FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

سلسلے تکلم کے

 

حصہ اول۔ شہر سخن آراستہ ہے

 

ڈاکٹر  قرۃ العین طاہرہ

 

 

یہ حصہ ڈاؤن لوڈ کریں

 

ؤرڈ فائل

 

ای پب فائل

 

کنڈل فائل

 

مکمل کتاب، تینوں حصے

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

بنام ِ شاہدِ نازک خیالاں   ۱؎

 

۱؎ شاہد جاوید(برادرِ بزرگ)

اور

شاہد محمود(رفیقِ سفر)

 

 

 

 

 

 

 

سلسلے تکلم کی روداد

 

 

حفیظ ہوشیار پوری نے کہا تھا

دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی

اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے

آج کے کمپیوٹر دور میں زندگی کے تمام مسائل ہم ایک کلک کے ذریعے حل کرنے کے عادی ہوتے جا رہے ہیں اور بھول گئے ہیں کہ اس کلک نے ہمیں اپنوں سے دور تنہائی کے پھیلے صحرا کا باسی بنا دیا ہے۔  اپنی سہولت اور آسائش کے لیے ہم اعلیٰ انسانی اقدار سے کنارہ کش ہوتے جا رہے ہیں۔  مشینوں سے محبت خود ہمیں مشین میں تبدیل کیے دے رہی ہے۔  ہم اپنے تمام سوال، تمام مسائل اپنے تئیں حل کرنا چاہتے ہیں۔  گفتگو کا، مکالمے کا در بند کر کے ہم نے جس اعصاب شکن فضا کی تخلیق کی ہے، اس کا ہمیں خود بھی احساس نہیں ہے۔

یہی صورتِ حال ادبی فضا کی ہے۔  سب اپنی ذات یا اپنے گروپ تک محدود ہو کر خوش رہنا سیکھ چکے ہیں، نتیجتاً قربتیں دوریوں میں بدلتی جا رہی ہیں، نئی راہیں سجھانے، مباحث کے نئے در وا کرنے، ادب کے کلاسیکی اور آفاقی تصورات، جدید ادب میں نت نئی تحریکوں کا چلن، مقامی اور بین الاقوامی ادب کے متنوع رنگ ہم بساط بھر دیکھتے اور اسے اپنی تحریر میں منتقل کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں۔  ایک دوسرے سے سیکھنے، سکھانے کے عمل سے لاتعلقی تحرک کے بجائے جمود کو جنم دے رہی ہے۔

’’سلسلے تکلم کے ‘‘ کا بنیادی محرک یہی مقصد تھا کہ ادب کی دنیا کی معتبر شخصیتوں سے بات چیت کی جائے، ان کی ذات، ان کے فن اور ادب کی ملکی و غیر ملکی، موجودہ اور آئندہ صورتِ حال سے متعلق ان کے نظریات کو قارئین تک لایا جائے۔  مکالمے کے دوران بات سے بات نکلتی گئی اور کئی ایسے مباحث بھی زیر بحث آئے، جو میرے ذہن میں بھی نہ تھے، ان مکالموں کے ذریعے صاحبِ مکالمہ کی شخصیت اور تحریر دونوں سے آگہی کے در وا ہوئے۔  کہی گئی سبھی باتیں اور تاثرات ان مکالموں میں رقم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔  ایک بات کا دعویٰ کرنے کو جی چاہتا ہے کہ جو کچھ صاحبِ مکالمہ نے کہا، میں نے اس میں کسی قسم کی قطع و برید نہیں کی، جوں کاتوں پیش کر دیا ہے سوائے ایک مکالمے کے چند ایک جملوں کے … اور آپ جانتے ہیں کہ یہ شخصیت کون ہو گی۔

مجھے خوشی ہے کہ میرے مکالموں کے اس سلسلے کو ملک و بیرونِ ملک، توقع سے کہیں زیادہ پذیرائی ملی اور وہ محنت جو ایک ایک مکالمے پر مہینوں نہیں سالوں پر محیط ہے، رائگاں نہیں گئی۔  مکالمے کے لیے خالدہ حسین ہوں یا احمد ندیم قاسمی، احمد فراز ہوں یا مستنصر حسین تارڑ… سبھی نے بخوشی آمادگی ظاہر کی…قابو میں نہ آئے تو مشتاق احمد یوسفی… اس کی روداد بھی رقم ہے، یہی حال استاد محترم ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا تھا۔  طویل سوالنامہ کئی مرتبہ ان کی خدمت میں بھیجا، دو تین مرتبہ خود ان کی خدمت میں حاضر ہوئی لیکن مشتاق احمد یوسفی کی طرح بہترین تواضع کی لیکن کاغذ قلم کو ہاتھ لگانے نہ دیا۔  فروری ۲۰۱۱ء میں آخری کوشش کا ارادہ باندھ کر کراچی روانہ ہوئی اور اللہ کا شکر ہے کہ ارادے کی اس گٹھڑی میں کچھ نہ کچھ باندھ ہی لائی، یہ کچھ نہ کچھ ہی سرمایۂ زیست ہے۔

ڈاکٹر وزیر آغا اور ڈاکٹر سہیل احمد خان دونوں ہی بہت شدت سے چاہتے تھے کہ ان سے مکالمہ پایۂ تکمیل کو پہنچے، لیکن ممکن نہ ہو سکا، اس کا بیان بھی کتاب کے آخری حصے میں ہے۔

ایک بات اور میں مکالمے ٹیپ نہیں کرتی، مجھے مشینوں کا، بجلی کا کوئی اعتبار نہیں۔  میں لکھتی ہوں اور صاحب مکالمہ کا یہ اعتبار ’’ مجھے یقین ہے کہ قرۃالعین نے لفظ بہ لفظ وہی لکھا ہے جو میں نے کہا ہے۔ ‘‘ ( مستنصر حسین تارڑ۔  سہ ماہی تسطیر) میرے لیے باعث طمانیت ہے۔

البتہ مجھے اس بات کا ملال رہے گا کہ شاہد صاحب ہمیشہ کہتے رہے، ’’خود پر اعتماد اچھی بات ہے لیکن اگر ٹیپ بھی کر لیا کرو تو تمھارے پاس آواز خزینہ کا ایک اہم ذخیرہ محفوظ ہو جائے گا۔ ‘‘ میں نے اس پر عمل نہ کیا۔  اب جبکہ کتاب تیاری کے آخری مراحل میں ہے تو مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہو رہا ہے۔

مختلف جامعات کے اساتذہ اور طالب علم کبھی کہیں ملتے، تعارف پر ان کی حیرت اور خوشی دیدنی ہوتی۔  ’’ ہمیں اپنے مقالے میں آپ کے …… مکالمے سے بہت مدد ملی، ہمارے مقالے میں اس مکالمے کے کئی حوالے موجود ہیں۔ مکالموں کو یکجا صورت میں شائع ہونا چاہیے تاکہ طالبِ علموں اور با ذوق قارئین کے لیے ان کا حصول آسان ہو جائے۔ ‘‘

میری بھی خواہش تھی کہ کتاب شائع ہو اور جلد شائع ہو لیکن کتاب کی اشاعت سے پہلے کے مراحل بھی طویل وقت کا تقاضا کرتے نظر آئے اور وہ باتیں جو میں حمیرا اشفاق سے کہا کرتی تھی اس نے مجھے لوٹانا شروع کر دیں، نتیجتاً کتاب آپ کے سامنے ہے۔

اس کتاب کی تخلیق و اشاعت میں رائم، فارد، سرمد، ماریہ، آمنہ اور دانش کے حصے کا بہت سا وقت اس کی نذر ہوا۔  شاہد صاحب کا شکریہ ادا کرنا ممکن نہیں کہ ان کی رفاقت و رہنمائی کے بغیر میں کچھ بھی نہ کر پاتی۔  جناب احمد سلیم کا خاموش پر خلوص روّیہ اور حمیرا کا پر جوش اصرار اور عظمیٰ جمال کا تعاون سبھی میرے ساتھ ساتھ رہے۔  امی جی (سلیمہ خانم)اور اباجی(نذیر احمد) سے بچھڑے مدتیں ہوئیں، لیکن ان کی دعاؤں نے کبھی لمحہ بھر کے لیے بھی مجھے تنہا نہ کیا… پھر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی ہمیشہ توفیق چاہتی رہی ہوں …

آخر میں ایک بات اور کہنا چاہوں گی۔  میرے لیے یقیناً باعث فخر ہے کہ چچا جان بذل حق محمود اور پدر بزرگ جناب خان صاحب قاضی فضل حق کی کتابیں شائع کرنے والے معتبر اور مؤقر ادارے ’’ سنگِ میل ‘‘ نے میرے اس مسوّدے کو اشاعت کے لیے منتخب کیا، اس کے لیے میں جناب افضال احمد کی ممنون ہوں۔

 

ڈاکٹر قرۃالعین طاہرہ

۲۵دسمبر۲۰۱۵ء

 

 

 

 

 

شہرِ سخن آراستہ ہے

 

احمد فراز … سخن بہانہ کروں …

افتخار عارف … حرف دعا باریاب

ضیا جالندھری … باتوں سے خوشبو آئے

محسن بھوپالی … روشنی تو دیے کے اندر ہے

احسان اکبر … مجسم حاسۂ انتقاد، مذاقِ تحقیق اور ذوقِ شعر

طارق نعیم … گمان کی شام کا دیا

شبنم شکیل … اضطراب کی عورت

 

 

 

 

 

احمد فراز

 

٭  عبید اللہ علیم نے کہا تھا ع:  میں زندگی کے عذاب لکھوں کہ خواب لکھوں

لیکن آپ کہتے ہیں

وہ چشمِ محروم کتنی محروم ہے کہ جس نے

نہ خواب دیکھے نہ رت جگوں کے عذاب دیکھے

اپنی شاعری اور زندگی میں آپ عذاب اور خواب، کس تناسب میں دیکھتے ہیں؟

٭٭  خواب ہر کوئی دیکھتا ہے۔  جب تک زندہ رہنے کی ہلکی سی امید بھی ہوتی ہے انسان خواب دیکھتا رہتا ہے۔  یہ اور بات کہ ان خوابوں میں بعض اوقات Night mare ڈراؤنے خواب ہوتے ہیں جن سے آپ چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔  جونہی آنکھ کھلتی ہے آپ شکر کرتے ہیں کہ ٹارچرسے، اس گرداب سے باہر نکلے، پھر کچھ خواب ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں انسان رہنا چاہتا ہے۔  کچھ خواب اس کے آئیڈیل ہوتے ہیں۔  آنے والے دنوں کی مسرت سے لبریز کچھ خواب جاگتی آنکھوں کے ساتھ دیکھے جاتے ہیں۔  انسان خواب دیکھنا چاہتا ہے اور دیکھتا ہے۔  خواب نہ ہوں تو باقی کیا رہ جائے گا۔  میں مذہبی آدمی نہیں ہوں۔  خدا کی ضرورت سبھی کو ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ خدا کی ضرورت دوسروں کے لیے ہو نہ ہو، غریبوں کے لیے خدا ضروری ہے، ان سے یہ سہارا بھی چھن جائے تو ان کے پاس کچھ نہیں رہ جائے گا۔  وہ وحشی ہو جائیں گے یا پاگل۔  خواب زندگی کو ہر وقت رواں دواں رکھتے ہیں۔  واقعی وہ لوگ محروم ہیں جو زندگی کی آزمائشوں سے نہیں گزرتے، یہ جو میں نے کہا ہے رت جگوں کے عذاب دیکھے۔  یہ دونوں حالتیں ہم پر گزری ہیں۔  اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ وہ لوگ واقعی محروم ہیں کہ جو ان تجربوں سے نہیں گزرے۔

٭ کیا ہم پر عذاب اس لیے نہیں مسلط کیے گئے کہ ہم کلمہ شکر کہنا بھول گئے ہیں؟

٭٭  یہ اینگل، یہ زاویہ ان کا ہے جو زیادہ مذہبی ہیں اور مذہب آپ کو جد و جہد سے اور خود بھروسگی سے الگ کر لیتا ہے۔  سُستی ڈال دیتا ہے۔  ہماری تاریخ بھری پڑی ہے ان واقعات سے دور کیوں جائیے۔  افغانستان اور پھر عراق کو دیکھ لیجئے۔  یہ وہی مسلمان ہیں کہ جن کو ہم اپنے قبیلے کا حصہ سمجھتے ہیں اور مسلم اُمہ کا تصور ابھرتا ہے۔  اقبال اور اسلام پسند مفکروں نے اسے اپنی اساس بنایا تھا۔  غور و فکر کا مرکز و محور قرار دیا تھا۔  جمال الدین افغانی سے لے کر شاہ اسمٰعیل شہید تک۔  اب کیا ہو رہا ہے۔  آپ دیکھ رہے ہیں۔  میں دیکھ رہا تھا کہ ادھر امریکن قصاب لوگوں کو ذبح کر رہے ہیں۔  بچوں پر بم برسا رہے ہیں۔  عوام آگ میں جھلس رہے ہیں۔  بھری آبادیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ہیں۔  ان کی بندوقیں، توپیں آگ اُگل رہی ہیں۔  گلیاں بازار بارود کی بو اور لہو کی مہک سے بھرے پڑے ہیں۔  ایسے میں مسلمان، بے رس اور بے چس اذان دے رہے ہیں۔  ان کا خیال ہے کہ اذان دے لو، ساری مصیبت ٹل جائے گی۔  نماز پڑھ لو، امن و سکون ہو جائے گا۔  اب وہ یہ نہیں سوچتے کہ اسلام کیسے پھیلا۔  اذان دے کر نہیں بلکہ اس میں زندگی کی تگ و دو بھی شامل ہے۔  خواہش تھی اختیارات لینے کی۔  جرأت و ہمت تھی، ظلم و ستم کو مٹانے کی۔  اس خواہش کی حدود جنون تک پہنچ گئی تھیں۔  الحمرا و اسپین سے لے کر ہندوستان تک اور ترکی و مشرقِ وسطیٰ تک۔  آج مسلمانوں نے جو اپنا روّیہ قائم کیا وہ آپ کے سامنے ہے۔  بڑھکیں مارنے کے علاوہ انہوں نے کچھ نہیں کیا۔  وہ ماضی میں زندہ ہیں۔  انہیں حال اور مستقبل سے کوئی سروکار نہیں۔  منافقت ان کے رگ و پے میں سرایت کر چکی ہے۔  جھوٹ ان کی فطرت بن چکا ہے۔  اتحاد کا لفظ ان کی کسی لغت میں شامل نہیں ہے۔  ہم مسلمان کبھی متحد نہیں ہوئے، اس لیے کبھی زمانے کے ساتھ نہ چل سکے۔  ہم دوسروں کے محتاج ہو گئے ہیں۔  ہم وہ قوم ہیں جو اپنی ماچس تک نہیں بنا سکتے۔  جو بنا رہے ہیں وہ ہمارے دشمنوں کا فیضان ہے۔  امریکہ سے ٹیکنالوجی لیتے ہیں اور اس کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔  اسرائیل، چھوٹا سا ٹکڑا ہے وہ دو ہزار سال تک آوارہ پھرتے رہے۔  دوسری جنگِ عظیم کے بعد، ۱۹۴۸ء میں بنا۔  سرزمین عرب پر غاصبانہ قبضے کے نتیجے میں وہ اس سرزمین کے مالک بنے۔  اسرائیل نے یہ ٹکڑا حاصل کیا ہے تو وہ جانتے ہیں کہ اس کی حفاظت کیسے کرنی ہے یا پھر وہ فلسطینی جانتے ہیں کہ جنہیں جہازوں سے باندھ کر الٹا لٹکایا جاتا ہے جو مچھلی کی طرح تڑپتے ہیں۔  ان دونوں کو پتا ہے کہ وطن کی حفاظت کیسے کرنی ہے، آزادی کیسے حاصل کرنی ہے۔ ادھر ہم مسلمان اپنے اپنے مفادات کے اسیر ہیں۔  ہم صرف یہ طے کر لیں کہ مسلم اُمہ کوئی چیز نہیں تو بھی بات بنے۔  ہر ٹکڑا اپنے آپ میں رہے، جو کوئی آ کر ہمارا حشر کرے ہمارا اس کا تعلق کسی دوسرے اسلامی ملک سے نہیں۔  کوئی آس، کوئی امید، کوئی توقع نہیں ہونی چاہیے۔  ہم اپنے ملک تک محدود رہیں۔  پھر جب دوسرے ملک کی باری آئے تو وہ خود جتنا خود کو بچا سکتا ہے، ٹھیک۔  ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔  ہمیں صرف اپنی حفاظت کرنی چاہیے۔  یہ بھی ایک نقطۂ نظر ہے اور ہم وہاں تک پہنچ سکتے ہیں۔  وہ جو شاعر کہتا ہے، مسجد کی لکڑیاں نہ بک سکیں نہ جلائی جا سکیں۔

ہماری لیڈر شپ جاہلوں کی لیڈر شپ ہے، جو آتا ہے قبضہ کرنے آتا ہے اور خود سے جانے کا نام نہیں لیتا۔  دنیا بھر کے سیاستدان کم از کم ایک دو کتابوں کے مصنف ہیں۔  ہمارے ہاں کسی نے کوئی کتاب نہیں لکھی۔  سوائے بھٹو کے۔  کسی سیاست دان کے پاس وقت تھا نہ دماغ اور نہ قلم۔  ہمارے سیاستدان کتاب سے اتنے دور ہیں کہ ان کے گھروں میں ٹیلیفون ڈائریکٹری کی کتاب بھی نہیں۔  دو تین کروڑ کے بہترین آسائش و آرائش سے لبریز گھر میں کوئی سٹڈی نہیں، کوئی لائبریری نہیں۔  ان سے پوچھا جائے تو کہیں گے، اس کی کیا ضرورت ہے۔  یہ مسلمان کلمے سے بخشے جائیں گے۔  اگر یہ کام ہوتا تو ساری دنیا کر لیتی۔  کوئی تگ و دو نہ کرتا۔  جان کی بازی نہ لگاتا، مسائل خود بخود حل ہو جاتے۔

٭  کہا جاتا ہے کہ فرازؔ اپنی شاعری کے محور سے ہٹ گیا ہے۔  وہ خواب دیکھتے دیکھتے اب عذابوں کی باتیں کرنے لگ گیا ہے۔  اب اس کی شاعری میں نا انصافیوں، سماجی ناہمواریوں، سیاسی جبر و استبداد اور ظلم و ستم کے خلاف احتجاج بڑھ گیا ہے۔  میرے خیال میں تو ابتدا ہی سے دونوں روّیے ساتھ ساتھ ہیں اب اس میں شدت آ گئی ہے۔  آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟

٭٭  اپنے بارے میں، میں کچھ نہیں کہہ سکتا جو لوگ پڑھتے ہیں وہی صحیح فیصلہ کر سکتے ہیں۔  آپ مجرم ہیں تو پولیس آپ پر نظر رکھتی ہے۔  آپ پولیس پر نہیں۔  میں اپنے دفاع کے طور پر نہیں کہتا لیکن میں نے ہمیشہ کہا بھی ہے۔  دو گردشیں رہی ہیں جیسے زمین کی… اپنے گرد… کائنات کے گرد… تنہا تنہا سے غزل بہا نہ کروں تک۔  بارہ تیرہ کتابوں تک۔  دل کی بات بھی کہی ہے اور دل سے جڑے ہوئے لوگوں کی بات بھی کی ہے۔  وطن اور اس کے بسنے والوں کے غم، ان کے دکھ، ان کے مسائل میرا موضوع رہے ہیں۔  میں ہمیشہ اپنے لوگوں میں موجود رہا ہوں۔  میں جانتا ہوں کہ میں نے یہ رشتہ توڑا تو میری اکائی بے معنی ہو جائے گی۔  میں اتوار بازار، جمعہ بازار اسی لیے جاتا ہوں، وہاں مجھے اپنے لوگوں کے چہرے نظر آتے ہیں۔  سچے اور کھرے چہرے۔  کاسمیٹکس کی تہوں سے پاک، جدید تراش خراش میں ملبوس بت نہیں سیدھے سادے انسان نظر آتے ہیں۔  یہ میرا عمل مسلسل ہے جو میری شاعری میں نظر آتا ہے۔  میں انہیں دیکھتا ہوں۔  ان کے چہروں پر لکھے دکھ اور مسائل میرے دل میں اتر کر شعر کی صورت جنم لیتے ہیں۔  میری بھی بعض چیزیں کمزور ہیں۔  بعض ٹھیک ٹھاک، ہر آرٹسٹ، شاعر، مصور، کوئی بھی فنکار ہو وہ ہمیشہ شاہکار نہیں پیش کر سکتا۔  شیکسپیئر کے سارے ڈرامے کیا شاہکار ہیں۔  اتار چڑھاؤ، نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔  میں میرؔ کی بات نہیں کرتا۔  غالبؔ کو لے لیں۔  غالب کے سارے شعر، کڑے انتخاب کے باوجود اپیل نہیں کرتے۔  اقبال کو لے لیں۔  فیضؔ کو دیکھ لیں۔  بلند وپست سبھی کے ہاں موجود ہے۔  موپساں سے لے کر منٹو تک۔  عصمت سے لے کر اب تک کس فنکار کی ساری تخلیقات شاہکار ہیں۔  ساحر کا نام، تاج محل کے حوالے سے زندہ ہے وہ نکال دیں تو کسی کو اس کا ایک شعر بھی یاد نہ ہو گا۔  اسی طرح عصمت کا لحاف، غلام عباس کا کتبہ اور آنندی۔  میری کوشش اور خواہش یہی ہے کہ میں اپنے لوگوں کے دکھوں سے جڑا رہوں۔  یہ خواہش کل بھی تھی اور آج بھی ہے۔

٭ آپ نے ظلم کے خلاف، انصاف کی طلب اور کچلے ہوئے مظلوم طبقے کے حقوق کے لیے آواز بلند کی۔  شاعر کی صدا، صدا بصحرا ثابت ہوئی یا کارگر….

٭٭  میں نہیں سمجھتا کہ صدا بصحرا تھی۔  میں یہ نہیں کہتا کہ صدا لگانا بند کر دیا جائے توجوسنے اس کا بھی بھلا جو نہ سنے اس کا بھی بھلا۔  درویش کا کام ہی صدا لگانا ہے۔  شاید کسی پر اثر کر جائے۔  گوش شنوا ہے تو سن اک صدا…. یہ صدا اور صداؤں کو بھی اپنے اندر جذب کر لیتی ہے، جس سے بڑی گونج پیدا ہوتی ہے۔  یہ سفر محبت کا سفر ہے کوئی منزل یہاں دو گام نہیں شارٹ کٹ کوئی نہیں۔  زندگی ہمیشہ چلتے رہنے کا نام ہے۔  میں نے یہ دعویٰ کبھی نہ کیا نہ کر سکتا ہوں کہ میں کوئی ’’نسخہ…..‘‘ لے کر آیا۔  میں شاعری پڑیا میں باندھ کر نہیں دے رہا کہ اپنے مرض کا علاج کر لو۔

٭ شاعر بے زبان عوام کو زبان عطا کرتا ہے، یہ اس کی ذمہ داری ہے لیکن کیا شاعری سے ہٹ کر آپ نے عملی طور پر عوام کے لیے کچھ کیا؟

٭٭  یہ سوال بہت اچھا کیا آپ نے ….. یہ بالکل اسی طرح کی بات ہے۔  ایک شخص کرکٹ کا بڑا اچھا کھلاڑی ہے۔  ہم کیوں توقع کرتے ہیں کہ وہ فٹ بال کھیلے اور بہترین گول کیپنگ کرے۔  میرا کام لکھنا ہے میں یہ تو بتا سکتا ہوں کہ فصل کے لیے، اس کی نشو و نما کے لیے کیا اچھا ہے، کیا ضروری ہے۔  اگر مجھے کہا جائے کہ ہل چلاؤں، بیل جوتوں، بیج ڈالوں تو یہ میرے لیے ممکن نہیں۔  قدرت نے ہر ایک کو مختلف کام، مختلف سوچ عطا کیے ہیں۔  کوئی دوڑ سکتا ہے، کوئی پتنگ بازی اچھی کر سکتا ہے۔  کوئی لکھ سکتا ہے۔  اب اس سے یہ توقع کرنا کہ وہ دوسرے میدانوں میں بھی اپنا آپ منوائے۔  اب جو شاعر ہے۔  اس کے لیے تو قرآن تک میں ہے کہ جو کہتے ہیں وہ عمل نہیں کرتے۔  ہم کم از کم کہتے تو ہیں۔  ان لوگوں کا شمار کیا جو عمل نہیں کرتے اور کہتے بھی نہیں ہیں۔  وہ تصویر جو آپ کے سامنے لگی ہے۔  گروپ فوٹو۔  اس میں شاید آپ تو مجھے نہ پہچان پائیں یہ کشمیری مجاہدین کی ہے۔  میں جہاد کشمیر میں عملی طور پر شامل رہا ہوں۔  میں نے صرف کشمیر کی تحریکِ آزادی اور بے بس عوام پر نظمیں ہی نہیں کہیں ہیں بلکہ میں اس جد و جہد میں ان کے ساتھ شریک رہا ہوں۔  ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف میں نے صرف نظمیں ہی نہیں کہیں بلکہ میں نے اہتمام و انتظام بھی کیا۔  ان جلوسوں، جلسوں کا۔  میں کبھی نہیں جھکتا۔  جب میں دیکھتا ہوں کہ تیرا ارب روپے کی خوردنی اشیاء آپ امپورٹ کریں۔  میں کیا کروں جب آپ خوردنی تیل پر…. چائے پر….. کتنے ارب لٹا دیتے ہیں۔  پانی کھانے پر ہم کتنا پیسہ ضائع کر دیتے ہیں۔  صحت و صفائی کی قیمت پر سڑکیں، دیواریں، گندگی، اپنا جسم اور لباس، سبھی اس سے متاثر۔  یہ دل دکھانے والی باتیں ہیں۔  آپ بتائیں۔  آپ کتنے کھربوں روپے حج پر لگا دیتے ہیں۔  پہلے حج آپ پر فرض تو ہو لے۔  حج صاحبِ استطاعت پر فرض ہے۔ قرض لے کر حج نہیں ہوتا۔  مسلمان بے غیرت ہے جو قرض دار ہے، کافر قابلِ عزت ہے جو اس لعنت سے پاک ہے۔  ایک حج ایک لاکھ کا پڑتا ہے۔  کھربوں تک بات چلی جاتی ہے۔  کیا یہ ثواب نہیں کہ آپ اپنے مسائل حل کریں، اپنی قوم کے دکھ دور کریں۔  آج کا پر عزم نوجوان بے روزگاری کے شکنجے میں کس کر خود کشی نہ کرے۔  باپ اپنے ہاتھوں سے بھوک سے بلکتے بچوں کو ذبح نہ کرے۔  کیا حج کے مقابلے میں یہ ضروری نہیں۔  آپ دنیا سے مقابلہ نہیں کر سکتے کیونکہ آپ سہل پسند ہیں۔  آپ آسان چیزوں کو اپنا لیتے ہیں۔  آپ مسجد میں پانچ وقت نماز پڑھ لیتے ہیں لیکن کسی کی تکلیف دور کرنے کے لیے کیا آپ پانچ مرتبہ اس کے گھر جائیں گے۔  جب حج فرض ہی نہیں تو پھر کھربوں روپے کے زیاں کا کیا مطلب؟ جب پوری قوم مقروض ہو، نسل در نسل مقروض ہو تو پھر حج کہاں فرض رہ جاتا ہے۔  یہی رقم قرض کی واپسی میں دی جا سکتی تھی۔

٭ کیا سچ کو سیاست یا غداری کا نام دیا جا سکتا ہے؟

٭٭  سچ تو سچ ہے۔  اسے غداری نہیں کہا جا سکتا۔  جھوٹ غداری ہو سکتی ہے۔  نیشنل سیکرٹ وہ الگ چیز ہے۔  ایک روّیہ یہ ہے کہ آپ اپنے مفاد کے لیے جھوٹ بولتے ہیں۔  سچ سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔  اپنی ذات کو۔  لیکن اخلاقی طور پر فائدہ ہے۔  تو فائدہ ہی ہوا نا….. سچ کا نتیجہ تو دار ہی ہوا کرتا ہے۔  منافقت جھوٹ، مکرو فریب ہماری قوم کے خصائص ہیں۔  وہ شاعر نہیں جو دربار داری کرے۔  واہ وا کرے۔  شاعر کا فرض، ذہنی طور پر توانا، دلیر اور دیانت دار ہونا ہے۔  پھر سچ بولنا اس کے لیے کوئی مشکل امر نہیں رہ جائے گا۔

٭ کیا آپ اس رائے سے اتفاق کریں گے کہ فرازؔ کی شاعری اور زندگی پر فیض کی شاعری اور زندگی کا واضح پر تو ہے۔  فیض بھی قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کرنے کے باوجود، عوام میں، اپنے پڑھنے والوں کے لیے محبوب رہا۔  آپ بھی علاقہ بدر، جلاوطنی اور تفتیش کے مراحل سے گزرے ہیں، لیکن ان مراحل سے گزارنے والے بھی اپنے اس فعل کو ناپسندیدہ قرار دیتے اور آپ سے، فیض سے، محبت کرتے رہے ہیں۔  پھر رومان اور انقلاب آپ دونوں کا پسندیدہ موضوع رہا ہے۔  فیض اشتراکیت اور ٹھوس نظریاتی بنیادوں کا شاعر ہے۔  آپ کی شاعری کسی مخصوص نظریے کی پیداوار ہونے کے بجائے اس سرزمین سے پھوٹتی ہے۔  اس مماثلت یا مخالفت کے ساتھ آپ خود کو فیض کا پیش رو، اسیرِ فیض سمجھتے ہیں یا اس کی تردید کرتے ہیں؟

٭٭  فیض مجھ سے بیس بائیس سال سینئر تھے۔  جب ہم فرسٹ ایئر میں تھے وہ زندگی کے بہت سے مراحل سے گزر چکے تھے۔  انہوں نے شاعری کے علاوہ فوج میں ملازمت بھی کی اس عہد میں اقبال کا اور دیگر تحریکوں کا بھی کافی دخل تھا۔  جب ہم میٹرک میں تھے تو پاکستان کے لیے آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں۔  ہم بھی اس میں شامل ہو گئے۔  سیاسی سرگرمیاں بھی عروج پر تھیں اور شعر و شاعری بھی۔  میں کوہاٹ کا رہنے والا ہوں۔  پشاور میں مشاعرے بھی ہوا کرتے تھے۔  مجھے بھی شوق تھا۔  سننے چلا جایا کرتا تھا۔  لیکن ہمیشہ ایک تاثر لے کر واپس آتا تھا۔  شاعری کام تو اچھا ہے، جو یہ شاعر کر رہے ہیں، لیکن ان کی اپنی حالت کیا ہے یا انہوں نے اپنا کیا حلیہ بنا رکھا ہے۔  ناخن بڑھے ہوئے، داڑھی بڑھی ہوئی۔  پیک زدہ لباس، بیڑیاں لبوں میں، گریباں چاک، تو بہت کوفت ہوتی تھی ہم نے جب پڑھنا شروع کیا تو ’’سویرا‘‘ جو دھرتی وطن تحریک کا نمائندہ پرچہ تھا، ٹرینڈسیٹر رسالہ تھا، دیگر پرچوں میں۔  اس رسالے میں تصویریں بھی چھپا کرتی تھیں۔  جن میں ہندوستان کے ترقی پسند شعرا اپنے لباس کی خوش ذوقی کے سبب ہمیں بہت متاثر کیا کرتے تھے۔  ساتھ ان کے بیگمات بھی ہوتی تھیں۔  وہ ان پیک زدہ گریباں چاک شاعروں سے بالکل مختلف دکھائی دیتے۔  ہم نے ان کو اپنا رول ماڈل بنایا، پھر ندیمؔ اور فیضؔ کو دیکھا تو وہ ویل ڈریس اور عملی انسان لگے۔  تو یہ شاعر جو صاف ستھرے تھے۔  خوش لباس بھی تھے اور کام بھی کرتے تھے۔  ان کی شاعری بھی ان کے حلیے کی طرح ان شاعروں سے مختلف تھی، جنہیں ہم بچپن سے پڑھتے آ رہے تھے۔  آپ یہ بھی دیکھیے کہ ایک زمانے میں غالب کی ٹوپی یا جوتے پہن کر چلنے والے ملیں گے۔  اسی طرح اس زمانے میں بھی، کس سے متاثر ہونا غیر فطری نہیں ہے۔  فیض و ندیم دونوں کی شخصیت سے متاثر ہوئے۔  شاعری اور شخصیت، ایک فضا میں پروان چڑھتے ہیں۔  آپ بھی اس ماحول کا حصہ ہیں۔  سیاسی، معاشی، انتظامی معاملات اور شرائط سب کے لیے ایک سے حالات ہوں گے تو سب ایک طرح سے سوچنے لگتے ہیں۔  جذبے اور شدت احساس میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔ بہرحال ہمارے تجربے ایک سے ہیں۔  امپریشنز مختلف ہو سکتے ہیں۔  ہم نووارد تھے اس انجمن میں۔  اس لیے طور طریقے اپنانے پڑے۔  پھر چیلنج کیا گیا تو فیض کی غزلوں پر غزلیں کہیں۔  اساتذہ کی زمینوں میں بھی تو کہتے ہیں۔  ہم نے غالب کی زمینوں میں بھی غزلیں کہیں۔  جیسا کہ بڑے بڑے اساتذہ نے بھی کہی تھیں۔  ایک زمانے میں ضیا جعفری کی رباعیات کی دھوم تھی۔  رباعی کہنا بہت مشکل ہے۔  یہ کہا جاتا تھا۔  صرف یہ دکھانے کے لیے کہ یہ کوئی اتنا مشکل یا بڑا کارنامہ نہیں ہے۔  تو میں نے رباعی بھی کہی۔  تو اسی طرح فیض کی زمینوں میں، میں نے غزلیں کہیں، پھر یوں بھی ہوا کہ میری ایک زمین میں فیض نے غزل کہی۔

اپنی محبت کے افسانے کب تک راز بناؤ گے

رسوائی سے ڈرنے والو بات تمہیں پھیلاؤ گے

ان نظریات کو سمجھنے اور اپنانے میں دیر نہیں لگی جو فیض کی شاعری میں جاری و ساری تھے۔  ایک ہی زمین میں، مضامین بھی ایک سے ہوں تو گمان ہوتا ہے کہ متاثر ہیں۔

٭ کیا آج کے حالات میں آپ اپنی اس رائے پر قائم ہیں کہ بدترین سول سیاسی حکومت، فوجی حکومت سے بہتر ہوتی ہے۔

جس کو دیکھو وہی زنجیر بپا لگتا ہے

شہر کا شہر ہوا داخلِ زنداں جاناں

کیا آج بھی وہی منظر ہے؟

٭٭  پاکستان کے حالات بدلتے ہیں نہ نظمیں پرانی ہوتی ہیں۔  میں اب بھی اس کو اون کرتا ہوں۔  یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم آج بھی ان حالات سے گزر رہے ہیں۔  زنجیر بپا کوئی ہے یا نہیں۔  یہ الگ بات، لیکن زنجیر بپا نہ ہونا زیادہ خطرناک بات ہے۔  جہاں ذوقِ نغمہ کمیاب ہو وہاں نوا کو تیز کرنا پڑتا ہے، لیکن جہاں پاؤں میں زنجیر یں نہ ہوں وہاں جذبہ شدت اختیار نہیں کرے گا۔  جب تک ظلم میں شدت نہ ہو، پابندیاں سخت نہ ہوں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ لوگ اس ماحول کو قبول کر چکے ہیں۔  ایسی بات نہیں۔  جمہوریت یا جمہوریت ہوتی ہے اور فوجی حکومت، فوجی حکومت۔  جمالی صاحب نیچے شلوار پہن لیں اور اوپر شرٹ کوٹ کس لیں تو آپ انہیں فوجی کہیں گے یا غیر فوجی آدھا تیتر آدھا بٹیر ہونا زیادہ خطر ناک ہے۔  اس سے آپ سائیکوفیشن کو رواج دیتے ہیں۔  جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ زہر جڑوں تک چلا جاتا ہے جو منافقت اور خوشامد کی نشو و نما میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

٭ : متنازع شخصیت ہونا کیسا ہے؟

٭٭  متنازع تو ہر وہ شخص ہو گا جو ہر خراب بات کو خراب نہ کہے اور اچھی بات کی مخالفت کرے۔  آپ چند ایک نام ہیں بتائیے جن کی قدر بھی ہو اور جو متنازع بھی نہ رہے ہوں۔  آپ کوئی ایک نام بھی نہیں بتا سکتے۔  ادبی، سیاسی کسی اعتبار سے بھی۔  اقبال، قائد اعظم، فیض یا میں تو میں تو کسی بڑے مقام پر نہیں ہوں۔  میں فرقہ ملامتی میں شامل ہو جاؤں تو خود کو بہتر سمجھوں گا۔  بجائے گڈی گڈی لوگوں کے۔  سینے پر ہاتھ رکھ کر، جھک کر بات کروں۔  سرکار کو سرآنکھوں پر بٹھاؤں پھر مانگنے لگ جاؤں۔  نوکری، وظیفہ گریڈ، نشان…… تو میں نے جو کچھ بھی کیا ہے، کبھی غیرت کو نہیں بیچا۔  علم کی، قلم کی کمائی سچائی ہے میرے لیے سچائی بھی اتنی ہی آسودگی بخشتی ہے۔  کیونکہ ضمیر آسودہ ہے۔  جھوٹ خوشامد اپنا لوں تو ہر اخبار میں تصویریں چھپنے لگیں، لیکن ایسے میں عزت کہاں باقی رہ جائے گی۔

٭ فیض سے متاثر ہونے والے شعرا کے نام گنوائے جا سکتے ہیں۔  آج آپ خود اس مقام پر ہیں کہ لوگ پیرویِ فراز پر فخر محسوس کرتے ہیں۔  آپ کس نوجوان شاعر میں اپنا پر تو دیکھتے ہیں اور اس کے بہت آگے تک جانے کی پیش گوئی کرتے ہیں؟

٭٭  آپ اپنا سوال ذرا الگ رکھیں، میرا جواب سن لیں۔  جو آپ نے پوچھا ہے وہ بھی رہے میرا جواب بھی رہے۔  میں کہہ چکا ہوں میں نے فیض و ندیم بلکہ غالب تک کی زمینوں میں غزلیں کہیں۔  ہم کتنی بھی کوشش کریں اس سے بہتر یا برابر نہیں کہہ سکتے۔  یا پھر یہ بہتر ہے کہ ان زمینوں میں کہا ہی نہ جائے۔  ایک زمین میں، ایک سے حالات میں رہتے ہوئے، موضوعات بسا اوقات آپس میں مماثلت اختیار کر لیتے ہیں۔  مجھے عار نہیں یہ کہنے میں کہ اپنے سینئرز سے متاثر ہوا ہوں۔  فیض کے ساتھ میرا کافی وقت گزرا۔  میری خوش نصیبی کہ لندن میں ہم ایک چھت کے نیچے، ایک گھر میں رہے۔  میں فیض کے ساتھ مہینوں رہا بھی۔  سفر بھی بہت کیے۔  وہ بہت عمدہ انسان تھا۔  میں نے اسے ہمیشہ شفاف پایا۔  وہ کسی کی برائی نہیں کر سکتے۔  کبھی غیبت نہیں کی۔  میں ان سے بہت متاثر تھا لیکن میری غزلوں کے موضوعات پر فیض کی رومانی غزلوں کا کوئی اثر کوئی نشان نہیں۔  میری جتنی غزلیں ہیں۔  ہر دور میں کوئی نہ کوئی غزل کوئی نہ کوئی کتاب مشہور ہوئی۔  ام پیکٹ ڈالا ہے اس نے شعری سفر پر۔  اب کے ہم بچھڑے تو شاید، لوگ کہتے ہیں کہ ٹرینڈ سیٹر غزل ہے۔  اسی غزل کا شعر ہے:

غمِ دنیا بھی غمِ یار بھی شامل کر لو

نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں

یہ فیض کے ہاں کہاں ملے گا۔

رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ

یا جاناں یا سرِ بازار آ گئے یا سلسلے توڑ گیا یا سنا ہے لوگ اسے ……

تو ہر دور میں میری کوئی نہ کوئی غزل اِن رہی ہے۔  زمانہ ظالم بھی ہوتا ہے۔  ۱۹۶۶ء سے ایک زمیندارہ کالج گجرات سے جو مجھے ایوارڈ پرائز ملنے شروع ہوئے۔  پھر ’’درد آشوب‘‘ کو جو پذیرائی ملی۔  ملک سے باہر بھی میری شناخت قائم ہوئی۔  اچھی چیز کی موجودگی میں نئی اچھی چیز بھی پسند نہیں کی جاتی۔  ۱۹۷۱ء میں دھنک میں بہترین شاعر کے لیے قارئین سے آرا لی گئی تھیں جن کے مطابق میں پہلے نمبر اور فیض دوسرے نمبر پر تھے۔  میں نے کہا کہ وہ میرے عہد کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔  اس مقابلے کے نتائج نے یا دیگر محبتوں نے میرا دماغ خراب نہیں کیا۔  بہرحال میں تعظیم کرتا ہوں ان محبتوں کی جو مجھے میرے لوگوں نے دیں اس کا کوئی بدل نہیں۔  ابھی کل کی بات ہے میرے پاس تین جوان آئے۔  ایک نے ٹائی دی ایک نے کف لنگ، میں کہتا ہی رہا کہ ان چیزوں کی ضرورت نہیں۔  آپ کی محبت میری زندگی کے لیے کافی ہے۔  ان تینوں میں سے ایک کہنے لگا میں آپ کو کتاب کا تحفہ دینا چاہتا تھا۔  مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں آپ کو کون سی کتاب دوں۔  آخر میں قرآن پاک کا یہ نسخہ لے آیا ہوں۔  ظاہر ہے میرے لیے اس سے بڑھ کر تحفہ نہیں ہو سکتا تھا۔  مجھے یاد ہے ایک مرتبہ احمد ندیم قاسمی، سجاد بابر، امجد اسلام امجد خانہ کعبہ میں تھے۔  اتنے میں ایک عمر رسیدہ غالباً ۸۰ برس کا ایک بوڑھا شخص آیا۔  اس نے آتے ہی ہم لوگوں سے پوچھا کہ احمد فراز کون ہے؟ اسے بتایا گیا کہ یہ ہیں احمد فرازؔ۔  وہ بزرگ اتنا خوش ہوا اس نے کہا کہ میں تو عمرہ کے لیے آیا تھا۔  میرا تو حج ہو گیا۔

تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

ایں سعادت بزورِ بازو نیست

میں نے کوئی محنت کوئی جد و جہد بھی نہیں کی۔  یہ سب اسی کی بخشش، اس کی عطا ہے۔  احمد ندیم قاسمی نے بھی اپنی تحریر میں اس واقعہ کا تذکرہ کیا ہے اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مجھے کس نوجوان شاعر میں اپنی جھلک دکھائی دیتی ہے تو یہ آپ لوگوں کا کام ہے، اس چیز کو دریافت کرنا۔

٭ حفیظ نے کہا تھا:

تمام عمر ترا انتظار ہم نے کیا

اس انتظار میں کس کس سے پیار ہم نے کیا

فیض کہتے ہیں:

اپنی تکمیل کر رہا ہوں میں

ورنہ تجھ سے تو مجھ کو پیار نہیں

آپ کہتے ہیں:

تیرے بغیر بھی تو غنیمت ہے زندگی

خود کو گنوا کے کون تری جستجو کرے

یا

چھوڑو عہدِ وفا کی باتیں، کیوں جھوٹے اقرار کریں

کل میں بھی شرمندہ ہوں گا، کل تم بھی پچھتاؤ گے

کیا یہ روّیے اُردو شاعری کا ایک الگ مزاج متعین نہیں کر رہے:

٭٭  ہم نے جس جس کو بھی چاہا تیرے ہجراں میں وہ لوگ

آتے جاتے ہوئے موسم تھے، زمانہ تُو تھا

محبت اپنا اپنا تجربہ ہے جو میرا تجربہ ہے وہ کسی اور کا نہیں، جو کسی اور کا تجربہ ہے وہ میرا نہیں۔  یہاں ہر کوئی معتبر ہے تو کبھی فرہاد و مجنوں بھی معتبر نہیں۔  حفیظ کا وہ تجربہ تھا، فیض کا اپنا تجربہ تھا۔  میرا اپنا تجربہ ہے اور اپنا تجربہ بھی حتمی نہیں ہوتا۔  کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی لمحہ ایسا بھی آ جاتا ہے کہ وہ اس تجربے کو کسی اور زاویے سے لکھنے پر مجبور کر دیتا ہے۔  روّیے بدلتے رہتے ہیں۔  پھر یہ بھی دیکھنا ہے کہ ایک ہی محبت ہے یا مختلف، مختلف ادوار میں مختلف محبتیں آپ پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

٭ جدائی اور فراق، آپ کی غزل کے بنیادی موضوعات ہیں۔  احساسِ تنہائی نے بہترین شعر کہلوائے۔  ترکِ تعلق کی آرزو بھی کارفرما ہے۔  اس کی وجہ۔

٭٭  قربتِ محبوب تو بہت خوبصورت چیز ہے۔

فراز عشق کی دنیا تو خوبصورت تھی

یہ کس نے فتنۂ ہجر و وصال رکھا ہے

بہر حال مرحلۂ عشق میں ایسے لمحات کا آنا بھی ضروری ہے۔

٭  دیکھو یہ میرے خواب تھے، دیکھو یہ میرے زخم ہیں

میں نے تو سب حسابِ جاں برسرِ عام رکھ دیا

خود نوشت، ’’حسابِ جاں ‘‘ کے متعلق ہم سب جانتے ہیں کہ اس کی پذیرائی بہت ہو گی۔  یہ کب تک منظرِ عام پر آ رہی ہے؟

٭٭  ابھی ابھی آپ سے پہلے دو نوجوان آئے ہوئے تھے میرے پاس، وہ بھی یہی بات کہہ رہے تھے، بلکہ زور دے رہے تھے کہ میں اپنی سوانح عمری لکھوں۔  تو میں یہی کہہ رہا تھا کہ ڈاکٹر طاہرہ کوئی آ جائے جو سوال کر تیر ہے۔  میں جواب دیتا رہوں، تبھی اس کا منظر عام پر آنا ممکن ہے۔  ورنہ میں خود تو شاید کبھی نہ لکھ پاؤں۔  بے وقعت سی میری زندگی ہے لیکن نشیب و فراز سے تہی نہیں۔  میں اس زندگی سے خوش ہوں۔  گرم و سرد سبھی موسم آتے رہے۔  یہ ضرور ہے کہ دوبارہ زندگی ملے تو بھی احمد فراز ہی ہونا چاہوں گا۔

٭  میرے سوال کا جواب واضح نہیں ہے؟

٭٭  میں خود سے وعدہ بھی نہیں کر سکتا اس بارے میں، شاید میں لکھ سکوں، شاید نہ لکھ سکوں۔

٭ آپ عربی شاعری کی ایک کتاب کا ترجمہ کر رہے تھے، وہ کام کہاں تک پہنچا؟

٭٭  وہ جو عربی شاعری کی کتاب کا ترجمہ شروع کیا تھا۔  اس کا مصنف کچھ بے تعلق سا ہو گیا۔  شاید اس کی دلچسپی ختم ہو گئی۔  لیکن میرا ایک اور ترجمہ جس پر مجھے فخر ہے۔  ’’سب آوازیں میری ہیں ‘‘ یہ ساؤتھ افریقن پوئٹس کی تخلیقات ہیں۔  وہ آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے۔  یہاں ہم بھی ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے۔  مجھے ان کے اور اپنے حالات ایک سے معلوم ہوئے۔  لندن کے قیام کے دوران میں وطن سے دوری کے دنوں میں، میں نے اس پر کام کیا۔  میرے اور ان شاعروں کے محسوسات و جذبات بالکل ایک سے تھے۔  کتاب پڑھ کر دیکھ لیجیے، کہیں بھی ترجمہ معلوم نہیں ہوتا۔  بلکہ تخلیق کا گمان ہوتا ہے۔  یہ پڑھنے والوں کی رائے ہے۔

٭ آپ کی پسندیدہ غزل؟

سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں

سو اُس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں

کا پس منظر؟

٭٭  اس غزل کا پس منظر کیا ہو گا۔  آخری شعر میں ساری کتھا کھول کر رکھ دی ہے۔

کہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی

اگر وہ خواب ہے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں

اس کی تلاش جاری ہے۔  شاید کسی مقام پر جھلک نظر آ جائے۔

٭ پاکستان میں اُردو غزل کا مستقبل؟ کون سے شعرا ہیں جن کے دم قدم سے آپ اس کا مستقبل روشن دیکھتے ہیں؟

٭٭  ہندوستان میں جو اُردو شاعری کے چند ایک نام تھے، ان میں بھی تحرک، زندگی نظر نہیں آتی۔  سوتے خشک ہو چکے ہیں۔  ترقی پسند تحریک نے شاعری میں جو بلاواسطہ حصہ لیا۔  جو رنگ و روپ بدلا۔  جو رخ اور زاویے دیے۔  نئے مضامین سامنے آئے۔  نئے شعرا منظر پر آئے۔  فیض کا بڑا حصہ تھا۔  اس نے براہ راست بات نہ کی، کلاسیکی انداز میں اپنی بات کہی۔  وہ ٹرینڈ سیٹر شاعر تھا۔  غزل خود کو زندہ نہیں رکھ سکتی بلکہ لکھنے والے کتنی تازہ کاری و تازہ خیالی اسے بخشتے ہیں۔  کئی لوگوں نے تو اس کی غشی کے، بے ہوشی کے نعرے لگائے۔  کفن دفن کے انتظامات تک میں مصروف ہوئے، لیکن غزل سخت جان صنفِ سخن ہے۔  میں صرف اپنی بات کروں تو ؎ اب کے ہم بچھڑے تو….. مختلف انداز کی غزل تھی۔  ؎ رنجش ہی سہی، ایک الگ پیرایۂ اظہار رکھتی تھی۔  اب ؎ سنا ہے لوگ…… اس کی جو پذیرائی ہوئی وہ آپ کے علم میں ہے۔  علی سردار جعفری نے اس کی بے حد تعریف کی۔  ان حالات میں، میں نہیں سمجھتا کہ یہ مر جائے گی۔  کچھ لڑکے لڑکیاں جو شعر کہتے رہے ہیں۔  دو چار اچھے شعر نظر آ جاتے ہیں۔  لیکن مشکل یہ ہے کہ تھوڑی سی چمک دکھا کر غائب ہو جاتے ہیں۔  کچھ عرصے بعد شاید ایسی صورت نہ رہے۔  کوئی بڑا شاعر سامنے آ جائے۔  ایلیٹ نے کہا تھا کہ خیمے کا سب سے بڑا بانس اٹھایا جاتا ہے تو چھوٹے بانس گر جاتے ہیں۔  شاعر تو وہی باقی رہتا ہے جو توانا ہو۔  ہم سمجھتے ہیں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ کوئی بڑا نام سامنے آئے۔

٭ میر کی صدی، غالب کی صدی، اقبال کی صدی، آئندہ صدی کے لیے کوئی نام…..؟

٭٭  میر و غالب و اقبال کے بعد فیض کو شامل کر لیں۔  اس عہد میں بڑے نام بھی ہیں۔  کچھ ہم جیسے چھوٹے لوگ بھی اس قافلے میں شامل ہوتے گئے۔  اب دیکھیے یہ شانِ امتیاز کس کو ملتا ہے۔  اس کا فیصلہ تاریخ کرے گی۔

٭ کیا شعر و ادب میں نئے تجربے ہوتے رہنے چاہئیں۔  پاکستان میں جاپانی صنفِ سخن ’’ہائیکو‘‘ کو جو پذیرائی ملی، اس کا سبب؟

٭٭  مجھے تو اس کا مستقبل کچھ نظر نہیں آتا۔  میں نہیں کہتا کہ میں مشرقی اصنافِ سخن سے ہی تعلق رکھنا چاہتا ہوں یا انہیں ہی پسند کرتا ہوں۔  جاپان بھی کوئی دور کا نہیں، کم از کم مغرب میں شامل نہیں۔  تین چار پانچ مصرعوں کی نظم ہائیکو کا مزاج جاپانی ہو۔  اب ہر کوئی تین مصرعے لکھ لے تو وہ ہائیکو کا شاعر ہو گیا۔  آپ دیکھیں کسی ریکگنائزڈ پوئٹ نے اسے نہیں اپنایا۔  جاپانی ایمبیسی مشاعرہ کرا دے، کھانا دے دے تو ہمارے شاعر ہائیکو لے کر پہنچ جاتے ہیں۔  جن کا اُردو شاعری میں مقام نہیں بنتا وہ دوسری زبانوں کی اصناف کو اپنا کر کہاں تک جا سکیں گے۔

٭ : لاہور، سرگودہا، کراچی دبستان مشہور ہیں۔  کیا اُردو ادب کے اجنہ کی موجودگی میں اسلام آباد کی بھی الگ دبستان کی حیثیت سے شناخت قائم ہو چکی ہے یا منزل ابھی دور ہے؟

٭٭  کراچی کا دبستان تو کبھی تھا ہی نہیں۔  اب لاہور میں بھی وہ بات نہیں رہی۔  ہم نے کچھ کلچرل لینڈ سکیپنگ ہی نہیں کی۔  پبلشر ہر گند چھاپ رہے ہیں۔  پیسے دو اور جو خرافات چاہیے چھپوا لو۔  پھر ریڈیو، ٹی وی تک پہنچنے کی کوشش۔  میل ملاپ سفارش۔  حرفِ نوشتہ کی قدر شاید اب نہ رہے۔  حرف نوشتہ کھرے سونے کی طرح۔  پرکھنے والا زمانہ کسوٹی سے نکل آیا تو پانسہ ورنہ ملمع۔ رہی بات اسلام آباد کی تو یہاں کہاں ادب کے بڑے نام۔  ابھی تو نہیں ہیں ایسے کوئی خاص نام، شاید کچھ عرصے بعد سامنے آئیں۔  آبیاری ہوتی رہی تو۔  اس دارالحکومت میں، کسی مشاعرے، کسی ادبی تقریب کے لیے کوئی جگہ ہی نہیں۔  کوئی ایسا مقام ہی نہیں کہ جہاں سکالر، شاعر، ادیب مل بیٹھیں۔  چائے، کافی ہاؤس قسم کی کوئی چیز یہاں نہیں۔

میرے زمانے میں نیشنل بک فاؤنڈیشن نے زمین لی تھی۔  منصوبہ یہی تھا کہ ایک لائبریری، بک شاپ، کیفے ٹیریا، اور چھوٹی بڑی ادبی  تقریبات کے لیے ہال بنایا جائے گا۔  ہم نے پیسے دے دیے۔  زمین ٹرانسفر ہو گئی، لیکن دیکھا یہ گیا کہ وہاں قناتیں لگا کر مسجد کے مولوی نے مسجد کی تعمیر شروع کر دی۔  لیکن نہ ہم لڑ سکے نہ انتظامیہ کچھ کر سکی۔  جہاں ایسی غاصبانہ قوتیں موجود ہوں۔  وہاں ادب یا کلچرل لینڈ سکیپنگ کیا ہو گی۔

(تیسری نشست، شریک سوالات سرمد محمود )

٭ کیا اردو زبان کی اہمیت صرف قومی رابطے کی ایک موثر زبان کی حیثیت سے ہے۔

٭٭  زبانوں کا کردار متعین نہیں کیا جا سکتا۔  زبان ایسی چیز ہے جو لفظ بھی اس میں داخل ہو جائے، لوگ اسے قبول کرنا شروع کر دیں گے اور ان کا استعمال عام ہوتا جائے گا۔  جہاں تک قوم اور زبان کے تعلق کی بات ہے، وہ قومیں جن کی اپنی زبان نہیں ہوتی وہ اپنی شناخت قائم نہیں کر سکتیں زندگی کے کسی شعبے میں آگے نہیں بڑھ سکتیں۔  ایسے میں قوم یکجہتی اور رابطہ بے معنی الفاظ بن کر رہ جاتے ہیں۔  قومی زبان قومی یکجہتی میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے، فرد میں احساس تفاخر پیدا کرتی ہے۔ باہمی اخوت اور اتحاد یگانگت کو فروغ دیتے ہوئے ایک مستحکم قومیت کی بنیاد ڈالتی ہے۔  ہماری زبان اردو، فارسی، انگریزی، عربی و ترکی کے علاوہ سندھی، بلوچی، پنجابی اور پشتو کے بے شمار الفاظ اپنے اندر سموے ہوئے ہیں۔  یہ پنجاب، سندھ، سرحد بلوچستان حتیٰ کہ مغربی پاکستان کے کسی بھی علاقے کی زبان نہیں ہے، لیکن سب جگہ بولی اور سمجھی جاتی ہے۔  واضح ہوا کہ اس کی جڑیں تمام ان علاقوں میں پیوست ہیں۔  رابطے کی زبان ہونا، یہ کم اہم بات ہے، لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اردو بہت poorزبان ہے۔  بہت مفلس ہے۔  ابھی اس میں زیادہ وسعت نہیں ہے بعض تاثرات کے بیان کے لیے مقامی یا سرکاری زبان کا سہارا لینا پڑتا ہے۔  دریا کو چھوٹی چھوٹی ندیاں نہیں بھریں گی تو دریا خشک ہو جائے گا۔

٭ کیا ہمارا نظامِ تعلیم قومی ترقی میں معاون ہے؟

٭٭  نظامِ تعلیم سے پہلے یہ دیکھیں کہ معاشی طور پر ہم تین طبقوں میں منقسم ہیں۔ تعلیم ہر طبقے کا حق ہے۔  آپ متوسط طبقے سے ہیں تو تعلیم کسی حد تک آپ کی دسترس میں ہے۔  لیکن جو غریب طبقہ ہے اس کا بھی حق ہے اگر ہم نے، آپ نے تعلیم پر توجہ نہ دی تو قومی ترقی خواب ہو کر رہ جائے گی۔  ہم بہت دعوے کرتے ہیں کہ ہماری شرح خواندگی چالیس فی صد پچاس فی صد ہو گئی ہے، جبکہ سترہ فی صد بھی بمشکل ہے۔

٭ کیا ہمارا تدریسی طریقہ امتحان درست ہے؟

٭٭  اس بات کو چھوڑیں ہمارا پروسیجر ہی درست نہیں ہے۔  اہم بات یہ ہے کہ ہم نے سب سے کم اہمیت تعلیم کے شعبے کو دی ہے۔  آج کی بات نہ کریں تو، کہ آج کی وزیرِ تعلیم تو اہل علم میں سے ہیں، پڑھی لکھی ہیں۔  اب سے پہلے تعلیم کا شعبہ اسے ملتا تھا جس کے لیے کوئی شعبہ نہیں بچتا تھا یا جاتے جاتے کسی وزیر کو یہ کہہ دیا جاتا تھا یہ بھی تم لے لو۔  ہماری بدقسمتی ہے کہ جتنی تعلیم کو اہمیت ملنی چاہے وہ کبھی نہیں دی گئی۔ بد انتظامی تو ہر شعبے میں رہی ہے۔  ایک حکومت آتی ہے تو وہ تعلیم کے کسی شعبے میں ۶۵ ملین لگاتی ہے اگلی حکومت آتی ہے اس کے تمام منصوبوں کو رد کر دیتی ہے، پھر کرپشن بہت ہے۔  میں آپ کو مثال دیتا ہوں یونسیف نے ۶ کروڑ روپے بلوچستان کے لیے کتابوں کی اشاعت کے لیے دیے۔ اس وقت بلوچستان کے وزیر نے کہا کہ ساٹھ فی صد میں لوں گا… حکومت کے آنے سے ذرا پہلے کی بات ہے یہ۔  بہرحال میں خود اس مسلے کے حل کے لیے بلوچستان چلا گیا۔  وہاں کے چیف منسٹر سے ملا۔  وہ بہت اچھا آدمی تھا۔ سادہ سا گھر، چائے کے دوران ہی میں نے اس مسئلے کی طرف توجہ دلانا چاہی۔  اس نے جیسے سنا ہی نہیں۔  مجھے بے حد رنج ہوا۔  یہ ایسی بات نہیں تھی کہ جسے نظر انداز کر دیا جاتا۔  اسے توجہ دینی چاہیے تھی۔

٭ تعلیمی پولیسی کے نام پر منعقد ہونے والے کنونشن سیمینار جن پر عوام کے لاکھوں خرچ ہوتے ہیں۔  کیا ان کے کبھی مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں؟

٭٭  بات تعلیم کی ہو یا غربت ختم کرانے کی تجاویز کی، عوام کو صاف پانی مہیا کرنے کی، بڑی بڑی تقریریں ہوتی ہیں، بڑی بڑی باتیں کی جاتیں ہیں … اور کہاں سیرینا ہوٹل میں، میریٹ میں، تھری پیس سوٹ میں ملبوس قوم کے درد میں مبتلا، اس قوم کے دکھوں پر واویلا کر رہے ہوتے ہیں جنھیں ان ہوٹلوں میں جھانکنے کی جرات بھی نہیں ہو سکتی۔  میں نہیں سمجھتا کہ یہ کنونشن، یہ سیمینار کوئی فائدہ دے سکتے ہیں۔  جب تک انقلابی تبدیلیاں نہ لائی جائیں، صرف باتیں ہی باتیں ہوتی رہیں گی۔

٭ کیا ہمارا نصاب تعلیم وقت کے تقاضوں کے مطابق ہے؟

٭٭  ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں۔  کبھی اس کو نکال دو۔  کبھی اس کو ڈال دو۔  تاریخ کا، اسلامیات کا یہ حصہ نکال دو۔  فلاں فرقہ ناراض ہو جائے گا۔  تعلیم کو ان ریشہ دوانیوں سے پاک ہونا چاہیے۔

٭ کیا آج کی نسل، اقبال کے شاہین سے آگاہ ہے۔  اس سلسلے میں تدریسی سطح پر کوشش کی جا سکتی ہے؟

٭٭  شاہین کا تصور ایک خاص حد تک ٹھیک تھا۔  اب ترجیحات دوسری ہیں۔  شاہین کے تصور کو اب ہٹا دینا چاہیے۔  شاہین کے خلاف بہت کچھ کہا جا چکا ہے، لکھا جا چکا ہے۔  اس لیے اسے اب ختم کر دینا چاہیے۔

٭ کیا ہمارے اساتذہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں مخلص ہیں؟

٭٭  آپ انھیں دیتے کیا ہیں۔  کبھی آپ نے دیکھا ہے کہ ان کے گھر میں دیا جلتا ہے یا نہیں۔  بچوں کو روٹی ملتی ہے کہ نہیں … معاشی طور پر وہ آسودہ ہیں یا نہیں۔  تنخواہ بھی بسا اوقات ایڈہاک اور ڈیلی ویجز کے قانون کے تحت انھیں وقت پر ملتی ہے یا نہیں۔  پھر اس سوال کا جواب بھی تلاش کر لیا جائے گا کہ وہ اپنے فرائض کیسے انجام دے رہے ہیں۔

٭ اساتذہ اور تعلیمی منتظمین کا انتخاب کرتے ہوئے، ہماری وزارت تعلیم کن امور کو پیش نظر رکھتی ہے؟

٭٭  اس سوال کے جواب میں صرف ایک حقیقت سن لیجیے۔  خالد احسن جو بڑا اچھا جرنلسٹ ہے، ڈان وغیرہ میں کالم لکھتا ہے۔  اس نے پچھلے دنوں پنجاب یونیورسٹی کو احتجاجاً اپنی ایم اے انگلش کی ڈگری واپس کر دی۔  وجہ یہ بتائی کہ پنجاب یونیورسٹی ان تمام الفاظ کو ڈراموں اور لٹریچر سے نکال رہی ہے، جو ان کے اعتبار سے بچوں کے اخلاق خراب کرنے میں امکانی مدد دے رہے ہیں۔  مثلاً شیکسپئر کے ڈراموں میں یا ایلیٹ کی نظم میں یا کسی دوسرے شاعر ادیب کی تخلیق میں کوئی ایسا لفظ آ گیا ہے تو اسے نصاب سے خارج کر رہے ہیں۔  ادب پیورٹن بنایا جائے۔  میں سمجھتا ہوں کہ یہ سوچ انتہائی گھٹیا ہے۔  انتہائی غلیظ عمل ہے یہ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے دماغ کا پروردہ کیڑا ہے۔  لٹریچر، لٹریچر ہونا چاہیے۔  اس میں زندگی کے ہر شعبے پر، ہر پہلو، ہر بات کی جا سکتی ہے۔  کیا میں ان سے پوچھ سکتا ہوں کہ میڈیکل کالج کی ساری کتابیں پاک صاف ہیں۔  یہ کتنا خطرناک گھناؤنا اور قابل نفرین روّیہ ہے، جو ایک علمی ادارے کے سربراہ کو زیب نہیں دیتا۔  اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جب علمی اداروں کے سربراہ ایسے ہوں تو آپ قوم کی بلوغت اور اس کی ترقی اور نشو و نما کو کس طرح نئے زمانوں اور عصری ضرورتوں سے ہم آہنگ کر سکتے ہیں۔  میرا خیال ہے کہ یہ سوچنے والوں کا اور لکھنے والوں کا فرض ہے کہ وہ نہ صرف ایسی مذموم کوششوں کا سدِ باب کریں بلکہ اپنا احتجاج پریس اور دوسرے ذرائع ابلاغ میں بھی رجسڑر کرائیں اور وائس چانسلر کو اس ادارے سے باہر پھنکوائیں۔

٭ نیشنل بک فاؤنڈیشن اردو زبان و ادب کے فروغ میں کیا کردار ادا کر رہا ہے؟

٭٭  زبان و ادب ہی نہیں تعلیمی ایریا میں بھی نیشنل بک فاونڈیشن کا کافی اہم کردار ہے یہ اس وقت کی بات ہے جب کرنسی کی وقعت ڈالر کے مقابلے میں کم تھی۔  اسے وقت میں نیشنل بک فاونڈیشن کا قیام عمل میں لایا گیا۔  اس کا افتتاح کرنل محمد قذافی، لیبیا کے صدر اور بھٹو نے کیا تھا۔  ۱۹۷۲ء میں اور پھر حالات بگڑتے گئے۔

حکومت کی تبدیلی میں اس ادارے کو بھی تہ و بالا کر دیا۔  تمام ایڈمنسٹریشن کے خلاف ایکشن لیا۔  اس ادارے کے سربراہ یونس سعید تھے۔  ان کے خلاف انکوائری ہوئی۔ چار پانچ سال اس میں لگ گئے۔ نتیجہ بے یقینی کی کیفیت، عدم دلچسپی۔  سب کام رک گئے۔  ملازمین تنخواہ لیتے رہے لیکن کام کچھ نہ کر سکے۔  آخر یونس سعید کے خلاف انکوائری مکمل ہوئی۔  ان کے خلاف کوئی بات بھی ثابت نہ ہوئی۔  انھیں بحال کر دیا گیا لیکن انھوں نے استعفیٰ دے دیا، پھر آوازیں اٹھنے لگیں کہ فاؤنڈیشن کو بند کر دیا جائے کیونکہ یہاں کوئی کام نہیں۔  سرکاری پیسے کا زیاں ہیں، اس لیے اس حصے کو ختم کر دیا جائے۔  جب مجھے فاؤنڈیشن سنبھالنے کے لیے کہا گیا تو یہاں کی بری حالت تھی۔  پانی تک منقطع ہو چکا تھا۔ پراؤڈنٹ فنڈ سب کچھ کھا چکے تھے۔  ڈوبتے جہاز کی سربراہی سب سے تکلیف دہ عمل ہے۔  اب الحمد للہ مالی حالت بہت اچھی ہے۔  کتابیں بھی چھپ رہیں ہیں۔  سیل بڑھ گئی ہے۔  کئی سکیمیں شروع کی گئی ہیں جو کامیاب رہی ہیں۔ کہاں تو اس ادارے کو بند کرنے کی باتیں ہو رہیں تھیں اور کہاں اب کئی دوسرے حکومتی ادارے اس ادارے میں ضم کرنے پر غور ہو رہا ہے۔  نئی ہوم لائبریری سکیم پر تو آپ بھی دیکھ رہے ہیں کہ کتنے زور شور سے کام ہو رہا ہے۔  کتاب پڑھنے کی عادت ڈالنے کے لیے ہم نے بک کلب قائم کیے تھے پانچ شہروں میں۔  اب اس مہینے ہوم لائبریری کا اجرا کیا جار ہا ہے۔  صرف آرڈر پر ایک مختصر لیکن مکمل لائبریری ارزاں داموں میں آپ کے گھر میں مہیا کر دی جائے گی۔  اس میں اد ب، تاریخ، گھریلو معاشیات، لغت اور دیگر مطلوبہ کتب، جس سے قاری کو دلچسپی ہو گی، موجود ہو گی۔  یوں دیکھا جائے تو نیشنل بک فاونڈیشن صرف زبان و ادب کی خدمت نہیں کر رہی بلکہ کتاب سے محبت کو فروغ دے رہی ہے، پھر اکثر و بیشتر کتابی میلے بھی لگتے ہیں کہ جن میں ۱۵ فی صد سے ۹۰ فی صد ڈسکاؤنٹ پر کتابیں دی جاتیں ہیں۔  کئی انعامی سکیمیں شروع کی گئی ہیں جو ادب کے فروغ میں معاون ہیں۔

جس مالی حالت میں تھے اور آج جو مالی حالت ہے۔  تو زمین و آسمان کا فرق اس کے سامنے معمولی ہے۔  صحرا میں باغبانی کا فریضہ انجام دیا ہے۔

٭ ہوم لائبریری ایک اچھا تحفہ ہے؟

٭٭  ایک شادی پر میں بھی مدعو تھا۔  اس شادی میں پچاس ایرکنڈیشنز، فرج وغیرہ آئے تھے۔  کیا اس سے بہتر نہیں کہ پانچ دس ہزار کی لائبریری تحفے میں دے دی جائے۔

٭ آپ اکادمی ادبیات کے سربراہ بھی رہے۔  اکادمی کے اس وقت اور آج کے حالات میں مثبت یا منفی، کیا تبدیلیاں دیکھتے ہیں؟

٭٭  ابتداء میں اکادمی کا ڈائریکٹر جنرل ہوا کرتا تھا۔  چیر مین نہیں۔  اکادمی آف فرانسسیا کے طرز پر اس ادارے کی تشکیل ہوئی تھی۔  فیض جیسے ذہین و فطین لوگ اس کے منتظمین و رہنما تھے۔  مجھے ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا۔  پھر ضیا الحق آیا تو ہمیں ہٹا کر ایک ریٹائرڈ فوجی کو مقرر کیا گیا ۔  اس ادارے کو سیاسی رشوتوں کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔  ضیا الحق کے انتقال کے بعد سیاسی پارٹی آئی تو چیرمین مقرر کیا گیا۔  اس وقت منسٹر تھے غلام محمد مصطفیٰ شاہ۔  جب غلام ربانی اگرو بھی یہاں آ گئے تو سازشوں کا آغاز ہوا۔  تعلیم کے سکریٹری بھی … مقرر ہوئے۔  انھوں نے اکادمی کی گرانٹ میں سے ۲ لاکھ روپے … مدرسے کے لیے مانگے۔  میں نے انکار کیا کہ یہ ادیبوں کی امانت ہے۔  یہ بات منسٹر کو اچھی نہ لگی۔  قدرتاً مجھے دوسرا محکمہ ’’لوک ورثہ ‘‘ دے دیا گیا۔  آج اکادمی کی یہ حالت ہے کہ اس کے بنیادی مقاصد حل نہیں ہو رہے۔  اب جو شخص لگایا گیا ہے میں نہیں سمجھتا کہ وہ اس ادارے کو چلا سکتا ہے۔  سوائے اپنی پراجیکشن کے اس نے آج تک کوئی کام نہیں کیا۔

میں نے خود کو کبھی کسی محکمے کی سربراہی کے حوالے سے پراجیکٹ نہیں کیا۔  میں اس محکمے سے خوش ہوں۔  میں اپنی استطاعت کے مطابق کام کر رہا ہوں۔  موجود ہوں۔  جب کہیں گے، چلا جاؤں گا۔  کوئی لالچ کوئی تمنا کوئی سفارش نہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

افتخار عارف

 

٭  ذہانت و  یادداشت وشائستگی، خداداد صلاحیتیں ہیں یا شعوری کوشش سے انہیں جلا بخشی جا سکتی ہے؟

٭٭  توفیق اللہ نے بخشی ہے، جب آپ کو اپنی کسی صلاحیت کا احساس ہو جائے تو پھر ایک شکر گزار آدمی بننے کی کوشش کرنی چاہیے، اپنی بساط بھر، اللہ کے نام کا، اس کی عظمت کا اعتراف کیا جائے اس کی ایک شکل تو یہ ہوتی ہے کہ اس صلاحیت میں برکت کے لیے دعا بھی کی جائے اور محنت بھی۔ برکت کے ایک لغوی معنی یہ بھی ہیں کہ نعمت کے دورانیے میں اضافے کی و سعت…ہر چیز فنا پذیر ہے، ہر نعمت کسی نہ کسی لمحے زوال آمادہ ہوتی ہے۔ بس کوشش کرنی چاہیے۔ مجھے اللہ نے جن حا لات میں زند گی گزارنے کا ما حول فراہم کیا۔ وہیں سے اس کا آغاز ہوتا ہے۔ غریب گھرانے میں اپنا بچپن گزارنا میری مجبوری تھی۔  نا نا محنت کش انسان تھے۔ غر بت و عسرت تمام اثاثہ تھی۔ نانا کی خواہش تھی کہ تعلیم حاصل کروں۔ میرے گھر بجلی نہ تھی۔ مٹی کے تیل کی لال ٹین کی روشنی میں، نماز مغرب کے بعد مطالعے کا عمل شروع ہوتا تھا۔ لال ٹین کا تیل ایک بو تل میں اضافی رکھا رہتا تھا جو رات با رہ ساڑھے بارہ بجے تک ختم ہو جاتا تھا۔ مدرسہ کا کام ختم ہو جاتا تو ما نگے کی یا آنہ لائبریری سے لائی گئی کتاب ابھی مکمل نہ ہو تی۔ نیند اچٹ چکی ہوتی تو اس کے علاوہ کو ئی چارہ نہ تھا کہ اس وقت ہی جو کچھ پڑھا ہوتا اسے دہرانے کا عمل شروع ہو جا تا۔ اس کے علاوہ میں نے بی اے بھی لکھنؤ یو نیور سٹی سے کیا۔ یو نیو رسٹی شہر سے دور تھی سواری کا کو ئی بندو بست نہ تھا۔ چنانچہ بہت سویرے میں پیدل گھر سے نکل کر دریائے گو متی کے کنا رے کنارے چلتا کہ جو کچھ رات کو پڑھا ہوتا اسے از سر نو دو ہراتا۔ اللہ نے اس طرح سے حافظے کی تر بیت کا موقع فر اہم کیا، اللہ نے ایک مجبوری کو نعمت سے بدل د یا۔ غیر نصابی کتابیں خریدنے کی استطاعت نہ تھی، لیکن خواہش بہت تھی جو کسی نہ کسی صورت پو ری ہوتی رہی۔ کتاب واپس کرنا ہوتی تھی، کتاب پڑھتے ہوئے ذہن کو تجویز کرتا رہتا تھا کہ یہ بات یاد رکھنے کی ہے اور وہ شعر، وہ بات یاد رہ جاتی تھی، بیت بازی، اس زمانے کا ایک خاص شوق، ایک خوبصورت سلسلہ ہوا کرتا تھا، آج کی نسل اس اد بی و  تہذیبی ورثے سے محروم ہے، بیت بازی کے لیے زمانہ طالبہ علمی ہی میں کلاسیکی اساتذہ سے لے کر جد ید ترین شعرا کا کلام، شعوری طور پر، کوشش کر کے یاد کر لیتا تھا۔ اچھے شعر خود یاد ہو جا تے تھے۔ بیت بازی کے مقابلے میں فتح کی خو شی کا تصور آج بھی ذہن میں تازہ ہے پھر خود بھی لکھنا شروع کر دیا۔ دنیاوی کامیابیوں پر نگاہ کرتا  ہوں تو خیال آتا ہے کہ اس میں حافظے کا بنیادی کردار رہا ہے، لیکن صرف حافظے سے بات نہیں بنتی۔ اگر مطالعہ نہ کیا جائے، کتاب پڑھی نہیں جائے گی۔ یاد کرنے کے قابل احوال و واقعات مہیا نہ ہوں گے تو حافظے میں کیا چیز محفوظ رہ سکے گی۔ مطالعے کی لگن کی محبت اور حافظہ یہ انعام کی صورت میں میسر ہے بس اس کا ایک نقصان ہے۔ پہلی گالی، پہلی دعا اور پہلی محبت سے لے کر آج تک نہ جا نے کتنی باتیں تھیں جو بھولنے کی کوشش کے باوجود بھلا ئی نہ جا سکیں۔ یہ اللہ کا کرم ہے کہ اسی حافظے کی بدولت کتا بیں خر ید نے کی استطاعت نہ ہونے کے باوجود لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم اے سوشیالوجی کا امتحان اعزاز کے ساتھ پاس کیا۔

٭ دعا آپ کی شاعری کا مرکزی استعارہ۔ دعا در اصل خدا سے ہم کلامی کا وہ لمحہ ہے، جب فرد اپنے تمام دکھ، مسائل اور خواہش، خدا کے حوالے کر کے مطمئن اور پر سکون ہو جاتا ہے۔ عام زندگی میں بھی آپ دعا کی اہمیت اور قبو لیت کے قائل ہیں؟

٭٭  اللہ کا شکر ہے کہ میں نے کبھی کو ئی ایسی بات نہیں لکھی جس پر میرا ایمان نہ ہو۔ میری ساری زندگی دعاؤں کے حصار میں گزری۔ بزرگوں کی دعائیں اپنی جگہ بہت اہم ہوتی ہیں لیکن اصل دعا وہی ہوتی ہے جو اللہ کے حضور مانگی جائے۔ یہ بات قرآن پاک میں بار بار کہی گئی ہے کہ اللہ کو اس کی طرف رجوع کرنے وا لے بہت اچھے لگتے ہیں۔ پیغمبروں نے کیسی کیسی دعائیں مانگی اپنی امت کی راہِ ہدایت اور مغفرت کے لیے نبی کریمﷺ کی دعائیں۔ آئمہ معصومین کی دعائیں۔ میں پڑھتا ہوں اور اس پو رے یقین کے ساتھ کہ اللہ کر یم دعاؤں کو مستجاب کرنے والے ہیں اور بندے کی دعائیں رد نہیں کر تے، آدابِ دعا میں پہلی شرط ہی یہی ہے کہ آپ اس ایمان اور یقین کے ساتھ اللہ سے دعا مانگ رہے ہیں کہ وہی ہے جو عطا کرنے والا ہے اور عطا کرے گا۔ کہا گیا کہ دعا مانگنے سے پیشتر اور اس کے بعد درود شریف کا ورد کر لیا جائے تو دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی غیرت اس بات کو بول نہیں کرتی کہ وہ دعا کے ایک جز و کو قبول فر مائے اور دو سرے کو رد کر دے۔ اخلاص بنیادی شرط ہے۔ دعا کے الفاظ اپنی جگہ اہم ہو تے ہیں۔ میری زندگی میں تواتر و تسلسل کے ساتھ مستجاب دعاؤں کا گوشوارہ بنا یا جا سکتا ہے۔ بہت مشکل دنوں اور بہت الجھے ہوئے معاملوں میں، دعا ہی انسان کو محفوظ و مامون رکھتی ہے۔ مگر ایک بات اور درمیان میں رکھنا ضروری ہے۔ دعا مانگنے والے کو اللہ کے امر کو تسلیم کرنا ضروری ہے اور رضائے الٰہی میں ثابت قدم رہنے کی بساط بھر کوشش ضرور کرنا چاہیے۔ کبھی کو ئی بات، کو ئی دعا پو ری نہ ہو تو خود سے، اس رب کریم سے الجھنا نہیں چاہئے کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ہمارے لیے کیا چیز بہتر ہے۔ مجھے بہت بچپن میں جو دعائیں یاد کرا دی گئیں۔ تمام زند گی ان کا سہا را، ان سے رابطہ رہا، زخم سہتے رہے دعا کرتے رہے۔ یہ پہلی دعائیں بھی ہمیشہ ساتھ رہیں۔ ترجمہ: میں اپنے سارے کام اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ اللہ اپنے بندوں کی بہتر نگہداری کرتا  ہے۔ اللہ کا فی ہے وہی سب سے اچھا وکیل و مددگار ہے۔ ‘‘

پہلے یہ عربی دعائیں رٹ لی گئی تھیں۔ مگر جیسے جیسے زندگی آگے بڑھتی گئی اور اب تو آخری منزل میں داخل ہو رہی ہے تو ان پر یقین اور ایمان مستحکم سے مستحکم ہوتا جا رہا ہے کشفی صاحب نے میری شاعری کے مذہبی رخ پہ بات کرتے ہوئے یہ بات لکھی۔

’’اس کے اس شعر کو ضرب المثل کا درجہ حاصل ہوا۔

مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے

میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے

اس کی یہ دعا بارگاہ ایزدی میں جس طرح قبول ہوئی۔  اس کا تصور بھی اس کے ذہن میں نہیں ہو گا۔  وہ کسی مکان، کسی نگر اور دیار میں رہے۔  اللہ پاک نے مدینہ منورہ کو اس کی حقیقی شخصیت کا گھر بنا دیا ہے اور جب اس کے رب نے اسے یہ دولت عطا کر دی تو اسے خبر ہوئی اور بے اختیار دل سے آواز ابھری:

عمر بھر ٹھوکریں کھاتا نہ پھروں شہر بہ شہر

ایک ہی شہر میں اور اک ہی در پر رکھا

اور اس شہر میں اسے مدحت شافع محشرﷺ پر مقرر کیا گیا۔  آدمی کو چاکری ملے تو ایسی کہ شہنشاہ بھی رشک کریں۔ ‘‘

اللہ تعالیٰ نے مجھ بے نام و نشاں آدمی کو اتنی نعمتوں سے نوازا، جس کا شمار ممکن نہیں۔ کبھی کبھی خوف بھی محسوس ہوتا ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے فر ما یا۔  جب کسی شخص پر بہت اکرام ہو رہا ہو تو پھر اس کو ڈر نا چاہیے۔ کہیں اللہ کر یم کی اس پر گرفت نہ ہو جائے۔ حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں۔ گناہ کبیرہ ایک تو شرک ہے۔ دو سری یہ کہ اللہ کی رحمت سے ما یوس ہو جانا قرآن کریم میں اس سے بچنے کی تلقین کی ہے۔ توبہ کے در کھلے ہیں۔ انسان کو مایوس نہیں ہو نا چاہئے۔

دیکھنے والے نے دیکھے ہیں وہ آشفتہ مزاج

جو حرم سے بھی مدینے کی طرف دیکھتے ہیں

٭ کیا یہ شعوری کوشش ہوتی ہے یا انسان کے رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے، جب وہ درِ نبیﷺ سے رخصت ہوتا ہے تو نہایت دل گرفتہ۔ حرم کعبہ یہ والہانہ کیفیت اتنی شد ید نہیں ہو تی، وجہ…کشفی صاحب نے اس سوال کا ایک سطری جواب دیا ہے ’’آد می کا دل آد می ہی سے ملتا ہے۔ ‘‘ آپ کیا کہتے ہیں؟

٭٭  اللہ کی آخری کتاب میں واضح طور پر آیا ہے کہ اللہ کو ویسا نہیں پہچا نا گیا جیسے پہچا نے جانے کا حق ہے۔ حضورﷺ کے سلسلے میں بھی اہل بیت کے سلسلے میں بھی یہی بات ہے۔ ایمانیات میں بہت سے مرحلے ہو تے ہیں۔ مگر عشق کسی دلیل کو نہیں مانتا۔ بس وہ کھنچا چلا جاتا ہے۔ خدائے واحد کو اللہ کے رسول سے زیادہ کس نے جا نا…اور کس نے ان سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو پہچا نا۔ صحن حرم میں بیٹھ کر ہم جیسے گنہگاروں کو دنیا ویسے یاد ہیں آتی جیسے ہر وقت پشت پر سوار رہتی ہے مگر کون یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اسے کو ئی اور یاد نہیں آ تا۔ اللہ سے مانگتے ہیں تو اس کے وسیلے سے اس کے رسولﷺ کے وسیلے سے۔ ان قدسیا کے وسیلے سے مانگتے ہیں جن کو خود اس نے اپنے مستجب بندوں میں شمار کیا۔ چنانچہ کبھی مدینے کے وسیلے سے مانگتے ہیں۔ کبھی نجف کے وسیلے سے، کبھی کربلا کے وسیلے سے۔ ان نفوس قدسیا کے حضور حاضری بھی اس یقین کے ساتھ کہ یہیں لوگ آرام فرما ہیں جو خالص توحید کی طرف لے گئے۔

٭ اردو غزل میں نعتیہ اشعار کی جلوہ گری نے اسے مزید اعتبار بخشا ہے۔ فیض کا شعر ہے۔

رنگ و خوشبو کے حسن و خو بی کے

تم سے تھے جتنے استعارے تھے

نعتیہ حوالے سے ایک نئی جہت سے متعارف کراتا ہے۔ آپ کی غزل میں بھی ایسے اشعار کی کمی نہیں۔

میں تو خاک تھا کسی چشم ناز میں آ گیا تو مہر ہوں

مرے مہرباں کبھی اک نظر مرا سلسلہ بھی تو دیکھتے

٭٭  شاعری در اصل پورے وجود کا اظہار ہوتی ہے، آپ کی زندگی میں جو ترجیحات ہوتی ہیں، وہ آپ چاہیں نہ چاہیں، موجود ہوتی ہیں، میں نے شعر کہتے ہوئے اپنی کسی روحانی واردات کو نظم کر دیا تو اس کا باعث میری ترجیح ہے۔

٭ کیا گھر کی پناہ اپنی مٹی کی مہک اور اپنے وطن کی شناخت کے بغیر انسان زیست کر سکتا ہے۔

تمام خانہ بدو شوں میں مشترک ہے یہ بات

سب اپنے اپنے گھروں کو پلٹ کر دیکھتے ہیں

مالک سے اور مٹی سے اور ماں سے باغی شخص

درد کے ہر میثاق سے رد گردانی کرتا  ہے

٭٭  ہما رے ہاں مٹی کے معنی بہت محدود کر دیے گئے ہیں۔  مٹی صرف وہ خاک نہیں جو ہوا کے در پیش پر اڑتی پھرتی ہے۔ جسے قدم روندتے رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب ہم یہ لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس کے پس منظر میں ہمارے دینی عقائد، ہمارے تہذیبی رشتے۔ ہماری وراثت، ہمارا تاریخی شعور، ہمارے ثقافتی میلانات، ہمارے دکھ درد خوشیاں خوف امیدیں، آرزوئیں، آئندہ کی صورت گری کے امکانات سب شامل ہیں۔ ہماری مصوری، رنگ، مو سیقی، شاعری، نغمے یہ سب مل کر ہما ری مٹی کو ترتیب دیتے ہیں۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ہم اپنی مٹی سے کٹ کر زندہ نہیں رہ سکتے تو اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اپنی و جو دی سچائیوں سے کٹ کر زندگی گزاری نہیں جا سکتی، اس کے دائرے میں رہتے ہوئے ہی گزاری جا سکتی ہے۔

٭ آپ کا شعری منظر نامہ مٹی، خاک شہر، وطن، کتاب، حرف، خواب، سورج سے تشکیل پاتا ہے۔ آپ نے اپنی زندگی کے اہم سال دیار غیر میں گزارے، ہجرت کا یہ سفر، یہ تجربہ کیسا تھا۔

پیغمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں

ہم ایسے کون خدا تھے کہ اپنے گھر رہتے

٭٭  برطانیہ، یو رپ، امر یکہ کے قیام کے زمانے میں جو اشعار کہے گئے ان میں تواتر کے ساتھ اس کا اشارہ ملتا ہے۔

شکم کی آگ لیے پھر رہی ہے شہر بہ شہر

سگِ زمانہ ہیں ہم کیا ہماری ہجرت کیا

پرندے جاتے نہ جاتے پلٹ کے گھر اپنے

پر اپنے ہم شجروں سے تو با خبر رہتے

میرے نا قدوں نے اس سلسلے میں ایک اہم مسئلے سے صرف نظر رکھا۔  جب میں لکھنو سے کراچی ہجرت کر کے رہنے آیا۔ کراچی میری مجبوری نہ تھی میرا انتخاب تھا۔ ہجرت کا…تعلق کسی بڑے مقصد کے لیے اپنے اپنے مقام سے کسی اور مقام کی طرف سفر کر جانے سے ہے۔ میری زندگی کا دو سرا سفر کراچی سے لندن کا تھا۔ حالات کا جبر سہی۔ لیکن یہ ہجرت نہ تھی۔ اس کو آپ ترک سکونت سے تعبیر کریں تو بہتر ہو گا۔ معاش کہہ لیجیے۔ دنیا وی آسود گی کی تلاش کہہ لیجیے۔ یہ در بدری اور طرح کی تھی۔ لکھنو سے کراچی اور کراچی سے لندن۔ یوں ہے کہ جیسے اک مدینہ، خواب ہے، ایک دمشق مقدر ہے۔

ملے تو کیسے ملے، منزل خزینہ خواب

کہاں دمشق مقدر کہاں مدینہ خواب

٭  کسی کے جور و ستم یاد بھی نہیں کرتا

عجیب شہر ہے فر یاد بھی نہیں کرتا

یہ بے بسی کی انتہا ہے یا بے حسی کی۔

٭٭  بے بسی تو قابل معافی ہے۔ مگر بے حسی ایسا جرم ہے جس کی سزا، آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑتی ہے۔ قوموں کی زند گی میں کبھی کبھی ایسے مرحلے بھی آ تے ہیں جہاں عمل تو در کنار سخن بھی حرم قرار پاتا ہے۔ ایسے میں اگر آواز بلند نہ کی جائے تو نا قابلِ تلافی خسارہ سامنے آتا ہے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے میں نے اپنی بساط بھر کلمہ حق کہنے کی کوشش کی ہے۔ میری کتابیں دیکھیں تو اندازہ ہو جائے گا۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا۔ قیامت کے دن ایک منادی کرنے والا ندا کرے گا کہ ’’علیحدہ ہو جائیں وہ لوگ جو ظالموں کے لیے قلم تراشتے ہیں اور جا بروں کی دولت روشنائی سے بھرتے ہیں۔ ‘‘ اللہ سے پناہ مانگتا ہوں۔  میں نے اپنے آپ کو اس حال سے محفوظ رکھا۔

سینۂ ظلم میں ہوتا ہے ترازو اک تیر

کاش ایسا ہو کہ اس بار کماں میری ہو

٭ پرائڈ آف پر فا رمنس اور پھر ’’مہر دو نیم‘‘ پر رائٹرز گلڈ کی جانب سے بہترین کتاب کا آدم جی ایوارڈ۔ یہ اعزازات ایک فرد پر کس حد تک اثر انداز ہو تے ہیں۔

٭٭  مجھے یہ دونوں اعزازات اس وقت ملے۔ جب میں وطن سے باہر تھا۔ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان و کرم ہے کہ اس نے مجھے زند گی میں ہر سطح پر وہ عزت و پذیرائی بخشی جس کی کو ئی بھی تمنا کر سکتا ہے۔ مجھے میرے وطن میں میں عزت، منصب، شہرت، محبت، دو ستی سبھی کچھ وافر انداز میں ملا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مجھ پر خصوصی کرم نوازی ہے۔ ایک بات کا البتہ خیال رکھنا ضروری ہے۔  ’’شہرت‘‘ میرا مطمع نظر کبھی نہیں رہی کہ میں جانتا ہوں اسے مقصد حیات بنا لیا جائے تو انجام بخیر نہیں۔ ابتدا ہی میں ریڈ یو پر خبر یں پڑھنے کے حوالے سے، ٹی وی پر کسو ٹی اور خطوں کے جواب کے حوالے سے، ابتدائی غز لوں کی مقبولیت کے حوالے سے شہرت نے خود بخود درِ ذات پر دستک دینی شروع کر دی تھی۔ اس شہرت نے فخر و غرور کی بجائے شکر گزاری، سکون و طمانیت کا احساس پیدا کیا جو آج تک قائم ہے۔ محبتیں اور اخلاص انسانی وجود کی تکمیل کرتے ہیں، قرآن حکیم میں ہے کہ اللہ کے بندے زمین پر کبھی اکڑ کر نہیں چلتے، عاجزی و انکساری ان کا شیوہ ہوتی ہے اور بد گو ئی کرنے والوں کے خلاف بھی وہ کوئی دعا نہیں کر تے …تو ہم نا چیز، گنہگار بندے ہیں عاجزی و انکساری وہ صفت ہے جو خدا کو محبوب ہے، خدا اس کی توفیق دیے رکھے۔

٭ کہا جاتا ہے کہ اردو شعر و ادب میں شہروں کا تعارف نہیں ہے۔ جو کہانی کہی جا رہی ہے وہ لاہور کی بھی ہو سکتی ہے۔ سیالکوٹ کی بھی۔ دہلی اور لکھنو کی بھی۔ آپ کے اشعار میں شہر کا دل دھڑکتا ہے۔ بات دمشق کی ہو یا کربلا کی۔ مدینہ و نجف کی ہو یا کوفہ  و بغداد کی۔ شہر ایک مجسم صورت میں اپنی تمام تر کرداری صفات کے ساتھ سا منے آتا ہے۔

٭٭  جیسے افراد علامت بن جا تے ہیں، ایسے ہی کبھی کبھی شہر بھی علامت بن جا تے ہیں۔ مدینہ، دمشق، بغداد، قرطبہ، قاہرہ، کوفہ بغداد یہ سب شہر ہیں، کسی کی نسبت کا مل سپرد گی سے، کسی کی حکمت اعلان کلمہ حق سے کو ئی شہر اپنی ایک بے و فا ئی کے سبب علامت کی شکل امتیاز کر گیا تو کسی بستی کے مقدر میں پا مالی لکھی گئی۔

میں جس شہرِ جمال آ ثار کا مارا ہوا ہوں

وہ سارا شہر بے تعمیر رہنے کے لیے ہے

٭ اردو مرکز لندن میں آپ نے اردو کی تعریف و تعارف ترویج و ترقی  کے لیے بہت کام کیا۔ اس زمانے کی کتھا کہیے کہ جب لندن میں فیض، مشتاق احمد یوسفی، زہرا نگاہ، عبداللہ حسین، ساقی فاروقی  اور آپ یکجا تھے۔ دو ستیوں، محبتوں اور چپقلشوں کی فضا یاد تو آتی ہو گی۔

٭٭  اردو مرکز کا قیام لندن میں عمل میں آیا۔ ہفتہ وار اور ماہانہ ادبی جلسے، لیکچر، مشاعرے، نشستیں، شامیں، تعارفی تقریبات مطبوعات، لائبریری، مطالعاتی کمرہ اور ان میں شریک اور شامل اردو ادب کے وہ معتبر نام کہ جس کے سبب، ممتاز مفتی لکھتے ہیں کہ اردو مرکز لندن، ایک چھوٹا سا پا کستان تھا۔ اردو کے سبھی شاعر و ادیب جو یہاں تھے، جمع ہو جاتے تھے۔ فیض سے تو ہمارا دلی رشتہ بے حد مضبوط تھا۔ کراچی میں جب وہ عبداللہ ہا رون کا لج کے پر نسپل تھے۔ جب بیگم آمنہ مجید ملک کے پی ای سی ایچ ایس کا لج میں صادقین ان کے اشعار کی تصویر کشی کیا کرتے تھے، اس وقت سے ان کی محبت ہمیں حاصل تھی۔ ان کا روّیہ ہمیشہ مشفقانہ، محبت سے لبریز رہا۔ اردو مرکز کے لیے انھوں نے کہا۔

غم بہ دل شکر بہ لب مست و غزل خواں چلیے

جب تلک ساتھ تیرے عمر گریزاں چلیے

رحمت حق سے جو اس سمت کبھی راہ ملے

سوئے جنت بھی براہ رہ جاناں چلیے

اردو مرکز کی منتظمی کے دوران میں ہمیں کن کن کی محبت اور رفاقت میسر آئی۔ وہ بھولنے والی نہیں۔ زہرہ آ پا، گوپی چند نارنگ، رالف رسل، پر وین سید فنا، سید محمد تقی، جمیل الدین عالی، ضیا فتح پوری، ضمیر صدیقی، شفیع عقیل، سلمیٰ صدیقی، محمد علی صدیقی، قدرت اللہ شہاب، گیان چند، صالحہ عابد حسین، عبداللہ ملک، فارغ بخاری، خلیق انجم، ملک راج آنند، ممتاز حسین، منیب الرحمٰن، انور مقصود، قرۃالعین حیدر، نور الحسن جعفری، ادا جعفری، داؤد رہبر، مسعود مفتی، فتح محمد ملک، احمد ندیم قاسمی، وزیر آغا، خمار بارہ بنکوی، خالد احمد، عطا الحق قا سمی، حسن رضوی، آفتاب احمد، انتظار حسین اور کتنے ہی اور۔

آپ نام لکھتے لکھتے تھک جائیں گی لیکن سب کے نام ہما رے دل پر رقم ہیں۔ جو بھی وہاں قیام پذیر تھے یا پا کستان، ہندو ستان سے وہاں جا تے، اردو مرکز ان کی پذیرا ئی بہت خو شی سے کرتا  اور شہر کی اجنبیت کا احساس کہیں دور رہ جا تا۔

٭ کیا وہاں کے لکھنے والے، اردو مرکز لندن کی اہمیت سے آگاہ تھے یا اسے نظر انداز کیے ہوئے تھے؟

٭٭  نہیں ایسا نہیں ہے، وہ بھی اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اردو مرکز لندن کے قیام کو رالف رسل خوش آئند قرار دیتے ہوئے اس کے اغراض و مقاصد کی وسعت کا تعین بھی کر تے ہیں۔ وز یٹرز بک میں وہ رقم طراز ہیں کہ اس کے مقاصد کے وسیع دائرے میں ان تمام کاموں کی گنجائش ہے جو برطانیہ میں اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی کے لیے کیے جا سکتے ہیں اور کیے جانے چاہیے۔ اردو مرکز کا ایک اہم مقصد یہ ہونا چاہیے کہ اس ملک میں اردو کے مسائل کو حل کرنے میں زیادہ سے زیادہ مدد کرنا۔ انھوں نے تجویز پیش کی کہ یہاں کے پیشتر تعلیمی اداروں میں اردو کی تعلیم کا عمدہ انتظام کیا جائے اور وہ تمام مواد مہیا کیا جائے جو اس کی پڑھا ئی کے لیے ضروری ہے۔ اس سلسلے میں یہ ضروری کہ عام انگریز کو اردو زبان و ادب کی قدرو قیمت کا احساس دلا یا جائے اور یہ اس وقت ہی ہو سکتا ہے جب اردو کے کلا سیکی اور جد ید ادب کے شاہکاروں کے اچھے تر جمے شائع کیے جائیں۔ ان دونوں کاموں میں اردو مرکز بہت اہم کر دار ادا کر سکتا ہے اور یہی اردو کی بڑی خدمت ہے۔

٭ کیا آج کے عہد میں میر و غالب و اقبال نہ سہی، کو ئی بڑا شاعر، رجحان ساز شاعر نظر آتا ہے؟

٭٭  جی ہاں فیض ہیں نا…ممکن ہے آپ کی رائے اس سے مختلف ہو اس عہد مو جود میں جوش و فراق، حفیظ، راشد، میرا جی، احمد ندیم قاسمی، مجید امجد، حفیظ ہوشیار پو ری، ناصر کاظمی، سلیم احمد، عزیز حامد مدنی، ظفر اقبال، منیر نیازی، احمد فراز، ساقی فاروقی نے اچھے شعر کہے۔ جاندار، زندہ رہنے والے، لیکن ہمیں فیض ہی کا قد و قامت نکلتا دکھا ئی دیتا ہے۔

٭ ابھی حفیظ ہوشیار پو ری کا ذکر ہوا۔ حفیظ غزل گو ئی کا ایک معتبر نام، لیکن تاریخ گوئی اور حفیظ لازم و ملزوم ٹھہرے۔ فن تاریخ گوئی اب نا پید ہوتا جا رہا ہے۔ اردو شاعری کی تاریخ میں کون سے شعرا تاریخ گوئی میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ عصر مو جود میں کیا اس فن کی ضرورت و اہمیت سے شعرا آگاہ ہیں۔ اس کی بقا کے لیے کوئی نام سامنے آتا ہے یا یہ فن دم توڑ چکا ہے۔

٭٭  حفیظ کو یہ ملکہ خداداد تھا، ان کا مقابلہ و موازنہ کسی سے نہیں ہو سکتا، فن تاریخ گو ئی کی اپنی ایک اہمیت ہے اور آج ہماری ادبی تاریخ میں بے شمار تاریخیں یاد گار کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مثلاً میر انیس کے انتقال پر مرزا دبیر نے تاریخ وفات کہی۔

’’طور سینا بے کلیم اللہ، میر انیس۔ ‘‘

غالب نے بھی فرمائش پر مجبوراً کئی تاریخیں کہیں۔

مو من نے اپنے چھت سے گرنے کی تاریخ کہی۔  ’’دست و بازو بہ شکست‘‘

ناسخ کی تاریخیں بھی بہت مشہور ہوئیں، اقبال نے بھی کئی مشہور تاریخیں کہیں۔ سر سید احمد خان۔ امیر مینائی جسٹس شاہ دین ہمایوں کی لوح مزار پر اقبال کی کہی گئی تاریخیں کندہ ہیں، والدہ ماجدہ کی تاریخ وفات بھی کہی ’’رحلت مخدومہ‘‘ (۱۳۷۴ء)ہما رے عہد میں ضیا الحسن موسو ی، شان الحق حقی، راغب مراد آبادی، صبا شمیم متھراوی نے بہت اچھی تاریخیں کہیں۔ نو جوانوں میں نصیر ترابی نے بعض اعلیٰ در جے کی تاریخیں نظم کی ہیں، مگر اب اس طرح کی ادائیں بے معانی سمجھی جانے لگی ہیں، جس طرح سے بہت سے صنائع بدائع ایک زمانے میں شعوری کوشش سے نظم کیے جاتے تھے۔ اب وہ صورت نہیں یہ فن ایک خاص طرح کی فراغت چاہتا ہے جو اب ناپید ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

ضیا جالندھری

 

حفیظ ہوشیار پوری کے حوالے سے ایک ملاقات

وقت:  ۰۰۔ ۶تا ۰۰۔  ۸ بجے شام

تاریخ: ۱۰ اگست ۱۹۹۳ء

مقام:  مکان نمبر۱۷۔  سٹریٹ ۱۳۔  ایف ۷/۲۔  اسلام آباد

 

پنجاب یونی ورسٹی سے ’’حفیظ ہوشیار پوری، بیسویں صدی کی اردو غزل کے تناظر میں ‘‘ کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کے لیے کام کر رہی تھی، حفیظ کے دوست احباب سے ملاقات کی فہرست مرتب کی تو اولین ناموں میں ایک نام ضیا جالندھری کا تھا۔  ملاقات کے لیے وقت مانگا، جو فوراً مل گیا۔  گرمیوں کی اس شام میں، ابھی گفتگو کو کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ملازم ٹھنڈے مشروب کے گلاس لیے حاضر ہوا۔  ضیا صاحب اور شاہد صاحب نے ایک ایک گلاس اٹھا لیا، میرے پاس ملازم آیا تو ٹرے میں دو مختلف ذائقوں کے مشروب تھے۔  میں نے کہا کہ میں تو ایک ہوں گلاس دو کیوں ہیں تو ضیا صاحب کہنے لگے کہ بھئی ہمیں کیا معلوم آپ کون سا پسند کریں گی اس لیے دونوں موجود ہیں۔

ضیا جالندھری کی نفاست طبع ان کے لباس اور انداز نشست و برخاست سے ہی نہیں ان کی گفتگو سے بھی ہویدا تھی۔  ضیا جالندھری پہلے تو اس امر پر حیران ہوئے کہ میں نے انھیں ضیا جالندھری کے بجائے ضیا نثار احمد کے نام سے مخاطب کیا۔  کہنے لگے یہ نام تو صرف میری چیک بک تک محدود ہے، آپ کی اس تک رسائی کیسے ہوئی۔

آج سترہ سال بعد میں اس انٹرویو کو تحریری شکل دینے لگی ہوں تو بہت سی باتیں یادداشت کی چادر سے دھل گئی ہیں، انھیں میں ضیا کی حفیظ کے بارے میں مختلف مقامات پر کہی گئی باتوں سے مکمل کروں گی تاکہ ضیا کی نظر میں حفیظ بحیثیت شخص و شاعر کیسے تھے کی تصویر کسی قدر مکمل ہو سکے )

٭ آپ کی حفیظ سے پہلی ملاقات کب ہوئی؟

٭٭  میں جالندھر سے ایف اے کا امتحان دے کر لاہور آیا تھا، ۱ ؎ گورنمٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔  میری ایک غزل کالج کے مجلے، ’’ راوی‘‘ میں شائع ہوئی، ان دنوں حفیظ لاہور ریڈیو میں پروگرام اسسٹنٹ تھے۔  انھی دنوں لاہور ریڈیو پر مشاعرہ تھا، حفیظ نئے شاعروں کو متعارف کروا رہے تھے۔  میری غزل ان کی نظر سے گزری تو انھوں نے مجھ سے بھی رابطہ کیا۔  میری عمر سولہ سترہ برس تھی، دیکھنے میں اور بھی چھونا لگتا تھا۔  مشاعرے سے دو تین روز پہلے گیا تو وہاں دیگر بزرگ و نوجوان شاعر بھی موجود تھے، حامد علی خان، مبارک مسعود، اختر ہوشیار پوری وغیرہ، مجھے دیکھ کر حفیظ کہنے لگے، تم بہت چھوٹے ہو، ماں باپ سے اجازت نامہ لکھوا کر لاؤ۔  میں نے کہا یہ تو مشکل ہے تو کہنے لگے۔  میں خود ہی اجازت دے لیتا ہوں۔

ریڈیو کا اس زمانے کا ماحول بہت مختلف تھا۔  بڑے بخاری کا کمال تھا کہ انھوں نے ریڈیو میں بہت سے ادیب اکٹھے کر رکھے تھے حفیظ صاحب نے فلسفے میں ایم۔  اے کر رکھا تھا۔ ریڈیو کا ماحول سراسر ادبی تھا۔  یہ ۴۰۔  ۴۱ کی بات ہے۔  محمود نظامی، راشد، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، ملک حسیب وغیرہ، حفیظ کی ترقی ہو گئی۔  پروگرام پروڈیوسر، ایگزیکٹو ہو گئے۔  سنجیدہ کام کرنے والے تھے۔ قاعدے قانون کے بہت پابند تھے۔

میں نے انگریزی ادب میں ایم۔  اے گورنمنٹ کالج سے کیا تھا۔  اس کے بعد ہم دہلی چلے گئے۔  پاکستان بننے کے بعد لاہور آئے تو وہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر ہو چکے تھے۔

اعجاز بٹالوی، ظہور انور اور میں نے ایک سال حفیظ کے ساتھ کام کیا۔  ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء میں کراچی ریڈیو کا آغاز ہوا۔  حفیظ صاحب بعد میں کراچی آئے۔  کراچی پہنچنے کی تاریخ کہی، ’’ حفیظ مکان ندارد ‘‘ ۔  کراچی میں حفیظ صاحب کا ساتھ مدت تک رہا۔  حفیظ صاحب کا گھر ریڈیو پاکستان کے بالکل قریب ہی تھا۔  انٹلی جنس سکول میں چھوٹا سا گھر تھا۔  تمام گھر ٹین کے تھے۔  ان میں رہائش کتنی مشکل تھی لیکن حفیظ کے منہ سے کبھی گلہ نہ سنا۔  ریڈیو سٹیشن کی بھی باقاعدہ عمارت نہ تھی۔  سٹوڈیو میں چار کمرے تھے۔  ایک سٹیشن ڈائریکٹر کا، ایک ڈیوٹی روم۔  ہم لوگ ریت پر بیٹھ کر لکھتے تھے پھر خیمے لگے۔  دریاں بچھیں، پھر سرکاری کاغذ ملنے لگے میز کرسیاں آ گئیں۔  بعد میں گارڈن روڈ سٹیشن بنا۔  شعبۂ نشریات الگ تھا، ہیڈ کوارٹر الگ، حفیظ پروگرامز کے انچارج رہے۔  ان کی پوسٹنگ، سٹیشن اور ہیڈ کوارٹر کے درمیان ہوتی رہتی تھی۔  پالیسی پلاننگ اور پروگرام ٹریننگ میں ان کا زیادہ حصہ ہوتا تھا۔

جس زمانے میں حفیظ صاحب ریٹائر ہوئے، اس دور میں ریٹائر ہونے والوں کو کانٹریکٹ پر بھی رکھ لیتے تھے۔  ایڈوائیزر کی حیثیت سے یا کسی اور ذمہ داری پر۔  حفیظ صاحب کو ریٹائرمنٹ کے اگلے ہی روز مشیر برائے مذہبی امور کا کانٹریکٹ دے دیا گیا تھا۔  الطاف گوہر، صدر ایوب کے زمانے میں سکریٹری ہو گئے تھے۔  انھیں احساس تھا کہ حفیظ کو بہت کم پیسے ملتے ہیں۔  انھیں کہیں اور کوئی پوسٹ دے دیں جہاں زیادہ پیسے ملیں۔  ان کا یہ پیغام لے کر میں ہی حفیظ صاحب کے پاس گیا تھا۔  انھوں نے بہت سکون سے جواب دیا۔  میں کہیں اور نہیں جانا چاہتا، میں یہیں ٹھیک ہوں۔  حفیظ میں جو فقیرانہ قناعت تھی، یہ بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے۔

٭  حفیظ کے آخری ایّام بیماری کی نذر ہوئے۔  ان کی قوتِ ارادی کا تذکرہ اکثر لوگوں نے کیا ہے، آپ زندگی کے مختلف ادوار میں ان کے قریب رہے ہیں۔  آپ نے انھیں بیماری کی حالت میں کیسا محسوس کیا؟

٭٭  انھوں نے اپنی زندگی کا ایک حصّہ بیماری اور ہسپتال کی نذر کیا۔  حفیظ نے بہت سے لوگوں کو بہت محبت دی تو ان سے محبت کرنے والے بھی کم نہ تھے۔  انھیں حفیظ کی بیماری کا شدید احساس تھا، لیکن حفیظ کے قریب بھی رہنا چاہتے تھے۔  ان سے باتیں کرنا چاہتے تھے۔  ان باتوں کو محفوظ کر لینا چاہتے تھے کہ یہ ادب کی تاریخ کا گراں قدر سرمایہ تھیں۔  انھی لوگوں میں سے ایک لطف اللہ خان ہیں کہ جنھیں ساؤنڈ ریکارڈنگ کا جنون کی حد تک شوق ہے۔  ان کے پاس حفیظ کی ایک آدھ گھنٹے کی ریکارڈنگ موجود ہے۔  یہ ریکارڈنگ کیسے ہوئی۔  یہ ان کے جذبہ و جنون کا امتحان تھا، جس میں حفیظ بھی پورے اترے اور لطف اللہ خان بھی کامیاب رہے۔  زندگی کے آخری ایّام میں حفیظ کو سانس کی شدید تکلیف تھی۔  انھیں جو دوا دی جاتی تھی۔  اس سے سانس چل جاتا تھا، جسم خشک ہونے لگتا۔  حفیظ میں ایک خامی تھی کہ بہت آگاہ آدمی تھے، اپنے مرض کے بارے میں خود جان لیتے تھے۔  ڈاکٹر شوکت علی سیّد حفیظ کے معالج اور عقیدت مند۔  حفیظ انھیں کہتے شوکت میرا کیا علاج کر رہے ہو۔  اس سے تو میں دو ماہ میں مر جاؤں گا۔  بسا اوقات تکلیف کی اتنی شدّت ہو جاتی کہ ایک جملہ نہ بول سکتے تھے۔  ان حالات میں لطف اللہ خان چاہتے تھے کہ حفیظ کی زبان میں ان کا کلام، ان کی باتیں محفوظ کر لی جائیں، لیکن انھیں تکلیف دینے کی ہمّت نہ ہوتی تھی۔  لطف اللہ خان بار بار آتے اور چلے جاتے۔  یوں بھی ہوا کہ لطف اللہ خان اندر حفیظ کے پاس ہیں۔  بیٹا باہر ٹیپ ریکارڈ اٹھائے منتظر کھڑا ہے، لیکن لطف اللہ حفیظ کی حالت کے پیش نظر کچھ کہنے کی جرأت خود میں نہیں پاتے، آتے ہیں چلے جاتے ہیں۔  میں نے حفیظ سے کہا کہ لطف اللہ کی خواہش ہے کہ آپ کی باتیں، آپ کے اشعار ریکارڈ کر لیے جائیں۔  حفیظ نے کہا گیارہ بجے آ جائیں، تو جب لطف اللہ آئے تو ساٹھ ستر اشعار کی نظم نما غزل رفتگاں ہوں، رائگاں ہوں، ریکارڈ کروائی۔  کئی دن اس کی ریکارڈنگ میں لگ گئے۔  لطف اللہ نے تمام کلام کی ایڈیٹنگ ایسے کمال سے کی، کہ لگتا ہے ایک ہی نشست میں ریکارڈ کی گئی ہو۔

٭ آپ نے حفیظ کو بحیثیت انسان کیسا پایا؟

٭٭   حفیظ ہوشیارپوری بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔  انھوں نے ریڈیو میں ملازمت کرتے ہوئے کبھی اس بات کی اجازت نہیں دی کہ ان کا کلام ریڈیو سے نشر کیا جائے۔  حفیظ ہمدرد آدمی تھے۔  ضرورت مند کے کام آنا ان کے نزدیک انسانیت کی معراج تھی۔  کئی افراد پر ذاتی احسانات تھے۔  صہبا اختر کے دل سے آج تک دعا نکلتی ہے۔

٭  ناصر و حفیظ میں دوستی کے حوالے سے بہت لکھا گیا، آپ کی کیا رائے ہے؟ پھر ان دنوں فراق کا بھی طوطی بولتا تھا، کیا فراق کی موجودگی میں حفیظ کی آواز کو اپنی پہچان منوانے میں مشکل پیش آئی؟

٭٭  ناصر، حفیظ کو استاد مانتا تھا، محبت کبھی کبھی، ضرورت کبھی کبھی والی غزل حفیظ کے رنگ میں ہے۔  حمید نسیم نے نا ممکن کی جستجو میں ناصر کے حفیظ سے تعلق کا ذکر کھل کر کیا ہے۔  اگر حفیظ کا شعری مجموعہ وقت پر آ جاتا، ناصر نے جو کچھ حفیظ سے لیا ہے وہ سامنے آ جاتا۔  ناصر پر حفیظ کا اثر ہے۔  ناصر میر کا مطالعہ بھی بہت گہرائی سے کر رہا تھا، میر کے بعض اشعار بہت اچھے لگے اس زمانے کی کیفیت کو آج کے حوالے سے جدید اندار میں کہنے کی کوشش کی۔  حفیظ کی شاعری میں پہلی مرتبہ انسانی نفسیات کی پیچیدگیاں ظاہر ہوئیں۔  ان کی شعری زبان ڈھلی ڈھلائی تھی۔  اردو شاعری میں ایسے اشعار نہ تھے۔

وفا پر اب بھی قائم ہیں  محبت چھوڑ دی ہم نے

دو لوگ تھے غزل میں۔  فراق اور حفیظ دونوں نے ماڈرن آؤٹ لک سے اضافہ کیا۔  فراق کے چھپنے میں بھی دیر ہوئی۔  ناصر سے پہلے چھپ گئے تھے۔  ’’غزل‘‘ کے عنوان سے ناصر کاظمی نے فراق کی غزلوں کا انتخاب کیا، جسے نیا ادارہ لاہور نے شائع کیا۔  حفیظ کے ہاں ہندی کلاسیکی روایت ہے پھر شاید ہی کوئی عہدِ حاضر کاسیاسی سماجی معاملہ ہو جو ان کا موضوع نہ بنا ہو۔  انسان جس نفسیاتی کیفیت، یا جس جذبہ واحساس سے گزرا ہو، اس کی تصویر فراق کے ہاں مل جائے گی۔  حفیظ بہت محتاط فنکار تھے۔

کوئی آیا نہ گیا دل کا یہ عالم جیسے

آج پھر ان سے ملاقات ہوئی ہو جیسے

ان کی شاعری کلاسیکی تھی، بنیاد روایتی تھی، غزل کو نئے شیڈز دیے، نفسیاتی زاویے دیے۔  جہاں تک دونوں میں ذہنی تفاوت کا تعلق ہے، انگریزی کا مطالعہ فراق کا زیادہ تھا، حفیظ کا فارسی کا زیادہ تھا، فراق الہ آباد میں انگریزی پڑھاتے تھے، عمدہ استاد تھے۔

٭ آپ نے معاصرین سے حفیظ کا تقابلی تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بات جو فراق کی شاعری کی امتیازی خصوصیت ہے، اس کی ابتدا حفیظ نے کی، وہ شاعری جو ناصر کاظمی نے ہمیں دی وہ حفیظ ہی کی غزل کا پر تو ہے، لیکن حفیظ کی بے نیازی نے اپنا حق بھی دوسروں کو دے دیا۔  وہ کیا خصوصیات تھیں جن کی بنا پر آپ نے یہ رائے قائم کی؟

٭٭  حفیظ کی شاعری تخلیقی کم اور حقیقی زیادہ ہے۔  یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں گہرائی و شعری صداقت اشعار کی اثر آفرینی میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔  ان کے کلام میں صرف رسمی و روایتی جذبہ و احساس کا تذکرہ نہیں ہے۔ جو انھوں نے دیکھا وہ ان کے شعروں میں بھی نظر آتا ہے۔  وہ صرف انسانی نفسیات کے نباض ہی نہ تھے بلکہ ان کی نظر اپنے عہد کے تمام تر مسائل پر تھی۔  وہ سرکاری ملازم ہونے کے ناطے کھل کر اپنے خیالات کا اظہار نہیں کر سکتے تھے۔  مگر ان کے قارئین جانتے تھے کہ ان علائم کے پردے میں کیا کچھ مستور ہے۔

میں اکثر سوچتا ہوں پھول کب تک

شریکِ گریۂ شبنم نہ ہوں گے

٭  کہا جاتا ہے کہ حفیظ کی مدد بہت شاعروں کے شامل حال رہی؟

٭٭  بڑے نام تو سبھی جانتے ہیں، کہ حفیظ ان کی شعری اصلاح کر کے شعر کو زیادہ سڈول اور جاذب توجہ بنا دیتے تھے۔ راج بلدیو، ارجمند مسعود اور امین گیلانی کو حفیظ لکھ کر دیتے تھے۔

٭  حفیظ کو رجحان ساز شاعر بھی کہا گیا لیکن دیکھا جائے تو ان کی غزل کو وہ پذیرائی نہ ملی، جس کی وہ حقدار تھی۔

٭٭  یہ درست ہے کہ اب تک انھیں وہ مقام نہیں ملا، جس کے وہ مستحق تھے۔  ان کی قدر ان کی زندگی میں اور نہ بعد میں ہو سکی۔

٭ حفیظ حلقۂ ارباب ذوق کے بانیوں میں سے تھے۔  کیا وہ اس کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے شریک ہوتے تھے۔

حفیظ صاحب کا ساتھ حلقۂ اربابِ ذوق کے ابتدائی زمانے سے ہے۔  پہلے ایک ادبی انجمن ’’انجمن داستاں گویاں ‘‘ کے نام سے قائم تھی لیکن جب حفیظ صاحب شامل ہوئے تو ایک شاعر کے اضافے کی وجہ سے اس انجمن کا نیا نام زیرِ غور آیا۔  حفیظ صاحب نے نیا نام ’’حلقۂ اربابِ ذوق‘‘ دیا۔  حفیظ صاحب حلقے کے بنیادی رکن اور صدر تھے۔  حفیظؔ صاحب تمام عمر کلاسیکی انداز میں لکھتے رہے، لیکن وہ ایک ایسی انجمن کے بانی تھے، جسے ’’جدید ادب کا علمبردار‘‘ کہا جاتا ہے۔  ۲ ؎ وہ اس کے اجلاسوں میں شریک ہوتے تھے لیکن باقاعدگی سے نہیں۔

٭  حفیظ کے شعری مجموعہ ’’ مقامِ غزل‘‘ کے نام سے منصۂ شہود پر آیا، بہت سے ادیبوں نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔  اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

٭٭  حفیظ پڑھنے کے بے حد شائق تھے۔  گھر میں چاروں طرف کتابیں ہی کتابیں نظر آتیں، لیکن اپنی کتاب کی اشاعت کی طرف توجہ نہ دی۔  ہم سب کا اصرار روز بروز بڑھتا جا رہا تھا کہ اب تو چھاپ ہی دیں۔  آخر انھوں نے اپنا کلام جمع کرنا شروع کیا۔  مسودہ تیار ہوا تو ادھر احمد ندیم قاسمی نے فنون غزل نمبر شائع کرنے کا ارادہ کیا اور کہا کہ مضامین بھی شائع ہوں گے کچھ غزل کے بارے میں، کچھ غزل گو شاعروں کے بارے میں۔  مظفر علی سیّد جوان دنوں ائیر فورس میں کیڈٹس کو انگریزی پڑھایا کرتے تھے حفیظ کے بڑے قدردان تھے۔  دو چار روز کے لیے ان کا مسودہ گھر لے گئے۔  مضمون تو انھوں نے لکھ لیا، جو چھپ بھی گیا لیکن مسودہ حفیظ کو واپس نہ ملا۔  اس مسودے کی واپسی کے لیے بہت زور دیا گیا۔  ظفر چوہدری جو حفیظ کے عزیز بھی ہیں۔  ان کی کوششوں سے بالآخر مسودہ واپس ہوا اور پھر حفیظ کی وہی پرانی نظر ثانی کی عادت۔  وہ اپنی اس معنوی اولاد کو کسی بھی خامی یا کمی سے پاک دیکھنا چاہتے تھے۔  افسوس تو اس بات کا ہے کہ مجموعہ شائع تو ہوا لیکن ان کی زندگی میں نہیں۔  مزید افسوس اس بات کا کہ وہ جس معیار کو قائم رکھنا چاہتے تھے شائع ہونے کے بعد مجموعہ اس معیار پر نہ تھا۔  کتابت کی غلطیاں حفیظ صاحب کبھی برداشت نہ کر سکتے۔  ۳ ؎ حقی صاحب نے جو مجموعہ شائع کیا اس میں وہ چیزیں بھی شامل ہو گئی تھیں جو حفیظ شائع نہیں کرنا چاہتے تھے۔  حقی صاحب نے مجموعہ کی کتابت کے بعد پروف پڑھنا بھی گوارا نہیں کیا۔  مجھے اپنا غصہ یاد ہے میں نے تقریب رونمائی میں اپنا غصہ نکالا اور کھل کر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔  شان الحق حقی پھسڈی قسم کے شاعر ہیں لغت کے آدمی ہیں، دلی کے روڑے ہیں۔  شعر و نثر بے کار ہے۔

٭ حفیظ کے دیگر دوستوں میں آپ کن کا ذکر کرنا چاہیں گے؟

٭٭  محمد نواز، بہت خاموش طبعیت، پسِ پردہ رہنے والے، نواز صاحب استاد تھے۔ ہمیں پڑھاتے تھے ایک مرتبہ انھوں نے ایک مضمون لکھنے کے لیے دیا، میرا مضمون بہت پسند آیا … جماعت میں پڑھوایا اور دل کھول کر تعریف کی۔  شعر بھی کہتے تھے، نیم مزاحیہ نظمیں اور سنجیدہ غزلیں کہتے تھے۔

حفیظ کے ایک اور دوست تھے مجید صاحب جرنلسٹ تھے، ان کا بھی انتقال ہو چکا ہے حمید نسیم سے بھی قریبی تعلق تھا۔

٭ نقد و تفہیم شعر کے حوالے سے آپ کیا کہنا چاہیں گے؟

٭٭  شعر کی تفہیم ہر شخص کو نصیب نہیں ہو سکتی، نظیر صدیقی، حقی، سید عبداللہ یہ سب درسی نقاد ہیں جنھیں شعر سمجھنے کا شعور نہ تھا۔ ان کے شعر کے خانے خالی ہیں۔

٭  شعری ہیئتوں کے تجربات میں ہم کہاں تک کامیاب رہے ہیں؟

٭٭  ایکسپیریمنٹ اردو شاعری میں بھی ہوئے ہیں لیکن کم کم پہلے نظم کا ایک رکن پھر دو، پھر تین پھر چھ پھر کم ہونے شروع ہوئے۔  یوں شکل بنتی تھی ہیئت کے تجربے بھی ہوئے اردو شاعری میں ہمارے ہاں سٹنزا فارم نہیں ہے۔  مثنوی، مسدس، مربع، رباعی، مثمن، قطعہ بند وغیرہ تھے مگر اے بی بی اے سی سی ڈی یہ نہیں تھا Rhyme scheme English کا تجربہ پہلی دفعہ اقبال نے فارسی میں کیا منزل ما دور نیست …… حفیظ جالندھری نے زیادہ تجربے کیے، حفیظ نے پابند نظموں میں تجربے کیے، پھر حفیظ ہوشیار پوری بدیہہ گو بھی تھے۔  حفیظ کے قریبی دوست جانتے ہیں کہ یہ سنجیدہ شخص بے تکلف دوستوں کی محفل میں کتنا غیر سنجیدہ ہو جاتا تھا۔  ہزلیات تو نہیں لیکن یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہزلیات کو اچھے کلام کی سطح پر لے جاتے تھے۔  کلام سینہ بہ سینہ چلتا تھا، اگر کوئی تیسرا آدمی ان سے پوچھ لیتا تھا تو صاف مکر جاتے تھے۔

٭  کیا حفیظ کو اپنی اہمیت کا احساس تھا؟

٭٭  ہاں انھیں احساس تھا کہ وہ ایک بڑے شاعر ہیں، اپنی شاعری کو بہت سنجیدگی سے لیتے تھے۔

٭ شاعر کلام سنانے کے لیے بے تاب ہوا کرتے ہیں، کیا حفیظ بھی شعر کہنے کے بعد سامع کی خواہش کرتے تھے؟

٭٭  حفیظ اپنا کلام سناتے تھے لیکن بے تابی سے نہیں۔  وہ ریڈیو کے ملازم تھے۔  شاعر ریڈیو والوں کو متاثر کرنا چاہتے تھے۔  حفیظ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ شام ڈھلے انتہائی تھکا ہوا دفتر سے باہر نکلا، حرماں خیر آبادی مل گئے انھیں غزلیں سنانے کی عادت تھی، سائیکل پکڑے پیدل چلتے چلے گئے اور غزلوں پہ غزلیں سنانی شروع کر دیں موڑ آیا حفیظ صاحب نے پوچھا کدھر جانا ہے، انھوں نے اشارہ کیا اِدھر، حفیظ نے کہا اُدھر اور تیزی سے دوسری طرف مڑ گئے، ویسے حفیظ مروت کے آدمی تھے۔  کبھی کبھار بے مروتی پر مجبور ہو جاتے تھے۔  ایک عبد المجید بھٹی ہوتے تھے، نظمیں لکھتے تھے، کاتب تھے شروع میں، حفیظ کے مداحوں، برخورداروں میں سے تھے۔  بچوں کے لیے نظمیں لکھیں، مکھی مچھر کے عنوان سے، سکولوں میں تقسیم کیں، نونہال نکالا، گیت نظمیں کہیں، جدید شاعر بھی ہوئے۔  افسانے بھی لکھتے تھے، حفیظ کے کمرے میں آئے بیٹھے، بلا مبالغہ پچیس تیس افسانے سنا گئے، حفیظ خاموشی سے سنتے رہے۔  اب آپ کا یہ سوال کہ خود کتنا سناتے تھے تو اس کا جواب یہی ہے کہ وہ ہر ایک کو سن تو لیتے تھے لیکن ہر ایک کو سناتے نہیں تھے۔

٭  مشاعروں میں شرکت؟

٭٭  مجبوری سے مشاعروں میں جاتے تھے۔

٭ مطالعے کی عادت، کتابوں سے عشق؟

٭٭  حفیظ محنتی تھے، مطالعے کے شوقین تھے۔  کھارا در کے کتب فروشوں کے ہاں اکثر پائے جاتے تھے۔  بساند اور دیمک زدہ کتب بھی بہت محبت سے اٹھا لاتے، امیر خسرو کا چوتھا دیوان زیرِ مطالعہ رہتا، فارسی کلاسک سے بہت دلچسپی تھی، طالب آملی کو بہت محبت سے پڑھتے تھے۔  فارسی میں بھی غزل کہتے تھے۔  گفتگو پنجابی میں کرتے تھے، کراچی آ کر زیادہ تر اردو ہی بولتے تھے۔

٭ ان کی شخصیت متاثر کن تھی یا …؟

٭٭  چھوٹا سا قد، گہرا سانولا رنگت، خوب صورت نہیں کہہ سکتے، دبلے پتلے تھے کھانے پینے کی طرف توجہ نہیں تھی، اندازِ گفتگو لاؤڈ نہیں تھا اونچی آواز سے نہیں بولتے تھے۔  وہ محمود نظامی کے ماتحت تھے، ، میں حفیظ کا ماتحت، ہر کام تھرو پراپر چینل ہوتا تھا، ہر کام میں با قاعدگی ہوتی تھی۔  دفتر میں صرف دفتری کام، اکثر ایسا ہوا کہ لطیفہ سناتے سناتے اپنے کمرے میں پہنچ گئے۔  تو ایک دم لطیفہ ختم، آفس میں تعلق الگ ہوتا تھا اور آفس سے باہر الگ، جہاں تک ان کے کردار کا تعلق ہے، بہت مہذب، گھریلو اور نیک، دوستیاں بھی تھیں، فقرے بازی بھی ہوتی تھی، لیکن ہر وقت نہیں، وقت کے بہت پابند تھے، ذمہ دار انسان تھے، پبلک ریلیشنگ سے بے نیاز تھے۔

٭  معاصرین میں آپ انھیں کہاں دیکھتے ہیں؟

٭٭  حفیظ گڈ پوئیٹ تھے میجر پوئیٹ نہیں، فیض کا جنرل لیول اونچا رہا۔  صوفی تبسم اور حفیظ کی سطح ایک ہی ہے۔  حفیظ کی غزل یوسف ظفر، قیوم نظر کی غزل سے بہتر ہے، حفیظ کی نظم کم درجے کی ہے، مختار صدیقی، ایک شعر حفیظ سے بہتر ہو گا اور مجید امجد، مختار سے اوپر رہے گا، شبِ رفتہ کی نظموں کی وجہ سے۔  جیلانی کامران زبان جانتے تھے، وزن سلیقہ لفظوں کی نشست و برخاست سے آگاہ تھے، ہاکی سمجھ کر شاعری کھیلتے رہے۔

٭٭

حواشی:

۱ ؎ ۔  جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے ایف اے میں داخلہ تو جالندھر میں لیا تھا لیکن ناگزیر وجوہ کی بنا پر وہاں تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی والد نے گورنمنٹ کالج لاہور میں ایف۔  اے میں داخل کرایا، جہاں آپ نے اپنی تعلیم مکمل کی۔

۲ ؎ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حفیظ انجمنِ داستاں گویاں کے پہلے اجلاس میں نہ صرف شریک ہوئے بلکہ اس اجلاس کی صدارت بھی انھوں نے ہی کی۔

۳ ؎ ’’افکار‘‘ کے مدیر جناب صہبا لکھنوی ضیا جالندھری کے اس بیان کی وضاحت کرتے ہیں۔

’’اظہار صداقت کا تقاضا یہ ہے کہ حفیظ صاحب کے مہربان خاص اور اردو کے جانے پہچانے ادیب مظفر علی سیّد کا نام ظاہر کر دیا جائے جنھوں نے یہ مسودہ عرصے تک اپنے پاس رکھا اور حفیظ صاحب کے پیہم اصرار کو در خورِ اعتنا نہ سمجھا۔  ایک بار دفتر افکار میں حفیظ ہوشیارپوری مرحوم نے جب اس مسودہ کی گم شدگی کی تفصیل راقم کو سنائی ہے تو ان کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔  یہ مجموعہ کئی احباب کی سعی و کوشش کے بعد حفیظ صاحب کو اس وقت ملا جب ان کی صحت جواب دے گئی تھی، جس کے نتیجے میں ان کا کلام ان کی زندگی میں شائع نہ ہو سکا۔ ‘‘

صہیب حفیظ نے اس سوال کے جواب میں کہ حفیظ صاحب نے اپنا مجموعۂ کلام تمام سہولیات میسّر ہوتے ہوئے بھی کیوں نہ شائع کروایا، کہا۔

’’میرے حساب سے بڑی بلکہ واحد وجہ یہ تھی کہ ان کی تسلّی نہیں ہوتی تھی۔  وہ ہر بات میں پرفیکشن چاہتے تھے۔  انھوں نے ہمیشہ یہی کہا کہ ایک مرتبہ اور دیکھ لوں پھر دوں گا چھپنے کے لیے۔  حالانکہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ انھیں طالب علمی کے زمانے سے ہی اردو شاعری میں معتبر مقام مل گیا تھا۔  ان کی انتہائی خواہش تھی کہ بہتر اور بہتر انداز میں مجموعۂ کلام شائع ہو۔  ایک دفعہ اور، دس دفعہ اور، بار بار پڑھتے تھے۔  وہ صرف شعر میں ہی نہیں۔  ہر چیز میں بہتری کے خواہاں تھے۔  یہ بات درست ہے کہ پرفیکشن کی انتہا نہیں ہے۔  وہ شاید اس انتہا کو چھونا چاہتے تھے، حالانکہ ہم اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے کہ اگر وہ مجموعہ وقت پر شائع ہو گیا ہوتا تو شاید ایک اور مجموعہ بھی منظر عام پر آ جاتا ان کی زندگی میں۔  جب ان کی توجہ جناب ضیا جالندھری اور جناب صہبا لکھنوی کے اس بیان کی طرف دلائی گئی کہ حفیظ کے ایک قریبی دوست (جناب مظفر علی سیّد ) نے ایک عرصے تک اس مسودے کو جو وہ پڑھنے کے لیے لے گئے تھے واپس نہ کیا جس کا حفیظ صاحب کو بے حد صدمہ تھا اور اسی بنا پر حفیظؔ صاحب کا مجموعہ ان کی زندگی میں اشاعت پذیر نہ ہو سکا تو صہیب حفیظ نے کہا کہ مظفر صاحب کے پاس وہ مجموعہ رہا ہو گا، لیکن میں اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ ان کی وجہ سے کتاب کی اشاعت میں دیر ہوئی۔  ابّاجی نے ضیا صاحب یا صہبا صاحب سے ضرور یہ بات کہی ہو گی لیکن ہم نے ان کے منہ سے ایسا کوئی شکوہ نہیں سنا۔  میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اصل وجہ یہ نہ تھی۔  وہی بے داغ تکمیلیت والی بات تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

شبنم شکیل

 

طاہرہ اس سے پہلے کہ میں تمہارے اتنے Comprehensive اور Compact سوالنامے کے جوابات لکھنا شروع کروں تمہیں داد دینا چاہتی ہوں کہ تم نے کتنی محنت سے یہ سوالنامہ تیار کیا۔  میری ہر کتاب کو پڑھنے کے لیے کتنا وقت صرف کیا۔  اب اس کے بعد اپنی مجبوری بتانا بھی اشد ضروری سمجھتی ہوں کہ ابھی کچھ ماہ پہلے میں ایک بہت بڑی بیماری سے اُٹھی ہوں۔  ہارٹ اٹیک ہو گیا تھا۔  میں بیٹھ کر لکھ ہی نہیں سکتی کیونکہ کمر میں شدید درد شروع ہو جاتا ہے۔  اب نہ تو میں اس انٹرویو سے تم سے اور نہ اپنے پڑھنے والوں سے انصاف کر سکتی ہوں۔  سب سے پہلے تو میں خود اپنے ساتھ بے انصافی کر رہی ہوں۔  مختصر ترین جواب دے دیتی ہوں۔  تم نے پورے تھیسیس کا کام کیا ہے۔  کیا کہوں کتنی شرمندہ ہوں۔  تاہم بیماری پر کس کا اختیار ہے مجبوری ہے۔  اُمید ہے میرے قارئین مجھے معاف کر دیں گے۔

٭  گھر یلو ما حول اد بی تھا، والد نے تعلیم اور زبان کی در ستگی کی طرف توجہ دی لیکن شعر گو ئی کو نظر انداز کیا۔ ایسے ما حول میں آپ کسے اپنا شعری استاد تسلیم کرتی ہیں یا غالب کی طرح بے استاد ہونا آپ کے لیے باعث فخر ہے اور کیا کبھی غالب کی مانند ہی آپ کو کسی استاد کا نام لینے کی ضرورت پیش آئی؟

٭٭  پہلی بات تو یہ کہ وہ مجھ پر اپنی شاعری کی چھاپ نہیں لگانا چاہتے مگر میرے والد سید عابد علی عابد زبان کی درستگی پر بہت زور دیتے تھے، تحریر میں اس کو وہ بنیادی چیز تصور کرتے تھے۔ مجھ پر اس حوالے سے انہوں نے خاصی توجہ دی۔  یقیناً وہ میرے استاد تھے۔  انہیں ہی پہلا استاد گردانتی ہوں، مگر اس کے بعد احمد ندیم قاسمی اور عبدالعزیز خالد نے میری بہت رہنمائی کی۔  قاسمی صاحب نے غزل یا نظم میں فالتو الفاظ کو استعمال نہ کرنے کا طریقہ بتایا۔  خالد صاحب نے عربی اور فارسی تراکیب کے استعمال کے حوالے سے ہر طرح سے میری مدد کی۔  میں سب کی ممنون ہوں۔

٭  کلاسیکی اور جدید شاعروں میں کس سے متاثر ہیں؟

٭٭  اساتذہ میں میرے پسندیدہ شاعر وہی ہیں کہ جن کا ڈنکا دو ڈھائی سو برس کے بعد بھی آج تک بج رہا ہے مثلاً ولی دکنی، میر تقی میر، غالب، ذوق، مصحفی، سودا، آتش اور ان کے دوسرے ہم عصر اورسب سے بڑھ کر علامہ اقبال۔  فیض صاحب نے ایک مرتبہ مجھ سے کہا تھا شبنم اساتذہ سب کچھ کہہ چکے ہیں اب ہم فقط ان کو دہرا رہے ہیں ذرا رد و بدل کے ساتھ۔  مجھ پر ان تمام کلاسیکی شعرا کا گہرا اثر ہے۔  جدید شعرا میں منیر نیازی سے بہت متاثر ہوں۔  باقی جدید شعرا کی ایک لمبی فہرست ہے۔  میں شاعر کو نہیں اس کے شعر کو پسند کرنے کی قائل ہوں خواہ وہ کوئی غیر معروف شاعر ہی کیوں نہ ہو۔

٭  ہر خیال اپنی ہیئت خود لے کر آتا ہے یا آپ شعوری طور پر اسے نظم غزل یا افسانے کی ہیئت میں ڈھا لتی ہیں۔

٭٭  آپ کے سوال میں جو اب بھی موجود ہے۔  کبھی کوئی چیز شعوری طور پر نہیں سوچی کہ آج غزل کہوں گی کہ نظم۔  کوئی مضمون لکھوں گی کہ افسانہ۔  ہاں البتہ افسانہ لکھنے پر مجھے میرے مشاہدات اور تجربات نے مجبور کیا کہ میں لوگوں سے ان کو شیئر کروں۔  ’’ نہ قفس نہ آشیانہ‘‘ میں ایکا فسانہ ’’ ایک سیارے کے لوگ‘‘ اور ’’ لال دیدی‘‘ خاص میرے مشاہدے کی پیداوار ہیں۔  ان کے تراجم بنگالی، ہندی اور انگریزی میں ہو چکے ہیں۔  باقی کے ’’ دو گھنٹے ‘‘ میں بھی میری دیکھی بھالی چیزیں ہیں۔  میں نے واقعات کو افسانے کے روپ میں ڈھال دیا بس۔

٭  آپ کہتی ہیں ’’ عورت ہمیشہ تقسیم شدہ ہوتی ہے، اکائی نہیں۔  گھر، شوہر، بچے، معاشرہ… کئی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔  ہند و پاک میں نسائی فکشن کے حوالے سے صرف قرۃالعین کا نام لیا جاتا ہے۔  یاد رہے کہ انھوں نے اپنے آپ کو تقسیم نہیں کیا، اسے سوچنے اور سب کچھ کہہ دینے کی مکمل آزادی رہی۔ ‘‘ کیا قرۃ العین زندگی کے ایک بڑے تجربے سے محروم نہیں رہیں؟

٭٭  اس سوال میں بھی جواب موجود ہے۔  کیا آپ اتفاق نہیں کرتیں کہ عورت تقسیم شدہ ہے۔  قرۃ العین کا فن محض اس وجہ سے بام عروج پر نہیں پہنچا کہ وہ شادی شدہ نہیں تھی۔  وہ ایک وسیع المطالعہ خاتون تھی بہت بے حد Talented۔  ہاں جہاں تک شادی کے تجربے کا سوال ہے ان کا مشاہدہ وہاں بھی بہت کام کرتا ہے۔  شروع شروع میں جب انہوں نے لکھا جیسے ’’میرے بھی صنم خانے ‘‘ یا ’’شیشے کے گھر ‘‘ اور دوسرے افسانے۔  اس میں وہ لاشعوری طور پر Sexکے تجربات کو بیان کرنے سے گریز کرتی رہیں، کتراتی رہیں۔  حتیٰ کہ وہ رومان میں کسی فزیکل ٹچ کے قریب بھی نہیں جاتی، مگر بعد میں سیتا ہرن، گردشِ رنگِ چمن اور چاندنی بیگم میں ان کی Inhibitions بالکل ختم ہو گئی تھیں۔  در اصل جنسی تجربات کو بیان کرنا ان کی ترجیح نہیں رہی۔  وہ وقت اور انسان کے درمیان جو رابطہ ہے، انسانوں کے ردِ عمل کسی طرح زمانے کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں وہ اس پر بات کرتی ہیں۔  تاریخ اور عمرانیات پر گہرے عبور کی وجہ سے تمام زمانوں کی بات بڑی آسانی سے کر لیتی ہیں۔  تب قاری کو کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ وہ کہیں بھی تجربے سے محروم رہی ہیں۔  بہرحال وہ ایک عام شادی شدہ زندگی کے مسائل پر بہت کم بات کرتی ہیں۔  ویسے ایک بات بتاؤں کہ عورت بغیر کسی تجربے کے بھی یہ بات محض اپنے مشاہدے سے کر سکتی ہے۔  شاید یہ اس کی جینز میں یا جبلت میں شامل ہے۔  جیسے ایک ماں کی کیفیات بغیر ماں بنے بھی بیان کرنا ا س کے لیے بہت آسان ہے۔  مرد شاید بغیر کسی تجربے کے نہ کر سکتے ہوں وہ اس سے محروم رہ سکتے ہیں۔

٭  سید عابد علی عابد موسیقی سے دلچسپی ہی نہیں شعور بھی رکھتے تھے، فنِ موسیقی پر ان کے مضامین اس کا بین ثبوت ہیں۔  آپ کی شاعری میں بھی موسیقیت، نغمگی اور لے کی موجودگی آپ کے کے کن رس ہونے کا احساس دلاتی ہے۔  موسیقی سے دلچسپی شعری تخلیق میں کس حد تک معاون اور تاثیر میں اضافے کا سبب ہے؟

٭٭  عابد صاحب سے موسیقی کا شوق ورثے میں ملا۔  ویسے بھی تمام فنونِ لطیفہ ایک دوسرے سے گہرا تعلق رکھتے ہیں اور موسیقی اور شاعری میں تو بہت گہرا ربط ہے۔  میں کسی زمانے میں گنگنا کر شعر کہا کرتی تھی اور ترنم سے پڑھتی تھی یوں مجھے مترنم بحریں پسند ہیں۔

٭  تخلیقِ شعر کے لیے کیسی فضا در کار ہوتی ہے؟

٭٭  فضا کی تو کوئی قید نہیں۔  اس کا تعلق ذہنی کیفیت سے ہے۔  موڈ سے ہے۔  ویسے میں عام طور پر صبح صبح شعر کہتی ہوں۔  یوں کبھی کبھی ایک بے تعلقی کی فضا بھی شعر کہنے کے لیے موزوں ہوتی ہے، مگر میرے لیے با ذوق لوگوں سے ملاقات کسی اچھی کتاب کا مطالعہ یا کوئی اچھی فلم بھی شاعری کے لیے محرک ثابت ہوتی ہیں۔  بہت زیادہ پریشانی میں میرے لیے شعر کہنا ممکن نہیں ہوتا۔  ایک وہمی سی عورت ہوں کوئی وہم سر پر سوار ہو تو وہ کوئی دوسرا کام نہیں کرنے دیتا۔

٭  کیا آپ شعر و ادب کی مو جو دہ رفتار سے مطمئن ہیں؟

٭٭  اس سوال کا جواب بہت دفعہ دیا جا چکا ہے۔  ہاں میں مطمئن ہوں۔  ہمارے ہاں اچھا لکھا جا رہا ہے۔  بلکہ پاکستان میں تحقیق کا شعبہ جو ابھی تک ذرا پیچھے تھا اب بہت آگے بڑھا ہے۔  یہ ایک خوش آئند بات ہے۔  باقی میں ایک گھسا پٹا جملہ کہہ سکتی ہوں کہ وقت اصل منصف ہے۔  ویسے تقریباً ہر دور میں جمود کا شور مچتا رہتا ہے۔  پھر تھم جاتا ہے۔

٭  اردو کے ادیب و شاعر کو علا قا ئی یا مادری زبان میں بھی لکھنا چاہیے یا یہ ضروری نہیں ہے؟

٭٭  یہ کوئی مجبوری نہیں ہے۔  اصل میں بات یہ ہے کہ جب بھی مجھ سے کوئی یہ سوال کرتا ہے کہ آپ پنجابی میں شعر کیوں نہیں کہتیں یا بقول اشفاق احمد ’’جب کوئی کسی بھی پنجابی سے سوال کرتا ہے کہ پنجابی زبان میں کیوں نہیں لکھا تو ہم لوگ فوراً Defensive پر چلے جاتے ہیں اور ہمارا لہجہ معذرت خواہانہ ہو جاتا ہے ‘‘ میرے خیال میں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شروع سے اُردو پڑھی اور پنجابی کے رسم الخط تک سے پوری واقفیت نہیں ہو سکی۔  میں نے زیادہ تر اُردو ادب پڑھا اس کا اثر ذہن پر ہوا۔  ہاں البتہ پنجابی گانے، پنجابی نظمیں سنتی بہت دلچسپی سے ہوں۔  کبھی کبھی پڑھتی بھی ہوں۔  مگر صاف جواب یہ ہے کہ اگر کسی کو کسی دوسری زبان پر عبور ہو تو وہ ضرور لکھے مگر کوئی زبردستی نہیں ہے۔  مادری زبان تو خود ہی پنپتی رہتی ہے، اس کے لیے کسی شعوری کوشش کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔

٭  تخلیق سےز یادہ تخلیق کار کی اہمیت نے موجودہ ادبی صورت حال کی ترقی  یا تنزلی میں کیا کردار ادا کیا ہے؟

٭٭  طاہرہ !تم نے میرے دل کی بات کہی۔  کسی زمانے میں قرۃ العین حیدر، عصمت چغتائی، منٹو، یا کرشن چندر یا کسی اور بڑے ادیب کی تحریر چھپتی تھی تو لوگ شوق سے پڑھتے اور کہتے کیا بات ہے۔  عصمت نے کمال کر دیا۔  شعرا کا بھی یہی چلن تھا۔  مگر افسوس اب پہلے لکھنے والے کی تصویر چھپتی ہے پھر اس کے بعد تحریر کی باری آتی ہے۔  ہم میں سے بہت سے اپنی تحریر سے زیادہ اپنی تصویر دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔  ظاہر ہے یہ کوئی خوش کن صورتِ حال نہیں ہے تاہم بہت سے ایسے ادیب بھی ابھی اس زمانے میں بھی موجود ہیں جو ہرگز اس صورتِ حال سے خوش نہیں ہیں۔  ان کی تصویر آپ کبھی کبھار ہی دیکھتے ہیں۔  ہاں ان کی اچھی تحریر کا ہر جگہ چرچا ہوتا ہے۔  در اصل یہاں ایک مافیا ہے جس نے ادب کو بھی Showbiz بنا دیا ہے۔

٭  ’’خواتین کی شاعری میں عور توں کے مسائل کی تصویر کشی ‘‘ کیا پا کستانی عورت کو در پیش سیا سی، سما جی، معاشرتی اور تہذیبی مسائل کے ساتھ ساتھ جذباتی و روحانی اذیت کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے۔

٭٭  وہ کتاب میں نے محترمہ خالدہ حسین اور ڈاکٹر سلیم اختر کے ساتھ مل کر مکمل کی۔ تھی مضامین انہوں نے لکھے اور میں نے انٹرویو مکمل کیے۔  اس میں جتنی معروف شاعرات تھیں ان پر مضامین شامل ہیں ان کی نظمیں اور غزلیں شامل ہیں۔  سو فی صد اس میں ان کی شاعری میں ان کی جذباتی اور روحانی کیفیت کھل کر سامنے آتی ہے۔  ہم نے کھل کر اس پر بات بھی کی ہے۔ البتہ کتاب کا پڑھنا شرط ہے۔  جہاں زہرہ نگاہ، ادا جعفری، کشور ناہید، فہمیدہ ریاض، پروین شاکر، شبنم شکیل، شاہدہ حسن، فاطمہ حسن، نسرین انجم بھٹی، یاسمین حمید، منصورہ احمد اور ثمینہ راجہ پر مکمل مضامین لکھے گئے ہوں اور عطیہ داؤد، سارا شگفتہ اور اسی قبیل کی دوسری شاعرات کی شاعری پر تبصرے شامل ہوں اس میں ان کی روحانی اور جذباتی زندگی پر بات کرنا ناگزیر تھا۔

٭  آپ کی غزل روایت سے رشتہ جوڑتی ہے اور نظم عصری آگاہی کے کرب سے گزرتی دکھائی دیتی ہے۔  کیا آپ اس سے اتفاق کرتی ہیں؟

٭٭  میرے خیال میں تو اگر تمہیں میری نظموں کے موضوعات میں عصری آگہی کی جھلک نظر آتی ہے وہاں یہ بھی محسوس کرتی ہو گی کہ ڈکشن تو وہی پرانی ہے۔  اس کا روایت سے رشتہ نہیں ٹوٹ سکتا۔  اگر نظم میں بہت نامانوس ڈکشن استعمال ہو گی تو وہ زیادہ اپیل نہیں کرے گی۔  البتہ یہ ضرور ہے کہ غزل میں چونکہ اساتذہ کی روایت موجود تھی اور بہت سے نئے لوگوں کی تخلیقات سے بھی ربط تھا، اس لیے اس میں کلاسیکیت اور جدے دیت دونوں نظر آئیں گی۔  دونوں میں فرق ہے۔  جو بات آپ غزل میں کہتے ہیں اس کو الگ ہٹ کر نظم میں بھی کہا جا سکتا ہے۔  ہاں دونوں کا پیرایہ مختلف ہے۔

٭  غزل ’’ایک بات کہنی ایک چھپانی ہے ‘‘ …کا فن ہے۔ آپ اظہار کے لیے ایمائی و علا متی رو ّیے پسند کرتی ہیں یا بیا نہ انداز میں  کہی بات زیادہ اثر رکھتی ہے؟

٭٭  میں غزل کہتے ہوئے سادہ الفاظ میں بات کرنا اور بیانیہ انداز کو زیادہ پسند کرتی ہوں۔  میرے خیال میں میری وہی غزلیں زیادہ کامیاب ہوئیں جن میں یہ رنگ موجود تھا۔  مشکل پسندی کی میں قائل نہیں یا یہ کہ مجھے مشکل لکھنا آتا ہی نہیں ہے۔

٭  باطن کی طرف سفر میں آپ خود کو زخم زخم محسوس کرتی ہیں یا مطمئن؟

٭٭  مطمئن تو کوئی بھی نہیں ہوتا یعنی کوئی حساس انسان تو نہیں ہو سکتا۔  زخم زخم والی بات تو نہیں ہے۔  ایک بات صاف ہے کہ ہر فنکار کے ساتھ خواہ وہ فنونِ لطیفہ کے کسی شعبے سے بھی تعلق کیوں نہ رکھتا ہو۔  اضطراب اور سرخوشی اس کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔  میرا ایک شعر ہے:

اِک ذرا سی بات اور پھر اشک تھمتے ہی نہیں

لہر سی اِک دل میں اور سرشار ہو جاتے ہیں ہم

٭ شاہین مفتی کی نظم ’’آدھی لڑکی‘‘ میں آپ کی غزل ’’آدھی ریت سے باہر‘‘ کی گو نج سنائی نہیں دیتی؟

٭٭  میری اس غزل کے علاوہ بھی بہت سی غزلوں کی گونج شاعرات کے ہاں نظر آتی ہے۔  یہ کوئی انوکھی بات نہیں خود مجھ پر دوسرے لکھنے والوں کے اثرات ہیں۔

٭  سارہ شگفتہ نثری نظم کی بے باک اور براہ راست بیان کی شاعرہ ہیں، جنھوں نے مروجہ اخلاقی سماجی و ادبی اقدار کی ملمع سازی کے  خلاف شد ید احتجاج و مزاحمت کی راہ اپنائی۔  کیا یہ روّیہ مثبت ہے؟

٭٭  سچ پوچھو تو میں نے اس کی شاعری کو بہت سنجیدگی سے نہیں پڑھا، اس لیے اُس پر رائے دینے سے قاصر ہوں۔

٭ شا عرات کی طرف سے مذہبی و روایتی جبر کے خلاف اٹھائی گئی آواز چیخ معلوم ہوتی ہیں کیا آپ سمجھتی ہیں کہ عورت کو احتجاج و مزاحمت میں بھی اپنا تشخص بر قرار رکھنا چاہیے۔ یعنی احتجاج تو کرے لیکن شا ئستگی کے ساتھ اور کیا دھیمے سروں میں کہی گئی بات مرد معاشرے پر اثر انداز ہو گی یا نہیں؟

٭٭  میرے خیال میں جو سوال آپ نے اٹھایا ہے۔  میری شاعری میں اس کا مکمل جواب موجود ہے۔  میں نے کہیں بھی اپنی شاعری کو نعرہ نہیں بنایا۔

٭ شا دی شدہ زند گی میں حاصل ہونے والی آ سائش فارغ البالی، محبت، او لاد ان سب کے ہو تے ہوئے ہماری شاعرہ اپنے متمول انداز زیست میں خود کو سو نے کے قفس میں کیوں محسوس کرتی ہے؟

٭٭  اگر کوئی حساس ہو گا تو بظاہر مطمئن نظر آئے گا مگر وہ بھی کسی نہ کسی چیز کی کمی محسوس کرتا رہتا ہے۔  ایک تشنگی ایک اضطراب کے بغیر زندگی مجھے تو بے معنی سی لگتی ہے۔  میرا شعر ہے۔

مطمئن ہونا بھی اپنے بے خبر ہونے سے ہے

بے سکوں ہوتے ہیں جب ہشیار ہو جاتے ہیں ہم

در اصل یہ نا آسودگی انسان کے اندرn Built inہوتی ہے۔  بہرحال میں خدا کا شکر بھی ادا کرتی ہوں اور بہت سی نظموں اور شعروں میں اس کا اظہار بھی کیا ہے۔

٭  عورت پابند ہو تو آزادی کی خواہش کرتی ہے اور آزاد ہو تو خود اڑنے کی خواہش ترک کر دیتی ہے۔ اس نفسیاتی گرہ کے پیچھے کون  سے عوامل ہیں؟

٭٭  میری شاعری میں آپ نے زندگی کے حوالے سے میرے نقطۂ نظر کو محسوس کر لیا ہو گا میں اعتدال کی قائل ہوں۔  میرے خیال میں تصویر فریم میں زیادہ سجتی ہے۔  اگر مکمل آزادی میں خوشی کا راز پنہاں ہوتا تو آج یورپ کی عورت بہت خوش ہوتی مگر ایسا نہیں ہے۔  اس کے برعکس غلام بن کر زندہ رہنا بھی انتہائی ناخوشگوار ہوتا ہے۔  زندگی دونوں چیزیں مانگتی ہے۔

٭ تذبذب، تشکیک شک و شبہ، عورت ساری زندگی اس کے حصار میں گزار دیتی ہے۔ کیا یہ جذبے اس کے تزکیہ نفس کے لیے ضرو ری ہیں؟

٭٭  اس کے بعد عورت مرد کی کیا تخصیص ہے تھوڑا بہت شک شبہ تشکیک کا جذبہ ہر انسان کے اندر موجود ہوتا ہے۔  ویسے میرے خیال میں عورت کو جواب دہی کے عمل سے زیادہ گزرنا پڑتا ہے۔  میرا ایک شعر ہے۔

روزِ ازل سے طے یہ ہوا تھا کٹ جائے بس ایسے ہی

میری عمر جواب دہی میں تیری عمر سوالوں میں

٭  ہماری شاعرات نے حسن کے زوال کو فراغ دلی سے قبول کیا ہے یا ان کے لیے یہ ایک ایسا دھچکا ہے جس سے وہ باہر نہیں آ پا رہی؟

٭٭  یہ دھچکے والی صورتِ حال بدل رہی ہے۔  آپ نے دیکھا ہو گا کہ ہمارے ہاں تخلیق کار خواتین بہت بڑے دل کے ساتھ عمر کے بڑھنے کو قبول کرتی نظر آتی ہیں۔  چونکہ اب یہ Trend بدل رہا ہے۔  اب وہ فطرت کی اور اس کی تبدیلیوں کو خوشی سے قبول کر رہی ہیں۔  میرے خیال میں تو تخلیق کار ادھیڑ عمر یا بوڑھی عورت اس پیریڈ کو بہت نعمت سمجھتی ہے۔  کیوں اس عمر میں اسے دو سطحوں پر زندگی نہیں گزارنا پڑتی یعنی فزیکل اور ساتھ ساتھ معاشرے کی گھر کی بے انتہا ذمہ داریاں وہ ان سے گزر چکتی ہیں۔  وہ اب قدرے آسانی سے اپنی تخلیقی زندگی کے ساتھ رہ سکتی ہے۔  زیادہ وقت گزار سکتی ہے۔

٭  ممتا کا رنگ۔ ممتا عورت کی معراج۔  ’’شبنم اپنی بیٹی کو زمانے سے مصالحت کا درس دیتی ہے۔ کیونکہ ایک رکھ رکھا ؤ والی پا کستانی عورت کا تجربہ اسے یہی سکھاتا ہے۔ ‘‘ خود شبنم نے کہاں تک مصالحت کی چادر اوڑھا کر اپنے اندر کی روح کو سلانے کی کوشش کی ہے اور کیا وہ اس میں کامیاب ہو ئی ہے؟

٭٭  تخلیق کار عورت ہو یا مرد، ذہنی طور پر ہمیشہ ایک کشمکش میں مبتلا رہتا ہے۔  ایک اُس کا (Real Self) ہوتا ہے اور ایک "Ideal self” ان دونوں کے درمیان ایک جنگ سی جاری رہتی ہے۔  گویا ایک طرف کعبہ اور ایک طرف کلیسا ہے دونوں اپنی جانب کھینچتے ہیں۔

ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر

اس کی زیادہ تشریح ممکن نہیں کیونکہ بات بہت طویل ہو جائے گی۔

٭  آپ اپنی تمام زندگی کو لاحاصل جد و جہد اور رائگاں مسافت سے تعبیر کرتی ہیں جبکہ سبھی ’’محسوس‘‘ کرتے ہیں۔ آپ نے ایک کامیاب زند گی گزاری ہے؟

٭٭  میرے شعری مجموعے ’’مسافت رائیگاں تھی‘‘ کے نام پر بہت اعتراض کیے گئے ہیں اور اسی قسم کیObservations سنتی رہتی ہوں کہ میں اتنی کامیاب زندگی گزارتے ہوئے یہ کیوں اس قسم کی مایوسی کا اظہار کر رہی ہیں۔  میں تو یہ سمجھتی ہوں کہ تقریباً ہر سوچنے والا انسان ایسا محسوس کرتا ہے کہ جو وہ زندگی میں کرنا چاہتا تھا وہ نہیں کر سکا۔  خواہ یہ محض اس کا وہم ہو۔  مجھے یہاں خواجہ میر درد کا ایک شعر بہت یاد آ رہا ہے۔  سنیے:

اسی سے دُور رہا اصل مدعا جو تھا

گئی ہے عمرِ عزیز آہ رائیگاں میری

٭  آپ کی شاعری میں رشتے نبھا نے کی مجبوری، اور رشتہ داروں سے پیار دونوں رویے ساتھ ساتھ چلتے ہیں، رشتوں کا احترام، خود سے اور زندگی سے محبت کرنا سکھاتا ہے۔ آپ کی شاعری میں زندگی کی تمام تر بے مہر کیفیات کے باوجود محبت کا احساس بھی ہے ۔ آپ زندگی کو میسر کرتے ہیں یا زندگی آپ کو میسر کرتی ہے۔ آپ کس راستے پر سفر کرنے کی تلقین کر یں گی؟

؎ میں زندگی میں مروں گی نہ جا نے کتنی بار

مجھے خبر ہے کہ رشتہ میرا صلیب سے ہے

؎ کرتی ہوں نا خوشی سے میں اس سے گزر بسر

یہ عمر تو مجھے سوتن دکھا ئی دے

؎ زندگی کو گزارنے کے ڈھنگ

زند گی بھر ہمیں نہیں آئے

٭٭  طاہرہ تم نے خود ہی میری شاعری کی وضاحت کر دی ہے۔ تمہارے سوال کے جواب میں میں بھی یہی کہتی۔  ویسے وقت وقت کی بات ہے اکثر زندگی مجھے بسر کرتی ہے کبھی کبھی میں بھی اسے بسر کر لیتی ہوں۔  یہ سب Part of life ہے۔  ایک بات کی وضاحت البتہ بہت ضروری سمجھتی ہوں وہ یہ کہ واحد متکلم میں شعر کہنے یا افسانہ لکھنے سے مراد یہ نہیں کہ ہر چیز مجھ پر ہی گزری ہے۔  میں تو پوری عورت ذات کی بات کرتی ہوں۔  جیسے میری غزل ہے ’’دُکھ کا منتر پڑھی ہوئی میں غربت میں بڑی ہوئی ہوں ‘‘ تو یہ میری کہانی تو نہیں ہے۔  یا ایک شعر ہے۔

ایک بھی گہنا پاس نہیں تھا جب یہ چہرہ کندن تھا

سو نا تن پر تب پہنا جب چاندی اُتری بالوں میں

یہ تو ہمارے معاشرے میں لاتعداد عورتوں کا المیہ ہے۔  بات میں نے چھیڑ ہی دی ہے تو بھی کہتی چلوں کہ میری بہت سی غزلوں، نظموں میں یہ بات آتی ہے کہ وقت پر کسی خوشی کا حاصل نہ ہونا ایک اُداس کر دینے والی بات ہے۔

اِس نظم ’’عدلِ دیر یاب‘‘ میں یہی کہا ہے میں نے

’’میری بد نصیب محبتو

میری ایک بات یہ جان لو

کبھی معتبر بھی جو ہو گئیں

اِسی زندگی ہی میں تم اگر

تو یہ دیرپا خوشی مجھے

نئے غم سے کر دے گی آشنا

میں کہاں سے ڈھونڈ کے لاؤں گی

وہ خوشی برتنے کا ذوق و شوق

جسے وقت لے کے بھی جا چکا

اِسی نظم کے علاوہ اور بہت جگہ میں نے زندگی کی بے معنویت پر افسردگی کا ا ظہار کیا ہے۔

میری تار تار محبتیں

مری دل فگار محبتیں

مری بے وقار محبتیں

مری بار بار محبتیں

جو اُجڑ سکیں نہ پنپ سکیں

میری بے یقین محبتیں

کہ عطا ہوا انہیں دیر میں

نہ شرف ہی شہرتِ عام کا

نہ سند ہی کوئی دوام کی

یہ سب باتیں صرف میری ذات سے منسوب نہیں کی جا سکتیں۔  یہ تو ایک احساس ہے کہ جس کا اظہار کوئی بھی کر سکتا ہے۔

٭  آپ کی نظم ’’ورثہ‘‘ میں ذاتی دکھوں، محرومیوں اور خود ساختہ پابندیوں کا تذکرہ بہت دکھی کر دینے والے انداز میں ملتا ہے۔

؎ کتابیں پاس ہیں لیکن انھیں میں پڑھ نہیں سکتی

وہ اک ترتیب سے رکھی بھلی معلوم ہوتی ہیں

اور خوف ان جانا، ان دیکھا نہیں۔ بلکہ یقین کی سر حد کو چھوتا ہوا ڈر

؎ یہ سب اچھا سہی لیکن نا جانے کس لیے پھر بھی

میں اکثر دل ہی دل میں سوچ کر کچھ کانپ اٹھتی ہوں

کہ اب میری شبا ہت کی میری نا زوں پلی بیٹی

میری سب ترک کردہ سوچ کے بے کار ورثے

اکٹھا کر رہی ہے اور جھو لی بھرتی جاتی ہے

نئی نسل کی نمائندہ عورت آپ کے اس خوف کو رد کر کے اپنی زند گی آپ جینا چاہتی ہے۔ اپنی انا اور عزت نفس کو گروی رکھنے کے لیے وہ تیار نہیں ہے۔ ایسے میں اسے کس صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا؟کیوں کہ ایک طرف آپ کا ہی تجربہ ہے۔

؎ میری ماں کا تجربہ سب کام میرے آ گیا

دنیوی آ سائشوں کا راز میں نے پا لیا

٭٭  اس بات کا جواب بھی تقریباً ابھی ابھی دیا ہے تمہیں کہ یہ محض ذاتی دکھوں کا بیان نہیں ہے۔  اس میں ہمارے پورے معاشرے کی عکاسی ہے۔  مگر وقت کے ساتھ ساتھ روّیے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔  معاشرہ بھی وقت کے ساتھ ہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ سمجھوتا کرتا رہتا ہے۔  میری ماں کے زمانے میں روّیے اور تھے میرے وقت میں اور اور میری بیٹی کے وقت میں کچھ اور۔  ایک کریڈٹ خود اپنے آپ کو بھی اور دوسری شاعرات جنہوں نے عورت کے جذبات کا اظہار اپنی شاعری کے ذریعے کیا ہے وہ ایک بہت بڑی خدمت ہے۔ تمام کیفیات جو زندگی کے مختلف ادوار میں اس پر گزرتی رہی ہیں ان کی عکاسی کرنا معاشرے کی خدمت نہیں تو اور کیا ہے۔  شاعری کوئی جادو تو نہیں ہے کہ فوری طور پر دوسرے کو بدل ڈالے۔  یہ آہستہ آہستہ ذہنوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔  میں اسی کو بہت سمجھتی ہوں۔

٭  کچھ گھنے پیڑوں کا سائے میں اگے پودے ہیں ہم

اپنے بڑھنے کی تمنا ایک دھو کہ ایک سراب

مجھے تنہا ئیوں کی دھوپ لا دو

کسی کے سائے میں مرجھا گئی ہوں

آپ کے بچے بھی ایک معتبر استاد، ایک عظیم تخلیق کار کے زیرِ سایہ کیا محسوس کرتے ہیں؟

٭٭  میں خود ایک ایسے والد کی بیٹی ہوں جو بہت بڑے عالم، نقاد، شاعر، ڈرامہ نویس، ناول نویس تھے۔  انہوں نے تقریباً ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی اور بہت کامیاب رہے۔  مجھے ان پر فخر ہے۔  اسی طرح میرے بچے بھی مجھے تحسین کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔  ہاں یہ ضرور ہے کہ ہر آدمی چاہتا ہے کہ اس کا اپنا تشخص ہو۔  سو جہاں تک میرے بچوں کا تعلق ہے انہوں نے اپنے اپنے میدان میں بے انتہا کامیابیاں حاصل کی ہیں۔  (ماشاء اللہ) بڑا بیٹا وقار حبیب بینک میں اعلیٰ عہدے پر ہے۔  دوسرا جہاں زیب بحریہ یونیورسٹی میں الیکٹریکل میں اپنے شعبہ کا انچارج (Head of the Deptt.) ہے۔  بیٹی کراچی میں بیاہی ہوئی ہے اور برٹش کونسل میں بہت اچھا جاب کر رہی ہے۔  اس کا نام ملاحت ہے۔  سب بہت مطمئن زندگی گزار رہے ہیں۔ اللہ نظرِ بد سے بچائے۔

٭  قفس میں مجھ سے رو داد چمن کہتے نہ ڈر ہمدم

گری تھی کل جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو

لیکن اب حالات ایسے ہو چکے ہیں۔

جب صبح ہوئی دیکھا تو ہر گھر تھا سلامت

اک میرا ہی گھر تھا جہاں شب خون پڑا تھا

کہیں ایسا تو نہیں کہ یہی تجربہ اور مشاہدہ ہر شخص کا ہو؟

٭٭  یہ آپ کا اپنا تاثر ہے۔  شعر کا اس طرح سے Analysis کرنا ایسے ہی ہے کہ جیسے پھول کی پتی پتی توڑ کر دیکھا جائے۔  بیج کہاں ہیں۔

٭  نسائی شاعری میں گھر کا تصور، پناہ گاہ کا بھی ہے اور شکستگی کا بھی۔ تذبذب کی بنیادوں پر شک و شبہ کی دیواریں اور خوف و تشکیک کا سائبان پڑا ہو، آپ کی شاعری میں بھی گھر کا استعارہ مختلف معنویت لیے ابھرتا ہے اور جہاں بیانہ انداز ہے وہاں بھی گھر مختلف کیفیات اور روّ یوں سے سجا ہے۔

؎ میں جس میں رہ کر ایک مسلسل سفر میں ہوں

اک واہمہ سا ہے کہ وہی میرا گھر نہ ہو

؎ میرا گھر بھر میرے بچوں کی ہنسی سے گونجے

کبھی فرصت ہو میسر تو اتاروں میں نظر

؎ برسوں سے جس مکاں میں میری بود و باش ہے

اب کیا یہ لازمی ہے وہی میرا گھر بھی ہو

؎ ملی تھیں پھر بھی وہ دیواریں اجنبی بن کر

اگر چہ شام سے پہلے ہی گھر گئے تھے ہم

؎ کس قدر سکھ ’’ اب ‘‘ مجھے گھر اور گھر داری میں ہے

اور تحفظ بھی بہت اس چار دیواری میں ہے

دو حرفی لفظ ’’اب‘‘ مفاہمت، مصالحت، ایثار و قربانی، نفی ذات کی طویل جد و جہد کہتا نظر آتا ہے۔ کیا اس کے بغیر عورت، ہا ری ہو ئی عورت، قابلِ عزت مقام نہیں بنا سکتی۔  پھر عورت ’’ہا رے بھی تو بازی مات نہیں ‘‘ ہی کو اپنی معراج سمجھتی ہے؟

٭٭  ہر انسان کی طرح عورت بھی جہدِ للبقا کی جنگ لڑتی ہے۔  اور اس میں دو چار بہت سخت مقام آتے ہیں۔  اسے ان سے بھی نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔

٭  آپ کہتی ہیں

؎ جس سے مل سکتا ہے مظلوم کو انصاف یہاں

اس گوا ہی میں بھی تاخیر کیے جا تے ہیں

پر وین شاکر نے کہا ہے

؎ بیان دے بھی گئی میری پھٹی ہو ئی ردا مگر

فیصلہ رگ گیا ہے ایک اور گواہ کے لیے

اس معاشرے میں انصاف کی صورت احوال ہمیشہ سے ایسے رہی ہے۔ کیا بہتری کی کو ئی امید کوئی توقع؟

٭٭  مایوسی کفر ہے۔  ہمیشہ بہتری کی اُمید رکھنی چاہیے۔  مگر انصاف بھی کڑی جد و جہد سے حاصل ہوتا ہے۔  مجھے تو حالات کے اچھے ہونے کا یقین ہے اور دنیا تو اُمید پر قائم ہے۔

٭  آپ کہتی ہیں:

؎ خود رات گئے آ یا، جھنجھلا کے بہت بولا

کیا سکھ ہے مجھے گھر میں ہر روز کا مرنا ہے

بننا سنورنا عورت کا فطری حق ہے اور التفات کی ایک نگاہ اس کی آرزو …دو میٹھے بول اس کی خواہش۔ مرد کسب معاش کی مصروفیت و فطری بے نیازی یا کسی شعوری کوشش کے تحت اس سے گریز کرتا رہا ہے کیا یہ عمل تغافل مجرمانہ کی ذیل میں نہیں آتا؟

؎ ڈنڈیاں نئی پہنی چو ڑا بھی چڑھا یا تھا

وہ گھر ہی نہیں آ یا تقدیر کا کرنا ہے

عورت کے حسن کی تعریف میں شاعروں کے دیوان بھرے پڑے ہیں۔ دعوے سے نہیں کہا جا سکتا کہ سبھی شاعروں نے اپنی نصف بہتر کے لیے یہ اشعار کہے ہوں گے یا کہہ کہ سنائے ہوں گے۔

سوال یہ ہے کہ عورت کے حسین و دلکش سراپے پر سیکڑوں اشعار مل جا تے ہیں لیکن اس کی ذہانت، اس کے شعور و ادراک اس کی عقل و دانش اور قوتِ فیصلہ کا کہیں ذکر نہیں ہاں اس کے چلتر پن اور چالاکی کا بیان کر جا تے ہیں؟

٭٭  اس پوری غزل کے اشعار گاؤں کی عورت کے حوالے سے لکھے گئے ہیں۔ یہ میرا ذاتی تجربہ نہیں ہے۔  اس میں آپ کو پنجاب کی دیہاتی عورت نظر آئے گی۔  یوں بھی یہ میری نوجوانی کا شعر ہے۔  اب اس پر گفتگو کرنا مجھے کچھ بھلا معلوم نہیں ہو رہا۔  اس سوال کے دو سرے حصے میں آپ نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ عورت کے حسن و جمال پر شاعروں کی نظر پڑتی ہے مگر مرد شعرا اسی کے ذہنی خدوخال کو نظر انداز کرتے ہیں۔  سو یہ کام خود لکھنے والیوں کو کرنا پڑ رہا ہے اور وہ بخوبی کر رہی ہیں۔  عورتوں کے ایسے اشعار سے ان کے بھی دیوان بھرے پڑے ہیں جس میں وہ عورت کے ذہن کی اہمیت کو واضح کر رہی ہیں۔  در اصل قصّہ یہ ہے کہ شروع سے گھر میں ایک لڑکی کی تربیت اس طرح سے ہوتی ہے کہ وہ جسمانی خوبصورتی کو پہلی اور آخری ترجیح سمجھنا شروع کر دیتی ہے۔  رنگ گورا کرنے اور اس قسم کی دوسری تراکیب پر بڑا زور دیا جاتا ہے۔  مگر میں یہ بتا دوں کہ اب اس صورت حال میں بھی تبدیلی آ رہی ہے۔  لڑکیاں اپنے دماغ یا ذہن کے زور پر زندگی کے ہر شعبے میں آگے آ رہی ہیں اور لڑکوں کے مقابلے میں کسی طرح سے کم نہیں رہیں۔  چنانچہ اب معاشرے نے بھی اس پر توجہ دینا شروع کر دی ہے کہ محض جسمانی خوبصورتی نہیں عورت کا ذہن بھی کام کی چیز ہے۔  مرد شعرا کو بھی کافی دفعہ یہ بات سننا پڑتی ہے۔

٭ زہرا نگاہ کی شاعری پر فیض کا پر تو دیکھا جاتا ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آپ منیر نیازی سے بہت متاثر رہی ہیں۔ کئی تخلیقات پر لفظی و معنوی ہر دو اعتبار سے ان کے اثرات نظر آ تے ہیں۔ آپ وضاحت کر یں گی۔

٭٭  میں خوش نصیب ہوں اگر میری شاعری منیر نیازی سے متاثر نظر آتی ہے۔  مجھ پر بہت سے اساتذہ کا بھی بہت اثر ہے۔  یہ کوئی بڑی بات نہیں۔  انوکھی بات نہیں۔  کون ہے جو اچھے شعرا سے متاثر نہیں ہوتا۔

٭ صد یوں سے جی رہی ہوں میں، صد یوں سے مر رہی ہوں میں

آنکھوں میں گو ہے روشنی، سو کھ چکی مگر زباں

غم، دکھ، محرومی، مایوسی، اداسی تنہائی، لا حا صلی، جذباتی تموج، نفیِ ذات، خود ترحمی، خود تر سی و خود فریبی، کیا عورت ان ہی کے حصار میں زند گی تمام کر دیتی ہے؟

٭٭  میں نے اس کا جواب غالباً ایک سوال میں دے دیا ہے۔  یقیناً کسی حد تک ایسا ہے۔  لیکن شاعری صرف ذات کا مرثیہ نہیں اس میں اور بھی بہت کچھ ہے۔  آپ نے خود بھی ایسا محسوس کیا ہو گا۔  اس حصار کے حوالے سے ایک نظم ہے۔  میری ’’موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلانے والی‘‘ وہ یہاں کوٹ کرنا چاہتی ہوں۔

’’اس تماشا گاہ کے

خوف کے حصار میں

دیکھنا بھی جرم تھا

سوچنا بھی جرم تھا

چیخنا بھی جرم تھا۔

چھپ کے ناظرین سے

چھپ کے سامعین سے

چھپ کے آسمان سے

چھپ کے اس زمین سے

سوچتی بھی تھی مگر

دیکھتی بھی تھی مگر

چیختی بھی تھی مگر

وہ کہ جس کی زندگی

گول گول گھومتے

دائروں میں کٹ گئی

طاہرہ، احساس تو بنیاد ہے کسی بھی مشن کو پورا کرنے کے لیے عملی زندگی میں بہت سے دوسرے ادارے اس میں آ جاتے ہیں کہ جن کے ذمے یہ کام ہے کہ وہ اس کا مداوا کریں۔  ہم تخلیق کار تو وہ ڈاکٹر ہیں کہ جو صرف تشخیص کر سکتے ہیں کہ معاشرہ کو کونسا مرض لاحق ہے۔  اس کا علاج کرنا دوسرے اداروں کا کام ہے۔  ہر شاعر علامہ اقبال کی طرح جینئس تو نہیں ہوتا کہ وہ ان کی طرح پہلے یہ بتائے کہ قوم کو کیا مرض لاحق ہے اور پھر اس کا علاج بھی بتائے۔  وہ بہت بڑے آدمی تھے۔  ہم لوگ صرف اتنا ہی کر سکتے ہیں کہ لوگوں کو احساس دلائیں کہ دیکھیں یہ ہو رہا ہے۔  ویسے کئی شاعروں اور ادیبوں نے عملی طور پر بہت سی جد و جہد کی ہے۔  سختیاں برداشت کی ہیں۔  مگر اس کے لیے کسی کو مجبور نہیں کیا جا سکتا۔

٭ ہندی رس نے آپ کی غزلوں کو گیتوں کے قریب کرتے ہوئے مو سیقیت، نغمگی دورے کی وہ فضا عطا کی ہے جو کرخت اور درشت ما حول میں نفسیاتی و معاشی کے اعتبارسے جکڑے فرد کے اعصاب کے لیے باعث تسکین ہے۔ کیا یہ شاعری کی ایک اہم حقیقت نہیں ہے۔

٭٭  اگر ایسا ہے تو مجھے اپنی شاعری پر فخر کرنا چاہیے۔  شرط یہ ہے ’’کہ اگر ایسا ہے ‘‘ میں کسی زمانے میں مشاعروں میں ترنم سے پڑھا کرتی تھی اور شعر کہتے ہوئے بھی ساتھ ساتھ گنگناتی بھی تھی۔  در اصل موسیقی کا شوق مجھے والد سے ورثے میں ملا۔  ان کے ہاں بھی آپ کو یہ نغمگی ملے گی۔  آپ نے غور کیا ہو گا مجھے ذاتی طور پر غزل کی بحر بھی وہ پسند ہے کہ جس میں ترنم ہو۔

٭  ؎ اک عمر تک جو زیست کا حاصل بنی رہی

پا مال ہو رہی ہیں وہ اقدار کیا کریں

اس سوال کا جواب تو ہم، آپ جیسے مفکروں، دانشوروں اور اساتذہ سے چا ہتے ہیں۔ کو ئی حل، کو ئی تجویز، کو ئی آرزو، کو ئی خواب کچھ تو ہمیں دکھائیے۔

٭٭  ہم شاعر بس خواب ہی دیکھتے ہیں۔  آپ کو بھی وہی دکھاتے ہیں۔  خوشیوں کے خواب مگر اس کی تعبیر ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے۔  میں نے ایک نظم میں لکھا ہے کہ

کسی شاعر سے کبھی خواب نہ چھینو اس کے

خواب چھینو گے تو بے موت ہی مر جائے گا

ایک اور نظم ’’سود و زیاں ‘‘ میں کہا ہے کہ

’’اپنے خوابوں کو جو تعبیر نہیں دے پاتا‘‘

جو بدل سکتا نہیں ان کو حقیقت میں کبھی

وہ یہاں راندۂ درگاہ ٹھہر جاتا ہے

آخر میں لکھا ہے کہ

’’ایسے افراد کہ جو

خواب کی تعبیر پہ ہوتے ہیں مصر

کاش بس اتنی حقیقت ہی سے واقف ہو جائیں

کم نہیں خواب کی تعبیر سے کچھ قیمت خواب، لذتِ خواب

ایک غزل سے بھی کچھ اشعار کوٹ کرتی ہوں

وہ بات ہو ہر ایک کو حیرت کمال ہو

حاصل کہیں سے مجھ کو مسرت کمال ہو

کاغذ پہ حرف جاگیں لکھوں ایسے شعر میں

مجھ کو ہر اِک بیان پہ قدرت کمال ہو

حسرت ہے میں غلط کو غلط برملا کہوں

مجھ میں بھی صاف گوئی کی عادت کمال ہو

پھر کیوں نہ اس کی جیت کے لیے جائے کوئی اور

جب ہم کو ہار جانے کی عجلت کمال ہو

خوشیوں کے دیکھتی ہوں جو میں جاگتے میں خواب

دل چاہتا ہے ان میں حقیقت کمال ہو

مگر حرفِ آخر ہمیں منیر نیازی کے ہاں نظر آتا ہے:

’’اے طائرِ مسرت

آ بیٹھ میرے گھر پر

خوش ہو کے اس کو دیکھے غمگین شہر سارا

٭ کشتیِ دل کا نذرِ سیلاب ہو نا یا کشتیِ جاں کا دریا برو ہو نا، یہی زیست کا مقدر ٹھہرا۔  کامیابی کے لیے وفا اور بے وفائی سبھی راستے اپنائے گئے لیکن نتیجہ یہی کہ تمام تر مسافت رائگاں تھی۔

٭٭  اس کا جواب پہلے بھی دیا ہے۔  یہاں عورت مرد کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔  ہر حساس انسان کے ہاں احساس رائگانی موجود ہوتا ہے۔

٭ شبنم عابد علی سے شبنم شکیل تک کا سفر۔ ایک عظیم شاعر، ادیب، نقاد اور دانشور باپ کی بیٹی اور ایک بڑے عہدیدار کی بیوی۔ اپنی ذات میں مکمل شبنم شکیل کبھی ان چھتناور درختوں کی مو جو دگی میں یہ محسوس کرتی ہیں کہ اگر وہ عام سے گھر میں پیدا ہو تی۔ عام سے گھر میں بیا ہی جاتی تو اس شبنم اور آج کی شبنم میں کتنا فرق ہو تا؟ مثبت یا منفی؟

٭٭  میں خوش ہوں اللہ کی ناشکری نہیں کروں گی۔  حقیقت ہے کہ زندگی بہت مشکل ہوتی اگر حالات سازگار نہ ہوتے۔

٭ عابد علی عابد کی شاعری بہت سہل اور تاثیر سے پر ہے۔

وقتِ رخصت وہ چپ رہے عابد

آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل

جبکہ نثری اسلوب بہت گھمبیر، تعقیدی اسلوب کی سر حد چھوتا ہوا محسوس ہوتا ہے آپ اپنے والد کی شاعری کی زیادہ دلدادہ رہی ہیں یا نثر کی؟

٭٭  میں ان کی نثر کی بہت معترف ہوں وہ یقیناً بہت بڑے شاعر تھے مگر جب آپ ان کی نثری تخلیقات پر نظر ڈالیں بے ساختہ داد دینے کو جی چاہتا ہے۔  شعرِ اقبال۔  تلمیحاتِ اقبال۔  ’’اسلوب، البیان، انتقاد ادبیات اور اس کے علاوہ دس ایسی دوسری کتابیں۔  تو انسان کی عقل حیران رہ جاتی ہے کہ اتنا کام ایک دل کا مریض کیسے کر سکتا ہے۔  باقی ان کی نثر کا سنجیدہ اور گھمبیر ہونا۔  ان موضوعات کا فطری تقاضا تھا۔

٭ اظہار کے لیے غزل کا انتخاب آپ کی شخصیت و مزاج کا حصہ تھا یا صرف روایت یہی رہی ہے اس لیے آپ نے غزل منتخب کی؟

٭٭  غزل میرے مزاج کا حصّہ ہے۔

٭ ناصر کا مجموعہ کلام پہلے منظر عام پر آیا اور حفیظ ہوشیار پو ری کا بعد میں۔ ضیا جالندھری کے خیال میں اس سے حفیظ کو کافی نقصان پہنچا اور اولیت کا وہ سہرا، جو حفیظ کے سر سجنا تھا کسی اور کے ما تھے پر سج گیا۔ ایسے ہی زہرا نگاہ اور پر وین شاکر کے شعری مجموعوں کے منظر عام پر آنے کے بعد ’’شب زاد‘‘ سامنے آتا ہے۔  کیا کبھی آپ کو ایسا محسوس ہوا کہ آپ نے کتاب کی اشاعت میں تاخیر کر کے خود سے انصاف نہیں کیا۔

دو سرا سوال یہ ہے کہتا خیر کا سبب حفیظ والی بے داغ تکمیلیت کی خواہش تھی یا کو ئی اور وجہ؟

٭٭  یقیناً مجھے نقصان ہوا۔  جب پروین کا پہلا مجموعہ چھپا میں اس سے دس برس پہلے سے شعر کہہ رہی تھی مگر شادی کے بعد مجھے فیصلہ کرنا تھا کہ مجھے کس چیز کو فوقیت دینی ہے۔ ایک طرف میرا گھر تھا دوسری جانب شاعری میں نے سودا کیا اور گھرداری کی طرف متوجہ ہوئی۔  میرے بہت سے ایسے شعر ہیں کہ جن میں وہی بات کی ہے جو پروین نے آٹھ دس برس بعد کی۔  ہاں وہ مگر بہت عظیم شاعرہ تھی۔  ایک اس کے پاس Talent بھی بہت تھا اور اس کی ترجیحات بھی مجھ سے الگ تھیں۔

٭  آپ کے عہد کی شا عرات فہمیدہ کشور، شا ہیں مفتی، پر وین کو ہاں عشق کے تجربے کا برملا اظہار ہے۔ آپ کے ہاں کچھ کہی ان کہی کیفیت ملتی ہے، اسے آپ خود پر پا بندی یا روایت کی پا سداری، کیا کہیں گی؟

٭٭  سب کا انداز اپنا اپنا ہوتا ہے اور جیسے میں نے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ مجھے کیسی زندگی بسر کرنی ہے۔  اسی طرح سے شاعری میں بھی میرا اپنا جداگانہ انداز ہے۔  میں طبعاً بھی ایک دھیمے مزاج کی عورت ہوں اور ذرا سنبھل کر چلنے والی۔  اگر یہ بات شاعری میں بھی در آئی ہے تو تعجب کیا؟شاعر تو پبلک پراپرٹی ہوتا ہے۔  شعر بھی سب کی مشترکہ میراث ہے۔

٭  شعر ساری انسانیت کی میراث ہے۔  کیا آپ اس رائے سے اتفاق کرتی ہیں؟ آپ کے اس مشترکہ ور ثے سے آنی والی نسل شاعر /شاعرات کو آپ کتنا فیض یاب ہو تے دیکھ رہی ہیں۔  اس سوال کو یوں بھی کیا جا سکتا ہے کہ آپ کو اپنا پر تو کسی شاعر/شاعرہ میں دکھائی دیتا ہے؟

٭٭  بہت سی شاعرات اور شعرا میں تھوڑا بہت نظر آتا ہے خود مجھ پر بھی اپنے سینئرز کا اثر ہے۔

٭ کسی شاعر سے آپ توقعات رکھتی ہیں کہ وہ اردو شاعری کے لیے بہت قد آور ثابت ہو گا؟

٭٭  اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا میری کیا مجال کہ ایسے فیصلے کر سکوں۔  بس ’’ جس دیے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا‘‘

٭ آج کا شاعر سہل پسند ہے۔  نثری نظم کے جواز میں آپ کی رائے یہی ہے یا آپ اس بات سے متفق ہیں کہ شعری اظہار میں نثری نظم زیادہ کامیاب ہے ورنہ شاعر عروض و ردیف، قافیے کی تلاش میں جذبے کی شدت دفن کر دیتا ہے۔ کیا نثری نظم کی مو جو دگی ہمارے گراں بہا شعری سرمائے کے لیے ایک منفی تجربے کی حیثیت رکھتی ہے یا محض ایک تجربہ؟

٭٭  میرے خیال میں اگر شاعر بنیادی طور پر اچھا ہے تو وہ کسی صنفِ سخن میں بھی طبع آزمائی کرنے میں کامیاب ہو گا۔  بُرے شاعر کی ہر چیز خراب ہو گی۔  میں بذاتِ خود نثری شاعری نہیں کرتی نہ کبھی کروں گی۔  کیونکہ شاعری شاعری ہے اور نثر نثر۔

٭ آپ کا پہلا افسانہ کون سا ہے؟ادب کے لیے سازگار تخلیقی فضا…؟

جواب: میرا پہلا افسانہ ’’ایک سیارے کے لوگ ‘‘ تھا۔  دوسرے حصے کے جواب میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ یہ کوئی فارمولا نہیں ہے کہ بُرے یا جبر کے دور میں اچھا ا ادب تخلیق ہوتا ہے، فارغ البالی میں ایسا ممکن نہیں۔  دیکھا جائے تو جن افسانوں کا آپ نے ذکر کیا وہ ہمارے ہم عصروں ہی کے تصنیف کردہ ہیں۔  اس کے ساتھ ساتھ منٹو، بیدی، عصمت چغتائی۔  یہ سب بھی تقریباً ہمارے ہم عصر کہلا سکتے ہیں۔  تقسیم ہند کے فوری بعد جو افسانے معرضِ وجود میں آئے وہ گو کہ فوری ردِ عمل کے نتیجے میں آئے تھے تو بھی بہت اعلیٰ معیار کے تھے۔  خوشحالی اور بدحالی یا آزادی اور جبر کے زمانے میں دونوں طرح کی خامیاں اور اچھائیاں رکھتے ہیں۔  آپ نے وہ مصرع تو سنا ہو گا کہ

چناں قحط سالی شُد اندر دمشق

کہ یاراں فراموش کردند عشق

تو بقول نظیر اکبر آبادی کبھی کبھی تو ایسے ہوتا ہے کہ بابا ہمیں تو سب نظر آتی ہیں روٹیاں ‘‘

٭ کوئی اہم واقعہ جو بعد ازاں کسی تخلیقی ہیئت میں ڈھل کر لا زوال شہرت کا سبب بنا ہو؟

٭٭  ایسا کوئی واقعہ نہیں ہے۔  مجھے لازوال شہرت کبھی ملی ہی نہیں۔  دوسری شہرت جو اچانک مل جائے وہ اچانک چھن بھی سکتی ہے۔  بہرحال میری تمام تخلیقات میرے تجربات و مشاہدات کا ثمر ہیں وہ خواہ شہرت کا باعث بنیں یا نہ بنیں۔

٭ کیا پاکستانی ادب، نظم غزل، افسانہ، ناول اس عہد نا پر ساں میں رو نما ہونے والے واقعات و سانحات کو خود میں جذب کر رہا ہے یا ابھی اسے لکھاریوں کے خون میں سرایت کرنے میں سالوں لگیں گے پھر کہیں جا کر تخلیق جنم لے گی؟

٭٭  کبھی کبھی کسی واقعے کو ذہنی تجربہ بننے میں سالوں لگ جاتے ہیں کبھی فوری ردِ عمل بھی ہوتا ہے ایک سوال کے جواب میں یہ بات پہلے کر چکی ہوں۔  جس قسم کا انتشار ہے اور آج کل ہے اس پر بہت سے لوگ لکھ رہے ہیں اور لکھتے رہیں گے۔  دوسری جنگ عظیم کے حوالے سے آج بھی بہت سا فکشن لکھا جا رہا ہے۔  اس کے برعکس ابھی ابھی میرے پاس دنیا زاد کا جو کتابی سلسلہ ہے اس کے چار شمارے آئے ہیں اسے آصف فرخی ایڈٹ کر رہے ہیں ان تمام شماروں میں تخلیقات ہیں خواہ فکشن خواہ نظم یا مضامین تمام میں آج کے ہولناک دور کی عکاسی ہو رہی ہے۔  سوکوئی فارمولا طے نہیں کیا جا سکتا۔

٭ کہا جاتا ہے کہ معاشرے میں عورت کی قدر و قیمت اس کے سراپا اور مرد کی اس کی اقتصادیات سے مشروط ہے آپ اس سے اتفاق کرتی ہیں؟

٭٭  یہ کوئی ضروری نہیں میرے خیال میں زندگی میں قدر و قیمت کے حوالے سے دوسرے بہت سے لوازمات بھی ہیں۔  اور اب تو یہ بات خاص طور پر عورت کے معاملے میں خاصی Outdated معلوم ہوتی ہے۔  ویسے مرد بھی خواہ اقتصادی طور پر کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو ضروری نہیں کہ بہت خوش و خرم زندگی گزار رہا ہو۔  عورت مرد کے درمیان بہت سی Under currentہوتی ہیں۔  جو صرف وہ لوگ جانتے ہیں کہ جن کا آپس میں واسطہ ہوتا ہے۔

٭ عابد علی عابد صاحب کی تنقید جو موضوعاتی و اسلو بیاتی دونوں سمتوں مین رواں دواں رہی۔  عروضی جہات پر ان کی رہنمائی بھی شعرا کے لیے باعث تسکین رہی۔ آپ ان کی تنقید کے کس رخ کو اردو ادب کے لیے اور خاص طور پر اپنی ذات کے لیے اہم جانتی ہیں؟

٭٭  میں نے عابد صاحب کی تنقید کو کلی طور پر ایک پیکج کے طور پر پڑھا اس کے حصے نہیں کیے۔  اسی طرح ان کی تنقید کو پرکھا جا سکتا ہے۔  ویسے میرا کیا ہے۔  میں تو ان کی شخصیت سے بھی بہت متاثر ہوں۔

٭  کیا وجہ ہے کہ آج کے اردو ادب کے اساتذہ میں سید عابد علی عابد، صوفی تبسم، ڈاکٹر تاثیر، فیض احمد فیض اور وزیر الحسن عابدی کے سے نام نظر نہیں آتے؟

٭٭  ایسابھی نہیں ہے کہ سمجھنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں۔  وہ ان سب قد آور شخصیات سے فیض اٹھاتے ہیں۔  اس میں آپ نے پطرس بخاری کا نام نہیں لیا۔  جو نابغہ روز گار تھے۔  ان سب کی کتابیں آج بھی چھپ رہی ہیں اور پڑھی جا رہی ہیں۔  اس وقت بھی بہت سے شاعر، نقاد، دانش ور ہمارے بیچ میں موجود ہیں ان کی قدر و قیمت لوگ جانتے ہیں۔

٭ آپ کہتی ہیں کہ یہ آپ کے اپنے مشاہدات ہیں جنھیں افسانے کی صورت دی گئی ہے، تارڑ کا ناول ’’راکھ ‘‘ اور ’’ قربت مرگ میں محبت‘‘ پڑھتے ہوئے اکثر کردار اپنی اصل صورت میں دکھائی دینے لگتے ہیں۔  آپ کے افسانوں میں بھی ایساہی ہے کہ ذہن تصور میں ان کرداروں کی حقیقی زند گی کا عکس دیکھ لیتا ہے۔  ’’دو گھنٹی‘‘ ساری زندگی کا بنا ہوا امیج کیسے دو گھنٹوں میں ریزہ ریزہ ہو کر سامنے آ جاتا ہے؟

دوسری بات یہ کہ شادی کا ادارہ تحفظ کی ضمانت لیکن ہر ایک کے لیے نہیں۔ کیا زرینہ بیگم جس نے ایک نا پسندیدہ زند گی پسندیدہ زندگی کی طرح گزاری۔  اپنی بچیوں کو وہ اس سے محفوظ رکھنا چاہتی تھی۔ لیکن انھی کے ہو نٹوں سے نکلا ہوا خود سے مکالمہ ’’ لعنت ہے ایسے بسنے پر ہر روز ایک نیا مطالبہ ‘‘ بیاہتا عورت کی زندگی کے سارے دکھ نہیں کہہ جاتا؟

٭٭  کبھی نہ کبھی سچ بات منہ سے نکل ہی جاتی ہے۔  زرینہ بیگم کی ساری زندگی جھوٹ کے سہارے گزری ہے۔  ایسا جھوٹ جسے وہ بالکل سچ گردانتی ہے۔  اس کے سچ ہمارے بنائے ہوئے Nobsاور رسم و رواج سے الگ ہیں۔  زرینہ بیگم کے نکاح کی بنیاد بھی جھوٹ پر ہے۔  اپنی بیٹیوں کو اپنے راستے پر چلنے سے روکتی ہے۔  اس کے لیے بہت سے پاپڑ بیلتی ہے، مگر معاشرے میں طوائف کی بیٹیوں کو بھی پیسہ کمانے کی مشین سمجھ کر اس سے کام نکلوائے جاتے ہیں۔  یوں بھی عورت خواہ کسی طبقے سے تعلق رکھتی ہو۔  کسی مذہب سے، کسی عمر سے اس کا استحصال کسی نہ کسی سطح پر ہوتا رہتا ہے۔  زرینہ بیگم بے شک ایک ایسے پیشے سے منسلک رہی ہے کہ جو ہمارے ہاں بُری نگاہ سے دیکھا جاتا ہے مگر وہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی دوسروں کے سامنے دنیاداری اور مصلحت کی چادر اوڑھے رہنا چاہتی ہے۔

٭ آپ کے افسانوں میں لڑکیوں کے دکھ سکھ سے زیادہ عورتوں کے جذباتی، نفسیاتی، اخلاقی اور معاشی مسائل کا بیان ہے یہ مسائل مرد کی طرف سے پیدا کیے گئے ہیں یا شوہر اپنی ضرو رتوں کی تکمیل کے لیے اسے دلدل میں دھکیلتے ہیں۔ دو سری طرف عورت ہی عورت کی ویری ہے، اس مسئلے پر آپ کھل کر لکھتی ہیں حسد اور رقابت کا مادہ عورت میں زیادہ ہوتا ہے۔ بلکہ آپ کے کردار کا تجربہ بتاتا ہے کہ پنجاب کی عورت، سندھ، بلو چستان کی عورت کے مقابلے میں زیادہ حاسد ہے اس کی وجہ کیا ہے؟کیا پنجاب کی عورت اتنی طاقت ور ہے کہ مصالحت و مفاہمت کی بجائے احتجاج اور مزاحمت کا روّیہ اپناتی ہے جبکہ سندھ و بلو چتان کی عورت صبر شکر کر کے مرد کی طرف سے کی گئی حق تلفی برداشت کرتی ہے؟

٭٭  میں نے محسوس کیا ہے کہ جوان لڑکی اپنے جسم سے سوچتی ہے۔  ذرا زیادہ عمر ہوئی تو دل سے اور آخر میں اپنے دماغ سے سوچنا شروع کرتی ہے۔  میری کہانیاں اکثر جوانی کے بعد شروع ہوتی ہیں۔  یوں اپنے ایک افسانے ’’صلیب‘‘ میں میں نے ایک نوجوان لڑکی کے احساسات کو بھی بیان کیا ہے۔  مجھے وہ افسانہ سب سے زیادہ پسند ہے۔  اس کے علاوہ ایک افسانہ ’’سمجھوتا‘‘ ہے وہ سچی کہانی ہے۔  ہاں جہاں تک حسدکا تعلق ہے۔  ہوتا تو یہ جذبہ ہر انسان کے ساتھ ہے اور عورتوں میں خاص طور پر کیوں کہ وہ کھل کر کسی چیز کا اظہار نہیں کر پاتیں۔ میں بلوچستان، سندھ، سرحد، بنگال اور پنجاب ہر جگہ رہ چکی ہوں۔  جس دور میں ان صوبوں میں رہی ہوں۔  عورت کو بہت دبا کر رکھا جاتا تھا۔  اس کے ساتھ وہاں کے رسم و رواج تمام کے تمام مرد کے حق میں جاتے ہیں۔  عورت کے ساتھ کیسا بھی ظلم ہو وہ خاموش رہتی ہے اور ہر قسم کے حالات سے سمجھوتا کر لیتی ہے۔  اب زرینہ بیگم کا تجربہ یہ کہتا ہے کہ پنجاب کی عورت میں برداشت کم ہے، کیونکہ اس کے مطابق اس کے ساتھ جو بے انصافی ہوئی اس کی جو ہتک ہوئی وہ ایک پنجابی عورت نے کی۔  اس کے مقابلے میں بلوچستان میں سردار کی بیگمات نے اس کا کھلے دل سے استقبال کیا۔  اب اس سے زیادہ تشریح ممکن نہیں افسانہ پڑھ کر ہر صوبے کی عورت کی ذہنی کیفیات سمجھ میں آ جاتی ہیں۔  ذہن ان کا کون بناتا ہے۔  کیسے بنتا ہے یہ ان کی تربیت پر منحصر ہے۔

٭ آپ کے افسانوں میں ’’خود مرکزیت‘‘ کی بجائے خود سے گریز زیادہ ہے۔  کہیں آپ کی ذات نظر بھی آتی ہے تو اس کا کردار ایک قصہ گو کی طرح ہے یا کہانی کو آگے بڑھانے میں مدد دینے کے لیے اس کی ضرورت محسوس کی گئی ہے جبکہ واحد متکلم میں لکھی گئی کہانیاں دیر پا اثر رکھتی ہیں۔ آخر آپ شاعری میں تیسری دنیا کی عورت کے جذباتی و نفسیاتی تجربات کو اپنی زبان عطا کرتی ہیں۔

٭٭  اس کا جواب نقاد دے سکتے ہیں میں یہ تمام باتیں شعوری طور پر نہیں لکھتی۔  میرے پاس اس کا جواب نہیں ہے۔  کیونکہ میں اپنے افسانوں کا Analysis بھی نہیں کرتی۔ میں سمجھتی ہوں کہ کسی بھی ادب پارے میں معروضیت ہونی چاہیے۔  بلکہ میرے افسانوں میں بھی کمی ہے کہ اس میں معروضیت کم ہے۔  اور ویسے بھی کیا یہ ضروری ہے کہ بڑی کہانی مرکزیت کی طرف راغب ہو مجھے یہ تو خیال بھی نہیں آتا کہ میں اس وقت کس طرح سے لکھ رہی ہوں۔  بس جیسے کہانی کہتی ہے ویسے چلنا پڑتا ہے۔

٭  ’’سائیں کا واں والے کا میلہ‘‘ شہر گجرات کے پس منظر میں لکھی گئی کہانی ہے۔ پھر آپ کا دلبر شہر شہر لاہور آپ کی کہانیوں میں اپنا آپ دکھاتا ہے۔

لاہور پیچھے رہ گیا ہم با وفا مگر

اس شہر بے مثال سے آگے نکل گئے

کیا آپ اس رائے سے اتفاق کرتی ہیں کہ اردو فکشن میں شہر، کردار کا روپ نہیں دھارتے، شہر کا تعارف سامنے نہیں آتا وہ کہانی دہلی کی بھی ہو سکتی ہے اور لاہور اور کراچی کی بھی۔

٭٭  خواہ کیسی کہانی میں شہر اپنی صورت میں نظر نہ آئے مگر میرے خیال میں کہانی پر علاقے کی چھاپ ہوتی ہے، ویسے شہر کا چہرہ مہرہ اور روح کو دکھانے کے لیے افسانے کا کینوس چھوٹا ہے ناول میں ممکن ہے۔  ویسے میرے ہاں تو کردار زبان بھی ایک خاص علاقے کی یا کسی خاص شہر کی بولتے ہیں۔

٭ شہروں کی شخصیت کے حوالے سے آپ نے کہا تھا اسلام آباد ایک ایسی جوان عورت کی مانند ہے جس کے پاس جسمانی خوبصورتی تو بہت ہے مگر اس کے ذہن کا خانہ خالی ہو۔ کیا ساٹھ سال بعد بھی آپ اس رائے پر قائم ہیں؟

٭٭  کسی حد تک ابھی تک قائم ہوں یہ شہر بسا نہیں بسایا گیا ہے۔  اس میں بہت بڑے بڑے لکھنے والے موجود رہے ہیں۔ مگر اسلام آباد کو Ownنہیں کیا۔  کیونکہ بنیادی طور پر ان کا تعلق اس شہر سے نہیں بس تلاش روزگار انہیں یہاں لے آیا۔  ان کی تحریروں میں آپ کو ان کے شہروں اور قصبوں کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔  ابھی تک اسلام آباد کی کلچرل روٹس نہیں بن سکیں اور یہ اتنی جلدی بن بھی نہیں سکتی۔  ویسے بھی ذرا عید کی چھٹیاں آئیں تو اس شہر کو دیکھا کریں، خالی ہو جاتا ہے۔  لوگوں کو ان کی جڑیں بلاتی ہیں۔  یہ بابوؤں کا شہر کہلاتا ہے یا سیاست دانوں کا۔  یہاں کی ترجیحات بالکل الگ ہیں ایک عام آدمی کا یہاں کوئی تشخص نہیں ہے۔  (اسلام آباد کے مقابلے میں راولپنڈی کا ایک تشخص ہے۔ ) یہاں کے ادبی، علمی، ثقافتی ادارے حکومت کے زیر اثر ہیں جو ان کی پالیسی وغیرہ پر اثر انداز ہوتی ہے۔  بات یہ ہے کہ مجھے بات کرتے ہوئے وہ شہر یاد آتے ہیں کہ جہاں کی تہذیب ہزاروں سال یا صدیوں پرانی ہے۔  صدیوں سے تہذیبی اور علمی مراکز کے طور پر مشہور ہیں یا تاریخی حوالے سے ان کی بہت اہمیت ہے اب اور کیا لکھوں۔  یہ میرے دل کی آواز تھی کہ جس طرح اسلام آباد کی جسمانی خوبصورتی دل پر اثر کرتی ہے ویسے اس کی ذہنی خوبصورتی نہیں کرتی۔  اب اگر مجھے تعصب کا شکار نہ خیال کرو تو کہوں کہ لاہور شہر کا محض ایک پورا چکر لگانے کے بعد آپ اپنے آپ کو زیادہ Educated خیال کرتے ہیں ایجوکیشن صرف ڈگری سے حاصل نہیں ہوتی اس کے اور بھی بہت سے Sourceہیں۔

٭ تارڑ نے ’’راکھ ‘‘ میں منٹو کے حوالے سے بات کہی تھی کہ وہ دو سروں سے کہانی سنتا اور یوں اسے ایک افسانے کا مواد حاصل ہو جاتا ہے۔ آپ کی شخصیت پر اعتماد اور بھروسا بہت سے افراد خصوصاً خواتین کو آپ سے دل کی بات کہنے پر مجبور کرتا ہے اور آپ اسے لفظوں میں ڈھال لیتی ہیں۔ ایک سیارے کے لوگ ہوں یا لال دیوی ایسی ہی سوانحی کہانیاں ہیں جن کا ملکی و غیر ملکی زبانوں میں تر جمہ ہوا۔ آپ کے پاس ایسی یادوں، باتوں کا ذخیرہ ہے لیکن افسانوں کا مجموعہ بہت مختصر…آپ کے افسانوں کی سب سے بڑی خصوصیت ریڈ ایبلٹی ہے۔ پھر آپ نے اس کی طرف سے بے اعتنائی کیوں بر تی۔ قاری آپ سے فکشن کی توقع بھی اتنی ہی رکھتا ہے جتنی شعر کی۔

٭٭  شعر تو جاگتے، سوتے، اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے کہا جا سکتا ہے۔  اب نثر کے لیے ٹک کے بیٹھنا پڑتا ہے۔  ڈیسک ویسک سے میں اور میرے جیسے بہت سے شاعر گھبراتے ہیں۔  افسانے کا پلاٹ کردار وغیرہ سب میرے ذہن میں موجود ہوتے ہیں مگر وہی ٹک کے نہ بیٹھنے کی عادت۔  سب کچھ چھین لیتی ہے، کیونکہ جب وہ سارا کچھ ذہن میں ہوتا ہے۔  بیٹھنے کو دل نہیں چاہتا وہ لمحہ گزر گیا تو سب کچھ گیا۔

٭  ’’تقریب کچھ تو ہو‘‘ کے بیشتر مضامین کتاب کی تقریب رو نمائی، تعزیتی تقریب یا برسی وغیرہ کے موقع پر لکھے گئے ہیں۔ مختصر بلکہ تشنگی کا احساس لیے یہ مضامین صاحب مضمون سے آپ کی محبت اور عقیدت کا احساس دلاتے ہیں اور ساتھ ہی اس امر کی نشاندہی بھی کرتے ہیں کہ صاحب قلم سے خاکہ نگاری کے ضمن میں بہت سی توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں۔

٭٭  کاش میں ان توقعات پر پورا اتر سکوں۔  در اصل میری گھریلو مصروفیات بھی کچھ زیادہ ہیں۔  میں بیماری بھی بہت کاٹ چکی ہوں۔  سو اب کیا کہوں۔

٭ آپ نے ’’تقریب کچھ تو ہو‘‘ میں چوا یس نابغۂ روزگار ہستیوں کا انتخاب کیا، باقی چھیاسٹھ منتظر ہیں ان میں سے منتخب شخصیات کے خاکے (تعارفی و تعزیتی مضامین ہیں )لکھ کر آپ اردو خاکہ نگاری کی تاریخ میں ایک اہم کتاب کا اضافہ کر یں گی۔ جو اد بی پس منظر، ادبی حلقہ اور تجربہ و مشاہدہ آپ کا ہے وہ بہت کم خاکہ نگاروں کو نصیب ہوا ہے؟

٭٭  اگر کبھی حالات نے اجازت دی، بیماری نے اجازت دی تو ضرور کروں گی اور یہ میری خوش قسمتی ہو گی کہ میں اپنے پسندیدہ لوگوں کے خاکے لکھ سکوں۔

٭ مطالعہ مطالعہ اور صرف مطالعہ ہمارے وہ ادیب و دانشور جو تمام زندگی یہی کہتے دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں۔ ذوق تعلیم، علم کی وسعت کے علاوہ کشادہ دلی و مثبت انداز فکر عطا کرتا ہے آج خود ادیب بھی صرف وہی رسالہ دیکھتا ہے جس میں اس کی کو ئی تخلیق شائع ہو ئی ہو اور پھر بند کر دیتا ہے۔  اساتذہ طالب علموں کو کس طرح مطالعہ کی طرف راغب کر یں گے جب کہ خود ان کی ترجیحات بدل چکی ہیں۔

٭٭  ہمیں صرف ادیبوں شاعروں پر تمام ذمہ داری نہیں ڈالنی چاہیے۔  آپ غور کیجئے تو ہمارا پورا معاشرتی ڈھانچہ تبدیل ہو رہا ہے۔  سارا کلچر تبدیل ہو رہا ہے۔  Globalisation کے نام پر کیا کچھ نہیں ہو رہا۔  مقامی چکر کو ختم کیا جا رہا ہے۔  بیرونی تمام اقدار پامال کی جا رہی ہیں۔  میڈیا نے بھی اس میں اچھا کردار ادا نہیں کیا۔  زبان کو خراب کرنے میں اور باہر کا کلچر Import کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔  کمرشل ازم نے ہر چیز میں پنجے گارڈ دیے ہیں۔  در اصل سرمایہ داری نظامGlobalisation کے پردے میں ہر جگہ اپنا چکر مسلط کرنا چاہ رہا ہے اس میں وہ کامیاب بھی ہو رہا ہے۔

٭ آپ کے ان مضامین میں جنھیں میں نے مختصر کہا اور تشنہ بھی۔ مو جو دہ ادبی صورت حال کا بھر پور تجزیہ بھی پیش کر تے ہیں۔ ادبی فضا genuine ادیب کے لیے ہر گز ساز گار نہیں۔ بیشتر ادبی سر گر میاں ادب کے فروغ میں مثبت کے بجائے منفی کردار ادا کر رہی ہیں۔ سنجیدہ علمی ادبی تحقیقی و تنقیدی کام ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ سطحیت اور کھو کھلا پن، شہرت اور ذاتی مفاد، ستائش باہمی کی الجھنوں کا وجود، خواہش پروری کی روایت یہ وہ بادِ سموم ہے جو ملک کے دیگر اداروں کی طرح ادب کے دائرے میں بھی اپنا زہر پھلا رہی ہے۔

عصر مو جود میں آپ جیسے ادیبوں شاعروں کی مو جو دگی غنیمت ہے اس کے بعد کیا صورت حال ہے۔ وہ ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا کی نو ید کیا ہو ئی؟

٭٭  یوں تو ادیبوں اور شاعروں کی ایک بھرمار سامنے آ رہی ہے۔  روز نت نئی کتابیں بھی چھپتی ہیں مگر ان میں کتنی کو ادب کے زمرے میں لایا جا سکتا ہے۔  بہرحال ایک Genuine ادیب اس صورتِ حال سے بیزار ہے وہ ان میں حصہ نہیں لیتا۔  چپ چاپ بیٹھ کر اپنا کام کرتا ہے۔  وہی ادیب ہیں کہ جن کے دم سے اُجالا ہے۔  ایسے لوگ ہمیشہ آتے رہیں گے۔  یہ زمانہ اسی طرح چلتا رہے گا۔  ایک شمع بجھانے والے اور ایک شمع جلانے والے دونوں موجود رہیں گے۔  خیر اور شر کی یہ جنگ جاری ہے اور ابد تک رہے گی۔

٭ اے حمید کے رومانوی افسانوں کے اثرات کے حوالے سے آپ لکھتی ہیں کہ میں نے ’’ منزل منزل‘‘ کی زاہدہ کے رنگ کا برقع بھی سلوا لیا۔  ’’زرد گلاب‘‘ والے پرو فیسر کے خواب بھی دیکھنے لگی…اس تصوراتی دنیا نے میری زندگی کو بہت خوبصورتی عطا کی… ہر لڑکی شبنم جیسے نصیب لے کر پیدا نہیں ہو تی۔ کئی لڑکیوں نے ان خوابوں کی راکھ سمیٹنے میں گزار دی ہو گی؟

٭٭  خوابوں کے حوالے سے کوئی کلیہ یا فارمولا طے نہیں ہو سکتا۔  تعبیر ملنا نہ ملنا اپنے اختیار میں نہیں ہوتا۔  کبھی ایسا بھی ہوتا ہے۔  خواب کوئی دیکھتا ہے اور پورا وہ کسی اور کے پاس جا کر ہوتا ہے۔  خیر یہ تو ایسے بات ہے لیکن اگر لکھنے والے خواب نہ دیکھیں اور نہ دکھائیں تو دنیا ویران ہو جائے۔  خوابوں کے بغیر بھی دنیا جیتی جا سکتی ہے۔  مگر اس سلسلے میں، میں اپنا ایک شعر سنانا چاہتی ہوں:

خوابوں سے محروم رہا کرتے ہیں دنیا جیت کے بھی

ایک کمی اکثر یہ رہ جاتی ہے جاگنے والوں میں

لیکن پھر ساتھ منیر نیازی صاحب کا ایک شعر بھی یاد رکھنا چاہیے کہ

’’خواب ہوتے ہیں دیکھنے کے لیے ‘‘

ان میں جا کر مگر رہا نہ کرو

٭  جگن ناتھ سر شار کے حوالے سے آپ نے اپنے والد کی ایک خواہش کا تذکرہ ’’ انڈیا جاؤں۔ بس ایک مقصد کے لیے۔  بیر بل سے ملوں اور کیوں بیٹا تمھیں فارسی پڑھانے آ یا ہوں۔ ‘‘

عابد علی عابد کی زند گی میں ایسے کئی واقعات ہوں گے جو ہم آپ کی خود نو شت میں دیکھنا چا ہتے ہیں۔  کچھ تو کہیے کہ لوگ کہتے ہیں …؟

٭٭  آپ نے میری دکھتی رگ کو چھیڑ دیا۔  بہت سے لوگوں نے مجھ سے یہ بات پوچھی کہ اپنی سرگذشت کیوں نہیں لکھی۔ ان میں انتظار حسین صاحب، منو بھائی، زہرہ نگاہ اور کشور ناہید بھی شامل ہیں۔  اصل بات یہ ہے کہ زیادہ تر لوگ میرے والد کی زندگی کے تمام گوشوں سے آگاہ ہونا چاہتے ہیں۔  آج کل یوں بھی خود نوشت لکھنے کا Trend چل پڑا ہے معذرت کے ساتھ بہت سی ان میں ایسی ہیں جہاں اپنی کمزوریوں کو چھپا کر دوسروں پر بات ڈال دی گئی۔  مصلحت اور جھوٹ پر مبنی خود نوشت لکھنا نہیں چاہتی۔  میری تربیت بھی جس قسم کے ماحول میں ہوئی ہے۔  اس میں ڈر اور خوف کا بہت عمل دخل رہا ہے۔  گھر میں بڑوں کے روپ میں آ کر کسی کی دل شکنی نہ کرنے پر ہی بہت زور تھا۔  کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے۔  زہرہ آپا نے مجھ سے کہا کہ انداز ایسا ہونا چاہیے کہ بات بھی کی جائے اور کسی پر آنچ بھی نہ آئے۔  یہ سب باتیں صحیح ہیں مگر سچی بات ہے مجھے خودنوشت سے خوف آتا ہے۔  وہ سب کچھ ذہن میں دہراؤں کہ جو گزر چکا۔  کیسے کیسے اذیت ناک لمحات بھی آئے اب ان کو دوبارہ یاد کروں۔  نہیں مجھ سے یہ نہیں ہو گا۔  میرے بھائی نے اپنی کتاب ’’میرے شب و روز‘‘ میں آغا جی کی زندگی کی بہت سی تہیں کھولی ہیں۔  کتاب اچھی ہے مگر وہ بھی تشنہ معلوم ہوتی ہے۔

٭ تقریب کچھ تو ہے کہ سب سے اہم خو بی یا اردو قارئین پر احسان …میری نظر میں یہ ہے کہ ادب کے بے شمار قارئین نے جوش کو پڑھے بغیر مسترد کر دیا۔ جوش جیسے متنازع شاعر پر اتنی مثبت تحریر کم ہی دیکھنے میں آ ئی ہے۔  ’’یا دوں کی برات‘‘ کی شہرت نے ان کی شاعری ان کی غزل سے (بے شک وہ غزل کے بڑے معترضین میں شامل ہو تے ہیں، لیکن غزل بے حد خو بصورت کہتے ہیں )دور کر دیا کیا یہ المیہ نہیں ہے۔

٭٭  بہت زمانے پہلے ایک مرتبہ یاسمین طاہر(امتیاز علی تاج کی بیٹی) نے مجھ سے کہا کہ میڈم نورجہاں اپنی زندگی کی داستان سنانے پر تیار ہیں تم آؤ۔  روزانہ ہمارے ہاں بیٹھو۔  کچھ نہ کچھ ہاتھ آئے گا۔  میری بدقسمتی کہ میں ان دنوں بہت مصروف تھی۔  جب مجھے فرصت ملی تو وہ پھر ہاتھ نہیں آئیں۔  ویسے میں نے بعد میں بہت سے لوگوں سے بات کی انہوں نے کہا کہ اگر کچھ لکھنا چاہتی ہو تو ان کے فن کے بارے میں لکھو۔  جب ذاتی زندگی (کسی بھی مشہور فنکار) کی ڈسکس ہوتی ہے تو فن پیچھے رہ جاتا ہے۔  لوگ سکینڈل میں بہت دلچسپی لیتے ہیں۔  میں بھی اس کی قائل ہوں کہ اگر کسی فنکار کی زندگی کسی حوالے سے متنازع ہے (جو کہ اکثر ہوتی ہے ) تو ان کے ان گوشوں کو لائم لائٹ میں لانے کی بجائے اس کے حسن کی بات کی جائے۔  جوش صاحب کی کتاب ’’یادوں کی بارات‘‘ ایسی کتاب تھی کہ اس نے اس کی شاعری کو قارئین کے لیے پسِ پشت ڈال دیا۔  ویسے بھی سیاست کے ہاتھوں ان کے فن کے ساتھ بہت بے انصافی ہوئی۔  اور اس کا ازالہ آج تک نہیں ہو سکا۔  ان کی ذاتی زندگی پر بھی اس کا اثر گہرا پڑا حتیٰ کہ جب وہ فوت ہوئے تو اسلام آباد کے چند لوگ جنازے میں شریک ہوئے تھے۔  ان کی شاعری کو بھی اسی طرح دانستہ طور پر لوگوں کے ذہنوں سے محو کرنے کی کوشش کی گئی۔  یہ المیہ صرف ان کے ساتھ نہیں ہوا ہم نے بہت سے شاندار شعرا کو بھلا دیا، جیسے مجید امجد جیسے مصطفی زیدی۔

٭  ’’اس کی باتوں میں گلوں کی خو شبو‘‘ عابد علی عابد کی برسی پر لکھے گئے مضمون میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ابن صفی کو وہ بہت شوق سے پڑھتے ہیں۔ یہ بات ان کے مداحوں کے لیے بہت حیران کن تھی۔  میرے لیے نہیں کیوں کہ مولوی عبدالحق، ڈاکٹر ابو الخیر کشفی، سر شار صدیقی اور نہ جانے کتنے ہی ادیب ابنِ صفی کے اردو زبان و ادب پر احسانات کے معترف ہیں۔ اب تو کو ئی ابن صفی بھی نہیں جو بچوں، جوانوں اور بوڑھوں کو اردو زبان و ادب کی طرف راغب کرے۔

٭٭  واقعی ابن صفی کو پڑھنے والوں کی تعداد ان گنت ہے، میرے والد تو کہتے تھے کہ وہ جب بوجھل یعنی سنجیدہ کتابیں پڑھ کر تھک جاتے ہیں تو اپنے آپ کو Relax کرنے کے لیے جاسوسی کی کتابیں پڑھتے ہیں۔  ذہن تر و تازہ ہو جاتا ہے۔  وہ اگا تھا کرسٹی قرار پیری چن والے ناول بھی بہت شوق سے پڑھتے تھے۔  یوں تو مغرب میں بھی بہت بڑے بڑے مصنف جاسوسی کی کتابیں اور Horror Stories بڑے شوق سے پڑھتے ہیں۔  شر لاک ہومز نے لوگوں کے ذہنوں کو کتنا متاثر کیا۔  اسی طرح بہت سے انٹلیکچوئل الفریڈ ہچکاک کی فلمیں شوق سے دیکھتے تھے۔  یہ چیزیں محض وقت گزاری کے لیے نہیں پڑھی جاتی تھیں بلکہ ان سے Craft بھی سیکھا جاتا تھا۔

بچوں کے ادب کی طرف ہم نے بہت کم دھیان دیا ہے۔  اول تو بڑے ادیبوں نے بالکل ہی اس طرف توجہ نہیں دی اگر ان سے پوچھا جائے کہ کیوں نہیں لکھا تو شرمندہ ہو کر ہنسنے لگے۔  مجھے ابھی تک بس امتیاز علی تاج کی الحمرا کی کہانیاں ‘‘ یاد ہیں جو نہایت دلچسپ تھیں۔  اس طرح صوفی تبسم کے ’’جھولنے ‘‘ ٹوٹ بٹوٹ‘‘ والی نظم نے بہت سے بچوں کے ذہنوں پر اثر کیا۔  پہلے کورس کی کتابوں میں بھی اسماعیل میرٹھی، نظیر اکبر آبادی کی نظمیں چھپا کرتی تھیں۔  اب ہم ان سے بھی گئے۔  ہمارے ہاں ہمیشہ سے متوسط طبقہ کتاب پڑھتا رہا ہے۔  اب متوسط طبقے کی حالت ایسی ہے کہ کتاب خرید نا مشکل ہے۔  بڑے لوگوں کے بچے انگریزی کی کتابیں پڑھتے ہیں خیر پڑھتے تو ہیں خواہ کچھ سہی۔  کوئی لائبریری ڈھنگ کی نہیں ہے بچوں کے لیے۔  جہاں ہماری طرح دو آنے دے کر ایک دن کرائے پر کتاب لے لی جائے۔

٭ میری نظر میں غزل ’’تقریب کچھ تو…‘‘ کا بیت الغزل ’’ یہ جان تو آنی جانی ہے … فیض احمد فیض‘‘ ہے۔ آپ کسے بہتر ین خیال کرتی ہیں؟

٭٭  میں ذاتی طور پر اپنے پروین شاکر والے مضمون ’’وے صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں ‘‘ کو اپنا سب سے اچھا مضمون تصور کرتی ہوں۔  مگر فیض والے مضمون کی لوگ اتنی تعریف کرتے ہیں اور اس پر بہت سے کالم بھی لکھے جا چکے ہیں کہ اب تو مجھے بھی شک گزرنے لگا ہے کہ کہیں واقعی میں نے کچھ اچھا تو نہیں لکھ دیا۔

٭ کو ئی ایسی تخلیق جو ذہن و دل کے صفحہ پر تو رقم ہے لیکن ابھی کاغذ پر منتقل نہیں ہو ئی؟

٭٭   ’’ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔  ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

محسن بھوپالی

 

٭ میں نے جس طرح زیست کاٹی ہے

ایک دن ہی سہی بسر تو کر

اور

زیست ہمسائے سے مانگا ہوا زیور تو نہیں

ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے کھو جانے کا

کے درمیان عرصۂ زیست کی سرگزشت کہیے۔

٭٭  اس سوال کے جواب کے لیے دفتر درکار ہے۔  مختصراً عرض کر دوں گا ۴۷۔ ۱۹۴۶کے دو برس سیاسی اور معاشرتی طور پر اہلِ ہند پر بہت کڑے گزرے ہیں۔  تقسیم پاک و ہند کے نتیجے میں کروڑوں افراد کے دو نئی مملکتوں کے مابین تبادلے تھے اور معاشرتی اتھل پتھل سے کوئی خوش قسمت خاندان ہی بچ رہا ہو گا۔  والد صاحب چونکہ محکمہ ڈاک میں ملازم تھے اور انہوں نے مستقبل میں اپنی سروس کے لیے پاکستان منظور(OPT)کیا تھا چنانچہ ان کا تبادلہ اگست ۱۹۴۷ء میں لاڑکانہ (سندھ) ہو گیا تھا۔  والدین نے میرے تین بھائیوں اور چار بہنوں کے ہمراہ اس شہر میں سکونت اختیار کی۔  نئی جگہ، نئے لوگ، نئی زبان، رفتہ رفتہ دہلی، یوپی، سی پی سے بھی سیکڑوں خاندان بھی آ کر بس گئے۔  یوں نئی سماجی زندگی کا آغاز ہوا۔  والد صاحب کی تنخواہ میں اتنے بڑے خاندان کی رہائش، پرورش اور سب بہن بھائیوں کی تعلیم کے سلسلے کو والدین نے جس کفایت شعاری سے جاری رکھا اسے میرا دل جانتا ہے۔  میں نے پری میٹرک اور میٹرک میں اپنی تعلیم کے دوران چوتھی اور پانچویں جماعت کے تین طلبا کو ٹیوشن پر پڑھایا اور ایک سال تک مقامی سینما میں رات کو بکنگ کلرکی بھی کی۔  میری جد و جہد اور صبر و استقلال قدرت کو پسند آیا۔  میٹرک کا امتحان دینے کے بعد گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران مقامی بجلی گھر میں کلرک کی جاب مل گئی۔  آج یہ بات شاید ناقابل یقین سمجھی جائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے میں سندھ حکومت کوالیفائیڈ کلرک کو پچاس روپے مہینے تنخواہ اور نو روپے مہینے مہنگائی الاؤنس دیا کرتی تھی۔  چند ماہ بعد مجھے اسکالر شپ مل گئی اور مجھے این ای ڈی انجینئرنگ کالج میں ڈپلومہ کلاس میں داخلہ مل گیا۔  بعد میں میں نے اپنا کریئر بحیثیت اورسیئر اندرون سندھ کے دیہاتوں اور دریائے سندھ کے بندوں پر گزارا۔  زندگی کرنے کی جد و جہد اور اس دوران حاصل ہونے والے بہترین کم اور تلخ تجربات سے زیادہ واسطہ پڑا۔  جس کا اظہار میرے کئی اشعار اور خصوصاً ً نظم ’’مانوس اندھیرا‘‘ میں ہوا۔

٭ نامساعد حالات کے باوجود رجائی نقطۂ نظر

کیا خبر لو بجھانے والے کو

روشنی تو دیے کے اندر ہے

پا ہی لیں گے منزلیں دشواریوں کے باوجود

کوئی شے راہ طلب میں تو شش پیہم بھی ہے

جبکہ عام تاثر یہی ہے کہ شعر میں تاثیر، درد و یاسیت سے جنم لیتی ہے؟

٭٭  ہائی اسکول کے زمانے میں، میں لائبریری جایا کرتا تھا۔  ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کی تحریریں مجھے بہت پسند آتی تھیں تحریک کے بارے میں معلومات حاصل ہونے اور مزید کتابیں پڑھنے کے بعد میں نے ترقی پسند نظریہ کو ہی اپنی تحریروں کا رہنما بنا دیا۔  معاشرہ کیا ہے اور کیا ہونا چاہیے کے تخیل کے تحت اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو شاعری میں منتقل کرتا رہا ہوں۔  میں نے تاثیر پیدا کرنے کی شعوری کوشش نہیں کی بلکہ اپنے تجربات، مشاہدے اور مطالعے کو اپنی شاعری میں سمونے کی شعوری کوشش کی ہے۔

٭ روایتی و کلاسیکی انداز اور فارسی آمیز اور موسیقیت اور غنائیت سے لبریز غزلیات کے ہمراہ آپ کے کلام میں میں جدید تر انداز شعر بھی موجود ہے، کیا اس کا سبب وقت کے بدلتے تقاضے ہیں؟

٭٭  شعری لفظیات ہر پندرہ بیس سال کے بعد بدلتی رہتی ہے جس زمانے میں، میں نے شاعری شروع کی اس زمانے میں فارسی آمیز زبان استعمال کی جاتی تھی اور اساتذہ کی مشہور زمینوں میں غزل کہنا باعث اعزاز سمجھا جاتا رہا۔  اساتذہ کی زمینوں میں طرحی مشاعرے ہوا کرتے تھے۔  بعد کے دور میں نئی زمینوں میں شعر کہنے اور فارسی تراکیب کا استعمال کم سے کم ہو گیا، جبکہ موجودہ دور میں اُردو کے قوافی و ردیف اور اکثر اصنافت اور عطف کے بغیر اشعار کہنے کا رواج عام ہے، چنانچہ اب میں بھی آج کی لفظیات میں شعر کہتا ہوں۔  جس کی مثال آپ کو میرے نئے مجموعوں ’’روشنی تو دیے کے اندر ہے ‘‘ اور’ ’منزل‘‘ کی غزلوں اور نظموں میں ملے گی۔

٭

آج کو میں لکھوں گا آج کے تناظر میں

مصلحت کے پردے میں بود و رفت کیا لکھوں

پھر ابھرتے سورج کو مصلحت نے گھیرا ہے

بے گواہ لمحوں کا پھر ہے وقت کیا لکھوں

احتجاج یا مصالحت، تخلیق کار کے لیے، زیست کرنے کے والسطے کون سا روّیہ بہتر ہے؟

٭٭  اہلِ قلم کو کسی صورت میں مصلحت سے کام نہیں لینا چاہیے۔ اسے احتجاج کا روّیہ ہی اپنانا چاہیے لیکن اسے شعریت کا دامن کسی حال میں نہیں چھوڑنا چاہیے، اس لیے کہ نظم اور ادارتی نوٹ میں فرق ہونا چاہیے۔

٭ خشک سیروں تنِ شاعر کا لہو ہوتا ہے

تب نظر آتی ہے اک مصرع تر کی صورت

آپ بھی کہتے ہیں:

فکر میں خونِ رگِ جاں بھی ملا دیتے ہیں

کوئی مضمون ہو ہم رنگ نیا دیتے ہیں

شاید یہی وجہ ہے کہ کوئی شاعر اپنے بیٹے کو شاعر نہیں دیکھنا چاہتا۔

٭٭  شاعر کسی بھی شاعر کا معاشی مسئلہ حل نہیں کر سکتی (سوائے گنتی کے چند شعرا کے ) ہر شاعر کو اپنی معاشی ضروریات کے لیے، ملازمت یا تجارت کرنا پڑتی ہے اس لیے شعرا بھی اپنی اولاد کے لیے پہلے معاشی مسائل حل کرنے کے لیے، اسے پروفیشنل تعلیم یا تجارت کے لیے تربیت دیتے ہیں۔

٭ احمد فراز کی مشہور غزل

سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کر دیکھتے ہیں

سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں

اور آپ کی غزل

چمن چمن اسی رنگین قبا کو دیکھتے ہیں

ہر ایک جلوے میں جلوہ نما کو دیکھتے ہیں

ہر دو غزلوں میں سمعی و بصری حواس پوری طرح بیدار ہیں۔  رنگینی و رعنائی، احساسِ جمال، حسن لطافت، موسیقیت و غنائیت عروج پر ہے۔  ان دونوں غزلوں کے بارے میں آپ کا تاثر کیا ہے؟

٭٭  ایک عہد میں سانس لینے ولے شاعر ایک دوسرے کو متاثر بھی کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے متاثر بھی ہوتے ہیں۔  مذکورہ غزلوں کے ڈانڈے غالب کی غزل کے مشہور شعر سے ملتے ہیں۔

نظر لگے نہ کہیں ترے دست و بازو کو

یہ لوگ کیوں مرے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں

میں نے یا دیگر ہم عصروں نے قوافی بدل کر طبع آزمائی کی ہے۔  احمد فراز نے ردیف کے پہلے لفظ ’’کو‘‘ کے بجائے ’’کے ‘‘ استعمال کیا ہے۔  جہاں تک ان غزلوں کا تعلق ہے۔  دونوں ہر دو شعرا کی جمالیاتی اپروچ کی مظہر ہیں۔  جس کی داد اساتذہ فن ہی دے سکتے ہیں۔

٭  ’’نظمانے ‘‘ ایک نشست میں پڑھی جانے والی کتاب نہیں۔  ہر موضوع آپ کو گرفت میں لے گا۔  آپ کو سوچنے پر مجبور کر دے گا۔  اس کی تلخی، چبھن محسوس ہوتی رہے گی۔ اس کی پرتیں آپ پر کھلتی جائیں گی اور شاعر نے جس کیفیت میں وہ بات کہی ہو گی آپ اس منظر نامے کا ایک حصہ بن جائیں گے۔  اس لیے ’’ نظمانے ‘‘ ایک سانس میں پڑھی جانے والی کتاب نہیں، آپ کی کیا رائے ہے؟

٭٭  اس کی بعض خصوصیات کا تو آپ نے اپنے سوال میں ہی ذکر کر دیا ہے۔  ہر نظمانہ چونکہ اپنے اندر ایک مکمل افسانہ یا کہانی رکھتا ہے۔  اس لیے قاری جبھی لطف اندوز ہو سکتا ہے، جب وہ نظمانہ پڑھے۔  اس میں ان کہی باتوں کو اپنے تخیل اور تصور کے ذریعے محسوس کرے تبھی وہ ایک مکمل تاثر ابھرتا محسوس کرے گا۔

٭ آپ کی غزلوں اور نظموں کی زبان ’’نظمانے ‘‘ میں مستعمل زبان سے مختلف ہے۔  روزمرہ اور عام بول چال کی زبان نظمانے کی ضرورت تھی جسے آپ نے ادبی چاشنی اور شعری لطافت سے دور رکھا؟

٭٭  یہ بالکل فطری بات ہے اس لیے کہ میں نے نظمانے میں ہر کردار کی زبان اس کے اپنے طبقے اور اس کی اپنی فکری استعداد کے مطابق رکھی ہے۔  یہ وہ نزاکتیں ہیں جنہیں ہر اچھا افسانہ نگار ملحوظ رکھتا ہے۔

٭ زندگی کے تلخ حقائق اور تجربات کو نظم کرنے کے لیے کیا اسی احساسِ جمال اور حسن لطافت کی ضرورت نہیں جو نیم وا آنکھوں اور کھلتے گلابوں کے لیے ضروری ہے؟

٭٭  یقیناً ضروری ہے، احساسِ لطافت کے ساتھ بیان کے لیے شعری پیرایہ بھی بنیادی حیثیت رکھتا ہے، ورنہ سپاٹ پن کسی بھی فن پارے کو اس کے مرتبے سے گرا دیتا ہے۔

٭ آپ اپنے شعری سفر سے مطمئن ہیں جو کرنا چاہتے تھے کر لیا، جو کہنا چاہتے تھے کہہ لیا یا ابھی لمحۂ کمال کے منتظر ہیں۔

٭٭  بہت حد تک مطمئن ہوں۔  مجھے جو کہنا تھا اور جس پیرائے میں کہنا تھا، اسے میں نے کامیابی کے ساتھ برتا ہے۔  یہ اور بات ہے کہ نقادوں نے اپنے جائزے میں بہت حد تک میرے کلام اور کام کو نظرانداز کیا ہے، لیکن عوامی حیثیت پر جو مقبولیت حاصل ہے اور میرے بعض اشعار کو جو ضرب المثل کا درجہ حاصل ہوا ہے اسے میں اپنے لیے ادبی اعزاز سمجھتا ہوں۔  شکر ہے کہ اس میں میری قسمت کو دخل ہے نہ کہ کوشش کو۔

٭ آپ کو اپنے عہد کی متنازع شخصیت کہا جاتا ہے سبب؟

٭٭  اس کا سبب وہی ہے

میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

یہ مصرع تو میری فکر اور عقل کی ترجمانی کرتا ہے جبکہ عملی طور پر نہ کبھی میں نے ذاتی پبلسٹی کی کوشش و خواہش کی اور نہ ہی متعلقہ اداروں کے سربرا ہوں کی کاسہ لیسی کی۔  خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ پھر بھی میں محرومی کا شکار نہیں ہوا۔

٭ محسن بھوپالی ایسی شخصیت ہے کہ جسے صرف یہ پتا لگنا چاہیے کہ آپ کسی مسئلے میں گرفتار ہیں۔  وہ بن طلب کیے حاضر ہو جاتے ہیں اور اپنا قیمتی وقت آپ کے مسائل کے حل میں لگا دیتے ہیں۔  دوسرے اہل علم دوستوں کا روّیہ، آپ کے اس اندازِ زیست کے متعلق کیا ہے؟

٭٭  میرے اس رویے کو میرے بعض ہم عصر اچھا نہیں سمجھتے، لیکن مجھے اپنے ساتھیوں اور نئے لکھنے والوں کے مسائل حل کر کے واقعی خوشی محسوس ہوتی ہے۔

٭ وہ کراچی، جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہاں پہنچ کر کوئی بھوکا نہیں رہ سکتا۔  مدتوں زخم زخم رہا۔  آج بھی صورت حال کچھ مختلف نہیں۔  کراچی پر گزرنے والے سانحات کا عکس آپ کے اشعار میں واضح ہے۔  کہا جاتا ہے کہ کراچی میں رونما ہونے والے واقعات سے پاکستان کے دیگر شہروں میں رہنے والے اہل قلم بے نیاز رہے۔  کیا یہ بات درست ہے؟

٭٭  کراچی کا جسم ایک عرصے تک زخموں سے چور چور رہا۔  کراچی کے چند ایک شعرا نے اس دور میں نہ صرف مزاحمتی شاعری کی بلکہ اخبارات و رسائل میں اپنا کلام جرات کے ساتھ چھپوایا بھی۔  یہ بات واقعی افسوس ناک ہے کہ دیگر بڑے شہروں کے رسائل و اخبارات کے علاوہ شعرا نے بھی اہل کراچی کے المیے کو نہ اس سطح پر محسوس کیا اور نہ ہی اپنی شاعری میں اس کا اظہار کیا۔

٭  ’’جستہ جستہ‘‘ میں شامل قطعات اور نظمانے میں موجود نظم نما افسانے، ان میں ہیئت کے علاوہ آپ کیا فرق دیکھتے ہیں۔

٭٭  قطعات کسی خاص eventیا احساس کا مظہر ہیں جبکہ نظمانے معاشرے میں پائی جانے والی برائیوں اور غلط بخشیوں اور مجہول روّیوں پر منظوم کہانی کے ذریعے ایک بھرپور طنز ہیں۔  اُردو کے سربرآوردہ افسانہ نگار ابو الفضل صدیقی کا کہنا تھا کہ ہر نظمانے پر ایک کامیاب مختصر افسانہ لکھا جا سکتا ہے جس کا اختتام یاد رہنے والی punch line پر کیا جا سکتا ہے۔

٭ شاعری میں تجربے ہوتے رہنے چاہیں۔ ’ ’نظمانے ‘‘ کے بعد آپ نے شاعری میں کوئی اور نیا انداز اپنایا، کوئی نیا تجربہ کیا، اُردو شاعری میں نئے تجربے ہو رہے ہیں۔  نظمانے کو آپ کامیاب تجربہ کہیں گے۔  آپ اپنی پیروی میں کن شعرا کے نام لیں گے؟

٭٭  نیا تجربہ تو نہیں کیا، لیکن جاپانی صنف سخن ہائیکو کو پاکستان میں متعارف کرانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔  پاکستان کی حد تک میں نے سب سے پہلے ڈاکٹر تنویر عباسی کے سندھی ہائیکو کے منظوم تراجم سے اس کا آغاز کیا تھا۔  یہ تراجم ماہنامہ افکار ستمبر۱۹۶۳ء میں شائع ہوئے تھے۔  اس کے بعد ہائیکو کے صحیح فارم formیعنی ۵۔ ۷۔ ۵کی پابندی کے ساتھ ہائیکو لکھنے کا آغاز کیا جس کا اعتراف پروفیسر احمد علی جیسے نقاد نے کیا تھا۔  (تاثر مطبوعہ گردِ مسافت ۱۹۸۸ء) میرے ہائیکو کے پہلے مجموعے ’’منظر پتلی میں ‘‘ کی ادبی حلقوں میں ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بھی پذیرائی ہوئی۔  اس کی بنیاد پر جاپانی فاؤنڈیشن نے ’’جاپان کے چار عظیم شاعر‘‘ کے مسودے کو ٹوکیو یونیورسٹی کے ماہرین کی تصدیق کے بعد منظور کیا اور کتاب کی اشاعت کے لیے فاؤنڈیشن نے گرانٹ بھی دی جو ۱۹۷۷ ء میں شائع ہوئی۔  اس کتاب میں جاپانی کے چار عظیم شعرا باشو، ایسا، بوسون اور شیکی کی سوانح اور ان کے منتخب ہائیکو کے اُردو تراجم شامل ہیں۔  شاعری میں نئے تجربے ہو رہے ہیں مثلاً آزاد غزل، غزل نما وغیرہ، لیکن ابھی ان کو پذیرائی نہیں ملی ہے۔  بلاشبہ نظمانے اُردو شاعری میں ایک کامیاب تجربہ ہے۔  اسے ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری، احمد ندیم قاسمی، شان الحق حقی اور شمس الرحمن فاروقی جیسے نقادوں نے بھی سراہا ہے۔  (تاثرات مطبوعہ نظمانے ) عظیم راہی، غزل جعفری، سیما سراج، عارف کمال، حمیرا راحت اور دیگر نظمانے لکھ رہے ہیں، لیکن اسے اب تک وہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی جس کی توقع تھی۔

٭ کہا جاتا ہے کہ ہائیکو خالص ادبی صنف سخن نہیں۔  اول اول یہ عوام کی اور گھریلو خواتین کی صنف سخن کے طور پر مشہور ہوئی۔  پاکستان میں اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور روزِ اول سے ہی اسے ادبی صنف سخن شمار کیا گیا۔  اس کی وجہ کیا ہے؟

٭٭  جاپانی انسائیکلوپیڈیا کو ونشا کے مطابق ہائیکو شروع شروع میں چھیڑ چھاڑ اور غیر سنجیدہ گفتگو کے لیے استعمال کی جاتی تھی، لیکن سترہویں صدی میں باشو نے اسے باقاعدہ سنجیدہ صنف سخن کے طور پر استعمال کیا اور اس کے بعد دیگر جاپانی شعرا نے اس کی پیروی کی۔  پاکستان میں اسے واقعی حیرت انگیز طور پر مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔  تقریباً پچیس تیس ہائیکو مجموعے صرف بیس برسوں کے اندر شائع ہو چکے ہیں۔  تمام اہم ادبی رسائل اور اخبارات کے ادبی صفحوں پر ہائیکو شائع ہو رہے ہیں۔  اُردو کے اہم اور معروف شعرا بھی مسلسل ہائیکو لکھ رہے ہیں۔  جن میں تابش دہلوی، شبنم رومانی، رسا چغتائی، حمایت علی شاعر، پروفیسر محمد امین، اختر شمار، لیاقت علی عاصم، وضاحت نسیم، فراست رضوی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔

٭ ہائیکو کی مقبولیت کا ایک سبب کیا یہ نہیں ہے کہ جاپان کا کونسل خانہ گزشتہ بیس پچیس برسوں سے ہائیکو مشاعرے نہ صرف منعقد کرا رہا ہے، بلکہ مشاعرے میں پڑھے جانے والے ہائیکو کتابی صورت میں محفوظ بھی کر رہا ہے یوں اپنی ایک صنف سخن کے فروغ میں جاپانی سفارت خانہ مثبت کردار ادا کر رہا ہے … آپ بیرون ملک جاتے رہتے ہیں پاکستان سفارت خانہ اور سفارت کار اپنے ملک کی تہذیب و ثقافت خصوصاً ً زبان و ادب کے فروغ میں جو ’’خدمات ‘‘ انجام دے رہے ہیں۔  کیا وہ کافی ہیں۔

٭٭  ایک سبب یہ بھی ہے جو آپ نے بیان کیا۔  مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے، بیرون ملک ہمارے سفارت خانے اور سفرا پاکستانی ادب کے متعارف کرانے میں کوئی کام نہیں کر رہے، بلکہ عام طور پر دیکھا گیا ہے پاکستانی سفیر مشاعروں میں شرکت تک نہیں کرتے جبکہ بھارتی سفیر اور کونسل جنرل صاحب نہ صرف شاعروں سے ملتے ہیں بلکہ ادبی محفلوں میں شرکت بھی کرتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

احسان اکبر

 

٭ احسان اکبر ایک کثیر الجہات شخصیت کا نام ہے۔  استاد، مورخ، محقق، دانشور، ادیب مقرر اور شاعر۔  زندگی کے یہ تمام رُوپ ایک دوسرے کے مددگار ہیں یا کبھی ان کے درمیان اختلافات بھی جنم لیتے ہیں؟

٭٭  میرا خیال ہے کہ میری مختلف حیثیتیں ایک دوسرے کو مدد دیتی رہتی ہیں۔  میرا ٹکراؤ خود سے یا داخل سے نہیں، یہ تو خارج سے تصادم ہے۔

٭ ایک استاد کی حیثیت سے شعبۂ تعلیم اور اس کے مسائل پر آپ کی گہری نظر ہے، تعلیم و تدریس میں زبان کی اہمیت کیا ہے؟

٭٭  زبان کے بغیر تو ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔  ابلاغ میں اس کی محتاجی ہمیں زبان کے ہاتھوں دہرے یرغمال میں لے آتی ہے۔

٭ قومی زبان کے علاوہ، کسی بھی زبان کو تدریس کا ذریعہ بنا دیا جائے تو کیا یہ عمل طلبہ اور قوم کے مفاد میں ہو گا؟

٭٭  رابطہ کی زبان یا Lingua Francaکو تدریس کی زبان بنایا جا سکتا ہے۔

٭ کیا یہ ممکن نہیں کہ پاکستان کے تمام تعلیمی اداروں میں انگریزی زبان کی تدریس جاری تو رکھی جائے، لیکن بنیادی نہیں بلکہ ثانوی یا اختیاری حیثیت سے؟

٭٭  انگریزی سب اداروں میں پڑھائی جانی چاہیے، مگر انگریزی کے ذریعے پڑھانے کا اہتمام صرف ان کے لیے ہونا چاہیے جن کی مادری زبان انگریزی ہو۔

٭ پاکستان کی قومی و سرکاری زبان اُردو ہے، کم از کم آئین کی رو سے … اُردو کو سرکاری و قومی زبان کا درجہ حاصل ہے لیکن اس پر عمل نہیں ہو رہا … کیا انگریزی زبان پر دسترس ہی طلبہ کو بہتر مستقبل کی ضمانت دے سکتی ہے؟

٭٭  یہ دو الگ سوال ہیں۔

الف۔  قومی زبان اُردو کے نفاذ پر عمل کا نہ ہونا خود آئین پاکستان سے غداری اور عدلیہ کے فیصلے کا ارتداد ہے مگر اس کا نوٹس عدلیہ نے بھی 1987سے آج تک نہیں لیا ورنہ عدالت تو Suo Moto ایسے معاملے اٹھاسکتی ہے۔  در اصل ذہنی غلامی کا تسلسل ہے جس سے ہم گزر رہے ہیں۔

ب۔  بہتر مستقبل یقیناً اُردو سے زیادہ انگریزی کے وسیلے سے بنتا ہے۔

٭ ہمارے اساتذہ مطالعے کی عادت نہیں رکھتے اور گزشتہ بیس تیس سالوں سے تیار شدہ نوٹس پر گزارا کر رہے ہیں۔  کیا آپ اس رائے سے اتفاق کریں گے؟

٭٭  ہمارے اساتذہ نے تو نصابی کتب تک اس سطح کی نہیں لکھیں کہ پڑھنے لکھنے کا کلچر ہی نہیں بنا۔  اصل میں مال پانی کا کلچر کلیمز Claimsکے ساتھ ہی آ گیا۔  کلیمز منظور کرانے والے کوئی انقلابی لوگ نہیں تھے، وہی داغدار بیوروکریسی تھی جو ساری مرتعش تھی۔  جھوٹے کلیم چلے اور منظور ہوئے۔  ایسے میں رشوت کی انتہا کا تصور کیا جا سکتا ہے۔  یہاں Easy Moneyکا تسلسل، بعد میں امریکی امداد کی صورت بھی آگے بڑھا۔  امریکی رابطوں نے معیارِ زندگی کی ’’بہتری‘‘ کو Luxury Gadget کے ذریعے جب فیض کیا تو ہماری ہیئت حاکمہ ان کی بیعت میں تھی۔  اس دوڑ میں شرافتوں کے نگہدار افراد اور طبقات بری طرح زد میں آئے۔  پڑھنے والے استاد، روایت پسند، شاعر، لکھاری، آرٹسٹ، خطاط، اہل ہنر، فقیہ اور عالم سبھی نشانہ بنے۔  ملک جب ٹوٹا تو اقدار بھی ٹوٹیں اب Dollar ہی ایسا ادارہ رہ گیا تھا جو پاکستان میں بھی تھا اور ابھی تک قائم ہے۔  اب ٹیوشن پڑھنے، پڑھانے، خلاصے بنانے، نوٹس فروخت کرنے، امتحانی نقل اور پرچے خریدنے بیچنے کی روش چلی۔  اساتذہ کے سامنے انگریز، ہندو اساتذہ کی روایات کے ساتھ اکابر مسلم اساتذہ کی روایات بھی موجود تھیں، مگر مادی ترقی کی دوڑ نے اساتذہ کو لکھنے پڑھنے کی طرف آنے ہی نہ دیا۔

٭ آپ نصاب تعلیم، نظام تعلیم اور طریقہ امتحان کی اصلاح کے لیے کیا تجویز کرتے ہیں؟

٭٭  جتنی حکومتیں بدلی ہیں، قریباً اتنی ہی تعلیمی رپورٹس محکمہ تعلیم کے مردہ خانے میں پڑی ہیں وہاں ان تینوں حوالوں سے بڑی بڑی بنیادی بحث کرنے والی دستاویزوں سے موتیوں جیسے راہنما اصول اور مشورے مل سکتے ہیں۔  مسئلہ نفاذ کا اور ایک جیسا قانون بنا کر سب کے لیے یکساں طور پر نافذ کرنے کا ہے۔  ایسا کون کر سکتا ہے؟ ہمارے ہاں اصول یہ ہے کہ

All people are equal, before the law, but some are always more equal than others.

٭ آپ اقبال شناس ہیں۔  اقبال کی فکر ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔  آپ نے اقبالیات پر کتب بھی تحریر کی ہیں۔  پاکستان کی نئی نسل اقبال کے شاہین کی صفات سے محروم ہے۔  اس سلسلے میں تدریسی سطح پر کوئی کوشش کی جا سکتی ہے؟

٭٭  سادہ غذا، عمل پسند، سادہ زندگی صرف اپنی محنت پر تکیہ، مسلسل عمل اور محنت شاقہ، خلوص، نیت، ایمانداری اور قناعت، پیغامِ اقبال کی اساس تھے۔  قائد اعظم کی تعلیمات میں، کام، کام اور بس کام کا اصول شامل تھا۔  قومی سطح پر اتحاد، تنظیم اور یقین محکم ان کا رہنما قانون تھا۔  علامہ مشرقی کے ماننے والے خاکسار شدید محنت پر یقین رکھتے تھے۔  انگریز کے سارے زمانہ حکومت میں ہمارے کل مدارس Simple Living and High Thinking کا درس دیتے تھے۔  یہی کانگریس والوں کا رویہ اور ہادی اصول تھا۔  یہ تمام کردار ساز اصول تھے۔

شاہین بنانا مطلوب ہوتا تو ہم طلبہ کی تربیت کے لیے ان میں کچھ بھی رائج کر سکتے تھے۔  مگر ہم نے تو تعلیم و تربیت تک میں سے لفظ تربیت غائب کر دیا۔  یہ تربیت اس کے ماں باپ نے بھی نہ دی۔  ہماری نئی نسل بڑی نہیں ہے۔  ہمارے تعلیمی منصوبہ سازوں نے اس کا ذرا پاس نہ کیا کہ آزادی فکر سے لے کر آزادی قوم تک تعلیم کا کردار کتنا بنیادی ہے۔  قائد اعظم نے سٹیٹ بنک کی بنیاد بعد میں رکھی مگر قومی تعلیمی کمیشن پہلے قائم کیا۔  تعلیمی کانفرنس سب سے پہلے طلب کی۔  ڈاکٹر محمود حسین جیسے لوگوں کے ہاتھ میں تعلیمی معاملات دیے گئے، مگر کیا کیا جائے۔  پہلی کابینہ ہی میں ایوب خان کے وزیر دفاع بننے کے ساتھ پاکستان اغوا ہو گیا۔  تب سے تعلیم کسی کی Priorityنہیں بنی۔

٭ کشمیر پاکستان کے لیے ناگزیر ہے یا پاکستان کشمیر کے لیے؟

٭٭  اب شاید پاکستان سے الحاق کشمیریوں کو اتنا ناگزیر نظر نہ آئے مگر پاکستان کے لیے کشمیر اب بھی شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔  زرعی پاکستان کے لیے پانی کے لیے ملک کی depthکے لیے اور اپنی زبردست جغرافیائی حیثیت کے باعث۔

٭ اہل کشمیر اپنی الگ شناخت چاہتے ہیں یا پاکستان سے الحاق… آپ کس طرح تجزیہ کرتے ہیں؟

٭٭  وہ تو شاید علیحدہ ہونا نہ چاہتے مگر ہم ان میں سے علیحدگی پسندوں کو جس طرح اہمیت دے رہے ہیں۔  اس سے ہمارے مقاصد بھی جھلک رہے ہیں اور غیر ملکی بخت ویز بھی نظر آ رہی ہے ایسے میں وہ خود بخود علیحدگی کی طرف دھکیل دیے جائیں گے۔

٭  ’’جموں و کشمیر ہمارا اکیسویں صدی میں داخلہ‘‘ اور ’’آزاد جموں و کشمیر وی پی میمن سے وی پی سنگھ تک‘‘ کیا ان موضوعات پر لکھتے ہوئے کہیں قلم کو روکنا پڑا۔  کیا مشکلات پیش آئیں اور آج کے تناظر میں کتنی باتیں درست ثابت ہو رہی ہیں؟

٭٭  کشمیر کے موضوع پر میری بعد کی یہ مطبوعہ تحریر، تب مسودہ کی شکل میں تھی۔  مقابلے میں اسے نیشنل بک کونسل نے اسے انعام کا حقدار قرار دیا۔  دوسرا مسودہ زیادہ تحقیق پر مبنی ہے۔  اس کا نام ہے۔  ’’وی پی میمن سے وی پی سنگھ تک‘‘ ان دونوں کتابوں میں کئی ایسی باتیں سامنے آئیں جو بعد میں درست ثابت ہوئیں۔  کئی باتیں ایسی سامنے آئیں جنہیں روز روشن میں لایا ہی نہیں جاتا تھا۔  بھارت کی جانب سے معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وکرم بیراج کے بعد اوڑی پراجیکٹ کی تعمیر کا ذکر میں نے ۱۹۹۴ء میں ہی ’’جموں کشمیر۔  ہمارا اکیسویں صدی میں داخلہ‘‘ میں کر دیا تھا۔  ہماری وزارت داخلہ چار سال بعد تک بھارت کی ایسی کوشش کا نوٹس نہیں لے سکی۔  اس کی مجھے خوشی ہے کہ مجھے قلم کہیں بھی روکنا نہیں پڑا۔  میں نے کئی ان کہی باتیں کہنا چاہیں اور کہہ دیں، کہ وہ حق تھیں۔  الحمد اللہ۔

٭ چاند پر کمندیں ڈالنے والوں نے لفظوں کے مفاہیم تبدیل کر دیے ہیں۔  کیا لغت میں امن اور عدل کے الفاظ آنے والی نسلوں کے لیے اجنبی نہیں ہوں گے؟

٭٭  آنے والے زمانوں کے لیے تو یہ معنی بھی دھندلا دیے گئے ہیں کہ دہشت گرد اور مجاہد میں کیا فرق ہے۔  مظلوم کے لیے راہ احتجاج بھی بند کر دی گئی ہے اور نئی دنیا پر یہ کھلنے نہیں دیا گیا کہ دہشت گرد ابرہہ تھا یا ابابیلیں؟ فرعون یا موسیٰ؟

٭ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سعادت حج سے سرفراز کیا۔  آپ اپنے اس تجربے میں قاری کو شریک کرنا چاہتے ہیں یا صورت حال اس کے برعکس ہے۔

٭٭  میں نے دو بار حج کیا۔  دونوں بار بڑی کوشش سے پہنچا۔  صرف اس لیے کہ ۱۹۹۱ء اور۱۹۹۹ء دونوں برسوں میں حج، حجِ اکبر کی حیثیت کا حامل تھا، مگر جن بہت سے لوگوں کا دل میں جیت نہ سکا تھا اس نے وہاں کے حج میں بھی کھنڈت ڈال دی۔  میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ

دل بدست آور کہ حج اکبر است

٭ آپ بے شمار تعلیمی، ادبی و سماجی تنظیموں کے رکن/ بانی ہیں۔  معاشرے کے سدھار اور مسائل کے حل میں یہ تنظیمیں کتنی فعال ہیں؟

٭٭  میں بہت کچھ کرنا چاہتا تھا مگر کچھ کر نہیں سکتا تو کسی تنظیم کی صورت پیدا کر لیتا ہوں۔  پھر بھی کچھ نہیں کر پاتا… معاشرے میں اپنے ہاں کرنے کے بہت کام تھے۔  غریبوں کے، مظلوموں کے، عوام کے دکھوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے افسوس ہم مداوا نہ کر سکے۔  شاید تنظیمیں رسمی زیادہ ہو گئی ہیں۔  عہدے ہیں، گرانٹس ہیں، پر کام کچھ نہیں۔

٭ ہمارے گرد و پیش متعدد فلاحی و سماجی تنظیمیں مقامی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر کام کر رہی ہیں کیا ان کی کار کردگی قابل اطمینان ہے؟

٭٭  میں (سوائے دو چار ایسے اداروں کے ) ان تنظیموں اور NGOsکے بارے میں کوئی مثبت رائے نہیں رکھتا۔  مسلمان نے سماجی خدمت کرنا سیکھا ہی نہیں حالانکہ پورے یورپ نے ابو بن ادھمؒ کی خدمتِ عوام کی داستان مسلمانوں کی تاریخ سے یاد کی تھی اور خود رسول اکرمﷺ نے نبوت کے اعلان سے بھی پہلے سماجی خدمت کے ادارے کی داغ بیل ڈالی تھی، مگر زوال ہمہ گیر ہے … کیا کہیں …

٭ اور اب کچھ سوال شاعر احسان اکبر سے … کیا ذاتی زندگی کے تمام واقعات و سانحات، رنج و راحت کا بیان شعر میں ممکن ہے؟ کیا کسی شاعر کی بیاض سے اس کی سوانح عمری مرتب کی جا سکتی ہے۔  شاعری اپنے دکھوں میں دوسروں کو شریک کرنے کی کوشش ہے یا شعر کی عظمت اس میں ہے کہ اک بات کہنی ہے اک چھپانی ہے؟

٭٭  شاعر یا تخلیق کار اپنی تخلیقی حیثیت میں اپنے ماضی کو تحریری یا خلاقانہ سطح پر دہرا نہیں رہا ہوتا۔  زندگی کے تمام واقعات کا تذکرہ تو دور کی بات ہے مگر یہ باتیں سو فیصد علیحدہ علیحدہ خانوں میں جدا جدا کر کے رکھی ہوئی نہیں ہوتیں۔  فنکار کے ذاتی تجربے کی چھوٹ اس کی تخلیق پر پڑتی ہے شاعر تو دوسروں کے دکھوں میں بھی شراکت کرتا ہے۔  اپنے غموں میں دوسروں کو شریک کیوں نہ کرے گا، مگر کمال یہی ہے کہ اسے معلوم ہو کہ کتنا کہنا ہے اور کتنا ان کہا چھوڑنا ہے اور کہاں سے چھوڑنا ہے۔

٭  ’’ہوا ‘‘ ہماری کلاسیکی شعری روایت کا ایک اہم استعارہ ہے۔  آپ کے نزدیک ہوا کتنے مفاہیم رکھتی ہے۔  وہ محبت ہے تصادم ہے، پیامبر ہے، رابطہ ہے، تسلسل ہے، راستہ ہے یا کیا ہے؟

٭٭   ’’ہوا‘‘ کے جتنے مفہوم آپ کے ذہن میں آئے۔  ہوا سے وہ بھی مراد ہیں اور کچھ وہ بھی جو عام قاری کی متخیلہ سے جنم لیں گے۔  سترکی دہائی میں ’’ہوا‘‘ جس فیشن سے عبارت تھی، وہ اس سے مراد نہیں ہے۔  ہوا، میرے ہاں فضا اور ماحول بھی ہے۔  رابطہ اور تسلسل بھی اور خود عین زندگی بھی۔  اب اس کا پھیلاؤ آپ خود تصور کر لیجیے۔

٭

زمین کے ساتھ ہی گردش میں تھے مکان اور وقت

سو دیکھنا پڑا اک اور سا جہان اور وقت

زمان و مکان کا شعور، آپ کے اشعار میں نمایاں ہے یہ شعور نئی دنیا کی دریافت میں معاون ہے یا اپنی ذات کی پہچان میں مددگار ہے؟

٭٭  زمان و مکان میرے براہ راست موضوع نہیں ہیں۔  ہاں زندگی میرا سوال ہے اس سطح پر بھی کہ میں کون ہوں اور یہ بھی کہ زندگی کیوں دی گئی جیسے کہا

مرے نام بھی کوئی کام تھا

کسی کام پر مرا نام تھا

کہ جو پہلے دن

وہ حسین ہاتھ خیال کا مجھے لکھ گیا

یا جیسے کہا

’’یہ مجھ میں کون ہے

میں ہوں

یہ ’’میں ‘‘ کیا ہے

مفاسد کا عجائب گھر

جہاں بد ہیئتی چہروں پہ بیٹھی لیپ کرتی ہے۔  ‘‘

پھر ایک سوال میرا کلچر اور انسانی تہذیب سے ہے۔  اصل میں تو میں نے خود کو پہچاننے کے حوالے سے ہی اپنے ’’حوالی‘‘ کو ٹٹولا ہے۔

٭ اے سنت مہنت گرنتھیو!…

اس غزل کو آپ محض تجربہ کہیں گے یا واقعی آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں اور جو کہنا چاہتے ہیں کیا وہ عام فہم زبان میں نہیں کہا جا سکتا تھا؟

٭٭  ہندی لحن میں یہ غزل شاید ۱۹۸۷ء میں وارد ہوئی اور عین ۱۶دسمبر کے دن۔  یہ بات بڑی حیران کن ہے۔  یہ دن آپ کو یاد ہے ہماری نوے ہزار سپاہ کے اپنی سرزمین کے اندر ہتھیار ڈال دینے کا دن ہے۔  میں نے ہندی لفظ جب کبھی برتے تو محض فضا کی نرمی کی تخلیق کے ناتے۔  اس کے نرم الفاظ استعمال کیے۔  بیان میں ہندی کے پہاڑ کھڑے نہیں کیے۔  میں کسی سطح پر بھی ہندی لہجے کا پرچارک نہیں رہا ہوں۔  ہاں ہندی کے نرم و نازک الفاظ میرے ہاں مناسب موقعوں پر ضرور آئے ہیں۔  جیسے وہ معروف نظم ’’کوئی دابی پور کماد کی‘‘ اس میں بھی جو حمید نسیم نے کہا ’’احسان اکبر کی یہ زبان آئندہ نصف صدی میں شاید ہند و پاک کی زبان ہو گی۔  ‘‘ یہ ان کی رائے ہے۔  ضروری نہیں کہ میں اس سے اتفاق کروں۔  رہا یہ امر کہ عین ۱۶دسمبر کو تخلیق ہونے والی یہ غزل ہندی لفظیات سے مرتب کیوں ہوئی۔  یہ امر میرے لیے عقدہ ہے اور غیب سے تعلق رکھتا ہے۔  کسی عیب سے بھی نہیں اور کسی شک و ریب سے بھی نہیں۔  یوں سمجھیے میں ایسا ہی کہہ سکتا تھا۔

٭ ’کوئی دابی پور کماد کی‘‘ سے مقابیت چھوٹی پڑ رہی ہے۔  اس نظم کی تخلیق کا محرک کیا تھا۔  مجید امجد کی نظم ’’ہری بھری فصلو…‘‘ میں بھی مقامیت کے ہمراہ زمان و مکان کا فلسفہ موجود ہے۔  آپ اپنی اس نظم کا تجزیہ کس طرح کریں گے۔

٭٭  میری اس نظم پر کئی حوالوں سے گفتگو ہوئی اور بہت ہوئی (شاید لکھ کر بات بالکل نہیں کی گئی) ’’کوئی دابی پور کماد کی‘‘ پر میں گفتگو کروں گا تو شاید اسے محدود کر کے رکھ دوں گا۔  تاہم اس کے حوالی یا متعلقات کے بارے میں کچھ بتانا شاید ممد ہو سکے۔  اپنی مکمل شکل میں یہ نظم ایک سفر کے دوران میں مکمل ہو گئی۔  یہ تجربہ جس contentکو لے کر آیا وہی نظم تھا اور پورے کا پورا تھا۔  اس میں زمان و مکان کے ناتے سے بات کرنے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کی گئی تھی۔  مجید امجد کی جس نظم کا آپ ذکر کر رہی ہیں۔  اس میں شاید ایسا ہو۔  مگر میری اس نظم کی تخلیق کے وقت تک شاید میں نے وہ نظم پڑھی بھی نہ ہو۔  سوال یہ ہے کہ اس نظم میں موضوع یا مواد کیا خیال بیان کرتا ہے؟ وہ سوال جسے میں نے سامنے لانے کی کوشش کی وہ حسن کی ایک لطیف ترین صورت کے روبرو آنے کا ہے اور یہ بات شاعری کا ایک قدرتی موضوع ہے۔  میرے ہاں حسن سے تخاطب کئی سطحوں پر ہوا ہے۔  (میرے یاں یہی وصول کی بھی کمال صورت ہے ) سو اس حوالے سے بھی زیادہ بیان میں آئی۔  مثلاً

’’ہمیں پہچانتی ہو

ہم سرابوں کے زیاں خانے کی دہلیزوں پہ

پچھلی ساعتوں تم سے ملے تھے

اور کچھ کہنے نہ کہنے کا کوئی عالم نہ تھا‘‘

’’تو کہ جھیلوں کی طرح گہری ہے

تو کہ خوشبو کی طرح ٹھہری ہے

تو کہاں ٹھہرے گی جو تجھ سے تعارف چاہوں۔  ‘‘

حسن سے جتنا تخاطب اور رابطہ ہے سب ہجر اور فاصلوں سے مرتب ہے، اس لیے ان سب نظموں میں ایک نرمی یا درد کی فضا بنتی ہے۔  مگر اس نظم میں بات کچھ اور بڑھی ہے۔  آپ نے مقامیت کی بات کی ہے۔  شاید زبان اور میٹر میں مقامیت دکھائی دی ہو، مگر معنی اور موضوع میں مقابیت نہیں ہے بلکہ ایک ہیولے کو گرفت میں لینے کی بات ہے جو شاید عالمگیریت سے جڑتی ہو۔  زمان اور مکان کی بات میرے موضوع میں داخل نہیں تھی، اگر حسن کا وہ معیار کئی زمانوں کی روح بنتا ہے یا لامکانی محسوس ہوتا ہے تو جاننا چاہیے کہ حسن کی یہ معنویت فوری طور پر میرے روبرو نہ تھی۔  اس نظم میں ایک عجیب سا حسن توازن قائم ہوا ہے۔  لفظ کے رسمی اور نادر استعمال میں، استعاروں کی ندرت میں، مشاہدے کے down to earthہونے میں یہ لفظیات ہندی کی نہیں ہیں۔  ہماری مقامی بولیوں سے لی گئی ہیں صرف دو تین لفظ ہندی کے ہیں جو اپنے صوتی حسن کے باعث خودبخود آ گئے ہیں۔

اس نظم میں ایک ندرت اس کے وزن میں ہے۔  بھوپال سے جب ہم گجرات کے گاؤں نوشہرہ خواجگان میں آئے تب کہنا چاہیے کہ پہلی بار میں نے زمین پر قدم رکھا اور حقیقتوں سے تعارف کا آغاز ہوا۔  میں دس گیارہ سال کا بچہ ہوں گا جب میں نے دوسرے نوشہرے کے میلے میں ’’مرزا صاحباں ‘‘ سنی۔  شاید دمودر کا مصرع ہے۔

تیرے حسن دی ڈھولاں دی عجب بولے …‘‘

اصلی ڈھول والے کی عجیب بولنے کو میں نے اسی سنگت میں محسوس کیا۔

اس مثنوی کا metre مجھ پر جادو کر گیا۔  شاید یہ ۱۹۴۸ء کی بات ہو گی۔  یہ وزن میرے باطن میں گردش کرتا رہا۔  میرے لاشعور کو اس کی الٹ پلٹ کرتے۔  شاید دو دہائیاں لگیں یا شاید زیادہ، جب میں نے اس میں دو رکن کا اضافہ کر کے اس سے ایک دم اس نظم کو کہنے کے لیے برت لیا۔  (ایک دم ہونے والا یہ عمل اپنی جگہ اتنی عمر کھا گیا) غرض اس نظم کا تو وزن بھی ایک الگ سے توازن پر قائم ہے، رسمی نہیں ہے۔

خانہ فرہنگ ایران راولپنڈی میں شعر خوانی کی ایک بڑی خصوصی نشست ہوئی۔  وہ لمحے تخلیقی عمل کے تھے۔  میں اُردو نظم پڑھتا اور ساتھ ہی پروفیسر انور مسعود اس مصرع کا فارسی میں رواں ترجمہ کرتے جاتے ’’تو بہ ہنگام صبح یک طفلک محو خواب ہستی وغیرہ… کی طرح کے ترجمے فی البدیہہ ہوتے گئے۔  آخری بند میں جب ان مصرعوں کا ترجمہ سنایا گیا

تو صبح میں سویا بالکا

تو گاؤں میں پچھلا پہر

ست رنگا خواب فقیر کا

یا بھید بھری دوپہر

اک پوری نیند کی شانتی

تری کجلے والی لہر

تو خانہ فرہنگ کے ڈائریکٹر دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے ہوئے کھڑے ہو گئے۔  کہنے لگے:

’’مداخلت معاف!… پوری اُردو شاعری کی تشبیہات اور استعارے فارسی شاعری والوں کے لیے جانے پہچانے ہیں، مگر علامتوں، تشبیہوں اور استعاروں کا یہ پورا نظام جو سن رہا ہوں، فارسی کے پورے ادب کے لیے ایک نئی دنیا اور نئی سرزمین ہے۔  میں سلام پیش کرتا ہوں۔  ‘‘

سو اس نظم کو ایک دلچسپ توازن ملا ہے۔  زبانوں اور لہجوں کے مابین۔  قدیم اور جدید کے درمیان۔  روایت اور تجربے دونوں کے درمیان۔  اس کی شناخت کسی ہندی لہجے کی ممنون نہیں ہے، بہت کچھ ورائے بساط ہے، جس نے اس نظم کو بنایا۔  اب بھی اگر آپ پوچھیں گی کہ اس نظم کا محرک کیا ہے تو میں کہوں گا کہ میں نے زندگی میں حسن، لطافت اور نرمی کو بہت کم دیکھا ہے اتفاق سے ان تینوں کو یکجا دیکھ لیا تھا۔

اب اجازت لے کر اس نظم سے ہٹ کے یہ کہنا چاہوں گا کہ میں نے اپنے خواب اور دکھ درد تو اپنی طویل نظموں میں رکھے ہیں۔  ان کے بارے میں عام قاری نے بھی ابھی سوال نہیں کیا اور آپ نے بھی نہیں پوچھا کہ ’’بھیا کسیتی‘‘

٭ فطرت کی جانب مراجعت کی خواہش انسان میں ڈوب ڈوب کر ابھرتی ہے۔

میں اپنے خواب کا ہے کو اٹھائے شہر آ نکلا

کیا اس کا کوئی حل ہے؟

٭٭

دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو…‘‘

شاید انسانی سائیکی کے قدیم ترین روّیوں میں سے ہے، مگر شہر گریزی اپنی جگہ کوئی مثبت عمل نہیں ہے۔  عہدِ موجود چاہیے ’’گلوبی گاؤں ‘‘ کے نعرے لگائے۔  مگر اس گاؤں تک کی شکل شہر کی ہوتی اور اس کا خواب بھی بین الاقوامی شہریوں ہی کی Day dreamingہے۔  شہر سے مفر نہیں۔  سلام مچھلی شہری کی طرح میں بھی یہ کہوں گا۔

’’جنتا کے دلوں کو

آنسوؤں کو

ان کی آہوں کو

چھپانے کے لیے

اپنے تئیں مسرور رکھنے کو

ادیبوں شاعروں نے گاؤں کو جنت بنایا ہے۔  ‘‘

ہمارے جیسے پسماندہ ممالک کے گاؤں کو تو ہمارا پسماندہ تر چوہدری آج بھی Infernoبنائے ہوئے ہے۔  اس نظم میں بات اپنے بچپن کی یادداشتوں کی ہے۔  سو وہ سارا ماحول پورے بچپن سمیت اچھا لگتا ہے۔

٭ تیرہ ہزار مصرعوں پر مشتمل رجائی نقطۂ نظر کی حامل نظم ’’ابھی سورج نہیں ڈوبا‘‘ کیا جدید شاعری میں طویل ترین نظم کا اعزاز رکھتی ہے۔  نظم جن حالات میں کہی گئی، کیا آج آپ ان حالات کو بہتری کی طرف مائل دیکھتے ہیں یا حالات اس کے برعکس ہیں۔

٭٭  یہ نظم تیرہ ہزار مصرعوں کے قریب طوالت رکھتی ہے، جدید شاعری میں اتنی لمبی نظم شاید کوئی اور نہ ہو۔  جن حالات میں یہ نظم کہی گئی۔  آج کے حالات بھی وہی ہیں۔  بقول پروفیسر انور مسعود:

’’حالات حاضرہ کو کئی سال ہو گئے۔  اس نظم کی تین سو لائنیں ۱۹۸۷ء میں عراق میں منعقدہ بین الاقوامی شعری میلے میں، میں نے انگریزی میں ترجمہ کر کے پڑھی تھیں۔  تب بھی امنِ عالم میرا موضوع تھا۔  آج تو امن عالم کو دنیا کے ڈکٹیٹروں نے اپنا موضوع کیا ہوا ہے۔  آج اس نظم کو دنیا کے سامنے آنا چاہیے۔  ‘‘

٭  ۱۱ستمبر کا دن اہل اسلام کے لیے ایک مسلسل وعید لے کر طلوع ہوا۔  کیا اس دنیا میں فرعون، نمرود اور شداد کو سزا نہیں دی گئی۔  کیا ہم اسے اپنے اعمال کی سزا سمجھ کر سہتے رہیں گے اور ابابیلوں کے منتظر رہیں گے۔  کیا بے بسی ہمارا مقدر ہو کر رہ گئی ہے۔

٭٭  کیا اچھے زمانے تھے جب فرعونوں، نمرودوں، شدادوں کو بھی سزا مل جاتی تھی۔  اب تو

پاسباں مل گئے کافر کو مسلمانوں میں …

جو طاقتیں کسی بھی ملک کا دست و بازو ہوتی ہیں۔  مسلمانوں کی وہ طاقتیں امریکہ خرید چکا ہے۔  غضب یہ ہے کہ اب اس طرف انگلی بھی کوئی نہیں اٹھاتا۔  لیڈرشپ کے ساتھ یہ زوال ایمان کا ہے۔  جس میں دانشور Bankruptبھی نکلا اور Corruptبھی۔

٭ عوام اپنی مٹی سے محبت کرتے ہیں۔  تخلیق کار عوام کا نمائندہ ہے۔  کیا ادیب بھی سیاست دانوں کی طرح مصلحت کو روا جانتے ہیں؟

٭٭  عوام اپنی مٹی سے محبت کرتے ہیں، لیکن ہم نے دیکھا کہ بالائی طبقے، حکمران اور میڈیا اگر امپورٹڈ مٹی کی وکالت کرنے لگ جائیں تو عوام بھی امپورٹڈ مٹی پر جان دینے لگتے ہیں۔  ہمارے حکمرانوں نے مشرقی پاکستان سے لے کر سیاچن، درہ حاجی پیر، ٹیٹوال اور کارگل سب کو بیچ کھایا۔  لکھنے والوں کی مصلحتیں بعض گروپوں کی وفاداریوں تک محدود رہتی ہیں۔  اتنے بڑے سودے بے ضمیر کے بغیر نہیں ہوتے۔  لکھنے والوں نے سچ لکھا، مگر فنکار کا سچ اپنا اپنا ہوتا ہے۔  معروضی سچ تو آج حق پرست بھی تلاش نہیں کرتے۔  لکھنے والوں نے وطن کے لیے لکھا مگر مسئلہ یہ ہے کہ غلط پراپیگنڈہ کرنے والے خود بھی اس غلط کو صحیح سمجھنے لگ جاتے ہیں۔  اب معروضی صدق، لکھنے والے کے پاس کہاں سے آئے۔

٭ اُردو ادب میں کن اصناف کے امکانات روشن ہیں؟

٭٭  ۱۹۴۷ء میں کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اُردو غزل ایک مقبول صنف بن سکتی ہے مگر اب یہ صنف مقبول ترین ہے۔  یہ پاکستان کا فیضان ہے، پھر حج کے سفر نامے ( جن میں آپ کا لکھا ہوا ’’ دسترس میں آسمان‘‘ بھی اپنی جگہ بنا چکا ہے ) بھی اسی فیضان سے مربوط ہیں۔  نعت گوئی کو جو ایک باقاعدہ صنف ہونے اور ہر رسالے اور ہر شعری مجموعے کے سرِآغازمیں شامل ہونے کی فضیلت ملی ہے۔  اس کا تعلق بھی اسی مذہبی لہر سے ہے جو ادب میں پاکستانیت کا ظہور کہلائے گی۔  رپورتاژ، افسانہ، انشائیہ، خاکے، نظم جدید، ماہیا اور ہائیکو سب کے امکانات بے حد روشن ہیں۔

٭ ادبی رسائل اور ادبی اخبارات ادب کے فروغ میں کتنے معاون ثابت ہو رہے ہیں۔

٭٭  ادبی کام توجہ اور لگن کا نتیجہ ہوتا ہے۔

٭  آپ کی شاعری پر سنسکرت و ہندی زبان کے اثرات…؟

٭٭   میری شاعری میں مستعمل الفاظ پاکستان کی مقامی پراکرتوں کے ہیں جن میں سندھی، پنجابی، سرائیکی، ڈوگری، گوجری اور کشمیری آتی ہیں۔  ہندی زبان تو فورٹ ولیم کالج میں کیا گیا ایک تجربہ تھا، جیسے انگریز نے لسانی تقسیم کے لیے رائج کیا اور جسے بعد کی ہندو سائیکی نے شوق سے اپنا لیا۔  آج ہندی بھارت میں ہے۔  اس کا شاذ و نادر ہی کوئی لفظ میرے ہاں آتا ہے۔  وہ زبان میری شاعری کی زبان نہیں ہے۔  پاکستان کی زبانوں نے ہی تو ’’میری زبان‘‘ کو بنایا ہے …پھر فارسی سے میری دلچسپی ہمیشہ برقرار رہی، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

٭ آپ کی بات درست، آپ کی شاعری میں فارسی مرکبات اور معنی خیز تراکیب کا برمحل اوربرجستہ استعمال شعر کو حسن و خوبی، کشادگی اور معنوی گہرائی عطا کرتا ہے۔  فارسی کے دو عمومی الفاظ کا ارتباط ایک ایسی مکمل تصویر تخلیق کرتا ہے جو اپنے اندر جہانِ معنی سمیٹے ہوئے ہے۔  یہ معنی آفرینی اور اختصار و اعجاز آپ کی فارسی شعر و ادب سے گہری وابستگی کا اظہار ہے۔

آپ کی شاعری میں مستعمل الفاظ، بھکشا، روپ سروپ، شانتی، کجلے، شبد، پد ھارنی، جیون، سنجوگ یوگ، پاندھی، لام، بھاگن، شکار، سواگت، چھدری، راکھی، راکھشش، کاکیشا، ماس، پچھل پائی، سنت مہنت گرنتھیو، پتر، یگ، اینائے، سمے، پرتال، درش، کارن، مہورتیں، سنجو، دورا، کڑیاں بھوکنا، پران تیاگ، پرماتما، کریا، پراتھنا، لڑکے بانکے، بھیتر، کالک، دھنے واد وغیرہ الفاظ میں سے پیشتر مختلف مستند لغات کی رو سے ہندی یا سنسکرت الاصل تھے۔  اسی بنا پر مجھے اشتباہ ہوا۔  آپ نے تصحیح کر دی۔

آپ کا بے حد شکریہ۔

٭٭٭

 

 

 

 

طارق نعیم

 

 

٭

رات کیا نیند کا عالم تھا کہ اُس عالم میں

لے گیا کوئی مرا خواب سرہانے رکھا

مری تہذیب میرے خواب رخصت ہو رہے ہیں

محبت کے سبھی آداب رخصت ہو رہے ہیں

میں جانتا ہوں کہ تُو خواب میں ملے گا مجھے

اسی لیے تو سرِ شام سو گیا ہوں میں

فرائیڈ نے خواب کو شاعری اور شاعری کو خواب کے مماثل قرار دیا ہے، خواب آپ کی شاعری میں بار بار اپنی اہمیت اور موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔  خواب محض خواب ہے یا کسی بھی بلند آدرش کا پہلا زینہ بلکہ بنیاد ہیں؟

٭٭  فرائیڈ ٹھیک کہتا ہے لیکن میرے نزدیک خواب انتہا کی تنہائی ہے۔  ایسی تنہائی جس میں دوسرا کوئی شریک نہیں ہوتا خواب مجھے ایسی پیورٹی کی طرف لے جاتا ہے، جہاں ہجوم نہیں ہوتا کیونکہ ہجوم اس پیوریٹی کو پا ہی نہیں سکتا یہ تو صرف اپنی تنہائی میں ہی پائی جا سکتی ہے۔  خواب میرے اندر کو صاف کر دیتا ہے میرے اندر ایک قسم کی سرخوشی اور مسرت بھر دیتا ہے کچھ اس طرح کہ میرے جسم، ذہن اور روح کا ہر ریشہ رقص کرنے لگتا ہے۔  خواب ہی میری شاعری کی سچائی ہے اور یہی سچائی میرا خواب ہے۔

٭ آپ کی شاعری کے کڑے تیور اور دبنگ لہجہ بظاہر آپ کی خاموش اور سنجیدہ شخصیت سے ربط نہیں رکھتا اس کی وجہ…

میں ان کا تھوڑا سا نقشہ بدلنا چاہتا ہوں

مری زمین مرا آسمان خالی کر

چٹح نہ جائے مری زد میں کوئی شے آ کر

زقند بھرنے لگا ہوں جہان خالی کر

اے آسمان دیکھ ذرا احتیاط سے

اب وہ مزاج خاک نشیں کا نہیں رہا

کبھی کبھی تو میں اے حیلہ ساز سوچتا ہوں

تری طرف تری دنیا اچھال دی جائے

٭٭  میرا لہجہ میری شخصیت سے ربط رکھتا ہے اور اگر نہ بھی رکھتا ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔  یہاں میں غیر سنجیدہ ہوا ہوں نہ ہی میرے لہجے میں اتنی تلخی ہے۔  در اصل اب یہ زمین میرے لیے کم پڑ رہی ہے اور مجھے ابھی رہنا ہے میں ایک نئے جہان کی تلاش میں ہوں مجھے اس جہان سے پرے ایک اور جہان آباد کرنا ہے تو اس جہاں آفریں سے بات تو کرنا پڑے گی بس میں وہی باتیں کرتا ہوں۔

٭ مجید امجد نے کہا تھا:

میں روز اِدھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے

میں کل ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا

طارق نعیم کہتا ہے:

میں بھی جب دنیا سے جاؤں گا تو کیا ہو جائے گا

ایک قیدی اور زنداں سے رہا ہو جائے گا

کیا فرد کی/ شاعر کی معاشرے میں اتنی ہی اہمیت یا قدر و قیمت ہے؟

٭٭  میری اور مجید امجد کی بات میں فرق ہے میں نے تو ہستی کی بات کی ہے کہ یہ دنیا ایک زنداں کی طرح ہے اور ہم سب زندانی ہیں۔  زندانی کی اپنی ایک اہمیت اور قدر و قیمت ہے وہ چاہے شاعر ہو یا کوئی دوسرا فرد۔  میں نے تو ایک المیے کی بات کی ہے۔  ایک بہت بڑا المیہ جس سے ہر شخص کو گزر کر جانا ہے۔

٭

خوف ایسا ہے مرے شہر کی دیواروں پر

جاگ سکتا ہے کوئی شخص نہ سو سکتا ہے

خوف کی رہداریوں سے میں نکل آیا مگر

ایک سایہ سا مرے پیکر میں رکھا رہ گیا

خوف زندگی کا ایک عمومی رویہ ہے خوف کا نہ ہونا بھی ٹھیک نہیں۔  آپ بتائیں کہ آپ کے ہاں خوف کتنی صورتوں میں مثبت یا منفی ظاہر ہوتا ہے۔

٭٭  میرے ہاں خوف زندگی کا عمومی روّیہ نہیں ہے، یہ میرے اندر ہے اور میری ذات کا حصہ ہے۔  عجیب بات یہ ہے کہ میرا خوف میرے لیے مثبت صورت رکھتا ہے۔  میرے خوف باہر نہیں آتے، چھلکتے نہیں عیاں نہیں ہوتے کوئی انہیں دیکھ بھی نہیں سکتا۔  کچھ لوگ اتنے خوف زدہ ہو جاتے ہیں کہ اپنے اندر دیکھنا مکمل طور پر بند کر دیتے ہیں۔  میں نے ایسا کبھی نہیں کیا بلکہ جتنا بڑا میرا خوف ہوتا ہے میں اتنا ہی اپنے اندر سمٹ جاتا ہوں۔  میں پانی سے ڈرتا ہوں، گرانی کی ارزانی سے ڈرتا ہوں، خوابوں کی فراوانی سے ڈرتا ہوں۔  کوئی اگر یکدم بہت زیادہ مہربان ہو جائے تو مجھے اس سے خوف آنے لگتا ہے۔  مجھے حسن سے ڈر لگتا ہے۔  مجھے ہر محبت خوف زدہ کر دیتی ہے، میرے نزدیک محبت سے بڑا خوف کوئی نہیں۔  اب تو یہ خوف میری ذات کا حصہ بن گئے ہیں اور مجھے اندر سے روشن رکھتے ہیں۔

٭  اس عہدِ ناسپاس میں جہاں سچ کی تلخی برداشت کرنے کا کسی میں حوصلہ نہیں اور آپ کہتے ہیں:

کسی کی ایک دعا ہے مجھے بچائے ہوئے

وگرنہ شہر تو کب کا مٹانے والا تھا

دنیا تو مجھے گر کے سنبھلنے بھی نہ دیتی

اس اوج پہ میں حرف کی تاثیر سے آیا

حرفِ دعا کی اہمیت کتنی ہے؟

٭٭  بات تو ہونی ہوتی ہے، بات رکنی نہیں چاہیے کسی میں برداشت کا حوصلہ ہو یا نہ ہو۔  یہ دنیا پیوریٹی کے وجود سے ہے جس دن پیوریٹی ختم ہو گئی تو سب کچھ ختم ہو جائے گا۔  دعا بھی پیوریٹی ہے بلکہ ایک عظیم پیوریٹی ہے۔  میرا دعا پر ایمان ہے۔  یہ آپ کو ایک اور پیوریٹی کی طرف لے جاتی ہے۔

٭ آپ کے نزدیک شاعری کیا ہے؟

٭٭  شاعری میرے نزدیک انکشافِ ذات ہے۔  شاعری رات کے اندر موجود روشنی اور اپنی ذات کی گھنی بیل کے اندر پرندوں کی طرح چہچہاتے جذبوں کی سچائیوں کو دریافت کرنے کا عمل ہے۔  شاعری زندگی کے ہونے کا ایک خوبصورت احساس ہے۔  شاعری کیمیا گری ہے۔

٭ آپ پر کب منکشف ہوا کہ آپ شاعر ہیں؟

٭٭  یہ بات میں اپنی شاعری کی پہلی کتاب ’’دیے میں جلتی رات‘‘ میں لکھ چکا ہوں کہ ’’موضع پیرتنوں کے چاہ کوڑے والا کی دور تک پھیلی تنہائی کے صحرا میں کل دو گھروں پر مشتمل زندگی کے جزیرے پر میری پہلی سانس سے صبح کی ایک کھڑکی کھلی اور رات کی تاریکی سے اُڑتے ہوئے پرندوں کا شور میرے اندر آ گیا تو رات، صحرا اور پرندوں نے میری شاعری کی پہلی کائنات تخلیق کی۔

٭  شاعری کا جزو لا ینفک؟

٭٭  شاعری کے لیے دردِ دل بہت ضروری ہے۔  اس سلسلے میں آپ کو ایک واقعہ عرض کرتا ہوں۔  ایک بار حضرت بختیار کاکیؒ حج کے لیے جا رہے تھے ان کا گزر ایران سے ہوا تو وہاں قیام کے دوران انہوں نے شیخ سعدی سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔  ایک رات محفل عروج پر تھی، شیخ سعدی کے علاوہ ایک اور بزرگ بھی محفل میں موجود تھے۔  بختیار کاکی نے یکدم اس بزرگ سے دریافت کیا کہ ’’چہ می خواہی‘‘ آپ کو کیا چاہیے۔  بزرگ نے کہا کہ فقرمی خواہم۔  مجھے فقر چاہیے۔  خواجہ بختیار کاکی نے فرمایا دادم۔  یعنی دے دیا پھر شیخ سعدی سے مخاطب ہو کر کہا ’’تُوچہ می خواہی۔  تم کیا چاہتے ہو۔  شیخ سعدی نے کہا دردِ دل می خواہم۔  مجھے دردِ دل چاہیے۔  فرمایا:  دردِ دل من خود ندارم ترا ازکجا بدہم۔  یعنی دردِ دل تو خود میرے پاس بھی نہیں تمہیں کہاں سے دے دوں، تو میرے خیال میں دردِ دل کے بغیر شاعری ممکن ہی نہیں۔

٭ آپ کی شعری کائنات میں رات اور صحرا زندہ کرداروں کی صورت سامنے آتے ہیں۔  بظاہر دونوں زندگی کے منفی پہلو کے عکاس ہیں۔  آپ کے نزدیک ان کی قدرو قیمت کیا ہے؟

٭٭  میرے نزدیک زندگی کے دو بڑے استعارے ہیں ایک رات اور ایک صحرا۔  رات میرے لیے ایک طلسم ہے اور اس طلسم کو میں نے اپنی تنہائی کے ذریعے دریافت کیا ہے۔  رات کو میں نے کسی بیل کی طرح اپنی سرسبز شاخیں پھیلاتے ہوئے دیکھ کر محسوس کیا ہے کہ رات صرف تاریکی کا نام نہیں پھر مجھے اس گھمبیر تاریک رات سے ٹھہر ٹھہر کر گزرنا پڑا ہے جہاں مجھ پر رات کے کئی روپ منکشف ہوئے ہیں۔  مجھے یوں لگا جیسے رات دن کے گھونسلے سے بچھڑا ہوا کوئی پرندہ ہے۔  رات یادوں کی وہ فصل ہے جو آنسوؤں سے سیراب ہوتی ہے۔  ایک دروازۂ حیرت ہے جو ایک اور دروازۂ حیرت کی طرف کھلتا ہے۔  خواب کی ہتھیلی پر رکھا ہوا ایک دیا ہے۔  رات ایک معجزہ ہے۔  ایک صحرا ہے جس کی ریت پر میں آج تک اپنے پیروں کے نشان ڈھونڈ رہا ہوں۔  میرا دوسرا بڑا استعارہ صحرا ہے۔  میرے خیال میں ہر شاعر اپنا ایک ایسا صحرا تخلیق کرتا ہے جس کی ہر رات اپنے اندر روشن تنہائیوں اور طویل انتظار کے ان گنت لمحوں میں ایک ایسا لمحہ کشید کرتی ہے جو شعر کی صورت اختیار کر لیتا ہے یہی صحرا ایک شعر سرا بن جاتا ہے جہاں شاعر پر رات پھر کسی دروازے کی طرح کھلتی ہے۔  میں اپنے اندر پھیلے ہوئے صحرا سے اپنے آپ کو کبھی جدا نہیں کر سکا شاید یہی وجہ ہے کہ میری شاعری کا ردھم صحرا میں محوِ خرام اونٹوں کے قافلوں کی طرح ہے اور میری شاعری کا خیال رات کے صحرا میں سفر کرتے ہوئے اونٹوں کی گردنوں میں پڑی گھنٹیوں کی طرح گونجتا ہے۔

٭ کیا آپ کو کبھی کسی منصب کی خواہش رہی ہے؟

٭٭  مجھے کبھی کسی منصب کی خواہش نہیں رہی۔  میری شاعری ہی میرے لیے سب سے بڑا منصب ہے۔  منصب کی خواہش ان لوگوں میں ہو سکتی ہے جو اندر سے خالی ہوں ویسے بھی حضرت علی نے کہہ رکھا ہے کہ ’’منصب ملنے کے بعد لوگ بدل نہیں جاتے بلکہ ظاہر ہو جاتے ہیں ‘‘ مجھے اگر منصب مل جائے تو پھر بھی میں ایسا ہی رہوں گا جیسا کہ میں ہوں تو پھر میں منصب کی خواہش کس لیے کروں۔  معاف کرنا یہاں تو جس کو بھی ذرا سا مرتبہ و منصب ملتا ہے وہ جیسے خدا بن جاتا ہے۔

٭  طارق نعیم، منیر نیازی کے سلسلے کی اگلی کڑی ہے، کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ افتخار عارف کا پرتو بھی ہے؟

٭٭  کوئی کسی کے انداز میں لکھنا بھی چاہے تو نہیں لکھ سکتا۔  میرے خیال میں شاعر کا مزاج ہی اس کا اسلوب ہوتا ہے۔  دیکھیں نہ کوئی خشت بنانے والے سانچے میں کوزہ کیسے بنا سکتا ہے۔  ہر شاعر کی اپنی ایک وجدانی کائنات ہوتی ہے اپنا ایک ریسیور ہوتا ہے۔  کوئی دوسرا اس ریسیور سے کیسے خیال کو اپنی گرفت میں لے سکتا ہے۔  پھر ہر عہد کا اپنا ایک جمال اور اسرار ہوتا ہے۔  منیر نیازی نے اپنے عہد کے جمال اور اسرار کی بات کی ہے اور میں اپنے عہد کے جمال اور اسرار کی بات کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔

٭  آپ نے کلاسیکی شعرا کو بھی پڑھا اور اپنے معاصرین کا بھی مطالعہ کیا۔  کون خود سے قریب محسوس ہوا؟

٭٭   اقبال اور غالب میرے پسندیدہ شاعر ہیں ویسے میری شاعری کے آغاز میں غالباً اسی کی دہائی کی بات ہے پیر نصیرالدین گولڑہ شریف والے نے اپنے گھر پر ہم چھ سات جوان شعرا کی دعوت کی تھی جن میں میرے علاوہ انجم خلیق، اختر شیخ، وفا چشتی، اقبال چشتی، شیدا چشتی، محبوب ظفر اور ناصر عقیل موجود تھے۔  وہاں انہوں نے افتخار عارف کا غائبانہ تعارف کرایا تھا اور ان کا ایک شعر بھی سنایا تھا، اس مصرع نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا

بابا ہم نے گھر نہیں دیکھا کئی دنوں سے

میرا یہ افتخار عارف سے پہلا تعارف تھا۔  دوسرے دن میں اُن کی کتاب ’’مہرِ دو نیم‘‘ خرید لایا اور اسے پڑھنا شروع کیا تو مجھے وہ ایک الگ طرز کے شاعر لگے، خاص طور پر ان کی بحروں نے مجھے بہت متاثر کیا۔  بعد میں محمد اظہار الحق کی کتاب ’’دیوارِ آب‘‘ پڑھی اس کی کچھ بحریں بھی اسی نوعیت کی تھیں۔  یہ دونوں شاعر مجھے بہت اچھے لگے اور آج تک ان کی شاعری مجھے پسند ہے۔

٭ شاید اسی کے زیر اثر آپ نے بہت دنوں بعد کہا

ہم آفتاب کی صورت پھرا کیے برسوں

کسی زمیں پہ نہ تھا کوئی گھر ہمارے لیے

٭٭  بے دری و بے گھری کا دکھ بنی نوع آدم کے لیے سانجھا ہے

٭ کیا آپ کے نزدیک ادب خود مختار اکائی ہے؟

٭٭  اکائی ہمیشہ خود مختار ہوتی ہے۔  جب میں کہتا ہوں کہ یہ انکشاف ذات ہے تو پھر اس پر کوئی بھی جو ممکن نہیں۔  بلکہ میں تو یہ بھی کہتا ہوں کہ جب میں ادب تخلیق کر رہا ہوتا ہوں تو میں وہ نہیں ہوتا جو دنیا مجھے سمجھ رہی ہوتی ہے۔  شاید میں اس وقت اس کائنات ہی میں نہیں ہوتا کائنات سے باہر ہوتا ہوں۔

٭ کیا ادب اپنے تہذیبی سرچشموں کا مرہون منت ہوتا ہے؟

٭٭  ادب اپنے تہذیبی سرچشموں کا مرہونِ منت نہیں ہوتا ہاں یہ ادب کو جلا ضرور دیتے ہیں۔  اس میں ایک رنگ کا اضافہ ضرور کرتے ہیں۔  ادب کچھ اور ہی چیز ہے یہ ان چیزوں سے جڑا ہوا ضرور ہوتا ہے لیکن یہ ہے ان سے اوپر کی کوئی شے۔  یہ تو خود زندگی کی تہذیب کرتا ہے۔  ادب تخلیق کرنا ایک الوہی صفت ہے۔  یہ تو پیغمبری جیسی کوئی چیز ہے۔  اس کے تار تو اس سے جا کر ملتے ہیں جو ایک مطلق تخلیق کار ہے۔

٭ مطلق تخلیق کار سے آپ کی کیا مراد ہے؟

٭٭  مطلق تخلیق کار سے میری مراد وہ ہے جس نے سب کچھ تخلیق کیا ہے اس سے پہلے کسی نے کچھ تخلیق نہیں کیا تھا نہ کوئی تخلیق کرنے والا موجود تھا۔  جو آزاد ہے، قطعی ہے۔

٭ کیا آج کا ادب سماجی مسائل سے کنارہ کش نہیں ہو گیا؟

٭٭  سماجی مسائل ادب کا مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی ان کا حل بتانا ادب کا کام ہے، ہاں کبھی کبھی یہ مسائل ادب میں آ جاتے ہیں کیونکہ ادیب سماج کے ساتھ جڑا ہوتا ہے اس ناتے یہ مسئلے ادب میں در آتے ہیں کچھ ادیب ان کا حل ڈھونڈنے لگ جاتے ہیں یا کوئی نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔  میرے خیال میں ایسا نہیں ہونا چاہیے ادب کو کوئی نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہیے۔

٭ کہا جاتا ہے شاعری فطری عمل نہیں۔  آپ کیا کہتے ہیں؟

٭٭  شاعری ایک تخلیقی عمل ہے کوئی شخص تخلیقی عمل کو غیر فطری کیسے کہہ سکتا ہے۔  شاعری کی نہیں جاتی ہو جاتی ہے۔  جیسے محبت کی نہیں جاتی ہو جاتی ہے۔  شاعری بھی محبت کی طرح ایک فطری عمل ہے۔  کیا ہوتا ہے کہ کسی نے ایک نگاہ کی اور آپ کو اپنا اسیر کر لیا۔  نہ آپ سوچ کر گئے تھے اور نہ وہ کوئی منصوبہ بندی کر کے آئے تھے بلکہ آپ دونوں تو ایک دوسرے سے واقف بھی نہیں تھے۔  تو گویا آپ دونوں کے تار کوئی اور جوڑ رہا ہوتا ہے۔  یہ اور کون ہے یہی فطری عمل ہے۔

٭ آپ کی شاعری کا محرک کیا ہے حیرت یا اور کوئی چیز؟

٭٭  میری شاعری کا محرک صحرا ہے اور صحرا سے بڑی حیرت میرے نزدیک کوئی نہیں ہے اور یہ کوئی چیز بھی یہی حیرت ہے۔  میری شاعری میں رات شام گمان اور خوف بھی حیرت کے محرک ہیں لیکن سب سے بڑا محرک صحرا ہے۔  اگرچہ گاؤں سے نکلتے وقت بھی میرے پاس صرف ایک رات تھی جو اپنی تاریکی میں میری زندگی کی ایک بیاض لکھ رہی تھی۔  رات پھر میری ہم راز بن گئی اور مجھے گمان کے دروازے تک لے گئی جہاں اس نے خوف کی مہار میرے ہاتھ میں تھما دی۔  وہی خوف پھر میرا جادہ بن گیا۔  تو میں نے کسی محوِ پرواز پرندے کی طرح گمان کی کئی منزلیں طے کیں۔  کبھی ہجر کی بارشوں میں بھیگ کر، کبھی تنہائی اوڑھ کر، کبھی اداسی کے ملبوس میں۔  میرے یہ سارے روپ میرے گمان کی بیل کی شاخیں، پتے اور پھول ہیں جن میں رات ایک جگنو کی طرح روشن رہتی ہے۔  صحرا میرے نزدیک اداسی ہے، خوف ہے۔  صحرا کی رات اور وہ بھی شبِ ماہتاب۔  کیا قیامت ہے جس نے دیکھی ہو۔  وہی بتا سکتا ہے۔  صحرا ہمیشہ سفر میں رہتا ہے منزل، پڑاؤ نہ سمتِ سفر بس ایک سفر مدام سفر۔  ایک وسعت کشادگی ایک دور تک پھیلی تنہائی ہے۔  اب میری حیرت میں کچھ شامیں بھی داخل ہو گئی ہیں۔  جن کا ذکر میں نے اپنی دوسری کتاب ’’رُکی ہوئی شاموں کی راہداریاں ‘‘ میں بھی کیا ہے۔  ’’گمشدہ شاموں کی رہگزر پر چلتے چلتے میں ایک ایسے عہد تک آ گیا تھا جس نے میری گمان کے شہر میں صبح کا مجسمہ نصب کرتے کرتے شام کر دی تھی اور اس شام سائے ڈھلنے کے ساتھ ہی میری تنہائی کے باغ میں ایک اور سرخ پھول کا اضافہ ہو گیا تھا جب میرے باپ کو زندگی کے منصب سے ہٹایا جا رہا تھا تو ایک سہمی ہوئی شام چپکے سے میرے اندر آ گئی تھی۔  اب مجھے ایسے لگتا ہے جیسے ایک شام میری آنکھوں میں ہے، ایک اس کی آنکھوں میں ہے اور ایک شام شہر کی فصیلوں پر ہے۔  شام جو تنہائی کا ایک بہت بڑا شہر ہے یہی شام دن کا اخیر ہے مگر اداسی کا آغاز ہے۔  میں گمان کی شام کا دیا ہوں اور میری ساری شامیں زندگی کے طاقوں پر رکھے ہوئے دیوں کی طرح جھلملاتی ہیں۔  شاموں کا ایک دلفریب سلسلہ میرے شعری وجدان سے جڑا ہوا ہے میں اپنے آپ سے ایک شام کے فاصلے پر ہوں۔  شام میری ہم سفر ہے، میرا وطن ہے، میری جلاوطنی ہے، میرا حیرت کدہ ہے، میرا میخانہ ہے، میرا زنداں ہے، میرا گمان ہے۔  گمان کی اس کیفیت میں میرے سامنے شہرِ شام کا ایک طلسماتی دروازہ کھل جاتا ہے میں کسی بھٹکے ہوئے مسافر کی طرح شام کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اپنے لیے ایک راستہ تلاش کر لیتا ہوں۔

٭ آپ نے کبھی پیچھے مڑ کر دیکھا ہے کبھی گذشتہ وقت کا خیال آیا ہے؟

٭٭  گذشتہ وقت جس نے مجھے تھوڑی سی محبت اور بہت سا انتظار دیا ہے، اب اپنی بیاض میں میرے خوف، اداسی، حیرت اور ناراض پھولوں کا نصاب لکھ رہا ہے۔  خواب سے تعبیر تک کا فاصلہ زیادہ طویل نہ ہوتے ہوئے بھی یہ فاصلہ مجھے ایک عمر کے سفر میں طے کرنا پڑا ہے اور اب یہ کھلا ہے کہ تعبیر میں تو ایک اور خواب رکھا ہوا تھا اور میں ایک عہدِ بے عہد میں سانسیں لے رہا تھا اور اب یہ عالم ہے کہ جو ذرا سی محبت سے ملتا ہے میں اس کے ساتھ چل پڑتا ہوں۔  میرے گذشتہ وقت کے صندوق میں کچھ پرانے وعدے اور کچھ یادیں رکھی ہوئی ہیں۔  کبھی جب میں صندوق کھول کر یہ چیزیں دیکھتا ہوں تو رو پڑتا ہوں۔

٭ آپ نے کبھی پیچھے مڑ کر دیکھا ہے کبھی گذشتہ وقت کا خیال آیا ہے؟

٭٭  گذشتہ وقت جس نے مجھے تھوڑی سی محبت اور بہت سا انتظار دیا ہے اب اپنی بیاض میں میرے خوف، اداسی، حیرت اور ناراض پھولوں کا نصاب لکھ رہا ہے۔  خواب سے تعبیر تک کا فاصلہ زیادہ طویل نہ ہوتے ہوئے بھی یہ فاصلہ مجھے ایک عمر کے سفر میں طے کرنا پڑا ہے اور اب یہ کھلا ہے کہ تعبیر میں تو ایک اور خواب رکھا ہوا تھا اور میں ایک عہدِ بے عہد میں سانسیں لے رہا تھا اور اب یہ عالم ہے کہ جو ذرا سی محبت سے ملتا ہے میں اس کے ساتھ چل پڑتا ہوں۔  میرے گزشتہ وقت کے صندوق میں کچھ پرانے وعدے اور کچھ یادیں رکھی ہوئی ہیں۔  کبھی جب میں صندوق کھول کر یہ چیزیں دیکھتا ہوں تو میں رو پڑتا ہوں۔

٭ کیا اقبال کے بعد اہم ترین شاعر مجید امجد ہیں؟

٭٭  یہ کسی اور کی رائے تو ہو سکتی ہے میری نہیں۔  اقبال کے بعد اہم ترین شاعر کو ئی نہیں ہے۔  فیض بھی نہیں۔  ن۔  م۔  راشد کے کچھ امکانات ہیں۔  مجید امجد تو بالکل نہیں۔  میں نے مجید امجد کو پڑھا ہے میری بدقسمتی ہے کہ میں ان سے متاثر نہیں ہو سکا۔  میں تو ان میں تقابل بھی نہیں کر سکتا۔  ابھی تو وقت چھلنی لے کر بیٹھا ہے میرے خیال میں وقت کو فیصلہ کرنے دیں۔

٭ اُردو غزل پر ناصر کاظمی کے اثرات کو آپ کس طرح محسوس کرتے ہیں؟

٭٭  یہ اثرات والی بات مجھے بہت عجیب لگتی ہے۔  میر کے ناصر کاظمی پر اثرات اور ناصر کاظمی کے ہم پر اثرات۔  اس بیچارے کے تو اپنے اثرات زیادہ دیر رہنے والے نہیں۔  ایک زمانے میں منیر نیازی نے کہا تھا کہ تمام لوگ مجھ سے متاثر ہو کر لکھ رہے ہیں کتنی عجیب بات ہے پھر ایک اور عجیب بات یہ ہوئی کہ اگلے ہی ہفتے لاہور کے ایک شاعر نے یہ کہہ دیا کہ تمام نوجوان نسل مجھ سے متاثر ہو کر لکھ رہی ہے۔  حالانکہ وہ نسل بے چاری اس کے نام تک سے واقف نہیں تھی۔

٭ آپ کے ہاں عجیب طرح کی اداسی کی کیفیت، فراق اور دکھ موجود ہے اس کا سبب کیا ہے؟

٭٭  اس کا سبب میرے خوف ہیں۔  میں بنیادی طور پر ایک خوف گزیدہ آدمی ہوں۔  میں تمام عمر خوف کی راہداریوں میں سفر کرتا رہا ہوں۔  میں اگر ذرا سی دیر کو ان راہداریوں سے نکلا بھی ہوں تو ایک سایہ سا میرے پیکر کے اندر ضرور موجود رہا ہے۔  یہ اداسی میری محبتوں کے خوف کی ہے۔  کیونکہ محبت سے بڑی طاقت اور محبت سے بڑا خوف کوئی نہیں ہوتا۔  پھر صحرا تو ہے ہی فراق ایک بے کنار ہجر ایک لامحدود دکھ۔  میں آج بھی کسی کو بچھڑتا ہوا یا ملتا ہوا دیکھتا ہوں تو میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔  اسی لیے مجھے شام اور ریلوے پلیٹ فارم کی اداسی بہت ہانٹ کرتی ہے۔

٭ شاعری بذاتِ خود ایک نشہ ہے سرشاری ہے کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس سے بڑا کوئی اور نشہ بھی ہے؟

٭٭  سب سے بڑا نشہ محبت ہے عشق ہے۔  جو عشق کے زینے پر چڑھا اسے کسی نے اترتے نہیں دیکھا اور جو عشق کی بارگاہ میں ایک بار گیا اسے تاریخ نے پھر واپس آتے نہیں دیکھا۔  باقی نشے تو عارضی ہیں حسن بھی ایک نشہ ہے۔

٭ کیا شاعری کے ذریعے پورا سچ بیان کیا جا سکتا ہے؟

٭٭  آج تک پورا سچ بیان نہیں کہا گیا۔  سچ بیان ہو ہی نہیں سکتا، یہ تو وقت سے باہر کی کوئی چیز ہے۔  یہ زمان کے اندر وقوع پذیر نہیں ہو سکتی۔  نہ ہی پورا سچ بیان کیا جا سکتا ہے۔  خود خدا نے بھی پورا سچ ظاہر نہیں کیا۔  بہت سارے حجاب رکھ دیے ہیں، راز ہیں پردے ہیں وہ ہے بھی اور نہیں بھی۔  پورا سچ بیان کر دیا جائے تو قصہ ختم ہو جاتا ہے۔  ابھی تو کچھ بھی نہیں ہوا بہت کچھ ہونا باقی ہے۔  ابھی تو زندگی کی شروعات ہیں ہر چیز کی شروعات ہیں۔  ابھی تو پورے لفظ ظاہر نہیں ہوئے اور جو ظاہر ہوئے ہیں ان کے درمیان بھی لمبی لمبی خموشیاں ہیں۔  کوئی پورا سچ بیان نہیں کر سکتا۔  گیانی نہ گمانی، درویش نہ ولی۔  بس وہ اتنا ہی سچ بیان کر سکتا ہے جتنی اس کی استطاعت ہوتی ہے بس شاعری بھی اتنا ہی سچ بیان کر سکتی ہے۔  سچ تو ابھی دریافت ہونا ہے ہر شاعر کو اپنا سچ دریافت کرنا ہوتا ہے میں بھی اپنی شاعری میں اس سچ کو دریافت کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔

٭ محبت کے با رے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

٭٭  محبت کائنات کا عظیم ترین تجربہ ہے۔  میرا خیال ہے کہ ایک محبت کرنے والا شخص پوری دنیا کو زیر کر سکتا ہے۔  مجھے زندگی سے محبت ہے۔  میں لوگوں سے محبت کرتا ہوں۔  میں تو ان چیزوں سے بھی محبت کرتا ہوں جو مجھ سے تعلق رکھتی ہیں۔  یہ ایک روحانی عمل ہے۔  یہ اندر کا عمل ہے۔  جو درونِ ذات بڑی دور تک سفر کرتا ہے۔  میں اگر کسی چیز سے محبت کر رہا ہوتا ہوں تو وہ چیز، چیز نہیں رہتی ایک شخصیت بن جاتی ہے۔  میں اس سے گفتگو کر سکتا ہوں اس کے سا تھ بہت سارا وقت گزار سکتا ہوں۔  میری کار میرے لیے صرف ایک کار نہیں ہے بلکہ وہ ایک شخصیت ہے جو میرا سفر آسان کرتی ہے میرے ساتھ رہتی ہے، کبھی کبھی میں اس سے کلام بھی کرتا ہوں۔  کچھ لوگ عورت کو بھی ایک شے بنا دیتے ہیں اسے بیوی بنا لیتے ہیں جو ایک شے کی طرح ہوتی ہے۔  حالانکہ وہ ہے تو عورت ہی بیوی بننے کے بعد بھی اس سے محبت کی جا سکتی ہے۔

٭ آپ کی شاعری میں کہیں کہیں تصوف کا رنگ نظر آتا ہے، اس کا سبب؟

٭٭   میں نے اس کا کوئی اہتمام نہیں کیا یہ رنگ بس آ گیا ہے آپ ہی آپ آئے چلا جا رہا ہے۔  در اصل میں ہستی کو تھوڑا سا منکشف کرنا چاہتا ہوں۔  اپنے روبرو ہونا چاہتا ہوں۔  اپنی ذات سے کلام کرنا چاہتا ہوں یہ ایک کشف کا اور الہامی لمحہ ہوتا ہے یہ میرے اندر کی توانائی کو تحریک دیتا ہے۔  میں یہ عمل اس دنیا میں نہیں کر سکتا ہوں میری شاعری میں تصوف کا رنگ اس لیے آ جاتا ہے کہ وہ مجھے ایک اور جہان میں لے جاتا ہے جہاں میں خود کے روبرو ہو سکتا ہوں اپنے آپ سے کلام کر سکتا ہوں خود کو خود پر منعکس ہوتا دیکھ سکتا ہوں۔

٭ کیفیتِ رنج و مسرت…؟

٭٭  جب کوئی مجھ پر اعتماد نہیں کرتا تو مجھے بہت رنج ہوتا ہے اور جب کوئی مجھ پر اعتماد کرتا ہے تو مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔

٭  شعر کے اظہار میں زبان کا کردار کس قدر اہم ہوتا ہے؟

٭٭  زبان کا کردار تو ہے لیکن یہ بعد کی چیز ہے۔  اظہار کا ایک ذریعہ ہے اصل بات تو بہاؤ کی ہے خیال کی ہے خیال جب آتا ہے تو وہ اظہار کا راستہ خود بنا لیتا ہے زبان چاہے کوئی بھی ہو۔  آپ نے پانی کو دیکھا ہے جب زور میں آتا ہے تو یہ نہیں دیکھتا کہ زمین کس طرح کی ہے پتھریلی ہے یا زرخیز۔  جنگل ہے یا بیاباں وہ اپنا راستہ اپنے زور سے بنا لیتا ہے۔  زبان تو اظہار کا ایک وسیلہ ہے۔  بنیادی چیز شاعر کا وجدان ہے اسے آپ اینٹینا بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ کتنی صفائی کے ساتھ اور کتنی طاقت سے خیال کو گرفت میں لے سکتا ہے۔

٭ ترقی پسند ادب آپ کی نظر میں …؟

٭٭  مجھے ایک سطح پر اس سے اختلاف ہے۔  ادب میں جب کوئی مقصد یا نظریہ آ جاتا ہے تو پھر ادب پرے ہٹ جاتا ہے۔  پہلے سے مقصد سوچ کر ادب تخلیق کرنا میرے لیے اہم نہیں۔  بلاشبہ اس زمانے میں اچھا ادب تخلیق ہوا لیکن اگر اس میں ایک زمانہ جھلکتا ہے، ایک طرح کی مقصدیت ہے کوئی نظر یہ ہے تو جب یہ چیزیں ختم ہوں گی تو پھر یہ ادب کہاں کھڑا ہو گا۔  کسی نے اگر کسی موقع کی مناسبت سے نظم کہی یا افسانہ لکھا تو جب وہ موقع بدل گیا یعنی اپنی اصل حالت میں نہیں رہا تو وہ ادب کہاں جائے گا۔  ہاں اگر ادیب نے اس ادب کو آفاقی بننے دیا ہے تو پھر شاید وہ زیادہ دیر تک رہ سکے۔

٭ شعر میں کیا باعث توصیف اور کیا باعثِ مذمت ہے؟

٭٭  شعر میں بے ساختگی اور ایک قسم کی بے نیازی ہونی چاہیے چالاکی نہیں ہونی چاہیے۔

٭٭٭

تشکر: مصنفہ جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

یہ حصہ ڈاؤن لوڈ کریں

 

ؤرڈ فائل

 

ای پب فائل

 

کنڈل فائل

 

 

مکمل کتاب، تینوں حصے

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل