FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

ذوقِ نعت

               حسن رضا بریلوی

 

تعارف ذوقِ نعت

[۱۳۲۶ھ]

نعتیہ دیوان

از: شاگرد داغ استاد زمن علامہ حسن رضا بریلوی

محمد ثاقب رضا قادری

مرکزالاولیا ء ، لاہور

مولانا حسن رضا کا نعتیہ دیوان ’’ذوق نعت‘‘ معروف بہ ’’صلۂ آخرت‘‘ کے تاریخی نام سے ۱۳۲۶ھ میں آپ کے وصال کے بعد حکیم حسین رضا خان کی سعی و اہتمام سے طبع ہوا۔حمد، نعت، مناقب صحابہ و اولیاء، ذکر شہادت، بیان معراج، نغمۂ رُوح، کشفِ رازِ نجدیت ، رُباعیات اور چند تاریخی قطعات پر مشتمل ہے۔ تقریباً تمام حروف تہجی کے ردیف میں مولانا نے کلام فرمایا ہے۔ اول طباعت پر اخبار ’’اہلِ فقہ‘‘ ، امرتسرکے ایڈیٹر مولانا غلام احمد صاحب نے ۲۰جولائی، ۱۹۰۹ء کے شمارہ میں ’’ذوقِ نعت‘‘ کا اشتہار دیا، جس کو ہم یہاں نقل کر رہے ہیں :

’’یہ نعتیہ دیوان جناب حضرت مولانا الحاج حسن رضا خان صاحب مرحوم و مغفور بریلوی کی تصنیف ہے۔ حضرت مولانا موصوف اعلیٰ درجہ کے ادیب اور شاعر تھے اور آپ کے کلام میں ایسی تاثیر ہے کہ دل اِس کے سننے سے بے اختیار ہو جاتا ہے۔ آپ کی قادرُ الکلامی کا یہ عالم ہے کہ ایک دفعہ مجھے بریلی جانے کا اتفاق ہوا۔ میں نے عرض کیا کہ میں نعتیہ رسالہ جاری کرنے والا ہوں، پہلی طرح ہو گی ’’محوِ دیدارِ محمد دل ہمارا ہو گیا‘‘، اس پر ایک نعتیہ غزل تحریر فرما دیجیے۔

آپ نے فوراً قلم برداشتہ غزل لکھ دی جس کے چند اشعار درج ہیں :

ڈوبتوں کا یا نبی کہتے ہی بیڑا پار تھا

غم کنارے ہو گئے پیدا کنارا ہو گیا

تیری طلعت سے زمیں کے ذرّے مہ پارے بنے

تیری ہیبت سے فلک کا مہ دو پارا ہو گیا

نام تیرا ذکر تیرا تُو ترا پیارا خیال

ناتوانوں بے سہاروں کا سہارا ہو گیا

آپ نے ایام رحلت سے پہلے اپنا نعتیہ دیوان مرتب کرنا شروع کیا مگر افسوس کہ چھپنے سے پہلے آپ رہ گزارِ عالم جاودانی ہوئے اور اب یہ دیوان آپ کے فرزند رشید جناب مولوی حکیم حسین رضا خان صاحب نے نہایت عمدہ کاغذ پر بکمالِ آب و تاب چھپوایا ہے۔ علاوہ نعت شریفوں کے حضراتِ بزرگان دین کی شان میں مناقب و قصائد لکھے ہیں۔ بعض مبتدعین کے رد میں بھی چند نظمیں ہیں۔ تمام مسلمانوں کو عموماً اور نعت خوانوں کو خصوصاًاس قابل قدر کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔‘‘

اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی نے’’ ذوق نعت‘‘ کی تاریخ میں ایک شاہکار قطعہ لکھا، قطعہ کیا ہے اعلیٰ حضرت کی شاعر ی شکوہ انداز، حسنؔ کی یادیں ، شاعری اور شخصیت کا حسین مرقع، ملی اور مذہبی خدمات ، اپنے روابط اور حسنؔ سے جذباتی لگاؤ کا واضح اظہار جو اعماقِ قلب سے زبانِ قلم پر اُترا اور صفحہ قرطاس پر بکھر گیا۔ آخری چار شعر ہر مصرع تاریخ، مصرع نصف کی تکرار، صنائع بدائع سے مملو، حسن و جمال کی تصویر دیکھیے ؎

قوت بازوئے من سُنّی نجدی فگن

حاجی و زائر حسن، سلمہٗ ذوالمنن

نعت چہ رنگیں نوشت، شعر خوش آئیں نوشت

شعر مگو دیں نوشت، دور ز ہر ریب و ظن

شرع ز شعرش عیاں، عرش بہ بتیش نہاں

سُنّیہ را حرزِ جاں، نجدیہ را سر شکن

قلقلِ ایں تازہ جوش، بادہ بہنگام نوش

نور فشاند بگوش، شہد چسکاں در دہن

کلک رضاؔ سالِ طبع، گفت بہ افضال طبع

زا نکہ از اقوالِ طبع، کلک بود نغمہ زن

’’اوج بہیں محمدت، جلوہ گہ مرحمت‘‘

’’عافیت عاقبت باد نوائے حسنؔ‘‘

’’بادِ نوائے حسنؔ، باب رضائے حسن‘‘ؔ

’’باب رضائے حسنؔ، باز بہ جلبِ منن‘‘

’’باز بہ جلبِ منن، بازوئے بخت قوی‘‘

’’بازوِ بخت قوی، نیک حجابِ محن‘‘

’’نیک حجابِ محن، فضل عفو و نبی‘‘

’’فضل عفو و نبی، حبل وی و حبل من‘‘

اعلیٰ حضرت مزید فرماتے ہیں :

نعتِ حسنؔ آمدہ نعتِ حسن

حُسنِ رضا باد بزیں سلام

اِنَّ مِنَ الذَّوْقِ لَسِحْرٌ ہمہ

اِنَّ مِنَ الشِعْرِ لَحِکْمَۃٌ تمام

کلک رضاؔ داد چناں سال آں

یافت قول از شد راءس الانام

پاک و ہند میں ’’ذوق نعت‘‘ کے کئی ایڈیشنز چھپ کر قبولیت عامہ حاصل کر چکے، لکھنؤ سے طبع ہونے والے پانچویں ایڈیشن میں کچھ کلام کا اضافہ کیا گیا ، غالباً یہی نسخہ بعد میں مرکزی انجمن حزب الاحناف، لاہور سے شاہ ابوالبرکات (خلیفۂ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی) نے شائع کروایا۔ اضافی کلام کی تفصیل پیش کی جاتی ہے :

۱۔ اس ایڈیشن میں مولانا حسن رضا کی مثنویوں کو شامل کیا گیا، جن میں’’ وسائل بخشش ‘‘بھی شامل ہے اور کچھ میلاد شریف کے بیان پر مشتمل ہیں۔

۲۔قصیدہ در مدح شاہ فضل رسول بدایونی علیہ الرحمۃ

۳۔نذیر احمد دہلوی نے سیداحمدخان کی مد ح میں قصیدہ لکھا تھا جس کا ردیف ’’باقی‘‘ تھا ، مولانا نے اس قصیدہ کا ایک ایک شعر نقل کر کے پھر اسی ردیف میں نذیر احمد کے قصیدہ کا رد کیا ہے۔ تقریباً سو (۱۰۰) سے زائد اشعار ہیں۔

٭٭٭

 

علامہ حسن رضا بریلوی کی نعتیہ شاعری

               ڈاکٹر محمد حسین مُشاہد رضوی، مالیگاؤں

نعت اردو کی دیگر اصنافِ سخن کے مقابلے میں سب سے زیادہ طاقت ور، معظّم، محترم اور محبوب و پاکیزہ صنف ہے۔اس کا آغاز یومِ میثاق ہی سے ہو چکا تھا۔قادرِ مطلق جل شانہٗ نے قرآنِ عظیم میں جا بجا اپنے محبوبِ مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف و کمالات کو بیان فرما کر نعت گوئی کا سلیقہ و شعور بخشا ہے۔صحابۂ کرام ، ازواجِ مطہرات، اہلِ بیتِ اطہار، تابعین، تبع تابعین، ائمۂ مجتہدین، سلف صالحین، اغواث، اقطاب، ابدال، اولیا، صوفیہ، علما اور  بلا تفریق مذہب و ملّت شعرا و ادبا کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جنہوں نے اس پاکیزہ صنف کا استعمال کرتے ہوئے بارگاہِ محبوبِ کردگار صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی عقیدت و محبت کے گل و لالہ بکھیرے ہیں۔

ہندوستان میں نعتیہ شاعری کے باضابطہ طور پر آغاز کے آثار سلطان شمس الدین التمش کے زمانے میں ملتے ہیں۔طوطیِ ہند حضرت امیر خسروؔ کو ہندوستان میں نعتیہ شاعری کے میدان کا مستند شاعر کہا جاتا ہے۔امیر خسروؔ فارسی زبان و ادب کے ماہر تھے۔آپ کا کلامِ بلاغت نظام بھی فارسی ہی میں موجود ہے۔بعد ازاں جب اردو زبان کا وجود ہوا تب ہی سے اردو میں نعتیہ شاعری کا بھی آغاز ہوا۔خواجہ بندہ نواز گیسو دراز، فخرِ دین نظامی، غلام امامؔ شہید، لطف علی لطفؔ بدایونی، کفایت علی کافیؔ ، کرامت علی شہیدیؔ ، احمد نوریؔ مارہروی، امیر مینائی، بیدمؔ شاہ وارثی، نیازؔ بریلوی، آسیؔ غازی پوری، محسن کاکوروی اور امام احمد رضا بریلوی سے ہوتا ہوا یہ سلسلہ استاذِ زمن علامہ حسن رضا خاں حسنؔ بریلوی تک پہنچا اور اردو نعت گوئی کا یہ نا ختم ہونے والامقدس سفر ہنوز جاری و ساری ہے۔

امام احمد رضا بریلوی بلا شبہہ بیسویں صدی کے سب سے عظیم نعت گو شاعر گزرے ہیں آپ حسّان الہند ہیں۔نعتیہ شاعری کے سرتاج اور اس فن کی عزت و آبرو کے ساتھ ساتھ سخنورانِ عجم کے امام بھی۔۔۔ اسی طرح آپ کے برادرِ اصغر علامہ حسن رضا بریلوی کے دیوان کے مطالعہ کے بعد انھیں بھی بلا تردد اردو کا ممتاز نعت گو شاعر قرار دیا جا سکتا ہے۔آپ کے نعتیہ دیوان ’’ذوقِ نعت‘‘ میں جہاں کلا سیکیت کے عناصر اور تغزّل کے رنگ کی بھر پور آمیزش ہے وہیں پیکر تراشی، استعاری سازی، تشبیہات، اقتباسات، فصاحت  و بلاغت، حُسنِ تعلیل و حُسنِ تشبیب، حُسنِ طلب و حُسنِ تضاد ، لف و نشر مرتب و لف و نشر غیر مرتب ، تجانیس، تلمیحات، تلمیعات، اشتقاق، مراعاۃ  النظیر وغیرہ صنعتوں کی جلوہ گری بھی۔۔۔ اس دیوان میں نعت کے ضروری لواز م کے استعمال سے مدحِ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی کامیاب ترین کوششیں ہیں۔علامہ حسن رضا بریلوی کی بعض نعتوں کو اردو ادب کا اعلیٰ شاہ کار قرار دیا جا سکتا ہے۔آپ کا پورا کلام خود آگہی، کائنات آگہی اور خدا آگہی کے آفاقی تصور سے ہم کنار ہے۔مگر کیا کہا جائے اردو ادب کے اُن مؤرخین و ناقدین اور شعرا کے تذکرہ نگاروں کو جنھوں نے گروہی عصبیت اور جانبداریت کے تنگ حصار میں مقید و محبوس ہو کر اردو کے اس عظیم شاعر کے ذکرِ خیر سے اپنی کتابوں کو یکسر خالی رکھا نیز یہ شاعر جس قادر الکلام شاعر کی بارگاہ میں اپنے نعتیہ کلام کو زیورِ اصلاح سے آراستہ و پیراستہ کرنے کے لیے پیش کرتا تھا اُس (یعنی امام احمد رضا بریلوی) کا بھی ذکرِ خیر اپنی کتابوں میں نہ کر کے اردو ادب کے ساتھ بڑی بد دیانتی اور سنگین ادبی جُرم کا ارتکاب کیا ہے۔وہ تو بھلا ہو لالہ سری رام کا جنھوں نے ’’خمخانۂ جاوید‘‘ جلد دوم کے صفحہ ۴۵۰ پر علامہ حسن رضا بریلوی کا تذکرہ کر کے اپنے آپ کو متعصب مؤرخینِ اردو ادب سے جدا کر لیا ہے۔موصوف لکھتے ہیں۔

’’سخنورِ خوش بیاں، ناظمِ شیریں زباں مولانا حاجی محمد حسن رضا خاں صاحب حسن ؔ بریلوی خلف مولانا مولوی نقی علی خاں صاحب مرحوم و برادر مولانا مولوی احمد رضا خاں صاحب عالمِ اہلِ سنت و شاگردِ رشید حضرت نواب فصیح الملک بہادر داغؔ دہلوی۔۔۔۔۔۔ نعت گوئی میں اپنے برادرِ بزرگ مولوی احمد رضا خاں سے مستفیض ہیں اور عاشقانہ رنگ میں بلبلِ ہندوستان داغؔ سے تلمذ تھا‘‘۔

یہاں یہ امر باعثِ حیرت و استعجاب ہے کہ ’’خمخانۂ جاوید‘‘ جیسے ضخیم تذکرے میں امام احمد رضا بریلوی کا ذکر محض اس مقام کے علاوہ کہیں اور نہیں ہے جبکہ آپ کا ذکر بحیثیتِ شاعر الگ سے ہونا چاہیے تھا ، یہاں پر آپ کا تذکرہ صر ف علامہ حسن رضا بریلوی کے بڑے بھائی کی حیثیت سے ہے اس موقع پر ماہرِ غالبیات کالیداس گپتا رضاؔ کی اس تحریر کو نقل کرنا غیر مناسب نہ ہو گا، گپتا صاحب رقم طراز ہیں۔

’’تاہم حیرت ہے کہ اس ضخیم تذکرے میں اِن (حسنؔ رضا بریلوی) کے بڑے بھائی ’’عالمِ اہلِ سنت اور نعت گوئی میں اُن کے استاذ جناب احمد رضا خاں کے ذکر نے جگہ نہ پائی۔‘‘(ماہنامہ قاری، دہلی ، امام احمد رضا نمبر ، اپریل ۱۹۸۹ ء ، مضمون: امام احمد رضا بحیثیتِ شاعر، از: کالیداس گپتا رضا ، ص ۴۵۶)۔

استاذِ زمن علامہ حسن رضا بریلوی کا کلامِ بلاغت نظام معنی آفرینی کے لحاظ سے جس قدر بلند و بالا ہے اس پر اس قدر کوئی قابلِ ذکر کام نہیں ہوا ہے۔غالباً آپ کی شاعری پر پہلا مقالہ رئیس المتغزلین سید فضل الحسن قادری رضوی رزّاقی مولانا حسرتؔ موہانی علیہ الرحمۃ (م)کا تحریر کردہ ہے جو کہ ’’اردوئے معلی‘‘ علی گڑھ کے شمارہ جون ۱۹۱۲ء میں اشاعت پذیر ہوا تھا۔(سیرتِ اعلیٰ حضرت، از : فرزندِ استاذ زمن علامہ حسنین رضا خاں بریلوی، مطبوعہ، مکتبۂ مشرق ، بریلی، ص ۱۳ سے ۱۷ تک مولانا حسرتؔ موہانی کا یہ مضمون درج ہے)۔

اس مسلمہ حقیقت سے قطعاً انکار ممکن نہیں کہ محبت و اُلفتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم خانوادۂ رضا کا طرۂ امتیاز ہے۔حدائقِ بخشش(از:امام احمد رضا بریلوی)اور ’’ذوقِ نعت‘‘ کے مطالعہ سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دونوں بھائیوں کو محبت و اُلفتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم گھٹی میں گھول کر پلائی گئی ہے۔’’حدائقِ بخشش‘‘ محبت و اُلفتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ایسا میخانہ ہے جہاں کی پاکیزہ شراب سے آج ساری دنیا کے خوش عقیدہ مسلمان سیراب ہو رہے ہیں۔اسی طرح ’’ذوقِ نعت‘‘ بھی محبت  و اُلفتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک حسیٖن مجموعہ ہے جس کا ورق ورق محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تابندہ و فروزاں اور سطر سطر میں تعظیم و ادبِ رسالت کی جلوہ گری ہے ؂

نام تیرا ، ذکر تیرا تو ترا پیارا خیال

ناتوانوں بے سہاروں کا سہارا ہو گیا

یہ پیاری ادائیں ، یہ نیچی نگاہیں

فدا جانِ عالم ہے اے جانِ عالم

یہ کس کے روئے نکو کے جلوے زمانے کو کر رہے ہیں روشن

یہ کس کے گیسوئے مشک بو سے مشامِ عالم مہک رہا ہے

رہے دل کسی کی محبت میں ہر دم

رہے دل میں ہر دم محبت کسی کی

تیری عظمت وہ ہے کہ تیرا

اللہ کرے وقار آقا

علامہ حسن رضا بریلوی کا روئے سخن نعت گوئی سے قبل غزل گوئی کی طرف تھا۔مگر جب آپ نے اپنے برادرِ اکبر امام احمد رضا بریلوی کے نعتیہ کلام کا مطالعہ کیا تو طبیعت میں انقلاب برپا ہو گیا، دل میں عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی دبی ہوئی چنگاری شعلۂ جوالہ بن کر اُبھر گئی اور آپ نعتیہ شاعری کے میدان کے ایک ایسے عظیم ترین شہسوار بن گئے کہ جلد ہی ’’اُستاذِ زمن‘‘ کے لقب سے دنیائے شعر و ادب میں پہچانے جانے لگے۔امام احمد رضا بریلوی کی اس نظرِ عنایت کا انھیں بھی اعتراف ہے۔’’ذوقِ نعت‘‘ میں ایک مقام پر اپنے برادرِ معظّم کے حق میں یوں دعا کی ہے ؂

بھلا ہے حسنؔ کا جنابِ رضاؔ سے

بھلا ہو الٰہی جنابِ رضاؔ کا

میرے خیال میں’’ حدائقِ بخشش‘‘ کے اشعارِ آبدار کے معنی و مفہوم کے فہم میں ’’ذوقِ نعت‘‘ کا مطالعہ نا گزیر ہے۔حدائقِ بخشش جہاں فکر و تخیل کا ایک بحرِ بیکراں اور معنی آفرینی میں اپنی مثال آپ ہے وہیں ذوقِ نعت اس بحرِ بیکراں کی غواصی کے ذریعہ حاصل کردہ صدف سے نکالے گئے قیمتی موتیوں سے پرویا ہوا خوشنما ہار ہے اور اس کے اشعار فکرِ رضا کے سہل انداز میں شارح و ترجمان ہیں ؂

قرآن کھا رہا ہے اسی خاک کی قسم

ہم کون ہیں خدا کو ہے تیری گلی عزیز

کس کے دامن میں چھپے کس کے قدم پر لوٹے

تیرا سگ جائے کہاں چھوڑ کے ٹکڑا تیرا

ذات بھی تیری انتخاب ہوئی

نام بھی مصطفی ہوا تیرا

قمر اک اشارے میں دو ٹکڑے دیکھا

زمانہ پہ روشن ہیں طاقت کسی کی

وہی سب کے مالک انھیں کا ہے سب کچھ

نہ عاصی کسی کے نہ جنت کسی کی

علامہ حسن رضا بریلوی کا نعتیہ کلام شاعری کی بہت ساری خوبیوں اور خصوصیات سے سجا سنورا اور تمام تر فنّی محاسن سے مزین اور آراستہ ہے موضوعات کا تنوع، فکر کی ہمہ گیری، محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ جذبات کی فراوانی کے اثرات جا بجا ملتے ہیں۔آپ کے کلام میں اندازِ بیان کی ندرت بھی ہے اور فکر و تخیل کی بلندی بھی، معنی آفرینی بھی ہے، تصوّفانہ آہنگ بھی، استعارہ سازی بھی ہے، پیکر تراشی بھی ، طرزِ ادا کا بانکپن بھی ہے، جدت طرازی بھی ، کلاسیکیت کا عنصر بھی ہے، رنگِ تغزل کی آمیزش بھی ، ایجاز و اختصار اور ترکیب سازی بھی ہے، عربی اور فارسی کا گہرا رچاؤ بھی ؂

لبِ جاں بخش کی تعریف اگر ہو تجھ میں

ہو مجھے تارِ نفَس ہر خطِ مسطر کاغذ

کریں تعظیم میری سنگِ اسود کی طرح مومن

تمہارے در پہ رہ جاؤں جو سنگِ آستاں ہو کر

آستانہ پہ ترے سر ہو اجل آئی ہو

اور اے جانِ جہاں تو بھی تماشائی ہو

اونچی ہو کر نظر آتی ہے ہر اک شَے چھوٹی

جا کے خورشید بنا چرخ پہ ذرّہ تیرا

شاعری میں ایجاز و اختصار کلام کی ایک بڑی اور اہم خوبی ہے۔اس میں علامہ حسن رضا بریلوی کو کافی ملکہ حاصل تھا۔مشکل اور طویل مضامین کو سہل انداز میں ایک ہی شعر میں کہہ کر گزر جانا آپ کے مسلم الثبوت شاعر ہونے کی واضح اور روشن دلیل ہے ؛ مثالیں خاطر نشین ہوں ؂

گناہ گار پہ جب لطف آپ کا ہو گا

کِیا بغیر کِیا بے کِیا کِیا ہو گا

کیا بات تمہارے نقشِ پا کی

ہے تاج سرِ وقار آقا

بت خانوں میں وہ قہر کا کہرام پڑا ہے

مل مل کے گلے روتے ہیں کفار و صنم آج

گر وقتِ اجل سر تری چوکھٹ پہ جھکا ہو

جتنی ہو قضا ایک ہی سجدے میں ادا ہو

اسی طرح کم سے کم لفظوں میں مفہوم کی ادائیگی اور شعر میں بلاغت بھرنے کے لیے ترکیب سازی کی بڑی اہمیت ہے۔شاعری میں محبوب یا ممدوح کے اوصافِ بلیغ کے اظہار میں تراکیب اہم رول ادا کرتی ہیں۔علامہ حسن رضا بریلوی کے نعتیہ کلام میں جہاں تمام ادبی و فنّی محاسن موجود ہیں وہیں ترکیب سازی کے بہت ہی دل کش اور نادر نمونے ملتے ہیں ؂

اس مہک پر شمیم بیز سلام

اس چمک پر فروغ بار دُرود

زخم دل پھول بنے آہ کی چلتی ہے نسیٖم

روز افزوں ہے بہارِ چمنستانِ قفس

اے نظمِ رسالت کے چمکتے ہوئے مقطع

تو نے ہی اسے مطلعِ انوار بنایا

زمیں کے پھول گریباں دریدہ غمِ عشق

فلک پہ بدر ، دل افگارِ تابِ حسنِ ملیح

صبیح ہوں کہ صباحتِ جمیل ہوں کہ جمال

غرض سبھی ہیں نمک خوارِ بابِ حسنِ ملیح

اگر دودِ چراغِ بزمِ شہ چھو جائے کاجل کو

شبِ قدرِ تجلی کا ہو سرمہ چشمِ خوباں میں

علامہ حسنؔ رضا بریلوی کے کلام کی خصوصیات پر اگر قلم کو جنبش دی جائے تواس متنوع خوبیوں اور محاسن سے لبریز کلام کا احاطہ اس مختصر سے مقالے میں ناممکن ہے۔کیوں کی آپ کی شعری کائنات کے کماحقہٗ تعارف کے لیے ایک عظیم دفتر درکار ہے۔اسی لیے اختصار سے کام لیتے ہوئے صرف اجمالی جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔

مالکِ کون و مکاں باعثِ کن فکاں صلی اللہ علیہ وسلم کو خالقِ مطلق جل شانہٗ نے مجبور و بے کس نہیں بل کہ مالِک و مختار بنا کر اس خا ک دانِ گیتی پر مبعوث فرمایا ہے۔آقا و مولا صاحبِ اختیار ہیں اور آپ کے کمالات ارفع و اعلا ہیں ، اس طرح کے اظہار سے ’’ذوقِ نعت ‘‘ کے اوراق مزین و آراستہ ہیں ؂

ملا جو کچھ جسے وہ تم سے پایا

تمہیں ہو مالکِ مِلکِ خدا خاص

وہی سب کے مالک انھیں کا ہے سب کچھ

نہ عاصی کسی کے نہ جنت کسی کی

کنجی تمہیں دی اپنے خزانوں کی خدا نے

محبوب کیا مالک و مختار بنایا

کیوں نہ ہو تم مالکِ مِلکِ خدا مُلکِ خدا

سب تمہارا ہے ، خدا ہی جب تمہارا ہو گیا

سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم افضل الانبیاء و المرسلین ہیں۔آپ کے اوصاف و کمالات ، شمائل و فضائل اس قدر ارفع و اعلا، افضل و بالا ہیں کہ اس میں دوسرے انبیا آپ کے شریک نہیں اور خداوندِ قدوس سے آپ کو سب سے زیادہ قربت حاصل ہے ؂

شریک اس میں نہیں کوئی پیمبر

خدا سے ہے جو تجھ کو واسطہ خاص

تمام بندگانِ خدا ہر ہر کام میں اپنے خالق و مالک جل شانہٗ کی مرضی و مشیت کے طلب گار ہیں۔مگر سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو مرضی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی بھی خوش نودی و رضا ہے۔نقاشِ ازل جل شانہٗ نے سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی تابندہ پیشانی پر یہ بات بہ خطِّ قدرت ازل ہی میں تحریر فرما دی تھی ؂

قدرت نے ازل میں یہ لکھا ان کی جبیں پر

جو ان کی رضا ہو وہی خالق کی رضا ہو

ایک عاشق کی یہ سب سے بڑی آرزو اور خواہش ہوتی ہے کہ اسے محبوبِ رعنا ( صلی اللہ علیہ وسلم )کے روئے منور کی زیارت نصیب ہو جائے۔علامہ حسنؔ رضا بریلوی جامِ روئے جاناں کی تشنگی رکھتے ہیں اور آپ کی یہ تشنگی اتنی فزوں تر ہے کہ اگر نزع کے وقت حورانِ خلد آ کر آپ کے آگے جام پر جام لنڈھائیں بھی تو آپ ان کی طرف نگہِ التفات کرنے کی بجائے اپنا رُخ دوسری جانب پھیر لیں گے ؂

دے اس کو دمِ نزع اگر حور بھی ساغر

منھ پھیر لے جو تشنۂ دیدار ترا ہو

عاشق چاہتا ہے کہ سرورِ انس و جاں صلی اللہ علیہ وسلم کے جلووں سے دل منور و مجلا ہو جائے اور ہمہ وقت اس میں مدینے کی یاد رچی بسی رہے ؂

رہیں ان کے جلوے بسیں ان کے جلوے

مرا دل بنے یادگارِ مدینہ

لالہ و گل کی نکہتوں اور گلستانوں کے رنگ و بہار پر صحرائے مدینہ کو اس طرح فوقیت دی جا رہی ہے ؂

رنگِ چمن پسند نہ پھولوں کی بُو پسند

صحرائے طیبہ ہے دلِ بلبل کو تُو پسند

علامہ حسنؔ رضا بریلوی آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم کے شہرِ پاک کی خواہش و تمنا کا اظہار کرتے ہوئے بارگاہِ ربِ ذوالجلال میں یوں دعا گو ہیں ؂

مرادِ دلِ بلبلِ بے نوا دے

خدایا دکھا دے بہارِ مدینہ

صحرائے مدینہ کے حصول کے بعد جنت اور بہارِ گلشن کی حیثیت پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے ان کو صحراے مدینہ کے آگے یوں ہیچ بتایا ہے ؂

خلد کیسا کیا چمن کس کا وطن

ہم کو صحرائے مدینہ مل گیا

جب زاہد عاشق کو جنت کے باغوں کا پھول دے کر اسے اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ جنت کے لالہ و گل کو محبوبِ دل نواز ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے شہرِ رعنا کے خوش نما کانٹوں کے آگے بے وقعت سمجھتے ہوئے زاہد کو اس طرح خطاب کرتا ہے کہ ؂

گلِ خلد لے کے زاہد تمہیں خارِ طیبہ دے دوں

مرے پھول مجھ کو دیجے بڑے ہوشیار آئے

علامہ حسنؔ رضا بریلوی کو مدحتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی تڑپ اور لگن ہے کہ اس دنیا سے جاتے وقت بھی وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کی زبان پر ترانۂ نعت جاری رہے ؂

خدا سے دعا ہے کہ ہنگامِ رخصت

زبانِ حسنؔ پر ہو مدحت کسی کی

موت کے بعد مدینۂ طیبہ کا غبار بننے اور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس کوچہ میں دفن ہونے کی ایمانی خواہش کا یوں اظہار کرتے ہیں ؂

مری خاک یارب نہ برباد جائے

پسِ مرگ کر دے غبارِ مدینہ

مٹی نہ ہو برباد پسِ مرگ الٰہی

جب خاک اڑے میری مدینے کی ہوا ہو

زمیں تھوڑی سی دیدے بہرِ مدفن اپنے کوچے میں

لگا دے میرے پیارے میری مٹی بھی ٹھکانے سے

عاشق کی نظر میں روزِ محشر کا انعقاد صرف اسی لیے ہو گا کہ اس دن محبوبِ خدا( صلی اللہ علیہ وسلم )کی شانِ محبوبی دکھائی جائے گی کیوں کہ آپ اس روز عصیاں شعاروں اور گناہ گاروں کی شفاعت فرمائیں گے ؂

فقط اتنا سبب ہے انعقادِ بزمِ محشر کا

کہ ان کی شانِ محبوبی دکھائی جانے والی

عاشق کہتا ہے کہ مجھے میدانِ محشر میں کوئی خوف نہیں ہو گا کیوں کہ یہ آقا و مولا میرا شفیع ہے ؂

خدا شاہد کہ روزِ حشر کا کھٹکا نہیں رہتا

مجھے جب یاد آتا ہے کہ میرا کون والی ہے

جب کہ اس کے برعکس منکرینِ شفاعت اور بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخ ایک ایک کا منھ تکتے اِدھر اُدھر بھٹکتے رہیں گے ؂

حشر میں اک ایک کا منھ تکتے پھرتے ہیں عدوٗ

آفتوں میں پھنس گئے تیرا سہارا چھوڑ کر

سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی محافل میں پڑھے جانے والے بہت سارے میلاد نامے ’’ذوقِ نعت‘‘ ہی کے ہیں وہ تمام کے تمام شعری کمال کے اعلا نمونے ہیں۔چند اشعار خاطر نشین ہوں ؂

فلک پہ عرش بریں کا گمان ہوتا ہے

زمینِ خلد کی کیاری ہے بارہویں تاریخ

جھکا لائے نہ کیوں تاروں کو شوقِ جلوۂ عارض

کہ وہ ماہِ دل آرا اَب زمیں پر آنے والا ہے

وہ مہر مِہر فرما وہ ماہِ عالم آرا

تاروں کی چھاؤں آیا صبحِ شبِ ولادت

خوشبو نے عنادل سے چھڑائے چمن و گل

جلوے نے پتنگوں کو شبستاں سے نکالا

علامہ حسنؔ رضا بریلوی کا یہ کمالِ شاعری ہے کہ آپ ایک لفظ کو ایک معنی پر ایک شعر میں اس پُرکاری اور ہنر مندی سے استعمال کرتے ہیں کہ تکرار کا نقص نہیں بل کہ تخیل کا حسن پیدا ہو جاتا ہے مثلاً ؂

ہمیں ہیں کسی کی شفاعت کی خاطر

ہماری ہی خاطر شفاعت کسی کی

رہے دل کسی کی محبت میں ہر دم

رہے دل میں ہر دم محبت کسی کی

نکالا کب کسی کو بزمِ فیضِ عام سے تم نے

نکالی ہے تو آنے والوں کی حسرت نکالی ہے

علامہ حسنؔ رضا بریلوی کی نعتیہ شاعری میں کلاسیکیت اور تغزل کا رنگ حد درجہ غالب ہے۔نعت کے اعلا ترین تقدس اور غزل کی رنگینیِ بیان دونوں کو یک جا کر کے سلامت روی کے ساتھ گذر جانا علامہ حسنؔ رضا بریلوی کی قادرالکلامی کی بیّن دلیل ہے۔ذیل میں برنگِ تغزل آپ کے چیدہ چیدہ اشعار خاطر نشین فرمائیں ؂

مرے دل کو دردِ الفت ، وہ سکون دے الٰہی

مری بے قراریوں کو نہ کبھی قرار آئے

کرے چارہ سازی زیارت کسی کی

بھرے زخم دل کے ملاحت کسی

روشن ہے ان کے جلوۂ رنگیں کی تابشیں

بلبل ہیں جمع ایک چمن میں ہزار صبح

ہوا بدلی گھرے بادل کھلیں گل بلبلیں چہکیں

تم آئے یا بہارِ بے خزاں آئی گلستاں میں

کیا مزے کی زندگی ہے زندگی عشاق کی

آنکھیں ان کی جستجو میں دل میں ارمانِ جمال

زینتوں سے ہے حسینانِ جہاں کی زینت

زینتیں پاتی ہیں جلوے تری زیبائی کے

جمال والوں میں ہے شورِ عشق اور ابھی

ہزار پردوں میں ہے آب و تابِ حسنِ ملیح

اپنا ہے وہ عزیز جسے تو عزیز ہے

ہم کو تو وہ پسند جسے آئے تو پسند

دل درد سے بسمل کی طرح لوٹ رہا ہو

سینے پہ تسلی کو ترا ہاتھ دھرا ہو

بے چین رکھے مجھ کو ترا دردِ محبت

مٹ جائے وہ دل پھر جسے ارمانِ دوا ہو

تمہاری ایک نگاہِ کرم میں سب کچھ ہے

پڑے ہوئے تو زرِ رہِ گذار ہم بھی ہیں

’’ذوقِ نعت‘‘ میں نعتیہ کلام کے علاوہ قابلِ لحاظ حصہ مناقب پر بھی مشتمل ہے۔حضرت ابوبکر صدیق ، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی، حضرت علی مرتضیٰ ، حضرت امام حسین و شہدائے کربلا رضی اللہ عنہم حضرت غوثِ اعظم، حضرت خواجہ غریب نواز، حضرت شاہ اچھے میاں و شاہ بدیع الدین مدار قدست اسرارہم کی شانِ اقدس میں منقبتیں جہاں ایک طرف شعری و فنی کمال کا نمونہ ہیں وہیں علامہ حسنؔ رضا بریلوی کی اپنے ممدوحین سے بے پناہ عقیدت و محبت کا مظہرِ جمیل بھی۔

علاوہ ازیں ’’ذوقِ نعت‘‘ میں شامل ایک نظم بہ عنوان ’’کشفِ رازِ نجدیت‘‘ لطیف طنز و ظرافت کا بے مثال فنی نمونہ ہے، اسی طرح اس دیوان میں مسدّس منظومات ، نعتیہ رباعیات اور سلامیہ قصائد بھی موجود ہیں۔جہانِ لوح و قلم اور دنیائے سنیت میں استاذِ زمن علامہ حسن رضا خاں حسن ؔ بریلوی کے نام چند صفحات تحریر کر کے آپ یہ نہ سمجھیں کہ میں ان کی وسیع تر شعری کائنات کے تعارف کا حق ادا کر رہا ہوں ، بل کہ خدائے لم یزل کی طرف سے ملنے والی اس رحمتِ بے پایاں اور ثوابِ عظیم میں خود کو شریک کر رہا ہوں جو اُلفتِ مصطفی علیہ الصلوٰۃ والتسلیم میں ڈوبے ہوئے ’’ذوقِ نعت‘‘ کے اشعارِ آب دار کو پڑھ کر گناہ گاروں کی قسمت میں ارزاں کر دیا جاتا ہے۔

(ماہ نامہ کنزالایمان ، دہلی جلد نمبر ۳، شمارہ نمبر ۱۱ ، ستمبر ۲۰۰۱ء/جمادی الثانی ۱۴۲۲ھ، صفحہ۳۸/۴۲)

٭٭٭

 

(ردیف الف)

ہے پاک رُتبہ فکر سے اُس بے نیاز کا

کچھ دخل عقل کا ہے نہ کام اِمتیاز کا

شہ رگ سے کیوں وصال ہے آنکھوں سے کیوں حجاب

کیا کام اس جگہ خردِ ہرزہ تاز کا

لب بند اور دل میں وہ جلوے بھرئے ہوئے

اﷲ رے جگر ترے آگاہ راز کا

غش آ گیا کلیم سے مشتاقِ دید کو

جلوہ بھی بے نیاز ہے اُس بے نیاز کا

ہر شے سے ہیں عیاں مرے صانع کی صنعتیں

عالم سب آئینوں میں ہے آئینہ ساز کا

اَفلاک و ارض سب ترے فرماں پذیر ہیں

حاکم ہے تو جہاں کے نشیب و فراز کا

اس بے کسی میں دل کو مرے ٹیک لگ گئی

شُہرہ سنا جو رحمتِ بے کس نواز کا

مانندِ شمع تیری طرف لَو لگی رہے

دے لطف میری جان کو سوز و گداز کا

تو بے حساب بخش کہ ہیں بے شمار جرم

دیتا ہوں واسطہ تجھے شاہِ حجاز کا

بندہ پہ تیرے نفسِ لعیں ہو گیا محیط

اﷲ کر علاج مری حرص و آز کا

کیوں کر نہ میرے کام بنیں غیب سے حسنؔ

بندہ بھی ہوں تو کیسے بڑے کار ساز کا

٭٭٭

 

فکر اَسفل ہے مری مرتبہ اعلیٰ تیرا

وصف کیا خاک لکھے خاک کا پُتلا تیرا

طور پر ہی نہیں موقوف اُجالا تیرا

کون سے گھر میں نہیں جلوۂ زیبا تیرا

ہر جگہ ذکر ہے اے واحد و یکتا تیرا

کون سی بزم میں روشن نہیں اِکّا تیرا

پھر نمایاں جو سر طُور ہو جلوہ تیرا

آگ لینے کو چلے عاشقِ شیدا تیرا

خِیرہ کرتا ہے نگاہوں کو اُجالا تیرا

کیجیے کون سی آنکھوں سے نظارہ تیرا

جلوۂ یار نرالا ہے یہ پردہ تیرا

کہ گلے مل کے بھی کھلتا نہیں ملنا تیرا

کیا خبر ہے کہ عَلَی الْعَرْش (۱)کے معنی کیا ہیں

کہ ہے عاشق کی طرح عرش بھی جویا تیرا

اَرِنِیِْگوئے سرِ طُور سے پوچھے کوئی

کس طرح غش میں گراتا ہے تجلّا تیرا

پار اُترتا ہے کوئی، غرق کوئی ہوتا ہے

کہیں پایاب کہیں جوش میں دریا تیرا

باغ میں پھول ہوا، شمع بنا محفل میں

جوشِ نیرنگ در آغوش ہے جلوہ تیرا

نئے انداز کی خلوت ہے یہ اے پردہ نشیں

آنکھیں مشتاق رہیں دل میں ہو جلوہ تیرا

شہ نشیں ٹوٹے ہوئے دل کو بنایا اُس نے

آہ اے دیدۂ مشتاق یہ لکھا تیرا

سات پردوں میں نظر اور نظر میں عالم

کچھ سمجھ میں نہیں آتا یہ معمّا تیرا

طُور کا ڈھیر ہوا غش میں پڑے ہیں موسیٰ

کیوں نہ ہو یار کہ جلوہ ہے یہ جلوہ تیرا

چار اضداد کی کس طرح گرہ باندھی ہے

ناخنِ عقل سے کھلتا نہیں عقدہ تیرا

دشتِ ایمن میں مجھے خاک نظر آئے گا

مجھ میں ہو کر نظر آتا نہیں جلوہ تیرا

ہر سحر نغمۂ مرغانِ نواسنج کا شور

گونجتا ہے ترے اوصاف سے صحرا تیرا

وحشیِ عشق سے کھلتا ہے تو اے پردۂ یار

کچھ نہ کچھ چاکِ گریباں سے ہے رشتہ تیرا

سچ ہے اِنسان کو کچھ کھو کے ملا کرتا ہے

آپ کو کھو کے تجھے پائے گا جویا تیرا

ہیں ترے نام سے آبادی و صحرا آباد

شہر میں ذکر ترا، دشت میں چرچا تیرا

برقِ دیدار ہی نے تو یہ قیامت توڑی

سب سے ہے اور کسی سے نہیں پردہ تیرا

آمدِ حشر سے اک عید ہے مشتاقوں کی

اسی پردے میں تو ہے جلوۂ زیبا تیرا

سارے عالم کو تو مشتاقِ تجلّی پایا

پوچھنے جایئے اب کس سے ٹھکانا تیرا

طور پر جلوہ دکھایا ہے تمنائی کو

کون کہتا ہے کہ اپنوں سے ہے پردہ تیرا

کام دیتی ہیں یہاں دیکھیے کس کی آنکھیں

دیکھنے کو تو ہے مشتاق زمانہ تیرا

مے کدہ میں ہے ترانہ تو اَذاں مسجد میں

وصف ہوتا ہے نئے رنگ سے ہر جا تیرا

چاک ہو جائیں گے دل جیب و گریباں کس کے

دے نہ چھپنے کی جگہ راز کو پردہ تیرا

بے نوا مفلس و محتاج و گدا کون کہ میں

صاحبِ جود و کرم، وصف ہے کس کا تیرا

آفریں اہلِ محبت کے دلوں کو اے دوست

ایک کوزے میں لیے بیٹھے ہیں دریا تیرا

اتنی نسبت بھی مجھے دونوں جہاں میں بس ہے

تو مرا مالک و مولیٰ ہے میں بندہ تیرا

اُنگلیاں کانوں میں دے دے کے سنا کرتے ہیں

خلوتِ دل میں عجب شور ہے برپا تیرا

اب جماتا ہے حسنؔ اُس کی گلی میں بستر

خوب رویوں کا جو محبوب ہے پیارا تیرا

٭٭

(۱) خالق کائنات نے قرآن پاک میں جہاں تخلیق ارض و سما کا ذکر فرمایا وہیں یہ بھی ارشاد فرمایا: ثم استوی علی العرش یعنی پھر عرش پر استوا ء فرمایا (جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے)۔ قرآن پاک میں یہ الفاظ چھ مقام پر آئے ہیں (سورہ الاعراف:۵۴، یونس:۳، الرعد:۲، الفرقان:۵۹، السجدہ:۴، الحدید:۴ )مزید ایک مقام پر ارشاد ہوتا ہے: الرحمن علی العرش استوی یعنی وہ بڑی مِہر والا ، اُس نے عرش پر استواء فرمایا جیسا کہ اُس کی شان کے لائق ہے۔(طہ:۵)

چونکہ استویٰ کا لغوی معنی قرار پکڑنا، بیٹھنا کے ہیں جو کہ کسی طرح بھی شان اُلوہیت کے لائق نہیں۔ اسی لیے سیدی اعلیٰ حضرت نے ان آیات کا ترجمہ میں لفظ استوی کا ترجمہ نہ کیا۔ یہ لفظ متشابہات میں سے ہے۔ مولانا حسن رضا نے اس شعر میں اسی طرف اشارہ کیا ہے کہ علی العرش کے معنی سمجھنا عقل انسانی کے بس کی بات نہیں۔

٭٭٭

 

جن و اِنسان و ملک کو ہے بھروسا تیرا

سرورا مرجعِ کل ہے درِ والا تیرا

واہ اے عطرِ خدا ساز مہکنا تیرا

خوب رو ملتے ہیں کپڑوں میں پسینہ تیرا

دَہر میں آٹھ پہر بٹتا ہے باڑا تیرا

وقف ہے مانگنے والوں پہ خزانہ تیرا

لا مکاں میں نظر آتا ہے اُجالا تیرا

دُور پہنچایا ترے حسن نے شہرہ تیرا

جلوۂ یار اِدھر بھی کوئی پھیرا تیرا

حسرتیں آٹھ پہر تکتی ہیں رستہ تیرا

یہ نہیں ہے کہ فقط ہے یہ مدینہ تیرا

تو ہے مختار، دو عالم پہ ہے قبضہ تیرا

کیا کہے وصف کوئی دشتِ مدینہ تیرا

پھول کی جانِ نزاکت میں ہے کانٹا تیرا

کس کے دامن میں چھپے کس کے قدم پہ لوٹے

تیرا سگ جائے کہاں چھوڑ کے ٹکڑا تیرا

خسروِ کون و مکاں اور تواضع ایسی

ہاتھ تکیہ ہے ترا، خاک بچھونا تیرا

خوب رویانِ جہاں تجھ پہ فدا ہوتے ہیں

وہ ہے اے ماہِ عرب حُسنِ دل آرا تیرا

دشتِ پُر ہول میں گھیرا ہے درندوں نے مجھے

اے مرے خضر اِدھر بھی کوئی پھیرا تیرا

بادشاہانِ جہاں بہر گدائی آئیں

دینے پر آئے اگر مانگنے والا تیرا

دشمن و دوست کے منہ پر ہے کشادہ یکساں

روئے آئینہ ہے مولیٰ درِ والا تیرا

پاؤں مجروح ہیں منزل ہے کڑی بوجھ بہت

آہ اگر ایسے میں پایا نہ سہارا تیرا

نیک اچھے ہیں کہ اعمال ہیں اُن کے اچھے

ہم بدوں کے لیے کافی ہے بھروسا تیرا

آفتوں میں ہے گرفتار غلامِ عجمی

اے عرب والے اِدھر بھی کوئی پھیرا تیرا

اُونچے اُونچوں کو ترے سامنے ساجد پایا

کس طرح سمجھے کوئی رُتبۂ اعلیٰ تیرا

خارِ صحراے نبی پاؤں سے کیا کام تجھے

آ مِری جان مِرے دل میں ہے رستہ تیرا

کیوں نہ ہو ناز مجھے اپنے مقدر پہ کہ ہوں

سگ ترا، بندہ ترا، مانگنے والا تیرا

اچھے اچھے ہیں ترے در کی گدائی کرتے

اُونچے اُونچوں میں بٹا کرتا ہے صدقہ تیرا

بھیک بے مانگے فقیروں کو جہاں ملتی ہو

دونوں عالم میں وہ دروازہ ہے کس کا تیرا

کیوں تمنا مری مایوس ہو اے ابرِ کرم

سُوکھے دھانوں کا مددگار ہے چھینٹا تیرا

ہائے پھر خندۂ بے جا مرے لب پر آیا

ہائے پھر بھول گیا راتوں کا رونا تیرا

حشر کی پیاس سے کیا خوف گنہ گاروں کو

تشنہ کاموں کا خریدار ہے دریا تیرا

سوزنِ گم شدہ ملتی ہے تبسم سے ترے

شام کو صبح بناتا ہے اُجالا تیرا

صدق نے تجھ میں یہاں تک تو جگہ پائی ہے

کہہ نہیں سکتے اُلش کو بھی تو جھوٹا تیرا

خاص بندوں کے تصدّق میں رہائی پائے

آخر اس کام کا تو ہے یہ نکما تیرا

بندِ غم کاٹ دیا کرتے ہیں تیرے اَبرو

پھیر دیتا ہے بلاؤں کو اشارہ تیرا

حشر کے روز ہنسائے گا خطا کاروں کو

میرے غمخوارِ دل شب میں یہ رونا تیرا

عملِ نیک کہاں نامۂ بد کاراں میں

ہے غلاموں کو بھروسا مرے آقا تیرا

بہر دیدار جھک آئے ہیں زمیں پر تارے

واہ اے جلوۂ دل دار چمکنا تیرا

اُونچی ہو کر نظر آتی ہے ہر اک شے چھوٹی

جا کے خورشید بنا چرخ پہ ذرّہ تیرا

اے مدینے کی ہوا دل مرا افسردہ ہے

سُوکھی کلیوں کو کھلا جاتا ہے جھونکا تیرا

میرے آقا تو ہیں وہ ابرِ کرم، سوزِ اَلم

ایک چھینٹے کا بھی ہو گا نہ یہ دُہرا تیرا

اب حسنؔ منقبتِ خواجۂ اجمیر سنا

طبع پُر جوش ہے رُکتا نہیں خامہ تیرا

٭٭٭

 

منقبت حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ

خواجۂ ہند وہ دربار ہے اعلیٰ تیرا

کبھی محروم نہیں مانگنے والا تیرا

مئے سر جوش در آغوش ہے شیشہ تیرا

بے خودی چھائے نہ کیوں پی کے پیالہ تیرا

خفتگانِ شبِ غفلت کو جگا دیتا ہے

سالہا سال وہ راتوں کا نہ سونا تیرا

ہے تری ذات عجب بحرِ حقیقت پیارے

کسی تیراک نے پایا نہ کنارا تیرا

جورِ پامالیِ عالم سے اُسے کیا مطلب

خاک میں مل نہیں سکتا کبھی ذرّہ تیرا

کس قدر جوشِ تحیّر کے عیاں ہیں آثار

نظر آیا مگر آئینے کو تلوا تیرا

گلشن ہند ہے شاداب کلیجے ٹھنڈے

واہ اے ابرِ کرم زورِ برسنا تیرا

کیا مہک ہے کہ معطر ہے دماغِ عالم

تختۂ گلشنِ فردوس ہے روضہ تیرا

تیرے ذرّہ پہ معاصی کی گھٹا چھائی ہے

اس طرف بھی کبھی اے مہر ہو جلوہ تیرا

تجھ میں ہیں تربیتِ خضر کے پیدا آثار

بحر و بَر میں ہمیں ملتا ہے سہارا تیرا

پھر مجھے اپنا درِ پاک دکھا دے پیارے

آنکھیں پرُ نور ہوں پھر دیکھ کے جلوہ تیرا

ظِلّ حق غوث پہ، ہے غوث کا سایہ تجھ پر

سایہ گستر سرِ خدام پہ سایہ تیرا

تجھ کو بغداد سے حاصل ہوئی وہ شانِ رفیع

دنگ رہ جاتے ہیں سب دیکھ کے رُتبہ تیرا

کیوں نہ بغداد میں جاری ہو ترا چشمۂ فیض

بحرِ بغداد ہی کی نہر ہے دریا تیرا

کرسی ڈالی تری تختِ شہِ جیلاں کے حضور

کتنا اُونچا کیا اﷲ نے پایا تیرا

رشک ہوتا ہے غلاموں کو کہیں آقا سے

کیوں کہوں رشک دہِ بدر ہے تلوا تیرا

بشر افضل ہیں ملک سے تری یوں مدح کروں

نہ ملک خاص بشر کرتے ہیں مُجرا تیرا

جب سے تو نے قدمِ غوث لیا ہے سر پر

اولیا سر پر قدم لیتے ہیں شاہا تیرا

محیِ دیں غوث ہیں اور خواجہ معین الدیں ہے

اے حسنؔ کیوں نہ ہو محفوظ عقیدہ تیرا

٭٭٭

 

آسماں گر ترے تلووں کا نظارہ کرتا

روز اک چاند تصدق میں اُتارا کرتا

طوفِ روضہ ہی پہ چکرائے تھے کچھ ناواقف

میں تو آپے میں نہ تھا اور جو سجدہ کرتا

صَرصرِ دشتِ مدینہ جو کرم فرماتی

کیوں میں افسردگیِ بخت کی پرواہ کرتا

چھپ گیا چاند نہ آئی ترے دیدار کی تاب

اور اگر سامنے رہتا بھی تو سجدہ کرتا

یہ وہی ہیں کہ گِرو آپ۔۔ اور ان پر مچلو

اُلٹی باتوں پہ کہو کون نہ سیدھا کرتا

ہم سے ذرّوں کی تو تقدیر ہی چمکا جاتا

مہر فرما کے وہ جس راہ سے نکلا کرتا

دھُوم ذرّوں میں اناالشمس کی پڑ جاتی ہے

جس طرف سے ہے گزر چاند ہمارا کرتا

آہ کیا خوب تھا گر حاضرِ دَر ہوتا میں

اُن کے سایہ کے تلے چین سے سویا کرتا

شوق و آداب بہم گرمِ کشاکش رہتے

عشقِ گم کردہ تواں عقل سے اُلجھا کرتا

آنکھ اُٹھتی تو میں جھنجھلا کے پلک سی لیتا

دِل بگڑ تا تو میں گھبرا کے سنبھالا کرتا

بے خودانہ کبھی سجدہ میں سوئے دَر گِرتا

جانبِ قبلہ کبھی چونک کے پلٹا کرتا

بام تک دل کو کبھی بالِ کبوتر دیتا

خاک پر گر کے کبھی ہائے خدایا کرتا

گاہ مرہم نہیِ زخمِ جگر میں رہتا

گاہ نشتر زنیِ خونِ تمنا کرتا

ہم رہِ مہر کبھی گردِ خطیرہ پھرتا

سایہ کے ساتھ کبھی خاک پہ لوٹا کرتا

صحبتِ داغِ جگر سے کبھی جی بہلاتا

اُلفتِ دست و گریباں کا تماشا کرتا

دلِ حیراں کو کبھی ذوقِ تپش پہ لاتا

تپشِ دل کو کبھی حوصلہ فرسا کرتا

کبھی خود اپنے تحیّر پہ میں حیراں رہتا

کبھی خود اپنے سمجھنے کو نہ سمجھا کرتا

کبھی کہتا کہ یہ کیا بزم ہے کیسی ہے بہار

کبھی اندازِ تجاہل سے میں توبہ کرتا

کبھی کہتا کہ یہ کیا جوشِ جنوں ہے ظالم

کبھی پھر گر کے تڑپنے کی تمنا کرتا

ستھری ستھری وہ فضا دیکھ کے میں غرقِ گناہ

اپنی آنکھوں میں خود اُس بزم میں کھٹکا کرتا

کبھی رَحمت کے تصور میں ہنسی آ جاتی

پاسِ آداب کبھی ہونٹوں کو بخیہ کرتا

دل اگر رنجِ معاصی سے بگڑنے لگتا

عفو کا ذکر سنا کر میں سنبھالا کرتا

یہ مزے خوبیِ قسمت سے جو پائے ہوتے

سخت دیوانہ تھا گر خلد کی پروا کرتا

موت اُس دن کو جو پھر نام وطن کا لیتا

خاک اُس سر پہ جو اُس در سے کنارا کرتا

اے حسنؔ قصدِ مدینہ نہیں رونا ہے یہی

اور میں آپ سے کس بات کا شکوہ کرتا

٭٭٭

 

عاصیوں کو دَر تمہارا مل گیا

بے ٹھکانوں کو ٹھکانا مل گیا

فضلِ رب سے پھر کمی کس بات کی

مل گیا سب کچھ جو طیبہ مل گیا

کشفِ رازِ مَنْ رَّاٰنِی(۱) یوں ہوا

تم ملے تو حق تعالیٰ مل گیا

بے خودی ہے باعثِ کشفِ حجاب

مل گیا ملنے کا رستہ مل گیا

اُن کے دَر نے سب سے مستغنی کیا

بے طلب بے خواہش اِتنا مل گیا

ناخدائی کے لیے آئے حضور

ڈوبتو نکلو سہارا مل گیا

دونوں عالم سے مجھے کیوں کھو دیا

نفسِ خود مطلب تجھے کیا مل گیا

خلد کیسا کیا چمن کس کا وطن

مجھ کو صحرائے مدینہ مل گیا

آنکھیں پُر نم ہو گئیں سر جھک گیا

جب ترا نقشِ کفِ پا مل گیا

ہے محبت کس قدر نامِ خدا

نامِ حق سے نامِ والا مل گیا

اُن کے طالب نے جو چاہا پا لیا

اُن کے سائل نے جو مانگا مل گیا

تیرے دَر کے ٹکڑے ہیں اور میں غریب

مجھ کو روزی کا ٹھکانا مل گیا

اے حسنؔ فردوس میں جائیں جناب

ہم کو صحرائے مدینہ مل گیا

٭٭

ّ(۱) اس شعر میں حدیث مبارکہ کا عند الصوفیہ مشہور مضمون پیش کیا گیا ہے: من راٰنِیْ فَقَدْ رَأَ الْحَقْ یعنی جس نے میری زیارت کی تحقیق اس نے حق تعالیٰ کی زیارت کی۔4, 7

٭٭٭

 

 دل مِرا دنیا پہ شیدا ہو گیا

اے مِرے اﷲ یہ کیا ہو گیا

کچھ مرے بچنے کی صورت کیجیے

اب تو جو ہونا تھا مولیٰ ہو گیا

عیب پوشِ خلق دامن سے ترے

سب گنہ گاروں کا پردہ ہو گیا

رکھ دیا جب اُس نے پتھر پر قدم

صاف اک آئینہ پیدا ہو گیا

دُور ہو مجھ سے جو اُن سے دُور ہے

اُس پہ میں صدقے جو اُن کا ہو گیا

گرمیِ بازارِ مولیٰ بڑھ چلی

نرخِ رحمت خوب سستا ہو گیا

دیکھ کر اُن کا فروغِ حسنِ پا

مہر ذرّہ ، چاند تارا ہو گیا

رَبِ سَلِّمْ وہ اِدھر کہنے لگے

اُس طرف پار اپنا بیڑا ہو گیا

اُن کے جلوؤں میں ہیں یہ دلچسپیاں

جو وہاں پہنچا وہیں کا ہو گیا

تیرے ٹکڑوں سے پلے دونوں جہاں

سب کا اُس دَر سے گزارا ہو گیا

السلام اے ساکنانِ کوئے دوست

ہم بھی آتے ہیں جو ایما ہو گیا

اُن کے صدقے میں عذابوں سے چھٹے

کام اپنا نام اُن کا ہو گیا

سر وہی جو اُن کے قدموں سے لگا

دل وہی جو اُن پہ شیدا ہو گیا

حسنِ یوسف پر زلیخا مٹ گئیں

آپ پر اﷲ پیارا ہو گیا

اُس کو شیروں پر شرف حاصل ہوا

آپ کے دَر کا جو کتا ہو گیا

زاہدوں کی خلد پر کیا دھُوم تھی

کوئی جانے گھر یہ اُن کا ہو گیا

غول اُن کے عاصیوں کے آئے جب

چھنٹ گئی سب بھیڑ رستہ ہو گیا

جا پڑا جو دشتِ طیبہ میں حسنؔ

گلشن جنت گھر اُس کا ہو گیا

٭٭٭

 

کہوں کیا حال زاہد، گلشن طیبہ کی نزہت کا

کہ ہے خلد بریں چھوٹا سا ٹکڑا میری جنت کا

تعالیٰ اللہ شوکت تیرے نامِ پاک کی آقا

کہ اب تک عرشِ اعلیٰ کو ہے سکتہ تیری ہیبت کا

وکیل اپنا کیا ہے احمد مختار کو میں نے

نہ کیوں کر پھر رہائی میری منشا ہو عدالت کا

بلاتے ہیں اُسی کو جس کی بگڑی وہ بناتے ہیں

کمر بندھنا دیارِ طیبہ کو کھلنا ہے قسمت کا

کھلیں اسلام کی آنکھیں ہوا سارا جہاں روشن

عرب کے چاند صدقے کیا ہی کہنا تیری طلعت کا

نہ کر رُسواے محشر، واسطہ محبوب کا یا ربّ

یہ مجرم دُور سے آیا ہے سن کر نام رحمت کا

مرادیں مانگنے سے پہلے ملتی ہیں مدینہ میں

ہجومِ جود نے روکا ہے بڑھنا دستِ حاجت کا

شبِ اسریٰ ترے جلوؤں نے کچھ ایسا سماں باندھا

کہ اب تک عرشِ اعظم منتظر ہے تیری رُخصت کا

یہاں کے ڈوبتے دَم میں اُدھر جا کر اُبھرتے ہیں

کنارا ایک ہے بحرِ ندامت بحرِ رحمت کا

غنی ہے دل، بھرا ہے نعمت کونین سے دامن

گدا ہوں میں فقیر آستانِ خود بدولت کا

طوافِ روضۂ مولیٰ پہ ناواقف بگڑتے ہیں

عقیدہ اَور ہی کچھ ہے اَدب دانِ محبت کا

خزانِ غم سے رکھنا دُور مجھ کو اُس کے صدقے میں

جو گل اے باغباں ہے عطر تیرے باغِ صنعت کا

الٰہی بعدِ مردن پردہ ہائے حائل اُٹھ جائیں

اُجالا میرے مرقد میں ہو اُن کی شمعِ تُربت کا

سنا ہے روزِ محشر آپ ہی کا منہ تکیں گے سب

یہاں پورا ہوا مطلب دلِ مشتاقِ رؤیت کا

وجودِ پاک باعث خِلقتِ مخلوق کا ٹھہرا

تمہاری شانِ وحدت سے ہوا اِظہار کثرت کا

ہمیں بھی یاد رکھنا ساکنانِ کوچۂ جاناں

سلامِ شوق پہنچے بے کسانِ دشتِ غربت کا

حسنؔ سرکارِ طیبہ کا عجب دربارِ عالی ہے

درِ دولت پہ اک میلہ لگا ہے اہلِ حاجت کا

٭٭٭

 

تصور لطف دیتا ہے دہانِ پاک سرور کا

بھرا آتا ہے پانی میرے منہ میں حوضِ کوثر کا

جو کچھ بھی وصف ہو اُن کے جمالِ ذرّہ پرور کا

مرے دیوان کا مطلع ہو مطلع مہرِ محشر کا

مجھے بھی دیکھنا ہے حوصلہ خورشید محشر کا

لیے جاؤں گا چھوٹا سا کوئی ذرّہ ترے دَر کا

جو اک گوشہ چمک جائے تمہارے ذرّۂ دَر کا

ابھی منہ دیکھتا رہ جائے آئینہ سکندر کا

اگر جلوہ نظر آئے کفِ پاے منور کا

ذرا سا منہ نکل آئے ابھی خورشید محشر کا

اگر دم بھر تصور کیجیے شانِ پیمبر کا

زباں پہ شور ہو بے ساختہ اﷲ اکبر کا

اُجالا طور کا دیکھیں جمالِ جاں فزا دیکھیں

کلیم آ کر اُٹھا دیکھیں ذرا پردہ ترے دَر کا

دو عالم میہماں، تو میزباں، خوانِ کرم جاری

اِدھر بھی کوئی ٹکڑا میں بھی کتّا ہوں ترے دَر کا

نہ گھر بیٹھے ملے جوہر صفا و خاکساری کے

مریدِ ذرّۂ طیبہ ہے آئینہ سکندر کا

اگر اُس خندۂ دنداں نما کا وصف موزوں ہو

ابھی لہرا چلے بحرِ سخن سے چشمہ گوہر کا

ترے دامن کا سایہ اور دامن کتنے پیارے ہیں

وہ سایہ دشتِ محشر کا یہ حامی دیدۂ تر کا

تمہارے کوچہ و مرقد کے زائر کو میسر ہے

نظارہ باغِ جنت کا ، تماشا عرشِ اکبر کا

گنہ گارانِ اُمت اُن کے دامن پر مچلتے ہوں

الٰہی چاک ہو جس دم گریباں صبحِ محشر کا

ملائک جن و اِنساں سب اِسی در کے سلامی ہیں

دو عالم میں ہے اک شہرہ مرے محتاج پرور کا

الٰہی تشنہ کامِ ہجر دیکھے دشتِ محشر میں

برسنا ابرِ رحمت کا ، چھلکنا حوضِ کوثر کا

زیارت میں کروں اور وہ شفاعت میری فرمائیں

مجھے ہنگامۂ عیدین یا رب دن ہو محشر کا

نصیب دوستاں اُن کی گلی میں گر سکونت ہو

مجھے ہو مغفرت کا سلسلہ ہر تار بستر کا

وہ گریہ اُسْتُنِ حَنَّانہ کا آنکھوں میں پھرتا ہے

حضوری نے بڑھایا تھا جو پایہ اَوجِ منبر کا

ہمیشہ رہروانِ طیبہ کے زیرِ قدم آئے

الٰہی کچھ تو ہو اِعزاز میرے کاسۂ سر کا

سہارا کچھ نہ کچھ رکھتا ہے ہر فردِ بشر اپنا

کسی کو نیک کاموں کا حسنؔ کو اپنے یاوَر کا

٭٭٭

 

مجرمِ ہیبت زدہ جب فردِ عصیاں لے چلا

لطفِ شہ تسکین دیتا پیش یزداں لے چلا

دل کے آئینہ میں جو تصویرِ جاناں لے چلا

محفل جنت کی آرائش کا ساماں لے چلا

رہروِ جنت کو طیبہ کا بیاباں لے چلا

دامنِ دل کھینچتا خارِ مغیلاں لے چلا

گل نہ ہو جائے چراغِ زینتِ گلشن کہیں

اپنے سر میں مَیں ہوائے دشتِ جاناں لے چلا

رُوئے عالم تاب نے بانٹا جو باڑا نور کا

ماہِ نو کشتی میں پیالا مہرِ تاباں لے چلا

گو نہیں رکھتے زمانے کی وہ دولت اپنے پاس

پَر زمانہ نعمتوں سے بھر کے داماں لے چلا

تیری ہیبت سے ملا تاجِ سلاطیں خاک میں

تیری رَحمت سے گدا تختِ سلیماں لے چلا

ایسی شوکت پر کہ اُڑتا ہے پھریرا عرش پر

جس گدا نے آرزو کی اُن کو مہماں لے چلا

دبدبہ کس سے بیاں ہو اُن کے نامِ پاک کا

شیر کے منہ سے سلامت جانِ سلماں لے چلا

صدقے اُس رحمت کے اُن کو روزِ محشر ہر طرف

ناشکیبا شورِ فریادِ اَسیراں لے چلا

ساز و سامانِ گدائے کوئے سرور کیا کہوں

اُس کا منگتا سروری کے ساز و ساماں لے چلا

دو قدم بھی چل نہ سکتے ہم سرِ شمشیر تیز

ہاتھ پکڑے رَبِّ سَلِّمْ کا نگہباں لے چلا

دستگیرِ خستہ حالاں دست گیری کیجیے

پاؤں میں رعشہ ہے سر پر بارِ عصیاں لے چلا

وقتِ آخر نا اُمیدی میں وہ صورت دیکھ کر

دِل شکستہ دل کے ہر پارہ میں قرآں لے چلا

قیدیوں کی جنبشِ اَبرو سے بیڑی کاٹ دو

ورنہ جُرموں کا تسلسل سوئے زنداں لے چلا

روزِ محشر شاد ہوں عاصی کہ پیشِ کبریا

رَحم اُن کو اُمَّتِیْ گویاں و  گِریاں لے چلا

شکل شبنم راتوں کا رونا ترا ابرِ کرم

صبحِ محشر صورتِ گل ہم کو خنداں لے چلا

کشتگانِ ناز کی قسمت کے صدقے جایئے

اُن کو مقتل میں تماشائے شہیداں لے چلا

اختر اِسلام چمکا ، کفر کی ظلمت چھنٹی

بدر میں جب وہ ہلالِ تیغِ بُرّاں لے چلا

بزمِ خوباں کو خدا نے پہلے دی آرائشیں

پھر مرے دُولہا کو سوئے بزمِ خوباں لے چلا

اﷲ اﷲ صرصرِ طیبہ کی رنگ آمیزیاں

ہر بگولا نزہتِ سروِ گلستاں لے چلا

قطرہ قطرہ اُن کے گھرسے بحرِ عرفاں ہو گیا

ذرّہ ذرّہ اُن کے دَر سے مہرِ تاباں لے چلا

صبحِ محشر ہر ادائے عارضِ روشن ہیں وہ

شمع نور افشاں پئے شامِ غریباں لے چلا

شافعِ روزِ قیامت کا ہوں اَدنیٰ امتی

پھر حسنؔ کیا غم اگر میں بارِ عصیاں لے چلا

٭٭٭

 

قبلہ کا بھی کعبہ رُخِ نیکو نظر آیا

کعبہ کا بھی قبلہ خمِ اَبرو نظر آیا

محشر میں کسی نے بھی مری بات نہ پوچھی

حامی نظر آیا تو بس اِک تو نظر آیا

پھر بندِ کشاکش میں گرفتار نہ دیکھے

جب معجزۂ جنبشِ اَبرو نظر آیا

اُس دل کے فدا جو ہے تری دید کا طالب

اُن آنکھوں کے قربان جنھیں تو نظر آیا

سلطان و گدا سب ہیں ترے دَر کے بھکاری

ہر ہاتھ میں دروازے کا بازو نظر آیا

سجدہ کو جھکا جائے براہیم میں کعبہ

جب قبلۂ کونین کا اَبرو نظر آیا

بازارِ قیامت میں جنھیں کوئی نہ پوچھے

ایسوں کا خریدار ہمیں تو نظر آیا

محشر میں گنہ گار کا پلّہ ہوا بھاری

پلّہ پہ جو وہ قربِ ترازو نظر آیا

یا دیکھنے والا تھا ترا یا ترا جویا

جو ہم کو خدا بِین و خدا جُو نظر آیا

شل ہاتھ سلاطیں کے اُٹھے بہرِ گدائی

دروازہ ترا قوتِ بازو نظر آیا

یوسف سے حسیں اور تمنائے نظارہ

عالم میں نہ تم سا کوئی خوش رُو نظر آیا

فریادِ غریباں سے ہے محشر میں وہ بے چین

کوثر پہ تھا یا قربِ ترازو نظر آیا

تکلیف اُٹھا کر بھی دعا مانگی عدو کی

خوش خُلق نہ ایسا کوئی خوش خو نظر آیا

ظاہر ہیں حسنؔ احمد مختار کے معنی

کونین پہ سرکار کا قابو نظر آیا

٭٭٭

 

ایسا تجھے خالق نے طرح دار بنایا

یوسف کو ترا طالبِ دیدار بنایا

طلعت سے زمانے کو پُر انوار بنایا

نکہت سے گلی کوچوں کو گلزار بنایا

دیواروں کو آئینہ بناتے ہیں وہ جلوے

آئینوں کو جن جلوؤں نے دیوار بنایا

وہ جنس کیا جس نے جسے کوئی نہ پوچھے

اُس نے ہی مرا تجھ کو خریدار بنایا

اے نظم رسالت کے چمکتے ہوئے مقطع

تو نے ہی اُسے مطلعِ انوار بنایا

کونین بنائے گئے سرکار کی خاطر

کونین کی خاطر تمہیں سرکار بنایا

کنجی تمھیں دی اپنے خزانوں کی خدا نے

محبوب کیا مالک و مختار بنایا

اﷲ کی رحمت ہے کہ ایسے کی یہ قسمت

عاصی کا تمہیں حامی و غم خوار بنایا

آئینۂ ذاتِ احدیٰ آپ ہی ٹھہرے

وہ حسن دیا ایسا طرح دار بنایا

انوارِ تجلّٰی سے وہ کچھ حیرتیں چھائیں

سب آئینوں کو پشت بدیوار بنایا

عالم کے سلاطین بھکاری ہیں بھکاری

سرکار بنایا تمھیں سرکار بنایا

گلزار کو آئینہ کیا منہ کی چمک نے

آئینہ کو رُخسار نے گل زار بنایا

یہ لذتِ پا بوس کہ پتھر نے جگر میں

نقشِ قدمِ سید ابرار بنایا

خدّام تو بندے ہیں ترے حسنِ خلق نے

پیارے تجھے بد خواہ کا غم خوار بنایا

بے پردہ وہ جب خاک نشینوں میں نکل آئے

ہر ذرّہ کو خورشیدِ پُر انوار بنایا

اے ماہِ عرب مہرِ عجم میں ترے صدقے

ظلمت نے مرے دن کو شبِ تار بنایا

ﷲ کرم میرے بھی ویرانۂ دل پر

صحرا کو ترے حسن نے گلزار بنایا

اﷲ تعالیٰ بھی ہوا اُس کا طرف دار

سرکار تمھیں جس نے طرفدار بنایا

گلزارِ جناں تیرے لیے حق نے بنائے

اپنے لیے تیرا گل رُخسار بنایا

بے یار و مددگار جنہیں کوئی نہ پوچھے

ایسوں کا تجھے یار و مددگار بنایا

ہر بات بد اعمالیوں سے میں نے بگاڑی

اَور تم نے مری بگڑی کو ہر بار بنایا

ان کے دُرِّ دنداں کا وہ صدقہ تھا کہ جس نے

ہر قطرۂ نیساں دُرِ شہوار بنایا

اُس جلوۂ رنگیں کا تصدق تھا کہ جس نے

فردوس کے ہر تختہ کو گلزار بنایا

اُس رُوحِ مجسم کے تبرک نے مسیحا

جاں بخش تمھیں یوں دمِ گفتار بنایا

اُس چہرۂ پُر نور کی وہ بھیک تھی جس نے

مہر و مہ و انجم کو پُر انوار بنایا

اُن ہاتھوں کا جلوہ تھا یہ اے حضرتِ موسیٰ

جس نے یدِ بیضا کو ضیا بار بنایا

اُن کے لبِ رنگیں کے نچھاور تھی وہ جس نے

پتھر میں حسنؔ لعلِ پُر اَنوار بنایا

٭٭٭

 

تمہارا نام مصیبت میں جب لیا ہو گا

ہمارا بگڑا ہوا کام بن گیا ہو گا

گناہگار پہ جب لطف آپ کا ہو گا

کیا بغیر کیا ، بے کیا کیا ہو گا

خدا کا لطف ہوا ہو گا دستگیر ضرور

جو گرتے گرتے ترا نام لے لیا ہو گا

دکھائی جائے گی محشر میں شانِ محبوبی

کہ آپ ہی کی خوشی آپ کا کہا ہو گا

خدائے پاک کی چاہیں گے اگلے پچھلے خوشی

خدائے پاک خوشی اُن کی چاہتا ہو گا

کسی کے پاوں کی بیڑی یہ کاٹتے ہوں گے

کوئی اسیرِغم اُن کو پکارتا ہو گا

کسی طرف سے صدا آئے گی حضور آؤ

نہیں تو دَم میں غریبوں کا فیصلہ ہو گا

کسی کے پلّہ پہ یہ ہوں گے وقتِ وزنِ عمل

کوئی اُمید سے منہ اُن کا تک رہا ہو گا

کوئی کہے گا دہائی ہے یَا رَسُوْلَ اﷲ

تو کوئی تھام کے دامن مچل گیا ہو گا

کسی کو لے کے چلیں گے فرشتے سوئے جحیم

وہ اُن کا راستہ پھِر پھِر کے دیکھتا ہو گا

شکستہ پا ہوں مرے حال کی خبر کر دو

کوئی کسی سے یہ رو رو کے کہہ رہا ہو گا

خدا کے واسطے جلد اُن سے عرضِ حال کرو

کسے خبر ہے کہ دَم بھر میں ہائے کیا ہو گیا

پکڑ کے ہاتھ کوئی حالِ دل سنائے گا

تو رو کے قدموں سے کوئی لپٹ گیا ہو گا

زبان سُوکھی دِکھا کر کوئی لبِ کوثر

جنابِ پاک کے قدموں پہ گر گیا ہو گا

نشانِ خسروِ دیں دُور کے غلاموں کو

لِوائے حمد کا پرچم بتا رہا ہو گا

کوئی قریبِ ترازو کوئی لبِ کوثر

کوئی صراط پر اُن کو پکارتا ہو گا

یہ بے قرار کرے گی صدا غریبوں کی

مقدس آنکھوں سے تار ا شک کا بندھا ہو گا

وہ پاک دل کہ نہیں جس کو اپنا اندیشہ

ہجومِ فکر و تردد میں گھر گیا ہو گا

ہزار جان فدا نرم نرم پاؤں سے

پکار سن کے اَسیروں کی دوڑتا ہو گا

عزیز بچہ کو ماں جس طرح تلاش کرے

خدا گواہ یہی حال آپ کا ہو گا

خدائی بھر اِنھیں ہاتھوں کو دیکھتی ہو گی

زمانہ بھر اِنھیں قدموں پہ لوٹتا ہو گا

بنی ہے دَم پہ دُہائی ہے تاج والے کی

یہ غل، یہ شور، یہ ہنگامہ، جا بجا ہو گا

مقام فاصلوں ہر کام مختلف اِتنے

وہ دن ظہورِ کمالِ حضور کا ہو گا

کہیں گے اور نبی اِذھَبُوْاِلٰی غَیرِی

مرے حضور کے لب پر اَ نَا لھَا ہو گا

دُعائے اُمتِ بدکار وردِ لب ہو گی

خدا کے سامنے سجدہ میں سر جھکا ہو گا

غلام اُن کی عنایت سے چین میں ہوں گے

عدو حضور کا آفت میں مبتلا ہو گا

میں اُن کے دَر کا بھکاری ہوں فضل مولیٰ سے

حسنؔ فقیر کا جنت میں بسترا ہو گا

٭٭٭

 

یہ اکرام ہے مصطفیٰ پر خدا کا

کہ سب کچھ خدا کا ہوا مصطفیٰ کا

یہ بیٹھا ہے سکہ تمہاری عطا کا

کبھی ہاتھ اُٹھنے نہ پایا گدا کا

چمکتا ہوا چاند ثور و حرا کا

اُجالا ہوا بُرجِ عرشِ خدا کا

لحد میں عمل ہو نہ دیوِ بلا کا

جو تعویذ میں نقش ہو نقشِ پا کا

جو بندہ خدا کا وہ بندہ تمہارا

جو بندہ تمہارا وہ بندہ خدا کا

مرے گیسوؤں والے میں تیرے صدقے

کہ سر پر ہجومِ بَلا ہے بَلا کا

ترے زیرِ پا مسندِ ملکِ یزداں

ترے فرق پر تاجِ مُلکِ خدا کا

سہارا دیا جب مرے ناخدا نے

ہوئی ناؤ سیدھی پھرا رُخ ہوا کا

کیا ایسا قادر قضا و قدر نے

کہ قدرت میں ہے پھیر دینا قضا کا

اگر زیرِ دیوارِ سرکارِ بیٹھوں

مرے سر پہ سایہ ہو فضل خدا کا

ادب سے لیا تاجِ شاہی نے سر پر

یہ پایا ہے سرکار کے نقشِ پا کا

خدا کرنا ہوتا جو تحتِ مشیّت

خدا ہو کر آتا یہ بندہ خدا کا

اَذاں کیا جہاں دیکھو ایمان والو

پسِ ذکرِ حق ذکر ہے مصطفیٰ کا

کہ پہلے زباں حمد سے پاک ہو لے

تو پھر نام لے وہ حبیبِ خدا کا

یہ ہے تیرے ایمائے اَبرو کا صدقہ

ہدف ہے اَثر اپنے تیرِ دُعا کا

ترا نام لے کر جو مانگے وہ پائے

ترا نام لیوا ہے پیارا خدا کا

نہ کیوں کر ہو اُس ہاتھ میں سب خدائی

کہ یہ ہاتھ تو ہاتھ ہے کبریا کا

جو صحرائے طیبہ کا صدقہ نہ ملتا

کھلاتا ہی تو پھول جھونکا صبا کا

عجب کیا نہیں گر سراپا کا سایہ

سراپا سراپا ہے سایہ خدا کا

خدا مدح خواں ہے خدا مدح خواں ہے

مرے مصطفیٰ کا مرے مصطفیٰ کا

خدا کا وہ طالب خدا اُس کا طالب

خدا اُس کا پیارا وہ پیارا خدا کا

جہاں ہاتھ پھیلا دے منگتا بھکاری

وہی در ہے داتا کی دولت سرا کا

ترے رُتبہ میں جس نے چون و چرا کی

نہ سمجھا وہ بدبخت رُتبہ خدا کا

ترے پاؤں نے سر بلندی وہ پائی

بنا تاجِ سر عرش ربِّ عُلا کا

کسی کے جگر میں تو سر پر کسی کے

عجب مرتبہ ہے ترے نقشِ پا کا

ترا دردِ الفت جو دل کی دوا ہو

وہ بے درد ہے نام لے جو دوا کا

ترے بابِ عالی کے قربان جاؤں

یہ ہے دوسرا نام عرشِ خدا کا

چلے آؤ مجھ جاں بلب کے سِرھانے

کہ سب دیکھ لیں پھر کے جانا قضا کا

بھلا ہے حسنؔ کا جنابِ رضا سے

بھلا ہو الٰہی جنابِ رضا کا

٭٭٭

 

سر صبحِ سعادت نے گریباں سے نکالا

ظلمت کو ملا عالمِ اِمکاں سے نکالا

پیدائشِ محبوب کی شادی میں خدا نے

مدت کے گرفتاروں کو زِنداں سے نکالا

رحمت کا خزانہ پئے تقسیم گدایاں

اﷲ نے تہ خانۂ پنہاں سے نکالا

خوشبو نے عنادِل سے چھڑائے چمن و گل

جلوے نے پتنگوں کو شبستاں سے نکالا

ہے حسنِ گلوئے مہِ بطحا سے یہ روشن

اب مہر نے سر اُن کے گریباں سے نکالا

پردہ جو ترے جلوۂ رنگیں نے اُٹھایا

صَرصَر کا عمل صحنِ گلستاں سے نکالا

اُس ماہ نے جب مہر سے کی جلوہ نمائی

تاریکیوں کو شامِ غریباں سے نکالا

اے مہرِ کرم تیری تجلی کی اَدا نے

ذرّوں کو بلائے شبِ ہجراں سے نکالا

صدقے ترے اے مردمکِ دیدۂ یعقوب

یوسفؔ کو تری چاہ نے کنعاں سے نکالا

ہم ڈوبنے ہی کو تھے کہ آقا کی مدد نے

گِرداب سے کھینچا ہمیں طوفاں سے نکالا

اُمت کے کلیجے کی خلِش تم نے مٹائی

ٹوٹے ہوئے نشتر کو رَگِ جاں سے نکالا

اِن ہاتھوں کے قربان کہ اِن ہاتھوں سے تم نے

خارِ رہِ غم پائے غریباں سے نکالا

اَرمان زدوں کی ہیں تمنائیں بھی پیاری

اَرمان نکالا تو کس ارماں سے نکالا

یہ گردنِ پُر نور کا پھیلا ہے اُجالا

یا صبح نے سر اُن کے گریباں سے نکالا

گلزارِ براہیم کیا نار کو جس نے

اُس نے ہی ہمیں آتشِ سوزاں سے نکالا

دینی تھی جو عالم کے حسینوں کو ملاحت

تھوڑا سا نمک اُن کے نمکداں سے نکالا

قرآں کے حواشی یہ جَلَالَیْن لکھی ہے

مضموں یہ خطِ عارضِ جاناں سے نکالا

قربان ہوا بندگی پہ لُطفِ رہائی

یوں بندہ بنا کر ہمیں زِنداں سے نکالا

اے آہ مرے دل کی لگی اور نہ بجھتی

کیوں تو نے دھُواں سینۂ سوزاں سے نکالا

مدفن نہیں پھینک آئیں گے اَحباب گڑھے میں

تابوت اگر کوچۂ جاناں سے نکالا

کیوں شور ہے ، کیا حشر کا ہنگامہ بپا ہے

یا تم نے قدم گورِ غریباں سے نکالا

لاکھوں ترے صدقے میں کہیں گے دمِ محشر

زِنداں سے نکالا ہمیں زِنداں سے نکالا

جو بات لبِ حضرتِ عیسیٰ نے دکھائی

وہ کام یہاں جنبشِ داماں سے نکالا

منہ مانگی مرادوں سے بھری جیب دو عالم

جب دستِ کرم آپ نے داماں سے نکالا

کانٹا غمِ عقبیٰ کا حسنؔ اپنے جگر سے

اُمت نے خیالِ سرِ مژگاں سے نکالا

٭٭٭

 

اگر قسِمت سے میں اُن کی گلی میں خاک ہو جاتا

غمِ کونین کا سارا بکھیڑا پاک ہو جاتا

جو ائے گل جامۂ ہستی تری پوشاک ہو جاتا

تو خارِ نیستی سے کیوں اُلجھ کر چاک ہو جاتا

جو وہ اَبرِ کرم پھر آبروئے خاک ہو جاتا

تو اُس کے دو ہی چھینٹوں میں زمانہ پاک ہو جاتا

ہوائے دامنِ رنگیں جو ویرانے میں آ جاتی

لباسِ گل میں ظاہر ہر خس و خاشاک ہو جاتا

لبِ جاں بخش کی قربت حیاتِ جاوداں دیتی

اگر ڈورا نفس کا ریشۂ مسواک ہو جاتا

ہوا دل سوختوں کو چاہیے تھی اُن کے دامن کی

الٰہی صبحِ محشر کا گریباں چاک ہو جاتا

اگر دو بوند پانی چشمۂ رحمت سے مل جاتا

مری نا پاکیوں کے میل دھُلتے پاک ہو جاتا

اگر پیوند ملبوسِ پیمبر کے نظر آتے

ترا اے حُلّۂ شاہی کلیجہ چاک ہو جاتا

جو وہ گل سُونگھ لیتا پھول مرجھایا ہوا بلبل

بہارِ تازگی میں سب چمن کی ناک ہو جاتا

چمک جاتا مقدر جب دُرِ دنداں کی طلعت سے

نہ کیوں رشتہ گہر کا ریشۂ مسواک ہو جاتا

عدو کی آنکھ بھی محشر میں حسرت سے نہ منہ تکتی

اگر تیرا کرم کچھ اے نگاہِ پاک ہو جاتا

بہارِ تازہ رہتیں کیوں خزاں میں دَھجیاں اُڑتیں

لباسِ گل جو اُن کی ملگجی پوشاک ہو جاتا

کماندارِ نبوت قادِر اندازی میں یکتا ہیں

دو عالم کیوں نہ اُن کا بستۂ فتراک ہو جاتا

نہ ہوتی شاق گر دَر کی جدائی تیرے ذرّہ کو

قمر اِک اَور بھی روشن سرِ اَفلاک ہو جاتا

تری رحمت کے قبضہ میں ہے پیارے قلبِ ماہیت

مرے حق میں نہ کیوں زہر گنہ تریاک ہو جاتا

خدا تارِ رَگِ جاں کی اگر عزت بڑھا دیتا

شراکِ نعلِ پاکِ سیدِ لولاک ہو جاتا

تجلی گاہِ جاناں تک اجالے سے پہنچ جاتے

جو تو اے تَوسنِ عمرِ رواں چالاک ہو جاتا

اگر تیری بھرن اے ابرِ رحمت کچھ کرم کرتی

ہمارا چشمۂ ہستی اُبل کر پاک ہو جاتا

حسنؔ اہلِ نظر عزت سے آنکھوں میں جگہ دیتے

اگر یہ مُشتِ خاک اُن کی گلی کی خاک ہو جاتا

٭٭٭

 

دشمن ہے گلے کا ہار آقا

لُٹتی ہے مری بہار آقا

تم دل کے لیے قرار آقا

تم راحتِ جانِ زار آقا

تم عرش کے تاجدار مولیٰ

تم فرش کے با وقار آقا

دامن دامن ہوائے دامن

گلشن گلشن بہار آقا

بندے ہیں گنہگار بندے

آقا ہیں کرم شعار آقا

اِس شان کے ہم نے کیا کسی نے

دیکھے نہیں زینہار آقا

بندوں کا اَلم نے دل دُکھایا

اَور ہو گئے بے قرار آقا

آرام سے سوئیں ہم کمینے

جاگا کریں با وقار آقا

ایسا تو کہیں سنا نہ دیکھا

بندوں کا اُٹھائیں بار آقا

جن کی کوئی بات تک نہ پوچھے

اُن پر تمھیں آئے پیار آقا

پاکیزہ دلوں کی زینت ایمان

ایمان کے تم سنگار آقا

صدقہ جو بٹے کہیں سلاطیں

ہم بھی ہیں اُمیدوار آقا

چکرا گئی ناؤ بے کسوں کی!

آنا مرے غمگسار آقا

اﷲ نے تم کو دے دیا ہے

ہر چیز کا اختیار آقا

ہے خاک پہ نقشِ پا تمہارا

آئینہ بے غبار آقا

عالم میں ہیں سب بنی کے ساتھی

بگڑی کے تمھیں ہو یار آقا

سرکار کے تاجدار بندے

سرکار ہیں تاجدار آقا

دے بھیک اگر جمالِ رنگیں

جنت ہو مرا مزار آقا

آنکھوں کے کھنڈر بھی اب بسا دو

دل کا تو ہوا وقار آقا

ایماں کی تاک میں ہے دشمن

آؤ دمِ احتضار آقا

ہو شمعِ شبِ سیاہ بختاں

تیرا رُخِ نور بار آقا

تُو رحمتِ بے حساب کو دیکھ

جُرموں کا نہ لے شمار آقا

دیدار کی بھیک کب بٹے گی

منگتا ہے اُمیدوار آقا

بندوں کی ہنسی خوشی میں گزرے

اِس غم میں ہوں اشکبار آقا

آتی ہے مدد بَلا سے پہلے

کرتے نہیں انتظار آقا

سایہ میں تمہارے دونوں عالم

تم سایۂ کردگار آقا

جب فوجِ اَلم کرے چڑھائی

ہو اَوجِ کرم حصار آقا

ہر ملکِ خدا کے سچے مالک

ہر ملک کے شہر یار آقا

مانا کہ میں ہوں ذلیل بندہ

آقا تُو ہے با وقار آقا

ٹوٹے ہوئے دل کو دو سہارا

اَب غم کی نہیں سہار آقا

ملتی ہے تمھیں سے داد دل کی

سنتے ہو تمھیں پکار آقا

تیری عظمت وہ ہے کہ تیرا

اﷲ کرے وقار آقا

اﷲ کے لاکھوں کارخانے

سب کا تمھیں اختیار آقا

کیا بات تمہارے نقشِ پا کی

ہے تاجِ سرِ وقار آقا

خود بھیک دو خود کہو بھلا ہو

اِس دَین کے میں نثار آقا

وہ شکل ہے واہ وا تمہاری

اﷲ کو آئے پیار آقا

جو مجھ سے مجھے چھپائے رکھے

وہ جلوہ کر آشکار آقا

جو کہتے ہیں بے زباں تمہارے

گونگوں کی سنو پکار آقا

وہ دیکھ لے کربلا میں جس نے

دیکھے نہ ہو جاں نثار آقا

آرام سے شش جہت میں گزرے

غم دل سے نہ ہو دو چار آقا

ہو جانِ حسنؔ نثار تجھ پر

ہو جاؤں ترے نثار آقا

٭٭٭

 

واہ کیا مرتبہ ہوا تیرا

تو خدا کا خدا ہوا تیرا

تاج والے ہوں اِس میں یا محتاج

سب نے پایا دیا ہوا تیرا

ہاتھ خالی کوئی پھرا نہ پھرے

ہے خزانہ بھرا ہوا تیرا

آج سنتے ہیں سننے والے کل

دیکھ لیں گے کہا ہوا تیر

اِسے تو جانے یا خدا جانے

پیش حق رُتبہ کیا ہوا تیرا

گھر ہیں سب بند دَر ہیں سب تیغ

ایک دَر ہے کھلا ہوا تیرا

کام توہین سے ہے نجدی کو

تو ہوا یا خدا ہوا تیرا

تاجداروں کا تاجدار بنا

بن گیا جو گدا ہوا تیرا

اور میں کیا لکھوں خدا کی حمد

حمد اُسے وہ خدا ہوا تیرا

جو ترا ہو گیا خدا کا ہوا

جو خدا کا ہوا ہوا تیرا

حوصلے کیوں گھٹیں غریبوں کے

ہے اِرادہ بڑھا ہوا تیرا

ذات بھی تیری انتخاب ہوئی

نام بھی مصطفیٰ ہوا تیرا

جسے تو نے دیا خدا نے دیا

دَین رب کا دیا ہوا تیرا

ایک عالم خدا کا طالب ہے

اور طالب خدا ہوا تیرا

بزمِ اِمکاں ترے نصیب کھلے

کہ وہ دُولھا بنا ہوا تیرا

میری طاعت سے میرے جرم فزوں

لطف سب سے بڑھا ہوا تیرا

خوفِ وزنِ عمل کسے ہو کہ ہے

دل مدد پر تُلا ہوا تیرا

کام بگڑے ہوئے بنا دینا

کام کس کا ہوا ہوا تیرا

ہر اَدا دل نشیں بنی تیری

ہر سخن جاں فزا ہوا تیرا

آشکارا کمالِ شانِ حضور

پھر بھی جلوہ چھپا ہوا تیرا

پَردہ دَارِ اَدا ہزار حجاب

پھر بھی پردہ اُٹھا ہوا تیرا

بزمِ دنیا میں بزمِ محشر میں

نام کس کا ہوا ہوا تیرا

مَنْ رّاٰنِیْ فَقَدْ رَا اَلْحَقَّ

حُسن یہ حق نما ہوا تیرا

بارِ عصیاں سروں سے پھینکے گا

پیش حق سر جھکا ہوا تیرا

یمِ جودِ حضور پیاسا ہوں

یم گھٹا سے بڑھا ہوا تیرا

وصلِ وحدت پھر اُس پہ یہ خلوت

تجھ سے سایہ جدا ہوا تیرا

صنعِ خالق کے جتنے خاکے ہیں

رنگ سب میں بھرا ہوا تیرا

ارضِ طیبہ قُدومِ والا سے

ذرّہ ذرّہ سما ہوا تیرا

اے جناں میرے گل کے صدقے میں

تختہ تختہ بسا ہوا تیرا

اے فلک مہر حق کے باڑے سے

کاسہ کاسہ بھرا ہوا تیرا

اے چمن بھیک ہے تبسم کی

غنچہ غنچہ کھِلا ہوا تیرا

ایسی شوکت کے تاجدار کہاں

تخت تختِ خدا ہوا تیرا

اِس جلالت کے شہر یار کہاں

مِلک مُلکِ خدا ہوا تیرا

اِس وجاہت کے بادشاہ کہاں

حکم حکمِ خدا ہوا تیرا

خلق کہتی ہے لامکاں جس کو

شہ نشیں ہے سجا ہوا تیرا

زیست وہ ہے کہ حُسنِ یار رہے

دل میں عالم بسا ہوا تیرا

موت وہ ہے کہ ذکرِ دوست رہے

لب پہ نقشہ جما ہوا تیرا

ہوں زمیں والے یا فلک والے

سب کو صدقہ عطا ہوا تیرا

ہر گھڑی گھر سے بھیک کی تقسیم

رات دن دَر کھلا ہوا تیرا

نہ کوئی دو سَرا میں تجھ سا ہے

نہ کوئی دُوسرا ہوا تیرا

سوکھے گھاٹوں مرا اُتار ہو کیوں

کہ ہے دریا چڑھا ہوا تیرا

سوکھے دھانوں کی بھی خبر لے لے

کہ ہے بادل گھرا ہوا تیرا

مجھ سے کیا لے سکے عدو ایماں

اور وہ بھی دیا ہوا تیرا

لے خبر ہم تباہ کاروں کی

قافلہ ہے لٹا ہوا تیرا

مجھے وہ درد دے خدا کہ رہے

ہاتھ دل پہ دَھرا ہوا تیرا

تیرے سر کو ترا خدا جانے

تاجِ سر نقشِ پا ہوا تیرا

بگڑی باتوں کی فکر کر نہ حسنؔ

کام سب ہے بنا ہوا تیرا

٭٭٭

 

معطیِ مطلب تمہارا ہر اِشارہ ہو گیا

جب اِشارہ ہو گیا مطلب ہمارا ہو گیا

ڈوبتوں کا یا نبی کہتے ہی بیڑا پار تھا

غم کنارے ہو گئے پیدا کنارا ہو گیا

تیری طلعت سے زمیں کے ذرّے مہ پارے بنے

تیری ہیبت سے فلک کا مہ دو پارا ہو گیا

اللہ اللہ محو حُسنِ روئے جاناں کے نصیب

بند کر لیں جس گھڑی آنکھیں نظارا ہو گیا

یوں تو سب پیدا ہوئے ہیں آپ ہی کے واسطے

قسمت اُس کی ہے جسے کہہ دو ہمارا ہو گیا

تیرگی باطل کی چھائی تھی جہاں تاریک تھا

اُٹھ گیا پردہ ترا حق آشکارا ہو گیا

کیوں نہ دم دیں مرنے والے مرگِ عشقِ پاک پر

جان دی اور زندگانی کا سہارا ہو گیا

نام تیرا، ذکر تیرا، تو، ترا پیارا خیال

ناتوانوں بے سہاروں کا سہارا ہو گیا

ذرّۂ کوئے حبیب‘ اللہ رے تیرے نصیب

پاؤں پڑ کر عرش کی آنکھوں کا تارا ہو گیا

تیرے صانع سے کوئی پوچھے ترا حُسن و جمال

خود بنایا اور بنا کر خود ہی پیارا ہو گیا

ہم کمینوں کا اُنھیں آرام تھا اِتنا پسند

غم خوشی سے دُکھ تہِ دل سے گوارا ہو گیا

کیوں نہ ہو تم مالکِ مُلکِ خدا مِلک خدا

سب تمہارا ہے خدا ہی جب تمہارا ہو گیا

روزِ محشر کے اَلم کا دشمنوں کو خوف ہو

دُکھ ہمارا آپ کو کس دن گوارا ہو گیا

جو ازل میں تھی وہی طلعت وہی تنویر ہے

آئینہ سے یہ ہوا جلوہ دو بارا ہو گیا

تو نے ہی تو مصر میں یوسف کو یوسف کر دیا

تو ہی تو یعقوب کی آنکھوں کا تارا ہو گیا

ہم بھکاری کیا ہماری بھیک کس گنتی میں ہے

تیرے دَر سے بادشاہوں کا گزارا ہو گیا

اے حسنؔ قربان جاؤں اُس جمالِ پاک پر

سینکڑوں پردوں میں رہ کر عالم آرا ہو گیا

٭٭٭

 

منقبت خلیفۂ اوّل رضی اﷲ عنہ

بیاں ہو کس زباں سے مرتبہ صدیق اکبر کا

ہے یارِ غار محبوبِ خدا صدیق اکبر کا

الٰہی رحم فرما خادمِ صدیق اکبر ہوں

تری رحمت کے صدقے واسطہ صدیق اکبر کا

رُسل اور انبیا کے بعد جو افضل ہو عالم سے

یہ عالم میں ہے کس کا مرتبہ صدیق اکبر کا

گدا صدیق اکبر کا خدا سے فضل پاتا ہے

خدا کے فضل سے میں ہوں گدا صدیق اکبر کا

نبی کا اور خدا کا مدح گو صدیق اکبر ہے

نبی صدیق اکبر کا خدا صدیق اکبر کا

ضیا میں مہر عالم تاب کا یوں نام کب ہوتا

نہ ہوتا نام گر وجہِ ضیا صدیق اکبر کا

ضعیفی میں یہ قوت ہے ضعیفوں کو قوی کر دیں

سَہارا لیں ضعیف و اَقویا صدیق اکبر کا

خدا اِکرام فرماتا ہے اَتْقٰی کہہ کے قرآں میں

کریں پھر کیوں نہ اِکرام اتقیا صدیق اکبر کا

صفا وہ کچھ ملی خاک سرِ کوئے پیمبر سے

مصفّٰیٰ آئینہ ہے نقشِ پا صدیق اکبر کا

ہوئے فاروق و عثمان و علی جب داخلِ بیعت

بنا فخر سلاسِل سلسلہ صدیق اکبر کا

مقامِ خوابِ راحت چین سے آرام کرنے کو

بنا پہلوئے محبوبِ خدا صدیق اکبر کا

علی ہیں اُس کے دشمن اور وہ دشمن علی کا ہے

جو دشمن عقل کا دشمن ہوا صدیق اکبر کا

لٹایا راہِ حق میں گھر کئی بار اس محبت سے

کہ لُٹ لُٹ کر حسنؔ گھر بن گیا صدیق اکبر کا

٭٭٭

 

منقبت خلیفۂ دوم رضی اﷲ عنہ

نہیں خوش بخت محتاجانِ عالم میں کوئی ہم سا

ملا تقدیر سے حاجت روا فاروقِ اعظم سا

ترا رشتہ بنا شیرازۂ جمعیتِ خاطر

پڑا تھا دفترِ دینِ کتابُ اﷲ برہم سا

مراد آئی مرادیں ملنے کی پیاری گھڑی آئی

ملا حاجت رَوا ہم کو درِ سلطانِ عالم سا

ترے جود و کرم کا کوئی اندازہ کرے کیوں کر

ترا اِک اِک گدا فیض و سخاوت میں ہے حاتم سا

خدارا مہر کر اے ذرّہ پرور مہر نورانی

سیہ بختی سے ہے روزِ سیہ میرا شبِ غم سا

تمہارے دَر سے جھولی بھر مرادیں لے کے اُٹھیں گے

نہ کوئی بادشاہ تم سا نہ کوئی بے نوا ہم سا

فدا اے اُمّ کلثوم آپ کی تقدیر یاوَر کے

علی بابا ہوا ، دُولھا ہوا فاروق اکرم سا

غضب میں دشمنوں کی جان ہے تیغِ سر افگن سے

خروج و رفض کے گھر میں نہ کیوں برپا ہو ماتم سا

شیاطیں مضمحل ہیں تیرے نامِ پاک کے ڈر سے

نکل جائے نہ کیوں رفّاض بد اَطوار کا دم سا

منائیں عید جو ذی الحجہ میں تیری شہادت کی

الٰہی روز و ماہ و سن اُنھیں گزرے محرم سا

حسنؔ در عالمِ پستی سرِ رفعت اگر داری

بَیا فرقِ اِرادت بر درِ فاروقِ اعظم سا

٭٭٭

 

منقبت خلیفۂ سوم رضی اﷲ عنہ

اﷲ سے کیا پیار ہے عثمانِ غنی کا

محبوبِ خدا یار ہے عثمانِ غنی کا

رنگین وہ رُخسار ہے عثمان غنی کا

بلبل گل گلزار ہے عثمان غنی کا

گرمی پہ یہ بازار ہے عثمانِ غنی کا

اﷲ خریدار ہے عثمانِ غنی کا

کیا لعل شکر بار ہے عثمانِ غنی کا

قند ایک نمک خوار ہے عثمانِ غنی کا

سرکار عطا پاش ہے عثمانِ غنی کا

دربار دُرر بار ہے عثمانِ غنی کا

دل سوختو ہمت جگر اب ہوتے ہیں ٹھنڈے

وہ سایۂ دیوار ہے عثمانِ غنی کا

جو دل کو ضیا دے جو مقدر کو جلا دے

وہ جلوۂ دیدار ہے عثمانِ غنی کا

جس آئینہ میں نورِ الٰہی نظر آئے

وہ آئینہ رُخسار ہے عثمانِ غنی کا

سرکار سے پائیں گے مرادوں پہ مرادیں

دربار یہ دُر بار ہے عثمانِ غنی کا

آزاد، گرفتارِ بلائے دو جہاں ہے

آزاد، گرفتار ہے عثمانِ غنی کا

بیمار ہے جس کو نہیں آزارِ محبت

اچھا ہے جو بیمار ہے عثمانِ غنی کا

اﷲ غنی حد نہیں اِنعام و عطا کی

وہ فیض پہ دربار ہے عثمانِ غنی کا

رُک جائیں مرے کام حسنؔ ہو نہیں سکتا

فیضان مددگار ہے عثمانِ غنی کا

٭٭٭

 

منقبت خلیفۂ چہارم کرم اﷲ وجہہ

اے حبِّ وطن ساتھ نہ یوں سوئے نجف جا

ہم اور طرف جاتے ہیں تو اور طرف جا

چل ہند سے چل ہند سے چل ہند سے غافل !

اُٹھ سوئے نجف سوئے نجف سوئے نجف جا

پھنستا ہے وبالوں میں عبث اخترِ طالع

سرکار سے پائے گا شرف بہر شرف جا

آنکھوں کو بھی محروم نہ رکھ حُسنِ ضیا سے

کی دل میں اگر اے مہِ بے داغ و کلف جا

اے کُلفتِ غم بندۂ مولیٰ سے نہ رکھ کام

بے فائدہ ہوتی ہے تری عمر تلف جا

اے طلعتِ شہ آ تجھے مولیٰ کی قسم آ

اے ظلمتِ دل جا تجھے اُس رُخ کا حَلف جَا

ہو جلوہ فزا صاحبِ قوسین کا نائب

ہاں تیرِ دعا بہرِ خدا سُوئے ہدف جا

کیوں غرقِ اَلم ہے دُرِ مقصود سے منہ بھر

نیسانِ کرم کی طرف اے تشنہ صدف جا

جیلاں کے شرف حضرتِ مولیٰ کے خلف ہیں

اے نا خلف اُٹھ جانبِ تعظیمِ خلف جا

تفضیل کا جویا نہ ہو مولیٰ کی وِلا میں

یوں چھوڑ کے گوہر کو نہ تو بہر خذف جا

مولیٰ کی امامت سے محبت ہے تو غافل

اَربابِ جماعت کی نہ تو چھوڑ کے صف جا

کہہ دے کوئی گھیرا ہے بَلاؤں نے حسنؔ کو

اے شیرِ خدا بہرِ مدد تیغ بکف جا

٭٭٭

 

(ردیف بائے تازی)

دردِ دل کر مجھے عطا یا رب

دے مرے درد کی دوا یا رب

لاج رکھ لے گناہ گاروں کی

نام رحمن ہے ترا یا رب

عیب میرے نہ کھول محشر میں

نام ستّار ہے ترا یا رب

بے سبب بخش دے نہ پوچھ عمل

نام غفار ہے ترا یا رب

زخم گہرا سا تیغِ اُلفت کا

مرے دل کو بھی کر عطا یا رب

یوں گموں میں کہ تجھ سے مل جاؤں

یوں گما اِس طرح ملا یا رب

بھول کر بھی نہ آئے یاد اپنی

میرے دل سے مجھے بھلا یا رب

خاک کر اپنے آستانے کی

یوں ہمیں خاک میں ملا یا رب

میری آنکھیں مرے لیے ترسیں

مجھ سے ایسا مجھے چھپا یا رب

ٹیس کم ہو نہ دردِ اُلفت کی

دل تڑپتا رہے مرا یا رب

نہ بھریں زخمِ دل ہرے ہو کر

رہے گلشن ہرا بھرا یا رب

تیری جانب یہ مُشتِ خاک اُڑے

بھیج ایسی کوئی ہوا یا رب

سَبَقَتْ رَحْمَتِیْ عَلٰی غَضَبِیْ

تو نے جب سے سنا دیا یا رب

آسرا ہم گناہ گاروں کا

اور مضبوط ہو گیا یا رب

ہے اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِِی بِیْ

میرے ہر دَرد کی دوا یا رب

تو نے میرے ذلیل ہاتھوں میں

دامنِ مصطفیٰ دیا یا رب

تو نے دی مجھ کو نعمتِ اسلام

پھر جماعت میں لے لیا یا رب

کر دیا تو نے قادِری مجھ کو

تیری قدرت کے میں فدا یا رب

دولتیں ایسی نعمتیں اتنی

بے غرض تو نے کیں عطا یا رب

دے کہ لیتے نہیں کریم کبھی

جو دیا جس کو دے دیا یا رب

تو کریم اور کریم بھی ایسا

کہ نہیں جس کو دُوسرا یا رب

ظن نہیں بلکہ ہے یقین مجھے

وہ بھی تیرا دیا ہوا یا رب

ہو گا دنیا میں قبر و محشر میں

مجھ سے اچھا معاملہ یا رب

اِس نکمّے سے کام لے ایسے

یہ نکما ہو کام کا یا رب

مجھے ایسے عمل کی دے توفیق

کہ ہو راضی تری رضا یا رب

جس نے اپنے لیے بُرائی کی

ہے یہ نادان وہ بُرا یا رب

ہر بھلے کی بھلائی کا صدقہ

اِس بُرے کو بھی کر بھلا یا رب

میں نے بنتی ہوئی بگاڑی بات

بات بگڑی ہوئی بنا یا رب

میں نے سُبحٰن رَبیِ الَاعْلٰی

خاک پر رکھ کے سر کہا یا رب

صدقہ اس دی ہوئی بلندی کا

پستیوں سے مجھے بچا یا رب

بونے والے جو بوئیں وہ کاٹیں

یہ ہوا تو میں مر مٹا یا رب

آہ جو بو چکا ہوں وقتِ درو

ہو گا حسرت کا سامنا یا رب

صدقہ ماہِ ربیع الاوّل کا

گیہوں اس کھیت سے اُگا یا رب

پاک ہے دُرد و دَرد سے جو مےَ

جام اُس کا مجھے پلا یا رب

کر کے گستر وہ خوانِ اُدْعُوْنیِْ

تو نے بندوں کو دی صلا یا رب

آستاں پر ترے ترا منگتا

سن کر آیا ہے یہ صدا یا رب

نعمت اَسْتَجِبْ سے پائے بھیک

ہاتھ پھیلا ہوا مرا یا رب

تجھ سے وہ مانگوں میں جو بہتر ہو

مدعی ہو نہ مدعا یا رب

مجھے دونوں جہاں کے غم سے بچا

شاد رکھ شاد دائما یا رب

مجھ پر اور میرے دونوں بھائیوں پر

سایہ ہو تیرے فضل کا یا رب

عیش تینوں گھروں کے تینوں کو

اپنی رحمت سے کر عطا یا رب

میرے فاروق و حامد وحسنین(۱)

درد و غم سے رہیں جدا یا رب

لختِ دل مصطفیٰ، حسین، رضا(۲)

ہر جگہ پائیں مرتبہ یا رب

سایۂ پنجتن ہوں پانچوں پر

دائماً ہو تری عطا یا رب

علم و عمر و عمل فراخ معاش

مجتبیٰ (۳) کو بھی کر عطا یا رب

دونوں عالم کی نعمتیں پائے

مرتضیٰ بہرِ مصطفیٰ یا رب

کر دے فضل و نعم سے مالا مال

غم اَلم سے اِنھیں بچا یا رب

اِن کے دشمن ذلیل و خوار رہیں

رَد رہے اِن کی ہر بَلا یا رب

بال بیکا کبھی نہ ہو اِن کا

بول بالا ہو دائما یا رب

میری ماں میری بہنیں بھانجے سب

پائیں آرامِ دو سَرا یا رب

اور بھی جتنے میرے پیارے ہیں

حاجتیں سب کی ہوں رَوا یا رب

میرے احباب پر بھی فضل رہے

تیرا تیرے حبیب کا یا رب

اہلِ سُنّت کی ہر جماعت پر

ہر جگہ ہو تری عطا یا رب

دشمنوں کے لیے ہدایت کی

تجھ سے کرتا ہوں اِلتجا یا رب

تُو حسنؔ کو اُٹھا حسن کر کے

ہو مع الخیر خاتمہ یا رب

٭٭٭

 

سر سے پا تک ہر اَدا ہے لاجواب

خوبرویوں میں نہیں تیرا جواب

حُسن ہے بے مثل صورت لاجواب

میں فدا تم آپ ہو اپنا جواب

پوچھے جاتے ہیں عمل میں کیا کہوں

تم سکھا جاؤ مرے مولیٰ جواب

میری حامی ہے تری شانِ کریم

پُرسشِ روزِ قیامت کا جواب

ہے دعائیں سنگِ دشمن کا عوض

اِس قدر نرم ایسے پتھر کا جواب

پلتے ہیں ہم سے نکمّے بے شمار

ہیں کہیں اُس آستانہ کا جواب

روزِ محشر ایک تیرا آسرا

سب سوالوں کا جوابِ لاجواب

میں یدِ بیضا کے صدقے اے کلیم

پر کہاں اُن کی کفِ پا کا جواب

کیا عمل تو نے کیے اِس کا سوال

تیری رحمت چاہیے میرا جواب

مہر و مہ ذرّے ہیں اُن کی راہ کے

کون دے نقشِ کفِ پا کا جواب

تم سے اُس بیمار کو صحت ملے

جس کو دے دیں حضرت عیسیٰ جواب

دیکھ رِضواں دشتِ طیبہ کی بہار

میری جنت کا نہ پائے گا جواب

شور ہے لطف و عطا کا شور ہے

مانگنے والا نہیں سنتا جواب

جرم کی پاداش پاتے اہلِ جرم

اُلٹی باتوں کا نہ ہو سیدھا جواب

پر تمہارے لطف آڑے آ گئے

دے دیا محشر میں پُرسش کا جواب

ہے حسنؔ محو جمالِ روئے دوست

اے نکیرین اِس سے پھر لینا جواب

٭٭٭

 

جانبِ مغرب وہ چمکا آفتاب

بھیک کو مشرق سے نکلا آفتاب

جلوہ فرما ہو جو میرا آفتاب

ذرّہ ذرّہ سے ہو پیدا آفتاب

عارضِ پُر نور کا صاف آئینہ

جلوۂ حق کا چمکتا آفتاب

یہ تجلّی گاہِ ذاتِ بحت ہے

زُلفِ انور ہے شب آسا آفتاب

دیکھنے والوں کے دل ٹھنڈے کیے

عارضِ انور ہے ٹھنڈا آفتاب

ہے شبِ دیجور طیبہ نور سے

ہم سیہ کاروں کا کالا آفتاب

بخت چمکا دے اگر شانِ جمال

ہو مری آنکھوں کا تارا آفتاب

نور کے سانچے میں ڈھالا ہے تجھے

کیوں ترے جلووں کا ڈھلتا آفتاب

ناخدائی سے نکالا آپ نے

چشمۂ مغرب سے ڈوبا آفتاب

ذرّہ کی تابش ہے اُن کی راہ میں

یا ہوا ہے گِر کے ٹھنڈا آفتاب

گرمیوں پر ہے وہ حُسنِ بے زوال

ڈھونڈتا پھرتا ہے سایہ آفتاب

اُن کے دَر کے ذرّہ سے کہتا ہے مہر

ہے تمہارے دَر کا ذرّہ آفتاب

شامِ طیبہ کی تجلی دیکھ کر

ہو تری تابش کا تڑکا آفتاب

روئے مولیٰ سے اگر اُٹھتا نقاب

چرخ کھا کر غش میں گرتا آفتاب

کہہ رہی ہے صبحِ مولد کی ضیا

آج اندھیرے سے ہے نکلا آفتاب

وہ اگر دیں نکہت و طلعت کی بھیک

ذرّہ ذرّہ ہو مہکتا آفتاب

تلوے اور تلوے کے جلوے پر نثار

پیارا پیارا نور پیارا آفتاب

اے خدا ہم ذرّوں کے بھی دن پھریں

جلوہ فرما ہو ہمارا آفتاب

اُن کے ذرّہ کے نہ سر چڑھ حشر میں

دیکھ اب بھی ہے سویرا آفتاب

جس سے گزرے اے حسنؔ وہ مہرِ حسن

اُس گلی کا ہو اندھیرا آفتاب

٭٭٭

 

(ردیف تائے منقوطہ)

پُر نور ہے زمانہ صبح شبِ ولادت

پرَدہ اُٹھا ہے کس کا صبح شبِ ولادت

جلوہ ہے حق کا جلوہ صبح شبِ ولادت

سایہ خدا کا سایہ صبح شبِ ولادت

فصلِ بہار آئی شکلِ نگار آئی

گلزار ہے زمانہ صبح شبِ ولادت

پھولوں سے باغ مہکے شاخوں پہ مُرغ چہکے

عہدِ بہار آیا صبح شبِ ولادت

پژ مُردہ حسرتوں کے سب کھیت لہلہائے

جاری ہوا وہ دریا صبح شبِ ولادت

گل ہے چراغِ صرَصَر گل سے چمن معطر

آیا کچھ ایسا جھونکا صبح شبِ ولادت

قطرہ میں لاکھ دریا گل میں ہزار گلشن

نشوونما ہے کیا کیا صبح شبِ ولادت

جنت کے ہر مکاں کی آئینہ بندیاں ہیں

آراستہ ہے دنیا صبح شب ولادت

دل جگمگا رہے ہیں قسمت چمک اُٹھی ہے

پھیلا نیا اُجالا صبح شبِ ولادت

چِٹکے ہوئے دِلوں کے مدّت کے میل چھوٹے

اَبرِ کرم وہ برسا صبح شب ولادت

بلبل کا آشیانہ چھایا گیا گلوں سے

قسمت نے رنگ بدلا صبح شبِ ولادت

اَرض و سما سے منگتا دوڑے ہیں بھیک لینے

بانٹے گا کون باڑا صبح شبِ ولادت

انوار کی ضیائیں پھیلی ہیں شام ہی سے

رکھتی ہے مہر کیسا صبح شبِ ولادت

مکہ میں شام کے گھر روشن ہیں ہر نگہ پر

چمکا ہے وہ اُجالا صبح شب ولادت

شوکت کا دبدبہ ہے ہیبت کا زلزلہ ہے

شق ہے مکانِ کِسریٰ صبح شبِ ولادت

خطبہ ہوا زمیں پر سکہ پڑا فلک پر

پایا جہاں نے آقا صبح شبِ ولادت

آئی نئی حکومت سکہ نیا چلے گا

عالم نے رنگ بدلا صبح شبِ ولادت

رُوح الامیں نے گاڑا کعبہ کی چھت پہ جھنڈا

تا عرش اُڑا پھریرا صبح شبِ ولادت

دونوں جہاں کی شاہی ناکتخدا دُولہن تھی

پایا دُولہن نے دُولہا صبح شبِ ولادت

پڑھتے ہیں عرش والے سنتے ہیں فرش والے

سلطانِ نو کا خطبہ صبح شبِ ولادت

چاندی ہے مفلسوں کی باندی ہے خوش نصیبی

آیا کرم کا داتا صبح شبِ ولادت

عالم کے دفتروں میں ترمیم ہو رہی ہے

بدلا ہے رنگِ دنیا صبح شبِ ولادت

ظلمت کے سب رجسٹر حرفِ غلط ہوئے ہیں

کاٹا گیا سیاہا صبح شبِ ولادت

ملکِ ازل کا سرور سب سروروں کا اَفسر

تختِ اَبد پہ بیٹھا صبح شبِ ولادت

سُوکھا پڑا ہے ساوا دریا ہوا سماوا

ہے خشک و تر پہ قبضہ صبح شبِ ولادت

نوابیاں سدھاریں جاری ہیں شاہی آئیں

کچا ہوا علاقہ صبح شبِ ولادت

دن پھر گئے ہمارے سوتے نصیب جاگے

خورشید ہی وہ چمکا صبح شبِ ولادت

قربان اے دوشنبے تجھ پر ہزار جمعے

وہ فضل تو نے پایا صبح شبِ ولادت

پیارے ربیع الاوّل تیری جھلک کے صدقے

چمکا دیا نصیبہ صبح شبِ ولادت

وہ مہر مہر فرما وہ ماہِ عالم آرا

تاروں کی چھاؤں آیا صبح شبِ ولادت

نوشہ بناؤ اُن کو دولھا بناؤ اُن کو

ہے عرش تک یہ شُہرہ صبح شب ولادت

شادی رچی ہوئی ہے بجتے ہیں شادیانے

دُولھا بنا وہ دُولھا صبح شبِ ولادت

محروم رہ نہ جائیں دن رات برکتوں سے

اس واسطے وہ آیا صبح شبِ ولادت

عرشِ عظیم جھومے کعبہ زمین چُومے

آتا ہے عرش والا صبح شبِ ولادت

ہشیار ہوں بھکاری نزدیک ہے سواری

یہ کہہ رہا ہے ڈنکا صبح شبِ ولادت

بندوں کو عیشِ شادی اَعدا کو نامرادی

کڑکیت کا ہے کڑکا صبح شبِ ولادت

تارے ڈھلک کر آئے کاسے کٹورے لائے

یعنی بٹے گا صدقہ صبح شبِ ولادت

آمد کا شور سن کر گھر آئے ہیں بھکاری

گھیرے کھڑے ہیں رستہ صبح شبِ ولادت

ہر جان منتظر ہے ہر دیدہ رہ نگر ہے

غوغا ہے مرحبا کا صبح شبِ ولادت

جبریل سر جھکائے قدسی پرّے جمائے

ہیں سرو قد ستادہ صبح شبِ ولادت

کس داب کس ادب سے کس جوش کس طرب سے

پڑھتے ہے اُن کا کلمہ صبح شبِ ولادت

ہاں دین والو اُٹھو تعظیم والوں اُٹھو

آیا تمہارا مولیٰ صبح شبِ ولادت

اُٹھو حضور آئے شاہِ غیور آئے

سلطانِ دین و دنیا صبح شبِ ولادت

اُٹھو ملک اُٹھے ہیں عرش و فلک اُٹھے ہیں

کرتے ہیں اُن کو سجدہ صبح شبِ ولادت

آؤ فقیرو آؤ منہ مانگی آس پاؤ

بابِ کریم ہے وا صبح شبِ ولادت

سُوکھی زبانوں آؤ اے جلتی جانوں آؤ

لہرا رہا ہے دریا صبح شبِ ولادت

مُرجھائی کلیوں آؤ کمھلائے پھولوں آؤ

برسا کرم کا جھالا صبح شبِ ولادت

تیری چمک دمک سے عالم جھلک رہا ہے

میرے بھی بخت چمکا صبح شب ولادت

تاریک رات غم کی لائی بلا سِتم کی

صدقہ تجلّیوں کا صبح شبِ ولادت

لایا ہے شِیر تیرا نورِ خدا کا جلوہ

دل کر دے دودھ دھویا صبح شبِ ولادت

بانٹا ہے دو جہاں میں تو نے ضیا کا باڑا

دے دے حسنؔ کا حصہ صبح شبِ ولادت

٭٭٭

 

ذکر شہادت

باغ جنت کے ہیں بہرِ مدح خوانِ اہلِ بیت

تم کو مژدہ نار کا اے دشمنانِ اہلِ بیت

کس زباں سے ہو بیانِ عز و شانِ اہلِ بیت

مدح گوئے مصطفیٰ ہے مدح خوانِ اہلِ بیت

اُن کی پاکی کا خدائے پاک کرتا ہے بیاں

آیۂ تطہیر سے ظاہر ہے شانِ اہلِ بیت

مصطفیٰ عزت بڑھانے کے لیے تعظیم دیں

ہے بلند اقبال تیرا دُودمانِ اہلِ بیت

اُن کے گھر میں بے اجازت جبرئیل آتے نہیں

قدر والے جانتے ہیں قدر و شانِ اہلِ بیت

مصطفیٰ بائع خریدار اُس کا اﷲ اشتری

خوب چاندی کر رہا ہے کاروانِ اہلِ بیت

رزم کا میداں بنا ہے جلوہ گاہِ حسن وعشق

کربلا میں ہو رہا ہے امتحانِ اہلِ بیت

پھول زخموں کے کھلائے ہیں ہوائے دوست نے

خون سے سینچا گیا ہے گلستانِ اہلِ بیت

حوریں کرتی ہے عروسانِ شہادت کا سنگار

خوبرو دُولھا بنا ہے ہر جوانِ اہلِ بیت

ہو گئی تحقیق عیدِ دید آبِ تیغ سے

اپنے روزے کھولتے ہیں صائمانِ اہلِ بیت

جمعہ کا دن ہے کتابیں زیست کی طے کر کے آج

کھیلتے ہیں جان پر شہزادگانِ اہلِ بیت

اے شبابِ فصلِ گل یہ چل گئی کیسی ہوا

کٹ رہا ہے لہلہاتا بوستانِ اہلِ بیت

کس شقی کی ہے حکومت ہائے کیا اندھیر ہے

دن دہاڑے لُٹ رہا ہے کاروانِ اہلِ بیت

خشک ہو جا خاک ہو کر خاک میں مل جا فرات

خاک تجھ پر دیکھ تو سُوکھی زبانِ اہلِ بیت

خاک پر عباس و عثمانِ علم بردار ہیں

بے کسی اب کون اُٹھائے گا نشانِ اہلِ بیت

تیری قدرت جانور تک آب سے سیراب ہوں

پیاس کی شدت میں تڑپے بے زبانِ اہلِ بیت

قافلہ سالار منزل کو چلے ہیں سونپ کر

وارثِ بے وارثاں کو کاروانِ اہلِ بیت

فاطمہ کے لاڈلے کا آخری دیدار ہے

حشر کا ہنگامہ برپا ہے میانِ اہلِ بیت

وقتِ رُخصت کہہ رہا ہے خاک میں ملتا سہاگ

لو سلامِ آخری اے بیوگانِ اہلِ بیت

اَبر فوجِ دشمناں میں اے فلک یوں ڈوب جائے

فاطمہ کا چاند مہر آسمانِ اہلِ بیت

کس مزے کی لذتیں ہیں آبِ تیغِ یار میں

خاک و خوں میں لوٹتے ہیں تشنگانِ اہلِ بیت

باغِ جنت چھوڑ کر آئے ہیں محبوبِ خدا

اے زہے قسمت تمہاری کشتگانِ اہلِ بیت

حوریں بے پردہ نکل آئی ہیں سر کھولے ہوئے

آج کیسا حشر ہے برپا میانِ اہلِ بیت

کوئی کیوں پوچھے کسی کو کیا غرض اے بے کسی

آج کیسا ہے مریضِ نیم جانِ اہلِ بیت

گھر لُٹانا جان دینا کوئی تجھ سے سیکھ جائے

جانِ عالم ہو فدا اے خاندانِ اہلِ بیت

سر شہیدانِ محبت کے ہیں نیزوں پر بلند

اَور اونچی کی خدا نے قدر و شانِ اہلِ بیت

دولتِ دیدار پائی پاک جانیں بیچ کر

کربلا میں خوب ہی چمکی دوکانِ اہلِ بیت

زخم کھانے کو تو آبِ تیغ پینے کو دیا

خوب دعوت کی بلا کر دشمنانِ اہلِ بیت

اپنا سودا بیچ کر بازار سونا کر گئے

کون سی بستی بسائی تاجرانِ اہلِ بیت

اہلِ بیتِ پاک سے گستاخیاں بے باکیاں

لَعْنَۃُ اﷲِ عَلَیْکُمْ دشمنانِ اہلِ بیت

بے ادب گستاخ فرقہ کو سنا دے اے حسنؔ

یوں کہا کرتے ہیں سُنّی داستانِ اہلِ بیت

٭٭٭

 

 (ردیف ثائے مثلثہ)

جاں بلب ہوں آ مری جاں الغیاث

ہوتے ہیں کچھ اور ساماں الغیاث

درد مندوں کو دوا ملتی نہیں

اے دوائے درد منداں الغیاث

جاں سے جاتے ہیں بے چارے غریب

چارہ فرمائے غریباں الغیاث

حَد سے گزریں درد کی بے دردیاں

درد سے بے حد ہوں نالاں الغیاث

بے قراری چین لیتی ہی نہیں

اَے قرارِ بے قراراں الغیاث

حسرتیں دل میں بہت بے چین ہیں

گھر ہوا جاتا ہے زنداں الغیاث

خاک ہے پامال میری کُو بہ کُو

اے ہوائے کوئے جاناں الغیاث

المدد اے زُلفِ سرور المدد

ہوں بلاؤں میں پریشاں الغیاث

دلِ کی اُلجھن دُور کر گیسوئے پاک

اے کرم کے سنبلستان الغیاث

اے سرِ پُر نور اے سرِ خدا

ہوں سراسیمہ پریشاں الغیاث

غمزدوں کی شام ہے تاریک رات

اے جبیں اے ماہِ تاباں الغیاث

اَبروئے شہ کاٹ دے زنجیرِ غم

تیرے صدقے تیرے قرباں الغیاث

دل کے ہر پہلو میں غم کی پھانس ہے

میں فدا مژگانِ جاناں الغیاث

چشمِ رحمت آ گیا آنکھوں میں دم

دیکھ حالِ خستہ حالاں الغیاث

مردمک اے مہر نورِ ذاتِ بحت

ہیں سیہ بختی کے ساماں الغیاث

تیر غم کے دل میں چھد کر رہ گئے

اے نگاہِ مہر جاناں الغیاث

اے کرم کی کان اے گوشِ حضور

سُن لے فریادِ غریباں الغیاث

عَارضِ رنگیں خزاں کو دُور کر

اے جناں آرا گلستاں الغیاث

بینی پُر نور حالِ ما بہ بیں

ناک میں دم ہے مری جاں الغیاث

جاں بلب ہوں جاں بلب پر رحم کر

اے لب اے عیسائے دوراں الغیاث

اے تبسم غنچہ ہائے دل کی جاں

کھل چلیں مُرجھائی کلیاں الغیاث

اے دہن اے چشمۂ آبِ حیات

مر مٹے دے آبِ حیواں الغیاث

دُرِّ مقصد کے لیے ہوں غرقِ غم

گوہرِ شادابِ دنداں الغیاث

اے زبانِ پاک کچھ کہہ دے کہ ہو

رد بلائے بے زباناں الغیاث

اے کلام اے راحتِ جانِ کلیم

کلمہ گو ہے غم سے نالاں الغیاث

کامِ شہ اے کام بخشِ کامِ دل

ہوں میں ناکامی سے گریاں الغیاث

چاہِ غم میں ہوں گرفتارِ اَلم

چاہِ یوسف اے زنخداں الغیاث

ریشِ اطہر سنبلِ گلزارِ خلد

ریشِ غم سے ہوں پریشاں الغیاث

اے گلو ئے صبح جنت شمع نور

تیِرہ ہے شامِ غریباں الغیاث

غم سے ہوں ہمدوش اے دوش المدد

دوش پر ہے بارِ عصیاں الغیاث

اے بغل اے صبحِ کافورِ بہشت

مہر بر شام غریباں الغیاث

غنچۂ گل عطر دانِ عطر خلد

بوئے غم سے ہوں پریشاں الغیاث

بازوئے شہ دست گیری کر مری

اے توانِ ناتواناں الغیاث

دستِ اقدس اے مرے نیسانِ جود

غم کے ہاتھوں سے ہوں گریاں الغیاث

اے کفِ دست اے یدِ بیضا کی جاں

تیرہ دل ہوں نور افشاں الغیاث

ہم سیہ ناموں کو اے تحریر دست

تو ہو دستاویز غفراں الغیاث

پھر بہائیں اُنگلیاں اَنہارِ فیض

پیاس سے ہونٹوں پہ ہے جاں الغیاث

بہرِ حق اے ناخن اے عقدہ کشا

مشکلیں ہو جائیں آساں الغیاث

سینۂ پُر نور صدقہ نور کا

بے ضیا سینہ ہے ویراں الغیاث

قلبِ انور تجھ کو سب کی فکر ہے

کر دے بے فکری کے ساماں الغیاث

اے جگر تجھ کو غلاموں کا ہے درد

میرے دُکھ کا بھی ہو درماں الغیاث

اے شکم بھر پیٹ صدقہ نور کا

پیٹ بھر اے کانِ احساں الغیاث

پشتِ والا میری پُشتی پر ہو تو

رُوبرو ہیں غم کے ساماں الغیاث

تیرے صدقے اے کمر بستہ کمر

ٹوٹی کمروں کا ہو درماں الغیاث

مُہر پشتِ پاک میں تجھ پر فدا

دے دے آزادی کا فرماں الغیاث

پائے انور اے سَرفرازی کی جاں

میں شکستہ پا ہوں جاناں الغیاث

نقشِ پا اے نو گل گلزارِ خلد

ہو یہ اُجڑا بَن گلستاں الغیاث

اے سراپا اے سراپا لطفِ حق

ہوں سراپا جرم و عصیاں الغیاث

اے عمامہ دَورِ گردش دُور کر

گرِد پھر پھر کر ہوں قرباں الغیاث

نیچے نیچے دامنوں والی عبا

خوار ہے خاکِ غریباں الغیاث

پڑ گئی شامِ اَلم میرے گلے

جلوۂ صبحِ گریباں الغیاث

کھول مشکل کی گرہ بندِ قبا

بندِ غم میں ہوں پریشاں الغیاث

آستیں نقدِ عطا در آستیں

بے نوا ہیں اَشک ریزاں الغیاث

چاک اے چاکِ جگر کے بخیہ کر

دل ہے غم سے چاک جاناں الغیاث

عیب کھلتے ہیں گدا کے روزِ حشر

دامنِ سلطانِ خوباں الغیاث

دور دامن دور دورہ ہے تیرا

دُور کر دُوری کا دوراں الغیاث

ہوں فسردہ خاطر اے گلگوں قبا

دل کھلا دیں تیری کلیاں الغیاث

دل ہے ٹکڑے ٹکڑے پیوندِ لباس

اے پناہِ خستہ حالاں الغیاث

ہے پھٹے حالوں مرا رختِ عمل

اے لباسِ پاک جاناں الغیاث

نعل شہ عزت ہے میری تیرے ہاتھ

اے وقارِ تاجِ شاہاں الغیاث

اے شراکِ نعلِ پاکِ مصطفیٰ

زیرِ نشتر ہے رگِ جاں الغیاث

شانۂ شہ دل ہے غم سے چاک چاک

اے انیسِ سینہ چاکاں الغیاث

سُرمہ اے چشم و چراغِ کوہِ طور

ہے سیہ شام غریباں الغیاث

ٹوٹتا ہے دم میں ڈورا سانس کا

ریشۂ مسواکِ جاناں الغیاث

آئینہ اے منزلِ انوارِ قدس

تیرہ بختی سے ہوں حیراں الغیاث

سخت دشمن ہے حسنؔ کی تاک میں

المدد محبوبِ یزداں الغیاث

٭٭٭

 

اِستغاثہ بجنابِ غوثیت

پڑے مجھ پر نہ کچھ اُفتاد یا غوث

مدد پر ہو تیری اِمداد یا غوث

اُڑے تیری طرف بعد فنا خاک

نہ ہو مٹی مری برباد یا غوث

مرے دل میں بسیں جلوے تمہارے

یہ ویرانہ بنے بغداد یا غوث

نہ بھولوں بھول کر بھی یاد تیری

نہ یاد آئے کسی کی یاد یا غوث

مُرِیْدِیْ لَا تَخَفْ فرماتے آؤ

بَلاؤں میں ہے یہ ناشاد یا غوث

گلے تک آ گیا سیلاب غم کا

چلا میں آئیے فریاد یا غوث

نشیمن سے اُڑا کر بھی نہ چھوڑا

ابھی ہے گھات میں صیاد یا غوث

خمیدہ سر گرفتارِ قضا ہے

کشیدہ خنجر جلاّد یا غوث

اندھیری رات جنگل میں اکیلا

مدد کا وقت ہے فریاد یا غوث

کھلا دو غنچۂ خاطر کہ تم ہو

بہارِ گلشنِ ایجاد یا غوث

مرے غم کی کہانی آپ سن لیں

کہوں میں کس سے یہ رُوداد یا غوث

رہوں آزادِ قیدِ عشق کب تک

کرو اِس قید سے آزاد یا غوث

کرو گے کب تک اچھا مجھ برے کو

مرے حق میں ہے کیا اِرشاد یا غوث

غمِ دنیا غمِ قبر و غمِ حشر

خدارا کر دو مجھ کو شاد یا غوث

حسنؔ منگتا ہے دے دے بھیک داتا

رہے یہ راج پاٹ آباد یا غوث

٭٭٭

 

(ردیف جیم تازی)

کیا مژدۂ جاں بخش سنائے گا قلم آج

کاغذ پہ جو سو ناز سے رکھتا ہے قدم آج

آمد ہے یہ کس بادشہِ عرش مکاں کی

آتے ہیں فلک سے جو حسینانِ اِرم آج

کس گل کی ہے آمد کہ خزاں دیدہ چمن میں

آتا ہے نظر نقشۂ گلزارِ اِرم آج

نذرانہ میں سر دینے کو حاضر ہے زمانہ

اُس بزم میں کس شاہ کے آتے ہیں قدم آج

بادل سے جو رحمت کے سرِ شام گھرے ہیں

برسے گا مگر صبح کو بارانِ کرم آج

کس چاند کی پھیلی ہے ضیا کیا یہ سماں ہے

ہر بام پہ ہے جلوہ نما نورِ قدم آج

کھلتا نہیں کس جانِ مسیحا کی ہے آمد

بت بولتے ہیں قالبِ بے جاں میں ہے دَم آج

بُت خانوں میں وہ قہر کا کہرام پڑا ہے

مِل مِل کے گلے روتے ہیں کفار و صنم آج

کعبہ کا ہے نغمہ کہ ہوا لوث سے میں پاک

بُت نکلے کہ آئے مرے مالک کے قدم آج

تسلیم میں سر وجد میں دل منتظر آنکھیں

کس پھول کے مشتاق ہیں مُرغانِ حرم آج

اے کفر جھکا سر وہ شہِ بُت شکن آیا

گردن ہے تری دم میں تہِ تیغِ دو دم آج

کچھ رُعبِ شہنشاہ ہے کچھ ولولۂ شوق

ہے طرفہ کشاکش میں دلِ بیت و حرم آج

پُر نور جو ظلمت کدۂ دَہر ہوا ہے

روشن ہے کہ آتا ہے وہ مہتابِ کرم آج

ظاہر ہے کہ سلطانِ دو عالم کی ہے آمد

کعبہ پہ ہوا نصب جو یہ سبز علم آج

گر عالمِ ہستی میں وہ مہ جلوہ فگن ہے

تو سایہ کے جلوہ پہ فدا اہلِ عدم آج

ہاں مفلسو خوش ہو کہ ملا دامنِ دولت

تر دامنو مژدہ وہ اُٹھا ابرِ کرم آج

تعظیم کو اٹھے ہیں مَلک تم بھی کھڑے ہو

پیدا ہوئے سُلطانِ عرب شاہِ عجم آج

کل نارِ جہنم سے حسنؔ امن و اماں ہو

اُس مالکِ فردوس پہ صدقے ہوں جو ہم آج

٭٭٭

 

 (ردیف حائے حطّی)

دشتِ مدینہ کی ہے عجب پُر بہار صبح

ہر ذرّہ کی چمک سے عیاں ہیں ہزار صبح

منہ دھو کے جوئے شِیر میں آئے ہزار صبح

شامِ حرم کی پائے نہ ہر گز بہار صبح

ﷲ اپنے جلوۂ عارض کی بھیک دے

کر دے سیاہ بخت کی شب ہائے تار صبح

روشن ہے اُن کے جَلوۂ رنگیں کی تابشیں

بلبل ہیں جمع ایک چمن میں ہزار صبح

رکھتی ہے شامِ طیبہ کچھ ایسی تجلیاں

سو جان سے ہو جس کی اَدا پر نثار صبح

نسبت نہیں سحر کو گریبانِ پاک سے

جوشِ فروغ سے ہے یہاں تار تار صبح

آتے ہیں پاسبانِ درِ شہ فلک سے روز

ستر ہزار شام تو ستر ہزار صبح

اے ذرّۂ مدینہ خدارا نگاہِ مہر

تڑکے سے دیکھتی ہے ترا انتظار صبح

زُلفِ حضور و عارضِ پُر نور پر نثار

کیا نور بار شام ہے کیا جلوہ بار صبح

نورِ ولادت مہِ بطحا کا فیض ہے

رہتی ہے جنتوں میں جو لیل و نہار صبح

ہر ذرّۂ حَرم سے نمایاں ہزار مہر

ہر مہر سے طلوع کناں بے شمار صبح

گیسو کے بعد یاد ہو رُخسارِ پاک کی

ہو مُشک بار شام کی کافور بار صبح

کیا نورِ دل کو نجدیِ تیرہ دروں سے کام

تا حشر شام سے نہ ملے زینہار صبح

حُسنِ شباب ذرّۂ طیبہ کچھ اور ہے

کیا کورِ باطن آئینہ کیا شیر خوار صبح

بس چل سکے تو شام سے پہلے سفر کرے

طیبہ کی حاضری کے لیے بے قرار صبح

مایوس کیوں ہو خاک نشیں حُسنِ یار سے

آخر ضیائے ذرّہ کی ہے ذمَّہ دار صبح

کیا دشتِ پاکِ طیبہ سے آئی ہے اے حسنؔ

لائی جو اپنی جیب میں نقدِ بہار صبح

٭٭٭

جو نور بار ہوا آفتاب حسن ملیح

جو نور بار ہوا آفتابِ حسنِ ملیح

ہوئے زمین و زماں کامیابِ حُسنِ ملیح

زوال مہر کو ہو ماہ کا جمال گھٹے

مگر ہے اَوج ابد پر شبابِ حُسنِ ملیح

زمیں کے پھول گریباں دریدۂ غمِ عشق

فلک پہ بَدر دل افگار تابِ حُسنِ ملیح

دلوں کی جان ہے لطفِ صباحتِ یوسف

مگر ہوا ہے نہ ہو گا جوابِ حُسنِ ملیح

الٰہی موت سے یوں آئے مجھ کو میٹھی نیند

رہے خیال کی راحت ہو خوابِ حُسنِ ملیح

جمال والوں میں ہے شورِ عشق اور ابھی

ہزار پردوں میں ہے آب و تابِ حُسنِ ملیح

زمینِ شور بنے تختہ گل و سنبل

عرق فشاں ہو اگر آب و تابِ حُسنِ ملیح

نثار دولتِ بیدار و طالعِ ازواج

نہ دیکھی چشمِ زلیخا نے خوابِ حُسنِ ملیح

تجلیوں نے نمک بھر دیا ہے آنکھوں میں

ملاحت آپ ہوئی ہے حجابِ حُسنِ ملیح

نمک کا خاصہ ہے اپنے کیف پر لانا

ہر ایک شے نہ ہو کیوں بہرہ یابِ حُسنِ ملیح

عسل ہو آب بنیں کوزہائے قند حباب

جو بحرِ شور میں ہو عکس آبِ حُسنِ ملیح

دل صباحتِ یوسف میں سوزِ عشقِ حضور

نبات و قند ہوئے ہیں کبابِ حُسنِ ملیح

صبیح ہوں کہ صباحتِ جمیل ہوں کہ جمال

غرض سبھی ہیں نمک خوار باب حُسنِ ملیح

کھلے جب آنکھ نظر آئے وہ ملاحت پاک

بیاضِ صبح ہو یا رب کتابِ حُسنِ ملیح

حیاتِ بے مزہ ہو بخت تیرہ میدارم

بتاب اے مہِ گردوں جنابِ حُسنِ ملیح

حسنؔ کی پیاس بُجھا کر نصیب چمکا دے

ترے نثار میں اے آب و تابِ حُسنِ ملیح

٭٭٭

 

(ردیف خائے معجمہ)

سحابِ رحمتِ باری ہے بارھویں تاریخ

کرم کا چشمۂ جاری ہے بارھویں تاریخ

ہمیں تو جان سے پیاری ہے بارھویں تاریخ

عدو کے دل کو کٹاری ہے بارھویں تاریخ

اِسی نے موسمِ گل کو کیا ہے موسمِ گل

بہارِ فصلِ بہاری ہے بارھویں تاریخ

بنی ہے سُرمۂ چشمِ بصیرت و ایماں

اُٹھی جو گردِ سواری ہے بارھویں تاریخ

ہزار عید ہوں ایک ایک لحظہ پر قرباں

خوشی دلوں پہ وہ طاری ہے بارھویں تاریخ

فلک پہ عرش بریں کا گمان ہوتا ہے

زمینِ خلد کی کیاری ہے بارھویں تاریخ

تمام ہو گئی میلادِ انبیا کی خوشی

ہمیشہ اب تری باری ہے بارھویں تاریخ

دِلوں کے میل دھُلے گل کھلے ُسرور ملے

عجیب چشمہ جاری ہے بارھویں تاریخ

چڑھی ہے اَوج پہ تقدیر خاکساروں کی

خدا نے جب سے اُتاری ہے بارھویں تاریخ

خدا کے فضل سے ایمان میں ہیں ہم پورے

کہ اپنی رُوح میں ساری ہے بارھویں تاریخ

ولادتِ شہِ دیں ہر خوشی کی باعث ہے

ہزار عید سے بھاری ہے بارھویں تاریخ

ہمیشہ تو نے غلاموں کے دل کیے ٹھنڈے

جلے جو تجھ سے وہ ناری ہے بارھویں تاریخ

خوشی ہے اہلِ سنن میں مگر عدو کے یہاں

فغان و شیون و زاری ہے بارھویں تاریخ

جدھر گیا ، سنی آوازِ یَا رَسُوْلَ اﷲ

ہر اِک جگہ اُسے خواری ہے بارھویں تاریخ

عدو ولادتِ شیطاں کے دن منائے خوشی

کہ عید عید ہماری ہے بارھویں تاریخ

حسنؔ ولادتِ سرکار سے ہوا روشن

مرے خدا کو بھی پیاری ہے بارھویں تاریخ

٭٭٭

 

 (ردیف دالِ مہملہ)

ذاتِ والا پہ بار بار درود

بار بار اور بے شمار درود

رُوئے اَنور پہ نور بار سلام

زُلفِ اطہر پہ مشکبار درود

اُس مہک پر شمیم بیز سلام

اُس چمک پہ فروغ بار درود

اُن کے ہر جلوہ پر ہزار سلام

اُن کے ہر لمعہ پر ہزار درود

اُن کی طلعت پر جلوہ ریز سلام

اُن کی نکہت پہ عطر بار درود

جس کی خوشبو بہارِ خلد بسائے

ہے وہ محبوبِ گلعذار درود

سر سے پا تک کرور بار سلام

اور سراپا پہ بے شمار درود

دل کے ہمراہ ہوں سلام فدا

جان کے ساتھ ہو نثار درود

چارۂ جان درد مند سلام

مرہمِ سینۂ فگار درود

بے عدد اور بے عدد تسلیم

بے شمار اور بے شمار درود

بیٹھتے اُٹھتے جاگتے سوتے

ہو الہٰی مرا شعار درود

شہر یارِ رُسل کی نذر کروں

سب درودوں کی تاجدار درود

گور بیکس کو شمع سے کیا کام

ہو چراغِ سرِِ مزار درود

قبر میں خوب کام آتی ہے

بیکسوں کی ہے یارِ غار درود

اُنھیں کس کے دُرود کی پروا

بھیجے جب اُن کا کردگار درود

ہے کرم ہی کرم کہ سنتے ہیں

آپ خوش ہو کے بار بار درود

جان نکلے تو اِس طرح نکلے

تجھ پہ اے غمزدوں کے یار درود

دل میں جلوے بسے ہوئے تیرے

لب سے جاری ہو بار بار درود

اے حسنؔ خارِ غم کو دل سے نکال

غمزدوں کی ہے غمگسار درود

٭٭٭

 

رنگ چمن پسند نہ پھولوں کی بُو پسند

صحرائے طیبہ ہے دلِ بلبل کو تُو پسند

اپنا عزیز وہ ہے جسے تُو عزیز ہے

ہم کو ہے وہ پسند جسے آئے تُو پسند

مایوس ہو کے سب سے میں آیا ہوں تیرے پاس

اے جان کر لے ٹوٹے ہوئے دل کو تو پسند

ہیں خانہ زاد بندۂ احساں تو کیا عجب

تیری وہ خُو ہے کرتے ہیں جس کو عدُو پسند

کیوں کر نہ چاہیں تیری گلی میں ہوں مٹ کے خاک

دنیا میں آج کس کو نہیں آبرو پسند

ہے خاکسار پر کرمِ خاص کی نظر

عاجز نواز ہے تیری خُو اے خوبرو پسند

قُلْ کہہ کر اپنی بات بھی لب سے ترے سنی

اﷲ کو ہے اِتنی تری گفتگو پسند

حُور و فرشتہ جن و بشر سب نثار ہیں

ہے دو جہاں میں قبضہ کیے چار سُو پسند

اُن کے گناہگار کی اُمیدِ عفو کو

پہلے کرے گی آیتِ لَا تَقْنَطُوْا پسند

طیبہ میں سر جھکاتے ہیں خاکِ نیاز پر

کونین کے بڑے سے بڑے آبرو پسند

ہے خواہشِ وصالِ درِ یار اے حسنؔ

آئے نہ کیوں اَثر کو مری آرزو پسند

٭٭٭

 

 (ردیف ذال معجمہ)

ہو اگر مدحِ کفِ پا سے منور کاغذ

عارضِ حور کی زینت ہو سراسر کاغذ

صفتِ خارِ مدینہ میں کروں گل کاری

دفترِ گل کا عنادِل سے منگا کر کاغذ

عارضِ پاک کی تعریف ہو جس پرچے میں

سو سیہ نامہ اُجالے وہ منور کاغذ

شامِ طیبہ کی تجلّی کا کچھ اَحوال لکھوں

دے بیاضِ سحر اک ایسا منور کاغذ

یادِ محبوب میں کاغذ سے تو دل کم نہ رہے

کہ جدا نقش سے ہوتا نہیں دَم بھر کاغذ

ورقِ مہر اُسے خط غلامی لکھ دے

ہو جو وصفِ رُخِ پُر نور سے انور کاغذ

تیرے بندے ہیں طلبگار تری رحمت کے

سن گناہوں کے نہ اے دَاورِ محشر کاغذ

لَبِ جاں بخش کی تعریف اگر ہو تجھ میں

ہو مجھے تارِ نفس ہر خَطِ مسطر کاغذ

مدح رُخسار کے پھولوں میں بسا لوں جو حسنؔ

حشر میں ہو مرے نامہ کا معطر کاغذ

٭٭٭

 

(ردیف رائے مہملہ)

اگر چمکا مقدر خاک پائے رہرواں ہو کر

چلیں گے بیٹھتے اُٹھتے غبارِ کارواں ہو کر

شبِ معراج وہ دم بھر میں پلٹے لامکاں ہو کر

بَہارِ ہشت جنت دیکھ کر ہفت آسماں ہو کر

چمن کی سیر سے جلتا ہے جی طیبہ کی فرقت میں

مجھے گلزار کا سبزہ رُلاتا ہے دھُواں ہو کر

تصور اُس لبِ جاں بخش کا کس شان سے آیا

دلوں کا چین ہو کر جان کا آرامِ جاں ہو کر

کریں تعظیم میری سنگِ اسود کی طرح مومن

تمہارے دَر پہ رہ جاؤں جو سنگِ آستاں ہو کر

دکھا دے یا خدا گلزارِ طیبہ کا سماں مجھ کو

پھروں کب تک پریشاں بلبلِ بے آشیاں ہو کر

ہوئے یُمن قدم سے فرش و عرش و لامکاں زندہ

خلاصہ یہ کہ سرکار آئے ہیں جانِ جہاں ہو کر

ترے دستِ عطا نے دولتیں دیں دل کیے ٹھنڈے

کہیں گوہر فشاں ہو کر کہیں آبِ رواں ہو کر

فدا ہو جائے اُمت اِس حمایت اِس محبت پر

ہزاروں غم لیے ہیں ایک دل پُر شادماں ہو کر

جو رکھتے ہیں سلاطیں شاہیِ جاوید کی خواہش

نشاں قائم کریں اُن کی گلی میں بے نشاں ہو کر

وہ جس رَہ سے گزرتے ہیں بسی رہتی ہے مدت تک

نصیب اُس گھرکے جس گھر میں وہ ٹھہریں میہماں ہو کر

حسنؔ کیوں پاؤں توڑے بیٹھے ہو طیبہ کا رستہ لو

زمینِ ہند سرگرداں رکھے گی آسماں ہو کر

٭٭٭

 

مرحبا عزت و کمالِ حضور

ہے جلالِ خدا جلالِ حضور

اُن کے قدموں کی یاد میں مریے

کیجیے دل کو پائمالِ حضور

دشتِ ایمن ہے سینۂ مؤمن

دل میں ہے جلوۂ خیالِ حضور

آفرینش کو ناز ہے جس پر

ہے وہ انداز بے مثالِ حضور

مَاہ کی جان مہر کا ایماں

جلوۂ حُسنِ بے زوالِ حضور

حُسنِ یوسف کرے زلیخائی

خواب میں دیکھ کر جمالِ حضور

وقفِ انجاح مقصدِ خدام

ہر شب و روز و ماہ و سالِ حضور

سکہ رائج ہے حکم جاری ہے

دونوں عالم ہیں مُلک و مالِ حضور

تابِ دیدار ہو کسے جو نہ ہو

پردۂ غیب میں جمالِ حضور

جو نہ آئی نظر نہ آئے نظر

ہر نظر میں ہے وہ مثالِ حضور

اُنھیں نقصان دے نہیں سکتا

دشمن اپنا ہے بد سگالِ حضور

دُرّۃ التاج فرقِ شاہی ہے

ذرّۂ شوکتِ نعالِ حضور

حال سے کشفِ رازِ قال نہ ہو

قال سے کیا عیاں ہو حالِ حضور

منزلِ رُشد کے نجوم اصحاب

کشتیِ خیر و امنِ آلِ حضور

ہے مسِ قلب کے لیے اکسیر

اے حسنؔ خاکِ پائمالِ حضور

٭٭٭

 

سیر گلشن کون دیکھے دشتِ طیبہ چھوڑ کر

سوئے جنت کون جائے در تمہارا چھوڑ کر

سرگزشتِ غم کہوں کس سے ترے ہوتے ہوئے

کس کے دَر پر جاؤں تیرا آستانہ چھوڑ کر

بے لقائے یار اُن کو چین آ جاتا اگر

بار بار آتے نہ یوں جبریل سدرہ چھوڑ کر

کون کہتا ہے دلِ بے مدعا ہے خوب چیز

میں تو کوڑی کو نہ لوں اُن کی تمنا چھوڑ کر

مر ہی جاؤں میں اگر اُس دَر سے جاؤں دو قدم

کیا بچے بیمارِ غم قربِ مسیحا چھوڑ کر

کس تمنا پر جئیں یا رب اَسیرانِ قفس

آ چکی بادِ صبا باغِ مدینہ چھوڑ کر

بخشوانا مجھ سے عاصی کا رَوا ہو گا کسے

کس کے دامن میں چھپوں دامن تمہارا چھوڑ کر

خلد کیسا نفسِ سرکش جاؤں گا طیبہ کو میں

بد چلن ہٹ کر کھڑا ہو مجھ سے رستہ چھوڑ کر

ایسے جلوے پر کروں میں لاکھ حوروں کو نثار

کیا غرض کیوں جاؤں جنت کو مدینہ چھوڑ کر

حشر میں ایک ایک کا منہ تکتے پھرتے ہیں عدو

آفتوں میں پھنس گئے اُن کا سہارا چھوڑ کر

مر کے جیتے ہیں جو اُن کے دَر پہ جاتے ہیں حسنؔ

جی کہ مرتے ہیں جو آتے ہیں مدینہ چھوڑ کر

٭٭٭

 

 (ردیف زائے معجمہ)

جتنا مرے خدا کو ہے میرا نبی عزیز

کونین میں کسی کو نہ ہو گا کوئی عزیز

خاکِ مدینہ پر مجھے اﷲ موت دے

وہ مردہ دل ہے جس کو نہ ہو زندگی عزیز

کیوں جائیں ہم کہیں کہ غنی تم نے کر دیا

اب تو یہ گھر پسند ، یہ دَر ، یہ گلی عزیز

جو کچھ تری رِضا ہے خدا کی وہی خوشی

جو کچھ تری خوشی ہے خدا کو وہی عزیز

گو ہم نمک حرام نکمّے غلام ہیں

قربان پھر بھی رکھتی ہے رحمت تری عزیز

شانِ کرم کو اچھے بُرے سے غرض نہیں

اُس کو سبھی پسند ہیں اُس کو سبھی عزیز

منگتا کا ہاتھ اُٹھا تو مدینہ ہی کی طرف

تیرا ہی دَر پسند، تری ہی گلی عزیز

اُس دَر کی خاک پر مجھے مرنا پسند ہے

تختِ شہی پہ کس کو نہیں زندگی عزیز

کونین دے دیے ہیں ترے اِختیار میں

اﷲ کو بھی کتنی ہے خاطر تری عزیز

محشر میں دو جہاں کو خدا کی خوشی کی چاہ

میرے حضور کی ہے خدا کو خوشی عزیز

قرآن کھا رہا ہے اِسی خاک کی قسم

ہم کون ہیں خدا کو ہے تیری گلی عزیز

طیبہ کی خاک ہو کہ حیاتِ ابد ملے

اے جاں بلب تجھے ہے اگر زندگی عزیز

سنگِ ستم کے بعد دُعائے فلاح کی

بندے تو بندے ہیں تمھیں ہیں مدعی عزیز

دِل سے ذرا یہ کہہ دے کہ اُن کا غلام ہوں

ہر دشمنِ خدا ہو خدا کو ابھی عزیز

طیبہ کے ہوتے خلد بریں کیا کروں حسنؔ

مجھ کو یہی پسند ہے ، مجھ کو یہی عزیز

٭٭٭

 

(ردیف سین مہملہ)

ہوں جو یادِ رُخِ پُر نور میں مرغانِ قفس

چمک اُٹھے چہِ یوسف کی طرح شانِ قفس

کس بَلا میں ہیں گرفتارِ اسیرانِ قفس

کل تھے مہمانِ چمن آج ہیں مہمانِ قفس

حیف در چشمِ زدن صحبتِ یار آخر شد

اب کہاں طیبہ وہی ہم وہی زندانِ قفس

روئے گل سیر ندیدیم و بہار آخر شد

ہائے کیا قہر کیا اُلفتِ یارانِ قفس

نوحہ گر کیوں نہ رہے مُرغِ خوش اِلحانِ چمن

باغ سے دام ملا دام سے زِندانِ قفس

پائیں صحرائے مدینہ تو گلستاں مل جائے

ہند ہے ہم کو قفس ہم ہیں اسیرانِ قفس

زخمِ دل پھول بنے آہ کی چلتی ہے نسیم

روز افزوں ہے بہارِ چمنستانِ قفس

قافلہ دیکھتے ہیں جب سوئے طیبہ جاتے

کیسی حسرت سے تڑپتے ہیں اسیرانِِ قفس

تھا چمن ہی ہمیں زنداں کہ نہ تھا وہ گل تر

قید پر قید ہوا اور یہ زِندانِ قفس

دشتِ طیبہ میں ہمیں شکل وطن یاد آئی

بد نصیبی سے ہوا باغ میں ارمانِ قفس

اَب نہ آئیں گے اگر کھل گئی قسمت کی گرہ

اب گرہ باندھ لیا ہم نے یہ پیمانِ قفس

ہند کو کون مدینہ سے پلٹنا چاہے

عیشِ گلزار بھلا دے جو نہ دورانِ قفس

چہچہے کس گل خوبی کی ثنا میں ہیں حسنؔ

نکہتِ خلد سے مہکا ہے جو زِندانِ قفس

٭٭٭

 

(ردیف شین معجمہ)

جنابِ مصطفیٰ ہوں جس سے نا خوش

نہیں ممکن ہو کہ اُس سے خدا خوش

شہِ کونین نے جب صدقہ بانٹا

زمانے بھر کو دَم میں کر دیا خوش

سلاطیں مانگتے ہیں بھیک اُس سے

یہ اپنے گھر سے ہے اُن کا گدا خوش

پسندِ حقِ تعالیٰ تیری ہر بات

ترے انداز خوش تیری ادا خوش

مٹیں سب ظاہر و باطن کے امراض

مدینہ کی ہے یہ آب و ہوا خوش

فَتَرْضٰی کی محبت کے تقاضے

کہ جس سے آپ خوش اُس سے خدا خوش

ہزاروں جرم کرتا ہوں شب و روز

خوشا قسمت نہیں وہ پھر بھی نا خوش

الٰہی دے مرے دل کو غمِ عشق

نشاطِ دَہر سے ہو جاؤں ناخوش

نہیں جاتیں کبھی دشت نبی سے

کچھ ایسی ہے بہاروں کو فضا خوش

مدینہ کی اگر سرحد نظر آئے

دلِ ناشاد ہو بے اِنتہا خوش

نہ لے آرام دم بھر بے غمِ عشق

دلِ مضطر میں خوش میرا خدا خوش

نہ تھا ممکن کہ ایسی معصیت پر

گنہگاروں سے ہو جاتا خدا خوش

تمہاری روتی آنکھوں نے ہنسایا

تمہارے غمزدہ دل نے کیا خوش

الٰہی دھُوپ ہو اُن کی گلی کی

مرے سر کو نہیں ظِلّ ہما خوش

حسنؔ نعت و چنیں شیریں بیانی

تو خوش باشی کہ کر دی وقتِ ما خوش

٭٭٭

 

(ردیف صاد معجمہ)

خدا کی خلق میں سب انبیا خاص

گروہِ انبیا میں مصطفیٰ خاص

نرالا حُسنِ انداز و اَدا خاص

تجھے خاصوں میں حق نے کر لیا خاص

تری نعمت کے سائل خاص تا عام

تری رحمت کے طالب عام تا خاص

شریک اُس میں نہیں کوئی پیمبر

خدا سے ہے تجھ کو واسطہ خاص

گنہگارو! نہ ہو مایوسِ رحمت

نہیں ہوتی کریموں کی عطا خاص

گدا ہوں خاص رحمت سے ملے بھیک

نہ میں خاص اور نہ میری اِلتجا خاص

ملا جو کچھ جسے وہ تم سے پایا

تمھیں ہو مالکِ مُلکِ خدا خاص

غریبوں بے نواؤں بے کسوں کو

خدا نے در تمہارا کر دیا خاص

جو کچھ پیدا ہوا دونوں جہاں میں

تصدق ہے تمہاری ذات کا خاص

تمہاری انجمن آرائیوں کو

ہوا ہنگامۂ قَالُوْا بَلٰی خاص

نبی ہم پایہ ہوں کیا تو نے پایا

نبوت کی طرح ہر معجزہ خاص

جو رکھتا ہے جمالِ مَنْ رَّاٰنِیْ

اُسی منہ کی صفت ہے وَالضُّحٰی خاص

نہ بھیجو اور دروازوں پر اِس کو

حسنؔ ہے آپ کے در کا گدا خاص

٭٭٭

 

(ردیف ضاد معجمہ)

سن لو خدا کے واسطے اپنے گدا کی عرض

یہ عرض ہے حضور بڑے بے نوا کی عرض

اُن کے گدا کے دَر پہ ہے یوں بادشاہ کی عرض

جیسے ہو بادشاہ کے دَر پہ گدا کی عرض

عاجز نوازیوں پہ کرم ہے تُلا ہوا

وہ دل لگا کے سنتے ہیں ہر بے نوا کی عرض

قربان اُن کے نام کے بے اُن کے نام کے

مقبول ہو نہ خاصِ جنابِ خدا کی عرض

غم کی گھٹائیں چھائی ہیں مجھ تیرہ بخت پر

اے مہر سن لے ذرّۂ بے دست و پا کی عرض

اے بے کسوں کے حامی و یاور سوا ترے

کس کو غرض ہے کون سنے مبتلا کی عرض

اے کیمیائے دل میں ترے دَر کی خاک ہوں

خاکِ دَر حضور سے ہے کیمیا کی عرض

اُلجھن سے دُور نور سے معمور کر مجھے

اے زُلفِ پاک ہے یہ اَسیرِ بلا کی عرض

دُکھ میں رہے کوئی یہ گوارا نہیں اُنہیں

مقبول کیوں نہ ہو دلِ درد آشنا کی عرض

کیوں طول دوں حضور یہ دیں یہ عطا کریں

خود جانتے ہیں آپ مرے مدعا کی عرض

دَامن بھریں گے دولتِ فضلِ خدا سے ہم

خالی کبھی گئی ہے حسنؔ مصطفیٰ کی عرض

٭٭٭

 

(ردیف طاے مہملہ)

چشمِ دل چاہے جو اَنوار سے ربط

رکھے خاکِ درِ دلدار سے ربط

اُن کی نعمت کا طلبگار سے میل

اُن کی رحمت کا گنہگار سے ربط

دشتِ طیبہ کی جو دیکھ آئیں بہار

ہو عنادِل کو نہ گلزار سے ربط

یا خدا دل نہ ملے دُنیا سے

نہ ہو آئینہ کو زنگار سے ربط

نفس سے میل نہ کرنا اے دل

قہر ہے ایسے ستم گار سے ربط

دلِ نجدی میں ہو کیوں حُبِّ حضور

ظلمتوں کو نہیں اَنوار سے ربط

تلخیِ نزع سے اُس کو کیا کام

ہو جسے لعل شکر بار سے ربط

خاک طیبہ کی اگر مل جائے

آپ صحت کرے بیمار سے ربط

اُن کے دامانِ گہر بار کو ہے

کاسۂ دوست طلبگار سے ربط

کل ہے اجلاس کا دن اور ہمیں

میل عملہ سے نہ دربار سے ربط

عمر یوں اُن کی گلی میں گزرے

ذرّہ ذرّہ سے بڑھے پیار سے ربط

سرِ شوریدہ کو ہے دَر سے میل

کمر خستہ کو دیوار سے ربط

اے حسنؔ خیر ہے کیا کرتے ہو

یار کو چھوڑ کر اَغیار سے ربط

٭٭٭

 

(ردیف ظاد معجمہ)

خاکِ طیبہ کی اگر دل میں ہو وقعت محفوظ

عیبِ کوری سے رہے چشمِ بصیرت محفوظ

دل میں روشن ہو اگر شمع وِلائے مولیٰ

دُزدِ شیطاں سے رہے دین کی دولت محفوظ

یا خدا محو نظارہ ہوں یہاں تک آنکھیں

شکل قرآں ہو مرے دل میں وہ صورت محفوظ

سلسلہ زُلفِ مبارک سے ہے جس کے دل کو

ہر بَلا سے رکھے اﷲ کی رحمت محفوظ

تھی جو اُس ذات سے تکمیل فرامیں منظور

رکھی خاتم کے لیے مہر نبوت محفوظ

اے نگہبان مرے تجھ پہ صلوٰۃ اور سلام

دو جہاں میں ترے بندے ہیں سلامت محفوظ

واسطہ حفظِ الٰہی کا بچا رہزن سے

رہے ایمانِ غریباں دمِ رحلت محفوظ

شاہیِ کون و مکاں آپ کو دی خالق نے

کنز قدرت میں اَزل سے تھی یہ دولت محفوظ

تیرے قانون میں گنجائش تبدیل نہیں

نسخ و ترمیم سے ہے تری شریعت محفوظ

جسے آزاد کرے قامتِ شہ کا صدقہ

رہے فتنوں سے وہ تا روزِ قیامت محفوظ

اُس کو اَعدا کی عداوت سے ضرر کیا پہنچے

جس کے دل میں ہو حسنؔ اُن کی محبت محفوظ

٭٭٭

 

(ردیف عین مہملہ)

مدینہ میں ہے وہ سامانِ بارگاہِ رفیع

مدینہ میں ہے وہ سامانِ بارگاہِ رفیع

عروج و اَوج ہیں قربانِ بارگاہِ رفیع

نہیں گدا ہی سرِ خوانِ بارگاہِ رفیع

خلیل بھی تو ہیں مہمانِ بارگاہِ رفیع

بنائے دونوں جہاں مجرئی اُسی دَر کے

کیا خدا نے جو سامانِ بارگاہِ رفیع

زمینِ عجز پہ سجدہ کرائیں شاہوں سے

فلک جناب غلامانِ بارگاہِ رفیع

ہے انتہائے علا ابتدائے اَوج یہاں

ورا خیال سے ہے شانِ بارگاہِ رفیع

کمند رشتۂ عمر خضر پہنچ نہ سکے

بلند اِتنا ہے ایوانِ بارگاہِ رفیع

وہ کون ہے جو نہیں فیضیاب اِس دَر سے

سبھی ہیں بندۂ احِسانِ بارگاہِ رفیع

نوازے جاتے ہیں ہم سے نمک حرام غلام

ہماری جان ہو قربانِ بارگاہِ رفیع

مطیع نفس ہیں وہ سرکشانِ جن و بشر

نہیں جو تابعِ فرمانِ بارگاہِ رفیع

صلائے عام ہیں مہماں نواز ہیں سرکار

کبھی اٹھا ہی نہیں خوانِ بارگاہِ رفیع

جمالِ شمس و قمر کا سنگار ہے شب و روز

فروغِ شمسۂ ایوانِ بارگاہِ رفیع

ملائکہ ہیں فقط دابِ سلطنت کے لیے

خدا ہے آپ نگہبانِ بارگاہِ رفیع

حسنؔ جلالتِ شاہی سے کیوں جھجکتا ہے

گدا نواز ہے سلطانِ بارگاہِ رفیع

٭٭٭

 

(ردیف غین معجمہ)

خوشبوئے دشتِ طیبہ سے بس جائے گر دماغ

مہکائے بوئے خلد مرا سر بسر دماغ

پایا ہے پاے صاحبِ معراج سے شرف

ذرّاتِ کوئے طیبہ کا ہے عرش پر دماغ

مومن فدائے نور و شمیم حضور ہیں

ہر دل چمک رہا ہے معطر ہے ہر دماغ

ایسا بسے کہ بوئے گل خلد سے بسے

ہو یاد نقشِ پاے نبی کا جو گھر دماغ

آباد کر خدا کے لیے اپنے نور سے

ویران دل ہے دل سے زیادہ کھنڈر دماغ

ہر خارِ طیبہ زینتِ گلشن ہے عندلیب

نادان ایک پھول پر اتنا نہ کر دماغ

زاہد ہے مستحقِ کرامت گناہ گار

اللہ اکبر اتنا مزاج اس قدر دماغ

اے عندلیب خارِ حرم سے مثالِ گل

بک بک کے ہرزہ گوئی سے خالی نہ کر دماغ

بے نور دل کے واسطے کچھ بھیک مانگتے

ذرّاتِ خاکِ طیبہ کا ملتا اگر دماغ

ہر دم خیالِ پاک اقامت گزیں رہے

بن جائے گر دماغ نہ ہو رہ گزر دماغ

شاید کہ وصف پاے نبی کچھ بیاں کرے

پوری ترقیوں پہ رسا ہو اگر دماغ

اُس بد لگام کو خر دجال جانئے

منہ آئے ذکر پاک کو سن کر جو خر دماغ

اُن کے خیال سے وہ ملی امن اے حسنؔ

سر پر نہ آئے کوئی بَلا ہو سپر دماغ

٭٭٭

 

 (ردیف فا)

کچھ غم نہیں اگرچہ زمانہ ہو بر خلاف

اُن کی مدد رہے تو کرے کیا اَثر خلاف

اُن کا عدو اسیرِ بَلائے نفاق ہے

اُس کی زبان و دل میں رہے عمر بھر خلاف

کرتا ہے ذکرِ پاک سے نجدی مخالفت

کم بخت بد نصیب کی قسمت ہے بر خلاف

اُن کی وجاہتوں میں کمی ہو محال ہے

بالفرض اک زمانہ ہو اُن سے اگر خلاف

اُٹھوں جو خوابِ مرگ سے آئے شمِیم یار

یا ربّ نہ صبحِ حشر ہو بادِ سحر خلاف

قربان جاؤں رحمتِ عاجز نواز پر

ہوتی نہیں غریب سے اُن کی نظر خلاف

شانِ کرم کسی سے عوض چاہتی نہیں

لاکھ اِمتثالِ امر میں دل ہو ادھر خلاف

کیا رحمتیں ہیں لطف میں پھر بھی کمی نہیں

کرتے رہے ہیں حکم سے ہم عمر بھر خلاف

تعمیل حکمِ حق کا حسنؔ ہے اگر خیال

ارشادِ پاک سرورِ دیں کا نہ کر خلاف

٭٭٭

 

رحمت نہ کس طرح ہو گنہگار کی طرف

رحمن خود ہے میرے طرفدار کی طرف

جانِ جناں ہے دشتِ مدینہ تری بہار

بُلبل نہ جائے گی کبھی گلزار کی طرف

انکار کا وقوع تو کیا ہو کریم سے

مائل ہوا نہ دل کبھی اِنکار کی طرف

جنت بھی لینے آئے تو چھوڑیں نہ یہ گلی

منہ پھیر بیٹھیں ہم تری دیوار کی طرف

منہ اُس کا دیکھتی ہیں بہاریں بہشت کی

جس کی نگاہ ہے ترے رُخسار کی طرف

جاں بخشیاں مسیح کو حیرت میں ڈالتیں

چُپ بیٹھے دیکھتے تری رفتار کی طرف

محشر میں آفتاب اُدھر گرم اور اِدھر

آنکھیں لگی ہیں دامنِ دلدار کی طرف

پھیلا ہوا ہے ہاتھ ترے دَر کے سامنے

گردن جھکی ہوئی تری دیوار کی طرف

گو بے شمار جرم ہوں گو بے عدد گناہ

کچھ غم نہیں جو تم ہو گنہگار کی طرف

یوں مجھ کو موت آئے تو کیا پوچھنا مرا

میں خاک پر نگاہ دَرِ یار کی طرف

کعبے کے صدقے دل کی تمنا مگر یہ ہے

مرنے کے وقت منہ ہو دَرِ یار کی طرف

دے جاتے ہیں مراد جہاں مانگیے وہاں

منہ ہونا چاہیے درِ سرکار کی طرف

روکے گی حشر میں جو مجھے پا شکستگی

دوڑیں گے ہاتھ دامنِ دلدار کی طرف

آہیں دلِ اسیر سے لب تک نہ آئی تھیں

اور آپ دوڑے آئے گرفتار کی طرف

دیکھی جو بے کسی تو انہیں رحم آ گیا

گھبرا کے ہو گئے وہ گنہگار کی طرف

بٹتی ہے بھیک دوڑتے پھرتے ہیں بے نوا

دَر کی طرف کبھی کبھی دیوار کی طرف

عالم کے دل تو بھر گئے دولت سے کیا عجب

گھر دوڑنے لگیں درِ سرکار کی طرف

آنکھیں جو بند ہوں تو مقدر کھلے حسنؔ

جلوے خود آئیں طالبِ دیدار کی طرف

٭٭٭

 

(ردیف قاف)

ترا ظہور ہوا چشمِ نور کی رونق

ترا ہی نور ہے بزمِ ظہور کی رونق

رہے نہ عفو میں پھر ایک ذرّہ شک باقی

جو اُن کی خاکِ قدم ہو قبور کی رونق

نہ فرش کا یہ تجمل نہ عرش کا یہ جمال

فقط ہے نور و ظہورِ حضور کی رونق

تمہارے نور سے روشن ہوئے زمین و فلک

یہی جمال ہے نزدیک و دُور کی رونق

زبانِ حال سے کہتے ہیں نقشِ پا اُن کے

ہمیں ہیں چہرۂ غلمان و حور کی رونق

ترے نثار ترا ایک جلوۂ رنگیں

بہارِ جنت و حور و قصور کی رونق

ضیا زمین و فلک کی ہے جس تجلّی سے

الٰہی ہو وہ دلِ ناصبور کی رونق

یہی فروغ تو زیبِ صفا و زینت ہے

یہی ہے حسن تجلّی و نور کی رونق

حضور تیرہ و تاریک ہے یہ پتھر دل

تجلّیوں سے ہوئی کوہِ طور کی رونق

سجی ہے جن سے شبستانِ عالمِ امکاں

وہی ہیں مجلسِ روزِ نشور کی رونق

کریں دلوںکومنورسراج(۱)کے جلوے

فروغِ بزمِ عوارف ہو نور (۲) کی رونق

دعا خدا سے غمِ عشقِ مصطفیٰ کی ہے

حسنؔ یہ غم ہے نشاط و سُرور کی رونق

٭٭

(۱) سراج العوارف مصنفہ حضرت پیرو مرشد رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔۱۲

(0)    متخلص حضرت سیدنا شاہ ابوالحسین احمد نوری مارہروی رحمۃ اللہ علیہ۔۱۲

٭٭٭

 

(ردیف کاف)

جو ہو سر کو رَسائی اُن کے دَر تک

تو پہنچے تاجِ عزت اپنے سر تک

وہ جب تشریف لائے گھرسے در تک

بھکاری کا بھرا ہے دَر سے گھر تک

دُہائی ناخدائے بے کساں کی

کہ سیلابِ اَلم پہنچا کمر تک

الٰہی دل کو دے وہ سوزِ اُلفت

پھُنکے سینہ جلن پہنچے جگر تک

نہ ہو جب تک تمہارا نام شامل

دعائیں جا نہیں سکتیں اَثر تک

گزر کی راہ نکلی رہ گزر میں

ابھی پہنچے نہ تھے ہم اُن کے دَر تک

خدا یوں اُن کی اُلفت میں گما دے

نہ پاؤں پھر کبھی اپنی خبر تک

بجائے چشم خود اُٹھتا نہ ہو آڑ

جمالِ یار سے تیری نظر تک

تری نعمت کے بھُوکے اہلِ دولت

تری رحمت کا پیاسا ابر تک

نہ ہو گا دو قدم کا فاصلہ بھی

الٰہ آباد سے احمد نگر تک

تمہارے حسن کے باڑے کے صدقے

نمک خوار ملاحت ہے قمر تک

شبِ معراج تھے جلوے پہ جلوے

شبستانِ دنیٰ سے اُن کے گھر تک

بلائے جان ہے اب ویرانیِ دل

چلے آؤ کبھی اس اُجڑے گھر تک

نہ کھول آنکھیں نگاہِ شوقِ ناقص

بہت پردے ہیں حسنِ جلوہ گر تک

جہنم میں دھکیلیں نجدیوں کو

حسنؔ جھوٹوں کو یوں پہنچائیں گھر تک

٭٭٭

 

(ردیف میم)

اے دینِ حق کے رہبر تم پر سلام ہر دم

میرے شفیعِ محشر تم پر سلام ہر دم

اِس بے کس و حزیں پر جو کچھ گزر رہی ہے

ظاہر ہے سب وہ تم پر ، تم پر سلام ہر دم

دُنیا و آخرت میں جب میں رہوں سلامت

پیارے پڑھوں نہ کیوں کر تم پر سلام ہر دم

دِل تفتگانِ فرقت پیاسے ہیں مدتوں سے

ہم کو بھی جامِ کوثر تم پر سلام ہر دم

بندہ تمہارے دَر کا آفت میں مبتلا ہے

رحم اے حبیبِ دَاور تم پر سلام ہر دم

بے وارثوں کے وارث بے والیوں کے والی

تسکینِ جانِ مضطر تم پر سلام ہر دم

للہ اب ہماری فریاد کو پہنچئے

بے حد ہے حال اَبتر تم پر سلام ہر دم

جلادِ نفسِ بد سے دیجے مجھے رِہائی

اب ہے گلے پہ خنجر تم پر سلام ہر دم

دَریوزہ گر ہوں میں بھی ادنیٰ سا اُس گلی کا

لطف و کرم ہو مجھ پر تم پر سلام ہر دم

کوئی نہیں ہے میرا میں کس سے داد چاہوں

سلطانِ بندہ پرور تم پر سلام ہر دم

غم کی گھٹائیں گھر کر آئی ہیں ہر طرف سے

اے مہر ذرّہ پرور تم پر سلام ہر دم

بُلوا کے اپنے دَر پر اب مجھ کو دیجے عزت

پھرتا ہوں خوار دَر دَر تم پر سلام ہر دم

محتاج سے تمہارے سب کرتے ہیں کنارا

بس اک تمھیں ہو یاور تم پر سلام ہر دم

بہرِ خدا بچاؤ اِن خار ہائے غم سے

اک دل ہے لاکھ نشتر تم پر سلام ہر دم

کوئی نہیں ہمارا ہم کس کے دَر پہ جائیں

اے بے کسوں کے یاور تم پر سلام ہر دم

کیا خوف مجھ کو پیارے نارِ جحیم سے ہو

تم ہو شفیعِ محشر تم پر سلام ہر دم

اپنے گدائے دَر کی لیجے خبر خدارا

کیجے کرم حسنؔ پر تم پر سلام ہر دم

  اے مدینہ کے تاجدار سلام

اے مدینہ کے تاجدار سلام

اے غریبوں کے غمگسار سلام

تری اک اک اَدا پر اے پیارے

سَو دُرودیں فدا ہزار سلام

رَبِّ سَلِّمْ کے کہنے والے پر

جان کے ساتھ ہو نثار سلام

میرے پیارے پہ میرے آقا پر

میری جانب سے لاکھ بار سلام

میری بگڑی بنانے والے پر

بھیج اے میرے کِردگار سلام

اُس پناہِ گناہ گاراں پر

یہ سلام اور کروڑ بار سلام

اُس جوابِ سلام کے صدقے

تا قیامت ہوں بے شمار سلام

اُن کی محفل میں ساتھ لے جائیں

حسرتِ جانِ بے قرار سلام

پردہ میرا نہ فاش حشر میں ہو

اے مرے حق کے راز دار سلام

وہ سلامت رہا قیامت میں

پڑھ لیے جس نے دل سے چار سلام

عرض کرتا ہے یہ حسنؔ تیرا

تجھ پہ اے خُلد کی بہار سلام

٭٭٭

 

ترے دَر پہ ساجد ہیں شاہانِ عالم

تو سلطانِ عالم ہے اے جانِ عالم

یہ پیاری ادائیں یہ نیچی نگاہیں

فدا جانِ عالم ہو اے جانِ عالم

کسی اور کو بھی یہ دولت ملی ہے

ٔگداکس کے دَر کے ہیں شاہانِ عالم

میں دَر دَر پھروں چھوڑ کر کیوں ترا دَر

اُٹھائے بَلا میری احسانِ عالم

میں سرکارِ عالی کے قربان جاؤں

بھکاری ہیں اُس دَر کے شاہانِ عالم

مرے دبدبہ والے میں تیرے صدقے

ترے دَر کے کُتّے ہیں شاہانِ عالم

تمہاری طرف ہاتھ پھیلے ہیں سب کے

تمھیں پورے کرتے ہو ارمانِ عالم

مجھے زندہ کر دے مجھے زندہ کر دے

مرے جانِ عالم مرے جانِ عالم

مسلماں مسلماں ہیں تیرے سبب سے

مری جان تو ہی ہے ایمانِ عالم

مرے آن والے مرے شان والے

ٔگدائی ترے دَر کی ہے شانِ عالم

تُو بحرِ حقیقت تو دریائے عرفاں

ترا ایک قطرہ ہے عرفانِ عالم

کوئی جلوہ میرے بھی روزِ سیہ پر

خدا کے قمر مہرِ تابانِ عالم

بس اب کچھ عنایت ہوا اب ملا کچھ

انھیں تکتے رہنا فقیرانِ عالم

وہ دُولھا ہیں ساری خدائی براتی

اُنھیں کے لیے ہے یہ سامانِ عالم

نہ دیکھا کوئی پھول تجھ سا نہ دیکھا

بہت چھان ڈالے گلستانِ عالم

ترے کوچہ کی خاک ٹھہری اَزل سے

مری جاں علاجِ مریضانِ عالم

کوئی جانِ عیسیٰ کو جا کر خبر دے

مرے جاتے ہیں درد مندانِ عالم

ابھی سارے بیمار ہوتے ہیں اچھے

اگر لَب ہلا دے وہ دَرمانِ عالم

سَمِیْعاًخدارا حسن ؔ کی بھی سن لے

بَلا میں ہے یہ لوث دامانِ عالم

٭٭٭

 

جاتے ہیں سوئے مدینہ گھر سے ہم

باز آئے ہندِ بد اختر سے ہم

مار ڈالے بے قراری شوق کی

خوش تو جب ہوں اِس دلِ مضطر سے ہم

بے ٹھکانوں کا ٹھکانا ہے یہی

اب کہاں جائیں تمہارے دَر سے ہم

تشنگیِ حشر سے کچھ غم نہیں

ہیں غلامانِ شہِ کوثر سے ہم

اپنے ہاتھوں میں ہے دامانِ شفیع

ڈر چکے بس فتنۂ محشر سے ہم

نقشِ پا سے جو ہوا ہے سرفراز

دل بدل ڈالیں گے اُس پتھر سے ہم

گردن تسلیم خم کرنے کے ساتھ

پھینکتے ہیں بارِ عصیاں سر سے ہم

گور کی شب تار ہے پر خوف کیا

لَو لگائے ہیں رُخِ انور سے ہم

دیکھ لینا سب مرادیں مل گئیں

جب لپٹ کر روئے اُن کے دَر سے ہم

کیا بندھا ہم کو خد جانے خیال

آنکھیں ملتے ہیں جو ہر پتھر سے ہم

جانے والے چل دیئے کب کے حسنؔ

پھر رہے ہیں ایک بس مضطر سے ہم

٭٭٭

 

منقبت حضور غوث اعظم رضی اﷲ عنہ

اﷲ برائے غوثِ اعظم

دے مجھ کو وِلائے غوثِ اعظم

دیدارِ خدا تجھے مبارک

اے محوِ لقائے غوث اعظم

وہ کون کریم صاحبِ جُود

میں کون گدائے غوث اعظم

سوکھی ہوئی کھیتیاں ہری کر

اے ابرِ سخائے غوث اعظم

اُمیدیں نصیب مشکلیں حل

قربان عطائے غوث اعظم

کیا تیزیِ مہرِ حشر سے خوف

ہیں زیرِ لوائے غوث اعظم

وہ اور ہیں جن کو کہیے محتاج

ہم تو ہیں گدائے غوث اعظم

ہیں جانبِ نالۂ غریباں

گوشِ شنوائے غوث اعظم

کیوں ہم کو ستائے نارِ دوزخ

کیوں رد ہو دعائے غوث اعظم

بیگانے بھی ہو گئے یگانے

دل کش ہے ادائے غوث اعظم

آنکھوں میں ہے نور کی تجلی

پھیلی ہے ضیائے غوث اعظم

جو دم میں غنی کرے گدا کو

وہ کیا ہے عطائے غوث اعظم

کیوں حشر کے دن ہو فاش پردہ

ہیں زیرِ قبائے غوث اعظم

آئینۂ رُوئے خوب رویاں

نقشِ کفِ پائے غوث اعظم

اے دل نہ ڈر بلاؤں سے اب

وہ آئی صدائے غوث اعظم

اے غم جو ستائے اب تو جانوں

لے دیکھ وہ آئے غوث اعظم

تارِ نفسِ ملائکہ ہے

ہر تارِ قبائے غوث اعظم

سب کھول دے عقد ہائے مشکل

اے ناخنِ پائے غوث اعظم

کیا اُن کی ثنا لکھوں حسنؔ میں

جاں باد فدائے غوث اعظم

٭٭٭

 

اسیروں کے مشکل کشا غوث اعظم

فقیروں کے حاجت رَوا غوث اعظم

گھرا ہے بَلاؤں میں بندہ تمہارا

مدد کے لیے آؤ یا غوث اعظم

ترے ہاتھ میں ہاتھ میں نے دیا ہے

ترے ہاتھ ہے لاج یا غوث اعظم

مریدوں کو خطرہ نہیں بحرِ غم سے

کہ بیڑے کے ہیں ناخدا غوث اعظم

تمھیں دُکھ سنو اپنے آفت زدوں کا

تمھیں درد کی دو دوا غوث اعظم

بھنور میں پھنسا ہے ہمارا سفینہ

بچا غوث اعظم بچا غوث اعظم

جو دکھ بھر رہا ہوں جو غم سہ رہا ہوں

کہوں کس سے تیرے سوا غوث اعظم

زمانے کے دُکھ درد کی رنج و غم کی

ترے ہاتھ میں ہے دوا غوث اعظم

اگر سلطنت کی ہوس ہو فقیرو

کہو شیئاً ﷲیا غوث اعظم

نکالا ہے پہلے تو ڈوبے ہوؤں کو

اور اب ڈوبتوں کو بچا غوث اعظم

جسے خلق کہتی ہے پیارا خدا کا

اُسی کا ہے تو لاڈلا غوث اعظم

کیا غور جب گیارھویں بارھویں میں

معمہ یہ ہم پر کھلا غوث اعظم

تمھیں وصلِ بے فصل ہے شاہِ دیں سے

دیا حق نے یہ مرتبہ غوث اعظم

پھنسا ہے تباہی میں بیڑا ہمارا

سہارا لگا دو ذرا غوث اعظم

مشائخ جہاں آئیں بہرِ گدائی

وہ ہے تیری دولت سرا غوث اعظم

مری مشکلوں کو بھی آسان کیجے

کہ ہیں آپ مشکل کشا غوث اعظم

وہاں سرجھکاتے ہیںسب اُونچے اُونچے

جہاں ہے ترا نقشِ پا غوث اعظم

قسم ہے کہ مشکل کو مشکل نہ پایا

کہا ہم نے جس وقت یا غوث اعظم

مجھے پھیر میں نفسِ کافر نے ڈالا

بتا جایئے راستہ غوث اعظم

کھلا دے جو مرجھائی کلیاں دلوں کی

چلا کوئی ایسی ہوا غوث اعظم

مجھے اپنی اُلفت میں ایسا گما دے

نہ پاؤں پھر اپنا پتا غوث اعظم

بچا لے غلاموں کو مجبوریوں سے

کہ تو عبدِ قادِر ہے یا غوث اعظم

دکھا دے ذرا مہر رُخ کی تجلی

کہ چھائی ہے غم کی گھٹا غوث اعظم

گرانے لگی ہے مجھے لغزشِ َپا

سنبھالو ضعیفوں کو یا غوث اعظم

لپٹ جائیں دامن سے اُس کے ہزاروں

پکڑ لے جو دامن ترا غوث اعظم

سروں پہ جسے لیتے ہیں تاج والے

تمہارا قدم ہے وہ یا غوث اعظم

دوائے نگاہے عطائے سخائے

کہ شد دردِ ما لا دوا یا غوث اعظم

ز ہر رو و ہر راہ رویم بگرداں

سوئے خویش را ہم نما غوث اعظم

اَسیر کمند ہوا یم کریما

بہ بخشائے بر حالِ ما غوث اعظم

فقیر تو چشمِ کرم از تو دارد

نگاہے بحالِ گدا غوث اعظم

گدایم مگر از گدایانِ شاہے

کہ گویندش اہل صفا غوث اعظم

کمر بست بر خونِ من نفسِ قاتل

اَغِثنی برائے خدا غوث اعظم

اَدھر میں پیا موری ڈولت ہے نیّا

کہوں کا سے اپنی بپا غوث اعظم

بپت میں کٹی موری سگری عمریا

کرو مو پہ اپنی دَیاَ غوث اعظم

بھیو دو جو بیکنٹھ بگداد توسے

کہو موری نگری بھی آ غوث اعظم

کہے کس سے جا کر حسنؔ اپنے دل کی

سنے کون تیرے سوا غوث اعظم

٭٭٭

 

(ردیف نون)

کون کہتا ہے کہ زینت خلد کی اچھی نہیں

لیکن اے دل فرقتِ کوئے نبی اچھی نہیں

رحم کی سرکار میں پُرسش ہے ایسوں کی بہت

اے دل اچھا ہے اگر حالت مری اچھی نہیں

تیرہ دل کو جلوۂ ماہِ عرب درکار ہے

چودھویں کے چاند تیری چاندنی اچھی نہیں

کچھ خبر ہے میں بُرا ہوں کیسے اچھے کا بُرا

مجھ بُرے پر زاہدو طعنہ زنی اچھی نہیں

اُس گلی سے دُور رہ کر کیا مریں ہم کیا جئیں

آہ ایسی موت ایسی زندگی اچھی نہیں

اُن کے دَر کی بھیک چھوڑیں سروری کے واسطے

اُن کے دَر کی بھیک اچھی سروری اچھی نہیں

خاک اُن کے آستانے کی منگا دے چارہ گر

فکر کیا حالت اگر بیمار کی اچھی نہیں

سایۂ دیوارِ جاناں میں ہو بستر خاک پر

آرزوئے تاج و تختِ خسروی اچھی نہیں

دردِ عصیاں کی ترقی سے ہوا ہوں جاں بلب

مجھ کو اچھا کیجیے حالت مری اچھی نہیں

ذرّۂ طیبہ کی طلعت کے مقابل اے قمر

گھٹتی بڑھتی چار دن کی چاندنی اچھی نہیں

موسمِ گل کیوں دکھائے جاتے ہیں یہ سبز باغ

دشتِ طیبہ جائیں گے ہم رہزنی اچھی نہیں

بے کسوں پر مہرباں ہے رحمتِ بیکس نواز

کون کہتا ہے ہماری بے کسی اچھی نہیں

بندۂ سرکار ہو پھر کر خدا کی بندگی

ورنہ اے بندے خدا کی بندگی اچھی نہیں

رُو سیہ ہوں منہ اُجالا کر دے اے طیبہ کے چاند

اِس اندھیرے پاکھ کی یہ تیرگی اچھی نہیں

خار ہائے دشتِ طیبہ چُبھ گئے دل میں مرے

عارضِ گل کی بہارِ عارضی اچھی نہیں

صبحِ محشر چونک اے دل جلوۂ محبوب دیکھ

نور کا تڑکا ہے پیارے کاہلی اچھی نہیں

اُن کے دَر پر موت آ جائے تو جی جاؤں حسنؔ

اُن کے دَر سے دُور رہ کر زندگی اچھی نہیں

٭٭٭

 

نگاہِ لطف کے اُمیدوار ہم بھی ہیں

لیے ہوئے یہ دلِ بے قرار ہم بھی ہیں

ہمارے دستِ تمنا کی لاج بھی رکھنا

ترے فقیروں میں اے شہر یار ہم بھی ہیں

اِدھر بھی توسنِ اقدس کے دو قدم جلوے

تمہاری راہ میں مُشتِ غبار ہم بھی ہیں

کھلا دو غنچۂ دل صدقہ باد دامن کا

اُمیدوارِ نسیمِ بہار ہم بھی ہیں

تمہاری ایک نگاہِ کرم میں سب کچھ ہے

پڑئے ہوئے تو سرِ رہ گزار ہم بھی ہیں

جو سر پہ رکھنے کو مل جائے نعلِ پاکِ حضور

تو پھر کہیں گے کہ ہاں تاجدار ہم بھی ہیں

یہ کس شہنشہِ والا کا صدقہ بٹتا ہے

کہ خسروؤں میں پڑی ہے پکار ہم بھی ہیں

ہماری بگڑی بنی اُن کے اختیار میں ہے

سپرد اُنھیں کے ہیں سب کاروبار ہم بھی ہیں

حسنؔ ہے جن کی سخاوت کی دھُوم عالم میں

اُنھیں کے تم بھی ہو اک ریزہ خوار، ہم بھی ہیں

٭٭٭

 

کیا کریں محفل دلدار کو کیوں کر دیکھیں

اپنے سرکار کے دربار کو کیوں کر دیکھیں

تابِ نظارہ تو ہو ، یار کو کیوں کر دیکھیں

آنکھیں ملتی نہیں دیدار کو کیوں کر دیکھیں

دلِ مردہ کو ترے کوچہ میں کیوں کر لے جائیں

اثرِ جلوۂ رفتار کو کیوں کر دیکھیں

جن کی نظروں میں ہے صحرائے مدینہ بلبل

آنکھ اُٹھا کر ترے گلزار کو کیوں کر دیکھیں

عوضِ عفو گنہ بکتے ہیں اِک مجمع ہے

ہائے ہم اپنے خریدار کو کیوں کر دیکھیں

ہم گنہگار کہاں اور کہاں رویتِ عرش

سر اُٹھا کر تری دیوار کو کیوں کر دیکھیں

اور سرکار بنے ہیں تو انھیں کے دَر سے

ہم گدا اور کی سرکار کو کیوں کر دیکھیں

دستِ صیاد سے آہو کو چھڑائیں جو کریم

دامِ غم میں وہ گرفتار کو کیوں کر دیکھیں

تابِ دیدار کا دعویٰ ہے جنھیں سامنے آئیں

دیکھتے ہیں ترے رُخسار کو کیوں کر دیکھیں

دیکھیے کوچۂ محبوب میں کیوں کر پہنچیں

دیکھیے جلوۂ دیدار کو کیوں کر دیکھیں

اہل کارانِ سقر اور اِرادہ سے حسنؔ

ناز پروردۂ سرکار کو کیوں کر دیکھیں

٭٭٭

 

نہ کیوں آرائشیں کرتا خدا دُنیا کے ساماں میں

تمھیں دُولھا بنا کر بھیجنا تھا بزمِ امکاں میں

یہ رنگینی یہ شادابی کہاں گلزارِ رضواں میں

ہزاروں جنتیں آ کر بسی ہیں کوئے جاناں میں

خزاں کا کس طرح ہو دخل جنت کے گلستاں میں

بہاریں بس چکی ہیں جلوۂ رنگینِ جاناں میں

تم آئے روشنی پھیلی ہُوا دن کھل گئی آنکھیں

اندھیرا سا اندھیرا چھا رہا تھا بزمِ اِمکاں میں

تھکا ماندہ وہ ہے جو پاؤں اپنے توڑ کر بیٹھا

وہی پہنچا ہوا ٹھہرا جو پہنچا کوئے جاناں میں

تمہارا کلمہ پڑھتا اُٹھے تم پر صدقے ہونے کو

جو پائے پاک سے ٹھوکر لگا دو جسمِ بے جاں میں

عجب انداز سے محبوبِ حق نے جلوہ فرمایا

سُرور آنکھوں میں آیا جان دل میں نور ایماں میں

فدائے خار ہائے دشتِ طیبہ پھول جنت کے

یہ وہ کانٹے ہیں جن کو خود جگہ دیں گل رگِ جاں میں

ہر اک کی آرزو ہے پہلے مجھ کو ذبح فرمائیں

تماشا کر رہے ہیں مرنے والے عیدِ قرباں میں

ظہورِ پاک سے پہلے بھی صدقے تھے نبی تم پر

تمہارے نام ہی کی روشنی تھی بزمِ خوباں میں

کلیم آسا نہ کیونکر غش ہو اُن کے دیکھنے والے

نظر آتے ہیں جلوے طور کے رُخسارِ تاباں میں

ہوا بدلی گھرے بادل کھلے گل بلبلیں چہکیں

تم آئے یا بہارِ جاں فزا آئی گلستاں میں

کسی کو زندگی اپنی نہ ہوتی اِس قدر میٹھی

مگر دھوون تمہارے پاؤں کا ہے شیرۂ جاں میں

اُسے قسمت نے اُس کے جیتے جی جنت میں پہنچایا

جو دم لینے کو بیٹھا سایۂ دیوارِ جاناں میں

کیا پروانوں کو بلبل نرالی شمع لائے تم

گرے پڑتے تھے جو آتش پہ وہ پہنچے گلستاں میں

نسیمِ طیبہ سے بھی شمع گل ہو جائے لیکن یوں

کہ گلشن پھولیں جنت لہلہا اُٹھے چراغاں میں

اگر دودِ چراغ بزمِ شہ چھو جائے کاجل سے

شبِ قدرِ تجلی کا ہو سرمہ چشمِ خوباں میں

کرم فرمائے گر باغِ مدینہ کی ہوا کچھ بھی

گل جنت نکل آئیں ابھی سروِ چراغاں میں

چمن کیونکر نہ مہکیں بلبلیں کیونکر نہ عاشق ہوں

تمہارا جلوۂ رنگیں بھرا پھولوں نے داماں میں

اگر دودِ چراغِ بزم والا مَس کرے کچھ بھی

شمیمِ مشک بس جائے گل شمعِ شبستاں میں

یہاں کے سنگریزوں سے حسنؔ کیا لعل کو نسبت

یہ اُن کی راہ گزر میں ہیں وہ پتھر ہے بدخشاں میں

٭٭٭

 

عجب کرم شہ والا تبار کرتے ہیں

کہ نا اُمیدوں کو اُمیدوار کرتے ہیں

جما کے دل میں صفیں حسرت و تمنا کی

نگاہِ لطف کا ہم انتظار کرتے ہیں

مجھے فسردگیٔ بخت کا اَلم کیا ہو

وہ ایک دم میں خزاں کو بہار کرتے ہیں

خدا سگانِ نبی سے یہ مجھ کو سنوا دے

ہم اپنے کتوں میں تجھ کو شمار کرتے ہیں

ملائکہ کو بھی ہیں کچھ فضیلتیں ہم پر

کہ پاس رہتے ہیں طوفِ مزار کرتے ہیں

جو خوش نصیب یہاں خاکِ دَر پہ بیٹھتے ہیں

جلوسِ مسندِ شاہی سے عار کرتے ہیں

ہمارے دل کی لگی بھی وہی بُجھا دیں گے

جو دم میں آگ کو باغ و بہار کرتے ہیں

اشارہ کر دو تو بادِ خلاف کے جھونکے

ابھی ہمارے سفینے کو پار کرتے ہیں

تمہارے دَر کے گداؤں کی شان عالی ہے

وہ جس کو چاہتے ہیں تاجدار کرتے ہیں

گدا گدا ہے گدا وہ تو کیا ہی چاہے ادب

بڑے بڑے ترے دَر کا وقار کرتے ہیں

تمام خلق کو منظور ہے رضا جن کی

رضا حضور کی وہ اختیار کرتے ہیں

سنا کے وصفِ رُخِ پاک عندلیب کو ہم

رہینِ آمدِ فصلِ بہار کرتے ہیں

ہوا خلاف ہو چکرائے ناؤ کیا غم ہے

وہ ایک آن میں بیڑے کو پار کرتے ہیں

اَنَا لَھَا سے وہ بازار کسمپرساں میں

تسلّیِ دلِ بے اختیار کرتے ہیں

بنائی پشت نہ کعبہ کی اُن کے گھر کی طرف

جنھیں خبر ہے وہ ایسا وقار کرتے ہیں

کبھی وہ تاجورانِ زمانہ کر نہ سکیں

جو کام آپ کے خدمت گزار کرتے ہیں

ہوائے دامنِ جاناں کے جاں فزا جھونکے

خزاں رسیدوں کو باغ و بہار کرتے ہیں

سگانِ کوئے نبی کے نصیب پر قرباں

پڑے ہوئے سرِ راہ افتخار کرتے ہیں

کوئی یہ پوچھے مرے دل سے میری حسرت سے

کہ ٹوٹے حال میں کیا غمگسار کرتے ہیں

وہ اُن کے دَر کے فقیروں سے کیوں نہیں کہتے

جو شکوۂ ستمِ روزگار کرتے ہیں

تمہارے ہجر کے صدموں کی تاب کس کو ہے

یہ چوبِ خشک کو بھی بے قرار کرتے ہیں

کسی بَلا سے اُنھیں پہنچے کس طرح آسیب

جو تیرے نام سے اپنا حصار کرتے ہیں

یہ نرم دل ہیں وہ پیارے کہ سختیوں پر بھی

عدو کے حق میں دعا بار بار کرتے ہیں

کشودِ عقدۂ مشکل کی کیوں میں فکر کروں

یہ کام تو مرے طیبہ کے خار کرتے ہیں

زمینِ کوئے نبی کے جو لیتے ہیں بوسے

فرشتگانِ فلک اُن کو پیار کرتے ہیں

تمہارے دَر پہ گدا بھی ہیں ہاتھ پھیلائے

تمھیںسے عرضِ دُعا شہر یار کرتے ہیں

کسے ہے دید جمالِ خدا پسند کی تاب

وہ پورے جلوے کہاں آشکار کرتے ہیں

ہمارے نخلِ تمنا کو بھی وہ پھل دیں گے

درختِ خشک کو جو بار دار کرتے ہیں

پڑے ہیں خوابِ تغافل میں ہم مگر مولیٰ

طرح طرح سے ہمیں ہوشیار کرتے ہیں

سنا نہ مرتے ہوئے آج تک کسی نے اُنھیں

جو اپنے جان و دل اُن پر نثار کرتے ہیں

اُنھیں کا جلوہ سرِ بزم دیکھتے ہیں پتنگ

انھیں کی یاد چمن میں ہزار کرتے ہیں

مرے کریم نہ آہو کو قید دیکھ سکے

عبث اسیرِ اَلم انتشار کرتے ہیں

جو ذرّے آتے ہیں پائے حضور کے نیچے

چمک کے مہر کو وہ شرمسار کرتے ہیں

جو موئے پاک کو رکھتے ہیں اپنی ٹوپی میں

شجاعتیں وہ دمِ کارزار کرتے ہیں

جدھر وہ آتے ہیں اب اُس میں دل ہوں یا راہیں

مہک سے گیسوؤں کی مشکبار کرتے ہیں

حسنؔ کی جان ہو اُس وسعتِ کرم پہ نثار

کہ اک جہان کو اُمیدوار کرتے ہیں

٭٭٭

 

منقبت حضور اچھے میاں رضی اﷲ عنہ

سن لو میری اِلتجا اچھے میاں

میں تصدق میں فدا اَچھے میاں

اب کمی کیا ہے خدا دے بندہ لے

میں گدا تم بادشا اچھے میاں

دین و دنیا میں بہت اچھا رہا

جو تمہارا ہو گیا اچھے میاں

اس بُرے کو آپ اچھا کیجیے

آپ اچھے میں بُرا اچھے میاں

ایسے اچھے کا بُرا ہوں میں بُرا

جن کو اچھوں نے کہا اچھے میاں

میں حوالے کر چکا ہوں آپ کے

اپنا سب اچھا بُرا اچھے میاں

آپ جانیں مجھ کو اِس کی فکر کیا

میں بُرا ہوں یا بھلا اچھے میاں

مجھ بُرے کے کیسے اچھے ہیں نصیب

میں بُرا ہوں آپ کا اچھے میاں

اپنے منگتا کو بُلا کر بھیک دی

اے میں قربانِ عطا اچھے میاں

مشکلیں آسان فرما دیجیے

اے مرے مشکل کشا اچھے میاں

میری جھولی بھر دو دستِ فیض سے

حاضرِ دَر ہے گدا اچھے میاں

دَم قدم کی خیر منگتا ہوں ترا

دَم قدم کی خیر لا اچھے میاں

جاں بلب ہوں دردِ عصیاں سے حضور

جاں بلب کو دو شفا اچھے میاں

دشمنوں کی ہے چڑھائی الغیاث

ہے مدد کا وقت یا اچھے میاں

نفسِ سرکش دَر پئے آزار ہے

ہے مدد کا وقت یا اچھے میاں

شام ہے نزدیک صحرا ہولناک

ہے مدد کا وقت یا اچھے میاں

نزع کی تکلیف اِغوائے عدو

ہے مدد کا وقت یا اچھے میاں

وہ سوالِ قبر وہ شکلیں مہیب

ہے مدد کا وقت یا اچھے میاں

پرسشِ اعمال اور مجھ سا اثیم

ہے مدد کا وقت یا اچھے میاں

بارِ عصیاں سر پہ رعشہ پاؤں میں

ہے مدد کا وقت یا اچھے میاں

خالی ہاتھ آیا بھرے بازار میں

ہے مدد کا وقت یا اچھے میاں

مجرمِ ناکارہ و دیوانِ عدل

ہے مدد کا وقت یا اچھے میاں

پوچھتے ہیں کیا کہا تھا کیا کیا

ہے مدد کا وقت یا اچھے میاں

پا شکستہ اور عبورِ پل صراط

ہے مدد کا وقت یا اچھے میاں

خائن و خاطی سے لیتے ہیں حساب

ہے مدد کا وقت یا اچھے میاں

بھول جاؤں میں نہ سیدھی راہ کو

میرے اچھے رہنما اچھے میاں

تم مجھے اپنا بنا لو بہرِ غوث

میں تمہارا ہو چکا اچھے میاں

کون دے مجھ کو مرادیں آپ دیں

میں ہوں کس کا آپ کا اچھے میاں

یہ گھٹائیں غم کی یہ روزِ سیاہ

مہر فرما مہ لقا اچھے میاں

احمدِ نوری کا صدقہ ہر جگہ

منہ اُجالا ہو مرا اچھے میاں

آنکھ نیچی دونوں عالم میں نہ ہو

بول بولا ہو مرا اچھے میاں

میرے بھائی جن کو کہتے ہیں رضاؔ

جو ہیں اِس دَر کے گدا اچھے میاں

اِن کی منہ مانگی مرادیں ہوں حصول

آپ فرمائیں عطا اچھے میاں

عمر بھر میں اِن کے سایہ میں رہوں

اِن پہ سایہ آپ کا اچھے میاں

مجھ کو میرے بھائیوں کو حشر تک

ہو نہ غم کا سامنا اچھے میاں

مجھ پہ میرے بھائیوں پہ ہر گھڑی

ہو کرم سرکار کا اچھے میاں

مجھ سے میرے بھائیوں سے دُور ہو

دُکھ مرض ہر قسم کا اچھے میاں

میری میرے بھائیوں کی حاجتیں

فضل سے کیجے رَوا اچھے میاں

ہم غلاموں کے جو ہیں لخت جگر

خوش رہیں سب دائما اچھے میاں

پنجتن کا سایہ پانچوں پر رہے

اور ہو فضل خدا اچھے میاں

سب عزیزوں سب قریبوں پر رہے

سایۂ فضل و عطا اچھے میاں

غوثِ اعظم قطبِ عالم کے لیے

رَد نہ ہو میری دعا اچھے میاں

ہو حسنؔ سرکارِ والا کا حسن

کیجیے ایسی عطا اچھے میاں

٭٭٭

 

 (ردیف واؤ)

دل میں ہو یاد تری گوشۂ تنہائی ہو

پھر تو خلوت میں عجب انجمن آرائی ہو

آستانے پہ ترے سر ہو اَجل آئی ہو

اَور اے جانِ جہاں تو بھی تماشائی ہو

خاک پامال غریباں کو نہ کیوں زندہ کرے

جس کے دامن کی ہوا بادِ مسیحائی ہو

اُس کی قسمت پہ فدا تخت شہی کی راحت

خاکِ طیبہ پہ جسے چین کی نیند آئی ہو

تاج والوں کی یہ خواہش ہے کہ اُن کے دَر پر

ہم کو حاصل شرفِ ناصیہ فرسائی ہو

اک جھلک دیکھنے کی تاب نہیں عالم کو

وہ اگر جلوہ کریں کون تماشائی ہو

آج جو عیب کسی پر نہیں کھلنے دیتے

کب وہ چاہیں گے مری حشر میں رُسوائی ہو

کیوں کریں بزمِ شبستانِ جناں کی خواہش

جلوۂ یار جو شمع شبِ تنہائی ہو

خلعتِ مغفرت اُس کے لیے رحمت لائے

جس نے خاکِ درِ شہ جائے کفن پائی ہو

یہی منظور تھا قدرت کو کہ سایہ نہ بنے

ایسے یکتا کے لیے ایسی ہی یکتائی ہو

ذکر خدّام نہیں مجھ کو بتا دیں دشمن

کوئی نعمت بھی کسی اور سے گر پائی ہو

جب اُٹھے دستِ اَجل سے مری ہستی کا حجاب

کاش اِس پردہ کے اندر تری زیبائی ہو

دیکھیں جاں بخشیِ لب کو تو کہیں خضر و مسیح

کیوں مرے کوئی اگر ایسی مسیحائی ہو

کبھی ایسا نہ ہوا اُن کے کرم کے صدقے

ہاتھ کے پھیلنے سے پہلے نہ بھیک آئی ہو

بند جب خوابِ اجل سے ہوں حسنؔ کی آنکھیں

اِس کی نظروں میں ترا جلوۂ زیبائی ہو

٭٭٭

 

اے راحتِ جاں جو ترے قدموں سے لگا ہو

کیوں خاک بسر صورتِ نقشِ کفِ پَا ہو

ایسا نہ کوئی ہے نہ کوئی ہو نہ ہوا ہو

سایہ بھی تو اک مثل ہے پھر کیوں نہ جدا ہو

اﷲ کا محبوب بنے جو تمھیں چاہے

اُس کا تو بیاں ہی نہیں کچھ تم جسے چاہو

دل سب سے اُٹھا کر جو پڑا ہو ترے دَر پر

اُفتادِ دو عالم سے تعلق اُسے کیا ہو

اُس ہاتھ سے دل سوختہ جانوں کے ہرے کر

جس سے رطبِ سوختہ کی نشوونما ہو

ہر سانس سے نکلے گل فردوس کی خوشبو

گر عکس فگن دل میں وہ نقشِ کفِ پَا ہو

اُس دَر کی طرف اس لیے میزاب کا منہ ہے

وہ قبلۂ کونین ہے یہ قبلہ نما ہو

بے چین رکھے مجھ کو ترا دردِ محبت

مِٹ جائے وہ دل پھر جسے ارمانِ دوا ہو

یہ میری سمجھ میں کبھی آ ہی نہیں سکتا

ایمان مجھے پھیرنے کو تو نے دیا ہو

اُس گھر سے عیاں نورِ الٰہی ہو ہمیشہ

تم جس میں گھڑی بھر کے لیے جلوہ نما ہو

مقبول ہیں اَبرو کے اشارہ سے دعائیں

کب تیر کماندارِ نبوت کا خطا ہو

ہو سلسلہ اُلفت کا جسے زُلفِ نبی سے

اُلجھے نہ کوئی کام نہ پابندِ بَلا ہو

شکر ایک کرم کا بھی اَدا ہو نہیں سکتا

دل اُن پہ فدا جانِ حسنؔ اُن پہ فدا ہو

٭٭٭

-: دیگر :-

تم ذاتِ خدا سے نہ جدا ہو نہ خدا ہو

اﷲ کو معلوم ہے کیا جانیے کیا ہو

یہ کیوں کہوں مجھ کو یہ عطا ہو یہ عطا ہو

وہ دو کہ ہمیشہ مرے گھر بھر کا بھلا ہو

جس بات میں مشہورِ جہاں ہے لبِ عیسیٰ

اے جانِ جہاں وہ تری ٹھوکر سے اَدا ہو

ٹوٹے ہوئے دم جوش پہ طوفانِ معاصی

دامن نہ ملے اُن کا تو کیا جانیے کیا ہو

یوں جھک کے ملے ہم سے کمینوں سے وہ جس کو

اﷲ نے اپنے ہی لیے خاص کیا ہو

مِٹی نہ ہو برباد پسِ مرگ الٰہی

جب خاک اُڑے میری مدینہ کی ہوا ہو

منگتا تو ہیں منگتا کوئی شاہوں میں دکھا دے

جس کو مرے سرکار سے ٹکڑا نہ ملا ہو

قدرت نے اَزل میں یہ لکھا اُن کی جبیں پر

جو اِن کی رِضا ہو وہی خالق کی رِضا ہو

ہر وقت کرم بندہ نوازی پہ تُلا ہے

کچھ کام نہیں اِس سے بُرا ہو کہ بھلا ہو

سو جاں سے گنہگار کا ہو رختِ عمل چاک

پردہ نہ کھلے گر ترے دامن سے بندھا ہو

اَبرار نکوکار خدا کے ہیں خدا کے

اُن کا ہے وہ اُن کا ہے جو بد ہو جو بُرا ہو

اَے نفس اُنھیں رَنج دیا اپنی بدی سے

کیا قہر کیا تو نے ارے تیرا بُرا ہو

اﷲ یونہی عمر گزر جائے گدا کی

سر خم ہو دَرِ پاک پر اور ہاتھ اُٹھا ہو

شاباش حسنؔ اور چمکتی سی غزل پڑھ

دل کھول کر آئینۂ ایماں کی جِلا ہو

٭٭٭

 

دل درد سے بسمل کی طرح لوٹ رہا ہو

سینے پہ تسلی کو ترا ہاتھ دھرا ہو

کیوں اپنی گلی میں وہ روا دارِ صدا ہو

جو بھیک لیے راہِ گدا دیکھ رہا ہو

گر وقتِ اجل سر تری چوکھٹ پہ جھکا ہو

جتنی ہو قضا ایک ہی سجدہ میں اَدا ہو

ہمسایۂ رحمت ہے ترا سایۂ دیوار

رُتبہ سے تنزل کرے تو ظلِّ ہُما ہو

موقوف نہیں صبح قیامت ہی پہ یہ عرض

جب آنکھ کھلے سامنے تو جلوہ نما ہو

دے اُس کو دمِ نزع اگر حور بھی ساغر

منہ پھیر لے جو تشنۂ دیدار ترا ہو

فردوس کے باغوں سے اِدھر مل نہیں سکتا

جو کوئی مدینہ کے بیاباں میں گما ہو

دیکھا اُنھیں محشر میں تو رحمت نے پکارا

آزاد ہے جو آپ کے دامن سے بندھا ہو

آتا ہے فقیروں پہ انہیں پیار کچھ ایسا

خود بھیک دیں اور خود کہیں منگتا کا بھلا ہو

ویراں ہوں جب آباد مکاں صبحِ قیامت

اُجڑا ہوا دل آپ کے جلوؤں سے بسا ہو

ڈھونڈا ہی کریں صدرِ قیامت کے سپاہی

وہ کس کو ملے جو ترے دامن میں چھپا ہو

جب دینے کو بھیک آئے سرِ کوئے گدایاں

لب پر یہ دعا تھی مرے منگتا کا بھلا ہو

جھُک کر اُنھیں ملنا ہے ہر اِک خاک نشیں سے

کس واسطے نیچا نہ وہ دامانِ قبا ہو

تم کو تو غلاموں سے ہے کچھ ایسی محبت

ہے ترکِ اَدب ورنہ کہیں ہم پہ فدا ہو

دے ڈالیے اپنے لبِ جاں بخش کا صدقہ

اے چارۂ دل دردِ حسنؔ کی بھی دوا ہو

٭٭٭

 

(ردیف ہائے ہوز)

عجب رنگ پر ہے بہارِ مدینہ

کہ سب جنتیں ہے نثارِ مدینہ

مبارک رہے عندلیبو تمھیں گل

ہمیں گل سے بہتر ہے خارِ مدینہ

بنا شہ نشیں خسروِ دو جہاں کا

بیاں کیا ہو عز و وقارِ مدینہ

مری خاک یا رب نہ برباد جائے

پسِ مرگ کر دے غبارِ مدینہ

کبھی تو معاصی کے خِرمن میں یا رب

لگے آتشِ لالہ زارِ مدینہ

رگِ گل کی جب نازکی دیکھتا ہوں

مجھے یاد آتے ہیں خارِ مدینہ

ملائک لگاتے ہیں آنکھوں میں اپنی

شب و روز خاکِ مزارِ مدینہ

جدھر دیکھیے باغِ جنت کھلا ہے

نظر میں ہیں نقش و نگارِ مدینہ

رہیں اُن کے جلوے بسیں اُن کے جلوے

مرا دل بنے یادگارِ مدینہ

حرم ہے اسے ساحتِ ہر دو عالم

جو دل ہو چکا ہے شکارِ مدینہ

دو عالم میں بٹتا ہے صدقہ یہاں کا

ہمیں اک نہیں ریزہ خوارِ مدینہ

بنا آسماں منزلِ ابنِ مریم

گئے لامکاں تاجدارِ مدینہ

مرادِ دل بلبلِ بے نوا دے

خدایا دکھا دے بہارِ مدینہ

شرف جن سے حاصل ہوا اَنبیا کو

وہی ہیں حسنؔ افتخارِ مدینہ

٭٭٭

 

(ردیف یائے تحتانی)

نہ ہو آرام جس بیمار کو سارے زمانے سے

اُٹھا لے جائے تھوڑی خاک اُن کے آستانے سے

تمہارے دَر کے ٹکڑوں سے پڑا پلتا ہے اِک عالم

گزارا سب کا ہوتا ہے اِسی محتاج خانے سے

شبِ اسریٰ کے دُولھا پر نچھاور ہونے والی تھی

نہیں تو کیا غرض تھی اِتنی جانوں کے بنانے سے

کوئی فردوس ہو یا خلد ہو ہم کو غرض مطلب

لگایا اب تو بستر آپ ہی کے آستانے سے

نہ کیوں اُن کی طرف اللہ سو سو پیار سے دیکھے

جو اپنی آنکھیں مَلتے ہیں تمہارے آستانے سے

تمہارے تو وہ اِحساں اور یہ نافرمانیاں اپنی

ہمیں تو شرم سی آتی ہے تم کو منہ دکھانے سے سے

بہارِ خلد صدقے ہو رہی ہے روئے عاشق پر

کھلی جاتی ہیں کلیاں دل کی تیرے مسکرانے سے

زمیں تھوڑی سی دے دے بہرِ مدفن اپنے کوچے میں

لگا دے میرے پیارے میری مٹی بھی ٹھکانے سے

پلٹتا ہے جو زائر اُس سے کہتا ہے نصیب اُس کا

ارے غافل قضا بہتر ہے یاں سے پھر کے جانے سے

بُلا لو اپنے دَر پر اب تو ہم خانہ بدوشوں کو

پھریں کب تک ذلیل و خوار دَر دَر بے ٹھکانے سے

نہ پہنچے اُن کے قدموں تک نہ کچھ حسنِ عمل ہی ہے

حسنؔ کیا پوچھتے ہو ہم گئے گزرے زمانے سے

٭٭٭

 

مبارک ہو وہ شہ پردہ سے باہر آنے والا ہے

گدائی کو زمانہ جس کے دَر پر آنے والا ہے

چکوروں سے کہو ماہِ دل آرا ہے چمکنے کو

خبر ذرّوں کو دو مہرِ منور آنے والا ہے

فقیروں سے کہو حاضر ہوں جو مانگیں گے پائیں گے

کہ سلطانِ جہاں محتاج پرور آنے والا ہے

کہو پروانوں سے شمع ہدایت اب چمکتی ہے

خبر دو بلبلوں کو وہ گل تر آنے والا ہے

کہاں ہیں ٹوٹی اُمیدیں کہاں ہیں بے سہارا دل

کہ وہ فریاد رس بیکس کا یاور آنے والا ہے

ٹھکانہ بے ٹھکانوں کا سہارا بے سہاروں کا

غریبوں کی مدد بیکس کا یاور آنے والا ہے

بر آئیں گی مرادیں حسرتیں ہو جائیں گی پوری

کہ وہ مختارِ کل عالم کا سرور آنے والا ہے

مبارک درد مندوں کو ہو مژدہ بیقراروں کو

قرارِ دل شکیبِ جانِ مضطر آنے والا ہے

گنہ گاروں نہ ہو مایوس تم اپنی رہائی سے

مدد کو وہ شفیعِ روزِ محشر آنے والا ہے

جھکا لائے نہ کیوں تاروں کو شوقِ جلوۂ عارض

کہ وہ ماہِ دل آرا اب زمیں پر آنے والا ہے

کہاں ہیں بادشاہانِ جہاں آئیں سلامی کو

کہ اب فرمانروائے ہفت کشور آنے والا ہے

سلاطینِ زمانہ جس کے دَر پر بھیک مانگیں گے

فقیروں کو مبارک وہ تونگر آنے والا ہے

یہ ساماں ہو رہے تھے مدتوں سے جس کی آمد کے

وہی نوشاہ با صد شوکت و فر آنے والا ہے

وہ آتا ہے کہ ہے جس کا فدائی عالم بالا

وہ آتا ہے کہ دل عالم کا جس پر آنے والا ہے

نہ کیوں ذرّوں کو ہو فرحت کہ چمکا اخترِ قسمت

سحر ہوتی ہے خورشیدِ منور آنے والا ہے

حسنؔ کہہ دے اُٹھیں سب اُمتی تعظیم کی خاطر

کہ اپنا پیشوا اپنا پیمبر آنے والا ہے

٭٭٭

 

جائے گی ہنستی ہوئی خلد میں اُمت اُن کی

کب گوارا ہوئی اﷲ کو رِقّت اُن کی

ابھی پھٹتے ہیں جگر ہم سے گنہگاروں کے

ٹوٹے دل کا جو سہارا نہ ہو رحمت اُن کی

دیکھ آنکھیں نہ دکھا مہرِ قیامت ہم کو

جن کے سایہ میں ہیں ہم دیکھی ہے صورت اُن کی

حُسنِ یوسف دمِ عیسیٰ پہ نہیں کچھ موقوف

جس نے جو پایا ہے پایا ہے بدولت اُن کی

اُن کا کہنا نہ کریں جب بھی وہ ہم کو چاہیں

سرکشی اپنی تو یہ اور وہ چاہت اُن کی

پار ہو جائے گا اک آن میں بیڑا اپنا

کام کر جائے گی محشر میں شفاعت اُن کی

حشر میں ہم سے گنہگار پریشاں خاطر

عفو رحمن و رحیم اور شفاعت اُن کی

خاکِ دَر تیری جو چہروں پہ مَلے پھرتے ہیں

کس طرح بھائے نہ اﷲ کو صورت اُن کی

عاصیو کیوں غمِ محشر میں مرے جاتے ہو

سنتے ہیں بندہ نوازی تو ہے عادت اُن کی

جلوۂ شانِ الہٰی کی بہاریں دیکھو

قد راء الحقَّ کی ہے شرح زیارت اُن کی

باغِ جنت میں چلے جائیں گے بے پوچھے ہم

وقف ہے ہم سے مساکین پہ دولت اُن کی

یاد کرتے ہیں عدو کو بھی دعا ہی سے وہ

ساری دنیا سے نرالی ہے یہ عادت اُن کی

ہم ہوں اور اُن کی گلی خلد میں واعظ ہی رہیں

اے حسنؔ اُن کو مبارک رہے جنت اُن کی

٭٭٭

 

ہم نے تقصیر کی عادت کر لی

آپ اپنے پہ قیامت کر لی

میں چلا ہی تھا مجھے روک لیا

مرے اﷲ نے رحمت کر لی

ذکر شہ سن کے ہوئے بزم میں محو

ہم نے جلوت میں بھی خلوت کر لی

نارِ دوزخ سے بچایا مجھ کو

مرے پیارے بڑی رحمت کر لی

بال بیکا نہ ہوا پھر اُس کا

آپ نے جس کی حمایت کر لی

رکھ دیا سر قدمِ جاناں پر

اپنے بچنے کی یہ صورت کر لی

نعمتیں ہم کو کھلائیں اور آپ

جو کی روٹی پہ قناعت کر لی

اُس سے فردوس کی صورت پوچھو

جس نے طیبہ کی زیارت کر لی

شانِ رحمت کے تصدق جاؤں

مجھ سے عاصی کی حمایت کر لی

فاقہ مستوں کو شکم سیر کیا

آپ فاقہ پہ قناعت کر لی

اے حسنؔ کام کا کچھ کام کیا

یا یونہی ختم پہ رُخصت کر لی

٭٭٭

 

کیا خداداد آپ کی اِمداد ہے

اک نظر میں شاد ہر ناشاد ہے

مصطفیٰ تو برسرِ اِمداد ہے

عفو تو کہہ کیا ترا اِرشاد ہے

بن پڑی ہے نفس کافر کیش کی

کھیل بگڑا لو خبر فریاد ہے

اس قدر ہم اُن کو بھولے ہائے ہائے

ہر گھڑی جن کو ہماری یاد ہے

نفسِ امارہ کے ہاتھوں اے حضور

داد ہے بیداد ہے فریاد ہے

پھر چلی بادِ مخالف لو خبر

ناؤ پھر چکرا گئی فریاد ہے

کھیل بگڑا ناؤ ٹوٹی میں چلا

اے مرے والی بچا فریاد ہے

رات اندھیری میں اکیلا یہ گھٹا

اے قمر ہو جلوہ گر فریاد ہے

عہد جو اُن سے کیا روزِ اَلست

کیوں دلِ غافل تجھے کچھ یاد ہے

میں ہوں میں ہوں اپنی اُمت کے لیے

کیا ہی پیارا پیارا یہ اِرشاد ہے

وہ شفاعت کو چلے ہیں پیشِ حق

عاصیو تم کو مبارک باد ہے

کون سے دل میں نہیں یادِ حبیب

قلبِ مومن مصطفیٰ آباد ہے

جس کو اُس دَر کی غلامی مل گئی

وہ غمِ کونین سے آزاد ہے

جن کے ہم بندے وہی ٹھہرے شفیع

پھر دلِ بیتاب کیوں ناشاد ہے

اُن کے دَر پر گر کے پھر اُٹھا نہ جائے

جان و دل قربان کیا اُفتاد ہے

یہ عبادت زاہدو بے حُبِّ دوست

مفت کی محنت ہے سب برباد ہے

ہم صفیروں سے ملیں کیوں کر حسنؔ

سخت دل اور سنگدل صیاد ہے

٭٭٭

 

آپ کے دَر کی عجب توقیر ہے

جو یہاں کی خاک ہے اِکسیر ہے

کام جو اُن سے ہوا پورا ہوا

اُن کی جو تدبیر ہے تقدیر ہے

جس سے باتیں کیں اُنھیں کا ہو گیا

واہ کیا تقریرِ پُر تاثیر ہے

جو لگائے آنکھ میں محبوب ہو

خاکِ طیبہ سرمۂ تسخیر ہے

صدرِ اقدس ہے خزینہ راز کا

سینہ کی تحریر میں تحریر ہے

ذرّہ ذرّہ سے ہے طالع نورِ شاہ

آفتابِ حُسن عالم گیر ہے

لطف کی بارش ہے سب شاداب ہیں

اَبرِ جودِ شاہِ عالم گیر ہے

مجرمو اُن کے قدموں پر لوٹ جاؤ

بس رِہائی کی یہی تدبیر ہے

یا نبی مشکل کشائی کیجیے

بندۂ در بے دل و دل گیر ہے

وہ سراپا لطف ہیں شانِ خدا

وہ سراپا نور کی تصویر ہے

کان ہیں کانِ کرم جانِ کرم

آنکھ ہے یا چشمۂ تنویر ہے

جانے والے چل دیئے ہم رہ گئے

اپنی اپنی اے حسنؔ تقدیر ہے

٭٭٭

 

نہ مایوس ہو میرے دُکھ درد والے

درِ شہ پہ آ ہر مرض کی دوا لے

جو بیمار غم لے رہا ہو سنبھالے

وہ چاہے تو دَم بھر میں اس کو سنبھالے

نہ کر اس طرح اے دلِ زار نالے

وہ ہیں سب کی فریاد کے سننے والے

کوئی دم میں اب ڈوبتا ہے سفینہ

خدارا خبر میری اے ناخدا لے

سفر کر خیالِ رُخِ شہ میں اے جاں

مسافر نکل جا اُجالے اُجالے

تہی دست و سودائے بازارِ محشر

مری لاج رکھ لے مرے تاج والے

زہے شوکتِ آستانِ معلّٰی

یہاں سر جھکاتے ہیں سب تاج والے

سوا تیرے اے ناخدائے غریباں

وہ ہے کون جو ڈوبتوں کو نکالے

یہی عرض کرتے ہیں شیرانِ عالم

کہ تو اپنے کتوں کا کتا بنا لے

جسے اپنی مشکل ہو آسان کرنی

فقیرانِ طیبہ سے آ کر دعا لے

خدا کا کرم دستگیری کو آئے

ترا نام لے لیں اگر گرنے والے

دَرِ شہ پر اے دل مرادیں ملیں گی

یہاں بیٹھ کر ہاتھ سب سے اُٹھا لے

گھرا ہوں میں عصیاں کی تاریکیوں میں

خبر میری اے میرے بدر الدجیٰ لے

فقیروں کو ملتا ہے بے مانگے سب کچھ

یہاں جانتے ہی نہیں ٹالے بالے

لگائے ہیں پیوند کپڑوں میں اپنے

اُڑھائے فقیروں کو تم نے دوشالے

مٹا کفر کو ، دین چمکا دے اپنا

بنیں مسجدیں ٹوٹ جائیں شوالے

جو پیش صنم سر جھکاتے تھے اپنے

بنے تیری رحمت سے اﷲ والے

نگاہِ ز چشم کرم بر حسنؔ کن

بکویت رسید ست آشفتہ حالے

٭٭٭

 

نہیں وہ صدمہ یہ دل کو کس کا خیالِ رحمت تھپک رہا ہے

کہ آج رُک رُک کے خونِ دل کچھ مری مژہ سے ٹپک رہا ہے

لیا نہ ہو جس نے اُن کا صدقہ ملا نہ ہو جس کو اُن کا باڑا

نہ کوئی ایسا بشر ہے باقی نہ کوئی ایسا ملک رہا ہے

کیا ہے حق نے کریم تم کو اِدھر بھی للہ نگاہ کر لو

کہ دیر سے بینوا تمہارا تمہارے ہاتھوں کو تک رہا ہے

ہے کس کے گیسوئے مشک بو کی شمیم عنبر فشانیوں پر

کہ جائے نغمہ صفیر بلبل سے مشکِ اَذفر ٹپک رہا ہے

یہ کس کے رُوئے نکو کے جلوے زمانے کو کر رہے ہیں روشن

یہ کس کے گیسوئے مشک بو سے مشامِ عالم مہک رہا ہے

حسنؔ عجب کیا جو اُن کے رنگِ ملیح کی تہ ہے پیرہن پر

کہ َرنگ پُر نور مہر گردوں کئی فلک سے چمک رہا ہے

٭٭٭

 

مرادیں مل رہی ہیں شاد شاد اُن کا سوالی ہے

لبوں پر اِلتجا ہے ہاتھ میں روضے کی جالی ہے

تری صورت تری سیرت زمانے سے نرالی ہے

تری ہر ہر اَدا پیارے دلیلِ بے مثالی ہے

بشر ہو یا مَلک جو ہے ترے دَر کا سوالی ہے

تری سرکار والا ہے ترا دربار عالی ہے

وہ جگ داتا ہو تم سنسار باڑے کا سوالی ہے

دَیا کرنا کہ اس منگتا نے بھی گُدڑی بچھا لی ہے

منور دل نہیں فیضِ قدومِ شہ سے روضہ ہے

مشبکِ سینۂ عاشق نہیں روضہ کی جالی ہے

تمہارا قامتِ یکتا ہے اِکّا بزمِ وحدت کا

تمہاری ذاتِ بے ہمتا مثالِ بے مثالی ہے

فروغِ اخترِ بدر آفتابِ جلوۂ عارض

ضیائے طالعِ بدر اُن کا اَبروئے ہلالی ہے

وہ ہیں اﷲ والے جو تجھے والی کہیں اپنا

کہ تو اﷲ والا ہے ترا اﷲ والی ہے

سہارے نے ترے گیسو کے پھیرا ہے بلاؤں کو

اِشارے نے ترے ابرو کے آئی موت ٹالی ہے

نگہ نے تیر زحمت کے دلِ اُمت سے کھینچے ہیں

مژہ نے پھانس حسرت کی کلیجہ سے نکالی ہے

فقیرو بے نواؤ اپنی اپنی جھولیاں بھر لو

کہ باڑا بٹ رہا ہے فیض پر سرکارِ عالی ہے

تجھی کو خلعتِ یکتائیِ عالم ملا حق سے

ترے ہی جسم پہ موزوں قبائے بے مثالی ہے

نکالا کب کسی کو بزمِ فیضِ عام سے تم نے

نکالی ہے تو آنے والوں کی حسرت نکالی ہے

بڑھے کیونکر نہ پھر شکل ہلال اسلام کی رونق

ہلالِ آسمانِ دیں تری تیغِ ہلالی ہے

فقط اتنا سبب ہے اِنعقادِ بزمِ محشر کا

کہ ُان کی شانِ محبوبی دکھائی جانے والی ہے

خدا شاہد کہ روزِ حشر کا کھٹکا نہیں رہتا

مجھے جب یاد آتا ہے کہ میرا کون والی ہے

اُتر سکتی نہیں تصویر بھی حسنِ سراپا کی

کچھ اس درجہ ترقی پر تمہاری بے مثالی ہے

نہیں محشر میں جس کو دسترس آقا کے دامن تک

بھرے بازار میں اِس بے نوا کا ہاتھ خالی ہے

نہ کیوں ہو اِتحادِ منزلت مکہ مدینہ میں

وہ بستی ہے نبی والی تو یہ اﷲ والی ہے

شرف مکہ کی بستی کو ملا طیبہ کی بستی سے

نبی والی ہی کے صدقے میں وہ اﷲ والی ہے

وہی والی وہی آقا وہی وارث وہی مولیٰ

میں اُن کے صدقے جاؤں اور میرا کون والی ہے

پکار اے جانِ عیسیٰ سن لو اپنے خستہ حالوں کی

مرض نے درد مندوں کی غضب میں جان ڈالی ہے

مرادوں سے تمہیں دامن بھرو گے نامرادوں کے

غریبوں بیکسوں کا اور پیارے کون والی ہے

ہمیشہ تم کرم کرتے ہو بگڑے حال والوں پر

بگڑ کر میری حالت نے مری بگڑی بنا لی ہے

تمہارے دَر تمہارے آستاں سے میں کہاں جاؤں

نہ کوئی مجھ سا بیکس ہے نہ تم سا کوئی والی ہے

حسنؔ کا درد دُکھ موقوف فرما کر بحالی دو

تمہارے ہاتھ میں دنیا کی موقوفی بحالی ہے

٭٭٭

 

کرے چارہ سازی زیارت کسی کی

بھرے زخم دل کے ملاحت کسی کی

چمک کر یہ کہتی ہے طلعت کسی کی

کہ دیدارِ حق ہے زیارت کسی کی

نہ رہتی جو پردوں میں صورت کسی کی

نہ ہوتی کسی کو زیارت کسی کی

عجب پیاری پیاری ہے صورت کسی کی

ہمیں کیا خدا کو ہے اُلفت کسی کی

ابھی پار ہوں ڈوبنے والے بیڑے

سہارا لگا دے جو رحمت کسی کی

کسی کو کسی سے ہوئی ہے نہ ہو گی

خدا کو ہے جتنی محبت کسی کی

دمِ حشر عاصی مزے لے رہے ہیں

شفاعت کسی کی ہے رحمت کسی کی

رہے دل کسی کی محبت میں ہر دم

رہے دل میں ہر دم محبت کسی کی

ترا قبضہ کونین و مافیہا سب پر

ہوئی ہے نہ ہو یوں حکومت کسی کی

خدا کا دیا ہے ترے پاس سب کچھ

ترے ہوتے کیا ہم کو حاجت کسی کی

زمانہ کی دولت نہیں پاس پھر بھی

زمانہ میں بٹتی ہے دولت کسی کی

نہ پہنچیں کبھی عقلِ کل کے فرشتے

خدا جانتا ہے حقیقت کسی کی

ہمارا بھروسہ ہمارا سہارا

شفاعت کسی کی حمایت کسی کی

قمر اِک اشارے میں دو ٹکڑے دیکھا

زمانے پہ روشن ہے طاقت کسی کی

ہمیں ہیں کسی کی شفاعت کی خاطر

ہماری ہی خاطر شفاعت کسی کی

مصیبت زدو شاد ہو تم کہ اُن سے

نہیں دیکھی جاتی مصیبت کسی کی

نہ پہنچیں گے جب تک گنہگار اُن کے

نہ جائے گی جنت میں اُمت کسی کی

ہم ایسے گنہگار ہیں زہد والو

ہماری مدد پر ہے رحمت کسی کی

مدینہ کا جنگل ہو اور ہم ہوں زاہد

نہیں چاہیے ہم کو جنت کسی کی

ہزاروں ہوں خورشید محشر تو کیا غم

یہاں سایہ گستر ہے رحمت کسی کی

بھرے جائیں گے خلد میں اہلِ عصیاں

نہ جائے گی خالی شفاعت کسی کی

وہی سب کا مالک اُنہیں کا ہے سب کچھ

نہ عاصی کسی کے نہ جنت کسی کی

رَفِعْنَا لَکَ ذَکرَکَ پر تصدق

سب اُونچوں سے اُونچی ہے رفعت کسی کی

اُترنے لگے مَا رَمَیْتَ یَدُ اﷲ

چڑھی ایسی زوروں پہ طاقت کسی کی

گدا خوش ہوں خَیرٌ لَّک کی صد ا ہے

کہ دن دُونی بڑھتی ہے دولت کسی کی

فتَرْضیٰ نے ڈالی ہیں باہیں گلے میں

کہ ہو جائے راضی طبیعت کسی کی

خدا سے دعا ہے کہ ہنگامِ رُخصت

زبانِ حسنؔ پر ہو مدحت کسی کی

٭٭٭

 

جان سے تنگ ہیں قیدی غمِ تنہائی کے

صدقے جاؤں میں تری انجمن آرائی کے

بزم آرا ہوں اُجالے تری زیبائی کے

کب سے مشتاق ہیں آئینے خود آرائی کے

ہو غبارِ درِ محبوب کہ گردِ رہِ دوست

جزو اعظم ہیں یہی سرمۂ بینائی کے

خاک ہو جائے اگر تیری تمناؤں میں

کیوں ملیں خاک میں اَرمان تمنائی کے

وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکَ کے چمکتے خورشید

لامکاں تک ہیں اُجالے تری زیبائی کے

دلِ مشتاق میں اَرمانِ لقا آنکھیں بند

قابلِ دید ہیں انداز تمنائی کے

لبِ جاں بخش کی کیا بات ہے سبحان اﷲ

تم نے زندہ کیے اِعجاز مسیحائی کے

اپنے دامن میں چھپائیں وہ مرے عیبوں کو

اے زہے بخت مری ذلّت و رُسوائی کے

دیکھنے والے خدا کے ہیں خدا شاہد ہے

دیکھنے والے ترے جلوۂ زیبائی کے

جب غبارِ رہِ محبوب نے عزت بخشی

آئینے صاف ہوئے عینکِ بینائی کے

بار سر پر ہے نقاہت سے گرا جاتا ہوں

صدقے جاؤں ترے بازو کی توانائی کے

عالم الغیب نے ہر غیب سے آگاہ کیا

صدقے اس شان کی بینائی و دانائی کے

دیکھنے والے تم ہو رات کی تاریکی میں

کان میں سمع کے اور آنکھ میں بینائی کے

عیبی نطفے ہیں وہ بے علم جنم کے اندھے

جن کو انکار ہیں اس علم و شناسائی کے

اے حسنؔ کعبہ ہی افضل سہی اِس دَر سے مگر

ہم تو خوگر ہیں یہاں ناصیہ فرسائی کے

٭٭٭

 

پردے جس وقت اُٹھیں جلوۂ زیبائی کے

وہ نگہبان رہیں چشمِ تمنائی کے

دھُوم ہے فرش سے تا عرش تری شوکت کی

خطبے ہوتے ہیں جہانبانی و دارائی کے

حُسن رنگینی و طلعت سے تمہارے جلوے

گل و آئینہ بنے محفل و زیبائی کے

ذرّۂ دشتِ مدینہ کی ضیا مہر کرے

اچھی ساعت سے پھریں دن شبِ تنہائی کے

پیار سے لے لیے آغوش میں سر رحمت نے

پائے انعام ترے دَر کی جبیں سائی کے

لاشِ احباب اِسی دَر پر پڑی رہنے دیں

کچھ تو ارمان نکل جائیں جبیں سائی کے

جلو گر ہو جو کبھی چشمِ تمنائی میں

پردے آنکھوں کے ہوں پردے تری زیبائی کے

خاکِ پامال ہماری بھی پڑی ہے سرِ راہ

صدقے اے رُوحِ رواں تیری مسیحائی کے

کیوں نہ وہ ٹوٹے دلوں کے کھنڈر آباد کریں

کہ دکھاتے ہیں کمال انجمن آرائی کے

زینتوں سے ہیں حسینانِ جہاں کی زینت

زینتیں پاتی ہیں صدقے تری زیبائی کے

نام آقا ہوا جو لب سے غلاموں کے بلند

بالا بالا گئے غم آفتِ بالائی کے

عرش پہ کعبہ و فردوس و دلِ مومن میں

شمع افروز ہیں اِکے تری یکتائی کے

ترے محتاج نے پایا ہے وہ شاہانہ مزاج

اُس کی گُدڑی کو بھی پیوند ہوں دارائی کے

اپنے ذرّوں کے سیہ خانوں کو روشن کر دو

مہر ہو تم فلکِ انجمن آرائی کے

پورے سرکار سے چھوٹے بڑے اَرمان ہو سب

اے حسنؔ میرے مرے چھوٹے بڑے بھائی کے

٭٭٭

 

دمِ اضطراب مجھ کو جو خیالِ یار آئے

مرے دل میں چین آئے تو اسے قرار آئے

تری وحشتوں سے اے دل مجھے کیوں نہ عار آئے

تو اُنھیں سے دُور بھاگے جنھیں تجھ پہ پیار آئے

مرے دل کو دردِ اُلفت وہ سکون دے الٰہی

مری بے قراریوں کو نہ کبھی قرار آئے

مجھے نزع چین بخشے مجھے موت زندگی دے

وہ اگر مرے سرھانے دمِ احتضار آئے

سببِ وفورِ رحمت میری بے زبانیاں ہیں

نہ فغاں کے ڈھنگ جانوں نہ مجھے پکار آئے

کھلیں پھول اِس پھبن کے کھلیں بخت اِس چمن کے

مرے گل پہ صدقے ہو کے جو کبھی بہار آئے

نہ حبیب سے محب کا کہیں ایسا پیار دیکھا

وہ بنے خدا کا پیارا تمھیں جس پہ پیار آئے

مجھے کیا اَلم ہو غم کا مجھے کیا ہو غم اَلم کا

کہ علاج غم اَلم کا میرے غمگسار آئے

جو امیر و بادشا ہیں اِسی دَر کے سب گدا ہیں

تمھیں شہر یار آئے تمھیں تاجدار آئے

جو چمن بنائے بَن کو جو جِناں کرے چمن کو

مرے باغ میں الٰہی کبھی وہ بہار آئے

یہ کریم ہیں وہ سرور کہ لکھا ہوا ہے دَر پر

جسے لینے ہوں دو عالم وہ اُمیدوار آئے

ترے صدقے جائے شاہا یہ ترا ذلیل منگتا

ترے دَر پہ بھیک لینے سبھی شہر یار آئے

چمک اُٹھے خاکِ تیرہ بنے مہر ذرّہ ذرّہ

مرے چاند کی سواری جو سر مزار آئے

نہ رُک اے ذلیل و رُسوا درِ شہریار پر آ

کہ یہ وہ نہیں ہیں حاشا جنھیں تجھ سے عار آئے

تری رحمتوں سے کم ہیں مرے جرم اس سے زائد

نہ مجھے حساب آئے نہ مجھے شمار آئے

گل خلد لے کے زاہد تمھیں خارِ طیبہ دے دوں

مرے پھول مجھ کو دیجے بڑے ہوشیار آئے

بنے ذرّہ ذرّہ گلشن تو ہو خار خار گلبن

جو ہمارے اُجڑے بَن میں کبھی وہ نگار آئے

ترے صدقے تیرا صدقہ ہے وہ شاندار صدقہ

وہ وقار لے کے جائے جو ذلیل و خوار آئے

ترے دَر کے ہیں بھکاری ملے خیر دم قدم کی

ترا نام سن کے داتا ہم اُمیدوار آئے

حسنؔ اُن کا نام لے کر تو پکار دیکھ غم میں

کہ یہ وہ نہیں جو غافل پسِ اِنتظار آئے

٭٭٭

 

تم ہو حسرت نکالنے والے

نامرادوں کے پالنے والے

میرے دشمن کو غم ہو بگڑی کا

آپ ہیں جب سنبھالنے والے

تم سے منہ مانگی آس ملتی ہے

اور ہوتے ہیں ٹالنے والے

لبِ جاں بخش سے جِلا دل کو

جان مردے میں ڈالنے والے

دستِ اقدس بجھا دے پیاس مری

میرے چشمے اُبالنے والے

ہیں ترے آستاں کے خاک نشیں

تخت پر خاک ڈالنے والے

روزِ محشر بنا دے بات مری

ڈھلی بگڑی سنبھالنے والے

بھیک دے بھیک اپنے منگتا کو

اے غریبوں کے پالنے والے

ختم کر دی ہے اُن پہ موزونی

واہ سانچے میں ڈھالنے والے

اُن کا بچپن بھی ہے جہاں پرور

کہ وہ جب بھی تھے پالنے والے

پار کر ناؤ ہم غریبوں کی

ڈوبتوں کو نکالنے والے

خاکِ طیبہ میں بے نشاں ہو جا

اَرے او نام اچھالنے والے

کام کے ہوں کہ ہم نکمّے ہوں

وہ سبھی کے ہیں پالنے والے

زنگ سے پاک صاف کر دل کو

اندھے شیشے اُجالنے والے

خارِ غم کا حسنؔ کو کھٹکا ہے

دل سے کانٹا نکالنے والے

٭٭٭

 

اﷲ اﷲ شہِ کونین جلالت تیری

فرش کیا عرش پہ جاری ہے حکومت تیری

جھولیاں کھول کے بے سمجھے نہیں دوڑ آئے

ہمیں معلوم ہے دولت تری عادت تیری

تو ہی ہے مُلکِ خدا مِلک خدا کا مالک

راج تیرا ہے زمانے میں حکومت تیری

تیرے انداز یہ کہتے ہیں کہ خالق کو تری

سب حسینوں میں پسند آئی ہے صورت تیری

اُس نے حق دیکھ لیا جس نے اِدھر دیکھ لیا

کہہ رہی ہے یہ چمکتی ہوئی طلعت تیری

بزم محشر کا نہ کیوں جائے بلاوا سب کو

کہ زمانے کو دکھانی ہے وجاہت تیری

عالم رُوح پہ ہے عالم اجسام کو ناز

چوکھٹے میں ہے عناصر کے جو صورت تیری

جن کے سر میں ہے ہوا دشتِ نبی کی رضواں

اُن کے قدموں سے لگی پھرتی ہے جنت تیری

تو وہ محبوب ہے اے راحتِ جاں دل کیسے

ہیزمِ خشک کو تڑپا گئی فرقت تیری

مہ و خورشید سے دن رات ضیا پاتے ہیں

مہ و خورشید کو چمکاتی ہے طلعت تیری

گٹھریاں بندھ گئی پر ہاتھ ترا بند نہیں

بھر گئے دل نہ بھری دینے سے نیت تیری

موت آ جائے مگر آئے نہ دل کو آرام

دم نکل جائے مگر نکلے نہ اُلفت تیری

دیکھنے والے کہا کرتے ہیں اﷲ اﷲ

یاد آتا ہے خدا دیکھ کے صورت تیری

مجمعِ حشر میں گھبرائی ہوئی پھرتی ہے

ڈھونڈنے نکلی ہے مجرم کو شفاعت تیری

نہ ابھی عرصۂ محشر نہ حسابِ اُمت

آج ہی سے ہے کمر بستہ حمایت تیری

تو کچھ ایسا ہے کہ محشر کی مصیبت والے

درد دُکھ بھول گئے دیکھ کے صورت تیری

ٹوپیاں تھام کے گر عرشِ بریں کو دیکھیں

اُونچے اُونچوں کو نظر آئے نہ رفعت تیری

حُسن ہے جس کا نمک خوار وہ عالم تیرا

جس کو اﷲ کرے پیار وہ صورت تیری

دونوں عالم کے سب ارمان نکالے تو نے

نکلی اِس شانِ کرم پر بھی نہ حسرت تیری

چین پائیں گے تڑپتے ہوئے دل محشر میں

غم کسے یاد رہے دیکھ کے صورت تیری

ہم نے مانا کہ گناہوں کی نہیں حد لیکن

تو ہے اُن کا تو حسنؔ تیری ہے جنت تیری

٭٭٭

 

باغِ جنت میں نرالی چمن آرائی ہے

کیا مدینہ پہ فدا ہو کے بہار آئی ہے

اُن کے گیسو نہیں رحمت کی گھٹا چھائی ہے

اُن کے اَبرو نہیں دو قبلوں کی یکجائی ہے

سنگریزوں نے حیاتِ ابدی پائی ہے

ناخنوں میں ترے اِعجازِ مسیحائی ہے

سر بالیں اُنھیں رحمت کی اَدا لائی ہے

حال بگڑا ہے تو بیمار کی بن آئی ہے

جانِ گفتار تو رفتار ہوئی رُوحِ رواں

دم قدم سے ترے اِعجازِ مسیحائی ہے

جس کے ہاتھوں کے بنائے ہوئے ہیں حسن و جمال

اے حسیں تیری اَدا اُس کو پسند آئی ہے

تیرے جلوؤں میں یہ عالم ہے کہ چشمِ عالم

تابِ دیدار نہیں پھر بھی تماشائی ہے

جب تری یاد میں دنیا سے گیا ہے کوئی

جان لینے کو دلہن بن کے قضا آئی ہے

سر سے پا تک تری صورت پہ تصدق ہے جمال

اُس کو موزونیِ اَعضا یہ پسند آئی ہے

تیرے قدموں کا تبرک یدِ بیضائے کلیم

تیرے ہاتھوں کا دیا فضلِ مسیحائی ہے

دردِ دل کس کو سناؤں میں تمہارے ہوتے

بے کسوں کی اِسی سرکار میں سنوائی ہے

آپ آئے تو منور ہوئیں اندھی آنکھیں

آپ کی خاکِ قدم سرمۂ بینائی ہے

ناتوانی کا اَلم ہم ضعفا کو کیا ہو

ہاتھ پکڑے ہوئے مولا کی توانائی ہے

جان دی تو نے مسیحا و مسیحائی کو

تو ہی تو جانِ مسیحا و مسیحائی ہے

چشم بے خواب کے صدقے میں ہیں بیدار نصیب

آپ جاگے تو ہمیں چین کی نیند آئی ہے

باغِ فردوس کھلا فرش بچھا عرش سجا

اِک ترے دم کی یہ سب انجمن آرائی ہے

کھیت سر سبز ہوئے پھول کھلے میل دھُلے

اور پھر فضل کی گھنگھور گھٹا چھائی ہے

ہاتھ پھیلائے ہوئے دوڑ پڑے ہیں منگتا

میرے داتا کی سواری سرِ حشر آئی ہے

نااُمیدو تمھیں مژدہ کہ خدا کی رحمت

اُنھیں محشر میں تمہارے ہی لیے لائی ہے

فرش سے عرش تک اک دھُوم ہے اﷲ اﷲ

اور ابھی سینکڑوں پردوں میں وہ زیبائی ہے

اے حسنؔ حُسنِ جہاں تاب کے صدقے جاؤں

ذرّے ذرّے سے عیاں جلوۂ زیبائی ہے

٭٭٭

 

حاضریِ حرمین طیبّین

حضورِ کعبہ حاضر ہیں حرم کی خاک پر سر ہے

بڑی سرکار میں پہنچے مقدر یاوری پر ہے

نہ ہم آنے کے لائق تھے نہ قابل منہ دِکھانے کے

مگر اُن کا کرم ذرّہ نواز و بندہ پرور ہے

خبر کیا ہے بھکاری کیسی کیسی نعمتیں پائیں

یہ اُونچا گھر ہے اِس کی بھیک اندازہ سے باہر ہے

تصدق ہو رہے ہیں لاکھوں بندے گرد پھر پھر کر

طوافِ خانۂ کعبہ عجب دلچسپ منظر ہے

خدا کی شان یہ لب اور بوسہ سنگِ اسود کا

ہمارا منہ اور اِس قابل عطائے ربِ اکبر ہے

جو ہیبت سے رُکے مجرم تو رحمت نے کہا بڑھ کر

چلے آؤ چلے آؤ یہ گھر رحمن کا گھر ہے

مقامِ حضرتِ خلّت پدر سا مہرباں پایا

کلیجہ سے لگانے کو حطیم آغوشِ مادر ہے

لگاتا ہے غلافِ پاک کوئی چشم پُر نم سے

لپٹ کر ملتزم سے کوئی محو وصلِ دلبر ہے

وطن اور اُس کا تڑکا صدقے اس شامِ غریبی پر

کہ نورِ رُکن شامی رُوکشِ صبحِ منور ہے

ہوئے ایمان تازہ بوسۂ رُکن یمانی سے

فدا ہو جاؤں یمن و ایمنی کا پاک منظر ہے

یہ زمزم اُس لیے ہے جس لیے اس کو پئے کوئی

اِسی زمزم میں جنت ہے اِسی زمزم میں کوثر ہے

شفا کیوں کر نہ پائیں نیم جاں زہر معاصی سے

کہ نظارہ عراقی رکن کا تریاقِ اکبر ہے

صفائے قلب کے جلوے عیاں ہیں سعی مسعیٰ سے

یہاں کی بے قراری بھی سکونِ جانِ مضطر ہے

ہوا ہے پیر کا حج پیر نے جن سے شرف پایا

اُنھیں کے فضل سے دن جمعہ کا ہر دن سے بہتر ہے

نہیں کچھ جمعہ پر موقوف افضال و کرم ان کا

جو وہ مقبول فرما لیں تو ہر حج حجِ اکبر ہے

حسنؔ حج کر لیا کعبہ سے آنکھوں نے ضیا پائی

چلو دیکھیں وہ بستی جس کا رستہ دل کے اندر ہے

٭٭٭

 

سحر چمکی جمالِ فصلِ گل آرائشوں پر ہے

نسیمِ روح پرور سے مشامِ جاں معطر ہے

قریب طیبہ بخشے ہیں تصور نے مزے کیا کیا

مرا دل ہے مدینہ میں مدینہ دل کے اندر ہے

ملائک سر جہاں اپنا جھجکتے ڈرتے رکھتے ہیں

قدم اُن کے گنہگاروں کا ایسی سر زمیں پر ہے

ارے او سونے والے دِل ارے اوسونے والے دِل

سحر ہے جاگ غافل دیکھ تو عالم منور ہے

سہانی طرز کی طلعت نرالی رنگ کی نکہت

نسیمِ صبح سے مہکا ہوا پُر نور منظر ہے

تعالیٰ اﷲ یہ شادابی یہ رنگینی تعالیٰ اﷲ

بہارِ ہشت جنت دشتِ طیبہ پر نچھاور ہے

ہوائیں آ رہی ہیں کوچۂ پُر نورِ جاناں کی

کھلی جاتی ہیں کلیاں تازگی دل کو میسر ہے

منور چشمِ زائر ہے جمالِ عرشِ اعظم سے

نظر میں سبز قُبّہ کی تجلی جلوہ گستر ہے

یہ رفعت درگہِ عرش آستاں کے قرب سے پائی

کہ ہر ہر سانس ہر ہر گام پر معراجِ دیگر ہے

محرم کی نویں تاریخ بارہ منزلیں کر کے

وہاں پہنچے وہ گھر دیکھا جو گھر اﷲ کا گھر ہے

نہ پوچھو ہم کہاں پہنچے اور اِن آنکھوں نے کیا دیکھا

جہاں پہنچے وہاں پہنچے جو دیکھا دل کے اندر ہے

ہزاروں بے نواؤں کے ہیں جمگھٹ آستانہ پر

طلب دل میں صدائے یا رسول اﷲ لب پر ہے

لکھا ہے خامۂ رحمت نے دَر پر خط قدرت سے

جسے یہ آستانہ مل گیا سب کچھ میسر ہے

خدا ہے اس کا مالک یہ خدائی بھر کا مالک ہے

خدا ہے اس کا مولیٰ یہ خدائی بھر کا سرور ہے

زمانہ اس کے قابو میں زمانے والے قابو میں

یہ ہر دفتر کا حاکم ہے یہ ہر حاکم کا افسر ہے

عطا کے ساتھ ہے مختار رحمت کے خزانوں کا

خدائی پر ہے قابو بس خدائی اس سے باہر ہے

کرم کے جوش ہیں بذل و نعم کے دَور دَورے ہیں

عطائے با نوا ہر بے نوا سے شیر و شکر ہے

کوئی لپٹا ہے فرطِ شوق میں روضے کی جالی سے

کوئی گردن جھکائے رُعب سے با دیدۂ تر ہے

کوئی مشغولِ عرض حال ہے یوں شادماں ہو کر

کہ یہ سب سے بڑی سرکار ہے تقدیر یاور ہے

کمینہ بندۂ دَر عرض کرتا ہے حضوری میں

جو موروثی یہاں کا مدح گستر ہے ثنا گر ہے

تری رحمت کے صدقے یہ تری رحمت کا صدقہ تھا

کہ اِن ناپاک آنکھوں کو یہ نظارہ میسر ہے

ذلیلوں کی تو کیا گنتی سلاطینِ زمانہ کو

تری سرکار عالی ہے ترا دربار برتر ہے

تری دولت تری ثروت تری شوکت جلالت کا

نہ ہے کوئی زمیں پر اور نہ کوئی آسماں پر ہے

مطاف و کعبہ کا عالم دکھایا تو نے طیبہ میں

ترا گھر بیچ میں چاروں طرف اﷲ کا گھر ہے

تجلی پر تری صدقے ہے مہر و ماہ کی تابش

پسینے پر ترے قربان رُوحِ مشک و عنبر ہے

غم و افسوس کا دافع اشارہ پیاری آنکھوں کا

دل مایوس کی حامی نگاہِ بندہ پرور ہے

جو سب اچھوں میں ہے اچھا جو ہر بہتر سے بہتر ہے

ترے صدقے سے اچھا ہے ترے صدقے میں بہتر ہے

رکھوں میں حاضری کی شرم ان اعمال پر کیونکر

مرے امکان سے باہر مری قدرت سے باہر ہے

اگر شانِ کرم کو لاج ہو میرے بُلانے کی

تو میری حاضری دونوں جہاں میں میری یاور ہے

مجھے کیا ہو گیا ہے کیوں میں ایسی باتیں کرتا ہوں

یہاں بھی یاس و محرومی یہ کیوں کر ہو یہ کیوں کر ہے

بُلا کر اپنے کُتّے کو نہ دیں چمکار کر ٹکڑا

پھر اس شانِ کرم پر فہم سے یہ بات باہر ہے

تذبذب مغفرت میں کیوں رہے اِس دَر کے زائر کو

کہ یہ درگاہِ والا رحمتِ خالص کا منظر ہے

مبارک ہو حسنؔ سب آرزوئیں ہو گئیں پوری

اب اُن کے صدقے میں عیشِ ابد تجھ کو میسر ہے

٭٭٭

 

یہ نعت پہلی بار ’الرضا‘ بریلی کے ایک شمارہ میں شائع ہوئی۔یہ نایاب تحفہ بھی ہدیۂ قارئین کیا جاتا ہے :

عالم ہمہ صورت ہے، گر جان ہے تو تُو ہے

سب ذرّے ہیں گر مہر، درخشاں ہے تو تُو ہے

سب کو ہے خیال اپنا، نہیں کوئی کسی کا

محشر میں اگر اُمتی گویاں ہے تو تُو ہے

پروانہ کوئی شمع کا، بلبل کوئی گُل کا

اللہ ہے شاہد، مرا جاناں ہے تو تُو ہے

طالب ہوں ترا، غیر سے مطلب نہیں مجھ کو

گر دین ہے تو تُو ہے، ایمان ہے تو تُو ہے

عرصات کے میدان میں اے دامنِ سلطاں

مجھ بے سر و سامان کا جو ساماں ہے تو تُو ہے

اے روئے منور کے تصور تیرے قرباں

اک روشنی گورِ غریباں ہے تو تُو ہے

اے چشم نبی کون ہے محشر میں حسنؔ کا

ہاں پیشِ خدا عفو کو گریاں ہے تو تُو ہے

٭٭٭

 

ذکر شہادت

بہاروں پر ہیں آج آرائشیں گلزارِ جنت کی

سواری آنے والی ہے شہیدانِ محبت کی

کھلے ہیں گل بہاروں پر ہے پھلواری جراحت کی

فضا ہر زخم کی دامن سے وابستہ ہے جنت کی

گلا کٹوا کے بیڑی کاٹنے آئے ہیں اُمت کی

کوئی تقدیر تو دیکھے اَسیرانِ محبت کی

شہیدِ ناز کی تفریح زخموں سے نہ کیوں کر ہو

ہوائیں آتی ہیں ان کھڑکیوں سے باغِ جنت کی

کرم والوں نے دَر کھولا تو رحمت نے سماں باندھا

کمر باندھی تو قسمت کھول دی فضل شہادت کی

علی کے پیارے خاتونِ قیامت کے جگر پارے

زمیں سے آسماں تک دھُوم ہے اِن کی سیادت کی

زمین کربلا پر آج مجمع ہے حسینوں کا

جمی ہے انجمن روشن ہیں شمعیں نور و ظلمت کی

یہ وہ شمعیں نہیں جو پھونک دیں اپنے فدائی کو

یہ وہ شمعیں نہیں رو کر جو کاٹیں رات آفت کی

یہ وہ شمعیں ہیں جن سے جانِ تازہ پائیں پروانے

یہ وہ شمعیں ہیں جو ہنس کر گزاریں شب مصیبت کی

یہ وہ شمعیں نہیں جن سے فقط اک گھر منور ہو

یہ وہ شمعیں ہیں جن سے رُوح ہو کافور ظلمت کی

دلِ حور و ملائک رہ گیا حیرت زدہ ہو کر

کہ بزم گل رُخاں میں لے بلائیں کس کی صورت کی

جدا ہوتی ہیں جانیں جسم سے جاناں سے ملتے ہیں

ہوئی ہے کربلا میں گرم مجلس وصل و فرقت کی

اسی منظر پہ ہر جانب سے لاکھوں کی نگاہیں ہیں

اسی عالم کو آنکھیں تک رہی ہیں ساری خلقت کی

ہوا چھڑکاؤ پانی کی جگہ اشکِ یتیماں سے

بجائے فرش آنکھیں بچھ گئیں اہلِ بصیرت کی

ہوائے یار نے پنکھے بنائے پر فرشتوں کے

سبیلیں رکھی ہیں دیدار نے خود اپنے شربت کی

اُدھر افلاک سے لائے فرشتے ہار رحمت کے

ادھر ساغر لیے حوریں چلی آتی ہیں جنت کی

سجے ہیں زخم کے پھولوں سے وہ رنگین گلدستے

بہارِ خوشنمائی پر ہے صدقے رُوح جنت کی

ہوائیں گلشن فردوس سے بس بس کر آتی ہیں

نرالی عطر میں ڈوبی ہوئی ہے رُوح نکہت کی

دلِ پُر سوز کے سُلگے اگر سوز ایسی حرکت سے

کہ پہنچی عرش و طیبہ تک لَپٹ سوزِ محبت کی

ادھر چلمن اُٹھی حسنِ ازل کے پاک جلوؤں سے

ادھر چمکی تجلی بدرِ تابانِ رسالت کی

زمین کربلا پر آج ایسا حشر برپا ہے

کہ کھنچ کھنچ کر مٹی جاتی ہیں تصویریں قیامت کی

گھٹائیں مصطفیٰ کے چاند پر گھر گھر کر آئی ہیں

سیہ کارانِ اُمت تِیرہ بختانِ شقاوت کی

یہ کس کے خون کے پیاسے ہیں اُس کے خون کے پیاسے

بجھے گی پیاس جس سے تشنہ کامانِ قیامت کی

اکیلے پر ہزاروں کے ہزاروں وار چلتے ہیں

مٹا دی دین کے ہمراہ عزت شرم و غیرت کی

مگر شیر خدا کا شیر جب بپھرا غضب آیا

پَرے ٹوٹے نظر آنے لگی صورت ہزیمت کی

کہا یہ بوسہ دے کر ہاتھ پر جوشِ دلیری نے

بہادر آج سے کھائیں گے قسمیں اِس شجاعت کی

تصدق ہو گئی جانِ شجاعت سچے تیور کے

فدا شیرانہ حملوں کی اَدا پر رُوح جراءت کی

نہ ہوتے گر حسین ابن علی اس پیاس کے بھوکے

نکل آتی زمین کربلا سے نہر جنت کی

مگر مقصود تھا پیاسا گلا ہی اُن کو کٹوانا

کہ خواہش پیاس سے بڑھتی رہے رُؤیت کے شربت کی

شہید ناز رکھ دیتا ہے گردن آبِ خنجر پر

جو موجیں باڑ پر آ جاتی ہیں دریائے اُلفت کی

یہ وقتِ زخم نکلا خوں اچھل کر جسمِ اطہر سے

کہ روشن ہو گئی مشعل شبستانِ محبت کی

سرِ بے تن تن آسانی کو شہر طیبہ میں پہنچا

تنِ بے سر کو سرداری ملی مُلکِ شہادت کی

حسنؔ سُنّی ہے پھر افراط و تفریط اِس سے کیوں کر ہو

اَدب کے ساتھ رہتی ہے روش اربابِ سُنت کی

٭٭٭

 

کشفِ رازِ نجدیت

نجدیا سخت ہی گندی ہے طبیعت تیری

کفر کیا شرک کا فضلہ ہے نجاست تیری

خاک منہ میں ترے کہتا ہے کسے خاک کا ڈھیر

مِٹ گیا دین ملی خاک میں عزت تیری

تیرے نزدیک ہوا کذب الٰہی ممکن

تجھ پہ شیطان کی پھٹکار یہ ہمت تیری

بلکہ کذّاب کیا تو نے تو اِقرار وقوع

اُف رے ناپاک یہاں تک ہے خباثت تیری

علم شیطاں کا ہوا علمِ نبی سے زائد

پڑھوں لاحول نہ کیوں دیکھ کے صورت تیری

بزمِ میلاد ہو ’کانا‘ کے جنم سے بدتر

ارے اندھے ارے مردود یہ جرأت تیری

علمِ غیبی میں مجانین و بہائم کا شمول

کفر آمیز جنوں زا ہے جہالت تیری

یادِ خر سے ہو نمازوں میں خیال اُن کا بُرا

اُف جہنم کے گدھے اُف یہ خرافت تیری

اُن کی تعظیم کرے گا نہ اگر وقتِ نماز

ماری جائے گی ترے منہ پہ عبادت تیری

ہے کبھی بوم کی حلت تو کبھی زاغ حلال

جیفہ خواری کی کہیں جاتی ہے عادت تیری

ہنس کی چال تو کیا آتی ، گئی اپنی بھی

اِجتہادوں ہی سے ظاہر ہے حماقت تیری

کھلے لفظوں میں کہے قاضی شوکاں مدد دے

یا علی سُن کے بگڑ جائے طبیعت تیری

تیری اٹکے تو وکیلوں سے کرے اِستمداد

اور طبیبوں سے مدد خواہ ہو علت تیری

ہم جو اﷲ کے پیاروں سے اِعانت چاہیں

شرک کا چرک اُگلنے لگے ملت تیری

عبدِ وہاب کا بیٹا ہوا شیخِ نجدی

اُس کی تقلید سے ثابت ہے ضلالت تیری

اُسی مشرک کی ہے تصنیف ’کتاب التوحید‘

جس کے ہر فقرہ پہ ہے مہرِ صداقت تیری

ترجمہ اس کا ہوا ’تفویۃ الایماں‘ نام

جس سے بے نور ہوئی چشمِ بصیرت تیری

واقفِ غیب کا اِرشاد سناؤں جس نے

کھول دی تجھ سے بہت پہلے حقیقت تیری

زلزلے نجد میں پیدا ہوں فتن برپا ہوں

یعنی ظاہر ہو زمانے میں شرارت تیری

ہو اِسی خاک سے شیطان کی سنگت پیدا

دیکھ لے آج ہے موجود جماعت تیری

سر مُنڈے ہوں گے تو پاجامے گھٹنے ہوں گے

سر سے پا تک یہی پوری ہے شباہت تیری

اِدعا ہو گا حدیثوں پہ عمل کرنے کا

نام رکھتی ہے یہی اپنا جماعت تیری

اُن کے اعمال پہ رشک آئے مسلمانوں کو

اس سے تو شاد ہوئی ہو گی طبیعت تیری

لیکن اُترے گا نہ قرآن گلوں سے نیچے

ابھی گھبرا نہیں باقی ہے حکایت تیری

نکلیں گے دین سے یوں جیسے نشانہ سے تیر

آج اس تیر کی نخچیر ہے سنگت تیری

اپنی حالت کو حدیثوں کے مطابق کر لے

آپ کھل جائے گی پھر تجھ پہ خباثت تیری

چھوڑ کر ذکر تیرا اب ہے خطاب اپنوں سے

کہ ہے مبغوض مجھے دل سے حکایت تیری

مرے پیارے مرے اپنے مرے سُنّی بھائی

آج کرنی ہے مجھے تجھ سے شکایت تیری

تجھ سے جو کہتا ہوں تو دل سے سُن انصاف بھی کر

کرے اﷲ کی توفیق حمایت تیری

گر ترے باپ کو گالی دے کوئی بے تہذیب

غصہ آئے ابھی کچھ اور ہو حالت تیری

گالیاں دیں اُنھیں شیطانِ لعیں کے پیرو

جن کے صدقے میں ہے ہر دولت و نعمت تیری

جو تجھے پیار کریں جو تجھے اپنا فرمائیں

جن کے دل کو کرے بے چین اَذیت تیری

جو ترے واسطے تکلیفیں اُٹھائیں کیا کیا

اپنے آرام سے پیاری جنہیں راحت تیری

جاگ کر راتیں عبادت میں جنھوں نے کاٹیں

کس لیے ، اِس لیے کٹ جائے مصیبت تیری

حشر کا دن نہیں جس روز کسی کا کوئی

اس قیامت میں جو فرمائیں شفاعت تیری

اُن کے دشمن سے تجھے ربط رہے میل رہے

شرم اﷲ سے کر کیا ہوئی غیرت تیری

تو نے کیا باپ کو سمجھا ہے زیادہ اُن سے

جوش میں آئی جو اِس درجہ حرارت تیری

اُن کے دشمن کو اگر تو نے نہ سمجھا دشمن

وہ قیامت میں کریں گے نہ رفاقت تیری

اُن کے دشمن کا جو دشمن نہیں سچ کہتا ہوں

دعویٰ بے اصل ہے جھوٹی ہے محبت تیری

بلکہ ایمان کی پوچھے تو ہے ایمان یہی

اُن سے عشق اُن کے عدو سے ہو عداوت تیری

اہلِ سنت کا عمل تیری غزل پر ہو حسنؔ

جب میں جانوں کہ ٹھکانے لگی محنت تیری

٭٭٭

 

مسدسات

تمہید ذکر معراج شریف

ساقی کچھ اپنے بادہ کشوں کی خبر بھی ہے

ہم بے کسوں کے حال پہ تجھ کو نظر بھی ہے

جوشِ عطش بھی شدّتِ سوزِ جگر بھی ہے

کچھ تلخ کامیاں بھی ہیں کچھ دردِ سر بھی ہے

ایسا عطا ہو جام شرابِ طہور کا

جس کے خمار میں بھی مزہ ہو سُرور کا

اب دیر کیا ہے بادۂ عرفاں قوام دے

ٹھنڈک پڑے کلیجہ میں جس سے وہ جام دے

تازہ ہو رُوح پیاس بجھے لطف تام دے

یہ تشنہ کام تجھ کو دعائیں مدام دے

اُٹھیں سرور آئیں مزے جھوم جھوم کر

ہو جاؤں بے خبر لبِ ساغر کو چوم کر

فکرِ بلند سے ہو عیاں اقتدارِ اوج

چہکے ہزار خامہ سرِ شاخسارِ اوج

ٹپکے گل کلام سے رنگِ بہارِ اوج

ہو بات بات شانِ عروج افتخارِ اوج

فکر و خیال نور کے سانچوں میں ڈھل چلیں

مضموں فرازِ عرش سے اُونچے نکل چلیں

اِس شان اِس اَدا سے ثنائے رسول ہو

ہر شعر شاخِ گل ہو تو ہر لفظ پھول ہو

حُضّار پر سحابِ کرم کا نزول ہو

سرکار میں یہ نذرِ محقر قبول ہو

ایسی تعلّیوں سے ہو معراج کا بیاں

سب حاملانِ عرش سنیں آج کا بیاں

معراج کی یہ رات ہے رحمت کی رات ہے

فرحت کی آج شام ہے عشرت کی رات ہے

ہم تیرہ اختروں کی شفاعت کی رات ہے

اعزاز ماہِ طیبہ کی رُوئت کی رات ہے

پھیلا ہوا ہے سرمۂ تسخیر چرخ پر

یا زلف کھولے پھرتی ہیں حوریں اِدھر اُدھر

دل سوختوں کے دل کا سویدا کہوں اِسے

پیر فلک کی آنکھ کا تارا کہوں اِسے

دیکھوں جو چشمِ قیس سے لیلیٰ کہوں اِسے

اپنے اندھیرے گھر کا اُجالا کہوں اِسے

یہ شب ہے یا سوادِ وطن آشکار ہے

مشکیں غلافِ کعبۂ پروردگار ہے

اس رات میں نہیں یہ اندھیرا جھکا ہوا

کوئی گلیم پوشِ مراقب ہے با خدا

مشکیں لباس یا کوئی محبوبِ دلربا

یا آہوئے سیاہ یہ چرتے ہیں جا بجا

ابرِ سیاہ مست اُٹھا حالِ وجد میں

لیلیٰ نے بال کھولے ہیں صحرائے نجد میں

یہ رُت کچھ اور ہے یہ ہوا ہی کچھ اور ہے

اب کی بہارِ ہوش رُبا ہی کچھ اور ہے

روئے عروسِ گل میں صفا ہی کچھ اور ہے

چبھتی ہوئی دلوں میں اَدا ہی کچھ اور ہے

گلشن کھلائے بادِ صبا نے نئے نئے

گاتے ہیں عندلیب ترانے نئے نئے

ہر ہر کلی ہے مشرق خورشیدِ نور سے

لپٹی ہے ہر نگاہ تجلیِ طور سے

روہت ہے سب کے منہ پہ دلوں کے سُرور سے

مردے ہیں بے قرار حجابِ قبور سے

ماہِ عرب کے جلوے جو اُونچے نکل گئے

خورشید و ماہتاب مقابل سے ٹل گئے

ہر سمت سے بہار نوا خوانیوں میں ہے

نیسانِ جودِ ربّ گہر افشانیوں میں ہے

چشمِ کلیم جلوے کے قربانیوں میں ہے

غل آمدِ حضور کا رُوحانیوں میں ہے

اک دھُوم ہے حبیب کو مہماں بلاتے ہیں

بہرِ براق خلد کو جبریل جاتے ہیں

٭٭٭

 

نغمہ ٔروح
اِستمداد از حضرت سلطانِ بغداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ

اے کریم بنِ کریم اے رہنما اے مقتدا

اخترِ برجِ سخاوت گوہرِ درجِ عطا

آستانے پہ ترے حاضر ہے یہ تیرا گدا

لاج رکھ لے دست و دامن کی مرے بہرِ خدا

روئے رحمت برمتاب اے کامِ جاں از روئے من

حرمتِ روحِ پیمبر یک نظر کن سوئے من

شاہِ اقلیمِ ولایت سرورِ کیواں جناب

ہے تمہارے آستانے کی زمیں گردوں قباب

حسرتِ دل کی کشاکش سے ہیں لاکھوں اضطراب

التجا مقبول کیجے اپنے سائل کی شتاب

روئے رحمت برمتاب اے کامِ جاں از روئے من

حرمتِ روحِ پیمبر یک نظر کن سوئے من

سالکِ راہِ خدا کو راہنما ہے تیری ذات

مسلکِ عرفانِ حق ہے پیشوا ہے تیری ذات

بے نوایانِ جہاں کا آسرا ہے تیری ذات

تشنہ کاموں کے لیے بحر عطا ہے تیری ذات

روئے رحمت برمتاب اے کامِ جاں از روئے من

حرمتِ روحِ پیمبر یک نظر کن سوئے من

ہر طرف سے فوجِ غم کی ہے چڑھائی الغیاث

کرتی ہے پامال یہ بے دست و پائی الغیاث

پھر گئی ہے شکل قسمت سب خدائی الغیاث

اے مرے فریادرس تیری دہائی الغیاث

روئے رحمت برمتاب اے کامِ جاں از روئے من

حرمتِ روحِ پیمبر یک نظر کن سوئے من

منکشف کس پر نہیں شانِ معلی کا عروج

آفتابِ حق نما ہو تم کو ہے زیبا عروج

میں حضیضِ غم میں ہوں اِمداد ہو شاہا عروج

ہر ترقی پر ترقی ہو بڑھے دونا عروج

روئے رحمت برمتاب اے کامِ جاں از روئے من

حرمتِ روحِ پیمبر یک نظر کن سوئے من

تا کجا ہو پائمالِ لشکرِ اَفکارِ روح

تابکے ترساں رہے بے مونس و غمخوار روح

ہو چلی ہے کاوشِ غم سے نہایت زار روح

طالبِ اِمداد ہے ہر وقت اے دلدار روح

روئے رحمت برمتاب اے کامِ جاں از روئے من

حرمتِ روحِ پیمبر یک نظر کن سوئے من

دبدبہ میں ہے فلک شوکت ترا اے ماہِ کاخ

دیکھتے ہیں ٹوپیاں تھامے گدا و شاہ کاخ

قصر جنت سے فزوں رکھتا ہے عزو و جاہ کاخ

اب دکھا دے دیدۂ مشتاق کو للہ کاخ

روئے رحمت برمتاب اے کامِ جاں از روئے من

حرمتِ روحِ پیمبر یک نظر کن سوئے من

توبہ سائل اور تیرے در سے پلٹے نامراد

ہم نے کیا دیکھے نہیں غمگین آتے جاتے شاد

آستانے کے گدا ہیں قیصر و کسریٰ قباد

ہو کبھی لطف و کرم سے بندۂ مضطر بھی یاد

روئے رحمت برمتاب اے کامِ جاں از روئے من

حرمتِ روحِ پیمبر یک نظر کن سوئے من

نفس امارہ کے پھندے میں پھنسا ہوں العیاذ

در ترا بیکس پنہ کوچہ ترا عالم ملاذ

رحم فرما یا ملاذی لطف فرما یا ملاذ

حاضرِ در ہے غلامِ آستاں بہرِ لواذ

روئے رحمت برمتاب اے کامِ جاں از روئے من

حرمتِ روحِ پیمبر یک نظر کن سوئے من

شہرِ یار اے ذی وقار اے باغِ عالم کی بہار

بحر احساں رشخۂ نیسانِ جودِ کردگار

ہوں خزانِ غم کے ہاتھوں پائمالی سے دوچار

عرض کرتا ہوں ترے در پر بچشمِ اشکبار

روئے رحمت برمتاب اے کامِ جاں از روئے من

حرمتِ روحِ پیمبر یک نظر کن سوئے من

برسرِ پرخاش ہے مجھ سے عدوئے بے تمیز

رات دن ہے در پئے قلبِ حزیں نفسِ رجیز

مبتلا ہے سو بلاؤں میں مری جانِ عزیز

حلِ مشکل آپ کے آگے نہیں دشوار چیز

روئے رحمت برمتاب اے کامِ جاں از روئے من

حرمتِ روحِ پیمبر یک نظر کن سوئے من

اک جہاں سیرابِ اَبرِ فیض ہے اب کی برس

تر نوا ہیں بلبلیں پڑتا ہے گوشِ گل میں رس

ہے یہاں کشتِ تمنا خشک و زندانِ قفس

اے سحابِ رحمتِ حق سوکھے دھانوں پر برس

روئے رحمت برمتاب اے کامِ جاں از روئے من

حرمتِ روحِ پیمبر یک نظر کن سوئے من

فصلِ گل آئی عروسانِ چمن ہیں سبز پوش

شادمانی کا نواںسنجانِ گلشن میں ہے جوش

جوبنوں پر آ گیا حسنِ بہارِ گل فروش

ہائے یہ رنگ اور ہیں یوں دام میں گم کردہ ہوش

روئے رحمت برمتاب اے کامِ جاں از روئے من

حرمتِ روحِ پیمبر یک نظر کن سوئے من

دیکھ کر اس نفسِ بد خصلت کے یہ زشتی خواص

سوزِ غم سے دل پگھلتا ہے مرا شکلِ رصاص

کس سے مانگوں خونِ حسرت ہائے کشتہ کا قصاص

مجھ کو اس موذی کے چنگل سے عطا کیجے خلاص

روئے رحمت برمتاب اے کامِ جاں از روئے من

حرمتِ روحِ پیمبر یک نظر کن سوئے من

ایک تو ناخن بدل ہے شدتِ افکار قرض

اس پر اَعدا نے نشانہ کر لیا ہے مجھ کو فرض

فرض اَدا ہو یا نہ ہو لیکن مرا آزار فرض

رد نہ فرماؤ خدا کے واسطے سائل کی عرض

روئے رحمت برمتاب اے کامِ جاں از روئے من

حرمتِ روحِ پیمبر یک نظر کن سوئے من

نفس شیطاں میں بڑھے ہیں سو طرح کے اختلاط

ہر قدم در پیش ہے مجھ کو طریقِ پل صراط

بھولی بھولی سے کبھی یاد آتی ہے شکل نشاط

پیش بارِ کوہِ کاہِ ناتواں کی کیا بساط

روئے رحمت برمتاب اے کامِ جاں از روئے من

حرمتِ روحِ پیمبر یک نظر کن سوئے من

آفتوں میں پھنس گیا ہے بندۂ دارالحفیظ

جان سے سو کاہشوں میں دم ہے مضطر الحفیظ

ایک قلبِ ناتواں ہے لاکھ نشتر الحفیظ

المدد اے داد رس اے بندہ پرور الحفیظ

روئے رحمت برمتاب اے کامِ جاں از روئے من

حرمتِ روحِ پیمبر یک نظر کن سوئے من

صبح صادق کا کنارِ آسماں سے ہے طلوع

ڈھل چکا ہے صورتِ شب حسنِ رخسارِ شموع

طائروں نے آشیانوں میں کیے نغمے شروع

اور نہیں آنکھوں کو اب تک خوابِ غفلت سے رجوع

روئے رحمت برمتاب اے کامِ جاں از روئے من

حرمتِ روحِ پیمبر یک نظر کن سوئے من

بدلیاں چھائیں ہوا بدلی ہوئے شاداب باغ

غنچے چٹکے پھول مہکے بس گیا دل کا دماغ

آہ اے جورِ قفس دل ہے کہ محرومی کا داغ

واہ اے لطفِ صبا گل ہے تمنا کا چراغ

روئے رحمت برمتاب اے کامِ جاں از روئے من

حرمتِ روحِ پیمبر یک نظر کن سوئے من

آسماں ہے قوس فکریں تیر میرا دل ہدف

نفس و شیطاں ہر گھڑی کف برلب و خنجر بکف

منتظر ہوں میں کہ اب آئی صدائے لا تخف

سرورِ دیں کا تصدق بحر سلطانِ نجف

روئے رحمت برمتاب اے کامِ جاں از روئے من

حرمتِ روحِ پیمبر یک نظر کن سوئے من

بڑھ چلا ہے آج کل اَحباب میں جوشِ نفاق

خوش مذاقانِ زمانہ ہو چلے ہیں بد مذاق

سیکڑوں پردوں میں پوشیدہ ہے حسنِ اتفاق

برسر پیکار ہیں آگے جو تھے اہلِ وفاق

روئے رحمت برمتاب اے کامِ جاں از روئے من

حرمتِ روحِ پیمبر یک نظر کن سوئے من

ڈر درندوں کا اندھیری رات صحرا ہولناک

راہ نامعلوم رعشہ پاؤں میں لاکھوں مغاک

دیکھ کر ابرِ سیہ کو دل ہوا جاتا ہے چاک

آئیے اِمداد کو ورنہ میں ہوتا ہوں ہلاک

روئے رحمت برمتاب اے کامِ جاں از روئے من

حرمتِ روحِ پیمبر یک نظر کن سوئے من

ایک عالم پر نہیں رہتا کبھی عالم کا حال

ہر کمالے را زوال و ہر زوالے را کمال

بڑھ چکیں شب ہائے فرقت اب تو ہو روزِ وصال

مہر ادھر منہ کر کہ میرے دن پھریں دل ہو نہال

روئے رحمت برمتاب اے کامِ جاں از روئے من

حرمتِ روحِ پیمبر یک نظر کن سوئے من

گو چڑھائی کر رہے ہیں مجھ پہ اندوہ و اَلم

گو پیاپے ہو رہے ہیں اہلِ عالم کے ستم

پر کہیں چھٹتا ہے تیرا آستاں تیرے قدم

چارۂ دردِ دلِ مضطر کریں تیرے کرم

روئے رحمت برمتاب اے کامِ جاں از روئے من

حرمتِ روحِ پیمبر یک نظر کن سوئے من

ہر کمر بستہ عداوت پر بہت اہلِ زمن

ایک جانِ ناتواں لاکھوں الم لاکھوں محن

سن لے فریادِ حسن فرما دے اِمدادِ حسن

صبحِ محشر تک رہے آباد تیری انجمن

روئے رحمت برمتاب اے کامِ جاں از روئے من

حرمتِ روحِ پیمبر یک نظر کن سوئے من

ہے ترے الطاف کا چرچا جہاں میں چار سو

شہرۂ آفاق ہیں یہ خصلتیں یہ نیک خو

ہے گدا کا حال تجھ پر آشکارا مو بمو

آجکل گھیرے ہوئے ہیں چار جانب سے عدو

روئے رحمت برمتاب اے کامِ جاں از روئے من

حرمتِ روحِ پیمبر یک نظر کن سوئے من

شام ہے نزدیک منزل دور میں گم کردہ راہ

ہر قدم پر پڑتے ہیں اس دشت میں خس پوش جاہ

کوئی ساتھی ہے نہ رہبر جس سے حاصل ہو پناہ

اشک آنکھوں میں قلق دل میں لبوں پر آہ آہ

روئے رحمت برمتاب اے کامِ جاں از روئے من

حرمتِ روحِ پیمبر یک نظر کن سوئے من

تاج والوں کو مبارک تاجِ زر تختِ شہی

بادشا لاکھوں ہوئے کس پر پھلی کس کی رہی

میں گدا ٹھہروں ترا میری اسی میں ہے بہی

ظلِ دامن خاک در دیہیم و افسر ہے یہی

روئے رحمت برمتاب اے کامِ جاں از روئے من

حرمتِ روحِ پیمبر یک نظر کن سوئے من

٭٭٭

 

مناقب حضرت شاہ بدیع الدین مدار قدس سرہ الشریف

ہوا ہوں دادِ ستم کو میں حاضرِ دربار

گواہ ہیں دلِ محزون و چشمِ دریا بار

طرح طرح سے ستاتا ہے زمرۂ اشرار

بدیع بہر خدا حرمتِ شہِ ابرار

مدار چشمِ عنایت زمن دریغ مدار

نگاہِ لطف و کرم از حسنؔ دریغ مدار

اِدھر اقارب عقارب عدو اجانب و خویش

اِدھر ہوں جوشِ معاصی کے ہاتھ سے دل ریش

بیاں میں کس سے کروں ہیں جو آفتیں در پیش

پھنسا ہے سخت بلاؤں میں یہ عقیدت کیش

مدار چشمِ عنایت زمن دریغ مدار

نگاہِ لطف و کرم از حسنؔ دریغ مدار

نہ ہوں میں طالبِ افسر نہ سائل دیہیم

کہ سنگ منزلِ مقصد ہے خواہش زر و سیم

کیا ہے تم کو خدا نے کریم ابنِ کریم

فقط یہی ہے شہا آرزوئے عبد اثیم

مدار چشمِ عنایت زمن دریغ مدار

نگاہِ لطف و کرم از حسنؔ دریغ مدار

ہوا ہے خنجر افکار سے جگر گھائل

نفس نفس ہے عیاں دم شماریِ بسمل

مجھے ہو مرحمت اب داروئے جراحتِ دل

نہ خالی ہاتھ پھرے آستاں سے یہ سائل

مدار چشمِ عنایت زمن دریغ مدار

نگاہِ لطف و کرم از حسنؔ دریغ مدار

تمہارے وصف و ثنا کس طرح سے ہوں مرقوم

کہ شانِ ارفع و اعلیٰ کسے نہیں معلوم

ہے زیرِ تیغِ الم مجھ غریب کا حلقوم

ہوئی ہے دل کی طرف یورشِ سپاہِ ہموم

مدار چشمِ عنایت زمن دریغ مدار

نگاہِ لطف و کرم از حسنؔ دریغ مدار

ہوا ہے بندہ گرفتار پنجۂ صیاد

ہیں ہر گھڑی ستم ایجاد سے ستم ایجاد

حضور پڑتی ہے ہر روز اک نئی اُفتاد

تمہارے دَر پہ میں لایا ہوں جور کی فریاد

مدار چشمِ عنایت زمن دریغ مدار

نگاہِ لطف و کرم از حسنؔ دریغ مدار

تمام ذرّوں پہ کالشمس ہیں یہ جود و نوال

فقیر خستہ جگر کا بھی رد نہ کیجے سوال

حسنؔ ہوں نام کو پر ہوں میں سخت بد افعال

عطا ہو مجھ کو بھی اے شاہ جنسِ حسنِ مآل

مدار چشمِ عنایت زمن دریغ مدار

نگاہِ لطف و کرم از حسنؔ دریغ مدار

٭٭٭

 

عرضِ سلام بدرگاہ خیر الانام علیہ الصلوٰۃوالسلام

السلام اے خسروِ دنیا و دیں

السلام اے راحتِ جانِ حزیں

السلام اے بادشاہِ دو جہاں

السلام اے سرورِ کون و مکاں

السلام اے نورِ ایماں السلام

السلام اے راحتِ جاں السلام

اے شکیبِ جانِ مضطر السلام

آفتاب ذرّہ پرور السلام

درد و غم کے چارہ فرما السلام

درد مندوں کے مسیحا السلام

اے مرادیں دینے والے السلام

دونوں عالم کے اُجالے السلام

درد و غم میں مبتلا ہے یہ غریب

دم چلا تیری دُہائی اے طبیب

نبضیں ساقط رُوح مضطر جی نڈھال

دردِ عصیاں سے ہوا ہے غیر حال

بے سہاروں کے سہارے ہیں حضور

حامی و یاور ہمارے ہیں حضور

ہم غریبوں پر کرم فرمائیے

بد نصیبوں پر کرم فرمائیے

بے قراروں کے سرھانے آئیے

دل فگاروں کے سرھانے آئیے

جاں بلب کی چارہ فرمائی کرو

جانِ عیسیٰ ہو مسیحائی کرو

شام ہے نزدیک، منزل دُور ہے

پاؤں کیسے جان تک رنجور ہے

مغربی گوشوں میں پھوٹی ہے شفق

زردیِ خورشید سے ہے رنگ فق

راہ نامعلوم صحرا پُر خطر

کوئی ساتھی ہے نہ کوئی راہبر

طائروں نے بھی بسیرا لے لیا

خواہش پرواز کو رُخصت کیا

ہر طرف کرتا ہوں حیرت سے نگاہ

پر نہیں ملتی کسی صورت سے راہ

سو بلائیں چشمِ تر کے سامنے

یاس کی صورت نظر کے سامنے

دل پریشاں بات گھبرائی ہوئی

شکل پر اَفسردگی چھائی ہوئی

ظلمتیں شب کی غضب ڈھانے لگیں

کالی کالی بدلیاں چھانے لگیں

ان بلاؤں میں پھنسا ہے خانہ زاد

آفتوں میں مبتلا ہے خانہ زاد

اے عرب کے چاند اے مہر عجم

اے خدا کے نور اے شمع حرم

فرش کی زینت ہے دم سے آپ کے

عرش کی عزت قدم سے آپ کے

آپ سے ہے جلوۂ حق کا ظہور

آپ ہی ہیں نور کی آنکھوں کے نور

آپ سے روشن ہوئے کون و مکاں

آپ سے پُر نور ہے بزمِ جہاں

اے خداوندِ عرب شاہِ عجم

کیجیے ہندی غلاموں پر کرم

ہم سیہ کاروں پہ رحمت کیجیے

تیرہ بختوں کی شفاعت کیجیے

اپنے بندوں کی مدد فرمایئے

پیارے حامی مسکراتے آیئے

ہو اگر شانِ تبسم کا کرم

صبح ہو جائے شبِ دیجورِ غم

ظلمتوں میں گم ہوا ہے راستہ

المدد اے خندۂ دنداں نما

ہاں دکھا جانا تجلی کی اَدا

ٹھوکریں کھاتا ہے پردیسی ترا

دیکھیے کب تک چمکتے ہیں نصیب

دیر سے ہے لو لگائے یہ غریب

ملتجی ہوں میں عرب کے چاند سے

اپنے ربّ سے اپنے ربّ کے چاند سے

میں بھکاری ہوں تمہارا تم غنی

لاج رکھ لو میرے پھیلے ہاتھ کی

تنگ آیا ہو دلِ ناکام سے

اِس نکمّے کو لگا دو کام سے

آپ کا دربار ہے عرش اِشتباہ

آپ کی سرکار ہے بے کس پناہ

مانگتے پھرتے ہیں سلطان و امیر

رات دن پھیری لگاتے ہیں فقیر

غم زدوں کو آپ کر دیتے ہیں شاد

سب کو مل جاتی ہے منہ مانگی مراد

میں تمہارا ہوں گدائے بے نوا

کیجے اپنے بے نواؤں پر عطا

میں غلام ہیچ کارہ ہوں حضور

ہیچ کاروں پر کرم ہے پَر ضرور

اچھے اچھوں کے ہیں گاہک ہر کہیں

ہم بدوں کی ہے خریداری یہیں

کیجیے رحمت حسنؔ پر کیجیے

دونوں عالم کی مرادیں دیجیے

٭٭٭

 

[رباعیات]

جانِ گلزارِ مصطفائی تم ہو

مختار ہو مالکِ خدائی تم ہو

جلوہ سے تمہارے ہے عیاں شانِ خدا

آئینۂ ذاتِ کبریائی تم ہو

– : دیگر :-

یارانِ نبی کا وصف کس سے ہو اَدا

ایک ایک ہے ان میں ناظمِ نظمِ ہدیٰ

پائے کوئی کیوں کر اس رُباعی کا جواب

اے اہلِ سخن جس کا مصنف ہو خدا

– : دیگر :-

بدکار ہیں عاصی ہیں زیاں کار ہیں ہم

تعزیر کے بے شبہ سزاوار ہیں ہم

یہ سب سہی پر دل کو ہے اس سے قوت

اللہ کریم ہے گنہگار ہیں ہم

– : دیگر :-

خاطی ہوں سیاہ رُو ہوں خطاکار ہوں میں

جو کچھ ہو حسنؔ سب کا سزاوار ہوں میں

پر اُس کے کرم پر ہے بھروسہ بھاری

اللہ ہے شاہد کہ گنہگار ہوں میں

– : دیگر :-

اس درجہ ہے ضعف جاں گزائے اسلام

ہیں جس سے ضعیف سب قوائے اسلام

اے مرتوں کی جان کو بچانے والے

اب ہے ترے ہاتھ میں دوائے اسلام

– : دیگر :-

کب تک یہ مصیبتیں اُٹھائے اسلام

کب تک رہے ضعف جاں گزائے اِسلام

پھر از سرِ نو اِس کو توانا کر دے

اے حامیِ اسلام خدائے اسلام

– : دیگر :-

ہے شام قریب چھپی جاتی ہے ضو

منزل ہے بعید تھک گیا رہرو

اب تیری طرف شکستہ حالوں کے رفیق

ٹوٹی ہوئی آس نے لگائی ہے لو

– : دیگر :-

برسائے وہ آزادہ روی نے جھالے

ہر راہ میں بہہ رہے ہیں ندی نالے

اسلام کے بیٹرے کو سہارا دینا

اے ڈوبتوں کے پار لگانے والے

– : دیگر :-

سن احقر افرادِ زمن کی فریاد

سن بندۂ پابندِ محن کی فریاد

یا رب تجھے واسطہ خداوندی کا

رہ جائے نہ بے اَثر حسنؔ کی فریاد

– : دیگر :-

جو لوگ خدا کی ہیں عبادت کرتے

کیوں اہلِ خطا کی ہیں حقارت کرتے

بندے جو گنہگار ہیں وہ کس کے ہیں

کچھ دیر اُسے ہوتی ہے رحمت کرتے

– : دیگر :-

دنیا فانی ہے اہلِ دنیا فانی

شہر و بازار و کوہ و صحرا فانی

دل شاد کریں کس کے نظارہ سے حسنؔ

آنکھیں فانی ہیں یہ تماشا فانی

 

– : دیگر :-

اس گھر میں نہ پابند نہ آزاد رہے

غمگین رہے کوئی نہ دل شاد رہے

تعمیر مکاں کس کے لیے ہوتا ہے

کوئی نہ رہے گا یہاں یہ یاد رہے

٭٭٭

 

[اشعار متفرقات]

یہ رحمت ہے کہ بے تابانہ آئیں گے قیامت میں

جو غل پہنچا گرفتارانِ اُمت کے سلاسل کا

ہے جمالِ حق نما بارہ اماموں کا جمال

اس مبارک سال میں ہے ہر مہینہ نور کا

ملک ہفت آسماں کے جبہ سا ہیں

تعالی اللہ یہ رُتبہ آستاں کا

ابھی روشن ہوں میرے دل کی آنکھیں

جو سُرمہ ہو غبارِ آستاں کا

حسنؔ ہم کو نہیں خوفِ معاصی

سہارا ہے شفیعِ عاصیاں کا

خوف محشر سے ہے فارغ دلِ مضطر اپنا

کہ ہے محبوبِ خدا شافعِ محشر اپنا

داغ دل یادِ دہانِ شہ میں مرجھائیں گے کیا

جن کو دیں کوثر سے پانی گل وہ کمھلائیں گے کیا

جس قدم کا عرش پامالِ خرامِ ناز ہو

اُس کے نیچے موم یہ پتھر نہ ہو جائیں گے کیا

جن کی پیاری اُنگلیوں سے نور کے چشمے بہے

اُن سے عصیاں کے سیہ نامے نہ دھُل جائیں گے کیا

کوثر و تسنیم کس کے ہیں ہمارے شاہ کے

حشر کے دن پھر ہمیں پیاسے بھی رہ جائیں گے کیا

کیا بیاں ہو عز و شانِ اہلِ بیت

کبریا ہے مدح خوانِ اہلِ بیت

لاش میری ہو پڑی یا رب میانِ کوئے دوست

پڑتی ہو اُڑ اُڑ کے گرد رہروانِ کوئے دوست

مولیٰ دکھا دو جلوۂ دیدار الغیاث

بے چین ہے بہت دلِ بیمار الغیاث

کیا خوف ہو خورشیدِ قیامت کی تپش کا

کافی ہے ہمیں سایۂ دامانِ محمد

ہوتے ہیں فدا مہر و قمر حسنِ بیاں پر

پڑھتا ہوں جو مدحِ رُخِ تابانِ محمد

رنگ چمن آرائی اُڑانے کی ہوا میں

چلتی ہے صبا دامن مولیٰ سے لپٹ کر

رو رہا ہوں یادِ دندانِ شہِ تسنیم میں

عین دریا میں ہے مجھ کو آبِ گوہر کی تلاش

سایۂ نخل مدینہ ہو زمین طیبہ ہو

تخت زرّیں کی مجھے خواہش نہ اَفسر کی تلاش

چھوڑ کر خاکِ قدم اکسیر کی خواہش کرے

خاک میں مل جائے یا رب کیمیا گر کی تلاش

ان لبوں کی یاد میں دل کو فدا کیجے حسنؔ

لعل پتھر ہیں کریں ہم خاک پتھر کی تلاش

ہے شادیِ تجلّیِ جاناں مآلِ عشق

کیوں کر نہ ہو خوشی سے گوارا ملالِ عشق

لا پھول ساقیا کہ گل داغ کھل گئے

آئی ہے جوبنوں پہ بہارِ جمالِ عشق

جس کو یہ سرفراز کرے دار ہو نصیب

کیا کیا بیان کیجیے اَوج و کمالِ عشق

مدہوشیوں کے لطف اُٹھاؤں میں اے حسنؔ

دل پر مرے گرے کہیں برقِ جمالِ عشق

شمس العظما امام اعظم

بدر الفقہا امام اعظم

مقبولِ جنابِ مُصطفائی

محبوبِ خدا امام اعظم

چالیس برس نہ سوئے شب بھر

تاج العرفا امام اعظم

گمراہ ہوں کس طرح مقلد

ہیں راہ نما امام اعظم

کیا کہوں کیا ہیں مرے پیارے نبی کی آنکھیں

دیکھیں اُن آنکھوں نے نورِ اَزلی کی آنکھیں

نیم وا غنچۂ اَسرارِ الٰہی کہیے

یا یہ ہیں نرگس باغِ اَزلی کی آنکھیں

دھُل گئی ظلمتِ اعمال پڑی جس پہ نظر

عین رحمت ہیں شہِ مطلبی کی آنکھیں

چشم بد دُور عجب آنکھ ہے ماشاء اللہ

ہم نے دیکھیں نہ سنیں ایسی کسی کی آنکھیں

کس کا جلوہ نظر آیا مجھ کو

آپ میں دل نے نہ پایا مجھ کو

لب و حسنِ نمکیں کے آگے

نمک و قند نہ بھایا مجھ کو

اے مرے ابرِ کرم ایک نظر

آتش غم نے جلایا مجھ کو

جب اُٹھا پردۂ غفلت دل سے

ہر جگہ تو نظر آیا مجھ کو

پردہ کھل جائے گا محشر میں مرا

گر نہ دامن میں چھپایا مجھ کو

کیوں کھلی رہتی ہے چشمِ مشتاق

کون ایسا نظر آیا مجھ کو

کیا کہوں کیسی وہ صورت تھی حسنؔ

جس نے دیوانہ بنایا مجھ کو

گلو! دیکھو ہمارے گل کی نکہت ہو اور ایسی ہو

قمر میری نظر سے دیکھ طلعت ہو اور ایسی ہو

شہا نامِ خدا تیرا تو کیا کہنا کہ خالق کو

ترے پیرو بھی پیارے ہیں محبت ہو اور ایسی ہو

یا رب وہ دل دے جس میں کسی کی وِلا نہ ہو

غیر خدا نہ ہو ، کوئی جز مصطفیٰ نہ ہو

صورت بنائی حق نے تری اپنے ہاتھ سے

پیارے ترا نظیر نہ پیدا ہوا نہ ہو

اے بوالہوس نصیب تجھے کیمیا کہاں

جب تک تو خاک پاے حبیبِ خدا نہ ہو

یا ربّ وہ نخل سبز رہے جس کی شاخ میں

جز داغِ عشق اور کوئی گل کھلا نہ ہو

معاذ اللہ اُس دل کو عذابِ حشر کا غم ہو

کہ جس کا حامی و یاور جنابِ غوث اعظم ہو

لبِ جاں بخش نے دی جانِ تازہ دین و ایماں کو

محی الدیں نہ کیوں کر پھر تمہارا اسم اعظم ہو

جِلا دیتے ہو مردوں کو دلِ مردہ جلا دیجے

تم اِس اُمت میں شاہا یادگارِ ابنِ مریم ہو

اصحابِ پاک میں ہے شمارِ معاویہ

کیوں کر بیاں ہو عز و وقارِ معاویہ

آپ ہیں ختم رُسل ختم رسالت مہر ہے

آپ آئینہ ہیں وہ تصویرِ پشت آئینہ

گر رسالت کی گواہی چاہتے ختم رسل

بول اُٹھتا طوطیِ تصویر پشت آئینہ

غبار بے کساں کو کوئی پہنچا دے مدینہ تک

لپٹتا ہے ہر اک دامن سے سب کے پاؤں پڑتا ہے

فانی فانی ہستی فانی

باقی باقی باقی فانی

ہستی کی پھر ہستی کیا ہو

ٹھہری جب یہ فنا بھی فانی

نفسِ کافر ناز ہے کس پر

ہے سب رام کہانی فانی

میرا تیرا کب تک پیارے

میں بھی فانی تو بھی فانی

طعمۂ خاک ہیں شاہ و گدا سب

تخت و تاج و گدائی فانی

نیست ہیں یہ سب مجنوں عاقل

صحرا فانی بستی فانی

دیکھ لے حالِ حباب و شرر کو

دم میں ہو گئی ہستی فانی

ایک بقا ہے ذاتِ خدا کو

باقی ساری خدائی فانی

قولِ حسنؔ سن قولِ حسن ہے

باقی باقی فانی فانی

٭٭٭

 

تاریخ طبع

 نتیجہ فکر عرش پیما علی جناب اعلیٰ حضرت مجدد مائۃ حاضرہ
قبلہ و کعبہ مولانا مولوی حاجی محمد احمد رضا صاحب قادری برکاتی

قوتِ بازوئے من سنیِ نجدی فگن

حاج و زائر حسنؔ سلمہ ذوالمِنن

نعت چہ رنگیں نوشت شعر خوش آئیں نوشت

شعر مگو دیں نوشت دور ز ہر ریب و ظن

شرع ز شعرش عیاں عرش بہ بیتش نہاں

سنّیہ را حرزِ جاں نجدیہ را سر شکن

قلقل ایں تازہ جوش بادہ بہ ہنگام نوش

نور فشاند بگوش شہد چکاں در دہن

کلک رضا سالِ طبع گفت بہ افضالِ طبع

ز انکہ ز اقوالِ طبع کلک بود نغمہ زن

اوج بہیں محمدت جلوہ گہِ مرحمت

۲۶ھ ۱۳

عافیت عاقبت باد نوائے حسن

۲۶ھ ۱۳

بادِ نوائے حسن بابِ رضائے حسن

۲۶ھ ۱۳

بابِ رضائے حسن باز بہ جلب منن

۲۶ھ ۱۳

باز بہ جلب منن بازوِ بخت قوی

۲۶ھ ۱۳

بازوِ بخت قوی نیک حجابِ محن

۲۶ھ ۱۳

نیک حجاب محن فضل عفو و نبی

۲۶ھ ۱۳

فضل عفو و نبی حبل وی و حبل من

۲۶ھ ۱۳

– : ولہٗ زید مجدہٗ :-

نعت حسن آمدہ نعت حسن

۱۳۲۶ھ

حُسنِ رضا باد بزیں سلام

۱۳۲۶ھ

اِنَّ مَنَ الذَّوقِ لَسِحْر ہمہ

۱۳۲۶ھ

اِنَّ مَنَ الشِّعْرِ لَحِکْمَۃ تمام

۱۳۲۶ھ

کلک رضا داد چناں سال آں

یافت قبول از شدِ راءس الانام

۱۳۲۶ھ

٭٭٭

 

[تواریخ از تصنیف مصنف]

تاریخ مثنوی شفاعت و نجات
مصنفہ مولانا مولوی محمد محسن صاحب کاکوروی وکیل مین پوری

حسنؔ اپنے محسنؔ کی ہو کچھ ثنا

جو احسان حسنِ طبیعت کا ہو

شفاعت کا لکھا ہے اَحوال خوب

بیاں کیوں کر اِس کی فصاحت کا ہو

دعائیہ تاریخ میں نے کہی

’یہ اچھا ذریعہ شفاعت کا ہو‘

1893ء

٭٭٭

 

تاریخ وصال

حضرت سیدنا و مولانا شاہ آل رسول رضی اللہ تعالی عنہ و نور اللہ مرقدہ

جب آلِ رسول بحر عرفاں

رونق دہِ خاندانِ برکات

وہ واقفِ رمز لَا و اِلَّا

وہ کاشفِ سر نفی و اِثبات

عازم ہوئے سوئے دارِ عقبیٰ

اِس غم کی گھٹا سے دن ہوا رات

رضوان نے کہی حسنؔ سے تاریخ

’اب خلد میں دیکھیے کرامات‘

۶۳۴ + ۶۶۲۔۔۔ ۱۲۹۶ھ

اچھے کے پیارے میرے سہارے

باہر بیاں سے اُن کے مناقب

وہ اور شریعت وہ اور طریقت

دو دل یک ارماں یک جاں دو قالب

عبد و خدا میں مانند برزخ

مقصود و قاصد مطلوب و طالب

دریائے رحمت گلزارِ رافت

جانِ مراحم کانِ مواہب

نجم منازل شمع محافل

مہر مشارق ماہِ مغارب

خلق خدا کے کیوں نہ ہوں رہبر

ہیں مصطفیٰ کے فرزند و نائب

ہے اُن کے دم سے عزت کی عزت

تاجِ مراتب راسِ مناصب

جب اُس قمر نے لی راہِ جنت

تھی اشک افشاں چشم کواکب

میں نے کہی یہ تاریخ رحلت

’قطب المشائخ اصل مطالب‘

1296ھ        ٭٭٭

 

تاریخ طبع و تالیف رسالہ نگارستانِ لطافت، مصنفہ خود

ہو گیا ختم یہ رسالہ آج

شکر خالق کریں نہ کیوں کر ہم

سن تالیف اے حسنؔ سن لے

’منبع وصف شہریارِ حرم‘

132ھ

٭٭٭

 

دیگر

یہ چند ورق نعت کے لایا ہے غلام آج

اِنعام کچھ اس کا مجھے اے بحر سخا دو

میں کیا کہوں میری ہے یہ حسرت یہ تمنا

میں کیا کہوں مجھ کو یہ صلہ دو یہ صلہ دو

تم آپ مرے دل کی مرادوں سے ہو واقف

خیرات کچھ اپنی مجھے اے بحر عطا دو

ہیں یہ سن تالیف فقیرانہ صدا میں

’والی میں تصدق مجھے مدحت کی جزا دو‘

132ھ

٭٭٭

 

تاریخ طبع دیوان حضور احمد رضا خان آثمؔ بریلوی

ہے یہ دیوان اُس کی مدحت میں

جس کی ہر بات ہے خدا کو قبول

جس کے قبضہ میں دو جہان کا ملک

جس کے بندوں میں تاجدار شمول

جس پہ قرباں جناں جناں کے چمن

جس پہ پیارا خدا خدا کے رسول

جس کے صدقے میں اہل ایماں پر

ہر گھڑی رحمتِ خدا کا نزول

جس کی سرکار قاضیِ حا جات

جس کا دربار معطیِ مامول

یہ ضیائیں اُسی کے دم کی ہیں

یہ سخائیں اُسی کی ہیں معمول

دن کو ملتا ہے روشنی کا چراغ

شب کو کھلتا ہے چاندنی کا پھول

اُس کے دَر سے ملے گدا کو بھیک

اُس کے گھر سے ملے دُعا کو قبول

اے حسنؔ کیا حسن ہے مصرعِ سال

’باغ اسلام کے کھلے کیا پھول‘

۰۴ھ ۱۳

٭٭٭

 

قطعہ تاریخ وصال اعلیٰ حضرت عظیم البرکۃ سیدی و ملجائی مرشدی و مولائیعالیجناب مولانا مولوی سید شاہ ابوالحسین احمد نوری میاں صاحب

شیخ زمانہ حضرت سید ابوالحسینؔ

جانِ مراد کانِ ہدیٰ شانِ اہتدا

نورِ نگاہ حضرتِ آلِ رسول کے

اچھے میاںؔ کے لختِ جگر آنکھوں کی ضیا

خود عین نور سیدی عینیؔ کے نور عین

عشقیؔ کے دل کے چین مرے درد کی دوا

میرے بزرگ بھی اِسی دَر کے غلام ہیں

میں بھی کمینہ بندہ اِسی بارگاہ کا

ما بندۂ قدیم و توئی خواجۂ کریم

پروردۂ تو ایم بیفزائے قدرِ ما

جانِ ظہور اب کوئی اِخفا کا وقت ہے

حائل جو پردہ بیچ میں تھا وہ بھی اُٹھ گیا

اَسرار کا ظہور ہو شانِ ظہور سے

اَستار سے اُٹھائیے اب پردۂ خفا

اعلان سے دکھائیے وہ قادری کمال

اظہار کیجے شوکتِ قدرت کا برملا

دروازے کھول دیجیے امدادِ غیب کے

کاسے لیے کھڑے ہیں بہت دیر سے گدا

یَا سَیِّدِیْ میں کہہ کے پکاروں بلا کے وقت

تم لَا تَخَفْ سناتے ہوئے آؤ سرورا

داتا مرا سوال سنو مجھ کو بھیک دو

منگتا تمہارا تم کو تمہیں سے ہے مانگتا

آیا ہے دُور سے یہی سنتا ہوا فقیر

باڑا بٹے گا حضرتِ نوری کے نور کا

مجھ سا کوئی سقیم نہ تم سا کوئی کریم

میری طلب طلب ہے تمہاری عطا عطا

للہ نگاہِ مہر ہو مجھ تیرہ بخت پر

آنکھوں کو نور دل کو عنایت کرو جلا

دارین میں عُلُّو مراتب کرو عطا

تم مظہرِ علی ہو علی مظہرِ عُلا

خوش باش اے حسنؔ ترے دشمن ملول ہوں

جس کا گدا ہے تو وہ ہے غم خوار بے نوا

تاریخ اب وصالِ مقدس کی عرض کر

حاصل ہو پورے شعر سے خاطر کا مدعا

’وہ سید وِلا گئے جب بزمِ قدس میں

اچھے میاں نے اُٹھ کے گلے سے لگا لیا‘

۴۸۰ + ۸۴۴۔۔۔۔ ۲۴ ھ ۱۳

٭٭٭

 

قطعہ تاریخ ولادت با سعادت نبیرہ حضرت اخ الاعظم عالم اہل سنتجناب مولانا حاجی محمد احمد رضا خاں صاحب قادری مدظلہم

بخانہ برخوردار مولوی حامد رضا خاں سلمہم اللہ تعالیٰ

شکر خالق کس طرح سے ہو اَدا

اک زباں اور نعمتیں بے اِنتہا

پھر زباں بھی کس کی مجھ ناچیز کی

وہ بھی کیسی جس کو عصیاں کا مزا

اے خدا کیوں کر لکھوں تیری صفت

اے خدا کیوں کر کہوں تیری ثنا

گننے والے گنتیاں محدود ہیں

تیرے اَلطاف و کرم بے انتہا

سب سے بڑھ کر فضل تیرا اے کریم

ہے وجودِ اقدسِ خیر الوریٰ

ہر کرم کی وجہ یہ فضل عظیم

صدقہ ہیں سب نعمتیں اس فضل کا

فضل اور پھر وہ بھی ایسا شاندار

جس پہ سب افضال کا ہے خاتمہ

اولیا اس کے کرم سے خاص حق

انبیا اس کی عطا سے انبیا

خود کرم بھی خود کرم کی وجہ بھی

خود عطا خود باعثِ جود و عطا

اس کرم پر اس عطا و جود پر

ایک میری جان کیا عالم فدا

کر دے اک نم سے جہاں سیراب فیض

جوش زن چشمہ کرم کے میم کا

جان کہنا مبتذل تشبیہ ہے

اللہ اللہ اُس کے دامن کی ہوا

جان دی مردوں کو عیسیٰ نے اگر

اُس نے خود عیسیٰ کو زندہ کر دیا

بے سبب اُس کی عطائیں بے شمار

بے غرض اُس کے کرم بے اِنتہا

بادشا ہو ، یا گدا ہو ، کوئی ہو

سب کو اُس سرکار سے صدقہ ملا

سب نے اس در سے مرادیں پائی ہیں

اور اسی در سے ملیں گی دائما

جودِ دریا دل کے صدقہ سے بڑھے

بڑھتے بادل کو گھٹا کہنا خطا

مَنْ رّاٰنِیْ والے رُخ نے بھیک دی

کیوں نہ گلشن کی صفت ہو دل کشا

جلوۂ پائے منور کے نثار

مہر و مہ کو کتنا اُونچا کر دیا

اپنے بندوں کو خدائے پاک نے

اس کے صدقہ میں دیا جو کچھ دیا

مصطفی کا فضل ہے مسرور ہیں

نعمت تازہ سے عبد المصطفیٰ

عالم دیں مقتدائے اہلِ حق

سُنیّوں کے پیشوا احمد رضا

فضلِ حق سے ہیں فقیرِ قادری

اِس فقیری نے اُنھیں سب کچھ دیا

لختِ دل حامد میاں کو شکر ہے

حق نے بیٹا بخشا جیتا جاگتا

میں دعا کرتا ہوں اب اللہ سے

اور دعا بھی وہ جو ہے دل کی دعا

واسطہ دیتا ہوں میں تیرا تجھے

اے خدا از فضلِ تو حاجت روا

عافیت سے قبلہ و کعبہ رہیں

ہم غلاموں کے سروں پر دائما

دولت کونین سے ہوں بہرہ ور

اخِّ اعظم – مصطفی – حامد رضا

نعمتِ تازہ کو دے وہ نعمتیں

کیں جو تو نے خاص بندوں کو عطا

دوست ان سب کے رہیں آباد و شاد

دشمنِ بد خواہ غم میں مبتلا

آفریں طبعِ رواں کو اے حسنؔ

قطعہ لکھنا تھا قصیدہ ہو گیا

سن ولادت کے دعائیہ لکھو

’علم و عمر اقبال و طالع دے خدا‘

1325ھ

٭٭٭

 

مثنوی در ذکر ولادت شریف حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم

وہ اُٹھی دیکھ لو گردِ سواری

عیاں ہونے لگے انوارِ باری

نقیبوں کی صدائیں آ رہی ہیں

کسی کی جان کو تڑپا رہی ہیں

مؤدب ہاتھ باندھے آگے آگے

چلے آتے ہیں کہتے آگے آگے

فدا جن کے شرف پر سب نبی ہیں

یہی ہیں وہ یہی ہیں وہ یہی ہیں

یہی والی ہیں سارے بیکسوں کے

یہی فریاد رس ہیں بے بسوں کے

یہی ٹوٹے دلوں کو جوڑتے ہیں

یہی بند اَلم کو توڑتے ہیں

اَسیروں کے یہی عقدہ کشا ہیں

غریبوں کے یہی حاجت روا ہیں

یہی ہیں بے کلوں کی جان کی کل

انہیں سے ٹیک ہے ایمان کی کل

شکیب بے قراراں ہے اُنہیں سے

قرارِ دل فگاراں ہے اُنہیں سے

اِنہیں سے ٹھیک ہے سامانِ عالم

اِنہیں پر ہے تصدق جانِ عالم

یہی مظلوم کی سنتے ہیں فریاد

یہی کرتے ہیں ہر ناشاد کو شاد

اُنہیں کی ذات ہے سب کا سہارا

انہیں کے دَر سے ہے سب کا گزارا

انہیں پر دونوں عالم مر رہے ہیں

انہیں پر جان صدقے کر رہے ہیں

انہیں سے کرتی ہیں فریاد چڑیاں

انہیں سے چاہتی ہیں داد چڑیاں

انہیں کو پیڑ سجدے کر رہے ہیں

انہیں کے پاؤں پر سر دھر رہے ہیں

انہیں کی کرتے ہیں اَشجار تعظیم

انہیں کو کرتے ہیں اَحجار تسلیم

انہیں کو یاد سب کرتے ہیں غم میں

یہی دکھ درد کھو دیتے ہیں دم میں

یہی کرتے ہیں ہر مشکل میں اِمداد

یہی سنتے ہیں ہر بے کس کی فریاد

انہیں ہر دم خیالِ عاصیاں ہے

انہیں پر آج بارِ دو جہاں ہے

کسے قدرت نہیں معلوم اِن کی

مچی ہے دو جہاں میں دھُوم اِن کی

سہارا ہیں یہی ٹوٹے دلوں کا

یہی مرہم ہیں غم کے گھائلوں کا

یہی ہیں جو عطا فرمائیں دولت

کریں خود جَو کی روٹی پر قناعت

فزوں رُتبہ ہے صبح و شام اِن کا

محمد مصطفی ہے نام اِن کا

مزین سر پہ ہے تاجِ شفاعت

عیاں ہے جس سے معراجِ شفاعت

بدن میں وہ عبائے نور آگیں

کہ جس کی ہر اَدا میں لاکھ تزئیں

کہوں کیا حال نیچے دامنوں کا

جھکا ہے رحمتِ باری کا پلّہ

یہی دامن تو ہیں اے جانِ مضطر

مچل جائیں گے ہم محشر میں جن پر

سواری میں ہجومِ عاشقاں ہے

کوئی چپ ہے کوئی محو فُغاں ہے

کوئی دامن سے لپٹا رو رہا ہے

کوئی ہر گام محو اِلتجا ہے

کوئی کہتا ہے حق کی شان ہیں یہ

کوئی کہتا ہے میری جان ہیں یہ

یہ کہتا ہے کوئی بیمارِ فرقت

ترقی پر ہے اب آزارِ فرقت

ادھر بھی اِک نظر او تاج والے

کوئی کب تک دلِ مضطر سنبھالے

ز مہجوری بر آمد جانِ عالم

ترحم یا نبی اللہ ترحم

نہ آخر رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْنِی

ز محروماں چرا فارغ نشینی

بدہ دستے زپا اُفتادگاں را

بکن دلداریِ دلدادگاں را

بہت نزدیک آ پہنچا وہ پیارا

فدا ہے جان و دل جس پر ہمارا

اُٹھیں تعظیم کو یارانِ محفل

ہوا جلوہ نما وہ جانِ محفل

خبر تھی جن کے آنے کی وہ آئے

جو زینت ہیں زمانے کی وہ آئے

فقیرو جھولیاں اپنی سنبھالو

بڑھو سب حسرتیں دل کی نکالو

پکڑ لو اِن کا دامن بے نواؤ

مرا ذمہ ہے جو مانگو وہ پاؤ

مجھے اِقرار کی عادت ہے معلوم

نہیں پھرتا ہے سائل اِن کا محروم

کرو تو سامنے پھیلا کے دامن

یہ سب کچھ دیں گے خالی پا کے دامن

حسنؔ ہاں مانگ لے جو مانگنا ہو

بیاں کر آپ سے جو مدعا ہو

مرے آقا مرے سردار ہو تم

مرے مالک مرے مختار ہو تم

تصدق تم پر اپنی جان کر دوں

ملیں تو دو جہاں قربان کر دوں

تمہیں افضل کیا سب سے خدا نے

دیا تاجِ شفاعت کبریا نے

تمہیں سے لو لگائے بیٹھے ہیں ہم

تمہارے در پہ آئے بیٹھے ہیں ہم

تمہارا نام ہم کو حرزِ جاں ہے

یہی تو داروئے دردِ نہاں ہے

بلا لیجے مدینے میں خدارا

نہیں اب ہند میں اپنا گزارا

تمہارا دَر ہو اور ہو سر ہمارا

اسی کوچے میں ہو بستر ہمارا

قضا آئے تو آئے اِس گلی میں

رہے باقی نہ حسرت کوئی جی میں

نہ ہو گور و کفن ہم کو میسر

پڑا یوں ہی رہے لاشہ زمیں پر

سگانِ کوچۂ پُر نور آئیں

مرے پیارے مرے منظور آئیں

مرے مُردے پہ ہوں آ کر فراہم

غذا اپنی کریں سب مل کے باہم

ہمیشہ تم پہ ہو رحمت خدا کی

دعا مقبول ہو مجھ سے گدا کی

٭٭٭

ٹائپنگ/ ان پیج سے تبدیلی: ڈاکٹر مشاہد رضوی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید