FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

دیس ہوا پردیس

 

حصہ دوم

 

ناصر ناگاکاوا

 

 

 

 

 

جاپان کی میٹرو پولیٹین پولیس ڈپارٹمنٹ کی خارج زدہ خفیہ فائلوں میں کیا ہے ؟

(13 جنوری2011ء) وکی لیکس کے واقعہ سے چند روز قبل ہی جاپان کی میٹرو پولیٹین پولیس ڈپارٹمنٹ کی خفیہ فائلیں جو گزشتہ کئی سالوں سے انسدادِ دہشتگردی کے سلسلے میں جمع کی گئی خفیہ معلومات پر مبنی تھیں، محکمے کے کسی آفیسر کی غلطی یا دانستہ طور پر وکی لیکس کی طرح خارج ہو کر منظرِ عام پر آئی تھیں۔ کئی دنوں تک متعلقہ محکمے کی طرف سے اس فاش غلطی کی کوئی پروا نہ کی گئی، نہ ہی ان خارج زدہ فائلوں کی تصدیق کی گئی اور نہ ہی ان کی تردید کی گئی کہ آیا وہ فائلیں پولیس کے محکمے سے تعلق رکھتی ہیں یا نہیں۔ ان فائلوں کے منظرِ عام پر آ جانے کے بعد جاپان کے ایک معروف پبلشر نے تمام فائلوں کی ایک کتاب مرتب کی اور مارکیٹ میں فروخت ہونے لگی، دیکھتے ہی دیکھتے پہلے ایڈیشن کی ہزاروں کتابیں فروخت ہوئیں تو جاپان میں مقیم حساس ادارے، پولیس اور متعلقہ لوگوں میں سراسیمگی پھیل گئی۔ فوری طور پر حکومتِ جاپان کی جانب سے اس کتاب پر پابندی عائد کر دی گئی اور بقیہ کتابیں دکانوں سے اٹھا لی گئیں۔ لیکن یہ کتابیں جن کے ہاتھ لگیں اور اس میں جو کچھ ظاہر کیا گیا ہے وہ نہایت ہی قابلِ افسوس اور تکلیف دہ ہے۔ اس میں ان تمام مسلم ممالک کے لوگوں کے مکمل کوائف اور ان کی سرگرمیوں کی تفصیلات درج ہیں جس کی وجہ سے یہاں مقیم ان غیر ملکی خصوصاً مسلمان اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں اور حیران ہیں کہ ان کی اتنی تفصیلی ذاتی معلومات پولیس کے پاس کیسے پہنچ گئیں۔ ؟جن دنوں یہ افواہ پھیلی کہ جاپان کی میٹرو پولیٹین پولیس ڈپارٹمنٹ کی خفیہ فائلیں خارج ہو چکی ہیں انہی دنوں امریکہ میں بھی وکی لیکس کا شوشہ چھوڑا گیا اور اس طرح جاپانی پولیس کا واقعہ پسِ منظر میں چلا گیا۔ جاپان کی پولیس کی طرف سے خارج زدہ فائلوں میں جاپان میں مقیم سینکڑوں غیر ملکی اور پاکستانی بھی شامل ہیں جن کے بارے میں ایک ایک تفصیل بمعہ تصویر شائع کی گئی ہے۔ جن غیر ملکیوں کے بارے میں تفصیلات شائع کی گئی ہیں ان میں وہ غیر ملکی اور پاکستانی بھی شامل ہیں جنھوں نے کسی بھی صورت میں جاپانی پولیس سے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر تعاون کیا یا وہ لوگ جو پولیس کی نظر میں مشکوک ہیں یا ان کی سرگرمیاں مشکوک سمجھی جاتی ہیں۔

گزشتہ دنوں جاپان کے معروف آن لائین نیوز نیٹ پاک جاپان نیوز پر خفیہ معلومات کی فائل کا عکس بھی شائع کیا گیا تھا جس کی جاپانی سرخیوں کا اگر اردو میں ترجمہ کیا جائے تو واضح طور پر کہا گیا ہے کہ جاپانی پولیس کے محکمۂ انسدادِ دہشتگردی کی نظر میں مذہب اسلام دہشتگردی کے مترادف ہے یا اسے دشمن کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ایک جگہ لکھا گیا ہے کہ جاپان میں قائم کئی مساجد میں آنے والے نمازیوں کا تعاقب کیا جاتا ہے کہ وہ کون ہے، کہاں سے آتا ہے اور جاپان میں کب سے ہے اور اس کی مصروفیات کیا ہیں، شادی شدہ ہے یا غیر شادی شدہ وغیرہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ کئی مسلم ممالک کے سفارت خانے اور ان کے عملے کی بارے میں تفصیلات کا بھی ذکر ہے۔ اس کے علاوہ جاپان بھر میں قائم تمام مساجد، اسلامی ادارے، تنظیمیں اور سیاسی پارٹیوں کے عہدیداران، حلال فوڈز کی دکانیں اور مسلم ممالک کے باشندوں کے زیرِ نگرانی چلنے والے ریستوران کے بارے میں بھی مکمل معلومات فراہم کی گئیں ہیں۔ دنیا کے کسی بھی ملک کی پولیس کا کام ہی کسی کو خصوصاً غیر ملکیوں کو شک کی نظر سے دیکھنا ہوتا ہے، لہٰذا جاپانی پولیس کو ان معلومات کی بناء پر برا بھلا کہنا یا ان سے دشمنی پالنا مناسب نہیں ہے۔ بلکہ جاپان میں مقیم ہمارے نام نہاد رہنما، صحافی اور کندھے پر کیمرہ لٹکانے والے رپورٹر جو اپنے آپ کو محبِ وطن اور پکا مسلم ظاہر کرتے ہیں انہی لوگوں نے یہاں کی مقامی پولیس سے اپنے ضمیر گروی رکھ کر ایک ایک ہم وطن کے بارے میں معلومات فراہم کی ہیں۔

ہمیں جاپانی پولیس کو الزام دینے کی بجائے مذکورہ ضمیر فروشوں کی مذمت کرنی چاہئے۔ اگر جاپانی پولیس اسلام کو دشمن قرار دیتی ہے تو دوسری طرف جاپانی عوام نے کبھی بھی کوئی ایسا تاثر نہیں دیاکہ وہ مذہب اسلام یا اس کے ماننے والے مسلمانوں کو اپنا دشمن تصور کرتے ہیں۔ جاپان بھر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ زیادہ ترمساجد جاپانی بازاروں یا گلی محلے میں ہی قائم ہیں مگر شاذ و نادر ہی کبھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا ہو۔ بلکہ ہمیں تو ان ضمیر فروشوں کا بھی شکر گزار ہونا چاہئے کہ انھوں نے جاپان کی پولیس کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اپنے ہی بھائیوں کے بارے میں معلومات فراہم کیں، کیونکہ ان کی اس مہربانی سے کسی کے بارے میں بھی مکمل معلومات ہونے کے باوجود آج تک جاپان سے کوئی بھی مسلمان دہشتگردی کے الزام میں گرفتار نہیں ہوسکا ہے کیونکہ جس طرح جاپانی عوام ہم مسلمانوں سے محبت کرتے ہیں اسی طرح تمام مسلمان بھی جاپانی عوام اور جاپان سے حد درجہ محبت کرتے ہیں اور جہاں ایسی محبتوں کی مثالیں ہوں تو وہاں دہشتگرد بھی امن پسند ہو جاتے ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ زیادہ تر غیر ملکی اور ہم وطن جاپان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں اور اپنے ملک میں قوانین کی پابندی کریں یا نہ کریں مگر جاپان میں ضرور کرتے ہیں۔

٭٭٭

 

سزا یا جزا؟۔ ۔ ۔ قتل کے مقدمات پر میعاد کا قانون منسوخ کر دیا گیا

(اپریل 2009ء) اگر ایشیاء کے چند ممالک جن میں وطن عزیز بھی شامل ہو اور خدانخواستہ وہاں کے ہر شہری کو قانونی طور پر یہ چھوٹ یا رعائت دے دی جائے کہ کوئی بھی شہری کسی کا بھی قتل کر کے صرف پندرہ سال قانون کی گرفت میں نہ آئے اور ٹھیک پندرہ سال ہونے پر اپنے آپ کو قانون کے حوالے کر بھی دے تو اسے سزا نہیں دی جائے گی اور بالکل اسی طرح کسی چھوٹے یا بڑے ڈاکو یا چور کو بھی چھوٹ دی جائے کہ ڈاکے کی کامیاب واردات کے بعد صرف سات سال تک قانون سے آنکھ مچولی کھیلے اور پولیس کے ہتھے نہ چڑھے تو اس کا بھی معاملہ نہ صرف صاف ہو جائے گا بلکہ اڑائی ہوئی رقم بھی انعام کے طور اس کی ہو جائے گی تو تصور کیجئے کہ اس قسم کی چھوٹ سے ہمارے ممالک میں کیا رد عمل ہو گا؟میرا خیال ہے کہ ملک کی نصف آبادی مقتول اور قاتل کی ہو گی اور جو یہ نہ ہو گی وہ چور یا ڈاکو ہو گی کیونکہ ہمارے ممالک میں ایسے قوانین کی صدق دل سے پابندی کی جاتی ہے اس کے علاوہ ہمارے پولیس کے کام کا بوجھ بھی خاصا ہلکا ہو جائے گا ساتھ ہی ان کے وارے نیارے بھی ہو جائیں گے۔ پولیس کے کام کا بوجھ ہلکا اور نذرانوں کا بوجھ وزنی ہو جائے گا کیونکہ چشم بد دور ہماری پولیس جتنی فرض شناس اور محنتی ہے شاید ہی بھارت یا بنگلہ دیش کی پولیس ان کا مقابلہ کر سکے۔ کیونکہ جتنی ہماری پولیس فرض شناس ہے اتنی ہی مجرم شناس بھی ہے اور اس معاملے میں ان کی کوشش ہو گی کہ محترم مجرم سات یا پندرہ سال ان کے سامنے نہ آنے پائیں کیونکہ پولیس کا ہے فرض مدد ان کی۔

لیکن آپ بھی شش و پنج میں ہوں گے کہ بھلا کون سا ایسا ملک ہو سکتا ہے جہاں یہ قانون ہو کہ اپنے ناپسندیدہ بندے یا بندی کو اگلے جہاں روانہ کرو اور خود اسی جہاں میں پندرہ سال گوشہ نشین رہو اور پھر سارے گناہ معاف۔ انسان کی زندگی کے پندرہ سال کا عرصہ پلک جھپکتے ہی گزر جاتا ہے جیسے ہمارے بائیس سال جاپان میں گزر گئے ہیں۔ مذکورہ بالا قوانین جاپان(ہمارا دوسرا گھر)میں نافذ العمل ہیں اور جہاں تک میرا خیال ہے یہ قوانین صرف جاپا ن میں ہی رائج ہیں۔ کیونکہ کسی دانشور نے کہا تھا کہ جیسی روح ویسے فرشتے۔ اس لیے ایسے قوانین بھی انہی ممالک میں نافذ کیے جا سکتے ہیں جہاں کی عوام بھی حساس ہو اور قوانین کی نزاکت کا ادراک رکھتی ہو۔ انسان فطری طور پر شریف النفس ہی پیدا ہوتا ہے لیکن جوں جوں وہ دنیا میں پرانا اور سینئر ہوتا جاتا ہے شرافت سے پیچھا چھڑاتے ہوئے نفس کے پیچھے پڑ جاتا ہے۔ جاپانی قوم کا شمار دنیا بھر میں اپنی شرافت، حسن و اخلاق اور قانون کی پابندی کرنے والی بہترین قوموں میں ہوتا ہے۔ یہاں کا تقریباًَ ہر شہری تعلیم یافتہ، با شعور، امن پسند، محب وطن اور فرض شناس ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں کے قوانین بھی اس قوم کے مزاج کے عین مطابق بنائے گئے ہیں۔ وقت ضرورت کسی بھی قانون کی تنسیخ یا اس میں ترمیم بھی ہوتی رہتی ہے اور نئے قوانین بھی نافذ ہوتے رہتے ہیں۔ جاپان کے چند ایک قوانین ایسے بھی ہیں جن کا کسی دوسرے ملک میں تصور بھی محال ہے۔ جاپان میں غالباً َ2005ء تک ایسا قانون بھی تھا جس کے تحت کوئی قاتل کامیاب قتل کی واردات کے بعد صرف پندرہ سال تک قانون کی نظروں سے اوجھل رہے تو اس کے جرم کی کتاب بند کر دی جاتی تھی اور اسی طرح کوئی ڈاکہ زنی کی کامیاب واردات کے بعد سات سال تک رفو چکر ہو جائے اور قانون سے آنکھ مچولی کھیلتا رہے تو اس کے جرم کی کتاب بھی نہ صرف بند کر دی جاتی ہے بلکہ لوٹی ہوئی رقم بھی اس کی ہو جاتی ہے۔ (2005ء سے پندرہ سال کی مدت بڑھا کر پچیس سال کر دی گئی تھی جسے گزشتہ ہفتے ختم کر دیا گیا ہے)باوجود اتنے نرم قوانین کے بھی جاپان میں ایشیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں جرائم کی شرح بہت کم ہے تاہم کبھی کبھی قتل و ڈکیتی کی وارداتیں بھی ہوتی رہتی ہیں اور یہاں کی پولیس فرار ہونے والے ملزمان کو بہت جلد گرفتار بھی کر لیتی ہے لیکن بعض وارداتوں میں ملزم سالوں تک روپوش بھی رہتے ہیں لیکن پولیس مسلسل ان کی تلاش میں رہتی ہے تاہم اگر قاتل اور ڈاکو مقررہ مدت تک گرفتار نہ ہو سکیں (جو کہ شاذو نادر ہی ہوتا ہے)تو ان کے مقدمے کی کتاب ہمیشہ کے لئے بند کر دی جاتی تھی۔ ویسے بھی کسی با ضمیر انسان کے لئے اتنا بھاری جرم کرنے کے بعد پندرہ یا پچیس سال روپوشی کی حالت میں رہنا بہت دل جگرے کا کام ہے۔ خصوصاًکسی جاپانی کے لئے کیونکہ یہ بہت حساس قوم ہے اور کوئی جرم غلطی سے کر بھی بیٹھے تو اپنے آپ کو قانون کے حوالے کرنے میں دیر نہیں کرتے۔ مگر مقتول کے لواحقین کے لئے وہ وقت بہت تکلیف دہ ہوتا ہے جب تک کہ قاتل گرفتار نہ ہو جائے اور اسے اس کے جرم کی سزا نہ مل جائے کیونکہ کسی کا بھی پیارا قتل ہو جائے تو وہی اس تکلیف اور دکھ کا اندازہ کر سکتا ہے۔ لہٰذاجاپان میں بھی کئی سالوں سے اس قسم کے قوانین کی سخت مخالفت کی جا رہی تھی۔ چند سال قبل پندرہ سال کی مدت والا قانون جڑ سے ختم تو نہ کیا جا سکا مگر اس کی میعاد میں پندرہ سال سے توسیع کر کے موجودہ پچیس سال کر دی گئی تھی لیکن جاپان میں اس قانون کو سرے سے ہی ختم کرنے کے مطالبات کئے جا رہے تھے۔ حال ہی میں حکومت جاپان کی وزارت انصاف نے فیصلہ کیا ہے کہ اس کی موجودہ میعاد پچیس سال سے بڑھا کر چالیس یا پچاس سال کر دی جائے لیکن اب اس قانون کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔ ماہرین قانون سے جب پوچھا گیا کہ ایسے بھونڈے قوانین بنانے کی کیا تک تھی؟تو ان کا جواب تھا کہ کسی قتل کی واردات میں طویل مدت کے دوران ملوث ملزم سے متعلق واقعات و شواہد و ثبوت کی حیثیت ماند پڑ جاتی ہے اس لئے اگر پچیس سال کے بعد کوئی ملزم گرفتار ہو بھی جائے تو ناقص شواہد و ثبوت کی روشنی میں درست فیصلہ ناممکن ہو جاتا ہے۔ کیونکہ جس وقت یہ قانون بنایا گیا تھا آج کی طرح جدید سہولیات دستیاب نہ تھیں۔ آج کے دور میں کسی بھی انسان کے ڈی این اے کے ذریعے طویل مدت تک معلومات محفوظ کی جا سکتی ہیں۔

مذکورہ بالا قانون سے کئی خاندان متاثر ہوئے ہیں۔ جس میں ٹوکیو کے ایک تعمیراتی کمپنی کے نقشہ نویس جناب کاوامورا تھے۔ جنہیں اپریل1994ء میں ٹوکیو کے ایک پارک میں بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا اور ان کی لاش کو بیس ٹکڑوں میں تقسیم کر کے قاتل فرار ہو گیا تھا جس کی تلاش کے لئے جاپان پولیس کے سینتیس ہزار تفتیش کاروں نے تفتیش کی لیکن قاتل کاسراغ نہ مل سکا۔ آخر کار گزشتہ سال ماہ اپریل میں اس وقت کے قانون کے مطابق پندرہ سال مکمل ہو چکے تھے لہٰذا مفرور قاتل کی تفتیشی کتاب بند کر دی گئی تھی اس موقع پر کئی لوگوں نے گہرے دکھ کا اظہار کیا اور حکومت جاپان سے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے قانون کو فی الفور ختم کیا جائے۔ مقتول کاوامورا کے والد اپنے بیٹے کے قتل کے چند سالوں بعد ہی اپنے پینتیس سالہ جوان بیٹے کے غم میں اس دنیائے فانی سے کوچ کر چکے ہیں اور ان کی والدہ جو اپنے بیٹے کی المناک موت کے بعد گھر میں محبوس ہو کر رہ گئی تھی پندرہ سال گزرنے پر بھی بیٹے کے قاتل کا سراغ نہ ملنے پر بہت غمگین اور دلبرداشتہ ہیں۔ پچھلے دنوں اس خبر کا بڑا چرچا رہا تھا۔ اس سلسلہ میں مجھے کئی ہم وطنوں کے فون آئے کہ جناب اگر کوئی قاتل پندرہ سال کے بعد بغیر کسی سزا کے آزاد ہو سکتا ہے تو کیا اس ملک میں بیس سال سے بھی زیادہ عرصے سے گمنام طور پر کئی غیر ملکی اپنی زندگیاں برباد کر رہے ہیں جن کا جرم قتل یا ڈاکہ نہیں صرف اپنی اقامتی میعاد سے زائد عرصہ غیر قانونی طور پر جاپان میں رہ کر اپنے ملک اور خاندان کے لئے قربانیاں دے رہے ہیں کیا وہ اس قانون سے استفادہ نہیں کر سکتے۔ جب قاتل اور ڈاکو اتنے بھاری جرائم کے مرتکب ہو کر بھی سات سال یا پندرہ سال بعد معاشرے کے با عزت شہری بن سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں بن سکتے جنہوں نے صرف ا میگریشن کا قانون توڑا ہے لیکن اپنی بیس سالہ اقامت کے دوران کبھی کوئی جرم نہیں کیا بلکہ محنت و مشقت سے جاپان کی معیشت میں اہم کردار بھی ادا کیا ہے جو اتنے طویل عرصے سے اپنے ماں، باپ، بہن، بھائی، رشتہ دار اور دوست احباب سے بھی ملنے سے مجبور ہیں۔ اتنے طویل عرصے کے بعد بھی ہمیں معافی نہیں ہے؟ کسی قاتل یا ڈاکو کو مفرور ہونے کا اعزاز یا انعام مل سکتا ہے تو کیا محنت و مشقت سے کام کرنے والوں کو بیس سال بعد بھی اس ملک میں رہنے کا اجازت نامہ نہیں مل سکتا؟؟  کیا ہمارے ادنیٰ سے جرم کی کتاب بند نہیں ہو سکتی؟؟

شائد کبھی جاپان میں ایسے غیر ملکیوں کے مسائل کی طرف بھی توجہ دی جا سکے تو یقیناً جاپان کا ایک اور خوبصورت رخ دنیا کو دیکھنے کو ملے گا۔

٭٭٭

 

جاپان میں محکمہ سیاحت

(13 اکتوبر 2011ء) دنیا بھر میں جاپان واحد ملک ہے جہاں بغیر ڈر و خوف کے سیاحت کے شوقین افراد سفر کر سکتے ہیں، تاہم جاپان کی سیاحتی صنعت دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت پیچھے ہے۔ آج سے تقریباَ30 سال قبل تک جاپان دنیا بھر کے سیاحوں کے لئے جنت ہوا کرتا تھا، مگر گزشتہ دو دہائیوں سے جاپان کی کرنسی کی بڑھتی ہوئی قدر نے اس صنعت کو بے حد متاثر کیا ہے۔ ہزاروں سیاح جاپان آنے کے لئے بیتاب رہتے ہیں مگر جاپان کی مہنگائی، امیگریشن کے سخت قوانین، مہنگی کرنسی اور ویزہ کی کڑی شرائط کی وجہ سے سیاحوں نے جاپان کا رخ کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ان تما م حالات کے باوجود جو لوگ جاپان کی سیاحت کے لئے آیا کرتے تھے سال رواں کے مارچ میں آنے والے زلزلے اور تسونامی کے خوف نے انہیں بھی روک دیا۔ گو کہ جاپان کی سیاحتی صنعت کو اپنے فروغ کی فکر نہیں مگر حکومت جاپان اور محکمہ سیاحت کی خواہش ہے کہ وہ سیاح جو زلزلے و تسونامی کے خوف سے جاپان کا رخ نہیں کر رہے انہیں کسی طرح راغب کیا جا سکے کہ اب جاپان میں تسونامی کے بعد حالات بتدریج بہتر ہو رہے ہیں اور متاثرہ علاقے سیاحوں کے منتظر ہیں۔ جاپان کے محکمہ سیاحت نے دنیا بھر کے سیاحوں کو جاپان کی سیاحت کے لئے ایک پر کشش اسکیم کا اعلان کیا ہے، اعلان کے مطابق اگلے سال دنیا بھر سے دس ہزار عام سیا حوں کو محکمے کی جانب سے جاپان آنے جانے کے ہوائی اخراجات ادا کئے جائیں گے۔ سیاحوں کے لئے انٹرنیٹ کے ذریعے درخواستیں وصول کی جائیں گی اور جو درخواست گزار ان کے مطالبات پر پورا اتریں گے انہیں دو طرفہ ہوائی ٹکٹ بالکل مفت فراہم کیا جائے گا۔ اس پیشکش کا مقصد انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا بھر میں یہ معلومات بہم پہنچانا ہے کہ اندرون جاپان قیام اور سیاحت کو محفوظ بنا دیا گیا ہے اور اس پیغام کو ان سیاحوں کے ذریعے دنیا بھر میں عام کرنا مقصود ہے۔ دنیا بھر سے دس ہزار سیاحوں کو جاپان بلانے کے لئے محکمہ سیاحت نے اگلے سال کے بجٹ میں ایک سو دس کروڑ ین مختص کئے ہیں۔

محکمہ سیاحت کے مطابق تسونامی کی وجہ سے فوکوشیما میں قائم جوہری بجلی گھروں کی تباہی سے تابکاری کے اثرات کے خوف کی وجہ سے بھی سیاحوں کی آمد میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں جاپان آنے والے غیر ملکیوں کی تعداد میں ماہ اگست میں تقریباَ32فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ اس سے پہلے تقریباَ26 فیصد زائد ریکارڈ غیر ملکیوں نے جاپان کا دورہ کیا۔ حکومت جاپان مستقبل میں تین کروڑ غیر ملکیوں کی آمد کا ٹارگٹ رکھتی ہے۔

٭٭٭

 

جاپان بھر میں نصب وینڈنگ مشینوں  کی تعداد پچاس لاکھ سے زائد ہے

 (22اپریل 2011ء )جاپان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اس کی عوام کو سہولت کی ہر چیز میسر ہے، جاپان کی زندگی کو مشینی زندگی کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا، یہاں ہر انسان صبح سے شام تک اتنا مصروف ہوتا ہے کہ اسے اپنے والدین، اولاد اور دوستوں کے ساتھ چند لمحات گزارنا بھی نصیب نہیں ہوتا۔ یہی نہیں بلکہ یہاں کے لوگوں کے پاس اتنا وقت بھی میسر نہیں ہوتا کہ کسی سپر مارکیٹ یا دکان پر کوئی چیز خریدیں اور طویل قطار میں لگ کر اس کی ادائیگی بھی کرسکیں۔ جاپانی عوام کے اس محدود وقت کے پیشِ نظر یہاں پر جگہ جگہ بلکہ چند گام کے بعد آپ کو وینڈنگ مشینیں نظر آئیں گی جنھیں اردو میں اشیاء فروخت کرنے والی خودکار مشینیں کہا جا سکتا ہے اور جاپانی زبان میں انھیں جِدو ؤ ہانبائیگی Jidou Hanbaigiکہتے ہیں۔ جاپان بھر میں اس قسم کی مشینوں کی تعداد پچاس لاکھ کے لگ بھگ ہے، ان مشینوں میں ٹھنڈے و گرم مشروبات،، شراب، سگریٹ، نوڈلز، عارضی کیمرے، کیمروں کی فلم، اخبارات، میگزین، سی ڈی، ویڈیو، سیل، آئیس کریم، ڈبل روٹی، بسکٹ، چاول، گلدستے، کھلونے اور نہ جانے کیا کیا چیزیں فروخت ہوتی ہیں۔ مشینوں کے ماتھے پر ہر چیز کا نمونہ چسپاں ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہی اس چیز کے نرخ بھی درج ہوتے ہیں، صارفین دکانوں اور سپر مارکیٹوں میں طویل قطاروں سے بچنے کے لئے وینڈنگ مشینوں کا رُخ کرتے ہیں اور اپنی پسند کی شے خریدنے کے لئے مشین کے منہ میں درج شدہ قیمت یا کوئی بڑا نوٹ ڈالتے ہیں اور مشین میں ہر خانے میں موجود اشیاء کی قیمتیں نمایاں ہو جاتی ہیں، جو چیز آپ خریدنا چاہتے ہیں اس چیز کے نمونے پر بٹن کو دبانے پر چیز نیچے بکس میں آ جاتی ہے اور مشین خود کار طریقے پرحساب کتاب کے بعد بقیہ رقم بھی ایک طرف بنے ہوئے چھوٹے سے بکس میں اُگل دیتی ہے۔ چیزوں کا ذخیرہ ختم ہونے پر اس چیز کا خانہ روشن ہو جاتا ہے جس پر لکھا ہوتا ہے کہ یہ چیز ختم ہو چکی ہے، ان مشینوں کی دیکھ بھال کرنے والے ہر روز مشینوں کی جانچ پڑتال کرتے ہیں خالی خانوں میں نئی اشیاء بھر دی جاتی ہیں اور مشین میں موجود رقم کو بھی نکال لیا جا تا ہے۔ جاپانی عوام کے لئے ان مشینوں کی بہت اہمیت ہے اور جاپانی عوام ان مشینوں کی اتنی عادی ہو چکی ہے کہ شاید ان مشینوں کے بغیر اب ان کا گزارا مشکل نظر آتا ہے اور یہ جاپانی عوام کی زندگی کا ایک حصہ بن کر رہ گئی ہیں۔ تاہم شراب و سگریٹ کی مشینوں سے بیس سال سے کم عمر افراد خریداری نہیں کرسکتے کیونکہ جو بھی خریدار جب اس میں رقم ڈالتا ہے تو اسے ایک مخصوص کارڈ بھی سکرین پر لگانا ہوتا ہے جس سے اس کی عمر کا پتا چلایا جاتا ہے اور یہ مخصوص کارڈ انہی کو جاری کئے جاتے ہیں جو بیس سال سے زائد عمر کے لوگ ہوتے ہیں۔ اتنی تعداد میں مشینوں کی تنصیب کے باوجود جاپان کے کسی بھی شہر سے ان وینڈنگ مشینوں سے اشیاء یا رقم کی چوری کی خبر شاذو نادر ہی آتی ہے بعض مشینوں پر ان کے مالکان نے خود کار کیمرے بھی نصب کر رکھے ہیں اور مشینوں میں ایسے الارم بھی لگا رکھے ہیں کہ کوئی گڑ بڑ کرے تو الارم بجنا شروع ہو جاتا ہے، مشین آخر مشین ہی ہوتی ہے اگر کبھی اس میں کچھ گڑ بڑ ہو جائے یعنی رقم نگلنے کے بعد بھی مطلوبہ اشیاء نہ اُگلے تو گاہک پریشان ہو جاتا ہے ایسی صورت میں مشین کے پاس ہی ایک بٹن دیا ہوتا ہے جسے دبا کر مشین کے مالک سے رابطہ بھی کیا جا سکتا ہے اور اپنی شکایت کا ازالہ کر سکتے ہیں تاہم ایسا بھی شاذو نادر ہی ہوتا ہے جاپان کی مشینیں ہمارے انسانوں سے زیادہ ایماندار ہیں اور اپنا کام بھی بڑی ایمانداری سے کر رہی ہوتی ہیں۔ صرف سگریٹ و شراب وغیرہ بیچنے والی مشینیں جاپانی قوانین کے مطابق رات کو گیارہ بجے خود کار طریقہ پر آف ہو جاتی ہیں اور صبح سویرے چھ بجے آن ہو جاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق جاپان بھر میں ان مشینوں کی تعداد پچاس لاکھ کے لگ بھگ ہے، گزشتہ دنوں جاپان میں آنے والے زلزلے و تسونامی کے باعث فوکوشیما میں نصب جوہری بجلی گھر کے ری ایکٹر بھی بری طرح متاثر ہوئے اور وہاں بجلی کی پیداوار نہ ہونے کی وجہ سے جاپان بھر میں بجلی کی قلت پیدا ہو گئی اور حکومتِ جاپان کو چند دنوں کے لئے ہر روز لوڈ شیڈنگ کرنے کی عوام سے اپیل کی گئی، ایک اندازے کے مطابق ان وینڈنگ مشینوں پر صرف ہونے والی بجلی کی مقدار فوکوشیما میں پیدا ہونے والی بجلی کی مقدار کے مساوی ہے، گزشتہ دنوں جاپان کے دار الحکومت ٹوکیو کے گورنر کے انتخابات میں چوتھی بار مسلسل گورنر منتخب ہونے 78 سالہ شِن تھارو اِشی ہارا نے انتخابات سے چند روز قبل اپنی انتخابی مہم میں اعلان کیا کہ وہ ٹوکیو میں بجلی کی قلت کو پورا کرنے کے لئے ٹوکیو بھر کے تمام جوئے خانے اور وینڈنگ مشینیں جن میں بجلی بہت زیادہ ضائع ہو جاتی ہے انھیں کم کریں گے تاکہ جاپان میں آئندہ بجلی کا بحران پیدا نہ ہو، ان کے گورنر منتخب ہونے کے بعد ان کی ہدایات پر عمل ہونا شروع ہو گیا ہے اور کئی مشروبات کی کمپنیوں نے اپنی وینڈنگ مشینوں کو ایک دن میں کئی گھنٹے تک بند رکھنے کا بھی اعلان کیا ہے، جاپان کی کوکا کولا کمپنی نے اپنی دو لاکھ پچاس ہزار وینڈنگ مشینوں کے اوقات میں تبدیلی کرنے کا اعلان کیا جس کے تحت جون سے ستمبر تک بجلی کی بچت کرتے ہوئے گزشتہ سال کے مقابلے میں 33 فیصد کمی کرے گی۔ وینڈنگ مشینیں تیار کرنے والی کمپنیوں نے بجلی میں بچت کرنے کی خاطر ایسی ٹیکنالوجی استعمال کی کہ مشین میں لگے ہوئے ٹھنڈے و گرم مشروبات مقررہ درجے تک ٹھنڈے یا گرم ہو جائیں تو مشین میں بجلی خودکار طریقے پر رک جاتی ہے اور جونہی مقرر درجے سے کم ہوتی ہے تو مشین آن ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے بھی بجلی میں کافی بچت ہو رہی ہے۔

٭٭٭

 

جاپان میں ٹریفک سگنلز کی تعداد ڈھائی لاکھ کے لگ بھگ ہے

آج کی دنیا میں ٹریفک کنٹرول کرنے کے لئے شاید ٹریفک پولیس کے جوان اتنی مستعدی سے اپنی کارکردگی نہ دکھا سکیں جتنی آج کے ٹریفک سگنل دکھاتے ہیں۔ دنیا بھر میں بنیادی طور پر تو ٹریفک سگنل ایک جیسے ہی نظر آتے ہیں مگر غور کیا جائے تو کئی ممالک میں ٹریفک سگنل کا نظام اور اس کے رنگوں میں کچھ فرق پایا جاتا ہے۔ اشارے یا سگنل جن کی وجہ سے دنیا کے ممالک میں بڑھتی ہوئی ٹریفک کو اتنی آسانی سے کنٹرول کیا جا رہا ہے، پرانے وقتوں میں شاید کسی نے تصور بھی نہ کیا ہو۔ دنیا میں سب سے پہلا اشارہ 1868ء میں برطانیہ کے شہر لند ن کے ایک چوراہے پر نصب کیا گیا جس کے دو رنگ تھے سرخ اور سبز جو گیس کے ذریعے روشن کیا جاتا تھا اور اسے استعمال کرنے کے لئے ہمہ وقت ایک انسان کی ضرورت تھی، اس اشارے کو اُس وقت روڈ پر چلنے والے تانگوں کو کنٹرول کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا مگر گیس کے استعمال کی وجہ سے اس میں یکے بعد دیگرے دھماکے اور حادثات رونما ہوئے اور وہ ناکام ہو گیا۔ بعد ازاں، امریکہ نے 1918ء میں برقی اشارہ ایجاد کیا اور اسے نیو یورک شہر میں نصب کیا گیا جو دنیا کا پہلا برقی یعنی الیکٹرونک ٹریفک سگنل تھا۔ امریکہ کی تقلید میں جاپان نے بھی امریکی ساخت کے اشارے ٹوکیو میں متعارف کروائے اور سب سے پہلا برقی اشارہ ٹوکیو کے علاقے ہیبیا کے ایک چوراہے پر 1930ء میں نصب کیا گیا۔ اسی سال جاپان نے اپنے اشارے خود تیار کئے جو شروع شروع میں جاپان کے بڑے شہروں میں ہی نصب کئے گئے، تاہم جنگِ عظیم دوم کے بعد گاڑیوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ہی سگنل کی اہمیت بڑھتی گئی اور1970 ء تک جاپان بھر کے ہر علاقے، سڑک اور چھوٹے موٹے راستوں پر بھی سگنل نظر آنے لگے اور اب یہ صورتِ حال ہے کہ جاپان کی کوئی گلی، محلہ یا کوئی ویران جگہ بھی ایسی باقی نہیں رہی جہاں سگنل نصب نہ کئے گئے ہوں۔ سگنل کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے چھوٹے بچوں کو اسکول میں خصوصی طور پر سگنل کے بارے میں تعلیم دی جاتی ہے حتیٰ کے جاپان کے پالتو کتے بھی سگنل کے اشاروں کو سمجھتے ہیں۔ جاپان میں سگنل کے تین رنگ ہیں سرخ، پیلا اور سبز جسے بعض مقامات پر غور سے دیکھیں تو نیلا محسوس ہوتا ہے، جاپان میں سبز اشارے کو ویسے بھی نیلا کہا جاتا ہے شاید اس لئے بعض اوقات یا بعض مقامات پر نیلا اشارہ بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ جاپانی ٹریفک قوانین میں سگنل نظر انداز کرنے پر ڈرائیور کو تین ماہ کی قید یا پچاس ہزار ین سے کم جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت جاپان بھر میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ڈھائی لاکھ کے لگ بھگ سگنل کام کر رہے ہیں، اور قیاس ہے کہ ایک سگنل نصب کرنے پر کم از کم پچیس لاکھ ین خرچ ہوتے ہیں۔

گزشتہ دنوں اوکا یاماپریفیکچر کے شہر اوکایاما کے ایک چوراہے پر ایسا ٹریفک سگنل نصب کیا گیا ہے جو گاڑیوں کے ہونے یا نہ ہونے کے وجود کی شناخت کر کے سرخ یا سبز رنگ کا اشارہ دیتا ہے جسے جاپان میں پہلی بار متعارف کرایا گیا ہے۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ جاپان بھر میں اشارے بہت بڑی تعداد میں نصب کئے گئے ہیں اور کئی مقامات ایسے بھی ہیں جہاں سے گاڑیاں تو بہت کم گزرتی ہیں مگر راہگیروں کا گزر زیادہ ہوتا ہے ایسے میں اشارے کی پابندی کرنے والے راہگیر اپنی طرف کے اشارے کو سبز ہونے تک تیس سے پیسینٹھ سیکینڈ انتظار کرتے کرتے اضطراب کا شکار ہو جاتے ہیں اور اشارہ توڑتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ سگنل کی خلاف ورزی کے مرتکب ہونے والوں کی تعداد کو کم کرنے کے لئے اوکا یاما شہر کی پولیس کے شعبۂ ٹریفک نے شہر کے ایک چوراہے پر نصب سگنل سے گزرنے والے راہگیروں کا اعداد وش مار اکٹھا کیا جہاں سے صبح کے وقت چودہ سو اور شام کے وقت دو ہزار سے زائد افراد نے سگنل استعمال کیا جن میں بیس سے تیس فیصد لوگوں نے اشارے کو نظر انداز کر دیا۔ پولیس کے سروے کے مطابق اشارہ توڑنے کی وجہ اس اشارے سے گاڑیاں کم گزرتی ہیں مگر سڑک پار کرنے والوں کی طرف کا اشارہ 65 سیکنڈکے بعد ہی سبز یا نیلا ہوتا ہے اور لوگ سبزہونے سے پہلے ہی گزر جاتے ہیں۔ متعلقہ پولیس نے آزمائشی طور پر ایک چوراہے پر ایسا اشارہ نصب کیا ہے جس کا حساس سینسر جو دونوں طرف سے گاڑیوں کی موجودگی کا پتہ چلا کرسگنل آن آف کرتا ہے، لہٰذا گاڑی نہ ہونے کی صورت میں روڈکراس کرنے والوں کو سگنل پر بے جا کھڑا ہونے کی ضرورت نہیں ہے تاہم جو راہ گیر اپنے سرخ سگنل کو نظر انداز کر کے جانے کی کوشش کرے گا تو سینسر سے ایک بچی کی خوبصورت آواز آئے گی کہ سگنل مت توڑیں، خطرہ ہے۔ ۔ اس قسم کا سگنل جاپان بھر میں اپنی نوعیت کا منفرد سگنل ہے۔ مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ اگر اس سگنل کے نتائج اچھے برآمد ہوئے تو دیگر مقامات پر بھی اس قسم کے اشارے نصب کئے جائیں گے۔

٭٭٭

 

جاپان میں ٹریفک حادثات میں سالانہ دس ہزار اموات

(28 اکتوبر2011ء) جاپان دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں ٹریفک کے قوانین پر سختی سے عمل درآمد کیا جاتا ہے اور گاڑی چلانے کے تمام قوانین کا جاپانی عوام خوش دلی سے احترام کرتی ہے اور وہ اس بات سے خوب واقف ہے کہ ان کے حکمران کوئی بھی قانون اپنے مفاد کے لئے نہیں بلکہ عوام کی فلاح و بہبود اور آسانی کے لئے وضع کرتے ہیں۔ جاپان کا قانون صرف عام لوگوں یا غریبوں کے لئے ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہر طبقے کے لوگوں کے لئے بنایا جاتا ہے اور اس پر عمل درآمد ہر شہری کا فرض ہے خواہ وہ ایک مزدور ہو، کلرک ہو، استاد، وکیل، جج، ڈاکٹر، ملازم سرکاری و غیر سرکاری اعلیٰ و ادنیٰ عہدیدار، سیاستدان یا حکمران قانون سب کے لئے یکساں ہے۔ تاہم ٹریفک کے اتنے سخت قوانین رائج ہونے کے باوجود جاپان میں ٹریفک کے حادثات کے نتیجے میں سالانہ دس ہزار سے زائد اموات واقع ہوتی ہیں۔ ٹوکیو، سائیتا ما پریفیکچر کے مقابلے میں بہت زیادہ سرد علاقے جہاں منفی درجے کی سردی پڑتی ہے اور برف باری ہوتی ہے وہاں موسم سرمامیں حادثات کی شرح دوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ ٹریفک حادثات کو کم کرنے کے لئے مختلف علاقوں میں مختلف تنظیمیں اور ادارے اقدامات کرتے رہتے ہیں تاکہ حادثے میں قیمتی انسانی جانیں ضائع نہ ہو سکیں۔ گزشتہ دنوں جاپان کے تھوکائی علاقے کے گیفو، می اے اور آئیچی پریفکچر ز کے متعدد ہائی سکولوں کی انتظامیہ نے ان طلباء کے لئے جو دور دراز سے سائیکلوں پر سکول آتے ہیں کے لئے لائسنس کے اجراء کا آزمائشی طور پر نظام متعارف کروایا ہے۔ اس نظام کو کامیاب بنانے کے لئے مقامی موٹرز ٹریننگ سکول اور ٹریفک پولیس کا تعاون بھی حاصل کیا جا رہا ہے سائیکل کے لائسنس کے حصول کے لئے سو نمبر کا ایک ٹیسٹ دینا لازمی ہے جس میں کم از کم 80 نمبر حاصل کرنے والے امیدواروں کو لائسنس جاری کیا جائے گا۔ مقامی سکول کے ایک سینئراستاد نے بتایا کہ ان کے سکول میں تقریباَ90 فیصد طلباء سکول آنے کے لئے سائیکل استعمال کرتے ہیں انہیں ٹریفک حادثات سے بچانے کے لئے ہم نے یہ نظام متعارف کروایا ہے اور ہماری تقلید کرتے ہوئے دیگر سکولوں میں بھی یہ نظام رائج ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس نظام کی ضرورت اس وقت پیش آئی جب گزشتہ سال سکول آنے والے بچوں کے پے در پے حادثات رونما ہوئے۔ انہوں نے کہا سائیکل کے لائسنس کے لئے بھی تقریباً وہی قوانین بنائے گئے ہیں جو عام موٹر سائیکل یا گاڑی والوں کے ضروری ہوتے ہیں۔ سائیکل پر ڈبل سورای اور موبائل فون کا استعمال کرنا خلاف ورزی کہلائے گا اور اسے سزا یا جرمانے کے طور پر ایک ہفتے کے لئے ان کا لائسنس ضبط کرنے اور سائیکل چلانے پر پابندی عائد کی جائے گی اور خلاف ورزی کے مرتکب ہونے والے طلباء سکول آتے وقت سائیکل کا استعمال نہیں کر سکیں گے۔ واضح رہے کہ جاپان کے عام شہریوں کے لئے سائیکل کا لائسنس حاصل کرنا ضروری نہیں ہے۔

٭٭٭

 

آبے سے فوکودا تک ایک سال کی مختصر کہانی (جاپان کی سیاست)

(3 ستمبر2008ء) گزشتہ سال بارہ ستمبر کو جاپان کے شنزو آبے نے وزارتِ عظمیٰ سے اچانک مستعفی ہو کر ساری دنیا خصوصاً جاپانی قوم کو حیران وپریشان کر دیا تھا ان کا دورِ حکومت گیارہ ماہ اور چند دنوں پر محیط کوئی خاص کارنامہ انجام دئیے بغیر ہی اختتام کو پہنچا تھا۔ جاپان کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ تھا کسی وزیر اعظم نے اسطرح اچانک دستبردار ہونے کا اعلان کیا ہو حالانکہ چند روز قبل ہی وہ تین بڑے ممالک بھارت، ملیشیا اور انڈونیشیا کا نہائیت ہی کامیاب دورہ کر کے لوٹے تھے اور واپسی پر انھوں نے اپنی کابینہ کی خراب ہوتی ہوئی ساکھ کو بچانے کے لئے بڑے پیمانے پر ردّ و بدل بھی کیا تھا۔ انھوں نے اچانک مستعفی ہونے کی وجہ اپنی خرابیِ صحت بتائی تھی اور دوسرے دن ہی وہ علاج و معالجے کی غرض سے ہسپتال میں داخل ہو گئے تھے۔ لیکن مبصّرین اور عوام کے خیال میں مستعفی ہونے کی پسِ پردہ وجوہات کچھ اور تھیں۔ جناب آبے ایک مضبوط سیاسی اور امیر کبیر گھرانے کے چشم و چراغ ہیں ان کی تعلیم و تربیت بالکل شہزادوں کے طر ز پر ہوئی ہے وہ خاموش طبع اور کم گو انسان ہیں جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد پیدا ہونے والے پہلے وزیر اعظم تھے اور ان کی سیاسی عمر بھی کچھ خاص نہ تھی ان کے والد ماضی میں وزیرِ خارجہ رہ چکے ہیں اور آبے سیاست میں آنے سے پہلے اپنے والد کے پرسنل سیکریٹری بھی رہ چکے ہیں۔ سیاست میں آنے کے بعد ان کے پاس کوئی خاص سیاسی عہدہ یا وزارتی قلمدان نہیں رہا لیکن سابق وزیر اعظم کھوئزمی کے دور میں وہ اچانک عوام میں مقبول ہو گئے اور چیف آف سیکریٹیریٹ کے عہدے پر براجمان ہوئے جو کہ جاپانی حکومت میں نمبر دو پوسٹ ہے۔ اپنی اسی حیثیت میں 25 سال سے اغوا کئے ہوئے درجنوں جاپانی جو کہ نارتھ کوریا میں مغوی کی حیثیت سے زندگی گزار رہے تھے آبے نے نارتھ کوریا جا کر وہاں کی حکومت سے براہِ راست مذاکرات کر کے کئی جاپانیوں کو رہائی دلوا کر واپس جاپان لے کر آئے تو عوام میں ان کی مقبولیت میں اور بھی اضافہ ہو گیا اور عوام انھیں آئندہ کا وزیر اعظم دیکھنا چاہتے تھے لہٰذا جب کھوئزمی کی مدت پوری ہوئی تو انھیں لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کا صدر منتخب کر لیا گیا اور وہ وزیر اعظم کے انتخاب میں اپنی ہی پارٹی کے بڑے بڑے تجربہ کار اور سینئیر رفقاء کو شکست دیکر بھاری اکثریت سے اس منصب پر تین سال کے لیے فائز ہو گئے۔ جواں سال 51سالہ آبے اپنی کم عمری اور کم تجربہ کاری کے باعث شروع سے ہی ڈانوا ڈول ہو گئے۔ ان کی کابینہ میں شریک عمر رسیدہ اور کھاپڑ ٹائپ کے کئی ایک وزراء بھی شامل تھے جنھوں نے کم عمر آبے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنی من مانیاں کیں اور کئی بار غلط فیصلے کئے گئے۔ یکے بعد دیگرے رقم کے گھپلوں کے اسکینڈل رونما ہوئے کسی نے عورتوں کے لئے بچّے پیدا کرنے والی مشین جیسے نازیبا الفاظ استعمال کئے توکسی نے ملک کی تاریخ پر الٹے سیدھے بیان داغ دیئے جس کی وجہ سے عوام میں ان کی کابینہ کی پسندیدگی کاتناسب تیزی سے گرنے لگا اور پھر ایک دن ان کی کابینہ کے وزیرِ زراعت و جنگلات جناب ماٹسواوکا نے خود کشی کر لی اور یہ بھی تاریخی واقعہ ہے کہ کسی وزیر نے آن ڈیوٹی خودکشی کی ہو۔ انھی دنوں sangiinیعنی ہاؤس آف کونسلرز کے انتخابات میں ان کی پارٹی کو زبردست تاریخی شکست ہوئی جس کی وجہ سے حزبِ اختلاف کو پھلنے پھولنے کا موقعہ ملا گو کہ اس شکست سے ان کے اقتدار پر کوئی اثر نہ پڑتا لیکن وہ عوام میں اور اپنی پارٹی میں اعتماد کھو بیٹھے تھے لہٰذا انھیں فوری طور پر مستعفی ہونے میں ہی عافیت نظر آئی۔ یہی جاپانی عوام اور ان کے رہنماؤں کا چلن ہے کہ جہاں اعتماد کھویا اپنا بوریہ بستر گول کر کے گمنام ہو جاتے ہیں۔ ہمارے پاکستانی رہنماؤں کی طرح نہیں کہ ایک بار اقتدار مل جائے تو تا حیات اقتدار سے چمٹے رہنے کی کوشش میں بقیہ زندگی بسر کر دیتے ہیں۔ آبے کے بعد ان کے جانشین کی بھاگ دوڑ شروع ہوئی اور اس دوڑ میں 71 سالہ جناب یاسو فوکودا فاتح قرار پائے جو کہ سابق وزِیر اعظم کھوئزمی کے دور میں چیف آف سیکریٹیریٹ کی حیثیت سے اپنی اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ بھی کر چکے تھے اور عوام میں بھی ایک معتبر اور قابلِ احترام سیاست دان تصور کئے جاتے تھے۔ گزشتہ سال26ستمبر کو فوکودا نے اپنی نئی کابینہ تشکیل دی جس میں زیادہ تر سابق کابینہ کے ارکان تھے اور صرف چار وزراء نئے لیکن تجربہ کار اور با صلاحیت تھے۔

فوکودا یاساؤ بھی ایک سیاسی گھرانے میں 1936 ء میں پیدا ہوئے اور ان کے والد بھی وزیر اعظم رہ چکے ہیں اور یہ جاپان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا تھا کہ باپ بیٹا ملک کے وزیرِ اعظم رہے ہوں۔ فوکودا نے اپنے مرحوم والد کے جانشین کے طور پر پہلی بار53سال کی عمر میں سیاست میں حصّہ لیا اور جب سے اپنے آبائی پریفیکچرگنماپریفیکچر سے مسلسل منتخب ہوتے رہے ہیں۔ انھیں بھی سابق وزیرِ اعظم آبے کی طرح زیادہ سیاسی تجربہ نہ تھاسوائے اس کے کہ وہ بھی آبے کی طرح کھوئزمی کی کابینہ میں نمبر دو پوسٹ پر رہے ہیں یعنی چیف آف سیکریٹیریٹ۔ تاہم عوام نے ان سے بہت سی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں اور دیکھنا یہ تھا کہ وہ کونسا لائحہ عمل اختیار کرتے ہوئے عوام کا کھویا ہوا اعتماد بحال کرنے کے ساتھ ساتھ قومی و بین الاقوامی مسائل کو کس طرح حل کرتے ہیں۔ انھیں اندرونِ ملک جو مسائل درپیش تھے ان میں public welfare funds pension system، ان کی جماعت میں کرپشن، ملک میں بڑھتی ہوئی عمر رسیدہ آبادی اور مسلسل گھٹتی ہوئی بچوں کی پیدائش اور اپنی جماعت کی گرتی ہوئی ساکھ وغیرہ تھیں اور سمندر پار مسائل میں نارتھ کوریا سے اغوا شدگان جاپانیوں کی بازیابی، جاپانی امن فوجوں کا اتحادی فوجوں کے ساتھ تعاون کے سلسلے میں حزبِ اختلاف سے مذاکرات کرنا تھے۔ ۔ ۔ لیکن فوکودا بھی اپنے گیارہ ماہ اور چند دنوں کے دورِ اقتدار میں آبے کی طرح کوئی خاص کارنامہ انجام دیئے بغیر عوام کو مزید مسائل ورثے میں دیکر مستعفی ہونے کا اعلان کر چکے ہیں۔ ۔ آبے اور فوکودا میں کئی باتیں مشترک تھیں مثلاّ دونوں سیاست میں آنے سے قبل اپنے اپنے والد کے پرسنل سیکریٹری رہ چکے تھے، سابق وزیرِ اعظم کھوئزمی کی کابینہ میں دونوں باری باری چیف آف سیکریٹیریٹ رہ چکے تھے دونوں نے عوام کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا، آبے 35سال اور فوکودا 53سال کی عمروں میں سیاست میں داخل ہوئے یعنی ہندسوں کا تضاد تھا، فوکودا 53سال کی عمر میں سیاستدان بنے اور آبے 35 سال کی عمر میں سیاست کے بڑے منصب سے چلتے بنے، سیاست میں دونوں کو عملی تجربہ یکساں تھا یعنی18سال اور دونوں کی عمروں میں فرق بھی18سال تھا۔ ۔ ۔ فوکودا کے بعد قیاس کیا جا رہا ہے کہ ان کے جانشین جناب تھارو آسّوہوں گے جو کہ بہت ہی تجربہ کار سیاست دان ہیں جو کہ کھوئزمی کے دور میں کئی ایک اہم وزارتوں میں اپنا لوہا منوا چکے ہیں اور آبے کی  کابینہ میں وزیرِ خارجہ بھی رہ چکے ہیں علاوہ ازیں جوان نسل ان کی مداح ہے۔ یہاں جوان سے مراد پچاس سال سے زائد عمر کے لو گ ہیں۔ ان کی روشن خیالی اور مزاحیہ طبیعت کو لوگ بہت پسند کرتے ہیں وہ انگریزی بھی روانی سے بولتے ہیں لیکن ان تمام باتوں کے باوجود کیا وہ جاپانی عوام کی توقعات پر پورا اتر سکیں گے؟اگر وہ نئے وزیرِ اعظم بن بھی گئے تو کیا وہ اپنی پارٹی کی بقیہ ایک سالہ مدت میں پارٹی کا کھویا ہوا اعتماد بحال کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے؟یا سالِ رواں میں ہی عام انتخابات کے لئے راہ ہموار کریں گے؟

٭٭٭

 

جاپان میں نوجوان نسل میں ادھیڑ عمر ہمسفرکی تلاش کا رجحان

(11 مئی2012ء) جاپان میں عموماً دیکھا گیا ہے کہ ہم عمر شادی شدہ جوڑوں میں آپس کے لڑائی جھگڑے عروج پر رہتے ہیں، بسا اوقات یہ جھگڑے اتنے عروج تک جاتے ہیں کہ طلاق پر شادی کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ ہم عمر جوڑوں میں اکڑ فوں زیادہ ہوتی ہے کوئی بھی ایک فریق دوسرے کو اپنے سے بڑھ کر اہمیت دینے کو تیار نہیں ہوتا۔ مگر وہ شادی شدہ جوڑے جن میں عمروں کا تفاوت ہو انھیں کامیاب زندگی گزارتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ جن میں بہت زیادہ تفاوت ہو وہ اور بھی خوشحال جوڑے ہوتے ہیں ان کے درمیان لڑائی جھگڑے نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں اور دونوں میں جو زیادہ جوان ہوتا ہے اس کا پلہ بھاری رہتا ہے اور عمر رسیدہ شریک جس کا پلہ تو ہوتا ہے مگر وہ پلہ مارنے سے قاصر رہتا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ دونوں کی ازدواجی زندگی بہ نسبت ہم عمر جوڑوں کے زیادہ کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے۔ آجکل جاپان میں اپنے سے زیادہ عمر کا شریکِ حیات تلاش کرنے کا رجحان عام ہے خصوصاً خواتین میں۔ جاپان کی خواتین کا کہنا ہے کہ عمر رسیدہ شریکِ حیات قابلِ اعتماد اور با وفا ہوتا ہے اور وہ عام زندگی میں بھی بہت زیادہ شفیق اور مہربان ہوتا ہے اور تنگ بھی نہیں کرتا۔ وطنِ عزیز میں ابھی بھی تعارفی یا والدین کی مرضی سے طے شدہ شادیوں کا رجحان زیادہ ہے۔ تاہم آجکل پسند کی شادیاں بھی ہو رہی ہیں۔ پاکستان میں زیادہ تر شادیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں لڑکی کم عمر جب کہ لڑکا ہمیشہ زیادہ عمر کا ہوتا ہے بلکہ لڑکا کیا پورا مرد ہوتا ہے۔ ہم بچپن یا لڑکپن میں اپنے محلے میں جب اپنی ہم عمر لڑکی کی شادی دیکھتے تھے تو حیران رہ جاتے تھے کہ اس معصوم لڑکی (جس پر ہم فریفتہ ہوتے تھے )کے ساتھ اس بڈھے کی شادی!! بعد میں دوستوں میں اس معصوم لڑکی پر ترس کھانے والی گفتگو کی جاتی تھی کہ بیچاری پر ظلم ہو گیا مگر جب وہ دوسرے دن اپنے میکے واپس آتی تھی تو بہت خوش نظر آتی تھی اور ہم سے نظریں بھی نہیں ملاتی تھی جس کا مطلب ہم یہ لیا کرتے تھے کہ جوان لڑکیاں عمر رسیدہ مردوں کو پسند کرتی ہیں۔ اب ہم عمر رسیدہ ہوئے ہیں تو نہ جانے جوان لڑکیوں کو ہم کیوں نظر نہیں آتے!!۔ شاذو نادر ہی دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی کم عمر لڑکے کی شادی اپنے سے زائد عمر لڑکی سے ہوئی ہو کیونکہ پاکستانی معاشرے میں ایسی شادی کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ ہمارے پیارے حضورِ اکرم ﷺ کی پہلی شادی حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس وقت ہوئی جب آپ ﷺ کی عمرِ مبارک پچیس سال جبکہ حضرت خدیجۃالکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر چالیس سال تھی مگر لاکھوں میں کوئی ایک مسلمان ہو گا جو آپﷺ کی اس سنتِ مبارکہ پر عمل کرتا ہو۔ مجھے ایسے نام نہاد عاشقانِ رسولﷺ پر بھی حیرت ہوتی ہے جو صرف اور صرف اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ان سنتوں پر عمل کرتے ہیں جو ان کے لئے موافق ہوں۔ عمروں میں اتنا تفاوت جاپان میں تو نظر آتا ہے مگر پاکستان میں صرف جاگیر داروں اور وڈیروں کے ہاں ہی نظر آتا ہے کیونکہ ان کے ہاں اسے معیوب نہیں سمجھا جاتا جس کی کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ تاہم جاپان میں مقیم کئی تارکینِ وطن اپنے سے بڑی عمر کی خاتون سے شادی شدہ نظر آتے ہیں کیونکہ یہاں کوئی کسی پر انگلی نہیں اٹھاتا کہ فلاں صاحب نے اپنے سے اتنی عمر بڑی خاتون سے شادی کی ہے کسی کو کسی سے کوئی غرض نہیں۔ گزشتہ دنوں جاپان میں مقیم سینئر ترین پاکستانی اور عالمی شہرتِ یافتہ کالم نگار 80 سالہ حسین خان نے بھی امریکہ میں مقیم ایک 29 سالہ دوشیزہ سے بذریعہ انٹرنیٹ شادی کی ہے جس کی رخصتی ابھی باقی ہے اور خان صاحب پر ولیمہ کی پارٹی ادھار ہے۔ اسی طرح گزشتہ روز جاپان کے ایک معروف ٹی وی چینل پر پاکستان کی خوبصورت وادی گلگت کے ایک29 سالہ نوجوان علی محمد کی 53 سالہ جاپانی بیوی کے بارے میں ایک دستاویزی فلم دکھائی جا رہی تھی، علی محمد جو اپنی جاپانی زوجہ سے24 سال چھوٹا ہے اس کا کہنا تھا کہ اسے فیس بُک پر اپنی بیوی کی تصویر اتنی اچھی لگی کہ اس نے بلا جھجک اسے شادی کی پیشکش کر دی۔ علی محمد جو دو سال قبل عمررسیدہ جاپانی خاتون سے شادی کر کے جاپان آیا تھا، اس کا کہنا تھا کہ محبت اور شادی میں عمر کی کوئی اہمیت نہیں صرف دو دلوں کا ملاپ ہونا چاہئے۔ علی محمد جو گلگت کے ایک مہذب اور موڈرن خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ان کی شادی پر مخالفت بھی کی گئی تھی مگر ہم دونوں کی محبت کے سامنے تمام مخالفتیں دم توڑ گئیں۔

کاش کہ وطنِ عزیز میں بھی یہ رجحان عام ہو جائے جو کہ سنتِ نبویﷺ بھی ہے تو یقین جانئے کہ ہزاروں نوجوان لڑ کیاں جو صرف پچیس سال کی عمر میں ہی اپنے آپ کو عمر رسیدہ سمجھ کر رشتے نہ آنے پر خود کشیاں کر لیتی ہیں ان کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔

٭٭٭

 

جا پان کا سوشل اینڈ نیشنل سیکیورٹی پینشن سسٹم

(مارچ2009ء) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جب تم ایک نیکی کرنے کی صرف نیت کرتے ہو تو میرے نیکی کے فرشتے تمھارے کھاتے میں اسی وقت ایک نیکی کا اندراج کر دیتے ہیں لیکن جب تم کوئی بدی کرنے کی نیت کرتے ہو تو فرشتے اس بات کے پابند ہیں کہ جب تک کوئی بدی کا مرتکب نہ ہو، اس کا اندراج نہ کریں۔ واہ !کیا نفع بخش کاروبار ہے شائد ہی دنیا میں ایسے منفعت بخش کاروبار کی مثال ملے لیکن اتنی پرکشش چھوٹ یا اسکیم کے باوجود ہم لوگ کم ہی اس فرمان سے مستفید ہوتے ہیں کیونکہ ہمارے دل میں ایمان، یقین اور عقیدے کا فقدان ہے ہم سوچتے ہیں کہ جب یہاں سے رخصت ہوں گے تب دیکھی جائے گی اور یہی سوچ سوچتے ہوئے مختصر زندگی کو گزار دیتے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختصر کیا گیا وقت اپنے آخری مراحل طے کر رہا ہوتا ہے تو ہمارا ایمان، یقین اور عقیدہ جوش مارتا ہے تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ تاہم اگر کوئی ہمیں یہ پیشکش کرے کہ جناب اگر آپ ماہانہ ایک ہزار روپے کی رقم جمع کروائیں اور یہ ضمانت دیتے ہیں کہ چالیس سال کے بعد آپ کی دی ہوئی رقم میں ماہانہ ایک ہزار روپے کے حساب سے دوگنی رقم آپ کے کھاتے میں جمع کر دی جائے گی تو ہم اپنے روشن اور آرام دہ مستقبل کی خاطر اس پیشکش کو بلا کم و کاست قبول کر لیتے ہیں اور باقاعدگی سے اس رقم کو جمع کروانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ کیونکہ ہم اس دنیاوی پیشکش کو ٹھکرانا نہیں چاہتے کہ چالیس سال بعد ہمیں اس کا پھل ضرور ملے گا اور یہی چیزیں ہماری ایمانی کمزوری کو واضح کرتی ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ اس دنیاوی پیشکش کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی خاص پیشکش کو بھی کھلے دل سے قبول کریں تاکہ دین اور دنیا دونوں میں کامیابی حاصل ہو سکے۔

حکومت جاپان بھی اپنی عوام کو کچھ اسی طرح کی پیشکش کرتی ہے کہ اگر کوئی شہری اپنی ماہانہ تنخواہ سے جتنی رقم حکومت کو پیش کرے گا تو اتنی ہی دوگنی رقم اس کے کھاتے میں جمع کر دی جائے گی تاکہ اس کی بقیہ زندگی کے آخری سال بغیر محنت کئے آسانی سے گزر سکیں اس قسم کی پیشکش، تجویز یاا سکیم کو جاپانی زبان میں کھوؤسے ای نینکن kousei nenkin اور کھوکُومِن نینکن kokumin nenkin یعنی social security pensoin system اور national security pension system کہتے ہیں۔ حکومتِ جاپان نے اس نظام کا آغاز1942 میں کیا تھا جس کا مقصد جواں سال برسر روزگار لوگوں سے ان کی تنخواہوں سے کٹوتی کی ہوئی رقم کو ان عمر رسیدہ لوگوں میں تقسیم کرنا ہے جو لوگ ساٹھ سال سے تجاوز کر چکے ہوں اور کام کرنے کے اہل نہ ہوں اور ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہوں۔ اس نظام کے تحت ہر جاپانی کو جو کسی بھی سرکاری، نیم سرکاری یا نجی اداروں میں ملازمت کرتا ہو، ماہانہ تنخواہ ملنے پر اس کی کل آمدنی سے ایک خاص شرح سے کٹوتی کی جاتی ہے اور اتنی ہی شرح سے وہ ادارہ یا کمپنی اس ملازم کی تنخواہ میں رقم کا اضافہ کر کے حکومت کے کھاتے میں جمع کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔ اس قسم کی کٹوتی ان ملازمین کے لیے ہے جو کسی ادارے میں مستقل بنیادوں پر ملازمت کر رہے ہوتے ہیں اور انھیں اپنی زندگی میں کم از کم پندرہ سے پچیس سال یا زیادہ سے زیادہ چالیس سال تک کٹوتی کروانا لازمی ہوتا ہے اور اس کٹوتی کے نظام کو kousei nenkin کہا جاتا ہے۔ اور وہ لوگ جو جز وقتی ملازمت یا نجی کاروبار کرتے ہیں وہ اپنی سالانہ آمدنی کی بنیاد پر رقم جمع کرواتے ہیں اس قسم کی کٹوتی کو کھو کُو مِن نینکن kokumin nenkin کہا جاتا ہے۔ مثلاًََ ایک شخص بیس برس کی عمر میں کسی ادارے میں مستقل بنیاد پر ملازمت اختیار کرے اور چالیس سال تک باقاعدگی سے کٹوتی کروائے تو اسے ساٹھ سال کی عمر میں ادارے کی طرف سے ایک مخصوص یکمشت رقم بھی ملتی ہے جسے تھائیشو کِنtaishokin یا پرویڈینٹ فنڈ کہتے ہیں اس کے علاوہ اسے تا حیات ماہانہ رقم بھی ملتی رہے گی جسے نینکن یا پینشن کہتے ہیں اور پینشن حاصل کرنے والے فرد کی طبعی یا حادثاتی موت واقع ہو جائے تو اس کی بیوی بقیہ پینشن کی نصف رقم کی تا حیات حقدار ہوتی ہے۔ جو لوگ مستقل بنیاد پر ملازم ہوتے ہیں انہیں مذکورہ بالاکٹوتی کے علاوہ بھی مختلف قسم کے محصولات ادا کرنا بھی لازمی ہوتے ہیں جن میں شوتھوکوزے shotokuzeiیعنی Income Tax، جُومِن زےjuuminzei یعنی کسی بھی شہر میں رہنے کا رہائشی محصولresidential tax، کھینکوہوکینkenkou hoken یعنی علاج معالجے کا بیمہ، کھویوؤہوکین koyou hokenیعنی روز گار کا بیمہ اس بیمے کے تحت اگر کوئی بیروز گار ہو جائے تو Hello Work یعنی دفتر روز گار سے مخصوص مدت تک ایک خاص رقم ملتی ہے اس کے علاوہ کھائی گو ہوکین kaigo hokenیہ محصول چالیس برس کی عمر کے بعد لاگو ہوتا ہے یعنی تیمار داری کا بیمہ اگر کوئی ملازم کسی حادثے یا بیماری کے باعث معذور ہو جائے تو شہری حکومت کی طرف سے اس کی مکمل دیکھ بھا ل اور تیمار داری کی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ مذکورہ بالا تمام محصولات و بیمہ کی رقم ہر اس ملازم کو ماہانہ تنخواہ سے ادا کرنی ہوتی ہے جو مستقل بنیاد پر ملازم ہو جسے جاپانی میں سیشائینseishain کہتے ہیں۔ فرض کریں جو شخص چالیس برس کا ہو اور وہ ماہانہ چار لاکھ ین کماتا ہو اور اپنے دو بچے اور بیوی کی کفالت کرتا ہوا سے تقریباً ساٹھ ہزار ین کی کٹوتی کروانا پڑتی ہے۔ اس وقت وہ شخص جس نے مستقل چالیس سال تک مذکورہ بالا محصولات باقاعدگی سے ادا کئے ہوں تو وہ ساٹھ یا پیسنٹھ سال کی عمر میں حکومت جاپان سے تا حیات تقریباً دو لاکھ بتیس ہزار ین ماہانہ لینے کا حقدار ہے۔ اس وقت جاپان میں بچوں کی پیدائش میں کمی اور عمر رسیدہ افراد میں تیزی سے اضافے کے باعث حکومت جاپان کو بے شمار مسائل کا سامناہے اور ملنے والی پینشن میں متواتر کمی اور کٹوتی کی شرح میں مسلسل اضافے کی وجہ سے نوجوان نسل مستقل بنیاد پر ملازمت کرنے سے گریزاں ہیں کیونکہ انہیں یہ فکر دامن گیرہے کہ آنے والے وقتوں میں اتنی کٹوتی کروانے کے باوجود ملنے والی رقم گزارے کے لئے کم ہو گی جس کی وجہ سے زیادہ تر لوگ جزوقتی کام کرنے کی طرف مائل ہیں اور لوگوں میں نجی طور پر اپنے مستقبل کے لئے رقم پس انداز کرنے اور مختلف بیمہ کمپنیوں کی طرف رجوع کرنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ کیونکہ جاپانی عوام کا اب اس فرسودہ نظام سے اعتبار اٹھتا جا رہا ہے اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ حال ہی میں اس نظام کو فی الفور ختم کرنے کے مطالبات بھی کئے جا رہے ہیں اس کی وجہ یہ بھی ہے گزشتہ حکومت میں اس نظام کو چلانے والے ادارے کی طرف سے پے درپے فاش غلطیاں اور بد عنوانیاں کھل کر سامنے آئی ہیں۔ لیکن حکومتِ وقت کے لئے اس نظام کو ختم کرنا گلے میں پھنسی ہوئی ہڈی کی طرح ہے جسے نہ نگل سکتے ہیں نہ اگل سکتے ہیں۔ تاہم جاپانی عوام کی اکثریت اس نظام کی حامی ہے اور اسے جاری رکھنا چاہتی ہے۔ اس نظام کے تحت ہر وہ جاپانی یا غیر ملکی جو جاپان کا مستقل رہائشی ہو مستفید ہو سکتا ہے جس نے اپنے زندگی میں پچیس سے چالیس سال تک کٹوتی کروائی ہو اور جو لوگ اس نظام میں شامل نہیں ہیں وہ مستقبل میں کسی بھی قسم کی مراعات حاصل نہیں کر سکیں گے جن کی تازہ مثال آجکل آپ بے گھر لوگوں کی صورت میں دیکھ رہے ہیں جو ٹوکیو اور اس کے گردو نواح میں اکثر نظر آتے ہیں۔ کم از کم پندرہ سال زیادہ سے زیادہ چالیس سال اس اسکیم میں حصہ لینا لازمی ہے لیکن پندرہ سال سے پچیس سال تک اس قسم کی کٹوتی جمع کروانے والے اور چالیس سال تک جمع کروانے والے اپنی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اس تناسب سے رقم وصول کرنے کے مستحق ہوتے ہیں۔ تاہم کوئی بیس سال کی عمر سے اس اسکیم میں حصہ لیتا رہا ہو اور چالیس سال تک یعنی ساٹھ سال تک کٹوتی کرواتا بھی رہے تو اسے رقم کی واپسی پینسٹھ سال کی عمر سے ہی ملنا شروع ہو گی، تاہم کئی جاپانی ساٹھ برس میں رٹائرمنٹ لے کر اسی کمپنی میں جز وقتی کام کرتے ہیں کیونکہ جاپان میں رٹائرمنٹ کی عمر اس وقت پینسٹھ سال ہے۔ جسے مستقبل میں 70 سال تک کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔

٭٭٭

 

جاپان میں تجہیز و تکفین اور آخری رسومات کی ادائیگی

(13اگست 2012ء) اللہ تعالیٰ جب انسان کو اس دنیا میں بھیجتا ہے تو اسی لمحے اس کی موت کا وقت بھی مقرر کر دیتا ہے، اس حقیقت کو مسلمانوں کے علاوہ دوسرے مذاہب کے پیروکار بھی کسی نہ کسی صورت میں تسلیم کرتے ہیں۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اس ملک و علاقے کے رسم و رواج کے مطابق اس کی خوشیاں منائی جاتی ہیں اور اللہ کا شکر بھی ادا کیا جاتا ہے۔ اسی طرح جب انسان اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے یعنی اس کے جسم سے اس کی روح پرواز کر جاتی ہے تو اس کے جسدِ خاکی کو ٹھکانے لگانے کے لئے بھی مختلف ممالک اور وہاں کے علاقائی رسم و رواج کے مطابق اس کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے یعنی اس کی تجہیز و تکفین کی جاتی ہے۔

جاپان دنیا کے چند ترقی یافتہ ممالک میں ایک اہم ملک تصور کیا جاتا ہے اس کا سرکاری مذہب بدھ مت ہے جو انڈیا اور چین سے یہاں تک پہنچا تاہم جاپانی قوم کی اکثریت عمومی طور پر کسی مذہب کو نہیں مانتی مگر پیدائش و موت، غم و خوشی کے موقع پر مذہب کا سہاراضرورا لیتے ہیں۔ جاپان میں بدھ مت کے پیروکاروں میں بھی مختلف فرقے ہیں اور جب کوئی انسان اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو اسے مرحوم کے برائے نام فرقے کے مطابق ہی اس کی آخری رسومات ادا کی جاتی ہیں۔ جاپان میں دورِ قدیم سے ہی تجہیز و تکفین کی رسومات بہت طویل اور پیچیدہ چلی آ رہی ہیں، مگر گزشتہ چند دہائیوں سے جوں جوں جاپان نے معاشی ترقی کی منازل طے کی ہیں ان میں بھی اب اس فرسودہ رسم و رواج میں کچھ تبدیلیاں نظر آ رہی ہیں۔

جاپان کے کسی بھی گھر میں جب کسی فرد کی وفات ہوتی ہے خواہ وہ حادثے سے ہوئی ہو طبعی یا بیماری سے تو سب سے پہلے علاقے کی ایمبولینس سروس کو مطلع کیا جاتا ہے، چند منٹ میں ایمبولینس پہنچ جاتی ہے اور موت کی تصدیق ہونے پر پولیس کو مطلع کر دیا جاتا ہے چند منٹ میں ہی پولیس کی ایک خصوصی ٹیم میت والے گھر پہنچتی ہے اور پوری کاروائی کی جاتی ہے اور اہلِ خانہ سے متوفی کے بارے میں پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔ تاہم جو لوگ کسی بیماری یا حادثے کے باعث ہسپتال میں وفات پا جاتے ہیں ان کی پولیس رپورٹ ڈاکٹرز مہیّا کرتے ہیں۔ میت کو ہسپتال میں ہی غسل دے کر ایک سادہ سا لباس پہنا دیا جاتا ہے اور میت کو ورثاء کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ جاپان میں تجہیز و تکفین کے لئے ہزاروں نجی ادارے کام کر رہے ہیں، میت کے ورثاء ہسپتال سے ہی کسی ادارے کو مطلع کرتے ہیں اور ادارے کی میت گاڑی میت کو ایک بار گھر پہنچانے کا بندوبست کرتی ہے یا اگر کسی گھر میں میت رکھنے کا مسئلہ ہو تو یہی ادارہ آخری رسومات تک اپنے پاس ہی رکھنے کی ذمہ داری لیتا ہے۔ جاپانی قوم توہم پرست ہے اس لئے جب کوئی میت ہو جاتی ہے تو اسے فوری طور پر نذرِ آتش نہیں کیا جاتا بلکہ کیلینڈر کے مطابق نیک شگون اور بد شگون کے ایام کا انتخاب کیا جاتا ہے اور اس دوران میت کو ڈرائی آئیس لگا کر گھر میں ہی تابوت میں رکھا جاتا ہے، تمام رشتہ داروں اور دوست احباب کو یا ہمسایوں کو مطلع کر دیا جاتا ہے۔ جاپان میں عموماً لوگ تعزیت کے لئے گھروں میں نہیں جاتے، تاہم قریبی رشتہ دار اظہارِ تعزیت کے لئے تھوڑی دیر کے لئے گھروں میں بھی جاتے ہیں۔ دور دراز سے آنے والے رشتہ داروں کو میت والے گھر میں نہیں ٹھہرایا جاتا بلکہ قریبی ہوٹلوں میں ان کے قیام کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ کوئی بھی میت تین سے پانچ دن تک گھر پر ہی رہتی ہے تاہم مقررہ دن اور وقت پر علاقے کے ایک سرکاری ہال میں میت کو لے جایا جاتا ہے جو مقامی حکومت کی طرف سے مخصوص ہوتی ہے جہاں میت کو نذرِ آتش کرنے کا بھی اہتمام ہوتا ہے۔ یہاں پر اظہارِ تعزیت کرنے والے اپنی اپنی بساط کے مطابق تازہ پھول میت کے قریب ایک اسٹیج پر جہاں مرحوم کی بڑی سے تصویر لگی ہوتی ہے وہاں سلیقے سے سجادیتے ہیں اور میت کے بالکل سامنے کرسیوں پر قریبی رشتہ دار و احباب ماتمی لباس میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ ہال سے باہر رشتہ دار یا تجہیز و تکفین کرنے والے ادارے کے لوگ تعزیت کے لئے آنے والوں کے نام و پتہ ایک رجسٹر میں درج کرتے رہتے ہیں ہر آنے والا سیاہ ماتمی سوٹ میں ملبوس ہوتا ہے اور پہلے سے مقرر کردہ رقم ایک لفافے میں ڈال کر انتظامیہ کو دی جاتی ہے جو اس کے نام و پتہ کے ساتھ ہی درج کرتے جاتے ہیں، اس وقت جاپان میں تعزیت کرنے والے کے لئے فی کس پانچ ہزار یا دس ہزار ین رائج ہیں تاہم قریبی رشتہ دار اس مقررہ رقم سے زائد بھی دیتے ہیں۔ یہاں سے فارغ ہو کر تمام لوگ اندر ہال میں جمع ہو جاتے ہیں اور میت کے سامنے ایک راہب جسے جاپانی زبان میں OBOSANکہتے ہیں جو سر سے گنجا اور ایک ڈھیلا ڈھالا لباس پہنا ہوتا ہے ہاتھ میں تسبیح ہوتی ہے یہ راہب مرد یا عورت دونوں ہو سکتے ہیں۔ پہلے دن کی اس رسم کو جاپانی زبان میں Otsuyaکہا جاتا ہے اور اس کا وقت شام پانچ بجے سے رات گئے تک ہوتا ہے۔ راہب تقریباً ایک گھنٹے تک نا سمجھ آنے والی جاپانی زبان میں دعائیں کرتا ہے اور پھر ہال میں بیٹھے تمام تعزیت کرنے والوں کو اجازت دیتا ہے کہ وہ میت کے سامنے آئیں اور سوگواران جو اگلی نشستوں پر براجمان ہوتے ہیں ان سے اشارتاً کمر جھکا کر اور دونوں ہاتھ جوڑ کر اظہارِ تعزیت کریں اور اگر بتی جلائیں، اس عمل کو OSHOKOکہتے ہیں۔ لوگوں کی تعداد زیادہ ہونے پر بیک وقت تین یا پانچ افراد ایک ساتھ ہی سامنے آتے ہیں اور اظہارِ تعزیت کر کے سامنے ہی رکھی ہوئی چھوٹی چھوٹی تھالیوں میں اگر کا چورا رکھا ہوتا ہے اور دوسری ٹرے میں آگ جل رہی ہوتی ہے تعزیت کرنے والے خوشبو دار اگر کی ایک چٹکی اپنے ماتھے تک لے کر جاتے ہیں اور اسے آگ میں ڈال دیتے ہیں اور یہ عمل تین بار دہرایا جاتا ہے۔ پھر میت کی تصویر کی طرف رخ کر کے جھکتے ہیں، سوگواران کی طرف جھکتے ہیں اور اسی طرح پیٹھ کئے بغیر واپس اپنی نشستوں پر بیٹھ جاتے ہیں، تمام آنے والوں کو سوگواران بھی اپنی نشست پر بیٹھے بیٹھے جھک کر ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ جاپان میں بہت کم دیکھا گیا ہے کہ میت کے سامنے لوگ دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہوں یا بین کر رہے ہوں۔ تاہم غم سے ان کی آنکھیں سرخ ہو چکی ہوتی ہیں رونے کی ہچکیاں سنائی دیتی ہیں ماحول بہت سوگوار ہوتا ہے مگر دھاڑیں مار مار کر اور ایک دوسرے سے گلے لگ کر بین نہیں کیا جاتا اور نہ ہی کسی فوتگی پر سوگواران اپنی ظاہری حالت خراب کرتے ہیں بلکہ اُس دن بھی معمول کے مطابق صاف ستھرے لباس زیبِ تن کرتے ہیں تاہم ان کے لباس سیاہ ہوتے ہیں اور مرد حضرات سیاہ سوٹ کے ساتھ سیاہ ٹائی لگاتے ہیں جبکہ خواتین بھی سیاہ سوٹ کے ساتھ سیاہ اسکاف وغیرہ استعمال کرتی ہیں۔ پہلے دن کی یہ رسمOtsuyaجب ختم ہوتی ہے تو آنے والے تمام لوگوں کے لئے دوسرے ہال میں شام کے کھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے اور واپس جانے والوں کو تحائف بھی تقسیم کئے جاتے ہیں۔ رات گئے تک جب یہ رسم ختم ہوتی ہے تو راہب کے جانے کے بعد میت کا قریبی رشتہ دار یا تجہیز و تکفین کے ادارے کا عملہ رات بھر اس میت کی نگرانی کرتا ہے، جو رشتہ دار دور دراز سے شریک ہوتے ہیں وہ دوبارہ اپنی قیام گاہوں میں رات قیام کرتے ہیں۔ دوسرے روز صبح دس بجے کے قریب آخری رسم جسے جاپانی زبان میں کوکُو بیتسو شِکیKOKUBETSUSHIKIکہا جاتا ہے ادا کرنے کا وقت ہوتا ہے اور اس رسم میں زیادہ تر قریبی رشتہ دار یا بہت ہی قریبی دوست احباب شریک ہوتے ہیں۔ اس موقع پر بھی راہب کچھ دعائیں مانگتا ہے، میت کے تابوت میں مرنے والے کی پسندیدہ اشیاء جو اسے اپنی زندگی میں بے حد عزیز ہوا کرتی تھیں وہ اس کے پہلو میں رکھ دی جاتی ہیں اور تمام لوگ باری باری میت کا چہرہ دیکھتے ہیں اور پھول کی پتیاں ڈال کر دوسری طرف کھڑے ہو جاتے ہیں۔ میت کا آخری دیدار کرنے کے بعد یہاں سے میت کے تابوت کو ایک ٹرالی کے ذریعے دوسرے ہال میں بنے ہوئے جدید مرگھٹ (دہکتی ہوئی برقی بھٹی )پر لے جایا جاتا ہے ٹرالی کو میت کے مرد رشتہ دار دھکیلتے ہوئے برقی مرگھٹ کے پاس لے جاتے ہیں جو پہلے سے ہی تیار ہوتی ہے، اس کے بالکل سامنے تھوڑی دیر کے لئے ٹرالی کو روکا جاتا ہے اور ایک بار پھر راہب کی دعاؤں کے درمیان میت کا آخری دیدار کیا جاتا ہے اور برقی بھٹی کا دروازہ خود کار طریقے پر کھلتا ہے اور ٹرالی سمیت میت کو اندر آہستگی سے دھکیل دیا جاتا ہے، بھٹی کا با وردی منتظم جھک کر سب کو تعظیم دیتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ ایک گھنٹے بعد تشریف لایئے اور دروازہ بند کر دیا جاتا ہے، جاپان میں میت کو نذرِ آتش کرنے کے لئے بھارت اور دیگر غریب ممالک کی طرح میدانوں میں بنے ہوئے مرگھٹوں پر لکڑیاں جمع کر کے اور ان پر تیل یا گھی ڈال کر نہیں جلایا جاتا بلکہ بہت ہی جدید قسم کی برقی بھٹیاں تیار کی گئی ہیں جس میں مردے کو لکڑی کے تابوت سمیت ڈال دیا جاتا ہے اور تابوت کے نیچے لوہے کی ٹرالی اور اس پر ایک بڑی سی ٹرے رکھی ہوتی اور صرف ایک گھنٹے میں دو سو سے زائد درجۂ حرارت پر مردے کی ہڈیاں اسی ٹرالی پر رکھی ٹرے میں اسی انداز میں باہر آنے والی ہوتی ہیں۔ راہب کا کام یہاں اختتام کو پہنچتا ہے اور وہ اپنی آج کی بھی اجرت لے کر رخصت ہو جاتا ہے دوپہر کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ بھٹی کے باہر رہ جانے والے رشتہ دار اور مہمانوں کو ایک دوسرے ہال میں بٹھایا جاتا ہے۔ جہاں ان کے لئے دوپہر کے کھانے پینے کا اہتمام ہوتا ہے۔ دوپہر کے کھانے سے قبل سوگوار خاندان کا سربراہ تمام مہمانوں کی آمد کا شکریہ ادا کرتا ہے اور انھیں کھانے کی دعوت دیتا ہے۔ کھانے کے دوران تمام رشتہ دار اور مہمان فوت ہو جانے والے کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں اس کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات کا ذکر کرتے ہوئے اور اس کے ساتھ وابستہ یادوں سے سب کو آگاہ کرتے ہیں اور اس کی روح کی تسکین کے لئے دعائیں بھی کرتے ہیں۔ ٹھیک ایک گھنٹے بعد بھٹی کا منتظم آتا ہے اور یہ اطلاع دیتا ہے کہ میت کا کریا کرم ہو چکا ہے تشریف لے آیئے، اچانک مرحوم کی یاد میں خوشگوار باتیں کرنے والے ایک بار پھر رنجیدہ و سنجیدہ ہو جاتے ہیں اور سب بھٹی کے باہر قطار بنا کر کھڑے ہو جاتے ہیں، بھٹی کا دروازہ کھلتا ہے اور ٹرالی باہر آتی ہے جس پر رکھی لمبی ٹرے پر مُردے کا ڈھانچہ سا ہڈیوں کی صورت میں پڑا ہوتا ہے اور کیمیکل کے استعمال کی وجہ سے ہڈیاں خون آلود، سرخ یا کالی نہیں بلکہ بالکل سفید ہو جاتی ہیں۔ ٹرے کے چاروں اطراف رشتہ دار کھڑے ہو جاتے ہیں اور ہڈیاں ٹھنڈی ہونے کا کچھ دیر انتظار کرتے ہیں اور بھٹی کے منتظم کی ہدایت پر سب باری باری ٹرے کے قریب ہو جاتے ہیں یہ بہت ہی غمناک، دل سوز اور ناقابلِ فراموش لمحات ہوتے ہیں کہ چند لمحے قبل جو گوشت پوست کا انسان تھا اب ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا آپ کےسامنے پڑا ہے۔ منتظم ان ہڈیوں کو ٹانگوں کی طرف سے خصوصی چوپ سٹکس کی مدد سے اکٹھا کرنا شروع کرتا ہے اور ان کی تفصیلات سے آگاہ کرتا جاتا ہے اور جسم کی بڑی بڑی ہڈیوں کے بارے میں بتاتے ہوئے انھیں ایک مرتبان میں ڈالتا جاتا ہے اور ساتھ ہی تمام سوگواران کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ بھی اس کے ساتھ باری باری ایک ایک ہڈی کو اٹھا کر مرتبان میں ڈالتے جائیں جو ہڈی بڑی ہوتی ہے اسے دو افراد مل کر اپنی چوپ سٹکس کے ذریعے اٹھا کر  مرتبان میں ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے مرتبان ایک انسانی ہڈیوں سے بھر جاتا ہے منتظم مرتبان میں ہڈیوں کو اس انداز سے ڈالتا ہے کہ مرتبان کے اوپری حصے پر انسانی کھوپڑی ظاہر ہوتی ہے پھر درمیان کا حصہ اور سب سے نیچے ٹانگوں کی ہڈیاں جمع ہو جاتی ہیں اس تمام کاروائی میں تقریباً ایک گھنٹہ صرف ہوتا ہے مرتبان کو ایک خوبصورت غلاف میں لپیٹ کر لواحقین کے حوالے کر دیا جاتا ہے اور لواحقین میں خاندان کا سربراہ اس مرتبان کو نہایت ادب و احترام سے اپنے پیٹ پر دونوں ہاتھوں سے کرسی بنا کر اس میں رکھ کر وہاں سے رخصت ہوتے ہیں تمام مہمانوں اور رشتہ داروں کا شکریہ ادا کر کے انھیں وہیں سے ہی رخصت کر دیا جاتا ہے اور مرحوم کی تصویر بھی اسی طرح تھام کر مرتبان کو لواحقین اپنے گھر لے آتے ہیں۔ دوسرے دن Otsuyaکے موقع پر اکٹھی ہوئی رقم کا حساب کتاب لگایا جاتا ہے

 جن لوگوں نے مقررہ رقم سے زیادہ پیش کیا ہوتا ہے انھیں اس رقم کے نصف مالیت کا کوئی تحفہ خرید کر اس کے گھر پارسل کیا جاتا ہے۔ خاندان کا سربراہ رسومات میں شریک ہونے والوں کو فرداً فرداً فون پر شکریہ ادا کرتا ہے۔ تیسرے دن تجہیز و تکفین کی کمپنی کی ادائیگی کی جاتی ہے اور ادائیگی کرنے کے بعد بھی لواحقین کو بہت سی رقم بچ جاتی ہے اس طرح جاپان میں کسی کی میت ہو جائے تو اس پر مالی بار نہیں پڑتا۔

مرتبان کو گھر میں ایک مخصوص مقام پر رکھ دیا جاتا ہے اور اپنے اپنے عقیدے کے مطابق دس دن، پچاس دن یا سو دن کے بعد لواحقین اور قریبی رشتہ دار اس مرتبان کو اپنے خاندانی قبرستان لے کر جاتے ہیں جہاں پہلے سے ان کے آباؤ اجداد کی باقیات اس قبر میں محفوظ ہوتی ہیں گورکن یا قبرستان کا منتظم اس قبر کو کھولتا ہے جو سیمنٹ کے سلیب سے ڈھکی ہوتی ہے اس مرتبان کو اس میں خالی جگہ پر رکھ دیا جاتا ہے یا مرتبان کی ہڈیوں کو پہلے سے مدفون ہڈیوں میں انڈیل دیا جاتا ہے اور راہب کی دعاؤں کے ساتھ اس قبر کو پھر سے سلیب کے ذریعے بند کر دیا جاتا ہے اور مرحوم کا نام، پیدائش و موت کی تاریخ اس قبر کے کتبہ پر درج کر دی جاتی ہے۔ جاپان کے قبرستان نہایت ہی صاف ستھرے ہوتے ہیں جہاں بہت سلیقے و قرینے سے قبریں تعمیر ہوتی ہیں، قبرستان کے احاطے میں ہی منتظم کا ایک دفتر قائم ہوتا ہے، قبرستان میں گاڑیوں کی پارکنگ، چھوٹا سا ریستوران، عبادت کرنے کی جگہ، بچوں کے لئے پارک  اور دیگر سہولیات ہوتی ہیں اور اس کے چارو اطراف آہنی یا سیمینٹ کی دیوار بنائی جاتی ہے تاکہ باہر سے کوئی جانور یا غیر متعلقہ لوگ اندر داخل نہ ہو سکیں، رات کے وقت پورے قبرستان میں روشنی کا انتظام ہوتا ہے، گویا آپ یہاں کے قبرستان کو دیکھ کر اندازہ نہیں کر سکتے کہ یہ قبرستان ہے یا کوئی تفریحی مقام۔ جاپانی روایتی گھروں میں ایک کمرہ یا کمرے کا ایک حصہ خاندانی مرحومین کے لئے مختص ہوتا ہے جہاں ایک الماری کی شکل کا ایک بکس ہوتا ہے جس میں مرحومین کی تصاویر اور نام لکھے ہوتے ہیں اس میں ایک چھوٹی سی پیتل کی کٹوری یا پیالی رکھ دی جاتی ہے اور گھر والے روزانہ یا کبھی کبھار اگر بتی جلاتے ہیں اور کھانے پینے کی اشیاء اس میں رکھ کر پیالی کو ایک سٹک سے بجا کر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر دونوں ہاتھ جوڑ کر آنکھیں موندتے ہوئے دعا کرتے ہیں۔ جاپان میں مرنے والوں کی یاد میں ایک سال، تین سال، پانچ سال اور سات سال گزرنے تک باقاعدگی سے خصوصی مذہبی رسوم ادا کرتے ہیں۔ سال میں دو یا تین بار قبروں پر ضرور جاتے ہیں جہاں اپنے ہاتھوں سے قبر کی صفائی دھلائی وغیرہ کر کے اس پر کھانے پینے کی اشیاء رکھتے ہیں اور اگر بتی جلا کر دعا کرتے ہیں۔ جاپان کے قبرستان کی دیکھ بھال کے لئے قبرستان کی انتظامیہ کو سالانہ اخراجات ادا کئے جاتے ہیں۔ جاپان میں قبرستان کے لئے جگہ بہت کم ہے اسی لئے یہاں ایک ایک فرد کے لئے ایک ایک قبر تیار کرنا بہت مشکل ہے یہی وجہ ہے کہ جاپان میں چھوٹے سے رقبے کی قبر میں خاندان کے کئی کئی افراد کی باقیات جمع ہوتی ہیں۔ خاندان کا کوئی فرد جو اپنے گاؤں سے شہر منتقل ہو جائے تو وہ اپنی زندگی میں ہی اپنے اور اپنے خاندان کے لئے قبر خرید لیتا ہے اور پھر یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا ہے جب تک اس کی اولاد میں سے کوئی فرد اپنی قبر الگ نہ بنا لے۔ جاپان میں کسی حکومتی منصوبے یا تجارتی منصوبے میں رکاوٹ بننے والے قبرستان کو بعض اوقات دوسری جگہ بھی منتقل کیا جاتا ہے۔ یا خاندان کا کوئی فرد جس کے آباؤ اجداد کی قبر کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ ہو یا انھیں وہاں جانا مشکل لگتا ہو تو ایسی صورت میں بھی وہاں کی قبر کو اپنے علاقے تک منتقل کیا جاتا ہے۔ جاپان میں کسی زمانے میں میت کو دفنانے کا بھی رواج تھا مگر آہستہ آہستہ دفنانے کی رسم ختم ہو گئی تاہم جاپان کے شاہی خاندان کے افراد کو ابھی بھی نذرِ آتش نہیں کیا جاتا بلکہ انھیں دفنایا جاتا ہے۔ جاپان کے موجودہ شہنشاہ نے چند ماہ قبل اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ انھیں بھی مرنے کے بعد نذرِ آتش کیا جائے تاکہ ان کے مقبرے کی تعمیر اور اس کی دیکھ بھال پر آنے والے کثیر اخراجات بچائے جا سکیں اور وہ رقم اپنی قوم کے لئے خرچ کی جائے۔ جاپان میں میت کو نذرِ آتش کرنے کے بعد اس کی راکھ کو سمندر میں بہانے کی رسم بھی عام ہو رہی ہے اور باقاعدہ قبر خریدنے کی بجائے رینٹل قبریں بھی حاصل کی جاتی ہیں جس کے لئے بیشمار کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ رینٹل قبر یہ ہوتی ہے کہ کوئی کمپنی ایک عمارت خریدتی ہے اور اس میں لاکرز کی طرح قبریں بناتی ہیں، اس قسم کی لا کر قبر پر سالانہ اخراجات بھی کم آتے ہیں اور انھیں خریدنے کے لئے بھی زیادہ رقم خرچ نہیں کرنا پڑتی، عموماً ایسی قبریں وہ میاں بیوی اپنی زندگی میں خرید لیتے ہیں جن کی کوئی اولاد یا ان کی خاندانی قبر نہیں ہوتی۔ ایسے رینٹل قبرستان میں جانے کے لئے وہ طریقہ کار رائج ہوتا ہے جس طرح کوئی بنک میں اپنے لاکرز کی چابی لے کر داخل ہوتا ہے ضروری کاغذات نکالتا ہے یا ڈالتا ہے اور پھر بند کر کے ایک چابی انتظامیہ کو دیکر واپس آ جاتے ہیں۔ جاپان میں ایک اندازے کے مطابق قبر کی قیمت کے علاوہ رسوم کی ادائیگی تک دس سے پچاس لاکھ ین کے اخراجات ہو جاتے ہیں، جبکہ قبر نئی خریدنے کے لئے بہت زیادہ رقم خرچ ہوتی ہے۔

بڑے بڑے شہروں میں قبرستان شہروں سے کچھ فاصلے پر ہوتے ہیں جبکہ گاؤں وغیرہ میں زیادہ تر قبرستان اونچی پہاڑیوں پر بھی تعمیر کئے جاتے ہیں، بعض جاگیر دار اور زمینداروں نے اپنے خاندانی قبرستان اپنی ہی زمین پر بنائے ہوتے ہیں۔ جاپان میں مسلمانوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے تاہم جاپان بھر میں صرف چند ایک مقامات پر مسلمانوں کے لئے قبرستان بنائے گئے ہیں، گزشتہ کئی سالوں سے غیر ملکی مسلمانوں اور ان کے جاپانی اہلِ خانہ کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ قبرستان کے مسائل بھی درپیش ہیں اور جاپان بھر میں ہر جگہ پر مسلم قبرستان بنانے کی اجازت نہیں ہے۔

٭٭٭

 

حصہ سوئم: سفر نامچے

 

ناگویا اور گیفو کا یادگار سفر۔ ۔ ۔ بذریعہ بلیٹ ٹرین

(19 مارچ 2012ء)  لاکھ خواہش کے باوجود آلامِ روزگار اور دنیا کے جھمیلے اجازت ہی نہیں دیتے کہ اپنے دوستوں سے جو دور دراز علاقوں میں قیام پذیر ہیں اور کامیاب زندگی بسر کر رہے ہیں سے آسانی سے ملاقاتیں کر سکوں اور اپنی زندگی کے تجربات ان کے ساتھ شیئر کرسکوں۔ کافی عرصے سے میری خود بھی خواہش تھی کہ ناگویا اور گیفو کے دوستوں سے ملاقات کروں، لیکن کسی موزوں وقت کا تعین نہیں کرپا رہا تھا۔ عرفان بٹ، افضل چیمہ اور ملک حماد سے کون واقف نہیں، تینوں سینئر پاکستانی جاپان کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک مقیم پاکستانی کمیونٹی میں اپنی سماجی خدمات کی وجہ سے کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ تینوں معزز دوستوں کی پُر خلوص دعوت اور بے لوث محبت کے سامنے میں مجبور ہو گیا اور گزشتہ ہفتے بذریعہ بلیٹ ٹرین چار سو کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے صبح سویرے ناگویا اسٹیشن پہنچا تو ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی سامنے ہی چھتری لئے ہوئے عرفان بٹ صاحب پہلے سے ہی موجود تھے، انھوں نے میرا والہانہ استقبال کیا اور ان کی گاڑی میں بیٹھ کر ناگویا شہر کی سیر کرتے ہوئے یاتھومی شہر کی طرف چل دیئے۔ عرفان بٹ شہر کے بارے میں بتانے لگے کہ ناگویا شہر آئی چی پریفیکچر کا دار الحکومت ہے مگر آئی چی پریفیکچر کی پہچان ناگویا شہر سے ہے، ناگویا شہر جاپان کا تیسرا بڑا صنعتی شہر ہے اور جاپان کے گنجان آباد شہروں میں اس کا چوتھا نمبر ہے اس کی آبادی بائیس لاکھ کے لگ بھگ ہے اور یہ ٹوکیو سے 366 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ناگویا کی بندرگاہ کا شمار بھی جاپان کی دیگر بڑی بندرگاہوں میں ہوتا ہے۔ ناگویا شہر کا اعلان باضابطہ طور1889 ء میں کر دیا گیا تھا مگر اسے حکومت نے 1956 ء میں شہر کا درجہ دیا۔ ناگویا شہر میں جاپان کی قدیم ترین اور معروف صنعتیں قائم ہیں جن میں ایک مٹسوبشی ہیوی انڈسٹریز ہے جس میں جوہری توانائی، دفاعی سازو سامان، اسلحہ، دفاعی میزائل اور آبدوزیں وغیرہ تیار کی جاتی ہیں، جبکہ طیارہ سازی کی صنعت بھی یہیں قائم ہے جس میں بوئنگ طیاروں کے پرزہ جات تیار کئے جاتے ہیں۔ عرفا ن بٹ صاحب نے بتایا کہ اس شہر میں تقریباً تین سو کے قریب رجسٹرڈ پاکستانی مقیم ہیں جبکہ پورے پریفیکچر میں پانچ سو کے قریب پاکستانی بستے ہیں۔ بٹ صاحب سے گفتگو کرتے ہوئے ہم یاتھومی شہر میں داخل ہو چکے تھے اور قریب ہی ایک بڑی پارکنگ کے پاس ایک نوجوان پاکستانی نے ہمارا استقبال کیا۔ یہ اعجاز بھنڈر ہیں پاکستان ایسوسی ایشن جاپان آئی چی پریفیکچر کے صدر، اعجاز بھنڈر صرف اٹھائیس سال کے ہیں اور انھیں جاپان آئے ہوئے سات آٹھ سال ہی ہوئے ہیں مگر ان کا شمار گاڑیوں کا کاروبار کرنے والے پاکستانی بڑے لوگوں میں ہوتا ہے، اعجاز بھنڈر بظاہر ایک موڈرن نوجوان لگتے ہیں اور قیمتی کار میں گھومتے ہیں مگر وہ بہت سادہ طبیعت اور مذہبی نوجوان ہیں، اپنی کامیابی کا راز بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ ہمیشہ نماز باقاعدگی سے پڑھتے ہیں، محنت و لگن سے کام کرتے ہیں اور کاروبار میں ایمانداری کو مقدم رکھتے ہیں اور ہمیشہ اپنے والدین کے فرمانبردار رہتے ہیں اور ان کی دعاؤں سے ہی وہ اس مقام پر ہیں۔

ناگویا میں علی عمران صاحب بھی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں وہ بھی ایک کامیاب بزنس مین ہونے کے ساتھ ساتھ معروف مذہبی و تدریسی ادارے منہاج القرآن انٹرنیشنل سے وابستہ ہیں اور منہاج ایشین کونسل کے چیئرمین بھی ہیں، ان سے ملاقات کے لئے مرکز منہاج القرآن انٹرنیشنل ناگویا میں نمازِ ظہر کا وقت طے کیا۔ عرفان بٹ اور اعجاز بھنڈر کے ساتھ مرکز کی نئی عمارت اور مسجدِ  المصطفیٰ پہنچے تو معروف دینی اسکالر حافظ عبدل مصطفیٰ نے ہمارا استقبال کیا، تھوڑی ہی دیر میں علی عمران بھی تشریف لے آئے اور مرکز کی نئی عمارت کا دورہ کروایا۔ انھوں نے کہا کہ یہ وسیع و عریض جگہ انھیں نہایت ہی ارزاں نرخ پر ملی ہے جو پہلے کسی جاگیر دار یا زمیندار جاپانی کی ملکیت تھی اور اس کی عمارت قدیم جاپانی طرزِ تعمیر کا شاہکار ہے جو اندر سے بالکل نئی اور تمام تر سہولیات سے مزین ہے، مرکز میں مسجد کے ساتھ ساتھ مہمان خانہ، دفتر، نعمت خانہ اور خواتین کے لئے بھی علیحدہ انتظام کیا گیا ہے، حافظ عبد المصطفیٰ مسجد کے امام و خطیب بھی ہیں۔ ہم سب نے ان کی امامت میں نمازِ عصر ادا کی اور مرکز میں رکھے ہوئے حضورِ اکرم ﷺ کے موئے مبارک کی زیارت بھی کی۔ علی عمران صاحب نے کہا کہ انھوں نے اس مسجد کی تعمیر کے لئے خصوصی طور پر مدینہ منورہ میں دعا کی تھی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کرتے ہوئے اپنا کرم کیا اور مناسب جگہ پر مناسب قیمت پر انھیں یہ تعمیر شدہ مسجد مل گئی۔

علی عمران دوپہر کے کھانے کے لئے ہمیں قریب ہی ایک ترکی ریستوران میں لے گئے جہاں ترکی کے خوش ذائقہ اور روایتی کھانوں سے تواضع کی گئی۔ علی عمران اور عبد المصطفیٰ صاحب سے اجازت لی اور ہم ایک بار پھر اعجاز بھنڈر کے دفتر پہنچے اور چائے کے بعد گیفو پریفیکچر جانے کی تیاری کرنے لگے۔ اعجاز بھنڈر کے دو دوست عابد اعوان اور شعیب آرائیں صاحب بھی تشریف لے آئے اور ناگویا کو خدا حافظ کہہ کر گیفو کی طرف روانہ ہوئے۔

اعجاز بھنڈر، عرفان بٹ، عابد اعوان اور محمد شعیب آرائیں کے ساتھ جب ہم JUآکشن گیفو پہنچے تو ملک حماد، جاوید بٹ اور ان کے چھوٹے بھائی حافظ شعیب بٹ نے ہمارا استقبال کیا۔ شام ہو چکی تھی آکشن میں تاجر برادری اپنی پسند کی خریداری کر کے واپس جا چکے تھے، حماد صاحب ہمارے انتظار میں وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد یہاں سے ملک حماد صاحب کی گاڑی میں گیفو شہر میں واقع ان کی خوبصورت رہائش گاہ پہنچے جو ارد گرد کے تمام گھروں سے بالکل منفرد ہی نظر آ رہی تھی اور بلاشبہ کسی آرٹسٹ کا شاہکار ہے۔ ملک حماد نے بتایا کہ انھوں نے یہ تیار شدہ گھر ایک امیر ترین جاپانی سے بہت ہی مناسب قیمت پر خریدا تھا۔ حماد صاحب نے بتایا کہ انھوں نے یہ گھر صرف گیفو مسجد کے قریب ہونے کی وجہ سے خریدا تھا۔ تمام دوستوں نے تھوڑی دیر ان کی رہائش گاہ پر آرام کیا اس دوران ان کے کزن قاری علی اور ثاقب نے گرما گرم چائے سے ہماری تواضع کی۔ عشاء کی نماز کے لئے ہم سب ان کی رہائش گاہ سے چند منٹ کے فاصلے پر واقع گیفو مسجد پہنچے۔ گیفو مسجد کا افتتاح2008ء جولائی میں امامِ کعبہ کے دستِ مبارک سے ہوا تھا، یہ مسجد در اصل ناگویا کی جامع مسجد کی ایک شاخ ہے جس کی تعمیر میں مقامی پاکستانی تاجر برادری اور مہران کارپوریشن کے صدر عبدالوہاب قریشی کی کاوشیں قابلِ ذکر ہیں۔

مسجد کے مرکزی دروازے پر گھانا کے امام و خطیب 45 سالہ محمود صاحب نے ہم سب کا والہانہ استقبال کیا۔ عشاء کی نماز کے لئے اعجاز بھنڈر نے اذان دی اور تقریباًتیس افراد کی جماعت نے امام محمود کی امامت میں نمازِ عشاء ادا کی۔ امام مسجد کی قرأت اتنی سحر انگیز تھی کہ جی چاہتا تھا کہ وہ قرآن کی تلاوت کرتے جائیں اور کبھی خاموش نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے امام محمود کو خوبصورت آواز سے نوازا ہے۔ بعد نمازِ عشاء امام محمود نے حدیث سنائی کہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ آپﷺ کی حدیث ہے کہ کسی بیمار کی عیادت کرنا سنت ہے اور اگر کوئی بیمار نہ بھی ہو تو اللہ کی خوشنودی کے لئے اس کے پاس جانا بھی ثواب ہے۔ امام محمود نے کہا کہ کوئی بھی کام اگر اللہ کی خوشنودی کے لئے کیا جائے تو اللہ تعالیٰ اس کام کو بھی عبادت کا درجہ دے دیتا ہے۔ نمازِ عشاء میں گیفو میں مقیم سینئر پاکستانی اور میرے بائیس سال پرانے دوست افضل چیمہ کے علاوہ رانا احمد علی، سید رضا ہاشمی، محمد آصف، ذوالفقار چیمہ اور دیگر پاکستانیوں نے بھی شرکت کی، نماز کے بعد تمام شرکاء کے لئے مسجد سے ملحق نعمت خانے میں شام کا کھانا بھی تیار کیا گیا تھا۔

ملک حماد نے کہا کہ اس مسجد کی تعمیر پر لگ بھگ سترہ کروڑ ین خرچ ہوئے ہیں۔ گیفو مسجد جاپان بھر کی خوبصورت ترین مساجد میں سے ایک ہے جس میں خواتین کے لئے مسجد کی دوسری منزل پر علیحدہ انتظام ہے، مسجد میں اسٹڈی روم، کتب خانہ، دفتر، مہمان خانہ، میٹنگ روم، وضو خانے اور ہال بھی بنائے گئے ہیں، مسجد کے مستقل امام محمود ہی مسجد کی صفائی ستھرائی اور دیگر کاموں کے ذمہ دار ہیں۔ ان کی رہائش مسجد سے چند میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ملک حامد نے بتایا کہ گیفو میں ایک سو پانچ پاکستانی رجسٹرڈ ہیں اور تمام لوگ گاڑیوں کے کاروبار سے وابستہ ہیں، ہر ماہ کے آخری اتوار کو مسجد کی انتظامیہ اور مقامی مسلمانوں کی طرف سے مقامی جاپانیوں کو مدعو کیا جاتا ہے اور کھانے کی دعوت دی جاتی ہے۔ نمازِ عشاء میں ایک نومسلم جاپانی اسلم اِچی کاوا صاحب سے بھی ملاقات ہوئی جو حال ہی میں اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر اپنی مرضی سے دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ہیں ان کی عمر52 سال ہے اور رواں انگریزی میں گفتگو کرتے ہیں۔ اسلم اچی کاوا صاحب نے بتایا کہ انھوں نے کئی سال مذہب اسلام کا مطالعہ کیا اور مسلمان ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ مسلمانوں کے حسن و سلوک اور اخلاق سے بہت متاثر ہیں۔ شام کے کھانے کے بعد ہم واپس حماد صاحب کی رہائش گاہ چلے گئے۔ حماد صاحب نے بتایا کہ مسجد کے قریب ہی گیفو یونیورسٹی بھی ہے جہاں مختلف مسلم ممالک کے لوگ اعلیٰ تعلیم کے لئے آتے ہیں۔ ساتھ ہی گیفو یونیورسٹی ہسپتال بھی ہے جس میں دنیا کی جدید ترین سہولتیں دستیاب ہیں۔ گیفو مسجد کے سامنے ہی ایک بڑا پلاٹ بھی ہے جس پر مستقبل میں بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے ایک انسٹیٹیوٹ قائم کرنے کا منصوبہ زیرِ غور ہے جسے تقریباً چالیس کروڑ ین کی لاگت سے تعمیر کیا جائے گا۔ حماد صاحب کی رہائش گاہ پر دوستوں کی ایک طویل نشست ہوئی جس میں کمیونٹی کے موجودہ حالات پر سیر حاصل گفتگو ہوتی رہی۔ افضل چیمہ نے کہا کہ گیفو میں مقیم تمام پاکستانیوں میں بہت اتحاد ہے اور سب آپس میں باہمی محبت و اتفاق سے رہ رہے ہیں۔ رات گئے اعجاز بھنڈر، عرفان بٹ، عابد اعوان اور شعیب آرائیں واپس ناگویا چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد ہی افضل چیمہ، جاوید بٹ اور حافظ شعیب بٹ بھی اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ میں اور ملک حماد صاحب صبح چار بجے تک باتیں کرتے رہے۔ حماد صاحب کی گفتگو اتنی دلنشین تھی کہ مجھے رات کو بستر پر جا کر سونا فضول محسوس ہو رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے 42 سالہ حماد صاحب پر اپنا خاص فضل کر رکھا ہے۔ انھوں نے جاپان میں ایک مزدور کی حیثیت سے سائتاما کے شہر تھودا میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور آج وہ ایک کامیاب بزنس مین ہیں۔ اپنی کامیابی کا راز بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ سود پر کام کرنے کے سخت خلاف ہیں اور اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق گزارنے پر فخر محسوس کرتے ہیں اور یہی ان کی کامیابی کا راز ہے۔ انھوں نے کہا کہ انھیں کامیاب بزنس مین بنانے میں ان کے پرانے محسن احمد صاحب جو سائتاما کے شہر کاواگوئے میں مقیم ہیں کا بہت ہاتھ ہے۔ اس دوران انھوں نے اپنی پرانی یادوں کا بھی ذکر کیا اور فجر کی نماز کے لئے ایک بار پھر گیفو مسجد میں امام محمود اور دیگر پاکستانیوں سے ملاقات ہوئی اور باجماعت نمازِ فجر اداکی۔ رات بھر ہم دونوں پلک جھپکے بغیر مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے رہے۔ اس شخص سے جسے آپ پہلی بار مل رہے ہوں اور گھنٹوں باتیں کرنے میں گزار دیں تو یہ کوئی معمولی بات نہیں، عموماً ایسا ہوتا ہے کہ کسی اجنبی سے پہلی بار ملیں تو چند باتیں کر کے موضوع گفتو بھی ختم ہو جاتا ہے، مگر ملک حماد صاحب کے ساتھ مجھے ایسا محسوس نہیں ہوا۔ صبح ناشتے کے بعد حماد صاحب نے میرے اصرار پر مجھے واپسی کی اجازت دے دی اور گیفو اسٹیشن تک مجھے چھوڑنے کے لئے آئے اور میں بلیٹ ٹرین پر سوار ہو کر ٹوکیو پہنچ گیا۔ آئی چی اور گیفو کا یہ سفر میں طویل عرصے تک فراموش نہیں کرسکوں گا۔ جس دن سے میں گیفو سے واپس آیا ہوں آج تک کوئی ایسا دن نہیں جس دن میں نے کم از کم ایک نماز ادا نہ کی ہو، اس سے قبل مہینوں گزر جاتے تھے مجھے نماز کی توفیق نہیں ہوتی تھی، اتفاق سے کسی مسجد کا دورہ ہو گیا تو نماز ادا کر لی کبھی خصوصی طور پر نماز ادا کرنے کی توفیق ہوئے عرصہ گزر چکا تھا۔ کئی ہستیاں ایسی ہوتی ہیں جو خو دبھی با عمل ہوتی ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے ساتھی اور دوست بھی انہی جیسے ہوں۔ ملک حماد صاحب کی باتوں میں وزن تھا اور وہ جو باتیں کرتے تھے وہ میرے دل میں اترتی جاتی تھیں کیونکہ وہ خود بھی ان باتوں اور مشوروں پر عمل کرتے ہیں۔ میں عرفان بٹ صاحب اور ملک حماد صاحب کا تہہ دل سے مشکور ہوں کہ انھوں نے مجھے ناگویا اور گیفو میں اپنا مہمان بننے کا موقع دیا۔

٭٭٭

 

ٹوکیو سے کراچی تک

  (9جنوری2010ء) اب کب آؤ گے؟ اب شاید میں کبھی نہ آؤں !! جب پاکستان میں ہوتا ہوں تو کسی بہن یا بھائی یا کسی دوست کے ساتھ آخری الفاظ اسی طرح کے ہوتے ہیں کیونکہ ہر بار پاکستان جانے پر جو تکالیف اور ذہنی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو سوچتا ہوں کہ اب دوبارہ پاکستان نہیں آؤں گا چاہے کچھ بھی ہو جائے اور اپنی اس بات پر قائم رہنے کے لئے بہت جدو جہد کرتا ہوں اور اپنے آپ سے جنگ بھی کرتا رہتا ہوں تاکہ اپنی بات پر اڑا رہوں لیکن پھر سال یا دو سال کے بعد پاکستان کی یاد ستانا شروع کر دیتی ہے اس موقع پر وہاں پر گزارے ہوئے کڑے لمحات کو یاد کرتا ہوں تاکہ جانے کی خواہش ماند پڑ جائے۔ ۔ آخر کار ہار جاتا ہوں اور اچانک پاکستان جانے کے لئے بے تاب ہو جاتا ہوں کیونکہ سرزمینِ پاکستان کی مخصوص خوشبو، وہاں کی مٹی اور دھول کی سوندھی خوشبو، وہاں کے چاروں موسم، بہن بھائیوں کی محبت، ماں باپ کا پیار، رشتہ داروں کی الفتیں، دوستوں کی یاریاں، ماں کی قبر، پرائمری اسکول و کالج، وہاں کے بازار، گلیاں، سڑکیں، تانگے، گدھا گاڑی، اونٹ گاڑی، سبزی اور فروٹ کے ٹھیلے، بازاروں میں کھلی ہوا میں تلتے ہوئے پکوڑے اور مچھلی، چاٹ اور چھولے، مٹھائیاں، لوگوں کا شور شرابا، گاڑیوں کے مسلسل بجتے ہارن اور بھونپو غرض یہ کہ یہ تمام چیزیں دو سال میں اتنی تیزی سے ذہن پر حملہ کرتی ہیں کہ فوراً پاکستان کا چکر لگانے کو جی مچلنے لگتا ہے۔ بالکل اسی طرح کی کیفیت گزشتہ سال کے آخر میں ہوئی تو اچانک پی آئی اے سے پاکستان جانے کا ارادہ کر لیا اور ٹوکیو کے ناریتا ایئرپورٹ پر پی پی پی جاپان کے ممتاز عالم، آئی چی پریفیکچر کے پاکستان ایسوسی ایشن کے سابق صدر ساجد احمد عباسی، تحریکِ انصاف جاپان سائیتاما کے جنرل سیکریٹری بابر علی مغل، ٹوکیو کے کلیم خان، پاکستان اسٹوڈینٹس فیڈریشن کے سیکریٹری ڈاکٹر شاہد رسول، آئی چی کے پاکستانی نژاد شہری شاہ محمود اور عابد رشید صاحب سے بھی ملاقات ہو گئی جو کہ میرے ہمسفر بھی تھے۔ پی پی پی جاپان کے صدر نعیم الغنی آرائیں بھی ایئرپورٹ پر الوداع کہنے کے لئے موجود تھے۔ دوسرے روز صبح ڈیڑھ بجے کے قریب کراچی ایئرپورٹ پر آج ٹی وی کے رپورٹر انچارج افسر امام، ایم کیو ایم کاواساکی کے محمد شاہد سے بھی ملاقات ہو گئی مجھے میرے دوست اور کزن لینے کے لئے آئے ہوئے تھے تمام دوستوں سے سلام دعا کے بعد سب اپنی اپنی منزل کو روانہ ہو گئے۔

یہ کراچی ہے جسے کبھی روشنیوں کا شہر کہا کرتے تھے آج روشنی صرف ایئرپورٹ کے علاقے اور زرداری و بلاول ہاؤس اور میاں ہاؤس تک محدود ہو کر رہ گئی ہے کیونکہ یہ لوگ زیادہ حق دار ہیں۔ کراچی کے دیگر علاقے دن اور رات میں کئی کئی گھنٹے گھپ اندھیرے میں ڈوبے ہوتے ہیں۔ ایئر پورٹ سے نکل کر جس علاقے سے بھی گزریں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چند منٹ پہلے یہاں پر بمباری ہوئی ہے سڑکیں سُونی اور عمارتیں اداس اور ہر چیز سہمی سہمی نظر آتی ہے۔

دوسرے روز افسر امام، پاکستان پوسٹ کے چیف ایڈیٹر نوید شاد آرائیں نے ممتاز عالم، اصغر حسین (جو کہ پہلے سے ہی کراچی میں موجود تھے) اور راقم کے اعزاز میں کلفٹن پر ٹونائٹ باربی کیو میں شاندار ظہرانہ دیا جہاں بیٹھ کر جاپان میں پاک برادری اور پاکستان کے مسائل پر تبادلہء خیال کیا گیا۔ ظہرانے سے قبل افسر امام اور نوید شاد ہمیں کلفٹن ساحل کی سیر بھی کرا چکے تھے یہ وہی کلفٹن تھا جہاں ہم بچپن میں اپنے بہن بھائیوں اور دوستوں کے ساتھ جایا کرتے تھے لیکن آج کا کلفٹن 24 سال پہلے والے کلفٹن سے قدرے مختلف تھا۔

شام کو ناظم آباد جاتے ہوئے خبر ملی کہ پاپوش نگر میں بم دھماکہ ہو گیا ہے خبر سنتے ہی اوسان خطا ہو گئے۔ دوسرے روز بھی قصبہ کالونی میں بم دھماکہ ہوا مجھے اپنے آپ پر شک ہوا کہ اس میں کہیں میرا ہاتھ تو نہیں کیونکہ اب تک کراچی میں کوئی دہشتگردی کے واقعات نہ ہوئے تھے میرے پہنچتے ہی بم دھماکے شروع ہو گئے! لیکن میں نے غور کیا تو میرا ہاتھ اپنے بیگ میں اپنا موبائل تلاش کر رہا تھا۔ شام کو کلفٹن کے قریب حضرت سید عبداللہ شاہ غازی ؒ کے مزار پر حاضری دی جہاں پر ہر آنے والے عقیدت مند کی جامہ تلاشی لی جا رہی تھی بلکہ وہاں پر مستقل حفاظتی انتظامات کر دئیے گئے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح کسی ایئرپورٹ پر جہاز پر سوار ہونے والوں کی جامہ تلاشی لی جاتی ہے یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ اب ہمارے مذہبی مراکز اور اولیاء کے مزار بھی دہشتگردی کی لپیٹ میں ہیں۔

تیسرے روز مجھے اپنی ویب سائٹ کے لئے اپنے بھانجے کو کچھ ہدایات بھی دینا تھیں جو بڑی خوش اسلوبی سے اردو نیٹ جاپان کی خبریں اپ لوڈ کر رہا ہے۔ اس کام سے فارغ ہو کر جاپان میں مقیم روزنامہ جنگ، اخبارِ جہاں اور جیو نیوز کے سینئر صحافی عرفان صدیقی کے چھوٹے بھائی عدنان صدیقی کے دفتر میں جانے کا اتفاق ہوا آج ملک بھر میں محرم الحرام کی عام تعطیل تھی لیکن عدنان صاحب اور ان کے رفقاء طارق صاحب، علی ضمیر صاحب اور سلیم الدین صاحب خصوصی طور پر میرے کے استقبال کے لئے دفتر آئے ہوئے تھے جہاں انہوں نے میرا شاندار استقبال کیا۔ عدنان صاحب کی کمپنی کا دفتر کراچی کے پوش علاقے کی ایک عالیشان عمارت میں واقع ہے جسے دیکھ کر آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ یہ پاکستان میں ہے یا جاپان میں۔ دفتر میں داخل ہوتے ہی مجھے یوں لگا جیسے میں جاپان کی کسی کمپنی کے دفتر میں ہوں۔ عدنان صاحب اور ان کے ساتھیوں نے مجھے رخصت کرتے وقت قیمتی تحائف سے بھی نوازا۔ بعد ازاں عدنان صاحب کی خوبصورت رہائش گاہ بھی گیا جہاں ان کی والدہ محترمہ جن سے میری ملاقات جاپان میں بھی ہو چکی تھی دیکھ کر ایک بار پھر مجھے اپنی ماں کی یاد آ گئی ان کے ہاتھوں کے لذیذ کھانے کھا کر مجھے یوں لگا جیسے میری ماں نے صرف میرے لئے ایسا اہتمام کیا ہے واپس جاتے ہوئے ماں جی نے تحائف دیئے اور جب شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرا تو بے اختیار میری آنکھیں اشکبار ہو گئیں اور میں نے تہیہ کر لیا کہ اب ہر سال پاکستان آؤں گا۔ آج بھی خبر ملی کہ کراچی ایم اے جناح روڈ پر ایک ماتمی جلوس میں خود کش دھماکہ ہواجس میں چالیس سے زائد افرادشہید ہو گئے۔ اس دھماکے کے بعد کراچی کے ہر شہر میں ہنگامے شروع ہو گئے اور میں اپنے دوستوں رفیع اللہ، جمیل اختر اور عمران بیگ، رضوان بیگ، ندیم قریشی، شیخ ظفر، سید اکبر علی، سید ارشد علی، افسر امام اور نوید شاد آرائیں کا شکریہ ادا کیا اور دوسری صبح لاہور کے لئے روانہ ہو گیا۔ کراچی خدا حافظ۔ ۔

٭٭٭

 

کراچی سے لاہور بذریعہ گھریلو ائیر لائن

(20جنوری2010ء )اپنے آبائی شہر کراچی میں تین دن خاک چھاننے اور دھماکوں کی دھول ناک میں لئے لاہور کی طرف رخ کیا اور سواری کے طور پر اپنی ڈومیسٹک ایئر لائن یعنی گھریلو ایئر لائن کا انتخاب کیا۔ کراچی ایئرپورٹ پر سامان مقررہ وزن سے چند کلو زیادہ تھا بابو نے کہا کہ1800 روپے دے دیں اور رسید لے لیں یا ایک ہزار دے دیں رسید نہ لیں۔ میں نے سوچا وزن ویسے ہی زیادہ ہے رسید لے لی تو اور بھی زیادہ وزن ہو جائے گا۔ لہٰذا میں نے ایک ہزار کا نوٹ دے دیا اور رسید نہ لی، لیکن پھر سوچا نہیں ! رسید لے لینی چاہئے تاکہ سند رہے کہ جیب ہلکی ہوئی ہے۔ لہٰذا میں نے ایک نوٹ اور دیا اور رسید کا مطالبہ کر دیا۔ بابوجی نے برا سا منہ بنایا اور رسید کاٹ دی۔

گھریلو ایئر لائن واقعی گھریلو ہی تھی جہاز کے دروازے پر فضائی میزبان بالکل پھوپھو جیسی خاتون نے استقبال کیا اور بائیں طرف جانے کا اشارہ کیا بلکہ دھکیل دیا بالکل ویسے ہی پیار سے جیسے بھتیجے کو اپنی پھوپھو سے ملتا ہے۔ بائیں طرف آیا تو ماموں جیسے حضرت( جنھوں نے بال کلر کئے ہوئے، الٹی شیو کی ہوئی اور مونچھوں کو مکھن سے پالش کیا ہوا تھا)نے اور آگے جانے کو کہا، وہاں گیا تو ممانی ٹائپ لڑکی نے معلوم نہیں مسکرا کر یا غرّا کر اشارہ کیا کہ بس خلیفہ جی یہیں بیٹھ جاؤ۔ ایک گھنٹے کے سفر (suffer  )میں بالکل گھریلو ماحول پایا کسی نے بھی یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ آپ جہاز میں سفر کر رہے ہیں یا گھر کی ویگن میں البتہ جہاز کا ٹکٹ لیتے وقت شدت سے محسوس ہوا تھا کہ میں جہاز کی ٹکٹ لے رہا ہوں اور سامان کا کرایہ الگ دیا تھا۔

لاہور کا علامہ اقبال ائیر پورٹ جسے دور سے دیکھو تو ایسے لگتا ہے جیسے تپتی ہوئی صحرا میں کسی نے مسجد تعمیر کر دی ہو۔ پرانے طرزِ تعمیر کے نئے ایئرپورٹ سے باہر نکلا تو پنجاب کی ٹھنڈی ہواؤں نے استقبال کیا میں بیگ سے مفلر نکالنے لگا تو کسی نے میرے سامان کی ٹرالی دھکیلنا شروع کر دی۔ دیکھا تو بھائی کے ساتھ ساتھ ایک صاحب اور تھے جنہوں نے صرف ٹرالی کو تھاما ہوا تھا اور دھکیل میں ہی رہا تھا بالکل ایسے ہی جیسے کراچی میں گدھا گاڑی میں دو گدھے جتے ہوتے ہیں ایک زیر تربیت ہوتا ہے جو صرف سائڈ میں بھاگ رہا ہوتا ہے اور کھینچنے والا جو درمیان میں بندھا ہوتا ہے اسے حوصلہ رہتا ہے کہ وہ اکیلا ہی گدھا نہیں ہے بلکہ ایک گدھا اور بھی ساتھ میں کھینچ رہا ہے۔ سامنے کھڑی گاڑی میں بیٹھنے لگے تو ان صاحب نے کہا کہ بخشش تو دیں۔ میں اب تک سمجھتا رہا کہ بھائی کے ساتھ ہوں گے مگر وہ پورٹر تھا۔ بھائی نے ایک نوٹ نکال کر اسے دیا تو وہ بھنوٹ ہو گیا اور کہنے لگا کہ کیا مجھے بھکاری سمجھ رکھا ہے۔ اس سے پہلے کہ بات بگڑتی میں نے ایک نوٹ کا اور اضافہ کر کے اس کی طرف بڑھا دیا اور گاڑی میں بیٹھ کر گھر کی طرف چل دیئے، آج مجھے بھکاری اور پورٹر کا فرق معلوم ہو گیا تھا۔ راستے میں کئی جگہوں پر ایک ہر طرف جھکی ہوئی ویگنیں، ایک موٹر سائیکل پر پورا کنبہ سوار، ٹریکٹر، دھواں دار بسیں، گاڑیوں کے ہارن، شور شرابہ اور نہ جانے کیا کچھ دیکھنے کو ملا۔ ایک ویگن پر جاپانی میں کھاتو کنسٹرکشن کمپنی لکھا ہوا تھا اور کھچاکھچ بھری ہوئی تھی۔ میں سمجھا کہ اندر معمار اور مزدور ہوں گے جو کہیں عمارت تعمیر کرنے جا رہے ہوں گے لیکن معلوم ہوا کہ وہ مزدور نہیں عام مسافر تھے۔ یہاں بھی کراچی کی طرح ابھی محرم الحرام کی تعطیلات کی جھلک دکھائی دے رہی تھی اور لوگ خوفزدہ اور پریشان حال دکھائی دیتے تھے۔ لاہور زندہ دلوں کا شہر کہلاتا ہے لیکن آج کل لاہور میں زندہ دلی صرف مخصوص علاقوں اور لوگوں تک ہی محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ جو غریب ہے وہ بہت ہی غریب ہے اور جوامیر ہے وہ بہت ہی امیر ہے اور مزید امیر ہونے کے چکر میں لوگوں کی زندگی سے بھی کھیل رہا ہے۔

لاہور میں پہلا دن اپنے چند رشتہ داروں اور بہن بھائیوں کے ساتھ ہی گزر گیا۔ دوسرے دن اپنے ایک ایسے محسن کے پاس جانے کا ارادہ کیا جسے میں نے کبھی دیکھا نہ تھا لیکن مسلسل رابطے میں رہتا تھا وہ تھے نجیب عالم صاحب جو میری اس وقت مدد کرتے تھے جب میں ایسوسی ایشن کا آن لائن اخبار چلاتا تھا جس کے ویب ماسڑنجیب عالم صاحب ہوا کرتے تھے جو میرے معاون تھے۔ میں نے سوچا پتہ نہیں لاہور پھر کب آنا ہوتا ہے کیوں نہ ان سے ملاقات ہی کر لی جائے اور ان کا شکریہ بھی ادا کر دیا جائے۔ انہیں فون کیا تو فوراً پہچان گئے اور جھٹ کھانے پر مدعو کر لیا۔ کوئی ایک گھنٹے کی مسافت پر ان کی رہائش تھی انہوں نے شاندار استقبال کیا اور اپنے دفتر لے گئے جو کہ ان کی رہائش گاہ سے ملحق تھا۔ عصر کا وقت ہو گیا تھا نجیب عالم صاحب کے ساتھ قریبی مسجد میں نماز عصر ادا کی۔ نجیب عالم صاحب ایک نہایت ہی خوش اخلاق اورملنسار انسان ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور ویب سائٹس کی تیاری کے ساتھ ساتھ اپنے بڑے بھائی جناب شبیر حسین صاحب کی کرشن نگر میں واقع الوہاب لیبارٹری کا انتظام بھی دیکھتے ہیں۔ دوپہر کے کھانے کے دوران ان سے جاپان اور وہاں مقیم پاک برادری کے مسائل پر بھی تبادلہ خیال ہوا کیونکہ نجیب عالم صاحب جاپان میں مقیم پاک برادری سے اتنے ہی واقف ہیں جتنا کہ کوئی بھی پاکستانی جو جاپان میں مقیم ہو۔ انہوں نے اپنے دفتر کا دورہ بھی کروایا اور رخصت ہونے سے پہلے عبدالرحمٰن صدیقی صاحب کے لئے دو اسلامی کتب کا تحفہ بھی دیا اور کہا کہ وہ موصوف کے بہت بڑے پرستار ہیں اور ان کی تمام تحریریں جو اردو نیٹ جاپان میں شائع ہوتی ہیں باقاعدگی سے پڑھتے ہیں۔ آخر میں انہوں نے اردو نیٹ جاپان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت پر مجھے مبارکباد دی اور اتنی خوبصورت ویب سائٹ بنانے پر خوشی کا اظہار کیا۔ نجیب عالم صاحب سے طویل نشست کرنے کو جی چاہتا تھا مگر وقت کی کمی نے اجازت نہ دی۔ اس لئے یہ کہہ کر اگلی منزل کی طرف روانہ ہو گیا کہ زندگی نے وفا کی تو دوبارہ ملیں گے۔

لاہور میں دوسرا دن بھی مصروف گزرا میرے بڑے بھائی سید طارق گیلانی جو کہ اس مرتبہ میرے ساتھ ہی پروگرام بنا کر جرمنی سے آئے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ مرکز منہاج القرآن بھی گیا جہاں کی تفصیلی رپورٹ اردو نیٹ جاپان میں شائع کر چکا ہوں۔ منہاج القرآن کے امور خارجہ کے جی ایم ملک صاحب اور ان کے رفقاء سے اجازت لی اور اگلی ملاقات کے لئے روانہ ہوا۔

ہم نے پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج کی طرف رخ کیا جہاں پروفیسر ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب شعبہء اردو کے سربراہ اور ممتاز استاد پروفیسر ڈاکٹر کامران صاحب سے4 بجے سہ پہر ملاقات کا وعدہ کیا ہوا تھا۔ لیکن لاہور کی مصروف ٹریفک نے ایک گھنٹہ تاخیر سے پہنچایا۔ کالج کے مرکزی دروازے پرسوٹ بوٹ میں ملبوس پروفیسر ڈاکٹر محمد کامران صاحب نے بڑی فراخدلی سے ہمارا استقبال کیا اور ہم دونوں بھائی ان کی رہنمائی میں کالج کے باغیچوں اور برآمدوں سے ہوتے ہوئے ڈاکٹر فراقی صاحب کے دفتر پہنچ گئے۔ چند لمحوں میں ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب تشریف لے آئے اور,,ارے دریا خان صاحب،، کہتے ہوئے طویل بغلگیری سے نوازا اور فوری چائے اور لذیذ بسکٹس منگوا لئے اور گزشتہ سال جاپان میں ملاقاتوں کا تذکرہ شروع ہو گیا۔ ڈاکٹر کامران بھی باتوں میں ہمارا ساتھ دیتے رہے۔ ڈاکٹر کامران صاحب سے پہلی ملاقات کے باوجود یہ احساس نہ ہوا کہ ہم پہلی بار مل رہے ہیں اور یہ بات ڈاکٹر تحسین فراقی نے بھی محسوس کی۔ لاہور میں سردی ہونے کی وجہ سے جلد ہی اندھیرا چھا گیا اور ہم پورے کالج کی سیر نہ کرسکے۔ البتہ ڈیڑھ دو گھنٹے کی نشست میں دنیا بھر کے موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔ ڈاکٹر کامران صاحب اور ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب دونوں ہی مختصر عرصہ کہ لئے وزیٹر پروفیسر کی حیثیت سے جاپان کی معروف جامعہ دائیتوبنکا میں تشریف لا چکے ہیں اور جاپانی اور پاکستانی ادبی حلقوں میں خاصے معروف ہیں۔ ڈاکٹر محمد کامران صاحب کا سفرنامہ جاپان بھی اردو نیٹ جاپا ن پر قسط وار شائع ہوا جبکہ کتابی صورت میں بھی جلد ہی مارکیٹ میں آنے والا ہے۔ ان کی اہلیہ اور معروف شاعرہ صائمہ کامران صاحبہ کی شاعری بھی اردو نیٹ جاپان میں شائع ہو رہی ہے جسے قارئین شوق سے پڑھتے ہیں۔ قائد اعظم ایوارڈ یافتہ شاعرِ جاپان محمد مشتاق قریشی صاحب نے بھی صائمہ کامران کی شاعری کی بہت تعریف کی ہے۔ حالانکہ وہ جلدی کسی کی تعریف کرتے نہیں ہیں مگر صائمہ صاحبہ کی شاعری واقعی قابلِ تعریف ہے۔ رخصت ہوتے وقت ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب نے خصوصی طور پر شاعرِ جاپان مشتاق قریشی، انجمن فروغ اد ب جاپان کے تا حیات صدر اور دائیتوبنکا یونیورسٹی کے سابق استاد اور جاپان میں سب کے حالیہ استاد محترم عبدالرحمٰن صدیقی صاحب کے لئے نیک خواہشات کا پیغام دیا اور دائتوبنکا یونیورسٹی کے سینئر پروفیسر کھاتا اوکا ہیروجی اور جائیکا کے ہوری اے میچی ہیرو کے لئے بھی نیک خواہشات کا پیغام دیا۔ آخر میں رخصت ہوتے ہوئے ڈاکٹر کامران اور ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب نے اپنی چند تصانیف بطور تحفہ اردو نیٹ جاپان کے لئے عنایت فرمائیں۔ اتنی شاندار نشست کو برخاست کرنے کو جی نہیں چاہتا تھا لیکن دونوں پروفیسرز کی مصروفیت کا خیال آگیا اس لئے ان سے اجازت چاہی اور اپنی اگلی مصروفیات پر غور کرنے لگا۔

لاہور آنا اور یہاں آ کر ایک ایسے شخص سے نہ ملنا میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ وہ ہیں قومی ائیر لائن پی آئی اے کے سابق کنٹری مینیجر برائے جاپان و کوریا جناب سہیل مبارک صاحب جو کہ چند دن پہلے ہی تازہ تازہ سابق ہوئے تھے اور میرے پیچھے پیچھے پاکستان چلے آئے۔ ہم چند منٹوں میں لاہور کی سڑکیں ناپتے ہوئے ان کی رہائش گاہ پر پہنچے تو انہوں نے پُر تپاک استقبال کیا۔ مجھے یک لخت ایسا محسوس ہوا کہ میں ان سے جاپان میں ہی مل رہا ہوں۔ سہیل مبارک صاحب جاپان میں ایک سال گزار کر آئے ہیں اور اپنے پیچھے ہزاروں ہم وطنوں کو اداس کر آئے ہیں اور آج خود بھی جاپان اور پاک برادری کی باتیں کرتے ہوئے اداس ہو رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ایک سال کے دوران جاپان کے ہم وطنوں نے جو محبتیں دی ہیں وہ میں کبھی فراموش نہیں کر سکوں گا۔ ماہِ محرم الحرام میں پاکستان بھر میں حلیم کا لنگر مشہور ہے مجھے کراچی میں میرے معدے نے حلیم کھانے کی اجازت نہ دی تھی لیکن یہاں سہیل صاحب نے حلیم کے ساتھ پائے (نہ جانے پھجے کے پائے تھے یا بکرے کے )سے ہماری تواضع کی اور ہم رات گئے تک ان کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف رہے اور اس طرح لاہور میں دو دن گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا۔ ۔ ۔ کراچی کی یادیں ماند پڑ گئیں اور لاہور کی تازہ یادوں نے دل و دماغ پر قبضہ کر لیا اور اسی قبضہ کے ساتھ میں دوسرے دن اسلام آباد بری امام جانے کی تیاریوں میں مصروف ہو گیا۔ ۔ ۔ اور ایک بار پھر گھریلو ائیر لائن میں سفر کرنے کا سنہری موقع ملا۔ ۔ ۔ پاکستان زندہ باد

٭٭٭

 

لاہور سے اسلام آباد۔ ۔ ۔ راولپنڈی بری امامؒ کی درگاہ پر حاضری

 ( 22جنوری2010ء)  لاہور میں 30 دسمبر کی رات میرا آخری قیام تھا، لاہور کی سڑکوں پر موٹر سائکل پر سیر کرنے کی سوجھی اپنے ایک عزیز سے فرمائش کی کہ موٹر سائکل نکالو اور لاہور کی سیر کراؤ۔ رات کے وقت لاہور کی سڑکوں پر ابھی رونق باقی تھی۔ ملتان روڈ سے گزرتے ہوئے فٹ پاتھ پر بچوں کی پرانی جییکٹس، دستانے، گرم کپڑے اور چشمے فروخت ہو رہے تھے، آنکھوں کو گرد و دھول سے بچانے کے لئے ایک عد دسیاہ چشمہ خریدنا چاہا تو پٹھان دکاندار نے 170 روپے کہا اسے ہمارے عزیز نے30 روپے تھمائے اور چشمہ اٹھا لیا۔ اس نے چوں چرا بھی نہیں کی اس کا مطلب تھا کہ دام مناسب دیئے گئے ہیں۔ میں نے موٹر سائکل کے پیچھے بیٹھتے ہوئے چشمہ اور ماسک لگا لیا اور موٹر سائکل فراٹے بھرنے لگی۔ تھوڑی ہی دور گئے ہوں گے کہ ہمارا راستہ روکتے ہوئے ایک پولیس کی ڈاٹسن نے ہمیں روک لیا اور اترتے ہی پوچھا کہ یہ چشمہ اور ماسک کیوں لگایا ہے ؟ میں نے کہا کہ گرد آلود ہوا سے بچنے کے لئے! پھر کہا کہ معلوم نہیں کہ محرم الحرام میں موٹر سائکل پر دوہری سواری کی ممانعت ہے؟ ہمارے عزیز نے کہا کہ وہ پابندی تو کل تک تھی آج تو نہیں ہے!! دریں اثناء ڈاٹسن میں سے دوسرے پولیس والے اور ان کے صاحب بھی اُتر آئے اور لائسینس، کاغذات وغیرہ دیکھنے لگے اور کہا کہ پابندی ختم ہونے کے بعد بھی کم ازکم ایک دن تو احتیاط کرنا ضروری ہے۔ صاحب ہمارے عزیز کو ایک طرف لے گئے اور اس سے خوشدلی سے مصافحہ کرتے ہوئے واپس آ گئے اور جانے کی اجازت دے دی۔ میں نے کہا کہ کیا تمھارے جاننے والے تھے؟ کہا کہ نہیں مصافحہ کرتے ہوئے ایک ہزار کا نوٹ تھمایا ہے بصورتِ دیگر تھانے جانے کو کہہ رہے تھے جہاں پانچ ہزار کا نوٹ دینا پڑتا۔ ۔ عجیب بات ہے کاغذات بھی ٹھیک ہیں اور کوئی غلطی بھی نہیں کی پھر بھی جرمانہ؟ پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی۔ ۔ ان کی کریں دل سے مدد آپ بھی۔ ۔ میرا دل بجھ سا گیا اور واپس گھر جانے کو کہا۔ اور سوچتا رہا کہ اچھا ہی ہوا تھانے نہیں گئے ورنہ انھیں پانچ ہزار کا نوٹ دیتے تو وہ اس نوٹ کا کھُلا کیسے کراتے؟کیونکہ حکومتِ پاکستان نے پانچ ہزار کا نوٹ تو جاری کر دیا ہے لیکن کسی بھی دکان پر اس کا چھُٹا یعنی ریزگاری نہیں ملتی۔

صبح بھابی جان نے میرے اعزاز میں شاندار فجرانے کا اہتمام کیا ہوا تھا جس میں چرغہ، چکن تکہ، مچھلی فرائی، انڈے ابلے ہوئے اور آملیٹ، بل والے براؤن پراٹھے، دہی، چائے اور فروٹ وغیرہ۔ یہ سب اہتمام دیکھ کر مجھے پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم خواجہ ناظم الدین یاد آ گئے جو ہمیشہ اپنے ناشتہ کا میز اسی طرح سجایا کرتے تھے، میں نے دیکھا تو نہیں کہیں پڑھا تھا۔ ۔ ۔ میں نے پوچھا بھابی جان کیا آج کوئی آرہا ہے ؟ انھوں نے کہا کہ نہیں کوئی جا رہا ہے یعنی تم جاپان جا رہے ہو سوچا تمھیں ایسا فجرانہ کروایا جائے تاکہ تم پاکستان کو بھول نہ سکو اور بار بار پاکستان آنے کی خواہش کرو۔ بہرحال میں نے بھی فجرانے کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا اور ظہرانہ بھی ایڈوانس میں کر لیا اور لاہور کو خدا حافظ کہتے ہوئے دوپہر کی گھریلو پرواز سے اسلام آباد روانہ ہو گیا۔

فُکو شیما پریفیکچر میں مقیم سینئر پاکستانی محبوب عالم جو پی پی پی جاپان پریفیکچر کے صدر بھی ہیں اور ان سے میری یاد اللہ ہے گزشتہ سال پی پی پی جاپان کی ایک تقریب میں فُوکوشیما گیا تو انھوں نے ساحل کے قریب اپنے دفتر میں دعوت دی ان کے دفتر میں چاروں طرف اولیاء اکرام، صوفی، درویش اور بزرگوں کی تصاویر آویزاں تھیں اور یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ موصوف ان ہستیوں سے کتنی عقیدت رکھتے ہیں۔ گزشتہ سال عید الضحٰی پر وہ جب پاکستان سے واپس آئے تو ایک مجذوب درویش کی تصاویرمجھے بھیجیں اور درخواست کی کہ ناصر بھائی ان تصاویر کا ایلبم اردو نیٹ جاپان پر میری طرف سے بطورِ اشتہار لگادیں، تو میں ان کی اس عقیدت سے بہت متاثر ہوا۔ محبوب عالم خود بھی ایک سادہ مگر شاندار شخصیت کے مالک ہیں اور انکساری ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ پاکستان جانے سے پہلے مجھے کہنے لگے کہ اگر موقع ملے تو راولپنڈی بری امامؒ اور مجذوب درویش سید احمد علی شاہ سرکار ملتان والے سے ضرور ملیں۔ اس درویش کے بارے میں اتنا کچھ بتایا کہ مجھے بھی ان سے ملنے کا اشتیاق پیدا ہو گیا۔ میں نے جانے سے پہلے وعدہ کر لیا اور واپسی پر چند گھنٹے پہلے کی فلائٹ میں اسلام آباد پہنچ گیا۔ اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اسلام آباد ایئر پورٹ کا نام بے نظیر بھٹو شہید رکھ دیا گیا ہے۔ سوچنے لگا کہ اب دوسری حکومت آئے گی تو میاں انٹرنیشنل ہو جائے گا اور جماعتِ اسلامی بر سرِ اقتدار آ گئی تو پتا ہی ہے آپ کو کہ مولانا انٹرنیشنل ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ ائیرپورٹ پر محبوب عالم کے کزن محمد اظہر اور ڈرائیور ماجد صاحب میرے نام کا کارڈ تھام کر میرے منتظر تھے۔ آئیچی پریفیکچر پاکستان ایسوسی ایشن کے سابق صدر ساجد احمد عباسی جو کہ میرے ساتھ ہی جاپان سے پاکستان آئے تھے ان کا تعلق بھی پنڈی سے ہے وہ بھی بضد تھے کہ میں آپ کو بری امام لے کر چلوں گا لیکن وقت کی کمی کے باعث میں نے انھیں زحمت نہ دی۔ وقت بہت کم تھا رات کو11 بجے بیجنگ کی فلائٹ تھی اظہر صاحب اور ان کا ڈرائیور محبوب عالم کی ہدایات کے مطابق مجھے لے کر سیدھے بری امامؒ کی درگاہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ اسلام آباد سے کوئی آدھے گھنٹے کی مسافت پر بری امام سرکار کا مزار ہے۔ مزار کی طرف جاتے ہوئے میں وہاں کے خوبصورت اور کشادہ روڈ دیکھ رہا تھا جہاں اگر آپ کسی ایک سمت آواز لگائیں کہ۔ ۔ ۔ راجہ صاحب!!!!تو یقیناً کوئی نہ کوئی راہ گیر آپ کی طرف پلٹ کر ضرور دیکھے گا اور اگر۔ ۔ چوہدری صاحب!!!کی آواز لگائیں تو ہر سمت سے لوگ پلٹ پلٹ کر آپ کی طرف دیکھیں گے کیونکہ راولپنڈی شہر راجاؤں اور چوہدریوں کا گڑھ ہے۔ یہاں ہر تیسرا شہری راجہ یا چوہدری ہے۔ تقریباً ڈیڑھ درجن کے قریب چوہدری تو میرے دوست ہیں جو کہ راولپنڈی کے باسی ہیں اور سب سے بڑے چوہدری شاہد رضا جو اس وقت پاکستان کے دورے پر ہیں انھیں تو آپ جہاں چاہیں آواز لگائیں وہ سلطان راہی کے گھوڑے کی طرح آ پہنچتے ہیں۔

بری امام ؒ کے مزار کا علاقہ شروع ہو چکا تھا اور جا بجا دیگیں چولھوں پر چڑھی ہوئی تھیں۔ کچھ ایسا ماحول بنا ہوا تھا جیسے کراچی میں محر م الحرام کے مہینے میں گلیوں میں حلیم کی دیگیں پک رہی ہوتی ہیں۔ اظہر صاحب نے بتایا کہ یہ دیگیں یہاں پر لنگر دینے والوں کو فروخت کی جاتی ہیں۔ ایک دیگ آٹھ سو روپے کی فروخت ہو رہی تھی سوچا میں بھی ایک دو دیگیں لے کر یہاں لنگر کر دوں تو اظہر صاحب نے کہا کہ یہ دیکھنے میں تو دیگیں ہیں لیکن اندر سے دیگچی ہے۔ میں سمجھ گیا اور ہم بری امام ؒ کے مزار سے چند میٹر پہلے بائیں جانب مُڑ گئے اور گاڑی سے اترے تو ایک صاحب نے ہمارا استقبال کیا۔ انھیں میں محبوب عالم کی تصاویر میں دیکھ چکا تھا ان کا نام جاوید اقبال ہے وہ ہمیں قریب ہی ایک کمرے کے باہر چارپائی پر لیٹے اوپر مخمل کا کمبل لئے آنکھیں موندے سید احمد علی شاہ سرکار ملتان والے کے پاس لے گئے اور خاموشی سے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ سرکار کی چارپائی سے لگا ہوا ایک عقیدت مند ان کی ٹانگیں دبا رہا تھا۔، سردی کی وجہ سے ان کے قریب ہی ایک تگاری میں کوئلے دہک رہے تھے اور آٹھ دس مرید اور بیٹھے ہوئے تھے جو متواتر سرکار صاحب کے نورانی چہرے کو تک رہے تھے۔ میں بھی انھیں بڑے غور سے دیکھ رہا تھا اچانک ان کی آنکھ کھلی تو مجھ سے نظریں دوچار ہوئیں اور مجھے اشارے سے کہا کہ یہاں سے اٹھ جاؤ۔ میں اٹھا اور دوسرے مریدوں کے ساتھ ہی ایک منڈیر پر بیٹھ گیا۔ انھوں نے اپنے اس مرید سے جو ان کی ٹانگیں اور کمر دبا رہا تھا سگریٹ طلب کی اور ایک کش لے کر اسے واپس کر دی۔ بقیہ سگریٹ اسی مرید نے کھینچی اور اس کا گُل بھی ہتھیلی پر جھاڑ کر چاٹتا رہا۔ تقریباً آدھے گھنٹے میں درجنوں عورتیں اپنے چھوٹے بچوں کو گود میں لئے وہاں پہنچیں اور جاوید صاحب بابا جی سے کہتے کہ باباجی اس بچے کو تھاپڑ لگا دو اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ بابا جی جواب دیئے بغیر اس بچے کی طرف اپنا گورا چٹا اور دبلا پتلا بازو بڑھاتے اور اسے تھپ تھپا کر جانے کا کہتے۔ کئی لوگ آئے کہ بابا جی میری نوکری نہیں ہے دعا کر دو، وہ منہ میں کچھ بڑبڑاتے اور اسے جانے کا اشارہ کرتے۔ تھوڑی دیر بعد انھیں پھر سگریٹ کی طلب ہوئی تو انھوں نے میری طرف دیکھا میں جو اس دوران منڈیر سے سَرکتاہوا ان کے قریب پہنچ چکا تھا۔ میں نے فوراً پاکٹ سے ایک سگریٹ سلگا کر ان کی طرف بڑھا دیا انھوں نے چند کش لئے اور پھر وہ سگریٹ اپنے مرید کی طرف بڑھا دیا۔ مجھے بیٹھنے میں تکلیف ہو رہی تھی پچھلی جیب سے اپنا بٹوہ نکال کر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا تو انھوں نے میرا بٹوہ مانگا، میں نے بلا تاخیر ان کی طرف بڑھا دیا۔ سرکار نے ایک لمحہ سے بھی کم اسے کھول کر دیکھا اور واپس کر دیا۔ پھر سرکار کو سگریٹ کی طلب ہوئی تو میں نے پھر ایک سگریٹ انھیں سلگا کر دے دیا۔ اب انھوں نے سگریٹ کے کئی کش لگائے اور سلگتا ہوا سگریٹ مجھے واپس کر دیا۔ وہاں بیٹھے مرید رشک بھری نظروں سے میری طرف دیکھنے لگے۔ میں نے بقیہ سگریٹ کے کش لگائے اور اس کا گُل ہتھیلی پر گراتا رہا اور چاٹنے کی بجائے اپنے بازوؤں پر ملتا گیا اور سگریٹ کا ٹوٹا عقیدت سے اپنی جیب میں رکھ لیا۔ تھوڑی دیر میں جاوید صاحب جو ان کی خدمت پر مامور ہیں آئے اور بابا جی سے کہا کہ بابا جی یہ عالم بھائی جاپان والے کے دوست ہیں ان کے لئے بھی دعا کریں تو انھوں نے ہاں ہوں میں جواب دیا اور میری طرف غور سے دیکھا۔ قریب ہی ایک حجرے میں جاوید صاحب نے مٹی کے چولھے پر لکڑیاں جلا کر شام کا کھانا تیار کیا ہوا تھا۔ لاہور کا فجرانہ گڑ بڑ کر رہا تھا لیکن پھر بھی درویشوں کے آستانے کے لنگر کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے میں نے سب کے ساتھ مل کر وہ لنگر کھایا جس کا ذائقہ ابھی بھی میں محسوس کرتا ہوں۔ حجرے سے باہر آ کر بابا جی کے ساتھ چائے پینے کا موقع نصیب ہوا اور چند نعت خواں بھی آ گئے اور نعتیں پڑھی جانے لگیں اور ایک عجیب سا روحانی ماحول بن گیا۔ بابا جی کے ساتھ ڈرتے ڈرتے کچھ تصاویر بنوائیں اور انھیں اونگھتا ہوا چھوڑ کر جاوید صاحب سے اجازت لی اور بری امامؒ کے مزار کی طرف بڑھ گئے۔ بقول جاوید صاحب کے بابا جی کوئی تیس چالیس قبل ملتان سے یہاں آ گئے تھے اور جب سے یہیں پر اسی جگہ پر درویشوں والی زندگی گزار رہے ہیں اور ان کے مرید دور دور سے ان کے پاس دعائیں کروانے کے لئے آتے ہیں اور خوش ہو کر جاتے ہیں۔ بابا جی کی عمر بمشکل پینتالیس سے پچاس کے قریب ہو گی اپنے جسم کی دیکھ بھال اور مناسب خوراک نہ ملنے کی وجہ سے خاصے کمزور اور لاغر ہو چکے ہیں۔ مدتوں سے غسل نہیں کیا لیکن ان کا چہرہ ہمیشہ ترو تازہ رہتا ہے۔ ان کے قریب بیٹھ کر بھی آپ کو کوئی بُو محسوس نہیں ہو گی۔ لیکن ہم جیسا گناہ گار اگر دو دن غسل نہ کرے تو ہمیں خود ہی اپنے جسم سے بدبو آنا شروع ہو جاتی ہے۔ بابا جی کی حجرے سے چند میٹر کے فاصلے پر بری امامؒ آرام فرما رہے ہیں اور ان کے عقیدت مند ہر روز ہی ان کی برکتوں سے فیضیاب ہوتے ہیں۔ آج مجھے بھی زندگی میں پہلی بار یہاں آنا نصیب ہوا۔ بری امام ؒ کا مزار زیرِ مرمت تھا اور مقبرے کے باہر بڑی تعداد میں لوگ جمع تھے کچھ لنگر کی دیگیں بیچنے والے اور کچھ لنگر کے حصول کے لئے آنے والے۔ ایک جگہ پرایک دیگ کا لنگر تقسیم کیا جا رہا تھا سوچا میں بھی لے لوں مگر وہاں پہنچتے ہی لنگر ختم ہو چکا تھا۔ میں نے بری امامؒ کے مزار پر فاتحہ پڑھی اور اظہر صاحب کے ساتھ باہر آ گیا۔ شام کے ساڑھے سات بج چکے تھے۔ عالم محبوب کی والدہ محترمہ سے بھی وعدہ کیا تھا کہ ضرور ان کی قدم بوسی کروں گا لیکن فلائیٹ کا وقت قریب تھا اس لئے ان سے فون پر ہی دعائیں لے لیں۔ ماں کسی کی بھی ہو اس کی دعاؤں کا پیٹرن ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ فون پر ڈھیروں دعائیں لینے کے بعد ہم اسلام آباد ایئر پورٹ کی طرف چل دیئے۔ ماں جی کی آواز کانوں میں گونج رہی تھی ,,بیٹا جانی تھوڑی دیر کے لئے آ جاؤ اللہ تمھیں اور عالم محبوب اور جاپان میں رہنے والے تمام بیٹوں کو خوش رکھے۔،، آج عالم محبوب کے بہنوئی حاجی یونس صاحب جو کہ عیدالضحٰی کے دوسرے روز ایک ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہو گئے تھے کی رسمِ چہلم تھی۔ میں نے فون پر ہی ماں جی سے تعزیت کی اور ان کے لئے دعائے مغفرت کی۔

اظہر صاحب اور ان کے ڈرائیور ماجد صاحب مجھے ٹھیک آٹھ بجے ائیرپورٹ چھوڑ کر چلے گئے۔ میں نے پہلے سے ہی اپنے ایک کزن کو جو اسلام آباد میں رہتا ہے بلایا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر اس کے ساتھ گپ شپ کی اور اسے بھی رخصت کیا، میرے ایک واقف کار نجم بھٹی صاحب ہیں جو اسلام آباد ائیرپورٹ پر ہی پی آئی اے میں ٹریفک میں ہوتے ہیں ان سے رابطہ کیا اور مختصر ملاقات کرتے ہوئے وہ مجھے بین الاقوامی روانگی کے لاؤنج تک چھوڑ کر اپنی ڈیوٹی پر چلے گئے۔ رات 11 بجے پی آئی اے کی پرواز 853 بذریعہ بیجنگ جاپان جانے کے لئے تیار تھی۔ میری اگلی منزل بیجنگ تھی۔ بیجنگ تک کا سفر چند پاکستانی دوستوں جو جاپان جا رہے تھے کے ساتھ گزر گیا جن میں گُنماپریفیکچر کے معروف کرکٹر شاہنواز جنجوعہ بھی شامل تھے وو میری ساتھ والی نشست پر ہی بیٹھے تھے۔ بیجنگ پہنچنے پر ان سے بھی خدا حافظ کہا اور بیجنگ ائیرپورٹ پر صبح 8بجے پہنچ گیا۔

٭٭٭

 

اسلام آباد سے شنگھائی تک

 اسلام آباد ائیر پورٹ پر آخری ملاقات نجم بھٹی صاحب سے کی اور اندر داخل ہوا تو سامان کے چیکنگ اور امیگریشن کے مراحل سے گزر کر ایک وسیع مشترکہ لاؤنج میں چلا گیا جہاں مختلف ممالک جانے والے مسافر اپنی اپنی پروازوں کے لئے منتظر تھے۔ پی آئی اے کی چائنا اور جاپان جانے والی پرواز میں ابھی ایک گھنٹہ باقی تھا۔ آج پاکستان میں میرا آخری دن تھا، پاکستان میں ان سب کو مختصراً فون کر کے شکریہ ادا کیا جنھوں نے دورانِ قیام محبتیں اور چاہتیں نچھاور کی تھیں۔ وقت پاس کرنے کے لئے قریب ہی قطار میں نصب کئے ہوئے انٹرنیٹ کی طرف چلا گیا اور ایک خالی کیبن میں انٹر نیٹ پر اپنی ای میلز اور اردو نیٹ جاپان کے علاوہ دیگر خبریں پڑھیں۔ میں نے اتنی زبردست اور مفت انٹرنیٹ کی سہولت صرف پاکستان کے کراچی، لاہور اور اسلام آباد ایئر پورٹ پر ہی دیکھی ہیں کیونکہ دیگر ممالک کے ایئرپورٹ پر انٹرنیٹ استعمال کرنے کے لئے بہت زیادہ ادائیگی کرنا پڑتی ہے، لہٰذا مجھے ایسی زبردست سہولت دیکھ کر بے انتہا خوشی اور حیرت بھی ہوئی کیونکہ پاکستان میں قیامِ کے دوران مجھے ہر جگہ انٹرنیٹ کی سہولت میسر تھی مگر لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے میں استعمال ہی نہیں کر سکتا تھا اور جب بجلی آ جاتی تو میں گھر میں نہ ہوتا تھا اس لئے حقیقت میں مجھے انٹرنیٹ استعمال کرنے کا مزہ صر ف ہوائی اڈوں کے لاؤنج میں ہی آیا، یہی وجہ تھی کہ میں ایئرپورٹ پر وقت سے پہلے ہی پہنچنے کی کوشش کرتا تھا۔ اعلان ہو رہا تھا کہ جاپان جانے والی پرواز تیار ہے مسافروں سے گزارش کی جا رہی تھی کہ وہ جہاز میں سوار ہونے کے لئے بس میں سوار ہو جائیں، لیکن میں نیٹ میں اتنا مگن تھا کہ دھیان ہی نہ رہا اور بس میں سوار ہونے والا آخری مسافر تھا۔ اپنے وطن کی سرزمین سے آخری قدم اٹھاتے ہوئے جہاز میں داخل ہو گیا اور کھڑکی والی نشست سے باہر بے نظیر بھٹو ایئر پورٹ کو تکتا رہا۔ میرے ساتھ والی نشست پر گُنما پریفیکچر میں مقیم سینئر پاکستانی اور کرکٹر شاہنواز جنجوعہ بیٹھے ہوئے تھے اور چائینا تک کا سفر ان کے ساتھ گپ شپ کرتے ہوئے گزر گیا۔ مجھے بیجنگ اترنا تھا اور تین دن کے بعد اگلی پرواز سے جاپان جانا تھا۔ شاہنواز جنجوعہ صاحب سے اجازت لی اور بیجنگ اتر گیا۔ چائینا میں میرے ایک دوست ندیم قریشی جو کہ سولہ سال قبل جاپان رہ کر جا چکے ہیں اور گزشتہ دس بارہ سال سے چائینا کے شہر شنگھائی میں مقیم ہیں اور ایک بہت بڑے کاروبار کے مالک بھی ہیں۔ ان کی دعوت پر شنگھائی جانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ ویسے بھی چائینا جو اس وقت تیزی سے اقتصادی ترقی میں بہت تیز دوڑ رہا ہے اور دنیا کا کوئی ایسا ملک نہیں جہاں چائینا کی مصنوعات نظر نہ آئیں، کھانے پینے کی اشیاء سے لے کر مشینری تک اور جہاز تک فروخت ہو رہے ہیں اور چینی عوام کا معیارِ زندگی بڑھتا جا رہا ہے۔ اس لئے کافی عرصے سے چین کی سیر بھی کرنے کی خواہش تھی۔

اگر آپ کسی اجنبی ملک کی سیاحت کے لئے محدود وقت میں زیادہ لطف اندوز ہونا چاہیں تو ضروری ہے کہ آپ کا کوئی واقف کاریا دوست اس ملک میں مقیم ہو، کیونکہ کسی اجنبی ملک کی کرنسی یا وہاں کے علاقوں کو یاد کرنے کے لئے چند دن تو یوں ہی گزر جاتے ہیں اور ویسے بھی کسی نئے ملک میں چاہے وہ کتنا ہی محفوظ کیوں نہ ہو انسان تھوڑا سا خوفزدہ ہی رہتا ہے۔

صبح آٹھ بجے بیجنگ ائیرپورٹ پر اترنے والے مسافر بہت کم تھے اور جاپانی پاسپورٹ ہونے کی وجہ سے مجھے امیگریشن میں بھی زیادہ وقت نہ لگا البتہ دونوں امیگریشن آفیسرز کبھی مجھے دیکھتے تھے اور کبھی جاپانی پاسپورٹ کو اور یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے سوچ رہے ہوں کہ جاپانی ایسے بھی ہوتے ہیں ؟؟ انھوں نے کوئی سوال پوچھے بغیر پاسپورٹ پر غیر محدود مدت کا ویزہ لگا کر مجھے پاسپورٹ واپس کر دیا۔ شنگھائی جانے کے لئے مجھے بذریعہ ایئرپورٹ بس بیجنگ کے نئے ایئرپورٹ جانا پڑا۔ ائیر پورٹ سے باہر سردی ہڈیوں کا پتا پوچھ رہی تھی ہر طرف برف ہی برف دکھائی دے رہی تھی۔ نو سموکنگ کے بورڈ کے پاس ہی چند نوجوان ایئرپورٹ کے ملازمین سگریٹ پہ سگریٹ پی رہے تھے اور وہیں پر پیروں سے مسل رہے تھے میں نے بھی دو چار کش لیتے ہوئے ان کی تقلید کی اور ایئرپورٹ بس میں سورا ہو گیا۔ شنگھائی ائیر لائین سے ٹھیک بارہ بجے شنگھائی پہنچا تو ایک نوجوان لڑکی جو کہ ایئرپورٹ ٹیکسی کی کلر ک تھی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں کہنے لگی کہ کہیں بھی جانے کے لئے ایئرپورٹ ٹیکسی بہت محفوظ ہے اور باہر کی ٹیکسی سستی تو ہے لیکن غیر محفوظ ہے۔ میں نے ایک چینی خاتون کی بات پر بھروسہ کر لیا اور اپنا مطلوبہ پتا اسے دکھایا تو وہ بہت حیران ہوئی اور اپنے کاؤنٹر کے قریب لیجا کر مجھے ایک نقشہ دکھایا اور کہا کہ آپ نے یہاں جانا ہے جو کہ55  کلو میٹر دور ہے لہٰذا آپ 300RMB(چینی ین۔ ایک ین مساوی 13پاکستانی روپے)ادا کر دیں اور ایک شاندار ٹیکسی آپ کو بحفاظت آپ کی منزل تک پہنچانے کی ذمہ داری لیتی ہے۔ جاپان میں چونکہ بھاؤ تاؤ یا بارگین نہ ہونے کے برابر ہے میں نے مناسب نہ سمجھا کہ کچھ کم کرواؤں البتہ کچھ بڑبڑاتے ہوئے میرے منہ سے نکل ہی گیا کہ یہ کرایہ کچھ زیادہ نہیں ہے؟ فوراً کلرک نے کہا کہ آپ پچاس ین کم کر دیں، میں بہت خوش ہوا اور فوراً ہی ادائیگی کر دی اور میرا سامان اٹھا کر ایک پرائیویٹ گاڑی میں رکھ دیا گیا اور ادھیڑ عمر ڈرائیور مجھے لے کر میرے بتائے ہوئے پتے پر چل دیا۔ شنگھائی ایئرپورٹ سے باہر نکل کر ٹیکسی ہائی وے پرچند منٹ چل کر شہر میں داخل ہو گئی۔ چاروں طرف بلند و بالا عمارتیں اور کشادہ سڑکیں دیکھ کر مجھے بالکل محسوس نہ ہوا کہ میں جاپان میں ہوں یا چائینا میں !ٹھیک پندرہ منٹ بعد ایک عالیشان کئی منزلہ عمارت کے سامنے مجھے ٹیکسی ڈرائیور نے اتار دیا اور کہا کہ آ پ آٹھویں منزل پر چلے جائیں وہی آپ کا مطلوبہ پتا ہے۔ اور مزید دس ین کی ٹپ لے کر چلا گیا میں حیران تھا کہ55 کلومیٹر کا فاصلہ صرف پندرہ منٹ میں طے ہو گیا! !

ندیم قریشی کے دفتر میں ان کے بھانجے مونس، عمران اور آفتاب الٰہی نے میرا پُر تپاک استقبال کیا، معلوم ہوا کہ ندیم قریشی جو آج مجھ سے پہلے شنگھائی پہنچنے والے تھے لیکن پرواز کی تاخیر کی وجہ سے اب وہ کل آئیں گے۔ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد ادھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں اور شام کو قریبی ہوٹل میں قیام کرنے کے لئے عمران، مونس اور آفتاب صاحب کے ساتھ وہاں پہنچے تو ہوٹل کی استقبالیہ خاتون کلرک نے کہا کہ پاسپورٹ دکھائیں، میں نے اسے پاسپورٹ دکھا دیا تو کہنے لگی کہ دوسرے تینوں افراد بھی اپنا پاسپورٹ دکھائیں، انھوں نے کہا کہ ہمیں قیام نہیں کرنا صرف انھیں ہی کمرہ چاہئے تو کہنے لگی کہ انھیں کمرہ بھی اسی وقت ملے گا جب آپ بھی اپنے پاسپورٹ دکھائیں گے تینوں نے اپنی شناخت کے کاغذات دکھائے مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی اور بضد رہی کہ جب تک آپ لوگ بھی اپنے پاسپورٹ نہیں دکھائیں گے مجھے بھی کمرہ نہیں دیا جا سکتا۔ ہم بہت مایوس ہوئے اور دوسرے ہوٹل کا رخ کیا وہاں یہ صورتِ حال پیش نہ آئی صرف میرے ہی پاسپورٹ پر اکتفا کر لیا گیا اور دو دن کا کرایہ وصول کر کے کمرے کی چابی میرے حوالے کر دی۔ شنگھائی شاید چائینا کے مہنگے ترین شہروں میں شمار کیا جاتا ہے لیکن ہوٹل کوئی اتنا خاص مہنگا نہ تھا، ہوٹل کی باہر سے شو شا اچھی تھی اور بہت مناسب بھی لگتا تھا۔ اس کے سستے ہونے کا اندازہ مجھے ہوٹل کے کمرے میں داخل ہوتے ہی ہو گیا تھا کہ اتنا سستا کیوں ہے؟ باتھ روم میں لٹکے ہوئے تولئے گھسے ہوئے تھے اور گنجے تھے اور امتیاز کرنا مشکل تھا کہ تولیہ ہے یا رومال، اور لگتا تھا جب سے ہوٹل تعمیر ہوا ہے یہی تولئے چل رہے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی صابن کی ٹکیہ رکھی ہوئی تھیں کافی دیر تک ہاتھوں میں رگڑنے سے بھی نہیں گھستی تھیں۔ شیمپو پلاسٹک کی بوتل میں سے اس طرح نکلتا تھا جیسے سردیوں میں شہد کی بوتل اُلٹا بھی دیں تو شہد باہر نہیں آتا،، بہر حال تھکاوٹ کافی ہو چکی تھی سوچا شاور لے کر سو جاؤنگا، باتھ روم کا شاور کھولا تو گرم پانی نہ آئے اور اچانک جب گرم پانی آیا تو جسم جھلس گیا، نظامِ آبِ نکاسی میں تھوڑی سی خرابی تھی جس کی وجہ سے پورا باتھ روم حوض میں تبدیل ہو گیا، اس سے پہلے کہ پانی باہر نکلنا شروع ہو جاتا میں فوراً نکل کر روم میں آگیا۔ روم سلیپر کاغذ کے بنے ہوئے تھے پاؤں ڈالتے ہی گھُل گئے۔ لائٹ کا بٹن آن کرتا تھا تو اے سی چل پڑتا تھا اے سی آف کرتا تھا تو لائٹ بند ہو جاتی تھی ساری رات ٹی وی کی لائٹ سے گزارا کیا کیونکہ ہیٹر آن رکھنا ضروری تھا۔

چائینا میں آج دوسرا دن تھا، ندیم قریشی آج ہی چائینا پہنچے تھے۔ ان کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا، مونس اور سہیل صاحب جو کہ پاکستان سے ندیم قریشی کے ساتھ رات کو پہنچے تھے تینوں سیر و تفریح کے لئے نکل گئے۔ چین کی سڑکیں، عمارتیں، ہائی ویز، گاڑیاں، ٹرین، بسیں، شاپنگ سینٹرز، فلیٹس، مکانات، شراب خانے اور تفریحی مقامات بالکل جاپان جیسے ہی ہیں، مجھے احساس ہی نہیں ہو رہا تھا کہ میں جاپان میں ہوں یا چین میں، تاہم وہاں کی عوام اور جاپانی عوام میں زمین آسمان کا فرق ہے ان کے مزاج اور اخلاق بہت بگڑے ہوئے ہیں، دکاندار ہو یا کوئی سرکاری آفیسر سب کی طبیعت میں اکھڑ پن پایا جاتا ہے۔ خوش اخلاقی نام کو بھی نہیں ہے۔ ہر شخص بیزار اور غصے میں دکھائی دیتا ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ حکومتِ پاکستان اور چین کے تعلقات تو بہت ہی مستحکم ہیں لیکن عوامی سطح پر وہاں کے لوگ ہمیں اتنا پسند نہیں کرتے اس کے برعکس حکومتِ پاکستان اور بھارت کے تعلقات بہت ہی خراب ہیں لیکن بھارتی عوام چاہے مسلمان ہو یا ہندو یا سکھ بہت ہی اچھے طریقے سے ملتے ہیں اور مل کر خوشی بھی ہوتی ہے لیکن چینی عوام اور پاکستانی عوام کے تعلقات کچھ زیادہ خوشگوار معلوم نہیں ہوتے۔

ہم الیکٹرک ٹرین میں بیٹھ کر چند اسٹیشنوں کے بعد اتر گئے اور ٹی وی ٹاور میں چلے گئے جو باہر سے بالکل ٹوکیو ٹاور کی مانند ہے اور اس کے اندر بھی کم و بیش ٹوکیو ٹاور سے کافی مماثلت ہے۔ ٹی وی ٹاور میں چین کی قدیم تہذیب کے آثار محفوظ ہیں جنھیں دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ چین نے اتنی ترقی کر لی ہے۔ ٹی وی ٹاور کا مقام جاپان شنجوکو کی طرح ہے وہاں بھی جاپان کی طرح نوجوانوں کا ہجوم لگا رہتا ہے اور رات گئے تک رونق رہتی ہے۔ چین کے دور دراز علاقوں سے لوگ یہاں سیر کرنے کی غرض سے آتے ہیں۔ یہاں سے ہم دوسری ٹرین میں بیٹھ کر ایک ریلوے اسٹیشن کے ساتھ ہی گارمنٹس کی مارکیٹ میں چلے گئے۔ قطار در قطار دکانیں سجی ہوئی تھیں اور سیلز گرلز ہر آنے والے گاہک کو زبردستی پکڑ کر اپنی دکان میں لے جاتیں۔ جینز کی پینٹیں خریدنے کا موڈ ہوا تو ایک جینز کے اس نے 400 ین یعنی جاپانی پانچ ہزار ین بتائے جو کہ جاپان کے مقابلے میں کافی سستی تھی۔ مونس نے کہا کہ ہم تو اس کے 60 ین دیں گے تو لڑکی نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ایک زور دار تھاپڑ اس کی کمر پر پیار سے رسید کر دیا اور انگریزی میں کہنے لگی کہ مذاق مت کرو، کافی بحث و مباحثے کے بعد اس نے کہا کہ ٹھیک ہے اگر دو لوگے تو600 ین دے دو، آخر کار دو جینز کا سودا 120ین پر طے ہوا مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ اتنی رعایت کر دی! مونس نے کہا کہ ناصر صاحب یہاں جو دام بتائے جائیں اس کا آخری صفر ہٹا کر بتایا کریں وہی مناسب قیمت ہوتی ہے۔ یہاں پر گاہک کو کوئی چیز فروخت کر نے کے بعد سودا پتلی سی تھیلی میں ڈال کر اور رقم لے کر دوسری طرف منہ کر لیتے ہیں جیسے جانتے ہی نہیں۔ بہر حال کئی جگہوں پر اسی طرز پر شاپنگ کرتے رہے اور سودا طے کرتے وقت آخری صفر ہٹاتے رہے۔ ڈھیروں شاپنگ کرنے کے بعد رات کو ہم تینوں تھک ہار کر ٹرین سے واپس آ گئے اور یوں میرا پہلا دن اپنے اختتام کو پہنچا۔ ندیم قریشی کے دفتر میں رات کا کھانا کھا کر اجازت لی اور ہوٹل کا رخ کیا جو چند قدم کے فاصلے پر واقع تھا۔ گزشتہ رات کی طرح یہ رات بھی ویسی ہی گزری اور دوسرے روز ندیم قریشی اور آفتاب صاحب کے ساتھ ٹیکسی میں بیٹھ کر ہول سیل مارکیٹ میں گئے جہاں دنیا کی ہر چیز فروخت ہو رہی تھی وہاں بھی یہی بھاؤ تاؤ کی کہانی دہرائی گئی۔ تیسرے روز ہم سب شنگھائی کی قدیم ترین مسجد جس کا نام عربی میں خوشی لکھا ہوا تھا جو کہ زیرِ مرمت تھی وہاں ہم نے عصر کی نماز ادا کی اور چینی پیش امام غالباً محمد حکیم صاحب سے تبادلہء خیال کیا۔ شام کو ندیم کے دوست ظفر صاحب بھی تشریف لے آئے اور میں اپنا سامان ہوٹل سے لے آیا کیونکہ آج رات مجھے واپس بیجنگ جانا تھا اور صبح آٹھ بجے کی پی آئی اے کی فلائیٹ سے جاپان واپس آنا تھا۔ شنگھائی ایئرپورٹ پہنچنے پر معلوم ہوا کہ بیجنگ جانے والی ساری فلائیٹس برفباری ہونے کی وجہ سے منسوخ ہو گئی ہیں میں ایک بار پھر واپس ندیم کے دفتر آگیا اور پاکستان میں سہیل مبارک صاحب سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ پی آئی اے کی فلائیٹ بھی پانچ گھنٹے لیٹ ہے۔ پہلی بار قومی ایئر لائین کا تاخیر سے پہنچنا بہت ہی اچھا لگا کیونکہ اس میں اپنا مفاد پوشیدہ تھا۔ دوسری صبح جب میں شنگھائی ایئرپورٹ پر پہنچا تو 11 بجے کی فلائیٹ مل گئی لیکن وہ فلائیٹ بیجنگ تاخیر سے پہنچی اور میں پی آئی اے کی فلائٹ پانچ گھنٹے لیٹ ہونے کے باوجود اس سے بھی ایک گھنٹہ تاخیر سے پہنچا اور مجھ سے پی آئی اے کی فلائٹ چھوٹ گئی۔ وہ رات میں نے بیجنگ کے ایک ہوٹل میں گزاری اور صبح یونائیٹیڈ ایئرلائین سے نیا ٹکٹ خرید کر ٹوکیو پہنچ گیا جہاں مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں اپنے گھر پہنچ گیا ہوں۔ جہاں انسان کے ماں باپ، بہن بھائی اور دوست احباب ہوں وہ اس کا گھر ہی ہوتا ہے اور جہاں اس کے بیوی بچے ہوں وہ بھی اس کا دوسرا گھر ہی ہوتا ہے۔ ہم جتنے بھی پاکستانی جاپان میں عرصہ دراز سے مقیم ہیں وہ سب جاپان کو اپنا دوسرا ملک اور گھر سمجھتے ہیں۔ جو محبت ہمارے دلوں میں پاکستان کے لئے ہے وہی محبت ہم جاپان کے لئے بھی رکھتے ہیں اور جو ایسا نہیں کرتے وہ دونوں گھروں میں خوش نہیں رہ سکتے اس کی چند ایک مثالیں آپ اپنے اردگرد دیکھ سکتے ہیں۔

                                    پاک جاپان دوستی زندہ باد۔ ۔ پاکستان پائندہ باد

٭٭٭

 

ٹوکیو سے متحدہ عرب امارات کا سفر

(26 جون2012ء) ہماری گلی میں چمن بھائی، شکور بھائی وغیرہ جب بھی دبئی سے آتے تھے تو ان کے اہلِ خانہ سے زیادہ گلی محلے کے بچوں کو خوشی ہوتی تھی۔ 70 کی دہائی کی بات ہے ٹی وی نیا نیا آیا تھا اور جن گھروں میں ٹی وی ہوتا تھا گویا وہ گلی کے چوہدری ہوتے تھے اور یہ چوہدری صاحبان دبئی پلٹ ہوا کرتے تھے ان کے بچوں سے تعلقات اچھے رکھنا پڑتے تھے کہ شام کو ٹی وی دیکھنا ہے۔ سال میں ایک بار چمن بھائی جو ہماری ہی گلی میں رہا کرتے تھے جب وہ دبئی سے آتے تھے تو انوا ع اقسام کے سامان سے لدے ہوتے تھے۔ ہم انھیں اور ان کے بچوں کو حسرت سے دیکھا کرتے تھے جو ایک سے ایک جدید اشیاء دکھاتے پھرتے تھے۔ چمن بھائی خود جب گھر سے نکلتے تھے تو ہاتھ میں چمکتی ہوئی گھڑی، چشمہ اور گلے میں زنجیر(سونے کی) وغیرہ ڈالے بڑی شان سے لوگوں سے ملا کرتے تھے۔ میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ میں بھی بڑا ہو کر دبئی جاؤنگا، میری یہ خواہش ٹھیک چالیس سال بعد10مئی2012 ء کو اس وقت پوری ہوئی جب پاکستان ایسوسی ایشن جاپان کے مرکزی صدر ندا خان اچکزئی نے مجھے اچانک دبئی آنے کی خصوصی دعوت دی۔ میری دیرینہ خواہشات تقریباً تیس پینتیس سالوں کے بعد پوری ہو رہی ہیں جس پر مجھے بہت خوشی بھی محسوس ہو رہی ہے۔ میں نے چند سال قبل خواہش کی تھی کہ کاش میں بھی پاکستانی کنیا سے شادی کرسکوں۔ ۔ ۔ لیکن ماضی کی خواہشات چالیس سال بعد پوری ہونے پر میں فکر مند ہو گیا ہوں اس لئے اپنی اس خواہش سے میں دستبردار ہو گیا، کیونکہ یہ خواہش پوری ہونے تک میں 88 برس کا ہو جاؤنگا مگر مجھ میں حسین خان صاحب والی مستقل مزاجی نہیں ہے جو 80 برس کی عمر میں 29 سالہ امریکی دوشیزہ سے شادی رچاتے ہیں۔

ندا خان، یوسف انصاری اور امین سجن کی مشترکہ خواہش پر میں نے دبئی جانے کی ٹھان لی، جاپانی پاسپورٹ ہونے کی وجہ سے مجھے جاپان سے دبئی کے لئے ویزہ وغیرہ لینے کی ضرورت پیش نہ آئی(دنیا کے کئی ممالک جانے کے لئے جاپانیوں کے لئے پیشگی ویزے کی ضرورت نہیں البتہ پاکستان جانے کے لئے مجھے ویزے کی ضرورت پڑتی ہے) اور دفتر میں ایک ہفتے کی چھٹی کی درخواست دی اور ٹکٹ کٹوا کر دبئی کی تیاری کی۔ ٹوکیو سے متحدہ امارات کی ایئرلائین کا دس گھنٹوں پر محیط طویل ترین سفر بڑی مشکل سے گزرا اور تقریباً 25 سال بعد پہلی بار کوئی بھارتی فلم دورانِ پرواز دیکھنے کا شرف حاصل ہوا، یہ فلم سلمان خان کی تھی غالباً باڈی گارڈ۔ ۔ اور ٹھیک صبح چار بجے بغیر نیند کئے دبئی ایئرپورٹ پہنچا۔ امیگریشن والے دبلے پتلے جسم پر مٹکوں جیسی توند عربی لباس میں چھپائے اور کھڑاؤں میں ادھر ادھر گھوم رہے تھے ان سے پاسپورٹ پر مہر لگوائی اور باہر نکلا تو ندا خان اچکزئی جو دونوں ہاتھ باندھے اس طرح ٹہل رہے تھے جیسے کوئی پہلی بار باپ بننے والا ہوتا ہے اور میٹرنیٹی تھیٹر کے باہر بے چینی سے اولادِ نرینہ کا منتظر ہوتا ہے، نے میرا والہانہ استقبال کیا۔ پاکستان ایسوسی ایشن جاپان کا صدر، کوئٹہ کی امیر ترین فیملی اچکزئی قبیلے کا نوجوان سردار ندا خان مجھے لینے کے لئے ایئرپورٹ پر موجود تھا جو میرے لئے کسی فخر سے کم نہیں۔ ندا خان نے اپنی بینز گاڑی میں بٹھا کر دبئی کی کشادہ سڑکوں سے صبح کے خوبصورت مناظر دکھاتے ہوئے مجھے ایک ہوٹل میں چھوڑ دیا، تھکاوٹ اتنی تھی کہ کمرے کا جائزہ لئے بغیر لمبی تان کر سو گیا۔ ندا خان نے کہا کہ وہ سہ پہر تین بجے تک لینے آئے گا۔ صبح گیارہ بجے آنکھ کھلی تو ابو ظہبی کی معروف ادبی شخصیت طارق حسین بٹ کو اپنی آمد کی خبر سنائی۔ انھوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے مجھے خوش آمدید کہا اور شام کو شارجہ میں ایک پارٹی میں ملاقات کا وعدہ کیا۔ غسل کے لئے باتھ روم گیا اور شاور آن کیا تو اس کا اوپر والا کنڈا ڈھیلا تھا۔ پانی کے آتے ہی اس کا رخ روشن دان کی طرف ہو جاتا تھا جہاں ایک کبوتر استراحت فرما رہا تھا۔ شاور مجھے نہلانے کی بجائے کبوتر کو نہلاتا رہا، شاور کو نیچے والے کنڈے میں لگایا جو درست حالت میں تھا مگر اس سے شاور کرنا مشکل ہو گیا کیونکہ وہ کچھ زیادہ ہی نیچے تھا، میں ایک ہاتھ سے شاور پکڑ کر نہانے کا عادی نہیں ہوں لہٰذا نیچے والے کنڈے پر شاور ٹکا کر ٹب میں سجدے میں چلا گیا اور اسی حالت میں شاور کیا، اگر کوئی مجھے اس حالت میں دیکھتا تو یہی سمجھتا کہ میں اللہ سے کچھ مانگنے کے لئے طویل ترین سجدے میں پڑا ہوا ہوں۔ باہر نکل کر کاؤنٹر والے سے مسجد کا پوچھا تو اس نے بتایا کہ جمعہ کی اذانیں ہونے والی ہیں باہر جاؤ گے تو پتہ چل جائے گا کہ مسجد کس طرف ہے۔ باہر نکلتے ہی سامنے بازار میں ایک صاحب ہاتھ میں جائے نماز تھامے بھاگے جا رہے تھے۔ انھیں آواز دی اور ان کی معیت میں قریبی مسجد دارالبر میں نمازِ جمعہ ادا کی۔ سخت گرمی اور لُو میں مسجد باہر تک بھری ہوئی تھی اور لوگ اپنے اپنے جائے نماز بچھا کر کڑی دھوپ میں نمازِ جمعہ ادا کر رہے تھے۔ میں نے بھی اپنے ہمسفر زید عباس جن کا تعلق بھارت کے شہر بنگلور سے تھا کے جائے نماز پر ہی نماز ادا کی۔ قریبی بھارتی ریستوران پر پاکستانی کھانا کھایا جو بہت لذیذ تھا اور ٹہلتے ہوئے واپس اپنی قیام گاہ پہنچ گیا۔ ندا خان کے آنے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا۔ میں یونہی ہوٹل کا مینو دیکھنے لگا جس میں روم چارجز میں صبح کا ناشتہ اور شام کا مجرا مفت شامل تھا اس سے پہلے کہ میں تفصیل میں جاتا اسی اثناء میں ندا خان نے اپنی آمد کی اطلاع دی۔ میں نیچے اتر کر اس کے ساتھ دبئی میں واقع دنیا کی سب سے بڑی کاروں کی مارکیٹ دوکامز پہنچا۔ چاروں طرف جہاں تک نظر جاتی تھی جاپانی گاڑیاں ہی نظر آتی تھیں اور یوں لگتا تھا کہ جاپان کی ساری گاڑیاں دبئی پہنچا دی گئی ہیں۔ میں نے ندا خان کے شوروم شوجی موٹرز کا دورہ کیا جہاں ندا خان کے 18 کے قریب ملازم مصروفِ کار تھے اور افریقہ کے کئی گاہک ادھر ادھر ٹہل کر اس طرح جاپانی گاڑیاں دیکھ رہے تھے جیسے کوئی بکرا پیڑی میں جانور تلاش کرتا ہے۔ شوجی موٹرز کے نوجوان آفس اسسٹنٹ عمر نواز چوہدری، بنگلہ دیش کے عالم بھائی اور دیگر ملازمین سے تعارف ہوا جنھوں نے مجھے خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ آپ کو تو ہم ہر روز ہی اردو نیٹ جاپان پر دیکھتے رہتے ہیں تو مجھے بہت خوشی ہوئی اور ان سے بے تکلفی ہونے میں دیر نہیں لگی۔ ندا خان نے بتایا کہ اس مارکیٹ میں تقریباً چار سو کے قریب شو رومز ہیں جن میں زیادہ تر ان پاکستانیوں کے ہیں جو جاپان میں مقیم ہیں، مالی بحران کی وجہ سے کئی کے شوروم اجڑے ہوئے تھے اور ان کے ملازمین باہر گیٹ پر مکھیاں مار رہے تھے اور ان کے مالکان جاپان میں پھڑیاں مارتے ہیں۔ ہر طرف گاڑیاں ہی گاڑیاں نظر آرہی تھیں اورپاکستانیوں نے اپنے شورومز کے نام بھی جاپانی میں رکھے ہوئے تھے۔ کہیں فوکوشیما موٹرز، ناریتا موٹرز، گینزہ موٹرز، ٹوکیو موٹرز اور کھاتو موٹرز کے بورڈ نظر آئے۔ ندا خان تعارف کرواتے رہے کہ یہ جاپان کے فلاں شخص کا شوروم ہے جو وہاں بہت بڑی توپ بنے بیٹھے ہیں مگر دیکھیں اس کے شو روم پر کارتوس بھی نظر نہیں آرہے۔ میں نے لوگوں کے شورومز کے نام جاپانی میں دیکھے تو حیرت بھی ہوئی کہ یہ وہی لوگ ہیں جو جاپان کو برا بھلا کہتے ہیں اور وہاں کے ماحول کو اپنے بچوں کے لئے مناسب نہیں سمجھتے مگر جب یہی لوگ جاپان سے باہر نکلتے ہیں تو اپنے آپ کو جاپان سے وابستہ کرنے میں بڑا فخر محسوس کرتے ہیں اور شاید یہی وجہ تھی کہ جاپان میں اپنی کمپنی کا نام کچھ اور ہے تو یہاں انھوں نے اپنی کمپنی کا نام جاپان کے شہروں یا اپنی جاپانی اہلیہ کے خاندانی نام سے رکھا ہوا ہے۔ پاکستان ایسوسی ایشن جاپان کے مرکزی سیکریٹری فنانس امین سجن اور سیکریٹری اطلاعات یوسف انصاری پہلے سے ہی دبئی میں موجود تھے۔ شام کو وہ دونوں بھی نداخان کے شوروم پر آ گئے اور ہم سب ندا خان کے ایک اور دوست عطا ء اللہ مینگل کی معیت میں یہاں سے طارق حسین بٹ صاحب کی ایک پارٹی میں شارجہ کے لئے روانہ ہو گئے۔ یہاں پر میں نے بہت کم دیکھا کہ کسی کے تعارفی کارڈ پر مکمل پتہ لکھا ہوا ہو جس کے ذریعے انسان کسی سے بغیر پوچھے وہاں پہنچ جائے حتیٰ کہ مجھے اب تک نہیں معلوم ہو سکا کہ میں کس علاقے کے ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا۔ ہوٹل سے تعارف کارڈ طلب کیا تو اس پر بھی پتہ نہیں تھا بلکہ نقشہ بنا ہوا تھا فون نمبر وغیرہ لکھا ہوا تھا۔ اسی طرح بٹ صاحب کے کہنے کے مطابق ہم بہت مشکل سے ان کے بتائے ہوئے پاکستانی ریستوران پہنچے تو ہم دس منٹ لیٹ ہو چکے تھے۔ معلوم ہوا کہ ابھی تک صرف میاں منیر ہانس پی پی پی کے صدر اور ان کے چند ساتھی تشریف لائے ہوئے ہیں۔ بہرحال جاپان میں مقیم پاکستانی کمیونٹی سے زیادہ وقت کی پابندی یہاں دیکھی۔ ٹھیک ایک گھنٹے بعد طارق حسین بٹ صاحب اور آج کی تقریب کے مہمانِ خصوصی خیبر پختونخواہ اسمبلی کے اسپیکر طویل قامت کے کرامت اللہ خان تشریف لائے تو ان کے استقبال میں مجھ سمیت ندا خان، یوسف انصاری اور امین سجن بھی شامل تھے۔ لوگوں کو کرامت اللہ سے گلے ملتے ہوئے دیکھ کر ایسا لگا جیسے لوگ ان کے گھٹنوں میں کچھ سرگوشی کر رہے ہوں۔ متحدہ عرب امارات میں پہلے روز ہی پی پی پی متحدہ عرب امارات کی قیادت میں اس تقریب میں شرکت کی اور یہیں پر اردو نیٹ جاپان کے معروف کالم نگار طارق حسین بٹ اور ظہیر بدر صاحب سے پہلی ملاقات ہوئی۔ میرا تمام پی پی پی کے عہدیداران سے تعارف بھی کروایا گیا۔ میں نے اردو نیٹ جاپان کے لئے کرامت اللہ خان کا انٹرویو بھی ریکارڈ کیا اور دو گھنٹے کی اس سیاسی تقریب میں شرکت کے بعد ندا خان اور عطا ء اللہ مینگل واپس دبئی چلے گئے اور مجھے یوسف انصاری اور امین سجن نے شارجہ کی سیر کروائی۔ یوسف انصاری نے بتایا کہ شارجہ وہ جگہ ہے جہاں دبئی کے مقابلے میں زیادہ آزادی نہیں بلکہ اس امارت کے قوانین دبئی کے مقابلے میں زیادہ سخت ہیں یا یہ سمجھ لیں کہ یہاں پر اسلام کی جھلک نظر آتی ہے جبکہ دبئی ایک مغرب زدہ شہر لگتا ہے جہاں مئے نوشی، مجرا، ڈسکو اور وہ تمام لوازمات موجود ہیں جو کسی بھی مغربی ملک میں نظر آتے ہیں اور کسی پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے جبکہ شارجہ بھی ایک ترقی یافتہ امارت ہے جہاں زندگی کی ہر آسائش میسر ہے مگر یہاں پر زیادہ تر وہی لوگ قیام پذیر ہیں جو اپنے بچوں کا مستقبل اسلامی ماحول میں دیکھنا چاہتے ہیں، یہاں بھی پوری دنیا سے آئے ہوئے لوگ آباد ہیں اور وہ پاکستانی لوگ جو مالی طور پر مستحکم ہیں جو مغربی یا جاپان جیسے غیر اسلامی ماحول میں رہتے ہیں اور وہیں کاروبار کرتے ہیں مگر اپنے بچوں کواسلامی کلچر سکھانے کے خواہشمند ہیں اور پاکستان کے سیاسی حالات کی وجہ سے انھیں وہاں بھی نہیں بھیج سکتے وہ سب شارجہ کا رخ کرتے ہیں۔ شارجہ میں لاکھوں پاکستانی خاندان مقیم ہیں جو اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کے لئے شارجہ کا ہی انتخاب کرتے ہیں اور کاروباری سلسلے میں خود دبئی میں ہوتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کا دار الحکومت دبئی ایک جدید ترین شہر ہے جو ترقی یافتہ یورپ کے کسی بھی ملک سے کم نہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ دبئی ترقی یافتہ ممالک کے شہروں سے بھی زیادہ موڈرن ہے جہاں بلند و بالا عمارات، چوڑے اور کشادہ روڈ، بڑے بڑے شاپنگ سینٹرز، جدید ترین اور مہنگی گاڑیاں فراٹے بھرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ دبئی میں جاپان کی طرز پر مونو ریل بھی چلائی گئی ہے جو اندرونِ دبئی تک ہی محدود ہے جس میں بے کار لوگ سفر کرتے نظر آتے ہیں مطلب وہ لوگ زیادہ سفر کرتے ہیں جن کے پاس کار نہیں ہے۔ یہ مونو ریل کمپیوٹرائزڈ ہے جس کے اسٹیشن زیرِ زمین ہیں جبکہ ٹرین زمین سے کئی میٹر اونچے ٹریک پر چلتی ہے جس میں سفر کرتے ہوئے پورے دبئی کے خوبصورت نظارے کئے جا سکتے ہیں، میں نے دوسرے دن صبح دس بجے ہوٹل کے نزدیک ہی الفہدی اسٹیشن سے 7 درہم کا دو طرفہ ٹکٹ لیا جو تین اسٹیشنوں تک محدود تھا۔ میں دبئی سٹی ہیلتھ سینٹر اترا اور قریبی علاقے کی سیر کرتے ہوئے ایک بہت بڑے شاپنگ سینٹر ونڈو شاپنگ کر کے ایک گھنٹے میں واپس ہوٹل بھی پہنچ چکا تھا۔ پورے UAEمیں تقریباً بارہ لاکھ پاکستانی آباد ہیں۔ اسی طرح انڈین، بنگلہ دیشی، سری لنکن، چینی، فلپائینی اور دیگر کئی ممالک کے باشندے آباد ہیں اور مقامی عربی خال خال ہی نظر آتے ہیں اور انھیں دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ لوگ غیر ملکی ہیں اور یہاں سیر و تفریح کے لئے آئے ہوئے ہوں جبکہ پاکستانی اور بھارتی عربی جگہ جگہ پائے جاتے ہیں۔ پانچ روزہ دورے کے دوران میں نے چند ایک ہی مقامی لوگوں کو عربی لباس میں دیکھا، کسی شاپنگ سینٹر، اسٹیشن یا ہوٹل میں بھی انھیں نہیں دیکھا بلکہ ان کے رہنماؤں اور حکمرانوں کی تصاویر آویزاں دیکھیں۔

یوسف انصاری اور امین سجن شارجہ کی سیر کرواتے ہوئے ایک ایسی جگہ بھی لے گئے جہاں دنیا کا بڑے سے بڑا اور چھوٹے سے چھوٹا انسان بھی سر جھکانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ جی ہاں ! یہ خلیفہ کی دکان تھی جسے حرفِ عام میں نائی یا مالیشیاکہتے ہیں۔ یہ خلیفہ جی روایت سے ہٹ کر خاصے جوان تھے اور ان کا تعلق بنگلہ دیش سے تھا اور اردو روانی سے بول رہے تھے۔ یوسف انصاری اور امین سجن نے مجھے ان کے سامنے جھکنے کے لئے کہا اور میں نے حجامت کروانے کی بجائے اپنے تھکے ہوئے کندھوں کو مساج کروانے کو ترجیح دی اور پندرہ بیس منٹ بعد تر و تازہ ہو کر نزدیک ہی ان کے ایک دوست طارق ابراہیم سے ملنے چلے گئے جن کا تعلق مصر سے ہے اور وہ بیمار کمپیوٹرز کا علاج کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ ہمیں خوش آمدید کہا اور رسمی گفتگو کے بعد ہم نے اجازت لی اور ہم یوسف انصاری کے ریستوران داتا دربار گئے جہاں ان کے شریکِ کاروبار بٹ صاحب اور دیگر عملے نے والہانہ استقبال کیا اور ہم نے ریستوران کی دوسری منزل پر سجے ہوئے انواع و اقسام کے کھانے کھائے۔ یوسف انصاری نے بتایا کہ یہ فیملی اور تقریبات کے لئے مختص ہے جہاں بوفے سسٹم ہے اور بیس سے تیس ڈشیں ہمہ وقت تیار ملتی ہیں۔ شارجہ کے بازار رات گئے تک کھلے ہوئے تھے اور ہر طرف رونق لگی ہوئی تھی اور ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کراچی کے پوش علاقے کلفٹن، طارق روڈ یا بہادرآباد میں گھوم رہے ہوں کیونکہ ہر طرف پاکستانی چہرے ہی نظر آرہے تھے اور یہ علاقہ کراچی کا منظر پیش کر رہا تھا جو مجھے بہت بھلا لگا اور اپنے آبائی شہر کراچی کی یاد آ گئی جو کبھی روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا اور لوگ پورے ملک سے کراچی کا رخ کیا کرتے تھے جسے پاکستان کا دماغ کہا جاتا تھا اور آج وہاں پر چند دماغ پھروں نے اس شہر کو تاریکیوں کا شہر بنا دیا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب لوگ سنگاپور، دبئی، شارجہ یا ہانگ کانگ شاپنگ کے لئے نہیں جایا کرتے تھے بلکہ کراچی کو ترجیح دیا کرتے تھے جہاں چوبیس گھنٹے بازار کھلے رہتے تھے اور سڑکوں پر ٹریفک کم نہیں ہوتی تھی۔ یہی چیز آج میں شارجہ میں دیکھ رہا تھا جہاں چہل پہل تھی، زندگی کی رونق تھی، لوگوں کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے اور کسی دہشتگردی یا بم دھماکے کا خوف نہیں تھا۔ حالاں کہ یہاں بھی وہی پاکستانی رہ رہے ہیں اور وہی بھارتی اور بنگالی مقیم ہیں۔ کہیں پولیس والا نظر نہیں آتا کو ئی پہرے دار موجود نہیں ہے کوئی ٹریفک پولیس نہیں ہے پھر بھی یہ لوگ یہاں پر قانون کی اتنی پابندی کر رہے ہیں جیسے ان پر خفیہ کیمرے نگران بٹھا دئیے گئے ہوں۔ کوئی ٹریفک سگنل نظر انداز نہیں کر رہا، کوئی زور زور سے باتیں نہیں کر رہا، کوئی سگریٹ پی کر ٹوٹے ادھر ادھر نہیں پھینک رہا، کوئی نسوار یا پان کی پیکیں نہیں پھینک رہا، کوئی گاڑی والا ہارن نہیں بجا رہا۔ غیر ملک میں قانون کی پابندی اور اپنے ملک میں قانون کی دھجیاں بکھیرنے والوں کو دیکھ کر حیرت ہو رہی تھی۔ یوسف انصاری اور امین سجن نے بڑے اشتیاق سے مجھے ایک ایک شرٹ خرید کر تحفے میں دی اور رات گئے مجھے ہوٹل تک چھوڑ نے آئے۔ کمرے میں پہنچا تو مجھے مجرے کی یاد آ گئی، فریش ہو کر نیچے آیا اور مجرے والے فلور پر پہنچ گیا۔

میرے ذہن میں مجرے کا جو تصور تھا وہ کچھ اس طرح کا تھا کہ ایک بڑا سا ہال ہو گا، سفید برّاق صاف ستھری چادر بچھی ہوئی ہو گی، دونوں اطراف گاؤ تکیے لگے ہوئے ہوں گے، تماشبین بڑی بڑی توندوں کے ساتھ چُوڑی دار پاجامے اور ململ کے کرتے پہنے سر پر ٹیڑھی ٹوپیاں لگائے پان یا چھالیہ کی جگالی کر رہے ہوں گے اور قریب ہی کہیں پاندان اور اگالدان رکھے ہوں گے اور عین درمیان میں ڈھولکی، طبلے اور پیانو بجانے والوں کی ٹیم کے سامنے ہی کوئی حسینہ گھونگٹ میں شرما رہی ہو گی، حنا لگے ہاتھوں میں چوڑیاں، پاؤں میں پائل اور گھنگرو باندھے ہوں گے اور غرارے میں ملبوس محوِ رقص ہو گی۔ کسی زمانے میں سنا کرتے تھے اور پڑھا بھی کرتے تھے کہ مجرا دیکھنا کوئی برا نہیں ہے بلکہ بڑے بڑے نواب اپنی اولادِ نرینہ کی صحیح تربیت کے لئے انھیں مجرے دکھانے کا اہتمام کیا کرتے تھے مگر اولادِ مادہ کی تربیت کے وہ سخت خلاف تھے کہ شاید ان کی تربیت تو گھر میں ہی ہو جاتی ہے۔ تو آج مجرا دیکھ کر یہ تمام تصورات بھی حقیقت کا روپ دھارنے والے تھے اور کسی نواب کی اولاد نہ ہونے کی وجہ سے میری تربیت میں جو کچھ کمی بیشی رہ گئی تھی آج وہ بھی مکمل ہونے والی تھی۔ میں دھڑکتے دل اور گھبراہٹ کی حالت میں جب دروازے پر پہنچا تو ایک سوٹ بوٹ میں ملبوس بھارتی نوجوان نے میرا استقبال کیا اور دروازہ کھول کر اندر تک رہنمائی کی اور خود واپس باہر دروازے پر کھڑا ہو گیا۔ اندر گھستے ہی مجھے احساس ہوا کہ یہ تو ڈسکو ہے، اندرونی ہال میں جلتی بجھتی رنگ برنگی روشنیاں اور آجکل کے شور شرابے اور نا سمجھ آنے والے گانے فلُ ساؤنڈ پر بج رہے تھے اور مصنوعی خوشبودار دھویں میں فوری طور کچھ نظر نہ آسکا، اسی اثناء میں ایک اور نوجوان جس نے گلے میں ٹائی کی جگہ بو لگائی ہوئی تھی میری رہنمائی کرتے ہوئے  بڑی عزت و احترام سے ایک کرسی پر بٹھا دیا اور بڑے ادب سے خوش آمدید کہتے ہوئے پوچھا کہ آپ کیا پینا پسند کریں گے، وہ میری پسند کا مشروب اور کچھ ہلکا پھلکا کھانے کا سامان بھی میری کرسی کے سامنے رکھے ٹیبل پر رکھ کر دوسرے گاہکوں کی طرف متوجہ ہو گیا۔ ہال بہت زیادہ بڑا نہیں تھا۔ سامنے ایک اسٹیج بنا ہوا تھا جس پر ایک قطار میں لگے صوفے پر کئی نوجوان لڑکیاں نیم عریاں لباس میں بیٹھی تھیں جبکہ ان کے اس لباس سے باہر نکلنے کو بے تاب کچھ جسمانی حصے جھانک رہے تھے اور ایک لڑکی اسپیکر پر چلنے والے گانے پر رقص کر رہی تھی۔ میں یہ سب کچھ حیرانی اور تعجب سے دیکھتا رہا۔ ہر گانے کے بعد کوئی تماشبین اپنے پسند کے گانے اور لڑکی کی فرمائش کرتا تو ہال میں مائک تھامے دوڑتا پھرتا ایک نوجوان لمبی آواز میں اعلان کرتا کہ اب تشریف۔ ۔ ۔ لا۔ ۔ ۔ رہی۔ ۔ ۔ ہیں خوشی جی۔ ۔ ۔ پھر کہتا کہ اب تشریف لا رہی ہیں پوجا جی وغیرہ وغیرہ اور ہال تالیوں سے گونج اٹھتا اور وہ نوجوان لڑکیاں باری باری اسٹیج پر آ کر رقص کرنا شروع کر دیتیں اور اپنے نیم عریاں بے ہنگم جسم جس پر گوشت کے لوتھڑے لٹکے ہوئے تھے اور بے ڈھنگے ٹھمکے لگا کر واپس اپنی جگہ بیٹھ جاتی تھیں یا قریب ہی بنے ہوئے ایک پرائیویٹ روم میں گھس جاتی تھیں اور چند منٹ بعد اچھل کود کرنے سے اتر جانے والا بازاری میک اپ درست کر کے پھر اپنی قطار میں بیٹھ جاتی تھیں اور بقیہ لڑکیاں اپنی اپنی باری کے انتظار میں صوفے پر بیٹھی رقص کرنے والی لڑکی کو بڑی حسرت سے دیکھتی رہتیں اور کچھ خاموشی سے سر نیچے کئے ہوئے بیٹھی رہتیں جیسے وہ اپنی فرمائش کی منتظر ہیں یا دعا مانگ رہی ہیں کہ کوئی ان کی بھی فرمائش کر دے۔ میں نے محسوس کیا کہ جس لڑکی کی فرمائش بار بار آتی تھی اسے ناچتے ہوئے دیکھ کر دوسری لڑکیوں کے چہرے پر یہ تاثرات ہوتے تھے جیسے سوچ رہی ہوں کہ آخر اس میں کیا سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں جو لوگ میری فرمائش نہیں کر رہے ؟؟ ہر انسان خواہ وہ مرد ہو یا عورت اپنے آپ کو دنیا کا نہیں تو کم از کم اپنے اردگرد کے لوگوں میں خود کو حسین سمجھتا ہے یا سمجھتی ہے۔ میرے جیسا واجبی سا چہرہ بھی ہو تو ایک بار آئینہ دیکھ کر مطمئن ہو جاتا ہے۔ جن لڑکیوں کی فرمائش نہیں آتی تھی وہ بار بار نجی روم میں جاتی تھیں اور تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ واپس آ کر بیٹھ جاتی تھیں۔ ہال میں کافی لوگ جمع ہو چکے تھے پہلے آنے والوں کو اسٹیج کے گرد اور لڑکیوں کی قریب ترین جگہ ملتی تھی وہ شراب نوشی کرتے رہتے اور للچائی ہوئی نظروں سے ہر لڑکی کو بغور دیکھتے رہتے۔ اچانک کسی کے دل میں خیال آتا کہ رقص کرنے والی لڑکی کو انعام دے تو وہ سوٹ بوٹ والے ایک ملازم کو بلاتا اس کے کان میں کچھ کہتا تو وہ ایک ٹرے لے کر آتا جس میں شیشے کا ایک تاج رکھا ہوتا تھا وہ اس فرمائشی لڑکی کو تماشبین کے قریب بلاتا اور ٹرے اس کے آگے کر دیتا تو لڑکی اس میں رکھا تاج اٹھا کر ایک بار اپنے سر پر رکھتی پھر اسے واپس ٹرے میں رکھ دیتی اور بعض اوقات یہ سلسلہ اس سوٹ بوٹ والے کی انگلیوں کے اشاروں سے تین چار یا پانچ مرتبہ بھی چلتا۔ معلوم ہوا کہ رقاصہ کو اس کے حسن اور رقص و انداز پر انعام دیا گیا ہے۔ ایک بار تاج سر پر رکھنے کے چارجز دو سو درہم تھے گویا جس نے اپنی پسند کی لڑکی کے سر پر پانچ بار تاج رکھوایا اس نے ایک ہزار درہم انعام دیا جبکہ کھانے پینے کے چارجز الگ تھے۔ پتہ نہیں کیسا مجرا تھا۔ یہاں وہ کوئی بھی چیز نظر نہ آئی جس کا میں نے تصور کر رکھا تھا۔ تاہم میں نے ایک گھنٹے تک وہاں کا جائزہ لیا اور کافی محظوظ ہوا۔ ہاتھ میں مائک تھامے اعلان کرنے والا دور سے ایسے لگ رہا تھا جیسے چینی ریچھ پانڈا گھوم رہا ہوں جسے کافی عرصے سے چڑیا گھر میں کھانا نہیں ملا ہو اور وہ خاصا کمزور ہو گیا ہو اس کی آنکھوں کے گِرد سیاہ حلقے پڑے ہوئے تھے اور لگتا تھا وہ کئی رتجگوں کا مارا ہوا ہے اور یقیناً وہ میرے بارے میں بھی یہی سوچ رہا ہو گا، کیونکہ میں بھی گزشتہ کئی سالوں سے رتجگے کر رہا ہوں اور آنکھوں کے گرد حلقے پڑ چکے ہیں۔ دوسرا سوٹ بوٹ والے نوجوان جس کا تعلق پاکستان سے تھا جس نے بو لگائی ہوئی تھی میں نے اس سے پوچھا کہ ان لڑکیوں کا تعلق کہاں سے ہے تو اس نے بتایا کہ مختلف ممالک سے زیادہ تر بھارت اور نیپال کی ہیں مگر دو لڑکیاں اس نے اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا تعلق پاکستان سے ہے۔ مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی کہ اب پاکستان میں بہت کچھ ہوتا ہے اور یہ تو دبئی ہے جہاں کچھ بھی کرو کوئی کسی سے نہیں پوچھے گا کہ آپ ایسا گھٹیا کام کیوں کر رہے ہیں جیسا آج میں کر رہا تھا کہ مجرا دیکھنے چلا آیا۔ اور مجھے امید ہے کہ کوئی مجھ سے سوال نہیں کرے گا کہ میں مجرا دیکھنے کیوں گیا؟ البتہ مجھے ڈر تھا کہ کہیں ندا خان یا کوئی اور مجھے یہاں نہ دیکھ لے شرمندگی ہو گی کیونکہ مجھ جیسے انسانوں کو اللہ کا ڈر نہیں ہوتا بلکہ انسانوں کا خوف لگا رہتا ہے۔ دو گھنٹوں کے بعد بل ادا کیا واپس جانے کے لئے اٹھا تو چند افراد عربی کندورے میں ملبوس اندر داخل ہوئے پتہ نہیں وہ اصلی عربی تھے یا پاکستانی یا بھارتی٭ اربی٭ تھے جو عربیوں جیسے لگ رہے تھے۔ میں بوجھل قدموں کے ساتھ اپنے کمرے میں آ کر سوچتا رہا کہ کیا خوب تربیت کروا کر آیا ہوں۔ گناہِ بے لذت۔ ۔ ۔ یہ تھا جدید مجرا۔ ۔ ۔ اور انہی سوچوں میں گُم نڈھال ہو کر سوگیا۔

صبح آٹھ بجے آنکھ کھلی تو ہاتھ منہ دھوکر نیچے ریستوران میں پراٹھے کا ٹائٹ ناشتہ کیا اور سگریٹ پینے کے لئے ہوٹل سے باہر چلا گیا اور کچھ دیر چہل قدمی کر کے واپس ہوٹل میں آیا۔ ٹھیک گیارہ بجے ندا خان کا دوست عطاء اللہ مینگل مجھے لینے کے لئے آگیا، دوکامز مارکیٹ جاتے ہوئے مینگل نے متحدہ عرب امارات کے بارے میں کچھ معلومات فراہم کیں اور بتایا کہ متحدہ عرب امارات میں سات امارتیں ہیں جن میں دبئی، ابو ظہبی، شارجہ، فجائرہ، راسل، اجمان اور عم ال قوائین۔ ابو ظہبی یہاں کا دارالحکومت ہے اور دبئی متحدہ کا سب سے بڑا شہر ہے۔ متحدہ عرب امارات کی کل آبادی تقریباً ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے اور مقامی عربوں کی آبادی صرف19فیصد ہے جبکہ پچاس فیصد آبادی جنوبی ایشیا کے ممالک پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کی ہے اور بقیہ میں چینی، فلپائینی، ایرانی اور دنیا کے دوسرے ممالک کے لوگ بھی شامل ہیں۔ مقامی عربی لوگ یہاں کے سرکاری اداروں میں کلیدی عہدوں پر فائز ہیں جبکہ دیگر ممالک کے لوگ یہاں محنت مزدوری یا اپنے کاروبار کرتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات2 دسمبر 1971ء کو برطانیہ سے آزاد ہوا، یہاں کی سرکاری زبان عربی ہے مگر زیادہ تر لوگ اردو، ہندی، چینی اور انگریزی بولتے ہیں۔ دنیا میں تیل پیدا کرنے والوں میں متحدہ کا چھٹا نمبر ہے اور یہاں کے لوگوں کی فی کس آمدنی اڑتالیس ہزار ڈالر سالانہ ہے جو امیر ترین ممالک کے لوگوں میں شمار ہوتی ہے۔ حکومت نے اپنے مقامی باشندوں کو بہت سی سہولیات اور خصوصی مراعات دے رکھی ہیں ان کی آمدنی پر کوئی ٹیکس نہیں ہے۔ سرکاری اسکولوں میں ابتدائی تعلیم بالکل مفت ہے جبکہ علاج و معالجہ بھی تقریباً مفت ہے۔ نجی اسکول بھی قائم ہیں جن کی فیس بھی بھاری ہے۔ جو مقامی لوگ آپس میں شادیاں کرتے ہیں انھیں حکومت کی جانب سے خصوصی مراعات اور انعام و کرام سے نوازا جاتا ہے حتیٰ کے رہائش بھی دی جاتی ہے یہ سب کچھ ان کی حوصلہ افزائی کے لئے ہے تاکہ ان کی اپنی آبادی میں اضافہ ہو سکے۔ یہاں کی شہریت غیر ملکیوں کو بہت کڑی شرائط پر دی جاتی ہے کم از کم جو غیر ملکی یہاں مسلسل تیس سال سے مستقل رہ رہا ہو اسے شہریت حاصل کرنے کا مستحق سمجھا جاتا ہے جبکہ عرب نژاد لوگوں کے لئے شہریت کے حصول میں کچھ نرمی ہے یعنی وہ سات سال کے بعد شہریت کے لئے درخواست دے سکتے ہیں۔ پڑوسی ممالک قطر، عمان اور بحرین جنھیں یہ اپنا بھائی سمجھتے ہیں وہاں کے باشندوں کے لئے شہریت کے حصول کے لئے تین سال سکونت اختیار کرنے کے بعد شہریت دے دی جاتی ہے۔ تاہم شہریت حاصل کرنے کے بعد بھی قطر، عمان اور بحرین کے علاوہ کسی دوسرے غیر ملکی نژاد کو ملک کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ یہاں کا سرکاری مذہب اسلام ہے تاہم کسی دوسرے مذاہب کے لوگوں پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہے۔

یہاں عیسائیوں کے چرچ بہت تعداد میں قائم ہیں جبکہ مندر اور گردوارے بھی موجود ہیں مگر کسی بھی مذہبی تنظیم کو اجازت نہیں کہ وہ اپنے مذہب کا پرچار کرے اور لوگوں کو اپنے مذہب کی طرف راغب کرے۔ دبئی میں سپر مارکیٹس میں شراب نظر نہیں آتی مگر ہوٹلوں یا نائٹ کلبوں میں شراب دستیاب ہے تاہم شارجہ میں دبئی کی نسبت سختی ہے۔ مینگل کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے ہم ندا خان کے شوروم پہنچ گئے اور مینگل نے ہمیں دوپہر کا کھانا ایک مصری ریستوران میں کھلایا۔ یہاں میں نے دن بھر میں ہر روز تین بار ڈٹ کر ناشتہ، دوپہر اور شام کا کھانا کھایا اور پیٹ میں کوئی گڑ بڑ نہیں ہوئی یہاں کا پانی بہت ہاضمے دار ہے اور کھانے بہت لذیذ اور زود ہضم تھے۔ کسی بھی ریستوران میں کھانا کھاتے ہوئے تازہ سلاد کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ریستوران کے عقب میں ہی کھیت سے توڑ کر لائے ہیں۔ کھانا اتنی زیادہ مقدار میں دیتے تھے کہ پیٹ بھر جاتا تھا مگر نیت نہیں بھرتی تھی۔ واپس دوکامز پہنچے تو یوسف انصاری، امین سجن، ایاز آفریدی، ندا خان اور عادل اقبال خان ہم سب قریبی ایک شوروم پر گئے جس کے صدر انڈیا کے مسلمان علی اصغر بھائی تھے۔ ان کے آفس میں کچھ دیر نشست ہوئی اور انھوں نے یہاں پر گاڑیوں کی فروخت پر مقامی عربی ایجنٹ کی ہٹ دھرمیوں اور نا انصافیوں اور بے جا پابندیوں کا ذکر کیا۔ اصغر علی نے کہا کہ یہ سب کچھ ہماری آپس کی نا اتفاقی کی وجہ سے ہوتا ہے اگر ہم سب ملکر اتحاد کر لیں اور ایک فیڈریشن قائم کر کے اپنے مطالبات سامنے رکھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے جائز مطالبات نہ مانے جائیں۔ اصغر علی بھائی نے ہم سب کے لئے چائے کا اہتمام کیا۔ بعد ازاں ہم سب یوسف انصاری اور امین سجن کے شورومز پر بھی گئے اور امین سجن کے بڑے بھائی اسلم سجن، بھتیجے سمیل سجن اور سلیمان سے تعارف ہوا اور انھوں نے مجھے خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ اردو نیٹ جاپان پر تو آپ کو دیکھتے ہی رہتے تھے آج آپ سے بالمشافہ ملاقات ہورہی ہے مگر آپ ہمارے لئے اجنبی نہیں ہیں میں خود بھی اسلم بھائی، سمیل اور سلیمان کے حسنِ اخلاق سے بہت متاثر ہوا۔ دوکامز میں گھومتے ہوئے شام ہو گئی اور ہم سب نے ایک عربی ریستوران میں شام کا کھانا کھایا۔

رات کو طارق حسین بٹ صاحب کا فون آیا کہ کل انھوں نے میرے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام کیا ہے جس میں انھوں ہم سب جاپان کے دوستوں کو مدعو کیا۔ طارق صاحب ابو ظہبی میں مقیم ہیں مگر انھوں نے میری خاطر ابو ظہبی کی بجائے شارجہ کے ایک پاکستانی ریستوران میں تقریب کا اہتمام کیا تھا۔ دوسرے دن ندا خان کا ڈرائیور لینے آگیا اور میں نے ندا خان کے آفس سے ہی اردو نیٹ جاپان کے لئے کچھ خبریں تیار کیں جس کے لئے عمر نواز چوہدری نے میرے ساتھ بہت تعاون کیا اور وقفے وقفے سے ندا خان کی ہدایات پر میرے لئے گرما گرم دودھ پتی آتی رہی۔ شام چار بجے میں اور ندا خان شارجہ کے لئے روانہ ہو گئے اور راستے میں یوسف انصاری اور امین سجن بھی ہمارے ساتھ دوسری گاڑی میں پیچھے آتے رہے۔ ایک گھنٹے بعد ہم ٹھیک وقت پر جب شارجہ پہنچے تو وہاں پہلے سے موجود طارق حسین بٹ صاحب نے ہمارا شاندار استقبال کیا۔

طارق حسین بٹ صاحب نے ہمارے اعزاز میں شارجہ کے ایک پاکستانی ریستوران18Buffet میں عشائیہ کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ جب ہم سب ریستوران میں پہنچے تو طارق حسین بٹ، پی پی پی UAEکے صدر میاں منیر ہانس، معروف کالم نگار پروفیسر محمد ظہیر بدر نے ہمارا پُر تپاک استقبال کیا۔ چند منٹ بعد ہی ریستوران میں متحدہ عرب امارات میں مقیم معروف سیاسی، سماجی، ادبی، علمی شخصیات، شعراء اور صحافی برادری اور مقامی میڈیا کے چیدہ چیدہ افراد جمع ہو گئے۔ طارق حسین بٹ صاحب نے تمام مہمانوں سے میرا تعارف کروایا اور باقاعدہ تقریب کا آغاز تلاوتِ کلام پاک سے کیا گیا۔ مجھے طارق حسین بٹ صاحب نے اپنے اور میاں منیر ہانس صاحب جیسی شخصیات کے درمیان بیٹھنے کا موقع دیا۔ ریستوران کو ایک ہال کی شکل دے دی گئی تھی۔ تقریب کی نظامت روزنامہ الشرق کے مدیرِ اعلیٰ اور معروف صحافی حافظ زاہد علی نے کی۔ حافظ زاہد علی نے تقریب میں شریک چیدہ چیدہ افراد کو اسٹیج پر بلایا اور انھیں اپنے اظہارِ خیال کی دعوت دی۔ ان کا اندازِ نظامت اتنا دلنشین اور خوبصورت تھا کہ وہ ہر بار حاضرین سے زبردست داد وصول کرتے۔ ہر شخصیت کو دعوتِ اظہارِ خیال دیتے وقت انھوں نے اس کی شان میں ایسے پیارے اور منفرد الفاظ استعمال کئے کہ میں دنگ رہ گیا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ آج یومِ مدر بھی تھا اسی حوالے سے نوجوان صحافی اور شاعر سلیمان جاذب نے مجھے خوش آمدید کہتے ہوئے ایک خوبصورت کلام سنایا جسے بے حد سراہا گیا۔ یکے بعد دیگر ے منظور بھٹی، ملک خادم شاہین، شیخ عبدالواحد، سید قیوم شاہ، شیخ محمد پرویز، ظہیر بدر اور طارق بٹ صاحبان نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور خوبصورت کلام سنائے، اور یوں یہ تقریب ایک ادبی نشست میں تبدیل ہو گئی۔ یہاں موجود تمام معزز مہمانوں سے میرا اردو نیٹ جاپان کے توسط سے تو تعارف تھا مگر آج ان سب سے بالمشافہ تعارف ہو اتو مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ معروف صحافی طاہر منیر طاہر نے صحافت کے حوالے سے زبردست تقریر کی۔ انھیں دیکھ کر مجھے پاکستانی صحافی حامد میر کی یاد آ گئی اور اتفاق سے ان کی شکل بھی حامد میر سے کافی مشابہ ہے۔ طاہر منیر طاہر صاحب جو یہاں بے باک اور نڈر صحافی مشہور ہیں انھوں اپنے خطاب میں بھی اس کی جھلک دکھائی اور نام نہاد فلاحی تنظیموں اور ایسوسی ایشنز پر کھلی تنقید بھی کی، انھوں نے صحافی برادری کو ایک زبردست پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ہم صحافیوں کو پیرس کے ایفل ٹاور کی مانند ہونا چاہئے کیونکہ ایفل ٹاور سے بھی خوبصورت ٹاور دنیا میں قائم ہیں مگر یہ اس لئے مشہور ہے کہ یہ تھوڑا سا ٹیڑھا ہے، اسی طرح اگر کوئی صحافی بالکل سیدھا ہے تو وہ صر ف ایک صحافی ہے، کسی بھی صحافی کو اگر اپنے آپ کو منوانے کی تمنا ہے تو اسے بھی ایفل ٹاور کی طرح تھوڑا سا ٹیڑھا ہونا پڑے گا۔ میاں منیر ہانس نے اپنے مختصر خطاب میں مجھے خوش آمدید کہتے ہوئے شکریہ بھی ادا کیا کہ اردو نیٹ جاپان کی وجہ سے وہ اور ان کے رفقاء جاپان میں مقیم پاکستانی کمیونٹی میں جانے پہچانے جاتے ہیں، میاں منیر ہانس بہت خوبصورت شخصیت کے مالک ہیں وہ سیاسی سرگرمیوں کے علاوہ سماجی، فلاحی و تعلیمی تنظیموں کی سربراہی بھی کرتے ہیں اور ایک کامیاب بزنس مین کی حیثیت سے بھی یہاں بڑی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ طارق حسین بٹ صاحب ایک طویل عرصہ سے ابوظہبی میں مقیم ہیں اور ایک ادارے میں کلیدی عہدے پر فائز ہیں ان کی سیاسی وابستگی پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے اور وہ ایک زبردست مضمون نگار اور شاعر بھی ہیں اور پیپلز ادبی فورم UAEکے چیئرمین بھی ہیں جبکہ یہاں ہونے والی کسی بھی قسم کی تقاریب میں ان کی موجودگی اس تقریب کی کامیابی کی ضمانت تصور کی جاتی ہے۔ طارق بٹ صاحب ایک اعلیٰ ادبی ذوق رکھتے ہیں اور ان کی شاعری بھی بہت متاثر کُن ہے، آج کی تقریب میں رونق انہی کے دم سے تھی اور تمام شخصیات کی شرکت بھی انہی کی مرہونِ منت تھی۔ پروفیسر ظہیر بدر کے مضامین بھی گزشتہ سال تک اردو نیٹ جاپان پر شائع ہوتے رہے ہیں، پاکستان میں ریڈیو سے وابستہ بھی رہ چکے ہیں اور کالج میں پروفیسر کی حیثیت سے بھی اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں اور یہاں ابو ظہبی میں بھی درس و تدریس کے شعبہ سے منسلک ہیں، ان سے بھی ملنے کا بڑا اشتیاق تھا جو آج پورا ہو گیا اور ان کے ساتھ میرے دورۂ متحدہ عرب کے دوران ہر روز ہی تقریباً فون پر بات چیت ہو تی رہی ہے۔ شیخ عبدالواحد صاحب نے جب اپنا کلام سنایا تو مجھے شاعرِ جاپان محمد مشتاق قریشی صاحب کی یاد آ گئی وہی اندازِ گفتگو اور وہی شخصیت، فرق صرف ان کے اور مشتاق قریشی کے قد اور شکم میں تھا۔ تمام حضرات نے جس محبت و خلوص سے میری پذیرائی کی وہ میں کبھی فراموش نہیں کر سکوں گا۔ تمام احباب نے اردو نیٹ جاپان کے حوالے سے اردو زبان کو جاپان میں متعارف کروانے پر خوشی کا اظہار کیا۔ مہمانوں کے لئے ریستوران18Buffetمیں انواع و اقسام کے کھانوں کا بہترین انتظام کیا گیا تھا۔ اس ریستوران پر لکھا ہوا تھا کہ18 درہم میں 18 ڈشیں گویا 18Buffetکے نام کی لاج رکھ رہے تھے۔ ۔ یہ تقریب رات گئے تک جاری رہی اور میزبان طارق حسین بٹ صاحب سمیت تمام دوستوں سے اجازت طلب کی۔

ندا خان نے مجھے ہوٹل تک الوداع کہا۔ آج میں مجرا دیکھے بغیر ہی سیدھا اپنے کمرے میں گیا اور لمبی تان کر سو گیا۔ صبح میں کافی دیر تک سوتا رہا، آج میرا یہاں آخری دن تھا۔ رات کو میری واپسی کی فلائٹ تھی، صبح نیچے جا کر ناشتہ کیا اور قریبی سپر مارکیٹ میں تھوڑی سی خریداری کی اور ہوٹل واپس آ کر پیکنگ کی اور ندا خان کو فون کیا کہ مجھے لینے کے لئے آ جائے۔ ٹھیک گیارہ بجے ندا خان کا ڈرائیور سجاد مجھے لینے کے لئے آگیا۔ ہوٹل کے واجبات ادا کئے اور ندا خان کے شوروم پہنچ گیا۔ آج دوپہر کا کھانا یوسف انصاری اور امین سجن کے ساتھ ایک سوڈانی ریستوران میں اسپیشل مٹن پلاؤ اور مچھلی فرائی تناول کیا اور یہ لذیذ کھانا آج اتنا کھایا کہ شام کو ندا خان کے گھر پر شام کے کھانے کی دعوت کو متاثر کر گیا جس پر ندا خان بہت غصہ ہوا کہ پہلے ہی بتایا ہوا تھا کہ آج شام کا کھانا گھر پر کھانا ہے مگر اب کھانے کی گنجائش نہ تھی۔ امین سجن اور یوسف انصاری ندا خان کے شوروم پر مجھ سے آخری ملاقات کر کے واپس چلے گئے۔ ابھی سہ پہر کے تین بجے تھے کہ عمر نواز چوہدری نے مجھے بتایا کہ رضوی موٹرز سے جنید رضوی صاحب کا آپ کے لئے فون آیا تھا کہ آپ کب یہاں پہنچیں گے۔ تھوڑی دیر بعد جنید رضوی جو جاپان میں مقیم سید کمال حسین رضوی کے بھانجے اور دبئی میں رضوی موٹرز کے روحِ رواں ہیں کا میرے موبائل پر فون آیا کہ مجھے جاپان سے رضوی صاحب نے تاکید کی ہے کہ ناصر ناکاگاوا جہاں بھی ہوں انھیں تلاش کر کے اپنے دفتر بلائیں اور ان کی اتنی خاطر کریں کہ وہ یا د رکھیں۔ مجھے ہنسی آ گئی میں نے کہا کہ جنید صاحب آج میرا یہاں آخری دن ہے اور وقت بالکل نہیں ہے، مگر انھوں نے میری ایک نہ سنی اور وعدہ لیا کہ بس آپ بتا دیں کہ کتنے بجے تک فارغ ہوں گے آپ کو وہاں سے پک کرنے کا انتظام ہو جائے گا۔ ان کا شوروم بھی ندا خان کے شوروم سے چند سو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ شام پانچ بجے جنید صاحب نے اپنے ایک کزن کو  مجھے لینے کے لئے بھیج دیا میں جب ان کے شوروم پہنچا تو میں حیران رہ گیا کہ یہ تو کمال رضوی صاحب ہیں جو جوانی کا میک اپ کر کے میرے سامنے آ کھڑے ہیں، نوجوان جنید رضوی نے آگے بڑھ کر میرا پُر تپاک استقبال کیا۔ جنید رضوی جو کہ جاپان میں بھی پانچ سال کا عرصہ گزار چکے ہیں اور سید کمال حسین رضوی کے سگے بھانجے ہیں اور ان کی تربیت کا اثر واضح طور پر محسوس کیا۔ شکل و صورت میں بھی کافی مشابہ تھے۔ جنید صاحب نے بہت زور لگایا کہ شام کا کھانا ساتھ کھائیں مگر میں نے کہا کہ ابھی تو میں کھانے کا نام بھی نہیں سننا چاہتا کیونکہ سوڈانی کھانے نے اس قابل ہی نہیں چھوڑا، لہٰذا گرما گرم کڑک چائے کی فرمائش کی، جنید سے گو کہ پہلی ملاقات تھی مگر ان کے حسنِ  سلوک، انکساری اور عاجزی کے ساتھ بے تکلف انداز سے مجھے ایسا لگا کہ ہماری دوستی بہت پرانی ہے۔ چند منٹ میں ہی کافی بے تکلف ہو گئے۔ 39 سالہ جنید نے اپنی کامیاب زندگی کے بارے میں کئی باتیں مجھے بتائیں اور کہا کہ میری اس کامیابی میں سید کمال حسین رضوی صاحب کی تربیت کا عمل دخل ہے۔ جنید رضوی دیگر پاکستانیوں کے برعکس عربی زبان روانی سے بولتے ہیں۔ اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب ان کے پاس کسی عربی کا فون آیا۔ تقریباً نصف گھنٹہ کی اس شاندار اور یادگار ملاقات نے میری طبیعت پر بہت اچھا اثر چھوڑا۔ جنید رضوی کے ساتھ کچھ یادگار تصاویر بھی بنوائیں۔ انھوں نے بڑی محبت و احترام سے مجھے اپنی کرسی پر بٹھا کر تصویر اتروانے کی خواہش ظاہر کی۔ مجھے حیرت بھی ہوئی، خوشی بھی اور فخر بھی کہ ایک با عمل اور کامیاب نوجوان بزنس مین کے دل میں میری اتنی وقعت ہے۔ بہت جی چاہ رہا تھا کہ جنید کے ساتھ مزید گفتگو کروں مگر وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ ان سے اجازت لی اور دوبارہ ان کے کزن نے مجھے ندا خان کے شوروم پر چھوڑ دیا۔ اسی اثناء میں ملک یونس جو ایباراکی میں مقیم ایک سینئر پاکستانی اور معروف کاروباری شخصیت ہیں کے ہم زلف سید طلعت شاہ کا فون آیا کہ وہ ایک گھنٹے تک ندا خان کے شو روم پہنچ رہے ہیں۔ سید طلعت شاہ بھی یہاں ایک مقامی بنک میں اعلیٰ افسر ہیں۔ ٹھیک گھنٹے بعد وہ تشریف لے آئے، اور کچھ تحائف جو وہ ملک یونس کو میرے ہاتھ بھجوانا چاہتے تھے میرے سپرد کئے، ان سے ادھر ادھر کی گپ شپ ہوتی رہی۔ انھوں نے بھی بتایا کہ اردو نیٹ جاپان وہ اکثر وزٹ کرتے رہتے ہیں اسلئے مجھ سے مل کر انھیں اجنبیت کا احساس نہیں ہوا۔ سید طلعت شاہ نے بھی بہت زور لگایا کہ شام کا کھانا ان کے ساتھ کھاؤں مگر ان سے بھی معذرت کی اور ان سے سامان لے کر انھیں رخصت کیا۔ رات کے 9 بج چکے تھے اور ندا خان نے آج آخری روز میرے اعزاز میں اپنی رہائش گاہ پر ضیافت کا اہتمام کر رکھا تھا مگر دوپہر کا سوڈانی کھانا ابھی تک میرے سینے پر ہی سوار تھا۔ میں نے کہا کہ ندا خان کھانا چھوڑو رات کے نو بج چکے ہیں ایئرپورٹ جاتے ہوئے راستے میں کسی شاپنگ سینٹر سے کچھ شاپنگ کرتے ہوئے مجھے ایئرپورٹ چھوڑ دینا۔ ندا خان نے مصنوعی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے میرے آگے ہتھیار ڈال دیئے۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے شوجی موٹرز کے تمام خدمتگاروں کا شکریہ ادا کیا اور ندا خان کے ساتھ ایک بہت بڑے شاپنگ سینٹر پہنچ گیا جس کا نام مجھے یاد نہیں آرہا۔ تقریباً ایک گھنٹہ اس شاپنگ سینٹر میں ادھر ادھر گھومتے رہے اور چھوٹے موٹے تحائف خرید کر دبئی ایئرپورٹ پہنچ گئے۔ فلائٹ میں وقت ابھی کافی تھا میں نے ندا خان کی مہمان نوازی کا شکریہ ادا کیا اوراجازت لے کر ایئرپورٹ لاؤنج میں داخل ہو گیا۔

بورڈنگ کارڈ کے لئے متفرق ایئرلائینز کے کاؤنٹر کھل چکے تھے۔ میں بھی ایک لائین میں لگ گیا میرے آگے پیچھے اور آمنے سامنے جو مسافر حضرات تھے ان میں زیادہ تر بنگلہ دیشی، سری لنکن، انڈین، فلپائینی اور پاکستانی تھے، جوں جوں لائین آگے بڑھ رہی تھی وہ بھی اپنے سامان کے ساتھ ساتھ آگے بڑھ رہے تھے۔ مختلف لوگوں کے مختلف سامان جن میں صندوق، بڑے بڑے تھیلے، رسیوں سے بندھے ہوئے موٹے موٹے بنڈل اور کئی مختلف نَگ شامل تھے، کسی پر رانی پور، ڈھاکہ لکھا ہوا تھا، کسی پر فتح خان ریلوے پھاٹک، ریلی پور وغیرہ انگریزی اور اردو میں لکھا ہوا تھا جبکہ ہندی اور بنگلہ زبانوں میں بھی کچھ اسی طرح کے ایڈریس لکھے ہوئے تھے جنھیں دیکھ کر مجھے ایک بار پھر اپنے محلے کے چمن بھائی اور شکور بھائی یاد آ گئے کہ جب وہ وطن واپس آیا کرتے تھے تو ان کے سامان پر بھی کراچی، لانڈھی، ایریا اور کوئی قریبی نشانی لکھی ہوتی تھی۔ دیکھ کر اندازہ ہوا کہ سب محنت مزدوری کرنے کے بعد سالانہ چھٹیاں گزارنے وطنِ عریز جا رہے ہیں اور اپنے عزیز و اقارب کے لئے تحائف سے بھرے صندوق ان کے ساتھ ہیں، مگر مجھے یقین ہے کہ وہ اتنی محنت مشقت کے بعد یہ تحائف تو لے کر جا رہے ہیں مگر ان کے گھر والوں کو ان میں بھی عیب نظر آئے گا کہ۔ ۔ ارے۔ ۔ یہ تو یہاں بھی مل جاتا ہے اور یہ!!یہ تو چائینا کا ہے دبئی میں تو جاپان کی چیزیں بھی ملتی ہیں وہ کیوں نہیں لائے؟؟؟وغیرہ وغیرہ۔ ۔ اسی سوچ میں میرا نمبر آگیا۔ بورڈنگ کارڈ بنوایا اور آگے بڑھ گیا۔ دبئی کے ایئرپورٹ پر اتنے شاپنگ سینٹرز اور کھانے پینے کے ریستوران ہیں جس کا کوئی اندازہ نہیں۔ ابھی فلائٹ میں وقت دو گھنٹے باقی تھے مگر یہ وقت اتنی تیزی سے گزارا کہ مجھے پتا ہی نہ چلا کہ صرف نصف گھنٹہ رہ گیا ہے۔ مجھے سگریٹ کی شدیدطلب ہو رہی تھی۔ آجکل پوری دنیا کے اہم مقامات پر سگریٹ نوشی ممنوع قرار دے دی گئی۔ معلوم ہوا ہے سگریٹ پینے کے لئے ایک کمرہ مختص کیا گیا ہے۔ بھاگم بھاگ وہاں پہنچا تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے یہ جگہ مخصوص بیماری میں مبتلا لوگوں کے لئے یا اچھوتوں کے لئے بنائی گئی ہے، لوگ سُٹے پہ سٹے لگا رہے تھے اور ایش ٹرے فل بھر جانے کی وجہ سے سگریٹ کے ٹوٹے نیچے گر رہے تھے اور ایک عجیب سا ماحول بنا ہوا تھا۔ میں ویسے تو عادی سگریٹ نوش نہیں ہوں پھر بھی بعض اوقات بڑی شدت کی طلب ہوتی خصوصاً جب اپنے سگریٹ موجود نہ ہو یا سگریٹ پینے کی جگہ میسر نہ ہو۔ کھانستے ہوئے میں نے بھی ایک سگریٹ بے دلی سے کھینچا اور منہ ہاتھ دھوکر جہاز میں جا کر بیٹھ گیا۔ دس گھنٹوں کی فلائٹ کا سوچ کر ہی میرا دم نکل رہا تھا کہ اب پھر بھارتی فلم دیکھنا پڑے گی؟ لیکن اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ میری نشست درمیان میں چار نشستوں والی قطار میں تھی جہاں میں اور دوسرے کنارے پر ایک روسی دوشیزہ براجمان تھی سوچا کہ سفر اچھا گزرے گا۔ ۔ ۔ کیوں کہ اڑو س پڑوس کوئی نہیں تھا۔ ۔ تین نشستوں پر سو جاؤنگا۔ جب جہاز نے اڑان بھری تو ایک موٹی توند والا جاپانی آگیا اور روسی کنیا کو اشارے سے آگے کی طرف بلا لیا۔ اس نے اشارہ پاتے ہی اپنا بوریہ بسترا اٹھایا اور آگے چلے گئی۔ اب مجھے اور موقع مل گیا چاروں نشستوں کی ہتھیاں اٹھائیں اور کمبل اوڑھ کر سو گیا اور یہ اندیشہ بھی نہیں تھا کہ درمیان میں کوئی دوسری سواری چڑھے گی کیونکہ عام طور پر جہاز میں سواریاں درمیان سے نہیں چڑھتیں۔ میں نے ناشتے اور کھانے کا بائکاٹ کر دیا تھا۔ جب آنکھ کھلی تو ایئر ہوسٹس کا اعلان سنائی دے رہا تھا کہ خواتین و حضرات ہم تھوڑی ہی دیر میں اتر جائیں گے۔ اتنی زبردست نیند وہ بھی جہاز میں یقین نہیں آ رہا تھا۔ دبئی کی ساری تھکاوٹ جہاز میں ہی اتار کر خود جہاز سے اتر گیا اور شام سات بجے ٹوکیو سے کوشی گایا جانے والی لیموزین بس میں چڑھ گیا اور رات آٹھ بجے میرے بچوں اور ان کی ماں اور اس کی ماں یعنی بچوں کی نانی اور میری خوش دامن نے میرا استقبال کیا۔ انھیں دبئی کے تحفے دیئے جو انھوں نے بڑی خوشی سے قبول کر لئے مگر قسم ہے جو ابھی تک استعمال کئے ہوں۔ آخر کار کھانے پینے والی اشیاء مجھے ہی کھانا پڑیں جو ابھی تک چل رہی ہیں۔ باقی اشیاء ابھی بھی سنبھال کر رکھی ہوئی ہیں کہ تحفے قیمتی ہوتے ہیں انھیں جلدی استعمال کرنا بد اخلاقی ہے۔

 صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے۔ ۔ ۔ عمر یونہی تمام ہوتی ہے

٭٭٭

 

سہ روزہ دورۂ ملائیشیا

(21 جولائی 2012ء) جاپان کی کرنسی ین کی قدر میں گزشتہ کئی سالوں سے مسلسل اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے۔ اس کی قدر میں متواتر اضافے نے جاپان کی برآمدات کا بیڑہ غرق نہیں تو بیڑیاں تو ڈال ہی دی ہیں اور کئی بڑی بڑی کمپنیوں کے مالک جن کا کاروبار غیر ممالک سے تھا اپنی کمپنیوں کو تالا لگا کر گھر بیٹھ چکے ہیں اور ین کی قدر میں کمی کی دعائیں مانگتے نظر آتے ہیں۔ عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ جس ملک کی معیشت تباہ ہو جائے تو اس کی کرنسی کی قدر بھی کوڑیوں کے برابر ہو جاتی ہے جس کی واضح مثالیں انڈو نیشیا، افریقہ کے کئی ممالک اور وطنِ عزیز شامل ہیں جہاں نوٹوں کی گڈیاں اشیاء سے تولی جاتی ہیں۔ اس کے برعکس جس ملک کی معیشت پھل پھول رہی ہو اس کی کرنسی کی قدر میں اضافہ ہوتا جاتا ہے مثلاً سنگاپور، کینیڈا، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات وغیرہ۔ تاہم جاپان شاید واحد ملک ہو گا جس کی معیشت گزشتہ کئی سالوں سے تباہی کی طرف گامزن ہے مگر اتنے ہی سالوں سے اس کی کرنسی کی قدر میں متواتر اضافہ ہو رہا ہے۔ آخر یہ کیا ماجرا ہے اس پر تو کوئی معیشت دان ہی بہتر تبصرہ کرسکے گا، میرا خیال تو یہ ہے کہ جاپان کی معیشت تباہی کی طرف گامزن ہے مگر اس کی کرنسی کی قدر میں اضافے کی وجہ جاپان ملک اور جاپانی قوم پر بین الاقوامی بھروسہ اور اعتماد ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ جاپانی قوم جنگِ عظیم میں مکمل طور پر تباہ ہو گئی تھی۔ یہ قوم کئی بار قدرتی آفات کا نشانہ بنی۔ تازہ ترین مثال گزشتہ سال مارچ کی تسونامی اور زلزلہ تھا۔ اتنی تباہی کسی اور قوم پر آئی ہوتی تو شاید دنیا سے اس کا وجود ہی ختم ہو جاتا، مگر جاپانی قوم نے کسی بھی حال میں ہمت ہارنا سیکھا ہی نہیں ہے۔ یہ گرتی ہے پھر اٹھتی ہے پھر گرتی پھر زیادہ قوت سے اٹھتی ہے۔ جاپان کی کرنسی کی قدر میں اضافے سے جہاں کاروباری لوگ خصوصاً برآمدات سے متعلق کاروباری لوگ پریشان نظر آتے ہیں وہیں اندرونِ ملک کاروبار کرنے والے یا درآمدات سے متعلق کاروبار کرنے والے اور ملازم پیشہ حضرات اور ملک ملک کی سیر کرنے والے سیاح بہت خوش ہیں کیونکہ ان کی آمدنی زیادہ ہے جبکہ اشیاء درآمد کرنے میں انھیں ادائیگی کم کرنا پڑتی ہے، اور کسی بیرونِ ملک جانے کے لئے بھی جاپانی کرنسی ان کے بہت کام آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سال جاپان کی سیاحت کرنے والوں کی تعداد جاپانی سیاحوں کی تعداد سے نصف بھی نہ تھی۔ میں خود بھی ایک کمپنی میں ملازم ہوں اس لئے میرا شمار بھی ان جاپانیوں میں ہوتا ہے جنھیں کرنسی مضبوط ہونے پر اندرونی اور انجانی خوشی محسوس ہوتی ہے۔ جب چاہا منہ اٹھائے کسی بھی ملک کی سیر کے لئے نکل گئے۔ اندرونِ جاپان ٹرین سے تین سوکلومیٹر کا سفر کریں تو تقریباً تیس ہزار ین خرچ ہوہی جاتے ہیں اور اتنے ہی خرچے میں کوئی جاپانی کسی دوسرے ملک کی سیر کر آتا ہے۔ مجھے بھی معلوم ہوا کہ ایئر ایشیا کا ٹکٹ ملائیشیا کے لئے بہت ہی ارزاں ہے یعنی صرف تیس ہزار ین کا۔ میں ابھی حال ہی میں UAEکا دورہ کر کے واپس لوٹا تھا مگر سستے ٹکٹ کا سن کر اور اپنے دیرینہ دوست عامر باطوق جسے ابنِ بطوطہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا(کیونکہ وہ ہر پانچ سال بعد ملک تبدیل کرتا ہے ) کے اصرار پرملائیشیا جانے کی ٹھان لی کہ صرف تیس ہزار ین کا ٹکٹ ہے اور ویزے وغیرہ کے لئے ملائیشیا کے سفارتخانے نہیں جانا پڑے گا۔ انٹرنیٹ پر ٹکٹ خریدا اور 17 جون 2012 کو ٹوکیو کے ہانیدا ایئرپوٹ سے بذریعہ ایئر ایشیا کوالالمپور کی تیاری کی۔ ہفتے کی رات کوشی گایا سے رات گیارہ بجے بذریعہ ٹرین بارہ بجے ہانیدا پہنچا اور بورڈنگ کارڈ جو پہلے سے ہی انٹرنیٹ پر مل چکا تھا ایک بار چیک کروایا اور جہاز کے اندر جا پہنچا۔ ایئر ایشیا کیوں سستی ہے اس کا احساس ہونا شروع ہو گیا، بالکل سادہ جہاز جس میں نشستیں سلیقے سے لگی ہوئی تھیں۔ بلکہ نشستوں کے علاوہ وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ نہ ریڈیو، نہ ٹی وی، نہ انٹرنیٹ، نہ کمبل نہ چادر نہ تکیہ وغیرہ وغیرہ اور فضائی عملے کی خواتین و مر د بھی اللہ والے ہی لگ رہے تھے۔ ایئرہوسٹس شادی والے سرخ لباس اور ایئر ہوسٹ یعنی مرد ماتمی سیاہ لباس میں ملبوس حیران پریشان اور صرف تبسم پر گزارا کر رہے تھے۔ تین سو سے زائد جاپانی اور چند غیر ملکی مسافروں سے بھرے ہوئے اس جہاز نے مقررہ وقت سے دس منٹ پہلے ہی اڑان بھر لی۔ قومی ایئرلائین جو اڑان بھرتی ہے تو فوراً ہی مٹن پلاؤ اور چکن فرائی وغیرہ کی اشتہا انگیز خوشبوئیں نتھنوں سے ٹکرانا شروع ہو جاتی ہیں مگر یہاں تو ایسا لگ رہا تھا جیسے جہاز فضاء میں کسی سے ٹکرا رہا ہے اور زور آزمائی میں مصروف ہے۔ کپتان نے اعلان کیا کہ ہم سات گھنٹے میں کوالالمپور پہنچ جائیں گے۔ اڑان بھرے ہوئے دو گھنٹے گزر گئے مگر کسی قسم کی خوشبو نہیں آ رہی تھی۔ میری عادت ہے کہ جس دن لمبا سفر کرنا ہو اس دن میں صبح سے ہی پیٹ کو سزا دینا شروع کر دیتا ہوں اور اسے یہ لارے لپے دیتا ہوں کہ جہاز میں کھائیں گے۔ بھوک کی وجہ سے آنتیں منہ کو آ رہی تھیں اور ویسے بھی گزشتہ دو سالوں سے میرا معدہ کچھ زیادہ ہی بڑا ہو گیا ہے اور جلد ہی بھوک کا احساس ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ میں نے اشارے سے ایک رات کی دلہن کو بلایا کہ کچھ کھانے پینے کے لئے نہیں آئے گا تو شرما کر کہنے لگی کہ۔ ۔ ضرور ضرور۔ ۔ اس نے میمو اور پین نکال لیا۔ ۔ ۔ بڑے اخلاق سے استفسار کیا۔ ۔ کیا کھائیں گے آپ ؟ بہت خوش ہوا کہ اپنی مرضی کا کھانا ملے گا!!!۔ ۔ میں نے آرڈر لکھوانا شروع کیا تو اس نے حساب لگا کر بتایا کہ اتنے چارجز ہوں گے۔ ۔ ہیں۔ ۔ یہ کیا!! کھانے کے چارجز؟؟ جی ہاں پینے کے بھی چارجز۔ ۔ ۔ ۔ میں نے سارے آرڈر واپس لئے اور صرف ایک کھانے پر اکتفا کیا۔ اس نے کہا کہ نہ صرف کھانے کے چارجز بلکہ پانی بھی جتنی بار مانگیں گے آپ کو اتنی بار ہی پانی پانی ہونا پڑے گا یعنی بل ادا کرنا ہو گا۔ او میرے خدا!!اب سمجھا کہ ٹکٹ اتنا ارزاں کیوں تھا! کمبل و چادر کیوں نہیں ! ریڈیو اور ٹی وی کیوں نہیں ! چہروں پر مسکراہٹ کیوں نہیں ! ٹھنڈے گرم تولئے کیوں نہیں !۔ ۔ وغیرہ وغیرہ۔ ۔ ۔ اپنی گنجائش کے مطابق کھانے کا آرڈر دیا اور اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر کھانا زہر مار کیا اور اسی سستے ٹکٹ کے بارے میں سوچتا رہا اور اسی طرح انٹا غفیل ہو گیا۔ آنکھ کھلی تو 2 گھنٹے کا سفر باقی رہ گیا تھا۔ سوچا کہ حاجتِ فطری سے فارغ ہولوں۔ ۔ خلائی بیت الخلاء کے دروازے پر رک گیا کہ کہیں یہاں پر بھی ماتمی لباس والا نہ بیٹھا ہو اور مطالبہ کر دے کہ اتنے دو گے تو اندر جاؤ گے!!!ایئر ایشیا میں سفر کرنا ہے تو پرس میں بھی اتنی ہی کرنسی رکھیں جتنے کا ٹکٹ لیا تھا۔ پورے جہاز میں فضائی عملہ ٹرالیوں پر لادے ناشتہ فروخت کر رہا تھا۔ دو گھنٹے بعد یہ پرواز وقت سے چالیس منٹ پہلے ہی زمین پر اتر گئی۔ مقامی وقت کے صبح آٹھ بجے جو جاپان سے ایک گھنٹے پیچھے ہے کوالا لمپور کے بین الاقوامی ایئرپورٹ پر پہنچا اور لگیج نہ ہونے کی وجہ سے باہر تک آنے میں زیادہ وقت صرف نہ ہوا۔ امیگریشن نوجوان افسر نے میرے پاسپورٹ پر تین ماہ کا ویزہ لگایا تو میں نے اس سے پوچھا کہ آپ کی زبان میں شکریہ کو کیا کہتے ہیں ؟ تیری ماں کیسی؟ کیا؟ تیری ماں کیسی؟ میں سمجھا اسے اردو آتی ہے۔ ۔ ۔ میں نے کہا ان کی وفات ہو گئی ہے، وہ کچھ سمجھا نہیں تو میں نے انگریزی میں کہا تو وہ ہنسنے لگا کہ نہیں نہیں میں نے جو کہا ہے اس کا مطلب ہوتا ہے شکریہ۔ ۔ وہ تو بعد میں پتا چلا کہ صحیح تلفظ یہ ہے کہ,, تیری ماکاسی،،۔

 عامر باطوق نے ایئرپورٹ سے دور ہونے کی وجہ سے اپنے دوست ظفر علی کو مجھے رسیو کرنے کا کہا تھا۔ اندرونِ ایئرپورٹ کی ATMسے کریڈٹ کارڈ سے مقامی کرنسی رِنگِت نکالنے کی کوشش کی اور تیسری مشین نے آخر کار کرنسی اگل دی۔ باہر نکلا تو دیکھا کہ کہیں بھی ظفر صاحب موجود نہیں ہیں۔ فون پر رابطہ کیا تو بتایا کہ بس چند منٹ میں پہنچ رہے ہیں۔ ایئرپورٹ کے باہر کی فضا بالکل کراچی جیسی لگی۔ سخت گرمی، حبس اور لوگوں کا ہجوم پرانی نئی گاڑیاں، ٹیکسیاں اور بسیں نظر آ رہی تھیں۔ جگہ جگہ لوگ سگریٹ بھی پی رہے تھے میں بھی ان میں شامل ہو گیا اور ملیشیا میں پہلا سگریٹ کھینچا۔ اس دوران دو پاکستانی میرے قریب آئے اور کہا کہ ناصر بھائی السلام علیکم۔ ۔ وعلیکم السلام۔ ۔ ۔ ہم آپ کو جانتے ہیں مگر آپ نہیں جانتے ہوں گے۔ میرا نام شکیل الرحمٰن اور ان کا نام ندیم ہے۔ ہم اردو نیٹ جاپان کے دیرینہ قارئین ہیں اور آپ سے اچھی طرح واقف ہیں ملاقات آج ہو رہی ہے اور ہم دونوں کھاناگاوا پریفیکچر جاپان میں عرصہ دراز سے مقیم ہیں۔ ندیم بھائی کی جاپانی فیملی ملائیشیا میں ہی سیٹل ہے اور میں اکثر یہاں آتا رہتا ہوں اور مستقبل میں اپنی فیملی کے ساتھ یہاں شفٹ ہونے کا ارادہ ہے۔ مجھے بے حد خوشی ہوئی کہ اب دنیا میں جہاں بھی جاؤں کوئی نہ کوئی پاکستانی مجھے اردو نیٹ جاپان کے حوالے سے پہچان ہی لیتا ہے۔ ندیم بھائی کے مقامی موبائل سے نصف گھنٹے بعد دوبارہ ظفر علی کو فون کیا تو وہ کہنے لگے کہ میں تو یہیں بین الاقوامی آمد کے دروازے پر ہوں مگر آپ نظر نہیں آرہے۔ شکیل، ندیم اور میں نے مل کر انھیں تلاش کیا مگر وہ نظر نہیں آئے، دوبارہ فون پر جب جگہ کی نشانیاں بتائیں تو کہنے لگے کہ میں یہاں کوالا لمپور کے ایئرپورٹ پر ہوں۔ شکیل اور ندیم نے بتایا کہ ہم تو یہاں ایئر ایشیا کے ایئرپورٹ پر ہیں۔ میں نے انھیں بتایا نہیں تھا کہ میں ایئر ایشیا سے آ رہا ہوں۔ ایئر ایشیا کمپنی کا اپنا ایئرپورٹ ہے جہاں زیادہ تر انہی کی پروازیں آتی جاتی ہیں۔ شکیل بھائی نے کہا کہ بجائے اس کے ظفر بھائی یہاں آئیں آپ یہاں سے ٹیکسی یا بس میں سوار ہو کر وہاں چلے جائیں جو چند کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ شکیل اور ندیم بھائی سے اجازت لی ان کا فون استعمال کرنے کا شکریہ ا دا کیا اور انھوں نے مجھے ایک بس میں سوار کروا دیا جو کوالا لمپور ایئرپورٹ جانے والی تھی۔ بس میں بیٹھتے ہی موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔ پرانی کھٹارہ بس جھٹکے کھلاتی ہوئی چلتی رہی جسے ایک کالا بھٹ اور موٹی گُدی والا ڈرائیور چلا رہا تھا اور جگہ جگہ روک کر مسافر اتارتا اور چڑھاتا جاتا تھا۔ روڈ کے دونوں طرف ناریل اور پام کے درخت لگے ہوئے تھے۔ دنیا کے دیگر ایئرپورٹس کی طرح کا وسیع علاقہ تھا۔ ٹھیک آدھ گھنٹے بعد ایئرپورٹ کے اندر پہنچ گیا اور ظفر علی سے رابطہ کیا اور ان کے ساتھ گپ شپ کرتے ہوئے ان کی کار میں ایئرپورٹ سے باہر نکلے تو بارش تھم چکی تھی۔ ظفر علی نے اپنی گاڑی کا رخ ہائی وے پر موڑ دیا اور ہم دونوں نے سگریٹ سلگائی۔

ظفر علی کی گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی خوبصورت اور کشادہ ہائی وے پر دوڑ رہی تھی۔ ملائیشیا کے ہائی وے دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھا کہ ملائیشیا بھی جاپان سے متاثر ہے اور اسی طرز پر یہاں کے ہائی وے بھی بنائے گئے تھے۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد ہائی وے چھوڑ کر ہم کوالالمپور میں داخل ہو گئے۔ کوالالمپور کی بلند و بالا عمارتیں بھی بالکل جاپان کی طرز پر تعمیر کی گئی تھیں اور دارالحکومت کوالالمپور ٹوکیو کی طرح ہی خوبصورت پُر رونق تھا اور زیادہ تر نئی برانڈ جاپانی گاڑیاں بغیر ہارن اور شور شرابے کے بڑے نظم و ضبط کے ساتھ دوڑتی ہوئی نظر آ رہی تھیں۔ صبح کے دس بجے چکے تھے۔ آج اتوار کا دن تھا مگر بازار اور مارکیٹ مکمل کھلی ہوئی تھیں۔ گاڑیوں کے ہجوم سے گزرتے ہوئے ہم مسجد انڈیا کے علاقے میں داخل ہو گئے۔ اس علاقے کا نام تو کچھ اور ہے مگر مسجد انڈیا کے نام سے معروف ہو چکا ہے۔ یہاں پر کسی زمانے میں انڈین مسلمانوں نے یہ لال رنگ کی ایک خوبصورت مسجد تعمیر کی تھی جو ابھی بھی قائم ہے اور اس کے چاروں طرف دکانیں اور ریستوران ہی نظر آرہے تھے۔ ظفر علی نے سٹی ون مارکیٹ پر اپنی گاڑی روکی۔ اس مارکیٹ میں ظفر علی جن کا تعلق کراچی سے ہے عرصہ دراز سے اپنی ہول سیل گارمنٹ کی دکان چلا رہے ہیں۔ دکان میں داخل ہوئے تو ان کی ملائی خاتون ملازمہ نے ہمارا استقبال کیا۔ تھوڑی دیر استراحت کے بعد ظفر علی نے اسی مارکیٹ کی چوتھی منزل پر جہاں مختلف ریستورانوں کا مجموعہ تھا کہیں حلوہ اور چھولے پوری، کہیں نہاری اور کہیں قلچے کا ریستوران تھا ایک پاکستانی ریستوران میں گرما گرم پراٹھے کے ساتھ آملیٹ اور چھولوں کا ناشتہ کروایا تو جان میں جان آئی۔ پراٹھے اتنے مزیدار تھے کہ میں اکیلا ہی چار پراٹھے نگل گیا۔ ریستوران کے مالک علی بھائی نے کہا کہ وہ بھی پندرہ سال قبل سائتاما کے کوشی گایا میں پانچ سال گزار کر آئے ہیں۔ وہ جاپان کی یادیں تازہ کرتے رہے اور میں ان سے ملائیشیا کے بارے میں پوچھتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد ظفر کے دوست احمد بھائی بھی تشریف لے آئے جو یہاں پاکستانی کمیونٹی  کے معروف نمائندے بھی ہیں اور ملائیشیا میں گزشتہ کئی سالوں سے مقیم ہیں۔ ظفر علی نے شام تک اجازت چاہی اور احمد بھائی نے مجھے اس مارکیٹ کی سیر کروائی۔ اس علاقے میں پاکستان کے شہر کراچی اور حیدرآبادسے تعلق رکھنے والوں کی بڑی تعداد مقیم ہے۔ احمد بھائی نے اپنے ایک دوست انیس سے ملاقات کروائی جن کا تعلق لانڈھی یعنی میرے آبائی علاقے سا تھا وہ بھی یہاں چند سال قبل قسمت آزمائی کے لئے آئے ہوئے ہیں اور خوب محنت کر رہے ہیں۔ پوری مارکیٹ میں خواتین کے ریڈی میڈ ملبوسات ٹنگے ہوئے تھے اور ہر دکان پر مستورات کے مجسموں کے آدھے دھڑ پر اسکارف چڑھائے ہوئے تھے۔ اچانک دیکھنے سے ایسا محسوس ہو تا تھا جیسے کئی خواتین کاؤنٹر کے پیچھے کھڑی لوگوں کو دیکھ کر مسکرا رہی ہیں۔ کئی بار میں ٹھٹک کر رہ گیا کہ شاید یہ مجھے دیکھ رہی ہیں مگر ایسا نہیں تھا وہ بے جان خوبصورت مستوراتی مجسمیاں سب کو ایک نظر سے ہی دیکھ رہی تھیں۔ سٹی ون مارکیٹ کے باہر مسجد انڈیا والی مارکیٹ میں بھی ہر طرف خواتین کے ملبوسات ہی نظر آرہے تھے۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ مردانہ ملبوسات کہیں بھی نظر نہیں آرہے۔ احمد بھائی نے بتایا کہ ملائیشیا کی آبادی میں خواتین کا تناسب ساٹھ فیصد ہے اور یہاں کے لوگ بیٹیوں کی پیدائیش پر جشن مناتے ہیں اور بیٹی کواللہ کی رحمت گردانتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حضورِ اکرم ﷺ بھی اپنی بیٹی سے بہت پیار کیا کرتے تھے اسی نسبت سے یہاں بیٹیوں کو بہت اہمیت دی جاتی ہے اور عموماً ملائی لوگ بیٹی کی خواہش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں بازاروں میں خواتین کے استعمال کی اشیاء کی بھر مار ہے۔ ہم تو حضور اکرم ﷺ کی صرف وہ سنتیں پوری کرتے ہیں جن میں اپنا مفاد ہو، مجھے نہیں یاد پڑتا کہ میں نے پاکستان میں کسی 25 سالہ نوجوان کو چالیس سالہ بیوہ سے اس لئے شادی کرتے ہوئے دیکھا ہو کہ یہ سنتِ رسول ﷺ ہے۔ بازار گھومتے گھومتے قریب ہی ایک چودہ مالا ہوٹل میں میرے لئے کمرے کا بندوبست کر دیا گیا۔ اپنا بیگ ہوٹل میں رکھا اور عامر باطوق سے رابطہ کیا تو اس نے کہا کہ میں شام تک آ جاؤں گا۔ اب احمد بھائی بھی اجازت لے کر اپنے کام پر چلے گئے۔

میں نے تازہ دم ہو کر تھوڑا آرام کیا اور اکیلا ہی ہوٹل سے باہر نکل آیا۔ آج موسم بہت خوشگوار تھا گرمی بالکل نہیں تھی۔ صبح کا ناشتہ ہضم ہو چکا تھا۔ قریب ہی ایک سردار جی کے ریستوران کے ایک مچان پر دوپہر کا کھانا کھایا اور ہوٹل سے متصل ایک سپر مارکیٹ میں آنے جانے والے لوگوں کو دیکھتا رہا جن میں اکثریت خواتین کی ہی تھی۔ جو بھی سیاح دیارِ غیر سیر و تفریح کے لئے جاتے ہیں ان کے مینیو میں وہاں کے مقامی کھانے کھانا اور مقامی خواتین کو غور سے دیکھنا لازمی شامل ہوتا ہے۔ میں ابھی نیا نیا سیاح بنا ہوں۔ میں نے بھی تجربہ کار سیاحوں کی تقلید کرتے ہوئے ان دو آئٹمز کو اپنے مینیو میں شامل کر لیا ہے۔ ملائی خواتین و مرد دونوں ہی کا شمار خوبصورت لوگوں میں نہیں کیا جا سکتا۔ مردوں میں مردانگی، وجاہت، قدو قامت اور چستی کا فقدان تھا جبکہ خواتین میں نسوانیت، نزاکت، شکل و صورت اور آنکھوں میں چمک نظر نہیں آتی تھی۔ چھوٹے چھوٹے اور ناٹے قد کی خواتین میں جو دبلی پتلی تھی تو اتنی پتلی تھی کہ اس پر ترس آ جاتا تھا کہ بیچاری یہ بچی کس غم میں مبتلا ہے ؟ اس کے برعکس جو موٹی اور فربہ جسم تھی وہ اتنی موٹی تھی کہ اس پر غصہ آتا تھا کہ اگر یہ اپنا آدھا وزن اپنی برابر والی کو دے دو تو دونوں کا کام آسان ہو سکتا ہے۔ ان دو اقسام کے درمیان والی خواتین بہت کم نظر آئیں اور جو نظر آتیں اور وہ ہم سے نظریں چراتی رہیں۔ البتہ نوجوان لڑکیاں اچھی لگ رہی تھیں اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ جوانی بذاتِ خود ایک خوبصورتی کا نام ہے جو کسی بھی انسان، عورت، مرد، حیوان یا پھل پر ہو وہ اچھی لگتی ہے۔ میں نے اپنے سہ روزہ دورے میں ایک بھی ایسی خاتون نہیں دیکھی جسے ایک بار دیکھ کر مرد مُڑ کر دوبارہ دیکھنے کی حسرت کرتا ہے۔ کم از کم مجھے تو یہی محسوس ہوا یا شاید میرے حواس پر جاپانی اور پاکستانی حسن سوار ہوچکا ہے اور تیسرے ملک کی خواتین میں مجھے کوئی خاص کشش محسوس نہیں ہوتی یا یہ بات زیادہ درست لگتی ہو کہ میں اب عمر رسیدہ ہو چکا ہوں۔ کئی خواتین پاؤں سے سر تک مقامی لباس میں ڈھکی ہوئی تھیں اور کئی خواتین کندھوں سے پاؤں تک مغربی لباس میں نظر آ رہی تھیں اور مغربی لباس میں دبلی پتلی اور موٹی تازہ خواتین اور بھی مضحکہ خیز نظر آ رہی تھیں۔ سردار جی کے ہوٹل سے کھانا کھا نے کے دوران سامنے سے آتی خواتین کو سن گلاس کی آڑ میں جی بھر کے دیکھا اور اس بازار کی تھوڑی سی سیر کی جہاں ہر طرف بھارتی، پاکستانی،، بنگلہ دیشی، سری لنکن اور چینی لوگوں کی دکانیں اور ریستوران وغیرہ نظر آرہے تھے۔ ملائی کھانوں کے ٹھیلے اور خوانچے بھی جگہ جگہ لگے ہوئے تھے جو تلی ہوئی چیزیں بیچ رہے تھے۔ مجھے وہ بو عجیب سی محسوس ہو رہی تھی۔ ہر ملک کی اپنی بو ہوتی ہے اور وہاں کے لوگوں کو وہ بھلی لگتی ہے اور اجنبیوں کو ابکائی آتی ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں 24 سال قبل جاپان آیا تھا تو یہاں کا سوپ جسے می سو شی رو کہتے ہیں اس کی بو سے مجھے ابکائی آ جاتی تھی اور اب یہ کیفیت ہے کہ وہ سوپ نہ ہو تو جاپانی کھانا بھی نہیں کھایا جاتا۔

دوپہر کا کھانا کھا کر اور مقامی و غیر ملکی خواتین دیکھ کر ہوٹل واپس آ کر ٹی وی آن کیا تو یہاں بھی دبئی کی طرح بھارتی چینل چل رہا تھا جس پر مسلسل بھارتی فلمیں اور اشتہارات ہی اشتہارات تھے۔ اس وقت دنیا کا شاید ہی ایسا ملک ہو جہاں بھارتی فلمیں یا وہاں کلچر عام نہ ہو۔ بھارتی فلموں کی وجہ سے ہی اردو زبان پوری دنیا میں مقبول ہوئی ہے اور ہم بضد ہیں کہ یہ اردو ہے جبکہ ہم نے کبھی اردو اپنے ملک میں بھی بولنے یا رائج کرنے کی کوشش نہیں کی تو دیگر ممالک میں کیسے عام کر سکتے ہیں۔ اس معاملے میں بھارتی نظریہ درست ہے کہ ہماری بھاشا ہندی ہے۔ یہی سوچتے ہوئے تھوڑی دیر بھارتی فلم دیکھی اور اسی طرح قیلولے میں مصروف ہو گیا۔ شام پانچ بجے عامر باطوق کی آمد ہوئی اور اس نے بھی میرے ساتھ والا کمرہ بک کروا لیا اور کہا کہ جب تک تم یہاں ہو میں بھی تمہارے ساتھ ہی اسی ہوٹل میں قیام کروں گا۔ عامر باطوق جو ابھی چھ ماہ قبل ہی برطانیہ سے یہاں شفٹ ہوا ہے اور اس کے بھائی اور والد صاحب کراچی اور چھوٹا بیٹا جبران براڈ فورڈ سے یہاں منتقل ہو گئے ہیں اور فرنیچر کا کاروبار شروع کیا ہے۔ باطوق کے ساتھ ظفر بھائی کے پاس گئے اور تھوڑی دیر گپ شپ کر کے ہم دونوں واپس ہوٹل آ گئے۔ عامر باطوق نے کہا کہ مجھے ملائیشیا میں جہاں ہم شفٹ ہوئے ہیں کچھ زیادہ مزہ نہیں آرہا کیونکہ وہاں پاکستانی دوست کم ہیں۔ باطوق کے زیادہ دوست بھی یہیں کوالا لمپور میں ہی تھے اس لئے اس نے مناسب سمجھا کہ وہ خود ہی یہاں تین دن کے لئے آ جائے۔ عامر باطوق نے کہا کہ چلو باہر گھوم پھر کر آتے ہیں۔ میں نے کہا کہ یا رگھومنا کیا یہاں تو ہر طرف اسکارف میں لپٹی مقامی خواتین اور بھارت کی مدراسی، کاٹھیاواڑی اور تامل ناڈو ٹائپ کی خواتین ہی گھوم رہی ہیں کہاں بلا لیا تُو نے مجھے ؟ اس سے تو اچھا تھا کہ میں عمرے کے لئے چلا جاتا کم از کم ثواب تو ملتا۔ اس نے کہا کہ یہاں اب رات ہو چکی ہے یہ بھی نظر نہیں آئیں گی۔ چل یہاں سے کچھ فاصلے پر ہی ایک علاقہ ہے کانکورڈ جس کے بارے میں اس نے بھی صرف سنا ہے کبھی گیا نہیں وہاں چلتے ہیں۔ ہم نے ایک ٹیکسی رکوائی اور اسے کانکورڈ چلنے کو کہا۔ یہاں کے ٹیکسی ڈرائیور زیادہ تر مقامی ملائی ہیں اور تقریباً ہر ٹیکسی میٹر پر ہی چلتی ہے مگر کبھی کبھی ٹیکسی ڈرائیور کا اپنا میٹر ڈاؤن ہوتا ہے وہ چلنے کو تیار نہیں ہوتا۔ پہلے اس کا میٹر ٹھیک کرو پھر وہ ٹیکسی کے میٹر پر چلنے کو تیار ہوتا ہے۔ مسجد انڈیا سے صرف پانچ دس منٹ ٹیکسی کی مسافت طے کر کے جب ٹیکسی ڈرائیور نے ہمیں یہاں اترنے کو کہا تو میں دنگ رہ گیا۔ ۔ کیا یہ بھی ملائیشیا ہے؟ صرف دس منٹ کے فاصلے پر کہاں مسجد انڈیا کا ماحول اور کہاں یہ ماحول ؟ نہیں نہیں مجھے غلط فہمی ہو رہی ہے۔ ملائیشیا میں ریڈ لائٹ ایریا ؟ ڈسکو؟ کلب؟ منی اسکرٹ؟ فلپائینی خواتین، چینی اور ویتنامی خواتین، شراب اور قحبہ خانے۔ ۔ ہو ہی نہیں سکتا، کہاں گئے وہ اسکارف ؟؟۔ یہ اسلامی ملک ہے؟؟؟

ٹیکسی سے نیچے اترے تو مجھے چاروں طرف دیکھ کر حیرت ہو رہی تھی کہ یہاں کا ماحول بالکل آج کے نام نہاد ترقی یافتہ ممالک کی طرز پر ہے۔ یہاں آزادی ہے، شراب پینے کی، زناکاری کی، جگہ جگہ معروف ممالک کی طوائفیں بن ٹھن کر گھوم رہی ہیں اور راہ چلتے مسافروں کو دانستہ کندھے مار کر معذرت کر رہی ہیں۔ کئی ٹیکسی ڈرائیور یا عام چلتے پھرتے آدمی جن میں مقامی لوگ بھی شامل تھے، یک دم قریب آتے اور سرگوشی میں کچھ کہہ کر آگے بڑھ جاتے اور کچھ نہ سمجھ آنے والے اشارے کرتے رہے۔ اس علاقے میں اتنی چہل پہل تھی اور رونق تھی ایسا لگتا تھا کہ جیسے یہ ملائیشیا کا کوالالمپور نہیں کسی یورپی ملک کا شہر ہے جہاں دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاح گھومتے پھرتے نظر آرہے تھے اور ہرسیاح مرد اپنے ملک کی نہیں کسی غیر ملک کی خاتون کو بغل میں لیے آتا جاتا نظر آ رہا تھا۔ لوگ شراب کے نشے میں دھت ادھر ادھر گرتے پڑتے نظر آرہے تھے اور تیز موسیقی کی آوازیں باہر روڈ تک سنائی دے رہی تھیں۔ بازار کھلے ہوئے تھے اور دنیا بھر کے ریستورانوں پر رش لگا ہوا تھا لیکن یہاں مقامی لڑکیاں یا لڑکے نہ ہونے کے برابر تھے۔ عامر باطوق نے اپنے ایک دوست عدنان علوی سے بھی آج ملنے کا وعدہ کیا ہوا تھا اسی دوران اس کا فون آیا تو باطوق نے علاقے کا نام لیا اور کہا کہ ہم یہاں گھوم رہے ہیں۔ کوئی ایک گھنٹے بعد عدنان علوی تشریف لے آئے تو انھوں نے ہمیں یہاں کے علاقے کی تمام تفصیلات بتائیں کہ یہ وہ علاقہ ہے جہاں سب کچھ جائز ہے اور یہاں پر کسی پر کوئی پابندی نہیں ہے، جس نے اپنا منہ کالا کرنا ہے وہ کرے کسی پر کوئی پابندی عائد نہیں ہے تاہم کسی بندی کو چھیڑنے اور غیر قانونی حرکت کرنے پر یہاں کا قانون حرکت میں آ جاتا ہے۔ عدنان علوی نے کہا کہ آپ دیکھ رہے ہوں گے اس علاقے میں آپ کو طوائفیں بھی غیر ملکی ہی نظر آ رہی ہیں اور ان کے طالب بھی غیر ملکی، یہاں کے مقامی لوگ اصل مسلمان ہیں جنھیں آپ گزشتہ روز کوالالمپور کے دوسرے علاقوں میں دیکھتے رہے ہیں۔ عدنان علوی جو ملائیشیا میں ایک طویل عرصے سے مقیم ہیں اور وہ بھی گارمنٹس کے بڑے بیوپاری ہیں۔ اسی علاقے سے تھوڑا سا دور جا کر انھوں نے ہمارے اعزاز میں ایک لاہوری ریستوران میں عشائیہ کا اہتمام کیا۔ رات گئے تک ہم اس علاقے کی سیر کرتے رہے وہ ہمیں قریبی انڈین ڈسکو لے جانا چاہتے تھے، مگر جانے کا موڈ نہ ہوا، مجھے دبئی کا مجرا یاد تھا۔ ۔ ۔ ۔ لہٰذا ہم یہیں سے واپسی کے لئے چل پڑے اور واپسی میں میں سوچتا رہا کہ صرف چند کلو میٹر کے فاصلے پر اتنی تبدیلی ؟؟ میرے لئے یہ ماحول باعثِ حیرت نہیں تھا کیونکہ میں جس ملک میں رہتا ہوں وہاں بھی ایسے علاقے ہر جگہ موجود ہیں اور وہاں کا ماحول بھی اس ماحول سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ مجھے صرف حیرت یہ ہو رہی تھی کہ ملائیشیا ایک اسلامی ملک ہے شاید یہاں یہ سب کچھ نہیں ہوتا ہو گا۔ مجھے پاکستان کا وہ دور یاد آگیا جس کے بارے میں صرف سنا ہی ہے کہ ضیاء کے دور سے قبل کراچی کی لی مارکیٹ، لاہور کی ہیرا منڈی اور کچھ اسی طرح کے ہر شہر کے معروف ریڈ لائٹ زون ہوا کرتے تھے اور وہ لوگ جو اپنا منہ کالا کرنا چاہتے تھے اس مخصوص علاقے میں ہو کر آ جاتے تھے، مگر ضیاء نے وہ علاقے بند کروا دئیے اور اس کے بعد ان علاقوں کی جگہ آج گلی گلی اور نگر نگر ریڈ لائٹ علاقے قائم ہو چکے ہیں یعنی وہ برائی جو ایک علاقے تک محدود تھی اس کی شاخیں جگہ جگہ کھل گئیں۔ حکومتِ ملائیشیا نے گلی گلی ریڈ لائٹ علاقوں کو زیادہ خطرناک تصور کرتے ہوئے بعض علاقے مخصوص کر دیئے ہیں جو جی میں آئے کرو مگر قانون کی حد میں رہتے ہوئے۔ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود یہاں پر کوئی لڑائی جھگڑا یا دنگا فساد نہیں ہو رہا تھا۔ بازاروں میں رونق تھی، سڑکوں پر گاڑیاں رواں دواں تھیں، جگہ جگہ چوبیس گھنٹے کھلے ہوئے سیون الیون جنرل اسٹور اور بنکوں کے ATMکام کر رہے تھے۔ کوئی چوری ڈکیتی یا کسی قسم کی واردات کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔ ہر انسان اپنی خواہش کے مطابق وقت گزار رہا تھا۔ عدنان علوی نے ہمیں ہوٹل تک الوداع کہا اور ہم دونوں اپنے اپنے کمروں میں جا کر سو گئے۔

صبح احمد بھائی آ گئے اور ہم نے ان کے ساتھ باہر ناشتا کیا۔ عامر باطوق کو کہیں کام سے جانا تھا میں نے پہلے ہی احمد بھائی سے کہہ دیا تھا کہ پاکستانی سفارتخانے جانا ہے تو انھوں نے کہا کہ انھوں نے سفارتخانے کے ڈپٹی چیف آف مشن محمد علی آرائیں سے ملاقات کا وقت لے لیا ہے چلو آپ کی ملاقات کرواتے ہیں۔ سفارتخانہ بھی یہاں سے چند منٹ کے فاصلے پر ہے۔ ہم دوپہر ساڑھے بارہ بجے سفارتخانے پہنچے تو باہر مرکزی دروازے پر چند ایک پاکستانی بیٹھے نظر آئے۔ ان سے ہیلو ہیلو ہوئی تو معلوم ہوا کہ دور دراز سے اپنے پاسپورٹ کی تجدید کروانے کے لئے آئے ہوئے ہیں۔ سفارتخانے کی یہ قدیم عمارت کوالالمپور کے ٹوِن ٹاور کے بالکل قریب واقع ہے۔ باہر چاروں طرف اونچی دیواریں ہیں، ہم مخصوص دروازے سے اندر داخل ہوئے جو عملے کے لئے ہوتا ہے تو استقبالیہ پرا قبال صاحب نے ہمارا استقبال کیا اور کہا کہ ڈپٹی چیف صاحب عنقریب پہنچنے والے ہیں آپ تشریف رکھیں۔ تھوڑی ہی دیر میں محمد علی آرائیں صاحب اپنی اسپیشل گاڑی سے اترتے ہوئے نظر آئے۔ ان سے مصافحہ کیا اور وہ ہمیں دوسری منزل پر اپنے ساتھ ہی لے گئے۔ آرائیں صاحب نے چند ماہ قبل ہی اپنا منصب سنبھالا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ہائی کمشنر خالد مسعود صاحب سرکاری دورے پر کہیں گئے ہوئے ہیں۔ آرائیں صاحب سے جاپان کے بارے میں کچھ باتیں ہوئی اور ملائیشیا میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے بارے میں ابھی انھیں زیادہ معلومات نہ تھیں تو انھوں نے پاسپورٹ ڈویژن کے انچارج زاہد رسول گریوال کو اپنے روم میں بلوا لیا اور ہم سب کے لئے چائے کا اہتمام کیا۔ احمد بھائی نے ملائیشیا میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے مسائل پر گفتگو کی اور گریوال صاحب نے انھیں بہت ہی اچھے اور ماہر سفارتکار کے سے انداز سے تمام سوالوں کے جوابات دیئے۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ میں مانتا ہوں کہ یہاں پر ایجنٹ مافیابہت مضبوط اور فعال ہے مگر میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ ہمارے پاس جو بھی پاکستانی اپنے پاسپورٹ کی تجدید یا نئے پاسپورٹ کے لئے ضروری دستاویزات لے کر آتا ہے ہم وہ پاسپورٹ اسی اصل آدمی کے ہاتھ میں ہی دیتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایجنٹ مافیا کچھ بھی کرتی رہے مگر وہ ہمارے کام میں مداخلت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ گریوال نے بتایا کہ اس وقت ملائیشیا میں ستر ہزار کے قریب پاکستانی مقیم ہیں جن میں نصف تعداد رجسٹرڈ ہے، یہاں پر زیادہ تر پاکستانی ایجنٹ مافیا کے ذریعے ہی داخل ہوتے ہیں اور اس وقت پاکستان کے شہر چینیوٹ میں ایک بہت بڑا ایجنٹ ڈھائی لاکھ روپے لے کر معصوم پاکستانیوں کو ملائیشیا لے کر آتا ہے اور وہ بیچارے جو اپنے گاؤں کی زمینیں اور گائے بھینسیں فروخت کر کے اس ایجنٹ کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور وہ انھیں ملائیشیا اور تھائی لینڈ کے بارڈر پر بے سرو سامان چھوڑ جاتے ہیں۔ انھوں نے اپیل کی کہ کوئی بھی پاکستانی اس وقت تک ملائیشیا نہ آئے جب تک اس کا اصلی ویزہ جس پر اسے کام کرنے کی اجازت ہو نہ مل جائے کبھی یہاں کا رخ نہ کرے۔

مجھے یہ جان کر بڑی حیرت ہوئی کہ گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان کے کسی سربراہ نے تیزی سے ترقی کرتے ہوئے ملائیشیا جیسے ملک کا دورہ نہیں کیا۔ ملائیشیا کا آخری دورہ کرنے والے سابق وزیرِ اعظم شوکت عزیز تھے۔ ڈپٹی چیف آف مشن محمد علی آرائیں سے اجازت لے کر ہم گریوال صاحب کے آفس میں آ گئے جہاں پریس قونصلر حامد رضا خان بھی تشریف لے آئے۔ چائے پینے کے بعد ہم نے اجازت لی تو گریوال صاحب اور حامد رضا صاحب نے ہمیں سفارتخانے کادورہ بھی کروایا۔ یہ قدیم عمارت جو ایک کھنڈر کا منظر پیش کر رہی ہے مگر اس کی از سرِ نو تعمیر یا مرمت کے لئے کوئی بھی سنجیدہ نہیں۔ سفارتخانے کی عمارت اور اس کے اندر بنے ہوئے دفاتر قدیم فوجی بیرکوں کی طرح بنے ہوئے ہیں جبکہ ہائی کمشنر سمیت دیگر عملہ بھی الگ الگ رہائشی علاقوں میں مقیم ہیں۔ عمار ت تو دور کی بات اس سفارتخانے میں کمپیوٹرائزڈ ریڈ ایبل میشنیں نصب ہیں مگر عملہ نہ ہونے کی وجہ سے یہاں مقیم پاکستانیوں کو بھی جاپان والا مسئلہ درپیش ہے کہ انھیں کمپیوٹرائزڈ پاسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے کئی ممالک کے ویزے بھی جاری نہیں کئے جاتے۔ ملائیشیا میں پاکستانی سفارتکاروں کی خوش اخلاقی اور خلوص نے مجھے بہت متاثر کیا مگر یہ بات بھی بڑے دکھ کی ہے کہ وہ جس سفارتخانے کی عمارت میں مقیم ہیں اور وطن کے لئے کام کر رہے ہیں اور ساتھ ہی ہزاروں ڈالرز میں تنخواہ بھی لیتے ہیں لیکن انھیں یہ فکر کیوں نہیں ہوتی کہ یہ بھی ان کا اپنا گھر ہے، اس کی بھی اگر تھوڑی سی فکر کی جائے تو کیا مضائقہ ہے؟ کیا کوئی ان سفارتی اہلکاروں سے پوچھ سکتا ہے کہ اگر وہ اس حالت کے گھر میں رہ رہے ہوں جو ان کا اپنا ہو تو کیا وہ اسے خوبصورت بنانے کی کوشش نہیں کریں گے؟ نہ جانے کیوں کسی کو اپنے وطن سے لگاؤ نہیں ؟ ان کا خیال ہے کہ اس کی فکر کوئی اور کرے گا کیونکہ وہ تو یہاں صرف اپنا وقت پاس کرنے آئے ہیں آج ہیں کل نہیں انھیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ اس عمارت کی فکر کریں ؟ اسی طرح ملائیشیا جو ترقی یافتہ اسلامی ممالک میں شمار کیا جاتا ہے، اگر سفارتی تعلقات کو سنجیدگی سے فروغ دیا جائے تو اس ملک سے پاکستان کو بہت زیادہ کاروبار میسر آسکتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں یا سفارتکاروں کا خیال ہے کہ ایسے ملک ہمارے کیا کام آسکتے ہیں ؟ انھیں صرف اور صرف مغربی ممالک یا جاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک سے مالی امداد یا بھیک کی ہی غر ض ہو تی ہے جس کی وجہ سے وہ ان کے ہر طرح کے مطالبات پورے کرتے رہتے ہیں اور وہ اس کے عوض ہمیں کچھ رقم بطورِ قرض یا مدد کے دے دیتے ہیں۔ کاش کہ ملائیشیا یا دیگر اسلامی ممالک کے ساتھ پاکستان کے تجارتی تعلقات استوار ہو جائیں تو یقین کریں ہمیں کسی یہودی ملک کی امداد کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ملائیشیا میں ہندو اور چینی ہر کاروبار کر رہے ہیں مگر پاکستانی ان کے پاس چند ہزار رنگت ماہانہ پر ملازمتیں کرتے نظر آتے ہیں۔

شام کو احمد بھائی اور عامر باطوق کے ساتھ مسجد انڈیا کے نزدیک ہی واقع فوڈ اسٹریٹ گئے جہاں شاہ فیصل کالونی کے کاشف بھائی کے اوپن ایئر ریستوران میں شام کا کھانا کھایا۔ اس علاقے میں زیادہ تر کراچی سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں کی تعداد نظر آرہی تھی۔ کاشف بھائی کے ریستوران پر کھانا کھاتے وقت مجھے لانڈھی اور شاہ فیصل کالونی کے علاقے اور وہاں کے کھانے یاد آ گئے جہاں میں نے اپنی زندگی کے کئی یادگار سال گزارے ہیں۔ کھانے کے بعد چہل قدمی کرتے ہوئے ہوٹل واپس پہنچے تو معلوم ہوا کہ منہاج القرآن انٹرنیشنل ملائیشیا کے صدر اور ایشین کونسل کے نائب صدر محمد سلیم قادری سے ملاقات کا وقت طے تھا تشریف لائے ہوئے ہیں۔ جاپان سے حاجی انعام الحق صاحب نے مجھے تاکید کی تھی کہ میں سلیم قادری صاحب سے ضرور ملوں۔ ملائیشیا پہنچنے سے قبل قادری صاحب سے فون پر بات ہوئی تھی اور وہ ایئرپورٹ پر ریسیو کرنے کے لئے بضد تھے مگر میرے انکارپر وہ نہ آئے۔ شام کو قادری صاحب مجھے ہوٹل ملنے کے لئے تشریف لائے ان کے ساتھ ان کے فرزند وقاص قادری، حافظ عظیم اور حافظ عمر تھے۔ بڑی گرمجوشی و تپاک سے بغلگیر ہوئے۔ وہ سب مجھے لینے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ وہ بضد تھے میں ان کے ساتھ رات کا کھانا کھاؤں مگر ہم ابھی کھانا کھا کر ہی آئے تھے اور آج تھکاوٹ بھی بہت ہو چکی تھی لہٰذا ان کے ساتھ دوسرے دن ملنے کا وعدہ کیا۔

صبح سویرے ہوٹل کی چودھویں منزل پر ناشتہ کیا اور وہیں پر ایک گھنٹے کی انٹرنیٹ کی مفت سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اردو نیٹ جاپان کے لئے کچھ خبریں میل کیں اور دیگر ویب سائٹس وزٹ کیں تو ایک گھنٹے کا پتہ ہی نہ چلا۔ عامر نے کہا کہ وہ آج واپس اپنے شہر چلا جائے گا یعنی رات ہوٹل میں نہیں گزارے گا۔ تھوڑی دیر بعد عدنان علوی صاحب تشریف لے آئے ان کے ساتھ مسجد انڈیا کے بالکل سامنے ہی دوسری منزل پر ان کے کاروباری شراکت دار راج کمارسے ملاقات کی جن کا تعلق کراچی کی ہندو برادری سے ہے اور وہ یہاں پر گزشتہ پچیس سالوں سے مقیم ہیں اور ملائی گارمنٹس کے بہت بڑے بیوپاری ہیں۔ ان کے آفس میں پہنچے تو انھوں نے خوش دلی سے ہمارا استقبال کیا اور فوری طور پرچائے کا اہتمام بھی کیا۔ خواتین کے ملبوسات سے بھری ہوئی یہ دکان جس میں مقامی خواتین ملازم تھیں اور ایک دو پاکستانی بھی کام کر رہے تھے سب نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ راج کمار صاحب نے بتایا کہ ایک عرصہ ہوا وہ کراچی سے یہاں منتقل ہو گئے ہیں۔ انھوں نے پاکستان سے کئی بار گارمنٹس امپورٹ کرنے کی کوشش کی مگر ہمیشہ ہی ان کے ساتھ دھوکہ ہوتا رہا۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے پاکستان کا امیج دنیا بھر میں بہت خراب ہو چکا ہے۔ شروع شروع میں تو مال اچھا ملتا رہتا ہے اور پھر اچانک ہی اس میں بددیانتی شروع ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے کئی بار انھیں مارکیٹ میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ راج کمار گو کہ ایک محب وطن پاکستانی ہیں مگر کاروبار کے لین دین کی وجہ سے پاکستانیوں سے انھیں مایوسی ہوئی جس کی وجہ سے اب ان کا رجحان صرف اور صرف انڈیا اور چین کی طرف ہے جہاں سے وہ اپنا مال درآمد کرتے ہیں۔ یہ بڑی مایوس کن بات ہے کہ ہمارا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ اب کوئی ایسے لوگ نہیں رہے جنھیں اپنی ذات کے ساتھ ساتھ پاکستان سے بھی محبت ہو۔ دنیا کہاں سے کہاں نکل گئی ہے مگر ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں سے اسٹارٹ لیا تھا بلکہ اس سے بھی پیچھے ہو گئے ہیں۔ ہر پاکستانی کو انفرادی طور پر ملک کو ترقی دینے کے لئے کوشش کرنا ہو گی اور کسی کی پرواہ کئے بغیر کہ وہ ملک کے لئے کیا کر رہا ہے ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ ہم پاکستان کے لئے کیا کر رہے ہیں اور اب تک کیا کر چکے ہیں۔ راج کمار صاحب نے کہا کہ وہ پاکستان سے بہت محبت کرتے ہیں اور یہاں ملائیشیا میں پاکستانی سفارتخانے کے زیرِ اہتمام پاکستانیوں کی ایک بزنس کمیونٹی بھی بنی ہوئی ہے جس کے وہ ایک اہم اور فعال رکن بھی ہیں۔ راج کمار نے کہا کہ پاکستانی سفارتخانے کا تمام عملہ ہمیشہ سے ہی خوش اخلاق اور تعاون کرنے والا ہی رہا ہے۔ انھیں پاکستانی سفارتخانے سے گزشتہ تیس سالوں میں کبھی بھی کوئی شکایت نہیں رہی۔ راج کمار صاحب سے ہم نے اجازت لی اور عدنا ن علوی ہمیں باہر تک الوداع کرنے آئے۔ عامر باطوق نے اپنے شہر ٹرین سے جانا تھا۔ میں بھی اس کے ساتھ اسٹیشن تک گیا اور اس کے ساتھ ہی مسجد انڈیا سے مونو ریل میں سوار ہو کر چند اسٹیشن بعد اتر گئے اور بہت بڑے شاپنگ سینٹر میں داخل ہو گئے۔ یہاں دنیا بھر کی اشیاء مہنگے داموں دستیاب تھیں۔ یہیں پر میں نے ایک جاپانی حلقہ بھی دیکھا جس میں جاپانی ریستوران اور جاپانی اشیاء فروخت ہورہی تھیں مگر کہیں بھی کوئی جاپانی نظر نہیں آرہا تھا۔ ہر دکان پر چینی یا ویتنامی نظر آتے تھے کیونکہ جاپانی کو ملازم رکھنا کوئی آسان بات نہیں، دوسرے لوگوں کو کیا معلوم کہ یہ چینی ہیں یا ویتنامی !! اس شاپنگ سینٹر سے عامر باطوق نے ڈاکٹر مہاتیر محمد کی ایک انگریزی کی کتاب خریدی اور اپنے بیگ کا وزن ڈبل کر لیا۔ اس نے مجھے واپسی کے لئے مونو ریل کا بتایا کہ کس طرح ہوٹل تک جانا ہے اور خود اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے لئے میں اداس تو ہو گیا مگر فوراً ہی احمد بھائی کا فون آگیا کہ آپ فلاں اسٹیشن پر اتر جائیں میں اور وہاج بھائی آپ کے منتظر ہیں۔ چند منٹ بعد میں اس اسٹیشن پہنچا تو احمد بھائی اور وہاج بھائی نے میرا استقبال کیا۔ وہاج بھائی جو احمد بھائی کے قریبی رشتہ دار بھی ہیں اور ایک بہت بڑے کاروبار کے مالک بھی ہیں جو ملائیشیا میں اتنے ہی عرصے سے مقیم ہیں جتنے عرصے سے میں جاپان میں یعنی چوبیس سال ہو گئے ہیں، ان کی اہلیہ ملائیشیا کی ہیں اور ان کے دو بچے بھی جوان ہیں جو یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے کاروبار میں بھی ہاتھ بٹاتے ہیں۔ وہاج بھائی نے بتایا کہ وہ یہاں مقیم واحد پاکستانی ہیں جو صرف اور صرف پاکستان سے اشیاء درآمد کرتے ہیں۔ انھوں نے کبھی بھی کسی تیسرے ملک سے کوئی چیز درآمد نہیں کی۔ وہاج بھائی کی خوبصورت ایئرکنڈیشنڈ جاپانی کار میں کوالا لمپور گھومنے کا بہت مزہ آرہا تھا۔ وہاج بھائی نے بتایا کہ ملائیشیا کی چودہ ریاستیں ہیں جس کے نو بادشاہ اور پانچ گورنر ہیں جبکہ ایک مرکزی بادشاہ ہوتا ہے جو نو بادشاہوں میں سے منتخب ہو کر باری باری پانچ سال کے لئے بنتا ہے گویا ایک بادشاہ اگر دوبارہ بادشاہ بنتا ہے تو اسے45 سال انتظار کرنا ہوتا ہے اگر اس دوران اس کا انتقال ہو گیا تو اس کا بیٹا اس کی جگہ لے گا، جبکہ عام انتخابات کے ذریعے یہاں کی حکومت تشکیل پاتی ہے اور وزیرِ اعظم منتخب ہوتا ہے۔ اس وقت اتفاق سے جو بادشاہ تخت نشین ہے وہ دوسری بار بادشاہ بن کر آیا ہے جس کی عمر85 سال کے قریب ہے۔ یہاں وزارتِ دفاع اور غالباً وزارتِ انصاف بادشاہ کے تحت ہوتی ہیں، بادشاہ کو عمومی طور پر ملکی امور سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ انھیں صرف اپنی جائدادیں بنانے میں دلچسپی ہوتی ہے اور یہاں پر بڑی بڑی کثیر المنزلہ عمارتوں کے مالک بھی یہاں کے شاہی لوگ ہیں۔ کوالا لمپور سے باہر نکلے تو کئی جگہ پر بادشاہوں کے محل بھی نظر آئے، شرعی عدالتیں، ہندوؤں کے مندر، سکھوں کے گردوارے اور خوبصورت ترین مساجد نظر آئیں۔ ہائی وے سے اتر کروہاج بھائی ہمیں ایک چھوٹے سے قصبے میں بھی لے گئے جہاں انھوں نے ایک دکان پر مال سپلائی کرنا تھا، یہ ایک قصبے کی چھوٹی سی دکان تھی جس کی مالکن ایک ہندو انڈین عورت تھی۔ اس دکان کے ساتھ ہی موٹر سائکل مرمت کرنے کی دکان بھی دیکھی جس پر ننگ دھڑنگ اور آئیل و گریس سے کالے جسموں والے بچے بھی نظر آئے۔ قریب ہی بچوں کا ایک اسکول بھی تھا۔ یہاں کے لوگوں کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ لوگ تامل ناڈو یا انڈین کاٹھیاواڑی ہیں۔ اس قصبے سے نکل کر دوبارہ ہائی وے پر چڑھے تو قریب ہی ایک پہاڑی کے چوٹی پر بہت بڑا مندر تھا جو ایک تفریحی مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔ پہاڑی کی چوٹی پر تو نہیں گئے مگر باہر سے ہندوؤں کی ایک دیوی کی دیو قامت مورتی دیکھی جس پر سونے کی پلیٹنگ کی ہوئی تھی اور قریب ہی ہانومان جی کا بڑا سا بت نظر آ رہا تھا۔ جگہ جگہ مختلف ممالک کے سیاح گھومتے تصویریں اتارتے نظر آرہے تھے اور کبوتروں کی بڑی تعداد موجود ہونے کی وجہ سے ماحول بہت خوبصورت ہو گیا تھا۔ گرمی شدید تھی قریب ہی ناریل کے پانی سے پیاس بجھائی اور اپنا سفر جاری رکھا، راستے میں وہاج بھائی نے ایک اور پہاڑی علاقے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہاں ایک بہت بڑا جوا خانہ ہے جہاں سب سے زیادہ رقم ہارنے والے جواری جو ہمارے موجودہ صدر زرداری صاحب ہیں کا نام درج ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ اس وقت کا واقعہ جب وہ مردِ اول ہوا کرتے تھے اور یہ بات یہاں بہت مشہور ہے۔ واللہ عالم بالصواب۔

ہائی وے سے اتر کر ایک وسیع ترین اور سرسبز علاقے میں گاڑی اتار کر وہاج بھائی نے بتایا کہ یہ پرائم منسٹر ہاؤس ہے اور اس کے ساتھ ہی ملائیشیا کی خوبصورت ترین مسجد جایا پترا ہے۔ گاڑی پارک کر کے ہم نے پرائم منسٹر ہاؤس کے سامنے کچھ تصاویر بنوائیں جہاں کوئی روک ٹوک نہیں کر رہا تھا کوئی سیکیورٹی کا سخت انتظام نہ تھا۔ لوگ دور دور سے تفریح کرنے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ مسجد کے مرکزی گیٹ پر کئی خدام کھڑے ہوئے تھے اور ہر آنے والے کو خوش آمدید کہتے تھے۔ آنے والوں میں غیر مسلم کی بھی بہت بڑی تعداد نظر آئی جس میں خواتین بھی تھیں۔ غیر مسلم خواتین کے لئے مسجد کی انتظامیہ کی جانب سے مخصوص لباس پیش کیا جاتا تھا جنھیں زیبِ تن کر کے وہ مسجد کی سیر کر رہی تھیں۔ اس وقت کسی نماز کا وقت نہیں تھا۔ میں نے دو نفل شکرانے کے پڑھے۔ وہاج بھائی نے بتایا کہ یہاں ہر جمعہ کو وزیرِ اعظم عبدالرزاق نمازِ جمعہ کے لئے تشریف لاتے ہیں تو وہ ہر نمازی سے مصافحہ کرتے ہیں اور ان کی خبر گیری بھی کرتے ہیں، مسجد کی عمارت کے ساتھ ہی درجنوں شاپنگ سینٹر اور ریستوران بنے ہوئے تھے اور سامنے ہی خوبصورت دریا اور اس کے چاروں طرف خوبصورت بلند و بالا عمارتیں نظر آ رہی تھیں اور یہ نظارہ بہت ہی دلکش تھا۔ دریا کے اس پار رنگ برنگی عمارتیں بڑی بھلی لگ رہی تھیں۔ وہیں ایک بنگالی ریستوران پر وہاج بھائی نے ہمارے لئے ظہرانے کا اہتمام کیا۔ میں نے تیز مرچی کھانے کی خواہش کی تو بنگالی بھائی سمجھے کہ میں تیز مرچی کھانے سے کترا رہا ہوں تو حیران کن شگفتہ اردو میں بولے کہ اس میں مرثی نہیں ہے بے پھکر ہو کر کھائیے۔ میں نے کہا کہ نہیں مجھے تیز اور ٹائٹ مرچی چاہئے تو جھٹ بولے کہ بھیا اس میں تو بو ہوت مرثی ہے آپ کھاؤ گے تو پسینہ آئے گا۔ کمال ہے کہ ابھی کہہ رہا تھا کی مرچی نہیں بالکل نہیں ہے اب کچھ اور کہہ رہا ہے۔ ۔ ۔ خیر کھانا بہت لذیذ تھا مرچ کم تھی میں نے الگ سے ہری مرچی منگوائی، جی بھر کر کھانا کھایا اور وہاں سے رخصت ہوئے اور تھوڑے سے فاصلے کے بعد ہم پرانی اور نئی گاڑیوں کی مارکیٹ پہنچے اور وہاج بھائی نے اپنے ایک مقامی دوست سے ملاقات کروائی جن کا نام ان کے کارڈ پر سمس الدین درج تھا ملائی لوگ بھی بنگالیوں کی طرح ش اور چ کا تلفظ ادا کرنے سے ہچکچاتے ہیں لہٰذا جیسا بولتے ہیں ویسے ہی لکھتے ہیں۔ سمس الدین بھائی پہلے ٹیوٹا کمپنی میں سیلز مینیجر تھے اور ترقی کرتے کرتے انھوں نے اپنا شوروم کھول لیا۔ انھوں نے اپنے شور روم کا دورہ کروایا اور بتایا کہ وہ ساری گاڑیاں خواہ وہ جاپانی ہی کیوں نہ ہوں انگلینڈ سے درآمد کرتے ہیں۔ جاپان سے گاڑیاں درآمد کرنے میں کئی قانونی رکاوٹیں حائل ہیں۔ شاید اسی لئے ابھی تک جاپان میں مقیم پاکستانیوں نے یہاں کا رخ نہیں کیا۔ سمس الدین کے شوروم کے سامنے ہی ایک شاہی مسجد تھی جہاں ہم نے عصر کی نماز ادا کی۔ تھوڑا سا آرام کیا اور واپس کوالالمپور پہنچ گئے۔ وہاج بھائی مجھے ہوٹل تک چھوڑ کر احمد بھائی کے ساتھ ہی چلے گئے۔ شام کو احمد بھائی دوبارہ آئے اور ان کے ساتھ ٹوِن ٹاور گیا۔ ٹوِن ٹاور کی چوٹی دیکھتے ہوئے ٹوپی یا وِگ گرنے کا خطرہ ہوتا ہے میں دونوں چیزوں سے محروم تھا بے فکر ہو کر 80 مالا ٹاور کو دیکھا تو ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی طویل قامت شخص بیل باٹم پینٹ پہنے ٹانگیں چوڑی کر کے کھڑا ہوا ہے۔ ٹوِ ن ٹاور میں ایک دنیا آباد ہے اسے مکمل دیکھنے کے لئے بھی بہت وقت درکار ہے۔ احمد بھائی نے بتایا کہ جب اس کی تعمیر ہو رہی تھی تو انھوں نے بھی یہاں پر چند روز کام کیا تھا۔ اسی ٹاور میں ایک چینی کی الیکٹرانک شاپ پر سیلز آفیسر کی خدمات انجام دینے والے احمد بھائی کے دیرینہ دوست جاوید بھائی سے ملاقات ہوئی جن کا تعلق پاکستان کے شہر حیدرآباد سے ہے اور ان کی بیوی بھی ملائیشیا کی ہیں۔ انھوں نے ہمارے لئے ایک ریستوران میں چائے کا اہتمام کیا اور ملائیشیا کے بارے میں معلومات دیتے رہے۔ ملائیشیا اسلامی ممالک میں ایک ترقی یافتہ ملک کی حیثیت رکھتا ہے جہاں زیادہ تر کاروبار غیر ملکیوں کے ہاتھ میں ہیں جن میں چینی پیش پیش ہیں۔ ایک وقت تھا کہ ملائیشیا کی آبادی چینی آبادی سے بھی کم ہو گئی تھی یا برابر ہو گئی تھی تو ملائیشیا نے چینی اثرات کو کم کرنے اور اپنی مقامی آبادی کو اقلیت میں تبدیل ہونے کے ڈر سے اور مسلمانوں کی آبادی اکثریت میں کرنے کے لئے سبا شہر میں مسلمانوں کو آباد کرنا شروع کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ ضیاء الحق کے دور میں ملائیشیا نے پاکستانی پٹھانوں کو اس شہر میں بسانے کی ترغیب دی اور اُس وقت تقریباً تیس ہزار کے قریب پاکستانی پٹھان مسلمانوں کو ملائیشیا کی قومیت دی گئی تھی اور انھیں سبا میں بسایا گیا تھا۔ اس وقت ترقی یافتہ ملائیشیا کی اس ترقی میں پاکستانی معیشت دان اور سابق وزیرِ معیشت ڈاکٹر محبوب الحق کا ہاتھ ہے جنھوں نے ملائیشیا کا ترقیاتی ڈھانچہ تیار کیا تھا جس میں بنکاری کا نظام اور دیگر ترقیاتی منصوبے شامل تھے اور ان کی پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے ملائیشیا نے بہت ترقی کی، لیکن ہماری بد قسمتی کہ ہم آج بھی وہیں ہیں جہاں سے چلے تھے۔ ابھی ٹون ٹاور میں ہی گھوم رہے تھے کہ منہاج القرآن کے سلیم قادری صاحب کا فون آیا کہ ان کا بیٹا وقاص مجھے لینے کے لئے ہوٹل کی طرف روانہ ہو چکا ہے جو ایک گھنٹے میں پہنچ جائے گا۔ ٹونِ ٹاور کی سیر کے بعد ہم واپس ہوٹل پہنچے، کچھ ہی دیر بعد وقاص قادری مجھے لینے کے لئے ہوٹل کی لابی میں موجود تھے۔

میں نے احمد بھائی سے درخواست کی کہ وہ بھی ہمارے ساتھ ہی چلیں تو ذرا کمپنی رہے گی، احمد بھائی اور میں ہوٹل کے روم سے فریش ہو کر نیچے منتظر وقاص کے ساتھ ان کی لگژری گاڑی میں سوار ہوئے۔ نوجوان وقاص نے اپنی گاڑی ہائی وے پر دوڑانا شروع کی اورملائیشیا کے بارے میں گفتگو بھی کرتے رہے اور بتایا کہ ہم ایک گھنٹے میں اپنی منزل پر پہنچ جائیں گے جہاں ان کے والد سلیم قادری صاحب بے چینی سے میرا انتظار کر رہے ہیں۔ آج ملائیشیا میں میری آخری رات تھی اور صبح مجھے واپس ٹوکیو آنا تھا اور سلیم قادری صاحب کا حکم تھا کہ آخری رات کا کھانا ان کے ساتھ کھایا جائے لہٰذا آج کی آخری رات کا کھانا میرے نصیب میں مرکز منہاج القرآن انٹرنیشنل ملائیشیا کی طرف سے تھا۔ جاپان میں مرکز منہاج القرآن انٹرنیشنل کے سینئر رکن اور کمیونٹی کی ہر دلعزیز شخصیت حاجی محمد انعام الحق جو کسی تعارف کے محتاج نہیں، جاپان میں انعام بھائی اور منہاج القرآن ایک ہی نام ہیں۔ ملائیشیا آنے سے قبل میں نے ان سے رابطہ کیا کہ میں ملائیشیا تین روز کے لئے جا رہا ہوں تو جھٹ سے کہنے لگے کہ وہاں ہمارے بھائی محمد سلیم قادری صاحب ہیں ان سے ضرور ملاقات کرنی ہے۔ جس طرح پہلے لندن اور لاہور میں آپ ہمارے مراکز گئے ہیں ملائیشیا بھی ضرور جائیے گا۔ جاپان سے ہی انھوں نے مجھے سلیم قادری صاحب سے متعارف کروادیا تھا اور فون پر ہم دونوں نے بات چیت بھی کر لی تھی۔ میری خود بھی خواہش رہتی ہے کہ جہاں بھی جاؤں وہاں قائم مرکز منہاج القرآن کا دور ہ بھی ضرور کروں۔ اس بات سے قطع نظر کہ میرا مسلک کیا ہے مجھے ادارہ منہاج القرآن سے ایک خاص انسیت ہے کیونکہ ادارہ منہاج القرآن کے بانی پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب اور ان کے رفقاء کی بنیادی تعلیم انسانوں سے محبت کرنا ہے وہ کسی بھی فرقے یا مسلک میں تشخیص کی بنیاد پر انسانوں کو منقسم نہیں کرتے اور مجھے یہ بات بہت پسند ہے، منہاج القرآن جس طرح حضورِ اکرمﷺ، اولیائے کرام، بزرگوں اور عام لوگوں سے محبت کا درس دیتا ہے وہ قابلِ ستائش ہے۔ منہاج القرآن کی طرح اور بھی کئی مذہبی ادارے ہیں مگر انسانوں سے نرمی اور اخلاق سے پیش آنے کا درس منہاج القرآن میں دیا جاتا ہے، کوئی بھی انسان خواہ اس کا کوئی بھی مذہب، فرقہ یا مسلک ہو بنیادی طور پر وہ محبت اور عزت کا بھوکا ہوتا ہے اور کوئی بھی انسان کسی کی محبت، خوش اخلاقی اور نرم لہجے سے ہی متاثر ہوتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ میں نے ملائیشیا میں بھی سلیم قادری صاحب سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ وقاص نے دورانِ سفر بتایا کہ ملائیشیا میں گزشتہ سال ڈاکٹر طاہر القادری صاحب تشریف لائے تھے اور ان سے ملاقات کے لئے پوری دنیا سے مسلمانوں خصوصاً پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے ملائیشیا کا دورہ کیا تھا۔ وقاص نے بتایا کہ ابھی تک ملائیشیا میں مرکز منہاج القرآن باقاعدہ طور پر قائم نہیں ہو سکا ہے تاہم جلد ہی مرکز کے قیام کے لئے ان کے والد اور دیگر ساتھی کوششیں کر رہے ہیں تاہم جاپان یا دیگر غیر اسلامی ممالک کی طرح یہاں پر منہاج القرآن کے ساتھیوں کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہے۔ ملائیشیا ایک اسلامی ملک ہے جہاں دیگر مذاہب کو بھی پوری آزادی ہے اس لئے جگہ جگہ پر مندر، چرچ اور گردوارے نظر آتے ہیں تاہم فرقہ ورانہ فسادات کا یہاں کوئی تصور نہیں ہے۔ پورے ملائیشیا میں مساجد کا اندرونی ماحول کم و بیش ایک جیسا ہی ہے اور یہاں پر یہ بھی نہیں دیکھا گیا کہ فلاں مسجد سنی، بریلوی، دیوبند، وہابی یا کسی اور مسلک کی ہے۔ میں نے دیکھا کہ لوگ ہر انداز سے نماز ادا کر رہے تھے اور کسی پر کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔ رات کے وقت ہائی وے پر ٹریفک کم ہونے کی وجہ سے ہم جلد ہی عارضی مرکز منہاج القرآن پہنچ گئے۔ ہماری آمد کی اطلاع پاتے ہی سلیم قادری صاحب دوسری منزل سے نیچے اتر آئے اور ہمارا شاندار استقبال کرتے ہوئے بڑی محبت سے دوسری منزل تک لے گئے۔ دوسری منزل پر سلیم قادری کے دوسرے صاحبزادے احمد قادری، ان کے قریبی رشتہ دار اور ان کی کمپنی کے جنرل مینیجر طارق رشید اور دیگر ساتھیوں نے ہمارا پر تپاک استقبال کیا۔ دوسری منزل اصل میں سلیم قادری صاحب کے گارمنٹس کے وسیع کاروبار کا ہیڈ آفس تھا جس میں ملائی مردو خواتین کے ملبوسات کے نمونے آویزاں تھے۔ دفتر کی مرکزی دیوار کے عین مرکز میں پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری اور دیگر بزرگانِ دین کی تصاویر بھی آویزاں کی ہوئی تھیں۔ سلیم صاحب نے ہمارے لئے اپنے دفتر میں ہی شام کے کھانے کا بندوبست کیا ہوا تھا۔ وقت کافی ہو چکا تھا ہمارے پہنچتے ہی ان کے صاحبزادوں اور دیگر ساتھیوں نے گرما گرم روٹیاں پکائیں اور ہماری تواضع کی۔ سلیم قادری نے بتایا کہ وہ گزشتہ17 سالوں سے یہاں مقیم ہیں اور اب اللہ کے فضل و کرم سے گارمنٹس کی تین فیکٹریاں بھی قائم کر چکے ہیں جن کی نگرانی ان کے دونوں بیٹے اور جنرل مینیجر طارق رشید کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ الحمد اللہ ان کا کاروبار بہت ہی کامیاب جا رہا ہے بلکہ ان کے پاس کام کے اتنے آرڈرز ہیں کہ وہ پورے نہیں کر پارہے۔ انھوں نے بتایا کہ جاپان کی طرح یہاں پر منہاج القرآن کے ساتھیوں کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہے اور ابھی تک باقاعدہ مرکز بھی قائم نہیں کیا جا سکا ہے، کیونکہ ملائیشیا میں ہم جتنے بھی پاکستانی ہیں بہت سخت کام کرتے ہیں اور چھٹیاں نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے منہاج القرآن کی سرگرمیوں میں تمام ساتھی بیک وقت حصہ نہیں لے سکتے۔ تاہم ان کی کوشش ہے کہ وہ اپنی اسی عمارت کے اوپر والے پورشن کو بھی حاصل کر کے اس میں مرکز قائم کریں جو اس وقت ایک چینی کے زیرِ استعمال ہے جس نے اس میں شراب خانہ کھول رکھا ہے۔ سلیم قادری صاحب ماشاءا اللہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ، مذہبی و سماجی شخصیت ہیں جو گزشتہ تیس سالوں سے ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھی ہیں اور منہاج القرآن کے لئے ان کی خدمات قابل قدر ہیں۔ سلیم قادری صاحب اس وقت ملائیشیا منہاج کے صدر ہونے کے ساتھ ساتھ منہاج ایشین کونسل کے نائب صدر بھی ہیں۔ واضح رہے کہ منہاج ایشین کونسل کے صدر علی عمران ہیں جو جاپان ناگویا میں مقیم ہیں۔ سلیم قادری نے علی عمران اور انعام الحق صاحب کی اعلیٰ خدمات کو بھی سراہا اور کہا کہ علی عمران میں انھوں نے تنظیم کے لئے ایک فکر دیکھی ہے اور منہاج القرآن کے لئے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں اور مجھے امید ہے کہ نوجوان علی عمران ایک دن اپنے نیک مقاصد میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ سلیم قادری نے کہا کہ اردو نیٹ جاپان وہ اکثر وزٹ کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے آج مجھ سے ملکر انھیں یہ احساس نہیں ہو رہا کہ وہ پہلی بار مل رہے ہیں۔ گھر کے تیار شدہ کھانوں سے تواضع کرنے پر میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ رات کافی ہو چکی تھی۔ سلیم صاحب نے کہا کہ چائے کے بعد وہ خود مجھے ہوٹل چھوڑ کر آئیں گے۔ میں نے اور احمد بھائی نے انھیں بہت روکا کہ آپ اس وقت یہ زحمت نہ کریں ہم خود ٹیکسی سے ہوٹل تک چلے جائیں گے مگر ہم ان کی محبت و خلوص سے شکست کھا گئے۔ سلیم قادری صاحب خود ڈرائیو کرتے ہوئے مجھے رات بارہ بجے ہوٹل چھوڑ کر گئے۔ میں نے سلیم صاحب کو خصوصی طور پر دورۂ جاپان کی دعوت دی تو انھوں نے نہایت خوش دلی سے قبول کرتے ہوئے جلد ہی جاپان کا دورہ کرنے کا وعدہ کیا۔ سلیم قادری صاحب کو میری وجہ سے اس ہوٹل تک دو بار آنا پڑا اور آج رات تو مجھے ان پر بہت پیار آیا کہ اتنی محبت سے مجھے یہاں سے ان کا بیٹا لے کر گیا اور رات گئے تک خود ڈرائیو کر کے مجھے یہاں تک چھوڑنے آئے۔ یہ انسانوں سے محبت کی اعلیٰ ترین مثال ہے اور یقیناً یہ محبت، انکساری اور عاجزی انھیں منہاج القرآن سے ہی ملی ہے۔ سلیم قادری صاحب جیسی مصروف ترین شخصیت کے اس قدر مہربان رویہ نے مجھے بے حد متاثر کیا۔

احمد بھائی بھی صبح آنے کا وعدہ کر کے مجھ سے رخصت ہوئے۔ میں اپنے کمرے میں داخل ہوا اور یہ سوچتا رہا کہ اتنی محبت اور اتنا وقت جو احمد بھائی، ظفر علی، وہاج بھائی، عدنان علوی، عامر باطوق، سلیم قادری صاحب، وقاص احمد اور طارق رشید نے مجھے دیا ہے میں کبھی فراموش نہیں کر سکوں گا۔ کسی بھی نئے ملک میں جہاں آپ کا کوئی واقف کار نہ ہو آپ کبھی بھی بھر پور طریقے سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے۔ ملائیشیا کا دورہ بھی مذکورہ بالا دوستوں کی بدولت میری زندگی کا یادگار دورہ ثابت ہوا۔ صبح ہوٹل چھوڑنا تھا اور ٹوکیو واپس جانے کی تیاری کرنا تھی۔ میں نے اس مرتبہ کوئی بھی شاپنگ نہیں کی اور تین دن کے اترے ہوئے کپڑوں کو سفری بیگ میں پیک کیا اور صبح 9 بجے کا الارم لگایا تو تھوڑی دیر بعد اپنے ہی خرّاٹوں کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ صبح ساڑھے نو بجے ہوٹل کا کمرہ خالی کیا اور فرنٹ پر حساب بے باق کیا ہی تھا کہ احمد بھائی آ گئے۔ وہ بضد تھے ایئرپورٹ تک الوداع کرنے کے لئے مگر میں نے کہا کہ نہیں مجھے صرف ایئرپورٹ جانے والی ایکسپریس بس میں بٹھا دو۔ چند منٹ بعد ہی بذریعہ ٹیکسی بسوں کے اڈے پر پہنچے اور ایک بس ایئرپورٹ جانے کے لئے تیار تھی۔ احمد بھائی نے بڑی محبت سے اپنی جیب سے ایک چھوٹا سے تحفہ نکالا اور مجھے پیش کیا۔ ان سے تین دنوں کی رفاقت میں اتنی بے تکلفی اور محبت ہو گئی تھی کہ جب الوداع ہونے کے لئے ہم دونوں بغلگیر ہوئے تو دونوں نے ایک دوسرے کے کندھوں پر گرم گرم آنسو گرا دیئے۔ بس میں سوار ہونے سے قبل مصافحہ کیا تو دونوں کی آنکھیں اشک بار تھیں۔ وہیں کھڑے ایک صاحب سے دونوں کی آخری یادگار تصویر اتروائی اور بس میں سوار ہو گیا۔ بس چل پڑی اور احمد بھائی بھی تیزی سے سیڑھیاں اتر کر نظر سے اوجھل ہو گئے۔

ایکسپریس بس نے ہائی وے پر دوڑتے ہوئے صرف نصف گھنٹے میں ایئر ایشیا کے ایئرپورٹ پر اتار دیا۔ ایئر ایشیا کا خیال آتے ہی مجھے جھر جھری سی آ گئی۔ میرے بس میں ہوتا تو میں واپسی کسی اور ایئر لائین سے جاتا، مگر اب وقت نہیں تھا، مجبوری تھی۔ خیر بورڈنگ کارڈ بنوایا اور ڈیوٹی فری شاپ کی دکانیں کھنگالتا رہا مگر کچھ خریدا نہیں۔ مقامی کرنسی کچھ بچ گئی تھی اسے ٹھکانے لگانے کے لئے دوپہر کا کھانا وہیں کھالیا، مقامی کرنسی کا ایک کڑک نوٹ یادگار کے طور پر محفوظ کر کے باقی کے سینڈ وچ، بسکٹس اور جوس وغیرہ خرید کر بیگ میں رکھ لئے۔ انتظار گاہ میں جاپانی مسافروں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی اور ایئر ایشیا کے اعلان پر مسافروں نے سیکیورٹی چیک کے بعد جہاز میں سوار ہونا شروع کر دیا۔ میں بھی اٹھا اور سیکیورٹی اسٹاف کے قریب پہنچا تو ایک نوجوان افسر نے میرا جاپانی پاسپورٹ دیکھا اور مسکراتے ہوئے ٹوٹی پھوٹی جاپانی میں کچھ کہا اور پوچھنے لگا کہ اکثر جاپانی یہ جملہ کہتے ہیں اس کا کیا مطلب ہے؟ میں نے اس کا جملہ درست کروایا اور اسے مطلب سمجھایا تو بڑا خوش ہوا، کہنے لگا کہ آپ جاپانی تو نہیں لگتے آپ کا بیک گراؤنڈ کیا ہے۔ میں نے کہا کہ پاکستان!! تو خوش ہو کر پاسپورٹ واپس کیا اور معذرت کرتے ہوئے کہنے لگا کہ اس فلائٹ سے زیادہ تر جاپانی ہی سفر کرتے ہیں اور میں جاپانی مسافروں کو ڈیل کرنے کے لئے خصوصی طور پر تربیت یافتہ ہوں آپ کے ہاتھ میں جاپانی پاسپورٹ دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی کیونکہ میں نے کئی بار لوگوں کے ہاتھوں میں برٹش، امریکی یا کینیڈین پاسپورٹ تو دیکھے ہیں مگر جاپانی پاسپورٹ کسی غیر جاپانی کے پاس پہلی بار دیکھا ہے، مجھے آپ پر کوئی شک نہیں ہے آپ بالکل صحیح ہیں مگر میں صرف جاننا چاہتا تھا کہ آپ کا آبائی ملک کونسا ہے۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ کیا چیک کرنا چاہتا تھا کیونکہ میں اور مجھ جیسے لاکھوں پاکستانی اپنے پاسپورٹ تبدیل کر لیں مگر ہماری شکلیں کبھی بدل نہیں سکتیں اور جن پر سب کچھ لکھا ہوتا ہے، ہمارے سبز پاسپورٹ کی قدر اتنی کھو چکی ہے کہ غریب سے غریب اور بد عنوان ملک کے لوگ بھی ہمیں مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں۔ جاپانی پاسپورٹ کا یہ فائدہ نظر آیا کہ زیادہ دیر تک مشکوک نظروں سے نہیں دیکھا کیونکہ  انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ جاپان اپنے پاسپورٹ کی حفاظت کرنا جانتا ہے۔ واضح رہے کہ جاپانی پاسپورٹ پر والد کا خانہ اور جائے پیدائش کا خانہ سرے سے ہی نہیں ہے، جاپانی پاسپورٹ پر صرف نام، خاندانی نام اور جائے پیدائش میں صرف ڈومیسائل لکھا ہوتا ہے یعنی جو جاپانی جس پریفیکچر میں مقیم ہوتا ہے اس پریفیکچر کا نام درج ہوتا ہے۔ میرے پاسپورٹ پر نام میں ناصر، خاندانی نام میں ناکاگاوا اور ڈومیسائل میں سائیتاما درج ہے اس لئے کوئی پاسپورٹ دیکھ کر اندازہ ہی کر سکتا ہے کہ میں پاکستانی، انڈین، بنگالی یا کسی اور ملک کا ہوں۔

ایئر ایشیا کا ریڈ اینڈ وائٹ جہاز مسافروں کو ٹوکیو لیجانے کا منتظر تھا۔ جہاز کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ملیشیا کی سرزمین پر الوداعی نظر ڈالی کہ پھر قسمت یا نصیب کہ کب ملیشیا آنا ہوتا ہے۔ دروازے پر سہاگن کے لباس میں مسکراتی ہوئی فضائی میزبان نے استقبال کیا اور ماتمی لباس والے فضائی مرد میزبان نے پھیکی مسکراہٹ سے آگے جانے کا اشارہ کیا۔ اپنی نشست کی تلاش میں ہی تھا کہ شکیل بھائی پر نظر پڑ گئی جو میرے ساتھ جاپان سے بھی اسی دن آئے تھے اور آج ان کی واپسی بھی ایک ہی دن تھی۔ شکیل بھائی کے پاس بھی دو نشستیں خالی تھیں جبکہ میرے ساتھ والی بھی دونوں نشستیں خالی تھیں۔ ٹوکیو سے آتے ہوئے تو چالیس منٹ پہلے ہی ہم کوالالمپور پہنچ گئے تھے مگر معلوم ہوا کہ آج اس دن کی کسر نکالتے ہوئے جہاز کولالمپور سے نصف گھنٹہ تاخیر سے اڑے گا۔ یہ اعلان سن کر میری تشویش میں مزید اضافہ ہو گیا کہ ویسے ہی اس جہاز نے ہانیدا ایئرپورٹ رات کے گیارہ بجے پہنچنا تھا اب ساڑھے گیارہ ہو جائیں گے تو کوشی گایا تک کی ٹرین ختم ہو جائے گی۔ جہاز نے اڑان بھری اور شکیل بھائی سے تھوڑی سی گفتگو کرنے کے بعد ہم دونوں ہی سر لپیٹ کر سو گئے۔ جہاز ٹھیک ساڑھے گیارہ بجے ہانیدا ایئرپورٹ پہنچا۔ میرے پاس صرف دستی بیگ تھا جس کی وجہ سے جلد ہی امیگریشن اور کسٹم سے فارغ ہو کر باہر آیا تو رات کے بارہ بج چکے تھے۔ مجھے ہر حالت میں صبح آفس جانا تھا۔ سوچا اب ٹرین تو ملے گی نہیں، کسی ہوٹل میں قیام کر کے صبح سویرے گھر چلا جاؤنگا مگر معلوم ہوا کہ آخری ٹرین آکابانے تک جا رہی ہے جہاں سے میرا گھر کوشی گایا تقریباً بائیس کلو میٹر ہے، اللہ کا نام لے کر ٹرین میں سوار ہو گیا اور رات ایک بجے آکابانے پہنچا تو وہاں سے تمام ٹرینیں ختم ہو چکی تھیں۔ اسٹیشن کے باہر سے ٹیکسی میں بیٹھا اور ڈرائیور کو کوشی گایا کا ایڈریس بتا دیا اس نے ملائیشیا یا پاکستان کے ٹیکسی ڈرائیوروں کی طرح حجت نہیں کی کہ میں اس وقت اتنی دور نہیں جاؤنگا، اور اگر جاؤنگا تو اتنا کرایہ لوں گا۔ ٹھیک آدھ گھنٹے بعد میں اپنے گھر کے سامنے تھا آکابانے سے بذریعہ ٹرین صرف دوسو بیس  ین کا ٹکٹ ہے ٹیکسی کا کرایہ سات ہزار دینا پڑا، تاہم اب امید ہو چلی تھی کہ صبح کام کی چھٹی نہیں ہو گی۔

ایئر ایشیا کے سستے ٹکٹ کی وجہ سے اس سے ڈبل اخراجات ہو گئے تھے اور مجھے وہ کہاوت یاد آ گئی کہ سستا روئے بار بار۔ ۔ مہنگا روئے ایک بار۔ ۔ ۔ میری توبہ۔ ۔ میرے بڑوں کی توبہ۔ ۔ ۔ یا اللہ مجھے کبھی ایئر ایشیا میں سفر کرنے کا موقع فراہم نہ کرنا۔ گھر پہنچتے ہی شاور کیا اور تین بجے سوکر صبح 7 بجے کام پر پہنچ گیا اور مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں تین دن تک محوِ خواب رہا ہوں اور ملائیشیا کا دورہ مجھے خواب سا محسوس ہوا۔ مگرکویت سے حافظ مسرور نے ای میل بھیجا اور کہا کہ ناصر بھائی ملائیشیا سے خیریت سے واپسی کی مبارک ہو تو مجھے یاد آیا کہ ہاں میں ملائیشیا گیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ انھوں نے کہا کہ دبئی کی طرح ملائیشیا کے سفر نامے کا بھی انتظار رہے گا۔ ۔ ۔ میرا کوئی موڈ نہیں تھا لکھنے کا مگر حافظ مسرور اور اپنے دیگر دوستوں کی خاطر مجھے ملائیشیا کی ڈائری بھی لکھنا پڑی۔

٭٭٭

 

ٹوکیو سے 1300کلومیٹر کی دوری پر فُکوؤکا پریفیکچر میں 7گھنٹے کا قیام

(26فروری 2013ء )دوستی استوار کرنے اور دشمنی مول لینے کے لئے مدت یا عرصے کی کوئی قید نہیں، کسی کی محبت، خلوص اور چاہت کے چند الفاظ طویل ترین دوستی کا سبب بن جاتے ہیں اور ایسی دوستی سالوں نہیں بلکہ زندگی بھر قائم رہتی ہے اور اس دوستی کو نبھانے کے لئے ضروری نہیں کہ ملاقاتوں کی فراوانی ہو، صرف ٹیلیفون پر بھی یہ سلسلہ دراز ہوسکتا ہے اور شاذو نادر ملاقات پر بھی، اسی طرح دشمنی کی مثال ہے کہ طویل اور مستحکم دوستی کو دشمنی میں تبدیل کرنے کے لئے بد تمیزی، تحقیر اور تکبر جیسے چند بول ہی کافی ہوتے ہیں اس کے لئے بھی ملاقاتوں کا طویل سلسلہ ضروری نہیں یہ کام بھی فقط ایک فون پر ہو سکتا ہے اور سالوں پر محیط دوستی لمحے بھر میں تیل ہو سکتی ہے۔ دوستی اور دشمنی کرنے کے لئے جب فقط چند الفاظ ہی کافی ہوتے ہوں تو ہمیں اس مختصر زندگی میں دوستیاں قائم کرنی چاہئیں کہ دشمنی میں کوئی فائدہ نہیں اور دوستی میں فائدہ ہی فائدہ ہے اور خوشیاں ہی خوشیاں ہیں۔ یہ میری خوش بختی ہے کہ مجھے کسی نے پہلی بار فون کیا ہو یا میں نے کسی کو پہلی بار فون کیا ہو تو ملاقات کئے بغیر ہی کافی عرصے تک میری دوستی قائم رہتی ہے۔ جاپان سمیت دنیا بھر میں میرے سینکڑوں دوستوں کی تعداد ایسی ہے جن سے ابھی تک ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوا مگر دوستی کا سلسلہ چل رہا ہے۔ ان میں سے ایک طاہر ایوانے صاحب بھی ہیں جو ٹوکیو سے تقریباً تیرہ سو کلو میٹر دور فُوکوؤکا پریفیکچر کے شہر کوُرومے میں ڈیرہ ڈالے بیٹھے ہیں۔

جاپان ایک چھوٹا سا ملک ہے جس میں تقریباً دس ہزار نفوس پر مشتمل ہماری کمیونٹی مختلف شہروں میں منتشر ہے اور زیادہ تر لوگوں کی دوستیاں اور ملاقاتیں صرف قرب و جوار میں رہنے والوں تک محدود ہیں۔ تاہم اردو نیٹ جاپان اور میرے جزوی ذریعہ معاش دستاویزات کے ترجمے کی وجہ سے تقریباً پورے جاپان میں ہم وطنوں سے میرے تعلقات ہیں۔ کچھ عرصہ قبل فُوکوؤ کا پریفیکچر جو ٹوکیو سے تقریباً تیرہ سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے سے ایک پاکستانی نژاد جاپانی شہری طاہر ایوانے کی طرف سے فون موصول ہوا اور جب سے وہ میرے دوست بن گئے، میرے اَن دیکھے دوست طاہر ایوانے سے اکثر فون پر ہی بات چیت ہوتی رہتی تھی اور کئی بار سوچا کہ انھیں ٹوکیو دعوت دوں یا خود وہاں جا کر ان سے ملاقات کا شرف حاصل کروں مگر دونوں طرف آلامِ روزگار یہ موقع فراہم نہیں کر رہے تھے آخر کار ایک دن طاہر ایوانے صاحب نے کہا کہ ناصر بھائی میرا خیال تھا کہ کبھی کوئی کرکٹ کا ٹورنامنٹ منعقد کروائیں گے تو آپ کو دعوت دیں گے مگر آپ کی کتاب ’’دیس بَنا پردیس‘‘ کی تقریبِ رونمائی کئی مقامات پر ہو چکی ہے اور میری خواہش ہے کہ اس کتاب کی تقریبِ پذیرائی فوکوؤکا میں بھی جائے اسی بہانے ملاقات بھی ہو جائے گی، ٹوکیو سے تیرہ سو کلومیٹر کا فاصلہ سوچ کر ہی جھرجھری سی آ جاتی تھی، مگر طاہر ایوانے کی محبت اور خلوص نے میری حوصلہ افزائی کی اور میں نے فُوکوؤکا جانے کی ٹھان لی، میں نے طاہر ایوانے سے کہا کہ میں اپنی مصروفیات کی وجہ سے ایک دو دن کا قیام افوڑد نہیں کرسکوں گا لہٰذا کسی اتوار کو صبح کی فلائٹ سے فوکوؤکا آؤنگا اور شام کی فلائٹ سے واپس چلا جاؤنگا، میرا یہ ارادہ کرنا تھا کہ طاہر ایوانے نے گزشتہ اتوار مورخہ17 فروری2013ء کو ٹوکیو سے فوکوؤکا کے لئے میری سیٹ کنفرم کروا دی، طاہر ایوانے نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ اس موقع پر فوکوؤکا اور کھاگو شیما پریفیکچر کے چند دوستوں کے ساتھ ’’دیس بَنا پردیس‘‘ کی تقریبِ پذیرائی کا اہتمام کیا جائے۔ میں نے اپنے ہمدرد اور دیرینہ سرپرست ساتھی اور بڑے بھیا طیب خان صاحب سے تذکرہ کیا اور انھیں اپنے ساتھ چلنے کی درخواست کی تو وہ فوراً راضی ہو گئے گویا انھیں الہام ہو گیا تھا کہ میں ان کے ساتھ فوکوؤکا جانے کا پروگرام بناؤنگا، طیب بھائی نے چند گھنٹوں کے نوٹس پر ہی فوکوؤکا کا ٹکٹ خرید لیا۔ میرا دو طرفہ ٹکٹ اسکائی مارک کا تھا جبکہ طیب بھائی نے انا(یہ وہ انا نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں یہ جاپانی ANAہے جس کا مطلب ہے کہ آل نپُون ائرویز) ایئرلائین کا ٹکٹ خریدا تھا۔ 17 فروری کی صبح سویرے سات بجے اپنی چند کتابیں بیگ میں ڈالیں اور کوشی گایا سے ٹوکیو کے ہانیدا ایئرپورٹ روانہ ہو گیا، طیب بھائی اور میں الگ الگ ٹرمینل سے پندرہ منٹ کے فرق سے جہاز میں سوار ہوئے اور تقریباً اتنے ہی وقت کے فرق سے صبح گیارہ بجے فوکوؤکا ایئرپورٹ پہنچ گئے، ایئرپورٹ پر پہلے سے پہنچے ہوئے طیب بھائی اور طاہر ایوانے نے میرا محبت بھرا استقبال کیا۔ آج میری طاہر ایوانے سے پہلی ملاقات تھی مگر فون پر کافی عرصہ سے بات چیت اور دوستی کی وجہ سے اجنبیت کا احساس جاتا رہا اور بڑی بے تکلفی سے ہم ان کی گاڑی میں سوار ہو کر منزلِ مقصود کی طرف روانہ ہو گئے، جاپان کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں آپ کو یکسانیت ہی نظر آئے گی، پورے جاپان میں ایک جیسے بازار، ایک جیسی سڑکیں، عمارتیں، لوگ، دکانیں، سرکاری دفاتر، فیکٹریاں، لوگوں کے لباس، رہن سہن، بول چال غرض ہر چیز ایک جیسی ہی نظر آئے گی اس لئے ہمیں فوکوؤکا پہنچنے پر احساس ہی نہیں ہو رہا تھا کہ ہم تیرہ سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے آئے ہیں یا تیرہ کلومیٹر !، اگر وطنِ عزیز میں آپ کراچی سے صرف دو سو کلو میٹر کا فاصلہ طے کر لیں تو زمین آسمان کی تبدیلیاں نظر آنا شروع ہو جائیں گی اور آپ حیران رہ جائیں گے کہ یہ بھی پاکستان کا ایک حصہ ہے؟ کراچی میں دہشت گردی اور قتل و غارت ہے تو یہاں اس سے زیادہ ہے، کراچی میں چوری چکاری ہے تو یہاں کاروکاری اور ریا کاری، کراچی میں لوڈ شیڈنگ چار گھنٹے ہے تو یہاں بارہ گھنٹے، مزید دو سوکلومیٹر آگے چلے جائیں تو زبان ہی مختلف ہے، لباس بھی مختلف ہے غرض ہر سو کلومیٹر پر آپ ایک نئی چیز سے آشنا ہوں گے۔ تاہم جاپان کے ایک سرے سے آخری سرے تک آپ کو ہر چیز ایک جیسی ہی نظر آئے گی یہاں کی عوام میں انفرادیت نہیں ہے جو بسا اوقات مجھے بہت بور کر دیتی ہے۔ ۔ ۔ چالیس سالہ وجیہ اور متاثر کن شخصیت کے مالک اور اعلیٰ تعلیمِ یافتہ طاہر ایوانے پندرہ سال قبل جاپان تشریف لائے تھے اور آج ان کا شمار پاکستانی کمیونٹی کے کامیاب ترین کاروباری طبقے میں ہوتا ہے، شائستہ اردو و انگریزی اور جاپانی زبانوں پر عبور رکھنے والے طاہر ایوانے نے بتایا کہ ان کے والدِ محترم مرحوم جناب ملک الطاف حسین ایک نامور صحافی تھے جنھوں نے روزنامہ جنگ میں طویل عرصے تک خدمات انجام دیں اور مختلف ادوار میں انھیں اپنی تحریروں کی وجہ سے قید و بند کی صعوبتیں بھی جھیلنا پڑیں۔ طاہر ایوانے لاہور سے ایم ایس سی کرنے کے بعد انگریزی روزنامہ دی نیوز میں بطورِ رپورٹر و صحافی کام کرتے رہے، وہ اگر اب تک پاکستان میں ہوتے تو یقینا میدانِ صحافت میں وہ اپنے والدِ گرامی کا نام روشن ضرور کرتے مگر وطنِ عزیز کے حالات کے پیشِ نظر اور والدِ محترم کے بعد اپنی گھریلو ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے1998ء میں جاپان چلے آئے اور اپنے بعد انھوں نے اپنے چھوٹے بھائیوں کو بھی جاپان بلوا لیا اوراس وقت وہ پانچ بھائی جاپان میں مقیم ہیں اور سب کے سب ماشاء اللہ کامیاب بزنس مین ہیں، ان کے چھوٹے بھائی ملک زبیر بھی جاپانی نیشنل ہیں اور گزشتہ پاکستان ایسوسی ایشن جاپان کے انتخابات میں جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔ طاہر ایوانے نے بتایا کہ ہم اب فوکوؤکا مسجد کی طرف جا رہے ہیں جہاں ظہر کی نماز ادا کریں گے اس سے قبل کہیں بیٹھ کر کافی اور سگریٹ پیتے ہیں گویا میری من کی مراد پوری ہو گئی تھی کیونکہ سگریٹ کی شدت سے طلب ہو رہی تھی، ایک جنرل اسٹور سے گرما گرم کافی لی اور باہر کرسیوں پر بیٹھ کر کافی و سگریٹ سے لطف اندوز ہونے لگے، آج موسم بہت ہی خوشگوار تھا، طاہر ایوانے نے بتایا کہ کھاگو شیما سے چار دوست بھی پہنچنے والے ہیں جو ’’دیس بَنا پردیس‘‘ کے چرچے سنکر اس کے حصول کے لئے بے چین ہیں، چند منٹ بعد ہی جب ان کے چاروں دوست وعدے کے مطابق اور وقت کی پابندی کرتے ہوئے اسی جگہ پر پہنچے تو ان کا ہم سے تعارف کروایا گیا، سہیل احمد سینئر پاکستانی بزنس مین اور سماجی شخصیت، پروفیسرڈاکٹر محمد حفیظ الرحمٰن یونیورسٹی میں استاد، ثاقب اقبال کرکٹ کے معروف کھلاڑی و شاعر ہیں اور ڈاکٹر محمد انور، سہیل احمد کو میں پہچان گیا آج سے تقریباً بائیس سال قبل ان سے میری ملاقات سائتاما پریفیکچر کے کاواگوئے شہر میں ہوئی تھی، جب ہم نوجوان ہوا کرتے تھے۔ انھوں نے میری یادداشت کو سراہا اور میں نے اپنے سر کو کھجایا اور اور پرانے دوستوں کا تذکرہ کیا، کچھ دیر گپ شپ کے بعد یہ قافلہ فوکوؤکا مسجد پہنچ گیا، ایک خوبصورت، پُر سکون اور پوش علاقے میں مسجد کا مینار اور گنبد دور سے ہی نظر آگیا، مسجد کے باہر ہی کئی پاکستانیوں، مصریوں، انڈونیشیائی اور جاپانی مسلمانوں سے ملاقات ہوئی اور کئی جاپانی و پاکستانی بچے مسجد کے باہر کھیلتے ہوئے نظر آئے۔ مسجد جتنی خوبصورت اور سادہ باہرسے تھی اتنی ہی خوبصورتی اندر سے بھی تھی، اس مسجد کو دیکھ کر مجھے ٹوکیو، کھوبے اور توحید مساجد کی یاد آ گئی جو بالکل اسی طرز پر بنی ہوئی ہیں اور سادگی کی وجہ سے وہاں دلی سکون اور راحت ملتی ہے، پاکستانی محمد اقبال بھائی کی امامت میں نمازِ ظہر ادا کی۔ دریں اثناء، ایک اور سینئر پاکستانی سید خالد شاہ صاحب اور طاہر ایوانے کے چھوٹے بھائی ملک زبیر بھی تشریف لے آئے طاہر ایوانے نے ان کا تعارف کروایا کہ خالد شاہ اسی شہر میں مقیم ہیں اور مسجد کمیٹی کے بہت ہی فعال رکن ہیں، خالد شاہ نے بتایا کہ مسجدِ ہذا متحدہ عرب امارات کے سفارتخانے کی سرپرستی میں 2009ء میں تعمیر کی گئی تھی جس کی تعمیر پر تقریباً تیس کروڑ ین خرچ ہوئے جس میں پاکستانی کمیونٹی نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، مسجد کا سارا انتظام  متحدہ عرب امارات کے سفارتخانے کے ذمہ ہے اور اس کی نمائندگی ایک نوجوان طالب علم کرتے ہیں جو یہاں زیرِ تعلیم بھی ہیں، جبکہ مسجد کی کمیٹی میں پاکستانی، مصری، بنگلہ دیشی، انڈو نیشائی بھی شامل ہیں جن میں زیادہ تر طالب علم ہیں جو قریبی جامعات میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ مسجد کی دوسری منزل بچوں اور مستورات کے لئے مختص ہے جبکہ زیرِ زمین حصے میں دو کشادہ ہال، نعمت خانہ، بیت الخلاء اور لائبریری بنائی گئی ہیں جہاں نہ صرف عید تہورا کے موقع پر مسلمانوں کا اجتماع ہوتا ہے بلکہ مقامی جاپانی کمیونٹی کے لئے کمیونٹی ہال کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ طاہر ایوانے نے بتایا کہ اس مسجد میں اللہ کے فضل و کرم سے صرف دو سال کی قلیل مدت میں 80 کے قریب جاپانی خواتین و حضرات دائرہ اسلام میں داخل ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اس مسجد میں باقاعدہ کوئی امام و خطیب نہیں ہے کبھی کبھار انڈیا، پاکستان یا دیگر ممالک سے کوئی عالمِ دین تشریف لاتے ہیں تو وہ تین ماہ قیام کرتے ہیں اور یہ ذمہ داریاں بھی نبھاتے ہیں تاہم عام دنوں میں کوئی بھی امامت کے فرائض کے انجام دے سکتا ہے۔ شنید ہے کہ جلد ہی مصری امام کی آمد ہے جو مستقل ہوں گے۔ خالد شاہ نے بتایا کہ یہاں ہفتے میں تین بار بچوں کے لئے درسِ قرآن کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے اور یہاں مقیم مسلمانوں کے بچے اسلامی تعلیم کے حصول کے لئے آتے ہیں، آج اتوار تھا جو بڑی تعداد میں بچے نظر آرہے تھے۔

نمازِ ظہر کے بعد ہم سب مختلف گاڑیوں میں سوار ہوکر قریبی مصری ریستوران گئے جہاں طاہر ایوانے نے اپنے دوستوں کے ساتھ’’ دیس بَنا پردیس‘‘ کی تقریبِ پذیرائی کا اہتمام کیا تھا، ریستوران کے روحِ رواں مصری نژاد نبیل صاحب نے ہمارا استقبال کیا، طاہر ایوانے جو فوکُوؤکا شہر سے بھی پچاس کلو میٹر دور کُورُو مے شہر میں مقیم ہیں اور میری آسانی کی وجہ سے انھوں نے مسجد کے قریب یہ اہتمام کیا تھا۔ طاہر ایوانے جو کرکٹ کے شوقین ہیں اور سال میں کئی بار کرکٹ کے میچز بھی منعقد کرواتے رہتے ہیں آج انھوں نے اس تقریب کے لئے صرف پاکستانی بھائیوں کو مدعو کیا تھا گو کہ ان کی دوستی دیگر ممالک کے مسلمانوں سے بھی ہے جو عموماً کرکٹ کے میچ ایک ساتھ ہی کھیلتے ہیں۔ سہ پہر کے دو بج چکے تھے اور تمام مہمان آچکے تھے۔ طاہر ایوانے اور طیب بھائی نے ریستوران کے اندرونی حصے کو چوکورر میز کانفرنس کی شکل دے دی تھی اور’’ دیس بَنا پردیس‘‘ کی کئی جلدیں ایک میز پر سجا دی گئی تھیں۔ ملک زبیر نے بتایا کہ فُوکوؤکا میں تقریباً سو کے قریب پاکستانی رجسٹرڈ ہیں جبکہ قلیل مدت کے لئے کاروبار یا تعلیم کے حصول کے لئے بھی اکثر پاکستانی آتے جاتے رہتے ہیں، آج کی تقریب میں چیدہ چیدہ شخصیات کو ہی مدعو کیا گیا تھا جن میں طاہر ایوانے، ملک زبیر سمیت ان کے چھوٹے بھائی زوہیب عمر جو برطانیہ سے ایم بی اے کی تعلیم حاصل کر کے3 سال قبل جاپان تشریف لائے ہیں اور اب اپنے بھائیوں کے ساتھ کاروبار میں ہاتھ بٹاتے ہیں اور کرکٹ کے بہت ہی زبردست کھلاڑی ہیں جو برطانیہ میں بھی کاؤنٹی کرکٹ کھیل چکے ہیں جبکہ گلوکاری بھی ان کا شوق ہے اور عنقریب ان کی ایک سی ڈی آنے والی ہے، نوجوان محمد راشد، کیتا کھیوشو یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر کاشف عمادالدین جو سابق سفیرِ پاکستان نور محمد جادمانی کے عزیز بھی ہیں، فوکوؤکا میں سب سے پہلے قدم رنجہ فرمانے والے سینئر پاکستانی نژاد جاپانی شہری عرفان بیگ جو کراچی شاہ فیصل سے تعلق رکھتے ہیں اور کئی سال قبل ٹوکیو سے اپنی جاپانی اہلیہ جن کا تعلق فوکوؤکا سے ہے انہی کے شہر تشریف لے آئے تھے، سینئر پاکستانی اور گاڑیوں کے کاروبار سے منسلک محمد عمران خان، فوکوؤکا یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے پاکستانی نژاد جاپانی شہری عامر نور بلوچ جن کا تعلق کراچی کے معروف علاقے لیاری سے ہے، کراچی کی ایک اور سماجی و مذہبی شخصیت قیصر مبارک، مولانا محمد اقبال، پشاور کے نوجوان اعلیٰ تعلیمِ یافتہ تاج ولی خان، کھاگو شیما سے آئے ہوئے سہیل احمد، ڈاکٹر محمد انور، ثاقب اقبال اور ڈاکٹر محمد حفیظ الرحماٰن شامل ہیں۔ تمام مہمان جنھیں مدعو کیا گیا تھا جمع ہوئے تو طاہر بھائی نے سب کا مختصر تعارف کروایا اور اسی طرح میرا اور طیب بھائی کا بھی تعارف کروایا گیا، مہمانوں میں زیادہ تر مجھے اردو نیٹ جاپان کے حوالے سے پہلے سے ہی جانتے تھے اس لئے مجھے بھی کسی سے بات چیت کرنے میں کوئی اجنبیت محسوس نہیں ہوئی۔ تلاوتِ کلام پاک کے بعد طاہر ایوانے نے کہا کہ ناصر بھائی آج یہ تقریب آپ کی کتاب کی پذیرائی کے لئے منعقد کی گئی آپ اس موقع پر کچھ بات کریں، میں لوگوں کے سامنے تقریروں وغیرہ سے بہت باغی ہوں مجھ سے مائک پر زیادہ دیر تک بات نہیں ہوتی مگر کچھ عرصہ سے میری یہ جھجک کم ہو گئی ہے اور اب میں خود محسوس کرتا ہوں کہ اگر چند لوگ سامنے بیٹھے ہوں تو چند منٹ میں اپنا مدعا بیان کر دیتا ہوں مگر مجھے اکثر حیرت ہوتی جب کسی تقریب میں ہماری کمیونٹی کے کئی لوگ ایسے ہیں جنھیں ایک بار اسٹیج پر بلا کر ان کے ہاتھ میں مائک تھما دیا جائے تو وہ اسے چھوڑنے کا نام نہیں لیتے اور بے تکان بولتے رہتے ہیں یہاں تک کہ حاضرین جماہیاں لینا شروع کر دیتے ہیں، اٹھ کر باہر جانا شروع کر دیتے ہیں اور متواتر اکتاہٹ کا اظہار بھی کرتے ہیں مگر وہ کسی کی پرواہ کئے بغیر اپنی تقریر جاری رکھتے ہیں۔ میں نے اپنی کتاب ’’دیس بَنا پردیس‘‘کی اشاعت کا مختصر پسِ منظر پیش کیا اور طاہر ایوانے سمیت تمام مہمانوں کو شکریہ ادا کیا اور کتاب میں شامل اپنے مضامین کے بارے میں بھی مختصر اظہارِ خیال کیا۔ میرے بعد طیب بھائی اور دیگر مہمانوں نے طاہر ایوانے کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے ایسی زبردست نشست کا اہتمام کیا۔ تمام دوستوں کے خیالات سن کر میں نے جو نتیجہ اخذ کیا وہ یہ تھا کہ یہ سب جو جاپان میں ایک طویل عرصے سے مقیم ہیں اور جو جاپان کو اپنا دوسرا گھر بنا بیٹھے ہیں اور جن کا زیادہ وقت اب پاکستان کی بجائے جاپان میں گزرتا ہے یہ سب کے سب اپنے کاروبار اور دوسرے حالات سے بالکل مطمئن ہیں مگر اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے قدرے مایوس دکھائی دیتے ہیں اور ان کی شدید خواہش ہے کہ ان کے بچوں کو جاپان میں رہتے ہوئے ہی پاکستان کا صد فیصد ماحول نہ سہی پچاس فیصد ہی مل جائے اور اور وہ پاکستانی کلچر اور اسلام سے دور نہ ہو سکیں۔ یوں تو پورے جاپان میں ہم سب اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے پریشان ہیں مگر میں نے دیکھا کہ یہاں ہمارے پاکستانی بھائی منہ زبانی ہی پریشان نہیں ہیں بلکہ وہ عملی طور پر بچوں کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے اس بات پر زور دیا کہ اپنے بچوں کی بہترین پرورش اور تعلیم و تربیت جاپان میں ہی دی جا سکتی ہے کیونکہ کسی بھی ملک کا ماحول کتنا ہی خراب کیوں نہ ہو، بچے کی اپنے گھر سے جو تربیت ہوتی ہے اور جو اسے ماحول میسر آتا ہے اس کی بہت اہمیت ہے، ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ ہمارے پاکستانی بھائی جو کامیاب کاروبار کر رہے ہیں مگر اپنے جاپانی اہلِ خانہ کو اتنا وقت نہیں دیتے جتنا ان کا حق بنتا ہے، وہ وقت کی پابندی نہیں کرتے اور بچوں کے ساتھ زیادہ گپ شپ بھی نہیں کرتے اور نہ ان کی اسکول کی سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہیں، اپنی دلچسپیوں اور سرگرمیوں کو اہمیت دیتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے زیادہ تر پاکستانی بھائیوں کے جاپانی اہلِ خاندان کے ساتھ خوشگوار تعلقات استوار نہیں ہو پاتے، ظاہر ہے کہ جاپانی ماں ہی بچوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارے گی تو بچے بھی اس کے ساتھ ہی زیادہ نظر آئیں گے، بچوں کی اصل تربیت اپنے گھر سے ہی شروع ہوتی ہے اور ہمارے کئی پاکستانی بھائی سمجھتے ہیں کہ اپنے بچوں کو خصوصاً بیٹیوں کو پاکستان بھیج دو اور خود یہاں رہو تو اس طرح وہ بیٹیاں احساسِ محرومی کا شکار ہو جاتی ہیں اور وہ دونوں ممالک میں اپنے آپ کو اجنبی تصور کرتی ہیں۔ ہمارے بچے جو اب بلوغت کی سرحدیں عبور کر رہے ہیں اور شادی کے قابل بھی ہیں مگر ہم پریشان ہیں کہ ان کی شادیاں کہاں کی جائیں ؟ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے جوان ہوتے بچوں کو آپس میں ملنے جلنے کا موقع فراہم کریں تاکہ وہ ایک دوسرے سے آشنا ہو سکیں اور دوستیاں استوار کر سکیں، میری شدید خواہش ہے کہ ہم پاکستانی بھائی اپنے بچوں کی شادیاں آپس میں ہونے کا امکان پیدا کریں، تاکہ ہمارے بچے مستقبل میں احساسِ کمتری کا شکار نہ ہوسکیں اگر ان کی آپس میں شادیاں کی جائیں تو میں سمجھتا ہوں کہ دونوں میں ایک بات تو مشترک ہو گی کہ ان دونوں کے باپ پاکستانی اور ماں جاپانی ہے، اگر ہم اپنی بیٹی جو جاپان میں پرورش پائے اور اس کی شادی اپنے بھتیجے یا بھانجے سے کر دیں جو پاکستان میں رہتا ہو تو میں نہیں سمجھتا کہ یہ شادی کامیاب ہو سکے گی اس کی زندہ مثالوں کے لئے امریکہ اور یورپ کے ممالک میں مقیم ہماری کمیونٹی ہے، اسی طرح ہمارے بیٹے جوجاپان میں جوان ہوئے ہوں اگر وہ فرمانبرداری سے ہمارے حکم کے آگے سرِ تسلیم خم کر بھی لیں تو ان کے لئے ایسی پاکستانی لڑکی سے شادی کر کے کامیاب زندگی گزارنا بہت مشکل ہو گا جس نے کبھی جاپان نہ دیکھا ہو، یہ ایک سنجیدہ اور نہایت ہی گمبھیر مسئلہ ہے جس پر ہمیں بلا تاخیر اس کا حل نکالنا ہے۔ تقریب کی ایک معزز شخصیت قیصر مبارک نے کہا کہ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت اور اچھے مستقبل کے لئے جہاں جہاں مساجد قائم ہیں ان کے قریب اپنی رہائش اختیار کریں تاکہ ہمارے بچے ہماری نظروں کے سامنے رہیں اور ان کی تعلیم و تربیت بھی ہماری خواہشات کے عین مطابق ہوتی رہے، نور عامر بلوچ نے کہا کہ بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے ہمیں قربانیاں دینا ہوں گی۔ قیصر مبارک اور دیگر دوستوں نے کہا کہ ہمیں مشترکہ کوششیں کرنی ہوں گی اور باتیں کرنے کی بجائے عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے، سید خالد شاہ اور دیگر دوستوں نے کہا کہ بچوں کی بہترین تعلیم و تربیت کے لئے ہمیں خود آپس میں اتحاد پیدا کرنا ہو گا۔ طاہر ایوانے نے میری کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ناصر بھائی نے اپنی کتاب میں انہی مسائل پر کئی مضامین لکھے ہیں جن میں انھوں نے اپنے تجربے کی روشنی میں بہترین حل بھی پیش کئے ہیں۔ دورانِ گفتگو ریستوران کے مصری روحِ رواں نبیل صاحب مخصوص کھانوں سے ہماری تواضع بھی کرتے رہے۔ کھاگو شیما کے سہیل احمد نے مجھ سے خصوصی درخواست کی کہ وہ اپنے علاقے میں ایک مسجد کے قیام کا منصوبہ بنا رہے ہیں جس کے لئے کچھ رقم جمع ہو چکی ہے اور نصف سے زائد باقی ہے اور ان کی خواہش ہے کہ اردو نیٹ جاپان کے پلیٹ فارم سے پورے جاپان میں مہم چلائی جائے، سہیل بھائی نے کہا کہ میں نے اردو نیٹ جاپان پر مقامی سیاسی جماعتوں کی خبریں نہ شائع کرنے کا جو فیصلہ کیا تھا وہ زبردست ہے میرے اس فیصلے سے کمیونٹی میں ایک سکون اورمحبت و بھائی چارگی کی فضا قائم ہوئی ہے، جاپان بھر میں تیزی سے قائم ہوتی مساجد دیکھ کر مجھے حیرانی ہوتی ہے کہ ایک ایک پریفیکچر میں دس سے زائد مساجد بھی قائم ہیں اور ایسے علاقے بھی ہیں جہاں فقط چند افراد مقیم ہیں اور ضد بازی کی وجہ سے وہاں مسجد قائم کر دی، مسجد قائم کرنا آسان ہے مگر اسے بسانا بہت مشکل ہے۔ اللہ کے گھر کو بسانے کے لئے نمازیوں کی ضرورت ہے، مگر ہم یہ سب کچھ نہیں دیکھتے، تاہم کھاگوشیما میں پہلے سے کوئی مسجد نہیں ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ہر پریفیکچر میں جہاں پہلے سے کوئی مسجد نہ ہو اور وہاں خواہ چند پاکستانی ہی مقیم کیوں نہ ہوں ایک مسجد قائم کی جائے مگر جہاں چار سے زائد مساجد قائم ہوں وہاں مسجد نہ بنائی جائے بلکہ بچوں کے لئے کوئی ہوسٹل، کمیونٹی سینٹر، لائبریری وغیرہ بنائی جائے تاکہ دوسرے فلاحی کام بھی ہو سکیں۔ چار بجے یہ نشست اپنے اختتام کو پہنچی اور وہاں موجود تمام دوستوں نے طاہر ایوانے کی درخواست پر ’’دیس بَنا پردیس‘‘ کی فی جلد دو ہزار ین اعزازی قیمت ادا کر کے خریدی جس پر میں نے اپنے دستخط بھی کئے اور شکریہ ادا کرتے ہوئے ان کے ساتھ یاد گار تصاویر بھی بنوائیں۔ کھاگو شیما کے چاروں دوست سہیل احمد، ڈاکٹر محمد انور، ثاقب اقبال اور ڈاکٹر محمد حفیظ الرحمٰن اور چند دوسرے مہمان یہاں سے ہی واپس چلے گئے جبکہ باقی ہم سب ایک بار پھر فوکوؤکا مسجد گئے جہاں قیصر مبارک صاحب کی امامت میں نمازِ عصر ادا کی گئی۔ قیصر مبارک اور محمد اقبال بھائی نے نمازِ عصر کے بعد مسجد کی اہمیت اور دیگر موضوعات پر گفتگو کی، چند دوست جو اس علاقے سے بھی دور رہتے تھے اجازت لے کر چلے گئے، مغرب کی نماز کا وقت ہوا اور تیس پینتیس افراد نے ایک مصری نوجوان ڈاکٹر منیر جس کی داڑھی نہ تھی، سر پر ٹوپی نہ تھی اور وہ جین کی پتلون میں تھا کی امامت میں نماز ادا کی، مجھے بہت اچھا لگا کہ ایسے نوجوانوں نے اسلام کو پیچیدہ نہیں بنایا ورنہ کئی مساجد میں تو ایسے حلیہ والے کو امام تو درکنار اسے نماز پڑھنے سے بھی ٹوک دیا جاتا ہے۔ محمد عمران خان نے بتایا کہ یہاں پر جاپانی مسلمانوں کی بھی کثیر تعداد ہو چکی ہے اور مقامی لوگ اسلام سے متاثر ہو کر جوق در جوق مسلمان ہو رہے ہیں، دو جاپانی مسلمانوں عبدالوحید ناکا مُورا اور اسحاق صاحب سے بھی ملاقات ہوئی۔ شام کے ساڑھے چھ بجے تقریباً تمام دوست چلے گئے اور طاہر ایوانے اور زوہیب عمر نے مجھے اور طیب بھائی کو فوکوؤکا ایئرپورٹ تک الوداع کہا اور ہم ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ایئرپورٹ کی خوبصورت اور با رونق عمارت میں داخل ہو گئے، طیب بھائی کا میں نے شکریہ ادا کیا، انھوں نے پہلے پہنچ کر میرا استقبال کیا تھا، اب میں نے انھیں الوداع کہا اور میں ایئرپورٹ کے بازار میں اپنے اہلِ خانہ کے لئے یہاں کی سوغاتیں ڈھونڈنے لگا، وقت کی کمی کی وجہ سے فوکُوؤکا شہر کی سیر بھی نہ کرسکا تاہم یہاں کے بارے میں جو کچھ معلومات مجھے ہوئی ہیں وہ اس طرح ہیں کہ۔ ۔ فوکوؤکا پریفیکچر کا شمار جاپان کے بڑے رقبے اور آبادی والے پریفیکچرز میں ہوتا ہے یہ جاپان کے ریجن کھیوشو میں واقع ہے جو اس کھیوشو ریجن کا سب سے بڑا پریفیکچر ہے اور اس کا دار الحکومت فوکوؤکا شہر اس ریجن کا سب سے بڑا شہر اور سمندری علاقہ ہے اس کے پڑوسی پریفیکچرز میں ساگا، کُوما موتو، اوتا، یاماگُوچی اور ناگاساکی پریفیکچرز ہیں۔ سمندر پار چین، تائیوان اور ساؤتھ کوریا ہیں جو فاصلے کے اعتبار سے فوکوؤکا تا ٹوکیو سے بھی کم فاصلے پر واقع ہیں۔ یہاں دو بندر گاہیں اور دو ہوائی اڈے ہیں جن میں ایک بین الاقوامی ہوائی اڈہ فوکوؤکا ہے۔ اس کی آبادی 2012ء کے ریکارڈ کے مطابق پچاس لاکھ اٹھاسی ہزار تریسٹھ نفوس پر مشتمل ہے جبکہ اس کا رقبہ چار ہزار نو سو اٹھتر کلو میٹر مربع ہے۔ فوکوؤکا میں 28 شہر، 30 قصبے اور2 گاؤں ہیں جو تعداد کے لحاظ سے جاپان کے47 پریفیکچرز میں چوتھے نمبر پر ہیں جبکہ رقبے کے لحاظ سے29ویں نمبر پر ہے، یہاں کے گورنر کا نام ہیروشی اوگاوا ہے۔ یہ پریفیکچر جاپان کے 47 پریفیکچرز میں گرم ترین پریفیکچر ہے تاہم یہاں موسمِ سرما میں سردی بھی خوب پڑتی ہے اور کبھی کبھار برفباری بھی ہوتی ہے۔ سمندر پار چین، تائیوان اور کوریا سے بڑی کثیر تعداد میں سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں۔

نوٹ:  فُکوؤکا مسجد حاکو زاکی JR HAKOZAKIاسٹیشن سے صرف پانچ منٹ پیدل فاصلے پر ہے۔

٭٭٭

 

کراچی کا سہ روزہ دورہ اور’’ دیس بَنا پردیس‘‘کی تقریبِ رونمائی

(21جنوری 2013ء ) میرے منتخب مضامین پر مشتمل میری پہلی کتاب ’’دیس بَنا پردیس ‘‘اتنی مقبول ہو گی کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ جاپان میں دوستوں کی دلی خواہش پر ’’دیس بَنا پردیس‘‘ کی تقریبِ رونمائی نیو ہاٹ مصالحہ ریستوران میں 21 دسمبر2012 کو منعقد کی تو کئی دوست اس تقریب میں شرکت نہ کرسکے تھے کیونکہ وہ سب نئے سال کی چھٹیوں میں پاکستان جا رہے تھے ان کی خواہش تھی کہ کراچی میں بھی ایسی ہی ایک تقریب کا اہتمام کیا جائے۔ لہٰذادسمبر کے آخری ہفتہ میں میں نے اپنے دیرینہ دوست عرفان صدیقی جو روزنامہ جنگ کے معروف نوجوان کالم نگار ہیں سے اپنی کتاب کی تقریب رونمائی کراچی میں بھی منعقدکرنے کے بارے میں مشورہ کیاتو انہوں نے بھی اس رائے کو سراہتے ہوئے کہا کہ کراچی میں اس تقریب کے انعقاد کاتمام انتظام وہ خود ہی کریں گے۔ لہٰذا ہم دونوں نے کراچی کے لئے ٹکٹ حاصل کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ عرفان صدیقی نے کہا کہ وہ 30 دسمبر کو کراچی پہنچیں گے جبکہ مجھے 28 دسمبر کو ایمیریٹس ایئرلائین کا ٹکٹ مل گیا، ایمیریٹس سے سفر کروں اور دبئی میں کم از کم ایک دن قیام نہ کروں تو ایک تشنگی رہ جاتی ہے۔ فوراً پاکستان ایسوی ایشن جاپان کے صدر ندا خان جو تقریباً ایک سال سے مستقل دبئی میں ڈیرہ لگائے بیٹھے ہیں سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ میرا خود جاپان آنے کا پروگرام تھا لیکن آپ آ جاؤ میں بعد میں چکر لگاؤں گا۔ 28دسمبرکو کام ختم کیا اور کمپنی کی طرف سے سال کی الوداعی پارٹی میں شرکت کے بعد گھر آیا اور گزشتہ رات کو پیک کیا ہوا اپنا بیگ اٹھایا اور گھر والی نے گاڑی پر مجھے مقامی اسٹیشن پر چھوڑ دیا اور اس کی دعائیں لے کر ایکسپریس ٹرین میں سوار ہوا اور رات کو ساڑھے آٹھ بجے ناریتا ایئرپورٹ پہنچ گیا، جہاز نے ٹھیک ساڑھے دس بجے ٹوکیو سے اڑان بھری اور میں تھکاوٹ کی وجہ سے کچھ کھائے پیئے بغیر ہی کمبل اوڑھ کر سو گیا اور ٹھیک ساڑھے دس گھنٹے کی پرواز کے بعد مجھے دبئی اتار دیا گیا، دبئی میں صبح کے پانچ بج چکے تھے، ندا خان کو میں نے سختی سے منع کر دیا تھا کہ وہ خود مجھے لینے نہ آئے بلکہ کسی کو بھی نہ بھیجے میں خود ہوٹل چلا جاؤنگا اور دن میں اس سے ملاقات کر لوں گا۔ مگر اس نے میری ایک نہ سنی اور اور اپنی روایتی مہمان نوازی کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اس نے اپنے ایک ڈرائیور شائستہ خان کو مجھے لینے بھیج دیا اور اسے تاکید کی کہ مجھے ہوٹل نہ جانے دے بلکہ اس کے فلیٹ میں لے کر آئے، صبح ساڑھے پانچ بجے شائستہ خان نے شارجہ کے پوش علاقے کے ایک بلند و بالا اور کثیر المنزلہ فلیٹس کی عمارت کی تیرہویں منزل پر ایک خوبصورت فلیٹ میں چھوڑ دیا اور کہا کہ ندا خان صاحب سو رہے ہیں آپ اس مہمان خانے میں آرام کریں۔ ندا خان کی فیملی پاکستان گئی ہوئی تھی اور میں اس کے مہمان خانے کا جائزہ لے رہا تھا جو کوئٹہ کے ایک قبیلے کے سردار کی موجودگی کا بھر پور منظر پیش کر رہا تھا، فلیٹ کا اندرون اور بیرون بھی بہت ہی خوبصورت تھا تیرہویں منزل سے باہر کا نظارہ بڑا دلفریب تھا یونہی چند گھنٹے جہازی سائز صوفے پر آرام کیا۔ ندا خان کمرے میں داخل ہوا اور طویل بغلگیری ہوئی مگر افسوس کہ ہم گلے نہ مل سکے کیونکہ دونوں کی توندیں ماشاء اللہ اتنی آگے بڑھی ہوئی تھیں کہ لاکھ کوشش کے باوجود انھوں نے ہمیں گلے ملنے سے باز رکھا اور ہماری توندوں نے ہماری نمائندگی کرتے ہوئے بغلگیری کی اور ہم دونوں ایک دوسرے کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر ہی دھڑام سے صوفے پر لُڑھک گئے۔ ندا خان نے کوئٹہ کی مٹھائی اور خشک میووں اور چائے سے تواضع کی اور اس کی لگثرری مرسیڈیز کار میں بیٹھ کر ہم دوکامز کی طرف روانہ ہو گئے راستے میں افغانی کابُل ریستوران میں لاہوری قسم کا کھانا کھایا، ندا خان سے جاپان میں کمیونٹی اور موجودہ حالات پر تبادلۂ خیال کیا، ندا خان دبئی میں رہتے ہوئے بھی ہمیشہ کمیونٹی کے لئے فکرمند رہتا ہے۔ گفتگو کے دوران وہ کمیونٹی کے ایک ایک فرد کو یاد کرتا رہا اور ان کے بارے میں پوچھتا رہا کہ فلاں کیسا ہے اور فلاں کیا کر رہا ہے۔ ظہرانے کے بعد شوجی موٹرز پہنچے تو ندا خان کے سٹاف ممبر نعمان مرزا اور اشاعت میرانی نے میرا استقبال کیا۔ دبئی کا موسم بہت ہی خوبصورت تھا، نہ گرمی نہ سردی مگر نصف آستین والی شرٹ پہنیں تو سردی کا احساس ہوتا تھا۔ چند ماہ قبل جب دبئی آیا تھا تو تندور کی طرح دہک رہا تھا۔ ندا خان نے ’’دیس بَنا پردیس‘‘ کی تقریبِ رونمائی جو نیو ہاٹ مصالحہ میں منعقد ہوئی تھی پر مبارکباد پیش کی اور کہا کہ اردو نیٹ جاپان ہی ایک بڑی وجہ ہے کہ میں جاپان نہیں آ رہا کیونکہ اس کی بدولت وہاں کے تمام حالات سے آگاہی ہو جاتی ہے اور جاپان جانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ میں نے ندا خان کو دستخط کے ساتھ اپنی کتاب پیش کی اور اس نے مجھے مبارکباد دیتے ہوئے مزید کامیابیوں کی دعا دی۔ میں نے ایک کتاب مزید ندا خان کے سپرد کی کہ وہ اسے دبئی میں پاکستانی قونصلیٹ میں قونصلر جنرل جناب طارق اقبال سومرو صاحب کو پہنچا دے جن سے میری پچھلی مرتبہ طارق حسین بٹ صاحب کے توسط سے بڑی خوشگوار ملاقات ہوئی تھی، وقت نہ ہونے کی وجہ سے میں ان سے اس بار نہ مل سکا اور طارق حسین بٹ صاحب جو ابوظہبی میں مقیم ہیں سے بھی فون پر ہی سلام دعا کی۔ ندا خان سے تھوڑی دیر کے لئے اجازت لی اور امین سجن کے شو روم پر چلا گیا جو چند قدم کے فاصلے پر ہی واقع تھا۔ اردو نیٹ جاپان کے نوجوان بیورو چیف برائے دبئی سمیل سجن اور ان کے والدِ محترم اسلم سجن نے اچانک مجھے دیکھ کر والہانہ استقبال کیا، سمیل سجن کو ’’دیس بَنا پردیس‘‘ کا تحفہ دیا، سمیل سجن نے بہت ہی محبت سے رکنے کے لئے کہا اور بتایا کہ آج شام کو امریکہ یا برطانیہ سے ایک معروف قوال تشریف لا رہے ہیں ان کے ساتھ ملاقات کر کے جائیں اور شام کا کھانا ہمارے ساتھ ہی کھائیں۔

 وقت کی کمی کی وجہ سے میں ان کی پیشکش قبول کرنے سے قاصر رہا اور صرف چائے پی کر ندا خان کے پاس واپس پہنچ گیا، شوجی موٹرز کے سامنے ہی حاجی لالی موٹرز واقع ہے، منہاج القرآن کے انعام الحق صاحب نے تاکید کی تھی کہ دبئی جاؤں تو ان سے ضرور ملاقات کروں اور وہ مجھے دبئی میں مرکز منہاج القرآن لے جائیں گے۔ مگر حاجی لالی صاحب دوسرے شو روم پر گئے ہوئے تھے اور چند نوجوانوں نے میری بڑی آؤ بھگت کی اور جاپان کے بارے میں معلومات حاصل کرتے رہے۔ ایک نوجوان نے مجھ سے شکوہ کیا کہ آپ کی جاپانی ایمبیسی نے مجھے جاپان جانے کا ویزہ دینے سے انکار کر دیا اور کوئی وجہ بھی نہیں بتائی، میں نے پوچھا آپ کس سلسلے میں جاپان آنا چاہتے تھے تو کہنے لگا کہ میں کاروباری دورے پر آنا چاہتا تھا، میں نے پوچھا کہ آپ کی عمر کتنی ہے تو کہا کہ بیس سال، میں نے کہا کہ بھائی انھیں معلوم ہے کہ بیس سال کی عمر میں کوئی کسی کمپنی کا جنرل مینیجر نہیں ہو سکتا اور ویسے بھی آجکل جاپانی سرکار ہر داڑھی والے کو طالبان کا ساتھی سمجھتی ہے، غالباًَ َتمھارا حلیہ اور عمر وجۂ انکار تھا۔ بہر حال میں نے اسے تسلی دی کہ چند سال بعد دوبارہ اپلائی کرنا اور میں تمھیں اپنی گارنٹی پر جاپان بلواؤنگا تو بہت خوش ہوا۔

شام ہو چکی تھی ندا خان کے ایک دوست شفقت علی خان صاحب جو ایمیریٹس ائرلائیز میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں نے ہمارے لئے ایک مقامی لبنانی ریستوران میں عشائیہ کا اہتمام کیا جس میں ندا خان کے جاپانی دوست تھاناکا صاحب بھی شریک ہوئے، صبح آٹھ بجے میری کراچی روانگی تھی رات د و بجے ندا خان کے دولت خانے پر واپس آئے اور ندا خان سے درخواست کی کہ وہ اپنے کمرے میں جا کر سو جائے میں خود ہی صبح چھ بجے ٹیکسی سے ایئرپورٹ چلا جاؤنگا۔ ندا خان نے نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے اجازت دے دی اور اپنے کمرے میں جا کر سو گیا، میں نے ہلکی سی نیند لی اور صبح پانچ بجے اپنا سوٹ کیس اٹھا کر باہر آگیا، تھوڑی ہی دور چلا تھا کہ عقب سے ایک ٹیکسی میرے قریب آ کر رکی اور میں ٹیکسی میں بیٹھ گیا۔ واہ !!کیا بات ہے کہ باوردی ٹیکسی والے نے بیٹھنے سے پہلے یہ بھی نہیں پوچھا کہ بھائی کہاں جاؤ گے اور اتنے پیسے لوں گا، مگر یاد آیا کہ یہ دبئی ہے کراچی نہیں۔ ٹیکسی ڈرائیور احمد علی بنگلہ دیشی تھا اور ایئرپورٹ تک ٹیکسی میں نعتیں سنتے ہوئے ایئرپورٹ پہنچ گیا اور احمد علی کو ٹپ سمیت کرایہ دیا اور بغلگیر ہو کر ایئرپورٹ کے اندر داخل ہونے سے پہلے دو سگریٹ پیئے اور صبح سویرے کی تازہ فضا کو آلودہ کر کے اندر چلا گیا۔ لگیج کروا کر بورڈنگ کارڈ لیا اور ونڈو شاپنگ کرتے ہوئے کراچی جانے والی پرواز کے لاؤنج میں پہنچا تو سامنے ہی جاپان میں گاڑیوں کے معروف بزنس مین اورکار جنکشن کے چیئرمین چوہدری شعیب صاحب ٹانگ پر ٹانگ رکھے کرسی پر براجمان تھے اور مجھے دیکھ کر ایک دم اچھل گئے۔ ارے آپ !! کراچی جا رہے ہیں ؟ انھیں دیکھ کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی، اعلان ہو رہا تھا کہ کراچی کے لئے پرواز تیار ہے ہم دونوں گپ شب کرتے ہوئے جہاز میں سوار ہو گئے، ہمیں یوں لگا جیسے پورا جہاز ہم دونوں کے لئے چارٹرڈ کروایا گیا ہے، پورے جہاز میں صرف بیس پچیس مسافر ہوں گے، جہاز خالی ہونے کی وجہ سے ہم دونوں ایک ساتھ ہی بیٹھ گئے، جہاز میں جتنے مسافر تھے اتنا ہی عملہ تھا۔ ناشتے سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ کراچی پہنچ گئے۔ میں نے چوہدری شعیب کو ’’دیس بَنا پردیس‘‘ کی تقریبِ رونمائی کی دعوت بھی دی اور تاکید کی کہ چوہدری عظیم جو پہلے سے ہی کراچی میں ہیں کو بھی ضرور لے کر آئیں انھوں نے میری دعوت اس شرط پر قبول کی کہ جاپان واپسی سے قبل میں ان کے ڈیفنس میں واقع دولت خانے پر لنچ ان کے ساتھ کروں، میں نے ان کی شرط قبول کر لی اور ابھی ہم جہاز کی سیڑھیاں اترے ہی تھے کہ ایف آئی اے یا فوج کے دو افسران نے چوہدری شعیب اور میرا راستہ روک لیا اور میرا ہینڈ بیگ لینے کی کوشش کرنے لگے، میں گھبرا یا تو چوہدری شعیب صاحب نے کہا کہ ناصر بھائی فکر کی بات نہیں ہے یہ ہمارے پروٹوکول کے لئے آئے ہیں سامان ان کے حوالے کر دیں، میں نے حکم کی تعمیل کی اور ہچکچاہٹ کے ساتھ اپنا بیگ ان کے حوالے کر دیا اب وہ افسر ہمارے آگے آگے اور میں اور چوہدری شعیب ہاتھ ہلاتے ہوئے ان کی تقلید میں چل رہے تھے۔ مجھے ذاتی طور پر پروٹوکول وغیرہ بالکل پسند نہیں ہے مگر چوہدری شعیب مجھے عادی لگ رہے تھے، چوہدری شعیب جاپان میں ایک کامیاب ترین بزنس مین ہیں جن کا گاڑیوں کا کاروبار جاپان سمیت کئی ممالک تک پھیلا ہوا ہے گو کہ وہ خود اتنے پھیلے ہوئے نہیں ہیں یعنی بڑے چھریرے بدن کے اسمارٹ سے چوہدری ہیں، اور نہ ہی وہ روایتی قسم کے چوہدری ہیں اور نہ ہی ان کی گفتگو اور انداز سے چوہدراہٹ جھلکتی ہے وہ نہایت ہی سادہ مگر نفیس انسان ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ در اصل ان کے بڑے بھائی ڈاکٹر شفیق ایئرپورٹ کے قریب اسٹار گیٹ پر ایک بڑے ہسپتال کے مالک ہیں اور یہ سب کچھ انہی کے تعلقات کی وجہ سے ہو رہا ہے یعنی جب یہ لوگ ہمارے ہسپتال آتے ہیں تو انھیں بھی ایسا ہی پروٹوکول ملتا ہے، ہم جونہی امیگریشن کاؤنٹر پر پہنچے تو میں فوراً غیر ملکی پاسپورٹ کے کاؤنٹر پر کھڑا ہو گیا، وہی افسر آیا اور اس نے میرا پاسپورٹ بھی لے لیا اور کہا کہ آپ چوہدری صاحب کے ساتھ آگے نکل جائیں۔ چوہدری شعیب صاحب نے کہا کہ ناصر بھائی گھبرائیں نہ یہاں سب کچھ ایسے ہی ہوتا ہے، میں امیگریشن کے کاؤنٹر کو بھی عبور کر گیا اور کسی نے کچھ پوچھا بھی نہیں اور اسی افسر نے میرا پاسپورٹ مجھے واپس کر دیا جس پر آمد کی مہر ثبت ہو چکی تھی۔ اب ہم اپنا سامان وصول کرنے کے لئے کنویئر بیلٹ کے پاس آ گئے تو بھی شعیب صاحب نے کہا کہ ناصر بھائی آپ یہاں آ جائیں آپ کا سامان بھی آ جائے گا، جب ہمارا سامان آیا تو وہ بھی انھوں نے الگ الگ ٹرالی پر لادا اور بغیر کسی رکاوٹ یا چیکنگ کے باہر آ گئے، وطنِ عزیز میں کیا نہیں ہوسکتا ! کوئی کام ناممکن نہیں ہے، تاہم یہ سب کچھ مجھے بہت معیوب لگ رہا تھا اور بہت شرم محسوس کر رہا تھا کہ لوگ قطار میں کھڑے ہیں اور میں بغیر قطار کے ہی آگے بڑھتا جا رہا ہوں، اگر میں اکیلا ہوتا تو کبھی بھی ایسا نہ کرتا اور اس وقت اگر کوئی اور ایسا کر رہا ہوتا تو شاید میں اسے ٹوک بھی دیتا، مجھے خوف بھی لگا ہوا تھا کہ اب کوئی آئے گا اور کہے گا کہ بھائی آپ کون ہو اور بغیر نمبر کے آگے کیسے جا رہے ہیں ؟۔ ۔ ۔ اگر ایسا ہو جاتا تو کتنی شرم کی بات تھی اور میں اسے کیا جواب دیتا!!مجھے بہت ہی عجیب اور خوف محسوس ہو رہا تھا اور اندر سے شرمندگی بھی محسوس کر رہا تھا اور میرا ضمیر ملامت بھی کر رہا تھا کہ یاد ہے پچھلی مرتبہ کراچی ایئرپورٹ پر اندر داخلے کے وقت کوئی ایسی ہی حرکت کر رہا تھا تو تم نے کیسے اس عملے اور مسافر کو ڈانٹا تھا کہ ہم سب پاگل ہیں جو قطار بنا کر کھڑے ہوئے ہیں ؟ تو وہ عملہ اور مسافر جھینپ گئے تھے اور قطار کے پیچھے چلے گئے تھے۔ ۔ ۔ اب وہی پروٹوکول مجھے مل رہا تھا تو میرا ضمیر تھوڑی دیر کے لئے جاگا مجھے وہ واقعہ یاد دلایا اور پھر آنکھیں بند کر کے سو گیا۔ ۔ ۔ مگر چوہدری شعیب صاحب بالکل نارمل دکھائی دے رہے تھے جیسے وہ ان تمام چیزوں کے عادی ہوں، باہر آئے تو ان کے بھائی چوہدری عظیم سے بھی ملاقات ہوئی، چوہدری صاحب یکم جنوری کو تقریب میں آنے کا وعدہ کر کے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر چلے گئے اور تھوڑی ہی دیر میں میں بھی اپنے بھائی کے ساتھ گھر چلا گیا۔ اس مرتبہ صرف تین دن کا کراچی کا دورہ تھا اپنے عزیز و اقارب سے مختصر ملاقاتیں کیں اور شارع فیصل پر واقع ایک ہوٹل میں شفٹ ہو گیا، میں جب بھی پاکستان جاتا ہوں تو رات کسی گھر پر قیام نہیں کرتا بلکہ ہوٹل میں رہنا پسند کرتا ہوں جہاں میرے ملنے جلنے والے دوستوں کا تانتا بندھا رہتا ہے جبکہ گھر میں یہ سب کچھ ناممکن ہوتا ہے ویسے بھی کراچی کے حالات بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتے۔

 ہوٹل پہنچا ہی تھا کہ عرفان صدیقی کا فون آیا کہ وہ بھی ابھی کراچی پہنچ گئے ہیں اپنے مشترکہ دوست سید جاوید اقبال جو آج ٹی وی میں سینئر رپورٹر ہیں سے تقریبِ رونمائی کی تیاریوں کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ تمام تیاریاں مکمل ہیں اور تقریب کراچی پریس کلب کی بجائے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں منعقد ہو گی کیونکہ مہمانوں کی تعداد کچھ زیادہ ہو گئی ہے جن لوگوں کو کراچی پریس کلب کا بتایا ہوا تھا انھیں بھی اطلاع دے دی گئی۔ نئے سال کی چھٹیاں گزارنے کے لئے کئی دوست جاپان سے کراچی اور دیگر شہروں میں آئے ہوئے تھے اور کچھ بہت پہلے ہی مستقل طور پر کراچی شفٹ ہو گئے تھے۔ ان تمام دوستوں سے رابطے کئے اور انھیں تقریب میں شرکت کی دعوت بھی دی۔

رات کا کھانا کھانے کے لئے اپنے دوستوں کے ساتھ دستگیر میں جاوید نہاری پر گئے جہاں لوگوں کا رش دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ یہاں لنگر تقسیم ہو رہا ہے، ریستوران کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور لوگ گرما گرم نان کے ساتھ نہاری کھا رہے تھے، تندور پر نان لگانے والے اور پیڑے بنانے والوں کی تعداد بھی دس سے زیادہ ہی تھی اور کئی بیرے لوگوں کے آرڈرز لے رہے تھے اور انھیں نہاری کی پلیٹیں اور نان تقسیم کر رہے تھے ہم تینوں دوست بھی ایک ٹیبل کو نشانہ بنا کر اپنی باری کا انتظار کرنے لگے اور تقریباً آدھے گھنٹے بعد ہمیں بھی ایک ٹیبل مل گیا اور ہم نے مغز نہاری کے ساتھ نہ جانے کتنے ہی نان کھا لئے۔ دوسری منزل پر بچوں اور خواتین کے لئے انتظام تھا، اتنے لوگوں کو ہر روز کھانا کھلانا بھی ایک ثواب کا کام ہے، خاص طور پر مجھے کسی ریستوران کے ملازم بہت اچھے لگتے ہیں جو بڑی محنت اور محبت سے آپ کو کھانا پیش کرتے ہیں گو کہ وہ اس کام کی اجرت وصول کرتے ہیں مگر کسی کو کھانا اور پانی پیش کرنا ایک نیک کام ہے میں ان سے ہمیشہ متاثر ہوتا ہوں، ریستوران کے روحِ رواں کاوئنٹر پر بیٹھے بیرے کی آواز پر لوگوں سے رقم وصول کر رہے تھے۔ ندیم قریشی نے بتایا کہ یہ ریستوران گزشتہ پچیس تیس سال سے چل رہا ہے اور یہاں ہر روز ایسا ہی رش ہوتا ہے، ہم نے کھانے کے بل کی ادائیگی کے لئے جاوید صاحب سے رجوع کیا اور انھیں بتایا کہ جاپان سے خصوصی طور پر آپ کی نہاری کھانے آئے ہیں تو بہت ہی خوش ہوئے اور انھوں نے ایک نہاری کا ڈبہ مجھے تحفے میں دینے کی کوشش کی مگر ندیم نے اس کی بھی ادائیگی کر دی، ان کا ہنستا مسکراتا ہوا نورانی چہرہ بہت متاثر کُن تھا، ہر روز لوگوں کی کثیر تعداد کو پیٹ بھر کر ارزاں نرخ پر کھانا کھلانے کا اہتمام کرنے والے لوگ بلاشبہ انسانیت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہیں، میں نے دیکھا کہ چار چار مزدور ایک ساتھ ریستوران میں داخل ہو رہے ہیں اور ایک ہی پلیٹ نہاری کی منگوا کر مل کر کھا رہے ہیں اور کئی کئی بار نہاری ختم ہونے پر  بیرے کو بلا کر گریبی منگوائی جا رہی ہے مگر کوئی انھیں جھڑکنے والا نہ تھا اور انھوں نے کتنے نان کھائے اس کا حساب کتاب بھی چند بیروں پر ہی منحصر تھا، اس خوش ذائقہ اور با برکت کھانوں سے نہ جانے کتنے ہی غریبوں کا پیٹ بھر رہا تھا، مجھے رفیع نے بتایا کہ بعض اوقات جاوید بھائی مفت میں بھی لوگوں کو نہاری بانٹ رہے ہوتے ہیں اس کے باوجود ان کے ہاں گاہکوں میں کمی نہیں ہوتی اور ہر روز ہی کم و بیش اتنا ہی رش ہوتا ہے، بزرگ جاوید بھائی بہت ہی سادہ اور شفیق انسان ہیں جو ہمیشہ مسکراتے رہتے ہیں انھیں کبھی بھی غصہ میں یا پریشانی کی حالت میں نہیں دیکھا۔

 دوسرے دن عرفان صدیقی کے ساتھ شام چھ بجے دنیائے صحافت کے بے تاج بادشاہ اور معروف شاعر و ادیب محمود شام صاحب کے دفتر واقع ڈیفنس میں پہنچے اور کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ محمود شام صاحب جو ایک طویل عرصہ روزنامہ جنگ میں اپنی خدمات انجام دینے کے بعد اے آر وائی میں بھی رہے اور اب حال ہی میں انھوں نے ایک نئے روزنامہ’’ جہان پاکستان‘‘ کی بنیاد رکھی ہے جو قلیل عرصے میں ہی پاکستان کے مقبول ترین روزنامے کی حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے، دوسری منزل پر درجنوں صحافی، رپورٹرز اور سٹاف کو سلام کرتے ہوئے ہم محمود شام صاحب کے دفتر میں داخل ہو گئے، انھوں نے ہم دونوں کا گرمجوشی سے استقبال کیا اور بغلگیری کا شرف بخشا۔ عرفان صدیقی نے میرا مختصر تعارف کروایا، وہ بڑی ملائمت سے ہم دونوں سے گفتگو کرتے رہے اور ہمارے لئے چائے کا اہتمام بھی کیا۔ میں نے اپنی کتاب ’’دیس بَنا پردیس‘‘ محمود شام صاحب کو پیش کی تو کہنے لگے کہ مجھے آپ کی کتاب دو روز قبل مل چکی ہے پھر بھی میں نے اپنے دستخط کے ساتھ انھیں ایک اور کتاب پیش کی تو بہت خوش ہوئے، عرفان نے محمود شام سے درخواست کی کہ کل اس کتاب کی تقریبِ رونمائی آرٹس کونسل میں منعقد ہو رہی ہے اور آپ ضرور تشریف لائیں گے، محمود شام نے تقریب میں آنے کا وعدہ کیا تو ہم دونوں ان سے اجازت لے کر خوش خوش ان کے دفتر سے نکل آئے۔

رات کو عرفان صدیقی، آج ٹی وی کے سید جاوید اقبال اور جیو نیوز کے سینئر کرائم رپورٹر افضل ندیم ڈوگر کے ساتھ ان کے ایک دوست نجم عالم جو واٹر اینڈ سیوریج کے اعلیٰ افسر ہیں سے ملاقات کی جنھوں نے ہمارے لئے کراچی جم خانہ میں عشائیہ کا اہتمام کیا ہوا تھا اس موقع پر ان کے ایک اور دوست کرنل کاشف جو کراچی رینجرز کے کمانڈر بھی ہیں موجود تھے۔ جم خانہ کا نام کبھی لڑکپن میں سنا کرتا تھا80ء کی دہائی میں جب میں فیڈرل بی ایریا میں واقع ہٹاچی ٹیلیویژن بنانے والی کمپنی میں جاب کیا کرتا تھا تو میرے باس جو پارسی تھے اکثر جِم خانہ کا تذکرہ کرتے تھے اور میں اس وقت سے ہی کراچی جم خانہ کو اپنے سر پر سوار کر چکا تھا کہ وہاں پر بڑے بڑے لوگوں کا ہی گزر ہوتا ہے اور وہ لوگ ہی اندر جا سکتے ہیں جنکے پاس جم خانہ کی رکنیت ہو۔ کراچی جم خانہ کا نظم و ضبط دیکھ کر مجھے بہت حیرت اور خوشی ہوئی۔ جم خانے میں کئی ایک ریستوران تھے ہم ایک ریستوران میں داخل ہونے لگے تو گیٹ پر کھڑے باوردی ملازم نے ہم سب کو چیک کیا اور ہمیں اندر جانے سے منع کر دیا۔

ہم میں سے کسی ایک نے جینز کی پتلون پہن رکھی تھی تو اس نے کہا کہ یہاں جینز کی پتلون یا شلوار قمیض وغیرہ پہن کر آنا منع ہے اوراس ریستوران کے اپنے قواعد و ضوابط کے مطابق سوٹ یا نارمل پتلون اور شرٹ زیبِ تن کرنا ضروری ہے، اس کی بہت منتیں کیں مگر وہ نہ مانا اور بڑی تعظیم سے کہنے لگا کہ اگر میری نوکری تیل کروانا چاہتے ہیں تو پلیز تشریف لے آئیں !!!آج تک اس ریستوران کا ریکارڈ ہے کہ کوئی بھی گاہک یہاں جین یا دوسرے لباس میں داخل نہیں ہوا، مجھے سخت حیرت ہوئی کہ جم خانے کے ایک ریستوران کے اصول کتنے سخت ہیں اور اس پر بڑی ایمانداری سے عمل بھی کیا جاتا ہے اس سے قطع نظر کہ آنے والے کون ہیں ؟ کتنے اثر و رسوخ والے ہیں ؟، میزبان نجم عالم صاحب اور کرنل کاشف نے باوردی ملازم سے حجت نہیں کی اور نہ ہی اسے اپنی انا کا مسئلہ بنایا ورنہ نجم کہہ سکتے تھے کہ اچھا تو ہمیں منع کیا جا رہا ہے جاؤ کل سے کراچی جم خانے کا پانی بند اور کرنل کاشف کہتے کہ اچھا ہمیں روکا جا رہا ہے تو ہو جاؤ ہوشیار میں بھی رینجرز کا کمانڈر ہوں بلاؤ اپنے باس کو میں ان سے بات کرتا ہوں، افضل ڈوگر بھی کہہ سکتے تھے کیا تم ہمیں منع کر رہے ہو میں جیو نیوز کا کرائم رپورٹر ہوں کیا سمجھے!!!لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے دوسرے ریستوران کا رُخ کیا جہاں جین والوں اور روایتی لباس پہن کر آنے والوں کو بھی داخل ہونے کی اجازت تھی۔ کراچی جم خانے کی عمارت قائدِ  اعظم کے زمانے کی تھی اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی تھی میرا خیال ہے کہ اس کی تبدیلی اس لئے نہیں کی گئی تھی کہ ہماری قوم اسے اپنا تاریخی ورثہ سمجھتی ہے اور اس میں ردو و بدل یا اس کی جگہ نئی عمارت نہیں بنانا چاہتی بلکہ ہماری قوم اس قابل ہی نہیں رہی کہ وہ اپنے طور پر کوئی خوبصورت عمارت یا کوئی ایسی یادگار بنائیں جسے دیکھ کر لوگ انگریزوں اور ہندوؤں کی بنائی ہوئی عمارتیں اتنے رشک سے نہ دیکھیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ قیامِ پاکستان کے بعد ہمارے پورے ملک میں ریل کی وہی پٹریاں پڑی ہوئی ہیں، ریل گاڑی کے انجن بھی وہی ہیں اور بوگیاں بھی وہی ہیں بلکہ اسٹیشن تک وہی ہیں کوئی نیا اسٹیشن نہیں بن سکا کوئی نئی پٹری نہیں ڈالی گئی، اسی طرح سرکاری اسکول اور ہسپتالوں کی پیلی عمارتیں وہی چل رہی ہیں، کسی پاکستانی کے دل میں نہیں آتا کہ اپنا ملک ہے اسے خوبصورت بنایا جائے، ہر بات حکمرانوں، سیاستدانوں اور حکومتوں پر چھوڑی ہوئی ہے مگر خود کچھ نہیں کرنا، عوام کو صرف اپنے گھروں سے دلچسپی ہے اپنے گھروں کو خوبصورت بنانا ان کا مقصدِ حیات ہے باقی گلی، محلہ، شہر، ضلع، صوبہ اور ملک بھاڑ میں جائے وہ سب حکومت کے کام ہیں، ہم یہ نہیں سوچتے کہ حکومت میں جانے والے اور سیاست کرنے والے بھی ہم میں سے ہی ہیں وہ بھی ہمارے معاشرے کا ایک حصہ ہیں ان کی بھی وہی سوچ ہے جو ہماری سوچ ہے۔ ہمارے ملک کی بد نصیبی یہ ہے کہ یہاں کام کرنے والے کم اور حکم چلانے والے ذہین زیادہ ہیں اور کوئی بھی ملک ذہین یا حکم چلانے والے افسران سے نہیں بلکہ کند ذہن مگر دل جمعی سے کام کرنے والوں کی وجہ سے ترقی کی منازل طے کرتا ہے۔ کراچی جم خانہ کی عمارت کے اندرونی و بیرونی حصے بھی پرانے زمانے کے تھے مگر اس کی ایک منفرد شان تھی جس نے مجھے بہت متاثر کیا۔ نجم عالم صاحب کے حکم پر انواع و اقسام کے کھانے دستر خوان پر سلیقے سے چُن دئے گئے۔ کھانے کے بعد ہم نے کچھ یادگار تصاویر بھی بنوائیں اور آج رات سال2012ء کی آخری رات تھی افضل ڈوگر نے کہا کہ حالات کبھی بھی بگڑ سکتے ہیں کوشش کریں کہ جلد از جلد اپنے اپنے ٹھکانوں پر پہنچ جائیں۔ عرفان صدیقی نے اپنی لگژری کار میں مجھے ہوٹل تک ڈراپ کر دیا، ہوٹل میں اپنے کئی دوستوں سے ملاقات بھی کی۔ رات کو بارہ بجے کے بعد کراچی میں ہونے والی فائرنگ کی آوازیں ہوٹل کے کمرے تک سنائی دیتی رہیں اور صبح معلوم ہوا کہ اس فائرنگ سے تقریباً آٹھ افراد لقمۂ اجل بن چکے تھے اور نئے سال کا پہلا دن ان بد نصیبوں کی زندگیوں کا آخری دن ثابت ہوا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

صبح سویرے عرفان صدیقی کا فون آیا کہ آج شام کو تقریبِ رونمائی سے پہلے کراچی پریس کلب کی جانب سے ظہرانے میں شرکت کرنی ہے اور چار بجے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد سے ملاقات کا وقت بھی طے کر لیا گیا ہے اور میری درخواست پر ان سے ملاقات میں ملک افضل، افضل چیمہ، جاوید اختر بھٹی، اصغر حسین اور الطاف غفار کا نام بھی گورنر ہاؤس میں دے دیا گیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد ہی لاہور سے ملک افضل صاحب کا فون آیا کہ وہ اپنے ساتھی علامہ افتخار احمد کے ساتھ کراچی ایئرپورٹ تقریباً تین بجے پہنچیں گے انھیں بھی میں نے کراچی پریس کلب آنے کا کہہ دیا۔ اردو نیٹ جاپان کے بیورو چیف پاکستان اور معروف اصلاحی کالم نگار جاوید اختر بھٹی صاحب نے فون کیا کہ وہ بھی لاہور ایئرپورٹ پر علامہ طاہر القادری صاحب جو ایم کیو ایم  کے جلسے میں شرکت کے لئے کراچی آرہے ہیں کے ساتھ ہی موجود ہیں اور امید ہے کہ دو بجے تک کراچی پہنچ جائیں گے۔ چوہدری افضل چیمہ کو فون کیا تو انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد میں موسم کی خرابی کی وجہ سے ان کی فلائٹ میں تاخیر ہو چکی ہے لہٰذا وہ کراچی پہنچتے ہی دوبارہ رابطہ کریں گے اور انشا اللہ تعالیٰ سیدھے آرٹس کونسل کراچی پہنچیں گے۔ ملک افضل صاحب جو کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں وہ گزشتہ ایک ماہ سے پاکستان کے دورے پر تھے اور اپنی والدۂ محترمہ کی طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے زیادہ وقت گجرانوالہ میں ہی گزار رہے تھے۔ میں نے انھیں جب جاپان سے نکلنے سے پہلے فون کیا کہ کراچی میں ’’دیس بَنا پردیس‘‘ کی تقریبِ رونمائی میں آپ ضرور تشریف لائیں تو انھوں نے میری درخواست پر کہا کہ ناصر بھائی آپ ہمیں جہاں بھی بلائیں گے ہم وہاں پہنچیں گے اور وعدہ کیا کہ وہ یکم جنوری کو اپنے سارے پروگرامز ملتوی کر کے کراچی آرہے ہیں، اسی طرح افضل چیمہ جو کئی ماہ سے اپنی جاپانی فیملی کے ساتھ اسلام آباد میں مقیم ہیں تو انھوں نے بھی میری درخواست پر کراچی آنے کا وعدہ کر لیا، افضل چیمہ گِفو پریفیکچر میں مقیم ہیں اور گاڑیوں کے کاروبار سے وابستہ ہیں اور ان سے میری دوستی گزشتہ بائیس برس سے ہے، انھوں نے اپنی فیملی کو جاپان سے اسلام آباد شفٹ کر دیا ہے اور خود گاہے بگاہے جاپان سے اسلام آباد آتے جاتے رہتے ہیں، افضل چیمہ نے کہا کہ وہ صرف اپنے بچوں کی اسلامی تعلیم و تربیت اور پاکستانی کلچر سے واقفیت کی خاطر اسلام آباد میں شفٹ ہوئے ہیں، بلکہ ان کا خیال ہے کہ ہم سب پاکستانیوں کو چاہئے کہ اپنے بچوں کو پاکستان میں ابتدائی تعلیم دلوانے کا بندوبست کریں کیونکہ ہماری جڑیں پاکستان میں ہیں اور ہمیں اپنے بچوں کو پاکستان سے دور رکھنے کی بجائے اس کے قریب کرنا ضروری ہے اور ہمیں ان کے اچھے مستقبل کے لئے کچھ قربانی دینا ہو گی، انھوں نے یہاں تک بھی اعلان کر رکھا ہے کہ جاپان میں مقیم جو بھی پاکستانی اپنی فیملی کو اسلام آباد شفٹ کرنا چاہے تو وہ بلا تکلف ان سے رابطہ کریں وہ ان کی ہر طرح سے مدد کرنے کو تیار ہیں۔

میں نے یکم جنوری کی صبح سویرے اپنے لڑکپن اور کالج کے دوست وحید نیازی سے رابطہ کیا اور ڈرائیور کے ساتھ کوئی پندرہ برس بعد اپنے آبائی علاقے لانڈھی پہنچ گیا اور تھوڑی دیر وہاں گھوما پھرا مگر مجھے کسی نے نہیں پہچانا اور نہ ہی میں کسی کو پہچان سکا۔ وحید سے رابطہ کیا اور اس کے ساتھ اپنے ایک اور پرانے دوست ایوب سے ملنے گئے۔ وحید نے بتایا کہ ایوب ایک بہت بڑا اسکول چلا رہا ہے اور وہ پیشے کے لحاظ سے پروفیسر بن چکا ہے، میری اس سے ملاقات اٹھائیس سال کے بعد ہونے والی تھی۔ ہم ایوب کے گھر پہنچے تو ہمیں ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا گیا، تھوڑی ہی دیر میں ایک خمیدہ کمر کلین شیو بزرگ رونما ہوئے تو میں تعظیماً کھڑا ہو گیا اور ان کے کندھے پر فرمانبرداری سے ہاتھ رکھ کر انھیں سہارا دینے کے انداز میں صوفے پر بٹھانے لگا اور وحید سے کہا کہ دیکھ کر ہی معلوم ہوتا ہے کہ ایوب کے والدِ محترم ہیں۔ وحید نے زور دار قہقہہ لگایا اور کہنے لگا ابے یہ ایوب ہے !!!!اور پھر وہ بزرگ جنھیں میں ایوب کا والد سمجھ چکا تھا وہ بھی ہمارے قہقہوں میں شامل ہو گئے۔ اٹھائیس سال میں انسان اتنا تبدیل ہو جاتا ہے مجھے بڑی حیرت ہو رہی تھی کی ایوب بھی ہماری ہی عمر کا تھا لیکن وہ بہت عمر رسیدہ دکھائی دے رہا تھا وہ شروع سے ہی کم گو اور سنجیدہ انسان تھا۔ گزشتہ پچیس سالوں کی یادیں پچیس منٹ میں تازہ کیں اور انھیں بھی آج کی تقریب کی دعوت دے کر واپس ہوٹل آگیا۔

 دوپہر کو عرفان صدیقی اور افضل ندیم ڈوگر مجھے ہوٹل لینے کے لئے آ گئے اور عرفان صدیقی کے حکم پر میں نے ہوٹل سے چیک آؤٹ کر لیا اور اپنا سامان عرفان صدیقی کی گاڑی میں رکھ کر کراچی پریس کلب کی طرف روانہ ہو گئے جہاں سید جاوید اقبال نے ہمارا شاندار استقبال کیا اور کراچی پریس کلب کے صدر امتیاز خان فاران، نائب صدر سبزواری اور جنرل سیکریٹری عامر سعید سے میرا تعارف کروایا گیا۔ کراچی پریس کلب کی جانب سے کمیٹی روم میں ہمارے لئے دوپہر کے کھانے کا اہتمام کیا گیا۔ ابھی دوپہر کے کھانے سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ جاوید اختر بھٹی، ملک محمد افضل اور اصغر حسین بھی آ گئے۔ تھوڑی دیر بعد میرے بچپن کے دوست صلاح الدین کا بھی فون آگیا کہ وہ کراچی پریس کلب پہنچ گیا ہے۔ صلاح الدین میرے بچپن کا دوست ہے، جب میں اور صلاح الدین اپنے ماؤں کی گود میں ہو ا کرتے تھے چلنے پھرنے کے قابل ابھی نہیں ہوئے تھے یعنی ابھی چلنا سیکھا ہی نہیں تھا جب سے ہماری دوستی ہے یہ اڑتالیس سال کی دوستی آج بھی قائم ہے، گزشتہ25 سالوں میں صلاح الدین سے آج تیسری ملاقات ہوئی تھی آخری ملاقات پندرہ سال قبل ہوئی تھی، صلاح الدین کا گھر میرے گھر کے سامنے والے گھر کے برابر میں ہوا کرتا تھا، ہم نے ایک ساتھ ہی ہوش سنبھالا اور ایک ساتھ ہی احسان کے جی نرسری میں داخل ہوئے اور پھر پیرس پرائمری اسکول میں بھی ایک ساتھ داخل کئے گئے ہماری کلاس میں مصطفی عزیز آبادی جو آجکل ایم کیو ایم کے بانی الطاف بھائی کا دستِ راست ہے وہ اور اس کے بڑے بھائی مرتضیٰ ہمارے کلاس فیلو ہوا کرتے تھے۔ پرائمری کے بعد ہمارے اسکول جدا ہو گئے مگر ایک ہی محلے میں رہنے کی وجہ سے دوستی برقرار رہی، صلاح الدین وزارتِ مذہبی امور میں طویل عرصے سے خدمات انجام دے رہا ہے جس کی وجہ سے اسے کئی بار حج کی سعادت نصیب ہو چکی ہے اور بار بار حج کرنے کی وجہ سے وہ ظاہری طور پر اب حاجی ہی لگتا ہے، وہ کراچی پریس کلب پہنچا تو میں اسے نیچے لینے کے لئے آیا، وہ سامنے ہی کھڑا تھا مگر میں نہ پہچان سکا تو اس نے مجھے آواز دی۔ اوئے ناصر!!ادھر۔ ۔ اور میں بھاگ کر اس سے بغلگیر ہو گیا صرف پندرہ سالوں میں وہ اتنا بدل گیا تھا ؟ میں نے فوراً پوچھا کہ کیا وزارتِ مذہبی امور میں لوگ ایسے ہو جاتے ہیں ؟ بالکل ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی بیمار بچوں پر دم پڑھ کر پھونکنے والے باباجی۔ تو صلاح الدین نے کہا کہ جاب ہی ایسی ہے کہ ہر دو سال کے بعد حج پر جانا پڑ جاتا ہے لہٰذا اب کوشش کر رہا ہوں کہ حلیہ اور چال ڈھال سے بھی حاجی نظر آؤں، صلاح الدین نے بچپن کی یادیں تازہ کیں اور دیگر دوستوں کے بارے میں بتانے لگا کہ یار اپنی گلی سے صرف چند لڑکوں نے ترقی کی ہے جس میں تُو نمبر ون ہے، دوسرے نمبر پر بھی تیرا ہمنام ناصر اقبال ہے جو اردو کالج میں اب پروفیسر ہے، مصطفی عزیز آبادی ہے جسے کون نہیں جانتا، ارشد جاوید ہے جو سول ایوی ایشنا تھارٹی میں ایک بڑا فسر ہے، مجھے اپنے علاقے لانڈھی پر فخر ہے کہ یہاں کے کئی لوگ عالمی شہرتِ یافتہ ہو گئے ہیں، میں نے کہا کہ تُو نے بھی بہت ترقی کی ہے متعدد بار حج کر چکا ہے یقیناً اندر سے بھی حاجی ہو گا اور ہم سب تیرے پیچھے ہیں تُو ہم سب سے آگے ہے اور نمبر ون ہے۔ صلاح الدین سے باتیں کرتے ہوئے وقت کا پتا ہی نہ چلا اور میں اس کے ساتھ باتیں کرتا ہوا اسے بھی کراچی پریس کلب کے کمیٹی روم میں لے آیا۔

 عامر سعید نے بتایا کہ کراچی پریس کلب کے تیرہ سو ارکان ہیں اور ہر سال صدر، نائب صدر اور جنرل سیکریٹری کے لئے انتخابات ہو تے ہیں، کراچی پریس کلب کی قدیم عمارت انگریزوں کے دور کی بنی ہوئی ہے مگر اندر سے اس کا رنگ و روغن کئی بار کیا گیا اور اس وقت بھی کسی ادارے کی طرف سے عمارت کی مکمل طور پر مرمت کی جا رہی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ کراچی پریس کلب کی یہ اہمیت ہے کہ یہاں پر کسی فوج، پولیس یا قانون نافذ کرنے والوں کو اندر آنے کی اجازت نہیں اور یہ پریس کلب کا ریکارڈ ہے آج تک پریس کلب کی انتظامیہ کی اجازت کے بغیر کوئی فوج، پولیس یا دیگر ایجنسی کے لوگ اندر داخل نہیں ہوئے ہیں اور نہ ہی اس عمارت کے احاطے سے آج تک کسی کو گرفتار کیا گیا ہے۔ عامر سعید نے بتایا کہ ہر سال انتظامیہ بذریعہ انتخابات تبدیل ہوتی ہے اور اس سلسلے میں کبھی بھی کوئی بد مزگی پیدا نہیں ہوتی، اس کے عہدیدار رضاکارانہ طور پر ایک سال کے لئے کام کرتے ہیں جبکہ کچھ اسٹاف تنخواہ دار بھی ہے جس کی تنخواہیں پریس کلب کی طرف سے ہی ادا کی جاتی ہیں، کراچی پریس کلب میں کسی بھی قسم کی پریس کانفرنس یا کوئی اور تقریب کے انعقاد کے لئے ایک مخصوص فیس مقرر کی گئی ہے، اور ہر روز یہاں دو یا تین تقریبات منعقد ہوتی ہیں اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے ہی یہاں کے اخراجات پورے کئے جاتے ہیں۔ اسی اثناء میں پاکستان کے مشہور و معروف اینکر پرسن عزیز بختیار بھی تشریف لا چکے تھے اور عرفان صدیقی نے ان سے بھی میرا تعارف کروایا اور ہم سب نے ان کے ساتھ چائے پی۔ کراچی پریس کلب کی سیر کے بعد گروپ تصاویر بھی بنائی گئیں۔ گورنر سند ھ ڈاکٹر عشرت العباد خان صاحب سے ساڑھے چار بجے ملاقات کا وقت طے تھا مگر اسی روز کراچی میں متحدہ کے مرکز نائین زیرو پر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب بھی تشریف لا رہے تھے جس کی وجہ کراچی کے حکومتی و سیاسی حلقوں میں بڑی گہما گہمی تھی اور اسی وجہ سے گورنرسے ملاقات کے وقت میں تبدیلی کا عندیہ ملا کہ ملاقات کا وقت آٹھ بجے تک کر دیا گیا ہے۔ کراچی پریس کلب کے بعد نزدیک ہی واقع آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی عمارت میں ’’دیس بَنا پردیس ‘‘کی تقریب کا وقت شام پانچ بجے مقرر تھا ہم سب وہاں پہنچے تو کئی مہمان پہلے سے ہی تشریف لا چکے تھے اور مسلسل آرہے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہال لوگوں سے بھر گیا مجھے خیال آیا کہ صلاح الدین کہاں رہ گیا، اسے فون کیا کہ کہاں ہے تو کہنے لگا کہ یار مجھے سردی لگ رہی ہے اور میں موٹر سائکل پر ہوں گھر جاتے ہوئے بہت سردی لگے گی تجھ سے کل ملاقات کروں گا کیونکہ میں روزانہ آفس موٹر سائکل سے ہی آتا ہوں، میں نے اسے مجبور کیا کہ تھوڑی دیر کے لئے آ جاؤ پھر چلے جانا، وہ آرٹس کونسل کے قریب ہی تھا فوراً آگیا میں نے اسے اپنی کتاب دستخط کے ساتھ دی اور اپنے سامان سے ایک اوورکوٹ جو میں جاپان سے نکلتے ہوئے پہن کر آیا تھا کیونکہ وہاں اُس وقت برفباری ہو رہی تھی میں نے وہ اوور کوٹ صلاح الدین کو اپنے ہاتھوں سے پہنایا جو اسے فِٹ آگیا اور کہا کہ یہ میری نشانی ہے، اب تقریب شروع ہونے والی ہے تھوڑی دیر بیٹھ کر یہ پہن کر چلے جانا سردی نہیں لگے گی، ہم دونوں کی آنکھوں میں آنسو تھے، میں نے دیکھا کہ وہ تقریب میں آخر تک بیٹھا رہا۔ سید جاوید اقبال نے سارے انتظامات بہترین طریقے سے کئے ہوئے تھے اسٹیج کے پیچھے میری کتاب’’ دیس بَنا پردیس ‘‘کا ایک بہت بڑا بینر آویزاں تھا جو دور سے ہی نمایاں نظر آ رہا تھا۔ کئی دوست جو پہلے سے ہی جاپان سے کراچی آئے ہوئے تھے جن میں نشی ٹریڈنگ کے چیئرمین اصغر حسین، پاکستان ایسوسی ایشن جاپان کے جنرل سیکریٹری الطاف غفار، کار جنکشن کے چیئرمین چوہدری شعیب، معروف کرکٹر ممتاز عالم، عاشق حسین، چوہدری عظیم، شاہد سلطان، ہاشم بھائی وغیرہ شامل تھے اس کے علاوہ عرفان بھائی، ندیم قریشی، عرفان بیگ، شہباز ہاشمی، حبیب الرحمان نقوی، حماد چوہدری، جاوید عباس، کلیم خان، وسیم خان، سید اعظم شاہ، اعجاز خان، تنویر جمال، طاہر نقوی، وکیل فاروقی، طارق یٰسین، پروفیسر عامر علی خان، ملک محمد افضل، چوہدری افضل چیمہ، جاوید اختر بھٹی، رفیع اللہ رضا، صلاح الدین، عمران بیگ، ممتاز علی، رضوان بیگ، جمیل اختر، وحید نیازی، دانش وحید وغیرہ بھی تقریب میں شرکت کے لئے پہنچ چکے تھے۔ اس تقریب کے مہمانِ خصوصی سندھ کے سابق صوبائی وزیر رؤف صدیقی، محمود شام، پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل، لطیف اقبال، خان ظفر افغانی، امتیاز خان فاران صاحب تھے جو ٹھیک چھ بجے ہال میں پہنچے تو تقریب کا آغاز تلاوتِ کلام پاک سے کیا گیا۔ تقریب کی نظامت کراچی کے معروف کمپیئر اور سینئر صحافی سردار خان صاحب نے کی۔ اس موقع پر مقامی طور پر بھی کئی معروف شخصیات اور مختلف اخبارات و ٹی وی چینلز کے رپورٹرز اور صحافیوں نے بھی شرکت کی۔ عرفان صدیقی نے مائک پر تمام مہمانوں سے میرا مکمل تعارف کروایا اور ان کی آمد کا شکریہ ادا کیا۔ تمام مقررین نے ’’دیس بَنا پردیس‘‘ پر مختصر تبصرہ کرتے ہوئے میری حوصلہ افزائی کی۔ محمود شام صاحب نے جو پہلے سے ہی ایک مکمل تبصرہ لکھ کر ساتھ لائے تھے وہ پڑھا اور حاضرین سے خوب داد وصول کی۔ انھوں نے میری کتاب کے کئی ایک مضامین کے اقتباسات پڑھ کر ان پر تبصرہ کیا اور مجھے حیرت ہوئی کہ اتنے مختصر وقت میں انھوں نے کس طرح اتنے مضامین بغور پڑھے اور ان پر اپنا جامع تبصرہ کیا۔ رؤف صدیقی صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اوراس موقع پر’’دیس بَنا پردیس ‘‘کی پچاس جلدیں خرید کر اپنے دوستوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا، رؤف صدیقی صاحب گو کہ سابق وزیر تھے مگر جب وہ آرٹس کونسل پہنچے تو آن ڈیوٹی وزیر سے بھی زیادہ پروٹوکول کے ساتھ پہنچے، رؤف صدیقی صاحب خود بھی ایک منجھے ہوئے لکھاری ہیں اور ان کی ایک کتاب ’’تاریخِ بیت اللہ‘‘ میں جاپان میں پڑھ چکا ہوں مگر ان سے ملاقات کا شرف آج حاصل ہوا تھا۔ تقریب شام آٹھ بجے تک جاری رہی اور تمام مہمانوں کے لئے جاوید اقبال نے ہلکے پھلکے ریفریشمنٹ کا اہتمام بھی کیا ہوا تھا۔ تقریب کے اختتام پر میں نے اپنے دستخطوں کیساتھ مہمانوں کو اپنی کتاب پیش کی تو دیگر مہمانوں نے مجھے گھیر لیا اور مجھے مبارکباد پیش کرنے لگے ساتھ ہی ساتھ میری کتاب پر میرے دستخط کرواتے رہے کتابیں کم پڑ گئیں تو کئی مہمانوں نے میرے تعارفی کارڈ پر ہی مجھ سے دستخط کروائے اور میرا شکریہ ادا کیا۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے میں کوئی سپر اسٹار ہوں اور اپنے پرستاروں میں گھرا ہوا ہوں۔ دور کہیں سے عرفان صدیقی مجھے بلا رہا تھا کہ جلدی کرو گورنر سے ملاقات کا وقت ہو رہا ہے مگر مجھے کوئی ہوش ہی نہ تھا کوئی ادھر سے کھینچ رہا تھا اور کوئی دوسری طرف سے، عرفان صدیقی نے مجھے قریب آ کر تقریباً کھینچتے ہوئے کہا کہ جلدی کرو بھائی آٹھ بج چکے ہیں اور مجھے ایک گاڑی میں زبردستی بٹھا لیا اور مجھے اتنا وقت بھی نہ مل سکا کہ سب دوستوں سے آخری ملاقات بھی کر پاتا۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم سب جن میں افضل ڈوگر، جاوید اقبال، اصغر حسین، ملک افضل، افضل چیمہ، شاہدسلطان، افتخار احمد اور جاوید اختر بھٹی شامل تھے گورنر ہاؤس کے مرکزی دروازے پر پہنچے تو ہماری شناخت کی گئی اور ہمیں اندر جانے کی اجازت مل گئی۔ گورنر ہاؤس کے دفتر کے قریب ہی گورنر کے محافظوں نے ایک بار پھر ہماری شناخت کی تصدیق کی اور گورنر ہاؤس کے میٹنگ روم میں ہمیں بٹھادیا گیا۔ کمرے میں دونوں طرف کرسیاں لگی ہوئی تھیں اور سامنے گورنر صاحب کی کرسی تھی اور اس کے عقب میں قائد اعظم و دیگر رہنماؤں کی تصاویر آویزاں تھیں اور شیلف میں مختلف کتابیں سجی ہوئی تھیں۔ باوردی ملازموں نے گورنر صاحب کی آمد سے پہلے ہمیں سینڈ وچ اور مٹھائی پیش کی اور چند ہی لمحات کے بعد ایک خوبرو اور با رعب شخصیت کمرے میں داخل ہوئی اور ہم سب ان کے احترام میں کھڑے ہو گئے۔ گورنر ڈاکٹر عشرت العباد خان صاحب نے اپنی کرسی پر براجمان ہونے سے پہلے ہمیں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور تمام مہمانوں کے لئے چائے کا حکم دیا۔ گورنر صاحب ہمارے ساتھ ہی چائے پیتے رہے اور گفتگو بھی کرتے رہے انھوں نے جاپان کے بارے میں معلومات لیں اور ہم سب کا شکریہ بھی ادا کیا، اس موقع پر اصغر حسین، ملک افضل اور افضل چیمہ نے انھیں جاپان میں مقیم پاکستانی کاروباریوں کو گاڑیوں کی تجارت سے متعلق درپیش مسائل سے آگاہ کیا تو انھوں نے ان کی باتیں بڑے انہماک سے سنیں اور یقین دہانی کروائی کہ وہ اس سلسلے میں متعلقہ وزارت اور دیگر محکموں تک ان کی شکایات پہنچائیں گے۔ گفتگو کے دوران ہی انھوں نے اس سلسلے میں دو مختلف وزارتوں کے سیکریٹری سے فون پر بات بھی کی۔ گورنر صاحب کو بتایا گیا کہ ہم سب آج ’’دیس بَنا پردیس‘‘ کی تقریبِ رونمائی کے لئے آرٹس کونسل گئے تھے اور وہیں سے آرہے ہیں، میں نے گورنر صاحب کو اپنی کتاب پیش کی تو انھوں نے بڑی دلچسپی سے اسے دیکھا اور کہا کہ ٹائٹل سے ہی یہ ایک دلچسپ اور معلوماتی کتاب لگتی ہے انھوں نے مجھے مبارکباد پیش کی اور اپنے ذاتی فوٹو گرافر کو بلوا کر ہم سب کے ساتھ یاد گار تصاویر بھی بنوائیں۔ عرفان صدیقی اور افضل ڈوگر نے گورنر صاحب کا شکریہ ادا کیا کہ پنی مصروفیت سے انھوں نے ہمارے لئے وقت نکالا۔ ان کی مصروفیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا تھا کہ گفتگو کے دوران دو مرتبہ صدرِ پاکستان زرداری صاحب کا فون آیا اور وہ فون سننے کے لئے برابر والے کمرے میں گئے۔ عرفان صدیقی کی قیادت میں ہمارے وفد نے ان سے تقریباًِِ چالیس منٹ نشست کی، واپسی پر گورنر صاحب نے2013ء کی گورنر ہاؤس کی ڈائری کا تحفہ بھی دیا۔ اور ہم سب نے گورنر ہاؤس سے ہی ایک دوسرے کو رخصت کیا، عرفان صدیقی مجھے اپنے گھر لے گیا جہاں ان کی والدۂ محترمہ، والدِ محترم اور برادرِ خورد آئی ٹی انجینئر عدنان صدیقی نے مجھے خوش آمدید کہا۔ عرفان صدیقی کے والدین سے میری کئی بار ملاقات ہو چکی ہے ان کی والدۂ محترمہ اکثر جاپان بھی تشریف لاتی رہتی ہیں انھیں دیکھ کر مجھے اپنی ماں کی یاد آ جاتی ہے اور وہ بھی مجھے اپنے بیٹوں عرفان اور عدنان کی طرح ہی چاہتی ہیں اور مجھے ان کے گھر میں کوئی اجنبیت بھی محسوس نہیں ہوتی۔ عرفان مجھے دوسری منزل پر اپنے کمرے میں لے آیا جو اس نے اپنی فیملی کے لئے خصوصی طور پر تیار کیا ہے جہاں داخل ہوتے ہی مجھے محسوس ہوا کہ میں کسی محل میں آگیا ہوں، عرفان نے اپنی جاپانی فیملی کے لئے بہت ہی خوبصورت انداز سے اوپر کا پورشن تیار کروایا ہے جہاں وہ سال میں ایک دو بارعید تہوار کے موقع پر آتے ہیں اور خوب انجوائے کرتے ہیں اور انھیں جاپان کی کمی محسوس نہیں ہوتی۔ ہم نے تھوڑا سا آرام کیا رات کے کوئی گیارہ بجے کے قریب عرفان کا موبائل بجا اور عرفان نے فون بند کر کے کہا کہ بھائی مسئلہ ہو گیا ہے۔ ۔ کیا ہوا؟؟؟؟ وہ محمود شام صاحب کا فون ہے کہ تم دونوں ابھی اور اسی وقت ڈیفنس پہنچو اور میرے ساتھ ڈنر کرو۔ محمود شام صاحب کا فون اور ڈنر پر دعوت، ہم کیسے انکار کر سکتے تھے۔ عرفان نے بتایا کہ محمود شام صاحب کہیں ڈنر پر مدعو ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ ہم دونوں بھی وہاں پہنچیں لہٰذا جلدی سے فریش ہو جاؤ اور چلو۔ رات کے ساڑھے گیارہ بجے ہم دونوں تیار ہو کر گھر سے نکلے، عرفان نے ڈرائیور کو منع کر دیا اور خود ہی گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے ڈیفنس کی طرف روانہ ہو گئے۔ عرفان کراچی میں بھی کار اسی طرح ڈرائیو کر رہا تھا جیسے جاپان میں بے دھڑک ڈرائیو کرتا ہے، مجھے پاکستان میں ڈرائیو کرنے سے بہت ڈر لگتا ہے مگر عرفان نے کہا کہ وہ جب کراچی آتا ہے تو زیادہ تر خود ہی ڈرائیو کرتا ہے اس لئے یہاں بھی ڈرائیو کرنے کا عادی ہے۔ رات کے بارے بج رہے تھے روڈ پر رونق تھی اور مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے میڈیا میں کراچی کے بارے میں غلط خبریں شائع ہوتی ہیں کہ یہاں کے حالات خراب ہیں اور آئے دن ٹارگٹ کلنگ وغیرہ ہوتی رہتی ہے اور سگنل پر کھڑی گاڑیوں کو گن پوائنٹ پر لوٹ لیا جاتا ہے مگر ہم کئی سگنل پر بھی کھڑے ہوئے اور کئی گاڑیاں ہمارے ساتھ ساتھ بھی کھڑی ہوئیں مگر کچھ بھی عجیب محسوس نہ ہوا اور نہ ہی کوئی واقعہ پیش آیا، بلکہ میں جب بھی پاکستان آیا ہوں تو کبھی بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا، اتنی خبریں پڑھ پڑھ کر مجھے بعض اوقات خواہش سی ہونے لگتی تھی کہ کاش کہ میرے ساتھ بھی کوئی واقعہ پیش آئے اور میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھ سکوں کہ دہشتگرد، ٹارگٹ کلر اور لٹیرے کیسے ہوتے ہیں ان کے حلیئے کیسے ہوتے ہیں مجھے انھیں دیکھنے کا بہت تجسس تھا، مگر میں ہمیشہ ہی کراچی سے اپنے ساتھ کوئی واقعہ نہ ہونے پر مایوس ہو کر جاپان لوٹ جاتا ہوں اور مجھے یقین سا ہونے لگتا ہے کہ یہ سب اخبارات اور میڈیا کے کام ہیں کہ ایک ادنیٰ سے واقعہ کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں اور لوگوں کو خوف میں مبتلا کر دیتے ہیں اللہ کرے کہ میرا یہ شک یقین میں بدل جائے کہ کراچی میں سکون ہو جائے۔ عرفان اور میں دونوں دن بھر کی مصروفیات، تقریب کی کاروائی اور گورنر سندھ سے ملاقات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے دیفنس کے ایک خوبصورت اور بہت بڑے بنگلے کے قریب پہنچے جہاں بنگلے کے باہرا سلحہ بردار چوکیدار بھی تھے اور کئی ایک بیش قیمت سرکاری و نجی گاڑیاں قطار سے آگے پیچھے کھڑی ہوئی تھیں، عرفان نے موبائل پر کسی سے رابطہ کیا اور اسلحہ بردار چوکیدار نے ہمیں مرکزی دروازے کے اندر سے گزرنے کی اجازت دے دی۔ راہداری میں ہم دونوں کا سندھ کے روایتی انداز میں استقبال کیا گیا اور بنگلے کے ایک کمرے کا بڑا سا دروازہ کھول کر ہمیں اندر بھیج دیا گیا۔ اس وسیع و عریض کمرے میں بچھے ہوئے دبیز قالین پر بیش قیمت صوفوں پر کئی لوگ براجمان تھے اور محوِ گفتگو تھے ہمارے اندر داخل ہوتے ہی سب ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہم دونوں نے باری باری سب سے مصافحہ کیا اور ایک خالی صوفے پر بیٹھ گئے۔ کمرے میں خوبصورت اور نادر اشیاء اور مصوری کے شاہکار نظر آرہے تھے اور ایک جہازی سائز جدید ٹی وی اونچی جگہ پر رکھا ہوا تھا جس میں کراچی کی سیاسی خبریں چل رہی تھیں۔ محمود شام صاحب بڑی شان سے ایک صوفے میں دھنسے ہوئے گفتگو کر رہے تھے اور باقی لوگ انھیں بڑے انہماک اور شوق سے سن رہے تھے، انھوں نے ہمارا تعارف بنگلے کے میزبان سے کروایا۔ میزبان ایس پی علی اصغر شاہ صاحب اور ان کے چھوٹے بھائی شاہجہاں شاہ صاحب تھے۔ ایس پی علی اصغر شاہ وزیرِ اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کے پرسنل اسٹاف آفیسر ہیں ان کے بھائی شاہجہاں شاہ صاحب پی پی پی میرپور کے نائب صدر ہیں، روزنامہ جہان پاکستان کے سینئر صحافی خان ظفر افغانی اور وزیرِ اعلیٰ سندھ کے پرسنل سیکریٹری علی حسن صاحب بھی موجود تھے۔ تعارف کے بعد میں اور عرفان بھی ان کی گفتگو میں شامل ہو گئے اور میں نے انھیں اپنی کتاب ’’دیس بَنا پردیس‘‘ تحفے میں پیش کی۔ جاپان کا ذکر چلا تو ایس پی صاحب نے ایک فون ملایا اور کسی کو وہاں آنے کی دعوت دی تو تھوڑی ہی دیر میں رفیق جاپان والا تشریف لے آئے جو ایک عرصہ جاپان میں رہ کر واپس کراچی منتقل ہو چکے ہیں اور اس وقت ان کا شمار کراچی کے بڑے بلڈرز میں ہوتا ہے اور وہ کئی عمارتوں کے مالک ہیں ان کا نام تو سنا ہوا تھا مگر آج ملاقات پہلی بار ہوئی۔ معلوم ہوا کہ موصوف جاپان میں مقیم پاکستان ایسوسی ایشن جاپان کے فنانس سیکریٹری امین سجن، جنرل سیکریٹری الطاف غفار اور سابق صدر شہزاد بہلم کے بھی قریبی دوست ہیں۔ تھوڑی دیر تک کراچی و ملک کے حالات پر گفتگو ہوتی رہی اور پھر میزبان صاحب کی طرف سے کھانے کی دعوت دی گئی تمام لوگ ڈائننگ ہال میں آ گئے۔ کھانے کی میز انواع و اقسام کی نعمتوں سے بھری ہوئی تھی اور دو ملازم مستقل گرما گرم روٹیاں اور دیگر لوازمات مہمانوں کو پیش کر رہے تھے۔ شاہ برادران سندھ کے بہت بڑے زمیندار اور وڈیرے ہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار کسی وڈیرے کو اتنی قریب سے دیکھا اور ان کے ہاں دعوت کھائی۔ شاہ برادران خوبصورت شخصیت کے مالک اور لمبے تڑنگے نوجوان تھے اور بہت ہی انکساری و خلوص سے پیش آرہے تھے۔ کھانے کے دوران میں سوچتا رہا کہ ملک میں وڈیرہ نظام، جاگیردارانہ نظام اور بیوروکریسی پر ہم جیسے لکھنے والے کتنا کچھ لکھتے ہیں اور اپنی تحریروں میں انھیں کتنا لتاڑتے ہیں اور آج ہم ان کی دعوت پر ان کے گھر میں بیٹھے ہوئے ہیں مجھے کچھ شرمندگی سی بھی محسوس ہو رہی تھی اور پھر خود ہی اپنے دل کو تسلی دی کہ نہیں یہ وہ وڈیرے یا بیوروکریٹ نہیں ہیں جن کے بارے میں ہم ایسا ویسالکھتے رہتے ہیں، تمام لوگ ایک جیسے تھوڑا ہی ہوتے ہیں، ان کی مہمان نوازی، انکساری، عاجزی اور خلوص نے مجھے بہت متاثر کیا، جس طرح میں ان سے متاثر ہوا ہوں اسی طرح دوسری عوام بھی متاثر ہو کر ہی انھیں ایوانوں تک لاتی ہو گی اور ضروری نہیں کہ تمام وڈیرے ایک جیسے ہی ہوں !!۔ اب میں نے تہیہ کر لیا تھا کہ آئندہ کبھی کسی وڈیرے یا بیورو کریٹ کے بارے میں سنی سنائی باتوں پر عمل کر کے ان کے خلاف نہیں لکھوں گا تاکہ مستقبل میں کبھی ایسی دعوت میں شرمندگی محسوس نہ کروں اور کھل کر لطف اندوز ہو سکوں۔ کھانے کے بعد میزبانوں نے بڑی عزت و احترام سے سندھی اجرکیں تمام مہمانوں کے گلے میں ڈالیں اور مصافحہ کیا۔ ( سندھی اجرک مجھے پہلے بھی جاپان میں سائیں سلیم شیرو نے پہنائی تھی مگر وہ تصویر کی حد تک ہی تھی بعد میں واپس لے لی گئی تھی)انھوں نے ہمیں خصوصی دعوت دی کہ اگر آپ لوگوں کے پاس وقت ہو تو کسی دن اپنا فارم دکھائیں گے جو کئی ایکٹر پر پھیلا ہوا ہے ہم نے ان سے پھر کبھی ان کے فارم کی سیر کرنے کا وعدہ کیا۔ تمام مہمانوں نے یکے بعد دیگرے ان سے اجازت لی اور وہ ہمیں باہر مرکزی دروازے تک الوداع کہنے آئے۔ ہم نے محمود شام صاحب اور میزبانوں کا شکریہ ادا کیا اور گھر کی طرف روانہ ہو گئے رات کے تین بج چکے تھے اور ہم دونوں عرفان کے عالیشان گھر تک بخیریت پہنچ گئے اور اس کے خوبصورت بیڈ روم میں لمبی تان کر سوگئے۔ صبح میں نے اور عرفان نے ماں جی کو پریشان کرنا مناسب نہ سمجھا اور ان کے کے ہاتھ کا ناشتہ کرنے کی بجائے باہر بازار جا کر حلوہ پوری اور چھولے کا ناشتہ کیا اور ایک مدت کے بعد اس طرح باہر ناشتہ کرنا اچھا لگا۔

آج کراچی میں میرا آخری دن تھا اور چوہدری شعیب سے ان کی رہائش گاہ پر ظہرانے کا وعدہ کیا ہوا تھا۔ میری درخواست پر دوپہر کو ڈیفنس میں واقع چوہدری شعیب کے بنگلے پر اصغر حسین، الطاف غفار، جاوید اختر بھٹی اور افضل ندیم ڈوگر بھی پہنچ گئے اور ہم سب کا چوہدری شعیب اور ان کے بھائی عظیم صاحب اور ساجد صاحب نے شاندار استقبال کیا، قیاس ہے کہ ڈیفنس کا یہ علاقہ مہنگا ترین علاقہ ہے۔ ہم سب ان کے بنگلے کے وسیع لان میں بیٹھے گپ شپ کرتے رہے اور تھوڑی ہی دیر میں چوہدری شعیب کے بڑے بھائی ڈاکٹر شفیق صاحب اور ان کے دوست ڈیفنس ہاؤسنگا تھارٹی کلینک کے روحِ رواں ڈاکٹر زبیر اور ڈاکٹر آصف بھی تشریف لے آئے۔ ڈاکٹر شفیق اور ڈاکٹر آصف جو گزشتہ سال جاپان میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لئے تشریف لائے تھے، سے ملاقات ہوئی تھی اور ان کے ساتھ بڑی اچھی نشست رہی تھی وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ چوہدری شعیب نے ہم سب کے لئے ایک پُر تکلف ظہرانے کا اہتمام کیا ہوا تھا اور کھانے کی میز پر چوہدری شعیب اور چوہدری عظیم نے تمام مہمانوں کی خوب مُدارت کی اور اپنے ہاتھوں سے مہمانوں کو سرو کرتے رہے۔ چائے کے بعد ہم سب نے چوہدری شعیب سے اجازت لی، اصغر بھائی نے جاوید اختر بھٹی صاحب کو کراچی ایئرپورٹ چھوڑنے کی ذمہ داری لی۔

میرے پاس جاوید اختر بھٹی صاحب، ملک افضل صاحب، افضل چیمہ اور حبیب الرحمان نقوی صاحب کو کراچی تقریب میں شامل ہونے پر ان کے لئے شکریہ کا الفاظ نہیں ہیں جو خصوصی طور پر ’’دیس بَنا پردیس‘‘ کی تقریب میں کراچی تشریف لائے تھے۔ عرفان نے بتایا کہ چار بجے جاپان کے قونصلیٹ جنرل سے ملاقات طے ہے اور وقت ہو رہا ہے۔

افضل ڈوگر، میں اور عرفان صدیقی جاپانی قونصلیٹ پہنچے تو دروازے پر پہرے داروں نے ہماری شناخت کے بعد ہمیں اندر جانے کی اجازت دے دی۔ سالِ نو کی چھٹیوں کی وجہ سے قونصلیٹ بند تھا اور کوئی عملہ بھی موجود نہ تھا، قائم مقام قونصلر جنرل جناب ماسا مِچی آبے صاحب نے ہمارا استقبال کیا اور ایک چھوٹے سے مہمان خانے میں ہم سے ملاقات کی۔ میں نے انھیں اپنی کتاب پیش کی تو بڑی شستہ اور رواں اردو میں کہنے لگے کہ آپ کی کتاب میں پہلے ہی پڑھ چکا ہوں اور کتاب کے بارے میں تبصرہ کرنے لگے کہ فلاں صفحے پر فلاں مضمون بہت اچھا ہے اور آپ نے جاپان کے کلچر کو بہت ہی خوبصورت انداز سے پیش کیا ہے اور جاپان آنے والوں اور وہاں رہنے والے پاکستانیوں کے بارے میں بہت ہی معلومات دی ہوئی ہیں۔ میں نے اپنی کتاب پر ان کے لئے جاپانی زبان میں ان کے نام کے ساتھ تاثرات لکھے تو وہ حیران رہ گئے اور بات چیت جاپانی میں کرنے لگے تو مزید حیران ہوئے اور کہنے لگے کہ مجھے یقین نہیں آ رہا کہ کسی جاپانی سے بات چیت کر رہا ہوں یا کسی پاکستانی سے تو میں نے کہا کہ بالکل اسی طرح مجھے بھی یقین نہیں آ رہا کہ آپ پاکستانی ہیں یا جاپانی، کیونکہ آپ کی اردو زبان کئی پاکستانیوں سے بھی زیادہ بہتر ہے جو اپنے آپ کو اردو دان سمجھتے ہیں۔ آبے صاحب نے بتایا کہ انھوں نے اردو زبان بہت پہلے سیکھی تھی اور وہ اردو زبان روانی سے بولنے کے ساتھ ساتھ لکھ اور پڑھ بھی سکتے ہیں۔

اردو ہماری مادری زبان ہے اس پر ہم جتنا فخر کریں کم ہے کیونکہ اردو شاید دنیا کی واحد زبان ہے جس میں دنیا کے کسی بھی ملک کی زبان کا تلفظ ادا کر سکتے ہیں جبکہ دنیا کی دیگر زبانوں میں یہ خصوصیت نہیں ہے مثلاً جاپانی زبان میں لام نہیں ہے جس کی وجہ سے بے شمار الفاظ ایسے ہیں جن کا جاپانی زبان میں تلفظ مل ہی نہیں سکتا، جاپانی زبان میں لندن کو روندون اور لانڈھی کو رانجی لکھا جائے گا۔ اسی طرح چینی، روسی و عربی زبانوں میں بھی تمام تلفظ نہیں ملتے۔ اردو زبان کی ایک اور خصوصیت جو میں نے نوٹ کی ہے وہ یہ کہ ایک چند سطور پر عبارت لکھی جائے تو پڑھنے والے کو معلوم ہو جائے گا کہ لکھنے والا مرد ہے یا عورت، جاپانی زبان میں معلوم کرنا مشکل ہے، اسی طرح اردو زبان میں ماموں، پھوپھا، چچا، تایا، خالو ہوتے ہیں اور ان القابات سے معلوم ہو سکتا ہے کہ چچا باپ کے چھوٹے بھائی کو اور تایا بڑے بھائی کو کہتے ہیں پھوپھا اور خالو کون ہوتے ہیں اور یہ ہستیاں کن خصلتوں کی مالک ہوتی ہیں وہ بھی معلوم ہو جاتا ہے۔ جاپانی زبان یا انگریزی زبانوں میں جب تک تفصیلات نہ بتائی جائیں تو معلوم نہیں ہو سکتا کیونکہ مذکورہ بالا رشتوں کے لئے ایک ہی لفظ ہے جاپانی میں اوجی ساں اور انگریزی میں انکل۔ یہاں ایک بات اور بتاتا چلوں کہ ماموں، چچا اور تایا کنوارے یعنی غیر شادی شدہ بھی ہو سکتے مگر پھوپھا اور خالو کے لئے ان کا زندگی میں ایک بار شادی شدہ ہونا لازمی ہے لہٰذا آپ کسی کنوارے یا غیر شادی شدہ کو پھوپھا یا خالو نہیں کہہ سکتے اسی طرح کسی خاتون کو ممانی، چچی یا تائی نہیں کہا جا سکتا جب تک یہ تصدیق نہ ہو جائے کہ وہ شادی شدہ ہیں۔ اردو زبان میں ایک اور جو خوبی پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ دنیا کی ہر بے جان چیز کو اردو زبان مونّث اور مذکر سے واضح کرسکتی ہے۔ مثلاً ٹرک، ٹریکٹر، مکان، میدان، ڈبہ، مکھن، پراٹھا، ترازو، کباب، دفتر وغیرہ مذکر ہیں جبکہ، بس، چھتری، پینسل، روٹی، ٹرین، ٹرالی، شراب وغیرہ مُونّث ہیں اور اردو بولنے والا کسی بھی چیز کا نام لے گا تو دوسرے کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ جس چیز کا نام لے رہا ہے وہ مذکر ہے یا مُونّث۔ تاہم یہ شرط ہمارے پٹھان بھائیوں پر عائد نہیں ہو گی انھیں آزادی ہے کہ وہ بولنے میں مذکر کو مُونّث بھی بنا سکتے ہیں۔

 آبے صاحب نے بتا یاکہ نئے سال کی چھٹیوں کی وجہ سے عملہ کم تھا جس کی وجہ سے وہ تقریبِ رونمائی میں شرکت نہ کر سکے، ماسا مِچی صاحب سے کراچی کے موجودہ حالات پر تبادلۂ خیال کیا۔ آبے صاحب کا نام ماسا مِچی ہے جس کا اردو میں مطلب سیدھا راستہ یا صراطِ مستقیم ہے۔ میں نے ماسا مِچی صاحب سے درخواست کی کہ ہمارے ساتھ چند یادگار تصاویر بنوائیں تو انھوں نے کچھ تکلف کے بعد اجازت دے دی اور اپنے گریبان کے بٹن وغیرہ درست کر لئے۔ بعد میں جب میں نے وہ تصویریں دیکھیں تو مجھے ایسا لگا جیسے میں نے انھیں یرغمال بنا کر یا انھوں نے مجھے یرغمال بنا کر یا ہم سب کو کسی اور نے یرغمال بنا کر زبردستی تصویریں اتاری ہیں، ماسا مِچی آبے صاحب سے بڑے اچھے ماحول میں گفتگو ہوئی اور میں نے محسوس کیا کہ ان کی حسِ مزاح بہت اچھی ہے اور وہ بھی پاکستانیوں کے مزاج کو سمجھتے ہیں۔ انھوں نے ہمارے لئے کراچی کی خاص سوغات گلاب جامن اور رس گلّے کے تحفوں کا اہتمام کیا ہوا تھا جو خوبصورت پیکنگ میں تھے۔ ہم سب نے ماسا مِچی آبے صاحب کا شکریہ ادا کیا اور ان سے اجازت لی، آبے صاحب خود ہمیں مرکزی دروازے تک چھوڑنے آئے۔ افضل ڈوگر کا میں نے بہت شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے میرے تین روزہ قیام کے دوران اپنا قیمتی وقت نکال کر اور اتنے اچھے پرگرام ترتیب دئے۔ میں عرفان کے ساتھ گھر واپس آگیا اور ماں جی سے اجازت لے کر عرفان کے ساتھ ایئرپورٹ روانہ ہو گیا، عرفان نے ایئرپورٹ تک مجھے الوداع کہا اور چند دنوں بعد جاپان واپس آنے کا وعدہ کر کے رخصت ہو نے لگا تو میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور پورٹر کے ساتھ ایئرپورٹ کی عمارت میں داخل ہو گیا۔ گزشتہ تین روز میں جتنی تیزی سے اور جتنے پروگرامز کامیاب ہوئے اور سینکڑوں لوگوں سے ملاقاتیں ہوئی ان سب میں عرفان صدیقی نے میری بہت مدد کی اور کئی نامور لوگوں سے ملاقات کا اہتمام بھی کیا، عرفان صدیقی کو اللہ تعالیٰ نے نوجوانی میں ہی اتنی ترقی و عزت دی ہے کہ لوگوں کو اس مقام تک پہنچنے کے لئے پوری ایک زندگی صرف کرنا پڑتی ہے پھر بھی وہ اس مقام تک نہیں پہنچ پاتے، اللہ تعالیٰ نے عرفان صدیقی کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے، عرفان صدیقی وسیع القلب اور مخلص انسان ہے جس کی دوستی پر مجھے ناز ہے۔ جس طرح وہ جاپان میں معروف ہے اسی طرح پوری دنیا اور کراچی میں بھی اپنی تحریروں کی وجہ سے بہت معروف ہے، حال ہی میں عرفان صدیقی نے روزنامہ جنگ میں باقاعدہ کالم نگاری کا آغاز بھی کر دیا ہے اور اس کے چند ایک ہی مضامین شائع ہونے کے بعد اسے دیگر سینئر کالم نگاروں میں شمار کیا جانے لگا ہے۔

واپسی میں میرے پاس کتابوں کی صورت میں سامان بہت زیادہ ہو گیا تھا لیکن ’’دیس بَنا پردیس ‘‘نے ہر جگہ میرا مسئلہ حل کر دیا، بورڈنگ کارڈ بنواتے وقت آٹھ کلو سامان زیادہ تھا ایک پاکستانی نوجوان کاؤنٹر آفیسر نے چند کتابیں دستی بیگ میں لے جانے کا مشورہ دیا وہ بڑے شوق سے کتاب دیکھنے لگا تو میں نے اسے بھی ایک کتاب پیش کی تو وہ بہت خوش ہوا، امیگریشن آفیسر اور سیکیورٹی کے خواتین افسران کو بھی ایک ایک کتاب تحفے میں دی تو انھوں نے خوش دلی سے کتاب قبول کر لی۔

ایمریٹس ایئر لائینز میں چند گھنٹوں بعد دبئی پہنچ گیا اور اندرونِ ایئرپورٹ کچھ دیر آرام کیا دس گھنٹے کی طویل پرواز کے بعد دوسرے دن3 جنوری کو شام پانچ بجے ٹوکیو پہنچ گیا۔ جہاز سے اتر کر دیگر جاپانی مسافروں کے ساتھ راہداری میں چلتے ہوئے میں نے سنا کہ ایک خاتون دوسری خاتون سے گفتگو کر رہی تھی کہ ہمارے ملک جاپان کی کیا بات ہے، کہیں بھی چلے جاؤ جاپان یاد آتا ہے اپنے کھانے اور موسم کی کیا بات ہے اور کتنا سکون ہے نا!! میں بھی سوچ رہا تھا کہ مجھے بھی بہت یاد آتا ہے اپنا ملک پاکستان جب جاپان میں ہوتا ہوں اور اس وقت بھی بہت یاد آتا ہے اپنا ہی ملک جاپان جب پاکستان یا کہیں اور ہوتا ہوں کیونکہ دونوں ملک میرے ہیں جن میں اپنی آدھی آدھی زندگی گزار چکا ہوں۔ اس لئے پردیس میرے لئے دیس بھی ہے اور دیس میرے لئے پردیس بھی ہے۔

٭٭٭

تشکر: کامران غنی صبا، جن کے توسط سے فائل فراہم ہوئی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید