FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

راجدھانی ایکسپریس

(ناول)

 

حصہ دوم

 

ڈاکٹر سلیم خان

 

 

 

 

مکمل ناول ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

۱۷

 

نوجوان شاہ جی کے شرن میں پہنچے تو وزیر انسانی وسائل نے چین کا سانس لیا اور جئے پور میں موجود اپنے جیوتش کے آشرم کی جانب چل پڑیں۔ شاہ جی نے ایک عرصے کے بعد جب چند نوجوانوں کو اپنے دفتر میں آتے دیکھا تو بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے کہا فرمائیے میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟

راہل نے پوچھا خدمت کی بات بعد میں ہو گی پہلے یہ بتائیے کہ ہم بے روزگار نوجوانوں کے بارے میں آپ لوگوں نے کیا سوچا ہے؟

اس بابت ہم لوگ بہت سنجیدہ ہیں۔ ہمارے پاس ایک طویل المدّتی منصوبہ جس پر اگر عمل درآمد ہو جائے تو بیروزگاری کا خاتمہ ہو جائے گا۔

مکُل خوش ہو کر بولا لیکن وہ منصوبہ کیا ہے؟

لگتا ہے آپ لوگ ٹی وی نہیں دیکھتے۔ وزیر اعظم نے ’’میک ان انڈیا‘‘ نامی مہم شروع کر رکھی ہے۔ وہ اس کیلئے ساری دنیا کے سرمایہ کاروں کو ہندوستان آنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ مختلف سربراہان مملکت کو سرمایہ کاری کیلئے آمادہ کیا جا رہا ہے۔

نکُل بولا لیکن ہم نے سنا ہے خود ہمارے دیسی سرمایہ دار بیرونِ ملک سرمایہ کاری کر رہے ہیں ان کو اپنے ملک میں سرمایہ کاری پر آمادہ کیوں نہیں کیا جاتا؟

دیکھو آپ نوجوان ہو اس لئے نہیں جانتے سیاست کی تجارت میں سرمایہ کاروں کی احسانمندی بہت اہم ہوتی ہے۔ ہم ان پر اپنی مرضی نہیں لاد سکتے اور پھر چونکہ وہ یہاں کی حالتِ زار سے واقف ہیں اس لئے ان کو تیار کرنا مشکل ہے جو غیر ملکی سرمایہ دار زمینی حقیقت سے واقف نہیں ہیں ان کو جھانسے میں لینا سہل تر ہے۔

شاہ جی کی ساری باتیں معقولیت سے پر تھیں اس لئے نوجوانوں کے پاس ان سے اتفاق کرنے کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں تھا۔ اس بیچ نکُل نے سوال کیا کہ پھر اس میں رکاوٹ کیا ہے؟ اس نیک کام میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟

شاہ جی اس سوال کا بڑی شدت سے انتظار کر رہے تھے وہ بولے دیکھو بیٹے یہ صنعتیں خلاء میں تو نہیں بن سکتیں۔ انہیں قائم کرنے کیلئے زمین چاہئے جو کسانوں کے پاس ہے۔ ہم وہ زمین ان کسانوں سے لینا چاہتے ہیں لیکن حزب اختلاف اس میں رکاوٹ کھڑی کر رہا ہے۔

راہل بولا زمین کسان کی ہے سرمایہ دار اسے خریدنا چاہتا ہے تو ان کے بیچ حزب اقتدار و اختلاف کہاں سے آ گئے؟

در اصل بات یہ ہے کہ کسان اپنی زمین صنعتکاروں کو دینا نہیں چاہتے۔ ہم صنعتکاروں کی مدد کیلئے قانون بنا کر کسانوں سے زبردستی ان کی زمین لے کر سرمایہ کاروں کو دینا چاہتے ہیں لیکن حزب اختلاف اس قانون کو بننے نہیں دیتا۔

نکُل بولا کیا آپ کسانوں کا حق مار کر ہمارا پیٹ بھرنا چاہتے ہیں؟ ہمارا ضمیر اسے گوارہ نہیں کرتا۔

نہیں ایسی بات نہیں۔

نکل نے پوچھا تو کیا بات ہے؟

اس سے پہلے کے شاہ جی جواب دیتے راہُل بول پڑا در اصل بات یہ ہے کہ یہ کسانوں کی زمین چھین کر سرمایہ کاروں کی تجوری بھرنا چاہتے ہیں۔ ہمارا مفاد تو ثانوی ہے جو سرکار کی اور صنعتکاروں کی مجبوری ہے۔ اگر ہم کام نہ کریں گے تو صنعتیں از خود بند ہو جائیں گی۔

مکُل نے پوچھا لیکن ان کارخانوں میں بنایا کیا جائے گا؟

راہُل پھر بول پڑا مجھے پتہ ہے وہاں کیا بنایا جائے گا۔ ہمیں بے وقوف بنایا جائے گا اور کیا؟ان لوگوں کو اس کے علاوہ آتا ہی کیا ہے؟

نکُل نے ایک سنجیدہ سوال کیا دیکھئے جناب یہ تو ایک طویل مدت والا منصوبہ ہے نہ جانے کب زمین ملے گی اور کب کارخانہ کھلے گا لیکن ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا چاہتا ہے۔ اس درمیانی وقفہ کیلئے آپ نے کیا کچھ سوچا ہے؟

شاہ جی اس سوال کیلئے تیار نہیں تھے اس لئے سوچ میں پڑ گئے اور کچھ دیر بعد بولے فی الحال اگر بہت پریشانی ہے تو اس کا حل فرقہ وارانہ فسادات ہیں۔ تم لوگ چھوٹے چھوٹے گروہ بنا کر اقلیتوں کی خوشحال بستیوں میں لوٹ پاٹ کا منصوبہ بناؤ اور حملے سے پہلے مجھے آگاہ کر دیا کرو۔ میں پولس کو تمہارا محافظ بنا دوں گا لیکن دیکھو قتل غارتگری اسی وقت کرنا جب ناگزیر ہو جائے اس لئے کہ اس سے بدنامی بہت ہوتی ہے اور ہاں چونکہ پولس پر ریاستی حکومت کا اختیار چلتا ہے اس لئے اپنی سرگرمیوں کو ہماری صوبائی سرکار والی ریاستوں تک محدود رکھو تو اچھا ہے۔

نکُل نے کہا یہ حل ہم جیسے پڑھے لکھے لوگوں کیلئے ذرا مشکل ہے اس لئے آپ ہمارا مسئلہ حل کرنے کیلئے اس کالے دھن کو واپس کیوں نہیں لاتے جس کے انتخاب سے قبل بہت چرچے تھے۔ اگر کسی طرح وہ ہم میں تقسیم ہو جائے تو ہم لوگ اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں گے۔

اوہو مجھے خوشی ہے کہ آپ لوگوں کو انتخاب سے پہلے کی باتیں اب تک یاد ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم انہیں کب کے بھول چکے ہیں اور پھر ان انتخابی وعدوں کو اس طرح یاد رکھنا مناسب بھی نہیں ہے۔ وہ تو یوز اینڈ تھرو ٹائپ کی چیز ہوتے ہیں جنہیں الیکشن سے قبل استعمال کیا جاتا ہے اور اس کے فوراً بعد بھلا دیا جاتا ہے۔ اسی میں دونوں کی بھلائی ہے۔

مکُل نے سوال کیا دونوں سے مراد کون کون ہیں؟

شاہ جی نے ایک زوردار قہقہہ لگا کر کہا بہت بھولے ہو اتنا بھی نہیں سمجھے ایک وہ جو وعدہ کرتا ہے اور دوسرا وہ جس سے وعدہ کیا جاتا ہے۔ اس بیچ دو نوکر ایک نقرئی کشتی میں پانی، چائے اور بسکٹ لے کر داخل ہوئے اور ماحول خوشگوار ہو گیا۔

راہل نے غورسے چائے کو دیکھ کر کہا ارے یہ کیا؟ یہ تو واقعی چائے ہے اس میں پتی، شکر، دودھ سب موجود ہے۔

نکُل بولا زہے نصیب شاہ جی ایک بات بتائیں کیا آپ نے اس پانی کی قیمت ادا کی ہے جو اس کے ساتھ ہے؟

شاہ جی سٹپٹا گئے۔ وہ بولے قیمت؟ کیسی قیمت؟ یہ بیش قیمت ہے؟

مکُل بولا یہی تو میں کہہ رہا تھا کہ چائے خانے میں جہاں سارے لوگ چائے کے نام پر ابلا ہوا پانی پی رہے ہیں وہیں آپ کھڑا چمچہ ملائی مار کے ۰۰۰۰۰

راہل بولا شاہ جی میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا آپ اس چائے خانے میں داخل ہونے سے قبل کوپن خریدتے ہیں۔

ہم عوام کے نمائندے ہیں۔ لوگوں نے ہمیں منتخب کر کے کس لئے بھیجا ہے؟ ان کی مہر ہی ہمارے لئے کوپن کا درجہ رکھتی ہے۔

مکُل بولا لیکن اگر عوام کے مہر لگانے سے آپ لوگوں کو کوپن مل جاتا ہے تو وہ خود اس کے محتاج کیوں ہیں؟

شاہ جی کے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا وہ بولے یہ بڑے مشکل سوالات ہیں اور ان کا جواب وزیر اعظم کے علاوہ کوئی اور نہیں دے سکتا۔ میں ایسا کرتا ہوں کہ ان سے وقت لے کر آپ لوگوں کو آگاہ کرتا ہوں۔

راہل بولا لیکن یہ صرف ہمارا سوال نہیں ہے بلکہ ملک کا ہر شہری یہ سوال گزشتہ ۷۰ سال سے کر رہا ہے۔ آپ کس کس کیلئے وزیر اعظم سے وقت لیں گے؟

ہم اس مسئلہ کا حل نکالیں گے آپ فکر نہ کریں۔ میری گزارش یہ ہے کہ آپ لوگ فی الحال یہ چائے نوش فرمائیں۔ آئندہ ملاقات میں ان مسائل پر چرچا ہو گی۔

نکُل بولا ہمیں تو اس چائے سے رشوت کی بو آ رہی ہے۔ ہم اسے نہیں پی سکتے ہم جا رہے ہیں۔ سارے لوگوں نے اس کی تائید کی اور کہا ہم جا رہے ہیں اور ساری دنیا کو اس چائے خانے کی حقیقت سے آگاہ کریں گے۔ نوجوانوں کے اس گروہ میں ایک کسان گجندر سنگھ چائے والا بھی تھا جو خاموشی کے ساتھ سارا تماشہ دیکھ رہا تھا۔ گزشتہ ایک سال سے اس کا سینہ پھول کر ۵۶ انچ کا ہو گیا تھا اس لئے کہ اسی کی برادری کا ایک آدمی ملک کا وزیر اعظم بن گیا تھا لیکن اس روز وہ بہت شرمندہ تھا۔ اس کیلئے ساتھیوں سے نظر ملا نا مشکل ہو رہا تھا۔

چائے خانے کے باہر نکل کر سارے نوجوان پیپل کے پیڑ تلے سستانے کیلئے بیٹھ گئے۔ ایک ایک کر کے سب کی آنکھ لگ گئی لیکن گجندر سنگھ کی آنکھوں سے نیند غائب تھی۔ راہل گہری نیند میں سو رہا تھا اور ایک بھیانک خواب دیکھ رہا تھا جس میں کیجریوال ایک عظیم خطاب عام میں تقریر کرنے والے تھے اور عوام جوق در جوق رام لیلا میدان میں جمع ہو رہے تھے۔ ایسے میں اچانک ایک ہیبت ناک منظر کو دیکھ کر راہل کی آنکھ کھل گئی۔ راہل نے دیکھا رام لیلا میدان کے درمیان آم کے پیڑ پر گجندر سنگھ کی لاش لٹک رہی تھی۔

ر اہل گھبرا کر گجندر سنگھ، گجندر سنگھ چلّانے لگا اگر گجندر وہاں ہوتا تو جواب دیتا۔ سارے لوگ جاگ گئے تھے اور پریشان تھے کہ آخر گجندر سنگھ اچانک کہاں غائب ہو گیا؟ راہل کے اندر یہ جرأت نہیں تھی کہ اپنا خواب سنائے اس لئے کہ خواب تو آخر خواب ہوتا ہے۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی اور وہ تو ایک ایسا خواب تھا کہ کوئی بھی نہیں چاہتا تھا کہ حقیقت میں بدلے۔

ناظرین دم سادھے ٹیلی ویژن کو دیکھ رہے تھے کہ مدھو بالا نمودار ہوئی اور اس نے اعلان کیا گجندر سنگھ کہاں گیا؟ اس کے ساتھ کیا ہوا یہ جاننے کیلئے آپ کو دوبارہ اسی محفل میں آنا ہو گا جس کا نام ہے ’’آم کے آم گٹھلیوں کے دام ‘‘ لیکن جاتے جاتے ۱۹۶۷؁ کی فلم نونہال میں کیفی اعظمی کے فکر کی اڑان دیکھتے جائیں جسے ملک کے اولین وزیر اعظم کے جنازے پر فلمایا گیا۔ ایسا لگتا ہے پنڈت جی کاحسین خواب ان کے ساتھ ہی نذرِ آتش کر دیا گیا:

میری آواز سنو، پیار کے راز سنو

میں نے ایک پھول جو سینے پہ سجا رکھا تھا

اس کے پردے میں تمہیں دل سے لگا رکھا تھا

تھا جدا سب سے میرے عشق کا انداز سنو

 

زندگی بھر مجھے نفرت سی رہی اشکوں سے

مرے خوابوں کو تم اشکوں میں ڈبوتے کیوں ہو

جو میری طرح جیا کرتے ہیں کب مرتے ہیں

تھک گیا ہوں مجھے سو لینے دو، روتے کیوں ہو

سو کے بھی جاگتے ہی رہتے ہیں جانباز سنو

نونہال آتے ہیں، ار تھی کو کنارے کر لو

میں جہاں تھا انہیں جانا ہے وہاں سے آگے

آسماں ان کا، زمیں ان کی، زمانہ ان کا

ہیں کئی ان کے جہاں مرے جہاں سے آگے

انہیں کلیاں نہ کہو، ہیں یہ چمن ساز سنو

 

کیوں سنواری ہے یہ چندن کی چتا مرے لئے

میں کوئی جسم نہیں ہوں کہ جلاؤ گے مجھے

راکھ کے ساتھ بکھر جاؤں گا میں دنیا میں

تم جہاں کھاؤ گے ٹھوکر وہاں پاؤ گے مجھے

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

ناظرین کو شکایت تھی کہ منگو ابتدائی پروگرام کے بعد جو گیا تو غائب ہی ہو گیا حالانکہ وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ سار کیا دھرا اسی کا ہے۔ مدھو بالا تو صرف ایک فسانہ ہے اس چائے خانے کی حقیقت تو منگو ہے۔ ناظرین کی فرمائش پر آئندہ ہفتہ مدھو بالا نے پھرسے منگو کا استقبال کیا اور ناظرین سے کہا کہ مجھے یقین ہے آپ سب لوگ گجندر سنگھ کے بارے میں جاننے کیلئے بے چین ہوں گے؟

اس کے ساتھ کیا ہوا؟اور کیوں ہوا؟ یہ بتانے کیلئے میں آپ کے چہیتے تجزیہ نگار مونگیری لال عرف منگو کو دعوت دیتی ہوں کہ اپنے مخصوص انداز میں ان تمام لوگوں کی نقاب کشائی کریں جو گجندر سنگھ کو ایک بھیانک انجام سے دوچار کرنے کیلئے بالواسطہ یا بلا واسطہ ذمہ دار ہیں۔ منگو جی تشریف لائیے۔ آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام میں آپ کا پھر ایک بار سواگت ہے۔

سوگوار چہرے کے ساتھ نمودار ہونے والے منگو نے ایک جانب اشارہ کر کے کہا وہ دیکھئے۔ اس آم کے درخت کو غور سے دیکھئے اس پر آم نہیں بلکہ ایک عام آدمی لٹکا ہوا ہے اور یہی وہ آدمی ہے جس کے انجام نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ گجندر سنگھ نے یہ انتہائی فیصلہ کیوں کیا؟ یہ جاننے سے پہلے میں آپ کو بتا دوں کہ گجندر سنگھ کون تھا؟ ٹیلیویژن کے پردے پر رام لیلا میدان میں منعقد ہونے والی کیجریوال کے عظیم الشان جلسے کا منظر تھا۔ فلک شگاف نعرے لگ رہے تھے۔ ’’نہ ہاتھ اٹھے گا اور نہ کمل کھلے گا۔ اب جھاڑو چلے گا جھاڑو‘‘۔

منگو نے اپنا خطاب جاری رکھا ناظرین کرام آپ نے دیکھا راجستھان کا رہنے والا گجندر سنگھ بڑی امیدوں کے ساتھ زعفرانی چائے خانے میں گیا لیکن جب اسے وہاں پر مایوسی ہاتھ لگی تو وہاں سے اٹھ کروہ عام آدمی پارٹی کی کسان ریلی میں شرکت کیلئے چلا گیا۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ الٹا چور کوتوال کی مصداق جس پارٹی نے اسے کسان ریلی میں جانے کیلئے مجبور کیا وہ بھاجپ اس سانحہ کیلئے عاپ کو ذمہ دار ٹھہرا رہی۔

جن کانگریسیوں کے ساتھ وہ چائے خانے سے نکلا تھا وہ نہ صرف عاپ بلکہ بھاجپ کی کسان مخالف پالیسی پر سوال اٹھا رہے ہیں اور دونوں جماعتوں پر مقدمہ دائر کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن افسوس کہ عام آدمی پارٹی نے ناعاقبت اندیشی کی اس احمقانہ دوڑ میں سب کو مات دے دی۔ منگو نے اس روز بی جے پی اور کانگریس سمیت عاپ کو نشانے پر لے لیا تھا جس سے تمام دہلی میں ہلچل مچ گئی تھی۔

منگو بولا آئیے اب ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ اس منحوس دن کیا ہوا۔ گجندر سنگھ زعفرانی چائے کے نشے میں رام لیلا میدان آیا اور اسٹیج کے قریب پیڑ پر چڑھ گیا۔ عاپ کے سکریٹری سنجے سنگھ نے جب اسے دیکھا تو نیچے آنے کی درخواست کی۔ گجندر سنگھ نے سنجے سنگھ کا مشورہ مسترد کر دیا۔ سنجے نے گجندر پر پرشانت یا یوگیندر کی طرح کوئی سخت کار روائی نہیں کی اس لئے کہ وہ تو بس نافرمان تھا مگر باغی نہیں تھا۔

غور طلب بات یہ ہے قانون کی حکمرانی کا دعویٰ کرنے والے کیجریوال نے اس جلسۂ عام کیلئے بلدیہ سے اجازت لینے کی ضرورت تک محسوس نہیں کی تھی اس لئے کہ دہلی میں جھاڑو کا بول بالا ہے۔ اس کے باوجود پولس کمشنر وجئے سنگھ کو یہ غلط فہمی ہو گئی کہ اس میں ۲۰ ہزار لوگ شریک ہوں گے۔ انہوں نے مظاہرے کو رام لیلا میدان میں منتقل کرنے کا مشورہ دیا لیکن کیجریوال جی کسی کی سنتے کب ہیں؟خیر بھلا ہو ان کی عدم مقبولیت کا جو پنجاب سے لے کر مہاراشٹر تک کے صرف ۳ہزار لوگ ریلی میں آئے۔ ان اعداد و شمار سے دہلی کے اندر عاپ کے تئیں عوامی بیزاری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

عاپ کے دفتر میں بیٹھے سسودیہ کی طرح چنائی سیٹھ کی سمجھ میں بھی یہ نہیں آ رہا تھا کہ منگو یہ خودکشی کی کوشش کیوں کر رہا ہے۔ در حقیقت وہ سماچار منورنجن کا جہاز ڈبونے کی درپردہ سازش میں ملوث ہو چکا تھا۔

منگو ناظرین سے کہہ رہا تھا وہ دیکھئے ٹی وی کے پردے پر عاپ کے سب سے تیز طرار مقرر کماروشواس کی شعلہ بیانی دیکھئے اور یہ کیا ان کی نظر پیڑ سے لٹکنے کی سعی کرنے والے گجندر پر پڑ گئی اور آپ خود سنیے کہ وہ کس طرح گجندر کو نیچے آنے کی تلقین کر رہے ہیں۔ منگو پردے سے غائب ہو گیا تھا اور رام لیلا میدان کے مناظر کے ساتھ کمار وشواس کی تقریر نشر ہو رہی تھی۔ منگو پھر درمیان میں آیادوستو یہ کماروشواس جیسے مسخرے شاعر کے بس کی بات نہیں ہے کہ وہ مایوس کسان کو اپنے خطرناک ارادوں سے باز رکھ سکیں اس لئے اب پارٹی کے سکریٹری سنجے سنگھ نے مائک سنبھال لیا ہے اور گجندر کو مخاطب کرنے کے بجائے پولس کو مدد کیلئے بلا رہے ہیں۔

منگو نے سنجے سنگھ کی کلپ دکھانے کے بعد کہا اب میں آپ کو ایک چونکا دینے والا منظر دکھانے جا رہا ہوں۔ یہ دیکھیے کہ جس وقت یہ خطرناک واقعہ رونما ہو رہا ہے وہاں موجود ہماری فرض شناس پولس کیا کر رہی تھی؟وہ لوگ اپنے واکی ٹاکی پر اس حادثے کی تفصیل نہ جانے کس کو بتاتے رہے تھے لیکن مدد کیلئے آگے نہیں آ رہے تھے۔ منگو بولا مجھے امید ہے کہ ہمارے فاضل ناظرین کو پتہ ہو گا کہ دہلی پر کیجریوال کا راج ضرور ہے لیکن پولس فورس ان کے تابع نہیں ہے۔ انتظامیہ در اصل مرکزی حکومت کو جوابدہ ہے اس لئے اسی کی سنتا ہے۔

مدھو نے درمیان میں سوال کیا منگو جی کیا آپ پولس کی اس بے حسی پر روشنی ڈالنے کی زحمت گوارہ کریں گے؟

منگو بولا کیوں نہیں ہمارے ملک کی پولس کچھ زیادہ ہی نظم ضبط کی پابند ہے۔ وہ اس وقت تک حرکت میں نہیں آتی جب تک کہ اعلیٰ افسر ان اس کا حکم نہ دیں۔ اعلیٰ افسر اس وقت حکم نہیں دیتے جب تک کہ ان کے پاس شکایت درج نہ کرائی جائے اور اسے رشوت یا سیاست کے دباؤ سے زیر بار نہ کیا جائے۔

مدھو نے پوچھا لیکن اس سنگین صورتحال میں عاپ کے رہنماؤں کو کیا ہو گیا ہے وہ اسٹیج پر فیویکول لگا کر کیوں چپکے ہوئے ہیں۔ وہ ملائے اعلیٰ سے نیچے آنے کی زحمت کیوں گوارہ نہیں کرتے؟

میڈم ان کا خود جانا ضروری نہیں ہے اگر وزیر اعلیٰ یا نائب وزیر اعلیٰ خاموش تماشائی بنے رہنے کے بجائے اپنے حفاظتی دستے کو حکم دیں کہ وہ مدد کیلئے جائیں تب بھی حادثہ ٹل سکتا ہے۔

حفاظتی دستے کے وہ ارکان از خود بھی تو انسانی بنیادوں پر اجازت طلب کر کے ایک عام آدمی کو مرنے سے بچا سکتے ہیں اس لئے اس وقت خاص لوگوں کی حفاظت کے بجائے عام آدمی کی جان بچانا زیادہ ضروری ہے۔

مدھو بالا جی ہمارا سیاسی شعور دم توڑ چکا ہے۔ اسے سرِ عام پیڑ سے لٹکا کر پھانسی دی  جا چکی ہے۔ انتظامیہ اور مقننہ کی ار تھی اُٹھ چکی ہے لیکن عام آدمی اب بھی زندہ ہے وہی امید کی کرن ہے۔ وہ دیکھئے عام آدمی کی مدد کیلئے عام لوگوں میں سے تین افراد اوپر پیڑ پر چڑھ رہے ہیں اور چار نیچے چادر تان کر کھڑے ہو گئے ہیں۔

مدھو بولی یہ لاوڈ اسپیکر پر کیا اعلان ہو رہا ہے؟

وہ سنجے سنگھ ہیں جو جلسہ میں موجود خاموش تماشائیوں کو اپنی جگہ اطمینان و سکون کے ساتھ بیٹھے رہنے کی تلقین کرتے رہے ہیں۔ اور اس کے بعد ناظرین نے اپنے ٹی وی کے پردے پر وہ دلخراش منظر بھی دیکھا کہ اوپر چڑھنے والوں سے جب پھندا نہ کھلا تو انہوں نے اسے کاٹ کر گجندر کو نیچے گرا دیا۔ گجندر کے جسم کا وزن نیچے والوں کی چادر نہیں سنبھال نہ سکی وہ پھٹ گئی اور اسی ساتھ گجندر کی لاش زمین بوس ہو گئی۔ عوام نے یہ تفصیل تو اخبارات میں پڑھی تھی مگر پہلی بار ان رونگٹے کھڑے کرنے والے مناظر کو اس طرح نشر کیا گیا تھا۔

منگو نے کہا دوستو ہمیں افسوس ہے کہ اس کے بعد رام منوہر لوہیا اسپتال میں جو کچھ ہوا اس کے مناظر ہم آپ کو نہیں دکھا سکتے اس لئے انہیں کسی نے فلم بند کرنا ضروری نہیں سمجھا سارے کیمرے رام لیلا میدان میں کیجریوال کی راس لیلا نشر کرنے پر تعینات تھے کسی کو رام منوہر اسپتال میں آخری بار ہے رام کہنے والے کسان کی پرواہ نہیں تھی۔

ہمارے ذرائع ابلاغ کی اس شرمناک کار کردگی پر میں شرمندہ ہوں۔ آپ سب سے معذرت طلب کرتا ہوں اور اسی لئے میں اس پروگرام سے کنارہ کش بھی ہو گیا تھا لیکن مدھو بالا اور آپ لوگوں کے اصرار پر آج یہ بتانے کیلئے حاضر ہوا ہوں کہ ڈاکٹروں نے گجندر کو مردہ قرار دے دیا اور اسی کے ساتھ مونگیری لال کے سارے سپنے ٹوٹ کر بکھر گئے۔

مدھو نے کہا ناظرین ابھی ایک بریک کا وقت ہے مجھے یقین ہے کہ آپ اس موڑ پر ہمارا ساتھ چھوڑ کر کہیں اور نہیں جا سکتے۔ میں ۱۹۷۰؁ کی فلم سفر کے اس نغمہ کے ساتھ آپ سے اجازت لیتی ہوں جسے کشور کمار نے اپنی درد انگیز آواز میں گایا۔ اور کلیان جی آنند جی کا یہ سنگیت گجندر سنگھ کی نذر ہے:

 

زندگی کا سفر ہے یہ کیسا سفر، کوئی سمجھا نہیں کوئی جانا نہیں

ہے یہ کیسی ڈگر چلتے ہے سب مگر، کوئی سمجھا نہیں کوئی جانا نہیں

 

زندگی کو بہت پیار ہم نے دیا، موت سے بھی محبت نبھائے گے ہم

روتے روتے زمانے میں آئے مگر، ہنستے ہنستے زمانے سے جائیں گے ہم

جائیں گے پر کدھر ہے کسے یہ خبر، کوئی سمجھے نہیں کوئی جانا نہیں

 

ایسے جیون بھی ہیں جو جئے ہی نہیں،

جن کو جینے سے پہلے ہی موت آ گئی

پھول ایسے بھی ہیں جو کھلے ہی نہیں،

جن کو کھلنے سے پہلے قضا کھا گئی

ہے پریشان نظر تھک گئے چارہ گر،

کوئی سمجھا نہیں کوئی جانا نہیں!

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

بریک کے بعد منگو پھر ایک بار ناظرین سے مخاطب تھا۔ رام لیلا میدان میں گجندر کا المناک معاملہ ۱۵تا ۲۰منٹ چلا اور اس کے بعد سب کچھ معمول پر آ گیا۔ جلسے کی کار روائی اس طرح آگے بڑھ رہی تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

مدھو بالا نے درمیان میں پوچھا یہ لوگ اپنی بکواس کب تک جاری رکھیں گے اور گجندر کی خبر گیری کی جائے گی یا نہیں؟

میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ۷۸ منٹ بعد کیا ہوا؟اب سارے مقرر نمٹ چکے ہیں اور نائب وزیر اعلیٰ سسودیہ کو دعوت سخن دی جا رہی ہے یہ دیکھو کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں ’’ میں جلسے کے بعد اسپتال جاؤں گا‘‘۔

کب جائیں گے؟

آپ نے سنا نہیں جلسہ ختم ہونے کے بعد اگر اس وقت تک غریب کسان کا انتم سنسکار ہو چکا ہو تو اپنی بلا سے۔

یہ درمیان میں ہنگامہ کس بات کا ہے؟

یہ دہلی سرکار کے تحت چلنے والے اسکولوں میں کام کرنے والے مہمان اساتذہ ہیں۔ انتخاب سے قبل ان عارضی اساتذہ کو مستقل کرنے کا عاپ نے وعدہ کیا تھا لیکن وہ اپنے وعدے سے صاف مکر چکی ہے۔ اس کے بعد کی کلپ میں دکھایا گیا کہ وہ کیجریوال کی تقریر کے دوران ’’ کیجریوال ہوش میں آؤ‘ ‘ کا نعرہ لگا رہے ہیں اور میدان میں موجود دسامعین نے ان کا ساتھ دینے کے بجائے انہیں مودی کے چمچے قرار دے کر جوابی نعرے بازی میں جٹ گئے ہیں۔

مدھو بالا نے پوچھا کیا وزیر اعلیٰ کیجریوال نے بھی اس خودکشی پر کچھ نہیں کہا؟

منگو نے ایک اور کلپ چلا دی جس میں اروند کیجریوال تالیوں کی گڑگڑاہٹ کے بیچ اس سانحہ کیلئے دہلی پولس کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے دکھائی دیئے۔ کیجریوال حاضرین کو یاد دلا رہے تھے کہ دہلی پولس ان کے نہیں بلکہ مرکزی حکومت تحت ہے اس لئے بی جے پی اس لا پرواہی کیلئے ذمہ دار ہے۔ کیجریوال یہ بتانے سے بھی نہیں چوکے کہ گجندر سنگھ راجستھان سے مایوس ہو کر خودکشی کرنے کیلئے دہلی آیا تھا اور وہاں بھی وجئے راجے سندھیا برسرِ اقتدار ہیں اس لئے بی جے پی کی دوہری ذمہ داری ہے۔

کیا خود کچھ نہیں کرنا اور دوسروں پر الزام تراشی منافقت کی انتہا نہیں ہے؟

منگو بولا جی نہیں عاپ کے دیگر رہنماؤں نے تو اروند کیجریوال کو بھی شرمندہ کر دیا۔ اب ٹی وی کے پردے پر سومناتھ بھارتی کا ٹویٹ تھا ’’ یہ سیاسی سازش ہے ‘‘۔ منگو نے بتایا اس پر وبال مچا تو انہوں نے رجوع فرما لیا۔ لیکن پھر ہماری ہی برادری کے صحافی اسوتوش نے طنز یہ اعتراف لکھا جی ہاں کیجریوال کو پیڑ پر چڑھ جانا چاہیے تھا۔ ان کو بھی بعد میں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو معذرت چاہ لی۔

سنجے سنگھ سے بھلا کب پیچھے رہنے والے تھے ان کا یہ بیان سنیے اور خود ہی فیصلہ کیجئے کہ جھاڑو کا مستحق کون ہے؟ اب سنگھ کی کلپ چل پڑی ان سے پوچھا جا رہا تھا ’’آپ نے حادثے کے بعد جلسہ معطل کیوں نہیں کیا اور وہ بڑی بے حیائی سے یاد دلا رہے ہیں کہ مودی جی بھی تو پٹنہ میں دھماکے باوجود تقریر کر کے لوٹے تھے ‘‘۔

مدھو بالا بولی اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ سنجے سنگھ صاحب نے تسلیم کر لیا کہ اب عاپ اور بھاجپ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ منگو جی بتایئے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ نظام کو بدلنے کا دعویٰ کرنے والے خود بدل جاتے ہیں؟

منگو گمبھیر لہجے میں گویا ہوا۔ کیجریوال بھی اب پردھان جی کے نقش قدم پر چلنے لگے ہیں اس لئے کہ جمہوریت کی دیوی اسی راہ پر چلنے والوں کے سرپر تاج سجاتی ہے۔ آج مودی جی وزیر اعظم ہیں کل کیجریوال ہو جائیں گے لیکن ملک کے غریب کسان کا مقدر نہیں بدلے گا جو آج خودکشی کر رہا ہے کل بھی فاقہ مست رہے گا۔

مدھو بالا نے پوچھا کیا گجندر کا خون رائے گاں جائے گا اب آگے کچھ نہیں ہو گا؟

یہ آپ سے کس نے کہا؟ ہمارے یہاں مسائل حل نہیں ہوتے مگر اس پر سیاست ہوتی ہے سو چل رہی ہے۔ احتجاج کا سلسلہ چل پڑا ہے۔ راہل گاندھی اسپتال پہنچ کر اس معاملے کو تحویل اراضی قانون سے جوڑ رہے ہیں اور کانگریسی ور کرس کیجریوال کے گھر جا کر ان کا پتلا نذرِ آتش کر رہے ہیں۔ جس وقت منگو یہ کہہ رہا تھا پردے پر متعلقہ مناظر چل رہے تھے۔

مدھو بالا نے پوچھا لیکن بی جے پی کیا کر رہی ہے؟

بی جے پی والوں کا احساسِ جرم انہیں پولس محکمہ کے صدر دفتر لے گیا جو خود ان کی تابعدار ہے۔ منگو بولا یہ دیکھیے بھاجپ والے اپنا داغ دار دامن صاف کرنے کیلئے جن کے خلاف نعرے بازی کر رہے ہیں وہی پولس فورس پانی کے فواروں سے نہ صرف ان کا دامن دھو رہی ہے بلکہ تن من ٹھنڈا کرنے میں مصروف ہے۔

مدھو نے سوال کیا لیکن فی الحال پارلیمان کا اجلاس بھی تو جاری ہے؟

ایوانِ پارلیمان میں تمام حزب اختلاف نے ایک آواز ہو کر یہ مسئلہ اٹھایا اور بی جے پی نے بھی اس پر صاد کہہ دیا گویا سارے پاکھنڈی ہم آواز ہو گئے۔ اسی کے ساتھ منگو نے ایوان میں دیا گیا وزیر اعظم کاپھسپھسا بیان نشر کر دیا جس میں کہا گیا تھا ہم کسان کو تنہا نہیں چھوڑ سکتے۔

مدھو نے پوچھا اس بیان بازی کی توجیہ کیا ہے؟

منگو ہنس کر بولا ظاہر ہے اناج برآمد کیا جا سکتا ہے لیکن ووٹ نہیں۔ اس لئے کسانوں کو بہلانا پھسلانا پڑتا ہے۔

گجندر کے بعد کسانوں کی خودکشی کے کئی واقعات سامنے آئے۔ مہاراشٹر اور آندھرا میں یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لیتا اس کی کیا وجہ ہے؟

اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ حکومت ان کے مسائل حل کرنے کے بجائے ان کے سیاسی استحصال میں مصروف رہتی ہے مثلاًراجستھان کی وزیر اعلیٰ وجئے راجے سندھیا کا بیان کہ ہم ہر صورت میں کسان کے ساتھ ہیں وہیں کے بی جے پی رکن پارلیمان سمیندھانند سرسوتی کا بیان کہ ہماری ریاست کے کسان صبر و ضبط کیلئے ساری دنیا میں مشہور ہیں۔ وہ مسلسل ۱۵ سالوں تک قحط کا سامنا کرنے کے باوجود مایوس نہیں ہوتے۔ اس لئے یہ پتہ کرنا پڑے گا کہ کیا عاپ کی ریلی میں موجود لوگوں نے گجندر کو ہیجان کا شکار کر دیا تھا یا خودکشی کے پیچھے کچھ اور عوامل کارفرما تھے۔

مدھو نے کہا منگو جی آج کا وقت ختم ہو رہا ہے اس لئے آپ جاتے جاتے ہمارے ناظرین کو کیا سنانا پسند کریں گے؟

کسانوں کا مسئلہ زیر بحث آئے تو مجھے بے ساختہ منوج کمار کی مشہور فلم اپکار کا وہ نغمہ یاد آتا ہے جو ہر یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کو بجتا ہی بجتا ہے۔ وہی سنا دیجئے:

میرے دیش کی دھرتی سونا اگلے،

اگلے ہیرے موتی،

میرے دیش کی دھرتی

بیلوں کے گلے میں جب گھنگھرو جیون کا راگ سناتے ہیں

غم کوسوں دور ہوتا ہے خوشیوں کے کمل مسکاتے ہیں

سن کے رہٹ کی آوازیں یوں لگے کوئی شہنائی بجے

آتے ہی مست بہاروں کے دلہن کی طرح ہر کھیت سجے

میرے دیش کی دھرتی سونا اگلے،

اگلے ہیرے موتی،

میرے دیش کی دھرتی

 

 

 

۱۸

 

زعفرانی چائے خانے والے پروگرام کا اختتام اس قدر حیرت انگیز تھا کہ بی جے پی والے بھی سماچار منورنجن دیکھنے لگے تھے اور اس کے ٹی آر پی میں نیا اضافہ ہو گیا تھا لیکن عآپ کے رہنما جن کے سہارے یہ چینل چل رہا تھا گجندرسنگھ والے ایپی سوڈ سے بہت ناراض تھے۔ ان لوگوں نے پہلے تو چنائی سیٹھ کو ڈرایا دھمکایا اور پھر لالچ دے کر پروگرام کا لب و لہجہ تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا۔

اگلے ہفتہ مدھو بلا اپنے مخصوص انداز میں منگو سے مخاطب ہو کر بولی مونگیری لال جی تہوار کے اس خوشگوار موسم میں آپ کا’ آم کے آم گٹھلیوں کے دام‘ میں پھر سے سواگت ہے۔ چائے کی تلخی بہت ہو چکی اب آئیے کچھ میٹھے آموں کا ذکر ہو جائے۔ اور پھر ناظرین سے مخاطب ہو کر کہا ناظرین کرام! اب آپ اس خوشبودار تازہ آم کا مزہ لیجئے جو سیدھے پیڑ سے ہمارے اسٹوڈیوکے آنگن میں پک کر گر پڑا ہے۔

منگو نے ہاتھ جوڑ کر ناظرین کو پرنام کیا وہ کسی پیشہ ور مسخرے کی نقالی کر رہا تھا جسے عرف عام میں ممکری آرٹسٹ کہا جاتا ہے۔ اسٹوڈیو میں موجود شہنائی والوں نے راگ سواگت ملہار چھیڑ دیا اور طبلے والے بھی سر میں سر ملانے لگے۔ ان سب نے مل کر ایک نہایت خوشگوار فضا تیار کر دی گئی۔ ناظرین حیرت سے منگو کو دیکھ رہے تھے جس کا لب و لہجہ، چال ڈھال اور حلیہ سب کچھ تبدیل ہو چکا تھا۔

سنگیت کی پھوار رکی تو مدھو بالا نے سوال کیا شری مونگیری لال عرف منگو کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آم پکنے کے بعد پیڑ سے اپنے آپ کیوں گر جاتا ہے؟

منگو بولا اس سوال کا بہترین جواب تو عاپ پارٹی والے ہی دے سکتے ہیں جو پکنے کے بعد ٹپا ٹپا پیڑ سے گر کر مٹی میں مل رہے ہیں لیکن یہ ان کیلئے کوئی گمبھیرمسئلہ نہیں ہے عاپ کے پاس ایک زوردار جھاڑو ہے جو ویکیوم کلینر سے بہتر کام کرتا ہے۔

مدھو بالا بولی یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں؟

مس مدھو بالا آپ دہلی انتخاب کے نتائج اتنی جلدی بھول گئیں یہ ویکیوم کلینر کانگریس کو پوری طرح نگل چکا ہے اور بی جے پی کو ڈھاک کے تین پات کر دیا ہے۔

لیکن جناب آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔

در اصل میرا طریقہ یہ ہے کہ میں مسئلہ کا حل پہلے بتاتا ہوں اور اس کے اسباب بعد میں پیش کرتا ہوں۔

بیماری کا علاج پہلے اور تشخیص بعد میں؟ کیا یہ ترتیب الٹی نہیں ہے؟

جی نہیں میڈم بیمار کو علاج میں دلچسپی ہوتی ہے جس کیلئے دوا ضروری ہے۔ تشخیص ثانوی درجہ کی چیز ہے اس کا ہونا یا درست ہونا ضروری نہیں ہے مریض صحتیاب ہو جائے یہ کافی ہے۔ اس لئے آپ بھی پیڑ گننے کے بجائے آم کھائیے۔

منگو نے اپنی منطق سے نہ صرف مدھو کو چاروں شانے چت کر دیا بلکہ اپنی کمزوری پر بھی پردہ ڈال دیا لیکن مدھو آسانی سے ماننے والوں میں سے نہیں تھی۔ اس نے کہا میں اتفاق کرتی ہوں کہ علاج کی اہمیت زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود کیا آپ کم اہمیت کے حامل اسباب پر بھی روشنی ڈالنا پسند کریں گے؟

میڈم ابتداء میں جب جماعت یعنی شاخ ہری بھری اور مضبوط ہوتی ہے۔ اس پر لگنے والے پھل کچے اور کمزور ہوتے ہیں۔

جی ہاں میں آپ کی تائید کرتی ہوں۔

شکریہ لیکن وقت کے ساتھ شاخ کمزور ہو جاتی اور پکے ہوئے پھل رسدار اور بھاری ہو جاتے ہیں۔ اس لئے وہ انہیں سنبھال نہیں پاتی اور ہوا کے جھونکوں سے یہ پھل ٹوٹ کر زمین پر آ جاتے ہیں۔

جی ہاں اس کا مشاہدہ میں نے بھی کیا ہے لیکن اس کے بعد کیا ہوتا ہے؟

اس کے بعد یہ پھل داغدار ہو جاتے ہیں۔ ان کی کو ئی قدر و قیمت نہیں رہتی۔ یہ اپنے باغبان کے کسی کام نہیں آتے۔ مفت میں اٹھا لئے جاتے ہیں یا سڑ گل کر برباد ہو جاتے ہیں۔

فلسفہ کی حد تک تو آپ کی بات درست ہے مگر موجودہ سیاسی تناظر میں آپ اس کی توضیح کیسے کریں گے؟

دیکھئے انتخابی موسم میں سیاست کا باغ پھلتا پھولتا ہے۔ اس میں مختلف قسم کے پیڑ لگے ہوتے ہیں۔ ان میں سے جس پیڑ کو رائے دہندگان کھاد پانی فراہم کرتے ہیں اس پر پھل لگتے ہیں بقیہ سوکھ جاتے ہیں۔ اب جبکہ پھل لگ گئے بلکہ پک بھی گئے تو ان سے استفادہ کرنے کیلئے توڑنا ضروری ہے۔ باغبان اگر ان کو بروقت توڑنے کے بجائے آپسی سرپھٹول میں مصروف ہو جائے تو پھل اتنے بھاری اور ان کی ڈالی اس قدر کمزور ہو جاتی ہے کہ ہوا کا ایک ہلکا سا جھونکا بھی ان رس بھرے بھاری بھرکم پھلوں کو شاخ سے الگ کر کے زمین بوس کرنے کیلئے کافی ہوتا ہے۔ وہ بیچارے خود اپنے وزن سے دھرتی پکڑ لیتے ہیں۔

ٹی وی کے پردے پر پوپ کورن کھانے والے ناظرین منگو کے ذریعہ پروسے گئے اس مقوی پکوان کے ذائقہ سے حیران اور پریشان تھے۔ شور شرابہ اور الزام و بہتان سے ہٹ کر کو ئی سنجیدہ بات ان کے پلے نہیں پڑتی تھی۔

مدھو خوش ہو کر بولی مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ عام آدمی پارٹی کے حقیقی ترجمان آپ ہیں جو اس خوبی کے ساتھ ان کا موقف بیان کر رہے ہیں۔

میڈم برائے کرم آپ میرے حوالے سے غلط فہمی پھیلانے سے گریز فرمائیں۔ میں عام آدمی ضرور ہوں لیکن عام آدمی پارٹی سے میرا کوئی تعلق نہیں۔

تو کیا آپ اس کے مخالف ہیں؟

جی نہیں میں نہ تو کسی کا مستقل مخالف ہوں اور نہ کسی کا زر خرید حامی۔ میں من موجی آدمی ہوں جب جس کی چاہتا ہوں حمایت کرتا ہوں یا مخالفت کر دیتا ہوں۔ میں اس وقت بھی موجود تھا کہ جب عام آدمی پارٹی نہیں تھی اور اس وقت بھی موجود رہوں گا جب آدمی پارٹی نیست و نابود ہو جائے گی۔

کیا یہ پیشن گوئی ہے کہ جلد ہی یہ نئی پارٹی صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گی؟

یہ جلد ہی کہاں سے آ گیا؟اور کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ جلد یا بدیر ہر کسی کو فنا ہونا ہے۔ بالآخر ایک دن یہ ساری بساط لپیٹ کر رکھ دی جائے گی۔

اس دن آپ جیسے عام آدمی کا کیا ہو گا؟

اس دن خاص و عام کا فرق مٹ جائے گا۔

تو کیا اس کے بعد بھی عام آدمی کا وجود باقی رہے گا؟

جی ہاں انسان تو موجود ہو گا لیکن اس کی کیفیت بدل جائے گی۔

میں نہیں سمجھی اور شاید ہمارے ناظرین بھی نہیں سمجھ سکے ہوں گے اس لئے وضاحت فرمائیں۔

یہ سمجھ لو کہ اس وقت کھیتی باڑی کی مہلت عمل ختم ہو چکی ہو گی اور ہر شخص اپنی بوئی ہوئی فصل کاٹے گا۔ کسی کے حصے میں رس بھرے آم آئیں گے اور کوئی ببول کے کانٹے چنے گا۔

آپ کا پروچن سن کر میرا جی چاہتا ہے کہ آپ کو سنت منگو مہاراج کہہ کر مخاطب کروں مگر اب پرلوک کی باتیں چھوڑئیے اور اس لوک کے بارے میں کچھ مارگ درشن دیجئے۔ آج ہمارے پروگرام ’آم کے آم گٹھلیوں کے دام‘ کا عنوان ہے ’عام آدمی پارٹی‘ کی حکومت کا پہلا مہینہ۔ اس دوران اس جماعت نے کیا کھویا اور کیا پایا؟

ایک مہینہ تو کوئی مدت ہی نہیں ہوتی آپ دیکھئے بی جے پی کی مرکزی سرکار نے پورے ۹ مہینے بعد عاپ سرکار کو جنم دیا۔ اس سے تو بہتر تھا کہ وہ بانجھ ہوتی۔ اسی لئے چانکیہ کا کہنا ہے سیاسی بساط پر کئی بار کچھ نہ کرنا بہت کچھ کرنے سے بہتر ہوتا ہے۔

کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس دوران عاپ نے کچھ بھی نہیں کیا؟

یہ تو میں نے نہیں کہا۔ اس ایک ماہ میں عاپ جو کر دکھایا اس کو کرنے کیلئے دوسری سیاسی جماعتوں کو کئی سال لگ گئے اور کچھ بدنصیب پارٹیاں تو وہ سب کئے بنا ہی اس دارِ فانی سے کوچ کر گئیں۔

میں آپ کا مطلب نہیں سمجھی؟

دھیرج رکھوسب سمجھ میں آ جائے گا۔ اس وقفہ میں عاپ نے ثابت کر دیا کہ وہ اپنی کم سنی کے باوجود آپس کی لڑائی میں کسی پرانی جماعت سے پیچھے نہیں ہے۔ اب تو بی جے پی والے بھی اپنے آپ کو اس سے بہتر اور منظم محسوس کر رہے ہیں اور کانگریس کے اندر بھی امید کا ایک ننھا سا چراغ روشن ہو گیا ہے۔

تو کیا عاپ اپنے دشمنوں کیلئے وردان بن گئی ہے؟

کیوں نہیں اس مختصر سے عرصے میں یہ ننھی سی جماعت اپنے ماتھے سے سب سے مختلف ہونے کا کلنک مٹانے میں کامیاب ہو گئی اور دیگر سیاسی جماعتوں کی ہمسر ہو گئی۔ اس میں اور دوسری پارٹیوں میں اب کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ میں تو کہتا ہوں یہ اروند کیجریوال پرائیویٹ لمیٹیڈ میں تبدیل ہو چکی ہے۔

آپ نے عاپ کے سبب دوسری سیاسی جماعتوں کو ہونے والا فائدہ تو بتا دیا لیکن اس نے اپنے بڑے رہنما یوگیندر یادو اور پرشانت بھوشن کو رسوا کر کے سیاسی امور کی کمیٹی سے نکال باہر کیا اس بابت آپ کی کیا رائے ہے؟

میں تو اسے ان دونوں مہاتماؤں پر احسانِ عظیم سمجھتا ہوں۔

کیا آپ کہنا چاہتے ہیں یہ ان کے حق میں بہتر ہوا ہے؟

جی ہاں آپ نے سنا ہو گا اگر کسی ٹوکری میں ایک خراب آم ہو تو سارے اچھے آموں کو برباد کر دیتا ہے۔ اب عام آدمی پارٹی میں اس قدر سڑے ہوئے آم جمع ہو گئے کہ ان کی صحبت میں ان دو آموں کا نہ جانے کیا حشر ہوتا؟ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ دونوں حضرات از خود نکل جاتے لیکن چونکہ گوں ناگوں وجوہات کے سبب وہ ایسا نہ کر سکے اس لیے پارٹی نے ان کی اور اپنی بھلائی کے پیشِ نظر انہیں باہر پھینک دیا۔

یہ ایک ایسی منطق تھی جو اس سے قبل کبھی بھی ذرائع ابلاغ کی زینت نہیں بنی تھی لوگ اس پر عش عش کر رہے تھے اور بھوشن اسے سن کر بے ہوش ہو گئے تھے۔

باہر نکالے جانے والوں کی خیر خواہی تو سمجھ میں آ گئی لیکن اندر والوں کے ساتھ پارٹی نے کیا کیا؟

ان کیلئے اس جماعت نے وہ کر دیا جس کا تصور بھی کانگریس یا بی جے پی نہیں کر سکتی تھی۔ آپ تو جانتی ہی ہیں کہ دہلی میں ۶ سے زیادہ وزیر بنانے کی اجازت نہیں ہے لیکن ہر رکن اسمبلی کو سکریٹری نامزد کیا جا سکتا ہے۔ بی جے پی نے کھرانہ اور ورما کے دور اقتدار میں ایک ایک سکریٹری مقرر کیا۔ کانگریس کی شیلا دکشت نے بھی پہلے پانچ سال ایک پر اکتفاء کیا مگر بعد میں بڑی ہمت کر کے یہ تعداد۳ تک پہنچائی اس کے برعکس عاپ نے ایک مہینے کے اندر ۲۲ ارکان اسمبلی کو سکریٹری کے عہدے پر فائز کر دیا۔ کیا یہ کوئی معمولی کارنامہ ہے؟

مدھو نے کہا ایک عورت کی حیثیت سے اور ساری عورتوں کی جانب سے میں آپ سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ عاپ نے کسی خاتون کو وزیر کیوں نہیں بنایا جبکہ کانگریس نے ۱۵ سالوں تک ایک خاتون وزیر اعلیٰ سے کام چلایا؟

آپ نے ایک نہیں دو سوالات کئے ہیں ایک تو کانگریس نے اس قدر طویل عرصہ شیلا دکشت پر اعتماد کیوں کیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دوران کانگریس کی زمام کار ایک خاتون سونیا گاندھی کے ہاتھوں میں تھی اس لئے انہوں نے مردوں کے ساتھ نا انصافی کرتے ہوئے ایک خاتون وزیر اعلیٰ کو دہلی کی عوام پر تھوپا اور وہ اس قدر کمزور ثابت ہوئیں کہ عصمت دری کے واقعات پر بھی قابو نہ پا سکیں جس سے مردو عورت دونوں کانگریس کے خلاف ہو گئے اور اس کو مزہ چکھا دیا۔

لیکن بی جے پی نے بھی توسشما سوراج کے سر پر دہلی کا تاج سجایا تھا۔

جی ہاں یہ درست ہے لیکن وہ اس کی مجبوری تھی۔ کھرانہ اور ورما کے درمیان مہابھارت کو ختم کرنے کیلئے دروپدی کو میدان میں لانا پڑا لیکن وہ بھی ناکام رہیں۔

وزیر اعلیٰ نہ سہی کم از کم ایک وزارت تو ہمارا حق ہے۔ مجھے یقین ہے کہ عاپ کے رائے دہندگان میں اکثریت خواتین کی ہے۔ میں نے تو سنا ہے اس بار سنگھی خواتین نے بھی بی جے پی کے بجائے عاپ کو ووٹ دیا تھا۔

آپ کا اندازہ درست ہے لیکن اس کی وجہ کرن بیدی کی رقابت تھی جو راتوں رات باہر سے آ کر ساس کی مانند ان کے سینے پر مونگ دلنے لگی تھی۔

آپ میرے سوال سے دامن بچا رہے ہیں۔ عاپ کے علاوہ دوسروں نے کیا کیا؟کیوں کیا یہ تو بتا دیتے ہیں لیکن عاپ سے کنی کاٹ رہے ہیں۔

میں پھر ایک بار آپ سے یہ مؤدبانہ گزارش کرتا ہوں میرے متعلق یہ غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش نہ کریں کہ میں عاپ کا ترجمان یا دلال ہوں۔

اگر ایسا ہے تو آپ میرے سوال کا سیدھا جواب کیوں نہیں دیتے؟

میں آپ کی اور آپ جیسی خواتین کی دلآزاری نہیں کرنا چاہتا تھا اس لئے گریز کر رہا تھا لیکن آخری بار گزارش کرتا ہوں کہ اصرار نہ کریں۔

آپ کو اس سوال کا جواب دینا ہی ہو گا یہ حقوق نسواں کا سوال ہے۔

دیکھئے اس جماعت کا نام میں جنس کی تحدید موجود ہے۔ یہ عام آدمی پارٹی ہے عام عورت پارٹی نہیں ہے۔

مدھو بگڑ کر بولی تو کیا اس میں خواتین کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے؟

یہ سوال آپ کو مجھ سے نہیں کیجریوال سے پوچھنا چاہئے۔

میں ان سے بھی پوچھوں گی لیکن آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟

میرے خیال میں ہر جماعت میں سب کیلئے جگہ ہوتی ہے مثلاً بی جے پی کے اندر مسلمان موجود تو ہیں مگر حاشیہ پر اسی طرح عاپ میں بھی خواتین ضمیمہ کے طور موجود رہیں گی۔

یہ تو ہماری توہین ہے؟ مدھو نے غم و غصے کا اظہار کیا۔

اگر ہے تو ہوا کرے۔ اب ۵ سال تک تو کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔

عوام کے ایک بڑے طبقہ کا خیال ہے کہ عاپ کے آپسی خلفشار کے سبب ان کے اندر مایوسی پیدا ہوئی ہے؟ کیا آپ اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

ایک ہفتہ قبل اگر یہ سوال ہوتا تو میں تائید کرتا لیکن اب نہیں کر سکتا۔

اچھا اس ایک ہفتہ میں کس چمتکار نے آپ کی رائے بدل دی؟

مدھو جی ایسا لگتا ہے کہ آپ خبریں نشر تو کرتی ہیں لیکن ان کو سننے کی زحمت نہیں کرتیں۔

مدھو بولی چلیے یہ الزام بھی تسلیم۔ اب آپ ہی اس خبر سے آگاہ کر دیجئے جس نے آپ کی اور عوام کی رائے بدل دی۔

آپ کو پتہ ہو گا کیجریوال کی بنگلور سے واپسی کے بعد ان کی کابینہ نے پہلے فیصلے میں دہلی کے اندر پانی کا نرخ ۱۰ فیصد بڑھا دیا۔ اس خبر کو سن کر عام لوگوں نے سوچا کہ کاش ان کی آپسی جنگ کچھ اور دن جاری رہتی کاش کے اس کے سبب یہ سرکار بھی گر جاتی۔ اس کے سبب کم از کم ان پر یہ افتاد تو نہیں ٹوٹتی۔

انٹرویو کا وقت ختم ہو رہا تھا اور مدھو کیلئے سوالات کرنا مشکل ہو رہا تھا وہ پوچھتی کچھ تھی، جواب کچھ اور ملتا تھا مگر آپوس آم کی مانند خوش ذائقہ اور خوشبودار۔ خوش رنگی کی خاطر مدھو بالا موجود تھی۔ منگو کے جوابات تعریف کے پردے میں طنز کے تیر برساتے تھے۔ جس کے سبب عاپ کے حامی اور مخالفین دونوں ٹی وی سے چپکے رہے۔ اس پروگرام سے عاپ والے اور بی جے پی والے دونوں خوش ہوئے اور سماچارمنورنجن کی ٹی آر      پی میں قابلِ ذکر اضافہ ہوا۔

مدھو اور منگو کی جوڑی چھوٹے پردے پر مقبول و معروف ہو گئی۔ اس بیچ ایک تفریحی چینل نے منگو کو مدھو کے ساتھ فیملی کامیڈی سیریل میں کام کرنے کی پیشکش بھی کر ڈالی۔ اسپورٹس چینل والے لوگ انہیں دیسی کھیل مثلاً کشتی، کبڈی اور کھو کھو وغیرہ کی کمنٹری کیلئے بلانے لگے۔ غرض اس پروگرام ’آم کے آم نے ۰۰۰‘ نے مدھو کے کام اور منگو کے دام میں اچھا خاصہ اضافہ کر دیا۔

 

 

 

 

۱۹

 

سماچارمنورنجن کی مقبولیت کو ’’آم کے آم ‘‘ نے آسمان پر پہنچا دیا لیکن منگو کے بیباک رویہ نے عاپ اور بھاجپ دونوں کے رہنماؤں کو ناراض کر دیا اور وہ اس کا گلا گھونٹنے کا منصوبہ بنانے لگے۔ اس بیچ بی جے پی کے ایک سر کردہ کارکن نے عدالت میں سماچار درشن کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کر دیا اور اسے دیش دروہی قرار دیتے ہوئے قوم کو بدنام کرنے کی بین الاقوامی سازش کا حصہ قرار دے دیا۔

سماچار منورنجن پر الزام لگایا گیا کہ عربوں کے سرمائے سے چلنے والا یہ چینل ہندوستان کی عالمی ساکھ کو بگاڑ رہا ہے۔ اس کے سبب نہ صرف ہندوستانیوں کا سر شرم سے جھک گیا ہے بلکہ بیرونی سرمایہ کاری بھی متاثر ہوئی ہے۔ اپنے الزامات کے ثبوت میں اس نے سماچار درشن سے نشر ہونے والے امارات ائیرلائنز اور دبئی المیونیم وغیرہ کے اشتہارات کا حوالہ دیا جو خالص تجارتی نوعیت کے تھے۔

چنائی سیٹھ اس دباؤ کو برداشت نہیں کر سکے اور وہ چینل کو فروخت کرنے پر غور کرنے لگے۔ مثل مشہور ہے جو درخت پھلدار ہوتا ہے اسی پر پتھر آتے ہیں۔ سماچار درشن کی کامیابی کے بعد کئی سرمایہ دار اور سیاستداں اسے خریدنے میں دلچسپی لینے لگے جن میں سے ایک چندن مترا بھی تھا جو اپنے اخبار کی خراب حالت سے فکر مند تھا۔ چنگو نے اسے سمجھا دیا تھا کہ اب ورقی خبروں کا زمانہ لد گیا ہے اور برقی دور آ چکا ہے۔ اس لئے اسے بھی زمانے کے ساتھ اپنے آپ کو بدل دینا چاہئے ورنہ وہ گھر کا رہے گا نہ گھاٹ کا۔

چندن مترا کا مسئلہ یہ تھا کہ لالہ جی کے زمانے سے اخبار میں کام کرنے والا عملہ اپنے آپ کو بدلنے کیلئے تیار نہیں تھا۔ ایک چنگو کے سہارے وہ کوئی بڑا خطرہ مول لینے کی جرأت نہیں کر پا رہا تھا۔ اس دوران چنگو نے چندن کی ملاقات منگو سے کرا دی۔ چندن منگو کی عیاری اور مکاری سے بہت متاثر ہوا اور ان دونوں نے مل کر سماچار درشن کو کمزور کرنے کی ایک گھناؤنی سازش رچی۔

منگو نے چنائی سیٹھ کو سمجھایا کہ اصل مسئلہ چینل نہیں بلکہ’ آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام‘ والا پروگرام ہے۔ اس لئے اسے بند کر کے اس کی اینکر مدھو بالا کو بلی کا بکرا بنا دیا جائے۔ اس کی جگہ کسی سنجیدہ اینکر کو لا کر چینل کو نئی پہچان دی جائے۔ اس سے عاپ اور بھاجپ دونوں کو پیغام جائے گا کہ آپ نے اپنے رویہ کی اصلاح کر لی ہے اور قصور وار کو قرار واقعی سزا دے دی ہے۔ اس سے ان کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا اور پھر سے اشتہارات کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔

چنائی سیٹھ کو یہ مشورہ پسند آیا اور وہ چینل کو بیچنے کے بجائے مدھو بالا کی چھٹی کرنے پر تیار ہو گئے لیکن ان کیلئے مدھو بالا کو یہ فیصلہ بتانا ایک مشکل کام تھا اس لئے کہ مدھو ان کے آبائی گاؤں کی رہنے والی تھی اور وہ اس کی بوڑھی ماں کے واقف کار تھے۔ منگو نے یہ ذمہ داری اپنے سر لی اور چنائی سیٹھ کو یقین دلا دیا کہ مدھو بالا کو سمجھا بجھا کر گاؤں روانہ کر دے گا۔ چنائی سیٹھ چونکہ منگو اور چندن کی سازش سے نابلد تھے اس لئے انہوں نے یہ کام منگو کو سونپ دیا۔

منگو نے مدھو بالا کو ملاقات کیلئے ایک ریسٹورنٹ میں دعوت دی۔ مدھو بالا سمجھ گئی کوئی خاص بات ہے اس لئے وہ وقت سے پہلے پہنچ گئی۔ اپنے لئے مختص شدہ میز پر بیٹھ کر وہ اپنی زندگی کے سفر غور کرنے لگی اس لئے کہ اسے یقین ہونے لگا تھا کہ اس کی حیات کا حسین ترین موڑ قریب آ چکا ہے۔ ایک ہفتہ قبل منگو نے نے وعدہ کیا تھا کہ وہ چنگو سے دوچار دن کے اندر بات کر لے گا۔ ٹھیک چار دن بعد اس دعوت نے کئی ارمان جگا دیئے تھے۔

اسے خوشی تھی کہ ایک طویل عرصے تک وعدہ خلافی کرنے والے منگو نے آخر اپنا عہد پورا کر ہی دیا تھا۔ وہ اپنے مستقبل کے حسین سپنے بننے ہی لگی تھی کہ منگو کے سلام نے انہیں بکھیر دیا۔

منگو نے سوال کیا کیوں مدھو؟ کن خیالوں میں گم ہو’ آم یا دام‘؟ آج میں نے تمہیں کسی اور موضوع پر بات کرنے کیلئے بلایا ہے۔

مدھو بولی مجھے پتہ ہے منگو ؟ میں ایسی بھولی بھی نہیں کہ جیسی تم سمجھتے ہو۔

مدھو کا یہ رد عمل غیر متوقع تھا۔ منگو نے سوچا کہیں اس کوسازش کی بھنک تو نہیں لگ گئی؟ کہیں چنائی سیٹھ نے اسے بتا تو نہیں دیا لیکن وہ کیا بتاتا اندر کی اصل بات تو صرف اسے اور چندن معلوم تھی بلکہ مدھو بالا کو کس جال میں پھنسا رہا تھا اس سے تو خود چندن مترا بھی واقف نہیں تھا۔ اپنے مکمل خفیہ منصوبے میں اس نے کسی کو بھی شریک نہیں کیا تھا۔ اپنے دوست چنگو کو بھی نہیں۔

منگو بولا مدھو مجھے افسوس ہے کہ میں آج ایک بہت بری خبر تمہیں سنانے والا ہوں لیکن فکر نہ کرو میں نے اس کا حل بھی نکال لیا ہے۔

مدھو نے کہا مجھے پتہ ہے خوشخبری اور بد خبری کے درمیان چولی دامن کا رشتہ ہے۔ وہ تا حیات دن رات کی طرح ساتھ سا چلتے ہیں لیکن اگر واقعی خبر اچھی نہیں ہے تو اس کا حل تم نہیں کر سکتے ۰۰۰ میں نہیں کر سکتی۰۰۰ بلکہ کوئی نہیں کر سکتا۰۰۰۰۰۔

مدھو مایوسی کفر ہے۔ دنیا کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے کہ جس کا کوئی حل نہیں ہو۔ مسائل تو حل ہونے کیلئے ہی جنم لیتے ہیں۔

یہ میں نے کب کہا کہ اس مسئلہ کا کوئی حل ہی نہیں ہے؟ میں تو صرف یہ کہہ رہی تھی کہ اس کا حل تمہارے یا میرے بس میں نہیں ہے۔

منگو کو اندازہ ہونے لگا تھا کہ شاید مدھو کسی اور ہی دنیا میں کھوئی ہے۔ وہ بولا مجھے لگتا ہے شاید تم نے میری بات کا غلط مطلب نکال لیا۔

دیکھو منگو مجھے نہ تو تمہاری صلاحیت پر کوئی شک ہے اور نہ نیت پر شبہ ہے لیکن میں جانتی ہوں کہ انسان کا کام کوشش کرنا ہے نتیجہ نکالنا اس کے اختیار میں نہیں ہے اور پھر کوئی کسی کا نصیب تو نہیں بدل سکتا۔

جی ہاں لیکن پھر بھی میں نے ایک حل سوچا ہے خیر۰۰۰۰۰۰

مجھے کسی ہمدردی کی ضرورت نہیں پہیلیاں بھجوانے کے بجائے تم صاف صاف بتاؤ کہ چنگو نے کیا کہا اور کیا اس نے کوئی وجہ بھی بتائی۔

چنگو ؟ کون چنگو ؟

وہی تمہارا دوست جس سے بات کرنے کا وعدہ تم نے چار روز قبل کیا تھا۔

منگو اب سمجھا۔ وہ معذرت خواہانہ انداز میں بولا مدھو معاف کرنا میری ابھی تک چنگو سے بات نہیں ہوئی۔

اس جملے کو سن کر مدھو عجیب تذبذب کا شکار ہو گئی۔ اسے منگو کی وعدہ خلافی کا افسوس تھا مگر خوشی تھی کہ ابھی انکار نہیں ہوا تھا۔ ہوٹل کا ویٹر ان دونوں کے درمیان موم بتی کو جلانے کی اجازت طلب کر رہا تھا۔ منگو نے کہا نہیں اس کی ضرورت نہیں لیکن مدھو بولی جلادو۔ دیاسلائی ہاتھ میں لئے بیرے نے پھر ایک بار منگو دیکھا۔ منگو نے اشارے اجازت دے دی۔ ایک معمولی سی موم بتی نے مدھو کا جہان روشن کر دیا تھا۔

مدھو بولی اگر یہی بات ہے تب تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے جو حل طلب ہو۔

جی نہیں مسئلہ سنگین ہے۔ چنائی سیٹھ پر مرکزی اور صوبائی حکومت کا زبردست دباؤ ہے اس لئے انہوں نے تمہارا مشہور پروگرام ’’آم کے آم گٹھلیوں کے دام‘‘ بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اچھا لیکن یہ تو ان کا مسئلہ ہے اور وہ میرے گاؤں والے ہیں مجھے اپنی بیٹی کی طرح چاہتے ہیں اس لئے خود بتا سکتے تھے۔

مدھو تمہارے سوال کے اندر جواب پوشیدہ ہے۔ اگر ان کے تمہارے ساتھ قریبی تعلقات نہ ہو تے تو وہ سیدھے سیدھے تمہیں ایک خط لکھ کر ملازمت سے سبکدوش کر دیتے لیکن وہ ایسا نہیں کر سکتے اس لئے میری خدمات حاصل کی ہیں تاکہ میں تمہیں ان کی وہ مجبوری سمجھاؤں جس کے سبب یہ زہر کا پیالہ انہیں پینا پڑا۔

مجھے کچھ سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے اگر میرا پروگرام بند ہو جائے تو میں کوئی اور ملازمت تلاش کر لوں گی یا ۰۰۰۰۰۰۰۰

یا کیا؟ منگو نے سوال کیا۔

یا اپنی ماں کے پاس گاؤں چلی جاؤں گی۔ چند ماہ سے وہ بہت بیمار چل رہی ہیں اور بار بار گھرواپس آنے کا تقاضہ کر رہی ہیں۔

تم انہیں شہر کیوں نہیں بلا لیتیں؟ منگو نے ٹٹولنے کے انداز میں پوچھا

وہ اس کیلئے تیار نہیں ہیں۔ میرے سارے حربے ناکام ہو چکے ہیں۔

منگو نے یہ سن کر اطمینان کا سانس لیا اور بولا جی ہاں مجھے یاد نہیں کہ تم گاؤں کب گئی تھیں بہتر ہے کچھ وقت کیلئے گاؤں جا کر اپنی ماں کی خدمت بجا لاؤ۔

وہ تو ٹھیک ہے لیکن ماں کا علاج بھی تو ایک مسئلہ ہے؟

میں اسی مسئلہ کی بات کر رہا تھا۔ اس بابت چندن مترا سے بات ہو چکی ہے۔

کون چندن مترا؟ ان کا مجھ سے کیا تعلق؟

چندن مترا تمہارے بہت بڑے مداح اور راجدھانی ایکسپریس اخبار کے مالک ہیں جس میں تمہارا اور میرا دوست چنگو کام کرتا ہے۔

لیکن میں تو چنگو کی طرح دو جملے بھی نہیں لکھ سکتی۔ راجدھانی ایکسپریس میں میرا کیا کام مجھے تو جو کچھ لکھ کر مل جاتا ہے اسے اپنے انداز میں پڑھ دیتی ہوں۔ ناظرین کو لگتا ہے بول رہی ہوں۔

منگو خوش ہو کر بولا جی ہاں مدھو یہی تو میں بھی کہتا ہوں کہ تمہارا چنگو سے کیا جوڑ ہم دونوں بول بچن والے ہیں اور تم نے سناہی ہو گا کبوتر بہ کبوتر باز بہ باز۔

منگو نے اپنے دل کی بات اشارے کنائے میں کہہ دی لیکن مدھو نے توجہ نہیں دی۔ وہ بولی تم چندن مترا کی بات کرتے کرتے کبوتر اڑانے لگے۔ میری سمجھ میں تو تمہاری اور چنگو کی دوستی نہیں آتی ایک کبوتر تو دوسرا باز۔ مدھو نے ایک تیر سے دو شکار کر دئیے تھے۔ منگو کی دلیل خود اس کی اپنی مثال سے خارج ہو چکی تھی۔

منگو بولا در اصل چندن مترا بہت جلد ایک چینل شروع کرنے والے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں اس پر مدھو کو ضرور لوں گا۔

یہ تو بہت اچھی بات ہے جب وہ اپنا چینل شروع کریں گے میں اپنی ملازمت چھوڑ کر چنگو کے ساتھ کام کرنے کیلئے راجدھانی ایکسپریس میں چلی جاؤں گی۔

یکلخت منگو کا منصوبہ خاک میں مل گیا وہ بولا مدھو ہماری انڈسٹری بہت چھوٹی ہے اس میں جب چنائی سیٹھ کے فیصلے اور اس کی وجوہات کی خبر پھیلے گی تو ہر چینل والا تمہیں لینے میں تردّد محسوس کرے گا مگر چند ماہ میں لوگ سب بھول بھال جائیں گے اس لئے بہتر یہی ہے کہ تم عارضی طور پر گاؤں چلی جاؤ۔

یہ مشورہ تم مجھے دوسری بار دے رہے ہو لیکن میں تمہیں بتا چکی ہوں کہ اپنی ماں کا علاج کرانے کیلئے ۰۰۰۰۰۰۰۔

جی ہاں چندن مترا تمہیں ابھی سے ملازمت پر رکھ لیں گے اور چینل شروع ہونے تک ہر ماہ گاؤں میں تمہاری تنخواہ پہنچ جایا کرے گی۔

بغیر کام کے تنخواہ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰!

در اصل مترا جی نہیں چاہتے کہ تم کسی اور چینل میں جاؤ اور پھر کل کو تمہارا وہاں سے نکل کر آنا مشکل ہو جائے اس لئے اپنے اطمینان کیلئے چند ماہ کی تنخواہ سے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

مدھو کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ باتوں کے ساتھ ساتھ وہ لوگ کھانے سے بھی فارغ ہو چکے تھے۔ مدھو اپنے من میں ایک سوال لیے گھر پہنچی کہ آخر چندن مترا نے یہ پیشکش کیوں کر دی؟ اس کا جواب تلاش کرتے کرتے اس کی آنکھ لگ گئی اور اب وہ راجدھانی ایکسپریس کے دفتر میں تھی۔ چندن مترا اسے ملازمت پر تعیناتی کا خط دے رہے تھے۔ مبارک سلامت کے بعد مدھو نے ان سے پوچھا چندن جی آخر یہ احسان عظیم آپ مجھ جیسی معمولی اینکر پر کیوں کر رہے ہیں؟

چندن مترا بولے اچھا میں تو سمجھتا تھا کہ منگو نے آپ کو بتا دیا ہو گا خیر میں بتا دیتا ہوں۔ تم تو جانتی ہی ہو گی کہ چنگو میرا دست راست ہے۔ وہ آپ کا گرویدہ ہے۔ دن رات آپ کی تعریف و توصیف کرتا رہتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ میرے نئے چینل کو چلانے کیلئے آپ ہی کافی ہیں۔ اسی نے مجھ کو اصرار کے ساتھ کہا ہے کہ میں ابھی سے آپ کو ملازمت پر رکھ لوں۔ چینل جب شروع ہو گا تب ہو گا۔ میں چنگو کی بات کو بھلا کیسے ٹال سکتا ہوں؟

چندن مترا کے ان جملوں کے ساتھ ہی چہار جانب شہنائیاں بجنے لگیں۔ مدھو چنگو کے ساتھ اگنی کنڈ کے گرد پھیرے کرنے لگی کہ اچانک آگ بھڑک اٹھی اس نے دولہا دلہن سمیت پورے پنڈال کو اپنی لپیٹ میں لے لیا چاروں طرف ہاہاکار مچ گئی کسی نے آگ میں تیل ڈالنے والے منگو کو نہیں دیکھا مگر مدھو کی آنکھ کھل گئی۔ مدھو کا جسم پسینے سے شرابور تھا وہ تھر تھر کانپ رہی تھی۔ اس بھیانک خواب کو بھلا کر وہ فوراً اپنی ماں کی خدمت میں گاؤں نکل جانا چاہتی تھی۔

 

 

 

 

۲۰

 

راجدھانی ایکسپریس کے دفتر میں تجارتی شعبہ کی ایک اہم نشست جاری تھی جس میں سرکیولیشن منیجر دیپک چوپڑہ، مہیش اگروال، رنجن پانڈے اور چندن مترا سر جوڑ کر بیٹھے ہوئے تھے کہ چنگیری لال عرف چنگو نے اندر آنے کی اجازت طلب کی۔

اس سے پہلے کہ چندن کوئی جواب دیتا دیپک بول پڑا تم بعد میں آنا ہم لوگ فی الحال ایک ضروری گفتگو کر رہے ہیں۔

چندن کی مداخلت سے قبل چنگو بولا جناب میں نے آپ سے اجازت طلب ہی کب کی؟ میں تو ان سے اجازت مانگ رہا ہوں جن کی دعوت پر آپ کو اس نشست میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔

لالہ جی کے زمانے سے دیپک چوپڑہ کو اخبار کا کرتا دھرتا مانا جاتا تھا۔ پہلی بار اس کو کسی نے ایسا کرارا جواب دیا تھا۔ دفتر میں  کام کرنے والے لوگوں کے نزدیک چوپڑہ کی خواہش حکم کا درجہ رکھتی تھی جس کی سرتابی کرنے والے کاسر راجدھانی ایکسپریس سے روند دیا جاتا تھا۔

چوپڑہ کے بجائے پانڈے نے تلوار اٹھائی اور بولا چنگو آج تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا ہے۔ تم نہیں جانتے کہ راجدھانی ایکسپریس میں پاگل کتے کو گولی ماردی جاتی ہے تاکہ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

پانڈے تھوک نگلنے کے رکا تو منگو بولا تاکہ اس کے کاٹ کھانے سے دوسرے لوگ پاگل نہ ہو جائیں یہ اچھی روایت ہے لیکن اس پر عمل درآمد سے قبل یہ فیصلہ ہو جانا چاہئے کہ کون پاگل ہو گیا ہے اور کون کاٹ کھانے کو دوڑ رہا ہے؟

چنگو کا اشارہ صاف صاف چوپڑہ اور پانڈے کی جانب تھا۔ چندن مترا کو ابتداء میں دیپک چوپڑہ پر جو غصہ آیا تھا وہ اب خوشی میں بدل چکا تھا۔ یہ کھوسٹ چوپڑہ ابتدائی دنوں میں خود چندن کے ساتھ بھی اسی طرح کا توہین آمیز سلوک کرتا رہا تھا لیکن وہ تو لالہ جی کی کرم فرمائی تھی جس نے اسے اس مثلث کے عتاب سے محفوظ رکھا۔

راجدھانی ایکسپریس کے دفتر میں کام کرنے والے سارے لوگ انہیں زعفرانی مثلث کہہ کر کے پکارتے اور بے حد خوفزدہ رہتے تھے لیکن چنگو نے شیر افگن کی مانند ان چیتوں کے منہ میں ہاتھ دے دیا تھا۔ وہ تینوں اپنی جگہ پر کھڑے ہو گئے۔ چوپڑہ بولا اب یہ نشست ملتوی ہوتی ہے پہلے اس بدتمیز کا انتظام کرنا ہو گا۔ اسے پولس کی تحویل میں دیا جائے گا اور اس کے بعد ہی میٹنگ ہو گی۔

رام، سیتا اور لکشمن کی سینا جب دروازے کی جانب بن باس کیلئے بڑھی تو چندن بولا مہیش تم بھی؟ یہ الفاظ مہیش کے پیروں کی بیڑی بن گئے۔ اس کے قدم وہیں پر جم گئے۔ اب وہ وبھیشن بن چکا تھا۔ چنگو اور مہیش دروازے کے پاس آمنے سامنے کھڑے تھے۔ چندن نے کہا آپ دونوں یہاں بیٹھ جاؤ۔ میں حمام سے ہو کر آتا ہوں میٹنگ جاری رہے گی۔

چندن نے واپس آنے کے بعد کہا مہیش جی آپ چنگو کو بتائیں کہ آج کی نشست کا مقصد کیا ہے اور ہم کیوں اس موضوع پر گفتگو کیلئے مجبور ہوئے ہیں؟

مہیش اگروال لرزتے ہوئے بولا چنگو جی۔ چنگو کو جی کے استعمال پر حیرت ہوئی اور چندن خوش ہوا اس لئے کہ مہیش بہت جلد اس کا ذہن پڑھنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اگروال نے اپنی بات آگے بڑھائی بات در اصل یہ ہے کہ قومی انتخابات کے وقت ہمارے اخبار کی کھپت بامِ عروج پر پہنچ گئی تھی لیکن پھر جیسے جیسے پردھان جی کی مقبولیت کا گراف نیچے آنے لگا ہماری اشاعت کا دائرہ سمٹنے لگا۔ ان دس ماہ میں ہم پہلے نمبر سے دسویں نمبر پر پہنچ گئے ہیں۔ ہم ہر روز اپنی اشاعت میں کمی کرتے ہیں اور ہر دن واپس آنے والی کاپیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ آج ہم لوگ اسی مسئلے پر غور کرنے کیلئے جمع ہوئے تھے۔

چندن بولا کیا؟

اگروال نے اصلاح کی معاف کیجئے جمع ہوئے ہیں۔

چنگو بولا شکریہ مہیش جی لیکن کیا میرے آنے سے قبل اس کی وجوہات پر بھی غور و خوض ہوا؟

جی نہیں ابھی ابتدائی گفتگو ہو رہی تھی کہ آپ تشریف لے آئے۔

چندن نے کہا در اصل اس مرض کی تشخیص کے بغیر ہم اس کا علاج نہیں کر سکتے اس لئے ضروری ہے کہ اس کا پتہ لگایا جائے ویسے آپ کے شعبے میں تو گفتگو ہوئی ہو گی لوگ کیا سوچتے ہیں؟

جی ہاں جناب لوگوں کا کیا؟ بھانت بھانت کی سوچ! بھانت بھانت کی باتیں۔ ان کو چھوڑئیے ہمیں خود سوچنا چاہئے کہ اس کا کیا کارن ہے؟

چندن نے سوال کیا پھر بھی ۰۰۰۰۰

اگروال بولا چوپڑہ صاحب کے خیال میں یہ ادارتی شعبے کی نا اہلی ہے۔

چندن نے صفائی دی لیکن ہمارے یہاں تو پچھلے ایک سال میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ یہ وہی لوگ ہیں جو اخبار کو پہلے نمبر پر لے گئے تھے۔

اگروال بولا لیکن پانڈے جی کا کہنا ہے کہ اخبار پہلے نمبر پر تجارتی شعبے کی محنت و کاوش سے پہنچا تھا اس میں صحافیوں کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ چنگو اس منطق پر چونک پڑا جس میں کامیابی کا سہرہ اپنے اور ناکامی کسی اور کے سر منڈھی جا رہی تھی۔

چندن نے پوچھا مہیش جی اشتہارات کا کیا حال ہے؟

اگروال بولے اشتہار دو طرح کے ہیں ایک تو سرکاری اشتہار ان میں نئی سرکار کے آنے بعد اچھا خاصہ اضافہ ہوا ہے اور اسی کی بدولت یہ اخبار ہنوز چل رہا ورنہ کب کا بند ہو چکا ہوتا۔ نجی کمپنیوں کے اشتہارات میں بتدریج کمی دیکھنے کو مل رہی ہے اس لئے کہ اس کا تعلق اخبار کی کھپت سے ہے۔ جہاں تک سیاسی جماعتوں کی سر پرستی کا سوال ہے۔ وہ ہنوز جاری ہے مگر اس کالے دھن کو ہم اپنے بہی کھاتے سے الگ رکھتے ہیں۔

اس انکشاف پر چنگو نے سوال کیا جی ہاں اس کا کیا حال ہے؟

اگروال بولا دیکھئے سنگھ پریوار کے علاوہ دیگر جماعتیں ہمیں کچھ تھوڑا بہت دے دیا کرتی ہیں۔ جب سے اخبار کے اشاعت میں کمی واقع ہوئی غیروں نے پوری طرح منہ موڑ لیا ہے اور اپنے بھی آنکھیں دکھانے لگے ہیں۔

اس گفتگو کے دوران چپراسی نے آ کر اطلاع دی کہ تھانیدار ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ تھانیدار کی بے موقع آمد سب پر ناگوار گذری اس کے باوجود با دلِ ناخواستہ اس کا خیر مقدم کرنا پڑا۔

چندن کو سلام کر کے تھانیدار گرجیت سنگھ بیٹھ گیا۔ چندن نے کہا کہیے تھانیدار صاحب کیسے تشریف آوری ہوئی میں ان لوگوں کو روانہ کر دوں یا ۰۰۰۰۰۰۰

آپ کی مرضی گرجیت بولا ہم لوگ تو بس چنگیری لال عرف چنگو کو حراست میں لینے کیلئے آئے ہیں اور اس کو اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ اس کے بعد آپ اپنا کام جاری رکھیں۔

گرجیت سنگھ کا یہ جملہ چندن اور چنگو پر بم بن کر گرا لیکن مہیش اگروال کو اس پر تعجب نہیں ہوا اس لئے کہ اسے چوپڑہ کا آخری جملہ یاد تھا اور وہ جانتا تھا کہ چوپڑہ جو کہتا ہے وہ کر گذرتا ہے۔

چندن نے کہا کیا میں اس گرفتاری کی وجہ جان سکتا ہوں؟

گرجیت کو چندن کا سوال کچھ عجیب سا لگا وہ بولا آپ اخبار والے لوگ سب جانتے ہیں پھر بھی سوال کرتے ہیں خیر آپ نے پوچھ ہی لیا تو میں بتا دوں کہ ابھی کچھ دیر قبل ہمارے تھانے میں آپ کے چوکیدار ککڑ سنگھ نے آ کر شکایت درج کرائی کہ اس کو چنگو نے بلا وجہ زد و کوب کیا اور جان سے مارنے کی دھمکی دی۔

چندن ہنس کر بولا ویسے تو کوئی بھی کچھ بھی کہہ سکتا ہے لیکن کیا ککڑ کے پاس اپنے اس الزام کے حق میں شواہد بھی ہیں؟

گرجیت بولا ککڑ خود اس کا گواہ ہے۔ وہ لہولہان حالت میں تھانے آیا اس کے جسم پر مار پیٹ کے نشان ہیں اس کے کپڑے پھٹے ہوئے ہیں۔

چندن نے پوچھا ککڑ اب کہاں ہے؟

اسے مرہم پٹی کیلئے دوا خانے بھجوایا گیا ہے وہ جلد ہی لوٹ آئے گا۔

چندن نے پھر سوال کیا کہ آپ کا خیال ہے ککڑ نے چپ چاپ ساری مار پیٹ برداشت کر لی ہو گی یا مزاحمت بھی کی ہو گی؟

جناب آپ تو کسی پولس افسر کی طرح تفتیش کرنے لگے۔

اگروال بولا جی نہیں بلکہ یہ ماہر وکیل کی مانند جرح کر رہے ہیں۔

ایک ہی بات ہے خیر ہم لوگ ککڑ کو اچھی طرح جانتے ہیں وہ کئی مرتبہ گرفتار ہو چکا ہے وہ تو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا قائل ہے مجھے یقین ہے کہ اس نے چنگو کو مار مار کر اس کا بھرُکس نکال دیا ہو گا۔

چندن نے چنگو کی جانب اشارہ کر کے کہا میرا خیال ہے کہ آپ کا اندازہ غلط ہے یہی وہ چنگو ہے جس کو۰۰۰۰۰۰۰۰۰

گرجیت کا حیرت سے منہ کھل گیا وہ بولا ۰۰۰۰۰کیا؟

جی ہاں چندن نے کہا آپ ایسا کریں کہ اسے چھوڑ کر اس آدمی کو تلاش کریں جس نے ککڑ کی درگت بنائی ہے۔

گرجیت بولا لیکن ککڑ تو۰۰۰۰۰۰۰۰۰

جھوٹ بولتا ہے چندن نے جملہ مکمل کیا۔

گرجیت بولا لیکن سچ۰۰۰۰۰۰

سچ اگلوانا آپ سے بہتر کون جانتا ہے؟ چندن نے پھر سے گرہ لگائی۔

میں سمجھ گیا خلل اندازی کیلئے معذرت چاہتا ہوں؟

گرجیت کے چلے جانے کے بعد چندن نے سوال کیا یہ کیا تماشہ ہے؟

اگروال نے کہا جناب اب وہ آپ پولس والوں کیلئے چھوڑ دیجئے ہمیں بہت سارے اہم کام کرنے ہیں۔ دروازے پر تعینات چوکیدار نے چوپڑہ کو اطلاع دی کہ گرجیت تنہا لوٹ چکا ہے۔ چوپڑہ نے پانڈے کو ڈانٹ کر اپنے پاس بلایا۔ اگروال سمجھ گیا کہ پانڈے اور چوپڑہ اپنے خودساختہ جال میں پھنس چکے ہیں۔ اب نہ ان کی رشوت ان کے کام آئے گی اور نہ رسوخ کارگر ہوں گے۔

اگروال کو توقع تھی کہ چنگو کی آمد پر چندن اسے رسوا کر کے بھگا دے گا لیکن ویسا نہیں ہوا۔ وہ چوپڑہ کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرے گا وہ بھی نہیں ہوا۔ نشست برخواست ہو جائے گی وہ بھی نہیں ہوئی۔ چنگو کو پولس کے حوالے کرنے کے بجائے چندن نے اس کا بہترین انداز میں دفاع کر کے ظاہر کر دیا کہ ہوا کا رخ کس طرف ہے۔

چنگو بولا حقائق تو آپ نے بڑی نفاست سے پیش فرما دئیے مہیش جی لیکن وجوہات پر گفتگو میں پھر سے خلل پڑ گیا۔

جی ہاں چنگو جی آپ درست فرماتے ہیں یہ عجب اتفاق ہے ۰۰۰۰۰

چنگو بولا آپ میرے پتا سمان ہیں اس لئے صرف چنگو کہیے جی کی ضرورت نہیں مجھے الجھن ہوتی ہے۔

میں نے جو وجوہات بتائیں چندن جی نے انہیں مسترد کر دیا۔

چنگو بولا میں بھی ان سے اتفاق کرتا ہوں۔ کیا اخبار پڑھنے والے اچانک کم ہو گئے ہیں؟

جی نہیں جناب یہ تو ایک نشہ ہے۔ جسے لت لگ جاتی ہے وہ اس کے مفید یا مضر ہونے کی پرواہ کئے بغیر لپٹا رہتا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ اخبارات کی مجموعی تعدادِ اشاعت میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی واقع ہوئی ہو گی۔

چندن بولا اگر ایسا ہے تو اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ ہمارے قارئین اب دوسرے اخبارات پڑھنے لگے ہیں۔

اس میں کیا شک ہے میں اپنے محلے میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ پہلے جن کے ہاتھوں میں راجدھانی ایکسپریس ہوا کرتا تھا اب وہ جن ستا اور ہندوستان وغیرہ پڑھنے لگے ہیں۔ راشٹریہ سہارہ دیکھتے دیکھتے چھا گیا ہے۔ روزنامہ آگ نے بازار میں آگ لگا رکھی ہے۔

لوگوں کی ترجیحات کے بدلنے کی وجوہات کیا ہیں؟

دیکھئے صاحب اس کی جو وجہ میری سمجھ میں آتی ہے ایک بار میں نے چوپڑہ صاحب کو بتلائی لیکن وہ آگ بگولا ہو گئے۔

گھبرائیے نہیں چندن بولا مجھے بتائیے میں اسے شانتی سے سنوں گا۔

شکریہ جناب میرا خیال ہے کہ ہم ایک گرتی ہوئی دیوار کو اٹھانے کے چکر میں خود اس کے ملبے تلے دبے جا رہے ہیں۔

چنگو بولا میں نہیں سمجھا۔

در اصل آج بھی ہمارے اخبار میں مرکزی حکومت پر تنقید ممنوع ہے اور وزیر اعظم کی مذمت پر پابندی ہے۔ لوگ اس رویہ سے اوب چکے ہیں قارئین جو پڑھنا نہیں چاہتا ہم پڑھانا چاہتے ہیں نتیجہ سامنے ہے۔ دیگر اخبارات نے پینترا بدل کر حکومت کو آڑے ہاتھوں لینا شروع کر دیا ہے اس سے عوام کے زخموں پر مرہم لگتا ہے وہ ان کو پڑھتے ہیں۔

چندن نے سوال کیا جب آپ نے یہ بات چوپڑہ صاحب کو بتائی تو وہ کیا بولے؟

وہ کیا بولتے؟ ان سے پہلے پانڈے جی بول پڑے۔ مہیش جی ہم لوگ چورن یا مرہم نہیں اخبار بیچتے ہیں۔

اچھا تو آپ خاموش ہو گئے چنگو نے سوال کیا۔

نہیں! میں بولا اگر ایسا ہے تو آپ سوادشٹ چورن اور بی ٹیکس مرہم کا اشتہار کیوں پہلے صفحہ پر چھپواتے ہیں۔

چندن زور سے ہنسا ہے چنگو نے پوچھا پھر کیا ہوا؟

چوپڑہ جی نے ڈانٹ دیا۔

اچھا تو چوپڑہ جی سے پانڈے نے معذرت طلب کی یا نہیں؟

کیسی معذرت صاحب انہوں نے فلک شگاف قہقہہ لگایا اس لئے کہ چوپڑہ صاحب نے مجھے پھٹکار لگائی تھی۔ آپ یقین جانیں اس دن میرا جی چاہا کہ اپنا استعفیٰ ان کے منہ پر مار کر نکل جاؤں لیکن کیا کروں بال بچوں کا خیال آڑے آ گیا۔ ہمارا تو حال یہ ہے کہ ہم پر لگے لیبل کے سبب کوئی اخبار ہمیں اپنے یہاں پھٹکنے نہیں دیتا۔ سنگھ کے اپنے اخبارات میں نیکر والوں کی طویل قطار لگی ہوئی ہے سمجھ میں نہیں آتا کیا کریں؟

چندن بولا اب تو ہماری سرکار آ گئی ہے مہیش جی آپ کیسی مایوسی کی باتیں کرتے ہیں۔

دیکھئے صاحب سرکار دربار میں انسان کو اپنی عزت نفس رہن رکھ کر جانا پڑتا ہے اور ویسے بھی چاپلوسی مجھ سے نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ پانڈے میرے بعد آیا اور مجھ سے آگے نکل گیا۔ وہ کمبخت اچھی طرح جانتا ہے کہ کون سی بات چوپڑہ جی کو خوش کرتی ہے۔ اب اس کا یہی کام ہے بلا جانے کہ درست کیا ہے اور غلط کیا وہی کہہ دے جو چوپڑہ صاحب چاہتے ہیں۔ مجھ سے یہ نہیں ہوتا اس لئے خسارے میں رہتا ہوں۔

چنگو بولا لیکن میں نے سنا ہے کہ بی جے پی کے رائے دہندگان کی تعداد میں کو ئی خاص کمی نہیں ہوئی۔

جی ہاں ہم نے یہ جاننے کیلئے ایک خفیہ سروے کروایا تھا کہ بی جے پی کے رائے دہندگان میں سے کتنے ہمارا اخبار خریدتے ہیں تو پتہ چلا وہ بھی راجدھانی ایکسپریس سے بیزار ہو چکے ہیں۔ گوناگوں وجوہات کی بنیاد پر وہ زعفرانی جماعت کو ووٹ تو دیتے ہیں لیکن دن رات حکومت کی تعریف و توصیف ان کے بھی گلے سے نہیں اترتی۔

چندن نے گفتگو کو سمیٹتے ہوئے کہا تو آپ کو کیا رائے ہے؟ اخبار کی پالیسی میں انقلابی تبدیلیاں لائی جائیں؟

دیکھئے صاحب میرے خیال میں اگر ہم نے اس کام میں جلد بازی کا مظاہرہ کیا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ لینے کے دینے پڑ جائیں اور سرکاری اشتہارات و زعفرانی سرپرستی سے بھی ہاتھ دھونا پڑ جائے۔

چندن بولا لیکن اخبار بند ہو جائے گا تو اشتہار کیا دفتر کے در و دیوار پر لگیں گے۔ ان کو کون پڑھے گا؟ اور کون اس کیلئے پیسے دے گا؟

چنگو بولا میں مہیش جی سے اتفاق کرتا ہوں مگر دھیمی تبدیلی کا وقت غالباً نکل چکا ہے۔ اب یہ مریض بستر مرگ پر ہے۔

اگروال نے تائید کی اور کہا ایک شدید جھٹکا بھی جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ پردھان جی ویسے ہی مزاجاً شکی اور کان کے کچے ہیں اگر کسی نے ان کے کان بھر دئیے تو کوئی بعید نہیں کہ وہ ہمارا اندراج ختم کروا دیں یا ہمیں جھوٹے مقدمات میں پھنسا دیں۔ ہمارے دفتر پر اگر ایک معمولی چھاپہ بھی پڑ جائے تو ہمارے حریف اس رائی کو پربت بنا دیں گے۔

چندن بولا اگر ایسا ہے تو کل تک آپ لوگ اس مسئلہ پر غور کر کے حکمتِ عملی وضع کیجیے۔ اس بیچ میں بھی غور کرتا ہوں۔

مہیش اور چنگو تو اجازت لے کر چندن کے کمرے سے چلے گئے لیکن چوپڑہ اور پانڈے پریشان ہو گئے کہ اتنی دیر تک ان لوگوں کے درمیان کون سی کھچڑی پکتی رہی نیز ان دونوں کو اس سے کیوں دور رکھا گیا؟

گھر جانے کے بعد چندن کے ذہن میں ایک انوکھا خیال آیا۔ اس نے فون کر کے اس خیال سے چنگو کو آگاہ کیا تو وہ چونک پڑا لیکن وہ اس خیال کو سراہنے سے اپنے آپ کو باز نہ رکھ سکا۔

چندن نے پوچھا کیا مہیش اگروال قابلِ اعتماد ہے؟ اس کو منصوبے میں شامل کرنے کی بابت تمہاری کیا رائے ہے؟

میرے خیال میں وہ آپ کا وفا دار بندہ ہے۔ ایک عرصے سے آپ کے ساتھ کام کر رہا ہے اس لئے آپ اس سے بہتر طور پر واقف ہیں۔

چندن کو چنگو کے اوپر تو پورا اعتماد تھا لیکن اسے ڈر تھا کہ مہیش اگروال کہیں دیپک چوپڑہ کے خوف سے سارا کھیل بگاڑ نہ دے۔ اس نے اگروال سے فون پر بات کرنے کے بجائے گھر پر بلایا۔ گھما پھرا کر اس کی وفاداری کو جانچتا رہا اور جب اطمینان ہو گیا تو اس کو اپنا منصوبہ بتا دیا۔

مہیش اگروال منصوبہ سن کر سنّاٹے میں آ گیا۔ وہ کچھ دیر یونہی خلاء میں دیکھتا رہا اس کے بعد بولا ٹھیک ہے۔

چندن نے کہا مجھے کوئی جلدی نہیں ہے۔ آپ کل تک غور کرو اگر کوئی دقت ہو تو بلا تکلف منع کر دینا ورنہ میں خاموشی کو ہاں سمجھوں گا۔

 

 

 

۲۱

 

پولس نے جب ککڑ کی دھنائی کی تو اس نے اعتراف کر لیا کہ اس کے ساتھ مار پیٹ محلے کے بدمعاش ونود چوٹالہ نے کی تھی لیکن جب وہ اس کی شکایت کرنے کیلئے چوپڑہ کے کمرے میں گیا تو چوپڑہ نے اسے دس ہزار روپیہ دے کر کہا پولس تھانے میں جا کر الزام چنگو پر رکھ دے۔ مقدمہ کی پیروی اخبار کا وکیل کرے گا۔

پولس ونود چوٹالہ کی تلاش میں اس کے گھر پہنچی تو وہ ککڑ کے ذریعہ دئیے گئے زخموں کا علاج کر رہا تھا۔ اس نے پولس کے سامنے تسلیم کر لیا کہ پانڈے جی نے اسے بیس ہزار روپیہ دے کر کہا تھا کہ وہ ککڑ سے اپنا بدلہ نکال لے اس کا بال بیکا نہیں ہو گا۔ اس الزام میں کوئی اور گرفتار ہو گا۔ پولس کو سنبھالنے کا کام ان کے ذمہ ہے۔

گتھی سلجھی اور چنگو کی بے گناہی ثابت ہو گئی لیکن اصل مجرم پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت گرجیت میں نہیں تھی۔ پانڈے اور چوپڑہ بہت بارسوخ لوگ تھے۔ اس سے قبل گرجیت کوئی فیصلہ کرتا پانڈے کا سکریٹری پولس تھانے میں پہنچ گیا اور ایک لفافہ تھماتے ہوئے کہا پانڈے جی کو چوٹالہ کی گرفتاری کا علم ہو چکا ہے اب آپ اس فائل کو بند کر دیں یہی بہتر ہے۔ اس کے بعد ککڑ نے اپنی شکایت واپس لے لی اور سارا معاملہ رفع دفع ہو گیا۔

دیپک چوپڑہ کے من میں ککڑ سنگھ کے سانحہ نے ایک احساسِ جرم پیدا کر دیا اوپرسے اپنے منصوبے کے ناکام ہو جانے کا قلق بھی تھا۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ کسی کو اس نے پھنسانے کی کوشش ہو اور وہ بالکل مچھلی کی مانند پھسل گیا ہو۔ اس معاملے میں چنگو کا تو بال بیکا نہیں ہوا تھا مگر مہیش اگروال اور رنجن پانڈے کے سامنے چوپڑہ کا طلسم ٹوٹ گیا بلکہ ککڑ سنگھ اور ونود چوٹالا کے سامنے بھی وہ بونا ہو گیا۔

چوپڑہ کو یقین تھا گر جیت نے ساری حقیقت چندن کو بتا دی ہو گی ایسے میں تشویش کا ایک پہلو یہ تھا کہ چندن اس کے بارے میں کیا سوچ رہا ہو گا؟ اس سے پہلے کے چندن اس کی سرزنش کرتا وہ اپنی گھیرا بندی میں لگ گیا۔ چنگو اور مہیش کے ساتھ چندن کی طول طویل گفتگو نے بھی اسے پریشان کر رکھا تھا۔ چوپڑہ نے محسوس کیا مصیبت چھپر پھاڑ کر وارد ہو چکی ہے۔

چندن دفتر میں آنے کے بعد چائے پی رہا تھا کہ چوپڑہ کا فون آ گیا۔ سلام دعا کے بعد چوپڑہ بولا کل بدقسمتی سے ہماری گفتگو کا سلسلہ منقطع ہو گیا اس سلسلے میں آپ سے میں کچھ اہم بات کرنا چاہتا ہوں۔

جی ہاں تو آپ ابھی تشریف لے آئیے۔

چوپڑہ نے کہا شکریہ

چندن نے سوال کیا آپ تنہا آئیں گے یا ۰۰۰۰۰۰۰

چوپڑہ نے نادانستہ کہہ دیا پانڈے جی کو بھی بلا لیتا ہوں۔

بہت خوب میں آپ دونوں کا منتظر ہوں۔

فون رکھنے کے بعد چوپڑہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اس موقع پر پانڈے کی موجودگی مناسب نہیں تھی لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا اس نے سوچا کوئی بات نہیں پانڈے کو بلانا نہ بلانا میری مرضی پر منحصر ہے۔ ابھی اکیلے چلتے ہیں۔ وہ اپنے کمرے سے نکل کر حمام کی جانب روانہ ہو گیا۔ چندن نے دیکھا شکار خود چل کر اپنے دام میں آ رہا ہے تو پانڈے کو بلا لیا۔

چوپڑہ جب چندن کے کمرے میں پہنچا تو پانڈے جی وہاں پہلے ہی سے براجمان تھے۔ اس نے چوپڑہ کو دیکھتے ہی پرنام کیلئے ہاتھ جوڑ دیئے اور ادب سے سر جھکا کر کھڑا ہو گیا۔ چوپڑہ نے دل میں سوچا کل تک مہیش بھی اس کا بڑا سعادتمند تھا۔ ان ابن الوقتوں کی وفاداری کا کیا اعتبار؟پانڈے کی موجودگی کے سبب دیپک چوپڑہ نے اپنے موضوعات کی ترتیب بدل دی اس نے پہلے اخبار کی دکھ بھری کہانی چھیڑ دی۔ سوچا پانڈے کے واپس جانے کے بعد ککڑ کا قصہ چھیڑے گا۔

چوپڑہ بولا چندن کل ہم اخبار کی اشاعت کے حوالے ایک نہایت ہی اہم موڑ پر پہنچ گئے تھے لیکن افسوس کہ کسی فیصلے پر پہنچنے سے قبل چنگو نے آ کر سارا کھیل بگاڑ دیا۔ وہ چندن کے رد عمل سے اندازہ لگانا چاہتا تھا کہ آگے بات کیسے بڑھائی جائے؟ اسے ڈر تھا کہ کہیں چنگو کی حمایت میں چندن اس پر بگڑ نہ جائے۔

چندن نے کہا جی ہاں آپ نے درست فرمایا چنگو نے آپ کے ساتھ جس طرح زبان درازی کی ہے وہ ہماری پرمپرا کے خلاف ہے۔ ویسے تو کل میں نے اس کو اگروال کے سامنے خوب کھری کھوٹی سنائی لیکن کوئی فیصلہ نہیں کر سکا کہ اس پر کیا کار روائی کی جائے۔ مہیش اگروال نہ جانے کیوں اس کی حمایت میں کھڑا ہو گیا ورنہ کل اس کا دفتر میں آخری دن ہوتا۔

چندن کا یہ خلاف توقع جملہ ان دونوں پر بجلی بن کر گرا۔ وہ تو سوچ رہے تھے ان کی سرزنش ہو گی لیکن یہاں تو ماحول ہی دوسرا تھا، پانڈے نے چین کا سانس لیا اور مصالحت کے انداز میں بولا چھوڑئیے صاحب نوجوان ہے جوش میں کچھ بول دیا تو بڑے لوگ اس کا برا نہیں مانتے آپ نے ڈانٹ دیا میرے خیال میں یہ کافی ہے اب اس واردات کو بھلا دینا چاہئے آپ کہیں تو میں ان دونوں کو بھی بلا لوں۔

پانڈے کی چاپلوسی پر چوپڑہ کو غصہ آ گیا وہ بھڑک کر بولا تم چپ رہو جی ’دو ماشے کی عقل اور دو میل لمبی زبان‘ بس بولتے ہو تو بولے ہی چلے جاتے ہو اب اگر زبان کھولی تو تمہیں بھی اس کے ساتھ۰۰۰۰۰۰۰

چندن نے سوچا چوپڑہ تو خود ہی بلی کا بکرا بننے کیلئے تیار ہو رہا ہے۔ وہ بولا آپ ان کو چھوڑیں اور اپنی کہیں چنگو کی قرار واقعی سزا کیا ہے؟

میرے خیال میں اسے نکال دینا ضروری ہے تاکہ دوسرے لوگ عبرت پکڑیں دفتر کا نظم و ضبط درست رکھنے کے لئے یہ امرِ لازمی ہے ایک مرتبہ یہ ہنٹر ڈھیلا ہو جائے تو خود ہنٹر والے پر برسنے لگتا ہے۔

پانڈے اپنی پیٹھ سہلانے لگا پہلی مرتبہ اس نے اپنے آقا کا ذہن پڑھنے میں غلطی کی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ کل کی ہزیمت کو بھلانے کی خاطر چوپڑہ اسے رفع دفع کرنے کی کوشش کرے گا لیکن چوپڑہ سوچ رہا تھا لوہا گرم ہے اس لئے ہتھوڑا چلا دینا چاہئے۔

چندن نے پو چھا کہ آپ کے خیال میں اکیلے چنگو کو نشانِ عبرت بنایا جائے یا اس کے ساتھ مہیش اگروال کو بھی لپیٹ دیا جائے۔

چوپڑہ کی تو من مراد اپنے آپ پوری ہو رہی تھی پانڈے اس کا کمل کی مانند کھلا ہوا چہرا غور سے دیکھ رہا تھا۔ چوپڑہ بولا اگر مہیش کی بھی چھٹی ہو جائے تو اس سے بہت تگڑا پیغام جائے گا اور کوئی جلدی کسی سر پھرے کی حمایت میں نہیں آئے گا۔ میں تو کہتا ہوں کہ دونوں کا سر ایک ساتھ قلم کر دیا جائے۔

ایسا نہ ہو کہ یہ دونوں ہمارے پاس سے نکلیں اور کسی حریف اخبار میں جا کر ہمارے خلاف کام کرنے لگیں۔ آج کل ویسے بھی ہماری حالت پتلی چل رہی ہے۔

پانڈے کے ہاتھ ایک نادر موقع آ گیا تھا وہ بولا جناب ہم ان کو یونہی نہیں نکالیں گے بلکہ پہلے خوب رسوا کریں گے اور اس قدر بدنام کر دیں گے کوئی ان دونوں کو اپنی دہلیز پر قدم بھی نہ رکھنے دے۔ ہم ان کے خلاف ایک ایسی مہم چھیڑیں گے کہ جیسے پردھان جی نے راہل کے خلاف چھیڑ رکھی ہے اور وہ دورانِ اجلاس غیر ملکی دورے پر بھاگ کھڑا ہوا۔ یہ دونوں بھی دہلی بدر کر دئیے جائیں گے۔

لیکن پانڈے جی یہ ہو گا کیسے؟

یہ آپ مجھ پر چھوڑ دیجئے میں چوپڑہ جی کی رہنمائی میں اس کام کو انجام دوں گا وقت ضرورت آپ سے بھی مشورہ کر لیا کروں گا۔

میری نیک خواہشات آپ کے ساتھ ہیں۔ اب آپ جا سکتے ہیں۔

باہر نکل کر چوپڑہ نے پانڈے کہا تم میرے ساتھ چلو۔

چندن نے اپنے موبائیل میں ٹیپ شدہ مواد اگروال اور چنگو کو واٹس ایپ کر دیا۔ اب دو لوگ الگ الگ اپنی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ شطرنج کی بساط بچھ چکی تھی کچھ کھلاڑی آمنے سامنے تھے اور کچھ پس پردہ۔ کوئی چال سامنے چلی جاتی تھی تو کوئی پیچھے۔ اپنے آپ کو مہا دھرندر سمجھنے والے بیچارے چوپڑہ جی اور پانڈے جی نہیں جانتے تھے کہ پردے کے پیچھے کیا ہو رہا ہے؟

چوپڑہ کے کمرے سے واپس آ کر پانڈے جی نے دوردرشن چینل کے شیشر کمار شرما کو فون لگا کر کہا شرما جی میں آپ کو ایک دھماکے دار خبر دے رہا ہوں اس لئے آپ میرا پیشگی شکریہ ادا کیجئے۔

شرماجی بولے مال دکھلائے بغیر پیشگی۰۰۰۰۰یار کچھ تو شرم کرو۔

پانڈے نے کہا کیا زمانہ آ گیا ہے کہ آج کل شرما بھی ہم پنڈتوں کو شرم دلا رہے ہیں خیر شکریہ نہ سہی خبر تو سنو۔

پانڈے جی آپ کی تمہید لمبی ہو رہی ہے میں بریکنگ نیوز بنا رہا تھا۔

بھائی میں آپ کو بریکنگ نیوز ہی تو دے رہا ہوں۔

دور درشن کی بریکنگ نیوز نے ذرائع ابلاغ کی دنیا میں ہنگامہ مچا دیا۔ دہلی کے سب سے قدیم اخبار کے قلعہ میں دراڑ۔ نوجوان صحافی چوں گیری لال اور پرانے کھلاڑی مہیش اگروال نے ایک ساتھ علم بغاوت بلند کر دیا۔ اخبار کے جنرل منیجر دیپک چوپڑہ نے ان پر کڑی کار روائی کا اشارہ دیا۔

یہ خبر جیسے ہی نشر ہوئی مختلف اخبار والوں نے چوپڑہ اور اگروال سے رابطہ کرنا شروع کر دیا۔ جب ان میں سے کوئی میسر نہ آیا تو ایک آدھ چندن تک بھی پہنچ گیا لیکن چندن نے ان قیاس آرائیوں کی تردید کر دی۔

پانڈے زی ٹی وی کے ہتھے چڑھ گیا اور اس نے اشارے کنائے میں بات کہی۔ یہ پوچھے جانے پر کہ لوگ اسے رائی کا پہاڑ کہہ رہے ہیں پانڈے بولا رائی کے بغیر پہاڑ نہیں بنتا۔ اگر دھواں ہے تو آگ بھی ہو گی لیکن یہ کس قدر تباہ کن ہے اس کا فیصلہ اسے ہوا دینے والے کریں گے؟آگ لگانے والوں اوراس کو ہوا دینے والوں کا نام لینے سے پانڈے نے انکار کر دیا نیز صبر و ضبط کا دامن تھامے رہنے کی تلقین کی۔

منگو نے سماچار منورنجن کی نامہ نگار وجینتی مالا کو چندن کے ایماء پر چنگو کے گھر بھیج دیا تاکہ اس خبر پر اس کی رائے لے سکے۔

وجینتی مالا نے پوچھا چنگیری لال جی آپ کو تو ہم لوگ تنہائی پسندصحافی سمجھتے لیکن افسوس کہ آپ بھی تنازع میں گھر گئے؟

چنگو بولا محترمہ میں تو اب بھی تنہائی پسند ہوں اور آپ نے اس میں خلل ڈالنے کی زحمت کی ہے خیر آپ کس پر افسوس کر رہی ہیں؟ مجھ پر یا ان لوگوں پر جو میرے متعلق غیر ضروری تنازعات گھڑ رہے ہیں؟

مجھے اس تنازع پر افسوس ہے اس لئے کہ اس سے آپ جیسے قلم کے سپاہی کا وقت ضائع ہو گا اور ہم جیسے قارئین کو آپ کی تحریروں سے محروم ہونا پڑے گا۔

مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ میرے مضامین پڑھتی ہیں۔

وجینتی مالا کو لگا کر اگر چنگو نے کسی تجزیہ کے متعلق پوچھ لیا تو مشکل میں پھنس جائے گی اس لئے بولی میں تو نہیں لیکن میری سہیلی مدھو بالا آپ کی بہت بڑی مداح ہے۔

اچھا تو آپ انہیں کو ملاقات کیلئے بھیج دیتیں۔

جی ہاں وہ تو سر کے بل آتی مگر چند روز قبل وہ اپنے گاؤں  جا چکی ہے۔

اچھا خیریت تو ہے؟

وہ اپنی والدہ کی تیمار داری کیلئے گئی ہے۔

تب تو آپ کی سہیلی بڑے رحمدل ہے ورنہ اس نفسا نفسی کے عالم والدین کا کون خیال کرتا ہے۔ خیر میں ان کی صحت کے لئے دعا کرتا ہوں۔

وجینتی مالا بولی ابھی ابھی آپ نے کہا کہ کچھ لوگ آپ کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ کیا آپ ان کی نشاندہی فرمائیں گے؟

سازش والی بات میں نے نہیں کہی۔ بات بس اتنی سی ہے کہ آپ نے تنازع کا ذکر کیا۔ میں نے اس کے پیدا کرنے والوں ذکر کر دیا۔

میں سمجھ گئی آپ کسی کا نام لینے سے گریز کر رہے ہیں لیکن کیا آپ اس کی وجوہات پر روشنی ڈالنا پسند کریں گے؟

میں وجوہات پر گفتگو کر کے اس میں اضافہ نہیں چاہتا اس لئے میری معذرت قبول فرمائیں۔

آپ نے طے کر لیا ہے کہ مجھے مایوس کر کے واپس کریں گے خیر کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے؟

جی ہاں بہت کچھ ہے لیکن اس کا پتہ لگانا آپ جیسے کھوجی نامہ نگاروں کا کام ہے اور میں اس میں مداخلت نہیں کرنا چاہتا۔

وجینتی مالا نے کیمرہ بند کرنے کا اشارہ کیا اور چنگو پر برس پڑی۔ آپ بہت سنگدل انسان ہیں۔ آپ نے میرے کسی سوال کا جواب نہیں دیا۔ کاش کہ مدھو بالا اس حقیقت سے واقف ہوتی؟

آپ بار بار نہ جانے کس کا ذکر کر رہی ہیں اور اگر وہ اس سے واقف بھی ہوتی تو مجھے کیا فرق پڑتا۔ میرا خیال اب آپ کو جانا چاہئے۔ میرے دوست منگو کو سلام کہئے۔ خدا حافظ۔

دیپک چوپڑہ کیلئے چنگو کا یہ محتاط بیان بھی کافی تھا۔ اس نے راجدھانی ایکسپریس میں ایک بڑی خبر لگوائی کہ انتظامیہ کی اجازت کے بغیر غیر ذمہ دارانہ اور گمراہ کن بیان دینے کے سبب چنگیری لال عرف چنگو کو معطل کر دیا گیا ہے اور تفتیش کی جا رہی ہے کہ اس کے پیچھے کون سی قوتیں کارفرما ہیں۔ حقیقت کا پتہ لگانے کے بعد سارے ملزمین کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔

اس بیچ اسٹار چینل پر ایک اور خبر گردش کرنے لگی کہ راجدھانی ایکسپریس کے مہیش اگروال عام آدمی پارٹی کے رابطے میں ہیں اس کی شئے پر یہ کارستانی کر رہے ہیں۔ اسٹار والے پرائم ٹائم میں مہیش کو پکڑ لائے اور اس سے سوال کیا مہیش جی یہ بتائیں کہ کیا آپ عام آدمی پارٹی سے رابطے میں ہیں؟

آپ کیسا سوال کر رہے ہیں۔ اس شہر میں کون ایسا صحافی ہے جو عاپ سے رابطے میں نہیں ہے؟ عاپ دہلی کی سب سے مقبول اور برسرِ اقتدار جماعت ہے۔ اس سے رابطہ کئے بغیر ہم عوام تک خبریں کیسے پہنچا سکتے ہیں؟

دیپک چوپڑہ کو توقع تھی کہ مہیش اگروال اس رابطے کی تردید کرے گا اور دفتر آ کر اس کے سامنے نت مستک ہو جائے گا، شما یا چنا کرے گا لیکن وہ تو ڈھٹائی کے ساتھ عاپ کی تعریف کر رہا تھا۔ دیپک نے نئی شاہ سرخی لگوائی کہ بلی تھیلے سے باہر آ گئی مہیش اگروال کے بہکاوے میں آ کر چوں گیری لال نے پر نکالے تھے۔ انتظامیہ چنگو کے ساتھ مہیش کو بھی معطل کر کے وجہ بتاؤ ٔ نوٹس دے دیا کہ تین دن کے اندر وہ اپنی صفائی پیش کریں ورنہ سخت ترین اقدام کیلئے تیار ہو جائیں۔

تین دن مختلف قسم کی قیاس آرائیوں اور الزامات در الزامات کی نذر ہو گئے اور چوتھے دن جب انہیں نکال دیا گیا تو وہ دونوں ایک ساتھ سماچارمنورنجن چینل پر ’آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام میں ‘ میں مہمانانِ خصوصی تھے۔ مدھو بالا کے چلے جانے کے بعد اسے پھر سے شروع کر کے ایک نئے پیرائے میں وجینتی مالا کے حوالے کیا گیا تھا۔

وجینتی مالا نے ناظرین کو مخاطب کر کے کہا ہماری روایت یہ ہے کہ ہم ایک پروگرام میں صرف ایک مہمان کو بلاتے ہیں لیکن آج دو لوگ اس لئے آئے ہیں کہ یہ ایک جان دو قالب ہیں۔

اسٹوڈیو میں بیٹھے احمق نظر آنے والے شریک نے سوال کیا مس وجینتی مالا یہ ایک جان اور دو کیا ہیں؟ کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔

چنگو بولا بھائی وہ سمجھنے کیلئے دماغ کی ضرورت پڑتی ہے اس لئے میں اسے آسان کئے دیتا ہوں یہ سمجھ لو کہ جس طرح آم اور اس کی گٹھلی کو الگ نہیں کیا جا سکتا اسی طرح ہم دونوں ہمیشہ ایک ساتھ رہتے ہیں۔

وجینتی بولی لیکن جناب آم کا گٹھلی سے الگ ہونا ایک عام سی بات ہے اور یہ عمل آئے دن ہوتا رہتا ہے اس میں کون سی نئی بات ہے؟

مہیش بولا آپ کی بات درست ہے لیکن یہ کب ہوتا ہے؟ یا تو جب کوئی آم کو کھانے کیلئے کاٹے یا چوسے؟اس سے پہلے نہیں ہو سکتا۔ کچھ لوگ ہم دونوں کو الگ کرنے کیلئے کاٹنے یا چوسنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ہم انہیں بتا دینا چاہتے ہیں کہ وہ کبھی اپنے گھناؤنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ ہم ان کے دانت کھٹے کر دیں گے اور جو چاقو وہ ہمارے پیٹ میں بھونکنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ انہیں کے سینے میں اتر جائے گا۔

ناظرین میں سے ایک نے سوال کیا جناب آپ دونوں میں سے آم کون ہے اور گٹھلی کون ہے؟

چنگو بولا ایسا ہے کہ ایک وقت میں ہم میں سے ایک جواب دے رہا ہوتا ہے دوسرا خاموش ہوتا ہے۔ اس لئے یہ سمجھ لو کہ اس لمحہ جواب دینے والا آم اور خاموش رہنے والا گٹھلی۔

وجینتی مالا بولی گویا آپ لوگوں کی کیفیت وقت کے ساتھ بدلتی ہے؟

مہیش نے جواب دیا اس کائنات کی ہر شئے ہر لمحہ تغیر پذیر ہے اور جو لوگ وقت کے ساتھ اپنے آپ کو بدلنے میں ناکام ہو جاتے ہیں وقت کا دھارا نہیں روند کر آگے نکل جاتا ہے۔

کیا آپ راجدھانی ایکسپریس کے انحطاط کی وجوہات بیان کر رہے ہیں؟

مہیش بولا میں آپ کو اپنی سیدھی بات کا غلط مطلب نکالنے سے روکنے والا کون ہوتا ہوں؟

مہیش جی آپ ایک طویل مدت راجدھانی ایکسپریس کے ساتھ رہے کیا آپ اخبار سے اختلاف کی بنیادی وجہ بتانے کی زحمت کریں گے؟

چنگو بولا اس سوال کا جواب میں دوں گا۔ اگر ہم لوگوں نے از خود استعفیٰ دیا ہوتا تو آپ یہ سوال کرنے کیلئے حق بجانب تھیں لیکن شاید آپ کو پتہ ہو گا کہ ہم نے اخبار نہیں چھوڑا بلکہ ہمیں نکال باہر کیا گیا اس لئے آپ یہ سوال ان لوگوں سے کریں کہ جنہوں نے ہمارے ساتھ یہ نا انصافی کی ہے؟

وہ لوگ تو رابطے میں آتے ہی نہیں؟ ہم کیسے معلوم کریں؟

مہیش بولا یہی سوال میں اس دیش کی جنتا سے کرتا ہوں۔ راجدھانی ایکسپریس کے قارئین سے کرتا ہوں کہ اس کا انتظامیہ ذرائع ابلاغ میں آنے کیوں کتراتا ہے؟ اس میں یہ جرأت کیوں نہیں ہے کہ صحافیوں کے سولات کا جواب دے۔ جواب مانگنے والے خود کیوں منہ چھپاتے پھر رہے ہیں؟ کیا یہ ان کے چہرے کی کالک ہے جو انہیں سامنے آنے سے روک رہی ہے؟

ناظرین میں سے ایک نے سوال کیا کہ راجدھانی ایکسپریس سے تو آپ کا پتہ صاف ہو گیا اب آپ کے آگے کیا ارادے ہیں؟

مہیش بولا دیکھئے لالہ چیت رام کی پکار پر ہم لوگوں نے عوامی بیداری کی خاطر یہ اخبار شروع کیا تھا اور پہلے دن سے جور و ظلم کا مقابلہ کرتے رہے۔ ہم آگے بھی یہی مشن جاری رکھیں گے اور ہر ظلم و جبر کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔

آپ تو سیاسی رہنماؤں کی مانند گول مول گفتگو کر رہے ہیں یہ واضح نہیں کر رہے ہیں کہ آپ کا آئندہ اقدام کیا ہو گا؟

چنگو بولا دیکھئے جیسا کہ مہیش جی نے بتایا ہم اس ظلم کا منہ توڑ جواب دیں گے اور چونکہ ہمارا تعلق اخبار کی دنیا سے ہے اس لئے اخبار نکالیں گے۔

مہیش اور چنگو کا انٹرویو چوپڑہ اور پانڈے بھی ایک ساتھ بیٹھ کر دیکھ رہے تھے پانڈے نے یہ انکشاف سنا چونک کر پوچھا یہ کیا کہہ رہا ہے چنگو ؟

چوپڑہ بولے اخبار نکالنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ ان بے وقوفوں کو چھٹی کا دودھ یاد آ جائے گا۔

وجینتی نے پوچھا کیا ناظرین آپ کے اخبار کا نام جان سکتے ہیں؟

مہیش نے کہا چونکہ ہم عوامی بیداری کام جاری رکھیں گے اس لئے اخبار کا نام ’آپ کی راجدھانی‘ ہو گا۔

اس نام نے سارے ناظرین کو چونکا دیا چوپڑہ بولا دیکھا تم نے پانڈے! آخر بلی تھیلے سے باہر آ ہی گئی میں نہ کہتا تھا کہ یہ آستین کے سانپ ہیں۔ اس سے پہلے کہ یہ ڈس لیں انہیں کچل دو۔

پانڈے بولا مان گئے استاد آپ مہان ہیں۔ آپ تو لفافہ دیکھ کر خط کا مضمون بھانپ لیتے ہیں۔

وجینتی نے مسکرا پوچھا میں سب سمجھ گئی تب تو آپ کے اخبار کا اجراء دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کے علاوہ کوئی اور کر ہی نہیں سکتا؟

چوپڑہ بولا سنا تم نے؟

اس سے پہلے کہ پانڈے کچھ بولتا چنگو کہہ رہا تھا جی نہیں ہم تو کرن بیدی کو زحمت دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کہانی میں اچانک موڑ آ گیا۔

وجینتی نے کہا بہت خوب آپ ایک کامیاب وزیر اعلیٰ کو چھوڑ کر ناکام امیدوارسے اپنے اخبار کی رونمائی چاہتے ہیں، جنہیں کوئی نہیں پوچھتا؟

مہیش بولا میڈم آپ نے سوال بھی کیا اور جواب بھی دے دیا۔ کرن بیدی جی کو کوئی نہیں پوچھتا یہ ایک حقیقت ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ بی جے پی نے ان کا استعمال ٹشو پیپر کی مانند کیا اور انہیں کوڑے دان میں پھینک دیا۔

اگر آپ یہ اعتراف کرتے ہیں تو انہیں کیوں بلا رہے ہیں؟

چنگو بولا اس لئے کہ جو سلوک بی جے پی نے کرن بیدی کے ساتھ کیا ہے وہی معاملہ راجدھانی ایکسپریس نے ہمارے ساتھ کیا ہے۔ اس لئے ان کے اور ہمارے درمیان یہ قدر مشترک ہے۔ ہم دونوں کے ساتھ دھوکہ ہوا اور نا انصافی بھی ہوئی۔

کون دونوں؟ کرن بیدی کو ملا کر تو آپ تین ہو گئے۔

مہیش بولا آپ خود وہ’ ایک جان دو قالب‘ والا تعارف بھول گئیں۔

وجینتی جھینپ گئی اور نیا سوال کر دیا کہیں آپ لوگ دوبارہ کرن بیدی کو عام آدمی پارٹی میں لانے کی کوشش تو نہیں کر رہے ہیں؟

چنگو بولا میڈم معاف کیجئے آپ کا سوال غلط ہے۔ کرن بیدی کبھی بھی عام آدمی پارٹی میں نہیں تھیں۔ اس لئے واپس جانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

وجینتی نے پوچھا لیکن جانے کے امکانات تو روشن ہیں؟

مہیش نے جواب دیا جی نہیں عاپ میں تو ویسے ہی آگ لگی ہوئی ہے۔ جس طرح رسوا کر کے بھوشن اور یادو کو نکالا گیا ہے ایسے میں کوئی ذی وقار شخص اس جماعت میں جانے کی حماقت کیسے کرے گا؟ اور پھر کیجریوال کو اب ضرورت بھی نہیں ہے وہ اکیلے ہی پردھان جی کی مانند کافی و شافی ہیں۔

وجینتی بولی آپ لوگوں کے ساتھ وقت کا پتہ ہی نہیں چلا اب پروگرام ختم کرنے سے قبل آخر میں وہ سوال میں دوہرانا چاہتی ہوں جس کا جواب دینے سے آپ لوگ کترا گئے تھے۔ آخر ایک پٹے ہوئے مہرے کو بلا کر اخبار کے شبھ مہورت کی کیا تُک ہے؟

چنگو بولا ویسے تو مہیش جی اس سوال جواب دے چکے ہیں پھر بھی میں واضح کرتا چلوں کہ ہمارے نزدیک خیر و شر کی کسوٹی کامیابی و ناکامی نہیں ہے۔ جس طرح پردھان جی کی کامیابی سے ان کے سارے کرتوت نہیں دھلتے اسی طرح کرن جی ناکامی سے ان کے سارے کارناموں پر پانی نہیں پھیرا جا سکتا۔

’آپ کی راجدھانی ‘ اخبار کا نام تو یقیناً عام آدمی پارٹی کی جانب جھکا ہوا تھا لیکن کیجریوال پر سخت تنقید اور کرن بیدی کو بلانے کے ارادے نے اخبار کی غیر جانبداری پر مہر ثبت کر دی۔

چندن نے مہیش کو فون کر کے مبارکباد دی اور چنگو نے منگو کو فون کر کے خراج عقیدت پیش کیا۔ چنگو نے اسے نئے اخبار سے منسلک ہونے کی دعوت دے دی۔ اسے یقین تھا کہ اگر منگو اس نئے اخبار میں آ جاتا ہے تو افواہوں کی کمی محسوس نہیں ہو گی اور اخبار نت نئی نزاعی بحثوں کے سبب دن دونی رات چوگنی ترقی کرتا چلا جائے گا۔ وہ بیچارہ نہیں جانتا تھا کہ منگو کب کا چندن مترا کے ساتھ ساز باز کر چکا ہے۔

 

 

 

 

۲۲

 

اخبار آپ کی راجدھانی کا پہلے شمارے کی قیمت صرف دس پیسہ مقرر کی گئی اور اس کو جاری کرنے کیلئے اروند کیجریوال کی بنگلورو سے دہلی واپسی کے دن کا انتخاب کیا گیا۔ اخبار کے بڑے ایجنٹوں سے کہا گیا کہ وہ پانچ پیسے واپس کریں اور پانچ اپنے پاس رکھیں۔ دہلی کے تینوں بڑے گھاگ ایجنٹ سمجھ گئے کہ اس دن آپ کی راجدھانی کے علاوہ کوئی اور ہندی اخبار شاید ہی اسٹینڈ سے بکے اس لئے کہ اسٹال والے یہی اخبار سامنے رکھیں گے۔ ۱۰ پیسے کا سکہ چونکہ کسی کے پاس نہیں ہو گا اس لئے بیشتر لوگ اس دس پیسے کی چیز کو ایک روپیہ یا پچاس پیسے میں خرید کر لے جائیں گے۔ اس سے اسٹینڈ والوں کو ہر اخبار کے پیچھے بڑی آمدنی ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ انگریزی اور دیگر زبانوں کے اخبارات کا خدرہ پچاس پیسے واپس کرنے کے بجائے انہیں یہ اخبار پکڑا دیا جائے گا جسے اکثر لوگ نے بخوشی خرید لیں گے۔ اس طرح پہلے ہی دن یہ اخبار دہلی اور اس کے قرب و جوار میں چھا جائے گا۔

آپ کی راجدھانی کاسر ورق بنگلورو کیمپ میں اروند کیجریوال کی تصاویر سے اٹا پڑا تھا۔ کسی میں کیجریوال کو یوگا کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا کسی میں وہ کچھ کھاتے پیتے نظر آتے تھے کہیں وہ سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر میں غرق تھے تو کہیں ہنستا مسکراتا چہرہ دکھائی دیتا تھا۔ آپ کے حامیوں نے اس سے یہ سمجھ لیا کہ یہ ہماری جماعت کا ترجمان ہے

اسی کے ساتھ دوسرے ہی صفحہ پر اروند کیجریوال کے خلاف ایک اس قدر سخت مضمون شامل کیا گیا تھا کہ اس طرح کا تجزیہ پیش کرنے کی جرأت کسی اور اخبار نے تو دور راجدھانی ایکسپریس نے بھی نہیں کی تھی۔ اس مضمون کو پڑھنے کے بعد ایسا گمان ہوتا تھا کہ یہ عام آدمی پارٹی کے باغیوں کا ترجمان ہے۔ مضمون کا عنوان اس قدر چونکانے والا تھا کہ کسی قاری کیلئے اسے نظر انداز کرنا نا ممکن تھا۔

عنوان کہہ رہا تھا ’’ کیجریوال جی: تمہارے شہر میں آئینے جھوٹ بولتے ہیں ‘‘۔ منگو کے لکھے اس مضمون میں اروند کیجریوال کے رو برو وہ آئینہ رکھا گیا کہ عاپ والوں کے ہوش اڑ گئے۔ صفحہ کو تصاویر اور کارٹونس کی مدد سے اس طرح مزین کیا گیا کہ قاری کی نگاہ اس سے ہٹ نہیں پاتی تھی۔ مضمون کی جھلکیاں اس طرح سے تھیں کہ ’’۱۴ فروری ساری دنیا میں ویلنٹائن ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ گذشتہ سال اس دن دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے اقتدار کی دیوی کو محبت بھرا گلاب دینے کے بجائے ببول کا کانٹا پکڑا دیا اوراسی کے ساتھ حمایت والا کانگریسی ہاتھ لہولہان ہو گیا۔

اس طرح جن لوک پال بل کی بنیاد پر اصول نظریات کی خاطر اقتدار سے سبکدوش ہونے والا نادر و منفرد واقعہ ہندوستان کی موقع پرست سیاست میں رونما ہو گیا۔ اپنی الوداعی تقریر میں کیجریوال نے کہا تھا ’’ میں وزیر اعلیٰ کی کرسی ایک بار تو کیا ہزار بار چھوڑنے کے لیے تیار ہوں۔ اگر ضرورت پڑی تو دیش کے لیے اپنی جان تک دینے کے لیے تیار ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ہمارا آخری اجلاس ہے۔ ‘‘

ایک سال بعد پھر سے اقتدار کی ناگن۱۴ فروری کو سرجھکائے اروند کے سامنے کھڑی تھی۔ کیجریوال نے جب اس کے گلے میں ور مالا ڈالی اور اگنی کے پھیرے لینے جا رہے تھے تو اخبار نویسوں کو کہانی کا ولن لوک پال یاد آ گیا انہوں نے پوچھا جن لوک پال بل کب پاس ہو گا؟ اروند کیجریوال نے جواب دیا عوام نے ہمیں ۵ سال کا وقت دیا ہے۔ یہ جملہ سن کر اقتدار کی ناگن خوشی سے جھوم اٹھی اس لئے کہ لوک پال سے بڑا اس کا رقیب روسیاہ کوئی اور نہیں ہے۔ اسے یقین ہو گیا کہ کیجریوال اب وہ خبطی سیاستداں نہیں ہے جو اصول کو اقتدار پر ترجیح دیتا ہے۔ اقتدار کی ناگن عاپ کے ساتھ اپنی رفاقت کے دوام پر جھوم اٹھی۔ کل تک جو وزیر اعلیٰ محض ۲۸ ارکان اسمبلی کے ساتھ لوک پال کے بغیر ۵۰ دن کی فرقت برداشت نہ کر سکا وہ ۵۷ ارکان کی حمایت کے باوجود۵ سال تک صبر کرنے کیلئے اگر تیار ہو گیا ہو تو اس کا مطلب ہے کہ زمانہ بدل گیا ہے۔

اقتدار کے ناگ دیوتا کو اروند کیجریوال کا وہ تاریخی جملہ بھی یاد آ گیا کہ جس نے ماضی میں اسے یہ کہہ کر شرمسار کر دیا تھا کہ ’’دوستو! میں بہت چھوٹا آدمی ہوں۔ میری کوئی اوقات نہیں لیکن جب سے ہماری سرکار بنی ہمارے وزرا ء نے دن رات کام کیا۔ ہم نے ایمانداری سے کام کیا۔ ‘‘ لیکن اقتدار کی ناگن کو احساس ہو گیا کہ اب یہ چھوٹا آدمی میٹرو میں بیٹھ کر حلف برداری کی خاطر رام لیلا میدان نہیں آیا ہے بلکہ وزراء کی گاڑیوں کا جمگھٹ میں راس لیلا کیلئے آیا ہے۔

راون کو شکست دے کر ایودھیا لوٹنے والے مریادہ پرشوتم رام چندر جی کی مانند چہار جانب دیپاولی کا جشن بپا تھا۔ بھارت کی دھرتی پر اپنے طویل تجربہ کی بنیاد پر اقتدار کی دیوی سمجھ گئی تھی کہ اب ایمانداری کے ساتھ دن رات کام کرنے کے دن لد چکے ہیں اور ان کی جگہ عیش و عشرت کے اچھے دن آنے والے ہیں۔

ایک سال قبل اروند کیجریوال نے اپنی الوداعی تقریر میں ایک اور دلچسپ انکشاف کیا تھا کہ ’’ہم لوگ پہلی بار منتخب ہو کر اسمبلی میں آئے تھے تو ہم نے سوچا تھا کہ یہاں بہت سارے سینئر ارکان اسمبلی موجود ہیں۔ ہم اِن سے اسمبلی کے آداب اور سیاست کے طور طریقے سیکھیں گے۔ لیکن کانگریس اور بی جے پی کے ارکان نے کیا کیا۔ انھوں نے میرا مائیک توڑ دیا اور میرے کاغذ پھاڑ دیئے۔ اس سے مجھے بہت صدمہ اور مایوسی ہوئی ہے۔ ‘‘

مضمون کا اختتام اس طرح کیا گیا تھا کہ پارلیمانی انتخاب میں ہاتھ آنے والی زبردست ناکامی کے بعد کیجریوال کا صدمہ شدید مایوسی میں تبدیل ہو گیا۔ خود احتسابی کے گہرے سمندر میں ڈوب کر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ بدعنوان اور ابن الوقت قومی اور علاقائی جماعتوں سے بہت کچھ سیکھے بغیر سیاست کے گندے تالاب میں پھلنا پھولنا ممکن نہیں ہے۔ کامیابی کے بعد کیجریوال نے ثابت کر دیا کہ وہ بہت جلد بہت کچھ سیکھ چکے ہیں۔ اس لیے اب ان کے شہر میں آئینے بھی جھوٹ بولتے ہیں۔

آپ کی راجدھانی نے راجدھانی ایکسپریس کو پہلی ہی پٹخنی میں چت کر دیا تھا۔ اس دن اسٹینڈ پر بکنے والی راجدھانی ایکسپریس کی تقریباًساری کاپیاں واپس ہو گئی تھیں۔ چوپڑہ غصے سے بلبلا رہا تھا۔ آپ کی راجدھانی میں بلا کا توازن تھا۔ اخبار کے صفحات پر کہیں بی جے پی کی تعریف کی گئی تھی تو کہیں اس کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا۔ خبروں اس بات کا خیال رکھا گیا تھا کہ تمام اہم خبروں کو غیر جانبداری کے ساتھ پیش کیا جائے، پردھان جی کے ساتھ سونیا اور ملائم سنگھ کے بیانات کو یکساں اہمیت دی جائے۔ اس طرح گویا یہ نیا اخبار جس کسی کے ہاتھ میں بھی گیا اس نے اسے اپنا اخبار سمجھا۔

اخبار کے آخری صفحہ پر ایک نصف صفحے کا نہایت خوشنما اشتہار تھا جس میں قارئین کو ویب سائٹ پر آنے کی دعوت دی گئی تھی۔ آپ کی راجدھانی کی ویب سائٹ پر جو قارئین پہنچے ان کے ہوش اڑ گئے۔ کسی بھی ہندی اخبار نے آج تک ایسی زندہ اور متحرک ویب سائٹ نہیں بنائی تھی۔ اس پر ہر آدھ گھنٹے میں نئی خبریں لگتیں اور نت نئے تبصرے شائع ہوتے۔ اس ویب سائٹ نے اپنے قارئین کو انگریزی اخبارات کی ویب سائٹ پر جانے کی ضرورت سے بے نیاز کر دیا تھا۔ پہلے ہی دن خبروں کو پسند کر کے دوستوں تک ترسیل کا سلسلہ جاری ہو گیا تھا اور اخبار کی جملہ ہٹ ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی جس نے بڑے مشتہرین کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔

چنگو اور منگو کی یہ دوسری بڑی کامیابی تھی ابتداء میں اگروال اس کے خلاف تھا لیکن جب اشتہاروں کی برسات ہونے لگی تو اس نے بھی ہتھیار ڈال دئیے۔ اخبار آپ کی راجدھانی (اے کے آر )در اصل راجدھانی ایکسپریس کیلئے یم دوت بن کر آیا تھا تین مہینے کے قلیل عرصے میں اس کے چند ہزار نہایت وفادار قارئین کے علاوہ سارے پڑھنے والے ساتھ چھوڑ چکے تھے۔ اس بیچ چوپڑہ نے آپ کی راجدھانی کے خلاف کئی ہتھکنڈے استعمال کئے لیکن ان کے سبب اے کے سی کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ چوپڑہ چونکہ نہیں جانتا تھا کہ اے کے آر بھی چندن مترا ہی کا اخبار ہے اس لئے اس کو حیرت تھی کہ آخر چندن مترا کو راجدھانی ایکسپریس کی شکستگی پر تشویش کیوں نہیں ہے؟

اے کے آر کے اندر نیوز چینل کی تیاری کا کام بڑے زور و شور کے ساتھ چل رہا تھا لیکن ان لوگوں نے ابھی اس کا اعلان نہیں کیا تھا۔ جب ساری تیاری مکمل ہو گئی تو چنگو ، منگو ، اگروال اور مترا کی ایک خفیہ نشست ہوئی جس میں نئے چینل کے افتتاح پر تفصیل سے غور کیا گیا۔ منگو نے اس کیلئے ایک ایسی سازش رچی تھی کہ جس کو سن کر تینوں لوگ ششدر رہ گئے لیکن اس سے اختلاف کرنے کی جرأت کسی کے اندر نہیں تھی۔ اس منصوبے میں سب سے اہم کردار چندن مترا کو ادا کرنا تھا۔

چندن مترا نے اگلے دن دفتر آ کر سب سے پہلے دیپک چوپڑہ کو فون کیا اور اس سے خیریت پوچھنے کے بعد اخبار کا حال احوال دریافت کیا۔

دیپک چوپڑہ نے برملا اعتراف کیا کہ جناب عالی ہمارا اخبار عالمِ سکرات میں مبتلاء ہے اور آپ کمبھ کرن کی نیند سو رہے ہیں۔ چوپڑہ نے بڑی ہوشیاری سے اپنی ناکامی کیلئے چندن مترا کو ذمہ دار ٹھہرا دیا۔ اس کا فلسفہ تھا حملہ بہترین دفاع ہے لیکن اس میں خطرہ یہ ہے کہ مخاطب بھی میدان میں کود پڑتا تھا۔ جس کی تیاری چوپڑہ پہلے ہی کر لیا کرتا تھا۔

خلاف توقع چندن مترا ایک دم سے بھیگی بلی بن گیا اور معذرت خواہانہ انداز میں بولا میرا خیال ہے کہ مجھ سے کوتاہی ہوئی ہے لیکن اب میں اس کا کفارہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ اس سے پہلے کہ پانی سر سے اونچا ہو جائے ہمیں غور کرنا چاہئے۔

چوپڑہ نے کہا اگر اجازت ہو تو میں ابھی اسی وقت حاضر ہو جاؤں۔ دیپک چوپڑہ کا خیال تھا چونکہ چندن مترا اچھے موڈ میں ہے اس لئے اخبار کے حالت زار پر گفت و شنید کا اس سے اچھا موقع کوئی اور نہیں ہو سکتا؟

چندن مترا نے فون رکھنے کے بعد رنجن پانڈے کو اپنے کمرے میں بلا لیا۔ رنجن پانڈے تیر کی مانند چندن کے کمرے میں جا پہنچا۔

چندن نے پوچھا کیوں بھائی رنجن کیا چل رہا ہے؟ اخبار کا کیا حال ہے؟

رنجن بولا چندن صاحب کیا بتائیں اخبار تو موت کی نیند سورہا ہے۔

یہ کیسے ہو گیا رنجن جی۔

میں نہیں جانتا صاحب۔ پہلے تو عاپ نے ہماری ار تھی اٹھائی اور پھر آپ کی راجدھانی نے چتا کو آگ دکھائی۔ اب تو بس ار تھی کلش کے گنگا بہانے کا انتظار ہے۔

اسی لمحہ چوپڑہ کمرے میں داخل ہوا اور بولا براہمن اور کر بھی کیا سکتا ہے۔ میری تو سمجھ میں نہیں آتا ہم ٹھاکروں نے کیوں ان پنڈتوں کو سر پر بٹھا رکھا ہے۔

رنجن دبک کر بولا شما چاہتا ہوں گرو دیو۔

چوپڑہ نے ڈانٹ کر کہا تمہارے پاس کوئی کام نہیں ہے کیا جو یہاں اپنا اور صاحب کا وقت ضائع کر رہے ہو؟

نہیں سرکار ایسا نہیں ہے۔

چوپڑہ دہاڑا تو جاؤ اپنا کام کرو بھاگو یہاں سے۔

پانڈے نے مترا کی جانب دیکھا تو وہ بولا چوپڑہ جی براہمن کو ناراض نہیں کرتے اس کا شراپ بہت برا ہوتا ہے کہیں یہ اخبار کے ساتھ ہمارا انتم سنسکار نہ کر دے۔ اسے یہیں بیٹھنے دیجئے۔

چوپڑہ سمجھ گیا کہ یہ احمق خود نہیں آیا ہے بلکہ بلایا گیا ہے۔ اس نے زوردار قہقہہ لگا کر کہا خیر اگر آپ کی مرضی ہے تو مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔

پانڈے کو چھوڑئیے اور آپ بتائیے کہ راجدھانی ایکسپریس کا آخر کیا ہو گا؟

دیکھئے صاحب کاروبار میں اونچ نیچ ہوتا رہتا ہے۔ یہ ہمارے ساتھ پہلی بار نہیں ہوا۔ جب بھی ہماری پارٹی کی مقبولیت بڑھتی ہے ہماری اشاعت بڑھ جاتی ہے اور جب اس میں کمی واقع ہوتی گھٹ جاتی ہے۔ یہ جھاڑو زیادہ دن چلنے والا نہیں ہے۔ اس کے رسی دن بدن ڈھیلی ہوتی جا رہی اور اس کی تیلیاں ٹوٹنے بکھرنے لگی ہیں بہت جلد یہ تار تار ہو جائے گا اور ہمارا کمل پھر سے کھل اٹھے گا۔ اسی کے ساتھ راجدھانی ایکسپریس کا چراغ بھی روشن ہو جائے گا۔

تو کیا ہم اس دن کے انتظار میں چپ چاپ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں؟ جو سوال چندن کو کرنا تھا وہ رنجن نے کر دیا۔

چوپڑہ کا پارہ چڑھ گیا وہ بولا ہاتھ پر ہاتھ نہیں بلکہ پشت پر لات مار کر پہلے تو تمہیں باہر نکالتے ہیں اور پھر سوچتے ہیں کہ آگے کیا کیا جائے؟

چوپڑہ کی دھمکی سن کر رنجن پانڈے کا چہرہ سرخ ہو گیا اور دماغ کھولنے لگا لیکن کسی طرح اس نے اپنے آپ کو قابو میں رکھا۔

یہاں سے نکل کر اگر یہ آپ کی راجدھانی میں چلا گیا تو پھر ہم کیا کریں گے؟

جناب آپ اسے اس منحوس اخبار میں کیوں بھیج رہے ہیں؟ میں نے تو اسے بند کرنے کا رام بان اپائے سوچ لیا ہے۔

اچھا ہمیں بھی تو پتہ چلے؟

ہمارا یہ پرانا حربہ ہمیشہ کامیاب رہتا ہے۔

رنجن پانڈے کو بدلہ چکانے کا موقع مل گیا وہ بولا جی ہاں وہ تو ہم ککڑ سنگھ کے معاملے میں دیکھ ہی چکے ہیں۔ بھلا ہو چنگو کا جو اس نے بات آگے نہیں بڑھائی ورنہ ہم لوگ ابھی تک تہاڑ جیل میں چکی پیس رہے ہوتے۔

چوپڑہ ایک موٹی سی گالی دے کر بولا تو اب یہاں سے جاتا ہے یا۰۰۰

(ہنس کر) چوپڑہ جی آج آپ کو یہ کیا ہو گا بار بار آپے سے باہر ہو رہے ہیں۔ اس پانڈے کو چھوڑئیے اور وہ رام بان ۰۰۰۰۰۰۰

میں معذرت چاہتا ہوں اس جیسے پاگل براہمن دماغ خراب کر دیتے ہیں۔

پانڈے نے سوچا یہ تو ایسے کہہ رہا ہے گویا اس کا دماغ بہت اچھا ہے۔ میں تو کہتا ہوں دماغ ہو تو اچھا یا خراب ہو لیکن اس کی کھوپڑی میں تو بھوسا بھرا ہے بھوسا۔ ذرا کہیں ملازمت تو مل جائے میں اس بھوسے کو شعلہ دکھا کر ہی جاؤں گا تاکہ اسی میں جل مرے منحوس۔ پانڈے سوچ تو بہت رہا تھا لیکن کچھ بول نہیں پا رہا تھا۔ چندن کے جملے سے اس کا ذہن ایک نئی سمت میں چل پڑا تھا۔ اس نے طے کر لیا کہ یہاں سے اٹھ کر مہیش اگروال سے رابطہ کرے گا اور منت سماجت کر کے ملازمت بدل لے گا۔ آپ کی راجدھانی ویسے بھی دن دونی رات چوگنی ترقی کر رہا تھا اور پانڈے کو راجدھانی ایکسپریس میں کام کا ۲۰ سالہ تجربہ تھا۔

دیپک چوپڑہ نے وہی گھسا پٹا حل بتایا۔ اپنے آدمیوں سے آپ کی راجدھانی کے دفتر پر حملہ کروانا اور اس کا الزام عام آدمی پارٹی کے سر منڈھ دینا۔ گرفتار ہونے والے ملزمین کو دولت اور رسوخ کی مدد چھڑوا لینا اور پولس کے ذریعہ اپنی من چاہی توضیح ذرائع ابلاغ میں پھیلا دینا۔ چوپڑہ کا خیال تھا چونکہ پولس کا محکمہ مرکزی سرکار کے تحت ہے اور مرکز میں بی جے پی برسرِ اقتدار ہے اس لئے یہ سارا کام نہایت سہل ہے۔

چندن بولا لیکن پھر بھی احتیاط ضروری ہے پولس میں عاپ کے ہمدردوں کی کمی نہیں ہے۔ کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں؟

چوپڑہ نے اعتماد کے ساتھ کہا آپ اس کی چنتا نہ کریں۔ اس بار میں براہ راست اپنا عملہ استعمال نہیں کروں گا بلکہ کسی باہر والے گروہ کی مدد سے اس کام کو انجام دوں گا۔ بس کچھ خرچ زیادہ ہو جائے گا۔

خرچ کی فکر نہ کریں بس یہ دیکھیں کہ اینٹ سے اینٹ بج جائے۔

کمرے میں آ کر چوپڑہ نے پانڈے سے کہا دیکھو آج سے اپنے اخبار اور ہمارے ہمدرد ٹی وی چینلس پر یہ افواہیں پھیلانا شروع کر دو کہ آپ کی راجدھانی سے عاپ کے رہنما اور کارکنان ناراض ہو گئے ہیں اور تشدد کی کار روائی کا امکان جتایا جا رہا ہے۔

پانڈے بولا اپنے اخبار کے تو قاری ہی بہت کم رہ گئے ہیں اور دوسرے اس من گھڑت کہانی کی مقبولیت بھی مشکوک ہے۔

یار پانڈے تم تو ابتداء میں ہی مایوس ہونے لگے۔ ہمیں جلدی نہیں ہے۔ ہمارے پاس وقت ہے۔ مجھے احساس ہے کہ یہ کام مشکل ہے لیکن نا ممکن نہیں ہے۔ آئندہ دو تین ہفتہ میں ماحول تیار کرو تب تک میں دیگر انتظامات کرتا ہوں۔

جی ہاں میں کوشش کروں گا۔

دیپک نے حوصلہ افزائی کی اب تمہاری بات میں اعتماد نظر آیا۔ دیکھو میں چاہتا ہوں کہ جب یہ حملہ ہو تو لوگ بے ساختہ کہیں یہ تو ہونا ہی تھا۔ ہمارے پیشے میں لفافوں کے کلچر سے تو تم واقف ہی ہو جو آج کل وائر ٹرانسفر میں بدل گیا ہے۔ میرا خیال ہے دکشنا کے آشیرواد سے سب کچھ آسان ہو جائے گا اس بابت تم مال کی بالکل چنتا نہ کرنا اس لئے کہ یہ بقاء کی آخری جنگ ہے۔ اس میں کامیابی ناگزیر ہے۔ میں ایک کامیاب منتظم کی حیثیت سے سبکدوش ہونا چاہتا ہوں۔ ایک مرتبہ اخبار پھر سے چل پڑے تو سکون سے ریٹائر ہو جاؤں گا اور یہ کمرہ تمہارا ہو جائے گا۔ تم یہاں بیٹھ کر راج کرو گے کیا سمجھے؟

پانڈے ایک دم سے راجدھانی ایکسپریس میں لوٹ آیا تھا۔ اس کے خواب میں اب دیپک چوپڑہ سبکدوش ہو رہا تھا اور وہ چندن مترا کا داہنا ہاتھ بن گیا تھا۔ دیپک چوپڑہ نے خوابوں کے سہارے پانڈے کو بڑے آرام سے اپنے دام میں گرفتار کر کے آپ کی راجدھانی کے خلاف منصوبہ بندی میں شامل کر لیا۔ پانڈے نے مہیش اگروال سے ملاقات کا خیال اپنے دل سے نکال دیا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

چنگو ، منگو اور مہیش اگروال کے درمیان بیٹھا چندن مترا انہیں دیپک چوپڑہ کے ارادوں سے آگاہ کر رہا تھا۔ سارے لوگ بہت خوش تھے۔ سب کچھ ان کے توقع کے مطابق ہو رہا تھا۔

مترا نے کہا دیکھو اب ہمارے پاس وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ جلد از جلد اس دفتر سے سارا قیمتی سامان نئے دفتر میں منتقل کرنا شروع کر دو۔

چنگو نے پو چھا وہ بیمہ کمپنی کا کیا ہوا؟

مہیش نے جواب دیا میں نے ایجنٹ کے ساتھ رابطے میں ہوں وہ پریمیم کی رقم بڑھانے کیلئے کہہ رہے میں آنا کانی کر رہا ہوں تاکہ انہیں شک نہ ہو لیکن بالآخر میں انشورنس والوں کی شرائط پر راضی ہو جاؤں گا اور اس میں حادثاتی تباہی کی شق بھی شامل کروا دوں گا تاکہ بربادی کے نقصان سے زیادہ بھرپائی ہو جائے۔

چنگو بولا کیوں نہیں! نئے دفتر کے قرض کی ادائیگی بھی اسی سے ہو گی۔

منگو نے کہا بھئی اسے کہتے ہیں آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام۔

مترا نے پوچھا وہ مس مدھو بالا کا کیا ہوا؟ اس نے استعفیٰ دیا یا نہیں؟

منگو بولا وہ تو کب کی استعفیٰ دے کر اپنے گاؤں  جا چکی ہے۔

اچھا تو چنائی سیٹھ کس حال میں ہے؟

آج کل سماچارمنورنجن کی حالت خراب ہے۔ ان کو مدھو بالا کا متبادل نہیں مل رہا ہے۔ پہلے تو وہ نقل کی تلاش کرتے رہے لیکن ناظرین کو مزہ نہیں آیا اس لئے کہ فوٹو کاپی تو آخر فوٹو کاپی ہوتی اس میں اصل کا لطف کہاں سے آ سکتا ہے؟

مہیش نے پو چھا اچھا تو انہوں نے اب کیا کیا؟

چنگو بولا میں بتاتا ہوں جب پرائم ٹائم کی ٹی آر پی گھٹنے لگی اور اس کا اثر اشتہار پر پڑنے لگا توکسی احمق نے پروگرام کا لب و لہجہ بدلنے کا مشورہ دے دیا۔

اچھا تو پھر کیا ہوا؟ مہیش نے پھر سوال کیا۔

ہونا کیا تھا سماچار منورنجن کے ناظرین کا ذوق ہی بگڑا ہوا تھا ان میں سے نصف تو صرف مدھو بالا کی اداؤں کیلئے ٹی وی کے سامنے بیٹھا کرتے تھے۔ جیسے ہی ایک نہایت سنجیدہ صحافی کو وہاں لا کر بٹھایا گیا سب گدھے کے سر سے سینگ کی مانند فرار ہو گئے۔

اس کا مالک تو آپ کا کرم فرما ہے؟مہیش نے منگو ل سے سوال کیا

چندن قہقہہ لگا کر بولا وہ بیچارہ رو رہا ہے۔

چنگو بولا مجھے لگتا ہے کہ اس کو یہ مشورہ کسی دشمن نے دیا ہو گا؟

منگو نے کہا اس دنیا میں کوئی اپنے دشمن سے مشورہ لے کراس پر عمل کرتا ہے؟

جان بوجھ کر تو کوئی ایسا نہیں کرتا لیکن کئی دوست نما دشمن بھی تو ہوتے ہیں جن پر انسان انجانے میں اعتماد کر لیتا ہے؟مہیش نے پوچھا

جی ہاں مترا جی سیاست میں تو یہی ہوتا ہے۔ منگو بولا

سیاست تو بیچاری منی کی طرح بدنام ہے۔ کیا صحافت میں یہ سب نہیں ہوتا؟

کیوں نہیں ہوتا میں تو کہتا ہوں صحافت بھی ایک طرح کی سیاست ہی ہے۔

مہیش بولا جی نہیں میں نہیں مانتا یہ تو سیاستدانوں کی باندی ہے بلکہ رکھیل سمجھ لو جس سے وہ آشنائی تو کرتے ہیں لیکن شریک حیات نہیں بناتے۔

چنگو بولا لیکن اس میں سیاستدانوں کا کوئی قصور نہیں ہے۔

میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا۔

ہم خود کسی ایک کے ساتھ منسلک ہونا نہیں چاہتے۔ اپنے مفاد کی خاطر ہم اپنی وفاداریاں بدلنے کی آزادی کو محفوظ و مامون رکھنا چاہتے ہیں۔ حکمرانوں کا کیا؟ آج ان کے پاس اقتدار ہے کل نہیں۔ اس لئے آج انہیں ہماری ضرورت کل نہیں لیکن یہ تو ہمارا پیشہ ہے ہمیں تو سرکار کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔

منگو بولا یار چنگو مجھے تو یہ داستان الم سن کر میرا نام جوکر کا نغمہ یاد آ رہا ہے ’جینا یہاں مرنا یہاں، اس کے سوا جانا کہاں ‘؟

چندن نے کہا وہیں جہاں بدعنوان پائے جاتے ہیں؟

مہیش بولا آپ پرلوک سدھارنے کی بات کر رہے ہیں وہاں تو خیر عنوان اور بدعنوان سبھی کو جانا ہے۔ کیا سیاستدان اور کیا صحافی۔ ہر انسان کی منزل وہی ہے۔

بھائی مہیش آپ بہت دور نکل گئے۔ میں تو جیل جانے کی بات کر رہا تھا۔

چنگو نے چونک کر پوچھا جیل؟ صحافی بھی کہیں جیل جاتے ہیں؟

کیوں نہیں۔ تہلکہ کا ایڈیٹر گھوش کہاں ہے؟ جب تک کانگریس کے کام آتا رہا ہیرو تھا جب آنکھیں دکھائیں زیرو بن گیا اور اب تو بی جے پی کی سرکار آ گئی ہے جب تک پردھان جی اقتدار کی کرسی پر براجمان ہیں اس کی جیل کا قفل نہیں کھل سکتا۔

مہیش نے کہا لیکن یہ آپ کو درمیان میں جیل کا خیال کیوں آ گیا؟

ہمارے عزیز دوست دیپک چوپڑہ کو بھی اپنی عمر کا آخری حصہ جیل ہی میں گزارنا ہے۔ اس بدبخت نے بہت سوں کو دکھ دیا ہے۔ اسے سزا ملنی ہی چاہیے۔

مہیش نے تائید کی جی ہاں میں نے اسے بھگتا ہے۔ اس حقیقت کو مجھ سے زیادہ کون جان سکتا ہے۔ کمبخت اپنے آپ کو فرعون سمجھتا ہے فرعون۔

اطمینان رکھو اب اس کے غرقاب ہونے کا وقت قریب آ لگا ہے۔

چنگو نے کہا لیکن آپ اس بڈھے کھوسٹ کو زیادہ دنوں تک اندر نہیں رکھ سکیں گے۔ اس کے سیاسی آقا اسے فوراً چھڑا لیں گے۔ بہت خدمت کی ہے اس نے زعفرانی سیاستدانوں کی۔

چندن بولا ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی اس لئے کہ اب سیاستداں بھی ہماری حقیقت سے واقف ہو گئے ہیں۔ پہلے تو اروند کیجریوال نے ہمارا لئے (prostitute) یعنی طوائف کی اصطلاح گھڑی تھی اب وی کے سنگھ نے بھی اسے ہمارے خلاف استعمال کر دیا۔ ایسا لگتا ہے کہ سیاست کی دنیا میں ہمارے اس تعارف پر اتفاق رائے ہوتا جا رہا ہے اور بعید نہیں کہ بہت جلد ہمیں (pen worker)یعنی قلم فروش کے لقب سے نواز دیا جائے۔

منگو بولا یہ اچھا ہے اس بہانے ہمارے حقوق طے ہو جائیں گے اور ان کی خاطر لڑنے والی غیر سرکاری تنظیمیں بھی سر گرمِ عمل ہو جائیں گی۔

مہیش نے کہا لگتا ہے ہم لوگ پھر کسی اور سمت نکل گئے۔

چندن بولا جی ہاں اب آپ لوگ اخبار میں اس طرح کا مواد شائع کرنا شروع کر دو جس سے دیپک کو اپنے عزائم کو پورا کرنے کا موقع اور حوصلہ ملے لیکن یاد رکھو ہمارے قارئین ناراض نہ ہوں۔ یہ بہت ہی اہم دورانیہ ہے۔ اس میں توازن کو قائم رکھنا بے حد ضروری ہے۔

منگو بولا جی ہاں سمجھ گیا جیسا کہ انتخاب سے قبل عام آدمی پارٹی کا تھا جبکہ وہ پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی تھی۔

چندن نے تائید کی جی ہاں بالکل صحیح اور اب دیکھو کس قدر بے فکر ہو گئی ہے۔ ہمارے چینل کا دھماکے دار افتتاح ہو جائے اس کے بعد ہم بھی اسی کی طرح مست ہو جائیں گے۔

جی ہاں اور دیپک چوپڑہ کی حالت بی جے پی کی طرح ہو جائے گی۔

چنگو بولا نہیں بلکہ کانگریس کی طرح نہ گھر کی اور نہ گھاٹ کی۔

 

 

 

۲۳

 

رنجن پانڈے کو چندن مترا نے اپنا جاسوس بنا لیا حالانکہ بظاہر وہ راجدھانی ایکسپریس کے دفتر میں دیپک چوپڑہ کا دست راست تھا۔ رنجن کے ذریعہ چندن کو دیپک کے ہر چھوٹے بڑے اقدام کی خبر مل جاتی۔ وہ کن امکانات پر غور کر رہا ہے اس کا بھی مترا کو پتہ چل جاتا۔ رنجن اس بات سے ناواقف تھا کہ چندن اس سے یہ ساری معلومات کیوں حاصل کرتا ہے؟ اسے تو بس یہ فکر لگی ہوئی تھی کہ اگر واقعی حسب وعدہ دیپک سبکدوش ہو جائے تو کہیں چندن رنگ میں بھنگ نہ کر دے یعنی اس کی جگہ کسی اور آدمی کولا کر نہ بٹھا دے۔

اخبار کا مالک تو بہرحال چندن تھا وہ کسی کو بھی راجدھانی ایکسپریس کی تجارتی ذمہ داری دے سکتا تھا۔ اسی خیال نے رنجن پانڈے کچھ زیادہ ہی وفا دار اور چاپلوسی بنا دیا تھا۔ عام آدمی پارٹی کے اندر جاری مہابھارت رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی بلکہ اس کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا تھا۔ آئے دن سا منے آنے والی خبریں کیجریوال کے جارحانہ تیور کا اظہار کر رہی تھیں۔ اس کا لب و لہجہ اور گالی گلوچ بتا رہے تھے کہ قومی مجلس عاملہ کے اجلاس میں کیا ہونے والا ہے؟

اروند کیجریوال نے اپنے ارکان اسمبلی کے ساتھ عام آدمی پارٹی چھوڑ دینے کی دھمکی دے کر اپنے ارادے ظاہر کر دیئے تھے۔ اس موقف سے یہ بات صاف ہو گئی تھی اس کے نزدیک پارٹی کے افراد تو درکنار پوری پارٹی کی اہمیت بھی کسی استعمال شدہ ٹشو پیپر سے زیادہ نہیں رہ گئی ہے۔ اقتدار کے علاوہ سب کچھ بے معنیٰ ہو گیا ہے۔

چنگو اور منگو جب اس خبر پر کام کر رہے تھے تو چندن نے اطلاع دی کہ کل رات ہولی جلے گی۔ اس اشارے کے ملتے ہی چنگو اور منگو نے نئے خطوط پر کام کرنا شروع کر دیا۔ وہ اس اسٹنگ آپریشن کی خبر کو نہایت اشتعال انگیز انداز میں پیش کرنا چاہتے اور اگلے دن بھر اس ٹیپ کو بجانا چاہتے تھے۔

اخبار کے پہلے صفحہ پر اروند کی خفیہ گفتگو اور اس پر مختلف لوگوں کے تاثرات مع تصویر سجا دیئے گئے تھے۔ اروند کیجریوال کے بڑے سے کارٹون کے نیچے عنایت علی خان صاحب کی نظم کرسی درج تھی:

کیا بات ہے کرسی تری کیا بات ہے واللہ!

حجام کو مل جائے تو الحاج بنا دے

کنگلے کو مہاراج ادھیراج بنا دے

بدھو کو خرد مندوں کاسرتاج بنا دے

داہر ہو تو پل میں اسے حجاج بنا دے

کیا بات ہے کرسی تری کیا بات ہے واللہ!

پھولا نہ سمائے جسے مل جائے خوشی میں

سر اس کا کڑھائی میں ہو اور پانچوں ہوں گھی میں

دروازے پہ ٹی وی کی کھڑی رہتی ہو ٹیمیں

کرتا ہو دھڑ لے سے جو آ جاتی ہو جی میں

کیا بات ہے کرسی تری کیا بات ہے واللہ!

اول تو کچھ اس ڈھب سے رجھاتی ہے کہ توبہ!

وہ سبز گھنے باغ دکھاتی ہے کہ توبہ!

پھر سر میں وہ خنّاس بٹھاتی ہے کہ توبہ!

آخیر میں درگت وہ بناتی ہے کہ توبہ!

کیا بات ہے کرسی تری کیا بات ہے واللہ!

اخبار کو پریس میں بھیجنے کے بعد چنگو ، منگو اور مہیش اگروال اپنے کام میں جٹ گئے۔ سب سے پہلے تو انہوں نے دفتر کے مختلف حصوں میں لگے کیمرے اچھی طرح صاف کروائے اور ان میں سے ہر ایک کی جانچ پڑتال کی۔ اس کے بعد غنڈوں کے اس گروہ سے رابطہ کیا جس کو دیپک چوپڑہ کے آدمیوں کے بعد آ کر دفتر کی اینٹ سے اینٹ بجانا تھا اور پھر دو دن بعد کی نشریات کی تیاری کرنے لگے۔

ان کے کاموں فہرست خاصی طویل تھی۔ آپ کی راجدھانی چینل کے افتتاحی دن:

  • کن کن مہمانوں کو اسٹوڈیو میں بلایا جائے گا؟
  • کون نامہ نگار کس کے پاس جائے گا؟
  • دفتر کی توڑ پھوڑ کے مناظر پر کیا کیا سرخی لگائی جائے گی؟
  • کس کس کی جانب شک کی سوئی کو گھمایا جائے گا؟
  • شام کے وقت جنتر منتر پر منعقد ہونے والے مظاہرے میں لوگ کہاں سے آئیں گے؟
  • ان کے ہاتھوں میں پلے کارڈ پر کیا لکھا ہو گا؟
  • اس احتجاجی مظاہرے میں کس کس کی تقریر ہو گی؟

اس طرح کے بے شمار سوالات پر گفتگو اور تیاری کرتے کرتے کب صبح ہو گئی پتہ ہی نہیں چلا۔ اب دن بھر اس لائحہ عمل پر کام کرنا تھا اور شام کو ہونے والے حملے کا انتظار کرنا تھا۔ وہ تینوں اور چندن مترا یہ دعا کر رہے تھے کہ خدانخواستہ حملے کے منصوبے میں کوئی خلل نہ پڑے ورنہ ٹی وی چینل کے افتتاح کا سارا مزہ کرکرا ہو جائے گا۔ چندن مترا نے دوپہر کی فلائیٹ سے کولکتہ جانے کا پروگرام بنا لیا تھا لیکن جانے سے قبل اس نے رنجن پانڈے سے بات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کہیں کوئی تبدیلی تو نہیں ہے؟

رنجن نے بتایا کہ ساری تیاری مکمل ہو گئی ہے۔ دیپک چوپڑہ آپ کی راجدھانی کے صفحۂ اول سے بے حد خوش ہے۔ وہ اس نادر موقع کا بھرپور فائدہ اٹھا لینا چاہتا ہے لیکن نہیں جانتا کہ اس کی حیثیت کانٹے میں لگے کینچوے کی سی ہے۔ آپ کی راجدھانی میں چھپی نظم کرسی نے ایک ہنگامہ برپا کر دیا تھا۔ مختلف چینل والے اسے دکھلا رہے تھے اور عاپ کے کارکنان سے اس کے متعلق تاثرات حاصل کر رہے تھے۔ ان میں سے کچھ شدید غم غصے کا اظہار کر رہے تھے۔ یہ دیکھ دیکھ کر نہ صرف دیپک چوپڑہ بلکہ چنگو اور منگو بھی خوش ہو رہے تھے۔ سارا کچھ منصوبے کے مطابق ہو رہا تھا۔

صبح سے لے کر دوپہر تک آرام کرنے کے بعد چنگو ، منگو اور مہیش اپنے ٹی وی چینل کے دفتر میں پہنچ گئے جو اخبار کے دفتر سے کچھ فاصلے پر تھا۔ اس دفتر میں ایک گوشہ اخبار کیلئے بھی مختص تھا لیکن اس کا علم صرف چنگو ، منگو ، مہیش اور چندن کو تھا۔ دو دن کے بعد سے اخبار کو یہیں سے نکلنا تھا۔ شام چار بجے چنگو اور مہیش اخبار کے دفتر میں لوٹ آئے اور منگو ٹی وی پروگرام کی تیاری میں اپنے عملہ کے ساتھ جٹا رہا ہے۔

آپ کی راجدھانی اخبار کے دفتر میں خوشی کا ماحول تھا۔ ان کا ٹی وی چینل شروع ہونے والا تھا۔ سارے لوگوں کو ہدایت کی گئی تھی کہ اگلے دن سب لوگ صبح دس بجے ٹی وی کی نشریات والے دفتر میں منعقد ہونے والی افتتاحی تقریب میں آئیں۔ اسی سبب سے رات دس ہی بجے اخبار کو پریس میں بھیج دیا گیا۔

دفتر سے کچھ لوگ  جا چکے تھے اور کچھ نکل رہے تھے کہ نقاب پوش حملہ آوروں نے اروند کیجریوال زندہ باد، عام آدمی پارٹی امر رہے، جو ہم سے ٹکرائے گا مٹی میں مل جائے گا۔ اس طرح کے روایتی نعرے لگاتے ہوئے آپ کی راجدھانی اخبار کے دفتر پر حملہ کر دیا۔ چنگو اور مہیش نے دفتر میں لگے لاؤڈ اسپیکر سے اعلان کیا کہ ملازمین کی عزت و آبرو سب سے زیادہ قیمتی ہے اس لئے کوئی مزاحمت نہ کرے بلکہ اپنی جان بچا کر نکل جائے۔ نظم و نسق کو قائم رکھناپولس کی ذمہ داری ہے۔ ہم اس کو خبر کر رہے ہیں۔ اسے اپنا کام کرنے دیں۔ اس میں مداخلت نہ کریں۔

یہ ایک خلاف توقع اعلان تھا۔ لوگوں نے دیکھا کہ منگو اور مہیش کے کمروں کی بتی بھی بجھ گئی یعنی وہ بھی بھاگ رہے ہیں اس لئے سب کے سب فوراً پچھلے دروازے سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ چنگو نے جاتے جاتے چوکیداروں سے کہا حملہ آور جدید اسلحہ سے لیس ہیں وہ لاٹھیوں سے ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اس لیے وہ اپنی جان جوکھم میں ڈالنے کے بجائے پولس کی ہدایت کے مطابق تعاون پیش کریں ورنہ اپنے کمرے میں بند رہیں۔ یہ بھی عجیب و غریب ہدایت تھی لیکن چونکہ چوکیداروں کی اس میں عافیت تھی اس لئے چاروں نے یک زبان ہو کر تائید کی۔

منگو کی گاڑی جب آنکھوں سے اوجھل ہو گئی تو چوکیداروں کا سردار ارجن پنڈت بولا دیکھا تم نے ہمارے مالک کس قدر انسانیت نواز ہیں؟ان کو اپنے مال و اسباب سے زیادہ ہمارے حفظ و امان کی فکر ہے۔

دوسرے چوکیدار بھیم سنگھ کا پارہ چڑھ گیا اس نے کہا لیکن مجھے تو یہ بزدلی لگتی ہے اگر کوئی آپ پر حملہ کرے تو اس کا مردانہ وار مقابلہ کرنا چاہئے اس طرح فرار ہو جانا کون سی دلیری ہے؟ بھیم سنگھ کا جملہ سن کر باقی سارے بھڑک گئے۔

نکول شرما بولا نافرمان احمق انسان!کون کہتا ہے یہ بزدلی ہے؟ میں تو کہتا ہوں یہ حقیقت پسندی ہے۔ اب تو ہی بتا کہ ان حملہ آوروں کا ہم کیا بگاڑ سکتے ہیں؟ان کے سامنے جانا تو سراسر خودکشی ہے۔

بھیم سنگھ نے کہا اچھا تو کیا ہمیں یہاں پر صرف دروازہ کھولنے اور بند کرنے پر تعینات کیا گیا ہے، میں فوجی آ دمی ہوں کیا سمجھا؟ تو مجھے اپنی طرح ڈرپوک نہ سمجھ۔

ایک کنارے پر بیٹھا ہوا سہدیو اگروال آگے آیا اور بولا اوئے بھیم سنگھ کے بچے اگر ایسا ہی ہے تو یہاں چوڑیاں پہن کر کیوں بیٹھا ہوا ہے؟ کمرے کے اندر بیٹھ کر بھاشن بازی کرنے کے بجائے باہر جا کر ان سے مقابلہ کیوں نہیں کرتا؟

ارجن کو اپنے دوست بھیم پر رحم آ رہا تھا وہ بولا اس طرح اپنے ساتھی کو رسوا کرنا مناسب نہیں ہے۔ اس نے ایک بات کہی اب اس کا مطلب یہ تھوڑی نا ہے کہ ہم لٹھ لے کراس کے پیچھے پڑ جائیں۔

ارجن کی اس نصیحت کے باوجود چوکیداروں کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا۔ نکول نے پھر کہا بات وہ نہیں ہے۔ یہاں ہماری جان کے لالے پڑے ہیں۔ سارے لوگ اپنی جان بچا کر بھاگ گئے ہیں لیکن ہم یہیں پھنسے ہوئے ہیں۔ اگر ان لوگوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور ہم پر حملہ بول دیا تو ہم کیا کریں گے؟ ہم اپنا دفاع کیسے کریں گے؟ یہ سوچنے کے بجائے یہ بیوقوف ہمیں کروکشیتر میں کود پڑنے کی ترغیب دے رہا ہے۔

اس سوال نے سارے لوگوں کو سنجیدہ کر دیا تھا۔ اب وہ دفتر کے بجائے اپنی ذات کے بارے میں فکر مند ہو گئے تھے۔

سہدیو نے پوچھا تو کیا ہمیں یہاں سے جان بچا کر بھاگ لینا چاہئے؟

ارجن چونک کر بولا اوہو یہ تم نے کیا کہہ دیا؟ لگتا ہے اس پیشے میں نئے ہو؟ کیا تمہیں نہیں پتہ جب بھی کہیں چوری ہوتی ہے پولس والے سب سے پہلے کس پر شک کرتے ہیں؟

بحث کا رخ دوسری جانب جا رہا تھا۔ بھیم سنگھ بولا کہیں تم یہ تو کہنا نہیں چاہتے کہ پولس ہم پر شک کرے گی؟ اگر کسی پولس والے نے یہ حرکت کی تو میں اس کا سر پھوڑ دوں گا۔

نکول بولا ابے جا بہت دیکھے تیرے جیسے سر پھوڑنے والے اگر تو اتنا ہی بہادر تھا تو فوج کی ملازمت چھوڑ کر چوکیداری کرنے کیوں چلا آیا؟

ارجن نے کہا تم پھر ذاتیات پر اتر آئے ہر کسی کی اپنی مجبوری ہوتی ہے جس کے تحت وہ فیصلے کرتا ہے ہمیں اس سطح تک نہیں جانا چاہئے۔

سہدیو بولا یہی تو میں بھی کہہ رہا ہوں کہ ہماری بھی مجبوری ہے۔ ایک تو ہمارے پاس ویسا اسلحہ نہیں جو حملہ آوروں کے پاس ہے۔ دوسرے وہ تعداد میں ہم سے کہیں زیادہ ہیں۔

نکول نے کہا لیکن سب سے زیادہ اہم یہ بات ہے کہ ہمارے مالک نے ہمیں مزاحمت سے منع کیا ہے۔ اب ان کی مانیں جو ہمیں تنخواہ دیتے ہیں یا اس کی سنیں جو صرف بھاشن دیتا ہے۔

نکول کا اشارہ بھیم سنگھ کی جانب تھا اور سچ تو یہ ہے کہ وہ بہت خوفزدہ تھا اس لئے اسے کچھ زیادہ ہی غصہ آ رہا تھا۔ بھیم سنگھ بولا ارجن پنڈت کی بات درست ہے۔ اس دنیا میں کوئی کسی کی مجبوری نہیں سمجھتا۔ میں تو اپنا پران کا بلیدان دینے کیلئے ہی فوج میں بھرتی ہوا تھا مگر ہائے افسوس!وہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔

سہدیو بولا میرے دوست بھیم سنگھ تم اس احمق کی بات کا برا نہ مانو۔ یہ بتاؤ کہ پھر کیا سانحہ رونما ہو گیا جس نے تمہیں فوجدارسے چوکیدار بنا دیا؟

بھیم سنگھ بولا ہوا یہ کہ میرے والدین نے میری شادی کر دی۔

بھیم سنگھ کے اس جواب نے سارے لوگوں کو چونکا دیا۔ وہ عارضی طور پر بھول گئے کہ باہر کیا ہو رہا ہے۔ ارجن نے سوال کیا لیکن شادی؟ شادی تو کوئی حادثہ نہیں ہے وہ تو انسانی زندگی کا سب سے خوشگوار واقعہ ہے۔

جی ہاں میں بھی یہی سمجھتا اور اسی لئے شادی سے پہلے بہت خوش تھا۔ میں اس حقیقت سے غافل ہو گیا تھا کہ میں ایک فوج کا معمولی سپاہی ہوں۔ کاش کہ میں افسر ہوتا یا شادی نہ کرتا۔

اب نکول کو بھی بھیم سنگھ سے ہمدردی ہونے لگی تھی۔ اس نے کہا کیا فوج میں سپاہی کو شادی کرنے کی اجازت نہیں ہے؟ اور اگر کوئی فوجی اس جرم کا ارتکاب کر لے تو اس کا کورٹ مارشل کر کے اسے نکال باہر کیا جاتا ہے؟

جی نہیں دوست ایسی بات نہیں۔ سپاہیوں کو نکاح کی تو اجازت ہے لیکن اکثر ان کی ڈیوٹی ایسے مقامات پر ہوتی ہے جہاں وہ اپنی زوجہ کے ساتھ نہیں رہ سکتے اس لئے انہیں شادی کے باوجود مجرد زندگی گزارنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔

سہدیو نے کہا تو کیا سارے سپاہی فوج سے نکل آتے ہیں؟

نہیں وہ لوگ حالات سے مصالحت کر لیتے ہیں۔

نکول نے سوال کیا تم بھی تو ایسا کر سکتے تھے؟

میں نے تو کر لیا تھا لیکن وہ دروپدی نہیں مانی۔

ارجن نے کہا یہ بیچ میں دروپدی کہاں سے آ ٹپکی؟

بھیم سنگھ بولا دروپدی؟ دروپدی تو ہمیشہ سے موجود تھی۔ اسی کے ساتھ اگنی کے سات پھیرے لے کر میں نے اپنی ازدواجی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ وہ میری جنم جنم کی ساتھی ہے۔ ست یگ سے کل یگ تک ہمارا ساتھ چلا آ رہا ہے۔

ارجن نے سوچا عجب تماشہ ہے۔ گردش کرتی ہوئی مچھلی کا عکس دیکھ کر اس کی آنکھ بھیدنے کا کارنامہ تو میں نے انجام دیا اور دروپدی کو جیت کر کوئی اور اپنے ساتھ لے گیا اور بھیم سنگھ کے ساتھ اس کا جنم جنم کا ساتھ ہو گیا؟ ارجن نے اس سوال کو کسی اور وقت کیلئے ٹال دیا اس لئے کہ نکول نے درمیان میں نیا سوال کر دیا تھا۔ جب تم مصالحت کر چکے تھے گڑ بڑ کہاں ہو گئی؟

میں بت اچکا ہوں میری اردھانگنی اپنی ضد پر اڑ گ     ئی۔

سہدیو نے کہا اور تم نے اس کے آگے سپر ڈال دی۔

جی نہیں میں بھی اپنی بات پر اڑا رہا۔ ہر چھے ماہ بعد تعطیلات میں دروپدی کے پاس آتا اور ایک ماہ بعد لوٹ جاتا لیکن پھر۰۰۰۰۰۰۰۰

ارجن بولا پھر کیا ہوا دروپدی تمہیں چھوڑ کر چلی گئی۔

نہیں! اس نے چاند سے ابھمنیو کو جنم دیا۔ ابھمنیو کی پیدائش کی خبر جب میں نے سنی تو سارے رجمنٹ کو مٹھائی تقسیم کی۔ میرے قریبی دوستوں نے زبردست دعوت کا اہتمام کیا۔ اب میں اپنی چھٹی کا بے صبری سے انتظار کر رہا تھا۔ میں اپنے مستقبل کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کرنا چاہتا تھا۔ میرا اشتیاق دیکھ کر میرے افسر نے مجھے ایک ماہ قبل چھٹی پر جانے کی اجازت دے دی۔ میں خوشی خوشی گھر آ گیا اور دیکھتے دیکھتے ایک ماہ کا وقفہ قریب الختم ہو گیا۔

نکول نے پوچھا پھر کیا ہوا؟

ہونا کیا تھا دروپدی نے ابھمنیو کی جانب اشارہ کر کے کہا تم اسے چھوڑ کہاں جا رہے ہو؟ یہ ہم دونوں کی سنتان ہے۔ اس کی پرورش ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے اس لئے اب تم نہیں جا سکتے۔ جب میں نے اصرار کیا تو وہ بولی کان کھول کر سن لو اگر تم اس بار چلے گئے تو جب دوبارہ واپس آؤ گے تو ہمارا منہ نہ دیکھو گے۔

ارجن بولا اچھا یہ تو سرا سر دھمکی ہے تو کیا تم نے اسے سمجھایانہیں؟

یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں خاموش رہتا۔ میں نے اسے ابھمنیو کے مستقبل کا واسطہ دے کر کہا دیکھو دروپدی ہمارا بیٹا بڑا ہو کر فوجی بنے گا۔ اپنے دیش کی رکشا کرے گا اس کیلئے ضروری ہے کہ میں ڈیوٹی پر جاؤں۔ میری بات سن کر درپدی بولی ہر گز نہیں میں اپنے لال کو کبھی بھی فوجی بننے کی اجازت نہیں دوں گی۔ میں نہیں چاہتی کہ وہ بھی اپنے اہل و عیال کی تمہاری طرح حق تلفی کرے۔

ارجن نے کہا یہ تو زیادتی ہے بھیم سنگھ۔

جو بھی ہے حقیقت یہی ہے بھیم سنگھ نے جواب دیا میں نے اس سے کہا میں کل جا رہا ہوں اب تمہیں جو بھی کرنا ہو کرو اور ابھمنیو کو جو کرنا ہے وہ کرے گا۔

نکول بولا اس پر دروپدی نے کیا کہا۔

وہ بولی ابھمنیو تو وہی کرے گا جو میں اس سے کہوں گی جیسا کہ تم نے وہ کیا جو تمہاری ماں نے تم سے کہا لیکن اتنا یاد رکھو اگر تم چلے گئے تو پھر کبھی اس کو دیکھ نہیں سکو گے میں تم سے کہہ چکی ہوں کہ میں اس کے ساتھ چلی جاؤں گی۔ اگر تم میرے ساتھ اس کی پرورش کی ذمہ داری ادا نہیں کرنا چاہتے تو میں بھی تمہیں اس کی سر پرستی سے محروم کر دوں گی۔

سہدیو بولا یہ تو سیدھی دھاندلی ہے۔

نکول نے پوچھا تو اگلے دن تم نے کیا کیا؟

فوج سے استعفیٰ دے کر تمہاری طرح چوکیدار بن گیا۔

 

 

 

۲۴

 

حملہ آور دفتر میں داخل ہو کر مختلف ٹکڑیوں بنٹ گئے۔ ان کا سردار سُچّا سنگھ اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ چوکیداروں کے قریب نشانہ باندھ کر بیٹھ گیا۔ اسے پتہ تھا کہ کڑی مزاحمت یہیں سے ہو سکتی ہے۔ اندر جانے والوں کو ہدایت یہ تھی کہ سب سے پہلے کام کرنے والے عملہ کو پکڑ کر ایک طرف موجود میٹنگ روم میں بند کر دیا جائے اور کسی کے ساتھ اس وقت تک بدسلوکی نہ کی جائے جب تک کہ ناگزیر نہ ہو۔ چونکہ یہ اخبار کا دفتر تھا اس لئے ڈر تھا کہ ذرائع ابلاغ میں اس کا بہت شور ہو گا۔ پولس بھی دباؤ میں کار روائی کرنے پر مجبور ہو جائے گی اس لئے احتیاط سے کام لیا جا رہا تھا۔ حملے کا مقصد کسی انسان کو تکلیف پہچانا نہیں تھا بلکہ دفتر کو تباہ و تاراج کرنا تھا۔

دس منٹ کے بعد بھی سُچّا سنگھ نے دیکھا کہ چوکیداروں کا دفتر بند کا بند پڑا ہے اس میں سے کوئی فرد باہر نہیں آیا تو اس نے سوچا ممکن ہے یہ لوگ بھی ڈر کر بھاگ گئے ہوں۔ اب اسے اندر والوں کا خیال آیا اس نے اپنے ایک ساتھی لُچّا سنگھ سے کہا اندر جا کر دیکھو کیا حال ہے؟ اور ہدایت کی میٹنگ روم میں ضرور جانا اور وہاں بند عملے کے متعلق مجھے آ کر بتاؤ کہ وہ کس حال میں ہیں؟ نہال سنگھ وہاں تعینات ہے۔

لُچّا بھی بیٹھا بیٹھا بور ہو رہا تھا اس لئے وہ سر ہلا کر اندر داخل ہو گیا۔ اس نے سوچا چلو پہلے نہال سنگھ سے ملتے ہیں ہو سکتا ہے کمرے میں بند کوئی ایسی چڑیا ہو جس سے کچھ دل لگی ہو جائے۔ لُچّا سنگھ بڑا دل پھینک قسم کا مجرم تھا۔

میٹنگ روم کے باہر پہنچ کر لُچّا نے دیکھا وہاں تو نہ کوئی آدم اور نہ آدم زاد۔ اس نے سوچا یہ نہال سنگھ کہاں مر گیا؟ کہیں وہ خود بھی تو مزے لوٹنے میں ملوث نہیں ہو گیا لیکن یہ نہیں ہو سکتا۔ نہال سنگھ نہایت نیک صفت انسان تھا وہ کسی نامحرم کو قتل تو کر سکتا تھا لیکن آبروریزی کی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

نہال سنگھ کی غیر موجودگی لُچّا سنگھ کیلئے نہایت خوش آئند تھی اس لئے کہ نہال سنگھ نہ عیش کرو نہ کرنے دو کے فلسفے پر یقین رکھتا تھا۔ اس کو ندارد پا کر لُچّا نے اطمینان کا سانس لیا اور آہستہ سے میٹنگ روم کا دروازہ کھولا۔ چییں کی طویل کراہ کے ساتھ دروازہ کھل گیا۔ اندر گھپ اندھیرا تھا۔ لُچّا اپنے آپ سے بولا یہ بھی درست ہے۔ اس کمرے میں روشنی کا کیا کام۔ اسے یقین تھا کہ اس کمرے میں پڑے ہوئے لوگوں کے ہاتھ پیر بندھے ہوئے ہوں گے اس لئے کہ منصوبہ بندی کے دوران یہی طے ہوا تھا کہ یہاں لانے کے بعد ان کو باندھ کر چھوڑ دیا جائے۔

لُچّا سنگھ اب دیوار پر ہاتھ پھیر رہا تھا تاکہ بجلی کا بٹن تلاش کر سکے لیکن سوئچ بورڈ نہ جانے کہاں مر گیا تھا۔ وہ دیوار کے ساتھ آگے بڑھتے بڑھتے تقریباً کنارے پر پہنچ گیا تو اچانک اس کا ہاتھ بجلی کے بٹن سے ٹکرایا۔ جیسے ہی اس نے بٹن دبایا ایک دم سے کمرہ روشن ہو گیا۔

سُچّا نے دیکھا کمرہ خالی ہے مگر کونے میں ایک خاتون سرخ رنگ ساڑی پہنے کھڑی ہے اور ہاتھ جوڑ کر اس کا استقبال کر رہی ہے۔ اس کے چہرے پر نہایت دلنشین مسکراہٹ پھیلی ہوئی ہے۔ لُچا خوشی سے پاگل ہو گیا۔ اس نے پھر ایک بار اپنی نگاہ چاروں جانب دوڑائی کمرے میں ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا نہیں تھا۔ لُچّا سنگھ نے اپنے پستول کو جیب میں رکھا۔ چہرے پر بندھے نقاب کو نکال کر ایک جانب پھینکا اور عورت کی جانب بڑھنے لگا۔ اسے حیرت تھی کہ وہ عورت بلا حرکت اپنی جگہ جوں کی توں کھڑی تھی لُچّا نے سوچا ڈر گئی ہے۔ یہ اور بھی اچھا ہے۔

اس پہلے کہ لُچّا اسے اپنی بانہوں میں لیتا پیچھے سے نہال سنگھ کی گرجدار آواز آئی کون ہے؟ یہ سنتے ہی لُچّا کا ہاتھ بے ساختہ اپنی جیب میں پڑی پستول کی طرف گیا۔ نہال نے جب دیکھا یہ شخص پستول نکال رہا ہے تو اس نے کہا ہنڈز اپ اسی کے ساتھ لُچّا زمین پر بیٹھ گیا اور نہال نے گولی چلا دی۔

یہ سب بیک وقت ہوا لیکن اسی کے ساتھ ایک زبردست دھماکہ ہوا اور وہ عورت غائب ہو گئی۔ لُچّا نے جب یہ دیکھا تو وہ خوف سے غش کھا کر وہیں ڈھیر ہو گیا۔ اسے یقین ہو گیا تھا کہ وہ نادانستہ کسی چڑیل پر دست درازی کرنے جا رہا تھا۔ اچھا ہوا جو کہ چیخ مار کر بھاگ گئی اگر اس سے لپٹ جاتی تو کیا حشر ہوتا؟

نہال سنگھ کو اس بات پر حیرت تھی کہ گولی تو اس شخص کے سر کے اوپر سے گذر گئی پھر بھی یہ لمبا ہو گیا۔ سُچا سنگھ نے اندر سے گولی چلنے کی آواز سنی تو اس نے اپنے ساتھی کو ہدایت دی کہ دروازے پر نظر رکھے۔ از خود اشتعال دلانے والی حرکت نہ کرے۔ اگر پولس کو آتا ہوا دیکھے تو ہوا میں تین فائر کر دے۔ یہ فرار کا سائرن تھا۔

اندر آنے کے بعد سُچا سنگھ نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔ اس کے سارے گرگے اپنے اپنے کام مصروف تھے۔ دفتر کی ایک چیز کو توڑا پھوڑا جا رہا تھا اسے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ کسی نے فائر کی جانب توجہ نہیں دی اور نہ دہشت زدہ ہوا۔ ہر کوئی اپنے کام میں لگا ہوا تھا۔ اندر کے کام کی نگرانی نہال سنگھ کے ذمہ تھی اس لئے اسے میٹنگ روم کے باہر تعینات کیا گیا تھا لیکن وہ اپنی جگہ موجود نہیں تھا۔

سُچّا نے میٹنگ روم کا دروازہ کھلا دیکھا تو اندر داخل ہو گیا۔ کمرے میں عجب منظر تھا۔ لُچّا سنگھ زمین پر بے ہوش پڑا تھا اور نہال سنگھ اسے ہوش میں لانے کی کوشش کر رہا تھا۔

سُچّا نے پوچھا نہال اسے کیا ہو گیا؟

نہال بولا میں کیا جانوں۔ میں دو منٹ کیلئے حمام میں جا کر واپس آیا تو دیکھا کمرا روشن ہے۔ مجھے حیرت ہوئی یہ روشنی کس نے چلا دی۔ میں نے اندر جھانکا تو اس گدھے کو دیکھا۔ میں اسے پہچان نہ سکا۔ میں نے کہا ہینڈز اپ یہ جیب سے پستول نکالنے لگا میں نے گولی چلا دی یہ نیچے بیٹھ گیا اور بے ہوش ہو گیا۔

سُچّا بولا لیکن تو اپنے لُچّا سنگھ کو نہیں پہچان سکا؟ اگر یہ مر جاتا تو؟

آج ہمارے تمام ساتھی نقاب اوڑھے ہوئے ہیں۔ اس نے نہ جانے کیوں اپنی نقاب نکال کر ایک کنارے پھینک دی جسے میں نے بعد میں دیکھا۔ اگر یہ نقاب میں ہوتا تو میں سمجھتا کہ ہمارا آدمی ہے لیکن چونکہ یہ بے نقاب تھا اس لئے مجھے خیال ہی نہیں گذرا کہ ہمارے گروہ کا آدمی ہو سکتا ہے۔

سُچّا ہنس کر بولا یار لوگ ہمارے بارے میں غلط لطیفے نہیں بناتے۔

نہال نے کہا تو میرے بارے میں بول رہا ہے یا اس کے بارے میں؟

سُچا بولا یار اس معاملے میں ہم تینوں ایک سے ہیں خیر تو ایسا کر پانی لا میرا خیال ہے اس کو ہوش میں لانا ضروری ہے ورنہ اٹھا کر لے جانا ہو گا۔

لُچّا سنگھ ہوش آتے ہی چڑیل چڑیل چلّانے لگا یہ سُچا اور نہال کیلئے معمہ تھا۔

سُچّا بولا نہال قیدیوں کو باندھنے والی رسی لا۔ لگتا ہے یہ پاگل ہو گیا ہے۔

نہال جی سردار کہہ کر دروازے کی جانب دوڑا۔

لُچّا سنگھ نے جب دیکھا کہ اس کے سامنے سردار سُچّا سنگھ ہے اور وہ اسے بندھوانے کے احکامات صادر کر رہا ہے تو بولا سردار یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ میں پاگل نہیں ہوں میں تو آپ کا وفادار لُچّا سنگھ ہوں۔

سُچّا بولا مجھے نہ بتا کہ تو کون ہے؟ میں اندھا نہیں ہوں مجھے سب پتہ ہے اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تو پاگل ہو گیا ہے۔

لُچا نے کہا نہیں سرکار میں ٹھیک ٹھاک ہوں۔ وہ ۰۰۰۰۰۰وہ چڑیل ۰۰۰۰۰۰چڑیل۔

سُچا بولا جی ہاں اسی نے تیرا دماغ خراب کر دیا ہے کوئی بات نہیں اڈے پر چل کر تجھے لال مرچوں کی دھونی دیں گے نا تو وہ چڑیل بھاگ جائے گی اور تیرا دماغ درست ہو جائے گا۔

نہال پانی اور رسی لے کر آیا۔ نہال کے ہاتھ میں پانی دیکھ کر لُچا بولا لا میرے دوست پانی پلا یہ دیکھ سردار کا دماغ خراب ہو گیا جو مجھے پاگل کہہ رہا ہے۔

نہال ہنس کر بولا یار جو چیز موجود ہی نہ ہو وہ خراب کیسے ہو سکتی ہے؟ خیر تو پانی پی کر بتا کہ چڑیل کا کیا چکر ہے؟عورت تیرے حواس پر اس طرح سوار ہے کہ اندھیرے میں چڑیل تو دور بھالو بھی نظر آ جائے تواس کے پیچھے تو چل پڑے۔

لُچّا ہنس کر بولا یہ ہوئی نا سرداروں والی بات۔ اندھیرے میں بھلا کالا بھالو کیسے نظر آ سکتا ہے؟ وہ تو کونے میں کھڑی گوری چٹی چڑیل بھی نظر نہیں آ رہی تھی۔

کونے میں چڑیل؟؟؟ اوہو تو اس ہوا کے پتلے کی بات تو نہیں کر رہا؟ قسم سے بالکل عورت لگتی تھی میں نے بھی اسے چھو کر دیکھا تو یقین ہوا کہ قد حوا گڑیا ہے۔

سُچّا نے پوچھا یہ قد حوا کیا ہوتا ہے؟

ہوتا نہیں جناب ہوتی ہے۔ قدِ آدم اور بنتِ حوا کی مانند قدِ حوا!

لُچّا بولا دیکھا سردار یہ بات کو گھما رہا ہے۔ آپ مجھے بدمعاش اور نہال سنگھ کو بہت نیک سمجھتے تھے۔ دیکھا آپ نے یہ کیا کیا کرتا ہے؟ اگر وہ واقعی عورت ہوتی تو؟

نہال بولا اگر عورت ہوتی تو مجھے چھونے تھوڑی نا دیتی۔ اپنی جگہ ہلتی جلتی۔

سُچّا  بولا اگر تجھے پتہ تھا تو اسے چھو کر کیوں دیکھا؟

نہال شرما کر بولا یہ سب تو میں نے بعد میں سوچا لیکن جب دیکھا کہ یہ کیسی عورت ہے جو مجسمہ بنی کھڑی ہے تو مجھے حیرت ہوئی اور میں نے ۰۰۰۰۰۰۰

وہ پھر شرما گیا۔ سُچّا بولا کوئی بات نہیں تو بھی تو آخر انسان ہے اور تجھے اس کو رسی سے باندھنے کیلئے بھی تو کہا گیا تھا۔

نہال بولا جی ہاں اسی لئے میں نے چھوا تھا۔

سُچّا بولا اوئے لُچّا کیا اب بھی تجھے ۰۰۰۰۰۰۔

جی نہیں مجھے کسی دھونی کی ضرورت نہیں وہ چڑیل نہیں ۰۰۰۰۰۰۰۰۔

اب چپ کر مجھے سب پتہ ہے سُچّا سنگھ نے اپنا تکیہ کلام دوہرا دیا۔

اس گفتگو کے دوران سُچّا اور نہال نے بھی اپنا نقاب اتار دیا تھا۔ وہ تینوں اسی طرح باہر آ گئے۔ دفتر کی اینٹ سے اینٹ بجائی  جا چکی تھی۔ گروہ کے لوگوں نے دیکھا کہ سردار ان کی کار کردگی سے خوش ہے تو پوچھا سردار اب کیا حکم ہے؟

سُچّا بولا بہت خوب میرے شیرو تم لوگوں نے بڑی صفائی سے اپنا کام کیا اب جو کچھ بچا ہے اسے لوٹ لو جو چیز جس کے ہاتھ آئے وہ اس کی ہے اور ہاں آپس میں بھڑ نہ جانا۔ پانچ منٹ کا وقت ہے اس کے بعد دو فائر ہوں گے سب لوگ انہیں گاڑیوں میں جا بیٹھیں گے جس سے آئے تھے۔

سارے لوگ دعا کر رہے تھے کہ پولس اگلے پانچ منٹ تک نہ آئے۔ وہ سوچ رہے تھے کاش سردار یہ اعلان پہلے ہی کر دیتا تو وہ کسی قیمتی چیز کو برباد نہیں کرتے۔ ابھی تک ان کو اپنے جس کارنامے پر فخر و ناز تھا اچانک وہ حزن و ملال میں بدل چکا تھا۔ ابھی ایک منٹ کا بھی وقفہ نہ گزرا تھا کہ تین فائر ہو گئے۔ سارے لوگ گھبرا گئے پولس آ گئی۔ وہ سب بجلی کی سی سرعت کے ساتھ پچھلے دروازے سے باہر نکل کر اپنی گاڑیوں میں رفو چکر ہو گئے۔

دفتر کے صدر دروازے پر آ کر کھڑی ہونے والی گاڑیوں کو جب چوکیداروں نے دیکھا تو انہیں بھی گمان ہوا کہ پولس آ گئی۔ سب کو حیرت تھی کہ پولس نے اس قدر پھرتی کا مظاہرہ کیسے کر دیا؟ ارجن بولا یار بھگوان قسم کمال ہو گیا۔ چوکیداری کرتے کرتے میری عمر گزر گئی میں نے کبھی پولس والوں کو اس قدر سرعت کا مظاہرہ کرتے نہیں دیکھا۔

نکول بولا یار غلطی تو کوئی بھی کر سکتا ہے۔ کیا پولس والے اس سے مستثنیٰ ہیں۔

ارجن بولا کیسی بات کرتے ہو نکول پولس کا محکمہ تو سب سے زیادہ غلطیاں کرتا ہے۔ اس لئے کہ انہیں کوئی سزا نہیں دے سکتا۔

بھیم سنگھ نے اعتراض کیا سزا دینا یا رہا کر دینا عدالت کا کام ہے۔

سہدیو بولا یہ غلط ہے۔ یہ جو فرضی انکاؤنٹر آئے دن ہوتے ہیں اس میں کون سزا دیتا ہے؟ اس ملک میں پولس والوں کو موت کی سزا دینے کا بھی اختیار ہے۔ عدالت تو ہزار بار سوچتی ہے مگر وہ بے دریغ موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔

ارجن نے کہا اس کیلئے پولس کو الزام دینا درست نہیں ہے۔ میرا بھائی شارپ شوٹر ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ سارے انکاونٹر حکومت کے ایماء پر کئے جاتے ہیں پولس والے تو صرف کٹھ پتلی کی مانند استعمال کئے جاتے ہیں اور انعام و اکرام سے نوازے جاتے ہیں۔ اصل مرضی تو حکمرانوں کی ہوتی ہے۔

نکول بولا میں نے پولس کے ذریعہ سزا دینے کی بات نہیں کہی بلکہ پولس کو سزا دینے کی بات کہی تھی۔ آپ لوگ اسے دوسری جانب لے گئے۔ حفاظتی دستے جو بھی کریں ان کا بال بیکا نہیں ہوتا۔ ہاشم پورہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ بے شمار ثبوتوں کے باوجود کئی حکومتوں کی تبدیلیوں کے بعد بھی مظلوموں کو انصاف نہیں ملا۔ اس کا مطلب یہی ہوا کہ باہر سے ان میں لاکھ اختلاف سہی لیکن مظلومین کے خلاف یہ ساری سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی ہمنوا ہیں۔

بھیم سنگھ بولا اگر عدالت آزاد ہے تو ان کو سزا کیوں نہیں ملتی؟

سہدیو نے کہا میں نہیں مانتا کہ عدالت پوری طرح آزاد ہے۔ وہاں بھی سیاسی دباؤ کام کرتا ہے۔ با ضمیر ججوں کا تبادلہ کر دیا جاتا ہے۔

ارجن نے کہا جی ہاں اور تم نے سنا ہو گا کہ قانون اندھا ہوتا ہے اس کے ایک معنیٰ تو یہ ہیں کہ وہ تفریق امتیاز نہیں کرتا لیکن دوسرا مطلب یہ ہے کہ انہیں شواہد کی بنیاد پر فیصلہ صادر کرتا ہے جو عدالت میں پیش کئے جاتے ہیں۔ اب اگر پولس ثبوت پیش کرنے کے بجائے انہیں مٹائے اور گواہوں کو عدالت میں لانے کے بجائے انہیں ڈرا دھمکا کر روکنے کا کام کرے تو اندھا قانون اوندھے فیصلے سنا دیتا ہے۔

بھیم سنگھ نے کہا اندھا قانون تو سنا تھا یہ اوندھے فیصلے؟

ارجن بولا میرا مطلب وہ فیصلے جو سماعت پر گراں بار ہوں۔ جو سر کے بل کھڑے ہوتے ہیں یعنی سر نیچے اور پیر اوپر۔

بھیم سنگھ نے پوچھا یار ارجن پنڈت تمہارے وسیع تجربے کی بنیاد پر تم یہ بتاؤ کہ پولس کو سب سے پہلے کہاں آنا چاہئے؟

چوکیداروں کے کمرے میں اور کہاں ارجن نے جواب دیا۔

نکول بولا لیکن یہ پولس نما گاڑیوں سے نکلنے والے نقاب پوش تو سیدھے اندر چلے گئے۔

سہدیو نے کہا مجھے تو دال میں کالا لگتا ہے۔

بھیم سنگھ بولا مجھے تو یہ دال ہی کالی لگتی ہے۔ اب ہم کیا کریں۔

ارجن پنڈت بولا تم نے غالب کا شعر نہیں سنا ’بنا کر فقیروں کا ہم بھیس ۰۰‘

نکول نے کہا فقیروں کا نہیں چوکیداروں کا۔

بھیم سنگھ بولا ایک ہی بات ہے کیا فقیر اور کیا چوکیدار دونوں دروازے پر ہاتھ پھیلائے کھڑے رہتے ہیں۔

نکول بولا صرف ہاتھ نہیں پھیلاتے بلکہ ’’تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں ‘‘۔ یہی ہمارا کام ہے اور یہی ہم کریں گے۔

سہدیو بولا نے کہا ہمارے مونی بابا یہی کہا کرتے تھے ’’ مست رہو مستی میں آگ لگے بستی میں‘‘۔

بھیم سنگھ نے پوچھا بابا گیری سے پہلے تمہارے بابا چوکیداری تو نہیں کرتے تھے۔ اس راز کو تو وہی پا سکتا ہے جو کبھی نہ کبھی چوکیدار رہا ہو۔

سہدیو ناراض ہو کر بولا دیکھو بھیم سنگھ تم چاہو تو مجھے دس جوتے مار لو لیکن میرے بابا کے بارے میں کوئی اپ شبد نہ بولو۔ بابا کی قسم بہت تکلیف ہوتی ہے۔

بابا کی قسم کیوں؟ اپنی کیوں نہیں؟ نکول نے پوچھا۔

بھیم سنگھ نے کہا جھوٹ بول رہا ہے یہ بدمعاش اور چاہتا ہے کہ اگر کوئی آفت آئے تو اس پر یا اس کے بیوی بچوں پر نہیں بلکہ بابا پر آئے۔

سہدیو بولا بابا پر آفت کیسے آ سکتی ہے وہ ہماری تمہاری طرح پاپی تھوڑی نا ہیں۔ وہ تو لوہ پوروش ہیں بلکہ یگ پوروش۔

نکول بولا چھوڑ یار تو کیوں اپنے بابا کی مٹی ّپلید کرنے پر تلا ہوا ہے۔ ایک زمانے میں اڈوانی جی لوہ پوروش تھے لیکن پردھان جی نے انہیں کوہ پوروش بنا دیا۔

سہدیو نے کہا یہ کوہ پوروش کیا ہے؟

نکول بولا تجھے کوہ نہیں معلوم کوہ ہمالیہ یعنی ہمالیہ کا پہاڑ۔

سہدیو نے کہا تمہارا کیا مطلب وہ پہاڑ جیسے مہان اور وشال ہیں۔

نکول بولا نہیں یار میرا مطلب ہے جلد ہی وہ سنیاس لے کر کوہِ ہمالیہ کے دامن میں کیلاش پربت چلے جائیں گے اور وہیں دھنی رمائیں گے۔

بھیم سنگھ بولا جی ہاں میرے خیال میں یہی ان کیلئے بہتر ہے اس لئے مارگ درشک سمیتی کے موک درشک بن جانے کے بعد اب ان کے پاس کوئی متبادل بھی تو نہیں ہے۔ ویسے آج کے خبر میں یہ خبر بھی چھپی ہے کہ اڈوانی جی کے حلقۂ انتخاب گاندھی نگر میں تلاشِ گمشدہ کے پوسٹر لگے ہوئے اور ان تصویر کے نیچے لکھا ہے جو کوئی ہمارے رکن پارلیمان کو زندہ یا مردہ پکڑ کر لائے گا اسے ایک گؤ ماتا اور رام رتھ کے بے لگام گھوڑے انعام میں دئیے جائیں گے۔

ارجن بولا گھوڑوں اور گائے کے درمیان رشتہ سمجھ میں نہیں آیا۔

نکول نے کہا ان کا رشتہ کیلاش پربت سے متعلق ہے۔ اب ایسے مہا پوروش کیلاش پربت پیدل تھوڑی نا جائیں گے؟ گھوڑے پر بیٹھ کر جائیں گے اور گائے کا دودھ پئیں گے بس آخری عمر میں ان کے یہی دو ساتھی رہ جائیں گے جو موکش پراپتی میں ان کی مدد کریں گے۔

ارجن نے کہا بھائی وہ تو بہت بڑے آدمی ہیں۔ انہوں نے رام مندر کیلئے کیا نہیں کیا؟ ان کو موکش کی ضرورت ہی کیا ہے؟

سہدیو بولا پنڈت جی کیا نہیں کیا مت کہیے بلکہ بولئے کچھ نہیں کیا۔ انہوں نے تو جو کچھ کیا تھا وہ اقتدار کیلئے تھا۔ اب یہ حال ہے کہ ؎

نہ خدا ہی ملا اور نہ وصال صنم

نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے

ارجن نے پوچھا اڈوانی جیسے رام بھکت کا خدا اور صنم سے کیا لینا دینا۔

سہدیو بولا میرا مطلب ہے نہ کرسی ملی اور نہ مندر ملا۔ ہمارے مونی بابا کہتے ہیں کہ اگر انسان کی نیت ٹھیک نہ ہو تو اس کا یہی حال ہوتا ہے نہ دھرتی پر کچھ ملتا اور نہ آکاش میں۔ یہاں بھی نرک وہاں بھی۔

ارجن پنڈت نے کہا تم ابھی تو ان کو یگ پوروش کہہ رہے تھے اور اب۰۰؟

نکول بولا پنڈت جی آپ بھی الفاظ کے چکر میں پھنس گئے۔ یگ پوروش تو لوگ کیجریوال کو بھی کہتے تھے دیکھ لیا تم نے اس کا حال؟

سہدیو بولا جی ہاں وہ بنگلورو میں بیٹھ کر یوگا کر رہا ہے میں تو کہتا ہوں اس کا بھی یگ بیت گیا۔

بھیم سنگھ نے تردید کی۔ ابھی تو یگ آیا ہے اور تم کہتے ہو بیت گیا؟

سہدیو نے کہا یہ کیجریوال کا پونر جنم ہے۔ وہ کیجریوال مر گیا جو ہندوستان سے بدعنوانی کو ختم کرنے کیلئے سیاست میں آیا تھا۔ جس نے سوراج قائم کرنے کا نعرہ لگایا تھا۔ جو صاف شفاف سیاست کا علمبردار تھا۔ جو جن لوک پال کے قیام کا حامی تھا۔ تمام سرکاری مراعات کے خلاف تھا۔ اب تو سب کچھ بدل چکا ہے۔ یہ نیا کیجریوال ہے جس نے ان اقدار کی چتا جلا کر اپنے اقتدار کی شمع روشن کی ہے۔ ایک کیجریوال مر کر دوسرا جنم لے چکا ہے۔ زمانہ بدل چکا ہے۔

بھیم سنگھ بولا جی ہاں نہ صرف زمانہ بلکہ دفتر کے حملہ آور بھی بدل چکے ہیں۔

ارجن نے کہا لگتا ہے ان کا کام بھی ختم ہو گیا ہے اور وہ لوٹ رہے ہیں۔

نکول بولا یار نئے حملہ آور تو مجھے پہلے والوں سے بھی زیادہ خطرناک لگے ان کی تعداد بھی زیادہ تھی اور تیور بھی تیز تھے۔

ارجن بولا تم نے ان کا اسلحہ نہیں دیکھا یہ جدید تر ہتھیاروں سے لیس تھے۔

سہدیو نے کہا جی ہاں پہلے والے تو کسی طرح پہچانے بھی جاتے تھے لیکن ان لوگوں نے ایسے نقاب پہن رکھے تھے جس سے شناخت نا ممکن تھی۔

بھیم سنگھ بولا یار لٹیرے تو لٹیرے ہیں نئے یا پرانے کیا فرق پڑتا ہے؟

نکول بولا بالکل درست اب آئے گا لٹیروں کا تیسرا گروہ۔

ارجن نے چونک کر پوچھا تیسرا گروہ!!! تمہیں کیسے پتہ؟

نکول بولا لگتا ہے تم وردی پوش لٹیروں سے پوری طرح مایوس ہو گئے ہو؟

ارجن نے کہا تو کیا تم پولس کی پیشن گوئی کر رہے ہو؟

نکول بولا اب آپ سمجھے پنڈت جی لیکن کیا آپ کو نہیں لگتا کہ پولس والے بھی ان لٹیروں سے کم نہیں ہیں۔

بھیم سنگھ نے کہا اسے لگے یا نہ لگے مجھے تو صد فیصد یہی لگتا ہے بلکہ وہ تو سب سے بڑے لٹیرے ہیں۔ سرکاری وردی پہن کر لوٹتے ہیں، مارتے ہیں اور کیا کچھ نہیں کرتے؟ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ وہ جو چاہیں کر لیں ان کا بال بیکا نہیں ہوتا۔

سہدیو بولا اب بار بار پولس کو کوسنے سے کیا فائدہ یار نکول تم ایسا کرو چائے بناؤ۔ پولس کے انتظار میں چائے کا ایک دور ہو جائے۔

 

 

 

 

۲۵

 

اپنے نئے دفتر کے ایک خاص کمرے میں بیٹھ کر چنگو اور منگو اپنے پرانے دفتر کی بربادی کا تماشہ دیکھ رہے تھے اور خوش ہو رہے تھے۔ ان لوگوں نے اپنے دونوں دفاتر پر جدید ترین کیمرے نصب کروا رکھے تھے جن سے بہت ہی صاف تصاویر اور آواز انٹر نیٹ کے ذریعہ دور دراز مقامات تک پہنچائی جا سکتی تھیں۔ چنگو اور منگو نے اس تکنیک سے استفادہ کا بھر پور اہتمام کیا تھا۔ چنگو بڑے غور سے اگلے دن ٹیلی ویژن چینل پر نشر کرنے کیلئے اپنے دفتر میں توڑ پھوڑ کی تصویریں اور ویڈیو کلپس کے انتخاب میں منہمک تھا۔ جب وہ مختلف کیمروں کی عکاسی دیکھتے ہوئے چوکیداروں کے کیمرے میں پہنچا تو ہکا بکّا رہ گیا۔

چوکیداروں کی بات چیت کی جانب منگو کی توجہ مبذول کراتے ہوئے چنگو بولا یار اسے دیکھ کر میں تو میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہمیں ان پر منحصر ایک سیاسی سیریل بنانا چاہیے۔

منگو نے تائید کے ساتھ یہ اضافہ کیا کہ جی ہاں لیکن مزہ اس وقت آئے گا جب یہی لوگ اس میں اداکاری بھی کریں۔ ان کی فطری اداکاری اور منفرد مکالمے ہنگامہ ہو جائے گا صاحب ہنگامہ۔ روشنی، کپڑے، میک اپ اور دیگر لوازمات کے ساتھ اگر فلمبندی ہو تو ناظرین بھرپور لطف لیں گے۔

مہیش بولا اس سیریل کا نام ہونا چاہئے عام آدمی کی مہابھارت۔ اس لیے کہ مہابھارت کا کون سا کردار یہاں موجود نہیں تھے؟ اس کروکشیتر میں بی جے پی سے لے کر عام آدمی پارٹی تک سب کا وستر ہرن ہو سکتا ہے۔

منگو نے کہا میں تو کہتا ہوں یہ پروگرام اگر مدھو بالا کے ذمہ کر دیا جائے تو سارے تفریحی سیریلس اس کے آگے پانی بھریں گے۔

مہیش بولا لیکن ایک مسئلہ ہے اگر ہمارے چوکیدار اداکار بن جائیں گے تو چوکیداری کون کرے گا؟

نئے آ جائیں گے۔ چوکیداروں کی کیا کمی ہے۔

مجھے یقین ہے کہ نئے بھی ان سے کم دلچسپ نہیں ہوں گے۔

تب تو اور بھی اچھا ہے اگر کردار بدلتے رہیں گے تو لوگ بھی بور نہیں ہوں گے اور ہمیں مفت میں اداکار ملتے رہیں گے۔ سچ تو یہ ہے عام آدمی کا سیریل عام لوگوں کی جیب خالی کرنے کا بہترین ذریعہ بن جائے گا۔

چنگو بولا یار تم درمیان میں بے تکی بات کہہ کر رنگ میں بھنگ ڈال دیتے ہو۔

منگو نے پوچھا ایسا کیا کہہ دیا اس نے؟

یہی کہ ہم عام آدمی کی جیب خالی کریں گے۔ ہمارا تو مفت کا چینل ہے۔ ہم سیاستدانوں کو بے نقاب کر کے عام آدمی کی خیرخواہی کریں گے جبکہ تم ان کی جیب پر ڈاکہ ڈالنے کی بات کر رہے ہو۔

دیکھو دوست جب کیجریوال جیسا مہا پوروش حقیقت پسند بن گیا ہے تو ہماری اور تمہاری کیا بساط؟

یہ حقیقت پسندی نہیں بہتان تراشی ہے۔ چینل کا ڈاکہ زنی سے کیا تعلق؟

میں اگر حقیقت بتا دوں تو تمہارا اعتراض اپنے آپ ختم ہو جائے گا۔

ٹھیک ہے بولو میں سن رہا ہوں چنگو بولا ۔

اچھا یہ بتاؤ کہ اس پروگرام پر لوگ اشتہار دیں گے یا نہیں؟

اشتہار! اشتہار کی تو بھرمار ہو جائے گی اس لئے کہ جتنے ناظر اتنے ہی مشتہر۔

کیا مشتہرین ہم پر خیرات میں اپنی دولت لٹائیں گے؟

غیر متعلق باتوں میں مجھے نہ الجھاؤ میرے سوال کا سیدھا جواب دو۔

دھیرج رکھو اور میرے سوالات کا ہاں یا نہ میں جواب دو۔

ہرگز نہیں۔ ہم کسی سے خیرات کیوں لیں۔ ہم تو خیرات دینے والے ہیں؟

بہت خوب تو گویا اشتہار دینے والے ناظرین کی جیب کاٹیں گے اور اس میں سے ایک حصہ ہمیں دیں گے۔ کیا تمہیں نہیں لگتا کہ اس طرح ہم ان کی اس لوٹ مار میں حصہ دار ہو گئے۔

جی نہیں وہ اپنا مال بیچ کر جائز طریقہ پر جو کچھ کمائیں گے اس میں ہماری حصہ داری ہو گی۔

میرے دوست تم بہت سیدھے آدمی ہو۔ تم صارفیت کے مایا جال کو نہیں جانتے۔ جہاں غیر ضروری اشیاء کو انسانوں کی اہم ترین ضرورت بنا دیا جاتا ہے۔ ان کی ترجیحات کو بدل دیا جاتا ہے۔ ان کو حرص و ہوس کا بندہ بنا کراستحصال کیا جاتا ہے۔ انہیں بے وقوف بنایا جاتا ہے اور اس گورکھ دھندے میں سب سے بڑا کردار ہم جیسے سفید پوش ادا کرتے ہیں۔

تو کیا منگو ہم اپنا یہ چینل بند کر دیں؟

جی نہیں میرے دوست یہ میں نے کب کہا

اچھا تو تم کیا کہہ رہے ہو، چنگو نے سوال کیا۔

میں تو بس یہ کہہ رہا ہوں کہ بلا وجہ کی خوش فہمیوں سے نکلو اورسیاسی رہنماؤں کی مانند حقیقت پسند بن کر عیش کرو جیسے کیجریوال کر رہا ہے۔

مہیش اگروال جیسے بنیا کیلئے یہ ساری باتیں غیر اہم تھیں۔ اس کیلئے تو بس کیجریوال اہم تھا اس لئے کہ بڑے طویل عرصے کے بعد اس کی اپنی برادری کا کوئی آدمی سیاسی افق پر چمکا تھا۔ وہ کیا کر رہا تھا؟ کیوں کر رہا تھا؟ یہ سارے سوالات اگروال کیلئے غیر اہم تھے لیکن وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اپنے آخری جملے میں منگو نے کیجریوال کی تعریف کی تھی یا توہین۔ خیر وہ مداخلت کرتے ہوئے بولا آج ہمارے پاس بہت کام ہے اور تم لوگ غیر ضروری بحث میں الجھے ہوئے ہو میرا خیال ہے اس طرح کی لایعنی باتوں پر ہمیں اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔

چنگو بولا ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰لا۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰لایعنی؟؟؟

چنگو یہ بنیا ہے بنیا کیا سمجھے؟منگو نے گرہ لگائی

چنگو کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا وہ بات بناتے ہوئے بولا ویسے ہماری بات چیت کا تعلق بھی چینل کے پروگرام سے تھا۔

مہیش نے کہا میں یہ مانتا ہوں لیکن میری رائے ہے کہ فی الحال طول طویل منصوبہ بندی کے بجائے ہماری ساری توجہ کا مرکز کل کی نشریات ہونی چاہئیں۔ کل کا دن ہمارے لئے بے حد اہم ہے اس لئے کہ ’’فرسٹ ایمپریشن از لاسٹ ایمپریشن‘‘۔ میرا مطلب ہے پہلا نشہ زندگی بھر نہیں اترتا۔

چنگو بولا مجھے نہیں لگتا کہ انگریزی کا یہ محاورہ درست ہے۔

منگو نے تائید کی ہاں میرا خیال ہے اسے ایسے ہونا چاہئے کہ ’’فرسٹ ایمپریشن از لانگ لاسٹنگ ایمپریشن‘‘۔

جی ہاں اب جا کر بات بنی۔

مہیش بولا یار تم لوگوں کو آج کیا ہو گیا ہے میں نہیں جانتا؟ یہ بتاؤ کہ ان حملہ آوروں کی فلمبندی میں کسی کی شناخت ہو سکی یا نہیں؟ اس لئے کہ دیپک چوپڑہ پر ہاتھ ڈالنے کیلئے وہ ضروری ہے۔

چنگو نے کہا یاراس کے آدمیوں نے تو نقاب تک اتار پھینکے مگر تمہارے آدمی کمال تیاری سے گئے تھے لگتا ہے تم نے انہیں آگاہ کر دیا تھا۔

مہیش بولا جی ہاں یہ ہمارے اپنے تحفظ کیلئے ضروری ہے اس لئے کہ اگر ان میں سے کوئی پکڑا جائے اور ہمارا نام بتلا دے تو بازی الٹ جائے گی۔ لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔

چنگو نے پوچھا یہاں بھی لین دین یار تم بھی کمال کے آدمی ہو؟

منگو نے کہا یہ تو ایک محاورہ ہے تم الفاظ نہ پکڑا کرو۔

مہیش نے کہا نہیں بات لین دین کی ہے اگر وہ پکڑا جائے تو پولس والے الٹا ہم پر مقدمہ بنا دیں گے اور بیمہ والے ایک لال پیسہ نہیں دیں گے بدنامی الگ سے ہو گی۔ میں پہلے والے گروہ کے بارے میں پوچھ رہا ہوں۔

اس کا تو سردار بے نقاب ہو چکا ہے۔ اس کی تصویر کے ساتھ نام بھی سنائی دیتا ہے۔ اس کے ساتھی اسے سُچّا سنگھ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔

او ہو سُچّا میں تو کہتا ہوں دیپک سے بڑا کوئی گدھا نہیں ہو سکتا۔ مہیش بولا ۔ یہ سُچّا تو کرول باغ کا مشہور بدمعاش ہے۔ دیپک کو احتیاط کے طور پر کسی دور دراز کی گینگ سے کام لینا چاہئے تھا تاکہ پولس کو انہیں تلاش کرنے میں مشکل پیش آتی۔

چنگو بولا اچھا تو تم نے اپنے لوگوں کو کہاں سے بلوایا؟

چنبل سے اور کہاں سے؟

چنبل سن کر چنگو اور منگو چونک گئے۔ منگو بولا کہیں ان میں گبر تو نہیں تھا؟

مہیش کا زوردار قہقہہ فضا میں بلند ہوا۔

منگو بولا تب تو سانبا بھی رہا ہو گا۔

مہیش نے کہا یار تم کن فلمی لوگوں کے چکر میں پڑ گئے۔ یہ تو اصلی ڈاکو تھے اصلی! کیا سمجھے؟

چنگو بولا اچھا تو نئے زمانے کے ڈاکو یہ سب بھی کرنے لگے ہیں۔

مہیش نے کہا کیوں نہیں۔ ان کو دولت سے مطلب۔ اور یہ تو ویسے بھی بہت ہی محفوظ مہم تھی۔ ان کو پتہ ہے کہ پولس کو بھی ہم نے اپنا ہمنوا بنا لیا ہے۔ اس لئے ان کا کچھ نہ بگڑے گا۔

چنگو بولا وہ جو کہتے ہیں نا کہ ’’سیاں بھیے کوتوال تو ڈر کا ہے کا‘‘۔

مہیش نے بتایا کہ تمہیں یہ جان کر حیرت ہو گی ان ڈاکوؤں کے پولس سے تعلقات ہم سے بہتر ہیں۔

منگو بولا وہ کیوں؟

مہیش نے کہا یہ سوال میں نے رنگا ڈاکو سے کیا تو وہ بولا ہم پولس کے کام آتے ہیں اپنی لوٹ کا مال اس کے ساتھ بانٹ کر کھاتے ہیں۔ ان سے اسلحہ خریدتے ہیں۔ تم کیا کرتے ہو؟ بس اپنی شکایت لے کر ان کے پاس پہنچ جاتے ہو یا انہیں بدنام کرنے والی خبریں چھاپتے ہو؟

چنگو بولا یار یہ تو چوہے بلی کی ملی بھگت والی بات ہو گئی۔

مہیش بولا اور میں تمہیں ایک اندر کی بات بتاؤں؟

کیوں نہیں ہم اپنے اندر کے آدمی جو ہیں ضرور بتاؤ۔

اچھا تو میرے سوال کا جواب دو پولس کو سب سے زیادہ نفرت کس سے ہے؟

چنگو بولا ڈکیتوں سے تو نہیں ہو سکتی اس لئے کہ تم ابھی ابھی کہہ چکے ہو ۰۰۰۰

مہیش بولا جی ہاں یہ درست ہے لیکن میرا سوال کچھ اور تھا۔

منگو نے کہا سیاستدانوں سے ہو سکتی ہے اس لئے کہ فی الحال ہر کوئی ان سے نالاں ہیں اور وہ ان کا تبادلہ بھی تو کروا دیتے ہیں۔

مہیش بولا بالکل غلط۔ آج کے زمانے میں جیسے چور اور پولس کے درمیان گہری دوستی ہے اسی طرح پولس اور سیاستدانوں کا رشتہ ہے۔ وہ ایک دوسرے کے کام آتے ہیں اور ایک دوسرے کا تحفظ بھی کرتے ہیں۔ پھر چونکہ انتظامیہ حکمرانوں کے تابعدار ہوتا ہے اس لئے وہ سیاستدانوں سے ڈرتے بھی ہیں۔

چنگو بولا میرا خیال ہے عدلیہ سے وہ ناراض ہو سکتے ہیں اس لئے کہ وہاں پولس والوں کی بڑی خواری ہوتی ہے۔ کئی جج تو انہیں جی بھرکے بھلی بری سنا دیتے ہیں۔

مہیش بولا مجھے افسوس ہے کہ یہ اندازہ بھی غلط ہے۔ پولس والوں کی کھال اس قدر موٹی ہوتی ہے کہ ان پر جج حضرات کی ڈانٹ پھٹکار کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ وہ ہنستے ہنستے سب کچھ سہہ لیتے ہیں۔

منگو بولا وہ کیوں؟

مہیش نے جواب دیا اس لئے کہ انہیں پتہ ہے وہ دونوں ایک دوسرے کو نہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے ہیں اور نہ کوئی فائدہ دلا سکتے ہیں اس لئے باہم الجھنا بے سود ہے۔ عدالت اگر کسی مجرم کو رہا کر دے تو پولس کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور اگر کسی معصوم کو تختۂ دار پر لٹکا دے تب بھی انتظامیہ کو اس کی فکر نہیں ہوتی۔

منگو بولا یار مہیش اب پہیلیاں نہ بجھواؤ  اور تم خود بتلا دو کے پولس کے نشانے پر کون ہوتا ہے؟

مہیش نے کہا تم جیسے صحافی۔

( چنگو اور منگو ایک ساتھ) ہم لوگ؟؟؟ ہم سے ان کا کیا واسطہ؟

مہیش نے کہا میرے دوست پولس والوں کا کہنا ہے کہ یہ انسانی حقوق کیلئے لڑنے والے وکلاء اور صحافی حضرات نے سارا کام خراب کر رکھا ہے۔ وکلاء ایک معمولی سی چنگاری لگاتے ہیں مگر ذرائع ابلاغ اسے ہوا دے کر شعلۂ جوالا بنا دیتا ہے۔ اس سے کئی بار بنا بنایا کھیل بگڑ جاتا۔ جس مجرم کو وہ چھڑانا چاہتے ہیں وہ جیل چلا جاتا ہے۔

چنگو بولا لیکن ابھی ابھی تو تم نے کہا تھا کہ پولس کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی سزاپائے یا رہا ہو جائے؟

مہیش نے کہا یہ بات عام لوگوں سے متعلق ہے لیکن جن خاص لوگوں کو پولس بے قصور ثابت کرنا چاہتی ہے اگر ان کو سزا مل جائے تو پولس کو دکشنا نہیں ملتی اور اس سے سیدھے سیدھے نقصان ہو جاتا ہے۔

چنگو بولا یار مہیش تم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا۔

منگو بولا جی نہیں مجھے نہیں لگتا مہیش ہمارا بھی دوست ہے اور پولس والوں کا بھی اس لئے اس کے طفیل ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔

چنگو بولا جی ہاں اگر ایسا ہے تو اچھا ہے۔

مہیش نے کہا یار سچ تو یہ ہے کہ پولس والے کسی کی دوست نہیں ہوتے اس لئے ان سے ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہئے نہ جانے کب کس کے ہاتھ بک جائیں اور ہمارا کام تمام کر دیں۔ جس طرح ہم ان کی خدمات خرید سکتے ہیں اسی طرح ہمارا دشمن بھی یہ کر سکتا ہے اور یہ دنیا تو کھلی منڈی ہے۔ یہاں ہر لمحہ بولیاں لگتی رہتی ہیں ایمان بکتے رہتے ہیں۔ کس کا ایمان کتنے میں بکے گا کوئی نہیں جانتا؟

چنگو بولا مہیش اگر دیپک چوپڑہ نے پولس کو خرید لیا اور ہمارے خلاف کر دیا تو ہم بارہ کے بھاؤ بک جائیں گے اور میں نے سنا ہے وہ بڑا بارسوخ آدمی ہے۔

مہیش بولا تم نے سنا ہے لیکن میں اس کا اثرو رسوخ دیکھ چکا ہوں۔ کیا تم نہیں جانتے کہ میں نے اپنی زندگی کے کتنے سال اس بے وقوف کے ساتھ خراب کئے ہیں۔

مجھے پتہ ہے لیکن کیا تمہیں اس طرح کا خوف محسوس نہیں ہوتا؟

نہیں۔

منگو نے پوچھا کیا میں اس اعتماد کی وجہ جان سکتا ہوں؟

دیکھو منگو پولس کی ایک تو ملازمت ہے اور پھر اوپر کی آمدنی ہے۔ اسے پتہ ہے کہ یہ اوپر کی آمدنی اسی وقت تک ہے جب تک کہ وردی ہے جس دن وہ چھن جاتی ہے پولس والا برہنہ ہو جاتا ہے۔

لیکن اس نصیحت آمیز تقریر کا میرے سوال سے کیا تعلق؟

تعلق کیوں نہیں ہے؟صحافی کو تو از خود جواب تک پہنچ جانا چاہئے۔

تمہیں غلط فہمی ہے ہم لوگ ایسے پہنچے ہوئے بھی۰۰۰۰۰

ٹھیک ہے بھائی سمجھ گیا دیکھو ایسا ہے کہ پولس والے اپنی وردی کسی صورت داؤں پر نہیں لگاتے جب اس پر خطرات منڈلانے لگتے ہیں تو وہ اپنی ساری حکمت عملی بلکہ یوں سمجھ لو کہ وفاداری تبدیل کر دیتے ہیں۔ اب اس معاملے سارے شواہد ہمارے حق میں اور دیپک کے خلاف ہیں ایسے میں اگر ہم دونوں اس کو اپنے ساتھ کرنے کی کوشش کریں تو وہ یقیناً ہماراساتھ دے گی اس لئے کہ وردی محفوظ رہتی ہے۔

تو کیا سُچّا سنگھ کی تصویر اور آواز کی بدولت وہ ہمارے ساتھ ہو جائے گی؟

جی ہاں ان شواہد کے چلتے یوں  سمجھ لو کے دیپک کا چراغ بجھ گیا ہے۔ اب چوپڑہ کا مستقبل تاریک ہو چکا ہے۔

کیا یہ اس قدر سہل ہے؟ چنگو نے سوال کیا۔

جی ہاں مجھے لگتا ہے کہ دیپک چہار جانب سے گھر چکا ہے۔

اس کے سامنے تو ہم لوگ ہیں لیکن اس کے دائیں جانب چندن مترا ہے جو بظاہر اس کے ساتھ ہے لیکن در حقیقت ہمارا باس ہے۔ اس کے بائیں جانب رنجن پانڈے ہے جس کو چندن نے خرید لیا ہے۔ اب وہ دیپک کی آستین کا سانپ بن گیا ہے اور اسے ڈسنے کیلئے ہمارے اشارے کا منتظر ہے۔ اس کے پیچھے پولس والے ہیں۔

منگو بولا سیاسی حمایت کو تم بھول گئے۔

مجھے پتہ ہے کہ بی جے پی اس کے ساتھ ہے مگر عام آدمی پارٹی کی ہمدردیاں ہمارے ساتھ ہیں۔ ویسے اگر سنگھ پریوار کھل کر دیپک کیلئے کود پڑے تو بی جے پی کی مخالف ساری سیاسی جماعتیں بغض معاویہ میں ہماری حمایت کرنے لگیں گی یہ دیکھ کر خود سنگھ پریوار بھی اس کو بلی کا بکرا بنا دے گا۔

چنگو نے پوچھا یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو؟

مہیش بولا یہ میرا ۲۵ سالہ تجربہ بول رہا ہے۔ میں سنگھ پریوار کے ساتھ رہا ہوں۔ ان لوگوں کی نس نس سے واقف ہوں۔

منگو بولا تم یہ سب ’حب کیجریوال‘ میں تو نہیں کر رہے ہو؟

مہیش مسکرا کر رہ گیا۔

 

۲۶

 

دیپک چوپڑہ نے دفتر میں آنے کے بعد بڑے جوش میں رنجن پانڈے کو پکارا۔ رنجن صبح سے اس کا منتظر تھا۔ چندن نے ہدایت دے رکھی تھی کہ دیپک سے بات چیت کے دوران زیادہ سے زیادہ معلومات نکالنے کی کوشش کرے اور اس گفتگو کی ریکارڈنگ فوراً سے پیشتراس کو واٹس ایپ سے روانہ کر دے۔

رنجن جیسے ہی دیپک کے دفتر میں پہنچا اس نے کہا دیکھا تم نے! سو سنار کی تو ایک لوہار کی اسے کہتے ہیں۔ بہت دنوں سے وہ لوگ ٹُک ٹُک کر رہے تھے میں نے ایک ہاتھ میں سارے انڈے پھوڑ دئیے۔

رنجن انجان بنتے ہوئے بولا آپ کس کی بات کر رہے ہیں سرکار کون کیا کر رہا تھا؟ میں نہیں سمجھا؟

یار تم کیا بھنگ لگائے رہتے ہو؟دنیا میں کیا کچھ ہو رہا ہے یہ تمہیں نہیں پتہ؟

وہ ایسا ہوا کہ کل میرے گھر پر مہمان آ گئے اور رات گئے تک ان کے ساتھ گپ شپ چلتی رہی اسی وجہ سے صبح اٹھنے میں بھی تاخیر ہو گئی۔ سچ بتاؤں آج بچے اسکول بھی نہیں گئے۔ میں تو آپ کے ڈر سے چلا آیا ورنہ خواہش چھٹی لینے کی تھی۔

تو در اصل اسی وفا داری کی روٹی کھا رہا ہے ورنہ یقین کر تجھے کوئی اپنے یہاں چپراسی بھی نہیں رکھتا۔

رنجن کو دیپک پر بہت غصہ آیا لیکن کسی طرح ضبط کر کے بولا سرکار آپ لوہار اور سنار کو چھوڑ کر مجھ غریب کے پیچھے پڑ گئے۔

جی ہاں تو نے بات ہی ایسی کر دی خیر۔ وہ میں نے تجھ سے نہیں کہا تھا کہ میں نے سُچّا سنگھ کو آپ کی راجدھانی پر حملے کے لیے تیار کر لیا ہے۔

آپ نے کہا تھا بہت جلد اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی۔

جی نہیں میں نے کل کہا تھا کہ آج ہی یہ ہو جائے گا اور وہ ہو گیا۔

رنجن نے پھر سوال کیا سرکار کیا ہو گیا؟

ابے بیوقوف تیری باتیں سن کر تو مجھے وہ فلمی گانا یاد آ رہا ہے۔ ’’میں کا کروں رام مجھے گدھا مل گیا‘‘

رنجن بولا گدھا نہیں بڈھا مل گیا۔

اب میں اس عمر میں تجھے بڈھا تو نہیں کہہ سکتا اس لئے تیری صفت کے لحاظ سے گدھا کہہ دیا۔ اب وہ منحوس اخبار آپ کی راجدھانی کبھی نہیں آئے گا۔

پانڈے نے حیرت سے کہا کیا؟

اس کی سانس اکھڑ چکی ہے اب یہ سمجھ لو کہ انتم سنسکار باقی ہے۔

رنجن بناوٹی خوشی دکھاتے ہوئے بولا جناب آپ نے تو کمال کر دیا۔ دہلی میں عام آدمی کی سرکار کے ہوتے ہوئے یہ کارنامہ انجام دے دیا۔

ارے ان جھاڑو والوں کو کون پوچھتا ہے۔ دہلی پر تو ہمارا بھگوا پرچم لہرا ہے اور تجھے نہیں پتہ ہم ترشول دھاری ہیں۔

لیکن اگر کیجریوال کو پتہ چل گیا تو بڑا بونڈر ہو جائے گا۔

دیکھ رنجن اب کیجریوال سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اب اس کو آندولن نہیں چلانا سرکار چلانی ہے۔ لوگ تحریک چلانے کیلئے تو چندہ دیتے ہیں مگر حکومت چلانے کیلئے نہیں دیتے۔

رنجن بولا ایسا کیوں؟ سرکار ہو یا تحریک کام تو ایک ہی ہے؟

نہیں بے وقوف سرکار ٹیکس لیتی ہے تحریک نہیں لیتی اس لئے سرکار سے توقع کی جاتی ہے ٹیکس کی دولت ان کی فلاح بہبود پر خرچ کرے گی۔

تب تو ٹھیک ہے۔ اب چونکہ کیجریوال کے پاس اقتدار ہے ٹیکس اس کے پاس جمع ہو گا۔ اسے چندے کی ضرورت ہی کیا ہے؟

نہیں! انکم ٹیکس مرکزی خزانے میں جمع ہوتا ہے اور مرکزی حکومت اگر اسے روپیہ نہ دے تو اس کے تمام وعدے ہوا میں تحلیل ہو جائیں گے اور لوگ اس کو جھاڑو سے مار مار دہلی سے نکال باہر کر دیں گے۔

اچھا تو اب وہ بیچارہ کیا کرے گا؟

کرے گا کیا؟ بنگلورو جانے سے قبل ایک بار پردھان جی کے چرن چھو آیا اور اب پھر ملنے کیلئے پریشان ہے۔

تو کیا پردھان جی کو اس سے ڈر لگتا ہے جو وہ نہیں ملتے؟

ڈر کیسا؟ پردھان جی تو چین کے صدر چنگ سے بھی نہیں ڈرتے اروند کس کھیت کی مولی ہے۔

تو پھر وہ کیوں کترا رہے ہیں؟

کترا نہیں رہے بلکہ یہ سمجھ لے کہ ترسا رہے ہیں۔ سنا ہے انہوں نے پیغام دے دیا ہے کہ پہلے بھوشن اور یادو کو باہر نکالو پھر ہمارے پاس آؤ۔

چوپڑہ جی یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ کیا آپ کا مطلب ہے عاپ کی خانہ جنگی میں پردھان جی کا ہاتھ ہے؟

میں نے تو یہی سنا ہے اب کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ بھگوان جانے۔

رنجن کو مزہ آ رہا تھا وہ بولا لیکن میں نے تو کچھ اور ہی سنا تھا۔

اچھا تو نے کیا سنا تھا؟ مجھے بھی تو پتہ چلے؟

میں نے سنا تھا شاہ جی کی شئے پر عاپ کے اندر یہ مہابھارت چھڑی ہوئی۔ ان کی حکمتِ عملی یہ ہے کہ ان کو آپس میں لڑا کر عوام کی نظروں سے گرا دو تاکہ وہ خود اس پر جھاڑو پھیر دیں گے اسی لئے وہ کیجریوال کو کمزور کرنے کیلئے بھوشن اور یادو کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔

مجھے نہیں لگتا وہ دونوں بڑے اصول پسند ہیں اور ہمارے بدعنوان سرمایہ داروں کو انہیں لوگوں سے بہت ڈر لگتا ہے۔

لیکن شانتی بھوشن ایک زمانے میں بی جے پی میں بھی تھا۔

یہی تو وجہ ہے کہ کیجریوال اورسسوددیہ اس کے خلاف زبان نہیں کھولتے۔ تم ابھی بچے ہو کچھ نہیں جانتے۔

رنجن نے مطلب پر آتے ہوئے کہا آپ کے سامنے تو بڑے بڑے سیاستداں دودھ پیتے بچے ہیں خیر یہ بتائیے کہ آخر اس’ آپ کی راجدھانی‘ کا کیا بنا؟ مجھے تو ڈر لگ رہا ہے کہیں ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۔

رک کیوں گیا تو بول کیا کہنا چاہتا تھا؟

یہی کہ کہیں گیہوں کے ساتھ گھن بھی نہ پس جائے۔

اوئے پانڈے تو تو بڑا خود غرض نکلا۔ مجھے تم براہمنوں کے بارے میں سب پتہ ہے تجھے میری نہیں اپنی پڑی ہے لیکن فکر نہ کر جب تک میں ہوں تیرا بال بیکا نہیں ہو گا اور جب تک مرکز میں اپنی سرکار ہے کوئی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیا سمجھا؟

سمجھ گیا سرکار سب سمجھ گیا۔ اب آگے کا کیا منصوبہ ہے؟

کوئی خاص نہیں اس نئے فتنہ کے ختم ہوتے ہی ہمارے قاری پھر سے لوٹ آئیں گے۔ اپنے اخبار کا بولا بالا ہو جائے اور اس بدمعاش چنگو کا منہ کالا ہو جائے گا۔ اس کا اخبار کبھی بھی بازار میں نہیں آئے گا۔

اس گفت و شنید کے دوران اچانک ککڑ سنگھ وہاں آ پہنچا۔ اس کے ہاتھ میں ’آپ کی راجدھانی‘ اخبار تھا۔ رنجن نے پوچھا اوئے یہ کیا لے آیا؟

یہ اخبار ہے صاحب ’آپ کی راجدھانی‘۔

یہ تجھے کہاں ملا؟

بازار میں اور کہاں؟آج تو یہی بک رہا ہے۔ دیپک نے جھپٹ کر اخبار چھینا تو اس میں کوئی خبر نہیں تھی صرف یہ لکھا تھا ’عام آدمی کے دشمنوں نے عام آدمی کے اخبار کے دفتر کو تباہ برباد کر دیا۔ اس نے ہمیں زخمی کیا مگر ہم زندہ ہیں تاکہ اس سے بدلہ لے سکیں۔ ہماری تباہی اور بربادی کے مناظر دیکھنے کیلئے ’آپ کا چینل راجدھانی‘ دیکھئے۔ اس روز پھرسے اخبار کی قیمت صرف دس پیسے تھی اور یہ اعلان بھی کیا گیا تھا کہ اس آمدنی کو زخمیوں کے علاج پر صرف کیا جائے گا۔ اس کارِ خیر میں دل کھول کر یوگ دان کریں۔

اس دن کا اخبار در اصل بلا واسطہ چینل کا اشتہار تھا جو سارے شہر میں آگ کی طرح پھیل گیا تھا۔ اخبار کے دفتر کی توڑ پھوڑ نے راجدھانی چینل کو پہلے ہی دن بے حد مقبول بنا دیا تھا۔ دفتر کی تباہی سے جو نقصان ہوا تھا اگراس سے دس گنا زیادہ رقم بھی وہ لوگ تشہیر پر خرچ کرتے تو یہ فائدہ نہ ہوتا۔

آپ کی راجدھانی پر حملہ کو ذرائع ابلاغ کی آزادی پر قدغن کا نام دیا گیا تھا اس لئے میڈیا کی ساری برادری اس کی مذمت کرنے لگی۔ اس چینل پر ہر ایک گھنٹے میں پہلے نصف گھنٹہ خبریں نشر ہوتی تھیں اور دوسرے نصف گھنٹے میں آپ کی راجدھانی کے حوالے سے تصاویر اور فلمیں دکھائی جاتیں جو دفتر میں لگے کیمروں سے اتاری گئی تھیں۔ اسی کے ساتھ پولس افسران کے بیانات، سیاسی رہنماؤں کے خیالات، دانشوروں اور صحافیوں کے تاثرات نشر ہوتے تھے۔

اس خصوصی نشریہ میں چنائی سیٹھ کو بھی دعوت دی گئی۔ وہ منگو سے ملاقات کی خاطر حاضر ہو گئے اور بڑے پر زور انداز میں آج کی راجدھانی اخبار پر ہونے والے حملے کی مذمت کی۔ ریکارڈنگ کے بعد منگو چنائی سیٹھ کو اپنے کمرے میں لے گیا جس پر لکھا تھا مینیجنگ پارٹنر۔ کمرے میں منگو نے اپنی کرسی پر سیٹھ جی کو بٹھایا اور بولا سیٹھ جی۔ میں آج جو کچھ ہوں آپ کی بدولت ہوں۔ سمع و بصر کی دنیا میں میرے سب سے بڑے گرو آپ ہیں۔

چنائی سیٹھ کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ انہوں نے اسے ڈائرکٹر تو بنایا لیکن سارے اختیارات اپنے پاس رکھے کاش کے وہ اسے اپنا پارٹنر بنا لیتے۔ وہ بولے ایسا نہیں ہے منگو ۔ یہ تو تیری خداداد صلاحیت اور محنت و مشقت کا ثمر ہے لیکن میں ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں؟

کہیے گرو دیو میں حاضر ہوں۔

دیکھ تو پہلے خود میرے چینل سے نکل بھاگا۔ اس کے بعد مدھو بالا کو بھگا دیا۔ اب وجینتی مالا بھی نکل گئی ہے۔ آخر یہ سب کیا ہو رہا ہے؟

سیٹھ یہ دنیا مایا جال ہے یہاں کوئی کسی کو نہیں بھگاتا بلکہ ہر کوئی مایا کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے۔

یہ درست ہے لیکن یہ بتا کہ آخر تو چاہتا کیا ہے؟ اس عمر میں میرے لیے پہلے جیسی محنت و مشقت ممکن نہیں ہے۔ میں تو سوچ رہا تھا کہ تجھے سارا کام سونپ کر عمر کا آخری حصہ سکون کے ساتھ گذاروں گا لیکن تو میرا چین و سکون غارت کرنے پر تلا ہوا ہے۔

جی نہیں! مگر سیٹھ قسمت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے۔ میں تو کہتا ہوں اب بھی آپ اطمینان کی زندگی گذار سکتے ہیں۔

تو کیا تو یہ سب چھوڑ کر پھر سے میرے ساتھ آ جائے گا؟

جی نہیں سیٹھ یہ تو نا ممکن ہے۔ گھڑی کے کانٹے کبھی پیچھے نہیں مڑتے لیکن میں آؤں یا آپ آئیں ایک ہی بات ہے؟

میں نہیں سمجھا کھول کر بول۔

مترا جی نے آپ سے پہلے بھی چینل خریدنے کی بات کی تھی لیکن آپ نے انکار کر دیا خیر وہ ماضی کا فسانہ تھا آج کی حقیقت یہ ہے کہ اب ان کے پاس ایک چینل ہے اور آپ کے پاس تین چینلس ہیں۔ آپ دونوں کے اشتراک میں سب کا فائدہ ہے۔

کیا اب بھی چندن مترا اس کیلئے تیار ہو جائے گا؟

میں کوشش کروں گا اور مجھے یقین ہے کہ وہ راضی ہو جائیں گے۔

دیکھ منگو پہلے انہوں نے خریدنے کی پیشکش کی تھی اور مجھے یقین تھا کہ تیری مدد سے میرا چینل چل پڑے گا لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔ میرا داہنا ہاتھ ٹوٹ چکا ہے اور تو پارٹنر شپ کی پیشکش کر رہا ہے۔ ایک خاص بات اور ہے۔

وہ کیا؟ منگو نے سوال کیا۔

میں چندن مترا کو نہیں جانتا اس لئے اس پر اعتماد نہیں کر سکتا لیکن تیری بات اور ہو۔ تو مجھے چھوڑ تو سکتا ہے لیکن دھوکہ نہیں دے سکتا۔

منگو نے اپنی جگہ سے اٹھ کر چنائی سیٹھ کے قدم چھوئے۔ انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور بولے دیکھ منگو میری کوئی اولاد نہیں ہے تو میرے بیٹے جیسا ہے اور مدھو بالا میرے گاؤں کی بیٹی ہے کسی طرح اپنے نئے چینل میں اسے بلا لے۔ مجھے اس کی بہت یاد آتی ہے۔

جی ہاں سیٹھ میں کوشش کروں گا اور۰۰۰۰۰۰۰۰

اور کیا ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰؟

اور کچھ نہیں سیٹھ آپ بھی میرے لئے پتا سمان ہیں۔ اس کے بعد دل ہی دل میں بولا وہ بہت جلد آپ کی بہو بن جائے گی۔

چنائی سیٹھ دروازے کی جانب بڑھ گئے۔ منگو ان کے پیچھے تھا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

راجدھانی چینل پر آپ کی راجدھانی اخبار کے دفتر میں زخمی ہونے والوں کی داستانِ الم نہایت دلسوز انداز میں پیش کی جا رہی تھی۔ عملہ میک اپ کر کے اور نقلی پٹی باندھ کر وہ سب کہہ رہا تو جو ان کو رٹایا گیا تھا جبکہ حقیقت میں ایک بھی فرد زخمی نہیں ہوا تھا۔ وہ لوگ اداکاری کر رہے تھے اس کے باوجود عام ناظرین پرسب سے زیادہ اثرانداز ہو رہے تھے۔

یہ پروگرام اس قدر مقبول ہو گیا کہ تمام چینل اس کا کچھ نہ کچھ حصہ دکھانے پر مجبور ہو گئے۔ اس طرح گویا مسابقین سے مفت میں تعاون حاصل ہونے لگا۔ اس دوران شام کو ہونے والے مظاہرے کی خوب تشہیر کی گئی اور راجدھانی چینل پر اس مظاہرے کی براہِ راست نشریات ہونے لگیں۔ اس پروگرام کی ٹی آر پی پہلے ہی دن بہت سوں سے آگے نکل گئی۔

اگلے دن چینل کے دفتر سے آپ کی راجدھانی اخبار کا ایک خصوصی شمارہ بازار میں آیا اور اس کی اشاعت نے پرانے سارے ریکارڈ توڑ دئیے۔ اس کا اثر دوسرے اخبارات پر بھی پڑا تھا مگر راجدھانی ایکسپریس کی تو جان ہی نکل گئی۔ راجدھانی ایکسپریس کی زیادہ تر کاپیاں اس لئے بھی واپس ہو گئیں کہ اس نے آپ کی راجدھانی پر حملے کو نظر انداز کرتے ہوئے مقامی خبروں میں مختصراً بیان کر دیا تھا۔ آپ کی راجدھانی کے حق میں میڈیا کے متحدہ احتجاج کی خبر پوری طرح غائب کر دی گئی تھی۔ عوام و خواص نے راجدھانی ایکسپریس کے معاندانہ رویہ کو محسوس کیا اور اس کی مذمت بھی ہونے لگی۔

پولس اپنا کام کر رہی تھی مہیش اگروال نے اے سی پی کو کھلا پلا کر اپنا ہمنوا بنا رکھا تھا۔ کیمرے کے فیتوں کی مدد سے مجرمین کی شناخت میں لگی پولس نے سُچّا اور لُچا سنگھ کو پہچان لیا اور وہ گھر سے اٹھا لیے گئے۔ ان کے اہل خانہ کو تلقین کر دی گئی کہ ویسے تو صرف تفتیش کیلئے لے جایا جا رہا ہے لیکن اگر شور شرابہ کیا تو مقدمات میں پھنسا دیا جائے گا۔

پولس تھانے میں دھنائی کے بعد دونوں نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا لیکن پولس نے بتایا کہ اگر وہ سازش کا راز فاش کر دیں تو انہیں وعدہ معاف گواہ بنا لیا جائے گا۔ یہ لالچ اچھے اچھوں کو پگھلا دیتا ہے۔ ان لوگوں نے دیپک چوپڑہ کا نام بتا دیا۔ پولس نے ان کا بیان کی بنیاد پر دیپک کو حراست میں لے لیا۔

دیپک چوپڑہ کی گرفتاری سے میڈیا اور سیاست کی دنیا میں بھونچال آ گیا۔ وہ تمام لوگ جو اس کے اہانت آمیز رویہ کا شکار ہوئے تھے ایک ایک کر کے آگے آنے لگے لیکن سنگھ پریوار کے ہمنوا دیپک کی حمایت میں ریشہ دوانیاں کرنے میں جٹ گئے اور اسے چھڑانے کیلئے دباؤ بڑھانے لگے۔

اس دوران مہیش اگروال نے پانڈے سے رابطہ کیا اور اسے سب کچھ سچ سچ بتانے کی شرط پر اپنے اخبار میں ملازمت کی پیشکش کر دی۔ رنجن پانڈے نے سوچا راجدھانی ایکسپریس کے ڈوبتے جہاز سے کود کر بھاگنے کا اس سے بہتر کوئی موقعہ نہیں ہو سکتا۔ پھر کیا تھا! پولس نے شک کی بنیاد پر رنجن کو حراست میں لیا اور اس نے دیپک چوپڑہ کی منصوبہ بندی طشت از بام کر دی۔

پولس نے جب پو چھا کہ کیا اس سازش میں چندن مترا کا بھی ہاتھ ہے؟

رنجن بولا وہ اس میں بالکل بھی ملوث نہیں ہے۔ دیپک نے ساری کار روائی اسے اندھیرے میں رکھ کر کی تھی۔ بیان لینے کے بعد پولس نے رنجن کو چھوڑ دیا۔

دوسرے دن راجدھانی چینل سے رنجن پانڈے کا انٹرویو نشر ہو رہا تھا۔ مس چنبیلی کا چیتنا چینل پر یہ پہلا پروگرام تھا ’’کام سے کام اور نام کا نام ‘‘۔ اس پروگرام کی ساری اسکرپٹ منگو نے خود لکھی تھی اور پانڈے تو بس کیمرے کے پیچھے والی دیوار پر لکھے جواب پڑھ رہا تھا۔

اس کے بعد سنگھ والوں نے بھی دیپک چوپڑہ کو بچانے کا ارادہ بے سود سمجھ کر ترک کر دیا۔ وقتی طور پر کچھ روز جیل میں سڑنے کیلئے چھوڑ کر معاملہ ٹھنڈا ہونے کا انتظار کرنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی۔ ان کا خیال تھا کہ آگے چل کر پولس کی مدد سے مقدمہ کمزور کرنے کے بعد کسی اپنے جج سے اسے چھڑا لیا جائے گا۔

دیپک چوپڑہ کی ساری توقعات چندن مترا سے وابستہ تھیں لیکن اس نے تو اس موقعہ پر ایک ایسا اعلان کر دیا کہ سارا کھیل بگڑ گیا۔ چندن مترا نے ایک پریس کانفرنس بلائی اور اس میں سب سے پہلے لالہ جی کو خراج عقیدت پیش کیا ان کی عظیم خدمات کو گنانے کے بعد دیپک چوپڑہ کے گھناؤنے کردار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر آج لالہ جی زندہ ہوتے ان کو دل کا دورہ پڑ جاتا بلکہ شاید وہ اپنے دیرینہ خواب کو پوری طرح چکنا چور ہونے کا صدمہ نہیں سہہ پاتے۔

چندن مترا نے اسی کے ساتھ اخبار کے بند ہونے کا اعلان کر دیا اور یہ یقین دہانی کرائی کہ اخبار کے دفتر میں کام کرنے والوں کو وہ اپنی دیگر کمپینیوں میں ملازمت کی پیشکش کرے گا۔ لالہ جی کو اپنے عملہ سے بہت محبت تھی اس لئے وہ نہیں چاہتا کہ کسی کے بے روزگار ہونے سے لالہ جی کی آتما کو دکھ پہنچے۔ چندن مترا نے ایک ایسے وقت میں دیپک کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا تھا جبکہ وہ سکرات کے عالم میں مبتلا تھا۔

راجدھانی ایکسپریس کی چتا پر راجدھانی چینل کی روٹیاں اس خوبی سے سینکی گئی تھیں کہ چینل مختصر سے عرصے میں اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا۔ چینل کا جھکاؤ عاپ کی جانب ہو گیا تھا اس لئے اپنی غیر جانبداری ثابت کرنے کیلئے منگو نے ایک نیا پروگرام ترتیب دیا تاکہ بیک وقت عاپ اور بھاجپ کے ناظرین کا دل جیت لیا جائے۔ یہ پروگرام آم کے آم گٹھلیوں کے دام کی ضد تھا۔ اس کا نام تھا ’’عام آدمی اور خاص عورت: آمنے سامنے ‘‘ جس میں ایک فرضی کردار گاما پہلوان کو چاندنی نامی سماجی کارکن کا انٹرویو لینا تھا۔ اس پروگرام میں چنچل چاندنی کا کردار وجینتی مالا نے اس خوبی سے ادا کیا کہ لوگ جان ہی نہیں پائے یہی مہابھارت کی دروپدی ہے اور گاما پہلوان رامائن کا ہنومان ہے۔

اس پروگرام سے قبل منگو اپنے مخصوص انداز میں پردے پر نمودار ہو کر بولا بھائیو اور بہنو آپ نے سنا ہو گا ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک ناکام عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ کیا نہیں سنا؟ کوئی بات نہیں ۰۰۰۰۰۰ اب سن لیجئے ۰۰۰۰کہ یہ بات غلط ہے۔ یہ آدھی حقیقت ہے اور آدھا فسانہ ہے۔ میں آپ کو پوری سچائی بتاتا ہوں یعنی اردھ ستیہ نہیں بلکہ پورن ستیہ۔

حقیقت یہ ہے ہر عام آدمی کے پیچھے ایک خاص عورت ہوتی ہے گویا ہر خاص عورت کے آگے ایک عام آدمی ہوتا ہے۔ اب میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ اگر یہ عام آدمی پیچھے مڑ کر دیکھے تو کیا ہو گا؟ ہمارا پروگرام شروع ہو جائے گا۔ عام آدمی اور خاص عورت آمنے سامنے ہو جائیں گے۔ آئیے ذرا پیچھے مڑ کر دیکھیں کہ ہمارے عام آدمی کے ساتھ فی الحال کون سا خاص سلوک ہو رہا ہے؟

اسی کے ساتھ منگو کی جگہ گاما پہلوان نے لے لی۔ اب وہ ہاتھ جوڑ آمنے سامنے پروگرام میں ناظرین کا استقبال کر رہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا میں ہوں ایک عام آدمی گاما پہلوان اور میرے سامنے ہے ایک خاص عورت چاندنی دیوی۔ یہ پرانی دلی کے دل چاندنی چوک کی رونق ہیں۔ یہ ایک زمانے تک وہاں کی سیاست میں بہت فعال تھیں۔ آج سیاست سے کنارہ کش ہو چکی ہیں لیکن ان کی مقبولیت برقرار ہے۔ ان کی سدا بہار مقبولیت کا اعتراف کرتے ہوئے گزشتہ۵۰ سالوں سے پرانی دہلی کے منچلے یہی نغمہ گنگناتے ہیں:

سو سال پہلے ہمیں تم سے پیار تھا۔

آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا۔

چاندنی نے خوش ہو کر جواب دیا آپ کا بہت شکریہ گاما پہلوان آپ تو کشتی کے اکھاڑے کے ساتھ ساتھ شاعری کے میدان میں بھی رستم زماں نکلے۔ ویسے آپ کی اس تعریف کے جواب میں ناظرین سے میں یہی کہنا چاہوں گی کہ ؎

صدیوں سے جھاڑو، کمل اور ہاتھ بے قرار تھا۔

آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا

گاما نے کہا محترمہ چاندنی آپ نے تو پہلے ہی راونڈ میں اپنی حاضر جوابی کا لوہا منوا لیا لیکن کیا ہم اس پیروڈی کو ایسے نہیں پڑھ سکتے ؎

صدیوں سے جھاڑو والا کمل بے قرار تھا

آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا

کیوں نہیں بے شک پڑھ سکتے ہیں۔ آج کل تو دہلی کی یہ حالت ہے کہ کبھی ہاتھ میں کمل، بغل میں جھاڑو تو کبھی کمل کے ہاتھ میں جھاڑو۔

گویا جھاڑو ہاتھ اور بغل دونوں جگہ موجود ہے۔ آپ نے دہلی کے عوام کی بہترین عکاسی کی ہے لیکن وضاحت کر دوں کہ میں رستم زمان نہیں بلکہ رستم کمان ہوں۔

چاندنی بولی یہ لقب تو میں نے پہلی بار سنا ہے۔

ترکمان گیٹ تو آپ جانتی ہی ہیں  ۔ میں نے وہاں کے سارے پہلوانوں کو زیر کیا ہے اس لئے رستم کمان کہلانے پر اکتفاء کرتا ہوں۔

خیر زمان یا کمان ایک ہی بات ہے مجھے اس اعتراف میں کوئی عار نہیں کہ اتنی بہاریں دیکھنے اور جوانی کی دہلیز سے نکل کر بڑھاپے کے پڑاؤ میں داخل ہونے تک کسی نے میری ایسی تعریف نہیں کی جیسی آج ہوئی ہے۔

محترمہ تب تو مجھے بھی کہنے دیجئے کہ آپ سے بڑا حقیقت پسند انسان اپنی زندگی میں نے نہیں دیکھا۔

وہ کیسے؟

اس دور میں تو مرد بھی اپنے بڑھاپے کا اعتراف نہیں  کرتے آپ نے عورت ہو کر جرأت کی اور اپنی کبر سنی کو تسلیم کر لیا بہت بڑی بات ہے۔

ویسے آپ کے خیال میں میرا یہ اعتراف درست ہے یا نہیں؟

میں آپ کی ہر بات مان سکتا ہوں لیکن یہ نہیں۔ اس لئے کہ آج بھی چاندنی چوک کا حسن چاندنی دیوی پر ناز کرتا ہے۔ آپ صدا بہار ہیں۔

چاندنی دیوی کا چہرہ کمل کی مانند کھِل گیا اور چہار جانب چاندنی بکھر گئی۔ وہ بولی لیکن گاما پہلوان مجھے تو سیاسی گفتگو کیلئے بلایا گیا تھا؟

جی ہاں! عام آدمی پارٹی کے موجودہ خلفشار کو آپ کیسے دیکھتی ہیں؟ اس کے اسباب و عوامل پر چاندنی میرا مطلب ہے روشنی ڈالیں؟

عام آدمی پارٹی (عاپ) میں برپا ہونے والی سر پھٹول کے پس پردہ وہی سبق کارفرما ہے جسے سیکھنے کیلئے اروند کیجریوال ایوانِ اقتدار میں گئے تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ انہوں قومی سیاست کا درس بہت جلد ازبر کر لیا ہے یہی وجہ ہے کہ کانگریس اور بی جے پی کا اصلی چہرہ دکھلانے والے کیجریوال کا اپنا رعونت بھرا چہرہ ساری دنیا کے سامنے آ گیا ہے۔

آپ نے دہلی کے چہیتے رہنما پر اتنا سنگین الزام لگا کر دلی والوں کی دلآزاری کی ہے۔ آپ کو اپنے اس دعویٰ کی دلیل پیش کرنی ہو گی۔

لیجئے وہ بھی حاضر ہے چاندنی اٹھلا کر بولی میں تو کہتی ہوں کہ پرشانت بھوشن اور یوگیندر یادو کو پارٹی سے نکالنے کیلئے جو حربہ آپ کے چہیتے رہنما نے استعمال کیا ہے اسے دیکھ کر پردھان جی بھی حیران ہوں گے۔ ان کو احساس ہو گیا ہے کہ پارٹی کے اندر اپنے حریفوں کو ٹھکانے لگانے کیلئے جو خونریزی انہوں نے کی تھی وہ چنداں درکار نہیں تھی اس کے بغیر بھی صفائی سے یہ کام ہو سکتا تھا بقول مرحوم کلیم عاجز؎

دامن پہ کوئی چھینٹ، نہ خنجر پہ کوئی داغ

تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

آپ کے پیش کردہ اس بہترین شعر  کو سمجھنا مجھ جیسے پہلوان کے بس کا روگ نہیں ہے پھر بھی میں واہ واہ کہنے پر مجبور ہوں خیر کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ جن کو نکالا گیا ان سے اختلاف کی نوعیت کیا تھی؟

عام آدمی پارٹی کے اختلافات انتخابی مہم کے دوران سامنے آ گئے تھے۔ مثلاً داغدارپس منظر کے لوگوں کو پارٹی کا ٹکٹ دیا جانا۔ امیدوار کے پاس شراب کا پکڑا جانا اور غلط طریقوں سے چندہ جمع کرنا وغیرہ۔

کیا یہ ہندوستان کی سیاست میں یہ معمولی باتیں نہیں ہیں؟

جی ہاں یہ عام بات ہے۔ عاپ بھی اگر ایک عام سی سیاسی جماعت ہوتی تو اسے نظر انداز کیا جا سکتا تھا لیکن چونکہ اسے اصول و نظریات کی حامل ایک خاص جماعت سمجھا جاتا تھا اس لئے بجا طور پر اعتراض کیا گیا۔

کیا ان خرابیوں کی اصلاح کوئی بہت مشکل کام تھا؟

جی نہیں اگر آئندہ کیلئے داغدار لوگوں کو ٹکٹ دینے سے توبہ کر لی جاتی، خاطی ارکان اسمبلی کی سرزنش کی جاتی اور چندہ جمع کرنے کے طریقۂ کار کو مزید صاف شفاف بنایا جاتا تو عاپ کا وقار بحال ہو سکتا تھا۔

تو پھر یہ کیوں نہیں کیا گیا؟

عوام کی اہمیت تو اقتدار میں آنے کیلئے ہوتی ہے سو وہ ۵ سال تک کیلئے ختم ہو گئی۔ اب تو منتخب شدہ ارکان زیادہ اہم ہو گئے ہیں۔

پارٹی میں اختلافات تو فطری ہیں لیکن یہ جو جنگ جدال کی کیفیت رونما ہو گئی اس بابت آپ کی کیا رائے ہے؟

در اصل عاپ کی نا تجربہ کار قیادت نے اپنی عدم پختگی کے سبب اصولی اختلافات کو شخصیات کے تصادم میں بدل دیا اور پارٹی کی توسیع کو جھگڑے کی بنیاد قرار دے دیا۔ اروند کیجریوال کے حامی اعتراض کا منطقی جواب دینے کے بجائے رکیک ذاتی الزامات پر اتر آئے اور معترضین کو پارٹی کا دشمن قرار دے دیا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ مخالفین کیجریوال کو قومی کنوینر کے عہدے سے ہٹا کر پارٹی پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔

لیکن ہمارے ملک کی تمام ہی جماعتوں میں یہ دو عہدے مختلف لوگوں کے پاس ہوتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ان میں سے ایک دوسرے کا کٹھ پتلی ہوتا ہے۔ اس لئے کیا دو مختلف لوگوں کی ان عہدوں پر فائز کرنے کا مطالبہ غیر معقول تھا؟

جی نہیں اگر اروند از خود ان میں سے کسی ایک عہدے کو اپنے لئے منتخب کر کے دوسرا کسی اور کے حوالے کر دیتے تو سارا اختلاف ختم ہو سکتا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جان دینے کا دعویٰ کرنے والا کرسی نہ دے سکا۔

گاما پہلوان نے سوال کیا پارٹی کی توسیع کے حوالے سے اروند کیجریوال کے دلائل پر آپ کی کیا رائے ہے؟

دلائل تو دور میرے نزدیک تو اس فیصلے میں ترمیم ہی مضحکہ خیز ہے۔ اول تو وہ پارٹی کا متفقہ فیصلہ ہے اس لئے اسے کوئی فرد واحد نہیں بدل سکتا۔ اروند کیجریوال کی سوراج نامی کتاب آج بھی انٹر نیٹ پر موجود ہے۔ یہاں کوئی اصلاح نہ کریں پارٹی تو درکنار حکومت کو بھی ہر اہم فیصلے سے قبل عوام سے مشورے کا پابند کرتی ہے۔

کیا یہ غیر عملی تجویز نہیں ہے جس پر عمل درآمد نا ممکن ہے؟

جی نہیں اروند کیجریوال نے خود اس پر عمل کر کے دکھایا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا گزشتہ انتخاب سے قبل انہوں نے کہا تھا کہ ہم کانگریس یا بی جے پی کا تعاون نہیں لیں گے لیکن کانگریس کے تعاون سے حکومت سازی سے پہلے وہ عوام میں گئے اور ان کی توثیق حاصل کرنے کے بعد وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف لیا۔ اس مثال کی روشنی میں پارٹی کی توسیع کا فیصلہ بھی علاقائی کارکنان کے مشورے سے ہونا چاہئے تھا لیکن اس بار کیجریوال نے بغیر کسی سے پوچھے فرمان جاری کر دیا اور سوراج یعنی عوام کی خودمختاری کو اپنے ذاتی اختیار میں لے لیا۔

بظاہر ایسا محسوس ہوتا کہ ہمارے نیتا سے غلطی ہوئی لیکن کیا انہیں اس کا احساس ہوا یا حالات پر قابو پانے کیلئے انہوں نے کچھ کیا؟

وہ ایک ذہین آدمی ہیں اس لئے غالب گمان یہی ہے کہ انہوں نے محسوس کیا ہو گا۔ عاپ کے اندرونی جب خلفشار کا آتش فشاں پھٹا تو پہلے کیجریوال نے پردھان منتری کی مانند چپی سادھ لی اور جب بولے تو کسی فلسفی کی طرح کہا میں یہ سب دیکھ بہت رنجیدہ ہوں حالانکہ واضح موقف یا اپنے حامیوں کی سرزنش سے صورتحال کو سنبھالا جا سکتا تھا۔

محض ان کے واضح موقف اختیار کر لینے سے بات کیسے بن سکتی تھی؟

دیکھئے عام آدمی پارٹی کا یہ امتیاز تو اس کے دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس میں ایک داخلی لوک پال ہے اور پارٹی کے دستور میں اس کے متعلق درج ہے کہ ’’ لوک پال پارٹی کا رکن نہیں ہو گا مگر پارٹی کی سب سے اعلیٰ فیصلہ ساز مجلس سے زیادہ اختیارات کا حامل ہو گا‘‘۔ اس عہدے پر فائز ایڈمرل رام داس کو حکم بنا کر مسئلہ کو سلجھایا جا سکتا تھا۔

کیا رام داس توسیع کے مخالف تھے؟

جی نہیں ایڈمرل رام داس نے ذرائع ابلاغ کے اندر پارٹی میں داخلی جمہوریت کے فقدان، باہمی اعتماد کی کمی اور تعلقات کے تعطل پر تشویش کا اظہار تو کیا تھا مگر یہ بھی کہا کہ ایک قومی جماعت کیلئے اپنے آپ کو کسی ایک ریاست تک محدود کر دینے کا موقف درست نہیں ہے۔

اگرایسا ہے تو رام داس کی خدمات کیوں نہیں لی گئیں؟

اس تنازع کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ سارے ملک کو لوک پال کے تحت لانے کا مطالبہ کرنے والوں نے خود اپنی پارٹی کے لوک پال کی رائے ٹھکرا دی۔

وہ کیوں راندۂ درگاہ ٹھہرے ان کے ساتھ اس سلوک کی وجہ؟

وہ پارٹی سپریمو کے بندۂ بے دام نہیں تھے۔

مس چاندنی آپ تو سارا الزام صرف ایک فریق پر ڈال رہی ہیں۔ کیا دوسرے فریق کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے؟

دیکھئے میں ایک عام عورت ہوں جس کی عام آدمی پارٹی میں ویسے تو کوئی جگہ نہیں ہے پھر بھی میں اس کی بہی خواہ ہوں۔ اس کے باوجود جو کچھ سوچتی ہوں بول رہی ہوں۔ میرا کام کسی کی حمایت یا مخالفت نہیں ہے۔

اچھا تو پھر آپ دوسرے فریق کے رویئے پر روشنی ڈالیں؟

دیکھئے پہلوان جی یوگیندر یادو تو پہلے ہی سے مفاہمت کی بات کر رہے تھے لیکن بعد میں پرشانت نے بھی اپنا موقف نرم کرتے ہوئے اروند کیجریوال سے ملاقات کی کوشش کی تاکہ پی اے سی سے قبل کوئی درمیان کی راہ نکل سکے۔

کیا یہ درست ہے آپ کو کیسے پتہ چلا؟

مائنک گاندھی اسے تسلیم کر چکے ہیں کہ پارٹی میں اتحادو اتفاق کو برقرار رکھنے کی خاطر کئی تجاویز سامنے آئیں مثلاً دونوں فریق معافی مانگ لیں جو سراسر ہتک آمیز مطالبہ تھا۔ اس کے علاوہ پی اے سی کی تشکیل جدید کی جائے اور نئے ارکان کی فہرست سے ان کا نام خارج کر دیا جائے یا چونکہ اروند کیجریوال ان کی شکل نہیں دیکھنا چاہتے اس لئے ان کی رکنیت تو برقرار رہے مگر وہ اجلاس میں شرکت سے باز رہیں وغیرہ لیکن کیجریوال کے حامی انہیں رسوا کر کے نکالنے پر مصر تھے اس لئے سسودیہ نے ایک نہایت نامعقول قرار داد پیش کر کے رائے شماری پر اصرار کیا۔

کیا جمہوریت میں رائے شماری ہی سارے مسائل کا حل نہیں ہے؟

لیکن اس سے قبل بحث و مباحثہ بھی تو شورائیت ہے۔ بغیر سوچے سمجھے اپنی رائے دینا کون سی معقولیت ہے؟یہ تو بھیڑ چال ہے جس کا مظاہرہ عاپ کی سیاسی امور کی کمیٹی میں نظر آیا۔ جملہ ۲۱ ارکان میں سے دو کیجریوال کے خوف سے غیر جانبدار ہو گئے۔ ۸ نے مخالفت کی اور ۱۱ کی حمایت سے یوگیندر یادو اور پرشانت بھوشن کو پارٹی کے پی اے سی سے نکال باہر کیا گیا یعنی اگر دو لوگ ووٹ دیتے تو ۱۰ اور ۱۱ کی بات تھی۔ اس طرح یہ متفقہ فیصلہ تو درکنار کثرتِ رائے بھی نہیں تھا۔ ماینک گاندھی کو دھمکی دی گئی کہ اگر انہوں نے ان حقائق کا انکشاف کیا تو انجام ٹھیک نہیں ہو گا۔

( موضوع بدلتے ہوئے) لیکن کیا یہ صرف عاپ میں ہوا ہے؟

یہ میں پہلے بھی کہہ چکی ہوں کہ یہ ہر سیاسی جماعت کا شعار ہے۔ اندرا گاندھی اس کی موجد ہیں۔ ماضی قریب میں نریندر مودی اس طرح بائیکاٹ کی دھمکی دے کر اپنے مخالف سنجے جوشی کو پارٹی کے اعلیٰ کمان سے نکال چکے ہیں حالانکہ جوشی کو آرایس ایس نے نامزد کیا تھا۔

عوام کی یادداشت کمزور ہوتی ہے۔ ہمارے ناظرین بھول چکے ہوں گے اس لئے کیا آپ اس پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گی؟

کیوں نہیں۔ مودی جی ایک زمانے تک مختلف بہانوں سے پارٹی کے مرکزی مجلس انتظامیہ کے اجلاس سے دور رہے یہاں تک کہ جوشی کو ذلیل کر کے نکال باہر کر دیا گیا۔

تو کیا سیاسی افق پر بظاہر مختلف نظر آنے والی ان دو مقبول ترین شخصیات میں زبردست یکسانیت نظر آتی ہے؟

کیوں نہیں! نریندر مودی جہاں بی جے پی کا واحد چہرہ ہیں وہیں عاپ بھی اروند کیجریوال کے طواف میں مست ہے۔ دونوں حضرات پارٹی کے اندر اختلاف کرنے والوں کے ساتھ نرمی کے قطعی روادار نہیں ہیں۔ سیاسی نظریات سے قطع نظر دونوں کے اندر صبر و تحمل کا فقدان ہے اور ضوابط کی پاسداری کا خیال بھی وہ ضروری نہیں سمجھتے۔ مصمم ارادہ کر کے اس پر اڑ جانا اور آسانی سے رجوع نہ کرنا ان کی عادت ثانیہ بن گئی ہے۔ شاید اسی لئے لوگ کہتے ہیں ان دونوں کا عزم مصمم جب اپنے حدود سے تجاوز کر کے ضد میں تبدیل ہو جاتا ہے تو بیک وقت ان کی قوت کا سرچشمہ اور سب سے بڑی کمزوری بھی بن جاتا ہے۔

چاندنی کے اس جواب نے عاپ کے ساتھ بھاجپ کے حامیوں کو بھی ناراض کر دیا۔ پہلوان نے سوال کا رخ پھر عام آدمی پارٹی کی جانب موڑتے ہوئے پوچھا لیکن کیجریوال جیسے نرم خو انسان کو آپ مودی جیسے سخت گیر کا ہم پلہ کیسے ٹھہرا سکتی ہیں؟

پہلوان جی اگر آپ اخبار پڑھتے ہیں تو آپ کو پتہ ہو گا کہ کیجریوال نے یادو اور بھوشن کے انخلاء کی خاطر دباؤ بنانے کیلئے قومی کنوینر کی ذمہ داری سے استعفیٰ دے کر اسے واپس لینے کیلئے انہیں نکالنے کی شرط لگا دی تھی۔ کیجریوال کے استعفیٰ کا متفقہ طور پر مسترد کیا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ فی الحال عاپ کے اندر کوئی ایک بھی ایسا آدمی نہیں ہے جس پر دہلی کے وزیر اعلیٰ یا پارٹی کا کنوینر کے طور پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ یہ قحط الرجال کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے؟

کیا کیجریوال پر اقرباء پروری کے الزامات درست ہیں؟

اقرباء پروری تو نہیں تفریق و امتیاز کا الزام صحیح ہے۔ شانتی بھوشن نے نہ صرف کرن بیدی بلکہ پردھان منتری کی بھی تعریف کی تھی اور ان پر گھر کی تعمیر میں ٹیکس چوری کا الزام بھی لگا تھا اس لئے پارٹی کی اصولی و عملی مخالفت کے سبب انہیں نکالا جانا چاہئے تھا لیکن بخش دیا گیا اور نظریاتی مخالفین مثلاً پرشانت بھوشن کی چھٹی کر دی گئی۔

چاندنی دیوی ذرائع ابلاغ میں کیجریوال کے بنگلورو علاج کیلئے نکل جانے پر طرح طرح کی قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔ اس بابت آپ کچھ کہنا چاہیں گی؟

میں ذاتیات میں نہیں جاتی اور نہ ہی بے وثوق ذرائع پر یقین کرتی ہوں۔ کیجریوال پارٹی کے نازک ترین دور میں اپنے فطری علاج کیلئے بنگلوروسدھار گئے اس کی مجھے خوشی ہوئی۔

اس کی کوئی خاص وجہ ہے یا بس یونہی؟جیسے ہم لوگ خوش ہو گئے اس طرح۰۰۰۰۰۰۰۰

وجہ تو میں نہیں  جانتی لیکن مجھے یہ توقع تھی کہ علاج کے دوران وہ اپنی فطرت پر لوٹ آئیں گے لیکن میر کے شعر کی مصداق ’’الٹی ہو گئی سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا‘‘۔ کا منظر دیکھنے کو ملا۔

بنگلورو کو چھوڑیئے۔ اگر اروند کیجریوال واقعی اپنی بیماری کی تشخیص کر کے فطرت کی جانب لوٹنا چاہتے ہیں تو انہیں کیا کرنا چاہئے؟

ان کا علاج تو اس تلقین میں ہے جو جیت کے بعد ۱۰فروری کے دن انہوں نے اپنے کارکنان کو کی تھی کہ کبر و غرور کے شکار نہ ہوں اور فرمایا تھا کہ حکومت کے ذمہ داروں، وزراء، اراکین اسمبلی اور کارکنان میں تکبر اور گھمنڈ نہیں پایا جانا چاہئے۔ افسوس کہ دوسروں کو اہنکار سے بچنے کا درس دینے والا عام آدمی پارٹی کا بہت ہی خاص آدمی خود اپنے آپ کو اس خرابی سے نہیں بچا سکا۔

اس موقع پر آپ ہمارے رہنما کو کیا پیغام دینا پسند کریں  گی؟

موجودہ خلفشار میں ان کا رویہ اس بات کا غماز ہے کہ انہوں نے رام لیلا میدان میں جو عقل سلیم کی دعا کی تھی وہ رد ہو گئی اور وہ گھمنڈ سے اپنے آپ کو نہیں بچا پائے۔ میں پھر دل کی گہرائیوں سے ان کے حق وہی دعا کرتی ہوں۔

چاندنی دیوی آپ نے ہمارے لئے بہت وقت نکالا اس کیلئے ہم تہہ دل سے آپ کے شکر گذار ہیں۔ آپ جاتے جاتے ہمارے ناظرین کو کیا پیغام دینا چاہیں گی؟

دیکھئے پہلوان جی جو کچھ عاپ اور کیجریوال کے ساتھ ہوا ہے وہ افسوسناک تو ضرور ہے لیکن غیر متوقع نہیں ہے اس لئے کہ ان سے قبل اچھے اچھوں کو یہ نظام اپنے رنگ میں رنگ چکا ہے۔ اس بار بھی یہی ہوا کہ سیاسی نظام کو بدلنے کا عزم کر کے بھاری اکثریت سے کامیاب ہونے والے ایک انقلابی رہنما کو سیکولر جمہوری نظام اپنے اندر نگلنے میں کامیاب ہو گیا۔

آپ کیا کہنا چاہتی ہیں؟

یہی کہ ہولی کی آگ میں کوئی اپنا اہنکار نہیں جلاتا بلکہ اقتدار کی بھنگ پی کر ساری جماعتوں کے رہنما آپسی بھید بھاؤ مٹا کر سیاسی حمام میں برہنہ تن داخل ہو جاتے ہیں۔ ایوانِ اقتدار میں ہولی کھیلنے والے اور گلال اڑانے والے تمام سیاسی رہنما یک رنگ ہوتے ہیں۔ شکریہ

آمنے سامنے کے نشر ہوتے ہی پرانی دہلی کا گاما پہلوان اور چاندنی چوک کی چاندنی دیوی ناظرین کے دلوں کی دھڑکن بن گئی۔ آمنے سامنے کے علاوہ راجدھانی چینل کا ہر پروگرام اس تیزی کے ساتھ مقبول ہو رہا تھا کہ اشتہارات کی بھرمار تھی۔ اسی کے ساتھ اخبار آپ کی راجدھانی کی کھپت میں زبردست اضافہ ہو گیا تھا۔ چندن مترا کے دو نئے پیڑ اسے خوب آم فراہم کر رہے تھے اور منگو اس میں مزید تین کا اضافہ کرنے جا رہا تھا۔ اس لئے اس نے پرانے پیڑ کو کاٹ کر اس کی لکڑی سے اپنی بیٹی کیلئے نئے گھر کی تعمیر کا کام شروع کر دیا جواس کے خیال میں چنگو کے خوابوں کا محل تھا۔

 

 

 

 

۲۷

 

وقت کے ساتھ منگو چندن مترا کا دستِ راست بن گیا تھا۔ ہر کام کو کرنے سے قبل وہ اس سے مشورہ کرتا تھا۔ اس نے سوچا چونکہ منگو ہی چنگو کا سب سے خاص دوست ہے کیوں نہ اپنی بیٹی کی سگائی کی اطلاع سب سے پہلے اسی کو دے کر اس کے مشورے سے تقریب کی تفصیلات طے کی جائیں۔

چندن مترا نے منگو کو اپنے کمرے میں بلا کر سوال کیا کہ کیا تم جانتے ہو کہ تمہارا دوست چنگو کس سے شادی کر رہا ہے؟

اس سوال سے منگو کا ما تھا ٹھنکا۔ وہ سمجھ گیا کہ مدھو بالا نے کسی صورت چنگو سے رابطہ کر لیا ہے اور ان لوگوں نے بالا بالا شادی بھی طے کر لی۔ منگو کو اس بات کا افسوس تھا کہ چنگو اور مدھو کا بہترین دوست ہونے کے باوجود ان لوگوں نے یہ خبر اس سے پوشیدہ رکھی اور چندن مترا کو پہلے راز دار بنا لیا۔

منگو کو اپنے آپ میں کھویا ہوا دیکھ کر چندن بولا کیا بات ہے منگو تم اس قدر متفکر کیوں ہو گئے؟ اس فیصلے میں  کوئی گڑ بڑ تو نہیں ہے؟

جب میں فیصلہ ہی نہیں جانتا تو یہ کیسے کہہ سکتا ہوں کہ وہ غلط یا درست ہے؟

مجھے حیرت ہے کہ تمہارے جگری دوست نے اتنا اہم فیصلہ تم سے چھپایا خیر میں بتائے دیتا ہوں۔ میں اپنی بیٹی میگھنا کا بیاہ چنگو سے کرنا چاہتا ہوں۔

میگھنا کا نام سن کر منگو کے جان میں جان آئی۔ وہ اب بھی مدھو بالا سے شادی کرنا چاہتا تھا حالانکہ مدھو چنگو کے سوا کسی سے بیاہ کرنے کیلئے تیار نہیں تھی۔ منگو اپنے ماضی میں کھو گیا اسے یاد آیا کہ مدھو نے ایک بار اس سے کہا تھا کہ اگر تمہارے بے وقوف دوست چنگو نے میرے ساتھ شادی نہیں کی تو میں کنواری مر جاؤں گی اور اگر اس نے کسی اور سے بیاہ کر لیا تو خودکشی کر لوں گی۔

منگو کا جی چاہا کہ وہ بھی کہہ دے مدھو بالا لیکن اگر اس نے تم سے شادی کر لی تو مجھے خودکشی کرنے کی بھی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ میری حرکتِ قلب اپنے آپ ہی بند ہو جائے گی۔ منگو اپنے دل کی بات مدھو بالا سے نہیں کہہ سکا۔ وہ مدھو بالا کو جھوٹے وعدے کر کے بہلاتا رہا کہ کسی نہ کسی طرح چنگو کو راضی کر ہی لے گا۔

چندن مترا کے زبان سے بھی چنگو کا نام سن کر منگو کو اپنے دوست کی قسمت پر رشک آنے لگا۔ اس نے چندن سے کہا یہ تو بہت اچھی بات ہے کیا آپ نے بات کر لی ہے؟

چندن بولا جی ہاں میں نے بہت پہلے چنگو سے بات کی تھی۔ اس نے کہا تھا وہ سوچ کر بتائے گا۔ مجھے یقین ہے کہ اب تک اس نے سوچ لیا ہو گا اور جب میں اس سے پوچھوں گا تو وہ سرِ تسلیم خم کر دے گا۔

منگو بولا لیکن چندن صاحب جس طرح تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی اسی طرح شادی بھی ایک فرد کی نہیں ہوتی۔ کیا آپ نے اپنی بیٹی میگھنا کی رائے معلوم کی؟

اس سوال نے چندن کو چونکا دیا وہ بولا میگھنا! میگھنا سے کیا پوچھنا۔ وہ میری بیٹی ہے مجھ سے کیسے اختلاف کر سکتی ہے؟ میں اس کا بھلا برا جانتا ہوں۔

منگو بولا اس میں کوئی شک نہیں پھر بھی بہتر ہے۔ آپ جب اس کے لئے کوئی لباس یا گاڑی وغیرہ خریدتے ہیں تو کیا اس کی رائے نہیں  لیتے؟

بالکل لیتا ہوں لیکن یہ زندگی بھر کا سوال ہے؟

یہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ اس کو اپنے خاوند کے ساتھ زندگی بسر کرنی ہے اس لئے اس کی پسند و ناپسند کا خیال کرنا ضروری ہے۔

منگو کی منطق چندن کے گلے سے نہیں اتر رہی تھی اس نے چنگو کو اپنا داماد بنانے کا من بنا لیا تھا۔ منگو نے اس کے دل میں ایک بلا وجہ کا شبہ ڈال دیا تھا۔ وہ بولا لیکن منگو جب لالہ جی نے چیتنا کی ہاتھ میرے ہاتھوں میں دیا تھا تو نہ اس سے سوال کیا تھا اور نہ مجھ سے پوچھا تھا۔ ہم دونوں نے بلا چوں چرا ان کے فیصلے کو مان لیا۔

منگو اپنی عادت کے خلاف حجت پر اتر آیا تھا۔ وہ بھول گیا تھا کہ فی الحال وہ اپنے دوست چندو سے نہیں بلکہ مالک چندن مترا سے محو گفتگو ہے۔ اس نے کہا معاف کیجئے آپ یہ تو وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ لالہ جی نے آپ سے دریافت کئے بغیر ایک فیصلہ آپ پر تھوپ دیا لیکن میگھنا کی والدہ کے بارے میں یہ کیسے کہہ سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے اکیلے میں انہوں نے اپنی بیٹی سے رائے مشورہ کر لیا ہو؟

فیصلہ تھوپ دیا؟ کیا مطلب؟ وہ تو ان کی مہانتا تھی جو انہوں نے مجھ جیسے مسکین کو اس قابل سمجھا کہ اپنا داماد اور اپنی جائیداد کا وارث بنائیں۔ میں ان کے احسان کا بدلہ کبھی نہیں چکا سکتا۔

دیکھئے مالک! آپ سے نہیں پوچھنے کی وجہ تو خود آپ نے بتا دی۔ مجھے یقین ہے کہ انہوں نے اپنی بیٹی سے پوچھا ہو گا اور پھر زمانہ بھی تو بدل گیا ہے۔ لالہ جی اخبار کے زمانے کے آدمی تھے آپ ٹی وی چینل والے ہیں۔

چندن کو منگو کی بات سمجھ میں آنے لگی تھی پھر بھی وہ بولا لیکن کیا فرق پڑتا ہے؟ خبر تو خبر ہے ورق پر آئے یا برق سے ایک ہی بات ہے؟

بہت فرق ہے صاحب وہ سیدھا سادہ دور تھا، یہ زرق برق زمانہ ہے۔

چندن نے تائید میں کہا مشورے کا شکریہ میں خیال رکھوں گا۔

میگھنا سے بات کرنا چندن کیلئے ذرا مشکل تھا اس لئے اس نے لالہ جی کی ایک بھانجی سے مدد لی اور اس کی حیرت کا ٹھکانا نہ رہا جب میگھنا نے چندو کے ساتھ شادی کرنے سے صاف انکار کر دیا مگر منگو سے بیاہ کرنے پر رضا مندی ظاہر کی۔ اب چندن کو اپنے آپ پر غصہ آ رہا تھا۔ کاش کہ وہ پہلے اپنی بیٹی سے بات کرتا اور پھر منگو سے مشورہ کرتا لیکن اب تو تیر کمان سے نکل چکا تھا۔

اس نازک معاملہ میں چنگو کا تعاون لینا بھی مشکل تھا۔ چندن نے مہیش اگروال کو اعتماد میں لے کر منگو کی رائے معلوم کرنے کی کوشش کی اور مہیش نے اپنی مہارت سے اسے راضی کر لیا۔

دوسرے دن منگو نے اپنے دوست چنگو کو بلایا اور بولا یار میں تجھ سے ایک اہم بات کرنا چاہتا ہوں۔

چنگو بولا مجھے پتہ ہے۔ میں مبارکباد دینے کیلئے آنے ہی والا تھا کہ تو نے بلا لیا۔ بہت مبارک ہو۔ میگھنا جیسی زوجہ اور اور چندن جیساخسر جس کو میسر آ جائے اس کی خوش قسمتی کا کیا ٹھکانا؟

شکریہ دوست لیکن میں نے تجھے ایک اور بات بتانے کیلئے بلایا تھا۔

اچھا وہ کیا؟ چنگو نے پوچھا۔

تجھے مدھو بالا یاد ہے؟

کیوں نہیں۔ آم کے آم والی مدھو بالا کو کون بھول سکتا ہے۔ اسی نے تو۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ ۰۰۰

منگو کو ٹیلی ویژن کے پردے پر ہیرو بنا دیا۔ یہی کہنے والے تھے نا؟

نہیں ایسی بات نہیں لیکن پھر بھی تمہیں اسٹار بنانے میں اس کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ہے۔

تم یہ کہہ کر اس کی حق تلفی کر رہے ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں آج میں جو کچھ بھی ہوں اسی کی وجہ سے ہوں ورنہ میں کیا تھا اس کا علم تم سے زیادہ کس کو ہے؟

مجھے سب پتہ ہے اب تم کام کی بات کرو۔

مدھو بالا نے مجھے اسٹار ضرور بنایا لیکن اس کے ہیرو تم ہو۔

چنگو اس انکشاف پر چونک پڑا۔ کیا بات کرتے ہو۔ مدھو بالا جیسی خوبصورت اینکر اور میں؟ کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگوا تیلی؟

جی نہیں ایسی بات نہیں۔ وہ تمہارے قلم کی دیوانی تھی۔ راجدھانی ایکسپریس میں تمہارا ہر مضمون شوق سے پڑھتی تھی۔ تمہاری وہ رپورٹیں جو بغیر نام سے شائع ہوتی تھیں انہیں بھی پہچان جاتی تھی اور مجھ سے کہتی تھی دیکھو اس مضمون کے ہر لفظ پر چنگو کے دستخط ہیں۔ ان میں سے تمہاری مہک آ رہی ہے۔

یار ایک بات بتاؤ کہیں تم میرا غم غلط کرنے کیلئے تو یہ کہانی نہیں گڑھ رہے ہو؟ مجھے میگھنا کی شادی کا کوئی افسوس نہیں ہے۔ مجھے نہ جانے کیوں یقین تھا کہ میگھنا میرے گلے میں ورمالا نہیں ڈالے گی۔

کیسی باتیں کرتے ہو چنگو ؟

جی ہاں وہ تو ایک دن رحم کھا کر چندن جی نے مجھے اشارے میں یہ کہا تھا لالہ جی کی چیتنا کی طرح میری بھی ایک میگھنا ہے اور میں نے بے خیالی میں سوچوں گا کہہ کروہ خیال اپنے من سے نکال دیا۔ مجھے خوشی ہے کہ اب چندن جی نے اور میگھنا نے میرے عزیز ترین دوست کو پسند کر لیا۔

سچ تو یہ ہے کہ عظیم وہ دونوں یا میں نہیں بلکہ تم اور مدھو بالا ہو۔

وہ کیوں؟

دوست آج میں تمہارے سامنے اپنے تمام گناہوں کا اعتراف کر کے معافی مانگ لینا چاہتا ہوں۔ مدھو بالا نے مجھ سے کئی بار کہا کہ میں تم سے بات کروں لیکن میں اسے ٹالتا رہا۔ میں نے اس کو گاؤں بھیجنے کی سازش کی تاکہ وہ تم سے دور ہو جائے اور تمہارا خیال اپنے دل سے نکال دے۔

سازش کیسی سازش میں نہیں سمجھا؟

چندن مترا چنائی سیٹھ سے سماچار منورنجن چینل خریدنا چاہتے تھے لیکن چنائی اس کیلئے تیار نہیں ہو رہا تھا۔ میں چندن مترا سے کہا اس چینل سے اگر مدھو بالا نکل جائے تو یہ بیٹھ جائے گا۔ اس لئے مدھو بالا سے کہا گیا کہ وہ گاؤں چلی جائے۔ اس کو نئے چینل میں لے لیا جائے گا اور اس وقت تک تنخواہ گھر بیٹھے ملے گی۔ اس طرح اپنی ماں کی خدمت کرنے کیلئے مدھو بالا شہر چھوڑ کر گاؤں چلی گئی۔

اس کے بعد کیا ہوا؟

ہماری سازش کا پہلا مرحلہ کامیابی سے ہمکنار ہوا مگر اس سے پہلے کہ چنائی سیٹھ مدھو بالا کا کوئی متبادل تلاش کرتے میں نے اس کو مشورہ دیا کہ نیناسنگھ جیسی سنجیدہ اینکر کی مدد سے اپنے چینل کو پر وقار بنائے۔ تم تو جانتے ہو کہ میرے مشورے کو لوگ مسترد نہیں کرتے تھے۔ چنائی سیٹھ مان گئے اور نینا سنگھ سماچار منورنجن چینل کے تابوت کی آخری کیل ثابت ہوئی۔ نینا سنگھ کی سنجیدگی سے اوب کر اس چینل کے اوباش ناظرین بھاگ کھڑے ہوئے اور چنائی سیٹھ کے چینل کی کمر ٹوٹ گئی۔ میں نکل آیا اور وجینتی مالا نے بھی منہ موڑ لیا۔ اب حالت یہ ہے کہ چنائی سیٹھ چندن مترا کے ساتھ شراکت داری کیلئے تیار ہو گیا ہے۔

لیکن منگو تم کہیں اور نکل گئے۔ مدھو بالا والی بات اگر درست ہے تو اس جیسی روشن خیال خاتون نے مجھ سے براہِ راست گفتگو کیوں نہیں کی؟

در اصل لباس اور رکھ رکھاؤ سے تو وہ بہت ترقی یافتہ نظر آتی ہے لیکن اس کے اندر اب بھی ایک مشرقی عورت بسی ہوئی جو نہ از خود اپنی شادی کا پیغام دے سکتی ہے اور نہ مسترد ہونے کی توہین برداشت کر سکتی ہے۔

لیکن میرے دوست منگو تم تو مجھے بتا سکتے تھے؟ تم نے تاخیر کیوں کی؟

کیا ہرسوال کا جواب دینا ضروری ہے؟ میری جانب سے جو کوتاہی ہوئی ہے میں اسے تسلیم کرتا ہوں۔ اگر تم اس کی کوئی سزا تجویز کرو اس کو قبول کرتا ہوں لیکن تم سے گذارش ہے کہ اپنی رضامندی دے دو تاکہ میں مدھو بالا کو اطلاع دے کر اپنی خطاؤں کا کفارہ ادا کر سکوں۔

میں پہلے وجہ جاننا چاہوں گا۔

منگو نے اس بیچ ایک بہانہ تلاش کر لیا تھا وہ بولا در اصل مجھے خوف تھا کہ تم نے اگر اس رشتے کو ٹھکرا دیا تو مدھو بالا اس صدمے کو برداشت نہیں کر پائے گی۔ اس کو ہارٹ اٹیک ہو جائے گا اور میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ ایسا ہو۔ اب بھی اگر تم نے انکار کر دیا تو میں اسے نہیں بتاؤں گا۔

منگو جھوٹ بول رہا تھا۔ وہ مدھو بالا کے نہیں اپنے بارے میں بتا رہا تھا لیکن چنگو اس بات کو نہیں سمجھ سکا۔ وہ بولا میں سوچ کر بتاؤں گا اور مصافحہ کر کے باہر نکل گیا۔ چنگو کو جاتا ہوا دیکھ کر منگو عرف منگیری لال پھر سے اپنے سہانے سپنوں میں کھو گیا۔

اس نے دیکھا چنگو ایک ویران اور سنسان پگڈنڈی پر چلا جا رہا ہے۔ اچانک ان انجان راہوں پر ایک جانی پہچانی شبیہ نمودار ہوتی ہے۔ منگو نے غور سے دیکھا تو مدھو بالا عروسی لباس میں سامنے تھی۔ منگو دیر تک ان دونوں کو دور تک جاتا ہوا دیکھتا رہا۔ لیکن پھر اس نے دیکھا کہ چنگو کی رفتار کم ہو گئی اور وہ پیچھے چھوٹ گیا۔ کچھ دور جانے کے بعد مدھو بالا کو احساس ہوا تو وہ پیچھے مڑی اور یہ شعر کہہ دیا:

یہ قیام کیسا ہے راہ میں، تیرے ذوقِ عشق کو کیا ہوا؟

ابھی چند پھول کھلے نہیں، تیرے سب ارادے بدل گئے

منگو کی سمجھ میں نہیں آیا کہ مدھو بالا یہ شعر کس سے کہہ رہی ہے۔ چنگو سے یا اس سے؟

اس کے ذہن میں یہ سوال بار بار ابھر رہا تھا کہ۔ برسوں سے اس کے خوابوں میں بسنے والی مدھو بالا اچانک میگھنا کے آتے ہی کیوں اٹھ کر چلی گئی؟

اس سوال کا جواب نہ منگو کے پاس تھا اور نہ میگھنا کے پاس۔

نہ مدھو کے پاس تھا اور نہ چنگو کے پاس۔

کسی کے پاس اس کا جواب نہیں تھا۔

وقت کا پہیہ گھوم رہا تھا۔

چنائی سیٹھ کے منورنجن چینل پر

کوئی دیوانہ جون ایلیا کی غزل گا رہا تھا؎

عیش اُمید ہی سے خطرہ ہے

دِل کو اب دِلدہی سے خطرہ ہے

جس کی آغوش کا ہوں دیوانہ

اُس کی آغوش ہی سے خطرہ ہے

ہے عجب کچھ معاملہ درپیش

عقل کو آگہی سے خطرہ ہے

٭٭٭

 

 

دنیا ہے خواب، حاصلِ دنیا خیال ہے

انسان خواب دیکھ رہا ہے خیال میں

( علامہ سیماب اکبر آبادی )

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

 

مکمل ناول ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل