FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

غالب ؔ کی تفہیم و تحسین

 

 

               کلیم احسان بٹ

 

(اصل کتاب ’تفہیم و تحسین‘ سے الگ مضامین)

 

 

 

 

 

کلام غالب کے غیر جانبدارانہ مطالعہ کی ضرورت

 

کلام غالب کا مطالعہ کئی لحاظ سے دلچسپ ہے  اور اس میں وہ قوت موجود ہے جو ہر قاری کو ہر دوسری قرات میں ایک نئے حظ سے روشناس کراتی ہے۔بار بار مطالعہ سے کئی طرح کے انکشافات بھی متوقع ہوتے ہیں۔ اس طرح کا ایک عجیب انکشاف ہم پر متداول دیوان کی غزل ۴۱

؎عرض نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا

کے مطالعہ سے ہوتا ہے۔متداول دیوان میں یہ غزل آٹھ اشعار پر مشتمل ہے (۱) جبکہ نسخہ حمیدیہ میں یہ غزل سات اشعار پر مشتمل ہے۔(۲)تاہم حاشیہ پر اسی غزل کے باریک قلم سے خط شکستہ میں چھ مزید اشعار بھی ملتے ہیں۔متداول دیوان میں جو آٹھ اشعار ملتے ہیں۔ان میں سے دو اشعار بعینہ اور مقطع پہلے مصرع کے تبدل کے ساتھ دیوان حمیدیہ کے متن سے اور چھ اشعار حاشیہ سے منتخب ہیں۔اور یہاں مقطع میں پہلے مصرع کا اختلاف بھی نہیں۔یعنی متداول دیوان کے آٹھ میں سے دو اشعار دیوان حمیدیہ کے متن اور چھ حاشیہ سے ماخوذ ہیں۔جب اس غزل کا مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ اس غزل کا ایک مصرع

؎جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا

مطلع اور مقطع میں مشترک ہے۔نسخہ حمیدیہ اور متداول دیوان کے مقطع میں اگر چہ اختلاف ہے مگر وہ پہلے مصرع میں پایا جاتا ہے۔یعنی مذکورہ بالا مصرع مطلع اور مقطع دونوں میں بغیر کسی لفظی تغیر کے استعمال ہوا ہے۔یہ مصرع ایک ہی غزل میں دو بار استعمال ہوا ہے۔اس کی مختلف تاویلیں بھی کی جا سکتی ہیں جن کے متعلق ہم بعد میں بات کریں گے  فی الحال غالب کی ایک اور مشہور غزل کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا جس کا یہ شعر زبان زد عام ہے۔

؎بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل

کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا

اس شعر کے پہلے مصرع کو ذہن میں رکھیں اور غالب کے دیوان کا مطالعہ جاری رکھیں۔ ردیف لام کی پہلی غزل کا دوسرا مصرع ایک بار پھر اسی صورت حال سے دوچار کرے گا۔جس کس سامنا ’’جس دل پہ ناز تھا ہمیں وہ دل نہیں رہا ‘‘ والی غزل کے مطالعے میں کر چکے ہیں۔یعنی ان ہر دو اشعار میں بھی ایک مصرع  ’’ بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل ‘‘ بغیر کسی ادنی سے ادنی لفظی تغیر کے مشترک و مماثل ہے۔ہو سکتا ہے اس مقصد کے لیے کیا گیا عمیق مطالعہ بعض اور ایسے مصرعوں کی نشاندہی کر دے اور ہم کچھ اور ایسے مصرعے تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائیں جو مختلف غزلوں میں اور مختلف اشعار میں بغیر کسی تغیر و تبدل کے استعمال ہوئے ہیں مگر جس نتیجے تک میں پہچانا چاہتا ہوں اس کے لیے یہ د و مصرعے بھی کافی ہوں گے۔

اب تک ہم نے جو بات کی ہے اس میں لفظ یا زبان کے عنصر کو سامنے رکھا گیا ہے۔ آئیے انہی دو مشترک مصرعوں والے اشعار کی شرح پر بھی نظر دوڑاتے جائیں۔جہاں تک شارحین غالب کا سوال ہے تو غالب کی اکثر شرحوں کی سطح بڑی عامیانہ ہے اور ان میں شارحین نے بہت کم لفظ و معنی کے باہم رشتوں اور تنقیدی و تحقیقی اصولوں کو کام میں لانے کی سعی کی ہے۔تاہم کوئی نتیجہ اخذ کرنے سے پیشتر پہلے ان شرحوں پر کم از کم ایک سرسری نظر ڈالنا ضروری ہے۔اس موقع پر چونکہ طوالت کا خطرہ ہے تو میں صرف دیوان الف اور لام میں استعمال ہونے والے مصرع کے حوالے سے فی الوقت موجود شرحوں سے استفادہ کروں گا۔ردیف الف میں یہ شعر اس طرح ہے:

؎  بلبل  کے  کاروبار  پہ   ہیں  خندہ  ہائے  گل

کہتے  ہیں  جس  کو  عشق  خلل  ہے  دماغ  کا

صاحبزادہ احسن علی خاں مفہوم غالب میں اس کی شرح یوں کرتے ہیں :

’’جس طرح بلبل جو گل کا عاشق ہے، کی حرکتوں پر باغ میں پھول ہنستے ہیں  اسی طرح انسانی زندگی میں بھی معشوق عاشقوں کی حرکتوں پر ہنس دیتے ہیں۔چونکہ عاشق کی حرکتیں عقل کے مطابق نہیں ہوتیں اور مجنونانہ ہوتی ہیں اس لیے مضحکہ خیز ہوتی ہیں۔پھولوں کے کھلنے کو شعرا پھولوں کے ہنسنے سے تعبیر کرتے ہیں ‘‘ (۳)

غلام رسول مہر کے خیال میں :

’’بلبل پھولوں کے ساتھ عشق کے باعث دیوانی ہو رہی ہے اور بے اختیار آہ و فغاں کر رہی ہے لیکن پھول اس کی حرکتوں اور مشغولیتوں کی ہنسی اڑا رہے ہیں۔نہ بلبل کو اس حالت کا کوئی احساس ہے اور نہ پھول ہنسی ضبط کرنے پر آمادہ ہیں۔ معلوم ہوتا ہے جس شے کو عشق کہتے ہیں وہ دماغ کی خرابی اور فتور کے سوا کچھ نہیں۔خصوصیت سے اس لیے کہ عموماً دیوانوں ہی کی ہنسی اڑائی جاتی ہے۔‘‘ (۴)

شاداں بلگرامی نے اس شعر کی شرح یوں کی ہے :

’’پھول جو کھلتے ہیں حقیقتاً افعال بلبل کی تضحیک کرتے ہیں کیونکہ عشق دماغ کی خرابی کا نام ہے۔جو اسے اختیار کرے یقیناً دیوانہ ہے اور وہ دیوانے کی ہنسی اڑاتے ہیں۔‘‘(۵)

عنقائے معانی میں اس کی معنی یوں درج ہیں :

’’بلبل کے کاروبار(یعنی پھول کے لیے بے قرار ہونا، اس پر نثار ہونا وغیرہ وغیرہ) پر پھول کا ہنسنا ہے۔ یعنی وہ اس کی ہنسی اڑا رہا ہے۔(کیونکہ وہ اس قدر کھلا کہ گویا ہنس رہا ہے)۔ یہ ہنسی یا بلبل کی تحقیر کیوں ؟اس لیے کہ جس کو عشق کہتے ہیں وہ دماغ کا خلل بتایا جاتا ہے۔لہٰذا بلبل کو بھی دماغ کا خلل ہو گیا ہے  اور پھول اس پر ہنس رہا ہے۔(کیونکہ کھلا ہوا پھول ایک ہنستے آدمی کے کھلے منہ کے مشابہ ہوتا ہے۔)‘‘(۶)

علامہ عبدالباری آسی لکھنوی کے شرح درج ذیل ہے:

’’بلبل کے حال پر پھول ہنس رہے ہیں کیونکہ عشق کو اطبا نے خلل دماغ کہا ہے یا یہ کہ عشق کی کسی کی نظروں میں وقعت نہیں ہے۔‘‘

مذکورہ بالا تشریحات بغیر کسی امتیاز کے نقل کی گئی ہیں۔اور قیاس غالب ہے کہ باقی شارحین بھی اس سے الگ کوئی شرح بیان نہیں کر سکے ہوں گے۔ہمارا موضوع اس شرح اور شارحین پر تنقید نہیں ورنہ غالب جیسے نکتہ رس ذہن سے اس عامیانہ سطح کی توقع نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی یہ شرحیں غالب کے تصور حسن و عشق کی ترجمان ہیں۔بہرحال اب ہم ردیف لام کی طرف آتے ہیں۔جس میں ’’ بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل‘‘ پہلا نہیں بلکہ دوسرا مصرع ہے۔ردیف لام کی پہلی غزل کا پہلا شعر :

؎ہے کس قدر ہلاکِ فریبِ وفائے گل

بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل

اس شعر کی شرح کر تے ہوئے صاحبزادہ احسن علی خاں لکھتے ہیں :

’’بلبل تو پھول کی تمنا کے دھوکے میں فنا ہو گئی ہے۔مگر پھول بلبل کے ان کرتوتوں پر ہنستے ہیں۔مطلب یہ ہے کہ معشوق عشاق کی وفا کیشیوں کو نظر میں لاتے ہیں بیشتر حماقت پر محمول کر کے ہنس دیتے ہیں ‘‘(۸)

مولانا غلام  رسول مہر لکھتے ہیں :

’’اس شعر کا دوسرا مصرع پہلے ایک غزل میں آ چکا ہے یعنی

؎بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل

کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا

شعر کا مطلب یہ ہے کہ بلبل کی حالت دیکھیے و ہ پھولوں کے عشق کے فریب میں مر مٹی ہے کہ پھول وفا داری کریں گے۔حالانکہ حسن اور وفا ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔یہ بلبل کی فریب خوردگی ہے۔پھولوں کی کیفیت یہ ہے کہ اس غریب کے کاروبار کی ہنسی اڑا رہے ہیں۔پھولوں کے کھلنے کو ان کا خندہ یعنی ہنسی قرار دیا ہے۔اور شاعر کے تصور کے مطابق یہ ہنسی بلبل کی فریب خوردگی اور نادانی پر ہے کہ پھولوں کی محبت پر مٹی جا رہی ہے  اور و ہ سمجھتے ہیں کہ اسے خوب فریب دیا۔ایک لحاظ سے ہر عشق کی کیفیت یہی ہے کہ حق نا شناس لوگ اس کی ہنسی اڑا تے ہیں۔خواہ اس عشق کا تعلق کسی فرد سے ہو یا مقصد سے۔‘‘(۹)

شاداں بلگرامی کی شرح کے مطابق اس شعر کا مفہوم کچھ یوں ہے:

’’گل کی وفا داری کا دھوکا کھا کے بلبل مٹی جا رہی ہے۔گل کو ثبات و قیام ہی کہاں جو وفا داری میں اک عمر گزارے؟لہٰذا بلبل کے ان معاملات کو دیکھ کر گل کو اس پر ہنسی آتی ہے کہ کس قدر بے وقوف ہے۔مصرع ثانی اس شعر کا، شعر ذیل میں اول ہو کر بعینہ پہلے آ چکا ہے۔

؎بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل

کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا

عنقائے معانی میں شارح لکھتا ہے:

’’بلبل پھول کے ساتھ وفا برتنے میں اپنی جان کیسی ہلاک کرتی ہے اور اس کے کاروبار وفا پر (جب کوئی) پھول کھلتا ہے یعنی خنداں ہوتا ہے تو گویا ہنس دیتا ہے۔ جیسے دیوانے آدمی پر عام لوگ ہنسا کرتے ہیں۔‘‘(۱۱)

محترم آسی لکھنوی کی شرح درج ذیل ہے:

’’بلبل اس قدر فریب وفائے گل پر مٹی ہوئی ہے کہ اس کے رنگ کو پائیدار سمجھتی ہے مگر بلبل کے اس خلل دماغ پر پھول ہنس رہے ہیں۔ایک جگہ پہلے بھی فرما چکے ہیں۔‘‘(۱۲)

دونوں اشعار کی مختلف شارحین کے ہاں شرح تقریباً ایک جیسی ہے۔غلام رسول مہر، شاداں بلگرامی اور آسی لکھنوی نے اگرچہ اس امر کی طرف اشارہ بھی کیا ہے کہ ایک ایک مصرع ہر دو اشعار میں مشترک ہے مگر اس کا کوئی جواز اپنی تشریحات میں بیان نہیں کیا۔

اب صرف دو ہی صورتیں ممکن ہیں۔۔۔یا تو دونوں اشعار کے مفہوم میں اختلاف ہے جسے شارحین بیان نہیں کر سکے یا غالب ایک ہی مضمون کو دو مختلف اسالیب یا الفاظ میں بیان نہیں کر سکے۔غالب کے مقام و مرتبے کے پیش نظر پہلی صورت قرین قیاس ہے لیکن اگر غیر جانبدارانہ تنقید سے کام لیا جائے تو دوسری صورت کے لیے بھی کافی شواہد دستیاب ہو جاتے ہیں۔

ایک مصرع جس پر ہم نے اس مضمون میں ہم نے زیادہ بحث نہیں کی ہے ’’ جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا‘‘ ہے۔ جس مصرع پر ابھی تک ہم لکھتے چلے ہیں وہ ایک دفعہ ردیف الف اور دوسری دفعہ ردیف لام میں استعمال ہوا ہے مگر یہ مصرع تو ایک ہی غزل کی مطلع و مقطع میں موجود ہے۔

بعض تخلیق کاروں کے نزدیک کچھ تخلیقی لمحے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے اثر سے دیر تک شاعر باہر نہیں آ سکتا۔نتیجہ کے طور پر ایک ہی غزل میں بعض اوقات ایک مضمون مختلف صورتوں میں دہرایا جاتا ہے۔مسلسل غزلیں یا قطعہ بند اشعار اس سلسلے میں قابل توجہ ہیں۔ اور بقول میر انیس

؎اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں

خود کلام غالب میں عارف کا مرثیہ غزل کی ہئیت میں دیوان میں موجود ہے۔ عارف کی موت نے عمل تخلیق میں غالب کو جکڑے رکھا اور غزل مرثیہ ہو گئی۔اسی طرح غالب کی بعض اور غزلیں مضمون یا اسلوب کے لحاظ سے اس نظریے کی تائید کر تی ہوئی نظر آتی ہیں۔مثلاً

؎ درد سے میرے  ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے

٭

؎پھر کچھ اس دل کو بے قراری ہے

٭

؎ مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے

٭

؎ بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے

٭

؎حسن غمزے کی کشا کش سے چھٹا میرے بعد

٭

لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ تخلیق کا یہ ڈھنگ غزل میں کم از کم گہرا یا واضح نہیں ہے۔بالفرض ایسا ہی ہو تو بھی اسی ڈھنگ کے باقی تمام غزلوں میں کہیں کسی مصرع کا مکرر استعمال نہیں ہوا۔لیکن یہاں ’’ جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا ‘‘ دو بار استعمال ہوا جبکہ دوسری طرف ایک مصرع ردیف الف اور ایک ردیف لام میں ہے۔اس لیے یہ جواز بے وقعت ہو جاتا ہے۔

جدید تنقید میں شاعر کی لفظیات سے اس کے نفسیاتی رجحانات کے سراغ لگانے کا فن اب ایک علم کی صورت اختیار کر چکا ہے۔اس حوالے سے باقاعدہ مستند کتاب میرے علم میں نہیں۔ یوسف حسین خان مرحوم کی کتاب ’غالب اور اقبال کی متحرک جمالیات ‘ میں ان استعاروں اور علامتی پیکروں کی نشاندہی کی گئی جن سے حرکت و عمل، آرزو مندی  اور آزادی کی اقدار کا اظہار ہوتا ہے۔پروفیسر حمید اللہ خاں نے نسخہ حمیدیہ کے دیباچہ میں ان تراکیب کے متعلق سوال اٹھایا ہے جن کی ابتدائی کلام میں کثرت  ہے مثلاً ہوس، گستاخی، آئینہ، جوہر غبار وغیرہ۔ ڈاکٹر سلیم اختر نے ’’شعور اور لا شعور کا شاعر۔۔۔غالب ‘‘ میں غالب کی نفسی اساس کی تفہیم میں کار آمد نکات کا مطالعہ نفسیات کی روشنی میں کیا ہے۔لیکن ایک ہی مصرع کو دو بار استعمال کرنے کی وجوہات کیا ہیں ؟ اس میں جدید نفسیات شاید ہماری زیادہ مدد نہ کر سکے۔لیکن اہل زبان یا زبان دان لوگ اس گرفت ضرور کریں گے۔ اس موقع پر جناب حامد حسن قادری کی تحریر سے ایک اقتباس پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا۔ اپنی کتاب ’’ نقد و نظر ‘‘ میں غالب کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’ بیسویں صدی میں جب ان کے کلام کا مطالعہ کیا گیا تو غالب پرست یہ بھول گئے کہ غالب شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ انسان بھی تھے۔۔۔۔ انہوں نے کلام غالب کو آیت و حدیث سمجھا اور ایک ایک لفظ،  محاورے، خیال، اسلوب کو اٹل، محکم اور ملہم سمجھ کر اس کو معنی پہنانے شروع کر دیے۔کچھ نقاد ایسے بھی ہیں جنہوں نے بجائے خود غور کر کے فیصلہ کیا اور اغلاط غالب بیان کیں۔ حقیقت یہ ہے کہ غالب نے وہ سب غلطیاں کی ہیں جو شاعری میں ہو سکتی ہیں اور شاعر سے نہیں ہونی چاہییں۔‘‘(۱۳)

خلیفہ عبدالحکیم بھی اس خیال کی تائید کرتے ہیں۔ ’’افکار غالب‘‘ اٹھا کر دیکھ لیں۔ لکھتے ہیں :

’’مرزا کی اکثر اردو غزلیں ہموار نہیں ہیں۔چند اعلی درجے کے اشعار کے ساتھ ساتھ کچھ اشعار محض قافیہ پیمائی کے لیے جڑ دیے ہیں۔بعض اوقات اس ناہمواری کی وجہ سے غزل کی حیثیت بگڑ جاتی ہے۔‘‘(۱۴)

اسی طرح ڈاکٹر محی الدین زور نے بھی کلام غالب کا غیر جانبدارانہ مطالعہ کرنے کی کوشش کی ہے۔انہوں نے غالب کے کلام کو مطالب و معانی کے لحاظ سے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔

۱۔عام اور پامال خیالات کی ترجمانی۔

۲۔مرزا بیدل اور میر تقی میر کی تقلید۔

۳۔غالب کے خاص اشعار۔(۱۵)

میں ان اقتباسات کے حوالے سے ہر گز یہ ثابت نہیں کرنا چاہتا کہ غالب کے کلام کو الہامی اور مقدس بنانے کے بجائے اسے زمینی اور انسانی سمجھ کر پڑھیں، اس سے لطف اندوز ہوں اور اسے سراہیں۔مجھے اتنی طویل تمہید کی ہر گز ضرورت  نہ ہوتی اگر ہم غالب پرست کی بجائے صرف غالب پسند ہوتے۔شاعرانہ کمال یہی ہے کہ تخیل کا عمل اور تصرف جس طرح خیالات میں ہوتا ہے اسی طرح الفاظ میں بھی ہو۔(۱۶) شاعر ایک ہی خیال کو مختلف اسالیب اور ایک ہی قسم کے الفاظ کی ترتیب سے مختلف خیالات کا اظہار کرنے پر قادر ہو اور ایک ہی وقت میں ایک ہی قسم کے الفاظ سے مختلف خیال بیک وقت قاری کے ذہن میں منتقل کر سکے۔ غالب کے کلام میں شاعرانہ کمال کی تمام جہتیں کسی بھی دوسرے شاعر سے بدرجہ غایت زیادہ ہیں لیکن جن اشعار کا اس مضمون میں تذکرہ کیا گیا ہے ان میں اپنی اپنی جگہ تو شاعرانہ کمال پایا جاتا ہے لیکن ایک ہی مضمون کو اد ا کرنے کے لیے ایک ہی قسم کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ غالب جیسے بڑے شاعر سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ ایک خیال کو ادا کرنے کے لیے اسے دوسری مرتبہ الفاظ کا کوئی اور جامہ یا پیرایہ نہ مل سکے۔ اس لیے ہمیں یہ بات ذرا زیادہ کھٹکتی ہے۔ اس مضمون سے منشا و مقصد یہی ہے کہ کلام غالب کے مطالعہ کے لیے صحیح جہت کا انتخاب کیا جا سکے۔ہم غالب کی عظمت سے متاثر ہوئے بغیر ان کے کلام کی تنقید و تحسین کر سکیں۔غالب اگر اپنے کلام کو گنجینہ گوہر سمجھنے کے باوجود اعتراف کر سکتا ہے :

؎بقدرِ شوق نہیں ظرف تنگ نائے غزل

کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے

تو پھر ہمیں غالب کے کلام کو الہامی ثابت کرنے کے لیے غلط تاویلیں پیش کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

 

حوالہ جات

 

۱۔دیوان غالب، مرتبہ غلام رسول مہر، ص۶۶۔۶۷

۲۔دیوان غالب، نسخہ حمیدیہ، مجلس ترقی اد ب، لاہور

۳۔مفہوم غالب، صاحبزادہ احسن علی خاں، مکتبہ میری لائبریری، ۱۹۶۹، ص۹۵

۴۔نوائے سروش، غلام رسول مہر، شیخ غلام علی اینڈ سنز، ص۱۲۸

۵۔شرح دیوان غالب، شاداں بلگرامی، منظور پرنٹرز، لاہور، ۱۹۶۷، ص۱۶۷

۶۔عنقائے معانی، شیر علی خاں سرخوش، انقلاب اسٹیم پریس، لاہور، ص۷۴

۷۔مکمل شرح دیوان غالب، آسی لکھنوی، شیخ محمد بشیر اینڈ سنز، ص۷۱

۸۔مفہوم غالب، ص۱۸۱

۹۔نوائے سروش، ۱۲۸

۱۰۔شرح دیوان غالب، ص۲۴۷

۱۱۔عنقائے معانی، ص۱۷۱

۱۲۔مکمل شرح دیوان غالب، ص۱۵۹

۱۳۔نقد و نظر، حامد حسن قادری، شاہ اینڈ سنز پبلشرز، آگرہ، ۱۹۴۲، ص۱۲

۱۴۔افکار غالب، خلیفہ عبدالحکیم، مکتبہ معین الادب، لاہور، ۱۹۷۳، ص۱۷

۱۵۔تنقیدی مقالات، محی الدین قادری زور، مکتبہ ابراہمیہ، حیدر آباد دکن، بار دوم ص۷۹

۱۶۔مقدمہ شعر و شاعری، حالی، خورشید پبلشرز، کراچی، ص۴۲

٭٭٭                                              (ارد و نامہ، شمارہ نومبر ۱۹۹۹)

 

 

 

 غالب کی نثر میں انگریزی الفاظ کا مطالعہ

 

ایک روز یونہی اردوئے معلی پر نظر دوڑا رہا تھا کہ ایک جگہ کاس ٹیلن اور اوڈلٹام کے الفاظ پڑھ کر چونک اٹھا۔اگرچہ اچنبھے کی بات نہ تھی،  غالب شراب کے رسیا تھے اور مذکورہ الفاظ انگریزی شرابوں کے نام تھے مگر جی چاہا کہ غالب کی نثر میں انگریزی الفاظ کے استعمال اور اس کی وجوہات کا تجزیہ کیا جائے۔

مرزا کے طرز تحریر یا اسلوب میں ایسے الفاظ کا استعمال حیرت کا باعث تھا۔اس حوالے سے کتاب کا از سر نو مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ غالب کے ہاں انگریزی الفاظ بار بار استعمال ہوئے ہیں۔مثلاً پمفلٹ، انکم ٹیکس، فنانشل کمشنر، اگریمنٹ وغیرہ۔ ان الفاظ میں بعض اب اردو زبان کا حصہ بن چکے ہیں اور بعض موجودہ دور میں بھی بالخصوص تحریر میں غیر مانوس اور غرابت کا باعث ہیں۔یہ الفاظ غالب کے خطوط میں کیسے در آئے؟ ان کا مطالعہ دلچسپ بھی ہے اور مفید بھی۔

اگر مرزا کے عہد، حالات اور مصروفیات پر ایک نظر ڈالیں تو ان انگریزی الفاظ کے استعمال کا جواز تلاش کیا جا سکتا ہے  جن کی وجہ سے ہم پہلے پہل حیرت سے دوچار ہوئے تھے۔

مرزا کے آبا کا پیشہ سپہ گری تھا۔مرزا کے والد ایک بغاوت کے فرو کرنے میں کام آئے۔اور مرزا کے چچا لارڈ لیک کے لشکر میں سالار تھے۔ان کی وفات کے بعد متعلقین کا جو وظیفہ مقرر ہوا اس میں سے سات سو روپے سالانہ مرزا کو آخر اپریل ۱۸۵۷ تک برابر ملتا رہا۔اس طرح انگریزوں سے تعلق کی بنیاد پہلے سے موجود تھی۔اس کے علاوہ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا غالب شراب کے رسیا تھے اور انگریزوں کے قلعوں یا کوٹھیوں میں ان کا اس غرض سے آنا جانا بھی تھا۔مرزا دیسی شراب پر انگریزی شراب کو ترجیح دیتے تھے۔بابو ہر گوبند سہائے کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں۔

’’دو قسم کی انگریزی شراب ایک تو کاس ٹیلن اور ایک اوڈلٹام ، یہ میں ہمیشہ پیا کرتا تھا۔بیس روپے حد چوبیس روپے درجن آتی تھی۔ اب پچاس روپیہ اور ساٹھ روپیہ درجن آتی ہے۔ وہاں تم دریافت کرو اس کا نرخ کیا ہے؟۔۔۔ جاڑوں میں مجھ کو بہت تکلیف ہے اور یہ گرچھال شراب میں نہیں پیتا۔‘‘

شاید انگریزوں سے اس شناسائی کا ہی نتیجہ تھا کہ ۱۸۴۶ میں جب دہلی کالج قائم کیا گیا تو اس میں فارسی استاد کی خدمات کے لیے لوگوں نے مرزا، مومن خاں مومن اور امام بخش صہبائی کا نام لیا تو سب سے پہلے مرزا کا بلایا گیا۔اس حوالے سے تذکرہ آب حیات میں ایک لطیفہ منقول ہے کہ ’’مرزا پالکی سے اتر کر اس انتظار میں ٹھہر رہے کہ دستور کے موافق صاحب سیکرٹری ان کو لینے آئیں گے۔جب بہت دیر ہو گئی اور صاحب کو معلوم ہوا کہ اس سبب سے نہیں آئے تو خود باہر چلے آئے اور مرزا سے کہا : جب آپ دربار گورنری میں تشریف لائیں گے تو آپ کا اس طرح استقبال کیا جائے گا لیکن اس وقت آپ نوکری کے لیے آئے ہیں اس موقع پر وہ برتاؤ نہیں ہو سکتا۔ مرزا صاحب نے کہا : گورنمنٹ کی ملازمت کا ارادہ اس لیے کیا ہے کہ اعزاز کچھ زیادہ ہو اس لیے نہیں کہ موجودہ اعزاز میں فرق آئے۔مجھ کو اس خدمت سے باز رکھا جائے اور یہ کہہ کر واپس چلے آئے۔‘‘

مرزا غالب اگرچہ قدیم بود و باش کے مطابق زندگی بسر کرتے تھے لیکن انگریزوں نے جو سہولتیں ہندوستان میں متعارف کروائیں ان کے بڑے مداح اور قدر کی نگاہ سے دیکھنے والے تھے۔خط کے لیے ڈاک کا انتظام اور ریل کے ذریعے تیز تر سفر کو وہ پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ مرزا کے مزاج میں اس لحاظ سے جدیدیت پسندی کا عنصر بہت قوی تھا کہ وہ بدلتے ہوئے حالات کے مطابق زندگی بسر کرنے کا فن جانتے تھے۔اگرچہ بعض اوقات ہم انہیں حد اعتدال سے ہٹا ہوا بھی دیکھتے ہیں۔ یہی حال ان کا انگریزوں اور انگریز کی پہنچائی ہوئی سہولتوں کے بارے میں تھا۔یہی وجہ ہے کہ جب سر سید نے آئین اکبری کی تصحیح کی اور مرزا کی تقریظ کو اس میں شامل کرنا چاہا تو سر سید جیسا انگریز دوست آدمی بھی اس تقریظ کو شامل اشاعت نہ کر سکا جو مرزا اسد اللہ خاں غالب کے قلم سے نکلی تھی۔اس تقریظ میں مرزا نے یہ ظاہر کیا ہے کہ ابو الفضل کی کتاب اس قابل نہ تھی کہ اس کی تصحیح میں اس قدر کوشش کی جائے اور بہت سے اشعار اس مضمون کے لکھے ہیں کہ تعریف کے قابل انگریزوں کے آئین و ایجاد و اختراع ہیں نہ اکبر اور ابو الفضل کے۔اور تمثیلاً انگریزوں کے بہت سے ایجادات بیان کیے ہیں۔جب یہ تقریظ مرزا نے سر سید کو بھیجی، انہوں نے اس کو مرزا کے پاس واپس بھیج دیا اور لکھا کہ ایسی تقریظ مجھے درکار نہیں۔

جب ۱۸۵۷ کا ہنگامہ بپا ہوا تو غالب معزول بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے استاد اور مغل حکومت کے خلعت و القاب یافتہ تھے۔ اس لیے انگریز آپ سے بد گمان تھے۔

۱۸۵۷ کی بغاوت میں مرزا غالب پر سب سے بڑا الزام یہ تھا کہ وہ باغیوں سے اخلاص رکھتے تھے اور انہوں نے بہادر شاہ کی بادشاہی کے اعلان پر جو ۱۱ مئی ۱۸۵۷ کو ہوا ایک سکہ شعر بھی کہا تھا۔ اس کا ذکر انہوں نے تفصیل کے ساتھ ایک خط میں کیا ہے۔حالی نے لکھا ہے کہ جب مرزا کرنل براؤن کے سامنے گئے تو انہوں نے مرزا کی نئی وضع دیکھ کر پوچھا: ویل تم مسلمان ؟ مرزا نے جواب دیا : آدھا۔ کرنل نے کہا: اس سے مطلب؟ مرزا نے کہا: شراب پیتا ہوں، سور نہیں کھاتا۔

دربار سے اس تعلق کا نتیجہ تھا کہ مرزا کی پنشن انگریز کے عہد میں بند ہو گئی اور مرزا کو پنشن کے دوبارہ اجرا کے لیے انگریز افسروں اور عدالتوں سے رابطے کرنا پڑے۔غدر میں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے انگریز عدالتوں اور افسروں کے سامنے پیش ہونا پڑا۔ اس حوالے سے ان کے خطوط میں کافی تفصیلات ملتی ہیں۔

’’ چیف سیکٹر بہادر کو اطلاع کی۔ جواب آیا کہ فرصت نہیں۔۔۔ تم باغیوں سے اخلاص رکھتے تھے اب گورنمنٹ سے کیوں ملنا چاہتے ہو۔‘‘

غالب تقریباً تین برس تک پنشن کی بحالی کے لیے انگریز عدالتوں کے چکر لگاتے رہے،  اپنی بے گناہی ثابت کرتے رہے، دور دراز سفر کرتے رہے ، افسروں کی خوشامد کرتے رہے اور ان کے قصائد لکھتے رہے۔وہ مرزا  جنہوں نے دہلی کالج کی نوکری صرف اس لیے قبول نہیں کی کہ اس سے عزت و وقار میں اضافہ نہیں ہوتا، درخواستیں لے کر افسروں کے در انصاف پر حاضر ہوتے رہے۔غالب کی نرگسیت مشہور ہے مگر غالب کی شخصیت کا یہ تضاد قابل مطالعہ ہے کہ وہ غالب جو برہان قاطع پر بھی تنقید کرنے سے نہیں چوکتا وہ اپنی مطلب براری کے لیے انگریز افسروں کے قصائد لکھتا۔ سلطنت مغلیہ کے اس نمک خوار کے دیوان میں ان قصائد کو موجودگی تعجب انگیز ہے مگر کیا کیا جائے۔

؎واقعہ سخت ہے اور جان عزیز

اس موقع پر غالب کے اردو دیوان سے میکلوڈ صاحب کی خدمت میں قصیدہ کی چند اشعار نقل کرنا بے جا نہ ہو گا۔

حق گو و حق پرست و حق اندیش و حق شناس

نواب مستطاب، امیر شہ احتشام

ہم رتبہ میکلوڈ بہادر کہ وقت رزم

ترک فلک کے ہاتھ سے وہ چھین لیں حسام

میری سنو کہ آج تم ا س سرزمین پر

حق کے تفضلات سے ہو مرجع انام

ہے یہ دعا کہ زیر نگیں آپ کے رہے

اقلیم ہند و سند سے تا ملک روم و شام

مرزا نے ایلن براؤن کے ہاں بیٹے کی پیدائش پر ۱۸۵۷ میں ایک قصیدہ لکھا۔ غدر کے بعد مغل حکومت سے تعلق کی تحقیقات کا نتیجہ اگرچہ مر زا کی بے گناہی ہی تھا لیکن غالب پر افتاد بدستور موجود رہی۔ ادھر حالات یہ ہو رہے تھے کہ

قرض کی پیتے تھے مے اور سمجھتے تھے کہ ہاں

رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

ان حالات میں مرزا انگریزوں کی قصائد نہ لکھتے تو اور کیا کرتے۔ اسے قسمت کی ستم ظریفی کہیے یا اس عہد زوال کی کرشمہ سازی کہ غالب کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی گر ہ پڑ جاتی اور اپنے مدعا کے حصول میں سال ہا سال دفتروں کے چکر کاٹنا پڑتے۔

غالب کی یہ خواہش تھی کہ برہان قاطع کو محکمہ تعلیم پنجاب ایک نصابی کتاب کے طور پر فارسی زبان کے سلیبس میں شامل کر لے۔یہ بات ۱۸۶۶ء کی ہے۔اس خیال کے پیش نظر غالب نے محکمہ تعلیم سے رجوع کیا۔محکمہ تعلیم نے ماہرین کی آرا کی روشنی میں یہ کتاب کتب خانوں میں بھیجنے سے انکار کر دیا۔تاہم رعایت کے طور پر ڈی پی آئی کو جواب میں ۱۲ نسخے بلا قیمت بھیج دیے۔ یہ ڈی پی آئی کرنل ہا لرائیڈ تھا جس نے انجمن پنجاب قائم کر کے اردو میں نیچرل شاعری کا آغاز کیا تھا۔انیس ناگی نے اپنے مضمون میں اس سلسلے میں ہونے والی تمام خط و کتابت کو نقل کیا ہے۔

سر سید کی انگریز دوستی کسی سے پوشیدہ نہیں  اور انگریزی کی ترویج کے لیے ان کی کاوشیں بھی کسی سے چھپی ہوئی نہیں۔سر سید اور غالب کے درمیان ایک تعلق جسے ہم خواہ دوستی کا نام نہ بھی دیں موجود تھا۔جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا کہ سر سید نے آئین اکبری کی تقریظ کے لیے غالب سے گذارش کی۔سر سید اور غالب میں باہم ملاقات بھی موجود تھی مگر جب سر سید نے تقریظ واپس بھجوا دی تو ظاہر ہے دونوں میں حجاب دامن گیر ہو گیا۔اس کے باوجود جب مرزا رام پور سے دلی جاتے ہوئے مراد آباد سرائے میں ٹھہرے تو سر سید مرزا کو مع اسباب اور تمام ہمراہیوں کے اپنے مکان پر لے آئے۔ اس طرح وہ رکاوٹ جو کئی برس سے چلی آ رہی تھی رفع ہو گئی۔ مرزا دو ایک دن ٹھہر کر دلی چلے آئے۔ہم ان تعلقات کی بنا پر غالب کی نثر پر سر سید  کے اثرات تو تلاش نہیں کر سکتے کیونکہ سر سید کا تقریظ کے لیے کہنا خود غالب کی عظمت کو تسلیم کرنا ہے لیکن باہم تبادلہ خیالات کے نتیجے میں ،  سر سید جنہوں نے ایک عہد کو متاثر کیا ،  کا غالب پر کچھ نہ کچھ تو اثر ہوا ہو گا۔

غالب کی زندگی کے ان سرسری واقعات اور جزئیات کے مطالعہ کے بعد اگر ہم ان کی نثر میں انگریزی الفاظ دیکھتے ہیں تو کوئی زیادہ تعجب کی بات نہیں۔

چونکہ مرزا کثرت سے خط لکھتے تھے اور انگریزی ڈاک کے نظام کو پسند کرتے تھے  اور اسی کو خط کی ترسیل کا ذریعہ بناتے تھے اس لیے ان کے خطوط میں پارسل، رجسٹری، پیڈ(paid )، ڈاک ٹکٹ، پمفلٹ، پیکٹ، پوسٹ ماسٹر، اور سٹیمپ پیڈ وغیرہ جیسے الفاظ کثرت سے استعمال ہوئے ہیں۔

غالب کو چونکہ انگریز دفتروں کے چکر لگانے پڑے اس لیے انگریز افسروں اور ان کے عہدوں کے نام ان کے خطوط میں پائے جاتے ہیں۔مثلاً گورنر جنرل، ڈپٹی، لفٹیننٹ گورنر، ایجنٹ، کمشنر، کلکٹر، مجسٹریٹ، چیف سیکرٹری، اسسٹنٹ فنانشل کمشنر مختلف دفتر ی عہدے اور استرلنگ، کیپٹن الیگزینڈر، سانڈرس، میکلوڈ، ایجرٹن، آرنلڈ، رابرٹ، منٹگھمری، جارج فریڈرک اور میجر جان جاکوب وغیرہ ایسے عہدوں پر فائز افسران کے نام ہیں۔

جدید سہولتوں میں ریل، ہسپتال، بنک وغیرہ کا ذکر غالب کے خطوط میں ملتا ہے۔ اخباری یا چھاپہ خانہ کی اصطلاحات میں کاپی، نمبر اور گزٹ وغیرہ جیسے الفاظ بھی غالب کے خطوط میں پائے جاتے ہیں۔عدالتی اصطلاحات بھی کثرت سے موجود ہیں : مثلاً ڈگری، اپیل، سیشن جج، کورٹ، جیل، ریڈر، رپورٹ، کونسل، بورڈ، سرٹیفیکیٹ، کمیٹی، اگریمنٹ وغیرہ جبکہ انگریزی مہینوں کے نام بھی غالب کے مختلف خطوط میں موجود ہیں۔

اس مرحلے پر زبانوں کی آفرینش اور ارتقا کا تجزیہ بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ہر زبان دوسری زبان سے مستفید اور فیض یاب ہوتی ہے اور جب دوسری زبانوں سے فیض یابی کا یہ عمل رک جاتا ہے تو زبان آہستہ آہستہ ختم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ زبان جامد ہو کر کبھی زندہ نہیں رہ سکتی۔سنسکرت اور قدیم عرب کی زبانیں مثال کے لیے پیش کی جا سکتی ہیں۔اردو زبان اس کلیے سے مستثنیٰ نہیں۔

اردو زبان کو ہندو مسلم میل جول کا نتیجہ قرار دیا گیا۔ہمیں ان نظریات سے اس وقت کوئی بحث نہیں۔جب سکندر اعظم نے ۳۴۵ ق۔م۔ میں ہندوستان پر حملہ کیا تھا  اس وقت بھی برج بھاشا اور دوسری پراکرتیں ہندوستان میں رائج تھیں۔ہندوستان ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کی زد میں رہا۔ اس طرح اس میں مختلف اقوام سے تعلق رکھنے والے اور مختلف زبانیں بولنے والے افراد جمع ہوتے رہے۔خود انگریزوں کی آمد سے قبل یہاں فرانسیسی اور پرتگالی بھی ہندوستان میں تجارت کے ذریعے حاکم ہونے کے خواب دیکھ رہے تھے اور مختلف اقوام میں اس سلسلے میں باہم چپقلش پائی جاتی تھی۔اس طرح انگریزوں کی آمد سے قبل اردو میں بہت سی دوسری زبانوں کے الفاظ داخل ہو چکے تھے۔اتالیق، توزک، چق، قزاق کا تعلق ترکی زبان سے الماری اور پادری کا تعلق پرتگالی سے پستول اور تولیہ کا تعلق فرانسیسی زبان سے اور کلیسا اور کیموس کا تعلق یونانی زبان سے ہے۔تمام الفاظ اردو میں اس لیے شامل ہوئے کہ ان زبانوں کے بولنے والے افراد اور اقوام ہندوستان میں وارد ہوتی رہیں۔انگریزی الفاظ اردو زبان کا حصہ بنے۔انگریزی زبان کا نفوذ دراصل زبان سازی کے عمل کا حصہ تھا۔ہم نہ صرف اردو پر انگریزی کے اثرات تلاش کر سکتے ہیں بلکہ انگریزی پر مقامی زبانوں کے اثرات کا مطالعہ اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے۔ اس لیے سر سید ہوں یا غالب انگریزی زبان کے اثرات سے کوئی بھی محفوظ نہیں۔اگر آپ اس نقطہ نظر سے مطالعہ کرنے پر آئیں تو آپ کو رجب علی بیگ سرور کی پیچیدہ، معرب اور مفرس زبان میں بھی انگریزی الفاظ مل جائیں گے۔

اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ غالب کے عہد اور حالات کی روشنی میں ان انگریزی الفاظ کا غالب کے خطوط میں استعمال کسی تعجب کا باعث نہیں بلکہ ہمارے لیے مطالعہ کی ایک اور جہت ہے۔

٭٭٭                                                          (قومی زبان، فروری ۲۰۰۰)

 

 

 

غالب کی تعلیم

 

’’یادگار غالب ‘‘ کو مبالغہ کی حد تک غالبیات کے سلسلے کی وقیع کتاب کہا جاتا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ غالبیات کی عمارت کو ٹیڑھی بنیادوں پر اٹھانے کا کام سب سے پہلے حالی نے کیا۔غالب پر تحقیق کرنے والوں کے لیے شروع ہی سے ایک راستہ فراہم کر دیا گیا اور غالب کے خطوط کو بالعموم سب سے معتبر حوالہ بنا کر پیش کیا گیا۔ اس بنیاد پر غالب کے متعلق بہت سارا تحقیقی مواد جمع ہوا حالانکہ غالب کے خطوط میں بہت سی ایسی باتیں موجود ہیں جن کو جوں کا توں تسلیم کر لینا ممکن نہیں۔

غالب کے ایک خط کو بنیاد بنا کر حالی نے غالب کی تعلیم کے متعلق لکھا:

’’شیخ معظم جو اس زمانے میں آگرے کے نامی معلموں میں سے تھے، ان سے تعلیم پاتے رہے۔ ان کے بعد ایک شخص پارسی نژاد۔۔۔۔۔ مرزا نے اس سے فارسی زبان میں کسی قدر بصیرت پیدا کی۔ اگرچہ مرزا کی زبان سے کبھی کبھی یہ بھی سنا گیا ہے کہ مجھ کو مبدا ء فیاض کے سوا کسی سے تلمذ نہیں ‘‘(۱)

اس اقتباس کا ذرا غور سے مطالعہ فرمائیں تو حالی کا انداز محققانہ کی بجائے بڑا سرسری سا معلوم ہوتا ہے۔لیکن ہمارے محققین نے اسے بعینہ قبول کر لیا۔اور بعد میں ان معلومات کے گرد اپنے تخیل اور قدرت الفاظ کے جالے بننے کے سوا کوئی کام نہ کیا۔پنجاب یونیورسٹی نے تنقید غالب کے سو سال مکمل ہونے پر ایک کتاب شائع کی۔ غالب کی تعلیم کے سلسلے میں سو سالہ تنقید کا نچوڑ ملاحظہ فرمائیں۔منشی امیر احمد امیر مینائی کی انتخاب یادگار مطبوعہ ۱۸۷۹ میں مرزا کی تعلیم کے بارے میں مندرجہ ذیل معلومات بہم پہنچائی گئی ہیں۔

’’مرزا نوشہ وہیں (آگرے ) میں پیدا ہوئے۔اور تا سن شعور وہیں مشغول تحصیل کتب درسیہ عربی و فارسی رہے۔ ابتدا میں شیخ معظم نامی ایک معلم سے کچھ تعلیم پائی اور پھر ایک ایرانی آتش پرست سیاح سے جس کا نام زمانہ آتش پرستی میں ہرمزد اور بعد قبول اسلام عبدالصمد تھا تلمذ ہوا۔ دو برس وہ ان کے مکان پر مقیم رہا اور زبان فارسی سکھائی۔‘‘(۲)

مولانا محمد حسین آزاد کی کتاب ’’ آب حیات‘‘ ۱۸۸۰ میں ان معلومات کا خلاصہ ان لفظوں میں پیش کیا گیا۔

’’ علوم درسی کی تعلیم طالب علمانہ طور سے نہیں کی ‘‘(۳)

’’ مرزا کی عمر چودہ برس تھی۔ دو برس تک گھر میں رکھ کر اکتساب کمال کیا۔ اور اس روشن ضمیر کے فیضان صحبت کا انہیں فخر تھا ‘‘(۴)

اب ان تحریروں کا تجزیہ کریں تو مندرجہ ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں۔

۱۔ شیخ معظم آگرے کے نامی معلموں میں تھے۔اگر نامی معلم تھے تو ان کے متعلق معاصر علمی تذکروں، تاریخ کی کتابوں، اخبارات یا دیگر حوالوں سے معلومات جمع کی جا سکتی تھیں۔ مگر اس قسم کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ یہ نامی معلم کون تھے؟ کس درس گاہ سے وابستہ تھے؟ ان کا علمی مرتبہ کیا تھا؟ اور غالب نے ان سے کس قسم کی تعلیم حاصل کی ؟

۲۔ تعلیم پاتے رہے۔ کتنا عرصہ؟ ذکر موجود نہیں۔ ۱۴ برس کی عمر میں عبدالصمد سے تعلق پیدا ہوا۔ دو سال عبدالصمد سے فیض یاب ہوئے۔اس کا مطلب ہے کہ غالب سولہ سال تک تعلیم حاصل کرتے رہے۔یہ سلسلہ کب شروع ہوا ؟اس کا ذکر موجود نہیں۔

۳۔امیر مینائی کے بیان کے مطابق وہ کون سی کتب درسیہ عربی و فارسی تھیں جن کی تا سن شعور تحصیل کرتے رہے۔

۴۔حالی نے یہ لکھ دیا تھا کہ مرزا نجی گفتگو میں عبدالصمد کو ایک فرضی استاد بتایا کرتے تھے۔ اس کے باوجود ہمارے محققین نے اس فرضی استاد کے وجود کو دہرانے کا فریضہ سر انجام کیوں دیا؟ مرزا کی تعلیم کے سلسلے میں مذکورہ پیشتر خط کو بنیاد بنا کر ایسے ایسے عالی شان قصر تعمیر کیے گئے کہ بعض اوقات بڑی مضحکہ خیز صورت پیدا ہو جاتی ہے۔مثلاً حالی شیفتہ کی زبانی لکھتے ہیں :

’’میں شاہ ولی اللہ کا ایک فارسی رسالہ جو حقائق معارف کے نہایت دقیق مسائل پر مشتمل تھا مطالعہ کر رہا تھا۔ ایک مقام بالکل سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ اتفاقاً اسی وقت مرزا صاحب آ نکلے۔ میں نے وہ مقام مرزا کو دکھایا۔ انہوں نے کسی قدر غور کے بعد ایسی خوبی اور وضاحت کے ساتھ بیان کیا کہ شاہ ولی اللہ صاحب بھی شاید اس سے زیادہ بیان نہ کر سکتے۔‘‘(۵)

’’غالب اور فن تنقید‘‘ میں مرزا کی علمیت کا اعتراف اس طرح کیا گیا ہے :

’’غالب نے نہ صرف طب کی بہت سی کتابوں کا مطالعہ کیا تھا بلکہ انہیں بہت سے نسخے زبانی بھی یاد تھے۔اور ترکیب استعمال، پرہیز اور غذا کی مناسبت کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔مریض کو دیکھے بغیر عوارض کی تفصیلات کا علم ہو جانے کے بعد مرض کی تشخیص کر کے مناسب نسخہ تجویز کر سکتے تھے۔یہ اوصاف ایک طبیب حاذق ہی متصف ہو سکتے ہیں (ان اوصاف سے ایک طبیب حاذق ہی متصف ہو سکتا ہے)۔ یہ دیگر امر ہے کہ غالب نے اسے پیشہ بنایا نہ طبابت ہی اختیار کی۔(۶)

اب ہماری تحقیق کا انداز یہ رہا ہو تو

؎ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے؟

شیخ اکرام نے ’’ حیات غالب‘‘ میں غالب کی تعلیم کے بارے میں لکھا کہ مرزا کے عنفوان شباب کا بیشتر حصہ کھیل کود اور لہو و لعب میں صرف ہوا۔ لیکن ساتھ ہی حالی کی چھوڑی ہوئی لکیر کو پیٹنا شروع کر دیا بلکہ عبدالصمد کے بارے میں اپنے تخیل کے گھوڑے بھی میدان میں دوڑا دیے اور خیال ظاہر کیا کہ وہ شیعہ تھا۔اور اسی وجہ سے غالب خاندان کے مذہب کے خلاف شیعہ مذہب اختیار کر گئے۔تمام دلائل کے بعد نتیجہ یہی اخذ کیا۔

’’ اس تعلیم کو کسی طرح مکمل نہیں کہا جا سکتا۔ مرزا کی اگر ابتدائی درسی تعلیم مکمل ہوتی تو وہ ادب اور شعر کے غلط راستوں پر اتنی دیر نہ بھٹکتے۔‘‘(۷)

ڈاکٹر عبادت بریلوی نے حالی کی فراہم کردہ معلومات سے قاضی عبدالودود کے ’’ہرمزد ثم عبدالصمد‘‘  تک تمام خیالات کا تجزیہ کیا اور مالک رام کی جمع کردہ معلومات کو قرین قیاس قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ :

’’جن حالات میں ان کا بچپن گذرا ہے اس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ان کی تعلیم میں وہ باقاعدگی نہیں ہو گی جو عام حالات میں ایک ایسے بچے کو نصیب ہوتی ہے جس کے سر پرست یا والدین ایسے علوم سے دلچسپی نہیں لے سکتے البتہ اس بات پر سب متفق ہیں کہ انہوں نے ابتدائی زمانے میں فارسی زبان کی تعلیم کے لیے مولوی محمد معظم اور اس کے بعد ملا عبدالصمد کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ‘‘ (۸)

تاہم ڈاکٹر عبادت بریلوی نے اس سلسلے میں مزید تحقیق کو ضروری قرار دیا۔ ان کے خیال میں مرزا کی تحریروں سے اس بات کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ انہیں ادب کے معاملات و مسائل پر پوری قدرت حاصل تھی۔لیکن اس بات کا کوئی واضح ثبوت نہیں ملتا کہ غالب نے مختلف علوم کس طرح حاصل کیے۔

مرزا کے کلام اور خطوط سے یہ بات آسانی سے اخذ کی جا سکتی ہے کہ مرزا تصوف، طب، نجوم، تاریخ، لغت اور علم و ادب کے مسائل سے بخوبی آگاہ تھے۔اور ان علوم کا کافی مطالعہ بھی رکھتے تھے۔لیکن میرا خیال ہے کہ یہ مطالعہ درسی نہیں تھا۔’’تصورات غالب‘‘ کے پیش لفظ میں مالک رام نے لکھا تھا :

’’غالب وسیع المطالعہ شخص تھا۔ یہ مطالعہ کتابی بھی ہے اور فکری بھی‘‘(۹)

حالی نے بھی غالب کی مطالعہ کی عادت کے متعلق لکھا:

’’مطالعہ کے لیے باوجودیکہ ساری عمر تصنیف و تالیف میں گزری کبھی کوئی کتاب نہیں خریدی۔الا ماشا اللہ ایک شخص کا پیشہ یہی تھا کہ کتاب فروشوں کی دکان سے لوگوں کو کرائے کی کتابیں لا کر دیا کرتا تھا۔ مرزا صاحب بھی ہمیشہ اسی سے کرائے پر کتابیں منگواتے تھے اور مطالعہ کے بعد واپس کر دیتے تھے۔‘‘(۱۰)

مرزا کے کلام میں تصوف کے مسائل جگہ جگہ نظم ہوئے ہیں۔ردیف نون میں ان کی غزل ــ ’’کل کے لیے کر آج نہ خست شراب میں ‘‘ متداول دیوان میں گیارہ اشعار پر مشتمل ہے اور اس کے تقریباً تمام مضامین صوفیانہ مسائل پر مبنی ہیں۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی شاعری میں تصوف کے مضامین کو کس قدر دخل ہے۔ بقول غالب

؎یہ مسائل تصوف، یہ ترا بیان غالب

تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

حالی کے بیان کے مطابق

’’حقائق و معارف کی کتابیں اور رسالے کثرت سے ان کے مطالعے سے گذرے تھے۔‘‘ (۱۱)

غالب انوار الدولہ شفق کے نام ایک خط مرقومہ ۵ نومبر ۱۸۵۸ میں لکھتے ہیں :

’’آرائش مضامین شعر کے واسطے کچھ تصوف کچھ نجوم لگا رکھا ہے۔ ورنہ سوائے موزونی طبع کے اور یہاں کیا رکھا ہے۔ ‘‘(۱۲)

یہ بظاہر انکساری اور بباطن طنز ہے لیکن اس کے باوجود غالب نے تصوف کو برائے شعر گفتن خوب سمجھا۔لہٰذا اس کا مطالعہ انہوں نے خوب محنت سے کیا۔یہی نہیں بلکہ غالب کے تعلقات اپنے وقت کے نامور علما اور صوفیا سے تھے۔ان میں ایک نام مولانا فضل حق خیر آبادی کاہے۔شیخ اکرام لکھتے ہیں :

’’مولوی فضل حق غالب کے سب سے بڑے محب اور محسن تھے۔انہوں نے نہ صرف مرزا کی شعر و سخن کے میدان میں رہنمائی کی ، جوان کا اصل دائرہ تھا ، بلکہ رند منش غالب کو متانت اور استقامت کا راستہ بھی دکھایا  اور علم و فضل کی محبت میں استوار کیا بلکہ آگے چل کر ان کی مادی مشکلات دور کرنے کی کوشش بھی کی۔(۱۳)

اس سلسلے کی دوسری اہم شخصیت شاہ غوث علی قلندر ہیں۔’’تذکرہ غوثیہ‘‘ میں شاہ غوث علی صاحب نے مرزا سے اپنی ملاقاتوں کا حال لکھا ہے۔مرز ا صاحب ہر تیسرے دن ان سے ملنے زینت المساجد جایا کرتے تھے۔اور ’’تذکرہ غوثیہ ‘‘ کے مطابق جب ایک دن مرز ا نے فسانہ عجائب کی رجب علی بیگ سرور کے سامنے تضحیک کر دی ،  کیونکہ وہ اس وقت تک سرور کو نہیں جانتے تھے ،  تو بعد میں تلافی کے لیے شاہ غوث علی کو ساتھ لے کر سرور سے ملنے گئے۔اور ان کی تحریر کی مبالغہ آمیز تعریفیں کیں۔اس واقعے کے آخر میں مرزا کے مذہب کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے۔

’’مرزا کا مذہب تھا کہ دل آزاری بڑا گناہ ہے۔ اور در حقیقت یہ خیال بہت درست تھا۔‘‘ (۱۴)

جب مرزا کی وفات ہوئی شاہ غوث علی صاحب زندہ تھے۔ کسی نے آ کر خبر سنائی۔شاہ صاحب نے بڑا افسوس کیا۔ کئی حسرت بھر ے شعر پڑھے اور مرزا کی نسبت کہا :

’’نہایت خوب آدمی تھے، ۔ عجز و انکسار بہت تھا۔فقیر دوست بدرجہ غایت اور خلیق از حد تھے۔ رند مشرب، بے شر، رحم دل اور شاعری میں تو اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔‘‘(۱۵)

اس کے علاوہ شاہ نصیر الدین عرف کالے شاہ صاحب سے بھی تعلق خاطر تھا۔غلام رسول مہر نے ’’ خطوط غالب‘‘ کے حواشی میں لکھا:

’’شاہ نصیر الدین عرف کالے میاں بہادر شاہ کے پیر اور مولانا فخر الدین فخر عالم کے پوتے تھے۔ ان کا مکان گلی قاسم جان میں تھا جس میں غالب کئی برس مقیم رہے۔‘‘(۱۶)

’’حیات غالب‘‘ کے مصنف کے مطابق دربار میں مرزا کی باریابی انہی کی وساطت سے ہوئی(۱۷)۔قمار بازی کے سلسلے میں قید کے واقعے کے بعد مرزا انہی کے مکان پر آکر رہے۔ حالی نے ’’یادگار غالب‘‘ میں ایک لطیفہ نقل کیا ہے :

’’ایک روز میاں کے پا س بیٹھے تھے۔ کسی نے آ کر قید سے چھوٹنے کی مبارکباد دی۔ مرزا نے کہا : کون بھڑوا قید سے چھوٹا ہے؟ پہلے گورے کی قید میں تھا اب کالے کی قید میں ہوں ‘‘(۱۸)

تصوف میں ان کے پائے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب ۱۸۵۳ میں بہادر شاہ کی ایما پر مفتی میر لال نے صوفیانہ اشغال و افکار کا مجموعہ تیار کیا تو اس کے شروع میں مرزا نے دیباچہ لکھا کہ

’’اس میں جس خوبی اور متانت سے تصوف کے اعلیٰ خیالات ظاہر کیے ہیں ان کے لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ اردو زبان میں تصوف کے اعلیٰ خیالات نہ اس سے پہلے نہ اس کے بعد ایسی عمدہ نثر میں کسی نے لکھے۔‘‘(۱۹)

گذشتہ سطور کے مطالعے سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ تصوف مرزا کی درسی تعلیم کا حصہ نہیں بلکہ ان کے ذاتی مطالعے، فارسی سے ان کے لگاؤ،  مولانا فضل حق خیر آبادی، شاہ غوث علی قلندر اور شاہ نصیر الدین جیسے علما و صوفیا سے ان کے تعلق خاطر اور ایسے ہی کئی دیگر غیر درسی عوامل سے ان کے علم کا حصہ بنا۔اور وہ اس کو اپنی شاعری کے حسن کا اہم جزو سمجھتے تھے۔

طب کے متعلق غالب کے خطوط میں معلومات کثرت سے پائی جاتی ہیں۔یہاں تک کہ وہ اپنے دوستوں کو مختلف بیماریوں کے لیے نسخے بھی تجویز کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کے اشعار میں طب سے متعلق الفاظ کا استعمال بھی کثرت سے ہوا ہے۔ مثلاً عمر طبعی، نزع، نسخہ، درد، دوا، زخم، خون، چارہ سازی، دم، تپ، داغ، نبض، عرق، کیموس، بلغمی، صفرہ، مرہم، جوش، جوہر، قویٰ، عناصر، جراحت وغیرہ۔ان کے مندرجہ ذیل اشعار پر غور فرمائیے۔

؎ضعف سے گریہ مبدل بہ دم سر ہوا

باور آ یا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا

٭

؎اہلِ تدبیر کی واماندگیاں

آبلوں پر بھی حنا باندھتے ہیں

٭

؎نہ پوچھ نسخہ مرہمِِ جراحتِ دل

کہ اس میں ریزہ الماس جزوِ اعظم ہے

٭

؎کیوں نہ ہو چشمِ بتاں محو تغافل کیوں نہ ہو

یعنی اس بیمار کو نظارے سے پرہیز ہے

٭

ان اشعار کو پڑھ کر ایک عام قاری بھی قیاس کر سکتا ہے کہ ان اشعار کا خالق طب سے خاصا گہرا لگاؤ رکھتا ہے۔غالب کے خطوط میں طب کی کئی کتب کا ذکر موجود ہے۔علائی کو ایک خط مرقومہ ۷ مارچ ۱۸۶۲ء میں لکھتے ہیں :

’’ضیمراں بر وزن در گراں لغت عربی ہے۔نہ معرف۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ پھول ہندوستان میں ہوتا ہے یا نہیں۔ از روئے الفاظ الادویہ یہ ممکن ہے‘‘ (۲۰)

تفتہ کو ایک خط میں لکھتے ہیں :

’’واقعی صاب کا ذکر کتب طبی میں بھی ہے۔ اور عرفی کے ہاں بھی ہے۔ تمہارے ہاں اچھا نہیں بندھا تھا اس لیے کا ٹ دیا‘‘ (۲۱)

ایک خط میں کئی حکیموں کے نام اور ان سے تعلق کا ذکر کیا ہے :

’’نظری میں یکتا حکیم امام الدین خاں وہ ٹونک، عملی میں چالاک حکیم احسن اللہ خاں وہ کر ولی رہے۔حکیم محمود خاں وہ ہمسایہ دیوار بہ دیوار، حکیم نجف خاں وہ دوست قدیم صادق الولا۔ حکیم بقا کے خاندان میں دو صاحب موجود اور تیسرا حکیم منجھلے۔۔۔‘‘ (۲۲)

تفتہ کے نام ۵ دسمبر ۱۸۵۷  کے ایک خط میں لکھتے ہیں :

’’میں حکیم محمد حسن خاں مرحوم کے مکان میں نو دس برس سے کرایہ کو رہتا ہوں اور یہاں قریب کیا دیوار بہ دیوار گھر حکیموں کے‘‘ (۲۳)

اخلاق حسین عارف نے ’’ غالب اور فن تنقید ‘‘ میں لکھا ہے کہ

’’ڈاکٹر سید قاسم صاحب (پتھر گڑھی، حیدرآباد) کے کتب خانے کی ایک کتاب موسومہ بہ ’’ ذخیرہ دولت شاہی‘‘ پر غالب کی مہر ثبت ہے جواس بات کا ثبوت ہے کہ مذکورہ کتاب ضرور ان کے مطالعے میں رہی ہو گی۔مرزا تفتہ کو ایک مکتوب میں منشی نبی بخش حقیر کے لیے ایک نسخہ تجویز کرتے ہوئے ’’ طب محمد حسین خانی‘‘ کا حوالہ دیا ہے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس کتاب کو بھی انہوں نے بامعان مطالعہ کیا ہو گا۔ طب پر اس نوع کی معیاری کتب اغلب ہے کہ ان کے مطالعہ میں آئی ہوں گی۔‘‘ (۲۴)

لیکن کیا ہم ان شواہد کی بنا پر غالب کو طبیب حاذق کہہ سکتے ہیں ؟کیا طب کی تعلیم انہوں نے درسی طور پر حاصل کی ؟ یقیناً ایسا نہیں ہے۔میرا قیاس ہے کہ جس طرح ایک بیمار ان تمام دواؤں کے نام جانتا ہے جو اس کے زیر استعمال ہوں ،  ہر اس بیماری کا طریقہ علاج جانتا ہے جس سے اس کو واسطہ پڑ چکا ہو۔ بالکل یہی معاملہ غالبؔ کے ساتھ تھا۔ آج طب ایک پیچیدہ اور وسیع علم کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ ایک عام آدمی بھی سر درد، نزلہ، بخار، زکام، کھانسی، وغیرہ کے لیے آپ کو فوراً دوا تجویز کر سکتا ہے۔مرزا غالب کے زمانے میں طب کا علم کافی تھا۔ ہر پڑھا لکھا شخص اس کا تھوڑا بہت ضروری علم رکھتا تھا  اور پھر مرزا ایک عمر بیماریوں میں مبتلا رہے۔ان میں وہ جو نسخے استعمال کرتے رہے وہ یقیناً انہیں از بر ہوں گے۔وہ نسخے و ہ دیگر دوستوں کو بھی تجویز کر سکتے ہیں کہ وہ مجرب ہیں۔اور سب سے بڑھ کر مرزا شاعری کے علاوہ دیگر تمام علوم سے جو دلچسپی لے رہے ہیں  وہ دراصل شاعری کو کمال تک لے جانے کی سعی ہے۔یہی وجہ ہے کہ مندرجہ بالا سطور میں ہم نے دیکھا کہ ضیمران اور صاب کے لفظ شاعری میں استعمال ہو رہے ہیں اور مرزا ان کی نسبت خیال ظاہر کر رہے ہیں کہ کتب طبی یا علم الادویہ میں ان کی تفصیل تلاش کی جانی چاہیے۔

نجوم بھی غالب کی دلچسپی کا ایک بڑا مرکز ہے۔ وہ اپنے اشعار میں اکثر نجوم کی اصطلاحات سے کام لیتے ہیں۔

؎رفتارِ عمر قطعِ رہِ اضطراب ہے

اس سال کے حساب کو برق آفتاب ہے

٭

؎قاطعِ اعمار ہیں اکثر نجوم

وہ بلائے آسمانی اور ہے

٭

؎دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض

اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے

٭

ؔمئے عشرت کی خواہش ساقی گردوں سے کیا کیجیے

لیے بیٹھا ہے اک دو چار جام واژگوں وہ بھی

٭

لیکن مرزا نجوم کا بھی مضامین شعر ہی کے واسطے مطالعہ فرماتے ہیں۔یہ علم نہ انہوں نے باقاعدہ سیکھا ہے اور نہ اس میں ان کا کوئی استاد ہے۔نجوم کے بارے میں اپنے تمام تر کمال کا اظہار بھی شاعرانہ تعلی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ’’حیاتِ غالب ‘‘میں  ایک لطیفہ نقل کیا گیا ہے کہ

’’۔۔۔۔ انشا اللہ یہ تاریخ بھی غلط ثابت ہو گی۔اس پر مرزا کہنے لگے۔ دیکھو صاحب! تم ایسی فال منہ سے نہ نکالو۔ اگر یہ تاریخ غلط ثابت ہوئی تو میں سر پھوڑ کے مر جاؤں گا۔‘‘ (۲۴)

اسی تاریخ پر تبصرہ کرتے ہوئے غلام رسول مہر نے لکھا :

’’مختلف دوستوں کو لکھا کہ تھوڑی سی زندگانی اور ہے ۱۲۷۷ھ میں مر جاؤں گا۔ لیکن موت کسی شاعر کے قطعہ تاریخ کی پابند نہیں ہو سکتی۔ وہ نہ مرے۔‘‘ (۲۵)

جب احباب نے تاریخ غلط نکلنے پر مذاق اڑایا تو مجروح کے نام ایک خط مرقومہ جولائی ۱۸۶۱ میں لکھا:

’’۱۲۷۷ھ کی بات غلط نہ تھی۔ میں نے وبائے عام میں مرنا اپنے لائق نہ سمجھا۔ واقعی اس میں میری کسر شان تھی۔‘‘(۲۶)

مرزا کی نجوم سے واقفیت کا ایک اور لطیفہ دلچسپی سے خالی نہیں۔

’’انہوں نے ایک مثنوی نواب(رامپور) کی خدمت میں بھیجی جس میں ستاروں اور سیاروں کی روش بتا کر لکھا  تھا کہ میں نے نجوم کے حساب سے پتہ لگایا ہے کہ غسل صحت ایسی مبارک ساعت میں ہو رہا ہے کہ اس کے اثر سے آپ عرصہ دراز تک بیماریوں سے محفوظ رہیں گے۔لیکن علم نجوم کی بے اعتباری یا اس فن سے مرزا کی ناواقفیت ملاحظہ ہو کہ عرصہ دراز تک بیماریوں سے محفوظ رہنا تو درکنار نواب صاحب چند ہی ہفتوں بعد اور مرزا کی نثر پہنچنے کے ایک مہینے کے اندر راہگیر عالم بقا ہوئے‘‘ (۲۷)

لگتا یہی ہے نجوم سے انہیں جو کچھ بھی واقفیت تھی وہ یہ کہ اسے مضامین شعر میں استعمال کر سکیں۔

حالی نے بالکل ٹھیک لکھا ہے کہ فن تاریخ سے ان کو مطلق لگاؤ نہ تھا۔(۲۸) لیکن مرزا کے کلام میں جو تلمیحات استعمال ہوئی ہیں ان میں متعدد اسلامی تاریخ سے لی گئی ہیں۔مثلاً اورنگ سلیماں، اعجاز مسیحا، یوسف و یعقوب، زلیخا وغیرہ۔ حضرت یوسف ؑ  کے قصے سے ان کی گہری دلچسپی محسوس ہوتی ہے۔ نقش فریادی کی تشریح کرتے ہوئے قدیم ایران کی جس رسم کا انہوں نے ذکر کیا ہے لگتا ہے ایرانی تاریخ کا مطالعہ بھی کسی نہ کسی حد تک ضرور تھا۔ ’’حیات غالب‘‘ کے مصنف کے مطابق ان کی خواہش تھی کہ جس طرح فردوسی نے رستم کی لڑائیوں کی داستان لکھی ہے اسی طرح وہ ابتدائے اسلام کی جنگوں کو مثنوی کی صورت میں بیان کریں۔ لیکن انہیں یہ ارادہ پورا کرنے کا موقع نہ ملا۔ وہ حمد و نعت و منقبت اور ابتدائی ساقی نامے سے زیادہ نہ لکھ سکے۔ یہ مثنوی ’’ابر گہر بار‘‘ ہے۔ اس کے علاوہ ۴ جولائی ۱۸۵۰ کو مرزا نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کے خطاب اور خلعت سے سرفراز ہوئے۔ اور چھ سو روپے سالیانہ پر شاہان تیموری کی تاریخ نویسی پر مامور ہوئے۔ (۲۹) شاہان تیموری کی تاریخ دو حصوں میں منقسم تھی۔ شروع میں مرزا غالب نے امیر تیمور سے لے کر ہمایوں تک کے واقعات لکھے تھے  اور جنوری ۱۸۵۱ سے پہلے اس کو مکمل کر لیا۔(اس حصہ کتاب کے لیے غالب کو تاریخ کتب دیکھنا پڑیں۔چنانچہ’’ تزک تیموری‘‘ ، ’’ ظفر نامہ تیمور‘‘، ’’ مطلع السعدین‘‘،  ’’حبیب السیر‘‘ اور ’’ روضہ الصفا کے حوالے ان کی تحریروں میں ملتے ہیں )۔ اس کے بعد حکیم احسن اللہ خاں نے انہیں ابتدائے آفرینش سے امیر تیمور تک کے واقعات جمع کر کے دیے۔ جنہیں مرزا نے اپنے طرز میں لکھا مگر اس کا دوسرا حصہ (ماہ نیم ماہ) لکھنے کی نوبت نہیں آئی۔ (۳۰)

اس کے علاوہ سر سید نے آئین اکبر ی کی تدوین کی تو تقریظ غالب سے لکھوائی۔ اگرچہ بعض وجوہ کی بنا پر شامل اشاعت نہیں کی۔ تاہم مرزا کے خطوط سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ تاریخ کو انہوں نے ذریعہ معاش کے لیے اپنایا۔ مضامین شعر کے لیے اس کا مطالعہ کیا نہ دلچسپی کے ساتھ اسے درساً و غیر درساً پڑھا۔

حالی نے لکھا ہے کہ فن عروض میں بھی ان کو کافی دستگاہ معلوم ہوتی ہے۔(۳۱) لیکن صغیر النسا بیگم کی کتاب ’’ غزلیات غالب کا عروضی تجزیہ ‘‘ کے مطابق غالب کے کلام میں کل نو بحریں استعمال ہوئی ہیں۔ اور ان کے کلام کا بڑا حصہ دو تین بحروں پر ہی مشتمل ہے۔(۳۲) غالب کے معاصرین بالخصوص ذوق کے ساتھ ان کا اس معاملے میں موازنہ کیا جائے تو یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہاں بھی غالب تلمیذ الرحمن ہی ہیں  اور انہوں نے عروض کا مطالعہ بھی درساً نہیں کیا ہو گا۔

لغت نہ صرف غالب کی دلچسپی کا خاص پہلو ہے بلکہ اس سلسلے میں ان کے ہاں ایک زبردست قسم کا تفاخر بھی پایا جاتا ہے۔۔۔ وہ کسی لغت کو در خور اعتنا نہیں سمجھتے اور ہر زبان دان سے الجھتے ہیں۔عربی صرف و نحو غالب کے خط کے مطابق شرح مہ تامل تک انہوں نے  درساً پڑھی۔ یہ کتاب عربی کے عدم رواج کے باوجود آج بھی زیادہ سے زیادہ انٹر میڈیٹ یا بی۔ اے کے نصاب کا حصہ ہے۔ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ غالب کے زمانے میں یہ کتاب ابتدائی درجوں کو پڑھائی جاتی ہو گی۔

غالب کے خطوط میں بار بار اعتراف ملتا ہے کہ میرا علم لغات عربیہ پر محیط نہیں۔(۳۳) یا میں اس زبان کے لغات کا محقق نہیں ہوں۔ علما سے پوچھنے کا محتاج اور سند کا طلب گار رہتا ہوں۔(۳۴) عربی کے معاملے میں وہ شاگردوں سے بھی مات کھا جاتے ہیں۔مثلاً ’’ افسوس کو میں نے عربی جانا، عربی نہیں، اب مانا‘‘(۳۵) ’’جود لغت عربی ہے۔ بمعنی بخشش۔ جواد صیغہ ہے صفت مشبہ کا بے تشدید۔ ا س وزن پر صیغہ فاعل میری سماعت میں جو نہیں آیا تو میں اس کو خود نہ لکھوں گا مگر جبکہ نظیری شعر میں لایا اور وہ فارسی کا مالک اور عربی کا عالم تھا تو میں نے مانا۔‘‘(۳۶) دراعہ کو یہ نہ کہو کہ بے تشدید نہیں ہے۔ اصل لغت مشدد ہے۔ شعرا اس کو مختلف بھی باندھتے ہیں۔ سعد ی کے مصرعے سے اتنا مقصود حاصل ہو ا کہ دراعہ بے تشدید بھی جائز ہے۔‘‘(۳۷)

اگرچہ ان کی فارسی دانی کے بارے میں بھی سوالات تو قائم کیے جا سکتے ہیں لیکن فارسی لغت اور لغت کی نزاکتوں میں ان کا پایہ واقعی بہت بلند ہے۔حالی کے بقول

’’فارسی زبان اور فارسی الفاظ و محاورات کی تحقیق اور اہل زباں کے اسلوب بیاں پر مرزا کو اس قدر عبور تھا کہ خود اہل زباں میں بھی مستثنیٰ شعرا کو زبان پر اس قدر عبور ہو گا ‘‘ (۳۸)

لغات کی کتابیں وہ شوق سے پڑھتے ہیں۔علائی کو ایک خط میں لکھتے ہیں :

’’فرہنگ لغات دساتیر تمھارے پاس ہے۔چاہتا تھا کہ اوس کی نقل تم سے منگاؤں ‘‘(۳۹)

لغت کی مختلف کتابوں کے حوالے اور زبان کے مختلف مسائل مرزا کے خطوط میں بکھرے پڑے ہیں۔لغت کے باب میں وہ کسی لغت نگار کو کچھ نہیں سمجھتے۔قاطع برہان کا قضیہ بڑا ہنگامہ خیز ثابت ہوا اور مرزا کو اس سلسلے میں کافی سبکی بھی اٹھانا پڑی۔لغت کے باب میں یہ تفاخر تفصیلی مطالعہ کا تقاضا کرتا ہے مگر یہاں صرف اس قدر اشارہ کافی ہے کہ انہوں نے صاحب قاطع برہان کو ’’مردود‘‘، ’’کھتری‘‘، ’’الو کا پٹھا‘‘ اور علیہ اللعن کہا۔(۴۰)

غالب کی شاعری اور خطوط میں موجود مباحث کی بنا پر لغت پر غالب کی دسترس کا اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔تاہم بنظر غائر مطالعہ کریں تو ایسا مواد ضرور دستیاب ہو جاتا ہے کہ غالب لغت کے باب میں بھی ذاتی محنت و مطالعہ کے سبب اس مقام  پر پہنچے ہیں اور یہ تعلیم درسی نہیں۔’’غالب اور فن تنقید‘‘ میں غالب کے ایک خط کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔

’’فارسی میں مجھے مبدا فیاض سے وہ دستگاہ ملی ہے کہ اس زبان کے قواعد و ضوابط میرے ضمیر میں اس طرح جا گزیں ہیں جیسے فولاد میں جوہر ‘‘

یعنی دستگاہ مبدا فیا ض سے ملی ہے اکتسابی نہیں۔

گذشتہ سطور سے میں ایک ہی بات مسلسل واضح کر نے کی کوشش کر رہا ہوں کہ غالب کا علم درسی نہیں تھا اور شیخ معظم یا عبدالصمد کے ناموں سے ہم غالب کو کسی درسگاہ کا فارغ التحصیل ثابت نہیں کر سکتے۔یہاں بعض امور،  جو دلچسپی سے خالی نہیں ،  کا ذکر بھی ہمارے مطالعے کی تقویت کا باعث  ہو گا۔

اگر مرزا سولہ سال تک تعلیم حاصل کرتے رہے تو کسی نہ کسی کو ان کی ہم مکتبی کا شرف بھی حاصل ہوتا۔لیکن احباب کی اتنی کثرت کے باوجود کوئی ایک دوست بھی ایسا نہیں جسے انہیں ہم مکتب ہونے کا دعویٰ ہو۔

خطوط کی اتنی بڑی تعداد میں کوئی خط ایسا نہیں جو ان کے کسی ہم مکتب دوست کے نام ہو مکتب کا لفظ بھی مرزا کے کلام میں اتنا کم استعمال ہوا ہے کہ انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔اور ایسے اشعار کا مطالعہ بھی نتیجہ خیز ہے۔مثلاً

لیتا ہوں مکتبِ غم دل میں سبق ہنوز

لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا

(یعنی ابتدائی تعلیم سے آگے نہیں بڑھے )

٭

اہلِ بینش کو ہے طوفانِ حوادث مکتب

لطمہ موج کم از سیلی استاد نہیں

(مرزا نے جو سیکھا حوادث سے سیکھا)

٭

اور حقیقت یہی ہے کہ مرز ا کا علم ان کی ذاتی کاوش، خداداد ذہانت، مشاہدے اور تجربے کی پیداوار ہے۔اور جیسا کہ ایلیٹ نے لکھا ہے کہ ’’ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو علم کو جذب کر سکتے ہیں۔ سست ذہن لوگوں کو اس کے لیے خون پسینہ ایک کرنا پڑتا ہے۔ شیکسپیئر نے تاریخ کی اتنی معلومات صرف پلوٹارک کے مطالعے سے حاصل کر لی تھیں جتنی بہت سے لوگ سارے برٹش میوزیم کو پڑھ کر بھی حاصل نہیں کر سکیں گے۔‘‘(۴۰)

میرے خیال میں غالب بھی ایک ایسے ہی نابغہ روزگار شخص تھے جنہوں نے اپنے ذاتی مطالعے اور حالات و واقعات سے اتنا کچھ سیکھ لیا کہ آج ہم بہت ساری ڈگریاں ہاتھ میں لے کر بھی اسے تولنے اور پرکھنے سے عاری نظر آتے ہیں۔

 

حوالہ جات

 

۱۔الطاف حسین حالی، یادگار غالب، لاہور، کشمیر بک ڈپو، س ن، ص۲۱

۲۔تنقید غالب کے سو سال، ص۱۱

۳۔ایضاً، ص۱۷

۴۔ایضاً، ص۱۸

۵۔یادگار غالب، ص۷۱

۶۔اخلاق حسین عارف، غالب اور فن تنقید، نئی دہلی، غالب اکیڈمی، ۱۹۷۷، ص۲۹۸

۷۔شیخ محمد اکرام، حیات غالب، لاہور، ادارہ ثقافت اسلامیہ، ۱۹۸۴، ص۲۴

۸۔عبادت بریلوی ڈاکٹر، غالب اور مطالعہ غالب، لاہور، ادارہ ادب و تنقید، دوسرا ایڈیشن۱۹۹۴، ص۵، ۶

۹۔محمد عزیز حسن علیگ، تصورات غالب، نئی دہلی، غالب اکیڈمی، جون ۱۹۸۸، ص۲۵

۱۰۔یادگار غالب، ص۶۴

۱۱۔غلام رسول مہر(م)، خطوط غالب، لاہور، شیخ غلام علی اینڈ سنز، بار پنجم ۱۹۸۴، ص۳۰۲

۱۲۔حیات غالب، ص۵۲

۱۳۔تذکرہ غوثیہ، ص۱۰۸

۱۴۔یادگار غالب، ص۳۷

۱۵۔حیات غالب، ص۱۴۴

۱۶۔یادگار غالب

۱۷۔خطوط غالب، ص۶۵

۱۸۔خطوط غالب، ص۱۷۳

۱۹۔تنقید اور فن تنقید، ص۲۹۷

۲۰۔حیات غالب، ص۲۴۱

۲۱۔خطوط غالب، ص۲۸

۲۲۔خطوط غالب

۲۳۔حیات غالب، ص۱۹۴

۲۴۔یادگار غالب، ص۶۴

۲۵۔حیات غالب، ص۱۱۷

۲۶۔ایضاً، ص۱۳۴

۲۷۔ایضاً، ص۱۳۸

۲۸۔یادگار غالب، ص۶۳

۲۹۔صغیر النسا بیگم، غزلیات غالب کا عروضی تجزیہ، دہلی، مکتبہ جامعہ، ۱۹۸۴، ص۲۹

۳۰۔خطوط غالب، ص ۴۵۰

۳۱۔غالب اور فن تنقید، ص۴۴

۳۲۔خطوط غالب، ص۸۱

۳۳۔ایضاً، ص۱۶۳

۳۴۔ایضاً، ص۱۶۸

۳۵۔یادگار غالب، ص۶۳

۳۶۔خطوط غالب، ص۳۶۱

۳۷۔غالب شکن یگانہ، ص ۳۰

۳۸۔ایضاً، ص۳۱

۳۹۔غالب اور فن تنقید، ص۴۴

۴۰۔ ارسطو سے ایلیٹ تک، ص۵۰۷

٭٭٭                                              (قومی زبان شمارہ فروری ۲۰۰۴)

 

 

 

غالب کا تصورِ عشق

 

اردو شاعری اور بالخصوص اردو غزل کا مرکزی موضوع ہمیشہ واردات قلبی کا بیان اور حسن و عشق کے تجربات کا اظہار رہا ہے۔ جہاں عشق ذاتی تجربہ ہے وہاں تاثیر غزل کا لازمی جزو بن گئی ہے لیکن جہاں عشقیہ اشعار روایتی طور پر در آئے ہیں وہاں مشاہدے کی گہرائی اور فن کی پختگی ایسے عناصر ہیں جن کی عدم موجودگی میں غزل کا پیکر بالکل بے جان اور حسن و دلکشی سے عاری نظر آئے گا۔

عشق ہر شخص کا ذاتی تجربہ ہو نہ ہو مگر ہر ذہن میں عشق کا ایک دھندلا یا واضح تصور ضرور موجود ہوتا ہے۔فنون لطیفہ سے متعلق ہر شخص عام آدمی کے بر عکس اس کے اظہار پر بھی قادر ہوتا ہے۔غالب ایک ایسے ہی فنکار ہیں جن کی شاعری میں انسانی جذبات و احساسات اور مختلف حالات میں نفسیاتی رد عمل کا جمالیاتی اظہار پوری فنکارانہ آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔

عشق غزل کا سب سے بڑا موضوع ہے۔غالب کے غزل میں عشق کا تصور کیا ہے ؟ اس سوال کے جواب کے لیے جب ہم غالب کے دیوان کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں تیسری غزل کے دوسرے شعر ہی میں غالب یوں نغمہ سر ا ملتے ہیں :

عشق  سے  طبیعت  نے  زیست  کا  مزا   پایا

درد   کی   دوا    پائی      درد    لا  دوا    پایا

اور پھر جوں جوں آپ ورق پلٹتے جائیں، آپ دیکھیں گے کہ غالب کے نزدیک تو بے عشق عمر کٹ ہی نہیں سکتی۔ وہ اسی عشق خانہ ویراں ساز کو رونق ہستی قرار دیتے ہیں۔وہ عشق کے آلام سے گھبرا کر سو بار بند عشق سے آزاد ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔مگر کہاں ؟ اندوہ عشق کی کشمکش تو جا ہی نہیں سکتی۔ دنیا انہیں کافر قرار دیتی ہے مگر وہ اک بت کافر کا پوجنا نہیں چھوڑتے۔ غالب جب عشق کو انسانی زندگی کے لیے اتنا ضروری قرار دیتے ہیں تو سوال ابھرتا ہے کہ کیا عشق کوئی شعوری کوشش ہے ؟ میر کے والد میر کو عشق اختیار کرنے کی ہدایت فرماتے۔تو کیا عشق کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے ؟ان تمام سوالات کے جوابات غالب کی غزل میں موجود ہیں۔

غالب کی غزل میں عشق کی سطح بالکل زمینی اور انسانی ہے، مثالی یا ماورائی نہیں۔ان کے نزدیک عشق ایک ایسی آگ ہے جسے اگر ہم لگانا چاہیں تو لگا نہیں سکتے اور اگر بجھانا چاہیں تو ہمارے اختیار میں نہیں۔عشق ایک ایسی کیفیت ہے جس میں خیال کی تمام رعنائیوں کا مرکز و محور صرف ایک شخص ہوتا ہے۔عشق زندگی کے تمام پہلوؤں پر غالب نہیں بلکہ حیات انسانی کا ایک جزو ہے۔یہ زندگی کے دوسرے پہلوؤں کو بھی متاثر کرتا ہے اور ان سے اثر قبول بھی کرتا ہے۔اس لیے مختلف حالات میں محبوب کے ساتھ غالب کا تعلق اور محبوب کے رویوں پر ان کا رد عمل مختلف ہوتا ہے۔ کبھی وہ اپنے محبوب کو اپنی گردن پر مشق ناز کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور دو عالم کا خون اپنی گردن پر لینے کو تیار ہو جاتے ہیں۔کبھی یہ کہہ کر جان صاف بچا لے جاتے ہیں کہ میں زہر کھا تو لوں مگر ملتا ہی نہیں۔کبھی وہ صرف اس بات پر خوش ہو جاتے ہیں کہ وہ پری پیکر ان سے کھلا اور کبھی محبوب کے عمر بھر کے پیمان وفا باندھنے پر بھی راضی نہیں ہوتے کہ عمر بذات خود نا پائیدار ہے۔کبھی وہ محبوب کی بے نیازی کے باوجود ترک وفا پر آمادہ نہیں بلکہ تسلیم کی خو اپنا لیتے ہیں اور کبھی

؎دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں

خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہوں میں

رویوں میں تضاد کی وجہ شاید یہی ہے کہ عشق ساری زندگی نہیں اور زمانے میں محبت کے سوا اور بھی غم ہیں اور یہ آلام عشق کے جذباتی نظام کو بھی متاثر کرتے ہیں۔

تری وفا سے ہو کیا تسلی کہ دہر میں

تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے

غالب اور ان کے محبوب کے تعلقات میں ایک بات اہم ہے کہ غالب کا محبوب جور و جفا کا پیکر ہی نہیں بلکہ نوازش ہائے بے جا بھی فرماتا ہے۔اگر وہ غالب پر مہربان نہیں تو نامہربان بھی نہیں۔ ضد کی بات اور ہے مگر و ہ سینکڑوں وعدے بھی وفا کر چکا ہے۔غالب ہی اس کے لیے تباہ حال نہیں اس کے چہر ے کا رنگ بھی غالب کو دیکھ کر کھل اٹھتا ہے۔وہ غالب کو اپنی زندگی کہہ کر پکارتا ہے اور غالب کے گھر بھی آتا ہے۔غالب کا محبوب ان کی طرح ہنگامہ آرا ہے۔رسوائی کی نعمت صرف عاشق کی سعی سے حاصل نہیں ہوتی :

؎ہے وصل، ہجر عالمِ تسکین و ضبط میں

معشوق شوخ و عاشق دیوانہ چاہیے

غالب کے اشعار میں عشق کا نظام یک طرفہ نہیں۔ خود سپردگی کا وہ عالم نہیں کہ ہر طرح کے جور و جفا کے باوجود شیوہ تسلیم و رضا ہو بلکہ غالب کے ہاں ایک انا اور خود داری ہے۔ اگر محبوب بزم میں بلانے کا تکلف گوارا نہیں کرتا تو سر راہ ملنے پر وہ بھی تیار نہیں۔ اگر محبوب اپنی خو نہیں چھوڑتا تو وہ اپنی وضع بدلنے پر راضی نہیں۔ وہ محبوب سے سرگرانی کا سبب تک نہیں پوچھتے کہ اس میں سبک سری ہے یہاں تک کہ در کعبہ بھی اگر وا نہ ہو تو الٹے پھر آتے ہیں :

؎بندگی میں بھی وہ آزادہ و خود بیں ہیں کہ ہم

الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا

غالب کی وفا جہاں شخصی خصوصیت ہے  وہاں ا س بات کا ثبوت بھی کہ غالب کا محبوب غالب سے محبت رکھتا ہے۔ وہ عشق میں خود سپردگی کی بجائے برابری کے خواہش مند ہیں۔وہ جب محبوب مہربان ہو کے بلائے تو ضرور آتے ہیں کیونکہ وہ گیا وقت نہیں کہ پھر آ بھی نہ سکیں۔اور پھر کل تک اُس کا دل مہر و وفا کا باب بھی تھا۔

برابری کی سطح سے مراد ہر گز یہ نہیں کہ جذبہ عشق کی بنیاد کاروباری ذہنیت ہے اور وہ کچھ دے اور کچھ  لے پر قائم ہے بلکہ غالب با وفا عاشق ہیں۔ وہ خانہ زاد زلف ہیں اس لیے زنجیروں سے گھبراتے نہیں۔ محبوب کو وہ ایمان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔وہ محبوب کے راز کو رسو ا نہیں کرتے۔وہ محبوب سے تعلق توڑنا نہیں چاہتے۔خواہ عداوت ہی کیوں نہ ہو تعلق قائم رہنا چاہیے۔ بلکہ وفا میں استواری ان کے نزدیک ایمان کی اصل ہے۔

؎وفا داری بشرطِ استواری اصل ایماں ہے

مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو

ان کے نزدیک عشق اور وفا صرف سر پھوڑنا ہی نہیں اور سر ہی پھوڑنا ہو تو پھر کسی سنگ دل کا سنگ آستاں ہی کیوں ہو۔غالب ہلاک حسرت پابوس ہونے کے باوجود سوتے میں محبوب کے پاؤں کا بوسہ نہیں لیتے کہ ایسی باتوں سے اس کے بدگماں ہو جانے کا خدشہ ہے۔

کہیں کہیں ایسا لگتا ہے کہ غالب کا عشق ہوس کا درجہ اختیار کر رہا ہے اور جب عرض و نیاز سے وہ راہ پر نہیں آتا تو وہ ا س کے دامن کو حریفانہ کھینچنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔کبھی کبھی وہ پیش دستی بھی کر دیتے ہیں۔جواباً محبوب بھی دھول دھپا کرنے لگتا ہے۔ لگتا ہے کہ غالب کے ہاں ایسا صرف اس وقت ہوتا ہے جب محبوب اس گستاخی اور بے باکی کی اجازت دے دے۔ اور جب یہ اجازت حاصل ہو تو :

 

؎جب کرم رخصتِ بے باکی و گستاخی دے

کوئی تقصیر بجز خجلتِ تقصیر نہیں

غالب کی غزل میں عشق کی مثلث کے تیسرے زاویے یعنی رقیب کے متعلق اشعار کا مطالعہ بڑا دلچسپ ہے۔ غالب کے ہاں رقیب کے روایتی کردار کے خدوخال کچھ بہت مختلف نہیں مگر رقیبوں کے بارے میں غالب کا رویہ بڑا نرم اور لچک دار ہے۔ برا بھلا کہنے اور اسے کوسنے کی بجائے وہ اسے بھی اپنی ہی طرح کا ایک انسان سمجھتے ہیں۔جس کے سینے میں دھڑکتا ہوا دل ہے۔ اس میں مومن و کافر اور نیک و بد کی تمیز نہیں۔نامہ بر رقیب ہو گیا تو اسے برا بھلا کہنے کی بجائے فرمایا

؎تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم

میرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے

یعنی اسے سلام بھجوا رہے ہیں۔ اس کے لیے اس نرمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آخر وہ ہمارا نامہ بر رہا ہے۔

؎دیا ہے دل اگر اس کو، بشر ہے کیا کہیے؟

ہوا رقیب تو ہو، نامہ بر ہے کیا کہیے؟

بلکہ رقیبوں سے دوستی گانٹھ لیتے ہیں۔اور محبوب کی شکایت میں اسے اپنا ہم زبان بنا لیتے ہیں۔اس طرح دونوں دل کا پھپھولے بھی پھوڑ لیتے ہیں اور محبوب سے شکایت کی گنجائش بھی باقی نہیں رہتی۔

؎تا کرے نہ غمازی، کر لیا ہے دشمن کو

دوست کی شکایت میں، ہم نے ہم زباں اپنا

البتہ محبوب کو اپنی طرف مائل کرنے کے عمل میں وہ رقیبوں کے مقابلے میں سر گرم نظر آتے ہیں۔انہیں بوالہوس کہتے ہیں اور اپنے آپ کو اہل نظر۔

؎ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی

اب آبروئے شیوہ اہل نظر گئی

عاشق صادق اور بوالہوس میں کیا فرق ہے ؟ محبوب پر واضح کرتے ہیں

فروغِ شعلہ خس یک نفس ہے

ہوس کو پاسِ ناموسِ وفا کیا؟

محبوب مہربان ہو تو رقیب بھی گلہ کرتا ہے اور جب محبوب انہیں بتاتا ہے کہ فلاں نے یہ کہا تو محبوب کو مائل بہ کرم رکھنے کے لیے قاطع دلیل دیتے ہیں :

؎کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں

ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں

بہرحال رقیب سے وہ اس قدر موافقت پر تیار ہیں کہ محبوب کا اپنا معاملہ ہے

؎تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو

ہم کو پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو؟

موافقت کی یہ سطح مومن کے ہاں اتنی بڑھ گئی ہے کہ عشق بازاری نظر آتا ہے

؎لے شب وصلِ غیر بھی کاٹی

تو ہمیں آزمائے گا کب تک؟

غالب کا عشق بازاری نہیں۔ وہ تو عشرت گہ خسرو کی مزدوری کے جرم کی پاداش میں فرہاد کی عشق میں نکو نامی تسلیم ہی نہیں کرتے اور اپنی شاعری میں اس کے لیے جگہ جگہ طنز و استہزا سے کام لیتے ہیں۔

ایک چیز جو غالب کے ہاں غم عشق کے ساتھ ساتھ چلتی ہے وہ غم روزگار ہے۔وہ غم دنیا کو غم یار میں شامل نہیں کرتے۔ غم ان کا نصیب ہیں اور غم عشق گر نہ ہوتا، غم روزگار ہوتا۔ محبوب کے خیال سے غافل نہیں مگر رہین ستم ہائے روزگار ضرور ہیں۔ان غم و آلام کی تلافی محبوب کی وفا سے نہیں ہوتی۔اور غم زمانہ نشاط عشق کی ساری مستی جھاڑ دیتا ہے۔

غالب غم زمانہ کو غم عشق کے سامنے لا کھڑا کرنے والا پہلا شخص ہے۔بعد میں اس رجحان نے بڑی قوت حاصل کی۔ عشق بہت کچھ ہے مگر سب کچھ نہیں۔اس لیے غالب کا عشق زمینی اور انسانی ہے مثالی اور ماورائی نہیں۔

عشق کا ایک تقاضا حوصلہ و استقامت بھی ہے۔غالب نہ صرف حوصلہ مندی اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ ان کے ہاں ایک طرح کی اذیت پسندی تک کا رجحان ملتا ہے۔محبوب تن عاشق کو مجروح کر کے جانے لگتا ہے تو ان کا دل زخم اور اعضا نمک کا تقاضا کرتے ہیں۔تمنا بے تاب ہے مگر جانتے ہیں کہ عاشقی صبر طلب ہے۔سوز غم چھپانے کی حکمت مشکل ہے۔ انہوں نے دل دیا تو نوا سنج فغاں نہیں ہوئے۔واقعہ سخت ہے اور جان بھی عزیز مگر

؎تاب لائے ہی بنے گی غالبؔ

وہ تیغ و کفن باندھے محبوب کے پاس جاتے ہیں کہ قتل کرنے میں عذر باقی نہ رہے۔ بیداد عشق سے نہیں ڈرتے ہاں کبھی کبھی سیاست درباں سے ڈر جاتے ہیں۔وہ محبوب کو بار بار دعوت قتل دیتے ہیں۔غرض عشق کے ہر امتحان میں ثابت قدم ہیں۔

غالب عشق میں جان دینے کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر ان اشعار میں ان کی ظرافت بھی اپنا رنگ دکھاتی ہے اور اپنی جان صاف بچا لے جانے کا بندوبست بھی کر لیتے ہیں :

؎میں اور حظ وصل خدا ساز بات ہے

جاں نذر دینی بھول گیا اضطراب میں

٭

؎رازِ معشوق نہ رسوا ہو جائے

ورنہ مر جانے میں کچھ بھید نہیں

٭

؎زہر ملتا ہی نہیں مجھ کو ستم گر ورنہ

کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں

مندرجہ بالا تینوں اشعار میں عشق میں پا مردی پر بھی حرف نہیں آنے دیتے اور جان صاف بچا لے جاتے ہیں۔

غالب کبھی اپنے آپ پر ہنستے ہیں کہ صورت دیکھو جو خوب رویوں پر مر رہے ہو اور کبھی حاصل عشق جز شکست آرزو ہونے پر تاسف کا اظہار بھی کرتے ہیں۔تاہم وہ عشق کی اہمیت و ضرورت سے آگاہ ہیں۔ہر شخص کی طرح ان کی بھی خواہش ہے :

؎قہر ہو یا بلا ہو جو کچھ ہو

کاش کہ تم مرے لیے ہوتے

غالب کا عشق ماورائی نہیں زمینی ہے۔ لہٰذا ان کا عشق بھی اسی مرکزی نقطے کے گرد طواف کرتا ہے۔ان کے عشق کا تانا بانا خواہشات کی انہی تاروں سے تیار ہوتا ہے۔غالب کے عشقیہ اشعار پڑھتے ہوئے نہ تو ہمار ا دل گھٹن سے تنگ ہوتا ہے اور نہ مومن و داغ کے عشقیہ اشعار کے مطالعے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نا ہنجار مسرت سے دوچار ہوتا ہے۔ بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک ہم جیسا انسان ہمارے جیسے جذبات ہی کا اظہار کر رہا ہے اور در اصل یہی غالب کی زندہ و محرک قوت ہے جو اسے ہر دور میں زندہ و پائندہ رکھے گی۔

٭٭٭                           (قومی زبان، اکتوبر۲۰۰۰)

 

 

 

 

غالب اور موسیقی

 

بیسویں صدی میں نقد غالب محبوب ترین موضوع رہا۔ اس موضوع کی جہات اتنی کثیر اور دلکش ہیں کہ بجا طور پر توقع کی جا سکتی ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی توجہ کا مرکز یہی موضوع رہے گا۔

غالب کی اسی مقبولیت کے سبب اس کی غزلیں اکثر غزل سراؤں نے گائیں۔ اس کی حیات پر فلمیں بنیں، ڈرامے بنے۔فلموں میں غالب کا کلام بطور نغمہ استعمال ہوا۔دراصل غالب کے کلام میں کمال موسیقیت ہے۔ اس میدان میں میر اور اقبال کے سوا ان کا کوئی ہمسر نہیں۔

غالب اپنی ایک غزل میں اپنے کلام کو خود نغمہ کہتے ہیں۔

؎ہم نشیں مت کہہ کہ برہم کر نہ بزم عیش دوست

واں تو میرے نالے کو بھی اعتبارِ نغمہ ہے (۱)

اپنے خطوط میں انہوں نے اپنے کلام کو زمزمہ کہا۔ میر مہدی مجروح کے نام ۱۷ جنوری۱۸۶۵ کے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ ’’پیش ازیں اپنا یہ شعر پڑھا کرتا تھا۔

؎بس ہجوم نا امیدی خاک میں مل جائے گی

یہ جو اک لذت ہماری سعی بے حاصل میں ہے

اب اس زمزمے کا بھی محل نہ رہا۔‘‘(۲)

غالب کا کلام اگر واقعی نالے ہیں تو کون ہے جو ان پر اعتبار نغمہ نہ کرے ؟ غالب کے کلام میں موسیقیت کے اجزا کے تجزیہ اس وقت موضوع سے خارج ہے۔دیکھنا صرف یہ ہے کہ غالب کی موسیقی کے ساتھ عملی دلچسپی کس حد تک تھی۔اور ان کے کلام میں موسیقیت میں ان کی شعوری کاوش کس حد تک موجود ہے۔

ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ غالب کے ایک نوکر کا نام کلیان تھا جو بڑا مشہور راگ ہے۔ حالانکہ غالب کی نغمہ خوانی سے بظاہر اس کا کوئی تعلق نہیں۔

غالب خاندانی رئیس تھے اور قرض کی مے پی کر بھی اپنی وضع داری نبھائے چلے جا رہے تھے۔وہ ایک طرف گورنمنٹ کی بھٹئی کرتے تھے تو دوسری طرف گھر میں بیسیوں ملازم تھے۔ اہل نشاط سے اختلاط بھی رئیسوں کی زندگی کا حصہ رہا ہے۔۔لیکن ان کے گھر میں کوئی طوائف یا رکھیل نہیں تھی۔ممکن ہے غالب رقص و موسیقی سے لطف اندوز ہونے کے لیے ان کے ہاں  بھی جاتے ہوں۔حاتم علی بیگ کے نام ایک خط مرقومہ اپریل ۱۸۵۹ سے پتہ چلتا ہے کہ کسی مغل جان  کے ساتھ ان کے پہروں اختلاط ہوا کرتے تھے۔(۳)

اپنے ایک آخری عمر کے ’’ سیاح ‘‘ کے نام خط میں لکھتے ہیں۔

’’ نواب صاحب کو ہنسی میں ایک بات لکھی تھی۔دوستانہ اختلاط تھا۔بھئی میں بڑا ہو گیا ہوں، گانا کیا سنوں گا،  بوڑھا ہو گیا ہوں ناچ کیا دیکھوں گا۔‘‘مرقومہ ۵ دسمبر۱۸۶۶ (۴)

مزید اعتبار کے لیے حاتم علی بیگ مہر کے نام خط کا مطالعہ کیجیے۔

’’مغلچے بھی غضب کے ہوتے ہیں۔ جس پر مرتے ہیں اسی کو مار رکھتے ہیں۔میں بھی مغلچہ ہوں۔عمر بھر ایک ستم پیشہ ڈومنی کو میں نے مار رکھا ہے۔چالیس برس کا یہ واقعہ ہے۔ باآنکہ یہ کوچہ چھٹ گیا۔اس فن سے بیگانہ محض ہو گیا ہوں۔لیکن اب بھی کبھی کبھی وہ ادائیں یاد آتی ہیں۔اس کا مرنا زندگی بھر نہ بھولوں گا۔‘‘(۵)

اکثر نقادوں کے نزدیک غالب کی مشہور غزل ’’ درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے‘‘ اسی ستم پیشہ ڈومنی کا مرثیہ ہے۔

غالب اپنے خطوط میں خود اپنا کلام مطرب کو سکھانے کی ہدایت کرتے ہوئے بھی ملتے ہیں۔اور مطربوں کے لیے خاص شاعری کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔نواب امین الدین کو ۲۶ مئی ۱۸۶۵ کے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں

’’ تمہاری تفنن طبع کے واسطے ایک غزل نئی لکھ بھیجی ہے۔خدا کرے کہ پسند آ جائے اور مطرب کو سکھائی جائے ‘‘(۶)

غالب کے کلام کو موسیقیت کی بنا پر بڑی آسانی کے ساتھ نغمے کے طور پر استعمال کی جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ غالب کا کلام ان کے زندگی میں گاتے پھرتے تھے۔دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اس عمل میں غالب کے شعروں کا حلیہ بھی خراب ہوا اور وہ تحریف کے عمل سے بھی گزرے اور اس امر کی شکایت بھی ان کے خطوں میں ملتی ہے۔علائی کے نام اپنے ۲۸ جولائی ۱۸۶۲ کے خط میں رقم طراز ہیں۔

’’پچاس برس کی بات ہے کہ الہی بخش خاں مرحوم نے ایک نئی زمین نکالی۔ میں نے حسب الحکم ایک غزل لکھ بھیجی۔بیت الغزل یہ

؎پلا دے اوک سے ساتھی جو ہم سے نفرت ہے

پیالہ گر نہیں دیتا نہ دے شراب تو دے

مقطع یہ ہے۔

؎اسد خوشی سے مرے ہاتھ پانو پھول گئے

کہا جو ا س نے ذ را میر ے پانو داب تو دے

اب میں دیکھتا ہوں مطلع اور چار شعر لکھ کر اس مقطع اور بیت الغزل کو شامل ان اشعار کے کر کے غزل بنائی ہے اور لوگ گاتے پھرتے ہیں۔مقطع اور ایک شعر میرا۔ پانچ شعر کسی الو کے۔جب شاعر کی زندگی میں گانے والے شاعر کے کلام کو مسخ کر دیں تو کیا۔۔۔‘‘(۷)

غالب سمجھتے تھے کہ جو غزل گائی جائے وہ زیادہ طویل نہیں ہونی چاہیے۔علائی کے نام خط مرقومہ جون ۱۸۶۱ میں لکھتے ہیں۔

’’گانے میں غزل کے سات شعر کافی ہوتے ہیں۔دو فارسی غزلیں اور دو اردو غزلیں اپنے حافظے کی تحویل میں بھیجتا ہوں۔‘‘(۸)

غالب نے گانے کے لیے جو دو اردو غزلیں بھیجی ہیں ان کے مطلعے یہ ہیں۔

؎ہے بسکہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور

کرتے ہیں محبت تو گزرتا ہے گماں اور

٭

؎اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے

بیٹھا رہا اگرچہ اشارے ہوا کیے

٭

غالب کے متداول دیوان میں اول الذکر غزل گیارہ اشعار پر مشتمل ہے جبکہ ثانی الذکر غزل کے نو اشعار ہیں۔خط میں پہلی غزل کے سات اور دوسری غزل کے چھ اشعار ارسال کیے گئے ہیں۔اب دو امکانات ہیں۔

اول : پہلے غزلیں سات اور چھ اشعار پر مشتمل تھیں باقی اشعار بعد میں بڑھائے گئے۔

دوم:  غزلیں ارسال کرنے سے قبل بھی مکمل تھیں۔ غالب نے گانے کے لیے مناسب اشعار منتخب کر کے ارسال کیے۔

اگر دونوں غزلوں کے اشعار سامنے رکھ کر ذرا غور سے دیکھا جائے تو دوسری بات قرین قیاس معلوم ہوتی ہے۔غالب نے جو شعر منتخب کیے اور جو شعر قلم زد کیے ان کے موازنے سے بھی غالب کے ذوق موسیقی اور موسیقی کے بارے میں معلومات کی درجہ بندی ہو سکتی ہے۔

موسیقی کے متعلق معلومات اور ذوق کی تصدیق ایک اور خط سے بھی ہوتی ہے جس میں غالب خود مطرب کے لیے راگ بھی تجویز کر رہے ہیں اور اس کے سر بھی۔ نواب امین الدین خاں کو ۲۶ مئی ۱۸۶۵ کے ایک خط میں لکھتے ہیں۔

’’علائی مولائی نے اپنے موکل کی خوشنودی کے واسطے فقیر کی گردن پر سوار ہو کر ایک اردو غزل لکھوائی۔ اگر پسند آئے تو مطرب کو سکھائی جائے۔ جھنجھوٹی کے اونچے سروں میں رکھوائی جائے۔ اگر جیتا رہا تو جاڑوں میں آ کر میں بھی سن لوں گا۔(۹)

غالب نے جو غزل ارسال فرمائی اس کا مطلع یہ ہے:

؎میں ہوں مشتاق جفا مجھ پہ جفا اور سہی

تم ہو بیداد سے خوش اس سے سوا اور سہی

اور آخری شعر یہ ہے :

؎مجھ سے غالب علائی نے یہ غزل لکھوائی

ایک بیداد گرِ رنج فزا اور سہی

غلام رسول مہر نے نوائے سروش میں اس کی شرح سے پہلے تمہید لکھی ہے۔

’’ یہ غزل جیسا کہ مقطع سے ظاہر ہے نواب علاؤ الدین علائی نے بہ اصرار لکھوائی تھی اور مرزا غالب نے ۲۶ جولائی ۱۸۶۵ کے مکتوب میں علائی کے پاس لوہارو بھیج دی تھی۔یہ اس لیے دیوان میں شامل نہ ہو سکی کہ مرز ا کا کوئی دیوان ۱۸۶۵ کے بعد ان کی زندگی میں شائع نہ ہوا‘‘(۱۰)

غالب نے اس غزل کے لیے راگ جھنجھوٹی تجویز کیا ہے اور اونچے سروں کو پسند فرمایا ہے

مطربوں میں غالب کے کلام کی مقبولیت سے غالب کو شہرت کے علاوہ بھی فوائد پہنچے۔ مثلاً مرزا کا کلام نواب ضیا الدین خاں اور نواب حسین مرزا جمع کرتے تھے۔غدر میں ان دونوں کے گھر لٹ گئے۔اور ہزاروں روپے کے کتب خانے برباد ہو گئے۔مرزا کے پاس بھی اپنا کلام پورے کا پورا محفوظ نہ رہا۔حاتم علی بیگ کے نام ایک خط سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک فقیر ان کی غزل گاتا پھرتا تھا اور خود انہیں اپنا کلام اس فقیر سے بہم پہنچا۔

’’کئی دن ہوئے ایک فقیر خوش آواز بھی ہے اور زمزمہ پرداز بھی۔ ایک غزل میری کہیں سے لکھوا لایا۔اس نے جو کاغذ مجھ کو دکھایا یقین سمجھنا کہ رونا آیا۔غزل تم کو بھیجتا ہوں۔(۱۱)

غزل یہ ہے:

 

درد منت کشِ دوا نہ ہوا

میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا

 

جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو

اک تماشا ہوا گلہ نہ ہوا

 

رہزنی ہے کہ دلستانی ہے

لے کے دل دلستاں روانہ ہوا

 

زخم گر دَب گیا لہو نہ تھما

کام گر رُک گیا روا نہ ہوا

 

کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب

گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا

 

کیا وہ نمرود کی خدائی تھی؟

بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا

 

جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

کچھ تو پڑھیے کہ لوگ کہتے ہیں

آج غالبؔ غزل سرا نہ ہوا

وہ روایت جو غالب کی زندگی میں شروع ہوئی تھی وہ آج بھی قائم ہے ان کی غزلیں بڑے شوق سے گائی جاتی ہیں تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ غالب موسیقی کا کافی شعور رکھتے تھے اور اپنی شاعری میں اس بات کا خاص اہتمام شعوری طور پر بھی کرتے تھے کہ کلام میں موسیقیت بدرجہ اتم موجود رہے۔

 

حوالہ جات

 

۱۔دیوان غالب

۲۔غلام رسول مہر۔ خطوط غالب۔ لاہور۔شیخ غلام علی اینڈ سنز۔۱۹۸۲بار پنجم ص۲۶۶

۳۔ایضاً۔ص۱۹۴

۴۔ایضاً۔ص۳۷۸

۵۔ایضاً۔۱۹۶

۶۔ایضاً۔۴۵

۷۔ایضاً۔ص۷۰

۸۔ایضاً۔ص۵۷

۹۔ایضاً۔ص۴۶

۱۰۔غلام رسول مہر۔نوائے سروش۔لاہور۔ شیخ غلام علی اینڈ سنز۔س ن۔ص۸۹۶

۱۱۔خطوط غالب۔ص۱۸۸

٭٭٭                                                          (قومی زبان، فروری ۲۰۰۲)

 

 

 

 

غالب اور یوسفی

 

غالب کی شخصیت اور شاعری میں خوش طبعی اور ظرافت نمایاں صفات ہیں۔اگرچہ غالب کی نثر کا مجموعی تاثر کرب انگیز ہے لیکن یہ صفات ان کی نثر میں بھی موجود ہیں۔اسی بنا پر حالی نے غالب کو حیوان ظریف کہا ہے۔

غالب کے زمانے میں طنز و مزاح کو ئی علیحدہ صنف سخن یا شعبہ ادب نہیں تھا۔طنز و مزاح کو یہ حیثیت کہیں بیسویں صدی میں حاصل ہوئی لیکن اس شعبہ پر غالب کے اثرات بڑے نمایاں اور ہمہ گیر ہیں۔شاعروں نے غالب کی تحریف کی ،  غالب کے مصرعوں کو تضمین کیا ،  اس کی زمین میں شعر کہے اور اسی طرح نثر نگاروں نے بھی غالب کو ہر طرح استعمال کیا۔

نثر نگاروں میں رشید احمد صدیقی اور مشتاق احمد یوسفی کی نثر اعلیٰ سطح کے مزاح کا عمدہ نمونہ ہے۔ ہر دو پر غالب کے اثرات شاید دوسرے تمام مزاح نگاروں کے نسبت زیادہ ہیں اور یوسفی کی نثر کو پڑھتے ہوئے تو غالب نظر سے اوجھل ہی نہیں ہوتے۔

یوسفی موضوع، لفظ اور وقت کے انتخاب میں بڑے محتاط واقع ہوئے ہیں۔ان کی کتابیں ’’چراغ تلے‘‘، ’’خاکم بدہن‘‘، ’’زرگزشت‘‘ اور ’’آب گم‘‘ چالیس سال کے طویل ادبی سفر کا حاصل ہیں۔ان کے مطالعے کی حدود وسیع اور ابعاد کثیر ہیں۔ان کی تحریروں سے ثابت ہوتا ہے کہ عالمی ادب اور بالخصوص اردو ادب کی تمام تر روایت ان کے مطالعے کا حصہ ہی نہیں بلکہ ان کے حافظے میں متحرک شکل میں موجود ہے۔ابتدائی نظم و نثر کے نمونوں سے پروین شاکر کے اشعار تک ان کے مضامین کا حصہ ہیں۔ان کا تنقیدی ذوق انتہائی پختہ ہے۔ ان کے مضامین میں نہایت جامع اور بلیغ تنقیدی اشارے ملتے ہیں۔

اگرچہ ان کی پسندیدہ شخصیات کی فہرست مختصر نہیں ہے لیکن ان کی محبوب ترین شخصیت غالب ہیں۔چراغ تلے میں انہوں نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے غالب کا نام لیا(پہلا پتھر۔ چراغ تلے ص۱۱)۔ زرگزشت میں غالب کو اپنا ہیرو قرار دیا (تزک یوسفی۔ زرگزشت۔ ص۱۰)۔ وہ غالب کو سب سے بڑا شاعر سمجھتے ہیں۔ (موصوف: زرگزشت، ص۳۱۴) اور ان کی عزیز ترین کتاب دیوان غالب ہے (صبغے اینڈ سنز: خاکم بدہن، ص۲۲) وہ جب دنیا تیاگ کر غیر آباد جزیرے کا سفر اختیار کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں تو بھی دیوان غالب ساتھ لے کر جانا چاہتے ہیں۔(پروفیسر۔خاکم بدہن۔ص۹۴)

مرزا یوسفی کا محبوب کردار ہے۔شواہد تلاش کیے جا سکتے ہیں کہ یہ دراصل مرزا غالب ہی کا عکس یا پر تو ہیں یا ان کے حس مزاح کا ٹ کر بنایا ہوا کردار ہے۔(سیزر ماتا ہری اور مرزا۔ خاکم بدہن۔ ص۵۷)

غالب سے اس دلچسپی کی بنا پر یوسفی کی عہد جدید کا غالب بھی کہا گیا ہے (مضمون مشتاق احمد یوسفی کا آب گم از ڈاکٹر مظہر احمد مشمولہ مشتاق احمد یوسفی، چراغ تلے سے آب گم تک۔مرتبہ طارق حبیب۔ص۲۹۸)

حقیقت یہی ہے کہ یوسفی کی نثر پڑھتے ہوئے ہمیں غالب متواتر یاد رہتا ہے۔اور یوسفی کی نثر کی شگفتگی میں بہت کچھ حصہ غالب کا بھی ہے۔غالب کی شخصیت، نثر اور شاعری سے نا آشنا شخص یوسفی کی نثر سے پوری طرح لطف اندوز نہیں ہو سکتا۔یوسفی کی نثر میں غالب سے اثر کے متعدد حوالے موجود ہیں۔جن کا تفصیلی مطالعہ درج ذیل ہے۔

۱۔یوسفی کے بعض مضامین کے نام دراصل غالب کے مصرعے یا مصرعوں کے ٹکڑے ہیں۔ مثلاً پڑئیے گر بیمار، کاغذی ہے پیرہن (چراغ تلے)، ہوئے مر کے ہم جو رسوا (خاکم بدہن)

۲۔مختلف مضامین میں جو ذیلی عنوانات قائم کیے گئے ہیں وہ غالب کی تراکیب اور مصرعوں سے مستعار ہیں۔مثلاً چراغ تلے میں — گزارش احوال واقعی (کافی۔ ص۴۲)، تلخی کام و دہن ( کافی۔ص۴۵)، تلخی کام و دہن کی آزمائش (جنون لطیفہ۔ص۸۹)، تازہ واردان بساط۔۔۔(سنہ۔ ص۹۶)،  خاکم بدہن میں — ہو کر اسیر دابتے ہیں رہزن کے پانوں (دست زلیخا۔ ص۱۲)، سیکھے ہیں مہ رخوں کے لیے۔۔۔ (چند تصویر بتاں۔ص ۱۸۹)، حج کا ثواب نذر کروں گا۔ (چند تصویر بتاں۔ ص۱۹۴)،  زرگزشت میں تو پھر اب کیا جگہ کی قید (سبق یہ تھا پہلا کتاب ربا کا۔ص ۳۱)۔کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے (علم دریاؤ۔ ص۱۳۵)، وہ بادہ ہائے ناب گوارا کہ ہائے ہائے ( کوئی قطرہ کوئی قلزم کوئی دریا مددے۔ ص۲۱۲)، مے سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کو (جانا ہمارا کا ک ٹیل پارٹی میں۔ ص۲۲۳)، بنا ہے شاہ کا مصاحب پھر ے ہے اتراتا (جانا ہمارا کاک ٹیل پارٹی میں۔ ص۲۲۴)، ۔۔۔۔ترے کوچے سے ہم نکلے(جانا ہمارا کاک ٹیل پارٹی میں۔ ص۲۴۷)، صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا (موصوفہ۔ ص۳۲۲)،  آب گم میں — کہ بنے ہیں دوست ناصح (کار کابلی والا اور الہ دین بے چراغ۔ ص۱۲۷) اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو( کار کابلی والا اور الہ دین بے چراغ۔ ص۱۷۶)، نہ ہوئی غالب اگر عمر طبعی نہ سہی (کار کابلی والا اور الہ دین بے چراغ۔ ص۲۱۵)، کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا (دھیرج گنج کا پہلا یادگار مشاعرہ۔ ص۳۹۲)، ترے کوچے سے ہم نکلے (دھیرج گنج کا پہلا یادگار مشاعرہ۔ ص۴۰۳)

۳۔بعض ذیلی عنوانات براہ راست غالب کے مصرعے یا ٹکڑے نہیں لیکن ان کا سر چشمہ غالب ہی کے اشعار ہیں  اور وہ اسی تلازمے سے پیدا ہوئے ہیں۔مثلاًنقشہ ہمارے طاق نسیاں کا(علم دریاؤ۔ زرگزشت۔ ص۳۱)، بے در و دیوار ناٹک گھر بنانا چاہیے (ناٹک۔ سرگزشت۔ ص۲۴۹)، ہے خبر گرم ان کے جانے کی (موصوف۔ سرگزشت۔ص۳۰۹)، وہ اک سپہ جو بظاہر سپاہ سے کم ہے( شہر دو قصہ۔ آب گم۔ص۳۰۲)

۴۔ یوسفی نے غالب کے بعض ایسے اشعار بھی استعمال کیے ہیں جو زبان زد عام نہیں۔ اس سے یوسفی پر غالب کے اثرات کی گہرائی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔مثلاً

خوشی   ہے   یہ   آنے   کے    برسات   کی

پئیں     بادہ     ناب    اور    آم   کھائیں

(فینی ڈارلنگ۔زرگزشت۔ص۲۱۱)

انگبیں     کے     بحکم   رب      الناس

بھر  کے   بھیجے   ہیں   سر  بمہر    گلاس

(اسکول ماسٹر کا خواب۔آب گم۔ص۱۱۳)

عیش  و  غم  در  دل  نمی  استد  خوشا   آزادگی

بادہ   و  خوننابہ   یکسانست   در   غربال   ما

(شہر د و قصہ۔آب گم۔ص۳۲۶)

کوئی   نہیں   ہے   اب   ایسا  جہان  میں   غالب

جو  جاگنے  کو  ملا  دیوے  آ  کے  خواب  کے  ساتھ

(دھیرج گنج کا پہلا یادگار مشاعرہ۔آب گم۔ص۳۸۸)

۵۔یوسفی نے غالب کے جو مصرعے اپنے مضامین میں استعمال کیے ہیں ان کا سرسری مطالعہ درج ذیل ہے۔ان میں وہ مصرعے شامل نہیں جو انہوں نے بطور عنوان یا ذیلی عنوان استعمال کیے ہوں۔

کہ گر نہ ہو تو کہاں جائیں ہو تو کیونکر ہو۔ (پڑیے گر بیمار۔چراغ تلے۔ ص۲۷)

موجہ گل سے چراغاں ہے گزرگاہ خیال۔(سنہ۔چراغ تلے۔ص۸۱)

تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد (دست زلیخا۔خاکم بدہن۔ص۷)

بے نشہ کس کو طاقت آشوب آگہی۔(ایضاً۔ص۹)

نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا۔(بارے آلو کا کچھ بیاں ہو جائے۔خاکم بدہن۔ص۷۷)

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔(ایضاً۔ص ۸۶)

روئے سخن کسی کی طرف ہو تو رو سیاہ۔(ہوئے مر کے ہم جو رسوا۔خاکم بدہن۔ص۱۴۲)

کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور۔ایضاً۔ص۱۲۲)

اس کو کہتے ہیں عالم آرائی۔(ہل اسٹیشن۔خاکم بدہن۔ص۱۴۲)

چہر ہ فروغ مے سے گلستاں کیے ہوئے۔(ایضاً۔ص۱۵۴)

وہی نقشہ ہے ولے اس قدر آباد نہیں۔(ایضاً۔ص۱۶۱)

اسد اللہ خاں قیامت ہے۔(بائی فوکل کلب۔خاکم بدہن۔ص۲۱۲)

انتظار صید میں اک دیدہ بے خواب تھا۔(ایضاً۔ص۲۱۴)

کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند۔(کیا کوئی وحشی آ پہنچا یا کوئی قیدی چھوٹ گیا۔ زرگزشت۔ ص۸۶)

لو وہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بے ننگ و نام ہے۔(علم دریاؤ۔زرگزشت۔ص۱۴۴)

نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں۔(ایضاً۔ص۱۶۷)

تھا دل میں جو کچھ ذوق خواری ہائے ہائے۔(ایضاً۔۱۷۲)

وہ اک نگہ جو بظاہر نگاہ سے کم ہے۔(فینی ڈارلنگ۔ سر گزشت۔ص ۱۹۹)

جو واں نہ کھنچ سکے وہ یہاں آ کے دم ہوئے۔(ناٹک۔ سر گزشت۔ص۲۷۰)

حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے۔(موصوفہ۔سر گزشت۔ص۳۲۷)

کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد۔(غنودیم غنودیم۔آب گم۔ص۲۷)

ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار۔(حویلی۔آب گم۔ص ۴۶)

آتش دوزخ میں یہ گرمی کہاں۔(اسکول ماسٹر کا خواب۔آب گم۔ص۸۱)

ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد۔(ایضاً۔ص ۱۰۸)

ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا۔(کار کابلی والا اور الہ دین بے چراغ۔ آب گم۔ص۱۵۱)

انتظار صید میں اک دیدہ بے خواب تھا۔(ایضاً۔ص ۱۶۷)

نظارے کو یہ جنبش مژگاں بھی بار ہے۔(شہر دو قصہ۔آب گم۔ص ۲۵۷)

۶۔ تحریف نگاری مزاح کا سب سے عام اور بہت بڑا ہتھیار ہے۔ اور اکثر تحریف نگاروں نے غالب کی شاعری کو تختہ مشق بنایا ہے۔یوسفی نے بھی غالب کے بہت سارے مصرعوں میں تحریف کر کے مزاح کا سامان پیدا کیا ہے۔یوسفی کے چاروں کتابوں میں کلام غالب میں تحریف کی تفصیل درج ذیل ہے۔

علالت بے عیادت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی۔(پڑیے گر بیمار۔چراغ تلے۔ص ۲۷)

گولیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا۔(کافی۔چراغ تلے۔ص ۴۴)

کھینچتا ہے جس قدر اتنی ہی کھنچتی جائے ہے۔(سنہ۔چراغ تلے۔ص۹۹)

ہزاروں خوبیاں ایسی کہ ہر خوبی پہ دم نکلے۔(آنا گھر میں مرغیوں کا۔چراغ تلے۔۱۱۶)

وہ اک دہن کہ بظاہر دہانے سے کم ہے۔ (کاغذی ہے پیرہن۔ چراغ تلے۔ ص۱۷۵)

تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ سود خوار ہوتا۔(دست زلیخا۔خاکم بدہن۔ص۹)

وہ اک گنہ جو بظاہر گناہ سے کم ہے۔(بائی فوکل کلب۔ خاکم بدہن۔ص۱۷۶)

پکڑے جاتے ہیں بزرگوں کے کیے پہ ناحق۔(تزک یوسفی۔ سر گزشت۔ص۱۵)

شہروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے۔(ایضاً۔ص ۱۵)

کی جس سے بات اس نے ہدایت ضرور کی۔(رہے دیکھتے اوروں کا عیب و ہنر۔زر گزشت۔ص۵۹)

گر نہیں وصل تو حضرت ہی سہی۔(پروٹوکول۔ سر گزشت۔ص۱۶۱)

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ گھر بگڑے۔(ایضاً۔ص ۱۷۴)

پھیلتا ہے اس قدر جتنا کہ رگڑا جائے ہے۔(کوئی قلزم کوئی دریا کوئی قطرہ مددے۔زرگزشت۔ص۲۱۰)

سینہ ہمشیر سے باہر ہے دم ہمشیر کا۔(ناٹک۔سر گزشت۔ص۲۵۹)

آتے ہیں غیب سے یہ فرامیں خیال میں۔(غنودیم غنودیم۔آب گم۔ص ۱۵)

کی جس سے بات اس کو ہدایت ضرور کی۔( حویلی۔آب گم۔ص ۴۱)

منفعل ہو گئے قوی غالب۔(حویلی۔آب گم۔ص ۷۰)

اب عناصر میں ابتذال کہاں۔(حویلی۔آب گم۔ص ۷۰)

گویم مہمل وگرنہ گویم مہمل۔(حویلی۔آب گم۔ص۹۰)

عالم تمام حلقہ دام عیال ہے۔(اسکول ماسٹر کا خواب۔آب گم۔ص۱۱۷)

اس سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کو۔(ایضاً۔ص۱۲۳)

کچھ اور چاہیے وسعت مرے میاں کے لیے۔(ایضاً۔ص ۱۳۵)

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے سر میں ہے۔(کار کابلی والا اور الہ دین بے چراغ۔آب گم۔ص۳۱۹)

نہ کبھی جنازہ اٹھتا کہ کہیں شمار ہوتا۔(شہر دو قصہ۔ آب گم۔ص۳۰۳)

اے مرد ناگہاں تجھے انتظار کیا ہے۔(ایضاً۔ص۳۲۳)

دیکھیں کیا گزرے ہے خدشے پہ خطر ہونے تک۔(دھیرج گنج کا پہلا یاد گار مشاعرہ۔ آب گم۔ ص۲۳۰)

جن کو ہو دین و دل عزیز میرے گلے میں آئے کیوں۔(ایضاً۔ص۳۶۱)

ایک عقد ناگہانی اور ہے۔(ایضاً۔ص۳۸۵)

۷۔یوسفی کے مضامین میں غالب کی سوانح اور خطوط کے حوالے بھی کثرت سے موجود ہیں۔جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

غالب کی نفاست پسند طبیعت نے ۱۲۷۷ھ میں وبائے عام میں مرنا اپنے لائق نہ سمجھا کہ اس میں ان کی کسر شان تھی۔ (پڑیے گر بیمار۔ چراغ تلے۔ص۱۹)

وبائے عام میں مرنا میری کسر شان ہے۔(سنہ۔ چراغ تلے۔ص۸۲)

ہم مغل بچے بھی غضب کے ہوتے ہیں۔جس پر مرتے ہیں اسی کو مار رکھتے ہیں۔(کرکٹ۔چراغ تلے۔ص۱۲۹)

صنف نازک کے باب میں ان کا نظریہ کم و بیش وہی تھا جو مرزا غالب کا آم کے متعلق۔۔۔ یعنی یہ کہ بہت ہوں۔ (صنف لاغر۔چراغ تلے۔ص۱۵۰)

غالب نے خود کو اس بنا پر آدھا مسلمان کہا تھا کہ شراب پیتا ہوں سور نہیں کھاتا۔فقیر سود کھاتا ہے حرام شے نہیں پیتا۔ (تزک یوسفی۔ زرگزشت۔ص۱۰)

محمد عبدالجمیل صاحب سے رجوع کیا جن کے جد اعلیٰ مولانا فضل حق خیر آبادی غالب کا دیوان مرتب کرتے وقت بیسیوں شعر حذف کر کے پروفیسروں اور ریسرچ سکالروں کے مستقل روزگار کا بندوبست فرما گئے۔ (تزک یوسفی۔ زرگزشت۔ص۱۴)

بھئی مغل بچے بھی غضب کے ہوتے ہیں۔جس پر مرتے ہیں اس کو مار رکھتے ہیں۔میں بھی مغل بچہ ہو ں۔ عمر بھر ایک ستم پیشہ ڈومنی کو میں نے بھی مار رکھا ہے۔(تزک یوسفی۔ سر گزشت۔ص۱۶۔۱۷)

مرزا غالب بھی تو فارسی مدرس کی سو روپے ماہوار اسامی کے لیے پالکی میں بیٹھ کر مسٹر ٹامسن کے پاس انٹرویو کے لیے گئے تھے لیکن الٹے پھر آئے۔ اس لیے کہ وہ ان کی پیشوائی کو باہر نہیں آیا۔کہاروں سے کہا بس ہو چکی ملاقات۔پالکی اٹھاؤ۔کہ اندر والا بولا۔ ہوش میں آؤ۔ تم کہاں کے دانا ہو؟ کس ہنر میں یکتا ہو؟ مرزا تو شاعر آدمی ٹھہرے۔ اس کے بعد جب بھی کوئی گورنر جنرل بہادر نیا آتا۔ایک قصیدہ بطور نذر گزرانتے رہے اور پنشن کے علاوہ سات پارچے کا خلعت معہ جیفہ و سر پیچ و مالائے مروارید برابر وصول کرتے رہے۔تم کیا کرو گے ؟ (سبق یہ تھا پہلا کتاب ربا کا۔زرگزشت۔ص۲۴)

دودمان تیموریہ پر جب ملک خدا تنگ ہوا تو اس کا آخری چشم و چراغ مہاجن سے قرض لے کر فوج کی تنخواہیں چکاتا۔اور اپنی غزلوں کی اصلاح کرنے والے استاد نجم الدولہ دبیر الملک مرزا اسد اللہ خاں غالب کو چاندی کے طشت میں زربفت کے تورہ پو ش سے ڈھکا ہوا سیم کے بیجوں کا توشہ بھیجتا۔( سبق یہ تھا پہلا کتاب ربا کا۔زرگزشت۔ص ۳۴)

پہلے تو ان کے اہلیہ نے غالب کی بیوی کی طرح ان کے کھانے پینے کے برتن الگ رکھے پھر خود انہیں بھی الگ رکھنے لگیں۔ (علم دریاؤ۔زرگزشت۔ص۱۲۷)

مس مارجری بالڈ پر ہم اس طرح فخر کر سکتے تھے جیسے مرزا غالب اپنے ایرانی استاد ملا عبدالصمد پر۔ جس کے بار ے میں جدید تحقیق نے ثابت کر دیا ہے کہ اس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہ تھا۔ غالب کا استاد اس کے اپنے ذہن کا زائیدہ تھا۔

(موصوف۔ زرگزشت۔ ص۲۹۲)

ہم دونوں بے استاد وں (یعنی غالب اور راقم آثم)کو اہل زبان استاد آگر ے ہی میں نصیب ہوئے۔ملا عبدالصمد کو پا کر غالب لکھتے ہیں ’’بارے مراد بر آئی اور اکابر پارس میں سے ایک بزرگ وارد ہوا۔فقیر کے مکان پر دو برس رہا‘‘(موصوف۔ زرگزشت۔ص۲۹۲)

غالب کو دیکھیے ساری عمر ناقدری اور عسرت و تنگ دستی کا رونا روتے رہے۔خصوصاً آخری دنوں میں۔ لیکن ذرا مرض الموت میں ان کی آخری غذا تو ملاحظہ فرمائیے۔صبح کو سات بادام کا شیرہ قند کے شربت کے ساتھ، دوپہر کو سیر بھر گوشت کی یخنی، تین شامی کباب، چھ گھڑی رات گئے پانچ روپے بھر شراب خانہ ساز اور اسی قدر عرق شیر۔

(غنودیم غنودیم۔آب گم۔ص۱۰)

یہاں اللہ کا دیا سب کچھ ہے سوائے ستم پیشہ ڈومنی کے۔ (ایضاً۔ص۱۰)

شراب کے ضمن میں بادہ پرتگالی کی بجائے شراب خانہ ساز کی شرط توجہ طلب ہے۔ علاوہ ازیں پانچ بھر روپے شراب غالباً اس لیے پیتے تھے کہ اگر اس کی مقدار بڑھا دیتے تو اتنا ہی عرق شیر بھی زہر مار کرنا پڑتا۔ (ایضاً۔ص۱۰)

غالب کو شیخی بگھارنے کے لیے اپنا (فرضی) استاد ملا عبدالصمد تک ایران سے امپورٹ کرنا پڑا۔ (حویلی۔آب گم۔ص۵۲)

غالب مغل بچہ تھا۔ ستم پیشہ ڈومنی کو اپنے زہر عشق سے مار ڈالا۔ (ایضاً۔ص۵۳)

خود کو غالب سے کم نہیں سمجھتا حالانکہ مماثلت صرف اتنی ہے کہ دونوں نے جیل کی ہوا کھائی۔(ایضاً۔ص۶۴)

یہی بھونڈی مثال برہان قاطع ثابت ہوئی۔(کار کابلی والا اور الہ دین بے چراغ۔آب گم۔ص۲۳۰)

غالب کو۔۔اس کے سنی عقیدت مند سنی طریقے سے گاڑھ آئے جبکہ اس غریب کا مسلک امامیہ تھا۔ (شہر دو قصہ۔آب گم۔ص۳۱۰)

شعر کتنا ہی لغو اور کمزور کیوں نہ ہو اس کا بقلم خود کاٹنا اور خذف کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا اپنی اولا د کو بد صورت کہنا۔یا زنبور سے اپنا ہلتا ہوا دانت خود اکھاڑنا۔غالب تک سے یہ مجاہدہ نہ ہو سکا۔کانٹ چھانٹ مولانا فضل حق خیر آبادی کے سپرد کر کے خود ایسے بن کے بیٹھ گئے۔

(دھیرج گنج کا پہلا یاد گار مشاعرہ۔آب گم۔ص ۳۳۵)

علائی کے نام اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ تم خصی بکروں کے گوشت کے قلیے اڑا رہے ہو گے لیکن بخدا میں تمھارے پلاؤ قلیے پر رشک نہیں کرتا۔خدا کرے تمھیں بیکا نیر کی مصر ی کا ٹکڑا میسر نہ آیا ہو۔جب یہ تصور کر تا  ہوں کہ میر جان صاحب اس مصر ی کے ٹکڑے کو چبا رہے ہوں گے تو رشک سے اپنا کلیجہ چبانے لگتا ہوں۔تحقیق طلب امر یہ کہ مصری کی ڈلی سے غالب کی مراد کیا تھی۔محض مصری؟ سو و ہ تو اعلیٰ سے اعلیٰ قسم کی ڈلی میں منوں دستیاب تھی۔ حیرت ہے کہ محققین اور شارحین کی طبع بد گماں ادھر نہیں گئی۔ حالانکہ غالب نے مصری کے تلازمے کو عشق و عاشقی کے ضمن میں ایک دوسرے خط میں استعمال کیا ہے۔

(غنودیم غنودیم۔آب گم۔ص۲۹)

ایک خط میں مرقوم ہے کہ جرعہ جرعہ پیتا ہوں اور قطرہ قطرہ خارج کرتا ہوں۔

(حویلی۔آب گم۔ص۵۳)

۸۔یوسفی نے غالب کے مصرعوں کی سادہ نثر کر کے یا مختلف مصرعوں کو پھینٹ کر اپنی نثر میں اس کثرت سے استعمال کیا ہے کہ یوسفی کو غالب کا سب سے بڑا خوشہ چیں قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نثر کو خواص کی نثر اور ان کے مزاح کو خواص کا مزاح سمجھا جاتا ہے۔ غالب کے مصرعوں کو پھینٹ کر اکثر فرمانے والے پروفیسر عبدالقدوس نہیں  مشتاق احمد یوسفی ہی ہیں۔ (پروٹوکول۔زرگزشت۔ص۱۷۴)

جس شخص نے غالب کا گہرا مطالعہ نہیں کیا وہ یوسفی کو پڑھنے کا بے شک تکلف نہ کرے۔ میں نے اپنی بساط کے مطابق ذیل میں وہ تمام جملے جمع کرنے کی کوشش کی ہے جو غالب سے اثر پذیری کا نتیجہ ہیں۔ممکن ہے کہ اور بھی جملے اس قسم کے موجود ہوں جو میرے کم علمی اور بے بصری کے باعث میری گرفت میں نہ آ سکے ہوں۔اصل مصرعوں کو ساتھ نقل کرنے سے مضمون بوجھل ہو جاتا اس لیے صرف یوسفی کے جملے نقل کر رہا ہوں۔صاحبان علم کے ذہن میں ان جملوں کے پڑھنے سے غالب خود بخود تازہ ہوتا رہے گا۔

سو پشت سے پیشہ سپہ گر ی کے سوا سب کچھ رہا۔(پہلا پتھر۔چراغ تلے۔ص۱۱)

علالت کی غایت تقریب بہر ملاقات کے سوا کچھ نہ تھی۔(پڑیے گر بیمار۔چراغ تلے۔ ص۲۱)

ان کے دیکھے سے میرے تیمار داروں کی رہی سہی رونق جاتی رہی۔(ایضاً۔ص ۲۸)

انہوں نے اپنی ذات کو ہی انجمن خیال کیا۔(یادش بخیر۔چراغ تلے۔ص۴۹)

گو آغا تمام عمر رہین ستم ہائے روز گار رہے۔( ایضاً۔ص ۶۶)

پندار کا صنم کدہ ویران کیے ابھی تین ہفتے بھی نہ گزرے ہوں گے۔ (موذی۔ چراغ تلے۔ص ۷۷)

مرزا غالب نے جو مرنے کی آرزو میں مرتے تھے۔ (سنہ۔چراغ تلے۔ص۸۲)

۔۔۔ جن سے خستگی کی داد پانے کی توقع تھی وہ ہم سے بھی زیادہ خستہ تیغ ستم نکلے۔

(جنون لطیفہ، چراغ تلے۔ص۹۱)

خانساماں سے عہد وفا استوار کرنے۔۔(ایضاً۔ص ۹۱)

غیبت سے مقصود قطع محبت ہے نہ گذارش احوال واقعی۔(چارپائی اور کلچر۔چراغ تلے۔ ص ۱۰۶)

چند لمحوں بعد مرزا اپنے نقش فریادی کو سینہ سے چمٹائے میرے پاس آئے۔(ایضاً ً۔ص ۱۱۰)

چرچراتی ہوئی چارپائی کو میں نہ گل نغمہ سمجھتا ہوں نہ پردہ ساز اور نہ اپنی شکست کی آواز۔(ایضاً۔ص ۱۱۴)

جہاں بات کرنے میں دشمنوں کی زبان کٹتی ہے۔(کرکٹ۔چراغ تلے ۱۳۴)

ایک بزرگ جنھوں نے اپنی کمائی ریس کورس اور طواف کوئے ملامت میں گنوائی ہے۔

( صنف لاغر۔چراغ تلے۔ص۱۴۷)

مرزا غالب کے قوی مضمحل ہوئے تو وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ تندرستی نام ہے عناصر کے اعتدال کا۔(موسموں کا شہر۔چراغ تلے۔ص۱۶۴)

وہ دن گئے جب فنکار صرف مہ رخوں کے لیے مصوری سیکھتے تھے۔(کاغذی ہے پیرہن۔ چراغ تلے۔ص ۱۶۸)

زوال آدم سے لے کر اس وقت تک واماندگی شوق یہ پناہیں تراشتی رہی ہے۔ (ایضاً۔ ص ۱۸۰)

مقطع میں کچھ ایسی سخن گسترانہ بات آ پڑی ہے۔(دست زلیخا۔خاکم بدہن۔ص۱۴)

چال اگرچہ کڑی کمان کا تیر نہ تھی۔( صبغے اینڈ سنز۔ خاکم بدہن۔س ۲۰)

اگر متاع سخن کے ساتھ ( اور کبھی اس کے بغیر ہی ) خود بک جاتے۔(ایضاً ً۔ص ۲۴)

ان کی تباہی میں کچھ شائبہ خوبی تقدیر بھی تھا۔(ایضاً۔ص۲۶)

جس کی جناب میں کل تک گستاخی فرشتہ پسند نہ تھی ( بارے آلو کا کچھ بیاں ہو جائے )۔

(خاکم بدہن۔ص۹۱)

ٹوپی سے ایک خوبصورت ٹی کوزی بنائی جسے اٹھاتے ہی ان کا سر یاد آتا تھا۔ (پروفیسر۔ خاکم بدہن۔ص۹۸)

غالب کی طرح ضرغوص تیغ و کفن ہی نہیں تختہ غسل اور کافور باندھ کر لے جانے والوں میں سے ہیں۔ (ہل اسٹیشن۔خاکم بدہن۔ص۱۴۸)

تمام رات ہماری دہری ڈیوٹی رہی کہ دام شنیدن بچھائے بیٹھے رہیں۔ (بائی فوکل کلب۔ خاکم بدہن۔ص۱۶۹)

زباں پہ بارے خدایا شاعر کا نام آیا تو۔۔(ایضاً۔ص ۱۷۱)

ذرا ترتیب بگڑی اور آبروئے شیوہ اہل نظر گئی۔(ایضاً۔ص ۱۷۸)

بلکہ ایک آدھ دفعہ تو ایسا بھی ہوا کہ وہ جاتی تھی کہ ہم نکلے۔ایضاً۔ص۱۹۹)

شاہد احمد دہلوی کی طرح وہ واں کے نہیں پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں۔(تزکِ یوسفی۔ زرگزشت۔ص۱۰)

ذرا دیدہ عبرت نگاہ سے اس عاجز کو دیکھیں۔(ایضاً۔ص ۱۶)

ڈیڑھ دو گھنٹے بینچ پر انتظار ساغر کھینچنے کے بعد جی میں آئی۔(سبق یہ تھا پہلا کتاب ربا کا۔ زر گزشت۔ص۲۴)

معقول وجہ کی بجائے لطیفے یاد آنے لگے لیکن یہ موقع ان کے دامن کو ظریفانہ کھینچنے کا نہیں تھا۔ (ایضاً۔ص۳۲)

سو پشت سے جن قوموں اور قبیلوں کا پیشہ آبا سپہ گری۔۔۔ رہا ہو۔(ایضا ً۔ص۳۳)

بقول غالب پیشہ میں عیب نہیں۔(رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر۔زر گزشت۔ص۴۸)

یہاں ان کے طرہ پر پیچ و خم کے سارے پیچ و خم ایک ایک کر کے نکالے جاتے ہیں۔

( کیا کوئی وحشی آ پہنچا یا کوئی قیدی چھوٹ گیا۔زرگزشت۔ص۸۲)

نشاط سے کس روسیاہ کو غرض تھی۔(ایضاً۔ص ۸۳)

۔۔۔ اور گلیوں میں میری نعش کو کھینچتے پھرو کہ میں والا جاں دادہ ہوائے راہ گزار غالب۔۔۔  (ایضاً۔ص۹۲)

قیس تو قیس لیلیٰ بھی تصور کے پردے سے عریاں نکلتی۔(ایضاً۔ص۹۳)

ہم نے پھر راکھ کو کریدا۔(علم دریاؤ۔زرگزشت۔ص۱۳۶)

ہم یہ بات ساری عمر یہی گالی کھا کے بے مزا ہوئے بغیر کہہ رہے ہیں۔(ایضاً۔ص ۱۴۴)

ہم اس کوچے سے یوں بے آبرو ہو کر نکلے۔(پروٹوکول۔زرگزشت۔ص۱۵۷)

گو دانت کو جنبش نہیں۔۔۔(ایضاً۔ص۱۶۷)

ہم بیٹھے انتظار ساغر کھینچتے رہے۔(ایضاً۔ص۱۷۴)

ایک دفعہ اسٹیج کا نشہ ہو جائے پھر جب تک آنکھوں میں دم ہے اس کا ہڑ نہیں جاتا۔

(ناٹک۔سرگزشت۔ص۲۶۲)

محض اپنا گلا صاف رکھنے کی خاطر چیختا رہتا ہے۔منظور اس سے قطع محبت نہیں اسے۔

(موصوف۔ سرگزشت۔ص۲۷۷)

ان کے خدا نے ان کی بے کسی کی شرم رکھ لی۔(ایضاً۔ص ۲۸۰)

واقعہ سخت تھا پر اہل و عیال کی جان بھی عزیز تھی۔(ایضاً۔ص۲۸۱)

ذرا دیر بعد کمرے سے بے آبرو ہو کر نکلتے تو۔۔۔ (ایضاً۔ص۲۸۶)

موصوف پہلے تو صرف شب کو اپنا گنجینہ گوہر کھولا کرتے تھے لیکن اب صبح دم ہی دروازہ خاور کھول کے بیٹھ جاتے ہیں۔(ایضاً۔ص ۲۹۷)

ذرا چل کر گنج ہائے فرومایہ کو دیکھنا چاہیے۔(ایضاً۔ص۳۰۷)

غلطی ہائے مضامین کو مع ملزمان عالم حسین صاحب کے سیشن سپرد کر دیا جاتا۔ (موصوفہ۔ زرگزشت۔ ص۳۱۷)

کچھ اندیشہ ہائے دور و دراز بھی ستانے لگے۔مثلاً یہی کہ میرے ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز یہ نہ سمجھیں۔۔۔ (غنودیم غنودیم۔آب گم۔ص۱۹)

یہ نہ ادعا ہے نہ اعتذار ہے فقط گذار ش احوال واقعی ہے۔(ایضاً۔ص۲۳)

بے شمار سخن ہائے سوختنی اور غلطی ہائے مضامین بوجوہ رہ گئی ہوں گی۔(ایضاً۔ص ۳۱)

قبلہ کو دو غم تھے۔پہلے غم کا ذکر بعد میں آئے گا کہ وہ جاں گسل تھا۔(حویلی۔آب گم۔ ص۵۳)

میں سپاہی بچہ ہوں۔دکانداری میرے لیے ذریعہ عزت نہیں رہی۔(ایضاً۔ص۶۰)

واماندگی زیست نے ماضی میں پناہیں تراش لیں۔(ایضاً۔ص۷۱)

مطلع ہی میں سخن گسترانہ بات آ پڑی۔(اسکول ماسٹر کا خواب۔آب گم۔ص۸۳)

گستاخی معاف ایسے مے مرد افگن پینے کے بعد تو آدمی صرف طبلہ بجانے کے لائق رہ جائے گا۔(ایضاً۔ص ۹۷)

دیدہ عبرت نگاہ سے دیکھا جائے تو۔۔۔(ایضاً۔ص۱۰۸)

شاہوں کا نالہ پابند لے ہی نہیں پابند نے بھی نہیں ہوتا۔(ایضاً۔ص۱۱۶)

جس کو دین و دل یا کچھ اور عزیز ہوتا وہ راستہ چھوڑ کر۔۔۔ (کار کابلی والا اور الہ دین بے چراغ۔آب گم۔ص۱۵۹)

ایک دن بشارت نے اندیشہ ہائے قریب سے گھبرا کر باتوں باتوں میں ٹوہ لینا چاہی۔

(ایضاً۔ص۱۹۶)

بشارت خود کو دیدہ عبرت نگاہ سے دکھواتے کہ شاعر ہوں۔(ایضاً۔ص۲۰۲)

اس جاں دادہ ہوائے لاہور کو یاد رکھنے کی خاطر یاد نہ رہا۔(شہر دو قصہ۔آب گم۔ص۲۶۳)

گنجینہ معنی کا طلسم دکھاتا ہوں۔(دھیرج گنج کا پہلا یاد گار مشاعرہ۔آب گم۔ص۳۶۳)

اس کا شمار شہ کے مصاحبوں میں ہونے لگا اور بشارت شہر میں اتراتے پھرنے لگا۔

( ایضاً۔ص۳۶۹)

۹۔یوسفی کی نثر میں غالب پر بھرپور تنقیدی اشارے ملتے ہیں۔ان اشاروں کی مدد سے بھی یہ بات با آسانی دریافت ہو سکتی ہے کہ یوسفی پر مطالعہ غالب کس قدر حاوی رہا ہے۔نیز شعر فہمی اور سخن شناسی کا ملکہ یوسفی کو اللہ تعالی نے کتنی مقدار میں دیا ہے۔وہ صفحوں اور کتابوں پر پھیلی ہوئی بات کو جملے یا چند جملوں میں سمو دینے کا فن جانتے ہیں۔مثلاً

آپ تو غالب کے حافظ ہیں۔(غنودیم غنودیم۔آب گم۔ص۲۹)

کلام غالب کی سب سے بڑی مشکل اس کی شرحیں ہیں۔(ایضاً۔ص۲۷)

غالب کی مشکل پسندی پر ایک جملہ ملاحظہ فرمائیے:

غالب اردو میں فارسی شعر مجھ سے بہتر کہہ لیتا تھا۔(دھیرج گنج کا پہلا یادگار مشاعرہ۔ آب گم۔ ص ۳۹۵)

غالب کی رتبہ شناسی کے باب میں ایک اشارہ ملاحظہ فرمائیے:

ایک کاتب جو صرف کلام پاک کی خطاطی کرتا ہے انھوں نے دیوان غالب کی کتابت کیا سمجھ کے کی۔ (تزک یوسفی۔آب گم۔ص۱۷)

غالب پر ہونے والے تنقیدی کام کی نوعیت یعنی غالب کی تنقید پر تنقید:

کلام غالب میں آئینہ کتنی مرتبہ آیا ہے۔ستم پیشہ ڈومنی نے مغل بچہ کو کس سن میں داغ مفارقت دیا۔ استاد کے مکان کا پتہ اور بقایا کرایہ کیا تھا۔۔۔ (دست زلیخا۔خاکم بدہن۔ ص۱۳)

کلام غالب کی سب سے بڑی مشکل اس کی شرحیں ہیں۔ وہ نہ ہوں تو غالب کو سمجھنا چنداں مشکل نہیں۔۔۔ دنیا میں غالب واحد شاعر ہے جو سمجھ میں نہ آئے تو دگنا مزا دیتا ہے۔

(غنودیم غنودیم۔آب گم۔ص۲۷)

یوسفی نے بعض مقامات پر غالب کے کسی مشکل شعر کی شرح بھی کی ہے اور اس کی توصیف و تحسین بھی۔مثلاً

غالب کہتا ہے عیش اور غم دونوں ہمارے دل میں نہیں ٹھہر پاتے۔ہماری آزاد منشی کے کیا کہنے۔ہماری چھلنی کے لیے شراب اور خون دونوں برابر ہیں۔یعنی دونوں چھن کر نکل جاتے ہیں۔(شہر دو قصہ۔آب گم۔ص۳۲۶)

غالب نے کیسی ظالم بات کہی ہے۔حیف کافر مردن و آدخ مسلماں زیستن۔یعنی پروردگار مجھے کافروں کی طرح مرنے اور مسلمانوں کی طرح جینے سے بچا۔ سب کچھ سات لفظوں کے ایک مصرعے میں سمو دیا۔ ( شہر دو قصہ۔آب گم۔ ص۳۱۰)

غالب پر ایک رائے یہ بھی دیکھتے چلیں :

مرزا غالب نے قصیدے لکھے۔بیسنی روٹی، ڈومنی اور چھالیا کی مدح میں پے در پے شعر کہے۔ حد یہ ہے کہ دو کوڑی کی سپاری کو سر پستان پریزاد سے بھڑا دیا مگر یتیمی کے بارے میں کم از کم نسخہ حمیدیہ میں تو مجھے ایک شعر نہیں ملا۔(شہر دو قصہ۔آب گم۔ص۳۹۵)

۱۰۔یوسفی کا ایک کردار عبدالرحمن قالب ہے۔قالب بر وزن غالب ہے۔ اس تخلص کے انتخاب کے پس پردہ بھی یوسفی پر غالب کے اثرات کام کر رہے ہیں۔خود قالب کے بارے میں لکھتے ہیں :

قالب تخلص کرنے کی بادی النظر میں تو یہی وجہ معلوم ہوتی ہے۔کہ غالب کے مقطعوں پر بغیر رندا مارے یا پچر ٹھونکے فٹ ہو جاتا تھا۔ بینک میں شعر و ادب کا معیار معلوم۔ غالب کا شعر اپنا بتا کر سخن ناشناسوں سے داد لیتے رہتے۔

(رہے دیکھتے اوروں کا عیب و ہنر۔زرگزشت۔ص۶۶)

گذشتہ صفحات میں حوالہ کے لیے میں نے صرف یوسفی کے مزاح کو چنا ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی مزاح نگار غالب کے اثر سے باہر نہیں۔اور جہاں غالب کے اثرات جتنے ہمہ گیر اور دور رس ہیں وہاں مزاح اتنا ہی بلند پایہ اور خالص ہے۔اس حوالے سے غالب کا مطالعہ ابھی نا مکمل ہے۔ضرورت ہے کہ مختلف مزاح نگاروں پر ان کے اثرات کی وجوہات کا سراغ لگا کر غالب کی شخصیت کے اس رخ کو روشن تر کیا جائے۔

٭٭٭                                  مطبوعہ:سہ ماہی معاصر انٹرنیشنل۔ شمارہ اکتوبر ۲۰۰۳ تا مارچ ۲۰۰۴

٭٭٭٭

مصنف کی اجازت اور فائل فراہمی کے تشکر کے ساتھ

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید