FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

سید ضمیر جعفری :اردو شاعری میں طنز و مزاح کا سالار

                   پروفیسر غلام شبیر رانا

ABSTRACT

Syyed Zamir Jafri was a great legend of Urdu  Language and literature. His valuable services for promotion of  satire and humour in Urdu language are glorious chapter of history of Urdu literature. As   a trend setter  poet his work for freedom of thought and expression will be remembered for ever. His poetry books are highly successful and popular in the world. His complete collection of poetry (Nishat-e-Tamasha) has been published . The success of his poetry is due to novelty of expression and explanation of the comic elements found in society .As a sincere and genius creative writer he incidentally discusses all the matters of interest and importance related to the social life. Modern Urdu poetry is proud of his work and conduct.

 

     سید ضمیر جعفری کا  اصل نام ضمیر حسین شاہ تھا۔ وہ یکم جنوری 1916کوایک  معزز سادات گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان علم و ادب کے حوالے سے پورے علاقے میں منفرد اور ممتاز حیثیت رکھتا تھا۔ اپنی جنم بھومی موضع چک عبدالخالق سے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے گورنمنٹ ہائی سکول جہلم میں داخلہ لیا جہاں سے انھوں نے میٹرک کا امتحان اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کر کے پاس کیا۔ ان کے اساتذہ  اپنے انتہائی ذہین اور فطین شاگرد کی خداداد صلاحیتوں کے معترف تھے۔ زمانہ طالب علمی ہی میں انھوں نے تخلیق ادب کے حوالے سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ وہ سکول کی بزم ادب کے فعال اور مستعد رکن تھے۔ ابتدائی عمر ہی سے ان کی شگفتہ مزاجی کی  دھوم تھی۔ حاضر جوابی  اور گل افشانی ء گفتار ان کے امتیازی اوصاف تھے۔ گورنمنٹ ہائی سکول جہلم سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ گورنمنٹ کالج کیمبل پور (اٹک)میں انٹر میڈیٹ کلاس میں داخل ہوئے۔ انٹرمیڈیٹ میں شاندار کامیابی حاصل کرنے کے بعد وہ  لاہور پہنچے اور اسلامیہ کالج، لاہور میں داخلہ لیا  اور 1938میں اسنھوں نے بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ بی۔ اے تک تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ روزگار کی تلاش میں نکلے اور عملی زندگی کا آغاز  دفتر میں ایک عام کلرک کی حیثیت سے کیا۔ جلد ہی وہ شعبہ صحافت سے وابستہ ہو گئے۔ انھوں نے روزنامہ ـ’’ احسان‘‘ لاہور، اور ہفت روزہ ’’شیرازہ‘‘ کی مجلس ادارت میں شامل ہو کر اہم خدمات انجام دیں۔ انھوں نے کچھ عرصہ  ہفت روزہ ’’ سدا بہار‘‘ لاہور کے مدیر اعلیٰ کی حیثیت سے بھی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ وہ آزادیِ اظہار کو کلیدی اہمیت کا حامل قرار دیتے تھے اور اسے اپنی نوعیت کے لحاظ سے انسانی آزادی کی ایک صورت سے تعبیر کرتے تھے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ حریت ضمیر سے زندہ رہنا ہے تو اسوہ شبیر پر عمل پیرا ہونا بے حد ضروری ہے۔ صحافت سے انھوں نے جو عہد وفا استوار کیا تمام عمر اسے نبھایا اور مختلف اوقات میں متعدد اخبارات اور جرائد میں کالم لکھتے رہے۔ اخبارات میں انھوں نے جو کالم تحریر کیے ان میں وہ نہایت خلوص اور دردمندی  سے زندگی کی مقتضیات کو زیر بحث لاتے رہے۔

        جب برصغیر نو آبادیاتی نظام کے چنگل میں پھنس چکا تھا اور برطانیہ کے زیر تسلط تھا اس عرصے میں دوسری عالمی جنگ اس خطے کے باشندوں کے لیے دوہرے عذاب کا باعث بن گئی۔ مقامی باشندوں کو برطانوی فوج میں بھرتی کر کے برطانیہ نے اپنی جنگ کی بھٹی میں جھونک دیا۔ اسی عرصے میں وہ برطانوی فوج میں بھرتی ہوئے اور ان کی تعیناتی جنوب مشرقی کمان میں بہ حیثیت کپتان ہوئی۔ وہ شعبہ تعلقات عامہ سے وابستہ تھے اور اس کمان کا ہیڈ کوارٹر سنگاپور میں تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران انھیں  فوجی خدمات کے سلسلے میں دنیا کے متعدد ممالک کی سیاحت کا بھی موقع ملا۔ عالمی ادب، تہذیب و ثقافت، سماجی اور عمرانی مسائل کا انھوں نے عمیق مطالعہ کیا۔ جب 1947میں برطانوی اقتدار کا سورج غروب ہوا تو انھوں نے پاکستان بری فوج میں خدمات انجام دیں۔ ذاتی وجوہات کی بنا پر وہ 1949میں فوج سے الگ ہو گئے اور پھر سے صحافت سے وابستہ ہو گئے۔ اسی سال راول پنڈی سے اپنا روزنامہ اخبار ’’باد شمال، ، جاری کیا جو ایک کامیاب اخبار تھا مگر بعض ناگزیر حالات کے باعث وہ اس اخبار کی اشاعت کو جاری نہ رکھ سکے۔ 1951میں انھوں نے خار زار سیاست میں قدم رکھا اور جہلم کے ایک دیہاتی حلقہ انتخاب سے پنجاب اسمبلی کی نشست کے لیے انتخاب میں حصہ لیا لیکن لوٹے اور لٹیرے کب کسی قابل اور با صلاحیت انسان کو آگے آنے دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ انتخاب میں کامیاب نہ ہو سکے۔ وہ ایک محب وطن اور بہادر سپاہی تھے انھوں نے 1952میں دوبارہ فوج میں شمولیت کا فیصلہ کیا اس کے بعد وہ ترقی کر کے میجر کے عہدے تک پہنچے اور اسی عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ وطن، اہل وطن اور انسانیت کے ساتھ ان کی والہانہ محبت اور قلبی وابستگی کا ایک عالم معترف تھا۔

        حکومت پاکستان نے انھیں کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں ڈائریکٹر تعلقات عامہ مقرر کیا۔ انھوں نے اس عہدے پر پندرہ برس تک خدمات انجام دیں۔ وہ کچھ عرصہ پاکستان نیشنل سنٹر کے ڈپٹی ڈ ائریکٹر جنرل اور پھر وزارت بحالیات افغان مہاجرین میں مشیر مقرر ہوئے۔ ان کی زندگی کا یادگار دور وہ تھا جب انھوں نے اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد میں اہم خدمات انجام دیں۔ وہ اکادمی ادبیات پاکستان کے علمی و ادبی مجلے ’’ ادبیات‘‘ کے مدیر اعلیٰ مقرر ہوئے۔ انھوں نے اس مجلے کو معیار اور وقار کی رفعت سے آشنا کیا۔ قومی، علاقائی اور عالمی ادب کی نمائندہ تحریریں ادبیات کی زینت بنتی رہیں۔ پاکستانی ادیبوں کی فلاح کے متعدد منصوبے انھوں نے تجویز کیے اور ادیبوں کو کتب اور مضامین کی رائلٹی جیسے اہم مسائل کو حل کرایا۔ سید ضمیر جعفری کی گراں قدر علمی، ادبی اور ملی خدمات کے اعتراف میں انھیں مندرجہ ذیل اعزازات سے نوازا گیا:

1۔ ہمایوں گولڈ میڈل (بہ دست سر شیخ عبدالقادر)       1936

2۔ تمغہ قائد اعظم                                 1967

3۔ صدارتی تمغہ برائے حسن کار کردگی                1985

سید ضمیر جعفری کی تصانیف کی تعداد پچاس کے قریب ہے۔ ان کا کلام ہر سطح پر نصاب میں شامل ہے۔ دنیا بھر کی جامعات میں ان کی شخصیت اور فن پر عالمانہ تحقیقی کام کا سلسلہ جاری ہے۔ ان کی ظریفانہ شاعری کی مندرجہ ذیل کتب بہت مقبول ہوئیں :

ما فی الضمیر، مسدس بد حالی، ولایتی زعفران، نشاط تماشا(کلیات)

     سید ضمیر جعفری نے ہمیشہ فکر و خیال کے نئے پہلو پیش نظر رکھے نئے تجربات، متنوع موضوعات اور شگفتہ پیرایہ اظہار ان کے اسلوب کے امتیازی اوصاف ہیں۔ وہ تخلیق فن کے لمحوں میں مزاح کو ایک ایسی ذہنی کیفیت سے تعبیر کرتے تھے جو فکر و نظر کو اس انداز میں مہمیز کرے کہ قاری  خندہ بے اختیار کی کیفیت سے آشنا ہو اور شگفتگی کا احساس  دل و دماغ پر فرحت، مسرت اور آسودگی کے نئے در وا کر دے۔ ان کی ظریفانہ شاعری نہ صرف دلوں کو تازگی اور مسرت کے احساس سے سرشار کرتی ہے بلکہ اذہان کی تطہیر و تنویر کا بھی اہتمام کرتی ہے ان کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں ایک عالمانہ شان اور احساس دل ربائی ہے جس کے معجز نما اثر سے انسانی شعور کو ترفع  نصیب ہو تا ہے اور قاری اس سے گہر اثر قبول کرتا ہے۔ سید ضمیر جعفری کی شگفتہ بیانی اپنی اصلیت کے اعتبار سے جہاں ہماری معاشرتی زندگی کی ذہنی استعداد کی مقیاس ہے  وہاں اس میں ہماری تہذیبی، ثقافتی، معاشرتی اور عمرانی اقدار و روایات کا احوال بھی مذکور ہے۔ انھوں نے اپنی ظریفانہ شاعری کے ذریعے اپنے عہد کے تمام ارتعاشات کو جس فنی مہارت، خلوص اور دردمندی کے ساتھ اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے وہ ایک منفرد تجربے کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ وہ بنی نوع انسان کے مسائل کا جائزہ انسانی ہمدردی کے جذ بہ سے سرشار ہو کر لیتے ہیں اور اس طرح زندگی کی نا ہمواریوں کے بارے میں ان کا ہمدردانہ شعور ید بیضا کا معجزہ دکھاتا ہے۔ انھوں نے اردو کی ظریفانہ شاعری کو نئے احساسات، متنوع تجربات اور نئی جہات سے مالا مال کر دیا۔ ان کی شاعری میں زندگی اور اس کے تمام نشیب و فراز کے بارے میں جو صد رنگی جلوہ گر ہے اس کی مسحور کن اثر آفرینی قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ ان کی شاعری میں چبھن اور نشتریت کی موجودگی بھی قاری کو گوار ا ہو جاتی ہے۔ ایسا   محسوس ہوتا ہے زہر خند کی یہ کیفیت ہمارے مسموم ماحول کا واحد تریاق ہے۔ ان کی ظریفانہ شاعری ادب اور کلچر کے تمام پہلو سامنے لاتی ہے۔ ان کی نظم ’’ بیماری کا نام ‘‘ قابل غور ہے :

زندگی ہے مختلف جذبوں کی ہمواری کا نام

آدمی ہے شلجم و گاجر کی ترکاری کا نام

علم الماری کا، مکتب چاردیواری کا نام

ملٹن اک لٹھا ہے، مومن خان پنساری کا نام

صاف کالر کے تلے معقول اجلی سی قمیص

ہے بہت ہی مختصر سا میری دشواری کا نام

اس نے کی پہلے پہل پیمائش صحرائے  نجد

قیس ہے در اصل اک مشہور پٹواری کا نام

عشق ہرجائی بھی ہو تو درد کم ہوتا نہیں

اک ذرا تبدیل ہو جاتا ہے بیماری کا نام

کوئی نصب العین، کوئی عشق، کوئی چاندنی

زندگی ہے ورنہ اک مصروف بے کاری کا نام

مدتوں دزدیدہ، دزدیدہ نظر سے دیکھنا

عشق بھی ہے اک طرح کی چور بازاری کا نام

میں نے تو اپنے لیے آوارگی تجویز کی

تم نے کیا رکھا ہے اپنی خود گرفتاری کا نام

بات تو جب ہے بدل جائے سرشت انسان کی

ورنہ لکھنے کو تو لکھ دو اونٹ پر لاری کا نام

دل ہو یا دلیاہو، دانائی کہ بالائی ضمیر

زندگی ہے بعض اشیا کی خریداری کا نام            (۱)

       سید ضمیر جعفری نے اپنی زندگی کو خوشیوں اور راحتوں سے متمتع کرنے کے لیے بڑی جد و جہد کی۔ ان کے احباب کی بڑی تعداد نامور ادیبوں پر مشتمل تھی۔ ان میں کرنل محمد خان، بریگیڈئیر صدیق سالک، محمد اسما عیل صدیقی، نذیر احمد شیخ، محمد خالد اختر، ڈاکٹر بشیر سیفی، ڈاکٹر نثار احمد قریشی، ڈاکٹر رحیم بخش شاہین، ڈاکٹر محمد ریاض، پروفیسر نظیر صدیقی، مجید لاہوری، محسن احسان، خاطر غزنوی، غفار بابر، سید جعفر طاہر اور محمود اختر سعید کے نام قابل ذکر ہیں۔ یہ احباب ان کی پہچان تھے۔ وہ انھیں دل و جان سے عزیز رکھتے تھے۔ سید ضمیر جعفری نے تمام عمر ظلم و جبر کے ہر انداز پر لعنت بھیجنا اپنا شعار بنایا۔ وہ ایسے موضوعات اور واقعات کا انتخاب کرتے ہیں  جن میں زندگی کے تمام نشیب و فراز حقیقی صورت میں ظریفانہ شاعری کے قالب میں ڈھل کر ایک ہمدردانہ شعور کو اجاگر کرتے ہیں۔ اس شاعری کو پڑھ کر ہر طبقے کے لوگ اپنائیت محسوس کرتے ہیں۔ ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے انھوں نے ممولے کو شہباز سے ہم کلام ہونے کی ترغیب دی اور پست و بلند کے جملہ امتیازات کو تیشہ مزاح سے نیست و نابود کر دیا۔ ان کی ظریفانہ شاعری کا تعلق کسی مخصوص طبقے سے نہیں بلکہ اس شاعری کا موضوع اس قدر فراواں اور عام زندگی سے منسلک ہے کہ تمام انسانیت کے مسائل اس میں سمٹ آئے ہیں۔ ان کے تمام دوست اسی جد و جہد میں مصروف رہے کہ کسی طور انسانیت کے دکھوں کا مداوا ہو سکے اور مظلوم انسانیت کے زخموں کے اندمال کی کوئی صور ت نظر آئے۔ ان کے مزاح میں ہمدردی کا عنصر کائناتی عوامل کا احاطہ کرتا ہے:

پیدا کرو

شوق سے لخت جگر، نور نظر پیدا کرو

ظالمو!تھوڑی سی گندم بھی مگر پیدا کرو

ارتقا تہذیب کا یہ ہے کہ پھولوں کی بجائے

توپ کے دھڑ، بم کے سر، راکٹ کے پر پیدا کرو

شیخ، ناصح، محتسب، ملا کہو کس کی سنیں

یارو کوئی ایک مرد معتبر پیدا کرو

میری دشواری کا کوئی حل مرے چارہ گرو

جلد تر، آسان تر اور مختصر پیدا کرو

تیرے شعر تر کو یہ اولاد آدم کیا کرے

نے نوازی ہو چکی اب نیشکر پیدا کرو

کیا چھچھوندرسے نکالے ہیں یہ بچے شیخ جی

قبلہ عالم انھیں بار دگر پیدا کرو

میری درویشی کے جشن تاج پوشی کے لیے

ایک ٹوپی اور کچھ مرغی کے پر پیدا کرو

حضرت اقبال کا شاہیں تو ہم سے اڑ چکا

اب کوئی اپنا مقامی جانور پیدا کرو    (2)

      ایک حساس، پر خلوص اور دردمند تخلیق کار کی حیثیت سے سید ضمیر جعفری نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا۔ انھوں نے تخلیقی اظہار کے جملہ ممکنہ امکانات کو بروئے کار لانے کی مقدور بھر سعی کی۔ وہ بہ یک وقت سپاہی، صحافی، شاعر، مزاح نگار، میزبان، براڈکاسٹر اور نقاد تھے۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر انھوں نے جو پروگرام’’ آپ کا ضمیر ‘‘ کے نام سے پیش کیا وہ بے حد مقبول ہوا۔ اردو مزاح میں وہ سید احمد شاہ بخا ر ی پطرس کے اسلوب کو بہت اہم قرار دیتے تھے اسی طرح براڈکاسٹنگ میں انھیں سید ذوالفقار علی بخاری کا اسلوب پسند تھا۔ اپنی اندرونی کیفیات، جذبات اور احساسات کو وہ ہنسی کے حسین اور خوش رنگ دامنوں میں اس خوش اسلوبی سے چھپا لیتے ہیں کہ ان کے اسلوب کا دائمی تبسم قاری کو مسحور کر دیتا ہے وہ طنز و مزاح کے فرغلوں میں لپیٹ کر زندگی کی تلخ صداقتیں ، بے اعتدالیاں اور تضادات نہایت دل نشیں انداز میں اشعار کے قالب میں ڈھالتے ہیں۔ ان کے اسلوب پر ایک مصلح، ناصح اور فلسفی کا شائبہ ہوتا ہے۔ وہ کسی طور بھی محض ہنسانے والے کا کردار ادا کرنے پر مطمئن نہیں ہوتے بلکہ مزاح کو تو وہ حصول مقصد کا ایک زینہ خیال کرتے ہیں۔ ان کی وہ باتیں بھی جو کہ وہ ہنسنے کی غرض سے اشعار کے قالب میں ڈھالتے ہیں اپنے اندر زندگی کے متعدد اسرار و رموز لیے ہوتی ہیں۔ وہ جس انداز میں تخیل کی جولانیاں دکھاتے ہیں اسے دیکھ کر ان کے مقاصد کی رفعت، اسلوب کی گہرائی اور زبان و بیان کی تاثیر کا جادو  سر چڑھ کر بولتا ہے۔ انسانیت کے وقار اور سربلندی کے لیے انھوں نے مقدور بھر سعی کی۔ معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی خود غرضی، ہوس اور مفاد پرستی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو وہ سخت نا پسند کرتے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی معاشرہ جب اندرونی تضادات، بے اعتدالیوں اور ناہمواریوں پر چپ سادھ لیتا ہے اور کسی اصلاحی بات پر ٹس سے مس نہیں ہوتا تو یہ بات خطرے کی گھنٹی ہے کہ معاشرہ  بے حسی کی بھینٹ چڑھ گیا ہے اور یہ صور ت حال کسی معاشرے، سماج اور تہذیب کے لیے بہت برا شگون ہے۔ احساس ذمہ داری کا فقدان آج ہمارا بہت بڑا المیہ ہے۔ ہم اپنی تمام کوتاہیوں کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال کر راہ فرار اختیار کرتے ہیں اور کسی صورت میں بھی اپنے احتساب پر آمادہ نہیں ہوتے۔

قصور

ہم کریں ملت سے غداری قصور انگریز کا

ہم کریں خود چور بازاری قصور انگریز کا

گھر میں کل بینگن کے بھرتے میں جو مرچیں تیز تھیں

اس میں بھی ہو گا  بڑا بھاری قصور انگریز کا   (3)

توقعات

مارشل لا خوردہ جمہوری نظام

اس الیکشن میں نیا حل لائے گا

لوگ اس امید پر دیتے ہیں ووٹ

پھر یہ نخل بے ثمر پھل لائے گا                (4)

عذر

بہر نماز عید بھی حاضر نہ ہو سکوں

مانوس اس قدر بھی نہیں اپنے گھر سے میں

اے رحمت تمام میری یہ خطا معاف

حاضر نہ تھا خطیب کے خطبے کے ڈر سے میں         (5)

      یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ اخلاقیات کا قصر عالی شان ہمیشہ عدل و انصاف کی اساس پر استوار ہوتا ہے۔ سید ضمیر جعفری کو اس بات کا شدید قلق تھا کہ معاشرہ قحط الرجال کے باعث  توازن اور اعتدال کی راہ سے بھٹک گیا ہے۔ جاہل کو اس کی جہالت کا انعام مل جاتا ہے۔ ہوس نے نوع انساں کو انتشار اور افتراق کی گمراہی میں مبتلا کر دیا ہے۔ ذاتی مفادات کی خاطر لوگ اپنے ابنائے جنس کے خون کے پیاسے ہو گئے ہیں۔ سید ضمیر جعفری ایک اسلامی فلاحی مملکت کے حامی تھے۔ وہ جبر اور استحصال کو سخت نا پسند کرتے اور اس بات پر اصرار کرتے کہ ظلم اور نا انصافی کے سامنے سپر انداز ہونا بہ جائے خود ایک ظلم ہے۔ ظا لم  کہیں بھی اور کیسا بھی طاقت ور ہو اس پر لعنت بھیجنا ان کا شعار تھا۔ قیام پاکستان کے بعد رونما ہونے والے سیاسی حالات سے وہ  خاصے دل گرفتہ تھے۔ ان کا خیال تھا کہ منزل پر وہ لوگ قابض ہو گئے جو کہ شریک سفر ہی نہ تھے۔ ان حالات میں سلطانیِ جمہور کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ آمریت کے مسموم اثرات سے ترقی اور خوش حالی کی راہیں مسدود ہوتی چلی گئیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مظلوم اور بے بس عوام  آزادی کے ثمرات سے محروم ہو گئے۔ چور محل میں جنم لینے والے جب چور دروازے سے جاہ و منصب پر غاصبانہ قبضہ کر لیتے ہیں تو بلا شبہ عقابوں کے نشیمن زاغوں کے تصرف  میں آ جاتے ہیں اور کالا دھن کمانے والے تمام وسائل پر ہاتھ صاف کر لیتے ہیں۔ ایسے مفا پرست لوگوں کی بد اعمالیوں اور قبیح کردار نے ہمیں اقوام عالم کی صف  میں تماشا بنا دیا ہے۔ اجالا داغ داغ اور سحر شب گزیدہ ہو کر رہ گئی ہے۔ سید ضمیر جعفری کی نظم ’’ہم آزاد ہیں ‘‘اپنے اندر جو کرب لیے ہوئے وہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

 ہم آزاد ہیں

فرد ہو یا ملک تنہائی کا یارا بھی نہیں

بھائی چارے کے بہ جز کوئی اور چارہ بھی نہیں

ہم نے یہ مانا اکیلے میں گزارہ بھی نہیں

بات ہو جائے کسی سے یہ گوارا بھی نہیں

ہم عجب آزاد ہیں ہم کس قدر آزاد ہیں

ہم زمانے میں بہ انداز دگر آزاد ہیں

آج کل دنیا سمٹ کر ایک کاخ و کو میں ہے

اک قدم لاہور میں ہے ایک ٹمبکٹو میں ہے

بم شکاگو میں دھمک سارے ہنو لولو میں ہے

لالہ مصری خان لیکن اپنی ہاؤ ہو میں ہے

وہ یہ کہتا ہے کہ ہم مردان نر آزاد ہیں

ہم زمانے میں بہ انداز دگر آزاد ہیں

آئیے اب گھر میں آزادی کا منظر دیکھیے

جز بہ جز بکھر ہوا دفتر کا دفتر دیکھیے

اپنی صورت اپنے آئینے کے اندر دیکھیے

شرم آئے گی مگر جان برادر دیکھیے

ہم تو آزادی سے بھی کچھ بیش تر آزاد ہیں

ہم زمانے میں بہ انداز دگر آزاد ہیں

خواب آزادی کی یہ تعبیر سمجھے ہیں ضمیر

یار ماری، چور بازاری، سمگلنگ، داروگیر

گھات میں بیٹھا ہوا ہے کیا پیادہ کیا وزیر

اپنا اپنا کوہ کن ہے، اپنی اپنی جوئے شیر

بے نیاز امتیاز خیر و شر آزاد ہیں

ہم زمانے میں بہ انداز دگر آزاد ہیں (6)

     انسانی فطرت کی خامیاں ، انسانی مزاج کی بے اعتدالیاں اور معاشرتی زندگی کے جملہ تضادات کو سید ضمیر جعفری نے اپنی  ظریفانہ شاعری میں مواد کے طور پر جس خلاقانہ مہارت سے استعمال کیا ہے وہ ان کے صاحب اسلوب تخلیق کار ہونے کی واضح دلیل ہے۔ وہ ادب کو ایک سماجی فعالیت سے تعبیر کرتے تھے۔ انھوں نے ادب کو عمرانی صداقتوں کا آئینہ دار بنا دیا ہے۔ ان کے اسلوب میں پائی جانے والی شگفتگی ان کی شخصیت کی نفاست کی مظہر ہے۔ ان کے اسلوب  میں ہمدردی، انس، خلوص، مروت، ایثار اور افہام و تفہیم کی جو فضا ہے وہ انھیں خالص مزاح نگار کے بلند مقام پر فائز کرتی ہے۔ ان کی مضبوط اور مستحکم شخصیت میں اولوالعزمی، بلند ہمتی اور مستقل مزاجی کے عناصر پوری قوت کے ساتھ اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ ان کی مسحور کن شخصیت ان کے منفرد اسلوب میں اپنی پوری تابانیوں کے ساتھ اشعار کے پس منظر میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔ ایک نقاد جب کسی قوم کے فکری ارتقا کا مطالعہ کرنا چاہتا ہے تو وہ اس امر پر توجہ دیتا ہے کہ اس قوم کی لسانی بنیاد کس قدر مستحکم ہے۔ یاد رکھنا چاہیے لسانیات کی تفہیم کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ کوئی بھی قوم اپنی زبان کے استعمال میں کس قدر ذہنی بالیدگی اور پختگی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ اس امر کی جانچ پرکھ  کا ایک ہی معیار ہے کہ اس زبان میں ظرافت کا کتنا وقیع سرمایہ موجود ہے۔ سید ضمیر جعفری نے اردو زبان کو طنز و مزاح کے حوالے سے ثروت مند کر دیا۔ ان کی تخلیقی فعالیت سے اردو زبان میں طنز و مزاح کی ثروت میں قابل تحسین اضافہ ہوا۔ انھوں نے اپنے تخلیقی تجربات کے اعجاز سے اردو زبان کو بلند پایہ ظرافت کے شاہکاروں سے متمتع کیا اور یہ ثابت کر دیا کہ اردو زبان دنیا کی متمدن زبانوں میں شامل ہے۔ ان کی شاعری کے مطالعہ سے معاشرتی بصیرت کو نمو ملتی ہے اور اس طرح قاری اپنے اندر ایک ولولہ تازہ محسوس کرتا ہے۔ اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کی کیفیت ہے اور مرحلہ شوق ہے کہ ابھی طے نہیں ہو پا رہا۔

      سید ضمیر جعفری نے انسانیت کو اس عالم آب و گل کی عظیم ترین قدر قرار دیا۔ انسانیت کی توہین، تذلیل، تضحیک اور بے توقیری کرنے والوں کے خلاف انھوں نے قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیا۔ انھوں نے ظالم و سفاک، موذی و مکار استحصالی عناصر کے مکر کا پردہ فاش کرنے میں کبھی تامل نہ کیا۔ آج ہمارے دور کا المیہ یہ ہے کہ فرد کی بے چہرگی اور عدم شناخت کا مسئلہ روز بہ روز گمبھیر صورت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔ ان لرزہ خیز اعصاب شکن حالات میں زندگی کی رعنائیاں گہنا گئی ہیں ، رتیں بے ثمر، کلیاں شرر، آہیں بے اثر، زندگیاں پر خطر اور آبادیاں خوں میں تر کر دی گئی  ہیں۔ سید ضمیر جعفری کی ظریفانہ شاعری اس امر پر اصرار کرتی ہے کہ ہوائے جور و ستم میں بھی رخ وفا کو بجھنے نہ دیا جائے۔ حوصلے، امید اور رجائیت پر مبنی یہ ظریفانہ شاعری ہر عہد میں دلوں کو مرکز مہر و وفا کرنے کا وسیلہ ثابت ہو گی۔ ان کی ظریفانہ شاعری ایک خاص نوعیت کی انفعالی کیفیت اور بصیرت کی امین ہے جس کی بدولت ہجوم یاس میں بھی دل کو سنبھالنے میں کامیابی ہوتی ہے۔ ظرافت نے ان کو عشق کے بلند مقام تک پہنچا دیا۔ ان کا مزاح گہری سوچ، فکری بالیدگی، ذہن و ذکاوت اور تجزیہ سے بھر پور ہے۔ عناصر میں رشتوں کا ایک نظام کارفرما ہوتا ہے۔ سید ضمیر جعفری نے ایک کامیاب مزاح نگار کے طور پر ان عناصر کی بے اعتدالیوں کے بارے میں ہمدردانہ شعور کو اجاگر کیا اور فن مزاح نگاری کے تمام پہلوؤں کو اپنے اسلوب کی اساس بنایا۔ وہ اعتدال پسندی کی روش اپنانے پر زور دیتے ہیں اور ان کا پیغام مسرت  ہے جہاں تک پہنچے۔

     اردو کی ظریفانہ شاعری کا یہ آفتاب 16مئی1999کو غروب ہو گیا۔ ان کی وفات سے اردو کی ظریفانہ شاعری کا ایک عہد اپنے اختتام کو پہنچا۔ ان کی شاعری انھیں شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند مقام  پر فائز کرے گی۔ لوح جہاں پر ان کا نام ہمیشہ ثبت رہے گا۔ وہ ایک عظیم الشان شعری روایت کے موجد تھے۔ ان کی وفات کے ساتھ ہی اردو شاعری میں طنز و مزاح کی ایک درخشاں روایت نئی نسل کو منتقل ہو گئی۔ ان کے بارے میں احباب یہ کہا کرتے تھے کہ وہ اس لیے ہنستے ہیں کہ کہیں دیدہ گریاں کی نہر انھیں بہا نہ لے جائے۔ اب سیل زماں نے ہمارے ہنستے بولتے چمن کو مہیب سناٹوں اور جان لیوا  دکھوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔

برس گیا بہ خرابات آرزو تیرا غم

قدح قدح تیری یادیں سبو سبو تیرا غم

٭٭

 

ماخذ

 (1)سید ضمیر جعفری :نشاط تماشا، ما فی الضمیر، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، 1993صفحہ 160۔

(2)سید ضمیر جعفری :نشاط تماشا، ما فی الضمیر،                             ، صفحہ 91۔

(3)سید ضمیر جعفری :نشاط تماشا، ضمیر ظرافت،                             ، صفحہ 599۔

(4)سید ضمیر جعفری :مسدس بد حالی، دوست پبلی کیشنز، اسلام آباد، جنوری، 1996، صفحہ 160۔

(5)سید ضمیر جعفری :نشاط تماشا، بے کتابے،                                     صفحہ 799۔

 (6)سید ضمیر جعفری :نشاط تماشا، ضمیریات،                                      صفحہ 515۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید