FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

فریزر میں رکھی شام

 

 

(نظمیں )

 

 

                نعمان شوقؔ

 

 

 

مشرف عالم ذوقی

اور

خورشید اکرم

کے نام

 

 

 

مجھے چاہئے کچھ بول

جن کا ایک گیت بن سکے……

یہ گیت مجھے گونگوں کو دینا ہے

جنھیں گیتوں کی قدر معلوم ہے

لیکن جن کا

آپ کے حساب سے گانا نہیں بنتا

گر آپ کے پاس

نہیں ہے کوئی بول، کوئی گیت

مجھے بکنے دیں میں جو بکتا ہوں !

پاشؔ

 

 

 

 

پیش لفظ

 

جنھیں میں کوئی خوشی نہیں دے سکاانھیں دکھ دینے سے ڈرتا ہوں –— بہت بزدل ہوں میں اس لئے خود کشی نہیں کرسکا۔ میں انسانوں سے دورکسی جنگل میں جا کربس جانا چاہتا ہوں تاکہ خود کواور اس کائنات کو اچھی طرح جان سکوں لیکن میں گوتم نہیں بن سکا۔ ان سب کے باوجود عام آدمی بن کر جینے سے مجھے ہول آتا ہے —— عام آدمی جو اپنی زندگی میں اپنی ہی جیسی دو چار زندگیوں کا اضافہ کرتا ہے اور مر جاتا ہے۔ایک عام آدمی شاعرسے زیادہ حسّاس اور جذباتی ہوسکتا ہے لیکن اس کے پاس خود کو ظاہر کرنے کی جرأت یا فن نہیں ہوتا۔شاعری شاعر کا خصوصی اختیار ہوتا ہے،عام آدمی کا نہیں ۔وہ خود کو حالات کے مطابق ڈھال کر کشمکش سے چھٹکارا حاصل کر لیتا ہے لیکن شاعر آخری وقت تک حالات سے لڑتا رہتا ہے،انجام کی پرواہ کئے بغیر۔میں زندہ رہنا چاہتا ہوں اپنے لکھے ہوئے لفظوں میں ۔یہی وہ للک ہے جو میری روح کے کسی کونے میں چھپی بیٹھی ہے اور بار بار لکھنے پر مجبور کرتی ہے۔

لکھنا میرا شوق نہیں میری مجبوری ہے۔مزاجاً تنہائی پسندہوں ۔خاص طورسے رات مجھے تخلیقی حرارت سے لبریز کر دیتی ہے۔تخلیق کے لمحے میں بالکل ہی اکیلا رہنا چاہتا ہوں —اتنا اکیلا کہ کبھی کبھی اپنی موجودگی بھی گراں گزرنے لگتی ہے۔ہر نظم کے بعد شاعر کا نیا جنم ہوتا ہے۔نظم مکمل ہو جانے کے بعد میں بھی خود کو بہت ہلکامحسوس کرتا ہوں ،بادلوں کے بیچ تیرتا ہوا۔ سرشاری کی یہ کیفیت کبھی کبھی اتنی شدید ہوتی ہے کہ گنگنانے لگتا ہوں اپنی بے سری آواز کی پرواہ کئے بغیر۔اپنی ہی نظم کی انگلی پکڑ کر پہروں سیرکرتا ہوں اور حیران نظروں سے دیکھتا ہوں اس دنیا کو۔

لکھتے وقت مجھے لفظوں کے لئے بہت مشقت نہیں کرنی پڑتی کیونکہ خوش قسمتی سے مجھے اُردو اور ہندی دونوں زبانوں کی دھوپ چھاؤں یکساں طورپرمیسّرہوئی جس کا کریڈٹ بہت حد تک میرے شہر آرہ (بہار)کو جاتا ہے جہاں مجھے دونوں زبانوں کے اچھے لکھنے والوں کا قرب حاصل رہا۔لکھتے وقت میں گرامر اور الفاظ کے دروبست کا تو خیال رکھتا ہوں لیکن کسی بھی زبان کا کوئی مروّج لفظ میرے لئے شجرِ ممنوعہ نہیں ۔

میں اپنے جذبات و خیالات اور محسوسات پر خود ہی سوالیہ نشان لگاتا چلتا ہوں اور ان کے جواب تلاش کرتا ہوں ۔ اپنے گرد و پیش کی مادّی ہلچل ، خواب اور خواہشیں مجھے اپنا نقطۂ نظر ظاہر کرنے کے لئے مجبور کرتی ہیں ۔کسی بھی ’ازم ‘سے میری کوئی وابستگی نہیں اگر ہے  تو صرف شاعری سے۔ اسی لئے جس موضوع پرجس طرح لکھنا چاہتا ہوں ، لکھتا ہوں ۔ شاعری مجھے زندگی سے بھر دیتی ہے اور مجھے یہ خوش فہمی ہے کہ میں بھی شاعری کو زندگی دے رہا ہوں ۔

تشدّد،جھوٹ،عیّاری اور مکّاری سے مجھے سخت نفرت ہے۔جہاں دوسرے شاعراس نفرت کوبڑی تہذیب سے اور صبر کے ساتھ ظاہر کرتے ہیں وہیں مجھ میں کمی یہ ہے کہ میں جھنجھلاتا ہوں ،غصّہ کرتا ہوں ،چیختا ہوں اور سمجھتا ہوں یہی شاعری ہے۔میرا ردّ عمل بہت جارحانہ اور تیکھا ہوتا ہے کیونکہ میں اپنے باطن کی کڑواہٹ کو بہت دیر تک سنبھالے نہیں رکھ سکتا۔مجھے سرحدوں اور دائروں میں جیناپسندنہیں ۔میں پوری انسانیت کو ایک کنبے کی شکل میں دیکھتا ہوں اس لئے مجھے بامیان میں بدھ کی مورتی توڑے جانے کا واقعہ بھی اتنا ہی مذموم لگتا ہے جتنا بابری مسجدکی شہادت،۱۱ستمبربھی اتنا ہی غیر انسانی اور وحشیانہ لگتا ہے جتنا عراق پر حملہ،گجرات بھی اتنے ہی گہرے زخم لگاتا ہے جتنا جمّوں کشمیر میں بے گناہ لوگوں کا قتلِ عام۔

فرقہ پرستی اور فاشزم،دہشت گردی کو غذا فراہم کرتے ہیں ۔انسانیت کا ان سے بڑا کوئی دشمن نہیں ۔میں اپنے لفظوں کو دشمنوں سے لڑنے کے لئے اسلحہ کے طور پر نہیں  استعمال کرتا بلکہ انھیں چیونٹیوں کی طرح رینگنا سکھاتا ہوں تاکہ دشمن کی سونڈمیں گھس کراس کا خاتمہ کرسکیں ۔میرا ماننا ہے کہ ان راکشسوں کو ہرا کر ہی انسانیت اپنے لئے نجات کے راستے کھول سکتی ہے۔ اس نام نہاد ترقی اور  گلوبلائزیشن کے عہد میں میرے آس پاس جو کچھ رو نما ہو رہا ہے خود کواس سے الگ تھلگ رکھنا میرے بس میں نہیں البتہ میں ان واقعات کو تاریخی حقائق کے طور پر نہیں بلکہ انسانی المیے کی شکل میں دیکھتا ہوں ۔

میں نے عشقیہ نظمیں نہیں لکھیں کیونکہ کسی ہیرؔ کے دوپٹّے میں میرے نام کی کوئی گانٹھ نہیں لیکن عشق کا جو مکروہ اور ہیبت ناک چہرہ میں نے مہانگر میں دیکھااس کی جھلک کہیں کہیں میری نظموں میں ضرور ملتی ہے۔جسم سے ایک نوع کی بے زاری میری فکر کو روح پر مرکوز کرتی ہے صارفیت نے شاعری کے منظر نامے میں جو ہلچل پیدا کی ہے وہ میرے لئے یاکسی بھی شاعر کے لئے تشویش ناک ہے۔یہاں رشتے ناطے۔دکھ سکھ سب کسی Product کا روپ لے بیٹھے ہیں ۔کب کیاکس طرح بیچا اور خریدا جا سکتا ہے،عام آدمی دھیرے دھیرے جاننے لگا ہے۔

میرا قاری بھی عام آدمی ہے لیکن وہ عام آدمی ہر گز نہیں جوانسانوں کے اس جنگل کا حصّہ ہے،جس کی اپنی کوئی سوچ نہیں ،جو وقت کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالتا رہا ہے بلکہ وہ آدمی جو با شعور ہے، جس کی سوچ کا دائرہ وسیع ہے اور معیار بلند۔ بڑی اور اچھی شاعری کی بقا کے لئے قاری کا شاعر کے ساتھ ساتھ چلنا ضروری ہے اور ہر قاری ہر شاعر کے تخلیقی سفرمیں اس کا شریک نہیں ہوسکتا۔اچھی شاعری ہر قاری سے ہمکلام نہیں ہوتی۔

میرے نزدیک اس مشکل وقت میں شاعری کرناقبرستان میں وائلن بجانے جیساہے۔آج اس سے زیادہ چیلنج بھرا کوئی اور کام نہیں ۔الکٹرانک میڈیا کی یلغار کے اس عہد میں شاعر کا اصلی سروکاریہ ہے کہ شاعری کا قاری نا پید ہوتی مخلوق کے زمرے میں آ گیا ہے۔جنگ،دہشت گردی،صارفیت،فساداور بے روزگاری سے نبرد آزما قاری شاعری کی طرف دیکھنا بھی پسندنہیں کرتا تا وقتیکہ یہ کسی فلم یا البم میں نیم برہنہ پریوں کے رقص کے ساتھ نہ ہو،ورنہ جہنّم میں جائے شاعراور اس کی شاعری۔

کبھی کبھی میں مہینوں بلکہ برسوں نہیں لکھتا اور اگر لکھتا ہوں تو ایک داخلی ترنگ میں جب تخلیقیت پورے ابال پر ہوتی ہے۔لکھنے کے لئے میں خود کو کبھی بھی زبردستی تیاّر نہیں کرتا۔ یہ بھی پہلے سے طے نہیں ہوتا کہ میں کس موضوع پر لکھنے جا رہا ہوں ۔لفظ قطب نما کی طرح دھیرے دھیرے منزلِ مقصود کی طرف اشارہ کرتے رہتے ہیں اور میں آگے بڑھتا جاتا ہوں ——پوری شدّت اور انہماک کے ساتھ۔ لکھتے وقت میں کسی خیال کو اس کے لاؤ لشکر یعنی بنیادی طورسے خیال کے ساتھ آنے والے لفظوں کے ساتھ ہی جگہ دیتا ہوں کاٹ چھانٹ اور ترمیم وتنسیخ کا مرحلہ نظم مکمل ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے اور کبھی کبھی مہینوں بلکہ برسوں ختم نہیں ہوتا۔

میں نے غزلیں بھی لکھی ہیں اور نظمیں بھی۔ اپنے بائیس سال کے ادبی سفرمیں میں نے محسوس کیا کہ غزلیں میرے احساسِ جمال کوراس آتی ہیں اور نظمیں جلی ہوئی کھال کے جسم سے اتر جانے جیسا سکون دیتی ہیں ۔میرے لئے دونوں اپنی اپنی جگہ اہم ہیں ۔

عام طورسے میں تبھی لکھتا ہوں جب بے حد پریشان ہوتا ہوں ——داخلی یا خارجی وجوہات سے۔اسی لئے میری شاعری میں خوشی،سرشاری اور اطمینان کا عنصر بہت کم ہے حالانکہ میری شدید خواہش کہ میں زندگی کے ان بے اختیار لمحوں کو شاعری کے قالب میں ڈھال سکوں جن کی دھندلی سی پرچھائیں کبھی کبھی ذہن کے پردے پر تیرتی نظر آ جاتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

موسمِ بہار کی پہلی نظم

 

خوش آمدید

میرے دوست! خوش آمدید

 

تمہیں تو آنا ہی تھا

کرنوں کی سوغات بانٹنے کے لئے

جس طرح اگنا ہوتا ہے سورج کو

بادل کوبرسناہوتا ہے

دھرتی کی پیاس بجھانے کے لئے

دھوپ کے لمس کے بعد پگھلنا ہوتا ہے

پہاڑ کی چوٹی پر جمی برف کو

 

خوش آمدید

میرے دوست !خوش آمدید

 

تم نے پہلابوسہ دیا ہے

میری تنہائی کے ہونٹوں پر

تمہارے گیتوں نے

پہلی بار توڑا ہے

 

روح میں بکھرے سنّاٹے کاطلسم

میرے انگ انگ میں روشنی بھر دی ہے

تمہاری مسکان نے

پہلی بار

خوش آمدید

میرے دوست!خوش آمدید

 

چٹکتی کلیوں ،گنگناتے آبشاروں

اور ہرسنگارکے پیڑ پر بیٹھے طوطوں کی ڈار نے

کاش مجھے پہلے بتایا ہوتا

ایسے آتا ہے بہارکاموسم……

٭٭

 

 

 

 

سرحدپر

 

دو لاشیں

اگر دفن کر دی جائیں

ایک ہی قبر میں

تو بھی آغوش میں نہیں بھرتیں

ایک دوسرے کو

 

دو زندہ لوگ

اگر چاہیں تو مل سکتے ہیں

دنیا کی کسی بھی سرحدپربنی

اونچی سے اونچی دیوار گرا کر

 

لیکن یاد رہے

دو قبروں کے بیچ کی دیوار

کبھی نہیں گرتی

موسلادھاربارش میں بھی!

٭٭٭

 

 

 

 

مُکھیہ دھارا میں

 

                ایک

 

قطب شمال سے قطب جنوب تک

ایک سراب سے دوسرے سراب تک

دوڑتے دوڑتے تھک چکے ہیں ہم

اختراع،ایجاد اور آلودگی کے عہد میں

کہیں دکھائی نہیں دیتی

کوئی صاف شفاف لہر

جس کے بہاؤ میں

کوئی سچّی تسلّی

کوئی بلاوا ہو ہمارے لئے

کوئی مضبوط دیوار

جس کے سائے میں سستا سکیں

تھوڑی دیر بے فکر ہو کر

 

کیا پتہ

کب گرا دیا جائے

مسجدکاکون سامینار

ہمارے ہی سرپر

صوفیائے کرام اور اولیاء کی قبروں پر

کب بن جائے کوئی سڑک

یا پیشاب خانہ

مدرسے میں پڑھتے یتیم بچّے

رات کے کس پہر

سپنے میں دیکھ لیں پولس کو

اور ڈر کے مارے چلاّنے لگیں

عربی میں قرآن پڑھتے ہوئے

کب خیال آ جائے

اسامہ بن لادن کی مادری زبان کا

گھرسے دفتر کے لئے نکلیں ہم

اور مڈبھیڑ میں

کسی آتنک وادی کے مرنے کی خبر

بجلی کی طرح گر پڑے

میری ہی بیوی کی چوڑیوں پر

کیا پتہ!

 

صدیوں پہلے

چار بیویاں رکھنے کی اجازت سے بنی

قدیم،غیر حقیقی چارپائی پر ہم

کانپ رہے ہیں ڈرسے

یا ہم بستری کر رہے ہیں

کاش سمجھ پاتے آپ !

 

                دو

 

آپ ہی کی طرح

بہنا چاہتے ہیں ہم بھی

’مکھیہ دھارا‘ میں

بنا تھکے اور بنا رُکے

 

مہینے کے پہلے دن

اپنی گرم جیب میں ہاتھ ڈالے

ہم بھی جانا چاہتے ہیں

کسی اچھے سے ریستراں میں

اپنی بیوی کے ساتھ

خریدنا چاہتے ہیں

بچّے کے لئے کھلونے اور کتابیں

ماں کے لئے ایک مصلیٰ

جس کے بغیر بھی وہ

دعائیں مانگتی رہتی ہے

سارے جگ کی سلامتی کے لئے

ہم بھی خریدنا چاہتے ہیں

 

قیمتی تحفے اپنی محبوبہ کے لئے

جس سے سچائی ناپی جاتی ہے پیار کی

مہا نگروں میں

 

کیا فرق ہے

ہم میں اور آپ میں

 

پھر بھی

نہ جانے کیوں ان دنوں

رندھے ہوئے گلے سے ہی سہی

چیخنا چاہتے ہیں ہم

آپ کے میٹھے سپنوں کے سرہانے بیٹھ کر

گانا چاہتے ہیں کوئی دکھ بھرا گیت

پو پھٹنے تک

 

کیا ہمیں اپنے وجود کے بکھرتے چھندسے

کوئی دھن ،کوئی لے بننے کی

اجازت دیں گے آپ!

٭٭٭

 

 

 

 

 

سڑک کے دونوں طرف خیریت ہے

 

آسمان کے ایک کنارے سے

دوسرے کنارے تک اڑ رہی ہے

رنگ برنگی موت

پتنگوں کی طرح بل کھاتی ہوئی

جس کی ڈور

گلی کے منچلے لڑکوں کے ہاتھوں میں ہے

بکھرتے چاند کی

ادھ جلی پرچھائیں سے بنے رتھ پرسوار

جھومتے ہوئے آتے ہیں آوارہ کتے

جو بھونکتے ہیں

کبھی دھیمی اور کبھی تیز آواز میں

سمجھ دار لوگ

کھڑے ہو جاتے ہیں سڑک کے دونوں طرف

سرجھکا کر

٭٭٭

 

 

 

 

جنگ

 

جنگ

رات کے پاتال میں

روشنی کی بے کار بوندوں کے

سسکنے کی آواز ہے

جسے کبھی نہیں سن پاتے

سیاستدانوں کے کان

 

پرائے روپ کی انگنائی میں

اپنے حسن کی جھلک دیکھنے کی للک

ناگزیر بنا دیتی ہے جنگ کو

 

جنگ

روٹھی ہوئی محبوبہ کا نام نہیں

جس کی ناراضگی دور کی جا سکتی ہو

ایک بوسے سے

 

کسی اور کے سرسے

پگڑی اتارنے کے جنون میں

اپنے سرپرکفن باندھنے والو

امن تمہارے گھرکی لونڈی نہیں

جس کی کلائیوں سے تم

جب چاہتے ہو اتار لیتے ہو چوڑیاں

 

خندقیں کھودی جاتی ہیں

جس زمین کے سینے میں

دوسروں کو مار کر خود زندہ رہنے کی

بے ہودہ ہوس میں

نہریں بھی نکالی جا سکتی تھیں وہاں !

٭٭٭

 

 

 

 

 

رات اور وِش کنیا

                (۲۴؍جنوری ۱۹۹۰ء)

 

تم نے

اندھیری رات چنی

اور رسّی چنی اپنے لئے

اور میرے لئے بند کر دیے

عذابِ ماہ وسال سے بچ نکلنے کے تمام راستے

 

میں نے

ماں کو ماں کہا

تم سے پہلے

رو کر اور چیخ کر

میں نے توڑی خاموشی کی برفیلی چٹان

اور اپنی ہستی کا اعلان کیا

تم سے پہلے

جلتی سیخوں سے داغا گیا

میرااحساس

تم سے پہلے

 

آتی جاتی سانسوں نے

آگ بھری میری ہڈیوں میں

 

گہری کالی رات نے

بسیرا کر لیا تھا مجھ میں

تم سے پہلے

 

میں نے بھی

چن رکھی تھی ایک رات

بھیانک منحوس اور کالی رات

اپنے لئے

 

میں نے بھی ایک رسّی چن رکھی تھی

اس تنگ و تاریک گھاٹی میں اترنے کے لئے

جس میں تم اتر گئے

مجھ سے پہلے

 

تم میرے جیسے تھے نا!

ایک ہی مامتا کی مہربان شاخ پر

جھولے ڈالے تھے میں نے اور تم نے

ایک سے تھے میرے اور تمہارے دکھ

میری اور تمہاری آنکھوں سے بہنے والے آنسو

اور ان آنسوؤں میں بھیگ کر

ایک سالگتاتھامیرااور تمہاراچہرہ!

تم میرے جیسے تھے نا!

شاید اسی لئے مجھے کسی نے پکار لیا ہے

آج پھر تمہارے نام سے

اور اچانک

خواب سے چونک پڑا ہوں میں

 

یا پھر

کہیں ایساتونہیں

اپنے ہونے کے بھرم میں

تمہارے نہ ہونے پر

اصرار کرتا رہا ہوں میں

 

تو کیا سچ مچ یہ میں نہیں

یہ میرے ہاتھ،پاؤں ،آنکھیں

سب تم ہی تم ہو

تو کیا وہ میں تھا

جس نے تھوک دیاتھااس رات

دنیا کے کریہہ چہرے پر

تو کیا وہ میں تھا

جس نے رسّی کے ایک ٹکڑے سے

ناپ لی تھی اپنی بچی کھچی عمر

 

تو کیا یہ تم ہو

جو اتنی رات گئے

نظم لکھ رہے ہو

میرے لئے………

٭٭٭

 

 

 

 

جب لڑکیاں نہیں ہوں گی

 

ہماری رات کے ٹوٹے ہوئے چاک پر

گڑھا جا رہا ہے

ایک بے حد ڈراؤنا خواب

بُنا جا رہا ہے ایک ایساآسمان

جو پرندوں سے خالی

اور دھوئیں سے بھرا ہے

 

کل جب لڑکیاں نہیں ہوں گی

اوزون کی پرت میں بنے کسی سوراخ سے

پیدا ہوں گے بچّے

 

ہمارے لہوسے

سینچے گئے پیڑ کی سوکھی شاخ پر

گائے گی کوئی چڑیا ایک اداس گیت

اور لوگ سمجھیں گے

صبح ہو گئی!

٭٭٭

 

 

 

 

پیش لفظ ایک محبت نامے کا

 

کمرے کی سیلن سے اُکتا کر

کہیں چلی گئی ہے

میرے حصّے کی دھوپ

بندھن سے ڈرنے والی چڑیا

اڑ رہی ہے کھوکھلے آکاش میں

 

اور میں !

میں تواستقبال بھی نہیں کرسکتا

کسی نئی آہٹ کا

کیونکہ ڈر گیا ہوں میں

آتے ہوئے قدموں کی

لوٹتی ہوئی بازگشت سے

 

میری آنکھوں میں جم گئی ہے

اداس،لو بھری دوپہر

ہمالہ کی چوٹی پر جمنے والی برف کی طرح

میں بھول چکا ہوں

املتاس کے پھول سے اپنا پہلا مکالمہ

 

کمرے کے کس دروازے سے

کھڑکی سے یا روزن سے

داخل ہوئی تھی سورج کی پہلی کرن

مجھے کچھ یاد نہیں

 

ایک بے حد مصروف لمحے کے لئے

سنبھال رکھا تھا میں نے

بہت سارا خالی وقت

اپنے آنکھوں میں

اپنے ہونٹوں پر

اپنی بانہوں کے ٹوٹتے ہوئے گھیرے میں

بے ہنگم خوابوں کے بکھرتے دائرے میں

 

کسی بسنتی جسم کے پہلے تہوار میں

ادھورا چھوڑ آیا میں اپنا رقص!

میرے عشق سے کہیں زیادہ لمبی تھی

میرے پریم پتر کی بھومیکا!

٭٭٭

 

 

 

 

ڈوبتی ناؤ پر

 

نظریات کی سیڑھیوں کے نیچے

کھدائی جاری ہے

 

پوری طاقت سے پکڑے رہیے

اپنے اپنے ملک،مذہب

اور عقیدے کے سانپوں کی دُم

جیسے پکڑے رہتے ہیں

ڈوبتی ناؤپرسوارلوگ

ایک دوسرے کو!

٭٭٭

 

 

 

 

گراؤنڈ زیرو

 

وہاں بھی ہوتا ہے

ایک ریگستان

جہاں کسی کو دکھائی نہیں دیتی

اڑتی ہوئی ریت

 

وہاں بھی ہوتا ہے

ایک درد

جہاں تلاش نہیں کئے جا سکتے

چوٹ کے نشان

 

وہاں بھی ہوتی ہے

ایک رات

جہاں جرم ہوتا ہے

چاند کی طرف دیکھنا بھی

 

وہاں بھی ہوتی ہے

ایک روشنی

جہاں پابندی ہوتی ہے

 

پتنگوں کی خود سوزی پر

وہاں بھی ہوتی ہے

ایک دہشت

جہاں ادب کے ساتھ

قاتلوں سے اجازت مانگنی ہوتی ہے

چیخنے سے پہلے

 

وہاں بھی ہوتا ہے

ایک سوگ

جہاں موم بتیاں تک نہیں ہوتیں

مرنے والوں کی یاد میں جلنے

یا جلانے کے لئے

 

وہاں بھی ہوتا ہے

ایک ’شونیہ ‘

جہاں نہیں پہنچ پاتے

ٹی وی کے کیمرے !

٭٭٭

 

 

 

 

نئی الفی میں

 

یہ رات

کروٹیں بدل رہی ہے میرے ساتھ

بے آب وگیاہ ریگستان میں

 

پرندے جاگ رہے ہیں

لیکن سنائی نہیں دے رہی ہے

ان کی دلنواز چہکار

 

میرے ساتھ چل رہی ہے

وقت کی رکتی ہوئی نبض

میری کلائی پر ہیں

سائنسدانوں کی سوچتی ہوئی انگلیاں

جن میں اب بچ گئے ہیں

لمس کے احساس کی جگہ

صرف بڑے بڑے ناخن!

٭٭٭

 

 

 

 

 

اور تالیاں

 

ہر رات

ایک نئے چاند کی طرف

چہرہ کر کے سونے کی ہوس کے سوا

اور کیا ہے اقتدار

جمہوریت کے ناٹک میں

 

سیاست نہیں گھومتی

ابھری ہوئی چھاتیوں کے چاک ہر

نہ ہی داغی جا سکتی ہے سنگھاسن کی طرف

تنی ہوئی کمان پر رکھ کر

 

حال کے تاریک گلیاروں سے

مستقبل کی چکاچوند تک

پہنچنے کاراستہ ڈھونڈ تے ہیں

بھونڈے نقش و نگار اور

بھدّی آواز کے شور میں

اپنی محرومیوں کو چھپاتے ہیجڑے

جن کا مقدّر ہے

 

دھنسی ہوئی چھاتیوں پر

سپنوں کی گیندسجا کر خوش ہو جانا

پھر بھی

بہت سارے لوگ بن جاتے ہیں

ان کے حمایتی

انھیں ناپسندکرنے کے باوجود

 

کیونکہ

نا مردوں کے ازار بند کا پھندا بنا کر

خود کشی کرنے سے بہتر ہے

ہیجڑوں کے ساتھ تالیاں بجاتے ہوئے

گزار دینا بچی کھچی عمر

تاکہ

جھنجھلاہٹ کے کسی حسین لمحے میں

بے لباس ہو کر دکھائی جا سکے

اپنی اوقات!

٭٭٭

 

 

 

 

 

لکشمن ریکھا

 

نہیں !

آپ نہیں سمجھا سکتے مجھے

جینے کا مطلب !

 

نہیں بتا سکتے

صبح اٹھ کر کتنی دور ٹہلنا

کتنی دیرکسرت کرنا ضروری ہے

تندرست رہنے کے لئے

کھا نے کے لئے گوشت مناسب ہے

یاساگ سبزیاں

رونے کے لئے مناسب جگہ

دفتر ہے یا باتھ روم

مجھے سمجھانامشکل ہے

 

کتنامسکراناچاہئے

کیمرے کے سامنے

اور کتنا

ایک پرانے دوست کو دیکھ کر

 

محبوبہ کو چاہنے سے

بڑھتا یا کم ہوتا ہے

بیوی کے حصّے کا پیار

مجھے نہیں بتایا جا سکتا

 

شہید کہلانے کے لئے سرحدپرمرناضروری ہے

ایک قبرستان کی چوکیداری کرتے ہوئے

یا پھر

مسجد،مندر یا گرجا گھر میں

مذہبی ہونے کا ڈھونگ کرتے ہوئے

مجھے نہیں پوچھناکسی سے

 

جینے کی للک

اور موت کی دہشت سے بنی لکشمن ریکھا

نہیں کھینچی جا سکتی

میرے گرد

 

کسی تانا شاہ کے سنگھاسن پر

اپنے پاؤں رکھ کرسونے کا مطلب

جانتا ہوں میں !

٭٭٭

 

 

 

 

ایک غیر ضروری نظم

 

 

تمہیں چاہتا رہا ہوں

پاگل پن کی سرحدوں کے پار بھی

 

پڑھتا رہا ہوں

میزسے بسترتک پھیلی

لکھی،ان لکھی کتابوں کے ڈھیر میں

ترستا رہا ہوں

تمہاری جھلک کے

محض التباس کو بھی

دیکھتا رہا ہوں

تمہاری راہ

تصوّر کی کھلتی بند ہوتی کھڑکیوں سے

حسرت اور مایوسی کے ساتھ

 

تمہیں

ڈھونڈ تا رہا ہوں

ہری گھاس کے سمندرمیں

ہرے سانپ کی طرح!

٭٭٭

 

 

 

 

 

زمین کا جنرل نالج

 

زمین

ہیبت ناک تاریکی میں

گردش کرتی زمین

دیکھ رہی ہے

خوف اور حیرانی بھری نظروں سے

اپنے محور کو

 

اسے اب پتہ چلا

وہ ناچ رہی ہے

ایک میزائل کی نوک پر!

٭٭٭

 

 

 

 

تنی ہوئی رسّی پر

 

بار بار

رک جاتا ہوں میں

توازن بنائے رکھنے کی کشمکش میں

 

بہت مشکل ہوتا

کسی بے نام رشتے کی تنی ہوئی رسّی پر

چلتے رہناساری عمر!

٭٭٭

 

 

 

 

دو بوڑھے لوگ

 

 

جب سڑکوں پر

گھناکہراکھانس رہا ہوتا ہے

دق کے مریض کی طرح

ایک عورت بچّے کو تیاّر کر رہی ہوتی ہے

اسکول کے لئے

ایک مرداس کے بستے میں

مستقبل کی روشنی انڈیل رہا ہوتا ہے

 

سنہری خواب جوان ہو جاتے ہیں

بچّے کی آنکھوں میں کروٹیں بدلتے ہوئے

 

کچھ برسوں بعد

جنوری کی کہاسوں بھری سڑک پر

مرد اپنے کانپتے ہاتھوں سے

عورت کے سفیدبالوں میں انگلیاں پھیرتا ہے

اور ہارن کی آواز پر چونک کر

دونوں چل پڑتے ہیں پھرسے کھانستے ہوئے

دق کے مریض کی طرح!

٭٭٭

 

 

 

اس کاساتھ

 

جیون

جیسے کالی سردگپھا

اور جیون میں

ماچس کی اک تیلی کے جل جانے بھر تھا

میرا    اس کاساتھ

٭٭٭

 

 

 

 

مسخروں کے درمیان

 

نام نہاد جمہوریت کے

عظیم الشّان بوچڑخانے میں

گھُس آئے ہیں

بھیڑیوں کے غول

 

باہر کھڑے دانشور،صحافی

اور اپنی چمکتی چھاتیوں پر

انصاف کے تمغے سجائے لوگ

لطیفے سنا رہے ہیں ایک دوسرے کو

اور سن رہے ہیں

چپڑ…چپڑ…کا شور!

٭٭٭

 

 

 

 

پاس ورڈ

(PASSWORD)

 

محفوظ ہیں

میرے دماغ کے کمپیوٹر میں

ساراآکاش

دھرتی کا دھوپ سے ڈھکاجسم

بارشوں میں اُپھنتی ندی

اور ندی میں پورے جسم سے نہاتی

ایک لڑکی

جس کے جنم دن پر

سستے تحفے دیا  کرتا تھا میں

ہرسال

 

آج بھول گیا ہوں میں

اس لڑکی کا جنم دن

مجھے یاد نہیں اپنا ’پاس ورڈ‘ بھی!

٭٭٭

 

 

 

 

بازار میں

 

سرنج سے لے کر

چائے کی پیالی تک

کیا نہیں ہے اس منڈی میں

 

اٹے پڑے ہیں دل اور گودام

ایسے لوگوں ،ایسی چیزوں سے

جنھیں پھینکا جا سکے استعمال کے بعد

یا برباد کیا جا سکے آسانی سے

بغیرکسی تاسّف اور پشیمانی کے

 

دن بہ دن

بڑھتی ہی جا رہی ہے ان کی مانگ

اور اقتصادیات کے اصولوں کے برعکس

ان کی قیمتیں بھی

 

تہذیب کے اس پڑاؤ پر

کوئی فرق نہیں رہ گیا

قلم اور کنڈوم میں !

٭٭٭

 

 

 

 

عام معافی کے لئے

 

بین کرتی عورتوں سے

ہم پوچھ رہے ہیں میرؔ کے شعر کا مطلب

بے گھر بھونروں سے کہہ رہے ہیں

شکنتلاکو رِجھانے کے لئے

لوُ  بھری دوپہر میں

کوکنے کا تقاضہ کر رہے ہیں کوئل سے

 

اس مشکل وقت میں

کچھ لوگ کہہ رہے ہیں ہم سے

اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لئے

ایک ٹوٹے ہوئے برتن کو

چاک سے وفاداری ثابت کرنے کے لئے

کچھ لوگ تالیاں بجا رہے ہیں

کچھ حیران ہو کر دیکھ رہے ہیں

ان کی اور ہماری شکل

یہ معصوم ہیں

انھیں معاف کر دینا میرے خدا

اور ممکن ہو تو ہمیں بھی

کہ ہم جی رہے ہیں

اس مشکل وقت میں بھی!

٭٭٭

 

 

 

 

 

کارنامہ

 

میں تو

بس جھنجھلانا،غصّہ کرنا

اور چیخنا جانتا ہوں

مجھ سے مت پوچھوں

میرے کارناموں کے بارے میں

 

میں

وزیر،اداکار یا کرکٹ اسٹارنہیں

مجھے اقرا رہے

میں نے کوئی تحقیق نہیں کی

مجھے یقین ہے

کوئی میزائل ،کوئی بم

نہیں بنایا میں نے

یہاں تک کہ

کسی ناشر نے نہیں چھاپی

میری کوئی کتاب بھی

 

ہاں !دیکھا ہے میں نے

ایک سہمی ہوئی عورت سے چھین کر

سال بھرکے بچے کو

آگ میں جھونکے جاتے ہوئے

لیکن دوسرے تماش بینوں کی طرح

سونہیں گیا میں چپ چاپ

اپنے ضمیر کا تکیہ بنا کر

بلکہ چیختا رہا

چیختا رہا

 

اگر تم جاگ رہے ہو

تو میری چیخ ہی

میراسب سے بڑا کارنامہ ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کدھر ہے اندھیرا

 

رگوں میں دوڑتے خون کے بہاؤسے

پیدا ہوتی ہے بجلی

بہتا ہے سڑک پر یہی خون

جب شریانوں سے باہر

تو پھیلتا ہے اندھیرا

 

لیکن کبھی کبھی فرق کرنا مشکل ہوتا ہے

اندھیرے اور اجالے میں

 

سنسان سڑک پر

ٹھٹھرتے لیمپ پوسٹ کا مذاق اڑاتی

کار کی ہیڈلائٹس پوچھتی ہیں

کدھر ہے اندھیرا!

٭٭٭

 

 

 

 

مجرا

 

کسی طوائف کے روزنامچے میں

سنہرے حروف میں لکھا جا رہا ہے

ہمارا نام!

 

تنزّلی کے اکیسویں تہہ خانے میں

مورّخوں کی نظر میں

اکیسویں صدی کے کوٹھے پر

کلائیوں پر گجرے لپیٹے ہم

لطف لے رہے ہیں

بی بی سی اور سی ان ان کی

ہائی ٹک محفل کا

جہاں سازندے لئے بیٹھے ہیں

ہارمونیم کی جگہ مشین گنیں

طبلوں کی جگہ انسانوں کے کٹے ہوئے سر

 

اور ہم

مجرا دیکھ رہے ہیں !

٭٭٭

 

 

 

 

فریزر میں رکھی شام

 

تم نے

میری روح کو

اک کالے تابوت میں رکھ کر

کیلیں ٹھونکیں

جسم کو لیکن چھوڑ دیا

گھنی رات کے جنگل میں سوجانے کو

 

اور میں

تن کے ٹکڑے کر کے

لفظوں کے صندوق میں بھرکر

بیتے دنوں کے فریزر میں رکھ آیا ہوں

جب تم اپنی گزری شاموں کے پٹ کھولو گی

ڈر جاؤ گی!

٭٭٭

 

 

 

 

کچھ نئی آوازیں پرانے قبرستان سے

 

مکھّی کی طرح پڑی ہے

آپ کی چائے کی پیالی میں

ہماری وفاداری

 

ہم جو بابر کی اولادیں نہیں

باہر نکلنا چاہتے ہیں

تعصّب اور ریاکاری کے اس مقبرے سے

 

آخر

کب تک سنتے رہیں گے ہم

تاریخ کے جھوٹے کھنڈروں میں

اپنی ہی چیخ کی بازگشت

 

آپ جوبانسری بجا رہے ہیں

جمہوریت نما گائے کی پیٹھ پر بیٹھے

شہر کے سب سے پرانے قبرستان سے

اٹھتی یہ آوازیں

سنائی دے رہی ہیں آپ کو!

٭٭٭

 

 

 

 

 

درمیانی وقفہ

 

زندگی

ایک صفرسے شروع ہو کر

گم ہو جاتی ہے

دوسرے صفر میں

درمیانی وقفے میں

ہم  Popcornکھاتے ہیں

پینٹنگس دیکھتے ہیں فداحسین کی

ایٹمی دھماکے کرتے ہیں

ہم بسترہوتے ہیں

اپنی یا پرائی عورت کے ساتھ

اور سوجاتے ہیں

دوسری صبح جاگنے کے لئے!

٭٭٭

 

 

 

 

ہاں مسلمان =نہیں مسلمان

 

وہ

جو کبھی نہیں رہے

مسلمانوں کے محلّے میں

گندگی کے ڈرسے

 

جنہوں نے احمد،محمدؐ یا علی

نہیں لگایا بچّوں کے نام کے ساتھ

مکّہ یا مدینہ کی جگہ

فلمی اداکاروں یا اداکاراؤں کی

تصویریں لگا رکھی ہیں

ڈرائنگ روم میں

پتہ تک نہیں وضو کرتے وقت

کتنی بار دھوتے ہیں ہاتھ

کون تھا ان کے اجداد میں

مسجدجانے والا آخری شخص

جنہیں یاد نہیں

قرآن کی ایک آیت تک

 

جو کبھی نہیں ڈرے خداسے بھی

آج دبکے پڑے ہیں

اپنے ہی گھر کے کسی کونے میں

اپنی پہچان ظاہر ہونے کے ڈرسے!

٭٭٭

 

 

 

 

 

یادیں

 

بادل کے

کسی گمشدہ ٹکڑے پر

تمہارے نام کاآسمان بُنتے ہوئے

میری آنکھیں الجھ جاتی ہے

کٹیلی جھاڑیوں میں

بار بار!

٭٭٭

 

 

 

 

 

تھوڑی سی

 

کم ہو جاتا ہے

اس کے حصّے کاآکسیجن

سٹرجاتی ہے گہرائی میں اگی گھاس

 

مرنے والی ہر مچھلی کے ساتھ

سوکھ جاتی ہے ندی

تھوڑی سی!

٭٭٭

 

 

 

 

ایک آواز

 

ابھی

کچھ دیر پہلے تک

یہ میں ہی تھا

اپنی ہی آوازسے خائف

سراسیمہ ،پریشان

ڈوبتی سانسوں کی بے بس ناؤ میں

بیٹھا ہوا

 

زمیں سے آسماں تک

میری دنیا میں

اگر کچھ تھاتوبس

اک ماتمی دھن کی مسلسل گونج

اور اس گونج سے

لرزتا،کانپتا میرا وجود

آنسوؤں میں تر بہ تر اک مرثیہ گو

اور وحشی ساعتوں کا

بے تحاشہ تانڈو

 

دفعتاً

رات کے اوّل پہر میں

صبح روشن کی بشارت جیسی اک آواز کا جادو

مرے ہر موئے تن میں

راگ بن کر کھل اٹھا

لال،پیلے اور گلابی رنگ کی

آدھی ادھوری ساری تصویریں

اچانک مسکرااٹھیں

تصوّر میں ہزاروں پنچھیوں نے

پنکھ اپنے پھڑپھڑائے

اور سریلے گیت گائے

 

ایک آیت کے مقدس ہونٹ نے

میری پیشانی کو چوما

ہاتھ رکھا میرے شانوں پر

لوریاں گا کرسنائیں

اور میں

زندگی کے سب سے اچھے خواب کو

آنکھوں میں بھرکرسوگیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

مارکیٹ ویلیو

(Market Value)

 

تمہاری

زندگی کے ایک کونے میں

خود اپنی ہی ادھوری نظم کی مانند

کسی بوسیدہ کاغذ پر

کہیں پھینکا ہوا ہوں

 

تمہاری اس قدر مصروف دنیا میں مری قیمت

گھٹتے گھٹتے

صرف اتنی رہ گئی ہے!!

٭٭٭

 

 

 

 

 

تیسرے انسان کی مجبوری

 

دو جنگ پر آمادہ لوگ

جنم دیتے ہیں تیسرے شخص کو

جو مجبور ہوتا ہے لڑنے کے لئے

 

ٹھیک اسی طرح

جیسے دو چاہنے والے

جنم دیتے ہیں

تیسرے انسان کو

ایک پل بھی زندہ نہیں رہ سکتا

جو پیار کے بنا!

٭٭٭

 

 

 

 

تقویٰ

 

بہت عیّار تھے وہ لوگ

وہ سارادن خدا کو یاد کرتے

مسجدوں میں جاتے

روتے ،گڑگڑاتے اور تسبیحیں پڑھا کرتے

زمانہ معتقدتھااس قدر ان کا

وہ جب باہر نکلتے

لوگ ان کے راستے کی گرد کو

اپنے عماموں سے ہٹاتے تھے

ان کی خاطر خوانِ پر نعمت سجاتے تھے

 

مگر

جب رات آتی

اور اندھیرے ہر در و دیوار پر

خیمے اپنے نصب کر لیتے

تو پھر یہ دھار لیتے

ڈاکوؤں کابھیس

لوٹ لیتے آبرو

مال و زر،لعل و گہر

 

اور پھر وہ صبح دم

صدق وصفاکادرس دیتے

اور صبر و رضا کی شہر  کو تلقین کرتے

اور پھر مصروف ہو جاتے

عبادت میں وہ اپنی

 

انھیں شدّاد کی جنّت

الہٰی کی رضاسے چاہئے تھی

٭٭٭

 

 

 

 

ایک کامریڈ کی موت پر

 

خدا

اس آدمی کو بخش دینا

ترے رحم و کرم کامستحق ہے!

 

بہت نادان تھا

معصوم اس درجے کہ اک دن

دوسروں کے گمشدہ خوابوں کی

تعبیریں جو نکلا ڈھونڈنے تو

اپنی آنکھوں سے بھی اوجھل ہو گیا

 

اس آدمی کو بخش دینا!

٭٭٭

 

 

 

 

 

کیوں

 

کیوں بوئی گئی ہے

ہمارے خمیر میں اتنی وحشت

کہ ہم انتظار بھی نہیں کرسکتے

فلسفوں کے پکنے کا

 

یہاں کیوں اگتی ہے

صرف شکوک کی ناگ پھنی ہی

دلوں کے درمیاں

 

کون بو دیتا ہے

ہماری زرخیز مٹّی میں

روز ایک نیا زہر؟

 

یقین کے البیلے موسم

تو ہمارے شہر میں کیوں نہیں آتا؟

٭٭٭

 

 

 

 

 

نرودا پٹیہ میں ایک شام

 

سبزگنبد

ابابیل کے قافلے آسماں پر

اذانوں کی آوازسن کر

مساجدکی جانب قدم کو بڑھاتے ہوئے

اپنی ٹوپی سنبھالے وہ معصوم بچّے

کہاں ہیں ؟

 

میں پھر

اس زمیں پر فرشتوں کو چلتے ہوئے

دیکھنا چاہتا ہوں !

٭٭٭

 

 

 

 

بدلتے زاویے سے

 

یہ شہر کے سب سے مہنگے

فائیواسٹارہوٹل کا ایک کمرہ

شریف لوگوں کی نیکیوں کا

یہ کولڈاسٹور

شراب کی خالی بوتلوں سے اٹا پڑا ہے

الگ الگ زاویوں سے کھینچی گئی

دہکتی جوان راتیں

ہر ایک جانب دیوار پریوں ٹنگی ہوئی ہیں

ہوس کی ننگی رکابیوں میں

بدن کی قاشیں پڑی ہوئی ہیں !

٭٭٭

 

 

 

 

ترے جانے کے بعد

 

مجھے تنہائی لکھنی ہے

سمندرکی کشادہ چھاتیوں پر

آسماں کی نیلی پیشانی پہ لکھنا ہے

تمہارے نام کابوسہ

رات کے کالے جزیرے میں

کسی گرتی ہوئی دیوار پر

لکھنا ہے اپنے دل کا حال

ہوا کی سرسراہٹ سے لرزتے جنگلوں کے

سب سے اونچے پیڑ پر لکھنی ہے

لہجے کی بیابانی

ترے جانے کے بعد!

٭٭٭

 

 

 

 

شام  :  تین عکس

 

                ایک

 

شام کے جزیرے میں

چلبلی حسینہ نے

چاندسابدن کھولا

بے سرے خیالوں میں

شاعری کارس گھولا

 

                دو

 

شام کے کبوتر جب

سرمئی کناروں کو

چھو کے لوٹ آتے ہیں

ہم دیے جلاتے ہیں

 

                تین

 

دھوپ کی اداسی پر

شام مسکراتی ہے

ہم کو نیند آتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

رنگ محل میں

 

بارہ دری میں

سُراور لے کے بے حد دلکش چاند کی

مدھم کرنوں کا

ریشم جیساجال بچھا ہے

نرم،ملائم بسترپراک رات پڑی ہے

اور میں

بے خوابی کا چوغہ پہنے

بیتے لمحوں

کچے دھاگوں

سوکھے پھولوں

اجڑی آنکھوں

ٹوٹے سپنوں کے

السائے رنگ محل میں

تنہا تنہا بھٹک رہا ہوں !

٭٭٭

 

 

 

 

Lap Dog کی حمایت میں

 

ان کے پاس ہے

ایک جھاڑو

جس سے ڈال جاتے ہیں وہ

اپنے گھرکی گندگی دوسروں کے دروازے پر

لیکن وہ باور کرانا جانتے ہیں

تمام تر جدید طریقوں سے کہ یہ جھاڑو نہیں

دُمدارستارہ ہے

 

وہ مارتے جا رہے ہیں بھیڑیا کہہ کر

تمام گایوں ،کتّوں ،اونٹوں

اور یہاں تک کہ انسانوں کو بھی

جو تیاّر نہیں ’لیپ ڈاگ‘ بننے کے لئے

 

ان کے

ایک ہاتھ میں آزادی کی

اور دوسرے ہاتھ میں ہے

حقوقِ انسانی کی بھری ہوئی پستول

جسے کب،کس کی کنپٹی پر رکھ کر

لبلبی دبا دیں وہ

کہا نہیں جا سکتا!

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہمیشہ کے لئے

 

نکل جاتے ہیں سپنے

کبھی نہ ختم ہونے والے سفرپر

بار بار کی اذیت سے تنگ آ کر

 

گیلی آنکھیں

بار بار پونچھی جائیں

سخت ہتھیلیوں سے

تو چہرے پر خراشیں پڑ جاتی ہیں

ہمیشہ کے لئے!

٭٭٭

 

 

 

اپنی مرضی کے خلاف

 

وہ جومستقبل کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے

ماضی کا قہوہ پی رہے ہیں

حال بہت بڑی بساط ہے شطرنج کی

ان کے لئے

اور عام آدمی

وہ مہرہ جو پٹ رہا ہے

شاہ کو بچانے کے لئے

اپنی مرضی کے خلاف!

٭٭٭

 

 

 

 

ایک نظم نفرت کے لئے

 

اتنی بار

بھگونا اور نچوڑنا چاہتا ہوں

اپنے دکھوں کے لباس کو

کہ دلدل بن جائے

تمہارے پاؤں کے نیچے کی زمین!

٭٭٭

 

 

 

 

ہنستے رہو

 

ہنسو!

ہنسوکہ ہنسنے کے لئے

بہت کم وقت ہوتا ہے زندگی میں

 

ہنسو!

کبھی دنیا پر

کبھی خود پر

ویسے خود پرہنسنے کے لئے

روکنی پڑتی ہے سانس

کبھی کبھی دل کی دھڑکن بھی

 

ہنسو!

تب تک ہنسو

جب تک تمہاری ہنسی

بہانہ نہ بن جائے تمہاری اچانک موت کا

ہنستے رہو!

٭٭٭

 

 

 

 

تب صبح ہو گی

 

ہم اہتمام کرینگے

ایک نمائش کا

جس میں پینٹنگس بنائیں گے بچے

بحری بیڑے میں شامل جہازوں

اور ٹینکوں پر

بکتر بند گاڑیوں سے

کام لیا جائے گا بیت الخلا کا

بجوکا کی طرح کھیتوں میں کھڑی ہوں گی

بندوقیں اور رائفلیں

جس پر چونچ ماریں گے کبوتر اور کوّے

 

تب لگے گی ہمیں

یہ دنیا جینے کے لائق

جب سکھوئی اور ایف ۱۶پر

پیشاب کریں گے آوارہ کتّے!

٭٭٭

 

 

 

 

 

اچھّا عشق

 

اچھے عشق کے لئے

بہت کچھ درکا رہے

عشق کے علاوہ بھی بہت کچھ

اور جن کے پاس عشق ہوتا ہے

’بہت کچھ‘ نہیں ہوتا ان کے پاس

 

برے لوگوں کے پاس

وہ سب کچھ ہوتا ہے

جس سے پیدا کیا جا سکے

اچھے اور سچّے عشق کا

کبھی نہ ٹوٹنے والا بھرم

 

اچھا عشق

اچھے لوگوں کے بس کی بات نہیں !

٭٭٭

 

 

 

 

تم آزاد ہو

 

وہ آگے بڑھ رہے ہیں

آزادی کی کروز مزائلیں

اور خوشحالی کے ٹینک لے کر

تمہارے ہی خون سے

تمہارے پھولوں کوسینچتے ہوئے

کربلا کے پیاسوں میں

پیپسی کی بوتلیں بانٹتے ہوئے

وہ آرہے ہیں !

 

تمہارے تیل کے کنوئیں میں

لگی آگ سے اٹھتے دھوئیں سے

اپنے بچوں کے لئے کاجل بنا رہی ہیں

امریکی مائیں !!

 

آزادی تمہاری طرف بڑھ رہی ہے

گمنام قبروں کو روندتی ہوئی

تمہاری آواز میں گہری سیندھ لگا کر

روح میں داخل ہوتے ہوئے

 

کتنی کھڑکیاں ،کتنے دروازے توڑ ڈالے گئے

مت رکھناحساب

مت پوچھنا کیا قصورتھا

تمہارے اجنمے بچّے کا

کس کاراستہ روکا تھا

تمہاری بوڑھی ماں کے کٹے ہوئے ہاتھ نے

کون ساکیمیاوی اسلحہ چھپا تھا

ڈپارٹمنٹل اسٹور پرسے خریدے گئے دودھ کے ڈبّے میں

مت پوچھناایساکچھ بھی

 

کیونکہ

اب تم آزاد ہو!

٭٭٭

 

 

 

ہم جا رہے ہیں

 

ہم جا رہے ہیں

ایک قبرستان میں وائلن بجانے

جہاں ایک لاکھ معصوم بچّے دفن ہیں

اور پانچ لاکھ گھسٹ رہے ہیں

اپنے کٹے ہوئے اعضاء کے ساتھ

 

ہم جا رہے ہیں

ایک قبرستان میں وائلن بجانے

جہاں پچاس لاکھ قبریں

انتظار کر رہی ہیں

اپنے پیٹ بھرنے کا

اور اس سے کہیں زیادہ لوگ

کھڑے ہیں پھاوڑے اور کدال لے کر

خود اپنی قبریں کھودنے کے لئے

 

اس ’میوزیکل نائٹ‘ میں حصّہ لینے کے عوض

ہمیں ملیں گے اربوں ڈالر

کئی لاکھ گیلن تیل

 

اور مرے ہوئے لوگوں کی ہڈّیاں

جن سے کھاد بنے گا

ہمارے کھیتوں کے لئے

ہم جا رہے ہیں ……

٭٭٭

 

 

 

 

 

تمہارے سوا

 

میں

ہیرے کی قیمت کا اندازہ

اس کے زہرسے لگاتا ہوں

چمک سے نہیں

 

کوئی کھرا نہیں اترا

میری کسوٹی پر

تمہارے سوا!

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہندوستان

 

میرے دل میں

ایک ٹوٹی ہوئی مسجدکاملبہ

اور دماغ میں ہے

ایک عالیشان مندر کا نقشہ

 

اپنے دل کے سونے مینار پر چڑھ کر

چیختا ہوں میں     ہندوستان

اپنے دماغ کے اندھے کنوئیں میں

پکارتا ہوں میں    ہندوستان

 

کوئی جواب نہیں ملتا

کہیں سے بھی!

٭٭٭

 

 

 

 

فیشن شو

 

ایک کے بعد ایک

اپسرائیں آ رہی ہیں

جا رہی ہیں

 

زندگی کے زخم پر مرہم لگاتی

اجنتا اور ایلورا کی گپھاؤں سے نکل کر

آ رہی ہیں

جا رہی ہیں

ریمپ پر جاری ہے ان کاکیٹ واک

 

ٹیلی ویژن پر نگاہوں کو جمائے

میرابیٹا

اپنے ہاتھوں میں لئے بیٹھا ہے ریموٹ

اور میں نظریں بچا کر

اس کی آنکھوں میں اترتی

اور لہراتی ہوئی پرچھائیوں کو دیکھتا ہوں

ایک ہی ٹی ۔وی ہے گھر میں

اور مجھے

 

آج کی تازہ خبر بھی دیکھنی ہے

اور پھر دفتر بھی جانا ہے

 

میری بیوی

جو ابھی امیّدسے ہے

اسے ابکائی بس آنے ہی والی ہے

 

پرانی کیل سے لٹکی ہوئی تصویر میں

دلکش اداکارہ کھڑی مسکا رہی ہے

ہوس کے بھوت بنگلے سے

بدن کے چاند کی خوشبومسلسل آ رہی ہے!

٭٭٭

 

 

 

 

 

سانپ اور سیڑھی

 

اس نے مجھ کو

آس کی سیڑھی دی

اور جھوٹ کاکالاسانپ دیا

بولی:  ’’کھیلوایسااندھاکھیل کہ جس میں

کبھی بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے

ہاں ! اچھا بھی

اور برا بھی

جوکھم توہے

لیکن اگر تم جیت گئے تو

دل اور دنیا

روح اور جسم

تمہاراسب کچھ

اور اگر تم ہار گئے تو……‘‘

وہ دھیرے سے مسکائی

 

پھر کیا تھا

سانپ اور سیڑھی کے اس کھیل میں

زورسے سانپ ہنسا

اور سیڑھی بالکل ٹوٹ گئی!

٭٭٭

 

 

 

 

اُردو کی مخالفت میں

 

میں نہیں چاہتا

کوئی جھرنے کے سنگیت سا

میری ہر تان سنتا رہے

ایک اونچی پہاڑی پہ بیٹھا ہوا

سرکودھنتا رہے

 

میں اب جھنجھلاہٹ کاپرشورسیلاب ہوں

قصبہ و شہر کو ایک گہرے سمندرمیں

غرقاب کرنے کے درپے ہوں

 

میں نہیں چاہتا

مری چیخ کو شاعری جان کر

قدردانوں کے مجمع میں تالی بجے واہ واہی ملے

اور میں اپنی مسندپہ بیٹھا ہوا

پان کھاتا رہوں ،مسکراتا رہوں

 

میں نہیں چاہتا

کٹے بازوؤں سے مرے

 

قطرہ قطرہ ٹپکتے ہوئے سرخ سیال میں

کیمیا گھول کر ایک خوش رنگ پیکر بنائے

رعونت کا مارا مصور کوئی

اور خدائی کا دعویٰ کرے

 

اک زمانے تلک

اپنے جیسوں کے کاندھوں پرسررکھ کے روتے رہے

میں بھی اور میرے اجداد بھی

اپنے کانوں میں ہی سسکیاں بھرتے بھرتے

میں تنگ آ چکا بس!

 

اپنے حصّے کا زہر

اب مخاطب کی شہ رگ میں بھی

دوڑتا،غل مچاتا ہوا

دیکھنا چاہتا ہوں

 

میں نہیں چاہتا

گالیاں دوں کسی کو

تووہ مسکرا کر کہے        مرحبا

مجھے اتنی میٹھی زباں کی

ضرورت نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

صرف انسان

 

پھیل رہا ہے

زہریلا خون

سماج کی کٹی پھٹی نسوں میں

سرحدوں کی لکیروں میں

دوڑ رہا ہے بے روک ٹوک

برقی روکی طرح

جس سے بلب جلائے جا سکتے ہیں

نیویارک یابوسٹن میں

جس سے جگمگا سکتا ہے

فلوریڈاکاساحل

جس سے آگ لگائی جا سکتی ہے

کہیں بھی… کبھی بھی

مذہب،عقیدے یا اصول کے

چھوٹے سے چھوٹے فلیتے میں

اور بڑے سے بڑا دھماکہ

کیا جا سکتا ہے

صرف ایک پل میں

پھر بھی

ختم ہو جائے گاسب کچھ

ایک دھماکے میں

کہا نہیں جا سکتا یقین کے ساتھ

 

ہاں !

اپنی دن بہ دن گھٹتی

قوتِ دفاع کے سبب

ختم ہو جائیں گے شاعر،ادیب اور دانشور

اپنے ٹھنڈے ہوتے خون کی

دہائی دینے کے لئے چھوڑ جائیں گے

دو ایک نظمیں ،کچھ مقالے

اور چند اقوال زرّیں چھٹپٹاتے ہوئے

 

بڑے سے بڑے دھماکے کے باوجود

زمین سے بالکل غائب نہیں ہوں گے

اناکونڈا،بھیڑیئے اور مگرمچھ

ہرے بھرے رہیں گے

کیکٹس اور ببول

زندہ رہیں گے

جارج بش،دہشت گرد اور طالبان

خطرے میں ہے

صرف اور صرف انسان!

٭٭٭

 

 

 

 

یوں بھی بنتا ہے اتیہاس

 

ماضی کی پرچھائیاں

جب پڑتی ہیں حال پر

جنم لیتا ہے اتیہاس

آمروں کے خوف سے

یا انہیں خوش کرنے کے لئے

ایک پورے عہد کی ممی بنا کر

پڑھے لکھے مہذب لوگوں کے ذریعہ

دفن کر دیا جاتا ہے

لفظوں اور جذبات کے اینٹ گارے سے بنے

اہرام میں

قدیم مصر کے شہنشاہوں کی طرح

 

مر چکا ہوتا ہے یہ عہد

اس لئے کوئی خطرہ نہیں ہوتا

اس کے لحیم شحیم جس کے ٹکڑے کر کے

اپنی پسندکے اعضاء لگانے میں

اسے لے جایا جاتا ہے

کسی غیرانسانی تجربہ گاہ میں

لگائے جاتے ہیں

اس کے ہاتھوں کی جگہ

کسی گوریلے کے ہاتھ

آنکھوں کی جگہ سانپ کی آنکھیں

دانتوں کی جگہ بھیڑیے کے دانت

 

حقیقت بد شکل ہو جاتی ہے

اور کریہہ بھی

انتظامیہ کے ہاتھ میں آتے ہی

ایک سرد جنگ شروع ہو جاتی ہے

ماضی اور حال میں

ڈراؤنا خواب بن جاتا ہے

عام انسان کامستقبل

ایک ایسی بھاری زنجیر

جس کے بوجھ تلے گھسٹتی

اور سسکتی رہتی ہے انسانیت صدیوں !

 

اتیہاس میں بچ جاتے ہیں

صرف گوریلے کے ہاتھ

سانپ کی آنکھیں

بھیڑیے کے دانت

اور کسی راکشس کا

ہیبت ناک قہقہہ!

٭٭٭

 

 

 

 

اگلی دعوت کے انتظار میں

 

پیارامڈ تا ہے

خود بخود

بنا کوشش کئے

جس طرح جنگل میں اُگ آتے ہیں

بے شمار چھوٹے چھوٹے پودے

 

لیکن نفرت

مصنوعی طریقوں سے تیار کی جاتی ہے

کسی گھناؤنی تجربہ گاہ میں

اور سجادی جاتی ہے

لذیذ پکوانوں کی طرح

کھانے کی میز پر

(ہوسکتا ہے قئے ہو جائے آپ کو

میری نظم پڑھتے ہوئے)

 

لیکن یقین کیجئے

انسانو ں کے بھنے ہوئے گوشت

عورتوں کے کٹے پستان

 

اور بچوں کی ٹوٹی ہوئی پسلیاں

بڑے ہی شوق سے کھاتے ہیں کچھ لوگ

چھری کانٹے سے

چٹخارے لے لے کر

اور پوچھتے ہیں

کب ہو گی اگلی دعوت

اور کہاں !

٭٭٭

 

 

 

 

مجھے کچھ یاد آتا ہے

 

تمہارے شہر کو چھوڑے ہوئے

اکیّس دن

اکیّس راتیں

اور کچھ پر کار لمحے ہو چکے ہیں

 

مرے اعمال نامے پرکسی بے جان جذبے کا

ادھوراجسم جلتا ہے

وہاں جب دن نکلتا ہے

 

وہاں جب شام ہوتی ہے

کسی کے وائلن جیسے بدن پر

نرم دھوپوں کے نکھرتے سائے

اپنی سرمئی آنکھوں سے

دکھ کے راگ گاتے ہیں

 

وہاں جب رات ہوتی ہے

مرے اندھے مشاموں سے

کوئی خوشبو نکل کر پھیل جاتی ہے

 

محبت کے کسی شفّاف لمحے کامنورجسم

میری بے کراں تنہائیوں میں

جگمگاتا ہے

مجھے کچھ یاد آتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

سفرکی جلد بازی میں

 

دریچے میں ٹنگا اک آسماں

پھول کے بوسیدہ گملے

اپنی گھائل انگلیاں

وقت کے

ٹوٹے ہوئے پُل سے لٹکتاساتھ

بھیڑ میں چھوٹاکسی کا ہاتھ

 

سفرکی جلد بازی میں

اچانک بند ہونے والے

دروازے کے پیچھے

ہم بہت کچھ چھوڑ جاتے ہیں

 

بہت کچھ …ٹوٹا پھوٹا اور کُچلا…

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

تنہائی

 

ابھی ابھی

وہ اٹھ کے کمرے سے گیا ہے

مگر ہر ایک شئے پر

خامشی کی دھول کی

ایک موٹی تہہ جمی ہے

 

جیسے صدیوں سے یہاں

کوئی آیا ہی نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

میں نے کبھی نہیں کہا

 

اکثرایساہواہے

 

سپنوں کی جھولی میں

ستارے چن چن کے

رکھ رہا ہوتا ہوں میں

اور صبح ہو جاتی ہے

 

میری آنکھوں میں

انگارے بھر دیے تم نے

لیکن کبھی نہیں مانگا

میں نے اپنے رتجگوں کاحساب

 

میں نے نہیں مانگا

چاندنی میں بھیگے ہوئے

بیلے کے پھول جیسے تمہارے بدن کالمس

 

میں نے نہیں کہا

جیون کی سنسان دوپہر میں

 

سلگتی شاہراہوں پر

اپنے تلوے جلاتی رہو

میری خاطر

اندھیرے کی ڈوبتی ناؤ میں

رات کے گہرے پانی کاسفرکرو

میرے ساتھ

 

میں نے یہ بھی نہیں کہا

اپنی ہتھیلیوں پر لگا لو

میرے نام کی مہر

کلائی میں بجتی چوڑیوں سے کہو

میرے دل کے ساتھ دھڑکنے کے لئے

سماعت کے کسی مہربان گوشے میں

محفوظ کر لو میری آواز

اپنے حافظے کی ست رنگی دیوار پر

سجالومیری تصویر

باندھ لو میری یاد

اپنے پلّومیں

 

میں نے کبھی نہیں کہا

٭٭٭

 

 

 

 

خاموش رہا جا سکتا ہے

 

یہ کٹا ہوا جنگل نہیں

جلا ہوا شہر ہے

اس کے بارے میں

کچھ نہیں کہہ سکتے ماہرین ماحولیات

اس خاموشی کے لئے

بہت سارے جواز ہیں ان کے پاس

مثلاً

اس المیے سے کوئی خطرہ نہیں

جانوروں اور درندوں کی ناپید ہوتی نسلوں کو

بس انسان ہی تو جلائے گئے ہیں

سانپوں کی ایک بھی قسم کم نہیں ہوئی

بس بچے ہی تو لاپتہ ہوئے ہیں

املاک ہی تو لوٹی گئی ہیں

اسمگلنگ تو نہیں ہوئی

ہاتھی کے دانت یا شیر کی کھال کی

دوشیزگی ہی تو چھنی ہے لڑکیوں سے

ہرن سے کستوری تو نہیں

گرم خون ہی تو بہا ہے نالیوں میں

گنگا یا جمنا کا پانی تو آلودہ نہیں ہوا

نسل کشی ہی تو ہوئی ہے

گو کشی   تو نہیں

 

اتنی ساری دلیلیں ہوں

جب موافقت میں

تو چپ رہا جا سکتا ہے

ضمیر کی اجازت کے بغیر بھی!

٭٭٭

 

 

 

 

یقین اور بے یقینی کے درمیان

 

عادی ہو چکے ہیں یہ الفاظ

سیاستدانوں کی زبان بولنے کے

بدلتے رہیں گے ان کے مطلب بھی

بدلتے زمانوں کے ساتھ

ان کے بدلتے رنگ ڈھنگ سے

تنگ آ چکے ہیں لغات

 

جو کچھ میں لکھ رہا ہوں آج

نہ جانے کل

کیا کیا معنی نکالے جائیں اس سے

 

اب تو شاید

بھروسہ نہیں کرسکتامیں

اپنے لفظوں پربھی!

٭٭٭

 

 

 

 

 

ریلیف کیمپ میں دیوالی

 

کسمساتی شام کے عریاں بدن پر

یہ ستاروں کالباس

جگمگاتے شہر کی اونچی فصیلیں

قمقموں سے بھر گئی ہیں

روشنی ہی روشنی ہے ہر طرف

تم ہو جہاں

 

یہاں کتنے یگوں سے

بس دھواں ہے

گہرا،مٹیالا دھواں

 

جل رہا ہے کچھ جوسپنوں سے زیادہ قیمتی

رنگوں سے دلکش ہے

جو اپنوں سے بھی اپنا

سُروں سے بھی زیادہ بھانے والا

امیدوں سے زیادہ دلفزا

کلیوں سے بھی کومل ہے شاید

جل رہا ہے ہم جہاں ہیں …

٭٭٭

 

 

 

 

انھیں اعتراض ہے

 

وہ کہتے ہیں

بسنت رک کیوں نہیں جاتا

ان کے گملے میں اُگے پودوں پر

ٹھہر کیوں نہیں جاتا ہمیشہ کے لئے پانی

گاؤں کے تالاب میں

زمین پر گر کر

کیوں کھاد میں تبدیل ہو جاتے ہیں

پلاش کے پھول

کیوں چھوڑ جاتی ہیں

اماوس کے قدموں کے نشان

چاندنی راتیں ان کی کھڑکیوں پر

شباب اور شراب میں ڈوب کر بھی

کیوں بوڑھے ہو جاتے ہیں وہ

انہیں اعتراض ہے

 

انہیں اعتراض ہے

آخر گھومتی کیوں ہے یہ زمین!

٭٭٭

 

 

 

 

 

خود کشی سے پہلے

 

بارش کی گواہی میں کھلے

چاہت کے پھول مرجھانے لگے

لہکتے مہکتے باغیچوں میں

زرد پتوں کی جھانجھنیں بجنے لگیں

ندی کنارے اُگی سرکنڈوں کی باڑسے

ہجرت ک ر گئے مرغابیوں کے غول

 

کتنے ہی خوابناک موسموں کی رنگین ردائیں

جل کرخاکسترہو گئیں

 

عمر کی رسّی سے

یہ آخری گانٹھ بھی کھول دی میں نے

مگر تم نہیں آئے

٭٭٭

 

 

 

 

کتھارسس

(Catharsis)

 

ہم انھیں پالتے ہیں

اپنے بچّوں کی طرح

اپنا خون پلا کر

اپنے حصّے کا رزق کھلا کر

انھیں سیرکراتے ہیں

میلے ٹھیلے اور بازاروں کی

اپنی انگلی تھما کر

 

کبھی انھیں

زرق برق لباس پہنا کر

چھوڑ دیتے ہیں گھنے جنگل میں

بے تحاشہ رقص کرنے کے لئے

کبھی کہتے ہیں

ندی کنارے پھسلن بھری ڈھلان پر

دوڑ کر تتلیاں پکڑنے کو

اور قہقہے لگاتے ہیں

ان کے گر جانے پر

 

کبھی انھیں کہتے ہیں

چاند کی بنجر زمین پر

گلاب کی کاشت کرنے کے لئے

اور پھرسوگوارہونے کا ڈھونگ کرتے ہیں

ان کی محرومیوں پر

 

اور جب اکتا جاتے ہیں

اس کھیل سے

برف کے سفیدکفن میں لپیٹ کر

رات کے ہیبت ناک اندھیارے کی قبر میں

سلادیتے ہیں اپنی خواہشوں کو

ہمیشہ کے لئے

اور لطیفے سنانے لگتے ہیں

دوستوں کو…

٭٭٭

 

 

 

 

 

سرنگ میں بجھتی لالٹین

 

جب قتل ہوتا ہے

ایک بے قصورانسان کا

نکل آتے ہیں

اس کے خون کی ہربوندسے بے شمار قاتل

شاطر لٹیرے

اور بے حیا زانی

 

یہ قتل کرتے ہیں

(کچھ لوگ چومتے ہیں

ان کے خون سے رنگے ہاتھوں کو)

اور کھول کر رکھ دیتے ہیں

دنیا کے کسی بھی کونے سے اٹھائے گئے

صحیفے کا کوئی قدیمی نسخہ

آپ کے سامنے

 

یہ لوٹتے ہیں

دکانوں ،مکانوں ،کھیتوں ،کھلیانوں کو

اور آپ کے ہاتھ باندھ کر

 

لٹا دیتے ہیں پیٹ کے بل

کسی تاریخی مجسّمے کے سامنے

 

یہ بے لباس کرتے ہیں

نیم عریاں لڑکیوں کو پوری طرح

داغتے ہیں جلتی ہوئی سگریٹ سے

ان کے چھوئے ان چھوئے اعضاء کو

اور چلے جاتے ہیں صفر کی حالت میں

پرماتما میں تحلیل ہونے

پھر تھوڑی دیر بعد

پائے جاتے ہیں باتیں کرتے ہوئے

فرائڈ کے فلسفے پر

کسی کافی ہوم یاپب میں

آپ کو حق حاصل ہے

ان سے جی بھرکے نفرت کرنے کا

لیکن یہ عام قاتل

عام لٹیرے

یا عام زانی نہیں

جن کے پاس کوئی جواز نہیں ہوتا

اپنی بداعمالیوں کو جائز ٹھہرانے کے لئے!

٭٭٭

 

 

 

 

مجھے حیرانی ہے

 

اگر صحت مند ہونے کا مطلب

ماحول کاساراآکسیجن

اپنے پھیپھڑے میں بھرکر

لافانی ہو جانا ہے

تو مجھے نہیں چاہئے

یہ زندگی

 

اگر اپنے کھیت سینچنے کا مطلب

اوروں کو مجبور کرنا ہے

کسی بنجرریگستان میں ریت پھانکنے کے لئے

تومیں ترجیح دوں گا

بھوکا مر جانے کو

 

اگر امن پسندہونے کا مطلب

دوسروں کو دہشت زدہ کر کے

خود چین کی نیندسوناہے

تو مجھے نفرت ہے

ایسے امن سے

 

اگر حب الوطنی

ایک سرحدمیں اُگے پیڑ کی

دوسری طرف پڑنے والی چھاؤں سے

نفرت کرنے کا نام ہے

تو مجھے حیرانی ہے

کہ خلا میں چکّر کاٹتے ہوئے

بے شمارستاروں اور سیّاروں سے ٹکرا کر

فنا کیوں نہیں ہو گئی یہ زمین

اب تک!

٭٭٭

 

 

 

 

صرف نظم

 

ناقوس اور اذان کی آواز پر

جاگنے والا شہر

کروٹ بدل کرسوگیاہے

ایک بار پھر

 

ہندوستان کے نقشے پر

کسی اور ملک کی تاریخ لکھنے کے الزام میں

سزاکاٹتے بے گناہ اور معصوم لوگ

کہیں پھنس گئے ہیں

سیاست اور عدالت کے

تنگ چوہے دان میں

 

گناہ اور تاسّف کی

اس بے کنار جلوہ گاہ میں

چلنے اور تھکنے کے درمیان

خوف اور حیرانی کے بھنور میں

الجھ کر کہیں رہ گئی ہے انسانیت

 

اور ہم!

شاعری کر رہے ہیں

صرف شاعری !

٭٭٭

 

 

 

 

بھیک

 

کسی مندر کی گھنٹی سے

ڈراسہماہوابھگوان

اک ٹوٹے ہوئے ویران گھر میں جا چھپے گا

اور پجاری

خون میں ڈوبے ہوئے ترشول لے کر

دیویوں اور دیوتاؤں کو پکاریں گے

 

صلیبیں بھی سبھی خالی ملیں گی

ہر طرف گرجا گھروں میں

کیوں کہ سب معصوم طینت لوگ

گلی کے موڑپرسولی سے لٹکے

دعائے مغفرت میں ہر گھڑی مصروف ہوں گے

قاتلوں کے واسطے

 

اذانوں میں

خدائے پاک کے ہر ذکر کے بدلے

شایدکسی قہّار یا جبّار کی

حمد و ثنا ہو گی

 

ہم اپنی عافیت کی بھیک مانگیں گے

خدا کے نیک بندوں سے

٭٭٭

 

 

 

 

رات اور چیخ

 

ایک جنگلی سورکے ڈرسے

اپنے اپنے گھر میں

دبکے رہنے والے سورماؤں کی طرف

کیوں دیکھتے ہو

 

ان کے گھر میں

عیش کوشی کی ہزاروں جنتیں آباد ہیں

انہوں نے اس زمیں کی

سب سے اچھی درس گاہوں سے

مناسب قیمتوں پرلے رکھی ہے

ہرسندتہذیب کی

انصاف کی اور امن کی

 

تمہاری چیخ میں

بپھری ہوئی چنگاریوں کا بے محابا رقص

ان کی خواب گاہوں میں

اندھیرا ہی اندھیرا بھر گیاتو…

٭٭٭

 

 

 

 

 

دو منٹ

 

ہم عہد کرتے ہیں

تشددسے دور رہنے کا

ظلم اور عدم مساوات کے خلاف

پوری ایمانداری سے جنگ لڑنے کا

’مون‘ رکھتے ہیں دو منٹ کا

 

یتیم ہو چکے ہوتے ہیں

بہت سارے بچّے

بہت ساری ناپاک ہو چکی لڑکیاں

دیکھ لیتی ہیں بھیانک سپنا

ایک حرامی بچّے کی ماں بننے کا

اربوں روپے نکالے جا چکے ہوتے ہیں

دھوکہ دھڑی سے

 

بہت سارے لوگ

کھو دیتے ہیں بہت کچھ

بہت کم وقت میں

دو منٹ پیچھے چلنے لگتی ہے

تواریخ کی کبھی نہ رکنے والی گھڑی

صرف دو منٹ!

٭٭٭

 

 

 

آئی سی یو

(I. C. U.)

 

Mercy Killingپر لکھنا چاہتا ہوں

ایک خوبصورت سی نظم

یہاں بیٹھ کر

لیکن میں محسوس نہیں کرپا رہا

اس سوگوارحسن کو

جوکسی لاش کے چہرے پر بکھری زرد معصومیت کو

سنسان آنکھوں سے سہلانے کے بعد ہوتی ہے

 

ذہن پر بننے والے نقش کے

چیتھڑے کر دیتی ہیں

عزیز و اقارب کی آہ وبکاسے

اٹھنے والی صوتی لہریں

 

دردسے تڑپتے مریض

کی کوئی دنیا نہیں ہوتی

خوبصورت نرسیں کم نہیں کرسکتیں

پیشانی پر جھولتی لٹوں سے

زخم سے اٹھنے والی ٹیس کو

جب مریض آخری گانٹھ کھول رہا ہو

بچی کھچی سانسوں سے بندھی پوٹلی کی

 

تیار بیٹھے ہیں اپنے پرائے

ڈاکٹر اور ملک الموت سے جھگڑنے کے لئے

بوکھلائے پھرتے ہیں ادھر ادھر

معدوم ہو گیا ہے سب کچھ

زمین گھوم رہی ہے

ان کے سینے میں دھنسی زنگ آلود کیل پر

کسی کو پہلی بار دیکھ رہے ہیں

اس طرح چھٹپٹاتے ہوئے

 

نہیں آئے گا ڈاکٹر

جب تک چائے کی ایک گھونٹ بھی

بچی ہے اس کی پیالی میں

جذباتی اور حسّاس ہونا

کیسے ہوسکتا ہے ایک ڈاکٹرکامسلک

آتے ہی رہتے ہیں اسپتال میں ایسے مریض ہر روز

 

ایسانہیں ہونا چاہئے میری نظم کا اختتام

احساس ہے مجھے بھی

لیکن کیا کروں

چائے میں گری مکھّی اب مر چکی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

مہاجر

 

عمر کی بھاری گٹھری سرپر

چہرے پراک وحشت طاری

ہونٹ ہنسی سے یکسرعاری

پاؤں میں گردِ راہ لپیٹے

آنکھوں میں برسات سمیٹے

پیشانی پر زخم سجائے

سینے میں طوفان دبائے

اک مقتل سے

دوسرے مقتل کو جاتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک اَن چاہی نظم

 

قطرہ قطرہ

ٹپکتا رہتا ہے

کسی بھیانک رات کاسیاہ دکھ

انترمن کے کسی کونے میں

 

جانے کب سے پل رہی ہوتی ہے

ایک نظم اندرہی اندر

اور کسی دن اچانک

راستہ روک کر کھڑی ہو جاتی ہے

ہم نظریں بچاتے ہیں

بھاگنا چاہتے ہیں دامن جھٹک کر

تو جکڑ لیتی ہے پاؤں

مجبور کر دیتی ہے قلم کو

گھسٹتے،تھکے پیروں سے

سادہ کاغذ پر دوڑنے کے لئے

 

پتہ بھی نہیں چلتا

اور لا شعور کا ایک لمحہ

جڑ جاتا ہے وجودسے

ہمیشہ کے لئے

اَن چاہے حمل کی طرح ہوتی ہے

اَن چاہی نظم بھی

لیکن بے چارے شاعر کے لئے تو

اسپتال کے دروازے بھی بند ہوتے ہیں

نجات کے راستوں کی طرح

٭٭٭

 

 

 

 

اذیّت

 

بجھتی ہوئی سگریٹ

دیر تک دبی رہے انگلیوں میں

تو جلا ڈالتی ہے

لمس کااحساس

 

مردہ جسم

کتنے ہی عزیز شخص کاکیوں نہ ہو

بدبو دینے لگتا ہے

تھوڑی دیر بعد

 

کسی ٹوٹے ہوئے رشتے کو

آخری سانس تک

سنبھال کر جینے کی چاہ سے

بڑی نہیں ہوتی کوئی اذیّت!

٭٭٭

 

 

 

 

 

دکھ

 

دکھ کی

اپنی بھاشا ہوتی ہے

سب سے الگ

اور سب سے حسیں

 

دکھ

پاگل لمحوں کی پتجھڑ آوازیں ہیں

جن کی قیمت کا تخمینہ

اجلے کاغذ پر

بھدّے کالے لفظوں کی

تیزی سے چلتی ریل کے نیچے

سوجاتا ہے

 

نظموں میں اور غزلوں میں

بے معنی ہو جاتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ڈھائی سال

 

نہیں !  میں رو نہیں رہا

حالانکہ آنسوبن کر

ٹپکنا چاہتے ہیں میرے لفظ

کسی باغیچے میں لہلہاتی

ہری گھاس پر

 

نہیں !  میں اڑان نہیں بھر رہا

بلکہ پھنس گئے ہیں میرے پاؤں

میرے ہاتھ

میری آنکھیں

کسی نادیدہ،خودکار زینے میں

 

راکھ ہو رہا ہے

میراسب کچھ

ڈھائی اکشر کی چتا پر

جل رہے ہیں

میرے ڈھائی سال!!

٭٭٭

 

 

 

 

خودکشی

 

مت ڈھونڈنا

اگر بہت دنوں تک

دیکھ نہ پاؤ مجھے

 

مت پوچھناکسی سے

میں کون سی گپھا میں

چاند کی کس رات کو داخل ہوا تھا

اور پھر نہیں لوٹا

 

بس اتناسمجھ لینا

تمہارے کھوکھلے لفظوں کے پیچھے

چھپتی ہوئی سچائی کا چہرہ

دیکھ لیا میری روح نے

اور ڈر گئی!

٭٭٭

 

 

 

 

برسوں پہلے

 

ٹوٹی ہوئی فش پلیٹوں کے بیچ

سنتا رہتا ہوں

کسی کی آہ و زاری

کسی کی دلدوز چیخ

چپ چاپ!

 

نکال نہ پایا میں

کوئی قیمتی سامان

اپنی جان بچانے کی للک

یا جان دینے کی جلد بازی میں

 

مر چکے ہوں گے سب

بچا نہ ہو گا کچھ بھی

جسے نکالا جا سکے

اپنی روح کو زخمی کئے بنا

اور کیوں اٹھایا جائے

اب یہ جوکھم بھی

جب میں ہوں ہی نہیں

نہ اپنے لئے

نہ اپنوں کے لئے

 

لیکن کبھی کبھی

زندگی کی لمبی ریل کے

کسی تباہ شدہ ڈبّے سے

اٹھتی ہوئی آوازیں کہتی ہیں

میں چھوڑ آیا ہوں خود کو

ٹوٹی ہوئی فش پلیٹوں

اور اکھڑی ہوئی پٹریوں کے بیچ

کسی تذبذب میں

برسوں پہلے!

٭٭٭

 

 

 

 

کوئی نہیں سنتا

 

زخمی شیر

گرجتا ہے زورزورسے

اتنا کہ خبر ہو جاتی ہے سارے جنگل کو

اور یقین کر لیا جاتا ہے

کہ کوئی بے انصافی ضرور ہوئی ہے

شیر کے ساتھ

 

شیر کے مضبوط جبڑے میں دبی

میمنے کی گردن سے نکلنے والی ممیاہٹ

کوئی نہیں سنتا

گھاس پر ٹپکنے والی خون کی بوند کے سوا

٭٭٭

 

 

 

 

کئی طرح کے سانپ

 

کئی طرح کے ہوتے ہیں سانپ

رینگنے والے

اڑنے والے

سمندروں میں تیرنے والے

دو منہ بھی ہوتے ہیں کسی کسی کے

لیکن یہ سب بتانے کے لئے تو

ڈھیرساری کتابیں

اور کئی چینل موجود ہیں ٹی وی کے

 

میں تو

بس یہ بتانا چاہتا تھا

دو پاؤں بھی ہوتے ہیں کچھ سانپوں کے

جن سے کام لیتے ہیں وہ

کبوتروں کے انڈوں کو کچلنے کا

تاکہ اپنی نسل بچانے کے لئے

کہیں چلے جائیں پرندے

سانپوں کے علاقے چھوڑ کر

 

داڑھیاں بھی ہوسکتی ہیں

سانپوں کے چہرے پر

پیشانی پرسجدے کا نشان

یاکسی شمشان کی بھبھوت بھی

کیسریایاہری پگڑی بھی ہوسکتی ہے

ان کے سروں پر

 

علاء الدین کے جن کی طرح

کبھی بھی ،کہیں بھی

کسی بھی شکل میں

پائے جا سکتے ہیں یہ سانپ!

٭٭٭

 

 

 

 

عجائب گھر میں

 

بچّے

بچّوں کو دودھ پلاتی عورتیں

عورتوں کے سروں پر

برگد کی طرح سایہ کئے بوڑھے

مار دیے گئے وہ سب جو بھاگ نہیں سکتے تھے

گم ہو گئی میسوپوٹامیااور بے بی لونیا کی تہذیب کی طرح

بغداد کے عجائب گھر میں رکھے

مجسّموں کے ہونٹوں کی مسکان

دجلہ اور فرات کے آسمان پر

اڑتی ہوئی گرم ریت اور دھوئیں میں

 

دو ہاتھوں نے جکڑ رکھی ہیں

بڑی بے رحمی سے آزادی کی دونوں ٹانگیں

اور گھسیٹتے لئے جا رہے ہیں کسی دلفزا مقام پر

دنیا کو پہلی بار

ماں کی گالی کی طرح دی جا رہی ہے آزادی ……!

٭٭٭

 

 

 

 

 

لڑکیاں

 

یہ لڑکیاں ہیں

شرم کے برقعے میں لپٹی ہوئی!

بدن کی خواہشوں سے

ہوس کے اشتہاروں تک

ترقی کی منزلیں طے کرتی ہوئی!

 

اپنی ازلی تنہائی کے سنہرے ریگستان میں

گڑیوں کا بیاہ رچاتی لڑکیاں

جوان ہونا چاہتی ہیں

رات کی تاریک گپھا میں چھپ کر

باپ کی نظروں سے بچتی ہوئی

جو باپ بعد میں بنتا ہے مرد پہلے

 

یہ لڑکیاں ہیں

جنہیں چاندنی راتوں میں نظر آتی ہیں

اپنی کوکھ میں تیرتی وحشی پرچھائیاں

اور وہ بند کر لیتی ہیں آنکھیں

ڈر جاتی ہیں پورے چاند کی اکیلی رات میں !

٭٭٭

 

 

 

 

 

آہ تاج

 

پھیلتے پھیلتے

ہماری اخباری صبحوں تک پھیل گیا ہے

بازار کا اندھیرا!

 

شاہجہاں کی محبت سے

استاد ذاکر حسین کے طبلے تک

گرم چائے کی ایک پیالی کے لئے

بیچ دی جاتی ہے ممتازؔ

آہ تاج!

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ایک رکا ہوا منظر

 

رات کے سینے پہ

اپنے آہنی پنجوں سے چلتی ریل

میری یاد کے چھوٹے سے اسٹیشن پہ

جانے کتنی دیر سے ٹھہری ہوئی ہے

زندگی کی ساری ہلچل رک گئی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

اسے معلوم ہے

 

اسے معلوم ہے

کس رات کی کیا عمر ہوتی ہے

اسے معلوم ہے

کتنا اندھیرا ہو

تو دیپک راگ گاتے ہیں

اسے معلوم ہے

کتنی اداسی ہو

تو کتنا مسکراتے ہیں

اسے معلوم ہے

کس گیت کا مکھڑا

میں اس کی شکل کو دیکھے بنا

سوچ بھی سکتا نہیں

 

مگر

جب بھی

وہ میری سمت آنا چاہتی ہے

جانے کیوں ہر مرتبہ اک کالی بلّی

اس کا رستہ کاٹ جاتی ہے!!

٭٭٭

 

 

 

موسم بہار کی آخری نظم

 

تم جا رہے ہو

تم      جو جلتی ہوئی دوپہر میں

خوشبوؤں کی گھٹا بن کے آئے

تم      جو گاتے رہے

میری دھڑکن کے ہرسازپر

میرے سپنے چرا

اپنی کایا بھری میری آنکھوں میں تم نے

تم نے بتلائے

چڑیوں کی چہکار

پھولوں کی مہکار کے بھید مجھ کو

مری آتما میں

بکھرتی سمٹتی اداسی کو تم نے

بہت کم بہت کم کیا

نرم آوازسے،کھلتے الفاظ سے

 

تم جا رہے ہو

آج پھولوں کے کھلنے

 

کلی کے چٹکنے کی رت میں

ہوا کی سواری یہ خوشبو کی مانند

خیالوں کی پر نور وادی کو

تاریکیوں میں ڈبو کر چلے جا رہے ہو

کہیں اور ……

 

جا رہے ہو مگر یوں نہ جاؤ

کہ بے نام ساایک رشتہ

اچانک ہی شیشے کے گلدان سا

ٹوٹ کر ریزہ ریزہ بکھرنے لگے

اور میں کانچ کے ٹوٹنے کی اس آوازمیں

ڈوب کر پھر نہ ا بھروں

 

جا رہے ہوتواس طرح جاؤ کہ

برفیلی وادی سے جیسے سرکتی ہے دھوپ

جس طرح چاند کو چھوڑ کر

لوٹ جاتے ہیں بادل کے ٹکڑے

پھول کی پنکھڑی سے بچھڑ جاتی ہے

اوس کی بوند جیسے

جیسے آنکھوں سے جاتے ہیں سپنے

دبے پاؤں …آہستہ …آہستہ!

٭٭٭

تشکر: شاعر جنھوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید