FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

ادبی کتابی سلسلہ

عکاس انٹرنیشنل  اسلام آباد

( ۲۴)

محرم الحرام نمبر

 

 

مرتبین

ارشد خالد

ڈاکٹر رضیہ اسماعیل

 

 

 

عکاس اب انٹرنیٹ پر بھی پڑھا جا سکتا ہے

http: //akkas-international.blogspot.de/

اور

http: //issuu.com/akkas

اور

http: //punjnud.com/BookList.aspx?LanguageId=2&CategoryId=9&SubcategoryId=19

ناشر: مکتبہ عکاس

AKKAS PUBLICATIONS

House No 1164 Street No 2 Block C

National Police Foundation ,Sector O-9

Lohi Bhair, Islamabad, Pakistan

Tel.0300-5114739 0333-5515412

………………………………………………………….

E- Mail:

akkasurdu2@gmail.com

 

 

پڑھ اللہ ہو سائیں !

لا سے نہیں ہوں میں

ہے تو ہی تو سائیں !

(امین خیال)

 

 

 

 

مکمل جریدہ ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

 

اپنی بات

 

 

عکاس انٹرنیشنل کا محرم الحرام نمبر پیش خدمت ہے۔

اس سے پہلے جس انداز کے محرم الحرام کے گوشے یا نمبر شائع کیے جا چکے ہیں، عکاس کا یہ نمبراس سے قدرے مختلف ہے۔ اس نمبر میں صرف شاعری شامل ہے۔ محرم کی مناسبت سے مضامین شامل نہیں ہیں۔

عکاس کا شمارہ نمبر۲۰بھی محرم الحرام نمبر تھا لیکن وہ شمارہ صرف انٹرنیٹ ایڈیشن تھا۔ اسے کتابی صورت میں شائع نہیں کیا جا سکا تھا۔ اس شمارہ کی شاعری بھی اس نمبر میں شامل کر دی گئی ہے۔ جوش ملیح آبادی کی نظم سورۂ رحمن سے لے کر آخر تک کی شاعری اُسی انٹرنیٹ ایڈیشن سے لی گئی ہے، اب یہ اس نمبر میں کتابی صورت میں بھی شائع ہو رہی ہے۔

عکاس کا اگلا شمارہ معمول کے مطابق ہو گا۔ اپنی نگارشات بھیجتے رہیں۔

مفید مشوروں سے نوازتے رہیں۔

نیک تمناؤں کے ساتھ

ارشد خالد

 

 

سلام  ۔۔۔ ایوب خاور

 

سرِ دشتِ کرب و بلا ابھی وہی رنگِ ماہِ تمام ہے

وہی خیمہ گاہِ سکینہ ہے وہی سجدہ گاہِ امام ہے

ابھی چشم و دل سے چھٹے نہیں، ترے صبر و ضبط کے مرحلے

وہی صبر و ضبط کے مرحلے، وہی تیرے قتل کی شام ہے

وہی مشک شانۂ صبر پر، وہی تیر پیاس کے حلق میں

وہی آب جوئے فرات ہے، وہی اس کا طرزِ خرام ہے

وہی شامِ کوفہ ہے چار سو، وہی سطرِ وعدہ لہو لہو

وہی نوکِ خنجر تیز ہے، وہی حرفِ حیلۂ خام ہے

وہی ماتمِ مہِ کربلا وہی حاصلِ دلِ مبتلا

یہی رنگ ہے، میرے نطق کا، یہی میرا رنگِ سلام ہے

٭٭٭

 

 

 

 

نعت پاک ۔۔۔  اویس الحسن ( اسلام آباد)

 

 

 

ہیں عرشی بھی فرشی،  فلک بھی زمیں ہے

دو عالم کا دولہاؐ یہیں ہے یہیں ہے

یہیں سے ہے پایا غلامی میں رُتبہ

کہ جھکتی اسی در پر میری جبیں ہے

ملائک اُتر کر سلامی کو آئے

تجلّی کا منبع تیری سرزمیں ہے

خدا کو نہ ڈھونڈو کہیں اور جا کر

جہاں پر ہیں آقاؐ،  خدا بھی وہیں ہے

ہماری ہو بخشش تمہارے کرم سے

تمہارے کرم پہ ہمیں تو یقیں ہے

ہے اُنؐ کی عطاء بھی عطائے الٰہی

’’نہیں، ‘ آپؐ کی تو خدا کی ’’نہیں ‘‘ ہے

میری ہو رسائی تیرے آستاں تک

یہی میرا مذہب یہی میرا دیں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

نعت شریف  ۔۔۔ شائستہ سحر ( حیدر آباد)

 

 

سایۂ ابرِ رواں بس آپؐ ہیں

زندگی میں سائباں بس آپؐ ہیں

 

کتنے دریا، کتنے چشمے، آب جو

اک سمندر بے کراں بس آپؐ ہیں

 

کیوں زمانے نے تراشے ہیں صنم

وحدتِ عصرِ رواں بس آپؐ ہیں

 

چاند، سورج اور ستارے بجھ گئے

تیرگی میں ضو فشاں بس آپؐ ہیں

 

ہر یقیں کا محور و منبع ہیں آپؐ

ہر حقیقت کا بیاں بس آپؐ ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

نعت ۔۔۔ اکرام الحق سر شار ( چیچہ وطنی)

 

کسی کا ایسا مقدر نہ بخت ایسا ہے

میرے نبیؐ کی نبوت کا تخت ایسا ہے

 

نظر میں روضہ اطہر زباں پہ اسم رسولؐ

مسافرت میں میرے پاس رخت ایسا ہے

 

تمام پیڑوں پہ سایہ ہے جس کی رحمت کا

بھرے جہاں میں وہی اک درخت ایسا ہے

 

نبیؐ کو ماننے والے نبی کو بھول گئے

اسی لئے تو مسلماں پہ وقت ایسا ہے

 

ملائکہ بھی یہاں سجدہ زیر ہیں سرشارؔ

یہ آستاں ہے ایسا یہ تخت ایسا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

نعت ۔۔۔ محمد علی صابری ( لاہور)

 

عقدہ کھلا جہاں پہ حساب و کتاب کا

رتبہ کمال کا ہے رسالت مآب کا

 

وردِ زبان جس کی ہوں اوصاف مصطفیٰ

اس کو نہیں ہے کوئی بھی کھٹکا عذاب کا

 

اپنی طلب لپیٹ ردائے درود میں

چاہے جو تو سراغ درِ مستجاب کا

 

یادِ نبی میں اشک بہانے کی دیر تھی

دریا امڈ کے آ گیا اجر و ثواب کا

 

اترا ہے شاہِ ختم رسولاں کی شان میں

ایک ایک لفظ صابریؔ ام الکتاب کا

٭٭٭

 

 

 

 

نعت ۔۔۔ شگفتہ شفیق ( کراچی)

 

طیبہ کا ہر اِک گو شہ ہر روپ یگانہ ہے

انوار کی با رش ہے منظر بھی سہا نہ ہے

 

یوں خاکِ مدینہ کو ہاتھوں میں سنبھالا ہے

مٹھی میں میری جیسےدنیا کا خزانہ ہے

 

کہتا ہے یہ رو رو کے واپس نہیں جانا ہے

سمجھاؤں اُسے کیسےد ل میرا دوا نہ ہے

 

کچھ اور نہیں دل میں بس اُن کی ہی اُلفت ہے

تحفے سے درودوں کے آقا کو منانا ہے

 

صادق و امیں اُن کو سب ہی نے پکارا ہے

آ قاﷺ  کی بڑآئی کو سب دنیا نے ما نا ہے

 

سرکار کی خاطر تو جاں ہنس کے میں واروں گی

آ قا سے شگفتہ کا یہ عشق پرا نا ہے

٭٭٭

 

 

 

نعت  ۔۔۔شگفتہ شفیق

 

 

پیارے نبیؐ نے ہم کور ستے بتا دیئے ہیں

اُلفت کے سب قرینے ہم کو سکھادیئے ہیں

 

میرے قصور سارے پرچے میں درج تھے جو

کملی میں اپنی کالی لے کر چھپا دیئے ہیں

 

اُنؐ کے ہی در پہ جا کے ایسا لگا ہے مجھ کو

ا للہ نے مقدر جیسے جگا دیئے ہیں

 

روضے پہ جا کے اپنی نظریں جھکا کے ہم نے

اشکوں کے اپنے موتی سارے سجا دیئے ہیں

 

مدحت میں جب شگفتہ میں نے قلم اُٹھایا

اُنؐ کے بھرم نے دل کے غنچے کھلا دیئے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

شہسوارِ کربلا  ۔۔۔ حفیظ جالندھری

 

لباس ہے پھٹا ہوا، غبار میں اَٹا ہوا

تمام جسمِ نازنیں چھدا ہوا، کٹا ہوا

یہ کون ذی وقار ہے بلا کا شہسوار ہے

کہ ہے ہزاروں قاتلوں کے سامنے ڈٹا ہوا

یہ بالیقیں حسینؑ ہے نبیؐ کا نور عین ہے

 

یہ کس کی ایک ضرب سے کمالِ فنِ حرب سے

کئی شقی گرے ہوئے، تڑپ رہے ہیں کرب سے

غضب ہے تیغٕ دو سر، کہ ایک ایک وار پر

اُٹھی صدائے الاماں زبانِ شرق و غرب سے

یہ بالیقیں حسینؑ ہے نبیؐ کا نور عین ہے

 

یہ مردِ حق پرست ہے، مئے رضا سے مست ہے

کہ جس کے سامنے کوئی بلند ہے نہ پست ہے

اُدھر ہزار گھات ہے مگر عجیب بات ہے

کہ ایک سے ہزار ہا کا حوصلہ شکست ہے

یہ بالیقیں حسینؑ ہے نبیؐ کا نور عین ہے

 

 

عبا بھی تار تار ہے، تو جسم بھی فگار ہے

زمیں بھی ہے تپی ہوئی، فلک بھی شعلہ بار ہے

مگر یہ مردِ تیغ زن، یہ صف شکن فلک فگن

کمالِ صبر و تندہی سے محوِ کار زار ہے

یہ بالیقیں حسینؑ ہے نبیؐ کا نور عین ہے

 

دلاوری میں فرد ہے، علیؑ کا شیرِ مرد ہے

کہ جس کے دبدبے سے دشمنوں کا رنگ زرد ہے

حبیبِ مصطفیٰؐ ہے یہ مجاہدِ خدا ہے یہ

جبھی تو اس کے سامنے یہ فوج گرد بَرد ہے

یہ بالیقیں حسینؑ ہے نبیؐ کا نور عین ہے

 

اُدھر سپاہِ شام ہے، ہزار انتقام ہے

اُدھر ہے دشمنانِ دیں اِدھر فقط امامؑ ہے

مگر عجیب شان ہے، غضب کی آن بان ہے

کہ جس طرح اُٹھی ہے تیغ، بس خدا کا نام ہے

یہ بالیقیں حسینؑ ہے نبیؐ کا نور عین ہے

٭٭٭

 

بحضور مسافرانِ کربلا  ۔۔۔ پیر سید نصیر الدین نصیرؔ ( گولڑہ شریف)

 

 

تذکرہ سُنیے اب ان کا دل بیدار کے ساتھ

جن کا ذکر آتا ہے اکثر شہؐ ابرار کے ساتھ

صرف زینبؑ کا وہ خطبہ سرِ دربار نہ تھا

رعب حیدرؑ کا بھی تھا جرأت اظہار کے ساتھ

بیڑیاں، صدمہ، سفر، پیاس، نقابت، صحرا

ظلم کیا کیا نہ ہوئے عابدؑ بیمار کے ساتھ

ہائے کس طرح وہ بازار سے گزرے ہوں گے

نام تک جن کا نہ آیا کبھی بازار کے ساتھ

اک سکینہؑ کے لیے کرب کی سولی پہ چڑھا

دیکھئے دار کو، عباسؑ علمدار کے ساتھ

در حقیقت وہ سمجھتے ہیں علیؑ کا لہجہ

بات کرتے ہیں مقابل سے جو تلوار کے ساتھ

یہ بجا، تو ہی ہدف تھا سرِ مقتل، لیکن

دشمنی اصل میں تھی احمدؐ مختار کے ساتھ

ایک کم سِن کی وہ ننھی سی لحد کیا دیکھی

رو دیئے ہم تو لپٹ کر در و دیوار کے ساتھ

کر لیا مصلحتوں نے اُسے پابندِِ ہوس

وقت کیا خاک چلے گا تری رفتار کے ساتھ

خود کو وہ فوج حسینی کا سپاہی سمجھے

جس کا کردار بھی پاکیزہ ہو گفتار کے ساتھ

اُن پہ طاری تھا ترے سامنے اک رعشۂ خوف

رقص کرتے تھے جو پازیب کی جھنکار کے ساتھ

کون دے اپنی تباہی کو بھلا خود آواز

کون ٹکرائے ترے طالعِ بیدار کے ساتھ

مر کے خود پائی بقا اور اُسے مار دیا

تُو نے کیا چال چلی دشمنِ عیار کے ساتھ

دے گئے درس یہ اُمت کو حسینیؑ تیور

سر کو کٹواؤ، مگر نشۂ پندار کے ساتھ

بولے عباسؑ کہ ہم لوگ ہیں میداں کے دھنی

ہولیاں کھیلی ہیں چلتی ہوئی تلوار کے ساتھ

میرے سجادؑ! یہ دکھ کیسے بھلا دوں تیرا

سختیاں جھیلیں سفر کی تنِ بیمار کے ساتھ

آلِ زہراؑ کا سنا ہے کہ ثنا خواں ہے نصیرؔ

آئیے ملتے ہیں اِس شاعر دربار کے ساتھ

٭٭٭

 

 

 

طلوع صبحِ الم  ۔۔۔ پروفیسر حسن عسکری کاظمی ( لاہور)

 

وہ کربلا کی زمیں پر طلوعِ صبح الم

خیامِ اہل حرم میں وہ مرگِ تشنہ لبی

وہ دُور حلقۂ اعدا میں آب نہر فرات

تڑپ تڑپ کے کسی بے قرار کی صورت

ہمک ہمک کے کسی شیر خوار کی مانند

رواں دواں چلا جاتا ہے سمتِ نامعلوم

 

وہ کربلا کی زمیں پر طلوعِ صبح الم

وہ سوزِ عشق میں ڈوبی ہوئی اذاں جیسے

کسی کے دل میں تمنائے موت گھر کر لے

فضا کے پاؤں کی آہٹ کو سن کے جیسے کوئی

وفورِ شوق میں ہر تلخیِ حیات پیئے

اجل کے رینگتے سایوں میں جیسے کوئی کنول

کنار آب سے دامن چھڑا کے آگے بڑھے

 

وہ کربلا کی زمیں پر طلوعِ صبح الم

کسی نے خواب کی دنیا میں کروٹیں بدلیں

دہک رہا ہے کسی دل میں شعلۂ احساس

بہ فیضِ اشکِ ندامت ضمیرِ حُر جاگا

دلِ حزیں میں الاؤ جلے قیامت کے

بڑھا وہ جا نبِ حق توڑ کر صفِ باطل

تڑپ کے رکھ دیا سر پائے شاہؑ پر جس دم

اٹھا تو نورِ سحر رخ سے آشکار تھا

٭٭٭

 

 

سلام  ۔۔۔ حسن عسکری کاظمی

 

 

ثنائے سبطِ پیمبرؐ کی سر خوشی میں رہے

ہم اس ادا سے سدا کیفِ بوذری میں رہے

کوئی نہ بندۂ آزاد ہو گا حُر کی طرح

کہ دو گھڑی ہی سہی شہؑ کی نوکری میں رہے

رقم ہے رایتِ عباسؑ کے پھریرے سے

فراتِ درد کا دریا بھی تشنگی میں رہے

شکست قوتِ باطل پہ مسکرا کے رہا

بلا کے حوصلے اصغرؑ کی کمسنی میں رہے

سروں کی مشعلیں روشن نہ ہوں جو نیزوں پر

ثباتِ صبر کا منظر نہ روشنی میں رہے

حسینیت کا حوالہ اگر نہ دے پائیں

ہمارے عہد کا انسان گمرہی میں رہے

کرم یہ ہم پہ حسنؔ صبحِ کربلا کا ہوا

جہاں میں ہم نہ کبھی شب کی تیرگی میں رہے

٭٭٭

 

 

 

سلام  ۔۔۔ حسن عسکری کاظمی( لاہور)

 

اسی کا ذکرِ جمیل کرنا اسی کے رخ کی کتاب پڑھنا

سخنوروں کا یہی چلن ہے سلام بہرِ ثواب پڑھنا

درود پڑھنا شہؑ زمن پر، یہی ہے رسم عزا کا حاصل

خیالِ سبطِ نبیؐ جو آئے تو غم کا زندہ نصاب پڑھنا

کبھی فراغت میں یاد کرنا گھروں سے نکلے مسافروں کو

جھلستے موسم کی جاں کنی میں سلگتی آنکھوں کے خواب پڑھنا

یہ معجزہ ہے کہ زخم بوئے جو کشتِ جاں میں مہک اُٹھے ہیں

زمین کرب و بلا کے پیاسوں کو رحمتوں کے سحاب پڑھنا

سوالِ بیعت میں کم نگاہی کا سانحہ تھا، گزر چکا ہے

کتابِ صحرا کے سر ورق پر لہو سے لکھا جواب پڑھنا

ہمارے سینوں میں اس کے ماتم کا سلسلہ ہے ازل سے جاری

جو اشک دیکھو گہر سمجھنا جو زخم دیکھو گلاب پڑھنا

دیارِ کوفہ کے بام و در سے لپٹ کے روحِ علیؑ بھی روئی

اگر ہیں آنکھیں تو بنتِ زہراؑ کا تم بھی حرفِ خطاب پڑھنا

بہت سے آئے یزید بن کر جو رزقِ آتش بھی ہو چکے ہیں

خدائے قہار کی طرف سے جو ان پر آئے عذاب پڑھنا

٭٭٭

 

 

 

 

سلام  ۔۔۔ سید انور جاوید ہاشمی ( کراچی)

 

 

ہر سخن ور چاہتا ہے وہ لکھے سب سے الگ

حمد و نعت و منقبت ہم نے بھی سو لکھّے الگ

کربلا والوں کی قربانی سے یہ سیکھا سبق

بیعتِ کُفّارِ دیں کرتی ہے رحمت سے الگ

بربنائے مسلک و دیں انتشار و افتراق

اس لیے ہیں منبرومسجد جُدا، سجدے الگ

خلق کو آزار جو پہنچائے وہ مومن نہیں

پیرو کارِ مصطفیٰﷺ ہیں فرقہ بندی سے الگ

مرضیِ مولیٰ، ہمہ اولیٰ سے آگے کچھ نہیں

پیروی انسان قسمت سے کرے کیسے الگ!

تابِ گویائی سُخن کی سمت لائے ہاشمی ؔ

کیسے رہ سکتا ہے پھر حُسنِ بیاں ہم سے الگ

٭٭٭

 

 

خاور نقوی ( اسلام آباد)

 

 

کتاب زیست میں بابِ اثر حسینؑ کا ہے

ہر ایک اشکِ عزا نامہ بر حسینؑ کا ہے

میانِ پنجتن میں منفرد دکھائی دے

بڑا عجیب یہ حُسنِ دگر حسینؑ کا ہے

ہر ایک لمحہ تھا بے مثل سب حَضَر اُس کا

جو بے مثال ہے اب بھی سفر حسینؑ کا ہے

جو بے خبر ہے وہ کس کا، مجھے نہیں معلوم

مجھے ہے علم کہ ہر با خبر حسینؑ کا ہے

کہ جب بھی نام لے مومن تو چشم بھر آئے

یہ اسم پاک بھی کیا پُر اثر حسینؑ کا ہے

جہاں نجات میسر، شفا بھی ملتی ہے

سرائے دیر و حرم میں وہ در حسینؑ کا ہے

کوئی بھی حرفِ ثنا جز کرم نہیں ملتا

تمام فیض یہ سارا ثمر حسینؑ کا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

سلام  ۔۔۔ خاور نقوی ( اسلام آباد)

 

 

ترے اک نام سے کیا منظر بنا ہے کیا چمکتا ہے

قلم اٹھتے ہی رخ ہر حرف کا گویا چمکتا ہے

ترے ہمراہ جتنے تھے مسافر سوچتے ہوں گے

رخِ مصحف ہے روشن یا ترا چہرہ چمکتا ہے

جہاں تیرا حضر ہو نور کی برسات ہوتی ہے

تُو جس رستے پہ چلتا ہے، وہی رستہ چمکتا ہے

حبیب و جون و مسلم، حُر کی قسمت سے کوئی پوچھے

نظر جب تیری اٹھتی ہے تو دل کیسا چمکتا ہے

یہ کیسی قوم ہے جو نہر پر پہرے بٹھاتی ہے

یہ کیسا تشنہ لب ہے جو سرِ دریا چمکتا ہے

ترا سجدہ بھی کیا سجدہ تھا خاکِ نینوائی پر

کہ اب تک کربلا کا ایک اک ذرہ چمکتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

فکر شبّیرؑ ۔۔۔ فیروز ناطق خسروؔ

 

 

اے مری جان مجھے ڈر ہے یہ روشن بستی

اب کسی اور حوالوں سے نہ جانی جائے

کل کو مانگے کے اُجالوں سے نہ جانی جائے !

 

اس سے پہلے کہ یہ دل اپنا ہی سودا کر لے

مفلسی ذہن کی کرتی پھرے دریوزہ گری

ساتھ فنکار کے دم توڑے فنِ کوزہ گری !

 

اس سے پہلے کہ ہر اک روز فصیلِ جاں پر

خونِ ناحق سے لکھی آئے نظر اک تحریر

اس سے پہلے کہ ہر اک شخص کا سو جائے ضمیر !

 

شہر ہوں نوحہ کناں اپنی ہی ویرانی پر

اس سے پہلے کہ لہو رونے لگے دیدۂ خواب

اس سے پہلے کہ ہر اک گھر میں اتر آئے عذاب

 

اس سے پہلے کہ سوا نیزے پہ سورج چمکے

دن قیامت کا نظر آئے ہمیں روزِ سعید

حشر اُٹھے تو گلے مل کے کہیں آج ہے عید

 

اس سے پہلے کہ یزید، ابنِ یزید، ابنِ یزید

خانۂ دل میں جلانے لگیں باطل کے چراغ

اس سے پہلے کہ یہ دل سرد ہوں، سو جائیں دماغ !

دور ذہنوں سے تعصّب کا یہ جالا کر لیں !

فکرِشبّیرؑسے ہم دل میں اُجالا کر لیں !!

٭٭٭

 

 

 

ہزار سورج  ۔۔۔ فیروز ناطق خسروؔ

 

 

میں سوچتا ہوں !

مرے مقدر میں زندگی کی سیاہ راتیں

لکھی ہوئی ہیں !

جو دن بھی میرے گزر رہے ہیں

عذاب ہیں وہ !

بہت بھیانک،  بڑے ڈراؤنے سے خواب ہیں وہ !

میں سوچتا ہوں !

مرے نصیبوں میں کیا یہی کچھ لکھا ہُوا ہے

مرے مقدر کا جگمگاتا ہُوا ستارہ بجھا ہُوا ہے

نفس نفس میرا زہر آلودہ ہو چکا ہے

وجود میرا تمام سُن ہے ضمیر بھی آج سوچکا ہے !

میں جب کبھی یہ سوچتا ہوں !

تو اپنی سوچوں کی تیرگی سے

ہزار سورج جلو میں کرنوں کے قافلوں کو

لئے اترتے میں دیکھتا ہوں !

میں دیکھتا ہوں

ہزاروں،  لاکھوں،  کروڑوں بندوں کے درمیاں سے

اُس ایک بندے کو امتحاں کے لئے چُنا تھا !

میں سوچتا ہوں کہ وقت کیسا کڑا تھا آخر !

جو امتحاں تھا !

تو وہ بھی کتنا بڑا تھا آخر !

جوان بیٹا تھا زیرِ خنجر !

نہ ہچکچاہٹ، نہ کسمساہٹ

نہ بوڑھے ہاتھوں میں باپ کے تھی

ذرا بھی لرزش

نہ لڑکھڑاہٹ تھی پانوؤں میں

عجیب صبر و رضا کی منزل فلک کی آنکھوں کے سامنے تھی!

 

میں سوچتا ہوں !

بزرگ و برتر،  عظیم ہے وہ !

رحیم ہے وہ،  کریم ہے وہ !

ہزاروں،  لاکھوں،  کروڑوں بندوں کے درمیاں جو

عزیز ہوتا ہے اُس کو زیادہ

اُسی کی کرتا ہے آزمائش

اُسی کا لیتا ہے امتحاں وہ !

 

میں سوچتا ہوں !

خلیلؑ  کے دل کا چین ہے وہ

کبھی خدا کے نبیؐ کا پیارا حسینؑ  ہے وہ

 

وہ نینوا ہو ؎

کہ خاکِ بطحا

ہماری آنکھوں کا نور ہے وہ !

ہمارے دل کا سرور ہے وہ !!

؎ ٰ نینوا (کربلا)

٭٭٭

 

 

 

سلام  ۔۔۔ قیوم طاہر ( راولپنڈی )

 

 

صدیوں کے راستے کا سفر ہے چراغ ہے

نیزے پہ رہ دکھاتا جو سر ہے چراغ ہے

بازارِ تیرگی سے ذرا آؤ تو ادھر

یہ کہکشاں سا در ہے جو گھر ہے چراغ ہے

اک عہد نو کی موج اچھلتی ہوئی ہے یہ

یہ حلق جو کہ خون میں تر ہے چراغ ہے

اک غم سے جیب و دامنِ دل ہے بھرا ہوا

ہاتھوں میں میرے جتنا بھی زر ہے چراغ ہے

یہ تا ابد سحر بھی اور سمتِ نور بھی

یہ کربلا جو ایک نگر ہے چراغ ہے

مدحِ نبیؐ و آلِ نبیؐ کر رہے ہو تم

یہ جو قلم ہے عرضِ ہنر ہے چراغ ہے

٭٭٭

 

 

 

سلام  ۔۔۔ سید حسن حامد نقوی (اسلام آباد)

 

 

رہِ حیات کے دیکھے ہیں زاویے سارے

سفر کے تو نے ہی ڈھالے ہیں ضابطے سارے

تجھی کو کعبۂ عرفان و عشق مانا ہے

ترے ہی گرد عقیدت کے دائرے سارے

کتابِ دل میں خلوص و وفا جو محکم ہے

تو انتساب، تجھی سے ہیں حاشیے سارے

جہاں میں صدق و حقیقت کی جستجو ہے اگر

تو یوں کہ تجھ سے ہی روشن ہیں راستے سارے

جو خواب میں بھی ترے آستاں تک پہنچا

سمیٹ لایا جہانوں کے فائدے سارے

پناہ میں تری آیا ہوں مطمئن ہوں جبھی

وگرنہ کام کہاں آئے آسرے سارے

حسینؑ تجھ میں مجسم بقائے دوام ہے

ترا ہی عکس شہادت کے آئینے سارے

٭٭٭

 

 

 

 

کربلا کربلا  ۔۔۔ سید حسن حامد نقوی (اسلام آباد)

 

 

 

عشق کا راستہ کربلا کربلا

نورِ عزم و رجا کربلا کربلا

ارضِ حق آزما کربلا کربلا

آسمانِ وفا کربلا کربلا

روحِ فکرِ رسا کربلا کربلا

حریت کی صدا کربلا کربلا

مزرعِ لا الہ کربلا کربلا

شاہراہِ ہدیٰ کربلا کربلا

مقصدِ انبیاء کربلا کربلا

مسندِ اولیاء کربلا کربلا

جائیدادِ وِلا کربلا کربلا

خلدِ اہل عزا کربلا کربلا

مظہرِ کبریا کربلا کربلا

ضربِ مشکل کشا کربلا کربلا

ہے شکستِ فنا کربلا کربلا

سجدہ گاہِ بقا کربلا کربلا

٭٭٭

 

 

 

 

سلام  ۔۔۔ علی عارف ( اسلام آباد)

 

 

صبر اور شکر کے عنوان سے رخصت ہوا ہے

کون اس تمکنت و شان سے رخصت ہوا ہے

کربلا سمت یہ لشکر، یہ سپاہ اور ہجوم

حاکمِ شام کے فرمان سے رخصت ہوا ہے

حر جب آیا تو آیا ہے بصد عجز و خلوص

دمِ رخصت بھی دل و جان سے رخصت ہوا ہے

اک قدم اٹھا ہوا خیمۂ سادات کی سمت

اک بھرم تھا جو مسلمان سے رخصت ہوا ہے

دیکھ دنیا! علی اصغرؑ سا مہکتا ہوا پھول

کس قدر حسرت و ارمان سے رخصت ہوا ہے

ابو طالبؑ  کی ہی دہلیز پہ ہے حکمت و حرف

یہ شرف آلِ ابو سفیان سے رخصت ہوا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

سلام  ۔۔۔ علی عارف ( اسلام آباد)

 

دشت میں پھول کھلانے کی اجازت دی تھی

کس نے حُر کو پلٹ آنے کی اجازت دی تھی

صاحبِ کشف و کرامات نے عاشور کی شب

سب کو اٹھ کے چلے جانے کی اجازت دی تھی

جو تھے اُس دور میں اُن سب کو بلایا ہوا تھا

ہم کو ایک اور زمانے کی اجازت دی تھی

جن کو آقاؑ کا نہیں اِذن وہ آنکھیں ویران

ہم کو تو اشک بہانے کی اجازت دی تھی

آخر آخر کہیں سالارِ سپاہِ حق کو

ایک مشکیزہ اٹھا لانے کی اجازت دی تھی

٭٭٭

 

 

 

 

کربلا  ۔۔۔ علی عرفان ( اسلام آباد)

 

 

قصۂ کرب و بلا ہے کربلا

مکتبِ صدق و صفا ہے کر بلا

معجزہ خونِ حسینیؑ سے ہوا

بن گئی خاکِ شفا ہے کربلا

مصطفیٰؐ سے عہد کی تکمیل ہے

یعنی تزینِ وفا ہے کربلا

کل تلک تھا دشتِ ویراں اور آج

ارضِ کل میں کبریا ہے کربلا

خون سے لکھا ہے دشت میں

مذہبِ حق کی بقا ہے کربلا

اور کیا لکھے قلم عرفانؔ کا

بس کہ روحِ ھل اتیٰ ہے کربلا

٭٭٭

 

 

 

سلام   عقیدت۔۔۔ اویس الحسن( اسلام آباد)

 

بہ بارگاہِ امامِ عالی مقام جنابِ حسین علیہ السلام

 

 

دل سے سنتے رہو شان ذی شانؑ کی

لاج جس نے رکھی نوعِ انسان کی

نوکِ نیزہ پہ سر تھا، خدا کی قسم

جب تلاوت ہوئی رب کے قرآن کی

اس حسینؑ ابنِ حیدرؑ کی کیا بات ہے

 

جب یہ دیکھا کہ آئے وہاں امتّی

سر کٹانے چلے تب وہ سبطِ نبیؐ

سب نے دیکھا مگر آج شبیرؑ کو

سر کٹا کر بھی فاتح ہوا تھا وہی

اس حسینؑ ابنِ حیدرؑ کی کیا بات ہے

 

مارے حیرت کے گنگ تھے ملائک بھی جب

سب شہیدوں کے لاشے اٹھا کر وہ اب

سر کو سجدے میں پھر جو جھکانے لگے

ناز کرنے لگا اپنی قدرت پہ رب

اس حسینؑ ابنِ حیدرؑ کی کیا بات ہے

 

خاکِ کربل کو دیکھو بہت پاک تھی

آئی آلِ نبیؐ شاہِ لولاک تھی

آج شبیرؑ کا جب بہا تھا لہو

کربلا کی زمیں رشکِ افلاک تھی

اس حسینؑ ابنِ حیدرؑ کی کیا بات ہے

 

کرتے کرتے رہے وہ وضو پہ وضو

موت ٹھہری رہی روبرو روبرو

آج پوری ہوئی داستانِ حرم

حق سے واصل ہوئے سرخرو سرخرو

اس حسینؑ ابنِ حیدرؑ کی کیا بات ہے

 

جو نبوت کے ہونٹوں سے چوما گیا

آج سجدے میں سر جب وہی تھا کٹا

مصطفئے کے کلیجے سے پوچھے کوئی

سر بلندی سے نیزے پہ جب وہ چڑھا

اس حسینؑ ابنِ حیدرؑ کی کیا بات ہے

 

سنگ و آہن کو مٹھی میں پگھلا دیا

معجزہ بھی ولایت کا دکھلا دیا

کیوں فرشتوں نے آدمؑ کو سجدہ کیا

راز تخلیق کا سب کو بتلا دیا

اس حسینؑ ابنِ حیدرؑ کی کیا بات ہے

 

جب گھرانہ محمدؐ کا تھا در بدر

کربلا کی زمیں اور سجدے میں سر

بند شیشی میں مٹی جو کربل کی تھی

امّ سلمیٰ پکاری، لہو میں تھی تر

اس حسینؑ ابنِ حیدرؑ کی کیا بات ہے

 

بی بی زینبؑ کلیجے کو روتی رہی

اور سکینہؑ بھی خیموں میں چھپتی پھری

ننھے اصغرؑ کا ہو یا کہ عبّاسؑ کا

چھلنی لاشہ اٹھا کر چلا تھا وہی

اس حسینؑ ابنِ حیدرؑ کی کیا بات ہے

 

خون دے کر بجھائی گئی تشنگی

اپنے ناناؐ کے دیں کی بنے زندگی

خیمے جلتے رہے سر بھی کٹتے رہے

آج کامل ہوئی بندگی بندگی

اس حسینؑ ابنِ حیدرؑ کی کیا بات ہے

 

حکم قرآن کا اب وہ نازل ہوا

فاطمہؑ اور حسنؑ، مرتضیٰؑ، مصطفئے

منتظر تھا زمانہ یوں کب سے کھڑا

پنجتنؑ کو مکمل تھا جس نے کیا

اس حسینؑ ابنِ حیدرؑ کی کیا بات ہے

 

پنجتنؑ کی محبت ہے دینِ مبیں

سر جھکا لو یہیں دل میں لے کر یقیں

اہلِ ایمان کا بس عقیدہ ہے یہ

نام لیوا نہ ہو جو بھی بخشش نہیں

اس حسینؑ ابنِ حیدرؑ کی کیا بات ہے

 

چپہ چپہ پہ نوری نقابت ہوئی

رب کو منظور اس کی سیادت ہوئی

الحسینُ منّی کا فرمان دل سے سنو

دینِ حق کی ضمانت شہادت ہوئی

اس حسینؑ ابنِ حیدرؑ کی کیا بات ہے

 

وعدہ پورا کرو یہ وفا نے کہا

جس سے الفت کا خود مصطفیٰؐ نے کہا

مصطفیٰؐ اپنی خواہش سے بولے نہیں

کر لو تم بھی یقیں خود خدا نے کہا

اس حسینؑ ابنِ حیدرؑ کی کیا بات ہے

 

جو بھی مومن ہیں انؑ کے وفادار ہیں

سب کے بیڑے تھپیڑوں سے اب پار ہیں

کیونکہ فرمان ہے مصطفیٰؐ کا سنو

وہ جوانوں کے جنت میں سردار ہیں

اس حسینؑ ابنِ حیدرؑ کی کیا بات ہے

 

ان کے در پہ جھکا ہے جہاں کل کا کل

جن کے نانا محمدؐ ہیں ختم الرّسل

میں غلامِ غلامِ غلامان ہوں

سب اثاثہ مرا سبطِ مولائے کل

اس حسینؑ ابنِ حیدرؑ کی کیا بات ہے

 

تم ببانگِ دہل ان سے کہتے چلو

لاکھوں کربل اٹھا کر بھی لاتے رہو

معرکہ حق و باطل کا جب بھی ہوا

سب یزیدوں کو کافی فقط ایک وہ

اس حسینؑ ابنِ حیدرؑ کی کیا بات ہے

 

دل نیازِ محبت سے جھکتا گیا

پھر سلامِ عقیدت یہ لکھّا گیا

پیش کرتے ہی مجھ کو بشارت ہوئی

میں اویس الحسنؔ آج بخشا گیا

اس حسینؑ ابنِ حیدرؑ کی کیا بات ہے

اس حسینؑ ابنِ حیدرؑ کی کیا بات ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ابلیس ۔۔۔  بدر سیماب ( کویت)

 

 

تجھے گماں تھا یہ خاک زادہ

خدا کا بندہ نہ بن سکے گا

تو دیکھ آ کر یہ کربلا میں

حسینؑ نے جو ہے کر دکھایا

کوئی فرشتہ نہ کر سکے گا

٭٭٭

 

 

 

منقبت ۔۔۔ اویس الحسن ( اسلام آباد)

 

(بحضور امام حسین علیہ السلام)

 

 

نشانِ فخر تھا وہ دینِ مصطفیؐ کے لئے

’’حسینؑ ہی کی ضرورت تھی کربلا کے لئے ‘‘

 

بجُز حسینؑ میسّر نہ ہو مجھے کچھ بھی

بس آلِ احمدِ مرسلؐ ملے ثناء کے لئے

 

حسینؑ نام نہیں ہے میرا عقیدہ ہے

میرے شعور نے مانا اِسے سدا کے لئے

 

حسینؑ لازم و ملزوم ہر زمانے میں

حسینیت کی قسم دینِ مصطفیؐ کے لئے

 

درود پڑھ کے حضوری میں اپنے مولاؑ کی

اُٹھائیں ہاتھ حسینی سبھی دُعا کے لئے

٭٭٭

 

 

 

 

سلام ۔۔۔ پروین سجلؔ ( لاہور)

 

 

دشتِ خاکِ کربلا ماتم کناں رنجِ حسینؑ

صبر کی تاریخ میں عنوانِ جاں رنجِ حسینؑ

دیکھئے تو بارِ مژگاں ٹوٹتی ہے کیا سے کیا؟

قہرِ ظلمت، لختِ جاں، محشرسِتاں رنجِ حسینؑ

دامنِ کربل کی تو ہیں دھجیاں بھی خوں چکاں

ہاو ہو، ماتم سَرا ہے آسماں رنجِ حسینؑ

موجِ بحرِ بے کراں پر تِشنہ لب ہے جُوے خُوں

آب دیدہ، سیلِ غم، دریا رواں رنجِ حسینؑ

کربلا کے غم نے آنچل کر دیئے تھے تار تار

راکھ ہے خیموں کی اور نذرِ سِناں رنجِ حسینؑ

چشمِ پُر نم سے سِتم دیکھا یہ چشمِ چرخ نے

ذکرِ قرآں، تیرہ شب، صوتِ فغاں رنجِ حسینؑ

ہر صدی کے واسطے لے کر پیامِ حق چلے

فاطمہؓ ابنِ علیؓ، نُورِ زماں رنجِ حسینؑ

کہکشانِ پرچمِ دیں، رہنُما و راہبر

آپؓ کی تو ذات، میرِ کارواں رنجِ حسینؑ

دیپ آنکھوں کے جَلا کر مِدحت عِترت کروں

کر کے روشن اے سجلؔ غم کا جہاں رنجِ حسینؑ

٭٭٭

 

 

 

 

 

سلام  ۔۔۔ ذوالفقار نقوی (انڈیا)

 

میں نے اب تک جو لکھا جو بھی پڑھا، شبیرؑ کا

ہر سکوت و نطق، ہر اک زمزمہ شبیرؑ  کا

مال و زر والے ہیں سب کے سب امیر شہر کے

ہر کوئی نادار و مفلس، بے نوا شبیرؑ  کا

ٹِک نہیں پایا کوئی طوفان اِس کے سامنے

زندگی پر لکھ دیا جب سے پتہ شبیرؑ  کا

وقت کے ہر اژدہے کی جان پر بن آئی ہے

جب سے میں نے تھام رکھا ہے عصا شبیرؑ  کا

چند اک سوکھے گلے، بازو، ردا، نازک جگر

ساری دنیا سے الگ ہے اسلحہ شبیرؑ  کا

دیکھ کر اِس کو فرشتے قبر میں جھک جائیں گے

کربلا کی خاک میں ہے خوں ملا شبیرؑ کا

صاف آئیں گی نظر انجیل و توریت و زبور

نقطۂ با پر سجا لو دائرہ شبیرؑ  کا

از محمدؐ تا محمدؑ ، تا بہ محشر، تا خدا

سلسلہ در سلسلہ ہے سلسلہ شبیرؑ  کا

٭٭٭

 

 

 

محمد افتخار شفیع ( ساہیوال)

 

آپ کے عہد ہیں ہوا ہوتا

کوئی مجھ سا نہ دوسرا ہوتا

تیر ہوتا میں تیرے تیر کش کا

اور ترے ہات سے چلا ہوتا

لفظ ہوتا کتابِ کوثر کا

تیری پلکوں سے میں ادا ہوتا

کاش ہوتا رکاب گھوڑے کی

اور ترے پاؤں چومتا ہوتا

جان دے دیتا شہؑ کے قدموں میں

میں بھی اک کشتۂ وفا ہوتا

٭٭٭

 

 

مکمل جریدہ ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل