FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

سبعہ اور عشرہ اختلاف قرأت اور قراء حضرات

                   جامع العلوم، محدث  العصر علامہ تمنا  عمادی پھلواری

سبعہ اور عشرہ اختلاف قرأت اور قراء حضرات

                   جامع العلوم، محدث  العصر علامہ تمنا  عمادی پھلواری

حصہ دوم

4۔عبداللہ بن عامر (ولادت 21 ھ۔ وفات 118ھ)

زیادہ تر ائمہ رجال تو 21ھ ہی لکھتے ہیں مگر ان کے ایک شاگرد  خلاد بن یزید بن صالح بن صبیح المری نے ان کا سال  ولادت 8ھ بیان کیا ہے۔ مگر حافظ ابن حجر نے اس کو رُوِی کہہ کر  ضعیف قرار دیا ہے۔ اس قول کا ضعف اس سے بھی ظاہر ہے کہ یہ نہیں معلوم کہ خالد بن یزید المری نے کس سے کہا تھا  اور کس ذریعے سے یہ روایت حافظ ابن حجر تک پہنچی اور خود خالد بن یزید کو اس کا سال ولادت کس سے معلوم ہوا؟ مگر مودودی صاحب نے اسی ضعیف قول کو نقل کیا ہے اس حساب سے ان کی عمر 110 برس بنتی ہے مگر ائمہ رجال ان کو معمر لوگوں میں نہیں لکھتے۔و اللہ اعلم

ابن حجر تہذیب التہذیب  جلد 5، صفحہ 274 میں لکھتے ہیں کہ انھوں نے قرآن مجید  مغیرہ بن ابی شہاب سے پڑھا تھا۔ مودودی صاحب لکھتے ہیں مغیرہ بن شہاب بہرحال جناب مغیرہ ممدوح کے والد ماجد شہاب ہوں یا ابو شہاب، لیکن ائمہ رجال شہاب یا ابی شہاب کے صاحبزادے مغیرہ کا ذکر کہیں نہیں کرتے۔ لے دے کے بس  عبداللہ بن عامر  کے ترجمے میں لکھ دیتے ہیں کہ انھوں نے مغیرہ بن ابی شہاب سے قرآن پڑھا تھا۔ افسوس ہے کہ عبداللہ بن عامر کو صحابہؓ میں سے کوئی بھی ایسا نہ ملا جو قرآن پڑھا دیتا۔ انھوں نے قرآن پڑھنے کے لئے چنا بھی تو ایک غیر معروف  مجہول الحال  ہی شخص کو۔ اور مغیرہ بن ابی شہاب  کے سوا  اور کسی سے ان کے قرآن پڑھنے کا  کوئی بھی ذکر نہیں کرتا۔ "تیسیر” میں ابو عمر الدوانی نے ان کا ایک استاد  اور ڈھونڈ نکالا ہے۔ یعنی ابو درواء عویمر بن عامر  مشہور صحابیؓ اور پھر مغیرہ بن ابی شہاب المخزومی کا نام لکھتے ہیں جو ایک مجہول الحال نا معلوم شخص تھے۔ لکھتے ہیں کہ انھوں نے عثمانؓ سے قرآن پڑھا تھا۔ پھر یہ بھی لکھتے ہیں کہ بعضوں نے کہا ہے کہ عبداللہ بن عامر  نے بذات خود  عثمانؓ سے قرآن پڑھا تھا۔ پھر یہ بھی لکھتے ہیں کہ یہ صحیح نہیں ہے۔ پھر لکھتے ہیں کہ شیخ ابو علی نے ہمیں خبر دی ہے کہ یہ صحیح  ہے یعنی عبداللہ بن عامر  کا سیدنا عثمانؓ سے بذات خود قرآن پڑھنا صحیح ہے۔ مگر یہ شیخ ابو علی کون ہیں؟ بغیر کسی  تصریح کے ان کی شخصیت  کس طرح متعین کی جائے اور پھر اس کو قاری و مقری بھی ہونا چاہیے اور ابو عمر الدوانی کا ہمعصر  ہونا بھی ضروری ہے تاکہ ابو عمر الدوانی کو وہ خبر دے سکے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ من جد و جد جوئندہ یا بندہ۔ تھوڑیٰ سی جستجو کے بعد  میں نے شیخ ابو علی صاحب کا پتا لگا لیا۔ اب مجھ سے سنئے۔ ان ابو علی صاحب کا نام حسن بن قاسم ہے۔ اور ان کا لقب "غلام الہراس” مشہور ہے۔ اہل عراق کے قاری تھے۔ 374ھ میں پیدا ہوئے اور 468 ھ میں وفات پائی۔ ابو عمرو الدوانی کی وفات 444 ھ ہے۔ اس لئے دونوں میں ملاقات ہو سکتی ہے۔ انھی نے ابو عمرو الدوانی سے کہا ہو گا۔ مگر یہ کوئی متعمد علیہ[1] شخصیت نہ تھے۔ اس لئے پہلے لکھ دیا کہ حضرت عثمانؓ سے عبداللہ بن عامر کا قرآن پڑھنا جو بعض لوگ بیان کرتے ہیں صحیح نہیں ہے اس کے بعد ان کا قول بھی نقل کر دیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیوں صحیح نہیں ہے جب 8ھ میں پیدا ہوئے تھے تو حضرت عثمان کی شہادت کے وقت چھبیس ستائیس برس کے ہوں گے۔ تینتیس چونتیس برس کی عمر میں ممکن ہے کہ انھوں نے  حضرت عثمان سے قرآن پڑھا ہو لیکن حضرت عثمان کی شہادت 35ھ میں ہے۔ اور حضرت ابو الدرداءؓ کی وفات  32 ھ میں ہے۔ حضرت عثمان کی شہادت سے دو ڈھائی برس پہلے۔ اس لئے اگر یہ عثمانؓ سے قرآن نہیں پڑھ سکتے تھے تو پھر حضرت ابو الدرداء سے بھی نہیں پڑھ سکتے تھے۔

اصل یہ ہے کہ ان کی عمر زیادہ کرنے کے لئے یہ روایت گھڑی گئی ہے کہ  ان کی ولادت 8ھ میں ہوئی تھی تاکہ حضرت ابو الدارداء اور حضرت عثمان سے ان کا قرآن پڑھنا  ممکن قرار دیا جا سکے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کی ولادت  21ھ میں ہوئی۔ یہ تو کوئی حدیث بھی حضرت ابو الدارداء، حضرت عثمان یا حضرت علی سے روایت نہیں کرتے۔ پورا قرآن مجید ان میں سے کسی سے بھی کس طرح پڑھ سکتے تھے۔ بچپن میں یہ اپنے وطن دمشق میں رہے۔ تابعی تھے۔ متاخرین صحابہ سے حدیثیں کرتے تھے۔ انھوں نے تو حضرت عثمان یا حضرت ابو الدارداء کو دیکھا بھی نہ ہو گا بلکہ حضرت علی کی زیارت بھی نصیب نہ ہوئی ہو گی۔ "تیسیر” میں حضرت ابو لدارداء سے ان کے قرآن پڑھنے کا ذکر سند کے لئے کافی نہیں ہو سکتا اور نہ خالد بن یزید بن صالح سے بے سند روایت کہ ان کی پیدائش 8ھ میں ہوئی تھی جمہور ائمہ  رجال کے خلاف قابل تسلیم ہے۔

ابن حجر ان کے ترجمے میں لکھتے ہیں کہ ان سے اسماعیل بن عبداللہ بن ابی المہاجر نے قرآن پڑھا تھا اور ابو عبیداللہ مسلم بن مشکم نے اور یحیٰ بن المحارث الذماری نے بھی۔ ابن الندیم نے "الفہرست” میں ان کے بھائی عبدالرحمن بن عامر کو بھی ان کا شاگرد لکھا ہے اور سعید بن عبدالعزیز اور ہشام بن عمار اور ثور بن یزید کو بھی۔ ابو عمرو الدوانی نے تیسیر  صفحہ5 میں لکھا ہے کہ "قراء سبعہ میں سے ابن عامر  الشامی یعنی یہی عبداللہ بن عامر الحصیبی اور ابو عمرو کے سوا کوئی بھی خالص عرب نہیں تھے۔ سب موالی یعنی آزاد کردہ غلام تھے۔ ابو عمرو یعنی ابو  عمرو بن العلاء بن عمار  بن عبداللہ بن الصحین بن الحارث بن الجلہم بن خزاعی بن مالک بن عمرو بن تمیم۔ ابو عمرو کا نام ریان یا عریان یا یحیٰ بتایا ہے یعنی یہ تمیمی بنی تمیم سے تھے۔ اس لئے عربی تھے۔ابو عمرو بن العلاء نے تو  254 ھ میں کوفہ میں وفات پائی تھی۔ ابو عمرو بن العلاء تو کوفہ ہی میں رہتے تھے۔ اہل کوفہ کی صحبت میں رہ کر "ہرکہ درکان نمک رفت نمت شد” کے مطابق  کوفیوں کے رنگ میں رنگ گئے تھے۔ ان مفصل حال آپ پہلے سن چکے۔ عبداللہ بن عامر بہت متقدم ہیں دمشق والوں نے ان کا صرف نام استعمال کیا ہے۔ جہاں تک قیاس رہنمائی کرتا ہے اس کی امید نہیں ہوئی کہ یہ خود اختلاف قرأت کی سازش میں شریک ہوں۔ خصوصا جب یہ موالی نہ تھے، خالص عرب تھے۔ جیسا کہ ابو عمرو الدوانی نے لکھا ہے  مگر ابن السمعانی نے لفظ یحصبی کے تحت میں عبداللہ بن عامر کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے کہ وہ لکھتے ہیں کہ یحصب  قبیلہ حمیر کی ایک شاخ تھی یہ لوگ حمص میں رہتے تھے۔ بعضوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یحصب ایک قریہ تھا  حمص کا۔ سمعانی لکھتے ہیں کہ مگر پہلا ہی قول صحیح ہے، ممکن ہے یحصبیون کا قبیلہ حمص کے جس قریہ میں رہتا ہو وہ قریہ انھی کے نام سے مشہور ہو گیا ہو۔ بہرحال یہ  قریشی نہ تھے نہ حجاز کے رہنے و الے۔ اس لئے ان کو عرب کہہ دینے سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے۔ غایت سے غایت  موالی میں سے نہ تھے۔ یعنی کسی کے غلام آزاد کردہ نہ تھے۔ مگر نہ یہ ضروری ہے کہ جتنے موالی ہوں وہ سب قرآن و اسلام کے خلاف سازش میں شریک ہوں اور نہ یہ ضروری ہے کہ جتنے خالص عرب  بلکہ حجازی بلکہ قریشی ہوں وہ سب پکے مومن اور مخلص مومن ہوں۔

اچھے برے ہر طبقے، ہر قبیلے اور ہر جگہ کے لوگ ہر زمانے میں کم و بیش رہے ہیں۔آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ مبارک میں خاص مدینہ والوں میں بھی کچھ منافقین تھے۔ جس کی شہادت خود قرآن مبین نے دے رہا ہے۔ مختصر یہ کہ سات  میں سے صرف دو کے عرب ہونے پر فخر کرنا یا اس کو غنیمت  سمجھنا صحیح نہیں جبکہ پانچ کے موالی میں سے ہونے کا خود اعتراف ہے۔ پھر بھی میں عبداللہ بن عامر کو اختلاف قرأت  کی سازش میں شریک نہیں سمجھتا ہوں بلکہ سمجھتا ہوں کہ شامیوں نے ان کو  اپنی سازش میں شریک کر لیا۔ ان کو بھی نہیں بلکہ ان کے نام کو ان کی وفات  کے بعد۔ کیونکہ ان کی وفات  کے وقت تک تو کوفہ کے خاص خاص گھروں اور خاص خاص محلوں میں اختلاف قرأت  کی کھچڑی چپکے چپکے پک رہی تھی اور روایتیں بن رہی تھیں۔ اسناد جوڑے جا رہے تھے۔ الفاظ قرآنی کے اعراب اور نقطے کہیں رسم الخط کہیں الفاظ بدل بدل کر لکھے جا رہے تھے۔ عبداللہ بن مسعود اور بی کعب وغیرہ رضی اللہ عنہم کے مصاحف مرتب کئے جا رہے تھے۔زیادہ سے زیادہ غیر منقوط بغیر اعراب کے مصاحف پرانے کاغذات  پر لکھے جا رہے تھے۔ جن کی کتابت  صحابہؓ میں سے کسی کی طرف  منسوب کی جا رہی تھی۔ یہ ثابت کرنے کے لئے کہ ابتداء ہی سے قرآن غیر منقوط  بغیر اعراب کے چلا آ رہا ہے۔ غرض 118ھ  کا زمانہ مختلف قرأتوں کی اشاعت کا نہ تھا بلکہ اشاعت کے لوازمات مہیا کرنے کا تھا۔ باقی رہا صرف قرآن کا پڑھنا یا پڑھانا۔ تو اس کا مدرسہ تو ہر مسلم گھر میں موجود تھا۔ ہر باپ اپنی اولاد کو، ہر شوہر  اپنی بیوی کو، ہر آقا اپنے غلام اور لونڈی کو قرآن پڑھاتا تھا۔ کسی قاری و مقری کی کہیں کوئی ضرورت ہی نہ تھی بحز ان ممالک کے جو فتح ہوتے جا رہے تھے۔ اور جہاں اسلام اس وقت پھیل رہا تھا، وہاں کے نو مسلموں کے لئے البتہ تعلیم قرآن کے لئے قاریوں اور مقریوں کی ضرورت تھی۔

اچھا اب عبداللہ بن عامر سے جن لوگوں نے اپنایا دوسروں نے ان کا رشتہ تلمذ جوڑا ہے ان سے بھی کسی قدر تعارف حاصل کر لیجئے۔ تاکہ شامی اسکول قرأت کا  حال بھی آپ کو معلوم ہو جائے مگر پہلے ایک بات سن لیجئے۔

 

اہلحدیث اور قراء کا فکری اتحاد محدثین میں جامعین صحاح یا امام مالک امام احمد بن حنبل اور ان جیسے اکابر محدثین رحمہ اللہ کی دیانت و خلوص میں ان کی وثاقت و عدالت  میں کسی طرح کا شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح ائمہ رجال کی تفتیش و  تمحیص اور دیانتدرانہ تحقیق و تدقیق سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ مگر یہ سب حضرات انسان تھے اور انسان کی فطرت  میں بھول چوک بھی  ہے اور رعایت و مروت بھی ہے۔ محبت و عداوت بھی ہے اور بہت سی انسانی کمزوریاں بھی ہیں۔ ان محدثین و ائمہ رجال رحمہ اللہ کو تمام انسانی کمزوریوں سے پاک و منزہ سمجھنا غلط ہی نہیں گناہ بھی ہے اور درحقیقت گناہ کبیرہ ہے۔ محدثین میں جو جامعین سنن ہیں یہ اس زمانہ کے لوگ ہیں جب فرقہ بندی مسلمانوں میں پیدا ہو چکی تھی۔ اس لئے فرقہ ورانہ تعصب ان میں نمایاں تھا اکثر محدثین شافعی تھے۔ حنفیوں کے ساتھ ان کا تعصب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔

امام بخاری شافعی تھے اس لئے امام ابو حنیفہ کی طرف سے کچھ کچھاؤ رکھتے تھے۔ چنانچہ اپنی کتاب تاریخ صغیر میں ایک روایت لکھ گئے کہ "نعیم بن حماد نے ہم سے بیان کیا کہ ہم سے فزاری نے کہا کہ میں سفیان (ثوری) کے پاس تھا کہ نعمان (امام ابو حنیفہ) کی وفات کی خبر پہنچی۔ تو سفیان نے کہا الحمد للہ ! اس شخص نے اسلام کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی تھیں۔ اسلام میں اس سے زیادہ منحوس  آدمی پیدا نہ ہوا”۔(تاریخ صغیر  صفحہ 174 مطبوعہ انوار احمدی الٰہ آباد)

حالانکہ نعیم بن حماد کو خود امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الضعفاء الصغیر صفحہ 29 میں ضعیف لکھا ہے اور مشہور شارح صحیح بخاری حافظ ابن حجر  تہذیب التہذیب جلد 10 صفحہ 462 میں اس نعیم بن حماد کو کذاب لکھتے ہیں اور صاف طور سے تحریر فرماتے ہیں۔ دو دو جگہ صفحہ 462 اور 463 میں کہ کان یضع  الحدیث فی تقویۃ السنۃ و حکایات فی ثلب ابی حنیفہ کلھا  کذب یعنی ” نعیم بن حماد سنت کی تقویت کے لئے حدیثیں گھڑا کرتے تھے اور (امام) ابو حنیفہ کی  تنقیض میں حکایتیں گھڑا کرتے تھے اور وہ سب جھوٹی ہوتی تھیں” اور فزاری صاحب جن کا نام مروان بن  معاویہ ہے وہ بھی نعیم بن حماد سے کچھ کم نہ تھے مجہول لوگوں سے غلط سلط روایتیں کرتے تھے اور کبھی راویوں کے نام بھی بدل دیتے تھے اس لئے ان کے معروف و مجہول دونوں قسم کے شیوخ مشتبہ ہی حال میں تھے۔

چنانچہ ابن حجر تہذیب التہذیب جلد 1 صفحہ 160 میں لکھتے ہیں کہ یہ ابراہیم بن محمد سے روایت کرتے تھے مگر نام بدل کے یعنی ابراہیم کو عبدالوہاب قرار دے کر۔ مگر جلد 10 صفحہ 98 میں ان کے اوصاف حسنہ کی تصریح کی ہے۔غرض ائمہ حدیث ہوں یا ائمہ رجال کمزوریوں سے وہ بری نہ تھے۔ وہ ان قاریوں کی ریشہ دوانیوں کو دیکھ رہے تھے اور ایک حد تک سمجھتے بھی تھے مگر سازشیوں کی ایک بہت بڑی جماعت خود ان کے ساتھ بھی محدثین کی جماعت بن کر لگی ہوئی تھی جن میں سے کچھ ان کے تلامذہ تھے تو کچھ ان کے شیوخ و اساتذہ بھی تھے۔ کچھ ان کے کاتب اور وراق (دفتری) تھے تو کچھ دوست احباب بھی تھے اور وہ سب قاریوں کے حامی تھے۔ اس لئے ان قاریوں کے خلاف کچھ بول نہیں سکتے تھے۔ بلکہ اختلاف قرأت کی کچھ روایتیں اپنی کتابوں میں لکھ لینے پر بھی مجبور ہو جاتے تھے۔ اور اگر وہ جامعین خود اپنی کتابوں میں اسی قسم کی روایتیں درج نہیں کرتے تھے تو ان کے کاتب ان وراق جن میں اکثریت سازشی لوگوں ہی کی تھی اور ان کے سازشی تلامذہ ان کے بعد ان کی کتابوں میں داخل کر کے ان کی کتابوں کی متعدد نقلیں کرا کے مختلف  جگہ پھیلا دیتے تھے۔ تاکہ وہی سازشی نسخہ کثیر الاشاعت ثابت ہو کر صحیح سمجھا جائے۔ جن کے پاس اصل نسخے کی صحیح نقل ہو بھی تو وہ اپنی کتاب میں ان حدیثوں کی کمی سمجھ سمجھ کر ان کو اپنی کتابوں میں شامل کر لیں۔ اگر محدثین قاریوں کی ان ریشہ دوانیوں کو اچھی نظر سے دیکھتے تو خود  حدیث سے زیادہ اختلاف قرأت  قرآن میں اس سرگرمی سے حصہ لیتے جس سرگرمی سے قاریوں کی جماعت حصہ لے رہی تھی ورنہ ان محدثین کا تعلق ان قراء سبعہ کے ساتوں اسکولوں سے کیوں نہ ہوا ؟ ان لوگوں نے ان اسکولوں میں سے کسی اسکول میں کیوں قرآن نہیں پڑھا ؟محدثین سے تو ایک دنیا آباد نظر آتی ہے اور قاریوں کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔ کسی اسکول کے ہیڈ ماسٹر کو دو ایک سے زیادہ اسٹوڈنٹ نہیں ملے۔ ادھر ادھر سے مانگے کے شاگرد  و جانشین مہیا کئے جاتے رہے۔ یہ افلاس ان قاریوں میں آخر کیوں تھا ؟ اس کی وجہ یہی تھی کہ عام طور  سے مخلص مسلمانوں کو ان کی ریشہ دوانیوں کچھ بھلی نہیں معلوم ہوتی تھیں۔ ابتداء میں جب تک سازش  کو سازش نہیں سمجھے تھے انزل الفرقان علی سبعۃ والی حدیث اور بعض اختلاف قرأت  کی روایتیں لکھیں تھیں یا ان کی کتابوں میں داخل کر دی گئی تھیں۔ان کو دیکھ کر بعد والے محدثین اور عامہ المسلمین ان کو صحیح سمجھ کر چپ تھے اور ان حدیثوں کو احادیث متشابہات سمجھ کر ان پر ایمان رکھتے تھے۔ مگر جب اختلاف قرأت  کا انبار لگنے لگا  تو محدثین اور ان کے ساتھ عام مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت ان سے الگ تھلگ ہی رہی۔

ائمہ رجال بعض قاریوں کے حالات سے واقف نہ تھے تو دوسرے قاریوں سے پوچھ لیا کرتے تھے جو کچھ وہ بتا دیتے یہ لکھ لیا کرتے تھے۔”دروغ گو  را حافظہ نباشد” بات اگر صحیح ہو تو جس سے بھی پوچھئے سب ایک ہی بات کہیں گے مگر جھوٹی بات میں ضرور اختلاف ہو گا۔ اس لئے کسی نے کسی کو کسی کا شاگرد لکھوایا کسی نے کسی کا کسی کو شاگرد لکھوا دیا دوسرے نے اس کا الٹا لکھوا دیا۔ کہ وہی شاگرد تھے اور وہی استاد۔ ان باتوں کو ذہن نشین رکھتے ہوئے اب سنئے۔

اسماعیل بن عبید اللہ بن ابی المہاجر  کے متعلق ابن حجر تہذیب التہذیب جلد 5 صفحہ 274 ترجمہ عبداللہ بن عامر  بن یزید الحصیبی المقری لدمشقی میں لکھتے ہیں قرآ علیہ اسماعیل بن عبید اللہ بن ابی الماجر و ابو عبید اللہ مسلم بن مشکم و یحیٰ بن الحارث الذماری

ان کے ترجمے میں صاف ثابت ہو رہا  کہ اسماعیل بن عبداللہ بن  ابی المہاجر شاگرد تھے اور عبداللہ بن عامر استاد۔ مگر جلد 1 صفحہ 317 ترجمہ اسماعیل بن عبید اللہ بن ابی المہاجر المخزومی جو مخزومیوں کے غلام آزاد کردہ تھے۔ مگر نہ ان کو قاری لکھا ہے نہ مقری۔ نہ یہ قرأت کے فن میں کسی کے استاد تھے نہ کسی کے شاگرد۔ اور حضرت انسؓ جیسے متعدد صحابہ سے حدیثیں روایت کرتے ہیں  اگر ان کو قرآن پڑھنا ہی تھا تو صحابہ کو چھوڑ کر ایک دمشقی سے قرآن مجید پڑھنے کی انھیں کیا ضرورت تھی۔ اگرچہ یہ خود بھی دمشقی ہی تھے۔ بس صرف دونوں کو دمشقی دیکھ کر جو سن میں کم تھا اس کو شاگرد اور بڑے کو استاد قرار دے کر سلسلہ جوڑ دیا۔ حالانکہ یہ تو عبداللہ بن عامر  سے کوئی حدیث بھی روایت نہیں کرتے۔

اور سنئے تہذیب التہذیب جلد 7 صفحہ 228 عطیہ بن قیس الکلابی الدمشقی جو بنی عامر  کے غلام آزاد کردہ تھے ان کے ترجمے میں ابن حجر لکھتے ہیں بروایت عبدالواحد بن قیس ( جو عروہ بن الزبیر یا عمرو بن عتبہ کے غلام آزاد کردہ تھے ) کہ "لوگ اپنے مصاحف کو عطیہ بن قیس  کی قرأت کے مطابق درست کر لیا کرتے تھے ” یعنی عطیہ اس قدر مسلم الثبوت قاری تھے کہ لوگوں کو اپنے مصاحف پر جو یقینی بقول قراء مصحف عثمانی ہی ہو گا یا شاید مصحف عبداللہ بن مسعود یا مصحف بن ابی کعب کے مطابق لیکن ان میں سے کسی مصحف پر لوگوں کو اعتماد باقی نہ رہا تھا۔ جو قرأت  عطیہ بن قیس نے اختیار کی تھی وہی قرا ت سارے اہل دمشق کو بقول عبد الواحد بن قیس پسند آ گئی تھی۔ مگر خود عطیہ نے یہ قرأت جو  دمشق میں اس قدر مقبول تھی کس سے حاصل کی تھی اس کا مطلق ذکر نہیں۔ حدیثیں یہ حضرت ابی کعب سے روایت کرتے تھے ان کا ذکر ضرور ہے۔ ان سے قرآن پڑھنے کا ذکر نہیں تو پھر ان کا وہ کون سا مصحف تھا کہ سارے دمشقیوں نے ان کے مصحف پر اپنے مصاحف کو قربان کر دیا؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ عبدالواحد صاحب کی دروغ بانی اور اپنی پارٹی کے آدمی کا پراپگینڈا ہے اور کچھ نہیں، عبدالواحد بھی دمشقی اور عطیہ بھی دمشقی۔عطیہ بھی ایک غلام آزاد کردہ اور عبدالواحد بھی ایک غلام آزاد کردہ۔ اس لئے اگر یہ سازش قرأت کے ارکان کا پراپگینڈا کریں تو کیا بعید از عقل ہے اور  یہ عبدالواحد تھے بھی ایسے ہی کہ عجیب عجیب حدیثیں روایت کرتے تھے۔ مشہور محدثین سے منکر حدیثیں "حدثنا” کہہ کر روایت کرتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہ کو دیکھا تک نہ تھا مگر ان سے بے محابا روایت کیا کرتے تھے۔ اس لئے محدثین نے ان کو متروک الحدیث لکھا ہے۔ تو پھر ان سے اپنی سازشی پارٹی کا جھوٹا پراپگینڈا کیا بعید از عقل ہے ؟

(ان کے حالات تہذیب التہذیب جلد 6 صفحہ 439 میں دیکھئے )

 

5۔عاصم بن ابی النجود  الکوفی ان کو عاصم بن بہدلہ کہتے  ہیں۔ اسدیوں کے آزاد کردہ غلام تھے۔ اسلئے اسدی کہے جاتے ہیں۔زر بن جیش الکوفی اور ابو  عبدالرحمن السلمی سے قرأت حاصل کی اور ان سے اعمش اور منصور بن المعمر روایت کرتے ہیں۔ یہ دونوں ان کے قرابت مند بھی تھے (دونوں شیعہ تھے کوفہ میں بنی اسد کا اور ہمدانیوں کا محلہ خاص شیعوں کا محلہ تھا۔ اس لئے آپ ان عاصم صاحب کو بھی سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کیا تھے۔ اور ان کر پروردہ اور شاگرد حفص کیا تھے ) مگر ان کو لکھا ہے کہ کان عثمانیاً یعنی حضرت عثمانؓ کے حمایتیوں میں سے تھے۔ قوم کی اکثریت میں اعتبار و اعتماد  پیدا کرنے کے لئے متعدد اسدی و ہمدانی اور دوسرے اہل کوفہ ازروئے تقیہ عثمانی بن گئے تھے۔مگر حدیث اپنے اصل مسلک کی بہت روایت کرتے تھے۔ اس لئے خاص کر اسدیوں اور ہمدانیوں کے عثمانی  بن جانے یا اپنے کو اہل سنت  ظاہر کرنے سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے۔محدثین نے لکھا ہے کہ حافظے کے بہت کمزور تھے، حدیثیں یاد نہیں رکھتے تھے اسلئیے ان کی حدیثوں میں نکرہ ہوتی تھی۔ ابن حجر لکھتے ہیں کہ کہ حاتم نے کہا ہے کہ عندی محلہ الصدق صالح الحدیث ولیس محلہ ان یقال ھو ثقہ یعنی  سچے تھے درست حدیثوں والے مگر ان کا یہ مقام نہیں کہ ان کو ثقہ یعنی قابل وثوق کہا جائے۔(تعجب ہے، سچے بھی تھے صالح الحدیث بھی تھے تو اب ان کے ثقہ ہونے میں کون سی کسر رہ گئی تھی؟) چونکہ بخاری و مسلم میں ان کی روایتیں ہیں اس لئے ان پر رجال والے کھل کر کچھ لکھ نہیں سکتے تھے پھر کوفہ کے قاریوں کے سرگروہ بھی تھے۔ 127 یا 128ھ میں ان کی وفات ہوئی۔

 

اساتذہ عاصم قرأت میں عاصم بن بہدلہ کے دو استاد تھے اور دونوں کوفی۔ ابو عبدالرحمن السلمی لکوفی جن کا نام عبداللہ بن حبیب بن ربیعہ ہے (بصیغہ تصغیر) جنگ صفین میں تو حضرت علی کے ساتھ تھے مگر حضرت علی کی شہادت کے بعد جب خلافت  حضرت معاویہ کی طرف منتقل ہو گئی تھی تو ؑعثمانی بن گئے تھے۔ رہے برابر کوفہ میں اور وہیں وفات پائی۔ ان کے والد حبیب بن ربیعہ السلمی صرف انھیں نے بیان کے باعث صحابی سمجھے جاتے ہیں۔ خود ان کے سوا کسی اور کی شہادت  ان کے والد کے صحابی ہونے کی نہیں ملتی۔ خود حضرت عمر حضرت عثمان حضرت حذیفہ بن الیمان حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت علی رضی اللہ عنہم اجمعین سب سے روایت کرتے ہیں۔ اس لئے ان سب روایتوں کو صحیح ثابت کرنے کے لئے  ان کی تاریخ وفات  کے تعین میں لوگوں نے بہت اختلاف کیا ہے۔ اور جن کو اس کی فکر نہ تھی ان لوگوں نے صاف انکار کر دیا ہے کہ حضرت عمر تو بہت پہلے گزر ے، حضرت عثمان اور حضرت عبداللہ بن مسعود سے بھی انھوں نے کچھ نہیں سنا۔ تو پھر حضرت حذیفہ الیمانی سے ان کا کچھ سننا  قرین عقل نہیں۔ مگر ان کا ہر صحابی سے سماع ثابت کرنے کے لئے بعد والوں نے بہت کوشش کی۔ ان کا سال وفات کوئی 70ھ کوئی 72ھ اور کسی نے 85 ھ لکھا ہے۔ اور آخر الذکر  نے ان کی عمر نوے برس بتائی ہے۔ اگر نوے برس کی عمر پائی اور 85 میں وفات پائی تو وفات نبوی کے وقت ان کو پندرہ برس کا ہونا چاہیے اور صحابہ میں ان کا ذکر ہوتا اور اگر 70 یا 72ھ میں وفات پائی  اور عمر نوے برس کی ہوئی تو وفات نبوی کے وقت  ان کو پچیس برس کا ہونا چاہیے اور صحابہ میں ان کا ذکر ہوتا۔70ھ میں نوے برس کی عمر میں ان کا انتقال اس لئے بیان کیا گیا  کہ حضرت عمر حضرت عثمان حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم اجمعین سے ان کا سماع ثابت ہو اور عاصم بن بہدلہ کا ان سے قرأت سیکھنا بھی ثابت ہو۔72ھ میں اگر ان کی وفات مان لی جائے اور عاصم بن بہدلہ کی وفات اگر 127ھ ہی مان لیجئے تو  دونوں کی وفات کے درمیان 55 برس کا فاصلہ پڑتا ہے۔خرجی نے خلاصہ تہذیب التہذیب میں الیمانی میں عاصم بن بہدلہ کا سال وفات  پروایت 129ھ لکھا ہے۔ اور کسی قول کو نقل نہیں کیا ہے جس سے معلوم ہوتا کہ ان کے نزدیک 129ھ وفات صحیح ہے۔ تو عاصم اور  ابو عبدالرحمن کی وفات کے درمیان 57 برس کا فاصلہ ہوتا ہے۔ اور امام ذہبی کی کتاب "طبقات القراء” کا ذیل جو ابو المحاسن محمد بن علی الحسینی نے لکھا ہے اس میں لکھا ہے کہ عاصم  بن بہدلہ سے اعمش نے قرأت حاصل کی اور عاصم نے اعمش سے حدیث لی اور دونوں میں قرابت قریبہ تھی مگر عاصم اعمش سے چار برس چھوٹے تھے۔ اعمش کے ترجمے میں ان کا سال ولادت  61ھ لکھا ہے اس حساب سے عاصم کا سال والدت 65ھ ٹھہرتا ہے۔ تو جب  ابو عبدالرحمن السلمی کی وفات  72ھ میں ہوئی تھی تو  اس وقت عاصم کی عمر صرف سات برس ٹھہرتی ہے۔ ممکن ہے کہ عاصم کے والد  نے تبرکاً ان سے کچھ قرآن پڑھوا دیا ہو، ورنہ یہ عمر فن قرأت و  اختلافات قرأت سیکھنے کی نہیں ہے۔

 

زر بن حبیش باقی رہے عاصم کے دوسرے استاد زر بن  حبیش۔ ان کی اور ان کے ایک اور ساتھی شقیق بن سلمہ ابو وائل الاسدی دونوں کی عجیب و غریب شخصیت ہے۔ دونوں کی عمروں میں بات بیٹے کا ہی نہیں بلکہ دادا اور پوتے بلکہ پردادا اور پڑپوتے کا فرق ہو سکتا ہے۔ مگر دونوں میں اس قدر  یک دلی و یکجہتی تھی کہ دونوں ایک سال مرے۔ یعنی 83ھ ہی میں دونوں کی وفات ہوئی۔ یہ دونوں اہل کوفہ کے نزدیک تابعین میں سے تھے اور حضرت عبداللہ بن مسعود کے خاص شاگرد وں میں ان کا شمار کرتے ہیں۔ ان دونوں سے صرف اہل کوفہ ہی روایت کرتے ہیں کوئی ایک غیر کوفی بھی ان دونوں سے روایت نہیں کرتا۔ خیر ابو وائل سے ہمیں کام نہیں اسلئے زر بن حبیش کا حال سنئے۔

کوفیوں ہی کی روایت سے علمائے رجال لکھتے ہیں کہ یہ زمانہ جاہلیت کے آدمی تھے، 127 برس عمر پائی۔ وفات 83ھ میں ہوئی۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ بعثت نبوی کے وقت اکیس سال کے تھے۔ مگر یہ کہاں رہتے تھے، کہاں پیدا ہوئے تھے کسی کو کچھ پتا نہیں۔ شقیق بن سلمہ ابو وائل بھی اسدی کہے جاتے ہیں  اور زر بن حبیش بھی، اور دونوں جاہلی ہونے کا دعویٰ رکھتے تھے۔ یا دونوں کو جاہلی کہا جاتا ہے۔ ابو وائل کے بیان میں بتایا جاتا ہے کہ وہ کہتے تھے میں نے جاہلیت کے چھ برس پائے تھے جہاں تک غور کیجئے صاف پتا ملتا ہے کہ کوفہ کے اسدیوں نے یہ دو نام گھڑ لئے تھے اور ان کو حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن مسعود کا خاص شاگرد قرار دے کر  ان سے روایتیں منسوب کر کے پھیلائیں اسی لئے صرف  کوفیوں ہی کو ان کے تلامذہ قرار دیا۔ کسی غیر کوفی کو ان کا شاگرد  بتاتے تو راز کھل جاتا، کوفہ میں بعض ثقہ محدثین بھی تھے۔ مثلاً  عامر بن شرجیل الشعبی الکوفی، ابراہیم النخعی الکوفی، سعید بن مسروق الثوری الکوفی وغیرہ۔ ان لوگوں کے واسطے سے بھی  ان کے بعد  والے کوفیوں نے زر بن حبیش اور ابو وائل سے حدیثیں روایت کی ہیں یا بصرہ و مصر و شام وغیرہ کے منافقین نے۔ اس لئے زر بن حبیش  اور ابو وائل سے روایت  کرنے والوں میں کوفہ کے بعض ثقہ محدثین کے نام دیکھ کر دھوکا نہیں کھانا چاہیے، ان ثقہ راویوں کے بعد جن کے نام آتے ہیں  ان کا حال دیکھنے سے  حقیقت واضح ہو جائے گی انشاء اللہ۔

مختصر یہ ہے کہ زر بن حبیش و شقیق بن سلمہ ابو وائل دو فرضی شخصیتیں تھیں جن سے صرف کوفہ والے ہی منسوب کر کر کے حدیثیں روایت کیا کرتے تھے۔ لیکن جب ان کے اصل شاگرد امام القرأت حفص  بن سلمان ہی قابل وثوق نہ ہوں تو پھر  ان کے اوپر  کے ناموں کی وثاقت ان کی روایات کی توثیق کی کیا ذمہ داری ہو سکتی ہے۔

عاصم کے دوسرے شاگرد  حفص  بن سلیمان القاری حفص بن سلیمان الاسدی ابو  عمیر البزار لکوفی القاری۔ ان کو غاضری بھی کہتے ہیں یعنی غاضر بن الملک بن ثعلیہ کی طرف سے بھی منسوب کئے جاتے ہیں۔ اور ان کو حفیص ( بصیغہ تصغیر) بھی کہتے ہیں۔ یہ عاصم بن ابی النحود (جن کو عاصم بن بہدلہ بھی کہتے ہیں) کے ربیب یعنی ان کی بیوی کے پہلے شوہر کے بیٹے تھے۔ اس لئے عاصم بن بہدلہ الکوفی کی گود میں پلے بڑھے اور انھیں سے قرأت بھی سیکھی اور ان سے حدیثیں بھی روایت کرتے تھے۔ امام احمد بن حنبل اور ابو حاتم نے ان کو متروک الحدیث قرار دیا ہے۔ اور یحیٰ بن معین نے غیر ثقہ کہا ہے۔ علی بن الدنی نے بھی ان کو ضعیف الحدیث قرار دیا ہے اور ترک کیا ہے۔ امام بخاری، امام مسلم دونوں نے ان کو متروک الحدیث لکھا۔ صالح بن محمد نے کہا کہ ان کی حدیث نہ لکھی جائے۔ و احادیث کلھا مناکید۔ ان کی ساری حدیثیں مستحق انکار ہیں۔ (میں منکر کا ترجمہ لوگوں کے سمجھانے کو ہی کرتا ہوں)۔

ساجی نے کہا ہے کہ سماک وغیرہ سے باطل حدیثیں روایت  کیا کرتے ہیں۔ ابن خراش نے کہا ہے کہ کذاب متروک یضع الحدیث۔ یعنی بڑا جھوٹا ہے مستحق ترک ہے حدیث گھڑتا ہے۔ ابو احمد حاکم نے کہا ہے کہ یہ گئی گزری حدیث والے ہیں۔ امام شعبہ نے یحیٰ بن سعید سے کہا کہ مجھ سے ایک کتاب مستعار مانگ کر لے گیا مگر واپس نہیں لایا۔ دوسروں کی کتابیں لے کر ان سے حدیثیں نقل کر لیا کرتا تھا۔ احمد بن محمد  الہنداودی یحیٰ بن معین سے روایت کرتے ہیں کہ (عاصم بن ابی النحود کے شاگردوں میں) حفص اور  ابوبکر، عاصم کی قرأت کے سب سے زیادہ جاننے والے ہیں۔ اور حفص ابوبکر سے زیادہ قرأت جاننے والا تھا۔ اور یہ کذاب تھا۔ ابن حبان نے کہا ہے کہ یہ حدیثوں کے اسناد میں الٹ پلٹ کر دیا کرتا تھا۔ اور مرسل کو مرفوع بنا دیا کرتا تھا۔ ابن جوزی نے موضوعات میں لکھا ہے کہ عبدالرحمن بن مہدی نے کہا ہے کہ واللہ لاتحل الروایۃ عنہ (قسم اللہ کی ان کی حدیث کی روایت کرنا جائز نہیں) امام بخاری نے تاریخ اوسط  میں 180ھ اور 190ھ کے درمیان ان کی وفات لکھی ہے (تہذیب التہذیب جلد 2، صفحہ 400) مگر مراۃ الجنان میں لکھا ہے کہ 180ھ میں نوے برس کی عمر پا کر  وفات پائی جلد 1  صفحہ378۔ مگر سوچئے تو  جس کا برتاؤ حدیث رسول کے ساتھ اچھا نہ ہو تو قرآن مجید  کے ساتھ اس کا برتاؤ کیا اچھا رہ سکتا ہے۔ فاعتبرو یا اولی الابصار۔

حفص کے تلامذہ ان کے ایک شاگرد کا نام عبید اللہ بن الصباح لکھا ہے مگر دراصل وہ عبید بن الصباح ہیں عبید اللہ بن الصباح کوئی شخص بھی دنیائے رجال میں نہیں تھے۔ عبید بن الصباح الکوفی ایک صاحب ضرور تھے اور  حفص بن سلیمان کے زمانے ہی میں تھے، اور کوفہ ہی کے رہنے والے تھے۔ حفص بن سلیمان کے ہمعصروں سے حدیثیں بھی روایت کرتے تھے۔ عیسیٰ بن المہمان البصری ثم الکوفی ابو العلاء کامل بن العلاء الکوفی وغیرہ سے یعنی کوفیوں ہی سے روایت کرتے تھے۔ اور ان سے بھی فقط اہل کوفہ ہی روایت کرتے تھے۔علمائے رجال کے نزدیک غیر معلوم الحال محض معمولی سے راوی تھے مگر نہ ان کو قاری لکھا ہے نہ حفص بن سلیمان سے ان کا کوئی تعلق لکھا ہے نہ حفص کے تلامذہ میں ابن حجر  یا ذہبی وغیرہ نے عبید  بن الصباح، عبید  ابن الصباح کا نام لکھا ہے مگر فن قرأت  والے تو گمناموں ہی کو کھینچ کھینچ  کر اپنے یہاں لاتے ہیں۔

حفص کے دوسرے شاگرد  جو بیان کئے جاتے ہیں عمرو بن  الصباح ان کا بھی کتب رجال میں کہیں نام و نشان نہیں۔ عبید اللہ بھی ابن  الصباح اور عمرو بن ابن الصباح، اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ اگر یہ دونوں  اسمائے بے مسمی نہیں ہیں بلکہ دو شخصیتیں ہیں تو غالباً  دونوں ایک ہی باپ کے بیٹے ہوں گے۔ اور اگر ہونگے تو پھر یہ دونوں بھی کوفہ ہی کے ہونگے اور کسی کے غلام آزاد کردہ ہونگے۔ یہ خود نہیں تو ان دونوں کے باپ صباح ہی سہی۔

 

6۔ حمزہ بن حبیب بن عمارۃ الزیات ابو عمارہ التمیمی الکوفی یہ بنی تمیم میں سے کسی کے آزاد کردہ غلام تھے۔ عبدالرحمن بن مہدی جو بہت مشہور  امام الحدیثین تھے امام بخاری وغیرہ کے شیوخ میں تھے۔ وہ فرماتے تھے کہ اگر مجھ کو سیاسی اقتدار  حاصل ہوتا  تو جس کو حمزہ کی قرأت  سے قرآن پڑھتے سنتا اس کی پیٹھ اور پیٹ کو (مارتے مارتے ) درد سے بھر دیتا۔ کوفہ اور حلوان کے درمیان لے جا کر تیل بیچا کرتے تھے۔ ابن حجر کے زہد و درع و عبادت و تقویٰ کی تعریف بھی لکھتے ہیں پھر  لکھتے ہیں وقد ذمہ جاعۃ من اھل الحدیث فی القراءۃ و ابطل بعضھم الصلوۃ باختیارۃ من القراءۃ یعنی اہلحدیث کی ایک بڑی جماعت نے  قرأت کے متعلق ان کی مذمت کی ہے اور بعض نے تو ان کی قرأت سے نماز میں قرآن پڑھنے سے نماز باطل کے ہو جانے کا فتویٰ دیا ہے۔

علامہ ساجی اور ازدی نے بھی ان کی قرأت کی مذمت کی ہے۔ حدیث میں بھی یہ کوئی پایہ نہیں رکھتے تھے۔ امام احمد بن حنبل بھی عبدالرحمن بن مہدی وغیرہ کی طرح ایسے امام کے پیچھے نماز کو مکروہ سمجھتے تھے جو حمزہ کی قرأت سے قرآن پڑھے۔ ابو بکر بن عیاش کہتے ہیں کہ حمزہ کی قرأت بدعت ہے۔ ابن ورید نے کہا ہے کہ میرا جی چاہتا ہے کہ حمزہ کی قرأت  کو کوفہ سے نکال باہر کروں مگر یہ تو متقدمین کی رائیں تھیں۔ قرأت حمزہ کے متعلق متاخرین نے کیا فیصلہ کیا ؟ یہ بھی سن لیجئے۔ ابن حجر مذکور بالا باتیں لکھنے کے بعد کہتے ہیں کہ قد انعقد الاجماع باخرۃ علی تلقی قراءۃ حمزہ بالقبول و یکفی حمزۃ شہادۃ الثوری لہ فانہ قال ماقرء حمزۃ حرفا  الا باثر۔ یعنی آخر میں لوگوں کا اجماع  حمزہ کی قرأت  کو قبول کر لینے کا ہو گیا اور حمزہ کے لئے سفیان ثوری کی (تنہا) یہ شہادت کافی ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ حمزہ نے ایک حرف بھی ایسا نہیں پڑھا جو کسی نہ کسی اثر (یعنی صحابی کے قول یا تقریر سے۔ اور تقریر کا مطلب یہ ہے کہ کسی صحابی نے حمزہ والی مخصوص قرأت کو سنا اور خاموش رہے ) سے ثابت نہ ہو۔

مگر حمزہ کی ولادت 80ھ تو خود  ابن حجر ہی لکھ رہے ہیں بظاہر انھوں نے تو کسی صحابی کی صورت بھی نہیں دیکھی ہو گی۔ ان کے اساتذہ بلا استثناء سب کے سب کوفی،  ان میں بھی زیادہ تر  آزاد کردہ غلام اور زیادہ شیعہ اور سفیان ثوری جو تنہا ان کے لئے صفائی کے گواہ بنے وہ بھی کوفی ہی تھے۔  مگر ان کے مذہب میں ضعفاء و مجروحین کی روایتیں بھی مقبول تھیں۔ اس کئے یہ کیوں دیکھتے کہ زیارت یعنی حمزہ صاحب اپنی قرأت کے آثار جو پیش کر تے ہیں وہ کس قسم کے راویوں سے مروی ہیں۔ اور پھر معلوم نہیں واقعی سفیان ثوری نے ایسا کہا بھی تھا کہ نہیں ؟

سفیان ثوری کی وفات  161ھ میں ہوئی تھی اور ابن حجر متوفی 802ھ  پیدائش  آٹھویں صدی میں ہے۔ اسلئے سفیان ثوری تک اپنا سلسلہ اسناد  ان کو لکھنا تھا۔ اور شاید سفیان ثوری کو بھی ابن حجر نے ذوالشہادتین سمجھ لیا کہ پوری جماعت محدثین کے خلاف صرف ایک شخص کی شہادت مجرم کی حمایت میں  کافی سمجھ لی۔ خود سفیان ثوری کی ولادت  97ھ میں ہوئی تھی کسی صحابی کی پرچھائیں تک انھوں نے نہیں دیکھی۔ باقی رہے تابعین تو تابعین ہی میں قاتلین عثمان اور حسین بھی تھے۔ وہ سب بھی تو آخر تابعی تھے۔ منافقین تو آآ کر  تابعی ہی بنتے گئے۔

اس لئے  آنکھ بند کر کے تابعی ثقہ کہنے میں تو صحاح تک میں مکذوبات کا ایک معقول ذخیرہ رکھوا دیا۔ غرض سفیان ثوری کی وفات 161ھ ہے۔ متاخرین تک  ثوری کی یہ صفائی کی گواہی کن راویوں کے ذریعے پہنچی۔

 

سلیم بن عیسیٰ پھر حمزہ صاحب کو صرف ایک ہی شاگرد ملا  سلیم بن عیسیٰ الحنفی۔ بنی حنیفہ میں سے کسی کے غلام آزاد کردہ تھے۔ ان کی بدنامی کی وجہ سے کوئی ان کا شاگرد نہ ہوا۔ انھیں جیسا ایک آزاد کردہ غلام کسی طرح ان کو مل گیا۔

ان سلیم صاحب کے البتہ دو شاگرد ہو گئے۔ خلاد بن خالد اشیبانی ابو عیسیٰ متوفی 220ھ۔ یہ حمزہ کے بھی خاص شاگرد تھے اور حمزہ کی قرأت کو آگے بڑھانے والے دراصل یہی تھے۔ دوسرے خلف بن ہاشم جو طالب بن  غراب البزاری کے نام سے بھی متعارف ہیں۔ انھوں نے حمزہ کی قرأت  پر قناعت نہ کی دوسرے قاریوں کی قرأت بھی سیکھی، صرف حمزہ ہی کے ہو رہنا انھوں نے گوارہ نہ کیا۔

 

7۔علی بن حمزہ بن عبداللہ بن قیس بن فیروز الاسدی مولا ھم الکوفی المعروف  بالکسائی

یہ بھی اسدیوں میں سے کسی کے آزاد کردہ غلام تھے، عجمی تھے۔ ان کے والد  اور ان کے دادا اتھ ساتھ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ یہ بھی ان کے ساتھ ہی کمسنی میں ہی مشرف بہ اسلام ہوئے اور کوفہ میں علوم دینیہ حاصل کرنے لگے۔عربی زبان میں صرف و نحو میں بڑی مہارت پیدا کی اور علم نحو میں کتاب بھی تصنیف کی۔ کوفہ سے بغداد چلے گئے تھے ہارون الرشید نے ان کو اپنے درباریوں کی تعلیم سپرد کر دی۔ خلیفہ وقت امیر المومنین کے صاحبزادوں کے استاد تھے اس لئے عوام پر ان کا خاص اثر تھا اور عزت و احترام سے دیکھے جاتے تھے۔

کسائی نے قرأت حمزہ الزیات سے سیکھی اور چار بار ان سے قرآن پڑھا اور محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ متوفی148ھ سے بھی قرأت سیکھی اور قرآن پڑھا۔ حمزہ زیات سے تو آپ واقف ہو چکے ہیں۔ محمد بن ابی لیلیٰ کوفی تھے اور کوفہ کے قاضی بھی تھے اور فقہا میں شمار ہوتے تھے۔ بد حافظہ ہونے میں اپنی مثال آپ تھے۔ امام شعبہ نے کہا کہ ان سے زیادہ بد حافظہ میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ سارے محدثین شیعہ سنی سب کا ان کے بد حافظہ ہونے پر اجماع ہے۔ مگر اہل سنت کے یہاں یہ بد حافظہ ہونے کے سبب سند و حجت نہیں سمجھے جاتے۔ البتہ شیعوں کے یہاں ان کے بد حافظہ ہونے کے  اعتراف کے باوجود  ان کو سند و حجت سمجھا جاتا ہے۔ غرض یہ شیعوں میں شیعے تھے۔ اور سنیوں میں سنی تھے۔ پھر آخر کوفی ہی تو تھے۔

اور کسائی کے تیسرے استاد  عیسیٰ بن عمر الاسدی الہدانی الکوفی متوفی156ھ تھے۔ جو اسدیوں میں سے کسی کے آزاد کردہ غلام تھے۔ قرأت میں عاصم بن ابی النحود کے شاگرد تھے اور سلیمان الاعمش کے شاگرد بھی۔ عاصم بن النحود، اعمش  اور یہ عیسیٰ بن عمر اور خود کسائی چاروں اسدیوں کے غلام آزاد کردہ تھے اور چاروں کوفی تھے۔

اور کسائی کے چوتھے استاد  ابو بکر بن عیاش  الاسدی الکوفی جو 96ھ میں پیدا ہوئے تھے اور 192ھ میں وفات پائی تھی یہ بھی ایک اسدی واصل الاحدب کے آزاد کردہ غلام تھے اور کوفی تھے۔ قال ابو نعیم لم یکن فی شیو خنا اکثر  غلطا منہ ابو نعیم کہتے ہیں کہ ہم لوگوں کے استادوں میں ان سے زیادہ غلطی کرنے والا کوئی نہ تھا۔ روایت میں بہت غلطی کرتے تھے۔ عاصم بن النحود کے شاگرد رشید تھے۔

اور کسائی کے پانچویں استاد سلیمان الاعمش الاسدی الکوفی تھے جو  اسدیوں کے آزاد کردہ غلام تھے۔ حضرت حسین بن علیؓ کی شہادت  کے دن یعنی یوم عاشورہ 61ھ میں پیدا ہوئے اور 148ھ میں وفات پائی، شیعہ تھے۔مگر متقدمین شیعوں میں سے تھے جب شیعہ مذہب میں سارے صحابہ سے بغض و عناد پیدا نہ ہوا تھا۔ اور نہ سنی و شیعہ کے درمیان مذہبی بٹوارہ ہوا تھا۔ کوفہ میں اسدیوں اور ہمدانیوں کے دو محلے ہی خاص شیعوں کے محلے تھے جن میں غالب اکثریت شیعوں ہی کی تھی۔ جمع احادیث میں دونوں مذہب کے علماء مل جل کر کام کرتے تھے۔ شیعوں نے بڑٰ ہوشیاری یہ کی کہ جمع احادیث کا کام تو اہل سنت پر چھوڑ دیا مگر حدیثیں لا لا کر بذریعہ  رواۃ جامعین تک پہنچانا اپنے ذمہ رکھا۔ اسی لئے جامعین احادیث متقدمین آپ اہل سنت ہی کو پائیں گے مگر راویوں میں باوجود قلت تعداد کے شیعوں کو اہلسنت کے برابر تعداد میں پائینگے اور پھر ان کے مذہب میں تقیہ و کتمان واجبات دین میں سے ہے اس لئے کتنے شیعے سنیوں کے لبادے اوڑھ کر  حدیثیں روایت کیا کرتے تھے اور وہ سنی سمجھے جاتے تھے۔ جن کا تشیع معلوم ہو جاتا ان کے بھی ظاہری زہد و درع کا خیال کر کے اہلسنت جامعین حدیث ان کی روایتیں قبول کر لیتے تھے۔

ابو اسحاق السبیعی کے ترجمے میں ابن حجر تہذیب التہذیب جلد 8 صفحہ 66 میں لکھتے ہیں

قال ابو اسحاق الجوزجانی کان قوم من اھل الکوفۃ لا تحمد مذاھبھم یعنی التشیع و ھم رؤس محدثی الکوفۃ مثل ابی اسحاق والاعمش و منصور و زبید و غیر ھم من اقرآنھم احتملھم الناس  علی صدق السنتھم فی الحدیث وو تفوا عند ماارسلو لما خانو ان لا یکون مخارجھا صحبۃ اما ابو  اسحاق فروی عن قوم لا یعرفون ولم نتسہ عنھم عند اھل العلم الا ما حکی ابو اسحاق عنھم فاذا رویٰ تلک الا شیاء عنھم کان التوقیف  فی دلک عندی الصواب۔

یعنی ابو اسحاق جوزجانی نے فرمایا کہ اہل کوفہ میں ایک جماعت تھی جن کا مذیب تشیع نا پسندیدہ سمجھا جاتا تھا جیسے ابو اسحاق البیعی۔ سلیمان الاعمش، منصور بن معتمر اور زبید الیامی وغیرہ ان کی برادری کے لوگ، کہ لوگوں نے ان کی زبانی صداقت پر اعتماد کر کے ان کی حدیثیں برداشت کر لیں اور جہاں مرسل حدیثیں روایت کرنے لگے تو رک گئے۔ اس خوف سے کہ کہیں ان مرسل حدیثوں کا سرچشمہ غلط نہ ہو۔ مگر ابو اسحاق السبیعی تو ایسے لوگوں سے روایت کرتے جنھیں اہل علم کچھ نہیں سمجھتے۔ جن کی حدیثیں لوگوں میں نہیں پھیلیں بجز اتنے بھر کے جتنی حدیثیں ان سے یہی ابو اسحاق روایت کرتے ہیں۔ تو جب ایسے لوگوں یہ روایت کریں تو میرے نزدیک ایسی حدیثوں سے رکے رہنا بہتر ہے۔

امام ذہبی نے بھی میزان الاعتدال جلد 1 صفحہ 345 میں  زبید بن الحارث الیامی کے ترجمے میں اس قول کو نقل کیا ہے۔

چنانچہ مالک بن اغرر مالک بن مالک ہیثم بن  حسن، یزید بن زید اور زید بن بقیع وغیرہ سے ابو اسحاق السبیعی کے سوا دنیا کا کوئی محدث روایت نہیں کرتا۔ اور نہ کوئی ان لوگوں سے کچھ واقف ہے کہ یہ لوگ کون تھے۔ بجز اس کے کہ ابو اسحاق السبیعی کے شیوخ خصوصی یا مصنوعی تھے اور امام ذہبی نے میزان الاعتدال جلد 1 صفحہ 432 میں لکھا ہے کہ قال ابن المبارک انما افسد حدیث اھل الکوفۃ ابن اسحاق و اعمشکم ھذا۔ اہل کوفہکی حدیثوں کو غارت کر دیا ابو اسحاق اور تمھارے اعمش نے۔ بالکل اسی طرح کا قول معین بن عیسیٰ کا بھی اور  متعدد محدثین کا منقول ہے۔ مگر ان تمام باتوں کے باوجود  اہلسنت رواداری سے کام لیتے رہے اور ان کی روایت کردہ حدیثیں اپنی کتابوں میں درج کرتے رہے۔ چنانچہ صحاح ستہ کی کونسی کتاب ہے جس میں ان لوگوں خاص کر کے ابو اسحاق اور اعمش کی حدیثیں نہیں۔

کچھ دنوں کے بعد  بعض شیعوں نے بھی جمع حدیث کا کام شروع کیا وہ اہلسنت کی حدیثیں اپنی کتابوں میں درج کرنے پر مجبور تھے۔ جس طرح ابو عبداللہ الحاکم صاحب مستدرک نے مستدرک میں فضائل خلفائے راشدین و فضائل سیدہ عائشہ صدیقہؓ کی حدیثیں بھی درج کر لی ہیں۔ لیکن شیعے اس مشترک دین پر زیادہ دنوں تک قناعت نہ کر سکے اور سب سے پہلے ابو جعفر کلینی نے کالص شیعہ نقطہ نظر  کی حدیثیں خاص شیعہ راویوں سے اہلسنت سے بالکل الگ ہو کر جمع کر ڈالیں جن کی کتاب اصول کافی اور فروع کافی کئی جلدوں میں ان کے خاص مذہب کی کتابیں ہیں۔ پھر ا ن کے دوسرے محدثین بھی اپنے خاص مذہب کی حدیثیں اہلسنت سے قطع تعلق کر کے جمع کرنے لگے مگر جب تک جمع احادیث کا سلسلہ قائم رہا شیعے اہلسنت کے ساتھ بھی برابر کے شریک رہے اور اپنا الگ کام بھی کرتے رہے۔ اس لئے حدیث کی کوئی کتاب بھی خاص اہلسنت کی دنیا میں نہیں ہے جس  طرح خاص شیعہ مذہب کی حدیث کی  کتابیں صحاح اربعہ کے نام شے مشہور ہیں۔ کافی، تہذیب، استبصار اور من الا یحضرہ الفقیہ۔ کہ یہ چاروں کتابیں  خاص شیعہ مذہب کی ہیں جن میں اہلسنت  کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ مگر جتنی کتابیں اہل سنت کی  کہی جاتی ہیں۔ موطا اور  بخاری مسلم تک ہر کتاب میں شیعے برابر کے شریک ہیں اور ہر کتاب میں ان کا حصہ رسدی موجود ہے۔ فرق اس قدر ہے کہ وہ اپنی کتابوں میں جو کچھ کہتے ہیں کھل کر کہتے ہیں اور مشترک کتابوں میں جو کچھ اپنی سی کہتے ہیں، دبی زبان میں کہتے ہیں۔ گول مول الفاظ میں مفہوم ادا کرتے ہیں کہنا مقصود کچھ اور ہے کہتے ہیں کچھ اور۔

مختصر یہ کہ دنیا میں حدیثوں کی کوئی کتاب ایسی نہیں جو خاص اہلسنت کی حدیثوں کا مجموعہ کہی جا سکے۔ ہر کتاب میں شیعوں کا حصہ رسدی موجود ہے۔ اس لئے کسی کتاب حتیٰ کہ بخاری و مسلم کو بھی خاص اہلسنت کی کتاب سمجھنا سخت غلطی  بلکہ ظلم ہے۔ شیعہ ہی نہیں بلکہ خارجی، معتزلہ،جبریہ، قدریہ و جہمیہ ہر مذہب کی حدیثیں ان میں موجود ہیں۔  مگر شیعوں کے سوا  کسی مذہب نے بٹوارہ کر کے اہلسنت سے علیحدگی اختیار نہیں کی اور نہ کسی اور مذہب والوں نے اپنی حدیثیں اہلسنت سے الگ ہو کر جمع کیں۔ جبکہ شیعوں نے علیحدگی اور مکمل علیحدگی اختیار کی۔ بس اس کا فرق اور اختلاف  قرأت کی روایات میں آپ شیعے راویان حدیث کو بہت دیکھیں گے۔”انزل القرآن علی سبعتہ احرف” والی وضعی حدیث کوفہ ہی میں بنی اور یہیں شائع ہوئی۔ شیعے ہی ا س کے ابتدائی راوی ہیں اور درمیان میں بھی شیعے ہی راوی ملیں گے۔ مگر بٹوارے کے بعد انھوں نے خود انکار کر دیا۔ چنانچہ اصول کافی میں ان کا انکار موجود ہے کہ "انزل من واحد  علی حرف واحد” خدائے واحد کی طرف سے قرآن اترا ہے اور ایک ہی حرف  ایک قرأت پر اترا ہے اور یہی صحیح ہے۔ منافقین جو شیعوں میں گھلے ملے تھے وہ تو تیسری صدی تک ختم ہو گئے تھے۔ تھوڑے بہت ان کے ذریات رہ گئے تھے چوتھی پانچویں صدی میں تو اسلام سے نفاق کا وہ زور باقی نہیں رہا تھا البتہ صحابہ اور امہات المومنین رضی اللہ عنھم اجمعین کے ساتھ بغض و اعناد بڑھتا گیا۔ مگر نفس اسلام اور قرآن و رسول سے وہ بغض و عناد جو منافقین کو عام تھا شیعوں میں نہ رہا۔

حاصل بحث یہ کہ اب اختلاف قرأت  کے بانی قراء شیعہ اور ان کے تلامذہ کی فہرست  کو دیکھ جائیں۔ اسی فیصد سے زیادہ آپ ان میں منافقین ہی کو پائیں گے۔ اور اسی فیصد سے زیادہ غلاموں ہی کو پائیں گے۔ اور عجمی الاصل ہی آپ کو ملیں گے۔ اگر کوئی نظر بھی آئے گا تو  وہ حجاز کا رہنے والا ہو گا،قریشی کبھی نہیں ہو گا، کسی دور دراز خطہ عرب کا ہو گا۔

آپ دیکھئے جو قرآن ساری دنیا میں ہر مسلم کے گھر میں موجود ہے عہد نبوی سے آج تک یکساں  بغیر کسی اختلاف کے چلا آ رہا ہے اس کو مشکوک و مشتبہ قرار دے کر مسلمانوں سے چھڑوانے کی اور اس کی جگہ اپنے خود ساختہ قرآن کو رواج دینے کی کیسی زبردست کوشش کی گئی ہے۔ اگر اللہ کی حفاظت  قرآن مجید کے شامل حال نہ ہوتی تو کب کا مسلمانوں سے چھن گیا ہوتا۔

1۔ یہ قرآن وہ ہے جس کو  حضرت عمرؓ کے مشورے سے حضرت ابوبکرؓ نے حضرت زید بن ثابتؓ سے پہلے ایک مسودے کی صورت میں جمع کرایا تھا جو سترہ برس تک بے مصرف رکھا رہا۔

2۔30ھ میں حضرت عثمانؓ نے اس کو چند  لوگوں سے مرتب و مدون کرا کے اور اس کی نقلیں کرا کے تمام ممالک میں بھجیں کہ ہر شخص اپنے مصاحف کو اسی کے مطابق بنا لے اور مصاحف میں اختلاف باقی نہ رکھے۔

3۔چار پانچ انصاری صحابہ نے بہ عہد نبوی ہی پورا قرآن جمع کر رکھا تھا۔ عبداللہ بن مسعودؓ، ابو ورداءؓ، ابی بن کعبؓ، زید بن ثابتؓ اور  معاذ بن جبلؓ۔

4۔حضرت عثمانؓ نے جو  تمام اقطار و امصار اور اپنا مرتب کرایا ہوا مصحف بھیجا تو ہر جگہ کے لوگوں نے تو خلیفہ وقت کے حکم کے مطابق اپنے اپنے مصحف کو مصحف عثمان کے مطابق بنا لیا مگر  اہل کوفہ کو حضرت عبداللہ بن مسعود نے منع کیا کہ تم لوگ اپنے اپنے مصحف کو علیٰ حالہ رہنے دو۔ مصحف عثمانی کے مطابق نہ بناؤ اور اہل کوفہ کے پاس عبداللہ بن مسعودؓ کا مصحف رائج تھا۔ مغیرہ کے پاس ابی بن کعبؓ کا مصحف اور  بعض کے پاس ابو ورداءؓ کا بعض کے پاس معاذ بن جبلؓ کا۔ چونکہ سب مصحف عہد نبوی کے جمع کردہ تھے تو یقیناً مرضی نبوی کے مطابق ہی جمع کئے گئے تھے۔ اسلئے حضرت عثمانؓ کے ترتیب کردہ مصحف سے زیادہ قابل اعتبار مصحف یہ ٹھہرے اور یہ سارے مصاحف اب صرف کوفہ ہی میں رہ گئے۔ دوسری جگہ کے لوگوں نے تو اپنے اپنے مصاحف کو مصحف عثمانی کے مطابق بنا لیا۔ اس لئے اہل کوفہ جو اختلاف مصحف عثمانی سے رکھتے ہیں ان کے اختلاف ان مصاحف کے بارے میں ہیں جو عہد نبوی میں تعلیم نبوی و پسند نبوی کے مطابق جمع کئے گئے تھے اس لئے اہل کوفہ کی ہر قرأت مصحف عثمانی کی قرأت سے زیادہ مستند  اور واجب الاتباع ہونا چاہیے۔

5۔ انزل القرآن علی سبعتہ احرف کے مطابق  ہر قرأت صحیح ہے مصحف عثمانی بھی غلط نہیں ہے مگر عہد نبوی کے جمع شدہ کے مقابل عہد عثمانی کے جمع شدہ کی کیا اہمیت ہو سکتی ہے۔

6۔ نقطہ و اعراب کا وجود ہی پہلے نہ تھا اس لئے نقطہ و اعراب کا فرق بھی جو اہل کوفہ بیان کریں وہ بعہد نبوی جمع کردہ مصاحف کے مطابق ہے اس لئے مصحف عثمانی سے زیادہ معتبر ہے۔

7۔مصحف عثمانی حفص کی قرأت کے مطابق ہے اور حفص کی قرأت کوفہ کی قرأتوں میں سے ایک کمزور شاخ ہے۔ نہ یہ قاری اہل مدینہ نافع کی قرأت کے مطابق ہے اور  نہ قاری اہل مکہ ابن کثیر کی قرأت کے مطابق ہے۔ اور نہ بصرہ کے ایک آزاد عرب کی قرأت کے مطابق ہے تو کوفہ کے ایک آزاد کردہ غلام عاصم بن بہدلہ کے پروردہ جس پر محدثین کذب و افتراء علی الرسول کا الزام عائد کرتے ہیں اسکی قرأت کے مطابق ہے۔ اس لئے رائج قرأتوں کو چھو کر خواہ مخواہ مرجوع قرأت کیوں اختیار کی جائے ؟

ان وجوہ کی بنا پر  مسلمانوں کو مصحف عثمانی کو چھوڑ کر مصحف عبداللہ بن مسعود کی قرأت کو اختیار کرنا چاہیے اور ہر شخص کو لازم ہے کہ روایات کے  مطابق  سورہ فاتحہ اور معوذتین یعنی آخری دونوں سورہ فلق اور سورہ ناس قرآن سے نکال باہر کریں کیونکہ عبداللہ بن مسعود کے قرآن میں یہ تینوں سورہ قرآن نہ تھے۔ اور فلاں آیت کو یوں بتائیے اور فلاں کو یوں۔ ورنہ وہ  عہد نبوی کے جمع کردہ آپ کی تعلیم و پسند مطابق جمع کردہ قرآن پر حضرت عثمانؓ کے مرتب کئے ہوئے قرآن پر ترجیح دینے کا گناہ گار ہو گا۔

اور پھر فلاں فلاں آیت کو بکری کھا گئ اور  فلاں آیت فلاں صحابی کے جنگ یمامہ میں شہید ہو جانے کے باعث انھیں کے ساتھ وہ بھی شہید ہو گئی۔ چونکہ صرف انھی کو یاد تھی وہ سورہ احزاب سورہ بقرۃ کے برابر اتری تھی مگر جس قدر ملا لوگوں نے لکھ لیا۔ اس قسم کی روایت شبہاتیہ و مکذوبات ابلیسیہ کو بھی اختلاف قرأت  کی بحث کے ساتھ ملا لیجئے تو  پھر دیکھئے ایمان بالقرآن المجید کی کیا ہیت کذائی باقی رہتی ہے۔

نقطوں کے وجود کے متعلق ایک اعتراض اور اس کا جواب

اختلاف قرأت کے متعلق میرے مضمون کے مطالعہ کے بعد  دو مخلص عزیزوں نے کچھ شبہات لکھ کر بھجیے ہیں۔

پہلے عزیز لکھتے ہیں:

"زمانہ نبوی اور دور صحابہ کے متعدد مخطوطات دریافت اور دستیاب ہو چکے ہیں۔ جو تاریخی تواتر کی حیثیت سے اس علم الیقین کے حامل ہیں کہ وہ  ان ادوار کے اصل مخطوطات ہیں۔ مثلاً (1) مکتوب نبوی بنام نجاشی (2)مکتوب نبوی بنام نذر بن سامری (3) مکتوب نبوی بنام مقوقس (مصر) (4) مکتوب نبوی بنام اہل خیبر (5) مکتوب  حضرت عمر (6) مدینہ منورہ کے پہاڑ پر کندہ وہ تحریر جس میں حضور اکرم، حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت علی کے اسمائے گرامی ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ پھر ابھی حال میں ہمام بن منبہہ کا مجموعہ حدیث دریافت ہوا ہے ان کے علاوہ انھیں ادوار کے متعدد  مختلف اشخاص و رجال و قبیلہ و حکومت کے قلمی دستاویزات  اور یہ سارے مخطوطات  دنیا کے مختلف میوزیم اور لائبریریوں میں محفوظ ہیں۔ اور ان میں سے بہترین مختلف  مخطوطات کے فوٹو  لے کر  بطور نمونہ شائع ہوئے ہیں۔ ان میں سے کسی  میں بھی نقطے والے حروف پر نقطے موجود نہیں۔”

اس کے بعد جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ طوالت تحریر سے بچنے کے لئے حسب ذیل ہے۔

1۔ یا تو سب  کو جعلی کہا جائے تو اس کو کوئی صاحب عقل سلیم ہرگز  تسلیم نہیں کرے گا۔

2۔ سب تحریریں بغیر نقطوں کے لکھی جاتی تھیں مگر قرآن باضابطہ نقطوں کے ساتھ لکھا جاتا تھا تو اس دعوے کے لئے ٹھوس  اور وزنی دلیل درکار ہے۔ محض اعتقادی جذبات سے اپیل یا اشعار جاہلیت کی روشنی میں محض، یقیناً ایسا ہی ہوا ہو گا  کہہ دینے سے تحقیق کا حق  ادا نہ ہوگا۔

جس زمانے میں تحریر  و خط کا جو رواج اور طرز ہو گا  اسی کے مطابق ساری چیزیں مکتوب ہو گی، چاہے وہ معمولی اور عام مراسلے ہوں یا کوئی اہم دستاویز ‘ الخ

میرے دوسرے عزیز مخلص نے یوں لکھا ہے

1۔ ابن جنی کے نقل کردہ اشعار  اور ابن ندیم کی روایت ایسی دلچسپ خبریں ہیں کہ  ہر پڑھنے والا پھڑک اٹھے گا، میرے سامنے پہلی بار یہ تحقیق آئی ہے جو دل کو لگتی ہے۔ البتہ پہلے شعر  کے دوسرے مصرعے میں ایک چیز کھٹکتی ہے۔ و اذا  نقطت عین تذرف کالغین میں تذرف  کو نقط کی رعایت  سے ماضی ہی ہونا چاہیے اور جب یہ ماضی ہے تو تذرف نہ ہونے کی کوئی معقول وجہ ہونی چاہیے۔دوسری صورت یہ ہے کہ  یہ لفظ مضارع تذرف ہے (جو دراصل تتذرف تھا) لیکن اس صورت میں وہ بات نہیں ہوتی جو ماضی میں ہے۔

2۔ ان باتوں کے علاوہ فیصلہ کن چیز جو  ہو سکتی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن مجید کے بعض قدیم ترین نسخے ہنوز دنیا میں موجود ہیں اگر ان کے ایک ایک صفحے کا بھی عکس فوٹو آ جائے تو بات صاف ہو سکتی ہے۔اس کے بعد مصحف عثمانی فلاں جگہ ہے اور مصحف علی فلاں جگہ۔ اس طرح متعدد مصاحف کی نشاندہی کے بعد لکھا ہے کہ "ان سب کو جعلی کہہ دینا یقیناً قابل تسلیم نہ ہو گا تو اگر ایک ایک صفحے کا فوٹو مہیا ہو جائے تو اس کا پتہ مل جائے گا کہ اس وقت مصاحف پر نقطوں کا دستور تھا یا نہیں۔

الجواب

سب سے پہلے ہم دوسرے عزیز کے ایک اہم شبے کا جواب دینا ضروری سمجھتے ہیں جو ابن جنی کے پیش کردہ  پہلے شعر کے دوسرے مصرعے کے متعلق ہے اس کے بعد پھر دونوں عزیزیوں کا یکجائی جواب دیا جائے گا کیونکہ عزیز اول کا شبہ عزیز دوئم کا دوسرا شبہ ایک ہی ہے۔

اس مصرعہ میں کتابت کی دو غلطیاں ہو گئی ہیں صحیح یوں ہے  و اذا نقطت عین تذرف کالغین سر مصرعہ پر واؤ وزن مصرعہ سے فاضل ازروئے کے  رخاف خزم آیا ہے۔  رخاف خزم سے  سر مصرعہ پر ایک سے چار  حرفوں تک کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ جو تقطیع میں حساب نہیں کیا جاتا اور عموماً اس اضافے کو لکھتے بھی نہیں ہیں۔ قرینے سے سمجھ لیتے ہیں اور اس کے مفہوم کے ساتھ مصرعہ کا مفہوم سمجھتے ہیں۔ یک حرفی اضافہ یا واؤ  فے  یا لام کا اگر ہو تو  لکھتے بھی ہیں۔ مگر بہت کم۔ ابن جنی کے امالی میں واؤ موجود تھا  اس لئے میں نے لکھ بھی دیا۔ مگر اذا کا دوسرا الف کتاب میں کاتب سے حذف ہو گیا۔ جس طرح تذرف  کی فے پر جو رفع تھا اس کو انھوں نے فتحہ سے بدل دیا۔ اس تصریح کے بعد وہ اعتراض تو باقی  نہ رہا؟ شبہے کا باعث تو اذ تھا  کہ یہ ماضی پر ہی آتا ہے اور نقطت  ماضی ہے تو شرط کی طرح جزاء کا وقوع بھی بھی زمانہ ماضی ہی میں ہونا چاہیے۔ اگرچہ یہ کوئی ضروری نہیں۔ مگر مناسب یہی ہے اب جبکہ معلوم ہو گیا کہ یہاں اذ نہیں بلکہ اذا ہے اور  اذا مستقبل پر ہی آتا ہے۔ ماضی پر آتا ہے  تو اس کو بھی مستقبل بنا دیتا ہے تو پھر تذرف  کا بصیغہ مستقبل جزاء میں آنا ہر طرح صحیح ٹھہرا۔ اور آپ کا شبہ بالکل رفع ہو گیا۔

رخاف خزم سے اہل ادب تو ضرو ر واقف ہیں مگر جو لوگ  صرف مولوی قسم کے ہیں یقیناً نا واقف ہوں گے۔ وہ سبعہ معلقہ کے پہلے قصیدے کی کوئی شرح دیکھ لیں۔ ورنہ لسان العرب جلد 15 لغت  خزم صفحہ 67-68 دیکھ لیں جس میں مثالیں بھی مذکور ہیں۔

مگر اذ ہی رہے جب بھی شعر صحیح و فصیح ہے۔ سورہ آل عمران کے چھٹے رکوع میں ارشاد ہے۔ ان مثل عیسیٰ عنداللہ کمثل آدم  خلقہ من تراب ثم قال لہ کن فیکون مولویانہ نقطہ نظر سے تو  فیکون کی جگہ فکان کہنا چاہیے تھا۔ پھر فیکون کیوں کہا گیا؟ لیکن ایک ادیب سمجھ لے  گا  کہ یہاں مراد فجعل یکون ہے۔ اسی طرح یہاں بھی تذرف سے مراد جعلت تذرف ہے۔ اسلئے یہاں بھی ماضی ہی ہے۔ مگر اس مثال سے ایک مولوی کی تشفی نہ ہو گی۔ کیونکہ اس آیت میں اذ نہیں ہے۔ ایسی مثال ہونی چاہیے کہ "اذا ” نہیں "اذ” آیا ہو ماضی پر اور اس کے بعد مضارع آیا ہو۔ تو لیجئے سورہ احزاب کی گیارہویں آیت دوسرے رکوع میں پڑھئے۔ اذ زاعت الابصار و  بلغت القلوب الحناجر  و تظنون باللہ الظنونا یہاں اذ کے بعد  زاعت اور بلغت دو دو صیغے "واحد مونث غائب بحث اثبات فعل ماضی معروف” کے ہیں۔ مگر فورا ہی ان پع  عطف ہوتا ہے صیغہ مضارع کا۔ مگر یہاں بھی وجعلتم تظنون مراد ہے۔ اس لئے شعر میں "واذ” ہی پڑھئے جب بھی شعر  ہر حیثیت سے صحیح بلکہ فصیح ہے۔

دوسرا شبہ مخطوطات قدیمہ پر نقطے نظر نہیں آتے، یا قدیم مصاحف  پر بھی نقطے نہیں ہیں۔ تو نہ ہوں میں نے یہ کب کہا کہ زمانہ جاہلیت یا آغاز اسلام میں عربی لکھنے والے سب کے سب منقوط حروف  پر نقطے ضرور لگاتے تھے۔ یا قرآن مجید کی کتابت کا آغاز  جس وقت سے ہوا  اسی وقت  سے اس کے ہر منقوط حروف پر نقطے ضرور لگائے گئے۔ اگر میرا یہ دعویٰ ہوتا تو بے شک مخطوطات قدیمہ کے فوٹو  اور مصاحف قدیمہ کا عکس حاصل کر کے مجھے قائل  کیا جا سکتا تھا اور "فیصلہ کن اتمام حجت” کا سامان مہیا کیا جاتا۔

مودودی صاحب لکھتے ہیں کہ  "یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جس رسم الخط میں ابتداء نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے وحی کی کتابت  کرائی تھی اور جس میں حضرت ابوبکرؓ نے پہلا مصحف مرتب کرایا تھا  اور حضرت عثمان نے جس کی نقل بعد میں شائع کرائی اس کے اندر نہ صرف یہ کہ اعراب نہ تھے بلکہ نقطے بھی نہ تھے۔ کیونکہ اس وقت تک یہ علامت ایجاد نہ ہوئی تھی۔” اسی سلسلے میں تھوڑا آگے چل کر مودودی صاحب لکھتے ہیں کہ

"پھر یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ قرآن میں اعراب لگانے کی ضرورت سب سے پہلے بصرے کے گورنر زیاد نے محسوس کی جو 45 ہجری سے 53 ہجری تک وہاں کا گورنر رہا تھا۔ اس نے ابو الاسودولیؔ سے فرمائش کی کہ وہ اعراب کے لئے علامات تجویز کریں اور انھوں نے یہ تجویز کیا کہ مفتوح حرف کے اوپر مکسور حرف کے نیچے اور مضموم حرف کے بیچ میں ایک ایک نقطہ لگا دیا جائے۔ اس کے بعد عبدالملک بن  مروان (65 سے 86 ہجری)  کے عہد حکومت میں حجاج بن یوسف  والی عراق نے دو علماءؔ کو اس کام پر مامور کیا کہ وہ قرآن کے متشابہ حروف  میں تمیز کرنے کی کوئی صورت تجویز کریں۔ چنانچہ انھوں نے پہلی مرتبہ عربی زبان کے حروف میں بعض کو منقوط  بعض کو غیر منقوط  کر کے اور منقوط  کے اوپر یا نیچے ایک سے لے کر تین تک نقطے لگا کر فرق پیدا کیا  اور ابو الاسود کے طریقے کو بدل کر  اعراب کے لئے نقطوں کے بجائے، زیر زبر، پیش  کی وہ حرکات تجویز کیں جو آج مستعمل ہیں”۔

مجھ کو جو اختلاف ہے  وہ مودودی صاحب کی خط زدہ عبارت خصوصاً اس میں جو الفاظ چوب خط میں لکھ دئیے ہیں ان سے ہے۔مودودی صاحب فرماتے ہیں کہ عہد خلفائے راشدین تک عربی رسم خط  میں نقطوں کا وجود  ہی نہ تھا۔ کیونکہ اس وقت تک یہ علامات ایجاد نہیں ہوئی تھیں۔ 65ھ سے 86ھ تک کے اندر ان کے نزدیک ” پہلی مرتبہ عربی زبان کے حرو ف میں طعض حروف منقوط بنائے گئے ” میں کہتا ہوں کہ یہ غلط ہے، خلاف عقل ہے کہ عربی رسم خط کئی صدی پہلے ایجاد کیا جائے اور رسم خط کے نقطے کئی صدی بعد ایجاد کئے جائیں۔ نقطے نہ دینا اور بات ہے اور  نقطے نہ ہونا اور بات ہے۔

اس لئے مخطوطات قدیمہ کے فوٹو وغیرہ کا ذکر کر کے اور مصاحف قدیمہ کے کم سے کم ایک صفحے کا عکس منگوانے کی فرمائش کر کے اصل بحث کو یا تو  غتر بود قصداً کیا جاتا ہے یا اصل بحث کو چونکہ سمجھا ہی  نہیں ہے اس لئے اس طرح کی باتیں نادانستہ کی جا رہی ہیں۔ جن سے اصل بحث نظروں سے اوجھل ہو جائے۔

نقطے بعض قدیم مصاحف پر بھی ہیں مگر اس کا کیا جواب ہے کہ کوئی کہہ دے یا لکھ دے کہ یہ نقطے بعد کو کسی نے لگا دئیے ہیں۔ اور ایسا کہنے والے یا لکھنے والے اسی شہر ت کی بناء پر کہتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ پہلے تو عربی رسم خط میں نقطے کا وجود ہی نہ تھا۔ 65ھ سے 86ھ کے اندر تو نقطے ایجاد ہوئے ہیں اس لئے اس سے پہلے کے لکھے ہوئے مصاحف پر اگر نقطے ہیں تو  وہ یقیناً  بعد کو کسی نے لگا دئیے ہیں۔ اس لئے اب کوئی  شخصمخطوطات قدیمہ عربیہ کے فوٹو یا مصاحف قدیمہ کے فوٹو کا ذکر چھیڑ کر دوسروں کو دھوکہ دینے کی کوشش نہ کرے۔

ایک قرین عقل بات بخوبی یہ ممکن ہے کہ اعراب کے لئے بھی پہلے نقطے ہی ہوں مگر رنگین نقطے۔ تاکہ حروف  منقوطہ کے نقطوں سے  ممتاز رہیں مگر اس میں دشواری تھی کہ لکھنے کے وقت کئی رنگ کی روشنائی رکھنے کی ضرورت کاتب کو پڑتی تھی۔ اس لئے بعد کو اعراب کے لئے رنگین نقطوں کی جگہ وہ شکل اختیار کی گئی جو آج تک مستعمل ہے۔

نقطوں کی بحث ایک دھوکہ ہے جب مودودی صاحب کو خود اعتراف ہے کہ قرآن مجید کی تعلیم عہد نبوی میں زبانی تلقین کے ذریعے ہوا کرتی تھی صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے سن سن کر قرآن کی سور و آیات یاد کرتے تھے۔ آپ سے  نمازوں میں برابر قرآن سنا کرتے تھے تو پھر مصاحف  میں حروف  پر نقطے ہوئے تو کیا اور نہ ہوئے تو کیا۔ لعلمون اگر صرف  لکھا ہوا ہو تو کوئی اس کو یعلمون پڑھے اور دوسراتعلمون پڑھے یہ ممکن ہے کہ مگر جہاں رسول اللہ سے صحابہ نے یعلمون ہی سنا ہے یائے تحتانیہ سے تو کوئی اس کو تعلمون تائے فوقانیہ سے کیوں پڑھنے لگا؟ مصحف میں نقطے نہ ہونے کے سبب سے صحابہ نے جو رسول اللہ سے سنا اور باربار سنا تھا  وہ کس طرح مشتبہ ہو سکتا ہے اگر بالفرض ان میں سے کوئی شخص ضعیف الحافظ ہو اور اس کو یاد نہ  رہا ہو کہ ھو خیر مما یجمعون میں یجمعون ہے  یا تجمعون۔ تو وہ جب کبھی دوسرے کے سامنے تجمعون پڑھے گا  وہ ضرور اس کو لقمہ دے گا اور اس کی تصحیح کر دے گا۔ اگر وہ ضعیف الحافظہ  کسی ایک کی تصحیح کو تسلیم نہ کرے گا  تو  وہ مصح دو چار بلکہ دس بیس لوگوں سے پچھوا کر  اس کی تشفی کر دے گا۔ اس لئے ممکن ہی نہیں کہ مصاحف میں نقطے نہ ہونے کے سبب سے صحابہ میں کبھی قرأت اختلاف  ہوا ہو اور جب صحابہ میں اختلاف نہ ہوا تو  صحابہ کے شاگردوں میں میں اختلاف قرأت  ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی۔

ہاں چند لوگوں نے قرآن مجید نہ کسی صحابی سے پڑھا نہ کسی تابعی سے۔ بطور خود  کسی غیر منقول اور بغیر اعراب والے مصحف میں سے پڑھنے لگے تو ضرور ان لوگوں کے پڑھنے میں بعض جگہ اختلاف  ہو گا۔ مگر ان مختلف  فیہ الفاظ میں وہی ایک لفظ صحیح ہو گا  جو جماعت  نہ کسی صحابی سے قرآن پڑھا نہ کسی تابعی سے ان کی من گھڑت قرأتوں کا اعتبار ہی کوئی مسلمان کیوں کرنے لگا؟

غرض جب تعلیم قرآن کا اصل دارومدار  زبانی تلقیٰ پر عہد نبوی و عہد صحابہ و عہد تابعین تک برابر رہا تو مصاحف کے منقوط

غیر منقوط  ہونے کا ذکر ہی محض دھوکہ دینے اور ذہنوں کو منتشر کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ امید ہے کہ آئندہ سے اختلاف قرأت کے اسباب بیان کرنے میں مصاحف قدیمہ کے منقوط و غیر منقوط ہونے کا کبھی ذکر نہ کیا جائے گا اور اس کا ذکر چھیڑنے والوں کے فریب میں کم سے کم ہمارے ناظرین کبھی نہ آئیں گے۔

والسلام علی من اتبع الھدیٰ

 

عربی حروف کے لئے نقطے کب ایجاد ہوئے ؟

تاریخ، لغت اور اشعار جاہلیت کی روشنی میں

تحقیق از  جناب رحمت اللہ طارق۔ دارالحدیث مکہ المکرمہ

ریسرچ اور تحقیق کے میدان میں شاذ و نادر ہی کوئی گروہ ایسا ہو گا جو تبلیغی مقاصد بھی رکھتا ہو اور مخالف پر تنقید کرتے وقت  حق و انصاف  کا دامن بھی اس کے ہاتھ سے چھوٹنے نہ پایا ہو۔ اس کلیہ کی صداقت اس وقت اور بھی نکھر کر ہمارے سامنے آ جاتی ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مستشرقین یورپ نے اپنے تبلیغی مقاصد کے پیش نظر اسلام پر جتنا کچھ مواد فراہم کیا ہے اس میں اسی فیصد  اسلام اور پیغمبر اسلام، بالخصوص قرآن مجید پر طعن و تشنیع ہی کا مواد ملے گا۔ کیونکہ شروع  ہی سے ان کا مطمح نظر یہی رہا ہے اور اپنی تحقیقات کا محور اسی کو گردانا ہے کہ جس  وار سے بھی قرآن لاریب فیہ کی پوزیشن مشکوک  و مشتبہ ہو سکتی ہے اسے مختلف انداز سے استعمال کیا جائے۔ چنانچہ عربی ہجاء کے اٹھائیس حروف میں سے بائیس کے قریب متشابہ حروف ہیں یعنی اگر نقطے اڑا دئیے جائیں تو  ان میں امتیاز  کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔ اب اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ جب عربی خط  اپنے ابتدائی ادوار میں "بے نقط” تھا  ان متشابہ حروف  میں امتیاز  کرنے کی کیا صورت ہو سکتی تھی ؟ چنانچہ اس مرعومہ عقیدے  کی بنا  انھوں نے یہ اعتراض کھڑا کر دیا کہ ” قرون اول میں جب نقطوں کا رواج نہیں تھا  یا اہل عرب اس سے آشنا  ہی نہیں تھے تو قرآن کے سینکڑوں الفاظ جو قاری اپنی صوابدید کے مطابق پڑھا کرتے تھے وہ یا تو صحیح مانے جائیں یا سب کے سب غلط، صحیح ماننے کی صورت  میں "تواتر” کا سوال ختم ہو جانا چاہیے اور غلط ماننے کے بعد  صحت کا معیار باقی نہیں رہتا۔

 مقصد یہ ہے کہ قرآن حمید کی عصمت، حفاظت اور عظمت کا جو سکہ بیٹھ گیا ہے اسے کسی طرح نقصان پہنچایا جائے لیکن۔۔۔۔۔ ان پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا۔ فلسفہ ابن رشد  صدیوں سے یورپ کے رگ و پے میں سرایت  کر چکا تھا  اس کا اثر زائل کرنے کے لئے قرآن سے یوں بدلہ لینا۔ خفت، سبکی اور جہالت کی بدترین مثال ہے۔ تاہم اتنا کہہ کر  ہم بھی  سستی گلو خلاصی کے قائل نہیں ہیں۔ اگر اعتراض معقول ہے اور اپنے اندر وزن رکھتا ہے تو خالی عقیدت  سے ہٹ کر علمی بنیادوں پر گفتگو کرنی چاہیے، پھر بارے غنیمت  ہے کہ غیر  مسلم مشینریوں نے جاہلی لٹریچر کے وجود سے نہ تو انکار کیا ہے اور نہ ہی جاہلی شواہد سے استدلال کو  رد سمجھا ہے۔

عرصہ ہوا میں نے قرآن سے متعلق چند مضامین تحریر کئے تھے جو بحمد اللہ اپنے موضوع میں منفرد  اور مواد میں سیر حاصل تھے۔ انھی میں ایک ذیلی عنوان نقاط قرآن تھا۔ اور یہی حصہ جو متعلقہ معلومات بروقت دستیاب نہ ہونے کے سبب زیادہ مبہم غیر واضح اور تشنہ تھا  جس کی وجہ متعلقہ مواد کا نہ ملنا تھا۔ چنانچہ میں نے مسلسل ایسے مواد کی تلاش جاری رکھی جو تصویر کے دوسرے رخ کی پوری وضاحت پیش کر سکے۔

آج الحمد للہ اسی سلسلہ فکر  و نظر  کی کتنی وادیاں طے کرنے اور تحقیق و جستجو کے کتنے راستوں پر آبلہ پا کرنے کے بعد  ان کا ماحاصل متلاشیان حق و صداقت کے سامنے پیش کرنے کے قابل ہو گیا ہوں۔ مضمون کی ترتیب  اور بیسویں کتابوں کی فراہمی اور حرم مکی کی وسیع لائبریری سے استفادہ پھر اخذ  و استنباط  کے لئے شواہد  اور جاہلی لٹریچر سے متعلق دواوین کی تلاش اور پھر مقصد  کے تعین میں جتنی محنت صرف ہوئی اس کا بدلہ یہی چاہتا ہوں کہ جن کے دل میں اسلام، قرآن اور سنت کی قدر  اور محبت  ہے وہ اسے کسی سؤ ظن پر محمول نہ کرتے ہوئے پورے شغف اور انہماک سے پڑھیں۔ یہ ایک طالبانہ علمانہ پیش کش ہے اور پھر اردو میں اپنی نوعیت کا یقیناً پہلا مقالہ ہے جس میں غلطی کا  امکان ہو سکتا ہے۔ آپ اسے غور سے پڑھئے ممکن ہے آپ غلطیوں کی اصلاح میں معاون و مددگار  ثابت ہو سکیں گے۔

وباللہ التوفیق

نوٹ: یہ قطعا غیر مذہبی اور غیر سیاسی مقالہ ہے، آپ صرف علمی نقطہ نظر سے تعاون فرمائیں۔

 

 امیت کا مفہوم یہاں ضمنا اس بات کی وضاحت کر دی جائے کہ اصل مضمون یعنی "عربی میں نقطوں کا رواج” سے پہلے امیت کا مفہوم اور عربی خط کی ابتدا پر دو ذیلی اور تعارفی نوٹ  دئیے جاتے ہیں تاکہ آگے چل کر "مضمون کا اصل حصہ آپ کی دلچسپی کا باعث بنے ” وہوہذا۔

عام طور پر ہمارے یہاں امیت (ان پڑھ ہونے ) کو فضائل نبوت میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس سے بحث نہیں لیکن اس سے یہ اخذ کرنا  کہ تمام عرب تھے ہی ان پڑھ تو  اس صحت مشتبہ اور   صداقت غیر یقینی ہے۔ امام ابن فارس  ابوالحسین احمد بن فارس  بن زکریا (متوفی 395ھ۔1004م) نے اس نظریہ کی شدید مخالفت کرتے ہوئے "الصاحبی” میں سینکڑوں صحابہ اور مشرکین کے نام گنوائے ہیں جو پڑھے لکھے تھے اور مختلف علوم میں اچھی دسترس رکھنے والے تھے۔ اور بعد میں لکھا ہے کہ وما  العرب  فی قدیم الزمان الاکنحن الیوم فما  کل یعرف  الکتاب و الخط و القراءۃ یعنی قدیم زمانے کے عرب ہماری ہی طرح تھے، جس طرح ہم میں ہر شخص پڑھا لکھا نہیں ہوتا  اسی طرح ان میں سب کے سب  نہ تو ان پڑھ تھے اور نہ ہی پڑھے لکھے۔ (الصاحبی جلد 8 ص 11طبع مصر 1910)

بعض لوگ اور خاص کر جب مستشرقین یہ ثابت کرتے ہیں کہ قرآن نے جاہل طبقہ کو للکار ا اور انھیں کو ہر میدان میں دعوت مقابلہ دیتا رہا  وہ اگر کسی مہذب  یا تعلیم یافتہ سوسائٹی کو مخاطب کرتا  تو یقیناً  اس کی اعجازی طاقت کا پول کھل جاتا۔ تو وہ اپنی تائید میں قرآن حکیم کی ان  آیات (آل عمران20۔ جمعہ2) سے بھی استدلال کرتے ہیں۔ یعنی ان میں "امیین” کا لفظ مذکور ہوا ہے جس سے صاف مترشح ہوتا ہے کہ وہ ان پڑھ ہی تھے وغیرہ۔ لیکن ہماری رائے میں یہاں سے مراد کتابی امیت ہے علمی امیت نہیں۔ یعنی قرآن سے پہلے ان کے پاس کوئی ایسی دینی کتاب نہیں تھی جس طرح  کہ اہل کتاب یہود و نصاریٰ کے پاس تورات  و انجیل تھے۔علامہ حسنین محمد مخلوف  "کلمات القرآن” میں امیین کے ذیل میں ایک جگہ لکھتے ہیں "مشرک العرب” یعنی عرب کے مشرک (ص 43) دوسری جگہ تحریر کرتے ہیں "العرب العاصرین” یعنی وہ عرب جو  آں حضرت کے ہم عصر تھے (ص 436) پھر یہ نہ صرف ہماری یا مفتی مخلوف کی اپنی رائے ہے بلکہ قرآن حمید کی ذیل آیت سے بھی یہی کچھ مستفاد ہوتا ہے۔ومنھم امیون لا یعلمون الکتاب الا امانی و ان ھم الا ینظنون فویل للذین یکتبون الکتاب باید یھم ثم یقولون ھذامن عنداللہ لیشترو ابہ ثمنا قلیلا فویل لھم مما کتبت ایدیھم و ویل لھم مما یکسبون (بقرۃ 78-79)

ترجمہ:ان میں ایک فریق ایسا بھی تھا جو امی یعنی علم کتابی سے نا آشنا تھا  ہاں جھوٹ موٹ کا تو انھیں علم تھا (لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ صرف)  ان کا اپنا ظن (فاسد) تھا پس جو لوگ جلب منعفت  کے لئے اپنے ہاتھوں کی تحریر کو  کتاب اللہ کہہ کر  لوگوں کو سستے داموں بیچتے ہیں ان کے حال پر نہایت افسوس ہے (بلکہ) ان کا یہ عمل اور جو کچھ انھوں نے اس  (عمل) کے ذریعہ کمایا سب سامان ہلاکت کی تمہید ہے۔

اب اگر یہاں کتابی امیت مقصود نہ ہوتی تو اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے لکھنے کی خبر کیونکر دیتا؟  حقیقت یہ ہے کہ وہ دین کا انکار  کر رہے تھے اور دین ہی سے جہالت  کے بعد  ان کا  الو سیدھا ہو سکتا تھا۔ وہ نفس  تعلیم سے آشنا تھے مگر صاحب کتاب نہیں تھے یعنی کتابی امی تھے۔ مفسر ابن جریر طبری (532م:؟) اپنی اسناد سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ (متوفی688م) سے روایت کرتے ہیں کہ الا میون قوم لم یصد  قورا رسولا ارسلہ اللہ ولا کتاب انزلہ اللہ فکتبو کتابابایدھم ثم قالوا لقوم سفلۃ جھال ھذا من عنداللہ وقال قدا خبرانھم یکتبون باید یھم ثم سماھم امیین لجحودھم کتاب اللہ و رسولہ یعنی امیوں سے مراد وہ قوم ہے جس نے نہ تو  کسی رسول کی تصدیق کی اورنہ ہی کسی کتاب الٰہی پر ایمان لے آئی (اس کے باوجود) اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھ کر نچلے درجہ کے جاہلوں سے کہتے تھے کہ یہ کتاب الٰہی ہے۔ (حضرت ابن عباس نے مزید کہا کہ) اللہ تبارک نے خبر دی کہ وہ اپنے ہاتھوں سے لکھتے تھے پھر بھی انھیں امی کہا(یعنی ان پڑھ) یہ اس لئے کہ وہ دراصل حقیقی ان پڑھ نہیں تھے کتاب اللہ و رسول اللہ کے انکاری تھے (تفسیر  طبری شائع کردہ محمود شاکر  جلد 2  صفحہ 258-259) نیز  (المؤۃ فی الشعر الجاھلی ڈاکٹر احمد محمد خوفی طبع مصر ص 330 ص 334)۔ ان آیات  الہیٰ  کے علاوہ بعض لوگ "امیت” کے ثبوت میں  ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کا سہارا بھی لیتے ہیں یعنی ان کا کہنا ہے کہ آں حضرت نے لکھنے سے نہ صرف منع فرمایا بلکہ لکھے ہوئے کو محو کرا دیا۔[2]  لیکن ایسے حضرات کی خدمت میں التماس ہے کہ حضرت محمد سے اتنے سؤ ظن کی کوئی ضرورت نہیں ہے آپ کے کسی بھی ارشاد  کو ایسے غلط مفہوم پر محمول کرنا نہ صرف خوف خدا سے بعید ہے بلکہ علمی دیانت  داری کے بھی منافی ہے۔ قرآن حکیم میں ہے والقلم وما یسطرون یعنی "قلم اور قلم سے تحریر کی ہوئی چیزوں کو گواہ بنا کر” علم اور تحریر  کی نہ صرف  حوصلہ افزائی کی گئی ہے بلکہ در پردہ لکھنے اور پڑھنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ کیا ایسے حکم کی موجودگی میں رسولؐ اپنی امت کو  ان پڑھ بنا سکتے تھے ؟ امام خطیب بغدادی (متوفی 1071م) نے "تقیید العلم” میں پہلے تمام ان احادیث کا باستد ذکر کیا ہے جن میں لکھنے کی ممانعت ہے پھر اثبات  کی احادیث لا کر بعد  میں جو تبصرہ کیا ہے وہ ہمارے خیال میں ارشادات نبویؐ کی بہترین توجیہ ہو سکتی ہے۔ خطیب کہتا ہے کہ

” ان دونوں قسم کی احادیث کو ملانے سے  واضح ہو جاتا ہے کہ صدر اول میں جن لوگوں نے کتابت  کو ناپسند کیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ  کوئی اور تصنیف کتاب اللہ کے ہم پلہ قرار نہ پا جائے اور یہ کہ لوگ کتاب اللہ کے  ماسوا کسی اور تحریر میں منہمک ہو کر کتاب اللہ سے بے نیاز  نہ ہو جائیں اسی بناء پر  ہی قدیم  مقدس کتابوں (تورات و صحیفہ دانیال وغیرہ) کی تلاوت سے صحابہ کو روک دیا گیا تھا کیونکہ ان میں (اس وقت) حق و باطل، صحیح و فاسد کا امتیاز مشکل ہو چلا تھا اب صرف قرآن ہی کافی تھا اور اسے ہی ان پر  مہمین (نگران) بنایا گیا تھا  پھر وجہ یہ تھی کہ صدر اول میں فقیہ (سمجھدار) کتابوں کی قلت تھی جو وحی و غیر وحی میں امتیاز کرنے پر قادر ہو سکتے۔ کیونکہ عربوں کی اکثریت تفقہ فی الدین ہی میں جب فائق نہیں تھی اور نہ ہی انھیں دین کی نفسیات کا علم رکھنے والے صحابہ اور علماء کی صحبت نصیب تھی (تفقہ فی الکتاب تو دور کی چیز رہی) تو ایسے میں اندیشہ تھا  کہ یہ لوگ جو کچھ صحائف  (کاپیوں) میں لکھا ہوا پاتے اسے قرآن ہی سے ملحق کر دیتے۔ اور پھر آہستہ آہستہ یہ عقیدہ رکھنے لگ جاتے کہ جو کچھ بھی ان صحائف میں شامل ہے وہ کلام الرحمن ہی ہے ” (تقیید العلم ص 57 طبع  دمشق 1349ھ)

خطیب نے اس توجیہ میں کہا ہے کہ فقیہ کاتبوں کی قلت تھی یہ نہیں کہا کہ عام طور پر کوئی کتابت جانتا ہی نہ تھا۔

امید ہے کہ حضرت ابن عباسؓ کی تفسیر کی روشنی میں امیت کا مفہوم واضح ہو چکا ہو گا۔ اب آپ عربی خط کی ابتداء کی طرف آئیے۔

عربی خط کی ابتداء نقطوں سے پہلے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عربی خط کی ابتدائ کب سے ہوئی؟ کیونکہ جب تک کسی چیز کی ابتداء معلوم نہ ہو عوارض و لوازمات کا علم غیر ضروری ہو جاتا ہے۔ ہمارے خیال میں اس سوال کا جواب نہ صرف مشکل ہے بلکہ محال بھی ہے کیونکہ عرب روایات  اور مستشرقین کے اقوال اس قدر باہم متضاد، متعارض اور مختلف فیہ ہیں جن کی روشنی میں یہ فیصلہ کرنا نہ صرف دشوار ہے بلکہ مایوس کن ہے تاہم عرب روایات کی رو سے جہاں تک ظن غالب  کا تعلق ہے اس کی ابتداء ہجرت نبوی سے دو سو سال پہلے لخمی ایمپائر کے کالیڈی مرکز حیرہ(موجودہ کوفہ سے ساڑھے تین میل کے فاصلے کے مقام پر) سے ہوئی (دراصل شاہان بنو  لخم یمن سے نکل کر  شام اور فلسطین چلے آئے تھے اور یہاں پہنچ کر  انھوں نے نئی سلطنت کی داغ بیل ڈالی تھی)۔ اور انھوں نے "انبار” سے عربی خط سیکھا۔ انبار کالیڈیا میں فرات کے شمالی  کنارے پر ایک قدیم اور متمدن شہر تھا جسے 634 عیسوی میں حضرت خالد بن ولیدؓ نے فتح کیا۔ اور انبار نے یمن کے حمیری خط کے نقل اتاری۔ حمیری یمن کے قدیم باشندے تھے جو سینکڑوں برس سے اپنی امتیازی خصوصیت اور علوم و فنون میں کامل دست گاہ رکھنے میں مشہور تھے۔ انھوں نے آخری وقت میں قسطنطین دوم (رومی ایمپائر کا نمائندہ 361م) کے عہد میں عیسائیت قبول کی۔ بہرحال حمیری خط کی ابتداء قحطانی عرب کے بولان قبیلہ کے تین افراد نے کی۔ بولان کو مورث اعلی عضین بن عمرو بن الغوث بن حیٰ بن داو بن زید بن یشجب بن عریبا بن زیدون بن کہلان تھا۔ اس قبیلہ کے جن تین افراد نے عربی خط کو  سنوارنے اور نقطے ڈالے ان نام "نقطوں” کے عنوان میں ملاحظہ فرمائیے۔  (نیز مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہوں۔ فتوح البلدان ص 476 و 477۔ کتاب المصاحف ص 504۔ العقد ابن عبدربہ ص 240۔  الوزاء و الکتاب ص 1.12.14۔  ادب الکاتب صولی ص 28-30۔ ابن فارس الصاحبی ص7۔ التنبیہ علی حدوث التصحیف قلمی تیموری کتب خانہ مصر ص 3-35۔ صبح الاعشی ص 3-11۔  تاریخ اللغات  السامیہ و لنفس ص  160-161۔ مجلہ کلیتہ الآداب مئی 1953۔  ابن الندیم ص 6-7 وغیرہ)۔

ان تاریخی نصوص (و تصریحات) سے واضح ہوا کہ جس طرح ہجرت نبوی سے دو سو سال پہلے اہل حیرہ سے عربی خط کا آغاز ہوا اتنا ہی عرصہ پہلے انبار اور حمیری قبیلہ اس کی ابتداء کر چکے تھے۔ یعنی دوسری تا تیسری صدی میلادی کے قریب ادھر عرب روایات کی تائیدان حجری نقوش  اور بروی کے چیتھڑوں  پر لکھی ہوئی عبارتوں سے بھی ہوتی ہے جن کا زمانہ دو سو  دس مسیح سے شروع ہو کر  پانچ سو گیارہ مسیحی تک پہنچتا ہے۔ چنانچہ اس وقت تیسری صدی مسیحی تک کے جو نقوش دریافت ہوئے ہیں ان کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے۔ اور وہ یہ ہیں:

1۔ وہ تحریر جو سقوط سلع کے بعد  106 میں لکھی گئی (یعنی 210م میں) اس کا طرز تحریر اسلامی خط کے ابتدائی دور سے ملتا جلتا ہے۔ حتیٰ کہ پہلی سطر کا  چوتھا لفظ (بن) اور پانچویں سطر کا پہلا لفظ (یعلی) اسلامی عربی خط کے بالکل مشابہ ہے۔

2۔ دوسری تحریر جو  پہلی تحریر کی طرح وادی سینا کے فران جزیرہ میں دریافت ہوئی اس پر سقوط سلع کے بعد  122 ؁ درج ہے یعنی (230م) اس کی پہلی سطر  کا لفظ (سلم) اور آخری سطر کا  لفظ (بن) صاف پڑھے جاتے ہیں۔

3۔ تیسری تحریر بھی وادی سینا میں دریافت ہوئی جس پر سقوط سلع  کے بعد  148 ؁درج ہے (یعنی 252م) اس کی پہلی سطر  کا دوسرا  لفظ (کلب) اور اسی سطر کے آخری دو لفظ (و بن عمرو) موجودہ عربی خط سے ملتے جلتے ہیں۔

4۔چوتھا نقش شمالی حجاز (مدینہ منورہ سے قریباً تین سو میل دور) کی وادی حجر کے "مدائین صالح” میں برآمد ہوا ہے جس کی تاریخ سقوط سلع کے بعد 236 ؁ کی طرف لوٹتی ہے (یعنی 367م)  اس کی پہلی سطر کا  آخری لفظ (بن) اور تیسری سطر کا پہلا لفظ (عبد) اور چھٹی سطر کا  آخری لفظ (لعن) اور نویں سطر کا دوسرا لفظ وہی (لعن) صاف پڑھا جاتا ہے۔

5۔ ان سب سے جو نقش بعد میں دریافت ہوا ہے وہ حواران منطقہ کے ام الجال گاؤں میں بغیر تاریخ کے ملا ہے لیکن کانٹ (Devogue) وغیرہ کے خیال میں یہ نقش 270؁ میلادی کا ہے۔ اس کی دوسری سطر  کا دوسرا لفظ ایک نام (سلی) اور اسی سطر کا آخری لفظ (جزیمہ) اور تیسری سطر کا  پہلا لفظ (ملک) ہے  جو بالکل صاف لکھا ہوا معلوم ہوتا ہے۔

چوتھی صدی مسیحی اس صدی میں صرف  ایک ہی تحریر حواران منطقہ کے مرکزی شہر  نمتارہ میں عرب کے بادشاہ امرؤ القیس بن عمرو کی قبر  سے دریافت ہوئی ہے۔ کہنے کو تو پوری صدی کی یہ ایک  ہی تحریر ہے لیکن عربی رسم خط کی تاریخ میں اس کی اہمیت اور قدر و قیمت سابقہ تمام تحریروں سے زیادہ ہے کیونکہ اس کے اکثر بلکہ قریب قریب سب کے سب الفاظ اپنی ہئیت ترکیبی اور صورت خطی کے لحاظ سے اسلام کے ابتدائی رسم الخط کے مشابہ ہیں۔ اس کی پہلی سطر کا  دوسرا تا ساتواں کلمہ اس طرح ہے "نفس امرا القیس  بن عمرو ملک العرب” اور دوسری سطر کا پہلا تا چھٹا کلمہ اس طرح ہے ” و ملک الاسدین و نزر و ملوکھم و ھرب مذحجو” اور تیسری سطر کا پہلا اور پانچواں تا آخری کلمہ اس طرح ہے ” الشرعوب۔۔۔ فلم یبلغ ملک مبلغہ” اور چوتھی سطر کا پہلا، دوسرا اور  تیسرا لفظ  اس طرح ہے ” عکدی (قوت) ھلک۔ سنۃ”

الغرض یہ تحریر صورت خطی کے علاوہ زبان اور ادب و صوت  کے لحاظ سے بھی زیادہ تر عربی ہی ہے بلکہ  یہ تاریخ کے ایسے مرحلے میں پہنچا دیتی ہے جس کی رو سے ہم عربی خط کے تدریجی ارتقاء اور تبدیلیوں کا صحیح اندازہ بھی کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد آخر میں سقوط  سلع کے بعد  223؁ یعنی 328؁م میں درج ہے۔

چھٹی صدی میلادی اس صدی کے تاحال دو نقش ملے ہیں پہلا نقش قنتسرین اور فرات کے مابین "زبد” کے کھنڈرات میں دریافت ہوا ہے جس کی تاریخ 511؁ میلادی کی طرف لوٹتی ہے۔ یہ نقش تین زبانوں یونانی، سریانی اور عربی میں کندہ کرایا گیا تھا۔ اس کا رسم خط اسلامی عہد کے کوفی رسم الخط کے مشابہ ہے بلکہ چند ایک کے ماسوا تمام تر الفاظ بھی عربی ہی ہیں۔ الایہ کہ اس کے بعض حروف ابھی تک صحیح طور پر پڑھے نہیں جا سکے۔ مثلاً پہلی سطر اس طرح ہے "۔۔۔۔الالہ شر حوبر۔۔۔منفرد۔۔۔۔یراموئ القیس” دوسری سطر یوں ہے ” و شر ھوبر سعد و  و ستر و  وشریحو”

دوسرا نقش سقوط  سلع کے بعد 463؁ یعنی 568؁ میلادی کا ہے جو شام کے شمالی علاقے میں جبل دروز  سے متصل  حران (شہر) کے "لجا” گرجا گھر میں ملا ہے  اس پر یونانی اور عربی میں اس طرح لکھا ہوا ہے پہلی سطر ” ناشرحیل بن ظلمو ابنیت ھذا المرطول” دوسری سطر "سنہ 463” تیسری سطر "خیبر” چوتھی سطر "بعام”۔  و نفنن، تاریخ  اللغات  السامیہ (ص 192) میں لکھتا ہے کہ امراء بنی غسان میں سے حارث بن ابی شمر نے خیبر  کو تاخت و تاراج کر کے لوگوں کو اپنا  غلام بنایا اور غلام بنا کر  پھر رہا کر کے شام کی طرف رخ کیا اس تحریر میں اسی واقعہ کا ذکر ہے۔

ان نقوش میں پانچویں صدی میلادی کا نقش نہیں ملا اور یہی وہ خلاء ہے جسے علمائے لسانیات پر کرنے کی انتھک محنت کر رہے ہیں کیونکہ اس کے بغیر عربی تحریر کی تاریخ کا تسلسل غیر مربوط ہو جاتا ہے لیکن عرب کے ریتلے صحرا، پہاڑٰ غار اور سینکڑوں تباہ شدہ شہر جو کھدائی کے انتظار میں ساکت و صامت کھڑے ہیں، ان کی کھدائی نہ صرف اس تسلسل کو ٹوٹنے سے بچا لے گی بلکہ بہت سے اسرار  و غوامض سے بھی نقاب کشائی کی توقع کی جا سکتی ہے۔

ان تمام تحریروں اور نقوش  کے عکس بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ "چربے ” کتاب  مصاور الشعرا الجاہلی مصنفہ  ڈاکٹر   ناصر ین، پی ایچ ڈی،  قاہرہ (طبع اول 1956؁ء ص 26-28 پر ملاحظہ ہوں) ان نقوش سے اتنا پتا چلا کہ عربی خط اسلام سے بلاواسطہ دو سو سال اور بالواسطہ چار سو سال پہلے رائج ہو چکا تھا۔ اور واضعوں کے بلند مذاق کی وجہ سے تمام عیوب و نقائص سے اسے پاک و صاف رکھنے کی کوشش کی گئی تھی۔ پاک و صاف سے مراد  خط کی نوک پلک یا تہذیب مراد نہیں بلکہ وہ عیب جو ایک کثیر  التشابہ زبان میں ہو سکتے ہیں۔اس کے بعد اسلامی عہد کا آغاز ہوتا ہے یہاں پہنچ کر ہمیں مایوسی ہوئی ہے کہ مسلمانوں کی بے توجہی سے قرن اول کا  اتنا قیمتی اثاثہ یوں لا پروائی کی نذر ہو گیا کہ آج ہم پورے وثوق سے کلام پاک کا کوئی نسخہ بھی موجود نہیں پاتے [3]۔

تاہم اتنا غنیمت ہے کہ تاریخ کے بے رحم ہاتھوں سے بچ بچا کر  اس مبارک عہد کی دو تحریریں اس وقت بھی ہمارے پاس موجود ہیں اور اب ہم عربی تاریخ کے ضمن میں اخذ نتائج و استنباط  میں بھٹک نہیں سکتے۔ پہلی تحریر حضرت عثمانؓ بن عفان (شہید  655؁م) کے زمانے کی ہے جس پر اکتیس ہجری کی تاریخ درج ہے۔ یعنی 460؁ میلادی۔ یہ تحریر عربک میوزیم قاہرہ میں زیر نمبر 9 میں محفوظ ہے۔

دوسری تحریر بحمداللہ اس سے بھی قبل کی ہے یعنی غزوہ خندق 5؁ ہجری مطابق 427؁ میلادی کی جو کہ مدینہ کی سلع پہاڑی کی جنوبی چوٹی سے برآمد ہوئی ہے (تفصیل ملاحظہ ہو مصاور الشعرا الجاہلی ص 24 تا 33)۔

اس تفصیل سے آپ نے اتنا تو معلوم کر لیا کہ عربی خط کی ابتداء اسلام سے بہت پہلے ہو چکی تھی۔ اب رہا یہ سوال کہ کتبات و نقوش  میں سے اکثر ایسے ہیں جو نقطوں سے عاری ہیں تو اس کے متعلق ذیل معروضات حاضر ہیں۔ یہی وہ معروضات ہیں جن کے لئے آپ کو انتظار  کی زحمت اٹھانا پڑی۔

نقطوں کی ابتداء سابقہ سطور میں دس کتابوں کے حوالے سے یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ عربی خط کی ابتدا اسلام سے محتاط اندازے کے مطابق چار سو سال پہلے ہو چکی تھی اور مہذب بنانے درجہ کمال تک پہنچانے اور لفظی تشابہ دور کرنے والے بولان قبیلہ کے تین افراد تھے۔ ان تین افراد  میں سے ایک کا نام عامر بن جدرہ تھا جس نے عربی خط میں نقطوں کا اضافہ کیا۔ یہ روایت فنی لحاظ سے اگرچہ اتنا فائدہ نہیں دے سکتی جتنا کہ مطلوب ہے تاہم تاریخی طور پر  ہم آسانی سے اتنا سمجھ سکتے  ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ الاعجام (نقطوں) کے موجودہ مفہوم سے آشنا ضرور تھے۔ اور یہ کہ لفظ (الاعجام) اپنے اسی مفہوم میں حضرت ابن عباس سے پہلے بھی رائج، مشہور اور معروف تھا۔ یا کم از کم حضرت ابن عباس سے نچلا راوی اس کے مفہوم سے پوری طرح واقف تھا اور اسی طرح لوگوں کے لئے بھی یہ لفظ اسی مفہوم  میں اجنبی نہیں تھا۔ جب ہی تو انھوں نے راوی کی سنی اور سن کر اسے تسلیم کر لیا۔

بہرحال یہ بات نقطوں کے موجد  حجاج بن یوسف (متوفی 714م) یا یہ شہرت ابو الاسود دولی (متوفی 681م) تھے قطعا غلط  اور ثبوت کے لحاظ سے تاریخ پر افتراء ہے۔ کیونکہ نقطوں اور عربی خط کی ابتداء ان کے پیدا ہونے سے پانچ سو  سال پہلے ہو چکی تھی۔ مشہور مورخ و نساب اور لغوی امام احمد بن علی بن احمد معروف (متوفی 1418م۔ 821ھ) اپنی شہرہ آفاق کتاب "صبح الاعشی” جلد سوم صفحہ 155 پر لکھتا ہے

"والظاھر ماتقدم  یعنی ان الاعجام موضوع مع وضع الحروف  اذیعبدون الحروف  قبل ذالک مع تشابہ صورھا کانت عریۃ عن الی حین نقط المصحف” یعنی اوپرکی تفصیل سے معلوم ہوا کہ جوں ہی عربی کے حروف وضع کئے گئے تھے نقطے بھی ساتھ  ہی وضع  کئے گئے کیونکہ یہ بعید از عقل ہے کہ صوری مشابہت  کے باوجود عربی حروف  کو اس وقت تک نقطوں سے خالی رکھا گیا جب تک کہ مصحف پر نقطے  نہیں ڈالے گئے ؟ (نیز ملاحظہ ہو مفتاح السعادۃ و مصباح السیادۃ لا حمد بن مصطفیٰ عرف طاش  کبرے زادہ متوفی 668ھ، 1559م  جلد اول ص 80 طبع مصر)

مصحف نبوی پر بھی نقطے تھے سلف صالحین کا یہی عقیدہ تھا اور ہر مسلمان کا یہی عقیدہ ہونا چاہیے کہ قرآن مجید پر زبر، زیر، پیش (اور نقطوں) جیسا بنیادی کام آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم خود ہی انجام دے گئے تھے۔ (اتقان ص 144 تا 147)۔  بلکہ آپ نے اپنی امت کو حکم دے دیا تھا کہ اعرابوا لقرآن یعنی قرآن پر اعراب لگاؤ۔ (بہیقی، ایو یعلی بحوالہ مشکوۃ ص 180، جامع صغیر جلد اول ص  38،  متخف کنزلالعمان جلد اول ص 386،  تاریخ خطیب جلد 8 ص 77،  بغیتہ الوعاۃ ص 450،  فضائل ابن کثیر ملحق بہ تفسیر  ابن کثیر ص 201 وغیرہ) یہاں اعراب سے مراد  تحریر کے وہ تمام قواعد و ضوابط ہیں جو عہد نبوی میں رائج تھے۔ تنہا  زبر،زیر پیش نہیں۔ کیونکہ حقیقی تشابہ نقطوں سے ہی دور ہو سکتا  تھا۔ بہرحال اس امر نبویؐ کے مطابق  مصاحف نبویؐ پر  نقطے لگائے گئے لیکن اس کے بعد پھر کیا ہوا؟ اس کی تفصیل عرض ہے۔ امام شمس الدین محمد بن عرف جزری (متوفی 833ھ۔ 1429م) لکھتے ہیں کہ ثم ان الصحابۃ رضی اللہ عنھم لما کتبوا تلک المصاحف  جردو ھا من النقط” والشکل لیحتملہ مالم یکن فی العرضۃ الاخیرۃ مما صح عن النبی صلی اللہ علیہ و سلم یعنی بعد  میں صحابہؓ کرام نے مصاحٖ کو لکھنا شروع کیا تو  انھوں نے نقطے اور دیگر علامات کو اڑا دیا کیونکہ جو الفاظ مختلف قرأت سے پڑھنا ثابت تھے (کہاں ثابت تھے ؟ ثبوت ندارد۔ طارق) اب دیکھنا یہ  تھا کہ ان الفاظ کو آخری مرتبہ آنحضرتؐ نے کس طرح تلاوت فرمایا۔ تاکہ مجمع علیہا فیصلہ کے بعد آخری قرأت کو ضبط تحریر میں لایا جائے۔ (اور  نقطوں سے اس چیز  کا پہلے ہی تعین ہو جاتا تھا جو کہ ناقلین کو منظور نہیں تھا)۔ (النشر فی القرأت العشر  طبع دمشق جلد اول ص  32 تا 33 طبع  قاہرہ ص 33)۔

امام جزری نے مذکورہ کتاب اختلاف قرأت ثابت  کرنے کے لئے لکھی ہے مگر "نقاط” کے ضمن میں انھیں اعتراف کرنا ہی پڑا کہ صحابہ کرام نے حذف کر دئیے تھے (رسول اللہ نے لگوا دئیے تھے ) حضرت عبداللہ بن مسعودؓ (متوفی 652م) فرماتے ہیں کہ جر دو القرآن لیر بوفیہ صغیر کم ولایناۓ عنہ کبیر کم۔ یعنی قرآن کو نقطوں سے صاف کر دو تاکہ چھوٹے بھی اسی طرح پڑھتے رہیں اور بڑے بھی دور نہ جائیں۔ مقصد یہ کہ انھیں ذہن پر زور دے کر الفاظ حل کرنا پڑیں گے اور اس طرح وہ قرآنی ماحول ہی کے رہ جائیں گے یعنی کسی بہانے قرآن ہی ان کی دلچسپی کا مرکز ہو گا۔ بہرحال حضرت ابن مسعود کے اسی جردوا کی تفسیر میں امام زمخشری (متوفی 1144م) لکھتے ہیں کہ اراد تجریدہ عن النقط و الفواتح و العشور لئلا ینشاء نشئ فیری انھا من القرآن یعنی  جردوا سے ان کی مراد یہ ہے کہ قرآن کو نقطوں اور سورتوں کے تعارفی فقروں مثلاً سورہ فاتحہ مکیہ وہی سبع آیات اور ہر دس آیات کے بعد (اس زمانے میں) ایک آیت لگانے کا جو رواج تھا انھیں حذف کرنا چاہیے کیونکہ آگے چل کر کسی کے دل میں یہ خیال پیدا نہ ہو کہ یہ بھی عین قرآن ہی ہیں (الفائق زمخشری جلد اول 182 طبع مصر)۔ رسول اللہ کے فرمان (اعربوا) اور عمل ( تلک المصاحف) کے برعکس  ان علامات و رموز کو  اڑا دیا گیا۔ خیر اس سے بحث نہیں۔ تاہم ان دو حوالوں سے اتنا تو واضح ہو گیا  کہ حجاج اور دولی سے پہلے ہی صحابہ کرام "نقطوں” کے موجودہ مفہوم سے بخوبی واقف تھے۔

اور یہ کہ یہ نقطے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے مصاحف  پر باقاعدہ لگائے گئے تھے لیکن نقل ثانی کے وقت  یا بالفاظ دیگر آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد  نقطوں کو جان کر حذف کر دیا گیا (روایات کی روشنی میں۔ طارق)

یہاں یہ وضاحت کر دی جائے کہ بعض لوگوں نے "تجرید” سے مرا "تفیہ” تشریح، حدیث یا قصہ وغیرہ بھی لی ہے۔ یعنی ان چیزوں کو قرآن سے الگ کر دیا جائے لیکن امام جزری اور امام زمخشری کی طرح قاضی ابوبکر محمد  بن عبداللہ ابن العربی (متوفی1148م-546ھ) نے بھی تجرید  سے نقطے ہی مراد لئے ہیں اور اس پر  اس نے تفصیل سے لکھا ہے کہ ا س طرح صحابہ کرام اختلاف قرأت  کا حق  محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔ کیونکہ نقطے ڈالنے سے قرأت کا  خود بخود  تعین ہو جاتا تھا تفصیل ملاحظہ ہو۔

العواصم من القوا۔۔ لا بن العربی طبع الجیریا (جلد دوم ص 196-197)

صحابہ کرام نقطے لگاتے تھے  امام ابو زکریا یحیٰ بن زیاد عرف  فرانحوی (متوفی 822م۔ 395ھ) روایت کرتے ہیں کہ سفیان بن عینیہ (متوفی 811م) نے اپنی سند سے اس  میں حدیث بیان کی کہ کتب نی حجو لسر۔۔۔ ولم یلس (الحدیث) یعنی ایک پتھر پر یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے، اب جو دیکھتا ہوں تو زید بن ثابت  (متوفی 674م) نے پہلے لفظ پر چار نقطے دئیے یعنی سین پر تین نقطے ڈال کر شین بنا دیا اور رے پر ایک نقطہ ڈال کر زا  میں تبدیل کر دیا۔ اسی طرح دوسرے لفظوں  میں نقطوں کے علاوہ سین کے بعد  ھاء کا اضافہ کر کے لم یتسنہ بنا دیا (معانی القرآن فراء جلد اول ص 172-173۔ طبع مصر) کیا حضرت زید بن ثابت نقطوں کا علم نہ رکھتے تھے یوں ہی قرآن میں سین کو شین اور راء کو زاء بنا لیتے تھے ؟ کیا یہ کام بغیر واقفیت کے ممکن ہو سکتا تھا؟ ہمارے خیال میں حضرت زید چونکہ کاتب الوحی تھے جس طرح مصاحف نبوی میں نقطے ڈالنے کی مشق ہو گئی تھی بعد میں بھی جب کہیں کوئی لفظ بے نقط پاتے تو سنت نبوی کے مطابق فورا با نقط بنا دیتے تھے۔ لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ۔ اور صحابہ سے بڑھ کر اسوۃ رسول کا زیادہ پابند کون ہو سکتا تھا۔

تابعین کی اطلاع  عبداللہ بن سلیمان  بن اشعث ابن داؤد سجستانی متوفی 316ھ اپنی سند کے ساتھ بیان کرتا ہے کہ الحجاج بن یوسف  غیرنی مصحف عثمان احد نے عشر حرفا۔۔۔۔۔ وکانت  فی یونس (22) ھوالذی ینشر کم فغیرہ یسیر کم یعنی حجاج بن یوسف نے عثمانی مصحف کے گیارہ حروف بدل دئیے مثلا سورہ یونس کی 22 آیت میں ہے کہ ینشر کم (یعنی یا نون اور شین) تو حجاج نے بدل کر  یسیر کم (یعنی یا سین اور پھر یا) بنا دیا (کتاب المصاحف  طبع مصر 1936۔ ص 49 – 117)

اس روایت سے معلوم ہوا کہ حجاج سے پہلے ہی نقطے ڈالنے کا رواج تھا  اور حجاج اسے بخوبی سمجھتا تھا کیونکہ اگر سابقہ (عثمانی) مصحف میں نقطے نہ ہوتے تو اسے کس طرح پتا چلتا  کہ یہاں ینشر کم ہے اسے یسیر کم بنا دینا چاہیے۔ بالآخر  اس تشابہ کو دور کرنے کی حضرت عثمان نے نقاط کے بغیر تو کوئی صورت تجویز نہیں کی ہو گی۔ اور جب نقاط  ڈالے تب ہی حجاج کا تغیر و تبدل سمجھ میں آ سکتا ہے۔ بہرحال یہ روایت  بھی اس نظریہ کی تکذیب کرتی ہے کہ حجاج ہی کے حکم سے نقطے ایجاد ہوئے۔ وغیرہ۔

تاریخی شہادت ثبوت کے لحاظ سے وہی بات پختہ اور مدلل کہی جا سکتی ہے جو دعوے کے ساتھ اپنے اندر دلیل بھی رکھتی ہو۔ یہ بات  کہ صحابہ کرام نقطوں سے اچھی طرح واقف تھے اس کی تصدیق اس  وثیقہ سے ہو سکتی ہے جو  22 ہجری میں (عمر بن الخطاب شہید 644م کے زمانے ) ورق بردی پر یونانی اور عربی میں لکھا گیا۔ یہ وثیقہ متلاشیان حق و صداقت  اور شیدایان تاریخ کے لئے اطمینان اور  تسلین کا موجب ہے کہ اس کے بعض حروف معجم و بانقط ہیں۔ مثلا خاء۔ زال۔ زاء۔ شین اور نون۔ اس وثیقہ کے عکس بمعہ تعارفی نوٹ و ترجمہ کے لئے ملاحظہ ہو ڈاکٹر گراہمن کی کتاب

From the World of Islamic Papyri Pt.11(x)P.82, 113, 114

اس ضمن میں قرن اول کا ایک اور نقش جو  حضرت امیر معاویہ (متوفی 680م) کے عہد  میں 58 ھ میں لکھا گیا تھا۔ بین ثبوت  ہے اس بات کا کہ اس وقت نقطے ڈالنے کا عام رواج تھا کیونکہ حضرت معاویہ کی اس تحریر پر جو کہ طائف سے بر آمد ہوئی ہے واضح طور پر نقطے لگے ہوئے ہیں۔ اس کا عکس زیر نمبر 18 ڈاکٹر جی سی مائلز کے مقالہ بعنوان

Early Islamic Inscriptions Near Taif in the Hijaz Jenst (194)

پر ملاحظہ ہو  (بحوالہ مصاور الشعرا الجاہلی ص 40)۔

 

لغت اور اشعار جاہلیت سے استدلال  ابن السید بطلیوسی (متوفی 1127م) لکھتے ہیں کہ فاذا نقطتہ،قلت  وشمتہ وشما و نقطتہ نقطاوا و اعجمتہ اعجاما و رقمتہ ترقیما یعنی عرب نقطہ کے لئے وشم عجم نقط اور ترقیم کے الفاظ استعمال کرتے تھے مثلا جب کہنا ہوتا  کہ وشمتہ، اعجمتہ اور رقمتہ تو اس سے مراد  لیتے تھے نقطتہ یعنی یہ تینوں لفظ نقطے کے مترادف استعمال کئے جاتے تھے ہو سکتا تھا کہ ابن السید بطلیوسی کی اس شہادت  کو درخو اعتنا نہ سمجھا جاتا لیکن وہ اپنی تائید میں جاہلیت کے تین بڑے شاعروں ابی ذویب (متوفی 648م) مرقش بن سعد بن مالک حیری اور طرفہ بن العبد (مولود 543 مقتول 569م) کے ابیات کو بھی پیش کرتا ہے۔ ابو ذویب جو جاہلیت اور  اسلام کا شاعر تھا کہتا ہے کہ

برقم و وشم کما نمنمت            بعشیمھا المزدہھاۃ الھدی

یعنی حمیری کاتب نے قرضے کی میعاد والے کاغذ  کی تحریر پر نقطے ڈال کر ایسا مزین بنا دیا  جیسے عروسہ کسی قیمتی ہدیہ کو سوزن کاری سے منقش بنا کر پیش کرتی ہے۔مرقش کا بیت ہے

الدار  فقر والرسوم نما            رقش  فی ظھر  الادیم قلم

یعنی خالی مکان کے نقوش  و آثار ایسے نظر آ رہے ہیں جیسے کسی نے اویم ( جاہلیت کا کاغذ) پر قلم سے نقطے ڈال دئیے ہوں اور طرفہ کہتا ہے۔

کسطور  الرق رقشہ               بالفحی مرقش یشبہ

یعنی دوپہر  کے وقت کاغذ پر کسی لکھنے والے نے نقطے ڈال دئیے ہوں۔ (الاقتضاب بطلیوسی ص  93)

ہو سکتا ہے کہ ہم ابن السید بطلیوسی کی رائے کو عجلت اور جلد بازی پر محمول کرتے اور وشم، ترقم اور  ترقیش کو صرف حسن خط سے تعبیر کرتے لیکن جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ علامہ یوسف سلیمان ابو حجاج عرف الاعلم الشنتمری (متوفی 1083م) طرفہ مذکور کے بیت کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ وقولہ کسطوررق شیہ رسوم الربع یسطور الکتاب و معنی رقشہ زینہ و حسنہ بالنقط۔ (دیوان طرفہ طبع یورپ 1900 بمع شرح شنتمری ص 79) یعنی رقش کے معنی ہیں نقطوں سے خط کو مزین و خوبصورت بنانا۔

اس سے آگے چلئے تو  علامہ ابو علی اسماعیل بن القاسم بن  غیدوں عرف  القالی بغدادی (متوفی 356ھ۔967م) کی تحقیق سے بھی یہی کچھ مستفاد ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ  رقشت  الکتاب رقشا و رقشتہ اذا کتبتہ نقطتہ میں نے کتاب کو مرقش کیا یعنی لکھا اور نقطے ڈالے۔(الامالی للقالی جلد 2 ص  264 طبع مصر)

اس کے بعد علامہ قالی نے بھی طرفہ کا وہی بیت  پیش کیا جو اپنی تائید میں دیگر ائمہ اور اہل لسان پیش کرتے آئے ہیں۔

بانقط اور بے نقط خط کے نام عرب جاہلیت  والے خوبصورت و بانقاط خط کو کئی ناموں سے یاد کرتے تھے مثلاً ترقیش، ترقیم، نمنمہ۔وشم اور تنمیق (ملاحظہ ہو  دیوان الہند  یسین جلد اول ص 64-65 ائمو تلف  و المختلف ص 27 دیوان حاتم الطائی ص 23 دیوان سلامہ بن جندل ص 15 ) یعنی خوبصورت خط کی علامت یہ ہوتی تھی کہ بانقط ہوتا تھا۔ اور بد صورت خط کی علامت یہ یہ ہوتی تھی کہ وہ بے نقط ہوتا تھا۔ چنانچہ ایسے خط کو "مشق” کہتے تھے۔ مشق کے معنی ہیں اتنی جلدی میں لکھا ہوا  جس میں نقطوں کی پروا نہ کی گئی ہو۔ حضرت عمر بن الخطاب کا ارشاد ہے کہ بدترین خط "مشق” ہے (الصولی ادب الکاتب ص56)۔ ابن سیرین (متوفی 728م) کہتے تھے کہ قرآن مجید  خط مشق میں لکھنا مکروہ ہے، جب کہا گیا کہ کراہت کی وجہ کیا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ یہ خط نقائص کا مجموعہ ہے تم دیکھتے نہیں کہ اور تو اور الف جو کہ اپنی ہیت  کے لحاظ سے نمایاں ہوتا ہے اس کا بیڑہ بھی غرق ہو جاتا ہے (المصاحف  ص 134 طبع مصر)۔ ابن السید بطلیوسی الاقتضاب (طبع بیروت  1901) میں لکھتے ہیں کہ انبار کے لوگ  مہین اور بے نقط خط کے عادی تھے (یعنی کچہری خط لکھتے تھے ) اور حیرہ والے پختہ خط (یعنی با نقط) کو پسند کرتے تھے اور بعد میں وہی خط مصاحف کے لئے  منتخب ہوا اور اہل شام جلی لکھتے تھے (ص 89)  نیز لکھتے ہیں کہ جلدی اور کھینچ کر لکھنے میں خط کے کسی قاعدے اور قانون کا پاس نہیں رہتا  جیسے خط مشق (کچہری) میں دیکھا گیا ہے۔

 

نقطے نہیں بھی لگائے جاتے تھے مضمون کی ابتداء میں جن دریافت شدہ نقوش و تحریرات  کی نشاندہی کی گئی ہے ان کی تصویر وں سے پتا چلتا ہے کہ یہ لوگ نقطے نہیں بھی ڈالتے تھے۔ اب ذیل میں اس کی وجوہات ملاحظہ ہوں۔

(الف) یہ تحریریں اس وقت کی ہیں جب عربی زبان کو ابھی "مبین” کے امتیازی وصف سے نوازا نہیں گیا تھا اس وقت کی عربی نہ تو اتنی وسیع زبان تھی جس میں ہر موضوع پر اظہار خیال اور پھر بذریعہ تحریر اظہار ماضی  الضمیر کی گنجائش  نکل آتی۔ اور جب تک کوئی زبان  وسعت اختیار نہیں کرتی  اس کے الفاظ نہایت تھوڑے جانے پہچانے  اور محدود ہوتے ہیں۔ ایسے میں تشابہ کا اندیشہ کم رہتا تھا  اور اگر رہتا بھی  تھا تو  اہل زبان سیاق و سباق  سے لفظ کی صحیح پوزیشن اور مراد معلوم  کر سکتے تھے۔

(ب) نقش نمارہ (328م) کے عکس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ نہایت تنگ گھنی سطور میں لکھنے کے عادی تھے اور ایسے الفاظ کا انتخاب کرتے تھے جو اسماء،  اعلام  یا غیر متشابہ قسم کے ہوتے۔ ایسے میں اگر وہ نقطے ڈال دیتے تو  قاری کے لئے ایک نئی الجھن پیدا ہوتی  کہ یہ نقطے کسی اوپر کے لفظ کے ہیں یا نچلی سطر کے کسی لفظ کے۔ اس فنی صعوبت سے بچنے کے لئے وہ یا تو  با نقط الفاظ کا  ہی نہیں کرتے تھے اور اگر کرتے بھی تھے تو  آسان قسم کا  تشابہ ہوتا تھا۔ (مصادر  الشعر  الجاہلی ص 40)۔ دراصل اہل زبان کے لئے بے نقط الفاظ کا انتخاب کرنا اتنا دشوار نہیں جتنا ہم خیال کر رہے ہیں۔ فیضی نے غیر اہل زبان ہو کر  بے نقاط تفسیر لکھنے کا مصمم ارادہ کر لیا اور وہ اس حد تک کامیاب رہا کہ خود اہل زبان بھی حیران رہ گئے۔ اب دیکھئے کہ  ایک مقام پر اسے بڑی دشواری یہ پیش آئی کہ یوسف علیہ السلام کے تعارف  میں ابن یعقوب لکھنا تھا  مگر ابن یعقوب کے معجم و با نقط  حروف تھے لہذا اس سے بچنے کے لئے قطع  نظر بے ادبی کے اس نے "ولد الا عمیٰ” لکھ دیا۔ پس  جب ایک اجنبی زبان کا اہل علم کوشش کر کے بے نقاط  الفاظ تلاش  کر سکتا ہے تو کیا اہل زبان اس پر قادر نہیں تھے ؟

(ج) ایک زمانے میں یہ رواج پڑ گیا تھا کہ با نقاط و بے نقاط تمام تمام کلمات کو بے نقاط ہی لکھا جائے گا  تاکہ قاری کی عقل کا امتحان ہو اور وہ اس معمہ کو خود ہی حل کرے۔

چنانچہ یہ رواج اس قدر زور پکڑ گیا  کہ عقلاء، امراء اور  علماء کے باہمی مکاتبات میں اگر نقطے ڈال دئیے جاتے تو اسے  صریح توہین اور دوسرے کے بے عزتی تصور کیا جاتا تھا یعنی مرسل الیہ یہ سمجھتا کہ مرسل نے اسے غبی یا جاہل تصور کر لیا ہے تاہم اس دور  میں بھی عوام کے لئے بانقط  تحریر کا تھوڑا بہت رواج تھا۔ اس کی پوری تفصیل امام ابو بکر صولی لغوی (متوفی 946م) کی ادب الکاتب طبع  سلفیہ 1341م  مصر ص 57-58 پر ملاحظہ ہو۔

 

اختلاف قرأت کا پس منظر تاریخ اور ماخذ

جناب رحمت اللہ طارق فاضل حدیث مکہ مکرمہ

مودودی صاحب نے اپنی تفسیر اور دیگر تصانیف میں متعدد مقامات پر اختلاف قرأت کو ثابت کیا ہے اور اس نظریے کے مخالفین پر ایک گونہ طنز کیا ہے۔ حال ہی میں انھوں نے (جون 1959 کے ترجمان القرآن میں) اسی موضوع پر اپنے خیالات کو یکجا کر کے جامع صورت میں پیش کیا ہے اور گویا اپنے موقف  کو واضح صورت دے دی ہے۔

یوں تو مودودی صاحب کے علمی مقام سے سب آگاہ ہیں لیکن مذکورہ مقالہ میں انھوں نے جو  انداز بیان اختیار کیا ہے اور اپنے موقف  کو ثابت کرنے کے لئے جو طرز استدلال  منتخب فرمایا ہے اس سے وہ کسی بھی حق  کی جستجو رکھنے والے کو مطمئن نہیں کر سکے۔ جہاں تک  اس مسئلے میں شکوک و شبہات  پیدا ہونے کا تعلق ہے وہ تو اس  مقالے سے پہلے بھی موجود تھے۔ کیونکہ جو بات عصمت قرآن کے قطعاً منافی ہو اس بات کو  تسلیم کر لینے میں ہر اس  سلیم العقل آدمی کو  پس و پیش ہو گا  جو قرآن کی ازلی و ابدی صداقت  اور پھر  حفاظت و عصمت  پر یقین رکھتا ہے اور جس  کا ایمان ہو کہ قرآن جس طرح سے رسول عربی پر نازل ہوا تھا بعینہ اسی طرح اب ہمارے پاس موجود ہے۔ اس کے مطالب میں کوئی تبدیلی تو کیا ہوتی اس کے فقروں، الفاظ اور حرکات کی ترتیب بھی وہی ہے کیونکہ اگر  ہم ایسا تسلیم نہ کریں تو قرآن کے بہت سے دعووں کی تکذیب لازم آتی ہے۔

لو کان من عند غیر اللہ لوجدوافیہ اختلافاً کثیرا (القرآن 4:82)

یعنی اگر قرآن غیر اللہ کا کلام ہوتا تو  اس میں بہت سا اختلاف پایا جاتا۔

ظاہر ہے کہ اس "اختلاف” میں صرف مطالب  و مفاہیم کا  اختلاف ہی نہیں بلکہ الفاظ  و قرأت کا بھی اختلاف شامل ہے۔ اسی قرآنی دعویٰ کی روشنی میں تو صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ قرآن اگر مفہوم کے اختلاف و تضاد  سے پاک ہے تو قرأتوں کے اختلاف سے بھی پاک ہے۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے خود  اس کتاب کی حفاظت کا اعلان  کیا ہے۔

انا نحن ترلنا  الذکر  و انالہ لحافظون (15:9)

اگر اس عظیم الشان دعویٰ کے باوجود بھی قرآن میں قرأتوں کے اختلاف کو تسلیم کر لیا جاتا ہے تو پھر آخر قرآن کی صداقت کا معیار کیا رہ جاتا ہے ؟

اس سلسلے میں ہمارے علماء کی مساعی یہی ہیں  اور انھوں نے اپنا فرض اسی کو گردانا ہے کہ زیادہ سے زیادہ دلائل سے اس خیال کی توثیق کی جائے۔ راقم السطور نے زمانہ طالب علمی میں اس خیال کے بارے میں عدم اطمینان کا اظہار کیا تو اساتذہ نے یہ کہہ کر چپ کرا دیا کہ خود آنحضرت ؐ کے عہد مبارک میں آپ ہی کے فرمان کے مطابق آیات  قرآن کو مختلف الفاظ اور قرأتوں سے تلاوت کیا جاتا تھا۔ (ملاحظہ ہو  طبری جلد اول صفحہ 15 النشر فی القرأت  العشر جلد 1  ص 19 طبع مصر۔ تاویل شکل القرآن ابن قتیبہ ص 26 طبع مصر)۔

راقسم کے مشرق وسطیٰ کے سفر کے محرکات  میں ایک یہ بھی تھا کہ اس خیال (اختلاف قرأت) کی اصل کا کھوج لگایا جائے۔ میرے ناتواں شانوں پر بیت اللہ کی قدیم لائبریری اور دمشق کے کتب خانہ "ظاہریہ” کا بہت بڑا احسان ہے کہ ان عظیم علمی ذخیروں نے ایک حق و صداقت کی تلاش کرنے والے کی صحیح راہنمائی کی۔ بالآخر اس صداقت نے ظہور کیا کہ اختلاف قرأت کے افسانوں کے پیچھے بہت سارے تاریخی عوامل کار فرما ہیں اور آگے چل کر  انھی عوامل نے تمام علوم قرآنی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

تاریخ نے شخصیات و نظریات  کے ساتھ ہمیشہ یہ بے انصافی برتی ہے کہ مصنوعی اور وضعی خیالات  و عقائد  کی رنگ آمیزیوں سے اصل حقیقت کو عوام الناس  کی نگاہوں سے چھپا دیا ہے۔ خلفائے ثلاثہ کے بعد اسلام کی تاریخ میں جس فکری اور عملی انتشار کا سراغ ملتا ہے اس کے پس منظر میں بہت سے ایسے ہاتھ کارفرما تھے جن کی نشاندہی واضح طور پر نہیں کی جا سکتی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ خاندان نبوت  سے متعلقہ لوگ نسل پرستی کے زیر اثر اپنے تئیں خلافت کا زیادہ حقدار سمجھتے تھے لیکن وقتی موانعات اس راہ میں رکاوٹ بن گئے۔حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کی آویزش میں اس تحت الشعوری خیال نے واضح اور شعوری حیثیت اختیار کر لی۔ چنانچہ تاریخ کے اسی موڑ پر پہنچ کر  عامہ المسلمین کے ایک حصے نے اسلام کے بنیادی عقائد میں "خلافت” کو بھی لازمی عنصر قرار دے دیا اس گروہ کا خیال تھا کہ خلافت جیسے اہم معاملے کو امت کی صوابدید پر نہیں چھوڑا جا سکتا اور خلافت نہ صرف منصوص بلکہ ورثے کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔

بناء علیٰ ہذا مسلمانوں کے اس گروہ نے علیؓ کو وصی رسول گردانا اور اس نظریے کو فروغ دیا کہ جس طرح رسول مامور من اللہ ہے اسی طرح اس کا جانشین بھی کم از کم مامور من الرسول ہونا چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ غیر فطری خیال کچھ عرصے کے بعد دب جاتا  کیونکہ خلافت رسول اللہ کے خاندان میں ہو یا  اس سے باہر مسلمانوں کے سودا اعظم نے کسی وقت  بھی اسے جزو ایمان قرار نہیں دیا۔ لیکن جب خلافت  مکمل طور پر بنو امیہ کے سپرد ہو گئی اور اسلامی حکومت  کی بنیادیں مضبوط ہونے لگیں تو  ان عناصر نے جو وقتی طور پر حالات سے شکست کھا گئے تھے خلافت کے نظریے کو ایک سیاسی حربے کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا اور ایسا کرنا ان کا فطری حق تھا کیونکہ سیاسی اقتدار سے محرومی ایک ایسا زخم تھا جس کا مداوا کسی طرح نہیں ہو سکتا تھا اب اقتدار  کی دوسری راہیں کھلی نہ دیکھ کر  اس گروہ نے افکار کی دنیا پر شب خون مارا۔ عقائد میں تصرف ہوا تو  عقائد کی تفسیر و تعبیر میں تصرف ہونا لازمی تھا۔ چنانچہ عقائد کی ترجمانی کے ضمن میں اس گرہ نے اسلامی نصاب تعلیم میں ایسی غیر عقلی تبدیلیاں کیں کہ الامان و الحفیظ۔ اور پھر یہ ایک حقیقت ہے کہ احوال و ظروف کا دھارا ہمیشہ یک رخا نہیں بہتا  مگر لٹریچر وہ زندہ و پائندہ شے ہے جسے کوئی مٹا نہیں سکتا۔

قرآن کی جمع و تدوین کا عظیم کام رسول اللہ کے مبارک ہاتھوں تکمیل پذیر ہو چکا تھا (اتقان ص 145 طبع مصر) دین مکمل ہو چکا تھا۔ کتاب مدون ہو چکی تھی۔ سورتوں کی ترتیب، آیات کے محل وقوع، زیر زبر، وغیرہ سید البشر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے

کے مبارک عہد میں خود آپ کی نگرانی میں حیطہ تحریر میں لائے جا چکے تھے (اتقان ص  144 تا 148) اختلاف کے رخنے ڈالنے کی سب راہیں مسدود ہو چکی تھیں۔ قرآن کو  الہی الواح میں "محفوظ” کے امتیازی لقب سے موسوم کیا جا چکا تھا ( بروج 22) اب بجز اس کے کہ تعبیر کا ایک ایسا متوازی نظام قائم کر دیا جائے جو فی نفسہ متضاد و متناقص ہو۔ مقصود یہ کہ تعبیر اور تفسیر  کا تضاد اصل حقیقت کو مشکوک کر دے۔ چنانچہ اس سلسلے میں جہاں اور بہت سے اقدام کئے گئے وہاں قرآن سے بھی صرف نظر نہیں کیا گیا کہ در حقیقت اسلام کی اصل قرآن ہی ہے۔

قرآن کے بارے میں اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ اس میں سادہ ترین زبان میں سادہ ترین حقائق اور صداقتوں کا بیان ہے۔اہل زبان اظہار ماضی الضمیر کے لئے جس اسلوب بیان، جس طرز نگارش، جس ایجاز و اختصار، اشارہ و کنایہ۔ ندرت بیان۔ صنائع و بدائع لفظی و معنوی اور ضرب الامثال اور جس طریق فہمائش  اور انداز تخاطب  کو اختیار کر سکتے ہیں۔ قرآن مجید نے بھی الہامی مطالب  کو ذہن نشین کرانے کے لئے ان تمام اصناف  سخن کا التزام کیا ہے یہی وجہ ہے کہ عقائد سے قطع نظر کرتے ہوئے قرآن کو ادب عالیہ میں سب سے بلند  مقام دینے پر تقریبا تمام اہل ادیان متفق ہیں۔ اس کا اسلوب بیان سادہ لیکن دلنشین ہے۔ فقرے مختصر  لیکن مطالب پر حاوی۔ پیرا ہائے بیان مختلف لیکن ترجمانی حقیقت واحدہ کی، صداقت و ہدایت  کے تمام اصولوں کا منبع  انسانیت کے بنیادی قوانین کا سرچشمہ لسانیات میں لفظی تراکیب اور اصول انشا کا ماخذ۔ بقول کسے

جمیع العلم فی القرآن لکن

تقاصر  عنہ افھام الرجال

یعنی تمام علوم کا سرچشمہ تو قرآن ہی ہے یہ ہمارے شعور اور ادراک کی نارسائی ہے کہ ہم ان تک نہیں پہنچ سکتے۔

بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن میں حقیقی و مجازی الفاظ سے لے کر  متتشابہ و محکم قسم کے کلمات یعنی انشاء و ادب کے تمام مدارج کا خیال رکھا گیا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید کے انھیں اوصاف کو آڑ بنا کر  طبع  زاد  تعبیرات  و تفسیر کا ایک نظام قائم کیا گیا ہے اور خدمت قرآن کے نام پر بے شمار علوم قرآنی کا سلسلہ وجود پذیر  ہو گیا اور علوم قرآنی کو ذیل کے اصناف میں تقسیم کیا گیا۔ لغات القرآن، تفسیر القرآن، اعراب القرآن، بدائع القرآن، نوادر القرآن، قصص القرآن، اسرار القرآن، احکام القرآن، خواص القرآن، امثال القرآن،متشابہ القرآن اور مجاز القرآن وغیرہ وغیرہ۔ سیوطی (متوفی 1505م) نے ایسے علوم کے 80 انواع شمار کئے ہیں۔ قرآن کی ترجمانی کا یہ سارا کام بہت ہی مستحسن اور قابل عزت  و لائق صد تکریم ہے لیکن جب ہم تاریخی حقائق کی روشنی میں اصل محرکات کا  کھوج لگاتے ہیں تو حقیقت کچھ اور ہی معلوم ہوتی ہے۔ اس لئے سیاسی مصلحتیں اور اس سارے عمل میں پس منظر کا  کام کر رہی تھیں۔ ان سے صرف  نظر نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کہ مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ سرے سے ہی علوم قرآنی سے مستغنی و بد ظن ہو جائیں۔ مقصود گفتگو  یہ ثابت کرنا ہے کہ علوم قرآن اور اختلاف قرأت  کے نظریے کا انحصار جن جن روایات پر ہے ان سب کے راوی یا ان سے استناد کرنے والے اسی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جن کی سیاسی محرومیاں ان کو ہر وقت طالع آزمائی پر مجبور کرتی رہتی تھیں۔ یہاں اس بات کا ذکر کر دینا بھی نامناسب نہیں کہ اس گفتگو میں روۓ سخن کسی خاص گروپ یا فرقے کی طرف نہیں بلکہ اس  سے مقصود چند  حقائق کا برملا اظہار ہے۔ان علوم کے اولین مصنفوں یا ان سیاسی نامرادوں کے افکار و نظریات  نے آگے چل کر ہمارے پورے اسلامی اور تفسیری ڈھانچے کو اس قدر مفلوج کر دیا کہ بعد  میں آنے والے بڑے  سے بڑے علماء بھی اس غلط فہمی کا  شکار ہو گئے کہ ہو نہ ہو ان افکار  و نظریات  کی ضرور کوئی بنیاد ہو گی۔ مثلاً اختلاف قرأت  کا فتنہ ہی لے  لیجئے جس کا مودودی صاحب جیسا شخص نہ صرف  معترف و معتقد ہے بلکہ سرگرم مبلغ اور پر جوش ناشر بھی ہے۔ اختلاف قرأت  کے جواز میں مودودی صاحب وضاحت فرماتے ہیں:

"مختلف قرأتوں کو رد یا قبول کرنے کے لئے اہل فن  کے درمیان جن شرائط پر قریب قریب مکمل اتفاق پایا جاتا ہے  وہ یہ ہیں۔ اول یہ کہ جو قرأت  بھی ہو وہ مصحف عثمانی کے رسم الخط  سے مطابق رکھتی ہو  اس رسم الخط میں جس قرأت کی گنجائش نہ ہو وہ کسی حال میں قبول نہیں کی جائے گی مثلاً مصحف عثمانی میں اگر ایک لفظ”بعد” لکھا گیا ہے تو اس کی قرأت "بٰعدِ” اور "بَعدَ” تو  قبول کی جا سکتی ہے مگر "بعدت” قبول نہیں کی جا سکتی۔ دوم یہ کہ یہ قرأت ایسی ہو جو لغت، محاورے اور قواعد زبان کے خلاف نہ ہو اور عبارت کے سیاق سباق سے مناسبت رکھتی ہو۔ (ترجمان القرآن۔ جون 1959۔ صفحہ51)

مودودی صاحب کا ارشاد کسی  وضاحت کا محتاج نہیں یعنی آپ فرما رہے ہیں کہ کسی قرأت  کے صحیح ہونے کے لئے عثمانی رسم الخط سے مطابقت ضروری ہے۔ اس سے صیغہ امر کا بن جائے تو اور ماضی کے مفہوم میں تبدیل ہو جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ مثلا بٰعدِ کا لفظ جو خاص  انشا اور امر کے لئے قرآن مجید میں واقع ہوا ہے اسے اگر بَعدِ پڑھ کر انشاء سے خبر  میں اور امر سے ماضی میں تبدیل کر دیا جائے تو اصول اول کے لحاظ سے مودودی صاحب کے نزدیک قرآن ہی ٹھہرے گا۔ حالانکہ یہ بدیہی بات ہے کہ امر اور ماضی اپنے اپنے مدلول میں مفہوم بلحاظ قطعاً مختلف  اور متضاد ہیں۔ پھر تعجب ہے کہ بَعدَ کی قرأت جسے مودودی صاحب مشہور اور متواتر قرار دے رہے ہیں۔ متقدمین نے اسے غیر مشہور اور غیر متواتر بلکہ خود ساختہ یا شاذ قرار دیا ہے (ملاحظہ ہو القرأت الشاذۃ صفحہ 121 طبع مصر، تفسیر بحر المحیط جلد ہفتم صفحہ 273)۔

اب اصول دوم ملاحظہ ہو  جس سے مترشح ہوتا ہے کہ لغت، محاورے اور عبارت کے سیاق و سباق  سے اگر مناسبت پائی جائے تو  وہاں بھی قرأت  میں اختلاف جائز ہے۔ مثلا اگر الحمد للہ رب العالمین (باء کی زیر کے ساتھ پڑھنے کی بجائے ) باء کی زبر کے ساتھ پڑھا جائے تو کوئی باک نہیں کیونکہ اصول دوم کے مشمولات کے عین مطابق ہے۔ اور رسم الخط میں متجانست (ہم جنسی) مستزاد۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ مختلف قرأتیں آنحضرتؐ نے تعلیم فرمائی تھیں یا قاریوں کی دست اندازی سے وجود پذیر ہوئیں ؟ اس کے جواب میں مودودی صاحب فرماتے ہیں کہ "فی الواقع حضور ہی نے بعض الفاظ مختلف طریقوں سے پڑھے اور پڑھائے ہیں اور ان مختلف قرأتوں میں درحقیقت تضاد نہیں بلکہ غور کرنے سے ان میں بڑی گہری معنوی مناسبت اور افادیت پائی جاتی ہے (ترجمان القرآن جون 1959 صفحہ 52 سطر 7 تا 9)”۔

لیکن یہ فرمایا جائے کہ اس بے بنیاد مفروضہ کے بعد یہ فیصلہ کیونکر ہو گا کہ جو قرآن ہمارے پاس  موجود ہے وہ من و عن رسول اللہ ؐ کا دیا ہوا ہے ؟ اب آپ گہری مناسبت اور عدم تضاد کا نمونہ ملاحظہ فرما لیں۔

(1) او یکون لک بیت من زخرنی (اسراء 93 ) کو  بیت من ذھب (قرآن مجاہد مکی متوفی 721م، طبری جلد  دہم صفحہ 102)

(2) بیضاء لذۃ للشاربین (صافات46) کو صفراء لذۃ للشاربین

(3) ان الیاس لمن المرسلین (صافات 123) اور وسلام علی الیاسین (صافات 130) کو ادراس لمن المرسلین اور ادریس لمن مرسلین۔ وسلام علی  ادریسین (طبری جلد 23 صفحہ 31، 56، احیاء غزالی جلد 1 صفحہ276)

اب مودودی صاحب فرمائیں کہ بیضآ ء(سفید) اور صفراء (پیلے ) میں کیا معنوی مناسبت ہے ؟ اور الیاس اور  ادریس میں عدم تضاد کی کون سی نوع ہے ؟ مودودی صاحب طے شدہ مفہوم کی عقلی دلائل سے پشتیبابی کرتے ہوئے یہ ذہن نشین فرمانا چاہتے ہیں کہ "عقل بھی کہتی ہے کہ جبریل نے (مالک اورملک یوم الدین) دونوں قرأتوں کے ساتھ یہ لفظ حضور کو سیکھایا ہوگا (ہوگا قابل غور ہے ) اور حضور اس لفظ کو کبھی ایک طرح اور کبھی دوسری طرح پڑھتے ہوں گے (ہوں گے ملاحظہ ہو) (سطر  15 تا 17)۔

یعنی اس طرح مودودی صاحب یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ آنحضرتؐ جبریل اور حضرت باری تعالیٰ نے ان متضاد المفہوم قرأتوں کا خود ہی حکم دیا ہوا ہے لیکن جب حقیقت الامر اسی طرح تھی تو پھر ہو گا اور ہوں گے کے فرضی اور قیاسی الفاظ سے اتنے عظیم نظریے کو تقویت پہنچانا اہل علم کو زیب نہیں دیتا۔ اس سے تو  معلوم ہوتا ہے کہ آنجناب ابھی تک اس معاملے میں ظن و  تخمین کی وادی کی سیاحت فرما رہے ہیں۔ بہرحال حضرت ہم آپ کو کس طرح باور کرائیں کہ "اجامع امت” اور "خبر متواتر” کا سہارا ہمیشہ انھی لوگوں نے لیا ہے جن کے علم و بصیرت  میں گہرائی نہیں تھی اور جن پر استدلال کی خامیاں واضح اور  استنباط کی کمزوریاں عیاں تھیں اور جن کا یقین تھا کہ ایسے حضرات کو اجماع امت اور خبر متواتر کا اسراف کئے بغیر اپنا مطلب نہیں نکال سکتے۔ اجماع امت میں دین بننے کی صلاحیت ہے ؟ یہ کہیں واقع ہو ا بھی ہے ؟ کتنے مسائل ہیں جن پر حقیقی اجماع ہوا ہے ؟ فرد واحد کے اختلاف سے اجماع کی پوزیشن کیا رہ جاتی ہے ؟ یہ اور  اس قسم کے دیگر سوالات کو حل کئے بغیر اجماع امت کا بے جا استعمال علمی دنیا  میں کوئی وقعت نہیں رکھتا۔مشورۃً عرض کروں گا کہ اجماع امت کے ضمن میں قاضی شوکائی کی شہر آفاق کتاب ارشاد الفحول صفحہ 63 تا 80 ملاحظہ فرمائیے گا۔

 

اسی طرح قرآن کے باہر خبر متواتر کا  وجود قلیل و نادر ہے اس کا  سہارا لینا یا تواتر کے ایسے معنی کرنا جس سے سلف صالحین آشنا نہیں تھے سراسر مہذب دھونس ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ مالک اور ملک کی طرح ارجلکم کی دوسری قرأت  بھی متواتر ہے کیونکہ آپ کا ارشاد ایسا ہے اور آپ کا ارشاد بجا! لیکن بخدا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی طرف سے کسی بھی آیت  کریمہ کے الفاظ  کو دو یا دو سے زائد قرأتوں سے نہ تو تلاوت فرمایا ہے اور نہ ہی ایک لفظ  کے ایک ہی مقام پر دو متضاد مفہوم متعین فرمائے ہیں۔ اس نبی اکرم و اعظم اس ذات اقدس و اکرام کی طرف ایسی بات کی نسبت کرنا وہ جسارت ہے جس کا ارتکاب ایک مومن صادق کے  لئے ہرگز مناسب نہیں  ہے۔

ہاں تو آپ فرما رہے تھے کہ ارجلکم (لام کے زبر۔فتحہ) اور ارجلکم (لام کی زیر کسرہ) کے ساتھ دونوں متواتر اور  مشہور قرأتیں ہیں اور ان کے مفہوم میں کوئی تضاد نہیں ہے یعنی بقول آپ کے بے وضو آدمی وضو کرنا ہو تو اسے پاؤں دھونا چاہیے باوضو اگر تجدید وضو کرے تو  وہ صرف مسح پر اکتفا کرے۔ (ترجمان صفحہ 53 سطر 3) کاش یہی نقطہ اگر سنی حضرات کے دماغ میں آ جاتا  اور یہی توجیہ شیعہ اخوان کو سوجھتی  جو آپ پر منکشف ہوئی تو یقیناً  تیرہ سو سال کا جھگڑا کبھی کا نپٹ گیا ہوتا۔

مودودی صاحب آپ تو  فرقری 59ء کے ترجمان القرآن میں اپنی اس تحقیق کے برعکس فرما چکے ہیں کہ "پاؤں کا دھونا ہی صحیح ہے کیونکہ احادیث اور عقل اسی خیال کی مؤید ہے اور جو صحابہ ارجلکم (لام مکسور) کی متواتر قرأت کے مطابق صرف مسح کرتے تھے ان کی یہ اپنی رائے تھی (ترجمان فروری صفحہ 52 سطر 20)

سوال یہ ہے کہ جب ایک قرأت متواتر ہے تو اس کا علم صرف  دو تین صحابہ تک کیوں محدود رہا؟ اور پھر جب وہ ایک متواتر قرأت سے پاؤں کا مسح کرنا ہی اخذ کر رہے ہیں تو انھیں تنہا اپنی رائے کا متبع کیونکر کہا جا رہا ہے ؟ کھلی ہوئی بات ہے کہ مودودی صاحب اختلاف قرأت  میں معنوی مناسب اور گہرے ربط کے قائل ہیں۔ خاص کر زیر زبر اور الفاظ کے اختلاف کو آپ چنداں مضر خیال نہیں فرماتے مثلا اھدنا صراط المستقیم اور ارشدنا الصراط المستقیم میں یا اذا ضربتم فی سبیل فتبینو اور فثبتوا یا بل عجبت۔ (تا پر زیر)اور عجبت (تا پر  پیش) میں آپ کے نزدیک کوئی فرق نہیں ہے۔ حالانکہ قرآن نے جب فرمایا ہے کہ یہاں فتبینوا (نساء 94) ہے تو حمزہ کسائی خلف، حسن اور احمشق قاری کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ اسے بدل کر فثبتوا بنا دیں ؟  کتاب الدیات ابو عاصم النبیل متوفی 906م صفحہ 14-15 طبع قاہرہ 1323ھ۔

اب ہم بتائیں گے کہ اختلاف قرأت  کے موضوع پر سب سے پہلے کس نے لکھا ؟ کیونکہ اس کے بغیر ہمارا یہ دعویٰ بے دلیل رہ جائے گا  کہ سیاسی محروموں نے تعبیر کا ایک متوازی نظام قائم کر دیا جسے نے اصل حقیقت کو مشکوک کر کے اسلام اور قرآن کا ڈھانچا ہی تبدیل کر دیا۔

                   اختلاف قرأت کا پہلا مصنف

مشہور ہے کہ اس موضوع پر  سب سے پہلے ابو عبیدہ قاسم بن سلام (متوفی 831م) نے "کتاب القرأت” کے نام سے ایک تصنیف یادگار چھوڑی ہے۔

لیکن تاریخی شواہد  اور مستنف لٹریچر کے مطالعہ سے واضح ہو جاتا ہے کہ اس عنوان اور موضوع  پر سب سے پہلے شیعی محدث ابان بن تغلب (متوفی 758م) نے ابو عبیدہ سے ستر اسی سال پہلے لکھا اور  پھر یکے بعد دیگرے ذیل شیعہ اہل علم نے اس موضوع پر طبع آزمائی کی۔ (1) سعد بن ابو جعفر بن محمد بن سعدان عرف ضریر  (متوفی 845م) (2)محمد بن حسن ابن ابی سارہ عرف ابو جعفر رواسی کوفی (796م) استاذ فراد کسائی اور یہ معلوم ہے کہ رواسی کا طریقہ قرأت بھی مستقل ہی تھا اس کے علاوہ (3) حمزہ بن حبیب زیات کوفی شیعی نے بھی کتاب القرأت نامی کتاب لکھی ہے جس  کا ابھی ابھی تعارف  عرض کروں گا۔

ان شواہد سے معلوم ہوا کہ تضاد قرأت  کے عنوان اور موضوع پر قرآن اولیٰ میں صرف شیعہ اہل علم نے ہی لکھا اور دوسرے لفظوں میں قرآنی تسوید و توفیق کے وہی مجاز کل تھے۔

حمزہ زیات

مودودی صاحب کے ضمن میں جس  سند کو قابل اعتماد سمجھتے ہیں وہ آپ کے نزدیک وہی ہے جس میں حمزہ بن حبیب زیات واقع ہے۔ بلکہ آپ ابن زیات کے سلسلہ سند کو خاص فرما کر تحریر فرماتے ہیں کہ حمزہ بن الامش، عن یحیٰ بن وثاب، عن زر  بن جیش،  عن علی و عثمان و ابن مسعود (ترجمان القرآن جون 1959 صفحہ 7 سطر 5-6)

اب اس خاص سلسلہ سند کا حال بھی سن لیجئے۔

(1) حمزہ بن حبیب زیات (متوفی 773م) بہ تحقیق طوسی شیعی (متوفی 1068م) خالص شیعہ تھے۔ امام ازری، امام ساجی، یزید بن ہارون عبدالرحمن بن مہدی، امام احمد بن حنبل، سلیمان بن ابی شیخ اور احمد بن سنان جیسے ائمہ رجال کو حمزہ مذکور کی قرأتوں پر سخت اعتراضات تھے اور لوگوں کو اس کے قرآن سے بچنے کی تلقین کرتے اور کہتے تھے کہ اس  کی قرأت لغو ہے۔ امام ابوبکر بن عیاش، حماد بن زید اور یزید بن ہارون اس کی قرأت  کو قواعد عرب کے خلاف جانتے تھے اور اس کے مطابق قرأت  کرنا بدعت سمجھتے تھے اور لوگوں کو اس کی اقتداء میں ادا کی گئی نمازوں کے اعادہ کا حکم دیتے تھے۔ (ملاحظہ ہو میزان الاعتدال وغیرہ) اتنی واضح جرح کی موجودگی میں بھی مودودی صاحب اگر قرآن کے معاملہ میں حمزہ کو امین سمجھتے ہیں تو یہ آپ کی خوش فہمی ایسی ہے جس کا ہم گناہ گار کوئی  جواز مہیا نہیں کر سکتے۔

(2) سند کے دوسرے خاص راوی سلیمان بن مہران عرف (اعمش اسدی متوفی 764م) کوفی بڑے پائے کے محدث اور عالم تھے لیکن تمام اوصاف حسنہ کے باوجود محدثین نے اسے فاسد یا ھالک فی الحدیث (حدیث کو تباہ و برباد کرنے والا) یعنی دبے لفظوں میں کذاب کا سرٹیفیکیٹ دیا ہے۔ علاوہ یہ بڑے راسخ العقیدہ شیعہ بھی تھے ( ملاحظہ ہو  کتاب المعارف ابن قتیبہ صفحہ 606 طبع مصر یا تنقیح المقال حلامہ مامقامنی جل دوم صفحہ 65-66 طبع نجف سائز کلاں) جب وہ حدیث میں کذاب تھے تو اس کے ذریعے جو قرآن ہمارے پاس پہنچا وہ یقیناً  ایک خاص سند ہی کا معجزہ ہے۔

(3) سند کے تیسرے راوی یحیٰ بن وثاب اسدی کوفی (متوفی 720م)

کوفہ کے محلہ بنی اسد کے کبار شیعہ میں سے تھے  (ملاحظہ ہو کتاب المعارف صفحہ 230، نقد رجال علامہ تفرشی مطبوعہ طہران صفحہ 376 تنقیح المقابل جلد سوم صفحہ 322)۔

(4) سند کے چوتھے خاص راوی امام زر بن جیش ابو الحریم اسدی کوفی (متوفی 670م، 52ھ) سیاسی اور مذہبی طور پر  حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے خاص  الخاص حمایتی اور شیعہ تھے تاہم اہلسنت  نے آپ سے بہت کچھ حاصل کیا ہے  (تنقیح المقال فی احوال الرجال جلد اول صفحہ 438 طبع 1349ھ، نقد الرجال علامہ تفرشی صفحہ 136 طبع طہران) یہ تھا حمزہ کا خاص الخاص اور صحیح ترین سلسلہ قرأت  جسے ہمارے اکابر اور حضرت مولانا بڑے وثوق سے قابل تمسک سمجھتے آ رہے ہیں۔

                   ایک وضاحت

اختلاف قرأت کے ضمن میں  ہم یہ عرض کرنا بھول گئے کہ بعض حضرات معصومانہ انداز سے یہ کہہ کر  مطمئن ہو جاتے ہیں کہ یہ مختلف قرأتیں صرف قرون اول میں تلاوت  کی جاتی تھیں جو کہ بعد میں آہستہ آہستہ متروک ہوتئ چلی گئیں اور ان کا کتب تفاسیر میں موجود  ہونا  یا ان کی بنیاد پر مسائل کا اختلاف معلوم کرنا مضر نہیں ہے۔ ایسے حضرات کی خدمت میں التماس ہے کہ اگر  قرن اول ہی میں ان کی تلاوت کی جاتی اور  مسائل میں ان کے مفہوم کے مطابق اخذ و استنباط کیا جاتا  تھا تو آج کون سی وجہ مانع ہے کہ آپ زبان سے تو ان قرأتوں کو ضروری نہ سمجھیں مگر عملی طور پر آپ کے نزدیک وہی متروک قرأتیں اصل قرآن پر بھی فوقیت رکھیں؟

حقیقت یہ ہے کہ امام ابن تیمیہ (متوفی 1328م) غیر مبہم الفاظ میں تصریح فرما چکے ہیں کہ موجودہ قرآن کے علاوہ جتنی قرأتیں بھی ہیں وہ احکام شرع میں ہر وقت قابل اعتبار ہیں، فرماتے ہیں کہ غیر عثمانی قرأتوں کا اعتبار اس وقت  اور بھی ضروری ہو جاتا ہے جب کہ ان تمام قرأتوں کا تعلق شریعت اور احکام سے ہو (رفع الملام مطبوعہ آداب پریش قاہرہ 1318ھ، صفحہ 41) امام ابو شامہ (متوفی 1268م) تو منکرین اختلاف قرأت سے اس قدر خفا ہیں کہ قطعی گمراہ کہنے میں بھی کوئی باک محسوس نہیں کرتے بہرحال

فکر ہر کس بقدر  ہمت اوست

اعراب القرآن

اعراب کے معنی ہیں الفاظ پر زیر زبر اور پیش لگانا۔ سلف صالحین کا تو یہ عقیدہ تھا اور ہر مسلمان یہی عقیدہ ہونا چاہیے کہ یہ بنیادی اور عظیم کام خود آنحضرتؐ سر انجام دے گئے تھے بلکہ آپ نے حکم دیا تھا  کہ اعربوالقرآن یعنی قرآن پر اعراب لگاؤ (بیہقی،  ابو العلی بحوالہ مشکوۃ صفحہ 180) جامع صغیر جلد 1  صفحہ 38،  منتخب کنز العمال جلد 1 صفحہ 386، تاریخ خطیب جلد 8 صفحہ 77، بغیتہ الوعاۃ صفحہ 450، فضائل ابن کثیر صفحہ 201 وغیرہ)۔ لیکن حدیث اور تاریخ کے اس عظیم ثبوت کے باوجود  مودودی صاحب واقعات کو غلط رخ پر ڈال کر  مسلمانوں کو ایسے مغالطے کا شکار  بنا رہے ہیں جس کی آگے چل کر کسی حال میں بھی تلافی نہیں ہو سکتی۔ یعنی آپ فرما رہے ہیں کہ45ھ تک قرآن کے حروف  بلکہ پورے اہل عرب ہی عام حروف  عربی کے لئے اعراب کے  نام سے آشنا نہ تھے۔ابو الاسود دولی نے زیاد کے حکم سے پہلے پہل نقطوں کی شکل میں حروف کے اوپر نیچے اور بیچ میں ایک ایک نقطہ رکھ کر  زیر زبر اور پیش سے مسلم اہل عرب کو 45ھ سے 53 کے اندر کسی دن آشنا کیا (ترجمان صفحہ 46) یعنی مودودی صاحب اس تاریخی مغالطے کی اس خوبی سے توثیق بلکہ تائید فرما رہے ہیں جیسے نوشتہ جبریل کی حمایت مطلوب ہو لیکن ہمیں افسوس ہے کہ مودودی صاحب کی یہ غیر منصفانہ تحقیق علمی لحاظ سے تشنہ اور تحقیقی لحاظ سے نہ صرف نامکمل بلکہ قرآن کے متعلق بنیادی تصور یعنی حفاظت قرآن کے بھی خلاف ہے۔ کیا مودودی صاحب یہ فرما سکتے ہیں کہ ابو الاسود دولی سے پہلے اہل عرب فن اعراب سے قطعاً نا آشنا تھے (خوف خدا ملحوظ رکھ کر) کیا وہ بتائیں گے کہ زیاد نے کب یہ خدمت اس کے سپرد کی تھی؟ اور پھر ابو الاسود دولی نے وثوق کے ساتھ کس سنہ میں اس خدمت کو سرانجام دیا؟ کیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اعربو القرآن فرمایا تو آپ اعراب کے موجودہ مفہوم سے واقعی نا آشنا تھے ؟ (معاذ اللہ)

 

ابو الاسود دولی کا تعارف

مودودی صاحب کے ہیرو ابو الاسود دولی جس کا اصل نام بڑے بڑوں کو معلوم نہیں۔ یہ نام سے زیادہ کنیت سے معروف تھے۔ بہت بڑۓ پائے کہ ادیب اور شاعر و بالاتفاق شیعہ مسلک کے داعی اور ترجمان تھے اور حضرت امیر معاویہؓ کی شان میں ہجو کرنا مستزاد۔ اس کے اصل نام کا کوئی پتہ نہیں (شاید مودودی صاحب کو معلوم ہو)لوگ اسے (1) ظالم بن عمرو بن جندل بن یعمر بن حنش بن ثعلبہ بن عدی بن ویل بھی کہتے  تھے اور (2) عمرو بن  عثمان یا (3) عثمان بن عمرو کے نام سے بھی جانتے تھے۔ ھافظ ابن حجر نے تو پہلے نام کو ترجیح دی ہے۔ بہرحال یہ 681م میں فوت ہوئے اور خالص شیعہ تھے (ملاحظہ ہو تہذیب التہذیب جلد 12 ص 11 طبع دکن) اسی نے بہ تحقیق مودودی صاحب بصرے کے (اموی) گورنر زیاد (متوفی 675م) کے حکم سے قرآن پر اعراب لگائے۔

کیا اس واقعہ کی تکذیب کے لئے اتنا کافی نہیں ہے کہ ایک اموی گورنر قرآن کے معاملہ میں ایک غالی شیعہ کا ہرگز انتخاب نہیں کر سکتا۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ابو الاسود نے کوئی ایسا فرمان حاصل کر لیا ہو گا لیکن پھر بھی ہم تنہا اس کی دیانت  پر کس طرح اعتماد کر سکتے ہیں جبکہ اس نے کسی غیر شیعہ عالم کے تعاون سے نہیں بلکہ اپنے ہی  ہم مشرب غالی شاگرد اور بار بار سزا یافتہ شرابی یحیٰ بن یعمیر عدوانی اسدی بصری (متوفی 737م 120ھ یا 746م 129ھ) کے مشوروں سے یہ کام تکمیلی مراحل تک پہنچایا۔ (تہذیب التہذیب جلد 11 ص207)۔ یہ یاد رہے کہ ہمارے نزدیک سرے سے یہ واقعہ ہوا ہی نہیں صرف مودودی صاحب کی خاطر ہم نے تھوڑی دیر کے لئے اسے تسلیم کر لیاہے۔ (نوٹ)  یحیٰ مذکور کی شیعہ کتب رجال میں تفصیل موجود ہے۔

مناسب ہو گا  کہ اس مقام پر دو ایک ان قاریوں کی نشاندہی بھی کر دی جائے جنھوں نے قرآن میں تحریف و تصحیف کے پروگرام کے پیش نظر  953م و 934م کے لگ بھگ  قرآن کے اعراب کا از سرنو جائزہ لے کر

سینکڑوں آیات کے نئے اعراب تجویز کر کے اپنے اپنے مدارس فکر  سے جاری کئے میرا اشارہ مشہور مفسر  ابن جریر طبری کے شاگرد  قاری ابن شنبوذ شیعی اور اس کے پر زور حامی قاری ابو بکر العطار شیعی (متوفی 965م) کی طرف ہے۔ ابن شنبوذ نے تو گرفتاری کے بعد  بظاہر اعتراف کر لیا  (اخبار مکہ ازرقی شائع کردہ ولیسٹن فیلڈ جلد 1 ص 7، تذکرہ الحفاظ  ذہبی جلد 3  ص 217) لیکن عطار  اپنے استاد  ابن شنبوذ کی گمراہ کن قرأت اور تجویز کردہ اعراب پر تادم زیست قائم رہا کیونکہ وہ شنبوذی اکیڈمی کا پر زور حامی اور جانثار تھا (یاقوت حموی طبع  مارگلیوتھ جلد 6 ص 300 و 500، بغیہ الوعاۃ ص 36، ابن الاثیر جلد8 ص 221،  ابن تغری بردی طبع جانپول جلد 2 ص 89 وغیرہ)۔ ان ہی کا ایک  اور ساتھی قاری ابی محمد اسحاق خزاعی بھی نامور محرف ہو گزرا ہے۔ اس تھریفی پارٹی کے علاوہ دسویں صدی میلادی میں روایات کے بل بوتے پر  جس شخص نے نئے عزم اور نئے ارادے سے تمام قرآن کے اعراب بدل ڈالے وہ محمد بن مقلہ شیعی (متوفی 941م) تھا۔ یعنی شنبوذی اوار عطاری فتنہ کے دوش بہ دوش مقلی فتنہ بھی پرورش پا رہا تھا۔ ابن مقلہ چونکہ ماہر خطاط تھا لہذا اس نے اس غرض کے لئے کوفی رسم الخط کو آلہ کار بنایا یعنی اس میں ترمیمات کر کے خط ابن مقلہ کے نام سے ایک نئے رسم خط کی داغ بیل ڈالی۔ اس عیار نے پوری مہارت سے قرآن کے نسخے (جدید خط میں) کتابت کرائے اور لوگوں میں تقسیم کر دئیے۔ (ملاحظہ ہو مذاہب التفسیر الاسلامی طبع مصر  ص 64-65)۔

ان تاریخی شواہد کی موجودگی میں ہم کیونکر باور کریں کہ یہ جو ہمارے دینی لٹریچر میں تضاد  قرأت کے سینکڑوں نمونے پائے جاتے ہیں ان تحریفی پارٹیوں کی دستبرد سے محفوظ رہ گئے ہوں گے ؟ کیا اگر وہ قرآن تک آسانی سے پہنچ سکتے تھے تو یہ تصنیفات کے انبار ان کی دسترس سے باہر تھے ؟

یہ یاد رہے کہ فن اعراب سے عرب جاہلیت والے بخوبی آشنا تھے مودودی صاحب کا ذہن شاید اس طرف منتقل نہ ہوسکا۔ (ملاحظہ ہو ابن الندیم ص 7 طبع  جلی مصر)

 

نقاط القرآن

دنیا کے لٹریچر  میں تنہا ادب اور انشاء کے لحاظ سے ہی دیکھا جائے تو  قرآن حکیم یہاں بھی تمام لٹریچر  پر فائق نطر آئے گا اور یہ فوقیت  کسی زبان کو اس وقت  تک حاصل نہیں ہو سکتی تاوقتیکہ وہ کلی طور پر  پختہ، کامل و اکمل نہ ہو یعنی بول چال سے لے کر تحریر تک ہر عیب اور نقص سے پاک نہ ہو۔ اسی بناء پر ہی تو قرآن حکیم عربی مبین (نحل 103) یعنی صاف ستھری اور واضح عربی ہے جس کے نہ تو  املا میں کوئی الجھاؤ ہے اور نہ تحریر میں ابہام۔ لیکن بڑا مسئلہ یہ ہو گا کہ ہم بغیر دلیل کے یہ تسلیم کر لیں کہ عربی کے  واضعین زبان کے ایسے قواعد سے نا آشنا  محض تھے جو کہ ایجاد  و تخلیق کے ابتدائی مراحل میں ان کے سامنے ہونے چاہیں تھے ؟ فرض کرو ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ عربی اپنی ایجاد کے وقت  سے لے کر  اسلام کی نصف صدی تک یوں ہی بے قاعدہ اور بے نقط رہی تو فرمایا جائے کہ آخر وہ کونسا طریق فہمائش تھا جس سے اجنبی لوگ بے تکلف با۔تا۔ثا۔ اور جیم، حا اور خا وغیرہ حروف  میں امتیاز کرتے تھے۔ راقم الحروف نے ایک ایف اے پاس سے بطور امتحان سورہ نور کی آیت 26 بغیر نقطوں کے لکھ کر پڑھنے کے لئے کہا تو اس نے طیب کو طبیب (ڈاکٹر) اور خبیث کو حبیب(درست) پڑھا۔ اسی طرح نقطوں کے بغیر مشرکین اور مترکین اور  موحدین اور موجدین۔ رحمت اور زحمت۔ غافل اور عاقل۔ میں کونسی وجہ امتیاز باقی رہ جاتی ہے ؟ اب فرمایا جائے کہ اتنی ناقص اور ناپختہ زبان میں قرآن کی حفاظت اور  اشاعت کی کیا صورت نکالی گئی ہو گی؟

حقیقت یہ ہے کہ جو زبان اپنے مطالب  اور مفاہیم ادا کرنے میں نا پختہ و نامکمل ہو اسے "مبین” صاف منجھی ہوئی اور مکمل کہا ہی نہیں جا سکتا۔ اب یہ مودودی صاحب کے اختیار میں ہے کہ ایک بے سند  مفروضہ کو ثابت کرنے کے لئے محض اپنی شخصیت اور علمی بلند مقام سے ناجائز فائدہ اٹھا کر حاملین قرآن کو یہ تاثر دے دیں کہ

اہل عرب "حروف کے لئے نقطے بھی ہونا چاہیں” اس کو کبھی محسوس نہ کر سکتے تھے۔ بلکہ اسلامی عہد میں بھی صحابہؓ، رسولؓ جبریل یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے بھی نقطوں کی ضرورت عربی حروف تہجی کے لئے محسوس نہ کی۔ پہلی مرتبہ عبدالملک کے حکم سے حجاج نے دو گمنام عالموں کے ذریعے یہ بے ضرورت ایجاد  کر کے دنیائے عرب کو اس  کی ضرور ت سے آشنا کر دیا۔ (ترجمان القرآن کا خلاصہ)۔

مودودی صاحب نے بیک جنبش قلم کسی زبان کے ان بنیادی اجزاء کا ہی انکار کر دیا جو اس کی تشکیل میں عنصر  فعال      کی حیثیت  رکھتے ہیں۔لیکن یہ فرمایا جائے کہ (1) اللہ، رسول، جبریل کا  (منفی انداز میں) منشاء آپ پر کیونکر منکشف ہوا؟ (2) اسلامی عہد کے 56 سال تک لفظی اشتباہ اور التباس  کو دور کرنے کا کیا ذریعہ تھا؟ (3) اگر بخیال آپ کے تضاد  قرأت کے بنیادی اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی تھا کہ حروف بے نقط  لکھے جاتے تھے تو اس حالت میں حفاظت قرآن کے الہٰی وعدے (حجر 9) کی کیا پوزیشن رہ جاتی ہے ؟ (4) قرآن کے متعلق تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اس  میں نہ تو اضافہ کی گنجائش ہے اور نہ ہی حذف کا امکان یعنی زبر زیر اور ایک ایک نقطہ تک اس کا محفوظ ہے۔ پھر یہ صورت  کہاں سے نکال لی گئی کہ کروڑوں اعراب اور اتنے ہی نقطے اس قرآن میں اضافہ کئے گئے جسے خدا نے یوں ہی چھوڑ دیا تھا ؟

(5) وہ دو گمنام عالم جو قرآن پر اضافہ اور تکمیل کے لئے مامور کئے گئے تھے عبدالملک (متوفی 715م) اور حجاج بن یوسف (متوفی 718م) نے ان کا نام کیونکر صیغہ راز میں رکھا؟ اس مفروضے کو تسلیم کر لینے کے لئے آپ کے پاس  کیا سند ہے ؟ ہمارے خیال میں اس طبع زاد مفروضہ کی تکذیب کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اتنی اہم ایجاد  اور عظیم کام سرانجام دینے والوں کا نام و پتا آپ قیامت تک نہیں بتا سکتے۔ مودودی صاحب دراصل اس بدگمانی میں مبتلا ہیں کہ اگر  اپنے لٹریچر کی حقیقی غلطیاں تسلیم کر لی گئیں تو لا محالہ معترضین کی بہت سی باتیں ماننی پڑیں گی اور یہ علمی پندار کے منافی ہو گا لیکن بندہ پرور ایسے معترضین پر لعنت بھیجئے کہ وہ تو  آپ کی کسی بات کا بھی اعتبار نہیں کریں گے لیکن ضد میں آ کر قرآن کے متعلق ایسا غیر ضروری لٹریچر پیش کرنا یا پھر طبع زاد  مفروضات پر اس حد تک ایمان لے آنا کہ وہ فرمودہ خدا ہوں، قرآن کی عظمت اور عصمت کو مجروح کرنے کے علاوہ بڑے انتشار کا موجب کیا ہو گا کیا آپ نے سوچا بھی ہے کہ علمی مذاکرات میں خدا و جبریل کو طبع زاد نظریات کا پابند بنانا کتنا جرم عظیم ہے ؟

افسوس ہے کہ ہم عرب جاہلیت کے اشعار، کتبات اور خط ھمیری (عربی خط کے ماخذ) کے چربے اس اشاعت میں شامل نہ کر سکے لیکن اگر حیات مستعار نے چند روز اور  وفا کی تو انشاءاللہ کسی وقت ان کے فوٹو لے کر  قارئین پر اس حقیقت کو بے نقاب کر دیا جائے گا کہ عرب اسلام سے پہلے ہی نقطہ کے مفہوم سے آشنا تھے اور وہ برابر مشتبہ حروف میں امتیاز کے مواقع پر اس کا استعمال کرتے رہے۔

 

زیادات القرآن

کہا جاتا ہے کہ قرآن میں بعض کلمات کسی اضافے کے محتاج ہیں اور وہ اضافہ دراصل قرآن ہی تھا مگر درج ہونے سے رہ گیا۔ مشہور ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور حضرت ابی بن کعبؓ کے مصاحف میں یہ ضمیمے موجود تھے جنھیں بعد میں محفوظ کر لیا گیا تھا۔ ذیل میں ایسے ہی چند  نمونے درج کئے جاتے ہیں۔

(1)فما استمتعتم بہ منھن فاتو  ھن اجورھن (نساء 24) اجورھن کے بعد الیٰ اجل مسمی پڑھا جاتا تھا تاکہ متعہ کا قرآنی جواز نکل آئے۔(العقیدۃ الشریعیۃ فی الاسلام ص 22 طبع مصر)

(2)ان تبتغو افضلا من ربکم (البقرۃ 198) کے بعد  "فی مواسم الحج” (کشاف  ص 185 جلد 1)

(3) النبی اولی بالمومنین من انفسھم و ازواجہ امھاتھم (احزاب 6) کے بعد  و ھو ابلھم (کشاف جلد 2 ص 26)

(4) سورہ مجادلہ کی ساتویں آیت  یوں تلاوت کی جاتی تھی ما یکون من نجوی ثلاثۃ الااللہ رابعھم ولا اربعۃ الا اللہ خامسھم ولا خمسۃ الااللہ سادسھم ولا اقل من ذالک ولا اکثر الااللہ معھم اذا اخذافی التناجی (تفسیر کبیر ص 168 جلد 8 طبع بولاق 1289ھ)

(5) وا مراءٔتہ قائمۃ (ہود 71) و امرأ تہ قائمۃ و ھو  قاعد (مذاہب تفسیر ص 23 طبع مصر)

(6) یامرون بالمعروف  و ینھون عن المنکر (عمران 14) کے بعد  و یستعینون باللہ علی ما اصابھم (طبری جلد 4 ص 24 طبع مصر )

(7) وجنت بایۃ من ربکم فاتقواللہ(عمران50) کے ساتھ فاتقواللہ من اجل ما جئتکم بہ واطیعو ن فیما دعوتکم الیہ (کشاف جلد 1 ص 148)

وغیرہ یہ تمام زیادات ابن شنبوذی نے اپنے مصحف میں درج کئے تھے اور  ان کا حال آپ معلوم کر چکے۔ یہ تفصیل کا مقام نہیں واللہ ہم بتا دیتے کہ ابی بن کعب اور عبداللہ بن عباس  کے سلسلہ ہائے اسناد میں 99 فیصد کس کیمپ کے راوی محو عمل تھے۔

 

تفسیر القرآن

قرآن چونکہ خالص عربی زبان میں نازل ہوا تھا اور  ادھر عہد نبوی سے لے کر خلفائے راشدین کے زمانے تک  اطراف و اکناف عالم میں قرآن و اسلام کی اشاعت دن بدن بڑھ رہی تھی، نو مسلم عجمیوں کے لئے قرآن فہمی کے لئے اہل زبان کی طرف رجوع کرنا لازمی امر تھا اندریں حالات ضرورت تھی کہ آیات الٰہی کی فہمائش  کے لئے کوئی طریق کار تجویز کیا جاتا  اور یہ طریق کار  تعبیر تھا  تفسیر القرآن سے۔ کتنا مبارک اقدام ہے تفسیر القرآن بیان کرنا۔ لیکن بد قسمتی سے ہوا یہ کہ ہر لفظ کی تشریح اور آیت کی تفسیر میں تضاد  و تخالف کا وہ بارود بھر دیا گیا کہ کسی  سلیم العقل کے لئے باور کرنا مشکل ہو چلا کہ ان تفاسیر کے اندر قرآنی آیات کے جو  مطالب  اور جو مفاہیم بیان کئے جاتے ہیں کیا واقعی قرآن ان کا محتاج ہے۔ اور پھر یہ بھی یقین کر لیا گیا  کہ ایسی تفسیر  خود آنحضرتؐ ہی سے منقول ہے۔ ذیل میں بطور مثال دو آیات کی تفسیر ملاحظہ ہو۔

(1) و القنا طیر  المقنطرۃ من الذھب و الفضۃ۔ (عمران 14)

یعنی انسان کے لئے مر د و عورت کے رشتے میں، اولاد میں، چاندی و سونے کے قنطاروں میں،  چنے ہوئے گھوڑوں میں، مویشیوں میں اور کھیتی باڑی میں دل کا اٹکاؤ اور خوشنمائی رکھ دی گئی ہے۔

یہ قنطار کیا ہے ؟ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرتؐ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ ایک ہزار اوقیہ (وزن) کا ایک قنطار ہوتا ہے (احمد و ابن ماجہ) اور حضرت ابوہریرہ (متوفی 676م) فرماتے ہیں کہ آپؐ نے قنطار کی تشریح میں بارہ ہزار اوقیہ فرمایا ہے (حاکم)

(2) نخدا اربعۃ من الطیر نصر ھن الیک (بقرۃ 260)

یعنی اے ابراہیم چار پرندے لے لو اور لے کر  پھر کیا کرو ؟ یہاں "صرھن” نے الجھن پیدا کر دی۔

حضرت ابن عباسؓ (متوفی688) فرماتے ہیں کہ صرھن کے معنی ہیں  قطعھن یعنی انھیں ذبح کر دو۔(ابن جریر ججلد سوم ص 37)۔ آ گے چل کر معنی اس کے برعکس مکرر ابن عباس کا ارشاد ہے کہ  صرھن کے معنی او ثفھن یعنی ان پرندوں کو زندہ باندھ لو۔ (حوالہ مذکور) ذبح نہ کرو۔ یہ تھا نمونہ تفسیر القرآن کا۔ یعنی جو بات آپ سمجھنا چاہیں اسے بھاری پتھر کی طرح چوم کر پیچھے ہٹ جائیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس موضوع پر سب سے پہلے کس گروہ کے افراد نے خامہ فرسائی کی۔

مورخ ابن الندیم (متوفی 995م) کی تصریح یہ ہے کہ تفسیر القرآن سب سے پہلے سعید بن جبیر تابعی کوفی (متوفی 712م) نے لکھی اور سعید کے متعلق شیعہ مورخین و نسابین کا دعویٰ ہے کہ وہ خالص شیعہ تھے۔ چنانچہ  علامہ جلال الدین بن مطہر (متوفی 1326م) نے خلاصہ الاقوال میں اور علامہ ابو عمر کشی نے کتاب الرجال میں سعید مذکور کو بدلائل شیعہ ثابت کیا ہے۔ نیز ملاحظہ ہو  قرب الاسناد  حصہ سوم مصنفہ حمیری(متوفی 789م)۔ بلکہ امویوں کے خلاف بغاوت  کر کے اشعث شیعہ سے مل جانے کے جرم میں ہی حجاج نے اسے قتل کرا دیا تھا (کتب رجال)۔ سعید کے بعد  سدی کبیرہ اسماعیل بن عبدالرحمن کوفی ابو محمد قرشی (متوفی 44ھ) اور سدی صغیر محمد بن سائب بن  بشیر کلبی (متوفی 772م) اور جابر بن یزید الجعمفی (متوفی 44ھ) نے قرآن مجید کی تفاسیر لکھیں۔ یہ تمام حضرات فن تفسیر کے امام مانے جاتے ہیں اور یہ وہ زمانہ تھا جبکہ اہل سنت اس فن سے ناآشنائے محض تھے۔ امام ذہبی (متوفی 1348م) اور حافظ ابن حجر (متوفی 1449م) نے ائمہ مذکورین کا شیعہ علمائے کبار میں شمار کیا ہے۔

 خود شیعہ مورخین  ان حضرت کا نام بحیثیت اول المفسرین نہایت  فخر اور احترام سے لیتے ہیں اور شیعہ کا علوم قرآنی میں تقدم ثابت کرنے کے لئے انھی کو پیش کرتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو ابن قتیبہ متوفی889م، علامہ نجاشی اور ابو جعفر طوسی متوفی 1068م کی تصریحات)

ان سب سے زیادہ جامع صورت میں تمام علوم قرآنی پر محیط تفسیر امام ابو عبداللہ محمد بن عمر عرف  واقدی(متوفی 821م) نے "الرغیب فی علوم القرآن” نامی لکھی اور واقدی کا شیعہ ہونا بالاتفاق مسلمہ ہے۔

 

فضائل قرآن

قرآن مجید کی آیات اور سورتوں کے فضائل میں جتنی روایات ہیں ان میں سے فی ہزار ایک بھی صحیح نہیں ہے۔ آپ آیۃ الکرسی[4] پڑھیں تو جن تابع ہو جائیں گے۔ "واقعہ” پڑھیں تو بھوک نہیں لگے گی "قل ھو اللہ” پھونکئے تو دنیا بدل جائے گی۔ الغرض قرآن میں جتنا بھی معجزاتی اور کراماتی رنگ بھرا ہوا ہے اس کا تعلق فضائل قرآن سے ہے۔

ادھر شیعہ کا دعویٰ ہے کہ اس موضوع پر لکھنے  میں بھی انھی کا تقدم ہے کیونکہ سب سے پہلے امام رضا (متوفی 818م) کے صحابی حسن بن علی بن ابی حمزہ بطائنی اور محمد بن خالد برقی نے پھر امام حسن عسکری (متوفی818م) کے مصاحب ابو عبداللہ احمد بن محمد بن یسار بصری اور کلینی (متوفی 939م) کے استاد علی بن ابراہیم احمد بن محمد بن عمار کوفی (955م، 346ھ) نے فضائل قرآن پر لکھا۔ امام عسکری کے ایک اور مصاحب کا نام بھی تاریخ میں ثبت ہے۔ جس نے اس موضوع پر  طبع آزمائی کی ان کا اسم گرامی محمد بن مسعود عیاشی ہے۔ فضائل کی ساری کہانیاں شیعیت کے شعبہ باطنیت کے طفیل پھیلیں۔

جلال الدین سیوطی(1505م) نے امام شافعی (متوفی 820م)کو بھی فضائل قرآن کا مصنف قرار دیا ہے لیکن امام رضا کے مصاحب بطائنی اور برقی آپ سے پہلے اس پر لکھ چکے تھے۔ علاوہ ازیں شیعہ نے اس ضمن میں جتنی روایتیں لیں ہیں   ان کا ماخذ حضرت ابی بن کعب صحابی رسول اللہ کی ذات گرامی بتائی جاتی ہے اور ابی کو یہ حضرات طرفدار اور شیعان علی میں شمار کرتے ہیں۔ چنانچہ سید علی بن صدرالدین المدنی(1705م، 1118ھ) نے الدرجات الرفعیہ فی طبقات  الشیعہ میں ائمہ اہلبیت  کی تصریحات سے ثابت کیا ہے کہ آپ شیعہ تھے (حالانکہ صحابہ کرام کے متعلق ایک مسلمان گروہ بندی جیسا مکروہ تصور بھی نہیں کر سکتا)

 

ناسخ و منسوخ قرآن

علم الہٰی میں کوئی نقص نہیں ہے اسے اپنے بندوں کی مصلحتوں اور تقاضوں کا ولادت سے لے کر قبر  تک کا علم ہے۔ غیر محدود علم ہے، سب پر حاوی علم ہے، خشک کا علم ہے، تر کا علم ہے، بر کا علم ہے، بحر کا علم ہے۔ اس نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا جو آج تو بندوں کے حسب حال ہو مگر آگے چل کر  ان کے تقاضوں کے برعکس ہو گیا ہو۔ اس نے کوئی ایسی آیت نہیں اتاری جو کچھ عرصہ بعد معطل اور باطل قرار پائی جائے اس نے کسی ایک  کتاب میں ایک ہی امر سے متعلق دو متضاد  حکم نہیں دئیے تاکہ تلاوت بھی کئے جائیں اور ان سے متضاد  مفہوم بھی مستنبط ہوتا رہے۔ اور پھر ایک منسوخ بھی ہو۔ بہرحال یہ عقیدہ کہ آج بھی قرآن کا ایک حصہ تلاوت کئے جانے کے باوجود منسوخ الحکم ہے علمائے راسخین نے اسے ایک ثانیہ کے لئے بھی تسلیم نہیں کیا۔ یہ علاوہ اس کے کہ اس موضوع  پر بھی امام جعفر صادق کے صحابی جناب عبداللہ بن عبدالرحمن اصم مسمعی نے اور پھر  صدر اول کے ایک دوسرے شیعہ عالم، دارم بن قبیصہ بن ہنشل بن مجمع عرب ابو الحسن تمیمی الدارمی (صحابی امام رضا) نے کتاب "الوجود و لنظائر” اور کتاب "الناسخ و منسوخ” لکھیں اسی طرح شیعہ کے جلیل القدر مجتہد حسن بن فضال (متوفی 838م 224ھ) اور احمد بن محمد بن عیسیٰ قمی نے بھی اس  عنوان سے کتابیں تصنیف کیں۔اس مقام پر سیوطی کو اعتراض ہے کہ ناسخ و منسوخ کے اول مصنف حسن بن فضال کے ہم عصر ابو عبیدہ قاسم بن سلام ( متوفی838م،224ھ) ہیں۔

لیکن تاریخی شواہد شیوطی کے ادعاء کے برعکس جاتے ہیں کیونکہ ابو عبیدہ، اصم مستمعی بلکہ دارم بن قبیصہ سے بھی عرصہ بعد نمودار ہوا۔

ناسخ منسوخ کا دائرہ عمل چونکہ بے حد وسیع ہے اس لئے مثال کے طور پر  ہم نے کوئی آیت پیش نہیں کی بہرحال اس میں بھی شیعہ ہی کا تقدم ثابت ہے۔

احکام القرآن

سنیوں کا دعویٰ ہے کہ احکام القرآن کے نام اور موضوع پر سب سے پہلے امام شافعی (820م) اور آپ کے بعد  طبقات الخاۃ کے مصنف امام قاسم بن اصبغ بن یوسف بیانی قرطبی اخباری لغوی (متوفی بعمر93 سال 950م،240ھ) نے کتابیں لکھیں۔

لیکن شیعہ کے دعوے اور ابن ندیم کی الفہرست میں تصریح سے ثابت ہوتا ہے کہ سب سے پہلے امام باقر کے صحابی محمد بن  سائب کلبی (متوفی 772م، 146ھ) نے "احکام القرآن” تالیف کی اور یہ ظاہر ہے کہ کلبی کی وفات  کے وقت امام شافعی کی عمر صرف چار سال تھی۔ یہ یاد رہے کہ کلبی نے یہ کتاب ابن عباسؓ سے روایت کی ہے جس کے خود ساختہ ہونے میں ادنیٰ سا بھی شبہ نہیں ہو سکتا۔

 

غرائب القرآن

سیوطی نے کتاب الاوائل میں تصریح کی ہے کہ سب سے پہلے ابو عبید معمر بن مثنیٰ (متوفی 823م) نے غرائب القرآن لکھی۔ لیکن یاقوت حموی (متوفی 1228م) نے معجم الادبا اور خود سیوطی نے "بغیہ الوحاۃ” میں بوضاحت لکھا ہے کہ ابان بن تغلب (758م) ہی غرائب القرآن کے پہلے مصنف ہیں۔ ابان کے بعد  جن شیعی اہل علم نے غرائب القرآن لکھے ان کے اسمائے گرامی ذیل ہیں۔

(1)ابو عثمان مارنی شیعی (متوفی 843م 228ھ) (2)علامہ ابن درید کوفی لغوی شیعی (متوفی 932م 321ھ) اور  ابن دریسد سے پہلے امام ابوبکر سجستانی محدث (متوفی 865م) نے بھی غرائب القرآن کے نام سے جدول وار ایک قیمتی تصنیف کی تھی جو کہ 1907م میں مصر میں شائع ہو چکی ہے اور خاکسار کے پاس بھی ہے۔

نوادرات القرآن

کسی لفظ میں ایسا مفہوم پیدا کرنا یا کسی عبارت  سے وہ معنی نکالنے  جس میں ندرت  اور قلت پائی جائے اسے نادر کہا جاتا ہے۔ یہ ایک نہایت احتیاط طلب اور پر خطر موضوع ہے۔ ہر کس و ناکس  اگر اس میں دلچسپی لینے لگا تو  قرآن بازیچہ اطفال ہو کر رہ جائے گا۔ اب جس وقت  یہ ایک پرخطر فن ہے تو جو لوگ  بے باکانہ اس سے دلچسپی لے رہے ہیں وہ نہایت ہی مہلک راہ پر گامزن ہیں۔

قرآن میں ایک لفظ ہے "بغتہ” یعنی قیامت "اچانک” ہو گی۔ بس اب کیا تھا یار لوگوں نے اس کا تعین ہی کر دیا۔ یعنی بغتہ کے عدد نکال کر یہ معنی پیدا کر دئے کہ نزول آیت کے اٹھارہ سو دو برس بعد  قیامت قائم ہو جائے گی۔ آگے چل کر اس مفہوم میں اور بھی وسعت پیدا کی گئی یعنی صحابہ اور ائمہ یا دیگر اشخاص کے مناقب و  مثالب تک کو اس کی ذیل میں لایا گیا  پھر جو کسر رہ گئی وہ صوفیاء کے اسرار رموز سے پوری کر دی گئی۔ ذیل میں صرف مناقب اور مثالب کی چند مثالیں دے کر  نوادرات کا تعارف کروایا جائے گا۔ لیکن پہلے آپ نوادرات نویسوں کے اسمائے گرامی ملاحظہ فرما لیں۔

(1) امام حسن عسکری (متوفی 873م) کے مصاحب احمد بن محمد سیاری بصری (2) ابو الحسن محمد بن احمد بن  محمد عرف الحارثی شیعی (3)شہخ علی ابن ابراہیم بن  ہاشم شیعی (4) علی بن حسن بن فضال (متوفی 234ھ) شیعی (5) ابو نصر  عیاشی شیعی وغیرہ۔ ابن ندیم نے ان کئ علاوہ اور نام بھی تحریر کئے ہیں۔

اب آپ نوادرات ملاحظہ فرمائیں۔

(1)۔سورہ مائدہ کی آیت 91 میں ہے کہ "بلاشبہ ابلیس کی یہ تمنا ہے کہ تمہارے درمیان شراب نوشی اور قمار بازی کے ذریعے دشمنی اور عداوت پھیلائے اور اس طرح ذکر الہٰی سے روکے۔” یہاں شراب نوشی سے ابوبکرؓ اور قمار بازی سے عمرؓ مراد ہیں۔ (تفسیر مذاہب ص 213 طبع مصر)

(2)۔ بنی اسرائیل کو جس  گائے کے ذبح کا حکم دیا گیا تھا اس سے مخالفین علیؓ یعنی سیدہ عائشہؓ (متوفاہ 698) طلحہؓ (شہید 656م) اور زبیر (شہید656م) مراد ہیں۔ (تاویل مختلف الحدیث نیور صفحہ 86 طبع مصر)

(3)۔ سورہ نساء کی آیات 51-52 سے مراد غاصب معاویہؓ (متوفی 680م) اور عمر و بن العاصؓ (متوفی663م) ہیں۔ اصول کافی مصنف کلینی مرحوم (939م، ص 271 طبع مصر)

(4)۔ سورہ نور کی پینتسویں آیت  میں "المصباح” سے مراد حسن (669م) اور المصباح فی الزجاجہ سے حسین (شہید 680م) شجرۃ المبارکہ سے ابراہیم (2201ق م)لا شرقیہ و لاغربیہ سے دین ابراہیم (جو کہ یہودی تھے اور نہ نصرانی) نور علی نور سے امام کے بعد  دوسراامام یھدی اللہ لنورہ سے ائمہ اہلبیت من یشاء سے وہ ائمہ جو ان اوصاف کے حامل تھے مراد ہے۔ تفسیر علامہ ابی الحسن علی بن ابراہیم معروف قمی (سلام) مطبوعہ طہران صفحہ 656۔

(5)۔ "و اوحی ربک الی النحل” (نحل 68) سے اہلبیت مراد ہیں اور یخرج من بطونھا شراب (69) سے مراد  ہے وہ قرآن جو اہلبیت کے منہ سے نکل رہا ہے۔ (کتاب الاغانی ص 30 جلد 3)

(6)۔  سورہ البلد 6 تا 8 میں عینین سے رسول اللہ لسانا سے علی شفتین سے حسن و حسین اور ھدینا ہ النجدین سے شبیر و شبر کی ولایت مراد ہے۔ (قمی صفحہ 726)۔

(7) سورہ حجر آیت 87 میں مثانی کی تفسیر امام ابو جعفر (متوفی 731م) سے یوں منقول ہے۔ مثانی سے مراد ہمارا خاندان ہے جسے اللہ نے نبی عطا فرمایا۔ اور ہم وجہ اللہ ہیں جو تمھارے درمیان پھر رہے ہیں جس نے ہمیں پہچانا جنت اس کا مقام ہے اور جس نے نہیں پہچانا جہنم اس کا ٹھکانا ہے (قمی صفحہ 353)

(8)۔  سورہ زمر آیت 56 میں نور اللہ اور جنت اللہ وغیرہ صفات خداوندی سے امام علی مراد ہیں۔(قمی ص 249) یا (ص 579)۔

(9)۔ احراف 44 میں آخرت میں منادی کرنے والے سے مراد حضرت علی ہیں جو اپنے مخالفین پر لعنت کا اعلان کریں گے۔ (قمی ص 116)

(10)۔  اسی طرح سورہ توبہ میں آذان من اللہ سے مراد حضرت علی ہیں یعنی خدا حج اکبر کی طرف جو بلا رہے ہیں تو اس سے مراد علی کی طرف بلانا ہے۔

ذیل میں آپ سنی نوادرات بھی ملاحظہ فرما لیں اور اندازہ کر لیں کہ پیشرو اور بانیوں کا اثر بعد  میں آنے والوں پر کتنا گہرا ہوتا ہے۔ سورہ فتح کی  29ویں آیت میں "اخرج شطاہ” سے مراد ابوبکر ؓ،  "فآزرہ” سے مراد "عمرؓ بن خطاب،  "فاستغلظ” سے مراد عثمانؓ اور "فاستوی علی سوقہ” سے مراد  علیؓ ہیں۔ (تفسیر مذاہب صفحہ 332 طبع مصر)۔ سورۃ عصر کی حضرت ابی بن کعبؓ یوں تفسیر فرماتے تھے ان الا نسان لفی خسر  سے ابو جہل (مقتول بدر 623م) الاالذین امنو سے ابوبکرؓ و عملوالصالحات سے عمرؓ و تو ا صوا بالحق سے مراد عثمانؓ اور  و توا صوابالصبر سے مراد علی ہیں (بروایت  امام ابو الحسن الراعدی نیشا پوری 1075م بحوالہ ریاض النضرۃ جلد 1 صفحہ 34،  تفسیر رازی جلد 8 ص 592 طبع بولاق مصر)۔

بلاغۃ القرآن

بلاغت قرآن پر تفصیل سے لکھنے کا یہ محل نہیں ہے پھر مضمون کی تنگ دامانی تو مانع ہے ہی قرآن کیا ہے ؟ فاتحہ سے لے کر والناس  تک بلاغت، سراپا بلاغت، تمام بلاغتوں کا ماخذ وضاحتوں کا منبع لیکن اس موضوع پر بھی سب سے پہلے جس بزرگ نے قلم اٹھایا وہ بھی ایک شیعہ ہی تھے۔ میری مراد علامہ ابو الفتح عثمان بن حنبی شیعی (متوفی 602م، 293ھ) کی ذات گرامی ہے۔ آپ نے بلاغت قرآن پر لکھا اور بلاغت کے نشے میں اس قدر بہہ گئے کہ خود قرآن میں بھی آپ کو بلاغت کی غلطیاں نظر آنے لگیں چنانچہ سورہ یوسف  کی آٹھویں آیت میں خیر حفظاً  آپ کے نزدیک بلاغت کی رو سے غلط ہے۔خِیر خِفظاً  (خاء کی زیر) ہونا چاہیے وغیرہ۔ یہ بحث کا مقام نہیں ورنہ آپ کو معلوم ہو جاتا  کہ ابن حبنی یہاں خود ہی غلطی پر ہیں! ابن حنبی کے بعد ایک سنی مسلمان امام عبدالقادر جرجانی (متوفی 1078م) نے اس عنوان پر لکھا آپ کی  بے نظیر تالیفات  مفتی عبدہ کے شاگرد رشید علامہ سید رضا نے شائع کر دی ہے۔ بلاشبہ امام جرجانی نے قرآن کا حق ادا کیا ہے جزاک اللہ۔ تاہم وہ بشر تھے پھر پیشر شیعہ مصنف کے خیالات سے استفادہ بھی لازمی امر تھا۔ بہرحال بلاغت کے فن شریف  تک کو شیعہ نے ترتیب دیا اور اس میں بھی انھی کا تقدم  ثابت ہے۔

گزشتہ صفحات میں آپ نے دیکھ لیا کہ میں نے اپنی حد تک محنت اور جانفشانی سے اختلاف قرأت  اور علوم قرأت کا پس منظر  تاریخ اور ماخذ کا کھوج لگایا ہے۔ اب فیصلہ قارئین پر چھوڑ دینا مناسب ہو گا کہ وہ غیر جانبداری کا فرض باحسن طریق سر انجام دے سکتے ہیں۔ مودودی صاحب کا ہمارے دل میں جو احترام ہے وہ اس تبصرے کی وجہ سے کم نہیں ہوا کیونکہ آپ کی بہت سی خوبیاں اور کمالات کا اعتراف کرنا علمی رواداری کا متقاضی ہے۔ لیکن یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اختلاف قرأت کے مولفین جامعین اور مصنفین  شیعہ  ہی تھے تو اب ہمارے لئے رد و قبول کا کونسا معیار ہونا چاہیے۔ خاص کر جبکہ ہمارے بہت سے عالم بھی اس تحریک کے افکار و نظریات کا بری طرح شکار ہوں؟

یہ سوال بے حد اہم  اور بنیادی ہے اسے نظر انداز کرنا ہماری علمی موت کے مترادف ہو گا کیونکہ شیعہ دراصل ابتداء اسلام ہی سے سیاسی، ثقافتی اور علمی اعتبار سے دیگر تمام فرقوں پر فائز و متفوق تھے۔ ان کی بہت سی علمی خدمات  ایسی ہیں جو کسی دوسرے ذریعے سے ہم تک نہیں پہنچ سکتی تھیں۔ اس حد تک  تو ہمیں ان کا شکرگزار ہونا چاہیے لیکن اس اعتراف کے بعد  اگر یہ گروہ نہ ہو تو ہم  تمام علوم قرآنی کے ذخیرے سے محروم رہ جاتے  ہمارے لئے سوائے اس کے چارہ  کار  نہیں کہ ہم علوم قرآنی علوم  کے معاملے میں ان سے اخذ و قبول میں محتاط رہیں اور  اختلاف قرأت میں تو یہاں تک  احتیاط کی ضرورت ہے کہ ان کی حلفیہ مرویات پر بھی اعتبار نہ کرنا چاہیے اور اس ضمن میں ہمارا مسلمانوں کو وہی مشورہ ہے جو کہ سلف صالحین اپنی وصایا میں لکھ گئے تھے۔ حافظ ابن حجر (متوفی 1449م) فرماتے ہیں کہ:

"خارجی یا رافضی یا کوئی اور (بدعتی) عمداً خواہ نیک نیتی سے اپنے مسلک کی حدیث بیان کرے (یا تائید بھی مطلوب ہو) تو بھی قبول نہ کرنا چاہیے کیونکہ وہ حدیث ہی ایسی بیان کرے گا  جو اس کے عقیدے اور خیال کو  تقویت پہنچاتی ہو گی”

(نزہہ النظر  مطبوعہ علمی دہلی ص 73)

اس مشورے کے بعد  مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ پوری جرات  اور دلیری کے ساتھ اپنی تفاسیر کا جائزہ لیں اور ان میں تمام علوم کے متعلق مرویات کے بیان کرنے والے اشخاص کا محاسبہ کریں لیکن یہ محاسبہ تنہا اس نقطہ نظر  سے نہ ہو کہ روایت میں کتنے شیعہ ہیں کیونکہ شیعہ کے علاوہ دوسرے راوی بھی تو تھے جن کا کام غلط فہمی پھیلانا یا انتشار کو  فروغ دینا تھا۔ امید ہے کہ اس طرح تیرہ سو سال گزر جانے کے باوجود  آپ اصل حقیقت کو پالیں گے۔ الذین جاھدو افینا لنھدینھم سلبنا اور حقیقت کا پا لینا بھی قرآن مجید کا معجزہ ہی ہے۔ کیا آپ خود "نظم  قرآن” سے قرآن سمجھنا چاہتے ہیں؟ کیا آپ اس کے لئے آمادہ ہیں ؟

غیرت قرآن  اور علمی تقاضے آج کے مسلمانوں سے یہی سوال کرتے ہیں۔

٭٭٭

ٹائپنگ: ظہیر اشرف

پروف ریڈنگ، ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید



[1]  ابن حجر لسان المیزان جلد 4 صفحہ 145 میں ابو علی غلام الہراس حسن بن قاسم کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "ابو الفضل بن خیرون نے ذکر کیا ہے کہ ابو علی کے قرأتوں میں کچھ خلط ملط کیا ہے اور بعض ایسے اسناد کا کا دعویٰ کیا ہے جن کی کوئی اصلیت نہیں اور عجیب عجیب باتیں روایت کیں ہیں۔ کسی نے ابو الفضل بن خیرون سے ایک بار ابو علی غلام  الہراس کے بارے میں پوچھا کہ یہ  ابو علی الاہوازی سے روایت کرتے ہیں تو انھوں نے ابو غلام الہراس  کے بارے میں کہا کہ یہ سکھایا پڑھایا شخص ہے۔ بڑا جھوٹا ہے۔ ایک بڑے جھوٹے سے روایت کرتا ہے۔ یعنی ابو علی غلام الہراس بھی کذاب ہے اور ابو علی الاہوازی بھی کذاب ہے۔ اور دونوں مشہور قاری ہیں۔ دونوں سے قرأتوں کی روایتیں  قرأت کی کتابوں میں مذکور ہیں۔ ابو علی غلام الہراس کے ایک ہی شاگرد  ابو العز القلانسی کا ذکر ابن حجر نے کیا ہے مگر ان کا ذکر کہیں نہیں کیا۔نہ سمعانی نہ ذہبی، کوئی بھی ان کا ذکر نہیں کرتا  غرض یہ بھی مجہول الحال ہیں۔ صرف ہبتہ اللہ بن المبارک المقسطی نے ان کی بڑی مدح کی ہے مگر سمعانی اور ابن حجر نے لکھ دیا ہے کہ سقطی کے سوا جمہور غلام الہراس ابو علی کو کچھ اور کہتے ہیں جو  سقطی کے قول کے خلاف ہے مگر یہ سقطی صاحب خود غلام الہراس سے زیادہ اعتبار سے ساقط ہیں۔ ابن حجر نے لسان المیزان جلد 6 صفحۃ 189 سے صفحہ190 تک ان کا مفصؒ حال لکھ دیا ہے۔ یہ ایسے لوگوں سے اپنی قرأت کی سند جوڑتے تھے جو ان کی پیدائش سے پہلے مر چکے تھے۔ بڑے جھوٹۓ تھے اس لئے نہ ان کی مدح کا اعتبار نہ ان کی قدح کا۔

[2] یہ صرف احادیث (غیر از قرآن) کے لکھنے کے متعلق تھا۔ مطلق کتابت کے متعلق نہیں تھا۔ قرآن کریم کی کتابت  میں خود نبی اکرم نے جس قدر اہتمام فرمایا اس کی وضاحت کی ضرور نہیں۔

[3] غالباً یہ کہنا مقصود ہے کہ نبی اکرمؐ کے عہد مبارک کا لکھا ہوا  قرآن کریم کا کوئی نسخہ اس وقت  تک دریافت نہیں ہوا۔

[4]آیتہ الکرسی کے انھیں شیعہ فضائل کا کرشمہ ہے کہ مسلمانوں کا کوئی ڈرائنگ روم ایسا نہیں ہے کہ جہاں اس آیت  کا طٖغریٰ زینت دیوار نہ ہو۔ بڑے بڑے شیعہ بیزار صاحبان علم و فضل کے در و دیوار  اس آیت کے طغروں سے سجے ہیں بظاہر اس  میں کچھ حرج نہیں لیکن شیعہ شعار کا نباہ بھی تو  ایک جرم ہے۔  شیعہ کے ہاں اس کی فضیلتوں کا باعث اس آیت کا آخری ٹکڑا ہے۔ "ھو العلی ا” ان کی باطل مراد بات کے مطابق یوں ہے کہ اوپر جس ہستی کی شان بیان ہوئی ہے یہ "وہی عظمت والا علی ہی تو ہے ” ان کے گھروں اور اداروں میں ایسے طغرے ہوتے ہیں جن میں باقی متن ہٹ کر  یہ ٹکڑا نمایاں اور بڑا لکھا ہوتا ہے۔ ان کے ہاں ایک شیر (اسد) کا نقش ہوتا ہے جس کی باڈیٰ میں پوری آیت لکھی ہوتی ہے۔ وہاں ان کا مطلب ہوتا ہے کہ علی اسد ہے اور یہ آیت اسی شیر کی شان بیان کرتی ہے۔