FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

غزلیاتِ نظر

(غزلیں)

محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں



ورڈ فائل  

ای پب فائل 

کنڈل فائل

قطعہ

اشعار میں مرے مئے باطل کی بو نہیں

عشقِ بتانِ دہر کی بھی ہاؤ ہو نہیں

اسپِ سخن مرا ہے بقیدِ زمامِ دیں

دادِ سخن کی مجھ کو نظرؔ آرزو نہیں

ابتدائیہ

       بعض امور ایسے ہوتے ہیں کہ سال ہا سال ان کی طرف توجہ نہیں ہو پاتی، اور پھر کہیں نہ کہیں سے ایسی تحریک ملتی ہے کہ وہ با آسانی پایۂ تکمیل تک پہنچ جاتے ہیں۔ ایسا ہی معاملہ میرے دادا مرحوم محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی کی غیر مطبوعہ شاعری کا بھی ہے۔ اپنی زندگی میں انہوں نے کبھی شاعری کی اشاعت کے حوالے سے نہیں سوچا۔ ان کا نعتیہ کلام کا مجموعہ "لمعاتِ نظر” ان کی وفات کے دس سال بعد ۲۰۰۵ء شائع ہوا۔ البتہ ان کی غزلیں اور نظمیں غیر مطبوعہ ہی رہیں، اور اب تک مختلف کاپیوں اور ڈائریوں میں محفوظ تھیں۔ نعتیہ کلام کی طباعت کے وقت اور نہ ہی اس کے بعد بقیہ کلام کی طباعت کا خیال کبھی ذہن میں آیا۔ گذشتہ سال انٹرنیٹ پر ‘اردو محفل فورم’ سے وابستگی ہوئی۔ وہاں پر مختلف کتب کی کمپوزنگ کے حوالے سے رضا کارانہ طور پر بہت کام ہو رہا ہے۔ اردو کمپوزنگ سے تعلق تو پہلے سے موجود تھا، لہٰذا یہاں سے تحریک ہوئی کہ دادا کے کلام کو کم از کم کمپوز کر کے محفوظ کر لیا جائے۔ والدِ محترم محمد احسن صدیقی صاحب کے سامنے اپنا منصوبہ رکھا تو انہوں نے بخوشی اجازت دے دی۔ اور تمام کلام جس صورت میں بھی موجود تھا، فراہم کر دیا۔ شروع میں لکھائی کو سمجھنا ذرا مشکل معلوم ہوا، مگر والد محترم کی مدد سے یہ مشکل بھی آسان ہو گئی۔ اس کے علاوہ اپنی کم علمی کے باعث بہت سی فارسی تراکیب کو سمجھنا بھی والدِ محترم کی مدد کے بغیر ممکن نہ تھا۔ الحمد للہ، پانچ سے چھ ماہ کے مختصر عرصہ میں یہ کام پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا ہے۔

       دادا کے تعارف اور ان کی شاعری کے اسلوب اور مزاج سے آگہی کے لئے میں اپنے والد کی تحریر "میرے ابو ” کا اقتباس پیش کر رہا ہوں، جو کہ ان کے نعتیہ مجموعۂ کلام "لمعاتِ نظر” میں طبع ہو چکا ہے۔

       ” اُن اربابِ ذوق کے لئے جو میرے والد سے براہ راست واقفیت نہیں رکھتے، اپنے والد کا ایک مختصر تعارف تحریر کر رہا ہوں۔ شاید یہ تعارف ان کی شاعری کی تفہیم میں بھی کچھ مدد گار ثابت ہو۔

       نام محمد عبدالحمید صدیقی، تخلص نظرؔ لکھنوی 3 جولائی 1927ء کو لکھنؤ موضع ‘چنہٹ’ میں پیدا ہوئے۔ ہائی سکول کی تعلیم موضع اُترولہ ضلع گونڈہ سے 1944ء میں مکمل کی اور 1945ء میں ملٹری اکاؤنٹس لکھنؤ میں ملازم ہو گئے۔ دسمبر 1947ء کو پاکستان ہجرت کی اور ملٹری اکاؤنٹس راولپنڈی میں تعینات ہوئے۔ اس طرح راولپنڈی دار الہجرت قرار پایا۔ پہلی اہلیہ کا 5 جنوری 1958ء کو راولپنڈی میں انتقال ہوا۔ ان سے پانچ اولادیں ہوئیں جن میں سے تین بیٹے شیر خوارگی کی عمر میں ہی وفات پا گئے اور دو اولادیں ایک بیٹا اور ایک بیٹی حیات رہے۔ عقد ثانی 1960ء میں کیا جن سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ دوسری اہلیہ کا انتقال بھی 3 جنوری 1980ء میں راولپنڈی میں ہوا۔ ملازمت کے آخری دس سال فیلڈ پے آفس (FPO)، آرٹلری سنٹر اٹک شہر میں گزارے اور وہیں سے 1979ء میں چونتیس سالہ ملازمت کے بعد اپنی بیمار اہلیہ کی تیمار داری کے لئے بحیثیت اکاؤنٹنٹ ریٹائرمنٹ لے لی۔ اپنی عمر کے آخری دس سال اسلام آباد میں میرے ہمراہ گزارے۔ 3 جنوری 1994ء کو وفات پائی اور اسلام آباد میں سپرد خاک ہوئے۔ ایک بیٹا، ایک بیٹی، چھ پوتے پوتیاں اور تین نواسہ نواسیاں سوگوار چھوڑیں۔

       ابّو کی شخصیت میں لکھنؤ کی تہذیبی روایت کی نفاست اور شائستگی پوری طرح موجود تھی لیکن تصنّع اور بناوٹ سے کوسوں دور تھے۔ تدیّن، خودداری، وضع داری، قناعت اور اخلاص ان کی شخصیت کے نمایاں پہلو تھے۔ جس محفل میں شامل ہوتے ان کی موجودگی نمایاں ہو جاتی تھی۔ نہایت خوش مزاج تھے اور بچوں سے لے کر بوڑھوں تک ہر عمر کے لوگوں میں گھل مل جاتے۔ لیکن تعلقات کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھتے تھے اور جب چاہے سنجیدگی اور متانت کی لکیر کھینچ لیتے۔ ان کی صداقت، دیانت اور معاملہ فہمی پر بھروسہ کیا جاتا تھا اور بکثرت احباب مشورہ کے لئے ان سے رجوع کرتے تھے۔

       شاعری کا ملکہ فطری تھا اور مڈل سکول کے زمانے سے شاعری شروع کر دی تھی۔ ایک رشتہ کے ماموں جو عمر میں چند سال بڑے تھے شاعری کرتے تھے۔ انہی کی صحبت میں ذوق و شوق کی تربیت ہوئی اور ابتدائی اصلاح بھی انہی سے لی۔ کسی مشہور استادِ فن سے وابستہ نہ ہوئے۔ البتہ کلاسیکی ادب پڑھا اور ہم عصر اساتذۂ فن اور مشاعروں میں ان کی چشمک کے عینی شاہدین میں سے تھے۔ جب تک لکھنؤ میں رہے اور گھر بار کی ذمہ داریاں کم تھیں تو مشاعروں میں شرکت کا شوق رہا۔

       روایت پسند تھے اور شاعری کے دبستانِ لکھنؤ کے لئے ایک خاص حمیت رکھتے تھے۔ دبستانِ لکھنؤ پر کی گئی تنقید پڑھتے ضرور تھے لیکن تسلیم نہیں کرتے تھے۔ عملی طور پر زندگی کے مشاغل میں مثبت مقصدیت کے سختی سے قائل تھے۔ ‘ادب برائے ادب’ اور ‘ادب برائے زندگی’ کی بحث میں ان کی رائے بَین بَین تھی۔ ان کا خیال تھا کہ حسنِ شعری کے وہ سارے ظاہری لوازم جو لکھنؤ دبستان کی پہچان ہیں، شاعری کی مقصدیت کے ساتھ برتے جا سکتے ہیں۔ میری اس سلسلہ میں ان سے بارہا بحث رہتی تھی جو بالآخر ان کی ہلکی سی ڈانٹ یا جھنجھلاہٹ کے ساتھ ختم ہو جاتی تھی۔

       غزل اور نظم دونوں اصناف سے مناسبت تھی۔ پاکستان کی تاریخ کے اہم واقعات کے حوالے سے موضوعاتی نظمیں بھی کہیں۔ عام طور پر سال میں تین چار مرتبہ شاعری کی کیفیت طاری ہوتی تھی جس کی ظاہری علامت زیر لب گنگناہٹ اور رات کو بار بار اٹھ کر بجلی جلانا اور لکھنا ہوتا تھا۔ پان کا استعمال بڑھ جاتا۔ ان دنوں تواتر سے کئی غزلیں، نعتیں یا نظمیں ہو جاتی تھیں۔ بیاض میں درج ہو جانے کے بعد سب سے پہلے اور اکثر اوقات آخری سامعین میں، میری بہن اور والدہ ہوتے تھے۔ میرے ایک ماموں محمد قمرالہدیٰ صاحب ذوقِ شعری سے بہرہ یاب تھے اور داد دینے کا ایک والہانہ اور مشاعرانہ انداز رکھتے تھے۔ وہ بھی مستقل سامعین میں شامل تھے اور ان کی موجودگی میں گھر کے اندر ہی مشاعرہ کا سماں بندھ جاتا تھا۔ خاندانی تقریبات کے موقع پر یا احباب کے درمیان فرمائش پر کچھ سنا دیا کرتے تھے۔ میں جب انجینئرنگ کی تعلیم اور اس کے بعد ملازمت کے سلسلہ میں گھر سے دور رہا تو جب بھی گھر جانا ہوتا تھا تو میری غیر موجودگی میں کی ہوئی شاعری مجھے سناتے تھے اور تبصرہ ‘برداشت’ کر لیا کرتے تھے۔ مشاعروں میں شرکت سے گریز کرتے تھے۔

       ستر کی دہائی کے ابتدائی سالوں سے رجحان نعتیہ شاعری کی طرف زیادہ ہو گیا اور اس دہائی کے اختتام تک صرف نعتیہ شاعری ہی کرنے لگے۔ جس کا سلسلہ آخر تک جاری رہا۔ فرمائشی شاعری از قسم سہرا، سالگرہ وغیرہ کے سلسلہ میں باوجود ناپسندیدگی کے بے بس تھے۔ کسی کو انکار نہیں کر سکتے تھے اور کچھ نہ کچھ لکھ کر دے دیتے تھے۔ جس کا کوئی ریکارڈ اپنے پاس نہیں رکھتے تھے۔

       انکی غزلیں اور نظمیں بھی نعتیہ اشعار سے مزین ہیں اور ان کی پوری شاعری پر دینی اور ملی فکر کی گہری چھاپ ہے۔ اپنی بیاضِ غزل کا آغاز درج ذیل قطعہ سے کیا ہے جو بخوبی ان کے نظریۂ فن کو ظاہر کرتا ہے:

اشعار میں مرے مئے باطل کی بو نہیں

عشقِ بتانِ دہر کی بھی ہاؤ ہو نہیں

اسپِ سخن مرا ہے بقیدِ زمامِ دیں

دادِ سخن کی مجھ کو نظرؔ آرزو نہیں

       اس قطعہ کا آخری مصرع محض شاعرانہ پیرایۂ اظہار نہیں بلکہ ان کی زندگی بھر کا عمل تھا۔ مجھے ان کی زندگی اقبالؔ کے اس مردِ مؤمن کی طرح نظر آتی ہے جس کی تمنا قلیل تھی اور مقاصد جلیل تھے۔”

       مکمل کلام کے دو مجموعے مرتب کئے ہیں۔ "غزلیاتِ نظر” تمام غزلوں پر مشتمل ہے اور جیسا کہ والدِ محترم نے اپنے مضمون میں رقم کیا ہے کہ ان کی غزلوں پر بھی دینی اور ملی فکر کی گہری چھاپ ہے۔ نظریہ اور فکر کی پختگی ان کے کلام سے عیاں ہے۔ "لمحاتِ نظر” تمام نظموں پر مشتمل ہے، جو کہ زیادہ تر واقعاتی ہیں۔ اور ان کی زندگی میں رونما ہونے والے نجی و قومی واقعات و حادثات پر لکھی گئی ہیں۔ یہاں بھی دینی اور ملی فکر نمایاں نظر آئے گی۔

       یہ کام اللہ تعالیٰ کی نصرت کے بغیر نا ممکن تھا۔ میں سب سے پہلے تو والدِ محترم کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے نہ صرف اس کام کی بخوشی اجازت دی، بلکہ کلام کی تفہیم میں مدد بھی کی اور آخر میں پروف ریڈنگ کا مشکل اور محتاط کام بھی سر انجام دیا۔ اپنی اہلیہ کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہوں گا کہ جنہوں نے میری اس اضافی مصروفیت کو تحمل سے برداشت کیا۔ ‘اردو محفل فورم ‘کا شکریہ ادا کروں گا کہ جس کی وجہ سے اس کام کی تحریک ملی اور حوصلہ ملتا رہا۔ کتاب کی تدوین کے حوالے سے تکنیکی معاونت پر خاص طور پر محترم عارف کریم کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہوں گا۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ اور اس کاوش کو اپنی جناب میں قبول فرمائے۔ آمین۔

محمد تابش صدیقی              

اسلام آباد                   

9 رجب المرجب، 1437ھ  بمطابق 17 اپریل 2016ء

ساقی کا اگر مجھ پر فیضانِ نظر ہوتا

بادہ بھی دگر ہوتا، نشّہ بھی دگر ہوتا

منزل سے بھٹکنے کا تجھ کو نہ خطر ہوتا

نقشِ کفِ پا ان کا گر پیشِ نظر ہوتا

اس عالمِ گزراں کا عالم ہی دگر ہوتا

کہتے ہیں بشر جس کو، اے کاش بشر ہوتا

تو اپنے گناہوں پر نادم ہی نہیں ورنہ

یا دیدۂ تر ہوتا، یا دامنِ تر ہوتا

دم گھٹنے لگا میرا، اے میرے خدا اب تو

یہ تیرہ شبی جاتی، ہنگامِ سحر ہوتا

غم کی زدِ پیہم سے بچتا میں نظرؔ کیسے

دل یہ نہ مرا بڑھ کر گر سینہ سپر ہوتا

٭٭٭

جب سے وہ لب کشا نہیں ہوتا

غنچۂ دل یہ وا نہیں ہوتا

ایک اللہ کا نہیں ہوتا

آدمی ورنہ کیا نہیں ہوتا

کیوں لبوں پر مرے ہنسی آئے

دل میں کب درد سا نہیں ہوتا

شکل تبدیل ہوتی رہتی ہے

کوئی ذرہ فنا نہیں ہوتا

شیخ کی طرح کیسے بات کریں

ہم سے یہ بچپنا نہیں ہوتا

وہ تمنا کا خون کرتے ہیں

جس کا کچھ خوں بہا نہیں ہوتا

رنگ رلیاں، شراب و رقص و سرود

اُن کی محفل میں کیا نہیں ہوتا

سب پکاریں تجھی کو بالآخر

جب کوئی آسرا نہیں ہوتا

٭٭٭

کسی صورت نشاطِ قلب کا ساماں نہیں ہوتا

ہنسی آنے کو آ جاتی ہے دل خنداں نہیں ہوتا

نہیں ہوتا، نہیں ہوتا، کسی عنواں نہیں ہوتا

علاجِ اضطراب و سوزشِ پنہاں نہیں ہوتا

بغیرِ حق پرستی، دل نوازی، طاعتِ یزداں

یہ آدم زادہ کچھ بھی ہو مگر انساں نہیں ہوتا

ترا ایمان مستحکم نہیں دل کو ترے جب تک

مذاقِ اتباعِ صاحبِ قرآں نہیں ہوتا

خود اپنی آگ میں جل جل کے مر جاتا ہے پروانہ

حقیقت میں ہلاکِ شمعِ سوزاں نہیں ہوتا

سوادِ کم نگاہی ہے نظرؔ آتا نہیں ہم کو

وہ پردہ پوش ویسے کب قریبِ جاں نہیں ہوتا

٭٭٭

بہ ہر صورت یہ دیکھا ہے کسی صورت زیاں پہنچا

نشیمن پایۂ تکمیل تک میرا کہاں پہنچا

پئے سجدہ جھکی جاتی ہے کیوں لوحِ جبیں اپنی

یہیں نزدیک اب شاید مقامِ آستاں پہنچا

ہمارے چار تنکوں کے نشیمن کا خدا حافظ

کہ اب صحنِ چمن تک شعلۂ برقِ تپاں پہنچا

سمجھ لے گا حقیقت سوزِ دل کی اے جفا پیشہ

کوئی نالہ جو تا حدِ فرازِ آسماں پہنچا

٭٭٭

خدا کی نعمتوں سے نعمتیں کچھ اور کر پیدا

خدا نے آنکھ دی تو کر محبت کی نظر پیدا

یہ ہوتے ہیں بہ فیضِ سوزشِ قلب و جگر پیدا

کہ آنکھیں خود نہیں کر سکتیں اشکوں کے گہر پیدا

تری خانہ خرابی سے ہے میرے دل میں ڈر پیدا

کسی صورت سے کر لے تو دلِ یزداں میں گھر پیدا

ازل کے دن اٹھا ہم نے لیا بارِ امانت کو

تو آپ اپنے ہی ہاتھوں کر لیا ہے دردِ سر پیدا

جہاں تعمیر کا ساماں وہیں تخریب کا پہلو

نشیمن کو جلانے کے لئے برق و شرر پیدا

جلا دے جامۂ ہستی گل و گلزار کے طالب

کہ بے سوزِ جگر ہوتا نہیں خونِ جگر پیدا

جو خود معیار بن جائے خرابی اور خوبی کا

زِ قرآنِ مبیں کر لے تو وہ ذوقِ نظرؔ پیدا

٭٭٭

ترا ساتھ ہو میسر تو یہ زندگی کنارا

نہ نصیب ہو معیّت تو یہ جیسے بیچ دھارا

میں غریقِ بحرِ غم تھا ترے عشق نے پکارا

یہ اِدھر رہا کنارا یہ ادھر رہا کنارا

نہ ٹھہر سکا تبسم نہ ہی قہقہہ ہمارا

کہ بہت ہی تیز رو ہے غمِ زندگی کا دھارا

تری دوستی نے پرکھا مرا امتحان لے کر

کبھی خنجر آزمایا کبھی آگ سے گزارا

کسی زُلفِ مشک بو نے کسی روئے پُر ضیا نے

مری شام کو سنوارا مری صبح کو نکھارا

گہے اضطرابِ دنیا گہے پیچ و تابِ عقبیٰ

مرے اس اکیلے دل کو غمِ دو جہاں نے مارا

مرے ناخدا بتا کچھ ہے کہاں مرا سفینہ

نہ اِدھر نظرؔ میں ساحل نہ اُدھر کوئی کنارا

٭٭٭

دل پہ اُف عاشقی میں کیا گزرا

حادثہ روز اک نیا گزرا

کچھ برا گزرا، کچھ بھلا گزرا

یونہی دنیا کا سلسلہ گزرا

وہ ستم گر، نہ اس میں خوئے ستم

پھر یہ کیوں شک سا بارہا گزرا

پھر ہرے ہو گئے جراحتِ دل

پھر کوئی سانحہ نیا گزرا

ہو کوئی حال اہلِ محفل کا

آج میں حالِ دل سنا گزرا

تاب دل میں مرے کہاں باقی

کیا سنائیں جو ماجرا گزرا

دیں کا دامن چھٹا نظرؔ جب سے

حالِ مسلم ہوا گیا گزرا

٭٭٭

یہ بسمل خستہ دل آتش بجاں تیرا ہے یا میرا

مسلماں خاکداں میں میہماں تیرا ہے یا میرا

بجا ہے شک ترا یا رب مرے اخلاصِ طاعت پر

قصور و حور کا لیکن بیاں تیرا ہے یا میرا

علوم و آگہی میری ہے گرچہ فتنہ زا لیکن

یہ کارِ کشفِ اسرارِ جہاں تیرا ہے یا میرا

نگاہ و دل کی لغزش پر سزاوارِ سزا ہوں میں

مگر یہ فتنۂ حسنِ بتاں تیرا ہے یا میرا

ستم کش آہ کش بندے نظرؔ آتے ہیں گر تیرے

تو ہی بتلا دے مجھ کو آسماں تیرا ہے یا میرا

٭٭٭

نیا سلسلہ آئے دن امتحاں کا

ہے دستورِ پارینہ بزمِ جہاں کا

کرے سامنا پھر اس ابرو کماں کا

یہ دیدہ تو دیکھیں دلِ نیم جاں کا

کبھی تو وہ ہو گا جفاؤں سے تائب

ہے اک واہمہ میرے حسنِ گماں کا

سرشکِ مژہ سے کب اندازۂ غم

کسے حال معلوم سوزِ نہاں کا

زمیں دوز ہو کر رہی برقِ سوزاں

پڑا صبر آخر مرے گلستاں کا

نہ مہکے ہیں گل ہی نہ چہکے عنادل

گماں ہے بہاروں پہ دورِ خزاں کا

سنا غم کے ماروں کا قصہ کبھی جب

لگا مجھ کو ٹکڑا مری داستاں کا

جو خود کٹ گیا رہبرِ کارواں سے

خدا ہی محافظ ہے اس کارواں کا

نہ پورا ہو ہرگز نظرؔ زندگی بھر

خسارہ کہ ہے لحظۂ رائے گاں کا

٭٭٭

نظارہ کریں کیسے تری جلوہ گری کا

پردہ ابھی حائل ہے مری بے بصری کا

اسلوب نیا راس نہیں چارہ گری کا

بیمار پہ عالم ہے وہی بے خبری کا

چسکا اسے اُف پڑ ہی گیا در بدری کا

کیا کیجیے انساں کی اس آشفتہ سری کا

یہ راہِ محبت ہے یہ کانٹوں سے بھری ہے

مقدور نہیں سب کو مری ہمسفری کا

ہمدم نہ اڑا جامۂ اخلاق کی دھجی

دیوانوں کو ہوتا ہے جنوں جامہ دری کا

دیکھا ہے کہ کھلتے نہیں دل اہلِ دَوَل کے

بھرتا نہیں مُنہ کاسۂ دریوزہ گری کا

٭٭٭

بنا ہے آپ سبب اپنی جگ ہنسائی کا

جو مشتِ خاک نے دعویٰ کیا خدائی کا

وہی ہے حال نگاہوں کی نارسائی کا

وہ سامنے ہیں پہ نقشہ وہی جدائی کا

تمہارے در کے سوا میں کسی جگہ نہ گیا

مجھے تو شوق نہیں قسمت آزمائی کا

یہی زمانہ مٹانے پہ تل گیا مجھ کو

جسے تھا ناز کبھی میری ہم نوائی کا

اسی نے غرق مجھے کر دیا یہی ہے وہ دل

نہ اشتباہ تھا جس پر کسی برائی کا

ہے اپنی آنکھوں میں طوفانِ اشک اے غمِ دل

ترا حساب چکاتا ہوں پائی پائی کا

یہ حسنِ غیر پہ ریجھے بدل گئے ایسے

دل وں گاہ سے شکوہ ہے بے وفائی کا

جو عاصیوں کا سہارا نظرؔ ہے روزِ حساب

مجھے بھی فخر اسی کی ہے مصطفائی کا

٭٭٭

مے کفر کی در جامِ اسلام نہیں لوں گا

جویائے حقیقت ہوں، اوہام نہیں لوں گا

ساقی ترے ہاتھوں سے میں جام نہیں لوں گا

نظروں سے پلا دے بس پھر نام نہیں لوں گا

یہ لذتِ پیہم ہے، وہ لذتِ دو روزہ

آلام کے بدلے میں آرام نہیں لوں گا

تو دامِ محبت میں پھنستا ہے تو پھنس اے دل

میں اپنی زباں سے تو یہ نام نہیں لوں گا

ہے کم نگہی کا بھی حصہ مری لغزش میں

میں دل ہی کے سر سارا الزام نہیں لوں گا

سرگرمِ سفر یوں ہوں، معلوم یہ ہوتا ہے

منزل پہ پہنچ کر بھی آرام نہیں لوں گا

یہ لیجیے نقدِ دل، حاضر ہے یہ نقدِ جاں

سودائے محبت میں بے دام نہیں لوں گا

اس مست نظرؔ تک بس اک بار مجھے لے چل

اے ہوش کوئی تجھ سے پھر کام نہیں لوں گا

٭٭٭

آلودۂ عصیاں خود کہ ہے دل، وہ مانعِ عصیاں کیا ہو گا

جو اپنی حفاظت کر نہ سکا، وہ میرا نگہباں کیا ہو گا

ذوقِ دلِ شاہاں پیدا کر، تاجِ سرِ شاہاں کیا ہو گا

جو لُٹ نہ سکے وہ ساماں کر، لُٹ جائے جو ساماں کیا ہو گا

غم خانہ، صنم خانہ، ایواں یا خانۂ ویراں کیا ہو گا

قصہ ہے دلِ دیوانہ کا، حیراں ہوں کہ عنواں کیا ہو گا

جو سیرِ چمن کو آتا ہے وہ طالبِ گل ہی ہوتا ہے

پوچھے کوئی ان نادانوں سے، خارِ چمنستاں کیا ہو گا

کچھ شکوہ نہیں اتنا سن لے اے مستِ ستم، ناوک افگن

دل ہی نہ رہے گا جب میرا، پھر تیرا یہ پیکاں کیا ہو گا

اے ہنسنے ہنسانے والے جا، افسردگیِ دل بڑھتی ہے

جس کو ہو ازل سے نسبتِ غم، ہنسنے سے وہ خنداں کیا ہو گا

آج اپنی نظرؔ سے وہ دیکھیں یہ سلسلۂ طوفاں آ کر

کل کہتے تھے جو حیراں ہو کر ساحل پہ بھی طوفاں کیا ہو گا

٭٭٭

جہاں دینِ شہِ عالم نہ ہو گا

نظامِ زندگی محکم نہ ہو گا

جسے دنیا میں کوئی غم نہ ہو گا

فرشتہ ہو تو ہو آدم نہ ہو گا

رہے گا وہ تو محرومِ مسرت

جو دل شائستہ مہرِ غم نہ ہو گا

تمہارا شکریہ اے چارہ سازو!

یہ ہے دردِ محبت کم نہ ہو گا

سرِ محشر وہ دار و گیر ہو گی

کہ محرم بھی وہاں ہمدم نہ ہو گا

رہے گا بارِ غم اپنی جگہ پر

تبسم پاشیوں سے کم نہ ہو گا

خدا کی معرفت اس کو ہے مشکل

جو اپنے آپ سے محرم نہ ہو گا

تجاہلِ عارفانہ ہو گا اس کا

سخن اپنا نظرؔ مبہم نہ ہو گا

٭٭٭

کبھی نگاہ سے میری، کبھی زباں سے چلا

غمِ دروں کا پتا اف کہاں کہاں سے چلا

وہ ترکِ جور کریں کیوں بھلا کسی کے لیے

بلا سے ان کی اگر کوئی اپنی جاں سے چلا

دلِ غریب میں پیوست ہو گیا آخر

ہر ایک تیرِ ستم، جو کہ آسماں سے چلا

یہ آہ و زاری بلبل، یہ چاک دامنِ گل

فضا اداس ہے گلشن کی میں یہاں سے چلا

رہِ حیات مزین ہے نقشِ پا سے ترے

وہیں وہیں اسے پایا، جہاں جہاں سے چلا

طوافِ کعبۂ دل کو غمِ جہاں ہے نظرؔ

کوئی کہاں سے چلا ہے کوئی کہاں سے چلا

٭٭٭

جو بھی نکلا تری محفل سے نہ تنہا نکلا

دل میں اپنے لیے ارمانوں کی دنیا نکلا

کوئی ایسا، کوئی ویسا، کوئی کیسا نکلا

لاکھ بندوں میں اک اللہ کا بندہ نکلا

رخِ ظلمت کدۂ دہر ہوا نورانی

مطلعِ دہر پہ جب سے مہِ بطحا نکلا

ہم جسے ذرہ ناچیز سمجھتے تھے وہی

اپنے باطن میں لیے اک نئی دنیا نکلا

اشک بہہ جائیں جو آنکھوں سے، ذرا دل ٹھہرے

ہم غریبوں کا یہی ایک سہارا نکلا

غمِ دنیا، غمِ عقبیٰ، غمِ فردا پا لے

دل تو اپنے ہی لہو کا یہ پیاسا نکلا

دشتِ غربت میں ہمیں ایک نہیں ہیں تنہا

جستجو میں تری ہر ذرہ صحرا نکلا

دامِ دنیا میں نظرؔ پھنس ہی گیا دل آخر

لاکھ سمجھاتے رہے کچھ نہ نتیجہ نکلا

٭٭٭

مطلعِ رخ پہ تری زلفِ دوتا ہو جانا

عالمِ صبح کا ہم رنگِ مسا ہو جانا

کون کہتا ہے کہ مرنا ہے فنا ہو جانا

یہ تو ہے واصلِ دنیائے لِقا ہو جانا

اپنے ماحول سے باہر ہے پریشاں حالی

راس نغمہ کو نہیں نے سے جدا ہو جانا

باعثِ ننگ ہے اے بندۂ یزداں تیرا

بندۂ حرص و ہوس صیدِ ہوا ہو جانا

اب نظرؔ آتے نہیں نقشِ کفِ پا تیرے

ہے عجب کیا مرا منزل سے جدا ہو جانا

٭٭٭

آدمیت کا حق ادا نہ ہوا

خوب ہے آدمی خدا نہ ہوا

جان دی، سر دیا ہے، کیا نہ ہوا

وہ مگر قائلِ وفا نہ ہوا

لاج رکھ لی ہے ضبطِ گریہ نے

مشتہر غم کا ماجرا نہ ہوا

شکوۂ غیر کس زباں سے کریں

دل مرا ہو کے جب مرا نہ ہوا

ظلم کو پھر اٹھا ہے دستِ یزید

اف حسینؓ ابنِ فاطمہؓ نہ ہوا

بارِ غم اٹھے اس قدر کیونکر

دل بھی سینے میں دوسرا نہ ہوا

نالۂ درد عرش تک پہنچا

دل مگر موم آپ کا نہ ہوا

نغمۂ عندلیب و باغ و بہار

کوئی منظر بھی دل کشا نہ ہوا

روز اس در پہ حاضری ہے نظرؔ

لیکن اس سے خلا ملا نہ ہوا

٭٭٭

احساسِ قرب و دوریِ منزل نہیں رہا

ہم فرض کر چکے ہیں کہ ساحل نہیں رہا

تسخیرِ کائنات کی سرگرمیاں عبث

زیرِ نگیں ترے یہ اگر دل نہیں رہا

ناکامیوں سے مجھ کو ملا عزمِ مستقل

نعم الحصول ہے کہ جو حاصل نہیں رہا

نالے فلک شگاف نہیں، آہ نا رسا

دل اب کچھ اعتبار کے قابل نہیں رہا

صحنِ چمن میں لالہ و گل ہیں تو سہی مگر

کیا بات ہے کہ شورِ عنادل نہیں رہا

تجھ کو جنونِ قیس نہیں ورنہ یہ نہیں

پردہ نشیں کوئی پسِ محمل نہیں رہا

سر مست چشمِ ساقیِ خاکِ عرب ہوں میں

بد مستِ نشۂ مئے باطل نہیں رہا

مکر و فریب و بغض وعناد و حسد نظرؔ

شائستہ اب قرینۂ محفل نہیں رہا

٭٭٭

غم کا لاوا اُف پگھلتا ہی رہا

دل ہمارا اس سے جلتا ہی رہا

آفتابِ عمر ڈھلتا ہی رہا

کاروانِ شوق چلتا ہی رہا

بارِ غم اس کو کچلتا ہی رہا

دل کا کس بل اُف نکلتا ہی رہا

سحر ان آنکھوں میں ڈھلتا ہی رہا

کاروبارِ عشق چلتا ہی رہا

زندگی کی رات کتنی تھی کٹھن

رات بھر پہلو بدلتا ہی رہا

برق وَش آیا گیا دورِ شباب

اور انساں ہاتھ ملتا ہی رہا

حسن کا پندار اونچا ہے مگر

عشق کے سانچوں میں ڈھلتا ہی رہا

ساقی و پیرِ مُغاں بدلا کیے

دورِ ساغر تھا کہ چلتا ہی رہا

جس بلندی سے گرا تھا میں نظرؔ

پھر نہ پہنچا گرچہ چلتا ہی رہا

٭٭٭

منزل ملے بے حوصلۂ جاں نہیں دیکھا

ہوتے ہوئے ایسا تو کبھی ہاں نہیں دیکھا

غیر آئے گئے، پھول چنے، بو بھی اُڑائی

ہم ایسے کہ اپنا ہی گلستاں نہیں دیکھا

دامن بھی سلامت ہے، گریباں بھی سلامت

اے جوشِ جنوں تجھ کو نمایاں نہیں دیکھا

ہیں تیرے تسلط میں فضائیں بھی، زمیں بھی

تجھ میں ہی مگر ذوقِ سلیماں نہیں دیکھا

ہے چشمِ تصور بھی یہ درماندہ و عاجز

تجھ کو کبھی اے جلوۂ پنہاں نہیں دیکھا

احساسِ زیاں وائے کہ ہے رو بہ تنزل

کل تھا جو اسے آج پشیماں نہیں دیکھا

کتنے ہی سخن ور وَ سخن داں نظرؔ ایسے

جن کو کبھی محفل میں غزل خواں نہیں دیکھا

٭٭٭

ہم نشیں پوچھ نہ کس بات پہ رونا آیا

اپنی ہی گردشِ حالات پہ رونا آیا

دل کے سنگین خیالات پہ رونا آیا

اسی بد خُو، اسی بد ذات پہ رونا آیا

دورِ ماضی تو مسلماں کا بہت ہے خوش کن

عہدِ حاضر کی روایات پہ رونا آیا

تیرہ بختی سے مری گونہ تعلق ہے اسے

اس لیے مجھ کو سیہ رات پہ رونا آیا

غیرِ اللہ سے سائل جو مسلماں ہے تو حیف

مجھ کو ہر ایسی مناجات پہ رونا آیا

خوں پسینہ کی کمائی نہیں کافی دو روز

مردِ مزدور کی اوقات پہ رونا آیا

مرحلے غم کے گزارے ہیں نظرؔ ہنس ہنس کر

پھر بھی چند ایک مقامات پہ رونا آیا

٭٭٭

کہنے میں آ کر مذاقِ عشق رسوا کر دیا

دل بضد تھا میں نے بھی شکوہ ذرا سا کر دیا

اس نے دانستہ کہ نا دانستہ ایسا کر دیا

دل کو غم انگیز کر لینے میں یکتا کر دیا

لا اِلٰہَ کہہ کے اس نے وقفِ الّا کر دیا

خود کہ بننا تھا سو تھا مجھ کو بھی تنہا کر دیا

غفلتوں کے سینکڑوں پردے گرائے ہم نے آپ

اپنی چاہت سے تو اس نے چاک پردہ کر دیا

جاں کے بدلے بھی نہ ہم دیتے تھے جس ایمان کو

اب اسی گوہر کو اف مٹی سے سستا کر دیا

عشقِ رنگیں کی قسم، لطفِ محبت کی قسم

اس دلِ آزردہ خاطر کو بھی رعنا کر دیا

راز گیتی کے اُسی واقف پہ جاں قرباں کریں

جس نے ہم کو واقفِ امروز و فردا کر دیا

سینکڑوں عقدے ہیں لا ینحل ابھی تک اے نظرؔ

تیر کیا مارا جو تو نے ایک دو وا کر دیا

٭٭٭

محبت ہے سراپا دردِ دل کیا

عذابِ اضطرابِ مستقل کیا

ہوا آدم کو حکمِ اھبطوا کیوں

ضروری تھا جہانِ آب و گل کیا

ہے تجھ سے ملتے رہنے کا بہانہ

ادائے فرض و سنت کیا، نفل کیا

مچلتی آرزوئیں ہیں کہاں اب

ہوئی ہیں حسرتوں میں منتقل کیا

محبت ہی سے قائم اس کی عظمت

محبت ہی نہیں تو پھر یہ دل کیا

دیارِ عشق میں آتش نوا بن

نوائے سرد و آہِ مضمحل کیا

لہو رِستے نظرؔ گزرا زمانہ

یہ ہوں گے زخمِ دل اب مندمل کیا

٭٭٭

یہ کون مجھ کو صلِّ علیٰ یاد آ گیا

یکتائیوں کے ساتھ خدا یاد آ گیا

غربت میں جب وطن کا مزا یاد آ گیا

لوگوں کا مجھ کو بختِ رسا یاد آ گیا

دل اپنا اس کا تیرِ جفا یاد آ گیا

بیٹھے بٹھائے ہائے یہ کیا یاد آ گیا

اس رات مجھ کو نیند نہ آئی تمام رات

جس رات خوابِ زلفِ دوتا یاد آ گیا

اس دورِ اضطراب میں سب کچھ غلط مگر

اتنا ہے سچ کہ سب کو خدا یاد آ گیا

بے اختیار آنکھ سے آنسو نکل پڑے

ماضی کا حال تا بہ کجا یاد آ گیا

رکھتا نظرؔ کہیں کا نہ مجھ کو جنونِ شوق

لیکن ثباتِ اہلِ وفا یاد آ گیا

٭٭٭

کون آخر زینتِ آغوشِ محفل ہو گیا

ایک ہی نظارہ میں جانِ رگِ دل ہو گیا

دو نگاہوں کا تصادم اپنا اپنا پھر نصیب

کوئی قاتل اور کوئی مرغِ بسمل ہو گیا

اے دلِ نا عاقبت اندیش جلتا ہے تو جل

حسنِ عالم سوز کے تو کیوں مقابل ہو گیا

ہیں کرم فرما کبھی اس پر کبھی جور آزما

خوب ہے جیسے انہیں کا دل مرا دل ہو گیا

حشر سے پہلے نہیں امکان اٹھنے کا مرے

مر کے اب تو اور پابندِ سلاسل ہو گیا

دل رکا۔ دھڑکن گئی۔ آنسو تھمے۔ سوزش مٹی

موت کیا آئی سکونِ قلب حاصل ہو گیا

التفاتِ چشمِ ساقی کیا ہوا مجھ پر نظرؔ

میں بھی جانِ التفاتِ اہلِ محفل ہو گیا

٭٭٭

احساسِ ہر گناہ و خطا کون لے گیا

دل سے متاعِ خوفِ خدا کون لے گیا

اس شہرِ دل سے نور و ضیا کون لے گیا

سوءِ عمل ہے اور بھلا کون لے گیا

کیفِ جمال و کیفِ ادا کون لے گیا

رنگیں تری ردائے حیا کون لے گیا

ہمدم مرے بدل دے یہ لکھا نصیب کا

ہے تیرے پاس دستِ دعا کون لے گیا

پیدا نہیں ہے اب تو ذرا بھی گداز دل

سوزِ نوائے نغمہ سرا کون لے گیا

دل نے اٹھائے رنج تو آنکھوں میں اشک ہیں

محنت کسی کی اور صلہ کون لے گیا

پوچھو نہ جانتے ہو گر امواجِ نیل سے

فرعون کا غرورِ انا کون لے گیا

مہرِ سکوت لب پہ لگی ہے ترے نظرؔ

تجھ سے ترا خروشِ نوا کون لے گیا

٭٭٭

اُڑے ہیں ہوش مرے میں ہوں غرقِ بادۂ ناب

ٹھہر نہ چھیڑ ابھی قصۂ عذاب و ثواب

اُدھر ہے حسن تہِ صد حجاب ہائے نقاب

اِدھر ہے عشق کہ پھرتا یونہی ہے خانہ خراب

تمام حزن مجسم، ملال و درد و عذاب

بڑا ہی خیر ہوا زندگی ہے مثلِ حباب

تھا اک نصاب ضروری برائے مکتبِ زیست

تو الکتاب اتاری گئی بطورِ نصاب

کرے اسیر مجھے یہ کہاں ہے اس کی مجال

کہ اس کا حسن ہے خود ہی اسیر عمرِ شباب

مری حیات سراپا نظرؔ ہے مثلِ نماز

اگر امام کی پوچھو تو ہے خدا کی کتاب

٭٭٭

ملی ہزاروں کو اس طرح سے بھی راہِ صواب

نہیں کرم سے ہے خالی تری نگاہِ عتاب

برائے مکتبِ دنیا ہے مستقل وہ نصاب

طفیلِ شاہِ مدینہ ملی ہمیں جو کتاب

مئے حجاز کی مستی سے ہے غرض مجھ کو

ملے نہ جامِ مصفّیٰ تو دُردِ بادۂ ناب

پیو پلاؤ مئے عشقِ ساقیِ کوثر

جو حور و خلد کی خواہش تمہیں ہے روزِ حساب

ڈھلی ہے شامِ ضعیفی ہیں ختم ہنگامے

نہ اب وہ شوخیِ طفلی نہ جوشِ عہدِ شباب

نہ گلستاں میں پھر آئی بہارِ لالۂ و گل

کبھی تو جھوم کے برسے ترے کرم کا سحاب

چھپا تھا رازِ غمِ دل نگاہِ محفل سے

ٹپک پڑے مگر آنسو نظرؔ زِچشمِ پُر آب

٭٭٭

چہرہ ان کا صبحِ روشن، گیسو جیسے کالی رات

باتیں اُن کی سبحان اللہ، گویا قرآں کی آیات

رُخ کا جلوہ پنہاں رکھا پیدا کر کے مخلوقات

حُسنِ ظاہر سب نے دیکھا، کس نے دیکھا حُسنِ ذات

جذبہ کی سب گرمی، سردی، بہتے اشکوں کی برسات

ہم نے سارے موسم دیکھے، ہم پر گزرے سب حالات

غم کی ساری چالیں گہری، بچتے بچتے آخر کار

دیکھا اس بے چارے دل نے بے بس ہو کر کھائی مات

جیتے جی کب دنیا پوچھے، مرتے ہی اِس درجہ پیار

ہاتھوں ہاتھ اٹھائے دنیا، لائے اشکوں کی سوغات

حسنِ خود بِیں جس کی فطرت، شیخی، شوخی، ظلم و جور

دامِ الفت میں پھنس جائے، میری آنکھوں دیکھی بات

عمرِ پایاں کی منزل میں عہدِ ماضی آئے یاد

اب بھی نظرؔ میں رقصاں میرے بھولے بچپن کے لمحات

٭٭٭

ان کا خیال جملہ مشاغل کے ساتھ ساتھ

رہتی ہے ان کی یاد مرے دل کے ساتھ ساتھ

اٹھے جو وہ تو رونقِ محفل بھی اٹھ گئی

رونق تو بس تھی رونقِ محفل کے ساتھ ساتھ

یا رب سفینہ غرق نہ ہو جائے یہ کہیں

طوفانِ غم چلا ہے مرے دل کے ساتھ ساتھ

اصحابؓ اس طرح سے تھے گرد آنحضورؐ کے

جیسے نجوم ہیں مہِ کامل کے ساتھ ساتھ

غرقِ مئے نشاط کی تقدیر میں کہاں

کیفِ نہاں کہ ہے جو غمِ دل کے ساتھ ساتھ

منزل کبھی تو آئے گی زیرِ قدم نظرؔ

چلتے رہے جو جادۂ منزل کے ساتھ ساتھ

٭٭٭

تقریر میں کی اس نے ہجوِ مئے ناب آخر

واعظ نے زباں تَر کی از ذکرِ شراب آخر

عرصہ تھا جوانی کا اک عرصۂ خواب آخر

جب آنکھ کھلی اپنی تھا دورِ شباب آخر

حق بات کو کہنے میں کیا مجھ کو حجاب آخر

اول ہے کتابوں میں اتری جو کتاب آخر

بے چین ہمیں رکھنا بے چین ہی خود رہنا

دل لے کے کہاں جائیں خر مست و خراب آخر

ہے کون سی منزل میں یہ قافلۂ مسلم

کیوں چھن گئی پہلی سی دل کی تب و تاب آخر

دامن پہ نظرؔ رکھو یعنی نہ ہو تر دامن

خالق کو دکھانا ہے منہ روزِ حساب آخر

٭٭٭

صیدِ مقام کیوں ہے تو، قیدِ مقام سے گزر

شمعِ ہُدیٰ لئے ہوئے، ہر در و بام سے گزر

مستیِ جام سے حذر، خواہشِ جام سے گزر

مست مئے الست بن، مسلکِ عام سے گزر

کوثر و سلسبیل سے، قصر و غلام سے گزر

تیرا صلہ کچھ اور ہے، حورِ خیام سے گزر

تیرے لبوں پہ ہو دعا، سبّ و شتم جو تجھ پہ ہو

حسنِ کلام کے امیں، سوءِ کلام سے گزر

سدرۂ منتہیٰ سے بھی آگے مقام ہے ترا

انجم و آفتاب سے، ماہِ تمام سے گزر

تیرا یہ دل ہو بے ریا، کام ہے راہِ عشق کا

کبر و غرور ترک کر، شہرتِ نام سے گزر

دیکھ رہا ہے کیا نظرؔ، جلوۂ مہر ابھی کہاں

پہلے شبِ مہیب اور ظلمتِ شام سے گزر

٭٭٭

آنسو بہا نہ غم کے تو، آہ نہ بار بار کر

اس دلِ سوگوار کو اور نہ سوگوار کر

سلسلہ ہائے غم بہت ان کا نہیں شمار کچھ

دن یہ تری حیات کے کتنے ہیں اب شمار کر

آہوں کو کر شرر فشاں، نالوں کو شعلہ بار کر

دردِ نہاں کی کیفیت دنیا پہ آشکار کر

اٹھنے کا بارِ معصیت تجھ سے کہاں ہے یہ نظرؔ

راہِ عدم طویل ہے، رکھ دے یہیں اتار کر

٭٭٭

سر نہ سجدے سے اٹھا تاخیر پر تاخیر کر

ذرے جو تحتِ جبیں آئے انہیں اکسیر کر

بندۂ رب بن کے روشن اپنی تو تقدیر کر

عالمِ کن ہے ترا قبضے میں یہ جاگیر کر

عشقِ باری، حبِّ احمدؐ، انسِ مخلوقِ جہاں

یہ ہیں اجزائے ثلاثہ ان سے دل تعمیر کر

دامنِ ہستی میں تیرے جو ہیں ذرے خاک کے

ضربِ اللہ ہو سے اس مٹی کو پُر تنویر کر

اس طرح سے کچھ نہ کچھ شاید کہ ہلکا بوجھ ہو

اضطرابِ دل نظرؔ اپنا تو عالم گیر کر

٭٭٭

کوچۂ الفت میں خوفِ آبلہ پائی نہ کر

یا سِرے سے دل میں شوقِ جادہ پیمائی نہ کر

پہلے ہی کیا کم ہے سودا اور سودائی نہ کر

اس تماشا گاہ میں دل کو تماشائی نہ کر

اے خدا میرے گناہوں کی صف آرائی نہ کر

حشر کے دن سامنے سب کے تو رسوائی نہ کر

دشتِ حیرت میں نہ گم ہو دیکھنا یہ دل کہیں

اس قدر اپنے سے بھی پیدا شناسائی نہ کر

بندگانِ رب کے بھی واجب ہیں تجھ پر کچھ حقوق

عمر اے زاہد تو اپنی وقفِ تنہائی نہ کر

ذوقِ سجدہ کے لئے کافی ہے اس کا آستاں

ہر کسی کے آستاں پر ناصیہ سائی نہ کر

سروری تو زیب دیتی ہے فقط اللہ کو

اے کہ تو بندہ ہے خود بندوں پہ آقائی نہ کر

اے نظرؔ کچھ چاہئے مقصد سے بھی وابستگی

خامہ فرسائی کی خاطر خامہ فرسائی نہ کر

٭٭٭

گر دل میں چھپاؤں تو ہے کچھ شعلہ فشاں اور

ظاہر جو کروں غم کو تو دنیا کو گماں اور

کچھ لوگ لیے پھرتے ہیں اک عشقِ نہاں اور

سوز اور، تپش اور، خلش اور، فغاں اور

تیرِ غمِ دنیا کا ہدف بن ہی گیا دل

سینے میں چھپا رکھا تھا لے جاتے کہاں اور

بربادیِ دل کا مرے منکر تو نہیں وہ

پر میرا بیاں اور ہے کچھ اس کا بیاں اور

یہ عمرِ دو روزہ تو کوئی چیز نہیں ہے

ہم تجھ پہ فدا کر دیں جو ہوں زندگیاں اور

اک تیری محبت کہ سما جائے جو دل میں

دنیا کی محبت کی جگہ دل میں کہاں اور

سب پند کی محفل سے ابھی اٹھتے ہیں دیکھو

واعظ کو ذرا ہونے دو کچھ خشک بیاں اور

وہ چہرۂ زیبا نظرؔ آیا نہیں اب تک

کیا آئنۂ دل میں ہیں تصویرِ بتاں اور

٭٭٭

عمر اک چاہیے وا چشمِ بشر ہونے تک

یعنی من جملۂ اربابِ نظر ہونے تک

مری عظمت، مری سطوت، مری قوت، سب کچھ

سید کون و مکاں کا سگِ در ہونے تک

زندگی ایک سفر طول و طویل و پُر خار

آبلہ پائیاں اُف ختمِ سفر ہونے تک

بخش دینا ترا شیوہ ہے مرے ربِ کریم

لغزشِ پا مرے ورثہ میں بشر ہونے تک

فکر و آلامِ بشر یہ نہیں کم ہونے کے

بندۂ حرص و ہوس، بندۂ زر ہونے تک

اپنی تخلیق میں اعلیٰ یہی انساں اسفل

جاگزیں قلب میں اللہ کا ڈر ہونے تک

قلبِ انجم میں چمک تھی مگر ایسی تو نہ تھی

جیسی پہلو میں رہی میرے سحر ہونے تک

سوزِ غم حضرتِ یعقوبؑ کا اللہ غنی

آنکھیں جاتی رہیں یوسفؑ کی خبر ہونے تک

خستہ جاں، سوختہ دل، آہ بلب ہے امت

یا الٰہی تری رحمت کی نظرؔ ہونے تک

٭٭٭

منزلِ عشق میں خطراتِ بہر گام نہ دیکھ

حسنِ آغاز مبارک تجھے انجام نہ دیکھ

صاعقے، موجۂ صر صر، قفس و دام نہ دیکھ

عزمِ تزئینِ گلستاں ہے تو آرام نہ دیکھ

تیرگی بڑھ لے تو کچھ اور فروزاں ہوں گے

تابِ داغِ دلِ پُر درد سرِ شام نہ دیکھ

ایک ساعت بھی خوشی کی نہ میسر آئی

اس توجہ سے مجھے گردشِ ایام نہ دیکھ

صبحِ روشن ہے تعاقب میں تجھے ہو مژدہ

ہم نفس ظلمت و افسردگئ شام نہ دیکھ

داغِ دل، سوزِ جگر، رنج و الم، بیتابی

دیدنی کب ہے نظرؔ عشق کا انجام نہ دیکھ

٭٭٭

ہر متاعِ زندگی پر اف مٹا جاتا ہے دل

بہرۂ عقبیٰ سے بے بہرہ ہوا جاتا ہے دل

زندگی سے زندگی بھر پھر مٹایا کیجئے

ایک ہی لحظہ میں وہ فتنہ اٹھا جاتا ہے دل

یہ اگر سچ ہے تو پھر ویرانیوں کا کیا سبب

سنتے ہیں ہم مستقر تیرا کہا جاتا ہے دل

عاقبت اندیش کی نا عاقبت اندیشیاں

پہلے کیا تھا اور اب کیسا ہوا جاتا ہے دل

شوق کی منزل میں ظالم چال مجھ سے چل گیا

مجھ کو آگے کر کے خود پیچھے ہٹا جاتا ہے دل

جب کسی گم کردۂ منزل کی چھڑ جاتی ہے بات

یک بیک اپنا بھی اس دم یاد آ جاتا ہے دل

کون ہے ہر پردۂ ہستی میں پنہاں اے نظرؔ

جس کی جانب خود بخود اپنا کھنچا جاتا ہے دل

٭٭٭

سلسلہ ہائے رنج و غم ہیں طویل

مدتِ زندگی خوشا ہے قلیل

اس کے جلووں کی بارشِ پیہم

ہائے محرومئ نگاہِ علیل

اصل بس لا الٰہ الّا اللہ

اور سب قیل و قالِ مردِ عقیل

یاد آئی ہے کس نگاریں کی

دل مجسم بنا ہے نقشِ جمیل

کھینچتی ہے جو اپنی سمت حیات

موت دیتی ہمیں ہے بانگِ رحیل

داستانِ غمِ حیات نہ پوچھ

مختصر یہ کہ ہے طویل و ثقیل

نار نمرود تاب لا نہ سکی

جل بجھی آخرش زنورِ خلیل

جس کا عاشق ہے صانعِ عالم

میرا محبوب وہ حسین و جمیل

روشنی پھر کہاں مقدر میں

بجھ گئی دل کی گر نظرؔ قندیل

٭٭٭

وہ چشمِ نم وہ قلب وہ سوزِ جگر کہاں

چلنے کو راہِ عشق میں رختِ سفر کہاں

خالی صدف ہے نقدِ متاعِ گہر کہاں

آنکھیں ہی رہ گئی ہیں حیائے نظر کہاں

بچتا ہے سنگ و خشت کی زد سے یہ سر کہاں

یہ کوئے عاشقی ہے تم آئے ادھر کہاں

وہ گل وہ گلستاں وہ بہاریں وہ نغمگی

پہلی سی وہ لطافتِ شام و سحر کہاں

سب بوالہوس ہیں حُسن رہے اب حجاب میں

سوءِ نظر تو عام ہے حُسنِ نظر کہاں

اس دورِ پُر فتن میں نہیں دل سے دل کو راہ

ہم جنس ہیں پر اُنس ہے باہم دگر کہاں

کب سے ہوں جستجو میں پہ ملتا نہیں سراغ

گم ہو کے رہ گئی ہے مری رہ گزر کہاں

اس آستاں پہ بیٹھ گئے ہم تو اے نظرؔ

ہم کو نہیں دماغ پھریں در بدر کہاں

٭٭٭

دلِ غم زدہ کا صلہ چاہتا ہوں

ان آنکھوں سے میں اور کیا چاہتا ہوں

سفاہت مری دیکھ کیا چاہتا ہوں

خدا چاہتا ماسوا چاہتا ہوں

جبیں آستانے پہ تیرے جھکا دی

میں تجدیدِ قالو بلیٰ چاہتا ہوں

جو تیری محبت سے سرشار ہو بس

میں اس طرح کا دل بنا چاہتا ہوں

میں کیا چاہوں تم جیسے رطب اللساں سے

میں بس اپنے حق میں دعا چاہتا ہوں

جو خود مجھ کو مجھ پر کرے آشکارا

وہی داستاں پھر سنا چاہتا ہوں

نہ بادہ نہ ساغر مجھے چاہیے ہے

کرم کی نظرؔ ساقیا چاہتا ہوں

٭٭٭

عبادت پر میں اکسایا گیا ہوں

بذکرِ حور للچایا گیا ہوں

بنی ہے تب مسلماں کی سی صورت

جب انگاروں پہ تڑپایا گیا ہوں

تصور سے بنایا پیکرِ گِل

کہاں تھا میں کہاں لایا گیا ہوں

خودی کی جستجو اللہ توبہ

بہت کھویا تو کچھ پایا گیا ہوں

پریشانی مرے دل کی یہی ہے

خرد کے ساتھ الجھایا گیا ہوں

اُسی صورت اٹھا مٹی میں مل کر

میں کس مٹی کا بنوایا گیا ہوں

نہیں میں واقفِ شہرِ خموشاں

نظرؔ پہلی دفعہ لایا گیا ہوں

٭٭٭

سامنے آ سکے نہ جو بزم کو جگمگائے کیوں

رخ پہ نقاب ڈال کر جلوۂ رخ دکھائے کیوں

خار کی ہر چبھن پہ اب کرتے ہیں ہائے ہائے کیوں

کس نے کہا تھا آپ سے سیرِ چمن کو آئے کیوں

پالے جو اتنی آرزو کھائے بھی زخمِ آرزو

دل کی ہر ایک آرزو آدمی کی بر آئے کیوں

عشق کیا، کیا کرے جیسا کیا ہے خود بھرے

دل میں لگی ہے آگ جو آنکھ اسے بجھائے کیوں

عہدِ الست کو نبھا پہلو تہی نہ کر نظرؔ

عہد جو کر لے آدمی اس کو نہ پھر نبھائے کیوں

٭٭٭

جانِ عالم کی آرزو تو کریں

دل کی دنیا کو مشکبو تو کریں

راز کی ان سے گفتگو تو کریں

ترک وہ فرقِ ما و تُو تو کریں

کیفِ یادِ حبیب بڑھ جائے

چشمِ تر سے ذرا وضو تو کریں

پھر تری جستجو میں نکلیں گے

پہلے ہم اپنی جستجو تو کریں

مان لیں گے تمہیں مسیحِ زماں

چارۂ قلبِ فتنہ جُو تو کریں

اذنِ ساقی بھی مل ہی جائے گا

اہتمامِ مے و سبُو تو کریں

دل بہل جائے گا نظرؔ اس کو

داخلِ شہرِ آرزو تو کریں

٭٭٭

سنہرے خواب کی لازم نہیں اچھی ہوں تعبیریں

کہ بنتے بنتے دیکھا ہے بگڑ جاتی ہیں تقدیریں

بیانِ غم کی تمہیدوں میں چشمِ خونچکاں میری

کتابِ دل کے دیباچے میں خوں آلودہ تحریریں

وہ یزداں ہے تو برسائے گا رحمت کی گھٹا پھر بھی

ہم انساں ہیں تو ہوتی ہی رہیں گی ہم سے تقصیریں

جنونِ پختہ کاراں کو نہیں تحریک کم ظرفو

جنونِ خام کو دکھلاؤ تم سونے کی زنجیریں

غم و اندوہ، یاس و رنج وحِرماں، درد و بیتابی

یہی ہوتی رہی ہیں آج تک اس دل کی تفسیریں

ادب گاہِ محبت میں نظرؔ کچھ سوچ کر جانا

بغیرِ جرم بھی ملتے یہاں دیکھی ہیں تعزیریں

٭٭٭

سمجھا ہے تو کہ خوش ہیں عنادل بہار میں

محسوس مجھ کو درد ہے صوتِ ہزار میں

سو رنگ بھر گئے ہیں دلِ شرمسار میں

تصویر کس کی ہے نگہِ اشکبار میں

در اصل ہاں وہی تو غریب الدیار ہے

جس کا کہ جی لگے نہ خود اپنے دیار میں

وعدوں کے اعتبار کا ایسا یقیں کہاں

جیسا یقینِ شک ہے مجھے اعتبار میں

کیا کیا ہوا بہار میں بتلائیے مجھے

موقف مرا جنوں کا رہا ہے بہار میں

اب ایک ایک دشمنِ جاں ہو گیا مرا

حق بات کہہ گیا تھا نظرؔ میں ہزار میں

٭٭٭

ہے اِدھر اُدھر، ہے یہاں وہاں، دلِ منتشر تگ و تاز میں

سرِ بندگی تو جھکا دیا، مِرا دل نہیں ہے نماز میں

گہے محوِ دیدِ بتاں نظر، گہے صیدِ عشقِ بتاں ہے دل

ملے وہ حقیقتِ دل نشیں، کہاں اس طریقِ مجاز میں

اک اشارہ پا کے ہزاروں خم ترے مے کشوں نے لنڈھا دیے

وہ مزا ملا انہیں ساقیا، تری چشمِ بادہ نواز میں

تو ہے مثلِ نغمۂ جاں فزا، تو گزر دلوں سے فضا پہ چھا

نہ اسیرِ پردۂ ساز رہ، نہ سمٹ تو پردۂ ساز میں

یہ سکوں کی جنسِ گراں بہا، میں بتا نہ دوں تجھے ہے کہاں

ہے ثنائے ربِ جلیل میں، ہے دعائے قلبِ گداز میں

کہیں ٹوٹ جائے نہ آئینہ، نہ تماشہ دل کا بنے نظرؔ

کہ ہزاروں فتنے مچل رہے ہیں نگاہِ فتنہ طراز میں

٭٭٭

نام ان کا ہر گھڑی وردِ زباں رکھتا ہوں میں

ہر نفس کو مشکبو، عنبر فشاں رکھتا ہوں میں

گرمیِ محشر سے سامانِ اماں رکھتا ہوں میں

سایۂ دامانِ شاہِ دو جہاں رکھتا ہوں میں

آرزوئے دعوتِ برقِ تپاں رکھتا ہوں میں

شاخِ ہر گل پر بنائے آشیاں رکھتا ہوں میں

میں نہیں، ہاں میں نہیں شائستۂ منزل ابھی

دل میں صد اندیشۂ سود و زیاں رکھتا ہوں میں

کافری شیوہ مرا، فطرت مسلمانی مری

یاد ان کی سو بتوں کے درمیاں رکھتا ہوں میں

موج زن ہو کر نظرؔ آئے نہ تو امرِ دگر

دل میں ورنہ غم کا اک سیلِ رواں رکھتا ہوں میں

٭٭٭

دنیائے دوں کی چاہ کیے جا رہا ہوں میں

دنیائے دل تباہ کیے جا رہا ہوں میں

ہر لحظہ آہ آہ کیے جا رہا ہوں میں

ہر غم سے یوں نباہ کیے جا رہا ہوں میں

محرومِ ہر گناہ کیے جا رہا ہوں میں

دل پر کڑی نگاہ کیے جا رہا ہوں میں

ہے جرمِ عاشقی کی سزا سوز و کرب و درد

اے دل تجھے گواہ کیے جا رہا ہوں میں

خوش آئے یا نہ آئے یہ دنیا یہ ہم نفس

کرنا ہے اور نباہ کیے جا رہا ہوں میں

تیرے ہی آستاں کے لیے وقف کر کے سر

تصدیقِ لا الٰہ کیے جا رہا ہوں میں

وہ جانِ انتظار کب آ جائے کیا خبر

آنکھوں کو فرشِ راہ کیے جا رہا ہوں میں

عذرِ گناہ اور بھی بد تر گناہ ہے

جس کو خدا گواہ، کیے جا رہا ہوں میں

حاصل ہو کیفِ اشکِ ندامت گہے نظرؔ

دانستہ کچھ گناہ کیے جا رہا ہوں میں

٭٭٭

تو ہے خوش اور سوگوار ہوں میں

غم کو فی الوقت سازگار ہوں میں

پائمالِ خزاں ہوں اب ورنہ

روحِ افسانۂ بہار ہوں میں

میکدہ سے نکل گیا خود ہی

بد نصیب ایسا بادہ خوار ہوں میں

کون واقف ہے میرے رازوں سے

آپ ہی اپنا رازدار ہوں میں

میں ہنسی اپنی روک لیتا ہوں

واقفِ جورِ روزگار ہوں میں

بخش دے مجھ کو اپنی رحمت سے

اپنے عصیاں پہ شرمسار ہوں میں

اس سے ملنے کی ہے نظرؔ امید

پھر یہ کیا ہے کہ بے قرار ہوں میں

٭٭٭

سادہ ورق نہ تھا مری فردِ گناہ میں

ڈھانپا ہے پھر بھی دامنِ رحمت پناہ میں

عزمِ سفر کوئی ہے نہ منزل نگاہ میں

اب کارواں ٹھہر ہی گیا جیسے راہ میں

خود ہے اسیرِ حلقۂ شام و پگاہ میں

انساں کا ہاتھ کب ہے سپید و سیاہ میں

رک جائے سیلِ اشکِ رواں تھوڑی دیر کو

تصویر کھنچ رہی ہے کسی کی نگاہ میں

نغمہ سرائیاں ہیں مزامیر و رقص بھی

کیا کچھ نہیں ہے شیخ کی اس خانقاہ میں

اپنوں کے خون کا بھی نہیں اعتبار کچھ

پھینکا تھا کس نے یوسفِ کنعاں کو چاہ میں

اے بے بصر تلاش تجھے اس کی ہے یہاں

دل کا سکوں نہیں ہے زر و عزّ و جاہ میں

تولوں تو کائنات بھی پاسَنگ ہے نظرؔ

میزان وہ ملی ہے مجھے لا الٰہ میں

٭٭٭

خرابِ عشق کیا دل لگی کے پردے میں

یہ دل عدو ہی بنا دوستی کے پردے میں

سمیٹتے ہیں جو زر بے زری کے پردے میں

ہزار عیش کریں مفلسی کے پردے میں

ہزار غم تھے جو اک سر خوشی کے پردے میں

چھلک پڑے ہیں کچھ آنسو ہنسی کے پردے میں

ہے اس کی یاد مرے دل کی ظلمتوں میں نہاں

خوشا چراغ کہ ہے تیرگی کے پردے میں

جنابِ شیخ کے بارے میں عام شہرت ہے

ہزار عیب کریں بندگی کے پردے میں

تمام اہلِ بصیرت ہیں متفق اس پر

خدا شناسی ہے خود آگہی کے پردے میں

کہاں سے عظمتِ دیرینہ اپنی دکھلائیں

چھپی پڑی ہے وہ چودہ صدی کے پردے میں

لباسِ شرم اتارے تو پھر بشر یہ کہاں

بشر بشر ہے نظرؔ شرم ہی کے پردے میں

٭٭٭

چہار سمت سے رقصاں ہوائیں کیا کیا ہیں

نظارہ خوب ہے چھائی گھٹائیں کیا کیا ہیں

بہ بارگاہِ خدا التجائیں کیا کیا ہیں

مریضِ ہجر کے حق میں دعائیں کیا کیا ہیں

فراق و کرب، غم و التہاب و بیتابی

بہ جرمِ عشقِ بتاں اف سزائیں کیا کیا ہیں

ہماری لغزشِ پا کا بہت ہی امکاں ہے

کہ فتنہ ہائے حسیں دائیں بائیں کیا کیا ہیں

کوئی شمار کرے گر شمار کر نہ سکے

خدا کی بندوں کو اپنے عطائیں کیا کیا ہیں

کوئی ورق بھی تو سادہ نہیں خدا کی پناہ

ہماری فردِ عمل میں خطائیں کیا کیا ہیں

کچھ ایک دو تو نہیں آپ سے ہمیں شکوے

ہٹائیں بھی اب، کیا بتائیں کیا کیا ہیں

نہ آئے تھے تو تعفن سے پُر زمانہ تھا

وہ آ گئے تو معطر فضائیں کیا کیا ہیں

جو سیدھی راہ ہے چلنا ہے مستقل اس پر

رکاوٹوں کو نہ خاطر میں لائیں کیا کیا ہیں

ضیاعِ جاں کا بھی خطرہ ہے صرفِ زر کے سوا

رہِ خدا میں نظرؔ ابتلائیں کیا کیا ہیں

٭٭٭

بہار آئی ہے گلشن میں، اسیرِ باغباں ہم ہیں

زباں رکھتے ہوئے بھی وائے قسمت، بے زباں ہم ہیں

ابھی سے کیا کہیں، ناکام ہیں یا کامراں ہم ہیں

کہ یہ دورِ عبوری ہے، بقیدِ امتحاں ہم ہیں

بھٹکتے پھر رہے ہیں ہم نشاں منزل کا گم کر کے

حیا آتی ہے اب کہتے، حرم کے پاسباں ہم ہیں

سنے دنیا تو حیرت ہو، اگر دیکھے تاسف ہو

وہ رودادِ جہاں ہم ہیں، وہ بربادِ جہاں ہم ہیں

تلاشِ کارواں کیوں ہو؟ تلاشِ راہبر کیوں ہو؟

کہ جب خود کارواں ہم، خود ہی میرِ کارواں ہم ہیں

جو گزرے گی، سو گزرے گی، کہ اس میں دخل کیا اپنا

خدا حافظ نظرؔ، رکھتے بنائے آشیاں ہم ہیں

٭٭٭

وفا داریوں پر وفا داریاں ہیں

ہماری طرف سے یہ تیاریاں ہیں

زمانہ کی کیا کیا ستم گاریاں ہیں

نئی سے نئی اس کی عیاریاں ہیں

خلش، آہ و آنسو، فغاں، درد و حسرت

محبت میں ساری ہی بیماریاں ہیں

یہ جنت، یہ نہریں، یہ غلماں، یہ حوریں

مداراتِ مؤمن کی تیاریاں ہیں

نکالو زکوٰةِ محبت میں جاں کو

کہ اس تک ہی ساری دل آزاریاں ہیں

بہ آہِ سحر کر انہیں شعلہ ساماں

جو ایماں کی باقی یہ چنگاریاں ہیں

نظرؔ کو نہیں جب سے عرفانِ منزل

اِدھر کی، اُدھر کی، اسے خواریاں ہیں

٭٭٭

نقش یادوں کے تری دل سے مٹے جاتے ہیں

آپ ہم اپنی نگاہوں میں گرے جاتے ہیں

لاکھ پردوں میں وہ حالانکہ چھپے جاتے ہیں

پھر بھی دل جلووں سے مسحور کئے جاتے ہیں

دل کی ہر ایک تمنا پہ مٹے جاتے ہیں

ہائے وہ لوگ جو بے موت مرے جاتے ہیں

زندگی کا نہیں ارماں پہ جئے جاتے ہیں

یعنی جینے کا تکلف سا کئے جاتے ہیں

کوئی کچھ کہتا رہے وہ نہیں سننے کے اسے

شیخ صاحب تو بس اپنی ہی کہے جاتے ہیں

اس زمانہ میں یہ منظر بھی نظر سے گزرا

اپنے ہی دام میں صیاد پھنسے جاتے ہیں

عقل پُر پیچ تو ہے چون و چرا کی خوگر

عشق میں فیصلے سب دل سے کئے جاتے ہیں

ہائے کیا کہئے کہ جو نازشِ محفل تھے نظرؔ

ایک اک کر کے وہ محفل سے اٹھے جاتے ہیں

٭٭٭

پردے پہ تخیل کے ان کی تصویر اتارا کرتے ہیں

تنہائی کی گھڑیاں اکثر ہم اس طرح گزارا کرتے ہیں

یہ عشق کے مارے بے چارے کب درد کا چارہ کرتے ہیں

ہر چوٹ کو سہتے ہیں ہنس کر، ہر زخم گوارا کرتے ہیں

وہ آگ کی بھٹی سے پہلے طالب کو گزارا کرتے ہیں

پھر کہہ کے خلیل اللہ اسے الفت سے پکارا کرتے ہیں

وہ عشرتِ ساحل کیا جانیں، گزرے نہ جو موجِ طوفاں سے

وہ لطفِ مسرت کیا جانیں، جو غم سے کنارا کرتے ہیں

فتنہ کوئی تازہ ابھرے گا، طوفان کھڑا ہو گا کوئی

حالات اشارا کرتے ہیں اور صاف اشارا کرتے ہیں

دل خون ہوا ہو گا یونہی، پھر ڈوب گیا ہو گا یونہی

ہم ڈوبتے سورج کا یونہی ہر روز نظارہ کرتے ہیں

اے دیکھنے والے دیکھ ذرا یہ فرقِ مزاجِ شمع و گل

وہ رو کے گزارے عمر اپنی، یہ ہنس کے گزارا کرتے ہیں

٭٭٭

دکھا دکھا کے وہ ہر نیک کام کرتے ہیں

جنابِ شیخ بھی کارِ حرام کرتے ہیں

خدا پناہ وہ اب ایسے کام کرتے ہیں

کہ فتنے دور سے ان کو سلام کرتے ہیں

یہ چاندنی یہ ستارے یہ عالمِ ہجراں

ہماری نیند یہ مل کر حرام کرتے ہیں

طلوعِ صبح کے آثار دور دور نہیں

دراز وہ تو ابھی زلفِ شام کرتے ہیں

بس اتنی بات پہ یارانِ بزم ہیں نا خوش

پرانی قدروں کا ہم احترام کرتے ہیں

نچوڑ دیں گے ہر آنسو ہم آج آنکھوں سے

ہم آئے دن کا یہ جھگڑا تمام کرتے ہیں

ہجومِ جلوۂ رنگیں میں کھو نہ جائے دل

ہم احتیاطِ نظرؔ گام گام کرتے ہیں

٭٭٭

درمیاں پردۂ حائل کو اٹھا سکتے ہیں

ایک دنیا کو وہ دیوانہ بنا سکتے ہیں

نالۂ درد کہیں کام اگر آ جائے

چشمِ رحمت وہ مری سمت اٹھا سکتے ہیں

ایسے کم ہیں کہ جو میدانِ عمل میں اتریں

بیٹھ کر بات تو سب لوگ بنا سکتے ہیں

دعوتِ عام ہے میخانۂ توحید ہے یہ

کلمہ ساقی کا پڑھیں جو بھی وہ آ سکتے ہیں

در بدر ٹھوکریں کھانے کا جنھیں ہو سودا

آستاں چھوڑ کے تیرا وہی جا سکتے ہیں

اتنی قوت ہے بہم مجھ کو ترے غم کے طفیل

آنکھ غم ہائے زمانہ سے ملا سکتے ہیں

تابِ افسانۂ غم دل کو نہیں ہے اب تو

ہم نہ سن سکتے ہیں اس کو نہ سنا سکتے ہیں

ناز برداری دل بھی نہیں ہوتی ہم سے

ہم زمانہ کے کہاں ناز اٹھا سکتے ہیں

اے نظرؔ روضۂ اقدس پہ کبھی جا تو سہی

تیری بگڑی وہی سرکار بنا سکتے ہیں

٭٭٭

عطاؤں میں شانِ کرم دیکھتے ہیں

وہ دل کے لیے بسطِ غم دیکھتے ہیں

ہم ان کا کرم در کرم دیکھتے ہیں

توجہ ترحّم بہم دیکھتے ہیں

دلوں پر ہیں جن کے عنایت کی نظریں

وہ تا اوجِ لوح و قلم دیکھتے ہیں

غم و نالۂ و آہ و اندوہ و حرماں

محبت ستم ہی ستم دیکھتے ہیں

نگاہِ توجہ مداوائے صد غم

کرم کو محیطِ ستم دیکھتے ہیں

اخوت، خلوص و وفا، آدمیت

جہاں میں نظرؔ کالعدم دیکھتے ہیں

٭٭٭

دورانِ خطابت منبر پر اوروں پہ تو برہم ہوتے ہیں

منکر کی مجالس میں لیکن خود شیخِ مکرم ہوتے ہیں

جنت ہے تمہارا مل جانا، دوزخ ہے بچھڑ جانا تم سے

کچھ اس کے سوا معلوم نہیں کیا خلد و جہنم ہوتے ہیں

وہ آخرِ شب کا سناٹا، وہ کیفِ تقرب کا عالم

مائل بہ کرم وہ ہوتا ہے، مصروفِ دعا ہم ہوتے ہیں

دیکھیں نہ تو ان کی بے نوری، سمجھیں نہ تو ان کی ناسمجھی

قدرت کے اشارے تادیبی، بندوں کو تو پیہم ہوتے ہیں

رندوں کی نگاہیں کیوں نہ اٹھیں، ساقی کی نگاہوں کی جانب

ساقی کی نگاہوں سے ظاہر اسرارِ دو عالم ہوتے ہیں

احساسِ محبت، رنج و الم، ہم رشتہ و پیوستہ ہیں نظرؔ

یہ بطنِ ازل سے پیدا ہی کہتے ہیں کہ تواَم ہوتے ہیں

٭٭٭

وہ جب سے بد گمان و سرگراں معلوم ہوتے ہیں

ہمیں بے کیف سے کون و مکاں معلوم ہوتے ہیں

وہ رگ رگ میں مری روحِ رواں معلوم ہوتے ہیں

نظر آئیں نہ آئیں دلستاں معلوم ہوتے ہیں

اِدھر ذرے ہیں تابندہ، اُدھر تارے درخشندہ

ترے جلوے زمیں تا آسماں معلوم ہوتے ہیں

مرے قصے میں ضمناً آ گئے تھے تذکرے ان کے

وہی وجہِ فروغِ داستاں معلوم ہوتے ہیں

وہی آغازِ ہر عنواں وہی انجامِ ہر عنواں

وہی ہر داستاں کے درمیاں معلوم ہوتے ہیں

بڑا ہی شور برپا ہے غزل خواں کون ہے ایسا

سرِ محفل نظرؔ رطب اللساں معلوم ہوتے ہیں

٭٭٭

خستہ دل، نالہ بلب، شعلہ بجاں ٹھہرے ہیں

پھر بھی کس شوق سے سب اہلِ جہاں ٹھہرے ہیں

ناتواں دل ہے مگر عزم جواں ٹھہرے ہیں

ان سے پوچھے کوئی آ کر یہ کہاں ٹھہرے ہیں

نیند آ جائے ہمیں بھی نہ عیاذاً باللہ

سب یہ کہتے ہیں کہ وہ سحر بیاں ٹھہرے ہیں

ہم نے واعظ کو نہ پایا کبھی سرگرمِ عمل

دمِ تقریر مگر شعلہ بیاں ٹھہرے ہیں

کچھ سبب کیجیے معلوم کسی سے کہ ہمیں

کیوں یہ آفت زدۂ دورِ خزاں ٹھہرے ہیں

ہم تو ہیں سایۂ دیوارِ حرم میں لیکن

شیخ جی اپنی کہیں آپ کہاں ٹھہرے ہیں

ایسی باتیں ہیں کہ آشفتہ سری بڑھ جائے

اے نظرؔ اہلِ جنوں دشمنِ جاں ٹھہرے ہیں

٭٭٭

گم ہوتے ہوئے عقلِ بشر دیکھ رہے ہیں

کم ہوتے ہوئے اہلِ نظر دیکھ رہے ہیں

اک عالمِ پنہاں وَ دگر دیکھ رہے ہیں

جو چیر کے ذرہ کا جگر دیکھ رہے ہیں

افسونِ شبِ تار سے مغلوب ہوا تُو

ہم چشمِ تصور سے سحر دیکھ رہے ہیں

دل خانۂ سرد اب تو ہوا جاتا ہے صد حیف

بجھتا ہوا ایماں کا شرر دیکھ رہے ہیں

سینچا ہے تجھے خون سے اے نخلِ تمنا

آتا ہی نہیں تجھ پہ ثمر دیکھ رہے ہیں

اللہ رے بدلی ہے نظرؔ ان کی ذرا جو

بدلے ہوئے ہم شام و سحر دیکھ رہے ہیں

٭٭٭

دل ہے کہ اس نے سیکڑوں فتنے اٹھائے ہیں

ہم ہیں کہ اس کو سینے سے پھر بھی لگائے ہیں

ہنس کر بروئے بزم غمِ دل چھپائے ہیں

چہرے پہ ہم خوشی کا ملمع چڑھائے ہیں

ایماں کی قوتوں نے دیا ہے مجھے ثبات

جب راہِ حق میں میرے قدم ڈگمگائے ہیں

غم بجھ گئے ہیں اور تمنا چمک اٹھی

بزمِ تصورات میں جب آپ آئے ہیں

وہ آئے یا نہ آئے مقدر کی بات ہے

ہم منتظر ہیں راہ میں آنکھیں بچھائے ہیں

شاخیں ہیں سربریدہ ہیں غنچے پریدہ رنگ

اہلِ چمن نے دیکھئے کیا گل کھلائے ہیں

ان کی حریمِ ناز کی اللہ رے کشش

سارے جہاں سے کھنچ کے یہاں لوگ آئے ہیں

وہ زندگی کہاں کہ جسے زندگی کہیں

بس تہمتِ حیات نظرؔ ہم اٹھائے ہیں

٭٭٭

جو عقدہ کشا ہے وہ سرا بھول گئے ہیں

کیا بھول ہے ہم دینِ خدا بھول گئے ہیں

پھر ظلمتِ دل ڈسنے کو آئی ہے ہمیں آہ

شبگوں جو تری زلفِ دوتا بھول گئے ہیں

جھگڑا نہ فرو ہو گا ہمارا یہ کسی سے

ہم اصل میں جھگڑے کی بنا بھول گئے ہیں

پھر عقلِ دل آزار کی باتوں میں ہم آئے

پھر ہم نگہِ ہو شربا بھول گئے ہیں

آرامِ دل و جاں کے تعاقب میں ہیں فی الحال

کچھ یہ تو نہیں راہِ وفا بھول گئے ہیں

گزرے گی مری زیست کس انداز و ادا سے

ہم اس کی اب ایک ایک ادا بھول گئے ہیں

حسرت میں بدل جانے دو ان آرزوؤں کو

ہم دل کو نظرؔ بہرِ خدا بھول گئے ہیں

٭٭٭

مرے شعلہ بار نالے، مری شعلہ بار آہیں

نہ جلا کے راکھ کر دیں کہیں تیری خواب گاہیں

ترے ہر ستم کو سہہ کر ترا ہر ستم سراہیں

یہ نہ ہم سے ہو سکے گا تری دوستی نباہیں

سرِ شام ہی سے نالے، سرِ شام ہی سے آہیں

شبِ غم سے کس طرح ہم دمِ صبح تک نباہیں

دلِ بد نصیب ہی کو کوئی عارضہ ہے ورنہ

وہی سحر ان میں اب تک وہ آپ کی نگاہیں

ہو ہزار سعیِ پیہم، ہو ہزار جہدِ منزل

میں پہنچ سکوں گا کیسے اگر آپ ہی نہ چاہیں

جو روش روش چمن کی ابھی خار و خس سے پُر ہے

تو بہارِ آمدہ کو ابھی کس طرح سراہیں

یہ فضائے گلستاں تو ہمیں کچھ بھی خوش نہ آئی

کہیں چاک دامنِ گل کہیں بلبلوں کی آہیں

ترے بندگانِ عاجز کا کہیں نہ ہو ٹھکانہ

تری رحمت و کرم کی نہ ملیں اگر پناہیں

جسے حوصلہ نظرؔ ہو وہی میرے ساتھ آئے

مری منزلِ وفا کی تو بہت کٹھن ہیں راہیں

٭٭٭

خرد کا جامۂ پارینہ تار تار نہیں

جنونِ عشق ابھی تجھ پہ آشکار نہیں

ہمارے ذوقِ طلب میں نہ فرق آئے گا

وہ ایک بار کہے یا ہزار بار نہیں

بہ طرزِ عام نہیں میری بادہ آشامی

رہینِ بادۂ باطل مرا خمار نہیں

رہِ طلب کے مصائب بھی عین راحت ہیں

گلِ مراد سے وابستہ خار خار نہیں

تمہارے وعدوں پہ دل کی عجب ہے کیفیت

کچھ اعتبار سا ہے بھی کچھ اعتبار نہیں

خلوصِ توبہ ہے نا معتبر نظرؔ تیرا

کہ تیری آنکھ تو نم ہے دل اشکبار نہیں

٭٭٭

میں گرچہ اسیرِ افسونِ ظلماتِ شبِ دیجور نہیں

پھر بات یہ کیا ہے اے ہمدم! کیوں مطلعِ دل پر نور نہیں

تحصیلِ جناں مطلوب نہیں، مقصودِ عبادت حور نہیں

جز تیری رضا، جز تیری خوشی، کچھ اور مجھے منظور نہیں

آزادی انساں کا مبحث دو رُخ سے سمجھنا ہے یعنی

مختار ہے اور مختار نہیں، مجبور ہے اور مجبور نہیں

اک بار ذرا سے ہنسنے کا انجام کلی نے دیکھ لیا

تقریبِ مسرت کا یعنی دنیا میں کوئی دستور نہیں

اللہ رے پاسِ ناراضی، اللہ رے پاسِ دلداری

جو بات انہیں منظور نہیں، وہ بات مجھے منظور نہیں

اے مردِ مسلماں ہمت رکھ، اے مردِ مجاہد کوشاں رہ

اسلام کا پرچم لہرائے ہر بام پہ وہ دن دور نہیں

اف شانِ وجودی کیا کہنے، اف شانِ حجابی اس کی نظرؔ

موجود ہے اور موجود نہیں، مستور ہے اور مستور نہیں

٭٭٭

کہاں پہ جلوۂ جاناں کا انعکاس نہیں

نگاہ دیکھنے والی ترے ہی پاس نہیں

کوئی بھی شکل نہ دیکھی کہ جو اداس نہیں

ہوائے گلشنِ ہستی کسی کو راس نہیں

بفیضِ عشق میسر نہیں ہے کیا دل کو

خلش نہیں کہ نہیں رنج و غم کہ یاس نہیں

یہ قولِ اہلِ خرد ہے ہمیں نہیں کہتے

سکونِ دل کا مداوا خرد کے پاس نہیں

خود اپنی ذات کا عرفان تجھ پہ ہے لازم

کہ خود شناس نہیں جو خدا شناس نہیں

ستم کے بھیس میں پنہاں کوئی کرم ہو گا

ستم کرے وہ یہ کہتا مرا قیاس نہیں

کلام حق ہے مگر بات یہ بھی ہے بر حق

جنابِ شیخ کی باتوں میں کچھ مٹھاس نہیں

چمن پہ اہلِ چمن کے سبب گری بجلی

سنی ہے جب سے خبر یہ بجا حواس نہیں

نظرؔ فریب تو ہے دل پسند ہو نہ سکا

وہ پھول جس میں بجز رنگ کوئی باس نہیں

٭٭٭

دل تری یاد سے کس رات ہم آغوش نہیں

نیند آتی مجھے کس وقت ہے کچھ ہوش نہیں

رندِ شائستہ ہوں میں رندِ بلا نوش نہیں

ہیں مرے ہوش بجا تیرے بجا ہوش نہیں

شاخِ نخلِ چمنستاں ابھی گل پوش نہیں

دیکھنا رنگِ بہاراں کا ابھی جوش نہیں

نگہِ ساقیِ گلفام کہ ہے ہو شربا

کون ایسا ہے سرِ بزم کہ مد ہوش نہیں

سحر انگیزی و شیرینیِ گفتار نہ پوچھ

کون آواز پہ ان کی ہمہ تن گوش نہیں

ٹوک دیتا ہے معاً مجھ کو مری لغزش پر

ہے ضمیر اپنا کہ رہتا کبھی خاموش نہیں

سرگراں اب بھی ہے کیوں وہ یہ مجھے کیا معلوم

میں وفا کیش نہیں یا میں ستم کوش نہیں

تو خطا پوش ہے کیوں تو ہے نظرؔ سے روپوش

میں خطا کر کے بھی تجھ سے کبھی روپوش نہیں

٭٭٭

یہ برہمی یہ تری بے رخی قبول نہیں

کسی بھی رخ، یہ رخِ زندگی قبول نہیں

وہ سن لیں جن کو غمِ زندگی قبول نہیں

کہ زندگی کو بھی ان کی خوشی قبول نہیں

جو میرے ہوش اڑا دے، حواس گم کر دے

خدا پناہ کہ وہ آگہی قبول نہیں

نکالتا ہوں محبت کی کچھ نئی راہیں

شکستِ دل سے مجھے آشتی قبول نہیں

خودی کو میری جگا دے، وہ مئے پلا ساقی

خطا معاف، مئے بے خودی قبول نہیں

پیامِ مرگ ہی لائے نہ کیوں، سحر تو ہو

شبِ فراق کی یہ تیرگی قبول نہیں

یہ قہقہے یہ تبسم تجھے مبارک ہوں

کہ چار دن کی مجھے چاندنی قبول نہیں

رہِ حیات ہے واضح بفضلِ رب اپنی

اِدھر اُدھر کی نظرؔ کج روی قبول نہیں

٭٭٭

دل میں جو خلش پنہاں ہے کہیں، اس کا ہی تو یہ انجام نہیں

دل وقفِ غم و آلام ہوا، اب دل میں خوشی کا نام نہیں

مرہونِ حقیقت ہیں اب ہم، باطل سے ہمیں کچھ کام نہیں

احسانِ نگاہِ ساقی ہے، اب شغلِ مئے گل فام نہیں

احساسِ زیاں تو رکھتے ہیں، لیکن یہ بروئے کار بھی ہو

منزل کی طلب ہے دل میں مگر، منزل کی طرف اقدام نہیں

خورشیدِ منور، نجمِ فلک، دونوں سے سبق یہ ملتا ہے

جو شام کو آیا صبح نہیں، جو صبح کو آیا شام نہیں

اے جادۂ الفت کے راہی، اے خوبیِ قسمت کے مالک

تُو فائزِ منزل ہو کہ نہ ہو، ہر حال میں تُو ناکام نہیں

رنگینیِ فطرت ہے قائم، پر ان کے ایک نہ ہونے سے

اب صبح میں کیفِ صبح نہیں، اب شام میں کیفِ شام نہیں

بس نفس سے رشتہ باقی ہے، اب روح سے رشتہ ٹوٹ چکا

جینے کی دعا کیوں دیتے ہو؟ زندوں میں نظرؔ کا نام نہیں

٭٭٭

اس حقیقت سے میں نا محرم نہیں

ہو تمہیں تم اور کچھ بھی ہم نہیں

ابنِ آدم کی یہ دل بیزاریاں

چند انساں بھی تو خوش باہم نہیں

دل ابھی تک موردِ اوہام ہے

رشتۂ ایماں ابھی محکم نہیں

وہ بتِ کافر بھی اُف کہنے لگا

بازوئے مسلم میں اب دَم خَم نہیں

ڈگمگاتے ہیں قدم چلنا محال

دردِ الفت کی چمک پیہم نہیں

کثرتِ غم ہے علاجِ غم نظرؔ

کون کہتا ہے علاجِ غم نہیں

٭٭٭

بے تابیاں نہیں ہیں کہ رنج و الم نہیں

اِس ایک دل پہ عشق کے کیا کیا کرم نہیں

دو دن کی زندگی اسے صدیوں سے کم نہیں

وہ کم نصیب ہے جسے توفیقِ غم نہیں

دنیا ستم طراز سہی کوئی غم نہیں

دنیا سے بھاگ جائیں مگر ایسے ہم نہیں

منزل مری جدھر ہے رخِ دل اُدھر کہاں

صد حیف مجھ سے دل ہی مرا ہمقدم نہیں

دنیا کی اس بساط پہ اللہ رے انقلاب

آدم ہی ایک چیز ہے وہ بھی اہم نہیں

اپنی شکست مان لے اے خنجر آزما

خنجر میں تیرے خم ہے مرا سر تو خم نہیں

کرنا ہے اعتبار تو کر لو نظرؔ پہ تم

سچی ہو بات پھر بھی وہ کھاتا قسم نہیں

٭٭٭

جذبۂ عشقِ شہِ ہر دو سرا ہے کہ نہیں

دیکھیے دل کو مسلمان ہوا ہے کہ نہیں

کون سا زیست میں وہ تلخ مزا ہے کہ نہیں

ایسے جینے سے تو مرنا ہی بھلا ہے کہ نہیں

میری ہر بات پہ تم نے جو کہا ہے کہ نہیں

خود ہی سوچو یہی جھگڑے کی بنا ہے کہ نہیں

حوصلہ ہے کہ میں محرومِ بیاں رکھتا ہوں

کون سا تجھ سے مجھے ورنہ گِلہ ہے کہ نہیں

اس قدر مشقِ ستم دل پہ عیاذاً باللہ

ارے ظالم تجھے کچھ خوفِ خدا ہے کہ نہیں

وائے تقدیر سنبھلتا ہی نہیں حالِ نظرؔ

کون سی ورنہ دوا اور دعا ہے کہ نہیں

٭٭٭

جہاں میں جنسِ وفا کم ہے کالعدم تو نہیں

ہمارے حوصلۂ دل کو یہ بھی کم تو نہیں

ہم ایک سانس میں پی جائیں جامِ جم تو نہیں

سرشکِ غم ہیں پئیں گے پر ایک دم تو نہیں

تمہارے قہر کی خاطر اکیلے ہم تو نہیں

نگاہِ مہر بھی ڈالو تمہیں قسم تو نہیں

خدا کا گھر ہے مرا دل یہاں صنم تو نہیں

یہ میکدہ تو نہیں ہے یہ کچھ حرم تو نہیں

مرے غموں کا تجھے کیا لگے گا اندازہ

کہ تجھ کو اپنے ہی غم ہیں پرائے غم تو نہیں

مرے خیال میں پیچیدگی سہی لیکن

تمہاری زلفوں کی مانند پیچ و خم تو نہیں

جنوں نہیں ہمیں پیچھے لگیں جو دنیا کے

خدا کے بندے ہیں ہم بندۂ شکم تو نہیں

ہزار کیف بہشتِ بریں میں ہیں لیکن

دل اپنا جس کا ہے خوگر وہ کیفِ غم تو نہیں

لگے گی دیر سنبھلنے میں لغزشِ دل سے

سنبھل کھڑے ہوں نظرؔ لغزشِ قدم تو نہیں

٭٭٭

فرصت نصیب از لعب و ہاؤ و ہُو نہیں

مدت سے میری دل سے ہوئی گفتگو نہیں

ساقی نہیں، وہ بادۂ و جام و سبو نہیں

وہ مستیِ شبانہ وہ جوشِ لہو نہیں

یکسو ہوا ہوں میری نگہ سو بہ سو نہیں

تجھ کو ہی دیکھنا ہے تو کیا دل میں تو نہیں

مانا رہِ طلب میں قدم زن نہیں ہوں پر

یہ بھی نہیں کہ دل میں تری آرزو نہیں

اے دل اب آ تجھی سے بجھائیں سخن کی پیاس

خلوت میں اب یہاں تو کوئی تند خو نہیں

میں ہوں شکست خوردۂ نفسِ ستیزہ کار

دل میں سکت بدن میں وہ جوشِ لہو نہیں

سیجوں پہ رہ کے ہو نہ گیا گل پریدہ رنگ

خاروں کے درمیاں جو نظرؔ تھی وہ بو نہیں

٭٭٭

عطرِ غمِ محبت کیوں خاک میں ملائیں

آنکھوں میں جو ہیں آنسو کیوں ضبط کر نہ جائیں

دنیا کی ہر روش کی تقلید کیا ضروری

ایماں فروزِ دل ہو نغمہ وہی سنائیں

ساری علامتیں ہیں شاید کہ شہرِ دل کی

ہر سمت ہے اداسی منظر ہے سائیں سائیں

خورشید و ماہ و انجم روشن گرِ جہاں ہیں

وہ روشنی بھی دیکھو دل جس سے جگمگائیں

شاید سنیں سمجھ کر قصہ یہ غیر کا ہے

اپنی ہی داستاں کو اس طرز پر سنائیں

دل کی یہ کشمکش ہے اپنے ہی رنج و غم سے

اشکوں سے کوئی کہہ دے یہ درمیاں نہ آئیں

صرفِ نظرؔ کرے گا تیرا کرم خدایا

اس آسرے پہ سرزد کچھ ہو گئیں خطائیں

٭٭٭

دل میں یادِ صنم ارے توبہ

کفر اور در حرم ارے توبہ

صبحِ خنداں کو دل ترستا ہے

ظلمتِ شامِ غم ارے توبہ

مے ہے ساقی ہے ابر ہے لیکن

توڑیں توبہ کو ہم ارے توبہ

زندگی کیا اسی کو کہتے ہیں

غم ہی غم، غم ہی غم ارے توبہ

بجھ نہ جائے چراغ یہ دیکھو

لو ہے ایماں کی کم ارے توبہ

دل کہ نازک سا آبگینہ ہے

اس پہ کوہِ الم ارے توبہ

زندگی کی نظرؔ مسافت کیا

بس یہی دو قدم ارے توبہ

٭٭٭

قربتِ یزداں کس کو ملی ہے اے شہِ شاہاں تم سے زیادہ

کون ہوا ہے بزمِ جہاں میں بندۂ ذیشاں تم سے زیادہ

امن و اماں کے ہم ہیں پیامی، صلح میں کوشاں تم سے زیادہ

جب ہوں مگر باطل کے مقابل، حشر بداماں تم سے زیادہ

اپنے صنم کے قرب و رضا کا رہتا ہے خواہاں تم سے زیادہ

شیخِ مکرم! ہے یہ برہمن صاحبِ ایماں تم سے زیادہ

عقل پریشاں، فکر پریشاں اور ہمارے خواب پریشاں

تیرے پریشاں بسکہ ہیں گیسو، ہم ہیں پریشاں تم سے زیادہ

بادۂ عرفاں، بادۂ وحدت، جامِ صبوحی، جامِ غبوقی

مجھ کو ملا از ساقیِ کوثر، سب ہی یہ ساماں تم سے زیادہ

٭٭٭

رنگِ چمن میں اب بھی ہے حسنِ دلبرانہ

دل کی روش ہے لیکن گلشن سے وحشیانہ

باران و بادِ صر صر، برقِ تپاں شبانہ

سو طرح کے مصائب، اک شاخِ آشیانہ

دورِ وصالِ جاناں، دورِ فراقِ جاناں

وہ زندگی حقیقت، یہ زندگی فسانہ

کیفِ وصال تیرا، دردِ فراق تیرا

پیغامِ زندگی وہ، یہ موت کا بہانہ

محوِ خرامِ گلشن تجھ کو خبر نہیں کیا

ہے طنز زندگی پر غنچوں کا مسکرانا

محوِ خرامِ گلشن تجھ کو خبر نہیں کیا

ہے طنز زندگی پر غنچوں کا مسکرانا

تیرے ہی دم سے شاید تھی زندگی گوارا

اب ہر نفس ہے جاں پر گویا کہ تازیانہ

غفلت کی نیند سے اٹھ فکرِ معاد کر کچھ

دو دن کی زندگی کا کیا ہے نظرؔ ٹھکانہ

٭٭٭

جنونِ تعمیرِ آشیاں میں نگاہ ڈالی تھی طائرانہ

جو ہوش آیا تو ہم نے دیکھا، بہ شاخِ نازک ہے آشیانہ

کوئی قرینہ نہیں ہے باقی، بھَلا ہو اے گردشِ زمانہ

کہاں وہ رندی، کہاں وہ ساقی، کہاں وہ اب مستیِ شبانہ

بتا دے ان رہ رَووں کو کوئی قدم اٹھائیں نہ عاجلانہ

سنا ہے صحنِ چمن میں ہر سو قدم قدم پر ہے دام و دانہ

جو گرم رہتا تھا خود بھی ہر دم، جو گرم رکھتا تھا دوسروں کو

مرورِ ایام کی بدولت رہا وہ دل ہو کہ سرد خانہ

غموں سے دوچار مستقل ہے، ہزار غم ہیں اور ایک دل ہے

غمِ محبت، غمِ سفینہ، غمِ مقدر، غمِ زمانہ

خوشا مقدر اگر ہو حاصل شہِ مدینہ تری زیارت

نہ ہو بھی ایسا تو فرق کیا ہے مجھے محبت ہے غائبانہ

یہی دکھائے ہمیں اب آنکھیں، ہمیں مٹانے پہ تل گئی ہے

کبھی یہ دنیا تھی ٹھوکروں میں، کبھی ہمارا بھی تھا زمانہ

ترے ہی در کا نظرؔ ہے سائل، کرم کی نظریں ہوں اس پہ مائل

تری عطائیں ہیں خسروانہ، ترا ہی دربار ہے شہانہ

٭٭٭

عطائے ساقی فطرت ہے کیا حکیمانہ

ہر اک کو بخششِ مے ہے بقدرِ پیمانہ

اسی خمار کی مے ہے، وہی ہے پیمانہ

کہوں میں کیسے کہ بدلا ہے نظمِ میخانہ

امنگ و آرزو و شوق و حسرت و ارماں

نہ ہوں جو دل میں تو دل کیا ہے ایک ویرانہ

سکوں ہے دل کو مرے سجدہ ہائے باطل پر

گراں ہے مجھ پہ مگر اف نمازِ دو گانہ

اب آ، اے پردہ نشیں کیوں تجھے تامل ہے

درونِ سینہ ہے دل اور دلِ نہاں خانہ

یہی کمالِ ترقی ہے دورِ حاضر کا

ہمہ خصائلِ انساں ہوئے بہیمانہ

جنوں منافیِ ہوش و حواس کب ہے نظرؔ

کمالِ ہوش بناتا ہے تجھ کو دیوانہ

٭٭٭

تشکر: محمد تابش صدیقی جنہوں نے اس  کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں



ورڈ فائل  

ای پب فائل 

کنڈل فائل