FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

ادبی کتابی سلسلہ

عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد

 (27)

 

عبد اللہ جاوید نمبر

 

 

مرتّب: ارشد خالد

 

 

 

ناشر: مکتبہ عکاس

 

AKKAS PUBLICATIONS

House No 1164 Street No 2 Block C

National Police Foundation ,Sector O-9

Lohi Bhair, Islamabad, Pakistan

Tel.0300-5114739 0333-5515412

E- Mail:

akkasurdu2@gmail.com

 

 

مکمل جریدہ ڈاؤن لوڈ کریں

 

 

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

اپنی بات

 

عبد اللہ جاویدسینیئر لکھنے والے ہیں۔ ۱۹۴۲ سے لکھتے چلے آ رہے ہیں۔ خوب خوب لکھنے کے دوران بیچ میں ایک دور ایسا بھی آیا جب وہ ادبی دنیا سے عملاً الگ تھلگ ہو گئے۔ ادبی دنیا کے رنگ ڈھنگ اور طور طریقے ان کے مزاج سے میل نہیں کھا رہے تھے۔ پھر جیسے عام دنیا سے الگ تھلگ ہو کر بھی اسی دنیا میں جینا پڑتا ہے ویسے ہی اسی ادبی دنیا میں انہیں اپنی ادبی زندگی گزارنا پڑی۔ کچھ عرصہ الگ تھلگ رہ کر پھر اسی ادبی دنیا میں لَوٹ آئے۔

’ ’عکاس‘‘کے ساتھ عبد اللہ جاوید کا تعلق کل کی بات ہے لیکن مجھے خوشی ہے کہ ہم نے اس مختصر سے عرصہ میں کئی زمانوں کا سفر کر لیا ہے۔ عکاس نے ہمیشہ عبد اللہ جاوید کو عزت و احترام اور محبت و اہتمام کے ساتھ شائع کیا ہے۔ ان کا اور ان کی بیگم شہناز خانم عابدی کا ایک مشترکہ گوشہ شائع کیا۔ پھر ان کی منفرد ’ کتاب ’مت سہل ہمیں جانو‘ کا ایک گوشہ شائع کیا۔ ایک عرصہ سے ان سے کہہ رہے تھے کہ عکاس کا عبد اللہ جاوید نمبر چھپنا چاہیے لیکن وہ اپنی روایتی انکساری کے باعث مسلسل ٹال مٹول سے کام لیتے رہے۔ اس دوران ’ ’عکاس‘‘ کے علاوہ عبد اللہ جاوید کی ادھر اُدھردوسرے رسائل میں جو پذیرائی ہوتی رہی، میں نے اس سارے میٹر کو بھی جمع کرنا شروع کر دیا۔ دو اڑھائی سو صفحات کا میٹر یک جا ہو گیا تو عبد اللہ جاوید کی بجائے ان کی اہلیہ شہناز خانم عابدی کواس سے آگاہ کیا اور یوں عبد اللہ جاوید نمبر کی اشاعت کا پروگرام فائنل ہو گیا۔

عبد اللہ جاوید کے شعری و افسانوی مجموعے منظرِ پر آ چکے ہیں۔ میرؔ تقی میر کی شاعری اور قرۃ العین حیدر کے ناول ’ ’آگ کا دریا‘‘ کے مطالعہ پر مبنی ان کی دو کتابیں ان کے علمی و ادبی اور تنقیدی شعور کی غماز ہیں۔ تاہم اردو ادب پر ان کی تنقیدی نگاہ بھی بہت گہری ہے۔ لیکن اس خوبی کو یک جا صورت میں ابھی تک سامنے نہیں لایا جا سکا۔ چنانچہ ضروری محسوس ہوا کہ کم از کم ان کی ادبی زندگی کے اس نسبتاً اوجھل پہلو کو کسی حد تک سامنے لایا جائے۔

عبد اللہ جاوید نمبر اپنی عمومیت میں ۲۵۰ صفحات کے اندر مکمل ہو رہا تھا لیکن ان کی تنقید نگاری کے پہلو کو سامنے لانے کے لیے یہ نمبر ضخامت میں تقریباً دوگنا ہو گیا ہے۔ اور یہ صرف ان کے تنقیدی مضامین کو شامل کرنے کے باعث ہوا ہے۔ اردو ادب پر ان کی تنقیدی نگاہ جتنی گہری ہے اتنی ہی وسیع بھی ہے۔ عبد اللہ جاوید اہم ادبی مسائل اور دیگر اہم ادبی موضوعات پر اپنا موقف کھل کر بیان کرتے ہیں۔ ممتاز و معروف ادیبوں سے لے کر آج کے نئے لکھنے والوں تک کے بارے میں اپنی رائے کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے تنقیدی مضامین سے ان کے ادبی شعور کا بخوبی اندازہ کیا جا سکے گا۔

ہماری طرف سے عکاس کا عبد اللہ جاوید نمبر ان کی ۷۵ سالہ علمی و ادبی خدمات کا اعتراف ہے، خراجِ تحسین ہے !

سینیئر اور اہم لیکن گوشہ نشین ادبی شخصیات پر عکاس کے خاص نمبرز کا یہ سلسلہ میرے لیے ایک اعزاز سے کم نہیں ہے۔ امید ہے ادب کے سنجیدہ قارئین اس نمبر کو بھی سابقہ نمبرز کی طرح پسند کریں گے۔

ارشد خالد

 

 

 

 

عبد اللہ جاوید۔ شخص و عکس

مرتب: ارشد خالد

 

نام: محمد عبد اللہ خاں جاوید

قلمی نام: ۱۔ جاوید یوسف زئی ( ساٹھ کی دہائی تک) ۲۔ عبد اللہ جاوید ( زبانِ خلق کی عطا )

پیدائش: غازی آباد (یوپی۔ انڈیا ) ۱۶ دسمبر ۱۹۳۱ ء

والد: محمد اسمٰعیل خاں (مرحوم ) والدہ: شمس النساء بیگم ( مرحوم )

اجداد: ددھیال۔ یوسف زئی افغان، ننھیال۔ ایرانی

تعلیم: ایم۔ اے انگریزی و امریکی ادب،

ایم۔ اے اردو ادب،

ایل۔ ایل۔ بی، ڈی۔ ایچ۔ ایم۔ ایس

پیشہ: ۱۔ وکالت ۲۔ تدریس

قلمی زندگی کا آغاز: ۱۹۴۲۔ ۴۳

شعبہ ہائے ادب: شاعری۔ افسانہ نگاری ( اردو۔ انگریزی )۔

ڈرامے۔ تنقید (اردو )

کالم نگاری: روز نامہ جنگ۔ اعظم اخبار (ہفتہ وار ) روز نامہ جسارت (کراچی )

ٹورانٹو ٹائمز (ہفتہ وار ) اردو پوسٹ۔ ٹورانٹو (ہفتہ وار )

تصانیف: بیادِ اقبال (مضامین ) ۱۹۶۹

موجِ صد رنگ ( شاعری ) ۹ ۶ ۹ ۱۔ اشاعتِ اوّل۔۔ ۔ ۶ ۰۰ ۲۔ اشاعتِ دوم

حصارِ امکاں ( شاعری ) ۳ ۰۰ ۲۔

خواب سماں (شاعری ) ۶ ۰۰ ۲۔

بھاگتے لمحے ( افسانے۔ انتخاب ) اشاعت دسمبر ۲۰۱۰ء

مت سہل ہمیں جانو ( میر تقی میرؔ ۔ مطالعہ ) اشاعت۲۰۱۴ء۔

آگ کا دریا (قرۃ العین حیدر۔ مطالعہ )۔ اشاعت اول ۲۰۱۶ء۔ اشاعت دوم ۲۰۱۷ء

زیرِ ترتیب:

منظومات مولانا جلال ا لدّین رومی (انتخاب)

تنقیدی مضامین

کالم اور انشائیے (انتخاب)

ادبی کالم (انتخاب)

ادبی مضامین اور خاکے ( انتخاب )

افسانے ( انتخاب )

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

خاص گوشے:

جدید ادب جرمنی (جولائی۲۰۰۹ء)

ماہنامہ پرواز لندن ( جولائی ۲۰۱۰ء )

ماہنامہ چہار سو راولپنڈی ( ستمبر، اکتوبر ۲۰۱۱ء)،

عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد (مئی ۲۰۱۴ء)

عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد (ستمبر۲۰۱۵ء)

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

پی ایچ ڈی کا مقالہ

عبد اللہ جاوید شخصیت اور فن مقالہ نگار: ناہید اختر

نگران: پروفیسرڈاکٹر نذر عابد۔۔ ۔۔ معاون نگران: ڈاکٹر الطاف یوسفزئی

ہزارہ یونیورسٹی۔ مانسہرہ

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

متعلقات: شاعرِ صد رنگ عبد اللہ جاوید۔ تجزیاتی مطالعہ تجزیہ نگار: تسلیم الٰہی زلفی۔

خاص نمبر: عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد۔ عبد اللہ جاوید نمبر (زیرِ نظر شمارہ نمبر ۲۷) مدیر: ارشد خالد

 

For Contact

7180-Lantern Fly Hollow,

Mississauga-Ontario,

Canada- L5W-1L6

Tel.: (001) 905- 6969067

E mail: shahnazkhanumabidi@hotmail.com

٭٭٭

 

 

 

موجِ صد رنگ  ۔۔۔ حسن عابدی

 

 

یہ مجموعہ دیدہ زیب ہونے کے علاوہ قاری کو دعوتِ فکرو نظر بھی دیتا ہے۔ اس میں ایک بے چین روح اور متجسّس نگاہوں کی وارداتِ قلبی کو شعر کے پیکر میں ڈھال کر پیش کیا گیا ہے۔ لیکن اس مجموعے کو آپ محض آپ بیتی بھی نہیں کہ سکتے بلکہ شاعر نے دوسروں کے کے دکھوں کو اپنے دکھوں میں اس خوبصورتی سے سمویا ہے کہ ان کو ایک دوسرے سے جدا کرنا بہت مشکل نظر آتا ہے اور یہی شاعر کا کمال ہے۔

مجموعے پر سر سری نظر ڈالنے سے ہی یہ بات وا ضح ہو جا تی ہے کہ انہیں زبان و بیان پر قدرت حا صل ہے۔ وہ زندگی کے بعض دقیق حقائق کو اس آسانی سے بیان کر دیتے ہیں کہ سامنے کی باتیں معلوم ہو تی ہیں حالانکہ یہ بات دیکھنے میں جتنی آسان نظر آ تی ہے اس کو برتنے میں اتنی ہی مشکل پیش آتی ہے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے روایتی انداز پر شعر نہیں کہا بلکہ ان کی سوچ اور اس کے اظہار میں ایک جدّت اور اپج ہے۔ وہ عام مشاہدے اور تجربے کو بھی اپنے اندازِ بیان سے ایک نیا روپ دے دیتے ہیں اس کے علاوہ ان کے اظہارِ بیان میں بھی بڑی بیباکی اور خلوص ہے اس لئے ان کا شعر آسانی سے دل میں گھر کر لیتا ہے۔ تشبیہوں کے استعمال میں انہوں نے خاصے سلیقے اور خوش ذوقی کا مظاہرہ کیا ہے۔ بعض مقامات پر بالکل اچھوتی تشبیہوں کے ذریعے انہوں نے غیر مرئی احساسات کو ٹھوس حقیقتوں کے قالب میں ڈھال دیا ہے۔ مثلاً

؎ یاد یوں دل میں کسی کی آئی

روشنی جیسے نظر تک پہنچی

( یا یہ شعر)

رات کے ساتھ مہ و نجم کا رشتہ ہے مگر

جیسے ظالم کا تعلق ہو مراعات کے ساتھ

جیسا کہ انہوں نے کتاب کے مقدمہ میں کہا ہے کہ ان کا تعلق شاعری میں کسی خاص مکتبۂ فکر سے نہیں وہ شاعری کو آتش لکھنویؔ کی طرح صنّاعی بھی تصوّر نہیں کرتے بلکہ بقول ان کے شاعری صنّاعی نہیں بلکہ خلّاقی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

حصارِ امکاں ۔۔۔  ڈاکٹر الیاس عشقی

 

 

ایسا خیال پڑ تا ہے کہ کسی نے کبھی عبد اللہ جاوید صاحب کی شاعری کے پہلے مجموعے ’ ’ موجِ صد رنگ ‘‘ کو بجا طور پر زندہ جاوید شاعری قرار دیا تھا۔ میں اس میں تر میم وضاحت سے کرنا چاہتا ہوں کہ ایک زندہ جاوید شاعر کی زندہ جاوید شاعری ہے۔ اس لئے کہ شاعری شاعرسے اور شاعر شاعری سے زندہ رہتا اور پہچا نا جا تا ہے۔

پہلی رائے میں مبالغہ کا شائبہ ہو تو ہو مگر میری رائے بے لاگ ہے اور پوری ذمّہ د ا ری کے ساتھ دی گئی ہے کہ اس کتاب کا ظاہر باطن کا اور باطن ظاہر کا آئینہ دار ہے۔ لیکن عروس جمیل کے قامت پر لباس حریر تنگ پڑ گیا ہے۔ کتاب دیدہ زیب اور اس کے مندر جات لطیف اور خیال انگیز ہیں۔

دنیا میں شاعری کی بہت تعریفیں کی گئی ہیں مگر فن کو ئی تعریف قبول نہیں کرتا اور دائرہ امکان کو توڑ کر نکل جاتا ہے۔ عبد اللہ جاوید صاحب نے بھی بڑے خلوص اور ہنر مندی سے اپنی شاعری اور معاصر ادب کے حوالے سے شاعری کی ایسی تعریف کی ہے جو تعریف معلوم نہیں ہو تی۔ انکی تحریر میں جو تازگی اور ابتکار ہے۔ اس سے انداز بیان پر ان کی قدرت ما فی الضمیر کو صاف اور سنہرے انداز میں بیان کرنے کا سلیقہ اور سادہ الفاظ کی معنویت پر ان کی قدرت اظہار کا اندازہ ہوتا ہے۔ انہوں نے شاعر سے زیادہ پڑھنے وا لے کے ذوق پربھروسہ کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ان کے کلام کا ان سے بہتر تجزیہ اور انتخاب کر سکتا ہے۔ یہ بات اپنی شاعری اور اس کے قاری کے متعلق انہوں نے اپنے انداز میں کہی ہے۔ شعر کا معاملہ عجیب ہے۔ اس سلسلے میں ایک عمر کے غور و خوض کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ شعر پڑھتے ہی اور سنتے ہی معلوم ہو جا تا ہے کہ یہ شاعری ہے۔ شعر ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ درمیانی کو ئی راستہ نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں مجھے یہ کہتے ہوئے کوئی تامّل نہیں ہے کہ عبد اللہ جاوید صاحب کا دوسرا مجموعہ ’حصارِ امکان‘ اچّھی شاعری کی کتاب ہے ان کے کلام کے شاعری ہونے میں تو کوئی کلام نہیں لیکن کتنی بڑی شاعری ہے یہ فیصلہ تو وقت گزرنے کے بعد ہی تاریخ کرے گی۔ ابھی تو شاعر اور اسکی شاعری ہماری آنکھوں کے اتنے قریب ہیں کہ آنکھیں پوری طرح ادراک نہیں کر سکتیں۔ کبھی شعر شاعر سے تو کبھی شاعر شعر سے زیادہ بڑا نظر آتا ہے۔ یہ فاصلہ دونوں میں توازن پیدا کر دے گا تو حقیقت ابھر کر سامنے آ جائے گی۔ جہاں تک اس نا چیز کی رائے کا تعلق ہے تاریخ کا فیصلہ ذوق اور عقل کے خلاف نہ ہو گا۔

جدید ترین تنقید نے جس میں بلا شک ایک حد تک فکری صداقت بھی ہے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ شاعر جب خارجی ماحول سے اثرات اخذ کر کے اپنے شعور اور تحت الشعور کے عمل سے گذر کراسے ایک بار پھر خارج کے حوالے کرتا ہے تو اس میں ذاتی عنصر سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ شاعر اپنی شاعری سے بالکل بے تعلق کیسے ہو سکتا ہے۔ فکر و جذبات کا توازن اس قسم کی تقسیم کو اور اس بے رحم عمل کو برداشت نہیں کر سکتا۔ اس مختصر ریڈیائی جائزے میں اس طول کی گنجائش نہ تھی لیکن شاعر نے کچھ ایسے مسائل چھیڑے تھے کہ یہ باتیں نا گزیر معلوم ہوئیں۔ اس طول کلام کے بعد اصلی کتاب کے با رے میں گفتگو کا وقت کم رہ جائے گا اور اس کے ساتھ انصاف نہ ہو سکے گا۔

اس دور میں مختصر نظموں کا رواج ضرورت سے زیادہ ہو گیا ہے۔ جس میں دیسی اور بدیسی سانچے سب ہی ہیں۔ لیکن یہاں ہمارا موضوع دیسی سانچوں سے متعلق ہے۔ ہما رے دور کی مختصر ریزہ چینی کی یہ مثالیں ایسی ہیں جن میں مفہوم کو خورد بین سے تلاش کرنا پڑتا ہے۔ اس سلسلے میں عبد اللہ جاوید صاحب ایک منفرد فکر کے شاعر ہیں۔ ان کی تقریباً سب ہی مختصر نظمیں مرکزی خیال اور فکری عنصر کا ایک توازن پیش کر تی ہیں۔ یہ شاعر کی طبیعت کا توا زن ہے جس نے ان کی اکثر چھوٹی نظموں کو ایک منفرد مقام دے دیا ہے۔

انہوں نے مشرق اور مغرب کے جس فکری اور تیکنیکی توازن کا ذکر کیا ہے اور مشرقی اقدار کی جس پاسد اری کا ذکر کیا ہے وہ بھی ان کی چھو ٹی نظموں میں نظر آتی ہے۔ چھوٹی نظموں کی بلا غت اور معنویت ایک جہاں معنی رکھتی ہے جو الگ ایک اظہارِ خیال چا ہتی ہے۔ یہاں کچھ اور مختصر نظموں کاذکر کرنا ہے انہوں نے بہت طویل نظمیں تو لکھی ہی ہیں لیکن نسبتاً طویل نظمیں بھی مختصر ہی ہیں جن میں بڑے موضوعات کو ’ ’ کوزے ‘‘ میں بند کیا ہے۔ یہ بھی ایک جدا گا نہ بیان چا ہتا ہے اور ہمیں سرِ دست مختصرنظموں سے تعلق ہے۔

’ ’ حصارِ امکاں ‘‘ کو کس خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ ایک لمحہ کو بھی گمان نہیں ہوتا کہ ’ زوا لوجی‘ کی حقیقت بیان کر رہا ہے: سنڈی سے

تتلی کے قالب میں آنا

پھر سنڈی بن جانا

مر جانا

تتلی بن کر اڑ جانا

دیکھئے کس طرح انہوں نے غاؔلب کے دشتِ امکان کو دائرہ امکان میں لا کر ایک فطری حقیقت کو کسی حد تک افشا کیا ہے۔ نظم ’ ’ کیسی بلندی کیسی پستی ‘‘ ملاحظہ کیجئے۔

پانی

با دل کا

اونچے سے اونچا

جاتا بھی ہے

نیچے سے نیچے

آتا بھی ہے

جو حقیقت ان سا دہ لفظوں میں بیان ہوئی ہے حیرت ہے سادہ لفظوں میں کیسے سما گئی۔ اگر آپ کو مایا کا روپ دیکھنا ہو تو اس دشوار فلسفے کو ان سا دہ سلیس لفظوں میں دیکھئے۔

صورت کے اندر

صورت گر دیکھوں

باہر سب دھو کا

کیوں باہر دیکھوں

مایا کے مقابلے میں کس خوبصورتی سے وجود کی تصدیق کی گئی ہے۔ مجرد آزادی کے تصور اور اصل صورت حال کے احساس کی نزاکت دیکھئے۔

پنجرے کے باہر بھی

شاید

پنجرہ ہے

باہر کے باہر بھی شاید

پنجرہ ہے

احساس کی اس سطح پر شاعری کم ہوئی ہے۔ جبرو اختیار کے الجھے ہوئے موضوع کو بھی اس انداز سے بیان کیا ہے تعجب ہوتا ہے کہ انہیں نا گزیر الفاظ کس آسانی سے مل جا تے ہیں ؎

دریا میں رہنا بھی ہے

بہنا بھی ہے

پل پل کچھ کرنا بھی ہے

بھرنا بھی ہے

فصلِ غم بونا بھی ہے

ڈھو نا بھی ہے

مرنے سے ڈرنا بھی ہے

مرنا بھی ہے

غزل کا انداز بھی نرالا ہے مانوس مگر احساس کی سطح پر بلندی کو چھو تا ہوا ؎

جس سے بھی دل لگا وہ بڑی دیر سے ملا جو بھی بھلا لگا وہ بڑی دیر سے ملا

فیصلہ تھا نہ مانگوں اس کو ہاتھ اٹھاتا تو دعا کیا کرتا

اپنی تخلیق کی اکا ئی میں ایک ہیں خلق اور خدا دونوں

مانگتے وقت ہوا کیا جاویدؔ کس کی نیّت تھی کسے مانگ لیا

اپنی حسّیت میں جاوید صاحب سب سے جدا ہو تے ہوئے بھی سب کے ہم آواز نظر آ تے ہیں۔ یہی ان کا کمال ہے۔ (ریڈیائی تبصرہ۔ ریڈیوپاکستان حیدرا باد ، سندھ۔ ۷ ۲ مئی ۲۰۰۳۔ وقت نشر۔ ۴ بج کر ۳۰ منٹ )

٭٭

 

مجھے آپ کی غزل اور نظم دونوں میں بہت کچھ لطف اور ذہنی اور روحانی با لید گی کا سا مان ملا۔ آپ نے اپنے وسیع مطالعے کو بھی اپنی شاعری میں جگہ جگہ سمویا ہے۔

شمس الرحمان فاروقی

٭٭٭

 

 

 

 

عبد اللہ جاوید کی شاعری  ( ایک تجزیاتی مطالعہ)  ۔۔۔ اکرام بریلوی (کینیڈا)

 

عبد اللہؔ جاوید جو اعلیٰ تعلیم سے بہرہ ور ہیں، عالمی ادب پر گہری نظر رکھتے ہیں۔۔ ۔۔ افسانوی ادب اور سنجیدہ کا لم نگاری کے رموز سے واقف ہیں، ان کے تین دیدہ زیب شعری مجموعے منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔۔ ۔ انہوں نے خود اپنے نظریہ شاعری سے متعلق کئی اجمالی اور تفصیلی خیالات کا اظہار کیا ہے جس کا لبِ لباب کچھ اس طرح ہے۔

’ ’ میری رائے میں شاعری صنّاعی نہیں بلکہ خلّاقی ہے اور خلّاقی کو خالص شعوری عمل سمجھنا قرینِ قیاس نہیں۔۔ ۔ شعر وارد ہوتا ہے، لایا نہیں جاتا۔ جب وہ آتا ہے تو اپنے ساتھ وہ سب کچھ لاتا ہے جس کو ہم فارم، اسلوب، آہنگ اور نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ متنوّع اور مختلف فارم شاعری کے خلّاقانہ عمل میں ممد و معاون ہو تے ہیں۔۔ ۔۔ ۔ شعر میں خواہ خطابت کی روح ہو، خواہ فکر کا عنصر، جذبے کی آمیزش ہو کہ احساسِ جمال کا رچاؤ، شعر اوّل اور آخر شعر رہتا ہے اور اس کو شعر کے طور پر دیکھنا ہی صحیح ترین عمل ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ ابہام، ابلاغ میں رکاوٹ کا موجب نہیں ہوتا۔۔ ۔۔ ۔۔ اس سے معنوں میں وسعت پیدا ہو جاتی ہے۔۔ ۔۔ ۔ جس بات کو ہم روایت سے بغاوت کہتے ہیں۔ وہ بھی روایت کے پس منظر میں نمو پاتی ہے۔ ‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

لیکن میری رائے میں بکھری بکھری، ریزہ ریزہ بے نام سی چیزوں کو زندگی دینا شاعری کی جادوگری ہے اور اس زندگی کا اہم ترین اور حسین ترین مظہر انسان اوراسکے مسائل و معمولات ہیں۔۔ ۔۔ پابلو نرودا نے کہا تھا۔ ’ ’ یہ انجان گلی کا بلاوا ہے ‘‘۔۔ ۔۔ شاعر اس انجان گلی میں انجانی بے چینی کے دباؤ میں سر گرداں رہتا ہے کہ یہ ایک بے سمت سفر ہے اپنے آپ کے ساتھ اور اپنے سے ایک با معانی علیحدگی کے ساتھ۔۔ ۔۔ ۔۔ اس حقیقت کو اس طرح بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اجتماعی شعور کے اظہار کے مختلف طریقوں میں سے ایک طریقۂ کار کا نام شاعری ہے۔ شاعری جو زندگی اور انسان کو قریب لا تی ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ اور زندگی اور انسان کی رزم و بزم آ را ئی شاعر کے لئے سر خوشی اور نشاط و انبساط کا حیلہ اور وسیلہ بن جا تی ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ شاعر کا رشتہ گو بظاہر اندھیروں سے ہے مگر وہ اندھیروں میں روشنی اور نور پھیلانے کو اپنا مقصود و منشاء سمجھ تا ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ ہمیں ان ہی حدود و امکانات کے اندر رہ کر عبد اللہ جاوید کی شاعری کو دیکھنا، سمجھنا اور پرکھنا ہے۔

عبد اللہؔ جاوید کا عمومی موضوع انسان اور خدا، اور ان کے اندر اور باہر جو کچھ بھی ہے وہ ان کے ذیلی موضوعات ہیں در اصل ان کی شاعری کا محور صوفیانہ افکار سے ہم رشتہ ہے۔ ان کے صوفیانہ افکار و واردات میں جو والہانہ شیفتگی و بُرشتگی نظر آتی ہے اس میں ان کے ددھیال اور ننھیال کا بڑا حصّہ ہے اور مذہبی روایات کا بھی۔۔ ۔۔ ۔ وہ تصّوف اور طریقت کو انسانیت کی ارتقاء اور تکمیل کا راستہ خیال کرتے ہیں، اور پایان کار، یہی راستہ مذہبی، سماجی، عمرانی اور اخلاقی نظام سے مل جا تا ہے۔ اس اخلاقی درس کے دو مخرج ہیں۔۔ ۔۔ ۔ ایک بے لوث محبّت اور دوسرا دلِ درد آشنا۔۔ ۔۔ ۔ ان دونوں کے امتزاج سے وہ زندگی میں نہ صرف تجربات حاصل کرتے ہیں بلکہ اپنی شاعری میں گہرائی اور گرائی پیدا کرتے ہیں۔ انہوں نے شعوری طور پہ جو نظامِ فکر اپنے ذہن میں قائم کر رکھا ہے اس کی مثال خانقاہوں میں نظامِ عمل کی صورت میں نظر آتی ہے۔ ان کا یہی نظامِ فکر اک گو نا طہارتِ نفس اور پاکیزگی پیدا کرتا ہے، جن کے تمام ممکنات و مضمرات کو میں ’ ’عالمِ سرِّجاں ‘‘ سے تعبیر کرتا ہوں۔۔ ۔ اس مقام تک پہونچنے کے لئے قلبِ ماہیت ضروری ہے، یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب شاعر اپنے زخم کرید کرید کے دکھا نے کے بجائے زمانے بھر کے غم اپنانے کا حوصلہ رکھتا ہو۔۔ ۔ یوں تو ولیؔ اور میرؔ بھی اس ’عالم سرِّجاں ‘ سے گزرے مگر انہیں زیادہ تر مجازؔ سے دلبستگی رہی۔ غالبؔ نے کچھ سوال اٹھائے، تحیّر، تجسّس اور تشکیک سے گزرسے۔۔ ۔۔ جدید دور کے شاعروں میں فانیؔ، اصغرؔ  اور جگرؔ بادۂ تصوّف کے ذوق شناس ہیں۔ لیکن جن شعرا میں، خاص طور پر عالمِ انوار و اقدار اور عشقِ حقیقی کی زمزمہ سنجیاں ملتی ہیں ان میں مظہر جانِ جاناں،ؔ نیازؔ بریلوی، میر عبد الحئی تا باںؔ ، میر دردؔ، قائم چاند پوریؔ، میر اخترؔ، انعام اللہ یقیںؔ  سر تا سر رچے ہوئے ہیں۔ عبد اللہ جاویدؔ پر ان ہی شعرا کا اثر ہے وہ ان کے سفیر و اسیر دکھا ئی دیتے ہیں۔ یہ بات تو یونہی درمیان میں آ گئی تھی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ عبد اللہ جاویدؔ نے اپنی شاعری میں اس منزل تک پہونچنے کے لئے چھپ چھپ کر مژہ مژہ سیلِ خوں بہایا ہے۔ اپنے غموں کو انگیز کر کے دوسروں کے غم کو اپنا یا ہے۔۔ ۔۔ ۔ ان کی زندگی کی راتیں اس کشمکشِ سوزوساز میں گذری ہیں۔ عبد اللہ جاویدؔ  بھی دنیاوی آسائشوں کے میسّر ہونے کے با وجود اسی عالمِ کرب سے گزر رہے ہیں کہ ان کے لئے ’در غمِ دیگر بسوز ‘ وظیفۂ حیات ہے اس لئے ان کے کلام میں وہ ٹھہراؤ، وہ ضبط و احتیاط، اور عناں گیرگی ہے جو صرف اس وقت حاصل ہوتی ہے جو زندگی اور عشق کی تمام صعوبتوں پر انسان عبور پا جائے اور عارفانہ تیور اور بے نیازانہ وضو کے ساتھ سب کچھ سہ لینے کے قا بل ہو جائے۔ عبد اللہ جاویدؔ ہمیں دردؔ کی طرح اسی منزل پر نظر آ تے ہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ یہ وہ منزل ہے جہاں غم نشاط اور اضطراب ایک بلیغ سکون میں ڈھلا ہوا نظر آتا ہے۔۔ ۔۔ ۔ اور اس طرح انہوں نے اپنے باہر کو بھی اپنے اندر سمو لیا ہے اور اسی لئے ان کی شاعری میں بھی کما حقّہ وہ سب کچھ سمٹ آیا ہے جو باہر ہے یا خود ان کے اندر سمایا ہوا ہے۔۔ ۔۔ اور اسی لئے وہ محبّت اور عشق کی سرحد پار کر کے جنوں کی منزل کو چھو تے دکھائی دیتے ہیں۔۔ ۔۔ وہ معرفتِ نفس کی اس منزل کو سرَ کر کے، معرفتِ کائنات اور معرفتِ الٰہی کو پہونچتے ہیں۔۔ ۔ ان کے ہاں جب جذبے پر تخیّل کی ضرب لگتی ہے تو اس میں ایک طرح کی روشنی پیدا ہوتی ہے۔ یہ روشنی ان کے نز دیک تجلّیِ الٰہی ہے جو انہیں مشاہداتِ آب و گلِ اور کرشمۂ حیات سے ہمکنار کرتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس طرح خودی اور خدا ان کے ہاں ایک ہوتے نظر آ نے لگتے ہیں اور میں نے اس حقیقت کو ’عالمِ سرِّ جاں ‘ سے تعبیر کیا ہے۔ آئیے اب ان سیّال کیفیات سے مملو کچھ اشعار ملاحظہ کر لیں ؎

ہمارا سایہ بھی ایسا نہیں کہ اپنا ہو

وہ ساتھ ساتھ بھی رہ کر جدا جدا ہی رہا

 

یوں دیکھئے تو اس کا نشاں بھی کہیں نہیں

محسوس کیجئے تو وہ ہر سُو دکھائی دے

 

حسنِ گریز پا میں ترا آئینہ تو ہوں

لیکن وہ عکس ڈال مجھے تو دکھا ئی دے

 

کیا ہے عشق تو اب روکنا کیا

یہ خنجر تو رگِ جاں پر رکے گا

 

عشق ہے ظاہر میں خوشبو کا سفر

راستہ جاتا ہے انگاروں کے بیچ

 

ان تمام ممکنات و مضمرات کو میں ’عالمِ سرِّ جاں ‘ سے تعبیر کرتا ہوں مگر اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ایک بہار ایجاد ذہن ’نیرنگیِ جلوۂ تن ‘کی لطافتوں سے بے نیاز ہو جائے۔ عبد اللہ جاویدؔ کے ہاں اس طرح کے اشعار کی تہذیب یافتہ تکرار بھی جلوہ ریز ہے۔ ملاحظہ فرمائیں ؎

زیرِ پیرا ہن بھی وہ رنگیں بدن

سر سے پا تک شعلۂ عریاں لگے

 

کہا بھی ہم نے وہ آدمی ہے خواب نہیں

یہ دل غریب مگر خواب دیکھتا ہی رہا

 

بے ساختہ ہنسنے کی ادا یاد رہے گی

ہونٹوں پہ ہنسی، رخ پہ حیا یاد رہے گی

ہر روپ ترا دل پہ مرے نقش رہے گا

ہر بات تری مجھ کو سدا یاد رہے گی

اور ’ ’موجِ صد رنگ ‘‘ کی نظم ’ ’لب بستگی ‘‘ اور جسم کی آواز تو نیرنگیِ جلوۂ تن سے شرا بور ہیں۔ ’ ’موجِ صد رنگ ‘‘میں جذبہ فکر میں لوَ دے رہا ہے تو ’ ’ حصارِ امکاں ‘‘ اور اس کے بعد ’ ’خواب سماں ‘‘ میں فکر میں جذبے کے رچاؤ کے ساتھ فلکس (FLUX)کی سی کیفیت در آئی ہے یعنی سادگی میں ایک طرح کی وسعت اور پھیلاؤ کے ساتھ گہرائی اور گرائی پیدا ہوئی ہے اور عبد اللہ جاویدؔ اس پر کار سا دگی میں ’آزادہ و خود بین ‘ نظر آتے ہیں یعنی انفرادیت پیدا ہوئی ہے۔۔ ۔۔ زیادہ تفصیل میں جانے کی کیا ضرورت ہے، وہ خود ہی کہتے ہیں: ۔

’ ’ موجِ صد رنگ ‘‘ ہو یا زیرِ نظر کتاب (حصارِ امکاں ) میرا شعری اسلوب بندھا ٹکا، سانچے میں ڈھلا یا ڈھالنے والا صنعتی، میکا نکی، دستکارانہ، مشینی، مرصّع کاری سے سجایا ہوا بڑی حد تک ٹھوس اسلوب نہیں ہے۔ اس کے بر خلاف سیّال، لچکدار اور صد رنگ ہے۔۔ ۔۔ ۔ ’ ’موجِ صد رنگ ‘‘ اور ( ’ ’ حصارِ امکاں ‘‘ ) زیرِ نظر کتاب میں جو فرق ہے وہ دو دنیاؤں کا فرق ہے میں ان میں قد رِ مشترک کے طور پر موجود ہوں۔ ‘‘

یہ لچکدار اور صد رنگ کیفیت آئندہ بھی قائم رہتی ہے اور یہی ان کی انفرادی شان اور امتیازی رنگ اختیار کر لیتی ہے۔

نہ تھا وہ جس کو دنیا دیکھتی تھی

جو تھا وہ سامنے آتا نہیں تھا

 

جسم کے اندر سفر میں روح تک پہنچے

مگر روح کے باہر رہے، اندر نہیں دیکھا گیا

یا اس نظم میں ؎

صورت کے اندر

صورت گر دیکھوں

با ہر سب دھوکا

کیوں با ہر دیکھوں !

اور اب وہ جا پان کے بین الاقوامی شہرت یافتہ فلسفی نیشی دا کتا روNishida Kitaroکے قریب آ جا تے ہیں، جس کا کہنا ہے ؎

"The West has taken Being as the ground reality, and the East has taken nothingness and the relationship of the human individual to either or both of these conceptions ”

اس اقتباس کی روشنی میں درجِ ذیل شعر اور نظم ’ ’ سب میں ہوں مگر سب نہیں ہوں ‘‘ کے بعد ملاحظہ فر مائیں۔

نہ ہونے پر بھی ہوں، میں ابتدا سے انتہا تک ہوں

مرا ہونا کوئی دیکھے، میں بندے سے خدا تک ہوں

 

سنّاٹے میں کوئی صدا سی دیتا ہے

سنّاٹے میں بھول نہ جانا، میں بھی ہوں

 

’ ’ وا، صورتِ زخم تھا

اب نہیں ہوں

فریاد تھا، پہلے اب نہیں ہوں

۔۔ ۔ گو، میرا نفس نفس ہے روشن

مانگی ہوئی تاب و تب

نہیں ہوں

دشمن ہوں ازل سے تیرگی کا

میں سنگِ فصیلِ شب نہیں ہوں

مثبت ہوں

نفی سے صلح کر لوں

اتنا بھی تو با ادب نہیں ہوں ‘‘

اور

’ ’موجود ازل سے ہوں، ابد تک

اے وقت بتا میں کب نہیں ہوں

کثرت میں ہوں وحدتِ مبیّن

سب میں ہوں مگر میں سب نہیں ہوں۔ ‘‘

(حصارِ امکاں )

میں اس مضمون کے شروع میں کہہ چکا ہوں کہ عبد اللہ جاویدؔ  کا عمومی موضوع ’ انسان اور خدا ‘ سے ہم رشتہ ہے۔۔ ۔۔ وہ تصوّف اور طریقت کوانسا نیت کی ارتقاء اور تکمیل کا راستہ تصوّر کرتے ہیں یہی سبب ہے کہ انسان اپنے پورے، رومانی، ذہنی، جذباتی، مادّی اور جسمانی وجود کے ساتھ (ان ہی کے الفاظ میں ) گنگناتا، ہمکتا، روٹھتا، اور منتا نظر آ تا ہے۔ اسکے علاوہ ان کی شاعری میں کم و بیش وہ سب کچھ بھی ہے جو ان کے عمومی موضوع کے اندر اور با ہر پھیلا ہوا ہے۔۔ ۔ اس پھیلے ہوئے موضوع میں زندگی اور اس کی ناکامیاں اور نا ہمواریاں بھی ہیں، فطرت کا جلال و جمال بھی ہے، قدرت کے مناظر کا حسن، پھولوں کے رنگ، آزادی کی تڑپ، بھور سمے کا جا دو، اور شام کا طلسم بھی ہے۔۔ ۔۔ ۔ وقت کی سوفطا ئی وسعت کا تصوّر بھی ہے اور حیات کی دلکشی اور دکھ کے ساتھ ایک طرح کا گہرا احساس بھی۔۔ ۔ زمانے کی شکایت بھی ہے اور خود آ گہی اور خدا آ گا ہی کا کرب اور اعتماد بھی ہے۔۔ ۔ ما درِ گیتی کی خوشبو بھی ہے اور نوعِ انسان کا درد بھی ہے اور روایات کا لحاظ بھی۔۔ ۔ اور جدّتِ ادا کی مختلف صورتیں بھی جلوہ گر ہیں۔۔ ۔ یعنی عبد اللہ جاویدؔ زندگی کے شاعر ہیں اور ان کی شاعری کم و بیش پوری زندگی کی وسعت پر حا وی ہے۔ ان کی غز لوں سے کچھ اشعار اور منظومات سے چند حوالوں کی جھلکیاں ملاحظہ ہوں: ۔

ہم خدا کو بھی بسالیں دل کے بیچ

شرط یہ ہے وہ ہمیں انساں لگے

 

اسی نے تیرگیِ شب کی باگ موڑی ہے

وہ ایک شعلہ جو تا صبح کانپتا ہی رہا

 

خاموشیوں میں سرِّ نہاں کھولتا ہوا

گونگا ہے لاکھ پھر بھی سراپا زباں ہے وقت

 

کل کائنات اپنے جلو میں لئے ہوئے

جاویدؔ ہست و بود کا اک کارواں ہے وقت

 

یہ وقت گزر رہا ہے یا میں

خود وقت ہوں اور گزر رہا ہوں

 

اگلے لوگ تو فصلِ جنوں میں دامن چاک پھرا کرتے تھے

آج جنوں کہتا ہے مجھ سے دامن کا ہر چاک سیوں

ترے کوچے میں تھا یہ بات سچ ہے

میں زیر سایۂ دیوار کب تھا

 

جمالِ یار کا جاد و نہیں تو پھر کیا ہے

چمن چمن جو فروزاں ہیں رنگ و بو کے چراغ

 

اور بھی تھے اس کی محفل میں باتیں سب سے ہو تی تھیں

سب کی آنکھ بچا کر اس نے ہم کو تنہا دیکھا تھا

چاند گگن میں ایک ہے لیکن عکس ہزاروں پڑتے ہیں

جس کی لگن میں ڈوب گئے ہم، دریا میں اک سایہ تھا

 

وہ روئے سادہ جو دیکھا تو یاد بھی نہ رہا

کہ لوگ ہم نے کئی ماہتاب سے دیکھے

 

۔۔ ۔۔ ۔ لہو کی بوند

حیات آفریں لہو کی بوند

جگر کی آگ

سلگتے ہوئے جگر کی آگ

ڈھلکتے اشک

کسی ماں کی مامتا کے چراغ

اجڑتے لٹتے ہوئے دلہنوں کے پیار، سہاگ

کراہیں بوڑھوں کی

بچّوں کی سسکیاں، آہیں

جوان سینوں سے ٹکرا تی گو لیوں کی پکار

لہو کے چھینٹوں سے رنگین

سرخ سنگینیں

بموں کے دہن

اگلتے ہوئے دھواں اور آگ

مناؤ جشن تو ان کا بھی کچھ خیال کرو

یہ مانا خاک سے گلزار ہو گئے پیدا

کھلے ہیں کو بہ کو غنچے

گلی گلی کلیاں

بہار آئی ہے، دورِ خزاں تمام ہوا (شہر شہر جشن)

ان کے علا وہ ’ ’سفر ‘‘، ’ ’انتہا ‘‘، ’ ’ اقوامِ متحدہ‘‘ اور چند دوسری نظمیں بھی توجّہ کی مستحق ہیں۔ جن سے پتہ چلتا ہے کہ عبد اللہ جاویدؔ کی شاعری باطنی سطح پر اپنے قاری کو منفی روّیوں سے آزاد اور نشاطِ غم کی عرفانی تہذیب عطا کر تی ہے جو تزکیۂ نفس اور ارتقائے ابدیت کی الہا می سطح ہے جہاں لفظ محض لفظ نہیں رہتا گنجینۂ معنی کا طلسم بن جا تا ہے۔

عبد اللہ جاویدؔ کی شاعری میں کثرت سے بلکہ تکرار کے ساتھ جبر، استحصال اور انسانی جذبوں کی بدلتی شکلیں، طبقاتی، علاقائی مسائل و مظالم اور فکرِ حیات کے حوالے سامنے آتے ہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ان میں ’ ’پھول نظمیں ‘‘ خصوصی توجہ کی اس لئے مستحق ہیں کہ ان میں کہانی، کردار اور کرداروں کا عمل اور ردِّ عمل بھی ابھر کے آتا ہے۔ اِنا انوکھی نظموں سے چند جیتی جاگتی مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

۔۔ ۔۔ پھول حوالہ ہے

تخلیق کی صورت میں

خالق کا اجالا ہے

۔۔ ۔۔ پھول کو اپنانا

آساں تو ہے پہلے

جاں سے گزر جا نا

۔۔ ۔۔ پھول سے مت کھیلو

پتّی پتّی ہونے کا

دکھ پہلے جھیلو

۔۔ ۔۔ پھول کے چوکیدار

رنگ و بو پر پہرے وہرے

سب کے سب بے کار

۔۔ ۔۔ پھول پہ رکھکر پاؤں

جب واجا نے مونچھ مروڑی (واجا۔ مکرانی سردار )

رویا سارا گاؤں

عبد اللہ جاویدؔ نے طنزیہ لہجے کو اس طرح اپنایا ہے کہ اس میں تلخی اور چراندھ کے دھوئیں کے بجائے ایک طرح زندگی آمیز خلش سی کھٹکتی اور چبھتی رہتی ہے اس کارِ ہنر میں وہ اکبر الہٰ آبادی کے شانہ بہ شانہ نظر آتے ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

ہم تو بندے ہیں، خدا کا بھی تصوّر جاویدؔ

ہر زمانے میں بدل جاتا ہے حالات کے ساتھ

 

صحرا صحرا، گلشن گلشن، شبنم کا انجام

چڑھتے سورج کی پوجا میں کس کو رہا ہے یاد

 

کھا پی کر جب راجا رات جگاتا ہے

اس کی بھوکی پر جا سو ہی جا تی ہے

’ قلوپطرہ ‘ والی نظم طویل ہے اس لئے نقل سے گریز کر رہا ہوں۔ اس نظم کے لطیف طنزیہ لہجے کو سمجھنے کے لئے نظم کا مطالعہ از بسکہ ضروری ہے۔ ملاحظہ ہو صفحہ۔ ۱۴۰۔ ۳۶ ۱۔ (موجِ صد رنگ ) ’ ’خواب سماں ‘‘۔ ’ ’ میں گراؤنڈ زیرو ‘‘ اور ’ ’ خونی ریکھا ‘‘ کا بینا لسطور طنزیہ لہجہ بھی خاصے کی چیز ہے۔ ان دونوں نظموں میں طنز کی کاٹ اور تیزی دیر سے سمجھ میں آتی ہے۔

عبد اللہ جاویدؔ اپنے بیٹے اسد جاوید کے پاس شگاگو میں تھے اور میں یہ مضمون لکھ رہا تھا یہ تو میری سمجھ میں آ گیا تھا کہ درویشی و دل ریشی تو انہیں ددھیال اور ننھیال کے حوالے سے ورثہ میں ملی ہے۔ مگر حبِّ اہلِ بیت کی روشنی کی کرن کہاں سے آئی۔ بالآخر میں نے ان سے پوچھ ہی لیا۔ بے ساختہ بولے ’ ’ یہ برقِ تجلّی کی دین ہے جو خانۂ دل میں جوں کعبہ روشن و منوّر ہے۔ ‘‘ بات سمجھ میں آ گئی۔ یہی سبب ہے کہ کربلا کا شعری استعا رہ طرح طرح سے ان کی شاعری کی زینت بنا ہے۔ کہیں اس میں معنوی تہہ نشینی، کہیں رمزو کنا یہ کی اثر آفرینی ہے۔ کہیں اس کا بر ملا اظہار ہوا ہے۔ کہیں اس نے تاریخی واقعات کی شکل اختیار کر لی ہے۔ آئیے اس کی چند مثالیں بھی ملاحظہ کر لیں:

کربلا میں سر کٹا کر بھی نہیں ٹھہرے حسینؐ

تا قیامت بر سرِ نیزہ سفر جاری رہا

 

اے مصلحت کی پست زمینوں کے باسیو

کتنی بلندیاں ہیں سرِ دار دیکھنا

 

دستِ ستم کی پیاس لہو سے بجھا گئے

دیوا نے ریگِ زار میں گلشن کھلا گئے

 

رِدائیں پھر سروں سے کھنچ رہی ہیں

زمینِ کربلا چپ چاپ سی ہے

 

صرف کعبہ پر نہ تھی حجّت تمام

بعد کعبہ کربلا، رکھنی ہی تھی

٭٭

 

جناب عبد اللہ جاوید ایک خوش گو شاعر ہیں انہیں غزل اور نظم پر یکساں قابو حاصل ہے، غنائیت اور شعریت کے ساتھ ساتھ فکر بھی موجود ہے۔ ان کی پابند نظموں میں تسلسل اور خیال کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ غزل ساما نی بھی پوری طرح موجود ہے۔ ان کی غزل میں روایت کے احترام کے ساتھ ساتھ تازہ قا ری کا ہر پہلو موجود ہے۔ ان کی غزل میں عہدِ حاضر کے سا رے قرینے نظر آتے میں۔ جیسا کہ انہوں نے خود کہا ہے ؎

صنفِ محبوبِ غزل کا تو وتیرہ ہے یہی

ہر نئے دور میں یہ تا زہ جوانی ما نگے

ہر اچّھا شاعر خواب ضرور دیکھتا ہے۔ تعمیر کے خواب، انسا نیت کی بہبود کے خواب، عبد اللہ جاوید نے  بھی خواب دیکھے ہیں۔ ان کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ حقیقت میں بھی خواب کے پہلو تلاش کر لیتے ہیں ؎

کہا بھی ہم نے کہ وہ آدمی ہے خواب نہیں

یہ دل غریب مگر خواب دیکھتا ہی رہا

ان کی شاعری میں غمِ عشق کے ساتھ ساتھ شعورِ ذات بھی ہے، کائنات فہمی میں بھی اور ذات و صفات الٰہی کی آگہی بھی۔ کائنات، اپنی ذات اور اپنے خدا سے رشتہ، یہی تین عناصر ہیں جو حقیقی غزل کو جنم دیتے ہیں اور ایسے ہی شاعر کو یہ کہنے کا حق حاصل ہے کہ غزل کی صنف سمندر کی طرح وسیع ہے ؎

ہم نے اس صنف کو پر کھا تو سمندر پایا

لوگ کہتے ہیں کہ دامانِ غزل تنگ بھی ہے

ابوالخیر کشفی

٭٭٭

 

 

 

 

شاعرِ صد رنگ ۔۔۔  رضی مجتبیٰ

 

شاعری کی کوئی بھی تعریف کرنا اس لیے محال ہے کہ شاعری میں موجود ابہام، جس کے بغیر شاعری ہی ممکن نہیں، اسے انتہائی Complex بنا دیتا ہے۔ اور غالباً اس ہی وجہ سے ارسطو نے کہا تھا کہ شاعری فلسفہ اور تاریخ دونوں سے کہیں زیادہ اہم ہوتی ہے۔ عبد اللہ جاوید صاحب نے اپنی ایک کتاب کے پیش لفظ میں جو بات خارج اور داخل اور صد رنگ کے پیچھے یک رنگ کی موجودگی کے بارے میں کہی ہے، اس کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے جو باتیں سامنے آتی ہیں وہ یہ ہیں کہ ان کی شاعری نے آج کے بیشتر جدید شاعروں کی طرح روایت سے ایک Absurd بغاوت نہیں کی بلکہ روایت کو اپنا کر جدیدیت کا Back Drop بنایا ہے۔ ’ ’موجِ صد رنگ‘‘، حصارِ امکاں ‘‘ اور ’ ’خواب سماں ‘‘ کی شاعری کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ عبد اللہ جاوید صاحب آج کی دنیا کی Sensibility میں ڈوبے ہوئے ہیں مگر انھوں نے اس Sensibility میں روایت کا رنگ بھر رکھا ہے۔ اگرچہ کوئی شعر کسی موضوع کو سامنے رکھ کر نہیں لکھا جاتا ہے بلکہ ’ ’اندھیرے ‘‘ میں تخلیق ہوتا ہے مگر جدید دور کے پیچیدہ مسائل اور ان سے پیدا ہونے والی محسوساتی اور جذباتی پیچیدگی کی نبض عبد اللہ جاوید صاحب کے یہاں تقریباً ہر تخلیق میں چلتی ہوئی محسوس کی جا سکتی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ عبد اللہ جاوید صاحب، جن کو مغرب کے ادب سے بھی گہری شناسائی ہے، کہاں تک شاعری میں Profundity یا تعمق کی اہمیت کو مانتے ہیں۔ مگر میں چونکہ غالب اور شیکسپیئر کا دیوانہ ہوں اس لیے میں ہر شاعر کے یاں تعمقِ فکر اور گداز دِل دونوں کو باہم دیکھنے کا مشتاق رہتا ہوں۔ حرف و بیاں سے متعلق عبد اللہ جاوید صاحب کے ہاں ایک بے نیازی پائی جاتی ہے اور اس لیے کہ بقول ان کے ان پر شعر نازل ہوتے ہیں۔ اگرچہ کہ یہ ایک افلاطونی نظریہ ہے مگر عبد اللہ جاوید کے یہاں یہ نظریہ نہیں ایک وتیرہ ہے۔ مجھے عبد اللہ جاوید صاحب کی شاعری پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی شاعری اپنے آپ سے گریز اور حقیقت کے نکتۂ اتصال سے گریز کے جمال سے تابندہ ہے۔ اپنی ذات سے فرار بھی ان کے ہاں پایا جاتا ہے اور غالباً یہی فرار ان کی صد رنگی کو جلا بخشتا ہے۔

عبد اللہ جاوید صاحب کو جدیدیت کے تقاضوں کو نبھانے میں کمال حاصل ہے۔ ان کے شعر میں جدیدیت روایت سے پیدا ہوتی ہے اور یہی ان کے شعر کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ ان کے لیے دامانِ غزل تنگ اس ہی لیے نہیں کہہ ان کے پاس روایت اور جدیدیت دونوں کی وسعتیں موجود ہیں۔ ان کے اشعار میں جدید احساس ’ ’میریت‘‘ لیے ہوئے ہوتا ہے۔ وہ بھی میرؔ کی طرح ساری کائنات کو اپنی شاعری میں سمونے کے آرزو مند نظر آتے ہیں۔ مگر یہ شعوری نہیں ایک لاشعوری کوشش ہے۔ ورنہ تو ان کی شاعری میں ابہام کا حُسن باقی نہ رہتا۔ مجھے ان کی شعری مجموعوں میں جو شعر پسند آئے ہیں ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:

یہ بھی بہت ہے سینکڑوں پودے ہرے ہوئے

کیا غم جو بارشوں میں کوئی پھول مر گیا

 

وہ بھی رہتا ہے اسی دنیا میں

خاک دنیا سے کنارا ہو گا

 

جنوں سے کم تو نہیں ہے یہ شدتِ احساس

جو شاخِ گل کہیں لچکی تو سانپ لہرایا

 

ٹھہرے پانی کی طرح جینے سے بہتر ہے یہی

صورتِ آبِ رواں خود کو گزرتا دیکھنا

 

ڈوبنے پر مجھے معلوم ہوا

جس میں ڈوبا وہی دریا میں تھا

 

ہم اُسے دیکھنے کہاں جائیں

وہ تو اک شخص ہے گماں جیسا

 

چار کمروں کے مکاں میں اپنے

اک پچھل پائی بھی آ بیٹھی ہے

 

اپنی ہی سوچ پہ چلنا چاہے
اپنی ہی سوچ سے ڈر جائے جی

نئی نسل کے وہ شعرا جو جدید بننے کی آرزو میں Triggering اور کسی حد تک پیروڈی کے سے شعر کہتے ہیں ان کو عبد اللہ جاوید صاحب کی شاعری کو بغور پڑھ کر ان سے سیکھنا چاہیے کہ جدّت کیسے پیدا کی جاتی ہے۔ میں نے خود بھی ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔

٭٭

 

میں شاعری بڑے شوق سے پڑھتا ہوں لیکن شاعری کے نقّادوں کی طرح رائے نہیں دے سکتا کہ میں نے اسے کبھی اس نظر سے پڑھا ہی نہیں اور نہ ہی مجھ میں اتنی صلاحیّت ہے کہ موزوں طبع ہونے کا دعویٰ کر سکوں۔ لیکن جب کچھ اشعار دماغ سے گزرنے کے بعد دل کے کسی پوشیدہ گوشے میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اور پھر اس سے آگے روح میں اگر داخل نہ بھی ہو سکیں لیکن اس کے ارد گرد منڈ لا نے لگیں۔ ست رنگی تتلیوں کی طرح۔ تو یقین جا نئے کہbliss کی سی کیفیت طا ری ہو جا تی ہے اور یہی کیفیت آپ کے مجموعے کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوئی۔ آپ نے نجا نے کتنی جگر سوزی سے یہ کلام تخلیق کیا ہو گا۔ مجھے تو یہ عطیہ بے دام ہی مل گیا۔ از حد مسرت ہوئی اور بے حد ممنون بھی ہوں۔

دیوندر اِسر

٭٭٭

 

 

 

 

عبد اللہ جاوید کی تمثال نگاری ۔۔۔ ستیہ پال آنند ( یو ایس اے )

 

یہ مضمون عبد اللہ جاوید صاحب کی نظمیہ شاعری تک ہی محدود ہے۔ ان کی غزلیہ شاعری اس کے دائرے سے باہر ہے۔ موضوع، مضمون اور متن ( بشمولیت اسلوب، اظہار اور زبان) اس مضمون میں صرف اس حد تک زیر بحث آئیں گے، جس حد تک وہ امیج، استعارہ اور علامت سے متعلق ہیں۔

اس مضمون میں ’ امیج‘، استعارہ ‘، ’ علامت‘ تین اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں۔ جوmutually inclusive بھی ہیں اور الگ الگ بھی زیر بحث لائی جا سکتی ہیں۔ تینوں تمثال نگاری میں ممد و معاون ہیں، اس لیے ان کی تشریح و تفسیر ضروری ہے۔ میں کچھ مضامین سے ان کے بارے میں اقتباسات دے رہا ہوں تا کہ واضح ہو جائے کہ جب میں ان کا اطلاق عبد اللہ جاوید صاحب کی شاعری پر کرتا ہوں تو ان سے میری مراد کیا ہے۔

’ ’استعارہ کے معنیائی سانچے Matrix کو سمجھنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے اس کے اندر پوشیدہ امیج پر توجہ مرکوز کرنا پڑے گی۔ امیج کی اپج کے پروسس کو کئی سطحوں پر پرکھا جا سکتا ہے۔ ( Marks, David. 1983 ) لیکن دو سطحیں ہماری بحث کے لئے موزوں ہیں۔ ایک تھیوری کو Computation کی تھیوری کہا گیا ہے اور دوسری کو Algorithms کی تھیوری کا نام دیا گیا ہے۔ پہلی تھیوری میں یہ فرض کیا گیا ہے کہ انسانی ذہن میں پہلے سے موجود مختلف النوع حصص کو جمع کر کے ذی حس انسان ( اس مناظر میں ’ ’ شاعر ‘‘) Picture processing Module تیار کرتا ہے۔ یہ حصص آپس میں گتھم گتھا پیوست ہوتے ہوئے ایک تصویر کی شکل بن جاتے ہیں۔ دوسرے Module میں مختلف حصص کو ایک ایک کر کے صرف ان عناصر کو پورے امیج میں مدغم کیا جاتا ہے جو مکمل طور پر اس سے مطابقت رکھتے ہیں۔ ’ ’ پھول توڑتی ہوئی لڑکی‘‘ پہلی قماش کے امیج میں شمار ہو گا۔ ’ ’ پھول توڑتی ہوئی لڑکی کے گال پر ایک تل اور ایک تتلی ‘‘ دوسری قسم کے امیج میں شمار ہو گا۔۔ ‘‘   ( ستیہ پال آنند۔ ’ ’ استعارہ کیا ہے ‘‘، مشمولہ ’ ’ سمبل ‘‘ راولپنڈی )

’ ’امیج سیدھی سادی ذہن میں متشکل کی کئی، تصویری مفہوم پر مبنی ایک شبیہ ہے جو ساکن بھی ہو سکتی ہے اور متحرک بھی۔ عام طور پر یہ صرف قوت باصرہ کو ہی متوجہ کر سکتی ہے۔ لیکن بسا اوقات یہ عناصر اربعہ میں سے ایک سے زیادہ عناصر کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ ساکن امیج آرٹسٹ کی بنائی ہوئی سٹل لائف پکچر still life picture کی طرح ہے، جبکہ متحرک امیج ایک تیز چلتے ہوئے slide show کی حیثیت رکھتا ہے۔ ‘‘

( ستیہ پال آنند، ’ ’ نصیر احمد ناصر کی شاعری میں روشنی کا استعارہ۔ ‘‘ مشمولہ ’ ’ مونتاج‘‘ لاہور۔ )

’ ’ علامت استعارے کی جیومیٹری کے ایک سے زیادہ قوسوں، زاویوں اور گولائیوں پر انحصار رکھتی ہے۔ کبھی اس کا ماخذ صرف ایک باصری پیکر ہے اور کبھی یہ تاریخ، اسطورہ یا مذہب سے اخذ کی گئی اصطلاحات کو عصر حاضر کے چوکھٹے میں رکھ کر اپنے معانی تلاش کرتی ہے۔ کچھ اصطلاحات، جیسے صبرِ ایوبی، عدل نو شیروانی، سدِ سکندری، لچھمن ریکھا، چودہ برس کا بن باس وغیرہ، اپنا تصویری مفہوم کھو چکنے کے باوجود اپنا علامتی مفہوم رکھتی ہیں۔ ‘‘ ( ’ ’ علامت کیا ہے‘‘، مشمولہ فنون۔ لاہور)

یہ طویل اقتباسات شاید اس مضمون کی طبع نازک پر گراں گذریں، لیکن اس کے بغیر چارہ نہیں تھا۔ اگر مجھے جاوید صاحب کی شاعری کو ایک خاص فریم آف ریفرنس میں رکھ کر دیکھنا ہے تو ان تین اہم اصطلاحات کے بارے میں اپنا عندیہ بیان کرنا ضروری ہے۔ آج سے بیالیس برس پیشتر یعنی 1968 ء میں اپنے شعری مجموعہ ’ ’ موج صد رنگ ‘‘ کے دیباچہ میں عبد اللہ جاوید نے لکھا۔

’ ’ چونکہ تخلیق کا عمل ایک نیم نازک، نیم روشن فضا میں ظہور پذیر ہوتا ہے، اس لیے لازماً ابہام کا حامل ہوتا ہے۔ ہر لفظ معنویت کی ہلکی پھلکی پر چھائیں لیے ہوتا ہے۔۔ ۔۔ یہی حال کسی مصرعے یا شعر کا ہے۔ ایسی صورت میں شاعری میں ابہام ناگزیر ہے۔ یوں بھی ابہام ابلاغ میں رکاوٹ کا موجب نہیں ہوتا بلکہ اس امر میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔ اس سے معنی میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور قاری کی ذہنی صلاحیت کے مطابق معانی اور مطالب میں تبدیلی کے امکانات رہتے ہیں۔ ‘‘

جب عبد اللہ جاوید لکھتے ہیں۔ ’ ’ قاری کی ذہنی صلاحیت کے مطابق معانی اور مطالب میں تبدیلی کے امکانات رہتے ہیں ‘‘ تو وہ ’ ’ قاری اساس تنقید ‘‘ کی تھیوری کی پیش بینی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، ہمیں علم ہے اس تھیوری کا چرچا جدیدیت کی تحریک کے سیلاب کے بعد اس کی باقیات کے طور پر شروع ہوا اور 1968 ء میں ابھی

اردو میں وہ ’ ’ گرنتھ ‘‘ نہیں لکھے گئے تھے جو یورپی نظریہ ساز تنقید نگاروں کے ترجمے یا چربے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ اس برس چھپی ہوئی یہ کتاب ان مشمولات کا احاطہ کئے ہوئے ہے جو غالباً اس سے بھی پہلے کے دس برسوں کے دورانیہ میں لکھی گئیں۔ ظاہر ہے کہ ایک بیدار مغز شاعر کے طور پر جاوید صاحب شاعری کی اساس کے بارے میں ’ ’ آگاہ ‘‘ تھے، جو کہ بہت سے دیگر ہم عصر شعراء کے بارے میں نہیں کہا جا سکتا۔ اس شعری مجموعہ کے طبع دوم (2006ء) کے پیش لفظ میں اگر شاعر نے ان الفاظ میں ترمیم و اضافہ کی ضرورت محسوس نہیں کی تو یہ اندازہ لگانا بھی غلط نہیں ہو گا کہ وہ اپنے موقف پر اب بھی قائم ہے۔ دوم شاعری میں صراحت یا قاری تک اس کے معانی کی ترسیل کے سلسلے میں جو بات انہوں نے تحریر کی ہے، وہ صنف غزل کے نسبتاً کم کشادہ تنقید کی زبان کے دائرے میں ’ ابہام ‘ کی اصطلاح سے پہچانی جاتی ہے۔ نظم کے بارے میں لکھتے ہوئے آج کا تنقید نگار یا ریسرچ سکالر ایک مختلف قسم کیTechnical balances of literary criticism استعمال میں لاتا ہے۔ بہر حال عبد اللہ جاوید نے ان سطروں میں ان clichés کا سہارا نہیں لیا۔ جنھیں نقاد دہراتے دہراتے تھک گئے ہیں۔ ’ ’ نیمے دروں نیمے بروں ‘‘، ’ ’ صاف چھتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں ‘‘ وغیرہ۔۔ ۔۔ تنقید کے اس current coinage سے تو ہم سب آگاہ ہیں، لیکن عبد اللہ جاوید کی پیکریت اور تمثال سازی سے مملو ’ ’ نیم روشن فضا ‘‘، ’ ’ معنویت کی ہلکی پھلکی پر چھائیں ‘‘ ’ ابہام ‘ کے تصویری مفاہیم کے طور پر آج سے بیالیس برس پیشتر شاید پہلی بار استعمال میں لائی گئی ہوں۔

میں اب تفصیل سے جاوید صاحب کے تین بڑے شعری مجموعوں ’ ’ موج صد رنگ ‘‘، ’ ’خواب سماں ‘‘، اور ’ ’حصار امکاں ‘‘ کا جائزہ لینے کی سعی کروں گا صرف یہ دیکھنے کے لیے کہ وقت کے ساتھ امیج، استعارے، اور علامت کے استعمال میں ان کے فن شعر میں کیا تبدیلی رونما ہوئی۔

’ ’ موج صد رنگ ‘‘ ( جیسا کہ گذشتہ صدی کی ساٹھ کی دہائی میں رواج تھا) بنیادی طور پر غزلیات کا مجموعہ ہے۔ اٹھاون غزلیات کے ساتھ تیس کے لگ بھگ نظمیں بھی ہیں، لیکن ان نظموں میں بھی ( ایک دو کو چھوڑ کر ) صنف غزل کے بین المتونیت کے توشہ خانے سے مستعار تشبیہوں، اشاروں، کنایوں پر زیادہ تکیہ کیا گیا ہے۔ بنیادی امیج تصویری مفہوم پر قناعت کرتے ہوئے علامت اور استعارہ سازی میں کم کم ممد و معاون ثابت ہوا ہے۔ تو بھی کچھ نظموں میں اس بات کے شواہد ملتے ہیں کہ جاوید صاحب ان پر قانع نہ رہ کر ( غزلوں میں کم اور نظموں میں زیادہ) ان تجربات کو اپنی گرفت میں لینے کی سعی کرتے رہے ہیں، جن کی وجہ سے آج کی نظمیہ شاعری اپنی الگ شناخت رکھتی ہے۔ صرف یہ بات کہہ دینا شاید کافی نہ ہو کہ چونکہ غزل، ( بالخصوص کلاسیکی غزل )، موضوعات کی سطح پر ایک مدت سے یادِ ماضی، اور ہجر و وصال کو ’ من و تو‘ کے چوکھٹے میں رکھ کر پیش کرتی آ رہی ہے۔ اس لئے ان نظموں میں بھی یہ اثرات نمایاں ہیں۔ کیوں کہ کچھ نظموں میں ان موضوعات کا متن میں رچاؤ یکسر مختلف ہے۔ مثال کے طور پر ’ ’ نقشِ دوام ‘‘ یہ بھی کہا جا سکتا ہے ’ ’ دلاسا ‘‘، ’ ’ ہوا ‘‘، ’ ’ قلوپطرہ‘‘، ’ ’ بے ساختہ ہنسنے کی ادا‘‘، ’ ’ لب بستگی ‘‘، ’ ’ زیست ‘‘۔۔ ان نظموں میں یادِ ماضی کو ایک سہانا خواب یا ایک قبیح عذاب تسلیم کرتے ہوئے متشکل کیا گیا ہے۔ لیکن جاوید صاحب کلاسیکی جکڑ بندیوں سے آزاد ہو کر بھی ایک ایسا اسلوب، بیان اور لفظیات کا ایک ایسا بہاؤ اور آہنگ بروئے کار لاتے رہے ہیں جو کلاسیکی غزل کا خاصا نہیں۔ اسی طرح ہجر و وصال کے oft-celebrated موضوع کو ’ ’ واپس آ جاؤ ‘‘، ’ ’جدائی ‘‘، ’ ’ مکالمہ ‘‘، ’ ’ رسوائی ‘‘ اور اس زمرے کی ایک دو اور نظموں میں اگر برتا بھی گیا تو پیش پا افتادہ کلیشے زدہ اندازِ بیان قسم کا aesthetic distance رکھ کر۔ وقت، زماں اور مکاں کا موضوع ’ ’ بھاگتے لمحے، بدلتے روپ ‘‘، ’ ’عرفانِ نفس‘‘ اور ’ ’ نوشتۂ دیوار ‘‘ میں نبھایا گیا ہے اور ان میں یقیناً وہ سب کچھ موجود ہے جس کی توقع جدید شاعری کے ایک اچھے شاعر سے کی جا سکتی ہے۔

دو نظمیں جن کی طرف خصوصی توجہ مبذول ہوتی ہے جو دیگر نظموں سے مختلف بھی ہیں اور treatment کی سطح پر ممتاز بھی، وہ نسبتاً طویل ہیں۔ ’ ’ جسم کی آواز ‘‘ ایک اعلامیہ ہے جو جسم کو روح پر فوقیت دیتے ہوئے ’ ’ جسم ‘‘کو صیغہ جمع میں رکھتا ہے۔۔ اسی طرح ’ ’ بھاگتے لمحے بدلتے روپ ‘‘ میں وقت کے روشن لمحوں کے ریشمی ملبوسات کے تار تار ہونے کی دہائی ہے۔ اسی نظم کے پانچویں بند سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ بیانیہ اور علامیہ کیسے کئی بار امیج کو تشبیہ تک متشکل کرنے کے بعد استعارے اور علامت سے کسی حد تک کنی کترا جاتا ہے۔ تو بھی آخری سطر تک زرِ متروک میں سے بھی پائی پائی وصول کرنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہے۔

وقت کے ساتھ گزرتے گئے روشن لمحے

زیست کی قوسِ قزح رنگ سے محروم ہوئی

رات کا روپ لٹا

سحر کا جادو ٹوٹا

فصلِ گل حسن سے بیگانہ ہوئی

اور خزاں

حیف خالی ہوئی اسرار سے رومانوں کے !!

زیست کی قوسِ قزح، رات کا روپ، سحر کا جادو ( یہاں ’ سحر‘ کے تلفّظ میں شاید سہو ہے)، فصلِ گل کا حسن، اور خزاں کے رومانوں کے اسرار۔۔ ۔ بے حد خوبصورت لفظ ہیں۔ جو بصری امیج کو کانسیپٹ سے منسلک کرتے ہوئے پیش ہوئے ہیں لیکن اپنی تصویری جیومیٹری میں مخلوط استعارہ بنتے بنتے رہ جاتے ہیں۔۔ ۔ اور پھر صرف ایک لفظ ’ حیف ‘ کے المناک علامیے سے ایک نیا جامہ اوڑھ لیتے ہیں۔ لیکن اسی بند کی حسبِ ذیل سطریں ایک دیگر منظر نامہ پیش کرتی ہیں۔ جہاں شاعر کی قدرت استعارے اور علامت کو بخوبی اپنی مٹھی میں جگنو کی طرح قید کر لیتی ہے۔

وقت کے ساتھ

زمانے کا فسوں بھی ٹوٹا

دیکھتے دیکھتے ہر ریشمی پردہ سرکا

کھینچ کر پھینک دیا

وقت نے ہر شے کا لباس

زیست بھی ہو گئی

عریاں

زن قحبہ کی طرح!!

قطع نظر اس بات کے کہ ’ ’ فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن ‘‘ کی تقطیع میں یہ صرف چار سطریں جنھیں قطع و برید سے آٹھ بنا دیا گیا ہے، استعارے کی سطح پر ایک الگ ہی منظر نامہ پیش کرتی ہیں۔ ’ ’ لباس ‘‘ ’ ’ پردہ ‘‘ اور انہیں بے دردی سے کھینچ کر پھینکنا ایک متحرک بصری امیج ہے لیکن اس کا دوسرا کنارہ اسے استعارے میں بدل دیتا ہے۔

’ ’ زیست بھی ہو گئی عریاں زنِ قحبہ کی طرح‘‘۔ مجھے یہ باور کرانے میں کوئی عار نہیں کہ اپنے پیش لفظ میں ’ ابہام ‘ اور

’ قاری اساس تنقید ‘ پر رائے زنی کرنے والا شاعر اس شعری مجموعہ میں خود ’ نیمے دروں نیمے بروں ‘ کوشاں تھا کہ اپنے اس تجربے کو کیا حتمی شکل دے جس سے وہ غزل کی روایت سے باہر آ کر استعارے اور علامت کی توسط سے وہ بات کہہ سکے جسے اظہاریہ، بیانیہ یا اعلامیہ کے لبادے میں ملبوس کر کے کہنے کی عادت ثانی اس عہد کے تقریباً سبھی شعرا کو تھی۔ اس سے دو قدم آگے جائیں تو کہا جا سکتا ہے کہ اس مجموعے میں اس بات سے بھی پرہیز کیا گیا ہے کہ دور دراز کھینچ کر لائے ہوئے ایسے استعاروں، تشبیہوں، اشاروں سے پرہیز کیا جائے، جو اپنی ملفوفیت کی وجہ سے کسی بھی نظم کا حسن سنوارنے کے بجائے اسے بگاڑ دیتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ رمز اور استعارے کا برمحل استعمال ہی شعر کو حسن بخشتا ہے۔ لیکن گنجلک استعارے معنی کے موتی کو ڈبیا میں، ڈبیا کو ایک صندوق میں اور صندوق کو ایک سمندر کی گہرائی میں ڈبو دینے کا وہ عمل ہے جو سہل ممتنع کی ضد ہے۔ اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ جاوید صاحب نے اس مجموعے کی منظومات میں سہل ممتنع سے کام لیا ہے، لیکن یہ ضرور ہے کہ صراحت کی اکہری سطح پر قناعت نہ کرتے ہوئے جہاں جہاں وہ رمز اور علامت کا سہارا لیتے ہیں، خوش سلیقگی سے اسے پھر اپنے اظہاریہ کے انداز اور الفاظ کے استعمال سے صراحت کی طرف موڑ کر لے آتے ہیں۔ مفہوم کی ادائیگی براہِ راست ہونے کے باوجود قاری تک کوئی پیغام پہچانے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ جو بات اظہر من الشمس ہے وہ یہ ہے کہ کہیں بھی شعریت سے عاری درشت یا کھردرا لہجہ ( جو رواج کے طور پر جدید تر نظم کا شعار بن چکا ہے ) نہیں ہے۔ جاوید صاحب نہ صرف نظم کی ’ شعریت‘ سے واقف ہیں بلکہ اس کے لوازمات کو اس خوبی سے استعمال کرتے ہیں کہ عام قاری محظوظ تو ہوتا ہی ہے لیکن باز آفرینی کے طور پر نظم کے مکرر مطالعہ سے ایک آگاہ قاری یہ بھی معلوم کر لیتا ہے کہ شاعر نے کس خوبی سے ان لوازمات کو برتا ہے۔ کچھ سطریں جن میں آسانی سے سمجھ آ سکنے والے استعاروں کا چلن ہے، یہ ہیں۔

یہ گذرتا ہوا لمحہ ہے اک آزاد پرند

برق رفتاری سے اڑتا ہی چلا جاتا ہے

ایک موہوم حقیقت ہے، حقیقت ہی سہی

اک بدلتی ہوئی شے

جس کا نہ ادراک ہوا

اور گزرا ہوا لمحہ ہے گرفتار قفس ( موئن جو ڈارو )

( ‘‘ آزاد پرند ‘‘ اور ’ ’ گرفتار قفس‘‘ غزل کے استعارتی توشہ خانے سے مستعار ہوتے ہوئے بھی ’ ’ گزرے ہوئے لمحے ‘‘ کے حوالے سے نئے تو ہیں ہی لیکن صراحت کا دامن بھی نہیں چھوڑتے۔)

عبد اللہ جاوید کی وہ منظومات جو نسبتاً نئی ہیں، اس مجموعے کی منظومات سے ایک الگ مخلوق ہیں۔ یہ ان کے دو دیگر شعری مجموعوں میں شامل ہیں۔ ’ ’ حصار امکاں ‘‘ 2003 ء میں شائع ہوا۔ اس میں نظموں کی تعداد پہلے مجموعے سے کہیں زیادہ ہے۔ غزلوں اور نظموں کے سیکشن الگ الگ نہیں کئے گئے۔ کچھ غزلیں بھی مسلسل غزل کے زمرے میں شامل کی جا سکتی ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاعر شعوری یا لاشعوری طور پر غزل گوئی کی نسبت نظم نویسی کی طرف ’ مائل بہ کرم ‘ ہوتا جا رہا تھا۔ اس کے بعد کا، یعنی تیسرا شعری مجموعہ ’ ’ خواب سماں ‘‘ 2006 ء میں اشاعت پذیر ہوا۔ اس میں حصۂ غزل کو سرکا کر پیچھے کر دیا گیا ہے۔ ( یاد رہے کہ پہلے مجموعے میں یہ سر فہرست تھا! ) اور نظموں کے بر عکس تعداد کے علاوہ اہمیت میں بھی غزلیات اس مجموعے میں ایک غیر اہم ضمیمہ سی دکھائی دیتی ہیں۔ یعنی شاعر آہستہ آ ہستہ، لیکن پوری شدّ و مد کے ساتھ صنفِ غزل سے جیسے پیچھا چھڑوانے کے در پے ہے۔

ان دو شعری مجموعوں کو، پہلے مجموعے کے تناظر میں رکھ کر کچھ اور اندازے بھی لگائے جا سکتے ہیں۔ جہاں اپنے طور طریق میں جاوید صاحب کچھ شعری عادات سے دست بردار ہو گئے ہیں، وہاں کچھ دیگر قاعدوں کو انہوں نے نہ صرف بدستور قائم رکھا ہے، بلکہ انہیں زیادہ مستحکم کر دیا ہے۔ یہ قاعدے stylistic devices کے زمرے میں آتے ہیں اور ایک Conditioned Reflex ( عادتِ ثانیہ) کی طرح ان کے ساتھ چلتے آئے ہیں۔

آگے بڑھنے سے پہلے ان کا لیکھا جوکھا کرنا ضروری ہے۔

ہیئت سے مراد جہاں بہت کچھ اور بھی ہے، وہاں عروضی ارکان کی بنیاد پر، یا اس سے انحراف کرتے ہوئے سطروں کی تراش خراش ہے۔ عام طور پر کسی بھی شاعر میں یہ عادت ثانیہ ایک سی ہے اور کسی مخصوص نظم کے موضوع اور متن کے باہمی تعلق سے اگر اس نظم میں شاعر اپنی عادت سے گریز کرتا بھی ہے تو عارضی طور پر ہی وہ اس گریز کو ’برداشت‘ کرتا ہے۔ کسی بھی نظم کی ایک سطر عروضی ارکان کے انسلاک سے ایک ایسی ’ اینٹ‘ ہے، جو دیگر ’ اینٹوں کی بنیاد در بنیاد بنتے ہوئے نظم کے پورے ڈھانچے کو استوار کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ سطر کی تراش میں تجربہ کاری کی ایک صورت اینٹوں کے ساخت اور سائز کو چھوٹا یا بڑا کرنے سے متعلق ہے۔ اور بیشتر شعرا اپنی جدت پسندی کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔ ( انگریزی میں E.E.Cummings کی مثال دی جا سکتی ہے۔ ) جاوید صاحب شروع سے ہی اپنی منظومات میں مختصر سطر کا التزام برتتے آئے ہیں۔ ان کی بیشتر نظمیں ایسی ہیں کہ اگر ان کی سطروں کی طوالت کی پرواہ نہ جائے اور کسی بھی بحر کے عروضی ارکان کی طرح انہیں لکھا جائے تو ان کی نظم

’ بلینک درس‘ سے نظم معرّا کی صورت اختیار کر لے گی۔ ملاحظہ ہو۔

فکر تلوار ہے

احساس سمِ قاتل ہے

فکر و احساس میں سمبندھ

نہ ہونے پائے

ذہن میں ٹیس اٹھے

روح نہ رونے پائے

فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن۔۔ ۔ میں یہ تین مصارع باقاعدگی سے تقطیع کئے جا سکتے ہیں۔ ملاحظہ ہو۔

فکر تلوار ہے، احساس سمِ قاتل ہے

فکر و احساس میں سمبندھ نہ ہونے پائے

ذہن میں ٹیس اٹھے، روح نہ رونے پائے

خوبصورتی اس امر میں مضمر ہے کہ جب تک قاری شاعر کی محولہ بالا چھ سطور کو پڑھنے کے بعد اپنے عروض دان ہونے کے ثبوت کے طور پر انہیں تین سطروں میں نہ لکھے ( جیسے کہ میں نے کیا ہے ) اسے اس بات کا احساس تک نہیں ہو گا کہ جو کچھ وہ پڑھ رہا ہے وہ ایک نظم معرّا ہے۔ یہی امر جاوید صاحب کے اس طریق کار کی کامیابی کی معراج ہے۔ اس لحاظ سے میں جاوید صاحب کو تصدق حسین خالد، میرا جی، قیوم نظر اور فیض احمد فیض کے زمرے میں کھڑا پاتا ہوں، جنہوں نے یہی انداز اپنایا۔ خالد کی نظم ’ ’ راہ دیکھی نہیں ‘‘ اور میرا جی کی نظم ’ ’ کلرک کا نغمۂ محبت ‘‘ میں ان دو اصناف یعنی نظم معرّا اور آزاد نظم کو بہم دگر ہم آغوش کر دیا گیا ہے۔ فیض اپنی کئی نظموں میں قوافی کو مرتب نہیں کرتے اور بیچ بیچ میں ایک دو مصارع معرّا کے انداز میں لکھ دیتے ہیں۔ اس سے ایک قسم کا تنوع پیدا ہوتا ہے۔ قیوم نظر کی نظم ’ ’ اپنی کہانی ‘‘ بھی معرّا نظم اور آزاد نظم کے انضمام کا ایک نادر نمونہ ہے۔

ایک اور نظم ’ ’ واپس آ جاؤ ‘‘ سے امر کی تائید مزید کی جا سکتی ہے۔ یہ نظم ’ ’موج صد رنگ‘‘ ہے اور

’ ’ فاعلاتن، فعلاتن، فعلاتن، فعلن‘‘ سے تقطیع کی جا سکتی ہے۔ لیکن کہیں کہیں سالم سطر کو دو یا دو سے بھی زیادہ ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ پہلی سطریں یہ ہیں۔

نصف شب بیت چکی، سرد ہوا چلتی ہے

گھر کے سب لوگ ہیں خوابیدہ نہ جانے کب سے

پاس کے کمروں سے خراٹوں کی گونج آتی ہے

اور احساس پہ چھائی ہوئی کہرے کی گھٹا

گہرے ہوتے ہوئے سناٹے میں کھو جاتی ہے۔

یہ مصارع خارجی اور داخلی دنیاؤں میں ربط تلاش کرنے کے لیے ’ ابتدائیہ ‘ کے طور پر لکھے گئے ہیں۔ پہلا مصرع گھر سے باہر کی دنیا کو ایک نظر سے دیکھتا ہے۔ دوسرا اور تیسرا مصرع گھر کے اندر، لیکن ‘ پاس کے کمروں ‘ کا احوال نامہ بیان کرتے ہیں۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ واحد متکلم کا اپنا ایک الگ کمرہ ہے۔ چوتھے مصرع میں

’ خارج ‘کے macrocosm سے ’ داخل‘ microcosm کی طرف مراجعت ہے۔ اور خارجی ماحول داخلی ( ذہنی جذباتی ) ماحول میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس کے فوراً بعد نئے بند کی پہلی سطر کو دو لخت کر دیا گیا ہے۔

گھر کے باہر

سکوتِ شبِ غم طاری ہے

اگر مجھ سے یہ پوچھا جائے کہ ایسا کیوں کیا گیا تو میرا غیر مبہم جواب یہی ہو گا کہ اس سطر کا پہلا ٹکڑا ’ ’ گھر کے باہر بھی ‘‘ خود میں آزاد ہے۔ کلمۂ ربط ’ ’ بھی ‘‘ ( بمعنی نیز، اور، علاوہ، )، البتہ اس کو پہلے بند کے ( نصف شب بیت چکی، سرد ہوا چلتی ہے ) سے مربوط کرتا ہے۔ اس لحاظ سے اس سطر کے باقی ماندہ حصے کو اس سے الگ کرنا عین واجب تھا۔ اس سطر کا دوسرا ٹکڑا ’ ’ سکوتِ شبِ غم طاری ہے ‘‘ ایک بار پھر خارج کے عوامل ’ اندر ‘ تک رسائی حاصل کرنے کی سعی ہے۔ اگر شاعر صرف ’ ’ سکوتِ شب ‘‘کہہ دیتا تو یہ سعی لا حاصل بن جاتی، لیکن جونہی ’ شب‘ کو ’ شبِ غم‘ کہہ دیا گیا، امیج کا جذبے سے تعلق قائم ہو گیا۔

اسی نظم میں سطر کی تراش کئی مقام پر بے حد خوش نما پھول کھلاتی ہے۔ مثلاً

نیند آتی ہی نہیں

نیند نہیں آتی ہے

اس کم بخت فارسی عروض ( جس کا طوق اردو نے ایک مردہAlbatross کی طرح اپنے گلے میں پہنا ہوا ہے ) کو کیا کہیے اس میں اردو جملہ سازی کے صوتی محاکات کی قدم قدم پر نفی کی جاتی ہے۔ اس مصرعے کو لیجیے۔ دونوں ٹکڑے آپس میں جُڑ کر ’ ’ فاعلاتن، فعلاتن، فعلاتن، فعلن ‘‘ کے پیمانے سے بخوبی تقطیع کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن جونہی یہ سطر دو حصوں میں تقسیم ہوئی نتیجہ ہمت افزا نہیں رہا۔

’ ’ نیند آتی ‘‘ (فاعلاتن)، ’ ’ ہی نہیں نی‘‘ ( فعلاتن)،د نہی آ ( فعلاتن)، ’ ’ تی ہے ‘‘ فعلن یعنی شاعر جب سطر کو قطع کرتا ہے تو وہ اردو یا ہندوی جملہ سازی کی رُو سے صوتی محاکات کا پورا خیال رکھ رہا ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ فارسی عروض کی نفی کر رہا ہے۔

E.E.Cummings نے لکھا ہے کہ اس کے سوچنے کا انداز بھی نظموں کی ہیئت کی طرح ہی ریزوں، ٹکڑوں اور قتلوں، pieces ,bits and fragments میں بٹا ہوا ہے۔ گویا اس نے ہیئت کو ( سطروں کی تراش کے حوالے سے )تخلیقی قوت کا ظاہری نتیجہ تسلیم کرتے ہوئے خود پر ہی اس بات کا اطلاق کیا ہے کہ اس کے سوچنے کا ڈھنگ ’ ’ لخت لخت ‘‘ ہے۔ جاوید صاحب کی ’ لخت لخت ‘ منظومات پڑھتے ہوئے راقم الحروف کو تو ایسی کوئی بات دکھائی نہیں دی جس سے یہ حتمی نتیجہ فرض کر لیا جائے کہ ان کے ذہن میں شعری انکھوے پھوٹنے کا منظر نامہ ایک ثابت و سالم تجربہ نہیں ہے۔ سبھی نظریہ ساز نقاد کم از کم اس مفروضے پر متفق ہیں کہ form کو subject پر فوقیت حاصل نہیں ہے۔ اس لحاظ سے مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے، کہ جاوید صاحب کے ہاں ہیئت لخت لخت خوش نمائی ان کے شعری تجربے کا ’ ’ اظہاریہ ‘‘ ہے نہ کہ تخلیقی لمحے کے وقت کا ذہنی ’ ’ افشاریہ ‘‘

اب میں ایک اور طریقے کار کا سہارا لیتے ہوئے جاوید صاحب کی کچھ منظومات کے متن میں مشمولہ ان فکری اور شعری اتلاف کو دیکھوں گا جو استعارے کے مختلف سطحوں پر علیحدہ معنویت لیے ہوئے وارد ہوتے ہیں۔ اس طریق کار سے دیکھنے میں ان کی نظموں میں تین اقسام کی تمثال نگاری کا سراغ ملتا ہے۔ ظاہر ہے اس مختصر مضمون میں سب نظموں کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے میں انتخاب کو صرف کچھ ایک نظموں تک ہی محدود رکھوں گا۔ یہ تین اقسام ہیں

۱۔ مرکب ۲۔ مخلوط ۳۔ مجرد

ان کیpermutation and combination سے دو اوراقسام متشکل ہوتی ہیں۔ یہ ہیں۔

۴۔ مجرد مخلوط ۵۔ مجرد مرکب

مرکب تمثال سازی کی مثالیں دونوں کتابوں میں شاید ایک سو سے بھی زیادہ ہوں گی۔ لیکن یہ ان کی مختصر ترین نظموں میں سر کردہ دکھائی دیتی ہیں۔ کچھ مثالیں یہ ہیں

آزاد لوح جاں پہ

محبت نے لکھ دئیے

کانٹے کسی کی پھول سی

صورت پہ لکھ دئیے ( آزاد لوح جاں پہ۔ خواب سماں )

محولہ بالا نظم کو غزل کے مطلع کے طور پر لکھا جا سکتا تھا لیکن تب تمثال سازی اس فارمیٹ میں گم ہو جاتی۔ ایک اور مثال یہ ہے۔

عشق نے

بے قراریاں بخشیں

عشق نے کب کسے

قرار دیا

 

عشق نے

پہلے چھین لی دستار

بعد میں

پیرہن اتار دیا

 

عشق نے

لمحہ لمحہ زخم دیئے

عشق نے

لحظہ لحظہ مار دیا ( ’ ’ عشق نے ‘‘۔ خواب سماں )

اس سے قطع نظر کہ یہ مکمل نظم در اصل بحر خفیف ( فاعلاتن مفاعلن فعلن ) کے صرف چھ مصارع سے عبارت ہے، اس کی تراش خراش اور ’سطور سازی‘ نے ان مرکب تمثالوں کو آسانی سے دیکھنے اور سمجھنے کی قدرت عطا کر دی ہے۔

مخلوط تمثال سازی کی مثالیں تو بیسیوں ہیں ( اور تینوں مجموعوں میں موجود ہیں ) لیکن اس کا بہترین نمونہ میں نے ’ ’ خواب سماں ‘‘ ہی کی ایک نظم میں پایا۔

بلند و بالا چبوترے کی

ہر ایک دہلیز پر دیے ہیں

نیا دیا

لے کے آنے والے

یہ سوچتے ہیں۔

کہاں جمائیں دیا کہ جس کی

لرزتی اور کانپتی لو

بلند بالا چبوترے کی

تمام رفعتوں کو چھو لے

یہ نظم الفاظ کی کئی پرتوں میں معنی در معنی سموئے ہوئے ہے، لیکن بلند و بالا چبوترا اور دہلیز جو کسی درگاہ، خانقاہ، سمادھی کی نشاندہی کرتے ہیں خود میں صرف ایک امیج سے آگے نہیں بڑھتے۔ جلتے ہوئے دیے کا لایا جانا اور اسے ( کچھ تلاش کے بعد ) ایک ایسی جگہ رکھنا جہاں وہ چبوترے کی ساری رفعتیں ( روحانی چوٹیاں ) سر کر لے، ایک اکہرے امیج کی تمثال سازی کرتے ہوئے اسے مرکب اور پھر مخلوط بنا دیتا ہے۔ ’ ’ حصارِ امکاں ‘‘ میں شامل ’ ’ محدود سچائی‘‘ نسبتاً طویل ہے لیکن اس میں مخلوط تمثال سازی بے حد خوبصورتی سے ابھر کر آتی ہے۔

دائیں ہاتھ پہ سونا رکھو

بائیں ہاتھ پہ چاندی

اور کہو، جو کچھ میں بولوں

سچ بولوں

سچ کے سوا اک حرف نہ بولوں

اس پر بھی جو کچھ بولو

میں اس کو

اک ایسا جادو مانوں گا

جو سونے کے اور چاندی کے

اور ہر ’ ’میں ‘‘ کے

سر پر چڑھ کر بولتا ہے

جو اک خاص زمانے کی مخصوص ترازو

ہاتھ میں تھامے

زیست کی ہر شے تولتا ہے

اور کہتا ہے

’ ’ جو کچھ میں بولوں سچ بولوں

سچ کے سوا اک حرف نہ بولوں ‘‘

عدلیہ، انصاف کا ترازو، ملزمین اور گواہان کا قرآن، یا انجیل، یا گیتا پر ہاتھ رکھ کر حلف لینا۔۔ ۔ اس microcosm کا اطلاق کل دنیا کے macrocosm کرنے کے جاوید صاحب کی تکنیک سے ہم آگاہ ہیں، لیکن اس نظم میں مخلوط تمثال سازی اپنے عروج پر ہے۔

مجرد تمثالیں عموماً غزل کے اشعار میں پائی جاتی ہیں۔ خنجر، زخم، تیر، تفنگ، تلوار، ساحل، موج، کنارہ، طوفان، ناخدا، دشت، کارواں، میرِ کارواں، محمل، آشیانہ، قفس، بے بال و پر ہونے کی کیفیت۔۔ ۔ یہ روایتی استعارہ سازی کی تمثالیں ہیں۔ فی زمانہ سنگ و آہن، امیرِ شہر، غریبِ شہر، دارو رسن، پا بہ زنجیر ہونا وغیرہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ مجرد تمثالیں ہیں۔ جدیدیت کے دور میں مجرد تمثالوں کو بھی حاشیہ آرائی سے مخلوط بنانے کی روش عام رہی۔ ما بعد جدیدیت میں بھی کسی حد تک اس چلن کو روا رکھا گیا ہے۔

چونکہ جاوید صاحب مختصر اور مختصر ترین نظموں میں ید طولیٰ رکھتے ہیں اس لیے مجرد تمثالیں ان کی منظومات میں بھی اسی طرح در آتی ہیں جیسے غزل کے اشعار میں۔ میں منظومات کا حوالہ دیئے بغیر اور نظموں کے مکمل بند یا سطور کا اقتباس دیئے بغیر کچھ ایک مثالیں نیچے لکھ رہا ہوں۔

شمع کی بے جان لَو، طبع کی دھیمی سی ضو، بدیسی لکڑبھگے، سگانِ وحشی، الٹا پیالہ، اونٹ کا مشکیزہ، شاخ ببول، گہر، خاک، قطرۂ آب، یہ سب دیکھی بھالی دنیا کی آبجیکٹ یا سبجیکٹ ہیں۔ لیکن کچھ تمثالیں ایسی بھی ہیں جو یکسر نئی ہیں۔ خون کا پمپ، مشینوں کے آقا، ذہن کا کمپیوٹر، گیند گلوب کی، عقبی لان۔۔ ۔ ایسی کئی اور بھی ہیں۔

تشبیہ بنیادی طور پر ہم طرحی یا ہم رنگی کی مشابہت ہے۔ تماثل، تشاکل اور تجنیس ( لفظی یا خطی ) بھی اس قماش کے ہنر ہیں۔ امیج سے آگے بڑھیں تو خشت در خشت پرتوں کی تعمیر میں قیاس، قیادہ، التباس و انطباق۔ ان سب عوامل کے وسط سے ہم استعاہ سازی کرتے ہیں، بقولِ غالبؔ ۔

برنگِ کاغذِ آتش زدہ، نیرنگِ بے تابی

ہزار آئینہ دل باندھے ہے بال یک تپیدن پر

عبد اللہ جاوید صاحب ’جدیدیت ‘ کے اس حد تک حامی نہیں ہیں کہ وہ افشار و انتشار پر تکیہ کرتے ہوئے اپنے نفسِ مضمون سے ہی بھٹک جائیں۔ ان کے ہاں تجریدی آرٹ کے وہ جدید فیچر نہیں ہیں، جس سے مثنیٰ یا مشابہت سے آگے بڑھ کر کسی فو ٹو گراف کی enlarged تصویر پیش کی جاتی ہے یا تصغیریہ کی سطح پر اسے minimise کر دیا جاتا ہے۔ وہ اگر آرٹسٹ ہوتے تو بھی شاید surrealism پر تکیہ کرنے کی بجائے representational painting کرتے۔ لخت لخت سطور پر التزام کے باوجود ان کی نظموں میں تسلسل ہے استحکام ہے، پائیداری ہے۔ Organic Unity ہے۔ اگر بو قلمونی یا رنگا رنگی ہے تو وہ بھی اس تو افق کو مجروح نہیں کرتی۔ اس لحاظ سے ان کے ہاں استعارے کی سطح پر ’ ’ مشبہ بہ‘‘ اور ’ ’ مشبہ ‘‘ میں one to one equation ہے۔ اگر موضوعاتی سطح پر وہ ایک آگاہ شاعر ہیں تو اسلو بیانی سطح پر بھی وہ زبان و بیاں کے رموز سے واقف، منجھے ہوئے استاد شاعر ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

عبد اللہ جاوید کثیر الجہت ادیب ۔۔۔ حیدر قریشی

 

مغربی دنیا میں مقیم اردو شاعروں اور ادیبوں کی ایک بڑی تعدادمجلسی، میڈیائی اور تقریباتی شاعروں اور ادیبوں پر مشتمل ہے۔ لیکن گنتی کے چند ایسے شاعر اور ادیب بھی ہیں جو ہر طرح کی تقریباتی چمک دمک سے بے نیاز ہو کر اپنے آپ میں مگن ادبی کام کیے جا رہے ہیں۔ عبد اللہ جاوید کا شمار گنتی کے ان چند ادیبوں میں ہوتا ہے۔ مجھے بناوٹی اور اداکاری جیسا انداز اختیار کرنے والے شاعر اور ادیب کبھی اچھے نہیں لگے۔ بعض اچھے بھلے جینوئن شاعر و ادیب بھی جب خود کو بناوٹی طریقوں سے پوز کرنے لگتے ہیں تو ان پر افسوس ہوتا ہے۔ عبد اللہ جاوید سے رابطہ ہوا اور ان کی تخلیقات پڑھنے کا موقعہ ملا تو محسوس ہوا کہ ادب کے بناوٹی درویشوں کے ہجوم سے پرے سچ مچ کوئی ادبی درویش مل گیا ہے۔ جو صلہ و ستائش کی تمنا سے بے نیاز اپنا کام کیے جا رہا ہے۔ ان کی شاعری اور افسانہ نگاری دونوں نہایت اعلیٰ معیار کی حامل ہیں۔ میں نے ان کے معیاری ادبی کام کی قدر و قیمت کا اندازہ کرتے ہوئے ’ ’جدید ادب‘‘ میں ان کا گوشہ چھاپنے کا ارادہ کیا تو  ان کی طرف سے بڑا بے ساختہ قسم کا خط موصول ہوا۔ اس خط کا ایک حصہ یہاں درج کر رہا ہوں:

’ ’ سنا ہے آپ میرا گو شہ چھاپ رہے ہیں۔ یہ نہیں کہ میں ان سب چیزوں سے بے نیاز ہوں۔ میں بھی سب کی طرح آدمی ہوں۔ قلم کار بھی ہوں۔ نہ ہی سادھو سنت ہوں نہ تارک دنیا پیر، فقیر اور یہ جو1970 سے مشاعروں ، مذاکروں سے توبہ کی اور ایک کونہ پکڑا سو اس کے پیچھے ساتھی قلم کاروں کی آپا دھا پی، ٹانگ گھسیٹی،  خود تشہیری ،  اور خود ساختہ اور نام نہاد اکابرینِ ادب،  نقّادان کرام اور گدّی نشینانِ ادارہ ہائے ادب کی غلط بخشیاں ، اور گروہ نوا زیاں اور بقول ڈاکٹر احسن فاروقی ’ ’ اپنے گھوڑے یا گھوڑی کو آگے لگا نے ‘‘کی نفسیات رہی۔ مجھے اس سے انکار نہیں کہ یہ سب بھی بندے بشر کے ضمیر میں ازل سے شا مل ہے لیکن آٹے میں نمک کی حد تک ہوں تو کوئی مجھ سا لکھنے وا لا در گذر کر جائے لیکن نمک میں آٹا ہو جائیں تو کیا کرے۔۔ ؟ خود گذر جائے۔۔ میں بھی قریب قریب گذر ہی گیا تھا لیکن شعر و ادب کی شراب ’ ’ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کا فر لگی ہوئی ‘‘ کے مطابق جان سے لگی رہی ‘۔ ‘‘ (اقتباس از مکتوب عبد اللہ جاوید بنام حیدر قریشی محررہ ۱۸ ستمبر۲۰۰۸ء)

اس خط میں جن تلخ سچائیوں کا اشارا دیا گیا ہے، ان کی نشان دہی کے بعد میرے دل میں عبد اللہ جاوید کی ادبی عزت و تکریم میں اور بھی اضافہ ہو گیا۔ عبد اللہ جاوید بہت سینئر لکھنے والے ہیں۔ اردو کے موقر و معتبر ادبی جرائد میں چھپتے رہے ہیں۔ بنیادی طور پر شاعر اور افسانہ نگار ہیں۔ اپنی ادبی سوجھ بوجھ کے مطابق تھوڑے بہت تنقیدی مضامین بھی لکھے ہیں جو بعض نام نہاد نقادوں کی تنقیدی بے بصیرتی سے بدرجہا بہتر ہیں۔ گاہے گاہے کالم نگاری بھی کرتے ہیں اور اخباری ضرورت کے مطابق ہلکے پھلکے مضامین بھی لکھتے رہتے ہیں۔

عبد اللہ جاوید کی شاعری بے ساختہ پن، روانی اور سہل ممتنع کی خوبیوں سے لبریز ہے۔ ان کے چند اشعار سے ان کی شاعری کے عمومی انداز کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

جس کو بھی دی صدا، وہ بڑی دیر سے ملا

جو بھی بھلا لگا، وہ بڑی دیر سے ملا

ملتے گئے جو لوگ وہ دل کو نہیں لگے

جس سے بھی دل لگا، وہ بڑی دیر سے ملا

 

ہم عدالت میں بھی سچ کہتے رہے

اور جھوٹا فیصلہ ہونے دیا

آپ چھوٹے رہ گئے جاویدؔ جی

اور لوگوں کو بڑا ہونے دیا

 

عصرِ حاضر کو غرض شہرت سے ہے فن سے نہیں

ہم عبث عرض ہنر میں تھے کھلا مدّت کے بعد

عبد اللہ جاوید کی غزل میں عالمی صورتحال کا ذکر بھی عمدگی کے ساتھ اپنا راستہ بنا لیتا ہے۔ بلکہ وہ عصری عالمی صورتحال سے اوپر اٹھ کران مناظر کو تاریخ اور وقت کے سیلِ بے کراں کے تناظر میں بھی دیکھتے ہیں۔

امن ہے بغداد میں چاروں طرف

فاختہ اُڑتی ہے تلواروں کے بیچ

مانگئے جاویدؔ  اب مشرق کی خیر

گھِر گیا مغرب کے ہتھیاروں کے بیچ

اک سیلِ بے پناہ کی صورت رواں ہے وقت

تنکے سمجھ رہے ہیں کہ وہم و گماں ہے وقت

تاریخ کیا ہے وقت کے قدموں کی گرد ہے

قوموں کے اوج و پست کی اک داستاں ہے وقت

عبد اللہ جاوید کی نظموں میں بھی اسی لب و لہجہ کو اختیار کرتے ہوئے بات کی گئی ہے۔ ان کی ایک نظم ’ ’لفظ لکھتے رہو‘‘ سے ان کی نظم نگاری کا اندازہ بھی کیا جا سکتا۔

لفظ لکھتے رہو

انگلیاں اور قلم

اپنے خونِ جگر میں

ڈبو تے رہو

لفظ لکھتے رہو

اپنے چھوٹے بڑے درد و غم

اور چھوٹی بڑی، جھوٹی، سچّی خوشی

بھولی بھٹکی خوشی

دوسروں کے غموں اور خوشیوں سے

آمیز کرتے ہوئے

ساتھ جیتے ہوئے، ساتھ مرتے ہوئے

عصر حاضر کے فرعون و قا رون کے

روپ، بہروپ کو

مکر کی چھاؤں کو، جبر کی دھوپ کو

دیکھتے بھالتے۔۔

اور تار یخ کے

آئینے میں عیاں

آنسوؤں سے رچا

خوں میں ڈوبا ہوا

جدلیاتِ زمان و مکاں کا بنا

عکسِ نو دیکھتے۔۔

اپنے لفظوں میں

فقروں میں

مصرعوں میں، شعروں میں

حرف اور صوت کی

سب خفی و جلی

ظاہری، باطنی

صورتوں میں

سمو تے رہو

لفظ لکھتے رہو !

عبد اللہ جاوید کی شاعری میں سادہ بیانیہ میں لطیف علامتی پیرایہ اختیار کیا گیا ہے۔ ان کی غزل ہو یا نظم اپنے بیانیہ کے اندر معنی کے کئی رنگ لیے ہوتی ہے۔ یہی صورت ان کی افسانہ نگاری میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ وہ کہانی کو سادہ بیانیہ کی صورت پیش کرتے ہیں لیکن کہانی کے اندر سے علامتی پیرایہ از خود ابھرتا چلا آتا ہے۔ اس حوالے سے یوں تو ان کی کئی کہانیوں کا ذکر کیا جا سکتا ہے لیکن میں یہاں بطور خاص ان کے افسانہ ’ ’میری بیوی‘‘ کا ذکر کروں گا۔ یہ افسانہ ایک طرف دنیا کی سپر پاور کی جنگی حکمت عملی کے ایک گوشے کو وا کرتی ہے دوسری طرف امریکی فتوحات کے نتیجہ میں اس کے اپنے معاشرے میں پیدا ہوتی ہوئی نفسیاتی بے چینی کو اجاگر کیا گیا ہے اور تیسری طرف ایک امریکی کا اپنے جہاز کو اپنے ہی گھر سے ٹکرا دینا ایک انوکھی معنویت سامنے لاتا ہے۔ اس کی عدم موجودگی کے باعث جنگی اس کی بیوی کسی اور سے مراسم قائم کر لیتی ہے اور اس حقیقت کو جان لینے کے بعد وہ اپنی بیوی اور اس کے دوست کو ہلاک کرنے کے لیے اپنا جہاز اپنے ہی گھر سے ٹکرا دیتا ہے۔ لیکن ایسا وہ کرتا نہیں، بلکہ ایسا سوچتا رہتا ہے۔ کہانی کی بنت اتنی عمدہ اور کسی ہوئی ہے کہ کہیں سے سیاسی نوعیت کی کہانی کا احساس نہیں ہوتا۔ ایک انسانی المیہ کے طور پر کہانی شروع سے انجام تک پہنچتی ہے۔ یہ کہانی عبد اللہ جاوید کی نمائندہ کہانی ہی نہیں اردو کی بہترین کہانی بھی ہے۔ اکیسویں صدی کی عالمی صورتحال کے پس منظر میں اردو میں جتنی کہانیاں لکھ گئی ہیں ان میں سے پانچ کہانیوں کا انتخاب کیا جائے تو یہ کہانی ان میں شمار کی جائے گی۔

ان کی ایک اور کہانی ’ ’آگہی کا سفر‘‘روحانی نوعیت کی ایک پر اسرار کہانی ہے۔ روحانیت کے اسرار سے بھری یہ کہانی اپنے بیانیہ کے باوجود علامتی سطح پر گہری ہوتی گئی ہے۔ اس کہانی کو بھی عبد اللہ جاوید کی بہترین کہانیوں میں شمار کیا جانا چاہیے۔ ان کی باقی کہانیاں بھی اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہیں۔ ہر انسان کی زندگی میں اس کے مذہبی حوالے سے عقائد کی اپنی جگہ ایک اہمیت ہے۔ تاہم روحانیت کے اسرار ایک سطح پر جا کر معتقدات کی سطح سے بہت بلند ہو جاتے ہیں۔ عبد اللہ جاوید اپنی بعض دوسری تحریروں میں بھی اور اس افسانہ میں بھی روحانیت کے سفر میں معتقدات کی سطح سے برتر روحانی مقام پر کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔

عبد اللہ جاوید اپنی شاعری اور افسانہ نگاری میں جس معیار کے ساتھ سامنے آتے ہیں، وہ معیار ان کی دوسری تحریروں میں بھی ایک کم از کم اچھی صورت میں موجود رہتا ہے۔ کینیڈا میں رہتے ہوئے اور وہاں کی مجلسی چکا چوند سے الگ تھلگ رہتے ہوئے انہوں نے جو ادبی کام کیا ہے اور جس معیار کا کام کیا ہے، وہ مغربی دنیا کے عام مجلسی اردو ادیبوں کی سطح کا نہیں ہے بلکہ اس کی ادب کی میں سٹریم میں اہمیت بنتی ہے۔ اردو ادب میں عبد اللہ جاوید کا شمار ان ادیبوں میں ہو گا جن کا کام کسی مغربی خطے کے اردو ادب کے تعلق سے نہیں بلکہ اردو ادب کے مرکزی دھارے سے تعلق رکھتا ہے۔ ادبی شعور رکھنے والے اس حقیقت کا بخوبی ادراک کر سکتے ہیں۔

٭٭

 

موجِ صد رنگ کے مندرجات، اسلوب، بیان، اندازِ فکر، طرز تغزل، اور روایات کے حدود میں رہتے ہوئے، طبع زاد تخلیقی ندرت سے مالامال ہیں اس میں کوئی شبہ ہی نہیں۔ خدا کرے دوسرا مجموعہ جلد از جلد مرتّب ہو جائے۔ آپ کا مجموعہ میرے احباب میں گشت کر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کی غزل نئے تفکر کی اشارہ نما ہے۔ نئے تغزل کا اشاریہ ہے، آپ نے موجِ صد رنگ کے دیباچے میں شعر کے مزاج کی نسبت جن خیالات کا اظہار کیا ہے۔ میں اس سے سو فیصد متفق ہوں۔ اس مرتبہ کراچی تشریف لائیں تو ضرور مجھے شرف ملاقات بخشیں۔

رئیس امروہوی

٭٭

 

عبد اللہ جاویدؔ کی بیس سالہ کا وشوں کا نچوڑ موجِ صد رنگ کی صورت میں ہمارے پیشِ نظر ہے۔ ساتھ ہی ان کے وہ مضامین بھی جو  مختلف رسائل کی زینت بنے۔ ہمیں اس نظرئے کی تلاش ہے جو جاویدؔ کا ایمان بن کراس کے ان ادب پاروں کے تمام جھرونکوں سے جھانک رہا ہے۔ جاویدؔ نے شاید اپنی ان تخلیقات کو ذریعہ بنا کر ان قدروں کے پر چار کا بیڑہ اٹھایا ہے جو زندگی، احساسِ شعور، وجدانِ فکر اور ان سب سے بڑھ کر انسان کی عظمت کی علمبردار ہیں۔ عبد اللہ جاویدؔ کے نزدیک فن کا معیار آفاقی اور اسے پرکھنے کے لئے کسوٹی انسان۔ وہ انسان جو بلا تخصیص خطہ، مذہب، زبان، رنگ اور نسل کے صرف سانس کی آتی جاتی دو دھاری تلوار کی زد میں ہے۔

عبد اللہ جاوید نے خود شاعری کی تعریف یوں کی ہے کہ میری رائے میں شاعری صنّاعی نہیں بلکہ خلّاقی ہے۔ خلّاقی کو خالص شعوری عمل سمجھنا قرینِ قیاس نہیں۔ تنقیدی شعور کے اس درجے پر پہنچنے والے شاعر کے یہاں داخلیت اور خارجیت دونوں فکرو احساس کے بلند مرتبے ملنا کوئی مشکل نہیں۔ شاید اس لئے جاویدؔ کے ہر تیسرے شعر میں یہ بات واضح نظر آتی ہے۔ ان نظموں میں: تم جو اَب سامنے ہو، یہ بھی کیا کم ہے، قلوپطرہ، زیست، بھاگتے لمحے بدلتے روپ، نوشتۂ دیوار، لہو عظیم ہے یارو، اور ویت نام ایک لمحۂ فکریہ، بہت خوبصورت نظمیں ہیں۔

انوار احمد زئی

٭٭٭

 

مکمل جریدہ ڈاؤن لوڈ کریں

 

 

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

کنڈل فائل