FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

حضرت سید احمد شہیدؒ : دعوتی خدمات اور امتیازی خصوصیات کے آئینہ میں

 

 

               محمد حماد کریمی

 

 

 

 

 

 

مقدمہ

 

 

الحمد للہ وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی، امابعد!

 

اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو آخری نبی بنا کر ساری انسانیت کی ہدایت کے لئے مبعوث کیا، اور فرمایا : ’’وما ارسلناک إلا رحمۃ للعالمین‘‘ آپ کی بعثت کے ساتھ آپ کی امت بھی انسانیت کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوئی، اس حقیقت کا اظہار حضر ت سعد ابن ابی وقاص (فاتح ایران) کے رستم (سپہ سالار افواج ایران) کے دربار میں سفیر حضرت ربعی بن عامر نے کیا تھا، اور کہا تھا : ’’اللہ ابتعثنا لنخرج من شاء من عبادۃ العباد إلی عبادۃ اللّٰہ وحدہ، ومن ضیق الدنیا إلی سعتھا، ومن جور الادیان إلی عدل الإسلام‘‘ یہی دعوت ہے جس کو لے کر صحابہ کرام ایک جگہ بیٹھے نہیں بلکہ دنیا میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنا شروع ہو گئے یہاں تک کہ دین ان کے ذریعہ اور پھر ان کے اخلاف کے ذریعہ دور دور پہنچ گیا۔

ہندوستان میں ساتویں صدی ہجری میں شیخ الاسلام سید قطب الدین محمد المدنی اس عظیم مقصد کی تکمیل کے لئے تشریف لائے، ان کو اللہ نے بڑا رتبہ عطا فرمایا تھا، ان کی نسل میں گیارہویں صدی ہجری میں حضرت شاہ علم اللہ حسنی کی شخصیت جلوہ گر ہوئی جن کو اللہ نے توحید خالص کی زبردست حس اور اتباعِ سنت کا بڑا جذبہ اور شوق عطا فرمایا تھا، اور اسی کے ساتھ شرک و کفر سے بڑی نفرت ان کے اندر تھی، یہ بات ان کی اولاد میں بھی رہی اور امیرالمومنین حضرت سید احمد شہیدؒ جو ان کے پوتے مولانا سید محمد نور بن مولانا سید محمد ہدی کے پوتے اور ان کی والدہ ان کے دوسرے پوتے مولانا سید محمد ضیاء بن مولانا شاہ آیت اللہ کی پوتی ہیں، وہ اس کو دعوت اور پیغام کے طور پر لے کر اٹھے اور ایک جگہ ٹھہرے نہیں، آگے بڑھتے چلے گئے، یہاں تک کہ توحید وسنت کا غلغلہ ان کے اور ان کے خلفاء کے ذریعہ ایک طرف نیپال کی ترائی سے تبت کی پہاڑیوں تک اور ہندوستان کے مشرقی کنارے سے جاوا اور مراکش تک بلند کر دیا، اور حج کے فریضہ کے احیاء کے ساتھ جہاد کی عظیم سنت کا احیاء کیا، یہاں تک کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے بالاکوٹ کے میدان میں جامِ شہادت نوش کیا۔

ان کی شہادت کے بعد ان کی تحریکِ دعوت و اصلاح وجہادسرد نہیں پڑی، بلکہ اس میں اور گرمی آ گئی اور ایک طرف ان کے اخلاف نے جہاد کا عمل جاری رکھا تو دوسری طرف دعوت و اصلاح کے کام کے لئے اور توحید کی اشاعت، دین کی سربلندی، سنت کے فروغ کے لئے پورے ملک میں دہلی سے پشاور اور کشمیر سے کیرالہ ومدراس تک پھیل گئے، اور ایک جماعت نے حرمین شریفین کی سکونت اختیار کی اور تعلیم و اصلاح اور درس و افادے کے ذریعہ دین کی خدمت انجام دی، اور خود ملک ہندوستان میں قیامِ مدارس کی عظیم تحریک شروع ہوئی اور دارالعلوم دیوبند، مظاہر العلوم سہارنپور، دارالعلوم ندوۃ العلماء جیسے ادارے قائم ہوئے، اور خود مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی جیسے عصری ادارے قائم کرنے کے پیچھے بھی یہی دماغ اور یہی چنگاری کام کر رہی تھی کہ ملت کا مفاد ان سے وابستہ تھا۔

زبان و ادب پر بھی حضرت سید احمد شہیدؒ کی تحریک اصلاح و دعوت و جہاد نے غیر معمولی اثر ڈالا، دینی کتابوں کی تصنیف اور ترجموں کا کام اس تحریک کے افراد اور حضرت سید احمد شہید ؒ کے خلفاء اور منتسبین نے انجام دیا۔

دین و ملت کی خدمت اور انسانیت کی فلاح و بہبود کا کونسا کام ہے جس کے لئے بڑھ چڑھ کر اس تحریک کے افراد نے حصہ نہ لیا ہو، اور ملک کی آزادی کے لئے جو کوششیں جاری رہی ان کے پیچھے بھی اسی تحریک کے اثرات کام کر رہے تھے یہاں تک کہ برطانوی استعمار سے اس ملک ہندوستان نے آزادی پائی۔

امیر کبیر شیخ الاسلام قطب الدین محمد المدنی اور حضر ت سید شاہ علم اللہ حسنی رائے بریلوی کی شخصیت (جن میں سے ایک نے دعوتی مقصد سے ملک ہندوستان کا سفر کیا تھا اور دوسرے نے اسی جذبہ سے ہجرت کا ارادہ فسخ کیا تھا، ) حضرت سید احمد شہیدؒ کی شخصیت کی تشکیل میں جو اثر رکھتی ہے ان کے ساتھ ایک دوسرا اثر ولی اللّٰہی مکتبۂ فکر سے بھی انہوں نے لیا، اور حکیم الاسلام حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ کے جانشین صاحبزادہ و خلیفہ سراج الہند حضرت شاہ عبدالعزیز دہلویؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر( جہاں آپ کے خاندان کے اور بھی افراد اور خود آپ کے بڑے بھائی مولانا سید محمد اسحاق حسنی اور چچا مولانا سید محمد نعمان حسنی تربیت حاصل کر چکے تھے، ) آپ نے بھی تربیت پائی، اور اس خاکہ اور منصوبہ کو عملی جامہ پہنایا جو حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے بنایا تھا، حضرت شاہ عبدالعزیز ؒ کا حلقۂ تلمذ و ارادت بھی آپ کا حلقہ ہو چکا تھا، جن میں خصوصیت سے حضرت مولانا شاہ اسماعیل شہیدؒ، مولانا عبدالحیٔ بڈھانویؒ، مولانا مفتی الٰہی بخش کاندھلویؒ، حضرت میاں جی نور محمد جھنجھانویؒ، مولانا شاہ محمد اسحق محدثؒ، مولانا شاہ محمد یعقوب محدثؒ کے نام خصوصیت سے قابلِ ذکر اور سرِ فہرست ہیں۔

اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے مولانا محمد الیاس ندوی بھٹکلی زادہ اللّٰہ تعالیٰ مآثرہ کو وہ اپنی دینی، دعوتی، تعلیمی و اصلاحی مساعی کے ساتھ اپنے اسلاف سے واقف کرانے کا بھی درد رکھتے ہیں، اور اس کے لئے پروگراموں اور مسابقات کا انعقاد کر کے نئی نسل کو اپنے اسلاف کے نقش قدم پر ڈالنے کی شکل اختیار کرتے ہیں، چنانچہ امیر المومنین حضرت سید احمد شہیدؒ کے کام، مشن اور شخصیت سے واقف کرانے کے لئے ملکی سطح پر ایک مسابقہ کا انعقاد کیا جس میں مدارس اسلامیہ کے طلباء نے بھی حصہ لیا، جس سے ان کے جوہر کھلے اور صلاحیتوں میں نکھار آیا، اور اس عظیم اصلاحی تحریک کا ایک نئے ڈھنگ سے وسیع پیمانے پر تعارف ہوا۔

عزیز مکرم مولانا حماد کریمی ندوی صاحب زادہ اللّٰہ تعالیٰ علماً و عملاً و وفقہ اللّٰہ لما یحبہ ویرضاہ کا مقالہ بھی انہی مقالوں میں ہے، اور اب وہ اشاعت کے مرحلہ میں ہے، امید ہے کہ یہ مقالہ صرف ایک مقالہ نہیں رہے گا مزید تحقیق اور محنت سے ایک ایسی کتاب کی بھی حیثیت حاصل کرے گا جس سے اس تحریک کے دبے پہلو سامنے آئیں گے اور اسے ایک دستاویزی شکل حاصل ہو گی اگر چہ ابھی اس کی حیثیت صرف ایک مقالہ ہی کی ہے۔

ہم ان کی اس کوشش کی قبولیت کے لئے دعا کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ کام کے اس مرحلہ پر قناعت نہیں کریں گے بلکہ اچھے سے اچھے کی تلاش جاری رکھیں گے۔

(مولانا ) محمود حسن حسنی ندوی(مد ظلہ العالی)

۲۵؍ رجب المرجب ۱۴۳۴ھ؁

مہمان خانہ، دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ

 

 

 

 

تمہید

 

بسم اللّٰہ، والحمد للّٰہ، والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ، ومن والاہ، اما بعد!

موجودہ زمانہ میں برصغیر کی اسلامی تاریخ سے تھوڑی بہت بھی واقفیت رکھنے والا شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو گا جو حضرت سید احمد شہیدؒ کی شخصیت، ان کی تحریک اور ان کے کارناموں سے ناواقف ہو، ادھر کچھ دہائیوں میں اس سلسلہ میں جو کچھ لکھا گیا ہے اگرچہ وہ حرفِ اخیر نہیں، لیکن اس کے تعلق سے اتنا تو کہا جا سکتا ہے کہ اس کے بعد حضرت سید احمد شہید ؒ کی شخصیت، ان کی تحریک اور ان کے خلفاء کے کارنامے کوئی ڈھکی چھپی چیزیں نہیں رہیں۔

لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ یہی شخصیت اور یہی تحریک جس کا آج ہر کوئی معترف ہے اور ان کی طرف انتساب کو اپنے لئے باعثِ فخر سمجھتا ہے، ان پر ایک زمانہ ایسا بھی گذرا کہ بہت کم لوگ ان کے بارے میں جانتے اور علم رکھتے تھے۔ اس حقیقت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب کچھ زمانے کے بعد انہیں کے خانوادہ کے چشم و چراغ حضرت مولانا سیدابوالحسن علی حسنی ندویؒ نے اس شخصیت اور ان کی تحریک کی اس گمنامی اور خانہ خرابی کو دیکھا، اور حقیقت سے زیادہ واہیات کو عام دیکھا تو ان کا دل تڑپ کر رہ گیا، اور انہوں نے اس سلسلے میں اردو و عربی میں بہت کچھ مواد فراہم کیا، اور ان کی تحریک کے پردۂ خفا میں رہنے کے اسباب بیان کرتے ہوئے برملا اس حقیقت کا اظہار کیا۔

اس کی ایک وجہ ظالم و غاصب انگریزوں کا ڈر تھا کہ انہوں نے یہ اعلان کر رکھا تھا کہ جو بھی ان کی طرف منسوب ہو اس کو جذبۂ انتقام میں تختۂ مشق بنایا جائے، جس کی وجہ سے لوگ اس سلسلہ میں گفتگو سے بھی پرہیز کرتے تھے، دوسری وجہ یہ تھی کہ اس شخصیت اور اس تحریک سے متعلق جو تحریریں تھیں وہ سب مخطوطات و محفوظات کی شکل میں ذاتی لائبریریوں میں بند تھیں، جہاں تک ہر ایک کی رسائی نہ ہونے کی بنا پر استفادہ محدود تھا۔

آزادیِ ہند کی تحریک کے زور پکڑنے کے ساتھ یہ دونوں وجوہات آہستہ آہستہ ختم ہو گئیں، اور حضرت مولانا سیدابوالحسن علی حسنی ندویؒ نے مختلف کتابوں اور مخطوطات و محفوظات کی مددسے اردو میں دو جلدوں میں ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل کتاب ’’سیرت سید احمد شہیدؒ‘‘ تصنیف کی، جس میں حضرت سیداحمد شہیدؒ کے مفصل سوانح حیات، آپ کے اصلاحی و تجدیدی کارنامے اور غیر منقسم ہندوستان کی سب سے بڑی تحریکِ جہاد و تنظیمِ اصلاح اور احیائے خلافت کی پوری تاریخ مرتب ہو کر سامنے آ گئی، پھر مختلف زبانوں میں اس کے ترجمہ ہوئے، اور یہ کتاب سلسلۂ ’’تاریخ دعوت و عزیمت ‘‘کی چھٹی وساتویں جلد اور ’’ رجال الفکر والدعوۃ ‘‘کی پانچویں جلد قرار پائی، اس کے بعد بھی یہ کام رکا نہیں بلکہ اس سلسلہ میں مزید پیش رفت ہوتی رہی، اور مختلف کام سامنے آتے رہے اور خود حضرت مولانا کے قلم سے بھی متعدد چیزیں منظر عام پر آئیں۔

زیرِ نظر رسالہ اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے جو ایک اعتبار سے کتاب ’’سیرت سید احمد شہیدؒ ‘‘کا خلاصہ بھی کہا جا سکتا ہے، جس میں مختصراً حضرت سیداحمد شہیدؒ سے متعلق اکثر و بیشتر چیزوں کو جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے، امید ہے کہ انشاء اللہ یہ رسالہ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ فائدہ کا ذریعہ بنے گا۔

اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے اس کام کی توفیق عنایت فرمائی، بغیر اس کی توفیق کے کیسے ممکن کہ کوئی شخص ادنیٰ سے ادنیٰ کا م انجام دے، فللّٰہ الحمد والشکر علی ذلک۔

پھر میں بے انتہا شکر گذار ہوں اپنے والد و مربی جناب مولانا شرفِ عالم صاحب کا کہ انہیں کے بار بار اصرار کے بعد اس رسالہ کو قابلِ اشاعت بنانے کی ہمت ہوئی۔

نیز استاذ محترم جناب مولانا فیصل احمد ندوی دامت برکاتہم بھی شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس رسالہ پر نظرِ ثانی فرمائی اور کمیوں کی اصلاح فرمائی۔

اس کے ساتھ ساتھ میں شکریہ ادا کرتا ہوں محترم و مکرم جناب مولانا محمود حسن حسنی ندوی دامت برکاتہم کا کہ مولانا نے باوجود مصروفیات کے وقیع، قیمتی اور علمی مقدمہ تحریر فرما کر ہمت افزائی فرمائی۔

اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ تمام حضرات کو جزائے خیر عطا فرمائے، ان کے کاموں میں برکت عطا فرمائے اور دنیا و آخرت میں کامیاب فرمائے، آمین

محمد حماد کریمی ندوی

دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ

۲۷؍ رجب ۱۴۳۴ھ؁ مطابق ۷؍جون ۲۰۱۳ء

موبائل نمبر: 9889943219

ای میل: hammadkarimi93@gmail.com

 

 

 

 

کچھ ابتدائی باتیں

 

اسلام ایک کامل و مکمل دین ہے، اسی کاملیت و جامعیت کی بنا پر اس کو ابدیت حاصل ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کی آیت{الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الإسلام دینا}(مائدۃ: ۳) کے ذریعے اس بات کا اعلان کر دیا کہ اسلام ہی کامل و مکمل اور انسانیت کی ہدایت کا دین ہے۔ اسی کی اتباع و پیروی میں ہر انسان کی نجات ہے، لہذا جب اسلام باقی رہنے والا دین ہے تو لا محالہ اس کا قانون اس کی تعلیمات اور اس کے احکام بھی باقی رہیں گے۔ جس کا بنیادی ماخذ قرآن ہے، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا {إن علینا جمعہ وقرآنۃ} (قیامۃ: ۱۷) اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح اسلام کو دوام ہے، اسی طرح اس کے قوانین و احکام اور اس کے بنیادی مآخذ کو بھی بقاء إلی یوم القیامۃ حاصل ہے۔

لیکن اگر صرف اسلام اور اس کے احکام ہدایت انسانی کے لیے کافی ہوتے تو اللہ اپنے انبیاء کو نہ بھیجتا، چونکہ آسمانی دنیا اور زمینی دنیا کے درمیان رابطہ کے لئے ایک ایسی ذات پاک صفات کی ضرورت ہے، جو جسمانی اعتبار سے زمینی دنیا سے متعلق ہو لیکن اس کی فکریں روحانی اور اس کے تعلقات آسمانی ہوں جو آسمانی پیغام کو حاصل کر کے صحیح طور سے لوگوں تک پہنچائے، اسی ضرورت کی تکمیل کے لیے اللہ نے انبیاء اور رسولوں کو مبعوث کیا۔

اب چونکہ نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا تو اس کی نیابت کا اشارہ خود حضورﷺ نے اپنے پاک ارشاد میں اس طرح کر دیا {العلماء ورثۃ الانبیاء وإن الانبیاء لم یورّثوا دیناراً ولا درھماً ولکن ورّثوا العلم فمن اخذہ اخذ بحظ وافر} (مشکوٰۃ المصابیح) اسی ارشاد پاک کی حقانیت ہے کہ اُس وقت سے اِس وقت تک ہر زمانے میں علمائے ربانیین اور مصلحین و مجددین کا وجود رہا اور ان شاء اللہ تا یوم قیامت رہے گا، وما ذلک علی اللہ بعزیز۔

اگر کوئی چاہے تو وہ ان کی سیرت وسوانح اور اصلاحی و تجدیدی کارناموں پر تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کے ذریعے مطلع ہوسکتا ہے، لیکن کسی بھی شخصیت کے مطالعہ اس کے بارے میں پڑھنے اور اس کو جاننے سے پہلے چند بنیادی و اہم باتوں کی طرف توجہ دینے کی نہایت ہی ضرورت ہے، جس سے عموماً بے اعتنائی برتی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہونے کا اندیشہ و خدشہ رہتا ہے۔ (اللّٰھم احفظنا من ذلک) انہی باتوں کی طرف مولانا ابولحسن علی ندوی ؒ نے اپنی کتاب ’’ تاریخ دعوت و عزیمت‘‘ کے پیش لفظ میں نہایت ہی تفصیل سے اشارہ کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے۔

۱- کسی شخصیت کے حالات معلوم کرنے کے لئے خود اس کی تصنیفات و اقوال یا اس کے رفقاء و تلامذہ و معاصرین کی تصنیفات کو ترجیح دی جائے، آخری صورت میں بعد کے مستند مآخذ پر اعتماد کیا جائے۔

۲- ہر شخصیت کو اس کے زمانہ کی ضرورتوں اور تقاضوں نیز اس عہد کے میدانِ عمل کے لحاظ سے پرکھا جائے، ورنہ عظیم سے عظیم شخصیت بھی دوسرے زمانہ اور ماحول کے لحاظ سے ناکام ثابت کی جا سکتی ہے۔

۳- صرف علمی کمالات پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ باطنی پہلو پر بھی گہری نظر ہو۔ (۱)

 

 

 

 

تیرہویں صدی ہجری اور منصب امامت

 

دنیائے اسلام پر ایک نظر

 

تاریخ پر نظر رکھنے والوں کو تیرہویں صدی ہجری میں دنیائے اسلام میں جو عالمگیر دینی اخلاقی اور سیاسی انحطاط نظر آتا ہے وہ دفعتاً پیدا نہیں ہوا تھا، بلکہ تدریجاً پیدا ہوا تھا، اس کی تاریخ بہت پرانی ہے۔

خلاصہ یہ کہ عالم اسلام اس وقت ہر طرح سے زوال و انحطاط کا شکار تھا اگرچہ اول وقت سے عالم اسلام کے مختلف گوشے میں وقتاً فوقتاً مصلحین اور مجددین پیدا ہوتے رہے، جن سے مسلمانوں میں زندگی اور بیداری پیدا ہوئی، عقائد و اعمال کی اصلاح ہوئی، کہیں کہیں میدان جہاد بھی آراستہ ہوا، اور کار گزار صحیح الخیال جماعتیں بھی پیدا ہوئیں، لیکن مسلمانوں میں عالمگیر بیداری پیدا نہیں ہوئی۔

 

ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت

 

۱- مذہبی حالت : چونکہ ہندوستان کے اکثر علاقے میں اسلام ایک لمبا چکر کاٹ کے ایران وافغانستان کے راستے سے آیا تھا، اس لئے اپنی بہت سی تازگی کھوچکا تھا، جس کی بناء پر ایک زمانہ کے بعد تدریجی طور پر مسلمان شرک جلی کے شکار ہو گئے، سنت و شریعت بے معنی الفاظ بن گئے، قرآن کو ایک معمہ سمجھ لیا گیا اور فرائض و عبادات سے غفلت عام ہو گئی۔

۲- اخلاقی حالت: بعینہٖ وہی تھی جو ایک زوال پذیر قوم کی ہوتی ہے، فسق و فجور مسلمانوں کے آداب میں داخل ہو کر معاشرت کا جز بن گئی تھی، شراب نوشی اور نشہ آور چیزوں کا استعمال عام تھا، حد یہ کہ بعض شرفاء اپنے لڑکوں کو بازاری عورتوں کے پاس زبان و علم اور مجلس کی تعلیم کے لئے بھیجتے تھے، نکاح کی تعداد متعین نہ رہی، بلکہ بعض نکاح کے بھی پابند نہ رہے، عیش پرستی کا یہ عالم تھا کہ ہر روز روزِ عید اور ہر شب شبِ برات تھی، امراء و فقراء سب کا ایک ہی حال تھا۔

۳- سیاسی حالت: اس صدی میں سلطنت مغلیہ کا شیرازہ بکھر چکا تھا، دکن سے لیکر دہلی تک کا ملک کا حصہ مرہٹوں کے رحم و کرم پرتھا، پنجاب سے افغانستان تک سکھوں کا راج تھا، اور ان سب پر انگریزوں کا تسلط تھا، اور جو مسلمان حکمراں تھے وہ انگریزوں کے کٹھ پتلی تھے۔

یہ تھا تیرہویں صدی ہجری میں مسلمانوں کی ہندوستان میں حالت کا ایک طائرانہ جائزہ، لیکن اس جائزہ سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہو گا کہ علمی، ذہنی اور دینی و روحانی حیثیت سے تیرہویں صدی کا زمانہ بالکل تاریک اور ویران تھا، دل و دماغ کے سوتے بالکل خشک ہو چکے تھے، بلکہ یہ زمانہ ایک لحاظ سے ہندوستان کی اسلامی تاریخ کا قابل ذکر عہد بھی تھا، اس میں بعض ایسی باکمال و ممتاز ہستیاں موجود تھیں جن کی نظیر ملنی مشکل ہے۔

دینی و علمی کمالات کی جامعیت کے لحاظ سے دیکھئے تو سراج الہند حضرت شاہ حضرت عبدالعزیز دہلوی اور بیہقی وقت حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی جیسے اکابر اسی عہد کی زینت و رونق ہیں۔

علوم ریاضیہ میں دیکھئے تو قاضی القضاۃ نجم الدین کاکوری اور نواب تفضل حسین خاں وغیرہ جیسے مجتہدین فن و موجد اسی دور کی یادگار ہیں۔

تصوف و طریقت کو دیکھئے تو ہر سلسلے کے ایسے اکابر شیوخ موجود تھے، جنہوں نے اپنے طریق کو زندگیِ تازہ بخشی اور لاکھوں بندگان خدا ان کے انفاس قدسیہ سے فیض یا ب ہوئے۔

خلاصۂ کلام یہ کہ تمام خامیوں اور خرابیوں کے باوجود زندگی کے آثار باقی تھے، صلاحیتیں موجود تھیں، قوتیں وافر تھیں، لیکن اس وقت ایک ایسے شخص کی اور ایسی جماعت کی ضرورت تھی جو دین و علم اور صلاحیتوں کے اس بچے کھچے سرمائے سے وقت پر کام لے، جو دلوں کی بجھتی ہوئی انگیٹھیاں دوبارہ دہکا دے، افسردہ دلوں کو ایک بار پھر گرما دے، اور ملک میں اس سرے سے اُس سرے تک طلب اور دین کی تڑپ کی آگ لگا دے، جو شخص ان اوصاف مذکورہ اور دیگر اوصاف حسنہ سے متصف قائدانہ صلاحیتوں سے آراستہ ہو، اسلام کی بلیغ و معجز اصطلاح میں اس کو ’’امام‘‘ کہتے ہیں اور یہ جگہ بارہویں صدی ہجری کے اواخر اور تیرہویں صدی ہجری کے اوائل تک تمام اہل کمال اور مشاہیر رجال کی موجودگی میں خالی تھی۔ (۲)

 

 

 

 

سید صاحب کی سیرت پر اجمالی نظر

 

یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہر زمانے میں اپنے مخلص بندوں کو وجود بخشتا ہے جو لوگوں کو اس کی طرف بلاتے ہیں، اور دین کی تجدید کرتے ہیں، اسی ضرورت کی تکمیل کے لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے عین تیرہویں صدی ہجری کے آغاز میں اس شخصیت کو وجود بخشا جن کو دنیا سید احمد شہیدؒ کے نام سے جانتی ہے۔

زندگی کا اجمالی خاکہ:

نام                    :           احمد بن عرفان

ولادت              :           ۶؍ صفر ۱۲۰۱ھ؁ مطابق ۲۹؍ نومبر ۱۷۸۶ء؁۔

جائے ولادت      :           سید شاہ علم اللہ صاحب کے اس دائرے میں جواب تکیے کے نام سے مشہور ہے۔

والد کا نام اور سلسلہ نسب:            سید محمد عرفان بن سید محمد نور بن سید محمد ہدیٰ بن سید علم اللہ نسب بواسطۂ حضرت حسنؓ حضرت علیؓ تک پہنچتا ہے۔

والد کی وفات      :           ۱۲۱۴ھ؁

۱۲۲۲ھ؁ میں        :           کسب معاش کے لئے لکھنؤ کا سفر کیا، وہاں سے دہلی جا کر حضرت شاہ عبدالعزیز سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔

۱۲۲۴ھ؁ میں        :           وطن واپسی ہوئی اور سید محمد روشن کی صاحبزادی بی بی زہرہ سے نکاح ہوا۔

۱۲۲۶ھ ؁میں        :           دہلی کا دوسرا سفر کیا۔

۱۲۲۷ھ؁میں       :           نواب امیر خان کے لشکر میں ملازمت اختیار کی۔

۱۲۳۶ھ؁ میں        :           حج بیت اللہ کا سفر کیا۔

۱۲۳۷ھ؁ کو         :           ایک لمبے دور ے کے بعد جدہ پہنچے۔

۱۲۳۹ھ؁ کو          :          سفر حج سے وطن واپسی ہوئی۔

۱۲۴۱ھ؁ کو           :           شمالی مغربی ہندوستان کی طرف ہجرت کی۔

اسی سال اکوڑہ کی پہلی جنگ ہوئی جس میں فتح حاصل ہوئی۔

اس کے بعد مسلسل جنگ ہوتی رہی یہاں تک کہ سید صاحب نے بعض اسباب کی بناء پر وہاں سے کشمیر کا رخ کیا۔

۵؍ ذیقعدہ ۱۲۴۶ھ؁ کو بالاکوٹ پہنچے، ۱۷؍ ذیقعدہ ۱۲۴۶ھ؁ مطابق ۶؍ مئی ۱۸۳۰ء کو بالاکوٹ میں آخری جنگ ہوئی جس میں سید صاحب مرتبہ شہادت سے سرفراز ہوئے، اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔ (۳)

سید صاحب نے دعا کی تھی کہ اے اللہ میری قبر کو صیغۂ راز میں رکھ تاکہ لوگ اس کو بدعات کا گڑھ نہ بنا لیں جیسا کہ اس زمانہ کا رواج تھا، اور آج بھی ہے، سید صاحب کی یہ دعا قبول ہوئی، اور ان کی قبر اب بھی نامعلوم ہے، جس کی بناء پر ایک زمانہ تک بہت سے لوگوں کا یہی خیال رہا کہ سید صاحب کی موت واقع نہیں ہوئی بلکہ وہ غائب ہوئے ہیں۔ عنقریب ظہور پذیر ہوں گے۔

 

 

 

 

سید صاحب کی نمایاں دعوتی خدمات

 

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی سنت کے مطابق تیرہویں صدی کے منصب امامت اور تجدید دین کے لئے سید صاحب کا انتخاب کیا، جو امامت کے لئے مطلوبہ صفات سے متصف اور کمالات ظاہری و باطنی کے جامع تھے، سید صاحب کی حیات اور ان کی دعوتی خدمات پر لکھی ہوئی تصنیفات و تحریرات کا چند سطور میں احصا و احاطہ نہایت دشوار عمل ہے، لیکن بقول شاعر

انجام اس کے ہاتھ ہے آغاز کر کے دیکھ       بھیگے ہوئے پروں سے پرواز کر کے دیکھ

مندرجہ ذیل سطور میں سید صاحب کی دعوتی خدمات کی چند جھلکیاں پیش کی جاتی ہیں اللہ سے دعا ہے کہ کامیابی سے ہمکنار فرمائے۔

 

۱- سلامِ مسنون کا رواج

 

جب سید صاحب پہلی مرتبہ شاہ عبدالعزیز ؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو نہایت سادگی سے۔ السلام علیکم۔ کہا، یہ وہ زمانہ تھا کہ سلام مسنون کا رواج ہی ہندوستان سے جاتا رہا تھا حتی کہ حضرت شاہ صاحب کے خاندان میں بھی اس کی رسم نہ تھی، شاہ صاحب نے جب سید صاحب کا سلام سنا تو بہت خوش ہوئے، اور حکم دیا کہ اسی طرح سلام بطریق مسنون کیا جائے۔

 

۲- اصلاحِ رسوم

سید صاحب جب بھی کسی سے بیعت لیتے تو ان کو تعلیم دیتے کہ بیاہ برات اور شادی غمی وغیرہ میں خدا کے احکام اور رسول اللہﷺ کی تعلیمات کے خلاف جو شرک و بدعات کی رسومات رائج ہیں ان سے اجتناب کریں، ہر امر میں رسول مقبولﷺ کے طریقے پر نگاہ رہے، چاہے اس میں خوشی ہو یا غمی۔ اسی بنا پر جب آپ سفر حج پر تھے اور مدینہ میں قیام تھا تو بعض لوگوں نے محفلِ میلاد کا انعقاد کیا اور سید صاحب کو بھی دعوت دی تو آپ نے فرمایا: اگر اس مجلس کا انعقاد محض لہو و لعب کے لئے ہے تو ہم کو شرکت سے معذور رکھیں اور اگر عبادت کی نیت سے ہے تو اس کو کتاب وسنت سے ثابت کر دیں، تو میں بسروچشم حاضر ہو جاؤں گا ورنہ ہم کو اس سے کچھ تعلق نہیں۔

 

۳- نشاناتِ شرک کا ابطال

 

سید صاحب نے ایک آدمی کے یہاں طاق میں مٹی کے کھلونے رکھے دیکھے، تو فرمایا: یہ بت ہیں، ان کو مشرک رکھتے ہیں، ان کو توڑ ڈالو، گھر سے دور کرو، پھر دیر تک شرک کی برائیاں اور توحید کی خوبیاں بیان فرماتے رہے۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ صاحب خانہ نے اسی وقت وہ کھلونے توڑ کر باہر پھینک دیے۔

 

۴- بیوہ کا نکاح

 

اس زمانے میں بیوہ کے نکاح کو بڑے ننگ و عار کی بات اور خلاف ادب شرفاء سمجھاجاتا تھا، یہاں تک کہ بعض علماء بھی اس رواج کی حمایت کرتے تھے۔ علماء و مصلحین نے اس ذہنیت اور جاہلی حمیت کے خلاف اپنی زبان وقلم سے تبلیغ کی، لیکن مدتوں کی اس متروک سنت کے احیاء وترویج اور صدیوں کے اس جاہلی خیال کے استیصال کے لئے تحریریں اور تقریریں کافی نہ تھیں۔ بلکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ کوئی عظیم شخصیت اپنے عمل سے اس سنت کا احیاء کرے، اور اس کی ایسی پر زور دعوت دے کہ اس کی قباحت دلوں سے بالکل نکل جائے، اللہ نے دوسرے عظیم الشان اصلاحی و تجدیدی کاموں کے ساتھ یہ عظیم الشان اصلاحی خدمت بھی جس کا اثر سیکڑوں خاندانوں، ہزاروں زندہ درگور عورتوں پر پڑا، سید صاحب سے لی، اور غیب سے اس کا سامان پیدا ہوا اور ایک مدت دراز کے بعد ہندوستان کے شرفاء خاندان میں یہ مبارک تقریب منعقد ہوئی، سید صاحب نے اسی پر اکتفاء نہیں کیا، بلکہ شاہ عبدالعزیزؒ اور اپنے خلفاء کے نام خط لکھوائے جس میں واقعہ کی اطلاع اور احیاء سنت کی ترغیب دی جس کی وجہ سے یہ سنت دوبارہ زندہ ہوئی۔

 

۵- حج کی عدم فرضیت کا فتنہ

 

حج علماء کی تاویلوں اور اس فقہی عذر کی وجہ سے کہ راستہ پر امن نہیں ہے اور سمندر بھی مانع شرعی اور ’’ من استطاع إلیہ سبیلا‘‘ کے منافی ہے، اور اس حالت میں حج کرنا فرمان خداوندی ’’ ولا تلقوا بایدیکم إلی التھلکۃ‘‘ (اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑا کرو)کی مخالفت ہے، کچھ مدت سے بالکل متروک یا بہت ہی کم ہو گیا تھا، بعض علماء نے جن کو علوم عقلیہ میں غلو اور انہماک تھا، حج کی عدم فرضیت اور ہندوستانی مسلمانوں کے ذمے سے اس کے ساقط ہو جانے کا باضابطہ فتویٰ دے دیا تھا، ان حالات میں سید صاحب نے حج کا ارادہ فرمایا جو ادائے فرض کے علاوہ حج کی فرضیت کا بہت بڑا اعلان اور اس کی زبردست اشاعت و تبلیغ تھی، جن کی ان حالات میں سخت ضرورت تھی، گویا کہ سید صاحب کے ذریعہ فریضۂ حج کی ہندوستان میں تجدید ہوئی۔

 

۶- ہندوانہ وضع و معاشرت کی اصلاح

 

سید صاحب کے زمانے میں مسلمان بہت سے علاقوں میں صرف نام کے رہ گئے تھے، سب کام ہندوؤں کے کرتے، بت بھی پوجنے لگے تھے، ہولی، دیوالی بھی مناتے، اور طریقۂ اسلام سے بالکل بے خبر ہو گئے تھے، سید صاحب جس علاقہ میں بھی تشریف لے جاتے تو بیعت لیتے وقت یہ بھی عہد لیتے کہ وہ تمام ہندوانہ وضع و معاشرت کو چھوڑ دیں گے۔

 

۷- دینی تعلیم و تربیت

 

نیز ان سے یہ بھی فرماتے کہ میں تو ایک جگہ رہ کر تمہاری مکمل دینی تربیت نہیں کر سکتا، پھر کسی کو اپنا خلیفہ مقرر کر لیتے جو ان کے جانے کے بعد وہاں کے لوگوں کی اصلاح کرتا، اور ان کو دینی تعلیم و تربیت سے آراستہ وپیراستہ کرتا۔

 

۸- غیر مسلموں کا قبول اسلام

 

جس طرح سید صاحب مسلمانوں کی اصلاح کی فکر کرتے اور ان کی ہدایت کی کوشش کرتے اسی طرح غیر مسلموں کو بھی اسلام کی دعوت دیتے، بہت سے غیر مسلم آپ اور آپ کی جماعت کے طریقہ اور اخلاق کو دیکھ کر متاثر ہوتے ور اسلام قبول کر لیتے، اور بعض آپ کی باتیں سن کر اسلام کو تھام لیتے۔

۹- نکاح کی ترویج

 

اس زمانہ میں خاص کر بنگال میں کثرت سے رواج تھا کہ پہلا نکاح تو ماں باپ کرا دیتے تھے، اس کے بعد جس کا جی چاہتا کسی عورت کو اپنے گھر ڈال لیتا، اور اس سے بغیر عقد و نکاح کے ازدواجی تعلقات قائم کر لیتا، چند متدین علماء اس خدمت کے لئے متعین کئے کہ بیعت کے بعد سو سو پچاس پچاس آدمیوں کو الگ بٹھا کر ان کے حالات دریافت کرتے جس عورت یا مرد کے تعلقات بغیر نکاح کے ہوتے اور وہ دونوں وہاں موجود ہوتے تو ان کا نکاح پڑھوا دیا جاتا، اگر دونوں میں سے کوئی ایک غیر حاضر ہوتا تو اس کو طلب کیا جاتا، اور نکاح پڑھا دیا جاتا، اگر اس کی حاضری ممکن نہ ہوتی تو سخت تاکید کی جاتی کہ جلد اس فرض کو ادا کیا جائے۔

 

۱۰- شراب کی کساد بازاری اور برہنہ غسل کی روک تھام

 

جب سید صاحب سفر حج کے دوران کلکتہ پہنچے تو شراب کی دکانوں کا یہ حال تھا کہ یکلخت شراب بکنی موقوف ہو گئی، دوکانداروں نے جا کر سرکار انگریز میں اس کا شکوہ کیا کہ ہم لوگ سرکاری محصول بلا عذر ادا کرتے ہیں، اور دکانیں ہماری بند ہیں، جب سے ایک بزرگ اپنے قافلے کے ساتھ اس شہر میں آئے ہیں، شہر اور دیہات کے تمام مسلمان ان کے مرید ہوئے اور ہر روز ہوتے جاتے ہیں انہوں نے تمام نشہ آور چیزوں سے توبہ کی ہے، اب کوئی ہماری دکانوں کو ہو کر بھی نہیں نکلتا۔ جب سید صاحب حج کے سفر کے دوران مخّہ پہنچے تو وہاں ایک مہینہ قیام فرمایا، وہاں رواج تھا کہ لوگ بے تکلف حوض، تالاب وغیرہ میں برہنہ غسل کرتے تھے، آپ کو یہ بات بہت ناپسند گذری، اور وہاں کے قاضی سے اس سلسلہ میں بات کی گئی، قاضی صاحب نے حاکم وقت سے درخواست کی تو حاکم نے چند سپاہی مقرر کر دیے کہ جب تک سید صاحب کے قافلے کا قیام رہے، کوئی برہنہ غسل نہ کرنے پائے۔

 

۱۱- ہجرت و جہاد اور اسلامی نظام

 

سید صاحب کی زندگی کا سب سے روشن باب ہجرت و جہاد اور اسلامی نظام کے قیام سے متعلق ہے، اس زمانے میں جب کہ مسلمانوں میں جذبۂ جہاد سرد پڑ چکا تھا، سید صاحب نے اپنی تحریک کے ذریعے اس کا احیاء کیا، جن مقاصد کے تحت سید صاحب نے صدائے جہاد بلند کی، ان کا اظہار آپ کے خطوط و مکاتیب سے ہوتا ہے جو آپ نے اس سلسلہ میں مختلف لوگوں کو ارسال فرمائے، ان اسباب و مقاصد میں سے چند مندرجہ ذیل ہے:

۱- تعمیل حکم الٰہی۔

۲- حصول رضا و محبت الٰہی۔

۳- مسلمانوں کی بے بسی اور اہل کفر کے غلبہ کا خاتمہ۔

۴- ہندوستان پر کفار کا تسلط اور اسلام کا زوال دیکھ کر کڑھنا۔

۵- ہندوستان سے انگریزوں کے تسلط کو ختم کرنا۔

۶- اعلائے کلمۃ اللہ۔

۷- احیائے سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔

۸- بلاد اسلامیہ کا استخلاص۔ ( غیروں کے تسلط سے آزاد کرانا)

۹- دین کا قیام۔

۱۰- احکام شرعی کا نفاذ۔

۱۱- فریضۂ دعوت و تبلیغ کی ادائیگی۔

سید صاحب نے اپنی انتھک کوششوں کے ذریعے مذکورہ اسباب و مقاصد میں سے اکثر میں کامیابی حاصل کی، وذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء۔ حضرت مولانا ابوالحسن علی حسنی ندوی ؒ نے اپنی کتاب ’’الإمام الذی لم یؤف حقہ من الانصاف والاعتراف‘‘ میں لکھا ہے کہ اگر سید صاحب کا احیائے جہاد اور حکومت اسلامی کے قیام کے علاوہ اور کوئی کارنامہ نہ ہوتا تب بھی ان کی عظمت کے لئے کافی تھا۔

 

 

 

سید صاحب ؒ کے طریقے کی خصوصیات

 

اب تک جو بیان کیا گیا وہ سید صاحب کی دعوتی خدمات کی کچھ نمایاں جھلکیاں تھیں۔ اب ضروری ہے کہ سید صاحب کے طریقۂ دعوت کی خصوصیات کا ذکر کیا جائے۔ جن میں سے بعض کا ذکر مولانا علی میاں ؒ نے اپنی کتاب ’’ سیرت سید احمد شہیدؒ‘‘ کی جلد دوم میں تفصیل سے کیا ہے۔

۱- پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اس زمانے میں اللہ کے یہاں آپ کا طریقہ سب سے زیادہ مقبول تھا، اور جناب رسول اللہﷺ کی خوشی ان دیار مشرقیہ میں اسی میں منحصر تھی۔ اس لئے کہ احکامِ الٰہی کی بجا آوری اور اتباع سنت پر سب سے زیادہ زور آپ کے یہاں پایا جاتا تھا۔

۲- مشائخ و علماء میں مقبولیت: چنانچہ ہندوستان کا کوئی خانوادہ اور کوئی سلسلہ ایسا نہیں جس کے اکابر نے سید صاحبؒ کو اپنا بڑا نہ مانا ہو، اور آپ سے استفادہ نہ کیا ہو۔

۳- آپ کی عجیب و غریب تاثیر اور انوار و برکات تھے جس کے بڑے بڑے بزرگ بھی قائل تھے۔

۴- آپ کی نسبت اور تزکیہ جناب رسول اللہﷺ کی نسبت تزکیہ سے خاص مناسبت رکھتا تھا۔ چنانچہ آپ کی نسبت کے مریدین، خلفاء و رفقاء میں اسی قسم کا رنگ اور اسی طرح کے انوار پیدا ہو جاتے تھے، جو حضرات صحابہ کرام میں پیدا ہو گئے تھے، اور وہ تمام صفات جن کا ذکر حضرت ابراہیمؑ نے حضرت محمدﷺ کی بعثت کی دعا کرتے ہوئے ذکر کیا تھا جن کو قرآن نے اس طرح بیان کیا ہے: ’’ ربنا وابعث فیہم رسولا منہم یتلوعلیہم آیاتک ویعلمہم الکتاب والحکمۃ ویزکیہم…‘‘(سورۃ بقرہ: ۱۲۹)سید صاحب کے اندر ایک حد تک پائی جاتی تھیں۔

۵- آپ نے اپنے طریقے کو تمام بدعات سے پاک کیا، اور ضروریات زمانہ اور طبائع کے مطابق اس میں اصلاح و ترمیم فرمائی۔

۶- سید صاحب جہاں بھی جاتے وہاں کے لوگوں کی کایا یکا یک پلٹ جاتی مسلمان شرک و بدعات اور غلط رسم و رواج سے توبہ کرتے، یہاں تک کہ غیر مسلم بھی آپ کے معتقد ہوئے بغیر نہ رہتے، اور بہت سے اسلام بھی قبول کر لیتے۔

۷- ہر وقت علماء کی ایک جماعت آپ کے ساتھ ہوتی جن میں مولانا عبدالحیؒ بڈھانوی اور شاہ اسماعیل شہیدؒ قابل ذکر ہیں۔

۸- جو بھی آپ سے ملنے آتا آپ نہایت ہی خوش اخلاقی و خندہ پیشانی سے ملتے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ لوگ خود بخود آپ کے گرویدہ ہو جاتے اور آپ کی ہر بات پر عمل کرتے۔

۹- سید صاحب کی ایک بڑی دعوتی خصوصیت یہ تھی کہ جب کسی غلط رسم کی اصلاح یا کسی متروک سنت کا احیا کرنا ہوتا تو پہلے خود اس پر عمل کر کے دکھلاتے جیسا کہ نکاح بیوگان میں معلوم ہوا۔ (۴)

 

 

 

 

امتیازی خصوصیات

 

سید صاحب نے جو دعوتی خدمات انجام دیں اس میں شک نہیں کہ ان سے پہلے بھی بہت سے علماء نے دعوتی خدمات میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، لیکن ہر شخصیت کے اندر کچھ امتیازی خصوصیات ہوتی ہیں جن کی بناء پر وہ دوسری شخصیات سے ممتاز ہوتی ہے۔

 

۱- فطری خصوصیات

 

سید صاحب کے اخلاقی و اوصاف کا مرکزی نقطہ اور نمایاں وصف یہ ہے کہ آپ میں آنحضرتﷺ سے مناسبت تامہ اور مزاج نبوی سے طبعی و ذوقی اتحاد نظر آتا ہے، مولانا اسماعیل شہیدؒ فرماتے ہیں کہ اگرچہ بہت کثرت سے لوگ راہ راست پر آئے لیکن ان میں سے کسی نے توسط و اعتدال کی راہ اختیار نہیں کی سوائے ان حضرات کے جو سید صاحب کے صحبت یافتہ تھے، سیدصاحب کے اندر بچپن ہی سے شجاعت کا مادہ بھرا ہوا تھا، ساتھ ہی مزاج میں حیا کا مادہ بھی بہت تھا، بعض مرتبہ غایت حیا سے خود اپنے قصوروار اور مجرم پر نظر نہیں کرتے تھے، اور خود آپ کی نگاہیں جھک جاتی تھیں۔

 

۲- دینی اخلاق و اوصاف میں آپ کی خصوصیات

 

حقیقت یہ ہے کہ خدا کی کسی مخلوق کو ایذا دینا اور اپنے نفس کا انتقام لینا یا کسی پر غصہ اتارنا اور نفس کے تقاضے سے اس کو اذیت پہنچانا آپ کے مسلک میں ناجائز تھا، جب آپ تمام انسانوں بلکہ جانوروں تک کے ساتھ شفقت و رعایت کا یہ معاملہ تھا تو مسلمانوں کے ساتھ مراعات و لحاظ کا جو رویہ ہو گا وہ ظاہر ہے۔

اسی کا تتمہ و تکملہ تھا کہ آپ کے نزدیک ابتدا ہی سے مسلمانوں کے درمیان مصالحت کی بے حد اہمیت تھی، رفقاء اور دین کے راستے میں ساتھ دینے والوں کے ساتھ شفقت ومساوات کا معاملہ کرتے، باوجود اس کے کہ سب رفقاء ہر وقت آپ کی خدمت کے لئے تیار رہتے آپ کوئی امتیاز پسند نہیں کرتے تھے، ہر کام میں مجاہدین اور رفقاء کے شریک حال رہتے، حد درجہ شفقت و نرمی کے باوجود شریعت کے معاملہ میں انتہائی غیور اور حساس تھے، اسی دینی حمیت و غیرت نے آپ کو اسلام کی حمایت و نصرت، بیکس مسلمانوں کی مدد اور جہاد فی سبیل اللہ پر آمادہ کیا، اور بالآخراسی راہ میں آپ نے جان دے دی۔

۳- روحانی و باطنی کیفیات و خصوصیات

 

الف-دعا: دین کے جن شعبوں کی اللہ نے آپ سے تجدید کرائی اور ان کو نئی زندگی بخشی ان میں سے ایک دعا ہے، ہر جنگ اور ہر اہم واقعہ سے پہلے اور اس کے بعد اہتمام کے ساتھ دعا کرنا آپ کا خاص معمول تھا۔

ب- ایمان واحتساب: دین کا دوسرا مہتم بالشان شعبہ جس کے آپ اپنے دور میں مجدد تھے جو در اصل پورے نظام د ینی کا روح رواں ہے وہ ایمان واحتساب ہے یعنی زندگی کے تمام اعمال و اشغال میں صرف رضائے الٰہی کی طلب، نیت کے استحضار اور موعود اجر و ثواب کی طمع میں انجام دینا۔

ج- اتباع سنت: یہ آپ کی زندگی اور آپ کی دعوت کا جز بن گیا تھا، آپ کے نزدیک عبادات کے ساتھ معاملات اور معاد کے ساتھ امور معاش میں بھی اتباع سنت اور ترک بدعات ضروری ہے۔

د- محبت و خشیت : محبت و محبوبیت ان حضرات کے خواص میں سے ہے، جن کے ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ کا معاملہ اجتباء و انتخاب کا ہوتا ہے، اس کے آثار ان کی زندگی میں ظاہر و عیاں ہوتے ہیں، سید صاحب میں محبت کی نسبت اتنی غالب تھی کہ اس کے اثرات پاس بیٹھنے والوں اور نماز میں مقتدیوں پر بھی پڑتے تھے۔

 

۴- تجدید و امامت

 

علماء و مبصرین کے ایک بڑے گروہ کا خیال ہے کہ سید صاحب تیرہویں صدی کے مجدد تھے، سید صاحب کی تجدید کی ا یک بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ اپنے اصول و مبادی میں اپنی جامعیت اپنے نظام و تربیت اور اپنے نتائج و آثار میں اسلام کی اصلی دعوت سے بہت مشابہ اور قریب تھے، آپ کے وجود نے اسلام کے حق میں باران رحمت اور بادِ بہاری کا کام کیا۔

سید صاحب کا سب سے بڑا امتیازی تجدیدی کارنامہ اور آپ کی سب سے بڑی کرامت اور زندہ یادگار آپ کی پیدا کردہ اور تربیت کی ہوئی وہ بے نظیر جماعت ہے، جس کی مثال صحابہ کے بعد مشکل سے ملتی ہے۔ یہ جماعت جس طرح دشمنوں سے جہاد کرتی تھی اس سے زیادہ خود اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرتی، اور سید صاحب کی اس تربیت کا اثر آج تک پایا جاتا ہے۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ سید صاحب تیرہویں صدی ہجری کے وہ مرد مجاہد تھے جو عمل کے شہسوار اور وقت کے قلندر تھے، آپ کے یہاں قرآنی معارف کی بہار بھی تھی اور جہاد حق کی للکار بھی، آپ کے اندر ابوبکر صدیقؓ کا فہم و جمال بھی تھا اور عمر فاروقؓ کا تبحر و جلال بھی، آپ وقت کے ابراہیم اور زمانہ کے بت شکن تھے، آپ نے علوم کے صنم کدے میں اذان دی اور میدان عمل کے طاغوتوں سے جنگ کی، آپ کی کوشش یہ تھی کہ قرآن ہی حکومت کا نظام اور وقت کا امام ہو، اور قرآن ہی تمام علوم کا منبع و محور اور سارے فنون کا مآخذ و مرکز ہو، آپ کی آرزو یہ تھی کہ ذہنی و فکری گمراہیوں کا سد باب کیا جائے اور میدان عمل سے باطل کو بے دخل کر دیا جائے، آپ کے اندر معلمانہ عظمت بھی تھی اور قیادت کی آن بان اور خلافت کی شان بھی، اس لحاظ سے آپ ملت کے محسن بھی تھے اور وقت کے امام بھی، لہذا آپ کا یہ مقام بلکہ بعد والوں پر آپ کا یہ حق بنتا ہے کہ آپ کے افکار و نظریات کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کی جائے، اور شخصیتوں کی تعمیر میں آپ کی زندگی سے پورا فائدہ اٹھایا جائے۔ سید صاحب اپنی تحریک کے ذریعے غلط خیالات، باطل نظریات اور برے حالات کو روشن خیالات، دینی و ایمانی نظریات، پاکیزہ جذبات اور قابل رشک حالات سے بدل دیا، اللہ ان کو اس کا پورا پورا بدلہ عطا فرمائے اور ہم کو بھی اس میں حصہ نصیب فرمائے۔ آمین!

 

 

 

سید صاحب ؒ کے مجموعۂ ملفوظات ’’صراطِ مستقیم‘‘ کا مختصر تعارف

 

 

اگرچہ حضرت سید صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے، لیکن انہوں نے جو کارہائے نمایاں انجام دئیے، اس کے اثرات آج بھی ہر اس علاقے میں پائے جاتے ہیں جہاں وہ گئے یا وہاں سے گذرے اور انہیں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ آج ان علاقوں میں دین اسلام کی رمق باقی ہے، اس کے علاوہ ان کے ملفوظات کا ایک مجموعہ بھی ہے، جو اب بھی ان سے بالواسطہ فائدہ اٹھانے کا ذریعہ ہے، اس کے متعلق حضرت مولانا سیدابوالحسن علی حسنی ندویؒ فرماتے ہیں :

اس موقع پر سید ساحبؒ کے مجموعہ ملفوظات ’’صراطِ مستقیم‘‘ کا مختصر سا تعارف ضروری معلوم ہوتا ہے، جس سے تزکیہ و اصلاح باطن اور علم سلوک و تصوف میں آپ کا مرتبہ اور آپ کے اجتہاد و تجدید کا مقام معلوم ہوسکتا ہے۔

یہ مجموعہ حضرت شاہ اسماعیل صاحب کا مرتب کیا ہوا ہے، اس کے دو ابتدائی باب مولانا عبدالحی صاحب بڈہانویؒ کے قلم سے ہیں سید صاحبؒ جو فرماتے تھے، اس کو شاہ صاحبؒ اپنے الفاظ و عبارت اور علمی اصطلاحات کے ساتھ لکھ لیتے تھے، پھر سید صاحب اس پر نظر فرماتے تھے اور اصلاح و تصحیح کر دیتے تھے یہ ۱۲۳۳ھ؁ کی تالیف ہے۔

تصوف و معرفت اور اصلاح و تربیت باطنی کی کتابوں کے ذخیرے میں یہ کتاب اپنی بعض خصوصیات کے لحاظ سے منفرد ہے اور ایک انقلابی کتاب کہی جا سکتی ہے، اس کا اندازہ پوری کتاب کے گہرے مطالعے اور اس فن کی دوسری کتابوں سے مقابلہ کرنے سے ہوسکتا ہے، یہاں پر نہایت اختصار کے ساتھ اشارات کے طور پر اس کے بعض تفردات لکھے جاتے ہیں :

(۱) حب عشقی اور حب ایمانی اور طریق ولایت اور طریق نبوت کی تشریح اور باہمی امتیاز پر جو کچھ لکھا گیا ہے، وہ اس کتاب کے لطیف ترین مباحث اور سید صاحبؒ کے تفردات میں سے ہے، جو وجد انگیز معارف و حقائق سے لبریز ہے اور اس کتاب کے سوا اس تفصیل و وضاحت کے ساتھ کسی اور دوسری جگہ نہیں مل سکتا، دونوں محبتوں اور طریقوں کے وجوہ امتیاز، جداگانہ مویدات، آثار اور ثمرات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، جن کے پڑھنے سے اسلام کا پورا روحانی نظام سامنے آ جاتا ہے۔

(۲) باب دوم میں بدعات سے اجتناب کی تاکید، طاعات ادا کرنے کے طریقے اور اخلاق کے مباحث میں بدعات کے سلسلے میں نہایت صفائی کے ساتھ اپنے زمانے کا جائزہ لیا گیا ہے اور اہل تصوف اور عوام کی ان بدعات کی مخالفت کی گئی ہے جو جاہلیت قدیمہ کی یادگار ہیں یا ہندوؤں اور شیعوں کی صحبت سے پیدا ہوئی ہیں، اخلاق کے مباحث میں نہایت حکیمانہ نکتے بیان کئے گئے ہیں اور تہذیب نفس اور اصلاح اخلاق کی مؤثر تدبیریں اور علاج تجویز کئے گئے ہیں۔

طاعات و فرائض کے تذکرے میں نماز، روزہ، حج و زکوۃ کے ساتھ پوری اہمیت کے ساتھ جہاد کی ترغیب وتحریض اور اس کے فوائد کا اظہار ہے، جو تصوف کی کتاب میں ایک غیر متوقع مضمون ہے، ان مضامین کے علاوہ سماع وغیرہ پر نہایت منصفانہ اور بے لاگ محاکمہ اور دوسرے فوائد ہیں۔

(۳) تیسرے باب میں سلسلہ قادریہ، چشتیہ، نقشبندیہ اور مجددیہ کے اذکار و تعلیمات ہیں، جن میں اجتہاد و تجدید سے کام لیا گیا ہے اور ان کو زیادہ مؤثر اور مفید بنا دیا گیا ہے۔

(۴) چوتھا باب طریق سلوک راہ نبوت کی تفصیل و تشریح پر ہے، جو سید صاحبؒ کا الہامی مضمون ہے اور جس کے آپ امام ہیں، یہ ایک مستقل ’’طریقت‘‘ اور ’’سلوک‘‘ ہے جس کو آپ نے پورے طور پر مرتب اور مکمل کر دیا ہے۔

کتاب پڑھنے والے پر چند اثرات لازمی طور پر پڑتے ہیں، ایک امیت کے باوجود سید صاحبؒ کی حکمت و بصیرت اور شرح صدر، پڑھنے والا اپنے کو نکات و حقائق میں گھرا ہوا پاتا ہے، وہ ایک نکتے کا لطف نہیں لینے پاتا کہ دوسرا نکتہ اس کے سامنے آ جاتا ہے اور وہ اپنے اوپر ایک وجد کی سی کیفیت پاتا ہے۔

دوسرا، سید صاحبؒ کی اعلیٰ درجے کی سلامت فہم اور سلامت طبع کا اثر پڑتا ہے، تصوف اور حقائق و معارف کی دوسری کتابوں کے برخلاف اس کو اس میں کوئی پیچ و خم اور تکلفات نہیں ملتے۔

تیسرا، آپ کے مسلک کے اعتدال کا اثر پڑتا ہے، مختلف فیہ مباحث ومسائل میں افراط و تفریط سے پاک اور معتدل رائے آپ کی خصوصیت ہے۔ (۵)

 

 

 

 

 

 

 

مسافرِ اسلام ہندوستان کے غربت کدے میں !

 

               از علامہ سیدسلیمان ندویؒ

 

صحیح حدیث میں ہے ’’اسلام کا آغاز مسافرانہ بے کسی میں ہوا اور پھر وہ مسافرانہ بے کسی میں ہو گا تو مسافرت کے بے کسوں کو مبارک باد ہو‘‘ اسلام کا آغاز اس وقت ہوا، جب حق کی آواز بند ہو چکی تھی، دین ابراہیم علیہ السلام کا وجود سایہ ہو کر رہ گیا تھا، کفر اور شرک کی تاریکی ہر طرف پھیلی تھی، نبوت کانور چھ صدیوں سے زیر نقاب تھا، توحید کی دعوت ایک بیگانہ آواز تھی، جو مسافرانہ بے کسی کے عالم میں محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے بلند ہوئی، پورب، پچھم، دائیں بائیں، ہر طرف اس صدائے حق کو اجنبی اور مانوس سمجھا گیا، آواز دینے والے نے حسرت سے چاروں طرف دیکھا اور ہر طرف اس کو وہی بیگانگی، اجنبیت اور مسافرانہ بے کسی کا منظر نظر آیا۔

رفتہ رفتہ یہ اجنبیت دور ہوئی، بیگانگی کافور ہوئی، آواز کی کشش اور نوائے حق کی بانسری نے دلوں میں اثر کیا، کان والے سننے لگے اور جو سننے لگے سر دُھننے لگے، یہاں تک کہ وہ دن آیا کہ سارا عرب اس کیف سے معمور اور اس شراب سے مخمور ہو گیا اور اسلام کا مسافر اپنے گھر پہنچ کر اپنے عزیزوں اور دوستوں میں ٹھہر گیا۔

اب وہ قافلہ بن کر آگے چلا، عرب کے ریگستانوں سے نکل کر عراق کی نہروں اور شام کے گلستانوں میں پہنچا، پھر آگے بڑھا اور ایران کے مرغزاروں اور مصر کی وادیوں میں آ کر ٹھہرا، اس سے آگے بڑھا تو ایک طرف خراسان وترکستان ہو کر ہندوستان کے پہاڑوں اور ساحلوں پر اس کا جلوہ نظر آیا اور دوسری طرف افریقہ کے صحراؤں کو طے کر کے اس کا نور بحر ظلمات کے کنارے چمکا۔

اب آہستہ آہستہ قافلے کے لوگ چھٹنے لگے، تماشائی تماشا کرتے دور نکل گئے، کتنے حسن ظاہر کے طلب گار اور طبعی مناظر کے شیفتہ ان تماشوں میں اپنے سفر کے مقصد کو بھول گئے، اور جہاں پہنچ گئے وہیں رہ گئے۔

اب وہ مسافر پھر تنہا تھا، اس کی آواز میں پھر بیگانگی آ گئی، صدائے حق صدا بصحرا ہو گئی، آخر قافلے کی بانگ درا خاموش ہو گئی اور کارواں یکسر خواب غفلت میں محو ہو گیا۔

اس غفلت کی نیند پر چار سو برس گزر گئے اور مسافر کے آغازِ سفر پر ہزاروں برس گزر رہا تھا، یہ اکبرؔ کا دور تھا، جب عجم کے ایک جادو گر نے آ کر بادشاہ کے کان میں یہ منتر پھونکا کہ دین عربی کی ہزار سالہ عمر پوری ہو گئی، اب وقت ہے کہ ایک شہنشاہ امی کے ذریعہ نبی امی علیہ الصلاۃ والسلام کا دین منسوخ ہو کر دینِ الٰہی کا ظہور ہو، مجوسیوں نے آتش کدے گرمائے، عیسائیوں نے ناقوس بجائے، برہمنوں نے بت آراستہ کئے اور جو گ اور تصوف نے مل کر کعبے اور بت خانے کو ایک ہی چراغ سے روشن کرنے پر اصرار کیا، اس پچ میل تحریک کا جو اثر ہوا اس کی تصویر اگر کوئی دیکھنا چاہے تو ’’دبستان مذاہب‘‘ کا مطالعہ کرے، کتنے زُنار داروں کے ہاتھوں میں تسبیح اور کتنے تسبیح خوانوں کے گلوں میں زُنار نظر آئیں گے، بادشاہی آستانے پر کتنے امیروں کے سر سجدے میں پڑے اور شہنشاہ کے دربار میں کتنے دستار بند کھڑے دکھائی دیں گے، اور مسجدوں کے منبر سے یہ صدا سنائی دے گی۔

تعالیٰ شانہ، اللّٰہ اکبر!(اس کی شان بلند ہے، اللہ اکبر)

یہ ہو ہی رہا تھا کہ سر ہند کی سمت سے ایک پکار نے والے کی آواز آئی ’’راستہ صاف کرو کہ راستے کا چلنے والا آتا ہے‘‘ ایک فاروقی مجدد فاروقی شان سے ظاہر ہوا، یہ احمد سرہندیؒ تھے، جہانگیر کے طوق وسلاسل نے بڑھ کر ان کے قدم لئے اور وہ شاہی قیدی کی حیثیت میں اسیر زنداں ہوئے، اس یوسف زندانی نے بھی یوسف کنعانی کی طرح ’’اارباب متفرقون خیر ام اللہ الواحد القہار‘‘(جدا جدا معبود اچھے یا خدائے یگانہ و برتری) (سورہ یوسف: ۳۹) کا نعرہ لگایا، اس نعرے نے سوتوں کا جگا دیا، مسافر اسلام کی درا کی دھیمی دھیمی آواز پھر سنائی دینے لگی۔

سر ہند کے اس فاروقی مجدد کی آواز نے دلی کے ایک اور فاروقی خاندان کو گرما دیا یہ شاہ عبدالرحیم دہلویؒ تھے، جو عالمگیر کے معاصر تھے، ان کے صاحبزادے شاہ ولی اللہ ؒ ہوئے، جن کو ملت نے حکیم الامت کا خطاب دیا، یہ اس دوسرے دور کے مجدد ہوئے، اس دو رمیں جس کو ملا، ان سے ملا اور جس نے پایا، ان سے پایا۔

شاہ صاحب ۱۱۱۴ھ؁ میں پیدا ہوئے، اور ۱۱۷۶ھ؁ میں وفات پائی، شاہ صاحبؒ کے اخلاف نے پوری صدی تک وہ چراغ ہدایت، جو ان کے پدر بزرگوار نے جلایا تھا، روشن رکھا۔

مجدد سرہندیؒ اور مجدد دہلویؒ کے فضل و کمال اور مجاہدہ و حال کے دو آتشے سے رائے بریلی کے خم کدے میں ایک اور سہ آتشہ تیار ہوا، یہ سادات حسنی کا خاندان تھا، جس میں مجدد الف ثانیؒ اور حضرت شاہ ولی اللہ کی تعلیمات کا فیض آ کر مل گیا تھا، اس خاندان کا آغاز شیخ الاسلام امیر کبیر قطب الدین محمد مدنی سے ہوا، جنہوں نے ساتویں صدی ہجری کی ابتدا میں ہندوستان آ کر کڑا مانک پور کے نواح میں، جو اس زمانے میں الٰہ آباد سے پہلے الٰہ آباد تھا، جہاد کیا۔

اس خاندان کے آخری مورث شاہ سید علم اللہ ؒ ہیں، جو عالمگیرؒ کے زمانے میں تھے، اور حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے مشہور خلیفہ اور جانشین حضرت آدم بنوریؒ کے فیض سے مستفیض اور مشرق کے دیار میں ان کے خلیفۂ خاص تھے، اس خاندان کے ممتاز افراد مجدد دہلویؒ کے فیض درس اور فیض صحبت سے سیراب تھے، اس طرح اس خاندان میں حضرت مجدد سرہندیؒ اور مجدد دہلویؒ کی برکتیں اور سعادتیں جمع ہو گئیں۔

تیرہویں صدی کا آغاز تھا کہ اس خاندان میں چودھویں کا چاند طلوع ہوا، یعنی ۱۲۰۱ھ؁ میں مجاہد کبیر حضرت سیداحمد شہید ؒ کی پیدائش ہوئی، چند سال کے بعد یہ چاند مجاہدہ و عرفان کا آفتاب بن گیا۔

تیرہویں صدی میں جب ایک طرف ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی طاقت فنا ہو رہی تھی، اور دوسری طر ف ان میں مشرکانہ رسوم و بدعات کا زور تھا، مولانا اسماعیل شہیدؒ اور حضرت سید احمد بریلویؒ کی مجاہدانہ کوششوں نے تجدید دین کی نئی تحریک شروع کی، یہ وہ وقت تھا، جب سارے پنجاب پر سکھوں کا اور باقی ہندوستان پر انگریزوں کا قبضہ تھا، ان دو بزرگوں نے اپنی بلند ہمتی سے اسلام کا علم اٹھایا اور مسلمانوں کو جہاد کی دعوت دی، جس کی آواز ہمالیہ کی چوٹیوں اور نیپال کی ترائیوں سے لے کر خلیج بنگال کے کناروں تک یکساں پھیل گئی اور لوگ جوق در جوق اس عَلَم کے نیچے جمع ہونے لگے، اس مجددانہ کارنامے کی عام تاریخ لوگوں کو یہیں تک معلوم ہے کہ ان مجاہدوں نے سرحد پار ہو کر سکھوں سے مقابلہ کیا اور شہید ہو گئے، حالانکہ یہ واقعہ اس کی پوری تاریخ کا صرف ایک باب ہے۔

اس تحریک نے اپنے پیروؤں میں للہیت، خلوص، اتحاد، نظم، سیاست اور تنظیم کا جو ہر پیدا کر دیا تھا، بنگال کی سرحد سے لے کر پنجاب تک اور نیپال کی ترائی سے لے کر دریائے شور کے ساحل تک اسلامی جوش و عمل کا دریا موجیں مار رہا تھا، اور حیرت انگیز وحدت کا سماں آنکھوں کو نظر آ رہا تھا۔

سید صاحب ؒ کے خلفاء ہر صوبے میں اور ولایت میں پہنچ چکے تھے، اور اپنے اپنے دائرے میں تجدید، اصلاح اور تنظیم کا کام انجام دے رہے تھے، مشرکانہ رسوم مٹائے جا رہے تھے، بدعتیں چھوڑی جا رہی تھیں، نام کے مسلمان کام کے مسلمان بن رہے تھے، جو مسلمان نہ تھے، وہ بھی اسلام کا کلمہ پڑھ رہے تھے، شراب کی بوتلیں توڑی جا رہی تھیں، تاڑی اور سیندھی کے خم پھوڑے جا رہے تھے، بازاری فواحش کے بازار سرد ہو رہے تھے، اور حق و صداقت کی بلندی کے لئے علماء حجروں سے اور امراء ایوانوں سے نکل نکل کر میدان میں آرہے تھے، اور ہر قسم کی ناچاری، مفلسی اور غربت کے باوجود تمام ملک میں اس تحریک کے سپاہی پھیلے تھے اور مجاہد تبلیغ اور دعوت میں لگے تھے۔ (۶)

٭٭٭

 

 

حواشی

 

(۱) ماخوذ باختصار: تاریخ دعوت و عزیمت، جلد اوّل،ص:۱۳-۱۵

(۲) سیرت سید احمد شہیدؒ جلد اوّل، ص: ۵۹-۸۰

(۳) ماخوذ باختصار: إذا ھبت ریح الإیمان،ص:۴-۳۰

(۴) سیرت سید احمد شہیدؒ ،جلد دوم، ص: ۵۸۳-۵۸۸

(۵) سیرت سید احمد شہیدؒ، ج: ۲،ص:۵۸۹-۵۹۱

(۶) ماخوذ باختصار: سیرت سید احمد شہیدؒ، ج،۱،ص:۳۲-۳۸،از : مولانا سید سلیمان ندویؒ

 

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید