FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

شہرِ دوستاں

 

(چوتھا مجموعۂ کلام)

 

دشمنوں کی بستیوں میں خاک کیوں چھانیں شکیلؔ

آزمانے کو یہ شہرِ دوستاں بھی کم نہیں

 

اطہر شکیلؔ نگینوی

 

 

 

 

انتساب

 

راحتِ قلب و نظر تم ہو، تشفّی بھی تمہی

اور تم میرے لیے وجہِ پریشانی بھی ہو

 

اس خاموش اور پُر امید چلتی پھرتی تصویر کے نام کہ جس کی نیک خواہشات میری آرزوئے حیات کو ہر دن اُمید کی نئی کرن عطا کرتی ہیں۔

۲۳؍ فروری ۲۰۰۳ء کو میری زندگی میں شریک ہو کر جس نے اپنا نام ترنم صدیقی سے ترنم شکیلؔ کر لیا۔

ترنم کی رفاقت نے مجھے جہاں زندگی میں جد و جہد کرنے کا حوصلہ دیا وہیں ایک معصوم مگر انتہائی سمجھدار بیٹی اقراء شکیلؔ اور ایک بہت ہی سادہ و معصوم سا بیٹا مدثّر شکیلؔ جو آج میری شب و روز کی تگ و دو کا سبب ہیں۔ میرے لیے اللہ سے مانگ لیے۔ اور آج یہ تینوں ہی میرے لیے جہدِ مسلسل کا سبب ہیں۔

 

اطہر شکیلؔ

 

 

 

 

اطہر شکیلؔ

 

قیصر خالد

 

میری آنکھوں کو کوئی خواب سنہرا دینا

ہو سکے تم سے تو احساس کو چہرہ دینا

 

سخنوری تہذیب کی زندہ علامات میں سے ایک نہایت ہی پرکشش اور دل آویز علامت ہے۔ یہ وہ جامِ شوق ہے جس کی کیف آگیں ملاحت اور پرُاسرار سوز و گداز کے تکلف میں نہ جانے کتنے ہی باصلاحیت تخلیق کار گرفتار ہوئے۔ یہ وہ ہنرِ فرہادی ہے جو کہ اپنے محبوب کی تمنا میں شاعر کو اپنے آپ سے بھی بے خبر کر دیتا ہے۔ مگر یہیں جا کر آگہی کے دروازے کھلتے ہیں اور شاعر اپنے وجود کے کرب کو محسوس کرتا ہے۔ پھر وہ اندوختہ مشق سخن لیے اپنی اس منزل کی طرف روانہ ہو جاتا ہے جہاں اس کی شناسائی اس کائنات کے راز و نیاز سے بھی ہوتی ہے اور اس کی حسی کیفیت اتنی بالغ ہو جاتی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے درد بلکہ کائنات کے درد سے بھی آگاہ ہو جاتا ہے۔ یہ وہ فکری سطح ہے جہاں جا کر ایک با شعور شاعر اپنی تخلیقات کی خامہ فرسائی کرتا ہے۔ بقول غالب ؎

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں

غالبؔ صریر خامہ نوائے سروش ہے

اب یہاں اطہر شکیل کے کچھ اشعار دیکھئے ؎

کسی سے شکایت، گلہ کیا کروں

نہیں پہلے جیسی فضا کیا کروں

زمانے کو اس کی ضرورت نہیں

یہ جنسِ خلوص و وفا کیا کروں

وہ سب جانتا ہے مسائل مِرے

بہت بار سوچا دعا کیا کروں

سوالات کا ایک دفتر لیے

اکیلا ہوں روزِ جزا کیا کروں

عیاں تجھ پہ ہے میری ہر آرزو

میں اپنی زباں سے ادا کیا کروں

 

ابنِ آدم ہوں، آدمی نہ کہو

سانس لینے کو زندگی نہ کہو

دل میں دیکھو کہ نوٗر کتنا ہے

ہر اجالے کو روشنی نہ کہو

راستے کی دعا، سلام، مِلن

رسمِ دنیا کو دوستی نہ کہو

 

جدید اردو شاعری کا اگر منصفانہ جائزہ لیا جائے تو اس دور میں جن شعرا میں یہ تمام صلاحیتیں بہ درجہ اتم پائی جاتیں ہیں ان میں اطہر شکیلؔ کا نام بہت نمایاں ہے۔ موصوف کی پیدائش ۲۸؍ اپریل 1968 کی نگینہ ضلع بجنور اتر پردیش کی ہے۔ نا مساعد حالات کے باوجود ایک متجسس اور علمی ذہن و دماغ کی دولت سے مالامال ہونے کی وجہ سے نہ صرف کہ ایم اے تک کی پڑھائی آگرہ اوپن یونیورسٹی سے امتیازی کامیابی سے مکمل کی بلکہ علم دین کا بھی گہرا مطالعہ کیا جس کی جھلک ہمیں ان کے کلام میں اخلاقی قدروں کی خاطرخواہ پیوستگی سے ملتی ہے۔

اطہر شکیلؔ کم سنی ہی میں شاعری کے عشق میں گرفتار ہو گئے۔ عموماً یہ وہ وقت ہوتا ہے جب لوگ اپنے بستے سنبھالتے اپنے بورڈ کے امتحان کے متعلق خدشات میں اپنی را توں کی نیند اور دن کا سکون تج دیتے ہیں۔ مطالعہ سے جنون کی حد تک لگاؤ اور بحث و مباحثہ کا بے انتہا شوق اور اس کے طفیل میں مزید مطالعہ کی ضرورت، وہ محرکات تھے جنہوں نے ایک سے ایک نامساعد حالات میں بھی ان کے کسب علم کے سفر کو جاری رکھنے کے لئے انہیں پیہم آمادہ رکھا۔ شروع میں شعر گوئی کو خلل دماغ سمجھ کر اس سے کنارہ کشی کی کوشش بھی کی مگر بقول غالبؔ ؎

عشق پر زور نہیں، ہے یہ وہ آتش غالبؔ

جو لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے

سو دل کے ہاتھوں مجبور ہوئے اور شاعری شروع کر دی۔ جیسا کہ دستور ہے کہ ایک استاد کی ضرورت محسوس ہوئی اور یہ وہی وقت تھا کہ جب آدمی اپنی انا کی محبت میں مثل معشوق گرفتار بھی ہوتا ہے۔ سو ٹھوکریں کھائیں اور اس درجہ ٹھوکریں کھائیں کہ شاعری سے بھی بد دل ہو بیٹھے، مگر دستور عمل وہی رہا کہ فکر شعر چھن چھن کر یوں روح میں تحلیل ہو رہی تھی کہ محبوب کی گلی میں پابجولاں حاضر ہو گئے مگر اب کہ بت کدہ کوئی اور ہی تھا۔ موصوف مرحوم نشتر خانقاہی کے شاگرد ہو گئے۔ یہاں آ کر ان پر ذات و صفات کے وہ راز کھلے اور ایسی تربیت ہو گئی کہ دور حاضر کے منصور صفت ہو گئے۔ سو شاعری بھی نکھر گئی، تنقیدی بصیرت بھی آئی اور سچ کو منہ پہ کہہ دینے کا ہنر بھی۔ مگر یہ بات نہ سمجھ سکے کہ نشتر کے دور سے ہی بلکہ اس کے بہت پہلے سے زمانے کا چلن بدل گیا ہے۔ اب شعرا کی اکثریت تنقید کی قائل نہیں رہی بلکہ ادبی تنقید کرنے والوں کو پہلے مشاعروں سے باہر کرتی ہے اور پھر ناقد کی بربادی پر جشن و مشاعرے کا انعقاد کرتی ہے۔ مگر اطہر مردِ مجاہد کی طرح اپنی ڈگر پر قائم رہے۔ جدید زمانے کی قید و بند کی صعوبتیں بھی اٹھائیں حتی کہ فاقے بھی کئے مگر راہِ حق کو نہیں چھوڑا۔ بالآخر ان کی محنت رنگ لائی اور معتبر حلقوں میں ان کی عزت اور پذیرائی ہونے لگی ؎

فصیل سنگ ہے یہ اس میں دَر کیا جائے

یہ وقت وہ ہے کہ میدان سَر کیا جائے

 

عمل نہیں تو دھلیں گے نہ داغ، دامن کو

ہزار اشکِ ندامت سے تر کیا جائے

 

سفر میں راستہ بھٹکے تھے جس مقام سے ہم

اسی جگہ سے شروعِ سفر کیا جائے

 

پرائے پیروں سے کب تک چلیں گے اطہرؔ ہم

خود اپنے پاؤں سے اب تو سفر کیا جائے

اطہر شکیل انسانی جذبوں کی سچائی کے شاعر ہیں۔ سو وہ ایسی بات کہنے میں یقین رکھتے ہیں جو کہ جذبۂ محض نہ ہو بلکہ اس کے حوالے انسانی ارتقاء کا وہ سفر پیشِ نظر لایا جائے جس میں ایک فطری بصیرت بھی ہو ؎

میری آنکھوں کو کوئی خواب سنہرا دینا

ہو سکے تم سے تو احساس کو چہرہ دینا

دیکھئے ترکِ تعلق کہ نہ چھوڑا اس نے

اپنے مقصد کے لیے میرا حوالہ دینا

کیا مناسب ہے مسائل سے نپٹنے کے لیے

خاک کے مول بزرگوں کا اثاثہ دینا

تم کو کرنا ہے ہر اک دل کو منوّر اطہرؔ

تم اندھیرے میں یہاں سب کو اجالا دینا

 

چاہ کر بھی وہ سستی جذباتیت کی شاعری نہیں کر سکتے کیوں کہ وہ جبلی طور سے انسان کے اخلاقی اقدار کی گلو کاری یا اداکاری سے تجارت کے خلاف ہیں ؎

شعر کی روح تو ہے فنکاری

نثرِ سادہ کو شاعری نہ کہو

ان کے شعوری منظر نامے پر شاعری ایک ابدی ودیعت ہے جس کا حق ادا کرنا شاعر کی ذمہ داری بھی ہے اور اس کا سب سے بڑا چیلینج بھی۔ اسی لئے اطہر کی شاعری انسانی شعور و ادراک کی وہ آواز ہے جس میں اخلاقی قدریں گہر خفیہ کی طرح بنی گئی ہیں ؎

 

عشق ہے دل میں تو وحشت کی فراوانی بھی ہو

دشت کی آوارگی ہو، چاک دامانی بھی ہو

راحتِ قلب و نظر تم ہو تشفّی بھی تمہی

اور تم میرے لیے وجہ پریشانی بھی ہو

کم سے کم یہ فون ہی کا سلسلہ باقی رہے

ہجر مشکل ہے مگر اس میں کچھ آسانی بھی ہو

دل دعا گو ہے شکیلؔ آخر کہ اس کی طبع میں

ہوشیاری ہی نہیں تھوڑی سی نادانی بھی ہو

 

محبت کا عنواں فسانے کو دے

نیا ایک منظر زمانے کو دے

روایت کو اب سنگ باری کی چھوڑ

کوئی پھول لا کر دِوانے کو دے

سمجھتا ہوں حیلے کے پیچھے کا سچ

صداقت نہ اپنے فسانے کو دے

 

یہ اشعار ہمیں فکر کے اس درجہ پر لے جاتے ہیں جہاں ہم اپنے سفر کے مقاصد اور عزائم سے نہ صرف کہ دو چار ہوتے ہیں بلکہ اس پر سوچنے کے لئے مجبور بھی ہو جاتے ہیں ؎

 

ہو یقیں کتنا ہی چاہے پر گماں بھی کم نہیں

یہ خسارہ کم نہیں ہے، یہ زیاں بھی کم نہیں

کون کہتا ہے کہ میدانِ عمل چھوٹا ہوا

یہ زمیں بھی کم نہیں ہے، آسماں بھی کم نہیں

جاں نثاری کی نہ اس کی غیریت کی کوئی حد

مہرباں وہ کم نہیں، نا مہرباں بھی کم نہیں

تیرنا دریا میں ہے، دامن بھگونا ہے خطا

اے خدا! یہ امتحاں، یہ امتحاں بھی کم نہیں

دشمنوں کی بستیوں میں خاک کیوں چھانیں شکیلؔ

آزمانے کو یہ شہرِ دوستاں بھی کم نہیں

 

اطہر شکیلؔ زندگی کے شاعر ہیں اور اس کے تجربات سے ٹھوکریں بھی کھاتے ہیں اور فیض یاب بھی ہوتے ہیں۔ زندگی سے ان کا یہ لگاؤ ہمیں امیدوں کی سجی سجائی کائنات کے حوالے سے بھی ملتا ہے اور عہد جدید کے مختلف پہلوؤں کے اکتساب سے بھی۔ سو انسان دوستی اور انسان شناسی ان کی شاعری میں بار بار نظر آتی ہے۔ انسان کا ارتقا اس بات پر منحصر ہے کہ وہ ناموافق حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرے اور امید کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دے۔ یہیں سے کامیابی کی داغ بیل پڑتی ہے۔ ایک بالغ ذہن اس فعل کا بار بار ارتکاب کر نہ صرف کہ ذہنوں کو ایک صحت مند مواد فراہم کرتا ہے بلکہ وہ غم آشنائی کی تربیت بھی کرتا ہے۔ وہ پسپائی کے خلاف علم انسانیت بلند کر دعوت عمل دیتا ہے اور ذہنوں کی تربیت اس انداز میں کرتا ہے کہ ہم تو شاعری کا مزہ لیتے ہیں مگر ہمارا لاشعور قنوطیت سے دور ہو کر فعال مثبت فکر کو اختیار کر لیتا ہے۔ اسی لئے یہ شاعری ہمیں سکون بھی دیتی ہے اور دعوتِ عمل بھی ؎

 

نیّت ہو اگر نیک تو دیتا ہے خدا بھی

کرتے ہیں عمل لوگ تو مِلتا ہے صلہ بھی

پھر زمانے کے تھپیڑو! آؤ ٹکراتے ہیں ہم

میں ابھی ٹوٹا نہیں ہوں، میں ابھی بکھرا نہیں

 

اطہر کا کلام اخلاقیات اور مذہب کی سوندھی خوشبو تو لئے ہے مگر یہ کسی خطیب کا بیان نہیں۔ اس میں مذہب اعلیٰ انسانی قدروں کی شکل میں ڈھل آتا ہے جو کہ ہماری سیکڑوں سالوں کی فکری تربیت کا آئینہ بھی ہے اور ہمارے گھروں کی ثقافت بھی۔ اسی لئے یہ کسی خصوصی فکر کا نامہ بر نہیں ہے بلکہ یہ وہ صدائے بلند ہے جو کہ اچھائی کی دعوت فکر اور پامال راستوں پر جانے والوں کے لئے اعلان غور ہے۔ یہ ان اخلاقی قدروں کا نمائندہ ہے جنہیں ہم عمومی طور سے مشرق کی تہذیب کے نام سے پکارتے ہیں ؎

 

بے خبر ہیں سب اپنی ہی پہچان سے

دیکھنے میں تو لگتے ہیں انسان سے

ہے تجھے یاد کرنے کی خواہش بہت

دل جو غافل کبھی ہو تِرے دھیان سے

دل میں شفقت ہو، چاہت ہو، اخلاص ہو

گھر کا مطلب نہیں ساز و سامان سے

یوں سرِ راہ ان سے تقابل ہوا

جیسے ملتا ہو انجان انجان سے

دشمنی کا کوئی داؤ کاری نہیں

جیت لیتے ہیں دشمن کو احسان سے

گھر سے باہر تو تھے مطمئن مطمئن

گھر میں اطہرؔ ملے ہیں پریشان سے

 

اطہر عشق سے بلا کا عشق رکھتے ہیں۔ محبوب کے سامنے ان کی رگ پھڑکتی ہے اور وہ جذبے کا اظہار متانت اور دیانتداری سے کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ انسان عشق کی پیداوار ہے اور یہی جذبہ اس کی جبلت کا ناقابل تقسیم حصہ بھی ہے۔ سو جیسا کہ والد میرؔ نے میر تقی میرؔ کو نصیحت کی تھی بیٹا عشق اختیار کر سو اطہر کی راہ بھی وہی ٹھہری۔ مگر ان کا عشق مشرقی ہے۔ یہ تہذیب کا پروردہ ہے اور اپنی بات اس سلیقے سے رکھنے کا ہنر جانتا ہے کہ بعض جدید ذہنوں کو کبھی کبھی اس کی ناکامی کا مکمل یقین بھی ہو سکتا ہے مگر شائستگی جنسیت پر غالب آتی ہے اور عشق صرف انسانی اختیاری فعل نہ رہ کر محسوسات اور ادراک کے اس دائرے میں داخل ہو جاتا ہے جہاں بالآخر اس کا سفر مجازی سے حقیقی کی جانب ہونے لگتا ہے ؎

 

یاد اس چاند سے چہرے کی سدا آتی ہے

کیسی چھن چھن کے مِرے دل سے ضیا آتی ہے

وہ نہیں پاس مِرے، کون ہے، پھر کون ہے یہ

کس کی آخر مِرے کانوں میں صدا آتی ہے

 

یہی اطہر کا کمال بھی ہے اور ان کے فن کا معیار بھی کہ دل کی خلش کو جذبات اور کیفیات کی ایک ایسی قوس و قزح میں ڈھال دیتے ہیں کہ قاری اس احساس میں خود کو شامل پاتا ہے اور یہی ان کی انفرادیت کی پہچان بھی بن جاتی ہے۔ وہ تجربات کی ترسیل میں ان چنندہ الفاظ، محاورات اور روزمرہ کو استعمال کرتے ہیں کہ پڑھنے والا ایک لمحے کے لئے بھی اپنے آپ کو ان حالات اور کیفیات سے الگ نہیں پاتا۔ بلاشبہ یہ ایک بڑی اور اچھی شاعری کی دلیل ہے ؎

گونجتی ہے اک اکیلے ہنس کی آواز کیوں

کل مِلے تھے جن پہ ہم ان ساحلوں سے پوچھنا

 

ہجر کی رُت ہے تِرا رُوپ مگر سامنے ہے

ہاں وہی چہرہ، وہی دیدۂ تر سامنے ہے

 

درد اطہر کے وجود کا ان مٹ حصہ رہا ہے، جیسا کہ ان کے کوائف کے بیان میں پہلے بھی آ چکا ہے مگر یہ درد قنوطیت پیدا نہیں کرتا ہے۔ یہ تو انسانی تجربات کی وہ کشید ہے جس کو انسانی جد و جہد کے سمندر کے منتھن کے بعد ملنے والے امرت سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ یہ درد ان کے رگ و پے میں سرایت کر چکا ہے مگر گہرے جذباتی ادراک کی صورت میں۔ درد کائنات کا جزو لازم تو ہے مگر اسے خندہ پیشانی سے قبول کرنے سے اس میں رواداری کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور یہ ایک قدر مشترک کی صورت میں تمام عالم انسانیت کو ایک دھاگے میں باندھ دیتا ہے۔ ایک دوسرے کے لئے ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے اور ہمارا وجود ایک دوسرے کے وجود سے یوں بندھ جاتا ہے جیسے کہ ایک گٹھر میں بندھی لکڑیاں۔ الگ الگ ہم سبھی کمزور اور قابل تشدد و قابل تضحیک ہیں جبکہ اتحاد ہمیں ایک مضبوط مستقبل کی ضمانت دیتا ہے ؎

ایک معمّہ ہے جسے میں آج تک سمجھا نہیں

کون ہے جس سے یہاں میرا کوئی رشتہ نہیں

 

سب نے کانٹوں ہی پہ چل کر پائی ہے منزل یہاں

کامیابی کے سفر میں تو کوئی تنہا نہیں

 

وقت کے بدلے ہوئے رخ نے پناہیں چھین لیں

ہم پسِ دیوار بیٹھے ہیں مگر سایہ نہیں

تاجرانہ ذہنیت لے کر مِلا کرتے ہیں لوگ

اب کسی کا بھی کسی سے بے غرض رشتہ نہیں

 

کبھی پرواز کرنے کو جو ہم شہپر اٹھاتے ہیں

تو بازو کاٹنے کو دوست ہی خنجر اٹھاتے ہیں

زمانہ کس کی لغزش کب نظر انداز کرتا ہے

وہ محسن ہیں تِرے جو انگلیاں تجھ پر اٹھاتے ہیں

چلن ہے جھوٹ کا ایسا کہ اب تو لوگ دنیا میں

ذرا سچ بولیے تو آسماں سر پر اٹھاتے ہیں

صداقت آشکارا کس طرح ہو گی یہاں اطہرؔ

مورخ بھی حقیقت سے قلم بچ کر اٹھاتے ہیں

 

اطہر انسانی قدروں کے قائل ہیں اور ان کے ٹوٹنے اور بکھرنے سے پیدا شدہ سماجی انتشار کی بھر پور نمائندگی ان کے کلام میں ملتی ہے۔ وہ طنز سے بھی کام لیتے ہیں مگر متانت کے پیرائے میں۔ دور حاضر کا سماجی اور سیاسی شعور ان کے کلام کی خصوصیت ہیں مگر جو بات ان کو اوروں سے ممتاز کرتی ہے وہ ہے ان کی تاریخی بصیرت جو کہ ان کے کسب علم کی بھی دلیل ہے اور ذمہ دارانہ انداز میں بات کو رکھنے کا ہنر بھی۔ آج جب کہ بیشتر ہندوستانی شعرا اپنے کلام کا استعمال سماجی نا برابری، انتشار اور قنوطیت کی تشہیر اور تجارت میں کر رہے ہیں اور اس سے سماج میں اشتعال اور کم فہمی کی فضا ہموار کر رہے ہیں اطہر اپنی دانشمندی کا استعمال جراحی کے لئے کرتے ہیں۔ وہ آئینہ تو دکھاتے ہیں مگر طبیعت کو مکدر نہیں کرتے بلکہ سنجیدگی سے غور و خوض کی دعوت دیتے ہیں۔ اسی لئے ان کی شاعری میں دیر پائی کی تاثیر پائی جاتی ہے۔ ان کا آج، کل سے ہم آہنگ ملتا ہے اور اس میں ایک احتسابی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ؎

اب غم کو ہم نے تیری عنایت سمجھ لیا

چاہت کو زندگی کی ضرورت سمجھ لیا

 

ریشم سے نرم لہجے کے پیچھے مفاد تھا

اس تاجری کو ہم نے شرافت سمجھ لیا

اطہر پر اثر زبان و بیان میں یقین رکھتے ہیں جو ضرورت کے اعتبار سے بدلتی رہتی ہے۔ کبھی یہ خالص ٹکسالی ہوتی تو کبھی کبھی یہ فارسی کے قریب تر، مگر مجال ہے کہ لفظ اپنے اصلی معنوں سے ذرا بھی ہٹ جائے۔ یہ وہ عمل ہے جو کہ صرف استادوں کے حصے میں آتا ہے۔ اسی لئے ان کا کلام مستند ہے۔ اس میں حسن ہے اور یہ زبان و بیان کی سطح پر نئے تجربات کی دعوت دیتا ہے۔ شیریں بیانی ان کے کلام کا وہ جوہر ہے جو ان کو پڑھنے اور سننے دونوں میں عیاں ہے۔ ان کا ترنم دلکش اور اثر انگیز ہے جس کی وجہ سے ان کو عوام کی فرمائش پر اکثر ترنم ہی میں سنا جاتا ہے ؎

 

جو انکار سر کے جھکانے کو ہے

گلہ ہم سے سارے زمانے کو ہے

نیا اک المیہ، نئی ابتلا

خدا بھی ہمیں آزمانے کو ہے

میسّر ہے ہر دلعزیزی اسے

مروّت بھی اس کی دکھانے کو ہے

یہ قصہ ہے دل کا نہ ہو گا تمام

ابھی اور کتنا سنانے کو ہے

 

مجموعی طور پر اطہر شکیل کی شاعری کا مطالعہ ذہن و دل کو سکون بخش کر بیان و فکر کے نئے ابو اب سے ہمیں آشنا کرتا ہے۔ یہ ہمارے ذہنی اور منطقی تشنگی کو آسودگی فراہم کرتا ہے اور عمل پیہم کی ترغیب بھی دیتا ہے۔ یہ قنوطیت سے ہمیں نکال کر بالغ نظری کی آبیاری کر کے ہمارے کردار کو فعال بناتا ہے۔ یہ ہمارے تجربات کو زبان عطا کر اسے فکری بلندی سے ہم آہنگ کرتا ہے اور ہمارے آج کو ہمارے کل سے جوڑ کر ایک تاریخی تسلسل کے احساس میں ہمیں شامل کرتا ہے جہاں ہمارے دکھ، ہمارے درد، ہمارے غم، ہمارے کرب صرف ہمارے ذاتی محسوسات نہ رہ کر ایک وسیع تر انسانی تہذیب کی قدریں بن جاتے ہیں، اس درد کے سمندر کے جو کنارے ہیں وہاں بنی آدم کی بقا کے ٹھکانے بھی ہیں اور آسودگی کی وجوہات بھی۔ مگر یہ سفر پیہم قربانئ دل و جاں، جد و جہد اور اخلاقی قدروں کی اساس چاہتے ہیں اور یہی وہ منظر نامہ ہے جس کے مصور اور خالق اطہر شکیلؔ ہیں ؎

 

ریت کا تپتا ہوا میدان، صحرا سامنے

سائباں کوئی میسر ہے نہ سایہ سامنے

بٹ گیا ہوں اس طرح دنیا کے اور عقبیٰ کے بیچ

دل کہ ہے محوِ عبادت، فکرِ دنیا سامنے

زندگی بھر یوں لگا چھوٹے سے اک ٹاپو پہ ہوں

ایک دریا پشت پر ہے، ایک دریا سامنے

سہل مجھ پر ہو گئی ہے اس طرح ہجراں کی شب

اس کی باتیں ذہن میں ہیں، اس کا چہرہ سامنے

پردہ دَر پردہ ہیں سب اسرار تیرے اے خدا

ایک پردہ ہٹ گیا تو ایک پردہ سامنے

آدمی باقی ہے اطہرؔ ، آدمیّت کھو گئی

کس کو اب معلوم ہے آئے گا کیا کیا سامنے

 

مطمئن ہو کے مَرنے کا سامان کر

زندگی اے خدا! مجھ پہ آسان کر

رسم ہے سجدہ ریزی تو کچھ بھی نہیں

قلب کو پہلے اپنے مسلمان کر

صرف رسمی تعارف ہی کافی نہیں

میرے نزدیک آ، میری پہچان کر

موت تو آئے گی، بے طلب آئے گی

زندگی ہے تو جینے کا ارمان کر

 

قیصر خالد

IPS ایڈیشنل کمشنر آف پولیس، ممبئی۔ 15 اپریل 2016

 

 

 

 

 

اک مرتبہ زباں نے اگر مصطفیؐ کہا

سَو بار میرے قلب نے صلِّ علیٰؐ کہا

 

عرفان و آگہی ہیں سبھی آپؐ پر تمام

جو کچھ کہا ہے آپؐ نے حق ہے، بجا کہا

 

سب کو یہاں ہے آپؐ کی عظمت کا اعتراف

اہلِ نظر نے آپؐ کو بعد اَز خدا کہا

 

پیغام تھا جو آپؐ کا خیر و سلامتی

ارض وسما نے آپؐ کو خیر الوریٰؐ کہا

 

کیسے کریں ہم آپؐ کے اوصاف کا شمار

محسن کہا، رفیق کہا، رہ نما کہا

 

کیا ہم سے ان کی ذاتِ مقدّس کا ہو بیاں

جن کو عدو نے پیکرِ جُود و سخا کہا

 

اس ذاتِ پاک سے ہیں امیدیں شکیلؔ کو

امّت نے جس کو شافعِ روزِ جزا کہا

 

 

 

 

 

میری آنکھوں کو کوئی خواب سنہرا دینا

ہو سکے تم سے تو احساس کو چہرہ دینا

 

اس نے رو مال جو تحفے میں دیا تھا اک دن

کتنا مشکل ہے ہَوا میں اسے لہرا دینا

 

شر پسندوں نے کیا شہر کو ویراں دن بھر

کام آیا نہ یہاں رات کو پہرا دینا

 

ہر سفر میں یہ دعا ماں کی مِرے ساتھ رہی

اس کو تپتے ہوئے صحرا میں بھی سایہ دینا

 

دیکھیئے ترکِ تعلق، کہ نہ چھوڑا اس نے

اپنے مقصد کے لیے میرا حوالہ دینا

 

کیا مناسب ہے مسائل سے نپٹنے کے لیے

خاک کے مول بزرگوں کا اثاثہ دینا

 

تم کو کرنا ہے ہر اک دل کو منّور اطہرؔ

تم اندھیرے میں یہاں سب کو اجالا دینا

 

 

 

 

 

کسی سے شکایت، گِلہ کیا کروں

نہیں پہلے جیسی فضا کیا کروں

 

وہ سب جانتا ہے مسائل مِرے

بہت بار سوچا دعا کیا کروں

 

زمانے کو اس کی ضرورت نہیں

یہ جنسِ خلوص و وفا کیا کروں

 

عیاں تجھ پہ ہے میری ہر آرزو

میں اپنی زباں سے ادا کیا کروں

 

سوالات کا ایک دفتر لیے

اکیلا ہوں روزِ جزا کیا کروں

 

تری بے رخی سے کروں دَر گزر

قدم روکتی ہے اَنا کیا کروں

 

لرزتا ہے دل اس کے انجام سے

شکیلؔ اب کسی سے وفا کیا کروں

 

 

 

 

 

فصیلِ سنگ ہے یہ اس میں دَر کیا جائے

یہ وقت وہ ہے کہ میدان سَر کیا جائے

 

اٹھائے جائیں گے نقصان کب تلک یوں ہی

کوئی بھی فیصلہ اب سوچ کر کیا جائے

 

عمل نہیں تو دھلیں گے نہ داغ، دامن کو

ہزار اشکِ ندامت سے تر کیا جائے

 

سُنے گا کون زمانے میں داستانِ طویل

کلام وہ، جو بہت مختصر کیا جائے

 

محبتّوں کے کچھ اپنے اصول ہوتے ہیں

جو بے خبر ہیں انھیں باخبر کیا جائے

 

سفر میں راستہ بھٹکے تھے جس مقام سے ہم

اسی جگہ سے شروعِ سفر کیا جائے

 

پرائے پیروں سے کب تک چلیں گے اطہرؔ ہم

خود اپنے پاؤں سے اب تو سفر کیا جائے

 

 

 

 

 

کبھی پرواز کرنے کو جو ہم شہپر اٹھاتے ہیں

تو بازو کاٹنے کو دوست ہی خنجر اٹھاتے ہیں

 

زمانہ کس کی لغزش کب نظر انداز کرتا ہے

وہ محسن ہیں ترے جو انگلیاں تجھ پر اٹھاتے ہیں

 

ہر اک مالک مکاں تعمیر میں جب خرچ ہوتا ہے

تبھی مزدور بنیادِ فصیل و دَر اٹھاتے ہیں

 

نئی سازش، نئے ذہنوں سے ان کو روز کرنی ہے

وہی جو نِت نئے فتنے یہاں مِل کر اٹھاتے ہیں

 

چلن ہے جھوٹ کا ایسا کہ اب تو لوگ دنیا میں

ذرا سچ بولیے تو آسماں سرپر اٹھاتے ہیں

 

صداقت آشکارا کس طرح ہو گی یہاں اطہرؔ

مؤرِّخ بھی حقیقت سے قلم بچ کر اٹھاتے ہیں

 

 

 

 

 

بچھڑ کر تم سے ان ہونٹوں پہ نوحہ پھیل جاتا تھا

یکایک جھیل سی آنکھوں میں صحرا پھیل جاتا تھا

 

وہ راتیں جا چکیں کب کی مگر اب تک نہیں بھولا

تم آتے تھے تو بستر میں اجالا پھیل جاتا تھا

 

کڑکتی دھوپ میں جب میری ہمت ٹوٹنے لگتی

مِرے سر پر ترے آنچل کا سایہ پھیل جاتا تھا

 

وہ آنکھیں سوتے سوتے جب اچانک جاگ اٹھتی تھیں

ستارے بجھنے لگتے تھے، سویرا پھیل جاتا تھا

 

تمھاری یاد جب جب رہ نمائی کرنے لگتی تھی

گھنے گنجان جنگل میں بھی رستہ پھیل جاتا تھا

 

کبھی وہ اپنا دامن جب بڑھا دیتے تھے اطہرؔ جی

سمندر بن کے ہر آنسو کا قطرہ پھیل جاتا تھا

 

 

 

وہیں ہے، وہیں سب خزینہ ہمارا

مدینے کے ہم ہیں، مدینہ ہمارا

 

سجے گی گلابوں سے مٹی وہاں کی

جہاں بھی گرے گا پسینہ ہمارا

 

کبھی ہم بھی طوفاں میں دیکھیں گے ساحل

کبھی پار ہو گا سفینہ ہمارا

 

پڑے تھے کبھی پھول پاؤں تمھارے

ابھی تک مہکتا ہے زینہ ہمارا

 

بچاکر رکھا تھا جسے شامِ رفتہ

کہاں ہے وہ جامِ شبینہ ہمارا

 

شبِ غم سے اطہرؔ ہراساں نہیں ہم

کہ یادوں سے روشن ہے سینہ ہمارا

 

 

 

 

 

عشق ہے دل میں تو وحشت کی فراوانی بھی ہو

دشت کی آوارگی ہو، چاک دامانی بھی ہو

 

راحتِ قلب ونظر تم ہو، تشفّی بھی تمہی

اور تم میرے لیے وجہ پریشانی بھی ہو

 

سوکھی آنکھوں سے تکا کرتے ہیں سُوئے آسماں

گِریہ کرنے کو ہماری آنکھوں میں پانی بھی ہو

 

کم سے کم یہ فون ہی کا سلسلہ باقی رہے

ہجر مشکل ہے مگر کچھ اس میں آسانی بھی ہو

 

کیسی کیسی خواہشیں اس دل میں پاتی ہیں وجود

ہو انگیٹھی، تم بھی ہو اور رات برفانی بھی ہو

 

دل دعاگو ہے شکیلؔ اطہر کہ اس کی طبع میں

ہوشیاری ہی نہیں، تھوڑی سی نادانی بھی ہو

 

 

 

 

کٹ کے بھی کیوں بولتی ہیں گردنوں سے پوچھنا

ہاتھ کیوں تھکنے لگے ہیں قاتلوں سے پوچھنا

 

تم نے تو بس حال ہی پوچھا تھا مجھ بیمار کا

آ گئے ہیں کیوں اُمنڈ کر آنسوؤں سے پوچھنا

 

جوجھتے رہنے کا ہے سیلاب سے مفہوم کیا

کشتیوں کو کھینے والے مانجھیوں سے پوچھنا

 

بھوکے بچے کے لیے کیا شے ہے ممتا کی تڑپ

دودھ سے محروم ماں کی چھاتیوں سے پوچھنا

 

دھوپ میں پت جھڑ کی ان کا پیڑ سے رشتہ ہے کیا

سوکھے ڈنٹھل جن کے ہیں ان پتیوں سے پوچھنا

 

گونجتی ہے اک اکیلے ہنس کی آواز کیوں

کل مِلے تھے جِن پہ ہم ان ساحلوں سے پوچھنا

 

یاد ہے اب تک مجھے اطہرؔ کہ میرا بار بار

ان کے نقشِ پا کہاں ہیں راستوں سے پوچھنا

 

 

 

 

 

ہجر کی رُت ہے ترا روپ مگر سامنے ہے

ہاں وہی چہرہ، وہی دیدۂ تر سامنے ہے

 

خوب ہے شہر اماں تیرا، یہاں بھی اے جاں

جس سے ہم بچ کے چلے تھے وہ خطر سامنے ہے

 

اب نہیں کوئی یہاں حوصلہ دینے والا

پھر وہی دشت، وہی شامِ سفر سامنے ہے

 

ساتھ چلتی تھیں ابھی ایک نگر کی چیخیں

اب کوئی دوسرا مجروح نگر سامنے ہے

 

اب بھی ہے دوری کا احساس کہ شل ہیں پاؤں

یوں تو میں شہر میں ہوں، آپ کا گھر سامنے ہے

 

دھوپ کی تیز تپش اور سفر ہے دَر پیش

سائباں کوئی یہاں ہے نہ شجر سامنے ہے

 

اگلے لمحے کا بھَلا کس کو یقیں ہے اطہرؔ

زندگی کیا ہے، بس اک رقصِ شرر سامنے ہے

 

 

 

 

 

یہ عشقِ نامُراد بھی کس گمرہی میں ہے

کھڑکی میں جو کبھی تھا وہ چہرہ گلی میں ہے

 

ہر صبح چھیڑتی ہیں ہواؤں کی انگلیاں

پوشیدہ ایک پھول جو ننھی کلی میں ہے

 

جیسے ہر ایک اَنگ ہے آنکھیں لیے ہوئے

کیا طرفہ احتیاط تری سادگی میں ہے

 

ناکام زندگی ہو کہ ناکامِ عشق ہو

جینے کی آرزو تو مِری جاں سبھی میں ہے

 

زر دار و حکمران میں انساں کا احترام

اگلی صدی میں تھا نہ یہ اب کی صدی میں ہے

 

تجھ سے بچھڑ کے سب کی نظر میں رہے گا کیا

اب تک تو یہ شکیلؔ تری روشنی میں ہے

 

جیسے ہی چشمِ رزّاق سے گِر گیا

’’جگمگاتا دیا طاق سے گِر گیا‘‘

 

ایک لغزش سے دونوں ہی رسوا ہوئے

وہ نظر سے میں آفاق سے گِر گیا

 

شعر کہنے کو لکھا تھا میں نے ابھی

ایک مضمون اوراق سے گِر گیا

 

اس کی نظروں سے مَیں کیا گرا ایک بار

یوں لگا جیسے آفاق سے گِر گیا

 

ایک بیٹا تکبر کے آکاش سے

باپ کے لفظ اک عاق سے گِر گیا

 

تیرگی جب نہ مٹ پائی سوکھا دیا

ٹمٹماتا ہوا طاق سے گِر گیا

 

تمکنت کے سبب اک امیر الملوک

یاد رکھ چشمِ خلّاق سے گِر گیا

 

 

 

 

 

شہر پر چھایا ہوا ڈر کا یہ سایہ کیا ہے

سوٗبہ سوٗ شور ہے کیسا، یہ تماشا کیا ہے

 

دعوئ امن اگر مان بھی لیں عالی جاہ!

بوئے خوں آتی ہے، ہر سمت دھواں سا کیا ہے

 

خاک و خوں رقص میں آ جاتے ہیں لمحے بھر میں

شہر جل جاتے ہیں چنگاری سے ایسا کیا ہے

 

اہل مغرب کے لیے تھا یہ مہذب سا طریق

احتجاجوں سے مِرے ملک میں ہوتا کیا ہے

 

ایک چنگاری تھی نفرت کی، بنی جوالا مکھی

لوگ کہتے تھے کہ اک سوچ سے ہوتا کیا ہے

 

ہم ہیں مجبور شہا! آپ تو لاچار نہیں

آپ پر بندشِ گفتار ہو ایسا کیا ہے

 

اپنی پہچان جو سورج کی سی رکھتا ہے یہاں

اس کی تابانی کو مانگے کا اجالا کیا ہے

 

تمکنت، عزت و شہرت یہ حکومت، ثروت

پا لیا تو نے اگر خود کو یہ دنیا کیا ہے

 

ایک ٹھوکر ہی نے کر ڈالا انھیں زیر و زبر

جو کہا کرتے تھے دنیا، یہ زمانہ کیا ہے

 

کر لیا اس نے نہ جینے کا ارادہ دل سے

اب مسیحا کی مسیحائی سے ہونا کیا ہے

 

ہے اگر خواب کی صورت تو اہم ہے وَرنہ

پوری ہو جائے تو پھر کوئی تمنّا کیا ہے

 

سب کریں آپ کی ہر بات کی تائید یہاں

آخر اس لہجۂ بے باک میں ایسا کیا ہے

 

ہے زمانے کی خبر ان کو پڑوسی کی نہیں

تم نئے ہو ابھی اس شہر میں دیکھا کیا ہے

 

لاکھ پیشانی کو رگڑا ہو زمیں پر ہم نے

دل کی تائید نہ حاصل ہو تو سجدہ کیا ہے

 

اک جزیرہ سا، حویلی کوئی، رستہ انجان

کچھ کہیں دیکھا ہُوا خواب میں دکھتا کیا ہے

 

ہو گئے ہم بھی تو عادی، چلو کھا لیتے ہیں

ایک دھوکا ہے نیا ان کا یہ وعدہ کیا ہے

 

کس پہ کیا بیت گئی، آپ کو کیا علم شہا!

سادہ لوحوں کے لیے آپ کا وعدہ کیا ہے

 

کچھ سزا اور جزا آج پہ بھی رکھنی تھی

اے خدا! کچھ تو بتا وعدۂ فردا کیا ہے

 

اس میں تقصیر کسی کی نہیں، مجرم ہم ہیں

ہم نہ سمجھے کہ بُرا کیا ہے یا اچھا کیا ہے

 

حد سے حد جان چلی جائے گی عزّت تو گئی

اور بس اس کے سِوا عشق میں ہونا کیا ہے

 

 

 

اک سبب ترکِ تعلق کا مہیّا کر دے

یہ بھرم توڑ دے اب مجھ کو اکیلا کر دے

 

ساتھ رہ کر یہ تغافل نہیں دیکھا جاتا

چھوڑ دے حال پہ میرے مجھے تنہا کر دے

 

وہ جو ویرانے میں مِل جائے تو ہو جشنِ بہار

ساتھ محفل میں اگر چھوڑے تو تنہا کر دے

 

کچھ تو ہو تیری عنایت جسے دیکھے دنیا

یا تو مشہور ہی کر یا مجھے رسوا کر دے

 

کتنے دریاؤں کو کُن کہہ کے سُکھا دے پَل میں

اور جو چاہے کسی قطرے کو تو دریا کر دے

 

منحصر اس کے اشارے پہ ہے دنیا بھر میں

کس کو مشہور کرے اور کسے رسوا کر دے

 

نظم دن رات کا گیسو سے ہے قائم ان کے

شب ہو کھُل جانے سے، سمٹے تو اجالا کر دے

 

 

 

شہرِ دل اس کی نہ یادوں سے بسایا جائے

ایک انجان کو پھر دوست بنایا جائے

 

سخت دشوار ہے اک طرفہ رواداری بھی

کب تلک ایسے تعلق کو نبھایا جائے

 

چھوڑنے آ نہ سکے اپنے جو دروازے تک

پھر وہ سَو بار بلائے تو نہ جایا جائے

 

منتظر سب کی نگاہیں ہیں مِرے اٹھنے پر

دیکھئے اب کسے مقتل میں بلایا جائے

 

حاشیے پر یونہی کب تک ہمیں رہنا ہو گا

اے مِرے اہلِ خرد ہوش میں آیا جائے

 

تجربہ اب کسی انجان پہ کرنا ہی نہیں

جس کو کھویا تھا اسی شخص کو پایا جائے

 

 

 

کس سے اب گلہ کیجے، کس کی بے وفائی کا

وقت آ گیا آخر ان سے بھی جدائی کا

 

لاکھ ہم رہے محتاط ہو رہا جو ہو نا تھا

بَن گیا بہانہ اک ان سے آشنائی کا

 

کیا خبر نہیں اس کو، ہونا ہے فنا سب کچھ

کر رہا ہے دعویٰ جو آج کل خدائی کا

 

جو کسی کی شہرت سے تِلملانے لگتا ہے

شوق ہے ابھی کتنا اس کو خود نمائی کا

 

 

 

پہلے شہر داری بھی عمر بھر نبھاتے تھے

اب نہ باپ کا بیٹا اور نہ بھائی بھائی کا

 

گھر کی بات جب گھر سے لے کے آ گئے باہر

اب کسی سے کیا شکوہ اپنی جگ ہنسائی کا

 

سر سے پاؤں تک دھبّے اس لباس پر نکلے

کر رہا تھا جو چرچا اپنی پارسائی کا

 

کیا کریں گے وہ بخشش زندگی میں لاکھوں کی

جو حساب کرتے ہیں آج پائی پائی کا

 

اک نگاہ ملتے ہی جس کے ہو گئے اطہرؔ

کوئی راستہ نکلے اس سے بے وفائی کا

 

 

 

ہر اک سمسّیا کا سمادھان کر دیا

اس نے تمام شہر کو ویران کر دیا

 

ردِّ عمل کی سوچ جلا ڈالتی مگر

اس کا ہی ہے کرم ہمیں انسان کر دیا

 

اب اور کیا وطن سے محبت کا دیں ثبوت

اک زندگی تھی اس کو بھی قربان کر دیا

 

اس کی عنایتوں کا بدل دے چکا تھا میں

پھر آج اس نے اک نیا احسان کر دیا

 

رہتا تھا دل میں وہ مِرے، نکلا تو اس طرح

اس خانۂ خدا کو بھی ویران کر دیا

 

موقع شناس تھا وہ بدلتے ہی اس نے رُت

لوگوں کے سامنے مجھے انجان کر دیا

 

رکھی نہ دوستوں سے مراسم میں کچھ امید

راہِ وفا کو اس طرح آسان کر دیا

 

ناکامیوں سے ہار کے بیٹھے تھے اس نے پھر

اطہرؔ اک آس دے کے پریشان کر دیا

 

 

 

 

 

اُترا ہُوا ہے کس لیے چہرہ جناب کا

ہو گا کوئی علاج تو اس اضطراب کا

 

اس کے بغیر ہے مہہ و انجم کی کیا بساط

صدقہ لیے ہوئے ہیں سبھی آفتاب کا

 

کیوں اس کے واسطے میں پھروں دَربدر یہاں

کرنا ہے کیا مجھے بھی جہانِ خراب کا

 

تیّاریوں میں جس کی گزاری تمام عمر

سنتے ہیں ایک دن ہے حساب و کتاب کا

 

آنا ہی تھا کسی نہ کسی کو تو سامنے

چلئے شکار ہم ہوئے اس کے عتاب کا

 

امید ٹوٹ جانے سے حاصل ہُوا سکوں

ہے انتظار اب کسے اس کے جواب کا

 

اس کے کرم پہ کیا انھیں بالکل یقیں نہیں

ڈر ہے ہر ایک پَل جنھیں روزِ حساب کا

 

ڈھلنے سے اس کے مِلتی ہے ہر شام اک امید

لاتا ہے دن نیا بھی زوال آفتاب کا

 

دھوکا بھی کھا کے کرتا ہے ہر اک سے دوستی

اس کو نہیں شعور ابھی انتخاب کا

 

تھا ساتھ ہر قدم پہ جو محتاط ہے وہ اب

کوئی سبب ضرور ہے اس اجتناب کا

 

فرعونِ وقت یاد یہ رکھنا ہر ایک پَل

ٹلتا نہیں ہے وقت جو طے ہو عذاب کا

 

اطہرؔ ہے اس کا وقت مگر سچ تو یہ بھی ہے

رُخ منحصر ہے شب پہ ابھی آفتاب کا

 

 

 

آ گئے ہو تو رہو ساتھ سحر ہونے تک

ہم بھی شاید ہیں یہی رات بسر ہونے تک

 

نامہ بر سست قدم اس پہ یہ راہِ دشوار

زندہ رہنا ہے ہمیں ان کو خبر ہونے تک

 

دَم نہیں لیں گے کسی طور یہ کھاتے ہیں قسم

ظلم کی آ ہنی دیوار میں دَر ہونے تک

 

آسمانوں سے لڑی دل سے نکل کر اک آہ

ایک پل چین سے بیٹھی نہ اثر ہونے تک

 

عقل خاموش تماشائی کی تصویر بنی

عشق ٹکرایا ہے میدان کے سَر ہونے تک

 

خوابِ غفلت سے نہ بیدار ہوئے ہم جو ابھی

ظلمتِ شب بھی رہے گی یہ سحر ہونے تک

 

اس کے کُن کہنے سے تخلیق ہوئے کون و مکاں

دیر کیا لگتی ہے مٹی کو بشر ہونے تک

 

لوَٹ آنے کو کہا اس نے تو آنکھیں اطہرؔ

ہم نے رستے پہ رکھیں اس کا گزر ہونے تک

 

 

 

سر سبز یہ جنگل چاہت کا وہ دشتِ وفا ہے ویراں بھی

ہے دل کو سکوں بھی دیکھ کے یہ اور ذہنِ رَسا ہے حیراں بھی

 

یہ بھی ہے قرینہ اک شاید ہستی میں توازن رکھنے کا

کچھ راز عیاں کر لوگوں پر کچھ حال مگر رکھ پنہاں بھی

 

اک ضربِ انا نے زیر و زبر کر ڈالا محبت کا محور

اب اس سے پناہِ رَب چاہیں تھے جس پہ کبھی ہم نازاں بھی

 

اس دورِ ذہانت میں جب جب دستورِ اماں پر بات ہوئی

آیا ہے کٹہرے میں اکثر تب ساتھ ہمارے یزداں بھی

 

اک لحظہ ستم، ایک لمحہ کرم، ہم پر ہے یہ احساں ان کا سدا

راضی بھی ہوں اک ساعت میں مگر ہو جاتے ہیں پَل میں نالاں بھی

 

ہے عقل سمجھنے سے قاصر پہلو یہ تمدن کا اب تک

ملبوس جہاں ہیں مرد بہت، عورت ہے وہیں پر عریاں بھی

 

اپنا تو نہیں کچھ، لوگوں کو یہ دیکھ کے حیرانی ہے بہت

ہیں جس سے گلے شکوے بھی ہمیں رہتے ہیں اسی پر نازاں بھی

 

شاعر ہیں عمل کے میداں سے کچھ دُور تو اس میں حیرت کیوں

غزلوں کی زمینوں پر ان کو دیکھو گے بہت سرگرداں بھی

 

اس سے بھی پتا چلتا ہے کہ ہاں خلّاقِ دو عالم ہے کوئی

ہر شئے ہے الگ پہچان لیے، اک نظم ہے سب میں یکساں بھی

 

اب ہم میں نہیں وہ جوشِ جنوں، اس میں بھی نہیں وہ بات کہ جو

راحت کا سبب تھے دل کے لیے، جاناں نہیں، ذکرِ جاناں بھی

 

قسمت کے اندھیرے میں بھی رہی آنکھوں میں مِری اک کاہکشاں

تاریک نہیں کر پائے کبھی خوابوں کو سوادِ زنداں بھی

 

نفرت سے، محبت سے اکثر ہم نے ہی لکھی تقدیر تری

ہم نے ہی زمینِ گُل تجھ کو جنت بھی کیا اور ویراں بھی

 

تکرارِ ستمگر سے بہتر رخصت لو یہاں سے اطہرؔ جی

یہ کام تو تم کر سکتے ہو، یہ کام لگے ہے آساں بھی

 

 

 

 

 

اس کی تصویر دل میں سجی تو رہے

چاہے مدھم سی ہو، روشنی تو رہے

 

خانۂ دل میں رہتا ہے مدت سے جو

گھر بھی آ کر مِرے وہ کبھی تو رہے

 

یوں جلانا پڑا خونِ دل بھی ہمیں

اپنے کمرے میں کچھ روشنی تو رہے

 

اس جبیں کو جھکا بے یقیں ہے تو کیا

کم سے کم عادتِ بندگی تو رہے

 

چھوڑ کر ہم کو پچھتاوا کب ہے اسے

اور اس کے بِنا ہم بھی جی تو رہے

 

ایک اک کر کے سب ہی جدا ہو گئے

پاس یہ نعمتِ شاعری تو رہے

 

یہ تعلق بھی کچھ کم نہیں ہے عجب

ساتھ رہ کر بھی ہم اجنبی تو رہے

 

خونِ دل سے سجا کر گئے جو اسے

مَر کے بھی اس جہاں میں وہی تو رہے

 

زندگی کٹ تو سکتی ہے اس طور بھی

پھر بھی تھوڑی بہت دلکشی تو رہے

 

دفن یادیں ہوئیں، سرد جذبے ہوئے

ایک چنگاری دل میں دبی تو رہے

 

کاٹنی ہے یہ عمرِ رواں بھی شکیلؔ

بادشاہت نہیں، نوکری تو رہے

 

 

 

 

 

رُت مِری بستی کو اس درجہ بھی بارانی نہ دے

شہرِ دل کے سبزہ زاروں کو یہ ویرانی نہ دے

 

مِل نہیں پاتا کبھی پھولوں سے، غنچوں سے مزاج

یوں مہک بھی اپنی ان کو رات کی رانی نہ دے

 

خود کلامی کرنی ہے، خود سے ہی سرگوشی مجھے

اب کوئی صورت مجھے جانی یا انجانی نہ دے

 

سیمگوں خوابوں کو لے کر ہو نہ سر گرداں کبھی

اس خرابے پر تو اپنی جان اے جانی نہ دے

 

بے نیازی ہی تری، حاصل محبت کا سہی

چشمِ حیرت کو تو پھر بھی دَرد کا پانی نہ دے

 

ٹوٹتے ہی نشّۂ الفت نہ رہ جائیں کھُلی

چشمِ امیدِ کرم کو ایسی حیرانی نہ دے

 

چاند ہی کیا کہکشائیں بھی کریں آ کر طواف

اس پری پیکر کو ایسا حسنِ لا ثانی نہ دے

 

نرم و نازک پودھ کملا جائے گی، اتنا تو سوچ

ان جڑوں کو اپنی نفرت کا تو یہ پانی نہ دے

 

 

 

 

 

یوں عادتاً بھی ہاتھ اٹھے ہیں دعا کے ساتھ

رشتہ روایتی سا ہے اپنا خدا کے ساتھ

 

آشفتگی، خلوص، شرافت، وفا، شعور

لائی ہے زیست اپنی یہ سب ابتدا کے ساتھ

 

سورج اُگے گا ظلمتِ شب تیرے بعد بھی

آغاز اک جُڑا ہے ہر اک انتہا کے ساتھ

 

حالانکہ طے شدہ ہے نتیجہ بھی، وقت بھی

جاری ہے جنگ زیست کی پھر بھی قضا کے ساتھ

 

کیجے خطا معاف کسی کی کبھی شہا!

بڑھ جاتے ہیں گناہ بھی اکثر سزا کے ساتھ

 

ہر اک کے ساتھ آتی ہے کچھ دیر کے لیے

بنتی کہاں ہے اپنی بہت دن وفا کے ساتھ

 

دیرینہ راستوں سے بھی رشتہ رکھو یہاں

سید ہی ہو راہ لا کھ نئے رہ نما کے ساتھ

 

اس ماہ رُو سے ہم کو توقع نہیں تھی یہ

رہنے لگا ہے روز نئے ہم نوا کے ساتھ

 

بھٹکائے پھر رہی ہے یہ محرومیِ حیات

رہنا ہے کیا تمھیں بھی اسی با وفا کے ساتھ

 

چاہے ہَے فکر و فن کو بھی، دولت کچھ اس طرح

آئے ہمارے پاس مگر التجا کے ساتھ

 

کیوں مطمئن نہیں ہے جہاں پا کے بھی شکیلؔ

کیا اور کچھ بھی چاہیے اتنی عطا کے ساتھ

 

 

 

 

 

 

دل کی گہرائی سے نکلے تو نہ ٹالی جائے

اس کے دَر سے نہ دعا پھر کوئی خالی جائے

 

جب نہ قیمت، کوئی وقعت، نہ ضرورت اس کی

پھر وفا دہر سے کیوں کر نہ اٹھا لی جائے

 

جس کے پانے کے لیے جینا پڑے مَر مَر کے

آرزو ایسی کوئی دل میں نہ پالی جائے

 

چشمۂ علم مِرے، دن نہ دکھانا ایسا

جب شش و پنج لیے دَر سے سوالی جائے

 

یہ بھی ممکن ہے کہ اس طرح مٹے وحشتِ دل

اس کی تصویروں سے دیوار سجالی جائے

 

زندگی اپنی بنی جیسے زمانے میں نظیر

جان بھی جائے جب اپنی تو مثالی جائے

 

روز حالات کی یورش ہے دل و ذہن پہ اب

اس تباہی سے تری یاد بچا لی جائے

 

یوں تو غزلوں میں ہے اپنی یہ پسندیدہ غزل

پھر بھی اک بار کسی کو تو دِکھا لی جائے

 

اپنی تو کوئی بھی عزت، نہ حمیّت نہ وقار

کم سے کم عظمتِ اجداد بچا لی جائے

 

کب تلک یوں ہی پھریں یاس کے جنگل میں شکیلؔ

کیوں نہ اس دشت میں اب راہ نکالی جائے

 

 

 

 

 

اب نیا کوئی بھی منظر نہ دے حیرانی کو

ٹھگ لیا شہرِ محبت ہی نے انجانی کو

 

کون پہچانے گا زنداں سے نکل کر یوں بھی

قید تا عمر کی درکار ہے زندانی کو

 

آدمی وحشی درندوں سے بھی بڑھ کر ٹھہرا

کب یہ بخشے کسی معصوم کو دیوانی کو

 

شہر کا شہر تھا مقتل، تھی عجب صورتِ حال

دیکھتا کون مِرے خون کی ارزانی کو

 

پھر لہو تازہ ہے درکار سیاست کو یہاں

پھر سے معصوم اسے چاہئیں قربانی کو

 

ہے اسی فکر سے افکارِ جہاں میں گردش

کیا ہے درکار ابھی اپنی تن آسانی کو

 

اور بڑھ جاتی ہے سمجھانے سے ان میں اکثر

چھوڑتے کب ہیں وہ اپنی کسی نادانی کو

 

اس میں لگتی ہے جگہ خالی سی یوں بھی اب تک

ڈھونڈتا دل ہے کسی صورتِ بیگانی کو

 

لب کشائی بھی خجالت کا سبب ہو اکثر

مہرِ لب رکھتی ہے پوشیدہ بھی نادانی کو

 

ان کے آنے کی خبر پا کے ہُوا راہ میں یوں

ڈالیاں جھکنے لگیں خود ہی گُل افشانی کو

 

پاؤں پھیلائے ہوئے فتنہ گری ہے ہر سُو

اور کیا چاہیے تجھ کو، تری نادانی کو

 

سازشِ وقت کے نرغے میں جو آئی اطہرؔ

آ گئی ماں کی دعا میری نگہبانی کو

 

 

 

 

 

کاغذ پہ اپنے بھی جو اَلِف، لام، نون ہے

ان کی بھی انگلیوں میں سویٹر کا اُون ہے

 

بچوں بغیر چھٹیاں موسم کی بے مزہ

اب کچھ خبر نہیں یہ مئی ہے کہ جون ہے

 

گِر جائے گا تو یاد بھی شاید ہی آئے گا

سایہ اٹھائے سر پہ پرانا ستون ہے

 

ہوش و خرد کے اس نے بھی دریا بہا دیئے

سمجھا رہا تھا اس کو میں کیا شئے جنون ہے

 

نفرت نے تیری امن کو برباد کر دیا

خوش ہو امیرِ شہر کہ ہر سمت خون ہے

 

جب سے مِلی ہے ان سے نظر اپنی دوستو!

را توں میں نیند اور نہ دن کو سکون ہے

 

اطہرؔ میاں یہ سوچ کے تھامو ہمارا ہاتھ

ان قہقہوں کے ساتھ ہی سوزِ درون ہے

 

 

 

 

 

تو نے جو بول ظرف سے بڑھ کر نہیں کہا

ہم نے بھی دوست خود کو شناور نہیں کہا

 

تو جانتا ہے میرے خدا میں نے اپنا حال

تیرے سِوا کسی سے بھی جا کر نہیں کہا

 

یوں ہم کو غرق کرنے پہ نادان ہیں بضد

قطرے کو دوست ہم نے سمندر نہیں کہا

 

ہم بھی تمام عمر نہ کہہ پائے حالِ دل

اس نے بھی اپنی بات کو کھُل کر نہیں کہا

 

ناراض ہیں خدائے سخن، ہم نے کوئی شعر

معیار سے ادب کے جو گِر کر نہیں کہا

 

شاہد خدا ہے آج تلک ہم نے اس کے بعد

اطہرؔ کسی بھی حُور کو دلبر نہیں کہا

 

 

 

 

 

کیا تھی خطا جو وقت کے تیور بدل گئے

جتنے بھی تھے حسین وہ منظر بدل گئے

 

کس سے گلہ کریں کہ زمانے کا ہے اصول

بدلا ذرا جو وقت ثناگر بدل گئے

 

تبدیل گاؤں ہو گئے شہروں کے ساتھ ساتھ

رستے بدل گئے ہیں، کئی گھر بدل گئے

 

چلتی تھی بھیڑ ساتھ، ابھی کل کی بات ہے

اب کیا کہوں کہ ان میں سے اکثر بدل گئے

 

حق گوئی کی سزا ہے وہی، یہ ہُوا ہے بس

قاتل بدل گئے ہیں، وہ خنجر بدل گئے

 

اب آسمان چھونے کی کوشش نہ آرزو

اطہرؔ مزاج بدلا کہ شہپر بدل گئے

 

 

 

 

 

کسی بھی راہ پر مِرا جو ہم سفر نہیں رہا

کسی بھی لحظہ میں بھی اس پہ منحصر نہیں رہا

 

مِلے ہوئے جو ان سے اک زمانہ ہو گیا تو کیا

کبھی بھی ان کے حال سے میں بے خبر نہیں رہا

 

وہ عشق ہو کہ دوستی گنوا دیے تو کیا ہُوا

ہمارے دل پہ دیر تک کوئی اثر نہیں رہا

 

سَتا کے اس نے کل مجھے گنوائی اپنی نیند بھی

یہ سن رہا ہوں چین سے وہ رات بھر نہیں رہا

 

بھٹک رہے ہیں مدتوں سے دشت میں اسی لیے

ہمارا یہ المیہ ہے کہ راہ بَر نہیں رہا

 

تمھارے بعد شہر میں، تمھارے یہ ہُوا ستم

مِرے لیے وہاں کوئی بھی معتبر نہیں رہا

 

دعائیں ماں کی ساتھ ہیں تو خوف کیا ہمیں شکیلؔ

کوئی بھی راستہ کہیں بھی پُر خطر نہیں رہا

 

 

 

 

سچائیوں سے اپنی ہی مُکرے ہیں آج ہم

اب کیا کہیں کہ گونگے ہیں، بہرے ہیں آج ہم

 

تاریکیوں میں لپٹی ہوئی کہکشائیں تھیں

ایسے بھی اک جہان سے گزرے ہیں آج ہم

 

خاطر میں بھی نہ لاتے تھے کل تک کسی کو جو

صد شکر ان کے دل میں بھی اُترے ہیں آج ہم

 

مِلنے کو اس نے ہم سے کہا ہے جو پہلی بار

مت پوچھ کتنی مرتبہ سنورے ہیں آج ہم

 

یوں تو ہم اک مثال تھے لوگوں کے واسطے

کچھ اور ان سے مِل کے بھی نِکھرے ہیں آج ہم

 

شعر و ادب کی کاہکشاں کے جہان میں

اک ماہتاب کی طرح اُبھرے ہیں آج ہم

 

دینے کو تازگی ترے چہرے کو گُل بدن

شبنم کے سردقطروں سے بکھرے ہیں آج ہم

 

 

 

 

 

اک کہانی، کہانی، کہانی نئی

دیکھ لی آپ کی حکمرانی نئی

 

چیخ میری نہ جگ کی سدا بن سکی

وہ اٹھا لائے پھر اک کہانی نئی

 

ظلم کو پھر تمھارے مِلی ہے جِلا

ہو مبارک تمھیں حکمرانی نئی

 

یوں تو ہر شب مہکتی تھی آنگن میں یہ

ساتھ ان کے لگی رات رانی نئی

 

پائی کس کس نے اب یہ نہ پوچھے کوئی

ان سے اک بار مِل کر جوانی نئی

 

اک جُنوں آج لوگوں میں مِلتا ہے یہ

کچھ بھی ہو چاہئے کامرانی نئی

 

پھر ضرورت نے دوڑایا دن بھر ہمیں

آج پھر مل گئی سخت جانی نئی

 

اس کی با توں کے پھندے عجب ہیں کہ پھر

آ گئی جال میں اک دوانی نئی

 

زہر آلود ہوتی ہے جس سے فضا

چھڑ گئی جنگ پھر اک زبانی نئی

 

یہ المیہ بھی کچھ کم نہیں وقت کا

چاہئے روز ہم کو کہانی نئی

 

لوگ خاموش ہیں اس پہ اطہر شکیلؔ

آ گئی راس شاید گرانی نئی

 

 

 

 

 

جنگل اسے تنہائی کا اب تو نے دیا ہے

جو ساتھ چلا تیرے، ترے ساتھ رُکا ہے

 

دَر اصل پسِ چہرہ بھی ہوتا ہے بہت کچھ

کیا حاشیۂ لوح بھی آنکھوں نے پڑھا ہے

 

کتنے ہی سوالوں کے جوابات نہ مِل پائے

ہے سِرِّ نہاں کچھ تو جو ہم سب سے چھپا ہے

 

تم کا ہے کو ہوتے ہو خفا، تم سے غرض کیا

اپنی ہی تباہی پہ یہ نادان ہنسا ہے

 

ان ٹوٹتی بنتی ہوئی اقدار میں اب تک

اک میں ہوں کہ ہستی مِری پابندِ وفا ہے

 

وہ واقعہ میں جس میں گنہگار، وہ معصوم

اب کوئی بھی پڑھ لے سرِ دیوار لکھا ہے

 

اک تجربۂ دہر نے ثابت یہ کیا سچ

ذرّے کو بھی چیرا تو یہ مانا کہ خدا ہے

 

اسلوب ترا تیرے فسانے میں نمایاں

ابواب نئے سارے، ہر اک حرف بجا ہے

 

چاہت کی جگہ زخم مِلے دوست ہمیشہ

جب جب بھی تری سمت مِرا ہاتھ بڑھا ہے

 

تیرے ہی رویّے نے یہ پہچان عطا کی

یہ میری وفا بھی تری محتاجِ جفا ہے

 

ناکامئ ملت بھی، مسائل بھی ہر اک سمت

یہ بھی ہے حقیقت ترا فرمان بجا ہے

 

کچھ خواب تھے کہنے کو مِری زیست کا حاصل

وہ بھی نہیں رہ پائے تو کیا اس میں بچا ہے

 

کیا اس کے سوا اور بھی کچھ ہونا تھا اطہرؔ

احساں ہے یہ اس کا ہی کہ وہ میرا خدا ہے

 

 

 

 

 

سَم رسیدہ نہ سہی دل پہ گِراں ہوتے ہیں

خاص جذبے بھی کہ جب نذرِ جہاں ہوتے ہیں

 

ایک دو خواب اگر زیست میں سچ ہوں بھی تو کیا

بیشتر خواب تو بے نام و نشاں ہوتے ہیں

 

حشر سا ہے کہیں برپا تو کہیں رقص و سرور

شعر لمحاتِ اذیّت میں کہاں ہوتے ہیں

 

جن کو کھِلنا تھا، مہکنا تھا، زمانے میں ابھی

ایسے غنچے بھی تو اب نذرِ خزاں ہوتے ہیں

 

بیچ دیتے ہیں وفاداریاں کیوں کر اپنی

کیسے یوں لوگ بھی سامانِ دکاں ہوتے ہیں

 

اُن پہ قربان جو ہر حال میں ہیں ساتھ مِرے

ایسے جذبے جو مسائل میں جواں ہوتے ہیں

 

بے نیازی ہی سے خیرات میں دیں مملکتیں

حجرۂ جاں ہی میں جو شاہِ زماں ہوتے ہیں

 

ان کی تشریح میں ہوتا ہی نہیں کوئی تضاد

ایسے کلمات جو آنکھوں سے بیاں ہوتے ہیں

 

ہم سے حسّاس طبیعت کے لیے دوست مِرے

جملۂ طنز بھی شمشیر و سِناں ہوتے ہیں

 

یہ بھی کچھ کم تو نہیں اپنے مراسِم کا صلہ

اشک ان کے مِری آنکھوں سے رواں ہوتے ہیں

 

ماتمِ زیست ہے یا جشنِ قضا ہے اطہرؔ

کس لیے رقص میں یوں برگِ خزاں ہوتے ہیں

 

 

 

 

 

وہ کسی کی بھی جو اک بار سَرانا کر دے

لاکھ ذی ہوش ہو وہ پَل میں دِوانہ کر دے

 

آپ اس راہ پہ آئیں تو سہی پھر دیکھیں

فطرتِ عشق بھی نادان کو دانا کر دے

 

راس آ جائے یہ ممکن ہے جو لے لے اک موڑ

اس حقیقت کو مِرے دوست فسانہ کر دے

 

تیرے بندوں پہ قیامت ہے ہر اک سمت بپا

اے خدا، اب تو مدد اپنی روانہ کر دے

 

دھوپ دوپہر کی ڈھلتی ہی نہیں عرصہ ہُوا

التجا ہے کہ یہ موسم بھی سہانا کر دے

 

وقت صحرائے تصوّر میں اُگائے سبزہ

وقت ہی تازہ تخیّل کو پُرانا کر دے

 

آ گئی لے کے یہ کس موڑ پہ دونوں کو حیات

کب کوئی ساتھ نہ چلنے کا بہانہ کر دے

 

ایک موہوم سی خواہش ہے خدا یا دل میں

میرے اشعار کو دنیا کا ترانا کر دے

 

علم کو اپنا ہی اک ورثہ سمجھنے والے

نسلِ نَو کے تو حوالے یہ خزانہ کر دے

 

اس کی آنکھوں میں عجب سحرِ محبت ہے کہ وہ

ڈال دے جس پہ نظر اس کو دِوانہ کر دے

 

ہو کوئی ایک تو ایسا بھی جو اپنا سا لگے

اس کو ہی میرے خدا! مجھ سا دِوانہ کر دے

 

خواب کی شکل حقیقت کو جو کرتا ہے عطا

اور حقیقت کو وہ چاہے تو فسانہ کر دے

 

کب تلک یوں خس و خاشاک سے بھٹکیں آخر

اے خدا، دہر میں اپنا بھی ٹھکانہ کر دے

 

نا سمجھ جتنا ہے، اتنا ہی ہے اطہرؔ وہ ذہین

اس کو آساں رہِ الفت پہ تو آنا کر دے

 

 

 

 

 

دل میں آتے ہوئے اور آ کے مچلتے دیکھا

ایک خواہش کو بھی اپنی نہ نکلتے دیکھا

 

شمعِ ہستی کو بجھا پایا ہے فانوس میں بھی

کچھ چراغوں کو بھی طوفان میں جلتے دیکھا

 

کھینچ لی پاؤں کے نیچے سے زمیں تک یک دم

گر ذرا سا بھی مجھے اس نے سنبھلتے دیکھا

 

وقت کو وہ کہ جو خاطر میں نہ لاتے تھے کبھی

وقت نے ہاتھ انہی لوگوں کو مَلتے دیکھا

 

وہ جو تا عمر رہے دشمنِ جاں، آج وہی

آ گئے ساتھ زمیں کو جو دہلتے دیکھا

 

یہ المیہ بھی ہے اس عہد کا، لوگوں کو یہاں

پھول تو پھول ہیں کلیوں کو مَسلتے دیکھا

 

آ گیا کام چلو ہونا مِرا زیر و زبر

پیشتر گرنے سے لوگوں کو سنبھلتے دیکھا

 

گردشِ وقت کی آہٹ نے خبردار کیا

مجھ کو تھوڑی سی خوشی پر جو اچھلتے دیکھا

 

کچھ بڑے خواب تو کیا، دل میں ابھی تک اپنے

ہم نے چھوٹی سی بھی خواہش کو مچلتے دیکھا

 

رہبرِ ملک جہاں بھرنے ترے لوگوں کو

رہ نمائی میں تری زہر اگلتے دیکھا

 

جب بڑھا حد سے ستم وقت کی آنکھوں نے یہاں

گود میں ظلم کی انصاف کو پلتے دیکھا

 

یہ بھی ممکن ہے کہ ہوں آپ جدا، ہم نے مگر

جس پہ احسان کیا اس کو بدلتے دیکھا

 

آپ واقف نہیں، حالات کی بھٹّی نے شکیلؔ

سنگ دل تھے جو بہت ان کو پگھلتے دیکھا

 

 

 

 

 

سینے میں دھڑکتا ہوا اک قلبِ حزیں ہے

کر کوئی بھی وعدہ، ترے وعدے پہ یقیں ہے

 

دیکھا نہ سُنا پہلے وہ اندازِ حسیں ہے

اک ایسا ہی معصوم مِرے دل کے قریں ہے

 

ابھریں تری تصویریں درو بام سے گھر کے

تو جا تو چکا پھر بھی تری یاد یہیں ہے

 

ماضی بھی تو ہی، حال بھی توُ، فردا بھی لیکن

دعوے میں ترے دوست صداقت بھی کہیں ہے

 

تو اس کو درِ غیر پہ جانے نہیں دینا

اے میرے خدا۔ ربط میں تیرے یہ جبیں ہے

 

اس دل کو کیا زیر و زبر وقت نے لیکن

نکلا تھا جہاں سے تو تری یاد وہیں ہے

 

جیسے کہ خبر رہتی ہے ہر لمحے کی اس کو

لگتا ہے مِرے گرد و نوا میں وہ کہیں ہے

 

اس سوچ نے مجھ کو مِری اوقات پہ رکھا

افلاک کا مہماں بھی یہاں خاک نشیں ہے

 

کیا ایک بھی سجدہ ہے، جسے مانے وہ سجدہ

ہر روز زمیں پر یہ رکھی میں نے جبیں ہے

 

یہ کارِ محبت بھی نظر میں تری ناصح

تھوڑا ہی سہی پھر بھی یہ کیا حصّۂ دیں ہے

 

صوفی ہو، قلندر ہو، کہ دَرویش ہو کوئی

اب اِن کی یہاں کوئی بھی توقیر نہیں ہے

 

جا کر بھی مِری زیست سے ہے زیست کا حصّہ

اس قریۂ جاں میں وہ نہاں اب بھی کہیں ہے

 

وہ میری حماقت کو بھُلا دے بھی تو اطہرؔ

خود میری نظر میں مِری توقیر نہیں ہے

 

 

 

 

 

کون کیوں زیر و زبر ہونا ہے کب پوچھے ہے

وقت کب کس کا یہاں نام ونسب پوچھے ہے

 

اور تو کوئی نہیں گھر کا مِرے خالی پَن

اب مِرے دیر سے آنے کا سبب پوچھے ہے

 

حد سے بڑ ھتی ہے ضرورت تو بد لتے ہیں اصول

کب بھلا اور بُرا دستِ طلب پوچھے ہے

 

یوں تو ہے کتنا ہی سامانِ مسرت لیکن

آج بھی تیرا پتا بزمِ طرب پوچھے ہے

 

کھیلتا ہے جو کھلونے کی طرح دل سے مِرے

دِل کا کتنا ہوا نقصان وہ کب پوچھے ہے

 

کرب دے آئینہ ماضی کی دِلا کر یادیں

تیرے چہرے کی چمک کیا ہوئی جب پوچھے ہے

 

چاند چھپ جاتا ہے جب جب بھی اماوس میں شکیلؔ

تیرے مہتاب کو ہر اک سے یہ شب پوچھے ہے

 

 

 

 

 

فکر کچھ آپ کے رہتے ہمیں سرکار نہیں

کون سی شئے ہے یہاں جو سرِ بازار نہیں

 

اوّل اوّل کی سی حالت ہے ابھی تک جیسے

دل میں چاہت ہے مگر ہونٹوں پہ اقرار نہیں

 

دل کو حالات کی سختی نے بنایا پتھر

اب یہ دُکھ دَرد مِرے واسطے آزار نہیں

 

اک نئی شکل میں ڈھل کر کے چلی آتی ہے

کوئی بھی شئے ہو یہاں آج کی بیکار نہیں

 

پاس دولت جو نہیں تیرے تو سب بے معنیٰ

اس محبت کا یہاں کوئی خریدار نہیں

 

آج فیشن کی طرح ہو گئی چاہت شاید

کوئی ہو گا جو یہاں عشق کا بیمار نہیں

 

ایک امید رہا کرتی ہے یوں بھی اطہرؔ

دل میں ہو آپ کے کچھ لب پہ تو انکار نہیں

 

 

 

 

 

چھوڑی قطار، تنہا چلے، حوصلہ کیا

ہم نے بھی زندگی میں نیا تجربہ کیا

 

بچّے ہمارے آج ہمیں پڑھنے لگ گئے

کردار اپنا دوستو! یوں آئینہ کیا

 

ہے عظمتوں کا شوق تو پھر نسبتیں ہیں شرط

یوں ہم نے اس کے نام کا اک سلسلہ کیا

 

محسوس فرق ہونے لگا مرتبے کا جب

ہم نے بھی اس سے تھوڑا سا تب فاصلہ کیا

 

دیرینہ راستے نہ گوارہ تھے اس لیے

تیّار یوں بھی ہم نے نیا راستہ کیا

 

اطہرؔ ہر اک طرف سے مسائل اُمنڈ پڑے

جیسے ہی ہم نے حل یہاں اک مسئلہ کیا

 

 

 

 

 

خیالوں کا کس کے وہاں پر گزر ہے

وہ جن راستوں پر ہمارا سفر ہے

 

ہر اک بات پر تیرا جی، ہاں، ہوں کہنا

مِرے ساتھ رہ کر ترا دل کدھر ہے

 

قیامت سے پہلے قیامت اٹھائے

تِرا حسن ناداں تجھے کچھ خبر ہے

 

ہوئے مسئلے حَل یکے بعد دیگر

تو لگتا ہے اب زندگی مختصر ہے

 

جو ہیں اس کے ہمراہ کانٹے تو کیا غم

وہ اک پھول پیکر مِرا ہم سفر ہے

 

وہ پھولوں کی ڈالی قیامت ہے، اس کی

نگاہوں میں مستی، بدن میں شرر ہے

 

اسی راہ پر ڈر تھا اطہرؔ مگر اب

تِرا ساتھ ہے تو سہانی ڈگر ہے

 

 

 

 

 

اک تجلّی بھی نہ سہہ پایا تھا موسیٰ تیرا

ہو کے بے ہوش گرا کوہ پہ شیدا تیرا

 

تابِ نظّارا نہ لا پائے یہ دنیا جس کی

ایسے جلوے سے تو بہتر ہے یہ پردہ تیرا

 

ہیں جو محروم بصارت سے انھیں کیا معلوم

ذرّے ذرّے میں نظر آتا ہے جلوہ تیرا

 

آسماں، کاہکشاں، کوہ، یہ صحرا، گلشن

ہے خلا تیرا، سمندر تِرا، دریا تیرا

 

کاٹ دی عمر ہر اک دن نئی امید کے ساتھ

ہو مبارک تجھے اب وعدۂ فردا تیرا

 

ایک پہچان زمانے میں ہوئی دونوں کی

ساز تیرا ہے، غزل میری ہے، نغمہ تیرا

 

یوں تو کتنے ہیں پری چہرہ زمانے میں مگر

آنکھیں بس تیری ہیں، لب تیرے ہیں، چہرہ تیرا

 

چھت پہ تو آ گیا کل رات، تو میں نے دیکھا

چاند بدلی میں چھپا دیکھ کے مکھڑا تیرا

 

سنگِ مَرمَر سا تراشا ہُوا یہ پیکرِ حُسن

کس کی قسمت میں لکھا ہو گا سراپا تیرا

 

میرے دیوان میں کیا ہے کہ جسے اپنا کہوں

گیت تیرے ہیں، غزل تیری ہے، لہجہ تیرا

 

کس سے کیا شکوہ، اگر سر پہ ہو سورج تیرے

چھوڑ دیتا ہے ترا ساتھ یہ سایہ تیرا

 

چشمِ بَد پڑ نہ سکے تجھ پہ کسی کی اطہرؔ

دل کو اک خوف سا ہے پا کے سہارا تیرا

 

 

 

 

 

جس کی قسمت ہے فنا، اس کو بقا کہتے ہیں

کتنے ہی لوگ ہیں پیسے کو خدا کہتے ہیں

 

ہو نہ نایاب مگر آج بھی کمیاب تو ہے

ہم کو اب تک نہ مِلی جس کو وفا کہتے ہیں

 

ٹھوکریں جس کو زمانے کی، ستم اپنوں کے

کوئی بتلائے کہ اس شخص کو کیا کہتے ہیں

 

اس کی تعریف سے قاصر ہیں تو شاعر اس کو

سب حسینوں میں الگ، سب سے جدا کہتے ہیں

 

تو نے بچپن میں کیا تھا جنھیں آداب وہ لوگ

آنے والوں سے تجھے اب بھی دعا کہتے ہیں

 

اس طرح کرتے ہیں گمراہ مجھے وہ اطہرؔ

میری ہر بات کو احباب بجا کہتے ہیں

 

 

 

 

 

کسی کی سمت چاہت صورتِ بیداد آتی ہے

نویدِ صبح بھی آتی ہے تو ناشاد آتی ہے

 

ہوئی مدت گزارے تھے کبھی کچھ ساتھ میں لمحے

مگر اس کافرِ الفت کی اب تک یاد آتی ہے

 

کسی کی پارسائی کے ہیں چرچے اور کسی کی سمت

کوئی تہمت یہاں چل کر کے بے بنیاد آتی ہے

 

کسی بھی جال میں پھنسنا پرندوں کا ہے نا ممکن

سمجھ میں چال تیری اب انھیں صیّاد آتی ہے

 

کتابوں تک ہے اب محدود عدل و منصفی بھی، کیا

سیاست تیرے کانوں تک کوئی فریاد آتی ہے

 

زمینوں میں کہے ہیں شعر کچھ استاد شعرا کی

ابھی کرنی کہاں ہم کو زمیں ایجاد آتی ہے

 

ادب تخلیق کرنے کی ہنر مندی میاں اطہرؔ

کہاں کس کو یہ دنیا میں بِنا استاد آتی ہے

 

 

 

 

 

فیصلہ کر لیا ٹکرانے کا، مَر جانے کا

جان لیتی ہوئی دلدل سے گزر جانے کا

 

سامنے ٹِک نہیں سکتا کوئی فرعونِ زماں

خوف اب کوئی نہیں ہم کو بھی سر جانے کا

 

کیا ہُوا، راہ دکھاتا تھا جو لوگوں کو، وہی

راستہ بھول گیا اپنے ہی گھر جانے کا

 

اس کے وعدے بھی اسی جیسے ہیں معصوم بہت

جس کا انداز نرالا ہے مُکر جانے کا

 

اب کوئی خواب، نہ خواہش نہ ہی امید کوئی

ٹوٹ جانے کا کوئی ڈر نہ بکھر جانے کا

 

ایک احساسِ تکبّر نہ پٹک دے اطہرؔ

ہے یہی وقت بلندی سے اتر جانے کا

 

ہر لمحہ یوں لگے ہے کہ جیسے سزا ہُوا

ناراض ہو کے جب سے وہ مجھ سے جدا ہُوا

 

تھی کُل مِلا کے پاس یہی اپنی کائنات

پہلو میں ایک دل تھا مِرے جو ترا ہُوا

 

نکلا تھا اُن لبوں سے کبھی جو مِرے لیے

ہر لفظ میرے واسطے جیسے دعا ہُوا

 

بانٹا ضرورتوں نے مِرے گھر کو اس طرح

کچھ وقت ہی میں اُس کا وہ، اور یہ مِرا ہوا

 

بے رحم وقت بانٹ گیا اس طرح ہمیں

تھا اک مکان جس کا کہ نقشہ نیا ہوا

 

کھانے میں آج بھی تھیں وہی نعمتیں مگر

اس کا لگا نہ ہاتھ تو سب بے مزہ ہُوا

 

اطہرؔ جو ایک شخص سراپا تھا عجز کا

اس شہرِ زر میں آیا تو وہ بھی خدا ہُوا

 

 

 

 

 

کسی کو دل میں رکھتے ہیں، کسی کے دل میں رہتے ہیں

ہیں کچھ فنکار سچّے جو بڑی مشکل میں رہتے ہیں

 

نہیں پہچانتا کوئی کسی کو ایک عمارت میں

بہت دن سے اگرچہ ساتھ اک منزل میں رہتے ہیں

 

کسی بھی معجزے سے کم نہیں لگتی یہ سچّائی

زمین وآسماں تک آنکھ کے اک تِل میں رہتے ہیں

 

تڑپنا، زخم کھانا، بے قراری، بے بسی، ہلچل

تعجب ہے کہ وہ بھی اس دلِ بسمل میں رہتے ہیں

 

انھیں کب علم کیسے تیرہ بختوں کی کٹیں راتیں

وہ ہر شب چاند تاروں سے سجی محفل میں رہتے ہیں

 

ہر اک شئے ہے جنھیں حاصل، بہت ہیں ایسے دنیا میں

مگر ایسے بھی ہیں کتنے جو لا حاصل میں رہتے ہیں

 

وہ جن کے سامنے یہ چاند تارے بھی نہیں ٹِکتے

پری پیکر ہمیشہ ایسے، آب و گِل میں رہتے ہیں

 

 

 

 

 

مِلتا کہاں ہے ہر کسی تدبیر کا جواب

حاصل کو مان لیتے ہیں تقدیر کا جواب

 

کب تک میں اُس کی زہر فشانی پہ چپ رہوں

دے بھی دوں میرِ شہر کی تقریر کا جواب

 

بدلے کا حق بھی ہے مگر اس میں مزہ کہاں

بہتر معاف کرنا ہے تقصیر کا جواب

 

شاید کہ تاج جیسی عمارت نہیں کوئی

صدیاں نہ دے سکیں اسی تعمیر کا جواب

 

رکھتا نہیں کوئی بھی مصوّر جہان میں

مونالِسا کی آج بھی تصویر کا جواب

 

اطہرؔ کسی بھی بات کے معنیٰ ہزار ہیں

تحریر ہی میں لیجئے تحریر کا جواب

 

 

 

 

 

کیوں نہ اپنے حجرے سے میں بھی اب نکل جاؤں

توڑ کر اصول اپنے خود کو ہی بدل جاؤں

 

اب نہ عہد و پیماں ہیں اور نہ رشتۂ اُمید

وہ بھلا چُکا مجھ کو، میں بھی اب سنبھل جاؤں

 

کون ہم زباں ہے اب کون راز داں میرا

اجنبی سی صورت میں اب تو میں بھی ڈھل جاؤں

 

اس چراغِ ہستی کو تیرگی سے لڑنا ہے

ہو مقام کوئی بھی سوچ کر یہ جل جاؤں

 

شہر کے اجالوں میں کھاؤں ٹھوکریں کب تک

کیوں نہ چھوڑ کر رونق دشت میں نکل جاؤں

 

جانتا ہوں سب اطہر،ؔ وہ فریب دیتا ہے

کیوں نہ اس کے وعدے پر آج بھی بہل جاؤں

 

 

 

 

 

اب اُن سے ترکِ تعلق کو آزمانا ہے

دلِ تباہ کا کیا ہے کہ یہ دِوانہ ہے

 

ہے حرف حرف میں خوشبو کسی کی چاہت کی

لبوں پہ اِن دنوں اپنے نیا ترانا ہے

 

یہ سوچ کر کے ذرا آئیے مِرے دل میں

خوشی کے ساتھ یہاں غم کا آنا جانا ہے

 

نہ وہ تمدّنِ کہنہ، نہ سوچ فرسودہ

کہ ساتھ اب نئی قدریں، نیا زمانہ ہے

 

تو پھڑ پھڑائے گا کب تک پرند! شہروں میں

چل اپنے گاؤں کے پیڑوں پہ گھر بنانا ہے

 

پتا بدلنے سے سب کچھ بدل گیا اطہرؔ

نیا ہے شہر، نئی رُت، نیا فسانہ ہے

 

 

 

 

 

باطن سے نکل کر تِرے اظہار بھی آئے

خاموش لبوں پر کبھی اقرار بھی آئے

 

توُ ساتھ ہے میرے تو نہیں خوفِ زمانہ

اب کوئی مقابل مِرے سَو بار بھی آئے

 

وہ دام نہ مِل پائے کہ امید تھی جن کی

بِکنے کے لیے ہم سرِ بازار بھی آئے

 

تقسیم سے آنگن کی کوئی فیض تو پہنچے

دیوار تو ہے سایۂ دیوار بھی آئے

 

ہمراہ ترے کاش کہ میدانِ عمل میں

گفتار کے غازی ترا کردار بھی آئے

 

اطہرؔ یہ دعا کرتے ہیں، محشر میں خدا یا

حصّے میں ہمارے ترا دیدار بھی آئے

 

 

 

 

 

آپ کی خدمتِ عالی پہ مقرر ہیں ہم

آپ بتلائیے کیا آپ سے باہر ہیں ہم

 

وہ جو اس لفظ کے معنیٰ بھی نہیں جانتے ہیں

ایسے لوگوں کا ہے دعویٰ کہ قلندر ہیں ہم

 

ہو گئے شہر میں آتے ہی کسی کے ایسے

اب کہاں دوستو خود کو بھی میسّر ہیں ہم

 

یوں تو پہلے بھی بہت خوش تھے مگر پا کے انھیں

ایسا لگتا ہے مقدر کے سکندر ہیں ہم

 

کیسے باقی ہے بھرم اپنا خدا جانتا ہے

یوں تو دنیا کی نگاہوں میں تونگر ہیں ہم

 

سب کو دیتا ہے جو اطہرؔ وہ ہمیں بھی دے گا

ہاتھ پھیلائے ہوئے اس کے ہی در پر ہیں ہم

 

 

 

 

ہر اک خوشی کے ساتھ ہی غم بھی دیا تو کیا دیا

خوابوں میں اک محل بنا تو دوسرا گِرا دیا

 

میرے اصول تھے الگ کسی سے اس میں کیا گلہ

میں تو اُسی کا ہو رہا، جس نے مجھے بھلا دیا

 

جب بھی تھکان سے ہوئے اعضا یہ میرے مضمحل

مجھ کو مِرے مخالفوں نے حوصلہ نیا دیا

 

شکرِ خدا نہ کر سکے کچھ ایسے لوگ بھی تو تھے

جن کو ضرورتوں سے بھی مالک نے کچھ سِوا دیا

 

خوش فہمیوں کے درمیان زندگی تھی مطمئن

تیرے فریب نے مجھے غفلت سے کیوں جگا دیا

 

اطہرؔ ہم اک کھِلونا تھے، چاہا ہے اس نے جب ہمیں

روتے ہوئے ہنسا دیا، ہنستے ہوئے رُلا دیا

 

 

 

 

 

اب غم کو ہم نے تیری عنایت سمجھ لیا

چاہت کو زندگی کی ضرورت سمجھ لیا

 

کھاتے رہے ہیں زیست میں کیا کیا مغالطے

قامت کو اس حسیں کی قیامت سمجھ لیا

 

کردار کیا رہا ہے کبھی یہ بھی سوچتے

سجدے کیے تو ان کو عبادت سمجھ لیا

 

ریشم سے نرم لہجے کے پیچھے مفاد تھا

اس تاجری کو ہم نے شرافت سمجھ لیا

 

اب ہے کوئی حسینؓ نہ لشکر حسینؓ کا

سَر کٹ گئے تو ہم نے شہادت سمجھ لیا

 

اس طرح عمر چین سے کاٹی شکیلؔ نے

دُکھ اس سے جو مِلا اسے راحت سمجھ لیا

 

 

 

 

 

ابھی توقع بنائے رکھنا، ابھی امیدیں جگائے رہنا

بہت گھنا ہے اندھیرا شب کا دلوں کی شمعیں جلائے رہنا

 

خدا ہی جانے کہ آنے والی رُتوں میں کیا ہو جہاں کی حالت

ابھی یہ نغمے نہ بند کرنا، ابھی یہ محفل سجائے رہنا

 

یہ دیکھنا ہے کہ دَم ہے کتنا غنیم لشکر کے بازوؤں میں

صفوں کو اپنی سجائے رکھنا، سروں کو اپنے اٹھائے رہنا

 

یہاں کہاں بستیوں کی رونق، یہاں تو سنّاٹا چیختا ہے

اجاڑ صحرا کا یہ سفر ہے دلوں کی دنیا بسائے رہنا

 

ابھی ہے خطرہ نفس نفس پر، ابھی ہیں قاتل گلی گلی میں

شکیلؔ آنکھیں نہ بند کرنا، شکیلؔ خود کو جگائے رہنا

 

 

 

 

 

 

حاصل کبھی جو اس کی محبت نہ ہو ہمیں

پَل بھر کی بھی حیات میں راحت نہ ہو ہمیں

 

شکوے جو تم سے ہیں وہ توقع کے ساتھ ہیں

امید گر نہ ہو تو شکایت نہ ہو ہمیں

 

جذباتیت میں ترکِ تعلق تو کر چکے

کل اپنے فیصلے پہ ندامت نہ ہو ہمیں

 

یہ اور بات ہے کہ لبوں سے نہیں عیاں

یہ تو نہیں کہ تم سے محبت نہ ہو ہمیں

 

نعمت کی طرح دل پہ لگے ہیں تمھارے زخم

کافر کہو جو ٹیس میں راحت نہ ہو ہمیں

 

کہتے نہیں زبان سے اطہر شکیلؔ ہم

یہ تو نہیں کہ غم سے اذیّت نہ ہو ہمیں

 

 

 

 

 

پرایا کام آتا ہے نہ اپنا کام آتا ہے

عمل جو کچھ کیا اس کا نتیجہ کام آتا ہے

 

رہِ ہستی میں باہر کے چراغوں کا بھروسا کیا

یہاں تو دوست باطن کا اجالا کام آتا ہے

 

کسی نے گر کہا، تو آزما کر ہی کہا ہو گا

ضرورت میں فقط اپنا ہی پیسا کام آتا ہے

 

کبھی جب ہجر کے موسم میں تب اُٹھتی ہیں راتیں بھی

تب ایسی دھوپ میں آنچل کا سایہ کام آتا ہے

 

سکوں لینے نہیں دیتی ہیں جب بے چینیاں دل کی

کہانی کام آتی ہے نہ قصّہ کام آتا ہے

 

ہَوا حالات کی جس دَم مخالف ہو تو اطہرؔ جی

تعلق کام آتا ہے، نہ رشتہ کام آتا ہے

 

 

 

 

 

نتیجہ تجسّس کا بہتر بھی ہے

مشقّت کی تہہ میں مقدّر بھی ہے

 

ندی پار کرنا ہی کافی نہیں

ابھی راستے میں سمندر بھی ہے

 

اگر گھر کو چھوڑیں تو جائیں کہاں

قیامت تو کھڑکی سے باہر بھی ہے

 

گلابوں کا دھوکا نہ کھائے کوئی

عزیزوں کی جھولی میں پتھر بھی ہے

 

نہیں نیند آنکھوں میں تجھ بِن مِری

خنک رات ہے، تن پہ چادر بھی ہے

 

بتاؤ زمانے میں اطہرؔ تمھیں

سکوں ایک دن کو میسّر بھی ہے

 

 

 

 

 

اک معمّہ ہے جسے میں آج تک سمجھا نہیں

کون ہے جس سے یہاں میرا کوئی رشتہ نہیں

 

وقت کے بدلے ہوئے رُخ نے پناہیں چھین لیں

ہم پسِ دیوار بیٹھے ہیں مگر سایہ نہیں

 

سب نے کانٹوں ہی پہ چل کر پائی ہے منزل یہاں

کامیابی کے سفر میں تو کوئی تنہا نہیں

 

تاجرانہ ذہنیت لے کر مِلا کرتے ہیں لوگ

اب کسی کا بھی کسی سے بے غرض رشتہ نہیں

 

پھر زمانے کے تھپیڑو! آؤ ٹکراتے ہیں ہم

میں ابھی ٹوٹا نہیں ہوں، میں ابھی بکھرا نہیں

 

اس سے بچھڑا تو اکیلا ہو گیا اطہر شکیلؔ

اب کسی کے ساتھ اس کا پیار کا رشتہ نہیں

 

 

 

 

 

صبح بھی ہوتی رہی، مہتاب بھی ڈھلتا رہا

زندگی کا کارواں چلتا رہا، چلتا رہا

 

سانحہ کیا اس پہ گزرا کون اٹھ کر دیکھتا

اہلِ خانہ سوگئے لیکن دیا جلتا رہا

 

میرے خوابوں کی کوئی بنیاد بھی تھی کیا کہوں

برف کا پربت تھا اک گلتا رہا، گلتا رہا

 

آخری وقت آ گیا تو سوچتا ہوں دوستو!

آج کا جو مسئلہ تھا کل پہ کیوں ٹلتا رہا

 

سامنے کے دشمنوں سے بچ کے رہنا سہل تھا

آستیں کا سانپ تھا بڑھتا رہا، پلتا رہا

 

حادثے کی وہ کہانی مختصر سی ہے شکیلؔ

بانسری بھی بج رہی تھی شہر بھی جلتا رہا

 

 

 

 

 

اس کو تم میرے تعلق کا حوالہ دیتے

میں بھی کل اس کاشناسا تھا یہ سمجھا دیتے

 

یہ اماوس کا اندھیرا ہے کہ چھَٹتا ہی نہیں

کاش وہ آ کے کبھی گھر کو اجالا دیتے

 

ہم نے دنیا کا بہت ساتھ دیا ہے اب تک

کاش اک بار کبھی ساتھ ہم اپنا دیتے

 

ہم تہی دست سہی پھر بھی سخی ہیں اتنے

قطرہ مِلتا تو عوض میں تمھیں دریا دیتے

 

دل شکستہ کی تسلّی کو ہے دنیا لیکن

کاش وہ بھی تو کبھی آ کے سہارا دیتے

 

صرف غفلت کو تو سونا نہیں کہتے اطہرؔ

آنکھوں کو نیند ہی کے ساتھ میں سپنا دیتے

 

 

 

 

 

جو انکار سر کے جھکانے کو ہے

گِلہ ہم سے سارے زمانے کو ہے

 

میسّر ہے ہر دل عزیزی اسے

مروّت بھی اس کی دِکھانے کو ہے

 

یہ قصّہ ہے دل کا نہ ہو گا تمام

ابھی اور کتنا سُنانے کو ہے

 

نیا اک المیہ، نئی ابتلا

خدا بھی ہمیں آزمانے کو ہے

 

عجب ہے یہ ویران صحرا، یہاں

نہ تنکا کوئی آشیانے کو ہے

 

حرم سے بھی لوٹے تو اطہر شکیلؔ

سفر اُن کا پھر بادہ خانے کو ہے

 

 

 

 

 

نیّت ہو اگر نیک تو دیتا ہے خدا بھی

کرتے ہیں عمل لوگ تو مِلتا ہے صلہ بھی

 

باطن کی حرارت سے پھُنکے جاتے ہیں تن مَن

پُروائی بھی چلتی ہے، برستی ہے گھٹا بھی

 

چھُو کر نہیں گزری ہے تری زلفِ معطّر

اس بار تو محروم چلی آئی صبا بھی

 

اک تم ہو کہ بچھڑے تو بچھڑ ہی گئے ہم سے

مِلتے ہیں بہت لوگ تو ہوتے ہیں جدا بھی

 

آدابِ محبت تھے کہ دامن نہیں چھوڑا

تم دُور نہ تھے، دُور نہ تھے بندِ قبا بھی

 

کِس یاس کے عالم میں ہوں کیا جانیے اطہرؔ

مدّت ہوئی آئی نہیں ہونٹوں پہ دعا بھی

 

 

 

 

 

مطمئن ہوکے مَرنے کا سامان کر

زندگی اے خدا مجھ پہ آسان کر

 

صرف رسمی تعارف ہی کافی نہیں

میرے نزدیک آ، میری پہچان کر

 

رسم ہے سجدہ ریزی تو کچھ بھی نہیں

قلب کو پہلے اپنے مسلمان کر

 

اَبر کی اوٹ میں چاند کب کا چھُپا

اب نہ چہرے پہ زلفیں پریشان کر

 

موت تو آئے گی، بے طلب آئے گی

زندگی ہے تو جینے کا ارمان کر

 

اس سے مِل کر میں کہتا تو کیسے شکیلؔ

مجھ کو گھر اپنے اک روز مہمان کر

 

 

 

 

 

وائے تقدیر کیا یہ المیہ نہیں

سب ہیں اپنے مگر کوئی اپنا نہیں

 

دیدہ و دل کہ سنسان صحرا ہوئے

دل میں جذبہ تو آنکھوں میں سپنا نہیں

 

عشق کو ترک کرنے میں دقت نہ تھی

عشق کو مشغلہ ہم نے سمجھا نہیں

 

اب کے مجھ سے مِلا وہ تو ایسا لگا

وہ ہی چہرہ ہے لیکن وہ چہرہ نہیں

 

پھُنک رہا ہے بدن کُنجِ تنہائی میں

سر پہ چھت ہے مگر ماں کا سایہ نہیں

 

میری نظروں میں دنیا بھی عقبیٰ بھی ہے

آدمی ہوں میں اطہرؔ فرشتہ نہیں

 

 

 

 

 

بے خبر ہیں سب اپنی ہی پہچان سے

دیکھنے میں تو لگتے ہیں انسان سے

 

ہے تجھے یاد کرنے کی خواہش بہت

دل جو غافل کبھی ہو تِرے دھیان سے

 

دشمنی کا کوئی داؤ کاری نہیں

جیت لیتے ہیں دشمن کو احسان سے

 

دل میں شفقت ہو، چاہت ہو، اخلاص ہو

گھر کا مطلب نہیں سازوسامان سے

 

یوں سرِ راہ ان سے تقابل ہُوا

جیسے مِلتا ہے انجان، انجان سے

 

گھر سے باہر تو تھے مطمئن مطمئن

گھر میں اطہرؔ مِلے ہیں پریشان سے

 

 

 

 

 

محبت کا عنواں فسانے کو دے

نیا ایک منظر زمانے کو دے

 

سمجھتا ہوں حیلے کے پیچھے کا سچ

صداقت نہ اپنے بہانے کو دے

 

سڑک کی سیاست میں یوں گُم نہ ہو

توجے کچھ اپنے گھرانے کو دے

 

روایت کو اب سنگ باری کی چھوڑ

کوئی پھول لا کر دِوانے کو دے

 

جو کاری بہت تھا وہی تیر لا

نہ ترکش یہ خالی نشانے کو دے

 

رُلایا تمھیں جس نے اطہر شکیلؔ

وہ آنچل بھی آنکھیں سُکھانے کو دے

 

 

 

 

 

زخم مجھ کو مِرا مہرباں دے گیا

یعنی دل کو مِرے گلستاں دے گیا

 

اس نے اپنی نشانی عطا کی مجھے

مجھ کو لگتا ہے سارا جہاں دے گیا

 

اس سے پہلے کوئی مجھ سے واقف نہ تھا

وہ مجھے میرا نام و نشاں دے گیا

 

ایسا لگتا ہے آنچل کے سائے میں ہوں

سر کو میرے وہ اک سائباں دے گیا

 

آس میں اس کی گھر سے نکلتا نہیں

یعنی مجھ کو وہ میرا مکاں دے گیا

 

مجھ سے اک شخص اطہرؔ بچھڑتے ہوئے

لے گیا چین رنجِ زیاں دے گیا

 

 

 

اپنے پہلے مِلن کا گجر یاد ہے

با توں با توں میں کی تھی سحر یاد ہے

 

تنگ کمرے میں رہتے ہوئے بھی مجھے

وہ کشادہ سے آنگن کا گھر یاد ہے

 

چاند، دریا کا ساحل، رفاقت تری

اب وہ شب مختصر مختصر یاد ہے

 

الوداعی تبسم میں آنکھیں تھیں نم

اس کا چہرہ بوقتِ سفر یاد ہے

 

مرکزی جس کا کردار ہم تم تھے کل

وہ کہانی مجھے بیشتر یاد ہے

 

آج اطہرؔ کو پہچان پاتے نہیں

تم تھے کل تک مِرے ہم سفر یاد ہے

 

 

 

 

 

ہو یقیں کتنا ہی چاہے پر گماں بھی کم نہیں

یہ خسارہ کم نہیں ہے، یہ زیاں بھی کم نہیں

 

تیرنا دریا میں ہے، دامن بھگونا ہے خطا

اے خدا، یہ امتحاں، یہ امتحاں بھی کم نہیں

 

سیج پھولوں کی تمھاری بیش قیمت ہی سہی

چار تنکوں کا ہمارا آشیاں بھی کم نہیں

 

کون کہتا ہے کہ میدانِ عمل چھوٹا ہُوا

یہ زمیں بھی کم نہیں ہے، آسماں بھی کم نہیں

 

جاں نثاری کی نہ اس کی غیریت کی کوئی حد

مہرباں وہ کم نہیں، نامہرباں بھی کم نہیں

 

دشمنوں کی بستیوں میں خاک کیوں چھانیں شکیلؔ

آزمانے کو یہ شہرِ دوستاں بھی کم نہیں

 

 

 

 

 

اب وہ راتیں نہ وہ قصّے ہیں سُلانے والے

یعنی اب ہجر کے موسم نہیں جانے والے

 

سچ ہے یک طرفہ تعلق نہیں رہتا تا دیر

ہم بھی اے دوست ہیں اب تجھ کو بھلانے والے

 

اب وہ پہلی سی وفا ہے نہ مروّت نہ لحاظ

ڈھونڈتے کیوں ہو وہ انداز پُرانے والے

 

تو نے کیا سوچ کے بنیاد ہی ٹیڑھی رکھی

کچھ بتا اے مِری دنیا کو بسانے والے

 

زندگی میری زمانے کے مطابق کب ہے

کیا مجھے سمجھیں گے یہ لوگ زمانے والے

 

صحبتیں اب کہاں دن رات کی اطہرؔ ، اب تو

بَن کے مہمان بھی رُکتے نہیں آنے والے

 

 

 

 

 

دن میں ہر لمحہ تھکاتی ہوئی دنیا دیکھو

تھک کے سوجاؤ تو پھر رات میں سپنا دیکھو

 

لاکھ صدمے ہیں مگر لب پہ تبسم ہے وہی

زندہ رہنے کا یہ انداز ہمارا دیکھو

 

لوگ کہتے ہیں کہ ہے تلخئ ہجراں مہلک

زہر ہو جاتا ہے یہ بھی تو گوارا دیکھو

 

جس کے قصّے میں کوئی خاص تسلسل ہے نہ ربط

زندگی پھر بھی مُصر ہے وہ تماشا دیکھو

 

آستیں پر کوئی چھینٹا ہے لہو کا نہ ہے رنگ

ایسے ہوتا ہے یہاں خونِ تمنّا دیکھو

 

پھول محنت کے بِنا کھِل نہیں سکتا اطہرؔ

بے عمل ہوکے نہ پھولوں کا یہ سپنا دیکھو

 

 

 

ریت کا تپتا ہوا میدان، صحرا سامنے

سائباں کوئی میسّر ہے نہ سایہ سامنے

 

بٹ گیا ہوں اس طرح دنیا کے اور عقبیٰ کے بیچ

دل کہ ہے محوِ عبادت، فکرِ دنیا سامنے

 

سہل مجھ پر ہو گئی ہے اس طرح ہجراں کی شب

اس کی باتیں ذہن میں ہیں، اس کا چہرہ سامنے

 

زندگی بھر یوں لگا چھوٹے سے اک ٹاپو پہ ہوں

ایک دریا پُشت پر ہے، ایک دریا سامنے

 

پردہ دَر پردہ ہیں سب اسرار تیرے اے خدا

ایک پردہ ہٹ گیا تو ایک پردہ سامنے

 

آدمی باقی ہے اطہرؔ آدمیّت کھو گئی

کس کو یہ معلوم ہے آئے گا کیا کیا سامنے

 

 

 

 

 

وہ جو اگلوں کو مِلیں وہ نہ سزائیں دینا

اے خدا! حشر کی را توں کو ضیائیں دینا

 

ارضِ خاکی ہے تری دادو دہش سے زر خیز

کھیت کو آب تو سورج کو گھٹائیں دینا

 

سب کی حاجت سے تو واقف ہے خداوندِ عظیم

مجھ کو منزل تو پرندوں کو دِشائیں دینا

 

بیٹھ جانا مِری ماں کا سرِ بالیں آ کر

میری پیشانی پہ آنچل کی ہَوائیں دینا

 

پڑھ کے دَم کرنا بڑے پیار سے سر پر میرے

وقتِ رخصت مجھے جینے کی دعائیں دینا

 

اس سے بڑھ کر میں طلب اور کروں کیا اطہرؔ

اے خدا، میرے خدا، اس کو وفائیں دینا

 

 

 

 

 

یاد اس چاند سے چہرے کی سدا آتی ہے

کیسی چھَن چھَن کے مِرے دل سے ضیا آتی ہے

 

کس کے مہندی رچے ہاتھوں نے چھوئے تھے مِرے لب

اب بھی ہر سانس سے خوشبوئے حنا آتی ہے

 

تم نہیں پاس مِرے کون ہے، پھر کون ہے یہ

کس کی آخر مِرے کانوں میں صدا آتی ہے

 

مست مہکار سے بھر جاتا ہے آنگن میرا

گیسوؤں کو جو ترے چھُو کے ہَوا آتی ہے

 

اتنا مایوس نہ ہو دہر میں شاید کوئی

ہاتھ اٹھتے ہیں نہ اب لب پہ دعا آتی ہے

 

موت اور زیست کی لذّت سے میں واقف ہوں شکیلؔ

زندہ رہتا ہوں مگر روز قضا آتی ہے

 

 

 

 

 

کماں سے چھُٹے تیر کافی نہیں

یہ اکبرؔ ، جہانگیرؔ کافی نہیں

 

غنیموں کے حربے ہیں مہلک بہت

یہ صدیوں کی شمشیر کافی نہیں

 

عمل سے کچھ اپنے بھی حاصل کرو

بزرگوں کی جاگیر کافی نہیں

 

مجھے چاہیے لمس و آواز بھی

تسلّی کو تصویر کافی نہیں

 

محبت سے اس کو کرو قید تم

دِوانے کو زنجیر کافی نہیں

 

یقیں ہے عمل پر ضروری شکیلؔ

بھروسے کو تقدیر کافی نہیں

٭٭٭

تشکر: شاعر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید