمان کے کیا معنی ہیں۔ آیت انہیں کسی دھوکے میں نہیں رکھتی نہ وہ کسی بھی شخص کو اس شبہے میں چھوڑتی ہے، جو ایمان کے اعلان کے پردے میں چھپ کر اپنی حقیقت پر پردہ ڈالتا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ نہ تو وہ مطیع فرمان ہوتا ہے اور نہ راضی برضائے شریعت ہوتا ہے۔ وہ اپنی زندگی میں شریعت کو نافذ نہیں کرتا۔ وہ اپنے معاملات میں شریعت کو حکم نہیں بناتا۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ دین اسلام میں اعتقادات اور اعمال میں فرق کرتے ہیں وہ صحیح مومن نہیں ہیں۔ اگرچہ وہ طویل و عریض دعوائے ایمان کریں۔ زبان سے ایمان کا اعلان کریں، یہاں تک کہ وہ دوسری عبادات میں پابند صوم و صلوٰۃ کیوں نہ ہوں۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّہَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ……………. "اے لوگو جو ایمان لائے ہو۔ اللہ سے ڈرو اور جو کچھ تمہارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے۔ اسے چھوڑ دو، اگر واقعی تم ایمان لائے ہو۔ ”

اسلام نے ان لوگوں کے حق میں وہ سودی منافع چھوڑ دیا جو وہ کھا چکے تھے۔ یہ فیصلہ نہ کیا کہ کھایا ہوا سود بھی ان سے لوٹایا جائے۔ نہ اسلام نے ان کی تمام یا کچھ جائیداد کو ضبط کرنے کا حکم دیا۔ اس سبب سے کہ ان کے کاروبار میں سود شامل تھا۔ اس لئے کہ اسلام میں کوئی بات حرام نہیں قرار پاتی جب تک اسے اللہ تعالیٰ حرام قرار نہ دیں۔ بغیر قانون سازی کے کوئی حکم نہیں دیا جا سکتا۔ اور قانون کا مزاج یہ ہے کہ وہ اپنے آثار اپنے نفاذ کے بعد ظاہر کرتا ہے۔ جو گزر چکا سو گزر چکا۔ گزرے ہوئے معاملات اللہ کے سپرد ہیں۔ ان پر قانونی احکام کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اس طرح اسلام نے سوسائٹی کو ایک بڑے دھماکہ خیز اقتصادی اور اجتماعی بحران سے بچا لیا۔ اگر اس قانون کا موثر بماضی قرار دیا جاتا تو ایک بہت بڑا بحران پیدا ہو جاتا۔ یہ وہ اصول ہے جسے جدید قانونی نظام نے حال ہی میں اپنایا ہے۔ اس لئے کہ اسلام میں قانون سازی اس لئے کی جاتی ہے کہ اس کی وجہ سے انسان کی واقعی اور زندگی کی اصلاح ہو۔ وہ اسے صحیح راستے پر ڈالے، اسے گندگیوں سے پاک کرے، اسے ناجائز بندھنوں سے آزاد کرے تاکہ وہ ترقی کرے اور اس کا معیار بلند ہو، اس کے ساتھ ساتھ اسلام نے اہل ایمان کے ایمان کو اس بات پر موقوف کر دیا کہ وہ تب ہی مومن ہوں گے جب وہ اس قانون سازی کو قبول کریں۔ وہ نازل ہوتے ہی اور علم میں آتے ہی اسے اپنی زندگیوں میں نافذ کر دیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اسلام ان کے دلوں میں خوف اللہ اور تقویٰ بھی پیدا کرتا ہے۔ تقویٰ کا شعور ہی وہ گارنٹی ہے جس کے ذریعہ اسلام اپنے قوانین نافذ کراتا ہے۔ یہ وہ گارنٹی ہوتی ہے جو خود اہل ایمان کے نفس کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ یہ اندر کا چوکیدار ہوتا ہے اور اسلام میں اس کا درجہ ان گارنٹیوں اور چوکیداروں سے اونچا ہے جو کسی قانون کو روایتی طور پر حاصل ہوتا ہے۔ اس لئے اسلامی قوانین کو نفاذ کے لئے وہ گارنٹی اور نگرانی حاصل ہوتی ہے جو جدید دور کے وضعی قوانین کو حاصل نہیں ہوتی، اس لئے کہ یہ قوانین صرف خارجی دباؤ کی وجہ سے نافذ ہوتے ہیں۔ اور یہ بات پوشیدہ نہیں کہ خارجی نگران کو کس خوبی سے جل دی جا سکتی ہے۔ ایسے حالات میں جب انسان کے ضمیر کے اندر کوئی چوکیدار نہ بیٹھا ہو یعنی اللہ خوفی اور رضائے الٰہی کا نگران۔

یہ تو تھی ترغیب اس بات کی کہ ربا کو ترک کر دو، لیکن اس کے ساتھ ساتھ دھمکی اور ترہیب بھی آتی ہے۔ اور یہ دھمکی اس قدر شدید ہے کہ اس سے دل دہل جاتے ہیں۔ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّہِ وَرَسُولِہِ…….. …….. "اگر تم نے ایسا نہ کیا تو آگاہ ہو جاؤ کہ اللہ اور اس کے رسولﷺکی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے۔ ”

اللہ کی پناہ !اور اس کے رسول کی جانب سے اعلان جنگ!یہ ایسی جنگ ہے، جو نفس انسانی کو درپیش ہے۔ خوفناک جنگ ہے۔ جس کا انجام بالکل سامنے ہے۔ جس میں بشر کو شکست سے دوچار ہونا ہی ہے۔ انسان فانی اور ضعیف ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی قوت جابرہ کا کیا مقابلہ کرے گا جو آن واحد میں سب کچھ بھسم کر کے رکھ دے گی۔ اور اس کا نام و نشان مٹا دے گی۔

ان آیات کے نزول کے بعد، رسول اکرمﷺ نے حاکم مکہ کو حکم دیا کہ وہ مکہ کے آل مغیرہ کے ساتھ جنگ کریں، اس لئے کہ وہ ان آیات کے نزول کے بعد بھی سودی کاروبار سے باز نہ آئے تھے۔ فتح مکہ کے دن رسول اللہﷺ نے اپنے خطبے میں جاہلیت کے دور کے تمام سودی قرضوں کو ختم کر دیا تھا۔ اور آپ نے فرمایا سب سے پہلے میں اپنے چچا عباس رضی اللہ عنہ کے قرضے کو معاف کرتا ہوں۔ اور یہ بوجھ قرضداروں پر اسلام کے آنے کے بعد ایک عرصہ تک رہا۔ لیکن جب اسلامی معاشرہ پختہ ہو گیا۔ اور اس کی بنیادیں مضبوط ہو گئیں اور وقت آ گیا کہ علاقے کے اقتصادی نظام کو اصول رباسے ہٹا کر صحیح اسلامی اصولوں سے استوار کیا جائے تو اسلام نے یہ قدم اٹھایا۔ اس موقع پر رسولﷺ نے فرمایا۔

"جاہلیت کے دور کا تمام سود میرے ان دونوں پاؤں کے نیچے ہے اور سب سے پہلا سودی قرضہ جسے میں موقوف کرتا ہوں وہ عباس کا سود ہے۔ ”

اس کے ساتھ ساتھ آپ لوگوں کو یہ تلقین بھی فرماتے کہ دور جاہلیت میں انہوں نے جو سود وصول کیا اسے واپس کر دیں ……..اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی حکومت کا فریضہ ہے کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ جنگ کرے جو سودی اقتصادیات کو جاری رکھنے پر مصر ہیں۔ اور جو اللہ کے حکم کی نافرمانی کرتے ہیں۔ اگرچہ ایسے لوگ یہ اعلان کریں کہ وہ مسلمان ہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مانعین زکوٰۃ کے خلاف جنگ اسی اصول کے تحت کی تھی حالانکہ وہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ یعنی کلمہ پڑھتے تھے۔ نماز ادا کرتے تھے۔ اس لئے جو شخص شریعت کی اطاعت کا انکار کر دے اور اسے اپنی زندگی میں نافذ نہ کرے وہ مسلم نہیں رہتا۔

یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ اللہ اور رسول اللہ کی جانب سے سود خوروں کے خلاف اعلان جنگ توپ و تفنگ کی جنگ سے عام ہے۔ جو ایک امام وقت کسی قوت کے خلاف کرتا ہے۔ یہ اعلان جنگ، جیسا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہر اس معاشرے کے خلاف ہے جو اپنے اقتصادی نظام کی اساس سود پر رکھتا ہو، یہ جنگ ہمہ گیر اور خوفناک جنگ ہے۔ یہ اعصاب کی جنگ ہے۔ یہ دلوں کی جنگ ہے۔ یہ خیر و برکت اور خوشحالی کے خلاف ربا کی جنگ ہے۔ یہ سودی نظام کی جانب سے انسانیت کی سعادت اور خوشحالی اور اطمینان کے خلاف جنگ ہے۔ یہ انسان کی کشاکش اور ایک دوسرے کے تعاقب کی جنگ ہے۔ آخرکار یہ جنگ اقوام اور امم کے درمیان افواج اور اسلحہ کی جنگ ہے۔ یہ ایک ہمہ گیر اور تباہ کن جنگ ہے اس کرۂ ارض پر اس لئے برپا ہوتی ہے کہ یہاں کا نظام اصول ربا پر مبنی ہو جاتا ہے۔ اور جس کی وجہ سے اس زمین سے خیر و برکت ختم ہو کر رہ جاتی ہے اور خوشحالی ناپید ہو جاتی ہے۔ یہ تمام جنگیں اور کشمکشیں ان سرمایہ داروں کی جانب سے برپا کی جاتی ہیں جو پوری دنیا کے سرمایہ پر قابض ہوتے ہیں۔ اور ان جنگوں کے شعلے بھڑکاتے ہیں۔ کبھی وہ یہ کام براہ راست کرتے ہیں اور کبھی بالواسطہ کرتے ہیں۔ وہ اپنے دام تزویر میں کارخانوں اور کمپنیوں کو پھانس لیتے ہیں۔ اس کے بعد اقوام اور حکومتیں ان کے دام میں شکار ہوتی ہیں۔ اس کے بعد یہ حکومتیں، اپنے شکار پر جھپٹتی ہیں اور یوں ان کے درمیان جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ کبھی یہ حکومتیں اپنے مفادات اور سرمائے کو بچانے کے لئے دوڑتی ہیں اور اپنی فوجی قوت میدان میں لاتی ہیں اور یوں میدان جنگ کے شعلے بھڑک ہیں۔ بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ عوام الناس ٹیکس اور حکومتی واجبات ادا کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔ عوام میں غربت عام ہو جاتی ہے۔ محنت کار اور جفا کش لوگ تنگ آ کر ایسی تحریکات سے وابستہ ہو جاتے ہیں جن کا مشن تخریب کاری اور تباہی پھیلانا ہوتا ہے۔ اور یوں کسی بھی علاقے میں عوامی جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ اور اس سودی نظام کے تحت جو کشمکش برپا ہوتی ہے۔ اس کے عام بسہولت برآمد ہونے والے نتائج یہ ہوتے ہیں کہ لوگوں کے نفوس خراب ہو جاتے ہیں۔ اخلاقی تباہی پھیل جاتی ہے۔ لوگوں میں عیاشی پیدا ہو جاتی ہے۔ اور انسانیت کا ڈھانچہ تباہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ اور انسان کی روحانی دنیا ایسی تباہی کا شکار ہوتی ہے کہ اس جیسی تباہی انسان کے جسم کوکسی ایٹمی جنگ سے بھی نہیں پہنچ سکتی۔

یہ جنگ جس کا اعلان سودی کاروبار کرنے والوں کے خلاف کیا گیا ہے۔ ہر وقت اس کے شعلے بلند ہوتے ہیں۔ آج بھی یہ ہر طرف برپا ہے۔ گم کردہ راہ انسانیت کا رطب دیا بس اس کی نظر ہو رہا ہے۔ لیکن یہ انسانیت اس کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ انسانیت یہ سمجھ رہی ہے کہ وہ دولت کما رہی ہے۔ وہ ترقی کر رہی ہے۔ وہ بڑی کثرت سے مادی نتائج پیدا کر رہی ہے۔ متنوع مصنوعات تیار ہو رہی ہیں۔ لیکن یہ پیداوار ہی اس کے لئے تباہی ہے۔ یہی پیداوار اگر کسی پاک اور غیر سودی نظام سے ہوتی تو یہ انسانیت کیلئے نیک بختی اور خوشحالی کا سبب ہوتی۔ لیکن یہ پیداوار سود کے ناپاک اور آلودہ نظام کے نتیجے میں سامنے آتی ہے۔ اس لئے یہ انسانیت کے لئے ایک ایسا بوجھ ہے جس کے نتیجے میں انسانیت کا دم گھٹ رہا ہے۔ جبکہ سود خوروں کا علمی گروہ عیش و آرام سے زندگی بسر کر رہا ہے۔ اور اسے اس پوری انسانیت کی مصیبتوں اور رنج و الم کا کوئی احسا س ہی نہیں ہو رہا ہے۔

اسلام نے پہلی اسلامی جماعت کو اس بات کی دعوت دی اور آج پوری انسانیت کو اس بات کی دعوت دے رہا ہے کہ وہ پاک و صاف ذریعہ آمدن اختیار کریں اور وبائی سودی نظام سے تائب ہو کر راہ راست اختیار کریں وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُء ُوسُ أَمْوَالِكُمْ لا تَظْلِمُونَ وَلا تُظْلَمُونَ……………. "اب بھی توبہ کر لو تو اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حق دار ہو۔ نہ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ "یہ ایک معصیت سے توبہ ہے، ایام جاہلیت میں رائج خطا کاری سے رجوع ہے۔ اور جاہلیت کا تعلق کسی خاص زمانے سے نہیں ہوتا یا کسی خاص نظام ہی پر جاہلیت کا اطلاق نہیں ہوتا۔ جاہلیت کی حقیقت یہ ہے انسان الٰہی نظام زندگی سے منحرف ہو جائے جب بھی یہ انحراف ہو اور جہاں بھی ہو، وہ جاہلیت ہو گی۔ ربا ایک ایسی خطا کاری ہے جس کے اثرات انسان کے تصور حیات، انسان کے اخلاق اور انسان کے شعور پر چھا جاتے ہیں۔ پھر اس کے اثرات سوسائٹی پر اور سوسائٹی کے اجتماعی تعلقات پر پڑتے ہیں۔ پوری انسانی زندگی پر اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اقتصادی نشوونما اور ترقی پر اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں اگرچہ وہ لوگ جو سودی کاروبار کرنے والوں کے جھانسے میں آ چکے ہیں، یہ سمجھتے ہیں کہ سودی نظام اقتصادیات وہ واحد نظام ہے جو نشوونما اور اقتصادی ترقی کا اہل اور سبب ہے۔

صرف اصل زر کی واپسی کا حق دینا ایک ایسا قاعدہ ہے جس کی رو سے نہ قرض دہندہ کو نقصان ہے اور نہ ہی قرض گیرندہ پر ظلم ہے۔ رہی یہ بات کہ دولت میں اضافہ کیسے کیا جائے گا تو اس کے وسائل و ذرائع علیحدہ ہیں۔ جو رباسے پاک وصاف ہیں۔ اس کا پہلا ذریعہ ایک فرد کی ذاتی جد و جہد ہے۔ دوسرا ذریعہ بطریقہ مضاربت باہم شراکت اموال ہے۔ یعنی ایک شخص سرمایہ فراہم کرے اور دوسرا اس کے ساتھ کاروبار کرے اور دونوں فائدے اور نقصان میں شریک ہوں۔ نیز اقتصادی ترقی ان کمپنیوں کے ذریعہ بھی ممکن ہو گی جو اپنے حصص براہ راست بازار حصص میں فروخت کرتی ہیں۔ (ماسوائے تاسیسی سندات کے جن کے ذریعہ زیادہ نفع سمیٹ لیا جاتا ہے۔ )اور حلال اور جائز کاروبار سے منافع حاصل کرتی ہیں۔ پھر ایسی رقومات سے بھی اقتصادی ترقی ممکن ہو گی جو بغیر منافع کے محض امانت کے طور پر بینکوں میں جمع ہوں گی۔ اس طرح کہ ایسی رقومات کو بینک، کمپنیوں، صنعتوں، تجارتی اور کاروباری مدات میں براہ راست استعمال کریں یا بالواسطہ ان میں شرکت کریں اور شرط یہ ہو کہ وہ اپنے لئے متعین منافع طے نہ کریں اور بینک اپنا منافع ی خسارہ ایک مقررہ نظام کے تحت ان لوگوں پر تقسیم کریں جو ان کے پاس اپنی امانتیں رکھتے ہیں۔ اور بینک کو یہ اجازت ہو کہ وہ اپنی کاروباری مصروفیات کے عوض ایک مقرر اور معین منافع اپنے لئے رکھ لے۔ غرض ان ذرائع اور وسائل کے علاوہ بھی اقتصادی ترقیات کے لئے مزید اور وسائل اور ذرائع بھی پیدا کئے جا سکتے ہیں۔ جن کی تفصیلات کا یہ موقع نہیں ہے۔ اگر کسی قوم کا ایمان مضبوط ہو تو ایسے بے شمار وسائل پیدا کئے جا سکتے ہیں۔ نیز نیت صاف ہو جائے اور پختہ ارادہ کر لیا جائے کہ ہم نے پاک اور صاف ذرائع سے وسائل رزق و ترقی حاصل کرنے ہیں اور گندہ اور ناپاک ذرائع پر لات مارنی ہے۔

آخر میں قرآن کریم قرضوں کے بارے میں احکام کی ایک خاص شکل کو بیان کرتا ہے کہ اگر مدیون کے لئے قرضے کی ادائیگی ممکن نہ ہو، اس کے لئے مشکلات ہوں تو اس کا حل یہ نہیں ہے کہ اس پر بذریعہ ربا قرضے کا اضافہ کر دیا جائے، بلکہ حل یہ ہے کہ اسے اس وقت تک مہلت دی جائے جب تک اس کے حالات اچھے نہیں ہو جاتے۔ اور جو شخص زیادہ بھلائی سمیٹنا چاہے اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ سرے سے قرضہ ہی معاف کر دے۔ اسلام کی نظر میں یہی بلند مرتبہ ہے۔

 

"تمہارا قرض دار تنگ دست ہو تو ہاتھ کھلنے تک اسے مہلت دو اور جو صدقہ کر دو تو یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے اگر تم سمجھو۔ "(٢٨٠)

 

یہ وہ خوشگوار داد و دہش ہے جسے اسلامی نظام انسانیت کے سامنے پیش کرتا ہے۔ وہ یہ گھنی چھاؤں ہے جس میں، خود غرضی، لالچ، بخل اور مفاد پرستی کی تپش میں تھکی ماندی انسانیت پناہ لیتی ہے اور سکون کا سانس لیتی ہے۔ یہ قرضدار کے لئے بھی رحمت ہے اور قرض خواہ کے لئے بھی رحمت ہے۔ اور اس پورے معاشرہ کے لئے بھی رحمت و شفقت ہے۔ جس میں یہ دونوں رہتے ہیں۔

ہمیں یقین ہے دور حاضر کی مادی جاہلیت کے زیر سایہ پلنے والے جدید مفلوک الحال لوگ ہماری یہ باتیں لایعنی تصور کریں گے اور یہ باتیں انہیں نامعقول نظر آئیں گی۔ ان کے منہ کا بگڑا ہوا ذائقہ، ان باتوں کے مٹھاس کا احساس ہر گز نہیں کرسکتا۔ خصوصاً وہ وحشی سود خوار جو اس کرۂ ارض کے کونے کونے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ جو اپنے شکار کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ جو ایسے محتاجوں اور مفلوک الحال لوگوں کی تلاش میں رہتے ہیں جن پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ چکے ہیں۔ جو روٹی کپڑے اور علاج معالجے کے ضرورت مند ہیں۔ تاکہ ان کا استحصال کریں۔ بعض اوقات ان کے پاس اس قدر رقم نہیں ہوتی کہ وہ اپنے مردے دفن کرسکیں اور ان لوگوں کو اس کنجوس اور بخیل دنیا میں کوئی نہیں ملتا۔ جو ان کے لئے بے لوث معاون ثابت ہو۔ اس لئے وہ مجبور ہو کر ان وحشی سودخوروں کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ ان کی حالت ایک ایسے شکار جیسی ہوتی ہے جو خود چل کر دام یں اپنے آپ کو پھنساتا ہے۔ ضرورت مندی اور مجبوری انہیں دھکیل کر ان سودخوروں کی طرف لے جاتی ہے۔ بعض اوقات یہ سود خور تو ایسے بیت المالوں کی صورت میں منظم ہوتے ہیں جو سرمایہ فراہم کرتے ہیں اور بعض اوقات بینکوں کی شکل میں کام کرتے ہیں۔ یہ سب کے سب اسلام کی نظر میں برابر ہیں۔ ہاں فرق صرف اس قدر ہے کہ ان کی پشت پر سود کی اقتصادی نظریات کی قوت ہوتی ہے۔ بڑی بڑی علمی کتابیں ان کے اس کاروبار کی تائید میں ہوتی ہیں۔ بڑے بڑے تعلیمی ادارے اور انسٹی ٹیوٹ ان کی حمایت میں لگے ہوتے ہیں۔ عدالتیں اور بڑی بڑی فوجیں اس نظام کی مؤید ہوتی ہیں۔ یہ تمام ادارے جرم سود خوری کے لئے جواز فراہم کرتے ہیں، ان کے حامی ان کو تحفظ دینے کے لئے ایک وسیع قانونی نظام اور ضابطے کا کر رہے ہوتے ہیں اور مددگار ہوتے ہیں۔ اور جو لوگ انہیں سود ادا نہیں کرتے۔ اس قانونی نظام کے ذریعہ وہ ان کی پکڑ دھکڑ شروع کر دیتے ہیں۔ اور یہ سب داروگیر انصاف کے نام پر ہوتی ہے۔

ہمیں پورا یقین ہے کہ ہماری یہ باتیں ہرگز ایسے لوگوں کے دلوں میں نہیں اترتیں۔ لیکن ہمیں پورا یقین ہے کہ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ حق ہے اور ہمیں بھی یہ یقین ہے کہ تمام انسانیت کی فلاح اسی میں ہے کہ وہ ان باتوں پر کان دھرے، اور ان پر عمل کرے یعنی وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ إِلَى مَيْسَرَۃٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ……………. "تمہارا قرضدار اگر تنگ دست ہو تو ہاتھ کھلنے تک اسے مہلت دو، اور جو صدقہ کرو تمہارے لئے یہ بہتر ہے۔ اگر سمجھو۔ ”

اسلامی نظام زندگی میں ضابطہ یہ ہے کہ تنگ دست کا تعاقب نہ کیا جائے۔ نہ تو قرض خواہ یہ کرے گا اور نہ ہی قانون اور عدالتوں کو یہ اختیار ہو گا کہ وہ تنگ دست مقروض کا تعاقب کریں۔ بلکہ اسے اس وقت تک مہلت دی جائے گی جب تک اس کے حالات اچھے نہیں ہو جاتے۔ پھر اسلامی سوسائٹی مقروض کو اپنے حال پر نہیں چھوڑتی۔ پہلے تو قرض خواہ سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ اسے معاف کر دے۔ اگر وہ ایسا کرسکے۔ وہ خود اس کے لئے بھی بہتر ہے اور مدیوں کے لئے بھی خیر ہے۔ یہ اس سوسائٹی کے لئے بھی بہتر ہے جو اپنے افراد کے لئے تکافل فراہم کرتی ہے۔ بشرطیکہ داین ومدیون دونوں اس بات کو سمجھیں کہ اللہ کے علم میں جو کچھ ہے وہ ان کے لئے مفید ہے۔

اگر قرض خواہ کو یہ اجازت دیدی جائے کہ وہ مدیون پر عرصہ حیات تنگ کر دے اور اس کا تعاقب کرے تو اس صورت میں تحریم ربا سے جو فوائد مطلوب تھے، وہ سب فوت ہو جائیں گے۔ اس لئے کہ مدیون تنگ دست ہے اس کے پاس کچھ نہیں۔ دوسری جانب سے قرض خواہ ازروئے قانون اسے تنگ کرنے کا مجاز ہے۔ چنانچہ یہاں شرط و جواب شرط کی شکل میں یہ حکم دیا گیا کہ اگر تنگ دست ہے تو اسے اس وقت تک مہلت دی جائے جب تک اس کے مالی حالات اچھے نہیں ہو جاتے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ تنگدستی کی صورت میں قرض خواہ کو یہ ترغیب دی جاتی ہے کہ اگر وہ ایسی صورت میں کچھ معاف کر دے یا سب کچھ معاف کر دے تو اس کے لئے یہ بہت اچھا ہے۔

مہلت کے علاوہ قرآن کریم نے دوسری جگہ ایسے نادار قرض داروں کے لئے زکوٰۃ فنڈ سے بھی ایک مد فراہم کی ہے، تاکہ وہ اپنا قرضہ ادا کرسکے۔ اور اس کی زندگی کا بوجھ اتر جائے۔ اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلفُقرَآء ِ وَالمَسَاکِینِ ……..وَالغَارِمِینَ…………….”بے شک صدقات کے حق دار فقراء مساکین، ……..اور قرضدار ہیں۔ "الغارمین سے مراد وہ قرضدار ہیں جو قرضوں کے بوجھ تلے دب گئے ہوں۔ وہ نہیں جنہوں نے قرضے لے کر عیاشی اور لذت پرستی کی ہو۔ بلکہ انہوں نے جائز مدات میں اخراجات کئے ہوں یا وہ معقول وجوہ کی بنا پر قرضدار ہو گئے ہوں۔ اور ان کے حالات خراب ہو گئے ہوں۔

اب آخر میں قرآن کریم۔ خاتمہ کلام پر، ایک نہایت موثر اور گہرا اشارہ دیتا ہے جس سے ایک مومن پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ وہ تمنا کرنے لگتا ہے کہ کاش وہ سب ہی قرضہ معاف کر دے۔ اور قیامت کے دن اللہ کے ہاں فلاح پالے۔

 

"اس دن کی رسوائی اور مصیبت سے بچو، جبکہ تم اللہ کی طرف واپس ہو گے۔ وہاں ہر شخص کو اس کی کمائی ہوئی نیکی یا بدی کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر ظلم ہرگز نہ ہو گا۔ ” (٢٨١)

 

……..یہ وہ دن ہو گا، جس میں سب اللہ کی طرف لوٹیں گے اور ہر شخص کو اس کی کمائی پوری پوری دی جائے گی۔ وہ دن بڑا مشکل ہو گا۔ اس دن کی بابت دل مسلم میں بڑا خوف پایا جاتا ہے۔ مومن کے ضمیر کی گہرائیوں میں شاید قیامت کا نقشہ اور اس کی ہولناکیاں موجود ہوتی ہیں۔ اس لئے کہ باری تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہونے کا تصور ہی اس قدر خوفناک ہوتا ہے کہ اس سے انسان کاپورا وجود کانپ اٹھتا ہے۔ یہ خاتمہ کلام ایسا ہے جو مذکورہ معاملات کی فضا کے ساتھ متناسق ہے۔ یہ فضا لینے اور دینے کی فضا ہے۔ کسب اور جزاء کی فضا ہے۔ اس فضا میں انسان کی پوری زندگی کا تصفیہ ہو رہا ہے۔ انسان کی پوری زندگی کے فیصلے کی فضا ہے۔ اس فضا سے دل مومن خائف ہوتا ہے اور اپنے آپ کو اس کی ہولناکیوں سے بچاتا ہے۔

تقویٰ اور خدا خوفی وہ چوکیدار ہے جو انسانی ضمیر کی گہرائیوں میں بیٹھا ہوتا ہے۔ اسلام ہر مومن کے دل کی گہرائیوں میں یہ چوکیدار بٹھا دیتا ہے۔ تاکہ دل مومن کے فرار کی کوئی راہ ہی نہ رہے۔

یہ ہے اسلامی نظام جو ایک مضبوط اور قوی نظام ہے۔ یہ ایک سنجیدہ اور زندگی سے بھرپور نظام زندگی ہے اور ایسا نظام ہے جو اس کرۂ ارض پر عملاً چلنے کے قابل ہے۔ انسانیت کے لئے یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت و رأفت ہے۔ یہ انسانیت کے لئے ایک اعزا ہے۔ یہ ایک ایسی بھلائی ہے جس سے انسانیت کو دور رکھا جا رہا ہے۔ اور اللہ کے دشمن اور انسانیت کے دشمن انسانوں کو اس کی طرف آنے سے روکتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

درس ۲۱ایک نظر میں

 

درس سابق کا موضوع سودخوری اور صدقہ تھا، اس درس میں اسی موضوع کے تکمیلی احکام بابت قرضہ جات، تجارت وغیرہ کا ذکر ہے۔ درس سابق میں سودی کاروبار کو ممنوع قرار دیا گیا۔ اسی طرح وہاں سودی قرضہ جات اور سودی نظام تجارت اور بیع و شراء کو ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ قرض حسن، جس میں ربا کا کوئی شبہ نہ ہو، جس پر کوئی سودی منافع عائد نہ ہو، کی بات ہو رہی ہے۔ ان تجارتی امور پر بحث ہو رہی ہے جو دستی طور پر طے ہوتے ہیں اور جن میں کسی قسم کے سودی نفع کا کوئی شائبہ نہیں ہوتا۔

اس درس پر ایک نظر ڈال کر انسان حیرت زدہ ہو جاتا ہے۔ قرآن کریم قانون سازی کے لئے جو انداز تعبیر اختیار کرتا ہے وہ حیران کن انداز ہے۔ قانون مدعی کو اس باریک بینی کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے کہ اس میں کسی لفظ کو بدل کر دوسرا لفظ اس کی جگہ نہیں رکھا جا سکتا۔ کوئی فقرہ نہ بدلا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کے آگے پیچھے کیا جا سکتا ہے۔ اس خالص قانونی انداز تعبیر کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کی خوبصورت ادیبانہ طرز ادا اور الفاظ کی خوشگواری اور مٹھاس اور روانی میں بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ قانونی مدعا دینی وجدان کے رنگ میں بیان ہوتا ہتے۔ جو بہت ہی لطیف انداز میں اور نہایت ہی اثر آفرینی کے ساتھ اور بہترین طرز کے ساتھ جبکہ اس آیت کے ربط میں بھی کوئی خلل نہیں آتا۔ اور مکمل قانونی مدعا بھی بیان ہو جاتا ہے۔ اس میں معاہدہ کرنے والے فریقین کے درمیان جو جو احتمالات ہوسکتے ہیں، جو جو موقف بھی ہوسکتا ہے، لکھنے والوں کی ذمہ داری، گواہوں کی ذمہ داری وغیرہ سب امور کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ غلط طور پر اثر انداز ہونے والے تمام عوامل کی نفی کر دی گئی ہے۔ اور ہر ممکن صورت کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی ہیں۔

بیان مدعا میں ایک قانونی نکتے سے دوسرے قانونی نکتے کی طرف منتقل ہونے سے پہلے اسے مکمل طور پر بیان کر دیا جاتا ہے۔ جسے دوبارہ نہیں دہرایا جاتا۔ الا یہ کہ اس کے اور جدید نکتے کے درمیان کوئی خاص تعلق ہو۔ اس صورت میں پہلے بیان کردہ قانونی نکتے کے ساتھ اسے جوڑ دیا جاتا ہے اور اشارہ کر دیا جاتا ہے۔

قرآن کریم جس طرح اپنی قانون سازی کے لئے انتخاب الفاظ و فقرات میں اعجاز رکھتا ہے، اسی طرح وہ انسان کی ہدایت اور راہنمائی کے سلسلے میں نازل ہونے والی آیات میں بھی صاحب اعجاز ہے۔ بلکہ قانونی عبارات میں اس کا اعجاز عام آیات سے بھی زیادہ واضح اور حیران کن ہے۔ یہاں کوئی بھی قانونی مدعا اور اصول ایسے لطیف اور ٹیکنیکل پیرائے میں بیان کیا جاتا ہے کہ کسی ایک لفظ کو بھی کسی دوسرے لفظ سے بدل کر وہ مدعا حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ کسی لفظ کی جگہ کوئی دوسرا لفظ نہیں لے سکتا۔ اگر قرآن مجید معجزہ نہ ہوتا تو خالص قانونی تعبیرات میں، اس طرز ادا کے ساتھ،خالص ادبی اور فنی پیرایہ اظہار میں کلام نہ کیا جا سکتا، جس کا کوئی جواب نہیں ہے۔

ان سب خوبیوں کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے۔ دیوانی، شہری، اقتصادی اور تجارتی معاملات میں دور جدید سے بھی تقریباً ایک ہزار سال پہلے قرآن کریم نے یہ قانون سازی کی ہے۔ جسے تمام جدید ماہرین قانون تسلیم کرتے ہیں اور فقہاء اور محدثین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن کریم اس معاملے میں سرخیل ہے۔

٭٭٭

 

 

درس ۲۱ تشریح آیات ۲۸۲   تا ۲۸۴

 

يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوہُ

"اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب کسی مقررہ مدت کے لئے تم آپس میں قرض کا لین دین کرو، تو اسے لکھ لیا کرو۔ "یہ ایک عام قانون ہے اس آیت میں طے کیا گیا ہے۔ اس آیت کی رو سے کسی معاہدے کا لکھنا نہایت ہی ضروری ہے۔ اور اگر کسی قرضے کا معاملہ ہو اور اس قرضے کے سلسلے میں کوئی میعاد مقرر ہو تو اس صورت میں اس کا تحریر میں آنا فرض ہے کسی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ تحریر میں نہ لائے۔ اور اس کی حکمت بھی اس آیت کے آخر میں بیان کر دی گئی ہے۔

وَلْيَكْتُبْ بَيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ

"فریقین کے درمیان انصاف کے ساتھ ایک شخص دستاویز تحریر کرے "……..یہاں اس شخص کو بھی متعین کر دیا گیا جو ان قرضہ جات کے سلسلے میں دستاویز تیار کرے گا۔ مثلاً عرضی نویس، یہ ایک تیسرا شخص ہو گا۔ فریقین میں سے کوئی نہ ہو گا۔ کسی معاملے میں فریقین معاہدہ کے علاوہ تیسرے شخص کو بلانا، محض زیادہ احتیاط کے لئے ہے تاکہ کوئی شک نہ رہے۔ پھر کاتب کو بھی یہ حکم دیا گیا کہ وہ عدل و انصاف کے ساتھ لکھے گا۔ فریقین میں سے کسی کی طرفداری نہ کرے گا۔ عبارت میں کسی قسم کی کمی بیشی نہ کرے گا۔

وَلا يَأْبَ كَاتِبٌ أَنْ يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَہُ اللَّہُ فَلْيَكْتُبْ

"جسے اللہ نے لکھنے پڑھنے کی قابلیت بخشی ہو اسے لکھنے سے انکار نہ کرنا چاہئے۔ "اس لئے کہ لکھنے کا حکم اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے یعنی کاتب کو بھی اللہ کی جانب سے حکم دیا جا رہا ہے۔ تاکہ وہ پیچھے نہ ہٹے۔ لکھنے سے انکار نہ کرے اور لکھنے کا یہ کام اس کے لئے ایک بوجھ نہ ہو۔ یہ تو اب اللہ تعالیٰ کی جانب سے منصوص فریضہ ہے۔ اور ازروئے قانون یہ لکھنے والی کی ڈیوٹی ہے۔ اور ا س کا معاوضہ بھی اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ لکھنے کا عمل اس کی جانب سے اللہ تعالیٰ کے ہاں شکر نعمت ہے۔ اللہ ہی ہے جس نے اپنا فضل کر کے اسے لکھنے کا فن سکھایا۔ ا س لئے اسے معاہدات کو تحریر میں لانا چاہئے کیونکہ اللہ ہی نے اسے یہ علم دیا ہے۔

یہاں تک شارع نے میعادی قرضے کو تحریر میں لانے کی قانونی دفعہ کو ختم کر دیا۔ یہ بھی متعین کر دیا گیا کہ لکھنے کی ڈیوٹی کون سر انجام دے گا۔ اس پر یہ فریضہ عائد کر دیا گیا کہ وہ لکھے، اسی اثناء میں کاتب کو یہ بھی یاد دلایا گیا کہ وہ اس ضمن میں اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کرے۔ اشارہ اس طرف ہے کہ صاحب فن ہونے کی وجہ سے اس کا فرض ہے کہ وہ لکھنے میں عدل و انصاف کے دامن کو تھامے رکھے۔

اس پہلہ دفعہ کی تکمیل کے بعد اب دوسری دفعہ کیفیت تحریر کے بارے میں ہے۔

وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْہِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللَّہَ رَبَّہُ وَلا يَبْخَسْ مِنْہُ شَيْئًا فَإِنْ كَانَ الَّذِي عَلَيْہِ الْحَقُّ سَفِيہًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لا يَسْتَطِيعُ أَنْ يُمِلَّ ہُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّہُ بِالْعَدْلِ

"اور املا وہ شخص کرائے جس پر حق آتا ہے اور اسے اللہ، اپنے رب سے ڈرنا چاہئے کہ جو معاملہ طے ہوا اس میں کوئی کمی بیشی نہ کرے۔ لیکن اگر قرض لینے والا خود نادان یا ضعیف ہو، یا املا نہ کرسکتا ہو، تو اس کا ولی انصاف کے ساتھ املا کرائے۔ ”

مدیون، جس پر حق آرہا ہو، وہ اس بات کا مستحق ہے کہ وہ دستاویز املاء کرائے۔ قرضے کا اعتراف کرے۔ قرضے کی مقدار لکھوائے۔ اس کی شرائط طے کرے اور نوٹ کرائے اور اس کی میعاد لکھوائے۔ یہ اس لئے کہ مدیوں کے ساتھ تحریر وستاویز میں کوئی زیادتی نہ ہو جائے۔ کیونکہ اگر قرض فراہم کرنے والا دستاویز طے کرائے تووہ شرائط یا قرضے میں اضافہ کرسکتا ہے۔ میعاد میں کمی بیشی کرسکتا ہے۔ یا اپنی مصلحت و مفاد کے لئے کچھ شرائط اس میں لکھ سکتا ہے۔ اس لئے قرض لینے والا کمزور پوزیشن میں ہوتا ہے۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی مجبوریوں کی وجہ سے، دائن کی املاء کی اس مخالفت کرنے کی جرأت نہ کرسکے۔ اس لئے کہ وہ سودا ہر صورت میں کرنا چاہتا ہے اور اسے سخت ضرورت ہے اور اس صورت میں دائن املاء کر کے اس کے ساتھ زیادتی کرے۔ لیکن خود اگر مدیون دستاویز لکھوا رہا ہو تو وہ اپنی بات لکھوائے گا، جو اس نے بطیب نفس قبول کی ہو۔ ایسی صورت میں اس کا اقرار زیادہ قوی اور مضبوط ہو گا۔ کیونکہ اس نے خود تحریر کو املاء کیا ہوتا ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ مدیوں کے ضمیر کو بھی بیدار کیا جاتا ہے کہ وہ اللہ خوفی کو پیش نظر رکھے۔ اور اس کے ذمے جو قرض ہے۔ اس میں سے کسی چیز کو بھی کم نہ کرے۔ اور نہ ہی اس دستاویز کی ضروری شرائط میں سے کسی ایک کو ترک کرے۔ اگر مدیون نادان ہو، اپنے معاملات کو اچھی طرح طے نہ کرسکتا ہو، یا وہ ضعیف ہو یعنی عمر میں کم ہو یا ضعیف العقل ہو، یا کسی اور عذر کی وجہ سے وہ املا نہ کرسکتا ہو یعنی ان پڑھ ہے، جاہل ہے۔ یا اس کی زبان میں کوئی لکنت وغیرہ ہے۔ یا کوئی محسوس یا معقول سب ہو، تو اس صورت میں اس کا ولی الامر یہ کام کرے اور اس ولی الامر کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ بھی فریقین کے ساتھ انصاف اور عدل سے معاملہ کرے۔ یہاں عدل کا ذکر اس لئے کیا گیا کہ بعض اوقات ولی الامر بھی لاپرواہی کرسکتا ہے۔ اس لئے کہ قرضے کا تعلق اس کی ذات سے نہیں ہے تاکہ وہ اس تحریر میں تمام مفادات اور گارنٹیوں کو ضابطہ بند کر دے۔ اور یہ معاہدہ صحیح طور پر طے ہو جائے۔

یہاں آ کر تحریری معاہدہ کے سلسلے میں بات ختم ہو جاتی ہے اور تحریر معاہدہ بابت قرضہ جات کے تمام پہلوؤں پر بحث مکمل ہو جاتی ہے۔ اور اب معاہدے کے دوسرے ضروری جزء پر بات ہوتی ہے۔ یعنی گواہان دستاویزات(Margucl Witnessess)

وَاسْتَشْہِدُوا شَہِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ فَإِنْ لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّہَدَاء ِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاہُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاہُمَا الأخْرَى

"پھر اپنے مردوں میں سے دو آدمیوں کی ا س پر گواہی کرالو اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں تاکہ ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلائے۔ یہ گواہ ایسے لوگوں میں سے ہونے چاہئیں، جن کی گواہی تمہارے درمیان مقبول ہو۔ ”

ہر معاہدے ہر دو گواہوں کی شہادت ضروری ہے۔ اور وہ ایسے لوگ ہونے چاہئیں جن کی گواہی مقبول ہو۔ ترضون کے دو مفہوم ہیں۔ ایک یہ کہ گواہ عادل ہوں اور امت میں ان کی شہادت کو قبولیت حاصل ہو۔ اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ان کی شہادت پر معاہدے کے ہر دو فریق راضی ہو۔ لیکن بعض اوقات ایسے حالات ہوتے ہیں کہ شہادت میسر نہیں ہوتی اس لئے یہاں قانون میں یہ سہولت رکھ دی گئی ہے کہ اگر مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں گواہ بن سکتی ہیں۔ گواہی کا کام مردوں کے سپرد اس لئے کیا گیا ہے کہ ایک صحت مند اسلامی معاشرہ میں عموماً مرد ہی یہ کام کرتے ہیں۔ کیونکہ اسلامی معاشرہ میں بالعموم، عورت کو اپنی ضروریات زندگی کے لئے جدوجہد نہیں کرنی پڑتی۔ وہ بحیثیت ماں اور بحیثیت صنف نازک اپنے فرائض سر انجام دیتی ہے۔ اور اس کا سب سے بڑا فریضہ یہ ہے کہ وہ انسانیت کے سب سے بڑے سرمایہ یعنی بچوں کی پرورش اور تربیت کا کام کرے جو مستقبل کے نمائندے ہوتے ہیں اور ان بچوں کی قدر و قیمت ان چند لقموں اور چند ٹکوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ جو کوئی عورت اپنے عمل سے کما سکتی ہے۔ جب کہ آج کے بے راہ اور محروم معاشرہ میں عور ت کو مجبوراً اپنے ان فرائض کے ساتھ یہ کام بھی کرنا پڑتا ہے، تو ایسے حالات میں اگر دو مرد گواہ نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں گواہ بن جائیں۔ سوال یہ ہے کہ ایک مرد کے مقابلے میں عورتیں دو کیوں رکھی گئی ہیں ؟قرآن کریم نے اس بات کو مجمل نہیں چھوڑا ہے۔ اس لئے کہ قانون سازی کے میدان میں ہر عبارت واضح، متعین اور قانون سازی کے اصل سبب پر مشتمل ہونا چاہئے۔

أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاہُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاہُمَا الأخْرَى……………. "تاکہ اگر ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلادے۔ ”

سوال یہ ہے کہ عورت بھولتی کیوں ہے ؟اس کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں کبھی یہ سبب ہوسکتا ہے کہ عورتوں کو عموماً معاہدات کے میدان میں زیادہ تجربہ نہیں ہوتا۔ اس لئے ہوسکتا ہے کہ کسی معاہدے کے حالات اور شرائط پوری طرح اس کے ذہن میں نہ بیٹھے ہوں۔ اور وہ مقدمہ بازی کے وقت ان کے بارے بالکل اچھی طرح شہادت نہ دے سکتی ہو۔ اس لئے سہولت کے لئے دوسری عورت کو ساتھ رکھا گیا تاکہ شہادت کے وقت وہ اسے اصل بات یاد دلادے۔ اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور موضوع متنازعہ کے اصل حالات کو ذہن میں لا سکیں۔

کبھی اس بھول سبب یہ ہوتا ہے کہ عورت بہت زیادہ منفعل مزاج ہوتی ہے۔ عورت کی مامتا اور اس کی جسمانی اور عضویاتی اور طبیعاتی وظائف کا بھی یہ اہم تقاضا ہے کہ عورت منفعل ہو۔ جلد لبیک کہنے والی ہو تاکہ وہ بچے کی نشوونما کے سلسلے میں اپنے طبیعی فرائض اچھی طرح سر انجام دے سکے۔ یہ فرائض ایسے ہیں جو کسی بھی عورت کی شخصیت سے جدا نہیں کئے جا سکتے۔ عورت پر اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا کرم ہے اور اسی طرح پیدا ہونے والے بچے پر بھی اللہ کی رحمت ہے۔ اس لئے عورت کا یہ مزاج کسی بھی وقت اس کی شخصیت سے جدا نہیں ہوسکتا۔ اس کی اپنی شخصیت ہے اور اپنا مزاج ہے بشرطیکہ عورت صحت مند ہو اور اس کی شخصیت کو بگاڑ نہ دیا گیا ہو۔ جبکہ معاہدات جیسے پیچیدہ معاملات اور ان معاملات میں شہادت دینا ایک ایسا فریضہ ہے۔ جس میں کسی شخص کا اپنے موقف پر جمارہنے اور کسی بات سے متاثر نہ ہونا ایک ضروری امر ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ گواہ ایک حقیقت سے اچھی طرح واقف ہو اور ثابت قدم ہو۔ ایسے مواقع پر دو عورتوں کا بیک وقت شہادت دینا اس بات کی ضمانت ہے کہ اگر ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلائے۔ جبکہ وہ بھول اور فطری انفعال کی وجہ سے غلط ہو رہی ہو۔ اس طرح یاد دہانی کے بعد وہ اصلی واقعہ کی طرف لوٹ آئے گی۔

آغاز آیت میں جس طرح لکھنے والوں کو یہ کہا گیا تھا کہ وہ لکھنے سے انکار نہ کریں۔ اب گواہوں سے بھی کہا جاتا ہے کہ جب انہیں شہادت کے لئے بلایا جائے تو وہ شہادت حق دینے سے انکار نہ کریں۔

وَلا يَأْبَ الشُّہَدَاء ُ إِذَا مَا دُعُوا

"گواہوں کو جب گواہ بننے کے لئے کہا جائے تو انہیں انکار نہ کرنا چاہئے۔ "گویا شہادت دینا ایک فریضہ ہے، محض نفل اور غیر لازم کام نہیں ہے۔ اس لئے کہ احقاق حق اور قیام عدل کا اہم ذریعہ شہادت حق ہے۔ چونکہ یہ فریضہ اللہ تعالیٰ نے عائد کیا ہے اس لئے اسلامی نظام عدل میں گواہ اپنی دلی رضا، شعوری آمادی کے ساتھ شہادت دینے کے لئے آئیں گے اور وہ بغیر کسی نقصان دہی یا ہچکچاہٹ کے شہادت کے لئے آئیں گے۔ اسی طرح وہ فریقین مقدمہ میں سے کسی پر کوئی احسان بھی نہ کر رہے ہوں گے۔ چاہے وہ ایک فریق کی طرف سے بلائے گئے ہوں یا دونوں کی طرف سے بلائے گئے ہوں۔

یہاں شہادت کی بات ختم ہو جاتی ہے۔ اس لئے شارع اب ایک دوسرے اہم معاملے کے سلسلے میں ہدایات دیتے ہیں۔ یہ ایک عام ہدایت ہے۔ اس میں تحریر کی تاکید کی گئی ہے۔ معاملہ چھوٹا ہو بڑا ہو۔ بعض اوقات ایک انسان یہ بات سوچ کر کہ قرضہ تھوڑا ہے یا معاملے کی اتنی اہمیت زیادہ نہیں ہے۔ وہ لکھنے میں سستی کرتا ہے۔ یا بعض اوقات بعض دوسرے حالات ایسے ہوتے ہیں کہ انسان لکھنے میں کوتاہی کر لیتا ہے۔ مثلاً شرم و حیاء ، سستی اور تن آسانی، لاپرواہی اور عدم مبالات وغیرہ۔ چنانچہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ وجدانی اور عملی وجوہات کی بنا پر لکھنے اور تحریر میں لانے کو ضروری قرار دیتے ہیں۔

وَلا تَسْأَمُوا أَنْ تَكْتُبُوہُ صَغِيرًا أَوْ كَبِيرًا إِلَى أَجَلِہِ ذَلِكُمْ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّہِ وَأَقْوَمُ لِلشَّہَادَۃِ وَأَدْنَى أَلا تَرْتَابُوا

"معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، میعاد کی تعین کے ساتھ ساتھ اس کی دستاویز لکھوا لینے میں تساہل نہ کرو۔ اللہ کے نزدیک یہ طریقہ تمہارے لئے زیادہ مبنی بر انصاف ہے۔ اس سے شہادت قائم ہونے میں زیادہ سہولت ہوتی ہے اور تمہارے شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے کا امکان کم رہ جاتا ہے۔ ”

"تساہل نہ کرو”جب نفس انسانی یہ محسوس کرتا ہے کسی کام کی مشقت اس کی قدر و قیمت سے زیادہ ہے تو اس وقت نفس انسانی متاثر ہو کر وہ کام کرنے سے کتراتا ہے اور قرآن کریم اس حقیقت سے اچھی طرح باخبر ہے۔ "یہ طریقہ تمہارے لئے زیادہ مبنی بر انصاف ہے۔ "اس لئے کہ کسی معاملے میں زبانی شہادت کے مقابلے میں دستاویزی شہادت کی اساس پر زیادہ سہولت کے ساتھ انصاف کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ زبانی شہادت کا دارومدار صرف حافظہ پر ہوتا ہے۔ اسی طرح دو مردوں یا دو عورتوں کی شہادت بمقابلہ ایک مرد یا ایک عورت کے زیادہ قوی ہے۔ اور شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے کا امکان کم رہ جاتا ہے۔ اس صورت میں شک کی گنجائش کم سے کم ہو جاتی ہے۔ یعنی معاہدہ کے اندر مشمولہ بیانات میں شک نہ رہے۔ یا تمہارے نفوس کے اندر شک نہ رہے یا دوسرے لوگوں کے اندر شک نہ رہے۔ یہاں شک کو عام رکھا گیا ہے۔ یعنی کسی پہلو میں بھی شک نہ رہے۔

یوں ان اقدامات کی حکمت آشکارا ہو جاتی ہے۔ اور معاملہ کرنے والے مطمئن ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو قانون سازی فرمائی ہے وہ نہایت ہی حکیمانہ ہے اور اس کے مقاصد بہت ہی گہرے ہیں اور نہایت ہی عملی ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ معاملات کے اندر صحت، یقین، اطمینان اور اعتبار قائم ہو۔

یہ احکام اس قرض کے بارے میں ہیں، جو میعادی قرض ہو، رہی وہ تجارت جو ہم روز مرہ کے معمولات کے مطابق کرتے ہیں، تو روزمرہ کے معاملات میں یہ حکم نہیں ہے کہ انہیں لازماً ضابطہ تحریر میں لایا جائے۔ اس میں گواہوں کی شہادت ہی کافی ہے۔ اس لئے کہ ہر کام میں معاہدے اور تحریر کے لازم کرنے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں میں رکاوٹیں پیدا ہوں گی۔ اس لئے کہ روزمرہ کی تجارتی سرگرمیاں بڑی تیزی سے اور مختصر وقت صرف کر کے کی جاتی ہیں۔ اسلام قانون سازی انسانی زندگی کی بہتری کے لئے کرتا ہے۔ وہ انسانی زندگی کے تمام حالات کے پیش نظر رکھ کر قانون بناتا ہے۔ وہ ایک عملی نظام قانون ہے، جس میں کوئی پیچیدگی نہیں ہے۔ نہ اس قانون کی وجہ سے زندگی کی پرسکون رفتار میں کمی آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

إِلا أَنْ تَكُونَ تِجَارَۃً حَاضِرَۃً تُدِيرُونَہَا بَيْنَكُمْ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَلا تَكْتُبُوہَا وَأَشْہِدُوا إِذَا تَبَايَعْتُمْ

"ہاں جو تجارتی لین دین دست بدست تم لوگ آپس میں کرتے ہو، اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں، مگر تجارتی معاملے طے کرتے وقت گواہ کر لیا کرو۔ ”

بظاہر اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ عام معاملات تحریر نہ کرنا رخصت ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ کتابت واجب ہے۔ اور لازمی ہے۔ بعض روایات میں یہ بھی ذکر ہے کہ ہر معاملے کی کتابت مستحسن ہے۔ لازمی نہیں ہے۔ لیکن راجح بات یہ ہے کہ کتابت معاملات لازمی ہے۔

یہاں تک تو قانون سازی تھی اس قرضے کی بابت جس کی میعاد متعین ہو، یا وہ تجارت جس کا تعلق روز مرہ لین دین سے ہو، اور دونوں میں کتابت اور شہادت کو ضروری قرار دیا گیا ہو، لازماً یا بطور استحباب یہاں سے آگے اب کاتبوں اور گواہوں کے حقوق کا تعین کیا جاتا ہے۔ نیز ان کے فرائض کا بھی تعین کر دیا جاتا ہے۔ ان پر پہلا فریضہ یہ عائد ہوتا کہ سچائی اور لوگوں کے حقوق میں توازن پیدا ہو اور یہ لوگ بسہولت اپنے سوشل فرائض سر انجام دے سکیں۔ بلا خوف و خطر ……..فرماتے ہیں۔

وَلا يُضَارَّ كَاتِبٌ وَلا شَہِيدٌ وَإِنْ تَفْعَلُوا فَإِنَّہُ فُسُوقٌ بِكُمْ وَاتَّقُوا اللَّہَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللَّہُ وَاللَّہُ بِكُلِّ شَيْء ٍ عَلِيمٌ(٢٨٢)

"کاتب اور گواہ کو نہ ستایا جائے۔ ایسا کرو گے تو گناہ کا ارتکاب کرو گے۔ اللہ کے غضب سے بچو۔ وہ تم کو صحیح طریق عمل کی تعلیم دیتا ہے اور اسے ہر چیز کا علم ہے۔ ”

کسی لکھنے والے یا کسی گواہی دینے والے کو کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہئے۔ محض اس وجہ سے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے، اس پر عائد کردہ فریضہ ادا کر رہا ہے۔ اگر تم ایسا کرو گے تو یہ تمہاری جانب سے اللہ کے قانون کے خلاف بغاوت ہو گی اور اسلامی طریقۂ حیات کی مخالفت ہو گی۔ لہٰذا اسلامی ریاست کو چاہئے کہ وہ یہ تحفظ لازماً فراہم کرے۔ کیونکہ کاتبین اور شاہد اکثر اوقات مقدمہ کے فریقین میں سے کسی ایک کے غیض و غضب کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ اس لئے انہیں ایسے تحفظات اور ایسی ضمانتیں حاصل ہونی چاہئیں جن کی وجہ سے وہ مطمئن ہو کر اپنا فرض ادا کرسکیں۔ بلکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو کہ وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سے اچھی طرح عہدہ برآ ہوسکیں اور شرح صدر کے ساتھ اپنے فرائض سر انجام دے سکیں چاہے حالات کیسے ہی ہوں۔

قرآن کریم کی یہ عادت ہے کہ وہ ہر وقت انسان کے ضمیر کا جگاتا رہے، انسان کے دل میں یہ شعور پیدا کرتا ہے کہ وہ ایک ذمہ دار شخصیت ہے۔ تاکہ اطاعت قانون کا جذبہ خود نفس انسانی کے اندر سے پیدا ہو، اسلام صرف دفعات قانون کے دباؤ پر اکتفاء نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن اہل ایمان کو خدا خوفی کی دعوت دیتا ہے۔ اور یہ بات تقریباً ہر مضمون کے خاتمہ پر کی جاتی ہے۔ قرآن کریم اہل ایمان کو یاد دلاتا ہے کہ یہ اللہ ہی کی ذات ہے جس نے تم پر اپنا فضل و کرم کیا۔ وہی ہے جو تمہیں تعلیم دیتا ہے۔ اور تمہاری راہ نمائی کرتا ہے۔ اللہ خوفی سے ان کے دلوں کے دروازے معرفت الٰہیہ کے لئے کھل جاتے ہیں۔ ان کی روح علم حاصل کرنے کے لئے متوجہ ہوتی ہے۔ اور یہ سب کچھ محض اس لئے ہے کہ وہ اللہ کے اس کے فضل و کرم کا شکرانہ ادا کرتے ہوئے اس کی اطاعت کریں۔ اس سے راضی ہوں، اور اس کی ذات پر مکمل بھروسہ کریں۔

وَاتَّقُوا اللَّہَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللَّہُ وَاللَّہُ بِكُلِّ شَيْء ٍ عَلِيمٌ

"اللہ کے غضب سے بچو، وہ تم کو صحیح طریق عمل کی تعلیم دیتا ہے اور اسے ہر چیز کا علم ہے۔ ”

اس کے بعد شارع قرضے کے احکام کی تکمیلی دفعات بیان کرتا ہے۔ یہ احکام ذرا مؤخر اس لئے بیان کئے گئے ہیں کہ ان کا تعلق عام حالات سے نہیں ہے۔ بلکہ بعض خاص حالات سے ان کا تعلق ہے۔ مثلاً فریقین معاہدہ اگر سفر میں ہوں اور انہیں ایسا شخص نہ مل رہا ہو جو تحریر تیار کرے تو اللہ تعالیٰ نے بغیر تحریر کے زبانی معاہدہ کرنے کی بھی اجازت دے دی بشرطیکہ قبضہ موقعہ پر ہی دے دیا گیا ہو یعنی اس چیز کا قبضہ جو مقروض نے قرض خواہ کو بطور گارنٹی دینا ہو۔ فرماتے ہیں۔

وَإِنْ كُنْتُمْ عَلَى سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِہَانٌ مَقْبُوضَۃٌ

"اگرتم سفر کی حالت میں ہو، اور دستاویز لکھنے کے لئے کوئی کاتب نہ ملے، تو رہن بالقبض پر معاملہ کرو۔ "لیکن اس ظاہری ضمانت کے ساتھ شارع اہل ایمان کے ضمیر کے اندر اللہ خوفی کا جذبہ پیدا کر کے انہیں آمادہ کرتا ہے کہ وہ امانت دار بنیں، اپنی ذمہ داریاں پوری کریں، اس لئے کہ ظاہری ضمانت کے مقابلے میں اللہ خوفی وہ آخری ضمانت ہے جو کسی معاملے میں کارگر ثابت ہوسکتی ہے۔ اور جس کی اساس پر کسی قانون پر صحیح طرح عمل کیا جا سکتا ہے۔ اور جس کی وجہ سے کسی حق دار تک اس کا حق اچھی طرح پہنچ سکتا ہے۔ اور سب کے حقوق محفوظ ہوسکتے ہیں۔

فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَہُ وَلْيَتَّقِ اللَّہَ رَبَّہُ

"اگر تم میں سے کوئی شخص دوسرے پر بھروسہ کر کے اس کے ساتھ کوئی معاملہ کرے، تو جس پر بھروسہ کیا گیا ہو، اسے چاہئے کہ امانت ادا کرے اور اللہ، اپنے رب سے ڈرے۔ ”

مدیون پر بھروسہ کیا جاتا ہے کہ وہ قرضہ پوری طرح ادا کرے گا اور مقروض پر یہ اعتماد کیا گیا ہے کہ وہ مرہون چیز کو اپنی اصلی حالت میں واپس کرے گا۔ دونوں کو یہ نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ خدا خوفی کا رویہ اختیار کر کے اپنے اپنے فرائض سر انجام دیں۔ اس لئے کہ اللہ ہی ہے جو ان دونوں کا رب ہے۔ وہی دونوں کا نگہبان، مربی، سربراہ، حکم اور قاضی ہے۔ یہ تمام تصورات، معاملات اور فرائض و ذمہ داریوں کی ادائیگی کے معاملے میں بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ بعض مفسرین نے یہ کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس نے امانتداری کے معاملے میں آیت کتابت کو مسنوخ کر دیا ہے۔ لیکن یہ رائے درست نہیں ہے۔ اس لئے کہ صرف حالت سفر میں معاملات کے اندر تحریر نہ کرنے کی رخصت ہے اور یہ امانت داری اور قرض مکفول کا تعلق بھی سفر کی حالت سے ہے اور سفر میں قرض خواہ اور قرض دار دونوں ہی ایک دوسرے پر بھروسہ کر کے معاملہ کرتے ہیں۔ غرض تقویٰ و طہارت پر ابھارتے ہوئے یہاں شہادت کے سلسلے میں بات اختتام تک پہنچتی ہے۔ اور یہاں شہادت سے مراد وہ شہادت نہیں ہے جو بوقت کتابت کسی تحریر پر ڈالی جاتی ہے بلکہ اس سے مراد ہو شہادت ہے جو عدالت میں دی جاتی ہے۔ اس لئے کہ یہ شہادت گواہ کے پاس ایک قسم کی امانت ہوتی ہے۔

وَلا تَكْتُمُوا الشَّہَادَۃَ وَمَنْ يَكْتُمْہَا فَإِنَّہُ آثِمٌ قَلْبُہُ

"اور شہادت ہرگز نہ چھپاؤاور جو شہادت چھپاتا ہے اس کا دل گناہ آلودہ ہے۔ ”

یہاں بات کی نسبت قلب مومن کی طرف کی جاتی ہے۔ اور گناہ کا استناد قلب مؤمن کی طرف کیا جاتا ہے۔ یوں شہادت کا چھپانا دراصل اپنے ضمیر میں گناہ کا چھپانا ہے۔ دونوں باتوں کا تعلق دل و دماغ کی گہرائیوں سے ہے۔ چنانچہ خاتمۂ کلام ایک دھمکی آمیز فقرے سے کیا جاتا ہے۔ جس میں یہ توجہ دلائی جاتی ہے کہ

وَاللَّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ(٢٨٣)

"اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے۔ "اور وہ اپنے علم کے مطابق پوشیدہ قلبی اعمال پر بھی جزاء وسزادے گا۔ ”

انہی ہدایات کی مزید تاکید اگلی آیت میں بھی جاری ہے۔ مالک ارض وسماوات کے خوف پر دلوں کو ابھارا جاتا ہے۔ جو اس کائنات کی تمام چیزوں کا مالک حقیقی ہے۔ جو تمام دلی بھیدوں کا بھی جاننے والا ہے اور تمام ظاہری باتوں سے بھی خبردار ہے۔ اور وہ تمام اعمال پر سزا اور جزاء بھی دینے والا ہے۔ وہی ہے جو تمام بندوں کے معاملات پر فیصلے کرتا ہے۔ کسی اُس کی رحمت نازل ہوتی ہے اور کوئی اس کے عذاب میں گرفتار ہوتا ہے۔ وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے اور ہر چیز اس کی مشیئت کے تابع ہے۔ اور اللہ کی مشیئت بے قید ہے۔

لِلَّہِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الأرْضِ وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوہُ يُحَاسِبْكُمْ بِہِ اللَّہُ فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاء ُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاء ُ وَاللَّہُ عَلَى كُلِّ شَيْء ٍ قَدِيرٌ(٢٨٤)

"آسمانوں اور زمینوں میں جو کچھ ہے، سب اللہ کا ہے۔ تم اپنے دل کی باتیں خواہ ظاہر کرو یا چھپاؤ، اللہ بہرحال ان کا حساب تم سے لے گا۔ پھر اسے اختیار ہے، جسے چاہے، معاف کر دے اور جسے چاہے، سزادے۔ وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ ”

قرآن کریم کا یہ انداز ہے کہ وہ خالص قانون سازی کرنے والی آیات کے خاتمہ کلام پر بھی خالص وجدانی اور اخلاقی راہنمائی کرتا ہے۔ یوں وہ دنیاوی زندگی کے لئے ضابطہ بندی کا تعلق بھی خالق کائنات سے جوڑ دیتا ہے۔ اور یہ رابطہ ایک مستحکم رابطہ ہوتا ہے۔ جس میں ایک طرف تو اللہ خوفی کا تصور ہوتا ہے اور دوسری جانب مالک ارض وسما کی مغفرت اور رحمت کی امیدواری ہوتی ہے۔ یہی اخلاقی ضمانت ہے جو اسلامی نظام قانون کو حاصل ہوتی ہے۔ اور جو اسے دوسرے نظامہائے قانون سے ممتاز اور ممیز کر دیتی ہے۔ اور ایک اسلامی معاشرے میں ایک مسلمان کے دل میں اسلامی قانون کا بے حد احترام پایا جاتا ہے۔ یہ اخلاقی گارنٹی اور قانون سازی اسلامی معاشرہ میں متوازی طور پر چلتی ہیں۔ اسلام ان دونوں کی اخلاقی تربیت کا بھی انتظام کرتا ہے جس کے لئے وہ قانون سازی کرتا ہے۔ نیز اسلام اس معاشرے کی اخلاقی تربیت بھی کرتا ہے جس کے لئے وہ قانون سازی کرتا ہے۔ اور یہ کام صرف اللہ تعالیٰ کی مکمل اور متوازن حکمت عملی پر مبنی ہوتا ہے۔ کہ ایک طرف افراد و معاشرہ کی اخلاقی تربیت ہو رہی ہوتی ہے، اور دوسری جانب ان کے لئے حکیمانہ قانون سازی ہو رہی ہوتی ہے۔ اللہ کا خوف اور قانون کا خوف ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اور انسان کے کے لئے قانون وہی ہوتا ہے جو انسان کے خالق نے اس کے لئے تجویز کیا ہوتا ہے۔ اس لئے اس کے مقابلے میں اہل زمین کے قوانین، اہل دنیا کی ضابطہ بندیاں، اہل زمین کے نظام کیسے چل سکتے ہیں۔ انسان کی کوتاہ سوچ، انسان کا محدود علم، انسان کی محدود فکر، اس کا مقابلہ کیسے کرسکتی ہے۔ انسان کی خواہشات آئے دن بدلتی رہتی ہیں۔ کبھی وہ انسان کسی بات پر متفق نہیں ہوتے۔ انسان کی کسی رائے کو قرار و ثبات حاصل نہیں ہوتا۔ اس کی معلومات آئے دن بدلتی رہتی ہیں۔ ایسے حالات میں انسانیت کی حالت یہ ہے کہ وہ اپنے خالق سے جدا ہو کر ماری ماری پھر رہی ہے۔ حالانکہ اللہ وہ ذات ہے جس نے انسان کو پیدا کیا۔ وہ جانتا ہے کہ اس نے جس چیز کی تخلیق کی ہے اس کی فطرت کیا ہے۔ اس کی مصلحت کیا ہے، ہر آن اور ہر جگہ اس کے بدلتے ہوئے مصالح اور ضروریات کیا ہیں۔

انسانیت جان لے کہ اس کی یہ عظیم بدبختی ہے کہ وہ اللہ کی شریعت اور اللہ کے منہاج زندگی سے روگردانی اختیار کئے ہوئے ہے۔ یاد رہے کہ الٰہی نظام زندگی سے فرار اور بغاوت کا آغاز مغرب میں اس وقت شروع ہوا، جب لوگوں ظالم اور باغی کلیسا کا جؤا اپنی گردن سے اتارنا چہا۔ مغرب میں لوگوں نے کنیسا کے تصور خدا اور تصور الٰہ کے خلاف بغاوت کی تھی۔ جس کی طرف کنیسا لوگوں بلاتا تھا۔ اور جس تصور کے مطابق لوگوں کے لئے غور و فکر کرنا اور عقل سے کام لینا حرام تھا۔ اور کلیسا نے مغرب میں عوام پر بھاری ٹیکس عائد کر رکھے تھے۔ اور ان پر ایک ظالمانہ استبدادی نظام مسلط کر رکھا تھا، جس سے عوام کے اندر سخت نفر ت پیدا ہو گئی تھی۔ جب لوگوں نے اس جبر واستبدادسے گلو خاصی چاہی تو انہوں نے سوچا کہ جب تک وہ کنیسا کے خلاف اعلان جنگ نہ کریں گے اور اس جبر واستبداد سے گلو خاصی حاصل نہیں کرسکتے۔ لیکن اس معاملے میں اہل مغرب حد اعتدال پر قائم نہ رہے، انہوں نے اہل کنیسا سے آزادی حاصل کرنے پر اکتفا نہ کیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ خدا اور خدا کے اقتدار اعلیٰ سے بھی اپنے آپ کو آزاد کر لیا۔ اس طرح انہوں نے کرہ ارض پر سے ہر اس دین کو مٹا دیا جس کی دعوت یہ ہو کہ لوگ اللہ کے نظام زندگی کے مطابق زندگی بسر کریں۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پوری انسانیت پر ایک عظیم تباہی نازل ہوئی اور اس پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹے۔

رہے ہم جو اسلام کے مدعی ہیں، تو ہمارے حالات قابل غور ہیں۔ ہمارا حال یہ ہے ہم نے اسلامی نظام زندگی سے بغاوت حاصل کر لی ہے۔ اللہ کی شریعت اور اسلامی قانون کو ترک کر دیا ہے۔ اور ہمارے یہ حالات اس حقیقت کے باوجود ہیں کہ ہمارے سیدھے سادھے فطری دین نے ہمیں صرف وہی احکام دئیے ہیں جو ہم سے وہ تمام بوجھ اتارتے ہیں جو عیسائیت نے عائد کئے تھے۔ وہ تمام بندھن توڑ دیئے ہیں جن میں ہم ناجائز طور پر جکڑے ہوئے تھے۔ اس دین نے ہمارے ساتھ نہایت ہی مشفقانہ رحیمانہ سلوک کیا اور ہمارے لئے راہنمائی، یسر اور استقامت کا سامان فراہم کیا۔ اور ایک ایسے راستے پر ہمیں گامزن کیا جو ہر طرف سے ترقی و اصلاح کی طرف جاتا ہے۔ اور جس راستے میں کامیابی ہی کامیابی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

درس ۲۲ ایک نظر میں

 

یہ سبق اس عظیم سورت کا اختتامیہ۔ یہ قرآن کریم کی طویل ترین سورت ہے۔ اور اس کی تعبیرات بھی اپنے اندر ایک بڑا حجم رکھتی ہیں۔ اس سورت کے اس حجم اور طوالت کے اندر اسلامی تصور حیات کے ایک بڑے حصے کو سمودیا گیا ہے۔ اسلامی نظریۂ حیات کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کے ساتھ ساتھ، اسلامی جماعت کی مختلف صفات، اس کے فرائض، اس کے طریقہ کا ر اور اس کرۂ ارض پر مختلف امور کے بارے میں اس کی پالیسیوں کے بارے میں پوری تفصیلات اس سورت میں موجود ہیں۔ اس پوری کائنات میں امت مسلمہ کا کیا کردار ہے ؟اسلامی نظام زندگی کے مخالفین، مقابلین اور دشمنان کے بارے میں اس کا کیا موقف ہے ؟ان دشمنان کا مزاج کیا ہے اور اسلامی نظام کی محاربت میں ان کے وسائل کیا ہیں ؟نیز اسلامی جماعت ان کے مقابلے میں کیا وسائل و ذرائع اختیار کر رہی ہے۔ اور ان کی سازشوں کا مقابلہ کن ذرائع سے کر رہی ہے۔ ان امور کے علاوہ اس سورت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مجموعی لحاظ سے خود حضرت انسان کا اس کرۂ ارض پر کیا کردار مقرر کیا گیا ہے ؟انسان کی فطرت کیا ہے ؟اور انسانی تاریخ میں انسان کیا سے کیا کوتاہیاں اور لغزشیں ہوئی ہیں۔ تاریخی قصص پیش کر کے ان کی وضاحت کی گئی ہے۔ غرض یہ اور وہ تمام دوسری باتیں جن کی تفصیلات اس طویل سورت میں بیان کی گئیں۔

یہ سبق اس طویل سورت کا اختتامیہ ہے اور صرف دو آیات میں لیکن ان دو آیات میں ان تمام مضامین اور افکار کو سمودیا گیا ہے۔ جو اس طویل ترین سورت میں زیر بحث آئے۔ یہ آیات فی الواقع سورت کا ایک اچھا اختتامیہ ہیں جو اس پوری سورت کے ساتھ ہم آہنگ، متناسب اور اس سورت کے مقاصد اور اس کے اندر پائی جانے والی واقعاتی فضاء کے ساتھ مناسب ہیں۔

اس سورت کا آغاز ان الفاظ ان الفاظ سے ہوا تھا۔ "لاف، لام، میم، یہ اللہ کی کتاب ہے۔ "اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ ہدایت ہے ان پرہیز گاروں کے لئے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ جو کتاب تم پر نازل کی گئی ہے اور جو کتابیں تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ان سب پر ایمان لاتے ہیں۔ اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ ”

ان الفاظ میں اس حقیقت کی طرف واضح اشارات دئیے گئے ہیں کہ اہل ایمان تمام رسولوں اور تمام کتابوں پر ایمان لاتے ہیں۔ ان کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے۔ اب ذرا اس اختتامیہ کے الفاظ پر غور کریں۔ اور رسول اس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے۔ اور جو لوگ اس رسول کے ماننے والے ہیں۔ انہوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کر لیا ہے۔ یہ سب اللہ اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں اور ان کا قول یہ ہے کہ "ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے۔ "غرض یہ ایک ایسا اختتامیہ ہے جس طرح کتاب کے کور کے دو حصے ہوتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔

اس سورت میں امت مسلمہ کے فرائض کا بڑا حصہ بیان کیا گیا ہے۔ اور زندگی کے مختلف میدانوں میں اسلامی قوانین کی تفصیلات بھی دی گئی ہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ بنی اسرائیل نے جس طرح اپنے فرائض کو نظر انداز کیا اور جس طرح انہوں نے شریعت خداوندی سے رو گردانیاں کیں ان کا بھی تفصیلاً ذکر کیا گیا۔ چنانچہ اختتامیہ میں یہ آیات صاف بتا دیتی ہیں کہ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی اور شریعت کی اطاعت کس طرح ہوتی ہے اور ذمہ داریوں سے پہلو تہی اور شریعت سے نافرمانیاں کیوں کر جاتی ہیں۔ اور کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ پر کوئی مصیبت ڈالنا نہیں چاہتے۔ نہ اس پر کوئی بھاری بوجھ لادنا چاہتے ہیں۔ نہ اللہ تعالیٰ کو امت مسلمہ سے کوئی خاص دوستی ہے۔ جس طرح یہود و نصاریٰ یہ سمجھتے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے خاص محبوبین میں سے ہیں۔ اور نہ یہ صورت حال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو نظر انداز کر دیا ہے۔ بلکہ صورت احوال یہ ہے کہ "اللہ تعالیٰ کسی متنفس پر اس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا۔ ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے، اس کا پھل اسی کے لئے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے، اس کا وبال اسی پر ہے۔ ”

اس سورت میں بنی اسرائیل کے قصے بھی بیان کئے گئے ہیں۔ وہ حالات بھی بیان کئے گئے ہیں جن میں بڑے مشکل وقت اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر اپنا فضل و کرم کیا اور اس کا انکار اور ناشکری کا تذکرہ بھی ہوا ہے۔ جو ان انعامات کے مقابلے میں انہوں نے کی۔ پھر وہ سزائیں بھی مذکور ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ نے بطور کفارہ ناشکری انہیں دیں اور یہ سزائیں سزائے موت تک تھیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ فَتُوبُوا إِلَى بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ …………….”تو اپنے باری تعالیٰ کی طرف رجوع کرو اور اپنے آپ کو قتل کرو۔ "ایسے ہی حالات کے بارے میں اسی سورت کے اختتام پر اہل ایمان کو دعا سکھائی جاتی ہے کہ وہ خشوع و خضوع کے ساتھ ایسے حالات سے پناہ مانگیں جو بنی اسرائیل کو پیش آئے۔ فرماتے ہیں۔ "اے ایمان والو، یوں دعا کرو”اے ہمارے رب، ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہو جائیں، ان پر گرفت نہ کر، مالک!ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال، جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے۔ پروردگار!جس بار کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے وہ ہم پر نہ رکھ، ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے درگزر فرما، ہم پر رحم کر۔ ”

اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے مومنین پر قتال فی سبیل اللہ فرض کیا تھا۔ اور انہیں حکم دیا تھا کہ وہ اللہ کے راستے میں جہاد کریں اور اپنا مال اس کی راہ میں خرچ کریں تاکہ کفار اور کفر دونوں کا دفاع کیا جا سکے۔ چنانچہ سورت کے آخر میں اس دعا میں وہ ان تمام ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لئے اللہ کی امداد چاہتے ہیں۔ دشمن کے مقابلے میں اللہ کی نصرت کے طلبگار ہوتے ہیں۔ "تو ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔ ”

غرض یہ اس پوری سورت کا اختتامیہ ہے۔ اس میں مضامین سورت کا خلاصہ بصورت اشارات دیا گیا ہے۔ جو پوری سورت کے اصل خطوط کے ساتھ متناسب اور متوازی ہے۔ پھر ان دونوں آیات پر مشتمل اس اختتامیہ کا ہر لفظ اپنے اندر وسیع معانی رکھتا ہے۔ ہر لفظ کا اپنا موضوع اور اپنی اہمیت ہے اور اس کے پیچھے جو مباحث گزرے ہیں۔ یہ لفظ ان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اور یہ مباحث عظیم مباحث ہیں۔ جن کا تعلق اسلامی نظریۂ حیات۔ نیز دین اسلام میں اسلامی نظریۂ حیات کی اہمیت، اس کی خصوصیات اور اس کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں ہیں۔ ان میں اہل ایمان کا اپنے رب کے ساتھ تعلق کی نوعیت، اللہ کے بارے میں ان کا تصور، وہ فرائض اور ذمہ داریاں جو اللہ تعالیٰ نے ان پر عائد کیں۔ ان کی تفصیلات ہیں۔ وہ التجا کرتے ہیں کہ اللہ انہیں اپنی جوار رحمت میں جگہ دے۔ وہ مشیئت ایزدی کے تابع ہوں اور اللہ کی مدد ان کے شامل حال رہے۔ غرض اس اختتامیہ کے ہر لفظ کی اپنی جگہ ایک عظیم اہمیت ہے۔ اور جو شخص قرآن کے سائے میں زندگی بسر کر چکا ہو اور اسے معلوم ہو کہ قرآن کریم کا انداز تعبیر کیا ہے ؟اور اس کی آیات میں سے ہر آیت کے اسرار و رموز کیا ہیں تو اسے معلوم ہے کہ ان الفاظ میں سے ہر لفظ کی اپنی شان ہے اور ہر لفظ ایک اعجوبہ ہے ……..مناسب ہے کہ ہم ان آیات پر قدرے تفصیلی بحث کریں۔

٭٭٭

 

 

 

 

درس نمبر ۲۲ تشریح آیات۲۸۵ تا ۲۸۶

 

"رسول اس ہدایت پر ایمان لایا ہے، جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے۔ اور جو لوگ اس رسول کے ماننے والے ہیں، انہوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کیا ہے۔ وہ سب اللہ اور فرشتوں اور اس کی کتابوں اور ا س کے رسولوں کو مانتے ہیں اور ان کا قول یہ ہے کہ "ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے۔ "ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی۔ مالک، ہم تجھ سے خطا بخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے۔ ” (٢٨٥)

 

ان آیات میں اہل ایمان کی بہترین تصویر کشی کی گئی ہے۔ یہ اس برگزیدہ جماعت کی تصویر ہے۔ جس کی زندگی میں حقیقت ایمان عملی شکل میں ظاہر تھی۔ اور قیامت تک آنے والی تمام جماعتوں کے یہی خدوخال ہوں گے۔ جن کی زندگیوں میں حقیقت ایمان عملی شکل اختیار کر لے۔ اس جماعت مومنہ کو اللہ تعالیٰ یوں اعزاز دیتے ہیں کہ اس کا ذکر رسولﷺکے ساتھ صفت ایمان میں یکجا کرتے ہیں۔ یہ ایک عظیم اعزاز و شرف ہے۔ اس لئے کہ اس یکجائی سے جماعت مومنہ حقیقت رسالت تک رسائی حاصل کر لیتی ہے۔ اور جماعت مسلمہ کو یہ شعور بھی حاصل ہو جاتا ہے کہ اس کرۂ ارض پر اس کی حیثیت اور مقام کیا ہے، اسے احساس ہو جاتا ہے۔ وہ کیا مرتبۂ بلند ہے۔ جس تک اللہ تعالیٰ نے اسے اٹھایا ہے۔ اس طرح کہ اللہ صفت ایمان میں اہل ایمان کو رسول اکرمﷺ کے ساتھ یکجا فرماتے ہیں کہ رسولﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب ایمان لائے ہیں۔ ایک ہی صفت ایک ہی آیت میں اور پھر اللہ کے کلام میں آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْہِ مِنْ رَبِّہِ وَالْمُؤْمِنُونَ……………. "رسول اس ہدایت پر ایمان لائے ہیں۔ جوان کے رب کی طرف سے ان پر نازل ہوئی ہے۔ اور جو لوگ اس رسول کے ماننے والے ہیں۔ انہوں نے بھی اسی ہدایت کو دل سے تسلیم کیا ہے۔ ”

رسول اللہ پر جو کلام نازل ہوتا ہے، اس پر رسول کا ایمان مہبط وحی ہونے کی وجہ سے براہ راست ہوتا ہے۔ آپ کے قلب صافی پر بلند و برتر وحی نازل ہوتی ہے اور براہ راست حقیقت عظمیٰ کے ساتھ آپ کا بلاواسطہ تعلق قائم ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جو شخصیت رسول میں بذات خود، بلاکسب واکتساب متشکل ہوتی ہے۔ رسول اور ذات باری کے درمیان نہ کوئی واسطہ ہوتا ہے اور نہ ہی رسول کے مقام رسالت کے بارے میں کچھ عزائم ہوتے ہیں۔ اس لئے رسول کا درجہ ایمان کے متعلق تو رسول ہی سوچ سکتا ہے اور اس کا وصف اور بیان بھی وہی شخص کرسکتا ہے جس نے درجۂ ایمان کو بعینہ رسولﷺ کی طرح پا لیا ہے۔ تو ذات باری اور کلام باری پر یہ براہ راست ایمان صرف رسول کا ایمان ہوتا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو رسول اللہﷺ کے ساتھ صفت ایمان میں شریک کر کے گویا ان کو ایک قسم کا شرف و اعزاز عطا فرماتے ہیں۔ حالانکہ رسول اللہﷺ کے ساتھ صفت ایمان کی حقیقت اور آپ کے سوا تمام اہل ایمان کی حقیقت، ماہیت اور کیفیت میں زمین وآسمان کا فرق ہوتا ہے۔ اور اس ایمان کی حقیقت کیا ہے ؟اور اس کے حدود اربعہ کیا ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

كُلٌّ آمَنَ بِاللَّہِ وَمَلائِكَتِہِ وَكُتُبِہِ وَرُسُلِہِ لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِہِ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ

"یہ سب اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کا مانتے ہیں اور ان کا قول یہ ہے کہ ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے۔ ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی۔ مالک ہم تجھ سے خطا بخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے۔ ”

یہ ہے مکمل ایمان جو دین اسلام نے پیش کیا ہے۔ یہ ایمان اس قابل ہے کہ جس پر یہ امت پوری طرح جم جائے جو دین کی وارث ہے۔ جو اس دین کی داعی ہے۔ اور یہ دعوت اس نے قیام تک پوری دنیا کو دینی ہے۔ جس دعوت کی جڑیں تاریخ کی طویل وادیوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ جس کے قافلے مسلسل چل رہے ہیں۔ یہ رسالت کے قافلے ہیں اور انسان کی طویل تاریخ میں یہ قافلے پھیلے ہوئے ہیں۔ یہی ایمان ہے جس نے آغاز انسانیت سے، انسانوں کو دو محاذوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک محاذ اہل ایمان کا ہے۔ اور دوسرا محاذ اہل کفر کا ہے۔ ایک محاذ حزب اللہ کا ہے اور دوسرا حزب الشیطان کا ہے۔ اور پوری انسانی تاریخ گواہ ہے کہ ان کے علاوہ کوئی تیسرا محاذ نہیں ہے۔

كُلٌّ آمَنَ بِاللَّہِ……………. "سب ایمان لائے ہیں۔ "اللہ کی ذات پر ایمان اسلامی تصور حیات کا بنیادی پتھر ہے۔ یہ اس نظام زندگی کی اساس ہے جو زندگی کو استحکام بخشتا ہے۔ یہ اسلامی اخلاقیات کی اساس ہے۔ اور اسی پر اسلام کا اقتصادی نظام استوار ہوا ہے۔ اور یہ ہر اس تحریک کی اساس ہے جو ایک مسلم یہاں یا وہاں برپا کرتا ہے۔

اور ایمان باللہ کا مفہوم کیا ہے ؟یہ کہ صرف اللہ ہی الٰہ ہے۔ وہی رب ہے، وہ بندگی کے لائق ہے۔ وہی ہے جسے انسان کے ضمیر، انسان کے طرز عمل، اور اس کی زندگی کے ہر موڑ پر حکمرانی کا حق حاصل ہے۔ اس لئے اللہ کے ساتھ اس کی خدائی میں کوئی شریک نہیں ہے۔ اس کے ساتھ اس جہاں کی نگہبانی میں کوئی شریک نہیں ہے۔ اسی کائنات کی تخلیق میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اس کائنات کو چلانے میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اس کائنات کے چلانے میں اس کے کام میں کوئی دخل اندازی نہیں کرسکتا۔ اس زندگی کے چلانے میں کوئی دخیل نہیں ہے۔ اس کے ساتھ اس مخلوق کی رزاقی میں کوئی شریک نہیں ہے۔ اس مخلوق کی نفع رسانی یا ضرر رسانی میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ غرض اس کائنات کا کوئی بڑا معاملہ ہو یا چھوٹا، اس کی مشیئت اور رضا کے سوا پائے تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔

عبادت اور بندگی کے معاملے میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے کہ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوں۔ عبادت کے شعائر میں کوئی شریک نہیں، اطاعت و بندگی میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ نہ دین میں اس کا کوئی شریک ہے۔ لہٰذا پرستش صرف اسی کی ہو گی۔ اطاعت صرف اسی کی ہو گی یا اس کی ہو گی جو اللہ تعالیٰ کے لئے کام کر رہا ہے اور اس کی شریعت کو نافذ کر رہا ہے اور اپنے اقتدار اور سلطنت کو اللہ سے اخذ کرتا ہے۔ اس لئے کہ مقتدر اعلیٰ تو وہی ذات ہے۔ لہٰذا عوام الناس پر فکری حکومت، یا ان کے طرز عمل پر حکومت وہی شخص کرسکتا ہے۔ جو دین اسلام سے اپنے لئے اقتدار اعلیٰ حاصل کرتا ہے۔ لہٰذا اخلاقی اصول اور قانون سازی کے اصول و قواعد، ہمارے اجتماعی نظام کے اصول اور ہمارے اقتصادی اصول، سب کے سب صرف ذات باری تعالیٰ کے احکام اور اس کی ذات سے اخذ ہوسکتے ہیں۔ یہی ہے ایمان کا مفہوم اور اس کا خلاصہ، یہی ایمانی تصور حیات ہے جس کو اپنا کر ایک شخص ماسوا اللہ کے بندھنوں اور غلامیوں سے آزاد ہوسکتا ہے۔ شریعت خداوندی کے علاوہ تمام حدود و قیود سے آزاد ہو جات ہے۔ آزاد ہی نہیں بلکہ انسان سلطنت الٰہیہ کے سوا تمام قوتوں پر غالب آ جاتا ہے۔

وَمَلائِكَتِہِ……………. "اور اس کے فرشتوں پر۔ "اللہ کے فرشتوں پر ایمان لانا، ایمان بالغیب کا ایک پہلو ہے، اسی سورت کے آغاز میں، یعنی حصہ اول میں ہم اس موضوع پر بحث کر آئے ہیں کہ فرشتوں پر ایمان لانے کے اثرات انسانی زندگی پر کیا پڑتے ہیں اور اس کے کیا فوائد ہیں۔ یہ ایمان انسان کو نچلی سطح سے بلند کر دیتا ہے جو خود اس کی دنیا تک محدود ہے اور جو خاصہ حیوانات ہے۔ اس ایمان کی بدولت انسانی علم و معرفت کا ماخذ حواس سے وراء ہو جاتا ہے۔ اور ایک انسان ایک حیوان کی سطح سے بلند ہو جاتا ہے۔ اسی طرح وہ اعلان کر دیتا ہے کہ وہ انسان ہے اور اس کے خواص بالکل جدا ہیں۔ انسان کا یہ ایک فطرتی تقاضا ہے کہ وہ پردۂ غیب کے اندر مستور نامعلوم حقائق کو معلوم کرنے کا شوق رکھتا ہے۔ یہ حقائق اگرچہ اس کے حواس کے دائرے سے باہر ہوتے ہیں لیکن انسان بتقاضائے فطرت ان کے وجود کو محسوس کرتا ہے۔ اگر انسا کے اس فطری داعیہ اور تقاضے کے سامنے وہ غیبی حقائق نہ رکھے گئے۔ جو اسے اللہ تعالیٰ نے عطا کئے ہیں تو انسان کا یہ داعیہ انسانوں اور مذہبی دیو مالاؤں میں گم ہو کر اپنے اس فطری تقاضے کی تشفی کرتا ہے۔ اس طرح وہ اپنی ایک فطری پیاس کو بجھاتا ہے اور اگر وہ ان توہمات اور طلسمات میں نہ پڑے تو وہ نفسیاتی الجھنوں اور اضطرابات کا شکار ہو جاتا ہے۔

فرشتوں پر ایمان لانا بھی ایک ایسی حقیقت ہے کہ انسان کا فہم وادراک بذات خود اسے نہیں پا سکتا۔ یعنی صرف ان محسوس اور عقلی قوتوں کے بل پر جو اسے عطاکی گئی ہیں۔ لیکن اپنی فطرت کے اعتبار سے، انسان کے اندر ان غیبی حقائق تک رسائی کا بے حد شوق پایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ خالق انسان ہے۔ وہ اس کی ساخت اور اس کے رجحانات سے اچھی طرح واقف ہے۔ وہ ان امور سے بھی واقف ہے جو انسان کے لئے مفید ہیں اور جن سے اس کی اصلاح بھی اچھی طرح ہوسکتی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی رحمت و شفقت کی وجہ سے بعض غیبی حقائق سے مطلع کیا۔ اور تمثیلات کے ذریعہ، ان غیبی حقائق کواس کے فہم و ادراک کے قریب لانے کی کوشش کی۔ کیونکہ بغیر تمثیلات کے انسان کے موجودہ ذرائع فہم ان کا براہ راست ادراک کرنے سے قاصر تھے۔ یوں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی ذاتی جدوجہد سے ان حقائق کے معلوم کرنے کی خاطر محنت و مشقت سے بچا لیا۔ اس لئے کہ صرف اپنی ذاتی قوتوں کے بل بوتے پر اس کے لئے ممکن ہی نہ تھا۔ اس سلسلے میں وہ الٰہی علم و معرفت کا محتاج تھا۔ اگر اللہ کی جانب سے یہ حقائق بتلائے نہ جاتے تو اس کا دل کبھی مطمئن نہ ہوتا اور اس کی شخصیت سکون و قرار سے محروم ہوتی۔ جو لوگ اپنی فطرت کے ساتھ جنگ کرتے ہیں اور اپنی زندگی کے تصور سے غیبی حقائق کی نفی کرتے ہیں۔ وہ ایسے خرافات اور اوہام کا شکار ہو جاتے ہیں جنہیں دیکھ کر بے اختیار ہنسی آتی ہے۔ یا پھر وہ ذہنی خلجان میں مبتلاء ہو جاتے ا ور ان کی زندگی پیچیدگیوں اور مضحکہ انگیز خرافات کا شکار ہو جاتی ہے۔

ملائکہ پر ایمان ان غیبی حقائق پر ایمان ہے، جو عقل و خرد کے اعتبار سے یقینی حقائق ہیں۔ پھر یہ حقائق منجانب اللہ ہیں اور ان پر ایمان کے نتیجے میں اس کائنات کے بارے میں انسانی شعور کو وسعت ملتی ہے۔ مومن کے تصور میں یہ جہاں اس قدر سکڑا ہو انہیں ہوتا کہ یہ اسی قدر ہے جس قدر اس کے حواس میں آسکتا ہو۔ اس لئے کہ انسانی حواس اس کائنات کے نہایت ہی مختصر حصے پر قابو پا سکتے ہیں۔ فرشتوں پر ایمان لانے والے انسان میں یہ شعور بھی موجزن ہوتا ہے کہ اس کی رفاقت میں، اس کے اردگرد پھیلے ہوئے، بے شمار غیر مرئی مومنین ہیں، جو اس کے ساتھ اپنے رب پر ایمان لانے میں شریک ہیں، جو اس کے لئے ہر وقت استغفار کرتے رہتے ہیں۔ ہر بھلے کام میں اس کے معاون و مددگار ہیں، اگر اللہ چاہے۔ غرض یہ ایک لطیف، اور تر و تازہ ہم نشین کا شعور ہوتا جو ہر وقت ایک مومن کو حاصل ہوتا ہے۔ اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے غیبی معرفت حاصل کئے ہوتا ہے۔ جو اللہ پر ایمان لانے والوں اور فرشتوں پر ایمان لانے والوں کو حاصل ہوتی ہے۔

وَكُتُبِہِ وَرُسُلِہِ لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِہِ……………. "اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر اور ہم اس کے رسولوں میں سے کسی ایک میں تفریق نہیں کرتے۔ "اسلام نے اللہ پر ایمان لانے کا جو تصور دیا ہے۔ اس کا قدرتی نتیجہ یہ ہے کہ ہم اللہ کی تمام کتابوں اور اس کے تمام رسولوں پر ایمان لے آئیں۔ اور اس سلسلے میں کسی ایک رسول اور دوسرے رسول کے درمیان امتیاز نہ کریں۔ اس لئے کہ اللہ پر ایمان لانے کا تقاضا یہ ہے کہ انسان ان تمام حقائق پر ایمان لے آئے، جو منجانب اللہ آئے ہیں۔ ان تمام رسولوں کی تصدیق کرے، جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے کبھی مبعوث ہوئے۔ اس لئے کہ وہ سرچشمہ ایک ہے۔ جس کی جانب سے یہ سب رسول آئے۔ وہ تمام کتابیں جو نازل ہوئیں وہ ایک ہی ذات کی طرف سے نازل ہوئیں۔ اس لئے، اس تصور ایمان کے نتیجے میں ایک مسلمان کے ذہن میں رسولوں کے مقام و حیثیت میں کوئی فرق و امتیاز ممکن ہی نہیں۔ ہر رسول اللہ جل شانہ کی جانب سے مبعوث ہوا۔ اور وہ ایسی صورت میں مبعوث ہوا، جو ان لوگوں کے لئے حالات کے لئے مناسب تھی جن کی طرف وہ رسول مبعوث ہوا تھا۔ اور یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا اور آخرکار حضرت محمد خاتم النبیینﷺ پر ختم ہوا۔ اور حضرت محمدﷺ کی رسالت ایسی شکل و صورت میں تشکیل پائی کہ وہ قیامت تک تمام انسانیت کے لئے ایک آخری اور مکمل نظام زندگی قرار پائی۔

اس تصور ایمان کے نتیجے میں امت مسلمہ تمام رسولوں کی رسالت کی وارث قرار پائی۔ اب اسلامی نظام زندگی امت مسلمہ کی وراثت ہے اور اس کرۂ ارض پر اس کے کاندھے پر عظیم ذمہ داری ڈالی گئی ہے۔ اور مومنین اللہ تعالیٰ کے صاحب اختیار علم بردار ہیں۔ وہ صرف اللہ کا علم بلند کریں گے اور اس علم کے بل بوتے پر وہ اس کرۂ ارض پر، جاہلیت کے تمام نشانات اور علامات کا مقابلہ کریں گے۔ اس وقت یہ جاہلیت کبھی وطنی قومیت کا علم بلند کرتی ہے۔ کبھی نسلی قومیت کے روپ میں آگے بڑھتی ہے۔ کبھی یہ طبقاتی رنگ میں آتی ہے اور کبھی یہ صہیونیوں اور صلیبیوں کے جھنڈوں کے سایہ میں استعماری شکل میں آتی ہے۔ کبھی وہ الحاد اور بے دینی کی شکل میں آتی ہے۔ غرض زمان و مکان کے اختلاف سے، اس کے رنگ ڈھنگ بھی مختلف ہیں۔ کبھی وہ کس نام سے آتی ہے اور کبھی کس نشان سے آتی ہے۔ لیکن اس کے علم بردار وہی ہیں یعنی جاہلیت کے پرستار۔

اس کرۂ ارض پر امت مسلمہ جس سرمایہ کی حفاظت پر مامور ہے، وہ اسے قدیم ترین ادوار سے اس کرۂ ارض پر مبعوث ہونے والے تمام رسولوں سے ملا ہے۔ اور یہ سرمایہ پوری انسانیت کا نہایت ہی قیمتی سرمایہ ہے۔ یہ ہدایت اور روشنی کا سرمایہ ہے۔ یہ یقین و اطمینان کا سرمایہ ہے۔ یہ سعادت اور رضائے الٰہی کا سرمایہ ہے۔ یہ علم و معرفت کا سرمایہ ہے۔ یاد رکھو!جو دل اس سرمایہ سے تہی دامن ہوا وہ تاریکیوں اور رنج و الم کا شکار ہو گا۔ وہ اضطراب و خلجان سے دوچا رہو گا اور شکوک و شبہات میں گرفتار ہو گا۔ وہ بدبختی اور پریشانی کے ہاتھوں عاجز آ جائے گا۔ اس کی زندگی یوں گزرے گی جس طرح ایک شخص تہہ بہ تہہ اندھیروں، بے آب و گیاہ ریگستان میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہو۔ اسے نظر نہ آ رہا ہو کہ وہ کہاں قدم رکھے اور کہاں نہ رکھے۔

ان دلوں کی چیخ و پکار انتہائی کربناک ہے۔ وہ اس زاد راہ سے محروم ہو گئے ہیں۔ جن سے یہ قیمتی سرمایہ لٹ گیا ہے۔ جو ایسے غمگسار رفیق سفر سے محروم ہو چکے ہیں۔ یہ کربناک چیخ و پکار تاریخ کے ہر دور میں سنی گئی۔ بشرطیکہ دل زندہ ہوں، ان میں احساس ہو، وہ اپنے اندر معرفت حقیقت اور حصول یقین کا داعیہ رکھتے ہوں۔ رہے وہ دل جو مرچکے ہیں جو غبی ہیں، جن کی عقل موٹی ہے، جن کی سوچ کے سوتے خشک ہو چکے ہیں، ہوسکتا ہے کہ ان میں حصول معرفت کی یہ تڑپ نہ ہو، وہ حصول معرفت سے بے نیاز ہوں۔ لیکن اس کرۂ ارض پر ان جیسے لوگوں کی روش بہائم کی طرح روش ہوتی ہے۔ وہ مویشیوں کی طرح کھاتے اور پیتے ہیں۔ ان کا محبوب مشغلہ یہ ہوتا ہے۔ اس کرۂ ارض پر ظلم واستبداد کا ارتکاب کریں، مار دھاڑ میں مشغول ہوں اس زمین میں فساد پھیلائیں اور اس سے اس طرح رخصت ہوں کہ ان پر تمام لوگوں کی نفریں ہوں اور اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔

وہ معاشرے انتہائی، بدبخت معاشرے ہیں جواس دولت سے محروم رہ گئے۔ اگرچہ وہ مادی سہولیات میں گردن تک ڈوبے ہوئے ہیں۔ یہ معاشرے گرے ہوئے تباہ حال معاشرے ہیں۔ اگرچہ مادی پیداوار کے اعتبار سے ان کا گراف بہت اونچا ہو۔ یہ معاشرے کربناک معاشرے ہیں۔ اگرچہ وہ مکمل شہری آزادیوں سے مستفید ہوں، داخلی طور پر زندگی پرامن ہو اور انہیں کوئی خارجی خطرہ بھی لاحق نہ ہو، ہمارے پاس اس جدید دور میں ایسے معاشروں کی کئی مثالیں موجود ہیں، اس بات کا انکار صرف وہی شخص کرسکتا ے جو انتہائی درجے کا مکار ہو اور جو اس قدر بے حیا ہو کہ محسوس اور کھلے حقائق کا انکار کرسکتا ہو۔

رہے اہل ایمان تو ان کی صفت یہ ہے کہ وہ اللہ پر یقین رکھتے ہیں۔ اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں۔ وہ بارگاہ الٰہی میں تسلیم و رضا اور سمع و طاعت کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں۔ انہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ آخر کار اللہ کی جانب لوٹنے والے ہیں۔ لہٰذا وہ ہر وقت اپنی تقصیرات پر طلب مغفرت کرتے ہیں وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ……………. "ہم نے حکم سنا اور اطاعت کی۔ مالک!ہم تجھ ہی سے خطا بخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے۔ ”

ان کلمات سے ایمان باللہ، فرشتوں، ، کتابوں اور رسولوں پر ایمان کے اثرات روشنی کی طرح ظاہر ہوتے ہیں۔ ان کا ظہور سمع و اطاعت کی صورت میں ہوتا ہے۔ اہل ایمان کے پاس اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو کچھ پیغام آتا ہے، وہ اسے سنتے ہیں، وہ ہر اس حکم پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ جس کا حکم اللہ تعالیٰ دیتے ہیں۔ یعنی ان کا قائد صرف اللہ ہو جاتا ہے اور وہ اپنے قائد کے ہر اشارے کو رو بعمل لاتے ہیں۔ اس لئے کہ اسلام کا کوئی ایساتصور نہیں ہے جس میں اللہ کے احکام کی اطاعت نہ ہو، جس میں پوری زندگی میں نظام ربانی کا نفاذ ضروری نہ ہو۔ اگر کسی معاشرے کی یہ حالت ہو جائے کہ اس میں لوگ اپنی زندگیوں کے یہ چھوٹے بڑے معاملے میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر اتر آئے ہوں تو ایسے معاشرے کو اہل ایمان کا معاشرہ نہیں کہا جا سکتا۔ یا جہاں اللہ کی شریعت نافذ نہ ہو۔ جس کے اخلاقی تصورات جس کا طرز عمل، جس کے اجتماعی اور اقتصادی اور سیاسی امور سب کے سب غیر اسلامی تصورات سے ماخوذ ہوں تو ایسے معاشرے کو کس طرح ایک اسلامی معاشرہ کہا جا سکتا ہے۔ اس لئے ایمان کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ دل مومن میں قرار پکڑے اور اس کی تصدیق عمل سے ہو۔

اور سمع و طاعت کے ساتھ ساتھ، انسان کو اپنی تقصیرات اور کوتاہیوں کا بھی مکمل شعور ہو، وہ یقین رکھتا ہو کہ وہ اللہ کی نعمتوں کا حق شکر ادا نہیں کرسکتا۔ وہ اپنے فرائض سے کماحقہ عہدہ برآ نہیں ہوسکتا۔ اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں التجا کرتا ہے کہ وہ اس کی کوتاہیوں کا تدارک اپنی رحمت اور مغفرت سے فرمائیں۔ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا……………. "اے ہمارے رب، ہم تیری مغفرت کے طلبگار ہیں۔ ”

یہ بات قابل لحاظ ہے کہ اپنی تقصیرات پر طلب مغفرت کا مقام و محل سمع و اطاعت اور اللہ کے سامنے مکمل طور پر سر تسلیم خم کرنے کے بعد آتا ہے۔ پہلے بغیر کسی نافرمانی اور بغیر کسی انکار کے مکمل انقیاد ضروری ہے۔ اس کے بعد ہی انسان کے اندر یہ یقین پیداہوسکتا ہے کہ اس نے دنیا و آخرت میں اللہ کی طرف لوٹنا ہے۔ اس کے عمل معاملے میں، اور ہر عمل میں اس نے اللہ کے سامنے جوابدہی کرنی ہے۔ اور اللہ کا فیصلہ پھر اس معاملے میں اٹل ہو گا۔ اس کے علاوہ کوئی جائے پناہ نہ ہو گی، اس کے مقابلے میں کوئی طاقت بچانے والی نہیں ہے۔ اس کے فیصلے اور حکم سے صرف اس کی مغفرت ہی بچا سکتی ہے۔ صرف اس کی رحمانیت ہی کام آسکتی ہے۔

وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ……………. "تیری ہی طرف پلٹنا ہے۔ "ان الفاظ میں ایمان بالآخرۃ کا بیان ہوا ہے۔ اللہ پر ایمان لانے کے تقاضوں میں سے ایک بین تقاضا ایمان بالآخرت ہے۔ اسلامی تصور حیات کے حوالے سے یہ لازم و ملزوم ہیں۔ اس تصور حیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو پیدا کیا۔ ایک عہد کے تحت اسے زمین پر اپنا خلیفہ بنایا۔ یہ عہد اس کے اندر طے شدہ شرائط، اس کرۂ ارض پر انسان کی پوری زندگی کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ اللہ نے یہاں اسے خلیفہ اس غرض و غایت کے لئے بنایا ہے کہ اس دنیا کی زندگی میں وہ اس کا امتحان لے۔ اور آخری امتحان کے بعد وہ آخرت میں اسے جزاء وسزاء دے۔ اس لئے اسلامی تصور حیات کی رو سے عقیدۂ آخرت ایمان کے لازمی تقاضوں میں سے ایک اہم تقاضا ہے۔ اس پر ایمان لانا، ایک مومن ومسلم کے تصورات اور اس کے طرز عمل پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ اسی ایمان کی روشنی میں، اس دنیا میں ایک مومن کی اقدار حیات تشکیل پاتی ہیں۔ اور اس کے حسی نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ وہ مطیع فرمان ہو کر چلتا ہے۔ وہ بھلائی کی راہ پر چلتا ہے۔ وہ بھلائی کا متلاشی اور سچائی پر قائم رہتا ہے۔ چاہے اس کا نتیجہ اس جہاں میں اسے بصورت راحت ملے یا بصورت مشقت۔ اسے اس جہاں میں فائدہ ہو یا نقصان ہو، اسے فتح ہو یا شکست ہو، وہ کچھ پا رہا ہو یا کچھ کھو رہا ہو، اسے یہاں زندگی مل رہی ہو یا شہادت نصیب ہو رہی ہو۔ اس لئے کہ اس کی اصل جزاء اسے یوم آخرت میں ملے گی جب وہ اس دنیا کے امتحان میں کامیاب اور سرخرو ہو جائے گا…….اس کا عزم اس قدر صمیم ہوتا ہے کہ اس کی راہ اطاعت، راہ حق، راہ بر اور راہ صداقت سے، اسے پوری دنیا کی مخالفت، پوری دنیا کی فتنہ انگیزی اور فتنہ وقتل اسے ہٹا نہیں سکتے، کیونکہ اس کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ عہد الست کو اپنی پوری شرائط کے ساتھ نافذ کر رہا ہوتا ہے۔ اور اپنے اجر کا طلب گار آخرت میں ہوتا ہے۔

یہ ایک عظیم وحدت ہے۔ اسلامی نظریۂ حیات کا یہی مزاج ہے۔ اور اسے اس مختصر سی آیت میں سمودیا گیا ہے۔ اللہ اور ملائکہ پر ایمان، تمام کتابوں اور تمام رسولوں پر ایمان، بلا تفریق و امتیاز، اور اللہ کی طرف مکمل رجوع وسمع و طاعت کے ساتھ اور یوم آخرت میں جوابدہی پر ایمان اور اس کا ہر وقت احساس۔

یہ ہے اسلام، یہ ایسا عقیدہ جو خاتم العقائد ہے۔ یہ آخری رسالت ہے۔ ایسا عقیدہ جو قافلہ اہل ایمان کو آغاز انسانیت سے انتہائے انسانیت تک ساتھ لے کر چلتا ہے۔ اس کے سفر کی سمت پوری تاریخ انسانیت میں، اللہ کے رسول متعین کرتے ہیں۔ جن کی قیادت میں انسانیت بتدریج ترقی کے درجات طے کرتی ہے۔ یہ عقیدہ اسے اس کائنات کے ناموس اکبر سے بقدر استطاعت انسان، اسے متعارف کراتا ہے۔ یہاں تک کہ آخر میں اسلامی نظام زندگی آتا ہے۔ وہ توحید کا اعلان کرتا ہے اور عقل انسانی کو آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے کہ اب وہ معرفت کردگار میں خود آگے بڑھے۔

یہی وہ نظریۂ حیات ہے جو ایک انسان کو انسانیت سے روشناس کراتا ہے۔ وہ اسے جمادات اور حیوانات کے مقام سے بلند کرتا ہے۔ وہ اسے فرشتوں اور شیطانوں سے بھی ایک علیحدہ تشخص دیتا ہے۔ وہ انسان کا بحیثیت انسان اعتراف کرتا ہے۔ وہ اس کی کمزوریوں کو بھی تسلیم کرتا ہے اور اس کے کمالات کا بھی لحاظ رکھتا ہے۔ وہ اسے ایک ایسی مخلوق کی طرح لیتا ہے جس کے جسم میں مختلف قسم کے رجحانات ہیں۔ وہ ایک عقل فعال کا حامل ہے۔ وہ ایک روح رکھتا ہے جس کے میلانات میں بوقلمونی ہے۔ اس لئے وہ اس پر صرف ایسے فرائض و واجبات عائد کرتا ہے جن کے لئے یہ جسم اور یہ حضرت انسان اور اس کی شخصیت متحمل ہوسکتی ہے۔ یہ عقیدہ ان فرائض اور انسان کی صلاحیت اور طاقت کے درمیان بہترین توازن قائم رکھتا ہے۔ اس قدر بوجھ ڈالتا ہے کہ انسان مشقت اور تھکاوٹ محسوس نہ کرے۔ یہ عقیدہ انسان کے جسمانی تقاضوں کو بھی پورا کرتا ہے۔ انسان کے عقلی تقاضوں کا بھی خیال رکھتا ہے۔ اور اس کی روحانی دنیا بھی آباد کرتا ہے۔ اور یہ سب کام انتہائی فطری توازن کے ساتھ، اور ان سب امور کے بعد وہ انسان کو یہ آزادی عطا کرتا ہے کہ وہ جو راہ اپنے لئے اختیار کرتا ہے، کرے۔

لا يُكَلِّفُ اللَّہُ نَفْسًا إِلا وُسْعَہَا لَہَا مَا كَسَبَتْ

"اللہ کسی متنفس پر اس کی قدرت سے زیادہ ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا۔ ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے، اس کا پھل اسی کے لئے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے اس کا وبال اسی پر ہے۔ ”

یو ایک مسلمان کی سوچ ہی میں یہ بات ہوتی ہے کہ اس کا رب رحیم ہے، وہ بطور خلیفہ اس پر جو فرائض و واجبات عائد کرتا ہے وہ نہایت ہی عادلانہ اور منصفانہ ہیں۔ اس کی جانب سے ڈالی جانے والی آزمائشیں بھی عادلانہ ہیں اور آخرکار قیامت کے دن بھی اس کے ساتھ ٹھیک ٹھیک انصاف ہو گا۔ اور وہ پوری طرح مطمئن ہو گا۔ اس لئے وہ اللہ کی جانب سے عائد کردہ فرائض پر کوئی تنگی اور دشواری محسوس نہیں کرتا۔ وہ انہیں بوجھ نہیں سمجھتا۔ اس لئے کہ اس کا یہ پختہ یقین ہوتا ہے کہ جس اللہ نے یہ فرائض عائد کئے ہیں وہ خوب جانتا ہے کہ میرے اندر ان کے سر انجام دینے کی استطاعت فی الواقعہ ہے۔ اگر طاقت نہ ہوتی تو وہ فرض ہی نہ کرتا۔ اس تصور سے ایک طرف تو دل مومن اطمینان اور انس و محبت سے بھر جاتا ہے، دوسری جانب اس کے اندر ان فرائض و واجبات کو سر انجام دینے کے لئے عزم اور ولولہ پیدا ہو جاتا ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرائض اس پر عائد کر دیئے ہیں تو لامحالہ وہ اس ڈیوٹی کا حصہ ہیں۔ اور جب بھی وہ ضعف محسوس کرتا ہے، کبھی تھکاوٹ محسوس کرتا ہے، یہ فرائض بھاری ہونے لگتے ہیں تو وہ محسوس کرتا ہے کہ یہ اس کی ذاتی کمزوری ہے۔ بوجھ زیادہ نہیں ہے۔ چنانچہ وہ اپنے عزم کو از سر نو تازہ کرتا ہے۔ اپنی کمزوری کو دور کرتا ہے اور از سر نو فرائض پورے کرنے کا عزم صمیم کر لیتا ہے۔ جب تک وہ ایسا کرسکتا ہے۔ ازسر نو عزم کرنے کے لئے مومن کے لئے یہ اشارہ ہے کہ اگر راہ طویل ہو جائے تو از سر نو عزم کرو چنانچہ تصور روح مومن اور اس کی ہمت مردانہ کے لئے مہمیز کا کام کرتا ہے۔ اور اس طرح اس کی ہمت اور اس کے ارادے میں پختگی آ جاتی ہے۔ اس لئے وہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ بھی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔

اس تصور حیات کا دوسرا اہم حصہ ہے۔ لَہَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْہَا مَا اكْتَسَبَتْ……………. "ہر شخص نے جو نیکی کمائی اس کا پھل اسی کے لئے ہے اور جو برائی سمیٹی اس کا وبال اسی پر ہے۔ ”

ہر فرد اپنے کئے کا ذمہ دار ہے۔ اس لئے اسے وہی کچھ ملے گا جو اس نے خود کمایا۔ نیز سزا بھی کسی کو صرف اس کے جرم کی ملے گی جو وہ خود کرے گا۔ ہر کوئی اپنے کئے کا ذمہ دار خود ہو گا۔ ہر شخص اپنے رب کے سامنے خود اپنا اعمال نامہ لے کر جائے گا۔ اور اس میں وہی کچھ ہو گا جو اس نے کمایا، جس کا اس نے ارتکاب کیا۔ کوئی شخص وہاں حیلہ بہانہ نہ کرسکے گا۔ نہ وہاں کسی کو کسی کی امداد یا سفارش کی امید ہو گی۔ انسان بحیثیت فرد اپنے رب کے سامنے ہو گا۔

جب انفرادی مسئولیت کا یہ تصور کسی مومن کے قلب میں جاگزین ہو جاتا ہے، تو ہر فرد اپنے اللہ کے جو حقوق اس کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں۔ ان کا ذمہ دار بن جاتا ہے۔ وہ دوسرے انسانوں کی وجہ سے کسی صورت میں بھی ان حقوق الٰہیہ سے دست بردار نہیں ہوتا الا یہ کہ شریعت کے مطابق یہ دست برداری ہو۔ اب ہرانسان مومن کی ذات کے ساتھ جو حقوق اللہ وابستہ ہوتے ہیں وہ اس بارے میں ہر دھوکے، ہر حدود شکنی، ہر گمراہی اور ہر فساد کے مقابلے میں سینہ سپر ہو جاتا ہے۔ اس لئے کہ وہ اپنے نفس اور اس کے ساتھ وابستہ حقوق اللہ کے بارے میں ذاتی طور پر خود جوابدہ ہے۔ اور ہر نفس کے ساتھ اللہ کے جو حقوق وابستہ ہیں وہ صرف وہی ہیں جن کا اللہ نے حکم دیا ہے یا جن سے اس نے منع فرمایا ہے۔ یعنی ہر فرد اپنے طرز عمل اور اپنے شعور میں صرف اللہ وحدہ کی بندگی بجا لائے۔ اگر وہ ان حقوق میں کسی انسان کی وجہ سے کمی کرتا ہے۔ مثلاً یوں کہ اسے کوئی گمراہ کر دے، اسے دھوکہ دیدے، یا اسے مجبور کرے تو ا س کا نتیجہ یہ ہو گا کہ قیامت کے دن یہ انسان اس مومن کی کوئی امداد نہ کرسکیں گے۔ (ہاں اگر یہ نافرمانی وہ بحالت جبر کرتا ہے اور دل اس کا اسلامی فرائض حقوق پر مطمئن ہے، تو پھر یہ معذور تصور ہو گا۔ )غرض ایسے اشخاص قیامت کے دن نہ اس مومن کی مدافعت کرسکیں گے نہ سفارش کرسکیں گے، نہ وہ اس پوزیشن میں ہوں گے کہ اس شخص کا بوجھ اتار دیں یا خود اٹھائیں۔

مسؤلیت کے اس ذاتی تصور کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر شخص بڑی جرأت کے ساتھ خود اپنی اور اس کے ساتھ وابستہ حقوق اللہ کی مدافعت کرتا ہے۔ اسی لئے کہ اس کی سزاصرف اسے ہو گی۔ اور وہ خود اپنے کئے کا ذمہ دار ہو گا۔ یاد رہے کہ یہاں انفرادی مسؤلیت کے نظریہ سے مراد یہ خطرہ نہیں ہے کہ کوئی شخص معاشرہ کے اندر اپنی اجتماعی ذمہ داریاں پوری کرنے سے پہلوتہی کرے۔ اس لئے کہ اجتماعی ذمہ داریاں بھی شریعت نے ایک فرد پر بحیثیت فرد ڈالی ہیں۔ اگر معاشرہ میں اجتماعی ذمہ داریاں پوری نہ ہوں گی تو بھی فرد ذمہ دار ہو گا۔ کیونکہ یہ بھی اللہ کی جانب سے اس پر انفرادی طور پر ڈالی گئی ہیں۔ مثلاً ہر فرد اللہ کی جانب سے مامور ہے کہ وہ اپنے مال اور اپنی دولت سے اجتماعی ذمہ دار یہ ادا کرے۔ نیز اسے یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ وہ دوسروں کو تواصی بالحق کرے، معاشرہ میں عدل و انصاف قائم کرے، اپنے معاشرے سے باطل کو مٹانے کی کوشش کرے۔ معاشرے میں سچائی اور بھلائی کو مستحکم کرے اور شر اور منکر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔ اس کے اعمال نامہ میں اجتماعی معاملات کے حوالے سے بھی اس کی تمام کارکردگیاں اور کوتاہیاں درج ہوں گی۔ اور جزا وسزاکا وہ انفرادی طور پر ذمہ دار یا حقدار ہو گا۔

اہل ایمان نے جب انفرادی ذمہ داری کے حکم کو سن لیا اور سمجھ لیا۔ تو اب ان کے دلوں سے یہ دعا نکلی، جو بڑی جامع اور پر از اخلاص ہے۔ اس دعا کو قرآن کریم اپنے خاص انداز تصویر کشی میں بیان کرتا ہے۔ یوں نظر آتا ہے کہ اہل ایمان ہاتھ اٹھائے ہمارے سامنے کھڑے ہیں۔ صفیں باندھی ہوئی ہیں۔ اور خشوع و خضوع کے ساتھ وہ یہ دعا پڑھ رہے ہیں۔ (خصوصاً فرائض و ذمہ داریوں کی حقیقت پا کر)

 

"اے ہمارے رب۔ ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہو جائیں۔ ان پر گرفت نہ کر۔ مالک، ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال، جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے۔ پروردگار، جس بار کو اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں ہے۔ وہ ہم پر نہ رکھ، ہمارے ساتھ نرمی کر۔ ہم سے درگزر فرما، ہم پر رحم کر، تو ہمارا مولیٰ ہے۔ کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔” (٢٨٦)

 

یہ ایسی دعا ہے جو اہل ایمان اور ان کے رب کے ساتھ ان کے تعلق کی خوب تصویر کشی کرتی ہے۔ وہ اپنے عجز اور ناتوانی کا گہرا دراک رکھتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو اپنے رب کی رحمت اور درگزر کا محتاج پاتے ہیں۔ وہ اس کی درگاہ میں پناہ کے خواستگار ہیں۔ وہ اپنے آپ کو صرف اللہ کے حوالے کرتے ہیں۔ اسی سے تعلق جوڑ رہے ہیں اور ماسوا اللہ سے کٹ رہے ہیں۔ وہ اس کی راہ میں جہاد کے لئے تیار ہیں۔ اور اسی سے نصرت کے طلبگار ہیں۔ اور ان کی یہ دعا ایک انتہائی دلدوز اور ملال انگیز نغمے کی صورت میں ہے۔ جس کے صوتی زیر و بم میں ان کے دل کی دھڑکن اور ان کے روح کی بے قراری صاف سنائی دیتی ہے اور صاف نظر آتی ہے۔

رَبَّنَا لا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا

"اے ہمارے رب ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہو جائیں ان پر گرفت نہ کر۔ ”

اگر انسان اس قدر کمزور ہو جائے اور اس سے ایسی بھول چوک ہو جائے جس میں اس کا کوئی دخل نہ ہو اور یہ بھول چوک کبھی کبھار ہوہی جاتی ہے تو ایسی غلطیاں، خطاء اور نسیان کے حکم میں ہون گی۔ ان پر ایک مؤمن کے لئے صحیح طریقہ کار یہ ہے کہ وہ فوراً اللہ سے معافی مانگے۔ اپنے رب کی طرف متوجہ ہو۔ بھول چوک وہ ہوتی ہے کہ اس میں کوئی شخص غلطی پر مصر نہ ہو۔ یا وہ قصداً حکم عدولی نہ کر رہا ہو۔ یا وہ کبر و غرور کی وجہ سے نافرمانی نہ کر رہا ہو یا بالارادہ ٹیڑھے راستے پر نہ چل رہا ہو۔ ان حالات میں کوئی صورت حال بھی وہ نہیں ہے جو ایک مومن اپنے رب کی بارگاہ میں اختیار کرتا ہے۔ نہ ایسے حالات میں وہ اللہ کی جانب سے عفو و درگزر کا مستحق ہو گا۔ ہاں یہ دوسری بات ہے کہ وہ تائب ہو جائے اور ٹھیک طور پر اللہ کی طرف رجوع کر لے۔ غرض مومنین نے بھول چوک کے بارے میں جو درخواست معافی گزاری، اسے اللہ نے قبول فرما لیا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ "میری امت سے خطاء اور نسیان پر کوئی مواخذہ نہ ہو گا جب تک انہوں نے ایسے افعال کو برا سمجھا۔ ” (طبرانی وغیرہ)

رَبَّنَا وَلا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَہُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا

"اے ہمارے رب ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے۔ ”

یہ دعا مرد مومن کی زبان پر اس احساس ذمہ داری کی وجہ سے آتی ہے جو امت مسلمہ پر تمام رسولوں کی رسالت کے سلسلے میں اٹھائی گئی ہے، یہ امت تمام رسالتوں کے بار امانت کے نیچے آ گئی ہے۔ جیسا کہ ان کے رب نے اس قرآن کریم میں اس امت کو جا بجا بتلایا کہ اس سے قبل جن امتوں کے پاس رسول بھیجے گئے انہوں نے اپنے رسولوں کے ساتھ کیا کیا سلوک کئے اور ان امتوں کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان پر کیا کیا بوجھ ڈالے گئے۔ اور یہ بوجھ ان پر ان کے بعض جرائم کی وجہ سے ڈالے گئے۔ مثلاً بنی اسرائیل کی بعض بد اعمالیوں کی وجہ سے ان پر بعض پاکیزہ قسم کی غذائیں حرام کر دی گئیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ "اور جن لوگوں نے یہودیت اختیار کی ان پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کر دیئے تھے اور گائے اور چربی بھی بجز اس کے جو ان کی پیٹھ یا ان کی آنتوں سے لگی ہوئی ہو یا ہڈی سے لگی رہ جائے۔ "(۱۴۶:۶)یا جس طرح سورۃ البقر ہ میں ہے کہ انہوں نے بچھڑے کی عبادت شروع کر دی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ ایک دوسرے کو قتل کریں۔ اسی طرح ان کی اس بد عملی کا کفارہ ہوسکے۔ ان پر سبت کے دن تجارت اور شکار کو حرام قرار دیا گیا۔ اسی وجہ سے یہاں اہل ایمان کو دعا سکھائی گئی کہ وہ دست بدعا ہوں کہ ان پر اللہ تعالیٰ وہ بوجھ نہ ڈالے جو ان سے پہلے لوگوں پر ڈالے گئے۔ اس لئے کہ نبی آخرالزماں کی بعثت کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ وہ ان کے ذریعہ اہل ایمان اور پوری انسانیت سے وہ بوجھ اتار دیں جو انسانیت پر ڈالے گئے تھے۔ اور وہ بندھن توڑ دیں جن میں بشریت خوامخواہ جکڑی ہوئی تھی اور جس کے نتیجے میں اسلامی نظریۂ حیات سیدھا سادھا نظریہ بن کر آیا، جو آسان بھی ہے اور نرم بھی ہے۔

فطرت انسانی کے عین مطابق شاہری فطرت سے ہمقدم اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسولﷺسے فرمایا۔ وَنُیَسِّرُکَ لِلیُسرٰی…………….”اور ہم تیری راہنمائی سہولت کے ساتھ۔ سہل فرائض کی طرف کریں گے۔ ”

وہ عظیم بوجھ کیا ہے جو امم سابقہ کے کاندھوں پر ڈالا گیا تھا اور اس لئے ڈالا گیا تھا کہ انہوں نے خلیفۃ اللہ فی الارض ہونے کے ناطے اپنے عہد کی خلاف ورزی کی تھی اور عہد توڑ دیا تھا اور وہ عظیم بوجھ جو اب امت مسلمہ کے کاندھوں سے اتار دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کیا ہے اور اس کی ماہیت کیا ہے ؟یہ عظیم بوجھ انسان کے انسان کی غلامی کا بوجھ ہے۔ جس میں بندہ بندے کا غلام ہوتا ہے، جس میں انسان کے لئے دوسرا انسان ضابطۂ حیات ہوتا ہے۔ اس طرح ایک نسل انسانی دوسرے انسان کی ذات کے تابع ہوتی ہے، یا انسان ایک طبقے کے غلام ہوتے ہیں یا جس میں انسان ایک نسل کے غلام ہوتے ہیں۔ یہ ہے وہ عظیم بوجھ جس سے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو رہائی دلائی۔ اور ان تمام غلامیوں سے انہیں چھڑا کر صرف اپنی بند گی اور غلامی اور اپنی اطاعت میں داخل کر دیا۔ اس آزادی کے بعد اب اہل ایمان صرف اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے ضابطۂ حیات اخذ کرنے لگے۔ یوں انہیں ایک اللہ وحدہ کی غلامی میں داخل کر کے، ان کی روح، ان کی عقل اور ان کی پوری زندگی کو دوسرے انسانوں کی غلامی سے نکالا گیا۔

اللہ جل شانہٗ کی بندگی اور غلامی بایں مفہوم کہ انسان اپنی اقدار حیات نیک وبد کا معیار اور اجتماعی زندگی کے قوانین صرف اللہ سے اخذ کرے گا۔ پوری انسانیت کے لئے آزادی کا نقطۂ آغاز ہے۔ یوں ایک انسان دوسرے جبار و قہار انسانوں کی غلامی اور بندگی سے آزاد ہو جاتا ہے۔ اسی طرح وہ مذہبی پروہتوں، کاہنوں اور پیشواؤں کی غلامی سے بھی آزاد ہو جاتا ہے۔ مزید یہ کہ ایک انسان اوہام و خرافات اور رسوم و رواجات کے بندھنوں سے آزاد ہو جاتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ ایک انسان ہوائے نفس اور جسمانی شہوات و مرغوبات کے بندھنوں سے بھی چھٹکارا پاتا ہے۔ انسان ہر کھوئی ہوئی غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے جو ناحق انسان کے کاندھوں پر سوار ہوتی ہے اور تاریخ شاہد ہے ایسی غلامیوں نے انسانوں کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔ اور جس کی وجہ سے لوگوں کے سر اللہ واحد القہار کے مقابلے میں دوسرے جباروں کے سامنے جھکتے تھے۔

رَبَّنَا وَلا تُحَمِّلْنَا مَا لا طَاقَۃَ لَنَا بِہِ

"پروردگار، جس بوجھ کو ہم اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتے وہ ہم سے نہ اٹھوا۔ ”

اس دعا سے اہل ایمان کے اس شعور کا اظہار ہوتا ہے کہ اب وہ انسان کی غلامی سے آزاد ہو گئے ہیں۔ نیز اب وہ خائف ہیں کہ کہیں وہ اپنی کوتاہیوں کے سبب دوبارہ غلامی میں واپس نہ چلے جائیں جو نہایت ہی برا دور تھا۔

"اے ہمارے رب، ہم سے وہ بوجھ نہ اٹھوا جس کے اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے۔ "ایک ایسی دعا ہے جس سے مکمل طور پر سر تسلیم خم کر دینے کی حقیقت کا اظہار ہوتا ہے۔ اہل ایمان کے دل سے اب یہ ارادہ اور نیت ہی نکل گئی ہے کہ وہ احکام خداوندی کی خلاف ورزی کریں گے۔ چاہے جو احکام بھی ہوں، وہ صرف یہ درخواست پیش کرتے ہیں کہ وہ ضعیف ہیں۔ یہ توقع رکھتے ہیں۔ اجرائے احکام میں ان کی صفت کو مد نظر رکھا جائے گا۔ پروردگار، ہم پر رحم کر اور تکلیف مالایطاق سے ہمیں بچا تاکہ ان سے تعمیل احکام میں عجز و قصور کا ارتکاب نہ ہو، ورنہ وہ تو پختہ ارادہ کئے ہیں کہ مکمل تسلیم و انقیاد کا مظاہرہ کریں گے۔ صرف بندہ ناتواں کی امید یہ ہے کہ مالک الملک ان کے ساتھ مہربانی کرے۔ اور جس طرح وہ اپنے بندوں کے ساتھ جود و کرم، نرمی اور محبت کا رویہ رکھنے کے عادی ہیں وہی سلوک ہم سے جاری رکھا جائے۔ ہم اپنی تقصیرات کا اعتراف کرتے ہیں اور وہ تقصیریں صرف اسی صورت میں معاف اور بے اثر ہوسکتی ہیں جب اللہ کا فضل شامل حال ہو۔

وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا

"ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے درگزر فرما، ہم پر رحم فرما۔ ”

اس لئے کہ اس امتحان میں کامیاب ہونے کی یہ واحد گارنٹی صرف اسی صورت میں اللہ کی رضامندی حاصل ہوسکتی ہے۔ انسان جس قدر محنت سے بھی وفاداری کرے، اس کے کام میں کوئی نہ کوئی کمی رہ جاتی ہے اور اگر اللہ کا فضل شامل حال نہ ہو وہ عفو و درگزر اور رحمت نرمی سے کام لے گا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں۔ رسولﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص بھی صرف اپنے عمل کے بل بوتے پر جنت میں داخل نہ ہو گا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا، رسول اللہﷺ آپ بھی ؟تو رسولﷺ نے فرمایا۔ "اور میں بھی، الا یہ کہ اللہ نے مجھے اپنی رحمت میں ڈھانپ لیا ہے۔ ”

ایک صحیح مومن کے احساس میں یہی اصل بات ہے۔ وہ حتی المقدور عمل کرتا ہے لیکن اپنی تقصیرات کا اسے پوری طرح احساس ہوتا ہے۔ اور اس کے بعد اسے پوری امید ہوتی ہے کہ اللہ اس کی تقصیرات سے عفو و درگزر فرمائے گا۔ اور اس کے ساتھ نرمی برتی جائے گی۔

سب سے آخر میں اہل ایمان اللہ کے مضبوط سہارے کو پکڑتے ہیں، وہ جہاد فی سبیل اللہ کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ اس لئے کہ اللہ کا ارادہ ہے کہ حق کا بول بالا ہو، دین اسلام اور اسلامی نظام زندگی اس کرۂ ارض پر غالب ہو، اور صورت حال یہ ہو کہ "کوئی فتنہ نہ رہے اور دین صرف اللہ کا چلے۔ "اب اہل ایمان اللہ کا مضبوط سہارا لیتے ہیں۔ وہ اپنے سروں پر اسلام کے جھنڈے بلند کرتے ہیں۔ وہ صرف انہی جھنڈوں سے اپنی پہچان کراتے ہیں۔ جبکہ جاہلیت کی علامات اور جھنڈے بہت ہی مختلف ہیں، اب وہ اللہ تعالیٰ کی نصرت کے طلبگار ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ ان کا وہی والی اور وارث ہے۔ وہ اہل کفر کے ساتھ صرف اللہ کے لئے لڑتے ہیں۔ جو دین اسلام سے خارج ہیں۔

 

"تو ہمارا مولیٰ ہے کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔ "(٢٨٦)

 

یہ ہے اس عظیم سورت کا خاتمہ جس میں اس پوری سورت کے مضامین کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے۔ اس خلاصے میں اسلامی تصور حیات کا خلاصہ بیان ہوا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ ایک سچے مومن کا اپنے رب کے ساتھ ہر حال میں کیا تعلق ہوتا ہے۔

٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید