FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

ضمیمۂ یادگارِ داغ

 

 

 

               جمع و ترتیب: ماروا ضیاء

 

 

 

 

 

ردیف الف

 

1

 

 

ہر شکل میں تیرا رُخِ نیکو نظر آیا

آئینہ بھی دیکھا تو مجھے تو نظر آیا

 

تسخیر کیا دل لبِ گویا نے تُمہارے

کیا بات ہے اعجاز میں جادو نظر آیا

 

دل میرا بنا جب تو محبت تری آئی

آنکھیں ہوئیں پیدا تو مجھے تو نظر آیا

 

یہ حُسن پرستی بھی عجب شے ہے الٰہی

دل ٹوٹ گیا جب کوئی خوشرو نظر آیا

 

جو عاشق و معشوق کے ہیں دیکھنے والے

یا میں نظر آیا اُنھیں یا تو نظر آیا

 

جس بات میں پہلو ہو وہی بات کریں ہم

پہلو میں وہ بیٹھے تو یہ پہلو نظر آیا

 

وہ گھر کو سدہار ت تو قیامت ہوئی برپا

جب صبح کو خالی ہمیں پہلو نظر آیا

 

وہ محفلِ عشرت تھی کہ تھی مجلس ماتم

ہر آنکھ میں عشاق کی آنسو نظر آیا

 

قربان ہوئی جان مری قتل سے پہلے

اُبھرا ہوا قاتل کا جو بازو نظر آیا

 

کیا ضبط نے گریہ کے جڑے دل میں نگینے

ہیرے کا کنول بن کے ہر آنسو نظر آیا

 

کس وہم میں ڈالا دلِ گم گشتہ نے مجھ کو

خالی جو ترا حلقۂ گیسو نظر آیا

 

فرقت میں نہ تھا مجھ کو مہِ عید کا ارمان

میں نے جو یہ جانا کہ وہ ابرو نظر آیا

 

ہے دید کے قابل دلِ بسمل کا تماشا

کھینچے ہوئے تلوار وہ ابرو نظر آیا

 

وہ دیکھ کے کہتے ہیں مرے داغِ جگر کو

خوش رنگ نہ یہ پھول نہ خوشبو نظر آیا

 

اِس گوہر نایاب کو تھا خاک میں ملنا

ٹپکا جو زمیں پر تو نہ آنسو نظر آیا

 

کیا کیا غم پنہاں نے نچوڑا ہے الٰہی

جب خون بدن میں کوئی چلّو نظر آیا

 

ابرو میں جو بل ہے وہی گیسو میں شکن ہے

ہمکو تو نہ کچھ فرق سرِ مو نظر آیا

 

اس شِست کے قربان ہوں میں اے قدر انداز

جب تیر چھُٹا دل میں ترازو نظر آیا

 

تھی قافلے والوں کی خوشی دید کے قابل

جس دم چہِ کنعان میں مہرد نظر آیا

 

وہ غیر کے دامن کو جو بیٹھے تھے دبا کر

وہ بزم میں مجھ کو تہِ زانو نظر آیا

 

بتخانہ ہو یا کعبہ ہو چھٹتا نہیں کوئی

دیکھا تجھے اے داغ جہاں تو نظر آیا

 

2

 

یہ عشق کب دلِ خانہ خراب سے چھُوٹا

بہشت میں بھی نہ میں اس عذاب سے چھُوٹا

 

دل اُس کے گیسوئے پُر پیچ و تاب سے چھُوٹا

بڑی بلا سے یہ نکلا عذاب سے چھُوٹا

 

نگاہِ مست نے سر شار کر دیا مجھ کو

شراب مجھ سے چھُٹی میں شراب سے چھُوٹا

 

وہ تانک جھانک کا اول سے تھا مجھ لپکا

کہ آج تک بھی نہ عہدِ شباب سے چھُوٹا

 

شمار میں نے کیا جب تری جفاؤں کا

عدو نہ ایک بھی میرے حساب سے چھُوٹا

 

مٹی جھلک نہ ذرا خونِ دل کی گریہ سے

یہ رنگ کب مری چشمِ پُر آب سے چھُوٹا

 

زہے نصیب وہ عاشق نصیب والا ہے

جو تیرے قہر سے تیرے عتاب سے چھُوٹا

 

عدو کی قبر پہ کیوں فاتحہ پڑہی تُم نے

غضب ہوا کہ وہ کافر عذاب سے چھوٹا

 

ہمیشہ ساتھ رہا ہے اس آب و آتش کا

کبھی نہ برق کا دامن سحاب سے چھُوٹا

 

مجھے ہو قسمتِ برگشتہ کی شکایت کیا

زمانہ کون سے دن انقلاب سے چھُوٹا

 

مجھے یہ ضد کہ نہ لکھوں گا اور کوئی خط

وہ دل میں شاد کہ فکرِ جواب سے چھُوٹا

 

اُنہوں نے غور سے دیکھا جو میرے دیوان کو

نہ کوئی شعر مرا انتخاب سے چھُوٹا

 

رہا نظارہ کسی چہرۂ کتابی کا

مطالعہ نہ مرا اس کتاب سے چھُوٹا

 

نہ کیوں ہو رشک مجھے ایسے ملنے والوں پر

نہ رنگِ گل سے نہ نشہ شراب سے چھُوٹا

 

ہمیں نے وصل میں مجبور پیش دستی کی

جب اُن کا ہاتھ نہ بندِ نقاب سے چھُوٹا

 

نصیب میں ہو جو چکر تو کوئی چھُٹتا ہے

یہ رات دن نہ مہ و آفتاب سے چھُوٹا

 

اگرچہ سینکڑوں بیڈھب سوال میں نے کیے

نہ مدعا مرے حاضر جواب سے چھُوٹا

 

کھُلی جب آنکھ نہ دیکھا جمال یوسف کو

مگر خیال زلیخا نہ خواب سے چھُوٹا

 

مرے حساب سے دن زندگی کے تھوڑے ہیں

حساب کر کے غم بے حساب سے چھُوٹا

 

یہ جی میں ہے کہ کروں سیر بت کدہ جا کر

خدا کا گھر دلِ خانہ خراب سے چھُوٹا

 

قرار دل کو نہ آیا تو مجھ کو موت آئی

چھُٹا وہ صبر سے میں اضطراب سے چھُوٹا

 

بیاں اُن کے ہوں اوصاف داغ سے  کیا کیا

کوئی نہ وصف شرِ بو تراب سے چھُوٹا

 

3

 

 

حال دل کا آشکارا ہو گیا

یہ ہمارا تھا تُمھارا ہو گیا

 

راہ سے لیلی کی جو ذرہ اُٹھا

آنکھ کا مجنوں کی تارا ہو گیا

 

آتے آتے پھر گئے وہ راہ سے

بخت بر گشتہ ہمارا  ہو گیا

 

مل گئی کوچے  میں اُس کے کُچھ جگہ

بیٹھ رہنے کا سہارا ہو گیا

 

اشک پی کر رنج کھا کر ہجر میں

ہو گیا جوں توں گزارا ہو گیا

 

باعثِ شہرت ہمارا عشق ہے

نام دُنیا میں تُمہارا ہو گیا

 

جب ستم اس نے کیا انداز سے

وہ ستمگر مجھ کو پیارا ہو گیا

 

ہجر میں ہے یہ شرابِ خوشگوار

زہر کھانا ہی گوارا ہو گیا

 

چھُپ سکے رازِ محبت کس طرح

چھُپتے چھُپتے آشکارا ہو گیا

 

پہلے ناصح کا سخن تھا نا گوار

رفتہ رفتہ پھر گوارا ہو گیا

 

گرچہ وہ جھوٹی تسلی دے گئے

مجھ کو جینے کا سہارا ہو گیا

 

آئے کیا دُنیا میں ہم کیا سیر کی

چلتے پھرتے اِک نظارا ہو گیا

 

داغ اترائے ہوئے پھرتے ہو تُم

کیا ملاپ اُن کا تُمھارا ہو گیا

 

4

 

 

خرید کر دلِ عاشق کو یار لیتا جا

نہ ہوں جو دام گرہ میں اُدھار لیتا جا

 

نہ چھوڑ طائر دل کو ہمارے اے صیاد

یہ اپنے ساتھ ہی اپنا شکار لیتا جا

نکل کے جلد نہ جا اس قدر توقف کر

دعائے خیر دلِ بیقرار لیتا جا

 

عدم کو جانے لگا میں تو بولی یہ تقدیر

کہ داغِ عشق پئے یادگار لیتا جا

 

فلک سےکی ہوسِ عشق جب کبھی میں نے

ندائیں آئیں غمِ بیشمار لیتا جا

 

مزے وصال کے اے دل خیال یار میں ہیں

خوشی کے ساتھ شبِ انتظار لیتا جا

 

چلا تھا زخمی تیغِ نگاہ میں ہو کر

کہا ادا نے کہ میرا بھی وار لیتا جا

 

ہوا کے جھونکے سے کہتا ہوں میں جب آتا ہوں

کسی کے دل سے اُڑا کے غُبار لیتا جا

 

وہ جان لیں مری افسردگی کو اے قاصد

بجھی ہوئی کوئی شمع مزار لیتا جا

 

وہ مجھ سے کہتے ہیں جب بن سنور کے بیٹھے ہیں

بلائیں ہاتھوں سے تو بار بار لیتا جا

 

اِسے بھی کھیل سمجھ تو کہ ہر ادا کے ساتھ

ہمارے دل سے شکیب و قرار لیتا جا

 

نہ اُٹھ سکے گی یہ کل پیش داورِ محشر

نہ بے گنا ہو ں کا گردن پہ بار لیتا جا

 

مرے مزار کو تو اس طرح  سے کر پامال

کہ بانکپن کی بھی اے شہسوار لیتا جا

 

مزہ جبھی ہے کہ بھر بھر کے داغ جام شراب

وہ دیتے جائیں تو اے بادہ خوار لیتا جا

 

5

 

 

یہ علاج اچھا ہے اے قاتل ترے بیمار کا

دم بدم تو خلق میں پانی چُوا تلوار کا

 

کیوں ارادہ ہے ترا مجھ سخت جاں پر وار کا

دم نکل جائے گا اے قاتل تری تلوا رکا

 

آہ سے ہو سامنا کیونکر نگاہِ یار کا

روکنا دشوار ہے تلوار سے تلوار کا

 

سخت جاں پر شرم ست مُنہ پھر گیا تلوار کا

یہ پسینہ ہے کہ پانی ہے تری تلوا رکا

 

گرچہ بسمل ہوں مگر دیکھا نہیں جاتا ذرا

آنسوؤں سے خون کے رونا تری تلوا رکا

 

کیا محبت زخمِ دل کو ہے کہ ہر اک وار پر

پیار سے مُنہ چوم لیتا ہے تری تلوار کا

 

خوں کتنوں کا پیا ہے تیغ خون آشام نے

وزن سیروں بڑھ گیا قاتل تری تلوا رکا

 

کیا رگ ِ بسمل میں تھا سوزِ محبت کا اثر

آگ پانی ہو گیا قاتل تری تلوا رکا

 

غسل کر لے دل ہمارا جان بھی کر لے وضو

اسقدر قاتل بڑھے پانی تری تلوا رکا

 

بزم بھی مقتل نہ ہو جائے الٰہی خیر ہو

کھول کر بیٹھے ہیں بیڑا آج وہ تلوا رکا

 

لذتِ زخم جگر میں رہ گئی تھوڑی کسر

وار کچھ اوچھا پڑا قاتل تری تلوا رکا

 

جان دی مقتول نے تیرے بڑی تلخی کے ساتھ

زہر پانی ہو گیا قاتل تری تلوا رکا

 

یہ اثر دیکھا زبان کے ساتھ کٹ جاتے ہیں حرف

ذکر آ جاتا ہے جب قاتل تری تلوار کا

 

داورِ محشر کو اے قاتل دکھانا ہے مجھے

زخم ہے یہ تیر کا یہ گھاؤ ہے تلوار کا

 

ہے گریباں کی یہ صورت دیدۂ خونبار سے

رنگ دیکھا خون میں ڈوبی ہوئی تلوار کا

 

کاٹنا مشکل ہے میرے ہی گلوئے سخت کو

مانتا ہے کوہ بھی لوہا تری تلوار کا

 

دیکھ اے قاتل مرے سوز و گداز عشق سے

گھُل کے پانی ہو گیا لوہا تری تلوار کا

 

اور اے قاتل زمانے میں کہاں تیرا جواب

تُک گردوں نام لیوا ہے تری تلوار کا

 

زندگی کے ساتھ ہی رہتا ہے شوقِ وصل بھی

تجھ سے بہتر ہے گلے ملنا تری تلوار کا

 

داغ گنجائش ابھی  اس قافیہ میں ہے بُہت

گرچہ ہر مضمون اچھا بندھ گیا تلوار کا

 

6

 

 

ہم تو نالے بھی کیا کرتے ہیں آہوں کے سوا

آپ کے پاس ہیں کیا تیز نگاہوں کے سوا

 

معذرت چاہیے کیا جرمِ وفا کی اُس سے

کہ گنہ عذر بھی ہے اور گناہوں کے سوا

 

میں نہیں کاتبِ اعمال کا قائل یا رب

اور بھی کوئی ہے ان دونوں گواہوں کے سوا

 

حضرت خضر کر دیں دشت نوردی بیکار

ہم تو چلتے ہی نہیں عشق کی راہوں کے سوا

 

خانۂ عشق ہے منزل انہیں مہمانوں کی

اور اس گھر میں دھرا کیا ہے تباہوں کے سوا

 

اُن کے آنے کی خوشی ایسی ہوئی محفل میں

پگڑیاں بھی تو اُچھلتی تھیں کلاہوں کے سوا

 

وہ کریں ملک پہ قبضہ یہ کریں دل تسخیر

ان حسینوں کی حکومت تو ہے شاہوں کے سوا

 

ظلمت بخت مری تیر گئی زلف تری

کوئی بڑھ کر نہیں اِن دونوں سیاہوں کے سوا

 

نہ سنے داور محشر تو کروں کیا اے داغ

سب سے اظہار ہوئے میرے گواہوں کے سوا

 

7

 

 

اِس دل کو کہا اُس نے یہ خوشحال نہ نکلا

ہم جس کے خریدار تھے وہ مال نہ نکلا

 

اُٹھ کر جو اُسے فتنہ محشر بھی اُٹھائے

ایسا تو کوئی آپ کا پامال نہ نکلا

 

اک آن میں خم زلف کا شانے نے نکالا

قسمت کا مری پیج کئی سال نہ نکلا

 

بیکار نہیں حُسن کے دریا میں تری زلف

بے صید لئے بحر سے یہ جال نہ نکلا

 

آئے تھے عیادت کے لیے غیر کو لے کر

پچھتائے وہ میرا جو برا حال نہ نکلا

 

ہم اخترِ تاباں سے شبِ وصل ملاتے

اُس روئے منور پہ کوئی خال نہ نکلا

 

ہم عشق کو سمجھے تھے کہ لڑکوں کا ہے اک کھیل

یہ کھیل تو بازیچۂ اطفال نہ نکلا

 

دل چوٹ جو کھاتا ہے تو رہتا نہیں ثابت

اس شیشہ میں جس وقت پڑا بال نہ نکلا

 

جو پیچ ازل کے ہوں نکلتے نہیں ہرگز

سیدھا تری زلفوں کا کوئی بال نہ نکلا

 

میں داورِ محشر سے یہ پوچھوں گا الٰہی

کیا کچھ بھی غلط نامۂ اعمال نہ نکلا

 

در پردہ عتاب آٹھ پہر ہم پہ ہوئے ہیں

پردے سے ترا چہرہ کبھی لال نہ نکلا

 

پُہنچا ہوں مجازی سے حقیقت کو بھی لیکن

کب عشق مری جان کا جنجال نہ نکلا

 

وہ اس لئے آئے تھے کہ ہم داغ کو لوٹیں

ہر چند ٹٹولا کئے، کچھ مال نہ نکلا

 

8

 

 

صحت سے ہائے دردِ دل زار کیا ہوا

بیمار کو یہ غم ہے وہ آزار کیا ہوا

 

کیوں پھر گئی تجھے نگہِ  یار کیا ہوا

مجھ پر اگر ہوا بھی تو اِک وار کیا ہوا

 

ہم بیچتے تھے دل کو جس انداز کے لیے

کیا جانئے وہ ناز، خریدار کیا ہوا

 

وہ دل کہاں وہ قید تعلق کہاں رہی

وہ دام کیا ہوا وہ گرفتار کیا ہوا

 

یاروں نے پیشتر تو نہ کی میری روک تھام

اب پوچھتے ہیں تجھ کو مرے یار کیا ہوا

 

لاکھوں بندھے ہیں وہم اک آفت میں آ گیا

میں تیرے دل کا محرمِ اسرار کیا ہوا

 

اچھا ہے اور جلوہ دکھاؤ نہ کوئی دن

پھر یہ کہو گے طالب دیدار کیا ہوا

 

نکلے جو سیر کو تو قیامت بپا ہوئی

تم کو خبر بھی ہے دمِ رفتار کیا ہوا

 

کس کی خبر گئی جو پریشان ہو گئے

گھبرا کے پوچھتے ہیں وہ ہر بار کیا ہوا

 

آغازِ عشق ہی میں ہوا انجام کا لحاظ

پچھتا کے گو ہوا تو خبردار کیا ہوا

 

وہ اور آئیں تیری عیادت کے واسطے

سودا تجھے یہ اے دلِ بیمار کیا ہوا

 

وہ ساتھ غیر کے مرے ہمسائے میں رہے

اے آسماں بتا پسِ دیوار کیا ہوا

 

اے انقلابِ دہر وہ جلسے کہاں گئے

وہ بزمِ عیش اور وہ دربار کیا ہوا

 

لے جائیں گے مجھے جو فرشتے عذاب کے

رحمت کہے گی لاؤ گنہگار کیا ہوا

 

اُس کے ہی دم کے ساتھ یہ ناز و نیاز ہے

پھر یہ کہو گے داغ وفادار کیا  ہوا

 

9

 

فتنہ حشر اور کیا نکلا

وہ تُمھارے ہی ساتھ کا نکلا

 

کون دُنیا میں با وفا نکلا

یہ تُمہاری زُبان سے کیا نکلا

 

وہ ادھر بھول کر جو آ نکلا

میں نے جانا کہ مد عا نکلا

 

بت کدہ دیکھ کر ہوئی عبرت

میرے مُنہ سے خدا خدا نکلا

 

درہمِ داغ دل میں ہیں موجود

یہ خزانہ بھرا پُرا نکلا

 

اُس نے کی مجھ پر انتہا کی جفا

جور کرنے کا حوصلہ نکلا

 

جان نکلی مریضِ فرقت کی

اب تو ارمان آپ کا نکلا

 

غیر کے ہاتھ میں تھا وہ ہرجائی

بعد مدت کے یہ پتا نکلا

 

اب دماغ اُن کا آسماں پر ہے

کیوں مرے مُنہ سے مدعا نکلا

 

غیر سے اُن سے عشق باہم ہے

درمیاں سے قدم مرا نکلا

 

ستیاناس ہو ترا اے دل

تو ہمارے نہ کام کا نکلا

 

پھر بھی اچھا کہو گے غیر کو تم

امتحاں میں اگر بُرا نکلا

 

میں نے چھوڑا نہ جب انھیں تو کہا

یہ تو ظالم بُری بلا نکلا

 

داغ کو لوگ رند کہتے ہیں

وہ حقیقت میں پارسا نکلا

 

ردیف بای موحّدہ

 

 

نہ کیا تم نے امتحانِ رقیب

ورنہ بچتی کبھی نہ جانِ رقیب

 

چار چاند آپ نے لگائے اُسے

چوگنی اب نہ کیوں ہو شانِ رقیب

 

اُس کی تعریف نے کیا بد ظن

دوست پر ہے مجھے گمانِ رقیب

 

تم نے گھر میں کہاں چھُپا رکھا

نہیں ملتا کہیں نِشانِ رقیب

 

کاٹ کرتا ہے وہ مری تم سے

کاٹ ڈالوں  گا میں زُبانِ رقیب

 

کس کے کہنے پر آپ جاتے ہیں

ہے غلط  سر بسر بیانِ رقیب

 

ڈھونڈتے ہو گلی گلی کس کو

میں بتا دوں تُمھیں مکانِ رقیب

 

تُم سے کیا بات کی سرِ محفل

میں نہ سمجھا یہ چیستانِ رقیب

 

اُن کے لب پر ہیں سککڑوں دُشنام

میرے لب پر ہے داستانِ رقیب

 

اُس کی خوبی سے میں نہیں واقف

آپ ہی ہیں مزاج دانِ رقیب

 

جھُوٹ کیوں بولتا ہے تو مجھ سے

کیا ترے منہ میں ہے زُبانِ رقیب

 

نالہ میرا ہے تیر دُشمن کو

آہ میری بلائے جانِ رقیب

 

اپنی غیرت کو دیکھ اُس کو  دیکھ

تو ہو راتوں کو مہمانِ رقیب

 

تُم بُلاؤ، وہ آئے ، کیوں آئے؟

اِس میں ہوتی ہے کسرِ شانِ رقیب

 

داغ اِس نام سے وہ ہیں مشہور

اُن کو کہتے ہیں مہربانِ رقیب

 

11

 

 

بے اثر ٹھہری دعائیں سب کی سب

عمر بھر کی وہ وفائیں سب کی سب

 

رہ نہ جائے ہجر میں کوئی بلا

کس نے روکا اُن  کو آئیں سب کی سب

 

عشوہ ہو، یا غمزہ ہو، یا ناز ہو

تیر ہیں تیری ادائیں سب کی سب

 

کیا کروں میں اُن کی یہ تاکید ہے

تو اُٹھا میری جفائیں سب کی سب

 

چھین کر دل اُس سراپا ناز کی

ناز کرتی ہیں ادائیں سب کی سب

 

گو نہ دیں اے نامہ بر کوئی جواب

سُن تو لیں وہ التجائیں سب کی سب

 

میں کروں تیری جفاؤں کا شمار

حشر میں گر یاد آئیں سب کی سب

 

میری ناکامی کے در پے ہے فلک

آرزوئیں مِٹ نہ جائیں سب کی سب

 

جائے حوروں میں اگر تیرا شہید

اپنی آنکھوں پر بٹھائیں سب کی سب

 

یا خُدا آئے گا وہ دن بھی کبھی

ہم مُرادیں اپنی پائیں سب کی سب

 

داغ کو ہے اُس کی رحمت سے اُمید

بخش دے گا وہ خطائیں سب کی سب

 

12ا

 

اُس بحر میں ہوں جس میں نہیں آشنا نصیب

اُس دشت  میں ہوں جس میں نہیں رہنُما نصیب

 

اُٹھے ہیں بزم یار سے ہم کہہ کے یا نصیب

آئندہ دیکھنا ہے دکھاتا ہے کیا نصیب

 

مُجھ پر وہ مہربان اگر ہوں خوشا نصیب

دُشمن کہیں حسد سے کہ اس کا ہے کیا نصیب

 

رنجِ فراق اُن سے جو میں نے بیاں کیا

اتنا ہی کہہ کے چُپ وہ ہوئے یہ ترا نصیب

 

پابندِ زلفِ یار ہوں بیمارِ چشمِ یار

مجھ سا نہیں جہان میں کوئی بلا نصیب

 

صورت ہی تم دکھاؤ تو ہو جائے گی شفا

بیمارِ ہجر کو نہیں ہوتی دوا نصیب

 

فرہادِ پیر زن کے فریبوں میں آ گیا

سر پھوڑنے کے ساتھ ہی پھوٹا ہے کیا نصیب

 

بدلے مرا نوشتہ تقدیر کس طرح

لاؤں نیا کہاں سے مقدّر نیا نصیب

 

اِس میں اجارہ کیا ہے یہ قسمت کی بات ہے

مِلتا  جو دوسرے سے نہیں  ایک کا نصیب

 

قسمت سے غیر کی مری تقدیر کیا ملے

اُس کا جدا نصیب ہے میرا جدا نصیب

 

کیوں صبر آئے گا دلِ بیتاب کو مرے

کیوں تیری چشمِ شوق کو ہو گی حیا نصیب

 

ہنستا ہے میرے گریہ پہ فرقت میں آسماں

روتا ہے میرے حال پہ مجھ کو مرا نصیب

 

جو بیٹھتے تھے تختِ جواہر نگار پر

افسوس بوریا بھی نہ اُن کو ہوا نصیب

 

بوتل کھلی ہوئی ہے جو قاضی کے سامنے

ہم جانتے ہیں دخترِ رز  کا  کھلا نصیب

 

پایا ہے مہر و ماہ نے کیا طالع بلند

ہوتا ہے سچ تو یہ ہے بڑوں کا بڑا نصیب

 

قاصد پہ اعتراض جو میں نے بُہت کیے

سر پیٹ کر وہ کہنے لگا یہ مرا نصیب

 

دُنیا میں کوئی اِس کا خریدار ہی نہیں

میں بیچتا ضرور جو بکتا مرا نصیب

 

نالے کئے ہزار نہ جاگا کسی طرح

ایسا شبِ فراق میں سوتا رہا نصیب

 

گزری تمام عمر بڑی خوبیوں کے ساتھ

فضلِ خُدا سے ہم نے نہ پایا بُرا نصیب

 

وہ آج بزمِ غیر میں یہ صاف کہہ اُٹھے

ملتا بھی ہے کسی کو کہیں داغ سا نصیب

 

ردیف تائے فوقانی

 

13

 

 

کر سکوں اُس پہ  محبت کی نظر کیا طاقت

بزم میں پیار سے دیکھوں جو اُدھر کیا طاقت

 

ہمسری فتنہ گری سے جو کرے تو اس کی

تیری ہے اے فلکِ شعبدہ گر کیا طاقت

 

آتشِ عشق سے دل آپ جلاتے ہیں ہم

داغ کھائے جو یہ رستم کا جگر کیا طاقت

 

وہ کرے جور تو احسان  ہے اُس کا یہ بھی

کر سکے شکوہ بیداد بشر کیا طاقت

 

ہجر کی ایک گھڑی بھی ہے قیامت کی گھڑی

ہم کریں شام سے مر مر کے سحر کیا طاقت

 

پہلی ہی بات میں بدلے ہیں تُمھارے تیور

عرضِ احوال کروں بارِ دگر کیا طاقت

 

گھیرے رہتے ہیں نگہبان ہر اک جانب سے

مل سکوں اُن سے سرِ راہگذر کیا طاقت

 

جو نزاکت سے نہ خود کھول سکے بند قبا

وہ مرے قتل پہ باندھے گا کمر کیا طاقت

 

ناتوانی جو یہی ہے تو نہیں مرنے کے

ہم کریں منزلِ عقبیٰ کا سفر کیا طاقت

 

بزم میں غیر کو تاکیں وہ نہیں مجھ کو خبر

اُٹھ سکے بارِ نزاکت سے نظر کیا طاقت

 

لاکھ پردوں میں ہے اے پردہ نشیں تو مخفی

جھانک لیں تجھ کو بھلا شمس و قمر کیا طاقت

 

عشق گو آفتِ جاں ہے مگر اس دل کے سبب

میں کروں ایسی مصیبت سے حذر کیا طاقت

 

حلق میں نالے اٹکتے ہیں شبِ غم اُٹھ کر

سلب ہو جاتی ہے تا وقت ِ سحر کیا طاقت

 

توڑ ڈالے ہیں ہزاروں کے دل اِس کافر نے

عہد توڑے وہ رقیبوں سے مگر کیا طاقت

 

الاماں کاٹ تری تیغِ نظر کا قاتل

تیرے آگے ہو کوئی سینہ سپر کیا طاقت

 

اے جنوں زور سہی۔ جوش سہی۔ تجھ میں مگر

سر پہ لے جائے اُٹھا کر کوئی گھر کیا طاقت

 

کوہِ غم ہم نے اُٹھایا ہے محبت میں تری

کر دکھائے گا سوا اس سے بشر کیا طاقت

 

داغ سے تجھ کو گماں بد نظری کا ہے عبث

کیا مجال اُس کی وہ ڈالے تو نظر کیا طاقت

 

14

 

دعویٰ پیامبر کا ہے دیوانہ پن کی بات

اُس سے ادا نہ ہو گی ہمارے دہن کی بات

 

دلکش ہے پُر مزاح ہے اُس انجمن کی بات

اہلِ سخن سے پوچھیے بزمِ سخن کی بات

 

شیریں ہے کس قدر مرے شیریں سخن کی بات

اُس کے دہن سے چھین لوں اُس کے دہن کی بات

 

پوچھے سفر میں کوئی گُہر سے عدن کی بات

غربت میں یاد آتی ہے کیا کیا وطن کی بات

 

گویا  زبان شمع کی اِس وجہ سے نہیں

پروانہ سے یہ کرتی ہمیشہ جلن کی بات

 

غصہ کی جو ہو بات کڑی کس سے اُٹھ سکے

گویا تمھاری بات وہ ہے لاکھ من کی بات

 

تڑپا دیا کسی کو، کسی کو لُٹا دیا

ادنیٰ ہے یہ تو اُس نگہِ سحر فن کی بات

 

کل وعدہ وصال کیا آج پھر گئے

کیا دل شکن ہے اُس بُتِ پیماں شکن کی بات

 

تُم نے کہا نہیں سرِ محفل برا مجھے

چھُپتی أ چھپائے سے ہے کہیں انجمن کی بات

 

اُس نے دیا جو اب یہ عرضِ وصال پر

لگتی ہے مجھ کو تیر تے دہن کی بات

 

سر پھوڑے لاکھ عشق میں کوئی تو کیا ہوا

وہ کوہکن کے ہاتھ رہی کوہکن کی بات

 

انکار آج وصل سے میں نے بھی کر لیا

میرے دہن میں آئی تُمھارے دہن کی بات

 

کہتے ہیں اس کو لازم و ملزوم واقعی

منصور ہی کے ساتھ ہے دارورسن کی بات

 

باد خزاں نے خاک اُڑا دی ہے باغ میں

وہ تھی چمن کے ساتھ بہار چمن کی بات

 

کیا نامہ بر وصال کا اقرار کر لیا

یہ ہے اُسی کے لب کی اُسی کے دہن کی بات

 

تیرے مریضِ غم کو خُدا نے بچا لیا

یاروں کی تھی زبان پہ گور و کفن کی بات

 

پروانہ کا ہو ذکر کہ مذکورِ عندلیب

یہ انجمن کی بات ہے وہ ہے چمن کی بات

 

موقع ملے تو کان میں واعظ کے ڈال دوں

جو کان میں پڑی ہے مرے برہمن کی بات

 

جس ملک جس دیار میں جس شہر میں گئے

یاد آئی بات بات پہ اہل وطن کی بات

 

وہ عشق عشق ہے کہ جو آلِ نبی کا ہے

وہ بات بات ہے کہ جو ہے پنجتن کی بات

 

یارب یہ تُجھ سے داغ دُعاگو کی ہے دُعا

دونوں جہاں میں رکھ مرے شاہ دکن کی بات

 

15

 

 

قلزمِ عشق کا ملتا نہ کنارا جھٹ پٹ

کشتی ہجر نے کیا پار اُتارا جھٹ  پٹ

 

دمِ نظارہ کریں تیغِ نظر سے جو شہید

آپ کا نام تو ہو کام ہمارا جھٹ پٹ

 

قلزمِ عشق مژہ میں جو مرا دل ڈوبا

مل گیا کیا اُسے تنکے کا سہارا جھٹ پٹ

 

آتشِ ہجر سے کیونکر دلِ بیتاب بچے

آگ پر آتے ہی اُڑ جاتا ہے پارا جھٹ پٹ

 

غمِ دُنیا میں پھنسا داغ کا دِل شاہِ اُمم

لیجئے اِس کی خبر آپ خُدارا جھٹ پٹ

 

ردیف ثائے مثلثہ

 

16

 

 

بلبل قفس میں پھنس گئی یادِ چمن عبث

جب دانہ پانی اُٹھ گ                یا حُبِّ وطن عبث

 

اُس کو ضرور ہے مری بربادیوں کی فکر

گردش میں رات دن نہیں چرخ ِ کہن عبث

 

پامال کر کے خاک اُڑا دو ہوا میں تُم

ناحق ہے فکرِ گور تلاشِ کفن عبث

 

دیتے نہیں جواب سوالِ وصال پر

کیوں دے دیا خُدا نے بُتوں کو دہن عبث

 

مژگانِ یار نوک کی لیتی ہے رات دن

ہے دل سے چھیڑ چھاڑ نہیں بانکپن عبث

 

نکلے گا شانۂ دلِ بیتاب سے یہ بل

ہے پیچ و تاب زلف شکن در شکن عبث

 

مٹی میں میری لاش دبانے چلے عزیز

پھر غسل دے کے مجھ کو پنھایا کفن عبث

 

تو لیوے گا خدا سے جو انجام ہو بخیر

زاہد نہ یادِ حور میں دیوانہ بن عبث

 

یہ بوالہوس رقیب تو دو دن کے یار ہیں

تو رائیگاں شباب نہ کر سیم تن عبث

 

شیریں کو راہ پر نہ لگا لایا بد نصیب

لایا ہے جوئے شیر یہ تُو کوہکن عبث

 

ہر وقت ہے سفر میں ہمارا سمندِ عمر

دو دن کے واسطے ہے یہ  حُبِ وطن عبث

 

پیری میں کیا شباب کا ہو گا مزا نصیب

اے خضر تم لئے پھر وسقفِ کہن عبث

 

اے داغ بے وفا نہ کریں گے وفا کبھی

نادان اِن کو دیکھ کے للچا  نہ من عبث

 

ردیف حاء  مہملہ

 

 

اُن کو پہنچا ہے پیام اچھی طرح

اب نکل آئے گا کام اچھی طرح

 

کٹ گیا ماہِ صیام اچھی طرح

کیجئے شربِ مدام اچھی طرح

 

ساقیا دے بھر کے جام اچھی طرح

سیر ہو یہ تشنہ کام اچھی طرح

 

جا چکا اب زلف کا دل سے خیال

پک گیا سودائے خام اچھی طرح

 

ان بُرے ڈھنگوں پہ تم کو ناز ہے

کیا ہے بد وضعی کا نام اچھی طرح

 

تم بلاتے ہو ہم آئیں گے مگر

بزم کا ہو اہتمام اچھی طرح

 

کاش آئے سینہ تک ہی اُن کا ہاتھ

وہ نہیں لیتے سلام اچھی طرح

 

منہ ہی منہ میں گالیاں دیجئے نہ آپ

کیجئے ہم سے کلام اچھی طرح

 

موت کیونکر آ گئی روزِ فراق

کر لیا تھا انتظام اچھی طرح

 

داغِ دل بھی ہے عجب روشن چراغ

جل رہا ہے صبح و شام اچھی طرح

 

دل بہت کرنے پڑیں گے پائمال

کیجئے مشقِ خرام اچھی طرح

 

ہم کو ملتا ہی نہیں اُس کا پتہ

ڈھونڈ ڈالا ہر مقام اچھی طرح

 

دیکھیے ارشاد کیا کرتے ہیں وہ

سُن لیا قصّہ تمام اچھی طرح

 

عاشقوں کو کیا دکھاتے ہیں بہار

شاہدانِ لالہ فام اچھی طرح

 

ایک جلوے سے تری پھیلی ہے کیا

روشنی بالائے بام اچھی طرح

 

مجھ کو رکھئے پاس خدمت کے لئے

خوش کرے گا یہ غلام اچھی طرح

 

واہ شہرِ حسن کی آب و ہوا

ہیں وہاں سب خاص و عام اچھی طرح

 

دیکھ لینا خواب میں آئیں گے ہم

لاکھ کر لو انتظام اچھی طرح

 

لے کے دل کو تم بھی رکھنا چین سے

ہم نے رکھا ہے مدام اچھی طرح

 

رات دن ہے جاں نثاروں کی دُعا

بمبئی میں ہوں نظام اچھی طرح

 

داغ کیا مہر دہانِ تنگ ہے

کیوں نہیں لیتے وہ نام اچھی طرح

 

ردیف را مہملہ

 

18

 

 

مانگو ں گا میں نہ تجھ کو ستمگر کہے بغیر

محشر میں چین آئے گا کیونکر کہے بغیر

 

بھولے ہو تم نہ سمجھو گے بات ایک بار کی

مجھ کو نہ بن پڑے گی مکرّر کہے بغیر

 

مجھ کو مزا ہے چھیڑ کا دل مانتا نہیں

گالی سُنے بغیر ستمگر کہے بغیر

 

روزِ جزا چھپاؤں محبت کا راز کیا

سب جانتا ہے داورِ محشر کہے بغیر

 

وہ جان جائیں میں نہ کہوں حالِ دل مگر

اُن پر ہو آشکار یہ کیوں کر کہے بغیر

 

میری جڑی ہے غیر نے تم سے تو سات بار

کب چوکتا ہے سات کی ستر کہے بغیر

 

تو نے نہیں کہا ہے تو بیٹھا ہے کیوں رقیب

دھنّا دئے ہوئے ترے در پر کہے بغیر

 

اچھی کہی کہ مجھ کو بُرا کہہ کے چھوٹ جاؤ

کب مانتا ہوں میں بھی برابر کہے بغیر

 

بیجا ہوا یہ دخل  اجازت ضرور تھی

کیوں تم نے میرے دل میں کیا گھر کہے بغیر

 

تیری مژہ کو خار کہوں میں تو کیا مزا

دل مانتا نہیں اسے خنجر کہے بغیر

 

جو ہیں اشارہ فہم سمجھتے ہیں بغیر کہے

نکلا ہے کام داغ کا اکثر کہے بغیر

 

ردیف شین مجمعہ

 

 

19

 

 

دل کی ہے مفت ہی تجھے اے مفت بر تلاش

یہ ہتھکنڈے اگر ہیں تو کر اور گھر تلاش

 

دیوانے بیٹھتے ہیں کہیں پاؤں توڑ کر

ناصح کریں گے یار کو ہم دربدر تلاش

 

دیکھا نہ چشمِ شوق سے افسوس اک نظر

کی میں نے نام سُن کے تری عمر بھر تلاش

 

پھرتا ہے لے کے مشعلِ مہتاب رات بھر

کس کی ہے اے فلک یہ تجھے اس قدر تلاش

 

پہلو میں میرے تیرِ نظر تاک کر لگا

ظالم تجھے جو دل کی ہے مدِ نظر تلاش

 

تھک جائیں پاؤں دل نہ تھکے راہِ عشق میں

میں سر کے بل چلوں گا کروں گا مگر تلاش

 

عیسیٰ سے بھی شفا ہو نہ بیمارِ عشق کو

اے چارہ گر دوا کی ہے کیوں اس قدر تلاش

 

کرتا ہے سجدے حور کی حسرت میں شیخ تو

اللہ کی نہیں تجھے اے بے خبر تلاش

 

بیٹھیں نہ مل کے عاشق و معشوق ہائے داغ

دن بھر ہے اس فلک کو یہی رات بھر تلاش

 

ردیف میم مہملہ

 

20

 

 

محوِ قدِ یار ہو گئے ہم

سولی پہ چڑھے تو سو گئے ہم

 

ہوش آتے ہی محو ہو گئے ہم

جب آنکھ کھلی تو سو گئے ہم

 

بیخود شبِ ہجر ہو گئے ہم

قسمت کو سلا کے سو گئے ہم

 

مستِ مئے حسن ہو گئے ہم

زانو پہ کسی کے سو گئے ہم

 

پیری میں جوان ہو گئے ہم

جب صبح ہوئی تو سو گئے ہم

 

راحت سے عدم میں ہو گئے ہم

منزل پہ پہنچ کے سو گئے ہم

 

جاگے تھے بُہت شبِ جدائی

جنت میں جا کے سو گئے ہم

 

اُس بزم میں دل نے ساتھ چھوڑا

اِک آئے وہاں سے دو گئے ہم

 

بعد اپنے لڑے رقیب سے وہ

یہ تخم فساد بو گئے ہم

 

کافر کہیں ہم کو یا مسلمان

اب ہو گئے جس کے ہو گئے ہم

 

جب زلف کی بو سنگھائی تم نے

دیوانے تمھارے ہو گئے ہم

 

اب روئے گا ہم کو اِک زمانہ

اگلوں کو جہاں میں رو گئے ہم

 

محفل سے تری ملا یہ ہم کو

دل اپنی گرہ سے کھو گئے ہم

 

چوری کا ہے مال کہتے ہیں وہ

دل دے کے بھی چور ہو گئے ہم

 

دل لینے کی تم کو آرزو تھی

اب جان سے اپنی لو گئے ہم

 

دُنیا ہی میں کیوں یہ فرد اعمال

وہ بعد فنا ڈبو گئے ہم

 

کل آئے جو وہ کہیں سے اے داغ

آج ان کے سلام کو گئے ہم

 

ردیف النون

 

21

 

 

موجود ہر جگہ ہے نہیں بے نشاں  کہیں

وہ ہر کہیں ہے ڈھونڈئیے اس کو جہاں کہیں

 

زاہد خدا ملے گا نہ تجھ کو یہاں کہیں

کون و مکاں کہیں ہے تو ہے لامکاں کہیں

 

بیداد کر رہا ہے وہ عہد شباب میں

اے آسمانِ پیر ہو تو بھی جواں کہیں

 

ایجاد اب ستم نہیں ہوتے یہ کیا ہوا

یا رب بدل گیا تو نہ ہو آسماں کہیں

 

وہ تند خو ہے اور ہے کم سن پیامبر

ڈرتا ہوں لڑکھڑائے نہ اُس کی زبان کہیں

 

کیا جھوٹ بولتے ہو کہ ہے غیر با وفا

اِس جھوٹ سے گرے نہ یہ سقفِ مکاں کہیں

 

میں غیر کی نگاہ میں تم میرے دل میں ہو

میرا مکاں کہیں ہے تمھارا مکاں کہیں

 

سامانِ عیش سب ہیں مہیا وصال کے

ایسے میں آنہ جائے اجل ناگہاں کہیں

 

جتنے تھے راہِ شوق میں ارماں مٹ گئے

منزل کہیں ہے دل  ہے کہیں  کارواں کہیں

 

دل گھر ہے داغِ عشق کا اُس پر ہے آبلہ

ایسا نہیں مکان کے اُوپر مکاں کہیں

 

بخشش نہ ہو رقیب کا منحوس ہے قدم

جنت میں آ نہ جائے الٰہی خزاں کہیں

 

ٹھکرا کے اُس نے قبر کو ہشیار کر دیا

مجھ کو خبر نہ تھی کہ مرا ہے نشاں کہیں

 

تم نام پر رقیب کے بگڑے ہو داغ سے

باتیں جو بھید کی تھیں وہ اس نے کہاں کہیں

 

22

 

بہت ہی مختصر تھا وصل کا دن

خدا جانے کب آیا کب گیا دن

 

عیادت کو مریضِ غم کی اب آئے

اُسے گزرے ہوئے ہے تیسرا دن

 

ہمارا ہی وہ روزِ وصل ہو کاش

نصاریٰ میں جو ہوتا ہے بڑا دن

 

یہ کیا خورشید کو ضد ہے شبِ وصل

نکل کر دوپہر پہلے چڑھا دن

 

کرے کس وقت کوئی عرضِ مطلب

وہاں ہے رات دن کی رات کا دن

 

قیامت اُس نے کی غصہ سے برپا

الٰہی آج کا تھا کیا بُرا دن

 

نہ ہو گا کیا مرا افسانہ پورا

یہ ہو گا کیا قیامت کا بڑا دن

 

نہیں کٹتی شبِ غم تو کہاں ہے

ارے او بے مروت بے وفا دن

 

وہی دن ہے مبارک جب ملیں وہ

نہیں ہم جانتے اچھا برا دن

 

نہیں ٹلتا نہیں آتی شبِ وصل

ہمارے گھر پہ عاشق ہو گیا دن

 

مجھے ہے بیخودی کوئی سُنادے

وہ آئی وصل کی شب وہ گیا دن

 

ترے گھر داغ ہو ہر روز نو روز

دکھائے تجھ کو بھی ایسے خدا دن

 

 

23

 

 

مانندسرو باغ ہم آزاد جب سے ہیں

سب کی قطار میں ہیں مگر دور سب سے ہیں

 

قابو میں وہ رقیب کے مجبور کب سے ہیں

جادو کیا ہے اُس نے مگر اس سبب سے ہیں

 

محفل میں کیا رقیب تمھاری طلب سے ہیں

یہ کس سبب سے آئے ہیں یہ کس سبب سے ہیں

 

آنکھوں ہی کے اشارے میں سمجھو سوالِ وصل

کیونکر کہیں یہ بات کہ واقف ادب سے ہیں

 

اُٹھے ہی آج صبح کو منہ کس کا دیکھ کر

توڑا ہے آئینہ کو وہ بیزار سب سے ہیں

 

کیفیت اُن کو بزم جہاں کی نہیں ملی

جو نامراد بادہ عیش و طرب سے ہیں

 

یہ کہہ رہا ہے تم کو زمانہ، خبر بھی ہے

جتنے رقیب ہیں وہ گرفتار سب سے ہیں

 

پہلی خطائیں میں نہ کروں گا کبھی معاف

دھوکا نہ دو یہ کہہ کے ترے دوست اب سے ہیں

 

بسمل ہوئی ہے خلق تری تیغِ ناز سے

کچھ نیم جاں سے اُس میں ہیں کچھ جاں بلب سے ہیں

 

جو پارسا ہیں خوف اُنھیں اس قدر کہاں

ڈرتے گنہگار خدا کے غضب سے ہیں

 

ایسا شبِ فراق میں گھبرا رہا ہے دل

دن کے اُمیدوار ہم اول ہی شب سے ہیں

 

تکلیفِ ہجر کی اسے برداشت ہی نہیں

ہ تنگ کس قدر دلِ راحت طلب سے ہیں

 

کیا بیخودی ہے شوق کی اتنی خبر نہیں

ہم کس پہ مبتلا ہیں خدا جانے کب سے ہیں

 

بیباک و بے حیا نہیں اغیار کی طرح

ہم دور اُن کی بزم میں پاسِ ادب سے ہیں

 

یہ گھر بھرا بھرا نظر آتا ہے کیا مجھے

مہمان میرے دل میں وہ اے داغ جب سے ہیں

 

 

24

 

 

دیکھئے اُن سے ملاتا ہے خدا کون سے دن

کون سی رات ہو  مقبول دعا کون سے دن

 

اب جدائی کی مصیبت نہیں اُٹھتی مجھ سے

سر مرا تن سے کریں؛ گے وہ جدا کون سے دن

 

اِس بہانے سے نہ آیا وہ مری میت پر

اُس ستمگر نے لگائی ہے حنا کون سے دن

 

غمزہ و ناز جوانی میں وہ کیونکر نہ کریں

اور پھر آئیں گے انداز و ادا کون سے دن

 

اے نجومی تجھے دعویٰ ہے تو یہ حکم لگا

کون سے وقت ملیں گے وہ بتا کون سے دن

 

فرقتِ یار میں اک ایک گھڑی بھاری ہے

نہیں معلوم کہ آوے گی قضا کون سے دن

 

روز آ کر وہ کوئی فتنہ اُٹھا جاتے ہیں

نہیں ہوتا ہے یہاں حشر بپا کون سے دن

 

تم ہی منصف ہو کوئی راہ کہاں تک دیکھے

وعدہ وصل کیا یہ نہ کھلا کون سے دن

 

اُن کے آتے ہی ہوا وعدہ ہمارا پُورا

وائے تقدیر کہ آئی ہے قضا کون سے دن

 

مست ہیں جوشِ جوانی کی وہ کیفیت میں

اب نہ آتا تو پھر آتا یہ مزا کون سے دن

 

میری کشتی کو کیا بادِ مخالف نے تباہ

منتظر ہوں کہ بدلتی ہے ہوا کون سے دن

 

کوئی ہفتہ نہیں ایسا کہ نہ ہو غم جس میں

عیش و عشرت کے ہیں یا بار خدا کون سے دن

 

طلبِ وصل پہ کھینچی ہے چھُری روز وصال

اِس خطا پر مجھے دیتے ہو سزا کون سے دن

 

اُن کا برتاؤ نرالا ہے یہ کھلتا ہی نہیں

مہرباں  کون سے دن ہیں وہ خفا کون سے دن

 

بعد مدت کے جو ٹوکا تو کہا ظالم نے

آپ سے ہم نے کیا عہد ِ وفا کون سے دن

 

حشر کے روز تو یا رب ہو نزولِ رحمت

ہم گنہگاروں کو ملتی ہے سزا کون سے دن

 

دیکھئے کب مری قسمت کا ستارا چمکے

سامنے آئے وہ خورشید لقا کون سے دن

 

خواہشِ وصل پہ وہ پوچھتے ہیں یہ مجھ سے

کہ برس دن میں مبارک ہیں بتا کون سے دن

 

نو گرفتار تری زلف میں ہیں طائرِ دل

تو کرے گا انھیں صدقے میں رہا کون سے دن

 

دیکھئے دیکھتے ہیں کب وہ اُٹھا کر چلمن

دیکھئے اُٹھتی ہے کمبخت حیا کون سے دن

 

برسوں گزرے ہیں کہ بیمارِ محبت میں ہوں

ہو گی اے چارہ گرو مجھ کو شفا کون سے دن

 

ہم سے اب تک تو تری آنکھ بہت سیدھی تھی

دیکھئے کرتی ہے یہ مل کے دغا کون سے دن

 

داغ سے عید کے دن بھی نہ ملے وہ آ کر

یہ گیا وقت پھر آئے گا بھلا کون سے دن

 

25

 

 

عشق میں دل کہیں حواس کہیں

ایسے رہتے ہیں اپنے پاس کہیں

 

چھپ کے بیٹھا ہے کیا کوئی میکش

بھر کے جاتا ہے کیوں گلاس کہیں

 

مجھ کو ہے اُس سے احتمالِ وفا

نہ غلط ہو مرا قیاس کہیں

 

زہر کھاتے ہیں تنگ آ کر ہم

یہ دوا آئے دل کو راس کہیں

 

کعبہ جاتے تو ہیں یہ دھڑکا ہے

ہم نہ پہنچیں خدا کے پاس کہیں

 

ستیاناس محتسب کا ہو

شیشہ پھینکا کہیں گلاس کہیں

 

دل کے گوشے میں دونوں مہماں ہیں

آرزو ہے کہیں تو یاس کہیں

 

آئیں گے پانچ دن میں کہتے ہو

پانچ دن کے نہ ہوں پچاس کہیں

 

دل کی مردانگی پہ بھولا ہوں

عاشقی میں نہ  ہو ہر اس کہیں

 

اُس کو کہتے ہیں لوگ عہد شکن

ٹوٹ جائے نہ اپنی آس کہیں

 

جو نہ کہنی تھیں مجھ کو باتیں

غیر سے ہو کے بد حواس کہیں

 

شہر در شہر ہیں ترے  عاشق

کہیں دس بیس سو پچاس کہیں

 

قطرہ قطرہ پلا نہ اے ساقی

اُس سے بھی بُجھتی ہے پیاس کہیں

 

بزم میں داغ گر نہیں تو نہ ہو

یہیں ہو گا وہ آس پاس کہیں

 

 

26

 

 

کیا زانوئے رقیب بسا ہے نگاہ میں

تکیہ نہیں ہے آج تری خواب گاہ میں

 

آتے ہیں اِس روش سے تری جلوہ گاہ میں

ہم پاؤں پھونک پھونک کے رکھتے ہیں راہ میں

 

تم لاکھ مجھ سے پردہ کرو جلوہ گاہ میں

صورت یہ کہہ رہی ہے کہ میں ہوں نگاہ میں

 

آمیزش ثواب ہے میرے گناہ میں

دل بت کدے میں اور قدم خانقاہ میں

 

سچ ہے یہاں کہاں ہو جو دو بات کا جواب

تم ہو کسی کے دل میں کسی کی نگاہ میں

 

خالی نہیں مزے سے کوئی پارسا و رند

لذت اِسے ثواب میں اُس کو گناہ میں

 

پہنچے نہ ہائے منزل مقصود تک کبھی

ہم پاؤں پیٹتے ہی رہے اُس کی راہ میں

 

چاہِ ذقن میں  اُس کے پسینے سے ہے تری

پانی اگر نہیں ہے تو ہے خاک چاہ میں

 

وہ تجھ سے مل کے حشر میں پوری نہ ہو کہیں

تھوڑی سی ہے کمی جو ہمارے گناہ میں

 

یوسف کا حال دیکھ کے آنکھیں ہوئیں ہمیں

ڈوبا جو اُس کی چاہ میں ڈوبا نہ چاہ میں

 

دشوار ہیں طریقِ طریقت کی منزلیں

دوزخ بھی ساتھ ساتھ ہے جنت کی راہ میں

 

ہم کو پتا ملا ہے دلِ داغدار کا

کچھ روشنی سی ہے تری زلفِ سیاہ میں

 

ظالم خدا سے ڈر کہ جہنم کی آگ ہے

نالہ میں بیکسوں کے غریبوں کی آہ میں

 

اِک دوستی کی ایک نظر دشمنی کی ہے

تم بھی نگاہ میں ہو عدو بھی نگاہ میں

 

آشفتگی سے زلف کی جس کی  ہو برہمی

دیکھے وہ کس طرح مجھے حالِ تباہ میں

 

سمجھا دے اُس کو جا کے یہ اک بات اے صبا

قاصد ابھی گیا ہے ابھی ہو گا راہ میں

 

دیکھا جو شب کو خواب میں اُس چشمِ مست کو

لغزش ہے صبح سے مرے پائے نگاہ میں

 

یہ رنگ کہہ رہا ہے کیا خونِ بے گناہ

ڈورے ہیں سُرخ سُرخ جو چشمِ سیاہ میں

 

وہ غیر سے ملے ہیں گلے میرے سامنے

ماتم ہے زندگی کا مجھے عید گاہ میں

 

حاصل ہیں میری قبر سے بھی سرفرازیاں

رکھتے ہیں پھول چُن کے عدو بھی کلاہ میں

 

دانستہ اُس نے قتل کیا میں یہ کیوں کہوں

شاید ہوا ہو خون مرا اشتباہ میں

 

جاتا ہے داغ کعبہ کو بُت خانہ چھوڑ کر

ٹھوکر ضرور کھائے گا پتھر سے راہ میں

 

 

27

 

 

رنج پر رنج دئے جاتے ہیں

اپنی کرنی وہ کئے جاتے ہیں

 

ہم جو الزام دئیے جاتے ہیں

اپنے دل میں وہ لئے جاتے ہیں

 

مرگِ عاشق کا تُمھیں کیوں غم ہو

جینے والے تو جئے جاتے ہیں

 

زخم اُس تیغ کے ہیں دامن دار

کس سے یہ چاک سئے جاتے ہیں

 

ہم تری بزم میں تنہا بیٹھے

خون کے گھونٹ پئے جاتے ہیں

 

اُن کو حیرت ہے کہ عاشق کیونکر

ہم پہ مر مر کے جئے جاتے ہیں

 

ہاتھ کب اہلِ سخاوت کا رُکا

بے طلب بھی وہ دئیے جاتے ہیں

 

وہ جواب اُس کا ہمیں دیں کہ نہ دیں

اُن سے ہم بات کئے جاتے ہیں

 

داغ سے مل کے یہ پوچھا اُس نے

کس لئے آپ جئے جاتے ہیں

 

28

 

 

طور بے طور ہوئے جاتے ہیں

وہ تو  کچھ اور ہوئے جاتے ہیں

 

یہ عنایت پہ عنایت ہے ستم

لطف بھی جور ہوئے جاتے ہیں

 

اب تو بیمارِ محبت تیرے

قابلِ غور ہوئے جاتے ہیں

 

نشہ ہوتا ہی نہیں اے ساقی

بے مزہ دور ہوئے جاتے ہیں

 

دیر ہے حکم کی ہم تم پہ فدا

ابھی فی الفور ہوئے جاتے ہیں

 

التجا بھی ہے شکایت گویا

وہ خفا اور ہوئے جاتے ہیں

 

انتہا کیا ہے کہ تجھ سے برپا

جور پر جور ہوئے جاتے ہیں

 

اہل کلکتہ سے لائق فائق

اہل لاہور ہوئے جاتے ہیں

 

گھڑیوں بڑھتا ہے حسینوں کا جمال

اور سے اور ہوئے جاتے ہیں

 

تیر پھینکو نہ فلک پر کہ شکار

اسد و ثور ہوئے جاتے ہیں

 

کچھ خبر بھی ہے محبت میں داغ

کیا ترے طور ہوئے جاتے ہیں

 

29

 

 

نہ چھوڑا  دل کو اے کافِر تیرے پیکان ایسے ہیں

خُدا کا گھر اُڑا لے جائیں یہ مہمان  ایسے ہیں

 

کرے گا بیوفائی مجھ سے تو سامان ایسے ہیں

تری جانب سے مجھ کو وہم میری جان ایسے ہیں

 

فرشتہ کو پکڑ رکھیں ترے دربان ایسے ہیں

خدا سے بھی نہیں ڈرتے یہ بے ایمان ایسے ہیں

 

اگر تُو بھی نکالے گا نہ نکلیں گے نہ نکلیں گے

مرے ارمان اتنے ہیں مرے ارمان ایسے ہیں

 

رقیبوں کو محبت کا ہے دعوی اے تری قدرت

یقیں ہے تم کو لو وہ بھی خدا کی شان ایسے ہیں

 

شرارت فتنہ اک اک بات میں ہے اُن کی اے قاصد

وہ بھولے بھالے کم سِن ایسے ہیں نادان ایسے ہیں

 

یہ سرکے ساتھ جائیں گے۔ یہ دم کے ساتھ جائیں گے

ہمارے سر پہ آصف جاہ کے احسان ایسے ہیں

 

بنائیں اور باتیں آپ اُن سے کیا غرض مطلب

یہ چن لیتے ہیں مطلب کی ہمارے کان ایسے ہیں

 

وہ جلوہ دیکھتے ہی آ گیا غش مجھ کو دعوی تھا

خطا ہوتی نہیں ہر گز مرے اوسان ایسے ہیں

 

یقیں ہم کو دلاتے ہیں وہ یوں جھوٹی قسم کھا کر

نہ ٹوٹیں حشر تک یہ عہد یہ پیمان ایسے ہیں

 

رقیبوں کو بٹھا کر بزم میں کہتے ہیں وہ مجھ سے

جواب ان کا نہیں دیکھو مرے مہمان ایسے ہیں

 

تمھارا ساتھ دیں گے حشر میں یہ بھی یقین جانو

تمھارے جاں نثاروں میں بہت انسان ایسے ہیں

 

کہیں لٹوا دیا جو بن کہیں چروا دیا دل کو

بھرے جائیں نہ تجھ سے بھی ترے نقصان ایسے ہیں

 

تری تصویر بھی آئینہ بھی عاشق کی آنکھیں بھی

کسی میں دم نہیں محفل میں یہ حیران ایسے ہیں

 

بہارِ باغِ عالم ہم نے لوٹی داغ مدت تک

کوئی دن کی ہوا کھاتے ہیں اب سامان ایسے ہیں

 

 

ردیف واو مہملہ

 

 

30

 

 

رگِ جاں سے نزدیک ہے میری جاں تو

مگر پھر جو دیکھا کہاں میں کہاں تو

 

حقیقت میں ہے ماسویٰ چیز ہی کیا؟

اِدھر تو اِدھر تو یہاں تو وہاں تو

 

نہ تو مجھ کو چھوڑے نہ میں تجھ کو چھوڑوں

وہیں تو جہاں میں وہیں میں جہاں تُو

 

حفیظ اور حافظ بھی ہے نام تیرا

نگہبان ہے اور ہے پاسباں تُو

 

وظیفہ جو تجھ کو نہیں نام اُس کا

دہن میں ہے کس کام کی اے زباں تُو

 

جہاں پائے گے تجھ کو ہی پائیں گے ہم

نہیں بے نشاں تو نہیں بے نشاں تُو

 

یہ گھر وہ بنے جس پہ قرباں ہو جنت

اگر خانہ دل میں ہو مہماں تو

 

کہاں چشمِ بینا ہے ایسی جو دیکھے

کہاں ہے عیاں تو کہاں ہے نہاں تُو

 

یہاں پست و بالا دکھانا تھا تجھ کو

بناتا نہ کیوں یہ زمیں آسماں تُو

 

نکلتے ہی کہتا ہے غنچہ زباں سے

کہ اِس باغِ عالم کا ہے باغباں تو

 

نہ ہو دین و دُنیا میں کچھ رنج اُس کو

الٰہی رہے داغ پر مہرباں تو

 

 

ردیف یاء تحتانی

 

31

 

 

یہ سُنتے ہیں اُن سے یہاں آنے والے

جہنم میں جائیں وہاں جانے والے

 

ترس کھا ذرا دل کو ترسانے والے

اِدھر دیکھتا جا اُدھر جانے والے

 

وہ جب آگ ہوتے ہیں غصہ سے مجھ پر

تو بھڑکاتے ہیں اور چمکانے والے

 

مرا دل۔ مرے اشک، غصہ تمھارا

نہیں رکتےروکےسےیہ آنے والے

 

وہ جاگے سحر کو تو لڑتے ہیں مُجھ سے

کہ تھے کون تم خواب میں آنے والے

 

وہ میرا کہا کس طرح مان جاتے

بہت سے ہیں شیطان بہکانے والے

 

اِدھر آؤ اس بات پر بوسہ لے لوں

مرے سر کی جھوٹی قسم کھانے والے

 

ہمیں پر اُترتا ہے غصہ تُمھارا

ہمیں بے خطا ہیں سزا پانے والے

 

وہ محفل تُمھاری مبارک ہو تم کو

سلامت رہیں بے طلب آنے والے

 

تری بزم سے میں نہ جاؤں گا تنہا

مجھے ساتھ لے جائیں گے لانے والے

 

جو واعظ کے کہنے سے بھی توبہ کر لوں

نہ کو سیں گے کیا مجھ کو میخانے والے

 

اُٹھائیں گے کیا غیر الفت کے صدمے

ذرا سی مصیبت میں گھبرانے والے

 

تُمھیں نے چرایا ہے دل وہ تُمھیں ہو

پرائی رقم لے کے اترانے والے

 

نہیں مانتا ایک کی بھی مرا دل

نئے روز آتے ہیں سمجھانے والے

 

مجھے کھائے جاتے ہیں اب طعنے دے کر

مرے حال پر تھے جو غم کھانے والے

 

برستا نہیں مینہ الٰہی کہاں تک

پئیں خون کے گھونٹ میخانے والے

 

جہاں دیدہ ہیں ہم نے دیکھی ہے دنیا

نہیں آپ کے دم میں ہم آنے والے

 

زباں سے تو کہہ کیا ارادہ ہے تیرا

اشاروں اشاروں میں دھمکانے والے

 

سلامی ہیں اے داغ اُس کے ہی در کے

نہ ہم کعبے والے نہ بتخانے والے

 

 

32

 

 

دنیا کا مال اور ہے کس کام کے لیے

کرتا ہے خرچ آدمی آرام کے لیے

 

ہے سادگی غضب کی قیامت کا ہے بناؤ

وہ صبح کے لئے ہے تو یہ شام کے لئے

 

آنے دے کچھ تو ہوش جہانِ خراب میں

اے بیخودی ہم آئے ہیں کس کام کے لیے

 

اُُس بُت کا دل ملے گا مرے دل سے کس طرح

وہ کفر کے لئے ہے یہ اسلام کے لئے

 

وعدہ کرے وہ رات کا اپنا یہ حال ہو

مانگیں دعائیں صبح سے ہم شام کے لئے

دو گے جو بوسے پاؤ گے نامِ خدا ثواب

دینا یہ وہ نہیں ہے جو ہو نام کے لئے

 

میں خوش ہوا کہ ہے وہی قاصد جو یہ سُنا

حاضر ہے کوئی آدمی انعام کے لئے

 

جانے دو اہلِ کعبہ کہ ہے اس میں مصلحت

جاتا ہوں بتکدے کو بڑے کام کے لئے

 

تعریف میں کسی کی نہ آیا کبھی وہ لطف

عاشق نے جو مزے تِری دشنام کے لئے

 

سُن کر کہا ہر اک نے ہمیں جان ہے عزیز

یا رب فرشتہ دے مرے پیغام کے لیے

 

کس طرح آ گئی شبِ دیجور ہجر میں

یہ تیرگی تھی زلف سیہ فام کے لئے

 

دل سا نہیں ہے کوئی بھی ہرکارہ اپنے پاس

موجود و مستعد ہے یہ ہر کام کے لئے

 

اچھا ہو یا بُرا ہو اُنھیں اِس سے بحث کیا

احوال پوچھتے ہیں وہ الزام کے لیے

 

جب مل گئی تو اوک سے چلّو سے پی ہی لی

ہم منتظر کبھی نہ رہے جام کے لئے

 

مجھ کو پلا دی بزم میں اُس چشمِ مست نے

ترسے مری بلا مئے  گلفام کے لئے

 

اُس فتنہ گر کی بزم ہو کیونکر نہ فتنہ خیز

یہ کام تھا فلک کو سر انجام کے لئے

 

آیا وہاں سے بیخود و بیہوش بن کے تو

بھیجا تھا ہم نشیں تجھے کس کام کے لئے

 

عقبیٰ کی فکر کر کہ یہ غفلت بُری ہے داغ

دُنیا نہیں ہے راحت و آرام کے لئے

 

 

33

 

 

حیا و شرم سے چُپ چاپ کب وہ آ کے چلے

اگر چلے تو مجھے سیدھیاں سُنا کے چلے

 

وہ شاد شاد دمِ صبح مسکرا کے چلے

ستم تو یہ ہے کہ مجھ کو گلے لگا کے چلے

 

یہ چال ہے کہ قیامت ہے اے بُتِ کافی

خدا کرے کہ یونہی سامنے خدا کے چلے

 

ہمارے دُودِ جگر میں ذرا نہیں طاقت

یہ ابرِ تر ہے کہ گھوڑے پہ جو ہوا کے چلے

 

مرے بُجھائے بُجھے گی نہ یہ لگی دل کی

بُجھاتے جاؤ کہاں آگ تم لگا کے چلے

 

تمھیں ہو چور بھری بزم میں ادھر آؤ

نظر چرائے ہوئے دل کہاں چرا کے چلے

 

ہوئے ہیں شادی و غم اختیار میں اُن کے

کبھی ہنسا کے چلے وہ کبھی رُلا کے چلے

 

ہماری خاک کی ڈھیری تمھارے کوچے میں

ذرا لگی تھی کہ جھونکے وہیں ہوا کے چلے

 

وہ مہماں نہیں ایسے کہ جائیں خالی ہاتھ

کہ جب چلے تو مرے دل کو لے لِوا کے چلے

 

طریقِ عشق میں سُوجھا کسے نشیب و فراز

وہ کیا چلے جو سہارے پہ رہنما کے چلے

 

نہیں ہے دل کو مرے صر صرِ فنا سے خطر

یہ کشتی ایسی ہے جو سامنے ہوا کے چلے

 

بچائیں دل کو کہاں تک ہم ایسے تیروں سے

نگہ نگہ کے چلے ہیں ادا ادا کے چلے

 

دکھائی دی ہمیں راہِ عدم جو تیرہ و تار

ہم اپنی مشعلِ داغِ جگر جلا کے چلے

 

پڑی جو اُس کی نظر دل تڑپ کے یوں نکلا

کہ جس طرح کوئی نخچیر تیر کھا کے چلے

 

خبر نہیں کہ کوئی تاک میں بھی بیٹھا ہے

یہ جھُٹ پٹے میں کہاں آپ مُنہ چھُپا کے چلے

 

اِدھر تو آؤ مجھے دو دو باتیں کرنی ہیں

یہ کیا کہ دور سے صورت فقط دکھا کے چلے

 

وہ رحم کھائیں گے کیا داغ ہوش میں آؤ

تم اُن کے آگے برا حال کیوں بنا کے چلے

 

 

34

 

 

ہلایا جب مری آہ و فغاں نے

زمیں پکڑی ہے کیا کیا آسماں نے

 

تعجب ہے کہ اس بیداد پر بھی

تجھے اچھا کہا سارے جہاں نے

 

لیا جب نام اُس شیریں دہن کا

لئے ہیں کیا مزے مری زباں نے

 

کھُلے وہ کھل گیا جب بھید اُن پر

اُنھیں کھولا مرے رازِ نہاں نے

 

مِلی یہ داد مرا قصہ سن کر

اُڑائی نیند تیری داستاں نے

 

وہ یہ سمجھے سبھی عاشق ہیں سچّے

بچایا سب کو میرے امتحاں نے

 

وہ جب تربت پر آئے میں نہ اُٹھا

سُبک مجھ کو کیا خواب گراں نے

 

نہ گڑنے دی مری میت کئی دن

نہ چھوڑی بد گمانی بد گماں نے

 

رہی جن سے بہارِ باغ عالم

اُنھیں پھولوں کو توڑا باغباں نے

 

ترے ہاتھوں کو مہندی نے کیا لال

مرے چہرے کو چشمِ خون فشاں نے

 

خیالِ زلفِ شب گوں شب کو آیا

مجھے مارا بلائے ناگہاں نے

 

مرا رونا کہا ا ُس بد گماں سے

ڈبویا مجھ کو میرے راز داں نے

 

لباسِ غیر میں دی مجھ کو خوشبو

تمھارے گیسوئے عنبر فشاں نے

 

اکڑنا دیکھ کر سرو چمن کا

بھرا بُل کیا مرے بانکے جواں نے

 

حقیقت میں تو اس قابل نہ تھا داغ

بہت کی قدر شاہِ قدر داں نے

 

35

 

 

آپ کی شان ہے کیا شانَ رسولِﷺ عربی

آپ پر جان ہے قربان رسولِﷺ عربی

 

کس نے یہ مرتبہ پایا ہے ہوا کس کو عروج

ہوئے اللہ کے مہمان رسولِﷺ عربی

 

ہے قیامت میں اسے کون بچانے والا

تم ہو امت کے نگہبانِ رسولِﷺ عربی

 

ہے وہی حکمِ خداوند تعالیٰ بیشک

جو ہوا آپ کا فرمان رسولِ ﷺ عربی

 

آپ کا مرتبہ ہے حضرتِ آدم سے بلند

کوئی ایسا نہیں انسان رسولِ ﷺ عربی

 

آپ کے نام کا کلمہ ہے مسلمان کی جان

ہے یہ دیندار کا ایمان رسولِﷺ عربی

 

خانہ ویران بھی ہوں بے سر و سامان بھی ہوں

کوئی بنتا نہیں سامان رسولِﷺ عربی

 

میں گنہگار ہوں ایسا کہ دعا کرتے بھی

دل میں ہوتا ہوں پشیمان رسولِﷺ عربی

 

اپنی اُمت کے نگہبان ہیں کونین میں آپ

آپ کا حق ہے نگہبان رسولِﷺ عربی

 

مجھ کو انجام کی ہے فکر کہ کیا ہونا ہے

گُم ہیں اِس خوف  سے اوسان رسولِﷺ عربی

 

آئینہ خانہ کی صورت ہے یہ حیرت خانہ

آدمی کیوں نہ ہو حیران رسولِﷺ عربی

 

میں گرفتارِ غم و رنج رہوں گا کب تک

میری مشکل کرو آسان رسولِﷺ عربی

 

نیک کاموں میں شب و روز بسر ہو میری

رات دن ہے یہی ارمان رسولِﷺ عربی

 

آپﷺ کا رتبہ ہے ایسا کہ جنابِ جبریلؑ

آپ کے در کے ہیں دربان رسولِﷺ عربی

 

میر محبوب علی خان کو ملے عمر دراز

ہے دُعا داغ کی ہر آن رسولِﷺ عربی

 

 

36

 

 

فتنہ گر آنکھ تھی وہ زلفِ دوتا اور ہوئی

یہ وبالِ  دل و جان ایک بلا اور ہوئی

 

چارہ گر سے مجھے تکلیف سوا اور ہوئی

دل کو تھا اور مرض اُس کی دوا اور ہوئی

 

راہ پر آئے تو ہیں گھر میں بھی آ جائیں گے

ایک مقبول اگر میری دعا اور ہوئی

 

خواہشِ وصل میں بر آئی تمنائے وصال

وہ تو پوری نہ ہوئی اُس کے سوا اور ہوئی

 

آدمی کے لئے جنت بھی نہ دوزخ ہو جائے

راس کب آئی اگر آب و ہوا اور ہوئی

 

جرم پر جرم کروں دیں گے سزا کس کس کی

تھک نہ جائیں گے خطا پر جو خطا اور ہوئی

 

وہ یہ کہتے ہیں نئی بات نہیں رسمِ جفا

ہوتی آتی ہے ہمیشہ سے یہ کیا اور ہوئی

 

اب جو ہے مجھ پہ جفا اُس کی شکایت کر لوں

یا تو بالکل نہ ہوئی جبر سے یا اور ہوئی

 

ظہر کا وقت تو یا  داورِ محشر  گزرا

کیا کریں گے جو نماز اپنی قضا اور ہوئی

 

پیشتر ہی ترے لاکھے نے رلا یا تھا لہو

خون کرنے کو مرے دل کے حنا اور ہوئی

 

عاشقوں کا بھی وہ اندازِ طبیعت نہ رہا

پہلے کچھ اور تھی اب رسمِ وفا اور ہوئی

 

دل میں کچھ خارِ محبت کی ابھی سے ہے خلش

ہم کہاں اس کی اگر نشوونما اور ہوئی

 

داغ  مئے خانے سے بت خانے کو تو جا پہنچا

تیری تعریف یہ اے مردِ خدا اور ہوئی

 

 

37

 

 

کرو غم سے آزاد یا مصطفیٰ

تمھیں سے ہے فریاد یا مصطفیٰ

 

نہ پامال مجھ کو زمانہ کرے

نہ مٹی ہو برباد یا مصطفیٰ

 

زباں پر تیرا نام جاری رہے

کرے دل تری یاد یا مصطفیٰ

 

نہ چھوٹے کبھی مجھ سے راہ صواب

نہ ہو ظلم و بیداد یا مصطفیٰ

 

عطا مجھ کو اللہ ہمت کرے

بجا لاؤں ارشاد یا مصطفیٰ

 

مجھے گھیر رکھا ہے امراض نے

مٹے انکی بنیاد یا مصطفیٰ

 

مجھے رات دن فکر ہے قرض کی

اِسی سے ہوں نا شاد یا مصطفیٰ

 

رہوں حشر میں آپ کی ذات سے

طلب گار امداد یا مصطفیٰ

 

عنایت کی ہو جائے اِس پر نظر

رہے داغ دل شاد یا مصطفیٰ

 

 

38

 

 

نہ تھی تاب اے دل تو کیوں چاہ کی

بڑا تیر مارا اگر آہ کی

 

وہی ایک ہے خاکِ دیر و حرم

دل اِس راہ کی لے اُس راہ کی

 

خدا جانے کیا بن گئی دل پر آج

صدا ہے جو اللہ اللہ کی

 

اُڑاتے ہو بے پر کی تعریف میں

بندھی ہے ہوا کس ہوا خواہ کی

 

وہ پیغام رخصت کا منہ پھیر کر

وہ شرمیلی آنکھیں سحر گاہ کی

 

اُجاڑے ہیں گھر تو نے کافر بہت

کہاں جائے مخلوق اللہ کی

 

تم آنا ہمارے جنازے کے ساتھ

یہ تکلیف کرنا خدا راہ کی

 

کبھی دو کبھی سو ملیں گالیاں

مقرر ہماری نہ تنخواہ کی

 

فلک سا بھی ظالم کوئی اور ہے

مگر عمر اُس کی نہ کوتاہ کی

 

اُسے ہم نے دیکھا جسے دیکھ کر

نگہ نے تری شرم ناگاہ کی

 

گیا دل ترے پاس اک آن میں

مسافت بہت کم ہے اس راہ کی

 

کہا بوسہ آستاں پر بہ طنز

نہیں ہے یہ دہلیز درگاہ کی

 

نہیں بے سبب ان بتوں کو غرور

کچھ اس میں بھی حکمت ہے اللہ کی

 

نہ لیتے گئے بے وفا جان کر

اگر جان بھی ان کے ہمراہ کی

 

مرے دل میں برچھی چبھو کر کہا

خبردار تو نے اگر آہ کی

 

یکایک ڈسا تیری کاکل نے دل

اس افعی نے کیا چوٹ ناگاہ کی

 

یہ سمجھائے دیتے ہیں اے داغ ہم

اطاعت کئے جاؤ تم شاہ کی

 

 

39

 

 

اللہ ہی اللہ ہے خم خانے میں کیا ہے

لو برہمنو جاتے ہیں کہ اپنا بھی خدا ہے

 

بگڑی ہوئی کچھ ایسی زمانے کی ہوا ہے

دل زلفِ پریشان سے پریشان سوا ہے

 

یہ جرمِ وفا پر مجھے ارشاد ہوا ہے

بخشے جو تجھے بخشنے والے کی خطا ہے

 

اب داغ کے احوال سے مطلب تمھیں کیا ہے

اچھا ہے تو اچھا ہے بُرا ہے تو بُرا ہے

 

کس بات پہ ہم رشکِ مسیحا تمھیں جانیں

دم باز تمھارا لبِ اعجاز نما ہے

 

تو ہاتھ ذرا کھول کہ میں آنکھ سے دیکھوں

دل ہے کہ ستمگر تری مٹھی میں قضا ہے

 

کھولے ہیں اسیری میں تری زلف کے پھندے

میرا دلِ آزاد بھی کیا عقدہ کُشا ہے

 

میخانے کو جاتا تھا  چھُپے چوری  سے زاہد

للکار کے میں نے یہ کہا ” دیکھ لیا ہے”

 

مختار ہے تو اپنا تو خم ہے سرِ تسلیم

مرضی وہی عاشق کی ہے جو تیری رضا ہے

 

کیوں درد کو دل کے نہ کلیجے سے لگا لوں

اس نے ہی پسِ مرگ مرا ساتھ دیا ہے

 

یہ مجھ سے کہا شکوہ بیداد پر اُس نے

تجھ کو کسی معشوق سے پالا بھی پڑا ہے

 

سب عیش کے سامان بگڑ جاتے ہیں بن کر

کیا خانہ خرابی نے یہ گھر دیکھ لیا ہے

 

گہرے ہیں رقیبوں کے تو کچھ غم نہیں ہم کو

نکلیں گے سُبک ہو کے کوئی دم کی ہوا ہے

 

نسبت تری آبرو سے ہو کیونکر مہِ نو کو

یہ حُسن میں مشہور وہ انگشت نما ہے

 

فرصت ہے کہاں فکرِ سخن کی ہمیں دم بھر

مجبور ہیں اِس سے کہ تقاضائے وفا ہے

 

میخانے میں فتویٰ ہے یہی پیرِ مغاں کا

سب عہدِ جوانی میں جوانوں کو روا ہے

 

محشر میں اگر جائے ہماری شبِ فرقت

خورشیدِ قیامت کہے یہ کون بلا ہے

 

آرام سا آرام دیا داغ کو دن رات

آباد رہیں حضرتِ آصف یہ دُعا ہے

 

 

40

 

 

 

اُنھیں نفرت ہوئی سارے جہاں سے

نئی دُنیا کوئی لائے کہاں سے

 

ترے ہاتھوں غبارِ کشتگاں سے

زمیں ٹکرا رہی ہے آسماں سے

 

کھُلا کب مدعا اُن کے بیاں سے

زبانی خرچ تھا خالی زباں سے

 

پریشاں وہ اُٹھے خوابِ گراں سے

مری فریاد ہے آہ و فغاں سے

 

نہیں وہ صاف اپنے راز داں سے

خدا پالا نہ ڈالے بد گماں سے

 

وہ توڑیں عہد لیکن فکر یہ ہے

خدا نکلے گا کیوں کر درمیاں سے

 

تمھاری بات لگتی ہے مجھے تیر

نگہ کا کام لیتے ہو زباں سے

 

گئے کیوں توبہ کر کے اُس طرف ہم

کہ شرمانا پڑا پیرِ مغاں سے

 

ذرا نرمی بھی کر اے سخت جانی

تھکا جاتا ہے قاتل امتحاں سے

 

مجھے مہماں تو کر لو ہم صفیرو

جو ٹوٹی شاخ بارِ آشیاں سے

 

سگِ لیلی بھی تھا مجنوں کو پیارا

لگاوٹ کر رہا ہوں پاسباں سے

 

کہوں کیوں کر تری باتیں ہیں جھوٹی

زباں پکڑی نہیں جاتی زباں سے

 

تسلی کو دلِ افسردہ کی ہم

گلِ پژ مردہ لائے بوستاں سے

 

چھُپا پھولوں میں اے بادِ بہاری

مجھے کھٹکا ہے خارِ آشیاں سے

 

خبر ادنی کی ہے اعلیٰ کو معلوم

زمیں کی پوچھتا ہوں آسماں سے

 

لگا ہے سنگِ مقناطیس گویا

جبیں اُٹھتی نہیں اُس آستاں سے

 

سوالِ وصل پر چُپ ہو رہے ہیں کیوں

زباں کا کام لیتے ہیں زباں سے

 

فرشتے دفترِ عصیاں نہ لکھیں

نہ اُٹھے گا یہ دوشِ ناتواں سے

 

اُنھیں جس بات سے تھی سخت نفرت

وہی بے ساختہ نکل زباں سے

 

عدو بھی اب تو مجھ پر رحم کھا کر

سفارش کر رہے ہیں آسماں سے

 

لگا رکھئے گا دم جھانسوں میں دو چار

کہ پھر مشتاق آئیں گے کہاں سے

 

نظر پر کیوں چڑھا کر مجھ کو پٹکا

گرایا کیوں زمیں پر آسماں سے

 

اگر ہو آنکھ تو سرمہ بنائیں

خضر بھی میری گردِ کارواں سے

 

بشر کیوں کر نہ دیکھیں حُسن تیرا

فرشتے جھانکتے ہیں آسماں سے

 

جہاں کے ہو رہے بس ہو رہے ہم

قفس بھی کم نہیں ہے آشیاں سے

 

لڑائیں گے زباں اُمید یہ تھی

مگر لڑنے لگے وہ تو زباں سے

 

بنا دے کوئی مسجد بتکدے پر

کہ دہرا فیض ہو دُہرے مکاں سے

 

کہے دیتے ہیں تیور نامہ بر کے

کہ یہ خالی نہیں آیا وہاں سے

 

مزا ہے اُن سے ہو گی گفتگو تُرش

زباں کے لیں گے چٹخارے زباں سے

 

پھرے وحشت میں مثل گردِ صحرا

نہ بیٹھے ہم وہاں  اُٹھے جہاں سے

 

وہ کوہِ طور تھا موسیٰ کا حصہ

الٰہی میں تجھے دیکھوں کہاں سے

 

رسائی کی اگر قسمت نے اپنی

ملیں گے خلد میں خلد آشیاں سے

 

دلِ بیتاب سے ہے ناک میں دم

الٰہی صبر میں لاؤں کہاں سے

 

تری در پر جگہ ہے داغ کی گرم

ابھی اُٹھ کر گیا ہے وہ یہاں سے

 

 

41

 

 

ایذائے درد و غم تری فرقت میں مل گئی

ملنی تھی جو سزا وہ محبت میں مل گئی

 

یہ شکل اتحاد کی صورت میں مل گئی

تصویر آپ کی مری حیرت میں مل گئی

 

آنکھوں کو تیرگی شبِ فرقت میں مل گئی

اُس سے جو کچھ بچی مجھے تربت میں مل گئی

 

دل آتشِ فراقِ صنم نے جلا دیا

دوزخ سے جو بچی مجھے جنت میں مل گئی

 

پورا دیا جواب نہ قاصد نے جب مجھے

آدھی اُمیدیاس میں حسرت میں مل گئی

 

آرامِ بعدِ مرگ ملا دردِ عشق سے

خاکِ شفا نصیب سے تُربت میں مل گئی

 

بیداد گر کو آئے گا بیداد کا مزا

گر داد عاشقوں کو قیامت میں مل گئی

 

دل کو ہے اضطراب نہ وحشت مزاج میں

آسائش ایسی کنجِ قناعت میں مل گئی

 

بر گشتہ اُس سے دل جو ہوا اور غم ہوا

بر گشتگی وہی مری قسمت میں مل گئی

 

دنیا میں جانتا ہوں کہ جنت ملی مجھے

راحت اگر ذرا سی مصیبت میں مل گئی

 

وقتِ اخیر آ ہی گیا موت کا مزا

یہ لذت اور درد کی لذت میں مل گئی

 

اس پر بھی ہم کو ناز ہے مشہور تو ہوئے

رسوائی اپنی آپ کی شہرت میں مل گئی

 

بلبل کا نالہ کیوں مرے فریاد میں ملا

کیوں گل کی رنگت آپ کی رنگت میں مل گئی

 

اے داغ شکر کر کہ شرفیاب تو ہوا

دل کی مراد حج و زیارت میں مل گئی

 

 

42

 

 

سب متاعِ دین و دنیا چاہیے

اے ہوس تجھ کو بھی کیا کیا چاہیے

 

دین و دل یا مالِ دنیا چاہیے

آپ کو کیا چاہیے کیا چاہیے

 

عقل کہتی ہے نہ ہو آزارِ عشق

شوق کہتا ہے کہ ہونا چاہیے

 

دل مقابل اُس صفت مژگاں کے ہے

لڑنے مرنے کو کلیجا چاہیے

 

اُڑ گیا بادِ خزاں سے آشیاں

مجھ کو تنکے کا سہارا چاہیے

 

لینے والے کی تو کوئی حد بھی ہے

دینے والے کو بہت سا چاہیے

 

اب تو دیکھی ہے بری حالت مری

پھر بھی دیکھیں گے وہ دیکھا چاہیے

 

عاشقی میں جو نہ کرنا تھا کیا

اب ہمیں کیا کام کرنا چاہیے

 

مر نہ جاؤں کر کے ارمانِ وصال

موت کو کوئی بہانا چاہیے

 

اس کو مل جائے اگر چاہت کی داد

چاہنے والے کو پھر کیا چاہیے

 

لکھ رہے ہیں کیا کراماً  کاتبین

میرے دل کا حال لکھنا چاہیے

 

داغ کو حُور و پری سے کیا عرض

آدمی اچھے سے اچھا چاہیے

 

 

43

 

 

دل میں فرحت جو کبھی آتی ہے

اپنے رونے پہ ہنسی آتی ہے

 

کیوں صبا کو نہ بناؤں قاصد

ابھی جاتی ہے ابھی آتی ہے

 

کیا ہے گنتی مرے ارمانوں کی

فوج کی فوج چلی آتی ہے

 

یہ سبب کیا ہے جدھر جاتا ہوں

سامنے تیری گلی آتی ہے

 

پیشوائی کو تری گلشن میں

نکہتِ گل بھی اُڑی آتی ہے

 

جان عاشق کی ترے وعدے پر

کبھی جاتی ہے کبھی آتی ہے

 

اُس کی باتوں پہ مرے ماتم میں

رونے والوں کو ہنسی آتی ہے

 

شاخِ اُمید جو ہوتی ہے ہری

ساتھ پتی کے کلی آتی ہے

 

کیا عدم سے ہمیں آنے کی خوشی

موت بھی ساتھ لگی آتی ہے

 

تجھ کو اے غنچہ و گل اُس کی طرح

کھِل کھِلا کر بھی ہنسی آتی ہے

 

مجرم عشق ہوئے تم اے داغ

اب وہاں سے طلبی آتی ہے

 

 

44

 

 

چلے آتے ہی ایسے بیقرار آئے تو کیا آئے

کہ گھوڑے پر ہوا کے تم سوار آئے تو کیا آئے

 

کسی نے مڑ کے کب دیکھا چلے دے کر مجھے مٹّی

گئے تو کیا گئے پھر سوگوار آئے تو کیا آئے

 

کسی میں کچھ بہانہ ہے کسی میں عذر ہے کوئی

لگاتار آج میرے نام تار آئے تو کیا آئے

 

بہت تکلیف پائی ہے بہت صدمے اُٹھائے ہیں

طبیعت اب کہیں بے اختیار آئے تو کیا آئے

 

زمانی جانتا ہے تم ہو جھوٹے اِک زمانے کے

زمانے کو تمھارا اعتبار آئے تو کیا آئے

 

ہماری بات کیا  سمجھےگا  تو اے ناصحِ ناداں

سمجھ میں تیری اے ناکردہ کار آئے تو کیا آئے

 

ہوا بھی تیری خلوت نگاہ میں آنے نہیں پاتی

ترے در تک مرا مشتِ غبار آئے تو کیا آئے

 

تسلی ہے نہ تسکیں یہ کوئی آنے میں آنا ہے

عیادت کو مری وہ چند بار  آئے تو کیا آئے

 

لگا رکھنا تمھیں آتا نہیں بس ہے کسر اتنی

تمھارے دم میں کوئی بار بار آئے تو کیا آئے

 

سوالِ عشق کرنا تھا کہ عاشق کو مزا آتا

فرشتے پوچھنے زیرِ مزار آئے تو کیا آئے

 

شمار اہلِ وفا کا جو ہو دنیا میں تو بہتر ہے

تری گنتی میں وہ روز شمار آئے تو کیا آئے

 

بڑھی آتی ہے آگے نا اُمیدی پیشوائی کو

ترے در پر کوئی اُمیدوار آئے تو کیا آئے

 

قدم رکھا تھا بازی گاہِ اُلفت میں کہ دل کھویا

گئے تھے جیتنے کیا چیز ہار آئے تو کیا آئے

 

جو ہیں اہل ہوس ساقی شراب ِ عشق کا اُن کو

سرور آئے تو کیا آئے خمار آئے تو کیا آئے

 

نہیں اُٹھتیں نگاہیں شرم سے کیا تیر مارو گے

تمھارے ہاتھ اب دل کا شکار آئے تو کیا آئے

 

تمھاری بزم میں دیکھا نہ ہم نے داغ سا کوئی

جو سو آئے تو کیا آئے ہزار آئے تو کیا آئے

 

 

45

 

 

خاک اُس سے عشق نے چھنوائی تھی

دشت میں مجنوں کی مٹی لائی تھی

 

یاد ہے وعدہ کیا تھا وصل کا

اور پھر تم نے قسم بھی کھائی تھی

 

وہ زمانہ یاد آتا ہے ہمیں

ہائے کس کس پر طبیعت آئی تھی

 

اور بھی عاشق تھے کیا میرے سوا

تُم نے گنتی اُن کی کیوں گنوائی تھی

 

ہے یہی افسردہ دل کو لُطفِ باغ

ہم نے چُن لی جو کلی مُرجھائی تھی

 

سُن کے عاشق کی خبر کہنے لگے

کیا کریں ہم موت اُس کی آئی تھی

 

دیکھ آئے ہم ترے بیمار کو

مُردنی چہرے پر اُس کے چھائی تھی

 

رحمتِ باری نہ تھی گر زاہدو

پھر گھٹا میخانے پر کیوں چھائی تھی

 

اس ادا سے صبح کو وہ گھر گئے

تیغ تھی اے داغ یا انگڑائی تھی

 

 

46

 

 

عاشقی میں یہ بُری بات ہوا کرتی ہے

رنج سے ترک ملاقات ہوا کرتی ہے

 

آئینہ رکھ کے یہی بات ہوا کرتی ہے

آمنے سامنے دن رات ہوا کرتی ہے

 

گریہ عاشقِ بیتاب پہ ہنس کر بولے

اب تو بے فصل بھی برسات ہوا کرتی ہے

 

دینے والوں کا بھی مُنہ آپ نے دیکھا ہے کبھی

ایک بوسے کی بھی خیرات ہوا کرتی ہے

 

اے سہی قد تجھے کہتے ہیں جو طوبیٰ قامت

یہی دنیا میں بڑی بات ہوا کرتی ہے

 

خاکساروں کو بھی آرام نہیں زیرِ فلک

کہ زمیں موردِ آفات ہوا کرتی ہے

 

غم کھلاتے ہیں وہ مہمان بُلا کر مجھ کو

یہ ضیافت یہ مدارت ہوا کرتی ہے

 

متّقی معتقِد پیر مغاں ہوتے ہیں

اُن سے ظاہر یہ کرامات ہوا کرتی ہے

 

فاتحہ کو بھی لحد پر نہیں آتا ہے کوئی

جیتے جی سب سے ملاقات  ہوا کرتی ہے

 

عشق کیا جرم ہے انساں کیلئے اے واعظ

اِس گنہ کی بھی مکافات ہوا کرتی ہے

 

مجلسِ وعظ میں انسان فرشتے دیکھے

کیا یہ جنت کی ملاقات ہوا کرتی ہے

 

دو گھڑی دن رہے بازار کا جانا نہ گیا

خوب پابندی اوقات ہوا کرتی ہے

 

دل نکل کر مرے پہلو سے پھنسا گیسو میں

کیا مسافر کو یونہی رات ہوا کرتی ہے

 

داغ صاحب سے کبھی گرم تھی صحبت دن رات

اب تو برسوں میں ملاقات ہوا کرتی ہے

 

 

47

 

 

رہوں ستم سے بھی محروم یہ ستم کیا ہے

وہ دیکھ کر مجھے کہتے ہیں اس میں دم کیا ہے

 

سنبھل کے کیجئے اِنکار بزمِ دشمن کا

نشیلی آنکھ یہ کیوں لغزش قدم کیا ہے

 

جب آپ عہد شکن اور بد گماں میں ہوں

جو ہے خدا کی قسم بھی تو وہ قسم کیا ہے

 

مزا نمازِ سحر کا تو سن لیا زاہد

وہ لطف جامِ صبوحی کا صبحدم کیا ہے

 

ہم اور دفترِ غم اُن کو کیا نہ لکھ سکتے

جب اُنگلیوں میں نہیں دم تو پھر قلم کیا ہے

 

کھلیں گے راز تمھارے سنو گے کیا کیا کچھ

نہ پوچھنا کبھی مجھ سے کہ تجھ کو غم کیا ہے

 

یہ جھک پڑا ہے فلک سب کی پائمالی کو

بغیر وجہ ستمگر کی پشت خم کیا ہے

 

غمِ فراق میں جو روز مرتے جیتے ہیں

وہ جانتے ہی نہیں ہستی و عدم کیا ہے

 

غنیمت اپنے لئے ہجر میں ہے خونِ جگر

جو رزق کھانے کو یہ بھی ملے تو کم کیا ہے

 

سرِ نیاز سلامت رہے پئے تسلیم

نہیں تمیز ہمیں دیر کیا حرم کیا ہے

 

شمار کثرتِ عصیاں کا ہو نہیں سکتا

کسے خبر ہے کہ اندازہ کرم کیا ہے

 

کسی کی تیر نگہ کو ملے جگہ کیوں کر

ہجومِ داغِ الم میرے دل میں کم کیا ہے

 

تمھاری آنکھ تمھاری نگہ تو ہے بے مہر

تمھارے دل میں نہیں جانتے ہیں ہم کیا ہے

 

نظر جو آئیں تو ہم دیکھ لیں خطِ تقدیر

ہمیں خبر ہی نہیں لوح کیا قلم کیا ہے

 

دیا جو داغ نے ظاہر وہ سب کو ہے معلوم

ملی ہے تم کو جو چُپکے سے وہ رقم کیا ہے

 

 

48

 

 

یہ تماشا دیکھئے یا وہ تماشا دیکھئے

دی ہیں دو آنکھیں  خدا نے ان سے کیا کیا دیکھئے

 

چھیڑ کر مجھ کو ذرا میرا تماشا دیکھیئے

دیکھتے ہی دیکھتے ہوتا ہے کیا کیا دیکھئیے

 

آپ کے چاہِ ذقن سے دل نہ نکلے گا کبھی

یہ کنوئیں میں گِر پڑا آنکھوں کا اندھا دیکھیئے

 

ہیں ادائیں سی ادائیں اُس سراپا ناز کی

اِک نیا انداز پیدا ہو گا جتنا دیکھیئے

 

اُس کا ثانی ہے کہاں پیدا ان آنکھوں سے اگر

ساری دنیا دیکھئے سارا زمانا دیکھیئے

 

یہ چھری میرے ہی دل پر چل رہی ہے ورنہ اب

دیکھنے والا تو کوئی اس ادا کا دیکھیئے

 

تیزی ِ تیغ نظر کو آپ پہلے دیکھ کر

پھر مرا دل دیکھیئے میرا کلیجا دیکھیئے

 

بعد میرے یوں وفا کوئی کرے گا کیا مجال

سوچئے دل میں سمجھئے آپ اتنا دیکھیئے

 

مجھ کو راہِ عشق میں سُوجھا نہ اپنا نیک و بد

رہنما کہتا رہا رستہ ہے ٹیڑھا دیکھیئے

 

داد وہ بھی دے ہمارے دیکھنے کی بزم میں

کام کر جائے نگاہِ شوق اتنا دیکھیئے

 

مجھ کو بسمل کر کے ظالم نے کہا منہ پھیر کر

یہ تماشا ہے پُرانا پھر اسے کیا دیکھیئے

 

داغ دیکھے چاند کو کیوں دیکھ کر چہرا تیرا

جو ہو صورت دیکھی بھالی پھر اُسے کیا دیکھیئے

 

49

 

 

یہ بات بات میں کیا ناز کی نکلتی ہے

دبی دبی ترے لب سے ہنسی نکلتی ہے

 

ٹھہر ٹھہر کے جلا دل کو ایک بار نہ پھونک

کہ اس میں بوئے محبت ابھی نکلتی ہے

 

بجائے شکوہ بھی دیتا ہوں میں دُعا اس کو

مری زباں سے کروں کیا وہی نکلتی ہے

 

خوشی میں ہم نے یہ شوخی کبھی نہیں دیکھی

دمِ عتاب جو رنگت تری نکلتی ہے

 

ہزار بار جو مانگا کرو تو کیا حاصل

دُعا وہی ہے جو دل سے کبھی نکلتی ہے

 

ادا ادا سے تری کچھ رہی ہیں تلواریں

نگہ نگہ سے چھُری پر چھُری نکلتی ہے

 

محیطِ عشق میں ہے کیا اُمید و بیم مجھے

کہ ڈوب ڈوب کے کشتی مری نکلتی ہے

 

جھلکتی ہے سرِ شاخِ مژہ سے خون کی بوند

شجر میں پہلے ثمر سے کلی نکلتی ہے

 

شب فراق جو کھولے ہیں ہم نے زخمِ جگر

یہ انتظار ہے کب چاندنی نکلتی ہے

 

سمجھ تو لیجئے ۔ کہنے تو دیجئے مطلب

بیاں سے پہلے ہی مجھ پر چھُری  نکلتی ہے

 

یہ دل کی آگ ہے یا دل کے نور کا ہے ظہور

نفس نفس میں مرے روشنی نکلتی ہے

 

کہا جو میں نے کہ مر جاؤں گا تو کہتے ہیں

ہمارے زائچہ میں زندگی نکلتی ہے

 

سمجھنے والے سمجھتے ہیں پیچ کی تقریر

کہ کچھ نہ  کچھ تری باتوں میں فی نکلتی ہے

 

دمِ اخیر تصور ہے کس پری وش کا

کہ میری روح بھی بن کر پری نکلتی ہے

 

مرے نکالے نہ نکلے گی آرزو میری

جو تم نکالنا چاہو ابھی نکلتی ہے

 

غمِ فراق میں ہو داغ اس قدر بیتاب

ذرا سے رنج میں جان آپ کی نکلتی ہے

 

 

50

 

 

دودِ دل ساتھ آہ لیتی ہے

ہم سفر کو نباہ لیتی ہے

 

ٹیڑھ کی وہ نگاہ لیتی ہے

بل کی زلفِ سیاہ لیتی ہے

 

تو ستم بھی کرے تو خلقِ خدا

اپنے ذمے گناہ لیتی ہے

 

دل جو لیتا ہے عشق کا رستہ

جان بھی اپنی راہ لیتی ہے

 

تم خبر لو مری وگرنہ خبر

آسماں کی یہ آہ لیتی ہے

 

بخشوانے کو جرم اُن کی بلا

منت داد خواہ لیتی ہے

 

شب فرقت سے کون لے بدلا

جان یہ روسیاہ لیتی ہے

 

کیوں ستاتی ہے گردشِ گردوں

کیوں غریبوں کی آہ لیتی ہے

 

دل کو لیتی ہے یوں صفِ مژگاں

قلعہ جیسے سپاہ لیتی ہے

 

خون عاشق کے دل کا پی پی کر

کیا مزے تیری چاہ لیتی ہے

 

آرزو تیغِ یاس سے ڈر کر

میرے دل میں پناہ لیتی ہے

 

کیوں نہ بے تاب ہو ہمارا دل

صبر تیری نگاہ لیتی ہے

 

کس کس اہل سخن سے دیکھیں داغ

یہ غزل واہ واہ لیتی ہے

 

 

51

 

 

اب تیرے کام کی بھی نزاکت نہیں رہی

دل توڑنے کے واسطے طاقت نہیں رہی

 

تغیر حال زار کی تاثیر دیکھنا

میری شبیہ کی بھی وہ صورت نہیں رہی

 

دیکھو جفا کے بعد تو دل چیر کر مرا

باقی رہی کہ اس میں محبت نہیں رہی

 

جب یہ سمجھ لیا کہ جفا کام ہے ترا

پھر مجھ کو تجھ سے کوئی شکایت نہیں رہی

 

جس روز  سے ہمیں دل بے مدعا ملا

دنیا میں کوئی ہم کو ضرورت نہیں رہی

 

ایسی جفا اُٹھا کے تری چاہ پھر کروں

مجبور ہو گیا مری ہمت نہیں رہی

 

اب تمکنت سمائی تمھارے مزاج میں

وہ چُلبلی ادا وہ شرارت نہیں رہی

 

جیسے تھے وہ کھچے اُنھیں لانا تھا کھینچ کر

تاثیر تجھ میں جذبِ محّبت نہیں رہی

 

انسان کے لئے ہے بڑی چیز آبرو

کیا عاشقی کا لطف جو عزت نہیں رہی

 

محفل میں اُن کی رات کو یہ رعب داب تھا

پروانے کی بھی شمع سے صحبت نہیں رہی

 

اچھا ہوا کہ مرگِ عدو پر پئے جو اشک

دل میں ترے کسی کی کدورت نہیں رہی

 

دعوائے  عشق اور تنک ظرف بھی کریں

کیفیتِ شراب محبت نہیں رہی

 

بزمِ عدو میں انجمن آرا تو وہ رہا

سُنتے ہیں ہم کہ لطف کی صحبت نہیں رہی

 

ایسا ہوں محوِ لذتِ دیدار ِ یار اب

میرے  خیال میں مری صورت نہیں رہی

 

سب کچھ دیا ہے داغ کو شاہِ نظام نے

آبائی اُس کی گرچہ ریاست نہیں رہی

 

 

52

 

 

مجھ کو عشقِ زلفِ عنبر فام ہے

صبحِ محشر بھی نظر میں شام ہے

 

عشق پر تکلیف کا الزام ہے

درد میرے واسطے آرام ہے

 

حسن میں حور و پری کا نام ہے

آدمی کو آدمی سے کام ہے

 

بزم سے میرے اُٹھانے کے لیے

پوچھتے ہیں آپ کو کچھ کام ہے

 

جس کے دل کو دیکھئے تیرا ہے عشق

جو زباں ہے اُس پہ تیرا نام ہے

 

دیدہ و دل دونوں ہیں مصروفِ عشق

کام والوں کو ہمیشہ کام ہے

 

مٹ گیا درد محبت کا مزہ

خلد میں آرام ہی آرام ہے

 

میکدہ کیا جا کے مسجد میں بھی رند

پوچھ لیتے ہیں مئے گلفام ہے

 

لیجئے پکڑا گیا خط آپ کا

یہ لفافے پر عدو کا نام ہے

 

کر لیا نکہت سے اپنی دل اسیر

اِن گل انداموں کا اچھا دام ہے

 

بے محل دینے سے ہے کیا فائدہ

بارشِ بے وقت و بے ہنگام ہے

 

کیوں بناتے ہو رقیبوں کو شیر

تم کو مجھ سے مجھ کو تم سے کام ہے

 

ایک شکوہ کر کے پچھتایا ہوں میں

رات دن دشنام پر دشنام ہے

 

وہ دمِ آخر نہ آئے میرے پاس

دشمنوں نے کہہ دیا آرام ہے

 

کوئی سکتے میں ہے کوئی مضطرب

اِک تماشا اُن کے زیر بام ہے

 

دل ہے پُر خوں آنکھ میں آنسو نہیں

شیشہ ہے لبریز خالی جام ہے

 

اُن کے قاصد نے کچھ ایسی بات کی

میں نے جانا موت کا پیغام ہے

 

وہ جلاتا بھی ہے خود جلتا بھی ہے

جانتے ہو داغ کس کا نام ہے

 

 

53

 

 

 

ہم کیا کریں جو سلطنت روم و شام ہے

بے مثل بادشاہ ہمارا نظام ہے

 

کیا دلدہی کے ساتھ جواب پیام ہے

اے نامہ بر تجھے تو ہمارا سلام ہے

 

محشر میں کامیاب ہوں اسمیں کلام ہے

یہ طولِ مدّعا ہے تو بس دن تمام ہے

 

دل سے نکل گئی تھی شبِ ہجر ایک آہ

اُس دن سے آسمان پئے انتقام ہے

 

ہر وقت سوز عشق سے روشن ہے داغِ دل

ایسے چراغ کو نہ سحر ہے نہ شام ہے

 

کرتا ہے ہجرِ یار میں کیا خونِ آرزو

تلوار کا جو کام ہے وہ دل کا کام ہے

 

جھوٹی ہمیشہ کھاتے ہو قرآن کی قسم

تم جانتے نہیں یہ خدا کا کلام ہے

 

خواب و خیالِ وصل کا کیونکر ہو اعتبار

اے دل سمجھ لے تو یہ پریشاں وہ خام ہے

 

کیا مجرمان عشق کی ہو گی نہ مغفرت؟

واعظ ترے کلام میں ہم کو کلام ہے

 

وہ فاتحہ کے واسطے ہر روز آئیں گے

لوحِ مزار پر مرے دشمن کا  نام ہے

 

دل میں ہمارے آ کے ترا جی بہل گیا

کیوں کیا کہا تھا ہم نے یہ کیسا مقام ہے

 

اُس کا ستم شریک زمانہ بھی چرخ بھی

کیا کیا جفائے بار کا اب اہتمام ہے

 

تم کس کے میہمان مرے میہمان ہو

دل کس کا ہے مقام تمھارا مقام ہے

 

ناصح کی بات بات مجھے تیر ہو گئی

دل چھید ڈالے یہ کوئی طرزِ کلام ہے

 

ہر چشمِ نقشِ پا میں جو ہیں فتنے کیا عجب

تو فتنہ گر ہے اور قیامت خرام ہے

 

آئیں نہ خواب میں بھی تو کیا وصل کا مزا

حوروں کو دُور ہی سے ہمارا سلام ہے

 

بد وضع کہہ کے داغ کو مجرم بنو نہ تم

سرکارِ بادشاہ میں وہ نیک نام ہے

 

 

54

 

 

جھُو ٹی پیوں رقیب کی مجھ کو حرام ہے

ساقی کے ہاتھ میں تو فقط ایک جام ہے

 

وہ چشمِ مست سامنے میرے مدام ہے

ایسے شراب خوار کو توبہ حرام ہے

 

جو چھید ڈالے دل کو تمھاری نگاہ ہے

جو پیس ڈالے دل کو تمھارا خرام ہے

 

ہر اہل درد کو درمِ داغ ہے نصیب

سرکارِ عشق کا بھی عجب فیضِ عام ہے

 

وہ رنج اُٹھائے ہم نے اگر کوچہ آپ کا

دار السّلام ہے تو ہمارا سلام ہے

 

اِس چپقلش میں فاتحہ کو وہ نہ آئیں گے

خلقت کا میری قبر پہ کیوں اژدہام ہے

 

جو شکل ہے تری وہی اک شوخ کی ہے شکل

جو نام ہے ترا وُہی اُس کا  بھی نام ہے

 

اہلِ وفا میں تم نے کیا غیر کو شریک

تم جانتے نہیں وہ ہمارا غلام ہے

 

یا دل مقابلے کی نہیں تاب لا سکا

یا آج تُرکِ چشم کی تُرکی تمام ہے

 

ملنے کو آئے ہیں تو بڑے اجتناب سے

مجھ کو روزِ عید بھی ماہِ صیام ہے

 

کہتے ہیں کس کو داغ یہ کیا آپ نے کہا؟

لے دل میں چُٹکیاں یہ اُسی کا کلام ہے

 

 

55

 

 

ہم نے مزے خیالِ رخِ یار کے لئے

دیدار والے جائیں گے دیدار کے لئے

 

کچھ خونِ دل ہے دیدہ خونبار کے لئے

کچھ ہے بچا کھچا غم و آزار کے لئے

 

سرمہ ضرور ہے نگہ یار کے لئے

یہ باڑ چاہیے اسی تلوار کے لئے

 

ترسی جب آنکھ جلوہ دیدار کے لئے

بوسے ہی ہم نے روزنِ دیوار کے لئے

 

کیا حالِ دل کہوں کہ تری چشم گیں

ہے مہر خامشی لبِ اظہار کے لئے

 

اصحابِ کہف سے جو بچے خواب وہ ملے

یا رب عدو کے طالع بیدار کے لئے

 

ہوتا ہے اور جلوہ فروشوں سے کیا نصیب

دو چار گالیاں ہیں خریدار کے لئے

 

انکار کیجے آپ مگر شکل آپ کی

کہتی ہے میں بنی ہوں ترے پیار کے لئے

 

مجرم بتوں کا بھی ہوں خدا کا بھی چور ہوں

دونوں میں ضد ہے ایک گنہگار کے لئے

 

دیکھو کوئی نگاہ کی شوخی اُڑا نہ لے

رکھ لو بچا کے تیزی رفتار کے لئے

 

حلقے میں ہے مژہ کے تری چشم نرگسی

تیمار دار جمع ہیں بیمار کے لئے

 

یہ بارِ ناز ہم سے اُٹھایا نہ جائے گا

بیگاری آپ ڈھونڈئیے بیگار کے لئے

 

تر دامنی میں اشکِ ندامت بھی ہیں شریک

رحمت کا ہے نچوڑ گنہگار کے لئے

 

یہ جان کس کے واسطے جاناں کے واسطے

یہ دل ہے اور کس کے لئے یار کے لئے

 

بیٹھے ہیں راہ دوست میں ہم پاؤں توڑ کر

اب فکر کیا ہے منزلِ دشوار کے لئے

 

حصہ وفا کا اور جفا کا ہوا ہے یوں

یہ دل کے واسطے وہ دل آزار کے لئے

 

نازک کلائی پھول سی اِس کام کی نہیں

مَشاق ہاتھ چاہیے تلوار کے لئے

 

خانہ خرابیاں بھی ہیں رسوائیوں کے ساتھ

یہ گھر کے واسطے ہیں وہ بازار کے لئے

 

تیرے تبسمِ نمکیں میں ہے اِک مزا

لیکن جگر فگارو دل افگار کے لئے

 

ہرجائی ایسی توبہ کو کیا مُنہ لگائیں ہم

زاہد کے واسطے کبھی میخوار کے لئے

 

تو دل کو ایک بار نہ کھا اے غمِ فراق

رکھا ہے اُس کو ہم نے کئی بار کے لئے

 

خلوت میں ہیں شکر  لب و شیریں دہن کے لطف

ایسی مٹھائیاں نہیں بازار کے لئے

 

یہ حال دیکھ کر ملک الموت کیا عجب

مانگے اگر دعا ترے بیمار کے لئے

 

یہ داغ کی دعا ہے کہ پروردگار دے

دنیا کی خوبیاں مرے سرکار کے لئے

 

 

56

 

 

دل میں کیا مہرباں نہیں آتی

بات کہنے میں ہاں نہیں آتی

 

بڑھ گیا تجھ سے وہ ستم ایجاد

شرم سے آسماں نہیں آتی

 

کس طرح قول کے ہوں وہ سچّے

میرے منہ میں زُباں نہیں آتی

 

اُس ستمگر کو یاد بھی میری

بھول کر ناگہاں نہیں آتی

 

ہے طبیعت بھی اپنی ہر جائی

کس جگہ یہ کہاں نہیں آتی

 

جل کے دل خاک ہو گیا شاید

بوئے سوزِ نہاں نہیں آتی

 

گو بلا ہے مفارقت تیری

نہیں آتی جہاں نہیں آتی

 

بیخودی میں کہا تھا اُن سے حال

یاد وہ داستاں نہیں آتی

 

شب غم مر گیا موذن کیا

آج بانگِ اذاں نہیں آتی

 

وہ اِشاروں سے کام لیتے ہیں

گفتگو درمیاں نہیں آتی

 

کام کر جائے گی یہ خاموشی

ہم کو آہ و فغان نہیں آتی

 

ہے نزاکت بھری خبر اُن کی

کہ وہاں سے یہاں نہیں آتی

 

تجھ کو ہو گا ثواب فرقت میں

اے اجل کیوں یہاں نہیں آتی

 

دل لگاتے ہی ہم تو مرتے ہیں

نوبتِ امتحاں نہیں آتی

 

روز محشر بھی تیرے کشتے کے

تن میں روحِ رواں نہیں آتی

 

داغ ہی جانتا ہے طرزِ وفا

تم کو اے مہرباں نہیں آتی

 

 

57

 

 

حسنِ ادا بھی خوبئ صورت میں چاہیے

یہ بڑھتی دولت ایسی ہی دولت میں چاہیے

 

ہمت کا ہارنا نہ مصیبت میں چاہیے

تھوڑا سا حوصلہ بھی طبیعت میں چاہیے

 

باہم یہ میل جول محبت میں چاہیے

میری طبیعت اُس کی طبیعت میں چاہیے

 

آ جائے راہِ راست پہ کافر ترا مزاج

اِک بندہ خدا تری خدمت میں چاہیے

 

طوبیٰ ہو یا ہو سرو ترا بانکپن کہاں

انداز بھی تو کچھ قد و قامت میں چاہیے

 

میں تجھ سے پوچھتا ہوں مرے دل کا فیصلہ

دُنیا میں چاہیے کہ قیامت میں چاہیے

 

کیا لطفِ دشمنی جو تعلق ہی اُٹھ گیا

کچھ چھیڑ چھاڑ بھی تو عداوت میں چاہیے

 

انصاف سے کہو کہ یہ بیداد کا طریق

تم کو نہ چاہیے کہ محبت میں چاہیے

 

آیا ہے کیا پسند خمِ زلفِ پُر شکن

کہتا ہوں میں یہ بل مری قسمت میں چاہیے

 

اُس چشمِ سحر فن نے کیا مجھے ہلاک

جادو کی روشنی مری تربت میں چاہیے

 

دیکھے کچھ اُن کے چال چلن اور رنگ ڈھنگ

دینا دل ان حسینوں کو مدّت میں چاہیے

 

کہتا ہے رشک دیدہ و دل بھی نہ ہوں شریک

غیرت بھی انتہا کی محبت میں چاہیے

 

ٹھنڈے کلیجے ہوں رخِ دلدار دیکھ کر

ٹھنڈا بھی آفتاب قیامت میں چاہیے

 

نازل جو ہوں بلائیں فلک سے وہ دیکھ لوں

اتنی تو چاندنی شب فرقت میں چاہیے

 

یہ عشق کا ہے گھر کوئی دار الاماں نہیں

ہر روز واردات محبت میں چاہیے

 

میں نے شبِ وصال جگایا تو یہ کہا

کیا اُٹھ کے بیٹھنا بھی نزاکت میں چاہیے

 

معشوق کے کہے کا برا مانتے ہو داغ

برداشت آدمی کی طبیعت میں چاہیے

 

 

58

 

 

 

رکھے جو ہوشیار وہ صحبت میں چاہیے

میرا رقیب ہی مری خدمت میں چاہیے

 

جلوے کا تیرے نور بصارت میں چاہیے

ایسا چراغ راہِ محبت میں چاہیے

 

عشاق روئیں گے غمِ معشوق میں بہت

ماتم کدہ بھی گو شہ جنت میں چاہیے

 

حاضر یہ بد نصیب ہے بدلے رقیب کے

کوئی نہ کوئی آپ کی خدمت میں چاہیے

 

پاسِ ادب سے نام نہ لوں گا ، کہوں گا میں

کوئی علاوہ حور کے جنت میں چاہیے

 

میخوار کو ہو مژدہ کہ قاضی نے کہہ دیا

پینا شراب کا بھی ضرورت میں چاہیے

 

جینا ہجومِ یاس میں دشوار ہو گیا

مرنا بھی ان بلاؤں سے فرصت میں چاہیے

 

فرقت میں کیوں عذاب کی بھر مار مجھ پہ ہے

کافر کے واسطے یہ قیامت میں چاہیے

 

کیوں صر صرِ فنا سے بُجھی شمع آہ کی

یہ لو لگی ہوئی مری تربت میں چاہیے

 

اے دل شبِ فراق بھی گر سخت جاں رہا

مرنا بھی اور کون سی حالت میں چاہیے

 

خوں گشتہ آرزو بھی مرے ساتھ دفن ہو

تربت اک اور بھی مری تربت میں چاہیے

 

لُوں گا نہ قصرِ خلد ترے دل کو دیکھ کر

کہہ دوں گا میں یہ گھر مجھے جنت میں چاہیے

 

جب مر گئے تو لذّتِ آزار پھر کہاں

مرنا غمِ فراق سے مدّت میں چاہیے

 

کم سن ابھی ہو عشق و ہوس کی نہیں خبر

تمئیز امتحانِ محبت میں چاہیے

 

بعدِ فنا بھی یاد کرے اُس کو حشر تک

یہ نوکری زمانہ رخصت میں چاہیے

 

دل آئے آپ کا تو بڑے بول آگے آئیں

کچھ تو کمی غرور میں نخوت میں چاہیے

 

دیوانہ میں نہیں ہوں جو دیکھوں بہارِ باغ

اُس کو تو دیکھنا تری صورت میں چاہیے

 

دولت تمھارے حسن کی جب بے زکوٰۃ ہے

قاروں کے یہ خزانۂ دولت میں چاہیے

 

دامن فلک کا اور گریباں ہلال کا

دستِ جنوں کے واسطے وحشت میں چاہیے

 

جنت کی ہے ہوس مجھے دنیا میں جس قدر

دنیا کی آرزو یونہی جنت میں چاہیے

 

حاتم کا دل ہو۔ دولتِ قاروں ہو، عمرِ خضر

اے داغ یہ کسی کی محبت میں چاہیے

 

 

 

59

 

دل دو طرح کا تیری محبت میں چاہیے

راحت میں ایک ایک مصیبت میں چاہیے

 

اِک اضطرابِ شوق طبیعت میں چاہیے

جو کچھ نہ چاہیے وہ محبت میں چاہیے

 

کچھ لاگ کچھ لگاؤ طبیعت میں چاہیے

دونوں طرح کا رنگ محبت میں چاہیے

 

بُت گر سے التجا ہے کہ دے دے بنا کے وہ

پتھر کا دل کسی کی محبت میں چاہیے

 

صُبحِ شبِ فراق نہ ہو جائے شمع گُل

کوئی شریکِ حال مصیبت میں چاہیے

 

عمرِ دراز خضر کو کیوں ہو گئی عطا

یہ تو مجھے کسی کی محبت میں چاہیے

 

کچھ تو پڑے دباؤ دلِ بیقرار پر

پارا بھرا ہوا مری تربت میں چاہیے

 

جو دن ہیں زندگی کے وہ گزریں ہنسی خوشی

باہم سلوک مہر و محبت میں چاہیے

 

یہ کیا کہ دونوں صورتِ تصویر بن گئے

تھوڑی سی چھیڑ چھاڑ بھی صحبت میں چاہیے

 

کیوں ہو گیا بتوں کو مرے دل پہ اختیار

یارب یہ تیرے قبضہ قدرت میں چاہیے

 

عاشق کے دل پہ زور تمھارا ہے کس قدر

انصاف سے کہو یہ نزاکت میں چاہیے

 

اٹھکیلیاں ہوں گرد سے کانٹوں سے چھیڑ چھاڑ

سامانِ دل لگی کا یہ وحشت میں چاہیے

 

انسان عیش میں نہ مصیبت کو بھول جائے

دوزخ کی تاک جھانک بھی جنت میں چاہیے

 

وہ ابتدائے عشق میں حاصل ہوئی مجھے

جو بات انتہائے محبت میں چاہیے

 

آئیں گے بیشمار فرشتے عذاب کے

میدان حشر غیر کی تربت میں چاہیے

 

اپنا بھی کام نکلے وہ ناراض بھی نہ ہوں

ایسے مزے کی بات شکایت میں چاہیے

 

تجھ پر ہی جان دیجے اگر جان دیجیے

تجھ کو ہی چاہیے کسی حالت میں چاہیے

 

اے داغ دیکھتے ہیں وہ عہدِ نظام میں

جو انتظام طرز حکومت میں چاہیے

 

 

60

 

 

 

عاشق متحمل نہ ہوئے قہر و غضب کے

بیٹھے رہو اب صبر سمیٹے ہوئے سب کے

 

آثار ہیں  چہرے سے عیاں بزمِ طرب کے

متوالے چلے آتے ہو جاگے ہوئے شب کے

 

شعلے دل پُر سوز سے اُٹھتے ہیں غضب کے

یہ آگ نہیں وہ جو رہے خاک میں دب کے

 

ہوتا ہے شریک آپ یہ دُکھ درد میں سب کے

کیا حوصلے ہیں یہ دلِ آزار طلب کے

 

حیرت ہے کہ یہ خاک دباتی ہے ہوا کو

اِس دل کی کدورت میں رہے سانس بھی دب کے

 

اُٹھتے ہی پہنچ جاتے ہیں یہ تا درِ مقصود

ہیں دستِ دعا میں بھی چلن پائے طلب کے

 

اللہ رے کیا پاس رقیبوں کا ہے تم کو

محشر میں طرفدار ہوئے جاتے ہو سب کے

 

ڈرتے نہیں اب آہ سے وہ دن بھی ہیں کچھ یاد

بجلی کے چمکتے ہی بغل میں مری دب کے

 

بے وجہ کسی پر کوئی عاشق نہیں ہوتا

ہم عالمِ اسباب میں قائل ہیں سبب کے

 

اُس مصحفِ رخسار کی فرقت میں ہیں نالاں

ہم کو تُو محرم ہے مہینے میں رجب کے

 

وہ زندے کو مردہ کرے یہ مردے کو زندہ

وہ چشم کے جادو ہیں یہ اعجاز ہیں لب کے

 

دربارِ سلاطیں تو نہیں آپ کی محفل

عاشق بھی کہیں کہتے ہیں پابند ادب کے

 

جو بھید کی باتیں ہیں رقیبوں سے ملیں گی

وہ ہیں مرے مطلب کے وہی ہیں مرے ڈھب کے

 

وہ چاند سا چہرہ ہے تصور میں ہمارے

ہیں ہجر میں بھی ہم کو مزے وصل کی شب  کے

 

گالوں پہ تھے کچھ نیل کے دھبے مری شامت

پوچھا یہ نشاں کب کے ہیں کہنے لگے اب کے

 

کیا دل کو دبائے گا ترا کوہِ غمِ عشق

جو مرد دلاور ہیں وہ رہتے نہیں دب کے

 

دیکھا غمِ فرقت میں تڑپنے کا تماشا

دیدے تھے ندیدے مرے تاروں بھری شب کے

 

چُن چُن کے مصیبت میں فلک نے اُنھیں ڈالا

خوگر جو ہمیشہ سے رہے عیش و طرب کے

 

عالم کے مرقع میں جُدا سب کی ہیں شکلیں

قائل نہ ہوں کیوں جن و بشر صنعتِ رب کے

 

اللہ رے ترا بانکپن اُف رے تری سج دھج

قربان تری گات کے صدقے تری چھب کے

 

داغوں سے محبت کے ہے دل صورتِ گلزار

اِن پھولوں کی اے داغ بہار آئی ہے اب کے

 

 

61

 

 

 

نقشے ہیں یہ اب دیدہ دیدار طلب کے

رہ جاتی ہے پلکوں میں نگہ ضعف سے دب کے

 

کس لُطف کے کس دھوم کے کس عیش و طرب کے

یاد آتے ہیں جلسے وہ ہمیں چودھویں شب کے

 

ہیں نقشِ کفِ  پا میں وہ انداز غضب کے

آندھی بھی نکلتی ہے تری راہ سے دب کے

 

مانندِ نظر جاتے ہیں منزل پہ سُبک رو

دیکھے نہ کبھی نقشِ قدم پائے طلب کے

 

یا تیسرے فاقے سے بچے حضرت زاہد

یا تیسرے دن پھول ہوئے بنت عنب کے

 

کافی ہے زمانے کی اسیری کو یہ زنجیر

دل زلف کے حلقوں میں گرفتار ہیں سب کے

 

مسجد میں تو گنتی کے مسلمان ہی دیکھے

میخانے میں جلوے نظر آئے ہمیں سب کے

 

جس دن سے کیا گیسوئے شب گوں نے پریشاں

اُس روز سے مضمون نہ باندھے کسی شب کے

 

وہ دیکھتے ہیں آئینہ میں زلفِ سیہ کو

ہم جانتے ہیں شام بھی اندر ہے حلب کے

 

رندوں کا ہوں میں دوست تو زہاد کا خادم

وہ کام کا انسان ہے کام آئے جو سب کے

 

معشوق کا اللہ طرف دار نہ ہو گا

کیا ہوش گئے ہیں دل انصاف طلب کے

 

سُن سُن کے مرا حال وہ بولے تو یہ بولے

یہ جھگڑے ہیں کس وقت کے یہ قصے ہیں کب کے

 

مُنہ لگتے ہی اللہ رے غیروں کا تکبر

شیطان نے کیا پھونک دیا کان میں سب کے

 

اِنکار کے وہ طور کہ دل مفت میں مل جائے

انداز نرالے ہیں ترے حسنِ طلب کے

 

کیا سخت گھڑی تھی کہ مری آنکھ لڑی تھی

یہ درد یہ آزار یہ آلام ہیں جب کے

 

اِنسان کو دل دے تو دلیری بھی خدا دے

افسانے ہیں عالم میں شجاعانِ عرب کے

 

سوتے نہیں اِس وہم سے وہ بسترِ گل پر

ڈالیں تنِ نازک پہ نشاں پھول نہ دب کے

 

افسانے سُناؤں جو سُنو کان لگا کر

کچھ عیش و طرب کے ہیں تو کچھ رنج و تعب کے

 

دیکھا نہ کہ آخر کو خراش آئی دہن پر

آئینہ میں بوسے لئے کیوں آپ نے لب کے

 

مجھ کو تو شبِ وصل میں اس وہم نے گھیرا

تجھ سے یونہی ارمان نکل جائیں گے سب کے

 

آئینے سے ہے شوق حسینوں کو نہایت

مالک کہیں ہو جائیں نہ یہ شہر حلب کے

 

اب عاقبتِ کار کی تم خیر مناؤ

بس داغ مزے لُوٹ چکے عیش و طرب کے

 

 

62

 

 

دل جو ناکام ہوا جاتا ہے

شوق کا کام ہوا جاتا ہے

 

نہ مٹاؤ کسی عاشق کا نشاں

نام بدنام ہوا جاتا ہے

 

لطفِ ایذا طلبی کیا کہیے

درد آرام ہوا جاتا ہے

 

دل بیمار میں چٹکی لے لو

ابھی آرام ہوا جاتا ہے

 

رنگ لائے گا ترا رنگ عتاب

چہرہ گلفام ہوا جاتا ہے

 

آج کل کثرتِ عشاق سے عشق

شیوہ عام ہوا جاتا ہے

 

دیکھ کر مست وہ کافر آنکھیں

خونِ اسلام ہوا جاتا ہے

 

گلہ مہر و وفا مجھ سے نہ کر

شکوہ دشنام ہوا جاتا ہے

 

طلبِ وصل میں اے دل نہ تڑپ

اب سر انجام ہوا جاتا ہے

 

کیوں کیا ذکرِ محبت اُن سے

یہ بھی پیغام ہوا جاتا ہے

 

داغ کے پاس جو آؤ تو ابھی

دُور الزام ہوا جاتا ہے

 

 

63

 

 

 

طرزِ دیوانگی نہیں جاتی

ہوش کی لوں۔ تو لی نہیں جاتی

 

خلشِ عاشقی نہیں جاتی

نہیں جاتی ۔ کبھی نہیں جاتی

 

بات پُوری کرو تُمھاری بات

بیچ میں سے تو لی نہیں جاتی

 

کیوں کئے تھے ستم جو کہتے ہو

یہ دُہائی سُنی نہیں جاتی

 

دیکھ اُس چشمِ مست کو زاہد

تجھ سے  اتنی بھی پی نہیں جاتی

 

بد دعا سن رہی ہے کیوں شبِ غم

سامنے سے چلی نہیں جاتی

 

اُڑتی رہتی ہے گو ہماری خاک

چھوڑ کر وہ گلی نہیں جاتی

 

وہ نہ جائیں عدو کے گھر جب بھی

بد گمانی مری نہیں جاتی

 

گرچہ بلبل ہزار نالاں ہو

گُل تر کی ہنسی نہیں جاتی

 

جلوہ یار سامنے ہے مگر

شوق کی بے خودی نہیں جاتی

 

دعویِ عشق پر وہ کہتے ہیں

یہ تعلّی سُنی نہیں جاتی

 

اب وہ آتے ہیں آرزو میری

مر کے کمبخت جی نہیں جاتی

 

وقتِ آخر ہوا مگر اے داغ

ہوسِ زندگی نہیں جاتی

 

 

64

 

 

 

الٰہی راہ سیدھی کب تری اُلفت کی لیتا ہے

کوئی دوزخ کی لیتا ہے کوئی جنت کی لیتا ہے

 

لگاوٹ میں بھی اُکھڑی اُن سے اِک آفت کی لیتا ہے

اُپچ لیتا ہے جب یہ دل نئی صورت کی لیتا ہے

 

ستمگر کو ہمیشہ پیار آتا ہے ستمگر پر

بلائیں بختِ بد کیا کیا شب فرقت کی لیتا ہے

 

حنائی خندق اُس کی یاد آتی ہے جو فرقت میں

ہمارے دل میں چٹکی درد کس آفت کی لیتا ہے

 

یہاں تک خود پرستی اور خود بینی ہے اُس بت کو

مصوّر سے بھی تصویر اپنی ہی صورت کی لیتا ہے

 

کسی کی ٹھوکریں کھا کر بڑھا ہے اس قدر رتبہ

کہ جو آتا ہے وہ مٹّی مری تربت کی لیتا ہے

 

جنابِ واعظ اکثر دُون کی لیتے ہیں ممبر پر

مگر اب کوئی رند آ کر خبر حضرت کی لیتا ہے

 

نہ کیوں افسوس آئے کوہکن کی بد نصیبی پر

ہر اک مزدور اُجرت کام کی محنت کی لیتا ہے

 

شرابِ ناب ہو ہر قسم کی اے پیرِ میخانہ

پِلا کر مجھ کو پھر یہ پوچھ کس قیمت کی لیتا ہے

 

سمجھتا ہوں کہ اُس کو دیر ہو جاتی ہے برسوں کی

مرا قاصد جو مہلت ایک بھی ساعت کی لیتا ہے

 

مقابل میں پری ردیوں کے کوئی داغ کو دیکھے

یہ بن جاتا ہے دیوانہ عجب وحشت کی لیتا ہے

 

 

64

 

غم جگہ دل میں پا ہی جاتا ہے

آدمی کو یہ کھا ہی جاتا ہے

 

نہ رُکا بزمِ غیر میں آنسو

آنے والا تو آ ہی جاتا ہے

 

تلخیِ عشق کیا گوارا ہو

زندگی کا مزا ہی جاتا ہے

 

صاف دیکھی نہ بادہ خوار کی آنکھ

کچھ نہ کچھ رنگ آ ہی جاتا ہے

 

کبھی پورا ہوا نہ کام کوئی

میں نے جانا ہوا ہی جاتا ہے

 

بد گماں ہے تری طرف سے دل

کچھ نہ کچھ وہم آ ہی جاتا ہے

 

میرے سر کی قسم تجھے قاصِد

جلد تر تو بھی کیا ہی جاتا ہے

 

دیکھتا ہوں جو خوب رو کوئی

وہ تصور میں آ ہی جاتا ہے

 

تم کو گھر کس طرح سے جانے دوں

کہ مرا مدّعا ہی جاتا ہے

 

وصفِ اغیار بزم میں اُن سے

کیا کریں ہم سُنا ہی جاتا ہے

 

نامہ بر کو دیا ہے خط لیکن

دل ہمارا جُدا ہی جاتا ہے

 

رازِ دل سُن کے کیوں ہوئے برہم

جو ہے کہنا کہا ہی جاتا ہے

 

ذکرِ واعظ سے میں نے یہ جانا

حشر برپا ہوا ہی جاتا ہے

 

سچ تو یہ ہے کہ بُتکدے سے ہمیں

لے کے خوفِ خدا ہی جاتا ہے

 

سرد مہری سے بھی تری ظالم

داغ دل میں جلا ہی جاتا ہے

 

 

66

 

 

میرے پیامبر سے اُنھیں برہمی ہوئی

یارب کسی کی بات نہ بگڑے بنی ہوئی

 

دل کی لگی ہوئی بھی کوئی دل لگی ہوئی

بُجھتی نہیں بُجھائے سے ایسی لگی ہوئی

 

میت پہ میری آ کے دل اُن کا دہل گیا

تعظیم کو جو لاش مری اُٹھ کھڑی ہوئی

 

وقتِ شگافِ سینہ مکّدر جو تھا یہ دل

اُس کی چھُری بھی خاک میں نکلی بھری ہوئی

 

واعظ مئے طہور کی خواہش ہے اس لیے

دنیا میں جو شراب ہے اپنی ہے پی ہوئی

 

بچ کر نہ چلئے راہ سے میری جنابِ خضر

یہ رہروی ہوئی کہ سلامت روی ہوئی

 

سُلگائے سے سُلگتی نہیں آگ عشق کی

ایسی کچھ آج کل ہے طبیعت بجھی ہوئی

 

ہاں ہاں ذرا نگہ سے نگہ دل سے دل لڑے

یا چوٹ آپ پر ہوئی یا آپ کی ہوئی

 

سچ ہے رفیق وہ ہے جو دے آخرت کا ساتھ

بعدِ فنا نہ مجھ سے جدا بیکسی ہوئی

 

کہتا ہوں آج اور نئی اپنی داستاں

تم کو مزا نہ دے گی کہانی سُنی ہوئی

 

چکر میں بحر غم کے یہ حسرت بھرا ہے دل

گرداب میں پھنسی مری کشتی بھری  ہوئی

 

صبحِ شبِ وصال نہ تھا کوئی میرے پاس

اِک شمع ساری رات کی وہ بھی جلی ہوئی

 

خلقت کا اژدہام ہے کیوں میری قبر پر

برباد ان کی وجہ سے کیا بیکسی ہوئی

 

تم ذکر پر رقیب کے شرمائے جاتے ہو

یہ بات کہہ کے خود مجھے شرمندگی ہوئی

 

اُس بد گماں کو دے کوئی جا کر مبارکی

دشمن کے ساتھ آج مری دوستی ہوئی

 

جاتے نہیں جنازہ عاشق کے ساتھ ساتھ

کیا پاؤں میں ہے آپ کے مہندی لگی ہوئی

 

اہل عزا کو اُس نے تو دیوانہ کر دیا

جو مجھ کو رو رہے تھے اب اُن کی ہنسی ہوئی

 

کی چھیڑ چھاڑ داغ نے تم سے بُرا کیا

اب درگزر کرو کہ خطا جو ہوئی۔ ہوئی

 

 

67

 

 

دل بھی جگر بھی آتش غم سے جھلس گئے

مانند  ابر  ان پہ نہ آنسو برس گئے

 

مہماں سرائے دہر میں دس آئے دس گئے

اتنا مگر ہے فرق کہ کچھ پیش و پس گئے

 

جس وقت میں  نے توبہ کا سامان کر لیا

کچھ بادل آسمان پر آ کر برس گئے

 

کھوٹے کھرے کی عشق میں پہچان ہو گئی

اچھے ہم امتحاں کی کسوٹی پہ کس گئے

 

دلِ تنگ تر، ہجومِ غم و رنج بے شمار

اِس گھر مین جتنے آئے تھے مارے وہ بس گئے

 

رہ رو سے فرط شوق میں چھُوٹا ہے قافلہ

ہم آگے آگے مثلِ صدائے جرس گئے

 

کیوں آشیاں نہ آتشِ گل نے جلا دیا

برباد عندلیب کے سب خار و خس گئے

 

میدانِ امتحان میں نہ ٹھہرا ذرا کوئی

گو کر کے حوصلہ بُہت اہل ہوس گئے

 

لکھیں جو اور کچھ یہ ہماری مجال کیا

اتنا ہی لکھ کے بھیج دیا ہے ترس گئے

 

سب آئے اُن کی بزم سے اُن کا پتہ نہیں

کیا جانے جا کے داغ کس آفت میں پھنس گئے

 

 

68

 

 

شوخی سے قرار اُس کو کہیں دل میں نہیں ہے

یہ چاند وہ ہے جو کسی منزل میں نہیں ہے

 

کہتے ہو کوئی میرے مقابل میں نہیں ہے

دیکھو تو ذرا  غور سے اِس دل میں نہیں ہے

 

اللہ مددگار ہے رہبر ہے ہمارا

رہزن کا خطر عشق کی منزل میں نہیں ہے

 

خورشید کی مانند ہیں روشن ترے رخسار

کچھ شمع کی حاجت تری محفل میں نہیں ہے

 

اِتنے بھی ترے جلوے سے محروم ہیں آنکھیں

چلمن کی جھلک پردہ حائل میں نہیں ہے

 

بے جرم کیا قتل تو بیتاب نہ ہو گا

بسمِل کی تڑپ کیا دلِ قاتل میں نہیں ہے

 

جلتے ہیں جو پروانے تو اُف بھی نہیں کرتے

یہ صبر و تحمل تو عنا دل میں نہیں ہے

 

رگ رگ مری گردن کی پھڑکتی ہے الٰہی

افسوس کہ خنجر کفِ قاتل میں نہیں ہے

 

رکھنے دے مجھے ہاتھ کہ میں سوزِ محبت

دیکھوں تو سہی ہے کہ ترے دل میں نہیں ہے

 

جل جل کے فلک کو بھی وہیں آگ لگاتا

یہ داغ جگر کا مہِ کامل میں نہیں ہے

 

اس دام سے کاکل کے نہ نکلے گا میرا دل

جکڑا ہوا لوہے کی سلاسِل میں نہیں ہے

 

جو جس کی ہے قسمت میں وہ ملتا ہے اُسی کو

جو داغ جگر میں ہے مرے دل میں نہیں ہے

 

ظالِم وہ ترے خوف سے لب پر نہیں آتا

ہونے کو تو کیا کیا دلِ بسمل میں نہیں ہے

 

خاموش اُٹھاتا ہے یہ طوفان کے صدمے

گویا ہو یہ قدرت لبِ ساحل میں نہیں ہے

 

بیحد ہیں الٰہی درمِ داغِ محبت

قاروں کا خزانہ تو مرے دل میں نہیں ہے

 

اک رند نے صوفی سے کہا دل نہیں لگتا

رقصِ مے و مطرب تری محفل میں نہیں ہے

 

ہر رنگ میں ہے اور جدا رنگ ہے تیرا

ہر دل میں ہے تو! اور کسی دل میں نہیں ہے

 

تمکیں اُسے روکے تو کشش قیس کی کھینچے

محمِل میں ہے لیلی کبھی محمل میں نہیں ہے

 

یہ چیز عجب چیز ہے یہ لطف عجب لطف

جینے کا مزا کیا جو مزا دل میں نہیں ہے

 

ایذا طلب ایسا ہوں جو درد کسی کے

کہتا ہوں یہ افسوس مرے دل میں نہیں ہے

 

تو دل میں نہیں ہے تو مرے دل میں ہے کیا کچھ

تو دل میں ہے میرے تو کوئی دل میں نہیں ہے

 

آسان وہ کر دے گا دعا وصل کی مانگو

اے داغ یہ مشکل کسی مشکل میں نہیں ہے

 

 

69

 

وہ سُنتے ہیں جو دل سے کان رکھ کر داستاں میری

مزے لیتی ہے میرے نطق کے کیا کیا زباں میری

 

غنیمت ہے گرفتاری میں تھوڑی سی بھی آزادی

کہ پھر کر دیکھتی مجھ کو نہیں عمرِ رواں میری

 

نظر اپنی چُرا لے مجھ کو روتا دیکھ کر ورنہ

پھرے گی تیری آنکھوں میں یہ چشم خوں فشاں میری

 

لحاظ و پاس کیسا گفتگو جب دو بدو ٹھیری

نہ رُکتی ہے زُباں اُن کی نہ تھمتی ہے زباں میری

 

یہ صدمہ ہے کہیں صدمہ نہ پُہنچے دستِ قاتل کو

بُری حالت ہوئی جاتی ہے وقتِ امتحاں میری

 

یہ قسمت ہے کہ ہو شہرت کسی کی کوئی رسوا ہو

جہاں مذکور ہے اُن کا وہیں ہے داستاں میری

 

سلیقہ بات کا جب تجھ کو  اے پیغامبر آئے

ترے دل میں ہو دل میرا زباں میں ہو زباں  میری

 

لگا کر آگ وحشت سے نہ ٹھیرایا باغباں دم بھر

کہ بجلی بن گئی تھی جل کے شکلِ آشیاں میری

 

لگاوٹ کی یہ باتیں کرتی ہے کیا کیا اشاروں سے

تری چشمِ سخن گو میں بھی ہے  گویا زُباں میری

 

ہزاروں آتے جاتے ہیں کسی سے کچھ نہیں مطلب

فقط اِک چوکسی کرتا ہے اُن کا پاسباں میری

 

رقیبوں کی وفاداری کے وہ شیوے بتاتے ہیں

ہوئی ہے دوستی بھی اب نصیب دشمناں میری

 

محبت کا ہو جس دم قحط گاہک دل کے آگے ہیں

گراں ہوتا ہے جب سودا تو چلتی ہے دکاں میری

 

درِ جاناں پہ فرسودہ کیا ہے جب کیفیتِ رفتار مستانہ

تو متوالوں کی صورت لڑکھڑاتی ہے زُباں میری

 

پسند آئی تھی جو اُن کو وہی میں بات بھُولا ہوں

اب اِک اک حرف کو اُس کے ترستی ہے زباں میری

 

سُناؤں کس کو جو کچھ عمر بھر آنکھوں سے دیکھا ہے

کہ طولانی بہت ہے داغ ہاں یہ داستاں میری

 

غیر مطبوعہ اشعار یادگار داغ

 

تمہارا دل مرے دل کے برابر ہو نہیں سکتا

وہ شیشہ ہو نہیں سکتا یہ پتھر ہو نہیں سکتا

 

کسی کو چین کیا اے بندہ پرور ہو نہیں سکتا

جو تم چاہو تو ہو سکتا ہے کیونکر ہو نہیں سکتا

 

کبھی ناصح کی سُن لیتا ہوں پھر برسوں تڑپتا ہوں

کبھی ہوتا ہے مجھ سے صبر اکثر ہو نہیں سکتا

 

نہ دے وہ داد اگر میری تو یہ ہے سخت مجبوری

کہ بندے کا تو کچھ دعویٰ خدا پر ہو نہیں سکتا

 

یہ ممکن ہے کہ تجھ پر ہو بھی جائے اختیار اپنا

مگر قابو ہمارا اپنے دل پر ہو نہیں سکتا

 

جلائے گی مجھے کیا خاک یارب آگ دوزخ کی

کہ جس سے خشک میرا دامن تر ہو نہیں سکتا

 

جفائیں جھیل کر عاشق کریں معشوق کو ظالِم

وگرنہ بے سبب کوئی ستمگر ہو نہیں سکتا

 

وہ کیا کیا کوستے ہیں بیٹھ کر اپنی نزاکت کو

بپا رفتار سے اُن کی جو محشر ہو نہیں سکتا

 

تلوّن ہے طبیعت کا کہ یہ شوخی ہے طینت کی

کوئی وعدہ کا دن تجھ سے مقرر ہو نہیں سکتا

 

جفائیں داغ پر کرتے ہیں وہ یہ بھی سمجھتے ہیں

کہ ایسا آدمی مجھ کو میّر ہو نہیں سکتا

 

یہ جلسے جیتے جی کے ہیں اگر دم ہے تو سب کچھ ہے

کہ بہتر زندگی سے کوئی میلا ہو نہیں سکتا

 

 

ولہٗ

یہ تو دنیا ہے قیامت تو نہیں جو طے ہو

کفر و اسلام کا آپس میں یہ جھگڑا کیسا

 

سعی ہے شرط مگر سعی سے ہوتا کیا ہے

جب مقدر میں نہ ہو نفع تو پینا کیسا؟

 

دین و دنیا کا نہیں ہوش ہوا ہے غافل

داغؔ بے خود کا ہے یہ حال خدایا کیسا؟

 

ولہٗ

میری آنکھوں سے جو بہتے ہیں گلابی آنسو

خون دل کا نہ سہی خونِ تمنا ہو گا

 

خیر بہتر ہے رہے حشر پہ جھگڑا موقوف

ہاتھ میرا تو گریباں تمھارا ہو گا

 

ولہٗ

پروانوں کے پیروں کا ہوا ڈھیر صبح تک

زیبا ہے گر ہوں انھیں شمع لگن کے پھول

 

ولہٗ

ہو گیا ہے یادِ مژگاں میں جنوں

تنکے چنتے پھرتے ہیں صحرا میں ہم

 

ہوش اُڑا لے جائے گی اپنے پری

دیکھتے ہیں ساغر و مینا میں ہم

 

ولہٗ

مہربانی ہے کہاں ،لطف کہاں، وصل کہاں

آئے ہو  دل کو ستانے تمھیں ہم جانتے ہیں

 

اگلے وقتوں کی یہ باتیں ہیں تمھاری ناصح

تم تو ہو گھاگ پرانے تمھیں ہم جانتے ہیں

 

ولہٗ

مسیحا ہو کہ لقماں سب کی حکمت دیکھی بھالی ہے

نہ جانے جو علاج عشق مرا چارہ گر کیا ہو

 

ملا رکھا ہے اپنے سے نگہباں اور درباں کو

ہوا ہے غیر ہرجائی تمھیں ان کی خبر کیا ہو

 

ولہٗ

ہمارے ایک مشفق مٹ گئے ہیں دختر رز پر

مزاج اُس کا ہے آوارہ طبیعت لا اُبالی ہے

 

 

ولہٗ

کسے نہیں مرے پائے فگار کا صدمہ

کہ پھوٹ پھوٹ کے ہر آبلہ بھی روتا ہے

 

ولہٗ

جو داغ پر گزرتی ہے تم جانتے نہیں

روشن ہے اس کا نام سواآفتاب سے

 

ولہٗ

نہیں جمتا ہے خیال ایک حسیں پر ہر گز

کام میرے مری آشفتہ سری آتی ہے

 

اگلی سرسبزی عالم وہ بسی آنکھوں میں

خشک کھیتی بھی نظر مجھ کو ہری آتی ہے

 

داورِ حشر کا انصاف جو میں سنتا ہوں

یاد مجھ کو تری بیداد گری آتی ہے

 

نہ صبا پر ہے بھروسہ نہ مجھے قاصد پر

ہر کسی کو کہیں پیغامبری آتی ہے

 

تمھیں چہرے سے نقاب اپنے الٹ دو ورنہ

نگہ شوق کو بھی رخنہ گری آتی ہے

 

صاف کہتا ہوں ترے منہ پہ کہ تو ہے عیار

بات کھوٹی نہیں آتی ہے کھری آتی ہے

 

سانس کے ساتھ ہی داغِ دلِ افسردہ کی بو

روشنی صورت شمع سحری آتی ہے

 

اے فلک اور بھی آتا ہے کوئی کام تجھے

یا قیامت کی فقط فتنہ گری آتی ہے

 

داغ رہتا ہے اسی فکر میں غم گین و حزیں

مجھ کو کیا بات بجز بے ہنری آتی ہے

 

قطعہ

 

اب تم سے کہوں جو کچھ ہے مرے جی میں

سب تم سے کہوں جو کچھ ہے میرے جی میں

پہلے یہ کہو کہ میں نہ مانوں گا برا

جب تم سے کہوں جو کچھ ہے مرے جی میں

 

 

وہ تو ہو ہم پر اگر یہ مہرباں ہوتا نہیں

اسماں پر دوسرا کیا آسماں ہوتا نہیں

ہم وہاں پہنچیں نہ پہنچیں یہ تو پہنچے گا ضرور

ناتوانوں کا تصور ناتواں ہوتا نہیں

 

*ترکِ عادت سے مجھے نیند نہیں آنے کی

کہیں نیچا نہ ہو اے گور سرہانہ تیرا

 

*یہ اس غزل کا شعر ہے جو داغ نے سنہ 1888 میں حیدر آباد کے مشاعرے میں پہلی مرتبہ سنائی تھی اور یہ غزل اس شعر کے ساتھ دیوان مہتاب داغ میں صفحہ 14 پر طبع ہو چکی ہے (تمکین کاظمی)

 

 

70 غزلوں کے  1137 اشعار

متفرق 30 شعر

جملہ 1167 شعر

٭٭٭

ٹائپنگ: ماروا ضیاء

تشکر: ماروا ضیاء جنہوں نے فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید