FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

علامہ اقبال اور غلام رسول مہر کے روابط

               محمد حمزہ فاروقی

 

 

انجمنِ حمایتِ اسلام کے جلسے طویل مدت تک مسلمانوں کے نہایت اہم اجتماع تصور کیے جاتے تھے۔  یہ عموماً تین سے چار دن تک جاری رہتے اور ہر روز تین چار نشستیں منعقد ہوتیں۔  ملک کے طول و عرض سے جید علماء، بزرگ، صوفیہ، ماہرینِ تعلیم اور شعراء ان میں شرکت کرتے۔  اقبال ۱۹۰۵ء میں یورپ جانے سے قبل ان سالانہ جلسوں میں اپنی نظمیں نذرِ سامعین کرتے تھے۔  آپ نے ۱۹۰۴ء میں ’’تصویر درد‘‘ نامی نظم پڑھی تھی۔  اس سے قبل کے جلسوں میں آپ ’’نالۂ یتیم‘‘، ’’یتیم کا خطاب، ہلالِ عید سے‘‘، ’’اسلامیہ کالج کا خطاب پنجاب سے‘‘، ’’ابرِ گہر بار‘‘ معروف بہ ’’فریادِ امت‘‘ سنا چکے تھے۔ [1]

مہر کے اسلامیہ کالج کے زمانۂ تعلیم کے دوران اپریل ۱۹۱۱ء میں انجمن کا سالانہ جلسہ منعقد ہوا۔  اقبال کئی برس کے وقفے کے بعد اس میں شرکت فرما رہے تھے۔  خواجہ دل محمد کے روابط اقبال سے تھے۔  جس زمانے میں اقبال ’’شکوہ‘‘ تحریر کر رہے تھے، خواجہ صاحب مجالسِ اقبال میں شریک ہوتے تھے اور ’’شکوہ‘‘ کے اشعار مہر کو سنایا کرتے تھے۔  انھوں نے ایک مرتبہ ’’شکوہ‘‘ کا مندرجہ ذیل شعر مہر کے سامنے پڑھا   ؎

آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں

زندگی مثلِ بلالِ حبشیؓ رکھتے ہیں

مہر چار پانچ ساتھیوں کے ساتھ مولانا ظفر علی خاں سے ملنے گئے۔  مولانا اس زمانے میں مولانا شاہ محمد غوث کے پاس ایک نو تعمیر عمارت کی دوسری اور تیسری منزل پر رہتے تھے۔  یہ منزلیں انھوں نے کرایے پر لی تھیں۔  مہر اور ان کے رفقاء مغرب اور عشا کے درمیانی وقت میں ملنے گئے۔  مولانا سے تھوڑے فاصلے پر اقبال تشریف فرما تھے۔  گرمی کا موسم تھا۔  اس زمانے میں اقبال انارکلی میں رہتے تھے۔  آپ شلوار، سفید قمیص، چھوٹے کوٹ میں ملبوس تھے۔  سر پر لنگی بندھی تھی اور ہاتھ میں چھڑی تھی۔

اقبال نے ظفر علی خاں سے فرمایا۔  ’’ظفر علی خاں آپ کے اخبار میں کان پور کے فلاں صاحب کی جو لمبی لمبی نظمیں چھپتی ہیں، بعض اوقات خیال آتا ہے کہ تھرڈ کلاس کا ٹکٹ لوں اور کان پور پہنچ کر ان کے پیٹ میں چھرا گھونپ دوں۔  پھر سوچتا ہوں کہ اس شخص کو ختم کرنے کے لیے کان پور کا تھرڈ کلاس کا کرایہ خرچ کرنا بھی روپے کا ضیاع ہو گا۔ ‘‘ مہر نے اس روایت میں شاعر کا نام حذف کر دیا تھا۔ [2]

انجمن کا جلسہ ریواز ہاسٹل کے صحن میں ہوا تھا۔  صحن بہت وسیع تھا اور اس کے چار حصے تھے۔  ایک پختہ راستہ شمالی پھاٹک سے جنوبی پھاٹک تک جاتا تھا۔  اس سے آگے باورچی خانہ، ڈائننگ ہال، اور دودھ، دہی، مٹھائی اور پھلوں کی دکانیں تھیں۔  دوسرا راستہ شرقاً  غرباً تھا۔  اسٹیج صحن کے جنوبی و مغربی حصے میں سجایا گیا تھا اور صحن لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔  ہاسٹل کے برآمدوں میں بھی آدمی تھے بلکہ چھتوں پر بھی لوگ بیٹھے تھے۔ [3]

مہر نے اس تقریب کے متعلق لکھا ہے:

حضرت علامہ تشریف لائے۔  میں نے دور سے تو پہلے بھی دو تین مرتبہ دیکھا تھا، قریب سے دیکھنے کا یہ پہلا موقع تھا۔  وہ شلوار اور چھوٹا کوٹ پہنے ہوئے تھے۔  سر پر ترکی ٹوپی تھی۔  خاصی مدت تک اُن کا یہی لباس رہا، بعد میں ترکی ٹوپی کی بجائے وہ ٹوپی پہننے لگے جسے ابتدائی دور میں مصطفیٰ کمال کیپ کہا جاتا تھا۔

علامہ نے سب سے پہلے ایک قطعہ تحت اللفظ پڑھا جس کا آخری شعر یہ تھا    ؎

ڈھب مجھے قوم فروشی کا نہیں یاد کوئی

اور پنجاب میں ملتا نہیں اُستاد کوئی[4]

سب سے پہلے نظم کی رونمائی کا سوال پیدا ہوا۔  نظم جن کاغذوں پر لکھی گئی اس کے لیے مختلف اصحاب نے مختلف رقمیں پیش کیں۔  آخر نواب سر ذوالفقار علی خاں نے ایک سوروپے کی رقم کا اعلان کیا۔  یہ رقم ادا کرنے کے بعد نواب صاحب نے اصل نظم انجمن کی نذر کر دی۔

ہر طرف سے شور اٹھا کہ نظم گا کر سنائی جائے۔  اقبال نے فرمایا کہ ’’میں خود ہی بہتر سمجھتا ہوں کہ نظم گا کر پڑھنی چاہیے یا تحت اللفظ۔  یہ نظم ایسی ہے کہ جو گا کر پڑھی نہیں جا سکتی۔  یعنی اس کے پڑھنے کا حق اس طرح ادا نہیں ہوسکتا۔ ‘‘ اس کے بعد نظم شروع ہو گئی۔  ایک بند سن لینے کے بعد سب کو یقین ہو گیا کہ حضرت علامہ کا ارشاد درست تھا۔ [5]

لوگ اس خاموشی سے اقبال سے ’’شکوہ‘‘ سن رہے تھے کہ جیسے یہ انجمن کا سالانہ جلسہ نہ تھا، نہایت مقدس اجتماع تھا جس میں قدوسی ایسی چیز سن رہے تھے جس کی نظیر اردو زبان میں نہ تھی۔  اس کا ہر بند بیک وقت تین فرائض انجام دے رہا تھا۔  اول بارگاہِ باری تعالیٰ میں شکوہ کہ مسلمان پہلے کی طرح اس کی نگاہِ لطف کے سزاوار نہ سمجھے گئے۔  دوم، مسلمانوں کے غیر معمولی بنیادی کارناموں کی نہایت دل کش داستان پیش کی گئی۔  سوم، مسلمانوں کو دعوتِ عمل تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ جو قوم اللہ کے آخری دین کی حامل تھی اس کا طرزِ عمل اور شانِ جہد کیا ہونی چاہیے۔  مسلمانوں کے کارنامے اس انداز سے پیش کیے گئے جن سے شکوے کا حق خودبخود ادا ہو گیا۔  پوری نظم میں ایک مصرع بھی ایسا نہ تھا جو مسلمانوں میں یاس یا شکست کی خفیف سے کیفیت پیدا کرتا۔ [6]

اقبال جب ’’شکوہ‘‘ کے بند پڑھ رہے تھے تو ہزاروں کا مجمع سحرزدہ تھا۔  مہر نے لکھا تھا کہ ’’دل سے اس بابرکت وجودِ گرامی کے لیے دعائیں نکلتی تھیں، جسے مسلمانوں کی حیات ملی کے ایک نہایت نازک دور میں زندگیِ نو کی داغ بیل ڈال دینے کا کام سپرد کیا تھا۔ ‘‘

اقبال نے مندرجہ ذیل شعر پڑھا   ؎

کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے

بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہرجائی ہے

آپ آخری مصرعے کے ساتھ ہی اپنے اصل مقام سے آگے بڑھ گئے اور اس حسن ادا سے کہ پوری مجلس پر ایک عجیب کیفیت طاری ہو گئی۔  پوری نظم اکیس بندوں پر مشتمل تھی اور اس کے پڑھنے میں خاصا وقت صرف ہوا لیکن مجمع سحرزدہ ہو کر یہ نظم سنتا رہا اور انھیں وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا۔ [7]

۱۹۱۲ء کے انجمن کے سالانہ جلسے میں اقبال نے ’’شمع و شاعر‘‘ سنائی۔  یہ نظم مولانا ظفر علی خاں نے اپنے پریس میں چھپوا کر اس کی قیمت آٹھ آنے رکھی تھی۔  مولانا نے اعلان کیا کہ ’’یہ نظم دس ہزار کی تعداد میں چھاپی گئی تھی اور مقصود یہ ہے کہ اس سے کم از کم پانچ ہزار روپے وصول ہو جائیں اور یہ رقم اقبال کی خدمت میں پیش کر کے عرض کیا جائے کہ وہ جاپان جا کر تبلیغ اسلام کریں۔ ‘‘ مولانا کی یہ تجویز روپیہ کے حصول کی حد تک تو کامیاب رہی لیکن جاپان میں تبلیغ اسلام کا منصوبہ دھرا رہ گیا۔

۱۹۱۲ء کا سالانہ جلسہ بہت دھوم دھام سے منعقد ہوا تھا۔  اس کا اہتمام اسلامیہ کالج کے وسیع میدان میں کیا گیا تھا۔  حبیبیہ ہال کے ساتھ اسٹیج آراستہ کیا گیا۔  آگے خاصی دور تک قناطیں اور شامیانے لگے تھے۔  مختلف اطراف میں دکانیں تھیں اور لوگ حسب ضرورت ٹہل لیتے تھے۔  برانڈرتھ روڈ کی طرف سے جلسہ گاہ کے اندر آنے کا دروازہ تھا۔  اس گوشے سے اسٹیج تک راستہ بنا ہوا تھا اور اقبال اسی راستے سے نظم پڑھنے کے لیے آئے تھے۔  آپ سفید شلوار، سفید قمیص، سیاہی مائل گرم کوٹ اور سر پر ہارڈ ترکی ٹوپی میں ملبوس تھے۔

سالانہ جلسے کے دوران مختلف اجلاس کے لیے ان اصحاب کو صدر منتخب کیا جاتا تھا جن سے ممکنہ حد تک زر آفرینی کی امید ہوسکتی تھی یا ان سے زر طلبی میں مدد مل سکتی تھی۔  اتفاقاً دو اصحاب نظم اقبال کی صدارت پر مصر تھے۔  دونوں سے بڑی رقوم ملنے کی امید تھی اس لیے انجمن کسی ایک کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی۔  ’’شمع اور شاعر‘‘ کے بارہ بند تھے۔  اقبال پہلے چھ بند ایک صدر کی موجودگی میں پڑھیں۔  اس کے بعد نمازِ عصر کا وقفہ ہو، پھر دوسرا صدر کرسیِ صدارت پر براجمان ہو اور بقیہ چھ بند اس کی صدارت میں پڑھے جائیں۔  اقبال نے ابتدا میں مندرجہ ذیل قطعہ پڑھا:

ہم نشینِ بے ریایم از رہِ اخلاص گفت

کاے کلامِ تو فروغِ برنا و پیر

درمیانِ انجمن معشوق ہرجائی مباش

گاہ بہ سلطان باشی گاہ باشی بہ فقیر

گفتمش اے ہم نشیں معذور می دارم ترا

در طلسمِ امتیازِ ظاہری ہستم اسیر

من کہ شمعِ عشق در بزمِ جہاں افروختیم

سوختم خود را و سامانِ دوئی ہم سوختم

یہاں سلطان سے مراد مرزا سلطان احمد تھے جو پہلے اجلاس کے صدر تھے اور فقیر سے مراد فقیر افتخار الدین تھے۔  یہ نظم بہت زیادہ مقبول ہوئی۔  اس دفعہ مجمع ’’شکوہ‘‘ والے ہجوم سے زیادہ تھا۔ [8]

’’شمع اور شاعر‘‘ میں اقبال نے مستقبل کے بارے میں کچھ پیش گوئیاں کی تھیں جو بعد میں پوری ہو کر رہیں۔  اقبال نے یہ نظم فروری ۱۹۱۲ء میں لکھی تھی۔  ذیل میں وہ اشعار درج ہیں جن میں اقبال نے الہامی انداز میں مستقبل کی جھلکیاں دکھائی تھیں   ؎

راز اس آتش نوائی کا مرے سینے میں دیکھ

جلوۂ تقدیر میرے دل کے آئینے میں دیکھ!

آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش

اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی

دیکھ لو گے سطوتِ رفتارِ دریا کا مآل

موجِ مضطر ہی اسے زنجیر پا ہو جائے گی

نالۂ صیاد سے ہوں گے نوا ساماں طیور

خون گلچیں سے کلی رنگیں قبا ہو جائے گی

شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے

یہ چمن معمور ہو گا نغمۂ توحید سے

چند سال بعد پہلی جنگِ عظیم یورپ کی بربادی کا سامان لے کر آ گئی۔  اقبال کے انتقال کے بعد دوسری جنگِ عظیم سے یورپی سامراجی قوتوں کا کمزور پڑنا اور اسلامی ممالک کا آزاد ہونا اور پاکستان قائم ہونا۔  یہ تمام جھلکیاں مندرجہ بالا نظم میں ملتی تھیں۔  اقبال نے ’’خضر راہ‘‘ میں ایک مقام پر پہلی جنگِ عظیم کے بعد کے حالات کے متعلق فرمایا تھا   ؎

تم نے دیکھا سطوتِ رفتار کا مآل

موجِ مضطر کس طرح بنتی ہے اب زنجیر دیکھ [9]

مہر نے ایک خط میں لکھا ہے:

’’شمع اور شاعر‘‘ باہر گراؤنڈ میں پڑھی گئی تھی۔ … ’’شمع اور شاعر‘‘ کے لیے جو اسٹیج بنی تھی وہ اسلامیہ کالج کے حبیبیہ ہال کے ساتھ تھی۔  وہاں اس سال مَیں نے بھی ایک نظم پڑھی تھی جس کا عنوان ’’فریادِ امت بحضور سرورِ کائناتؐ‘‘۔  اس میں حضرت علامہ کی نظم ’’ابرِ گہربار‘‘ کے تمام بندوں پر بند لکھے تھے اور وہ اب تک میرے پاس موجود ہے۔  انجمن کی کارروائی میں بھی چھپ گئی تھی۔  حضرت علامہ نے ’’شمع اور شاعر‘‘ پوری کی پوری گا کر پڑھی تھی۔ [10]

اقبال نے ’’جوابِ شکوہ‘‘ موچی دروازے کے باہر ایک عظیم الشان اجتماع میں پڑھی تھی۔  مہر کے دورِ طالب علمی میں اقبال نے ایک اجلاس میں مختلف قطعات کے علاوہ مزاحیہ شاعری نذرِ سامعین کی تھی۔  ان مزاحیہ قطعات کا اقبال نے ’’رگڑا‘‘ نام تجویز کیا تھا لیکن بعد میں یہ ’’اکبری اقبال‘‘ کے نام سے معروف ہوئے کیونکہ ان قطعات میں آپ اکبر الٰہ آبادی کی پیروی کر رہے تھے۔  اقبال نے بعد میں یہ رنگ سرے سے ترک کر دیا۔  یہ قطعات ’’اکبری اقبال‘‘ نامی کتابچے کی صورت میں شائع ہوئے تھے۔  ایک قطعہ غلام قادر روہیلہ کے متعلق تھا جس کا آخری شعر یہ تھا   ؎

مگر یہ راز کھل گیا سارے زمانے پر

حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے

دوسرے قطعہ میں یورپ پہنچنے والے بیش بہا اسلامی مخطوطات کا ذکر تھا اور اس میں مُلّا طاہر غنی کاشمیری کے شعر کی تضمین کی گئی تھی۔

غنی روزِ سیاہ پیرِ کنعاں را تماشا کن

کہ نورِ دیدہ اش روشن کند چشم زلیخا را[11]

مہر جب بی اے کے آخری سال میں تھے تو انجمن کے سالانہ جلسے میں اقبال نے نظم خوانی سے قبل تقریر کی تھی۔  اس کے بعد وہ نظم پڑھی جس کا مطلع یہ تھا   ؎

کبھی اے حقیقتِ مُنتَظَر نظر آ لباسِ مجاز میں

کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں

اقبال نے ’’مُنتَظَر‘‘ کے ظ کے مفتوح ہونے پر خاص زور دیا تھا اور فرمایا کہ اسے ’’مُنتَظِر‘‘ نہیں ’’مُنُتَظَر‘‘ پڑھا جائے۔  یعنی وہ حقیقت جس کا انتظار کیا جا رہا ہے۔  آخر میں آپ نے مثنوی اسرارِ خودی کے تمہید مطالب میں سے پندرہ بیس اشعار پڑھے۔  اس وقت تک یہ مثنوی منظر عام پر نہیں آئی تھی۔ [12]

جس زمانے میں مہر زمیندار سے وابستہ ہوئے انھی ایام میں مہر کی اقبال سے ملاقات ہوئی۔  یہ ملاقات جن عجیب حالات میں ہوئی، وہ اس بات کی متقاضی تھی کہ ان حضرات کا تعلق ایک خاص حد سے بڑھنے نہ پاتا لیکن ان حضرات کا خلوص باہمی پائدار تعلقات کی بنیاد بنا۔

مہر اسلامیہ کالج کے زمانے سے اقبال کے کلام آشنا تھے۔  ان کے ذہن پر انجمنِ حمایتِ اسلام کے سالانہ جلسوں، جن میں اقبال التزاماً شریک ہوتے تھے اور اپنا کلام سنایا کرتے تھے اثرات زندگی بھرمرتسم رہے۔  چنانچہ مہر نے ان جلسوں کا ذکر کئی مقامات پر کیا تھا۔

مہر کے اسلامیہ کالج کے ساتھی چودھری محمد حسین تھے۔  مہر جب فروری ۱۹۲۲ء میں مستقلاً لاہور آ گئے اور زمیندار سے وابستہ ہوئے تو چودھری صاحب سے ملاقات کے مواقع میسر آنے لگے اور وہ مہر کی اقبال سے ملاقات کا وسیلہ بنے۔  اس زمانے میں مہر زمیندار کے دفتر ’’جہازی بلڈنگ‘‘ میں رہتے تھے۔  مہر سحرخیز تھے اور صبح یا شام کے وقت لازماً سیر کے لیے نکلتے تھے۔  مہر نے اس ملاقات کے بارے میں ایک خط میں لکھا:

میں ۱۹۲۲ء میں اخبار نویسی کے لیے زمیندار سے وابستہ ہوا۔  چودھری محمد حسین مرحوم کالج کے زمانے سے میرے دوست تھے۔  ان سے ملاقاتیں اکثر ہوتی رہتی تھیں۔  ایک مرتبہ شام کو میں، شفاعت اللہ خاں مرحوم اور میکش مرحوم سیر کے لیے نکلے۔  گول باغ (شہر کے اردگرد کا باغ جو خندق کی جگہ لگایا گیا) کی حالت بہت اچھی تھی۔  راستے میں چودھری صاحب مل گئے۔  موچی دروازے کے قریب پہنچ کر ہم نے اصرار کیا کہ ڈاکٹر صاحب کی کوئی ایسی چیز سنائیے جو کہیں نہ چھپی ہو۔  انھوں نے چار شعر سنائے۔  وہ اپنے گھر (واقع گوجر سنگھ) کی طرف گئے۔  ہم زمیندار کے دفتر پہنچ گئے جو دہلی دروازے کے باہر جہازی بلڈنگ میں تھا۔

شفاعت اللہ خاں مرحوم نے اصرار کیا کہ ’’جو شعر چودھری صاحب سے سنے، وہ لکھ دو۔ ‘‘ میں نے دو تین منٹ میں یاد کر کے لکھ دیے۔  وہ اخبار میں چھپ گئے۔ [13]

مہر نے ایک مضمون میں وہ اشعار بھی نقل کیے تھے۔  اشعار مندرجہ ذیل ہیں :

یہ موجِ پریشاں خاطر کو پیغام لبِ ساحل نے دیا

ہے دور وصالِ بحر ابھی تو دریا میں گھبرا بھی گئی

عزت ہے محبت کی قائم اے قیس! حجابِ محمل سے

محمل جو گیا عزت بھی گئی، غیرت بھی گئی، لیلیٰ بھی گئی

کی ترک تگ و دو قطرے نے تو آبروئے گوہر بھی ملی

آوارگیِ فطرت بھی گئی اور کش مکشِ دریا بھی گئی

نکلی تو لبِ اقبال سے ہے، کیا جانیے کس کی ہے یہ صدا

پیغامِ سکوں پہنچا بھی گئی، دل محفل کا تڑپا بھی گئی

اس کا پہلا شعر یعنی:

اے بادِ صبا کملی والے سے جا کہیو پیغام مرا

قبضے سے امت بیچاری کے دیں بھی گیا دنیا بھی گئی[14]

یا تو اس وقت چودھری صاحب کو یاد نہ آیا یا اُنھوں نے سنانا ضروری نہ سمجھا۔  موچی دروازے سے آگے بڑھے تو چودھری صاحب چلے گئے، ہم دفتر زمیندار میں پہنچ گئے۔ [15]

اگلے دن یہ اشعار زمیندار میں نمایاں مقام پر چھپ گئے۔  یہ مہر کے بے مثل حافظے کا کمال تھا۔  آگے کی داستان مہر کی زبانی پڑھیے:

دوسرے روز دوپہر کے وقت چودھری محمد حسین مرحوم دفتر زمیندار میں آئے اور مجھ سے پوچھا ’’تم نے یہ شعر کہاں سے لیے؟‘‘ میں نے کہا کہ آپ ہی نے تو کل شام کو سنائے تھے۔  شفاعت اللہ خاں کے اصرار پر میں نے لکھ دیے۔  چودھری صاحب نے فرمایا ’’چلو میرے ساتھ۔ ‘‘ میں ان کے ساتھ ہولیا اور ہم حضرت علامہ مرحوم کے دولت کدے پر پہنچ گئے۔  وہ اس وقت انارکلی میں رہتے تھے جہاں وہ ۲۳؍ جولائی ۱۹۰۸ء سے مقیم تھے۔

میں اس مکان میں پہلی مرتبہ گیا تھا۔  خاصا گھبرایا ہوا تھا، اس لیے کہ آشکار ہو گیا تھا۔  اس کی حیثیت ایک لحاظ سے پیشی کی ہے۔  سیڑھیاں چڑھ کر ہم جس کمرے میں پہنچے تھے، حضرت علامہ وہاں ایک کرسی پر تشریف فرما تھے۔  سیڑھیوں کے قریب جو کرسی تھی، اس پر مجھے بٹھایا گیا۔  چودھری صاحب میرے بائیں جانب ایک کرسی پر بیٹھ گئے۔  پھر حضرت علامہ مرحوم سے مخاطب ہو کر کہا۔  ’’مجرم کو پکڑ لایا ہوں۔ ‘‘ یہ سن کر حضرت علامہ نے مجھ سے پوچھا۔  ’’آپ نے یہ شعر کہاں سے لیے؟‘‘ میں نے پورا واقعہ من و عن بیان کر دیا۔  یعنی کل شام کے وقت اتفاقیہ چودھری صاحب گول باغ میں مل گئے تھے۔  شفاعت اللہ خاں نے ایسے شعر سننے کی فرمائش کی جو کہیں چھپے نہ ہوں۔  چودھری صاحب نے چار شعر سنا دیے۔  ہم دفتر پہنچے تو شفاعت اللہ خاں نے کہا کہ جو شعر ابھی سنے ہیں، انھیں کاغذ پر لکھ دو۔  میں نے لکھ دیے۔  اس کے سوا میری کوئی قصور نہیں۔

یہ سن کر حضرت علامہ مرحوم نے فرمایا۔  ’’آپ سچ کہتے ہیں ؟‘‘ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ غالباً حضرت علامہ کو میری گزارش کا یقین نہیں آیا۔  میں نے عرض کیا کہ ’’واقعہ تو یہی ہے، میں اچھا شعر سن لیتا ہوں تو مجھے عموماً نہیں بھولتا۔  میں اور تو کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکتا۔  آپ چاہیں تو اور شعر سنا کر میرا امتحان لے لیں۔

یہ جواب سن کر حضرت علامہ کے چہرۂ مبارک پرتبسم کی ہلکی ہلکی لہریں نمودار ہو گئیں اور صرف یہ فرمایا۔  ’’یہ حافظہ تو بڑا خطرناک ہے۔ ‘‘[16]

مہر اقبال کے انارکلی والے مکان میں دوسری مرتبہ سالک کے ساتھ گئے۔  اقبال نے ایک رجسٹر ہاتھ میں لے کر پیامِ مشرق کی بعض نظمیں سنائیں۔  نظمیں سناتے وقت اقبال کی آنکھوں پر عینک تھی۔ [17]

۱۹۲۲ء میں اقبال انارکلی کے مکان سے اٹھ کر میکلوڈ روڈ کی ایک کوٹھی میں منتقل ہو گئے۔  مہر نے بھی اپنی رہائش گاہ تبدیل کر لی۔  مہر فلیمنگ روڈ اور بیڈن روڈ کے چوک پر رہتے تھے۔  یہاں سے اقبال کی رہائش گاہ خاصی قریب تھی۔  آبادی کم تھی۔  شاہ ابوالمعالی سے میکلوڈ روڈ تک خالی میدان تھا۔  دن میں دھوبی یہاں کپڑے سکھاتے تھے اور شام کو میدان خالی ہوتا۔  مہر پانچ سات منٹ میں اپنے گھر سے نکل کر اقبال کی کوٹھی میں پہنچ جاتے۔  مہر نے لکھا ہے:

چودھری محمد حسین مرحوم نے قلعہ گوجر سنگھ میں مکان کرایے پر لے لیا تھا، جو بعد میں انھوں نے خرید کر ازسرِنو بنوا لیا تھا۔  وہ بھی آ جاتے تھے۔  اس طرح روزانہ قریباً دو دو تین تین گھنٹے کی نشست ہو جاتی تھی۔  حضرت علامہ مرحوم گفتگو فرماتے۔  چودھری صاحب اس میں کبھی کبھی دخل دیتے۔  میں چپ چاپ گفتگو سنتا رہتا۔  مجھ سے کچھ پوچھا جاتا تو جواب دیتا۔ [18]

محافلِ اقبال کے ایک راوی ملک غلام حسین تھے۔  ان کا بیان تھا کہ ۲۴۱۹۲۳ء میں روزانہ شام کے چار بجے ملک صاحب اور ملک لال دین قیصر پرانی کوتوالی کے چوک سے مہر کی رہائش گاہ واقع فلیمنگ روڈ پہنچتے تھے۔  یہاں کسی زمانے میں میوہ منڈی تھی۔  مہر صاحب کو ساتھ لے کر دل محمد روڈ کے نکڑ پر سالک صاحب کے مکان پر حاضری دیتے اور میکلوڈ روڈ کی جانب یہ قافلہ رواں دواں ہوتا۔  منزلِ مقصود اقبال کی کوٹھی تھی۔  اقبال کوٹھی سے باہر آرام کرسی پر حقہ کی معیت میں بیٹھے ہوتے۔  پاس ہی چند کرسیاں پڑی ہوتیں۔

سالک کسی نہ کسی موضوع پر بات کرتے، مہر نکات اٹھاتے، اقبال اس دوران مختصر سا تبصرہ فرماتے۔  ملک غلام حسین تھوڑی مدت تک ان محافل میں شرکت فرماتے رہے۔  پھر لاہور سے باہر چلے گئے۔

ایک روز انھیں دیر ہو گئی تو محفلِ اقبال میں شرکت کی بجائے مہر کے گھر چلے گئے۔  یہاں مہر عالم تنہائی میں انتہائی جذب کے عالم میں پُرسوز آواز میں اپنے اشعار پڑھ رہے تھے۔

مہر کی اقبال سے عقیدت کا یہ عالم تھا کہ وہ گھر آ کر روزانہ گفتگو کا خلاصہ لکھ لیتے تھے۔  زبورِ عجم کے اشعار انھوں نے حافظے کی مدد سے لکھے تھے۔  مہر نے ایک مضمون میں لکھا ہے:

اسی زمانے میں زبور عجم کا آغاز ہوا تھا اور حضرت علامہ مرحوم عموماً زبور کے تازہ اشعار تنہائی میں مجھے اور چودھری صاحب کو سنایا کرتے تھے۔  میں گھر پہنچتا تو حافظے پر زور دے کر سنے ہوئے اشعار لکھ لیتا۔  جو یاد نہ رہتے ان کی جگہ نقطے لگا لیتا۔  یہ کاپی بھی اب تک میرے پاس محفوظ ہے۔  اس میں ایک فائدہ یہ ہے کہ ہر کلام پر تاریخ درج ہے۔  وہ لازماً اسی روز یا دو ایک روز پیشتر لکھا گیا۔  نیز بعض اشعار کے متعلق حضرت علامہ جو کچھ فرماتے وہ بھی نوٹ کر لیتا۔ [19]

مہر نے ایک خط میں ان محفلوں کا ذکر کیا ہے:

جس زمانے میں زبورِ عجم زیر تصنیف تھی، مرحوم ڈاکٹر صاحب تقریباً روزانہ ایک دو غزلیں سنایا کرتے تھے۔  یا دوسرے تیسرے دن یا تو وہ خود بلا لیتے تھے، کیونکہ میں اُن کے دولت کدے (واقع میکلوڈ روڈ) سے قریب رہتا تھا یا میں اور چودھری محمد حسین مرحوم روزانہ شام کے وقت حاضر ہو جاتے تھے۔  جب کوئی غزل ہو جاتی تو فرما دیتے کہ ’’تم لوگ ذرا ٹھہر جاؤ کام ہے۔ ‘‘[20]

محفل اقبال کے متعلق مہر نے ایک خط میں لکھا:

پہلے کشمیری چائے کا دور چلتا۔  خود حضرت علامہ رات کو کچھ نہیں کھاتے تھے۔  دو خطائیاں اور ایک پیالی کشمیری چائے پیتے تھے۔  یہ پُر کیف مشروب اور لذیذ ماکول ہمیں بھی مل جاتا تھا اور ہم مشربی کا شرف ہمیں حاصل ہو جاتا۔ [21]

محافلِ اقبال کا ایک لازمی جزو حقہ نوشی تھی۔  اقبال گفتگو کے دوران اس ’’ہم دم دیرینہ‘‘ کا ساتھ چھوڑنا گوارا نہ کرتے تھے۔  باتوں کے درمیان حقہ کی نَے ہاتھ میں رہتی۔  وقفہ ہوتا تو ایک دو کش لگا لیے جاتے۔  مہر بھی حقہ نوش تھے لیکن محفلِ اقبال میں ان کے لیے الگ حقے کا اہتمام ہوتا تھا۔

مہر نے ایک مضمون میں لکھا ہے۔  ’’حضرت علامہ اقبال سیگریٹ بہت کم پیتے تھے اور عموماً مجبور ہو کر۔  حقہ بہت پیتے تھے۔  میں ان کی خدمت میں حاضر ہوتا تو فوراً دوسرا حقہ بھروا کر میرے لیے رکھوا دیتے۔  ان کے پاس تمباکو بہت عمدہ جگہ جگہ سے آتا۔  میاں نظام الدین مرحوم رئیس لاہور اور ان کے بھتیجے میاں امیر الدین کا شیوہ یہ تھا کہ جب حضرت علامہ کے ہاں سے خالی بوری پہنچ جاتی۔  اس میں عمدہ تمباکو بھروا کر بھیج دیتے۔

میرے لیے بھی میاں امیر الدین صاحب نے سال ہاسال تک یہی دستور قائم رکھا۔  تقسیم کے بعد ان کی زمینیں آبادی میں زیادہ آ گئیں تو یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ [22]

مہر نے ایک مضمون میں ان محفلوں کے بارے میں لکھا ہے:

ایک دو مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ حضرت پلنگ پر تکیے کے سہارے بیٹھے ہوئے تھے کہ اشعار سناتے سناتے بجلی بند ہو گئی۔  حضرت بھی خاموش ہو گئے اور ہم بھی خاموش بیٹھے رہے۔  پانچ دس منٹ بعد بجلی ازسرِنو روشن ہوئی تو معلوم ہوا کہ حضرت کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہیں۔  میرے لیے یہ اس امر کا ثبوت تھا کہ جو شعر سنا رہے تھے ان میں خطاب رسول پاک ﷺ کی طرف تھا۔ [23]

ایک مرتبہ مجھے فراغت تھی اور صبح ہی خدمتِ والا میں پہنچ گیا۔  پھر میں اور حضرت علامہ مسلسل گیارہ گھنٹے تک بیٹھے باتیں کرتے رہے۔  جن اصحاب نے میکلوڈ روڈ والی کوٹھی دیکھی ہے، انھیں اندازہ ہو گا کہ اس کا برآمدہ خاصا وسیع تھا۔  اس برآمدے میں کرسیاں تو ادھر ادھر ضرور کھسکاتے رہے لیکن اٹھے نہیں۔  کھانا بھی وہیں کھایا اور اتفاق یہ کہ اور کوئی شخص آیا ہی نہیں جس سے صحبت اور گفتگو میں خلل پڑتا، حالانکہ ان کے یہاں لوگ بکثرت آتے رہتے تھے۔ [24]

جس زمانے میں مہر اسلامیہ کالج میں زیر تعلیم تھے، ان دنوں ان کی دوستی شیخ مبارک علی سے ہو گئی تھی۔  یہ مہر سے دوسال بڑے تھے۔  ان کی رفاقت کا آغاز ۱۹۱۲ء میں ہوا تھا اور زندگی بھر برقرار رہا۔  جن دنوں اقبال کی رموزِ بے خودی چھپی، شیخ مبارک علی کے عزیز دوست مولوی بشیر احمد تھے۔  یہ مولوی احمد دین وکیل کے صاحبزادے تھے اور اقبال سے ان کے مراسم تھے۔  مولوی بشیر احمد شیخ مبارک علی کو ساتھ لے کر اقبال سے ملے اور تین ماہ میں قیمت ادا کرنے کے وعدے پر رموزِ بے خودی کی چودہ سو کاپیاں اپنی دکان پر لے آئے۔  پھر مرغوب ایجنسی سے اقبال اور دیگر شعراء کی نظمیں لے کر دکان میں سجا دیں۔  رموزِ بے خودی کا پہلا ایڈیشن تھوڑے عرصے میں فروخت ہو گیا تو شیخ مبارک علی نے ’’نالۂ یتیم‘‘ اور ’’فریادِ امت‘‘ شائع کرنے کی اجازت طلب کی۔

ایک دن شیخ عبدالقادر شیخ مبارک علی کی دکان پر آئے اور دریافت کیا۔  ’’مبارک علی آپ ہی کا نام ہے اور آپ ہی علامہ اقبال کی کتابیں فروخت کر رہے ہیں ؟‘‘ جواب اثبات میں ملا تو فرمایا۔  ’’میرے پاس کچھ کتابیں ہیں، آپ لے آئیں اور رفتہ رفتہ فروخت کر کے قیمت مجھے دے دیں۔ ‘‘ مبارک علی نے ان کتابوں سے اپنے کاروبار کا آغاز کیا اور اس حد تک اعتبار جمایا کہ بعد میں اقبال نے جس قدر کتابیں چھاپیں وہ عموماً شیخ مبارک علی کے ذریعے فروخت کیں۔ [25]

مہر کے روزنامچے میں اقبال سے ملاقاتوں کا احوال اور ان سے حاصل کردہ معلومات کے نکات کا ذکر ۱۳؍ جولائی ۱۹۲۵ء سے ۱۴؍ اکتوبر ۱۹۲۵ء میں ملتا ہے۔  مہر نے اس ڈائری میں خلافِ عادت بہت اختصار سے کام لیا ہے۔  اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ ان مکالمات میں موضوعات کا تنوع اور وسعت اس قدر تھی کہ انھیں شرح و بسط سے فوراً لکھنا ممکن نہ تھا۔  مہر کی صحافیانہ مصروفیت انھیں وضاحت کا موقع نہ دے سکی۔  محافلِ اقبال میں فلسفہ، شاعری، تاریخ اور سیاسی موضوعات عام تھے۔

مہر نے اقبال کے معمولات کا ذکر ایک مقام پر کیا ہے۔  آپ نے لکھا :

حقیقت یہ ہے کہ علامہ مرحوم کی طبیعت ابتدا ہی سے غور و فکر میں انہماک و استغراق کی طرف مائل تھی۔  رفتہ رفتہ یہ انہماک بڑھتا گیا اور نقل و حرکت بارِ خاطر ہونے لگی، حالانکہ بالکل ابتدائی دور میں وہ پہلوانوں کے اکھاڑے میں جاتے اور ورزش کرتے تھے۔  ایک زمانے میں سیر بھی باقاعدہ کرتے رہے تھے۔  پھر نقل و حرکت کم ہوتی گئی۔  اس وجہ سے ان کے جسم کا نچلا حصہ کمزور ہو گیا تھا، اگرچہ عام ملاقاتیوں کو اس کا احساس نہیں ہوتا تھا۔  وہ بیٹھنے کے لیے جو کرسی استعمال فرماتے تھے، وہ بھی ایک حد تک آرام کرسی ہی تھی۔  آپ اسے ’’نیم آرام کرسی‘‘ سمجھ لیں۔  میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں تھے تو عموماً برآمدے میں بیٹھتے۔  گرمیوں میں تپش کے باعث برآمدے میں بیٹھنا دشوار ہو جاتا تو ڈرائنگ روم میں صوفے پر جا بیٹھتے۔  دھسا کندھوں پر ہوتا، لحاف سینے تک اوڑھ کر گاؤ تکیے سے ٹیک لگا لیتے۔ [26]

اقبال اور مہر کا تعلق مرشد اور مرید کا سا تھا۔  اقبال اپنے مرید کی ذہنی تربیت فرماتے تھے۔  ادبیات اور فلسفہ میں رہنمائی کرتے تھے۔  ان محافل میں اقبال نے اپنے خاندان کے متعلق جو کچھ فرمایا، اُس کا کچھ حصہ سالک کی ذکرِ اقبال کا حصہ بنا۔  اس کے علاوہ روزمرہ کے واقعات بھی ان اذکار کا حصہ تھے۔  اقبال بعض شخصیات کے بارے میں کھل کر اپنے خیالات کا اظہار فرماتے تھے۔  مثلاً ۲۳؍ستمبر ۱۹۲۵ء کو جب مہر سفرِحجاز کا پروگرام بنا رہے تھے، اس وقت اقبال نے وائین کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا:

اگر محمد علی پاشا نجدی قوت کو ملیا میٹ نہ کرتا تو دنیا آج سے سو سال پیشتر وہی منظر دیکھتی جو حضرت عمرؓ کے زمانے میں رونما ہوا تھا۔

عرب تمدن کی راحتوں سے استفادہ کے بعد پھر صحرا میں جا کر قوت حاصل کر لیتا ہے اور دوسری قوموں کی طرح تباہ نہیں ہوتا۔  ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کی صحیح قوت سے کام لیا جائے اور اسے سمجھا جائے۔ [27]

اول الذکر اقبال دراصل مہر کی دریافت تھا اور ان کی وہابی تحریک سے دلچسپی کا مظہر تھا۔

روزنامچے کے اندراجات ۱۴؍ اکتوبر ۱۹۲۵ء کی تاریخ پر ختم ہو گئے تھے۔  اس کے بعد مہر سفرِحجاز کے انتظامات میں اس قدر منہمک رہے کہ روزنامچہ نگاری پر متوجہ نہ ہوسکے۔

مہر نے ۶؍ جنوری ۱۹۲۷ء کو روزنامچہ میں لکھا ہے:

حجاز جانے سے پیشتر روزنامچہ کی تحریر صرف پیر و مرشد کی ملاقاتوں تک محدود ہو گئی تھی۔  ۲۶؍ اکتوبر ۱۹۲۵ء کو میں حجاز گیا۔  ۱۲؍ فروری ۱۹۲۶ء کو واپس لاہور پہنچا اور دوبارہ اخبار کا کام سنبھالا۔  ۱۹۲۶ء کا سارا سال بحثوں میں گزرا… اب یکم جنوری ۱۹۲۷ء سے فیصلہ کیا گیا ہے کہ مستقلاً روزنامچہ لکھوں۔ [28]

مہر کا یہ روزنامچہ یکم جنوری سے ۷؍ فروری ۱۹۲۷ء تک محدود ہے۔  ۲۴؍ جنوری ۱۹۲۷ء کو زبورِ عجم کی اشاعت کے انتظام کی اطلاع۔ [29] ۲۷؍ جنوری ۱۹۲۷ء اور ۲۹؍ جنوری کو زبورِ عجم کے مختلف حصوں کے ناموں پر غور کیا گیا۔ [30]

۳۰؍ جنوری ۱۹۲۷ء کو محفلِ اقبال میں حاجی دین محمد کاتب اور چودھری محمد حسین موجود تھے۔  چودھری صاحب نظموں کی تبییض میں مصروف تھے۔  اس کے بعد اقبال ’’گلشن رازِ جدید‘‘ اور ’’بندگی نامہ‘‘ ایک گھنٹہ تک سناتے رہے۔ [31]

اقبال نے دین محمد سے زبورِ عجم کتابت کروائی تھی لیکن باکمال خطاط ہونے کے علاوہ من موجی طبیعت رکھتے تھے۔  ایک دفعہ گھر سے دہی خریدنے نکلے اور حج کو چلے گئے۔  کتاب کی تکمیل کے لیے اقبال نے عبدالمجید پروین رقم سے رجوع کیا۔  ان کا خط نہایت عمدہ اور خوب صورت تھا۔  پھر انھی سے لکھواتے رہے۔  اگرچہ وہ آخر میں خاصی تاخیر سے کتاب مکمل کرتے تھے۔

زبورِ عجم جون ۱۹۲۷ء کو شائع ہوئی تھی۔  مہروسالک اس زمانے میں اپنا روزنامہ انقلاب جاری کر چکے تھے۔  انھوں نے ۱۷؍ جولائی ۱۹۲۷ء کو انقلاب کا زبورِ عجم نمبر شائع کیا۔ [32]

اس کی اشاعت سے قبل مدیرانِ انقلاب نے ۱۶؍ جولائی ۱۹۲۷ء کو اس نمبر کی اطلاع ان الفاظ میں دی تھی:

کل روزنامہ انقلاب کا زبورِ عجم نمبر نہایت آب و تاب سے شائع ہو گا۔  جس میں حضرت علامہ اقبال مدظلہُ العالی کی نظم کے علاوہ زخش مرحومہ کی ایک نظم بھی ہو گی اور زبورِ عجم اور ’’اقبال کے فلسفہ پر‘‘ نہایت عالمانہ مضامین شائع ہوں گے۔  مہتمم۔ [33]

اس نمبر میں زبورِ عجم سے ایک نظم ’’دستِ جہاں کشا طلب‘‘ شائع ہوئی تھی۔ [34]

۱۰؍ جولائی ۱۹۲۷ء کے انقلاب میں قارئین کو مطلع کیا گیا تھا کہ اگلے ہفتے زبورِ عجم نمبر شائع ہو گا لیکن اس روز سرورق پر زبورِ عجم کی نظم ’’از خوابِ گراں خیز‘‘ شائع کی گئی۔ [35]

یہ سلسلہ یہیں پر تمام نہ ہوا ۲۴؍ جولائی ۱۹۲۷ء کے انقلاب میں ’’دگر آموز‘‘ شائع ہوئی۔ [36]

انقلاب ۲؍ اپریل ۱۹۲۷ء کو وجود میں آیا تھا۔  اسے ابتدا ہی سے اقبال کا تعاون میسر آیا تھا۔  آپ کی ایک نظم ’’مکافاتِ عمل‘‘ نیرنگِ خیال کے ’’عید نمبر‘‘ میں شائع ہوئی تھی۔  یہ نظم انقلاب کی ۹؍ اپریل ۱۹۲۷ء کی اشاعت میں شائع ہوئی۔ [37]

انقلاب ابتدا میں زمیندار کے وضع کردہ انداز میں چھپتا رہا تھا۔  زمیندار میں عموماً سرورق پر مولانا ظفر علی خاں کی نظم ہوتی تھی۔  ظفر علی خاں ارتجالاً شعر کہتے تھے، ان کی بیشتر شاعری ہنگامی اور سیاسی نوعیت کی ہوتی تھی۔  مہر اور سالک، ظفر علی خاں کی قادرالکلامی کا مقابلہ کرنے سے قاصر تھے اس لیے کچھ عرصے تک کلام اقبال کی اشاعت سے زمیندار کا مقابلہ اور انقلاب کی زندگی کا سامان کرتے رہے۔  ۱۳؍ اپریل۱۹۲۷ء، کو انقلاب نے ’’نوائے تہذیب حاضر‘‘ شائع کی۔ [38]

اقبال نے ایک نظم ’’سوراج زیر سایۂ برطانیہ‘‘ تحریکِ ترکِ موالات کے زمانۂ عروج میں شملہ (نوبہار) میں کہی تھی۔  مسلمان مطالبہ کر رہے تھے کہ مکمل آزادی کو نصب العین قرار دیا جائے جبکہ مہاتما گاندھی سوراج کی مبہم اصطلاح پر مصر تھے۔  انقلاب نے پہلے یہ نظم ۱۴؍ اپریل ۱۹۲۷ء کو شائع کی۔  نہرو رپورٹ میں کانگرس نے برطانیہ کے زیرسایہ درجۂ مستعمرات کو اپنا نصب العین قرار دیا تو انقلاب نے یہ نظم دوبارہ ۱۲؍ اکتوبر ۱۹۲۸ء کو شائع کی۔ [39] انقلاب نے ۱۰؍ جون ۱۹۲۷ء کو ’’عید نمبر‘‘ شائع کیا تو اس میں اقبال کی نظم ’’دینِ ابراہیم علیہ السلام‘‘ شائع کی۔ [40]

کلامِ اقبال کسی روزنامے کی ضروریات کے لیے کافی نہ تھا اس لیے اقبال کی نظموں کی انقلاب میں اشاعت خاصی کم ہوتی گئی۔  دوسرے اقبال اپنی نظموں کی اخبارات اور رسائل میں اشاعت کے سلسلے میں خاصے محتاط تھے، اس لیے نظم اقبال بعد میں خاص مواقع پر اخبار کی زینت بنی۔  اواخرِ اکتوبر ۱۹۳۵ء میں مولانا الطاف حسین حالی کی صد سالہ یادگاری تقریب منائی گئی تو اقبال نے ’’تاج دار بھوپال اور حالی مغفور کے حضور میں ‘‘ کے عنوان سے چند اشعار کہے تھے۔  انقلاب میں یہ اشعار غلط درج ہوئے تو اقبال نے سالک کے نام ایک خط لکھ کر ان غلطیوں کی نشاندہی کی تھی۔ [41]

اقبال اور مہر کو افغانستان سے بہت دلچسپی تھی۔  انقلاب نے ۱۱؍دسمبر ۱۹۲۷ء کو ’’غازی نمبر‘‘ (امیر امان اللہ خاں ) نکالا تو اس میں اقبال کی نظم ’’کوش در تہذیبِ افغانِ غیور‘‘ شائع ہوئی۔  ۱۵؍دسمبر ۱۹۲۷ء کو ’’ہدیہ بحضورِ شہریار غازی‘‘ اور ۱۶؍دسمبر ۱۹۲۷ء کو ’’نذرِ شہریار غازی‘‘ شائع ہوئیں۔  یہ تینوں نظمیں دراصل پیامِ مشرق کی نظم ’’پیش کش بحضورِ اعلیٰ حضرت امیر امان اللہ خاں فرماں روائے مستقلہ افغانستان‘‘ کے تین اجزاء تھے جو مختلف نظموں کی شکل میں انقلاب میں چھپیں۔ [42]

امیر امان اللہ خاں نے ۱۹۱۹ء میں افغانستان کو مکمل خودمختاری دلائی تھی اس لیے وہ ملتِ اسلامیہ کی آنکھ کا تارا بنے لیکن برطانوی حکمرانوں کے دل میں وہ کانٹے کی طرح چبھ رہے تھے۔  انھوں نے امیر کے خلاف بغاوت کے شعلوں کو ہوا دی اور ہر ممکن امداد بہم پہنچائی جس کے نتیجے میں بچہ سقا نامی ڈاکو ۱۷؍ جنوری ۱۹۲۹ء کو کابل کے تخت پر قابض ہو گیا۔  امان اللہ خاں شکست کھانے کے بعد جلاوطنی پر مجبور ہوئے۔  امیر فروری ۱۹۲۹ء میں یورپ جانے سے قبل ہندوستان آئے تھے۔  اس موقع پر اقبال نے فارسی میں ایک نظم ’’افغان و امان‘‘ کہی تھی۔  ۲؍ فروری ۱۹۲۹ء کو انقلاب میں مدیر نے قارئین کو مطلع کیا:

حضرت علامہ اقبال مدظلہُ العالی کی ایک فارسی نظم کل سنڈے ایڈیشن میں درج کی جائے گی۔  اس نظم کے دو حصے ہیں۔  حصہ اول میں ملتِ افغانیہ سے خطاب کیا گیا ہے اور حصہ دوم میں اعلیٰ حضرت شہریار غازی کی خدمت میں چند نکات پیش کیے گئے ہیں۔  قارئینِ کرام منتظر رہیں۔ [43]

۳؍ فروری ۱۹۲۹ء کے انقلاب میں ’’خطاب بہ ملتِ افغانیہ‘‘ شائع ہوئی۔ [44] ۹؍ فروری ۱۹۲۹ء کے انقلاب میں مدیر انقلاب نے درج ذیل تعارفی کلمات تحریر کیے:

حضرت علامہ اقبال کی ایک نظم گزشتہ سنڈے ایڈیشن میں شائع ہو چکی ہے، جو دو حصوں پر مشتمل تھی۔  اول خطاب بہ ملتِ افغان۔  دوم خطاب بہ امان اللہ۔  کل سنڈے ایڈیشن میں اس سلسلے میں حضرت علامہ اقبال کی دوسری نظم شائع ہو گی۔  اس کے دو حصے ہیں۔  اول خطاب بہ علمائے سو، دوم خطاب بہ علمائے حق۔  اس کے بعد ان شاء اللہ دو نظمیں اور آئیں گی۔  ایک خطاب بہ اقوامِ شرق، دوم خطاب بہ اقوامِ غرب۔  ان پر افغانستان کے متعلق حضرت علامہ اقبال کے افکارِ عالیہ کا سلسلہ مکمل ہو جائے گا۔  یہ نظمیں نہایت اہم دینی و ملّی حقائق سے لبریز ہیں۔  ان میں مذہب اور ملت کے وہ اساسی اصول واضح کیے گئے ہیں جو دائمی، اٹل اور غیر متبدل ہیں اور جنھیں مد نظر رکھ کر کوئی مسلمان دینی، مذہبی اور جماعتی معاملات میں غلطی نہیں کرسکتا۔  ہم عام مسلمان بھائیوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ان نظموں کو غور سے پڑھیں اور ان میں جو حقائقِ عالیہ بیان کیے گئے ہیں، ان سے مستفید و متمتع ہوں۔ [45]

خطاب بہ علمائے حق‘‘ ۱۰؍ فروری ۱۹۲۹ء کے انقلاب میں شائع ہوئی۔ [46]

اقبال کی تیسری نظم کی اشاعت سے قبل مدیر انقلاب نے ۱۶؍ فروری ۱۹۲۹ء کو مندرجہ ذیل تعارفی کلمات تحریر کیے:

افغانستان کے موجودہ حالات سے متاثر ہو کر حضرت علامہ اقبال نے جو نظمیں لکھنی شروع کی ہیں، ان میں سے دو پہلے شائع ہوچکی ہیں۔  پہلی ’’خطاب بہ ملتِ افغان‘‘ اور ’’خطاب بہ امان اللہ خاں ‘‘ دوسری ’’خطاب بہ علمائے حق‘‘ جس میں ضمناً علماء سو کا ذکر بھی آگیا تھا۔  تیسری نظم ’’خطاب بہ اقوامِ شرق‘‘ کے عنوان سے تازہ سنڈے ایڈیشن میں چھپے گی۔  یہ چھبیس اشعار پر مشتمل ہے اور نہایت اہم حقائق حیات ملّی و اجتماعی سے لبریز ہے۔  اس کی اشاعت کے بعد سلسلۂ افغانیہ کی صرف ایک نظم باقی رہ جائے گی۔  یعنی ’’خطاب بہ اقوامِ غرب۔ ‘‘ اللہ تعالیٰ کا فضل شاملِ حال رہا تو انقلاب اگلے سنڈے ایڈیشن میں اسے بھی چھاپ سکے گا۔ [47]

’’خطاب بہ اقوامِ شرق‘‘ ۱۷؍ فروری ۱۹۲۹ء کے انقلاب میں چھپی لیکن چوتھی نظم انقلاب میں شائع نہ ہوسکی۔ [48]

جنوری ۱۹۳۱ء میں مولانا محمد علی کے انتقال کے بعد انقلاب نے ۱۸؍ جنوری ۱۹۳۱ء کو ’’رئیس الاحرار‘‘ نمبر چھاپنے کا فیصلہ کیا۔  یہ نمبر ۲۷؍ جنوری ۱۹۳۱ء کو شائع ہونے والا تھا اور اس کے صفحہِ اول پر اقبال کے اشعار چھپنے والے تھے۔ [49] ۲۳؍ جنوری ۱۹۳۱ء کو اس نمبر کے بارے میں دوبارہ اشتہار شائع ہوا۔  اقبال کی نظم ’’محمد علی رحمۃ اللہ علیہ‘‘ ۲۴؍ جنوری ۱۹۳۱ء کے انقلاب میں چھپی تھی۔ [50]

کلامِ اقبال انقلاب کی مختلف اشاعتوں میں چھپتا رہا لیکن وہ نظمیں جو صرف اس اخبار کے لیے مخصوص تھیں، ان کا ذکر گزشتہ صفحات میں کیا جا چکا ہے۔  مدیرانِ انقلاب نے یہ اصول وضع کیا تھا کہ تصانیفِ اقبال کے منظر عام پر آنے سے قبل، ان کا جامع اور مبسوط تعارفی مضمون شائع کرتے تھے۔  مہر اور سالک کو افکارِ اقبال تک جو رسائی حاصل تھی اس کی وجہ سے گمانِ غالب ہے کہ ان بے نامی مضامین کی تصنیف مہر یا سالک کے قلم سے ہوئی تھی۔  اس ضمن میں ایک مضمون ’’تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ‘‘ ’’ایک مبصر کے قلم سے‘‘ ۱۵؍مئی ۱۹۳۰ء کو شائع ہوا تھا۔ [51]

کتاب کی قیمت پانچ روپے تھی اور اس کے تقسیم کنندہ مہر کے دوست شیخ مبارک علی تھے۔  اس کتاب کے متعلق ۳۰؍ اپریل ۱۹۳۰ء کے انقلاب میں قارئین کو مطلع کیا گیا تھا۔  لیکن یہ مئی ۱۹۳۰ء کے آخری ہفتے میں منظرِ عام پر آئی۔ [52] گمان غالب ہے کہ انقلاب کا ’’مبصر‘‘ مہر کی ذات میں پوشیدہ تھا کیوں کہ تصنیفِ اقبال کے مندرجات سے بازار میں آنے سے پہلے آشنائی اور افکارِ اقبال تک رسائی مہر کے لیے ممکن تھی۔

اقبال نے ۱۹۲۹ء میں جاوید نامہ کی تصنیف کا آغاز کیا تھا۔  ستمبر ۱۹۳۱ء میں جب اقبال نے دوسری گول میز کانفرنس کے لیے رختِ سفر باندھا تو جاوید نامہ کتابت کا مرحلہ طے کرنے کے بعد طباعت کی منزل میں تھا۔  ۲۶؍ اپریل ۱۹۳۱ء کو جب جاوید نامہ نامی مضمون انقلاب میں چھپا تو یہ کتاب کاتبوں کے زیرِ مشق تھی۔  مضمون کے راقم کا نام ’’خبرش بازنیا مد‘‘ درج تھا جو درحقیقت مہر کا قلمی نام تھا۔  اس مضمون میں نہ صرف جاوید نامہ بلکہ اقبال کی دیگر تصانیف کا مختصر جائزہ لیا گیا تھا۔ [53]

فروری ۱۹۳۲ء میں اقبال نے جاوید نامہ میر قدرت اللہ پرنٹر کے زیر اہتمام کریمی پریس لاہور سے چھپوایا۔  ۸؍ فروری ۱۹۳۲ء کو مہر نے تفصیلی مضمون لکھ کر انقلاب میں شائع کیا اور آخر میں قارئین کو یہ اطلاع بہم پہنچائی۔  ’’کتاب مصنف کے پتے سے مل سکتی ہے۔  قیمت ۳؍ روپیہ ہے‘‘۔  مہر نے اس مضمون کا عنوان ’’گم کردہ راہ مشرقی اقوام کے لیے مشعلِ ہدایت‘‘ تجویز کیا تھا۔ [54]

اقبال نے ۱۹۳۶ء میں ضربِ کلیم اپنے خرچ پر شائع کی تھی۔  طباعت اور کتابت مکمل ہونے کے بعد آپ نے تاج کمپنی سے معاملہ طے کیا اور کمیشن کاٹ کر کچھ کاپیاں ان کے حوالے کر دیں۔  اسی زمانے میں سید نذیر نیازی جامعہ ملیہ دہلی سے مستعفی ہو کر لاہور آ گئے اور ۲۵؍میکلوڈ روڈ لاہور پر ’’کتب خانہ طلوعِ اسلام‘‘ قائم کیا۔  اقبال نے دیرینہ روابط کے پیشِ نظر بقیہ ایڈیشن ان کے ہاتھ پر فروخت کر دیا۔  ضربِ کلیم کی ضخامت ۱۸۲ صفحات اور قیمت تین روپے تھی۔

مہر نے ۲۳؍اگست ۱۹۳۶ء کو ایک اداریہ ضربِ کلیم کے عنوان سے انقلاب میں شائع کیا تھا۔ [55]

اقبال کے حلقۂ احباب میں میاں نظام الدین شامل تھے۔  ان کے یہاں علم و سیاست کے اکابرین   آتے رہتے تھے۔  لاہور کے رئیس تھے لیکن سادگی پر عمل پیرا تھے۔  معمولی شرعی وضع کا پاجامہ، گرمیوں میں ململ کا کرتا اور سردیوں میں اس پرپٹی کے کوٹ اور ململ کی پگڑی کا اضافہ ہو جاتا تھا۔  ان کے دیوان خانے میں کچھ تخت، چارپائیاں اور کرسیاں بچھی ہوتیں، وہیں اقبال، میاں فضلِ حسین، شیخ عبدالقادر وغیرہ ان سے ملنے آتے تھے۔  آموں کا موسم جب آتا تو وہ دوستوں کو ایک یا دو مرتبہ دعوت دیتے۔  اقبال کو جب دعوت دی جاتی تو ان کے نیاز مندوں مثلاً، سالک، مہر، ماسٹر عبداللہ چغتائی، چودھری محمد حسین اور دیگر شخصیات کو بھی ’’دعوتِ آم‘‘ دی جاتی۔  اس روز یہ حضرات میاں صاحب کے دولت کدے پر صبح پہنچ جاتے۔  وہاں انھیں ایک ایک گلاس دودھ پلایا جاتا۔  باغ میں جانے کے لیے سواریاں تیار ہوتیں۔  باغ میں مختلف کنووں کے چوبچے قسم قسم کے آموں سے بھرے ہوتے۔  اقبال کے لیے چارپائی بچھی ہوتی۔  بقیہ حضرات ’’آم خوری‘‘ کے لیے آزاد ہوتے۔  میاں نظام الدین اور اقبال اپنے ساتھیوں کو ’’انبہ خوری‘‘ کا مقابلہ کرتے دیکھ کر خوش ہوتے۔  جب یہ تھک جاتے تو ہر ’’انبہ خور‘‘ کو ایک ٹوکرا تھما دیا جاتا تا کہ اُن کے اہلِ خانہ بھی ’’انبہ خوری‘‘ کر لیں۔ [56]

میاں نظام الدین کی ’’محافلِ انبہ‘‘ کا تفصیلی ذکر سالک نے ’’افکار و حوادث‘‘ میں کیا ہے۔  پروفیسر محمد دین تاثیر نے ۶؍ جولائی ۱۹۲۹ء کو سالک کو ٹیلی فون کیا کہ اگلے روز صبح چھ بجے میاں صاحب کے گھر پہنچ جائیں۔  شام کے وقت سالک نے مہر سے اس دعوت کا ذکر کیا تو انھوں نے فرمایا۔  ’’خدا کے لیے اس دعوت کو کسی طرح پرسوں پر ٹال دو۔  میں کل صبح جانے سے معذور ہوں کیوں کہ مجلسِ عاملہ خلافت پنجاب کا اجلاس میرے ہی مکان پر ہو رہا ہے۔ ‘‘ سالک نے کہا۔  ’’دعوت تو ٹل نہیں سکتی‘‘ البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم اکیلے صبح آم کھانے چلے جائیں اور آپ کے لیے کسی آئندہ دعوت کی سفارش کر آئیں۔ ‘‘

اس دعوت میں اقبال کی خدمت میں ایک خاص قسم کا آم پیش کیا گیا جس کا رنگ خونِ شہداء سے ملتا جلتا تھا۔  اقبال نے اس کی شیرینی، باصرہ نوازی اور سرخی دیکھ کر فرمایا کہ اس کا نام ’’ٹیپوسلطا ن‘‘ رکھا جائے۔

۱۱؍ جولائی ۱۹۲۹ء کو میاں نظام الدین نے دوبارہ ’’دعوتِ آم‘‘ دی۔  اس میں اقبال، چودھری محمد حسین، سالک و مہر، مجید ملک مدیر مسلم آؤٹ لک اور ماسٹر عبداللہ چغتائی شریک تھے۔  جاوید اقبال اس وقت پانچ سال کے تھے۔  انھوں نے فالتو کپڑے اتار کر چوبچے میں چھلانگ لگا دی۔  اقبال کھرّی چارپائی پر تشریف فرما تھے۔

ان حضرات نے پیٹ بھر کر ’’انبہ نوشی‘‘ کی لیکن انبہ خوری میں ماسٹر عبداللہ چغتائی اور چودھری محمد حسین ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے رہے۔  ماسٹر صاحب اس تیزی سے آم کھاتے تھے کہ ایک منٹ بعد آم ان کے ہاتھ میں کھل جاتا تھا۔  آم کی قاشیں گٹھلی کے گرد ترتیب سے لگی ہوتیں۔  اقبال نے یہ صورت دیکھ کر فرمایا کہ ’’جب درزی درویشوں کی چوگوشہ ٹوپی کو سینے سے پہلے قطع کرتا ہے تو اُس کی صورت ہو بہو ماسٹر عبداللہ کے چوسے ہوئے آم کی سی ہوتی ہے۔ [57]

۲۴؍ جولائی ۱۹۳۲ء کو میاں نظام الدین نے اپنے باغ میں احباب کو ’’دعوتِ آم‘‘ دی جس میں مندرجہ ذیل خواص نے شرکت کی۔  خان صاحب میاں امیر الدین، میاں محمد اسلم، تاثیر اور میاں امین الدین میزبانوں میں شامل تھے۔  اقبال، مہر، سالک، خان بہادر چودھری حبیب اللہ، چودھری عبدالکریم، چودھری محمد حسین اور ماسٹر عبداللہ چغتائی اس دعوت کے مہمان تھے۔

اقبال نے ماسٹر صاحب کی انبہ خوری پر ارتجالاً یہ شعر کہا     [58]

انبہ را کہ دریں باغ ندارد نگاہ

جائے او باد بہ نارِ شکم عبداللہ[59]

اس ’’موسم آم‘‘ کے بعد اقبال کی طبیعت ناساز رہنے لگی اور میاں نظام الدین کی دعوتیں قصۂ پارینہ بن گئیں۔  اقبال کے یہاں جب عمدہ آم آتے تو آپ سالک و مہر کو مدعو کرتے۔

مہر اور شیخ مبارک علی کے مراسم اس نوعیت کے تھے کہ جب مہر نے ’’غالب‘‘ تصنیف کی تو اس کی فروخت شیخ صاحب کے سپرد کر دی۔  شیخ صاحب اکثر مہر کو ’’دعوتِ آم‘‘ دیتے اور جب مہر اچھے خاصے میٹھے آموں کو ترش بتاتے اور فوراً کھا بھی لیتے تو شیخ صاحب انھیں طنز و مزاح کی سان پر کستے۔ [60]

مہر نے اقبال کے بارے میں ایک خط میں لکھا ہے:

میں نے زندگی میں صرف دو شخص دیکھے ہیں جنھیں تصنع، بناوٹ اور ملمع سازی سے کبھی دل بستگی نہ ہوئی۔  ایک مولانا (آزاد) اور دوسرے اقبال غفراللہ لہٗ۔  یہ نہیں کہ دونوں اپنے عیوب کی تشہیر کے لیے ڈھنڈورچی ڈھونڈتے پھرتے تھے۔  ہاں احباب کی محفل میں ہنسنے کی کبھی کوشش نہ کی۔  ان کی فطرت تصنع کی عادی ہی نہ تھی۔  اور لطف یہ کہ دونوں کا یہ شیوہ ان کے عقیدت مندوں کے سامنے تھا، جو کوئی ایسی بات سنتے بھی تو اس پر یقین کرنے کے لیے تیار نہ ہوتے تھے۔ [61]

مہر اور سالک نے ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ (احمدیہ بلڈنگ) سابق پنشنر سول سرجن سے مسلم ٹاؤن میں پانچ پانچ کنال زمین خریدی۔  ان کی رجسٹری اکتوبر یا نومبر ۱۹۳۱ء میں ہوئی تھی۔  ۱۹۳۲ء کے آخر میں مہروسالک کی کوٹھیاں بن گئی تھیں اور یہ حضرات بل روڈ اور فلیمنگ روڈ کے مکانوں سے ان کوٹھیوں میں منتقل ہو گئے۔  اس وقت یہ علاقہ شہر سے باہر تصور کیا جاتا تھا۔ [62]

مسلم ٹاؤن میں مہر کی منتقلی سے اقبال اور مہر کے تعلقات کا ایک دور تمام ہوا کیوں کہ مسلم ٹاؤن تک جانا آسان نہ تھا۔  پہلے مہر، اقبال کی قیام گاہ واقع میکلوڈ روڈ سے بہت قریب رہتے تھے۔  جب جی چاہتا پیدل وہاں پہنچ جاتا یا اقبال علی بخش کو بھیج کر بلوا لیتے۔  اب ان کو یہ سہولت میسر نہ تھی، لیکن اس کے بعد بھی دوچار دن کے وقفے سے مہروسالک محفلِ اقبال میں شرکت کر لیتے تھے۔

اقبال اور مہر میں اس قدر اشتراکِ فکر و عمل تھا کہ مہر نے دسمبر ۱۹۳۰ء کے خطبۂ الٰہ آباد کا ترجمہ اقبال کی الٰہ آباد روانگی سے قبل مکمل کر لیا تھا اور یہ ترجمہ ۲؍ جنوری ۱۹۳۱ء کے انقلاب میں شائع ہوا تھا۔ [63] اس کے بعد مہر نے اس خطبے کی حمایت میں کئی اداریے لکھے اور دیگر مصنّفین کے مضامین انقلاب میں شائع کیے۔  جبکہ ہندو اخبارات نے نہ صرف افکارِ اقبال کی شدید مخالفت کی بلکہ بعض اخبار نویس تو گالیوں پر اُتر آئے تھے۔ [64]

مہر نے ایک اداریے میں تحریر کیا ہے:

اگر مسلمانوں کے تمام مطالبات جو اقل قلیل ہیں، منظور کر لیے جائیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ پنجاب، صوبۂ سرحد، بلوچستان اور سندھ میں وہ اپنی اکثریت کی وجہ سے غالب رہیں گے اور ہندوستان بھر کی ہندو اکثریت ان کے اس غلبہ و اقتدار میں دست اندازی نہ کرسکے گی۔  علامہ اقبال بھی اس کے سوا اور کچھ نہیں چاہتے۔  انھوں نہ صرف اتنا اضافہ فرمایا ہے کہ یہ اسلامی صوبے متحد ہو کر ایک اسلامی سلطنت کے قیام کا نصب العین اپنے سامنے رکھیں اور اکثریت کی صورت میں یہ نصب العین کسی طرح بھی غیر حق بہ جانب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ [65]

مہر نے شمال مغربی صوبوں کی مردم شماری کی مدد سے مسلم اور غیرمسلم آبادی کا تعین کیا اور ضلع انبالہ کی عدم شمولیت کے نتیجے میں مسلم آبادی اس خطے میں ۶۷ فی صد ہوئی اور ہندو آبادی کی شرح ۲۸ فی صد سے کم ہو کر ۲۲ فی صد رہ جاتی جبکہ سکھوں کی شرح ۱۰فی صد رہتی۔  اگر دریائے ستلج کو پنجاب کی آخری حد قرار دیا جاتا جیسا کہ سکھ عہد میں تھا تو مسلم آبادی کا تناسب بڑھ جاتا اور پنجاب کو بھی قدرتی سرحد میسر آتی۔ [66]

مہر اور اقبال کے روابط اس وقت عروج پر تھے جب یہ حضرات دوسری گول میز کانفرنس کے لیے لندن سدھارے۔  ابتدا میں ان کا پروگرام اکٹھے سفر کرنے کا تھا لیکن یکم ستمبر ۱۹۳۱ء کو جب اقبال عازمِ سفر ہونے والے تھے، بخار میں مبتلا ہو گئے اور ایک ہفتہ کے لیے روانگی ملتوی کرنی پڑی۔  اس دوران میں مہر ۵؍ستمبر ۱۹۳۱ء کو لاہور سے روانہ ہوئے۔  اقبال ۸؍ستمبر ۱۹۳۱ء کو لاہور میں فرنٹئیر میل میں سوار ہوئے۔

اقبال ۲۷؍ستمبر ۱۹۳۱ء کو لندن پہنچے اور یکم اکتوبر ۱۹۳۱ء کو مہر لندن تشریف لائے۔  اس کے بعد بقیہ سفر ان حضرات نے اکٹھے کیا۔  آپ حضرات ۳۰؍دسمبر ۱۹۳۱ء کو لاہور واپس آئے تھے۔

انقلاب کے صفحات اقبال کی تقاریر اور مختلف علمی، ادبی اور سیاسی نوعیت کی سرگرمیوں کے لیے وقف تھے لیکن اقبال کے انتقال پر مہر نے ۲۷؍ اپریل ۱۹۳۸ء سے یکم مئی ۱۹۳۸ء کے دوران پانچ اداریے اور مضامین تحریر کیے جن کے ہر لفظ سے بے پناہ عقیدت اور بزرگِ قوم کے اٹھ جانے کا غم جھلکتا ہے۔ [67]

٭٭٭

ماخذ:

http://www.allamaiqbal.com/publications/journals/iqbaliyat/jan12/9.htm

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید