FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

شیشے کی دیوار

 

                شبنمؔ رومانی

 

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

                شبنم رومانیؔ

 (آمد:۳۰/دسمبر ۱۹۲۸ء ۔  رفت:۱۷/فروری  ۲۰۰۹ء)

 

 

 

 

علقمہ کےساحل پر

 

 

جب   دکھائے  اسد  اللہ  نے  تلوار  کے  ہاتھ

خشک  پتے  نظر  آنے  لگے اغیار کے ہاتھ

 

دیکھتا  ہوں  جو  کسی  رحل  پہ  قرآنِ  کریم

چوم  لیتا  ہوں  تصور میں علمدار کے ہاتھ

 

دیکھتے   رہ  گئے  اربابِ  جفا  حیرت  سے

بک   گئے  اہلِ  وفا  سیدِ  ابرار  کے  ہاتھ

 

ایک  اک  ہاتھ  تھا  تلوار  کا صد خشتِ حرم

یوں  بھی تعمیر کیا کرتے ہیں معمار کے ہاتھ

 

ہائے   وہ   جذبِ   وفا   اُف  وہ  جنونِ  ایثار

خود َعلم ہو گئے میداں میں علمدار کے ہاتھ

 

ظلم  کی  حد  ہے  کہ ظالم بھی بلک کر رویا

کبھی ماتھے پہ تو زانو پہ کبھی مار کے ہاتھ

 

ہر    برے   کام   کا   انجام   برا   ہوتا   ہے

کس نے دیکھے ہیں بھلا کیفرِ کردار کے ہاتھ

 

گھونٹ  دیتی  ہے  گلا  وحشتِ  احساسِ  گناہ

نکل  آتے  ہیں  اچانک  درو  دیوار  کے ہاتھ

 

یوں  تو  ہوں  شاعرِ  رومان مگر اے شبنم

بک  گیا  ہوں میں کسی یارِ طرحدار کے ہاتھ

٭٭٭

 

 

 

پہیا

 

کہیں غزل

کہیں کنول

کہیں رَباب و چَنگ ہیں

کہیں بلا کشانِ زندگی حریفِ سنگ ہیں

یہ سب لہو کے رنگ ہیں

یہ رقص و نغمہ و سخن

یہ اعتبارِ فکر و فن

یہ روشنی کرن کرن

یہ پھول پھول سے بدن

یہ میری تیری آبرو، یہ میرا تیرا پیرہن

یہ پیرہن،

جو خواہشوں کے قامتوں پہ تنگ ہیں

یہ سب لہو کے رنگ ہیں

اسی لہو کی گردشوں سے

گھومتی ہے یہ زمیں

اسی لہو کو شہر شہر چومتی ہے یہ زمیں

اسی لہو کی جست ہے، زمیں سے آسمان تک

یہی لہو جدید ہے

یہی لہو قدیم ہے

یہی لہو عظیم ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یہی سلوک مناسب ہے خوش گمانوں سے

پٹک رہا ہوں میں سر آج کل چٹانوں سے

 

ہوا کے رحم و کرم پر ہے برگِ آوارہ

زمین سے کوئی رشتہ، نہ آسمانوں سے

 

میں اک رقیب کی صورت ہوں درمیاں میں مگر

زمیں کی گود ہری ہے انہی کسانوں سے

 

وہ دور افق میں اڑانیں ہیں کچھ پرندوں کی

اتر رہے ہیں نئے لفظ آسمانوں سے

 

ہر اک زبان دریچہ ہے خانۂ جاں کا

سو مجھ کو پیار ہے دنیا کی سب زبانوں سے

٭٭

 

 

تمام عمر کی آوارگی پہ بھاری ہے

وہ ایک شب جو تری یاد میں گزاری ہے

 

سنا رہا ہوں بڑی سادگی سے پیار کے گیت

مگر یہاں تو عبادت بھی کاروباری ہے

 

نگاہِ شوق نے مجھ کو یہ راز سمجھایا

حیا بھی دل کی نزاکت پہ ضرب کاری ہے

 

مجھے یہ زعم، کہ میں حسن کا مصوّر ہوں

انھیں یہ ناز، کہ تصویر تو ہماری ہے

 

یہ کس نے چھیڑ دیا رخصتِ بہار کا گیت

ابھی تو رقصِ نسیم بہار جاری ہے

 

خفا نہ ہو تو دکھا دیں ہم آئنہ تم کو

ہمیں قبول کہ ساری خطا ہماری ہے

 

جہاں پناہِ محبت جنابِ شبنمؔ ہیں

زبانِ شعر میں فرمانِ شوق جاری ہے

٭٭

 

 

سنگِ چہرہ نما تو میں بھی ہوں

دیکھئے آئینہ تو میں بھی ہوں

 

بیعتِ حسن کی ہے میں نے بھی

صاحبِ سلسلہ تو میں بھی ہوں

 

مجھ پہ ہنستا ہے کیوں ستارہ صبح

رات بھر جاگتا تو میں بھی ہوں

 

کون پہنچا ہے دشتِ امکاں تک

ویسے، پہنچا ہوا تو میں بھی ہوں

 

آئینہ ہے سبھی کی کمزوری

تم ہی کیا، خود نما تو میں بھی ہوں

 

میرا دشمن ہے دوسرا ہر شخص

اور وہ دوسرا تو میں بھی ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

میرے پیار کا قصہ تو ہر بستی میں مشہور ہے چاند

تو کس دھن میں غلطاں پیچاں، کس نشّے میں چور ہے چاند

 

تیری خندہ پیشانی میں کب تک فرق نہ آئے گا

تو صدیوں سے اہلِ زمیں کی خدمت پر مامور ہے چاند

 

اہلِ نظر ہنس ہنس کر تجھ کو ’’ماہِ کامل‘‘ کہتے ہیں !

تیرے دل کا داغ تجھی پر طنز ہے اور بھر پور ہے چاند

 

تیرے رخ پر زردی چھائی میں اب تک مایوس نہیں

تیری منزل پاس آ پہنچی، میری منزل دور ہے چاند

 

کوئی نہیں ہمراز تمنا، کوئی نہیں و مسازِ سفر

راہِ وفا میں تنہا تنہا چلنے پر مجبور ہے چاند

 

عشق ہے اور کانٹوں کا بستر، حسن ہے اور پھولوں کی سیج

تجھ کو کیسے سمجھاؤں یہ دنیا کا دستور ہے چاند

 

تیری تابش سے روشن ہیں، گل بھی اور ویرانے بھی

کیا تو بھی اس ہنستی گاتی دنیا کا مزدور ہے چاند؟

٭٭

 

 

 

لمحوں کا پتھراؤ ہے مجھ پر، صدیوں کی یلغار

میں گھر جلتا چھوڑ آیا ہوں دریا کے اُس پار

 

کس کی روح تعاقب میں ہے سائے کے مانند

آتی ہے نزدیک سے اکثر خوشبو کی جھنکار!

 

تیرے سامنے بیٹھا ہوں، آنکھوں میں اشک لئے

میرے تیرے بیچ ہو جیسے شیشے کی دیوار

 

میرے باہر، اتنی ہی مربوط ہے میری بے ربطی

میرے اندر کی دنیا ہے جتنی پر اسرار

 

بند آنکھوں میں کانپ رہے ہیں سب ان دیکھے خواب

سر پر جھول رہی ہے کیسی نادیدہ تلوار

٭٭

 

 

 

اپنی مجبوری کو ہم دیوار و در کہنے لگے

قید کا ساماں کیا اور اس کو گھر کہنے لگے

 

درج ہے تاریخِ وصل و ہجر اک اک شاخ پر

بات جو ہم تم نہ کہہ پائے، شجر کہنے لگے

 

خوف تنہائی دکھاتا تھا عجب شکلیں سو ہم

اپنے سائے ہی کو اپنا ہمسفر کہنے لگے

 

بستیوں کو بانٹنے والا جو خط کھینچا گیا

خط کشیدہ لوگ اس کو رہگزر کہنے لگے

 

اول اول دوستوں پر ناز تھا کیا کیا ہمیں

آخر آخر دشمنوں کو معتبر کہنے لگے

 

دیکھتے ہیں گھر کے روزن سے جو نیلا آسمان

وہ بھی اپنے آپ کو اہلِ نظر کہنے لگے

٭٭

 

 

کون سا رنگ اختیار کریں ؟

خود کو چاہیں کہ تجھ سے پیار کریں ؟

 

بھیڑ میں جو بچھڑ گئے ہم سے

شام ڈھلنے کا انتظار کریں

 

پتھروں سے معاملہ ٹھہرا

سرکشی کیوں نہ اختیار کریں ؟

 

روشنی کا یہی تقاضا ہے

میرے سائے مجھی پہ وار کریں

 

گُم ہے تنہائیوں میں شہر کا شہر

کیسے ان جنگلوں کو پار کریں

 

جب حقیقت بھی خواب ہو شبنمؔ

کیوں نہ خوابوں کا اعتبار کریں

٭٭٭

 

 

 

 

عورت کیا ہے؟

 

 

عورت کیا ہے؟ زلفِ صنوبر! ——- کب تک زلف نہ جھولا جھولے گی ساون کی جھڑیوں میں؟

عورت کیا ہے؟ بوئے گل تر! ——- کب تک قید رہے گی بوئے گل نازک پنکھڑیوں میں؟

عورت کیا ہے؟ ساز کی دھڑکن! —- کب تک دھڑکن بند رہے گی ساز کی سیمیں تاروں میں؟

عورت کیا ہے؟پیار کی جوگن!—– کب تک پیار کی جوگن یوں رُسوا ہوگی بازاروں میں؟

عورت کیا ہے؟ مے کیا پیالہ! —— کب تک اس کی تلخی کو تفریحاً چکھا جائے گا؟

عورت کیا ہے؟ دیپ اُجالا! —— کب تک آخر اس کو تاریکی میں رکھا جائے گا؟

عورت کیا ہے؟ دامن گلچیں! —- کب تک گل چیں کے دامن کی سوئی آگ نہ جاگے گی؟

عورت کیا ہے؟ تن پرچھائیں! —- کب تک یہ پرچھائیں تن کے پیچھے پیچھے بھاگے گی؟

عورت کیا ہے؟ نیند کی داعی! — کب تک نیند بھری آنکھوں میں‌ آنسو مرچیں جھونکیں گے؟

عورت کیا ہے؟سندر راہی! —— کب تک رہزن اس راہی کے دل میں‌ خنجر بھونکیں گے؟

عورت کیا ہے؟جنسِ محبت! —– کب تک جنسِ محبت کو یوں گاہک دیکھیں بھالیں گے؟

عورت کیا ہے؟ روپ کی دولت! — کب تک روپ کے ڈاکو اس دولت پر ڈاکے ڈالیں گے؟

عورت کیا ہے؟رُت البیلی! —– لیکن اس البیلی رُت کے من کا اُجالا کوئی نہیں!

عورت کیا ہے؟ایک پہیلی! —- لیکن یہ رنگین پہیلی بوجھنے والا کوئی نہیں!

عورت کیا ہے؟ اک کم عقلی! —– لیکن اب کم عقلی اور دانش میں ٹھنتی جاتی ہے!

عورت کیا ہے؟ ایک کمزوری! —— لیکن اب یہ کمزوری اک طاقت بنتی جاتی ہے!

عورت کے دل کو پہچانو! ——— شبنم! جیسے دل میں انگاروں کی دنیا سوتی ہے!

عورت کو مجبور نہ جانو! ——- ہر مجبوری کی اے یارو! آئینہ اک حد ہوتی ہے!

٭٭٭

 

 

 

سخن بے لفظ و بے منظر ہے کیسا

یہ سنّاٹا مرے اندر ہے کیسا

 

بناتا ہے فقط اپنی شبیہیں

ہمارے عہد کا آزر ہے کیسا

 

ہر اک چہرے پہ ہیں دوہری نقابیں

دھواں اس شہر کے اندر ہے کیسا

 

ہماری ڈور کس کے ہاتھ میں ہے

خرد مندو! یہ "پتلی گھر” ہے کیسا

 

میں بے زر، بے ضرر، تنہا مسافر

تعاقب میں مرے لشکر ہے کیسا

٭٭٭

 

 

 

 

آخرِ شب جو بہم صبح کے اسباب ہوئے

حملہ آور مری آنکھوں پہ مرے خواب ہوئے

 

تشنگی بھی تو ہے اِک سیلِ بلا کی صورت

بستیاں غرق ہوئیں، خشک جو تالاب ہوئے

 

اب نہ آئیں گے کبھی قحطِ وفا کی زد میں

وہ علاقے مرے اشکوں سے جو سیراب ہوئے

 

خواب دیکھے تھے بہت، جنتِ گم گشتہ کے خواب

تجھ کو دیکھا تو مجسم مرے سب خواب ہوئے

 

میں نے اک روز نظر بھر کے تجھے دیکھا تھا

پھر تو اس نشّے کے عادی مرے اعصاب ہوئے

 

داغِ رسوائی نہیں تمغۂ اعزاز ہے یہ

تری نسبت کی قسم ہم بھی خوش القاب ہوئے

 

یاد آیا ہے بہت شاہ جہاں پور ہمیں

بعد مدّت کے جو ہم واردِ پنجاب ہوئے

٭٭٭

 

 

 

 

اک طنز بھی نگاہِ سخن آفریں میں تھا

ہم پی گئے ، مگر یہ سلیقہ ہمیں میں تھا

 

اُس چشم و لب کے باب میں کیا تبصرہ کروں

اک بے پناہ شعر غزل کی زمیں میں تھا

 

خوشبو کسی طرح بھی نہ آئی گرفت میں

کیا حسنِ احتیاط مرے ہم نشیں میں تھا

 

کوزہ بنا رہے تھے جو مٹّی بھرے یہ ہاتھ

پہنچا ہوا میں اور کسی سر زمیں میں تھا

 

کل شب گِھرا ہوا تھا میں دو دشمنوں کے بیچ

اک سانپ راستے میں تھا، اک آستیں میں تھا

 

ہر سنگِ میل پر یہی گزرا مجھے قیاس

زندہ گڑا ہوا کوئی جیسے زمیں میں تھا

٭٭٭

 

 

 

 

پیش کرتی ہے عجب حسن کا معیار غزل

لے اُڑی ہے ترا لہجہ، تری گُفتار غزل

 

دو دھڑکتے ہوئے دل یوں دھڑک اُٹھّے اک ساتھ

جیسے مِل جُل کے بنا دیتے ہیں اشعار غزل

 

کوئی شیریں سخن آیا بھی، گیا بھی لیکن

گنگناتے ہیں ابھی تک در و دیوار غزل

 

میں تو آیا تھا یہاں چَین کی سانسیں لینے

چھیڑ دی کس نے سرِ دامنِ کہسار غزل

 

مریمِ شعر پہ ہیں اہلِ ہوَس کی نظریں

فتنۂ وقت سے ہے بر سرِ پیکار غزل

 

تو نے خط میں مجھے "سرکارِ غزل” لکھا ہے

تجھ پہ سو بار نچھاور مری سرکار، غزل

 

گھر کے بھیدی نے تو ڈھائی ہے قیامت شبنم

کر گئی ہے مجھے رسوا سرِ بازار غزل

٭٭٭

 

 

 

 

خواب دیکھوں کہ رتجگے دیکھوں

وہی گیسو کُھلے کُھلے دیکھوں

 

کیوں نہ دیکھوں میں روز و شب اپنے

کیوں پہاڑوں کے سلسلے دیکھوں

 

میں سمیع و بصیر ہوں ایسا

سنُوں آنسو تو قہقہے دیکھوں

 

حال۔۔۔۔اک لمحۂ گریزاں ہے

مُڑ کے دیکھوں کہ سامنے دیکھوں

 

تجھ کو چھونے بڑھوں تو ہاتھ اپنے

پتھروں میں دبے ہوئے دیکھوں

 

میرا چہرہ بھی اب نہیں میرا

اب کن آنکھوں سے میں تجھے دیکھوں

٭٭٭

جریدے ’دستاویز‘ قطر کی فائل اور انٹر نیٹ کے مختلف مآخذ سے

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید