FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

غض بصر

شریعت اسلامیہ میں مرد و عورت کے لیے ’’غض بصر‘‘ کے حکم کا تحقیقی جائزہ

 

 

 

               غازی عبدالرحمن قاسمی

 

 

 

 

تعارف

 

اسلام پاک وصاف معاشرے کی تعمیر اور انسانی اخلاق و عادات کی تہذیب کرتا ہے۔اور اپنے ماننے والوں کی تہذیب اور پُر امن معاشرے کے قیام کے لئے جو اہم تدبیر کرتا ہے وہ انسانی جذبات کو ہر قسم کے ہیجان سے بچا کر پاکیزہ زندگی کا قیام ہے۔ اسی سلسلہ میں اسلام نے ’’حفاظت نظر‘‘ پر زور دیا ہے۔نگاہ کا غلط استعمال بے راہ روی میں مبتلا کرسکتا ہے۔اس لیے  شریعت اسلامیہ نے ’’بد نظری‘‘ سے منع کیا چونکہ دل میں تمام قسم کے خیالات و تصورات اور اچھے بُرے جذبات کا برانگیختہ و محرک ہونا اسی کے تابع ہے۔ اس لیے اسلام میں نگاہوں کو نیچا رکھنا اور ان کی حفاظت کرنا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

 

غض بصر کی اہمیت قرآن وسنت کی روشنی میں

 

قرآن و حدیث میں نظر کی حفاظت کی بڑی تاکید اور فضیلت بیان ہوئی ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

{قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ   یَغُضُّوْا  مِنْ  اَبْصَارِھِمْ   وَیَحْفَظُوْا  فُرُوْجَھُمْ ط ذٰلِکَ  اَزْکٰی لَہُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْر’‘ م  بِمَا یَصْنَعُوْن}(۱)

’’ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہ نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کو بھی محفوظ رکھیں یہ ان کے لیے بہت پاکیزہ ہے بیشک اللہ جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں ‘‘۔

اور اسی طرح عورتوں کو بھی غض بصر کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

{وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ  اَبْصَارِھِنَّ  وَیَحْفَظْنَ  فُرُوْجَھُنَّ }(۲)

’’اور ایمان والیوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہ نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں ‘‘۔

حقیقت یہ ہے کہ ’’بد نظری‘‘ ہی ’’بدکاری‘‘ کے راستے کی پہلی سیڑھی ہے۔ اسی وجہ سے ان آیات میں نظروں کی حفاظت کے حکم کو ’’حفاظتِ فرج‘‘ کے حکم پر مقدم رکھا گیا ہے۔ اور نیز عورتوں کی محبت اور دل میں ان کی طرف خواہش فطرت کا تقاضا ہے۔ارشاد ربانی ہے:

{زُیِّنَ  لِلنَّاسِ حُبُّ  الشَّھَوٰتِ  مِنَ  النِّسَآءِ} (۳)

’’لوگوں کو مرغوب چیزوں کی محبت نے فریفتہ کیا ہوا ہے جیسے عورتیں ‘‘۔

اس لیے نظر کی حفاظت بہت ضروری ہے۔چونکہ آنکھوں کی آزادی اور بے باکی خواہشات میں انتشار پیدا کرتی ہے۔اسی لیے ایک حدیث میں بد نظری کو آنکھوں کا زنا قرار دیا گیا۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے:

((فزناالعین النظر))(۴)

’’آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے‘‘۔

راستے میں مجلس جما کر بیٹھنے سے اس وجہ سے منع کیا گیا کہ وہ عام گزرگاہ ہے ہر طرح کے آدمی گزرتے ہیں، نظر بے باک ہوتی ہے، ایسا نہ ہو کہ کسی پر پڑے اور وہ برائی کا باعث بن جائے۔صحابہ کرامؓ سے ایک دفعہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’کہ راستوں پر بیٹھنے سے پرہیز کرو‘‘ صحابہ نے اپنی مجبوری پیش کی، تو آپ  ﷺ نے فرمایا ’’تم کو جب کوئی مجبوری ہو تو راستہ کا حق ادا کرو‘‘ صحابہ نے سوال کیا راستہ کا حق کیا ہے۔؟

آپ ﷺ نے فرمایا:

’’نگاہ نیچی رکھنا، تکلیف دہ چیز کا ہٹانا، سلام کا جواب دینا اور بھلی بات کا حکم دینا اور بری بات سے منع کرنا‘‘۔(۵)

حدیث میں نظر کو شیطانی زہر آلود تیر قرار دیا  گیا ہے۔نبی کریم  ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ فرماتے ہیں :

’’بد نظری شیطان کے زہر آلود تیروں میں سے ایک زہریلا تیر ہے جو شخص اس کو میرے خوف کی وجہ سے چھوڑ دے میں اس کو ایک ا یسی ایمانی قوت دوں گا جس کی شیرینی وہ اپنے دل میں پائے گا‘‘۔(۶)

مندرجہ بالا نصوص حفاظت نظر کی اہمیت پر روشنی ڈال رہی ہیں۔

 

بد نظری کے نقصانات

 

نگاہ کا غلط استعمال بہت سارے فتنوں اور آفتوں کا بنیادی سبب ہے۔ بد نظری کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس سے حسرت وافسوس اور رنج و غم کی کیفیت ہو جاتی ہے۔کئی دفعہ نظر کا تیر دیکھنے والے کو خود ہی لگ کر اس کے دل و دماغ کو زخمی کر دیتا ہے۔

حافظ ابن قیم(م۔۷۵۱ھ)لکھتے ہیں :

تمام  حادثات کی  ابتداء  نظر  سے ہوتی  ہے۔

اور بڑی آگ چھوٹی چنگاریوں سے  ہوتی ہے۔

کتنی ہی نظریں ہیں جو نظر والے کے دل میں چبھ جاتی ہیں۔ جیسا کہ کمان اور تانت کے درمیان تیر ہوتا ہے۔(۷)

یہ ایک حقیقت ہے جس کا کوئی ذی شعور انکار نہیں کر سکتاکہ بد نظری انسان کے لیے نقصان دہ ہے۔ اسی لیے شریعت نے عفت و عصمت کی حفاظت کے لیے ’’غض بصر‘‘ کا حکم دیا ہے۔

 

غض بصر کے حکم کا تحقیقی جائزہ

 

قرآن کریم میں مردوں اور عورتوں دونوں کو ’’غض بصر‘‘ کا حکم دیا گیا مگر جمہور فقہاء نے اس حکم میں مرد و عورت کے درمیان فرق کیا ہے۔ پہلے مردوں کے لیے ’’غض بصر‘‘  کے حکم میں اہل علم کا مؤقف ذکر کر کے پھر عورتوں کے لیے اس حکم کا تفصیلی جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔

مردوں کے لیے غض بصر کا حکم

 

٭       اس پر اجماع ہے کہ مرد کے لیے دوسرے مرد کے ’’ستر‘‘ کے علاوہ پورے جسم کی طرف نظر کرنا جائز ہے۔(۸)

٭       اس پر بھی اہل علم کا اجماع ہے کہ بے ریش لڑکے کو لذت اور اس کی خوبصورتی سے متمتع ہونے کے ارادہ سے دیکھنا حرام ہے۔(۹)

 

مردوں کا عورتوں کی طرف دیکھنے کی تین صورتیں ہیں :

 

٭       مرد کا اپنی بیوی کی طرف دیکھنا جائز ہے۔

٭       مرد اپنی ذی محرم عورتوں کے مواضع زینت کو دیکھ سکتا ہے اور حنفیہ کے نزدیک مواضع زینت میں، سر، چہرہ، کان، گلا، سینہ، بازو، کلائی، پنڈلی، ہتھیلی اور پاؤں شامل ہیں۔(۱۰)

٭       مرد کا اجنبیہ عورت کی طرف نظر کرنا اس میں تفصیل ہے۔

 

اجنبیہ عورت کی طرف جواز نظر کی اتفاقی صورتیں :

 

درج ذیل صورتوں میں فقہاء کا اتفاق ہے کہ اجنبیہ عورت کے چہرہ کو دیکھنا جائز ہے۔

 

۱۔اگر مرد کسی عورت سے شادی کا ارادہ رکھتا ہے تو اس کے لیے اس عورت کے چہرہ کی طرف دیکھنا جائز ہے۔

امام کا سانی ؒ (م۔۵۸۷ھ) لکھتے ہیں۔

’’جو شخص کسی عورت سے شادی کرنا چاہتا ہو تو اس کے لیے کوئی حرج نہیں کہ وہ اس عورت کے چہرہ کی طرف دیکھے‘‘۔(۱۱)

بلکہ ایسی عورت کے چہر ہ کی طرف نظر کرنے میں جمہور فقہا ء کا اتفاق ہے۔

امام نووی ؒ (م۔۶۷۶ھ) مخطوبہ عورت کی طرف جواز نظر والی حدیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

’’اوراس حدیث میں ہے کہ عورت کے چہرہ کی طرف نظر کرنا اس شخص کے لیے مستحب ہے جو نکاح کا ارادہ رکھتا ہو اور یہی ہمارا (شوافع کا)مذہب ہے اور مالکؒ، ابو حنیفہؒ تمام اہلِ کوفہ اور احمدؒ سمیت جمہور علماء کا ہے ‘‘۔(۱۲)

 

۲۔طبیب بغرض علاج اجنبیہ کو دیکھ سکتا ہے۔

امام رازی ؒ(م۔۶۰۶ھ)لکھتے ہیں :

’’شریف الطبع طبیب کیلئے عورت کی طرف بغرض علاج نظر کرنا جائز ہے۔‘‘ (۱۳)

 

۳۔گواہ عورت کے خلاف گواہی دیتے وقت اور قاضی عورت کے خلاف فیصلہ کرتے وقت اس کا چہرہ دیکھ سکتا ہے۔

علامہ حصکفیؒ (م۔۱۰۸۸ھ) لکھتے ہیں :

’’ اگر شہوت کا خوف ہو یا شہوت کا شک ہو تو اس صورت میں عورت کے چہرے کی طرف دیکھنا ممنوع ہے۔البتہ ضرورت کے وقت دیکھنا جائز ہے مثلاً قاضی کا فیصلہ سناتے یا گواہ کا گواہی دیتے وقت دیکھنا‘‘۔(۱۴)

 

۴۔ہنگامی حالات میں مثلاً کوئی عورت پانی میں ڈوب رہی ہے یا آگ میں جل رہی ہے تو اس کی جان بچانے کے لیے اس کی طرف دیکھا جا سکتا ہے۔

امام رازیؒ لکھتے ہیں :

’’اگر عورت پانی میں ڈوب رہی ہو، آگ میں جل رہی ہو تو اس کی جان بچانے کے لیے اس کے بدن کی طرف دیکھنا جائز ہے‘‘۔(۱۵)

اور اس کے ساتھ لاحق کرتے ہوئے مزید یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ زلزلہ، سیلاب، چھتوں کا گرنا، آسمانی بجلی کا گرنا، چوری یا ڈکیتی کے وقت بھی افراتفری کے عالم میں یہی حکم ہوگا۔

 

۵۔معاملہ کرتے وقت یعنی اشیاء کے لینے دینے اور خرید و فروخت کے وقت بھی عورت کے چہرہ کی طرف نظر کی جا سکتی ہے۔

امام کاسانی لکھتے ہیں :

’’اشیاء کے لینے اور دینے کی ضرورت کی وجہ سے اجنبیہ کے چہرہ اور ہتھیلی کی طرف نظر کرنا جائز ہے‘‘۔(۱۶)

امام رازیؒ لکھتے ہیں :

’’خرید و فروخت کی ضرورت کے وقت عورت کی طرف نظر کرنا جائز ہے‘‘۔(۱۷)

اور اس کی وجہ یہی ہے کہ بائع یا مشتری معاملہ کرتے وقت اس عورت کو پہچان لے تا کہ اگر کسی نقصان کی وجہ سے وہ چیز واپس کرنی پڑے یا بعد میں قیمت وصول کرنی ہو تو دوسری عورتوں سے الگ شناخت کی جا سکے۔ (۱۸)  جبکہ بعض اہلِ علم کی رائے میں خرید و فروخت کے وقت عورت کا چہر ہ کھولنا یا مرد کا دیکھنا جائز نہیں ہے چونکہ یہ ایسی ضرورت نہیں کہ جس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہو۔ اس لیے کہ عورتیں بیع و شرا نقاب و حجاب کے ساتھ بھی کر سکتی ہیں۔(۱۹) اور یہی بات عصر حاضر کے لحاظ سے زیادہ مناسب ہے اس لیے کہ آج کل تو باقاعدہ خریدی ہوئی چیز کی رسید اور بل مل جاتا ہے جس سے اس چیز کے واپس کرنے میں مزید کسی شناخت کی ضرورت نہیں ہے۔

 

اجنبیہ عورت کی طرف نظر کرنے کے بارے میں اختلافی صورت:

 

مذکورہ بالا صورتوں کے علاوہ بغیر کسی حاجت اور ضرورت کے اجنبیہ کی طرف دیکھنے میں جمہور فقہاء اور حنفیہ کے درمیان اختلاف ہے۔حنفیہ کے نزدیک شہوت سے بے خوف ہونے کی صورت میں اجنبیہ عورت کی طرف دیکھنا جائز ہے، مگر ائمہ ثلاثہ کے نزدیک فتنہ اور شہوت کا خوف ہو یا نہ ہو دونوں صورتوں میں بلا ضرورت اجنبیہ عورت کی طرف دیکھنا نا جائز ہے۔ ائمہ کے مؤقف کی تفصیل اور دلائل کے نقل کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ فتنہ اور شہوت کا مفہوم واضح کیا جائے تاکہ بات کا سمجھنا آسان ہو۔

 

فتنہ کا معنی

 

علامہ شامیؒ(م۔۱۲۵۲ھ) لکھتے ہیں :

قولہ بل لخوف الفتنۃ ای الفجور بھاقاموس اوالشھوۃ(۲۰)

’’فتنہ سے مراد گناہ یا شہوت ہے‘‘۔

 

شہوت کی تعریف:

 

علامہ شامی لکھتے ہیں :

 انھامیل القلب مطلقا(۲۱)

’’شہوت دل کے مائل ہونے کا نام ہے‘‘۔

علامہ شامی ؒ مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

بیان الشھوۃ التی ھی مناط الحرمۃ ان یتحرک قلب الانسان ویمیل بطبعہ الی اللذۃ(۲۲)

’’شہوت کا بیان جس پر حرمت کا مدار ہے وہ یہ کہ انسان کے دل میں حرکت پیدا ہو اور طبیعت لذت کی طرف مائل ہو جائے‘‘۔

مذکورہ بالا تعریفات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ کسی خوبصورت چہرہ کی طرف دیکھنے سے خواہ وہ عورت کا ہو یا بے ریش لڑکے کا دل کی کیفیات کا متحرک ہونا اور قلبی میلان اور رجحان کے ساتھ طبیعت کا حصول لذت کی طرف مائل ہونا شہوت کہلاتا ہے۔  اجنبیہ عورت کی طرف دیکھنے کے بارے میں جمہور علماء کا تفصیلی مؤقف درج ذیل ہے۔

 

مالکیہ کا مؤقف:

 

علامہ ابن رشدؒ الجد مالکی (م۔۵۲۰ھ)لکھتے ہیں :

’’اور مرد کے لیے جائز نہیں کہ وہ نوجوان عورت کی طرف نظر کرے سوائے گواہی یا علاج وغیرہ کی مجبوری حالت کے ‘‘۔(۲۳)

قاضی امام ابن عربی ؒ مالکی (م۔۵۴۳ھ) لکھتے ہیں :

’’آدمی کے لیے حلال نہیں کہ وہ عورت کی طرف دیکھے‘‘۔(۲۴)

 

شوافع کامؤقف:

 

امام ابو اسحاق شیرازی ؒ (م۔۴۷۶ھ) لکھتے ہیں :

’’ بلا ضرورت اجنبی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اجنبیہ کی طرف دیکھے‘‘۔(۲۵)

امام غزالی ؒ (م۔۵۰۵ھ) لکھتے ہیں :

’’اجنبیہ عورت کی طرف نظر کرنا مطلقاً حرام ہے‘‘(۲۶)

 

حنا بلہ کا مؤقف:

 

شیخ الاسلام ابن قدامہؒ(م۔۶۲۰ھ) لکھتے ہیں :

’’امام احمد کے ظاہری کلام کے مطابق آدمی کا اجنبیہ عورت کے پورے جسم کی طرف بلا وجہ دیکھنا حرام ہے۔‘‘(۲۷)

 

جمہو ر فقہا کے دلائل

 

آیت کریمہ:

{قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ   یَغُضُّوْا  مِنْ  اَبْصَارِھِمْ}(۲۸)

’’ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں ‘‘۔

امام شافعیؒ(م۔۲۰۴ھ)اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

’’اللہ تعالیٰ نے دیکھنے والوں پر فرض کیا کہ وہ اس چیز کونہ دیکھیں جس کا دیکھنا اللہ نے حرام قرار دیا اور جس کے دیکھنے سے منع کیااس سے آنکھوں کو جھکایا جائے‘‘۔(۲۹)

آیت کریمہ :

{وَاِذَا سَاَلْتُمُوْھُنَّ مَتَاعًا فَسْئَلُوْھُنَّ مِنْ  وَّرَآءِ  حِجَابٍ }(۳۰)

’’اور جب تمہیں ان (نبی کی بیویوں )سے کوئی چیز مانگنا (یا کچھ پوچھنا) اور تو تم پردے کے پیچھے سے مانگا اور پوچھا)کرو۔‘‘

امام قرطبی (م۔۶۷۱ھ) لکھتے ہیں :

’’یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات سے ضرورت پڑنے پر پردے کے پیچھے سے سوال کرنے یا مسئلہ پوچھنے کی اجازت دی ہے اور اس حکم میں تمام مسلمان عورتیں داخل ہیں۔‘‘(۳۱)

معلوم ہوا مردوں کے لیے عورتوں کو دیکھنا جائز نہیں اس لیے پردے کی آڑ میں عورتوں سے سوال کرنے کا حکم دیا گیا ہے

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے:

’’  شک اللہ تعالیٰ نے ابن آدم پر زنا کا حصہ لکھ دیا ہے جس کو یقیناً پائے گا۔پس آنکھیں زنا کرتی ہیں اور ان کا زنا دیکھنا ہے اور ہاتھ زنا کرتے ہیں ان کا زنا پکڑنا ہے اور پاؤں زنا کرتے ہیں ان کا زنا چلنا ہے اور نفس زنا کی تمنا کرتا ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب۔‘‘(۳۲)

نبی کریم  ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا :

’’اے علی نظر کی پیروی مت کر اس لیے کہ پہلی نظر تو جائز ہے مگر دوسری نگاہ جائز نہیں۔‘‘(۳۳)

حضرت علی ؓ کی روایت ہے:

’’بے شک نبی کریم  ﷺ نے فضل کو اپنے پیچھے سواری پر بٹھایا آپ کو قبیلہ خثعم کی ایک لڑکی ملی، آپ  ﷺ نے فضل ؓ کی گردن دوسری طرف موڑ دی، اس پر ان کے والد عباسؓ نے کہا آپ نے اپنے چچازاد بھائی کی گردن کیوں پھیر دی، آپ نے  ﷺ فرمایا  میں نے نوجوان مرد اور عورت کو دیکھا تو میں ان پر شیطان سے بے خوف نہیں ہوا۔‘‘(۳۴)

حضرت جریر بن عبداللہ البجلیؓ کہتے ہیں میں نے حضور اکرم  ﷺ سے سوال کیا کہ ’’اچانک‘‘ نظر پڑ جائے تو کیا کروں، آپ  ﷺ نے مجھے حکم دیا۔

((ان اصرف بصری))(۳۵)

’’میں اپنی نظر پھیر لوں۔‘‘

{وہ احادیث جن میں نکاح سے پہلے عورت کی طرف دیکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ (۳۶) اگر عورتوں کی طرف نظر کرنا مطلقاً جائز ہوتا تو پھر نکاح کے ارادہ کے ساتھ دیکھنے کی تخصیص کیوں کی گئی؟(۳۷)یہ تمام دلائل اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اجنبیہ عورت کی طرف بلا ضرورت دیکھنا ناجائز ہے۔چنانچہ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک مردوں کے لیے غض بصر کا حکم لازمی ہے اور استثنائی صورتوں کے علاوہ اجنبیہ عورت کے چہرہ کی طرف دیکھنا مطلقاً حرام ہے، فتنہ کا خوف ہو یا نہ ہو۔

امام غزالی ؒ لکھتے ہیں :

’’بعض حضرات نے فتنہ سے امن میں ہونے کی صورت میں عورت کے چہرہ کی طرف نظر کرنے کو جائز قرار دیا ہے اور وہ بعید ہے۔اس لیے کہ شہوت اور فتنہ کا خوف باطنی معاملہ ہے لہذا مونث کے ساتھ حکم کو منضبط کرنا یہ اسباب ظاہرہ میں سے ہے اور مصلحت کے زیادہ قریب ہے‘‘۔ (۳۸)

امام غزالیؒ کی مذکورہ عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ عورت کی طرف نظر کرنے کو فتنہ سے ا من میں ہونے کی صورت میں جائز قرار دیا جائے تو ایسا ممکن نہیں۔ اس لیے کہ شہوت اور فتنہ کے خوف کا تعلق انسان کے ظاہر سے نہیں بلکہ باطن سے ہے اور کسی کے باطن میں کیا ہے ؟ کوئی دوسرا فرد نہیں جانتا۔ چنانچہ فتنہ کے خوف کو ضابطہ بنانے کی بجائے اگر یہ ضابطہ بنایا جائے کہ عورت کی طرف ہی بلا وجہ نظر کرنا جائز نہیں تو یہ اسباب ظاہرہ اور مصلحت کے زیادہ قریب ہے۔

مفتی محمد شفیع ( م-۱۹۷۶ء )’’احکام القرآن للتھانوی‘‘ میں لکھتے ہیں :

’’ اجنبیہ عورت کے چہرہ اور ہتھیلیوں کی طرف نظر کرنا مالکیہ، شافعیہ اور حنا بلہ کے نزدیک حرام ہے۔عام ازیں فتنہ کا خوف ہو یا نہ ہو اور ان حضرات کا خیال ہے کہ خوبصورت چہرہ کی طرف دیکھنا فتنہ کو لازم کرتا ہے اور عام طور پر دل میں میلان پیدا ہو جاتا ہے۔لہذا اجنبیہ کی طرف نظر کرنا، خود فتنہ کے قائم مقام ہے۔جس طرح کہ نیند کو خروجِ ریح کے احتمال کی وجہ سے اس کے قائم مقام کر دیا گیا ہے اور محض سونے سے وضو کے ٹوٹنے کا حکم لگا دیا جاتا ہے برابر ہے کہ ریح کا خروج ہو یا نہ ہو اور اس طرح خلوت صحیحہ عورت کے ساتھ وطی کے قائم مقام ہے تمام احکام میں (۳۹)عام ازیں اس خلوت میں وطی پائی گئی ہو یا نہ پائی گئی ہو۔‘‘(۴۰)

معلوم ہوا ائمہ ثلاثہ کے نزدیک مرد کے لیے اجنبیہ عورت کے چہرہ کی طرف بلا ضرورت نظر کرنا جائز نہیں اور اس کی وجہ یہ ذکر کی گئی ہے کہ اکثر حالات میں خوبصورت عورت کا چہرہ دیکھ کر انسان اس کی طرف مائل ہو کر فتنہ میں واقع ہو سکتا ہے۔لہذا جس طرح نیند کو خروج ریح کے قائم مقام قرار دے کر وضو ٹوٹنے کا حکم لگایا جاتا ہے خواہ ہوا خارج ہو یا نہ ہو اور خلوت صحیحہ (۴۱)میں وطی نہ پائی گئی ہو مگر اس خلوت کو وطی کے قائم مقام کر کے احکام جاری کئے جاتے ہیں (۴۲) اسی طرح عورت کی طرف نظر کرنے سے انسان فتنہ میں پڑ سکتا ہے لہذا اجنبیہ کی طرف نظر کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص فتنہ میں واقع ہو جائے۔

 

حنفیہ کا مؤقف

 

حنفیہ کے نزدیک بلا شہوت اجنبیہ عورت کے چہرہ اور ہتھیلی کی طرف نظر کرنا جائز ہے۔

امام ابوبکر جصاص ؒ (م۔۳۷۰ھ) لکھتے ہیں :

’’اجنبی کے لیے عورت کے چہرہ اور ہتھیلیوں کی طرف شہوت کے بغیر دیکھنا جائز ہے۔‘‘(۴۳)

امام کاسانیؒ لکھتے ہیں :

’’اجنبی کے لیے آزاد اجنبیہ کے چہرہ اور ہتھیلیوں کے علاوہ باقی بدن کی طرف نظر کرنا حلال نہیں ہے۔‘‘(۴۴)

علامہ مرغینانیؒ (م۔۵۹۳ھ) لکھتے ہیں :

’’اور آدمی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اجنبیہ کی طرف دیکھے سوائے چہرہ اور ہتھیلی کے۔‘‘(۴۵)

 

حنفیہ کے دلائل:

 

آیت غض بصر{قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ   یَغُضُّوْا  مِنْ  اَبْصَارِھِمْ }(۴۶) میں مردوں کو ’’غض بصر‘‘ کا حکم دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اجنبیہ کی طرف بالکل دیکھنا جائز نہیں، مگر حنفیہ نے سورۃ ا لنور کی درج ذیل آیت کی وجہ سے چہرہ اور ہتھیلیوں کا استثنا کیا ہے۔

آیت کریمہ :

{وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا مَا ظَھَرَ مِنْہَا}(۴۷)

’’اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو جگہ اس میں سے کھلی رہتی ہے‘‘۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے {الا ماظہر منھا}کی تفسیر سرمہ اور انگوٹھی سے کی ہے۔ (۴۸)سرمہ چونکہ آنکھ میں ڈالا جاتا ہے اور انگوٹھی ہاتھ میں ہوتی ہے۔ لہذا زینت ظاہرہ سے مراد چہرہ اور ہتھیلی ہے اور حضرت ابن عباس ؓ سے دوسری روایت بھی ہے جس میں آپ نے {الا ماظہر منھا} کی تفسیر ہتھیلی اور چہرہ سے کی ہے (۴۹) چہرہ اور ہتھیلیوں کے علاوہ باقی اعضاء اسی’’ نہی ‘‘کے حکم میں داخل ہیں۔(۵۰) چنانچہ اجنبی مرد کے لیے اجنبیہ کے چہرہ اور ہتھیلیوں کے علاوہ باقی جسم کی طرف نظر کرنا حلال نہیں، لیکن اگر عورت کی طرف نظر کرنے میں شہوت کا اندیشہ ہو تو پھر عورت کے چہرہ کو بھی دیکھنا حلال نہ ہوگا۔

شمس الائمہ سرخسی(م۔۴۸۳ھ)اس مسئلہ پر بڑی تفصیلی بحث کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

’’اور یہ ساری تفصیل اس وقت ہے جب مرد کی وہ نظر شہوت سے نہ ہو، لیکن اگر وہ یہ جانتا ہو کہ اگر اس نے عورت کی طرف نظر کی تو اس کے دل میں اس کی طرف رغبت پیدا ہو جائے گی تو ایسی صورت میں اس مرد کے لیے عورت کے کسی عضو کو بھی دیکھنا حلال نہ ہوگا۔یہی حکم اس صورت میں ہے جب مرد کی غالب رائے یہ ہو کہ اگر اس نے عورت کی طرف نظر کی تو اس کے دل میں اس کی طرف میلان ہو جائے گا کیونکہ جس چیز کی حقیقت پر مطلع نہ ہو سکتے ہوں، اس کے اندر غالب رائے یقین کا درجہ رکھتی ہے۔‘‘(۵۱)

امام کاسانی ؒ لکھتے ہیں :

’’ زینت ظاہرہ کی جگہوں کی طرف نظر اس وقت حلال ہے جب وہ بغیر شہوت کے ہو ا ور اگر وہ نظر شہوت سے ہو تو پھر حلال نہ ہوگی، اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم  ﷺ نے فرمایا، آنکھیں زنا کرتی ہیں (۵۲) اور آنکھوں کا زنا شہوت والی نظر سے ہوتا ہے۔اور شہوت بھری نظر حرام میں واقع ہونے کا سبب ہے لہذا وہ حرام ہوگی سوائے مجبوری کی حالت میں۔‘‘(۵۳)

نبی کریم  ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’جس شخص نے شہوت کے ساتھ کسی عورت کے محاسن کی طرف نظر کی تو قیامت کے دن اس کی آنکھوں میں سیسہ ڈالا جائے گا۔‘‘ (۵۴)

مذکورہ دلائل کی بناء پر حنفیہ کے نزدیک فتنہ اور شہوت کا خوف نہ ہونے کی صورت میں عورت کے چہرہ کی طرف نظر کی جا سکتی ہے اور اگر فتنہ کا اندیشہ ہو تو پھر عورت کا چہرہ دیکھنا منع ہوگا اس لیے کہ عورت کی اصل خوبصورتی اس کے چہرہ میں ہے۔

امام سرخسیؒ لکھتے ہیں :

’’عورت کی طرف دیکھنے کی حرمت فتنہ کے خوف کی وجہ سے ہے اور عورت کے اکثر محاسن اس کے چہرہ ہی میں ہوتے ہیں، اس لیے دوسرے اعضاء کی طرف دیکھنے کے مقابلے میں چہرہ کی طرف دیکھنے میں فتنہ کا خوف زیادہ ہے۔‘‘(۵۵)

اور اگر فتنہ کا خوف نہیں ہے تو پھر عورت کی طرف دیکھنا بھی حرام نہیں ہے۔مگر چونکہ اس زمانے میں بے راہ روی اور عریانی، فحاشی کا سیلاب نہایت تیزی کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے اوراس شرط کا موجودہ زمانہ میں پایا جانا مشکل ہے اس لیے متاخرین حنفیہ (۵۶) نے مطلقاً عورت کے چہرے کی طرف دیکھنے سے منع کیا ہے۔

امام حصکفیؒ لکھتے ہیں :

’’ اگر شہوت کا خوف ہو یا شہوت کا شک ہو تو اس صورت میں عورت کے چہرہ کی طر ف دیکھنا ممنوع ہے۔پس نظر کا حلال ہونا مقید ہے شہوت نہ ہونے کے ساتھ وگرنہ حرام ہے۔ یہ حکم ان پہلے فقہاء کے زمانہ کا ہے اور جہاں تک ہمارے اس دور کا تعلق ہے، اس میں نو جوان عورت کی طر ف نظر کرنا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔‘‘ (۵۷)

مذکورہ بالا بحث سے معلوم ہوا کہ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک مرد کے لیے عورت کی طرف بلا ضرورت دیکھنا جائز نہیں اور متقدمین حنفیہ کے نزدیک فتنہ سے امن میں ہونے کی صورت میں مرد کے لیے اجنبیہ عورت کی طرف دیکھنا جائز ہے مگر چونکہ مگر اب وہ حالات نہیں رہے، عریانی اور فحاشی بڑھتی جا رہی ہے اس لیے متاخرین حنفیہ کے نزدیک بلا ضرورت مرد کا اجنبیہ عورت کی طرف دیکھنا جائز نہیں، چنانچہ اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ جمہور فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مرد کے لیے بلا ضرورت اجنبیہ عورت کی طرف دیکھنا ناجائز ہے۔

 

عورتوں کے لیے غض بصر کا حکم

 

٭عورت دوسری عورتوں کا ’’ناف اور گھٹنے کے درمیانی حصہ‘‘ کے ماسواجسم دیکھ سکتی ہے۔(۵۸)

عورتوں کے مردوں کو دیکھنے کی چار صورتیں ہیں جن میں سے تین بالاتفاق جائز ہیں اور چوتھی میں اختلاف ہے۔

٭عورت اپنے شوہر کا وہ تمام بدن دیکھ سکتی ہے جو مرد اپنی بیوی کا دیکھ سکتا ہے۔

٭عورت اپنے محرم مردوں کا ’’ستر‘‘کے ماسوا تمام جسم دیکھ سکتی ہے۔(۵۹)

٭عورت کے لیے پیغام نکاح دینے والے مرد کو نکاح سے پہلے دیکھنا جائز ہے۔(۶۰)

٭اجنبی مرد کی طرف نظر کرنے کا مسئلہ اختلافی ہے۔

اس مسئلہ میں تو تمام اہلِ علم کا اتفاق ہے کہ ’’شہوت‘‘ کے ساتھ عورت کا مرد کو دیکھنا حرام ہے۔

امام نوویؒ لکھتے ہیں :

واما نظر المراۃالی وجہ الرجل الاجنبی فان کان بشھو ۃ فحرام بالاتفاق (۶۱)

’’اور بہرحال عورت کا اجنبی مرد کے چہرے کو دیکھنا اگر شہوت سے ہو تو بالاتفاق یہ دیکھنا حرام ہے۔‘‘

لیکن اگر عورت کا اجنبی مرد کی طرف دیکھنا بلا شہوت ہو تو اس بارے میں جمہور فقہاء اور شوافع کے درمیان اختلاف ہے۔

 

جمہور کا موقف

 

جمہور کے نزدیک عورت کے لیے اجنبی مرد کی طرف دیکھنا جائز ہے جبکہ شوافع کے نزدیک حرام ہے۔ائمہ کا تفصیلی موقف درج ذیل ہے۔

 

حنفیہ کا مؤقف :

 

امام کاسانی ؒ لکھتے ہیں :

’’ عورت کے لیے اجنبی مرد کے ناف کے نیچے سے لے کر گھٹنے تک نظر کرنا حلال نہیں اور اس کے ماسوا کی طرف دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘ (۶۲)

علامہ حصکفی ؒ لکھتے ہیں :

’’اسی طرح عورت دیکھتی ہے مرد کو جیسا کہ مرد کا مرد کی طرف نظر کرنا ہے اگر عورت شہوت سے امن میں ہو، پس اگر عورت شہوت سے امن میں نہ ہو یا عورت کا مرد کی طرف نظر کرنے سے فتنہ کا خوف ہو یا شک ہو تو پھر عورت کا مرد کو دیکھنا حرام ہے۔‘‘(۶۳)

 

مالکیہ کا مؤقف:

 

قاضی ابو الولید سلیمان بن خلف الباجی (م۔۴۷۴ھ)لکھتے ہیں :

’’ عورتوں کے لیے مرد کی طرف نظر کرنے میں کوئی حرج نہیں، ان عمومی حالات میں جن میں وہ مرد بیٹھا ہوا ہے اور لوگوں کے درمیان کام کاج کر رہا ہے۔‘‘(۶۴)

علامہ ابن رشد الجد لکھتے ہیں :

’’عورت کے لیے جائز ہے، اجنبی مرد کے ان اعضاء کی طرف دیکھنا جو آدمی اپنی محرم عورت کے دیکھ سکتا ہے۔‘‘(۶۵)

 

حنابلہ کا مؤقف:

 

حنا بلہ کے اس مسئلہ میں دو قول ہیں :

شیخ الاسلام ابن قدامہؒ لکھتے ہیں :

’’عورت کا مرد کی طرف دیکھنے میں دو روایتیں ہیں۔ایک روایت کے مطابق عورت پر مرد کے بدن کا وہ حصہ دیکھنا حرام ہے جو مرد کے لیے عورت کا دیکھنا حرام ہے، اور دوسری روایت کے مطابق عورت کا ’’ستر‘‘ کے ماسوا دیکھنا جائز ہے‘‘۔(۶۶)

اور اسی روایت کو ابن قدامہؒ نے ترجیح دی ہے۔(۶۷)

 

امام بخاری ؒ کا رجحان:

 

امام بخاریؒ (م۔۲۵۶ھ) کا رجحان بھی جواز کی طرف معلوم ہوتا ہے، چنانچہ امام بخاریؒ نے ترجمۃ الباب قائم کیا:

باب نظر المراۃ الی الحبش و نحو ھم من غیر ریبۃ  (۶۸)

’’شکوک و شہبات نہ ہونے کی صورت میں عورت کا حبشیوں وغیرہ کا کھیل دیکھنے کا بیان۔‘‘

امام بخاری ؒ نے یہ باب قائم کر کے حدیث عائشہ ؓ ذکر کی جس میں ان کا حبشیوں کے کھیل کو دیکھنے کا ذکر ہے۔

حافظ ابن حجرؒ (م۔۸۵۲ھ) لکھتے ہیں :

’’ امام بخاری کے اس ترجمۃ الباب سے ظاہر ہوتا ہے کہ مصنف اس طرف گئے ہیں کہ عورت کا اجنبی مرد کی طرف نظر کرنا جائز ہے لیکن مرد کا اجنبی عورت کی طرف نظر کرنا جائز نہیں ہے۔‘‘(۶۹)

 

اجماع کا قول:

 

امام ابن قتیبہ دینوری ؒ(م۔۲۷۶ھ) نے عورتوں کے مردوں کی طرف نظر کے جواز کے بارے میں اجماع کا ذکر کیا ہے۔

چنانچہ وہ لکھتے ہیں :

’’اور لوگوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ عورتوں کے لیے مردوں کی طرف دیکھنا حرام نہیں ہے جبکہ وہ خود پردے میں ہوں۔‘‘(۷۰)

شیخ ناصر الدین البانیؒ (م۔۱۴۲۰ھ) لکھتے ہیں :

’’حافظ ابن قطان اپنی کتاب میں کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتا عورت کا مرد کے چہرہ کی طرف نظر کرنے کے جواز کے بارے میں کسی نے اختلاف کیا اور جبکہ عورت کا وہ دیکھنا نہ لذت کے ارادہ سے ہو اور نہ ہی فتنہ کا خوف ہو۔‘‘ (۷۱)

معلوم ہوا جمہور فقہا ء کے نزدیک عورت کے لیے فتنہ کے خوف کے بغیر مرد کی طرف دیکھنا جائز ہے۔

 

جمہور فقہاء کے دلائل:

 

٭حضرت ابن عباس ؓکی روایت ہے:

’’حجۃ الوداع کے سال قبیلہ خشعم کی ایک عورت آئی اور عرض کیا یا سول اللہ  ﷺ میرے باپ پر حج اس حال میں فرض ہوا ہے کہ وہ بہت بوڑھا ہو گیا ہے اور سواری پر سیدھا نہیں بیٹھ سکتا اگر میں اس کی طرف سے حج کروں تو کیا حج ادا ہو جائے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں، ابن عباسؓ نے کہا کہ فضل اُس عورت کی طرف دیکھنے لگے اور وہ عورت فضلؓ کی طرف دیکھنے لگی پس نبی کریم  ﷺ نے فضل کا چہرہ دوسری جانب پھیر دیا۔‘‘ (۷۲)

ترمذی کی روایت میں ہے:

٭ ’’حضرت عباسؓ نے کہا آپ نے اپنے چچا زاد بھائی کی گردن کیوں پھیر دی، آپؐ نے فرمایا میں نے جوان مرد اور عورت کو دیکھا تو میں ان پر شیطان سے بے خوف نہیں ہوا۔‘‘(۷۳)

آپؐ نے اس عورت کا چہرہ نہیں پھیرا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے لیے مرد کو دیکھنا جائز ہے۔

امام بدر الدین عینیؒ(م۔۸۵۵ھ) لکھتے ہیں :

’’امام داودی نے کہا اس حدیث میں احتمال ہے کہ عورتوں کے لیے مردوں کے چہروں سے نگاہ نیچی کرنا واجب نہیں ہے۔‘‘ (۷۴)

٭حضرت فاطمہ بنت قیسؓ کو جب ان کے شوہر نے تین طلاقیں دیدیں تو آپؐ نے ان کو حضرت عبداللہ بن ام مکتومؓ کے گھر عدت گزارنے کا حکم دیا وہ فرماتی ہیں :

’’آپؐ نے مجھے حکم دیا کہ میں ام شریک کے ہاں عدت گزاروں لیکن پھر آپ نے فرمایا ام شریک کے ہاں تو مہاجرین کا آنا جانا ہے تم ابن مکتوم کے گھر عدت گزارو۔کیونکہ اگر وہاں تمہیں کپڑے وغیرہ اتارنے پڑ جائیں تو تمہیں دیکھنے والا کوئی نہیں ‘‘۔ (۷۵)

یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عورت کے لیے مرد کی طرف نظر کرنا جائز ہے۔علامہ ابن رشدؒ لکھتے ہیں:

’’پس اگر عورت کا مرد کی طرف نظر کرنے کا حکم ایسا نہ ہوتا جیسا کہ مرد کے لیے اپنی ذی محرم عورتوں کو دیکھنا تو بنی کریم ﷺ فاطمہ بنت قیسؓ کے لیے ا بن مکتومؓ کے پاس عدت گزارنے کو جائز قرار نہ دیتے اور یہ بات بالکل واضح ہے۔‘‘(۶۷)

 

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے:

((رایت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یسترنی بردائہ وانا انظر الی الحبشۃ یلعبون فی المسجد حتی اکون انا التی اسام فاقدرو اقدرالجاریۃ الحدیثۃ السن الحریصۃ علی اللھو))(۷۷)

’’میں نے نبی کریم  ﷺ کو دیکھا آپ  ﷺ نے اپنی چادر سے میرے سامنے پردہ کر دیا اور میں حبشیوں کو مسجد میں کھیلتے ہوئے دیکھتی رہی، یہاں تک کہ خود ہی تھک کر ہٹ گئی۔تم خود ہی اندازہ کر لو کہ کم سن اور کھیل کود کی شوقین لڑکی کتنی دیر تک کھڑی رہ سکتی ہے‘‘۔

معلوم ہوا کہ عورت مرد کو دیکھ سکتی ہے مگر مرد کے لیے عورت کو دیکھنا جائز نہیں ہے۔

 

٭حدیث میں ہے:

’’ حضور ﷺ عید کے خطبہ سے فارغ ہو کر عورتوں کی طرف گئے اور ان کو وعظ و نصیحت کی، بلالؓ ساتھ تھے آپ ﷺ نے ان کو صدقہ کرنے کا حکم دیا۔‘‘(۷۸)

اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے آپ  ﷺ نے فرمایا:

’’صدقہ کرو کیونکہ تم میں سے اکثر جہنم کا ایندھن ہیں، عورتوں کے درمیان سے ا یک سرخی مائل سیاہ رخساروں والی عورت نے کھڑے ہو کر عرض کیا کیوں یا رسول اللہ ﷺ؟ فرمایا: کیونکہ تم شکوہ اور شوہر کی ناشکری زیادہ کرتی ہو، حضرت جابر فرماتے ہیں وہ اپنے زیوروں کو صدقہ کرنا شروع ہو گئیں، حضرت بلالؓ کے کپڑے میں اپنی بالیاں اور انگوٹھیاں ڈالنے لگیں۔‘‘(۷۹)

مذکورہ بالا روایت سے معلوم ہوا جب عورتیں حضور ﷺ کا وعظ سنتی تھیں یقینی بات ہے کہ وہ آپ  ﷺ کو دیکھتی ہوں گی اور جس وقت حضرت بلالؓ کے کپڑے میں وہ زیورات ڈال رہی تھیں تو حضرت بلالؓ پر بھی نظر پڑتی ہوگی چنانچہ یہ بات واضح ہو گئی کہ عورتوں کے لیے مردوں کی طرف نظر کرنے کی گنجائش ہے۔

 

شوافع کا مؤقف:

 

امام ابو اسحاق شیرازیؒ لکھتے ہیں :

’’بلا ضرورت اجنبیہ کے لیے جائز نہیں کہ وہ اجنبی مرد کو دیکھے۔‘‘(۸۰)

امام نوویؒ لکھتے ہیں :

’’ عورت کے لیے اجنبی مرد کی طرف دیکھنا حرام ہے جیسا کہ مرد کے لیے اجنبیہ کی طرف دیکھنا حرام ہے۔‘‘(۸۱)

اور دوسری جگہ امام نوویؒ لکھتے ہیں :

’’اگر عورت کا اجنبی مرد کے چہرہ کو دیکھنا بغیر شہوت اور فتنہ کے خوف کے ہو تو اس بارے میں دو قول ہیں ایک جواز اور دوسرا عدم جواز کا لیکن ہمارے اصحاب نے ’’حرمت‘‘ والے قول کو اصح قرار دیا ہے۔‘‘(۸۲)

 

شوافع کے دلائل:

 

آیت کریمہ:

{وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ  اَبْصَارِھِنَّ  وَیَحْفَظْنَ  فُرُوْجَھُن} (۸۳)

 

٭حدیث مبارکہ:حضرت نبھانؒ سے روایت ہے :

’’حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ میں اور میمونہ رضی اللہ عنہا بنی اکرم  ﷺ کے پاس بیٹھی تھیں کہ ابن ام مکتومؓ (نابینا صحابی) داخل ہوئے اور یہ واقعہ پردہ کا حکم نازل ہونے کے بعد کا ہے۔چنانچہ رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا ان سے پردہ کرو، میں نے کہا یا رسول اللہ  ﷺ! کیا یہ نابینا نہیں ہیں ؟ ہمیں دیکھ سکتے ہیں اور نہ یہ پہچانتے ہیں۔رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا کیا تم دونوں بھی نابینا ہو؟ کیا تم بھی اسے نہیں دیکھ سکتیں ‘‘۔ (۸۴)

امام ترمذی ؒ نے اس حدیث کو ’’حسن صحیح ‘‘قرار دیا ہے۔

 

قیاس:

 

جس طرح مرد عورت کی طرف دیکھنے سے فتنہ میں مبتلا ہوسکتا ہے ویسے ہی عورت بھی مرد کی طرف دیکھنے سے فتنہ میں مبتلا ہوسکتی ہے اس لیے جب فتنہ مشترک ہے تو عورت کے لیے بلا ضرورت اجنبی مرد کی طرف دیکھنا جائز نہ ہوگا۔

امام نوویؒ لکھتے ہیں :

ولان الفتنۃ مشترکۃ وکما یخاف الا فتتان بھاتخاف الافتتان بہ (۸۵)

’’اور اس لیے کہ فتنہ مشترک ہے جیسا مرد کے لیے عورت کی وجہ سے فتنہ میں مبتلا ہونے کا خوف ہے ویسے ہی عورت کے لیے مرد کی وجہ سے فتنہ میں مبتلا ہونے کا خوف ہے۔‘‘

مذکورہ بالا دلائل کی وجہ سے شوافع نے ’’حرمت‘‘ کا قول اختیار کیا ہے۔(۸۶)

 

تسامح:

 

امام نوویؒ نے حدیث ام سلمہ نقل کرتے ہوئے، حضرت ام سلمہؓ کے ساتھ حضرت ام حبیبہؓ کا ذکر کیا ہے۔ (۸۷) اورسنن ترمذی کا حوالہ دیا ہے جبکہ سنن ترمذی میں حضرت ام سلمہؓ کے ساتھ حضرت میمونہؓ کا ذکر ہے جیسا کہ اوپر حدیث گزر چکی ہے۔ اور اسی طرح دیگر کتب میں مذکور ہے۔(۸۸) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان سے تسامح ہو گیا ہو۔ اس لیے کہ خود امام نوویؒ نے شرح صحیح مسلم میں دوسرے مقام پر جب اس حدیث کو ذکر کیا تو حضرت میمونہ ؓ کا ذکر کیا ہے۔( ۸۹) اور امام ابو اسحاق شیرازی ؒ نے بھی شوافع کی طرف سے مذکورہ بالا دلائل پیش کیے ہیں اور حضرت ام سلمہؓ کے ساتھ حضرت میمونہؓ کا ذکر کیا ہے۔(۹۰)

 

حدیث عائشہؓ کا جواب :

 

چونکہ حدیث عائشہؓ اور حدیث فاطمہ بنت قیس ؓ اپنے مفہوم میں واضح ہیں اور جمہور کے وزنی دلائل میں شامل ہیں اس لیے ا مام نووی ؓ نے ان کے جوابات دئیے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں۔

٭       حضرت عائشہؓ کی نظر، حبشیوں کے چہروں اور جسموں کی طرف نہیں تھی بلکہ وہ ان کے کھیل کو دیکھ رہی تھیں اور ایسا کوئی کھیل کھیلا جا رہا ہو تو مردوں کے جسموں کی طرف نظر کیے بغیر کھیل دیکھنا جائز ہے اور اگر بلا مقصد مردوں کے جسم پر نظر پڑ جائے تو فوری نظر کو پھیر لیا جائے۔

٭       شاید کہ یہ واقعہ اجنبی کی طرف ’’حرمت نظر‘‘ کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا ہو۔

٭       حضرت عائشہؓ کی بلوغت سے پہلے کا واقعہ ہے اور نابالغ احکام شرع کا مکلف نہیں ہوتا۔(۹۱)

 

حدیث فاطمہ بنت قیسؓ کا جواب:

 

حدیث فاطمہ بنت قیسؓ بھی شوافع کے مؤقف کے برعکس ہے امام نوویؓ نے اس کا بھی جواب دیا ہے۔

حضور اکرمﷺ نے حضرت فاطمہ بنت قیسؓ کو جو حضرت ابن مکتوم ؓ کے گھر عدت گزارنے کا حکم دیا تھا اس میں انہیں ابن مکتومؓ کی طرف دیکھنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی بلکہ وہ غض بصر والے حکم کی پابند تھیں اور انہیں وہاں عدت گزارنے کا حکم اس لیے دیا گیا تھا وہاں پر لوگوں کی زیادہ آمدورفت نہیں تھی وہ بغیر کسی دشواری کے نظر کی حفاظت کر سکتی تھیں اور وہ خود بھی دوسرے لوگوں کی نظروں سے محفوظ تھیں جبکہ ام شریک ؓ کے گھر لوگوں کا کثرت سے آنا جانا تھا اس لیے انہیں ابن مکتومؓ کے گھر عدت گزارنے کا حکم دیا گیا۔(۹۲)

 

امام نووی ؒکے پیش کردہ جوابات کا جائزہ:

 

امام نوویؒ نے حدیث عائشہؓ کا جو پہلا جواب دیا کہ حضرت عائشہؓ کی نظر ان حبشیوں کے کھیل کی طرف تھی ان کے جسم کی طرف نہیں تھی۔ حدیث میں اس کی صراحت نہیں ہے۔نیز یہ ممکن نہیں ہے کہ کھیلنے والے کے ’’کھیل‘‘ کو تو دیکھا جائے لیکن ان کے ’’جسم‘‘ کو نہ دیکھا جائے یا اس پر نظر نہ پڑے۔ اس لیے یہ جواب تو کافی و شافی نہیں ہے۔شیخ ناصر الدین البانیؒ کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔شیخ البانیؒ لکھتے ہیں :

’’معزز قاری کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اس جواب کا تصور کرے تاکہ اس کے لیے اس کا باطل ہونا ظاہر ہو جائے۔اس لیے کہ یہ ممکن نہیں ہے نظر اور کھیل و کھیلنے کے درمیان فاصلہ کرنا۔پس اگر حضرت عائشہؓ ان کے گمان میں کھیل کو دیکھ رہی تھیں نہ کہ کھیلنے والوں کو تو نصوص بے کار ہو جائیں گی۔اور اگر وہ یہ کہتے کہ حضرت عائشہؓ  ان کے ’’’ستر‘‘ کی طرف نہیں دیکھتی تھیں یا مشکوک نظر کے ساتھ یا فتنہ کے خوف سے نہیں دیکھتی تھیں تو یہ درست تھا۔‘‘(۹۳)

اور امام نوویؓ کے دوسرے اور تیسرے جواب کا حافظ ا بن حجر ؓ نے جواب دیا ہے۔حافظ ابن حجر عسقلائیؒ لکھتے ہیں :

’’حضرت عائشہؓ کی اس روایت کے بعض طرق میں ولما قد م و فداالحبشۃ(۹۴)کے الفاظ آ رہے ہیں۔یعنی حبشیوں کا ایک وفد حضور اکرم  ﷺ کے پاس حاضر ہوا تھا اور وہ لوگ یہ کھیل مسجد میں پیش کر رہے تھے۔جس کو حضرت عائشہؓ نے دیکھا اور وہ وفد7ھ میں آیا تھا تو اس وقت حضرت عائشہؓ کی عمر سولہ سال تھی۔اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بالغہ تھیں اور یہ واقعہ ’’احکام حجاب‘‘ کے بعد کا ہے۔‘‘(۹۵)

اور نیز حضرت عائشہ ؓ کا یہ فرمانا کہ میں پردہ کی اوٹ میں ان کو دیکھ رہی تھی اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ احکام حجاب کے نزول کے بعد کا واقعہ ہے۔باقی امام نووی ؒ کا حدیث فاطمہ بنت قیسؓ کے جواب میں یہ کہنا کہ ’’ان کو ابن ام مکتومؓ کے گھر عدت گزارنے کے حکم میں ان کی طرف دیکھنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔‘‘اس بات کی تو حدیث مبارکہ میں صراحت ہی نہیں ہے۔بلکہ یہ کہا جائے کہ عورت کے لیے مرد کی طرف نظر کرنے کی گنجائش ہے اس لیے ان کو وہاں عدت گزارنے کا حکم دیا گیا تھا۔ یہ حقائق کے زیادہ قریب ہے کیونکہ یہ بات بہت ہی مستبعد معلوم ہوتی ہے کہ حضرت فاطمہؓ، حضرت ابن مکتومؓ کے گھر رہ رہی ہوں اور ان کی حضرت ابن مکتومؓ پر نظر نہ پڑی ہو۔حضور ﷺ نے ام شریکؓ کے گھر انہیں عدت گزارنے سے اس لیے منع کیا تھا کہ وہاں پر لوگوں کی آمد و رفت تھی۔ اور ان کی نظریں حضرت فاطمہؓ پر پڑنے کا اندیشہ تھا۔ جبکہ ابن ام مکتومؓ کے گھر ایسی صورتحال نہیں تھی اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں کپڑے وغیرہ اتارنے پڑ جائیں تو کوئی دیکھنے والا نہیں ہوگا۔ اس سے تو بالکل واضح معلوم ہو رہا ہے کہ اگر عورتوں کے لیے مردوں کی طرف نظر کرنا جائز نہ ہوتا تو پھر آپ  ﷺ ان کو ابن ام مکتومؓ کے گھر عدت گزارنے کا حکم نہ دیتے۔ معلوم ہوا عورتوں کے لیے مردوں کی طرف نظر کرنا جائز ہے۔

 

شوافع کے دلائل کے جوابات:

 

آیت کریمہ { وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ  اَبْصَارِھِنَّ }کی توجیہات :

٭عورتوں کو جو غض بصر کا حکم دیا گیا ہے وہ مردوں کے غض بصر والے حکم سے مختلف ہے۔علامہ ابن رشدؒ لکھتے ہیں :

’’اور تحقیق یہ بات کہی گئی کہ عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ مرد کی طرف دیکھے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان { وقل للمومنت یغضضن من ابصار ہن} کے ظاہر سے استدلال کرتے ہوئے کہ جیسا اللہ تعالیٰ نے مردوں کو حکم دیا {وقل للمومنین یغضوامن ابصار ہم}اور یہ استدلال صحیح نہیں ہے۔اس لیے کہ عورتوں کے لیے تو حدیث فاطمہ بنت قیسؓ نے بیان کر دیا کہ یہ حکم مردوں سے مختلف ہے۔‘‘(۹۶)

vحدیث فاطمہ بنت قیسؓ آیت کریمہ کے لیے ’’مخصص‘‘ ہے۔امام قرطبی لکھتے ہیں :

’’ہم نے کہا اس حدیث (فاطمہ بنت قیسؓ) سے بعض علماء نے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ مرد کودیکھے، لیکن مرد کے لیے عورت کو دیکھنا جائز نہیں ہے مثلاً سر، کان وغیرہ اور بہرحال ‘‘ستر‘‘ کا دیکھنا جائز نہیں ہے۔ پس یہ حدیث آیت کریمہ { وقل للمومنت یغضضن من ابصار ہن}کے عموم کی تخصیص کرنے والی ہے اور ’’من‘‘ کا کلمہ ’’تبعیض‘‘ کے لیے ہے جیسا کہ اس سے پہلی آیت میں ہے۔‘‘(۹۷)

٭آیت کریمہ میں کلمہ ’’من‘‘ تبعیض کے لیے ہے۔ابو عبداللہ مصطفی المصری لکھتے ہیں :

’’اور بعض علماء نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان:{ وقل للمومنات یغضضن من ابصار ہن} میں کلمہ ’’من‘‘ کو تبعیض کے لیے قرار دیا ہے۔اور{ وقل للمومنات یغضضن من ابصار ہن}کا مطلب یغضضن بعض ابصار ہن، یعنی کچھ نظروں کو جھکائے، اس لیے کہ عورت کے لیے بہت سی چیزوں کو دیکھنے کی اجازت ہے، بلکہ شوہر کو دیکھنا مستحب ہے تاکہ اس کا نفس پاک دامن ہو جائے۔اور جب فتنہ کا خوف نہ ہو تو محرم مردوں کو دیکھنا جائز ہے بلکہ عام طور پر مردوں کو بھی دیکھنا جائز ہے۔اور اگر ان کی طرف نظر کرنے سے فتنہ کا اندیشہ ہو تو پھر بالکل دیکھنا ممنوع ہوگا۔‘‘ (۹۸)

حدیث عائشہؓ اور حدیث فاطمہ بنت قیس ؓ کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ آیت کریمہ میں ’’غض بصر‘‘سے مراد عورتیں ’’اعضائے مستورہ‘‘ سے نظریں نیچی رکھیں۔قاضی ابوالولید سلمان بن خلف الباجیؒ لکھتے ہیں :

’’پس یہ احتمال ہے کہ اس حکم سے اللہ تعالیٰ ارادہ کرتے ہوں اعضائے مستورہ سے نظروں کے جھکانے کا۔‘‘(۹۹)

٭آیت کریمہ میں ’’غض بصر‘‘ کا حکم اس صورت میں ہے جب وہ نگاہ لذت سے بھر پور ہو۔قاضی ابو الید الباجیؒ لکھتے ہیں :

’’پس یہ احتمال ہے کہ اس حکم سے اللہ تعالیٰ ارادہ کرتے ہوں کہ عورت اپنی آنکھوں کو جھکالے، اجنبی مرد کی طرف اس خاص نظر سے جو لذت والی ہو۔‘‘(۱۰۰)

مذکورہ بالا توجیہات سے معلوم ہوا کہ عورتوں کے لیے ’’غض بصر‘‘ کا حکم مطلقاً نہیں ہے بلکہ بعض صورتوں میں نظریں جھکانے کا حکم ہے۔ جب وہ نظر اعضائے مستورہ کی طرف ہو یا لذت سے ڈالی جا رہی ہو۔ کچھ صورتیں اس میں سے مستثنیٰ ہیں مثلاً مباح اشیاء کو دیکھنا یا اپنے شوہر اور محرم رشتہ داروں کو دیکھنا عورت کے لیے جائز ہے۔ لہذا حدیث فاطمہ بنت قیسؓ کو سامنے رکھتے ہوئے اس آیت کا مفہوم متعین کیا جا سکتا ہے کہ عورتوں کے لیے ’’شہوت‘‘ سے بے خوف ہونے کی صورت میں اجنبی مردوں کی طرف نظر کرنے کی گنجائش ہے اور اگر ’’شہوت‘‘ کا  اندیشہ ہو تو پھر یہ گنجائش باقی نہ رہے گی۔

 

حدیث نبھان ؒ کا جواب:

 

شوافع کی پیش کردہ حدیث نبھان عورتوں کے لیے اجنبی مردوں کی طرف نظر کرنے کے بارے میں عدم جواز پر دلالت کر رہی ہے اور حدیث عائشہؓ اور حدیث فاطمہ بنت قیسؓ سے جواز معلوم ہو رہا ہے۔روایات میں بظاہر تعارض پیش آ رہا ہے۔

 

رفع تعارض:

 

امام ابن بطالؒ(م۔۴۴۹ھ) نے حدیث عائشہؓ کو اصح قرار دے کر تعارض ختم کیا ہے۔ جس کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

حدیث نبھان کو امام بخاریؒ نے اپنی کتاب ’’الصحیح ‘‘میں ذکر نہیں کیا بلکہ حدیث عائشہ کو نقل کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی غرض حدیث نبھان کا رد کرنا ہے اور حدیث عائشہ ؓ حدیث نبھان سے اصح ہے اس لیے کہ نبھان علم حدیث کے نقل کرنے میں معروف نہیں ہے۔ چنانچہ نبھان کی حدیث، احادیث صحیحہ اور اجماع علماء کے معارض ہونے کی وجہ سے قابل استدلال نہیں ہے۔(۱۰۱)

شیخ الاسلام ابن قدامہؒ نے رفع تعارض کی دو صورتیں بیان کی ہیں۔

 

بصورت ترجیح:

 

حدیث نبھانؓ ضعیف ہے۔ اس لیے کہ حدیث نبھان کے ضعف کی طرف امام احمدؒ نے اشارہ کیا ہے۔اور ابن عبدالبرؒ نے حضرت ام سلمہؓ سے روایت نقل کرنے والے راوی نبھان کو مجہول قرار دیا ہے۔ جبکہ حدیث فاطمہ بنت قیسؓ صحیح ہے لہذا صحیح حدیث کو دلیل بنایا جائے۔

 

بصورت تطبیق:

 

اگر سند سے قطع نظر کر لی جائے تو پھر یہ احتمال ہے کہ حدیث نبھان ازواج مطہرات کے ساتھ خاص ہو جیسا کہ امام احمدؒ اور امام ابو داؤد نے کہا ہے۔ اثرمؒ کہتے ہیں میں نے ابو عبداللہ (امام احمدؒ) سے کہا حدیث نبھان ازواج مطہرات کے ساتھ خاص ہے اور حدیث فاطمہ بنت قیسؓ تمام عورتوں کے لیے ہے۔؟(۱۰۲)انہوں نے کہا ہاں۔

امام بدر الدین عینیؒ درج ذیل جوابات ذکر کئے ہیں جن سے تعارض ختم ہو سکتا ہے۔

 

٭حضرت عائشہ ؓ  صغیرہ تھیں۔

٭حبشیوں کا یہ کھیل عید کے دن تھا جس کو حضرت عائشہؓ دیکھ رہی تھیں اور یوم عید کو رخصت ہے، جو کہ غیر عید کو نہیں ہے۔

٭کھیل پیش کرنے والے حبشی چھوٹے بچے تھے جو کہ نابالغ تھے۔

٭حدیث ام سلمہؓ، حدیث عائشہؓ کے لیے ناسخ ہے۔

٭نابینا سے پردہ کا حکم یہ ازواج مطہرات کی حرمت اور عظمت کی وجہ سے ان کے ساتھ خاص ہے۔(۱۰۳)

حافظ ابنِ حجر ؒ نے حدیث ام سلمہؒ اور حدیث عائشہؓ کو جمع کر کے بصورت احتمال دو توجیہات کی ہیں اور یہی توجیہات امام بدرالدین عینیؒ نے بھی ذکر کی ہیں اور ان کو زیادہ بہتر قرار دیا ہے۔

٭حدیث ام سلمہؓ پہلے کی ہو اور حدیث عائشہؓ بعد کی ہو۔

٭ازواج مطہرات کو حضرت ابن مکتومؒ کی طرف نظر کرنے سے اس لیے منع کیا ہو کہ وہ نابینا صحابی تھے عین ممکن ہے کہ ان کے جسم کا کوئی ایسا حصہ کھلا ہو ا ہو جس کی طرف نظر کرنا جائز نہ ہو اور وہ اس بات سے بے خبر ہوں۔(۱۰۴)

ملا علی قاریؒ (م۔۱۰۱۴ھ) نے ایک لطیف توجیہ کی ہے۔

uحدیث عائشہؓ سے عورتوں کا مردوں کی طرف نظر کرنے کا جواز معلوم ہو رہا ہے اور حدیث ام سلمہؒ ورع اور تقویٰ پر محمول ہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں :

’’اصح بات یہی ہے کہ عورت کا مرد کی طرف ناف سے اوپر اور گھٹنے سے نیچے بلا شہوت نظر کرنا جائز ہے۔اور یہ حدیث ام سلمہ ورع اور تقویٰ محمول ہے۔‘‘(۱۰۵)

 

امام ابن بطالؒ کے پیش کردہ جواب کا جائزہ

 

امام بخاری ؒ کا کسی حدیث کو اپنی کتاب میں نقل نہ کرنا قطعاً اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ حدیث غیر صحیح ہے اس لیے کہ حدیث کی صحت کا معیار اس کے بخاری یا مسلم میں مذکور ہونے پر نہیں بلکہ اس کی سند پر ہے۔ چنانچہ عین ممکن ہے کہ کوئی حدیث صحیح ہو مگر بخاری ومسلم میں موجود نہ ہو۔ لہذا یہ کہنا کہ امام بخاریؒ کی حدیث عائشہ ؓ کے ذکر کرنے سے غرض حدیث نبھان پر رد کرنا ہے۔ محض اس احتمال سے کسی حدیث کو ضعیف نہیں قرار دیا جا سکتا۔

جہاں تک ہے ان کا یہ اعتراض کہ ’’لان نبھان لیس بمعروف بنقل العلم‘‘ یہ بھی وزنی نہیں ہے۔ اس لیے کہ نبھان علم حدیث کے نقل کرنے میں محدثین کی جماعت کے نزدیک معروف ہے۔جن میں امام ابن حبانؒ، امام حاکمؒ بھی شامل ہیں اور انہوں اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ جبکہ امام ابن شہاب زہریؒ، محمد بن عبدالرحمن جو حضرت طلحہؓ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ ان سے روایت کر رہے ہیں۔ لہذا نبھان کی روایت کو رد نہیں کیا جا سکتا۔(۱۰۶)

 

شیخ الاسلام ابن قدامہؓ کے جوابات کا جائزہ

 

ابن قدامہؒ کا حدیث نبھان کو ضعیف قرار دینا ’’محل نظر‘‘ ہے۔ اس لیے کہ یہ روایت سند کے اعتبار سے قوی ہے۔ امام ترمذیؒ نے اس کو صحیح قرار دیا ہے۔(۱۰۷) امام ابن حبان ؒاور امام حاکمؒ نے بھی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے بلکہ ابن حبانؒ نے نبھان کا شمار ثقہ راویوں میں کیا ہے۔ (۱۰۸) اور اس حدیث پر ضعف کی یہ علت بیان کی جاتی ہے کہ حضرت ام سلمہؓ کے آزاد کردہ غلام نبھان سے امام مسلم بن شہاب زہریؒ نے اکیلے روایت نقل کی ہے یہ کوئی ایسی علت نہیں ہے جس کی وجہ سے اس روایت کو ضعیف قرار دیا جائے۔حافظ ابن حجر عسقلائی ؒ لکھتے ہیں :

’’حدیث ام سلمہ ؓ { افعمیاو ان انتما}حدیث مشہور ہے او راس حدیث کو اصحاب سنن نے زہری سے روایت کیا ہے جو کہ نبھان مولی ام سلمہؓ سے روایت کر رہا ہے اور اس حدیث کی سند قوی ہے اور اکثر اس حدیث پر جو اعتراض کیا جاتا ہے  وہ یہ کہ زہری اکیلا نبھان سے روایت کر رہا ہے اور یہ کوئی ایسی علت نہیں جو استدلال سے مانع ہو، اس لیے کہ جس کو زہری پہچانتا ہے اور اس کی حالت بیان کر رہا ہے کہ وہ ام سلمہؓ کا مکاتب ہے اور اس پر کسی ایک امام نے جر ح بھی نہیں کی ہے اس کی روایت کو رد نہیں کیا جا سکتا۔‘‘(۱۰۹)

معلوم ہوا حدیث نبھان ضعیف نہیں ہے۔ باقی ابن قدامہؒ کا پیش کردہ دوسرا جواب قابل اعتماد ہے۔

 

امام بدر الدین عینی ؒ کے جوابات کا جائزہ

 

امام عینی ؒ کا پیش کردہ پہلا جواب درحقیقت امام نووی ؒکا ہی پیش کردہ جواب ہے جس کی حافظ ابن حجرؒ نے تردید کی ہے کمامردوسرا اور تیسرا جواب محض ایک احتمال ہے جس پر استدلال کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔ تاوقتیکہ کوئی اور دلیل نہ پائی جائے جو اس احتمال کو تقویت دے۔چوتھا جواب بھی ’’محل نظر‘‘ ہے اس لیے کہ جب تک ’’نسخ‘‘کو جاننے کے لیے چار صورتوں میں کوئی صورت نہ پائی جائے تب تک’’ نسخ ‘‘کا قول نہیں کیا جا سکتا۔(۱۱۰) اور یہاں پر ان میں سے کوئی بھی صورت نہیں ہے۔البتہ پانچواں جواب قابل اعتماد ہے۔ امام ابو داؤد (م۔۲۷۵ھ) کا رحجان بھی اس طرف ہے۔چنانچہ امام ابو داؤدؒ نے حدیث ام سلمہؓ جس میں حضرت ابن ام مکتوم ؓکی آمد کا ذکر ہے نقل کر کے لکھا ہے۔

’’یہ حکم ازواج مطہرات کے ساتھ خاص ہے اور اس کی دلیل یہ ہے حضور اکرم  ﷺ نے فاطمہ بنت قیسؓ کو ابن مکتومؓ کے پاس عدت گزارنے کا حکم دیا کہ اگر تم اپنے کپڑے بھی اتار دو گی (توکسی قسم کا کوئی حرج نہیں ہے) اس لیے کہ وہ ایک نابینا شخص ہے۔‘‘(۱۱۱)

امام ابو داؤد کا دعویٰ ’’تخصیص ‘‘ کرنا با دلیل ہے۔ اس لیے کہ اگر نابینا سے پردہ تمام عورتوں کے لیے ہوتا تو حضرت فاطمہ بنت قیسؓ کو ابن ام مکتوم ؓ کے گھر عدت گزارنے کا حکم نہ دیا جاتا۔امام احمد بن حنبل ؒ (م۔۲۴۱ھ) نے بھی حدیث ام سلمہؓ کو ازواج مطہرات کے ساتھ خاص قرار دیا ہے اور حدیث فاطمہ بنت قیسؓ کو عام عورتوں کے لیے قرار دیا ہے۔(۱۱۲)حافظ ابن حجرعسقلانیؒ نے امام ابو داؤدؒ کے حدیث ام سلمہؓ اور حدیث فاطمہ بنت قیسؓ کو اس طریقے پر جمع کرنے کو’’حسن‘‘ کہا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :

’’اور امام ابوداؤد ؒ نے حدیث فاطمہ بنت قیسؓ سے دلیل پکڑتے ہوئے کہا یہ حکم ازواجِ مطہرات کے ساتھ خاص ہے۔میں کہتا ہوں یہ دونوں حدیثوں کے درمیان اچھی جمع ہے۔‘‘(۱۱۳)

 

حافظ ابن حجرؒ کی توجیہات کا جائزہ :

 

حافظ ابن حجرؒ کی پیش کردہ توجیہات نہایت عمدہ ہیں جس سے تعارض باقی نہیں رہتا۔کہ اگر حدیث ام سلمہؓ کو پہلے کا واقعہ تسلیم کر لیا جائے اور حدیث عائشہؓ کو بعد کا واقعہ قرار دیا جائے تو تعارض ختم ہو جائے گا۔ اور اگر حدیث عائشہؓ کو پہلے کا اور حدیث ام سلمہؓ کو بعد کا تسلیم کیا جائے تو بھی عورتوں کا مردوں کی طرف دیکھنے کا ’’جواز‘‘ باقی ہے اس لیے کہ حضرت ام سلمہؓ کی روایت میں ان کو ابن ام مکتومؒ سے جو پردہ کا حکم دیا گیا تھا عین ممکن ہے کہ حضرت ابن مکتومؒ کے جسم کا کوئی حصہ کھلاہوجس کی طرف نظر کرنا جائز نہ ہو۔ اس لیے آپ ﷺ نے ان کو پردہ کا حکم دیا ہو۔

 

ملا علی قاریؒ کی توجیہ کا جائزہ:

 

ملا علی قاریؒ کی توجیہ بھی نہایت عمدہ ہے کہ حدیث عائشہ ؓ سے عورتوں کے لیے مردوں کی طرف نظر کرنے کا جواز ثابت ہو رہا ہے اور حدیث ام سلمہؓورع اور تقویٰ پر محمول ہے۔

 

شوافع کے قیاس کا جواب:

 

شوافع کا یہ قیاس نصوص کے مقابلہ میں واقع ہونے کی وجہ سے مرجوح ہے اس لیے کہ پیچھے روایت گزر گئی جس میں حضور  ﷺ کا عورتوں کو وعظ و نصیحت کرنے کا ذکر تھا۔ یہ بات بہت ہی بعید ہے کہ وہ آپ  ﷺ کا وعظ سنتی ہوں اور آپ  ﷺ کی طرف نہ دیکھتی ہوں اور حضرت بلالؓ کے کپڑے میں زیورات ڈالتی جا رہی ہوں مگر ان پر نظر نہ پڑ رہی ہو۔ اسی طرح حدیث عائشہؓ اور حدیث فاطمہ بنت قیسؓ سے معلوم ہوا ہے کہ عورت کے لیے مرد کی طرف دیکھنے کا حکم مرد کے عورت کی طرف دیکھنے کے حکم سے برعکس ہے نیز عورتوں کے لیے گھروں سے کام کاج کے سلسلہ میں نکلنا مجبوری ہے۔اور شریعت اسلامیہ نے عورتوں کو نقاب و حجاب میں باہر نکلنے کا حکم دیا ہے۔مگر مردوں کو نقاب کرنے کا حکم نہیں دیا اس لیے حالت اضطرار کی وجہ سے مرد و عورت کے درمیان ’’غض بصر‘‘ کے اس حکم میں فرق کیا گیا ہے۔

امام غزالی ؒ لکھتے ہیں :

’’ہم یہ نہیں کہتے کہ مرد کا چہرہ عورت کے لیے ستر ہے جیسا کہ عورت کا چہرہ مرد کے لیے ستر ہے۔بلکہ مرد کا چہرہ عورت کے لیے ایسا ہی ہے جیسا کہ نابالغ بچے کا چہرہ مرد کے لیے ہے اور اگر فتنہ کا اندیشہ ہو تو پھر عورت کا مرد کی طرف دیکھنا حرام ہوگا اور اگر فتنہ نہ ہو تو پھر دیکھنا جائز ہے۔ اس لیے کہ ہمیشہ سے یہ طریقہ کار چلا آ رہا ہے کہ مرد ہر زمانے میں کھلے چہرے کے ساتھ باہر نکلتے ہیں۔ جب کہ عورتیں نقاب پہن کر باہر نکلتی ہیں اگر مرد بھی اس حکم میں ان کے برابر ہوتے تو ان کو بھی نقاب پہننے کا حکم دیا جاتا، یا عورتوں کو گھروں سے نکلنے سے منع کر دیا جاتا۔‘‘(۱۱۴)

شیخ الاسلام ابن قدامہؓ لکھتے ہیں :

’’ اگر عورتوں کے لیے مردوں کی طرف نظر کرنا منع ہوتا تو مردوں پر پردہ کرنا واجب ہوتاجیسا کہ عورتوں پر واجب ہے تاکہ وہ مردوں کی طرف نہ دیکھ سکیں۔‘‘(۱۱۵)

حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں :

’’عورتوں کا مردوں کی طرف نظر کرنے کے جواز کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ ہمیشہ اس بات پر عمل ہوتا رہا ہے  کہ عورتیں گھروں سے نکلتے وقت مساجد، بازار اور دورانِ سفر نقاب کر کے نکلا کرتی ہیں تاکہ اجنبی مرد ان کو نہ دیکھ سکیں لیکن کبھی مردوں کو حکم نہیں دیا گیا کہ وہ بھی نقاب پہن کے نکلا کریں تاکہ عورتیں ان کو نہ دیکھ سکیں۔یہ طریقہ کار بھی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مرد و عورت کو جو ’’غض بصر‘‘ کا حکم دیا گیا ہے اس میں فرق ہے۔ (۱۱۶)

ملا علی قاری لکھتے ہیں :

’’عورتوں کا مردوں کی طرف نظر کرنے کے جواز کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ عورتیں حضور  ﷺ کے ساتھ مسجد میں نماز پڑھتی تھیں اور یقیناً ان کی نظر مردوں پر بھی پڑتی ہوگی اور اگر ان کے لیے مردوں کو دیکھنا جائز نہ ہوتا تو انہیں مسجد اور عیدگاہ میں حاضر ہونے کا حکم نہ دیا جاتا، اور تحقیق عورتوں کو مردوں سے پرد ہ کرنے کا حکم دیا گیا اور مردوں کو پردہ کرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ ‘‘(۱۱۷)

معلوم ہوا عورتوں کے لیے مردوں کی طرف دیکھنا جائز ہے۔

 

خلاصہ بحث

 

اہل علم کی اس بحث سے درج ذیل پہلو سامنے آئے۔

٭       مردوں کا اجنبیات عورتوں کی طرف بلا ضرورت دیکھنا ناجائز ہے۔

٭       عورتوں کا مردوں کو دیکھنا ’’شہوت‘‘ سے ہو تو بالاتفاق یہ حرام ہے۔اگر بغیر ’’شہوت ‘‘ کے ہو تو شوافع کے نزدیک پھر بھی دیکھنا حرام ہے۔

٭       ائمہ ثلاثہ کے نزدیک ’’بلا شہوت‘‘ عورت کا مرد کو دیکھنا جائز ہے۔

اور یہی قول حالات و زمانہ کے لحاظ سے نہایت مناسب ہے۔ اس لیے کہ عصر حاضر میں علوم و فنون اور بالخصوص طبی علوم کی تحصیل اور دیگر ضروریات کے سلسلے میں عورتوں کو گھروں سے باہر نکلنا پڑتا ہے۔ اگر ان کا مردوں کی طرف دیکھنے کو اسی طرح حرام قرار دیا جائے جس طرح مردوں کا عورتوں کو دیکھنا حرام ہے۔ تو ان کے لیے حرج ہوگا کہ مردوں کے لیے حجاب و نقاب کے ساتھ باہر نکلنے کا حکم نہیں ہے۔ سوسائٹی اور معاشرہ میں قدم بقدم مرد حضرات سے سامنا ہوتا رہتا ہے اور ان کو دیکھنے سے حرام کا ارتکاب کر کے وہ گناہگار ہو رہی ہیں۔ ’’عموم بلوی‘‘ کی وجہ سے عورتوں کا مردوں کی طرف نظر کرنے کو علی الاطلاق حرام قرار دینا محل نظر ہے۔جبکہ حضور اکرمﷺ کے زمانہ میں عورتوں کا مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے آنا ثابت ہے۔اور اسی طرح حج و عمرہ دیگر کاموں کے سلسلہ میں وہ گھروں سے باہر نکلتی تھیں یقیناً اجنبی مردوں کے پاس سے گزرتے ہوئے ان پر نظر پڑتی ہوگی۔اور اگر یہ جائز نہ ہوتا تو پھر مردوں کے لیے بھی ’’نقاب‘‘ کا حکم ہوتا یا عورتوں کے گھروں سے نکلنے پر پابندی ہوتی۔حالانکہ شریعت اسلامیہ میں اس قسم کے احکام نہیں ہیں۔لہذا بلا ضرورت عورتوں کا اجنبی مردوں کو دیکھنا خلاف اولی قرار دینا بہتر معلوم ہوتا ہے۔گوا ن کے لیے افضل اور بہتر یہی ہے کہ وہ بلا ضرورت اجنبی مردوں کو نہ دیکھیں۔

 

حواشی و حوالہ جات

 

(۱)       القرآن، النور:۳۰

(۲)      القرآن، النور:۳۱

(۳)     القرآن، آل عمران:۳۱

(۴)     البخاری، محمد بن اسماعیل، الجامع، الصحیح، بیروت دارابن کثیر الیمامہ، ۱۴۰۷ھ، جلد ۵، صفحہ۲۳۰۴

(۵)     مسلم بن حجاج، امام، الصحیح، بیروت، داراحیاء التراث العربی، جلد۴، صفحہ۱۷۰۴، ,۲۳۰۴

(۶)      المنذری، عبد العظیم، الترغیب والترہیب، بیروت، دارالکتب العلمیہ۱۴۱۷ جلد۳ِ صفحہ۲۳

(۷)     ابن قیم الجوزیہ، الجواب الکافی لمن سال عن الدواء الشافی دارالمعرفت، ۱۴۱۸ھ، جلد۱، صفحہ۱۵۳، ۱۵۴

(۸)     عبداللہ بن محمود الموصلی الحنفی، الاختیار تعلیل المختار، قاہرہ، مطبعہ الحلبی، ۱۳۵۶ھ، جلد۴، صفحہ ۱۵۴

الغزالی، محمد بن محمد، ابوحامد، الوسیط فی المذہب، قاہرہ دارالسلام، ۱۴۱۷ھ، جلد۵، صفحہ۲۹

(۹)      شامی، ابن عابدین، محمد امین، ردالمحتار(حاشیہ ابن عابدین) بیروت، دارالفکر، للطباعۃ والنشر، جلد۶، ۳۷۱

(۱۰)    برہان الدین محمود بن احمد، المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی، بیروت، دارلکتب العلمیہ، ۱۴۲۴ ھ، جلد نمبر۵، صفحہ۳۳۱، ۳۳۲

ابن قدامہ، عبداللہ بن احمد، المغنی، مکتبۃ القاہرہ، ۱۳۸۸ھ، جلد۷صفحہ ۳۱، ۳۲

الخطیب الشربینی، محمد بن احمد، مغنی المحتاج الی معرفتہ معانی الفاظ المنہاج، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۵ ھ جلد۴، صفحہ، ۲۱۴ ۲۱۷

الغزالی، الوسیط فی المذھب، جلد۵، صفحہ۳۱، ۳۲

ابن جزی کلبی، محمد بن احمد، القوانین الفقیہ، ناشر نامعلوم، س ن، جلد۱، صفحہ۲۹۴

محمد بن محمد الطرابلسی، المالکی، مواھب الجلیل فی شرح مختصر خلیل، بیروت، دارالفکر، ۱۴۱۲ھ جلد ۳ صفحہ۴۰۶

(۱۱)     الکاسانی، علاء الدین، البدائع والصنائع فی ترتیب الشرائع، بیروت، دارالکتاب العربی، ۱۹۸۲ء جلد۵ صفحہ۱۲۲

ابن قدامہ، المغنی، جلد۷، صفحہ۹۶

الطرابلسی، المالکی، مواھب الجلیل فی شرح مختصر خلیل، جلد۳، صفحہ۴۰۵

الشیرازی، ابراہیم بن علی، ابواسحاق، المہذب فی فقہ الامام الشافعی، بیروت، دارالکتب العلمیہ، س ن، جلد۲، صفحہ۴۲۴

(۱۲)    النووی، شرح صحیح مسلم، جلد۹، صفحہ۲۱۰

(۱۳)    الرازی، محمد بن عمر بن حسین، ابو عبداللہ، تفسیرالفخرالرازی، بیروت، داراحیاء التراث العربی، ۱۴۲۰ھ جلد ۲۳، صفحہ۳۶۲

الطرابلسی، المالکی، مواھب الجلیل فی شرح مختصرخلیل، جلد۳، صفحہ۴۰۵

الحصکفی، علاء الدین، درمختار، بیروت، دارالفکر، ۱۳۸۶ھ جلد۶، صفحہ۳۷۰

ابن قدامہ، المغنی، جلد۷، صفحہ۱۰۱

(۱۴)    الحصکفی، الدرالمختار، جلد ۶، صفحہ۳۷۰

الطرابلسی، المالکی، مواھب الجلیل فی شرح مختصر خلیل، جلد۳، صفحہ۴۰۵

الشیرازی، ابواسحاق، المہذب، جلد۲، صفحہ۴۲۵

ابن قدامہ، المغنی، جلد۷، صفحہ۱۰۱

(۱۵)    الرازی، مفاتیح الغیب، جلد۲۳، صفحہ۳۶۲

(۱۶)    الکاسانی، البدائع  والصنائع، جلد۵، صفحہ۱۲۲

(۱۷)    النووی، شرح صحیح مسلم، جلد۹، صفحہ۲۱۰

(۱۸)    درویش مصطفی حسن، فصل الخطاب فی مسئلۃ الحجاب والنقاب، قاہرہ، دارالااعتصام، (س ن) صفحہ ۷۳

(۱۹)     ایضا، صفحہ۷۳

(۲۰)   شامی، الرد المحتار علی الدرالمختار، جلد ۱، صفحہ۴۰۷

(۲۱)   ایضاً، جلد ۱، صفحہ۴۰۶

(۲۲)   ایضاً، جلد ۱، صفحہ۴۰۷

(۲۳)   ابن رشد الجد، محمد بن احمد، المقدمات المہدات، بیروت، دارالغرب الاسلامی، ۱۴۰۸ھ، جلد۳، صفحہ ۴۲۰

(۲۴)   ابن عربی، محمد بن عبداللہ، احکام القرآن، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۲۴ھ، جلد ۳، صفحہ۳۸۰

(۲۵)   الشیرازی، ابواسحاق، المہذب، جلد۲، صفحہ ۳۲

(۲۶)   الغزالی، الوسیط فی المذہب، جلد ۵ صفحہ ۳۲

(۲۷)   ابن قدامہ، المغنی، جلد۷، صفحہ ۱۰۲

(۲۸)  القرآن، النور:۳۰

الشیرازی، ابواسحاق، المہذب، جلد۲، صفحہ۴۲۵

ابن عربی، احکام القرآن، جلد۳، صفحہ۳۷۹

ابن رشد، البیان والتحصیل، جلد۱۸، صفحہ ۵۵۹

(۲۹)    الشافعی، محمدابن ادریس، تفسیر الا مام الشافعی، المملکۃ العربیہ السعودیہ، دارالتد مریۃ، ۱۴۲۷ ھ، جلد ۳ صفحہ ۱۱۳۷

(۳۰)   القرآن، الاحزاب۵۳

ابن قدامہ، عبداللہ بن احمد، ابومحمد، المغنی، مکتبۃ القاہرہ، ۱۳۸۸ ھ، جلد۷، صفحہ۱۰۲

(۳۱)    القرطبی، محمد بن احمد بن ابی بکر، الجامع لا حکام القرآن، قاہرہ، دارالکتب المصریہ، ۱۳۸۴ ھ، جلد ۱۴، صفحہ ۲۲۷

(۳۲)   ابن عربی، احکام القرآن، جلد ۳، صفحہ۳۸۰

مسلم، الصحیح، جلد۴صفحہ۲۰۴۷

(۳۳)   ابن قدامہ، المغنی، جلد ۷، صفحہ۱۰۲

ابن عربی، احکام القرآن، جلد ۳ صفحہ۳۸۰

ابو داؤد، جلد ۲، صفحہ۲۴۶

ابن ابی شیبہ، عبداللہ بن محمد، الکتاب المصنف فی الا حادیث والاثار، ریاض، مکتبۃ الرشید، ۱۴۰۹ ھ، جلد ۶، صفحہ ۳۶۷

(۳۴)   الشیرازی، ابو اسحاق، المہذب، جلد ۲، صفحہ۴۲۵

ابن رشد، البیان والتحصیل، جلد۱۸، صفحہ۵۵۹

ابن قدامہ، المغنی، جلد ۷، صفحہ۱۰۲

الترمذی، ابو عیسی محمد بن عیسی، السنن، مصر، مطبعہ مصطفی البابی الحلبی، ۱۳۹۵ھ جلد۳ صفحہ ۲۲۳

احمد بن حنبل، المسند، بیروت، موسسۃ الرسالۃ، ۱۴۲۱ ھ جلد ۲ صفحہ۶

(۳۵)   ابن قدامہ، المغنی، جلد۷صفحہ۱۰۲

مسلم، جلد۳ صفحہ۱۶۹۹

(۳۶)   ابوداؤد، السجستانی، سلیمان بن اشعث، بیروت، المکتبہ العصریہ، جلد۲، صفحہ۲۲۸

ابن ما جہ، محمد بن یزید، داراحیاء الکتب العربیہ، جلدا، صفحہ۶۰۰

(۳۷)  ابن قدامہ، المغنی، جلد ۷، صفحہ۱۰۲

(۳۸)   الوسیط فی المذھب، جلد ۵، صفحہ ۳۲

(۳۹)   مفتی صاحب کا ’’سائر الا حکام‘‘ لکھنا تسامح ہے۔ اس لیے کہ خلوت صحیحہ تمام احکام میں وطی کے قائم مقام نہیں ہے، بلکہ بعض احکام میں ہے۔تفصیل کے لیے دیکھیے۔(فتاوی ہندیہ، بیروت، دارالفکر، ۱۴۱۱ ھ، جلد ۱، صفحہ ۳۰۴)

(۴۰)   مفتی شفیع، احکام القرآن، جلد۳، صفحہ ۴۶۸

(۴۱)    خلوت صحیحہ سے مراد نکاح کے بعد مرد عورت کسی ایسی تنہائی کی ملاقات ہے جہاں پر وطی سے کوئی حسی، شرعی اور طبعی مانع نہ ہو، (فتاوی ہندیہ، ، جلد۱، صفحہ ۳۰۴)

(۴۲)   ایسی خلوت صحیحہ جس میں مرد نے عورت سے وطی نہ کی تو اس عورت پر بعض احکام وہ لاگو ہونگے جو ایسی عورت پر لا گو ہوتے ہیں جس کے ساتھ خلوت صحیح میں وطی ہو چکی ہو، اور بعض احکام لاگو نہیں ہونگے۔تفصیل دیکھئیے( فتاوی ہندیہ جلد۱، صفحہ ۳۰۶ )

(۴۳)   الجصاص، ابوبکر، اجکام القرآن، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۵ھ، جلد۵، صفحہ۱۷۳

(۴۴)   الکاسانی، بدائع الصنائع، جلد۵، صفحہ۱۲۲

(۴۵)   المر غینانی، علی بن ابی بکر، الہدایہ فی شرح بدایۃ المبتدی، بیروت، داراحیاء التراث العربی، س ن، جلد ۴، صفحہ۳۶۸

(۴۶)   القرآن، النور:۳۰

(۴۷)  القرآن، النور:۳۱

(۴۸)   الطبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تاویل القرآن، بیروت، موسسۃ الرسالہ، ۱۴۲۰ جلد۱۹، صفحہ۱۵۶

(۴۹)   ابن ابی شیبہ، المصنف، جلد۳، صفحہ۵۴۶

(۵۰)   الکاسانی، بدائع الصنائع، جلد۵، صفحہ۱۲۱، ۱۲۲

(۵۱)    السر خسی، محمد بن ابی سھل، المبسوط، بیروت، دارالمعرفۃ، ۱۴۱۴ ھ جلد۱۰، صفحہ۱۵۳

(۵۲)   ابو بکر احمد بن عمر والبزار، مسند البزارالمنشور باسم البحر الزخار، المد ینۃ المنورۃ، المکتبہ العلوم والحکم، ۱۹۸۸ء جلد۵، صفحہ۳۳۲

(۵۳)   الکاسانی، بدائع الصنائع، جلد ۵، صفحہ۱۲۲

(۵۴)   السر خسی، المبسوط، جلد ۱۰صفحہ ۱۵۳

المرغینانی، الہدایہ، جلد۴، صفحہ۳۶۸

(۵۵)  السرخسی، المبسوط، جلد۱۰، صفحہ۱۵۲

(۵۶)   متقدمین سے مراد وہ حضرات جنہوں نے امام ابو حنیفہؒ اور امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ کا زمانہ پایا اور ان سے فیض حاصل کیا اور جنہوں نے ان ائمہ ثلاثہ کا زمانہ نہیں پایا وہ متاخرین کہلاتے ہیں۔علامہ ذہبی نے میزان میں متقدمین او ر متاخرین کے درمیان حد فاصل تیسری صدی کا شروع قرار دیا ہے۔تیسری صدی ہجری سے پہلے تک علماء متقدمین اور تیسری صدی کے آغاز سے متاخرین کہلاتے ہیں (مشتاق علی شاہ، تعارف فقہ، گوجرانوالہ، مکتبہ حنفیہ، س ن، صفحہ نمبر۶۳ )

(۵۷)  الحصکفی، الدر المختار، جلد۶ صفحہ، ۳۷۰

(۵۸)   کا سانی، بدائع الصنائع، جلد۵صفحہ ۱۲۴

الغزالی، الوسیط فی المذھب، جلد ۵صفحہ نمبر۳۰

ابن قدامہ، المغنی، جلد ۷، صفحہ ۱۰۵

(۵۹)   الزحیلی، وھبۃ الدکتور، الفقہ الاسلامی وادلتہ، دمشق، دارالفکر، سوریہ، طبع رابع(س ن)جلد۴ صفحہ ۲۰۳

(۶۰)   شامی، الرد المحتار، جلد ۶ صفحہ ۳۷۰

المغربی، شمس الدین، ابو عبداللہ، محمد بن محمد، مواھب الجلیل لشرح مختصر الخلیل، دارعالم الکتب ۱۴۲۳ ھ، جلد۵صفحہ ۲۲

الشیرازی، المھذب، جلد ۲، صفحہ۴۲۴

ابن قدامہ، الکافی فقہ الامام المبجل احمد بن حنبل، ناشر(نامعلوم)(ت ن)جلد ۳ صفحہ۳

(۶۱)    النووی، یحی بن شرف، المنھاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج، بیروت، داراحیاء التراث العربی، ۱۳۹۲ھ جلد ۶ صفحہ۱۸۴

(۶۲)   الکاسانی، بدائع الصنائع، جلد ۵ صفحہ۱۲۲

(۶۳)   الحصکفی درمختار، جلد ۶صفحہ ۳۷۱

(۶۴)   الباجی، ابوالولید سلیمان بن خلف الباجی، المنتقی شرح الموطا، مصر، مطبعہ السعادۃ، ۱۳۳۲ ھ جلد ۴صفحہ۱۰۵

(۶۵)   ابن رشد، البیان والتحصیل والشرح والتوجیہ والتعلیل لمسائل المستخرجہ، بیروت، دارالغرب الاسلامی۱۴۰۸ ھ جلد ۱۷ صفحہ۴۹۱

(۶۶)   ابن قدامہ، الکافی فقہ الامام المبجل، جلد ۳ صفحہ۳

ابن قدامہ، المغنی، جلد ۷، صفحہ۱۰۶

(۶۷)   ابن قدامہ، المغنی، جلد ۷ صفحہ۴۶۵،

الکافی فی فقہ الامام المبجل احمد بن حنبل، جلد۳ صفحہ۳

(۶۸)   البخاری، جلد ۷صفحہ۳۸

(۶۹)    ابن حجر عسقلانی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، بیروت، دارالمعرفۃ، ۱۳۷۹ ھ جلد ۹ صفحہ۳۳۶

(۷۰)   ابن قتیبہ دینوری، عبداللہ بن مسلم، تاویل مختلف الحدیث، المکتب الاسلامی، موسسۃ الا شراق، ۱۴۱۹ ھ جلد۱ صفحہ۳۲۸

(۷۱)    ناصر الدین الالبانی، الردا لمفحم، عمان، المکتبۃ الاسلامیہ، ۱۴۲۱ جلد ا صفحہ ۱۶۶

(۷۲)   المظہری، محمد ثناء اللہ، التفسیر المظہری، پاکستان، مکتبۃ الرشدیہ، ۱۴۱۲ھ، جلد ۶صفحہ۴۹۲

البخاری، الصحیح، دارطوق النجاۃ، ۱۴۲۲ ھ جلد ۳ صفحہ ۱۸

(۷۳)  المظہری، التفسیر المظہری، جلد ۶صفحہ ۴۹۳

الترمذی، السنن، جلد۳صفحہ۲۲۳

(۷۴)  العینی، بدرالدین، ابومحمد، عمدۃالقاری شرح صحیح بخاری، بیروت، داراحیاء التراث العربی، س ن، جلد۹ صفحہ۱۲۵

(۷۵)  المظہری، التفسیرالمظہری، جلد۶صفحہ ۴۹۳

ابن قدامہ، المغنی، جلد۷ صفحہ۱۰۶

ابن رشد، البیان والتحصیل، جلد ۴صفحہ۳۵۵

مسلم، الصحیح، جلد ۲ صفحہ۱۱۱۴

الترمذی، السنن، جلد ۳ صفحہ۴۳۳

(۷۶)   ابن رشد، البیان والتحصیل، جلد۴صفحہ۳۵۶

(۷۷)  ابن قدامہ، المغنی، جلد ۷ صفحہ ۱۰۲

البخاری، الجامع الصحیح، جلد۷ صفحہ۳۸

(۷۸)  ابن قدامہ، المغنی، جلد۷صفحہ۱۰۶

البخاری، الجامع الصحیح، جلد۲، صفحہ۱۸

المسلم، الصحیح، جلد ۲ صفحہ۶۰۲

(۷۹)   المسلم، الصحیح، جلد۲ صفحہ۶۰۳

(۸۰)   الشیرازی، المھذب، جلد ۲، صفحہ۳۴

(۸۱)    النووی، المنہاج، جلد۱۰، صفحہ۹۶

(۸۲)   النووی، المنہاج، جلد۶ صفحہ۱۸۴

(۸۳)   القرآن، النور:۳۱

(۸۴)   الترمذی، محمدبن عیسی، ابو عیسی، الجامع، بیروت، داراحیاء التراث العربی جلد۵ صفحہ۱۰۲

(۸۵)   النووی، المنھاج، جلد۱۰، صفحہ۹۶

(۸۶)   ایضاً، جلد۶ صفحہ۱۸۶

(۸۷)  النووی، المنہاج جلد۶ صفحہ۱۸۶ (ولقو لہ صلی اللہ علیہ وسلم لام سلمۃ حبیبۃ احتجبا عنہ ای عن ابن ام مکتوم  فقالتا انہ اعمی لایبصرنا فقال صلی اللہ علیہ وسلم العمیاوان انتما الیس تبصرانہ وھو حدیث حسن رواہ الترمذی )

(۸۸)   اسی طرح سنن ابی داؤد(امام ابوداؤد سلیمان بن اشعث، بیروت، مکتبہ العصریہ، جلد۴ صفحہ۶۳)مسند احمد (امام احمد بن حنبل، بیروت، موسسۃ الرسالہ، ۱۴۲۱ ھ، جلد۴۴صفحہ۱۵۹ )موارد الضمان (الھیثمی، علی بن ابی بکر، بیروت، دارالکتب العلمیہ، جلد۱، صفحہ۳۵۱، صحیح ابن حبان (محمد بن حبان، بیروت، موسسۃ الرسالہ، ۱۴۱۴ھ جلد ۱۲صفحہ۳۷۹، مسند ابو یعلی(ابو یعلی، احمد بن علی لموصلی، دمشق، دارالمامون للتراث۱۴۰۴ھ جلد ۱۲ صفحہ ۳۵۳، میں بھی حضرت میمونہ کا ذکر ہے۔

(۸۹)   النووی، المنہاج، جلد ۱۰ صفحہ۹۸

(۹۰)   الشیرازی، ابواسحاق، المھذب، جلد۲ صفحہ۳۴

(۹۱)     النووی، المنہاج، جلد ۶ صفحہ۱۸۴

(۹۲)    النووی، المنہاج، جلد۱۰ صفحہ۹۷

(۹۳)   الا لبانی، الردا لمفحم، عمان، المکتبۃالاسلامیہ، ۱۴۲۱ ھ جلد۱، صفحہ۱۱۴

(۹۴)   محمد بن حبان، صحیح ابن حبان، بیروت، موسسۃ الرسالہ، ۱۴۱۴ ھ جلد۱۳ صفحہ۱۸۶

(۹۵)   فتح الباری، جلد ۲ صفحہ۴۴۵، ۴۴۳

(۹۶)    ابن رشد، البیان والتحصیل، جلد۱۷ صفحہ۴۹۱

(۹۷)   القرطبی، الجامع لا حکام القرآن، جلد۱۲ صفحہ۲۲۸

(۹۸)   مصطفی بن العدوی، ابو عبداللہ، شلبایہ، المصری، سلسلۃ التفسیر لمصلطفی العروی، ناشر(نامعلوم)(س ن)جلد۴۶، صفحہ۶

(۹۹)    الباجی، المنتقی، جلد۳ صفحہ۳۰۵

(۱۰۰)  المنتقی شرح مو طاامام مالک، جلد ۳، صفحہ۳۰۵

(۱۰۱)   ابن بطال، علی بن خلف، شرح صحیح بخاری، ریاض، مکتبۃ الرشد۱۴۲۳ ھ، جلد۷ صفحہ۳۶۴

(۱۰۲)  ابن قدامہ، المغنی، جلد۷صفحہ۱۰۶، ۱۰۷

(۱۰۳)  العینی، عمدۃالقاری، جلد۲۰ صفحہ۲۱۷

(۱۰۴)  فتح الباری، جلد۹صفحہ۳۳۷

العینی، عمدۃ القاری، جلد۲۰صفحہ۲۱۷

(۱۰۵)  ملا علی قاری، مرقاۃالمفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح، بیروت، دارالفکر، ۱۴۲۲ ھ  جلد ۵صفحہ۲۰۵۵

(۱۰۶)  العینی، عمدۃ القاری، جلد۲۰صفحہ۲۱۷

(۱۰۷)الترمذی، الجامع السنن، جلد۵صفحہ۱۰۲

(۱۰۸)  العینی، عمدۃ القاری، جلد۲۰ صفحہ۲۱۷

(۱۰۹)  ابن حجر، فتح الباری جلد۹ صفحہ۳۳۷

(۱۱۰)نسخ کو جاننے کے لیے چار صورتیں ہیں۔تفصیل دیکھیے(محمود الطحان، ڈاکٹر، تیسیر مصطلح الحدیث، لاہور، غزنی سٹریٹ اردو بازار، س ن، صفحہ۵۹)

(۱۱۱)ابوداؤد سلیمان بن اشعث السجستانی، السسنن، بیروت، المکتبۃ العصریہ، جلد۴ صفحہ۶۳

(۱۱۲)   ابن قدامہ، المغنی، جلد۷ صفحہ۱۰۷

(۱۱۳)  ابن حجر، تلخیص الحبیرفی تخریج احادیث الرافعی الکبیر، دارلکتب العلمیہ، ۱۴۱۹ ھ جلد۳ صفحہ ۳۱۵

(۱۱۴)  ابن حجر، فتح الباری، جلد۹صفحہ۳۳۷

(۱۱۵)  ابن قدامہ، المغنی، جلد۷ صفحہ۱۰۶

(۱۱۶)   ابن حجر، فتح الباری، جلد ۹ صفحہ۳۳۷

(۱۱۷)ملا علی قاری، مر قاۃالمفاتیح، جلد ۵صفحہ۲۰۵۶

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید